Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 4
: ANWĂRUL 'ULŪM by HADRAT MIRZĀ BASHĪR-UD-DĪN MAḤMŪD AḤMAD KHALIFATUL MASIḤ II Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, Tilford, Surrey.
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيةِ پیشگوئی مصلح موعود را اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ اللہ ہے کیونکہ نگدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا علیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ وَ الْعَلَاءِ كَمان الله منزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٹی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جیں کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسوح کیا.تم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد بلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا داشتهار ۲۰ فروری تشکله
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے انوار العلوم" کی جوئے نور رواں دواں ہے اس سے قبل اس کی تین جلدیں شائع ہو چکی ہیں.چوتھی جلد جو اگست 1917ء سے دسمبر 1919ء تک کی سترہ کتب پر مشتمل ہے احباب جماعت کی خدمت میں پیش کی جا رہی ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ حضرت فضل عمر سید نا المصلح الموعود ہمیشہ بنی جماعت کی علمی ترقی اور روحانی بہتری کے لئے کوشاں رہے.اس مجموعہ میں بھی حضور نے جماعت کے اخلاق و روحانیت کی حفاظت اور جماعت کے قیام کے حقیقی مقصد دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی غرض سے نہایت اہم اور بیش قیمت نصائح اور راہنما اصول بیان فرمائے ہیں.حضور جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں."آپ کی ہر حرکت اور فعل ، ہر قدم نمونہ ہونا چاہئے آپ کی ذمہ داریاں بڑی ہیں آپ کوشش کریں کہ آپ میں کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو.تمام قسم کے عیوب.....اور لغو و بیہودہ باتوں سے بچو اور آپس میں تمہارے تعلقات اخوت و محبت کے اعلیٰ مقام پر ہوں".اسی طرح آپ نے فرمایا.ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے سب سے پہلے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات اور ارادوں کی اصلاح کریں.بہت لوگ اس کی پروا نہیں کرتے حالا نکہ سب سے ضروری یہی بات ہے کہ انسان کو اپنے قلب پر قبضہ حاصل ہو اور جس کو دل پر قبضہ اور اختیار حاصل ہو گیا اسے سب کچھ حاصل ہو گیا".ان تربیتی امور کے ساتھ ساتھ علم و معرفت کے خزائن اور بنیادی اہمیت کے دینی امور مفضل ، مدلل اور دلچسپ پیرایہ میں بیان ہوئے ہیں.اسلامی تاریخ کے ابتدائی دور کے متعلق بعض ایسی غلط فہمیاں عام طور پر پائی جاتی ہیں کہ ان کی وجہ سے صحابہ کرام " پر بہت سے اعتراضات وارد ہوتے ہیں.بلکہ اسلام کی حقیقت و
کئی اور دقتیں بھی جو سامنے آتی رہی ہیں.ان سب میں ان دوستون نے نہایت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دیں ہیں.فجزاهم الله احسن الجزاء خصوصیت سے مکرم کے نام قابل ذکر ہیں.خاکسار ان کا احسان مند ہے اور دعا گو ہے کہ خداتعالی ان کے علم و معرفت میں برکت ڈالے اپنے فضلوں اور رحمتوں سے نواز نے اور ہمیں اس اہم ذمہ داری سے احسن طور پر عہدہ برآ ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
۱۷ √ ۲۹ 09 Al ۸۷ ۱۴۵ ۲۰۱ ۵۲۷ نمبر شمار 1 نوم ۱۲ 10 دا 17 ترتیب اطاعت اور احسان شناسی جماعت قادیان کو نصائح عنوانات عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے ربوبیت باری تعالیٰ کا ئنات کی ہر چیز پر محیط ہے قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام ایک اہم پیغام جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت علم حاصل کرو حقیقة الرویا حقیقت الامر اصلاح استعمال کی تلقین اسلام میں اختلافات کا آغاز عرفان النبي خطاب جلسہ سالانہ ۷ ار مارچ ۱۹۱۹ ۰ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے خطاب جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ ، تقدیر النبی واقعات خلافت علوی IA
انوار العلوم جلد بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب تعارف کتب یہ انوار العلوم " کی چوتھی جلد ہے.جو سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی کی درج ذیل ۱۷- کتب پر مشتمل ہے.یہ کتب اگست ۱۹۱۷ء تا فروری ۱۹۲۰ء کے دور کی ہیں.ا اطاعت اور احسان شناسی حضرت امام جماعت احمد یہ ثانی نے ۴.اگست ۱۹۱۷ء کو جنگ عظیم اول کی تیسری سالگرہ کے موقع پر ایک جلسہ منعقدہ قادیان میں تقریر فرمائی جس میں حضور نے اس امر پر روشنی ڈالی کہ اسلامی تعلیم کی صداقت دیگر مذاہب کے مقابلہ میں ہر پہلو سے کامل اور مکمل ہے.کوئی معاملہ ایسا نہیں جس کے متعلق اسلامی شریعت نے راہنمائی نہ کی ہو.مثلاً سیاست ہی کو لے لو.دیگر مذاہب نے سیاست کے متعلق اپنے پیروکاروں کو جو تعلیم دی ہے اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں امن و صلح کی بجائے فساد پیدا ہوتا ہے اور اس کا ثبوت مختلف مذاہب کے ماننے والوں کی آپس کی جنگیں ہیں لیکن اسلام نے حکومت اور رعایا کے درمیان تعلقات کو نہایت عمدہ بنانے کا بہترین طریق بتایا ہے کہ حاکم خواہ کسی قوم یا کسی مذہب کا ہو اس سے بد دیانتی بد عہدی اور بغاوت نہیں کرنی چاہئے اور اس کے معاہدات کو توڑنا نہیں چاہئے.حضور نے قرآنی آیت اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ کی تغییر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہاں خدا تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کرنے کی دو شرطیں بتائی ہیں ایک یہ کہ اللہ کی اطاعت کھلے بندوں کر سکو دوسرے یہ کہ اس کے رسول کے احکام کے ماننے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی روک نہ پاؤ.حضور نے فرمایا کہ اس تعلیم پر عمل کرنے سے سب
انوار العلوم جلد فتنے اور فساد مٹ جاتے ہیں گویا اسلامی تعلیم کے مطابق حاکم وقت کی اطاعت کرنا جو مذہبی آزادی اور امن قائم کرتا ہے اس پر احسان نہیں بلکہ احسان شناسی ہے ۲- جماعت قادیان کو نصائح ۲۹ اگست ۱۹۱۷ء کو بعد نماز مغرب تبدیلی آب و ہوا کے لئے شملہ روانگی سے قبل حضرت مصلح موعود نے احباب جماعت قادیان کو نصائح فرما ئیں جو ۸ ستمبر ۱۹۱۷ ء کے الفضل میں شائع ہو ئیں.حضور نے فرمایا کہ اسلام میں کچھ قواعد مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لئے ہیں مسلمان جب تک ان پر چلے انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا لیکن افسوس بعد ازاں مسلمانوں نے ان قوانین مقدسہ کو بھلا دیا.پھر مسیح موعود کی آمد سے اللہ تعالیٰ نے شریعت کو قائم کیا پس ضروری ہوا کہ خدا کے تمام حکموں کی اطاعت کی جائے.ان احکامات کو سمجھنے کے لئے عربی زبان کا سیکھنا بھی لازمی ہے.اگر ماں باپ عربی سیکھ لیں تو آگے ان کے بچے بھی سیکھ جائیں گے.یاد رکھیں اللہ کا کوئی حکم بھی نہ تو بو جھل ہے نہ چھوٹا.وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ قرآن کو عمل کے لئے آسان کر دیا ہے.سنت نبوی کے مطابق میں شملہ جانے سے پہلے دو امیر مقرر کرتا ہوں اول قاضی سید امیر حسین صاحب دوئم مقامی امور کے لئے مولوی شیر علی صاحب خلافت اور امارت میں فرق واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ خلیفہ کے ساتھ مذہبی تعلقات بیعت بھی ہوتے ہیں اس لئے لوگ خلیفہ کی پیروی کرتے ہیں اور امیروں کی نہیں.میں آپ کو تاکید کرتا ہوں اور رسول کریم کی پیروی میں کہتا ہوں جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.دوسرے یہ کہ آپس میں محبت اور پیار سے رہو لڑائی جھگڑا نہ کرو اپنے آپ کو دوسروں کے لئے نمونہ بناؤ.اللہ تعالٰی نے آپ لوگوں کو اصلاح کا ذمہ دار ٹھہرایا آپ جس مقام پر رہتے ہیں اسے مقدس فرمایا.اسے اسلام کی آئندہ ترقیات کا (جو مقدر ہیں) مرکز بنایا اس لئے آپ کی ہر حرکت ، ہر فعل ، ہر قول نمونہ ہونا چاہئے آپ کی ذمہ داریاں بڑی ہیں.تمام قسم کے عیور
انوار العلوم جلدم اور لغو ر بیہودہ باتوں سے بچو.آپس میں تمہارے تعلقات اخوت و محبت کے اعلیٰ مقام پر ہوں.ایک دوسرے کی غمگساری کرو جزوی اختلافات سے مؤاخات و مؤاسات میں فرق نہ آئے اگر کبھی بتقاضائے بشریت جھگڑا ہو جائے تو فوراً صلح کر لو اور دل میں کینہ نہ بٹھا چھوڑو.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرد کسی بھائی کی عداوت دل میں نہ بٹھاؤ بلکہ تم میں ایسی محبت اور اخوت ہو جو باہر کے لوگوں کے لئے نمونہ ہو.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خیریت سے رکھے اور اپنے اوقات دین کی خدمت میں صرف کرنے اور باہم محبت ، اخوت اور امن و چین سے رہنے کی توفیق دے.آمین عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے اکتوبر ۱۹۱۷ء کو حضرت مصلح موعود نے شملہ کے مقام پر عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا کہ عورتوں کے متعلق سب سے پہلی اور سب سے بڑی نصیحت جو انہیں کرنے کی ضرورت ہے یہ ہے کہ وہ شریعت کی اسی طرح پابند ہیں جس طرح مرد حضرات.لیکن بد قسمتی سے ایسا نہیں ہے ۹۵ ٪ عورتیں اپنے خاوندوں کی پیروی کرتی ہیں.اگر خاوند شیعہ ہے تو عورت بھی شیعہ ہے علی ھذا القیاس.حالانکہ عورتوں کو مذہب کی ضرورت ہے اور اس پر عمل کی بھی ضرورت ہے قرآن کریم پر عمل کرنے سے جہاں مردوں کے لئے جنت کے وعدے ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے اور اس کے بر خلاف کرنے والوں کے لئے جہنم.مذہب کے احکام کا تو ڑنا جیسے مردوں کو نقصان دیتا ہے ویسے ہی عورتوں کو بھی دیتا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ عورتیں مردوں.کی طرح دین نہ سیکھیں.قرآن کریم نے خاص طور پر دو متقی عورتوں (فرعون کی بیوی اور حضرت مریم والدہ عیسیٰ) کا ذکر کیا ہے اور حاملین قرآن کو ان جیسا بننے کا ارشاد فرمایا ہے.پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتیں مذہب سے واقف ہوں مذہب سے ان کا تعلق ہو، مذہب سے انہیں محبت ہو، مذہب سے انہیں پیار ہو.جب ان میں یہ بات پیدا ہو جائے گی تو وہ خود بخود اس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لئے نمونہ بن کر دکھا ئیں گی.چند ایک مسائل جن کا یاد رکھنا ضروری ہے وہ یہ ہیں.خدا ملائکہ ، قرآن، رسل اور بعث بعد الموت پر ایمان لانا نماز پڑھنا، زکوۃ دینا، روزه
العلوم جلد ہم تعارف رکھنا، حج کرنا خدمت دین کرنا وفات عیسی پر ایمان لانا دعا ئیں کرنا چندہ دینا، تبلیغ کرنا اور تقومی حاصل کرنا.حضور نے فرمایا کہ یہ چند باتیں ہیں جو میں نے نصیحت کے طور پر بیان کردی ہیں اگر ان کو یاد رکھوگی اور ان پر عمل کرو گی تو فائدہ اٹھاؤ گی.ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے ۹.اکتوبر ۱۹۱۷ء کو بمقام پٹیالہ یہ تقریر فرمائی.حضور نے اللہ تعالی کی ہستی ، اسلام اور قرآن کریم کی صداقت اور حضرت مسیح موعود کی سچائی کو صفت ربوبیت کے حوالہ سے ثابت کیا.حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ہستی کا ثبوت ہیں صفات اللہ پر غور کرنے اور ان زبر دست قدرتوں کا مشاہدہ کرنے سے جن کا ظہور ہمیشہ ہو تا رہتا ہے مانا پڑتا ہے کہ ضرور ایک زبر دست عالم ، دانا اور رحیم و کریم ہستی موجود ہے.حضور نے فرمایا سورۃ الفاتحہ جو اتم القرآن ہے میں ان چار صفات کو بیان کیا گیا جو تمام صفات کا خلاصہ ہیں اور جن پر غور کرنے سے انسان ہر قسم کی بد اعتقادیوں اور بد عملیوں سے بچ سکتا ہے.مثلاً پہلی صفت رب العلمین ہے.اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا تعلق تمام مخلوقات سے ہے.ہر چیز اس کی ربوبیت سے فیض یاب ہو رہی ہے تو خدا تعالیٰ کا رب العلمین ہونا یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ جس خدا نے جسم کی ربوبیت اور ترقی کے لئے اعلیٰ درجے کے سامان کئے ہیں اس نے روح کی زندگی کے لئے ضرور سامان کئے ہوں گے جو جسم کی نسبت زیادہ قیمتی ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ ہر قوم میں اللہ تعالیٰ کے نبی آئے ہیں جو انسانوں کی تربیت اور روحانی ربوبیت و ترقی کا سامان کرتے رہے.آخر پر اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مبعوث فرمایا جنہیں دنیا کی تمام اقوام اور زمانوں کی اصلاح کے لئے بھیجا.چونکہ آپ کے ذریعہ شریعت کی تکمیل کر دی گئی اس لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ اب میرے بعد خدا سے ہمکلامی کا شرف حاصل کر کے ایسے خدا کے بندے آتے رہیں گے جو لوگوں کو اس شریعت کے مطالب سے آگاہ کر کے انہیں خدا سے ملاتے رہیں گے.چنانچہ اس زمانہ
العلوم جلد ) میں بھی اللہ تعالیٰ نے صفت ربوبیت کے تحت حضرت مرزا صاحب کو بھیجا جنہوں نے خدا سے ہمکلام ہونے اور اصلاح خلق کرنے کا دعویٰ فرمایا اور خدا کی فعلی تائید آپ کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے میں ظاہر ہوئی اور زندہ نشانات نے آپ کے دعوئی کی صداقت کو ثابت کر دیا.آخر میں حضور نے فرمایا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو زندہ خدا کو پیش کرتا ہے اور اس میں زندگی کا ثبوت مل رہا ہے.نیز یہ بھی کہ خدا جس طرح پہلے اپنے بندوں کی روحانی ، ربوبیت کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے اور اس کے بتائے ہوئے طریق پر چل کر ہم آج بھی انہیں انعامات اور فوائد کو حاصل کر سکتے ہیں جو آپ سے ہزاروں سال پیشتر حاصل ہوئے تھے.-۵- قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام ایک اہم پیغام قادیان کے غیر از جماعت افراد نے باہر سے چند مولویوں کو بلا کر جماعت کی مخالفت میں حد اعتدال سے تجاوز کرتے ہوئے ایک جلسہ میں سخت بد زبانی و بد اخلاقی کا مظاہر کیا تو انہیں سمجھانے کے لئے حضور نے ناصحانہ رنگ میں ایک پیغام شائع فرمایا جس میں انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے احمدیوں کی بہتر عملی حالت اور نیک نتائج کو پیش کر کے عقل سلیم سے کام لیتے ہوئے نصیحت حاصل کرنے اور عبرت پکڑنے کی تلقین فرمائی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خاندان کے جو احسانات اہلِ قادیان پر ہیں ان کا تذکرہ کرنے کے بعد آپ نے فرمایا.ذہب اور چیز ہے اور شرافت اور چیز ہے.یہ بات بری نہ تھی کہ اگر آپ لوگ اپنے مذہب کی تائید کرتے.لیکن اس کام میں اس شخص کا نام جس کے خاندان کے ہزاروں قسم کے احسان اور حقوق آپ لوگوں پر تھے اس گستاخی سے لینا ہر گز آپ لوگوں کے لئے جائز نہ تھا اور اس حرکت سے آپ لوگوں نے اپنی انسانیت کو بھی بٹہ لگا دیا".اس پر اثر پیغام کے آخر میں آپ نے فرمایا.میں آخر میں پھر آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے کھلے کھلے نشانات پر ایمان
انوار العلوم جلد ۴ لاؤ اور اس کے راستبازوں کی تکذیب سے باز آجاؤ ورنہ انجام اچھا نہ ہوگا.میں اپنی طرف سے حق ادا کر چکا ہوں".جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت ۲ دسمبر ۱۹۱۷ء کو قیام امن اور اطاعت حکومت کے سلسلہ میں جماعتی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے اس پمفلٹ میں حضور نے فرمایا: ”ہمارے امام و پیشوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو نہایت سختی سے ہر قسم کے ایجی ٹیشنوں اور سیاسی تحریکات میں لینے سے منع فرمایا ہے کیونکہ آپ کا مسلک شروع سے یہی رہا ہے کہ جہاں تک ہو سکے حکومت کے ہاتھ کو مضبوط کیا جاوے".اس سلسلہ میں حضور نے فرمایا: ہم سے زیادہ کوئی شخص اس بات کا خواہش مند نہیں ہو سکتا کہ تمام ملک میں صلح اور امن ہو اور ہم اور دیگر ابنائے وطن بھائی بھائی کی طرح رہیں...ہم اس کے مخالف نہیں کہ گورنمنٹ ہندوستان کو خود اختیاری دے بلکہ صرف اس بات کے مخالف ہیں کہ ایسے وقت میں دے جب اس کا نتیجہ ملک و قوم کیلئے ہلاکت کا موجب ہو".سیاسی معاملات کے متعلق ایک راہنما اصول بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: ”ہماری جماعت کی سیاست بھی مذہب کے ماتحت ہے اس لئے ہم کو جس امر پر خدا تعالیٰ نے کھڑا کیا ہے اس سے ہل نہیں سکتے".۷.علم حاصل کرو حضرت مصلح موعود نے یہ اہم تقریر ۲۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر قادیان میں فرمائی.یہ تقریر دو حصوں میں ہوئی.مضمون کا ایک حصہ حضور نے نماز ظہر سے قبل بیان فرمایا اور دسرا ظہر کی نماز کے بعد دوسرے اجلاس میں تقریر کا آغاز کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ ان دنوں پھر ہماری مخالفت بڑھ رہی ہے.ہر طبقہ اور ہر گروہ اس کوشش میں ہے کہ جماعت احمدیہ کو صفحہ ہستی سے مٹادیا جائے.لیکن گھبرانے کی ضرورت نہیں.خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور اس کی تائید سے سخت مخالفت کے باوجود جماعت ترقی کرے گی اور یہی بات اس کی صداقت کی
انوار العلوم جلد ۴ دلیل ہے.چند متفرق امور کا ذکر کرنے کے بعد حضور نے تحصیل علم کی اہمیت پر احباب جماعت کو ایک بصیرت افروز خطاب سے نوازا.حصول علم کی تلقین کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ”سو میں آج پھر کہتا ہوں اور پھر بھی جتنی دفعہ موقع ملے گا یہی کہوں گا کہ علم سیکھو.یہ بہت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور ایسی بابرکت اور مفید ہے کہ اس سے کبھی بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا.علم خواہ کسی چیز کا ہو نبرا نہیں ہو سکتا.< نیز فرمایا: "آنحضرت الی فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ دین کا سیکھیں خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے جوان ہوں یا بوڑھے مرد ہوں یا عورتیں، لڑکے ہوں یا لڑکیاں.کیونکہ جب تک انہیں یہ حاصل نہ ہوگا خدا کے احکام پر عمل نہ کر سکیں گے اور جب عمل نہ کر سکیں گے تو نجات نہ ہو سکے گی.پھر جب رسول کریم نے اس کو فرض قرار دے دیا ہے تو اس کو حاصل کرنے والا اسی طرح کا گنہگار ہے جس طرح نماز نہ پڑھنے والا روزہ نہ رکھنے والا زکوۃ نہ دینے والا خدا تعالیٰ قیامت جنت دوزخ تقدیر کا انکار کرنے والا.پس ہر مومن کیلئے اس کا سیکھنا ضروری ہے.اور رسول کریم اللہ ہی اس کو فرض قرار نہیں دیتے بلکہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (فاطر (۲۹)- کہ خدا سے اس کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں.ان عالموں سے مراد علیم انگریزی یا تاریخ یا جغرافیہ یا حساب کے عالم مراد نہیں بلکہ دینی علماء مراد ہیں کہ انہیں میں خدا تعالی کی خشیت ہوتی ہے.اور چونکہ خشیت اللہ کا ہونا ہر ایک مومن کیلئے ضروری ہے اس لئے ثابت ہو گیا کہ دین کا حاصل کرنا بھی ہر ایک کیلئے ضروری اور فرض ہے".تقریر کے آخر میں حضور نے احباب جماعت کی راہنمائی کیلئے حصول علم کے سات طریق بیان فرمائے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان آسانی سے علم حاصل کر سکتا ہے.- حقيقة الرؤيا جلسہ سالانہ ۱۹۱۷ء میں حضور نے ۲۸- دسمبر کو مندرجہ بالا موضوع پر سیر حاصل خطاب فرمایا
انوار العلوم جلدم تعارف کتب مختلف جو بعد میں کتابی شکل میں حقیقة الرؤیا کے نام سے شائع ہوا.اس کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اس سلسلہ کی اہمیت اس سے ظاہر ہے کہ تمام مذاہب اور ان کی کتب کی بناء الهام ، کشف اور رویا پر ہی ہے اگر یہ چیزیں صحیح نہیں تو تمام مذاہب ہی جھوٹے ہیں.الہام کشف اور رویا کے عام معنی یہ ہیں کہ کسی بیرونی ہستی کی طرف سے ان حواس ظاہری کے علاوہ باطنی حواس سے کسی چیز کا دیکھنا یا سننا یا زبان پر جاری ہونا.الہام و رؤیا کے چار قسموں کے مخالفین اور ان کے دعاوی کا ذکر کرنے کے بعد عقلی و نقلی دلائل سے ان کے شکوک و شبہات کا نہایت احسن رنگ میں ازالہ فرمایا.حضور نے اس گرانقدر علمی مضمون میں بہت سے ضمنی عنوانات جیسے رویا دیکھنا کسی بات نہیں، شیطانی اور رحمانی خواب میں فرق ، رویا کی قسمیں، جھوٹی وحی کی پہچان، رحمانی خوابوں کی اقسام اور ان کی پہچان ، الہام کی صداقت معلوم کرنے کے طریق ماموروں کے الہام کی علامات انبیاء کے الہامات میں متشابہات، انبیاء کو اجتہادی غلطی کیوں لگتی ہے وغیرہ پر قرآن و حدیث کی روشنی میں بحث فرمائی.الہام اور رویا کی خواہش نہ کرنے کے متعلق ایک نکتہ معرفت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: "حضرت مسیح موعود نے بعض جگہ لکھا ہے کہ رویا اور الہام پانے کی خواہش نہ کرو...خطرہ ہے کہ ایسا شخص خوابوں اور الہاموں پر فخر کر کے عجب کے مرض میں گرفتار ہو جاوے اور اس طرح بجائے ترقی کے الہام اسے اَسْفَلُ السَّافِلِينَ میں گرانے کا موجب ہو جائیں.پس چونکہ الہامات و رؤیا کے ساتھ ایک خطرہ بھی لگا ہوا ہے اس لیے ان کی خواہش کرنے سے روکا ہے تا ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے ہاتھوں خود ہلاکت کے گڑھے میں گیر جائے.مامور کے الہامات کو پر کھنے کے متعلق اسلامی تعلیم بیان کرنے کے بعد حضور نے فرمایا: اگر کوئی عقل و فکر سے کام لے ، ضد اور دشمنی کو ترک کردے تو ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی صداقت روزِ روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے لیکن بہت لوگ ہیں جو ان کی طرف توجہ نہیں کرتے...یہ باتیں میں نے مختصر طور پر آپ لوگوں کو بتادی ہیں...تاکہ ان لوگوں کے اعتراضات کے جواب دے سکو اور ان باتوں کے نہ جاننے کی وجہ سے جو ٹھوکریں لگ سکتی ہیں ان سے بچ سکو.سکو".
العلوم جلدم حقیقت الامر حضور کی یہ تصنیف مولوی محمد علی صاحب کی ایک مطبوعہ چٹھی کے جواب میں ہے تاہم اس میں بیان کردہ امور کی اہمیت و ضرورت مستقل نوعیت کی ہے مثلاً آپ نے اپنے عقائد کی پختگی کے متعلق فرمایا : ایسے وقت مجھے پر بھی اس بیماری میں ضرور آئے ہیں کہ جب مجھے یقین کامل ہو گیا کہ میں چند منٹ سے زیادہ اس دنیا میں نہیں رہ سکتا....اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان عقائد پر میں نے اس وقت کامل تسلی پائی...اور میرا دل اس وقت مطمئن تھا کہ میں نے جو کچھ کیا حق اور انصاف کو مد نظر رکھ کر کیا ہے اور اس کی بدولت امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری سنتیوں اور غفلتوں سے عفو فرمائے گا اور اپنے فضل کے نیچے جگہ دے گا".مخالفین کا لٹریچر پڑھنے کے متعلق حضور نے یہ وضاحت فرمائی کہ میں نے کبھی کسی کو ایسا لٹریچر پڑھنے سے منع نہیں کیا تاہم ایسا لٹریچر پڑھنا اسی کے لئے مناسب ہو سکتا ہے جو اپنے مذہب سے کما حقہ واقف ہو اور تقابلی موازنہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو.اس بات کے جواب میں کہ اگر کسی مخالف کے عقائد و لٹریچر کا مطالعہ نہ کیا ہو تو کس طرح پتہ چل سکتا ہے کہ ہمارے عقائد درست ہیں.حضور فرماتے ہیں: " کچے عقائد اپنے اندر بھی ایسی خوبیاں رکھتے ہیں کہ وہ اپنی صداقت پر آپ گواہ ہوتے ہیں اور ان کی صداقت کا انسان معائنہ کر سکتا ہے.مثلاً اسلام اپنے اندر ایسی خوبیاں رکھتا ہے کہ بغیر اس کے کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جاوے اس کا ایک کامل پیرو اس کی صداقت پر تسلی پا سکتا ہے اور اس کے دلائل دے سکتا ہے".اس اعتراض کے جواب میں کہ حضرت مسیح موعود بارہ سال تک اپنے دعوی کو سمجھ ہی نہ سکے حضور نے فرمایا: حضرت مسیح موعود پر کبھی بھی کوئی وقت نہیں آیا کہ آپ دعوئی کو سمجھ نہ سکے ہوں آپ شروع سے آخر تک اس مقام کو سمجھتے رہے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھڑا کیا ہے ہاں صرف اس دعوئی کے نام میں آپ احتیاط کرتے رہے ہیں یعنی آیا
العلوم جلد" اس کا نام نبوت رکھا جائے یا محد ثیت....لیکن بعد صراحت کے.....آپ نے اس مقام کا نام نبوت رکھ دیا....اور اس بات میں آپ منفرد نہیں".اس کے علاوہ بعض اور ایسے اعتراضات کا بھی مختصر جواب دیا جن پر حضور کی دوسری تصانیف میں مفصل بحث موجود ہے.اصلاح اعمال کی تلقین ۱۲ فروری ۱۹۱۹ ء کو حضرت مصلح موعود نے حضرت میاں چراندین صاحب لاہور کے مکان پایه پر یہ تقریر فرمائی جس میں آپ نے تزکیۂ نفس اور روحانی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.جس طرح مادی دنیا میں حرکات کی لہریں چلتی ہیں اسی طرح روحانی دنیا میں بھی چلتی ہیں جو کبھی تو اتنی نمایاں ہوتی ہیں کہ ہر ایک انسان انہیں دیکھ لیتا ہے اور کبھی ایسی کہ اس آلہ بے تار کی طرح ان کا علم ان ہی کو ہو سکتا ہے جن کے پاس ان کے معلوم کرنے کا آلہ ہوتا ہے" بڑی بڑی لہریں انبیاء کی آمد سے پیدا ہوتی ہیں حضرت نوح ، حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی اور پھر حضرت محمد ﷺ کے زمانہ میں جو لہریں پیدا ہو ئیں انہوں نے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کیا خاص طور پر دنیا کو شرک سے نجات دلانے کے لئے نبی اکرم ا کے وقت میں اٹھنے والی لہروں نے متاثر کیا.دلوں میں پیدا ہونے والی کوئی رو ضائع نہیں جاتی اس کا اثر دور دور تک جاتا ہے اور دوسروں کے دلوں پر اثر کرتی چلی جاتی ہے.مخفی لہروں کے اثر کرنے کا ثبوت قرآن کریم میں سورۃ الناس میں ہے.اس حکمت کے تحت كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة : ) میں صادقوں کی صحبت میں رہنے کا ارشاد ہے.اس لئے کہ قرب کا اثر ہوتا ہے خواہ زمانی ہو یا جسمانی اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اسلام میں مجددین کو بھیجا تاکہ قرآن کریم کا اثر لوگوں کے دلوں پر براہ راست ہو.مؤمنین کو تو بہت احتیاط کرنی چاہئے.مؤمن اپنا ہر کام ہر فعل اور ہر ایک بات کرتے وقت نہایت احتیاط کرے اور ہمیشہ اچھی سوچ اور اچھی نیت رکھے جیسے حضرت عمرؓ نے
فرمايا - نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ کہ مؤمن کی نیت اس کے عمل سے اچھی ہے کیونکہ عمل صرف دیکھنے والوں پر اثر ڈال سکتا ہے جو بہت محدود ہے مگر قلب کا اثر دور دور تک پہنچتا ہے.آپ نے فرمایا : "مؤمن رہی ہے جو اپنے ہر قسم کے خیالات اور ارادوں پر پوری طرح قبضہ اور اختیار رکھتا ہے.اپنے دل میں نیک اور اچھے خیال کو آنے دیتا ہے اور بد کو روک دیتا ہے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو دل خود بخود قابو میں آجاتا ہے." پس ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات اور ارادوں کی اصلاح کریں ، اپنے قلوب کی اصلاح کریں.اگر ہمارے قلوب صاف ہوں گے اور اصلاح شدہ ہوں گے تو ہمارا عقائد پر ایسا یقین اور ثبات ہو گا کہ ہم کہیں بھی متزلزل نہیں ہوں گے.اس خطاب کو آپ نے اس نصیحت پر ختم فرمایا کہ ”سب سے پہلے تو اپنے قلوب اور اعمال کی اصلاح کرو اور پھر اپنی ذمہ داریوں کو دیکھو.اگر تم ان ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا کرو تو یقیناً سمجھ لو کہ تمہارے لئے انعامات کے حصول کے دروازے کھل گئے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ اسلام اور سلسلہ کی ترقی کے لئے آپ بہت کچھ کر سکیں." اسلام میں اختلافات کا آغاز.تاریخی اہمیت کی یہ تقریر ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی کے ایک غیر معمولی اجلاس میں سید عبد القادر صاحب پروفیسر تاریخ کی صدارت میں ہوئی.اس مضمون کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: اسلام میں تفرقہ کی بنیاد رسول کریم ﷺ کی وفات کے پندرہ سال بعد پڑی ہے اور اس وقت کے بعد مسلمانوں میں شقاق کا شگاف وسیع ہی ہو تا چلا گیا اور اسی زمانہ کی تاریخ نہایت تاریک پردوں میں چھپی ہوئی ہے اور اسلام کے دشمنوں کے نزدیک
تعارف که العلوم جلد ۴ اسلام پر بر ایک بد نما دھبہ ہے اور اس کے دوستوں کے لئے بھی ایک سر چکرا دینے والا سوال ہے اور بہت کم ہیں جنہوں نے اس زمانہ کی تاریخ کی دلدل سے صحیح و سلامت پار نکلنا چاہا ہو اور وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو سکے ہوں اس لئے میں نے یہی پسند کیا کہ آج آپ لوگوں کے سامنے اس کے متعلق کچھ بیان کروں".حضور کی اس نہایت گرانقدر قیمتی تحقیق کا خلاصہ اور لب لباب یہ ہے کہ : یہ خیال کہ اسلام میں فتنوں کے موجب بعض بڑے بڑے صحابہ ہی تھے بالکل غلط ہے" حضور نے اپنے اس مقالہ میں حضرت عثمان کے ابتدائی حالات، حضرت عثمان کا مرتبہ رسول کریم کی نظر میں فتنہ کہاں سے پیدا ہوا خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا، صحابہ کی نسبت بد گمانی بلاوجہ ہے پر بحث کرتے ہوئے فتنہ کی وجوہ اور حضرت عثمان کے زمانہ میں اس کے شروع ہونے والے اسباب و عوامل بیان فرمائے.فتنہ کے بانی مبانی عبداللہ بن سبا کے حالات اور اس ضمن میں کوفہ بصرہ، شام اور وہاں کے مسلمانوں کے عمومی مزاج پر بھی روشنی ڈالی.حضرت عثمان پر یہ بھی اعتراض کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے ایسے امراء مقرر کر دیے تھے جو اس فتنہ کا باعث بن رہے تھے.حضور اس کے متعلق اپنی رائے دیتے ہوئے فرماتے ہیں: غرض جو لوگ تحقیق کے لئے بھیجے گئے تھے وہ نہایت عظیم الشان اور بے تعلق لوگ تھے اور ان کی تحقیق پر کسی شخص کو اعتراض کی گنجائش حاصل نہیں پس ان تینوں صحابہ کا مع ان دیگر آدمیوں کے جو دوسرے بلاد میں بھیجے گئے تھے متفقہ فیصلہ دیتا کہ ملک میں بالکل امن و امان ہے، ظلم و تعدی کا نام و نشان نہیں، حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں.---- ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب فساد چند شریر النفس آدمیوں کی شرارت و عبد اللہ بن سبا کی انگیخت کا نتیجہ تھا.ورنہ حضرت عثمان اور ان کے نواب ہر قسم کے اعتراضات سے پاک تھے “.حضرت عثمان اپنی طبیعت کے مطابق نرمی اور رحم دلی کی طرف مائل رہے.مفسدوں کی
انوار العلوم جلد ۴ شرارت اور فتنہ پردازی پر یہی کہتے رہے کہ میں مسلمانوں کے خون سے اپنا ہاتھ رنگنا نہیں چاہتا.کبار صحابہ اور حضرت معاویہؓ نے اس سلسلہ میں قیام امن کے لئے بعض تجاویز پیش کیں مگر حضرت عثمان رحم دلی کے طریق پر ہی قائم رہے.بلکہ معترضین کے منہ بند کرنے کے لئے ان کے مطالبات بھی جائز حد تک مان لیتے رہے.اختلاف روایات اور تاریخی حالات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ایک نہایت ضروری اور لازمی امر بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: اس زمانہ کی تاریخ کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اس زمانہ کے بعد کوئی ایسا زمانہ نہیں آیا جو ایک یا دوسرے فریق سے ہمدردی رکھنے والوں سے خالی ہو اور یہ بات تاریخ کے لئے نہایت مضر ہوتی ہے کیونکہ جب سخت عداوت یا نا واجب محبت کا دخل ہو روایت کبھی بعینہ نہیں پہنچ سکتی....تاریخ کی تصحیح کا یہ زریں اصل ہے کہ واقعات عالم ایک زنجیر کی طرح ہیں کسی منفرد واقعہ کی صحت معلوم کرنے کے لئے اسے زنجیر میں پرو کر دیکھنا چاہئے کہ وہ کڑی ٹھیک اپنی جگہ پر پروئی بھی جاتی ہے کہ نہیں".حضور کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے: ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ ہر ایک فتنہ سے یا عیب سے پاک تھے بلکہ ان کا رویہ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا اور ان کا قدم نیکی کے اعلیٰ مقام پر قائم تھا".اور یہ کہ : " صحابہ کو حضرت عثمان کی خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا وہ آخر دم تک وفاداری سے کام لیتے رہے...حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر خفیہ ریشہ دوانیوں کا الزام بھی بالکل غلط ہے...انصار پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمان سے ناراض تھے وہ غلط ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انصار کے سب سردار اس فتنہ کے دور کرنے میں کوشاں رہے ہیں." -۱۲ عرفان الهی ۱۶- مارچ ۱۹۱۹ ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے "عرفانِ الہی جیسے اہم موضوع پر تقریر فرمائی.
و العلوم له تقریر کی ابتداء میں اپنی صحت کے متعلق بیان کرتے ہوئے اپنی محبت اور خیر خواہی کے ضمن میں فرمایا : اس وقت جبکہ بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ میری آخری گھڑیاں ہیں میرے دل میں اگر کوئی خلش تھی تو وہ یہی تھی کہ ابھی تک ہماری جماعت اس مقام پر نہیں پہنچی جس پر پہنچانے کی حضرت مسیح موعود کو خواہش تھی.اس کے لئے میں نے اس گھڑی میں جو آخری سمجھی جاتی تھی دعا کی کہ الہی اس مصیبت کو ٹال دے اور ہماری جماعت کو وہ نور اور معرفت عطا کر جس سے ہمیشہ سے تیرے پاک بندے مخصوص رہے ہیں.میرے موٹی نے میری اس وقت کی دعا قبول کرلی اور مجھے ہی موقع دے دیا کہ آپ لوگوں کو آپ کے فرائض کی طرف متوجہ کروں اور پھر اس بات کا موقع دیا کہ آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاؤں کہ آپ کو کس مقصد مدعا اور غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کس طرف خدا کا رسول تمہیں لے جانا چاہتا تھا.“ ، اس تقریر کے تعارف میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں.اس جلسہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی علمی تقریر عرفان الہی کے موضوع پر تھی بیماری کے نتیجہ میں آپ بہت کمزور ہو چکے تھے اور تقریر بھی اس حال میں کرنے کے لئے آئے کہ سر میں شدید درد تھا اور بات کرنی مشکل تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا حساس دل عطا فرمایا تھا کہ دور دور سے آنے والے مہمانوں کو مایوس کرنا گوارا نہ کیا اور اسی حالت میں تقریر کرنے چلے آئے.مضمون نہایت مشکل تھا اور سامعین میں ناخواندہ دیہاتیوں سے لے کر نہایت اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ احباب تک شامل تھے پھر احمد ی ہی نہیں کثرت سے غیر از جماعت دوست بھی اس نوجوان خلیفہ کی علمی قابلیت کا شہرہ سن کر اور مرکز احمدیت کی غیر معمولی روحانی فضا کے تذکروں سے متأثر ہو کر تشریف لائے ہوئے تھے.آپ نے نہایت سادہ اور سلیس زبان میں عرفانِ الہی کے مضمون کو بیان کرنا شروع کیا پہلے مضمون کا تعارف کرایا.عرفانِ الہی کے معانی سمجھائے.علم و عرفان کی اصطلاحوں میں فرق کر کے دکھایا.یہ بتایا کہ خدا تعالیٰ علیم تو ہے عارف نہیں بلکہ خدا کے متعلق عرفان کا لفظ اطلاق پاہی نہیں سکتا.عرفان کے لئے ضروری ہے کہ ایسی چیز کی جستجو کی جائے جس کا پہلے علم نہ ہو اور انسان حقیقت کی و
دوم جلد " ۱۵ تلاش میں ظاہر سے باطن کی طرف حرکت کرے.....غرضیکہ مختلف رنگوں میں اس مضمون کو پھیر پھیر کر بیان فرمایا اور حاضرین پر یہ حقیقت بڑے خوبصورت انداز میں واضح فرمائی کہ کسی قطب یا غوث یا ولی کی ایک نظر سے ایک ہی لمحہ میں کبھی عرفان اللی نصیب نہیں ہو سکتا.پھر آپ نے یہ امر ذہن نشین کرایا کہ عرفان الهی مسلسل محنت، جستجو اور کوشش کے ذریعہ ہی حاصل ہو سکتا ہے.جس کے ساتھ دعا بھی انتہائی ضروری ہے." (سوانح فضل عمر جلد دوم صفحه ۲۳۵-۲۳۶) - خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء ۱۷- مارچ ۱۹۱۹ ء کے جلسہ سالانہ کی تقریر میں حضور نے بعض متفرق مگر ضروری اور اہم امور پر روشنی ڈالی.مخالفین کے اعتراضات کے متعلق اصولی رہنمائی کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :...کسی اعتراض کے فضول یا لغو ہونے کا فیصلہ سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں اس کی رکاوٹ کے لحاظ سے ہو سکتا ہے....اگر وہ لوگوں کے حق قبول کرنے میں روک ہو تو خواہ حقیقت میں وہ کتنا ہی معمولی ہو تو بھی اسے فضول نہیں کہا جا سکتا....ہمارا فرض ہے کہ وہ نادرست اور غلط باتیں جو لوگوں کے جذبات پر زیادہ اور برا اثر کرتی ہیں ان کو معمولی نہ سمجھیں اور ان کا پورا جواب دیں".جماعتی انتظام کو بہتر رنگ میں چلانے کے لئے حضور نے صیغہ بیت المال ، صیغہ تألیف و اشاعت، صیغه تعلیم و تربیت، صیغه امور عامه محکمه ،قضاء محکمہ فاوی، نظارت علیاء وغیرہ کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا.باوجود اس کے کہ ابھی ابتدائی کام اور دفتری انتظام سے ان صیغوں کو فراغت نہیں ہوئی ہر ایک کام میں ایک نئی روح کام کرتی نظر آتی ہے.ان باتوں کے اس وقت میرے بیان کرنے کی ایک غرض تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو واقفیت ہو جائے دو سرے یہ کہ وہ لوگ جو ان کاموں کے لئے مقرر کئے گئے ہیں ان کو آپ سے کام پڑے گا...چونکہ یہ لوگ خلیفہ کے مقرر کئے ہوئے ہوں گے اس لئے اگر آپ ان کے
العلوم جلد 14 کسی اعلان کی تعمیل کرنے میں اس لئے سستی کریں گے کہ وہ زید یا بکر کے نام سے لکھا گیا ہے تو یہ اس کی نافرمانی نہیں ہوگی بلکہ میری نافرمانی ہوگی اور اگر اسکی حتی المقدور مدد کریں گے تو یہ اس کی مدد نہیں ہوگی بلکہ میری مدد ہو گی".جماعتی اختلاف اور اس سلسلہ میں بعض اعتراضات کا جواب دینے کے بعد حضور نے خدائی تائید و نصرت پر یقین کرتے ہوئے فرمایا : اس (خدا تعالیٰ نے مجھے اس منصب پر اس لئے کھڑا نہیں کیا کہ میں سب سے نیک بڑا عارف اور خدا کا زیادہ مقرب تھا بلکہ اس لئے چنا کہ دنیا مجھے حقیر جاہل ، عقل سے کو را فسادی، فریبی سمجھتی تھی.خدا نے چاہا کہ وہ لوگ جو مجھے ایسا سمجھتے ہیں ان کو بتائے کہ یہ سلسلہ ان لوگوں پر نہیں کھڑا ہوا جو اپنے آپ کو بڑے بڑے ستون سمجھتے ہیں بلکہ میرے ذریعہ کھڑا ہے".اسی سلسلہ میں حضور نے فرمایا: "خدا تعالیٰ نے مجھ جیسے کمزور کے ذریعہ اپنے سلسلہ کو ترقی دے کر بتایا کہ اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہے بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا ہی کے فضل سے ہو رہا ہے".دعوت الی اللہ اور اشاعت کے کام کی ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا : اس وقت جو کوششیں اور قربانیاں تم کرو گے وہ بے فائدہ نہیں جائیں گی بلکہ بڑے بڑے عظیم الشان نتائج پیدا کریں گی ہاں کرنی ضرور پڑیں گی اور جو کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا وہ پیچھے ہٹا دیا جائے گا اور جو ٹھہر جائے گا وہ گرے گا اور اگر اگر کرپس جائے گا اس لئے اب سلامت وہی رہ سکے گا جو خدا کی طرف بڑھ بڑھ کر قدم مارے گا اور آگے ہی آگے چلے گا...پس آپ لوگوں کو بالکل تیار ہو جانا چاہئے.کیونکہ دراصل وسیع کام کا زمانہ اب آیا ہے اور اب کام اتنا وسیع ہو گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی".-۱۴ ترکی کا مستقبل اتحاد ملت کے ہر موقع سے پوری طرح فائدہ اٹھانے کے لئے حضور نے ایسے وقت میں
ر العلوم جلدم 16 جبکہ ترکی حکومت خطرے میں تھی نہایت مدبرانہ رہنمائی کرتے ہوئے ۱۸ ستمبر ۱۹۱۹ ء کو یہ کتاب تحریر فرمائی.مختلف الخیال مسلمانوں کے اتحاد و اجتماع کے لئے آپ نے یہ رہنما اصول بیان فرمایا میرے نزدیک اس جلسہ کی بنیاد صرف یہ ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو...ہٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلاتا ہے نا پسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے".ترک سلطنت اور مرکز اسلام حجاز کے متعلق نہایت متوازن رہنمائی کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: عرب کی غیرت قومی جوش مار رہی ہے اور اس کی حریت کی رگ پھڑک رہی ہے.تیرہ سو سال کے بعد اب وہ پھر اپنی چار دیواری کا آپ حاکم بنا ہے اور اپنے حسن انتظام اور عدل و انصاف سے اس نے اپنے حق کو ثابت کر دیا ہے اس کے متعلق کوئی نئی تجویز نہ کامیاب ہو سکتی ہے نہ کوئی معقول انسان اس کو قبول کر سکتا ہے".ترکی کی بہتری کے لئے آپ نے ایک یہ مشورہ بھی دیا کہ : صرف جلسوں اور لیکچروں سے کام نہیں چل سکتا نہ روپیہ جمع کر کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے....بلکہ ایک باقاعدہ جدوجہد سے جو دنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کے لئے کی جاوے.یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور لوگ ہر ایک بات کے لئے دلیل طلب کرتے ہیں....پس اس مشکل کام کو پورا کرنے کے لئے باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے....بے فائدہ کام دانا کا کام نہیں" ترکوں یا اسلام کے خلاف بغض و تعصب کی وجہ بیان کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: " آباء و اجداد سے ان کے دل میں اسلام کی نسبت اس قدر بد ظنیاں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ اسلام کو ایک عام مذہب کے طور پر خیال نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی تعلیم خیال کرتے ہیں جو انسان کو انسانیت سے نکال کر جانور اور وہ بھی وحشی جانور بنا دیتی ہے....اسلام کے سوا دوسرے مذاہب سے وہ ڈرتے نہیں....مگر قابل نفرت سمجھتے ہیں.مگر اسلام سے وہ خوف کھاتے ہیں اس کی ترقی کو تہذیب و شائستگی کے رستہ میں روک ہی نہیں خیال کرتے بلکہ خود
انوار العلوم جلد ۴ ۱۸ تعارف کر انسانیت کے لئے اسے ملک یقین کرتے ہیں".اس صورتِ حال کی تبدیلی کے لئے حضور نے یہ رہنمائی فرمائی کہ : مسلمان اپنی غلطی سے تائب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور خود اسلام کو سمجھیں اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں اور دوسروں کو آگاہ کریں تاکہ وہ نکبت و ادبار جو اس وقت مسلمانوں پر آرہا ہے وہ دور ہو....اگر مذہب کی خاطر انہوں نے تبلیغ نہیں کی اگر خدا کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس بے نظیر تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا تو اب اپنی حیات کے قیام کے لئے ہی کچھ کوشش کریں.کیونکہ ان کی زندگی اور اسلام کی تبلیغ اب لازم و ملزوم ہو گئے ہیں".-۱۵ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے مسٹر ساگر چند بیرسٹرایٹ لاء نے ولایت سے واپسی پر اردسمبر ۱۹۱۹ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے بیت المبارک قادیان میں شرف ملاقات حاصل کیا.اس موقع پر حضور نے انہیں جو نصائح فرمائیں وہ اردسمبر 1919ء کے الفضل میں شائع ہوئیں.حضور نے فرمایا کہ آپ نے ہمارے مبلغین کی باتوں کو معقول سمجھ کر قبول کر لیا جبکہ ان کے مقابل میں کوئی دوسرا سنانے والا نہ تھا.اب یہاں (ہندوستان میں فریق مخالف بھی ہے جو کہتا ہے کہ ان کے پاس اپنے مذہب کی صداقت کے دلائل ہیں.اس لئے اصل مقابلہ یہاں ہو گا.میری آپ کو نصیحت ہے کہ آپ اپنی تحقیقات کو دہرائیں کہ جس بات کو آپ نے صحیح پایا تھا اس کے مخالف باتیں سن کر اور جذبات و تعلقات ابھرنے پر بھی آپ ان کو صحیح پاتے ہیں یا نہیں اس لئے اب یہ آپ کے لئے آزمائش کا وقت ہے.حضور نے فرمایا کہ کسی عقیدہ کو جبراً قبول یا ترک کرنے پر کسی انسان کو مجبور کرنا بہت بڑا ظلم ہے کیونکہ عقیدہ جو دل سے نہ مانا جائے اور جس کی بنیا د دلائل پر نہ ہو ماننے کے قابل نہیں.حضور نے فرمایا.اسلام یہ کہتا ہے کہ پہلے تم خوب غور کرو اور دیکھو کہ سچاند ہب کونسا ہے اور کس میں سچائی کے دلائل نشانات اور برکات ہیں.جب تم عقل کے زور سے یہ معلوم کر لو کہ فلاں مذہب اس وقت خدا کی طرف سے ہے تو پھر اس کے آگے چون و چرا نہ کرو.بلکہ
العلوم جلد 19 تعارف کر اس کو بجالاؤ.جس طرح ایک قابل ڈاکٹر کے نسخہ پر عمل کرنا عقلمندی ہے اسی طرح جب کھل جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے تو اس پر بھی بے چون و چرا عمل کرنا چاہئے.یہ ایک درمیانی راستہ ہے اس لئے اس کے مطابق تمام باتیں واضح ہو جاتی ہیں اور کھل جاتا ہے کہ کونسا مذ ہب حق پر -۱۶ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء ۱۹۱۹ء کے سالانہ جلسہ میں حضور نے جو خطاب فرمائے ان میں ۲۷ - دسمبر ۱۹۱۹ ء کو حضور کا خطاب انتظامی اور بعض دوسرے اہم امور کے متعلق تھا.جماعت کے مختلف صیغوں کی حسن کارکردگی کا ذکر کرتے ہوئے نظارت مال کے متعلق فرمایا: میں تعریف کرتا ہوں کہ بیت المال کے متعلق یا تو روزانہ مجھے فکر لگی رہتی تھی کہ فلاں بل کہاں سے ادا ہو اور فلاں کہاں سے مگر اس تحریک کے بعد جو میں نے آپ لوگوں کو کی اور ناظر بیت المال کی اس کے متعلق ذمہ داری اٹھانے کے بعد اس صیغہ نے ایسی ترقی کی کہ میں کہہ سکتا ہوں معجزانہ ہے.ستراتی ہزار روپے کی آمدنی کے مقابلہ میں دو لاکھ کی آمدنی ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے اور میں سمجھتا ہوں جو جماعت اپنے امام کے منہ سے اتنی بات سن کر اتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے وہ بہت بڑی ترقی کا بیج اپنے اندر رکھتی ہے ".قادیان کی جماعت کی تعریف اور قادیان سے نکلنے والے اخبارات کے کام پر اظهار خوشنودی کرنے کے بعد جماعت کو نہایت ضروری اور کار آمد نصائح فرما ئیں.اس سلسلہ میں آپ نے جنت کی حقیقت اور اس کے حصول کے ذرائع ، نماز با جماعت پڑھنے کی تاکید ، آپس کے معاملات درست رکھنے کی تلقین ، تعدد ازدواج، سود کی حرمت سود لینے کے نقصانات سود اور انسانی تباہی ، سود کی حرمت کی وجوہ اور امر بالمعروف کی تلقین جیسے بنیادی اہمیت کے عناوین پر روشنی ڈالی.
ر العلوم جلد ۴ " ۱۷ تقدیر الهی ۱۹۱۹ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے جو دسمبر کو تقدیر الہی کے نہایت مشکل اور دقیق مسئلہ پر عارفانہ خطاب فرمایا.اپنے اس مضمون کے متعلق آپ نے فرمایا کہ : اب تک میں جو مضمون بیان کرتا رہا ہوں وہ اعمال کے متعلق تھے مگر اب کے جو مضمون بیان کرنا ہے وہ ایمان کے متعلق ہے اور چونکہ ایمان ہی جڑ ہے اس لئے وہ مضمون نہایت اہم ہے.میں نے خدا تعالٰی سے عاجزانہ طور پر کہا کہ اے خدا اگر اس مضمون کا سنانا مناسب نہیں تو میرے دل میں ڈال دے کہ میں اسے نہ سناؤں لیکن مجھے یہی تحریک ہوئی کہ سناؤں گو وہ مضمون مشکل ہے اور اس کے سمجھنے کے لئے بہت محنت اور کوشش کی ضرورت ہے لیکن اگر آپ لوگ اسے سمجھ لیں گے تو بہت بڑا فائدہ اٹھا ئیں گے.حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس خطاب کے متعلق فرماتے ہیں: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا اس موضوع پر ایک ایسے جلسہ عام سے خطاب فرمانا جہاں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ - ذہین اور بلید ہر قسم کے لوگ جمع تھے یقینا کوئی معمولی کام نہ تھا آپ نے جس عمدگی سے اس مضمون کو ادا کیا بلاشبہ وہ آپ ہی کا حق تھا.یہ تقریر کیا تھی علم کلام کا ایک شاہکار تھا.مسئلہ قضاء و قدر کی اہمیت اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات بیان کرنے کے بعد آپ نے اس موضوع پر اظہار خیال فرمایا کہ مسئلہ تقدیر پر ایمان اور وجود باری تعالی پر ایمان لانا لازم و ملزوم ہیں.اس کے بعد آپ نے قضاء و قدر کے متنازعہ فیہ نظریات پر بحث فرما کر آنحضور کے بعض ارشادات میں تطبیق فرمائی اور اس کے بعد مسئلہ تقدیر کے نہ سمجھنے کے نتیجہ میں انسان کو جو بڑی بڑی ٹھوکریں لگی ہیں ان کا ذکر فرمایا....پھر وحدت الوجود کے عقیدے کی غلطیاں ظاہر کرتے ہوئے چھ قرآنی آیات سے نہایت لطیف اور ٹھوس دلائل پیش کر کے اس عقیدہ کا رد فرمایا.بعد ازاں اس کی دوسری انتہاء کو بھی غلط ثابت فرمایا اور اس خیال کی بدلائل تردید کی کہ خدا گویا کچھ نہیں کر سکتا اور جو کچھ بھی ہے وہ تدبیر ہی ہے.علم الہی اور تقدیر الہی کو خلط ملط کرنے کے نتیجہ میں انسانی فکر نے جو ٹھوکریں کھائی ہیں اس کا نہایت عمدہ تجزیہ کر کے اس مسئلہ کو خوب نکھارا"
العلوم جلد ۴ ۲۱ تعارف که تقریر سے بعض نہایت ضروری اقتباس پیش کرنے کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایده الله تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: "یہ تقریر تقدیر الہی کے مسئلہ پر ہر پہلو سے بحث کرتی ہے اور مختلف قدیم و جدید اعتراضات کے جوابات بھی اس میں دیئے گئے ہیں.تقدیر کے ذکر میں آپ نے سات روحانی مقامات کا ذکر بھی فرمایا ہے جو تقدیر الٹی کے مسئلہ کو صحیح معنوں میں سمجھ کر اس کے تقاضے پورے کرنے کے نتیجہ میں انسان کو مل سکتے ہیں.گویا کہ روحانی ترقیات کے سات آسمان ہیں جن کی رفعتوں پر سب سے اوپر ہمیں آنحضرت محمد مصطفیٰ جلوہ گر نظر آتے ہیں".۱۸ واقعات خلافت علوی حضور کا معرکة الآراء لیکچر اسلام میں اختلافات کا آغاز فروری ۱۹۱۹ء میں ہوا جس میں حضور نے صحابہ کرام پر ہونے والے متعدد اعتراضات کو حل کرتے ہوئے حضرت عثمان کی افسوسناک شہادت کی وجوہ و غیرہ بیان فرما ئیں.اس خطاب میں حضرت علی کے زمانہ خلافت کے واقعات بھی بیان کرنا چاہتے تھے مگر وقت کی تنگی کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا.حضور نے ۱۷ فروری ۱۹۲۰ء کو واقعات خلافت علوی پر اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن ہسٹار یکل سوسائٹی کے زیر اہتمام اس انتہائی اہم اور ضروری موضوع پر لیکچر دیا.اس لیکچر کا خلاصہ یکم مارچ ۱۹۲۰ء کے الفضل میں شائع ہوا.حضور نے اپنے گذشتہ سال والے خطاب کا ذکر کرتے ہوئے اور تاریخ اسلام کی ابتداء میں ہی بعض افسوسناک واقعات کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ مسلمان جلدی مٹ جائیں گے لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کی ظاہری فتوحات کو دیکھا اور ان کی قوت و شوکت کا ظاہری طور پر مقابلہ کرنے کے اپنے آپ کو نا قابل پایا تو انہوں نے مسلمانوں کے اندر داخل ہو کر دنا اور فریب سے انہیں مٹانے کی کوشش شروع کر دی ایسے ہی لوگوں نے اسلام میں فتنہ کی بنیاد رکھی".
رالعلوم جلد ۲۲ تعارف کتب جنگ جمل کے متعلق حضور کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ : دونوں طرفوں کو اس بات کا ایک دوسرے پر افسوس تھا کہ جب صلح کی تجویز کی گئی تھی تو پھر دھوکا سے حملہ کیوں کیا گیا حالانکہ یہ دراصل مفسدوں کی شرارت تھی.ایسی صورت میں بھی حضرت علی نے احتیاط سے کام لیا اور اعلان کر دیا کہ ہمارا کوئی آدمی مت لڑے خواہ وہ ہمارے ساتھ لڑتے رہیں مگر مفسدوں نے نہ مانا" حضرت علی نے کشت و خون اور لڑائی ختم کرنے کی اور بھی کوششیں کیں مگر مفسدوں نے اپنی جان بچانے کے لئے لڑائی جاری رکھی یہاں تک کہ حضرت عائشہ کا اونٹ گرنے کے ساتھ جنگ ختم ہوئی اور حضرت علی اور ان کے ساتھیوں نے حضرت عائشہ کو عزت و اکرام کے ساتھ الوداع کیا اور حضرت عائشہ نے بھی فرمایا کہ ہم میں کوئی عداوت نہیں رہی.حضور نے جنگ جمل کی حقیقت بیان کرنے کے بعد حضرت علی اور حضرت معاویہ کی لڑائی کے حالات بیان فرمائے اور ثابت کیا کہ تمام اختلاف اور انشقاق کے بانی مفسدہ پرداز لوگ تھے جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ واقعات کا صحیح طور پر سمجھنا مشکل ہو گیا تھا.آخر انہی لوگوں نے حضرت علی کے قتل کی سازش کی اور انہیں قتل کرا دیا.ان کے بعد حضرت حسن کو خلیفہ منتخب کیا گیا لیکن انہوں نے معاویہ کے حق میں دست بردار ہو کر صلح کرلی.
انوار العلوم جلدم اطاعت اور احسان شناسی جنگ عظیم اول کی تیسری سالگرہ کے موقع پر تقریر) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی اطاعت اور احسان شناسی
الماء ام جلد ۴ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اطاعت اور احسان شناسی ( تقریر - حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی جو آپ نے ۴.اگست ۱۹۱۷ء کو جنگ عظیم اول کی تیسری سالگرہ کے موقع پر قادیان دار الامان میں منعقدہ دعائیہ جلسہ میں فرمائی) ہر مذہب وملت کے لوگوں کو کچھ مواقع ایسے پیش آتے ہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کے لوگوں کے سامنے اونچی نظر نہیں کر سکتے لیکن اسلام جس تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے اور جس صداقت کی طرف لوگوں کو بلاتا ہے وہ ایسی کامل اور بے نقص ہے کہ کوئی کمزوری اور کوئی کمی اس میں نہیں پائی جاتی.کوئی معاملہ ایسا نہیں جس میں شریعت اسلام نے دخل دیا ہو یا جس میں دخل دینا ضروری ہو خواہ وہ مذہبی ہو یا سیاسی، تمدنی ہو یا معاشرتی جسے بھی اسلام نے لیا ہے اسے ایسا کامل ایسا بے عیب اور بے نقص کر کے بیان کیا ہے کہ ذرہ کمزوری نہیں پائی جاتی.سیاست ہی کو لے لو اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب کی وجہ سے بڑے بڑے فتنے اور فساد اور بڑی بڑی جنگیں ہوتی اور بڑے بڑے مصائب آتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ مختلف مذاہب نے اپنے پیروؤں کو سیاست کے متعلق جو تعلیمیں دی ہیں وہ ایسی ناقص ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے فتنہ پیدا ہو جاتا ہے.یہودی مذہب میں غیر مذاہب والوں سے جو سلوک روارکھا گیا ہے اسے دیکھ کر انسان کانپ جاتا ہے.اسی طرح ہندوؤں کے ہاں دیگر مذاہب کے لوگوں کے متعلق جو تعلیم دی گئی ہے وہ بہت سخت اور خطرناک ہے.پنڈت دیانند صاحب نے اس تعلیم کا جو نقشہ ستیارتھ پر کاش میں کھینچا ہے وہ حیران کر دینے والا ہے.اور اگر اس پر عمل کیا جاوے تو تباہی و بربادی میں کوئی شک ہی نہیں رہتا.یہی حال دو سرے مذاہب کا ہے.اور صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے رعایا اور حکومت کے درمیانی تعلقات کو نہایت عمدہ بنانے کا طریق بتایا ہے.اس لئے ایک مسلمان کسی حکومت کسی سلطنت اور کسی گورنمنٹ کے سامنے شرمندہ نہیں ہو سکتا کیونکہ اسلام نے نفاق اور غداری کو سخت ناپسند فرمایا اور اس سے
والعلوم جلد سختی کے ساتھ روکا ہے اور صریح طور پر فرمایا ہے کہ یہ بڑی بے دینی اور شرارت ہے.یہود کا ذکر کرتا ہے کہ وہ کہتے ہیں.ان امیوں کا ہم پر کوئی حق نہیں ہے کہ ان سے معاہدے کر کے توڑیں نہیں.اس قول سے نفرت کا اظہار کرتا اور انہیں جھوٹے قرار دیتا ہے.تو اسلام نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ حاکم خواہ کسی مذہب اور کسی قوم کا ہو اس سے بد دیانتی، بد عہدی اور بغاوت نہیں کرنی چاہئے.اس کے معاہدات کو تو ڑنا جائز نہیں ہے بلکہ جو معاہدات اور اقرار ہوں انہیں ضرور نباہنا چاہئے.یہ ایسی لطیف اور بے عیب تعلیم ہے کہ اس کے ہوتے ہوئے کوئی ایسا مسلمان جو قرآن کریم پر ایمان رکھے اور اس کے سمجھنے کی توفیق پائے وہ کسی کے سامنے نہ تو شرمندہ ہو سکتا.اور نہ اسے نفاق اختیار کرنا پڑتا ہے.پھر قرآن کریم کا یہ حکم کہ اَطِيْعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الأمْرِ مِنْكُمْ (النساء : (۲۰) اللہ اور اس کے رسول اور جو تم پر حاکم ہو اس کی اطاعت کرو.اس سے تمام فتنے اور فساد اٹھ جاتے ہیں.اس وقت تک جس قدر ایسی مذہبی لڑائیاں ہوئی ہیں، جن لوگوں نے اپنے حکمرانوں کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہیں ان کا باعث یہی ہوا ہے کہ جس ملک کے ساتھ ان کے بادشاہ کی لڑائی تھی وہ ان کا ہم مذہب تھا اور اپنا بادشاہ غیر مذہب کا.یورپ کی صلیبی جنگوں میں یہی بات تھی جو کام کر رہی تھی.فرانس سے بعض سیاسی وجوہات کی بناء پر جنگ شروع ہوئی تھی.مگر سپین اور فرانس کے لوگ اپنے بادشاہ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.انہوں نے سمجھا کہ ہمارے مذہب کے خلاف جنگ کی جارہی ہے.اسلام کہتا ہے کہ اولوالامر کی اطاعت کرو.خواہ کوئی ہو اس کی اطاعت سے نکلنے کا کسی صورت اور کسی وقت بھی تمہیں حکم نہیں ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے بغیر دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا.تو اسلام نے صاف طور پر فیصلہ کر دیا ہے کہ جو کسی پر حاکم ہو اس کی اطاعت کرنا اس پر فرض ہے.فرماتا ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد یعنی اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی پابندی کرنے میں کوئی روک نہیں پاتے تو پھر تم پر فرض ہے کہ ان حکام کی اطاعت کرو جو تم پر حکمران ہوں.یہاں خدا تعالیٰ نے اولوالامر کی اطاعت کرنے کی دو شرطیں بتائی ہیں.ایک یہ کہ اللہ کی اگر اطاعت کھلے بندوں کر سکو دوسرے یہ کہ اس کے رسول کے احکام کے ماننے اور ان پر عمل کرنے میں کوئی روک نہ پاؤ تو پھر اولوالامر کی اطاعت کرو.پس ہر ایسی حکومت جو ان فرائض
العلوم جلدم اطاعت اور احسان شناسی کے ادا کرنے میں روک نہ ہو جو اسلام انفرادی طور پر ایک مسلمان پر فرض کرتا ہے.مثلاً نماز - روزہ حج زکوۃ وغیرہ اور ان کے ادا کرنے میں آزادی ہو تو اس کی اطاعت اسلام فرض قرار دیتا ہے.ہاں ایسی باتیں جو افراد سے نہیں بلکہ حکومت سے تعلق رکھتی ہیں مثلاً چور کے ہاتھ کاٹنا یا زانی کو سنگسار کرنا وغیرہ ان سے افراد کو کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی وہ ان کے متعلق جواب دہ ہیں اور جب ان کے ادا کرنے میں آزادی حاصل ہو تو ان پر حکومت کی اطاعت کرنا اسی طرح فرض ہے جس طرح اللہ اور رسول کے دوسرے احکام کی اطاعت.اس بات پر دنیا میں عمل کرنے سے کوئی فساد اور کوئی جنگ نہیں ہو سکتی.یہ جنگ جو آج کل ہو رہی ہے اس میں بھی طرفین میں کچھ ایسے لوگ ہیں جو آپس کے مذہبی تعلقات یا کسی اور وجہ سے اپنے ہی لوگوں کے راستہ میں روڑے اٹکانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کمزوری واقع ہو جاتی ہے اور دشمن کو کامیابی کا موقع مل جاتا ہے.پھر وہ لوگ جو تاریخوں سے واقف ہیں جانتے ہیں کہ اسی وجہ سے کیسی کیسی خطرناک لڑائیاں ہوئی ہیں.ہمارے مذہب اسلام کے خلاف جو جنگیں ہوئی تھیں ان کی بھی یہی وجہ تھی مگر اسلام کہتا ہے کہ جس حکومت کے ماتحت رہو اس کی اطاعت میں فرق نہ آنے دو.یہ نہیں کہ وہ اگر تمہارے کسی ہم مذہب بادشاہ سے بر سر پیکار ہیں تو تم اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہو.اس اصل کو سامنے رکھ کر دیکھ لو.کیا اس پر عمل کرنے سے کوئی فتنہ اور فساد پیدا ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں.بلکہ اس طرح تو بہت سی جنگیں رک جاتی ہیں کیونکہ جب کوئی لڑائی کا آغاز کرنے والی حکومت دیکھے گی کہ اس کے گھر میں بڑا پختہ اتفاق و اتحاد ہے اور اس کے تمام لوگ یک جان ہو کر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں تو وہ حملہ کرنے کا خیال ترک کر دے گی ، دشمن حملہ اسی وقت کیا کرتا ہے جبکہ گھر میں فساد اور نا اتفاقی کے آثار دیکھتا ہے اور جب یہ نہ ہوں تو پھر بڑی بڑی طاقتور سلطنتیں بھی حملہ کرنے سے جی چراتی ہیں.اسلام کے خلاف جو صلیبی جنگیں ہوئیں ان کی یہی وجہ تھی کہ عیسائی حکومتوں نے دیکھا کہ مسلمانوں کے ماتحت جو عیسائی ہیں وہ حکومت سے خوش نہیں ہیں چنانچہ جب انہوں نے حملہ کیا تو گھر سے عیسائی باشندے اٹھ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کا ناک میں دم کر دیا.تو بہت ی جنگیں اسی وجہ سے شروع ہو جاتی ہیں کہ دشمن جانتا ہے یا سمجھتا ہے کہ ان کے گھر سے ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے لیکن اگر ایسا نہ ہو تو بہت سی جنگیں رک جائیں اور اگر لڑائی
ام جلد شروع بھی ہو جائے تو ایسی سلطنت جس کے گھر میں اتفاق و اتحاد ہو دشمن کا بڑی عمدگی سے مقابلہ کر سکتی اور اسے بھگا سکتی ہے کیونکہ اسے گھر کا فکر نہیں ہو تاکہ اس میں فساد پیدا ہو جائے گا.اس لئے اس کی ساری توجہ اور قوت دشمن ہی کے اندفاع میں لگ جاتی ہے اور اسے شکست دے دیتی ہے.لیکن اتفاق و اتحاد اس طریق سے پیدا ہوتا ہے جو اسلام نے بتایا ہے اور جس کی تلقین اس نے اپنے پیروؤں کو کی ہے کہ اپنی حکومت کی اطاعت کرو.ایسی اعلیٰ اور بے نقص تعلیم اور کوئی مذہب نہیں پیش کر سکتا.دیگر مذاہب اپنے اپنے مذہب کے بادشاہ کی اطاعت کی تعلیم تو دیں گے اور اس کی فرمانبرداری کا بھی حکم کریں گے.مگر قرآن کریم کے سوا اور کسی مذہب کی کتاب میں یہ نہیں ہو گا کہ غیر مذہب کے حکمران کی بھی اطاعت کرو حالا نکہ اصل سوال یہی ہے جس کا جواب ہونا نہایت ضروری ہے کیونکہ اپنے مذہب کے حکمرانوں کی اطاعت تو اکثر کرتے ہی ہیں کیونکہ وہ اسے اپنی ہی حکومت سمجھتے ہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی غیر مذہب کا حاکم ہو تو اس کے ساتھ کیا سلوک کرنا چاہئے اس کا جواب سوائے قرآن کریم کے اور کوئی کتاب نہیں دیتی.قرآن ہی کہتا ہے کہ تمہارا حاکم خواہ کوئی ہو تم نے جو اس سے اطاعت اور فرمانبرداری کا معاہدہ کیا ہے اس کے کبھی خلاف نہ کرنا اور اس کی ضرور اطاعت کرتا.تو قرآن کریم نے یہ ایک ایسا اصل بتا دیا ہے کہ اگر تمام لوگ اس پر عمل کریں تو ہونے والی نصف جنگیں اس سے رک سکتی ہیں.اسلام کی اس تعلیم کے ماتحت حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو بار بار اور بڑے زور سے گورنمنٹ برطانیہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف توجہ دلائی ہے اور بتایا ہے کہ وہ شرطیں جو قرآن کریم نے رکھی ہیں وہ چونکہ اس سلطنت میں پوری ہوتی ہیں اس لئے اس کی اطاعت بھی فرض ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَطِيْعُوا اللهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِى الأمر مِنْكُمْ (النساء : (۲۰) کہ اول اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور پھر اولوالامر کی کرو.پس اب جبکہ اللہ اور اس کے رسول کی وہ اطاعت جو ہمارے ساتھ تعلق رکھتی ہے اس میں ہمیں آزادی ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں ہے کہ اولوالامر کی اطاعت نہ کی جائے.اس طرف آپ نے بڑے زور سے اور بڑی کثرت کے ساتھ توجہ دلائی ہے اور کہا ہے کہ میں نے تو کوئی کتاب یا اشتہار ایسا نہیں لکھا جس میں گورنمنٹ کی وفاداری اور اطاعت کی طرف اپنی
انوار العلوم جلد اطاعت او اشناسی جماعت کو متوجہ نہیں کیا.پس حضرت صاحب کا اس طرف توجہ دلانا اور اس زور کے ساتھ توجہ ولانا اس آیت کے ماتحت ہونے کی وجہ سے گویا اللہ اور اس کے رسول کا ہی توجہ دلانا ہے.اس سے سمجھ لو کہ اس طرف توجہ کرنے کی کس قدر ضرورت ہے.بہت لوگ نادانی سے اولی الامر منکم کے معنی یہ کرتے ہیں کہ اس میں اس حاکم کی اطاعت کا ر ہے جو اپنے مذہب کا ہو کیونکہ مِنكُمْ کے معنی ”تم میں سے " ہیں اور جب کوئی ہم میں سے ہوگا تو مسلمان ہی ہو گا.مگر یہ معنی درست نہیں ہیں کیونکہ دوسری کئی جگہ خدا تعالیٰ نے معاہدات کی پابندی اور معاملات کے اچھا اور عمدہ رکھنے کا حکم دیا ہے لیکن کیسی تعجب اور حیرانی کی بات ہوگی اگر اس آیت میں صرف اپنے ہم مذہب حکمرانوں کی اطاعت کا حکم ہو اور دوسروں سے بغاوت اور غداری کو روا رکھا گیا ہو.کیا دوسری آیات پر عمل کرنا بھی چھوڑ دیا جائے گا یا ان کے لئے منافقت اختیار کی جائے گی.پھر اگر منکم کے یہی معنی لئے جائیں کہ "تم میں سے " تو پھر کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس سے مراد اپنی قوم کا حاکم ہے جب ہماری قوم کا کوئی حاکم ہو گا اس وقت اس کی کوئی بات مانیں گے دوسرے کی نہیں مانیں گے.مثلاً سید کہیں کہ ہم اسی حاکم کو مانیں گے جو سید ہو.مغل کہیں ہم اسی افسر کی بات قبول کریں گے جو مغل ہو.اور ہر قوم کے لوگ یہی کہیں تو کیا اس طرح دنیا میں امن قائم ہو سکتا ہے یا کوئی حکومت قائم رہ سکتی ہے.ہر گز نہیں.پھر ایک گھرانہ کے لوگ کہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی حاکم ہو گا تو اس کی مانیں گے اور کی نہیں مانیں گے.اسی طرح ایک گھر کے لوگ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے ہی گھر کے حاکم کی مانیں گے اس طرح تو ایسی ابتری پھیلتی ہے کہ کوئی انتظام قائم ہی نہیں رہ سکتا اس لئے اس کے یہ معنی نہیں ہو سکتے.ہاں اگر اس کے عام معنی لئے جائیں تب مطلب درست ہو سکتا ہے ورنہ اپنے مرکز سے اس لفظ کے معنوں کو ہٹا کر کوئی معنی بن ہی نہیں سکتے اور کسی آیت کے ایسے معنی کرنے جن کا کوئی مطلب ہی نہ ہو کسی مؤمن کا کام نہیں ہو سکتا.مؤمن کا تو یہ کام ہے کہ جو معنی وسیع اور اعلیٰ مطالب ظاہر کرنے والے ہوں ان کو بیان کرے.چنانچہ یہ بات تمام فرقوں کے مفسرین کے نزدیک مسلم ہے کہ وہ کہتے ہیں جو عام لفظ ہو اس کے معنی عام ہی کرنے چاہئیں.تو منکم کے جو وسیع معنی ہیں وہ لئے جائیں گے اور وہ یہ ہیں کہ انسانوں میں خواہ کسی مذہب یا قوم کا حاکم ہو اس کی اطاعت کرنی چاہئے.یامین کے معنی علی
A کئے جائیں گے کہ جو تم پر حاکم ہو ان کی اطاعت اور فرمانبرداری کرو.یہاں خدا نے مِنكُمُ فرما کر ایک اور فتنہ کی جڑ کاٹ دی ہے اور وہ اس طرح کہ مِنْكُم سے اس طرف متوجہ کیا ہے کہ جو تم پر بادشاہ ہو.اس کی اطاعت کرو نہ کہ ہر ایک بادشاہ جو تمہیں کوئی حکم دے اسے مان لو.اس سے دوسروں کی زبر دستی کی حکومت اور ان کی بات مان کر اپنے بادشاہ سے غداری کرنے کو روک دیا گیا کہ اگر کوئی غیر بادشاہ تمہیں کچھ کہے تو اس کا ماننا تم پر فرض نہیں ہے.اس طرح بھی بہت سے فساد اور فتنے مٹ جاتے ہیں.خیر میں نے بتایا کہ اس آیت میں اطاعت حکام کا حکم دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ شرط یہ رکھی ہے کہ جب تمہیں اللہ اور اس کے رسول کے احکام ماننے میں آزادی ہو تو تم پر اطاعت حکام فرض ہے.پس جبکہ ہمیں گورنمنٹ برطانیہ میں یہ آزادی حاصل ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اولوالامر کی اطاعت نہ کریں.پھر ہماری اطاعت صرف اس لئے نہیں کہ دنیاوی لحاظ سے ہمیں اس حکومت سے تعلق اور واسطہ ہے بلکہ اس لئے ہے کہ قرآن کریم کا حکم ہے اور اس کے خلاف کرنا گناہ ہے.پس ہم پر گورنمنٹ کی اطاعت دوسرے مذاہب کے لوگوں کی نسبت زیادہ فرض ہے کیونکہ اسلام نے کھول کھول کر اس کو بتا دیا ہے کہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ اپنی گورنمنٹ کی اطاعت کریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا عملی ثبوت دیا ہے.آپ نے تمام عمر حکومت کی اطاعت کی اور دوسروں کو ایسا کرنے کی تلقین فرماتے رہے لیکن کچھ ایسے لوگ ہیں جو بظاہر اطاعت کرتے ہیں اور اگر ان کا بس چلے تو حکام کو کھا جائیں.مسلمانوں میں سے وہ لوگ جو امام مہدی کے تلوار کے ساتھ جہاد کرنے کا عقیدہ رکھتے ہیں ان کے دل سے پوچھنا چاہئے کہ کیا گزرتی ہے.کچھ عرصہ ہوا میرے پاس ایک سرکاری آفیسر بیٹھا تھا.میں نے اسے بغداد کے فتح ہونے کی خبر سنائی تو اس کا رنگ زرد ہو گیا اور اس نے سخت ناپسند کیا.مگر اسلام کی یہ تعلیم نہیں ہے.اسلام کہتا ہے کہ اپنے حکمرانوں کی بچے دل سے اطاعت کرو.پس ہم جو گورنمنٹ کی اطاعت کرتے ہیں تو اس کے ماتحت نہ کہ کسی پر احسان کرتے ہیں.کیونکہ جس طرح ہم کو نماز - روزه - حج - زکوۃ دینے کا حکم ہے.اسی طرح حکومت کی اطاعت کرنے کا حکم ہے.ہم نماز پڑھتے ہیں مگر کسی پر احسان نہیں کرتے.ہم روزہ رکھتے ہیں مگر کسی پر احسان نہیں کرتے.ہم زکوۃ دیتے ہیں مگر کسی پر احسان نہیں کرتے.ہم حج کرتے ہیں مگر کسی پر احسان نہیں کرتے اور جو ان
لوم جلد بهم ۹ میں سے کوئی حکم نہیں مانتا اپنی ذات اور اپنی روح کو نقصان پہنچاتا ہے.اسی طرح ہم گورنمنٹ کی اطاعت کرتے ہیں مگر کسی پر احسان نہیں کرتے اور جو نہیں کرتا وہ اپنی روح کو نقصان پہنچاتا ہے اور یہ ایسا ہی انسان ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے دوسرے احکام کی بھی پرواہ نہیں کرتا.کبھی کوئی یہ ثابت نہیں کر سکتا کہ کسی خدا کے برگزیدہ یا پیارے انسان یا کسی مؤمن نے اپنی حکومت سے غداری کی ہو.ایسے لوگ ہر گز غدار نہیں بلکہ اطاعت شعار اور فرمانبردار ہوتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ اس کے بغیر خدا تعالیٰ کا قرب بھی حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ حکام کی اطاعت کرنے کا حکم بھی خدا تعالی ہی کا حکم ہے اور اس لئے اس حکم کا توڑنا اسی طرح ہے جس طرح نماز روزہ اور دیگر احکام وغیرہ کا توڑنا.تو ہر مؤمن کو اپنی روح کے بچانے کے لئے جس طرح نماز کا پڑھنا ضروری ہے.اسی طرح حکام کی اطاعت کرنا ضروری ہے پس اس کا پورا کرنا بھی ہم پر فرض ہے اور نہایت ضروری فرض ہے کیونکہ یہ وہ حکم ہے جو خدا تعالیٰ نے اپنے مونہہ سے دیا ہے.نبی کے دیئے ہوئے احکام بھی اس کے ماننے والوں کے لئے قابل اتباع ہوتے ہیں.مگر جو خدا دے وہ تو بہت ہی ضروری ہوتے ہیں.تو گورنمنٹ کی اطاعت کرنا اسلام کا حکم ہے اور جہاں ہم اور کئی ایک مذہبی فرائض ادا کرتے ہیں وہاں ہمارے لئے اطاعت اولوالامر کا ادا کرنا بھی ضروری ہے.پس ہمیں سچے دل سے اس پر عمل کر کے ثابت کر دینا چاہئے کہ ہم ہی اسلام کے ہر ایک حکم کو بڑی خوشی اور عمدگی سے پورا کرنے والے ہیں.بہت لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ گورنمنٹ ہمیں حقوق نہیں دیتی اگرچہ میرا اس بات سے اختلاف ہے کہ کوئی ایسے حقوق ہیں جو گورنمنٹ نہیں دیتی لیکن اگر مان بھی لیا جائے کہ یہ بات درست ہے تو میں کہتا ہوں کہ کسی چیز کے حصول کے طریق کئی ایک ہوتے ہیں.جن میں سے بعض سے فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور بعض امن و امان کے ساتھ جاری رکھنے والے ہوتے ہیں اور کسی عقلمند اور دانا انسان کا یہ کام نہیں ہے کہ ان طریق سے کام لے جو فتنہ و فساد پیدا کرنے والے ہوتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے خود رعایا کے لئے تباہی و بربادی کے سامان پیدا ہو جاتے ہیں.دیکھو بنگال میں جو شورش کی گئی اس سے گورنمنٹ کو کوئی ایسا نقصان نہیں پہنچا مگر رعایا لٹ رہی ہے، ڈا کے پڑ رہے ہیں، قتل ہو رہے ہیں، فساد و فتنہ پھیل رہا ہے کیوں؟ اس لئے کہ حکومت کا رعب ہی ہوتا ہے اور اسی سے ملک میں امن قائم رہتا ہے.چنانچہ آنحضرت الی
دار العلوم جلد ۴ اطاعت اور احسان شناسی نے بھی فرمایا ہے.نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ ابخاری کتاب الجہاد باب قول النبي نصرت بالرعب مسير شہر مجھے رعب کے ساتھ نصرت دی گئی ہے.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے تلوار یا اور کسی چیز سے نصرت دی گئی ہے.نپولین کے متعلق یہ واقعہ لکھا ہے کہ جب وہ قید سے بھاگ کر فرانس آیا تو بادشاہ نے جن لوگوں کو اس کے مقابلہ پر بھیجا ان سے بڑی بڑی سخت قسمیں لیں اور انہوں نے اقرار کیا کہ ہم مقابلہ سے کبھی نہیں نہیں گے اور نپولین کو مار بھگا دیں گے.اس وقت نپولین کے ساتھ صرف چند آدمی تھی اور ان کی بہت بڑی سپاہ تھی.اس لئے وہ ڈرے کہ نہ معلوم کیا انجام ہو.نپولین نے انہیں تسلی دی اور کہا دیکھو تو سہی کیا ہوتا ہے.جب فوج سامنے آئی تو نپولین اکیلا گھوڑا دوڑا کر اس کے آگے چلا گیا اور سینہ سامنے کر کے کہنے لگا.لو! اپنے بادشاہ کے سینہ میں گولی مارو.اس سے سب نے آسمان کی طرف بندوقیں چلا دیں اور کہا کہ ہمارا بادشاہ سلامت رہے.تو رعب ایک ایسی چیز ہے کہ اس کے سامنے کوئی بڑی سے بڑی طاقت نہیں ٹھر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رستم کے متعلق ایک قصہ سناتے تھے کہ اس کے گھر ایک دفعہ چور آیا اور رستم سے اس کی لڑائی شروع ہو گئی جسے گرا کر وہ چھاتی پر چڑھ بیٹھا اور مارنے لگا اس پر رستم نے سمجھا کہ اسے معلوم نہیں کہ میں کون ہوں.اس لئے اس نے کہا.رستم آگیا.رستم آگیا.یہ سن کر چور بھاگ گیا.اصل رستم کو تو اس نے گرا لیا.مگر اس کے نام سے بھاگ گیا.یہ رعب ہی تھا.تو رعب ایک ایسی چیز ہے کہ اسی کی بناء پر حکومتیں قائم رہتی ہیں.اور جس حکومت کے رعب میں فرق آجائے.وہ خواہ کس قدر طاقت رکھتی ہو کچھ نہیں کر سکتی نہ امن قائم رکھ سکتی ہے اور نہ فساد و فتنہ روک سکتی ہے.وہ لوگ جو ملک میں فتنہ و فساد ڈالنا چاہتے ہیں.وہ حکومت کے رعب کو ہی نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئیے کہ اس کا ایسا خطرناک نتیجہ ہو گا کہ تمام ہندوستان یا د ہی رکھے گا.ایسے لوگ حکومت کے دشمن نہیں بلکہ ہندوستان کے دشمن ہیں.گورنمنٹ کے خلاف تقریریں کرنا اس کے خلاف لوگوں میں نفرت اور بد دلی پھیلانا اس کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اپنے ملک کو نقصان پہنچانا ہے.یہ ان لوگوں کی نادانی اور بے وقوفی ہے جسے اسلام پسند نہیں کرتا.اسلام کوئی جائز مطالبہ کرنے سے نہیں روکتا بلکہ رسول سے بھی مطالبہ کرنے کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ رسول کان ہے اسے اپنی بات سناؤ.وہ سنتا ہے مگر اس طریق سے کسی مطالبہ کی ہرگز اجازت نہیں دیتا جس سے حکومت کے رعب میں فرق آئے اور رعیت میں شوخی و شرارت پیدا ہو.
م چاند ۲۴ اطاعت اور احسان شناسی دیکھو حضرت مسیح موعود نے بھی کئی مطالبے کئے اور میموریل بھیجے ہیں مگر کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ ان میں وہی طرز اختیار کیا گیا ہے جسے آج کل لوگ اختیار کر رہے ہیں.ہرگز نہیں.تو ایسے حقوق جو جائز ہیں ان کے لئے بے شک ادب اور تہذیب سے مطالبہ کیا جائے، وند بھیجے جائیں ، درخواستیں کی جائیں لیکن ایسے طریق نہ اختیار کئے جائیں جن سے حکومت کے رعب میں فرق آئے.اس کو اسلام سخت نا پسند کرتا ہے اور حضرت مسیح موعود نے بھی اسے سخت ناپسند فرمایا اور اس قسم کا کوئی فعل کرنے والوں کو سخت سرزنش کی ہے.چنانچہ ایک دفعہ ایک سٹرائک میں حصہ لینے والے کو اپنی جماعت سے نکال دیا تو حضرت مسیح موعود نے ہمارے لئے رستہ صاف کر دیا ہے اور وہی راہ تجویز کر دی ہے جو خدا اور اس کے رسول نے تجویز کی ہوئی ہے اور یہی وہ راہ ہے جس پر چل کر نہ کبھی کسی کو نقصان ہوا اور نہ آئندہ ہو گا.دیکھئے آنحضرت نے کسی قدر صبر اور تحمل دکھایا.آپ کو کیسی کیسی تکلیفیں اور ایذا ئیں دی گئیں.آپ کے ساتھیوں کو کس قدر ستایا گیا.اگر وہ اس طریق کو جائز سمجھتے جو آج کل جائز سمجھا جاتا ہے تو وہ کیوں اسی طرح نہ کرتے مگر انہوں نے اس کو جائز نہ سمجھا.آخر خدا تعالیٰ نے ان پر ایسا فضل کیا کہ ان کی تمام تکلیفیں دور ہو گئیں اور وہ جو ان کو دکھ دیتے تھے ان کے مطیع اور فرمانبردار ہو گئے کیوں؟ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کبھی اپنے نیک بندوں پر ظالم حکمرانوں کو قائم نہیں رہنے دیتا.ہاں جو خود ظالم اور خدا سے دور ہوں ان پر حاکم بھی ظالم ہی مقرر کئے جاتے ہیں.حاکم و محکوم ، افسرود ماتحت پر ایک دوسرے کا بہت بڑا اثر پڑتا ہے.اگر رعایا میں جھوٹ.بد دیانتی.دعا.فریب وغیرہ عیب ہوں گے تو حکمرانوں میں بھی پائے جائیں گے.اسی طرح اگر رعایا بھی ان باتوں سے پاک ہوگی تو حکام میں بھی یہ نقص نہیں ہوں گے.پس اگر لوگ سچے دل سے خدا تعالی کے احکام کی اطاعت کریں تو انہیں کسی قسم کی شکایت ہی نہ پیدا ہو اور اگر ہو تو بڑی آسانی اور سہولت سے دور ہو جائے.ہم کہتے ہیں اور باتوں کو جانے دو.تبلیغ اسلام کو لے لو جو ایک بہت ضروری فرض ہے.کیا مسلمان اس کو پورا کر رہے ہیں ان کا جتنا روپیہ اور وقت سیاسی جھگڑوں میں خرچ ہوتا ہے (آج ) کل کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا کم از کم نصف وقت روزانہ سیاسی معاملات میں خرچ ہوتا ہے) اس کا ایک حصہ بھی اگر تبلیغ اسلام کے لئے خرچ کریں تو بڑے شاندار نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اگر اس وقت دو لاکھ مسلمان بھی ایسے سمجھ لیں جو سیاست میں حصہ لینے والے ہیں اور یہی
انوار العلوم جلد می ۴ اطاعت از بان شناسی لوگ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ (ال عمران : (11) پر عمل کرتے تو آج لاکھوں انگریز مسلمان ہو گئے ہوتے اور مسلمانوں کی تعداد کروڑوں کروڑ ہو جاتی اور اس طرح وہ حکومت جسے غیر حکومت کہتے ہیں غیر نہ رہتی بلکہ اپنی ہو جاتی.اب بھی اگر مسلمانوں کا یہ خیال ہے کہ غیر مذہب کی حکومت کی اطاعت نہیں کرنی چاہئیے.حالانکہ یہ غلط ہے تو ہم کہتے ہیں اسے غیر نہ رہنے دو.اسلام سکھا کر اپنے بنالو.پس اس وقت تمہارے سامنے دو طریق ہیں.جن میں سے ایک تو قرآن کریم کے خلاف ہے اور دوسرا مطابق کہ انگریزوں کو تبلیغ اسلام کرو اور انہیں اسلام میں لے آؤ.اس طرح أولى الأمْرِ مِنْكُمْ کے جو معنی تم کرتے ہو وہ بھی پورے ہو جائیں گے.مگر افسوس کہ مسلمان یہ طریق اختیار کرنا تو پسند نہیں کرتے اور وہ اختیار کر رہے ہیں جو قرآن کریم کے خلاف ہے اور جس کا نتیجہ کبھی کامیابی نہیں ہو سکتا اور نہ اس میں کبھی آرام اور سکھ نصیب ہو سکتا ہے.مسلمان اگر قرآن کریم پر غور کرتے تو اس رستہ پر نہ چلتے کیونکہ اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کی ترقی حکومتوں کا مقابلہ کرنے سے نہیں ہوگی بلکہ اسی طرح ہوگی جس طرح حضرت مسیح ناصری کے وقت ہوئی تھی.سورۃ بنی اسرائیل میں بنی اسرائیل پر دو تباہیاں آنے کا ذکر ہے اور دوسری تباہی کے بعد جو لوگ بچے اور جنہوں نے ترقی کی ہے وہ عیسائی تھے.ان کی ترقی اس طرح ہوئی کہ غیر مذہب کی حکومت جس کے وہ ماتحت تھے عیسائی ہو گئی.آج بھی مسلمانوں کی ترقی اسی طریق سے ہو سکتی ہے اور ہوگی نہ کہ سیاسی منصوبے باندھنے اور حکومت کے خلاف کوششیں کرنے سے.دیکھو یہود نے اس وقت حکومت کے خلاف منصوبے باندھنے اور فتنے پیدا کرنے شروع کئے تو اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ٹائٹس نے ان کو تباہ و برباد کر کے ان کے معبد میں خنزیر ذبح کیا.مگر عیسائیوں کی کوشش اور امن پسندی کا یہ نتیجہ ہوا کہ حکومت ہی عیسائی ہو گئی.آج بھی اگر مسلمان غور کرتے اور دیکھتے کہ ایک انسان نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا تھا.کچھ لوگوں نے اس کو مان لیا اور بہتوں نے انکار کر دیا.ماننے والوں نے امن کے ساتھ تبلیغی کوششیں شروع کردیں.اور نہ مانے والوں نے فتنہ و فساد پھیلانا اور حکومت کے خلاف کوششیں کرنا شروع کر دیں.جس کا نتیجہ ان کے لئے تو تباہی و بربادی نکلا اور ماننے والوں کو یہاں تک ترقی ہوئی کہ غیر مذہب کی حکومت نے ان کا مذہب اختیار کر لیا.
م جلد اس زمانہ میں بھی ایک شخص نے مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے اس لئے اس کے ماننے اور نہ ماننے والوں کا بھی وہی انجام ہو گا جو پہلے مسیح کے ماننے اور نہ ماننے والوں کا ہوا کیونکہ حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کا وہی طریق ہے جو پہلے مسیح اور اس کی جماعت کا تھا لیکن سرے لوگ اس راستہ پر چل رہے ہیں جس پر پہلے مسیح کے نہ ماننے والے چلے تھے.کوئی کے کہ مرزا صاحب نے مسیح ناصری سے مشابہت حاصل کرنے کے لئے وہی طریق اختیار کر لیا ہے جو مسیح ناصری کا تھا.ورنہ دراصل مسیح موعود آپ نہیں.لیکن یہ خیال بالکل غلط ہے کیونکہ اگر اس طرح کہا جائے کہ ایک ایسا آدمی آئے گا جس کا کوٹ کالا ہو گا.پگڑی اس طرح کی ہوگی اور اس کے دشمن اس اس طرح کرنے والے ہوں گے تو یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی کالا کوٹ پہن لے اور پگڑی بھی اسی طرح کی باندھ لے لیکن یہ اس کے اختیار میں نہیں ہے کہ اپنے دشمن بھی ایسے ہی فعل کرنے والے پیدا کر لے.پس اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے مسیح ناصری سے مشابہت اختیار کرنے کے لئے خود ان کا طریق اختیار کیا اور اپنی جماعت کو کرایا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ پھر آپ کے مخالفین نے کیوں وہ طریق اختیار کیا ہے جو حضرت مسیح کے مخالفین (یہود) نے اختیار کیا تھا.کیا انہوں نے بھی یہود سے مشابہت حاصل کرنے کے لئے ایسا کیا ہے.یہود نے سیاسی انجمنیں بنائی تھیں اور حکومت کے خلاف منصوبے کئے تھے.شورشیں پھیلائی تھیں.آج یہی نظارہ ہم مخالفین مسیح موعودؓ میں دیکھتے ہیں.جس طرح وہاں نہ ماننے والوں نے سیاسی انجمنیں بنائی تھیں اور ماننے والوں نے تبلیغی ، اسی طرح یہاں ہے.جس طرح وہاں ایک غیر قوم کی حکومت تھی اسی طرح یہاں ہے.جس طرح وہاں حضرت مسیح نے حکومت کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو.اسی طرح یہاں حضرت مسیح موعود نے گورنمنٹ کی اطاعت اور فرمانبرداری کا حکم دیا ہے.پس جب ان سب باتوں میں مشابہت پائی جاتی ہے تو ضرور ہے کہ جو نتیجہ وہاں نکلا تھا یہاں بھی نکلے اس لئے مسلمانوں کو اس مثال سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور ای طریق کو اختیار کرنا چاہئے جس کا نتیجہ عمدہ نکل چکا ہے.اس میں نہ حکومت کے کسی حکم کی خلاف ورزی ہے نہ قرآن کریم کی.لیکن افسوس کہ مسلمانوں نے اس وقت تک اس کو اختیار نہیں کیا اور نہ کرنا چاہتے ہیں.ہاں حضرت مسیح موعود نے اپنی جماعت کو یہی طریق سکھایا اور اسی پر چلایا ہے اور میں بھی اسی پر چلانا چاہتا ہوں.پس ہماری جماعت کو چاہئے کہ انگریزوں کو
لوم جلد ۴ تبلیغ کریں ۱۴ اطاعت از ریں اور اپنا ہم عقیدہ و ہم خیال بنانے کی کوشش کریں.باقی سیاسی طور پر جو تکلیف یا ضرورت ہو اس کی طرف ادب اور تہذیب سے انہیں متوجہ کریں.ہم پر اس حکومت کے بڑے بڑے احسان ہیں.سکھوں کے زمانہ میں تو مسجدوں میں اذان دینے کی بھی اجازت نہ تھی.ایک دفعہ ایک گائے کی قربانی کرنے کی وجہ سے سات ہزار آدمی مروائے گئے.یہ اور اسی قسم کے اور بے شمار مظالم کئے جاتے تھے.جن پر کوئی لمبا عرصہ نہیں گزرا اور اگر گزر بھی جائے تو کیا انہیں بھلا دینا چاہئے.قرآن کریم حضرت موسیٰ ، حضرت نوح ، حضرت ابراہیم وغیرہ انبیاء کے واقعات پیش کرتا ہے.اگر دور کے واقعات بھلا دینا جائز ہوتے تو ان کو نہ بیان کیا جاتا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مؤمن کو گزشتہ واقعات بھلانے نہیں چاہئیں بلکہ ان سے سبق حاصل کرنا چاہئے.پس بڑے نادان ہیں وہ لوگ جو سکھوں کا عہد بھلا بیٹھے ہیں اور نہیں جانتے کہ اس وقت کیسے کیسے مظالم ہوتے تھے.لاہور میں مسجدیں بند اور مولویوں کو قتل کیا جاتا تھا.اگر مسلمان ان کو باتوں کو سوچیں تو خدا تعالیٰ کا شکر کریں کہ اس نے ایسی حکومت بھیج دی ہے اور یہ حکومت کا ہم پر احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایسی آزادی دے رکھی ہے اس قدر امن قائم کیا ہوا ہے.اس قدر آرام و آسائش کے سامان بہم پہنچائے ہوئے ہیں.نادان کہتے ہیں کہ ہم پر گو ر نمنٹ کے کیا احسان ہیں.اپنی حکومت اچھی اور اعلیٰ طور پر کرنے کے لئے اس نے یہ سب کچھ کیا ہے.ہم کہتے ہیں اگر اس طرح گورنمنٹ کا کوئی احسان نہیں رہتا تو پھر ماں باپ کا بھی اولاد پر کوئی احسان نہیں رہتا کیونکہ کوئی کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے اپنی شہوت رانی کی تھی اور میں پیدا وگیا.پھر میں انہیں اچھا لگتا تھا اس لئے وہ مجھے پالتے رہے لیکن کیا کہنے والے کو کوئی عقلمند اچھا کہے گا نہیں بلکہ ملامت ہی کرے گا.اس طرح گورنمنٹ نے جو رفاہ عام کے کام کئے ہیں ان سے اسے بھی فائدہ پہنچتا ہے لیکن چونکہ ہم بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں اس لئے ہم پر گورنمنٹ کا احسان ہے.اور هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (ارمن : (1) اسلام احسان کا بدلہ احسان رکھتا ہے.دراصل لوگوں نے احسان کے معنی نہیں سوچے اگر وہ ایسا کرتے تو یہ کبھی نہ کہتے کہ گورنمنٹ کے ہم پر کیا احسان ہیں کیونکہ اس طرح تو دنیا میں احسان کچھ رہتا ہی نہیں.ایک ایسے شخص کو جو درد سے کراہ رہا ہو کوئی گھر لے آئے اور علاج و معالجہ کرے لیکن جب وہ اچھا ہو جائے تو کہے اس کا مجھ پر کوئی احسان نہیں ہے اس کا اپنا دل چاہتا تھا اسلئے مجھے اٹھا لایا میں نے تو اسے نہیں کہا تھا.اسی
رالعلوم جلد ۴ ۱۵ اطاعت طرح ہر ایک بات کے متعلق کہا جا سکتا ہے پھر کیا احسان کچھ ہے ہی نہیں ؟ بات یہ ہے کہ احسان میں احسان کرنے والے کو بھی فائدہ پہنچ جاتا ہے مگر وہ فائدہ کبھی پیش نظر ہوتا ہے اور کبھی پوشیدہ تو ایسا فعل جس کا نتیجہ دوسرے کے لئے اچھا نکلے اس کو احسان کہتے ہیں.تو نادان ہے وہ جو کہتا ہے کہ گورنمنٹ نے ہم پر کیا احسان کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت ایک جنگ ہوئی تھی اور اب بھی ایک جنگ شروع ہے مگر وہ جنگ اس کے مقابلہ میں بہت چھوٹی تھی.اس وقت کی حضرت مسیح موعود کی تحریریں موجود ہیں.اس وقت گورنمنٹ کے لئے چندے اکٹھے کئے گئے.مدد دینے کی تحریکیں کی گئیں.دعائیں کرائی گئیں.آج بھی ہمارا فرض ہے کہ ایسا ہی کریں.یہ تو ہم جانتے ہیں کہ یہ جنگ دنیا کے گناہوں کی وجہ سے اور حضرت مسیح موعود کی صداقت کے لئے شروع ہوئی ہے مگر باوجود اس کے ہم پر جو گورنمنٹ کے احسان ہیں اور جو آرام پہنچ رہے ہیں وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسا کریں.اس وقت تک ہماری جماعت نے کئی ایک طریق سے گورنمنٹ کی مدد کی ہے.جماعت کی تعداد کے لحاظ سے ہمارے بہت سے آدمی میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں.پنجاب کی آبادی کے تناسب سے ہمارے حصے دو تین سو آدمی بنتے ہیں.مگر اس وقت تک ہزار کے قریب جاچکے ہیں اور ہر فن اور ہر کام کے گئے ہیں.یونیورسٹی ڈبل کمپنی میں جو ۲۰ (ساٹھ) آدمی لئے گئے ہیں.ان میں پانچ چھ ہماری جماعت کے ہیں.جن میں سے ایک ایم.ایس.سی ہے.جو غالبا سب سے بڑا ڈگری یافتہ ہے تو ہماری جماعت نے اپنی طاقت اور ہمت سے بڑھ کر حصہ لیا ہے.مگر ایک اور کام بھی ہے جس کا کرنا ضروری ہے.میں نے حضرت مسیح موعود سے زبانی سنا تھا.شاید آپ نے کہیں لکھا بھی ہو کہ ایک خطرناک جنگ ہو گی.معلوم نہیں اس وقت ہم ہوں گے یا نہیں ہوں گے.مگر گورنمنٹ کے لئے اسی وقت دعا کر دیتے ہیں کہ خدا اسے کامیاب کرے.انبیاء کے بھی کیسے پاک دل ہوتے ہیں اور کیسا احسان کا بدلہ احسان کرنے کا خیال رکھتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا ہے کہ ایک وقت ہندوستان میں ایسا آنے والا ہے کہ جب سب فرقے گورنمنٹ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے اس وقت صرف میری ہی جماعت ہوگی جو فرمانبردار رہے گی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ نے اپنی جماعت پر اس بات کا اعتبار کیا ہے کہ وہ ہمیشہ گورنمنٹ کی اطاعت شعار رہے گی.
انوار العلوم جلد 14 اطاعت او اب حضرت مسیح موعود تو فوت ہو گئے مگر جنہوں نے آپ کو مانا اور قبول کیا ان کا فرض ہے کہ گورنمنٹ کی فتح یابی کے لئے دعا کریں.آج اس جنگ کے تین سال ختم ہوتے ہیں اور معلوم نہیں کہ کب تک رہے گی.ہمارا کام تو ہر وقت ہی دعا کرنا ہے.مگر آج چونکہ لڑائی کا نیا سال شروع ہوتا ہے اور جس طرح اسلام نے نئے سال کے شروع ہونے پر نماز رکھی ہے کہ اس میں دعائیں کریں کہ اچھا سال گزرے.اسی طرح آج ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا تعالٰی اس کی سال میں جو آج سے شروع ہو گا.اس لڑائی کا کوئی اچھا فیصلہ کرے اور یہ جنگ جلد ختم ہو اور خدا تعالی کوئی ایسی صورت پیدا کر دے.جس میں حکومت برطانیہ کا فائدہ ہو.مگر کہتے ہیں.جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے اس لئے ہماری دعا میں یہ بات بھی شامل ہوگی کہ خدا تعالیٰ دین کی تبلیغ کے بھی سامان پیدا کر دے تاکہ ہم پہلے کی نسبت بہت زیادہ اشاعت اسلام کر سکیں.(الفضل ۱۴- اگست ۱۹۱۷ء) ع
ا العلوم جلد ۴ 14 جماعت قادیان کو نصائح (فرموده ۳۹ اگست ۱۹۱۷ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی جماعت قادیان کو نصائح
19 جماعت قادیان کو نصائح بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جماعت قادیان کو نصائح فرموده ۱۲۹اگست ۱۹۱۷ء بعد نماز مغرب بر موقع روانگی شمله) اسلام میں کچھ قواعد مسلمانوں کی ترقی اور فوائد کے لئے ہیں.اسلام میں قوانین اتحاد مسلمان جب تک ان پر چلے انہوں نے بہت فائدہ اٹھایا.عربوں کی زندگی کا نقشہ اگر کسی نے دیکھنا ہو تو وہ ٹیری دانسوں (خانہ بدوش) کو دیکھ لے سوائے چند شہروں (مکہ - طائف) کے رہنے والوں کے سب تمدنی اقوام کے مقابلے میں گرے ہوئے تھے ایسے لوگوں نے ان قواعد پر چل کر جو رسول کریم نے وحی متلو و غیر متلو اور فطرت صحیحہ اور عقل خدا داد سے بتائے ایک دنیا کی حکومت حاصل کرلی.یورپین مؤرخین از راه تعصب اسلام میں علوم کی ترقی نہیں مانتے.مگر واقعات سے مجبور ہو کر ان کو بھی ماننا پڑا ہے کہ اگر اسلام نہ ہو تا تو تمام علوم سابقہ مٹ جاتے گویا محافظ علوم مان لیا ہے اور وہ اسلام کے اس اثر کے قائل ہیں.اسلام بانی علوم بھی ہے.مگر یہ بھی بڑی بات ہے جو انہوں نے مان لی کیونکہ کسی چیز کو مٹنے سے بچانا یا مٹی ہوئی کو واپس لانا بھی اسی کا کام ہے جو موجد ہونے کی شان رکھتا ہو.دیکھو رسول اللہ نے مسیح موعود کو اپنے مشابہ بلکہ برابر کہا بلکہ ان میں ایسی صفات بیان کیں جن سے صحابہ سمجھے کہ وہ اپنا ہی ذکر فرما رہے ہیں.یہ کیوں؟ اسلام مٹ چکا تھا اس مقدس ہستی نے اسے قائم کیا.یہ کام بھی گویا ایسا ہی تھا جیسے حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی بنا ڈالی.غرض مسلمانوں نے جتنی بھی ترقی کی وہ اسلام کے احکام پر چل کر.چنانچہ صحابہ کا وہ گروہ جو حبشہ میں ہجرت کر کے چلا گیا تھا جب مکہ والوں نے اس کی مخالفت کے لئے اپنا وفد وہاں بھیجا تو نجاشی کے اس سوال پر کہ تم میں کیوں اختلاف ہے.جعفر طیار نے اپنی حالت سابقہ و موجودہ کا خوب نقشہ کھینچا کہ ہم کیا تھے کیا اخلاق رکھتے تھے اور اسلام نے ہمیں اب کس اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا
العلوم جلد جماعت قادیان کو نصائح ہے.جس سے نجاشی اتنا متاثر ہوا کہ اس نے ان غریب مسلمانوں کی حفاظت کا ذمہ لے لیا اور اس نے بڑے جوش سے کہا کہ بادشاہت جاتی رہے تو جاتی رہے مگر جس قوم میں اتنا تغیر ہوا ہے اس کو میں درندوں کے ہاتھوں میں نہیں دے سکتا.اللہ نے مجھے ملک دیا تھا وہی میرے ملک کا محافظ ہے.افسوس کہ مسلمانوں نے ان ان قوانین مقدسہ سے مسلمانوں کی بے اعتنائی مسلمانوں کی بے اعتنائی قوانین مقدسہ کو بھلا دیا اور ان کی مثال ان دو بلیوں کی طرح ہے جنہوں نے بندر کو پنیر کی تقسیم کے لئے منصف بنایا.بندر کیا کرتا.ترازو کا جو پلڑا بھاری ہوتا اس میں سے پنیر کا ٹکڑا اس بہانے سے اٹھا کر خود کھا لیتا کہ دوسرا برابر ہو جائے.یہاں تک کہ بہت تھوڑا پنیر باقی رہ گیا اور وہ بھی نصف اس نے اس بہانہ سے لے لیا کہ یہ میرا حق الخدمت ہے.یہی بات مسلمانوں نے کی کہ خود ہی منصف بن بیٹھے.بعض حکموں کو تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ بوجھل ہیں.ہم ان پر عمل نہیں کر سکتے اور بعض کو ہلکا سمجھ کر چھوڑ دیا.انگریزی خوانوں سے پوچھو کہ نماز کیوں نہیں پڑھتے تو کہتے ہیں جی یہ نہیں پڑھی جاتی اور جو کہو کہ ڈاڑھی.تو کہتے ہیں کہ اجی اس کا شریعت سے کیا تعلق.اس طرح ان لوگوں نے شریعت کو ملیا میٹ کر دیا تھا.پھر اللہ تعالٰی نے مسیح موعود کے ذریعہ مسیح موعود نے پھر ان قوانین پر عمل کرایا شریعت کو قائم کیا جن محکموں کو وہ بڑے اور بو جھل سمجھتے تھے ان کی نسبت انہیں سمجھایا کہ خدا ایسا حکم دیتا ہی نہیں جس پر انسان عمل نہ کر سکے اور جن کو وہ چھوٹا سمجھتے تھے ان کی نسبت بتایا کہ خدا کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں ہوتا.پس ضروری ہوا کہ خدا کے تمام حکموں کی اطاعت کی جائے.چونکہ یہ احکام خداوندی عربی زبان میں ہیں اس لئے عربی کی تحصیل بھی ضروری ہے اور پھر ضرورت ہے اس بات کی کہ کوئی قرآن کا درس دیوے.اور حدیث کا درس دیا جائے.واعظ بھیجے جائیں.یہ حضرت صاحب کی خواہش تھی.اور ہر بچے احمدی کی خواہش بھی یہی ہونی چاہئے کہ وہ قرآن و حدیث کو جاننے والا ہو اور مادری زبان کے ساتھ ساتھ عربی زبان بھی سمجھتا ہو.اس میں دقت صرف ماں باپ کو ہے.پھر بچے تو خود ہی دونوں زبانیں بولنے والے ہو جائیں
۲۱ جماعت قادیان کو نصائح گے.کئی خاندان ہیں جو افغانستان یا ایران سے آئے ہیں وہ اپنے آباؤ و اجداد کی زبان بھی بولتے ہیں اور اس کے ساتھ پنجابی و اردو بھی خوب جانتے ہیں.غرض جب ماں باپ عربی سیکھ لیں گے تو آگے ان کے بچوں کے لئے بہت سہولت ہو جائے گی.وقت صرف موجودہ صورت حال میں ہے جس کو رفع کرنا ہمارا کام ہے.یہ خوب یاد رکھو کہ اللہ کا کوئی حکم نہ تو بو جھل ہے نہ خدا کا کوئی حکم بھی چھوٹا نہیں چھوٹا - وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ المَر : ۳۳) کے معنی عمل کے بھی ہوتے ہیں.یعنی ہم نے قرآن کو عمل کے لئے آسان کر دیا ہے.پیارے کی ہر چیز پیاری ہوتی ہے اور بڑے کی ہر چیز بڑی.پس خدا کے کسی حکم کو چھوٹا نہ سمجھو.البتہ چھوٹا یوں ہو سکتا ہے کہ اس کی سزا کم رکھی ہے.ورنہ یوں تو خدا کی ہر ایک نافرمانی بڑی بات ہے.میں تو کفر کا مسئلہ بھی اسی طرح حل کیا کرتا ہوں کہ نبی کا انکار بذاتہ کفر مسئلہ کفر کاحل نہیں.وہ تو ہمارے جیسا ہی ایک انسان ہوتا ہے بلکہ اس وحی کا انکار کفر ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے.اب یہ کہنا فضول ہے کہ فلاں نبی کا انکار کفر نہیں اور فلاں کا ہے.کیا خدا کا کلام بھی چھوٹا ہوتا ہے.وہ جیسا رسول اللہ پر نازل ہوا ویسا ہی مسیح موعود علیہ السلام پر.أولَئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا (النساء : (۱۵۲) کا فتویٰ انبیاء کے تمام منکرین پر یکساں موجود ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی منکر میں ایک سے زیادہ کفر جمع ہو گئے بوجہ ایک سے زیادہ نبیوں کی نافرمانی کے اور کسی میں ایک بوجہ ایک نبی کی نافرمانی کے باوجود اس کے بہ لحاظ ایک ایک نبی کی نافرمانی کے وہ سب برابر ہیں یعنی گروہ کفار میں شامل.بات تو کچھ اور کہنی تھی اور وہ یہ کہ رسول کریم" کا یہ طریق تھا کہ - شملہ جانے کا ارادہ آپ جب باہر تشریف لے جاتے تو ایک یا دو امیر مقرر کر جاتے ایک نماز کا اور ایک انتظامی امور کا.میرا ارادہ ہے کہ کل اگر اللہ چاہے تو کچھ دنوں کے لئے باہر جاؤں.بغرض تبدیلی آب و ہوا کیونکہ طبیعت کمزور ہے.اس لئے میں رسول کریم ﷺ کی سنت ایک منتظم کا تقرر اور اس کی ضرورت کے مطابق دو امیر مقرر کرتا ہوں.اس سنت کی عد رم پیروی نے مسلمانوں کو سخت نقصان پہنچایا ہے.بادشاہوں نے جماعت نماز کی امامت چھوڑ
رالعلوم جلدم ۲۲ جماعت قادیان کو نصائح دی پھر ہر مقام پر ایک امیر چھوڑنے کا حکم تھا اس میں بھی کو تاہیاں کیں.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ جب دار الخلافہ سے اِدھر اُدھر ہوا تو فتنہ پردازوں نے کوئی نہ کوئی فساد کھڑا کر دیا.حضرت خلیفہ اول کو بھی اس کا بہت خیال رہتا تھا.چنانچہ جب آپ ملتان تشریف لے گئے تو پیچھے ہر چند کہ میری عمر چھوٹی تھی مجھے ہی چھوڑ گئے.پس مسجد مبارک کی امامت کے لئے جس کے متعلق خاص الہامات ہیں اور جس میں حضرت صاحب نماز پڑھا کرتے تھے ، جمعہ کی نماز کے لئے قاضی سید امیر حسین صاحب کو مقرر کرتا ہوں اور باقی امور جو مقامی حیثیت میں پیش آدیں ان کے لئے مولوی شیر علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں.ان سے مشورہ لیا جائے ان کے ماتحت کام کرد.میں دیکھتا ہوں کہ انجمنوں کے طریق میں فساد انجمنوں کے طریق میں اصلاح کا ارادہ پڑتے ہیں اس لئے میرا ارادہ ہے کہ اس انتظام کو بدل کر اگر اللہ چاہے تو امیر مقرر کر دیئے جائیں اور وہ اپنی اپنی جماعتوں کے مشورہ سے خلیفہ وقت کے ماتحت کام کیا کریں.لیکن زمانہ بدلا ہوا ہے.اس لئے آہستہ آہستہ تبدل و تغیر بہتر ہے.میں تو اس سرکار کا خادم ہوں.رسول کریم اللہ نے حضرت عائشہ سے فرمایا تھا کہ اگر تیری قوم کے ابتلاء میں آجانے کا اندیشہ نہ ہو تو میں کعبہ کو از سر نو تعمیر کرا کے اس میں وہ حصہ شامل کر دوں جو پہلے تھا.(بخاری کتاب التمنى باب ما يجوز من اللوا غرض میرے ذہن میں کو ایک نظام ہے.جب اللہ توفیق دے گا اور جماعت کو اس کے لئے تیار کرے گا ہو جائے گا.میں یہاں کے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ جماعت قادیان کو اطاعت امیر کی نصیحت خلافت اور امارت میں فرق ہے.خلیفہ کے ساتھ مذہبی تعلقات بیعت بھی ہوتے ہیں اس لئے خلفاء کی تو مان لیتے ہیں اور اپنے امیروں کی نہیں مانتے.یا اس کے لئے شرح صدر نہیں پاتے.یہی وجہ ہے کہ میں تاکید کرتا ہوں اور رسول کریم کی پیروی میں کہتا ہوں جس نے میرے مقرر کردہ امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.دو سرے میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں جماعت قادیان دوسروں کے لئے نمونہ بنے کہ آپس میں محبت بڑھاؤ اور اپنے کو دو سروں کے لئے نمونہ بناؤ جیسے تمہارے درجے بڑے ہیں ایسی ہی تمہاری ذمہ داریاں بھی
دم چند ۳۴ ۲۳ جماعت قادیان کو نصائح بڑی ہیں.تمہاری معمولی سی لغزش بھی خطرناک ہے.ایک بد شکل کریہہ المنظر کے چہرے پر مکھیاں بیٹھی ہوں تو چنداں بری معلوم نہیں ہوتیں لیکن ایک حسین کے منہ پر ایک بھی مکھی ہو تو بری معلوم ہوتی ہے.پس تمہاری پوزیشن اور ہے اور باہر والوں کی اور یہ نہ کہو کہ جھگڑے تو باہر بھی ہوتے ہیں.اگر چہ مجھے جھگڑے کہیں بھی پسند نہیں پھر بھی قادیان میں تو اس کے متعلق بڑی احتیاط چاہئے.حضرت صاحب کی اصلاح کا طرز بڑا لطیف اور عجیب تھا.ایک شخص آیا اس نے باتوں ہی باتوں میں یہ بھی بیان کر دیا کہ ریلوے ٹکٹ میں میں اس رعایت کے ساتھ آیا ہوں.آپ نے ایک روپیہ اس کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے کہا کہ امید ہے جاتے ہوئے ایسا کرنے کی آپ کو ضرورت نہ رہے گی.دہلی کے تین بزرگوں کا قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص کے پاس مشتبہ مال تھا وہ ایک بزرگ کے پاس لے گیا کہ آپ اسے لے لیں.تو انہوں نے کہا کہ تو بہ تو بہ میں اسے نہیں لے سکتا.دوسرے کے پاس گیا تو اس بزرگ نے بھی انکار کیا مگر جب وہ شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس لے گیا تو آپ نے رکھ لیا.اسے شک پڑا کہ شاہ صاحب کی نیت (نعوذ باللہ ) خراب ہے.وہ پہلے بزرگ کے پاس گیا اور یہ واقعہ بیان کیا اس بزرگ نے کہا.سنو ایک گھڑا پانی ہو.اس میں ایک قطرہ پیشاب کا پڑ جائے تو گل پانی پلید ہو گا یا پاک؟ اس نے جواب دیا- ناپاک.تب اس بزرگ نے فرمایا.اگر ایک قطرہ سمندر کے پانی میں پڑ جائے تو وہ پانی پاک ہے یا پلید ؟ اس نے کہا وہ تو پلید نہیں ہو گا.فرمایا یہی مثال میری اور شاہ ولی اللہ صاحب کی ہے.میں تو گھڑے کی مانند ہوں اس لئے مشتبہ مال سے بچتا ہوں.وہ سمندر ہیں ان کی اس میں بدنامی نہیں.وہ اسے لے کر اللہ کی راہ میں خرچ کر دیں گے یا اور مناسب کارروائی کریں گے.پھر وہ شخص دوسرے بزرگ کے پاس گیا اور ان سے شاہ صاحب والا واقعہ بیان کیا اس بزرگ نے بھی ایسی ہی مثال دی اور شاہ صاحب کی بریت کی.تب وہ خود شاہ صاحب کی خدمت میں آیا اور عرض کیا کہ مجھے شبہ پڑ گیا ہے آپ نے وہ مشتبہ مال کیوں قبول کیا حالانکہ ان دو بزرگوں نے نہیں قبول کیا.فرمایا بھائی میلے کپڑے والے پر کوئی رحبہ پڑ جائے تو کچھ پرواہ نہیں ہوتی.وہ سفید لباس والے ہوئے ان کو تو ذرا دھبہ گوارا نہ تھا اس لئے میں نے رکھ لیا انہوں نے انکار کر دیا.دیکھو ان بزرگوں کی نیکی نیتی کہ سب نے حسن ظن سے کام لیا.جھگڑا پیدا نہ ہوا نہ کوئی فتنہ اٹھا.اس شخص کا ایمان بھی
انوار العلوم جلد ۴ سلامت رہا.سلام جماعت قادیان کو نصائح میرا مقصد اس مثال سے صرف شاہی جماعت قادیان کی پوزیشن اور ذمہ داریاں صاحب والی بات کا ذکر تھا کہ جو جماعت اصلاح شدہ ہو اور ایک نبی کی تربیت یافتہ وہ سفید کپڑے کی مانند ہے اس کے لئے برائی کا ایک چھوٹا سا دھبہ بھی بدنما ہے پس تمہیں بہت ہی احتیاط کرنی چاہئے.دیکھو دیہات میں کئی لوگ ننگے پھرتے ہیں.یا کم از کم ننگے پاؤں ننگے سر ہوتے ہیں.کوئی برا نہیں مانتا نہ وہ برے لگتے ہیں.لیکن اگر یہاں کا کوئی مدرس یا اور معزز ایسا کرے تو سب سمجھنے لگیں کہ دیوانہ ہو گیا ہے.اب اگر وہ یہ کہے کہ فلاں شخص جو لنگوٹی باندھے ہے اگر میں ننگے پاؤں ننگے سر جا رہا ہوں تو کیا ہوا.تو اس کا یہ عذر نہیں سنا جائے گا سب کہیں گے اس کی پوزیشن اور ہے تمہاری اور.بس اسی طرح تم اپنے لئے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ لغزش کو روا نہیں کر سکتے کہ فلاں مقام پر جو ایسا ہوتا ہے اگر ہم نے کیا تو کیا ہوا؟ رسول کریم ان لوگوں کو جو بازار میں کھا رہے ہوں یا بازار میں کوئی بحث شروع کردیں بهت نا پسند فرماتے تھے.(کنزل العمال جلد ۱۵ صفحه ۲۶۰ روایت نمبر ۴۰۸۶۵) یہاں میں جس مکان میں بیٹھتا ہوں اس کی کھڑکی کھلتی ہے اور میں دیکھ لیتا ہوں کہ اچھے اچھے بھلے مانس بازار میں کوئی علمی بحث کر رہے ہیں یا باتوں میں بے ضرورت مشغول ہیں تو مجھے بہت ناگوار ہوتا ہے.بازار میں ایسی بحثیں بعض اوقات فساد کا موجب ہو جاتی ہیں.کیوں نہیں کسی مکان میں بیٹھ کر گفتگو کرلی جاتی.اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اصلاحوں کا ذمہ دار ٹھہرایا آپ جس مقام پر رہتے ہیں.اسے مقدس فرمایا.اسے اسلام کی ان آئندہ ترقیات کا جو مقدر ہیں مرکز بنایا اس لئے آپ کی ہر حرکت ہر فعل ہر قول نمونہ ہونا چاہئے آپ کی ذمہ داریاں بڑی ہیں.آپ کو شش کریں کہ آپ میں کبھی لڑائی جھگڑا نہ ہو.خصوصاً ان دنوں میں کہ یہ آخری دن ہیں.پھر میری غیر حاضری میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کہ کوئی روکنے والا نہیں.میں صرف لڑائی جھگڑے سے بچنے کے واسطے نہیں کہتا بلکہ تمام قسم کے عیوب اور لغو و بیہودہ باتوں سے بچو اور پھر آپس میں تمہارے تعلقات اخوت و محبت کے اعلیٰ مقام پر ہوں.ایک دوسرے کی غمگساری کرو.
انوار العلوم جلد ۴ ۲۵ جماعت قادیان کو نصائح اور یہ نہ کہو کہ یہ تو خلیفہ کا کام ہے.حضرت خلفاء قدیم و حال کے کاموں میں فرق عمر راتوں کو پھر پھر کر خبر گیری کیا کرتے تھے.حضرت صاحب پر بھی بعض نادانوں نے ایسا ہی اعتراض کیا کہ رسول کریم تو بعض اوقات روٹی نہیں کھاتے تھے کھجوریں کھا کر گزارہ کر لیتے تھے.زمین پر سوتے اور ادھر مرزا صاحب اچھے کپڑے پہنتے ہیں.اچھا کھانا کھاتے ہیں.ان نادانوں کو کیا معلوم کہ ہر سخن وقتنے و ہر نکتہ مقامی دارد رسول کریم کا زمانہ تصنیف کا نہ تھا.تبلیغ ہوتی تو زبانی.ان کے اوقات اور قسم کے تھے اور مسیح موعود کے اور قسم کے.(گو مقصد ایک ہی تھا) تصنیف والے کے دماغ پر کچھ ایسا اثر ہوتا ہے کہ اگر اس کے کھانے کے متعلق خاص احتیاط نہ کی جائے.اس کے بیٹھنے اور سونے کے لئے نرم بستر نہ ہو.نرم لباس نہ ہو تو اس کے اعصاب پر صدمہ ہو اور وہ پاگل ہو جائے.پس دماغی کام کرنے والوں کا قیاس ان لوگوں پر نہیں کرنا چاہئے جو اور قسم کے کام کرتے ہیں.حضرت عمر کتابیں نہیں لکھا کرتے تھے اور نہ ان کے نام باہر سے اتنے لمبے لمبے سو سوا سو خطوط روزانہ آیا کرتے تھے.جن کے جواب بھی ان کو لکھنے یا لکھانے پڑتے ہوں اس وقت خلیفہ کے مشاغل زیادہ تر مقامی حیثیت میں رہتے تھے اور باہر سے کبھی مہینے دوسرے مہینے ڈاک آتی اور اس کا بھی اکثر حصہ زبانی طے ہو جاتا.مخالفین کے حملے بھی جنگ کی صورت میں ہوتے جن کا دفعیہ فوجوں کے ذریعہ ہو جاتا تھا.اب تو سب کام دماغ سے ہی کرنے پڑتے ہیں.پچھلے دنوں میں ترجمہ کا کام کرتا رہا ہوں جس سے میرے دماغ پر اتنا بوجھ مصالح سفر شملہ پڑا کہ ایسی حالت ہو گئی جو میں ایک سطر بھی لکھنے سے رہ گیا اور بخار ہو گیا اس لئے اب میرا ارادہ باہر جانے کا ہے.اصل منشاء تو یہی ہے کہ ذرا سا آرام ہو سکے مگر پھر بھی میں اپنے فرائض اور اس کام سے جو خدا نے میرے سپرد کیا ہے غافل نہیں ہوں.بعض رڈیا میں نے دیکھی ہیں جن کی بناء پر میں کہہ سکتا ہوں کہ کچھ اور مصالح بھی میرے سفر میں ہیں مجھے اس کی تفصیل نہیں معلوم ہو سکی کہ امر خیر ہے یا شر مگر ہے کچھ ضرور جو پیش آنے والا ہے.اس کے علاوہ میرے ذہن میں جماعت کی ترقی کی سکیمیں ہیں.خلیفہ وقت کے مشاغل ازاں جملہ ایک یہ کہ وہ کیا تدابیر ہیں جن پر چلنے سے جماعت میں
العلوم جلدم جماعت قادیان کو نہ آئندہ خلافت کے متعلق کوئی فتنہ نہ ہو.(ب) عورتوں کی تعلیم کے متعلق نصاب (ج) سیاسی امور سے ہمارے تعلقات کس طرح ہوں.ان سب پر میں کچھ لکھنے والا ہوں.اور یہ سب میرے ہی ذمہ ہیں جو میں کروں گا اور کر رہا ہوں.اگر مقامی احباب کی خبر گیری اور شہر میں پھر پھر کر ان کے گھروں میں جا جا کر فردا فردا حال پوچھنا مجھ ہی پر ڈالتے ہو اور آپ لوگ خود یہ نہیں کریں گے کہ اپنے اپنے محلہ کی بیواؤں ، یتیموں، بے کسوں ، ضرد و تمندوں کی خبر رکھو تو یہ کام میں بڑی خوشی سے بآسانی کر سکتا ہوں.مگر پھر جماعت کی بیرونی ترقی کے تعلقات کم ہو جائیں گے.میں بتا چکا ہوں کہ اب زمانہ اور طرز پر آگیا ہے اب خلیفہ کے لئے صرف سلسلہ کے مرکز کا مقام ہی نہیں بلکہ باہر کی تمام جماعتوں کی باگ بھی براہ راست اپنے ہاتھ میں رکھنی پڑتی ہے اور مخالفین سے بھی زیادہ تر خود ہی نپٹنا پڑتا ہے اور یہ کام ہے بھی سارا دماغ کے متعلق.میں جب باہر نہیں آتا یا کوچہ بکوچہ پھر کر خبر گیری نہیں کرتا تو کئی لوگ سمجھتے ہوں گے کہ مزے سے اندر بیٹھا ہے.انہیں کیا معلوم کہ میں تو سارا دن ترجمہ وغیرہ لکھنے یا جماعت کی ترقی کی تجاویز سوچنے ڈاک کا جواب دینے دلانے میں خرچ کر کے ان گرمی کے دنوں میں بھی رات کے ایک بجے تک اس کام کے لئے جاگتا رہا ہوں.پھر تمہارے لئے دعائیں کرنا بھی میرا فرض ہے.کبھی کبھی مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ میں ہفتہ بھر کسی کو اپنے ساتھ رکھوں تا معلوم ہو کہ میں فارغ نہیں بیٹھا اور نہ آرام طلب - غرض و اب خلیفہ کے کام کی نوعیت بدل گئی ہے اور ان حالات کی موجودگی میں حضرت عمر کی تقلید مجھ پر ضروری نہیں اور نہ یہ سب کام ایک انسان کر سکتا ہے اور جب وہ نبی جسے خاص قومی دیئے جاتے ہیں.جس کا میں خلیفہ ہوں نہیں کر سکا تو پھر مجھ پر کیا الزام آ سکتا ہے.ہر جماعت کے مقامی فرائض پس زمانہ کے تغیر کے ساتھ تم بھی اپنی ذمہ داریوں کو بدلو اور یہ کام خود کرد کہ اپنے اپنے مقامی بھائی بہنوں کی خبر گیری کرو.اگر کوئی بیمار ہے تو اس کی دوائی لادو.اگر کوئی مبلغ باہر گیا ہے تو اس کے گھر والوں کو سودا وغیرہ لادو - کسی بھائی یا بہن کو اور تکلیف ہے تو اس کو رفع کرو.کم از کم مجھے اطلاع تو دو ماکہ میں خود انتظام کروں.ابھی کچھ دن ہوئے صوفی تصور حسین صاحب کی اہلیہ بیمار ہو ئیں ان کی کے بچے چھوٹے تھے.مجھے معلوم ہوا کہ دو دن سے ان کی کسی نے ایسی خبر گیری نہیں کی جیسی کہ چاہئے تھی.فورا میں نے اس کا مناسب انتظام کیا لیکن افسوس ہے کہ آپ لوگوں نے کیوں
علوم جلد ۴ ۲۷ جماعت قادیان کو نصائح شکایت کا موقع پیدا ہونے دیا اور خود یہ کام سرانجام نہ دیا.کم فرصتی کا عذر فضول ہے کہ کاموں کی کثرت اور چیز ہے اور کاموں کا اہم ہونا اور بات ہے.دیکھو ایک شخص سے کہا جائے کہ فلاں مکان میں چار پائیاں بچھا دینا، یہ سودا بازار سے لانا کپڑے دھوپ میں رکھنا وغیرہ.اور دوسرے سے کہا جائے کہ جنگل سے شیر مار لانا تو پہلا شخص نہیں کہہ سکتا کہ مجھے اتنے کام ہیں اور دوسرے کا صرف ایک کام کیونکہ آخری کام کے مقابلہ میں وہ پہلے بہت سے کام کچھ بھی حقیقت نہیں رکھتے.پھر کاموں کی نوعیت میں بھی فرق ہوتا حقیقت حال سے بے خبر اعتراض کرتے ہیں ہے.جنگ کا تعلق اس زمانہ میں جسمانی حالت سے تھا اس لئے اس کے واسطے جفاکشی محنت اور خشن پوشی کی ضرورت تھی.اور چاہئے تھا کہ غذا بھی سادہ ہو.بلکہ اکثر بھوکے رہنے کی عادت ہو.مگر تصنیف کا تعلق دماغ سے ہے.اس کے لئے نرم لباس - نرم غذا چاہئے اور اپنے آپ کو حتی الوسع تنہائی میں رکھنا کیونکہ تصنیف کا اثر اعصاب پر پڑتا ہے.اس نکتہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں نے حضرت عیسی پر اعتراض کیا کہ وہ روزے کم رکھتا ہے.اور کھاؤ پیو" ہے.نادان یہ نہیں سمجھتے کہ حضرت موسیٰ کا زمانہ نہ تھا.وہ تو ایک علمی زمانہ تھا.ان کو مخالفین کے مقابل پر تقریریں کرنی پڑتی تھیں اور یہود کی کتب کا مطالعہ - موقع موقع کی بات ہوتی ہے روزہ رکھنا بڑے ثواب کا کام ہے.مگر حضرت رسول کریم نے ایک دن فرمایا کہ آج روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے والوں سے اجر میں بڑھ گئے (ابو داؤد کتاب الصيام باب الصوم في السفر) کیونکہ بے روزوں نے خیمے وغیرہ لگائے.کھانے کا بندوبست کیا اسباب رکھوایا اور روزہ دار بے چارے بے دم ہو کر سفر سے آتے ہی لیٹ گئے.غرض حالات کے بدلنے کے ساتھ تم اپنی حالتوں کو بدلو.اپنے فرض کو پہچانو.یہ کوئی بڑی بات نہیں کہ جب نماز پڑھنے کے لئے نکلے تو محلہ والے قرب و جوار کے حاجتمند احمدی گھروں کی خبر خیریت دریافت کرتے گئے.سودے کے ساتھ ان کی خبر بھی لیتے گئے.اکھڑ پن چھوڑ دو اور جزوی اختلاف سے مؤاخات و مواسات میں فرق نہ آئے آپس میں جو اختلاف ہو جاتے ہیں ان کو خواہ مخواہ طوالت نہ دو.لڑائی تو بعض وقت بھائیوں میں ہو ہی جاتی
رالعلوم جلد ۴ ۲۸ جماعت قادیان کو نصائح ہے.دیکھو ایک وقت حضرت ابو بکر و حضرت عمر میں جھگڑا ہو گیا.بعض آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ باتیں کرتے کرتے ہاتھ کو بھی حرکت دے لیتے ہیں اس طرح نادانستہ طور پر حضرت ابو بکر کا تہبند پھٹ گیا.بایں ہمہ حضرت ابو بکر نے باوجود بزرگ ہونے کے حضرت عمر سے معافی چاہی.وہ اس وقت جوش میں تھے.لہذا حضرت ابو بکر رسول کریم کے حضور میں حاضر ہوئے اور آکر یہ شکایت نہیں کی کہ عمر نے مجھ سے لڑائی کی یا مجھے دکھ دیا بلکہ یہ کہا کہ عمر مجھے معاف نہیں کرتا.حضرت عمرہ بھی آگئے اور معذرت کی.(بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ باب قول النبي لو كنت متخذا خليلاً) دیکھو یہ تھے خیر القرون کے مسلمان.تمہیں بھی ایسا ہی بنا چاہئے کہ اگر کبھی بتقاضائے بشریت جھگڑا ہو جائے تو فورا صلح کرلو اور دل میں کینہ نہ بٹھای چھوڑو.ابن تیمیہ کا ذکر ہے کہ کسی نے ان کو آکر مبارکباد دی.آپ کا فلاں جانی دشمن جو آپ کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا مر گیا.آپ اس پر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ اس کا اور میرا اختلاف تو زندگی کا تھا.فورا اس کے گھر حاضر ہوئے تجہیز و تکفین کے بعد اس کے گھر والوں سے کہا کہ جو بھی ضرورت ہو میں اس کا کفیل ہوں اور ہر کام اطلاع ہونے پر کر دیا کروں گا.پس میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایک دوسرے سے ہمدردی کرو.کسی بھائی خلاصة الکلام کی عداوت دل میں نہ بٹھالو بلکہ تم میں ایسی محبت اور اخوت ہو جو باہر کے لوگوں کے لئے نمونہ ہو.وہ اگر ایک شہر یا گاؤں کے ہو کر صرف محلوں یا دروازوں یا رشتوں کے متفرق ہونے کی وجہ سے ایک دوسرے کی مؤاخات یا مواسات میں سرگرم نہیں تو انہیں نمونہ سے یہ سبق پڑھاؤ کہ دیکھو دور دراز کے مختلف ملکوں کے مختلف المذاق باشندے کس طرح مسیح موعود کی قوت قدسیہ سے ایک دوسرے کی ہمدردی اور غمگساری کرتے ہیں اور جب ان کا یہ حال ہے تو ہم ایک شہر یا ایک قبیلہ کے ہو کر کیوں ایک دوسرے سے بیگانہ رہیں.میرے حلق میں بھی تکلیف تھی اور میں شاید زیادہ بول گیا ہوں.اس لئے ختم کرتا ہوں.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کو خیریت سے رکھے اور اپنے اوقات دین کی خدمت میں صرف کرنے کی باہم محبت، اخوت، امن چین سے رہنے کی توفیق الفضل ۸ - ستمبر ۱۹۱۷ء) ے.آمین.
۲۹ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے (فرموده ۶ - اکتوبر۱۹۱۷ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد بشیرالدین خلیفة المسیح الثانی
۳۰
لوم جلد ۴ ٣١ عورتوں کا دین - رہی ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُ، وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے فرموده ۶- اکتوبر ۱۹۱۷ء بمقام شمله) عورتوں کے متعلق سب سے پہلی اور سب سے بڑی نصیحت عورتوں کو ضروری نصیحت ۹۵ جو انہیں کرنے کی ضرورت ہے وہ انہیں اس زمانہ میں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ دین کے معاملہ میں وہ اسی طرح شریعت کے قانون کی پابند ہیں اور اسی طرح شریعت کے قانون پر عمل کریں کہ جس طرح مرد کرتے ہیں.یہ ایک بڑی مشکل ہے جو اس زمانہ میں ہمیں پیش آئی ہے کہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ وہ دینی معاملات میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہیں.بہت سی عورتیں ہیں جو یہ سمجھتی ہیں کہ دین کے معاملات میں حصہ لینا ان کے خاوندوں کا کام ہے.اسی وجہ سے اس زمانہ میں عورتوں کا مذہب کوئی مستقل مذہب نہیں رہا.منٹو میں سے پچانو 20 عورتیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسی ملیں گی جنہوں نے کسی مذہب کو اس کے بچے ہونے کی وجہ سے قبول نہیں کیا بلکہ خاوندوں کی وجہ سے قبول کیا ہے.مرد اگر آج شیعہ ہے تو عورت بھی شیعہ ہے.مرد اگر سنی ہے تو عورت بھی سنی ہے.کل کو اگر مرد شیعہ سے سنی ہو گیا تو عورت بھی سنی ہو جاتی ہے اور جس طرح اس کے خاوند کے مذہب میں تبدیلی ہوتی ہے اسی طرح اس کا اپنا مذ ہب بھی بدلتا رہتا ہے.لیکن اس جہالت اور خام خیالی کی وجہ سے عورتوں میں مذہب نہیں رہا.دیکھو اگر شیر کی تصویر ہو تو انسان اس سے ڈرتا نہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ وہ اسے کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتی.اسی طرح سے آگ تب ہی کھانا پکائے گی جب حقیقی آگ ہو اگر اس کی تصویر ہو تو کچھ نہیں کر سکتی.تو چونکہ عورتوں کا مذہب نقلی ہوتا ہے اور جس طرح نقلی آگ کچھ نقصان نہیں دے سکتی اسی طرح ان کا نقلی مذہب بھی فائدہ نہیں دے سکتا.
ر الحلوه سمسم عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری.ہاں جس طرح حقیقی آگ کھانا پکا سکتی ہے.اسی طرح مذہب کو حقیقی طور پر ماننا چاہیئے حقیقی مذہب مفید ہو سکتا ہے.مذہب کو صرف اس لئے مانتا کہ ہمارا خاوند یوں کہتا ہے اس کا کوئی فائدہ نہیں.ہمارے ملک میں اسے رکابی یا بینگنی مذہب کہتے ہیں.کسی راجہ نے اپنے دربار میں بینگن کی بہت تعریف کی.اس کا ایک خوشامدی درباری بھی تعریف کرنے لگا کہ اس کا بدن ایسا معلوم ہوتا ہے جیسا کسی صوفی نے چونا پہنا ہو.اس کی سبز ڈنڈی ایسی معلوم ہوتی ہے جیسے سبز پگڑی سر پر باندھی ہو.سبز پتوں میں ایسا دکھائی دیتا ہے جیسے کوئی عابد عبادت کرتا ہو.لیکن کچھ دن کے بعد جب راجہ کو اس کی وجہ سے تکلیف ہوئی تو اس نے دربار میں ذکر کیا کہ بینگن بڑی خراب چیز ہے.یہ سن کر وہی درباری کہنے لگا کہ حضور بینگن بھی کوئی سبزی ہے.اسے تو سبزیوں میں شمار کرنا حماقت ہے.بڑی خراب اور نقصان رساں چیز ہے.کسی نے اس سے پوچھا کہ ابھی چند دن ہوئے تم اس کی تعریف کرتے تھے اور اب مذمت کر رہے ہو یہ کیا بات ہے.اس نے جواب دیا کہ میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں.جب انہوں نے تعریف کی تو میں نے بھی کر دی اب جب انہوں نے مذمت کی تو میں نے بھی مذمت کرنی شروع کر دی.تو عورتوں کا مذہب بینگنی مذہب ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بہت اسی عورتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اپنے خاوندوں کے مذہب کو اسی طرح مانتی ہیں.الا ماشاء الله - عورتوں کو مذہب کی ضرورت مذہب کا فائدہ تو اخلاص اور حقیقت کے جانے سے ہوتا ہے.یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو صرف مردوں کی خوشی اور آرام کے لئے پیدا کیا گیا ہے لیکن اسلام ایسا نہیں کہتا بلکہ سمجھاتا ہے کہ عورتوں پر بھی شریعت ایسی ہی عائد ہوتی ہے جیسے مردوں پر ہے اور جس طرح مردوں کے لئے احکام شریعت کی بجا آوری ضروری ہے اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ضروری ہے.یہ نہیں کہ جس طرح بھیڑ بکری انسان کے آرام کے لئے ہیں اور ان کی کوئی مستقل غرض پیدائش کی نہیں اسی طرح عورتیں ہیں.پس قرآن کریم جیسے مردوں کے لئے ہے ویسے ہی عورتوں کے لئے بھی ہے اور نیک عورت جو اس کے حکموں کو مانتی ہے اس کے لئے جنت کا وعدہ ہے اور جو اس کے خلاف کرتی ہے وہ دوزخ کی سزا پائے گی.اس لئے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈالی جائے کہ عورتوں کو بھی مذہب کی
انوار العلوم جلد ۴ سمسم عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے دیسی ہی ضرورت ہے جیسی مردوں کو.تارہ سمجھیں کہ اسلام کیا ہے کیونکہ جب کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو وہ اس کے حاصل کرنے کے طریق سیکھتا ہے اور جب اس کی حقیقت سمجھتا ہے تو اس کے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.پس جیسے مردوں کا حق ہے کہ وہ دین کو حاصل کریں ویسے ہی عورتوں کا بھی حق ہے کیونکہ مذہب کے احکام کا توڑنا جیسے مردوں کو نقصان دیتا ہے ویسے ہی عورتوں کو بھی دیتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ عورتیں مردوں کی طرح دین نہ سیکھیں.دیکھو اگر کسی کو یہ معلوم ہو کہ مذہب کا کیا فائدہ ہے تو وہ خدا کو مانے گا اور اس کے احکام کی پابندی کرے گا لیکن اگر اس کو پتہ ہی نہ ہو تو پھر اسے کیا ضرورت ہے کہ خدا کو مانے.اس کے سے تو بہتر ہے کہ نہ مانے.پھر جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ رسولوں کے ماننے نہ ماننے میں کیا فائدہ یا نقصان ہے تو وہ کیوں مانے گا.پس ان باتوں کے فائدہ اور حقیقت سے آگاہ ہونا ضروری ہے اور جس طرح مرد دین کی تعلیم حاصل کرتے ہیں اسی طرح عورتوں کو کرنی چاہئیے.قرآن کریم میں دو پار سا عورتوں کا ذکر آتا ہے.جن میں متقی عورتوں کا ذکر قرآن میں سے ایک فرعون کی بیوی ہے.فرعون کو تو توفیق نہ ملی لیکن اس کی عورت نے تقویٰ اختیار کیا اور اس نے مذہب کی ضرورت کو سمجھا اور موسیٰ پر ایمان لائی.اللہ تعالی نے اس کا ذکر قرآن کریم میں بطور مثال کے کیا ہے اور اس سے بڑھ کر اور فضیلت کیا ہو سکتی ہے کہ اس کتاب میں جو ہمیشہ کے لئے ہے اس کا ذکر آیا جس کی وجہ یہی ہے کہ چونکہ اس نے سمجھ لیا تھا کہ جو فرائض مذہب کے متعلق مردوں کے ہیں وہی عورتوں کے بھی ہیں.دوسری مثال مریم کی ہے.وہ حضرت عیسی کی والدہ تھیں اس زمانہ میں گمراہی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی انہوں نے ایسی پر ہیز گاری دکھائی کہ ان کے بیٹے نے نبوت حاصل کرلی.دنیا پر حضرت مسیح کا بڑا احسان ہے لیکن حضرت مریم کا بھی بڑا احسان ہے کیونکہ ان کی تربیت سے ایک ایسا انسان بنا جس نے دنیا پر بڑا احسان کیا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ بڑی متقی اور پر ہیز گار عورت تھیں.ان کے بچے نے ان سے تقویٰ سیکھا.سو دیکھو قرآن کریم میں جہاں حضرت مسیح کا ذکر ہے ساتھ ہی حضرت مریم کا ذکر بھی موجود ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے آنحضرت ﷺ کے زمانہ اسلام میں عورتوں کی خدمات میں جب ظلمت کمال کو پہنچی ہوئی تھی عورتوں نے دین
انوار العلوم جلدم عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے کی بڑی خدمت کی کیونکہ انہوں نے سمجھ لیا تھا کہ جس طرح مرد خدمت دین کرتے ہیں ہم بھی کر سکتی ہیں.شاید یہ بات بعض کو معلوم نہ ہو کہ سب سے پہلے جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لائی وہ ایک عورت تھی.رسول کریم غار حرا میں عبادت کیا کرتے تھے.وہاں آپ پر جبرئیل نازل ہوا اور آپ کو خدا کا کلام سنایا آپ کے لئے چونکہ یہ بات بالکل نئی تھی اس لئے آپ سمجھ نہ سکے اور خیال کیا کہ شاید نفس کا دھوکا ہو گا.ایسا نہ ہو کہ یہ غلطی ہو.آپ خائف ہوئے اور حضرت خدیجہ سے کہا کہ مجھے بیماری ہو گئی ہے.آپ نے اس حالت کا نام بیماری رکھا لیکن خدیجہ سمجھ دار تھیں.گو اس زمانہ میں وحی نہ ہوتی تھی لیکن آپ سمجھ گئیں کہ یہ وحی الہی ہے.آج تو تمام لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے کلام آیا کرتا ہے پھر بھی دعویدار کو جھوٹا کہہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاگل ہو گیا.لیکن باوجود اس کے کہ حضرت خدیجہ اس قوم سے تھیں جس کو خدا پر ایمان نہ تھا.کوئی الہامی کتاب اس کے پاس نہ تھی.الہام کی وہ قائل نہ تھی پھر بھی آپ نے ہی کہا کہ آپ کو الہام الہی ہوا ہے اور یہ ہرگز بیماری نہیں ہے.كَلَّا وَاللهِ لَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا حضرت خدیجہ نے کہا آپ کو بیماری نہیں بلکہ یقینی طور پر کلام الہی ہے.آپ لوگوں سے نیک سلوک کرتے ہیں.صلہ رحمی کرتے ہیں.مشکلات میں ان کی مدد کرتے ہیں.پس خدا آپ کو ہرگز ذلیل نہ کرے گا.ابخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحي الى رسول اللہ ﷺ یہ ایک عورت تھی جو اس طرح ایمان لائی کہ مردوں میں بھی اس کی مثال نہیں پائی جاتی.پھر اعمال کو دیکھتے ہیں تو حضرت خدیجہ کوئی معمولی ایمان نہ لائیں.ایسا ایمان لائیں کہ جب دشمنوں نے آنحضرت ا پر حملے کرنے شروع کئے تو انہوں نے اپنا سارا مال آپ کے سپرد کر دیا کہ دین کے راستہ میں خرچ کر دیں.شاید کوئی سمجھے کہ یہ تو آنحضرت ﷺ کی بیوی تھیں اس لئے انہوں نے جو کچھ کیا اپنے خاوند کی عزت کے لئے کیا مگر نہیں آپ ہی اسلام میں ایک عورت نہیں گزریں بلکہ اور بھی کئی ایک ایسی تھیں جنہوں نے اخلاص اور محبت کا ایسا نمونہ دکھلایا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.چنانچہ جنگ احد کا واقعہ ہے کہ کفار تین ہزار کا لشکر لیکر آئے اور ایک عورت کا اخلاص ادھر سے ایک ہزار جاں نثار آنحضرت ا کے ساتھ تھے.لڑائی کے وقت مسلمانوں کے ایک گروہ سے ایسی غلطی ہوئی کہ جس کی وجہ سے اسلامی لشکر کے
العلوم جلد ۴ ۳۵ عورتوں کا دین سے واقف روری ہے پاؤں اکھڑ گئے اور رسول کریم ای تنہا رہ گئے.کفار نے آپ کو اتنے پتھر مارے کہ آپ زخمی ہو کر گر پڑے اور لاشوں کے نیچے دب گئے.اس سے شبہ پیدا ہوا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.جب یہ خبر مدینہ پہنچی جو احد سے چار میل کے فاصلہ پر ہے تو سب مرد و عورت گھبرا کر باہر نکل آئے اور اصل حقیقت دریافت کرنے کے لئے راستہ پر کھڑے ہو گئے.ادھر لاشوں کے نیچے سے جب آنحضرت ﷺ کو باہر نکالا گیا تو معلوم ہوا کہ آپ زندہ ہیں.یہ سن کر سب مسلمان جمع ہو گئے اور کافر بھاگ گئے.مسلمان جب مدینہ کو واپس لوٹے اور لوگوں نے انہیں دیکھا تو ایک عورت آگے بڑھی.جو رسول کریم اے کی کوئی رشتہ دار نہ تھی وہ مدینہ کی رہنے والی تھی اور مکہ کے لوگ مدینہ والوں سے علیحدہ تھے.وہ محض دین کی وجہ سے رسول کریم ا سے اخلاص رکھتی تھی.اس نے ایک صحابی سے جو آگے آگے آرہا تھا پوچھا رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے چونکہ آپ زندہ تھے اور پیچھے تشریف لا رہے تھے اس لئے اس نے اس سوال کو معمولی سمجھ کر جواب نہ دیا اور کہا تیرا باپ مارا گیا ہے.اس پر عورت نے کہا.میں نے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھا بلکہ یہ دریافت کیا ہے کہ رسول اللہ ا کا کیا حال ہے مگر اس نے اس کا جواب نہ دیا اور کہا تیرا خاوند بھی مارا گیا ہے.یہ سن کر اس نے کہا میں رسول اللہ ا کے متعلق پوچھتی ہوں ان کا کیا حال ہے.اس کا بھی اس نے جواب نہ دیا اور کہا تیرا بھائی بھی مارا گیا ہے.اس پر اس نے کہا تم میرے سوال کا کیوں جواب نہیں دیتے.میں تو پوچھتی ہوں رسول اللہ ﷺ کا کیا حال ہے اس نے کہا اچھے ہیں اور تشریف لا رہے ہیں یہ سن کر اس نے کہا الحمد للہ اگر رسول اللہ ﷺ زندہ ہیں تو پھر اور کسی کی مجھے پرواہ نہیں ہے.(سیرت ابن ہشام اردو حصہ دوئم صفحہ ۸۴ مطبوعہ لاہور ۱۹۷۵ء) اس سے اس عورت کی رسول اللہ الا سے محبت اور الفت کا اندازہ لگاؤ.جو محض دین کی وجہ سے تھی اور خیال کرو کہ کیسا اخلاص تھا مگر اس زمانہ میں دیکھو اگر کسی کا چھوٹا سا بچہ مر جائے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے مگر اس کا باپ مارا جاتا ہے.خاوند شہید ہوتا ہے.بھائی قتل کیا جاتا ہے.بیٹا کوئی ہے نہیں اور یہی قریبی سے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں جن کو اگر کوئی تکلیف اور دکھ پہنچے تو عورتوں کا کیا مردوں کے دل بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتے ہیں.مگر اس عورت کے اندر ایسا قومی اور مضبوط دل تھا کہ اسے باپ اور بھائی اور خاوند کے مرنے کی خبر سنائی جاتی ہے مگر وہ آنحضرت ﷺ کی خیریت کی خبر سن کر الحمد للہ کہتی ہے اور کسی صدمہ کی پرواہ نہیں
انوار العلوم جلدم ۳۶ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے اس قسم کے اور کئی واقعات ہیں یہ تو میں نے آنحضرت ا کے وقت کا واقعہ سنایا ہے.ایک آپ کی وفات کے بعد کا سناتا ہوں.ہندہ ایک عورت تھی جو آنحضرت ا کی ابتداء میں اس قدر دشمن ایک اور مثال تھی کہ جب آپ کے چھا حضرت حمزہ شہید ہوئے تو اس نے ان کا کلیجہ نکال کر دانتوں سے چبایا تاکہ آنحضرت لا کو تکلیف پہنچے لیکن جب آپ پر ایمان لائی تو دین کی بڑی خدمت کرتی رہی اور کئی جنگوں میں شامل ہوئی.چنانچہ حضرت عمر کے وقت جب مسلمانوں کا عیسائیوں کے ایک کثیر التعداد لشکر سے مقابلہ ہوا جس میں ایک مسلمان کے مقابلہ میں چودہ عیسائی تھے تو مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے.اس وقت ہندہ نے اپنی ساتھی عورتوں کو کہا یہ مرد ہو کر دشمن کے مقابلہ سے ہٹ رہے ہیں.آؤ ہم عورتیں ہو کر انہیں سبق دیں.یہ کہہ کر انہوں نے خیموں کی چوبیں نکال لیں اور صف باندھ کر کھڑی ہو گئیں اور مسلمانوں کے گھوڑوں کو سوئے مار مار کر واپس لوٹا دیا.اس وقت ہندہ نے اپنے خاوند کو کہا.کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ کفر کے زمانہ میں تو اسلام کا بڑے زور شور سے مقابلہ کرتا رہا ہے اور اب پیٹھ دکھاتا ہے.ر فتوح الشام عربی جلد اصفحہ ۱۳۷) تو عورتوں نے ایسے ایسے بہادری کے کام کئے ہیں.پھر رسول کریم کی عادت تھی اور احادیث عورتوں کا اہم امور میں مشورہ دینا سے ثابت ہے کہ آپ بڑے بڑے اہم امور میں اپنی بیویوں سے مشورہ لیتے تھے.چنانچہ جب آپ حج کو گئے ہیں اور کفار نے مکہ جانے سے روک دیا ہے تو آپ نے مسلمانوں کو فرمایا کہ احرام کھول دیں لیکن انہوں نے نہ کھولے تو آپ بیوی کے پاس گئے اور جاکر سب بات بتائی.انہوں نے کہا آپ خاموش ہو کر جائیں اور قربانی کر کے اپنا احرام کھول دیں یہ دیکھ کر سب ایسا ہی کریں گے.آپ نے ایسا ہی کیا اور سب مسلمانوں نے احرام کھول دیئے.(بخاری کتاب الشروط.باب في الجهاد والمصالحة مع أهل الحرب وكتابة الشروط تو ہمیشہ عورتیں بڑی بڑی خدمتیں کرتی اور امور ہہمہ میں مشورے ! دیتی رہی ہیں.پس آج کل کی عورتوں کا یہ غلط خیال ہے کہ ہم کچھ نہیں کر سکتیں حالانکہ وہ بہت کچھ کر سکتی ہیں اور جس طرح مردوں کے لئے دوسروں کو دین سکھانا ضروری ہے اسی طرح
العلوم جلد ۳۷ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے عورتوں کے لئے ضروری ہے.رسول کریم ﷺ کی بیویاں مسائل میں غلطی کرنے والے عورتیں کیا کرتی رہی ہیں مردوں کو ڈانٹ دیتی تھیں اور حضرت عائشہ قرآن کریم کا درس دیا کرتی تھیں.جسے مرد بھی آکر سنا کرتے تھے.پھر بعض عورتیں ایسی بھی گزری ہیں جو درمیان میں پردہ لٹکا کر مردوں کو پڑھاتی رہیں.مگر آج یہ مصیبت ہے کہ عورتیں خود ان پڑھ ہیں اور ان کا خیال ہے کہ ہم کیا کر سکتی ہیں.کچھ بھی نہیں حالانکہ یہ خیال بالکل غلط ہے.پہلے جو عورتیں پڑھی ہوئی نہ بھی تھیں ان میں بھی یہ خیال نہ پایا جاتا تھا.اب بھی دیکھا گیا ہے کہ جن عورتوں کو دین موجودہ زمانہ کی ایک عورت کی مثال سے محبت اور پیار ہے ان میں بڑا اخلاص پایا جاتا ہے.چنانچہ مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ایک عورت آئی اور آپ کے سامنے آکر بہت روئی کہ میرا بیٹا عیسائی ہو گیا ہے آپ دعا کریں کہ وہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے.پھر خواہ مرہی جائے.لڑکا عیسائیوں کا سکھایا پڑھایا تھا.باوجود بخار چڑھے ہونے کے بھاگ گیا اس کی ماں بھی اس کے پیچھے بھاگی اور پھر پکڑ کر لے آئی.حضرت مسیح موعود نے اسے سمجھایا اور کچھ دن کے بعد اسے سمجھ آگئی اور مسلمان ہو گیا.مسلمان ہونے کے دوسرے تیسرے دن اس کی جان نکل گئی اور اس پر ماں نے کچھ غم نہ کیا.تو اب بھی ایسی عورتیں ہیں گو شاذ ہیں.جو ایمان کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہیں کرتیں.مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ اگر خاوند عیسائی ہو جاوے تو بیوی بھی عیسائی ہو جاتی ہے اور جو مذہب اس کے خاوند کا ہو وہی اس کا ہوتا ہے.مگر ایسی بھی عورتیں ہیں جو جان دینا تو پسند کرتی ہیں مگر اسلام چھوڑنا گوارا نہیں کرتیں لیکن ایسی کون عورتیں ہوتی ہیں وہی جو مذہب کو سمجھ کر قبول کرتی ہیں اور اس سے پوری پوری واقفیت پیدا کرتی ہیں.پس سب سے ضروری بات یہ ہے کہ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے عورتیں مذہب سے واقف ہوں.مذہب سے ان کا تعلق ہو.مذہب سے انہیں محبت ہو.مذہب سے انہیں پیار ہو.جب ان میں یہ بات پیدا ہو جائے گی تو وہ خود بخود اس پر عمل کریں گی اور دوسری عورتوں کے لئے نمونہ بن کر دکھا ئیں گی اور ان میں اشاعت اسلام کا ذریعہ بنیں گی.ہاں انہیں یہ بھی سمجھ لینا چاہئے کہ جس
العلوم جلد ۴ ۳۸ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے طرح مرد مردوں کو دین سکھا سکتے ہیں اسی طرح عورتیں عورتوں کو سکھا سکتی ہیں اور دین کی خدمت کر سکتی ہیں.اس کے ثبوت میں کہ عورتیں دین کی خدمت کر سکتی ہیں میں نے مثالیں پیش کی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ عورتیں بھی دین کی خدمت کرتی رہی ہیں.پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ کچھ عورتوں نے ایسا کیا ہے تو معلوم ہوا کہ اور بھی کر سکتی ہیں پہلے زمانہ کی عورتوں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ بڑی پارسا اور پرہیز گار تھیں.ہم ان جیسے کام کہاں کر سکتی ہیں.کم حوصلگی اور کم ہمتی ہے.بہت عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ کیا ہم عائشہ بن سکتی ہیں کہ کچھ کوشش کریں.انہیں خیال کرنا چاہئے کہ عائشہ کس طرح عائشہ بنیں.انہوں نے کوشش کی ہمت دکھائی تو عائشہ بن گئیں.اب بھی ان جیسا بننے کے لئے ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے.بغیر کچھ کئے ہمت ہار دینا ایسا ہی ہے جیسا کہ ایک بچہ کو نصیحت کی جائے کہ تعلیم حاصل کر لو تو تم بھی فلاں کی طرح ایم.اے ہو جاؤ گے.لیکن وہ کہے کہ میں کہاں فلاں کی طرح ایم.اے ہو سکتا ہوں.اس کی لئے تعلیم ہی حاصل نہیں کرتا.اس نے کوشش کی تھی اس لئے ایم.اے ہو گیا تھا.پھر کیا وجہ ہے کہ یہ بھی کوشش کرے تو ایم.اے نہ ہو جائے.دیکھو صحابی کس طرح رسول کریم ا صحابہ نے کس طرح درجے حاصل کئے کے صحابہ بنے اور کس طرح انہوں نے بڑے بڑے درجے حاصل کئے.اسی طرح کہ کوشش کی ورنہ یہ وہی لوگ تھے جو رسول کریم کے جانی دشمن تھے اور آپ کو گالیاں دیتے تھے.حضرت عمر الله جو آنحضرت کے بعد دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں ابتداء میں آنحضرت کے ایسے سخت دشمن تھے کہ آپ کو قتل کرنے کے لئے گھر سے نکلے تھے راستہ میں ایک شخص ملا جس نے پوچھا کہاں جارہے ہو.انہوں نے کہا محمد ( ﷺ ) کو قتل کرنے جاتا ہوں.اس نے کہا پہلے اپنی بہن اور بہنوئی کو تو قتل کر لو جو مسلمان ہو گئے ہیں.پھر محمد ( ) کو مارنا.یہ سن کر وہ غصہ سے بھر گئے اور اپنی بہن کے گھر کی طرف روانہ ہو گئے.آگے جاکر دیکھا تو دروازہ بند تھا اور ایک شخص قرآن کریم سنا رہا تھا اور ان کی بہن اور بہنوئی سن رہے تھے.اس وقت تک پردہ کا حکم نازل نہ ہوا تھا.حضرت عمرؓ نے دروازہ کھٹکھٹایا اور کہا کھولو.ان کی آواز سن کر اندر والوں کو ڈر پیدا ہوا کہ مار دیں گے.اس لئے انہوں نے دروازہ نہ کھولا.حضرت عمر نے کہا اگر دروازہ نہ کھولو گے تو میں توڑ دوں گا.اس پر انہوں نے قرآن کریم سنانے والے مسلمان کو چھپا دیا اور
العلوم جلد من ۳۹ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے بہنوئی بھی چھپ گیا صرف بہن نے سامنے آکر دروازہ کھولا حضرت عمر نے پوچھا.بتاؤ کیا کر رہے تھے اور کون شخص تھا جو کچھ پڑھ رہا تھا.انہوں نے ڈر کے مارے ٹالنا چاہا.حضرت عمر نے کہا جو پڑھ رہے تھے مجھے سناؤ.ان کی بہن نے کہا آپ اس کی بے ادبی کریں گے.اس لئے خواہ ہمیں جان سے مار دیں ہم نہیں سنائیں گے.انہوں نے کہا نہیں میں وعدہ کرتا ہوں کہ بے ادبی نہیں کروں گا.اس پر انہوں نے قرآن کریم سنایا.جسے سن کر حضرت عمر رو پڑے اور دوڑے دوڑے رسول کریم کے پاس گئے تلوار ہاتھ میں ہی تھی.رسول کریم ﷺ نے انہیں دیکھ کر کہا عمر یہ بات کب تک رہے گی.یہ سن کر وہ رو پڑے اور کہا میں نکلا تو آپ کے مارنے کے لئے تھا لیکن خود شکار ہو گیا ہوں.تو پہلے یہ حالت تھی جس سے انہوں نے ترقی کی.پھر یہی صحابہ تھے جو پہلے شراب پیا کرتے تھے.آپس میں لڑا کرتے تھے اور کئی قسم کی کمزوریاں ان میں پائی جاتی تھیں لیکن جب انہوں نے آنحضرت ﷺ کو قبول کیا اور دین کے لئے ہمت اور کوشش سے کام لیا تو نہ صرف خود ہی اعلیٰ درجے پر پہنچ گئے بلکہ دوسروں کو بھی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کا باعث ہو گئے.وہ پیدا ہی صحابی نہیں ہوئے تھے بلکہ اسی طرح کے تھے جس طرح کے اور تھے مگر انہوں نے عمل کیا اور ہمت دکھائی تو صحابی ہو گئے.آج بھی اگر ہم ایسا ہی کریں تو صحابی بن سکتے ہیں.یہ شیطان کا جال اور پھندا ہے کہ جب وہ دیکھتا ہے کہ کوئی انسان دین کی راہ میں کوشش کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے آگے روک ڈال دیتا ہے کہ تم کیا کر سکتے ہو اور اس کی مثال مکڑی کے جالے کی طرح ہوتی ہے کہ جب مکھی زور کر کے اسے توڑ دیتی ہے تو وہ اور تن دیتی ہے.شیطان بھی اسی طرح بندوں کے ارد گرد پھرتا رہتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ میرے بند ٹوٹنے لگے ہیں تو اور باندھ دیتا ہے.ان بندوں میں سے ایک یہ بھی بند ہے کہ جب کوئی عورت یا مرد نیک کام کرنا چاہتے ہیں تو وہ خیال پیدا کر دیتا ہے کہ کیا ہم فلاں بن جائیں گے.ایسا تو نہیں ہو سکتا اس لئے کرنا ہی نہیں چاہئے.حالانکہ فلاں بھی کوشش کر کے ایسا بن گیا تھا پھر جب یہ کوشش کرے گا تو کیوں نہ ویسا ہی بن جائے گا.تو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت صرف نبی کی بیوی ہونا فضیلت کی وجہ نہیں عائشہ وغیرہ تو نبی کی بیویاں تھیں.اس کی لئے انہوں نے دین کی خدمت کی.ہم کیا کر سکتی ہیں.اگر انہوں نے نبی کی بیویاں ہونے کی وجہ سے دین کی خدمت کی تو کیا حضرت نوح کی بیوی نبی کی بیوی نہ تھی یا حضرت لوط کی بیوی نبی عه تاريخ الخميس مصنفہ شیخ حسین بن محمد بن الحسن الديار بكری جلد ا صفحه ۲۹۵ مطبوعہ بیروت
انوار العلوم جلدم ۴۰ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے کی بیوی نہ تھی لیکن انہوں نے کیا کیا؟ نبی کے ماننے سے ہی انکار کر دیا اور تباہ و برباد ہو گئیں.اگر صرف نبی کی بیوی ہونا کوئی چیز ہوتا تو وہ کیوں نیک نہ ہوتیں خدا سے تعلق نہ پیدا کرتیں اور دین کی خدمت کر کے نہ دکھا ئیں.لیکن بات یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے احکام پر عمل نہ کیا اس لئے تباہ اور ہلاک ہو گئیں اور ہمارے رسول کریم ﷺ کی بیویوں نے عمل کیا اس لئے انہیں اعلیٰ درجہ حاصل ہو گیا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِ يَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت : ۷۰) کہ جو ہم تک پہنچنے کے لئے کوشش کرتا ہے.اس کے لئے ہم دروازے کھول دیتے ہیں.پس وہ مرد و عورت جنہوں نے آنحضرت کے وقت کوشش کی.دین کے لئے گھر سے بے گھر ہوئے.مال و جان کو خدا کی راہ میں لگا دیا.اپنے خیالات اور عزیزوں رشتہ داروں، وطن غرضیکہ ہر ایک پیاری سے پیاری چیز کو قربان کر دیا.ان کو دین میں بھی بڑے بڑے رتبے حاصل ہو گئے اور دنیا میں بھی بڑے بڑے انعام مل گئے.آج بھی اگر مرد و عورتیں اسی طرح کریں.خود دین سیکھیں اور عمل کر کے دکھائیں.دوسروں کو سمجھانے اور عمل کرانے کی کوشش کریں.دین کے مقابلہ میں کسی چیز کی پرواہ نہ کریں تو ویسی ہی بن سکتی ہیں.اب میں بعض موٹے موٹے مسائل بیان کرتا ہوں جن کا یاد رکھنا بہت ضروری ہے.خدا کو ایک سمجھنا اسلام کا سب سے بڑا عقیدہ یہ ہے کہ خدا ہے اور ایک ہے اس عقیدہ کو پھیلانے کے لئے آنحضرت اللہ کو بڑی بڑی تکالیف اٹھانی پڑیں.مکہ والوں کا ذریعہ معاش چونکہ بہت ہی تھے اور انہیں پر ان کی گزران تھی اس لئے بتوں کو چھوڑنا ان کے لئے بہت مشکل تھا.جب آنحضرت ا نے بتوں کے خلاف سمجھانا چاہا تو انہوں نے ایک مجلس کی اور ایک آدمی مقرر کیا جو آنحضرت ا کو جاکر کہے کہ آپ اس بات سے باز آجا ئیں.چنانچہ وہ شخص آپ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ اگر آپ کو مال کی خواہش ہے تو ہم بہت سا مال لا کر آپ کے سامنے ڈھیر کر دیتے ہیں.اگر حکومت کی خواہش ہے تو ہم سب آپ کو حاکم ماننے کے لئے تیار ہیں.اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ میری بات مانی جائے تو آئندہ ہم آپ کے مشورہ کے بغیر کوئی بات نہیں کریں گے اور اگر آپ کو کوئی بیماری ہو گئی ہے تو ہم اس کا علاج کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن آپ بتوں کے خلاف کہنا چھوڑ دیں.آنحضرت ا نے فرمایا کہ اگر تم لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو بائیں لاکر رکھ دو تو بھی میں یہ کہنا نہیں
انوار العلوم بلدم ام 3 عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے چھوڑوں گا کہ خدا ایک ہے اور کوئی اس کا شریک نہیں.تو یہ ایک ایسا اہم عقیدہ ہے کہ جس کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اور گناہ تو معاف کردوں گا مگر شرک نہیں معاف کروں گا.(النساء : (۴۹) آج کل یہ بہت پھیلا ہوا ہے اور مسلمانوں میں گو بتوں کی ستش نہیں پائی جاتی مگر ان کی بجائے قبروں کو پوجا جاتا ہے.پھر عورتوں کا اپنے خاوند عزیز رشتہ داروں کے متعلق یہ کہنا کہ جو ان کا مذہب ہے وہی ہمارا مذہب ہے شرک ہے.اسی طرح یہ بھی کہ اگر یہ بات پوری ہو گئی تو فلاں پیر کی نیاز دی جائے گی شرک ہے.اور بھی کئی قسم کے شرک ہیں جن میں آج کل عورتیں خاص طور پر مبتلاء ہیں.حالانکہ یہ ایک خطر ناک بات ہے.پس عورتوں کے لئے ایک سب سے ضروری عقیدہ یہ ہے کہ وہ خدا کو ایک سمجھیں اور نہ کسی کو اس کی صفات میں نہ افعال میں نہ اسماء میں شریک قرار دیں.دوسرا عقیدہ یہ ہے کہ فرشتوں پر یقین رکھیں کہ وہ خدا کی ایک مخلوق فرشتوں پر ایمان لانا ہے جو انسانوں کے دلوں میں نیک تحریکیں کرتی ہے اور ان پر ایمان لانے کے یہ معنی ہیں کہ جب کوئی دل میں نیک تحریک ہو تو فورا اس پر عمل کیا جائے تا کہ اور تحریک کے لئے جگہ خالی ہو.تیسرا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کو خدا کی کتاب سمجھنا اور سب رسولوں پر ایمان لانا قرآن کریم پر ایمان ہو کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کے سوا اور بھی کتابیں نازل ہوئی تھیں.چوتھے یہ کہ سارے رسولوں پر ایمان ہو کہ وہ بچے ہیں.پانچویں یہ کہ مرنے کے بعد اٹھایا جائے گا اور حساب و کتاب ہو گا.ان بعث بعد الموت عقائد کو نہ ماننے سے کوئی مرد و عورت مسلمان نہیں کہلا سکتا اس لئے ان پر ایمان رکھنا بہت ضروری ہے یہ تو ہوئے عقائد اب میں اعمال کا ذکر کرتا ہوں جو اسلام نے ضروری قرار دیئے ہیں.اول نماز ہے.جس کا ادا کرنا نہایت ضروری ہے.مگر اس میں نہایت سستی کی جاتی نماز پڑھنا ہے اور خاص کر عورتیں بہت ست نظر آتی ہیں جو کئی قسم کے عذر پیش کیا کرتی ہیں.مثلا یہ کہ میں بچہ والی جو ہوئی کپڑے کس طرح پاک رکھوں کہ نماز پڑھوں.لیکن کیا کپڑے پاک رکھنا کوئی ایسی مشکل بات ہے جو ہو ہی نہیں سکتی.ایسی تو نہیں ہے.اگر احتیاط کی جائے تو عه سیرت ابن ہشام عربی جلدا صفحه ۲۸۵،۲۸۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء
انوار العلوم جلد ۴ ۲سم عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے کپڑے پاک رہ سکتے ہیں.لیکن اگر احتیاط نہیں کی جاسکتی تو کیا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک جوڑا ایسا بنالیا جائے جو صرف نماز پڑھنے کے وقت پہن لیا جائے اور اگر کوئی عورت ایسی ہی غریب ہے کہ دو سرا جو ڑا نہیں بنا سکتی تو اسے بھی نماز معانی نہیں وہ پلید کپڑوں میں ہی پڑھ لے.اول تو انسانیت چاہتی ہے کہ انسان پاک و صاف رہے اس لئے اگر کپڑا نا پاک ہو جائے تو اسے صاف کر لینا چاہئے لیکن اگر فرض کر لیا جائے کہ کوئی ایسی صورت ہے جس میں صاف نہیں کیا جاسکتا تو بھی نماز نہیں چھوٹ سکتی.مگر بہت کم عورتیں ہیں جو پڑھتی ہیں، اور جو پڑھتی ہیں وہ بھی عجیب طرح پڑھتی ہیں.کھڑے ہوتے ہی رکوع میں چلی جاتی ہیں اور کھڑے ہوئے بغیر ہی بیٹھ جاتی ہیں.ابھی بیٹھنے بھی نہیں پاتیں کہ سجدہ میں چلی جاتی ہیں اور اس جلدی سے ایسا کرتی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کیا پڑھتی ہوں گی.ایسی عورتوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ نفسی کے طور پر کھڑی نہیں ہوتیں بلکہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑی ہوتی ہیں اور نماز یہ ہے کہ اللہ کے حضور عاجزی اور فروتنی دکھائی جائے اور خدا سے اپنی حاجتوں کے پورا ہونے کی درخواست کی جائے.کیا جس سے کچھ مانگنا ہو اس کے سامنے اسی طرح کیا جاتا ہے نہیں بلکہ اس کا تو بڑا ادب اور لحاظ کیا جاتا ہے.اس کی منت خوشامد کی جاتی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ وہ خدا کے حضور کھڑی تو کچھ مانگنے کے لئے ہوتی ہیں لیکن ان کی حرکات میں ادب نہیں ہوتا.ان کے دل میں خوف نہیں پیدا ہوتا وہ عاجزی اور فروتنی نہیں دکھاتیں بلکہ یہ ظاہر کرتی ہیں کہ گویا اللہ تعالیٰ ان کا محتاج ہے.حالانکہ اللہ کسی کا محتاج نہیں.ہم سب اس کے محتاج ہیں.اس لئے ہمیں خاص طور پر ادب کرنا چاہئے.اس کے خوف کو دل میں جگہ دینی چاہئے اور نہایت عاجزی اور خاکساری سے اس کے آگے عرض کرنی چاہئے.کئی ایک مرد ایسے ہیں جو ایسا نہیں کرتے لیکن عورتیں تو کثرت سے ایسی ہیں جو نماز کو ایک مصیبت سمجھتی اور جتنی جلدی ہو سکے گلے سے اتارنا چاہتی ہیں.حالانکہ نماز انہیں کے فائدے کے لئے ہے نہ کہ خدا تعالیٰ کو کوئی فائدہ ہے.پس نماز نہایت عمدگی کے ساتھ ادا کرنی چاہئے.اس کے علاوہ دوسرا حکم زکوٰۃ کا ہے کہ اگر کسی کے پاس ۵۲ تولے چاندی یا ۴۰ زکوة دینا روپے سال بھر تک جمع رہیں تو ان پر ایک روپیہ زکوۃ دے جو مسکینوں ، یتیموں اور غریبوں کے لئے دینا ضروری ہے اور جہاں نماز کے ذریعہ خدا کا حق ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے.وہاں زکوۃ کے حکم سے بندوں کا حق ادا کرنے کی تاکید کی ہے.خدا تعالیٰ خود بھی براہ.
العلوم حيله ۴۳ عورتوں کا دین سے والہ راست اپنے بندوں کو سب کچھ دے سکتا تھا.لیکن اس نے آپ دینے کی بجائے بندوں کے ذریعہ دینا چاہا ہے تاکہ دینے والے بھی ثواب اور اجر کے مستحق ہوں.روزہ رکھنا ہیں.حج کرنا تیرا حکم روزہ کا ہے.ہمارے ملک میں بعض مرد اور عورتیں نماز نہیں پڑھتے.مگر روزے رکھتے ہیں.یہ بھی ضروری حکم ہے اور اس میں بڑے بڑے فوائد چوتھا حکم حج کا ہے اگر سفر کرنے کے لئے مال ہو، راستہ میں کوئی خطرہ نہ ہو بال بچوں کی نگرانی اور حفاظت کا سامان ہو سکتا ہو تو زندگی میں ایک دفعہ حج کرنے کا حکم ہے.یہ بڑے بڑے حکم ہیں جو ہر مومن مرد اور عورت کے لئے ضروری ہیں.ان خدمات دین کے علاوہ اور بہت کی دینی خدمتیں ہیں جو کی جاسکتی ہیں اور میں نے بتایا ہے کہ آنحضرت ا کے وقت اور آپ کے بعد مسلمان عورتوں نے بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں.حتی کہ اسلام کے لئے جانیں دے دی ہیں اور جس طرح اس وقت اسلام پر مشکلات اور مصائب کے دن تھے اسی طرح اب بھی ہیں.اس لئے اس وقت بھی اسی قسم کی خدمتیں کرنے والی عورتوں کی ضرورت ہے.یہ تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جس طرح رسول کریم کے وقت دنیا کی اصلاح کے لئے آپ کو کھڑا کیا گیا تھا.اسی طرح اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود کو کھڑا کیا گیا ہے.اس وقت اسلام کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ خود مسلمان کہلانے والے اس پر حملے کرانے کے موجب ہو رہے تھے.چنانچہ وہ اپنی نادانی سے یہ سمجھے ہوئے ہیں کہ حضرت حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں مینی آسان پر بیٹھے ہیں اور کسی وقت زمین پر آئیں گے.اس عقیدہ سے اسلام پر کئی ایک اعتراض پڑتے ہیں.ایک تو یہ کہ قرآن کریم جھوٹا ہوتا ہے کیونکہ وہ کہتا ہے کہ حضرت عیسی وفات پاچکے ہیں.دوسرے اس وجہ سے بہت سے مسلمان عیسائی ہو گئے ہیں.کیونکہ جب پادریوں نے ان کے سامنے یہ بات پیش کی کہ دیکھو حضرت عیسی زندہ آسمان پر ہیں اور تم بھی اس کو مانتے ہو لیکن تمہارا رسول وفات پاچکا ہے اور زمین میں دفن ہے.اب تم خود ہی بتاؤ کہ کس کا درجہ اعلیٰ ہوا اور یہ تو تم مانتے ہی ہو کہ تمہارے رسول کا درجہ سب رسولوں سے بڑا ہے اور جب اس سے بھی حضرت مینی کا درجہ اعلیٰ ہوا تو معلوم ہوا
م جلد ۴ سوم سوم عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے وہ خدا ہے.اس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکتے اور اسلام کو چھوڑ کر عیسائی ہو جاتے.حالانکہ یہ بالکل غلط ہے کہ حضرت عیسی زندہ آسمان پر موجود ہیں.وہ تو کبھی کے وفات پاچکے ہیں.حضرت عیسی کے آنے سے مراد مسلمانوں کو اس سے غلطی لگی ہے کہ آنحضرت کی پیشگوئی تھی.عیسی آئیں گے.اس سے انہوں نے ان ہی پہلے عیسی کا آنا سمجھ لیا ہے.حالانکہ اس عیسی سے آنحضرت الله کی مراد انہیں کی صفات رکھنے والے انسان کے آنے کی تھی.چونکہ آپ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ آخری زمانہ میں مسلمان یہود ہو جائیں گے.(بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب قول النبي لتتبعن سنن من قبلکم) اس لئے جس طرح پہلے یہودیوں کی اصلاح کے لئے حضرت عیسی آئے تھے اسی طرح ان کی اصلاح کے لئے جس انسان نے آنا تھا اس کو بھی عیسی کہا گیا.ورنہ عینی کہاں آسکتے تھے وہ تو وفات پاچکے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے.وَمَا مُحَمَّد سُول قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ (آل عمران : ۱۳۵) کہ محمد اللہ کے رسول ہیں.ان سے پہلے جتنے رسول تھے وہ وفات پاچکے ہیں.اب یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ حضرت عیسی رسول نہ تھے بلکہ خدا تھے اس لئے انہوں نے وفات نہیں پائی لیکن یہ کفر ہے کہ ان کو خدا قرار دیا جائے اور اگر رسول تھے اور واقع میں رسول تھے تو وفات بھی پاچکے ہیں.کیونکہ قرآن کریم صاف طور پر بتلا رہا ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے سارے رسول فوت ہو چکے ہیں تو قرآن کریم حضرت عیسی کو فوت شدہ قرار دے رہا ہے اور جو فوت ہو جائے وہ دوبارہ دنیا میں واپس نہیں آسکتا کیونکہ یہ خدا تعالی کی سنت کے خلاف ہے.پھر اللہ تعالیٰ کو کیا ضرورت ہے کہ ایک مرے ہوئے انسان کو دوبارہ زندہ کر کے دنیا میں لائے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے.اس کو یہ ضرورت نہیں ہے کہ دنیا کی اصلاح کے لئے کسی نئے انسان کو پیدا کرنے کی بجائے ایک مدتوں کے مردہ ا انسان کو بھیج دے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ دنیا میں کوئی مالدار اور دولت مند انسان اس طرح نہیں کرتا کہ ایک وقت جو کھانا بچ جائے اسے دوسرے وقت کھانے کے لئے رکھ چھوڑے.ہاں غریب لوگ ایسا کیا کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی نسبت یہ کہنا کہ اس نے ضرورت کے لئے وہی حضرت عیسی رکھے ہوئے ہیں جو کئی سو سال ہوئے پیدا کئے گئے تھے.اسے کنگال اور مفلس خدا بنانا ہے اور اس کے قادر مطلق ہونے سے انکار کرنا ہے.حالانکہ خدا ایک نہیں کئی عیسی پیدا کر سکتا ہے اور جب ضرورت ہو بھیج سکتا ہے.پہلے نبی جب فوت ہوتے رہے تو ان کے بعد اور
انوار العلوم جلد ۴ ۵م عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے نبی بھیجتا رہا یہ نہیں ہوا کہ انہیں کو دوبارہ زندہ کر کے بھیجتا رہا ہے.پھر کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ حضرت عیسی کو دوبارہ بھیجے.مسلمانوں میں یہ ایک بہت بے ہودہ عقیدہ پھیلا ہوا ہے حالانکہ حضرت عیسی کے آنے سے مراد یہ تھی کہ ان کی صفات کا ایک انسان آئے گا اور وہ حضرت مرزا صاحب آئے ہیں.جو حضرت عیسی کی طرح یہودیوں کی اصلاح پر مامور کئے گئے ہیں کیونکہ آنحضرت ا نے فرما دیا ہوا ہے کہ مسلمان یہودی ہو جائیں گے.نحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ حضرت نوح سے لے کر آپ" تک اس زمانہ کا فتنہ کے سب نبیوں نے اس فتنہ کی خبر دی ہے.جو حضرت مسیح موعود کے وقت آئے گا.اب دیکھ لو کہ اتنے بڑے فتنہ کے دور کرنے کے لئے کس قدر کوشش کی ضرورت ہے.آج کل ہماری جماعت کے مردوں سے جس قدر ہو سکتا ہے کو شش کر رہے ہیں.لیکن ضرورت ہے کہ عورتیں بھی ان کی مدد کریں اور اس کام عورتیں دعائیں کریں میں ان کا ساتھ دیں.درد دل سے دعائیں مانگا کریں کہ اسلام کی ترقی ہو.خدا تعالیٰ حق کے قبول کرنے کے لئے لوگوں کے دل کھولے.دنیا سے بایاں اور برائیاں دور ہوں.اللہ تعالیٰ کا نام دنیا میں پھیلے اور اللہ تعالی کی طرف سے جو نور آیا ہے لوگ اس سے فائدہ اٹھاویں.اس کے علاوہ جہاں تک ان سے ہو سکے مالی خدمت بھی کریں.آنحضرت الله چندہ دیں جب مردوں سے چندہ لیا کرتے تھے تو عورتوں سے بھی وصول کرتے تھے اور یہ چندہ وہ اپنے لئے نہ لیتے تھے اور نہ اللہ کے پیارے اپنی ذات کے لئے مانگا کرتے ہیں ان کا انتظام خدا تعالی خود کرتا ہے.تو نہ آنحضرت ا نے اپنے لئے کبھی مانگا نہ آپ سے پہلے انبیاء نے اپنے لئے مانگا نہ اس زمانہ میں جس کو خدا نے مسیح موعود کر کے بھیجا، اس نے اپنے لئے کچھ طلب کیا اور نہ وہ جو آپ کے بعد کھڑے ہوئے ، انہوں نے ایسا کیا بلکہ سب دین کے لئے ہی مانگتے رہے اور میں بھی اسی غرض کے لئے کہتا ہوں کہ جن عورتوں کو خدا تعالی توفیق دے وہ اس کے راستہ میں اپنے مالوں سے دیں.پچھلے دنوں میں نے مستورات کو چندہ دینے کی تحریک کی تو مجھے بتایا گیا کہ مرد عورتوں کو روپیہ نہیں دیتے بلکہ جس چیز کی ضرورت ہو وہ لادیتے ہیں اس لئے وہ چندہ کہاں سے دیں لیکن یہ بات شریعت کے خلاف ہے.آنحضرت ا اور صحابہ کرام کا یہ طریق تھا کہ عورتوں کو اپنے مال میں سے حصہ دیا کرتے تھے.اب بھی اسی عه بخارى كتاب الفتن باب ذكر الدجال
العلوم جلد عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے طرح کرنا چاہئے اور خواہ کتنی ہی تھوڑی آمدنی ہو.اس سے عورتوں کو ان کا حصہ دینا چاہئے.پھر اس میں سے عورتیں خدا کی راہ میں دیا کریں اور اس بات کا ہرگز خیال نہ ہو کہ اس قلیل رقم سے کیا بنے گا.خواہ ایک دمڑی دینے کی توفیق ہو تو وہی دے دی جائے.اللہ تعالٰی اخلاص کو یہ دیکھتا ہے نہ مال کو.اگر کسی کے پاس صرف ایک روٹی ہو اور وہ اس کا ایک چوتھائی حصہ بخدا کی راہ میں دے دے تو خدا کے حضور وہ ثواب کا ویسا ہی مستحق ہے جیسا کہ سو روپیہ رکھنے والا پچیس روپے دے کر.اس لئے تھوڑے مال کا خیال نہ کرنا چاہئے.ہاں نیت اور اخلاص کا خیال رکھنا چاہئے کہ خدا انہیں کو دیکھتا ہے اور انہیں کے مطابق اجر دیتا ہے.پھر عورتوں کو چاہئے کہ تبلیغ کریں.مرد تو عورتوں میں تبلیغ نہیں عورتوں میں تبلیغ کریں کر سکتے اس لئے یہ کام عورتوں کا ہی ہے.انہیں چاہئے کہ غیر احمدی، ہندو، عیسائی وغیرہ عورتوں کو اسلام کی تعلیم بتا ئیں اور ایسی دلیلیں یاد رکھیں جو انہیں تبلیغ کرتے وقت کام آئیں.خواہ عورت ان پڑھ ہو تو بھی موٹی باتیں اپنے خاوند ، باپ، بھائی سے سیکھ لے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض ان پڑھ احمدی دین سے ایسی واقعیت پیدا کر لیتے ہیں کہ غیر احمدی پڑھے ہوئے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.ایک احمدی زمیندار جو بالکل ان پڑھ ہے اور یوں بھی سیدھا سادہ معلوم ہوتا ہے.اس نے سنایا کہ میرے رشتہ دار مجھے ایک شیعہ مولوی کے پاس لے گئے کہ وہ مجھے سمجھائے.اس نے مجھ سے پوچھا بتاؤ آنحضرت اللہ مسلمانوں کے کیا لگتے ہیں.میں نے کہا باپ.پھر اس نے پوچھا آنحضرت ا کی بیٹی مسلمانوں کی کیا لگتی ہے میں نے کہا بہن.وہ کہنے گا اچھا مرزا صاحب نے جو سیدانی سے نکاح کیا ہے وہ کس طرح جائز ہو سکتا ہے.میں نے کہا حضرت علی نے تو رسول کریم کی خاص بیٹی سے نکاح کیا تھا.اسے آپ کیا سمجھتے ہیں.حضرت مرزا صاحب نے تو نہ معلوم کتنی پشتوں کے بعد جاکر نکاح کیا ہے.مولوی نے کہا حضرت علی تو ایک بزرگ انسان اور خدا کے پیارے تھے.میں نے کہا حضرت مرزا صاحب کو ہم ان سے بھی بڑھ کر مانتے ہیں.اس پر وہ لاجواب ہو گیا اور کہنے لگا جاتیری عقل ماری گئی ہے.اسی قسم کی اور کئی ایک مثالیں ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سچائی کو مضبوطی کے ساتھ پکڑ لے تو پھر کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.سچائی ایک تلوار ہے جس کے ہاتھ میں ہوگی وہ دشمن کا سر اڑا دے گا.اور اگر بچہ بھی مارے گا تو زخمی ضرور کر دے گا.اسی طرح گو پڑھا ہوا انسان دشمن کے مقابلہ میں بڑا کام کر سکتا ہے.مگر ان پڑھ بھی اگر دین سے واقفیت
لعلوم جلد ۳ عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے حاصل کرلے تو غالب ہی رہے گا.اس لئے ان پڑھ عورتوں کو بھی موٹی موٹی دلیلیں سیکھ لینی چاہئیں اور جہاں عورتیں مل جائیں ان کو تبلیغ کرنی چاہئے.تبلیغ کرنے کے مواقع آج کل ریلوں میں عورتوں کو خوب تبلیغ کا موقع مل سکتا ہے.یہاں آتے ہوئے راستہ میں دوستوں نے مجھے بتایا کہ ایک عیسائی عورت مسلمان عورتوں سے گفتگو کر رہی ہے جو اسے کوئی جواب نہیں دے سکتیں.میں نے اپنے گھر سے اس کمرہ میں بھیج دیا.اور مختصر طور پر بتا دیا کہ اول تو وہ تمہیں مسلمان دیکھ کر خود بخود اعتراض کرے گی.اس کا اس طرح جواب دینا اور اگر وہ اعتراض نہ کرے تو تم خود یہ ا اعتراض کرنا.لیکن اتفاق کی بات ہے عیسائیوں کا سب سے بڑا اعتراض اور اس کا جواب مجھے بتانا بھول گیا.جب وہ گئیں تو اس نے وہی اعتراض کر دیا.اس کا جواب میں نے کسی وقت عورتوں کے درس میں بیان کیا ہوا تھا.جو انہوں نے دے دیا اس نے کہا تمہارے قرآن میں لکھا ہے کہ عورتوں میں روح نہیں ہے اس لئے ان کو اپنے اعمال کا کوئی بدلہ نہیں ملے گا.انہوں نے کہا قرآن میں تو صاف لکھا ہے کہ کسی مؤمن مرد و عورت کے عمل کو ضائع نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا بدلہ دیا جائے گا تم نے یہ کہاں سے نکالا کہ عورت میں روح ہی نہیں.عیسائی عورت نے کہا قرآن میں یہ بات موجود ہے.تم کو علم نہیں.انہوں نے کہا میں تمہارے سامنے قرآن کی آیت پیش کر رہی ہوں اور تم کہتی ہو تمہیں علم نہیں.اگر کوئی ایسی آیت قرآن کریم میں ہے تو نکال دیجئے.اس نے کہا اگر تم لکھنو آؤ تو میں تمہاری تسلی کر سکتی ہوں.انہوں نے کہا اگر تم قادیان آؤ تو میں تمہیں سمجھانے کی کوشش کروں گی پھر اس نے کہا تم نوجوان ہو اور میں بوڑھی ہو گئی ہوں.اس لئے تمہاری باتوں کا جواب نہیں دے سکتی.انہوں نے کہا اس لحاظ سے تو آپ کو ضرور جواب دینا چاہئے تھا کیونکہ آپ نے بہت سی عمرنز ہی باتوں میں گزاری ہے.مگر وہ خاموش ہو گئی اور کوئی جواب نہ دے سکی.تو ریل میں عورتوں کو تبلیغ کا اچھا موقع مل سکتا ہے اور کسی جگہ تو شاید ہی اتنی عورتیں جمع ہو سکیں جتنی گاڑی میں ہوتی ہیں اور مختلف جگہوں کی ہوتی ہیں.اگر ان میں سے کسی کو ہدایت ہو جاوے تو وہ اس کے اثر کو دور دور پھیلا سکتی ہے.پھر گھروں میں یا اور عورتوں کے مجمع میں موقع مل سکتا ہے.اس کے لئے موٹے موٹے مسائل یاد کر لینے چاہئیں.
لوم جلد ۳ تقویٰ حاصل کرنا عورتوں کا دین.اس کے علاوہ تقویٰ اللہ حاصل کرنا ایک نہایت ضروری چیز ہے کیونکہ اسلام صرف باتیں سنانے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ انسان کو خدا کا خوف اور محبت اپنے دل میں پیدا کرنی چاہئے.اس لئے یہ نہایت ضروری ہے اور جب تک یہ نہ ہو کوئی عمل عمل نہیں کہلا سکتا.نماز نماز نہیں کہلا سکتی.روزہ روزہ نہیں کہلا سکتا.زکوٰہ زکوۃ نہیں کہلا سکتی.حج حج نہیں کہلا سکتا کیوں؟ اس لئے کہ نماز اس غرض کے لئے نہیں رکھی گئی کہ انسان کی ورزش ہو.روزہ اس لئے نہیں کہ انسان کو بھوکا پیاسا رکھا جائے.زکوة اس لئے نہیں کہ مالی نقصان ہو اور حج اس لئے نہیں کہ سفر کی صعوبت برداشت کرنی پڑے بلکہ ان کی غرض اللہ کا تقویٰ اور نیکی پیدا کرنا ہے.حسد و کینہ لڑائی اور فساد بدی اور برائی وغیرہ وغیرہ بری باتوں سے بچا کر انسان کو متقی بنانا ہے کیونکہ یہی سب نیکیوں کی جڑ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود نے بھی لکھا ہے.ہر اک نیکی کی جڑ اگر جڑ رہی کچھ ہے رہا ہے تو یہ بہت ضروری چیز ہے اس کے لئے سوچنا چاہئے کہ ہمارے کسی کام کا یہ نتیجہ نہ ہو کہ خدا تعالٰی ناراض ہو جائے یا کسی انسان کو تکلیف پہنچے.آج کل عورتوں میں یہ بات زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ دوسری کو تکلیف پہنچا کر خود کچھ حاصل کر لینا اچھا سمجھتی ہیں.مگر تقویٰ ایسا کرنے سے روکتا ہے.پھر عورتیں ایک دوسرے کو طعنے دیتی ہیں ہنسی کرتی رہتی ہیں اور عیب نکالتی ہیں اور آخر کار لڑائی شروع کر دیتی ہیں یہ سب باتیں تقویٰ کے خلاف ہیں.اس قسم کے عیب تو عورتوں میں بہت سے ہیں.اگر ان کو بیان کرنے لگوں تو بہت دیر لگے گی اور آج میرے حلق میں درد بھی ہے.اس لئے میں نے یہ اصل بتا دیا ہے کہ ہر ایک ایسا کام جس سے خدا ناراض ہو یا خدا کی کسی مخلوق کے لئے دکھ اور تکلیف کا باعث ہو اس سے بچنا چاہئے.اگر یہ بات پیدا ہو جائے تو تقویٰ اللہ حاصل ہو جاتا ہے.یہ چند ایک باتیں ہیں جو میں نے نصیحت کے طور پر بیان کر دی ہیں اگر ان کو یاد رکھوگی خاتمہ اور ان کے مطابق عمل کرو گی تو فائدہ اٹھاؤ گی.الفضل ۲۷ اکتوبر ۱۹۱۷ء)
دم جلد بهم ۴۹ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے (فرموده ۹- اکتوبر ۱۹۱۷ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
دم جلد ۴ ۵۱ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ربوبیت باری تعالیٰ کائنات کی ہر چیز پر محیط ہے (حضرت فضل عمر خلیفتہ المسیح الثانی کی وہ تقریز جو حضور نے ۹.اکتوبر ۱۹۱۷ء بمقام پٹیالہ فرمائی) سورہ فاتحہ کی تلاوت کرنے کے بعد حضور خدا کی عنائتیں اس کی ہستی کا ثبوت ہیں نے فرمایا.اللہ تعالی جو تمام بنی نوع انسان کا خالق، مالک اور رازق ہے.اس کی صفات پر جب ہم غور کرتے ہیں ، اس کی عنائتوں اور انعاموں کو جب ہم دیکھتے ہیں ، اس کے فضلوں اور رحمتوں کو جب ہم ملاحظہ کرتے ہیں تو ہمیں اس بات کا اقرار کرنا پڑتا ہے کہ اس کی عنائتوں، فضلوں اور رحمتوں کا کوئی شمار نہیں ہو سکتا.جس قدر اس کی صفات پر غور کیا جائے اسی قدر اس کے جلال اور اس کی شان کا زیادہ سے زیادہ علم ہوتا ہے اور معرفت پیدا ہوتی ہے.مختلف بد اعتقادیاں جو دنیا میں پھیل رہی ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی صفات پر کامل غور نہ کرنے کا ہی نتیجہ ہیں.دہریت بھی اسی کا نتیجہ ہے.اس وقت لوگ نئے نئے علوم کے غلط استعمال یا غلط فہمی کی وجہ سے اس طرف چلے گئے ہیں کہ دنیا خود بخود ہے اور اس کا کوئی خالق نہیں ہے.لیکن اگر یہ لوگ صفات الہیہ پر غور کرتے اور ان زبر دست قدرتوں کا مشاہدہ کرتے جن کا ظہور ہمیشہ ہو تا رہتا ہے تو انہیں ماننا پڑتا کہ ضرور ایک زبر دست عالم ، دانا رحیم و کریم ہستی موجود ہے.دنیا میں بہت سی اشیاء ایسی ہیں جو نظر نہیں آتیں بلکہ آثار اور علامات سے ان خدا کی ذات کا پتہ لگتا ہے.مثلا خوشبو ہے جو کبھی کسی کو نظر نہیں آتی اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ میں نے گلاب کی خوشبو کو دیکھا ہے یا میں نے اسے سنا ہے یا اسے چکھا ہے لیکن اس سے کسی کو انکار نہیں کہ خوشبو ہوتی ضرور ہے.پھر دیکھئے انگور کی شیرینی کو کسی نے نہیں دیکھا.نہ سنا کات
انوار العلوم جلدم ۵۲ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے نہ سونگھا ہے.کسی خوش الحان گویے کی آواز کو کسی نے نہیں دیکھا.نہ چکھا نہ سونگھا نہ ہاتھ سے ٹولا ہے.لیکن باوجود اس کے کسی کو انکار نہیں ہے کہ آواز میں خوش الحانی ، پھولوں میں خوشبو ، انگور میں شیرینی ہوتی ہے.پس یہ ان لوگوں کی غلطی ہے جو نئے علوم کو اچھی طرح اپنے دماغ میں قائم نہیں رکھ سکے اور کہتے ہیں کہ ہم اس چیز کو مانتے ہیں جس کو ہم دیکھتے ہیں.خدا کو چونکہ ہماری آنکھوں نے نہیں دیکھا اس لئے ہم اسے مان بھی نہیں سکتے.حالانکہ انہوں نے کبھی اپنی آواز کو نہیں دیکھا.کبھی عطر کی خوشبو کو نہیں دیکھا لیکن ان کو مانتے ہیں.بات یہ ہے کہ بعض ایسی چیزیں ہیں جن کو انسان دیکھ نہیں سکتا بلکہ ان کے آثار سے پتہ لگاتا ہے اور انہیں سے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسی چیز اچھی ہے اور کونسی بری گلاب کے پھول کئی قسم کے ہوتے ہیں جن کی خوشبو کو کسی نے نہیں دیکھا.مگر ان کے سونگھنے سے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کونسا پھول اعلیٰ قسم کا ہے اور کونسا ادنیٰ قسم کا.یہ تو میں نے ان اشیاء کے متعلق بتایا ہے جن کو حواس خمسہ میں سے کوئی ایک حواس محسوس کر سکتا ہے لیکن کئی ایسی چیزیں بھی ہیں کہ جن کا ان جو اس سے بھی علم نہیں ہو سکتا مثلاً حافظہ ہے.کبھی کسی نے اسے نہیں دیکھا نہ چکھا نہ سنا نہ ٹولا اور نہ سونگھا ہے لیکن معمولی سے معمولی عقل کا انسان بھی جانتا ہے کہ حافظہ کی ایک طاقت ضرور ہے.چنانچہ بہت لوگ حکیم یا ڈاکٹروں کو جاکر کہتے ہیں کہ ہمارا حافظہ کمزور ہو گیا ہے.ہمیں بات یاد نہیں رہتی وغیرہ وغیرہ.اس سے پتہ لگتا ہے کہ وہ مانتے ہیں کہ حافظہ ضرور کوئی شے ہے.یہ کیوں مانتے ہیں؟ اس لئے کہ انہوں نے حافظہ کے آثار اور علامات دیکھی ہیں.پس وہ لوگ جنہوں نے خدا کے انکار کی بناء ان حواس خمسہ سے معلوم نہ ہونے پر رکھی ہے ان کی غلطی ہے.خدا تعالیٰ کی ہستی ان حواس سے بہت بالا ہے اس لئے ان کے ذریعہ اس کو نہیں معلوم کیا جا سکتا.ہاں اس کے معلوم کرنے کے اور ذریعے ہیں اور وہ اس کی صفات کا ظہور ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ سارے عالم میں خدا تعالیٰ کی صفات کا ظہور اس زور شور سے ہو رہا ہے کہ کوئی دانا اور عقلمند اس سے انکار نہیں کر سکتا اور اس بات کا علم بھی کہ خدا تعالٰی کی کیا کیا صفات ہیں آثار سے ہی ہو جاتا ہے.جب ہم اس کی قدرتوں پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جو رحیم و کریم ہے ، رازق ہے، خالق ہے، مالک ہے، مارنے اور جلانے کی طاقت رکھتا ہے ، کسی پر ظلم نہیں کرتا کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا وغیرہ.غرض
العلوم جلد ۵۳ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے دہریت بھی صفات الہیہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے اور اس کا علاج صفات الہیہ پر غور ہے دیگر بد اعتقادیاں اور باطل پرستیاں بھی صفات الہیہ پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہیں چنانچہ سورہ فاتحہ جو ام القرآن ہے اور اس میں تمام ان مضامین کو اختصار آبیان کر دیا گیا ہے جو قرآن کریم میں مذکور ہیں بنی نوع انسان کو اسی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ مذہب کے متعلق حق معلوم کرنے کے لئے اور اعمال کی درستی کے لئے صفات اللہ پر غور ضروری ہے اور اس سورۃ کے ابتداء میں ان چار صفات کو بیان کیا گیا ہے جو خلاصہ ہیں تمام صفات کا اور جن پر غور کرنے سے انسان تمام قسم کی بد اعتقادیوں اور بد عملیوں سے بچ سکتا ہے.چنانچہ سب سے پہلے فرمایا ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحہ : ۲) سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.خدا کی ربوبیت کسی اللہ کے لئے ؟ اس کے لئے جو سارے جہانوں کا رب ہے.یہ ایک ایسا چھوٹا سا فقرہ ہے کہ بظاہر معمولی معلوم ہوتا ہے لیکن جتنا اس پر غور کیا جائے اتنا ہی خدا تعالی کی رحمت اور انعام کا پتہ لگتا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کہتا ہے سب تعریف اللہ کے لئے ہے.کیوں؟ اس لئے کہ وہ سارے جہانوں کا رب ہے یعنی انسانوں کا ہی رب نہیں بلکہ حیوانوں کا بھی رب ہے.اور حیوانوں کا ہی نہیں نباتات اور جمادات کا بھی رب ہے اور ہر چیز جو دنیا میں پائی جاتی ہے اس کی وہ ربوبیت کر رہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ شفقت کرنے والا ہے.مسلمانوں میں سے بہت لوگ خدا کی ربوبیت کا یقین گناہوں سے دور کر دیتا ہے ایسے ہیں جو یہ تو کہتے ہیں کہ خدا رب العلمین ہے.مگر غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہے.اسی طرح اہل ہنود میں سے ایسے ہیں جو خدا تعالٰی کو رب العلمین مانتے ہیں مگر غور نہیں کرتے کہ کس طرح ہے.ایسے ہی عیسائیوں میں بھی لوگ ہیں.اگر یہ سب لوگ غور کریں تو ان کے دل خدا کی محبت اور پیار سے ایسے بھر جائیں کہ وہ کبھی گناہ اور برائی کا نام تک نہ لیں کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ جس سے محبت اور پیار ہوتا ہے اس کی بات انسان رد نہیں کر سکتا.پھر جب کوئی پیارا اور محبوب ایسی بات کہے جو مفید اور فائدہ مند بھی ہو تو اس کو کس طرح رد کیا جا سکتا ہے.فرض کرلو بیٹا باپ سے کوئی ایسی چیز مانگتا ہے جس کے دینے میں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ فائدہ ہے.ایسی صورت میں تو اگر دشمن بھی کچھ مانگے تو دینے سے انکار نہیں کیا جاسکتا.چہ جائیکہ بیٹا مانگے اور باپ نہ دے.پس جس سے محبت اور الفت ہوتی ہے اس کی بات قبول
۵۴ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے کرلی جاتی ہے.اس لئے اگر خدا تعالٰی کی ایسی شان بندوں پر ظاہر ہو جیسی کہ ہے تو وہ کبھی کوئی گناہ نہ کریں اور ان میں خدا کے کسی حکم کے توڑنے کی ہرگز جرات نہ ہو بلکہ خدا تعالی کے احسانوں اور انعاموں کو دیکھ کر ان کے دل جوش محبت سے بھر جائیں.اس کی میں ایک مثال سناتا ہوں.ہمارے بزرگوں میں سے ایک بزرگ گزرے ہیں.ان کے پاس ایک شخص کچھ ایک مثال لڈو لایا.انہوں نے اپنے شاگرد کو ان میں سے دو اٹھا کر دیئے اور اس نے کھالئے.تھوڑی دیر بعد انہوں نے پوچھا لڈو کھالئے اس نے کہا جی ہاں کھالئے ہیں.پھر انہوں نے پوچھا کیا ایک ہی دفعہ کھالئے ہیں.اس نے کہا ہاں.پھر انہوں نے پوچھا دونوں کے دونوں کھالئے ہیں.اس نے کہا ہاں.اسی طرح آپ بار بار پوچھتے رہے جس سے شاگرد کو خیال پیدا ہوا کہ میں ان سے پوچھوں کہ کس طرح لڈو کھانے چاہئیں تھے.اس نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کسی دن بتائیں گے.ایک دن پھر جو اُن کے پاس لڈو آئے تو انہوں نے لڈو اٹھا کر رومال پر رکھا اور اس سے ایک ریزہ تو ڑ کر لگے خدا تعالیٰ کے انعاموں کو گنے کہ اس میں جو میٹھا پڑا ہے وہ کس طرح پیدا ہوا ہے کتنے آدمیوں نے اس کی تیاری کے لئے کوشش کی ہے.گرمی کے موسم میں جب تپش کی وجہ سے باہر نکلنا محال ہوتا ہے.زمیندار کام کرتے رہے ہیں اور سردی کے موسم میں جب رضائی سے نکلنا کوئی پسند نہیں کرتا وہ ٹھنڈے پانی کو کیاریوں میں ڈالتے رہے ہیں کیا انہوں نے یہ سب کچھ میرے لئے یہ لڈو تیار ہونے کے لئے کیا.میں نے تو کوئی عمل ایسا نہیں کیا تھا کہ خدا نے اتنے آدمیوں کو میرے لئے یہ لڈو تیار کرنے پر لگا دیا اسی طرح انہوں نے لڈو کے ہر ایک جزو کو لے کر بیان کرنا شروع کیا اور خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہے.ظہر کی نماز پڑھ کر لڈو کھانے بیٹھے تھے اور ابھی ایک ہی ذرہ منہ میں ڈالا تھا کہ عصر کی اذان ہو گئی اور اٹھ کر وضو کرنے چلے گئے.تو جو لوگ خدا تعالیٰ کے انعامات پر غور کرنے والے ہوتے ہیں وہ چھوٹی چھوٹی باتوں سے بھی بہت بڑے بڑے سبق حاصل کر لیتے ہیں.اس قسم کی ایک مثال ہم نے سکول کی ریڈر میں پڑھی تھی کہ ایک شخص ایک اور مثال اس نے اپنے بھتیجوں سے کہا کہ ہم کل تمہیں کھانے کے بعد ایک لڈو کھلا ئیں گے جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا.وہ یہ سن کر حیران رہ گئے اور دل میں خوش ہوئے کہ وہ لڈو جو کئی لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا بہت ہی بڑا اور اعلیٰ قسم کا ہو گا.دوسرے دن جب وہ تھا
العلوم جلد ۳ ۵۵ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے کھانا کھانے بیٹھے تو ہر ایک نے کھانے میں سے ایک ایک دو دو لقمہ کھا کر چھوڑ دیا تا ایسا نہ ہو کہ مختلف کھانوں سے پیٹ بھر جائے اور اس لڈو کا مزا پورے طور پر نہ لے سکیں.جب کھانے سے فارغ ہو چکے تو بھتیجوں نے کہا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ کل تمہیں ایک لڈو کھلا ئیں گے جسے ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا اب وہ لڈو دیجئے.اس نے کہا مجھے اپنا وعدہ یاد ہے اور یہ کہہ کر اسی طرح کا ایک لڈو جس طرح کے بازار میں بکتے ہیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیا.اسے دیکھ کر لڑکوں کو سخت مایوسی ہوئی اور کہا کہ آپ نے تو وعدہ کیا تھا کہ ایسا لڈو کھلائیں گے جو ایک لاکھ آدمیوں نے بنایا ہو گا لیکن اب آپ نے ایک معمولی سالڈو سامنے رکھ دیا ہے یہ کیا بات ہے.چچا نے کہا.قلم لے کر حساب کرنا شروع کرو میں بتاتا ہوں کہ اس لڈو کو کتنے آدمیوں نے بنایا ہے.دیکھو ایک حلوائی نے اسے بنایا ہے پھر اس کے بنانے میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں ان میں سے ہر ایک چیز کو کئی کئی آدمیوں نے بنایا ہے.مثلاً شکر ہی کو لے لو اور دیکھو کہ اس کی تیاری پر کتنے ہزار آدمیوں کی محنت خرچ ہوئی ہے کوئی شکر کو ملنے والے ہیں کوئی رس نکالنے والے کوئی نیشکر ہونے والے.پھر ہل جو تنے پانی دینے حفاظت کرنے والے.اسی طرح ہل میں جو لوہا اور لکڑی خرچ ہوئی ان کے تیار کرنے والوں کو گھنٹے اسی طرح اگر تم تمام چیزوں کے بنانے والوں کا شمار کرو تو کیا لا کھ سے بھی زیادہ آدمی بنتے ہیں یا نہیں؟ بھتیجوں نے یہ بات سن کر کہا جو آپ کہتے تھے وہ ٹھیک اور درست ہے.تو بعض باتیں بظاہر چھوٹی معلوم ہوتی ہیں.لیکن اگر غور و فکر سے کام لیا جائے تو پتے پتے سے خدا تعالیٰ کی عظمت اور بڑائی اور شان و شوکت جلال اور جبروت، قدرت اور حکمت ظاہر ہوتی ہے.جن کو خدا نے غور کرنے والا دل و دماغ دیا ہے وہ غور کر کے معمولی سے معمولی چیزوں سے بڑے بڑے عظیم الشان فوائد حاصل کر لیتے ہیں.چنانچہ ایک زمانہ ایسا تھا کہ جب لوگ کئی ایک چیزوں کو کہہ دیتے تھے کہ یہ ردی ہیں.کسی کام کی نہیں.کسی مصرف میں نہیں آسکتیں.مگر آج ہم دیکھتے ہیں کہ ایک ایسی قوم جو غور و فکر سے کام لینے والی ہے.وہ ردی سے ردی اور ادنیٰ سے ادنی چیزوں کو بھی استعمال میں لاکر فائدہ اٹھارہی ہے.پاخانے سے بڑھ کر اور کیا چیز ردی اور فضول ہو سکتی ہے لیکن اس سے بھی ہزاروں روپے حاصل کئے جاتے ہیں.ہڈیوں کو فروخت کر کے لاکھوں روپے کما لئے جاتے ہیں.اسی طرح درختوں کے پتے جنہیں بالکل فضول سمجھا جاتا ہے اور بھڑ بھونج اکٹھا کر کے لے غور کرنے کا نتیجہ
انوار العلوم جلد ) ۵۶ ربوبیت باری تعالٰی ہر چیز پر محیط ہے جاتے ہیں.ان سے بڑے بڑے کام لئے جاتے ہیں.پھر گلیوں کے کوڑا کرکٹ کو فروخت کیا جاتا ہے یہ کیوں؟ اس لئے کہ انہوں نے غور و فکر کے ذریعہ معلوم کر لیا ہے کہ ان اشیاء میں بھی فائدے ہیں تو جو لوگ غور کرنے والے ہوتے ہیں وہ ادنیٰ سے ادنی بات سے بھی اعلیٰ سے اعلیٰ نتیجہ نکال لیتے ہیں.لعلمين ؟ پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللہ کی حمد کرو.کیوں؟ اس لئے کہ وہ خدا کیونکر رب ا تمام جہانوں کا رب ہے.میں نے ابھی بتایا ہے کہ بہت لوگ نہیں جانتے کہ خدا سب کا رب کس طرح ہے.میں بتاتا ہوں کہ وہ اس طرح ہے کہ ہر ایک ادنیٰ سے ادنی چیز کا خیال رکھتا اور اس کی پرورش کر کے اسے بڑھاتا ہے.یہی نہیں کہ وہ انسان کا خیال رکھتا ہے بلکہ انسان کے علاوہ جو بھی چیز ہے اس کا اسے خیال رہتا ہے نہ کہ اسے انسانوں پر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ اگر دیگر چیزوں کی ربوبیت انسان کے سپرد کی جاتی تو وہ کبھی اسے سرانجام نہ دے سکتا کیونکہ وہ اپنے ہی نفع اور فائدہ کا خیال رکھتا ہے.دیکھئے انسان غلہ ہوتا ہے لیکن اگر کھیت میں تمام غلہ ہی غلہ پیدا ہو تا تو بہت کم لوگ ایسے ہوتے جو دوسرے جانوروں کو کھانے کے لئے غلہ دیتے لیکن خدا تعالٰی چونکہ ان کا بھی رب ہے اس لئے اس نے جہاں انسانوں کے لئے ان کی محنت اور کوشش کے مطابق غلہ پیدا کیا ہے.وہاں اس نے چار پاؤں کے لئے اس مقدار سے جس سے انہوں نے محنت کی اور مشقت اٹھائی ہے تو ڑی بھی پیدا کر دی اور وہ صرف چار پاؤں کے کھانے کے لئے مخصوص کر دی ہے لیکن اگر تو ڑی ایسی ہوتی کہ انسان اسے کھا سکتا تو پھر امید نہ تھی کہ چار پاؤں کو دیتا.بلکہ خود ہی کھالیتا مگر خدا چونکہ رب العلمین ہے.وہ جانتا ہے کہ جس طرح انسان میری مخلوق ہے.اسی طرح بیل وغیرہ بھی میری ہی مخلوق ہے.اس لئے گیہوں کے ساتھ اس نے توڑی بھی پیدا کر دی.اسی طرح اور چیزوں کو دیکھو.قسم قسم کے پھل اور میوے ہیں ان کا ایک حصہ اگر انسانوں کے کھانے کے لئے بنایا گیا ہے تو دوسرا حصہ باریک اور کمزور کیڑوں اور چیونٹیوں کے لئے رکھ دیا گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں انسانوں کی ربوبیت کا انتظام کیا ہوا ہے وہاں حیوانوں اور ادنیٰ سے ادنی کیڑوں مکوڑوں کا بھی کیا ہوا ہے.جب ہم غور کے بعد اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں تو ساتھ ہی اس طرف بھی توجہ ہوتی ہے کہ جب خدا تعالی ایسا رحیم و کریم ہے اور اس کا اپنی مخلوق سے پیار و محبت ماں باپ سے بھی بہت زیادہ
انوار العلوم جلد ۴ ۵۷ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے بڑھا ہوا ہے تو جب اس نے اپنی ہر ایک مخلوق کے جسم کے لئے ایسا انتظام کیا ہے تو روح کے لئے کیا کچھ نہ کیا ہو گا جو جسم کی نسبت زیادہ قیمتی چیز ہے.یہ ایک موٹی بات ہے کہ جو باپ ایک دن کے لئے اپنے روح کی ربوبیت کے سامان لڑکے کو سفر پر بھیجنے کی خاطر جس قدر تیاری کرنے کی محنت اٹھاتا ہے وہ اگر دس دن کے لئے سفر پر بھیجے گا تو اس سے بہت زیادہ سامان کرے گا.اس بات کو ہ نظر رکھ کر سوچنا چاہئے کہ وہ خدا جس نے ہمارے ان جسموں کے لئے ایسا انتظام کیا ہوا ہے جو کچھ عرصہ کے بعد فنا ہو جاتے ہیں کہ ان کی کوئی ضرورت ایسی نہیں جو مہیا نہیں کی گئی.سننے کے لئے ہوا، روشنی کے لئے سورج، جسم ڈھانپنے کے لئے کپڑے، بیماریوں کے لئے دوائیاں غرضیکہ ہر ایک ضرورت کے سامان پیدا کئے ہوئے ہیں.تو پھر کیونکر خیال کیا جا سکتا ہے کہ اس نے روحانی ضرورتوں اور حاجتوں کے لئے کچھ نہیں پیدا کیا ہو گا.کبھی کوئی عقل یہ تجویز نہیں کر سکتی کہ جس خدا نے جسم کی حفاظت کے لئے اس قدر سامان پیدا کئے ہیں اس نے روح کے لئے کچھ نہیں کیا.خدا تعالیٰ کا رب العلمین ہونا اس بات کے ماننے پر ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اس نے ہماری روحوں کی زندگی کے لئے بھی کوئی سامان کیا ہو ورنہ وہ رب العلمین نہیں ہو سکتا.چنانچہ مشاہدہ اس بات کی تصدیق کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جب سے دنیا چلی آتی ہے اسی وقت سے ایسے لوگ ہوتے چلے آئے ہیں جنہوں نے خدا سے کلام پا کر دنیا کو خدا تعالی تک پہنچنے کی راہ بتائی.قرآن کریم میں آتا ہے.وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ قرآن کریم کی صداقت (خاطر : (۲۵) کہ کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے نبی نہیں بھیجا.یہ ایک ایسی تعلیم ہے جو کسی قسم کا تعصب پیدا کرنے کی بجائے نہایت وسعت پیدا کرتی ہے.کیونکہ اگر ایک عیسائی کو کہا جائے کہ ایران اور ہندوستان یا اور کسی ملک میں بھی نبی ہوئے ہیں تو اس کے لئے مشکل کا سامنا ہو گا کیونکہ وہ اعتقاد رکھتا ہے کہ نبوت بنی اسرائیل تک ہی محدود ہے اس کے علاوہ اور کسی قوم سے کوئی نبی نہیں ہو سکتا.اسی طرح جب ہندوؤں کو کہا جائے کہ تمہارے ملک کے علاوہ اور ممالک میں بھی نبی آئے ہیں تو وہ حیران ہو جاتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے مذہب کی تردید ہوتی ہے لیکن ایک مسلمان کی خوشی کی اس وقت کوئی انتہاء نہیں رہتی جب اسے بتایا جاتا ہے کہ فلاں ملک میں بھی نبی آیا ہے اور فلاں میں بھی.یہ سن
رالعلوم جلد ۴ ۵۸ ربوبیت باری تو کر وہ کہتا ہے سبحان اللہ کیسی اعلیٰ کتاب ہمیں دی گئی جس نے پہلے ہی بتا دیا ہوا ہے کہ کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس میں نبی نہ آیا ہو اور ایسا ہی ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ خدا رب العلمین ہے.ایک قوم کا رب نہیں ہے.وہ ہر ایک انسان کو خواہ وہ کافر ہو یا مؤمن ، افریقہ میں ہویا امریکہ میں ایشیا میں ہو یا یورپ میں خوراک پہنچاتا ہے.آنکھیں اور دیگر اعضاء دیتا ہے.اس کا سورج سب کو برابر روشنی پہنچاتا ہے.اس کا مینہ سب جگہ برستا ہے.اس کا پانی سب کی پیاس بجھاتا ہے پھر کیونکر ممکن ہے جو خدا جسمانی طور پر سب کی ربوبیت کرتا ہے وہ روحانی طور پر ایسا بخیل ہو کہ کسی ایک قوم اور ملک میں تو رسول اور نبی اور او تار بھیجے مگر دوسرے میں نہ بھیجے.اگر یہ مان لیا جائے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ باقی انسانوں کو خدا نے پیدا ہی کیوں کیا تھا.کیوں نہ انہیں گھوڑے گدھے بنا دیا کیونکہ جب انسان پیدا کیا تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ اس کی روحانی ضروریات کے سامان بھی پیدا کرتا اور جس طرح اس نے آنکھیں دے کر ان سے فائدہ اٹھانے کے لئے سورج پیدا کیا تھا اسی طرح جب اس نے دماغ دیا تھا تو اس کے لئے مذہب بھی بتا تا.ہر قوم میں نبی قرآن کریم کی تعلیم پاتی ہے اور واقعات اس کی تصدیق کرتے ہیں کہ تمام دنیا میں نبی آئے ہیں (الرعد: ۸ اور اس وقت تک کہ ایک ایسا مذ ہب نہ آیا جو تمام جہان کو تعلیم دے سکتا تھا.مختلف ممالک اور اقوام میں نبی آتے رہے کیوں؟ اس لئے کہ ہر قوم کے نبی صرف اپنی ہی قوم کے لئے آتے تھے.چنانچہ بنی اسرائیل کے انبیاء صرف اپنی ہی قوم کے لئے آئے اور ان کے سپرد اپنی ہی قوم کی تربیت کی گئی.جیسا کہ بائیبل سے پتہ لگتا ہے کہ جب حضرت مسیح کے پاس ایک غیر قوم کی عورت نے آکر کہا کہ "اے خداوند ابن داؤد مجھ پر رحم کر " تو انہوں نے کہا کہ میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا".پھر اس نے کہا "اے خداوند میری مدد کر " تو انہوں نے جواب دیا کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو ڈال دینی اچھی نہیں".(متی باب ۱۵ آیت ۲۲ تا ۲۶ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء) یہاں انہوں نے اقرار کیا ہے کہ میں بنی اسرائیل کے سوا اور کسی کو ہدایت دینے کے لئے نہیں بھیجا گیا.اسی طرح دیگر اقوام میں بھی ایسی ایسی باتیں ملتی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں جو نبی بھیجے گئے وہ صرف ان ہی کے لئے عد بكل قومِ هَادٍ
۵۹ ربوبیت باری تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہے ا اس لئے ضروری تھا کہ وہ اپنی اپنی قوم کو ہی تعلیم دیتے حتی کہ وہ نبی تمام دنیا کے لئے نبی آجائے جس نے کہا کہ میں تمام دنیا کے لئے بھیجا گیا ہوں اور یہ دعوئی اگر کسی نبی نے کیا ہے تو وہ ہمارے آنحضرت ﷺ ہی ہیں.چنانچہ رسول کریمی نے فرمایا ہے کہ مجھے دوسرے نبیوں کی نسبت پانچ باتوں میں فضیلت دی گئی ہے اور ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی اپنی قوم کے لئے بھیجے جاتے تھے.مگر میں تمام جہانوں کے لئے ہوں.(بخاری کتاب الصلوة باب قول النبي ﷺ جعلت لى الارض مسجداً و طهورا) یہ دعوئی آنحضرت سے پہلے کسی نبی نے نہیں کیا کہ میں ساری دنیا کے لئے ہوں اور کسی قوم کا یہ کہنا کہ ہمارا نبی تمام دنیا کے لئے آیا تھا درست نہیں ہو سکتا کیونکہ اس طرح تو مدعی ست گواہ چست والی مثل صادق آئے گی.اب بے شک عیسائی صاحبان کہتے ہیں کہ حضرت مسیح تمام دنیا کے لئے کی بھیجے گئے تھے لیکن ان کے اپنے الفاظ بتا رہے ہیں کہ وہ صرف بنی اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لئے بھیجے گئے تھے اور ان کے اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بعثت سارے جہان کے لئے نہ تھی.پس یہ بعد کی بنائی ہوئی بات ہرگز سند نہیں ہو سکتی کہ وہ سارے جہان کی طرف بھیجے گئے تھے.اسی طرح کسی نبی کا ایسا دعویٰ کسی اور مذہبی کتاب میں نہیں پایا جاتا.ہم یہ نہیں کہتے کہ قرآن کے سوا اور کوئی کتاب خدا کی طرف سے نہیں آئی.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس وقت جتنے مذہب بچے اور خدا کی طرف سے ہونے کے مدعی ہیں ان کی ابتداء خدا کی طرف سے ہوئی ہے اور ان میں جو کتابیں بھیجی گئیں وہ بھی ابتداء میں بچی تھیں لیکن موجودہ صورت میں وہ اس قابل نہیں ہیں کہ ان پر عمل کیا جائے اور نہ ان کا دعوی ہے کہ وہ تمام جہانوں کے لئے ہمیشہ کے واسطے ہیں.یہ دعوئی صرف قرآن کریم کا ہی ہے اور یہ ایسا دعوی ہے جو رب العالمین خدا کی شان کے شایان ہے اور جو لوگ اس کے خلاف تعلیم پیش کرتے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے رب العالمین ہونے کو نظر انداز کر دیتے ہیں.اگر وہ اس صفت کو مد نظر رکھتے تو کبھی حق سے دور نہ ہوتے.خدا تعالیٰ کا رب العالمین ہونا ایک اور بات کی طرف بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر پہلے فضل اور انعام کیا کرتا تھا اب بھی کرے.جو سامان ان کی ربوبیت کے پہلے پیدا کر تا تھا اب بھی پیدا کرے.خدا تعالیٰ رب العلمین یعنی سب جہانوں کا رب ہے.ان جہانوں میں ہم لوگ بھی جو اس زمانہ میں پیدا ہوئے ہیں شامل ہیں.پس ضروری ہے کہ جس طرح پہلے زمانوں میں انسان کی
انوار العلوم جلدم 4.روحانی ترقی کے لئے خدا تعالی سامان کیا کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرے.ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے قرآن کے بعد کوئی شریعت نہیں آسکتی لیکن اب چونکہ اس نے ایک کامل اور مکمل کتاب بھیج دی ہے اس لئے یہ ضروری نہ تھا کہ اس کے بعد کوئی اور کتاب بھی نازل کرے.دیکھئے ایک ڈاکٹر کسی مریض کو نسخہ دے اور پھر اس میں کوئی نقص دیکھے یا مریض کے مناسب حال نہ ہو تو اس کو بدل دے گا اور اس کی بجائے اور تجویز کرے گا لیکن اگر وہ نسخہ کامل ہو اور اس سے بیمار کو صحت بھی حاصل ہو تو پھر اس کو تبدیل نہیں کرے گا بلکہ بڑے زور سے تاکید کرے گا کہ اسے اچھی طرح استعمال کیا جائے.قرآن کریم سے پہلے جو کتابیں آئیں وہ چونکہ سارے جہان کے لئے نہ تھیں اور نہ ہی کو ہمیشہ کے لئے تھیں بلکہ وقتی اور قومی طور پر آئی تھیں اس لئے ان کے بعد اور کتابیں بھی وقتاً فوقتا نازل ہوتی رہیں لیکن جب ایک کامل کتاب سارے جہانوں کے لئے اور ہمیشہ کے لئے نازل ہو گئی تو پھر کسی اور کتاب کے نازل کرنے کی ضرورت نہ رہی.پس جہاں رب ال ب العلمین کی صفت سے یہ ثابت ہو گیا کہ ہر زمانہ میں ایسے انسان آتے رہے ہیں جو لوگوں کی روحانی اصلاح کرتے تھے وہاں یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اب بھی دنیا کی اصلاح کے لئے اس قسم کے آدمی آتے رہنے چاہئیں اور جو لوگ روحانی ترقی کے لئے کوشش کریں ان کی ترقی کے لئے دروازے کھلے رہنے چاہئیں کو اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ (المائدة : (۴) کہ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا کی خبر کے ماتحت آئندہ کے لئے کسی شریعت جدیدہ کا دروازہ بند مانا جادے گا.خدا کا.کا اپنے بندوں سے کلام کرنا مگر ضروری ہے کہ ایسے انسان ہوتے رہیں جو خدا تعالی کی روحانی ربوبیت کے سامان پیدا کرنے کا ثبوت ہوں ورنہ جس طرح یہ بات قابل قبول نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہندوستان کے لوگوں کی پرورش کے تو سامان پیدا کئے تھے مگر ایران کے رہنے والوں کو یونہی چھوڑ دیا تھا.اسی طرح یہ بھی قابل قبول نہیں کہ آج سے ہزار دو ہزار سال پہلے تو خدا تعالیٰ انسانوں کی روحانیت کے سامان پیدا کر تا تھا مگر آج نہیں کرتا.پس خدا تعالی کا رب العالمین ہونا بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی زمانہ میں بھی اپنے بندوں سے کلام کرنا بند نہیں کرتا لیکن اگر یہ مانا جائے کہ کبھی کلام الہی کا سلسلہ بند بھی ہو جاتا ہے تو یہ بھی مانا پڑے گا کہ ہم سے پہلے لوگوں کا جو خدا تھا وہ ہمارا خدا نہیں
لوم جلد ۲ 41 ربوبیت باری تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہے ہے مگر نہیں ہمارا بھی وہی خدا ہے اس لئے ضروری ہے کہ جو انعامات اس نے پہلے لوگوں پر کئے وہی ہم پر کرے اور جس طرح ان کو اپنے قرب کا شرف بخشا اسی طرح ہمیں بھی بخشے.پس AND NANGANAGE رَبِّ الْعَلَمِيْنَ سے دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے وہی مذہب ہو سکتا ہے جو یہ تعلیم دے کہ خدا تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں کی روحانی تربیت کرتا ہے اور اسی طرح کرتا ہے جیسے پہلے کرتا تھا.ہاں اب کسی نئی شریعت کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ کامل ہو چکی ہے البتہ یہ ضرورت ہے کہ اس پر عمل کرانے والے لوگ آتے رہیں اور جو زائد باتیں اس میں مل گئی ہوں ان کو دور کر کے اصل شریعت کو لوگوں کے سامنے رکھ دیں.یہی ایک ایسی بات ہے کہ جو تمام مذاہب کا فیصلہ کر دیتی ہے.دیگر مذاہب خدا تعالیٰ کو رب العلمین کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی اپنے سوا باقی سب کو بالکل جھوٹا کہتے ہیں اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی روحانی ربوبیت مکان کے علاوہ زمانہ کے لحاظ سے بھی ایسی محدود ہے کہ اب وہ بھی اس سے محروم ہیں مگر اسلام کی یہ تعلیم نہیں.اسلام خدا تعالیٰ کو حقیقی معنوں میں رب العالمین مانتا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت ہمیشہ سے تمام اقوام کے لئے رہی ہے اور کسی زمانہ سے مخصوص نہیں.ہاں وہ ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ اس وقت سوائے اس کے دیگر مذاہب خدا تک نہیں پہنچا سکتے کیونکہ وہ اب اپنی اصلی حالت سے بگڑ گئے ہیں اور زمانہ حال کی ضروریات کے بھی مطابق نہیں اور اس بات کا تو خود ان کو بھی اقرار ہے کہ اس وقت ان پر چل کر فی الواقع کوئی شخص خدا تعالیٰ سے ملاقی نہیں ہو سکتا.پس خدا تعالیٰ کی صفت رب العالمین جس کے مخالفین اسلام بھی قائل ہیں اسلام کے دعویٰ کی تائید کرتی ہے.اس بات پر تمام مذاہب کے لوگوں کو غور کرنا چاہئے کہ جب وہ مانتے ہیں کہ قابل غور بات خدا ہم سب کا رب ہے اور اسی طرح کا رب ہے جس طرح ہم سے پہلوں کا تھا.پس اگر واقع میں وہ ہمارا بھی رب ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم سے کئی سو سال پہلے تو کلام کرتا تھا مگر اب نہیں کرتا.اس کا جواب ان کے مذہب کوئی نہیں دے سکیں گے لیکن اسلام کہتا ہے کہ اب بھی خدا کلام کرتا ہے اور اس کے ثبوت میں آنحضرت ا نے فرمایا ہے کہ اسلام میں خدا ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھیجے گا جو خدا سے کلام پاکر لوگوں کی اصلاح کریں گے اور اللہ سے علم پائیں گے.(ابو داؤد کتا ابوداود کتاب الملاحم باب ما یذکر فی قرن المائة، چنانچہ ایسے لوگ اسلام میں ہوتے رہے ہیں اور اس زمانہ میں بھی ایک انسان ہوا ہے جو اس بات کا مدعی تھا کہ میں
العلوم جہانی ۶۲ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے اسلامی احکام پر چلنے والا اور رسول کریم ﷺ کا غلام ہوں اور اسلام کی تعلیم پر چل کر اس مرتبہ پر پہنچا ہوں کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے اور آئندہ کی خبریں بتاتا ہے.اگر اس کا یہ دعوئی درست ثابت ہو جائے اور ہونا چاہئے ورنہ یہ ثابت ہو جائے گا کہ خدا رب العلمین نہیں ہے تو کسی عظمند انسان کو اسلام کے سچا ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنا چاہئے.میں نے بتایا ہے کہ ہمارے آنحضرت ا نے خدا کی ربوبیت کا ثبوت اسلام میں فرمایا ہے کہ اسلام میں ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو خدا سے کلام پاکر لوگوں کی اصلاح کریں گے اور اس کی وجہ یہ بتلائی ہے کہ خدا تعالیٰ جیسے پہلے لوگوں کا رب تھا اسی طرح ہمارا بھی رب ہے اور وہ ہماری روحانی ربوبیت کے لئے ضروری ہے کہ ایسا ہو.پھر میں نے بتایا ہے کہ اس زمانہ میں ایک انسان ہوا ہے جس کی خدا تعالیٰ نے خاص طور پر تربیت کی اور وہ خدا سے کلام پا کر کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ مجھے اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے اور رسول کریم ﷺ کی غلامی کی وجہ سے یہ رتبہ حاصل ہوا ہے کہ جس طرح پہلے لوگوں کی روحانی ربوبیت کے لئے نبی بھیجے جاتے تھے اسی طرح مجھے بھیجا گیا ہے.جو لوگ یہ سننے کے عادی ہیں کہ ہمارے رسول کے بعد اب کوئی رسول نہیں آسکتا اور نہ اب خدا کسی سے کلام کرتا ہے وہ یہ سن کر حیران ہوں گے لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ یہ خیال اسی وقت پیدا ہو تا رہا ہے ہے جب قومیں گرنے لگی ہیں.دیکھئے یہود کا ہمیشہ یہ خیال رہا کہ انبیاء کے آنے کا سلسلہ جاری ہے اور خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے لیکن جب ان کی تباہی کا وقت آیا تو ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ انبیاء کا آنا بند ہو گیا ہے اور اب خدا کسی سے کلام نہیں کرتا.اسی طرح عیسائیوں میں بھی یہی خیال پیدا ہوا اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جو چیز کسی کے پاس نہ ہو وہ اول تو اس کے ہونے سے ہی انکار کرتا ہے نہیں تو اسے بڑا اور فضول بتاتا ہے.چنانچہ انگور کھٹے کی مثل مشہور ہے.تو وہ مذہب جو کسی نبی کے آنے سے یا خدا کے کلام کے جاری رہنے سے انکار کرتے ہیں وہ اس لئے نہیں کرتے کہ انہیں ضرورت محسوس نہیں ہو رہی بلکہ اس لئے کرتے ہیں کہ ان میں یہ خوبی نہیں پائی جاتی اور اس کو تسلیم کر کے انہیں مانا پڑتا ہے کہ ہمارا مذ ہب قابل قبول نہیں ہے مگر اسلام اس کا انکار نہیں کرتا بلکہ اس کے ہونے کا ثبوت دیتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں بھی اس نے ثبوت پیش کیا ہے اور ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ مجھے خدا نے نبی بنا کر دنیا کی
انوار و العلوم جلد ۳ ۶۳ ربوبیت باری تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہے اصلاح کے لئے بھیجا ہے اور خدا تعالٰی کا رب العالمین ہونا اس کے اس دعوی کی کہ اب بھی دنیا ہے کی روحانی ربوبیت کے سامان ہونے چاہئیں تصدیق کرتا ہے.گو یہ بات رہ جاتی ہے کہ دیکھا جائے کہ یہ دعوی کرنے والا سچا ہے یا نہیں.اس کے لئے میں مختصر طور پر کچھ دلائل بتاتا ہوں.یاد رکھنا چاہئے کہ اس مدعی نے اس حضرت مرزا صاحب کے دعوی کی صداقت زمانہ میں جبکہ مادیات کا بہت زور شور ہے اور کوئی شخص ماننے کے لئے تیار نہیں کہ خدا بھی کلام کرتا ہے حتی کہ خدا نے جو پہلے کلام کیا ہوا ہے اسے بھی رد کیا جاتا ہے دعوی کیا ہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے.اس وقت ہندوؤں میں ایسے لوگ موجود ہیں جو باوجود اپنے پاس خدا کا کلام موجود ہونے کے کہتے ہیں کہ خدا کلام نہیں کرتا.عیسائیوں میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو انجیل و تورات کی موجودگی کے باوجود خدا تعالیٰ کے کلام کرنے کے منکر ہیں.خود مسلمانوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو خدا کے کلام کا انکار کرتے ہیں اس زمانہ میں اس قسم کا دعوی کوئی معمولی بات نہیں پھر ایک تعلیم یافتہ اور سمجھدار جماعت سے اس دعویٰ کی تصدیق کرانی اور بھی مشکل کام ہے مگر اس مشکل کام کو اس مدعی نے سرانجام دے کر دکھا دیا ہے اور جو شخص بھی اس کے حالات کو بے تعصبی کی نگاہ سے دیکھے گا اسے اس کی صداقت کا قائل ہونا پڑے گا.آج سے چالیس سال پہلے اس شخص نے یہ اعلان کیا تھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کہا ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا.پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.(تذکرہ صفحہ ۱۰۴ ایڈیشن چہارم) یہ الهام اس وقت آپ نے شائع کیا جبکہ آپ کی حالت نہایت کمزور تھی اور آپ کا نام تک کوئی نہ جانتا تھا.قادیان ایک ایسی چھوٹی سی بستی تھی کہ جس کی کوئی شہرت نہ تھی.ایک پرائمری مدرسہ اور ایک برانچ پوسٹ آفس تھا جس کے انچارج کو تین روپیہ ماہوار الاؤنس ملا کرتا تھا مگر باوجود اس کے کہ ہر لحاظ سے دنیاوی طور پر حالت کمزور تھی آپ نے دعوی کیا کہ میں اسلام کی صداقت میں یہ ثبوت پیش کرتا ہوں کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے اور یہ کلام کیا ہے کہ.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا“.(تذکرہ صفحہ ۱۰۴ ایڈیشن چهارم)
انوار العلوم جلدم ۶۴ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے اس میں پیشگوئی کی گئی تھی کہ میں نذیر ہوں یعنی جس طرح کہ پہلے نبی آتے رہے ہیں اسی طرح کا میں بھی نبی ہوں ( نذیر جب مأمور کی نسبت بولا جاوے تو لغت میں اس کے معنی نبی کے ہوتے ہیں) دنیا مجھے قبول نہیں کرے گی مگر اللہ جس نے مجھے بھیجا ہے وہ قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے دنیا کو منوا کر چھوڑے گا.یہ پیشگوئی آپ نے اس وقت شائع کی جبکہ آپ کا ایک بھی مرید نہ تھا.پھر جب آپ نے دعوی کیا تو چاروں طرف سے دشمنوں نے آپ پر حملے کرنے شروع کر دیئے.عیسائیوں ہندوؤں اور خود آپ کے ہم مذہبوں نے آپ کی مخالفت کے لئے کمر باندھ لی.قتل کی سازشیں کی گئیں.کافر قرار دیا گیا اور یہاں تک فتوے دیئے گئے کہ جو شخص اس سے کلام کرے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا اور اس کی اولاد ولد الزنا ہوگی.پھر ایسے شخص سے جو مصافحہ کرے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا جو اس کی شکل دیکھے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا.غرض کہ آپ کے خلاف کفر اور سازشوں اور منصوبوں کا ایسا حربہ چلایا گیا جس کی نظیر نہیں ملتی.مگر باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں کہ انجام کار کامیابی آپ ہی کو ہوئی.ایک بڑے سے بڑے انسان کے جب اس قدر مخالف پیدا ہو جائیں اور اس زور کے ساتھ حملہ آور ہوں تو وہ تباہ ہو جاتا ہے.چہ جائیکہ دنیاوی لحاظ.ایک معمولی آدمی کے ساتھ ایسا سلوک ہو اس کا جو حال ہونا چاہئے وہ سمجھ لیا جائے.مگر حضرت مرزا صاحب نے ایسی ہی حالت میں اعلان کیا کہ میں نذیر ہو کر آیا ہوں اگر تم مجھے خوشی سے قبول نہ کرو گے تو زبر دستی قبول کرایا جائے گا.پھر آپ نے فرمایا: - فَحَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ : بَيْنَ النَّاسِ ( تذکرہ صفحہ ۲۷۳ ایڈیشن چہارم) کہ وقت آگیا ہے کہ تیری مدد کی جائے اور تو دنیا میں پہچانا جائے.پھر فرمایا يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (تذکره صفحه ۲۰۱ ایڈیشن چهارم) يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ ( تذکرہ صفحہ ۲۹۷ ایڈیشن چہارم) چاروں طرف سے تحفے تیرے پاس آدیں گے اور کثرت سے لوگ تیرے پاس آئیں گے.یہ وہ وقت تھا جب کوئی انسان خیال بھی نہیں کر سکتا ہے تھا کہ ایسی حالت ہو جائے گی مگر حضرت مرزا صاحب نے جو نہ مال رکھتے تھے نہ شہرت نہ کوئی خطاب یافتہ تھے نہ سلطنت اور سوائے اس کے کہ آپ ایک شریف خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ہر قسم کی دنیاوی عزت سے محروم تھے.ایسے وقت میں آپ نے اعلان کر دیا کہ میرا نام تمام دنیا میں مشہور کیا جائے گا.اب دیکھو باوجود مخالفوں کی سخت مخالفت اور دشمنی کے نتیجہ کیا نکلا یہی کہ سب پہلوان جو آپ کے مقابلہ پر کھڑے ہوئے پچھاڑے گئے اور ابھی دس سال بھی
دم جلد ۴ ۶۵ ربوبیت باری تعالیٰ ہر چیز پر محیط ہے نہ گزرے تھے کہ دنیا پر آپ کی شہرت ہو گئی اور آج کئی لاکھ کی جماعت آپ کے نام پر جان دینے والی موجود ہے اور ہر ملک میں آپ کا نام پھیلا ہوا ہے اب امریکہ میں بھی ایک شخص نے آپ کو قبول کیا ہے.انگلستان، چین، ماریشس اور الجزائر وغیرہ ممالک میں تو ہماری جماعتیں موجود ہیں.یہ سب کچھ ایسی صورت میں ہوا کہ ساری دنیا آپ کی مخالفت کے لئے زور لگاتی رہی اور اس ایک پہلوان کے مقابلہ میں سارے پہلوان اٹھے.مگر اس نے جیسا کہ پہلے سے ہی کی کہہ دیا تھا کہ میں سب کو گرالوں گا چنانچہ اس نے گر الیا اور کامیاب ہو گیا.اب بتائیں کہ وہ کفر کے فتوے کہاں گئے اور فتوے لگانے والے کدھر گئے.اس شہر کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ جب آپ نے دعوی کیا تو آپ پر کس طرح فتوے لگائے گئے مگر وہ دیکھ لیں کہ آپ کا نام دنیا میں کس شان اور سرعت کے ساتھ پھیلا اور پھیل رہا ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ وہی لوگ جنہیں اپنی آزادی کا بڑا گھمنڈ تھا اور دوسروں کو غلام سمجھتے تھے وہ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ ہم آپ کے غلام ہیں.حالانکہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے غلاموں میں سے ایک غلام ہوں.انگلستاں ایسا آزاد ملک کہ جہاں کے لوگوں نے پوپ کی ماتحتی کو گوارا نہ کیا اور ایسے آزاد کہ کسی کی پرواہ نہ کرنے والے.وہاں سے بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم اس وقت تک سوتے نہیں جب تک کہ احمد پر درود نہ بھیج لیں.کیا یہ حضرت مرزا صاحب کے بچے ہونے کا زبر دست ثبوت نہیں ہے.اگر آپ کوئی ایسی بات پیش کرتے جو دنیا کی منظور نظر ہوتی تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ اس کو قبول کرنے کے لئے پہلے سے ہی دنیا تیار تھی مگر آپ نے وہی باتیں پیش کیں جن کا دنیا انکار کر رہی تھی.اس زمانہ میں یہ ماننے کے لئے کون تیار تھا کہ خدا اپنے بندوں کو الہام کرتا ہے لوگ تو اپنی الہامی کتابوں کو بھی چھوڑ رہے تھے اور الہام کا بالکل انکار کر رہے تھے مگر آپ نے قبل از وقت بتا دیا کہ لوگ مجھے قبول کریں گے اور دنیا پر میرا نام پھیل جائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور یہ خدا کے بتائے کے بغیر نہیں کہا جا سکتا تھا.حضرت مرزا صاحب اسلام کی صداقت کا ثبوت حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ نے آکر بتادیا کہ خدا رب العالمین ہے اور جس طرح پہلے اپنے بندوں سے کلام کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے.پھر آپ نے یہ بھی ثبوت دے دیا کہ اسلام ہی ایک سچا اور قابل قبول مذہب ہے.اگر صاحب کوئی مستقل دعوی کرتے تو اس سے یہ نتیجہ نکل سکتا تھا کہ آپ خود کوئی تعلیم لائے ہیں
العلوم خالد بن ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے جس پر چل کر یہ مرتبہ حاصل ہو سکتا ہے مگر آپ نے تو یہ کہا کہ مجھے جو کچھ حاصل ہوا وہ رسول کریم ﷺ کی اتباع اور آپ کی وجہ سے حاصل ہوا ہے.اس لئے ثابت ہو گیا کہ یہ اسلام پر چلنے کا نتیجہ ہے.پھر آپ نے ابتدائی زمانہ میں یہ بھی اعلان شائع کیا تھا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ دنیا تیرا انکار کرے گی اور لوگ شرارت سے کام لیں گے ان پر طاعون کا عذاب آئے گا.چنانچہ اس اعلان کے پندرہ سال بعد طاعون پھوٹی اور ایسی پھوٹی کہ ابھی تک بند ہونے میں نہیں آتی.کیا کوئی انسان اس قدر قبل از وقت کوئی بات بتانے کی طاقت رکھتا ہے؟ پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے پندرہ سال پہلے اپنی طرف سے ایک بات کہہ دی ہو اور وہ پوری بھی ہو جائے انسان کو تو یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ ایک منٹ کے بعد کیا ہو گا کہاں اتنے عرصہ کی خبره پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ خدا کی طرف سے آپ کو یہ علم دیا گیا تھا اور اس سے پتہ لگتا ؟ ہے کہ جیسے خدا تعالیٰ پہلے ربوبیت کرتا تھا اب بھی کرتا ہے.اور یہ بھی کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کا ثبوت پیش کرتا ہے.کوئی کہے کہ یہ تو مان لیا جائے کہ اسلام ربوبیت سے فائدہ اٹھانا انسانوں کا کام ہے میں خدا کی ربوبیت کا ثبوت ملتا ہے لیکن یہ سارے جہانوں کے لئے تو نہ ہوئی.اس کا جواب یہ ہے کہ سارے جہانوں کے لئے ربوبیت کے ہونے سے یہ ضروری نہیں کہ سارے کے سارے انسان فائدہ بھی اٹھا ئیں.دیکھئے خدا تعالی نے سورج پیدا کیا ہے اور سب کے لئے پیدا کیا ہے مگر جو آنکھیں بند کر کے بیٹھ رہے وہ اس کی روشنی سے محروم رہے گا اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سورج سب کے لئے نہیں ہے.اسی طرح روحانیت کی بات ہے اسلام کے متعلق تمام لوگوں کے نہ ماننے کی وجہ سے یہ نہیں کہانی جاسکتا کہ سب کے لئے نہیں ہے.اسلام تو ہر ایک کے لئے ہے آگے جس کی مرضی ہو قبول کرے اور جس کی نہ ہو نہ کرے.قبول کرنے والوں کو خدا کی معرفت اور قرب حاصل کراتا اور اس کی صفت ربوبیت سے فائدہ حاصل کرنے کا موقع دیتا ہے.چنانچہ اس زمانہ میں ایک کو اس نے نبوت کے درجہ پر کھڑا کیا مگر وہ رسول کریم اللہ کے غلاموں میں سے ایک غلام ہے.کیونکہ اب کوئی نبی ایسا نہیں آسکتا جو اسلام کا ایک شعثہ بھی کم کرے کیونکہ اسلام کامل ہو چکا ہے اور اس کے بعد اور کوئی شریعت نہیں آسکتی مگر باوجود اس کے رب العلمین کا دعوئی
م جلد ۴ 46 ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط - ثابت کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں جو الہام پا کر اس بات کا ثبوت دیں کہ خدا اب بھی اپنے بندوں کی ربوبیت کرتا ہے ورنہ اس زمانہ کے لوگوں کا حق تھا کہ وہ ان کہتے کہ ہم سے پہلوں کی تو انبیاء بھیج کر ربوبیت کی گئی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہماری نہیں کی جاتی.اس اعتراض کو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے دور کر دیا ہے اور میں نے بتایا ہے کہ آپ کی صداقت کے ثبوت میں خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے نشانات دکھلائے ہیں کہ ان پر غور کرنے والا کوئی انکار نہیں کر سکتا.آپ کو غیب کی خبریں بتائی گئیں جو نہایت صفائی کے ساتھ اپنے اپنے وقت پر پوری ہو ئیں اور یہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں ہے بلکہ خدا کا ہی کام ہے.لیکن کس قدر رنج اور افسوس کا مقام ہے کہ حضرت مرزا صاحب کے مخالفین مین مسلمان آپ کا نام دجال رکھتے ہیں ایسے لوگوں کو میں کہوں گا کیا دقبال کا کام اسلام کی خدمت کرنا ہے.مسیلمہ دقبال تھا کیا وہ اسلام کی تائید کرتا اور اسلام کے دشمنوں کے اعتراضوں کو رد کرتا تھا؟ یہ لوگ اپنے دل میں انصاف سے کام لیکر کہیں کہ آج تک جن لوگوں نے جھوٹے دعوے کئے ہیں.انہوں نے حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں اسلام کی کیا تائید کی ہے.آپ تو ایسے وقت میں کھڑے ہوئے اور اس وقت اسلام کی تائید کا بیڑا اٹھایا جبکہ لوگ مذہب کو فضول چیز سمجھنے لگ گئے تھے.قرآن کریم کو لغو سمجھا جاتا تھا.چنانچہ امپیریل کو نسل میں ایک مسلمان ممبر نے ایک موقع پر کہا کہ یہ تیرہ سو سال کی پرانی کتاب کیوں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہے.یہ کہنے والے وہ صاحب تھے جو مسلم لیگ کے پریذیڈنٹ بن چکے تھے اور مسلمانوں کے قائم مقام کہلاتے ہیں ان کے اس کہنے پر انگریز ممبروں نے بھی نفرت کا اظہار کیا مگر انہیں باوجود مسلمان کہلانے کے کوئی خیال نہ آیا تو اسلام کی یہ حالت ہو گئی تھی.پھر بہت لوگ تھے جو کہتے تھے کہ قرآن خدا کا کلام نہیں بلکہ محمد ان کے اپنے خیالات ہیں تو ایسے وقت میں حضرت مرزا صاحب نے اسلام کی تائید کا بیڑا اٹھایا جبکہ خود مسلمان اس پر حملہ آور ہو رہے تھے اور جو کچھ غیر کرتے تھے اس کا تو ذکر کرنا بھی نہایت درد انگیز ہے.ایسے خطرناک وقت میں حضرت مرزا صاحب نے نہ صرف ایک ایسی جماعت پیدا کی جو اسلام کو صحیح طور پر ماننے والی ہے بلکہ غیروں کی طاقت اور ہمت کو توڑ دیا.چنانچہ کچھ عرصہ ہوا عیسائیوں کی ایک کانفرنس ہوئی تھی جس میں سوال اٹھایا گیا تھا کہ کچھ مدت سے شمالی ہند میں اعلیٰ خاندان کا کوئی شخص عیسائی نہیں ہو تا.اس کا جواب واقف کاروں نے یہ دیا کہ اس طرف مرزا غلام احمد
انوار العلوم جلد ۴ ربوبیت باری تعالٰی ہر چیز پر محیط ہے نے ہمارے خلاف تحریک شروع کی ہوئی ہے جو ہماری ترقی میں روک ہے.پس یہ دشمن کا اپنا اقرار ہے کہ جہاں حضرت مرزا صاحب کی تعلیم پھیلی وہاں اس کی ترقی رک گئی.اور خوبی وہی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے جس کا دشمن کو بھی اقرار ہو.پھر وہ یورپ جو اسلام کو ایک بد ترین اور وحشیوں کا مذہب سمجھتا تھا، اس میں ایسے ایسے لوگ کھڑے ہو رہے ہیں جو نہ صرف اسلام کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھتے ہیں بلکہ اسے حرز جان بنا رہے ہیں اور اس سے ایک گھڑی علیحدہ رہنا اپنی موت سمجھتے ہیں.چنانچہ کئی ایک نو مسلموں کے میرے پاس خط آئے ہیں جو لکھتے ہیں کہ ہم نے د کر لیا ہے کہ جنگ کے بعد اپنا کام کاج چھوڑ کر اسلام کی تبلیغ میں مشغول ہو جائیں گے.ایک نے لکھا کہ آپ ہماری قوم کے لوگوں کی عادت سے واقف نہیں ہیں.وہ دوسروں کی بات مشکل سے ماننے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن اگر ان کی اپنی ہی قوم کا آدمی انہیں کچھ بتائے تو وہ توجہ اور غور سے سنتے اور مان لیتے ہیں.اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میں خود انہیں تبلیغ کروں اور اسلام کی طرف دعوت دوں اور اس کام میں اپنی زندگی صرف کردوں.حضرت مرزا صاحب کے کام کو دیکھو آپ لوگ جانتے ہیں کہ کسی کے دل پر قبضہ حاصل کرنا انسان کا کام نہیں ہے.مگر حضرت مرزا صاحب نے قبل از وقت کہہ دیا تھا کہ میں ایسا کروں گا اور دنیا مجھے قبول کرے گی اور پھر ثابت کر کے بھی دکھا دیا.لیکن اب کس قدر افسوس اور رنج کی بات ہوگی کہ اب بھی مسلمان آپ کو دقبال اور اسلام کا دشمن کہیں.کیا دجال کے دل میں ایسی ہی اسلام کی محبت اور الفت کی تی ہے اور وہ اس کے لئے اسی طرح کوشش اور سعی کرتا ہے.اگر فرض کر لو کہ وہ انسان جو اسلام کی صداقت رسول کریم ﷺ کی صداقت، قرآن کریم کی صداقت کا ثبوت پیش کرتا ہے وہ دنبال ہے تو واللہ وہ ایسے مسلمانوں سے ہزار درجہ بہتر ہے جو اسلام کے لئے باعث ننگ اور عار ہو رہے ہیں.حضرت مرزا صاحب خود فرماتے ہیں.بعد از خدا بثق محمد مخترم گر کفر این بود بخدا سخت کا فرم کہ میں اللہ کی محبت کے بعد رسول کریم ﷺ کی محبت سے مخمور ہو رہا ہوں.اگر اس کا نام کفر ہے تو خدا کی قسم میں بڑا ہی سخت کافر ہوں.پس اگر خدا کی خدائی ثابت کر کے دکھانا اسلام کی صداقت دنیا کے سامنے پیش کرنا اسلام
نوار العلوم جلد ۴ 49 ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے کو عالمگیر اور زندہ مذہب ثابت کرنا خدا کی کسی صفت کو باطل کہنے والوں کے مونہہ بند کرنا دنیا کو نجات اور قرب الہی کا راستہ بتانا، قرآن کریم کو پاک اور الہامی کتاب ثابت کرنا دجالیت ہے تو خدا کرے کہ سب دجال ہی ہو جائیں.لیکن کوئی ذرا اسلام کی محبت کو دل میں جگہ دے کر ، عقل سے کام لے کر ، تعصب سے بری ہو کر اور عناد سے خالی ہو کر اتنا تو سوچے کہ حضرت صاحب اور رجال میں تو مشرق و مغرب کا بعد ہے.اگر بے تعصبی سے کوئی شخص اس امر پر غور کرے گا تو ضرور اسے یہ بعد نظر آئے گا.حضرت مسیح ناصری کی نسبت کہتے ہیں کہ ان پر یہ الزام لگایا گیا کہ تم شیطان کے دوست ہو.اس کا انہوں نے نہایت لطیف جواب دیا اور وہی جواب حضرت مرزا صاحب کی طرف سے میں دیتا ہوں.انہوں نے کہا کیا کوئی اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے.کیا بعل اپنے خلاف آپ باتیں کرتا ہے یعنی میں تو اس کے خلاف باتیں کہتا ہوں پھر میرا اس سے کس طرح کا تعلق ہو سکتا ہے.اگر اس سے تعلق ہو تا تو میں اس کی تائید کرتا نہ کہ اس کے خلاف کہتا.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر حضرت مرزا صاحب نعوذ باللہ دجال بن کر اسلام کو مٹانے کے لئے آئے تھے تو چاہئے تھا کہ وہ اس کی تکذیب کرتے.قرآن کریم کی تکذیب کرتے مگر وہ تو کہتے ہیں کہ اسلام ہی ایک زندہ مذہب ہے اور وہ اس بات پر زور دیتے رہے کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت عیسی تو زندہ آسمان پر موجود ہوں اور آنحضرت ا مردہ زمین میں دفن ہوں.پھر آپ نے قرآن کریم کو خدا کا کلام ثابت کرنے کے لئے ایسے ایسے زبردست دلائل دیئے کہ جن کا کوئی انکار نہ کر سکے.پھر کس طرح کہا جائے کہ آپ رسول کریم کی ہتک کرنے اور اسلام کو مٹانے آئے تھے کیونکہ دجال کے متعلق تو آنحضرت ا نے فرمایا ہے کہ اسلام کو مٹانے کے لئے کھڑا ہو گا اسنن ابی داؤد کتاب الملاحم باب خروج الدجال، مگر حضرت مرزا صاحب نے تو ساری زندگی اسلام کے پھیلانے میں ہی صرف کردی تھی اور ایک ایسی جماعت بنادی جو خدا کی راہ میں اپنے مال کو صرف کر رہی اور ہے اشاعت اسلام کا کام سرانجام دے رہی ہے.ذرا آپ لوگ غور تو فرما ئیں کہ اس زمانہ میں وہ کونسی قوم ہے جو بے دریغ اپنے مالوں کو اسلام کی اشاعت کے لئے صرف کر رہی ہے اور وہ کونسی قوم ہے جو تعداد کے لحاظ سے تم سے بہت کم ہے مگر قربانی کے لحاظ سے بہت بڑھی ہوئی ہے.وہ ایک غریبوں کی جماعت ہے اور پانچ چھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے مگر اس وقت تک لاکھوں روپے اسلام کی تائید میں خرچ کر چکی ہے لیکن تم کروڑون ہو کر اس سے آدھا بھی خرچ
انوار العلوم جلدم ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط ہے نہیں کر رہے.پس ان لوگوں کو جو حضرت مرزا صاحب پر طرح طرح کے الزام لگاتے ہیں خدا تعالی کی خشیت اور خوف سے کام لینا چاہئے اور انہیں غور کرنا چاہئے کہ ان کے مونہہ سے کیا نکل رہا ہے کیونکہ خدا کی طرف سے اسلام کی تائید کرنے کے لئے آنے والے انسان کا نام دجال رکھنا اس کی ہتک کرنا نہیں بلکہ اسلام کی ہتک کرتا ہے کہ اسلام اپنے قیام کے لئے ایک رجال کا محتاج تھا.اگر وہ نہ آیا ہو تا تو نہ معلوم اس کی کیا حالت ہوتی.حضرت مرزا صاحب نے دنیا میں آکر وہ کام کر دکھلایا اور ایسے نشانات پیش کئے کہ جن کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.چنانچہ آپ نے مختلف مذاہب کے لوگوں کو چیلنج دیا کہ میرا دعویٰ ہے کہ اسلام سچاند ہب ہے اور تم کہتے ہو کہ نہیں ہمارے مذہب بچے ہیں.آؤ اس کا فیصلہ کر لو اور وہ اس طرح کہ کچھ مریض لیتے ہیں اور ان کو قرعہ اندازی کے ذریعہ آپس میں تقسیم کر لیا جائے پھر ان کی صحت کے لئے دعا کی جائے جس کے مریض زیادہ صحت یاب ہوں گے اس کا مذہب سچا ثابت ہو جائے گا.یہ تو فیصلہ کا ایک آسان طریق تھا لیکن کوئی مقابلہ پر نہ آیا اور پانیر اخبار میں مضمون لکھا گیا کہ ہمارے پادری جو اتنی اتنی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں کیوں اس وقت مقابلہ کے لئے نہیں نکلتے لیکن پھر بھی کوئی نہ آیا.میں نے اس وقت آپ لوگوں کے سامنے مختلف مذاہب کا غور و فکر سے کام لینا چاہئے مختصر سا ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مذہب کوئی معمولی چیز نہیں ہے بلکہ اس راستہ کا نام ہے جو خدا تعالیٰ سے ملاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے پیاری اور کیا چیز ہو سکتی ہے.پس میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ پیشتر اس کے کہ آپ لوگوں پر موت کی گھڑی آئے آپ غور کریں کہ زندہ مذہب کونسا ہے اور زندہ خدا کا ثبوت کس مذہب میں ملتا ہے اور کونسا مذ ہب ہے جو خدا کو رب العلمین ثابت کرتا ہے اگر آپ لوگ غور کریں گے تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس میں یہ سب باتیں پائی جاتی ہیں اسی طرح جو لوگ حضرت مرزا صاحب کے منکر ہیں ان کو معلوم ہو جائے گا کہ اس زمانہ میں صرف حضرت مرزا صاحب ہی کی جماعت اس بات کی مدعی ہے کہ الہام کا دروازہ کھلا ہے اور خدا تعالیٰ کا یہ انعام آج بھی اسی طرح حاصل ہو سکتا ہے جس طرح آج سے پہلے ہو تا تھا.چنانچہ حاصل ہوا اور ہماری جماعت میں سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جن سے خدا تعالیٰ نے کلام کیا اور ان کو خدا کے کلام کی لذت اور سرور حاصل ہوا.ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اور مشکلات و مصائب میں
دم جلد ۴ ربوبیت باری تعالی ہر چیز پر محیط - ان کا دستگیر بنتا ہے.پس جب یہ ثابت ہو گیا تو بتلائیے آپ لوگ کونسا طریق پسند کرتے ہیں.افسوس کہ بہت لوگ ہیں جو غور نہیں کرتے.اگر غور کریں تو جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے چھوٹی چھوٹی باتوں سے بڑے بڑے نتائج اخذ کرلیں.آج کل لوگ تجارتوں ، ملاقاتوں، دعوتوں اور بہت سی بیہودہ باتوں کے لئے تو وقت نکال لیتے ہیں لیکن جب انہیں مذہب کے متعلق غور و فکر کرنے کے لئے کہا جائے تو کہتے ہیں کہ فرصت نہیں.گویا مذہب نعوذ باللہ بے ہودہ باتوں اور گیوں سے بھی زیادہ فضول اور لغو چیز ہے.یہ ایک خطرناک مرض ہے اور جس کے اندر ہو اسے بہت جلدی اس کا علاج کرنا چاہئے اور ضرور مذہب کے متعلق غور و خوض سے کام لینا چاہئے.دیکھئے اگر یورپ کے لوگ مادی اشیاء میں غور نہ کرتے تو یہ رتبہ ان کو کبھی حاصل نہ ہو تا.یہی حال روحانی ترقی کا ہے جب تک روحانی باتوں کے متعلق بھی غور نہ کیا جائے کچھ نہیں حاصل ہو تا.اس وقت میں نے آپ لوگوں کے سامنے ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جو زندہ خدا کو پیش کرتا ہے اور اس میں اس کی زندگی کا ثبوت مل رہا ہے نیز یہ بھی کہ خدا جس طرح پہلے اپنے بندوں کی روحانی ربوبیت کرتا تھا اسی طرح اب بھی کرتا ہے اور جس طریق پر ہم چل رہے ہیں اس پر چل کر انہیں فوائد اور انعامات کو حاصل کر سکتے ہیں جو آج سے ہزاروں سال پیشتر حاصل ہوتے تھے.ان باتوں کے متعلق اگر کوئی زیادہ تحقیقات کرنا چاہے تو ہمارے پاس آکر زبانی طور پر کر سکتا ہے یا خط و کتابت کے ذریعہ ہم اس کو بتا سکتے ہیں اور اس وقت میں نے مختصر طور پر بتا بھی دیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ وہ تمام صداقت پسند روحیں جو خدا تعالی سے ملنے کی تڑپ رکھتی ہیں میری باتوں کی طرف ضرور توجہ کریں گی اور آئندہ زندگی کے لئے جو ہمیشہ کی زندگی ہے ضرو ر وقت نکالیں گی تاکہ معلوم کریں کہ وہ کون سی تعلیم ہے جس پر چل کر انسان خدا کو پا سکتا ہے.خدا تعالٰی آپ لوگوں کو اس کی توفیق دے.آمین.الفضل ۱۵- دسمبر ۱۹۱۷ء)
دم جلد ۴ قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام ایک اہم پیغام از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
دلد
والعلوم جلد " ۷۵ قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام ایک اہم پیغام اے وہ باشندگان قادیان و دیہات متعلقہ جن کو ابھی تک اس مقدس انسان سے وابستگی کا فخر حاصل نہیں ہوا جس کو اس زمانہ کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مبعوث فرمایا ہے ، میں دیکھتا ہوں کہ کچھ دنوں سے آپ میں ایک نیا جوش پیدا ہوا ہے اور آپ لوگوں نے سلسلہ احمدیہ کی تردید کے لئے چند لوگوں کو باہر سے بلوا کر تقریریں کروائی ہیں.میں بوجہ ان تعلقات کے جو مجھے آپ لوگوں سے ہیں مثلاً یہ کہ میں اس خاندان سے ہوں جو ابھی دو پشت پہلے تک اس جگہ کے حکمران تھا اور یہ کہ میں اس گاؤں کے مالکوں میں سے ایک مالک ہوں یا یہ کہ میں بھی اس گاؤں کا ایک باشندہ ہوں اور رنج و راحت میں تمہارا شریک ہوں ، آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ جبکہ آپ کی طبیعت کا جوش نکل چکا ہے، آپ اپنے اس عمل پر غور کریں کہ اس کا محرک کیا تھا اور یہ کہ کیا آپ نے اپنی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے اعتدال اور انصاف سے کام لیا ہے.اللہ تعالیٰ تقریریں کرنے سے اور غصہ سے منہ میں جھاگ بھر لانے یا گالیاں دینے سے خوش نہیں ہو تا بلکہ عمل سے خوش ہوتا ہے.کیا آپ لوگوں نے کبھی یہ بھی خیال کیا ہے کہ آپ میں سے اکثر بلکہ سوائے پانچ دس کے باقی سب کے سب نماز روزہ اور دیگر احکام شریعت سے بالکل غافل ہیں اور آپ کی مساجد بالکل ویران پڑی رہتی ہیں اور کبھی پانچ اور کبھی دس نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں بلکہ بہتوں سے اگر دریافت کیا جاوے تو وہ مسائل طہارت اور صفائی سے بھی.
علوم جلد ۴ 64 قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام واقف نہ ہوں گے.ابھی اس بات کے دیکھنے والے لوگ زندہ موجود ہیں کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود نے سلسلہ احمدیہ کے قیام سے پہلے یہاں کے لوگوں کی یہ حالت دیکھ کر کہ وہ نماز کی طرف توجہ نہیں کرتے خود آدمی بھیج بھیج کر ان کو مسجد میں بلوانا شروع کیا تو ان لوگوں نے یہ عذر کیا کہ نمازیں پڑھنا امراء کا کام ہے.ہم غریب لوگ کمائیں یا نمازیں پڑھیں تو آپ نے یہ انتظام کیا کہ ایک وقت کا کھانا ان لوگوں کو دیا جاوے.چنانچہ چند دن کھانے کی خاطر بچیں تھیں آدمی آتے رہے مگر آخر میں ست ہو گئے اور صرف مغرب کے وقت کہ جس وقت کھانا تقسیم ہو تا تھا آجاتے جس پر آخر یہ سلسلہ بند کرنا پڑا.حضرت مسیح موعود کے شوق دینی کو دیکھ کر خدا تعالیٰ نے تو ان کی مراد پوری کردی.اس وقت ہماری جماعت کے پاس قادیان میں چار مساجد ہیں جن میں سے دو نہایت عالی شان ہیں اور چاروں ہی پانچوں وقت نمازیوں سے پر رہتی ہیں مگر آپ لوگ ابھی ویسے کے ویسے ہی ہیں.یہی حال روزوں کا ہے.زکوۃ دینے والا تو شاید آپ لوگوں میں سے ایک بھی نہ ہو گا چنانچہ اس جلسہ کے محرکوں میں کچھ تاجر بھی ہیں.کیا وہ اس بات کا ثبوت دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے مال کی زکوۃ دیا کرتے ہیں.حاجی تو ایک بھی نہیں ملے گا حالانکہ کئی لوگ آپ میں سے آسودہ ہیں اور ان کے لئے حج کرنے میں کوئی دینی یا دنیاوی رکاوٹ نہیں اور یہی حالت دیگر امور مذہبی کا ہے.پس جب آپ میں سے اکثر بلکہ قریباً تمام کے تمام امور مذہبیہ کے ادا کرنے میں ایسے ست ہیں اور اس کے مقابلہ میں یہیں کے رہنے کی والوں میں سے جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود کو شناخت کیا ہے وہ صبح و شام اللہ تعالی کی عبادت میں لگے رہتے ہیں اور اس کے لئے اپنے وقت اور اپنے مال بھی قربان کرتے ہیں تو کیا آپ نے کبھی خیال نہیں کیا کہ یہ کیا بات ہے کہ ہم لوگ نمازوں میں ست ہیں بلکہ پڑھتے ہی نہیں اور دوسرے امور مذہبی کی ادائیگی سے بھی غافل ہیں اور اس مدعی کی غلامی میں ہمیں میں سے جو لوگ چلے جاتے ہیں ان کی دینی حالت سنور جاتی ہے اور وہ نماز روزہ کے پابند اور قرآن کریم کے شیدائی ہو جاتے ہیں.شاید آپ کو آپ کے علماء یہ حدیث سنا دیں کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ ایک جماعت ایسی پیدا ہوگی کہ جو تم سے لمبی نمازیں پڑھے گی لیکن وہ دین سے خارج ہوگی مگر اول تو اسی حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ وہ جماعت حضرت علی کے وقت میں پیدا ہو چکی ہے.دوسرے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اس حدیث میں یہ نہیں کہ اس جماعت کے لوگ نمازیں پڑھیں گے اور تم نہیں پڑھو گے مگر ہو گے تم ہی اچھے بلکہ یہ فرمایا ہے
ام جلد ۴ LL قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام کہ وہ تم سے لمبی نمازیں پڑھیں گے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی ایسی جماعت ہے جو اس زمانہ میں ہوئی ہے.جب سب کے سب مسلمان نمازیں پڑھا کرتے تھے مگر آج کل تو اکثر بے نماز ہیں.غرض کبھی آپ لوگوں نے اس بات پر بھی غور کیا ہے کہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود کی بیعت میں آکر اکثر لوگ دیندار اور شریعت کے احکام کے پابند ہو جاتے ہیں.پھر یہ بھی سوچا ہے کہ جب آپ لوگ امور دین سے بے تعلق ہیں اور ان پر عمل نہیں کرتے تو کیونکر ممکن ہے کہ جو دیندار جماعت ہے وہ تو جھوٹی ہے اور باطل پر ہے لیکن جو لوگ دین سے بالکل غافل ہیں وہ حق پر ہیں اور اسلام کے خیر خواہ ہیں.پھر کیا آپ نے اس پر بھی غور کیا کہ جب عملاً آپ لوگ اسلام کی تعلیم سے متنفر ہیں تو کیا اس قسم کے جلسوں کا باعث اور محرک اسلام کی محبت ہو سکتی ہے ؟ جن لوگوں کے دل میں اسلام کی محبت ہو وہ نماز کو جو عبادات میں سے پہلا رکن ہے کیو نکر ترک کر سکتے ہیں اور جبکہ احکام دین کی پابندی سے یہاں کے اکثر باشندے قاصر ہیں تو پھر کیا صاف یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ اس سارے جوش و خروش کا باعث دین اور اسلام اور اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خواہش نہیں بلکہ نفسانی جوش یا ضد ہے اور اگر یہ بات درست ہے اور واقعات اسی کو ثابت کرتے ہیں تو پھر سوچو کہ اس قدر روپیہ یا وقت صرف کر کے آپ لوگوں کے نے حاصل کیا کیا؟ یہی نہیں کہ روپیہ خرچ کر کے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کو مول لیا ؟ اور یہ بات خوشی کی نہیں بلکہ رنج کی ہے.اسی طرح آپ لوگ اس امر پر بھی غور کریں کہ کیا آپ لوگوں نے اس جلسہ کے کرنے میں اعتدال اور انصاف سے کام لیا؟ اگر نہیں تو دین کے ساتھ آپ نے نیک اخلاق کو بھی خیر باد کہہ دیا.سب سے پہلے تو آپ لوگ اپنے اشتہار کو دیکھیں اس میں آپ نے اس شخص کا نام جو لاکھوں آدمیوں کا پیشوا ہے اور بڑے بڑے رئیس جس کی غلامی کا فخر رکھتے ہیں اور جس کے باپ اور دادا کی آپ لوگ رعایا رہے ہیں اور اس وقت بھی آپ میں سے بہت سے اس کے خاندان کے مزارع اور موروثی ہیں اور بعض اس جلسہ کے منتظمین میں سے ایسے ہیں کہ ان کے باپ دادا کا خون اور پوست ان صلہ جات اور صدقات سے بنا ہے جو اس کے والد اور دارا سے ان کو حاصل ہوتے رہتے تھے اور جو اپنی حاجت روائی کے لئے ان کے ہاتھوں کی طرف دیکھتے رہتے تھے اور باقی بھی قریباً سب کے سب ایسے ہیں کہ کسی نہ کسی رنگ میں اس کے اور اس کے بزرگوں کے زیر منت و احسان ہیں ، نہایت بے ادبی اور گستاخی سے لیا ہے.مذہب اور
۷۸ قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام چیز ہے اور شرافت اور چیز ہے.یہ بات بری نہ تھی کہ اگر آپ لوگ اپنے مذہب کی تائید کرتے لیکن اس کام میں اس شخص کا نام جس کے خاندان کے ہزاروں قسم کے احسان اور حقوق آپ لوگوں پر تھے اس گستاخی سے لینا ہر گز آپ لوگوں کے لئے جائز نہ تھا اور اس حرکت سے آپ لوگوں نے اپنی انسانیت کو بھی بندہ لگا دیا.پھر آپ کے جلسہ میں جو رنگ اختیار کیا گیا ہے اسے دیکھیں کس طرح ناپاک اور گندے حملے اس میں کئے گئے ہیں جو خدا کا خوف رکھنے والا انسان کبھی نہیں کر سکتا.کسی شخص کی بے ادبی سے اس کے دشمنوں اور مخالفوں کو درد نہیں محسوس ہو تا بلکہ دوستوں اور ماننے والوں کو ہوتا ہے.مرزا صاحب کی نسبت جو الفاظ آپ کے بلائے ہوئے مولویوں نے استعمال کئے ہیں اگر وہی لفظ رسول کریم ﷺ کی نسبت کسی اور مذہب کا پیرو کار استعمال کرے اور مجلس میں باغیرت مسلمان بیٹھے ہوں تو جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا ہو گا وہ جلسہ گاہ خون سے بھر جائے گا اور وہ بد گو چند ہی منٹ میں اگلے جہان میں اپنی بدگوئیوں کا جواب دینے کے لئے بھیج دیا جاوے گا اور یہی حال اس کے ساتھیوں کا ہو گا.جو تکلیف اس بات سے سب مسلمانوں کو ہو سکتی ہے وہی تکلیف ہمیں حضرت مرزا صاحب کی نسبت اس قسم کے الفاظ استعمال کرنے سے ہوتی ہے کیونکہ ہم آپ کو رسول کریم ﷺ کا جانشین اور آپ کا روحانی بیٹا مانتے ہیں.پس رسول کریم ا کے ساتھ ہمیں آپ کے نام کی بھی غیرت ہے مگر آپ کے بلائے ہوئے مولویوں نے بغیر ہمارے احساسات کا خیال کئے اس قسم کے الفاظ استعمال کئے اور ہمارے آدمی اس پر خاموش رہے کیونکہ انہیں یہی تعلیم ملی تھی کہ صبر و حوصلہ سے کام لیں.اسی طرح ہمارے بعض معزز دوستوں کی ہتک کرنے کا ارادہ کیا گیا اور خود جواب کے لئے بلا کر جب وہ جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو ان سے سخت کلامی کی گئی.پس ان امور پر غور کریں اور سوچیں کہ کیا ایمانداری کا یہ نتیجہ ہوتا ہے.آپ لوگوں کو حضرت مرزا صاحب کا جھوٹ یا سچ معلوم کرنے کے لئے کہیں باہر سے مولوی بلانے کی ضرورت نہ تھی.خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے آپ کے گھر میں مولوی رکھے ہوئے تھے.آپ نے خود مرزا صاحب کی ابتدائی اور آخری حالت کو دیکھا تھا وہی آپ کے لئے کافی واعظ تھی.آج سے تیس سال پہلے آپ لوگ جانتے ہیں قادیان کی کیا حالت تھی اس وقت مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ قادیان کا نام دور دور مشہور ہوگا اور دور دور سے
انوار العلوم جلدم 29 قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام پیغام لوگ یہاں چل کر آئیں گے اور اب وہی ہو رہا ہے.آپ نے کہا تھا قادیان بہت ترقی کرے گا اور اب ویسا ہی ہو رہا ہے.باہر کے دشمنوں کو جانے دو - قادیان کے دشمنوں کا دیکھو کیا حال ہوا جب مرزا صاحب علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا ہے تو کس طرح آپ کے مخالفوں نے شور مچایا.ہر قسم کے کام کرنے والوں کو کاموں سے روکا گیا.جو مہمان آتے تھے ان کو دق کیا گیا مسجد کا راستہ بند کیا گیا بے وجہ دنگا اور فساد کیا گیا مگر اس کا نتیجہ کیا ہوا.بتاؤ تو اس بھرے ہوئے گھر کا اب کیا حال ہے جس میں بیسیوں آدمی تھے اب اس کا ایک یتیم بچہ ہے اور وہ بھی احمدی ہو گیا ہے.اس گھر کی رونق اور حکومت کو دیکھو اور پھر حضرت مسیح موعود کے مقابلہ کے بعد اس کی حالت کو دیکھو.اسی طرح آریوں نے جب بلا وجہ آپ کا مقابلہ کیا اور آپ نے ان کے متعلق قبل از وقت لکھ دیا کہ یہ جلد ہلاک ہو جاویں گے تو کس طرح تڑپا تڑپا کر طاعون نے ان مخالف گھروں کا صفایا ایک سال میں کر دیا.کیا ہم نے اپنے ہاتھ سے ان مخالفوں کو مارا تھا اسی نے ان کو ہلاک کیا جو ہمیشہ سے راست بازوں اور بچے بندوں کے دشمنوں کو ہلاک کرتا آیا ہے.آپ لوگوں کو چاہئے تھا کہ ان واقعات سے عبرت پکڑتے لیکن آپ نے عبرت نہ پکڑی اور گستاخی میں کوئی انتہاءنہ رکھی.اب اس کے بد نتائج بھگتنے کے لئے تیار رہیں کیونکہ انسان کے عذاب سے انسان بچ سکتا ہے لیکن خدا کے عذاب سے نہیں بچ سکتا.ہمیں جوش دکھانے کی ضرورت نہیں.اگر آپ لوگ تو بہ نہ کریں گے تو اللہ تعالی خود غیرت دکھائے گا اور ایسے رنگ میں دکھائے گا کہ دشمنوں کا انجام مدتوں لوگوں کے لئے عبرت کا ذریعہ ہو گا.خدا کے پیاروں کا مقابلہ آسان نہیں.نقل کرنی آسان ہے مگر اصل کی مشابہت حاصل کرنی مشکل.میں نے سنا ہے کہ آپ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے ایک مولوی صاحب نے بیان کیا ہے کہ اگر کوئی شخص میرے پاس کچھ مدت رہے تو بذریعہ رویا اور کشف اس کو معلوم کروا دوں گا کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں.ان مولوی صاحب نے مسیح موعود کی نقل کی ہے کیونکہ آپ نے یہ اعلان کیا تھا کہ اگر کوئی شخص چالیس دن میرے پاس آکر رہے تو اسے میری صداقت میں کوئی نشان دیا جاوے گا.مگر خدا کی باتوں کی نقل کرنی آسان نہیں اگر ان مولوی صاحب میں اس قدر طاقت ہے کہ وہ دوسروں کو رویا اور کشف کرا سکتے ہیں تو ان کو خود رویا اور کشوف ضرور ہوتے ہوں گے.وہ پہلے خود تو وہ کشوف اور رویا شائع کریں جن میں ان کو بتایا گیا ہو کہ مرزا صاحب جھوٹے تھے مگر ساتھ یہ بھی شرط ہوگی کہ قسم کھا کر یہ بھی اعلان کریں کہ ان کے کشوف و رویا نہ شیطانی ہیں.
العلوم جلد A.قادیان کے غیر از جماعت احباب کے نام : اور نہ پراگندہ خیالات بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اور میرے اہل و عیال پر خدا کا غضب نازل ہو اور اگر وہ ایسا کرنے کے بعد کسی عبرت انگیز آسمانی عذاب میں گرفتار نہ ہوں اور ان پر اور ان کے کنبہ پر غضب الہی نازل نہ ہو تو مرزا صاحب کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جاوے گا لیکن مجھے غالب خیال ہے کہ وہ یہ جرأت نہیں کریں گے کیونکہ ہر ایک انسان کا دل اس کے کاموں پر گواہ ہوتا ہے اور اگر کریں گے تو یقیناً آسمانی عذاب میں مبتلاء ہوں گے.میں آخر میں پھر آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی کے کھلے کھلے نشانات پر ایمان لاؤ اور اس کے راستبازوں کی تکذیب سے باز آجاؤ ورنہ انجام اچھا نہ ہو گا.میں اپنی طرف سے حق ادا کر چکا ہوں اب آپ جانیں اور آپ کا کام.جو شیر کے منہ میں اپنی گردن دے گا ہلاک ہی ہو گا.مرزا محمود احمد رئیس قادیان.خلیفة المسیح الموعود (الفضل ۲۷- نومبر ۱۹۱۷ء)
دم چاند ۴ Al جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت (رقم فرموده ۲- دسمبر ۱۹۱۷ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
۸۲
العلوم جلد ۴ ۸۳ جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُ، وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ برادران ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاته آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس وقت ہندوستان میں انتظام حکومت میں تبدیلی پیدا کرنے کے متعلق ایک عام جوش پھیل رہا ہے اور اسی جوش کو دیکھ کر حضور ملک معظم کی گورنمنٹ نے جناب وزیر ہند صاحب کو حکومت ہند کے ذمہ دار حکام اور ملک کی تمام جماعتوں اور قوموں سے اس امر میں مشورہ لینے کے لئے بھیجا ہے کہ ہندوستان کی حکومت کے موجودہ انتظام میں کسی قسم کے تغیرات کی ضرورت ہے.آپ لوگ اس بات سے خوب اچھی طرح واقف ہیں کہ ہمارے امام و پیشوا حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام نے اپنی جماعت کو نہایت سختی سے ہر قسم کے ایجینٹیشنوں (AGITATIONS) اور سیاسی تحریکات میں حصہ لینے سے منع فرمایا ہے کیونکہ آپ کا مسلک شروع سے یہی رہا ہے کہ جہاں تک ہو سکے حکومت کے ہاتھ کو مضبوط کیا جاوے اور ایسی تمام کارروائیوں سے بچا جاوے جو اس کے لئے گھبراہٹ پیدا کر نیوالی ہوں.اور آپ ہمیشہ ان لوگوں اور جماعتوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں جو اس قسم کی تحریکات میں شامل ہوتی اور حصہ لیتی ہوں.چنانچہ آپ کی اس تعلیم کے ماتحت ہم لوگ ہمیشہ سیاست سے علیحدہ رہے ہیں اور ہماری کوشش ہمیشہ یہی رہی ہے کہ گورنمنٹ کا ہاتھ بٹایا جاوے.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح ہماری جماعت نے گورنمنٹ کی بہت سی قیمتی خدمات کی ہیں.مگر اس وقت چونکہ خود گورنمنٹ ہی یہ چاہتی ہے کہ ہندوستان کی تمام جماعتیں اسے اپنے خیالات سے آگاہ کریں.اور چونکہ بعض لوگوں کی طرف سے ایسے مطالبات گورنمنٹ کے سامنے پیش ہونے والے تھے جو یقیناً تمام ملک کے لئے عموماً اور ہماری جماعت کے لئے خصوصاً نہایت مضر تھے اس لئے حضرت مسیح موعود کی سنت کے ماتحت میں نے مناسب سمجھا کہ اپنی جماعت کے خیالات اور ضروریات سے گورنمنٹ کو ایک میموریل کے ذریعہ آگاہ کر دیا جاوے.(حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام اہم امور کے متعلق میموریل کے ذریعہ گورنمنٹ کو توجہ دلا دیا
انوار العلوم جلد ۴ ۸۴ جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت واتسمرا کرتے تھے.چنانچہ ایک میموریل آپ نے سڈیشن کے متعلق لارڈ ایلمن صاحب بہادر رائے ہند کی خدمت میں ارسال فرمایا تھا) یہ میموریل ایک ایڈریس کی صورت میں ان احباب کے نام پر تھا جن کے نام ایڈریس کے آخر میں درج ہیں.یہ ایڈریس پندرہ نومبر کو حضور وائسرائے اور وزیر ہند صاحب کی خدمت میں پیش کیا گیا.چونکہ یہ ایک غیر معمولی موقع تھا اور ہندوستان کی تاریخ میں بالکل نرالا اس لئے بعض احباب کے مشورہ سے ضروری سمجھا گیا کہ میں خود بھی علیحدہ ملاقات میں اپنی جماعت کی حیثیت اور اس کی حاجات کو پوری طرح حکام کے سامنے پیش کروں.چنانچہ اسی غرض سے میں بھی دہلی گیا اور پندرہ کی شام کو وزیر ہند صاحب سے ملاقات ہوئی اور پینتیس منٹ تک ان امور کے علاوہ سلسلہ کے متعلق بھی گفتگو ہوتی رہی جس کا نتیجہ انشاء اللہ تعالٰی کئی طریق پر عمدہ نکلے گا.ایڈریس کے مضمون کے متعلق میں نے بھی ان کو بحیثیت امام جماعت ہونے کے یقین دلایا کہ وہ ہماری جماعت کے خیالات کا آئینہ ہے کیونکہ ہماری جماعت کی سیاست بھی مذہب کے ماتحت ہے اس لئے ہم کو جس امر پر خدا تعالٰی نے کھڑا کیا ہے اس سے ہل نہیں سکتے.لیکن چونکہ ایک تو یورپ کی طرز یہ ہے کہ جب تک ہر شخص کی رائے خود اسی کے ذریعہ پہنچائی جارے اس وقت تک اس کا مناسب اثر نہیں ہوتا اور دوسرے اس وجہ سے کہ احمدیوں کی اس پارٹی نے جو جماعت احمدیہ سے علیحدہ ہو چکی ہے اور جس کا صدر مقام لاہور ہے اور جو اپنی تعداد کے لحاظ سے ایک پارٹی کہلانے کی بھی مستحق نہیں اپنے ایڈریس میں یہ ظاہر کیا ہے کہ وہ تمام احمدیوں کی طرف سے قائم مقام ہے اور خیالات ہمارے خیالات سے بالکل مختلف ظاہر کئے ہیں جو ہمارے لئے سخت مضر ہیں اس لئے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک جگہ کی احمدی جماعتیں جلسہ کر کے ایڈریس کا مضمون اپنی جماعت کو سنائیں اور پھر دو ریزولیوشن پاس کئے جاویں.ایک یہ کہ اس ایڈریس کے مضمون سے جو مرزا محمود احمد کی زیر ہدایت جماعت احمدیہ کے چند معززین کی معرفت جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش ہوا ہے اس کی جگہ کی جماعت متفق ہے.دوم یہ کہ یہ جماعت اس بات کو نہایت نفرت سے دیکھتی ہے کہ لاہور کی احمدیہ انجمن اشاعت اسلام نے اپنے ایڈریس میں اپنے آپ کو تمام جماعت احمدیہ کے قائم مقام بتایا ہے اس انجمن سے ہماری جماعت کو ہرگز کوئی تعلق نہیں اور ہم لوگ جماعت کے مرکز قادیان سے تعلق رکھتے ہیں اور اس انجمن سے تعلق رکھنے والوں ( جو ایک دو ہزار
را الحلوم جلد ۴ ۸۵ جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت سے زیادہ نہیں) کے مذہبی اور سیاسی خیالات سے سخت متنفر ہیں یہ چند آدمی ہماری پانچ چھ لاکھ کی جماعت کے خیالات کے ہرگز ترجمان نہیں ہو سکتے.آپ لوگوں کو اس ایڈریس کے پڑھنے سے جس کی ایک یا ایک سے زیادہ کاپیاں مطابق ضرورت آپ کو بھیجی گئی ہیں معلوم ہو جاوے گا کہ اس وقت ہندوستانیوں کے ہاتھ میں اختیارات کا دیا جانا مسلمانوں کے لئے عموماً اور احمدیوں کے لئے خصوصاً کیسا مضر ہے اور اس امر کو آپ لوگ اپنے تجربہ کی بناء پر بھی خوب اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کیونکہ ہماری جماعت کا کوئی حصہ نہیں جس نے ابنائے وطن کے ہاتھوں تکلیف نہیں اٹھائی اور جب کہ یہ حال گورنمنٹ برطانیہ کے زبر دست ہاتھ کی موجودگی میں ہے تو اس کے کمزور کر دینے یا ہٹا لینے پر کیا حال ہو گا.حضرت صاحب کے مقدمات میں ہندوستانی اور انگریز جوں کے سلوک آپ لوگوں کو بھولے نہ ہوں گے.ہم سے زیادہ کوئی شخص اس بات کا خواہش مند نہیں ہو سکتا کہ تمام ملک میں صلح اور امن ہو اور ہم اور دیگر ابنائے وطن بھائی بھائی کی طرح رہیں.لیکن بغیر تعصب کے مٹنے کے ایسا کس طرح ہو سکتا ہے.ہم اس کے مخالف نہیں کہ گورنمنٹ ہندوستانی کو خود اختیاری دے ، بلکہ صرف اس بات کے مخالف ہیں کہ ایسے وقت میں دے جب اس کا نتیجہ ملک و قوم کے لئے ہلاکت کا موجب ہو.حضرت مسیح موعود نے تو خود پیغام صلح لکھ کر ہندوؤں کو صلح کے لئے بلایا تھا.اگر اس پیغام کو اہل ہنود مان لیتے تو عملاً صلح ہو جاتی اور اس صورت میں گورنمنٹ سے حکومت مانگنے کی بھی ضرورت نہ تھی.گورنمنٹ خود ہندوستانیوں کو زیادہ اختیار دے دیتی.کیونکہ گورنمنٹ برطانیہ ایک نہایت منصف اور موقع شناس گورنمنٹ ہے.اور اگر اب اہل ملک اس تعصب کو ترک کر دیں جو عملاً ہر جگہ رونما ہے تو ابھی سے ہمیں ان سے کوئی اختلاف نہیں رہتا.اس اختلاف اور فساد کے وقت میں اگر گورنمنٹ اپنا ہاتھ اس حد تک علیحدہ کر لے کہ ہندوستانیوں کے ہاتھ میں اکثر اختیارات آجادیں تو وہ خدا تعالیٰ کے پاس بھی جواب دہ ہے.لیکن ضرورت ہے کہ گورنمنٹ کو فیصلہ کرنے میں مدد دینے کے لئے ہم اپنے خیالات سے اس کو آگاہ کر دیں.حضور وزیر ہند صاحب بہادر غالبا ایک ماہ کے قریب یہاں اور ہیں.اس لئے جماعت کی متفقہ آراء اس عرصہ میں طبع ہو کر ہمارے ایڈریس کی تائید میں ان تک پہنچ جانی چاہئیں اور یہ بھی ان کو معلوم ہو جانا چاہئے کہ غیر مبائکین کی رائے ہماری جماعت کی رائے ہرگز نہیں ہو سکتی.اس لئے جس قدر جلد ہو.
رالعلوم جلد ۴ AY جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت سکے مذکورہ بالا ریزولیوشن پاس کر کے آپ ایک ایک نقل اس کی حضور وائسرائے کی خدمت میں ارسال کر دیویں اور لکھیں کہ یہ اطلاع جناب اور حضور وزیر ہند صاحب کی اطلاع کے لئے بھیجی جاتی ہے اور ایک ایک نقل ریزولیوشنوں کی قادیان میں بغرض اطلاع بھیج دیں تاکہ متفقہ طور پر بعد میں طبع کر کے اس کو ذمہ دار حکام تک پہنچایا جاوے.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی قادیان دارالامان ۲ دسمبر ۱۹۱۷ء
AL علم حاصل کرو تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۷ء) از یدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی
ΑΛ
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ علم حاصل کرو (فرموده ۲۷ - دسمبر ۱۹۱۷ء بر موقع جلسه سالانه منعقده (قادیان) (قبل از نماز ظهر) اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطن الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَلَقَدِ اسْتَهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِكَ فَحَاقَ بِالَّذِيْنَ سَخِرُوا مِنْهُمْ مَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُ ونَ (الانعام:) فَلْيُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يَشْرُونَ الْحَيُوةَ الدُّنْيَا بِالْآخِرَةِ وَمَنْ يُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيُقْتَلُ اَوْ يَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِيهِ أَجْرًا عَظِيمًا- وَمَالَكُمْ لَا تُقَاتِلُونَ فِي سَبِيْلَ اللهِ وَالْمُسْتَضْعَفِيْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ الَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا أخْرِجْنَا مِنْ هَذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ اَهْلُهَا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا وَاجْعَلْ لَّنَا مِنْ لَّدُنكَ نَصِيرًا- الَّذِينَ آمَنُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيل الطَّاغُوتِ فَقَاتِلُوا اَوْلِيَاءَ الشَّيْطَنِ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَنِ كَانَ ضَعِيفًا أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّوا أَيْدِيَكُمْ وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَ قَالُوا رَبَّنَا لِمَا كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْ لَا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ لِمَنِ اتَّقَى وَلَا تُظْلَمُونَ فَتِيْلاً أَيْنَ مَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوج مُّشَيَّدَةٍ وَإِنْ تُصِبْهُمْ حَسْنَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللهِ وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ قُلْ كُلّ مِنْ عِنْدِ اللهِ فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا مَا
انوار العلوم جلد ۴ ۹۰ علم حاصل کرو دو أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ وَأَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً وَ كَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا مَنْ يُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ وَمَنْ تَوَلَّى فَمَا اَرْسَلْنَكَ عَلَيْهِمْ حَفِيْظًا- (النساء: ۷۵ ۸۱) مجلس وعظ میں صبر سے بیٹھنا چاہئے میرا طریق ان گذشتہ جلسوں میں جو میرے عہد میں ہوتے ہیں یہ رہا ہے کہ میں مردوں میں دو دن تقریر.کر کے آخری دن مستورات میں تقریر کرتا رہا ہوں.چونکہ عورتوں کے ساتھ بہت سے چھوٹے چھوٹے بچے ہوتے ہیں جو بہت شور کرتے ہیں اس لئے ان میں تقریر کرتے وقت بہت زور سے بولنا پڑتا ہے اور ان میں وعظ کرنے کے بعد حلق اچھی طرح بولنے کے قابل نہیں رہتا.اس دفعہ عورتوں کی طرف سے شکایت کی گئی کہ کیا مردوں کا ہم سے زیادہ حق ہے کہ اُن کیلئے تو دو تقریریں کی جاتی ہیں اور ہمارے لئے ایک اور وہ بھی آخری دن- احمدیت نے عورتوں کو جائز آزادی تو سکھاہی دی ہے اس لئے انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ہم میں بھی تقریریں ہونی چاہئیں.ان کے اس مطالبہ کو قبول کر کے پہلے دن جو اُن میں تقریر کی گئی ہے تو اس سے حلق کے خراب ہونے کا خیال درست نکلا.کل ان کے جلسہ میں اس قدر زور اور اونچی آواز سے بولنا پڑا کہ گلا بیٹھ گیا ہے اس لئے شاید سب دوستوں کو میری آواز نہ پہنچتی ہو.اگر ایسا ہو تو آپ صاحبان یہ بات یاد رکھیں جیسا کہ میں نے گذشتہ جلسہ کے موقع پر بھی بتلایا تھا کہ کئی مجلسیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان میں یونہی بیٹھنا بھی بہت بڑے فائدے کا موجب ہو جاتا ہے اور اگر ان میں بیٹھے ہوئے ایک لفظ بھی کان میں نہ پڑے تو بھی انسان ایسا اثر لے کر اُٹھتا ہے کہ مالا مال ہو جاتا ہے اس لئے اگر کسی دوست تک ابھی میری آواز نہ ہو تو بھی وہ یہ خیال نہ کریں کہ ان کا بیٹھنا بے فائدہ ہوگا بلکہ خدا تعالیٰ انہیں ضرور نفع بخشے گا، پھر مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ میری آواز ان تک پہنچ جائے گی.ہمارے خاندان میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ بولتے وقت ابتداء میں آواز نیچی ہوتی ہے لیکن بعد میں بہت اونچی ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی جب تقریر شروع فرماتے تو ابتداء میں بڑی دھیمی آواز ہوتی مگر بعد میں بہت اونچی ہو جاتی اور مسجد مبارک میں تقریر کرتے ہوئے کی آواز بہشتی مقبرہ کو جانے والی سڑک پر بخوبی سنائی دیتی.پس اس وقت اگر آپ صاحبان میں سے کسی کو میری آواز نہ پہنچے تو وہ صبر سے کام لیں جلدی ہی انشاء اللہ ان تک آواز
انوار العلوم جلد ۴ 91 علم حاصل کرو پہنچنی شروع ہو جائے گی.وہ بے صبری کرکے اُٹھ نہ کھڑے ہوں کیونکہ بے صبری کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا.بتاؤ جب عرب کے ریگستان سے محمد اللہ کی آواز ابتداء میں اُٹھی تو کیا اسی وقت ہندوستان پہنچ گئی تھی؟ نہیں.لیکن جب اس میں گونج پیدا ہوئی تو دنیا کے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک پہنچ گئی اور خواب غفلت میں سونے والوں کو جگا کر کھڑا کردیا.دنیا میں بہت سی قومیں ایسی تھیں جو ہزاروں سال سے غفلت کی نیند میں پڑی سوتی تھیں اور ہزاروں نبی ان کو جگا نہ سکے تھے لیکن محمد ال نے ان کو ایسا جگایا کہ پھر سو نہ سکیں کہ آپ کی دشمن اور خون کی پیاسی قومیں بھی نہ سو سکیں.گو انہوں نے آپ کو قبول نہ کیا اور اس نور اور روشنی سے محروم رہیں جو آپ لائے تھے لیکن آپ کی بعثت کے بعد چین سونا ان کو بھی نصیب نہ ہوا.انہیں ایک ایسی آگ لگ گئی جسے وہ کسی طرح بھی مُجھا نہ سکیں اور جنہوں نے صبر اور تحمل سے کام لے کر آپ کی آواز کو سنا اور اس کو قبول کیا وہ تو ایسے جاگے کہ دنیا کے جگانے کا موجب ہو گئے.پس آپ لوگ صبر سے بیٹھے رہیں اور امید رکھیں کہ اللہ تعالٰی کے فضل سے آواز اونچی ہو جائے گی اور آپ کو بخوبی سنائی دینے لگ جائے گی.عام باتیں آب کی دفعہ عورتوں کی طرف سے ایک اور اعتراض ہوا ہے اور خوشی کی بات ہے کہ انہیں بھی ایسی باتیں سوجھی ہیں کیونکہ یہ زندگی کی علامت ہے.انہوں نے کہا کہ آپ مردوں میں تو وعظ کرتے ہیں لیکن ہمیں جو کچھ سنایا جاتا ہے وہ عام باتیں ہوتی ہیں.اگرچہ میں نے انہیں باتوں باتوں میں ہی بہت کچھ سنا دیا اور یہ بھی بتادیا کہ ابھی تم اسی کی مستحق ہو لیکن میرا طریق یہ ہے اور جہاں تک میں نے غور کیا ہے قرآن کریم اور احادیث سے یہی معلوم ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی میں نے یہی سیکھا ہے کہ وہ کلام جو ایسے طریق اور طرز سے شروع ہو جس میں ابتدائی حالات کو مد نظر رکھا جائے وہی بابرکت اور مفید ہوتا ہے.چنانچہ میں نے گذشتہ تمام جلسوں میں یہی طریق رکھا ہے پہلی تقریر تو ایسی باتوں کے متعلق ہوتی ہے جو عام طور پر لوگوں کے حالات اور معاملات تعلق رکھتی ہیں.وہ کوئی خاص مضمون نہیں ہوتا اور دوسری تقریر کسی اہم مسئلہ پر ہوتی ہے.یہ شکایت تو عورتوں نے کی ہے کہ ہمیں باتیں ہی سنائی جاتی ہیں ہمارے لئے کوئی مضمون نہیں بیان کیا جاتا لیکن میرا ایک لیکچر مردوں میں بھی عام باتوں پر ہی ہوتا ہے اور یہ ضروری
انوار العلوم جلد ۴ ۹۲ علم حاصل کرو بھی ہے کیونکہ بہت باتیں چھوٹی چھوٹی معلوم ہوتی ہیں، لیکن ان کے نتائج بہت بڑے بڑے اور خطرناک نکلتے ہیں.سو پہلے تو میں بقول مستورات کچھ باتیں ہی کروں گا.میری صحت کہ اول میں ایک ایسی بات کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جس کی نسبت میں جانتا ہوں کہ دوستوں کو اس کے سننے سے فرحت اور خوشی ہوگی اور وہ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت قریباً دو سال سے میری صحت بہت کمزور چلی آرہی تھی اور میں نے گذشتہ سال سنایا تھا کہ مجھے بھی منذر رویا دکھائی گئی تھیں اور دوسرے دوستوں کو بھی جن میں میرے متعلق یہ بتایا گیا تھا کہ یا تو وفات ہوگی یا کوئی سخت بیماری.ایسی صورت میں میں نے دیکھا کہ میری صحت دن بدن کمزور ہو رہی ہے اور اسی بات کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ خاتمہ قریب ہے.جب احمدیہ کا نفرنس کیلئے احباب آئے تو میں نے اسی خیال سے کہ اللہ تعالی بہتر جانتا ہے میری کتنی زندگی ہے اور مجھے اپنی زندگی پر کوئی بھروسہ نہیں، اعلان کیا تھا کہ اس رمضان میں دس یا پندرہ پاروں کا درس دوں گا تاکہ جس طرح ہو سکے ایک دفعہ قرآن سنادوں.چنانچہ اس اعلان کے مطابق رمضان المبارک میں درس دیا اور دس پارے سنائے اس سے ضعف اور کمزوری اور بھی بڑھ گئی.پھر اس کے بعد فوراً قرآن کریم کے ترجمہ کا کچھ کام کرنا پڑا جس سے ایسا بوجھ پڑا اور ایسی کمزوری ہوئی کہ جو اس سے پہلے کبھی مجھے نہیں ہوئی تھی.حتی کہ اگر خط بھی پڑھتا تو سر میں درد شروع ہو جاتا.ڈاک پڑھنی مشکل ہو گئی.مجھے اخبار پڑھنے کی عادت ہے اور جب تک پڑھ نہ لوں چین نہیں آتا لیکن کمزوری کی وجہ سے سلسل ایک کالم بھی نہ پڑھ سکتا اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے پڑھتا.پھر اس قدر تکلیف بڑھ گئی کہ عام طور پر تبلیغ اور تعلیم کا سلسلہ بند ہوتا نظر آیا جس سے بعض دوست گھبرا گئے اور ان کے خطوط میرے پاس آئے جن سے میرے دل میں ایک درد پیدا ہوا اور میں نے دعا کی کہ الہی اس جماعت کے کام کرنے کا یہی تو وقت ہے لیکن میری صحت مجھے جواب دے رہی ہے اب یا تو مجھے صحت بخش کہ میں کام کر سکوں اور یا اگر میرے خاتمہ کا وقت قریب آگیا ہے تو مجھے اس بار سے سبکدوش کر کے اپنے پاس بلالے اور اس مقام پر کسی اور کو کھڑا کر دے.جب حالت یہ ہو گئی اور صحت بہت بگڑ گئی تو مجبوراً مجھے شملہ جانا پڑا کیونکہ میں نے دیکھا کہ سوائے اس کے اور کوئی صورت بھائی صحت کی نہیں ہے کہ میں کچھ دن آرام کروں.کام تو کہیں بھی نہیں چھوٹتے مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال تھا کہ تبدیلی آب و ہوا کی وجہ سے فائدہ حاصل ہوگا..
انوار العلوم جلد ۴ ۹۳ علم حاصل کرو دوستوں نے بھی یہی مشورہ دیا کہ آب و ہوا تبدیل کرنا چاہئے چنانچہ شملہ جاکر خدا کے فضل و کرم سے صحت کو بہت فائدہ ہوا.مگر جب وہاں سے واپس آکر میں نے کام کرنا چاہا تو گو کی نسبت کسی قدر افاقہ رہا لیکن متواتر محنت اور زور کے ساتھ کام نہ کر سکتا تھا.میری عادت ہے کہ جب کسی کام کو شروع کروں تو دل یہی چاہتا ہے کہ ختم کر کے ہی اُٹھوں خواہ رات کے دو تین ہی بج جائیں لیکن ابھی تک یہ بات حاصل نہ ہوئی تھی بلکہ میں نے دیکھا کہ طبیعت پھر انحطاط کی طرف جارہی ہے.اسی اثنا میں ایک تقریب پر دہلی جانا پڑا وہاں سے واپس آکر میں نے دیکھا کہ طبیعت میں یک لخت فرق پیدا ہو گیا ہے اور صحت کی طرف عود کر رہی ہے.++ اس حالت میں ایک دوست نے سنایا کہ خواجہ حسن نظامی کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ میں اپنی باطنی قوت کے زور سے ایک گھنٹہ کے اندر ہلاک کر سکتا ہوں اس کیلئے 10 ربیع الاول کو اجمیر آجاؤ.یہ سن کر خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ میری صحت کے اس قدر جلدی ترقی کرنے کا یہی باعث ہوا ہے.چنانچہ اس دن سے میری طبیعت ایسی سنبھلی که روزانه درس قرآن کریم جو میری بیماری کی وجہ سے بہت عرصہ سے بند تھا جاری ہو گیا.حلق کی تکلیف بھی جاتی رہی اور روزانہ دو دو بجے رات تک کام کرنے لگا گیا اور یہ خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی تھی.دشمن نے تو اعلان کیا تھا کہ میں اپنی باطنی قوت سے ایک گھنٹہ میں ہلاک کردوں گا اور اس طرح اپنے تصرفات باطنی دکھاؤں گا مگر خدا تعالی نے نہ چاہا کہ اسے جھوٹی خوشی بھی ہو.بیمار تو میں پہلے ہی تھا مگر وہ کہہ سکتا تھا کہ میرے اس اعلان کی وجہ سے بیمار ہوا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری صحت میں ایسا تغیر کر دیا کہ بالکل درست ہو گئی.میں نہیں جانتا کہ یہ تغیر کب تک کیلئے ہے لیکن میرے مولا نے و شمن ما کو شرمندہ ضرور کر دیا ہے.ہمارے مخالفین کی مخالفت اب میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ اس سال ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمارے خلاف خاص طور پر زور لگایا گیا ہے اور ہندوستان کے ہر گوشہ اور ہر طبقہ میں ہماری مخالفت میں جوش پیدا ہو گیا ہے.اس قسم کی مخالفت حضرت مسیح موعود کے ابتدائے دعوئی میں ہوئی تھی مگر وہ بھی ملک جس وقت یہ تقریر کی گئی تھی اُس وقت معلوم نہ تھا کہ میری رؤیا ہمارے خیال سے زیادہ واضح طور میں پوری ہونے
انوار العلوم جلدم ۹۴ علم حاصل کرد مجھے ایک خاص حصہ یعنی پنجاب تک ہی محدود تھی بقیہ علاقے اس سے خالی تھے.اس کے بعد ہمارا سلسلہ دوسرے علاقوں میں بھی پھیلتا گیا مگر کوئی خاص مخالفت نہیں ہوئی لیکن اس سال ہمارے خلاف مخالفت کی ایک ایسی آندھی چلی اور ایسا طوفان آیا ہے کہ ہندوستان کا تمام جو غبار آلود ہو گیا ہے اور تمام مطلع پر ہمارے خلاف جھگڑے اور عناد کی آگ بھڑک اُٹھی ہے اور جس طرح موسم برسات سے پہلے آندھی آتی اور گرد اُڑتی ہے اسی طرح اب ہمارے خلاف اڑ رہی ہے.اس سے ہماری جماعت کے بعض لوگ حیران ہیں کہ ایسا کیوں ہوا ہے.ان کا خیال ہے کہ دشمن کا ایک بار مقابلہ میں ہار کر بیٹھ جانا اور پھر اٹھنا کوئی اچھی علامت نہیں ہے مگر میں اللہ تعالی کے فضل اور اس کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت یقین رکھتا ہوں کہ ان کا یہ خیال غلط ہے.اب دوسری بار دشمنوں کا ہمارے خلاف اٹھنا ہمارے لئے مضر نہیں بلکہ کچھ اور ہی معنی رکھتا ہے.ہمیشہ دیکھا گیا ہے کہ بیمار پر دو وقت نہایت کٹھن آتے ہیں ایک وہ جب تپ چڑھنا شروع ہوتا ہے اور دوسرا وہ جب اُترنے لگتا ہے.دوسرے وقت کا نام طبیبوں نے بحران رکھا ہوا ہے.یعنی اس وقت طبیعت اور بیماری کی آخری جنگ ہوتی ہے.اگر بیماری غالب آجائے تو ہلاکت ہوتی ہے اور اگر طبیعت غالب آجائے تو صحت ہو جاتی ہے.پس اب ہمارے مخالفین کا بحران کی حالت میں ہونا ہمارے لئے سراسر مفید اور فائدہ مند ہی ہے.بشرطیکہ ہم اس موقع سے فائدہ اٹھائیں.ہمارے خلاف اس زور شور سے دشمن کا مخالفت کیلئے کھڑا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اس نے سمجھ لیا ہے کہ اب یہ آخری موقع ہے.یا میں غالب ہو گیا یا یہ اس لئے وہ آخری زور لگانے کیلئے کھڑا ہوا ہے.پس ہمارے مخالفین کا یہ زور شور اس بات کی علامت نہیں ہے کہ خدانخواستہ ہمارا قدم (بقیہ حاشیہ) والی ہے.چنانچہ جب خواجہ حسن نظامی صاحب میدان مقابلہ سے بھاگ گئے اور ان کا فتنہ مٹ گیا اور ان کی طرف سے کسی جھوٹی خوشی منانے کا خطرہ جاتا رہا تو پھر یک لخت میں بیمار ہوا اور ایسا سخت کہ عمر بھر میں ایسا سخت بیمار نہ ہوا تھا بلکہ ایک دن تو بالکل جان کندن کی حالت ہوگئی اور بہت تھوڑے سے حصہ جسم میں جان باقی رہ گئی حتی کہ مجھے یقین ہو گیا کہ اب وقت آخر ہے اور ایک دو منٹ تک بھی میں زندہ نہیں رہ سکتا.اور جب ڈاکٹر صاحب خبر پانے پر آئے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا حال ہے تو اس وقت میں نے ان کو یہی کہا کہ جو ہونا تھا ہوچکا کہ پھر حالت میں تغیر پیدا ہوا اور طبیعت بحال ہونے لگی لیکن بیماری بہت دنوں تک لمبی چلی گئی اور صحت کو ایک ایسا دھکا لگا کہ جس طرح پہاڑ کو زلزلہ سے لگتا ہے.اور آخر مجبوراً بیماری کی ہی حالت میں ڈاکٹروں کے فتویٰ کے ماتحت اول ساحل سمندر اور بعد میں پہاڑ پر جانا پڑا جہاں کہ میں آجکل مقیم ہوں اور جہاں اللہ تعالی کے فضل سے اب میری صحت کو بہت فائدہ ہے.مرزا محمود احمد ۲ - جولائی ۱۹۱۸ء
انوار العلوم جلد ۴ ۹۵ علم حاصل کرو اکھڑ گیا ہے اور نہ ہی اس امر کی علامت ہے کہ ہمارے اندر کمزوری پیدا ہو گئی ہے.اس سے میری یہ مراد نہیں ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں کسی قسم کی بھی کمزوری نہیں بلکہ ہے کہ ہمارے اندر کوئی ایسی کمزوری نہیں ہے جس کے سبب ہم دشمن کے مقابلہ میں مٹ جائیں یا فنا ہو جائیں.ہاں یہ بات ہے کہ دشمن نے سمجھ لیا ہے کہ اگر یہ جماعت اور زیادہ بڑھ گئی تو اس کا مقابلہ نہیں ہو سکے گا.ابتداء میں تو ہمارا اس لئے مقابلہ اور مخالفت کی گئی تھی کہ اس سلسلہ کا قدم ہی نہ جمے اور پہلے ہی اکھیڑ دیا جائے مگر جب دشمن اس وقت کچھ نہ کر سکے تو وہ اپنے دلوں کو اس طرح تسلی دے کر بیٹھ گئے کہ کیا ہوا اگر اس سلسلہ کے قدم جم گئے ہیں جس طرح اور بیسیوں فرقے ہیں اسی طرح کا ایک یہ بھی ہے اوروں نے ہمارا کیا بگاڑ لیا ہے کہ یہ کچھ بگاڑ لے گا.چلو جانے دو.مگر اب انہوں نے دیکھا ہے کہ یہ تو ایک ایسا فرقہ ہے کہ اگر اس کا مقابلہ نہ کیا گیا تو یہ ہمیں کھا جائے گا اور ہمارا کچھ بھی باقی نہ رہنے دے گا اب اس کو آگے نہ بڑھنے دو.یہ ہے وہ بات جس کی وجہ سے ہمارے مخالفین نے اب ہمارے خلاف زور لگانا شروع کیا ہے اور یہی وجہ ان کے جوش دکھانے کی ہے.پھر کہتے ہیں دیوانہ کو دیکھ کر دیوانہ شور مچانے لگ جاتا ہے.ان دنوں چونکہ ان لوگوں نے بھی جو غیر مبائع کہلاتے ہیں ہمارے خلاف شور مچارکھا ہے اور ان کی طرف سے تمام ہندوستان میں ہمارے خلاف آگ بھڑکائی جارہی ہے اور یہ لوگ یہاں تک بڑھ گئے ہیں کہ جہاں بھی ہمارے مبلغ گئے ہیں وہاں انہوں نے بھی اپنے آدمی بھیجے ہیں.بمبئی ، مدراس، حیدر آباد دکن غرضیکہ جہاں جہاں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچانے کی کوشش کی ہے وہاں ہی انہوں نے آپ کا نام مٹانے کیلئے زور لگایا ہے اور انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم گھر کے بھیدی ہیں اس لئے لنکا ڈھائیں گے ہمارا مقابلہ کون کر سکتا ہے.پس ان کے شور و شر کو دیکھ کر بھی مولویوں اور ملانوں میں پھر نئے سرے سے جوش پیدا ہو گیا ہے اور انہوں نے ایک بار اور حملہ کرنے کی کوشش کی ہے اور یہاں تک جرات دکھلائی ہے کہ قادیان اگر جلسہ کیا ہے.بعض دوستوں کو یہ بات ناپسند ہوئی لیکن میں نے کہا کہ اس میں ہمارا کیا حرج ہے.شیر شکار کے پاس جائے یا شکار شیر کے پاس آجائے ایک ہی بات ہے.ہم تو لڑائی اور فساد کو سخت ناپسند کرتے ہیں اور ایسی باتوں سے الگ رہتے ہیں جن کا نتیجه نقض امن ہو ورنہ تبلیغ اسلام کے سوا ہمارا کام ہی کیا ہے.ہم تو دور دراز ملکوں میں
انوار العلوم جلدم ۹۶ علم حاصل کرو مضامین روپے خرچ کر کے اور تکالیف برداشت کر کے جاتے ہیں اگر اپنے گھر پر ہی اس فرض کے ادا کرنے کا موقع مل جائے تو اور کیا چاہئے.یہ تو ہمارے لئے بہت آسان کام ہے اس لئے غیر احمدیوں کا یہاں جلسہ کرنا ہمارے لئے مفید اور خوشی کی بات ہے کیونکہ جن لوگوں کو ہم نہیں جگا سکتے ان کو وہ گھر کے ہونے کی وجہ سے جگا گئے ہیں.چنانچہ ان کے جلسہ کے بعد یہاں اور ارد گرد کے غیر احمدیوں میں مذہبی باتوں کا خوب چرچا ہو گیا ہے اور یہ ان لوگوں کی بیداری کی ایک علامت ہے.پھر ان کے جلسہ سے ہمیں یہ فائدہ ہو گیا کہ ہمارے مبلغوں کو کرایہ بھر کر اور کہیں نہ جانا پڑا بلکہ وہ لوگ خود بخود کرایہ دے کر یہاں آگئے.ان ایام میں میں نے رات کو جلسے کرادیئے تھے جن میں وہ لوگ آگر سنتے رہے.یہ تو مولویوں کے کارنامے ہیں مگر کو تعلیم یافتہ گروہ بھی خاموش نہیں رہا.ولایت سے قدوائی اور دوسرے کئی لوگ ہمارے خلاف لکھنے لگ گئے ہیں، بعض اخبارات بھی ہمارے متعلق لکھنے کیلئے وقف ہو گئے ہیں، ثناء اللہ کا اخبار تو پرانی بیماری تھی ہی ایک نیا اخبار ستاره صبح بھی نکلا ہے جس کے ایڈیٹر نے سمجھ رکھا ہے کہ کسی گورنمنٹ کا مقابلہ کرنے سے ہی شہرت حاصل ہو سکتی ہے کیونکہ اس طرح ایک شور پڑ جاتا ہے اس لئے اس نے پہلے تو دنیاوی گورنمنٹ کا مقابلہ کیا مگر جلد ہی اس کی گرفت اسے نظر آگئی.جب ضمانت اور مطبع وغیرہ ضبط ہو گیا اور اسے نظر بند کر دیا گیا تو اسے قدر عافیت معلوم : ہوئی اور وہ اس گورنمنٹ کے پیچھے پڑنا چھوڑ کر خدائی گورنمنٹ کے پڑ گیا اور دنیاوی گورنمنٹ کے مقابلہ میں ناکامی اور زک اٹھا کر خدائی گورنمنٹ کے مقابلہ کیلئے کھڑا ہو گیا لیکن کیا وہ نادان نہیں جانتا کہ دنیاوی گورنمنٹ کی نسبت خدائی گورنمنٹ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے.مشہور ہے کہ خدا کی لاٹھی نظر نہیں آتی مگر یہ غلط ہے.ایسی نظر آتی ہے کہ صرف وہی نہیں دیکھتا جس کے اوپر پڑتی ہے بلکہ اس کے دوسرے ساتھی بھی اس کا مزا چکھتے ہیں.پس وہ تسلی رکھے حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں..یہ گماں مت کر کہ یہ سب بد گمانی ہے معاف قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار خدا کسی کا کچھ نہیں رکھتا.اسے سب کچھ واپس مل جائے گا.پھر صوفیاء کا گروہ ہے.اس نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہمارے سلسلہ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے ہم سے آگے بڑھ گئے ہیں ہم زمام دین ہاتھوں میں رکھنے والے کیوں ان سے پیچھے رہ
انوار العلوم جلدم علم حاصل کرو جائیں.ہم تو رسول کریم کے روحانی علوم کے وارث ہیں یہ سوچ کر ان میں سے ایک چلتے پرزے نے باطنی جہاد کے ذریعہ ہمیں ہلاک کرنے کا اعلان کر دیا.ان تمام لوگوں کی طرف سے ہمارے خلاف ایک رو آئی ہے اور اس کے چلانے والوں نے سمجھا ہے کہ اس طرح یہ سلسلہ مٹ جائے گا لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس درخت کے لگانے والا وہ خدا ہے جس کے قبضہ میں ہر ایک چیز ہے.ہر قسم کی آگ پر اس کا قبضہ ہے، ہر ایک قسم کے پانی پر اس کا تصرف ہے اور ہر ایک قسم کی ہوا اس کے اختیار میں ہے.اس لئے نہ تو کوئی آگ اسے جلا سکتی ہے نہ کوئی پانی اسے بہا سکتا ہے اور نہ کوئی ہوا اُسے گرا سکتی ہے بلکہ یہ اور ان کے علاوہ باقی تمام عناصر اس کے لگائے ہوئے درخت کے خادم ہیں.پس مخالفین کی طرف سے جس قدر بھی مخالفت ہوگی وہ اس درخت کیلئے کھاد کا ہی کام دے گی اور ان وہ دن بدن زیادہ سے زیادہ پھل اور پھول لاتا رہے گا.یہ صاف بات ہے کہ کسی کی طاقت اور قدرت کا اسی وقت پتہ لگتا ہے جبکہ اس کے خلاف زور لگانے والے کھڑے ہوں.پس اس وقت خدا تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو اپنی طاقت اور قدرت کا ثبوت دینا چاہتا ہے اور بتانا چاہتا ہے کہ اس قسم کی ناکامی ہمارے لئے نہیں بلکہ ہمارے دشمنوں کیلئے مقدر ہو چکی ہے.چنانچہ اسی وقع پر دیکھ لو ہماری جماعت کیسی غریب جماعت ہے، دنیاوی لحاظ سے سوائے چند لوگوں کے باقی سب کے سب معمولی حیثیت کے لوگ ہیں لیکن باوجود اس کے ان قحط سالی کے دنوں میں کہ غلہ سات آٹھ سیر سکتا ہے، کپڑا اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ پہلے کی نسبت کئی گناہ زیادہ قیمت پر ملتا ہے اور دیگر اشیاء نہایت گراں ہو گئی ہیں مگر کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا کی راہ میں اپنا مال اپنا وقت صرف کرنے میں اس جماعت کا قدم پیچھے ہٹ رہا ہے.ہرگز نہیں.اس سال سالوں سے بھی زیادہ لوگوں نے جوش دکھایا ہے اور بہت زیادہ تعداد میں یہاں آئے ہیں خدائی تصرف ہے کسی انسان کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.اسی سے معلوم ہو سکتا ہے کہ دشمن نے جتنا زور لگایا ہے اتنی ہی اسے ناکامی ہوئی ہے اور ہر طرح کی ذلت کا اسے منہ دیکھنا پڑا ہے.مگر پھر بھی ہمارے لئے ضروری ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں اور زیادہ زور اور کوشش صرف کریں کیونکہ اللہ تعالٰی غنی ہے.دیکھو رسول کریم اے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ تمہاری فتح ہوگی لیکن بدر کے دن آپ کس قدر گڑ گڑا گڑ گڑا کر دعائیں مانگتے تھے اور صحابہ کو جوش دلاتے تھے کہ اس طرح لڑائی کرو.پس ہمیں بھی چاہئے کہ دشمن کے مقابلہ میں پورا
انوار العلوم جلد ۴ ۹۸ علم حاصل کرو زور لگائیں اور ہر وقت چوکس رہنا اپنا فرض سمجھیں.اس سال مخالفین کی طرف سے جس قدر حملے ہوئے ہیں ان میں سے ایک حملہ وہ باطنی جہاد کا اعلان ہے جو خواجہ حسن نظامی صاحب کی طرف سے ہوا ہے اور جس کا جواب میری طرف سے شائع ہو چکا ہے.اس میں میں نے لکھا ہے کہ اگر تم کو مباہلہ منظور ہو تو ہمیں ایک ایک ہزار آدمی کو ساتھ لے کر مباہلہ کرنا چاہئے تاکہ ایک اچھی تعداد کے ہلاک ہونے سے کوئی نتیجہ مترتب ہو.اس کے متعلق میں آپ صاحبان کو اطلاع دیتا ہوں کہ جو دوست ان ہزار آدمیوں میں شامل ہونا چاہیں وہ اپنا نام عبدالرحمن صاحب قادیانی کو جو یہاں کھانے پینے کی دکان کرتے ہیں لکھا دیں.ہماری جماعت کے حق اور صداقت پر ہونے کا یہ بھی ایک بہت بڑا ثبوت ہے کہ باوجود اس کے کہ اس وقت سے پہلے میری طرف سے اس قسم کا کوئی اعلان شائع نہیں ہوا مگر کئی دوستوں کے خط آچکے ہیں کہ اگر حسن نظامی سے مباہلہ ہو تو ہمیں بیوی بچوں سمیت اس میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے.دیکھو ایک طرف ہمارے دشمنوں کی تو یہ حالت ہے کہ جب ہم انہیں مباہلہ کا چیلنج دیتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ تم تو ہمیں مارنے کے درپے ہو جاتے ہو.مگر ایک طرف ہماری جماعت کے لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ اگر ہمیں مباہلہ میں شامل کیا گیا تو ہم پر بہت بڑا احسان کیا جائے گا اور یہ ہم پر بہت ہی مہربانی ہوگی.پھر وہ صرف اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے بلکہ بیوی بچوں سمیت شامل ہونے کی درخواست کرتے ہیں.مباہلہ میں شامل ہونا کوئی آسان کام نہیں.ایک انسان یہ کہنے کیلئے شامل ہوتا ہے کہ فلاں بات جو میں ہی کہتا ہوں وہ اگر جھوٹی ہے تو خدا کی لعنت مجھ پر میری بیوی پر اور میری اولاد پر پڑے.خطرناک اور دل دہلا دینے والے الفاظ ہیں.بہت لوگ ہوتے ہیں جو اپنے لئے تو ذلت برداشت کرلیتے ہیں لیکن اپنی اولاد کیلئے ہرگز برداشت نہیں کرسکتے.چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگوں کو اگر کوئی اپنی جان کی قسم دے تو کھالیتے ہیں لیکن اگر اولاد کی قسم کھانے کیلئے کہا جائے تو انکار کر دیتے ہیں مگر ہماری جماعت کے لوگوں کو دیکھو وہ یہی نہیں کہتے کہ ہمیں مباہلہ میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے بلکہ اپنے بیوی بچوں سمیت شامل ہونے کیلئے بیتاب ہو رہے ہیں.اور ایک صاحب تو اتنے شوقین ہیں کہ انہوں نے میرے پاس کرایہ بھی بھیج دیا ہے کہ شاید اس وقت پاس نہ ہو اور آنے میں مشکل پیدا ہو.یہ خدا تعالی کا فضل اور رحم ہے
انوار العلوم جلد ۴ ٩٩ علم حاصل کرو کہ اس نے ہماری جماعت کے لوگوں کے قلوب کو ایسا مطمئن کر دیا اور ایسا یقین دلایا ہے کہ کیلئے خواہ انہیں کیسی ہی خطرناک قربانی کیوں نہ کرنی پڑے اس کیلئے بھی تیار ہیں اور پورے یقین اور ایمان کے ساتھ جانتے ہیں کہ چونکہ ہم ہی حق پر ہیں اس لئے خدا کی نصرت ہمارے ہی ساتھ ہوگی.ہمارے خلاف جو اس قدر شور برپا کیا جارہا خشیت اللہ کا ہونا صداقت کی علامت ہے ہے اس کے متعلق دو باتیں دیکھنی چاہئیں ان سارا فیصلہ ہو جاتا ہے خواہ ہمارے خلاف شور مچانے والے پیغامی ہوں یا دوسرے لوگ دونوں سے ان کے ذریعہ نہایت آسانی کے ساتھ فیصلہ ہو سکتا ہے.پہلی بات تو خشیت اللہ ہے.جس جماعت کے لوگوں میں خشیت اللہ پائی جائے وہ راست باز اور حق پر ہوتی ہے اور جس میں یہ نہیں اس میں کچھ بھی نہیں.اب اگر غور کیا جائے تو ثابت ہو جاتا ہے کہ ہمارے مخالفین میں اس کا نام و نشان بھی نہیں پایا جاتا اور ان کے دلوں سے یہ بات بالکل اٹھ گئی ہے.اس مباہلہ کے معاملہ میں دیکھ لو.میرا خیال تھا کہ صوفی کہلانے والوں میں کچھ تو شرم و حیا باقی ہوگی مگر معلوم ہو گیا ہے کہ ان کا گھر بھی خالی ہے.ہماری جماعت کے ایک شخص نے خواجہ حسن نظامی کے متعلق اشتہار شائع کیا تھا کہ مجھ سے مباہلہ کرلو.اس کے جواب میں اس نے کسی پریس کے گل گش کی طرف سے اشتہار نکلوایا کہ میرے ساتھ ناک سے ناک ملا کر جامع مسجد دہلی کے مینار سے کودو- جو زندہ بچ گیا وہ سچا ہو گا.یہ کیسی جہالت اور نادانی کی بات ہے.اللہ تعالیٰ اس بات کو سخت ناپسند کرتا ہے کہ کوئی انسان اس طرح اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالے.میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مباہلہ کے اس طریق کو چھوڑ کر جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا ہے ایسی بیہودہ حرکت کرنے کی وجہ کیا ہے؟ اگر مباہلہ کا یہ بھی کوئی طریق تھا تو کیوں خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں نہ بتادیا اور اگر نَعُوذُ بِاللهِ خدا تعالیٰ کو یہ طریق نہ سوجھا تھا تو پھر بھی وہ عالم الغیب ہے آئندہ باتوں کو جانتا ہے اس کل کش کے دل میں آنے والے معلوم کر کے ہی بتادیتا.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ ان لوگوں سے خشیت اللہ اٹھ چکی ہے اس لئے نئی نئی اور بیہودہ باتیں پیش کر کے اللہ تعالی کی ہتک کر رہے ہیں.اللہ تعالی نے تو بتایا ہے کہ اگر سچائی میں شک ہو تو مباہلہ کرو مگر یہ کہتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے بلکہ ناک سے ناک ملا کر اونچے مینار سے کودنا چاہئے.میری سمجھ میں تو یہ بات بھی نہیں خیالات سے
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو آئی کہ ناک سے ناک ملا کر کودنے کی جو شرط لگائی گئی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اور کوئی وجہ ہو یا نہ ہو یہ ضرور ہے کہ ان میں خشیت اللہ نہیں رہی.رسول کریم ﷺ کے وقت ایک واقعہ ہوا تھا.آپ نے ایک لشکر کو ایک افسر کے ماتحت بھیجا تھا.ایک مقام پر اس نے لوگوں کو آگ میں کودنے کا حکم دیا کچھ لوگ تو اس کیلئے تیار ہوگئے اور باقیوں نے کہا کہ یہ حکم شریعت کے خلاف ہے اس لئے ہم اس کی تعمیل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں.جب لشکر واپس آیا تو رسول کریم ﷺ کے حضور یہ بات پیش کی گئی.آپ نے فرمایا اگر تم اس آگ میں کو دیتے تو سیدھے جہنم میں جاتے.اب جو لوگ ایک اسی قسم کی بات پیش کرتے ہیں جو شریعت کے خلاف ہے ان کی قلبی حالت کا حال معلوم ہو رہا ہے کہ ان میں خشیت اللہ نہیں رہی.وا دین سے ہنسی اور قرآن کریم سے تمسخر کرتے ہیں اور آنحضرت ا کے لائے ہوئے دین وہ کو کھیل اور تماشہ بنا رہے ہیں.ان کے ساتھ ہی پیغامیوں کو دیکھ لو.وہ مباہلہ کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ دین کے ساتھ نسی کی جارہی ہے اور اسلام کو ایک کھیل بنالیا گیا ہے.گویا قرآن کریم میں جو مباہلہ کی دی گئی ہے اور خدا تعالیٰ نے حق و باطل میں فیصلہ کا جو یہ ایک طریق مقرر کیا ہے وہ کھیل ہے.رکھا ہم ان سے پوچھتے ہیں.کیا خداتعالی دلائل نہیں بیان کر سکتا تھا کہ اس نے مباہلہ کا طریق ہے.یا رسول کریم کو تم سے کم دلائل آتے تھے کہ ان کو خداتعالی کہتا ہے کہ اگر یہ لوگ دلائل سے نہیں مانتے تو ان کو کہو کہ آؤ مباہلہ کرلو.باوجود قرآن کریم میں دلائل اور بینات بیان کرنے کے مباہلہ کو بھی فیصلہ کا ایک طریق قرار دینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک موقع ایسا بھی ہوتا ہے جب دلائل سے فیصلہ نہیں ہو سکتا.پس ہم نے بھی جب دلائل کے ذریعہ فیصلہ ہوتا نہ دیکھا تو کہا آؤ مباہلہ کر لو.یہ کھیل اور تماشہ کی کونسی بات ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں گروہوں میں خشیت اللہ نہیں رہی اور جب ان میں خشیت اللہ نہیں رہی تو ثابت ہو گیا کہ وہ حق پر بھی نہیں ہیں.ہماری صداقت کا ایک اور امتیازی نشان دوسری امتیازی بات راست باز اور جھوٹے گروہ میں دیکھنے والی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ جو جماعت حق پر ہو اس کو دوسروں پر کامیابی عطا کرتا اور اسے دن بدن بڑھاتا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے.أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا
انوار العلوم جلد م H علم حاصل کرو مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَلِبُونَ (الانبیاء :۴۵) - کیا یہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو اس کے کنارں سے کم کرتے چلے آرہے ہیں کیا پھر بھی یہی غالب ہوں گے.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ ہماری جماعت جو خدا کے فضل سے دن بدن بڑھ رہی ہے، زمین کے کناروں سے آ آکر لوگ اس میں شامل ہو رہے ہیں کیا وہ آخر مغلوب ہوگی اور اس کے گھٹنے والے مخالف غالب.پھر یہ نہیں کہ ہم یوں ہی بڑھ رہے ہیں کوئی ہماری مخالفت کرنے والا اور ہمارے خلاف زور لگانے والا نہیں ہے بلکہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے، عالم، جاہل، امیر، غریب، چھوٹے بڑے صوفی سجادہ نشین غرضیکہ ہر حیثیت اور ہر رنگ کے لوگ ہماری مخالفت کر رہے ہیں اور ایک جماعت ہم میں سے نکل کر بھی ہمارے خلاف کھڑی ہو گئی ہے.دنیا میں کسی قوم کو ہلاک کرنے کے دو ہی طریق ہوتے ہیں ایک طاقت سے دوسرے گھر کے بھیدیوں کے ذریعہ ، اور یہ دونوں طریق خدا تعالیٰ نے ہمارے خلاف استعمال کرائے ہیں تا ثابت ہو جائے کہ یہ خدا کا قائم کردہ سلسلہ ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے نقصان نہیں پہنچا سکتی.دیکھو اگر ہماری مخالفت نہ ہوتی تو لوگ کہتے کہ انہیں یونہی غلبہ حاصل ہو گیا ہے اگر مخالفت کی جاتی تو کبھی کامیاب نہ ہوتے لیکن خدا نے نہ چاہا کہ ہمیں اس طرح چپکے سے کامیاب کردے بلکہ اس نے ہر قسم کے لوگوں کو مخالفت پر کھڑا کر دیا.مسلمان حکمرانوں نے تکلیفیں پہنچائیں، امراء نے دکھ دیئے، عوام نے پتھر مارے، وطن سے بے وطن کر دیا، عورتوں کو چھین لیا ، جائیدادیں ضبط کرلیں، غرضیکہ ہر قسم کی تکلیفیں پہنچائی گئیں اور ہر چیز کے چھینے کیلئے جو کوشش کوئی کر سکتا تھا کی گئی حتی کہ ہماری مخالفت میں تلوار تک بھی اٹھائی گئی.مگر کیا ہمارا سلسلہ بڑھنے سے رک گیا.ہرگز نہیں بلکہ آگے ہی آگے بڑھتا چلا گیا.پھر کہا گیا تھا کہ چونکہ ان کی دیوار مضبوط ہے اس لئے ہمارے حملے کارگر نہیں ہوتے انہیں کے اندر سے جب کوئی ان کے مقابلہ کیلئے اُٹھے گا تب ان کو شکست ہوگی.چنانچہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد لکھ دیا گیا کہ اب وہ وقت آنے والا ہے جبکہ ان کے اندر سے ایک گروہ اُٹھے گا اور اس جماعت کو تباہ کر دے گا.چنانچہ کچھ لوگ اندر سے ایسے کھڑے بھی ہوئے جنہوں نے سمجھا کہ ہم لنکا ڈھائیں گے لیکن لنکا کیا ایک اینٹ بھی نہ اکھیڑ سکے.تو یہ دو معیار ایسے ہیں جو خدائی سلسلہ کی صداقت کے قرآن کریم سے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ جس میں خشیت اللہ نہیں وہ مومن نہیں اور یہ ہمارے دشمنوں میں نہیں پائی جاتی بلکہ ہم میں پائی جاتی ہے.پھر قرآن بتلاتا ہے کہ ایک چھوٹی معلوم : ہوتے.
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو ی جماعت کا باوجود خطرناک مقابلہ کے بڑھنا اس کی صداقت کی علامت ہے.پس ان دونوں معیاروں سے ہماری ہی صداقت ثابت ہو رہی ہے.پھر ہمارے دشمن کیوں نہیں دیکھتے کہ وہ ہمارا مقابلہ نہیں کر رہے بلکہ خدا کا کر رہے ہیں اور ہمیں نقصان نہیں پہنچارہے بلکہ اپنے لئے آپ پھانسی گاڑ رہے ہیں، ہمارے لئے خیر ہی خیر ہے اور انہیں کیلئے ہلاکت آئے گی.جلسہ پر آنے کی غرض اب میں اس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگ جو قادیان میں جلسہ کے موقع پر آتے ہیں تو اس میں آپ کی غرض کیا ہے اور اسے کس طرح حاصل کرنا چاہئے.اگرچہ جو کچھ میں کہنے والا ہوں وہ ایک قلیل جماعت کے متعلق ہے مگر جس کو کسی سے محبت اور الفت ہو وہ کہاں پسند کرتا ہے کہ کوئی بھی محروم رہے.بات یہ ہے کہ کئی لوگ لیکچر کے وقت ادھر اُدھر پھرتے رہتے ہیں اور لیکچر نہیں سنتے.اگرچہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے تعداد کے لحاظ سے اس قسم کے لوگ بہت تھوڑے ہیں مگر مجھے محبت اور تعلق کی وجہ سے بہت نظر آتے ہیں کیونکہ مجھے اس بات پر افسوس آتا ہے کہ وہ کمائی جو انہوں نے محنت اور مشقت سے کمائی ہوگی اسے یہاں آکر ضائع کر دیتے ہیں اور بجائے اس کے کہ اللہ تعالی کی رضا کے ماتحت خرچ کر کے اس کے انعام کے مستحق ہوں گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں اس لئے میں خاص طور پر اس بات کی تاکید کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے تمام لیکچروں کے سننے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیا کرو.اگرچہ وہ لوگ جو اس وقت میرے پیش نظر ہیں پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں جو پانچ ہزار کے مجمع کے مقابلہ میں بہت تھوڑے ہیں.لیکن کیا کوئی ماں جس کے اگر ایک لاکھ بچے ہوں یہ پسند کرے گی کہ اس کا ایک بیٹا بھی بھٹی میں گر کر ہلاک ہو جائے، ہرگز نہیں.اسی طرح کیا اگر کسی کے ایک کروڑ بھائی بھی ہوں تو وہ یہ گوارا کرے گا کہ ان میں سے ایک دو کو ذبح کر دیا جائے، ہرگز نہیں.تو محبت اور الفت ایک دو کو نہیں دیکھتی بلکہ چاہتی ہے کہ سارے کے سارے کامیاب ہوں.کوئی ماں یہ پسند نہیں کر سکتی کہ اس کا کوئی بیٹا ادنیٰ حالت میں رہے کوئی بھائی یہ پسند نہیں کر سکتا کہ اس کا کوئی بھائی خطرے میں پڑے، کوئی دوست یہ گوارا نہیں کر سکتا کہ اس کا کوئی دوست نقصان اٹھائے بلکہ یہی چاہتا ہے کہ اس کے ساتھ تعلق رکھنے والے سارے کے سارے کامیاب ہوں.اس لئے میں بھی کہ تم سے بہت زیادہ محبت اور تعلق رکھتا ہوں نصیحت کرتا ہوں کہ جہاں تک ہو سکے اپنے
انوار العلوم جلدم ۱۰۳ علم حاصل کرو اوقات کو دین کی باتیں سننے میں لگاؤ.اگر تمہیں جلسہ میں بیٹھے ہوئے لیکچرار کی آواز نہ بھی سنائی دے تو پرواہ نہ کرو.انتظام کا قائم رکھنا بھی ایک نہایت ضروری اور لازمی امر ہے.اس طرح تمہیں کم از کم یہی مشق ہو جائے گی کہ دین کیلئے اگر تمہیں بیکار بھی بیٹھنا پڑے تو بھی بیٹھ سکو گے.یہ بھی ایک قربانی ہے کیونکہ اگر صرف مزے کیلئے لیکچر سنا جائے تو اس میں نفس بھی شامل ہو جاتا ہے.پس اگر کسی کو آواز نہ آئے تو بھی وہ بیٹھا رہے اور اپنے دل میں اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہے.کسی گذشته جلسہ کے موقع پر میں نے بتایا تھا کہ ایک دفعہ مسجد میں رسول کریم ای نے کچھ لوگوں کو فرمایا کہ بیٹھ جاؤ عبداللہ بن مسعود جو گلی میں جارہے تھے آنحضرت ا کی آواز سن کر وہیں بیٹھ گئے.اطاعت اور فرمانبرداری یہ ہوتی ہے.ایک اور دفعہ کا ذکر ہے کہ آنحضرت اللہ کی مجلس میں تین شخص آئے ، مجلس میں جگہ نہ تھی، ان میں سے ایک تو واپس چلا گیا ایک پیچھے ہی بیٹھ گیا اور ایک نے کوشش کر کے آگے جگہ حاصل کرلی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اس مجلس میں تین شخص آئے تھے، ان میں سے ایک نے جب دیکھا کہ اس تک میری آواز نہیں پہنچتی تو وہ چلا گیا، دوسرے نے جانے سے شرم کی اور بیٹھ گیا، تیسرے نے کوشش کی اور گھس کر آگے آبیٹھا.جو چلا گیا خدا نے اس سے منہ پھیر لیا اور جو جانے سے شرما گیا خدا نے بھی اس کے گناہوں سے چشم پوشی کی اور جو کوشش کر کے آگے آبیٹھا خدا نے بھی اس کو اپنے قرب میں جگہ دی.پس اگر تم میں سے بھی کسی کو آواز نہ آئے تو اس کیلئے یہ جائز نہیں کہ اُٹھ کر چلا جائے بلکہ وہ خود اپنے نفس کو وعظ کرے کہ اے نفس! تیرا ہی کوئی گناہ ہو گا جس کی وجہ سے مجھے پیچھے جگہ ملی ہے میں جو آگے نہیں بیٹھ سکا تو یہ میری ہی سستی ہے جس کی یہ سزا مجھے مل رہی ہے کہ آواز نہیں آتی.جب وہ اپنے نفس کو یہ وعظ کرے گا تو دوسرے موقع پر وہ پیچھے نہیں رہے گا بلکہ سٹیج کے پاس ہی بیٹھنے کی کوشش کرے گا.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ اپنے اوقات کو ضائع نہ ہونے دیں.آپ میں سے بہت لوگ ہیں جنہیں سال میں ایک ہی دفعہ آنے کا موقع ملتا ہے اس لئے انہیں سوائے کسی اشتر ضرورت کے جلسہ سے نہیں اٹھنا چاہئے.یہ بات میں اس لئے بھی کہتا ہوں کہ کئی ایسے دوست ہوتے ہیں جو پہلی بار ہی یہاں آتے ہیں اور بعض کے حافظے اس قسم کے ہوتے ہیں
انوار العلوم جلدم ۱۰۴ علم حاصل کرو کہ وہ ایک دفعہ کی بتائی ہوئی بات بھول جاتے ہیں، بعض ایسے ہوتے ہیں جنہیں بار بار کے بتانے پر اثر ہوتا ہے اور بعض ایسے ہوتے ہیں کہ اگر ان کی یاد تازہ کرا دی جائے تو وہ اطاعت میں اور اور زیادہ ترقی کرتے ہیں اس لئے میرا یہ کہنا انشاء الله سب کیلئے مفید ہوگا.پس اپنے اوقات کو یہاں اچھی طرح صرف کردو اور فائدہ اٹھاؤ.مُرید ہونے کے یہ معنی نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اقرار کرلیا اور بس بلکہ یہ ہیں کہ جس کا مرید بنا جائے اس کی ہدایات اور احکام کی اطاعت کر کے دینی فائدہ حاصل کیا جائے.ایسا شخص جو مُرید ہو کر کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتا ہے اس کیلئے کچھ شرائط ہیں جو نہایت ضروری اور مفید ہیں لیکن اب موقع نہیں ہے کہ ان تمام کو میں بیان کروں.ہاں میرا ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالی توفیق دے تو پھر کبھی بیان کروں.فی الحال میں ایک دو باتیں بتانی چاہتا ہوں.حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ کسی نیک انسان کے پاس یا بابرکت مقام پر اخلاص جانا مشکل نہیں ، ہاں وہاں سے اخلاص کے ساتھ لوٹنا مشکل ہے.کیوں؟ اس لئے کہ ایسے انسان نے اپنے ذہن میں عجیب عجیب نقشے بنائے ہوتے ہیں اور جب ان کو پورا ہوتا نہیں دیکھتا تو اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے.کئی لوگوں کو جب خدا تعالی ہدایت دیتا ہے اور وہ بیعت کرتے ہیں تو سناتے ہیں کہ ہم نے تو آپ کے متعلق ایسا نقشہ کھینچا ہوا تھا کہ آپ ایک لمبا جبہ پہنے ہوں گے، ہاتھ میں بڑے بڑے منکوں کی تسبیح ہوگی، الا الله إلا الله کے نعرے لگا رہے ہوں گے.تھوڑا ہی عرصہ ہوا یہاں ایک شخص آیا مجھے کہنے لگا آپ نے کوٹ کیوں پہنا ہوا ہے.میں نے کہا کیا حرج ہے.اس نے کہا سنت کے خلاف ہے مجبہ پہننا چاہئے.تو ہر رنگ کے انسان اپنی اپنی طرز کے مطابق کوئی نقشہ کھینچتے ہیں.جو صوفیوں کے ملنے والے ہوتے ہیں وہ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ قادیان میں لوگوں نے بڑی بڑی تسبیحیں گلے میں ڈالی ہوں گی، حلقے بنے ہوں گے اور قوالی ہو رہی ہوگی لیکن یہاں آکر دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے بلکہ وعظ اور لیکچر ہو رہے ہیں، مسجدوں میں اِلا اللہ کے نعروں کی بجائے علمی مباحثات اور تبلیغ دین کی باتیں بھی ہوتی ہیں، اسی طرح ایک مولوی صاحب آتے ہیں ان کا خیال ہوتا ہے کہ قادیان میں تو تصوف کا نام و نشان تک نہ ہوگا.مگر یہاں وہ دیکھتے ہیں کہ نوافل پڑھے جاتے ہیں، کر الہی کیا جاتا ہے، روحانیت اور قلب کی اصلاح کیلئے اذکار کئے جاتے ہیں، یہی حال اور طبقات کے لوگوں کا ہے.وہ اپنے ذہن میں اپنے خیال کے مطابق ایک نقشہ تجویز کرلیتے ہیں
انوار العلوم جلد ۴ ۱۰۵ علم حاصل کرو جو پورا نہیں ہوتا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ اخلاص کے ساتھ آنا مشکل نہیں بلکہ جانا مشکل ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ بعض ایسی باتیں بیان کروں جو ان لوگوں کیلئے جو اس سلسلہ میں نئے داخل ہوئے ہیں یا جنہیں ابھی داخل ہونے کی توفیق نہیں ملی فائدہ مند ہوں اور ان کو حق کے قبول کرنے میں مدد دیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ ہر بات کو غور فکر ہر بات کو احتیاط کی نظر سے دیکھنا چاہئے اور احتیاط کی نظر سے دیکھنا چاہیئے اور فیصلہ میں جلدی نہیں کرنی چاہئے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جس قدر لوگ یہاں جلسہ پر آتے ہیں وہ سارے کے سارے پڑھنے پڑھائے اور سیکھنے سکھائے نہیں آتے بلکہ ان میں سے کئی ایک ایسے بھی ہوتے ہیں جو پرانے خیالات کو لے کر پہلی دفعہ ہی آتے ہیں اس لئے اگر ان کی طرف سے کوئی ایسی بات ظاہر ہو جو روا نہ ہو تو انہیں معذور سمجھنا چاہئے اور ان کی وجہ سے احمدیت پر کسی قسم کا حرف نہیں لانا چاہئے.مثلاً سندھ کے علاقہ کا کوئی شخص جہاں پیروں کے آگے سجدہ کیا جاتا ہے یہاں آئے اور اگر گردن ڈال دے تو پہلے تو وہ اپنے رواج کے مطابق ایسا ہی کرے گا بعد میں ہم اسے اٹھائیں گے اور بتائیں گے کہ یہ درست نہیں ہے.اب اگر کوئی اسے دیکھ کر یہ سمجھ لے کہ یہاں بھی پیر پرستی ہوتی ہے تو یہ اس کی جلد بازی ہوگی کیونکہ جس نے یہ حرکت کی ہے وہ تو یہاں اپنی اصلاح کیلئے آیا ہے.اگر وہ پہلے ہی سب کچھ جانتا اور ایسی باتوں میں گرفتار نہ ہوتا تو اسے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی.ہاں اب جبکہ وہ یہاں آگیا ہے ہم اسے پڑھائیں گے اور اس کے مرض کو درست کریں گے.تو اس قسم کی باتیں جو لوگ کرتے ہیں وہ نئے آنے والے ہوتے ہیں اس لئے ان کے کسی فعل کو ہماری جماعت کی طرف منسوب نہیں کرنا چاہئے.ہجوم میں طبائع کا اختلاف ضروری ہے دوسرے یہ کہ ہجوم میں اختلاف ہونا ضروری بات ہے.حضرت خلیفہ اول اس کی مثال پگڑیوں سے دیا کرتے تھے.تو جس طرح لوگوں کی ان ظاہری چیزوں میں اختلاف ہوتا ہے اسی طرح طبائع میں بھی اختلاف ہوتا ہے اس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے.لیکن بعض لوگ جب اپنی طبیعت کے خلاف کوئی بات دیکھتے ہیں تو ناراض ہو جاتے ہیں.مثلاً کئی لوگ جوش کی وجہ سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر دوسرے اس پر چڑتے ہیں.مجھے تعجب آتا ہے کہ ان کے چڑنے
انوار العلوم جلد م 1.4 علم حاصل کرو کی کیا وجہ ہے.مختلف طبائع ہیں جس طرح انہیں آگے بڑھنے والوں پر اعتراض ہے اسی طرح آگے بڑھنے والے بھی ان پر معترض ہیں کہ یہ لوگ کیوں ہماری طرح آگے نہیں بڑھتے کیونکہ ان کے نزدیک یہ بھی اخلاص دکھانے کا ایک طریق ہے.بات یہ ہے کہ دونوں کے نزدیک الگ الگ اخلاص کا معیار ہے.ایک تو کہتے ہیں کہ خواہ پس جائیں آگے ہی جاتا ہے.مفتی محمد صادق صاحب سناتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کی زندگی کے آخری سال جو جلسہ ہوا اس میں ایک شخص مجمع میں سے پیچھے کھڑا ہوا دوسرے سے کہہ رہا تھا کہ دیکھو نبیوں کا زمانہ روز روز نہیں آتا تو ایک دفعہ آگے جاکر حضرت مسیح موعود سے مصافحہ کر ہی آخواہ تیری ہڈی ہڈی کیوں نہ ٹوٹ جائے چنانچہ وہ مجمع میں گھس گیا اور مصافحہ کر آیا.تو ایک اس طبیعت کے لوگ ہوتے ہیں مگر دوسرے کہتے ہیں کہ مجمع میں لڑکتے جانا کہاں کا ادب ہے، اس طرح خواہ مخواہ تکلیف دی جاتی ہے.یہ دونوں کے اخلاص کی باتیں ہیں اور دونوں پھل پائیں گے اس لئے کسی کو ایک دوسرے پر چڑنے کا کوئی حق نہیں ہے.پھر بعض سختی اور تشدد سے میرے پاس سے دوسروں کو ہٹانا چاہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ خدمت کر رہے ہیں انہیں چاہئے کہ رفق اور ملائمت کا سلوک کریں، ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور ادب سے پیش ئیں تم سب ایک دوسرے کے بھائی ہو اور غیر احمدی جو آئے ہیں وہ ہمارے مہمان ہیں.پس تم انسانیت اور مراتب کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ساتھ سلوک کرو نہ کہ سختی اور بے ادبی سے پیش آؤ.مجھے حیرت ہوتی ہے جب ایک دوسرے سے بد تہذیبی اور سختی کر کے لوگ کہانی کرتے ہیں کہ ہم تو لنگوئیے یار ہیں ہمارا کیا ہے.حالانکہ اگر وہ بچپن کے دوست ہیں تو انہیں چاہئے کہ ایک دوسرے کا اور بھی زیادہ ادب اور لحاظ کریں کیونکہ اگر دوست دوست کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتا تو کیا دشمن کرے گا.آپ لوگ ایک دوسرے کا ادب کریں، قادیان والے باہر سے آنے والوں کا ادب کریں ، کہ وہ ان کے مہمان ہیں اور بیرونی احباب قادیان والوں کا ادب کریں کہ ان کا اکثر حصہ ایسا ہے جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر محض دین کی خاطر یہاں آگیا ہے.آپ لوگ میرے پاس یہاں آئے ہیں اور یہ لوگ میرے ملازم نہیں ہیں مگر رات کے دو دو بجے تک آپ لوگوں کی خاطر سردی میں کام کرتے رہتے ہیں.اگر ان لوگوں میں اخلاص اور محبت نہ ہوتی تو انہیں کیا ضرورت تھی کہ اپنے گھروں میں آرام کرنے کی بجائے سردی میں آدھی آدھی رات تک
انوار العلوم جلدم.علم حاصل کرو آپ لوگوں کی خاطر تواضع میں لگے رہتے.اس کا انہیں کوئی انعام نہیں دیا جاتا بلکہ محض محبت اور اخلاص سے کام کرتے ہیں اس لئے تمہیں ان کی قدر کرنی چاہئے.اس کے بعد میں یہاں کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ یہ لوگ جو دور دراز سے کرایہ خرچ کر کے اپنے کاروبار کو چھوڑ کر یہاں آتے ہیں یہ کوئی کھانے پینے کی خاطر نہیں آتے.کیا وہ اسی کرایہ کا جسے خرچ کر کے یہاں آتے ہیں گھر میں اچھے سے اچھا کھانا نہیں کھا سکتے مگر وہ یہاں خدا کی رضا حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں.پس طرفین کو چاہئے کہ ایک دوسرے کا ادب اور لحاظ کریں.باہر سے آنے والے احباب یہاں کے رہنے والوں کی دقتیں اور مجبوریاں مد نظر رکھیں ہم انہیں کسی انتظام کیلئے مقرر کرتے ہیں اور وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جیسا انہیں حکم دیا گیا ہے اسی طرح کریں لیکن لوگ ان پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہیں کہ کیوں ہمیں حسب منشاء ملنے کا موقع نہ دیا گیا.ہاں اگر کوئی ان سے سختی سے کلام کرتا یا درشتی سے بڑھتا ہے تو یہ اس کی نادانی ہے.وہ تو ہر روز ملتا ہے اس لئے اسے اس جذبہ کا احساس نہیں ہے جو کچھ دیر کے بعد ملنے والوں کے دل میں ہوتا ہے.اسے خیال کرنا چاہئے کہ ایک بھائی جو دوسرے بھائی کو کچھ عرصہ کے بعد ملتا ہے وہ اسے چمٹ جاتا ہے لیکن جو اس کے پاس رہتا ہے وہ ایسا نہیں کرتا.اس سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اسے محبت کم ہوتی ہے بلکہ یہ ایک فطرتی بات ہے کہ دیر سے ملنے والے کے دل میں بہت جوش ہوتا ہے تو اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہئے.یہ باتیں جو اس وقت میں نے بتائی ہیں اگر ان کو غور سے سنا اور ان کے مطابق عمل کیا جائے تو فتنے بہت کم ہو جائیں اس لئے ان کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری اور فائدہ بخش ہے ورنہ بڑا نقصان اٹھانا پڑتا ہے.ایک پڑتا ہے.ایک شخص اسی بات کی وجہ سے مرتد ہو گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود " نماز پڑھنے کے بعد مسجد میں بیٹھا کرتے تھے اور لوگ کوشش کرتے تھے کہ جس قدر جلدی ہوسکے ہم آپ کے پاس پہنچیں تاکہ قریب جگہ حاصل کر سکیں.ایک دن آپ نماز کے بعد بیٹھے اور اس شخص کے پاس سے کوئی شخص جلدی سے گذرا اور اس کی کہنی اسے لگ گئی تو اسی پر اسے ابتلاء آگیا.گو یہ معمولی سی بات تھی لیکن ایسی باتوں کے متعلق بہت خیال رکھنا چاہئے تم لوگ اگر ان باتوں کو مد نظر رکھو گے تو بہت بڑا فائدہ حاصل کرو گے.پس اپنے جوشوں اور جذبات کو دباؤ اور نرم ہو جاؤ.جب انسان نرم ہو جاتا ہے تو پھر اس پر کوئی حملہ نہیں کرتا.مجھے یاد ہے بچپن میں ہم نے ایک کشتی رکھی ہوئی تھی، ارد گرد کے گاؤں کے
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو لڑکے اسے پانی میں لے جاتے اور توڑ ڈالتے.ایک دن میں نے کچھ لڑکوں کو مقرر کر دیا کہ جب کوئی شخص کشتی لینے آئے تو مجھے خبر کرنا.چنانچہ جب کچھ لڑکے کشتی کو سیر کیلئے لے گئے تو انہوں نے مجھے اطلاع دی، میں ہاتھ میں سوئی لے کر گیا کہ اس سے ان کو ماروں گا.وہ مجھے دیکھ کر کشتی کو چھوڑ کر بھاگے، ایک میرے سامنے سے گزرا اور میں نے تھپڑ مارنے کیلئے زو سے ہاتھ اٹھایا تو اس نے اپنا منہ میرے سامنے کر دیا اور کہا کہ لو مرزا جی مارلو- اس کی یہ بات نا کر میرے اعصاب ڈھیلے ہو گئے اور ہاتھ بے اختیار گر گیا اور چھوڑ کر چلا آیا.تو نرمی ہر شخص کو مجھکا دیتی ہے.پس وہ جو ایک دوسرے کے بھائی اور دوست ہوں ان سے اگر نرمی اور اسن ملائمت کا سلوک کیا جائے تو وہ کیوں محبت اور الفت سے بھر کر آگے نہ مجھک جائیں گے.زور رسول کریم کے اخلاق آپ لوگ اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ ہم لوگ جس نبی کے پیرو ہیں وہ بڑے ہی اعلیٰ اخلاق والا انسان تھا.آپ ایسے اخلاق والا نہ کوئی پہلے ہوا ہے اور نہ کوئی ہو سکتا ہے، پھر آپ کے بروز حضرت مسیح موعود کے بھی بے نظیر اخلاق تھے.اب تم خود ہی غور کرلو کہ ایسے نبیوں کے پیرو اور مرید ہو کر تمہیں کیسے اخلاق دکھانے چاہئیں.مجھے مسلمان کہلانے والوں پر تعجب ہی آیا کرتا ہے اللہ تعالی ان پر رحم کرے، رسول کریم ﷺ کی کوئی خوبی آپ کی طرف منسوب نہیں ہونے دیتے.قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کی بیشمار خوبیاں بیان کی گئی ہیں مگر یہ سب حضرت عیسی " کی طرف منسوب کرتے ہیں اور آنحضرت لا کے متعلق مفسرین بڑے شوق سے بیان کرتے ہیں کہ فلاں فلاں آیت میں نَعُوذُ باللہ) آپ پر عتاب نازل ہوا.خدا تعالی تو فرماتا ہے.قُلْ اِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران: ۳۲)- کہ لوگوں کو کہہ دو کہ اگر تم اللہ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو مجھے اپنا محبوب بناؤ مگر وہ کہتے ہیں کہ آپ پر خدا تعالیٰ عتاب ہی عتاب کرتا رہا ہے.وہ جن آئیتوں کو عتابی قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک کو پڑھ کر تو مجھے اتنا مزا آتا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اگر رسول اللہ سامنے ہوں تو آپ کو محبت سے چمٹ ہی جاؤں.خدا تعالیٰ آپ کے اخلاق کے متعلق ایک بات بیان فرماتا ہے اور وہ یہ کہ عبس - اَنْ جَاءَهُ الْاَعْمى (عبس:۳۴۲).اس نے تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا کہ اس کے پاس ایک اندھا آگیا.مفسرین کہتے ہیں یہ عتابی آیت ہے اور اس میں خدا نے آنحضرت کو یہ سزا دی ہے کہ آپ کو صیغہ غائب سے مخاطب کیا ہے اور ناراضگی کی وجہ سے
١٠٩ علم حاصل کرو انوار العلوم جلدم نام نہیں لیا کیونکہ جب آپ کے پاس اندھا آیا تو آپ نے تیوری چڑھائی اور اس کی طرف سے منہ پھیر لیا.اس پر خدا تعالیٰ کو ایسا غصہ آیا کہ آپ کو مخاطب کرنا پسند نہ کیا.لیکن نادان نہیں جانتے کہ یہ نہایت پیار اور محبت کا کلام ہے.کسی سے ناراضگی اور ناپسندیدگی کیوں کی جاتی ہے اس لئے کہ اس پر اس کا اظہار ہو جائے اور وہ سمجھ لے کہ میری فلاں حرکت پر ناراضگی ہوئی ہے اور یہ حرکت بعض دفعہ بداخلاقی سمجھی جاتی ہے.لیکن اگر کسی کی کوئی بات نا پسند ہو اور اس ناپسندیدگی کا اظہار اس پر نہ کیا جائے تو یہ بد خلقی نہیں.بلکہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق میں سے ہے.مثلاً کوئی کسی کے بیٹے کو مار رہا ہو اور وہ پاس سے گذرے تو اپنے بیٹے کو پٹتا دیکھ کر اسے ناراضگی تو طبعاً ہونی چاہئے اور ہوگی لیکن اگر وہ اس کو ظاہر نہ ہونے دے اور مارنے والے سے اپنی ناراضگی کو بالکل چھپائے رکھے تو یہ اس کا خُلق ہو گا نہ کہ بد خلقی دنیا میں ناراضگی کا اظہار کئی طریق سے کیا جاتا ہے، کئی اس کا اظہار مارنے کے ذریعہ کرتے ہیں، کئی گالیوں کے ذریعہ کرتے ہیں، کئی درشت اور کرخت آواز سے کرتے ہیں.اور کئی چہرہ کی بناوٹ سے کرتے ہیں.اب یہ دیکھنا چاہیئے کہ آنحضرت ا نے جو اظہارِ ناپسندیدگی کیا تو کس طریق سے کیا.اسی طریق سے کہ تیوری چڑھائی اور منہ پھیر لیا لیکن یہ ایسا طریق تھا کہ جس سے اندھے پر ہرگز ظاہر نہیں ہو سکتا تھا کہ اس کی کسی حرکت پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے کیونکہ نہ تو وہ منہ کی بناوٹ کو دیکھ سکتا تھا اور نہ ہی منہ پھیرنے کو معلوم کر سکتا تھا.پھر اس کے ساتھ آنحضرت ﷺ نے بد خلقی کیا کی؟ اس کے ساتھ بد خلقتی تو تب ہوتی کہ اس کو کوئی گالی دی جاتی یا سختی سے کچھ کہا جاتا لیکن رسول کریم ﷺ نے ایسا نہیں کیا بلکہ ایسا طریق اختیار کیا جس کا اسے احساس تک نہ ہوا.پس یہ اعلیٰ درجہ کا خلق ہے نہ کہ بد خلقی.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس آیت میں غائب کے صیغے استعمال کئے ہیں کیونکہ ان صیغوں میں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ گویا اللہ تعالٰی اس وقت رسول کریم" سے مخاطب نہیں بلکہ دوسرے لوگوں سے مخاطب ہے اور دوسرے سے خطاب یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے اخلاق حسنہ کا ذکر کرتا ہے کیونکہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے اس برگزیدہ رسول کی کوئی معمولی غلطی دیکھ کر (اگر اس غلطی کو مانا جائے) لوگوں کو اس غلطی پر آگاہ کر کے اس پر اسے شرمندہ کرے گا.میرے نزدیک تو غائب کے صیغے ہی بتا رہے ہیں کہ عتاب نہیں خوبی کا اظہار ہے اور خدا تعالی باقی دنیا کو لوگوں سے.
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو مخاطب کر کے کہتا ہے کہ دیکھو میرے رسول کے کیسے اخلاق ہیں کہ ایک اندھے کی ایک بات کو اس نے ناپسند کیا تو اس کا اظہار اس پر نہ ہونے دیا.اگر عتاب ہوتا تو پھر رسول اللہ کو مخاطب کیا جاتا.تا یہ نہ ثابت ہو کہ خدا تعالٰی اپنے محبوب کی شکایت دوسروں کے پاس کرتا ہے.یہ بات میں نے اس لئے بتائی ہے کہ ہم اس نبی کی امت ہیں جس کے ایسے اعلیٰ درجہ کے اخلاق تھے کہ آپ نہ چاہتے تھے کہ میری بات سے کسی کی دل شکنی نہ ہو.پس تمہاری بھی ہر ایک بات اور ہر ایک حرکت ایسی ہی ہونی چاہئے کہ جس سے کسی کی دل شکنی ہو.معمولی باتوں پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہئے بعض لوگوں کو مجمع میں ذرا سا دھکا لگ جائے تو ناراض ہو جاتے ہیں.وہ اگر میرے پاس کھڑے ہوں تو انہیں پتہ لگے کہ میری کیا حالت ہوتی ہے.مصافحہ کرتے وقت ایک صاحب ادھر کھینچتے ہیں تو دوسرے دوسری طرف اور تیسرے تیسری طرف.پھر جب ایک صاحب ہاتھ پکڑ لیتے ہیں تو دوسرے ان کی بجائے پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں.اس طرح میں کبھی ایک طرف اوندھا ہو جاتا ہوں اور کبھی دوسری طرف کبھی آگے اور کبھی پیچھے.پس اگر ایسے مجمع میں دھکتے کی وجہ سے ناراضگی ہو سکتی ہے تو مجھے ناراض ہونا چاہئے تھا جس کی یہ حالت ہوتی ہے نہ کہ انہیں جن کو کوئی ایک آدھ دھکا اتفاقاً لگ جاتا ہے.مگر مجھے تو اس سے خوشی ہی ہوتی ہے نہ کہ ناراضگی کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ میں اسی خاندان میں سے ہوں کہ جب وہ ہندوستان میں آیا تو سارا ملک اس کا دشمن اور خون کا پیاسا تھا لیکن رسول کریم ﷺ کی اطاعت اور فرمانبرداری سے یہ مقام حاصل ہو گیا ہے کہ اب لوگ پروانوں کی طرح ہم پر گرتے ہیں یہ خیال کر کے مجھے تو ہر دھکتے میں مزا ہی آجاتا ہے.ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاق دکھاؤ پس آپ لوگوں کو یہ بات مد نظر ہونی چاہئے کہ ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاق دکھائیں کیونکہ اگر ہم اعلیٰ اخلاق نہ دکھلائیں گے تو اور کون ہوگا جو دکھلائے گا.ہم حقیقی اسلام کے دعویدار ہیں اور رسول کریم ﷺ کے صحابہ کرام میں شامل ہیں.اگر ہمارے اخلاق کامل نہ ہوں گے تو اور کس کے ہوں گے.پس ہر ایک موقع پر ایک دوسرے کے ساتھ خلق اور پیار سے پیش آؤ اور ایسی محبت دکھلاؤ کہ اگر ایک کو دکھ ہو تو سب کو اس کا درد محسوس ہو.مومن ایک خدا کو ماننے والے ہیں اس لئے انہیں ایک ہی ہونا چاہئے اور ایسی محبت دکھانی چاہئے کہ
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو کسی کی کوئی ایسی کمزوری جس سے شریعت کا رکن نہ ٹوٹتا ہو بری نہ لگے.بھلا بتاؤ تو سہی اگر تم میں سے کوئی کھانا کھا رہا ہو اور غلاظت سے بھرا ہوا اس کا بچہ پاس آبیٹھے تو اسے برا لگے گا.ہرگز نہیں.اس قسم کی باتیں بڑی تو غیر کی لگا کرتی ہیں اپنوں کی نہیں لگتیں لیکن جب تم ایک دوسرے کے بھائی ہو تو پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے سے ناراض ہو جاؤ.اگر کسی میں کوئی شرعی کمزوری ہو تو بھی نرمی سے سمجھاؤ اس کیلئے دعائیں مانگو، محبت اور پیار سے نصیحت کرو کیونکہ محبت اور پیار کی بات جو اثر رکھتی ہے وہ سختی اور درشتی والی بات نہیں رکھتی.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ اب زمانہ آپس کی لڑائی جھگڑے کا نہیں بلکہ بہت خطرناک ہے.میں یہ نہیں جانتا کہ مشیت ایزدی کیا کرنے والی ہے مگر یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ کچھ ایسے امور ظاہر کرنے والی ہے جو دنیا میں اس سے پہلے اس نے کبھی ظاہر نہیں کئے اس لئے آپس میں محبت اور پیار بڑھاؤ.رسول کریم فرماتے ہیں جو شخص خدا کیلئے کسی سے محبت کرتا ہے قیامت کے دن خدا تعالٰی کا سایہ اس پر ہو گا.پس جب قیامت ایسے خطرناک اور روح فرسا وقت میں خدا کا سایہ ہو گا تو پھر اس دنیا میں کیوں نہ ہوگا اس لئے ایک دوسرے کے ساتھ خدا کیلئے ہی محبت کرو تاکہ اسی دنیا میں تم پر خدا کا سایہ ہو.پھر یہ بھی تو خیال کرو کہ اگر آپ لوگ بطور خود دنیا میں صادق دوستوں کی تلاش میں نکلتے تو کبھی نہ پاسکتے.اور نگزیب لکھتا ہے کہ مجھے ساری عمر میں ایک ہی صادق دوست ملا ہے لیکن تمہیں تو خدا تعالیٰ نے تلاش کر کے صادق دوست بھیج دیئے ہیں.پھر کیسے افسوس اور رنج کی بات ہوگی اگر تم ان سے محبت اور الفت نہ پیدا کرو.پس تم آپس میں یگانگت اور محبت کا وہ نمونہ دکھلاؤ کہ عداوت اور نا اتفاقی کے لفظ ہی تمہاری لغت سے مٹ جائیں.میں نے عورتوں میں بیان کیا تھا اور آپ لوگوں کے سامنے بھی کہتا ہوں کہ خدا کا محبوب بننا تو ایک بہت بڑی بات ہے اور مسلمان بننا بھی کوئی چھوٹی بات نہیں ہے.پہلے انسان تو بنو جب کوئی انسان بن جائے تو پھر مسلمان بن سکتا ہے اور پھر خدا تعالی کا محبوب بھی بن سکتا ہے.انسان بننے کے یہ معنی ہیں کہ وہ اخلاق سیکھ لو جو انسانیت کیلئے لازمی ہیں اس کے بعد مسلمان بننے کی باری آئے گی.اسلام گدھوں، بھیڑیوں اور کتوں وغیرہ حیوانوں کیلئے نہیں آیا بلکہ انسانوں کیلئے آیا ہے لیکن جن میں ان حیوانوں والے اخلاق اور عادات پائی جاتی ہیں وہ اسلام کے مستحق کہاں ہو سکتے ہیں.پس پہلے انسان بنو تو پھر مسلمان بن سکو گے.انسان
انوار العلوم جلد ۴ ١١٣ علم حاصل کرو کیلئے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ پہلے انسان بنے اور اپنے اندر سے درندگی کی تمام خصلتیں نکال دے کیونکہ جن میں یہ خصلتیں پائی جاتی ہیں وہ قرآن کریم سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے.پس انسان بن جاؤ تا آگے بڑھ سکو اور خدا کے محبوب بن جاؤ.خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو اس امر کی توفیق دے.بقیہ تقریر (بعد نماز ظهر و عصر) تشیر ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں اپنے دوستوں کو اصل مضمون کے شروع کرنے سے پہلے ایک اور نصیحت کرنا چاہتا ہوں.انہیں چاہئیے کہ جب قادیان آیا کریں تو اتنی فرصت ضرور نکالا کریں کہ جلسہ کے سارے دن یہاں گھر کر لیکچر سن سکیں بعض لوگ آتے پیچھے ہیں اور جانے کی پہلے تیاری کرنے لگ جاتے ہیں.میرا تو اس میں کوئی بھلا نہیں ہوتا میں تو صرف ان کی ہمدردی کیلئے کہتا ہوں کہ اپنے کاموں سے اگر دین کیلئے وہ وقت نکالیں گے تو یقیناً یقینا ان کا کوئی نقصان نہیں ہو گا ہاں فائدہ ضرور ہو گا.پس تمام لیکچروں کو تسلی اور اطمینان کے ساتھ سننا چاہئے.جہاں اتنا وقت دنیاوی دھندوں میں خرچ کیا جاتا ہے وہاں اس کام کیلئے بھی ضرور وقت نکالنا چاہئے جس کیلئے خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے جو یہ ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونَ (الذریت: ۵۷).کیا کوئی انسان ایسا کرتا ہے کہ گھر سے تو ایک دوست کو ملنے کیلئے جائے مگر سارا دن ادھر اُدھر پھرنے میں خرچ کر دے اور شام کو دوست کے مکان سے باہر کھڑا ہو کر السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ کر واپس آجائے.پس جب ایک معمولی دوست کے متعلق ایسا نہیں کیا جاتا تو جب آپ لوگ خدا کیلئے یہاں آتے ہیں تو چاہئے کہ خدا کی راہ میں وقت بھی خرچ کیا کریں.اب میں اپنا مضمون شروع کرتا ہوں.میں نے آج کچھ نصائح بیان کرنی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ چاہے گا اور اس نے توفیق دی تو کل بھی کچھ بیان کروں گا لیکن اتنا بتا دیتا ہوں کہ
انوار العلوم جلدم ١١٣ علم حاصل کرد جس بات کے بیان کرنے کا میں نے کل ارادہ کیا ہے میرے نزدیک وہ بہت اہم اور ضروری ہے.گو اس کے متعلق حضرت مسیح موعود نے بہت کچھ لکھا ہے مگر پھر بھی اس کے دہرانے کی ضرورت ہے اور اس لئے ضرورت ہے کہ ہماری جماعت نے ابھی تک اسے سمجھا نہیں.اس لئے جو لوگ اسے غور سے سنیں گے ان کیلئے بہت بابرکت ہوگی اور اس سے بہت سے اندرونی اور بیرونی فتنوں کی اصلاح ہو جائے گی انشاءَ اللَّهُ تَعَالٰی.لیکن جو بات میں اس وقت بیان کرنے لگا ہوں اگر آپ لوگ اس کو بھی مان لیں گے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے آدھی کامیابی دنیا میں حاصل ہو گئی ہے.میں جانتا ہوں کہ جب میں سناؤں گا تو اکثر لوگ کہیں گے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے ہم تو پہلے ہی اس کو جانتے اور مانتے ہیں لیکن صرف لفظی ماننا کچھ نہیں ہو تا ماننا عملی ہوتا ہے.ہندوستان میں ایک مثل ہے "سوگز واروں ایک گز نہ پھاڑوں".وارنے کو تو سو گز وار دوں لیکن اگر مانگو تو ایک گز بھی پھاڑ کر نہ دوں.تو صرف زبانی کہہ دینا نہ تو اللہ کو خوش کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے انسان کو کچھ فائدہ ہو سکتا ہے اس لئے اگر آپ لوگ اس طریق سے مان گئے جو ماننے کا حق ہے تو میں سمجھوں گا کہ مجھے آدھی کامیابی حاصل ہو گئی ہے اور میرا آدھا کام باقی ہے جو اللہ تعالٰی توفیق دے گا تو پھر سہی.تحصیل علم پر کیوں زور دیا جاتا ہے میں نے اپنی کئی گذشتہ تقریروں میں اس امر پر بہت زور دیا ہے اور اب پھر اسی پر زور دیتا ہوں کہ ایک بہت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے.میری خلافت کے زمانہ میں جس قدر بھی جلسے ہوئے ہیں قریب قریب تمام ہی جلسوں میں میں نے علم کو ایک اعلیٰ درجہ کی شئے قرار دینے اور اس کے سیکھنے کی طرف توجہ دلانے پر زور دیا ہے اس لئے شاید بعض لوگ کہیں کہ ہر دفعہ یہی بات سناتا ہوں.میں کہتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے پچاس ساٹھ سال اور بھی زندگی دے تو میں یہی سناتا رہوں گا اور جب تک ہماری جماعت کا ایک انسان بھی اس کو چھوڑ رہا ہو گا اس وقت تک چپ نہ ہوں گا کیونکہ یہ بات ہی ایسی ہے.علم کوئی ایسی معمولی چیز نہیں کہ ایک دفعہ اس کے حاصل کرنے کی تاکید کر کے پھر چھوڑ دیا جائے.دیکھو اللہ تعالٰی بھی ایک دفعہ کہہ کر چھوڑ نہیں دیتا بلکہ بار بار نبی اور رسول بھیجتا ہی رہتا ہے.قرآن کریم میں ایک ہی جگہ آٹھ دس انبیاء کا ذکر کرتا ہے جن میں سے ہر ایک آکر یہی کہتا ہے کہ خدا ایک ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں.ان میں سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ تو مجھ سے پہلے نے بھی
انوار العلوم جلدم ١١ علم حاصل کرو کم دیا تھا.جنہوں نے ماننا تھا مان لیا اور جنہوں نے انکار کرنا تھا انکار کردیا اب پھر اس کے کہنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ ایسا کہنا نادانی اور جہالت ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ہی رحیم و کریم ہے وہ اس وقت تک کہتا ہی رہتا ہے جب تک کہ تمام کی درستی نہ ہو جائے.پس ہمارا بھی فرض ہے کہ اس کی مخلوق جب تک کسی بات پر پورا پورا عمل نہیں کرتی اس وقت تک اس بات کو دہراتے ہی رہیں.سو میں آج پھر کہتا ہوں اور پھر بھی جتنی دفعہ موقع ملے گا کوئی علم نقصان رساں نہیں یہی کہوں گا کہ علم سیکھو یہ بہت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے اور ایسی بابرکت اور مفید ہے کہ اس سے کبھی بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا.علم خواہ کسی چیز کا ہو برا ہو سکتا.شاید آپ میں سے کئی لوگ حیران ہوں اور ان کے دل میں یہ سوال پیدا ہو ہو کہ کیا چوری، ڈاکہ زنا جھوٹ ، فریب، عیسائیت، یہودیت دہریت وغیرہ وغیرہ کے علم بھی برے نہیں.اگر ہیں تو کس طرح کہا جاسکتا ہے کہ کوئی علم بُرا نہیں ہو سکتا لیکن اگر یہ سوال کرنے والے سوچیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ علم بُرے نہیں بلکہ برا کچھ اور ہی ہے اور وہ ان کا استعمال کرنا ہے.دیکھو اگر چوری کے متعلق علم نہ ہو تو پولیس کس طرح چور کو پکڑ سکتی ہے اس سے معلوم ہوا کہ چوری کا علم تو اچھا ہے ہاں چوری کرنا برا ہے، اسی طرح زنا کرنا برا ہے اس کا علم بُرا نہیں کیونکہ اگر علم نہ ہو تو ایک زانی کو وعظ و نصیحت کر کے اس سے باز نہیں رکھا جاسکتا، اسی طرح ڈاکے کا علم برا نہیں ڈاکہ ڈالنا برا ہے کیونکہ اگر علم نہ ہو تو پولیس ڈاکوؤں کو گرفتار نہیں کر سکتی.پھر دیکھو کیا قرآن کریم کے ذریعہ ہمیں بعض برائیوں کا ہوتا ہے یا نہیں.قرآن بتلاتا ہے کہ فلاں قوم نے یہ گناہ کیا اور فلاں نے یہ اگر بری باتوں کا علم برا ہوتا تو پھر قرآن کریم کے ذریعہ خدا تعالیٰ کیوں سکھلاتا.لیکن بات یہ ہے کہ علم کسی امر اور کسی چیز کا بھی برا نہیں ہو تا خواہ وہ چیز کیسی ہی ادنیٰ سے ادنی اور ذلیل سے ذلیل کیوں علم ہر چیز کا خوبیاں اور فوائد ہی رکھتا ہے اور اس سے بڑے بڑے اعلیٰ نتائج نکلتے ہیں.اگر کہو کہ بعض علم اس قسم کے بھی ہیں جن کے نتائج بد نکلتے ہیں.مثلاً بعض قسم کے فلسفہ کی تعلیم ہے اس کے پڑھنے سے طالب علم دہر یہ ہو جاتے ہیں اسی طرح سائنس کے بعض علوم جب لوگ پڑھتے اور غور کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہر چیز میں طاقت ہے اور مادی اسباب کے ماتحت قائم ہے، اس سے وہ خدا کے منکر ہو جاتے ہیں.یہ علم برے ہوئے یا ہو.
انوار العلوم جلدم علم حاصل کرو نہیں.یہ مان لیا کہ وہ علوم جن کے ساتھ عمل ہوتا ہے ان کا عمل برا ہوتا ہے علم برا نہیں ہوتا.مگر ایسے علوم جن کے ساتھ عمل نہیں وہ خود برے ہوئے کیونکہ ان کی وجہ سے ایمان ہی خراب ہو جاتا ہے اور خدا کا منکر بننا پڑتا ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ یہ علم بھی برے نہیں ہیں.کوئی فلسفی دہریہ کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس لئے کہ واقعہ میں اسے کوئی ایسی دلیل ہاتھ آجاتی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ (نعوذ باللہ) خدا تعالیٰ کی کوئی ہستی نہیں ہے.اگر کوئی ایسی کچی دلیل ہے تو پھر تو خدا کو ماننا ہی نہیں چاہئے لیکن اصل بات یہ ہے کہ وہ فلسفہ کے علم کی وجہ سے دہریہ نہیں ہوتا بلکہ جہالت کی وجہ سے ہوتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے مگر وہ کسی غلط بات کو دلیل سمجھ لیتا ہے.اسی طرح وہ سائنس کا پڑھنے والا جو خدا کا قائل نہیں رہتا وہ اس لئے خدا کا منکر نہیں ہوتا کہ نیچر سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی خدا نہیں ہے بلکہ نیچر کے غلط مشاہدہ کی وجہ سے وہ ایسا کہتا ہے.صحیفۂ قدرت تو بتا رہا ہے کہ ضرور کوئی خدا ہے یا ہونا چاہئے.مگر وہ اس کا غلط استعمال کرتا ہے جو جہالت ہے نہ کہ علم اور یہی جہالت اسے دہریہ بناتی ہے.دیکھو اگر کوئی شخص منہ میں نوالہ ڈالنے کی بجائے ناک میں ڈالے اور اس کا ناک بند ہو جائے تو کیا کہو گے کہ نوالہ ڈالنے کے علم نے اس کا ناک بند کردیا ہے.ہرگز نہیں بلکہ یہی کہو گے کہ نوالہ ڈالنے کے متعلق علم نہ ہونے اور جہالت کی وجہ سے ایسا ہوا ہے.تو عقائد اور ایمان کو خراب کرنے والا کوئی علم نہیں بلکہ ناواقفیت ہے اور ناواقفیت کو علم نہیں کہتے بلکہ جہالت کہتے ہیں.مثلاً کوئی شخص سمجھ لے کہ انگریزی تعلیم حاصل کرنے سے ملازمت نہیں ملتی اور یہ سمجھ کر انگریزی نہ پڑھے اور ملازمت سے محروم رہے تو یہ نہیں کہیں گے کہ اس علم نے اسے ملازمت سے محروم رکھا بلکہ یہی کہیں گے کہ اس جہالت نے جسے اس نے علم قرار دے کر انگریزی نہ پڑھی تھی ملازمت سے اسے محروم رکھا ہے.پس ان مثالوں سے اچھی طرح ثابت ہو گیا ہے کہ کوئی بھی ایسا علم نہیں جو مضر ہو بلکہ ہر ایک علم مفید اور فائدہ بخش ہی ہے اور سب کے سب علم بابرکت ہوتے ہیں.ہاں چونکہ بعض علم ادنی اور بعض اعلیٰ ضرور ہوتے ہیں اس لئے اگر کوئی اعلیٰ کو چھوڑ کر ادنی کو حاصل کرے اور اتنا فائدہ نہ اٹھا سکے جتنا اسے اٹھانا چاہئے تو اس کا یہ فعل برا ہو گا نہ کہ وہ علم برا ہو گا جو اس نے حاصل کیا تھا.پس یہ کہنا کہ علم حجاب الاکبر ہے ان معنوں کی رو سے درست نہیں ہے کہ واقعہ میں
انوار العلوم جلد ۴ 19 علم حاصل کرو - علم کوئی حجاب ہوتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص صرف، نحو، منطق، معانی، حدیث قرآن پڑھا ہوا ہوتا ہے مگر بوجہ تکبر اور ہمچو من دیگرے نیست کے دعوئی کے ایک صداقت کا انکار کر دیتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ایک نبی کو نہیں مانتا اور دوسروں کو اس کے ماننے سے روکتا ہے.لیکن کیا واقعہ میں قرآن کریم اور احادیث اور دوسرے علوم اس کے راستہ میں روک ہوئے ہیں اور ان کی رو سے وہ نبی سچا نہیں ثابت ہوا جسے اس نے قبول نہیں کیا.اگر ایسا ہے تو پھر تو وہ نبی جھوٹا اور نہ ماننے کے ہی قابل ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر کیلئے صداقت کے قبول کرنے میں روک نہیں ہوا بلکہ تکبر اور نخوت اور جہالت روک ہوئی اور علم نے کسی کو گمراہ نہیں کیا بلکہ اس کے غلط استعمال نے صداقت سے دور کر دیا اور غلط استعمال جہالت کا نتیجہ ہوتا ہے نہ کہ علم کا.پس جہالت نے اس عالم کہلانے والے شخص کو تباہ کیا ہے، اس کے اس تکمبر نے اسے ہلاک کیا کہ میں بڑا عالم ہوں حالانکہ یہ اس کی جہالت تھی.پس اگر کوئی مولوی عالم اور پڑھا ہوا انسان غلطی اور دھوکا کھاتا ہے تو علم کی وجہ سے نہیں بلکہ ان باتوں کی وجہ سے جو وہ نہیں جانتا یا جن کو وہ نہیں سمجھتا اور وہ اس لئے صداقت کا انکار نہیں کرتا کہ صداقت کی علامات کو جانتا ہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ وہ ان کو نہیں جانتا.مثلاً آج کل اگر ایک مولوی حضرت مسیح موعود کے نبی ہونے سے انکار کرتا ہے تو اس لئے نہیں کہ قرآن کریم میں کسی نبی کی صداقت کی جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ حضرت مرزا صاحب میں نہیں پائی جاتیں بلکہ اس لئے کہ اس نے انہیں پڑھ کر بھلا دیا ہے یا ان کو سمجھ ہی نہیں سکا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ کوئی کہے کہ میں فلاں بات جانتا 03 ہوں حالانکہ در حقیقت وہ نہ جانتا ہو یا غلط طور پر جانتا ہو.تو کیا اس کے اس خیال سے کہ اسے جانتا ہے وہ اس کا عالم ہو جائے گا.نہیں بلکہ وہ اس سے جاہل ہی رہے گا.مثلاً ایک شخص سانپ کو ری سمجھ لے تو گو اپنے نزدیک وہ عالم ہی ہو گا مگر در حقیقت تو وہ جاہل ہی ہے.پس محض جاننے کا دعوی کرنا علم نہیں کہلا سکتا بلکہ صحیح طور پر جاننے کو علم کہتے ہیں اور اس سے فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے کبھی نقصان نہیں ہوتا.پس ثابت ہو گیا کہ جہالت ہی بری چیز ہے علم کوئی بھی برا نہیں ہے.اب میں یہ ثابت کرچکا ہوں کہ کوئی علم برا نہیں خواہ اونی علم ہو یا اعلیٰ سب اچھے اور مفید ہیں اور ہر ایک سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور حاصل ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ دنیا ان کے.
116 علم حاصل کرو انوار العلوم جلدم سیکھنے میں لگی رہتی ہے.ایک لڑکا جو انگریزی پڑھتا ہے ہزاروں روپے اس پر خرچ ہو جاتے ہیں تب وہ جاکر کہیں بی اے پاس کرتا ہے.پھر بدنی تکلیف جو وہ اٹھاتا ہے جدا ہے، دماغ پر بوجھ پڑتا ہے اور بعض کی تو صحت بالکل خراب ہو جاتی ہے مگر والدین اسی پر زور دیتے ہیں کہ ضرور پڑھو اس لئے کہ وہ لڑکا اور اس کے والدین دونوں جانتے ہیں کہ بغیر حصول علم کے اس کی زندگی تباہ ہوگی.مگر علم حاصل کرنا آسان کام نہیں ہر ایک علم کے حاصل کرنے کیلئے محنت کی ضرورت ہوتی ہے.ایک نجار اپنے بچہ کو نجاری سکھانے کیلئے بچپن سے ہی کام میں لگائے رکھتا ہے تب بڑی عمر میں جاکر وہ کچھ سیکھتا ہے، اسی طرح ایک لوہار اپنے بچے کو کام میں مصروف رکھتا ہے تب وہ کچھ کام کرنے کے قابل ہو سکتا ہے یہی حال اور علوم کا ہے.کے حاصل کرنے میں محنت مشقت، جان، مال، احساسات جذبات کو قربان کرنا پڑتا ہے تکلیفیں برداشت کرنی پڑتی ہیں مال خرچ کرنا پڑتا ہے، آرام چھوڑنا پڑتا ہے، لیکن لوگ بڑی خوشی سے ان تکالیف کو برداشت کرتے ہیں.پس غور کرنا چاہئے کہ جب علم بغیر محنت کے نہیں حاصل ہو سکتا اور علم کے بغیر گزارہ بھی نہیں اور لوگ چھوٹے چھوٹے علوم کیلئے عمریں صرف کر دیتے ہیں تو وہ علم جو سب علوم سے زیادہ مفید اور بابرکت ہے اس کیلئے کس قدر علوم اور کوشش اور سعی کرنی چاہئے.دنیا میں دو ہی علم ایسے ہیں جن کے نہ جاننے سے ہر فرد واحد کو نقصان ہو سکتا خاص علم ہے، باقی کے نہ جاننے سے ہر ایک شخص کو نقصان نہیں ہوتا ہاں ان کے جاننے سے فائدہ ضرور ہوتا ہے اور وہ دو علم وہی ہیں جو رسول کریم ﷺ نے فرمائے ہیں.العِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْاَبْدَانِ وَ عِلْمُ الْاَدْيَانِ اصل میں علم دو ہی ہیں ایک جسموں کا علم دوسرے دینوں کا علم اور یہ دونوں اس قسم کے ہیں کہ ان کے نہ جاننے سے نقصان پہنچتا ہے.چنانچہ رسول کریم کے متعلق ایک واقعہ لکھا ہے کہ آپ نے کہیں جاتے ہوئے دیکھا کہ درمیان میں ایک شخص کھڑا ہے اور اس کے ارد گرد بڑا ہجوم ہے.آپ نے فرمایا یہاں کیا ہے کیوں لوگ کھڑے ہیں؟ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! ایک علامہ یعنی بڑا عالم ہے اس کے ارد گرد لوگ جمع ہیں.آپ نے فرمایا کس علم کا عالم ہے.عرض کی گئی شعر کہتا ہے، تاریخ کا واقف ہے، زبان دانی میں ماہر ہے.آپ نے فرمایا علم لا بضر جهله یہ علم تو ہیں لیکن ایسے کہ ان کے نہ جاننے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا.تو کئی علم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے نہ
علم حاصل کرو انوار العلوم جلد ۴ ۱۱۸ جاننے کی وجہ سے نقصان نہیں ہوتا.مثلاً اگر کوئی تاریخ نہیں جانتا تو اس سے نہ تو اس کے دین میں کچھ نقص واقع ہو جائے گا اور نہ اس کی صحت میں فرق آجائے گا لیکن اگر حفظ صحت کے قواعد سے ناواقف ہوگا تو اس کی صحت خراب ہو جائے گی اور اس کی وجہ سے دین کے احکام پر عمل کرنے میں بھی نقص پیدا ہو جائے گا اور اگر دین کا علم نہ ہو تو پھر تو بہت ہی زیادہ نقصان پہنچے گا.پس سب سے ضروری علم یہی دو ہیں.ایک جسموں کا علم دوسرا دینوں کا علم، لیکن ان میں بھی فرق ہے.جسموں کا علم تو ایک عارضی اور محدود زمانے سے تعلق رکھتا ہے، جب کوئی دنیا سے گذر گیا تو اس کا یہ علم بھی ختم ہو گیا اور اس کی اسے کچھ ضرورت نہ رہی کیونکہ اسے کوئی دکھ رہا نہ درد نہ کسی علاج کی ضرورت رہی نہ کسی دوا کی، مگر دین کا علم صرف اسی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ مرنے کے بعد دوسری دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے.دیکھو اگر کسی کا جسم بیمار ہو اور وہ مرجائے تو اس دکھ سے اس کی نجات ہو جائے گی.لیکن اگر کسی کا دین بیمار ہو اور وہ مرجائے تو وہ اور بھی زیادہ تکلیف پائے گا کیونکہ یہ دنیا دار العمل ہے کیلتے اور اگلا جہان دار المکافات- کام یہاں کرنا ہوتا ہے اور بدلہ وہاں ملتا ہے.پس جسم کا بیمار اگر مرجائے تو بیماری سے بچ جاتا ہے لیکن دین کا بیمار اگر مرجائے تو اصل بیماری اور دکھ اس کیلئے اس وقت شروع ہوتا ہے اور پھر وہ ایسے غیر محدود عرصہ ہوتا ہے کہ جس کی کوئی حد بندی نہیں ہو سکتی.یہاں کی سزائیں اور تکلیفیں تو ختم ہو جاتی ہیں مگر خدا تعالی کہتا ہے کہ وہاں کا دکھ ایسا ہو گا کہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کیلئے ہی ہے.دکھ اور درد تو ایک دن کا بھی بڑا ہوتا ہے ذرا کوئی تکلیف ہو تو انسان چاہتا ہے کہ مرکز اس سے چھوٹ جاؤں مگر وہاں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا.کروڑوں کروڑ سال کا دکھ ہوگا اور اتنا بڑا کہ جس کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ممکن ہے کہ کوئی انسان اندازہ کرسکے.رسول کریم ال سے حدیثوں میں مروی ہے کہ اُس آگ کو اگر لاکھ دفعہ بھی ٹھنڈا کیا جائے تو بھی اس دنیا کی آگ سے زیادہ تیز ہوگی.اب خود سمجھ لو کہ جب اس آگ کو ایک منٹ کیلئے انسان کی انگلی برداشت نہیں کر سکتی تو اس آگ کو اس کا سارا جسم بے اندازہ عرصہ کیلئے کس طرح برداشت کرے گا.پس ہر ایک انسان کو چاہئے کہ اس علم کے حاصل کرنے کی خاص کوشش کرے کیونکہ اس کے دیکھنے سے وہ نہ صرف اس دنیا کے دکھوں سے بیچ کر نفع حاصل کر سکتا ہے بلکہ اگلی دنیا کے عذابوں سے بھی بیچ کر انعام و اکرام کا وارث ہو سکتا ہے.یہی وجہ
انوار العلوم جلد ۴ 119 علم حاصل کرو ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَ مُؤْمِنَةٍ - آج کل ہمارے انگریزی کس علم کا حاصل کرنا ہر ایک مومن مرد و عورت پر فرض ہے کے دلدادہ اصحاب لوگوں کے سامنے پیش کیا کرتے ہیں کہ دیکھو ہمیں رسول کریم نے انگریزی پڑھنے کا حکم دیا ہے کیونکہ آپ نے فرما دیا ہوا ہے کہ علم کا حاصل کرنا ہر ایک مرد اور عورت کیلئے فرض ہے.انگریزی بھی چونکہ ایک علم ہے اس لئے اس کے متعلق بھی آپ کا حکم ہے.ہم مانتے ہیں کہ رسول کریم نے پسند فرمایا ہے کہ مختلف علوم سیکھے جائیں مگر اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے جو پیش کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں آپ نے علم کا حاصل کرنا ہر ایک مومن مرد اور عورت کیلئے فرض قرار دیا ہے جس کا ادا کرنا ہر ایک مومن اور مومنہ کیلئے لازمی اور ضروری ہے اور کوئی اس سے متقی نہیں ہو سکتا اور جو اس پر عمل نہ کرے وہ گناہگار ہو گا.لیکن اگر اس علم سے مراد حساب جغرافیه تاریخ انگریزی وغیرہ علوم کا سیکھنا ہے تو ماننا پڑے گا کہ (نعوذ باللہ) آنحضرت خود گناہگار تھے کیونکہ آپ نے نہ تاریخ پڑھی نہ جغرافیہ سیکھا نہ حساب سیکھا نہ انگریزی، حالانکہ آپ نے خود اس کو فرض قرار دیا تھا.پھر اکثر صحابہ بھی گناہگار ہوئے کہ وہ بھی ان علوم کو نہ جانتے تھے لیکن کوئی مسلمان یہ خیال بھی نہیں کر سکتا اس لئے اس حدیث کا یہ مطلب لینا بالکل غلط ہے کیونکہ اس طرح آنحضرت ا اور بہت سے صحابہ کرام کو نعوذ باللہ گناہگار قرار دینا پڑتا ہے کہ انہوں نے کیوں دنیا کے سارے علوم نہ سیکھے اور ان کے ماہر نہ ہوئے.اگر کہا جائے کہ رسول کریم کی عمر چونکہ بڑی ہو گئی تھی اس کی لئے آپ نے ایسا نہ کیا.تو یہ بات بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ نبی کو جب بھی کوئی حکم ہو وہ اسی وقت اس کی تعمیل کرتا ہے.کیا حضرت ابراہیم نے بڑی عمر میں ختنہ نہ کرایا تھا؟ تو نبی کو جو حکم ہو وہ ضرور اس پر عمل کرتا ہے مگر رسول کریم نے جو ایسا نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ یہ دنیاوی علوم کے متعلق نہیں بلکہ دینی علم کے متعلق ہے.پس اس حدیث سے ثابت ہو گیا کہ آنحضرت فرماتے ہیں کہ تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ دین کا علم سیکھیں خواہ وہ بڑے ہوں یا چھوٹے جوان ہوں یا بوڑھے مرد ہوں یا عورتیں، لڑکے ہوں یا لڑکیاں، کیونکہ جب تک انہیں یہ حاصل نہ ہو گا خدا کے احکام پر عمل نہ کرسکیں گے اور جب عمل نہ کر سکیں گے تو نجات نہ ہو سکے گی.پھر جب رسول کریم نے
انوار العلوم جلد ۴ ۱۲۰ علم حاصل کرو اس کو فرض قرار دے دیا ہے تو اس کو حاصل نہ کرنے والا اسی طرح گناہگار ہے جس طرح نماز نہ ز نہ پڑھنے والا روزہ نہ رکھنے والا زکوۃ نہ دینے والا خداتعالی قیامت جنت دوزخ تقدیر کا انکار کرنے والا.پس ہر ایک مومن کیلئے اس کا سیکھنا ضروری ہے اور رسول کریم ہی اس کو فرض قرار نہیں دیتے بلکہ خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے.اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا- (فاطر (۲۹) کہ خدا سے اس کے عالم بندے ہی ڈرتے ہیں.ان عالموں سے مراد انگریزی یا تاریخ یا جغرافیہ یا حساب کے عالم مراد نہیں بلکہ دینی علماء مراد ہیں کہ انہیں میں خداتعالی کی خشیت ہوتی ہے اور چونکہ خشیت اللہ کا ہونا ہر ایک مومن کیلئے ضروری ہے اس لئے ثابت ہو گیا کہ دین کا علم حاصل کرنا بھی ہر ایک کیلئے ضروری اور فرض ہے.ظاہری لکھنے پڑھنے کے بغیر بھی انسان دین کا عالم پس علم دین کا پڑھنا سکتا ہے مسلمانوں کیلئے نہایت ضروری ہے اور جو نہیں پڑھتا اس میں سے خشیت اللہ نکل جاتی ہے اور وہ خدا کے پانے سے محروم ہو جاتا ہے.تم لوگ یہ مت سمجھو کہ علم دین کا حاصل کرنا کوئی ایسا مشکل کام ہے کہ تم اس کو نہیں کر سکتے اور یہ مت خیال کرو کہ ہماری عمر بہت زیادہ ہو گئی ہے.اگر اب پڑھنے بھی لگیں تو کچھ پڑھ لینے سے پہلے ہی موت آجائے گی کیونکہ علم دین سے مراد یہ لکھنا پڑھنا نہیں ، گو یہ بھی اس کی ایک شاخ ضرور ہے مگر علم یہی نہیں ہے اور اس کے بغیر بھی ایک انسان دین کا عالم ہو سکتا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ ہو سکتا تو رسول کریم ﷺ کس طرح دین کے عالم ہو سکتے آپ نہ تو لکھنا جانتے تھے نہ پڑھنا.مگر میرا اس سے یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی لکھنا پڑھنا سیکھے ہی نہیں.اگر کوئی سیکھے گا تو ضرور فائدہ اٹھائے گا مگر علم دین اس کے بغیر بھی آسکتا ہے.جس طرح رسول کریم اور صحابہ کرام کو آیا.ابتدائے ایام میں صرف سات آٹھ صحابہ لکھنا.پڑھنا جانتے تھے.اس لئے اگر یہ مانا جائے کہ لکھنے پڑھنے کے بغیر کوئی عالم نہیں ہو سکتا تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بالله رسول کریم " اور آپ کے اکثر صحابہ جاہل تھے لیکن ہے.دنیا میں سب سے بڑا عالم اگر کوئی گزرا ہے اور اس کے بعد ایسا کوئی عالم نہیں ہوا اور نہ ہوگا تو وہ آنحضرت ﷺ ہی ہیں.اس سے معلوم ہو گیا کہ لکھنے پڑھنے کے علاوہ بھی انسان دین کا عالم ہو سکتا ہے.یہاں ہی دیکھ لو حافظ روشن علی صاحب لکھ پڑھ نہیں سکتے ان کی نظر کمزور ہے لیکن انہوں نے اسی طرح علم سیکھا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کتاب پڑھ غلط.
انوار العلوم جلدم علم حاصل کرو کر سناتے یا سنواتے جاتے تھے اور وہ علم حاصل کرتے جاتے تھے.تو بغیر لکھنے پڑھنے کے بھی انسان علم سیکھ سکتا ہے اور اس طرح رسول کریم اے کے اس حکم کو پورا کر سکتا ہے اور ان لوگوں میں شامل ہو سکتا ہے جن کے متعلق ارشاد ہے.اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ العُلَموا ورنہ بغیر علم دین سیکھنے کے خشیت اللہ نہیں پیدا ہو سکتی اور جب تک خشیت اللہ نہ ہول کوئی مومن نہیں ہو سکتا.کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ فلاں شخص مومن ہے گو خدا کا خوف اس کو نہیں ہے.ہرگز نہیں کیونکہ مومن وہی ہوتا ہے جس کو خدا کا خوف ہو اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جبکہ علم دین حاصل کیا جائے.پس کوئی مومن مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ علم دین نہ حاصل کرلے.اب جبکہ علم دین کا حاصل کرنا اس ہمارے لئے علم دین سیکھنا کس قدر ضروری ہے قدر ضروری ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ اس کیلئے آپ لوگ کیا کوشش کرتے ہیں.ہم نے تمام دنیا کو اس لئے اپنا دشمن بنالیا ہے کہ سچے مومن بن جائیں.ہمارا مولویوں، صوفیوں، گدی نشینوں، امیروں اور غریبوں سے اس لئے جھگڑا ہے کہ ہم سے اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے لیکن اگر اتنی مخالفت اور اتنے جھگڑے کر کرا کے ہم مومن نہ ہوئے تو ہمارا کیا حال ہو گا.یہی مثل صادق آئے گی کہ نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے.ہمارے مخالفوں میں سے اکثر کو تو مرنے کے بعد سزا ہوگی.کہ کیوں تم نے ہمارے نبی کو نہ مانا مگر وہ اس دنیا کے آرام اور آسائش سے تو فائدہ اٹھا رہے ہیں لیکن ہم نے تو ان سے قطع تعلق کر کے دنیا کے فائدوں پر بھی لات مار دی ہے اب اگر ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے بھی پیدا نہ ہوا تو پھر ہم کہیں کے بھی نہ رہے.یہ تو ایسی ہی مثال ہوگی کہ ایک بلند مینار ہے جس کے نیچے ہمارے مخالفین کھڑے ہیں اور ہم اس کے درمیان میں لٹک رہے ہیں.یہ درست ہوگا کہ جو لوگ نیچے کھڑے ہیں وہ مینار کے اوپر چڑھے ہوؤں کی طرح دور دور کا فرحت افزا نظارہ نہیں دیکھ سکتے ٹھنڈی اور صحت بخش ہوا نہیں کھا سکتے ، مقام عزت پر چڑھنے سے محروم ہیں لیکن ان کے پاؤں تو زمین پر ٹکے ہوئے ہیں.مگر وہ جنہوں نے زمین پر سے تو اپنے قدم اٹھالئے ہیں اور اوپر بھی نہیں پہنچے بلکہ درمیان میں ہی لٹک رہے ہیں ان سے زیادہ خطرناک حالت میں کون ہو سکتا ہے.پس جب ہم نے سب کو اس لئے ترک کر دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں اور اس زمانہ میں جو اس نے روشنی کا مینار کھڑا کیا ہے اس کے
انوار العلوم جلد ۴ اوپر اور ١٢٢ علم حاصل کرو چڑھ جائیں اور اس پر چڑھنے کیلئے جب ہم نے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں، دوستوں تعلق رکھنے والوں کو ترک کر دیا ہے، دنیاوی آرام و آسائش کی کوئی پرواہ نہیں کی، اپنے مال اور جائیداد کو ترک کرنے میں کوئی پس و پیش نہیں کیا، تو اب اگر ہمیں خدا تعالیٰ بھی نہ ملا تو کیسے افسوس اور رنج کی بات ہوگی.اس سے سمجھ لو کہ علم دین کا حاصل کرنا آپ لوگوں کس قدر ضروری ہے.اس کے متعلق آپ کو بارہا کہا گیا اور اب میں پھر کہتا ہوں اور ا تک خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے گا کہتا رہوں گا.یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ بہت لوگ یسے ہیں جو احمدی کہلاتے ہیں مگر توجہ نہیں کرتے کہ احمدیت ہے کیا خدا تعالیٰ نے ان کا کیا کام مقرر کیا ہے اور رسول کریم نے ان کے ذمہ کون سے فرائض رکھے ہیں اور اسلام ان سے کیا چاہتا ہے.خدا کا دیدار کس طرح ہو سکتا ہے.آپ لوگ جتلائیں کہ کیا آپ میں سے کوئی چاہتا ہے کہ اسے اپنے عزیز اور پیارے نظر نہ آئیں.یا وہ پسند کرتا ہے کہ اس کی آنکھوں کی بینائی جاتی رہے اور وہ کچھ نہ دیکھ سکے.کوئی نہیں پسند کرتا.اب بتلاؤ جب کوئی اپنے بیوی بچوں، بہنوں، بھائیوں، دوستوں، رشتہ داروں کے دیکھنے کیلئے آنکھیں چاہتا ہے تو کیا خدا ہی ایک ایسی ہستی ہے کہ اس کے دیدار کیلئے وہ آنکھیں نہیں چاہتا.دنیا میں جب چھوٹے سے چھوٹے تعلق کیلئے انسان جانیں قربان کر دیتے ہیں اور ذرا آنکھوں میں درد یا تکلیف ہو تو شور ڈال دیتے ہیں کہ ہائے ہمیں کچھ نظر نہیں آتا اور اگر کسی کی آنکھیں ضائع ہو جائیں تو وہ نہایت حسرت اور افسوس کے ساتھ کہتا ہے کہ ہائے میری تمام زندگی برباد ہو گئی تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک مومن برداشت کرلے کہ اس کی ساری عمر یونہی گذر جائے اور وہ اندھا ہی اس دنیا سے چلا جائے اور خدا کا دیدار اسے نصیب نہ ہو.خدا تعالیٰ کا دیدار تو علم دین سے ہی حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے ذریعہ وہ معرفت کی آنکھیں نصیب ہو سکتی ہیں جو خدا تعالی کو دیکھ سکتی ہیں اس لئے جو اسے حاصل کرے گا اسے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی خدا کا دیدار نصیب ہو جائے گا اور جو نہیں کرے گا اسے نہ اس دنیا میں یہ نعمت حاصل ہوگی اور نہ آخرت میں ہوگی.جیسا کہ خدا تعالی فرماتا ہے وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى (بنی اسراءیل :۷۳)- کہ جو یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا ہی ہوگا یعنی جسے اس دنیا میں خدا کا دیدار نہیں ہوا اسے آخرت میں بھی
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو نہیں ہوگا.پس جب یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ علم دین کا حاصل کرنا کتنا ضروری ہے اور نہ حاصل کرنا کس قدر نقصان دہ ہے.علیم دین کی دو قسمیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھو کہ دین کا علم بھی دو قسم کا ہوتا ہے اور جب تک دونوں کو حاصل نہ کیا جائے کوئی انسان کامیاب نہیں ہو سکتا.کیا اس وقت بہت سے مولوی ایسے نہیں جو نماز روزہ وغیرہ احکام شرعیہ کا علم رکھتے ہیں مگر وہ اسلام سے ایسے ہی دور ہیں جیسے عیسائی اور ہندو وغیرہ بلکہ ان سے بھی زیادہ.ایک عیسائی اور ہندو کے دل میں تو کچھ نہ کچھ خدا کا خوف اور ڈر باقی ہو گا مگر ان کے دل میں کچھ بھی نہیں.تو محض نماز روزہ کے مسئلے جاننے سے دین کا علم نہیں آجاتا اور نہ ان مسائل کے جاننے سے اس وقت تک کچھ فائدہ ہو سکتا ہے جب تک کہ انسان روحانیت کا علم نہ سیکھے.نماز، روزہ، زکوۃ، حج ، انبیاء فرشتے جنت دوزخ وغیرہ امور ظاہری شریعت سے ہیں ان کے ساتھ جب تک روحانیت کا علم نہ ہو جو تقویٰ کہلاتا ہے اس ہے اس وقت تک ظاہری علم سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا اور نہ کوئی عالم دین کہلا سکتا ہے.پس علم دین سیکھنے کی ہدایت کرنے سے میری مراد یہ ہے کہ ان دونوں علموں کو سیکھو.ظاہری کو بھی اور باطنی کو بھی.اور یہ خوب یاد رکھو کہ ظاہری علم کے بغیر باطنی علم نہیں آسکتا اور باطنی علم کے بغیر ظاہری کچھ فائدہ نہیں دے سکتا.دیکھو کوئی اخروٹ اور بادام کی گری اس وقت تک نہیں پک سکتی جب تک کہ اس پر چھلکا نہ ہو اور کوئی آم اس وقت تک رس نہیں دے سکتا جب تک کہ اس پر چھلکے کا خول موجود نہ ہو.اسی طرح کوئی خربوزہ اس وقت تک گودا نہیں پکا سکتا جب تک کہ اس پر چھلکا نہ ہو.پس جس طرح اخروٹ یا بادام کی گری، آم کا رس اور خربوزہ کا گودا خول کے اندر تیار ہوتا ہے اسی طرح نماز، روزہ، زکوۃ، حج چھلکے ہیں جن کے اندر تقویٰ کا گودا تیار ہوتا ہے اور جب تک تقویٰ نہ ہو ان سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.دیکھو اگر کوئی شخص آم کھا کر اس کا چھلکا کسی کو دے یا بادام اور اخروٹ کی گریاں نکال کر چھلکے آگے رکھ دے تو کیا کوئی اس پر خوش ہو گا.ہرگز نہیں بلکہ ناراض ہو گا.اس سے سمجھ لو کہ جو انسان خدا کے آگے محض چھلکے رکھے جن میں مغز اور گودا نہ ہو اسے کس بات کی امید رکھنی چاہئے.کیا خدا اس سے خوش ہوگا اور اسے انعام دے گا ہرگز نہیں بلکہ سزا دے گا.اور کہے گا کہ یہ اس سے زیادہ مستوجب سزا ہے جو میرے پاس کچھ لایا ہی نہیں کیونکہ اس نے میری ہتک نہیں کی.لیکن
انوار العلوم جلد ۴ : ۱۲۴ علم حاصل کرو اس نے میرے سامنے چھلکے رکھ کر میری ہتک کی ہے.تو وہ انسان جو صرف ظاہری شریعت پر عمل کرتا ہے اور معرفتِ الہی ، تقویٰ اللہ کا علم نہیں سیکھتا اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ ایک شخص اپنے افسر کے سامنے چھلکوں سے بھر کر تھال لے جاتا ہے.یا ایک بے جان جسم اور مردار پیش کرتا ہے.خدا ایسے لوگوں کو کہے گا کہ وہ دنیا ہی کے مردار خور تھے جن کو تم اس طرح خوش کر سکتے تھے میرے پاس اسے کیوں لائے انہیں کے پاس لے جاؤ میں اس مردار کو نہیں لینا چاہتا.تو خالی ان مسائل کے سیکھنے سے کچھ فائدہ نہیں ہو سکتا روحانیت اور تقویٰ کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے کہ یہی اصل مغز اور گری ہے.مگر یہ بھی یاد رکھو کہ تمہارا طریق ان لوگوں کی طرح بھی نہ ہو جو کہتے ہیں کہ ہم نے مغز شریعت کو حاصل کرلیا ہے.چھلکے کی کیا ضرورت ہے ہم کہتے ہیں کوئی ایسی گری دکھاؤ تو سہی جو بغیر چھلکے کے تیار ہوئی ہو.جب کوئی مغز بغیر چھلکے کے پک ہی نہیں سکتا اور خدا کہتا ہے کہ انسانی زندگی کا پھل اس کی موت کے وقت پکتا ہے تو ان لوگوں کو کہاں سے پکا پکایا مغز مل جاتا ہے کہ چھلکے کی انہیں ضرورت ہی نہیں رہتی.یہ محض طریقت کے دھوکابازوں کا دھوکا ہے.کیا وہ رسول کریم ﷺ سے بھی بڑھ گئے ہیں کہ ان کو شریعت کے ظاہری احکام کی پابندی کی ضرورت نہیں رہی.کیا رسول کریم ﷺ نے نمازیں پڑھنی اور روزے رکھنے اس لئے چھوڑ دیئے تھے کہ آپ کا پھل پک گیا تھا ہرگز نہیں.پس جب آپ کا پھل وفات سے قبل نہیں پکا تھا تو اور کون ہے جس کا پک سکتا ہے.دراصل یہ پھل موت کے وقت ہی جاکر پکتا ہے خواہ کڑوا پکے یا میٹھا.دیکھو جس طرح پھلوں کے پکنے کا ایک موسم ہوتا ہے اسی طرح انسانی اعمال کے پھل کے پکنے کا بھی ایک موسم ہے اور وہ اس کی موت کی گھڑی ہے.جس طرح جب کوئی پھل پک جاتا ہے تو اسے توڑ لیا جاتا ہے اسی طرح جب انسان کا پھل پک جاتا ہے تو خداتعالی اس کے توڑنے کیلئے فرشتے بھیج دیتا ہے جو اس پھل کو اس کے پاس لے جاتے ہیں آگے جاکر اگر وہ کڑوا نکلے تو پھینک دیا جاتا ہے اور اگر میٹھا ہو تو قبول کر لیا جاتا ہے.مت خیال کرد که محض روحانیت کوئی چیز ہے یا محض ظاہری مسائل کچھ حقیقت رکھتے ہیں جب تک دونوں نہ ہوں کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.پس اگر کچھ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ ظاہری علم اور تقویٰ دونوں کو حاصل کرو.ان دونوں کے بغیر کوئی انسان مومن نہیں بن سکتا.میں آپ لوگوں کو تاکید کرتا ہوں کہ ان دونوں کے حاصل
انوار العلوم جلد ۴ ۱۲۵ علم حاصل کرو کرنے کی پر زور کوشش کریں خواہ دوسروں سے سن سن کر یا پوچھ پوچھ کر.خدا تعالی کو اس سے غرض نہیں کہ کس طرح کوئی علم دین حاصل کرتا ہے اگر لکھنے پڑھنے تک ہی ان علوم کا حاصل ہونا محدود ہوتا تو خدا تعالی آنحضرت ا کو بھی لکھنا پڑھنا ضرور سکھلاتا مگر اس نے رسول کریم ﷺ کو لکھنے پڑھنے کی محنت سے بچا کر اور تمام عالموں سے بڑھ کر عالم بنا کر بتادیا کہ میرے تک پہنچنے اور میرا قرب حاصل کرنے کا علم ایسا ہے کہ اگر تم دنیا کا کوئی بھی علم نہ جانو تو بھی اسے سیکھ سکتے ہو.تو اس علم کے سیکھنے کیلئے ضروری نہیں کہ لکھنا پڑھنا بھی سیکھا جائے.دوسروں سے سن کر اور پوچھ کر بھی یہ علم سیکھا جاسکتا ہے.پس آپ لوگ اس کے سیکھنے کی پوری پوری کوشش کریں کہ اس کے بغیر نجات نہیں ہو سکتی.علیم دین حاصل کرنے کی کوشش کرو اس وقت میں آپ لوگوں کی توجہ اس طرف پھیرنی چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت ایک تبلیغی جماعت ہے.ہم ساری دنیا کے لوگوں کو یہ کہتے ہیں.آؤ لوگو کہ نہیں نورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے مگر سوال یہ ہے کہ جب ہم جانتے ہیں کہ نورِ خدا لوگوں کو پہنچانا ہمارا فرض ہے تو خود اس کے حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے.اگر واقعہ میں دین اسلا م ر سو ل ا ر ی م ا ا ا ا ا اور حضرت مسیح موعود کی تعلیم نور ہے اور یقیناً نور ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہر ایک احمدی اس نور سے منور ہونے کی کوشش نہیں کرتا.اس میں سُستی کرنا بتلاتا ہے کہ ایسے لوگوں کو اس پر کامل یقین نہیں ہے.دیکھو اگر کھانا موجود ہو اور کسی کو پورا یقین ہو کہ جس راستہ پر میں چلنے لگا ہوں اس میں ایک بڑا جنگل آنے والا ہے جس میں کھانے کی کوئی چیز نہ مل سکے گی اور اگر میرے پاس کھانے کی کوئی چیز نہ ہوئی تو میں ہلاک ہو جاؤں گا تو وہ ضرور اپنے ساتھ کھانا لے لے گا.پس جب جسم کیلئے ایسی احتیاط کی جاتی ہے تو جس کو یہ یقین ہو کہ اسلام کی تعلیم ایک ایسا نور ہے کہ جس کے بغیر زندگی محال ہے تو وہ اس کے حاصل کرنے میں کب ستی کرے گا اس لئے جو دوست اس وقت تک اس طرف سے غافل ہوں انہیں جلد فکر کرنی چاہئے.کون کہہ سکتا ہے کہ مجھے پر کب موت آئے گی اور کب مجھے اس دنیا کو چھوڑ کر خدا کے سامنے حاضر ہونا پڑے گا اس لئے آج ہی سے ہر ایک کو عہد کرلینا چاہئے کہ اب میں
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو اس بارے میں ہرگز کو تاہی نہیں کروں گا.اگر اس پر اس علم کے سیکھتے سیکھتے موت آگئی تو وہ خدا کے حضور سرخرو ہو جائے گا.حدیث میں آتا ہے ایک گناہگار تھا وہ اپنے زمانہ کے مولویوں کے پاس گیا اور جاکر کہا کہ کیا میں اب گناہوں سے توبہ کر کے نجات پاسکتا ہوں.انہوں نے کہا نہیں.ان سے ناامید ہونے کے بعد اسے معلوم ہوا کہ فلاں جگہ ایک بڑا بزرگ ہے وہ اس کے لوگوں کیلئے توبہ کا دروازہ کھلا بتاتا ہے.یہ معلوم کر کے وہ اس کی طرف چل پڑا لیکن ابھی راستہ میں ہی تھا کہ اس کی جان نکل گئی، اس کے مرنے پر دوزخ اور بہشت کے فرشتوں میں بحث ہوئی.دوزخ کے فرشتے کہتے تھے کہ یہ ہمارا حق ہے ہمیں دیا جائے تا ہم اسے دوزخ میں ڈالیں کیونکہ گناہگاری کی حالت میں مرا ہے اور بہشت کے فرشتے کہتے تھے کہ ہمیں دیا جائے تا ہم اسے بہشت میں داخل کریں کیونکہ یہ توبہ کی خاطر جارہا تھا کہ مرگیا.آخر انہوں نے یہ معاملہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کیا خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جہاں یہ مرا ہے وہاں سے دونوں طرفوں کو ناپو.یعنی جہاں سے وہ آیا تھا اسے بھی اور جدھر جاتا تھا اسے بھی اور جس طرف کا فاصلہ تھوڑا ہو اس کے مطابق اس سے سلوک کرو.پھر جس طرف وہ جا رہا تھا اس کو خدا تعالیٰ نے تنگ کردیا اور اس طرح وہ طرف کم ہو گئی اور جدھر سے وہ آرہا تھا وہ بڑھ گئی اس پر فیصلہ ہوا کہ بہشت میں بھیجا جائے.یہ ایک مثال ہے جسے خدا تعالیٰ نے رسول کریم کو بطور کشف دکھلایا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ جس حالت پر انسان مرتا ہے اسی کے مطابق انسان سے معاملہ کیا جاتا ہے خواہ وہ حالت اپنے کمال کو نہ پہنچی ہو.تو آپ لوگوں میں سے کوئی یہ مت سمجھے کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں کیا کر سکتا ہوں.وہ سب کچھ کر سکتا ہے اور اگر اور کچھ نہیں کر سکتا تو اپنا فرض ادا کرنے کی کوشش تو کر سکتا.اور خدا تعالیٰ کے حضور کہہ سکتا ہے کہ جس دن تیرے ایک بندہ نے مجھے اس فرض کی طرف متوجہ کیا تھا اسی دن سے میں نے اس کے پورا کرنے کی کوشش شروع کردی تھی آگے موت میرے اختیار میں نہ تھی کہ نہ مرتا اور اس فرض کو انجام تک پہنچاتا یہ کہہ کر وہ خدا تعالی کی بخشش اور انعام کا مستحق ہو سکتا ہے.پس اس کیلئے آج ہی سے کوشش شروع کردو.یہ بہت افسوس اور رنج کی بات ہوگی کہ اب بھی ہماری جماعت کا کوئی فرد اس میں سستی اور کوتاہی کرے جس طرح بھی ہو سکے علم کے سیکھنے کی کوشش کرو.کیا کوئی مدرس صرف اس بات پر خوش ہو سکتا ہے کہ اس کی جماعت میں لڑکے تو بہت سے داخل ہو جائیں مگر وہ اپنا سبق یاد نہ
انوار العلوم جلد ۴ اسلام علم حاصل کرو کریں.ہرگز نہیں اور کیا وہ لڑکوں کے صرف یہ کہہ دینے اور سبق نہ یاد کرنے سے راضی و سکتا ہے کہ ہمارا استاد بڑا قابل اور لائق ہے.قطعا نہیں.پس آپ لوگوں کا بھی صرف یہ کہہ دینا کہ حضرت مرزا صاحب روحانیت کے بڑے اعلیٰ درجہ کے معلم تھے، رسول کریم کے بے نظیر استاد تھے اس وقت تک کسی کام کا نہیں اور انہیں خوش نہیں کر سکتا جب تک کہ جو سبق وہ تمہیں دیتے ہیں اسے اچھی طرح یاد نہ کرو.کیا تم انہیں نَعُوذُ بِاللهِ) دنیا کے مدرسوں سے بھی کم درجہ کے سمجھتے ہو کہ صرف ان کی تعریف کر کے خوش کرنا چاہتے ہو اور اپنا سبق یاد کر کے نہیں سناتے.جب دنیا کے مدرس جو نوکر ہو کر لکھاتے پڑھاتے ہیں وہ طالب علموں کی صرف تعریف کردینے اور سبق یاد نہ کرنے کی وجہ سے خوش نہیں ہو سکتے تو پھر تمہیں کس طرح خیال ہے کہ محمد الله اور حضرت مسیح موعود محض تمہاری زبانی تعریفوں سے خوش ہو جائیں گے.وہ تو اسی وقت خوش ہوں گے جبکہ تم ان کے پڑھائے ہوئے سبقوں کو اچھی طرح یاد کرو گے اور جب تک انہیں یاد نہ کرو گے اس وقت تک ان برکات کو حاصل نہ کر سکو گے جو ان کے ذریعہ ملتی ہیں.کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص کہے کہ تیرنا بہت اچھا ہنر ہے مگر تیرنا نہ جانتا ہو اور پھر دریا کے کنارے کھڑا ہو کر کے کہ اے دریا میں اس بات کا قائل ہوں کہ تیرنا بہت اچھا ہے اور دریا میں کود پڑے کیا وہ ڈوبے گا نہیں.ضرور ڈوبے گا اسی طرح صرف زبانی اقرار کرتے ہوئے کہ آنحضرت ﷺ کی تعلیم بہت اعلیٰ ہے اور حضرت مرزا صاحب کے فرمودہ احکام سب سچ ہیں در آنحالیکہ اس سمندر میں تیرنے سے محض نابلد ہو.اگر کوئی ایسا شخص اس سمندر میں اپنے آپ کو ڈالتا ہے تو وہ اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے.اس سمندر کی تہہ سے حکمت اور معرفت کے موتی اس وقت ہاتھ آئیں گے جب آپ لوگ تیرنا سیکھیں گے اور اس کے تیراک بنیں گے.بعض اوقات پانی میں تیرنے والے بھی ڈوب جایا کرتے ہیں لیکن اس سمندر کا تیراک ایسا ہوتا ہے جو کبھی نہیں ڈوبتا پس اس میں تیرنا سیکھو اور اس کے بعد یقین رکھو کہ تمہیں گوہر مقصود حاصل ہو جائے گا.دیکھو جب ہم پیاسے ہیں اور خدا کی معرفت کی ضرورت ہے اور اس بات کا اقرار بھی کرتے ہیں کہ اس کے بغیر گزارہ نہیں تو پھر کس قدر افسوس کی بات ہے کہ خدا کی معرفت کا پانی موجود ہوتے ہوئے ہم اس کو نہ پئیں.اگر ایک شخص کو سخت پیاس ہو اور اس کے خص
انوار العلوم جلدم علم حاصل کرو پاس ٹھنڈے پانی کی بھری ہوئی جھجری بھی موجود ہو لیکن وہ خود تو اس سے نہ ہٹے اور دوسروں کو کہے کہ تم پی لو تو وہ کہیں گے کہ جب تمہیں خود بھی پیاس ہے تو تم کیوں نہیں پیتے ، تمہارا نہ پینا بتاتا ہے کہ یا تو جھجری میں پانی ہی نہیں ہے یا اگر ہے تو اس میں زہر ملا ہوا ہے جس سے ہم ہلاک ہو جائیں گے.یہی بات اس شخص کو کسی جائے گی جو دوسروں کو تو کہے کہ اسلام کی تعلیم سیکھو، رسول کریم ﷺ کے ارشادات پر عمل کرو حضرت مسیح موعود کے احکام کو بجالاؤ کہ اس سے روحانی زندگی اور خدا تعالی کی معرفت حاصل ہوتی ہے لیکن وہ خود ایسا نہ کرے اور جب اس سے پوچھا جائے کہ کیا تم خود ایسا کرتے ہو؟ تو وہ کہے کہ نہیں میں تو ایسا نہیں کرتا.پس جو شخص خود ان باتوں کو نہیں سیکھتا اور دوسروں کو سیکھنے کیلئے کہتا ہے وہ دراصل اسلام اور احمدیت کا دشمن ہے، احمدیت کے خلاف لوگوں کے دلوں میں شکوک اور شبہات پیدا کرتا ہے کیونکہ جب وہ خود نہیں سیکھتا تو دوسرے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں ضرور کوئی نقص اور کمزوری ہے تبھی تو وہ خود نہیں سیکھتا.اس لئے آپ لوگوں کیلئے نہایت ضروری ہے کہ پہلے خود اس علم کو حاصل کریں اور پھر اوروں کو سیکھنے کی دعوت دیں.میرے دوستو! قرآن کریم کے اندر جس قدر خوبیاں ہیں میرے پاس قرآن کریم کی خوبیاں ایسے الفاظ نہیں ہیں کہ ان کو بیان کر سکوں اور اگر الفاظ ہوں بھی تو بھی کوئی انسان ایسا نہیں ہے جو ان کو پورا پورا بیان کر سکے حتی کہ محمد اللہ بھی ایسا نہیں کرسکے کیونکہ قرآن کریم خداتعالی کا کلام ہے اس لئے اس کی خوبیوں کا اندازہ کوئی بھی انسان نہیں کر سکتا.پھر ایک انسان مخلوق ہے اور خدا کی عصمتیں غیر محدود اس بے پایاں سمندر کا حال وہی جانتا ہے جو اس میں کودتا ہے اور جو کودتا ہے وہ بتا نہیں سکتا کہ اس نے کیا کچھ دیکھا اور جو کچھ بتائے وہ گو دوسروں کے موہنے اور انہیں والا وشیدا کرنے کیلئے کافی ہوتا ہے مگر اس سمندر کے مقابلہ میں قطرہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا.پس میں وہ الفاظ نہیں پاتا کہ جن کے ذریعہ قرآن کریم کی خوبیاں آپ لوگوں کے سامنے کھول کر بیان کروں اور آپ کو مجبور کردوں کہ قرآن کریم کے مطالب اور معانی سے آگاہ ہونے کے فکر میں لگ جائیں.پھر میں کس طرح آپ کو سناؤں کہ قرآن کریم کا سیکھنا آپ لوگوں کیلئے بہت ہی ضروری ہے سوائے یہ کہنے کے کہ آپ خود ہی غور کریں اور دیکھیں کہ یہ کتنا اہم اور ضروری معاملہ ہے.دنیا میں لوگ کسی بات کی اہمیت جتلانے کیلئے کہا کرتے ہیں کہ یہ زندگی اور موت کا سوال ہے مگر
انوار العلوم جلدم ۱۲۹ علم حاصل کرو میرے پیارو یہ صرف ایک شخص کی زندگی اور موت کا سوال نہیں بلکہ سب دنیا کی زندگی اور موت کا سوال ہے اور صرف ایک زندگی اور ایک موت کا سوال نہیں بلکہ بے تعداد زندگیوں اور بے تعداد موتوں کا سوال کیونکہ باقی سب سوال اس جسم کی موت پر ختم ہو جاتے ہیں مگر یہ سوال اس کی موت تک ختم نہیں ہوتا.پھر کیا تم اس کو اتنی اہمیت بھی نہیں دے سکتے جتنی زندگی اور موت کے سوال کے وقت دیا کرتے ہو.خوب غور سے سن لو اور خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ رسول کریم الین نے فرمایا ہے کہ قرآن کریم ایک حجت اور غلبہ ہے، ایک دو دھاری تلوار ہے، اس کا ٹھیک استعمال جہاں دشمن کی ہلاکت اور تباہی کا باعث ہوتا ہے وہاں اگر اس کو اپنا دشمن بناؤ گے تو یہ تمہیں کو کاٹے گی.پس تم قرآن کریم کو مانتے ہوئے اسے اپنے خلاف استعمال کرنے کے مصداق نہ بنو بلکہ اس کے سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرو.رسول کریم ﷺ نے ثابت کردیا ہے اور حضرت مسیح موعود نے اس بات کو تازہ کردیا ہے کہ جو کوئی قرآن کریم کا قائل ہو کر پھر اس کو ترک کرتا ہے یہ اس کے خلاف ایسی حجت بنتا ہے کہ جس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.خداتعالی قرآن کریم کے متعلق ایک درد کا اظہار کرتا ہے اور چونکہ قاعدہ ہے پیارے اور محبوب کے منہ سے نکلی ہوئی بات زیادہ اثر کرتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ رسول کریم کی زبانی ہی فرماتا ہے کہ قیامت کے دن ہمارا رسول ان لوگوں کے متعلق جنہوں نے کہ صداقت کو قبول نہ کیا ہوگا قرآن کی طرف اشارہ کر کے کے گا يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان: ۳۱).اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو بالکل ترک کر دیا.یعنی اس قرآن کو میری قوم نے بالکل چھوڑ دیا اور اس کو نہ سیکھا نہ سمجھا.یہ ایک نہایت مختصر سا فقرہ ہے مگر اس میں ایسا درد بھرا ہوا ہے کہ یہ میرے سامنے کبھی نہیں آیا کہ میرا دل اس کو پڑھ کر کانپ نہیں گیا.دیکھو رسول کریم ﷺ یہ نہیں فرماتے کہ اے میرے رب! میری قوم نے قرآن کو بالکل ترک کردیا حالانکہ یہی کہنا کافی تھا بلکہ کہتے ہیں يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا.اے میرے رب! میری قوم نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.یہاں ھذا کا لفظ بہت ہی درد اور افسوس کو ظاہر کر رہا ہے.فرماتے ہیں خدایا تونے میری قوم کو یہ ایسی اعلیٰ درجہ کی نعمت دی تھی اور ایسی بابرکت کتاب بخشی تھی کہ جس کی کوئی مثال نہ تھی مگر میری قوم نے اس کو بھی چھوڑ دیا.تو قرآن کریم اپنے اندر اس قدر j
انوار العلوم جلدم علم حاصل کرو خوبیاں اور برکات رکھتا ہے کہ اس کا چھوڑنا سمجھ میں ہی نہیں آتا کہ کوئی کس طرح گوارا کر سکتا ہے.رسول کریم ﷺ بھی حیرت سے فرماتے ہیں کہ الہی انہوں نے ایسے قرآن کو چھوڑ دیا.دھیلے دمڑی کی چیز کو تو کوئی چھوڑتا نہیں لیکن ایسے قرآن کو جس کے مقابلہ میں ساری دنیا کا مال و متاع بھی کچھ حقیقت نہیں رکھتا چھوڑ دیا گیا.دیکھو اپنے آپ کو اس کیلئے تیار نہ کرو کہ رسول کریم ﷺ جس قوم کے متعلق یہ درد اور حیرت سے پُر فقرہ فرمائیں گے اس میں تم میں سے بھی کوئی شامل ہو.قرآن کریم کی خوبیاں اور برکات ایسی عظیم الشان اور بے نظیر ہیں کہ کوئی عزت اس کے جاننے سے بڑھ کر نہیں ہے.پس اس کے جاننے اور سمجھنے کیلئے جلدی دوڑو کہ یہ کوئی معمولی انعام نہیں اگر تمہیں اپنے پیاروں، عزیزوں، جائیدادوں وغیرہ کو قربان کر کے بھی یہ حاصل ہو جائے تو سمجھ لو کہ تمہارا ایک پیسہ بلکہ ایک دمڑی بھی خرچ نہیں ہوئی.قرآن کریم سیکھنے کا موقع آپ لوگوں کیلئے تو خداتعالی نے ایسا اعلیٰ موقع رکھا ہے جو بہتوں کو نصیب نہیں ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سے وہ بعثت سے پہلے قرآن کریم پڑھانے والے وہ لوگ تھے جو خود اس سے ناواقف اور غافل تھے اس لئے ان سے پڑھنا ایک مصیبت اور دکھ تھا.مگر اس وقت خدا تعالٰی نے اپنے فضل کے ماتحت ایسے پڑھانے والے مقرر کر دیئے ہیں کہ جن سے پڑھ کر بجائے کسی قسم کے بوجھ کے لذت اور سرور حاصل ہوتا ہے.پہلے اگر قرآن پڑھا جاتا تھا تو مردوں کی قبروں پر اگر ترجمہ سناتے تھے تو سننے والے جمائیاں لینے اور بیزار ہونے لگ جاتے تھے کیونکہ وہ کوئی دل لبھانے اور اثر ڈالنے والی بات نہ سناتے تھے مگر ہمارے علماء پر خدا تعالیٰ نے اپنے فضل دروازے کھولے ہیں اور ان کو وہ موتی دیتے ہیں کہ جن کا کوئی نعمت مقابلہ نہیں کر سکتی.پہلے لوگ قرآن کریم کے موتیوں کو توڑ کر اور کوئلہ بنا کر پیش کرتے تھے مگر آج بچے موتی اور ہمیرے دیئے جاتے ہیں اس لئے سننے والوں کے دل بجائے گھبرانے کے جوش اور لذت سے پر ہو جاتے ہیں.پس اگر تم سے پہلے لوگ قرآن کریم کے سیکھنے سے پہلو تہی کرتے تھے تو وہ معذور تھے کیونکہ وہ کہہ سکتے تھے کہ ہمیں قرآن کریم کے ایسے معانی بتائے جاتے تھے جنہیں سن کر ہمیں نفرت اور کبیدگی پیدا ہوئی تھی مگر تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے تمہیں سنانے والے خدا کے فضل سے ایسے موجود ہیں جن سے سن کر تمہاری روح وجد میں آجاتی اور بارگاہ الہی
انوار العلوم جلد ۴ اسما علم حاصل کرو میں سجدہ کیلئے جھک جاتی ہے پھر آپ کیا عذر کرسکتے ہیں.پس آپ لوگ قرآن کریم سیکھنے کی بہت جلد کوشش کریں اس سے بہتر موقع اور کوئی ہاتھ نہیں آئے گا.اس وقت تمہارا قرآن کریم کو سیکھنا صرف علم حاصل کرنا نہیں بلکہ روح کی لذت اور سرور کو بھی حاصل کرنا ہے اس لئے تمہارے لئے نہایت ضروری ہے کہ اسے پڑھو اور اس کے مطالب سے آگاہ ہو.دیکھو ایک شخص تو ایسا ہو جسے نماز پڑھنے میں لذت نہ آتی ہو مگر وہ فرض سمجھ کر پڑھے اور ایک ایسا شخص ہو جسے نماز میں لذت اور سرور بھی آتا ہو ان میں سے پہلا اگر نماز پڑھنا چھوڑ دے گا تو گناہگار ہوگا لیکن اگر دوسرا چھوڑے گا تو بلغم کی طرح کتا قرار دیا جائے گا.آپ لوگوں کو قرآن کریم پڑھتے اور سنتے وقت لذت آتی ہے اور آپ لوگوں کو پڑھانے والے ایسی عمدگی سے پڑھاتے ہیں کہ جس سے عقل کو ترقی ہوتی ہے اور خدا تعالی کا جلال ظاہر ہوتا ہے اور زندہ خدا کا نقشہ سامنے کھیچ جاتا ہے اس لئے آپ لوگ کوئی عذر نہیں کرسکتے.کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ مجھے دوسروں کے علیم قرآن کس طرح حاصل کرنا چاہئے پاس جاکر پڑھنے کی کیا ضرورت ہے اپنے طور پر اپنے گھر ہی سیکھ لوں گا.جس طرح آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود نے سیکھا میں بھی سیکھ لوں گا اور جس طرح حضرت مسیح موعود نے کہا وگر استاد را نامے نہ دانم که خواندم در دبستان محمد اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ میں دبستان محمد " میں پڑھنے والا ہوں مجھے کسی استاد کی کیا نی ضرورت ہے.یہ صحیح ہے کہ وہ دبستان محمد کا ہی پڑھنے والا ہے کیونکہ اس کا استاد وہیں کا پڑھا ہوا ہے مگر یہ شیطانی وسوسہ اور دھوکا ہوگا کہ کوئی کہے میں اپنے آپ ہی پڑھ لوں گا.دیکھو جب تک کوئی عمارت تیار نہیں ہو چکی ہوتی اس وقت تک اس کے اوپر پاڑ کے ذریعہ چڑھتے ہیں لیکن جب تیار ہو جاتی ہے اور سیڑھیاں بن جاتی ہیں تو پھر پاڑ کے ذریعہ نہیں چڑھتے بلکہ سیڑھیوں کے ذریعے چڑھتے ہیں.رسول کریم ﷺ کے وقت کوئی ایسی شریعت نہ تھی جس پر چل کر انسان خدا تعالیٰ تک پہنچ سکتا اس لئے اس وقت اسی بات کی ضرورت تھی کہ ایک ایسا نبی بھیجا جائے جو کسی شریعت کا پیرو نہ ہو بلکہ اس کے ذریعہ شریعت کی عمارت تیار کی
انوار العلوم جلدم ۱۳۲ علم حاصل کرو جائے لیکن اب جبکہ آپ کے ذریعہ شریعت مکمل ہو چکی ہے تو کسی کا یہ کہنا کہ میں اپنے طور پر ہی دین کے احکام سے واقف ہو جاؤں گا اور خدا کو پالوں گا درست نہیں ہو سکتا.پاڑ کے ذریعہ معمار ہی چڑھا کرتا ہے تاکہ عمارت کو مکمل کرے اور شریعتِ اسلام کی عمارت کو مکمل کرنے والا معمار حضرت محمد اللہ ہی تھا اس لئے وہی اس ذریعہ سے چڑھا.آپ کے ذریعہ چونکہ وہ عمارت تکمیل کو پہنچ گئی اس لئے پاڑ اتار لی گئی اب اگر کوئی اس عمارت میں اپنے ہاتھ سے کیلے ٹھونک کر اوپر چڑھتا جائے گا تو وہ ناکام اور نامراد ہی رہے گا اور مستوجب سزا ہوگا.اس کیلئے ضروری ہے کہ قرآن کریم سیکھے اور اس ذریعہ سے اوپر چڑھے.اسی طرح یہ کہنا بھی غلط ہے کہ جس طرح بغیر کسی سے پڑھے حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم کے معارف حاصل کرلئے تھے اسی طرح میں بھی خود بخود سیکھ لوں گا کیونکہ حضرت مرزا صاحب کے وقت قرآن کریم کے وہ معارف اور معانی جو رسول کریم کے ذریعہ حاصل ہوئے تھے مٹ چکے تھے اور ان پر ظلمت اور جہالت کی سینکڑوں من مٹی پڑ چکی تھی.رسول کریم کے وقت اسلام کی مثال تو ایک عمارت کی تھی اور حضرت مرزا صاحب کے وقت وہ ایک گنبد کی کہ جس کا دروازہ مٹی سے بند ہوچکا تھا اور آپ نے آکر کھولا.اب جبکہ دروازہ کھل گیا ہے تو کسی کا یہ کہنا کہ میں اس دروازہ کے ذریعہ اس کے اندر داخل نہیں ہوں گا بلکہ ایک طرف سے دیوار توڑ کر خود دروازہ بناؤں گا حد درجہ کی نادانی اور جہالت ہے.اب اسی راستہ سے کوئی داخل ہو سکتا ہے جو حضرت مرزا صاحب نے کھولا ہے پس آپ میں سے کوئی یہ مت خیال کرے کہ میں اپنے طور پر ہی بغیر کسی سے علم سکھے اور حضرت مسیح موعود کی کتابوں کے پڑھے بغیر قرآن کریم کے معارف سے آگاہ ہو جاؤں گا.تم خود ہی سوچو یہ کیسی بیوقوفی کی بات ہے کہ ایک دروازہ جو کھلا ہوا ہے اس سے تو کوئی داخل نہ ہو مگر خود دیوار توڑ کر دروازہ بنانے کی مشقت کا بار اٹھائے.یا ایک مکان کے اندر کسی کا محبوب اور پیارا بیٹھا ہو جسے دیکھنے کی اسے سخت تڑپ ہو اور ایک شخص آکر دروازہ کھول دے اور اسے کہے کہ اندر آجاؤ مگر وہ اس دروازہ سے تو اندر نہ آئے اور کہے کہ میں خود نیا دروازہ نکال کر اندر آؤں گا کیا یہ بات اس کی محبت اور تڑپ کا ثبوت ہوگی.ہرگز نہیں بلکہ محض نادانی اور جہالت ہوگی کیونکہ بلاوجہ وہ اپنے اوپر مشقت کا بوجھ رکھتا ہے اور اس طرح اس کا اندر داخل ہونا بھی ممکن نہیں ہے.لیکن اگر بفرض محال مان بھی لیا جائے کہ وہ اس طرح داخل
انوار العلوم جلد ۴ ١٣٣ علم حاصل کرو ہو جائے گا تو بھی یہ اس کی نادانی ہوگی اور اس کی محبت اور الفت پر ایک سخت دھبہ ہو گا کہ باوجود راستہ کے کھلا ہونے کے اتنی دیر بعد وہ اندر داخل ہوا ہے.پس آپ لوگوں میں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ وہ اس دروازہ کو چھوڑ کر جو حضرت مسیح موعود نے قرآن کریم کے معارف کا کھولا ہے خود کوئی دروازہ کھول لے گا اور اس طرح داخل ہو جائے گا بلکہ اب داخل ہونے کا یقینی اور آسان ذریعہ یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود" ہی کے کھولے ہوئے دروازہ کے راستہ سے داخل ہوا جائے.آپ لوگوں کے اندر خدا تعالٰی نے جوش رکھا ہے اور جوش دینا جماعت احمدیہ میں جوش بھی خدا تعالیٰ کی ایک نعمت ہے.عام لوگ تو کہتے ہیں کہ جوش ایک دل کا فعل ہے مگر میں کہتا ہوں یہ بھی خدا ہی کا فضل ہے پس یہ جوش جو خدا نے تمہیں دیا ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ.میں دیکھتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے ذریعہ اس جوش کا جو ہماری جماعت میں خدا تعالٰی نے رکھا ہے کس طرح اظہار ہوتا ہے.رات کو میں نے ایک شخص کے چند الفاظ سنے جو مجھے بہت ہی پیارے معلوم ہوئے اور اسی وقت میں نے لکھ لئے وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا.”لے بھائی اسماعیلا بھاویں پالے ہی مرجائیے پر رہنا ایتھے ہی ہے.آئے ہاں کا ہرے واسطے." اس کا ساتھی اُسے کہہ رہا تھا کہ آباہر چل کر رہیں جہاں ہمارے ٹھرنے کا انتظام کیا گیا ہے مگر وہ کہہ رہا تھا کہ میں تو خواہ سردی سے مرہی جاؤں تو بھی اسی مسجد (مسجد مبارک) میں رہوں گا.یہی فقرہ میرے جیسے انسان کیلئے یہ معلوم کرنے کیلئے کافی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کے لوگوں میں کس قدر جوش اور اخلاص رکھا ہے.میں ان الفاظ کا دیر تک لطف لیتا رہا اور خدا تعالی کا شکر کرتا رہا.اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری جماعت میں نناوے فیصدی لوگ ایسے ہیں جن میں ایسا ہی جوش پایا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کی یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے پس اس کو ضائع نہ کرنا چاہئے بلکہ اس سے کام لینا چاہئے.خدا تعالیٰ کو یہ پسند نہیں آتا کہ اس کی طرف سے جو انعام ہو اس سے کام نہ لیا جاوے.آپ لوگوں میں اس نے اپنے فضل سے جوش تو پیدا کر دیا ہے اب سوال یہ ہے کہ تمہیں اسے کس طرح استعمال کرنا جوش سے کام لو
انوار العلوم جلدم ۱۳۴ علم حاصل کرو چاہئے.دیکھو یورپین لوگوں نے کس طرح خدا تعالی کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو استعمال کر کے ان سے بڑے بڑے عظیم الشان فوائد حاصل کئے ہیں.یہ ریل گاڑی کیا ہے لوہے اور لکڑی کی بنی ہوئی ہے جس کو آگ اور پانی کے ذریعہ چلایا جاتا ہے.یہ وہی آگ ہے جو شہروں کو جلا کر خاک سیاہ کردیتی ہے مگر اس کو ایک قاعدہ کے ماتحت استعمال کر کے ہزاروں اور لاکھوں میل تک انسانوں اور مال و اسباب کو پہنچایا جاتا ہے.پھر دیکھو یہی موم اور لکڑی ہے جس میں ایک قاعدہ کے ماتحت ترکیب دے کر آواز کو محفوظ کیا جاتا اور دوسروں تک پہنچایا جاتا ہے، اسی طرح یہی لوہا تیزاب اور پیتل ہے کہ جس کے ذریعہ دور دراز جگہ تک خبر پہنچائی جاتی ہے، پھر یہی ہوا ہے جس کو ایسے طریق سے استعمال کیا جاتا ہے کہ بغیر تار کے لاکھوں میل تک خبریں پہنچائی جاتی ہیں.تو خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں کو باقاعدہ استعمال کرنے سے بڑے بڑے عظیم الشان نتائج پیدا ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو جوش دیا ہے اس لئے آپ کا فرض ہے کہ اس سے روحانی ریل، فونوگراف اور تار برقی بنائیں اور دنیا میں چلائیں اور صحیح طور پر چلائیں.دیکھو جب دریاؤں سے قاعدہ کے ماتحت نہریں نکالی جاتی ہیں تو وہ تو وہ ملکوں کو شاداب بنادیتی ہیں مگر جب کوئی دریا بے قاعدہ طور پر ٹوٹتا ہے تو ہزاروں گاؤں اور بستیوں کو تباہ و برباد کردیتا ہے.پس تمہیں خدا تعالی نے جو انعام دیا ہے اسے اگر قاعدہ کے ماتحت استعمال کرو گے تو فائدہ اٹھاؤ گے اور اگر بے قاعدہ استعمال کرو گے تو نقصان پاؤ گے.کسی بزرگ کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے ایک لڑکے کو دیکھ کر اس کے چہرہ کی بناوٹ اور امنگ سے اندازہ لگایا کہ یہ یا تو خطرناک اور پاجی انسان ہوگا یا بڑا ولی اللہ اور متقی ہو گا.یعنی اگر اس نے اپنے جوش اور امنگ کو صحیح طور پر استعمال کیا تو نیکی اور تقویٰ میں بڑھ جائے گا اور اگر غلط طریق سے استعمال کیا تو نہایت خطرناک انسان ہو جائے گا کیونکہ جوش اور امنگ کے یہی دو نتیجے نکلا کرتے ہیں.جس طرح بے قاعدہ بھڑکی ہوئی آگ ارد گرد کی چیزوں کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے مگر باقاعدہ جلائی ہوئی آگ بڑے بڑے فوائد پہنچاتی ہے اسی طرح انسانی جوش اگر باقاعدہ استعمال کیا جائے تو ایسے ایسے تغیرات پیدا کر دیتا ہے کہ جن کی نظیر دنیا میں موجود نہیں ہوتی لیکن اگر بے قاعدہ برتا جائے تو ایسے ایسے خطرناک مفاسد اور فتنے پیدا کرتا ہے کہ وہ بھی اپنی نظیر نہیں رکھتے.آپ لوگوں میں جوش تو موجود ہے اب یہ آپ کا اختیار ہے کہ چاہے اسے دین کے سیکھنے ، اسلام کے پھیلانے اور حق کی اشاعت کرنے میں لگادیں، چاہے.
انوار العلوم جلدم اس ۱۳۵ علم حاصل کرو غلط طریق پر بھڑکنے دیں کہ دنیا کو تباہ کردے.دیکھو صحابہ کرام کے وقت لڑائی کی ضرورت تھی لئے وہ جوش کے ساتھ اپنی جانیں لے کر میدان مقابلہ میں نکلے اور جب تک مخالفین کے مقابلہ میں اس جوش کو استعمال کرتے رہے اس سے بڑی بڑی عظیم الشان کامیابیاں ظہور میں آئیں لیکن جب ان کے سامنے مخالفین نہ رہے تو اس آگ نے اپنے لوگوں کو ہی جلانا شروع کر دیا.یہ ان کا وہی جوش تھا جو کفار کو تباہ اور برباد کرتا رہا مگر جب بے قاعدہ نکلنا شروع ہوا تو اپنوں ہی کو نقصان پہنچانے کا موجب ہو گیا.اس زمانہ میں وہ جوش جو ایک راستباز نبی کی جماعت کو ملا کرتا ہے وہ تمہیں ملا ہے تم اگر اس کو قاعدہ کے ماتحت کام میں لاؤ گے تو اس قدر انعام پاؤ گے کہ تمہارے گھر بھر جائیں گے لیکن اگر ٹھیک طور پر استعمال نہ کرو گے تو ایسے خطرناک اور تباہ کن نقصانات اٹھاؤ گے کہ جن کا خیال کر کے ہی دل کانپ اٹھتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس جہاں تک ہو سکے تم علم دین کے سیکھنے کی کوشش کرو اور اپنے جوشوں کو اس کام میں لگاؤ.ورنہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور تمہیں بتادیا ہے کہ اگر اپنے جوشوں سے صحیح طور پر کام نہ لو گے تو پھر اللہ ہی حافظ ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ کس طرح تم اپنے جوشوں کو علم دین سیکھنے میں صرف کرو.پہلا طریق تو یہ ہے کہ تمہارا ایک ایسے مرکز سے تعلق ہو جسے علیم دین سیکھنے کا پہلا طریق اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کی اُم بنایا ہے اور خواہ کوئی مانے یا نہ مانے اقرار کرے یا نہ کرے.لیکن درست بات یہی ہے کہ بچہ کی صحیح تربیت اسی وقت ہوتی ہے جبکہ اس کی اپنی ماں کے دودھ سے پرورش ہو.بکری، گائے، بھینس کے دودھ سے بچہ پل تو جاتا ہے مگر پوری طاقت اور قوت حاصل نہیں ہو سکتی اصل قوت ماں ہی کے دودھ سے حاصل ہو سکتی ہے.اس زمانہ میں خدا تعالٰی نے قادیان کو تمام دنیا کی بستیوں کی ام قرار دیا ہے اس لئے اب وہی بستی پورے طور پر روحانی زندگی پائے گی جو اس کی چھاتیوں ئے گی اس لئے علم دین سیکھنے کا اصل اور کامل طریق یہی ہے کہ یہاں آکر سیکھا جائے.اگر کوئی کہے کہ دودھ تو دور دراز جگہوں میں بھی ڈبوں میں بند ہو کر جاتا ہے اسی سے کیوں نہ فائدہ اٹھالیں مگر کجا تازہ دودھ اور کجا باسی.بیشک یہ دودھ بھی ڈبوں (اخباروں) میں بھر کر باہر بھیجا جاتا ہے مگر اس میں وہی فرق ہے جو تازہ اور باسی دودھ میں ہوتا ہے.پس اگر تم لوگ واقعی اور حقیقی نفع حاصل کرنا چاہتے ہو تو یہاں آکر کرو ورنہ ڈبوں کے ذریعہ تو ہم ت روده
انوار العلوم جلد ۴ پہنچاہی دیں گے.۱۳۹ علم حاصل کرو آپ لوگ شاید یہ کہیں کہ ہم سالانہ جلسہ پر جو آیا کرتے ہیں ہمارا یہی آنا کافی ہے مگر یہ ٹھیک نہیں ہے اس موقع پر اجمالی باتیں بتائیں جاتی ہیں اور کام کرنے کی تاکید کی جاتی ہے نہ کہ کچھ پڑھانے اور سکھانے کی فرصت ہوتی ہے اس کیلئے جلسہ کے ایام کے علاوہ ہی موقع ہوتا ہے اس لئے جلسہ کے علاوہ اور وقتوں میں بھی آنا چاہئے.جو دوست اور دنوں میں آتے ہیں انہوں نے چونکہ دیکھ لیا ہے کہ تازہ اور ڈبوں کے دودھ میں کیا فرق ہے اس لئے وہ کوئی چھٹی اور کوئی موقع ایسا نہیں جانے دیتے کہ یہاں نہیں آجاتے.خرچ کی تنگی برداشت کرتے ہیں ، گھر کے آرام و آسائش کو ترک کرتے ہیں، بیوی بچوں سے جدا رہتے ہیں مگر آتے ضرور ہیں اور انہیں فائدہ بھی بہت پہنچتا ہے.ان کا بار بار آنا ہی بتاتا ہے کہ انہیں فائدہ حاصل ہوتا ہے ورنہ وہ کیوں آئیں تو یہاں آنا نہایت ضروری ہے.حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بڑا زور دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جو بار بار یہاں نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہے.پس جو قادیان سے تعلق نہیں رکھے گا وہ کاٹا جائے گا.تم ڈرو کہ تم میں سے کوئی نہ کاٹا جائے گا.پھر یہ تازہ دودھ کب تک رہے گا آخر ماؤں کا دودھ بھی سوکھ جایا کرتا ہے.کیا مکہ اور مدینہ کی سوکھ گیا کہ نہیں؟ اسی طرح ایک وہ وقت بھی آئے گا خدا ہماری اولادوں اور ان کی اولادوں کی اولادوں سے بھی پرے اسے پھینک دے جبکہ یہ دودھ سوکھ جائے گا لیکن یہ وقت آئے گا ضرور اس لئے تمہیں چاہئے کہ اس دودھ کو پیو اور اس سے فائدہ اٹھاؤ.سال میں صرف ایک دفعہ تمہارا آنا کوئی زیادہ مفید نہیں ہو سکتا مگر افسوس ہے کہ اکثر لوگ اس طرف خیال نہیں کرتے.پھر پوری اور فائدہ بخش تعلیم استاد اسی وقت دے سکتا ہے جب کہ طالب علم سے اچھی طرح واقفیت بھی رکھتا ہو اور اس کی عادات کو خوب جانتا ہو مگر صرف جلسہ کے موقع پر آنے والے دوستوں سے ہمیں ایسی واقفیت نہیں ہو سکتی.بیسیوں لوگ ہوں گے جو مجھے چاروں جلسوں پر ملے ہوں گے اور انہوں نے اپنے نام بھی بتلائے ہوں گے لیکن پھر بھی میں انہیں نہیں پہچان سکتا کیونکہ اس قدر ہجوم میں کوئی پتہ نہیں رہتا اور تعلیم بغیر پوری واقفیت کے دی نہیں جاسکتی اور واقفیت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ دوست باربار آئیں اور جلسہ کے ایام کے علاوہ اوقات میں آئیں.ایسی صورت میں معلوم ہو سکے گا کہ فلاں کو کس طریق سے پڑھانے کی ضرورت ہے اور فلاں کو کس علم کی حاجت.پھر اسی کے مطابق چھائیوں سے دودھ ہو
انوار العلوم جلد ۴ ۱۳۷ علم حاصل کرو اس کی تعلیم کا انتظام کیا جائے گا.جو دوست یہاں آتے رہتے ہیں ان کو کسی نہ کسی رنگ میں دی جاتی ہے اور انہیں بہت فائدہ ہوتا ہے.کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود کی کتابیں جو موجود ہیں انہیں اپنے طور پر پڑھ کر ہی ہم دین کی باتوں سے آگاہ ہو جائیں گے کیونکہ یہ کتابیں قرآن کریم سے بڑھ کر نہیں ہیں مگر کیا قرآن کے موجود ہوتے ہوئے لوگ دین سے بے خبر نہ ہو گئے.ضرور ہو گئے.جس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے پاس شفایابی کا نسخہ تو موجود تھا لیکن اس کے استعمال کرانے والا کوئی نہ تھا.پس تمہارے لئے ضروری ہے کہ بار بار یہاں اگر تعلیم حاصل کرو اور جو ضرورت ہو اس کے مطابق نسخہ تجویز کراؤ تاکہ فائدہ ہو.ہاں یہ خوب یاد رکھو کہ دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو تمام علوم میں ماہر ہو.یا قرآن کریم کے تمام معانی اور معارف پر آگاہ ہو البتہ دین کا علم حاصل کرنے سے ایک ایسا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے کہ اس کے بعد کوئی اعتراض نہیں ہوتا جس کا جواب نہ آجائے اور کوئی روحانی مشکل نہیں ہوتی جو حل نہ ہو جائے.جب یہ ملکہ پیدا ہو جائے تو پھر انسان کیلئے دینی علم کافی ہو جاتا ہے اور یہ اسی طرح پیدا ہو سکتا ہے کہ کسی استاد کے ذریعہ علم حاصل کیا جائے اسی ملکہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ كَمَنْ مَّثَلُهُ فِى الظُّلُمتِ لَيْسَ بِخَارِجٍ مِّنْهَا كَذَلِكَ زُيِّنَ لِلْكَفِرِينَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (الانعام: ۱۲۲) بھلا بتاؤ تو سہی کہ ایک ایسا شخص جو مردہ ہو اور پھر ہم نے اسے زندہ کردیا ہو اور اس کیلئے ایک شمع پیدا کی ہو کہ جس کے ذریعہ سے وہ لوگوں میں چلتا پھرتا ہو اُس شخص کی طرح ہو سکتا ہے کہ جو اندھیرے سے باہر نہیں نکلتا.کافروں کو ان کے اعمال ایسے ہی خوبصورت کر کے دکھائیں گے.(یعنی شیطان نے ان کو ان کے اعمال ایسے خوبصورت کر کے دکھائے ہیں کہ وہ اُن کو چھوڑنا پسند ہی نہیں کرتے).اس ارشاد باری سے پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالٰی نے مومن کیلئے صرف زندہ ہونا ہی کافی نہیں قرار دیا گیا بلکہ فرماتا ہے کہ اس کے پاس ایسا نور بھی ہونا چاہئے کہ خواہ وہ کیسے ہی خطرناک دشمنوں میں چلا جائے ذرا نہ گھبرائے.پس جب تک یہ ملکہ نہ پیدا ہو اس وقت تک انسان کامل انسان نہیں بن سکتا اور اس میں جس قدر وسعت علماء کی صحبت میں رہنے.ہو سکتی ہے وہ کسی اور طریق سے نہیں ہو سکتی.چنانچہ دیکھ لو وہ لوگ جو اکثر قادیان آتے رہتے
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو ہیں ان پر اگر کوئی بڑے سے بڑا غیر احمدی مولوی بھی اعتراض کرے تو ذرا نہیں گھبراتے بلکہ دندان شکن جواب دے کر اس کامنہ بند کردیتے ہیں لیکن جو نہیں آتے ان میں یہ بات نہیں ہوتی.ان کی یہ کمی اُسی وقت دور ہوگی جبکہ وہ دین سیکھنے کیلئے خاص طور پر یہاں آکر رہیں گے.اس کیلئے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دینی علوم کے سیکھنے اور ان میں ملکہ پیدا کرنے کیلئے یہی ضروری نہیں ہوتا کہ لفظ پڑھائے جائیں بلکہ یہ بات ایک اور طرح بھی حاصل ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ ایک ایسی جگہ جس میں خدا تعالٰی نے برکت رکھی ہو اس سے اور ایسے انسان سے جسے خدا تعالیٰ نے جماعت کے انتظام کیلئے کھڑا کیا ہو اس سے تعلق ہو اور اس کی صحبت میں بیٹھا جائے تو خواہ وہ سارے دن میں ایک لفظ بھی نہ بتائے تو بھی اٹھتے وقت پہلے کی نسبت زیادہ علم اور معرفت ہو گی.یہ ایک بہت بڑا اور اہم مضمون ہے کہ اس طریق سے کس طرح معرفتِ الہی اور دین میں ترقی ہو جاتی ہے اس وقت فرصت نہیں کہ اس کو بیان کروں ہاں اگر کوئی تجربہ کیلئے تیار ہو تو وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ اپنے دل میں کچھ سوال رکھ کر میرے پاس بیٹھ جائے اور مجھے وہ سوال بتائے نہیں صرف پاس بیٹھا رہے پھر دیکھے کہ باتوں ہی باتوں میں اس ملا کے سوال حل ہوتے ہیں یا نہیں.اس کیلئے قرآن کریم نے جو شرائط مقرر کی ہیں وہ میں پھر کبھی بتادوں گا ان کے مطابق جو عمل کرے گا وہ دیکھ لے گا کہ ہم خواہ کسی اور ہی مضمون پر ذکر کریں تو بھی اس کے شکوک مٹنے اور شبہات دور ہونے شروع ہو جائیں خداتعالی کی طرف سے مقررہ سنت ہے اور میں نے خود اس کا تجربہ کیا ہے.حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح الاول کی صحبت میں بیٹھ کر دیکھا ہے کہ خود بخود سوال حل ہوتے چلے جاتے ہیں.وجہ یہ ہے کہ ایسے وجودوں میں وہ برکات اور انوار الہی ہوتے ہیں جن کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا.پس میں آپ لوگوں کو پھر توجہ دلاتا ہوں کہ علم دین حاصل کرنے کیلئے قادیان آئیں اور ظاہری علوم اور باطنی علوم میں یہ ایک بہت بڑا فرق ہے کہ اول الذکر میں اسباب ظاہری کا زیادہ دخل ہوتا ہے اور باطنی علوم میں علوم باطنی کا مسمریزم وغیرہ علوم کے ماہرین بھی دل سے دل کو بات پہنچادینے کا دعوی کرتے ہیں گو ان کا دعوی ثابت نہیں مگر اسے تسلیم بھی کر لیا جائے تو ضروری ہے کہ اول اس کا سوال معلوم ہو اور پھر جواب دینے والا خاص طور پر علیحدہ بیٹھ کر خاموشی سے اس پر توجہ ڈالے اور ایک وقت میں ایک ہی شخص سے معالمہ ہو سکے گا بر خلاف اس کے روحانی اثرات چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں ان میں ان اسباب کی ضرورت نہیں ہوتی اور پھر یہ یقینی ہوتے ہیں.مگر دنیاوی علوم محض ظنی اور شکی جن میں کثیر حصہ جھوٹ اور فریب کا شامل ہوتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد گے.
انوار العلوم جلد ۴ ۱۳۹ علم حاصل کرو اور بار بار آئیں اور آکر میرے پاس بیٹھیں اور مجھ سے اپنے آپ کو واقف کرائیں جو مشکل سوالات پیش آئیں انہیں پوچھیں ہاں قرآن کریم نے جو ادب سکھایا ہے اس کو مد نظر رکھیں کہ خدا تعالیٰ بیہودہ اور لغو سوالات کو جن کا دین سے کوئی تعلق نہ ہو جائز نہیں رکھتا اور ایسے سوالات کرنے والے انسان کو ہدایت نصیب نہیں ہوتی اس لئے تم وہی سوال کرو جس کا حل کرنا تمہارے لئے مشکل ہو.یا جو تمہارے دل میں کھٹکتا ہو نہ کہ سوال کرنے کی خاطر سوال کرو کیونکہ ایسا کرنا نور معرفت مٹا دیتا ہے اور دین سے دور پھینک دیتا ہے.دوسرا طریق علم دین سیکھنے کا یہ ہے کہ بعض دوسرے مختلف مقامات میں دوسرا طریق قرآن کریم کا درس دیتے ہیں ان کے درس کو باقاعدہ طور پر سنو اور ان سے قرآن کریم سیکھو.میں نے شکایت سنی ہے کہ بعض جگہ کے لوگ درس میں شامل ہونے میں ستی کرتے ہیں ایسا نہیں چاہئے.خدا تعالیٰ نے ان درس دینے والوں کو جتنا علم دیا ہے اتنے سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مزا نہیں آتا اس لئے درس میں شامل نہیں ہوتے.میں کہتا ہوں وہ مزے کیلئے قرآن سنتے ہیں یا ایمان کیلئے ، اگر محض مزے کیلئے سیکھتے ہیں تو ان کا سیکھنا نہ سیکھنے سے برا ہے لیکن اگر ایمان کیلئے سیکھتے ہیں تو خواہ ابتداء میں انہیں مزا نہ بھی آئے تو بھی سستی نہ کرنی چاہیئے، آہستہ آہستہ انہیں ایسا مزا آنے لگ جائے گا کہ جو انہیں پہلے کبھی آیا ہی نہ ہوگا.پس ان مقامات پر جہاں درس ہوتا ہے مثلاً لاہور مرتسر، پشاور، فیروز پور گوجرانوالہ شملہ ، حیدر آباد دکن وہاں کے دوستوں کو چاہئے کہ کوشش کر کے شامل ہوں.اگر انہیں ایک نکتہ مل گیا تو بھی کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ فائدہ ہی ہوگا اور جن مقامات پر درس نہیں ہوتے وہاں کے دوستوں کو اس کا انتظام کرنا چاہئے.تیسرا طریق وہ ہے جس کا ابھی تک بعض مشکلات کی وجہ سے انتظام نہیں ہوسکا تیسرا طریق لیکن اب خدا کے فضل سے کسی حد تک انتظام ہو گیا ہے وہ اسباق القرآن کا.طریق ہے.بہت سے سبق تیار ہوچکے ہیں اور انشاء اللہ جنوری سے شائع ہونے شروع ہو جائیں گے جو دوست ان کے ذریعہ علم حاصل کرنا چاہیں وہ اپنا نام دفتر ترقی اسلام میں لکھا دیں ان کو سبق چھپنے پر بھیج دیئے جایا کریں گے.چوتھا طریق چوتھا طریق علم حاصل کرنے کا ایسا طریق ہے جو بہت ہی مفید ہے اور وہ یہ کہ جتنا علم خود آتا ہے وہ اپنے بیوی بچوں کو سکھایا جائے.کچھ لوگ تجربہ کر کے دیکھ
انوار العلوم جلدم ۱۴۰ علم حاصل کرو لیں اس طرح کرنے سے ان کے اپنے علم میں بھی بہت ترقی ہوتی جائے گی.اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پڑھانے سے علم بڑھتا ہے اور دوسرے یہ کہ جس طرح شیشہ کا عکس جب کسی دوسری چیز پر ڈالا جائے تو شعائیں لوٹ کر اس پر بھی پڑتی ہیں، اسی طرح جب دوسروں کو پڑھانا شروع کیا جائے گا تو ان کا عکس لوٹ کر ان کے علم پر پڑتا ہے اور اس کا علم اور زیادہ روشن ہو جاتا ہے، پھر بیوی بچوں کو پڑھانے میں جو ثواب حاصل ہو گا وہ علیحدہ ہو گا.پس جس کو جتنا کچھ آتا ہے وہ باہر دوسروں کو بھی سکھائے اور گھر میں بیوی بچوں کو بھی پڑھائے.ہاں ایک بات ضرور یاد رکھنی چاہیئے کہ بعض اوقات شیطان جھوٹے اور غلط معنی سکھا دیتا ہے اس کی بہت احتیاط کرنی چاہئے.اگر کسی کے دل میں کوئی اس قسم کی بات پیدا ہو جس کی تصدیق رسول کریم کی احادیث اور حضرت مسیح موعود کی کتب سے اسے نہ ملتی ہو تو وہ اس کو لکھ لے اور یہاں آکر میرے سامنے پیش کرے ، یہاں سے اگر اس کے صحیح اور درست ہونے کی تصدیق ہو جائے تو پھر دوسروں کے سامنے بیان کرے.پانچواں طریق پانچواں طریق یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھی جائیں.آپ کو خداتعالی نے قرآن کریم کی خاص معرفت اور علم دیا تھا آپ فرماتے ہیں کہ ہر نبی نے کوئی نہ کوئی حربہ چلایا ہے مجھے قرآن کریم کا حربہ ملا ہے پس چونکہ آپ کی کتب قرآن کریم کی بے نظیر تفسیر ہیں اس لئے ان کا پڑھنا نہایت ضروری ہے.مجھے بھی خداتعالی نے خاص طور پر قرآن کریم کا علم بخشا ہے مگر جب میں حضرت مسیح موعود کی وعود کی کتابیں پڑھتا ہوں تو ان سے نئے نئے معارف اور نکات ہی حاصل ہوتے ہیں اور اگر ایک ہی عبارت کو دس دفعہ پڑھوں تو دس ہی نئے معارف حاصل ہوتے ہیں، براہین احمدیہ کو میں کئی مہینوں میں ختم کر سکا تھا.میں بڑا پڑھنے والا ہوں کئی کئی سو صفحے لگاتار پڑھ جاتا ہوں مگر براہین کو پڑھتے ہوئے اس وجہ سے اتنی دیر لگی کہ کچھ سطریں پڑھتا تو اس قدر مطالب اور نکتے ذہن میں آنے شروع ہو جاتے کہ آگے نہ پڑھ سکتا اور وہیں کتاب رکھ کر لطف اٹھانے لگ جاتا.چونکہ براہین احمدیہ قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے اس لئے اس کے پڑھنے سے بھی نئے نئے مطالب سوجھتے ہیں یہی حال حضرت مسیح موعود کی دوسری کتابوں کا ہے اس لئے ان کو ضرور پڑھنا چاہئے.دیکھو اس زمانہ میں شیطان اپنے پورے زور اور ساری قوت سے اسلام پر حملہ آور ہو رہا ہے اور حضرت مسیح موعود نے اس کا سر کچلنے کیلئے ایک
انوار العلوم جلدم ا موم | علم حاصل کرو جماعت تیار کی ہے اس لئے جو شخص اس میں اپنا نام داخل کرائے گا اس پر شیطان ضرور حملہ آور ہوگا کیونکہ ہر ایک اپنے دشمن پر حملہ کرتا ہے چونکہ ہر ایک احمدی شیطان کا دشمن ہے ہے اور چاہتا ہے کہ جہاں اسے پاؤں پیس ڈالوں اس لئے شیطان بھی اس کوشش میں لگا رہتا.کہ میرا داؤ چلے تو میں اسے پیس ڈالوں.اس لئے ہماری شیطان کے ساتھ جنگ ہے اور ہم اس کے مقابلہ کیلئے میدانِ جنگ میں نکلے ہیں لیکن اگر ہم نستے اور بغیر اسلحہ کے ہوں گے تو سمجھ لو کہ ہمارے لئے کس قدر خطرہ کا مقام ہے.پس ہمارے لئے بہت ہی ضروری ہے کہ ہمارے ہاتھ میں نہایت تیز اور آب دار تلوار ہو اور وہ تلوار حضرت مسیح موعود کی کتابیں ہیں.دراصل تو قرآن کریم ہی تلوار ہے مگر چونکہ وہ بھی قرآن کریم ہی کی تفسیر ہیں اس لئے وہ بھی تلوار کا ہی کام دیتی ہیں.- تو قرآن کریم پڑھو اور اس کے سمجھنے کیلئے حضرت مسیح موعود کی کتابوں کو خوب یاد کرو بہ تمہارے ہاتھ میں ایسا زبردست اور قوی ہتھیار ہوگا کہ جس کو دیکھتے ہی شیطان بھاگ جائے گا.کسی دشمن کو اسی وقت حملہ آور ہونے کی جرات ہوتی ہے جبکہ وہ دوسرے کو نہتا اور کمزور دیکھتا ہے لیکن جب اسے معلوم ہو کہ میرا مد مقابل نہ صرف قوی اور بہادر ہے بلکہ اس کے ہاتھ میں نہایت تیز اور مضبوط تلوار بھی ہے تو پھر وہ حملہ کرنے کی کبھی جرات نہیں کر سکتا.آپ لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہادر تو ہیں اور دین کیلئے جان تک دینے کیلئے تیار ہیں لیکن صرف بہادری سے ہی کام نہیں چلتا جب تک کہ آپ لوگوں کے ہاتھوں میں زبردست ہتھیار نہ ہوں.پس ان ہتھیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرو جب ان کو حاصل کرلو گے تو پھر کوئی دشمن تمہارے سامنے نہیں ٹھر سکے گا.شیطان ایک نہایت ہی بزدل اور ڈرپوک ہستی ہے اور اس کے ہتھیار بالکل کند اور زنگ خوردہ ہیں وہ ہرگز تمہارے سامنے آنے کی جرات نہیں کرے گا بلکہ دور سے دیکھ کر ہی بھاگ جائے گا.پس ان ہتھیاروں.مسلح ہونے کی کوشش کرو تا کامیابی حاصل کر سکو.چھٹا طریق ایسا ہے جس کی طرف متوجہ کرنے کا مجھے ایک مدت سے خیال ہے چھٹا طریق لیکن ایک مجبوری کی وجہ سے اسے بیان نہیں کر سکتا تھا.وہ مجبوری یہ ہے کہ ނ یہاں کے اخباروں میں سے ایک کے ساتھ میں بھی تعلق رکھتا ہوں چونکہ مجھ میں بڑی غیرت ہے اس لئے یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اخبارات کے ذریعہ بہت بڑا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے
انوار العلوم جلد ۴ علم حاصل کرو میں نے اخبارات اور رسالے خریدنے کی طرف توجہ نہیں دلائی کیونکہ ایک اخبار سے مجھے بھی تعلق ہے اس کیلئے میں نے سوچا کہ اس اخبار کو کسی اور کے سپرد کردوں اور موجودہ تعلق کو ہٹا کر تحریک کروں مگر اس وجہ سے کہ ابھی تک وہ اخبار گزشتہ گھاٹے میں ہے کسی کے سپرد نہیں کرسکا.اب ایک اور طریق خیال میں آیا ہے اور وہ یہ کہ اس اخبار کو وقف کردوں، اس کے سرمایہ میں ایک اور صاحب کا بھی روپیہ ہے لیکن ان کی طرف سے بھی مجھے یقین ہے کہ وہ بھی اپنا روپیہ چھوڑ دیں گے.پس میں آج سے اس اخبار کو بلحاظ اس کے مالی نفع کے وقف ہی کرتا ہوں.ہاں اگر خدا نخواستہ نقصان ہوا تو اس کے پورا کرنے کی میں انشاء اللہ کوشش کروں گا.ہم اس کی کمی کے پورا کرنے کی تو کوشش کریں گے لیکن جو نفع ہو گا اسے نہ میں لوں گا اور نہ وہ بلکہ اشاعتِ اسلام میں خرچ کیا جائے گا.اس اعلان کے بعد چونکہ مالی منافع کے لحاظ سے کسی اخبار کے ساتھ میرا تعلق نہیں رہا اس لئے اب میں تحریک کرتا ہوں کہ ہمارے دوست اخبارات کو خریدیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں.اس زمانہ میں اخبارات قوموں کی زندگی کی علامت ہیں کیونکہ ان کے بغیر ان میں زندگی کی روح نہیں پھونکی جاسکتی.گزشتہ زمانہ میں مخالفین کی طرف سے جو اعتراض ہوتے تھے وہ ایک محدود دائرہ کے اندر گھرے ہوئے تھے اس لئے ان کے جوابات کتابوں میں دے دیئے جاتے تھے اور ان کتابوں کا ہی پاس رکھنا کافی ہوتا تھا مگر اس زمانہ میں روزانہ نئے نئے اعتراضات اخباروں میں شائع ہوتے رہتے ہیں جن کے جواب دینے کیلئے اخباروں ہی کی ضرورت ہے اور اسی لئے ہمارے سلسلہ کے اخبار جاری کئے گئے ہیں لیکن اکثر لوگ ان کی خریداری کی طرف توجہ نہیں کرتے جس سے وہ دین کا ہی نقصان کر رہے ہیں.ہمارے دوستوں کو چاہئے کہ جہاں تک ہو سکے تکلیف اٹھا کر بھی ان کو خریدیں.اگر ان اخباروں کی اشاعت دو دو ہزار ہو جائے تو وہ نہ صرف اپنا بوجھ اٹھا سکتے ہیں بلکہ موجودہ حالت سے بھی بہتر بنائے جاسکتے ہیں.بعض لوگ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے نام یونسی وی پی بھیج دیئے جاتے ہیں جنہیں وصول کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ان کی شکایت بے جا ہے.میں نے جبکہ اعلان کرایا ہوا ہے کہ اگر کوئی بغیر تمہارے لکھے کسی کتاب یا کسی اخبار یا کسی اور چیز کا وی پی کرتا ہے سوائے اس تقریر کے بعد گورداسپور جاکر میں نے باقاعدہ طور پر "الفضل" کو انجمن ترقی اسلام کی ملکیت میں دیئے جانے کی درخواست دے دی اور اب وہ انجمن ترقی اسلام کی ملکیت میں ہے.(خاکسار مرزا محمود احمد)
انوار العلوم جلدم ۱۴۳ علم حاصل کرو خریداران اخبار سے اخبار کی قیمت وصولی کے تو وہ ہرگز نہ وصول کیا جائے اور اس کی اطلاع مجھے دی جائے.تو اب کسی کا اس اعلان کے ہوتے ہوئے شکایات کرنا بالکل نادرست ہے اس لئے یہ عذر نہیں کیا جاسکتا.پس جہاں تک ہو سکے اخباروں کی اشاعت بڑھاؤ انہیں خریدو اور ان کے ذریعہ علوم حاصل کرو.اس وقت الفضل فاروق نور، ریویو آف ریلیجنز تشحیذ جاری ہیں ان کے خریدار بنو.ساتواں طریق ساتواں طریق کو وقتی ہے لیکن اس کو بھی یہاں بیان کئے دیتا ہوں کہ اس سال ماہ رمضان میں دس پاروں کا درس ہوا تھا مگر اس سے فائدہ اٹھانے کیلئے بہت کم لوگ آئے تھے آئندہ سال بھی اگر اللہ تعالٰی نے زندگی دی تو کوشش ہی کروں گا کہ پھر رمضان میں درس دوں اس موقع پر دوست یہاں آنے کی کوشش کریں اور قرآن کریم سیکھیں.یہ سات طریق ہیں ان کو لکھ لو اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو.خدا تعالی تمہیں توفیق دے.باتیں تو اور بھی کئی ایک بتانے والی ہیں لیکن وقت نہیں ہے اس لئے پھر سی.مشیت ایزدی کے ماتحت بوجہ بیماری اس سال درس نہیں ہو سکا.خاکسار مرزا محمود احمد
وم جلد ۴ ۱۴۵ حقیقة الرؤيا ( تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۱۷ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی حقیقتها
الدما
انوار العلوم جلدم ۱۴۷ حقيق الرؤيا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ حقيقة الرؤيا (فرموده ۲۸ - دسمبر ۱۹۱۷ء بر موقع جلسہ سالانہ قادیان) أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَالنَّحْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا وَحْيٌ يُوحَى عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوَى ذُو مِرَّةٍ فَاسْتَوَى وَهُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَى ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَى فَأَوْحَى إِلَى عَبْدِهِ مَا أَوْحَى مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى أَفَتُمُرُونَهُ عَلَى مَا يَرَى وَلَقَدْ رَاهُ نَزَلَةٌ أُخْرَى عِنْدَ سِدْرَةِ الْمُنْتَهى.عِنْدَهَا جَنَّةُ الْمَأْوَى إِذْ يَغْشَى السّدْرَةَ مَا يَغْشَى مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَى لَقَدْ رَأى مِنْ أَيْتِ رَبِّهِ الْكُبْرَى (النجم: ١٩٢١) گل میں نے جو تقریر کی تھی اس کے بعض حصے رہ گئے تھے جو میرے نزدیک بعض اہم اور ضروری امور پر مشتمل تھے لیکن چونکہ وہ مستقل اور علیحدہ مضامین تھے اس لئے ان کے نہ بیان کرنے کی وجہ سے تقریر کے پورا ہونے میں کوئی نقص اور حرج نہیں ہوا اور آج بھی میں ان کو چھوڑ کر ہی مضمون کو بیان کرتا ہوں جس کے سنانے کا آج ارادہ تھا مگر پیشتر اس کے کہ اس مضمون کو شروع کروں اختصار کے ساتھ بعض کل والی باتیں بیان کرتا ہوں.میں نے گزشتہ سالانہ جلسہ پر اپنی جماعت کو اس طرف متوجہ کیا تھا کہ وقت بہت نازک ہے اس لئے اپنے فرائض سمجھنے کی طرف بہت زیادہ توجہ ہونی چاہئے سو خداتعالی کا فضل اور احسان ہے کہ جماعت نے اس نصیحت کو سنا ہی نہیں بلکہ بہت حد تک اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.لَمِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم:(۸) اگر تم شکر کرو تو میں اور زیادہ انعام کروں گا.اس لئے پہلے تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور پھر آپ لوگوں کو مکرر توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارا کام کوئی ایک سال کا کام نہیں کہ ایک سال کوشش کر کے کہیں کہ بس ختم کر لیا بلکہ ہمارا وہ کام ہے جو زندگی بھر ختم ہونے والا نہیں ہے.اس لئے آپ لوگ خوب یاد رکھیں کہ خدمت دین کا کام
انوار العلوم جلدم ۱۴۸ حقيقة الرؤيا کوئی ایک سال کیلئے نہ تھا بلکہ ہمیشہ ہمیش کیلئے ہے اور تمہیں کسی سال بھی اس کے کرنے میں سُست اور غافل نہیں ہونا چاہئے.میں نے تمہیں صرف اسی سال کیلئے نہیں سمجھایا تھا جو گذر گیا ہے بلکہ آئندہ کیلئے بھی اور اس وقت تک کیلئے بھی جب تک کہ میں اور آپ زندہ ہیں نصیحت کی تھی.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ لوگ کوشش اور محنت کے ساتھ اس ترقی کو جو اس سال کی ہے آئندہ کیلئے بھی جاری رکھیں گے اور علاوہ مالی خدمات کے تبلیغی خدمات میں بھی کمی نہ آنے دیں گے.بیشک سلسلہ کو مالی خدمات کی بھی ضرورت ہے اور بہت بڑی ضرورت ہے لیکن تبلیغی خدمات کی اس سے بھی بڑھ کر ضرورت ہے اس لئے آپ لوگ جہاں مالی خدمات کی طرف توجہ کریں وہاں تبلیغی خدمات سے بھی غافل نہ رہیں.مت دین کیلئے زندگی وقف کرنے کی تحریک خدمت دین کو ایک اعلیٰ پیمانہ پر جاری کرنے کیلئے چند دن ہوئے میں نے تجویز کیا تھا کہ ہماری جماعت کے کچھ دوست اپنی زندگیاں اس شرط پر وقف کریں کہ کلی طور پر وہ اپنے آپ کو میرے سپرد کردیں تا میں انہیں تبلیغ کے کام میں جس رنگ اور جس طریق.مناسب سمجھوں لگادوں.انہیں جماعت کے فنڈوں سے کوئی تنخواہ یا کسی قسم کی مدد نہیں دی جائے گی بلکہ انہیں خود ہی محنت اور مشقت کر کے اپنے اخراجات کو چلانا اور اپنی ضروریات کو پورا کرنا ہوگا.اس تجویز کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جس کام کا کرنا ہمارے سپرد کیا گیا ہے وہ اتنا بڑا ہے کہ اس کا بوجھ روپے نہیں اٹھا سکتے ، پھر ہماری جماعت کی تعداد دنیا کے مقابلہ میں بہت قلیل ہے اور غریبوں کی جماعت ہے، اس کے پاس اتنا روپیہ ہی کہاں ہے کہ اس کے ذریعہ دنیا کو فتح کرسکے.پس جب مالی طور پر یہ کام نہیں ہو سکتا تو اس طرح ہونا چاہئے کہ کچھ لوگ بعض ایسے پیشے اور ہنر سیکھیں جن کے ذریعہ وہ اپنی ضروریات کا خود انتظام کر سکیں اور جہاں انہیں تبلیغ کیلئے بھیجا جائے وہاں چلے جائیں.اس اعلان میں میں نے میں آدمی مانگے تھے لیکن اس وقت تک تمہیں کی درخواستیں آچکی ہیں جن میں سے تین گریجوایٹ ہیں اور چھ سات مولوی ہیں اور چھ سات ایسے ہیں جو اچھی تنخواہیں پاتے ہیں.انہوں نے اپنی زندگیاں وقف کرنے کی درخواستیں دی ہیں اور لکھا ہے کہ خواہ ہمیں سوکھے ٹکڑے کھا کر ہی کیوں نہ گزارہ کرنا پڑے ہم دین کیلئے اپنی زندگیاں وقف کرنے کیلئے تیار ہیں.ہم اپنا گزارہ خود کریں گے اور جہاں ہمیں بھیجا جائے گا وہیں جائیں گے.میں سمجھتا ہوں ہماری جماعت کے لوگوں کا اس قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا ہی بغیر کسی اور دلیل کے ہمارے سلسلہ کی صداقت کا بہت بڑا ثبوت ہے.میں پورے وثوق کے
حقيقة الرؤيا انوار العلوم جلد ۴ مضمون ۱۴۹ ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ دوسرے مسلمان کہلانے والوں میں اگر یہ اعلان کیا جائے تو ان لیاقتوں اور قابلیتوں والے انسان بڑی بڑی اپیلوں اور پر زور لیکچروں کے ساتھ بھی نہ مل سکیں گے.مگر یہاں دیکھو صرف ایک خطبہ میں اعلان کیا جاتا ہے اور مطالبہ سے زیادہ آدمی تیار ہو جاتے ہیں جن میں سے اکثر مختلف کام جانتے ہیں لیکن چونکہ ضروریات بہت زیادہ ہیں اور ہر ایک شخص اس کام کے قابل بھی نہیں ہوتا، پھر یہ بھی ہے کہ بعض جن کاموں پر لگے ہوئے ہیں ان کا وہیں رہنا ضروری ہے اس لئے ابھی ضرورت ہے کہ اور دوست بھی اس قربانی کیلئے اپنے آپ کو پیش کریں.پس اس وقت میں اعلان کرتا ہوں کہ اور دوست بھی اس کام کی اہمیت کو سوچیں، غور کریں اور استخارہ کریں اور پھر اگر اپنے آپ کو وقف کرنے کیلئے تیار ہوں تو مجھے اطلاع دیں تاکہ ہمیں آدمی اتنی تعداد میں حاصل ہو سکیں جس سے مفید اور کام کے قابل اشخاص کو مچن لیا جاسکے.اس کے بعد میں اس مضمون کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو اس وقت بیان کرنے کا ارادہ ہے.میرے نزدیک یہ مضمون موجودہ زمانہ کیلئے نہایت ضروری اور مفید ہے نہایت اہم اور میرے خیال میں اس مضمون کو سمجھے بغیر بہت کم لوگ ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے بچ سکتے ہیں اس لئے میں خاص طور پر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اسے نہایت غور سے سنیں اور سمجھنے کی نیت اور ارادہ سے سنیں.کئی لوگ اکثر باتیں محض لطف اور مزے کیلئے سنتے ہیں مگر آپ لوگ سمجھنے اور یاد رکھنے کی خاطر سنیں.آپ لوگوں میں سے کئی ایک ایسے ہیں جنہوں نے تحریری طور پر یا زبانی اس بات کی شہادت دی ہے کہ ذکر الہی کے متعلق آپ نے قواعد اور طریق بتائے تھے ان پر عمل کر کے ہم نے بہت بڑا فائدہ اٹھایا ہے.میں یقین رکھتا وں کہ اگر وہ اس مضمون ہے." عمل کرنے کی کوشش کریں گے (گو اس کا کوئی ظاہری عمل نہیں بلکہ اس کو اپنے قلب میں بٹھانا اور یاد رکھنا ہے) تو اس زمانہ کے ابتلاؤں سے بہت حد تک محفوظ رہیں گے.یہ مضمون الہامات کشوف رؤیا اور خوابوں کی حقیقت کے متعلق ہے.حضرت مسیح موعود نے اس پر بہت کچھ لکھا ہے مگر افسوس کی بات تو یہ ہے کہ لکھے ہوئے پر بہت کم لوگ توجہ کرتے ہیں.قرآن کریم میں سبھی کچھ لکھا ہوا تھا مگر جب لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہ کی تو خدا تعالی کو اپنے ایک نبی کے ذریعہ دوبارہ سنانا پڑا.پھر حضرت مسیح موعود نے سبھی کچھ لکھا ہے اور جو کچھ تمہیں سنایا جاتا ہے وہ اسی درخت کی خوشہ چینی ہوتی ہے جو حضرت مسیح موعود نے لگایا ہے مگر اکثر لوگ چونکہ اپنے طور پر اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کرتے یا خود اس سے مستفید ہونے کی قابلیت نہیں رکھتے اس لئے ہمیں سنانا پڑتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ
انوار العلوم جلد ۴ ۱۵۰ حقيقة الرؤيا خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو جس رنگ میں ہلایا ہے اس سے آپ لوگ ضرور یہ سبق حاصل کریں گے کہ دین کی باتوں کو غور سے سننا اور اچھی طرح سمجھنا نہایت ضروری ہے.کیسا حیرت کا مقام ہے کہ اس وقت دو گروہ کھڑے ہیں جن میں سے ایک تو کہتا ہے کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب خدا کے نبی اور رسول ہیں اور دوسرا کہتا ہے کہ نبی نہیں ہیں.اس وقت اس بات کو جانے دو کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر لیکن کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک گروہ ضرور ایسا ہے جو حضرت مرزا صاحب کی باتوں کو سنتا تھا مگر اس کا سننا نہ سننے کے برابر تھا وہ آپ کی تائید میں مضامین لکھتا اور کے لکھے ہوئے مضامین کو بڑھتا تھا مگر خود کچھ فائدہ نہ اٹھاتا تھا.ضرور ایک گروہ ایسا تھا جسے اب نقصان پہنچا ہے.اس گروہ کے پیدا ہونے کی وجہ یہی ہے کہ اس نے حضرت مسیح موعود کی باتوں کو غور و فکر سے نہ سنا ماننے اور قبول کرنے کیلئے نہ سنا جس سے اسے نقصان اٹھانا پڑا اور سیدھی اور صاف باتوں کے سمجھنے سے محروم رہ گیا.اس سے تمہیں یہ سبق حاصل کرنا چاہئے کہ ہر بات کو غور اور توجہ سے سننا چاہئے کیونکہ کسی بات کو خواہ وہ کیسی ہی آسان ہو اس کے بغیر انسان سمجھ نہیں سکتا اور جب سمجھ نہیں سکتا تو فائدہ بھی نہیں اٹھا سکتا.اس وقت جو مضمون میں بیان کرنے لگا ہوں اس سے بھی اسی وقت فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے جبکہ اسے غور سے سنا اور سمجھا جائے اس لئے جو دوست چاہیں اس کے نوٹ لکھتے جائیں.سمجھنے اور یاد کرنے کی یہ بھی ایک ترکیب ہے ورنہ یوں تو تقریر لکھی جارہی ہے چھپ کر ہر ایک تک پہنچ سکے گی.الهام کشف رویا اور خواب کا مسئلہ ایک ایسا اہم تمام مذاہب کی بنیاد مسئلہ الہام پر ہے مسئلہ ہے کہ تمام مذاہب کی بنیاد اس پر قائم ہوئی ہے.دیکھو اسلام اگر اپنی صداقت کی کوئی دلیل رکھتا ہے تو محض اس بات کے ثابت ہو جانے کی وجہ سے کہ خدا کلام کرتا ہے اور قرآن کریم خدا کا کلام ہے.اسی طرح اگر یہودیت عیسائیت اور دیگر مذاہب حقیقت رکھتے ہیں تو اسی امر پر کہ خدا کلام کرتا ہے اور ان کی کتابیں اس کا کلام ہیں.غرضیکہ جس قدر مذاہب دنیا میں پائے جاتے ہیں ان کی بنیاد اسی بات کے ثابت کرنے ہ ہے کہ الہام ایک حقیقت ہے.لیکن اگر آج کوئی جماعت ایسی نکل آئے جو ثابت کردے کہ الہام کوئی چیز نہیں، کشف کوئی حقیقت نہیں رکھتا، رویا ایک غلط خیال ہے، خواب محض وہم ہے تو تمام کے تمام مذاہب اور ساری کی ساری کتابیں جنہیں آسمانی کہا جاتا ہے باطل ہو جاتی ہیں.کیونکہ ان کی بنیاد اسی پر ہے کہ الہام ہے ، رویا ہے خواب ہے کشف ہے.اگر اس
دم جلد ۴ اها بنیاد کو گرا دیا جائے تو پھر کسی مذہب کا کچھ باقی نہیں رہتا.باقی حملے اور اعتراض اس قسم کے ہیں جو ایک ایک یا دو دو یا تین تین مذاہب پر پڑتے ہیں اور دوسرے ان سے محفوظ رہتے ہیں.لیکن یہ ان مسائل میں سے ہے کہ اس کے گرنے سے سارے مذاہب باطل ہو جاتے ہیں.ایک دو اور بھی ایسے ہی مسائل ہیں جن کے باطل ہونے پر یہی نتیجہ نکلتا ہے جیسا کہ ہستی باری کا مسئلہ ہے.پس اگر یہ ثابت ہو جائے کہ الہام رویا ، کشف اور خواب کوئی چیز نہیں تو اس کے بعد تمام مذاہب کو بیخ و بن سے اکھیڑنے کے لئے کسی اور حملہ کی ضرورت نہیں رہ جاتی.اور یہ نتیجہ سوائے ایک دو اور مسائل کے باقی باتوں سے نہیں نکلتا مثلاً اگر کوئی یہ ثابت کر دے کہ (نعوذ باللہ ) رسول کریم بچے نہ تھے.تو اس سے یہ معلوم ہو گا کہ اسلام سچا نہیں ہے.نہ یہ کہ اور بھی کوئی مذہب سچا نہیں ہے.یا اگر توریت کو انسان کا کلام ثابت کر دیا جائے تو اس سے یہودی مذہب باطل ہو جائے گا نہ کہ دوسرے مذاہب بھی.یا اگر دیدوں کو انسانی باتوں کا مجموعہ ثابت کر دیا جائے تو اس سے ہندو مذہب جھوٹا ہو جائے گا نہ کہ باقی مذہب بھی.لیکن اگر کوئی الہام اور وحی کو ہی غلط ثابت کر دے تو سارے کے سارے مذاہب باطل ہو جائیں گے اور صرف دہریت ہی دہریت رہ جائے گی.پس اس مسئلہ کا سمجھنا اور یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کیونکہ یہی ہر ایک مذہب کی بنیاد ہے.اگر اس سے واقفیت نہ ہو تو پھر کسی بات کی واقفیت کچھ کام نہیں دے سکتی.مگر افسوس کہ بہت کم لوگ ایسے ہیں جو اس کے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں.رؤیا کشف اور الہام کیا ہوتا ہے ؟ پہلے میں دعوئی بتاتا الہام کشف اور رؤیا کی تعریف ہوں.جو لوگ اس بات کے مدعی ہیں کہ الہام ، وحی رویا اور کشف ایک حقیقت ہے وہ ان کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ کسی بیرونی ہستی کی طرف سے ان حواس ظاہری کے علاوہ ان جو اس کے ذریعہ جو انسان کے باطن میں پائے جاتے ہیں کسی چیز کا دکھائی دینا یا کان میں ڈالا جانا خواہ ظاہری کانوں میں ڈالی جائے یا باطنی میں یا جو زبان پر جاری ہو جائے اس کا نام وحی الہام، رویا اور کشف ہے.دکھائی دینے والی چیزیں دو قسم کی ہوتی ہیں.یا تو تمثیل کے رنگ میں یا اصل نقشہ اور ہو بہو شکل میں پیش کی جاتی ہے.یہ ہے تعریف.آگے یہ بحث الگ ہے کہ یہ تعریف ٹھیک ہے یا نہیں.یا ایسا ہوتا بھی ہے یا نہیں.لیکن وحی اور
انوار العلوم جلدم ۱۵۲ الہام کے ماننے والے اپنا عقیدہ اور خیال یہی پیش کرتے ہیں.اس عقیدہ کے مخالف چار قسم کے لوگ ہیں.ایک تو الهام کشف رؤیا کے مخالفین وہ جو کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حواس باطنی کے ذریعہ جو چیز دکھائی یا سنائی دیتی ہے یا زبان پر جاری ہو جاتی ہے وہ کسی اور ہستی کی طرف سے بطور القاء کے ہو تا ہے غلط ہے.نہ کوئی الہام ہے نہ وحی بلکہ محض خیالات ہیں جو ایک بیماری کا نتیجہ ہوتے ہیں.جسم کے بعض حصوں میں نقص پیدا ہونے کی وجہ سے اس قسم کے خیالات پیدا ہونے لگتے ہیں یا آواز میں سنائی دینی شروع ہو جاتی ہیں اور غلطی سے سمجھ لیا جاتا ہے کہ یہ کوئی روحانی تصرف ہے.اب اگر ان لوگوں کی بات درست ثابت ہو جائے تو سارے مذاہب باطل ہو جاتے ہیں اور کسی کا بھی کچھ باقی نہیں رہتا اور بجائے اس کے کہ لوگ نبیوں کی اتباع کریں ان کو بیمار اور مریض سمجھنا پڑے گا اور نبوت کا دعویٰ کرنے والوں کی عزت کرنے کی بجائے انہیں طبیبوں اور ڈاکٹروں کے پاس علاج کرانے کے لئے جانا ہو گا تو ان لوگوں کی بات صحیح ثابت ہو جانے پر تمام مذاہب باطل ہو جاتے ہیں.دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو اس بات کے تو قائل ہیں کہ الہام اور رویا ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے کچی اور عمدہ باتیں معلوم ہو جاتی ہیں.نیز اس ذریعہ سے بڑے بڑے اعلیٰ درجہ کے دلائل اور براہین سے آگاہی ہو جاتی ہے.لیکن ساتھ ہی وہ اس بات کے بھی قائل ہیں کہ یہ سب کچھ خدا تعالی کی طرف سے نہیں ہو تا بلکہ یہ ایک کسی عمل ہے اور ہر مذہب و مت کا انسان اسے سیکھ لیتا ہے.اس گروہ کو انگریزی میں سپر چولسٹ کہتے ہیں اور اسی کی ایک شاخ تھیا سوفیکل سوسائٹی ہے.اس گروہ کا دعوی ہے کہ الہام اور وحی کسی بالا ہستی کی طرف سے نہیں ہو تا بلکہ انسان کے اندر ہی کچھ باطنی قومی ایسے ہیں کہ ان کو طاقت دینے اور مشق کرنے سے انسان ترقی کر کے الہام اور وحی حاصل کر سکتا ہے اور خواہ وہ کسی مذہب کا ہو ایسا کرنے سے اسے الہام ہونے لگ جاتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ خلا میں ہماری ہر ایک حرکت اسی طرح محفوظ اور نقش ہو جاتی ہے جس طرح فونوگراف کے ریکارڈ پر الفاظ محفوظ ہو جاتے ہیں.اور جس طرح فونوگراف کی سوئی ان الفاظ کو سنا دیتی ہے اسی طرح انسانی دماغ میں ایسی طاقتیں ہیں جو سوئی کا کام دیتی ہیں اور بظاہر پوشیدہ الفاظ کو سنادیتی ہیں.اس میں خدا کا کوئی دخل نہیں
العلوم جلد ) ۱۵۳ حقیقته الرؤيا ہے.ہر مذہب وملت کے انسان کے دماغ میں یہ بات پائی جاتی ہے اور اگر وہ کوشش کرے تو اس سے کام لے سکتا ہے.یہ بات بھی اگر کچی ہو جائے تو تمام مذاہب باطل ہو جاتے ہیں.کیونکہ انبیاء کو تو اس لئے قبول کیا جاتا ہے کہ وہ ہمارے خالق اور مالک کی طرف سے آتے اور اس کی باتیں ہمیں سناتے ہیں.لیکن اگر وہ اپنے پاس سے ہی سناتے ہیں تو ان کی باتیں ماننے کی کیا ضرورت ہے.کیوں نہ خود ہی قوت حاصل کر لی جائے جو انہوں نے اپنے آپ میں پیدا کر لی ہوئی ہے.تیسری قسم کے وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کے خیال کو بھی درست مان لیا جائے تو بھی مذاہب کی بیخ دین اکھڑ جاتی ہے.یہ لوگ بظاہر تو اس بات کے مدعی ہیں کہ وحی الہام ، رؤیا اور کشف واقعہ میں درست ہیں اور خدا کی طرف سے ہوتے ہیں.مگر وہ اس دروازہ کو اتنا وسیع کرتے ہیں کہ جس سے الہام اور وحی پانے والوں سے بھی ایمان اٹھ جاتا ہے.کیونکہ اگر ایک شخص آکر کہے کہ میرے پاس بڑا مال ہے مگر نکلے اس کے پاس صرف ایک دھیلا تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس قسم کا دعوی کرنے والے سارے ایسے ہی ہوتے ہیں.تو ان کی بات ماننے سے بچے مدعیانِ الہام اور وحی کی بھی کچھ قدر و منزلت نہیں رہتی.چوتھی قسم کے لوگ وہ ہیں جو مدعی ہیں کہ تمام انبیاء کو خدا کی طرف سے وحی اور الہام ہوتے ہیں.مگر اس کے ساتھ ہی وہ ایسی قیود لگا دیتے ہیں کہ جن کو درست مان لینے پر تمام نبیوں کے الہام باطل ہو جاتے ہیں.اور جہاں تیسرا گروہ اس قدر وسعت اختیار کرتا ہے کہ جس کو ماننے کی وجہ سے سب نبی بے قدر اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں وہاں یہ چوتھا گر وہ ایسی تنگی اختیار کرتا ہے کہ جسے مان لینے کی وجہ سے کسی نبی کی بھی نبوت اور رسالت ثابت نہیں ہو سکتی.اس میں ایک تو غیر احمدی لوگ شامل ہیں اور دو سرے وہ جو غیر مبائعین کہلاتے ہیں.تو یہ چار گروہ ہیں جو چار قسم کے خیالات رکھتے ہیں.ان میں مخالفین الہام کے دعاوی سے اول میں اس گروہ کو لیتا ہوں جو یہ کہتا ہے کہ انسان کے دماغ کی بناوٹ ہی اس قسم کی ہے کہ بعض خاص قواعد کی پابندی سے بعض غیب کی باتیں اسے معلوم ہو سکتی ہیں اور ان کے دلائل سناتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ در حقیقت انسان کا دماغ اس طرز پر بنا ہوا ہے کہ انسان کے سونے کی حالت میں بھی وہ کام میں لگا رہتا ہے.دن کو انسان چونکہ اور کاموں میں لگا رہتا ہے اس لئے جو کچھ اس کا دماغ سوچتا ہے اس کا نظارہ یا الفاظ
انوار العلوم جلدم و ۱۵۴ حقیقته الرؤيا مترتب نہیں ہو سکتے.مگر رات کو جب فارغ ہو کر سوتا ہے تو اس کے دماغ میں جو خیالات پیدا ہوتے ہیں وہ ایک نظارہ کے رنگ میں اسے دکھائی دیتے ہیں.اس کا نام الہام اور رویا ہے اور چونکہ اس وقت وہ غفلت کی حالت میں ہوتا ہے اس لئے سارے کے سارے اسے یاد نہیں رہتے.ورنہ جس وقت ہے کہ اس کی آنکھ لگتی ہے اسی وقت سے ایسے نظارے اسے دکھائی دینے لگ جاتے ہیں اور جب تک وہ نہیں جاگتا برابر دکھائی دیتے رہتے ہیں.اور اگر وہ یک لخت جاگ اٹھے یا ہلکی نیند ہو تو اسے یاد بھی رہ جاتے ہیں.اسی کا نام وحی اور الہام اور رویا رکھ لیا گیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کی خواہیں چار ماہ کے بچہ سے لے کر بوڑھے ہونے تک برابر روزانہ آتی رہتی ہیں.اور اس میں کسی نبی ، رسول اور ولی کا فرق نہیں ہے.ہر ایک انسانی خواہ کسی مذہب اور کسی عمر کا ہوا سے ضرور خوابیں آتی ہیں.ہاں کبھی اسے یاد رہ جاتی ہیں لیکن اکثر یاد نہیں رہتیں.یہ تو ان لوگوں کا خیال ہے.اور جو علم قلب جاننے کے مدعی ہیں وہ کہتے ہیں کہ وحی اور الہام صرف اس بات کا نام ہے کہ انسان کی قوت ارادی جب سلب ہو جاتی ہے تو مختلف خیالات اور نظارے دکھائی دیتے ہیں.انہیں نظاروں کا نام وحی رکھ لیا گیا ہے.وہ کہتے ہیں دیکھو انسان میں ایک ایسی قوت ہے کہ جس کے ماتحت اس کے تمام قومی کام کرتے ہیں.مثلاً انسان جب اپنے ہاتھ کو اٹھانا چاہے اسی وقت اٹھتا ہے اور جب گرانا چاہے گرتا ہے.یہ نہیں کہ وہ تو اٹھانا چاہے اور ہاتھ گر جائے.یا وہ گرانا چاہے تو ہاتھ کھڑا ہو جائے.یہ اسی قوت کی وجہ سے ہوتا ہے جسے قوت ارادی کہتے ہیں.سونے کی حالت میں چونکہ یہ قوت تارک العمل ہو جاتی ہے یا کمزور ہو جاتی ہے.اس لئے قوت واہمہ آزاد ہو کر خوب گشت کرتی ہے.اور اس کی بلند پروازی کو سوتا ہوا دماغ واقعات سمجھ لیتا ہے اور ایک خاص شکل اور آواز کی صورت میں انسان کے سامنے پیش کر دیتا ہے جو بوجہ غافل ہونے کے اسے حقیقت خیال کر لیتا تو ہے اور اس کا نام وحی یا الہام رکھ لیتا ہے.پھر انہیں میں سے جو محققین کہلاتے ہیں ان کا خیال ہے کہ الہام قوت ارادی کے تارک العمل ہونے کا نام نہیں بلکہ بات یہ ہے کہ انسانی جسم میں جو مختلف طاقتیں ہیں ان کے فارغ ہونے کی وجہ سے جب ان میں جوش پیدا ہوتا ہے اور وہ جوش دماغ تک پہنچنے لگتا ہے تو دماغ اس کی مختلف شکلیں بنا کر پیش کرنی شروع کر دیتا ہے.اس کا نام وحی اور الہام رکھ لیا جاتا ہے.ان لوگوں کی تحقیق ہے کہ جتنی صفائی کے ساتھ جوانی کے ایام میں خوابیں آتی ہیں اتنی
لوم جلد ۴ ۱۵۵ حقیقته الرؤيا صفائی کے ساتھ ڈھلتی جوانی میں نہیں آتیں.اور جب انسان ۶۵ سال کا ہو جاتا ہے تو بہت کم آتی ہیں.کیونکہ اس عمر میں حافظہ کمزور اور جذبات ماند پڑ جاتے ہیں.اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی معلوم کیا ہے کہ عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ خواہیں یاد رہتی ہیں.پھر یہ بھی کہ جن کو خواہیں زیادہ آتی ہیں وہ سوتے بھی زیادہ ہیں.پھر وہ خوابیں جو صاف طور پر یاد رہتی ہیں وہ رات کے آخری حصہ میں آتی ہیں.وجہ یہ ہے کہ چونکہ انسان دنیاوی خیالات میں مشغول ہونے کی حالت میں سوتا ہے.اس لئے ابتدائی نیند میں اس کے خیالات دنیا سے بالکل منقطع نہیں ہو جاتے.لیکن جوں جوں وقفہ پڑتا جاتا ہے اس کے تو ہمات آزاد ہوتے جاتے ہیں.اور زیادہ بلند پروازی کرنے لگتے ہیں.اور ایسی حالت میں جو نظارہ دیکھتا ہے اس کے اثرات زیادہ گہرے ہوتے ہیں.اور اس لئے بھی اس وقت کی خواب زیادہ یاد رہتی ہے کہ آخری وقت میں انسان کے جاگنے کا وقت قریب ہوتا ہے.پس اٹھنے پر اس وقت کی خواہیں زیادہ یاد ہوتی ہیں.یہ بھی تحقیق کی گئی ہے کہ دس فیصدی آدمی ایسے ہیں کہ جن کو کبھی کوئی خواب نہیں آتی یا اس علم کے محققوں کے قول کے مطابق یوں کہنا چاہئے کہ ان کو خواب بالکل یاد نہیں رہتی.یہ باتیں پیش کر کے وہ کہتے ہیں کہ دیکھو ان سے ثابت ہو گیا کہ جن نظاروں کا تم وحی اور رو یا نام رکھتے ہو ان کا انسان کے جسم کے ساتھ تعلق ہے نہ کہ کوئی بیرونی ذریعہ ان کا موجب ہے.لیکن یہ خیالات کوئی جدید نہیں ہیں بلکہ قدیم سے چلے آئے ہیں.ارسطو اور افلاطون کا بھی یہی خیال تھا اور اس زمانہ میں بھی یہی کہا جاتا ہے.خواب کے ایک طبعی امر ہونے کی تائید میں اور کسی طاقت بالا کی طرف سے اس کے ظاہر ہونے کی تردید میں یہ لوگ ان واقعات سے یہ نتائج نکالتے ہیں کہ :- (۱) چونکہ جسمانی حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ خوابوں میں بھی تغیر ہوتا رہتا ہے اس سے معلوم ہو گیا کہ یہ قانون شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ قانون قدرت کے ماتحت ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ حالات کے تغیر کے ساتھ ساتھ ان نظاروں میں بھی تغیر واقع ہوتا جاتا ہے مثلاً جوانی میں زیادہ بڑھاپے میں کم عورتوں کو مردوں کی نسبت زیادہ خوابوں کا آنا وغیرہ وغیرہ.پس یہ امور دلالت کرتے ہیں کہ خوامیں جسم کے تغیرات کے ساتھ بدلتی رہتی ہیں اور جسم سے ہی تعلق رکھتی ہیں.(۲) وہ کہتے ہیں کہ اگر خواب کا تعلق خدا سے ہوتا ہے اور وہ کسی شریعت پر کار بند کرنے کے
انوار العلوم جلد " ۱۵۶ حقیقته لئے اس طرح کلام کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ حیوانوں کو بھی خوابمیں آتی ہیں.وہ تو شریعت کے پابند نہیں ہیں.یہ تو میں نے بھی دیکھا ہے کہ کتا سوتے سوتے اس طرح بھونکتا ہے کہ کچھ دیکھ رہا ہے.یا اس طرح منہ ہلاتا ہے کہ کچھ کھا رہا ہے.وہ لوگ کہتے ہیں کہ حیوانوں کو خواب دیکھنے کا تجربہ اس طرح کر لو کہ ایک شکاری کتے کو شکار کے لئے لے جاؤ جب وہ خوب تھک کر چور ہو جائے تو اسے ملا دو اور اس کے پاس بیٹھ جاؤ.اس وقت وہ ایسی ہی حرکتیں کرے گا جیسی کہ شکار کے وقت کرتا تھا.اس کی یہی وجہ ہے کہ اسے وہ نظارے خواب میں دکھائی دے رہے ہیں.(۳) تیسری دلیل وہ اپنی تائید میں یہ دیتے ہیں کہ پیدائشی اندھے یا وہ جو چار پانچ سال کی عمر 1 میں اندھے ہو جائیں انہیں کبھی خواب میں نور دکھائی نہیں دیتا.اگر خواب کا تعلق خدا سے ہوتا تو چاہئے تھا کہ وہ بھی کبھی نور دیکھ لیتے مگر ایسا نہیں ہو تا.ہاں وہ جو پانچ اور سات سال کی درمیانی عمر میں اندھے ہوتے ہیں ان کی خوابوں کی تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اکثر کو خواب میں نور نظر آجاتا ہے اور بعض کو نہیں آتا.اور جو سات سال کے بعد اندھے ہوتے ہیں ان میں سے تمام کو نظر آجاتا ہے.سوائے ان کے جن پر لمبا عرصہ گزر چکا ہوتا ہے.اگر خدا تعالٰی کی طرف سے خواب دکھائی جاتی ہے تو اندھے کو کیوں نظر نہیں آتا.اس کو نظر نہ آنا اس پر دلالت کرتا ہے کہ خواب مادی اسباب کا نتیجہ ہے.چونکہ اندھے کے اندر دیکھنے کی طاقت موجود نہیں ہے اس لئے اس کی قوت متخیلہ نور کو پیدا نہیں کر سکتی لیکن اگر خدا تعالیٰ کی طرف سے خواب ہوتی تو وہ نور پیدا کر سکتا تھا.(۴) خواب کی وہ کیفیات جو پہلے بیان کی گئی ہیں یعنی خاص خاص جوشوں کے ماتحت خاص خوابوں کا آنا.روزانہ دیکھتے ہوئے نظاروں کا سامنے آنا وغیرہ.یہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خوابیں در حقیقت مادی اسباب کا نتیجہ ہیں نہ کہ اپنے اندر کوئی خاص معنی رکھتی ہیں.(۵) پانچویں دلیل وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ہمیں ایسے ظاہری اسباب ملتے ہیں جن سے ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ بناوٹی اور مصنوعی بات ہے.اور مشاہدہ خواب کے خدا تعالی کی طرف سے نہ ہونے پر ایک زبردست دلیل ہے.اور وہ کہتے ہیں کہ ہم خوابیں دکھا کر ثابت کر سکتے ہیں کہ یہ انسانی طاقت کی بات ہے.ہم یہ بھی بتا سکتے ہیں کہ اگر انسان کی فلاں حالت ہوگی تو فلاں قسم کی خواہیں اسے آئیں گی.اس امر کا تجربہ کر کے دیکھ لو جس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ
العلوم جلد ۴ خوابوں کا آنا مادی اسباب کا نتیجہ ہے مثلاً :- ۱۵۷ (1) جن لوگوں کے معدے اور دل میں کوئی خرابی ہو گی انہیں اڑنے یا اوپر سے نیچے گرنے کی خواہیں آئیں گی.اب اگر کسی کو اس قسم کی خواب آئے تو معدہ کے نقص کی وجہ سے آئے گی.لیکن ایک معتبر اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ اوپر سے نیچے گرنا کسی ابتلاء کے آنے کی علامت ہے.حالانکہ ابتلاء کیا آتا ہے وہ تو معدہ کے نقص کی علامت ہے.(۲) اسی طرح وہ کہتے ہیں اگر کسی کو بد ہضمی کی شکایت ہو تو وہ سونے کی حالت میں دیکھتا ہے کہ میرے سامنے آگ لگی ہوئی ہے اور میں پیچھے بھاگ نہیں سکتا.یہ سن کر معتبر تو کہے گا کہ تم پر کوئی مصیبت آنے والی ہے کسی ابتلاء میں بچھنے والے ہو.لیکن ایک ڈاکٹر ا سے بیماری سمجھے گا.(۳) پھر وہ کہتے ہیں تجربہ کر کے دیکھ لو.ایک سوئے ہوئے آدمی کے پاؤں کو ملا دو.جب وہ اٹھے تو اس سے پوچھو کہ کیا تم نے کوئی خواب دیکھی ہے.وہ کہے گا کہ میں نے دیکھا ہے پانی میں تیر رہا ہوں.یہ بات اگر کسی مجتر کے سامنے پیش کی جائے گی تو وہ کہے گا کہ تمہیں کوئی بڑی کامیابی حاصل ہونے والی ہے.حالانکہ یہ اس کے پاؤں کے سونے کا نتیجہ تھا.(۴) اسی طرح اگر سونے کی حالت میں رضائی یا کسی اور چیز کا ایسا بوجھ سینہ پر پڑ جائے جس سے سانس رک جائے تو خواب میں یہ نظر آئے گا کہ کوئی بڑا بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے جارہا ہوں.(۵) یا اگر سردی کے موسم میں اوپر سے کپڑا اتر جائے تو سونے والا دیکھے گا کہ میں بالکل ننگا ہو گیا ہوں.ان باتوں کا تجربہ کر کے دیکھ لو بالکل درست اور صحیح نکلیں گی.چنانچہ یورپ میں خوابوں کی تحقیقات کے لئے ایک کمیشن بنا تھا.اس نے مختلف حالتیں پیدا کر کے خواہیں دکھلائی تھیں.(۲) پھر یہ تو تجربہ شدہ بات ہے کہ اگر سوتے ہوئے کان میں چیونٹی گھس جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا تو پیں چل رہی ہیں.طبل بج رہے ہیں.بڑا شور و شر ہو رہا ہے.مگر جب آنکھ کھلتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ کان میں چیونٹی گھسی ہوئی تھی.(۷) اگر پانی کا چھینٹا سوتے ہوئے انسان کے بدن پر گر جائے تو وہ دیکھتا ہے کہ بارش ہو رہی ہے.
علوم جلد ۴ ۱۵۸ حقیقة الرؤيا (۸) اگر غلط طور پر لیٹنے سے دل کی دھڑکن پیدا ہو تو اس سے بھاگنے کی خواب نظر آتی ہے.(۹) سوتے ہوئے انسان پر کوئی چیز آگرے تو قتل یا گھر یا دیوار وغیرہ کے گرنے کی خواب نظر آتی ہے.(۱۰) اگر سوتے ہوئے سردی لگ جائے تو آدمی کو خواب میں یہ نظر آتا ہے کہ جنگل میں پڑا ہوا ہوں یا وسیع سمندر میں بہ رہا ہوں.(11) اعصاب کمزور ہوں تو قریب کے واقعات اکثر نظر آدیں گے.(۱۲) اگر اعصابی مرکزوں میں سے کسی مرکز کی طاقت بالکل خرچ ہو جائے تو ایسے شخص کو بار بار ایک ہی قسم کی خواب آتی ہے.یہ تمام باتیں ایسی بدیہی ہیں کہ ان کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.تجربہ ان واقعات کا شاہد ہے اور مشاہدہ ان امور کو ثابت کرتا ہے.روز مرہ ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور ڈاکٹروں نے خاص طور پر ان کا تجربہ کر کے ان کو پایہ ثبوت تک پہنچایا ہے.اور ڈاکٹروں کی بھی کوئی خصوصیت نہیں یہ ایسے امور ہیں کہ ان کے تجربہ کے لئے کسی خاص علم یا خاص آلہ کی ضرورت نہیں ہر شخص اپنے طور پر تجربہ کر سکتا ہے خصوصا وہ خواہیں تو بہت ہی ظاہر ہیں جو خاص بیماریوں کا نتیجہ ہوتی ہیں کیونکہ ان کا انکار کوئی کر ہی نہیں سکتا.پس یورپین فلاسفر کہتے ہیں کہ جب تجربہ خوابوں کو مادی اسباب کا نتیجہ ثابت کرتا ہے اور مشاہدہ اس پر دلیل ہے تو پھر ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اشارات قرار دینا اور حکمتوں پر مبنی قرار دینا جہالت نہیں تو اور کیا ہے.چونکہ ہر ایک انسان کی نظر باریک میں نہیں ہوتی اس لئے معترضین کے شکوک کا ازالہ شاید ان اعتراضات کو سن کر بعض لوگ خیال کریں کہ واقعی یہ بات کہ خدا کی طرف سے کوئی رؤیا یا خواب ہوتی ہے ایک مشکوک امر ہے.لیکن اصل بات کیا ہے کسی نے کہا ہے خشت اول چوں نهد معمار سج تاثر یا دیوار سج روو جب کسی عمارت کی بنیاد ہی معمار ٹیڑھی رکھے تو دیوار آخر تک ٹیڑھی ہی ٹیڑھی چلی جائے گی.ان لوگوں نے جن باتوں کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکالا ہے کہ خواب طبعی امر ہے وہ باتیں بے
ر العلوم جلدم ۱۵۹ حقیقته الرؤيا ا شک درست ہیں.لیکن جو نتیجہ نکالا ہے وہ درست نہیں.کیونکہ یہ امور یہ تو ثابت کرتے ہیں کہ خواب بعض بیماریوں کے نتیجہ میں بھی آجاتا ہے مگر یہ ثابت نہیں کرتے کہ خواب خدا تعالٰی کی طرف سے بطور ایک اشارہ اور ہدایت کے نہیں آتا بلکہ ہمیشہ بناوٹی ہی ہوتا ہے.اور ہم تو ہرگز اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ خواب کبھی بیماری کا نتیجہ بھی ہوتا ہے.ہمارا تو یہ دعویٰ ہے کہ خواب یا الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور ان باتوں سے ہمارے اس دعوئی کا رد ہرگز نہیں ہو تا بلکہ ہمارے دعوی کی تائید ہوتی ہے.کیونکہ اس قسم کے رویا کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے.اہل یورپ کہتے ہیں کہ ہم نے بڑی تحقیق اور کوشش سے ثابت کر لیا ہے کہ مصنوعی خوابیں ہو سکتی ہیں.ہم کہتے ہیں سبحان اللہ اس بات کے لئے ہمیں کوشش نہ کرنی پڑی.آپ لوگوں نے ہی کوشش کر کے قرآن کریم کی ایک صداقت کا اظہار کر دیا.اب اگر کوئی ہم سے سوال کرے کہ قرآن میں جو لکھا ہے کہ اضغات واحلام بھی کچھ ہے.کیوں نہ کہا جائے کہ دماغ کوئی خواب نہیں پیدا کر سکتا.اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ دماغ اس قسم کی باتیں پیدا کر لیتا ہے تو ہم اس کو کہیں گے کہ دیکھو ڈاکٹروں نے ثابت کر دیا ہے کہ ایسا ہوتا ہے.پھر تمہیں قرآن کریم کی اس بات کے ماننے میں کون سا عذر ہو سکتا ہے.تو محققین کے یہ ثابت کر دینے کی وجہ سے کہ دماغ پر متفرق طبعی اثر پڑ کر انسان کو خواب آجاتی ہے اسلام پر کسی قسم کی زد نہیں پڑتی بلکہ اسلام کی ایک بات کی تصدیق ہوتی ہے.کیونکہ اسلام خود اس قسم کی خوابوں کا ہونا تسلیم کرتا ہے.باقی رہا یہ کہ یہ ساری کی ساری خواہیں اسی قسم کی ہوتی ہیں یہ اہل یورپ کی تحقیقات سے ثابت نہیں ہو سکتا.انہوں نے جو کچھ ثابت کیا ہے وہ صرف یہی ہے کہ بعض ظاہری اور مصنوعی حالات اور تغیرات پیدا کرنے سے خوابیں آجاتی ہیں.یہ نہیں کہ ان ظاہری حالات اور تغیرات کے علاوہ کسی اور وجہ سے خوابیں آہی نہیں سکتیں اور ان کے آنے کا کوئی ذریعہ ہے ہی نہیں.پس انہوں نے بخیال خود اسلام کو اکھیڑنے کے لئے جو عمارت کھڑی کی تھی وہ نہ صرف یہ کہ بوسیدہ اور کمزور ہونے کی وجہ سے اسلام کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکی بلکہ اسلام کی صداقت کا موجب بن گئی ہے اور اس کے ذریعہ اسلام کی ایک بات کی تائید ہوگئی ہے.انہوں نے بڑی محنت اور کوشش سے ایک توپ خانہ تیار کیا تھا کہ اس سے اسلام پر گولہ باری کریں گے.مگر جب وہ تیار کر چکے ہیں تو وہ ان کے قبضہ سے نکل کر ہمارے تصرف میں آگیا ہے.کیونکہ جو کچھ انہوں نے تیار کیا تھا اس کو خود قرآن کریم پیش کرتا ہے اور کہتا ہے کہ
14.حقیقتها ایسی خواہیں حدیث النفس ہوتی ہیں.اس سے اسلام کی تردید کہاں ہوئی.ہاں جو مذہب اس بر بات کو بیان نہیں کرتا وہ برباد اور تباہ ہو جاتا ہے.مگر اسلام کی تو اور بھی صداقت ظاہر ہوتی ہے.اس ایک ہی جواب سے وہ سارے اعتراضات مٹ جاتے ہیں جو اندھوں کی خوابیں خواب کے متعلق اوپر ذکر ہو چکے ہیں.البتہ ایک بات خاص طور پر قابل غور ہے اور وہ اندھوں والی ہے.یہ زیادہ تشریح اور توضیح چاہتی ہے.کیونکہ وہ پوچھتے ہیں کہ اگر خوابوں میں خدا کا دخل ہوتا ہے تو کیوں اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہوتی جس تک انسان کے ظاہری قومی کی رسائی نہیں ہوتی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہوتی ہے مگر اس قسم کی نہیں جس قسم کی تم چاہتے ہو.اور یہ کسی امر کے غلط ہونے کی دلیل نہیں کہ جس طرح ہم کہتے ہیں اس طرح کیوں نہیں ہوتا.کیونکہ جس طرح ہونا ضروری ہوتا ہے اسی طرح ہوتا ہے.باقی رہا یہ کہ جس طرح ہوتا ہے وہ صحیح ہے یا نہیں.یہ بات دیکھنے کے قابل ہے.اگر وہ صحیح اور درست ثابت ہو جائے تو پھر مانا پڑے گا کہ جس طرح ہوتا ہے اسی طرح ہونا چاہئے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اندھوں کو جو خواب میں نور دکھائی نہیں دیتا ان کے لئے ایسا ہی ہونا ضروری تھا.اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خواہیں بندوں کو آتی ہیں وہ کوئی محض تماشہ اور دل لگی کے طور پر نہیں ہوتیں بلکہ اس کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے آتی ہیں.اس کے متعلق ضروری ہوتا ہے کہ ایسے ذریعہ اور ایسے طریق سے آئیں جس سے انسان آسانی کے ساتھ اسے سمجھ سکے اور ان سے فائدہ اٹھا سکے اب اگر کسی اندھے کو اس طرح خواب آئے کہ اس کو بینائی دی جائے اور اس سے کوئی نظارہ دیکھے تو جو اس کی حالت ہوگی وہ تی ڈاکٹروں سے پوچھ لو.انہیں خوب تجربہ ہے کہ جب کسی آنکھوں کے مریض کی ہیں پچیس دن کے بعد پٹی کھولتے ہیں تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے.وہ چلتے ہوئے لڑکھڑاتا اور ہر چیز کو حیرانی اور تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہے.حالانکہ ایک تھوڑے عرصہ کے بعد اس کی آنکھیں کھولی جاتی ہیں.اسی پر قیاس کرلو کہ جب ایک اندھے کو ایک لمبی مدت کے بعد نور دکھائی دے گا اور وہ بھی تھوڑی دیر کے لئے اور پھر اس سے چھین لیا جائے گا تو اس کی کیا حالت ہو گی.اور وہ اس سے کیا فائدہ حاصل کر سکے گا؟ کچھ بھی نہیں.وہ تو اس حالت کو دیکھ کر گھبرا جائے گا اور خواب کے مضمون کو اخذ ہی نہ کر سکے گا.مثلاً سرخ خون کا دکھائی دیتا جنگ کی علامت ہے.اب اگر
141 حقیقته الرؤيا کسی اندھے کو خواب میں سرخ خون دکھا دیا جائے تو بیدار ہو کر وہ کیا سمجھے گا کہ مجھے کیا دکھایا گیا ہے کچھ بھی نہیں.لیکن اگر اسے جنگ کی آواز سنائی جائے تو وہ فورا بتا دے گا کہ لڑائی اور جنگ کی طرف مجھے اشارہ کیا گیا ہے.پس یہی وجہ ہے جس کے لئے ضروری تھا کہ اندھے کو خواب میں واقعات کو متمثل کر کے دکھایا نہ جائے بلکہ اس کو آنے والے واقعات کا علم کان ناک یا زبان یا جس کے ذریعہ سے دیا جائے.خواب کے متعلق تحقیقات کرنے والے لوگوں کے مخالفین کی تحقیقات کے مفید نتائج تجارب سے ہمیں اپنے مطلب کی ایک بات حاصل ہو جاتی ہے.اور ایک عظیم الشان دلیل انبیاء کی صداقت میں ہمیں ملتی ہے جو یہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تحقیقات سے ثابت ہو چکا ہے کہ خواہیں اور الہام عورتوں کو بہت زیادہ ہوتے ہیں اور مردوں کو کم.اور اس سے اسلام کے دعوئی کی صداقت ثابت ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی طرف سے بھی خوابیں آتی ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جن لوگوں کو کثرت سے خواب اور الہام ہوتا ہے وہ ہمیشہ مرد ہی ہیں عورتوں سے کبھی کوئی نبی نہیں ہوئی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حدیث النفس اور دماغی بناوٹ کے ذریعہ خوابوں کے آنے کے علاوہ اور بھی ذرائع خواب * والهام کے ہیں.کیونکہ حدیث النفس کی نسبت ثابت ہے کہ اس کا زیادہ اثر عورتوں پر پڑتا ہے.لیکن نبوت کے متعلق ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں عورتیں حصہ دار ہی نہیں.اس دروازہ سے مرد ہی داخل ہواتے ہیں.جس سے معلوم ہوا کہ نبیوں کی خوابوں کا منبع اور ہے اور حدیث النفس کا منبع اور.(۲) اسی طرح علم کیفیات القلب کے ماہر کہتے ہیں کہ جن خوابوں کی ہم نے تحقیقات کی ہے وہ جوش جوانی میں کثرت سے آتی ہیں اور بڑھاپے میں بہت کم.حتی کہ ۶۵ سال سے زیادہ عمر میں بالکل بند ہو جاتی ہیں یا بہت ہی کم آتی ہیں.اور یہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا کی طرف سے بھی خواہیں آتی ہیں.کیونکہ انبیاء کو جوانی کی عمر گزار کر بڑھاپے میں ہی الہام اور خوابوں کی کثرت ہوتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ان خوابوں کا سلسلہ ہی اور ہے.اور وہ جن کی تحقیقات انہوں نے کی ہے بے شک وہ سلسلہ ایسا ہے جو عورتوں میں زیادہ پایا جاتا ہے اور مردوں میں کم.پھر وہ جوانی کے ایام میں زیادہ اور کثرت سے جاری ہوتا ہے اور بڑھاپے میں اکثر جگہ میں خواب کا لفظ طوالت سے بچنے کے لئے استعمال کرتا ہوں.ورنہ اس سے مراد رو یا الہام اور کشوف سب اقسام رہی ہیں.
رالعلوم جلد ۴ حقیقته الرؤيا کم یا بالکل بند ہو جاتا ہے.لیکن یہ تو وہ سلسلہ ہے جو مردوں سے تعلق رکھتا ہے نہ کہ عورتوں سے.اور جوانی کے بعد کثرت سے شروع ہوتا ہے نہ کہ بند ہو جاتا ہے.اس لئے ان دونوں میں بڑا فرق ہے اور دونوں ایک دوسرے سے الگ تھلک ہیں.اب میں کچھ اور اعتراض بیان کرتا ہوں جو ان لوگوں کو نہیں سوجھے لیکن حقیقت سے ناواقف طبیعتوں میں پیدا ہو کر ٹھوکر کا باعث ہو سکتے ہیں.ان کو پیش کر کے میں جواب دوں گا ناکہ کسی کو ان سے ٹھوکر نہ لگے.پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو منحوس اور اچھی خواہیں جب خواب آئے گی منحوس اور ڈراؤنی ہی آئے گی.اور بعض جواب ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو جب خواب آئے گی اچھی اور خوش کن ہی آئے گی.اب سوال پیدا تا ہے کہ اگر خوابیں خدا کی طرف سے ہوتی ہیں تو پھر ایسا ہونے کی کیا وجہ ہے.کیوں ہمیشہ ایک قسم کے لوگوں کو اچھی خوابیں ہی آتی ہیں اور دوسری قسم کے لوگوں کو بری.کیوں ایسا نہیں ہو تاکہ دونوں قسم کے لوگوں کو ملی جلی آئیں؟ اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جن لوگوں کو واقع میں حدیث النفس کے ماتحت منحوس خواہیں آتی ہیں ان سے ان کا کوئی نقصان نہیں ہوتا اور ان کی خواہیں لغو ہی جاتی ہیں.اسی طرح جن کو واقع میں حدیث النفس کے ماتحت اچھی خوابیں آتی ہیں ان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا اور ان کی خواہیں بھی لغو جاتی ہیں.اس لئے دونوں مساوی ہیں اور یہ دونوں قسم کے خواب دیکھنے والے باوجود مختلف قسم کی خواہیں دیکھنے کے در حقیقت ایک ہی درجہ کے آدمی ہیں.کیونکہ نہ ایک کو اس کی خوابوں سے کوئی نقصان ہے اور نہ دوسرے کو اس کی خوابوں سے کچھ فائدہ.پس ان دونوں کی نسبت تو ہمارا یہی جواب ہے کہ ان کی حالت بتا رہی ہے کہ ان کو حدیث النفس ہے اور جب ہم بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ حدیث النفس کا ہی نتیجہ ہے تو پھر کوئی بحث ہی نہ رہی.اس کے متعلق اگر کہا جائے کہ ایسی خواہیں جن کا نام تم حدیث النفس رکھتے ہو یہ بعض لوگوں کو منحوس ہی آتی ہیں اور پوری بھی ہو جاتی ہیں.اسی طرح بعض لوگوں کو اچھی آتی ہیں اور پوری بھی ہو جاتی ہیں جس سے معلوم ہوا کہ پہلی قسم کے لوگوں کو تو ان سے نقصان پہنچتا ہے اور دوسری قسم کے لوگوں کو فائدہ.اس طرح دونوں مساوی کس طرح ہوئے ؟
م جلد ۴ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ غلط ہے کہ وہ خواب جس کو ہم حدیث النفس کہتے ہیں کبھی پوری بھی ہو جاتی ہے.وہ کبھی پوری نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے.کیونکہ جب یہ مسلمہ امر ہے کہ انسان کا دماغ آئندہ ہونے والی بات کے متعلق کچھ نہیں بتا سکتا.تو پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایسی خواب جو دماغ سے ہی پیدا ہوئی ہو وہ پوری بھی ہو جائے.سوائے اس کے کہ کبھی بعض آئندہ آنے والے واقعات گزرے ہوئے واقعات کا نتیجہ اور ثمرہ ہوں یا کبھی اتفاقی طور پر کوئی بات درست نکل آوے.دراصل خواب کے پورا ہونے سے یہ غلط نتیجہ نکالا گیا ہے کہ حدیث النفس بھی پوری ہو جاتی ہے.بات یہ ہے کہ جو خواب پوری ہو جائے.وہ حدیث النفس کی وجہ سے پوری نہیں ہوتی بلکہ اس لئے پوری ہوتی ہے کہ خدا کی طرف سے ہوتی ہے.اس پر پھر وہی سوال پڑتا ہے کہ بعض لوگوں کو کیوں منحوس ہی خواہیں آتی ہیں اور بعض کو اچھی.کیا خدا ظالم ہے کہ ایک کو بری ہی خواب دکھاتا ہے اور دوسرے کو اچھی ہی.اس کا جواب یہ ہے.قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے مُلا تُمِد هَؤُلاَءِ وَهَؤُلاَءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ، وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُورًا (بنی اسرئیل (۲۱) یعنی ہم ہر ایک کی اپنی عطاء کے ساتھ مدد کرتے ہیں اور اس کی فریاد کو پہنچتے ہیں.ان کی بھی اور ان کی بھی اور تیرے رب کی عطاء کسی سے رو کی نہیں گئی.تو اسی سنت الہی کے ماتحت وہ لوگ جن کو ڈراؤنی اور بھیانک ہاتوں میں مزا آتا ہے ان کو کبھی کبھی ان کی طبیعت کے مطابق بھیانک اور ڈراؤنی خوابیں دکھائی جاتی ہیں اور بعض کو چونکہ اچھی اور خوشی پہنچانے والی باتوں سے محبت اور تعلق ہوتا ہے اس لئے ان کو اچھی خوابیں آتی ہیں.پس منحوس لوگوں کو ہی منحوس خوابیں آتی رہتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایسے لوگ کسی روحانی بلند مرتبہ اور اعلیٰ درجہ پر نہیں پہنچ سکتے اور کبھی کوئی نبی نہیں ہوا جس کو منحوس ہی منحوس خوابیں آتی رہی ہوں.پس ان لوگوں کی خوابیں بھی ہوتی تو خدا ہی کی طرف سے ہیں مگر ان کے حالات کے مطابق ہوتی ہیں کیونکہ ان کو منحوس باتوں سے ہی تعلق ہو تا ہے.اسی طرح جن کو اچھی باتوں سے تعلق ہوتا ہے ان کو اپنے حالات کے مطابق اچھی آتی ہیں تو یہ سب کچھ كُلا تمتُ هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ کے ماتحت ہوتا ہے.یہ تو ان لوگوں کا ذکر ہے جو ادنی درجہ کے ہوتے ہیں.لیکن بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک انسان مؤمن اور متقی ہوتا ہے.لیکن اسے منحوس خواب دکھائی جاتی ہے اور
145 حقیقته الرؤيا دوسرے کو اچھی اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ حکیم ہے اس کی کوئی بات حکمت کے خلاف نہیں ہوتی.اس کا ایسا کرنا بھی ایک بہت بڑی حکمت کے ماتحت ہوتا ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے اکثر مقامات پر بتایا ہے کہ بعض طبائع تو اس قسم کی ہوتی ہیں جو انعام پاکر جھکتی ہیں اور بعض اس قسم کی ہوتی ہیں جو سزا سے جھکتی ہیں.پس اس فطرتی تقاضا کے ماتحت وہ لوگ جن کی طبیعتیں ڈر اور خوف سے درست رہتی ہیں ان کو ڈراؤنی خواہیں دکھائی جاتی ہیں.کیونکہ اگر انہیں خوشی والی دکھائی جائیں تو ان کی طبیعتیں بگڑ جاتی ہیں اور ان کے لئے نقصان کا موجب بنتی ہیں.لیکن یہ انہیں لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے جو ابھی سلوک کے راستہ پر چل رہے ہوتے ہیں اور کسی منزل پر نہیں پہنچے ہوتے.ان پر جو تکلیف اور مصیبت آنے والی ہوتی ہے.وہ اگر نہ بھی بتائی جائے تو بھی آجائے گی لیکن جب انہیں قبل از وقت بتلا دیا جاتا ہے تو وہ اپنی اصلاح کر لیتے اور بچاؤ کے طریق سوچ لیتے ہیں.اس سے نہ صرف ان کے ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بلکہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے.لیکن ایک مؤمن ایسے ہوتے ہیں کہ انعام کے ملنے پر ترقی کرتے اور آگے بڑھتے ہیں.ان کی ترقی اور اصلاح کے لئے خدا تعالیٰ انہیں خوشخبری والی خوابیں دکھاتا رہتا ہے.تو یہ دونوں قسم کی خواہیں دو مختلف طبائع کے لوگوں کی اصلاح کے لئے ہوتی ہیں.اگر ان کی طبیعتوں کے مطابق ان کی خوابوں میں فرق نہ رکھا جائے تو وہ اس قدر ترقی نہیں کر سکتے جس قدر اس صورت میں کرتے ہیں.دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر واقعہ میں خدا کی طرف سے خواب ہوتی خواب کا بھول جانا ہے تو وہ بھول کیوں جاتی ہے.جب خدا انسان کے فائدہ اور نفع کے لئے اسے کچھ دکھاتا ہے تو پھر ضروری ہے کہ وہ اسے یاد بھی رہے تاکہ اس سے فائدہ اٹھا سکے لیکن کئی خواہیں بھول جاتی ہیں.جس سے یا تو یہ کہنا پڑے گا کہ یہ نفس کے خیالات ہوتے ہیں یا یہ ماننا پڑے گا کہ خدا بھی ایسے لغو کام کرتا ہے جن کا کوئی نتیجہ اور فائدہ مترتب نہیں ہوتا؟ اس کا ایک جواب تو یہی ہے کہ ہم مانتے ہیں بعض خواہیں حدیث النفس بھی ہوتی ہیں اگر وہ بھول جائیں تو کیا حرج ہے.لیکن اس کے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے بانی حضرت محمد ﷺ اور حضرت مرزا صاحب کو بھی بعض رویا بھول گئی تھیں.کیا ان کو بھی حدیث النفس کہو گے.ان کی تمام کی تمام رویا تمہارے نزدیک خدا کی طرف سے ہوتی تھیں پھر ان کو
العلوم جلد ۴ 145 حقیقته الرؤيا ا کیوں بھولتی رہیں.حدیثوں سے صاف طور پر پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم کو ایک رویا دکھائی گئی مگر آپ کو یاد نہ رہی.اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے بارہا کہا کہ مجھے خواب بھول گئی.اب جب کہ یہ ثابت ہو گیا کہ ایسے انسانوں کو بھی اپنی خواہیں بھول جایا کرتی ہیں جن کے نبی ہونے کی وجہ سے ان کی خوابوں کو تم حدیث النفس نہیں قرار دیتے تو تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان نبیوں کو حدیث النفس کے الہام بھی ہوا کرتے تھے.لیکن اس عقیدہ سے تو مذہب اسلام کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.کیونکہ اس طرح یہ مشکل آپڑے گی کہ قرآن کریم کی نسبت بھی شک پڑ جائے گا کہ اس کا بھی کچھ حصہ شاید حدیث النفس ہو.اور پھر چونکہ یہ امتیاز مشکل ہو جائے گا کہ کون سا حصہ حدیث النفس ہے اس لئے سارے قرآن پر سے اعتماد اٹھ جائے گا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے الہاموں میں بھی شبہ پیدا ہو جائے گا.کیونکہ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب کو بھی بعض اپنی رو یا یاد نہ رہیں.رسول کریم ﷺ کو اپنی خواب یاد نہ رہنے کی مثال تو صحیح بخاری میں موجود ہے کہ ایک دفعہ رمضان کے مہینہ میں آپ باہر تشریف لائے اور دیکھا کہ دو آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں.آپ نے انہیں فرمایا کیوں لڑتے ہو.مجھے لیلتہ القدر کے وقت کے متعلق بتایا گیا تھا مگر تم کو لڑتے دیکھ کر بھول گیا ہے.بخاری کتاب الصوم باب رفع معرفة ليلة القدر لتلاحي الناس) پس اس حدیث کے ہوتے ہوئے.خوابوں کے یاد نہ رہنے کے متعلق کیا جواب ہو سکتا ہے؟ اور حضرت مسیح موعود کے متعلق بھی کئی واقعات ثابت ہیں.مثلاً لیکھرام کے متعلق جو خواب تھی اس میں ایک اور شخص کی نسبت بھی کچھ ظاہر کیا گیا تھا جس کا نام بھول گیا.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ بعض خواہیں یاد نہیں رہتیں لیکن یہ نہیں کہ ہمیشہ بھول ہی جایا کرتی ہیں.بلکہ جو حدیث النفس کے ماتحت خواہیں آتی ہیں وہ بھول جایا کرتی ہیں.باقی رہا یہ کہ نبیوں کو کیوں بھولتی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کے تمام کاموں میں بڑی بڑی عجیب سمتیں ہوتی ہیں اور وہ عجیب عجیب طریقوں سے اپنے بندوں کے فائدہ اور ترقی کے سامان مہیا کرتا ہے.نبیوں کو رؤیا کا بھول جانا بھی خدا کی حکمت کے ماتحت انسانوں ہی کے فائدہ اور نفع کے لئے ہوتا ہے.مثلا لیلتہ القدر کے وقت کے متعلق جو خواب آئی اس کو دیکھو.اگر وہ یاد رہتی اور اس کے ذریعہ سے لیلتہ القدر کا عین وقت معلوم ہو جاتا تو اس سے روحانی ترقی کرنے میں اتنا فائدہ حاصل نہ ہو تا جتنا اب بھول جانے کی وجہ سے ہو سکتا ہے.اس کے بھلا
انوار العلوم جلد ۴ حقیقته الرؤيا سیکھیں.دینے سے منشاء الہی یہ تھا کہ مسلمان اس ذریعہ سے ایک بہت بڑا اور ضروری سبق اور جو سبق اس میں سکھایا گیا ہے وہ یہ ہے کہ دیکھو لڑائی جھگڑے کا نتیجہ کیسا خطرناک نکلتا ہے.صرف دو ہی شخص آپس میں لڑ رہے تھے کہ ان کی وجہ سے ایک بہت بڑے انعام کا پتہ بتلایا ہوا بھلا دیا گیا.اب اس طرح کرو کہ اس وقت کے پانے کے لئے رمضان کی آخری دس راتوں میں کوشش کرو اس میں یہ بتلایا گیا ہے کہ دیکھو صرف دو آدمیوں کی لڑائی جھگڑے سے جو نقصان پہنچا ہے اس کی تلافی کے لئے دس گنا زیادہ کوشش اور سعی کی ضرورت ہوتی ہے اور اگر زیادہ لڑیں گے تو اس کے نقصان کی تلافی کے لئے کس قدر کوشش کرنی پڑے گی.اگر یہ دو انہ لڑتے تو پھر اس قدر محنت اور مشقت کے برداشت کرنے کی ضرورت نہ ہوتی.یہ ایک بہت بڑا سبق تھا جس کو اگر مسلمان یاد رکھتے تو دنیا میں کبھی ذلیل و خوار نہ ہوتے.لیکن افسوس کہ انہوں اس کا خیال نہ رکھا.پھر اگر اس سال کی لیلتہ القدر کا وقت آنحضرت ا کو یاد رہتا اور آپ دوسروں کو بتا دیتے تو وہ اسی سال کام آسکتا تھا.کیونکہ ہر سال الگ دن میں یہ وقت آتا ہے.اب بھلا دینے کی صورت میں جو سبق سکھایا گیا وہ بہت اہم اور فائدہ بخش ہے اور ایسا سبق ہے کہ جتنا بھی اس پر غور کیا جائے اتنا ہی زیادہ مفید معلوم ہوتا ہے.اس کے علاوہ بھلا دینے کی اور بھی کئی ایک وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بات کے متعلق ہو شیار کرنا چاہتا ہے.مگر اس پر سے بالکل پردہ نہیں اٹھانا چاہتا.اس کے لئے الہام اور خواب دکھا کر بھلا دیتا ہے.اس طرح انسان کے قلب پر ایک اثر اور نقش قائم رہتا ہے.اس اثر کے قائم رہنے کا ثبوت یہ ہے کہ کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے.انسان کسی بات کے متعلق سوچتا ہے مگر اسے یاد نہیں آتی.لیکن کسی اور وقت وہ خود بخود بغیر اس کے سوچے کے اسے یاد آجاتی ہے.اس کی کیا وجہ ہے؟ - یہی کہ اس کا دماغ اپنے طور پر اس کی تلاش اور جستجو میں مصروف تھا مگر اس کو یہ معلوم نہ تھا کہ میرا دماغ کام کر رہا ہے.پس اسی طرح ایک دفعہ ایک خواب بظاہر بھول جاتی ہے اور انسان کے دماغ پر اس کا کوئی اثر معلوم نہیں ہو تا مگر فی الواقعہ دماغ پر اس کا اثر باقی ہوتا ہے اور دماغ اپنے طور پر اس سے فائدہ اٹھا رہا ہوتا ہے.گو اس انسان کو معین طور پر معلوم نہیں ہو تا کہ اس کا کیا اثر میرے قلب پر ہے.پس بعض دفعہ مصلحت الہی یہی چاہتی ہے کہ ایک رویا کے الفاظ محفوظ نہ رہیں لیکن ان کا اثر محفوظ رہے اور اس کے لئے ایک شخص کو رویا دکھا کر یا الہام کر کے نظارہ یا الفاظ بھلا دیئے جاتے ہیں.جس سے فائدہ بھی
انوار العلوم جلد ۴ 142 حقیقته الرؤيا ہوتا ہے اور آئندہ کے واقعات پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے.یہ ایک ایسا اصل ہے کہ جس کا اعمال قلب کے واقف ہر گز انکار نہیں کر سکتے.اب میں اس گروہ کو لیتا ہوں جو یہ تو مانتا ہے کہ خواب اور رؤیا دیکھنا کسی بات نہیں رویا کچی ہوتی ہیں اور حدیث النفس ہی نہیں ہوتیں مگر ساتھ ہی کہتا ہے کہ یہ کسی علم ہے ہر ایک انسان جو کوشش کرے وہ اسے حاصل کر سکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ہم مانتے ہیں کہ جس طرح بعض خواہیں حدیث النفس ہوتی ہیں اسی طرح خوابوں کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو کسب سے تعلق رکھتی ہے اور اس کو بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے مگر باوجود اس بات کے تسلیم کرنے کے یہ کہاں سے ثابت ہو گیا کہ خدا کی طرف سے خوابیں ہوتی ہی نہیں.کیا اگر یہ ثابت ہو جائے کہ زید بول سکتا ہے تو یہ بھی ثابت جائے گا کہ عمر نہیں بول سکتا، ہر گز نہیں.اسی طرح اس بات کے ثابت ہونے کی وجہ سے کہ کسی خواہیں بھی ہوتی ہیں یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ خدا کی طرف سے ہوتی ہی نہیں.وہ لوگ جو خوابوں کو صرف کسی عمل قرار دیتے ہیں.خواہیں دیکھنے کے لئے مختلف طریق اختیار کرتے ہیں.مثلاً پانی کا گلاس بھر کر اپنے سامنے رکھ لیتے ہیں اور اس میں دیکھنا شروع کر دیتے ہیں یا کبھی شیشہ پر نظر جما کر بیٹھ جاتے ہیں یا کبھی سیاہی کو سامنے رکھ کر دیکھنے لگ جاتے ہیں.اس طرح انہیں کچھ نظارے نظر آجاتے ہیں پھر بعض یوں بھی کرتے ہیں کہ یکسو اور خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں.اس طرح ان پر نیند غالب ہو جاتی ہے اور اسی حالت میں وہ اپنے کسی عزیز اور دوست کو دیکھ لیتے اور اس سے باتیں کر سکتے ہیں.مگر ان باتوں سے یہ ہرگز ثابت نہیں ہو تاکہ تمام کی تمام خواہیں اسی قسم کی ہوتی ہیں اور کسی طریق پر پیدا کی جا سکتی ہیں.ہاں ایک قسم کسی خوابوں کی بھی ہے اور قرآن کہتا ہے کہ ایسا ہوتا ہے.مگر اس سے اس کی بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ خدا کے فضل کے ماتحت خواہیں ہوتی ہی نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ کسی خوابیں ہوتی ہیں اور وہ شیطانی ہوتی ہیں.کوئی انسان جب یہ خواہش کرتا ہے کہ میں بھی نبیوں کی طرح خوابیں دیکھوں تو شیطان اس کی اس خواہش کو دیکھ کر اس سے تعلق پیدا کر لیتا ہے اور اسے شیطانی خواہیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.میں نے اس جماعت کے متعلق بڑا مطالعہ کیا ہے جس سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہماری جماعت کے راستہ میں ہندوستان اور یورپ میں اگر کوئی روک پیدا ہو گی تو اسی قسم کے لوگ ہوں گے اور ان کا مقابلہ بہت مشکل کام ہو
وہ رالعلوم جلد ۴ IMA حقیقته الرؤيا وہ گا.کیونکہ وہ بھی اسی بات کے مدعی ہوں گے جس کے ہم ہیں.لیکن جو کچھ وہ پیش کریں گے ؟ ہ نہیں ہو گا جو ہم پیش کرتے ہیں بلکہ اس کے بالکل خلاف ہو گا.اس لئے یہی خطرناک دشمن ہوں گے.ابھی تک ہماری جماعت نے اس خطرہ کو محسوس نہیں کیا.مگر میرے دل میں خدا نے آج سے دو سال پہلے یہ بات ڈالی تھی کہ ہماری ترقی کے راستہ میں یہی جماعت روک بنے گی.اس لئے میں نے ان کی باتوں کا خوب مطالعہ کیا ہے اور خدا کے فضل سے ان کے شر سے محفوظ مضمون رہنے کا توڑ بھی نکالا ہے.جس کے متعلق ارادہ ہے کہ رسالہ ریویو آف ریلیجنز میں لکھوں اور اس کا انگریزی ترجمہ یورپ میں بھی تقسیم کیا جائے.یہ گروہ مدعی ہے کہ ہمیں بھی خدائی الہام ہوتا ہے حالانکہ مذہب اسلام سے ان لوگوں کا کوئی تعلق اور واسطہ نہیں.ہم کہتے ہیں کہ صرف مذہب اسلام پر ہی چلنے سے خدائی الہام ہو سکتا ہے.اب اگر ان کی بات درست ثابت ہو جائے تو پھر اسلام کا کچھ باقی نہیں رہتا.میں نے ان کی کتابوں کا خوب مطالعہ کیا ہے.اس وقت ان کے متعلق تفصیلی بحث تو نہیں ہو سکتی مگر مختصر طور پر کچھ بیان کرتا ہوں.ہم تسلیم کرتے ہیں کہ اس قسم کی خوابیں آتی ہیں اور یہ بھی کہ اس قسم کی مشق رکھنے والے لوگ جب چاہیں کچھ نہ کچھ دیکھ لیتے ہیں.مگر ساتھ ہی اس کے ماننے میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ شیطانی خواہیں ہوتی ہیں.اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر ایک مذہب کا آدمی جب اپنے مذہب کے متعلق سوچتا ہے تو اسے یہی بتایا جاتا ہے کہ تمہارا مذہب سچا ہے.ایک ہندو کو ہندو مذہب سچا دکھائی دیتا ہے.ایک عیسائی کو عیسائیت کچی نظر آتی ہے.ایک یہودی کو یہودیت کچی دکھائی جاتی ہے.اور ایک مسلمان کو اسلام سچا دکھائی دیتا ہے.لیکن اگر یہ نظارے خدا کی طرف سے ہوں تو پھر ایسا نہیں ہو سکتا.پس یہ شیطان ہی کا کام ہے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ نسی اور مخول اور تماشہ کرتا ہے.میں نے ایسے لوگوں کے بہت سے تجربات کو جمع کیا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایک بات پر کبھی دو کا بھی اتفاق نہیں ہو تا ہر ایک اپنی اپنی سناتا ہے.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے جو الہام ہوتے ہیں ان کے پانے والوں میں یہ بات نہیں ہوتی.چنانچہ دیکھ لو جتنے انبیاء آئے ہیں وہ ایک ہی تعلیم لے کر آئے ہیں.کسی ایک بات میں بھی ان کا اختلاف نہیں ہے.لیکن ان کسی طریق پر خواہیں دیکھنے والوں میں سے دو کا بھی کسی ایک بات پر اتفاق نہیں ہے بلکہ سخت اختلاف ہے.پس ان کا اختلاف ثابت کر رہا ہے کہ ان کو جو
العلوم جلد ۴ 149 حقیقته الرؤيا کچھ دکھایا جاتا ہے وہ شیطانی کام ہے.(۲) پھر ان کے شیطانی ہونے کا ایک یہ بھی ثبوت ہے کہ جو خواہیں آئندہ کے متعلق ہوتی ہیں ان میں سے اکثر غلط اور جھوٹی نکلتی ہیں.ہاں کوئی بچی بھی نکل آتی ہے.چوہدری فتح محمد صاحب نے بتایا کہ اس علم کے ماہروں نے پیش گوئیوں کی ایک بڑی کتاب شائع کی تھی جن میں ایک پیش گوئی یہ بھی تھی کہ ۱۹۱۵ء میں جنگ کا خاتمہ ہو جائے گا اور قیصر جر من معزول ہو جائے گا.لیکن ان کی تمام کی تمام پیش گوئیاں جھوٹی نکلیں.تو یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ وہ شیطانی خواہیں تھیں.ان کو میں حدیث النفس کیوں نہیں کہتا.اس لئے کہ ان میں بعض باتیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جن کی وجہ سے انہیں شیطانی کرنا ضروری ہے ان کی تفصیل کا اس وقت موقع نہیں ہے.پھر یہ بھی ثابت شدہ بات ہے کہ ایسے لوگوں کو اکثر خوابیں ڈراؤنی ہی آتی ہیں.اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ ڈراؤنی خواب شیطان کی طرف سے ہوتی ہے.(بخاری كتاب التعبير باب الحلم من الشيطن، ان لوگوں میں سے ولیم اٹیکسن بڑا ماہر ہے.اس نے اس علم ، سے پر بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں.وہ کہتا ہے میں نے تجربہ سے یہ بات معلوم کی ہے کہ ہمیں اکثر خواہیں ڈراؤنی ہی آتی ہیں، معلوم نہیں اس کی کیا وجہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ شیطان کے پاس ڈرانے کے سوا اور رکھا ہی کیا ہے.انعام دینا تو اس کے اختیار میں نہیں.اس لئے جن سے اس کا تعلق ہوتا ہے انہیں ڈراتا رہتا ہے تاکہ وہ خوف کے مارے اس کے قابو میں رہیں.میری اس بات سے یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ انذاری خوابیں خدا کی طرف سے نہیں ہوتیں.ورنہ یہ ماننا پڑے گا کہ انبیاء کو جو انذاری الہامات ہوتے ہیں وہ نعوذ باللہ شیطان سے تعلق کی وجہ سے ہوتے ہیں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ انبیاء کو اکثر الہامات خوشخبری کے ہوتے ہیں اور بہت کم انزاری.لیکن ان لوگوں کو کثرت سے ڈرانے والی خوابیں آتی ہیں اور بہت کم خوشخبری والی.اور ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں اور کوئی ایک آدھ کبھی پوری ہو جاتی ہے.اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کی تمام شیطانی خواب کے پورا ہونے کی وجہ کی تمام خواہیں شیطانی ہوتی ہیں.تو ان میں سے کبھی کوئی پوری کیوں ہو جاتی ہے.کیا شیطان کو بھی کچھ علم غیب ہے کہ ایسا ہوتا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ قیاسی بات تو کبھی انسان کی بھی پوری ہو جاتی ہے.پھر شیطان کا کوئی نہ کوئی
ار العلوم جلد قیاس کیوں نہ پورا ہو.وہ تو انسان کی نسبت بہت ادھر ادھر پھرنے والا ہے.اور اس فن میں زیادہ تجربہ کار ہے وہ کبھی ثناء اللہ کے پاس جاتا ہے کبھی محمد حسین کے پاس.کبھی اور اسی قسم کے لوگوں کے پاس.اس طرح قیاس لگانے کا اسے زیادہ ملکہ حاصل ہوتا ہے.اس لئے اس کی بتائی ہوئی کوئی نہ کوئی بات پوری بھی ہو جاتی ہے.اب ایک اور سوال ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جب شیطانی اور رحمانی خواب میں فرق شیطان کی بتائی ہوئی بعض باتیں پوری ہو جاتی ہیں تو تو پھر کیونکر مانا جائے کہ مؤمنوں کی خواہیں قیاسی نہیں ہوتیں.وہ بھی قیاسی ہی ہوتی ہیں.اس کا کی جواب یہ ہے کہ جو شیطانی خوابیں ہوتی ہیں ان کے دو ایسے نشان ہیں جن سے قطعی طور پر ان کا شیطانی ہونا ثابت ہو جاتا ہے.ایک تو یہ کہ ایسے لوگوں کو ہمیشہ خواہیں اور کشوف انہی امور کے متعلق ہوتے ہیں جن کے کچھ نہ کچھ آثار ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں.لیکن جو رحمانی خواہیں اور کشوف ہوتے ہیں وہ اس وقت دکھائے جاتے ہیں جب کہ آثار و علامات کا کہیں نام و نشان نہیں ہوتا.اس کے متعلق یہی مثال دیکھ لو کہ اس علم کے مدعیوں نے قیصر کے معزول ہونے کی خواب اس وقت دیکھ کر پیشگوئی کی جب لڑائی شروع ہو چکی تھی.مگر حضرت مرزا صاحب نے زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار" (براہین احمدیہ حصہ پنجم جلد ۲۱ صفحه (۱۵۲) کی پیشگوئی اس وقت کی جب کہ لڑائی کا کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا.تو یہ ایک بہت بڑا فرق ہوتا ہے رحمانی اور شیطانی خواب میں.شیطانی خواہیں ان امور کے متعلق ہوتی ہیں جن کے آثار ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں.لیکن رحمانی خواہیں ان امور کے متعلق ہوتی ہیں جن کے ان کے دکھانے کے وقت کوئی آثار نہیں ہوتے بلکہ ان کے خلاف لوگوں کے خیالات ہوتے ہیں.مثلاً قرآن کریم میں بتایا گیا تھا کہ نہر سویز نکالی جائے گی چانچہ سورہ رحمن میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيْنِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِيْنِ ، فَبِأَيِّ الَآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّ بْنِ يَخْرُجُ مِنْهُمَا اللولو والمَرْجَانُ (الرحمن : ۲۰ تا ۲۳) کہ اے انسانو اور جنوا یعنی بڑے اور چھوٹے لوگو سنو! خدا نے اس وقت دو سمندر ایسے چھوڑے ہوئے ہیں جو ایک وقت آئے گا کہ آپس میں مل جائیں گے.یعنی ان کے درمیان کی خشکی دور ہو جائے گی اور دونوں سمندروں کے پانی
دم جلد م 141 حقیقته الرؤيا اکٹھے ہو جائیں گے اور ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک سمندر ہی کے ذریعہ جا سکیں گے.اب سوال ہو تا تھا کہ یہ کون سے سمندر ہیں جن کے ملنے کی خبر دی گئی ہے تو اس کا جواب سور ہے.ریا که يَخْرُجُ مِنْهُمَا NOUN NANGAGE : المَرْجَانُه که ان دونوں سے موتی اور مونگا نکلتا اب جغرافیہ میں دیکھ لو کہ وہ کون سے دو سمندر ہیں کہ جن میں سے ایک سے موتی اور دوسرے میں سے مونگا نکلتا ہے اور جن دونوں کے درمیان ایک چھوٹی سی خشکی واقع تھی کہ جس کی وجہ سے ایک کا پانی دوسرے کے پانی سے نہیں مل سکتا تھا.جغرافیہ بالاتفاق کہے گا کہ یہ دونوں سمندر بحیرہ احمر اور بحیرہ قلزم ہیں کہ اول الذکر اپنے قیمتی موتیوں کی وجہ سے مشہور ہے اور ثانی الذکر مونگے کی وجہ سے.پس اس علامت سے یہ بات روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ اس آیت میں بحیرہ احمر اور بحیرہ قلزم مراد ہیں.اور قرآن کریم نے آج سے تیرہ سال پہلے ان دونوں کے ملنے کی خبردی ہے.اور گوان کا نام نہیں لیا مگر ایسی علامتیں بتا دی ہیں جن کے ذریعے سے ان کے معلوم کرنے میں کوئی روک نہیں رہتی.چنانچہ ایک علامت تو میں ابھی بتا چکا ہوں دوسری یہ ہے کہ وَلَهُ الْجَوَارِ الْمُنْشَئْتُ فِي الْبَحْرِ كَالْأَعْلَامِ (الرحمن : (۲۵) کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ان سمندروں میں بڑے بڑے جہاز کھڑے کئے جائیں گے.اب دیکھ لو دنیا میں سب سے زیادہ جہاز نہر سویز ہی سے گزرتے ہیں.غرض یہ باتیں بہت ہی قبل از وقت بتادی گئیں.کیا کوئی انسانی عقل اور قیاس ہے جو ایسا کر سکے ہر گز نہیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی پیش گوئیاں ہیں جو بہت عرصہ پہلے سنا دینے کے بعد پوری ہو ئیں.تو خدا کی طرف سے جو الہام ہوتے ہیں ان کی یہ علامت ہوتی ہے کہ ان کے ذریعہ اس وقت کوئی بات بتلائی جاتی ہے جب کہ اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا اور نہ کسی انسان کے قیاس میں آسکتی ہے.مگر شیطانی خواہیں اس وقت آتی ہیں جب کہ علامات اور آثار کے ذریعہ قیاس کیا جا سکتا ہے گو پھر بھی بہت کم پوری ہوتی ہیں.ان کے امتیاز کی ایک اور بھی علامت ہے اور وہ یہ کہ شیطانی خواہیں کئی باتوں سے مرکب نہیں ہوتیں بلکہ مفرد ہوتی ہیں.اور مرکب بات کا ہی قبل از وقت بتانا زیادہ مشکل ہوتا ہے مثلاً قیاس کر کے یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ زید آئے گا اور ممکن ہے کہ وہ آبھی جائے لیکن اگر کہا جائے کہ زید آئے گا.اس کے سر پر فلاں قسم کی پگڑی ہوگی پائجامہ ایسا پہنے ہوئے ہو گا تو یہ قیاس نہیں ہو سکتا.تو ان لوگوں کی خواہیں بسیط ہوتی ہیں.اور قیاس بسیط کبھی پورا بھی ہو جاتا
رالعلوم جلد ۳ حقیقته الرؤيا ہے اور اگر مرتب ہوں اور کبھی پوری ہو جائیں تو پھر ان کا صرف ایک جزو ہی پورا ہوتا ہے اور باقی غلط ہو جاتے ہیں.مگر رحمانی خوابیں مرتب ہوتی ہیں اور ان میں بتائی ہوئی ساری کی ساری باتیں پوری ہو جاتی ہیں.اس کی مثال حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے بیٹے عبدالحی مرحوم کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی ہے.حضرت مسیح موعود نے خبر دی کہ مولوی صاحب کے ہاں لڑکا ہو گا.یہ خبر اس وقت دی گئی جب مولوی صاحب بڑھاپے کی عمر میں تھے.ان کی بی بی کو ایسی مرض تھی کہ اس کی وجہ سے پہلے سب بچے چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جاتے تھے.دو تین سال سے زیادہ کوئی لڑکا زندہ نہیں رہتا تھا.خود حضرت مولوی صاحب کی اولاد دوسری بیوی سے بھی سوائے لڑکیوں کے چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو جاتی تھی.ان حالات مخالف کی موجودگی میں حضرت مسیح موعود نے اپنا خواب بیان فرمایا کہ آپ کے ہاں بیٹا ہو گا اور اس دوسری بیوی سے ہو گا جس کی اولاد کے فوت ہونے پر دشمنوں نے ہنسی بھی کی تھی.اب تو اس عمر میں ہو سکتا ہے کہ اولاد بند ہی ہو جائے لیکن ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ خیال ہو سکتا تھا کہ آپ کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہو.مگر اس کے ساتھ رویا میں یہ شرط بھی لگی ہوئی تھی کہ وہ لڑکا ہو گا.ہم اسے بھی سمجھ لیتے ہیں کہ قیاس سے ایسا ہو سکتا تھا.مگر آگے جو علامات بتائی گئی ہیں کسی قیاس سے نہیں بتلائی جا سکتیں.چنانچہ آپ کو دکھلایا گیا کہ (۱) وہ لڑکا خوش رنگ اور سانولا ہو گا(۲) خوبصورت ہو گا (۳) اس کی آنکھیں بڑی بڑی ہوں گی (۴) اس عمر سے بڑھ جائے گا جس میں پہلے بچے فوت ہوتے رہے ہیں (۵) اس کے جسم پر اور خاص کر پنڈلیوں پر پھوڑے ہوں گے (۶) وہ پھوڑے اتنی دیر تک رہیں گے کہ ان کے نشان قائم ہو جائیں گے (۷) ان پھوڑوں کا علاج بتایا گیا.یہ اتنی باتیں ہیں جو قیاس سے ہرگز معلوم نہیں ہو سکتیں.کیونکہ قیاس سے کوئی ایک آدھ بات ہی معلوم ہو سکتی ہے نہ کہ اس قدر با تیں.اور اگر قیاس سے کوئی اس قدر شرطیں لگائے گا تو ضرور وہ قیاس جھوٹا نکلے گا.مگر یہاں تو سب باتیں بعینہ درست نکلیں پس رحمانی اور شیطانی خوابوں میں یہ دوسرا امتیاز ہے.(۳) تیسری علامت شیطانی خواب کی پہچان کی ایک یہ بھی ہے کہ اس خواب کی تائید کسی دوسرے شخص کی خواب سے نہیں ہوتی لیکن رحمانی خواب کی تائید خدا تعالیٰ دوسری جگہوں میں بکثرت پیدا کرتا رہتا ہے اور اپنے ماموروں کی تائید میں (1) ان کے ظاہر ہونے سے پہلے لوگوں کو خبر دیتا ہے (۲) ان کے وقت میں ایسے لوگوں کو خبر دیتا ہے جنہوں نے اس وقت تک ان
را العلوم جلدم کا نام بھی نہیں سنا ہو تا (۳) ایسے لوگوں کو خبر دیتا ہے جو ان کے دشمن ہوتے ہیں (۴) ایسے لوگوں کو خبر دیتا ہے جن کا مذہب ان کے مذہب سے بالکل مختلف ہوتا ہے.اور اسی طرح اپنے بعض اور بندوں کے لئے جن کو وہ چن لیتا ہے کرتا ہے مگر شیطان ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ یہ بات اقتدار کو چاہتی ہے اور شیطان کو کوئی اقتدار حاصل نہیں ہے.یہاں تک تو میں نے دو گروہوں کے خیالات اور اعتراضات کے متعلق بتایا ہے.اب رہ گئے باقی کے دو گروہ.ان کے خیالات کی تردید الہام اور خواب کی اس اصل حقیقت کے بیان کرنے میں ہی آجائے گی جو مجھے خدا تعالی نے قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود کی کتب سے سمجھائی ہے.اب میں اسے بیان کرتا ہوں.یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ رویا تین قسم کی رویا کی قسمیں اور ان کے مدعی ہوتی ہے (۱) نفسانی (۲) شیطانی (۳) رحمانی.اور رویا کے مدعی چار قسم کے ہوتے ہیں (۱) ایک وہ جنہیں کوئی رویا یا خواب دکھائی نہیں دیتی مگر وہ جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ ہمیں دکھائی گئی ہے (۲) وہ جن کو نفسانی خوابیں آتی ہیں (۳) وہ جن کو شیطانی خوابیں آتی ہیں (۴) وہ جنہیں رحمانی خوا ہیں اور رویا دکھائی جاتی ہیں.ان چاروں قسم کے مدعیوں کا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یوں ذکر فرماتا ہے.وَالنَّجْمِ إِذَا هَوَى مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْى يولى ٥ عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوی (النجم : ۲ تا ۶) فرمایا کہ ہم بُوٹی یا ستارہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں جب وہ گر جائے کہ یہ جو مدعی نبوت کھڑا ہوا ہے یہ گمراہ نہیں ہو گیا کہ جھوٹ بول رہا ہے.یہ کوئی ناوی نہیں ہے کہ اس کو کوئی الہام اور رویا تو ہوئی نہیں مگر یہ یونہی دعویٰ کرتا ہے کہ ہوتی ہے.اور اگر کہو کہ ہم یہ تو نہیں کہتے کہ یہ جھوٹ بولتا ہے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اس کے دماغ میں نفسانی خیالات پیدا ہوتے ہیں.فرمایا یہ بھی غلط ہے یہ ہوا و ہوس کے نیچے بھی نہیں بولتا.نہ اپنی خواہشات کے مطابق ایسا کہتا ہے بلکہ وحی ہے جو اس کی طرف کی جاتی ہے.یہاں جھوٹی، قیاسی اور نفسانی خوابوں کی تردید ہو گئی.اب رہ گئی تیسری قسم شیطانی خواب.اس کے متعلق فرمایا عَلَّمَهُ شَدِيدُ الْقُوی اس کو وحی شیطان کی طرف سے نہیں ہوتی بلکہ بڑی زبر دست طاقت والے خدا کی طرف سے ہوتی ہے.تو ان آیات میں خدا تعالیٰ نے چار قسم کے مدعیوں اور تین قسم کے خوابوں کا ذکر فرمایا
العلوم جلد یم حقیقته الرؤيا ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان خوابوں کا پتہ کس طرح لگے کہ فلاں جھوٹی ہے.فلاں شیطانی ہے اور فلاں خدا کی طرف سے ہے.جھوٹی رؤیا کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ جھوٹی وحی کی پہچان الأقاويل ، لأخَذْ نَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ فَمَا مِنكُمْ مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِيْنَ ٥ (الحالة: ۲۵ تا ۳۸) رسول کریم ﷺ کے متعلق خدا ه تعالیٰ فرماتا ہے.اگر یہ شخص اپنے پاس سے جھوٹ بنا کر الہام پیش کرتا تو ایسے لوگوں کے لئے ہم نے یہ قاعدہ مقرر کیا ہے کہ ایسے کو ہلاک کر دیتے ہیں اور اس کی تمام طاقت زائل کر دیتے ہیں.یمین کا لفظ دین کے معاملات کے متعلق آتا ہے اس لئے اس کے یہ معنی ہوئے کہ اگر یہ جھوٹ بنا کر پیش کرتا تو ہم اس کی دینی قابلیتیں سلب کر لیتے اور اس کی رگ جان کاٹ دیتے.اس رگ کے کاٹنے کے معنی صرف قتل کے نہیں بلکہ ہر قسم کی ہلاکت اور تباہی کے ہیں.اور خواہ کسی ذریعہ سے ہلاکت ہو وہ قطع و تین ہی ہوتی ہے تو یہ جھوٹے مدعی کی خدا تعالی نے علامت بتائی ہے.بعض لوگوں کو اس معیار غلطی خدائی کا دعوی کرنے والے کے ہلاک نہ ہونے کی وجہ کے متعلق ایک لگتی ہے.وہ کہتے ہیں کہ باب اور بہاء اللہ جھوٹی وحی کے مدعی تھے لیکن ہلاک نہیں ہوئے اس لئے یہ علامت درست نہیں ہے.ایسے لوگوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ باب تو ہلاک ہوا تھا اور بہاء اللہ پر بھی ہلاکت آئی تھی.لیکن اگر قطع و تین کے معنے قتل ہی لئے جائیں تو بھی یہ بات ثابت شدہ ہے کہ بہاء اللہ نے کبھی نبوت کا دعوئی نہیں کیا بلکہ خدائی کا دعویٰ کیا تھا اور یہاں خدائی کا دعوی کرنے والے کے ہلاک ہونے کا ذکر نہیں ہے بلکہ جھوٹی وحی بنانے والے یعنی جھوٹے نبی کی ہلاکت کا ذکر ہے.اب اگر کوئی کہے کہ خدائی کا مدعی تو جھوٹے نبی سے بھی زیادہ مجرم اور قابل سزا ہوتا ہے اس کو تو اس سے بھی بہت جلد ہلاک ہونا چاہئے.پس اس کے ہلاک نہ ہونے کی کیا وجہ ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی انسان کے جھوٹے نبی بننے سے تو لوگوں کو دھو کا لگ سکتا ہے کیونکہ بچے نبی بھی انسان ہی ہوا کرتے ہیں.لیکن کسی انسان کے خدائی کا دعوی کرنے سے کوئی دھوکا نہیں کھا سکتا کیونکہ کوئی انسان خدا نہیں ہو سکتا.تو چونکہ کسی کے خدا بننے سے لوگوں کو دھوکا نہیں لگ سکتا اس لئے اسے ڈھیل دی جاتی ہے.اور جھوٹے الہام
حقیقة الرؤيا ۱۷۵ ۴ کے مدعی سے دھو کا لگ سکتا ہے اس لئے اس کو جلدی پکڑ لیا جاتا ہے.چنانچہ ایک واقعہ مشہور ہے کہ کوئی شخص خدا بن بیٹھا تھا اور اپنے ساتھ چند چیلے ملالئے تھے جو اس کی حفاظت کرتے تھے.ایک دن وہ اکیلا بیٹھا تھا.ایک زمیندار نے آکر پکڑ لیا اور یہ کہہ کر کہ تو ہی وہ خدا ہے جس نے میرے باپ کو مارا تھا مارنا شروع کر دیا.اسی طرح جس قدر اس کے مرے ہوئے رشتہ دار تھے ان کا نام لیتا جاتا اور پیٹتا جاتا.آخر اس نے اقرار کیا کہ میں خدا نہیں تب اس نے چھوڑا.تو خدائی کا دعویٰ کرنے والا تو بہت جلد سیدھا کیا جا سکتا ہے اور اس سے کسی کو دھو کا بھی نہیں لگ سکتا اس لئے اسے ڈھیل دی جاتی ہے.مگر جھوٹے نبی سے دھو کا لگ سکتا ہے اس لئے اسے فوری سزادی جاتی ہے.اسی طرح بعض لوگوں کا خیال ہے کہ حدیث حدیث النفس والا انسان اور ہلاکت النفس والا انسان بھی ہلاک ہو جاتا ہے.مگر میرا یہ خیال نہیں ہے کیونکہ اس بیچارے کی تو عقل ہی ماری جاتی ہے اس میں اس کا کیا قصور ہے.ہلاکت تو اس کے متعلق ہے جو جان بوجھ کر جھوٹ بناتا ہے.اس لئے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پاگل ہو اور وہ دعوی کرے کہ مجھے خدا کی طرف سے الہام ہوتے ہیں لیکن ہلاک نہ ہو.اگر کہا جائے کہ پھر ایک پاگل اور سچے علم میں کیا امتیاز رہا تو یہ درست نہیں کیونکہ پاگل اپنی حرکت اور باتوں سے بہت جلدی شناخت کیا جا سکتا ہے.پس جس کی عقل ہی ٹھکانے نہیں ہوتی اس کو خدا نے پاگل پنے کی باتیں کرنے سے سزا کیوں دینی ہے پھر لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا میں صاف ان لوگوں کی طرف اشارہ ہے جو جان بوجھ کر خدا پر جھوٹ بناتے ہیں.پاگل بیچارہ تو ایسا نہیں کرتا اس لئے اس وعید کے نیچے کیونکر آسکتا ہے.یہ میں نے جھوٹے الہام اور خواب بنانے والے کی علامت بتائی حدیث النفس کی پہچان ہے.اب رہی حدیث النفس والے کی پہچان.اس کا ثبوت میں پہلے دے آیا ہوں کہ ڈاکٹروں نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے نفس سے ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں.لیکن اس کے متعلق ایک پختہ علامت یاد رکھنی چاہئے.بعض دفعہ ایسے لوگوں کو بھی جو کامل مؤمن نہیں ہوتے ایسی خوابیں آجاتی ہیں.عام طور پر مشہور ہے کہ رسول کریم کو کبھی احتلام نہیں ہوا تھا اور ہمارے لئے اس کی تصدیق بھی ہو گئی ہے.حضرت سیح موعود بھی فرماتے تھے کہ مجھے بھی کبھی نہیں ہوا.چنانچہ مجھے یاد ہے ایک دفعہ مسجد میں اس
164 حقیقته الرؤيا کا مرض کے طور پر ذکر تھا تو آپ نے حضرت خلیفہ اول سے پوچھا تھا کہ یہ کس طرح ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ اپنے ماموروں کو شیطان کے دخل سے محفوظ رکھتا ہے تاکہ اس کی وجہ سے انہیں اور نظاروں اور کشوف کے دیکھنے میں کسی قسم کا شک نہ پیدا ہو.تو حدیث النفس کے پہچاننے کی یہ ایک بہت پختہ علامت ہے کہ اس کا نقشہ نہایت باریک ہوتا ہے اور اس کے نظارہ کے سامنے آنے میں بہت سرعت اور تیزی ہوتی ہے.اس پر اچھی طرح نظر نہیں جسم سکتی.آنا فانا اس کا نقشہ اور رنگ بدلتا رہتا ہے.دوسرے ایسی خوابوں میں خواب دیکھنے والے شخص کی خواہشات کا بڑا دخل ہوتا ہے.اس لئے اس کی خواب کے پر لکھنے کے لئے اس کی خواہشات ، خیالات اور اس کے کاروبار کو دیکھنا چاہئے.اس طرح ایسی خوابوں کا کھوج نکل آتا ہے اور اصلیت معلوم جاتی ہے اور ہر انسان اپنی خواب کے متعلق معلوم کر سکتا ہے کہ وہ حدیث النفس تو نہیں تیسری قسم شیطانی خواب ہے اس کے پہچاننے کے چند ایک ذرائع شیطانی خواب کی پہچان ہیں اول یہ کہ یہ خواب اس قسم کی ہوتی ہے کہ اس میں زیادہ روشنی نہیں ہوتی کیونکہ شیطان کو انسان پر پورا تسلط نہیں ہے اس لئے اس کی طرف سے جو بات دکھائی جاتی ہے اس کا نقشہ واضح اور صاف نہیں ہو تا.دوم اس میں ایسی سرعت اور تیزی ہوتی ہے کہ وہ قلب پر اثر نہیں کرتی.خدا کی طرف سے جو وحی ہوتی ہے اس میں بھی سرعت ہوتی ہے مگر وہ دل پر نقش ہوتی جاتی ہے.سوم اگر اس خواب پر غور کیا جائے تو کوئی نہ کوئی بات ایسی مل جاتی ہے جس سے اس کا دین کے لئے مضر ہونا ثابت ہو جاتا ہے.کیونکہ شیطان تو انسان سے اپنا مطلب نکالنے آتا ہے.ورنہ اسے کیا ضرورت ہے کہ آئے.مگر اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ شیطان ایسا چالاک اور فریبی ہے کہ کبھی نیک بات بتا کر بھی دھوکا دیا کرتا ہے.اس لئے سوچ لینا چاہئے کہ یہ جو نیک بات بتائی گئی ہے اس سے کوئی بڑی نیکی تو ہاتھ سے نہیں جاتی.حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ شاہ ولی اللہ صاحب کی ایک بیٹی تھیں.انہوں نے وظائف پڑھنے شروع کئے تو ایسا مزہ آیا کہ پہلے نوافل چھوڑ دیئے.پھر سنتیں بھی چھوڑ دیں.ایک دن ان کے بھائی نے ان کی حالت کو دیکھا تو بہت افسوس ہوا.بہت سمجھایا مگر کچھ اثر نہ ہوا.آخر انہوں نے ایک خاص طریق پر لاحول کا وظیفہ پڑھنے کے لئے ان کو بتایا.اس کے بعد ایک دن وہ آئے تو کیا دیکھا کہ وہ سنتیں
العلوم جلد ۴ 122 حقیقة الرؤيا پڑھ رہی ہیں.پوچھا یہ کیا؟ کہنے لگیں آج میں آپ کے بتائے ہوئے طریق پر لاحول پڑھ رہی تھی کہ شیطان بندر کی شکل میں آیا اور کہنے لگا کہ تم بچ گئیں.اگر تم یہ وظیفہ نہ پڑھتیں تو اب میں تم سے فرض چھڑانے والا تھا.تو شیطان کبھی چالا کی کرتا ہے اور ایک نیکی کی تحریک کرتا ہے.لیکن اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دراصل اس کے ذریعہ کسی بڑی نیکی سے محروم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے اس لئے یہ بات ضرور مد نظر رکھنی چاہئے.اب رہ گئیں رحمانی خوا ہیں یہ کئی قسم کی ہوتی ہیں.حضرت مسیح رحمانی خوابوں کی پہچان موعود نے سہولت اور آسانی سے سمجھانے کے لئے انہیں تین درجوں میں تقسیم کیا ہے.مگر میں اور زیادہ واضح کرنے کے لئے زیادہ درجوں میں تقسیم کر کے بتا تا ہوں.میں ان کو سات درجوں میں تقسیم کرتا ہوں.پہلی قسم کی خواب تو وہ ہوتی ہے جسے رحمت کی خواب کہا جا سکتا ہے.کیونکہ جیسے بچوں کو عطا کے طور پر کوئی چیز دی جاتی ہے.اسی طرح یہ بھی عطا کے طور پر دی جاتی ہے.اور یہ ہر مذہب و ملت کے پیرو کو آجاتی ہے.اس میں خواب دیکھنے والے کی نہ کوئی بڑائی ہوتی ہے نہ چھٹائی.نہ عزت نہ ذلت.دوسری قسم کی خواب ابتلاء کی خواب ہوتی ہے.یہ آزمائش کے لئے آتی ہے.تیسری قسم کی وہ خواب ہے جس کا حضرت مسیح موعود کے الہام کے ماتحت میں جبیزی خواب نام رکھتا ہوں.یہ اسی طرح آتی ہے جس طرح کھانا کھاتے ہوئے کتے کے آگے بھی ٹکڑا ڈال دیا جاتا ہے.چوتھی قسم کی خواب وہ ہے جس کا نام دلداری کی خواب رکھتا ہوں.یعنی رکھے ہوئے دل مرہم کے طور پر یا خواہش مند قلب کو سکون کے لئے دکھائی جاتی ہے.پانچویں قسم کی خواب کا نام تحضیضی خواب رکھتا ہوں.تخفیض کے معنی کسی کام کے لئے اکسانا اور آمادہ کرنا ہوتا ہے.یہ چسکہ ڈالنے کے لئے آتی ہے.چھٹی قسم کی خواب تبشیری خواب ہے.یہ اس لئے ہوتی ہے کہ جب کسی مؤمن پر خدا کا فضل ہونا ہوتا ہے اور اسے اعلیٰ مقام پر پہنچانا ہوتا ہے تو پہلے اس کے لئے درمیانی دروازہ کھولا جاتا ہے تاکہ یک لخت ایک اعلیٰ مقام کو دیکھ کر حیرت اور استعجاب نہ پیدا ہو اور حواس محل نہ ہوں.تو یہ اس اعلیٰ درجہ سے مانوس کرنے کے لئے ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ اندھیرے سے
انوار العلوم جلدم حقیقته الرؤيا نہایت تیز اجالے میں لے جانے کے لئے پہلے کم اجالے کی جھلک دکھلائی جائے.خدا تعالی کی طرف سے ایک درجہ کے بعد جو دو سرا درجہ ملتا ہے ان میں اتنا ہی فرق ہوتا ہے جتنا اندھیرے اور اجالے میں ہوتا ہے.اس لئے احتیاط کی جاتی ہے تاکہ چکا چوند نہ پیدا ہو.ساتویں قسم مکالمہ خاص ہے.یعنی صرف ان لوگوں کو ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قرب کا کی مقام حاصل کر چکے ہوتے ہیں اور ہر قسم کے ارتداد اور ابتلاء سے ایسے محفوظ ہو چکے ہوتے ہیں کہ خدا ان کے پیچھے ایک مضبوط دیوار کھینچ دیتا ہے کہ وہ ایک انچ پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور شیطان ان پر کوئی حملہ نہیں کر سکتا.ان کے آگے پیچھے دائیں بائیں اوپر نیچے خدا کی رحمت ہی رحمت ہوتی ہے.ایسے لوگوں سے خدا جو کلام کرتا ہے وہ مکالمہ خاص کہلاتا ہے.آگے اس کی بھی دو قسمیں ہیں.ایک وہ جو غیر ماموروں سے تعلق رکھتی ہے اور دوسری وہ جو ماموروں اور خدا کے نبیوں کے متعلق ہے.چیز تو وہ بھی وہی ہوتی ہے جو ماموروں کو دی جاتی ہے لیکن ان میں ضعف اور شدت اور قلت اور کثرت کا فرق ہوتا ہے.تو خواب کے یہ سات درجے ہیں.اب میں ان میں سے ہر ایک کے متعلق الگ الگ بتاتا ہوں.لیکن پہلے کچھ اور تشریح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ یہ پتہ لگ سکے کہ فلاں خواب کس قسم کی ہے.پہلے میں رحمت کی خواب کے متعلق بتاتا ہوں.یہ خواب جیسا کہ میں بتا رحمت کی خواب چکا ہوں.ہر مذہب و ملت کے انسان کو آسکتی ہے.اس کی پہچان یہ ہے کہ یہ جس شخص کو آتی ہے اس کی اس میں کسی بڑائی کا ذکر نہیں ہو تا بلکہ محض واقعہ اور خبر کے طور پر ہوتی ہے.مثلاً اگر کوئی خواب میں گوشت ہاتھ میں دیکھے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ کوئی تکلیف اس پر آئے گی.یا ران لٹکی ہوئی دیکھے تو یہ مفہوم ہو گا کہ اس کا کوئی عزیز مرجائے گا.یا اگر چمکتے ہوئے دانت ہاتھ میں گرتے دیکھے تو کوئی خوشی حاصل ہو گی.اور اگر زمین پر گرتے دیکھے تو عزت کا نقصان اور اعزہ کی موت پر دلالت کرے گی.یہ اس قسم کی باتیں ہیں کہ جن میں اس کی بڑائی کا کوئی ذکر نہیں ہے.تو ان خوابوں میں کسی عظمت اور بڑائی کا ذکر نہیں ہوتا.اب سوال ہوتا ہے کہ پھر یہ کیوں ہوتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ تا لوگوں کو معلوم ہو تا رہے کہ خدا اپنے بندوں سے کلام کرتا ہے.اس قسم کی خوابیں جہاں کسی بڑائی اور عظمت کی خبر نہیں دیتیں وہاں موجب ابتلاء بھی نہیں ہوتیں.پھر ان کی ایک اور بھی غرض ہوتی ہے اور وہ
دم جلد ۴ ۱۷۹ حقیقتها یہ کہ عام طور پر کسی صادق اور راست باز کی تائید میں دکھائی جاتی ہیں تاکہ اس کو قبول کر لیا جائے.اور یہ بھی رحمت ہی ہے کہ مامور کے قبول کرنے کی اطلاع دی جائے.دوسرے وہ خواہیں جو ابتلاء کے لئے آتی ہیں.یہ بہت خطرناک ہوتی ابتلاء کی خواب ہیں.اور ان کی حقیقت نہ سمجھنے سے اکثر لوگ ہلاک ہو جاتے ہیں.اس لئے اس کو خوب غور سے سنو اور سمجھو.یہ ایسی خواہیں ہوتی ہیں کہ ایک انسان بظاہر متقی اور نیک ہوتا ہے عبادتیں کرتا ہے.احکام شریعت پر چلتا ہے.لیکن ساتھ ہی اس کے دل میں پوشیدہ طور پر اپنی بڑائی کا خیال بھی ہوتا ہے.اور بعض اوقات یہ خیال ایسا پوشیدہ اور نہاں در نہاں ہوتا ہے کہ وہ خود بھی نہیں جانتا.تو ایسا انسان بظاہر انکسار کا پتلا نہایت عبادت گزار اور متقی نظر آتا ہے.مگر اس کے دل کو کے کسی کو نہ میں عجب اور تکبر کی آلائش ہوتی ہے جو بڑھتی رہتی ہے.جس کی وجہ سے وہ کسی وقت خیال کرنے لگ جاتا ہے کہ میں بھی کچھ ہوں.میرا بھی کوئی حق ہے.ایسا انسان جب اپنی ظاہرہ نیکی پر پھولتا اور تکبر میں آتا ہے تو ابتلاء میں ڈالا جاتا ہے.اس وقت کبھی اسے آواز آتی ہے کہ تو عیسی ہے.کبھی یہ سنائی دیتا ہے کہ تو موئی ہے.کبھی یہ کہ تو ابراہیم ہے اور کبھی یہ کہ تو محمد ہے اور آج کل کبھی یہ آواز آجاتی ہے کہ تو مسیح موعود ہے ، اس کا بروز ہے، اس کا موعود ہے.غرض اس قسم کی آوازیں اسے آنے لگ جاتی ہیں اور وہ خدا ہی کی طرف سے ہوتی ہیں نہ کہ شیطان کی طرف سے.اور اس وجہ سے بالکل درست ہوتی ہیں.مگر با وجود است کے ان رؤیا کا آنا یا الہامات کا ہونا ابتلاء کے طور پر ہوتا ہے.کیوں؟ اس کا جواب جو کچھ صوفیاء نے دیا ہے اور جو نہایت سچا جواب ہے میں آپ کو سناتا ہوں.فتوحات مکیہ میں محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک وقت انسان پر ایسا آتا ہے جب کہ اس کے لئے ترقیات کے دروازے کھلنے والے ہوتے ہیں.اس وقت اس کی سخت خطر ناک طور پر آزمائش کی جاتی ہے اور بہت کم ہوتے ہیں جو اس میں پورے اترتے ہیں.اور وہ یہ کہ ایسے انسان کو ایسے مقام پر کھڑا کیا جاتا ہے جہاں سے وہ محمد ابراہیم ، موسی عیسی انبیاء علیہم السلام کے ساتھ جو کچھ خدا تعالی کلام کرتا ہے وہ بھی سنتا ہے.اور بعض دفعہ اس سے دھوکا کھا کر اپنے آپ کو مخاطب سمجھ لیتا ہے اور اپنے آپ کو ان ناموں کا مصداق سمجھ لیتا ہے اور اپنی ذات کو مخاطب قرار دے لیتا ہے.حالا نکہ اگر وہ اپنی ذات پر غور کرے تو اسے معلوم ہو جائے کہ میں کہاں اور یہ نام کہاں.پنجابی
انوار العلوم جلد ۴ ۱۸۰ حقیقته الرؤيا میں کہتے ہیں.تے مراں دی دال" یعنی یہ منہ اور مسور کی دال.تو وہ اگر اپنے آپ کو دیکھے اور اپنی حالت پر نظر کرے تو اسے صاف پتہ لگ جائے کہ مجھے مخاطب نہیں کیا جا رہا بلکہ ان ناموں کے مخاطب کوئی اور ہی ہیں.کیونکہ وہ صفات جو ان ناموں کے انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ اس میں نہیں ہوتیں.جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ میں خدا تعالی کا مخاطب نہیں.ورنہ خدا تعالی ان ناموں کے ساتھ ان ناموں والوں کے علوم اور ان کی صفات مجھے کیوں نہ دیتا.بعض دفعہ اس قسم کے الہامات حدیث النفس بھی ہوتے ہیں اور شیطانی بھی ہوتے ہیں.چنانچہ ایک ایسا ہی شخص حضرت مسیح موعود کے وقت یہاں آیا اور کہنے لگا مجھے خدا کہتا ہے کہ تو محمد ہے تو ابراہیم ہے تو موسی ہے تو عیسی ہے اور مجھے خدا عرش پر اپنی جگہ پر بٹھاتا ہے.حضرت مسیح موعود نے کہا کیا جب تمہیں محمد " کہا جاتا ہے تو آنحضرت کے علوم اور صفات بھی م میں آجاتے ہیں اور پھر جب تمہیں عرش پر بٹھایا جاتا ہے تو علم غیب بھی حاصل ہو جاتا ہے.کہنے لگا ہوتا تو کچھ بھی نہیں یونہی آواز آتی ہے.حضرت صاحب نے فرمایا تو یہ شیطان ہے جو تم سے نہسی اور ٹھٹھا کر رہا ہے.ورنہ اگر خدا کی طرف سے واقعہ میں تمہیں مخاطب کیا جائے تو پھر یہ باتیں کیوں نہ حاصل ہوں.ہمارے مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ہیں.انہوں نے ایک ، ایسے ہی شخص کو نہایت اچھا جواب دیا تھا.یہ شخص کہتا کہ مرزا صاحب مسیح تھے اور میں مہدی ہوں.اس لئے حضرت خلیفہ اول کو میری بیعت کرنی چاہئے نہ کہ مجھے ان کی.مجھے خدا تعالٰی ہر وقت مخاطب کر کے کہتا ہے کہ او مهدی.او مهدی.مولوی صاحب نے اسے کہا کہ دیکھو میں اور تم دونوں بیٹھے ہیں.اگر کوئی آواز دے.مولوی صاحب تو کیا تم اس کے پاس جاؤ گے ؟ اس نے کہا نہیں.انہوں نے کہا کیوں؟ وہ کہنے لگا میں سمجھ لوں گا مجھے نہیں بلایا گیا کیونکہ میں مولوی نہیں ہوں.انہوں نے کہا جب تمہارے کان میں اد مہدی کی آواز آتی ہے تو اس وقت یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ مجھے نہیں آواز دی گئی بلکہ جو مہدی ہے اسے ہی دی گئی ہے.وہ نیک آدمی تھا.یہ سن کر فور امان گیا کہ واقعی میرا قصور تھا.میں غلطی سے اپنے آپ کو مہدی سمجھنے لگ گیا تھا.تو لکھا ہے کہ ایک درجہ ایسا آتا ہے کہ انسان کو ایسی جگہ کھڑا کیا جاتا ہے جہاں وہ آواز سن !
انوار العلوم جلد ۴ لیتا ہے.اس وقت اگر وہ اپنی حالت پر قائم رہے اور تکبر میں مبتلا نہ ہو تو اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے.اور اگر قائم نہ رہے اور تکبر میں گرفتار ہو جائے تو نیچے پھینک دیا جاتا ہے.پس اس قسم کی خواب ابتلاء کی خواب ہوتی ہے اور آزمائش کے طور پر آتی ہے.اس کی پہچان یہ ہے کہ جب اس قسم کی خواب کسی کو آئے یا الہام ہو تو ایسا شخص دیکھے کہ مجھے اس کے مطابق صفات اور طاقتیں بھی دی گئی ہیں یا نہیں.اگر نہیں دی گئیں تو میں اس کا مصداق نہیں ہوں بلکہ کوئی اور ہے.کیونکہ اگر خدا میرا نام رکھتا تو وہ ضرور اس کے مطابق صفات بھی دیتا.مگر یہ جو یونہی مجھے آواز آتی ہے اور دیا دلایا کچھ بھی نہیں جاتا.معلوم ہوتا ہے یہ آواز ہی میرے متعلق نہیں بلکہ کوئی اور مخاطب ہے اور آواز میرے کان میں بھی پڑ رہی ہے.اگر کوئی شخص کسی کو آواز دے کہ لے بھائی کھانا لے اور ایک سننے والا دیکھے کہ اسے کچھ نہیں ملا.تو یہ فوراً سمجھ لے گا کہ یہ بھائی کہہ کر کسی اور ہی کو پکارا گیا ہے.اسی طرح جب خدا کی طرف سے کسی کو کوئی ایسی آواز آئے جس کے مطابق وہ اپنے آپ کو نہ پاتا ہو تو سمجھ لے کہ میرے متعلق نہیں بلکہ کسی اور کے متعلق ہے.جبیزی خواب تیری تم خوابوں کی جبیزی ہے یہ ایسے لوگوں کو آتی ہے جو نیک اور متقی نہیں ہوتے بلکہ بندہ نفس ہوتے ہیں.مگر دوسروں کے الہام اور رؤیا سن کر خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی رویا ہوں الہام ہوں.ان کی سخت خواہش کو دیکھ کر جس طرح کھانا کھاتے ہوئے کتے کو کچھ پھینک دیا جاتا ہے اسی طرح ان کو بھی کچھ دے دیا جاتا ہے.جیسے چراغ دین جمونی کو الہام ہوا تھا اور وہ سمجھ بیٹھا تھا کہ میں بھی کچھ بن گیا ہوں.اور حضرت مسیح موعود کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا تھا.ایسے لوگوں کی ایسی ہی حالت ہوتی ہے جیسے ایک بھو کا آکر کسی کو کہے کہ مجھے کچھ کھانے کو دو اور اپنے ہاں ٹھرنے دو.مگر جب اسے ٹھہرنے دیا جائے تو صبح اٹھ کر مالک مکان کے ملازموں سے لڑنا شروع کر دے کہ مہمانوں کی ایسی ہی عزت کی جاتی ہے تم نے میری خبر ہی نہیں لی.یہ لوگ بھی پہلے تو گڑ گڑاتے اور عاجزی کرتے ہیں کہ ہمیں بھی کوئی الہام اور خواب ہو.اور جب ہو جاتی ہے تو خدا کے راست بازوں کا مقابلہ شروع کر دیتے ہیں اور شور مچا دیتے ہیں کہ یہ لوگ ہماری خدمت کیوں نہیں کرتے.ہماری باتیں کیوں نہیں مانتے.اللہ تعالیٰ چونکہ رحیم کریم ہے اس لئے ان کی خواہش
لوم جلد م ١٨٢ حقیقته الرؤيا کو دیکھ کر کچھ دے دیتا ہے مگر وہ اس سے بگڑ جاتے ہیں.دل داری کی خواب چوتھی قسم دلداری کی خواب ہے.یہ ہمیشہ مؤمن اور نیک آدمی کو آتی ہے.مگر اس لئے نہیں کہ وہ کسی خاص مقام پر پہنچ جاتے ہیں.بلکہ اس لئے کہ جب وہ محبت اور اخلاص کی وجہ سے خواہش کرتے ہیں کہ خدا ہم سے کلام کرے تو خدا ان کی دلداری کے لئے ان سے کلام کرتا ہے تاکہ وہ اور زیادہ محبت اور اخلاص میں بڑھیں.ایسے لوگوں کی مثال اس سائل کی سی ہوتی ہے جو ایک دعوت میں چلا جائے اور اسے کچھ دے دیا جائے.گو کبھی ایسے سائل کو مہمان سے زیادہ بھی دے دیا جاتا ہے لیکن اس کا حق نہیں ہو تا کہ جن لوگوں کی دعوت کی گئی ہو ان میں سے ہونے کا دعوی کرے.پس ایسے لوگوں کا بھی یہ حق نہیں ہو تا کہ اپنے آپ کو ماموروں اور خاص لوگوں میں سمجھیں.پانچویں تم تحضیضی خواب کی ہے.یہ اس وقت ہوتی ہے تحضیضی خواب جب کہ مؤمن ایک خاص مقام پر پہنچ جاتا ہے تو خدا اسے اور آگے لے جانے کے لئے کچھ رویا دکھاتا یا الہام کرتا ہے اور اعلیٰ مقامات کی سیر کراتا ہے.اس لئے نہیں کہ وہ ان اعلیٰ مقامات کا رہنے والا ہے بلکہ اس لئے کہ وہ ان اعلیٰ مقامات کی سیر کر کے ان کے فضائل سے آگاہ ہو اور ان کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.چونکہ انسانی اندازے بہت محدود ہوتے ہیں.اس لئے بعض انسان ایک مقام پر پہنچ کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہی انتہاء ہے.چنانچہ حدیثوں میں آتا ہے کہ آخری انسان جب جنت میں جانے لگے گا تو خدا تعالی اسے دوزخ سے نکال کر دوزخ کی طرف اس کا منہ کر کے کھڑا کر دے گا.اس پر وہ خواہش کرے گا کہ میرا منہ اس طرف سے ہٹا دیا جائے.جب وہ ہٹا دیا جائے گا تو وہ اس کو اپنے لئے کافی سمجھے گا.لیکن اس سے کچھ فاصلہ پر خدا تعالی ایک درخت پیدا کر دے گا.اسے دیکھ کر وہ عرض کرے گا کہ مجھے اس درخت کے نیچے کھڑا ہونے کی اجازت دی جائے.جب اجازت دی جائے گی تو وہ سمجھے گا کہ یہ مجھے بہت بڑی نعمت حاصل ہو گئی ہے اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے.لیکن اس سے پرے ایک اور درخت نکلے گا جس کا سایہ پہلے کی نسبت آرام دہ اور اچھا ہو گا.اس وقت وہ کہے گا کہ مجھے وہاں جانے کی اجازت دی جائے.اسے کہا جائے گا اچھا وہاں چلے جاؤ لیکن پھر نہ کچھ مانگنا.وہ اس کو بڑی بات سمجھ لے گا اور آئندہ سوال نہ کرنے کا وعدہ کرے گا.لیکن جب وہاں جائے گا تو ایک اور درخت نظر آئے گا جس کا سایہ اس سے بھی اچھا ہو گا.
و العلوم جلد AP حقیقته الرؤيا پھر وہاں جانے کی خواہش کرے گا.حتی کہ اسی طرح ہوتے ہوتے اسے جنت کے قریب کر دیا جائے گا اور جنت کا نظارہ اسے نظر آنے لگے گا.اس وقت وہ کہے گا مجھے جنت کے دروازہ پر کھڑا کر دیا جائے پھر میں کوئی سوال نہ کروں گا.لیکن جب وہاں کھڑا کر دیا جائے گا تو پھر اندر داخل ہونے کی خواہش کرے گا.اس وقت اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ مانگ جو کچھ مانگتا ہے.اس پر وہ سوال کرے گا.اور اللہ تعالیٰ اس سے اور مانگنے کے لئے کہے گا.یہاں تک کہ وہ اپنے علم کے مطابق سب کچھ مانگ لے گا.اس پر خدا تعالیٰ کے گا کہ یہ سب کچھ تجھے دیا اور اس کے علاوہ یہ یہ کچھ بھی.(مسلم کتاب الايمان باب اثبات الشفاعة واخراج الموحدين من النار باب أخر اهل النار خروجا باب ادنى اهل الجنة منزلة فيها، تو یہ خدا تعالی کے فضل اور رحم کرنے کا طریق ہے.ورنہ اگر اسے دوزخ سے نکالتے وقت ہی کہا جاتا کہ جو تجھے مانگنا ہے مانگ لے.تو وہ بیچارہ دوزخ سے نکل کر باہر کھڑا ہونا ہی مانگتا.کیوں کہ اور نعمتوں کا اسے پتہ ہی نہ تھا.لیکن یہ ساری نعمتیں دکھلا کر اس سے کہا جائے گا کہ اب مانگ جو کچھ مانگنا ہے.تو یہ بندہ پر خدا تعالی کا فضل ہوتا ہے کہ جب وہ ایک مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس سے آگے بڑھنے کا جوش اور ولولہ پیدا کرنے کے لئے اسے آگے کے نظارے دکھلائے جاتے ہیں.چھٹی قسم تبشیری خواب کی ہے.اس کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ یہ اس تبشیری خواب غرض کے لئے آتی ہے کہ انسان کو اگلے مقام پر جانے کے لئے تیار کرے.ساتویں قسم مکالمہ خاص ہے.جو ماموروں اور غیر ماموروں دونوں کے ساتھ ہوتا ہے.لیکن ان دونوں کے مکالمہ میں کثرت اور قلت، شدت اور ضعف کا فرق ہوتا ہے ورنہ چیز ایک ہی ہوتی ہے جیسے آم تو ہر قسم کے آم کا نام ہے.لیکن ایک سیر سیر کے ہوتے ہیں اور دوسرے چھوٹے چھوٹے.پھر ایک زیادہ میٹھے ہوتے ہیں اور دوسرے کم.ماموروں اور غیر ماموروں کے مکالمہ میں کثرت اور قلت کا فرق ہوتا ہے.ورنہ دونوں پر غیب مصفی کا دروازہ کھولا جاتا ہے.اس موقع پر میں ایک اور بات بیان کرتی الہام کی خواہش کرنے سے کیوں منع کیا گیا دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود نے بعض جگہ لکھا ہے کہ رویا اور الہام پانے کی خواہش نہ کرو.قیامت کے دن تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ تمہیں کتنے الہام ہوئے.مگر دوسری جگہ لکھتے ہیں کہ چونکہ
انوار العلوم جلد ۱۸۴ حقیقته الرؤيا مجھے کثرت سے غیب کی خبریں دی گئی ہیں اس لئے میرا درجہ اس امت کے لوگوں سے بڑا ہے اور یہ درجہ مجھ سے پہلے اس امت میں سے کسی کو نہیں دیا گیا.بظاہر ان دونوں باتوں میں اختلاف معلوم ہوتا ہے.کیونکہ جب آپ کا درجہ اس لئے بڑا ہے کہ آپ کو کثرت سے غیب کی خبریں بتائی گئی ہیں تو پھر دوسروں کو کیوں اس کی خواہش کرنے سے منع فرماتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ ایسے انسان جو خدا کے مامور ہوتے ہیں ان کے پیچھے ایک دیوار کھینچ دی جاتی ہے.اور وہ ذرہ بھر بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے.اگر وہ اپنی تعریف کرتے ہیں یا اپنی فضیلت دوسروں پر جتلاتے ہیں تو اس سے ان میں کبھی عجب اور تکبر نہیں پیدا ہو تا جو انسان کی ہلاکت کا موجب ہوتا ہے.کیونکہ اگر وہ اپنی تعریف کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اپنی ذات کو بڑا بناتے ہیں بلکہ اس لئے کہ لوگوں کو خدا کی طرف متوجہ کریں.اسی طرح اگر اپنی کوئی فضیلت ظاہر کرتے ہیں تو اس لئے نہیں کہ اپنے تکبر کا اظہار کریں بلکہ اس لئے کہ خدا کی قدرت اور طاقت کی طرف توجہ دلائیں.اس لئے ان کا ایسا کرنا انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا تا.لیکن دوسرے لوگ اس طرح کرنے سے ہلاک اور برباد ہو جاتے ہیں.پس جب تک کسی کو مکالمہ کا خاص درجہ حاصل نہ ہو اور وہ خاص درجہ محدثیت و صدیقیت یا مأموریت و نبوت کا درجہ ہے اس وقت تک خطرہ ہے کہ ایسا شخص خوابوں اور الہاموں پر فخر کر کے عجب کی مرض میں گرفتار ہو جاوے اور اس طرح بجائے ترقی کے الہام اسے اسفل السافلین میں گرانے کا موجب ہو جائیں.پس چونکہ الہامات اور رؤیا کے ساتھ ایک خطرہ بھی لگا ہوا ہے اس لئے ان کی خواہش کرنے سے روکا ہے تا ایسا نہ ہو کہ انسان اپنے ہاتھوں خود ہلاکت کے گڑھے میں گر جائے.ہو سکتا ہے کہ ایسا شخص نیک اور متقی ہو مگر اس پر شیطان ضرور حملہ کرے گا اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا.اس لئے جب تک وہ مقام نہ حاصل ہو جس پر پہنچنے کے بعد انسان شیطان کے حملہ سے بالکل محفوظ ہو جاتا ہے اس وقت تک خوابوں اور الہامات کی خواہش کرنی گویا ہلاکت میں پڑتا ہے.اور جب وہ حالت آتی ہے تو پھر اس کی خواہش کی ضرورت ہی نہیں رہتی.الہامات کا دروازہ خود بخود اس پر کھل جاتا ہے.قرآن کریم میں ایسے شخص کی مثال موجود ہے جس کو الہام ہوتے تھے.مگر اس کے دل میں عجب پیدا ہو گیا اور وہ ہلاک ہو گیا.جیسا کہ فرماتا ہے وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي أَتَيْنَهُ أيْتِنَا فَانْسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَنُ فَكَانَ مِنَ الغُرِيْنَ ، وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْتُهُ بِهَا وَلَكِنَّةُ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَهُ (الاعراف : ۱۷۶-۱۷۷) یعنی ان کو اس
دم جلد " ۱۸۵ شخص کی خبر پڑھ کر سناؤ جس پر خدا تعالیٰ نے اپنا کلام نازل کیا مگر وہ کلام الہی سے علیحدہ ہو گیا.کیونکہ شیطان اس کے پیچھے پڑگیا.اور وہ ہلاک شدوں میں سے ہو گیا.اور اگر ہم چاہتے تو ان الہامات کے ذریعہ سے اس کے درجہ کو بلند کر دیتے.لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے پڑ گیا.اس آیت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو الہام ہوتا تھا اور یہ بھی پتہ لگتا ہے کہ وہ مقبول بھی تھا.کیوں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بهَا وَلَكِنَّهُ اخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَنُهُ ، یعنی جس طرح وہ کام کر رہا تھا اسی طرح کرتا قوية رہتا تو ہم اسے ضرور رفعت دیتے لیکن وہ زمین کی طرف جھک گیا اور اپنی ہوا و ہوس کے پیچھے پڑ گیا اس لئے تباہ ہو گیا.تو چونکہ رویا کی کثرت سے بعض دفعہ انسان میں عجب پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہلاک ہو جاتا ہے اس لئے رویا کی خواہش سے حضرت صاحب نے روک دیا ہے.ورنہ حضرت صاحب کا یہ مطلب نہیں کہ رویا خدا تعالٰی کے فضلوں میں سے کوئی فضل نہیں.اس خواہش سے روکنے کا ایک اور بھی سبب ہے اور وہ یہ کہ رؤیا اور الہام اصل نہیں ہیں بلکہ اصل چیز خدا تعالیٰ کا قرب ہے.رویا اور الہام اس قرب کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں.پس بندہ کو چاہئے کہ خدا تعالٰی کے قرب کی خواہش کرے نہ کہ رویا اور الہام کی جو کہ قرب کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں.ایسا شخص جو رویا اور الہام کی خواہش کرتا ہے وہ گویا خدا تعالی کے قرب کو ایک کم حیثیت شئے قرار دیتا ہے.اور نیتوں کے فرق سے اعمال میں فرق پڑ جاتا ہے.پس ایسا شخص خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو اپنے اوپر نازل کرتا ہے.اس کی موٹی مثال یہ ہے کہ ہر شخص جو اپنے دوست کے ہاں جاتا ہے وہ اس کی کچھ نہ کچھ حسب توفیق خاطر کرتا ہے اور اپنی حیثیت کے مطابق اس کے لئے عمدہ کھانے پکاتا ہے.اب ایک شخص ایک دوسرے شخص کے ہاں اس کی محبت کے لئے جائے اور ساتھ اس کے پیش کردہ کھانے بھی کھائے اور ایک کھانے کی نیت سے جائے تو دونوں شخصوں نے گو کام تو ایک ہی کیا ہے مگر نیتوں کے فرق کی وجہ سے دونوں کے کام میں فرق ہو گیا ہے.ایک شخص اعلیٰ اخلاق والا قرار دیا جائے گا اور دو سرا کمینہ.اور کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اس نے بھی کھانا کھایا ہے اُس نے بھی پھر وہ کمینہ کیوں ہے.اسی طرح بے شک الہامات ایک اعلیٰ درجہ کی چیز ہیں اور ان کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ اپنے بندے سے اپنے تعلق کا اظہار کرتا ہے.مگر ان کی خواہش کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی شخص کا کسی دوست کے پاس اس نیت سے نہ جانا کہ میں اس سے ملوں بلکہ اس لئے کہ وہ مجھے شخص
جلد TAY اچھے کھانے کھلائے.پس اس خواہش میں چونکہ قرب الہی کی بنک ہے اس لئے اس کو نا پسند کیا گیا ہے.گو اس میں کوئی شک نہیں کہ الہامات قرب الہی کے اظہار کا ایک ذریعہ ہیں.جس طرح کہ مہمان کے لئے عمدہ کھانا تیار کرنا محبت اور اخلاص کی علامت ہے.اب دو باتیں اور بیان کرتا ہوں.ایک تو یہ کہ صادق رویا کے پہچاننے کے کیا ذرائع ہیں.دوسری یہ کہ مکالمہ خاص کی شناخت کرنے کے کیا طریق ہیں.(1) الهام ، کشف رویا اور خواب خواہ الہام کی صداقت معلوم کرنے کے طریق کسی رنگ میں ہوں ان کی صداقت کی ایک پہچان یہ ہے کہ ان میں کبھی خلاف شریعت کوئی بات نہیں بتلائی جاتی.اگر کسی کو کوئی ایسا الہام، خواب یا رویا ہو تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے بچے ہونے کی ایک علامت ہاتھ آگئی ہے.گو اس کی صداقت کی اور بھی دلیلیں ہیں اور ہو سکتا ہے کہ ایسی خواب حدیث النفس ہی ہو تاہم یہ بھی ایک دلیل ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ اس کے اندر ایسی بات بتلائی جاتی ہے جس سے قدرت خداوندی ظاہر ہوتی ہے.یعنی آثار اور علامات کے ظاہر ہونے سے پہلے بتائی جاتی ہے.اس کے متعلق میں رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود کی مثالیں بیان کر چکا ہوں اب ایک اپنا واقعہ سناتا ہوں.اسی سال ایک معاملہ کے متعلق جو گورنمنٹ کے ساتھ تھا ایسا واقعہ ہوا کہ کمشنر صاحب کی چٹھی میرے نام آئی کہ فلاں امر کے متعلق میں آپ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.لیکن مجھے آج کل اتنا کام ہے کہ میں گورداسپور نہیں آسکتا اور قادیان سے قریب تر جو میرا مقام ہے وہ امر تسر ہے یہاں اگر آپ آسکیں تو لکھوں.اس چٹھی میں معذرت بھی کی گئی کہ اگر مجھے فرصت ہوتی تو میں گورداسپور ہی آتا لیکن مجبور ہوں.اس چٹھی کے آنے سے تین دن بعد مجھے رویا ہوئی کہ میں کمشنر صاحب کو ملنے کے لئے گورداسپور جا رہا ہوں اور یوں وغیرہ کا انتظام ڈاکٹر رشید الدین صاحب کر رہے ہیں.لیکن جس دن میں نے رویا دیکھی اس دن ڈاکٹر صاحب قادیان میں موجود نہیں تھے بلکہ علی گڑھ گئے ہوئے تھے.اور اسی رات کی صبح کو کمشنر صاحب کی چھٹی آگئی جو بلا کسی ہماری تحریک کے تھی کہ مجھے کچھ کام گورداسپور بھی نکل آیا ہے اگر آپ کو امرتسری آنے میں تکلیف ہو تو میں فلاں تاریخ کو گورداسپور آ رہا ہوں آپ وہاں آجائیں.اس چٹھی
انوار العلوم جلد ۴ JAZ حقیقته الرويا سے ایک حصہ تو پورا ہو گیا مگر دوسرا حصہ باقی تھا اور وہ ڈاکٹر صاحب کی موجودگی تھی.ڈاکٹر صاحب ایک مہینہ کے ارادہ سے علی گڑھ اپنی چھوٹی لڑکی کی ٹانگ کا آپریشن کرانے کے لئے گئے تھے اور ابھی ان کے آنے کی کوئی امید نہ تھی.مگر دوسرے دن ہمیں گورداسپور جانا تھا کہ اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے.اور بیان کیا کہ جس ڈاکٹر نے آپریشن کرنا تھا اسنے ابھی ٹانگ کاٹنے سے انکار کر دیا ہے.اور کہتا ہے کہ ایسا کرنا سرجری کی شکست ہے میں پہلے یونسی علاج کروں گا.اس لئے میں نے سردست ٹھہرنا مناسب نہ سمجھا اور واپس آگیا ہوں (گو چند ماہ بعد ) اس ڈاکٹر کو مجبورا ٹانگ کاٹنی پڑی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پہلی تحریک محض اللہ تعالی کی طرف سے تھی) غرض اس طرح دوسرا حصہ بھی پورا ہو گیا.اب دیکھو یہ ایک مرتب خواب تھی اور اس وقت آئی تھی جب حالات بالکل خلاف تھے.کیوں کہ کمشنر صاحب کی چٹھی آچکی تھی کہ میں اس ضلع میں اس وقت نہیں آسکتا.اور کوئی انسانی دماغ اس بات کو تجویز نہیں کرتی سکتا تھا کہ فورا وہاں ان کو کام پیدا ہو گا اور پھر وہ اس کی اطلاع دے کر امر تسر آنے سے روک دیں گے اور ادھر ڈاکٹر صاحب بھی غیر متوقع طور پر واپس آجا ئیں گے.اس خواب کے جس قدر جزو ہیں وہ نہ صرف یہ کہ ایسے وقت میں بتائے گئے ہیں کہ جب کہ ان کی تائید میں کوئی سامان موجود نہ تھا.بلکہ ایسے وقت میں بتائے گئے جب کہ ان کے خلاف سامان موجود تھے.تو اخبار غیبیہ کے لئے شرط نہیں ہے کہ ماموروں کو ہی بتائی جائیں.اوروں کو بھی بتائی جاتی ہیں.اور ان کے منجانب اللہ ہونے اور قیاسی نہ ہونے کی ایک بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ مرکب ہوتی ہیں اور ہر ایک جزو ان کا پورا ہو جاتا ہے.تیسری علامت رؤیا کی یہ ہے کہ ایسی خبریں آثار اور علامات کے ظاہر ہونے سے بھی پہلے بتائی جاتی ہیں.پس جب ایسا ہو تو اس کو قیاس اور حدیث النفس نہیں کہا جا سکتا.چوتھی علامت یہ ہے کہ خواب کے ذریعہ نئے نئے علوم سکھلائے جاتے ہیں.شیطان میں نئے علوم سکھلانے کی طاقت نہیں اور نہ ہی نفس کو یہ طاقت ہے کہ جو باتیں اسے معلوم ہی نہیں وہ بتا دے.تو جس خواب کے ذریعہ سے نئے علوم معلوم ہوں سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.نئے علوم کی تازہ مثال حضرت مسیح موعود کا واقعہ ہے.آپ کو اللہ تعالٰی نے بتایا کہ آپ عربی میں عید کا خطبہ پڑھیں.آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے علم دیا جائے گا.آپ نے اس سے پہلے کبھی عربی میں تقریر نہ کی تھی.لیکن جب تقریر کرنے کے لئے آئے اور تقریر
انوار العلوم جلد م I^^ حقیقته الرؤيا شروع کی تو مجھے خوب یاد ہے گو میں چھوٹی عمر میں ہونے کی وجہ سے عربی نہ سمجھ سکتا تھا مگر آپ کی ایسی خوبصورت اور نورانی حالت بنی ہوئی تھی کہ میں اول سے آخر تک برابر تقریر سنتا رہا.حالا نکہ ایک لفظ بھی نہ سمجھ سکتا تھا.تو ایسی خواب جس میں زائد علم دیا جائے وہ ضرور رحمانی ہوتی ہے.اور میں نے خود اس کا کئی بار تجربہ کیا ہے کہ رویا میں اللہ تعالی کی طرف سے نیا علم دیا جاتا ہے.چنانچہ جب خواجہ صاحب نے ہندوستان میں ایسی طرز پر تبلیغ شروع کی جس میں حضرت مسیح موعود کا نام نہ لیتے تو مجھے بہت برا معلوم ہوا.یہ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہماری یونسی مخالفت شروع کر دی گئی ہے نہ کچھ سوچا نہ سمجھا ہے.لیکن وہ نہیں جانتے کہ اس وقت پہلے میں نے استخارہ کیا کہ الہی ! اگر یہی طریق تبلیغ اچھا ہے تو مجھے بھی اس پر انشراح کر دے.بار بار دعا کرنے پر رویا میں میری زبان پر ایک اردو شعر جاری ہوا.شعر تو یاد نہیں رہا مگر اس کا مطلب یاد ہے جو یہ ہے کہ جن کے پاس قاق نہیں ہوتا وہ نان ہی کو قاق سمجھ لیتے ہیں.اس لفظ قاق کے متعلق میں نے کئی لوگوں سے دریافت کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں لیکن وہ کچھ نہ بتا سکے.پھر کئی لغت کی کتابوں کو دیکھا وہاں سے بھی نہ ملا.آخر بڑی تلاش کے بعد ایک لغت کی کتاب سے معلوم ہوا کہ قاق کیک کو کہتے ہیں اور یہ عربی لفظ ہے تو اس قسم کے نئے الفاظ کا بتایا جانا ثبوت ہو تا ہے اس بات کا کہ یہ خواب خدا کی طرف سے ہے.کوئی کہے کیا شیطان نئے نئے لفظ نہیں جانتا.بے شک جانتا ہے.مگر شیطان کا معاملہ ہر ایک انسان سے اس کی سمجھ کے مطابق ہوتا ہے اور خدا تعالٰی نے اسے اقتدار نہیں دیا.اگر اسے بھی اقتدار حاصل ہو جاتا تو پھر مؤمن کے لئے امن کی جاکون سی رہتی اور ایمان کی سلامتی کا ذریعہ کیا رہ جاتا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے غیر زبانوں کے الہاموں کے متعلق لکھا ہے کہ چونکہ یہ غیر زبان میں ہیں جو میں نہیں جانتا اس لئے ان کے بچے ہونے کا یہی ثبوت ہے.پچھلے ہی دنوں کی بات ہے کہ دوپہر کو میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا کہ غنودگی آئی اور یہ الفاظ میری زبان پر جاری ہو گئے لَوْلَا النَّبضُ لَقُضِ الْحَيْضُ اور معلوم ہوا کہ یہ پیغامیوں کے متعلق ہیں.مجھے حبض کے معنی معلوم نہ تھے.بعض لغت کی کتب میں بھی یہ لفظ نہ ملا.آخر بڑی کتب لغت میں یہ لفظ ملا.اور طرفہ یہ کہ ان میں ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ لفظ نبض کے ساتھ مل کر بہت استعمال ہوتا ہے.چنانچہ عربی کا محاور ہے کہ مَا بِهِ حَيْضُ وَلَا نَبْضُ اور حبض کے معنی حرکت کے ہیں.خصوصا دل کی حرکت کے تیز ہو کر پھر ٹھر جانے کے.پس اس
العلوم جلد ۴ ۱۸۹ حقیقته الرؤيا جملہ کے یہ معنی ہوئے کہ اگر نبض نہ چلتی ہوتی.تو یہ جو ان کے دل کی حرکت تیز ہوتی ہے اور پھر ٹھہر جاتی ہے.اور پھر تیز ہوتی ہے.پھر ٹھر جاتی ہے.اس کا خاتمہ کر دیا جاتا ہے.یعنی یہ ہلاک ہو جاتے.جس کا مطلب مجھے یہ سمجھایا گیا کہ یہ جو ان میں بار بار جوش پیدا ہوتا ہے اور پھر دب جاتا ہے.پھر پیدا ہوتا ہے اور پھر دب جاتا ہے.یہ نتیجہ ہے ان کی ظاہری کوششوں کا اور اصل کا اثر فرع پر نہیں پڑ رہا.بلکہ فرع کی زندگی سے اصل پر بھی ایک اثر پڑ جاتا ہے.اگر یہ حرکات اور یہ کوششیں ان کی نہ ہوتیں تو یہ جو زندگی کے آثار ان میں پیدا ہو جاتے ہیں یہ مٹا دیئے جاتے.گویا كُلا تُمِد هَؤُلَاءِ وَ هَؤلاء کے ماتحت ان کو یہ بات حاصل ہو رہی ہے.غرض خواب میں نئے علوم بھی بتائے جاتے ہیں.اور یہ خواب کی صداقت کا ایک ثبوت ہوتا ہے.پانچویں علامت یہ ہے کہ بعض دفعہ ایک مؤمن کو ایک رؤیا آتی ہے اور اسی مضمون کی وسروں کو بھی آجاتی ہے اور یہ شیگان کے قبضہ میں نہیں ہے کہ ایک ہی بات کے متعلق کئی ایک کو رؤیا کرا دے.حضرت مسیح موعود نے بھی اس علامت کے متعلق لکھا ہے چنانچہ آئینہ کمالات اسلام میں آپ کا جو خط نواب صاحب کے نام ہے اس میں آپ نے لکھا ہے کہ کچھ آدمی مل کر استخارہ کریں اور جو کچھ بتایا جائے اس کو آپس میں ملا ئیں.جو بات ایک دوسرے سے مل جائے گی وہ کچی ہو گی.پھر رسول کریم بھی فرماتے ہیں بَرَاهَا الْمُسْلِمُ اَوْ تُرَى لَهُ (ترمذی، ابواب الرؤيا باب ذهبت النبوة وبقيت المبشرات، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مؤمن کو ایک رؤیا دکھائی جاتی ہے یا اوروں کو اس کے لئے دکھائی جاتی ہے.لیکن شیطان کو ایسا کرنے کا تصرف حاصل نہیں ہوتا.یہ معیار ہم میں اور ہمارے مخالفین میں بہت کھلا فیصلہ کر یتا ہے.ہم جب کئی ایک لوگوں کی خوابیں ایک ہی مطلب کی اپنے متعلق پیش کرتے ہیں تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ حدیث النفس ہیں.مگر دیکھو رسول کریم WATER فرماتے ہیں توى له من اوروں کو بھی دکھائی جاتی ہیں.اور حضرت مسیح موعود کہتے ہیں کہ دو شخصوں کی خوابوں کو آپس میں ملا کر دیکھ لو.اگر مل جائیں تو وہ بچی ہوں گی.لیکن ہمارے متعلق دو کو نہیں بلکہ سینکڑوں کو آئیں.پھر ان لوگوں کو آئی ہیں جو ہمارا نام بھی نہ جانتے تھے حتی کہ ہندوؤں کو بھی آئی ہیں.چنانچہ ایک ہندو نے خواب میں دیکھا.کہ میں اور حضرت صاحب گھوڑوں پر سوار جا رہے ہیں اور میرا گھوڑا آپ سے آگے ہے".اور مجدد صاحب سرہندی کے تجربہ سے ظاہر ہے کہ مامور سے اس کے مرید کے گھوڑے کے آگے ہونے کی تعبیر اس مرید کا اس کا
دم جلد ۴ 19.حقیقته الرؤيا جانشین بنتا ہوتا ہے.انہوں نے بھی دیکھا تھا کہ میں آنحضرت ا کے آگے جا رہا ہوں.اس پر جب اعتراض ہوا کہ کیا تمہارا درجہ آنحضرت سے بڑا ہے.تو انہوں نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ جو خدمت پر مامور کیا جاتا ہے وہ آقا کے آگے ہی چلا کرتا ہے.تو یہ خواب ایک ہندو نے دیکھی.اس کو اس بات کی کیا خواہش ہو سکتی تھی کہ میں خلیفہ بنوں یا نہ بنوں.پھر اگر حدیث النفس ہی ہوتی تو وہ مجھے گھوڑے پر سوار نہ دیکھتا بلکہ یہ کہتا کہ تم کو میں نے خلیفہ بنا ہوا دیکھا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے اسے مثالی رنگ میں دکھا کر بتلا دیا کہ یہ حدیث النفس نہیں ہے.پھر ایک غیر احمدی نے لکھا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک دریا ہے اور اس پر ایک آدمی کھڑا ہے اور کچھ لوگ گزر رہے ہیں.جو شخص گزرتا ہے اسے وہ کھڑا ہونے والا شخص کہتا ہے کہ اس سے (مجھ سے) چٹھی لاؤ تب گزرنے دوں گا.جو لوگ تو چٹھی لا کر دکھا دیتے ہیں وہ صحیح سلامت پار اتر جاتے ہیں اور جولانے سے انکار کرتے ہیں وہ ہلاک ہو جاتے ہیں.اسی طرح ایک شخص نے جو یہاں سے قریب ہی ایک گاؤں شکار کا رہنے والا ہے اور مجھے جانتا نہ تھا دیکھا کہ میں خلیفہ مقرر ہو گیا ہوں صبح اٹھ کر اس نے احمدیوں سے پوچھا کہ قادیان میں کوئی محمود ہے اس کو بڑا درجہ ملنے والا ہے.اس سے یہ سن کر جب وہاں کے احمدی یہاں آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ حضرت مولوی صاحب فوت ہو چکے ہیں اور ان کی جگہ میں خلیفہ ہوا ہوں.اسی طرح ہزارہ کی طرف کا ایک شخص جس کا نام محمد صادق ہے آیا اس نے دیکھا کہ میں نفل پڑھنے کے لئے مسجد میں گیا ہوں اور وہاں اپنے بھائی سے مصافحہ کیا ہے جس کا نام محمود تھا.اور مصافحہ کرتے وقت بجائے ہاتھ پر ہاتھ پڑنے کے بازو پر ہاتھ پڑا ہے اور دیکھا کہ اس وقت اس کے بھائی کے بائیں طرف سر کے بال ایک روپیہ بھر اڑے ہوئے ہیں.یہ رویا اس نے کسی کو سنائی اور اس نے اسے کہا کہ تم کسی بزرگ کی بیعت کرو گے.وہ اسی تلاش میں تھا کہ کسی احمدی نے حضرت مولوی صاحب کا پتہ اسے بتایا اور وہ یہاں آیا.بٹالہ میں اسے کسی نے آپ کی وفات کی خبر دی مگر وہ قادیان آگیا.یہاں لوگ خلافت کے لئے بیعت ہو رہے تھے.وہ کہتا ہے کہ میں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب تو فوت ہو چکے ہیں انہی کی بیعت کر لوں مگر جب بیعت کے لئے ہاتھ رکھا.تو بجائے ہاتھ پر ہاتھ پڑنے کے بازو پر ہاتھ پڑا.کہتا ہے کہ اس وقت مجھے خیال آیا کہ کہیں یہ وہی خواب تو پوری نہیں ہوئی.اس وقت سر اٹھا کر دیکھا تو میرے سر
انوار العلوم جلدم 191 حقیقته الرؤيا پر وہی نشان دیکھا.کیونکہ ان دنوں کسی بیماری کی وجہ سے میرے سر کے بائیں طرف کے بال ایک روپیہ برابر اڑ گئے تھے.بیعت کے بعد اسے معلوم ہوا کہ میرا نام بھی محمود ہے.جس پر اسے اپنی خواب کی صداقت کا علم ہو گیا.اور اس نے لوگوں کے سامنے اپنی رؤیا کو بیان کیا.پھر غیر مبائعین میں سے بہت لوگوں کو خواہیں آئیں اور وہ اسی ذریعہ سے بیعت میں داخل ہوئے.ایک شخص نے مجھے لکھا کہ میرے دل میں آپ سے بڑی نفرت تھی.اور میرا ایک دوست تھا اس کی بھی یہی حالت تھی.لیکن میں نے دیکھا کہ ہم دونوں ایک پکی سڑک پر جارہے ہیں اور کچھ دور جا کر ایک پگڈنڈی آگئی ہے.پکی سڑک کو میں نے دیکھا کہ ایک انجینئر بنا رہا ہے اور وہ انجینئر آپ ہیں.لیکن چونکہ مجھے آپ سے بغض تھا اس لئے پکی سڑک پر چلنا چھوڑ دیا اور پگڈنڈی پر چل پڑا.اور گو اس وقت مجھے پیاس لگی ہوئی تھی اور آپ کے پاس پانی تھا.لیکن میں نے پینا نا پسند کیا اور آگے چلا گیا.آگے سے حضرت مسیح موعود نے اشارہ فرمایا کہ ادھر نہ آؤ اور ساتھ ہی ایک شیر حملہ آور ہوا.یہ دیکھ کر میں تو واپس بھاگ آیا مگر میرے دو سرے ساتھی کو شیر نے پھاڑ ڈالا.اب میں تو بیعت کرتا ہوں لیکن میرا دوست نہیں مانتا.کچھ عرصہ کے بعد اس کو طاعون ہو گئی اور وہ مرگیا.تو میری تائید میں بہت سے لوگوں کو خوابیں آئی ہیں.مگر کہہ دیا گیا کہ یہ حدیث النفس ہیں.کیوں ایسا کہا گیا؟ اس لئے کہ وحی اور رؤیا کا ان لوگوں کی نگاہ میں کوئی پاس اور ادب نہیں ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ جب میری رویا ان کے خلاف پڑی تو کہہ دیا کہ تم مامور نہیں ہو اور جب حضرت مسیح موعود کی وحی خلاف پڑی تو کہہ دیا کہ ضعیف سے ضعیف حدیث کے بھی ماتحت ان کو رکھیں گے.چھٹی علامت یہ ہے کہ ایسی خوابوں سے انسان نیکی اور طہارت میں ترقی کرتا ہے.مثلاً خواب آنے کے بعد جب انسان کی آنکھ کھل جائے تو اس میں کوئی سستی اور کاہلی نہ ہو بلکہ ایک قسم کی چستی پائی جائے اور اٹھ کر تجد پڑھے.یہ بھی اس خواب کے خدا کی طرف سے ہونے کی علامت ہے.ساتویں علامت یہ ہے کہ ایسی خواہیں اکثر مثالی زبان میں آتی ہیں.یعنی بات ظاہرہ طور پر نظر نہیں آتی بلکہ کسی رنگ میں اس کی طرف اشارہ کر دیا جاتا ہے.مثلاً اگر کسی کے مرنے کے متعلق اطلاع دی جائے.تو یہ نہیں کہ اسے مردہ دکھایا جائے بلکہ کوئی ایسا اشارہ کر دیا جائے گا
علوم جلد ۴ ۱۹۲ حقیقته الرؤيا جس سے اس کا مرنا مراد ہو.اس کے متعلق سوال ہو سکتا ہے کہ جب خبر دی جاتی ہے تو صاف طور پر کیوں نہیں دی جاتی یہ رنگ اختیار کرنے کی کیا وجہ ہوتی ہے.بات یہ ہے کہ اس طرح یہ بتلانا ہوتا ہے کہ یہ خبر خدا کی طرف سے ہے نہ کہ حدیث النفس یا قیاس.کیونکہ مثالی رنگ میں دکھایا کچھ جاتا ہے اور اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے جس کا علم تعبیر سے ہوتا ہے.اور بعض دفعہ دیکھنے والے کو خود اس خواب کی تعبیر معلوم نہیں ہوتی اور دوسرے سے پوچھنی پڑتی ہے.جس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اس کے نفس کی ملاوٹ نہ تھی بلکہ کسی اور ہی ہستی کی طرف سے ایک اطلاع تھی.اب میں ماموروں کے الہام کی شناخت ماموروں کے الہام کی صداقت کی علامات کی علامات بتاتا ہوں.پہلی علامت تو یہ ہے کہ ماموروں کے الہام میں اقتداری غیب ہوتا ہے.غیب تو غیر ماموروں کے الہاموں میں بھی ہوتا ہے لیکن ماموروں کے الہامات میں اس کا اقتداری رنگ ہوتا ہے.مثلا یہ کہ اگر فلاں شخص ہمیں مان لے گا.یا فلاں کام سے باز آجائے گا تو بچ جائے گا ور نہ ہلاک ہو جائے گا.لیکن غیر مامور کے الہام میں یہ بات نہیں ہوتی یا بہت ادنی درجہ پر شاذ و نادر ہوتی ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ ان کے الہامات میں کثرت سے غیب ہوتا ہے.اوروں کو کثرت سے الہام تو ہو سکتے ہیں لیکن کثرت غیب نہیں ہوتا.تیسری علامت یہ ہے کہ ماموروں کے الہامات وسیع الاثر ہوتے ہیں.سارے جہان یا قوموں کے بڑھنے یا مٹنے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن غیر مامور کے الہام میں یہ بات نہیں ہوتی.بات یہ ہے کہ غیر مامور تو اپنے نفس کا ہی ذمہ دار ہے اس لئے اسے اپنے متعلق ہی بتایا جاتا ہے اور مامور ساری دنیا کے لئے ہوتا ہے اس لئے اس کے الہامات بھی وسیع الاثر ہوتے ہیں.چوتھی علامت یہ ہے کہ مامور کے الہامات کے ساتھ خدا کی طاقت اور قدرت ہوتی ہے یعنے اس کے ذریعہ خدا اپنا جلال ظاہر کرتا ہے اور اس کے الہامات روحانیت پیدا کرنے والے اور دنیا کے دلوں کو الٹ دینے والے ہوتے ہیں.پانچویں علامت یہ ہے کہ سچا ملم جو خدا کی طرف سے آتا ہے اسے رعب دیا جاتا ہے اور دشمن اس کے سامنے آنے کی جرأت نہیں کر سکتا.اور اگر آئے تو مرعوب ہو جاتا ہے.اس
دم جلد ۴ ۱۹۳ حقیقته الرؤيا لئے اس کے دشمن دور دور سے ہی چیختے چلاتے رہتے ہیں پاس آنے کی جرأت نہیں کرتے.یہی دیکھ لو حضرت مسیح موعود جب تک زندہ رہے مخالفین کو مباہلہ کا چیلنج دیتے رہے مگر کسی کو سامنے آنے کی جرات نہ ہوئی.لیکن اب کہتے ہیں آؤ کر لو.انہیں یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالٰی نتیجہ وہی نکالے گا جو اس وقت نکلتا.لیکن اس سے ایک مامور اور غیر مامور میں فرق تو معلوم ہو جاتا ہے.چھٹی علامت یہ ہے کہ مامور سے بزدلی کو بالکل دور کر دیا جاتا ہے.کوئی کہے کہ رعب کا دیا جاتا اور بزدلی کا دور کرنا ایک ہی بات ہے لیکن یہ درست نہیں ہے.کیونکہ رعب وہ ہوتا ہے جو دوسرے کے دل میں پیدا ہوتا ہے.اس سے یہ نہیں پتہ لگتا کہ جس کا رعب پیدا ہوا ہے وہ بزدل نہیں ہے.اور جس کے دل پر اس کا رعب چھا گیا ہے اس سے وہ نہیں ڈرتا.ہو سکتا ہے کہ دوسرے کے دل میں اس کا رعب ہو مگر وہ بھی اس سے ڈرتا ہو.چند ہی دن کی بات ہے ہمارے ہاں ایک پاگل سی عورت رہتی ہے.ایک دن سقہ دیر کر کے پانی لایا تو وہ اینٹ لے کر اسے مارنے لگی.لیکن تھے کے بھاگنے پر وہ خود بھی چیخ مار کر بھاگ گئی.تھے نے سمجھا کہ یہ مجھے اینٹ نہ مار دے اور اس نے سمجھا کہ منہ مجھے مارنے لگا ہے اس طرح دونوں ڈر گئے.پس بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ہی وقت میں دو شخص ایک دوسرے سے ڈر رہے ہوتے ہیں.لیکن مامورین کی یہ حالت نہیں ہوتی ان سے بزدلی کو بالکل دور کر دیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کی نسبت ایک دوست نے سنایا کہ گورداسپور میں مقدمات کے دوران میں ایک شخص حضرت مسیح موعود کے پاس گھبرایا ہوا آیا اور کہا حضور مجسٹریٹ کو دشمنوں نے کہا ہے خواہ کچھ بھی ہو ایک دفعہ قید کر دو اور اس نے بھی ایسا کرنے کا اقرار کر لیا ہے.آپ لیٹے ہوئے تھے.آپ کا اس بات کو سن کر چہرہ سرخ ہو گیا اور اٹھ بیٹھے اور پھر نہایت جوش سے کہا کیا کوئی خدا کے شیر پر ہاتھ ڈال سکتا ہے اس کی کیا طاقت ہے کہ ایسا کر سکے.اگر کوئی اور ہو تا تو تحقیقات کرا تا کہ بات ٹھیک ہے یا نہیں.اس سے خوف کھاتا اور گھبرا تا لیکن آپ نے ذرہ بھی پرواہ نہ کی.وجہ یہ کہ مأمور کا دل نہایت جری ہوتا ہے.ساتویں علامت یہ ہے کہ جو مامور ہوتے ہیں ان کو علوم دیئے جاتے ہیں اور روحانی امور کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے.لیکن آج کل کئی لوگ ہوتے ہیں جو قرآن کا ترجمہ بھی نہیں جانتے اور مامور ہونے کا دعوی کر بیٹھتے ہیں.جب الہی بخش نے کہا کہ مجھے الہام ہوا ہے کہ مرزا
لوم جلد ۴ ۱۹۴ حقیقته الرؤيا صاحب تیری بیعت کریں.تو حضرت صاحب نے کہا کہ بیعت تو کچھ حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے.میں اگر تمہاری بیعت کرلوں تو کیا دو گے.اور اگر کچھ نہیں دے سکتے تو اتنا ہی کہہ دو کہ سورہ والناس کی تفسیر تم بھی لکھو اور میں بھی لکھتا ہوں.اگر میں تم سے ہزار درجہ زیادہ معارف نہ بیان کروں تو تمہاری بیعت کر لوں گا.لیکن اس نے ایسا نہ کیا.تو ضروری ہے کہ مامورین کے لئے قرآن کریم کے حقائق اور معارف کے دروازے کھولے جائیں.لیکن آج کل کے ایسے مدعی ہوتے ہیں کہ عربی کا ایک فقرہ بھی صحیح نہیں بول سکتے اور قرآن کریم کا صحیح ترجمہ بھی نہیں کر سکتے.ZJ آٹھویں علامت یہ ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کو خدا تعالی بالکل پاک و صاف کر دے.کیونکہ اس کا کام دوسروں کو پاک کرنا ہوتا ہے میرے نزدیک مامور کے معنی نبی کے ہی ہیں اور بزرگوں نے بھی مامور کے یہی معنے لئے ہیں.چنانچہ محی الدین ابن عربی نے فتوحات مکیہ میں اور شاہ ولی اللہ صاحب نے حجتہ اللہ البالغہ میں یہی معنی لئے ہیں.تو مامور کو خدا ہر قسم کی آلائشوں سے بالکل پاک رکھتا ہے.تاکہ دوسروں کے لئے نمونہ بن سکے اور لوگ اس سے سبق حاصل کر سکیں.نویں علامت یہ ہے کہ اس کے الہامات میں خدا کے فضل اور احسان کے وعدے ہوتے ہیں.کیونکہ وہ عظیم الشان کام کے لئے آتا ہے اور ساری دنیا اس کی مخالفت کے لئے کھڑی ہو جاتی ہے.پس خدا تعالیٰ بھی اس کو قبل از وقت کامیابی اور فتح کی خبریں دیتا ہے.اور اپنے فضل کی امیدیں دلاتا ہے.اور پھر اسی طرح ہو کر رہتا ہے.دسویں علامت یہ ہے کہ کوئی مامور نہیں آتا کہ خدا لوگوں کی توجہ اس کی طرف نہ پھیر دے.خواہ لوگ اس کی مخالفت کے لئے کھڑے ہوں یا تائید کے لئے.لیکن اس کی وجہ سے ایک ہل چل سی مچ جاتی ہے اور سب کی توجہ اس کی طرف ہو جاتی ہے.لیکن جھوٹے مدعی اس بات کے لئے بہت کوشش کرتے ہیں کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوں مگر کوئی پوچھتا بھی نہیں.اور آخر وہ ان ذرائع سے لوگوں کو اکساتے ہیں کہ دیکھو ہم نے فلاں بات لکھی تھی مگر کوئی بولا ہی نہیں پس ہم جیت گئے.بچے کے دشمن بھی خاموش ہو جاتے ہیں مگر مقابلہ کے بعد.اور جھوٹے کو کوئی پوچھتا ہی نہیں.یہ سب علامات میں قرآن کریم سے ثابت کر سکتا ہوں.
انوار العلوم جلد تم ۱۹۵ حقیقته الرؤيا اب ایک اور بات باقی رہ گئی ہے اور وہ یہ کہ کہا جا انبیاء کے الہامات میں متشابہات سکتا ہے کہ نبیوں اور ماموروں کے الہامات میں متشابہات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ان کے الہاموں کو سچا ماننے میں شک پڑ جاتا ہے.کیونکہ جب خود مامورں کو بھی بعض اوقات ان سے غلطی لگ جاتی ہے تو اور کوئی کس طرح صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے.لیکن یہ بات انبیاء کے الہامات کے غلط اور جھوٹے ہونے کی دلیل نہیں ہے.بلکہ ان کی سچائی کی ایک اور علامت ہے لیکن اکثر لوگ اس کو سمجھتے نہیں.میرے نزدیک اس سے بڑھ کر انبیاء کی صداقت کو ظاہر کرنے والی اور کوئی بات نہیں ہوتی.کیونکہ اگر نبی کے الہامات میں متشابہات نہ ہوں تو وہ عظمت اور شان جو نبی کی ہوتی ہے وہ ظاہر نہیں ہو سکتی.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم ہمیشہ متشابہات بھیجا کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے بلکہ انبیاء کی شان کو بڑھانے والی ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ الہام دو قسم کے ہوتے ہیں.مامورین کی ایک وحی ایسی ہوتی ہے جو صرف خبر کا رنگ رکھتی ہے کہ ایسا ہو گا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا کہ لیکھرام مارا جائے گا اور وہ مارا گیا.یا جیسے یہ کہ بنگالیوں کی دلجوئی ہوگی اور ایسا ہی ہو گیا.ایسی وحی میں چونکہ غیب پایا جاتا ہے اس لئے ثابت ہوتا ہے کہ خدا کی طرف سے ہے.لیکن سپر چلزم والوں کا سوال رہ جاتا ہے کہ کیوں نہ مانیں کہ دماغ ہی ایسی باتیں بنا لیتا ہے.اس کے رد کے لئے خدا تعالیٰ ایسی وحی بھیجتا ہے جو دو پہلو رکھتی ہے.کہ اگر فلاں شخص ہمارے متعلق یوں معاملہ کرے گا تو اس سے یہ سلوک ہو گا.اور دوسری طرح سلوک کرے گا تو وہ سلوک ہو گا.پس اس قسم کی حضرت مسیح موعود کی جو پیشگوئیاں ہیں ان سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ آپ بچے نہیں ہیں بلکہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کوئی نجومی نہیں بلکہ خدا کے نبی تھے اور نبیوں میں سے بھی اولو العزم.کیونکہ جن کے متعلق ایسی پیشگوئیاں تھیں ان کے حالات بدلنے کے ساتھ ان کے مطابق ہی سلوک ہوا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ حضرت مرزا صاحب کوئی مشین نہیں تھے کہ جس طرح چل پڑے اسی طرح چلتے رہے.بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نبی تھے جو قادر بالا رادہ ہے.جس طرح اس نے چاہا اسی طرح ان کو چلایا.اگر خدا تعالیٰ حالات کو بدلنے کے ساتھ سلوک بھی نہ بدل دے تو پھر اس کے قادر بالا رادہ ہونے کا کوئی ثبوت نہیں رہتا.اور یہی ماننا پڑتا ہے کہ ایک دفعہ جو بات کہہ دے پھر خواہ وہ مناسب موقع اور بر محل نہ بھی ہو تو بھی اس کے روکنے پر قادر نہیں ہے.لیکن اس
العلوم جلد 194 حقیقته الرؤيا طرح کرنے سے ثابت ہو جاتا ہے کہ اقتدار خدا کے ہاتھ میں ہے.پس اس قسم کی پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود ہی کی نہیں بلکہ پہلے بھی ہوتی رہی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت نوح اور ان کے بیٹے کا جو واقعہ لکھا ہے وہ اسی قسم کا ہے.ان کو کہا گیا تھا کہ کشتی میں اپنے اہل اور مؤمنوں کو بٹھا لو ان کو نجات دی جائے گی.مگر ان کو نہیں جن کے متعلق پہلے کہا جا چکا تھا.حضرت نوح نے سمجھا کہ میرا بیٹا بھی اہل میں سے ہے اور اس کے بچائے جانے کا بھی وعدہ ہے.مگر خدا نے بتایا کہ تمہارا یہ خیال درست نہیں وہ نہیں بچایا جائے گا.اس کی تفصیل "الفضل" میں میرے درس کے نوٹوں میں چھپ چکی ہے.تو حضرت نوح اور ان کے بیٹے کا واقعہ قرآن میں موجود ہے.پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک پیشگوئی بغیر کسی شرط کے سمجھی جاتی ہے مگر وقت پر ٹل جاتی ہے.جیسے حضرت یونس کا واقعہ ہے.جس کا ذکر قرآن کریم میں مختصر اور بائبل میں مفصل ہے.انہیں کہا گیا تھا کہ نینوا والوں کو جا کر کہو کہ چالیس دن کے بعد تم پر عذاب آئے گا.یہ بغیر کسی شرط کے پیشگوئی تھی.جسے سن کر وہاں کے بادشاہ نے ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے.سارے لوگ آہ و زاری میں مشغول ہو گئے.جانوروں اور بچوں کو بھوکا پیاسا رکھا اور چالیس دن تک اسی حالت میں رہے.چالیس دن کے بعد حضرت یونس اس یقین میں بیٹھے تھے کہ وہ قوم سب کی سب ہلاک ہو چکی ہوگی.لیکن ان کو معلوم ہوا که وه ای طرح صحیح و سلامت ہے.یہ معلوم کر کے وہ بہت غمگین ہوئے کہ اب یہ لوگ مجھے کیوں کر سچا مانیں گے اور باہر جنگل میں چلے گئے.اور جس جگہ جاکر ٹھہرے وہاں بائبل کے بیان کے مطابق خدا نے ایک بیل پیدا کر دی جس نے اس پر سایہ کیا.لیکن رات کو کسی جانور نے اسے کاٹ کر گرا دیا.جس سے ان کو صدمہ ہوا.اس وقت خدا نے انہیں بتلایا کہ دیکھ تجھے اس بیل کے کٹنے سے صدمہ ہوا اور تو نے نہ چاہا کہ میں اسے کاٹوں.تو تو کیوں اس پر ناراض ہوتا ہے کہ میں نے اپنی ہزار ہا مخلوق کو ہلاک نہ کیا.اس سے ان کی سمجھ میں بات آگئی اور وہ شہر میں واپس آئے اور لوگ ان پر ایمان لائے.اس سے صاف ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو عذاب کی خبر دی گئی تھی اور اس کے آثار بھی ظاہر ہو چکے تھے جیسا کہ قرآن شریف سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے.اور یہ عذاب بلا شرط بھی تھا لیکن پھر بھی ٹل گیا.اس سے معلوم ہوا کہ بغیر شرط کی پیشگوئیاں بھی ٹل جاتی ہیں.پھر دیکھو حضرت موسیٰ کو کہا گیا تھا کہ جاؤ اس ملک میں داخل ہو جاؤ.وہ تمہارے لئے ہے.مگر خدا تعالٰی بتاتا ہے کہ چالیس سال تک ان کی قوم کے
العلوم جلد ) ۱۹۷ حقیقته الرؤيا لوگ مارے مارے پھرتے رہے اور جن کو کہا گیا وہ ہلاک ہو گئے.اور بعد والوں کو اس ملک میں جانا نصیب ہوا کیونکہ پہلے اس فضل اور انعام کے حاصل کرنے کے مستحق نہ رہے تھے.اس لئے ان کو نہ ملا اور ان کے حالات کے بدلنے سے وعدہ ٹل گیا.پس وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود کی اس قسم کی پیشگوئیوں پر اعتراض کرتے ہیں ان کے لئے ان دو نبیوں کی مثالیں موجود ہیں.چونکہ حضرت مسیح موعود پر آپ کے دشمنوں نے یہ اعتراض کرنا تھا.اس لئے رسول کریم ﷺ نے ان دونوں انبیاء کی عظمت اور بڑائی بتانے کے لئے فرمایا کہ یونس اور موسیٰ پر مجھے فضیلت مت دو (بخاری کتاب الانبياء.باب قول الله عز وجل "وان يونس لمن المرسلين - الى قوله و هو ملیم یعنی ان کی بہت بڑی قدر اور عزت کرو.لیکن اب وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود کی اس قسم کی پیشگوئیوں پر اعتراض کرتے ہیں جیسی کہ ان انبیاء نے کی تھیں، وہ دراصل حضرت مسیح موعود پر اعتراض نہیں کرتے بلکہ انہیں انبیاء پر کرتے ہیں.اور آنحضرت ﷺ نے ان کی جو شان بتائی تھی اس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ ایسی پیشگوئیاں خدا کا اقتدار اور شان ظاہر کرنے کے لئے ہوتی ہیں.اب ایک سوال ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ انبیاء کو اجتہادی غلطی کیوں لگتی ہے.کیوں خدا انہیں صحیح صحیح بات نہیں سمجھا دیتا.اور اجتہادی غلطی میں ڈال کر لوگوں کو ابتلاء میں ڈالتا ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ لوگ تو اس کو نبی کی کمزوری سمجھتے ہیں لیکن میرے نزدیک یہ بھی اس کے صدق دعوی کی ایک بڑی بھاری دلیل ہوتی ہے اور وہ اس طرح کہ اگر نبی کو اجتہادی غلطی نہ لگے تو سپر چلزم والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنے قیاس سے یہ باتیں معلوم کر کے بیان کر دیتا ہے.لیکن اب جب کہ خدا تعالٰی نبی کے منہ سے اس کی پیشگوئی کے کسی اور طرح پر پورا ہونے کا اعلان کروا دیتا ہے.اور پورا اور طریق پر کرتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نبی نے اپنے قیاس سے یہ بات بیان کی تھی.کیونکہ اگر وہ اپنے قیاس سے بیان کرتا تو چاہئے تھا کہ جس طرح اس کا خیال تھا اسی طرح پوری ہوتی.لیکن نبی کا اور خیال ہونا اور پیشگوئی کا اور طریق پر پورا ہونا بتاتا ہے کہ الہام اس نے اپنے قیاس سے نہ بنایا تھا.بلکہ اس کے بتانے والی کوئی اور زبردست ہستی ہے.پھر شرطی پیشگوئیوں سے ایک نجومی اور نبی میں بین فرق معلوم ہو جاتا ہے.مثلاً ایک نجومی خبر دے کہ زلزلہ آئے گا اور ہو سکتا ہے کہ آجائے.لیکن جب آئے تو بعید نہیں کہ نجومی
م جلد ۴ حقیقته الرؤيا بھی اس سے ہلاک ہو جائے.یا اس کے بیوی بچے اور عزیز و خویش ہلاک ہو جائیں.لیکن نبی جو اس قسم کی خبر دیتا ہے اس میں یہ بھی شرط ہوتی ہے کہ اس سے میں اور میرے ماننے والوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اب اس پیشگوئی کے دوران میں مؤمنوں میں سے اگر کوئی مرتد ہو جائے تو اس کے لئے جو امان کا وعدہ تھا وہ مبدل بعذاب ہو جاتا ہے.اور اگر کافروں میں سے کوئی مان لے تو اس کے لئے جو عذاب کا وعدہ تھا وہ مبدل بامن ہو جاتا ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ایک خبر ہی نہیں بلکہ اس خبر کا دینے والا خدا تعالیٰ کا پیارا بھی ہے کہ جو کوئی اس سے جیسا تعلق رکھے اس سے ویسا ہی معاملہ ہوتا ہے.اب کوئی کہے کہ اگر شرطی پیشگوئیاں حالات کے بدلنے کی وجہ سے بدل جاتی ہیں تو یہی بات قیاسی پیشگوئیوں کے غلط ہونے پر بھی کی جاسکتی ہے کہ ان کے بھی حالات بدل گئے تھے اس لئے پوری نہیں ہو ئیں.اس صورت میں الہام کو قیاسی پیشگوئیوں پر کیونکر فضیلت دی جا سکتی ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک باطل خیال ہے.کیونکہ قیاس کے ذریعہ جو بات بیان کی جاتی ہے وہ ایسی ہوتی ہے کہ جس بات کے متعلق خبر دی جاتی ہے وہ کسی ظاہری سبب کا نتیجہ ہوتی ہے.یعنی وہ نتیجہ قانون قدرت کے مطابق ہوتا ہے مثلا کہہ دیا جاتا ہے کہ فلاں بیمار مرجائے گا.اب موت بیماریوں کا ہی نتیجہ ہوتی ہے تندرستی کا نتیجہ تو نہیں ہوتی.گو بعض لوگ سخت بیماریوں سے بچ بھی جاتے ہیں.لیکن نبی جو خبر دیتے ہیں وہ شرعی نتیجہ ہوتا ہے نہ کہ طبعی مثلا یہ کہ اگر فلاں شخص ہماری بات کو نہ مانے گا ہلاک ہو جائے گا ورنہ بچ جائے گا.لیکن قانون قدرت کے ماتحت اس بات کے ماننے یا نہ ماننے کا نتیجہ ہلاکت نہیں ہوتا جیسا کہ حضرت صاحب کی پیشگوئی نکاح کے متعلق ہے کہ اگر فلاں شخص اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے نہ کرے گا تو ہلاک ہو جائے گا.اور اگر اس لڑکی کی والدہ اپنی گمراہی سے توبہ نہ کرے گی تو اس پر بھی عذاب آئے گا.اور اسی طرح دوسرے رشتہ داروں کے متعلق.اب ہر شخص معلوم کر سکتا ہے کہ قانون قدرت کے ماتحت ہرگز یہ شرط نہیں ہے کہ کوئی شخص اپنی لڑکی کا کسی خاص شخص سے نکاح کرے تب ہی زندہ رہے گا ورنہ نہیں.پس نبی کی پیشگوئیاں شرعی قانون کی بناء پر ہوتی ہیں.اور جب وہ پوری ہوتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی بناء کسی قیاس پر نہیں.کیونکہ قیاس نہیں بتا سکتا کہ زید اگر بکر سے اپنی لڑکی کا نکاح کرے گا تو ہلاک ہو جائے گا.اور اگر کوئی ایسی خبر دیتا ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہے اور اور بھی کثرت
انوار العلوم جلد ۴ 199 حقیقته الرؤيا سے اس کی پیشگوئیاں پوری ہوتی ہیں تو یہ اس بات کا ثبوت ہو گا کہ وہ خدا تعالیٰ سے الہام پاتا ہے.کیونکہ اگر ایسا نہیں تو پھر جیسا کہ اس کے الہامات میں قبل از وقت بتا دیا جاتا ہے.اس کے دشمنوں سے وہ معاملہ کیوں کیا جاتا ہے جو کسی طبعی غلطی کا نتیجہ نہیں ہو تا بلکہ اسی صورت میں وہ اس ثمرہ کا مستحق ہوتے ہیں جب کہ یہ شخص خدا تعالی کا پیارا ہو.غرض یہ علامات اور شرائط ہیں جو مأمور من اللہ کے الہامات کو پر کھنے کے لئے ہیں.خاتمہ اور اگر کوئی عقل و فکر سے کام لے.ضد اور دشمنی کو ترک کر دے تو ان کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کی صداقت روز روشن کی طرح ظاہر ہو جاتی ہے.لیکن بہت سے لوگ ہیں جو ان کی طرف توجہ نہیں کرتے اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.یہ باتیں میں نے مختصر طور پر آپ لوگوں کو بتادی ہیں.کیونکہ تفصیل کا یہ موقع نہیں تاکہ ان لوگوں کے اعتراضات کے جواب دے سکو.اور ان باتوں کے نہ جاننے کی وجہ سے جو ٹھوکریں لگ سکتی ہیں ان سے بچ سکو.خدا تعالیٰ آپ کو ان کے سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق دے.آمین.
انوار العلوم جلد ۴ ۲۰۱ حقیقت الامر (مولوی محمد علی صاحب کی چشمی کا جواب) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
۲۰۲
لوم جلد ۴ ٢٠٣ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ مکرم و معظم مولوی صاحب و السلام علیکم! آپ کی طرف سے ایک مطبوعہ چٹھی جس پر تاریخ اشاعت درج نہیں مجھے ملی جسے پڑھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ کسی نہ کسی وجہ سے آپ کو بھی طیش ترک کر کے ہمدردی اور شرافت سے کسی فیصلہ پر پہنچنے کا خیال پیدا ہو گیا ہے.گو دوسرے واقعات اس بات کے منافی ہیں کہ آپ کو میری بیماری میں مجھ سے ہمدردی پیدا ہوئی کیونکہ آپ اور آپ کے ہم خیالوں کی طرف سے مجھ سے جو معاملہ ہوتا چلا آیا ہے وہ سخت بغض و کینہ کا نتیجہ تھا.چنانچہ آپ کے اخبار ”پیغام صلح" میں عزیز عبدالحی مرحوم کی وفات پر اشارۃ اور کنایۃ اس بات کا اعلان ہوتا رہا ہے کہ اس کی وفات طبعی ذرائع سے نہیں ہوئی بلکہ اس میں کچھ اسرار ہیں.جو فعل کہ ایک کمینہ سے کمینہ دشمن بھی نہیں کر سکتا اور اس وقت تک کہ انسان دشمنی میں حد سے بڑھ کر انسانیت کو بھی ترک نہ کر دے اس سے اس قسم کی امید نہیں کی جاسکتی اور آپ کی تحریرات میں بھی بارہا معمولی آداب کو نظر انداز کیا جاتا رہا ہے پس اندریں حالات یہ آپ کی تحریر تعجب و حیرت میں ڈالتی ہے.مگر چونکہ مؤمن کا کام حسن ظن کرنا ہے آپ کی اس کے تبدیلی کو میں فیصلہ کی کچی خواہش اور ہمدردی کا نتیجہ سمجھ کر بہت خوش ہوں.اور یقین رکھتا ہوں کہ اگر واقع میں یہ آپ کا فعل سچی ہمدردی اور اخلاص کا نتیجہ ہے اور کوئی اور غرض پوشیدہ نہیں اور اس شیریں بیانی سے جس میں بار بار سخت کلامی تک نوبت پہنچ جاتی ہے لوگوں بر اثر ڈالنا مقصود نہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس ہمدردی اور توجہ کے بدلہ میں حق اور صداقت کی طرف ہدایت کرے گا اور اس کشاکش سے جس میں آپ اس وقت مبتلاء ہیں نجات دے کر اطمینان قلب عطا فرما دے گا.کیونکہ وہ کبھی کسی کے عمل کو ضائع نہیں کرتا لیکن اگر اس تحریر کی غرض مجھ سے ہمدردی نہیں اور یہ کھلی چٹھی آپ کی اسلامی اخوت کا نتیجہ نہیں یہ ایک موقع
رالعلوم جلد ۴ ۲۰۴ حقیقت الامر نکالا ہے جماعت کو صحیح راستہ سے ہٹانے کا تو میں ڈرتا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں آپ حق سے اور بھی دور نہ جا پڑیں اور صداقت کو آپ کی آنکھوں سے اور بھی مخفی نہ کر دیا جاوے.اللہ تعالیٰ مجھے بھی اور آپ کو بھی اپنے غضب سے بچاوے اور حق پر قائم رہنے اور قائم ہونے کی توفیق عطا فرمادے.مولوی صاحب! آپ تحریر فرماتے ہیں کہ جس شخص کی جسمانی فرزندی مجھے حاصل ہے اس کی روحانی فرزندی کا آپ کو بھی دعوئی ہے.مگر شاید اس ہمدردی کے اظہار کے وقت آپ کو یہ خیال نہیں رہا کہ اس کی روحانی فرزندی کا مجھے بھی دعوئی ہے صرف آپ کو نہیں.اور یہی نہیں بلکہ میری روحانی فرزندیت کے متعلق تو اس رب قدیر کی شہادت ہے جو اصدق الصادقین ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود حقیقت الوحی میں تحریر فرماتے ہیں.”خدا نے مجھے بشارت دے کر فرمایا کہ اس کے عوض میں جلد ایک اور لڑکا پیدا ہو گا جس کا نام محمود ہو گا اور اس کا نام ایک دیوار پر لکھا ہوا مجھے دکھایا گیا.اور ابھی ستر دن پہلے لڑکے کی موت پر نہیں گزرے تھے کہ یہ لڑکا پیدا ہو گیا اور اس کا نام محمود احمد رکھا گیا." (حقیقۃ الوحی.روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۲۷) پس جس کو خدا نے محمود قرار دیا ہے اور اس کا نام مسجد کی دیوار پر لکھ کر دکھایا.جس سے مراد جماعت کی امامت تھی تو اس کی روحانی فرزندیت کا انکار کیونکر ہو سکتا ہے.مگر بهرحال میرا دعوئی سچا ہو یا جھوٹا.نفس دعوئی میں تو میں اور آپ دونوں برابر ہیں.پس اس ہمدردی کے وقت حضرت صاحب کی روحانی فرزندیت کا جو مجھے دعوئی ہے اس کا بھی انکار کرنا قابل تعجب ضرور ہے.مولوی صاحب! آپ کا یہ خیال بالکل درست ہے کہ بیماری کے وقت انسان کا دل نرم ہو جاتا ہے اور خصوصاً ایسے نازک وقت میں کہ جب یہ سمجھ لے کہ اس کی موت قریب آگئی ہے اور وہ تھوڑی ہی دیر میں خدا تعالیٰ سے ملاقی ہونے والا ہے اور یہی وقت ہے کہ انسان کو حقیقتاً اپنے ایمان کا حال معلوم ہوتا ہے.کیونکہ ذرہ بھی دھوکا یا قریب ہو تو انسان کا دل ایسے وقت میں خود بخود دہل جاتا ہے اور اس کی اپنی حالت اس کے لئے باعث عبرت ہو جاتی ہے.اور ایسے وقت مجھ پر بھی اس بیماری میں ضرور آئے ہیں کہ جب مجھے یقین کامل ہو گیا کہ میں چند منٹ سے زیادہ اس دنیا میں نہیں رہ سکتا.بلکہ ایک وقت تو اس طرح نبضیں چھٹ گئیں اور تمام بدن سے زندگی کی روح نکل گئی کہ سوائے چند انچ دل کے قریب کی جگہ کے باقی سب بدن
انوار العلوم جلد ) ۲۰۵ حقیقت الامر ایک غیر چیز معلوم ہو تا تھا اور دل کے ارد گرد بھی آنا فانا اس طرح زندہ حصہ کم ہوتا جاتا تھا کہ بالکل نزع کی کیفیت پیدا تھی.حتی کہ مکرمی و معظمی ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے کہ جن کو اللہ نے اس موقع پر خاص طور پر ہمدردی کرنے کا موقع دیا جب مجھ سے دریافت کیا کہ کیا ہوا ہے.تو اس وقت میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا.لیکن بجائے اس کی کے کہ یہ اوقات مجھے اپنے عقیدے سے متزلزل کر دیتے یا موت کا سامنا میرے قدم کو لڑکھڑا دیتا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان عقائد پر میں نے اس وقت کامل تسلی پائی اور ان کی اشاعت اور ان پر ثابت قدم رہنے کو میں اپنے لئے باعث مغفرت جانتا تھا.اور میرا دل اس وقت مطمئن تھا کہ میں نے جو کچھ کیا حق اور انصاف کو مد نظر رکھ کر کیا ہے.اور اس کی بدولت امید ہے کہ اللہ تعالیٰ میری مستیوں اور غفلتوں سے عفو فرمائے گا اور اپنے فضل کے نیچے جگہ دے گا.مولوی صاحب! آپ اپنے تلخ تجربہ سے یہ بات معلوم کر چکے ہیں کہ ایسے نازک وقت میں بعض وفعہ انسان اپنے مقام پر قائم نہیں رہتا.جیسا کہ آپ خود ایک دفعہ سخت بیمار ہوئے اور باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ حضرت مسیح موعود کے دار کے ساکن طاعون سے محفوظ رہیں گے اور باوجود اس کے کہ آپ دار مسیح کے ساکن تھے اس وقت آپ گھبرا گئے اور یقین کیا کہ مجھے طاعون ہے.لیکن حضرت صاحب کو تسلی دلانی پڑی کہ اس گھر کے ساکن کو طاعون نہیں ہو سکتی (حقیقتہ الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ ۲۶۵) میں بھی اس نازک حالت میں سے گزر کر اس امر کا مشاہدہ کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جن عقائد کو میں حق سمجھ کر ان پر قائم ہوں اور دوسروں کو بھی ان پر قائم رہنے کی تاکید کر رہا ہوں میرا دل ہر طرح ان پر مطمئن ہے.اور اس وقت جب کہ موت میرے سامنے کھڑی تھی میرا دل مجھے اس امر کی ملامت نہیں کرتا تھا کہ میں نے کیوں خود غرضی اور نفسانیت سے ان ناحق باتوں کو تسلیم کیا اور ان دوسروں کو بھی تسلیم کرنے کی تاکید کی.ہاں یہ ضرور خیال تھا کہ شاید ان عقائد کے رد میں اور لوگوں کو سمجھانے میں میں نے پوری کوشش نہیں کی کہ جو میرے مخالف غلط طور پر حضرت مسیح موعود کی طرف منسوب کرتے ہیں.اور بارہا اس تکلیف کے وقت میں نے اس فقرہ کا ورد کیا جو خدا تعالیٰ نے مجھے مصائب سے بچنے کے لئے بذریعہ رویا بتایا تھا کہ اللَّهُمَّ اهْتَدَيْتُ بِهَدْيِكَ وَا مَنْتُ بِنَبِتِكَ یعنی اے خدا میں تیری ہدایت کو تسلیم کرتا ہوں اور تیرے نبی مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں اور اسی طرح میں نے بعض خاص احباب کو جمع کر کے ان کو اس بات کی طرف
رالعلوم جلدم ۲۰۶ حقیقت الاحمر متوجہ کیا کہ بعض لوگوں کی طرف سے جو فتنہ جماعت میں پیدا کیا جاتا ہے مجھے ڈر ہے کہ میں فوت ہو جاؤں تو یہ فتنہ جماعت کے لئے مضر ہو.اس لئے دعا کرو کہ اللہ تعالی کوئی ایسی تدبیر سمجھائے کہ زندگی یا موت ہر حالت میں اللہ تعالٰی کے فضل سے اس فتنہ کے شر سے نجات حاصل ہو جاوے.پس اگر بیماری نے عقائد کے متعلق کوئی تبدیلی پیدا کی ہے تو یہی کہ میں ان عقائد پر آگے سے بھی زیادہ یقین کے ساتھ قائم ہوں.اور واقعات نے اس پر شہادت دے دی کہ میں اپنی نفسانیت کی وجہ سے قائم نہیں ہوں بلکہ میرا دل اس بات پر مطمئن ہے کہ وہی حق بھی ہے ہے.پس میں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ بھی بچے دل سے ان تمام مخالفت کے سامانوں کو بھلا کر جو آپ کے دل کو مجھ سے نفرت دلانے کا باعث ہوئے ہوں اس امر پر غور کریں کہ خدا تعالیٰ نے جس شخص کو نبی کہا ہے.نبی کریم اللہ جسے نبی کے نام سے یاد فرماتے ہیں.پہلے بزرگ جسے نبی کہتے چلے آئے ہیں وہ خود فرماتا ہے کہ میں خدا کے حکم کے مطابق نبی ہوں اور اس پر قائم ہوں جب تک کہ زندہ رہوں.اور جو کہتا ہے کہ میں صرف اس قسم کا نبی کہلانے سے منکر ہوں کہ گویا میں نئی شریعت لایا ہوں یا رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم سے الگ ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں.اور جسے آپ بھی کچھ مدت پہلے نبی لکھتے چلے آئے ہیں آج اس کو غیر نبی کہہ کر کیوں خدا تعالی نبی کریم ا ، بزرگان امت اور مسیح موعود کی ہتک اور تکذیب کی جاتی ہے اور خود اپنے اقوال کو رد کیا جاتا ہے.کیا یہ درست نہیں کہ حضرت مسیح موعود کی ہتک کرنے والے آپ کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں.محمد صادق سندھی جو حضرت مسیح موعود کی نسبت لکھتا ہے کہ ان کے اندر بھی نفسانیت اور عجب تھا.جب تک کہ اس نے صاف طور پر احمدیت سے ہی انکار نہیں کر دیا آپ کا مخلص کہلا تا رہا.حضرت صاحب کے علی نبی ہونے کے متعلق گفتگو کرتے وقت یہ فقرہ کہنے والے کہ ظلّ پر تو جوتیاں مارنی بھی جائز ہوتی ہیں آپ کے مقرب ہیں حضرت صاحب پر گندے سے گندے اور بخش سے نخش الزامات لگانے والا اور پھر اپنی غلطی کا اقرار نہ کرنے والا اپنی کتاب عسل مصفی میں حضرت صاحب کی نسبت لکھنے والا کہ مولوی نور الدین صاحب آپ سے تقویٰ میں زیادہ تھے آپ کا خاص دست و بازو ہے.آپ کے ہم خیالوں میں وہ لوگ شامل ہیں جو یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی ساٹھ فی صد پیشگوئیاں غلط نکلیں یا یہ کہ آپ کا الهام دخل شیطانی سے پاک نہیں.آپ کی تو انجمن کی طرف سے شائع ہونے والے رسالہ المہدی میں حضرت صاحب کی نسبت نہایت
دم جلد - ۲۰۷ حقارت سے یہ لکھا جاتا ہے کہ چند الہامات ہو جانے کے باعث آپ کیا نبی بن گئے.غرض ہر طرح خدا تعالیٰ کے اس برگزیدہ کی ہتک کرنے والے اور اس کے مسیح ناصری کو بن باپ قرار دینے کے عقیدہ کو شرک قرار دینے والے آپ کے ساتھ وہ تعلق رکھتے ہیں کہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ آپ سے ہیں اور آپ ان سے ہیں بلکہ بہت سی باتوں میں آپ ان کے مؤید اور ناصری ہیں.پس ان واقعات پر غور کریں اور جیسا کہ خود آپ نے تحریر فرمایا ہے اس بات کو مد نظر کہ موت صرف بیمار ہی کے قریب نہیں بلکہ تندرست چلتا پھرتا آدمی بھی اس کی پیٹ میں آجاتا ہے.پس خدا تعالٰی سے ملنے سے پہلے اپنا حساب درست کریں تاکہ اس وقت حسرت و اندوہ سے ہاتھ نہ ملنے پڑیں.مولوی صاحب! آپ شکایت فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے مریدوں کو منع کیا ہوا ہے کہ وہ آپ لوگوں کی کتابیں پڑھا کریں اور آپ چاہتے ہیں کہ میں اعلان کروں بلکہ حکم دوں کہ وہ ضرور آپ لوگوں کی کتابیں پڑھا کریں.مگر میرے نزدیک یہ شکایت بے جا ہے.میں نے بارہا اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے کہ وہ ہر عقیدہ کو سوچ سمجھ کر قبول کریں بلکہ بارہا یہ کہا ہے کہ اگر وہ کسی بات کو زید و بکر کے کہنے سے مانتے ہیں تو گو وہ حق پر بھی ہوں تب بھی ان سے سوال ہو گا کہ بلا سوچے انہوں نے ان باتوں پر کیونکر یقین کر لیا اور میرے خطبات اس پر شاہد ہیں.ہاں ہر شخص اس بات کا اہل نہیں ہو تاکہ مخالف کی کتب کا مطالعہ کرے کیونکہ جب تک کوئی شخص اپنی کتب سے واقف نہیں اگر مخالف کی کتب کا مطالعہ کرے گا تو خطرہ ہے کہ ابتلاء میں پڑے.ایک شخص اگر قرآن کریم تو نہ پڑھے اور انجیل اور وید اور زند اوستا اور ستیارتھ پرکاش کا مطالعہ رکھے اور کہے کہ میں تحقیق کر رہا ہوں تو کیا ایسا شخص حق پر ہو گا اور اس کا یہ عمل قابل تحسین سمجھا جاوے گا.ہاں جو شخص اپنے مذہب سے اچھی طرح واقف ہو وہ دوسرے لوگوں کی باتوں کو بھی سن سکتا ہے.سوائے ان لوگوں کے جو ہمارے لٹریچر سے پوری طرح واقف نہیں اور جو مسائل مختلفہ میں کما حقہ میری کتب اور رسائل داشتہارات اور دیگر واقف کاران جماعت کی کتب و رسائل کا مطالعہ نہیں کر چکے ہیں باقی کسی کو میں آپ کے لٹریچر کے پڑھنے سے نہیں روکتا اور نہ میں نے کبھی روکا ہے.ہاں مطالعہ دوسری کتب کا ہمیشہ دو ہی شخص کیا کرتے ہیں یا تو وہ جنہوں نے مخالف کے اعتراضات کا جواب دیتا ہو یا وہ جن کی غرض صرف زیادتی علم ہو.پہلے گروہ کو تو کوئی روک ہی نہیں.دوسرے لوگوں میں سے وہ جو پہلے اپنی کتب و رسائل
العلوم جلد ۴ ۲۰۸ حقیقت الامر.اچھی طرح پڑھ چکے ہوں اور ان پر خوب عمدہ طور پر عبور رکھتے ہوں اور ان کا دل ایسے دلائل سے جو پھر کسی مزید تحقیقات کی ضرورت باقی نہ رکھتا ہو تسلی یافتہ ہوں دوسرے ہر ایک مذہب کی کتاب کو پڑھ سکتے میں ان کو کوئی روک نہیں.کیونکہ جسے باوجود اپنے مذہب کے مطالعہ کے ایسا شرح صدر عطا نہیں ہوا کہ جس کے بعد کسی اور مزید دلیل کی ضرورت نہ رہے اور عیاناً وہ اپنے مذہب کی سچائی کو نہیں دیکھتا.اس کے لئے ضروری ہے کہ پوری تحقیق کرے تاکہ قیامت کے دن اس سے باز پرس نہ ہو.اور یہ جو میں نے ایسے لوگوں کا استثناء کیا ہے جو عیاناً اپنے عقائد کی سچائی دیکھ چکے ہوں اور کسی مزید دلیل کے محتاج نہ ہوں تو اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ان کا ان کتب کا مطالعہ کرنا لغو اور بے ہودہ فعل ہو گا.کیونکہ انہوں نے جواب تو دینا نہیں اور ان کو مزید تحقیق کی ضرورت نہیں.پھر وہ کیوں اپنے وقت کو ضائع کریں اور ممکن ہے کہ ان کو دیکھ کر بعض اور لوگ جو اپنے مذہب سے آگاہ نہیں ان کی تتبع کر کے تباہ ہوں.اور اگر آپ فرما دیں کہ جب دوسرے مذاہب کا ان لوگوں نے مطالعہ نہیں کیا تو ان کو کیونکر معلوم ہو گا کہ وہ جس عقیدہ پر قائم ہیں وہی بجا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ کسی مذہب کی صداقت معلوم کرنے کے لئے صرف یہی طریق نہیں کہ دوسرے خیالات سے اس کا مقابلہ کیا جائے بلکہ بچے عقیدے اپنے اندر بھی ایسی خوبیاں رکھتے ہیں کہ وہ اپنی صداقت پر آپ گواہ ہوتے ہیں.اور ان کی صداقت کا انسان معائنہ کر سکتا ہے.مثلاً اسلام اپنے اندر ایسی خوبیاں رکھتا ہے کہ بغیر اس نے کے کہ دوسرے مذاہب کا مطالعہ کیا جاوے اس کا ایک کامل پیرو اس کی صداقت پر تسلی پاسکتا ہے اور اس کے دلائل دے سکتا ہے.ورنہ نعوذ باللہ یہ ماننا پڑے گا کہ صحابہ کا ایمان کامل نہ تھا کیونکہ انہوں نے دیگر مذاہب کی تحقیق نہیں کی تھی بلکہ کوئی شخص بھی اس اصل کے مطابق ایسا نہ ملے گا جسے یقین کرنے کا حق حاصل ہو کہ وہ بچے مذہب پر ہے اور مزید تحقیق کی اسے ضرورت نہیں.کیونکہ کوئی ایسا انسان نہیں ملے گا کہ جس نے دنیا کے سب مذاہب کا کما حقہ مطالعہ کیا ہو.بلکہ خود آپ بھی کہ جن کو اس وقت اس قدر خدمت دینی کا دعوئی ہے اس بات کا دعوئی نہیں کر سکتے.تو کیا ہم یہ کہیں کہ آپ کا حق نہیں کہ اپنے مذہب کی سچائی پر مطمئن ہوں کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی ایسا مذہب بھی نکل آوے جس کے دلائل سے آپ آگاہ نہ ہوں اور وہ سچا ہو.کیا بچے مذہب کے اندر کوئی ایسی صداقت موجود نہیں ہوتی کہ جو اپنی ذات کے اندر اپنی دلیل رکھتی ہو.اگر ایسا ہے اور ضرور ہے تو پھر ایمان کے کمال کے لئے بھی ضروری نہیں
ر العلوم جلد ۴ شخص ۲۰۹ حقیقت الامر کہ ہر ایک مخالف کی کتاب پہلے پڑھ لی جائے اگر آپ کو یہ شبہ پیدا ہو کہ اس طرح تو ہر ایک یہ کہہ دے گا کہ مجھے ایسا کامل ایمان حاصل ہو چکا ہے کہ مجھے مزید غور کی ضرورت نہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خود ایک دعوئی ہو گا جو دلیل کا محتاج ہو گا اور اگر کوئی اپنے ایمان کو عینی ایمان ثابت کر دے گا تو پھر بے شک اس کا حق ہو گا کہ اس کا دعوی تسلیم کر لیا جاوے.علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ استثناء صرف میرا ہی قائم کردہ نہیں بلکہ ہمیشہ سے ایسا ہوتا چلا آیا ہے.حدیث صحیح سے ثابت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عمرہ کو بائبل پڑھتے ہوئے دیکھا اور اس پر آپ کو ڈانٹا.چنانچہ جابر سے روایت ہے.اِنَّ عُمَرَ ابْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَتَى رَسُولَ اللهِ بِنُسْخَةٍ مِّنَ التَّوْرَاةِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ هَذِهِ نُسْخَةٌ مِّنَ التَّوْرَاةِ فَسَكَتَ فَجَعَلَ يَقْرَأَ وَوَجْهُ رَسُولِ اللهِ ﷺ يَتَغَيَّرُ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ فَكَلَتْكَ التَّوَاكِلُ مَا تَرَى مَا بِوَجْهِ رَسُولِ اللهِ ع فَنَظَرَ عُمَرُ إلى وَجْهِ رَسُوْلِ اللَّهِ فَقَالَ اَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ اللهِ وَ مِنْ غَضَبِ رَسُولِهِ : الدار میجلد اول صفحه ۱۱۴ باب نمبر ۳۹ باب يتقى من تفسير حديث النبى وقول غير عند قوله : یعنی حضرت عمر رسول الله اللے کے پاس آئے اور آپ کے پاس ایک نسخہ تو رات کا تھا.آپ نے نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ تو رات ہے.رسول اللہ ا خاموش رہے اور حضرت عمر نے اس کو پڑھنا شروع کیا اور رسول اللہ ﷺ کا چہرہ متغیر ہو رہا تھا.اس پر حضرت ابو بکڑ نے کہا رونے والیاں تم پر روئیں.عمر ا دیکھتے نہیں کہ رسول اللہ کے چہرے سے کیا ظاہر ہوتا ہے.اس پر حضرت عمر نے منہ اٹھا کر دیکھا اور کہا کہ میں خدا اور اس کے رسول کے غضب سے پناہ مانگتا ہوں.اب کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت ا کو خطرہ تھا کہ حضرت عمرؓ اس حق کو دیکھ کر نعوذ باللہ اسلام سے بیزار ہو جاویں گے.کیا اس کی صرف یہ وجہ نہ تھی کہ حضرت عمر مذ ہبی مباحثات کرنے والے آدمی نہ تھے اور اس مرتبہ پر پہنچ چکے تھے کہ اب مزید تحقیق کی ان کو ضرورت نہ تھی پر ان کا یہ فعل بے ضرورت تھا اور خطرہ تھا کہ ان کو دیکھ کر بعض اپنے مذہب کی پوری واقفیت نہ رکھنے والے بھی اس شغل میں پڑ جاویں اور ان باتوں کی تصدیق کر دیں جو باطل ہیں اور ان کی تکذیب کر دیں جو حق ہیں.اور کوئی تعجب نہیں کہ اسی وجہ سے رو کا ہو کہ آپ عام مجلس میں بیٹھ کر پڑھتے تھے اور اس سے خطرہ ہوا کہ ان کو دوسرے لوگ دیکھ کر ان کی اتباع نہ کریں.الگ پڑھتے تو شاید آپ کو نہ روکا جاتا.پس کیا آپ آنحضرت
انوار العلوم جلد ۳۱۰ حقیقت کے اس فعل کو بھی نعوذ باللہ بزدلانہ فعل قرار دیں گے.عیاذ باللہ.مولوی صاحب! تو بہ کریں کہ آپ ہمیشہ میری مخالفت میں خدا تعالٰی کے برگزیدوں کی ہتک کرتے ہیں.پھر حضرت مسیح موعود کا ایک حکم بھی اس کی تائید کرتا ہے.چنانچہ مباحثه مابین مولوی عبداللہ چکڑالوی و مولوی محمد حسین پر ریویو لکھتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں " ہر ایک جو ہماری جماعت میں ہے اسے یہی چاہئے کہ وہ عبداللہ چکڑالوی کے عقیدوں سے جو حدیثوں کی نسبت وہ رکھتا ہے بدل متنفر اور بیزار ہو اور ایسے لوگوں کی صحبت سے حتی الوسع نفرت رکھیں." ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، صفحہ ۸۷ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۲۱۲-۲۱۳) اس جگہ آپ نے چکڑالویوں سے ملنے جلنے سے حتی الوسع بچنے کی اپنی جماعت کو نصیحت کی ہے اور ملنا اور کتابیں پڑھنا ایک ہی جیسا ہے.تو کیا آپ کہیں گے کہ حضرت مسیح موعود ڈرتے تھے کہ چکڑالویوں کے زبردست دلائل سے کہیں ہماری جماعت مرتد نہ ہو جائے اور آپ ان کو پہلوان نہیں بنانا چاہتے تھے.ایک اور واقعہ بھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی شہادت اس امر کی تصدیق میں ہے.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول کو ایک دفعہ الہام ہوا تھا کہ فلاں برہمو کی کتاب نہ پڑھنا.اب کیا خدا تعالیٰ بھی ڈرتا تھایا مولوی صاحب کا ایمان کمزور تھا.نعوذ باللہ یہ دونوں باتیں نہ تھیں بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتب ایسے پیرایہ میں لکھی ہوئی تھیں کہ ان سے سادہ لوحوں کو دھو کا لگنے کا اندیشہ تھا اس لئے اللہ تعالٰی نے مولوی صاحب کو بذریعہ الہام روک دیا تا آپ کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی جو اہمیت نہیں رکھتے نہ پڑھنے لگیں.اس واقعہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ان لوگوں کو بھی جو مخالفین کو جواب دیتے ہیں مصلحتنا روک دیا جاتا ہے.مولوی صاحب! یہ تینوں واقعات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ آپ کا اعتراض مجھ پر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ پر ہے ، محمد رسول الله الی پر ہے ، اور حضرت مسیح موعود پر ہے.اور میں ایک اور بات بھی پوچھتا ہوں کہ مہربانی فرما کر آپ مجھے اپنا بھی وہ اعلان دکھا ئیں جس میں آپ نے حکماً اپنے ہم خیالوں کو لکھا ہو کہ وہ میری سب کتب اور رسالہ جات اور اشتہارات کو مطالعہ کر کے حق کا فیصلہ کریں.اگر آپ نے بھی ایسا نہیں کیا تو مجھ پر کیا گلہ ہے.اگر فرما دیں کہ میں نے کب روکا ہے تو میں کہتا ہوں کہ میں نے بھی تو کبھی نہیں روکا.ہاں میرے نزدیک مخالف کی کتب پڑھنے کے متعلق مذکورہ بالا شرائط کا خیال رکھنا ضروری ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے اکثر مرید ان کے پابند ہیں الا ماشاء اللہ.چنانچہ آسانی سے اس کا علم اس طرح ہو سکتا ہے
حقیقت الام کہ آپ مہربانی فرما کر اپنے ہم خیالوں میں سے ان لوگوں کی ایک فہرست شائع کر دیں کہ جنہوں نے ہماری کتب کا مطالعہ کیا ہو.اور ہر ایک کے نام کے ساتھ لکھ دیں کہ اس نے فلاں فلاں کتاب یا رسالہ تمہارا پڑھا ہے اور میں اپنے مریدوں میں سے ایسے لوگوں کی ایک فہرست شائع کرادوں گا جنہوں نے آپ کی کتب کا مطالعہ کیا ہے.اور ان کے نام کے آگے ان کتب و رسالہ جات کی فہرست جو انہوں نے آپ کی طرف سے شائع ہونے والے لٹریچر میں سے پڑھے ہوں درج کر دوں گا.اس سے خود دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ کون لوگ بے تعصبی سے دوسرے کی کتب کا مطالعہ کرتے ہیں.آپ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر بارہ سال تک حضرت مسیح موعود اپنے دعوئی کو خود نہ سمجھ سکے تو پھر اور کوئی آپ کے دعوی کو کس طرح سمجھ سکے گا.اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود پر کبھی بھی کوئی وقت نہیں آیا کہ آپ دعوئی کو نہ سمجھ سکے ہوں.آپ شروع سے آخر تک اس مقام کو سمجھتے رہے ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھڑا کیا ہے.ہاں صرف اس دعوئی کے نام میں آپ احتیاط کرتے رہے ہیں.یعنی آیا اس کا نام نبوت رکھا جاوے یا محد ثیت.اور جب تک اللہ تعالٰی کی متواتر وحی نے اس بات کی صراحت نہ کی آپ اس کا نام محد ثیت یا جزوی نبوت وغیرہ رکھتے رہے ہیں.لیکن بعد صراحت کے آپ اس امر پر قائم نہ رہے اور آپ نے اس مقام کا نام نبوت رکھ دیا.اور یہی بات ہے جو حضرت مسیح موعود خود حقیقتہ الوحی میں تحریر فرماتے ہیں.اور اس بات میں آپ منفرد نہیں.پہلے انبیاء کے ساتھ بھی یہ معاملہ پیش آیا ہے.چنانچہ خود آنحضرت ا جو سید ولد آدم تھے ایک عرصہ دراز تک حضرت موسیٰ اور حضرت یونس پر اپنے آپ کو فضیلت دینے سے روکتے رہے.حالانکہ بعد میں آپ نے فرمایا کہ الَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَ حَتَيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّباعى اليواقيت والجواهر جلد ۲ صفحه ۲۳ مطبوعه مصر (۱۳۲ھ) اور فرمایا اَنَا سَيدُ وُلد أدم ( ترتدى ابواب المناقب باب ماجاء في فضل النبي صلى الله علیه وسلم) پس اگر آپ ذرا بھی تدبر سے کام لیں تو ان دو نبیوں پر اپنے آپ کو فضیلت نہ دینے کا بھی وہی باعث تھا جو حضرت مسیح موعود کے لئے اپنے مقام کا نام نبوت نہ رکھنے کا باعث تو ہوا اور وہ لوگوں کے رائج الوقت خیالات کا حتی الوسع احترام کرنا اور دین کے معاملہ میں جلد بازی سے کام نہ لینا تھا.اور یہی وہ صفت ہے جو متقی اور غیر متقی میں تمیز کر دیتی ہے.یہ عجیب بات ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود کی نسبت نبی اور رسول کے الفاظ استعمال کئے گئے تھے
العلوم جلد ۲۱۲ حقیقت الاحمر.آپ نے ان کی تاویل کی.یہی صورت آنحضرت کے ساتھ پیش آئی آپ کو خدا تعالیٰ نے ابتداء وحی میں ہی فرما دیا تھا کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً (الزل (۱۶) یعنی یہ رسول وہی رسول ہے جس کی نسبت لکھا گیا تھا کہ وہ مثیل موسی" ہو گا اور جس نبی نے مثیل موسی ہو کر آنا تھا اس کی نسبت توریت و انجیل دونوں کے متحدہ بیان اور بنی اسرائیل کی شہادت سے ثابت ہے کہ اس نے سب نبیوں سے افضل ہونا تھا.کیونکہ اس کی تعلیم کی نسبت لکھا تھا کہ وہ ہمیشہ رہے گی اور سب صداقتوں پر حاوی ہوگی.مگر باوجود اس کے کہ صاف طور پر آپ کو نبی کہا گیا آپ نے ایک مدت دراز تک اس دعوئی کی تاویل کی اور فرماتے رہے کہ موسیٰ پر مجھے ترجیح نہ دو اور یونس پر مجھے ترجیح نہ دو (بخاری کتاب الانبياء باب قول الله عز وجل وان يونس لمن المرسلين الى قوله و هو ملیم اور یہ آپ نے صرف اس واسطے کیا کہ اس وقت میں عام طور پر یہ خیال پھیلا ہوا تھا کہ تمام نبیوں سے یہ دونوں نبی افضل ہیں چنانچہ موسیٰ کی نسبت ان کے اس عقیدہ کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ ان کے شارع نبی تھے اور گل نبی جو بنی اسرائیل میں آئے ان کے خلفاء کی حیثیت رکھتے تھے.حضرت یونس کی نسبت ان کے اس خیال کی وجہ بھی ظاہر ہے.کیونکہ صرف حضرت یونس ہی ایک ایسے نبی گزرے ہیں کہ جن کو ان کی ساری کی ساری قوم نے مان لیا اور یہ خیال معلوم ہوتا ہے کہ پرانا پھیلا ہوا تھا کیونکہ حضرت مسیح ناصری اپنے مخالفوں سے کہتے ہیں کہ دیکھو یہاں ایک موجود ہے جو یونس سے بڑھ کر ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل میں یونس سمی خاص عزت ہے.پس آنحضرت ﷺ نے لوگوں کے اس خیال کے ماتحت باوجود آپ کو مثیل موسی“ کا خطاب ملنے کے اپنے آپ کو موسیٰ علیہ السلام اور یونس علیہ السلام پر فضیلت دینے سے منع کیا.مگر بعد میں وفات سے پانچ چھ سال پہلے کے قریب آکر الٹ کہا.اور صاف لفظوں میں سب دنیا کی طرف اپنے مبعوث ہونے اور سب نبیوں سے افضل ہونے کا ذکر فرمایا.حضرت موسیٰ کا تو خاص طور پر نام لے کر فرمایا کہ لو كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّباعی پس اس امر میں حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ا سے کامل مشابہت ہے اور اسی طرح اور کئی امور ہیں کہ جن میں نبی کریم ﷺ نے احتیاط سے کام لیا ہے.، آپ کا یہ فرمانا کہ میرے اس عقیدہ کے نتیجہ میں مولوی عمرالدین صاحب شملوی اور بعض
والعلوم جلد ۴ ۲۱۳ اور مبائعین کو بحث میں لکھنا پڑا کہ آنحضرت ﷺ کو بھی تین یا چھ سال تک یہ شک رہا کہ آپ کی وحی شیطانی ہے یا رحمانی.میرے نزدیک ایک ایسا حملہ ہے جس کا ثبوت آپ کے پاس نہیں اگر کوئی شخص میری جماعت میں سے ایسا خیال کرتا ہے تو میرے نزدیک وہ سخت غلطی کرتا ہے اور اس نے حقیقت نبوت کو سمجھا ہی نہیں.اور جہاں تک مجھے علم ہے یہ الزام مبالعین پر محض سنی سنائی باتوں پر آپ نے لگا دیا ہے.حالانکہ نبی کریم ا فرماتے ہیں کہ کفی بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ (مسلم خطبة الكتاب باب النهي عن الحديث بكل ما سمع) یعنی وہ آدمی بڑا جھوٹا ہے جو ہر ایک سنی بات کو آگے بیان کر دیتا ہے.ممکن ہے کہ کسی اور شخص کا خیال پچھلے علماء سے کسی نے بیان کیا ہو یا اور کوئی ایسی ہی بات ہو ورنہ میں مؤمنانہ حسن ظنی سے کام لیتے ہوئے اس الزام سے بالکل انکار کرتا ہوں.اور مولوی عمرالدین صاحب کی نسبت تو مجھے یاد پڑتا ہے (گو یہ واقعہ پورے طور پر مجھے یاد نہیں.غالبا وہ اس کی نسبت زیادہ بیان کر سکیں گے) کہ شملہ میں پچھلے سال مجھ سے میاں عبد الحق غیر مبائع نے ذکر کیا تھا کہ مولوی صاحب نے رسول اللہ ا کی نسبت ایسا کہا ہے تو انہوں نے اسی وقت اس سے انکار کیا اور کہا کہ شیطانی وحی کا ہونا میں نے ہر گز آنحضرت ا کی نسبت بیان نہیں کیا.مگر مولوی صاحب ایک بات کا تو آپ بھی انکار نہیں کر سکتے کہ ایک متواتر حدیث جو صحاح میں پائی جاتی ہے بلکہ بخاری کی حدیث ہمیں بتلاتی ہے کہ تین سال یا چھ سال تک اپنی وحی کے معنی کرنے میں آنحضرت ا کو تردد رہا ہے.میں اس شخص کو جھوٹا سمجھتا ہوں جو کہے کہ آنحضرت ﷺ کو اپنی وحی کی نسبت یہ شبہ تھا کہ شیطانی یا رحمانی ہے.مگر اس بات میں کیا شک ہے کہ باوجود صریح وحی کے آپ گھبرا کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور بعد میں ان کے مشورہ سے اس وحی کے مطلب کے متعلق مشورہ کرنے کے لئے آپ ورقہ بن نوفل کے پاس گئے.اگر آپ کو اس کے مطلب کے متعلق تردد نہ تھا تو آپ ورقہ کے پاس کیوں گئے تھے اور گھبرائے ہوئے کیوں تھے.صاف ظاہر ہے کہ آپ حیران تھے کہ میں اس وحی کو اس کے ظاہری الفاظ پر محمول کروں یا کچھ اور مطلب سمجھوں.مگر ظاہر ہے کہ باوجود اس کے کہ ورقہ نے اس وحی کو ظاہری معنوں پر محمول کیا پر آپ نے اس کی نسبت احتیاط کا پہلوہی اختیار کیا اور جب صریح اور متواتر وحی نے آپ کو مجبور نہ کیا آپ احتیاط سے ہی کام لیتے رہے اور آپ اس واقعہ کا جو زبر دست اور صحیح احادیث سے ثابت ہے کس طرح انکار کر سکتے ہیں.کیا کسی ؟
العلوم بالدم ۲۱۴۴ حقیقت وحی کے معنی کرنے میں تردد کا نام آپ شیطانی اور رحمانی وحی قرار دینے میں تردد رکھتے ہیں.اگر ایسا ہے تو آپ کو نعوذ باللہ یہ بھی کہنا پڑے گا کہ حضرت مسیح موعود کو بھی نعوذ باللہ اسبات میں تردد تھا کہ آپ کو شیطانی وحی ہوتی تھی یا رحمانی کیونکہ آپ بارہا الہامات کے معنے کرنے میں تردد اور احتیاط سے کام لیتے تھے.اسی طرح آنحضرت ﷺ کی نسبت بھی ثابت ہے کہ آپ نے ہجرت کے متعلق بشارت کے معنے کرنے میں تردد سے کام لیا کہ فلاں مقام ہے یا فلاں.پس خدارا آپ میری عداوت میں ایسے اصول نہ قرار دیں کہ جن سے آنحضرت اور حضرت مسیح موعود پر بھی الزام لگتا ہو اور ان کی ہتک ہوتی ہو.تعجب ہے کہ آپ نے التزام تو مجھے اور میرے مریدوں کو دیا تھا مگر خود ایک ایسے اصل کے بانی ہو گئے کہ جس سے آنحضرت ا اور حضرت مسیح موعود دونوں پر الزام آتا ہے.مولوی صاحب! پھر آپ یہ بھی تو خیال فرما دیں کہ آپ تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مرزا صاحب کا دعوی مسیح موعود ہونے کا تھا.اور سنئے حضرت مسیح موعود اپنے اس دعوئی کے متعلق فرماتے ہیں پس میری کمال سادگی اور ذہول پر یہ دلیل ہے کہ وحی الہی مندرجہ براہین احمدیہ تو مجھے مسیح موعود بناتی تھی.مگر میں نے اس رسمی عقیدہ کو براہین میں لکھ دیا.میں خود تعجب کرتا ہوں کہ میں نے باوجود کھلی کھلی وحی کے جو براہین احمدیہ میں مجھے مسیح موعود بناتی تھی کیونکر اسی کتاب میں یہ رسمی عقیدہ لکھ دیا.پھر میں قریباً بارہ برس تک جو ایک زمانہ دراز ہے بالکل اس سے بے خبر اور غافل رہا کہ خدا نے مجھے بڑی شد دید سے براہین میں مسیح موعود قرار دیا ہے اور میں حضرت عیسی کی آمد ثانی کے رسمی عقیدہ پر جما رہا.جب بارہ برس گزر گئے تب وہ وقت آگیا کہ میرے پر اصل حقیقت کھول دی جائے تب تواتر سے اس بارہ میں الہامات شروع ہوئے کہ تو ہی مسیح موعود ہے.پس جب اس بارہ میں انتہاء تک خدا کی وحی پہنچی اور مجھے حکم ہوا کہ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ یعنی جو تجھے حکم ہوتا ہے وہ کھول کر لوگوں کو سنا دے اور بہت سے نشان مجھے دیئے گئے اور میرے دل میں روز روشن کی طرح یقین بٹھا دیا گیا تب میں نے یہ پیغام لوگوں کو سنا دیا." اعجاز احمدی صفحه ۹ - ۱۰ روحانی خزائن جلد نمبر ۱۹ صفحه ۱۱۳-۱۱۴) اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ آپ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ آپ کو مسیح موعود قرار دے چکا تھا ان الہامات کی جن میں آپ کو مسیح موعود کہا گیا تھا بارہ برس تک تاویل کرتے 1
ار العلوم جلد من ۲۱۵ حقیقت الامر رہے.اب بتائیے کہ کیا آپ ہی کے الفاظ کو بدل کر کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ جب کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو مسیح موعود کہا آپ بارہ برس تک اپنے دعوی کو نہ سمجھ سکے بلکہ بجائے مسیح موعود کے مسیح موعود سے مشابہت رکھنے کے مدعی رہے تو اور کوئی ان کے ودعوٹی کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کس طرح قابل مؤاخذہ ہو سکتا ہے.مولوی صاحب! حضرت صاحب نے کبھی اپنے الہامات کو نفسانی یا شیطانی نہیں سمجھا.آپ کو اگر خیال تھا تو صرف ان کے معنے کرنے کے متعلق.اور یہ خیال بھی صرف اس وقت تک رہا جب تک کہ تواتر اور صراحت پیدا نہ ہوئی.اس کے بعد کوئی خیال نہ رہا.لیکن کیا آپ کے مخالفوں کا یہی حال ہے.ان کو تو الہامات کے شیطانی یا نفسانی ہونے کا یقین ہے.اگر آپ کہیں کہ اگر کوئی شخص الہامات کو رحمانی تو مانے مگر اور تاویل کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعد صراحت اور تواتر کے وہ ایسا نہیں کر سکتا.جیسا کہ حضرت مسیح موعود لکھ چکے ہیں اب تو اتر اور صراحت پیدا ہو چکی ہے.مولوی صاحب! آپ نے دوسرا قابل توجہ امر یہ لکھا ہے کہ میں نے جو حقیقتہ النبوۃ میں یہ لکھا ہے کہ ” نبوت ایمان کا ہی ایک اعلیٰ مرتبہ ہے اور تقویٰ میں ترقی کرتے کرتے انسان اس مرتبہ کو پہنچ جاتا ہے جسے نبی کہتے ہیں." اور اس طرح یہ لکھا ہے.کہ "صدیق کی فطرت نبیوں کی سی فطرت ہوتی ہے.اور اس کے کام نبیوں کے سے ہوتے ہیں.لیکن کسی قدر کمی اور نقص کی وجہ سے وہ درجہ نبوت سے روکا جاتا ہے.اس میں اسلام اور رسول اللہ ا کی ہتک ہے.کیونکہ اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تیرہ سو سال میں آپ کا ایک شاگرد بھی کامل ایمان کے مرتبہ کو حاصل نہ کر سکا کامل متقی نہ بن سکا.مولوی صاحب! اگر آپ ابتداء میں ہمدردی کا اس قدر دعوی نہ کرتے تو میں آپ کے اس فعل کو تلبیس اور تدلیس سمجھتا.مگر اس دعوئی اخلاص کے بعد میرا خیال ہے کہ اگر یہ کسی بدنیتی کا نتیجہ نہیں تو حد سے زیادہ ہمدردی کا کرشمہ ضرور ہے کیونکہ آپ نے میری صریح عبارت سے اور وہ بھی اس عبارت کو نقل کر کے ایسے نتائج نکالے ہیں کہ جن کو ہر عظمند انسان غلط اور خلاف منشاء راقم کے گا.میری عبارت کا تو صاف مطلب ہے جس کے سمجھنے کے لئے کسی خاص لیاقت کی ضرورت نہیں کہ تقوی ترقی کرتے کرتے جب ایک خاص حد تک پہنچ جاتا ہے تو اس وقت انسان کو نبوت کا مقام حاصل ہوتا ہے.اس میں دوسرے لوگوں کے ناقص الایمان ہونے یا کامل نہ ہونے کا نتیجہ کہاں سے
انوار العلوم جلد ۴ ۲۱۶ حقیقت الام نکل آیا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کی مادری زبان اردو نہیں مگر آپ تعلیم یافتہ ہیں.اور میرے نزدیک اس سادہ عبارت کے سمجھنے کی لیاقت رکھتے ہیں.پس آپ کا اس عبارت کے مضمون کو بدلنا سخت حیرت میں ڈالتا ہے کہ آپ کے اس فعل کو کیا سمجھوں.ایک طرف اظہار ہمدردی اس امر سے روکتا ہے کہ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ (المائدة : (۱۴) کی جماعت میں آپ کو داخل کر دوں.دوسری طرف عبارت کی وضاحت اور سادگی کو دیکھتے ہوئے آپ کا اس مطلب کو بگاڑنا کسی اور نتیجہ کے نکالنے سے روکتا ہے.کیا آپ اس امر کے قائل ہیں کہ نہیں کہ تقویٰ کے ہزاروں مدارج ہیں.جیسا کہ آیت اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُم (الحجرات : ۱۴) سے ثابت ہے.یعنی خدا تعالی کے نزدیک تم میں سے زیادہ بزرگ وہ ہے جو زیادہ متقی ہے یا آپ اپنے تقویٰ اور نبیوں کے تقوی کو ایک جیسا سمجھتے ہیں.کیا آپ اپنے آپ کو ویسا ہی متقی خیال کرتے ہیں جیسا کہ حضرت عیسی حضرت موسیٰ اور آنحضرت ا متقی تھے یا ان کی نسبت آپ اپنے تقوی میں کچھ کمی اور نقص یقین کرتے ہیں.اگر کمی کا اقرار کرتے ہیں تو کیا آپ اپنے آپ کو غیر متقی یا کم سے کم نا کامل متقی سمجھتے ہیں.یا حضرت ابو بکر یا حضرت عمرؓ کو اسی لحاظ سے ناکامل متقی سمجھتے ہیں.کیا آیت تِلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ ( البقرة : ۲۵۴) اور إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اتفكُمْ کو ملا کر یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ خود انبیاء میں بھی تقوی کے مدارج میں فرق ہوتا ہے.کمال کے بھی ہزاروں درجے ہیں.حضرت عیسی بھی کامل متقی تھے اور حضرت موسیٰ بھی.مگر کیا آنحضرت ا تقویٰ میں ان کے برابر ہی تھے ؟ اگر زیادہ تھے تو کیا حضرت موسیٰ و عیسیٰ علیہما السلام تقویٰ میں ناقص تھے ؟ مولوی صاحب! میں نے تو یہ لکھا ہے کہ نبوت کے مقام کے حاصل کرنے کے لئے جس تقویٰ اور عرفان کی شرط ہے وہ ان لوگوں میں نہ تھا.یہ تو نہیں لکھا کہ متقی اور متقیوں کے سردار بننے کے لئے جس تقویٰ کی شرط ہے وہ ان میں نہ تھا.تقویٰ کے مختلف مدارج میں سے کسی درجہ پر نہ پہنچنے کی وجہ سے یہ تو نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ تقویٰ میں کمزور تھے.اس سے تو صرف یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس خاص درجہ کو وہ نہیں پہنچے.اور کیا آپ کا یہ مذہب نہیں کہ جس درجہ ایمان پر رسول کریم تھے اس پر دیگر لوگ نہ تھے.کیا خود رسول کریم الله نہیں فرماتے قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي اتْقَاكُمْ لِلَّهِ وَأَصْدَقَكُمْ وَ ابركُمْ (بخاری کتاب ! ركم (بخاری کتاب الاعتصام باب نهى النبي ﷺ عن التحريم الا ما يعرف باحته، یعنی تم جانتے ہو کہ میں تم سب میں سے زیادہ متقی، زیادہ عہدوں کو پورا کرنے والا اور زیادہ نیک ہوں.اور کیا
ار العلوم جلد ۲۱۷ حقیقت الام آپ تمام مؤمنوں اور متقیوں کو ایمان اور تقویٰ میں ایک ہی درجہ کا مؤمن اور متقی خیال کرتے ہیں.اگر نہیں تو پھر اس اعتراض کے کیا معنے ہوئے؟ مولوی صاحب اگر آپ غور فرمائیں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ یہ اعتراض آپ پر پڑتا ہے نہ کہ مجھ پر.کیونکہ آپ کے عقیدہ کے ماتحت تو رسول کریم ای کے شاگردوں میں سے ایک بھی اس درجہ کو نہیں پہنچا کہ خدا تعالیٰ کا فضل نبوت کے انعام کے ذریعہ سے اس پر نازل ہوتا اور میرے نزدیک ایک شاگرد اس درجہ تک پہنچا ہے.تو کیا ایک کا ایک خاص مقام تک پہنچنا رسول کریم ﷺ کے علو مرتبت پر دلالت کرتا ہے یا ایک کا نبی اس مرتبہ تک نہ پہنچنا.اسی طرح اگر آپ غور فرما دیں گے تو جو طریق دلیل آپ نے اختیار کیا ہے اس سے تو ایک دشمن اسلام نعوذ باللہ شاید یہ بھی کہہ دے گا کہ مولانا ! اسلام عجیب رحمت ہے کہ اسلام سے پہلے تو محمد رسول اللہ جیسا انسان پیدا ہو اور اسلام کے بعد کوئی بھی ویسا انسان نہ ہو.کیونکہ اسلام تو آنحضرت لائے ہیں اور جس وجہ سے آپ کو اس عہدہ کے لئے چنا گیا وہ اسلام کے آنے سے پہلے کے اعمال و اخلاص ہیں.مگر کیا یہ طریق استدلال درست ہو گا؟ نبوت بے شک ایک موہبت ہے مگر اس موہت کے جذب کرنے کے لئے فطرت کا صحیح استعمال اور انسانی اعمال و اخلاص بھی شرط ہیں.آپ اس نکتہ پر غور کریں تو آپ کی سب مشکلات خود بخود حل ہو جائیں گی.اس تشریح کے بعد آپ کو معلوم ہو گا (اگر پہلے واقعہ میں آپ کو میری عبارت سے دھوکا لگ گیا تھا کہ میری عبارت سے کفارہ کی تائید نہیں بلکہ اس کا رد ہوتا ہے.کیونکہ کفارہ اس عقیدہ کا نتیجہ ہے کہ انسان کامل تقویٰ کو حاصل نہیں کر سکتا اور میرا یہ عقیدہ ہے کہ نہ صرف انسان کامل تقویٰ کو حاصل کر سکتا ہے بلکہ ترقی کر کے اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے کہ اس کی اتباع کے طفیل دو سروں کو بھی اس درجہ کا تقویٰ حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ نبیوں میں شامل ہو جاتے ہیں." مولوی صاحب! آپ نے یہ بھی زور دیا ہے کہ میں اپنی غلطی کا اقرار کروں.مگر الحمد للہ کہ گو میں معصوم عن الخطاء نہیں ہوں اس معاملہ میں میں نے غلطی نہیں کھائی.مگر آپ کا اس بات پر زور دینا کہ چونکہ میں معصوم عن الخطاء نہیں اس لئے اپنی غلطی کا اقرار کروں ایک عجیب مسئلہ ہے.آپ نے اس وقت تک کس قدر غلطیوں کا اقرار کیا ہے.آپ کے نزدیک ہر وہ
ر العلوم جلد ۴ PIA شخص معصوم عن الخطاء ہونے کا مدعی ہے جو اپنے بعض عقائد کی غلطی کا اعتراف نہ کرے.مگر تعجب ہے کہ مجھے تو آپ بغیر غلطی کرنے کے غلطی کا اعتراف کرنے پر مجبور کرتے ہیں.اور خود ریویو کے مضامین میں اپنے موجودہ عقائد کے خلاف لکھنے کے باوجود اس وقت تک یہ جرأت نہیں کر سکے کہ ان مضامین کی غلطی کا اعلان کریں بلکہ اس مصیبت کو آنوں بہانوں سے ٹلانا چاہتے ہیں اور اس وقت یہ دلیل آپ کو بھول جاتی ہے کہ میں معصوم عن الخطاء نہیں.تیسرا امر جس کی طرف مجھے آپ توجہ دلاتے ہیں کفر و اسلام کا مسئلہ ہے.آپ فرماتے ہیں کہ امن کی راہ یہ ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان سمجھ لیں.میں کہتا ہوں کہ امن کی راہ یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کے فیصلہ کو تسلیم کر لیں.قرآن کریم کسی ایک نبی کے منکر کو بھی کافر کہتا ہے اور مرزا صاحب کو وہی خدا نبی کہتا ہے.جیسا کہ فرمایا يَايُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ.وَالْمُعْتَرَ ( تذکرہ صفحہ ۷۴۶ ایڈیشن (چہارم) اور دنیا میں ایک نبی آیا مگر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی کو ظاہر کر دے گا " ( تذکرہ صفحہ ۱۰۴- ایڈیشن چہارم) اور آنحضرت ا بھی نبی کہتے ہیں.جیسا کہ آخری زمانہ میں مسیح موعود کی بعثت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللهِ عِیسَی وَأَصْحَابُهُ إِلَى اللَّهِ (مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب ذكر الدجال وصفته و ما معه، یعنی اس وقت اللہ کا نبی عیسی اور اس کے ساتھی کی خدا سے دعا کریں گے.اور ایک دفعہ نہیں بلکہ کئی دفعہ آنے والے مسیح کو آپ نے نبی فرمایا ہے.پس امن کی راہ یہی ہے کہ اگر بفرض محال بقول آپ کے حضرت مسیح موعود کی تحریروں سے فیصلہ نہیں ہو تا تو پھر جیسا کہ آپ کو بھی عذر نہ ہو گا قرآن کریم کے فیصلہ پر اطمینان رکھیں کہ وہ ہلاکت سے بچائے گا.باقی رہا یہ امر کہ جنازہ کے متعلق حضرت مسیح موعود کا جو خط ملا تھا اس کے متعلق میں نے غور کیوں نہیں کیا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ خط حسی فی اللہ اخی المکرم سید حامد شاہ صاحب سیالکوٹی لائے تھے اور آپ نے بیان کیا تھا کہ یہ خط سید میر حسن صاحب سیالکوٹی کے پاس تھا اور میں نے سنا تھا کہ سید امیر علی شاہ صاحب نے اس کی نقل لاہور بھیجنے کے لئے لی ہے.اس پر مجھے خیال آیا کہ میں بھی اس کی نقل لے جاؤں شاید ضرورت پڑے.چونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ میری شنید میں یہ آیا کہ پیغام میں چھاپنے کے لئے یہ نقل کی گئی ہے.اس لئے میں نے زیادہ تو احتیاط اس کی حفاظت کی نہیں کی اور جلسہ کے دن تھے.ایک ایک دن میں سینکڑوں رقعے مجھے
دم جلد ۳ ۲۱۹ حقیقت الام ملتے تھے جن میں وہ خط ضائع ہو گیا اور میں نے یہ سمجھا کہ جب پیغام میں یہ خط شائع ہو گا اس وقت ہم بھی دیکھ لیں گے لیکن وہ وہاں شائع نہ ہوا.اور جہاں تک مجھے یاد ہے گو حق الیقین نہیں کہ وہ خط ایسے زمانہ کا تھا کہ جس کا زیادہ اثر اصل بحث پر نہ پڑتا تھا.پس اب اس واقعہ کے اظہار کے بعد مجھے اس کے متعلق مزید کچھ لکھنے کی ضرورت نہیں حضرت مسیح موعود کی ڈائری نوشته مولوی عبد الکریم صاحب اور حضرت مسیح موعود کے اپنے عمل کے بعد مجھے کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں.اگر آپ کو ضرورت ہے تو آپ اس خط کو شائع کریں.اس وقت ہم اس خط کی تاریخ اور اس کے مضمون پر کافی غور کر لیں گے.باقی رہا یہ قول کہ مرزا فضل احمد صاحب کا جنازہ حجت نہیں کیونکہ بیٹوں اور غیروں کے ساتھ معاملہ میں فرق ہوتا ہے.ان سے آپ ناراض تھے اس لئے جنازہ نہ پڑھا.تو یہ ایک بیہودہ بات ہے.ناراضگی زندگی میں ہوتی ہے نہ کہ بعد وفات.زندگی میں آدمی اپنے بیٹے کو مار بھی لیتا ہے تاکہ اصلاح ہو.کیا بعد مرنے کے بھی اس کی اصلاح کی امید ہوتی ہے کہ اس کو سرزنش کی جائے.اور پھر جنازہ تو ایک شرعی فرض ہے جو سب سے پہلے ولی پر مقرر ہے.آپ اس فرض کو کس طرح نظر انداز کر سکتے تھے.مرزا نظام الدین وغیرہ کے قبضہ میں لاش کے آنے سے جنازہ کے فرض سے آپ سبکدوش نہیں ہو جاتے.جنازہ کے لئے آپ کو کہا گیا مگر آپ نے جنازہ نہ پڑھا.دوسری جگہ فوت ہونا بھی جنازہ کے حق سے سبکدوش نہیں کر دیتا.آپ شریعت اپنے پاس سے نہ بنا ئیں آپ تو مرزا صاحب کے غیر تشریعی نبی ہونے کے منکر ہیں پھر خود کیوں تشریعی نبی بنتے ہیں.حلفیہ شہادت اس وقت تک ایک بھی میرے سامنے پیش نہیں ہوئی.اس شخص کو آ.پیش کریں جو حلفیہ شہادت دے کہ حضرت مسیح موعود کو یہ کہا گیا تھا کہ فلاں شخص غیر احمدی تھا تو آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں.یہ کہنا کہ پہلے آپ کو اس کے احمدی ہونے کے لئے دعا کے لئے کہا گیا تھا دلیل نہیں.کبھی انسان کو بات بھول جاتی ہے.خود میرے ساتھ ایسا ہوا ہے.سیالکوٹ کا ایک طالب علم مجھے اکثر اپنی والدہ کے احمدی ہونے کے متعلق لکھا کرتا تھا.اس کی والدہ کے فوت ہونے پر اس نے مجھے والدہ کے لئے دعائے مغفرت کے لئے لکھ دیا حالانکہ خود اس نے جنازہ نہ پڑھا اس نے یہ خیال کیا کہ شاید دعائے مغفرت اور جنازہ میں فرق ہو گا مگر مجھے اس وقت اس کے غیر احمدی ہونے کا خیال نہ تھا اور میں نے جنازہ پڑھ دیا.پس آپ کم سے کم ایسے
انوار العلوم جلد ) ۲۲۰ حقیقت از دو شخصوں کی جو مؤکد بہ عذاب قسم کھائیں ، شہادت بہم پہنچائیں ، جو اس بات کی شہادت دیں کہ جنازہ کی تحریک کے وقت بھی حضرت سے عرض کر دیا گیا تھا کہ وہ غیر احمدی تھا.ہاں مرزا خدا بخش کی شہادت نہ ہو کیونکہ اس کی نسبت قرآن کریم کا حکم ہے وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً اَبَدًا - ( النور : ۵) باقی رہا میری سالی کی شادی کا مسئلہ اس کی نسبت بھی مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ باوجود واقعات کے اظہار کے آپ خلاف بیانی سے کام لیتے ہیں.مولوی صاحب! میں بار بار بیان کر چکا ہوں کہ میں ہرگز شادی میں شامل نہ تھانہ مجھے علم ہوا کہ شادی ہونے والی ہے.میں کہیں سفر پر گیا ہوا تھا.وہاں سے واپسی پر میں نے اچانک سنا کہ شادی ہو گئی ہے.پس آپ اپنی جان پر رحم کر کے خدا کے خوف سے کام لیں اور اس افتراء کی آئندہ اشاعت سے باز رہیں.حضرت مسیح موعود نے اس نکاح کے اصل حالات سے واقف ہوتے ہوئے ہر گز اجازت نہیں دی بلکہ جب آپ کو یہ معلوم ہوا کہ لڑکا غیر احمدی ہے تو ڈاکٹر صاحب کے گھر کے لوگوں کو کہا کہ کیا ڈاکٹر صاحب کو معلوم نہیں کہ غیر احمدی سے رشتہ ہم نے منع کیا ہوا ہے.پھر انہوں نے لڑکی غیر احمدی لڑکے سے کیوں منسوب کی (حضرت صاحب کی حیات میں یہ نکاح نہیں ہوا، مگر پھر فرمایا کہ ابھی اس امر کا ذکر نہ کریں بلکہ ہم حقیقتہ الوحی دیں گے وہ ڈاکٹر صاحب کو دینا کہ لڑکے کو پڑھنے کے لئے دیں اگر اس کو پڑھ کر وہ احمدی ہو گیا تو پھر ہم اجازت دیں گے.اس کے بعد والدہ صاحبہ کی بیماری کی وجہ سے حضرت صاحب لاہور چلے گئے اور وہیں فوت ہو گئے اور یہ معاملہ یوں ہی رہ گیا.چونکہ والدہ سوتیلی تھیں اس لئے اس خیال سے کہ لوگ اس کو عداوت نہ خیال کریں یا اس ادب سے کہ حضرت صاحب نے کہا تھا کہ ابھی ذکر نہ کریں وہ خاموش رہیں اور نکاح ہو گیا.اور آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ لڑکی بالغ اور غیر احمدی تھی اور لڑکی کی حقیقی والدہ بھی اس وقت غیر احمدی تھیں.پس اس صورت میں نکاح میں کوئی خلاف شریعت بھی بات نہیں.اب بھی بعض دفعہ غیر احمدی لڑکی کے نکاح کی میں نے احمدیوں سے اجازت دی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ اصل واقعہ معلوم ہونے کے بعد آپ اس افتراء کی بار بار کی اشاعت سے پر ہیز کریں گے.کیونکہ آخر ایک دن اللہ تعالیٰ کو منہ دکھاتا ہے.خصوصاً جو باتیں کہ واقعات سے متعلق ہیں اور ان واقعات کا پہلے اظہار ہو چکا ہے ان کو تو بار بار غلط پیرایہ میں ظاہر نہ کریں اور لوگوں کو دھوکا نہ دیں.
دم جلد ۴ ۲۲۱ حقیقت انام ردید چوتھا مسئلہ آپ نے نبوت اور اسمہ احمد کا پیش کیا ہے اور اس کے لئے اپنی کتب کا حوالہ دیا ہے اور ان کے جواب نہ ہونے کی شکایت کی ہے.آپ کی کتاب کا جواب خدا تعالیٰ کے فضل سے میری کتاب حقیقتہ النبوۃ میں پہلے سے موجود ہے اور بعض غیر احمدیوں نے بھی اس کا اقرار کیا ہے کہ آپ کی کتاب کا جواب اس میں پہلے سے موجود ہے.باقی رہا یہ کہ اس پر جلد اول کیوں لکھا ہے.سو جلد اول سے تو صرف غیر احمدیوں کے نقطہ خیال کو مد نظر رکھ کر مزید تشریح کا وعدہ کیا گیا تھا ورنہ اس کتاب میں آپ یہ لکھا ہوا بھی دیکھیں گے کہ اب اس کے بعد آپ کے مقابلہ میں کچھ اور لکھنے کی مجھے ضرورت نہ ہو گی.مگر اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ کے خیالات کی مختلف طریق سے ہوتی رہے گی.آپ اس کی فکر نہ کریں.زیادہ فکر اپنے ایمان کی درستی اور خدا تعالٰی سے صلح کرنے کی کریں کہ اس کے بغیر نجات نہیں.مسیح موعود کے درجہ کو آپ گھٹاتے ہیں یا نہیں یہ آپ کی تحریرات سے صاف ظاہر ہے اس پر مجھے اس خط میں لکھنے کی ضرورت نہیں.عبدالحکیم کے خطوط اور آپ کی تحریرات کو بالمقابل رکھ کر دیکھا جائے تو بالکل ایک قلم کی لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہیں مگر اس بحث میں اس جگہ پڑنے کی ضرورت نہیں.اس وقت تو میں آپ کو یہی نصیحت کر کے اس خط کو ختم کرتا ہوں کہ ریویو کی ایڈیٹری اور انجمن کی سیکرٹری شپ کی وجہ سے آپ کو جماعت میں ایک رسوخ حاصل تھا اور اس وجہ سے بعض لوگ اس رسوخ کے اثر سے آپ کے ساتھ حق کے قبول کرنے میں رکے ہوئے ہیں.آپ انہیں لوگوں کی جانوں پر رحم کر کے جن کی آپ سے حسن ظنی ان کی ہلاکت کا موجب ہوئی ہے اب اس طریق کو ترک کریں اور حق کو قبول کریں.عزت خدا کے آگے تذلل اور انکسار میں ہے عجب اور استکبار میں.اپنی جان پر رحم کریں اور دوسروں کو ہلاکت سے بچائیں ورنہ یاد رکھئے کہ قیامت کے دن ان سب لوگوں کا عذاب آپ کی گردن پر ہو گا ان میں سے ہر ایک فرد بھی ذمہ دار ہے مگر آپ سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں اور خدا کا غضب برداشت کرنے کی انسان میں طاقت نہیں خواہ وہ کتنا ہی بہادر ہو.پس اس آگ سے نہ کھیلیں کہ یہ آخر بھسم کر کے چھوڑتی ہے.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے اور آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی آنکھیں کھولے.چونکہ میں آپ کی ہی ایک کتاب کا جواب لکھ رہا ہوں.اس لئے زیادہ لکھنے سے معذور ہوں.امید ہے کہ آپ اس کا انتظار کریں گے اور اس میں جو کچھ لکھا جاوے گا وہ آپ کی کتاب کا جواب بھی ہو گا اور کچھ زائد بھی ہو گا.اس پر غور کریں گے تو شاید اللہ تعالیٰ آپ.
رالعلوم جلد ۲۲۲ حقیقت الامر کے دل کی گرہ کو کھول دے اور حق کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرما دے اور ظلمت سے نور کی طرف لاوے کہ اس کے قبضہ میں سب کے دل ہیں اور وہ بڑا رحم کرنے والا ہے.واخِرُ دَعْوَمِنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ خاکسار میرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ۲۱.ستمبر ۱۹۱۸ء
انوار العلوم جلدم ۲۲۳ اصلاح اعمال کی تلقین (فرموده ۱۶ فروری ۱۹۱۹ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی اصلاح اعمال کی تلقین
انوار العلوم جلد ۴ ۲۲۵ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اصلاح اعمال کی تلقین اصلاح اعمال کی تلقین فرموده ۱۲ فروری ۱۹۱۹ ء بر مکان میاں چراغ دین صاحب لاہور) حضور نے سورہ فاتحہ پڑھ کر فرمایا انسان کی زندگی اور اس کی موت اس کے لئے بہت بڑے سبق اپنے اندر رکھتی ہے مگر ان کے لئے جو تدبر اور فکر کرتے ہیں.انسان کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کی زندگی اور انسان اور حیوان کی زندگی میں فرق دوسرے حیوانوں کی زندگی میں بہت بڑا فرق پاتے ہیں.دوسرے جس قدر حیوانات ہیں ان کی زندگی ایک دوسرے کے ساتھ ایسی وابستہ ہے جیسی انسان کی حیوان زیادہ سے زیادہ ایک نر اور ایک مادہ کا محتاج ہوتا ہے اس سے زیادہ ان کے لئے کسی ربط اور تعلق کی ضرورت نہیں ہے اور جو ادنی درجہ کے حیوان ہیں ان کی تو یہ حالت ہوتی ہے کہ ایک ہی وجود میں نر اور مادہ کی طاقت ہوتی ہے ہاں جو ان سے بڑے ہوتے ہیں ان میں نر کو مادہ کی اور مادہ کو نر کی ضرورت ہوتی ہے.اس سے زیادہ تیسرے کے وہ محتاج نہیں ہوتے.مگر انسان کو خدا تعالیٰ نے ایسا پیدا کیا ہے کہ اس کے متعلق ایک دو تین کا سوال نہیں بلکہ اس کی ضروریات ایسی وسیع ہیں کہ تمام بنی نوع انسان کی حرکات کا اثر ایک دوسرے پر پڑتا ہے اور باریک در باریک تغیر جو اگر چه نهایت خفیف ہوتا ہے مگر اثرات کے لحاظ سے اس قدر وسیع ہوتا ہے کہ تمام دنیا میں پھیل جاتا ہے اور گو بہت سے اثر ایسے ہوتے ہیں جو نمایاں طور پر نظر نہیں آتے مگر حقیقتاً انسان کے اعمال خیال گفتگو اور حرکات پر بہت اثر ، ڈالتے ہیں اور بعض اثر ایسے بھی ہوتے ہیں جو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں.
انوار العلوم جلد ہی ۲۲۶ اصلاح اعمال کی تلقین ان باتوں کے سمجھنے کے لئے پہلے لوگوں میں اتنی قابلیت کوئی حرکت ضائع نہیں ہوتی نہ تھی جتنی اب ہے کیونکہ اب نیچر کے قواعد کی رو سے معلوم کر لیا گیا ہے کہ باریک سے باریک اثر بھی ضائع نہیں جاتا بلکہ دوسری چیزوں کو مؤثر کرتا ہے.چنانچہ بے تار برقی کا پیغام اسی بات سے فائدہ اٹھا کر بنایا گیا ہے کہ کوئی حرکت جو پیدا ہوتی ہے وہ ضائع نہیں جاتی بلکہ اس کی لہریں چلتی ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتی ہیں.جس طرح مادی دنیا میں حرکات کی لہریں چلتی ہیں اسی طرح روحانی دنیا روحانی دنیا کی لہریں میں بھی چلتی ہیں.جو کبھی تو اتنی نمایاں ہوتی ہیں کہ ہر ایک انسان انہیں دیکھ لیتا ہے اور کبھی ایسی کہ اس آلہ بے تار کی طرح ان کا علم ان ہی کو ہو سکتا ہے جن کے پاس ان کے معلوم کرنے کا آلہ ہوتا ہے.بڑی بڑی لہریں انبیاء کے وجود سے پیدا ہوتی ہیں ان سے جو انبیاء کے وجود سے لہریں کریں پیدا ہوتی ہیں وہ اپنی اپنی طاقت کے بموجب ایک ایک صوبہ ایک ایک ملک یا ساری دنیا میں پھیلتی ہیں.چنانچہ ایسی لہریں کئی دفعہ دنیا میں پھیلیں اور بہتوں نے محسوس کی ہیں.بہت پرانے زمانے کی تاریخیں موجود نہیں لیکن حضرت نوح علیہ السلام کا حال قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے.گو وہ دکھوں میں مبتلاء کئے گئے انہیں طرح طرح کی تکلیفیں دی گئیں مگر ان میں ایسی طاقت تھی کہ جس سے پیدا ہونے والی لہر کو بہتوں نے دیکھا اور محسوس کیا.اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت لہر اٹھی اور اس زور سے اٹھی کہ جس نے ایک وسیع خطہ زمین کا احاطہ کر لیا.پھر سب سے بڑی لہر جس کا اندازہ لگایا گیا وہ موسیٰ علیہ حضرت موسیٰ کے زمانہ کی لہر السلام کے زمانہ میں پیدا ہوئی.دیکھئے کس قدر ادنی درجہ سے قوم کو انہوں نے نکالا اور کیسے ظالم اور زبردست دشمنوں کے پنجہ سے چھڑایا.بظاہر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس نہ فوج تھی اور نہ کسی اور قسم کی قوت مگر ان کے اس دل میں جس میں خدا تعالیٰ کے لئے عجز اور انکسار بھرا ہوا تھا جو لہر پیدا ہوئی اس نے ان کی قوم میں زندگی پیدا کردی اور وہ قوم جو حد درجہ کی ذلیل ہو چکی تھی حتی کہ کسی قبطی کی نظر اس قوم کے آدمی پر پڑ جاتی تو اسے واجب القتل قرار دے دیا جاتا.بادشاہ جب باہر نکلتا تو منہ پر نقاب ڈال کر نکلتا تاکہ کسی پر نظر نہ پڑے اس سے زیادہ کسی قوم کی ذلت اور کیا ہو سکتی ہے ؟ آج ہندو کہتے ہیں کہ
دم جلد " ۲۲ اصلاح اعمال کی تلقین جس چیز کو مسلمان کا ہاتھ لگ جائے وہ ناپاک ہو جاتی ہے اور مسلمان اس پر چڑتے اور غصے ہوتے ہیں اور کسی حد تک ان کا غصہ جائز بھی ہوتا ہے مگر بنی اسرائیل اس قدر ذلیل سمجھے جاتے تھے کہ باز شاہ ان کو دیکھنا بھی برا سمجھتا تھا اور منہ پر نقاب ڈال کر باہر نکلتا تھا.بنی اسرائیلی اپنی ذلّت چھپانے کے لئے کہتے تھے کہ فرعون کو ڑھی ہوتے ہیں.اس لئے منہ پر نقاب ڈال کر باہر نکلتے ہیں مگر تاریخ بتلاتی ہے کہ وہ اس لئے نقاب ڈالتے تھے کہ ناپاک بنی اسرائیل پر نظر نہ پڑے تو جو لوگ ایسے ناپاک سمجھے جاتے تھے اور جن سے ادنیٰ سے ادنی مثلا اینٹیں تھوانے کا کام لیا جاتا تھا اور وہ بغیر کسی شور و شر اور ناراضگی کے ایسے کام کرتے تھے ان میں کبھی ذلت سے بچنے کا کچھ جوش آیا بھی تو فور ادب گیا اور پھر اسی طرح طبعی دنایت سے کام کرتے رہے.ایسی گری ہوئی اور ذلیل قوم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام آئے اور ان کے ذریعہ ایسی لہر چلائی جو پھیلتے پھیلتے دور نکل گئی.اس کے بعد گو اس کا اثر نظر نہیں آتا مگر جیسا کہ میں ثابت کروں گا کوئی لہرایسی نہیں جو اثر نہ کرے.اس کے بعد چھوٹی چھوٹی لہریں پیدا ہوتی رہیں مگر تیرہ سو سال تو بعد ایک بڑی لہر پیدا ہوئی جو دنیا کے اکثر حصہ پر پھیل گئی.اور پھر سب سے آخر اور سب سے بڑی لہر رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی لہر رسول کریم ﷺ کے ذریعہ پیدا ہوئی اس وقت جبکہ دنیا میں لوگ غافل ہو کر تاریکی میں بھٹک رہے تھے اور سب پر مُردنی چھا گئی تھی رسول کریم کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے روحانیت کے دریا میں پُر جوش لہر پیدا کی.جو کسی خاص زمانہ اور خاص مقام سے تعلق نہیں رکھتی بلکہ تمام دنیا کے لئے ہے گو یہ لہر ملک عرب میں پیدا ہوئی جو بظاہر رتبہ اور درجہ میں کوئی امتیاز نہ رکھتا تھا.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے پھیلتے پھیلتے تمام دنیا میں پھیل گئی یہ تو اس کا ظاہری اثر ہے جو دنیا کو نظر آرہا ہے اور ہر شخص خواہ وہ کافر ہو یا مؤمن محسوس کرتا ہے.یورپ کے مؤرخ بھی اس کا اعتراف کرتے ہیں اور اسلام کے مؤرخ بھی.یہودی بھی اس کو مانتے ہیں اور عیسائی بھی.ا ہونے والی لہروں کا اعتراف ہر بات دنیا تسلیم کرے یا نہ انبیاء کے ذریعہ پیدا ہونے والی لہروں کا اعتراف کرے کہ حضرت موسیٰ خدا کے نبی تھے لیکن اس میں شک نہیں کہ کوئی قوم اس سے انکار نہیں کر سکتی کہ حضرت موسیٰ کے ذریعہ ایک ایسی بر ضرور پیدا ہوئی جو تمام بنی اسرائیل میں پھیل گئی پھر دنیا حضرت مسیح کے نبی
العلوم جلد ۴ ۲۳۸ اصلاح اعمال کی تلقین اللہ ہونے کا انکار کرے تو کرے مگر اس بات کا انکار نہیں کر سکتی کہ ان کے زمانہ میں بھی ایک بہر اٹھی تھی.اسی طرح یہ اور بات ہے کہ رسول کریم ﷺ کو تمام لوگ خدا تعالی کا نبی نہ مانیں مگر اس میں شک نہیں کہ یہ بات ماننے کے لئے ساری دنیا مجبور ہے کہ آپ کے ذریعہ دنیا میں ایک ایسا تغیر ضرور پیدا ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں پیدا ہوا تھا.یہ نمایاں اور ہر ایک کو محسوس ہونے والا اثر ہے.پھر پوشیدہ اثر جس کو عام لوگ محسوس نہیں کرتے.مگر واقعات روحانی هر کادر پرده اثر بتاتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا عمل دنیا میں پھیلتا ہے اور ایک ہی جگہ نہیں ٹھہر جاتا اور جو مشین چلائی جاتی ہے وہ ٹھرتی نہیں بلکہ آگے ہی آگے جاتی ہے اور جس طرح ہماری تمام حرکات اس جو میں پھیل جاتی ہیں اور ان کے اثرات دور تک پہنچتے ہیں.اسی طرح روحانی دنیا میں جو لہر اٹھتی ہے وہ بھی پھیلتی ہے اور دور دور تک پہنچتی ہے چنانچہ رسول کریم ﷺ کی مثال جو نمایاں طور پر تاریخ میں محفوظ ہے اس کو لیتے ہیں.شرک کی رو رسول کریم ا ے ایک ایسے زمانہ میں مبعوث ہوئے جس میں تمام اقوام عالم عموماً شرک میں مبتلاء تھیں عموماً کا لفظ میں نے اس لئے استعمال کیا ہے کہ اس زمانہ میں بعض ایسے افراد بھی تھے جو فرداً فرداً وحدانیت کے قائل تھے لیکن ان کا کوئی اثر نہ تھا.عام طور پر ہر جگہ شرک ہی شرک تھا اور اس زمانہ میں ایک سے زیادہ خدا ماننا ایک فیشن کے طور پر ہو گیا تھا.جس کا ثبوت اس طرح ملتا ہے کہ جو قومیں توحید مانتی تھیں ان میں بھی کسی یہ کسی رنگ میں ایک سے زیادہ خدا تسلیم کئے جاتے تھے.بنی اسرائیل جن کی ساری کتابیں کہہ رہی تھیں کہ ایک کے سوا کسی کو خدا نہ مانو وہ بھی کہتے تھے کہ عزیر خدا کا بیٹا ہے.اسی طرح زرتشتی جن کے مذہب کی بنیاد ابتداء میں خالص توحید پر تھی وہ بھی ایسی حالت میں تھے کہ بالکل شرک میں مبتلاء تھے.ادھر ہندوستان میں بت پرستی کی یہ حالت تھی کہ گو وہ کہتے تھے ایک خدا کی پرستش کرنی چاہئے لیکن قسم قسم کے بتوں کو پوجتے اور ان کی پرستش کرتے تھے اور مسیحی تو حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا بنا ہی چکے تھے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اس زمانہ میں تمام اقوام باوجود شرک کی منکر ہونے کے توحید پر قائم نہ رہی تھیں.گویا وہ ڈرتی تھیں کہ اگر توحید پر قائم رہیں تو مٹ جائیں گی جیسا کہ آج کل پردہ کے متعلق عام لوگوں کا خیال ہے اور اس کے خلاف اس بناء پر ایک رو چلی ہوئی ہے جس سے متأثر ہو کر مسلمان بھی کہتے ہیں کہ اب یا تو پردہ
العلوم جلدم ۲۲۹ اصلاح اعمال کی تلقین کو بالکل اڑا دیا جائے یا اس قدر خفیف اور ہلکا کر دیا جائے کہ اہل یورپ کو معلوم نہ ہو سکے کہ ہم پر وہ کے پابند ہیں.اسی طرح تعدد ازواج کے متعلق مسلمانوں کی کوشش ہے کہ یورپ سے اس کو چھپایا جائے اس کے لئے طرح طرح کے بیچ ڈالے جاتے ہیں لیکن اصل بات یہی ہے کہ آج کل جو رو چلی ہوئی ہے اس سے ڈر پیدا ہو رہا ہے کہ اگر ہم اس کے سامنے کھڑے رہے اور اس کے ساتھ نہ بہنے لگے تو ہمارا مذہب قائم نہیں رہ سکے گا.اسی طرح اور مسائل ہیں مثلاً نماز اس کے متعلق کہا جاتا ہے ظاہر نماز کی کیا ضرورت ہے یہ پہلے لوگوں کے لئے تھی اب تو صرف اتنا ہی کافی ہے کہ میز کرسی پر بیٹھ کر خدا کی حمد گالیں اور جب خدا کا نام آئے تو ذرا سر جھکا دیں اور بس.یہ کیوں کہا جاتا ہے؟ اس لئے کہ آج کل جو رو چلی ہوئی ہے اس کی وجہ سے لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اپنے اصلی عقائد پر قائم رہے تو مٹ جائیں گے.یہی حالت توحید کی اس زمانہ میں ہو چکی تھی جس میں رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے.تمام کے تمام مذاہب میں ایک رو چل گئی تھی کہ ہم اس وقت تک قائم نہیں رہ سکتے جب تک کہ کسی نہ کسی رنگ میں شرک کو اختیار نہ کرلیں.کسی خبیث الفطرت انسان کے دل میں پہلے پہل یہ رو پیدا ہوئی.تاریخی سے اس کا پتہ نہیں ملتا لیکن اس میں شک نہیں کہ یہ گندی رو پیدا ضرور ہوئی اور ابلیس کی تائید سے پھیلتی گئی.اس رو کا مقابلہ کرنے اور اس کی بجائے توحید شرک کی رو سے توحید کی رو کا مقابلہ تھا پھیلانے کے لئے جو انسان اس زمانہ میں کھڑا ہوا وہ رسول کریم الی تھے.گو اس وقت عرب میں ایسے لوگ تھے جو فرداً فردا ایک خدا کو مانتے تھے مگر لوگوں کے سامنے اسے بیان کرنے سے ڈرتے تھے.ہاں وہ اپنے دل کی بھڑاس شعروں میں نکالتے تھے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں شرک کے خلاف رو موجود تھی مگر ایسی ہی جیسی کہ دریا کے مقابلہ میں درخت کی پتی.اس لئے وہ شرک کے دریا کو کیا روک سکتی تھی.پس ان میں اتنی طاقت نہ تھی کہ شرک کے دریا کو روک سکتے لیکن خدا تعالیٰ نے رسول کریم کے وجود میں ایسی رو پیدا کی جس نے شرک کا مقابلہ کر کے اسے مٹا دیا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یا تو یہ لہر چلی ہوئی تھی کہ ہر ایک مذہب والے اپنے مذہب میں شرک داخل کر رہے تھے اور چاہتے تھے کہ ہم اس سے خالی نہ رہیں یا یہ کہ پینتیس کروڑ بتوں کے ماننے والے بھی کہنے لگے کہ ہم بھی توحید کے قائل ہیں.پھر وہ قوم جس میں حضرت موسیٰ
العلوم جلد ۴ ۲۳۰ اصلاح اعمال کی تلقین علیہ السلام مبعوث ہوئے اور جو توحید کے لئے اپنی جان تک قربان کرنے کے لئے تیار تھے اور جنہوں نے توحید کی خاطر اپنی قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کر انا منظور کر لیا مگر اسی قوم کو جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد اس میں بھی شرک موجود تھا.مگر جب رسول کریم ﷺ کے ذریعہ طوري رسول کریم اللہ کی توحید کی رو کا اثر توحید قائم ہوئی تو آج وہ مشرک لوگ جو اپنی بت پرستی پر بڑا زور دے رہے تھے کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں شرک بعد میں داخل ہوا ہے پہلے نہیں تھا.ہم کہتے ہیں کہ مانا کہ پہلے شرک نہیں تھا لیکن یہ تو بتاؤ کہ شرک کے خلاف تم میں خیال کب سے پیدا ہوا.رسول کریم ﷺ کی بعثت کے بعد ہی پیدا ہوا.تو دنیا کو گو ظاہری ر پر نظر نہیں آتا کہ رسول کریم ان کے ذریعہ شرک کے خلاف جو لہر پیدا ہوئی اس کا کس قدر اثر ہوا لیکن جب بتایا جائے تو ہر ایک سمجھدار یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شرک کے خلاف رسول کریم اے کے دل سے جو ہر نکلی وہی پھیل رہی ہے.یہ میں نے ایک ایسی مثال دی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی مگر تمام لوگ مانتے ہیں کہ محمد ﷺ کا وجود ایک کو لایا جو تمام دنیا میں پھیلی اور اب ہر قوم اقرار کرتی ہے کہ ہمارے مذہب میں شرک نہیں.یا تو وہ وقت تھا کہ کہا جاتا تھا مسیح کا خدا ہونا عیسائیت کی صداقت کی دلیل ہے اور دیگر مذاہب پر اسے یہی فوقیت حاصل ہے چنانچہ گزشتہ زمانہ میں عیسائیوں اور مسلمانوں میں جو مناظرے ہوتے رہے ہیں ان سے یہ بات ثابت ہوتی ہے مگر آج عیسائی صاحبان کہتے ہیں ہمارا مذ ہب اس لئے سچا ہے کہ صرف اسی میں توحید پائی جاتی ہے.گویا یہ مذہب یا تو اس لئے سچا تھا کہ اس میں خالص شرک پایا جاتا تھا یا اب اس لئے سچا ہے کہ اس میں خالص توحید پائی جاتی ہے.یہ کیوں؟ اس لئے کہ رسول کریم کے ذریعہ جو ہر شرک کے خلاف پیدا ہوئی وہ سب کے اندر سرائت کر گئی اور اندر ہی اندر شرک کا قلع قمع کر رہی ہے.یہ امر گو مخفی ہے اور ہر ایک کو نظر نہیں آتی مگر غور اور تدبر سے دیکھنے والے خوب دیکھ سکتے ہیں.انسان کے دل میں پیدا ہونے والی کوئی رو ضائع نہیں جاتی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت ضائع نہیں جاتی.دیکھو ادھر شرک کی ہر ایسے زور سے پھیل رہی تھی کہ ہر شخص اس کی طرف جھک گیا تھا لیکن جب اس کے خلاف روحانی پر پھیلی تو اس کی طرف بھی دنیا جھک گئی.ان
دم جلد ۴ اصلاح اعمال کی تلقین دونوں میں فرق کیا ہے؟ یہ کہ شرک کی جو لر پیدا ہوئی اس کے متعلق کوئی پتہ نہیں کہ کہاں سے پیدا ہوئی لیکن اس کے خلاف جو لہر پیدا ہوئی وہ اس قدر نمایاں اور واضح ہے کہ ہر ایک جانتا ہے کہ رسول کریم ال کے ذریعہ پیدا ہوئی.ایک کے دل سے نکلی ہوئی رو دو سرے کے دل پر کس طرح اثر کرتی ہے اس امر کا ان لوگوں کے لئے سمجھنا ذرا مشکل ہے جو روحانیت سے ناواقف ہیں کہ ایک کے دل سے نکلی ہوئی ہر کس طرح دوسرے پر اثر کرتی ہے لیکن اس کی مثالیں عام طور پر پائی جاتی ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ ایک سکھ تھا جو لاہور کے کسی کالج میں پڑھتا تھا اور اس کا حضرت مسیح موعود سے بہت تعلق تھا ایک دفعہ اس نے کہلا بھیجا کہ حضرت مرزا صاحب سے عرض کی جائے کہ جب میں کالج میں جاکر بیٹھتا ہوں تو میرے دل میں دہریت کے خیالات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں ان سے بچنے کے لئے کوئی تدبیر بتائی جائے.حضرت صاحب نے کہلا بھیجا کہ کالج میں جس جگہ بیٹھتے ہو اسے بدل ڈالو چنانچہ اس نے جب جگہ بدلی تو اس قسم کے خیالات پیدا ہونے بند ہو گئے.بات کیا تھی یہ کہ اس کے ارد گرد ایسے لڑکے بیٹھتے تھے جن میں دہریت پائی جاتی تھی اور ان کے خیالات کی رو نکل کر اس تک پہنچتی اور اسے متاثر کرتی تھی اور چونکہ اس کے اندر معرفت اور نور نہ تھا اس لئے اس کا دل دہریت کے اثر سے دب جاتا تھا.لیکن جب اس نے جگہ بدل لی تو محفوظ ہو گیا.اسی طرح بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک انسان کے دل میں خیال آتا ہے کہ یہ بات ہو جائے.مگر قبل اس کے کہ وہ اظہار کرے دوسرا اس خیال کو بیان کر دیتا ہے.کیوں اس لئے کہ ایک کا دوسرے پر اثر ہو جاتا ہے.ایک دفعہ میں عشاء کی نماز پڑھ رہا تھا اور یہ اسوقت کا ذکر ہے جب حضرت خلیفہ اول گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے بیمار تھے اور ابھی اچھی طرح صحت یاب نہ ہوئے تھے.نماز پڑھاتے ہوئے جب میں سجدہ میں گیا تو خیال آیا کہ کل جمعہ میں اس آیت پر تقریر کروں کہ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا (الفرقان : ٣١ ) اس وقت نہ اس کے متعلق کوئی خیال تھا نہ کوئی اس قسم کا واقعہ ہوا تھا کہ میں نے اس آیت کو کسی وقت پڑھا ہو یا سنا ہو لیکن ایسے جوش کے ساتھ یہ خیال پیدا ہوا کہ میں نے سمجھا خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ تحریک ہے اور یہ اس زور سے پیدا ہوئی کہ میں بمشکل اسے دبا کر نماز
اصلاح اعمال کی تلقین ختم کر سکا.پھر جب میں سونے لگا تو اس وقت بھی یہی خیال تھا اور جب اٹھا تو بھی یہی اور اس کے 1 بعد بھی یہی رہا.حتی کہ میں وضو کر کے نماز کے لئے روانہ ہوا اور سیڑھیوں سے نیچے اترا تو حضرت خلیفہ اول اترتے ہی ملے.فرمانے لگے آج آپ کو میں نے بڑا تلاش کرایا آپ کہاں تھے.میں نے کہا میں تو گھر میں ہی رہا ہوں معلوم نہیں تلاش کرنے والے سے غلطی ہوئی یا کیا.میں تو گھر سے نکلا ہی نہیں.فرمانے لگے میں نہیں جانتا کیا وجہ ہے صبح سے میرے دل میں ایک تحریک بہت زور کے ساتھ ہو رہی ہے کہ آپ آج اس امر پر تقریر کریں کہ لوگ قرآن پڑھیں یہ باتیں کرتے کرتے جب ہم ہندوؤں کے اس مکان کے قریب پہنچے جو بڑی مسجد کے قریب ہے تو آپ نے فرمایا کہ تقریر کرنے کے لئے کوئی آیت منتخب کر لو اور پھر خود ہی فرمایا اچھا یہی آیت سی يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا انَ مَهْجُورًا اس پر میں نے سنایا کہ رات سے میرے دل میں یہی آیت آرہی تھی اور اس پر تقریر کرنے کی بڑے زور سے تحریک ہو رہی تھی.کہنے لگے شاید تمہاری ہی تحریک کا مجھ پر اثر ہوا ہے.تو اس قسم کی لہریں ہوتی ہیں جو ہر قلب کے اندر پیدا ہوتی ہیں اور جس قدر زبر دست اور زور دار ہوتی ہیں اسی قدر زیادہ پھیلتی ہیں اور ان میں فرق یہی ہوتا ہے کہ بعض اتنی کمزور ہوتی ہیں جنہیں ہر قلب محسوس نہیں کرتا جس طرح ہوا میں لہریں تو موجود ہوتی ہیں لیکن ہر آنکھ محسوس نہیں کر سکتی بلکہ خاص آلہ ہی محسوس کرتا ہے اور باریک سے باریک ذرات ہوتے ہیں مگر کوئی آنکھ انہیں دیکھ نہیں سکتی بلکہ خوردبین ہی دکھاتی ہے.اسی طرح قلب میں پیدا ہونے والی لہروں کا حال ہوتا ہے اور بعض ایسی نمایاں اور زوردار ہوتی ہیں کہ تمام لوگ محسوس کر سکتے ہیں تو ہر ایک فعل جو انسان سے سرزد ہوتا ہے اور ہر ایک خیال جو انسان کو پیدا ہوتا ہے وہ موجود رہتا ہے اور نہ صرف موجود رہتا ہے بلکہ تمام انسانی | دماغوں میں جاتا ہے.ہاں اگر وہ کمزور ہوتا ہے تو محسوس نہیں ہوتا اور اگر زور دار ہوتا ہے تو سب کو محسوس ہوتا ہے.اس سے ہمارے لئے ایک نتیجہ نکلا کوئی انسان اپنے آپ کو غیر ذمہ دار نہ سمجھے اور وہ یہ کہ ہم جس طرح اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھتے ہیں در حقیقت اس طرح غیر ذمہ دار نہیں ہیں.بہت سی باتوں کے متعلق انسان سمجھتے ہیں کہ ہم ان کے ذمہ دار نہیں ہیں.اس لئے وہ لا پرواہی سے اسے منہ سے نکال
م جلد ۴ ٣٣٣ اصلاح اعمال کی تلقین دیتے ہیں.مگر یہ شواہد اور مثالیں جو میں نے پیش کی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی کوئی حرکت اور کوئی فعل بے نتیجہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اس تک محدود رہتا ہے بلکہ اس کا اثر دور دور تک پھیلتا ہے.ہاں جب وہ طاقتور ہوتا ہے تو بہت سے لوگوں کو محسوس ہوتا ہے اور جب کمزور ہوتا ہے تو کم لوگوں کو محسوس ہوتا ہے لیکن ہوتا ضرور ہے اور کچھ نہ کچھ اثر ضرور کرتا ہے.چنانچہ اس لئے خدا تعالٰی نے قرآن مخفی لہروں کے اثر کرنے کا ثبوت قرآن سے کریم میں فرمایا ہے کہ قُل اَعُودُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إِلَهِ النَّاسِ مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ٥ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (الناس : ۲تا ) اس میں اللہ تعالٰی نے بتایا ہے کہ انسان کے دل میں پیدا ہونے والی مخفی لہریں بھی دو سروں پر اثر کرتی ہیں کیونکہ فرماتا ہے کہو ہم پناہ مانگتے ہیں خناس کے وسوسوں سے.گویا ایسے لوگ ہوتے ہیں جو خود تو پیچھے رہتے ہیں لیکن ان کے وسوسے یعنی گندے خیالات دوسروں کے دلوں میں جاپڑتے ہیں.اس میں یہ بھی بتایا کہ فضا میں آپ تو نظر نہیں آتے مگر ان کا وسوسہ دل میں آجاتا ہے کس طرح؟ اسی طرح کہ ان کے دل میں پیدا ہونے والی لہر چلتی ہے اور اس طرح ان کے گندے خیالات دوسروں تک پہنچ جاتے ہیں.اس بات کی تصدیق اس سے بھی ہوئی ہے کہ عموماً دیکھا گیا ہے جب کوئی نیا خیال پھیلنے لگتا ہے تو مختلف شہروں میں اس خیال کے لوگ کھڑے ہو جاتے ہیں.اسی طرح تحقیقاتوں کے متعلق بھی دیکھا گیا ہے مثلاً ڈارون تھیوری ہے اس کے تین شخص مدعی ہیں.ایک انگریز دوسرا جرمن اور تیسرا فرانسیسی.لیکن محققین کہتے ہیں کہ ایک ہی زمانہ میں ان تینوں کو یہ خیال پیدا ہوا تھا چنانچہ یہ ثابت کیا گیا ہے کہ یہ تینوں ایک دوسرے کے ہم عصر تھے تو خیالات ایک سے دوسرے کے دل میں پیدا ہوتے ہیں.اسی لئے صحبت صالح کا حکم ہے اس میں یہی حکمت کی صالحین کی صحبت میں بیٹھنے کا حکم ہے خدا کے برگزیدہ بندوں کی بات تو تحریر کے ذریعہ یا دوسروں کی زبانی بھی معلوم ہو سکتی ہے.پھر كُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ (التوبة : 19) میں صادقوں کی صحبت میں رہنے کا کیوں اشارہ کیا گیا ہے.پھر رسول کریم" کے پاس رہ کر تعلیم حاصل کرنے یا مسیح موعود کا اپنی صحبت میں رہنے کی تاکید کرنے کا کیا مطلب ہے.در حقیقت بات یہ ہے کہ
ا العلوم جلدم مهم ۲۳ اصلاح اعمال کی تلقین صرف الفاظ اس قدر اثر نہیں رکھتے جس قدر وہ رو رکھتی ہے جو قلب سے نکلتی ہے اور چونکہ ہر قلب ایسا نہیں ہو تا جو اسے دور سے محسوس کر سکے اس لئے قریب ہونے کی وجہ سے چونکہ رو کی شدت بڑھ جاتی ہے اور جلدی اثر ہو جاتا ہے اس لئے قرب کا حکم دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا کہ جو تیرے زمانہ کے لوگ ہوں گے وہ اچھے ہوں گے اور جو ان سے بعد کے ہوں گے وہ ان سے کم درجہ کے ہوں گے اور جو ان سے بعد کے ہوں گے وہ ان سے کم درجہ کے ہوں گے.اسی طرح رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.بخاری کتاب المناقب باب فضائل اصحاب النبی 2 ) اب سوال ہوتا ہے کہ ان سب کی اصلاح تو قرآن کریم اور احادیث کے ذریعہ ہوئی اور اسی طرح سے وہ پاک و صاف ہوئے پھر وجہ کیا ہے کہ رسول کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ اعلیٰ درجہ رکھتے ہیں اور ان کے بعد کے ان سے کم اور ان کے بعد کے ان سے بھی کم.اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلوں پر جس قدر رسول کریم ﷺ اور حضرت مسیح موعود کے وجود پاک سے نکلی ہوئی ہر کا اثر ہوا دہ تو بعد زمانی کی وجہ سے بعد والوں پر کم ہو تا گیا دیکھو پانی میں جب پتھر پھینکا جائے تو قریب قریب کی لہریں بہت نمایاں اور واضح ہوتی ہیں اور جوں جوں عمریں پھیلتی جاتی ہیں مدھم ہوتی جاتی ہیں یہی حالت روحانی لہروں کی ہوتی ہے ان پر جوں جوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اور وہ پھیلتی جاتی ہیں تو کو متی نہیں مگر ایسی کمزور اور مدھم ہوتی ہیں کہ ہر ایک دل انہیں محسوس نہیں کرتا اور جو محسوس کرتا ہے وہ بھی پورے طور پر محسوس نہیں کر سکتا.اس لئے جن لوگوں کو روحانیت کی لہر پیدا کرنے والے وجود کا قرب مکانی یا قرب زمانی حاصل ہو تا ہے وہ اس لہر سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں اور بعد میں آنے والوں سے بہت بڑھے ہوئے ہوتے ہیں.قرب کا اثر قرب مکانی اور زمانی کے اثر کا عام اور ظاہری ثبوت اس سے مل سکتا ہے کہ آپ لوگوں نے کئی دفعہ تجربہ کیا ہو گا اگر کسی کو کوئی کام کرنے کے لئے خط لکھا جائے تو وہ انکار کر دیتا ہے اگر خود اس کے پاس جا کر کہا جائے تو کام کر دیتا ہے.ہر ایک کہنے والا نہیں جانتا کہ اس کی کیا وجہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ منہ دیکھے کالحاظ کیا گیا ہے لیکن دراصل وہ رو کا اثر ہوتا ہے جو قرب کی وجہ سے زیادہ پڑتا ہے اور اس طرح جس کو کچھ کہا جائے وہ مان لیتا ہے.اسی طرح وہی تقریر جو ایک جگہ مقرر کے منہ سے سنی جائے جب چھپی ہوئی پڑھی جائے تو اس کا وہ اثر نہیں ہوتا جو سننے کے وقت ہوتا ہے.اس وقت بڑا مزا اور لطف آتا ہے لیکن چھپی
اصلا مال کی تلقین رالعلوم جلد ۴ لکھی ۲۳۵ ہوئی پڑھنے سے ایسا مزا نہیں آتا.جس پر کہہ دیا جاتا ہے کہ لکھنے والے نے اچھی طرح نہیں لیکن بات یہ ہوتی ہے کہ لکھنے والا تو صرف الفاظ ہی لکھتا ہے.وہ لہریں جو تقریر کرنے والے سے نکل رہی ہوتی ہیں ان کو محفوظ نہیں کر سکتا.اس لئے صرف الفاظ کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا لہروں کے ساتھ ملنے سے ہوتا ہے جو قرب کی وجہ سے سنے والے تک پورے طور پر پہنچ رہی ہوتی ہیں.اس لئے تقریر سننے سے زیادہ اثر ہوتا ہے اور پڑھنے کے وقت ایک تو بعد ہوتا ہے اور دوسرے صرف لفظ ہوتے ہیں اس لئے وہ لطف نہیں آتا نہ اتنا اثر ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ اسلام میں مجد دین مبعوث کئے مجددین کے مبعوث ہونے کی وجہ جاتے رہے ہیں کیونکہ قرآن کریم کے صرف الفاظ سے وہ اثر نہیں ہو سکتا جو خدا کے صاف کئے ہوئے کسی انسان کے منہ سے نکلنے پر ہو سکتا ہے.تو جو ہر کسی وجود سے نکلتی ہے وہ ضرور اثر کرتی ہے اور کبھی ضائع نہیں جاتی.یہ الگ بات ہے کہ جو لہر زیادہ زور دار ہوتی ہے وہ زیادہ اثر کرتی ہے اور جو کمزور ہوتی ہے وہ کم اثر کرتی ہے.اسی طرح قریب کی چیزوں پر زیادہ اثر ہوتا ہے اور بعید پر کم.لیکن اثر ہو تا ضرور ہے جس سے صاف طور پر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر یہ خیال نہ کرے کہ میں جو کچھ کہتا ہوں اس کا کوئی اثر نہیں ہو گا.ایک ایسا شخص جو فتنہ و فساد کی کوئی بات منہ سے نکال کر یہ شخص سخت غلطی کرنے والا انسان کہہ دیتا ہے کہ میرا کیا ہے میں تو ایک غیر ذمہ دار ہوں.میری بات کا کوئی اثر نہیں ہے.وہ سخت غلطی کرتا ہے.ہو سکتا ہے کہ اس کی بات کا ظاہرا اثر نہ ہو مگر اس سے جو لہر چلتی ہے وہ ضرور ایسے لوگوں کو خراب کرتی ہے جو کمزور ہوتے ہیں.ایسے لوگ خواہ اس کے پاس ہوں یا ڈور ان پر ضرور کچھ نہ کچھ اثر ہو گا اور جن میں زیادہ طاقت ہوگی وہ تو اس لہر کا مقابلہ کریں گے لیکن اگر کم ہوگی تو متاثر ہو جائیں گے پس کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ وہ غیر ذمہ دار ہے اور اس کی بات کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا.اثر ضرور ہوتا ہے.اس لئے مؤمن کو چاہئے کہ اپنا ہر ایک کام ہر ایک نعل اور مؤمن کو احتیاط کرنی چاہئے ہر ایک بات کرتے وقت نہایت احتیاط کرے اور کوئی ایسی بات نہ کرے جس سے کسی قسم کا فتنہ پیدا ہوتا ہو کیونکہ جو ایسا نہیں کرتا وہ اپنے ہاتھ اپنے
انوار العلوم جلد ۴ PFY اصلاح اعمال کی تلقین پاؤں، اپنی زبان اور اپنے خیال سے زہر پھیلاتا ہے اور بہت سوں کو ہلاک کر دیتا ہے.وہ اسلام میں روک ڈالتا ہے اور جو لوگ اشاعت اسلام کی کوشش کرتے ہیں ان کے مقابلہ میں روک بنتا ہے کیونکہ جہاں اشاعت اسلام کرنے والے لوگوں کے دلوں میں اسلام کے پھیلانے کی رو پیدا ہوتی ہے وہاں اس کے دل میں ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں جن سے فتنہ و فساد و شرارت اور بدامنی پیدا ہوتی ہے.پس ہر شخص کو چاہئے کہ اپنے خیالات اور افعال کو نہایت احتیاط کے دائرہ میں رکھے اور کوئی بات اور کوئی فعل ایسا نہ کرے جس سے چھوٹے سے چھوٹا فتنہ پیدا ہونے کا احتمال بھی ہو اور ہر ایک برے خیال کا مقابلہ کرتے ہوئے نیک خیالات اور اچھے ارادے اپنے دل میں پیدا کرے.ایسا شخص اگر اپنے گھر میں بیٹھا ہو تو بھی دور دور اسلام کی تبلیغ کا موجب بن رہا ہو گا کیونکہ اس کے دل سے جو اچھی رو نکلے گی وہ دور دور پھیلے گی اور لوگوں کو متاثر کرے گی.یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر ا نے کہا ہے.نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ ا الله عَمَلِهِ ۳ نیت اور عمل میں فرق خَيْرٌ مِّنْ عَليه.(جمع بحار الانوار جلد مصلح ۱۴۰۷) کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے اچھی ہے.بعض لوگوں نے اسے رسول کریم ﷺ کی حدیث قرار دیا ہے لیکن یہ حدیث نہیں ہے حضرت عمر اللہ کا قول ہے.ظاہری نظر سے دیکھنے والا انسان تو کے گا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ نیت عمل سے اچھی ہو اور صرف اچھی نیت کرنا عمل کرنے سے اچھا ہو.لیکن بات دراصل یہ ہے کہ جو انسان قلب میں اصلاح کرلے وہ اعمال صالحہ تو کرے گا ہی لیکن چونکہ اس کے قلب کا اثر دور دور تک پہنچے گا جس سے لوگوں میں ایسی کشش پیدا ہوگی کہ اسلام کی طرف کھنچے چلے آئیں گے.اس لئے نیت کا درجہ عمل سے اعلیٰ بتایا گیا ہے کیونکہ عمل صرف دیکھنے والوں پر اثر ڈال سکتا ہے جو بہت محدود ہوتے ہیں مگر قلب کا اثر دور دور تک پہنچتا ہے تو چونکہ نیتوں ، ارادوں اور باتوں کا اثر بہت وسیع ہوتا ہے اس لئے ان کے متعلق مؤمن کو بہت محتاط رہنا چاہئے مگر عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ کسی کے دل میں جو خیال آتا ہے خواہ وہ کیسا ہی فتنہ انگیز ہو اُسے پھیلانا شروع کر دیا جاتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کر لیا جاتا ہے.یہ مؤمن کی شان نہیں ہے.مؤمن کی شان مؤمن وہی ہے جو اپنے ہر قسم کے خیالات اور ارادوں پر پوری طرح قبضہ اور اختیار رکھتا ہے.اپنے دل میں نیک اور اچھے خیال کو آنے دیتا ہے اور
والعلوم جلد ۳ ۲۳۷ اصلاح اعمال کی تلقین بد کو روک دیتا ہے اور یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف جھک جائے تو دل خود بخود قابو میں آجاتا ہے اور نیک تحریکیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.ہماری جماعت کے لوگوں کے لئے قلب کی اصلاح سب سے ضروری ہے سے پہلے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ وہ اپنے خیالات اور ارادوں کی اصلاح کریں بہت لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے حالانکہ سب سے ضروری یہی بات ہے کہ انسان کو اپنے قلب پر قبضہ حاصل ہو اور جس کو دل پر قبضہ اور اختیار حاصل ہو گیا اسے سب کچھ حاصل ہو گیا.رسول کریم ﷺ نے حضرت ابو بکر ان کے متعلق فرمایا کہ ابوبکر نماز، روزہ، زکوۃ اور حج کی وجہ سے فضیلت نہیں رکھتا بلکہ اس چیز کی وجہ سے فضیلت رکھتا ہے جو اس کے قلب میں ہے.الزهمة المجالس مصنفہ شیخ عبد الرحمان الصفوری جلد ۲ صفحه ۱۵۳ مطبوعہ مصر) تو در حقیقت قلب میں پیدا ہونے والی چیز ہی ایسی ہے جو ظاہری اعمال پر بہت بڑی فضیلت رکھتی ہے بہت لوگ نمازیں پڑھتے، روزے رکھتے، زکوۃ دیتے، حج کرتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں حاصل ہوتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کی نیت درست اور ارادہ ٹھیک نہیں ہوتا.رسول کریم فرماتے ہیں ایک انسان ہوتا ہے جو ساری عمر جنتیوں والے کام کرتا رہتا ہے لیکن اس کے دل میں کوئی ایسی بات ہوتی ہے کہ مرتے وقت اسے ایساد مکا لگتا ہے کہ دوزخ میں جاکر گرتا ہے.اسی طرح ایک انسان ساری عمر ایسے کام کرتا رہتا ہے جو بظاہر دوزخیوں والے ہوتے ہیں اور وہ دوزخ کے قریب پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے قلب میں ایسی بات ہوتی ہے کہ خدا تعالٰی اسے دوزخ میں گرنے سے کھینچ لیتا اور جنت میں داخل کر دیتا ہے.اتر مذی ابواب القدر باب ماجاء ان الاعمال بالخواتيم) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف ظاہری اعمال کامیابی کے لئے کافی نہیں ہوتے.ظاہری اعمال خواہ انسان کتنے ہی کرے اگر اس کے قلب میں نور ایمان اور اخلاص نہ ہو تو چھوٹی چھوٹی باتوں سے اسے ٹھوکر لگ جاتی ہے اور کہیں سے کہیں جا پڑتا ہے اور چونکہ اس کے اعمال بہت ہی محدود اور سطحی ہوتے ہیں.اس لئے ان کا بہت کم نتیجہ نکلتا ہے.اس کے مقابلہ میں روحانی لہریں بہت گہری اور پائیدار ہوتی ہیں اور وہ قلب سے نکلتی ہیں اس لئے قلب کی اصلاح سب سے ضروری اور اہم ہے ایسا انسان جو ظاہری طور پر اسلام کے احکام پر عمل کرتا ہے.مگر اس کے قلب میں کوئی ایسی لہر پیدا ہوتی ہے جو اسلام کی اشاعت میں روک ہے تو وہ اسلام کی مخالفت کرنے والا ہے.اسی لئے رسول کریم
٢٣٨ اصلاح اعمال کی تلقین نے فرمایا ہے.انسان کو ہوشیار رہنا چاہئے.اس کے جسم میں ایک ایسا ٹکڑا ہے کہ وہ خراب ہو جائے تو اس کا سارا جسم خراب ہو جاتا ہے اور وہ اچھا ہو تو سارا جسم اچھا ہوتا ہے اور وہ دل ہے.(ابن ماجه كتاب الفتن باب الوقوف عند الشبهات) پس جب کسی کے دل میں بدخیال آتے ہیں تو اس کا سارا جسم برا ہو جاتا ہے اور جب نیک خیال آتے ہیں تو اس کا سارا جسم اچھا یا ہوتا ہے.اس لئے قلب کا میل کرنا اور اس میں پاکیزگی پیدا کرنا نہایت ضروری ہے اور میں نے بتایا ہے جس کا قلب صاف ہو وہ گھر بیٹھے بیٹھے دور دور تبلیغ کر رہا ہوتا ہے وہ جاپان میں تبلیغ کرتا ہے.وہ چین میں تبلیغ کرتا ہے وہ یورپ میں تبلیغ کرتا ہے وہ امریکہ میں تبلیغ کرتا ہے گویا وہ ساری دنیا میں تبلیغ کر رہا ہوتا ہے.دیکھو حضرت مسیح موعود ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود کے ذریعہ چلی ہوئی رو تبلیغ کرنے نہیں گئے.لیکن آپ نے جو رو چلائی وہ ہر جگہ پھیل رہی ہے اور تمام اقوام میں مذہب کا چرچا ہو رہا ہے.چاہے لوگ اس وقت حضرت مسیح موعود کو سچا نہ سمجھیں اور آپ کو قبول نہ کریں لیکن جس طرح ایک بے ہوش کی آنکھ کھلتی ہے تو اس کا ہاتھ سب سے پہلے اسی چیز پر پڑتا ہے جو اس کے قریب ہوتی ہے.اسی طرح ان لوگوں کی غفلت سے جو آنکھ کھل رہی ہے تو گو ان کی توجہ انہیں باتوں کی طرف ہو رہی ہے جو ان کے زیادہ قریب ہیں لیکن جب زیادہ آنکھ کھل جائے گی تو اصل بات کی تی طرف بھی توجہ کرنے لگیں گے لیکن اس سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جو رو چلائی وہ ساری دنیا میں پھیل رہی ہے.پس اس میں شک نہیں کہ قلب کی رو ساری دنیا میں پھیلتی ہے.اور اس میں بھی شک نہیں کہ پاس والوں پر زیادہ اثر ڈالتی ہے.لیکن نبی چونکہ مرکز ہوتا ہے اس لئے ایک مقام پر کھڑا ہو کر رو کو پھیلاتا ہے اور اس طرح اس کی رو کا جو اثر ہوتا ہے وہ اس کے جگہ جگہ پھرنے سے نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود ابتداء میں کچھ عرصہ کئی جگہ گئے ہیں مگر بعد میں ایک مقام پر قائم ہو گئے.اسی طرح نبی کریم نے ابتدائی زمانہ میں تبلیغ کے لئے مختلف مقامات پر جاتے رہے مگر بعد میں جنگوں کے لئے تو آپ کو جانا پڑا مگر تبلیغ کے لئے نہیں گئے.اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام بھی کشمیر تک تو آئے مگر پھر ٹھہر گئے.تو انبیاء ابتدائی زمانہ میں پھرتے ہیں مگر بعد میں ایک مرکز پر قائم ہو جاتے ہیں اور اسی جگہ بیٹھے ہوئے دور دور اپنا اثر پہنچاتے رہتے ہیں
۳۳۹ اصلاح اعمال کی تلقین چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح موعود نے ایک جگہ بیٹھ کر کس طرح ہر جگہ اپنا اثر پہنچا دیا ہے.گو آج دہ اثر ہر جگہ نظر نہیں آتا لیکن زمانہ بتائے گا اور بتا رہا ہے کہ کوئی جگہ نہیں جہاں آپ کا اثر نہیں پہنچ چکا.تو قلب کی اصلاح سب سے ضروری ہے جو اس کی اصلاح نہیں کرتا وہ غفلت میں پڑا سو رہا ہے وہ اسلام کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے کیونکہ اس کا قلب ایسی بدبو پھیلا رہا ہے جس کا اثر دوسروں پر برا پڑتا ہے اور وہ اسلام سے دور ہو جاتے ہیں.پس میں آپ لوگوں کو ہدایت قلوب کی اصلاح سے اشاعت اسلام میں آسانی کرتا ہوں کہ اپنے قلوب کی اصلاح کرو تاکہ تمہارے ذریعہ اشاعت اسلام میں آسانیاں پیدا ہوں.اگر ہماری جماعت کے لوگ قلب کی پوری پوری اصلاح نہ کریں گے تو نہ صرف خود ایمان کے اعلیٰ درجہ کو حاصل نہ کر سکیں گے بلکہ دوسروں کے ایمان لانے میں بھی روک بنیں گے آج کل کئی لوگوں نے اصلاح چندہ دینا سمجھ رکھی ہے اور وہ اپنی ہمت کے مطابق چندہ دیتے ہیں وصیتیں کرتے ہیں اور بھی کئی قسم کی قربانیاں کرتے ہیں مگر بعض اوقات چھوٹی سی بات سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ گوان کے ظاہری اعمال اچھے تھے لیکن ان کے دل میں ایمان مضبوطی کے ساتھ گڑا ہوا نہیں تھا اور انہیں قلب کی پوری صفائی حاصل نہ تھی.ان کی حالت ایسی ہی تھی جیسے پاخانہ پر کھانڈ پڑی ہو اور ذرا سی ٹھوکر سے بدبو نکل آئے.اس قسم کی کئی مثالیں مل سکتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتیں ٹھوکر کا موجب ہوئی ہیں اور پھر ایسے لوگوں نے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ ان کے ذریعہ کتنا فتنہ پیدا ہو گا.ایک آدمی کے متعلق جب معلوم ہوا کہ وہ ڈگمگا رہا ہے ہے تو میں نے اس کے پاس آدمی بھیجے جنہیں اس نے کہا کہ مجھے روپیہ کی ضرورت تھی جو میاں صاحب نے نہیں دیا اور لاہوری احباب نے دے دیا ہے اب میں کیا کروں اور کس طرح ان سے ہٹوں.اس بات کو اگر مان بھی لیا جائے کہ ہماری غلطی ہے اور ہم نے اس وقت اس کی امداد نہیں کی.(حالانکہ اسے یہ دھوکا اپنے ہی گھر سے لگا ہے) تو بھی میں کہتا ہوں اس سے یہ کس طرح معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب نبی نہ تھے.پھر مجھے تو جو اس کا جی چاہتا کہہ سکتا تھا لیکن اس کی وجہ سے اسے یہ کس طرح پتہ لگا کہ غیر احمدی مسلمان ہیں.میرے روپیہ دینے یا نہ دینے میرے خاطر کرنے یا نہ کرنے سے مسئلہ نبوت مسیح موعود پر کیا اثر پڑ سکتا ہے لیکن اس بات سے ٹھو کر کھا کر وہ کہیں کا کہیں جا پڑا.پس اس بات سے اس کے عقائد کا بگڑ جانا بتا رہا
۲۴۰ اصلاح اعمال کی تلقین ہے کہ اس پر ایک پردہ پڑا ہوا تھا جو ذرا سی ٹھوکر سے پھٹ گیا اور اندر سے اس کے گندے اور نا پاک نفس کی بدبو آنے لگ گئی.تو اس طرح ٹھوکریں لگنے کی وجہ دراصل یہی ہوتی ہے کہ ایسے لوگوں کے قلب صاف نہیں ہوتے.اگر قلب صاف ہو تو انہیں اپنے عقائد پر ایسا یقین اور ثبات ہو کہ جس صفائی قلب کا نتیجہ سے کوئی چیز انہیں متزلزل نہ کر سکے.دیکھو اگر ایک شخص کو کامل ایمان ہو کہ رسول کریم و خدا کے بچے رسول ہیں اور اس کے قلب میں یہ بات پورے وثوق کے ساتھ داخل ہو تو اسے اگر ساری دنیا مل کر بھی اس عقیدہ سے ہٹانا چاہے تو وہ نہیں ہے گا وہ جان تو دے دے گا مگر ایمان نہیں دے گا.وہ اپنے بیوی بچوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرانا منظور کرلے گا لیکن یہ نہیں کہے گا کہ آپ خدا کے رسول نہ تھے.اسی طرح جس شخص کے قلب میں یہ بات داخل ہو کہ حضرت مسیح موعود خدا کے نبی ہیں اسے خواہ کتنی ہی مشکلات پیش آئیں ، کتنی ہی تکالیف کا سامنا ہو وہ آپ کے نبی ہونے سے کبھی انکار نہیں کرے گا.لیکن جس کے دل میں یہ بات داخل نہ ہوگی وہ خواہ زبانی اس کا کتنا ہی اقرار کرتا رہے، معمولی سی ٹھوکر انکار کر دے گا.پس سب سے ضروری بات یہی ہے کہ قلب کو صاف کیا جائے اور اسے ہر قسم کی آلائشوں اور پلیدیوں سے پاک رکھا جائے.آپ لوگوں کو اس طرف خاص توجہ کرنا چاہئے اور یاد رکھنا چاہئے کہ صرف ظاہری اعمال سے کام نہیں چلتا.اس وقت تک نمازیں نمازیں نہیں کہلا سکتیں.روزہ روزہ نہیں کہا جاسکتا.حج حج نہیں ہو سکتا.زکوۃ زکوۃ نہیں کہی جاسکتی جب تک قلب صاف نہ ہو اور قلب میں پاکیزگی پیدا نہ ہو جائے اور جب قلب صاف ہو جائے تو پھر سب باتیں خود بخود صاف ہو جاتی ہیں.سے قلب کی صفائی کے کیا ذرائع ہیں.یہ ایک لمبا مضمون ہے اور قلب کی صفائی کے طریق اس وقت مجھے کچھ تکلیف ہے زیادہ بول نہیں سکتا اس لئے میں صرف اتنا بتاتا ہوں کہ قلب کی صفائی کے طریق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں موجود ہیں.میں اس وقت آپ لوگوں کو جگا رہا ہوں اور ایک اہم بات کی طرف متوجہ کر رہا ہوں.آگے اس کا حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اٹھانا آپ لوگوں کا کام ہے پس میں پھر کہتا ہوں کہ اپنے اپنے قلب کی صفائی کرو.
انوار العلوم جلدم الم اصلاح اعمال کی تلقین اگر آج ہماری ساری جماعت اپنے قلوب کو قلب صاف ہو جانے کے بعد کیا ہو گا صاف کرے اور ایسا بنالے کہ کوئی ٹھوکر کوئی تکلیف کوئی مشکل اور کوئی مصیبت اسے صراط مستقیم سے ہٹا نہ سکے اور دشمن تو الگ اگر اپنوں سے بھی کوئی رنج اور تکلیف پہنچے تو بھی عقائد سے متزلزل نہ ہو کیونکہ اس نے کسی کے لئے حضرت مسیح موعود کو قبول نہیں کیا بلکہ اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے مانا ہے.پس اگر ہماری جماعت کے تمام افراد کو یہ بات حاصل ہو جائے تو موجودہ صورت سے کئی گنا بڑھ کر ہماری ترقی کی رفتار تیز ہو جائے گی اور جس طرح سیلاب کے سامنے بڑی بڑی عمارتیں اور دیواریں گرتی اور مٹتی جاتی ہیں اسی طرح اس روحانیت کے دریا کے سامنے کفر کی عمارتیں دھڑا دھڑ گرتی چلی جائیں گی.پھر قلب کی صفائی کے ساتھ ظاہری صفائی کی بھی ضرورت ہے اس لئے اس سے بھی غافل نہ رہنا چاہئے اور اپنے فرائض کی اہمیت اور موقع کی نزاکت کو خوب طرح محسوس کرنا چاہیئے.موجودہ نازک حالت اس وقت حالت یہ ہے کہ پہلی بوسیدہ عمارتوں کو مٹایا جارہا ہے ان کی جگہ نئی بنیادیں رکھی جارہی ہیں اور ایسا وقت بہت نازک اور تکلیف دہ ہوتا ہے جبکہ پرانی عمارت گرا کر نئی بنائی جارہی ہوتی ہے کیونکہ خواہ مکان پرانا اور بوسیدہ ہو تو بھی اس میں گزارہ کرنے والے کرہی لیتے ہیں بارش میں اگر ایک جگہ سے ٹکے تو ی دوسری جگہ ہو بیٹھتے ہیں.گرمی میں دھوپ سے اور سردی میں ہوا سے بچتے ہیں لیکن جب مکان بالکل گر جائے تو پھر کچھ بھی سہارا نہیں رہتا.پس آج اسلام کی وہ عمارت جو نا اہلوں کی وجہ سے بوسیدہ ہو گئی تھی گرادی گئی ہے اور اب نئی عمارت بنائی جائے گی.بوسیدہ عمارت کے گرنے سے ہمیں خوشی ہے کہ نئی بنے گی لیکن جس طرح نیا مکان بنانے کے لئے بہت زیادہ فکر اور کوشش کرنی پڑتی ہے ، اس سے زیادہ کوشش کی ہمیں ضرورت ہے.اس وقت زیادہ سے زیادہ دو تین مسلمان کہلانے والوں کی حکومتیں رہ گئی تھیں اور وہی اسلام کی عمارت سمجھی جاتی تھیں لیکن چونکہ وہ بوسیدہ ہو گئیں اس لئے خدا انہیں گرا رہا ہے اور اس طرح مسلمانوں کو بیدار اور ان ہوشیار کیا گیا ہے.اب نئی عمارت بنے گی مگر تلوار کے ذریعہ نہیں، روحانی ذرائع سے اور اس کے لئے تیاری کرنا ہمارے لئے نہایت ضروری ہے.اگر چہ یہ دن اسلام کے لئے بہت نازک اور خطرناک دن ہیں مگر جو خدا تعالیٰ پر یقین اور بھروسہ رکھتے ہیں ان کے لئے خوشی کا بھی موقع
لوم جلد ۴ ۲۲ ملاح اعمال کی تلقین ہے کہ اب نئی عمارت بنے گی پس اس عمارت کی تیاری کے لئے محنت اور کوشش کی ضرورت ہے.باقی جس قدر لوگ ہیں اسلام کی ترقی کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی وابستہ ہے انہیں اس کی پرواہ ہی نہیں وہ دن رات دنیا حاصل کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور جنہیں کچھ مذہب کا خیال ہے وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ اپنے ایجاد کردہ ذرائع سے کامیاب ہو جائیں گے حالانکہ کوئی مذہب اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتا جب تک کہ خدا کے ساتھ صلح نہ ہو اور خدا خود اس کا معاون و مددگار نہ ہو جائے تو اسلام کی ترقی کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی وابستہ ہے جب تک اسلام ترقی نہیں کرے گا مسلمان بھی ترقی نہیں کر سکتے اور کوئی ذریعہ ان کی کامیابی کا نہیں ہے.لیکن عام لوگ اس سے غافل پڑے ہوئے ہیں صرف ایک ہی جماعت ہے جس کی توجہ اس طرف ہے اور وہ احمدی جماعت ہی ہے.اب دیکھئے کیسا نازک وقت ہے اسلام کی عمارت تیار ہونے کے لئے ایک طرف تو کروڑوں مزدوروں کی ضرورت ہے لیکن دوسری طرف مزدوروں نے سٹرائک کر رکھی ہے اور مسلمان کہلانے والوں نے کہہ دیا ہے کہ ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے.اس کی لئے صرف چند لاکھ ایسے آدمی ہیں جو بظاہر اتنی بڑی عمارت کے ایک گوشہ کے لئے بھی کافی نہیں ہیں.ایسی حالت میں جس قدر محنت اور کوشش کی ہمیں ضرورت ہے وہ صاف ظاہر ہے.لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ ایسے وقت میں اور اتنے کم یہ آرام کرنے کا وقت نہیں مزدور ہونے کی صورت میں ان میں سے بھی کئی پاؤں پھیلا کر بیٹھے ہوئے ہیں کہ ستالیں اور آرام کرلیں.ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ یہ غفلت اور سستی کا وقت نہیں اور نہ ہی آرام کرنے کا موقع ہے بلکہ کام کا وقت ہے اور آپ لوگوں نے اس کام کے کرنے کے لئے کئی بار وعدے کئے ہیں میں ان وعدوں کے پورا کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہوں.پس جن میں غفلت اور سستی پائی جاتی ہے وہ اسے ترک کریں.کامیابی اور کامرانی تمہارے دروازے پر کھڑی ہے اور یہ کامیابی یا تو رسول کریم نانی کے وقت حاصل ہوئی ہے یا اب ہوگی.رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا کہ یا رسول اللہ ! ہم اچھے ہیں یا سیح کے صحابہ؟ آپ نے فرمایا میں نہیں جانتا.صحابہ کو جو انعام ملے ان کے متعلق مجھے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہر مسلمان خوب اچھی طرح جانتا ہے.پس انعام جو انہیں ملے وہی آپ
انوار العلوم جلد ۴ سم سهام ۲ اصلاح اعمال کی تلقین لوگوں کو مل سکتے ہیں اور تمہارے لئے رحمتوں کے دروازے کھل گئے ہیں اور فضل کے فوارے چل رہے ہیں مگر جہاں خدا کے رحم کی پھوار برس رہی ہے وہاں آگ کی بارش بھی ہو رہی ہے.اب جس کے نیچے کوئی اپنے آپ کو لے جائے گا وہی اس پر پڑے گا.ہماری تو جماعت کے لوگوں کو چاہئے کہ آگ چھوڑ کر پانی کی طرف آئیں اور اپنے آپ کو اس کے نیچے رکھ دیں.اپنے اندر تغیر پیدا کریں تاکہ لوگوں کے دلوں کو فتح کر سکیں اور یہ کام بہت ہی مشکل کام ہے جب تک اپنے اندر خاص تبدیلی نہ پیدا کی جائے گی اس وقت تک نہیں ہو سکے گا.لاہور کی جماعت کو خاص طور پر متوجہ ہونا چاہئے کیونکہ جماعت لاہور سے خطاب قادیان کے بعد اگر ہماری جماعت کا کوئی مرکز ہو سکتا ہے تو وہ تو لاہو رہی ہے جہاں ہر طرف سے لوگ آتے جاتے رہتے ہیں.اس لئے قادیان کے بعد اگر تبلیغ میں کوئی جگہ محمد و معاون ہو سکتی ہے تو وہ یہی جگہ ہے کیونکہ ہر طرف کے لوگ یہاں جمع ہوتے ہیں اور پھر یہاں سے تمام ملک میں پھیل جاتے ہیں اس لئے یہاں کی جماعت کی ذمہ داریاں بہت بڑھی ہوئی ہیں.مگر میں دیکھتا ہوں ان کی کو تاہیاں بھی بہت بڑھی ہوئی ہیں اس کی وجہ یہ نہیں کہ لوگوں میں اخلاص نہیں.بہت بڑا حصہ مخلص ہے لیکن وہ مجموعی طور پر اور مل کر کام نہیں کرتے ہر ایک الگ الگ کام کر رہا ہے.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ سب سے پہلے تو اپنے قلوب اور اعمال کی اصلاح کرو اور پھر اپنی ذمہ داریوں کو دیکھو اگر تم ان ذمہ داریوں کو پورے طور پر ادا کرو تو یقیناً سمجھ لو کہ تمہارے لئے انعامات کے حصول کے دروازے کھل گئے ہیں اللہ تعالی آپ لوگوں کو توفیق دے کہ اسلام اور سلسلہ کی ترقی کے لئے آپ بہت کچھ کام کر سکیں.الفضل اا مارچ ۱۹۱۹ء )
۲۴۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز (فرموده ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی اسلام میں اختلافات کا آغاز
سوم
انوار العلوم جلد اسلام میں اختلافات کا آغاز بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّىٰ عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اسلامی تاریخ سے واقفیت کی ضرورت د تقریر حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی جو آپ نے ۲۶ فروری ۱۹۱۹ء کو مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور کے ایک اجلاس میں فرمائی) کچھ عرصہ ہوا میں نے یہ بات نہایت خوشی کے ساتھ سنی تھی کہ اسلامیہ کالج لاہور میں ایک ایسی سوسائٹی قائم ہوئی ہے جس میں تاریخی امور سے واقف کار اپنی اپنی تحقیقات بیان کیا کریں گے.مجھے اس سے بہت خوشی ہوئی کیونکہ اقوام کی ترقی میں تاریخ سے آگاہ ہونا ایک بہت بڑا محرک ہوتا ہے اور کوئی ایسی قوم جو اپنی گذشتہ تاریخی روایات سے واقف نہ ہو کبھی ترقی کی طرف قدم نہیں مار سکتی.اپنے آباء واجداد کے حالات کی واقفیت بہت سے اعلیٰ مقاصد کی طرف رہنمائی کرتی ہے.پس جب اس سوسائٹی کے قائم ہونے کا مجھے علم ہوا تو اس خیال سے کہ اس میں جہاں اور تاریخی مضامین پر لیکچر ہوں گے وہاں اسلامی تاریخ پر ایسے لیکچر ہوا کریں گے جن سے کالجوں کے طالب علم اندازہ کر سکیں گے کہ ان کے آباء واجداد کے ذمہ کیسے کیسے مشکل کام پڑتے رہے ہیں اور وہ کس خوش اسلوبی اور کیسے استقلال کے ساتھ ان کو کرتے رہے ہیں.اور ان کو معلوم ہو گا کہ ہم کیسے آباء کی اولاد ہیں اور ان کی ذریت اور قائمقام ہونے کی حیثیت سے ہم پر کیا فرائض عائد ہیں.اور ان کو اپنے آباء کے شاندار اعمال اور ان کی اعلیٰ شان کو دیکھ کر انہی جیسا بننے کا خیال پیدا ہو گا.پس مجھے اس سوسائٹی کے قائم ہونے پر بہت خوشی ہوئی اور اب جب کہ مجھ سے اس سوسائٹی میں اسلامی تاریخ کے کسی حصہ پر لیکچر دینے کے لئے کہا گیا تو میں نے نہایت خوشی سے اپنی روانگی ملتوی کر کے اس موقع پر آپ لوگوں کے سامنے بعض تاریخی مضامین پر اپنی تحقیقات کا بیان کرنا منظور کر لیا.
لوم جلد ۴ اسلام میں اخذ اختلافات کا آغاز مجھ سے کہا گیا تھا کہ میں بعض اسلامی تاریخی مسائل پر کچھ بیان کروں مضمون کی اہمیت اور گو اسلامی تاریخ میں سب سے اہم وہ زمانہ ہے جس میں رسول کریم نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دنیا میں اسلام کا اعلان کیا اور تئیس سالہ محنت شاقہ سے لاکھوں آدمیوں کے دلوں میں اس کا نقش ثبت کیا اور ہزاروں آدمیوں کی ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جس کا فکر ، قول اور فعل اسلام ہی ہو گیا.مگر چونکہ اسلام میں تفرقہ کی بنیاد رسول کریم ﷺ کی وفات کے پندرہ سال بعد پڑی ہے.اور اس وقت کے بعد مسلمانوں میں شقاق کا شگاف وسیع ہی ہوتا چلا گیا ہے اور اسی زمانہ کی تاریخ نہایت تاریک پردوں میں چھپی ہوئی ہے اور اسلام کے دشمنوں کے نزدیک اسلام پر ایک بد نما دھبہ ہے اور اس کے دوستوں کے لئے بھی ایک سرچکرا دینے والا سوال ہے اور بہت کم ہیں جنہوں نے اس زمانہ کی تاریخ کی دلدل سے صحیح و سلامت پار نکلنا چاہا ہو اور وہ اپنے مدعا میں کامیاب ہو سکے ہوں.اس لئے میں نے یہی پسند کیا کہ آج آپ لوگوں کے سامنے اس کے متعلق کچھ بیان کروں.آپ لوگ جانتے ہوں گے کہ جو کام اللہ تعالٰی نے میرے سپرد کیا اسلام کا شاندار ماضی ہوا ہے (یعنی جماعت احمدیہ کی تربیت اور اس کی ضروریات کا انصرام اور اس کی ترقی کی فکر وہ اپنی نوعیت میں بہت سی شقوں پر حاوی ہے.پس اس کے رام کے لئے ان خاص تاریخی مضامین کا جو زمانہ خلافت سے متعلق ہیں علم رکھنا میرے لئے ایک نہایت ضروری امر ہے اور اس لئے باوجود کم فرصتی کے مجھے اس زمانہ کی تاریخ کو زیر مطالعہ رکھنا پڑتا ہے.اور گو ہمارا اصل کام مذہب کی تحقیق و تدقیق ہے مگر اس مطالعہ کے باعث ابتدائے اسلام کی تاریخ کے بعض ایسے پوشیدہ امر مجھ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوئے ہیں جن سے اس زمانہ کے اکثر لوگ ناواقف ہیں.اور اس ناواقفیت کے باعث بعض مسلمان تو اپنے مذہب سے بیزار ہو رہے ہیں اور ان کو اپنا ماضی ایسا بھیانک نظر آرہا ہے کہ اس کی موجودگی میں وہ کسی شاندار مستقبل کی امید نہیں رکھ سکتے.مگر ان کی یہ مایوسی غلط اور ان کے ایسے خیالات نادرست ہیں اور صرف اس امر کا نتیجہ ہیں کہ ان کو صحیح اسلامی تاریخ کا علم نہیں اسلام کا ماضی ایسا شاندار اور بے عیب ہے اور رسول کریم کے صحبت یافتہ سب کے سب ایسے اعلیٰ درجہ کے با اخلاق لوگ ہیں کہ ان کی نظیر دنیا کی کسی قوم میں نہیں ملتی خواہ وہ کسی نبی کے صحبت یافتہ کیوں نہ ہوں.اور صرف رسول کریم ﷺ کے صحبت یافتہ لوگ ہی
العلوم جلد ۴ ۲۴۹ اسلام میں اختلافات کا آغاز ہیں جن کی نسبت کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاد اور آقا کے نقش قدم پر چل کر ایسی روحانیت پیدا کر لی تھی کہ سیاسیات کی خطرناک الجھن میں پڑ کر بھی انہوں نے تقویٰ اور دیانت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا.اور سلطنت کے بار کے نیچے بھی ان کی کمر ایسی ہی ایستادہ رہی جیسی کہ اس وقت جب "قوت لایموت" کے وہ محتاج تھے اور ان کا فرش مسجد نبوی کی بے فرش زمین تھی اور ان کا تکیہ ان کا اپنا ہاتھ ان کا شغل رسول کریم ﷺ کا کلام مبارک سنا تھا اور ان کی تفریح خدائے واحد کی عبادت تھی.اسلام کے اولین فدائی حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما غالبا آپ لوگ سمجھ گئے ہوں گے کہ میرا ارادہ اس وقت حضرت عثمان اور حضرت علی کی خلافت کے متعلق کچھ بیان کرنے کا ہے.یہ دونوں بزرگ اسلام کے اولین فدائیوں میں سے ہیں.اور ان کے ساتھی بھی اسلام کے بہترین ثمرات میں سے ہیں.ان کی دیانت اور ان کے تقویٰ پر الزام کا آنا در حقیقت اسلام کی طرف عار کا منسوب ہوتا ہے.اور جو مسلمان بھی بچے دل سے اس حقیقت پر غور کرے گا اس کو اس نتیجہ پر پہنچنا پڑے گا کہ ان لوگوں کا وجود در حقیقت تمام قسم کی دھڑا بندیوں سے ارفع اور بالا ہے.اور یہ بات بے دلیل نہیں بلکہ تاریخ کے اوراق اس شخص کے لئے جو آنکھ کھول کر ان پر نظر ڈالتا ہے اس امر پر شاہد ہیں.جہاں تک میری تحقیق ہے ان بزرگوں اور ان کے غیر مسلم مؤرخین کی غلط بیانیاں دوستوں کے متعلق جو کچھ بیان کیا جاتا ہے وہ اسلام کے دشمنوں کی کارروائی ہے اور گو صحابہ کے بعد بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی اپنی نفسانیت کے ماتحت ان بزرگوں میں سے ایک یا دو سرے پر اتمام لگائے ہیں لیکن باوجود اس کے صداقت ہمیشہ بلند و بالا رہی ہے اور حقیقت کبھی پردہ شفاء کے نیچے نہیں چھپی.ہاں اس زمانہ میں جب کہ مسلمان اپنی تاریخ سے ناواقف ہو گئے اور خود اپنے مذہب پر ان کو آگاہی نہیں رہی اسلام کے دشمنوں نے یا تو بعض دشمنوں کی روایات کو تاریخ اسلام سے چن کر یا صحیح واقعات سے غلط نتائج اخذ کر کے ایسی تاریخیں بنا دیں کہ جن سے صحابہ اور ان کے ذریعہ سے اسلام پر حرف آوے.چونکہ اس وقت مسلمانوں کی عینک جس سے وہ ہر ایک چیز کو دیکھتے ہیں یہی غیر مسلم مؤرخ ہو رہے ہیں اس لئے جو کچھ انہوں نے بتایا انہوں نے قبول کر لیا.جن لوگوں کو
وم جلد ۴ ۲۵۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز خود عربی تاریخیں پڑھنے کا موقع ملا بھی انہوں نے بھی یورپ کی ہائر کریٹیسیزم (HIGHER CRITICISM) (اعلی طریق تنقید سے ڈر کر ان بے سروپا اور جعلی روایات کو جن پر یورپین مصنفوں نے اپنی تحقیق کی بناء رکھی تھی صحیح اور مقدم سمجھا اور دوسری روایات کو غلط قرار دیا.اور اس طرح یہ زمانہ ان لوگوں سے تقریباً خالی ہو گیا جنہوں نے واقعات کو ان کی اصل شکل میں دیکھنے کی کوشش کی.اس بات کو خوب یاد رکھو کہ یہ اسلام میں فتنوں کے اصلی موجب صحابہ نہ تھے خیال کہ اسلام میں فتنوں کے موجب بعض بڑے بڑے صحابہ ہی تھے بالکل غلط ہے.ان لوگوں کے حالات پر مجموعی نظر ڈالتے ہوئے یہ خیال بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اپنے ذاتی اغراض یا مفاد کی خاطر انہوں نے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی.جن لوگوں نے صحابہ کی جماعت میں مسلمانوں میں اختلاف و شقاق نمودار ہونے کی وجوہ تلاش کرنے کی کوشش کی ہے انہوں نے سخت غلطی کھائی ہے.فتنہ کی وجوہ اور جگہ پیدا ہوئی ہیں اور وہیں ان کی تلاش کرنے پر کسی صحیح نتیجہ پر پہنچنے کی امید کی جانے سکتی ہے.جو غلط روایات کہ اس زمانہ کے متعلق مشہور کی گئی ہیں اگر ان کو صحیح تسلیم کر لیا جاوے تو ایک صحابی بھی نہیں بچتا جو اس فتنہ میں حصہ لینے سے محفوظ رہا ہو اور ایک بھی ایسا نظر نہیں آتا جو تقویٰ اور دیانت پر مضبوطی سے قائم رہا ہو اور یہ اسلام کی صداقت پر ایک ایسا حملہ ہے کہ بیخ و بنیاد اس سے اکھڑ جاتی ہے.حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.اور ان روایات کے بموجب اسلام کے درخت کے پھل ایسے کڑوے ثابت ہوتے ہیں کہ کچھ خرچ کرنا تو الگ رہا مفت بھی اس کے لینے کے لئے کوئی تیار نہ ہو گا.مگر کیا کوئی شخص جس نے رسول کریم ان کی قوت قدسیہ کا ذرا بھی مطالعہ کیا ہو اس امر کے تسلیم کرنے کے لئے تیار ہو سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.یہ خیال کرنا بھی بعید از عقل ہے کہ جن لوگوں نے آنحضرت ا کی صحبت پائی آپ کے جلیل القدر اور جاں نثار صحابہ تھے اور آپ.نہایت قریبی رشتے اور تعلق رکھتے تھے وہ بھی اور ان کے علاوہ تمام دیگر صحابہ بھی بلا استثناء چند ہی سال میں ایسے بگڑ گئے کہ صرف ذاتی اغراض کے لئے نہ کہ کسی مذہبی اختلاف کی بناء پر ایسے اختلافات میں پڑ گئے کہ اس کے صدمہ سے اسلام کی جڑیل گئی.مگر افسوس ہے کہ گو مسلمان لفظا تو نہیں کہتے کہ صحابہ نے اسلام کو تباہ و برباد کرنے کے لئے فتنے کھڑے کئے.
وم جلد ۴ ۲۵۱ اسلام میں اختلافات کا آغاز لیکن انہوں نے ایسے لوگوں کی روایتوں کو سچا سمجھ کر جنہوں نے اسلام اچھی طرح قبول نہیں کیا تھا اور صرف زبانی اقرار اسلام کیا تھا اور پھر ایسے لوگوں کی تحقیقات پر اعتبار کر کے جو اسلام کے سخت دشمن اور اس کے مثانے کے درپے ہیں ایسی باتوں کو تسلیم کر رکھا ہے جن کے تعلیم کرنے سے لازمی نتیجہ نکلتا ہے کہ صحابہ کی جماعت نعوذ باللہ تقویٰ اور دیانت سے بالکل خالی تھی.یہ میں اپنے بیان میں اس امر کا لحاظ رکھوں گا کہ تاریخیں وغیرہ نہ آئیں تاکہ سمجھنے میں دقت نہ ہو اور مضمون پیچ دار نہ ہو جائے.کیونکہ میرے اس لیکچر کی اصل غرض ابتدائے اسلام کے بعض اہم واقعات سے کالجوں کے طلباء کو واقف کرنا ہے.اور اسی وجہ سے ہی عربی عبارات سے کے بیان کرنے سے بھی حتی الوسع اجتناب کروں گا اور واقعات کو حکایت کے طور پر بیان کروں گا.یہ بات تمام تعلیم یافتہ اختلافات کا ظہور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں کیوں ہوا؟ مسلمانوں پر روشن ہوگی کہ مسلمانوں میں اختلاف کے آثار نمایاں طور پر خلیفہ ثالث کے عہد میں ظاہر ہوئے تھے.ان سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کے عہد میں اختلاف نے کبھی سنجیدہ صورت اختیار نہیں کی.اور مسلمانوں کا کلمہ ایسا متحد تھا کہ دوست و دشمن سب اس کے افتراق کو ایک غیر ممکن امر خیال کرتے تھے اور اسی وجہ سے عموماً لوگ اس اختلاف کو خلیفہ ثالث کی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں.حالانکہ جیسا میں آگے چل کر بتاؤں گا واقعہ یوں نہیں.حضرت عمرؓ کے بعد تمام صحابہ رضی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ابتدائی حالات اللہ عنہم کی نظر مسند خلافت پر بیٹھنے کے لئے حضرت عثمان " پر پڑی.اور آپ اکابر صحابہ" کے مشورہ سے اس کام کے لئے منتخب کئے گئے.آپ رسول کریم ﷺ کے داماد تھے اور یکے بعد دیگرے آنحضرت ﷺ کی دو بیٹیاں آپ سے بیاہی گئیں.اور جب دوسری لڑکی آنحضرت اللہ کی فوت ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ اگر میری کوئی اور بیٹی ہوتی تو میں اسے بھی حضرت عثمان سے بیاہ دیتا.اس سے معلوم ا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نظر میں آپ کو خاص قدر و منزلت حاصل تھی.آپ اہل مکہ کی نظر میں نہایت ممتاز حیثیت رکھتے اور اس وقت ملک عرب کے حالات کے مطابق مالدار
نلوم جلد هم ۲۵۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز آدمی تھے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اسلام اختیار کرنے کے بعد جن خاص خاص لوگوں کو تبلیغ اسلام کے لئے منتخب کیا ان میں ایک حضرت عثمان " بھی تھے.اور آپ پر حضرت ابو بکر کا گمان غلط نہیں گیا بلکہ تھوڑے دنوں کی تبلیغ سے ہی آپ نے اسلام قبول کر لیا.اور اس طرح السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ میں یعنی اسلام میں داخل ہونے والے اس پیشرو گردہ میں شامل ہوئے جن کی قرآن کریم نہایت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتا ہے.عرب میں انہیں جس قدر عزت اور توقیر حاصل تھی اس کا کسی قدر پتہ اس واقعہ سے لگ سکتا ہے کہ جب رسول کریم ایک رؤیا کی بناء پر مکہ تشریف لائے اور اہل مکہ نے بغض و کینہ سے اندھے ہو کر آپ کو عمرہ کرنے کی اجازت نہ دی تو آنحضرت ﷺ نے تجویز فرمایا کہ کسی خاص معتبر شخص کو اہل مکہ کے پاس اس امر پر گفتگو کرنے کے لئے بھیجا جارے اور حضرت عمرہ کو اس کے لئے انتخاب کیا.حضرت عمر نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ میں تو جانے کو تیار ہوں مگر مکہ میں اگر کوئی شخص ان سے گفتگو کر سکتا ہے تو وہ حضرت عثمان ہے کیونکہ وہ ان لوگوں کی نظر میں خاص عزت رکھتا ہے.پس اگر کوئی دوسرا شخص گیا تو اس پر کامیابی کی اتنی امید نہیں ہو سکتی جتنی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ہے.اور آپ کی اس بات کو حضرت رسول کریم ﷺ نے بھی درست تصور کیا اور انہیں کو اس کام کے لئے بھیجا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کفار میں بھی خاص عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے.حضرت عثمان کا مرتبہ رسول کریم ا کی نظر میں رسول کریم آپ کا بہت احترام فرماتے تھے ایک دفعہ آپ لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ تشریف لائے تب بھی آپ اسی طرح لیٹے رہے.پھر حضرت عثمان تشریف لائے تو آپ نے جھٹ اپنے کپڑے سمیٹ کر درست کر لئے اور فرمایا کہ حضرت عثمان کی طبیعت میں حیا بہت ہے اس لئے میں اس کے احساسات کا خیال کر کے ایسا کرتا ہوں.(مسلم كتاب فضائل الصحابة رضى الله عنهم.باب من فضائل عثمان بن عفان، آپ ان شاز آدمیوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے اسلام کے قبول کرنے سے پہلے بھی کبھی شراب کو منہ نہیں لگایا اور زنا کے نزدیک نہیں گئے.اور یہ ایسی خوبیاں ہیں جو عرب کے ملک میں جہاں شراب کا پینا فخر اور زنا ایک روز مرہ کا شغل سمجھا جاتا تھا اسلام سے پہلے چند گنتی کے آدمیوں
العلوم چاند ۴ اختلافات کا آغاز اسلام میں اذ سے زیادہ لوگوں میں نہیں پائی جاتی تھیں.غرض آپ کوئی معمولی آدمی نہ تھے.نہایت اعلیٰ درجہ کے اخلاق آپ میں پائے جاتے تھے.دنیاوی وجاہت کے لحاظ سے آپ نہایت ممتاز تھے.اسلام میں سبقت رکھتے تھے.آنحضرت ا آپ پر نہایت خوش تھے.اور حضرت عمر نے آپ کو ان چھ آدمیوں میں سے ایک قرار دیا ہے جو حضرت رسول کریم کی وفات کے وقت تک آپ کی اعلیٰ درجہ کی خوشنودی کو حاصل کئے رہے.اور پھر آپ عشرہ مبشرہ میں سے ایک فرد ہیں یعنی ان دس آدمیوں میں سے ایک ہیں جن کی نسبت رسول کریم نے جنت کی بشارت دی تھی.کے اتر مذی ابواب المناقب، مناقب عبد الرحمن بن عوف آپ کے مسند خلافت پر متمکن ہونے سے چھ سال تک حکومت میں کسی قسم کا کوئی فتنہ نہیں اٹھا بلکہ لوگ آپ سے بالعموم بہت خوش تھے.اس کے بعد یکدم ایک ایسا فتنہ پیدا ہوا جو بڑھتے بڑھتے اس قدر ترقی کر گیا کہ کسی کے رد کے نہ رک سکا.اور انجام کار اسلام کے لئے سخت مضر ثابت ہوا.تیرہ سو برس گزر چکے ہیں مگر اب تک اس کا اثر امت اسلامیہ میں سے زائل نہیں ہوا.اب سوال یہ ہے کہ یہ فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ اس کا باعث فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟ بعض لوگوں نے حضرت عثمان کو قرار دیا ہے اور بعض نے حضرت علی کو.بعض کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے بعض بدعتیں شروع کر دی تھیں جن سے مسلمانوں میں جوش پیدا ہو گیا.اور بعض کہتے ہیں کہ حضرت علی نے خلافت کے لئے خفیہ کوشش شروع کر دی تھی اور حضرت عثمان کے خلاف مخالفت پیدا کر کے انہیں قتل کرا دیا تاکہ خود خلیفہ بن جائیں.لیکن یہ دونوں باتیں غلط ہیں نہ حضرت عثمان نے کوئی بدعت جاری کی اور نہ حضرت علی نے خود خلیفہ بننے کے لئے انہیں قتل کرایا یا ان کے قتل کے منصوبہ میں شریک ہوئے بلکہ اس فتنہ کی ادبر ہی وجو ہا سے تھیں.حضرت عثمان اور حضرت علی کا دامن اس قسم کے الزامات سے بالکل پاک ہے وہ نہایت مقدس انسان تھے.حضرت عثمان" تو وہ انسان تھے جن کے متعلق حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ انہوں نے اسلام کی اتنی خدمات کی ہیں کہ وہ اب جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گا.اتر مذی ابواب المناقب، باب مناقب عثمان بن عفان، اس کا یہ مطلب نہ تھا کہ خواہ وہ اسلام سے ہی برگشتہ ہو جا ئیں تو بھی مؤاخذہ نہیں ہو گا.بلکہ یہ تھا کہ ان میں اتنی خوبیاں پیدا ہو گئی تھیں اور وہ نیکی میں اس قدر ترقی کر گئے تھے کہ یہ
العلوم جلد ۴ ۲۵۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز ممکن ہی نہ رہا تھا کہ ان کا کوئی فعل اللہ تعالیٰ کے احکام کے خلاف ہو.پس حضرت عثمان ایسے انسان نہ تھے کہ وہ کوئی خلاف شریعت بات جاری کرتے اور نہ حضرت علی ایسے انسان تھے کہ خلافت کے لئے خفیہ منصوبے کرتے جہاں تک میں نے غور کیا اور مطالعہ کیا ہے اس فتنہ ہائلہ کی چار وجوہ ہیں.اول: عموماً انسانوں کی طبیعت حصول جاہ و مال کی طرف مائل رہتی ہے فتنے کی چار وجوہ سوائے ان لوگوں کے جن کے دلوں کو خدائے تعالیٰ نے خاص طور پر صاف کیا ہو.صحابہ کی عزت ان کے مرتبہ اور ان کی ترقی اور حکومت کو دیکھ کر نو مسلموں میں سے بعض لوگ جو کامل الایمان نہ تھے حسد کرنے لگے.اور جیسا کہ قدیم سے سنت چلی آئی ہے اس بات کی امید کرنے لگے کہ یہ لوگ حکومت کے کاموں سے دست بردار ہو کر سب کام ہمارے ہاتھوں میں دے دیں اور کچھ اور لوگوں کو بھی اپنا جو ہر دکھانے کا موقع دیں.ان لوگوں کو یہ بھی برا معلوم ہو تا تھا کہ علاوہ اس کے کہ حکومت صحابہ کے قبضہ میں تھی اموال میں بھی ان کو خاص طور پر حصہ ملتا تھا.پس یہ لوگ اندر ہی اندر جلتے رہتے تھے اور کسی ایسے تغیر کے منتظر تھے جس سے یہ انتظام درہم برہم ہو کر حکومت ان لوگوں کے ہاتھوں میں آجائے.اور یہ بھی اپنے جو ہر لیاقت دکھاویں اور دنیاوی وجاہت اور اموال حاصل کریں.دنیاوی حکومتوں میں ایسے خیالات ایک حد تک قابل معافی ہو سکتے ہیں بلکہ بعض اوقات معقول بھی کہلاتی سکتے ہیں.کیونکہ اول دنیاوی حکومتوں کی بنیاد کلی طور پر ظاہری اسباب پر ہوتی ہے اور ظاہری اسباب ترقی میں سے ایک بہت بڑا سبب نئے خیالات اور نئی روح کا قالب حکومت میں داخل کرنا بھی ہے.جو اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے کام کرنے والے خود بخود کام سے علیحدگی اختیار کر کے دوسروں کے لئے جگہ چھوڑ دیں.دوم: حکومت دنیاوی کو چونکہ نیابت عامہ کے طور پر اختیارات ملتے ہیں اس لئے عوام کی رائے کا احترام اس کے لئے ضروری ہے اور لازم ہے کہ وہ لوگ اس کے کاموں کے انصرام میں خاص دخل رکھتے ہوں جو عوام کے خیالات کے ترجمان ہوں.مگر دینی سلسلہ میں معاملہ اس کے بالکل بر عکس ہے وہاں ایک مقررہ قانون کی پابندی سب اصول سے مقدم اصل ہوتا ہے اور اپنے خیالات کا دخل سوائے ایسی فروعات کے جن سے شریعت نے خود خاموشی اختیار کی ہو قطعاً ممنوع ہے.دوم دینی سلسلوں کو اختیارات خدا تعالی کی طرف سے ملتے ہیں اور اس کی
۲۵۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز زمام انتظام جن لوگوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ان کا فرض ہوتا ہے کہ امور دینیہ میں وہ لوگوں کو راستہ سے ادھر ادھر نہ ہونے دیں.اور بجائے اس کے کہ وہ لوگوں کے خیالات کی ترجمانی کریں ان پر واجب ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے خیالات کو اس سانچہ میں ڈھالیں جو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اس زمانہ کی ضروریات کے مطابق تیار ہوا ہے.غرض اسلام کی حقیقت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا اعتراضات ان لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتے تھے.وہ نہ سوچتے تھے کہ خلافت اسلامیہ کوئی دنیاوی حکومت نہ تھی نہ صحابہ عام امرائے دولت.بلکہ خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا اور قرآن کریم کے خاص احکام مندرجہ سورۂ نور کے مطابق قائم کیا گیا تھا.اور صحابہ وہ ارکان دین تھے کہ جن کی اتباع روحانی مدارج کے حصول کے لئے خدا تعالیٰ نے فرض کی تھی.صحابہ نے اپنے کاروبار کو ترک کر کے ہر قسم کی مسکنت اور غربت کو اختیار کرکے اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر اپنے عزیز و اقرباء کی صحبت و محبت کو چھوڑ کر اپنے وطنوں کو خیر باد کہہ کر اپنے خیالات و جذبات کو قربان کر کے آنحضرت کی صحبت و محبت کو اختیار کیا تھا اور بعض نے قریباً ایک چوتھائی صدی آپ کی شاگردی.اختیار کر کے اسلام کو سبقاً سبقاً پڑھا تھا.اور اس پر عمل کر کے اس کا عملی پہلو مضبوط کیا تھا.وہ جانتے تھے کہ اسلام سے کیا مطلب ہے.اس کی کیا غرض ہے.اس کی کیا حقیقت ہے.اس کی تعلیم پر کس طرح عمل کرنا چاہئے.اور اس پر عمل کر کے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں.پس وہی کسی دنیاوی حکومت کے بادشاہ اور اس کے ارکان نہ تھے.وہ سب سے آخری دین اور خاتم النبین کی لائی ہوئی شریعت کے معلم تھے.اور ان پر فرض کیا گیا تھا کہ اپنے عمل سے اپنے قول سے اپنی حرکات سے اپنی سکنات سے اسلام کی ترجمانی کریں اور اس کی تعلیم لوگوں کی کے دلوں میں نقش کریں اور ان کے جوارح پر اس کو جاری کریں.وہ استبداد کے حامی نہ تھے بلکہ شریعت غراء کے حامی تھے.وہ دنیا سے متنفر تھے.اور اگر ان کا بس ہو تا تو دنیا کو ترک کر کے گوشہ ہائے تنہائی میں جا بیٹھتے اور ذکر خدا سے اپنے دلوں کو راحت پہنچاتے.مگر وہ اس ذمہ داری سے مجبور تھے جس کا بوجھ خدا اور اس کے رسول ﷺ نے ان کے کندھوں پر رکھا تھا.۳.پس وہ جو کچھ کرتے تھے اپنی خواہش سے نہیں کرتے تھے بلکہ خدا تعالٰی کے حکم کے ماتحت اور اس کے رسول کی ہدایات کے مطابق کرتے تھے.اور ان پر حسد کرنا یا بد گمانی کرنا
انوار العلوم جلد ۲۵۶ اسلام میں اختلافات کا آغاز ایک خطرناک غلطی تھی.باقی رہا یہ اعتراض کہ صحابہ کو خاص طور پر اموال کیوں دیئے جاتے تھے یہ بھی ایک وسوسہ تھا.کیونکہ صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا ان کے حقوق کے مطابق ملتا تھا.وہ دوسرے لوگوں کے حقوق دبا کر نہیں لیتے تھے.بلکہ ہر ایک شخص خواہ وہ کل کا مسلمان ہو اپنا حق اسی طرح پاتا تھا جس طرح ایک سابق بالایمان.ہاں صحابہ کا کام اور ان کی محنت اور قربانی دوسرے لوگوں سے بڑھی ہوئی تھی اور ان کی پرانی خدمات اس پر مستزاد تھیں.پس وہ ظلماً نہیں بلکہ انصافا دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ حق دار تھے.اس لئے دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ بدلہ پاتے تھے.انہوں نے اپنے حصے خود نہ مقرر کئے تھے بلکہ خدا اور اس کے رسول نے ان کے حصے مقرر کئے تھے.اگر ان لوگوں کے ساتھ خاص معاملہ نہ کیا جاتا تو وہ پیشگوئیاں کیونکر پوری ہو تیں.جو قرآن کریم اور احادیث رسول کریم میں ان لوگوں کی ترقی اور ان کے اقبال اور ان کی رفاہت اور ان کے غناء کی نسبت کی گئی تھیں.اگر حضرت عمر " کسری کی حکومت کے زوال اور اس کے خزانوں کی فتح پر کسری کے کڑے سراقہ بن مالک کو نہ دیتے اور نہ پہناتے تو رسول کریم ال کی وہ بات کیونکر پوری ہوتی کہ میں سراقہ کے ہاتھ میں کسری کے کڑے دیکھتا ہوں.مگر میں یہ بھی کہوں گا کہ صحابہ کو جو کچھ ملتا تھا دوسروں کا حق مار کر نہ ملتا تھا بلکہ ہر ایک شخص جو ذرا بھی حکومت کا کام کرتا تھا اس کو اس کا حق دیا جاتا تھا.اور خلفاء اس بارے میں نہایت محتاط تھے.صحابہ کو صرف ان کا حق دیا جاتا تھا اور وہ ان کے کام اور ان کی سابقہ خدمات کے لحاظ سے بے شک دوسروں سے زیادہ ہو تا تھا.اور پھر ان میں سے ایک حصہ موجودہ جنگوں میں بھی حصہ لیتا تھا اور اس خدمت کے صلہ میں بھی وہ ویسے ہی بدلہ کا کی مستحق ہوتا جیسے کہ اور لوگ.مگر یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ ان اموال کو جمع کرنے یا ان کو اپنے نفسوں پر خرچ کرنے کے عادی نہ تھے بلکہ وہ اپنا حصہ صرف خدا اور رسول کے کلام کو سچا کرنے کے لئے لیتے تھے ورنہ ان میں سے ہر ایک اپنی سخاوت اور اپنی عطا میں اپنی نظیر آپ تھا اور ان کے اموال صرف غرباء کی کفالت اور ان کی خبر گیری میں صرف ہوتے تھے.غرض صحابہ کی نسبت جو بعض لوگوں کو حسد اور صحابہ کی نسبت بد گمانی بلاوجہ ہے بد گمانی پیدا ہو گئی تھی بلاوجہ اور بلا سب تھی.مگر بلا وجہ ہو یا باوجہ اس کا بیج بویا گیا تھا اور دین کی حقیقت سے ناواقف لوگوں میں سے ایک طبقہ
وم جلد ۴ ۲۵۷ اسلام میں اختلافات کا آغاز ان کو غاصب کی حیثیت میں دیکھنے لگا تھا اور اس بات کا منتظر تھا کہ کب کوئی موقع ملے اور ان لوگوں کو ایک طرف کر کے ہم حکومت و اموال حکومت پر تصرف کریں.دوسری وجہ اس فساد کی یہ تھی کہ اسلام نے حریت فکر اور آزادی عمل اور مساوات افراد کے ایسے سامان پیدا کر دیئے تھے جو اس سے پہلے بڑے سے بڑے فلسفیانہ خیالات کے لوگوں کو بھی میسر نہ تھے.اور جیسا کہ قاعدہ ہے کہ کچھ لوگ جو اپنے اندر مخفی طور پر بیماریوں کا مادہ رکھتے ہیں وہ اعلیٰ سے اعلیٰ غذا سے بھی بجائے فائدہ کے نقصان اٹھاتے ہیں.اس حریت فکر اور آزادی عمل کے اصول سے کچھ لوگوں نے بجائے فائدہ کے نقصان اٹھایا اور اس کی حدود کو قائم نہ رکھ سکے.اس مرض کی ابتداء تو رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی ہوئی جب کہ ایک ناپاک روح نام کے مسلم نے رسول کریم ﷺ کے منہ پر آپ کی نسبت یہ الفاظ کے کہ یا رسول اللہ تقویٰ اللہ کام لیں کیونکہ آپ نے تقسیم مال میں انصاف سے کام نہیں لیا.جس پر رسول کریم نے فرمایا کہ إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ مِنْضِنِي هَذَا قَوْم يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ رَطْبَا لَا يُجَاوِزُ حَنَا جِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ الشَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ - ابخاری کتاب المغازی باب بعث علی ابن ابی طالب و خالد ابن الوليد الى اليمن قبل حجة الوداع یعنی اس شخص کی نسل سے ایک قوم نکلے گی جو قرآن کریم بہت پڑھیں گے لیکن وہ ان کے گلے سے نہیں اترے گا.اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جس طرح تیرا اپنے نشانہ سے نکل جاتا ہے.دوسری دفعہ ان خیالات کی دبی ہوئی آگ نے ایک شعلہ حضرت عمر کے وقت میں مارا جب کہ ایک شخص نے بر سر مجلس کھڑے ہو کر حضرت عمر جیسے بے نفس انسان اور امت محمدیہ کے اموال کے محافظ خلیفہ پر اعتراض کیا کہ یہ کرتا آپ نے کہاں سے بنوایا ہے.مگر ان دونوں وقتوں میں اس فتنہ نے کوئی خوفناک صورت اختیار نہیں کی کیونکہ اس وقت تک اس کے نشود نما پانے کے لئے کوئی تیار شدہ زمین نہ تھی.اور نہ موسم ہی موافق تھا.ہاں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں یہ دونوں باتیں میسر آگئیں اور یہ پودا جسے میں اختلال کا پودا کہوں گا ایک نہایت مضبوط تنے پر کھڑا ہو گیا اور حضرت علی کے وقت میں تو اس نے ایسی نشو و نما پائی کہ قریب تھا کہ تمام اقطار عالم میں اس کی شاخیں اپنا سایہ ڈالنے لگیں.مگر حضرت علی نے وقت پر اس کی مضرت کو پہچانا اور ایک کاری ہاتھ کے ساتھ اسے کاٹ کر گرا دیا اور اگر وہ بالکل اسے مٹا نہ سکے تو کم از کم اس کے دائرہ اثر کو انہوں نے بہت محدود کر دیا.
العلوم جلد ۲۵۸ اسلام میں اختلافات کا آغاز تیسرا سب میرے نزدیک یہ ہے کہ اسلام کی نورانی شعاعوں کے اثر سے بہت سے لوگوں نے اپنی زندگیوں میں ایک تغیر عظیم پیدا کر دیا تھا مگر اس اثر ہے وہ کسی کسی طرح پوری نہیں ہو سکتی تھی جو ہمیشہ دینی و دنیاوی تعلیم کے حصول کے لئے کسی معلم کا انسان کو محتاج بناتی ہے.رسول کریم ﷺ کے وقت میں جب فوج در فوج آدمی داخل اسلام ہوئے تب بھی یہی خطرہ دامن گیر تھا.مگر آپ سے خدا تعالیٰ کا خاص وعدہ تھا کہ اس ترقی کے زمانہ میں اسلام لانے والے لوگوں کو بداثر سے بچایا جائے گا.چنانچہ آپ کی وفات کے بعد گو ایک سخت لہرار تداد کی پیدا ہوئی مگر فور ا دب گئی اور لوگوں کو حقیقت اسلام معلوم ہو گئی مگر آپ کے بعد ایران و شام اور مصر کی فتوحات کے بعد اسلام اور دیگر مذاہب کے میل و ملاپ سے جو فتوحات روحانی اسلام کو حاصل ہو ئیں وہی اس کے انتظام سیاسی کے اختلال کا باعث ہو گئیں.کروڑوں کروڑ آدمی اسلام کے اندر داخل ہوئے اور اس کی شاندار تعلیم کو دیکھ کر ایسے فدائی ہوئے کہ اس کے لئے جانیں دینے کے لئے تیار ہو گئے.مگر اس قدر تعداد نو مسلموں کی بڑھ گئی کہ ان کی تعلیم کا کوئی ایسا انتظام نہ ہو سکا جو طمانیت بخش ہو تا.جیسا کہ قاعدہ ہے اور انسانی دماغ کے باریک مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جوش کے ماتحت ان لوگوں کی تربیت اور تعلیم کی ضرورت محسوس نہ ہوئی.جو کچھ یہ مسلمانوں کو کرتے دیکھتے تھے کرتے تھے اور ہر ایک حکم کو بخوشی بجا لاتے تھے.مگر جوں جوں ابتدائی جوش کم ہو تا گیا.جن لوگوں کو تربیت روحانی حاصل کرنے کا فی موقع نہ ملا تھا ان کو احکام اسلام کی بجا آوری بار معلوم ہونے لگی.اور نئے جوش کے ٹھنڈا ہوتے ہی پرانی عادات نے پھر زور کرنا شروع کیا.غلطیاں ہر ایک انسان سے ہو جاتی ہیں اور سیکھتے سکھتے انسان سیکھتا ہے.اگر ان لوگوں کو کچھ حاصل کرنے کا خیال ہو نا تو کچھ عرصہ تک ٹھوکریں کھاتے ہوئے آخر سیکھ جاتے.مگر یا تو رسول کریم ان کے وقت یہ حال تھا کہ ایک شخص سے جب ایک جرم ہو گیا تو باوجو د رسول کریم کے اشارہ فرمانے کے کہ جب خدا تعالی ستاری کرے تو کوئی خود کیوں اپنی فضیحت کرے اس نے اپنے قصور کا خود اقرار کیا اور سنگسار ہونے سے نہ ڈرا.یا اب حدود شریعت کو قائم رکھنے کے لئے اگر چھوٹی سے چھوٹی سزا بھی دی جاتی تو ان لوگوں کو نا پسند ہوتی.پس بوجہ اسلام کے دل میں نہ داخل ہونے کے شریعت کو توڑنے سے کچھ لوگ باز نہ رہتے.اور جب حدود شریعت کو قائم کیا جاتا تو ناراض ہوتے اور خلیفہ اور اس کے ممال پر اعتراض کرتے اور ان کے خلاف اپنے دل میں کینہ رکھتے
ار العلوم جلد ۴ ۲۵۹ اسلام میں اذ ات کا آغاز اور اس انتظام کو سرے سے ہی اکھاڑ پھینک دینے کے منصوبے کرتے.چوتھا سبب میرے نزدیک اس فتنہ کا یہ تھا کہ اسلام کی ترقی ایسے غیر معمولی طور پر ہوئی ہے کہ اس کے دشمن اس کا اندازہ شروع میں کرہی نہ سکے.مکہ والے بھی اپنی طاقت کے گھمنڈ میں اور رسول کریم کے ضعف کے خیال میں ہی بیٹھے تھے کہ مکہ فتح ہو گیا اور کی اسلام جزیرہ عرب میں پھیل گیا.اسلام کی اس بڑھنے والی طاقت کو قیصر روم اور کسری ایران ایسی حقارت آمیز اور تماش میں نگاہوں سے دیکھ رہے تھے جیسے کہ ایک جابر پہلوان ایک گھٹنوں کے بل رینگنے والے بچہ کی کھڑے ہونے کے لئے پہلی کوشش کو دیکھتا ہے.سلطنت ایران اور دولت یونان ضربت محمدی کے ایک ہی صدمہ سے پاش پاش ہو گئیں.جب تک مسلمان ان جابر حکومتوں کا مقابلہ کر رہے تھے جنہوں نے سینکڑوں ہزاروں سال سے بنی نوع انسان کو غلام بنا رکھا تھا اور اس کی قلیل التعداد بے سامان فوج دشمن کی کثیر التعداد با سامان فوج کے ساتھ بر سر پیکار تھی.اس وقت تک تو دشمنان اسلام یہ خیال کرتے رہے کہ مسلمانوں کی کامیابیاں عارضی ہیں اور عنقریب یہ ہر نیا رخ پھیرے گی.اور یہ آندھی کی طرح اٹھنے والی قوم بگولے کی طرح اڑ جائے گی.مگر ان کی حیرت کی کچھ حد نہ رہی جب چند سال کے عرصہ میں مطلع صاف ہو گیا اور دنیا کے چاروں کونوں پر اسلامی پرچم لہرانے لگا یہ ایسی کامیابی تھی جس نے دشمن کی عقل مار دی اور وہ حیرت و استعجاب کے سمندر میں ڈوب گیا.اور صحابہ اور ان کے صحبت یافتہ لوگ دشمنوں کی نظر میں انسانوں سے بالا ہستی نظر آنے لگے.اور وہ تمام امیدیں اپنے دل سے نکال بیٹھے.مگر جب کچھ عرصہ فتوحات پر گزر گیا اور وہ حیرت و استعجاب جو ان کے دلوں میں پیدا ہو گیا تھا کم ہوا اور صحابہ کے ساتھ میل جول سے وہ پہلا خوف و خطر جاتا رہا تو پھر اسلام کا مقابلہ کرنے اور مذاہب باطلہ کو قائم کرنے کا خیال پیدا ہوا.اسلام کی پاک تعلیم کا مقابلہ دلائل سے تو وہ نہ کر سکتے تھے.حکومتیں مٹ چکی تھیں اور وہ ایک ہی حربہ جو حق کے مقابلہ میں چلایا جاتا تھا یعنی جبر اور تعدّی ٹوٹ چکا تھا.اب ایک ہی صورت باقی تھی یعنی دوست بن کر دشمن کا کام کیا جائے اور اتفاق پیدا کر کے اختلاف کی صورت کی جائے.پس بعض شقی القلب لوگوں نے جو اسلام کے نور کو دیکھ کر اندھے ہو رہے تھے اسلام کو ظاہر میں قبول کیا اور مسلمان ہو کر اسلام کو تباہ کرنے کی نیت کی.چونکہ اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ تھی اور گلہ بان کی موجودگی میں بھیڑیا حملہ نہ کر سکا اس لئے یہ تجویز کی گئی کہ خلافت
۲۶۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز کو مٹایا جاوے اور اس سلک اتحاد کو توڑ دیا جاوے جس میں تمام عالم کے مسلمان پر وئے ہوئے ہیں تاکہ اتحاد کی برکتوں سے مسلمان محروم ہو جائیں.اور نگران کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھا کر مذاہب باطلہ پھر اپنی ترقی کے لئے کوئی راستہ نکال سکیں اور دجل و فریب کے ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہ رہے.یہ وہ چار بواعث ہیں جو میرے نزدیک اس فتنہ عظیم کے برپا کرنے کا موجب ہوئے.جس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے وقت میں ملت اسلام کی بنیادوں کو ہلا دیا اور بعض وقت اس پر ایسے آئے کہ دشمن اس بات پر اپنے دل میں خوش ہونے لگا کہ یہ قصر عالی شان اب اپنی چھتوں اور دیواروں سمیت زمین کے ساتھ آلگے گا اور ہمیشہ کے لئے اس دین کا خاتمہ ہو جائے گا جس نے اپنے لئے یہ شاندار مستقبل مقرر کیا ہے کہ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ بِالْهُدَى وَ دينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلَّه است ) یعنی وہ خدا ہی ہے کہ جس نے اپنا رسول بچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس دین کو باوجود اس کے منکروں کی ناپسندیدگی کے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرے.میں نے ان تاریخی واقعات سے جو فتنہ حضرت عثمان کے وقت میں کیوں اٹھا؟ حضرت عثمان کے آخری ایام خلافت میں ہوئے نتیجہ نکال کر اصل بواعث فتنہ بیان کر دیئے ہیں.وہ درست ہیں یا غلط اس کا اندازہ آپ لوگوں کو ان واقعات کے معلوم کرنے پر جن سے میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے خود ہو جائے گا.پیشتر اس کے کہ میں وہ واقعات بیان کروں اس سوال کے متعلق بھی کچھ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ فتنہ حضرت عثمان" کے وقت میں کیوں اٹھا؟ بات یہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوئے.ان نو مسلموں میں اکثر حصہ وہی تھا جو عربی زبان سے ناواقف تھا اور اس وجہ سے دین اسلام کا سیکھنا اس کے لئے ویسا آسان نہ تھا جیسا کہ عربوں کے لئے اور جو لوگ عربی جانتے بھی تھے وہ ایرانیوں اور شامیوں سے میل ملاپ کی وجہ سے صدیوں سے ان گندے خیالات کا شکار رہے تھے جو اس وقت کے تمدن کا لازمی نتیجہ تھے.علاوہ ازیں ایرانیوں اور مسیحیوں سے جنگوں کی وجہ سے اکثر صحابہ اور ان کے شاگردوں کی تمام طاقتیں دشمن کے حملوں کے رد کرنے میں صرف ہو رہی تھیں.اس ایک طرف توجہ کا بیرونی دشمنوں کی طرف مشغول ہونا دوسری طرف اکثر نو مسلموں کا عربی زبان سے ناواقف ہوتا یا عجمی
وم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز خیالات سے متاثر ہونا دو عظیم الشان سبب تھے اس امر کے کہ اس وقت کے اکثر نو مسلم دین سے کما حقہ واقف نہ ہو سکے.حضرت عمر کے وقت میں چونکہ جنگوں کا سلسلہ بہت بڑے پیمانے پر جاری تھا اور ہر وقت دشمن کا خطرہ لگا رہتا تھا لوگوں کو دوسری باتوں کے سوچنے کا موقع ہی نہ ملتا تھا.اور پھر دشمن کے بالمقابل پڑے ہوئے ہونے کا باعث طبعا ند ہی جوش بار بار رونما ہوتا تھا.جو مذہبی تعلیم کی کمزوری پر پردہ ڈالے رکھتا تھا.حضرت عثمان کے ابتدائی عہد میں بھی یہی حال رہا.کچھ جنگیں بھی ہوتی رہیں اور کچھ پچھلا اثر لوگوں کے دلوں میں باقی رہا.جب کسی قدر امن ہوا اور پچھلے جوش کا اثر بھی کم ہوا تب اس مذہبی کمزوری نے اپنا رنگ دکھایا اور دشمنان اسلام نے بھی اس موقع کو غنیمت سمجھا اور شرارت پر آمادہ ہو گئے.غرض یہ فتنہ حضرت عثمان کے کسی عمل کا نتیجہ نہ تھا.بلکہ یہ حالات کسی خلیفہ کے وقت میں بھی پیدا ہو جاتے فتنہ نمودار ہو جاتا.اور حضرت عثمان کا صرف اس قدر قصور ہے کہ وہ ایسے زمانہ میں مسند خلافت پر متمکن ہوئے جب ان فسادات کے پیدا کرنے میں ان کا اس سے زیادہ دخل نہ تھا جتنا کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کا اور کون کہہ سکتا ہے کہ یہ فساد ان دونوں بزرگوں کی کسی کمزوری کا نتیجہ تھا.میں حیران ہوں کہ کس طرح بعض لوگ ان فسادات کو حضرت عثمان کی کسی کمزوری کا نتیجہ قرار دیتے ہیں حالانکہ حضرت عمرؓ جن کو حضرت عثمان کی خلافت کا خیال بھی نہیں ہو سکتا تھا انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس فساد کے بیج کو معلوم کر لیا تھا.اور قریش کو اس سے بڑے زور دار الفاظ میں متنبہ کیا تھا.چنانچہ لکھا ہے کہ حضرت عمر صحابہ کبار کو باہر نہیں جانے دیا کرتے تھے اور جب کوئی آپ سے اجازت لیتا تو آپ فرماتے کہ کیا رسول کریم ﷺ کے ساتھ مل کر جو آپ لوگوں نے جہاد کیا ہے وہ کافی نہیں ہے.۴.آخر ایک دفعہ صحابہ نے شکایت کی تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اسلام کو اس طرح چُرایا ہے جس طرح اونٹ چرایا جاتا ہے پہلے اونٹ پیدا ہوتا ہے پھر بٹھا بنتا ہے.پھر دو دانت کا ہوتا ہے.پھر چار دانت کا ہوتا ہے.پھر چھ دانت کا ہوتا ہے.پھر اس کی کھلیاں نکل آتی ہیں.اب بتاؤ کہ جس کی کچلیاں نکل آدیں اس کے لئے سوائے ضعف کے اور کسی امر کا انتظار کیا جا سکتا ہے.سنو! اسلام اب اپنے کمال کی حد کو پہنچ گیا ہے.قریش چاہتے ہیں کہ سب مال یہی لے جاویں اور دوسرے لوگو محروم رہ جاویں.کہ سنو! جب تک عمر بن الخطاب زندہ ہے وہ قریش کا گلا پکڑے رکھے گا تاکہ وہ تو فتنہ کی آگ میں نہ گر جاویں.(طبری جلد 4 صفحہ ۳۰۲۶٬۳۰۲۵ مطبوعہ بیروت) مي
العلوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز حضرت عمرؓ کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانہ میں ہی لوگوں میں صحابہ کے خلاف یہ خیالات موجزن دیکھتے تھے کہ ان کو حصہ زیادہ ملتا ہے.اس لئے وہ سوائے چند ایسے صحابہ کے جن کے بغیر لشکروں کا کام نہیں چل سکتا تھا باقی صحابہ کو جہاد کے لئے نکلنے ہی نہیں دیتے تھے تاکہ دو ہرے حصے ملنے سے لوگوں کو ابتلاء نہ آوے اور وہ یہ محسوس کرتے تھے کہ اسلام ترقی کے اعلیٰ نقطہ پر پہنچ گیا ہے اور اب اس کے بعد زوال کا ہی خطرہ ہو سکتا ہے نہ ترقی کی امید.اس قدر بیان کر چکنے کے بعد اب میں واقعات کا وہ سلسلہ بیان کرتا ہوں جس سے حضرت عثمان کے وقت میں جو کچھ اختلافات ہوئے ان کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ حضرت عثمان کی شروع خلافت میں چھ سال تک ہمیں کوئی فساد نظر نہیں آتا.بلکہ معلوم ہوتا ہے کہ لوگ عام طور پر آپ سے خوش تھے.(طبری جلد نمبرہ صفحہ ۲۸۴۰ مطبوعہ بیروت) بلکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس عرصہ میں وہ حضرت عمرؓ سے بھی زیادہ لوگوں کو محبوب تھے.صرف محبوب ہی نہ تھے بلکہ لوگوں کے دلوں میں آپ کا رعب بھی تھا.جیسا کہ اس وقت کا شاعر اس امر کی شعروں میں شہادت دیتا ہے.اور کہتا ہے کہ اے فاسقوا عثمان کی حکومت میں لوگوں کا مال لوٹ کر نہ کھاؤ کیونکہ ابن عفان وہ ہے جس کا تجربہ تم لوگ کر چکے ہو.وہ لٹیروں کو قرآن کے احکام کے ماتحت قتل کرتا ہے اور ہمیشہ سے اس قرآن کریم کے احکام کی حفاظت کرنے والا اور لوگوں کے اعضاء و جوارح پر اس کے احکام جاری کرنے والا ہے.(طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۴۱ مطبوعہ بیروت) لیکن چھ سال کے بعد ساتویں سال ہمیں ایک تحریک نظر آتی ہے اور وہ تحریک حضرت عثمان کے خلاف نہیں بلکہ یا تو صحابہ کے خلاف ہے یا بعض گورنروں کے خلاف.چنانچہ طبری بیان کرتا ہے کہ لوگوں کے حقوق کا حضرت عثمان پورا خیال رکھتے تھے.مگر وہ لوگ جن کو اسلام میں سبقت اور قدامت حاصل نہ تھی وہ سابقین اور قدیم مسلمانوں کے برابر نہ تو مجالس میں عزت پاتے اور نہ حکومت میں ان کو ان کے برابر حصہ ملتا اور نہ مال میں ان کے برابر ان کا حق ہو تا تھا.اس پر کچھ مدت کے بعد بعض لوگ اس تفضیل پر گرفت کرنے لگے اور اسے ظلم قرار دینے لگے.مگر یہ لوگ عامۃ المسلمین سے ڈرتے بھی تھے اور اس خوف سے کہ لوگ ان کی مخالفت کریں گے اپنے خیالات کو ظاہر نہ کرتے تھے.بلکہ انہوں نے یہ طریق اختیار کیا ہوا تھا.کہ خفیہ خفیہ صحابہ کے خلاف لوگوں میں جوش پھیلاتے
العلوم جلد اسلام میں اختلافات کا آغاز تھے اور جب کوئی ناواقف مسلمان یا کوئی بدوی غلام آزاد شدہ مل جاتا تو اس کے سامنے اپنی شکایات کا دفتر کھول بیٹھتے تھے اور اپنی ناواقفیت کی وجہ سے یا خود اپنے لئے حصول جاہ کی غرض سے کچھ لوگ ان کے ساتھ مل جاتے.ہوتے ہوتے یہ گروہ تعداد میں زیادہ ہونے لگا اور اس کی ایک بڑی تعداد ہو گئی.(مضمونا طبری جلد نمبر۵ صفحه ۲۸۵۰٬۲۸۴۹ مطبوعہ بیروت) جب کوئی فتنہ پیدا ہونا ہوتا ہے تو اس کے اسباب بھی غیر معمولی طور پر جمع ہونے لگتے ہیں.ادھر تو بعض حاسد طبائع میں صحابہ کے خلاف جوش پیدا ہونا شروع ہوا.ادھر وہ اسلامی جوش جو ابتداء ہر ایک مذہب تبدیل کرنے والے کے دل میں ہوتا ہے ان نو مسلموں کے دلوں سے کم ہونے لگا.جن کو نہ رسول کریم ﷺ کی صحبت ملی تھی اور نہ آپ کے صحبت یافتہ لوگوں کے پاس زیادہ بیٹھنے کا موقع ملا تھا بلکہ اسلام کے قبول کرتے ہی انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ وہ سب کچھ سیکھ گئے ہیں.جوش اسلام کے کم ہوتے ہی وہ تصرف جو ان کے دلوں پر اسلام کو تھا کم ہو گیا.اور وہ پھر ان معاصی میں خوشی محسوس کرنے لگے جس میں وہ اسلام لانے سے پہلے مبتلاء تھے.ان کے جرائم پر ان کو سزا ملی تو بجائے اصلاح کے سزا دینے والوں کی تخریب کرنے کے درپے ہوئے.اور آخر اتحاد اسلامی میں ایک بہت بڑا رخنہ پیدا کرنے کا موجب ثابت ہوئے.ان لوگوں کا مرکز تو کوفہ میں تھا.مگر سب سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ خود مدینہ منورہ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بعض لوگ اسلام سے ایسے ہی نا واقف تھے جیسے کہ آج کل بعض نهایت تاریک گوشوں میں رہنے والے جاہل لوگ.حمران ابن ابان ایک شخص تھا جس نے ایک عورت سے اس کی عدت کے دوران میں ہی نکاح کر لیا.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ اس پر ناراض ہوئے اور اس عورت کو اس سے جدا کر دیا اور اس کے علاوہ اس کو مدینہ سے جلا وطن کر کے بصرہ بھیج دیا.(طبری جلد نمبر 4 صفحہ نمبر ۲۹۲۳ مطبوعہ بیروت) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض لوگ صرف اسلام کو قبول کر کے اپنے آپ کو عالم اسلام خیال کرنے لگے تھے اور زیادہ تحقیق کی ضرورت نہ سمجھتے تھے.یا یہ کہ مختلف اباحتی خیالات کے ماتحت شریعت پر عمل کرنا ایک فعل عبث خیال کرتے تھے.یہ ایک منفرد واقعہ ہے اور غالبا اس شخص کے سوا مدینہ میں جو مرکز اسلام تھا کوئی ایسا ناواقف آدمی نہ تھا.مگر دوسرے شہروں میں بعض لوگ معاصی میں ترقی کر رہے تھے.چنانچہ کوفہ کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں نوجوانوں کی ایک جماعت ڈاکہ
را العلوم جلد ۴ ۲۶ اسلام میں اختلافات کا آغاز زنی کے لئے بن گئی تھی.لکھا ہے کہ ان لوگوں نے ایک دفعہ علی بن حيسمان الخزاعي نامی ایک شخص کے گھر پر ڈاکہ مارنے کی تجویز کی.اور رات کے وقت اس کے گھر میں نقب لگائی.اس کو علم ہو گیا اور وہ تلوار لے کر نکل پڑا.مگر جب بہت سی جماعت دیکھی تو اس نے شور مچایا.اس پر ان لوگوں نے اس کو کہا کہ چپ کر ہم ایک ضرب مار کر تیرا سارا ڈر نکال دیں گے اور اس کو قتل کر دیا.اتنے میں ہمسائے ہوشیار ہو گئے اور ارد گرد جمع ہو گئے اور ان ڈاکوؤں کو پکڑ لیا.حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ نے جو صحابی تھے اور اس شخص کے ہمسایہ تھے اور انہوں نے سب حال اپنی دیوار پر سے دیکھا تھا.انہوں نے شہادت دی کہ واقعہ میں انہی لوگوں نے علی کو قتل کیا ہے اور اسی طرح ان کے بیٹے نے شہادت دی اور معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف لکھ کر بھیج دیا.انہوں نے ان سب کو قتل کرنے کا فتوی دیا اور ولید بن عتبہ نے جو ان دنوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے ، ان سب ڈاکوؤں کو دروازہ شہر کے باہر میدان میں قتل کروا دیا.(طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۴۱۴۲۸۴۰ مطبوعه بیروت) بظاہر یہ ایک معمولی واقعہ معلوم ہوتا ہے لیکن اس زمانے کے حالات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ معمولی واقعہ نہ تھا.اسلام کی ترقی کے ساتھ ساتھ جرائم کا سلسلہ بالکل مٹ گیا تھا.اور لوگ ایسے امن میں تھے کہ کھلے دروازوں سوتے ہوئے بھی خوف نہ کھاتے تھے.حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مال کی ڈیوڑھیاں بنانے سے بھی منع کر دیا تھا.گو اس سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی غرض تو یہ تھی کہ لوگ آسانی سے اپنی شکایات گورنروں کے پاس پہنچا سکیں.لیکن یہ حکم اس وقت تک ہی دیا جا سکتا تھا جب تک امن انتہاء تک نہ پہنچا ہوا ہوتا.پھر اس واقعہ میں خصوصیت یہ بھی تھی کہ اس ڈاکہ میں بعض ذی مقدرت اور صاحب ثروت لوگوں کی اولاد بھی شامل تھی جو اپنے اپنے حلقے میں بارسوخ تھے.پس یہ واردات معمولی واردات نہ تھی بلکہ کسی عظیم الشان انقلاب کی طرف اشارہ کرتی تھی.جو اس کے سوا کیا ہو سکتا تھا کہ دین اسلام سے ناواقف لوگوں کے دلوں پر جو تصرف اسلام تھا اب اس کی گرفت کم ہو رہی تھی.اور اب وہ پھر اپنی عادات کی طرف لوٹ رہے تھے.اور غریب ہی نہیں بلکہ امراء بھی اپنی پرانی عظمت کو قتل و غارت سے واپس لینے پر آمادہ ہو رہے تھے.حضرت ابو شریح صحابی نے اس امر کو خوب سمجھا اور اسی وقت اپنی سب جائداد و غیرہ بیچ کر اپنے اہل و عیال سمیت مدینہ کو واپس تشریف لے گئے اور کوفہ کی رہائش ترک کر دی.ان کا
نلوم چاند ہے ۲۶۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز اس واقعہ پر کوفہ کو ترک کر دینا اس امر کی کافی شہادت ہے کہ یہ منفرد مثال آئندہ کے خطرناک واقعات کی طرف اشارہ تھی.انہی دنوں ایک اور فتنہ نے سر نکالنا شروع کیا.عبد اللہ بن سبا ایک یہودی تھا جو اپنی ماں کی وجہ سے ابن السوداء کہلاتا تھا.یمن کا رہنے والا اور نہایت بد باطن انسان تھا.اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھ کر اس غرض سے مسلمان ہوا کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ ڈلوائے.میرے نزدیک اس زمانہ کے فتنے اس مفسد انسان کے ارد گرد گھومتے ہیں اور یہ ان کی روح رواں ہے.شرارت کی طرف مائل ہو جانا اس کی جبلت میں داخل معلوم ہوتا ہے.خفیہ منصوبہ کرنا اس کی عادت تھی اور اپنے مطلب کے آدمیوں کو تار لینے میں اس کو خاص مہارت تھی.ہر شخص سے اس کے مذاق کے مطابق بات کرتا تھا اور نیکی کے پردے میں بدی کی تحریک کرتا تھا.اور اسی وجہ سے اچھے اچھے سنجیدہ آدمی اس کے دھوکے میں آجاتے تھے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے پہلے نصف میں مسلمان ہوا اور تمام بلاد اسلامیہ کا دورہ اس غرض سے کیا کہ ہر ایک جگہ کے حالات سے خود واقفیت پیدا کرے.مدینہ منورہ میں تو اس کی دال نہ گل سکتی تھی.مکہ مکرمہ اس وقت سیاسیات سے بالکل علیحدہ تھا.سیاسی مرکز اس وقت دار الخلافہ کے سوا بصرہ کوفہ ، دمشق اور فسطاط تھے.پہلے ان مقامات کا اس نے دورہ کیا اور یہ رویہ اختیار کیا کہ ایسے لوگوں کی تلاش کر کے جو سزا یافتہ تھے اور اس وجہ سے حکومت سے ناخوش تھے ان سے ملتا اور انہی کے ہاں ٹھرتا.چنانچہ سب سے پہلے بصرہ گیا اور حکیم بن جبلہ ایک نظر بند ڈاکو کے پاس ٹھرا اور اپنے ہم مذاق لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا اور ان کی ایک مجلس بنائی.چونکہ کام کی ابتداء تھی اور یہ آدمی ہو شیار تھا صاف صاف بات نہ کرتا بلکہ اشارہ کنایہ سے ان کو فتنہ کی طرف بلاتا تھا.اور جیسا کہ اس نے ہمیشہ اپنا وطیرہ رکھا ہے وعظ و پند کا سلسلہ بھی ساتھ جاری رکھتا تھا.جس سے ان لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت پیدا ہو گئی اور وہ اس کی باتیں قبول کرنے لگے.عبداللہ بن عامر کو جو بصرہ کے والی تھے جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس سے اس کا حال پوچھا اور اس کے آنے کی وجہ دریافت کی.اس نے جواب میں کہلا بھیجا کہ میں اہل کتاب میں سے ایک شخص ہوں جسے اسلام کا اُنس ہو گیا ہے اور آپ کی حفاظت میں رہنا چاہتا ہوں.عبد اللہ بن عامر کو چونکہ اصل حالات آگاہی حاصل ہو چکی تھی.انہوں نے اس کے عذر کو قبول نہ کیا اور کہا کہ مجھے تمہارے متعلق جو حالات معلوم ہیں وہ ان کے خلاف ہیں اس لئے تم میرے علاقہ سے نکل جاؤ.وہ بصرہ
ر العلوم جلدم 744.اسلام میں اختلافات کا آغاز سے نکل کر کوفہ کی طرف چلا گیا (طبری جلد ۲ صفحہ ۲۹۲۲ مطبوعہ بیروت) مگر فساد بغاوت اور اسلام سے بیگانگی کا بیج ڈال گیا جو بعد میں بڑھ کر ایک بہت بڑا درخت ہو گیا.میرے نزدیک یہ سب سے پہلی سیاسی غلطی ہوئی ہے اگر والی بصرہ بجائے اس کو جلا وطن کرنے کے قید کر دیتا اور اس پر الزام قائم کرتا تو شاید یہ فتنہ وہیں دبا رہتا.ابن سوداء تو اپنے گھر سے نکلا ہی اس ارادے سے تھا کہ تمام عالم اسلام میں پھر کر فتنہ فساد کی آگ بھڑکائے.اس کا بصرہ سے نکلنا تو اس کے مدعا کے عین مطابق تھا.کوفہ میں پہنچ کر اس شخص نے پھر وہی بصرہ والی کارروائی شروع کی.اور بالآخر وہاں سے بھی نکالا گیا لیکن یہاں بھی اپنی شرارت کا بیج ہو تا کی گیا جو بعد میں بہت بڑا درخت بن گیا.اور اس دفعہ اس کے نکالنے پر اس پہلی سیاسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا.کوفہ سے نکل کر یہ شخص شام کو گیا مگر وہاں اس کو اپنے قدم جمانے کا کوئی موقع نہ ملا.حضرت معاویہ نے وہاں اس عمدگی سے حکومت کا کام چلایا ہوا تھا کہ نہ تو اسے ایسے لوگ ملے جن میں یہ ٹھہر سکے اور نہ ایسے لوگ میسر آئے جن کو اپنا قائم مقام بنایا جاوے پس شام سے اس کو با حسرت و یاس آگے سفر کرنا پڑا اور اس نے مصر کا رخ کیا مگر شام چھوڑنے سے پہلے اس نے ایک اور فتنہ کھڑا کر دیا.ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ رسول کریم ال کے ابتدائی صحابہ میں سے ایک نہایت نیک اور متقی صحابی تھے.جب سے ایمان لائے رسول کریم کی محبت میں آگے ہی قدم بڑھاتے گئے اور ایک لمبا عرصہ صحبت میں رہے.جیسا کہ ہر ایک شخص کا مذاق جدا گانہ ہوتا ہے رسول کریم ک کی ان نصائح کو سن کر کہ دنیا سے مؤمن کو علیحدہ رہنا چاہئے یہ اپنے مذاق کے مطابق مال جمع کرنے کو ناجائز سمجھتے تھے اور دولت سے نفرت کرتے تھے اور دوسرے لوگوں کو بھی سمجھاتے تھے کہ مال نہیں جمع کرنا چاہئے.جو کچھ کسی کے پاس ہو اسے غرباء میں بانٹ دینا چاہئے.مگر یہ عادت ان کی ہمیشہ سے تھی.اور حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کے زمانے سے بھی جب کہ مسلمانوں میں دولت آئی وہ ایسا ہی کرتے تھے ابن سوداء جب شام سے گزر رہا تھا اس نے ان کی طبیعت میں دولت کے خلاف خاص جوش دیکھ کر یہ معلوم کر کے کہ یہ چاہتے ہیں کہ غرباء و امراء اپنے مال تقسیم کر دیں.شام میں سے گزرتے ہوئے جہاں کہ اس وقت حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقیم تھے ان سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ دیکھئے کیا غضب ہو رہا ہے.معاویہ بیت المال کے اموال کو اللہ کا مال کہتا تھا حالانکہ بیت المال
العلوم جلد * اسلام میں اختلافات کا آغاز کے اموال کی کیا شرط ہے ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی ہے.پھر وہ خاص طور پر اس مال کو مال اللہ کیوں کہتا ہے.صرف اس لئے کہ مسلمانوں کا حق جو اس مال میں ہے اس کو ضائع کر دے اور ان کا نام بیچ میں سے اڑا کر آپ وہ مال کھا جاوے.حضرت ابوذر تو آگے ہی اس تلقین میں لگے رہتے تھے کہ امراء کو چاہئے کہ سب مال غرباء میں تقسیم کر دیں کیونکہ مؤمن کے لئے آرام کی جگہ اگلا جہاں ہی ہے اور اس شخص کی شرارت اور نیت سے آپ کو بالکل واقفیت نہ تھی.بس آپ اس کے دھوکا میں آگئے اور خیال کیا کہ واقع میں بیت المال کے اموال کو مال اللہ کہنا درست نہیں.اس میں اموال کے غصب ہو جانے کا خطرہ ہے.ابن سوداء نے اس طرح حضرت معاویہ سے اس امر کا بدلہ لیا کہ کیوں انہوں نے اس کے لنکنے کے لئے شام میں کوئی ٹھکانا نہیں بننے دیا.حضرت ابوذر معاویہ کے پاس پہنچے اور ان کو سمجھایا کہ آپ مسلمانوں کے مال کو مائی اللہ کہتے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ اے ابوذرا اللہ تعالیٰ آپ پر رحم کرے کیا ہم سب اللہ کے بندے نہیں؟ یہ مال اللہ کا مال نہیں؟ اور سب مخلوق اللہ تعالیٰ کی مخلوق نہیں ؟ اور حکم خدا کے ہاتھ میں نہیں ؟ یعنی جب کہ بندے بھی خدا کے ہیں اور حکم بھی اسی کا جاری ہے تو پھر ان اموال کو اموال اللہ کہنے سے لوگوں کے حق کیونکر ضائع ہو جائیں گے.جو خدا تعالیٰ نے حقوق مقرر کئے ہیں وہ اس کے فرمان کے مطابق اس کی مخلوق کو ملیں گے.یہ جواب ایسا لطیف تھا کہ حضرت ابو ذر اس کا جواب تو بالکل نہ دے سکے مگر چونکہ اس معاملہ میں ان کو خاص جوش تھا اور ابن سوداء ایک شک آپ کے دل میں ڈال گیا تھا.اس لئے آپ نے احتیاطاً حضرت معاویہ کو یہی مشورہ دیا کہ آپ اس لفظ کو ترک کر دیں.انہوں نے جواب دیا کہ میں یہ تو ہر گز نہیں کہنے کا کہ یہ اموال اللہ نہیں ہاں آئندہ اس کو اموال المسلمین کہا کروں گا.ابن سوداء نے جب یہ حربہ کسی قدر کارگر دیکھا تو اور صحابہ کے پاس پہنچا اور ان کو اکسانا چاہا.مگر وہ حضرت ابو ذر کی طرح گوشہ گزیں نہ تھے.اس شخص کی شرارتوں سے واقف تھے.ابو درداء نے اس کی بات سنتے ہی کہا تو کون ہے جو ایسی فتنہ انگیز بات کہتا ہے.خدا کی قسم تو یہودی ہے.ان سے مایوس ہو کر وہ انصار کے سردار رسول کریم ل ل ا ل لا کے خاص مقرب عبادہ بن صامت کے پاس پہنچا اور ان سے کچھ فتنہ انگیز باتیں کہیں.انہوں نے اس کو پکڑ لیا اور حضرت معاویہ کے پاس لے گئے اور کہا کہ یہ شخص ہے جس نے ابو ذر غفاری " کو آپ کے پاس بھیجا تھا.شام میں اپنا کام نہ بنتا دیکھ کر ابن السوداء تو مصر کی طرف چلا گیا اور ادھر حضرت ابوذر کے دل
لعلوم جلد ۴ PYA اسلام میں اختلافات کا آغاز میں اس کی باتوں سے ایک نیا جوش پیدا ہو گیا اور آپ نے آگے سے بھی زیادہ زور کے ساتھ مسلمانوں کو نصیحت کر دی کہ سب اپنے اپنے اموال لوگوں میں تقسیم کر دیں.حضرت ابوذر کا یہ کہنا درست نہ تھا کہ کسی کو مال جمع نہ کرنا چاہئے.کیونکہ صحابہ مال جمع نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اپنے اموال خدا کی راہ میں تقسیم کرتے تھے.ہاں بے شک مالدار تھے اور اس کو مال جمع کرنا نہیں کہتے.مال جمع کرنا اس کا نام ہے کہ اس مال سے غرباء کی پرورش نہ کرے اور صدقہ و خیرات نہ کرے.خود رسول کریم ﷺ کے وقت میں بھی آپ کے صحابہ میں سے بعض مالدار تھے.اگر مالدار نہ ہوتے تو غزوہ تبوک کے وقت دس ہزار سپاہیوں کا سامان سفر حضرت عثمان کس طرح ادا کرتے.مگر رسول کریم ﷺ ان لوگوں کو کچھ نہ کہتے تھے.بلکہ ان میں سے بعض آدمی آپ کے مقرب بھی تھے.غرض مالدار ہونا کوئی جرم نہ تھا بلکہ قرآن کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تھا اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کو اس مسئلہ میں غلطی لگی ہوئی تھی.مگر جو کچھ بھی تھا، حضرت ابو ذر اپنے خیال پر پختہ تھے.مگر ساتھ ہی یہ بات بھی تھی کہ وہ اپنے خیال کے مطابق نصیحت تو کر دیتے مگر قانون کو کبھی اپنے ہاتھ میں نہ لیتے اور آنحضرت کے احکام آپ کے زیر نظر رہتے.لیکن جن لوگوں میں بیٹھ کر وہ یہ باتیں کرتے تھے وہ ان کے تقویٰ اور طہارت سے نا آشنا تھے اور ان کی باتوں کا اور مطلب سمجھتے تھے.چنانچہ ان باتوں کا آخر یہ نتیجہ نکلا کہ بعض غرباء نے امراء پر دست تعدی در از کرنا شروع کیا اور ان سے جبرا اپنے حقوق وصول کرنے چاہیے.انہوں نے حضرت معاویہ سے شکایت کی.جنہوں نے آگے حضرت عثمان کے پاس معاملہ پیش کیا.آپ نے حکم بھیجا کہ ابوذر کو اکرام و احترام کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کر دیا جاوے.اس حکم کے ماتحت حضرت ابوذر مدینہ تشرف لائے.حضرت عثمان نے آپ سے دریافت کیا کہ کیا سبب ہے کہ اہل شام آپ کے خلاف شکایت کرتے ہیں.آپ نے جواب دیا کہ میرا ان سے یہ اختلاف ہے کہ ایک تو مال اللہ نہ کہا جائے دوسرے یہ کہ امراء مال نہ جمع کریں.حضرت عثمان نے فرمایا کہ ابو ذر جو ذمہ داری خدا تعالی نے مجھ پر ڈالی ہے اس کا ادا کرنا میرا ہی کام ہے اور یہ میرا فرض ہے کہ جو حقوق رعیت پر ہیں ان سے وصول کروں.اور یہ کہ ان کو خدمت دین اور میانہ روی کی تعلیم دوں.مگر یہ میرا کام نہیں کہ ان کو ترک دنیا پر مجبور کروں.حضرت ابوذر نے عرض کیا کہ پھر آپ مجھے اجازت دیں کہ میں کہیں چلا جاؤں کیونکہ مدینہ اب میرے مناسب حال نہیں.حضرت عثمان نے کہا کہ
لوم جلد ۴ ۲۶۹ اسلام میں اختلافات کا آغاز کیا آپ اس گھر کو چھوڑ کر اس گھر سے بد تر گھر کو اختیار کر لیں گے.انہوں نے کہا کہ مجھے رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ جب مدینہ کی آبادی سلع تک پھیل جاوے تو تم مدینہ میں نہ رہنا.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس پر فرمایا کہ آپ رسول خدا کا حکم بجا لاویں.اور کچھ اونٹ اور دو غلام دے کر مدینہ سے رخصت کیا اور تاکید کی کہ مدینہ سے کلی طور پر قطع تعلق نہ کریں بلکہ وہاں آتے جاتے رہیں.جس ہدایت پر ابو ذرہ ہمیشہ عمل کرتے رہے.(طبری جلد نمبرہ صفحه ۲۸۷۰ مطبوعہ بیروت) یہ چو تھا فتنہ تھا جو پیدا ہوا اور گو اس میں حضرت ابوذر کو ہتھیار بنایا گیا تھا مگر در حقیقت نہ حضرت ابوذر کے خیالات وہ تھے جو مفسدوں نے اختیار کئے اور نہ ان کو ان لوگوں کی شرارتوں کا علم تھا.حضرت ابوذر تو باوجود اختلاف کے کبھی قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر آمادہ نہ ہوئے اور حکومت کی اطاعت اس طور پر کرتے رہے کہ باوجود اس کے کہ ان کے خاص حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کو فتنہ اور تکلیف سے بچانے کے لئے رسول کریمی نے ان کو ایک خاص وقت پر مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا تھا.انہوں نے بغیر حضرت عثمان کی اجازت کے اس حکم پر عمل کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا اور پھر جب وہ مدینہ سے نکل کر ربذہ میں جا کر مقیم ہوئے اور وہاں کے محصل نے ان کو نماز کا امام بننے کے لئے کہا تو انہوں نے اس سے اس بناء پر انکار کیا کہ تم یہاں کے حاکم ہو اس لئے تم ہی کو امام بننا سزادار ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اطاعت حکام سے ان کو کوئی انحراف نہ تھا اور نہ انار کی کو وہ جائز سمجھتے تھے.حضرت ابو ذر کی سادگی کا اس امر سے خوب پتہ چلتا ہے کہ جب ابن السوداء کے دھوکا دینے سے وہ معاویہ سے جھگڑتے تھے کہ بیت المال کے اموال کو مال اللہ نہیں کہنا چاہئے اور ی حضرت عثمان کے پاس بھی شکایت لائے تھے وہ اپنی بول چال میں اس لفظ کو برابر استعمال کرتے تھے چنانچہ اس فساد کے بعد جب کہ وہ ربذہ میں تھے ایک دفعہ ایک قافلہ وہاں اترا.اس قافلہ کے لوگوں نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کے ساتھیوں کو ہم نے دیکھا ہے وہ بڑے بڑے مالدار ہیں مگر آپ اس غربت کی حالت میں ہیں.انہوں نے ان کو یہ جواب دیا کہ اِنَّهُمْ لَيْسَ لَهُمْ فِي مَالِ اللَّهِ حَقٌّ إِلَّا وَلِى مِثْلُهُ (طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۶۲ مطبوعہ بیروت) یعنی ان کا مال اللہ (یعنی بیت المال کے اموال) میں کوئی ایسا حق نہیں جو مجھے حاصل نہ ہو.اسی طرح انہوں نے وہاں کے حبشی حاکم کو بھی رَقِيقٌ مِّنْ مالِ اللهِ (طبری جلد ۵ صفحہ ۲۸۷۲ مطبوعہ بیروت) (مال اللہ کا
لوم جلد ۲۷۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز غلام) کے نام سے یاد کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود بھی یہ لفظ استعمال کرتے تھے اور باوجود اس لفظ کی مخالفت کرنے کے بے تحاشا اس لفظ کا آپ کی زبان پر جاری ہو جانا اس امر کی شہادت ہے کہ یہ صحابہ کا ایک عام محاورہ تھا.مگر ابن السوداء کے دھوکا دینے سے آپ کے ذہن سے یہ بات نکل گئی.یہ فتنہ جسے بولشوزم کا فتنہ کہنا چاہئے حضرت معاویہ کی حسن تدبیر سے شام میں تو چمکنے نہ پایا.مگر مختلف صورتوں میں یہ خیال اور جگہوں پر اشاعت پا کر ابن السوداء کے کام میں محمد ہو گیا.ابن السوداء شام سے نکل کر مصر پہنچا.اور یہی مقام تھا جسے اس نے اپنے کام کا مرکز بنانے کے لئے چنا تھا.کیونکہ یہ مقام دارالخلافہ سے بہت دور تھا اور دوسرے اس جگہ صحابہ کی آمد و رفت اس کثرت سے نہ تھی جتنی کہ دوسرے مقامات پر.جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ دین سے نسبتا کم تعلق رکھتے تھے اور فتنہ میں حصے لینے کے لئے زیادہ تیار تھے چنانچہ ابن السوداء کا ایک نائب جو کوفہ کا باشندہ تھا اور جس کا ذکر آگے آوے گا ان واقعات کے تھوڑے ہی عرصہ بعد جلا وطن کیا گیا تو حضرت معاویہ کے اس سوال پر کہ نئی پارٹی کے مختلف ممالک کے ممبروں کا کیا حال ہے.اس نے جواب دیا کہ انہوں نے مجھ سے خط و کتابت کی ہے اور میں نے ان کو سمجھایا ہے اور انہوں نے مجھے نہیں سمجھایا.مدینہ کے لوگ تو سب سے زیادہ فساد کے شائق ہیں اور سب سے کم اس کی قابلیت رکھتے ہیں.اور کوفہ کے لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نکتہ چینی کرتے ہیں لیکن بڑے بڑے گناہوں کے ارتکاب سے خوف نہیں کھاتے اور بصرہ کے لوگ اکٹھے حملہ کرتے ہیں مگر پراگندہ ہو کر بھاگتے ہیں.ہاں مصر کے لوگ ہیں جو شرارت کے اہل سب سے زیادہ ہیں.مگر ان میں یہ نقص ہے کہ پیچھے نادم بھی جلدی ہو جاتے ہیں.اس کے بعد شام کا حال اس نے بیان کیا کہ وہ اپنے سرداروں کے سب سے زیادہ مطیع ہیں اور اپنے گمراہ کرنے والوں کے سب سے زیادہ نا فرمان ہیں.کہ یہ رائے ابن الكواء کی ہے جو ابن السوداء کی پارٹی کے رکنوں میں سے تھا اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مصر ہی سب سے عمدہ مقام تھا جہاں ابن السوداء ڈیرہ لگا سکتا تھا.اور اس کی شرارت کی باریک بین نظر نے اس امر کو معلوم کر کے اس مقام کو اپنے قیام کے لئے چنا اور اسے فساد کا مرکز بنا دیا اور بہت جلد ایک جماعت اس کے ارد گرد جمع ہو گئی.
اسلام میں اختلافات کا آغاز اب سب بلاد میں شرارت کے مرکز قائم ہو گئے.اور ابن السوداء نے ان تمام لوگوں کو جو سزایافتہ تھے یا ان کے رشتہ دار تھے یا اور کسی سبب سے اپنی حالت پر قانع نہ تھے نہایت ہوشیاری اور دانائی سے اپنے ساتھ ملانا شروع کیا.اور ہر ایک کے مذاق کے مطابق اپنی غرض کو بیان کرتا تاکہ اس کی ہمدردی حاصل ہو جاوے.مدینہ شرارت سے محفوظ تھا اور شام بالکل پاک تھا.تین مرکز تھے جہاں اس فتنہ کا مواد تیار ہو رہا تھا بصرہ کوفہ اور مصر مصر مرکز تھا.مگر اس زمانہ کے تجربہ کار اور فلسفی دماغ انارکسٹوں کی طرح ابن السوداء نے اپنے آپ کو خلف الاستار رکھا ہوا تھا.سب کام کی روح وہی تھا مگر آگے دوسرے لوگوں کو کیا ہوا تھا.بوجہ قریب ہونے کے اور بوجہ سیاسی فوقیت کے جو اس وقت بصرہ اور کوفہ کو حاصل تھی یہ دونوں شہران تغیرات میں زیادہ حصہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں.لیکن ذرا بار یک نگاہ سے دیکھا جاوے تو تاریخ کے صفحات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان تمام کارروائیوں کی باگ مصر میں بیٹھے ہوئے ابن السوداء کے ہاتھ میں تھی.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ کوفہ میں ایک جماعت نے ایک شخص علی بن حیسمان الخزاعی کے گھر پر ڈاکہ مار کر اس کو قتل کر دیا تھا اور قاتلوں کو دروازہ شہر پر قتل کر دیا گیا تھا.ان نوجوانوں کے باپوں کو اس کا بہت صدمہ تھا اور وہ اس جگہ کے والی ولید بن عتبہ سے اس کا بدلہ لینا چاہتے تھے اور منتظر رہتے تھے کہ کوئی موقع ملے اور ہم انتقام لیں.یہ لوگ اس فتنہ انگیز جماعت کے ہاتھ میں ایک عمدہ ہتھیار بن گئے جن سے انہوں نے خوب کام لیا.ولید سے بدلہ لینے کے لئے انہوں نے کچھ جاسوس مقرر کئے تاکہ کوئی عیب ولید کا پکڑ کر ان کو اطلاع - دیں.جاسوسوں نے کوئی کارروائی تو اپنی دکھانی ہی تھی.ایک دن آکر ان کو خبر دی کہ ولید اپنے ایک دوست ابو زبیر کے ساتھ مل کر جو عیسائی سے مسلمان ہوا تھا شراب پیتے ہیں.ان مفسدوں نے اٹھ کر تمام شہر میں اعلان کرنا شروع کر دیا کہ لو یہ تمہارا والی ہے.اندر اندر چھپ چھپ کر اپنے دوستوں کے ساتھ شراب پیتا ہے.عامۃ الناس کا تو جوش بے قابو ہوتا ہی ہے اس بات کو سن کر ایک بڑی جماعت ان کے ساتھ ہو گئی اور ولید کے گھر کا سب نے جاکر محاصرہ کر لیا.دروازہ تو کوئی تھا ہی نہیں.سب بے تحاشا مسجد میں سے ہو کر اندر گھس گئے (ان کے مکان کا دروازہ مسجد میں کھلتا تھا) اور ولید کو اس وقت معلوم ہوا جب وہ ان کے سر پر جا کھڑے ہوئے.انہوں نے ان کو دیکھا تو گھبرا گئے.اور جلدی سے کوئی چیز چارپائی کے نیچے کھسکا دی.
دم جلد ۴ ۲۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز انہوں نے خیال کیا کہ اب بھید کھل گیا اور چور پکڑا گیا.جھٹ ایک شخص نے بلا بولے چالے ہاتھ اندر کیا اور وہ چیز نکال لی.دیکھا تو ایک طبق تھا اور اس کے اندر والی کوفہ کا کھانا اور انگوروں کا ایک خوشہ پڑا تھا جسے اس نے صرف اس شرم سے چھپا دیا تھا کہ ایسے بڑے مالدار صوبہ کے گورنر کے سامنے صرف یہی کھانا رکھا گیا تھا.اس امر کو دیکھ کر لوگوں کے ہوش اڑ گئے سب شرمندہ ہو کر الٹے پاؤں لوٹے اور ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے کہ بعض شریروں کے دھوکا میں آکر انہوں نے ایسا خطرناک جرم کیا اور شریعت کے احکام کو پس پشت ڈال دیا.مگر ولید نے شرم سے اس بات کو دبا دیا اور حضرت عثمان " کو اس امر کی خبر نہ کی.لیکن یہ ان کا رحم جو ایک غیر مستحق قوم کے ساتھ کیا گیا تھا آخر ان کے لئے اور ان کے بعد ان کے قائمقام کے لئے نہایت مضر ثابت ہوا.مفسدوں نے بجائے اس کے کہ اس رحم سے متاثر ہوتے اپنی ذلت کو اور بھی محسوس کیا اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ولید کی تباہی کی تدابیر کرنی شروع کیں اور حضرت عثمان کے پاس وفد بن کر گئے کہ ولید کو موقوف کیا جائے.لیکن انہوں نے بلا کسی جرم کے والی کو موقوف کرنے سے انکار کر دیا.یہ لوگ واپس آئے تو اور دوسرے تمام ایسے لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا جو سزا یافتہ تھے.اور مل کر مشورہ کیا کہ جس طرح ہو جھوٹ سچ ولید کو ذلیل کیا جاوے.ابو زینب اور ابو مورع دو شخصوں نے اس بات کا ذمہ لیا کہ وہ کوئی تجویز کریں گے اور ولید کی مجلس میں جانا شروع کیا.ایک دن موقع پا کر جب کہ کوئی نہ تھا اور ولید اپنے مردانہ میں جس کو زنانہ حصہ سے صرف ایک پردہ ڈال کر جدا کیا گیا تھا سو گئے.ان کی دونوں نے ان کی انگشتری آہستہ سے اتار لی اور خود مدینہ کی طرف بھاگ نکلے کہ ہم نے ولید کو شراب میں مخمور دیکھا ہے اور اس کا ثبوت یہ انگوٹھی ہے جو ان کے ہاتھ سے حالت نشہ میں ہم نے اتاری اور ان کو خبر نہ ہوئی.حضرت عثمان نے ان سے دریافت کیا کہ کیا تم لوگوں کے سامنے انہوں نے شراب پی تھی.انہوں نے اس بات کے اقرار کی تو جرأت نہ کی کیونکہ سامنے شراب پینے سے ثابت ہو تاکہ وہ بھی ولید کے ساتھ شریک تھے.اور یہ کہا کہ نہیں ہم نے ان کو شراب کی قے کرتے ہوئے دیکھا ہے.انگوٹھی اس کا ثبوت موجود تھی اور دو گواہ حاضر تھے.اور کچھ اور شریر بھی ان کی شہادت کو زیادہ وقیع بنانے کے لئے ساتھ گئے تھے وہ بھی اس واقعہ کی تصدیق بالقرائن کرتے تھے.صحابہ سے مشورہ لیا گیا اور ولید کو حد شراب لگانے کا فیصلہ ہوا.کوفہ سے ان کو بلوایا گیا اور مدینہ میں شراب پینے کی سزا میں کوڑے لگوائے گئے.ولید نے
لوم جلد ۴ ۲۷۳ اسلام میں اختلافات کا آغاز گو عذر کیا اور ان کی شرارت پر حضرت عثمان کو آگاہ کیا مگر انہوں نے کہا کہ بحکم شریعت گواہوں کے بیان کے مطابق سزا تو ملے گی.ہاں جھوٹی گواہی دینے والا خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا پائے گا.(طبری جلد ۵ صفحه ۲۸۴۶ تا ۲۸۴۸ مطبوعہ بیروت) ولید معزول کئے گئے اور ناحق ان پر الزام لگایا گیا مگر صحابہ کے مشورہ کے ماتحت حضرت عثمان نے ان کو حد لگائی.اور چونکہ گواہ اور قرائن ان کے خلاف موجود تھے شریعت کے حکم کے ماتحت ان کو حد لگانا ضروری تھا.سعید بن العاص ان کی جگہ والی کوفہ بنا کر بھیج دیئے گئے.انہوں نے کوفہ میں جاکر وہاں کی حالت دیکھی تو حیران ہو گئے.تمام اوباش اور دین سے ناواقف لوگ قبضہ جمائے ہوئے تھے اور شرفاء محکوم و مغلوب تھے.انہوں نے اس واقعہ کی حضرت عثمان کو خبر دی.جنہوں نے ان کو نصیحت کی کہ جو لوگ بڑی بڑی قربانیاں کر کے دشمنوں کے مقابلہ کے لئے پہلے پہلے آتے تھے.ان کا اعزاز و احترام قائم کریں ہاں اگر وہ لوگ دین سے بے توجہی برتیں تب بے شک دوسرے ایسے لوگوں کو ان کی جگہ دیں جو زیادہ دین دار ہوں.جس وقت کوفہ میں یہ شرارت جاری تھی بصرہ بھی خاموش نہ تھا وہاں بھی حکیم بن جبلہ ابن السوداء کے ایجنٹ اور اس کے ساتھیوں کے ذریعہ حضرت عثمان کے نائبوں کے خلاف لوگوں میں جھوٹی تہمتیں مشہور کی جارہی تھیں.مصر جو اصل مرکز تھا وہاں تو اور بھی زیادہ فساد برپا تھا عبداللہ بن سبا نے وہاں صرف سیاسی شورش ہی برپا نہ کر رکھی تھی بلکہ لوگوں کا مذہب بھی خراب کر رہا تھا.مگر اس طرح کہ دین سے ناواقف مسلمان اسے بڑا مخلص سمجھیں.چنانچہ وہ تعلیم دیتا تھا کہ تعجب ہے کہ بعض مسلمان یہ تو عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام دوبارہ دنیا میں تشریف لاویں گے مگر یہ نہیں مانتے کہ رسول کریم دوبارہ مبعوث ہوں گے حالانکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اِن الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَاتُكَ إِلى مَعَادٍ - (القصص: ۸۶) یعنی وہ خدا جس نے قرآن کریم تجھ پر فرض کیا ہے تجھے ضرور لوٹنے کی جگہ کی طرف واپس لاوے گا.^ اس کی اس تعلیم کو اس کے بہت سے ماننے والوں نے قبول کر لیا.اور آنحضرت ا کے دوبارہ دنیا میں ال تشریف لانے کے قائل ہو گئے حالانکہ قرآن کریم ان لوگوں کے دوبارہ دنیا میں تشریف لانے سے جو فوت ہو چکے ہیں بڑے زور سے انکار کرتا ہے.ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے
لم اسلام میں اختلافات کا آغاز نام کو روشن کرنے کے لئے کسی شخص کو انہی کے اخلاق اور صفات دے کر کھڑا کر دے.مگریہ امر تناسخ یا کسی شخص کے دوبارہ واپس آنے کے عقیدہ سے بالکل الگ ہے.اور ایک بدیہی اور مشہور امر ہے.علاوہ اس رجعت کے عقیدہ کے عبداللہ بن سبا نے یہ بھی مشہور کرنا شروع کیا کہ ہزار نبی گزرے ہیں اور ہر ایک نبی کا ایک وصی تھا.اور رسول کریم ﷺ کے وصی حضرت علی ہیں.رسول کریم و خاتم الانبیاء تھے تو حضرت علی خاتم الاوصیاء ہیں.پھر کہتا اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہو سکتا ہے جو رسول کریم اے کے وصی پر حملہ کر کے اس کا حق چھین لے.غرض علاوه سیاسی تدابیر کے جو اسلام میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اس شخص نے اختیار کر رکھی تھیں.مذہبی فتنہ بھی برپا کر رکھا تھا اور مسلمانوں کے عقائد خراب کرنے کی بھی فکر کر رہا تھا مگر یہ احتیاط ضرور برتا تھا کہ لوگ اس کو مسلمان ہی سمجھیں.ایسی حالت میں تین سال گزر گئے اور یہ مفسد گروه برابر خفیہ کارروائیاں کرتا رہا اور اپنی جماعت بڑھا تا گیا.لیکن اس تین سال کے عرصہ میں کوئی خاص واقعہ سوائے اس کے نہیں ہوا کہ محمد بن ابی بکر اور محمد بن ابی حذیفہ دو شخص مدینہ منورہ کے باشندے بھی اس فتنہ میں کسی قدر حصہ لینے لگے محمد بن ابی بکر تو حضرت ابو بکر کا چھوٹا لڑکا تھا جسے سوائے اس خصوصیت کے کہ وہ حضرت ابو بکر" کا لڑکا تھا دینی طور پر کوئی فضیلت حاصل نہ تھی.اور محمد بن ابی حذیفہ ایک یتیم تھا جسے حضرت عثمان نے پالا تھا.مگر بڑا ہو کر اس نے خاص طور پر آپ کی مخالفت میں حصہ لیا جس کی وجوہ میں ابھی بیان کروں گا چوتھے سال میں اس فتنہ نے کسی قدر ہیبت ناک صورت اختیار کرلی اور اس کے بانیوں نے مناسب سمجھا کہ اب علی الاعلان اپنے خیالات کا اظہار کیا جاوے اور حکومت کے رعب کو مٹایا جاوے چنانچہ اس امر میں بھی کوفہ ہی نے ابتداء کی.جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ولید بن عقبہ کے بعد سعید بن العاص والی کوفہ مقرر ہوئے تھے.انہوں نے شروع سے یہ طریق اختیار کر رکھا تھا کہ صرف شرفاء شہر کو اپنے پاس آنے دیتے تھے مگر کبھی کبھی وہ ایسا بھی کرتے کہ عام مجلس کرتے اور ہر طبقہ کے آدمیوں کو اس وقت پاس آنے کی اجازت ہوتی.ایک دن اسی قسم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت طلحہ کی سخاوت کا ذکر آیا اور کسی نے کہا کہ وہ بہت ہی سخاوت سے کام لیتے ہیں.اس پر سعید کے منہ سے یہ فقرہ نکل گیا کہ ان کے پاس مال بہت ہے وہ سخاوت کرتے ہیں ہمارے پاس بھی مال ہو تا تو
انوار العلوم جلد ۴ ۲۷۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز ہم بھی ویسی ہی داد و دہش کرتے.ایک نوجوان نادانی سے بول پڑا کہ کاش فلاں جاگیر جو اموال شاہی میں سے تھی اور عام مسلمانوں کے فائدہ کے لئے رکھی گئی تھی آپ کے قبضہ میں ہوتی.اس پر اس فتنہ انگیز جماعت کے بعض آدمی جو اس انتظار میں تھے کہ کوئی موقع نکلے تو ہم اپنے خیالات کا اظہار کریں غصہ کا اظہار کرنے لگے اور ظاہر کرنے لگے کہ یہ بات اس شخص نے سعید والی کوفہ کے اشارہ سے کسی ہے.اور اس لئے کسی ہے تاکہ ان اموال کو ہضم کرنے کے لئے راستہ تیار کیا جاوے اور اٹھ کر اس شخص کو سعید کے سامنے ہی مارنا شروع کر دیا.اس کا باپ مدد کے لئے اٹھا تو اسے بھی خوب پیٹا سعید ان کو روکتے رہے مگر انہوں نے ان کی بھی نہ سنی اور مار مار کر دونوں کو بے ہوش کر دیا.یہ خبر جنب لوگوں کو معلوم ہوئی کہ سعید کے سامنے بعض لوگوں نے ایسی شرارت کی ہے تو لوگ ہتھیار بند ہو کر مکان پر جمع ہو گئے.مگر ان لوگوں نے سعید کی منت و سماجت کی اور ان سے معافی مانگی اور پناہ کے طلب گار ہوئے.ایک عرب کی فیاضی اور پھر وہ بھی قریش کی ایسے موقع پر کب برداشت کر سکتی تھی کہ دشمن پناہ مانگے اور وہ اس سے انکار کر دے.سعید نے باہر نکل کر لوگوں سے کہہ دیا کہ کچھ لوگ آپس میں لڑ پڑے تھے معاملہ کچھ نہیں اب سب خیر ہے.لوگ تو اپنے گھروں میں لوٹ گئے اور ان لوگوں نے پھر وہی بے تکلفی شروع کی.مگر جب سعید کو یقین ہو گیا کہ اب ان لوگوں کے لئے کوئی خطرہ کی بات نہیں ان کو رخصت کر دیا.اور جن لوگوں کو پیٹا گیا تھا ان سے کہہ دیا کہ چونکہ میں ان لوگوں کو پناہ دے چکا ہوں ان کے قصور کا اعلان نہ کرو اس میں میری سبکی ہو گی.ہاں یہ تسلی رکھو کہ آئندہ یہ لوگ میری مجلس میں نہ آسکیں گے.ان مفسدوں کی اصل غرض تو پوری ہو چکی تھی.یعنی نظم اسلامی میں فساد پیدا کرنا.اب انہوں نے گھروں میں بیٹھ کر علی الاعلان حضرت عثمان اور سعید کی برائیاں بیان کرنی شروع کر دیں.لوگوں کو ان کا یہ رویہ بہت برا معلوم ہوا اور انہوں نے سعید سے شکایت کی کہ یہ اس طرح شرارت کرتے ہیں اور حضرت عثمان کی اور آپ کی برائیاں بیان کرتے ہیں اور امت اسلامیہ کے اتحاد کو توڑنا چاہتے ہیں.ہم یہ بات برداشت نہیں کر سکتے آپ اس کا انتظام کریں.انہوں نے کہا کہ آپ لوگ خود تمام واقعات سے حضرت عثمان " کو اطلاع دیں.آپ کے حکم کے ماتحت انتظام کیا جاوے گا.تمام شرفاء نے حضرت عثمان کو واقعات سے اطلاع دی.اور آپ نے سعید کو حکم دیا کہ اگر روسائے کوفہ اس امر پر متفق ہوں تو ان لوگوں کو شام
العلوم جلد ۲۷۶ اسلام میں اختلافات کا آغاز کی طرف جلا وطن کر دو.اور امیر معاویہ کے پاس بھیج دو.ادھر امیر معاویہ کو لکھا کہ کچھ لوگ جو کھلے طور پر فساد پر آمادہ ہیں وہ آپ کے پاس کوفہ سے آدیں گے ان کے گزارہ کا انتظام کر دیں اور ان کی اصلاح کی تجویز کریں.اگر درست ہو جاویں اور اصلاح کر لیں تو ان کے ساتھ نرمی کرو اور ان کے پچھلے قصوروں سے درگزر کرو اور اگر شرارت پر مصر رہیں تو پھر ان کو شرارت کی سزا دو.حضرت عثمان کا یہ حکم نہایت دانائی پر مبنی تھا کیونکہ ان لوگوں کا کوفہ میں رہنا ایک طرف تو ان لوگوں کے جو شوں کو بھڑکانے والا تھا جو ان کی شرارتوں پر پوری طرح آگاہ تھے اور خطرہ تھا کہ وہ جوش میں آکر ان کو تکلیف نہ پہنچا بیٹھیں اور دوسری طرف اس لحاظ سے بھی مضر تھا کہ وہ لوگ وہاں کے باشندے اور ایک حد تک صاحب رسوخ تھے.اگر وہاں رہتے تو اور بہت سے لوگوں کو خراب کرنے کا موجب ہوتے ؟ مگر یہ حکم اس وقت جاری ہوا جب اس کا چنداں فائدہ نہ ہو سکتا تھا.اگر ابن عامر والی بصرہ ابن السوداء کے متعلق بھی حضرت عثمان سے مشورہ طلب کرتا اور اس کے لئے بھی اسی قسم کا حکم جاری کیا جاتا تو شاید آئندہ حالات ان حالات سے بالکل مختلف ہوتے.مگر مسلمانوں کی حالت اس وقت اس بات کی مقتضی تھی کہ ایسی ہی قضاء د قدر جاری ہو اور وہی ہوا.یہ لوگ جو جلا وطن کئے گئے اور جن کو ابن سبا کی مجلس کا رکن کہنا چاہئے تعداد میں دس کے قریب تھے (گو ان کی صحیح تعداد میں اختلاف ہے) حضرت معاویہ نے ان کی اصلاح کے لئے پہلے تو یہ تدبیر کی کہ ان سے بہت اعزاز و احترام سے پیش آئے.خود ان کے ساتھ کھانا کھاتے اور اکثر فرصت کے وقت ان کے پاس جا کر بیٹھتے.چند دن کے بعد انہوں نے ان کو نصیحت کی اور کہا کہ میں نے سنا ہے کہ تم لوگوں کو قریش 10 سے نفرت ہے ایسا نہیں چاہئے.اللہ تعالیٰ نے عرب کو قریش کے ذریعہ سے ہی عزت دی ہے.تمہارے حکام تمہارے لئے ایک ڈھال کے طور پر ہیں.پس ڈھالوں سے جدا نہ ہو وہ تمہارے لئے تکالیف برداشت کرتے اور تمہاری فکر رکھتے ہیں.اگر اس امر کی قدر نہ کرو گے تو خدا تعالی تم پر ایسے حکام مقرر کرے گا جو تم پر خوب ظلم کریں گے اور تمہارے صبر کی قدر نہ کریں گے اور تم اس دنیا میں عذاب میں مبتلاء ہو گے.اور اگلے جہان میں بھی ان ظالم بادشاہوں کے ظلم کی سزا میں شریک ہو گے کیونکہ تم ہی ان کے قیام کے باعث ہنو گے.حضرت معاویہ کی اس نصیحت کو سن کر ان میں سے ایک نے جواب دیا
لوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز کہ قریش کا ذکر چھوڑو نہ وہ پہلے تعداد میں ہم سے زیادہ تھے نہ اب ہیں.اور جس ڈھال کا تم نے ذکر کیا ہے وہ چھنی تو ہم کو ہی ملے گی.حضرت معاویہ نے فرمایا کہ معلوم ہوا تم لوگ بے وقوف بھی ہو.میں تم کو اسلام کی باتیں سناتا ہوں تم جاہلیت کا زمانہ یاد دلاتے ہو.سوال قریش کی قلت و کثرت کا نہیں بلکہ اس ذمہ داری کا ہے جو اسلام نے ان پر ڈالی ہے.قریش بے شک تھوڑے ہیں.مگر جب خدا تعالٰی نے دین کے ساتھ ان کو عزت دی ہے اور ہمیشہ سے مکہ مکرمہ کے تعلق کے باعث ان کی حفاظت کرتا چلا آیا ہے تو خدا کے فضل کا کون مقابلہ کر سکتا ہے.جب وہ کافر تھے تو اس ادنی تعلق کے باعث اس نے ان کی حفاظت کی.اب وہ مسلمان ہو کر اس کے دین کے قائم کرنے والے ہو گئے ہیں تو کیا خدا تعالیٰ ان کو ضائع کر دے گا؟ یاد رکھو تم لوگ اسلام کے غلبہ کو دیکھ کر ایک رو میں مسلمان ہو گئے تھے اب شیطان تم کو اپنا ہتھیار بنا کر اسلام کو تباہ کرنے کے لئے تم سے کام لے رہا ہے اور دین میں رخنہ ڈالنا چاہتا ہے.مگر تم لوگ جو فتنہ کھڑا کرو گے اس سے بڑے فتنہ میں اللہ تعالیٰ تم کو ڈالے گا.میرے نزدیک تم ہر گز قابل تو التفات لوگ نہیں ہو جن لوگوں نے خلیفہ کو تمہاری نسبت لکھا انہوں نے غلطی کی.نہ تم سے کسی نفع کی امید کی جا سکتی ہے نہ نقصان کی.ان لوگوں نے حضرت معاویہ کی تمام نصائح سن کر کہا کہ ہم تم کو حکم دیتے ہیں کہ تم اپنے عمدہ سے علیحدہ ہو جاؤ.حضرت معاویہ نے جواب دیا کہ اگر خلیفہ اور ائمہ المسلمین کہیں تو میں آج الگ ہو جاتا ہوں تم لوگ ان معاملات میں دخل دینے والے کون ہو.میں تم لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اس طریق کو چھوڑ دو اور نیکی اختیار کرو.اللہ تعالیٰ اپنے کام آپ کرتا ہے.اگر تمہاری رائے پر کام چلتے تو اسلام کا کام تباہ ہو جاتا.تم لوگ دراصل دین اسلام سے بیزار ہو.تمہارے دلوں میں اور ہے اور زبانوں پر اور.مگر اللہ تعالیٰ تمہارے ارادوں اور مخفی منصوبوں کو ایک دن ظاہر کر کے چھوڑے گا.غرض دیر تک حضرت معاویہ ان کو سمجھاتے رہے اور یہ لوگ اپنی بیہودگی میں بڑھتے گئے.حتی کہ آخر لاجواب ہو کر حضرت معاویہ پر حملہ کر دیا اور ان کو مارنا چاہا.حضرت معاویہؓ نے ان کو ڈانٹا اور کہا یہ کوفہ نہیں شام ہے.اگر شام کے لوگوں کو معلوم ہوا تو جس طرح سعید کے کہنے سے کوفہ کے لوگ چپ کر رہے تھے یہ خاموش نہ رہیں گے بلکہ عوام الناس جوش میں میرے قول کی بھی پرواہ نہیں کریں گے اور تمہاری تکہ بوٹی کر دیں گے.یہ کہہ کر حضرت معاویہ مجلس سے اٹھ گئے اور ان لوگوں کو شام سے واپس کو فہ بھیج دیا.اور حضرت عثمان کو لکھ دیا کہ یہ لوگ بوجہ
انوار العلوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز اپنی حماقت اور جہالت کے قابل التفات ہی نہیں ہیں.ان کی طرف توجہ ہی نہیں کرنی چاہئے اور سعید والی کوفہ کو بھی لکھ دیا جاوے کہ ان کی طرف توجہ نہ کرے.یہ بے دین لوگ ہیں اسلام سے متنفر ہیں.اہل ذمہ کا مال لوٹنا چاہتے ہیں اور فتنہ ان کی عادت ہے ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں کہ بلا کسی دوسرے کی مدد کے خود کوئی نقصان پہنچا سکیں.حضرت معاویہ کی یہ رائے بالکل درست تھی مگر وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کے علاقہ سے باہر مصر میں چھپی ہوئی ایک روح ہے.جو ان سب لوگوں سے کام لے رہی ہے اور ان کا جاہل ہونا اور اُجڈ ہو نائی اس کے کام کے لئے محمد ہے.وہ لوگ جب دمشق سے نکلے تو انہوں نے کوفہ کا ارادہ ترک کر دیا.کیونکہ وہاں کے لوگ ان کی شرارتوں سے واقف تھے.اور ان کو خوف تھا کہ وہاں ان کو نقصان پہنچے گا اور جزیرہ کی طرف چلے گئے.وہاں کے گورنر عبدالرحمن تھے جو اس مشہور سپہ سالار کے خلف الرشید تھے جو جرأت اور دلیری میں تمام دنیا کے لئے ایک روشن مثال قائم کر گیا ہے یعنی خالد بن ولید - جس وقت ان کو ان لوگوں کی آمد کا حال معلوم ہوا تو انہوں نے فوراً ان کو بلوایا اور کہا میں نے تمہارے حالات سنے ہیں.خدا مجھے نامراد کرے اگر میں تم کو درست نہ کر دوں.تم جانتے ہو کہ میں اس شخص کا بیٹا ہوں جس نے فتنہ ارتداد کو دور کیا تھا اور بڑی بڑی مشکلات سے کامیاب نکلا تھا.میں دیکھوں گا کہ تم جس طرح معاویہ اور سعید سے باتیں کیا کرتے تھے مجھے سے بھی کر سکتے ہو.سنو! اگر کسی شخص کے سامنے تم نے یہاں کوئی فتنہ کی بات کی تو پھر ایسی سزا دوں گا کہ تم یاد ہی رکھو گے یہ کہہ کر ان کو نظر بند کر دیا اور ہمیشہ اپنے ساتھ رہنے کا حکم دیا.جب سفر پر جاتے تو ان کو اپنے ساتھ پا پیادہ لے جاتے اور ان سے دریافت کرتے کہ اب تمہارا کیا حال ہے؟ جس کو نیکی درست نہیں کرتی اس کا علاج سزا ہوتی ہے.تم لوگ اب کیوں نہیں بولتے ؟ وہ لوگ ندامت کا اظہار کرتے اور اپنی شرارت پر تو بہ کرتے.اسی طرح کچھ مدت گزرنے پر عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے خیال کیا کہ ان لوگوں کی اصلاح ہو گئی ہے اور ان میں سے ایک شخص مالک نامی کو حضرت عثمان کی خدمت میں بھیجا کہ وہاں جا کر معافی مانگو دہ حضرت عثمان کے پاس آیا اور توبہ کی اور اظہار ندامت کیا اور اپنے اور اپنے ساتھیوں کے لئے معافی مانگی.انہوں نے ان کو معاف کر دیا اور ان سے دریافت کیا کہ وہ کہاں رہنا چاہتے ہیں مالک نے کہا کہ اب ہم عبدالرحمن بن خالد کے پاس رہنا چاہتے ہیں.حضرت عثمان نے اجازت
انوار العلوم جلد ۴ ۲۷۹ دی اور وہ شخص واپس عبدالرحمن بن خالد کے پاس چلا گیا.اسلام میں اختلافات کا آغاز اس شخص کے عبدالرحمن بن خالد کے پاس ہی رہنے کی خواہش سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کا دل ضرور صاف ہو چکا تھا.کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تا تو وہ ایسے آدمی کے پاس جو شرارت کو ایک منٹ کے لئے روا نہ رکھتا تھا واپس جانے کی خواہش نہ کرتا.مگر بعد کے واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی توبہ بالکل عارضی تھی اور حضرت معاویہ کا یہ خیال درست تھا کہ یہ بے وقوف لوگ ہیں اور صرف ہتھیار بن کر کام کر سکتے ہیں عبد اللہ بن سبا اس عرصہ میں خاموش نہ بیٹھا ہوا تھا بلکہ اس نے کچھ مدت سے یہ رویہ اختیار کیا تھا کہ اپنے ایجنٹوں کو تمام علاقوں میں بھیجتا اور اپنے خیالات پھیلا تا.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ شخص غیر معمولی عقل و دانش کا آدمی تھا.وہ احکام جو اس نے اپنے ایجنٹوں کو دیئے اس کے دماغ کی بناوٹ پر خوب روشنی ڈالتے ہیں.جب یہ اپنے نائب روانہ کرتا تو ان کو ہدایت دیتا کہ اپنے خیالات کو فور الوگوں کے سامنے نہ پیش کر دیا کرو بلکہ پہلے وعظ و نصیحت سے کام لیا کرو.اور شریعت کے احکام لوگوں کو سنایا کرو.اور اچھی باتوں کا حکم دیا کرو اور بری باتوں سے روکا کرو.جب لوگ تمہارا یہ طریق دیکھیں گے تو ان کے دل تمہاری طرف مائل ہو جائیں گے اور تمہاری باتوں کو شوق سے سنا کریں گے اور تم پر اعتبار پیدا ہو جائے گا.تب عمدگی سے ان کے سامنے اپنے خاص خیالات پیش کرو وہ بہت جلد قبول کر لیں گے.اور یہ بھی احتیاط رکھو کہ پہلے حضرت عثمان کے خلاف باتیں نہ کرنا.بلکہ ان کے نائبوں کے خلاف لوگوں کے جوش کو بھڑ کا نا.اس سے اس کی غرض یہ تھی کہ حضرت عثمان سے خاص مذہبی تعلق ہونے کی وجہ سے لوگ ان کے خلاف باتیں سن کر بھڑک اٹھیں گے.لیکن امراء کے خلاف باتیں سننے سے ان کے مذہبی احساسات کو تحریک نہ ہوگی اس لئے ان کو قبول کر لیں گے.جب اس طرح ان کے دل سیاہ ہو جائیں گے اور ایک خاص پارٹی میں شمولیت کر لینے سے جو ضد پیدا ہو جاتی ہے وہ پیدا ہو جاوے گی تو پھر حضرت عثمان کے خلاف ان کو بھڑکانا بھی آسان ہو گا.اس شخص نے جب یہ دیکھا کہ والیان صوبہ جات کی برائیاں جب کبھی بیان کی جاتی ہیں تو سمجھ دار لوگ ان کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ اپنے مشاہدہ کی بناء پر ان شکایات کو جھوٹا اور بے حقیقت جانتے ہیں اور ملک میں عام جوش نہیں پھیلتا.تو اس نے ایک اور خطرناک تدبیر اختیار کی اور وہ یہ کہ اپنے نائیوں کو حکم دیا کہ بجائے اس کے کہ ہر جگہ کے
انوار العلوم جلد ۴ ۲۸۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز گورنروں کو انہی کے علاقوں میں بدنام کرنے کی کوشش کریں ان کی برائیاں لکھ کر دوسرے علاقوں میں بھیجیں.کیونکہ دوسرے علاقوں کے لوگ اس جگہ کے حالات سے ناواقفیت کی وجہ سے ان کی باتوں کو آسانی سے قبول کر لیں گے.چنانچہ اس مشورہ کے ماتحت ہر جگہ کے مفسد اپنے علاقوں کے حکام کی جھوٹی شکایات اور بناوٹی مظالم لکھ کر دوسرے علاقوں کے ہمدردوں کو بھیجتے اور وہ ان خطوں کو پڑھ کر لوگوں کو سناتے اور بوجہ غیر ممالک کے حالات سے ناواقفیت کے بہت سے لوگ ان باتوں کو سچ یقین کر لیتے اور افسوس کرتے کہ فلاں فلاں ملک کے ہمارے بھائی سخت مصیبتوں میں مبتلاء ہیں اور ساتھ شکر بھی کرتے کہ خدا کے فضل سے ہمارا والی اچھا ہے ہمیں کوئی تکلیف نہیں.اور یہ نہ جانتے کہ دوسرے ممالک کے لوگ اپنے آپ کو آرام میں اور ان کو دکھ میں سمجھتے اور اپنی حالت پر شکر اور ان کی حالت پر افسوس کرتے ہیں.مدینہ کے لوگوں کو چونکہ چاروں اطراف سے خطوط آتے تھے.ان میں سے جو لوگ ان خطوط کو صحیح تسلیم کر لیتے وہ یہ خیال کر لیتے کہ شاید سب ممالک میں ظلم ہی ہو رہا ہے اور مسلمانوں پر سخت مصائب ٹوٹ رہے ہیں غرض عبد اللہ بن سبا کا یہ فریب بہت کچھ کار گر ثابت ہوا.اور اسے اس ذریعہ سے ہزاروں ایسے ہمد رد مل گئے جو بغیر اس تدبیر کے ملنے مشکل تھے.جب یہ شورش حد سے بڑھنے لگی.اور صحابہ کرام کو بھی ایسے خطوط ملنے لگے جن میں گورنروں کی شکایات درج ہوتی تھیں تو انہوں نے مل کر حضرت عثمان سے عرض کیا کہ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ باہر کیا ہو رہا ہے.انہوں نے فرمایا کہ جو رپورٹیں مجھے آتی ہیں وہ تو خیر و عافیت ہی ظاہر کرتی ہیں.صحابہ نے جواب دیا کہ ہمارے پاس اس اس مضمون کے خطوط باہر سے آتے ہیں اس کی تحقیق ہونی چاہئے.حضرت عثمان نے اس پر ان سے مشورہ طلب کیا کہ تحقیق کس طرح کی جاوے.اور ان کے مشورہ کے مطابق اسامہ بن زید کو بصرہ کی طرف محمد بن مسلم کو کوفہ کی طرف عبد اللہ بن عمرؓ کو شام کی طرف عمار بن یا سر کو مصر کی طرف بھیجا کہ وہاں کے حالات کی تحقیق کر کے رپورٹ کریں کہ آیا واقع میں امراء رعیت پر ظلم کرتے ہیں اور تعدی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کے حقوق مار لیتے ہیں.اور ان چاروں کے علاوہ کچھ اور لوگ بھی متفرق بلاد کی طرف بھیجے تاکہ وہاں کے حالات سے اطلاع دیں.(طبری جلد نمبر4 صفحہ ۲۹۴۳ مطبوعہ بیروت) یہ لوگ گئے اور تحقیق کے بعد واپس آکر ان سب نے رپورٹ کی کہ سب جگہ امن ہے
علوم جلد ۴ ۲۸۱ اسلام میں اختلافات کا آغاز اور مسلمان بالکل آزادی سے زندگی بسر کر رہے ہیں.اور ان کے حقوق کو کوئی تلف نہیں کرتا اور حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں.مگر عمار بن یاسر نے دیر کی اور ان کی کوئی خبرنہ آئی عمار بن یاسر نے کیوں دیر کی اس کا ذکر تو پھر کروں گا.پہلے میں اس تحقیقی دند اور اس کی تحقیق کی اہمیت کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ اس وفد کے حالات کو اچھی طرح سمجھ لینے سے اس فتنہ کی اصل حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے.سب سے پہلی بات جو قابل غور ہے یہ ہے کہ اس وفد کے تینوں سرکردہ جو لوٹ کر آئے اور جنہوں نے آکر رپورٹ دی وہ کس پایہ کے آدمی تھے.کیونکہ تحقیق کرنے والے آدمیوں کی حیثیت سے اس تحقیق کی حیثیت معلوم ہوتی ہے.اگر اس وفد میں ایسے لوگ بھیجے جاتے جو حضرت عثمان یا آپ کے نواب سے کوئی غرض رکھتے یا جن کی دینی و دنیاوی حیثیت اس قدر اعلیٰ اور ارفع نہ ہوتی کہ وہ حکام سے خوف کھادیں یا کوئی طمع رکھیں تو کہا جا سکتا تھا کہ یہ لوگ کسی لالچ یا خوف کے باعث حقیقت کے بیان کرنے سے اعراض کر گئے.مگر ان لوگوں پر اس قسم کا اعتراض ہر گز نہیں پڑ سکتا اور ان لوگوں کو اس کام کے لئے منتخب کر کے حضرت عثمان نے اپنی نیک نیتی کا ایک بین ثبوت دے دیا ہے.اسامہ جن کو بصرہ کی طرف بھیجا گیا تھا وہ شخص ہے کہ جو نہ صرف یہ کہ اول المؤمنین حضرت زید کے لڑکے ہیں بلکہ رسول کریم ان کے بڑے مقربین اور پیاروں میں سے ہیں.اور آپ ہی وہ شخص ہیں جن کو رسول کریم ﷺ نے اس لشکر عظیم کی پہ سالاری عطا کی جسے آپ اپنی مرض موت میں تیار کرا رہے تھے اور اس میں حضرت عمرہ جیسے بڑے بڑے صحابیوں کو آپ کے ماتحت کیا اور آنحضر ا کا یہ انتخاب صرف دلداری کے طور پر ہی نہ تھا بلکہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ وہ بڑے بڑے کاموں کے اہل تھے.رسول کریم ان سے اس قدر محبت کرتے کہ دیکھنے والے فرق نہ کر سکتے تھے کہ آپ ان کو زیادہ چاہتے ہیں یا حضرت امام حسن کو.محمد بن مسلم بھی جن کو کوفہ بھیجا گیا جلیل القدر صحابہ میں سے تھے اور صحابہ میں خاص عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور نہایت صاحب رسوخ تھے.حضرت عبد اللہ بن عمر جن کو شام کی طرف روانہ کیا گیا ایسے لوگوں میں سے ہیں جن کے تعارف کی ضرورت ہی نہیں.آپ سابق بالعبد مسلمانوں میں سے تھے.اور زہد و تقوی اللہ میں آپ کی وہ شان تھی کہ اکابر صحابہ بھی آپ کی ان خصوصیات کی وجہ سے آپ کا خاص
انوار العلوم جلد ۴ ۲۸۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز ادب کرتے تھے.حضرت علی کے بعد اگر کسی صحابی پر صحابہ اور دوسرے بزرگوں کی نظر خلافت کے لئے پڑی تو آپ پر پڑی.مگر آپ نے دنیا سے علیحدگی کو اپنا شعار بنا رکھا تھا.شعائر دینیہ کے لئے آپ کو اس قدر غیرت تھی کہ بعض دفعہ آپ نے خود عمر بن الخطاب سے بڑی سختی سے بحث کی.غرض حق گوئی میں آپ ایک کھینچی ہوئی تلوار تھے.آپ کا انتخاب شام کے لئے نہایت ہی اعلیٰ انتخاب تھا.کیونکہ بوجہ اس کے کہ حضرت معاویہ دیر سے شام کے حاکم تھے اور وہاں کے لوگوں پر ان کا بہت رعب تھا اور بوجہ ان کی ذکاوت کے ان کے انتظام کی تحقیق کرنا کسی معمولی آدمی کا کام نہ تھا.اس جگہ کسی دوسرے آدمی کا بھیجا جانا فضول تھا.اور لوگوں کو اس کی تحقیق پر تسلی بھی نہ ہوتی مگر آپ کی سبقت ایمانی اور غیرت اسلامی اور حریت اور تقوی و زہد ایسے کمالات تھے کہ ان کے سامنے معاویہ دم نہ مار سکتے تھے اور نہ ایسے شخص کی موجودگی میں حضرت معاویہ کا رعب کسی شخص پر پڑ سکتا تھا.غرض جو لوگ تحقیق کے لئے بھیجے گئے تھے وہ نہایت عظیم الشان اور بے تعلق لوگ تھے اور ان کی تحقیق پر کسی شخص کو اعتراض کی گنجائش حاصل نہیں پس ان تینوں صحابہ کا مع ان دیگر آدمیوں کے جو دوسرے بلاد میں بھیجے گئے متفقہ طور پر فیصلہ دینا کہ ملک میں بالکل امن و امان ہے.ظلم و تعدی کا نام و نشان نہیں.حکام عدل و انصاف سے کام لے رہے ہیں اور اگر ان پر کوئی الزام ہے تو یہ کہ لوگوں کو حدود کے اندر رہنے پر مجبور کرتے ہیں ایک ایسا فیصلہ ہے جس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں رہتی.اور صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب فساد چند شریر النفس آدمیوں کی شرارت و عبد اللہ بن سبا کی انگیخت کا نتیجہ تھا.ورنہ حضرت عثمان اور ان کے نواب ہر قسم کے اعتراضات سے پاک تھے.حق یہی ہے کہ یہ سب شورش ایک خفیہ منصوبہ کا نتیجہ تھی جس کے اصل بانی یہودی تھے.جن کے ساتھ طمع دنیا دی میں مبتلاء بعض مسلمان جو دین سے نکل چکے تھے شامل ہو گئے تھے ورنہ امرائے بلاد کا نہ کوئی قصور تھا نہ وہ اس فتنہ کے باعث تھے.ان کا صرف اسی قدر قصور تھا کہ ان کو حضرت عثمان نے اس کام کے لئے مقرر کیا تھا اور حضرت عثمان کا یہ قصور تھا کہ باوجود پیرانہ سالی اور نقاہت بدنی کے اتحاد اسلام کی رسی کو اپنے ہاتھوں میں پکڑے بیٹھے تھے اور امت اسلامیہ کا بوجھ اپنی گردن پر اٹھائے ہوئے تھے اور شریعت اسلام کے قیام کی فکر رکھتے تھے.اور متمردین اور ظالموں کو اپنی حسب خواہش کمزوروں اور بے وارثوں پر ظلم و
انوار العلوم جلد ۲۸۳ اسلام میں اختلافات کا آغاز تعدی کرنے نہ دیتے تھے چنانچہ اس امر کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ کوفہ میں انہی فساد چاہنے والوں کی ایک مجلس بیٹھی اور اس میں افساد امر المسلمین پر گفتگو ہوئی تو سب لوگوں نے بالاتفاق یہی رائے دی لَا وَاللَّهِ لَا يَرْفَعُ رَأْسَ مَا دَامَ عُثْمَانُ عَلَى النَّاسِ یعنی کوئی شخص اس وقت تک سر نہیں اٹھا سکتا جب تک کہ عثمان کی حکومت ہے.عثمان ہی کا ایک وجود تھا جو سرکشی سے باز رکھے ہوئے تھا.اس کا درمیان سے ہٹانا آزادی سے اپنی مرادیں پوری کرنے کے لئے ضروری تھا.میں نے بتایا تھا کہ عمار بن یا سر جن کو مصر کی طرف روانہ کیا گیا تھا وہ واپس نہیں آئے.ان کی طرف سے خبر آنے میں اس قدر دیر ہوئی کہ اہل مدینہ نے خیال کیا کہ کہیں مارے گئے ہیں.مگر اصل بات یہ تھی کہ وہ اپنی سادگی اور سیاست سے ناواقفیت کی وجہ سے ان مفسدوں کے پنجہ میں پھنس گئے تھے جو عبد اللہ بن سبا کے شاگرد تھے.مصر میں چونکہ خود عبد اللہ بن سبا موجود تھا اور وہ اس بات سے غافل نہ تھا کہ اگر اس تحقیقاتی وفد نے تمام ملک میں امن و امان کا فیصلہ دیا تو تمام لوگ ہمارے مخالف ہو جاویں گے اس وفد کے بھیجے جانے کا فیصلہ ایسا اچانک ہوا تھا کہ دوسرے علاقوں میں وہ کوئی انتظام نہیں کر سکا تھا.مگر مصر کا انتظام اس کے لئے آسان تھا جو نہی عمار بن یاسر مصر میں داخل ہوئے اس نے ان کا استقبال کیا.اور والی مصر کی برائیاں اور مظالم بیان کرنے شروع کئے.وہ اس کے لسانی سحر کے اثر سے محفوظ نہ رہ سکے.اور بجائے اس کے کہ ایک عام بے لوث تحقیق کرتے.والی مصر کے پاس گئے ہی نہیں اور نہ عام تحقیق کی بلکہ اسی مفسد گروہ کے ساتھ چلے گئے اور انہی کے ساتھ مل کر اعتراض کرنے شروع کر دیئے.صحابہ میں سے اگر کوئی شخص اس مفسد گروہ کے پھندے میں پھنسا ہوا یقینی طور پر ثابت ہوتا ہے تو وہ صرف عمار بن یاسر ہیں.ان کے سوا کوئی معروف صحابی اس حرکت میں شامل نہیں ہوا.اور اگر کسی کی شمولیت بیان کی گئی ہے تو دوسری روایات سے اس کا رد بھی ہو گیا ہے.عمار بن یاسر کا ان لوگوں کے دھوکے میں آجانا ایک خاص وجہ سے تھا اور وہ یہ کہ جب وہ مصر پہنچے تو وہاں پہنچتے ہی بظاہر ثقہ نظر آنے والے اور نہایت طرار دلتان لوگوں کی ایک جماعت ان کو ملی جس نے نہایت عمدگی سے ان کے پاس والی مصر کی شکایات بیان کرنی شروع کیں.اتفاقا والی مصر ایک ایسا شخص تھا جو کبھی رسول کریم کا سخت مخالف رہ چکا تھا اور اس کی
رالعلوم جلدم ۳۸۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز نسبت آپ نے فتح مکہ کے وقت حکم دیا تھا کہ خواہ خانہ کعبہ ہی میں کیوں نہ ملے اسے قتل کر دیا جائے.اور گو بعد میں آپ نے اسے معاف کر دیا مگر اس کی پہلی مخالفت کا بعض صحابہ کے دل پر جن میں عمار بھی شامل تھے اثر باقی تھا پس ایسے شخص کے خلاف باتیں سن کر عمار بہت جلد متأثر ہو گئے اور ان الزامات کو جو اس پر لگائے جاتے تھے صحیح تسلیم کر لیا اور احساس طبعی سے فائدہ اٹھا کر سبائی یعنی عبداللہ بن سبا کے ساتھی اس کے خلاف اس بات پر خاص زور دیتے تھے.پس حضرت عثمان کی نیک نیتی اور اخلاص کا اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ باوجود اس کے کہ سوائے ایک شخص کے سب وفدوں نے حکام کی بریت کا فیصلہ دیا تھا.حضرت عثمان نے اس ایک مخالف رائے کی قدر کر کے ایک خط تمام علاقوں کے لوگوں کی طرف بھیجا جس کا مضمون یہ تھا کہ میں جب سے خلیفہ ہوا ہوں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر میرا عمل ہے اور میرے رشتہ داروں کا عام مسلمانوں سے زیادہ کوئی حق نہیں.مگر مجھے مدینے کے رہنے والے بعض لوگوں سے معلوم ہوا ہے کہ حکام لوگوں کو مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے میں اس کے خط کے ذریعے سے عام اعلان کرتا ہوں کہ جس کسی کو خفیہ طور پر گالی دی گئی ہو یا پیٹا گیا ہو وہ حج کے موقع پر مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے اور جو کچھ اس پر ظلم ہوا ہو خواہ میرے ہاتھوں سے خواہ میرے عاملوں کے ذریعے سے اس کا بدلہ وہ مجھ سے اور میرے نائیوں سے لے لے یا معاف کر! دے.اللہ تعالٰی صدقہ دینے والوں کو اپنے پاس سے جزاء دیتا ہے.یہ مختصر لیکن درد ناک خط جس وقت تمام ممالک میں منبروں پر پڑھا گیا تو عالم اسلام ایک سرے سے دو سرے سرے تک ہل گیا اور سامعین بے اختیار رو پڑے اور سب نے حضرت عثمان کے لئے دعائیں کیں اور ان فتنہ پردازوں پر جو اس ملت اسلام کے درد رکھنے والے اور اس کا بوجھ اٹھانے والے انسان پر حملہ کر رہے تھے اور اس کو دکھ دے رہے تھے اظہار افسوس کیا گیا.(طبری جلد نمبر صفحہ ۲۹۴۴ مطبوعہ بیرات) حضرت عثمان نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنے عمال کو ان الزامات کے جواب دینے کے لئے جو ان پر لگائے جاتے تھے خاص طور پر طلب کیا.جب سب والی جمع ہو گئے تو آپ نے ان کی سے کہا کہ یہ کیا بات ہے کہ آپ لوگوں کے خلاف الزام لگائے جاتے ہیں.مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں یہ باتیں درست ہی نہ ہوں.اس پر ان سب نے جواب میں عرض کیا کہ آپ نے معتبر آدمیوں کو بھیج کر دریافت کرا لیا ہے کہ کوئی ظلم نہیں ہوتا.نہ خلاف شریعت کوئی کام ہوتا
۲۸۵ اسلام میں اخر اختلافات کا آغاز ہے.اور آپ کے بھیجے ہوئے معتبروں نے سب لوگوں سے حالات دریافت کئے.ایک شخص بھی ان کے سامنے آکر ان شکایات کی صحت کا جو بیان کی جاتی ہیں مدعی نہیں ہوا.پھر شک کی کیا گنجائش ہے.خدا کی قسم ہے کہ ان لوگوں نے سچ سے کام نہیں لیا اور نہ تقوی اللہ سے کام لیا ہے.اور ان کے الزامات کی کوئی حقیقت نہیں.ایسی بے بنیاد باتوں پر گرفت جائز نہیں ہو سکتی نہ ان پر اعتبار کیا جا سکتا ہے.حضرت عثمان نے فرمایا کہ پھر مجھے مشورہ دو کہ کیا کیا جاوے.اس پر مختلف مشورے آپ کو دیئے گئے.جن سب کا ماحصل یہی تھا کہ آپ سختی کے موقع پر سختی سے کام لیں اور ان فسادیوں کو اس قدر ڈھیل نہ دیں.اس سے ان میں اور دلیری پیدا ہوتی ہے.شریر صرف سزا سے ہی درست ہو سکتا ہے نرمی اس سے کرنی چاہئے جو نرمی سے فائدہ اٹھائے.حضرت عثمان نے سب کا مشورہ سن کر فرمایا.جن فتنوں کی خبر رسول کریم ﷺ دے چکے ہیں وہ تو ہو کر رہیں گے ہاں نرمی سے اور محبت سے ان کو ایک وقت تک روکا جا سکتا ہے.پس میں سوائے حدود اللہ کے ان لوگوں سے نرمی ہی سے معاملہ کروں گا تاکہ کسی شخص کی میرے خلاف حجت حقہ نہ ہو.اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں سے بھلائی میں کوئی کمی نہیں کی.مبارک ہو عثمان کے لئے اگر وہ فوت ہو جاوے اور فتنوں کا سیلاب جو اسلام پر آنے والا ہے وہ ابھی شروع نہ ہوا ہو.پس جاؤ اور لوگوں سے نرمی سے معاملہ کرو اور ان کے حقوق ان کو دو اور ان کی غلطیوں سے در گزر کرو.ہاں اگر اللہ تعالٰی کے احکام کو کوئی توڑے تو ایسے شخصوں سے نرمی اور عفو کا معاملہ نہ کرو.حج سے واپسی پر حضرت معاویہ بھی حضرت عثمان کے ساتھ مدینہ آئے کچھ دن ٹھہر کر واپس جانے لگے تو آپ نے حضرت عثمان سے علیحدہ مل کر درخواست کی کہ فتنہ بڑھتا ہوتا ہے.اگر اجازت ہو تو میں اس کے متعلق کچھ عرض کروں.آپ نے فرمایا کہو.اس پر انہوں نے کہا کہ اول میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ میرے ساتھ شام چلے چلیں کیونکہ شام میں ہر طرح سے امن ہے اور کسی قسم کا فساد نہیں ایسا نہ ہو کہ یک دم کسی قسم کا فساد اٹھے اور اس وقت کوئی انتظام نہ ہو سکے.حضرت عثمان نے ان کو جواب دیا کہ میں رسول کریم ﷺ کی ہمسائیگی کو کسی صورت میں نہیں چھوڑ سکتا خواہ جسم کی دھجیاں اڑا دی جائیں.حضرت معاویہ نے کہا کہ پھر دوسرا مشورہ یہ ہے کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ایک دستہ شامی فوج کا آپ
م جلد ۴ ۲۸۶ اسلام میں اختلافات کا آغاز کی حفاظت کے لئے بھیج دوں.ان لوگوں کی موجودگی میں کوئی شخص شرارت نہیں کر سکے گا حضرت عثمان نے جواب دیا کہ نہ میں عثمان کی جان کی حفاظت کے لئے اس قدر بوجھ بیت المال پر ڈال سکتا ہوں اور نہ یہ پسند کر سکتا ہوں کہ مدینہ کے لوگوں کو فوج رکھ کر تنگی میں ڈالوں.اس پر حضرت معاویہؓ نے عرض کی کہ پھر تیسری تجویز یہ ہے کہ صحابہ کی موجودگی میں لوگوں کو جرأت ہے کہ اگر عثمان نہ رہے تو ان میں سے کسی کو آگے کھڑا کر دیں گے.ان لوگوں کو مختلف ملکوں میں پھیلا دیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جن لوگوں کو رسول کریم نے جمع کیا ہے میں ان کو پراگندہ کر دوں.اس پر معاویہ رو پڑے اور عرض کی کہ اگر ان تدابیر میں سے جو آپ کی حفاظت کے لئے میں نے پیش کی ہیں آپ کوئی بھی قبول نہیں کرتے تو اتنا تو کیجئے کہ لوگوں میں اعلان کر دیجئے کہ اگر میری جان کو کوئی نقصان پہنچے تو معاویہ کو میرے قصاص کا حق ہو گا.شاید لوگ اس سے خوف کھا کر شرارت سے باز رہیں.حضرت عثمان نے جواب دیا کہ معاویہ " ! جو ہوتا ہے ہو کر رہے گا میں ایسا نہیں کر سکتا کیونکہ آپ کی طبیعت سخت ہے ایسا نہ ہو آپ مسلمانوں پر سختی کریں اس پر حضرت معاویہ روتے ہوئے آپ کے پاس سے اٹھے اور کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہ آخری ملاقات ہو.اور باہر نکل کر صحابہ سے کہا کہ اسلام کا دارو مدار آپ لوگوں پر ہے حضرت عثمان اب بالکل ضعیف ہو گئے ہیں اور فتنہ بڑھ رہا ہے آپ لوگ ان کی نگہداشت رکھیں.یہ کہہ کر معاویہ شام کی طرف روانہ ہو گئے.صوبہ جات کے عمال کا اپنے اپنے علاقوں سے غائب رہنا ایسا موقع نہ تھا جسے عبداللہ بن سبا نہی جانے دیتا.اس نے فوراً چاروں طرف ڈاک دوڑا دی کہ یہ موقع ہے اس وقت ہمیں کچھ کرنا چاہیئے ایک دن مقرر کر کے یکدم اپنے اپنے علاقہ کے امراء پر حملہ کر دیا جائے مگر ابھی مشورے ہی ہو رہے تھے کہ امراء واپس آگئے.دوسری جگہوں کے سبائی تو مایوس ہو گئے مگر کوفہ کے سبائی (یعنی عبداللہ بن سبا کے ساتھی) جو پہلے بھی عملی فساد میں سب سے آگے قدم رکھنے کے عادی تھے انہوں نے اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہ دیا.یزید بن قیس نامی ایک شخص نے مسجد کوفہ میں جلسہ کیا اور اعلان کیا کہ اب حضرت عثمان کو خلافت سے علیحدہ کر دینا چاہئے.قعقاع بن عمرو جو اس جگہ کی چھاؤنی کے افسر تھے انہوں نے سنا تو آکر اسے گرفتار کرنا چاہا.وہ ان کے سامنے عذر کرنے لگا کہ میں تو اطاعت سے باہر نہیں ہوں.ہم لوگ تو اس لئے جمع
۲۸۷ اسلام میں ان کا آغاز انوار العلوم جلد ہوئے تھے کہ سعید بن العاص کے متعلق جلسہ کر کے درخواست کریں کہ اس کو یہاں سے بلوایا جائے اور کوئی اور افسر مقرر کیا جاوے.انہوں نے کہا کہ اس کے لئے جلسوں کی ضرورت نہیں.اپنی شکایات لکھ کر حضرت عثمان کی طرف بھیج دو.وہ کسی اور شخص کو والی مقرر کر کے بھیج دیں گے.اس میں مشکل کون سی ہے.یہ بات انہوں نے اس لئے کہی کہ زمانہ خلفاء میں لوگوں کے آرام کے خیال سے جب والیوں کے خلاف کوئی تکلیف ہوتی تھی تو اکثر ان کو بدل دیا جاتا تھا.قعقاع کا یہ جواب سن کر یہ لوگ بظاہر منتشر ہو گئے مگر خفیہ طور پر منصوبہ کرتے رہے.آخر یزید بن قیس نے جو اس وقت کوفہ میں سبائیوں کا رئیس تھا ایک آدمی کو خط دے کر حمص کی طرف روانہ کیا اور کہا کہ ان لوگوں کو جو کوفہ سے جلا وطن کئے گئے تھے اور جن کا واقعہ پہلے بیان ہو چکا ہے وہ بلا لائے.وہ خط لے کر ان لوگوں کے پاس گیا.اس خط کا مضمون یہ تھا کہ اہل مصر ہمارے ساتھ مل گئے ہیں اور موقع بہت اچھا ہے یہ خط پہنچتے ہی ایک منٹ کی دیر نہ کرو اور واپس آجاؤ.کس قدر تعجب کی بات ہے کہ خلیفہ وقت سابق بالایمان رسول کریم ﷺ کے داماد کے خلاف جوش ظاہر کرنے والے اور اس پر عیب لگانے والے وہ لوگ ہیں جو خود نمازوں کے تارک ہیں.کیا ہو سکتا ہے کہ اسلام کے لئے غیرت صرف بے دینوں میں پیدا ہو؟ اگر واقع میں حضرت عثمان یا ان کے والیوں میں کوئی نقص ہوتا.کوئی بات خلاف شریعت ہوتی کوئی کمزوری وتی تو اس کے خلاف جوش کا اظہار کرنے والے علی، طلحہ زبیر، سعد بن الوقاص ، عبد اللہ بن عمر اسامہ بن زید عبد اللہ بن عباس ابو موسیٰ اشعری حذیفہ بن الیمان ابو ہریرہ ، عبد الله بن سلام ، عبادہ بن صامت اور محمد بن مسلمہ رضوان اللہ علیم ہوتے نہ کہ یزید بن قیس اور اشتره یہ خط لے کر نامہ بر جزیرہ پہنچا اور جلا وطنان اہل کوفہ کے سپرد کر دیا.جب انہوں نے اس خط کو پڑھا تو سوائے اشتر کے سب نے ناپسند کیا.کیونکہ وہ عبد الرحمن بن خالد کے ہاتھ دیکھ چکے تھے.مگر اشتر جو مدینہ میں جا کر حضرت عثمان سے معافی مانگ کر آیا تھا اس کی توبہ قائم نہ رہی اور اسی وقت کوفہ کی طرف چل پڑا.جب اس کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اشتر واپس چلا گیا تو وہ ڈرے کہ عبدالرحمن ہماری بات پر یقین نہ کریں گے اور سمجھیں گے کہ یہ سب کام ہمارے مشورہ سے ہوا ہے.اس خوف سے وہ بھی نکل بھاگے جب عبد الرحمن بن خالد بن ولید کو
انوار العلوم جلد ۴ ۲۸۸ اسلام میں اختلافات کا آغاز معلوم ہوا تو انہوں نے پیچھے آدمی بھیجے مگر ان کے آدمی ان کو پکڑ نہ سکے مالک الاشتر منزلوں پر منزلیں مارتا ہوا کوفہ پہنچا خالی ہاتھ شہر میں گھسنا اس نے اپنی عزت کے خلاف سمجھا.یہ جزیرہ سے آنے والا شخص جو اپنے ساتھیوں سے ملنے کے لئے دو دو منزلوں کی ایک منزل کرتا چلا آیا تھا.اپنے مدینہ سے آنے کا اعلان کرنے لگا اور لوگوں کو جوش دلانے کے لئے کہنے لگا کہ میں ، ابھی سعید بن العاص سے جدا ہوا ہوں.ان کے ساتھ ایک منزل ہم سفر رہا ہوں.وہ علی ن کہتا ہے کہ میں کوفہ کی عورتوں کی عصمتوں کو خراب کروں گا اور کہتا ہے کہ کوفہ کی جائدادیں قریش کا مال ہیں.اور یہ شعر فخریہ پڑھتا ہے وَيْل لأشْرَافِ النِّسَاءِ مِثْن صَمَحْمَحُ كَا نَّنِي مِنْ جِنِّ الاعلان طبری جلد ۶ صفحه ۲۹۲۹ مطبوعہ بیروت) شریف عورتیں میرے سبب سے مصیبت میں مبتلا ہوں گی.میں ایک ایسا مضبوط آدمی ہوں گویا جنات میں سے ہوں اس کی ان باتوں سے عامہ الناس کی عقل ماری گئی.اور انہوں نے اس کی باتوں پر یقین کر لیا اور آنا فانا ایک جوش پھیل گیا.عقل مندوں اور داناؤں نے بہت سمجھایا کہ یہ ایک فریب ہے اس فریب میں تم نہ آؤ.مگر عوام کے جوش کو کون رو کے ان کی بات ہی کوئی نہ سنتا تھا.ایک آدمی نے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ جو چاہتا ہے کہ سعید بن العاص والی کوفہ کی واپسی اور کسی اور والی کے تقرر کا مطالبہ کرے.اسے چاہئے کہ فورا یزید بن قیس کے ہمراہ ہو جائے اس اعلان پر لوگ دوڑ پڑے اور مسجد میں سوائے داناؤں، شریف آدمیوں اور رؤساء کے اور کوئی نہ رہا.عمر بن الجرید ، سعید کی غیر حاضری میں ان کے قائمقام تھے.انہوں نے جو لوگ باقی رہ گئے تھے ان میں وعظ کہنا شروع کیا کہ اے لوگو! خدا تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو کہ ہم دشمن تھے.اس نے تمہارے دلوں میں اتحاد پیدا کیا اور تم بھائی بھائی ہو گئے.تم ایک ہلاکت کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے خدا تعالیٰ نے تم کو اس سے بچایا پس اس مصیبت میں اپنے آپ کو نہ ڈالو.جس سے خدا تعالیٰ نے تم کو بچایا تھا.کیا اسلام اور کی ہدایت الہی اور سنت رسول کریم ﷺ کے بعد تم لوگ حق کو نہیں پہچانتے اور حق کے دروازہ کی طرف نہیں آتے؟ اس پر قعقاع بن عمرو نے ان سے کہا کہ آپ وعظ سے اس فتنہ کو روکنا چاہتے ہیں یہ امید نہ رکھیں.ان شورشوں کو تلوار کے سوا کوئی چیز نہیں روک سکتی اور وہ زمانہ بعید نہیں کہ تلوار بھی کھینچی جائے گی.اس وقت یہ لوگ بکری کے بچوں کی طرح
۲۸۹ اسلام میں اختلافات کا آغاز چیچنیں گے اور خواہش کریں گے کہ یہ زمانہ پھر لوٹ آوے مگر پھر خدا تعالی قیامت تک یہ نعمت ان کی طرف نہ لوٹائے گا.عوام الناس شہر کے باہر جمع ہوئے اور مدینہ کا رخ کیا اور سعید بن العاص کا انتظار کرنے لگے.جب وہ سامنے آئے تو ان سے کہا کہ آپ واپس چلے جاویں ہمیں آپ کی ضرورت نہیں.سعید نے کہا کہ یہ بھی کوئی دانائی ہے کہ اس قدر آدمی جمع ہو کر اس کام کے لئے باہر نکلے ہو.ایک آدمی کے روکنے کے لئے ہزار آدمی کی کیا ضرورت تھی.یہی کافی تھا کہ تم ایک آدمی خلیفہ کی طرف بھیج دیتے اور ایک آدمی میری طرف روانہ کر دیتے.یہ کہہ کر انہوں نے تو اپنی سواری کو ایڑی لگائی اور مدینہ کی طرف واپس لوٹ گئے تاکہ حضرت عثمان کو خبردار کر دیں.اور یہ لوگ حیران رہ گئے اتنے میں ان کا ایک غلام نظر آیا اس کو ان لوگوں نے قتل کر دیا.سعید بن العاص نے مدینہ پہنچ کر حضرت عثمان کو اس تمام فتنہ سے اطلاع دی.آپ نے فرمایا کہ کیا وہ لوگ میرے خلاف اٹھے ہیں سعید نے کہا کہ وہ ظاہر تو یہ کرتے ہیں کہ والی بد لایا جاوے.انہوں نے دریافت کیا کہ وہ کسے چاہتے ہیں؟ انہوں نے کہا ابو موسیٰ اشعری کو پسند ! کرتے ہیں.حضرت عثمان نے فرمایا ہم نے ابو موسیٰ ابو موسیٰ اشعری کا والی کوفہ مقرر ہونا اشعری کو کوفہ کا والی مقرر کر دیا.اور خدا کی قسم ہے ان لوگوں کو عذر کا کوئی موقع نہ دوں گا اور کوئی دلیل ان کے ہاتھوں میں نہیں آنے دوں گا اور ان کی باتوں پر آنحضرت لا کے حکم کے ماتحت صبر کروں گا یہاں تک کہ وہ وقت آجاوے جس کا یہ ارادہ کرتے ہیں یعنی عثمان کے علیحدہ کرنے کا.اس فتنہ نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ جھوٹ اور فریب سے کسی قسم کا پر ہیز نہیں رکھتے تھے.مالک الاشتر کا جزیرہ سے بھاگے چلے آنا اور مدینہ سے مفسدوں کی سازشوں کا انکشاف آنے کا اظہار کرنا.سعید بن العاص پر جھوٹا الزام لگانا اور شرمناک باتیں اپنے پاس سے بنا کر ان کی طرف منسوب کرنا ایسے امور نہیں ہیں جو ان مفسدوں کے اصل ارادوں اور مخفی خواہشوں کو چُھپا رہنے دیں.بلکہ ان باتوں سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ لوگ اسلام سے بالکل کو رے تھے.اسلام جھوٹ کو جائز نہیں قرار دیتا اور فریب کا روادار نہیں.اتمام لگانا اسلام میں ایک سخت جرم ہے.مگر یہ اسلام کی محبت ظاہر کرنے
وم جلد ۴ • اسلام میں اختلافات کا آغاز والے اور اس کے لئے غیرت کا اظہار کرنے والے جھوٹ بولتے ہیں.اتمام لگاتے ہیں اور ان کی کاموں سے ان کو کوئی عار نہیں معلوم ہوتی.پس ایسے لوگوں کا حضرت عثمان کے خلاف شور مچانا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ کسی حقیقی نقص کی وجہ سے یہ شورش نہیں تھی بلکہ اسلام سے دوری اور بے دینی کا نتیجہ ہے.دوسرا استنباط اس واقعہ سے یہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے پاس حضرت عثمان اور ان کے عمال کے برخلاف ایک بھی واجبی شکایت نہ تھی کیونکہ اگر واقعہ میں کوئی شکایت ہوتی تو ان کو جھوٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی.جھوٹی شکایات کا بنانا ہی اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو حقیقی شکایات نہ تھیں.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اشتر کے آنے سے پہلے جب یزید نے جلسہ کیا ہے تو اس وقت صرف چند سپاہی لوگ ہی اس جلسہ میں شریک ہوئے تھے اور قعقاع کے روکنے پر یہ لوگ ڈر گئے اور جلسہ کرنا انہوں نے موقوف کر دیا تھا.مگر اسی مہینہ کے اندر اندر ہم دیکھتے ہیں کہ اشتر کے جھوٹ سے متأثر ہو کر کوفہ کے عامۃ الناس کا ایک کثیر گروہ ان لوگوں کے ساتھ مل کر سعید کو روکنے اور دوسرے والی کے طلب کرنے کے لئے کوفہ سے نکل پڑا.یہ امر اس بات کی شہادت ہے کہ پہلے لوگ ان کی باتوں میں نہ آتے تھے.کیونکہ ان کے پاس ان کو جوش دلانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا.اشتر نے جب ایسا ذریعہ ایجاد کیا جو لوگوں کی غیرت کو بھڑ کانے والا تھا تو عامتہ الناس کا ایک حصہ فریب میں آگیا اور ان کے ساتھ مل گیا.اس فتنہ کے اظہار سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ ان لوگوں کی اصل مخالفت حضرت عثمان سے تھی نہ کہ ان کے عمال سے.کیونکہ ابتداء یہ لوگ آپ کے ہی خلاف جوش بھڑکانا چاہتے تھے مگر جب دیکھا کہ لوگ اس بات میں ان کے شریک نہیں ہو سکتے بلکہ ان کی مخالفت پر آمادہ ہو جاتے ہیں.تب امراء کے خلاف جوش بھڑکانا شروع کر دیا.ایک جماعت کثیر کے ساتھ مدینہ کی طرف رخ کرنا بھی ثابت کرتا ہے کہ ان کی نیت حضرت عثمان کے متعلق اچھی نہ سعید بن العاص کے آزاد کردہ غلام کو بلاوجہ قتل کر دینے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے مقاصد کے پورا کرنے کے لئے ان لوگوں کو کسی جرم کے ارتکاب سے اجتناب نہ تھا.معلوم ہوتا ہے کہ اب یہ لوگ اس بات کو محسوس کرنے لگ گئے تھے کہ اگر چندے اور دیر ہوئی تو امت اسلامیہ پوری طرح ہمارے فتنہ کی اہمیت سے آگاہ ہو جاوے گی.اس لئے وہ جس طرح بھی ہو اپنے مدعا کو جلد سے جلد پورا کرنے کی فکر میں تھے.مگر حضرت عثمان نے اپنی
لوم جلد ۴ ۲۹۱ اسلام میں اختلافات کا آغاز دانائی سے ایک دفعہ پھر ان کے عذرات کو توڑ دیا اور ابو موسیٰ اشعری " کو والی مقرر کر کے فورا ان لوگوں کو اطلاع دی.سعید بن العاص کے واپس چلے جانے اور ان کے ارادوں سے اہل مدینہ کو اطلاع دے دینے سے ان کی امیدوں پر پہلے ہی پانی پھر چکا تھا اور یک دم مدینہ پر قبضہ کر لینے کے منصوبے جو سوچ رہے تھے باطل ہو چکے تھے اور یہ لوگ واپس ہونے پر مجبور ہو چکے تھے.اب ابو موسیٰ اشعری کے والی مقرر ہونے پر ان کے عذرات بالکل ہی ٹوٹ گئے.کیونکہ یہ لوگ ایک مدت سے ان کی ولایت کے طالب تھے.ابو موسیٰ اشعری کو جب معلوم ہوا کہ ان کو کوفہ کا والی مقرر کیا گیا ہے تو انہوں نے سب لوگوں کو جمع کیا اور کہا کہ اے لوگو! ایسے کاموں کے لئے پھر کبھی نہ نکلنا اور جماعت اور اطاعت کو اختیار کرو اور صبر سے کام لو اور جلد بازی سے بچو.کیونکہ اب تم میں ایک امیر موجود ہے یعنی میں امیر مقرر ہوا ہوں.اس پر ان لوگوں نے درخواست کی کہ آپ ہمیں نماز پڑھا ئیں تو انہوں نے اس سے انکار کر دیا.اور فرمایا کہ نہیں یہ کبھی نہیں ہو سکتا.جب تک تم لوگ حضرت عثمان کی کامل اطاعت حاکم وقت کی اطاعت ضروری ہے اور ان کے احکام کے قبول کرنے کا اقرار نہ کرو گے میں تمہارا امام جماعت نہیں بنوں گا.اس پر ان لوگوں نے اس امر کا وعدہ کیا کہ وہ آئندہ پوری طرح اطاعت کریں گے اور ان کے احکام کو قبول کریں گے تب حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ان کو نماز پڑھائی.اسی طرح حضرت ابو موسیٰ نے ان کو کہا کہ سنو میں نے رسول کریم سے سنا ہے کہ جو کوئی ایسے وقت میں کہ لوگ ایک امام کے ماتحت ہوں ان میں تفرقہ ڈالنے کے لئے اور ان کی جماعت کو پراگندہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جاوے اسے قتل کر دو خواہ وہ کوئی ہی کیوں نہ ہو.(مسلم کتاب الامارة باب حكم من فرق المسلمين و هو مجتمع) اور رسول كريم نے امام کے ساتھ اس کے عادل ہونے کی شرط نہیں لگائی یعنی تم لوگ یہ نہیں کہہ سکتے حضرت عثمان عادل نہیں.کیونکہ اگر یہ مان لیا جاوے تو بھی تمہارا یہ فعل جائز نہیں.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے عادل کی شرط نہیں لگائی بلکہ صرف یہ فرمایا ہے کہ لوگوں پر کوئی حاکم ہو.یہ خیالات ہیں ان لوگوں کے جنہوں نے اپنی عمریں خدمت اسلام کے لئے خرچ کر دی تھیں اور جنہوں نے اسلام کو آنحضرت ا کے منہ سے سنا تھا اور آپ کے سامنے ان پر
۲۹۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز عمل کر کے سند قبولیت حاصل کی تھی.وہ لوگ ان مفسدوں کے پیچھے نماز پڑھنا تو الگ رہا ان کا امام بننا بھی پسند نہیں کرتے تھے اور ان کو واجب القتل جانتے تھے.کیا ان لوگوں کی نسبت کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ لوگ فتنہ عثمان میں شامل تھے یا یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت عثمان اور ان کے عمال حقوق رعایا کو تلف کرتے تھے یا ان واقعات کی موجودگی میں قبول کیا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کی خاطر یہ مفسد فساد برپا کر رہے تھے.نہیں بلکہ یہ فسادی جماعت صحابہ پر حسد کر کے فساد ہ آمادہ تھے اور اپنے دلی خیالات کو چھپاتے تھے حکومت اسلام کی بربادی ان کا اصل مقصد تھا.اور یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا تھا جب تک حضرت عثمان کو درمیان سے نہ ہٹایا جاوے.بعض جاہل یا بے دین مسلمان بھی ان کے اس فریب کو نہ سمجھ کر خود غرضی یا سادگی کے باعث ان کے ساتھ مل گئے تھے.حضرت ابو موسیٰ اشعری کے والی مقرر ہو جانے پر ان مفسدوں کی ایک اور سازش لوگوں کے لئے فتنہ برپا کرنے کی کوئی وجہ باقی نہ رہی تھی لیکن اس فتنہ کے اصل محرک اس امر کو پسند نہ کر سکتے تھے کہ ان کی تمام کوششیں اس طرح برباد ہو جاویں.چنانچہ خط و کتابت شروع ہوئی اور فیصلہ کیا گیا کہ سب ملکوں کی طرف سے کچھ لوگ وفد کے طور پر مدینہ منورہ کو چلیں.وہاں آپس میں آئندہ طریق عمل کے متعلق مشورہ بھی کیا جاوے اور حضرت عثمان سے بعض سوال کئے جاویں تاکہ وہ باتیں تمام اقطار عالم میں پھیل جاویں اور لوگوں کو یقین ہو جاوے کہ حضرت عثمان " پر جو الزامات لگائے جاتے تھے وہ پایہ ثبوت کو پہنچا دیئے گئے ہیں.یہ مشورہ کر کے یہ لوگ گھروں سے نکلے اور مدینے کی طرف سب نے رخ کیا.جب مدینہ کے قریب پہنچے تو حضرت عثمان کو ان کی آمد کا علم ہوا.آپ نے دو آدمیوں کو بھیجا کہ وہ ان کا بھید لیں اور ان کی آمد کی اصل غرض دریافت کر کے اطلاع دیں.یہ دونوں گئے اور مدینہ سے باہر اس قافلہ سے جاملے ان لوگوں نے ان دونوں مخبروں سے باتوں باتوں میں اپنے حالات بیان کر دیئے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ کیا اہل مدینہ میں سے بھی کوئی شخص ان کے ساتھ ہے جس پر ان مفسدوں کے گروہ نے کہا کہ وہاں تین شخص ہیں ان کے سوا کوئی چوتھا شخص ان کا ہمدرد نہیں.ان دونوں نے دریافت کیا کہ پھر تمہارا کیا ارادہ ہے.انہوں نے کہا کہ ارادہ یہ ہے کہ ہم مدینہ جا کر حضرت عثمان سے بعض ایسے امور کے متعلق گفتگو کریں گے جو پہلے سے ہم نے لوگوں کے دلوں میں بٹھا چھوڑے ہیں.پھر ہم اپنے
۲۹۳ اسلام میں اختلافات کا آغاز ملکوں کو واپس جاویں گے اور لوگوں سے کہیں گے کہ ہم نے حضرت عثمان پر بہت الزام لگائے اور ان کی سچائی ثابت کر دی.مگر انہوں نے ان باتوں کے چھوڑنے سے انکار کر دیا اور توبہ نہیں کی.پھر ہم حج کے بہانہ سے نکلیں گے اور مدینہ پہنچ کر آپ کا احاطہ کر لیں گے.اگر آپ نے خلافت سے علیحدگی اختیار کر لی تب تو خیر ورنہ آپ کو قتل کر دیں گے.یہ دونوں مخبر پوری طرح ان کا حال لیکر واپس گئے اور حضرت عثمان کو سازش کا انکشاف سب حال سے اطلاع دی.آپ ان لوگوں کا حال سن کر ہنس پڑے اور خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی! ان لوگوں کو گمراہی سے بچالے.اگر تو نہ بچاوے گا تو یہ لوگ برباد ہو جاویں گے.پھر ان تینوں شخصوں کی نسبت جو مدینہ والوں میں سے ان لوگوں کے ساتھ تھے فرمایا کہ عمار کو تو یہ غصہ ہے کہ اس نے عباس بن عقبہ بن ابی لہب پر حملہ کیا تھا اور اس کو زجر کی تھی.اور محمد بن ابی بکر متکبر ہو گیا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب اس پر کوئی قانون نہیں چلتا.اور محمد بن ابی حذیفہ خواہ مخواہ اپنے آپ کو مصیبت میں ڈال رہا ہے.پھر آپ نے ان مفسدوں کو بھی بلوایا اور آنحضرت ا کے صحابہ کو بھی جمع کیا.جب سب لوگ جمع ہو گئے تو آپ نے ان لوگوں کو حضرت عثمان ” کا مفسدوں کو بلوانا سب حال سنایا اور وہ دونوں مخبر بھی بطور گواہ کھڑے ہوئے.اور گواہی دی.اس پر سب صحابہ نے فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو قتل کر دیجئے.کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو شخص ایسے وقت میں کہ ایک امام موجود ہو اپنی اطاعت یا کسی اور کی اطاعت کے لئے لوگوں کو بلا دے اس پر خدا کی لعنت ہو.تم ایسے شخص کو قتل کر رو خواہ کوئی ہو.(مسلم کتاب الامارة باب حكم من فرق المسلمين وهو مجتمع) اور حضرت عمر کا قول یاد دلایا کہ میں تمہارے لئے کسی ایسے شخص کا قتل جائز نہیں سمجھتا جس میں میں شریک نہ ہوں.یعنی سوائے حکومت کے اشارہ کے کسی شخص کا قتل جائز نہیں.حضرت عثمان نے صحابہ کا یہ فتویٰ سن کر فرمایا کہ نہیں ہم ان کو معاف کریں گے اور ان کے عذروں کو قبول کریں گے اور اپنی ساری کوشش سے ان کو سمجھا دیں گے اور کسی شخص کی مخالفت نہیں کریں گے.جب تک وہ کسی حد شرعی کو نہ توڑے یا اظہار کفر نہ کرے.پھر فرمایا کہ ان لوگوں نے کچھ باتیں حضرت عثمان کا اتہامات سے بریت ثابت کرنا بیان کی ہیں جو تم کو بھی معلوم ہیں مگر
اسلام میں اختلافات کا آغاز ۲۹۴ ۴ باب التقصير فى الـ ان کا خیال ہے کہ وہ ان باتوں کے متعلق مجھ سے بحث کریں تاکہ واپس جا کر کہہ سکیں کہ ہم نے ان امور کے متعلق عثمان سے بحث کی اور وہ ہار گئے.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں پوری نماز ادا کی حالانکہ رسول کریم ال سفر میں نماز قصر کیا کرتے تھے.اتر مذی ابواب السفر في السفر، مگر میں نے صرف منی میں پوری پڑھی ہے.اور وہ بھی دو وجہ سے.ایک تو یہ کہ میری وہاں جائداد تھی اور میں نے وہاں شادی کی ہوئی تھی.دوسرے یہ کہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ چاروں طرف سے لوگ ان دنوں حج کے لئے آئے ہیں.ان میں سے ناواقف لوگ کہنے لگیں گے کہ خلیفہ تو دو ہی رکعت پڑھتا ہے دو ہی رکعت ہو گی.کیا یہ بات درست نہیں؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.آپ نے فرمایا دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ میں نے رکھ مقرر کرنے کی بدعت جاری کی ہے.حالانکہ یہ الزام غلط ہے.رکھ مجھ سے پہلے مقرر کی گئی تھی حضرت عمر نے اس کی ابتداء کی تھی.اور میں نے صرف صدقہ کے اونٹوں کی زیادتی پر اس کو وسیع کیا ہے اور پھر رکھ میں جو زمین لگائی گئی ہے وہ کسی کا مال نہیں ہے اور میرا اس میں کوئی فائدہ نہیں میرے تو صرف دو اونٹ ہیں حالانکہ جب میں خلیفہ ہوا تھا اس وقت میں سب عرب سے زیادہ مال دار تھا اب صرف دو اونٹ ہیں جو حج کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ درست نہیں ؟ صحابہ کرام نے فرمایا ہاں درست ہے.پھر فرمایا یہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں کو حاکم بناتا ہے.حالانکہ میں ایسے ہی لوگوں کو حاکم بنا تا ہوں جو نیک صفات نیک اطوار ہوتے ہیں اور مجھ سے پہلے بزرگوں نے میرے مقرر کردہ والیوں سے زیادہ نو عمر لوگوں کو حاکم مقرر کیا تھا اور رسول کریم و پر اسامہ بن زید کے سردار لشکر مقرر کرنے پر اس سے زیادہ اعتراض کئے گئے تھے جو اب مجھ پر کئے جاتے ہیں.کیا یہ درست نہیں؟ صحابہ نے جواب دیا کہ ہاں درست ہے.یہ لوگوں کے سامنے عیب تو بیان کرتے ہیں مگر اصل واقعات نہیں بیان کرتے.غرض اسی کی طرح حضرت عثمان نے تمام اعتراضات ایک ایک کر کے بیان کئے اور ان کے جواب بیان کئے.صحابہ برابر زور دیتے کہ ان کو قتل کر دیا جائے.مگر حضرت عثمان نے ان کی یہ بات نہ مانی اور ان کو چھوڑ دیا.طبری کہتا ہے کہ ابى الْمُسْلِمُونَ إِلَّا قَتْلَهُمْ وَ أَبِي إِلَّا تَرْكَهُمْ (طبرى جلدها صفحه ۲۹۵۴ مطبوعہ بیروت) یعنی باقی سب مسلمان تو ان لوگوں کے قتل کے سوا کسی بات پر راضی نہ ہوتے تھے.مگر حضرت عثمان سزا دینے پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے.
لعلوم جلد ۴۳ ۲۹۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مفسد لوگ کس حضرت عثمان کا مفسدوں پر رحم کرنا کس قسم کے فریب اور دھوکے سے کام کرتے تھے اور اس زمانہ میں جب کہ پریس اور سامان سفر کا وہ انتظام نہ تھا جو آج کل ہے کیسا آسان تھا کہ یہ لوگ ناواقف لوگوں کو گمراہ کر دیں.مگر اصل میں ان لوگوں کے پاس کوئی معقول وجہ فساد کی نہ تھی.نہ حق ان کے ساتھ تھا نہ یہ حق کے ساتھ تھے.ان کی تمام کارروائیوں کا دارو مدار جھوٹ اور باطل پر تھا اور صرف حضرت عثمان کا رحم ان کو بچائے ہوئے تھا.ورنہ مسلمان ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے.وہ کبھی برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ وہ امن و امان جو انہوں نے اپنی جانیں قربان کر کے حاصل کیا تھا چند شریروں کی شرارتوں سے اس طرح جاتا رہے اور وہ دیکھتے تھے کہ ایسے لوگوں کو اگر جلد سزا نہ دی گئی تو اسلامی حکومت تہ و بالا ہو جائے گی.مگر حضرت عثمان رحم مجسم تھے وہ چاہتے تھے کہ جس طرح ہو ان لوگوں کو ہدایت مل جائے اور یہ کفر پر نہ مریں پس آپ ڈھیل دیتے تھے اور ان کے صریح بغاوت کے اعمال کو محض ارادہ بغاوت سے تعبیر کر کے سزا کو پیچھے ڈالتے چلے جاتے تھے.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ ان لوگوں سے بالکل متنفر تھے کیونکہ اول تو خود وہ بیان کرتے ہیں کہ صرف تین اہل مدینہ ہمارے ساتھ ہیں اس سے زیادہ نہیں اگر اور صحابہ بھی ان کے ساتھ ہوتے تو وہ ان کا نام لیتے.دوسرے صحابہ نے اپنے عمل سے یہ بھی ثابت کر دیا کہ وہ ان لوگوں کے افعال سے متنفر تھے.اور ان کے اعمال کو ایسا خلاف شریعت سمجھتے تھے کہ سزا قتل سے کم ان کے نزدیک جائز ہی نہ تھی.اگر صحابہ ان کے ساتھ ہوتے یا اہل مدینہ ان کے ہم خیال ہوتے تو کسی مزید حیلہ و بہانہ کی ان لوگوں کو کچھ ضرورت ہی نہیں تھی.اسی وقت حضرت عثمان کو قتل کر دیتے اور ان کی جگہ کسی اور شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لیتے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل میں کامیاب ہوتے خود ان کی جائیں صحابہ کی شمشیر ہائے برہنہ سے خطرہ میں پڑ گئی تھیں.اور صرف اسی رحیم و کریم وجود کی عنایت و مہربانی سے یہ لوگ بیچ کر واپس جاسکے جس کے قتل کا ارادہ ظاہر کرتے تھے اور جس کے خلاف اس قدر فساد برپا کر رہے تھے.ان مفسدوں کی کینہ وری اور تقویٰ سے بُعد پر تعجب آتا ہے کہ اس واقعہ سے انہوں نے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھایا ان کے ایک ایک اعتراض کا خوب جواب دیا گیا.اور سب الزام غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیئے گئے.حضرت عثمان کا رحم و کرم انہوں نے
انوار العلوم جلدم ۲۹۶ اسلام میں اختلافات کا آغاز دیکھا اور ہر ایک شخص کی جان اس پر گواہی دے رہی تھی کہ اس شخص کا مثیل اس وقت دنیا کے پردہ پر نہیں مل سکتا.مگر بجائے اس کے کہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتے جفاؤں پر پشیمان ہوتے ، اپنی غلطیوں پر نادم ہوتے ، اپنی شرارتوں سے رجوع کرتے ، یہ لوگ غیظ و غضب کی آگ میں اور بھی زیادہ جلنے لگے اور اپنے لاجواب ہونے کو اپنی ذلت اور حضرت عثمان کے عفو کو اپنی حسن تدبیر کا نتیجہ سمجھتے ہوئے آئندہ کے لئے اپنی بقیہ تجویز کے پورا کرنے کی تدابیر سوچتے ہوئے واپس لوٹ گئے.واپس جا کر ان لوگوں نے پھر خط و کتابت شروع کی مفسدوں کی ایک اور گہری سازش اور آخر فیصلہ کیا کہ شوال میں اپنی پہلی تجویز کے.مطابق حج کے ارادہ سے قافلہ بن کر نکلیں اور مدینہ میں جا کر یک دم تمام انتظام کو درہم برہم کر دیں اور اپنی مرضی کے مطابق نظام حکومت کو بدل دیں.اس تجویز کے مطابق شوال یعنی چاند کے دسویں مہینے حضرت عثمان کی خلافت کے بارھویں سال، چھتیسویں سال ہجری میں یہ لوگ تین قافلے بن کر اپنے گھروں سے نکلے.ایک قافلہ بصرہ سے ایک کوفہ سے اور ایک مصر سے.پچھلی دفعہ کی ناکامی کا خیال کر کے اور اس بات کو مد نظر رکھ کر کہ یہ کوشش آخری کوشش ہے.عبد اللہ بن سبا خود بھی مصر کے قافلہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ ہوا.اس رئیس المفسدین کا خود باہر نکلنا اس امر کی علامت تھا کہ یہ لوگ اب ہر ایک ممکن تدبیر سے اپنے مدعا کے حصول کی کوشش کریں گے.چونکہ ہر ایک گروہ نے اپنے علاقہ میں حج پر جانے کے ارادہ کا اظہار کیا تھا کچھ اور لوگ بھی ان کے ساتھ بارادہ حج شامل ہو گئے اور اس طرح اصل ارادے ان لوگوں کے عامتہ المسلمین سے مخفی رہے.مگر چونکہ حکام کو ان کی اندرونی سازش کا علم عبداللہ بن ابی سرح والی مصر نے ایک خاص آدمی بھیج کر حضرت عثمان کو اس قافلہ اور اس کے مخفی ارادہ کی اطلاع قبل از وقت دے دی جس سے اہل مدینہ پہلے ہوشیار ہو گئے.اس جگہ ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب تک اہل مدینہ اور خصوصاً صحابہ ان لوگوں کے تین دفعہ آنے پر ان کو قتل کرنا چاہتے تھے اور ان کو یہ معلوم تھا کہ ان کا حج کے بہانہ سے آکر فساد کرنے کا ارادہ حضرت عثمان " پر ظاہر ہے.تو پھر کیوں انہوں نے کوئی اور تدبیر اختیار نہ کی اور اسی پہلی تدبیر کے مطابق جن کا علم حضرت عثمان کو ہو چکا تھا سفر کیا.کیا اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ در حقیقت اہل مدینہ ان لوگوں کے ساتھ تھے اسی وجہ سے یہ لوگ ڈرے نہ تھے.اس سوال کا تھا
العلوم جلد ۴ ۲۹۷ اسلام میں اختلافات کا آغاز جواب یہ ہے کہ بے شک ان کی یہ دلیری ظاہر کرتی ہے کہ ان لوگوں کو اپنی کامیابی کا پورا یقین تھا.مگر اس کی یہ وجہ نہیں کہ صحابہ یا اہل مدینہ ان کے ساتھ تھے یا ان سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے.بلکہ جیسا کہ خود ان کے بیان سے ثابت ہے کہ صرف تین شخص مدینہ کے ان کے ساتھ تھے اور جیسا کہ واقعات سے ثابت ہے.صحابہ اور دیگر اہل مدینہ ان لوگوں سے سخت بیزار تھے.پس ان کی دلیری کا یہ باعث تو نہیں ہو سکتا کہ وہ لوگ ان سے کسی قسم کی ہمدردی کا اظہار کرتے تھے ان کی دلیری کا اصل باعث اول تو حضرت عثمان کا رحم تھا.یہ لوگ سمجھتے تھے کہ اگر ہم کامیاب ہو گئے تو فھو المراد.اور اگر ناکام رہے تو حضرت عثمان سے درخواست رحم کر کے سزا سے بچ جائیں گے.دوسرے گو صحابہ اور اہل مدینہ کا طریق عمل یہ پچھلی دفعہ دیکھ ا تھے.اور ان کو معلوم تھا کہ حضرت عثمان کو ہماری آمد کا علم ہے مگر یہ لوگ خیال کرتے تھے کہ حضرت عثمان اپنے حلم کے باعث ان کے خلاف لڑنے کے لئے کوئی لشکر نہیں جمع کریں گے اور صحابہ ہمارا مقابلہ نہیں کریں گے.کیونکہ یہ لوگ اپنے نفس پر قیاس کرکے سمجھتے تھے کہ صحابہ ظاہر میں حضرت عثمان سے اخلاص کا اظہار کرتے ہیں ورنہ اصل میں ان کی ہلاکت کو پسند کرتے ہیں.اور اس خیال کی یہ وجہ تھی کہ یہ لوگ یہی ظاہر کیا کرتے تھے کہ صحابہ کے حقوق کی حفاظت کے لئے ہی ہم سب کچھ کر رہے ہیں.پس ان کو خیال تھا کہ صحابہ ہمارے اس فریب سے متاثر ہیں اور دل میں ہمیں سے ہمدردی رکھتے ہیں.جونہی اس لشکر کے مدینہ کے قریب پہنچنے کی اطلاع ملی صحابہ مفسدوں کا مدینہ میں پہنچنا اور اہل مدینہ جو ارد گرد میں جائدادوں پر انتظام کے لئے گئے ہوئے تھے مدینہ میں جمع ہو گئے اور لشکر کے دو حصے کئے گئے ایک حصہ تو مدینہ کے باہر ان لوگوں کے مقابلہ کرنے کے لئے گیا اور دوسرا حصہ حضرت عثمان کی حفاظت کے لئے شہر میں رہا.جب تینوں قافلے مدینے کے پاس پہنچے تو اہل بصرہ نے ذو خشب مقام پر ڈیرہ لگایا ، اہل کوفہ نے اعوص پر اور اہل مصر نے ذوالمروہ پر.اور مشورہ کیا گیا کہ اب ان کو کیا کرنا چاہئے.گو اس لشکر کی تعداد کا اندازہ اٹھارہ سو آدمی سے لے کر تین ہزار تک کیا جاتا ہے.(دوسرے حجاج جو ان کو قافلہ حج خیال کر کے ان کے ساتھ ہو گئے تھے وہ علیحدہ تھے مگر پھر بھی یہ لوگ سمجھتے تھے کہ دلاوران اسلام کا مقابلہ اگر وہ مقابلہ پر آمادہ ہوئے ان کے لئے آسان نہ ہو گا.اس لئے مدینہ میں داخل ہوتے ہی پہلے اہل مدینہ کی رائے معلوم کرنا ضروری سمجھتے تھے.چنانچہ دو شخص زیاد بن النفر
دار العلوم جلد ۴ ۲۹۸ اسلام میں اختلافات کا آغاز اور عبد اللہ بن الاصم نے اہل کوفہ اور اہل بصرہ کو مشورہ دیا کہ جلدی اچھی نہیں وہ اگر جلدی کریں گے تو اہل مصر کو بھی جلدی کرنی پڑے گی اور کام خراب ہو جائے گا.انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اہل مدینہ نے ہمارے مقابلہ کے لئے لشکر تیار کیا ہے.اور جب ہمارے پورے حالات معلوم نہ ہونے کے باوجود انہوں نے اس قدر تیاری کی ہے تو ہمارا پورا حال معلوم ہونے پر تو وہ اور بھی زیادہ ہوشیاری سے کام لیں گے اور ہماری کامیابی خواب و خیال ہو جائے گی.پس بہتر ہے کہ ہم پہلے جا کر وہاں کا حال معلوم کریں.اور اہل مدینہ سے بات چیت کریں.اگر ان لوگوں نے ہم سے جنگ جائز نہ سمجھی اور جو خبریں ان کی نسبت ہمیں معلوم ہوئی ہیں وہ غلط ثابت ہو ئیں تو پھر ہم واپس آکر سب حالات سے تم کو اطلاع دیں گے اور مناسب کارروائی عمل میں لائی جائے گی.سب نے اس مشورہ کو پسند کیا.اور یہ دونوں شخص مدینہ گئے اور پہلے رسول کریم ﷺ کی ازواج مطہرات سے ملے.اور ان سے مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت مانگی اور کہا کہ ہم لوگ صرف اس لئے آئے ہیں کہ حضرت عثمان سے بعض والیوں کے بدل دینے کی درخواست کریں اور اس کے سوا ہمارا اور کوئی کام نہیں.سب از اواج مطہرات نے ان کی بات کے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا کہ اس بات کا نتیجہ اچھا نہیں.پھر وہ باری باری حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے یہیں وجہ اپنے آنے کی بیان کر کے اور اپنی نیک نیتی کا اظہار کر کے مدینہ میں آنے کی اجازت چاہی.مگر ان تینوں اصحاب نے بھی ان کے قریب میں آنے سے انکار کیا اور صاف جواب دیا کہ ان کی اس کارروائی میں خیر نہیں ہے.(طبری جلد 4 صفحہ ۲۹۵۶ مطبوعہ بیروت) یہ دونوں آدمی مدینہ کے حالات معلوم کر کے اور اپنے مقصد میں ناکام ہو کر جب واپس گئے اور سب حال سے اپنے ہمراہیوں کو آگاہ کیا تو کوفہ، بصرہ اور مصر تینوں علاقوں کے چند سر بر آورده آدمی آخری کوشش کرنے کے لئے مدینہ آئے.اہل مصر عبد اللہ بن سبا کی کے ماتحت حضرت علی کو وصی رسول اللہ خیال کرتے تھے اور ان کے سوا کسی اور کے ہاتھ پر بیعت کرنے کو تیار نہ تھے.مگر اہل کوفہ اور اہل بصرہ کو فساد میں تو ان کے شریک تھے مگر مذہباً ان کے ہم خیال نہ تھے.اور اہل کوفہ زبیر بن عوام اور اہل بصرہ طلحہ رضی اللہ عنہ کی بیعت کو اپنی اغراض کے لئے مفید سمجھتے تھے.اس اختلاف کے باعث ہر ایک قافلہ کے قائم مقاموں نے الگ الگ ان اشخاص کا رخ کیا جن کو وہ حضرت عثمان کے بعد مسند خلافت پر بٹھانا چاہتے تھے.
۲۹۹ اسلام میں اختلافات کا آغاز اہل مصر حضرت علی کے پاس گئے وہ اس وقت اہل مصر کا حضرت علی کے پاس جانا مدینہ سے باہر ایک حصہ لشکر کی کمان کر رہے تھے اور ان کا سر کچلنے پر آمادہ کھڑے تھے ان لوگوں نے آپ کے پاس پہنچ کر عرض کیا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بد انتظامی کے باعث اب خلافت کے قابل نہیں.ہم ان کو علیحدہ کرنے کے لئے آئے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آپ ان کے بعد اس عہدہ کو قبول کریں گے انہوں نے ان کی بات سن کر اس غیرت دینی سے کام لے کر جو آپ کے رتبہ کے آدمی کا حق تھا ان لوگوں کو دھتکار دیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور فرمایا کہ سب نیک لوگ جانتے ہیں کہ رسول کریم نے پیشگوئی کے طور پر ذوالمروہ اور ذو خشب (جہاں ان لوگوں کا ڈیرہ تھا) پر ﷺ ڈیرہ لگانے والے لشکروں کا ذکر فرما کر ان پر لعنت فرمائی تھی.(البداية والنهاية جزء منا مطبوعہ بیروت (۱۹۶۶ء) پس خدا تمہارا برا کرے تم واپس چلے جاؤ.اس پر ان لوگوں نے کہا کہ بہت اچھا ہم واپس چلے جاویں گے اور یہ کہہ کر واپس چلے گئے.اہل کوفہ حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے اہل کوفہ کا حضرت زبیر کے پاس جانا عرض کیا کہ آپ عمدہ خلافت کے خالی ہونے پر اس عہدہ کو قبول کریں.انہوں نے بھی ان سے حضرت علی کا سا سلوک کیا اور بہت سختی سے پیش آئے اور اپنے پاس سے دھتکار دیا اور کہا کہ سب مؤمن جانتے ہیں کہ رسول کریم نے فرمایا ہے کہ ذر المروہ اور ذو الخشب اور اعوص پر ڈیرہ لگانے والے لشکر لعنتی ہوں گے.اسی طرح اہل بصرہ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کے اہل بصرہ کا حضرت طلحہ کے پاس جانا پاس آئے اور انہوں نے بھی ان کو رد کر دیا اور رسول کریم ﷺ کی پیشگوئی اور آپ کے ان پر لعنت کرنے سے ان کو آگاہ کیا.(طبری جلد 4 صفحه ۲۹۵۶ ، ۲۹۵۷ مطبوعہ بیروت) جب یہ حال ان لوگوں نے دیکھا اور اس طرف سے محمد بن ابی بکر کا والی مصر مقرر ہونا بالکل مایوس ہو گئے تو آخر یہ تدبیر کی کہ اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور صرف یہ درخواست کی کہ بعض والی بدل دیئے جائیں.جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو اس کا علم ہوا تو آپ نے کمال شفقت اور مہربانی سے ان کی اس
ا العلوم جلد ۴ ۳۰۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز درخواست کو قبول کر لیا اور ان لوگوں کی درخواست کے مطابق مصر کے والی عبد اللہ بن ابی سرح کو بدل دیا.اور ان کی جگہ محمد بن ابی بکر کو والی مصر مقرر کر دیا.اس پر یہ لوگ بظاہر خوش ہو کر واپس چلے گئے اور اہل مدینہ خوش ہو گئے کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو ایک فساد عظیم سے بچالیا.مگر جو کچھ انہوں نے سمجھا وہ درست نہ تھا کیونکہ ان لوگوں کے ارادے او ر ہی تھے.اور ان کا کوئی کام شرارت اور فساد سے خالی نہ تھا.یاد رکھنا چاہئے کہ یہی وقت ہے جب سے روایات میں اختلاف روایات کی حقیقت نہایت اختلاف شروع ہو جاتا ہے.اور جو واقعات میں نے بیان کئے ہیں ان کو مختلف راویوں نے مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے حتی کہ حق بالکل چھپ گیا ہے اور بہت سے لوگوں کو دھوکا لگ گیا ہے.اور وہ اس تمام کارروائی میں یا صحابہ کو شریک سمجھنے لگے ہیں یا کم سے کم ان کو مفسدوں سے دلی ہمدردی رکھنے والا خیال کرتے ہیں.مگر یہ بات درست نہیں.اس زمانہ کی تاریخ کے متعلق بہت احتیاط کی ضرورت ہے.کیونکہ اس زمانہ کے بعد کوئی زمانہ ایسا نہیں آیا جو ایک یا دوسرے فریق سے ہمدردی رکھنے والوں سے خالی ہو.اور یہ بات تاریخ کے لئے نہایت مضر ہوتی ہے.کیونکہ جب سخت عداوت یا نا واجب محبت کا دخل ہو روایت کبھی بعینہ نہیں پہنچ سکتی.اگر راوی جھوٹ سے کام نہ بھی لیں تب بھی ان کے خیالات کا رنگ ضرور چڑھ جاتا ہے.اور پھر تاریخ کے راویوں کے حالات ایسے ثابت شدہ نہیں ہیں جیسے کہ احادیث کے رواۃ کے.اور گو مورخین نے بہت احتیاط سے کام لیا ہے پھر بھی حدیث کی طرح اپنی روایت کو روزِ روشن کی طرح ثابت نہیں کر سکتے.پس بہت احتیاط کی ضرورت ہے.لیکن صحیح حالات معلوم کرنا ناممکن بھی نہیں کیونکہ خدا تاریخ کی تصحیح کا زریں اصل تعالٰی نے ایسے راستے کھلے رکھے ہیں جن سے صحیح واقعات کو خوب عمدگی سے معلوم کیا جا سکتا ہے.اور ایسے راوی بھی موجود ہیں جو بالکل بے تعلق ہونے کی وجہ سے واقعات کو کما حقہ بیان کرتے ہیں.اور تاریخ کی تصحیح کا یہ زریں اصل ہے کہ واقعات عالم ایک زنجیر کی طرح ہیں.کسی منفرد واقع کی صحت معلوم کرنے کے لئے اسے زنجیر میں پرو کر دیکھنا چاہئے کہ وہ کڑی ٹھیک اپنی جگہ پر پروئی بھی جاتی ہے کہ نہیں.غلط اور صحیح واقعات میں تمیز کرنے کے لئے یہ ایک نہایت ہی کا درآمد مددگار ہے.
العلوم جلد اسلام میں اختلافات کا آغاز غرض اس زمانہ کے صحیح واقعات معلوم کرنے کے لئے احتیاط کی ضرورت ہے اور جرح و تعدیل کی حاجت ہے.سلسلہ واقعات کو مد نظر رکھنے کے بغیر کسی زمانہ کی تاریخ بھی صحیح طور پر معلوم نہیں ہو سکتی مگر اس زمانہ کی تاریخ تو خصوصاً معلوم نہیں ہو سکتی.اور یوروپین مصنفین نے اسی اختلاف سے فائدہ اٹھا کر اس زمانہ کی تاریخ کو ایسا بگاڑا ہے کہ ایک مسلمان کا دل اگر و غیرت رکھتا ہو ان واقعات کو پڑھ کر جلتا ہے اور بہت سے کمزور ایمان کے آدمی تو اسلام سے بیزار ہو جاتے ہیں.افسوس یہ ہے کہ خود بعض مسلمان مؤرخین نے بھی بے احتیاطی سے اس مقام پر ٹھو کر کھائی ہے اور دوسروں کو گمراہ کرنے کا باعث بن گئے ہیں.ره میں اس مختصر وقت میں پوری طرح ان حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کی بریت غلطیوں پر تو بحث نہیں کر سکتا.جن میں یہ لوگ پڑے ہوئے ہیں لیکن میں اختصار کے ساتھ وہ صحیح حالات آپ لوگوں کے سامنے بیان کرتی دوں گا جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ ہر ایک فتنہ سے یا عیب سے پاک تھے.بلکہ ان کا رویہ نہایت اعلیٰ اخلاق کا مظہر تھا اور ان کا قدم نیکی کے اعلیٰ مقام پر قائم تھا.میں بتا چکا ہوں کہ مفسد لوگ بظاہر رضامندی کا باغیوں کا دوبارہ مدینہ میں داخل ہونا اظہار کر کے اپنے گھروں کی طرف واپس چلے گئے.کوفہ کے لوگ کوفہ کی طرف.بصرہ کے لوگ بصرہ کی طرف اور مصر کے لوگ مصر کی طرف.اور اہل مدینہ امن و امان کی صورت دیکھ کر اور ان کے لوٹنے پر مطمئن ہو کر اپنے اپنے کاموں پر چلے گئے لیکن ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایسے وقت میں جب کہ اہل مدینہ یا تو اپنے کاموں میں مشغول تھے یا اپنے گھروں میں یا مساجد میں بیٹھے تھے.اور ان کو کسی قسم کا خیال بھی نہ تھا کہ کوئی دشمن مدینہ پر چڑھائی کرنے والا ہے.اچانک ان باغیوں کا لشکر مدینہ میں داخل ہوا اور مسجد اور حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور تمام مدینہ کی گلیوں میں منادی کرا دی گئی کہ جس کسی کو اپنی جان کی ضرورت ہو اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہے اور ہم سے بر سر پیکار نہ ہو ورنہ خیر نہ ہوگی.ان لوگوں کی آمد ایسی اچانک تھی کہ اہل مدینہ مقابلہ کے لئے شش نہ کر سکے.حضرت امام حسن بیان فرماتے ہیں کہ میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک شور ہوا اور مدینہ کی گلیوں میں تکبیر کی آواز بلند ہونے لگی (یہ مسلمانوں کا نعرہ جنگ تھا) ہم
وم جلد ۴ ۳۰۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز سب حیران ہوئے اور دیکھنا شروع کیا کہ اس کا باعث کیا ہے.میں اپنے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا اور دیکھنے لگا.اتنے میں اچانک یہ لوگ مسجد میں گھس آئے اور مسجد پر بھی اور آس پاس کی گلیوں پر بھی قبضہ کر لیا.ان کے اچانک حملہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ اور اہل مدینہ کی طاقت منتشر ہو گئی اور وہ ان سے لڑ نہ سکے اور ان کا مقابلہ نہ کر سکے.کیونکہ شہر کے تمام ناکوں اور مسجد پر انہوں نے قبضہ کر لیا تھا.اب دو ہی راستے کھلے تھے.ایک تو یہ کہ باہر سے مدد آوے اور دوسرا یہ کہ اہل مدینہ کسی جگہ پر جمع ہوں اور پھر کسی انتظام کے ماتحت ان سے مقابلہ کریں.امر اول کے متعلق ان کو اطمینان تھا کہ حضرت عثمان ایسا نہیں کریں گے کیونکہ ان کا رحم اور ان کی حسن ظنی بہت بڑھی ہوئی تھی اور وہ ان لوگوں کی شرارت کی ہمیشہ تاویل کر لیتے تھے اور امردوم کے متعلق انہوں نے یہ انتظام کر لیا کہ مدینہ کی گلیوں میں اور اس کے دروازوں پر پہرہ لگا دیا اور حکم دے دیا کہ کسی جگہ اجتماع نہ ہونے پائے.جہاں کچھ لوگ جمع ہوتے یہ ان کو منتشر کر دیتے.ہاں یوں آپس میں بولنے چالنے یا لا کے ڈکے کو میل ملاقات سے نہ روکتے تھے.جب اہل مدینہ کی حیرت ذرا کم ہوئی تو ان میں سے بعض اہل مدینہ کا باغیوں کو سمجھانا نے مسجد کے پاس اگر جہاں ان کا مرکز تھا ان کو سمجھانا شروع کیا.اور ان کی اس حرکت پر اظہار ناراضگی کیا مگر ان لوگوں نے بجائے ان کی نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ان کو ڈرایا اور دھمکایا اور صاف کہہ دیا کہ اگر وہ خاموش نہ رہیں گے تو ان کے لئے اچھا نہیں ہو گا.اور یہ لوگ ان سے بُری طرح پیش آدیں گے.اب گویا مدینہ دار الخلافت نہیں رہا تھا.خلیفہ وقت کی باغیوں کا مدینہ پر تسلط قائم کرنا حکومت کو موقوف کر دیا گیا تھا اور چند مفسد اپنی مرضی کے مطابق جو چاہتے تھے کرتے تھے.اصحاب نبی کریم ا کیا اور دیگر اہل مدینہ کیا کو اپنی عزتوں کا بچانا مشکل ہو گیا تھا.اور بعض لوگوں نے تو اس فتنہ کو دیکھ کر اپنے گھروں سے نکلنا بند کر دیا تھا.رات دن گھروں میں بیٹھے رہتے تھے اور اس پر انگشت بدندان تھے.(طبری جلد 4 صفحه ۲۹۶۲ مطبوعہ بیروت) چونکہ یہ لوگ پچھلی دفعہ اپنی اکابر صحابہ کا باغیوں سے واپسی کی وجہ دریافت کرنا ملی کا اظہار کر کے گئے تھے
انوار العلوم جلدم اسلام میں اختلافات کا آغاز اور آئندہ کے لئے ان کو کوئی شکایت باقی نہ تھی صحابہ حیرت میں تھے کہ آخر ان کے کوٹنے کا باعث کیا ہے.دوسرے لوگوں کو تو ان کے سامنے بولنے کی جرات نہ تھی.چند اکابر صحابہ جن کے نام کی یہ لوگ پناہ لیتے تھے اور جن سے محبت کا دعوی کرتے تھے انہوں نے ان سے دریافت کیا کہ آخر تمہارے اس لوٹنے کی وجہ کیا ہے.چنانچہ حضرت علی، حضرت طلحہ حضرت زبیر نے ان لوگوں سے ان کے واپس آنے کی وجہ دریافت کی.سب نے بالاتفاق یہی جواب دیا کہ ہم تسلی اور تشفی سے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ راستہ میں ایک شخص کو دیکھا کہ صدقہ کے ایک اونٹ پر سوار ہے اور کبھی ہمارے سامنے آتا ہے اور کبھی پیچھے ہٹ جاتا ہے.ہمارے بعض آدمیوں نے جب اسے دیکھا تو انہیں شک ہوا اور انہوں نے اس کو جا پکڑا.جب اس سے دریافت کیا گیا کہ کیا تیرے پاس کوئی خط ہے تو اس نے انکار کیا اور جب اس سے دریافت کیا گیا کہ تو کس کام کو جاتا ہے تو اس نے کہا مجھے علم نہیں.اس پر ان لوگوں کو اور زیادہ شک ہوا.آخر اس کی تلاشی لی گئی اور اس کے پاس سے ایک خط نکلا جو حضرت عثمان کا لکھا ہوا تھا اور اس میں والی مصر کو ہدایت کی گئی تھی کہ جس وقت مفسد مصر واپس کو ٹیں.ان میں سے فلاں فلاں کو قتل کر دینا اور فلاں فلاں کو کوڑے اور ان کے سر اور داڑھیاں منڈوا دیا اور جو خط ان کی معرفت تمہارے معزول کئے جانے کے متعلق لکھا ہے اس کو باطل سمجھنا.یہ خط جب ہم نے دیکھا تو ہمیں سخت حیرت ہوئی اور ہم لوگ فورا واپس لوٹے.حضرت علی نے یہ بات سن کر فورا ان سے کہا کہ یہ بات تو مدینہ میں بنائی گئی ہے.کیونکہ اے اہل کوفہ اور اے اہل بصرہ ! تم لوگوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ اہل مصر نے کوئی ایسا خط پکڑا ہے.حالانکہ تم ایک دوسرے سے کئی منزلوں کے فاصلے پر تھے.اور پھر یہ کیونکر ہوا کہ تم لوگ اس قدر جلد واپس بھی آگئے.اس اعتراض کا جواب نہ وہ لوگ دے سکتے تھے اور نہ اس کا کوئی جواب تھا.پس انہوں نے یہی جواب دیا کہ جو مرضی آئے کہو اور جو چاہو ہماری نسبت خیال کرو.ہم اس آدمی کی خلافت کو پسند نہیں کرتے.اپنے عہدے سے دست بردار ہو جائے محمد بن مسلمہ جو اکابر صحابہ میں سے تھے اور جماعت انصار میں سے تھے کعب بن اشرف جو رسول کریم ای کا اور اسلام کا سخت دشمن تھا اور یہود میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا جب اس کی شرارتیں حد سے بڑھ گئیں اور مسلمانوں کی تکلیف کی کوئی حد نہ رہی تو رسول کریم ﷺ کے ارشاد کے ماتحت انہوں نے اس کو قتل کر کے اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت کی تھی انہوں نے جب
موم جلد ۴ ۳۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز یہ واقعہ سنا تو یہی جرح کی اور صاف کہہ دیا کہ یہ صرف ایک فریب ہے جو تم نے کیا ہے.گو صحابہ نے ان حضرت عثمان کا باغیوں کے لئے الزام سے بریت ثابت کرنا کی اس بات کو عقلا رد کر دیا مگر ان لوگوں کی دلیری اب حد سے بڑھ گئی تھی.باوجود اس ذلت کے جو ان کو پہنچی تھی.انہوں نے حضرت عثمان کے سامنے اس معاملہ کو پیش کیا اور آپ سے اس کا جواب مانگا.اس وقت بہت سے اکابر صحابہ بھی آپ کی مجلس میں تشریف رکھتے تھے.آپ نے ان کو جواب دیا کہ شریعت اسلامیہ کے مطابق کسی امر کے فیصلہ کے دو ہی طریق ہیں.یا تو یہ کہ مدعی اپنے دعوئی کی تائید میں دو گواہ پیش کرنے یا یہ کہ مرفی علیہ کو قسم دی جائے.پس تم پر فرض ہے کہ تم دو گواہ اپنے دعوئی کی تائید میں پیش کرو ورنہ میں اس خدا کی قسم کھاتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں کہ نہ میں نے یہ خط لکھا ہے نہ میرے مشورہ سے یہ خط لکھا گیا اور نہ ہی لکھوایا ہے نہ مجھے علم ہے کہ یہ خط کس نے لکھا ہے.پھر فرمایا کہ تم لوگ جانتے ہو کہ کبھی خط جھوٹے بھی بنالئے جاتے ہیں اور انگوٹھیوں جیسی اور انگوٹھیاں بنائی جا سکتی ہیں.جب صحابہ نے آپ کا یہ جواب سنا تو انہوں نے حضرت عثمان کی تصدیق کی اور آپ کو اس الزام سے بری قرار دیا.مگر ان لوگوں پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور ہوتا بھی کیونکر.انہوں نے تو خود وہ خط بنایا تھا.سوتے ہوئے آدمی کو تو آدمی جگا سکتا ہے جو جاگتا ہو اور ظاہر کرے کہ سو رہا ہے اسے کون جگائے.ان لوگوں کے سردار تو خوب سمجھتے تھے کہ یہ ہمارا اپنا فریب ہے.وہ ان جوابات کی صحت یا معقولیت پر کب غور کر سکتے تھے اور ان کے اتباع ان کے غلام بن چکے تھے جو کچھ وہ کہتے وہ سنتے تھے اور جو کچھ بتاتے تھے اسے تسلیم کرتے تھے.ان لوگوں پر نہ تو اثر ہو سکتا تھا نہ ہوا مگر آنکھوں والوں باغیوں کے منصوبہ کی اصلیت کے لئے حضرت عثمان کا جواب شرم و حیا کی صفات حسنہ سے ایسا متصف ہے کہ اس سے ان مفسدوں کی بے حیائی اور وقاحت اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے جب کہ وہ مفہد ایک جھوٹا خط بنا کر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر فریب اور دھو کے کا الزام لگاتے ہیں اور جب کہ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ واقعات سے نتیجہ نکال کر ان لوگوں پر صاف صاف دھو کے کا الزام لگاتے ہیں.خود حضرت عثمان " جن پر الزام لگایا گیا ہے اور جن کے خلاف یہ منصوبہ کھڑا کیا گیا ہے اپنے آپ سے تو الزام کو دفع کرتے ہیں مگر یہ نہیں فرماتے
دم جلد ۴ ۳۰۵ اسلام میں ت کا آغاز کہ تم نے یہ خط بنایا ہے بلکہ ان کی غلطی پر بھی پردہ ڈالتے ہیں اور صرف اسی قدر فرماتے ہیں کہ تم جانتے ہو کہ خط خط سے مل جاتا ہے اور انگوٹھی کی نقل بنائی جا سکتی ہے اور اونٹ بھی چرایا جا سکتا ہے.بعض لوگ جو حضرت عثمان کو بھی اس الزام سے بری سمجھتے ہیں اور ان لوگوں کی نسبت بھی حسن ظنی سے کام لینا چاہتے ہیں خیال کرتے ہیں کہ یہ خط مردان نے لکھ کر بطور خود بھیج دیا ہو گا.مگر میرے نزدیک یہ خیال بالکل غلط ہے واقعات صاف بتاتے ہیں کہ یہ خط انہی مفسدوں نے بنایا ہے نہ کہ مردان یا کسی اور شخص نے.اور یہ خیال کہ اگر انہوں نے بنایا ہوا تھا تو حضرت عثمان کا غلام اور صدقہ کا اونٹ ان کے ہاتھ کہاں سے آیا اور حضرت عثمان کے کاتب کا خط انہوں نے کس طرح بنا لیا اور حضرت عثمان کی انگوٹھی کی مہر اس پر کیونکر لگادی ایک غلط خیال ہے.کیونکہ ہمارے پاس اس کی کافی وجوہ موجود ہیں کہ یہ خط انہیں لوگوں نے بنایا تھا.گو واقعات سے ایسا معلوم ہوتا ہے اور یہی قرین قیاس ہے کہ یہ فریب صرف چند اکابر کا کام تھا اور کوئی تعجب نہیں کہ صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کے چند خاص شاگردوں کا کام ہو.اور دوسرے لوگوں کو خواہ وہ سردار لشکر ہی کیوں نہ ہوں اس کا علم نہ ہو.اس امر کا ثبوت کہ یہ کارروائی خط والے منصوبے کے ثبوت میں سات دلائل انہی لوگوں میں سے بعض لوگوں کی تھی یہ ہے:.ان لوگوں کی نسبت اس سے پہلے ثابت ہو چکا ہے کہ اپنے مدعا کے حصول کے لئے یہ لوگ نیت اس جھوٹ سے پر ہیز نہیں کرتے تھے جیسا کہ ولید بن عتبہ اور سعید بن العاص کے مقابلہ میں انہوں نے جھوٹ سے کام لیا.اسی طرح مختلف ولایات کے متعلق جھوٹی شکایات مشہور کیں جن کی تحقیق اکابر صحابہ نے کی اور ان کو غلط پایا.پس جب کہ ان لوگوں کی نسبت ثابت ہو چکا ہے کہ جھوٹ سے ان کو پر ہیز نہ تھا تو کوئی وجہ نہیں کہ اس امر میں ان کو ملزم نہ قرار دیا جاوے اور ایسے لوگوں پر الزام لگایا جاوے جن کا جھوٹ ثابت نہیں.جیسا کہ حضرت علی اور محمد بن مسلمہ نے اعتراض کیا ہے ان لوگوں کا ایسی جلدی واپس آجانا اور ایک وقت میں مدینہ میں داخل ہونا اس بات کی شہادت ہے کہ یہ ایک سازش تھی.کیونکہ جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے اہل مصر بیان کرتے تھے کہ انہوں نے بویب مقام پر
لعلوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز اس قاصد کو جو ان کے بیان کے مطابق حضرت عثمان " کا خط والی مصر کی طرف لے جارہا تھا پکڑا تھا.بویب مدینہ سے کم سے کم چھ منازل پر واقع ہے اور اس جگہ واقع ہے جہاں سے مصر کا راستہ شروع ہوتا ہے.جب اہل مصر اس جگہ تک پہنچ گئے تھے تو اہل کوفہ اور اہل بصرہ بھی قریباً بالمقابل جہات پر چھ چھ منازل طے کر چکے ہوں گے اور اس طرح اہل مصر سے جو کچھ واقع ہوا اس کی اطلاع دونوں قافلوں کو کم سے کم بارہ تیرہ دن میں مل سکتی تھی.اور ان کے آنے جانے کے دن شامل کر کے قریباً چوٹیں دن میں یہ لوگ مدینہ پہنچ سکتے تھے.مگر یہ لوگ اس عرصہ سے بہت کم عرصہ میں واپس آگئے تھے.پس صاف ثابت ہو تا ہے کہ مدینہ سے رخصت ہونے سے پہلے ہی ان لوگوں نے آپس میں منصوبہ بنالیا تھا کہ فلاں تاریخ کو سب قافلے واپس مدینہ کوٹیں اور ایک دم مدینہ پر قبضہ کر لیں اور چونکہ مصری قافلہ کے ساتھ عبد اللہ بن سبا تھا اور وہ نہایت ہوشیار آدمی تھا.اس نے ایک طرف تو یہ دیکھا کہ لوگ ان سے سوال کریں گے کہ تم بلاوجہ کوٹے کیوں ہو اور دوسری طرف اس کو یہ بھی خیال تھا کہ خود اس کے ساتھیوں کے دل میں بھی یہ بات کھٹکے گی کہ فیصلہ کے بعد نقض عہد کیوں کیا گیا ہے.اس لئے اس نے جعلی خط بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کی عقلوں پر پردہ ڈال دیا.اور غیظ و غضب کی آگ کو ان کے دلوں میں اور بھی بھڑکایا.اور صدقہ کے اونٹ کا چرا لینا اور کسی غلام کو رشوت دے کر ساتھ ملا لینا کوئی مشکل بات نہیں.اس خط کے پکڑنے کا واقعہ جس طرح بیان کیا جاتا ہے وہ خود غیر طبعی ہے.کیونکہ اگر حضرت عثمان نے یا مردان نے کوئی ایسا خط بھیجا ہو تا تو یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ وہ غلام کبھی ان کے سامنے آتا اور کبھی چھپ جاتا.یہ حرکت تو وہی شخص کر سکتا ہے جو خود اپنے آپ کو پکڑوانا چاہے.اس غلام کو تو بقول ان لوگوں کے حکم دیا گیا تھا کہ اس قافلہ سے پہلے مصر پہنچ جائے.پھر بویب مقام پر جو مصر کا دروازہ ہے اس شخص کا ان کے ساتھ ساتھ جانا کیونکر خیال میں آسکتا ہے.قافلہ اور ایک آدمی کے سفر میں بہت فرق ہوتا ہے ایک آدمی جس سرعت سے سفر کر سکتا ہے قافلہ نہیں کر سکتا.کیونکہ قافلہ کی حوائج بہت زیادہ ہوتی ہیں اور سب قافلہ کی سواریاں ایک جیسی تیز نہیں ہوتیں.پس کیونکر ممکن تھا کہ بویب تک قافلہ پہنچ جاتا اور وہ پیغامبرا بھی قافلہ کے ساتھ ہی ہو تا اس وقت تو اسے اپنی منزل مقصود کے قریب ہونا چاہئے تھا.جو حالت وہ اس پیغامبر کی بیان کرتے ہیں وہ ایک جاسوس کی نسبت تو منسوب کی جا سکتی ہے پیغامبر کی نسبت
ار العلوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز منسوب نہیں کی جا سکتی.اسی طرح جب اس پیغامبر کو پکڑا گیا تو جو سوال و جواب اس سے ہوئے وہ بالکل غیر طبعی ہیں.کیونکہ وہ بیان کرتا ہے کہ وہ پیغامبر ہے.لیکن نہ اسے کوئی خط دیا گیا ہے اور نہ اسے کوئی زبانی پیغام دیا گیا ہے یہ جواب سوائے اس شخص کے کون دے سکتا ہے جو یا تو پاگل ہو یا خود اپنے آپ کو شک میں ڈالنا چاہتا ہو.اگر واقع میں وہ شخص پیغامبر ہو تا تو اسے کیا ضرورت تھی کہ وہ کہتا کہ میں حضرت عثمان یا کسی اور کا بھیجا ہوا ہوں.یہ بھی نہیں کہا جا سکتا ہے کہ وہ سچ کا بڑا پابند تھا کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس کے پاس خط تھا.مگر اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں پس ان لوگوں کی روایت کے مطابق اس پیغامبر نے جھوٹ تو ضرور بولا.پس سوال یہ ہے کہ اس نے وہ جھوٹ کیوں بولا جس سے وہ صاف طور پر پکڑا جاتا تھا.وہ جھوٹ کیوں نہ بولا جو ایسے موقع پر اس کو گرفتاری سے بچا سکتا تھا.غرض یہ تمام واقعات بتاتے ہیں کہ خط اور خط لے جانے والے کا واقعہ شروع سے آخر تک فریب تھا.انہی مفسدوں میں سے کسی نے زیادہ تر گمان یہ ہے کہ عبداللہ بن سبانے) ایک جعلی خط بنا کر ایک شخص کو دیا ہے کہ وہ اسے لے کر قافلہ کے پاس سے گزرے لیکن چونکہ ایک آباد راستہ پر ایک سوار کو جاتے ہوئے دیکھ کر پکڑ لینا قرین قیاس نہ تھا اور اس خط کو بنانے والا چاہتا تھا کہ جہاں تک ہو سکے اس نے واقعہ کو دوسرے کے ہاتھ سے پورا کروائے اس لئے اس نے اس قاصد کو ہدایت کی کہ وہ اس طرح قافلہ کے ساتھ چلے کہ لوگوں کے دلوں میں شک پیدا ہو اور جب وہ اس شک کو دور کرنے کے لئے سوال کریں تو ایسے جواب دے کہ شک اور زیادہ ہو.تاکہ عامۃ الناس خود اس کی تلاشی لیس اور خط اس کے پاس دیکھ کر ان کو یقین ہو جاوے کہ حضرت عثمان نے ان سے.فریب کیا ہے.اس خط کا مضمون بھی بتاتا ہے کہ وہ خط جعلی ہے اور کسی واقف کار مسلمان کا بنایا ہوا نہیں.کیونکہ بعض روایات میں اس کا یہ مضمون بتایا گیا ہے کہ فلاں فلاں کی ڈاڑھی منڈوائی جاوے حالانکہ ڈاڑھی منڈوانا اسلام کی رو سے منع ہے اور اسلامی حکومتوں میں سزا صرف وہی دی جاسکتی تھی جو مطابق اسلام ہو.یہ ہرگز جائز نہ تھا کہ کسی شخص کو سزا کے طور پر سور کھلایا جاوے یا شراب پلائی جاوے یا ڈاڑھی منڈار کی جاوے.کیونکہ یہ ممنوع امر ہے.سزا صرف قتل یا ضرب یا جرمانہ یا نفی عن الارض کی اسلام سے ثابت ہے خواہ نفی بصورت جلا وطنی ہو یا بصورت قید.اس کے سوا کوئی سزا اسلام سے ثابت نہیں اور نہ ائمہ اسلام نے کبھی ایسی سزا
۳۰۸ اسلام میں اختلافات کا آغاز دی.نہ خود حضرت عثمان یا ان کے عمال نے کبھی کوئی ایسی سزا دی.پس ایسی سزا کا اس خط میں تحریر ہونا اس امر کا کافی ثبوت ہے کہ یہ خط کسی ایسے شخص نے بنایا تھا جو مغز اسلام سے واقف نہ تھا.اس خط سے پہلے کے واقعات بھی اس امر کی تردید کرتے ہیں کہ یہ خط حضرت عثمان یا ان کے سیکرٹری کی طرف سے ہو کیونکہ تمام روایات اس امر پر متفق ہیں کہ حضرت عثمان نے ان لوگوں کو سزا دینے میں بہت ڈھیل سے کام لیا ہے.اگر آپ چاہتے تو جس وقت یہ لوگ پہلی دفعہ آئے تھے اس وقت ان کو قتل کر دیتے.اگر اس دفعہ انہوں نے چھوڑ دیا تھا تو دوسری دفعہ آنے پر تو ضرور ہی ان سرغنوں کو گرفتار کیا جا سکتا تھا کیونکہ وہ کھلی کھلی سرکشی کر چکے تھے اور صحابہ ان سے لڑنے پر آمادہ تھے.مگر اس وقت ان سے نرمی کر کے مصر کے والی کو خط لکھنا کہ ان کو سزا دے ایک بعید از عقل خیال ہے.اور یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ حضرت عثمان کی نرمی کو دیکھ کر مردان نے ایسا خط لکھ دیا کیونکہ مردان یہ خوب جانتا تھا کہ حضرت عثمان حدود کے قیام میں بہت سخت ہیں.وہ ایسا خط لکھ کر سزا سے محفوظ رہنے کا خیال ایک منٹ کے لئے بھی اپنے دل میں نہیں لا سکتا تھا.پھر اگر وہ ایسا خط لکھتا بھی تو کیوں صرف مصر کے والی کے نام لکھتا.کیوں نہ بصرہ اور کوفہ کے والیوں کے نام بھی وہ ایسے خطوط لکھ دیتا.جس سے سب دشمنوں کا ایک دفعہ ہی فیصلہ ہو جاتا.صرف مصر کے والی کے نام ہی خط لکھا جانا اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ کوفہ اور بصرہ کے قافلوں میں کوئی عبداللہ بن سبا جیسا چال باز آدمی نہ تھا.اگر یہ کہا جائے کہ شاید ان دونوں علاقوں کے والیوں کے نام بھی ایسے احکام جاری کئے گئے ہوں گے مگر ان کے لے جانے والے پکڑے نہیں گئے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر ایسا ہو تا تو یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی تھی.کیونکہ اگر عبداللہ بن عامر پر یہ الزام لگا دیا جاوے کہ وہ حضرت عثمان " کا رشتہ دار ہونے کے سبب خاموش رہا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری " جو اکابر صحابہ میں سے تھے اور جن کے کامل الایمان ہونے کا ذکر خود قرآن شریف میں آتا ہے اور جو اس وقت کوفہ کے والی تھے وہ کبھی خاموش نہ رہتے اور ضرور بات کو کھول دیتے.پس حق یہی ہے کہ یہ خط جعلی تھا اور مصری قافلہ میں سے کسی نے بنایا تھا.اور چونکہ مصری قافلہ کے سوا دوسرے قافلوں میں کوئی شخص نہ اس قسم کی کارروائی کرنے کا اہل تھا اور نہ اس قدر عرصہ میں متعدد اونٹ بیت المال کے چرائے جاسکتے تھے اور نہ ہی اس قدر غلام قابو کئے جاسکتے تھے.
علوم جلد سم ۳۰۹ اسلام میں اختلافات کا آغاز اس لئے دوسرے علاقوں کے والیوں کے نام کے خطوط نہ بنائے گئے.سب سے زیادہ اس خط پر روشنی وہ غلام ڈال سکتا تھا جس کی نسبت ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ خط لے گیا تھا.مگر تعجب ہے کہ باوجود اس کے کہ حضرت عثمان نے گواہوں کا مطالبہ کیا ہے اس غلام کو پیش نہیں کیا گیا اور نہ بعد کے واقعات میں اس کا کوئی ذکر آتا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پیش کیا جانا ان لوگوں کے مفاد کے خلاف تھا.شاید ڈرتے ہوں کہ وہ صحابہ کے سامنے آکر اصل واقعات کو ظاہر کر دے گا.پس اس کو چھپا دیتا بھی اس امر کا ثبوت ہے کہ خط کے بنانے والا یہ مفسد گروہ ہی تھا.ایک نہایت زبردست ثبوت اس بات کا کہ ان لوگوں نے ہی یہ خط بنایا تھا یہ ہے کہ یہ پہلا خط نہیں جو انہوں نے بنایا ہے بلکہ اس کے سوا اسی فساد کی آگ بھڑ کانے کے لئے اور کئی خطوط انہوں نے بنائے ہیں.پس اس خط کا بنانا بھی نہ ان کے لئے مشکل تھا اور نہ اس واقعہ کی موجودگی میں کسی اور شخص کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے.وہ خط جو یہ پہلے بناتے رہے ہیں حضرت علی کے بدنام کرنے کے لئے تھے اور ان میں اس قسم کا مضمون ہو تا تھا کہ تم لوگ حضرت عثمان کے خلاف جوش بھڑکاؤ.ان خطوط کے ذریعے عوام الناس کا جوش بھڑکایا جاتا تھا اور وہ حضرت علی کی تصدیق دیکھ کر عبد اللہ بن سبا کی باتوں میں پھنس جاتے تھے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ ان خطوط کا مضمون بہت مخفی رکھنے کا حکم تھا تاکہ حضرت علی کو معلوم نہ ہو جائے اور وہ ان کی تردید نہ کر دیں.اور مخفی رکھنے کی تاکید کی وجہ بھی بانیانِ فساد کے پاس معقول تھی.یعنی اگر یہ خط ظاہر ہوں گے تو حضرت علی مشکلات میں پڑ جاویں گے.اس طرح لوگ حضرت علی کی خاطر ان خطوط کے مضمون کو کسی پر ظاہر نہ کرتے تھے.اور بات کے مخفی رہنے کی وجہ سے بانیان فساد کا جھوٹ کھلتا بھی نہ تھا.لیکن جھوٹ آخر زیادہ دیر تک چھپا نہیں رہتا خصوصاً جب سینکٹروں کو اس سے واقف کیا جاوے.حضرت عثمان کے نام پر لکھا ہوا خط پکڑا گیا اور عام اہل کوفہ نہایت غصہ سے واپس ہوئے تو ان میں سے ایک جماعت حضرت علی کے پاس گئی اور ان سے مدد کی درخواست کی حضرت علی تو تمام واقعہ کو سن کر ہی اس کے جھوٹا ہونے پر آگاہ ہو چکے تھے اور اپنی خدادا فراست سے اہل مصر کا قریب ان پر کھل چکا تھا.آپ نے صاف انکار کر دیا کہ میں ایسے کام میں تمہارے ساتھ شریک نہیں ہو سکتا اس وقت جوش کی حالت میں ان میں سے بعض سے احتیاط نہ ہو سکی اور بے اختیار بول اٹھے کہ پھر ہم سے خط و کتابت کیوں رہم.
العلوم جلد ۳ ۳۱۰ اسلام میں اختلافات کا آغاز کرتے تھے.حضرت علی کے لئے یہ ایک نہایت حیرت انگیز بات تھی.آپ نے اس سے صاف انکار کیا اور لاعلمی ظاہر کی اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ کی قسم ہے میں نے کبھی کوئی خط آپ لوگوں کی طرف نہیں لکھا.(طبری جلد نمبر ۶ صفحه ۲۹۶۵ مطبوعہ بیروت) اس پر ان لوگوں کو بھی سخت حیرت ہوئی کیونکہ در حقیقت خود ان کو بھی دھوکا دیا گیا تھا.اور انہوں نے ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھا اور دریافت کیا کہ کیا اس شخص کے لئے تم غضب ظاہر کرتے ہو اور لڑتے ہو یعنی یہ شخص تو ایسا بزدل ہے کہ سب کچھ کر کرا کر موقع پر اپنے آپ کو بالکل بری ظاہر کرتا ہے نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِكَ ) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں میں بعض ایسے آدمی موجود تھے جو جعلی خطوط بنانے میں مہارت رکھتے تھے اور یہ بھی کہ ایسے آدمی مصریوں میں موجود تھے.کیونکہ حضرت علی کے نام پر خطوط صرف مصریوں کی طرف لکھے جاسکتے تھے جو حضرت علی کی محبت کے دعویدار تھے.پس اس خط کا جو حضرت عثمان کی طرف منسوب کیا جاتا تھا مصری قافلہ میں پکڑا جانا اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اس کا لکھنے والا مدینہ کا کوئی شخص نہ تھا بلکہ مصری قافلہ کا ہی ر ایک فرد تھا.خط کا واقعہ چونکہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف الزام لگانے والوں کے نزدیک سب سے اہم واقعہ ہے اس لئے میں نے اس پر تفصیلاً اپنی تحقیق بیان کر دی ہے اور گو اس واقعہ پر اور بسط سے بھی بیان کیا جا سکتا ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ جو کچھ بیان کیا جا چکا ہے.اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کہ یہ خط ایک جعلی اور بناوٹی خط تھا.اور یہ کہ اس خط کے بنانے والے عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھی تھے نہ کہ مردان یا کوئی اور شخص.(حضرت عثمان کی ذات تو اس سے بہت ارفع ہے) کافی ہے.اب میں پھر سلسلہ واقعات کی طرف لوٹتا ہوں.اس مفسدوں کی اہل مدینہ پر زیادتیاں جعلی خط کے زور پر اور اچانک مدینہ پر قبضہ کر لینے کے گھمنڈ پر ان مفسدوں نے خوب زیادتیاں شروع کیں.ایک طرف تو حضرت عثمان پر زور دیا جاتا کہ وہ خلافت سے دست بردار ہو جائیں.دوسری طرف اہل مدینہ کو تنگ کیا جاتا کہ و حضرت عثمان کی مدد کے لئے کوشش نہ کریں.اہل مدینہ بالکل بے بس تھے دو تین ہزار مسلح فوجی جو شہر کے راستوں اور چوکوں اور دروازوں کی ناکہ بندی کئے ہوئے تھے.اس کا مقابلہ وہ
دم جلد ۴۳ Fli اسلام میں اختلافات کا آغاز یوں بھی آسان نہ تھا مگر اس صورت میں کہ وہ چند آدمیوں کو بھی اکٹھا ہونے نہ دیتے تھے اور دو دو چار چار آدمیوں سے زیادہ آدمیوں کا ایک جگہ جمع ہونا نا ممکن تھا.باغی فوج کے مقابلہ کا خیال بھی دل میں لانا محال تھا.اور اگر بعض من چلے جنگ پر آمادہ بھی ہوتے تو سوائے ہلاکت کی کے اس کا کوئی نتیجہ نہ نکلتا.مسجد ایک ایسی جگہ تھی جہاں لوگ جمع ہو سکتے تھے.مگر ان لوگوں کی نے نہایت ہوشیاری سے اس کا بھی انتظام کر لیا تھا اور وہ یہ کہ نماز سے پہلے تمام مسجد میں پھیل جاتے اور اہل مدینہ کو اس طرح ایک دوسرے سے جداجدار کھتے کہ وہ کچھ نہ کر سکتے.باوجود اس شور و فساد کے حضرت عثمان " نماز حضرت عثمان” کا مفسدوں کو نصیحت کرنا پڑھانے کے لئے باقاعدہ مسجد میں تشریف لاتے اور یہ لوگ بھی آپ سے اس معاملہ میں تعریض نہ کرتے اور امامت نماز سے نہ روکتے حتی کہ ان لوگوں کے مدینہ پر قبضہ کر لینے کے بعد سب سے پہلا جمعہ آیا.حضرت عثمان نے جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر ان لوگوں کو نصیحت فرمائی.اور فرمایا کہ اے دشمنان اسلام! خدا تعالی کا خوف کرو.تمام اہل مدینہ اس بات کو جانتے ہیں کہ تم لوگوں پر رسول کریم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے.پس تو بہ کرو اور اپنے گناہوں کو نیکیوں کے ذریعے سے مٹاؤ.کیونکہ اللہ تعالیٰ گناہوں کو نیکیوں کے سوا کسی اور چیز سے نہیں مٹاتا.اس پر محمد بن مسلمہ انصاری کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں اس امر کی تصدیق کرتا ہوں.ان لوگوں نے سمجھا کہ حضرت عثمان " پر تو ہمارے ساتھی بدظن ہیں لیکن صحابہ نے اگر آپ کی تصدیق کرنی شروع کی اور ہماری جماعت کو معلوم ہوا کہ رسول کریم ﷺ نے ہماری نسبت خاص طور پر پیشگوئی فرمائی تھی تو عوام شاید ہمارا ساتھ چھوڑ دیں.اس لئے انہوں نے اس سلسلہ کو روکنا شروع کیا.اور محمد بن مسلمہ رسول کریم ای کے مقرب صحابی کو جو تائید خلافت کے لئے نہ کسی فتنہ کے برپا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے تھے.حکیم بن جبلہ ڈاکو نے جس کا ذکر میں شروع میں کر چکا ہوں جبرا پکڑ کر بٹھا دیا.اس پر زید بن ثابت جن کو قرآن کریم کے جمع کرنے کی عظیم الشان خدمت سپرد ہوئی تھی تصدیق کے لئے کھڑے ہوئے مگر ان کو بھی ایک اور شخص نے بٹھا دیا.اس کے بعد اس محبت اسلام کا دعویٰ کرنے والی مفسدوں کا عصائے نبوی کو توڑنا جماعت کے ایک فرد نے حضرت عثمان کے ہاتھ سے وہ عصا جس پر رسول کریم ا یا ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے اور آپ کے بعد حضرت ابو بکر
دم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز اور حضرت عمرؓ ایسا ہی کرتے رہے چھین لیا اور اس پر اکتفا نہ کی بلکہ رسول کریم اے کی اس یادگار کو جو امت اسلام کے لئے ہزاروں برکتوں کا موجب تھی اپنے گھٹنوں پر رکھ کر توڑ دیا.حضرت عثمان سے ان کو نفرت سمی خلافت سے ان کو عداوت سہی مگر رسول کریم اے سے تو ان کو محبت کا دعویٰ تھا.پھر رسول کریم ﷺ کی اس یادگار کو اس بے ادبی کے ساتھ توڑ دینے کی ان کو کیونکر جرات ہوئی.یورپ آج دہریت کی انتہائی حد کو پہنچا ہوا ہے مگر یہ احساس اس میں بھی باقی ہے کہ اپنے بزرگوں کی یادگاروں کی قدر کرے.مگر ان لوگوں نے باوجود دعوائے اسلام کے رسول کریم ﷺ کے عصائے مبارک کو توڑ کر پھینک دیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کی نصرت کا جوش صرف دکھاوے کا تھا ورنہ اس گروہ کے سردار اسلام سے ایسے ہی دور تھے جیسے کہ آج اسلام کے سب سے بڑے دشمن.مفسدوں کا مسجد نبوی میں کنکر برسانا اور حضرت عثمان کو زخمی کرنا رسول کریم الات کا عصا تو ڑ کر بھی ان لوگوں کے دلوں کو ٹھنڈک نہ حاصل ہوئی اور انہوں نے اس مسجد میں جس کی بنیاد محمد رسول اللہ ﷺ نے رکھی تھی اور جس کی تعمیر نہایت مقدس ہاتھوں سے ہوئی تھی کنکروں کا مینہ برسانا شروع کیا اور کنکر مار مار کر صحابہ کرام اور اہل مدینہ کو مسجد نبوی سے باہر نکال دیا اور حضرت عثمان " پر اس قدر کنکر برسائے گئے کہ آپ بے ہوش ہو کر منبر پر سے گر گئے اور چند آدمی آپ کو اٹھا کر گھر چھوڑ آئے.یہ اس محبت کا نمونہ تھا جو ان لوگوں کو اسلام اور حاملانِ شریعت اسلام سے تھی.اور یہ وہ اخلاق فاضلہ تھے جن کو یہ لوگ حضرت عثمان کو خلافت سے علیحدہ کر کے عالم اسلام میں جاری کرنا چاہتے تھے.اس واقعہ کے بعد کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت عثمان کے مقابلہ میں کھڑی ہونے والی جماعت صحابہ سے کوئی تعلق رکھتی تھی.یا یہ کہ فی الواقع حضرت عثمان کی بعض کارروائیوں سے وہ شورش کرنے پر مجبور ہوئے تھے یا یہ کہ حمیت اسلامیہ ان کے غیظ و غضب کا باعث تھی.ان کی بد عملیاں اس بات کا کافی ثبوت ہیں کہ نہ اسلام سے ان کو کوئی تعلق تھا نہ دین سے ان کو کوئی محبت تھی.نہ صحابہ سے ان کو کوئی اُنس تھا.وہ اپنی مخفی اغراض کے پورا کرنے کے لئے ملک کے امن و امان کو تباہ کرنے پر آمادہ ہو رہے تھے اور اسلام کے قلعہ میں نقب زنی کرنے کی کوشش کر رہے تھے.
دم جالندم اسلام میں اختلافات کا آغاز اس واقعہ ہائکہ کے بعد صحابہ اور اہل صحابہ کی مفسدوں کے خلاف جنگ پر آمادگی مدینہ نے سمجھ لیا کہ ان لوگوں کے دلوں میں اس سے بھی زیادہ بغض بھرا ہوا ہے جس قدر کہ یہ ظاہر کرتے ہیں.گو وہ کچھ کر نہیں سکتے تھے مگر بعض صحابہ جو اس حالت سے موت کو بہتر سمجھتے تھے اس بات پر آمادہ ہو گئے کہ خواہ نتیجہ کچھ بھی ہو جاوے ہم ان سے جنگ کریں گے.اس دو تین ہزار کے لشکر کے مقابلہ میں چار پانچ آدمیوں کا لڑنا دنیا داری کی نظروں میں شاید جنون معلوم ہو.لیکن جن لوگوں نے اسلام کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا ہوا تھا انہیں اس کی حمایت میں لڑنا کچھ بھی دوبھر نہیں معلوم ہو تا تھا.ان لڑائی پر آمادہ ہو جانے والوں میں مفصلہ ذیل، صحابہ بھی شامل تھے.سعد بن مالک حضرت ابو ہریرہ ، زید بن صامت اور حضرت امام حسن.جب حضرت عثمان کو یہ خبر پہنچی تو نے فورا ان کو کہلا بھیجا کہ ہرگز ان لوگوں سے نہ لڑیں اور اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں.حضرت عثمان کی محبت جو آپ کو صحابہ رسول کریم اور آپ کے اہل بیت سے تھی اس نے بے شک اس لڑائی کو جو چند جان فروش صحابہ اور اس دو تین ہزار کے باغی لشکر کے درمیان ہونے والی تھی روک دیا.مگر اس واقعہ سے یہ بات ہمیں خوب اچھی طرح سے معلوم ہو جاتی ہے کہ صحابہ میں ان لوگوں کی شرارتوں پر کس قدر جوش پیدا ہو رہا تھا.کیونکہ چند آدمیوں کا ایک لشکر جرار کے مقابلہ پر آمادہ ہو جانا ایسی صورت میں ممکن ہے کہ وہ لوگ اس لشکر کی اطاعت کو موت سے بد تر خیال کریں.اس جماعت میں ابو ہریرہ اور امام حسن کی 3 شرکت خاص طور پر قابل غور ہے.کیونکہ حضرت ابو ہریرہ فوجی آدمی نہ تھے اور اس سے پیشتر کوئی خاص فوجی خدمت ان سے نہیں ہوئی.اسی طرح حضرت امام حسن کو ایک جری باپ کے بیٹے اور خود جری اور بہادر تھے مگر آپ صلح اور امن کو بہت پسند فرماتے تھے اور رسول کریم کی ایک پیشگوئی کے مطابق صلح کے شہزادے تھے.امستدرک الحاکم الجزء الثالث كتاب معرفة الصحابه باب اخبار النبي بان الحسن يصلح به بين فئتين من المسلمين ، ان دو شخصوں کا اس موقع پر تلوار ہاتھ میں لے کر کھڑے ہو جانا دلالت کرتا ہے کہ صحابہ اور دیگر اہل مدینہ ان مفسدوں کی شرارت پر سخت ناراض تھے.
وم جلد ۴ سهام ۳۱ اسلام میں اختلافات کا آغاز صرف تین شخص مدینہ کے باشندے ان مدینہ میں مفسدوں کے تین بڑے ساتھی لوگوں کے ساتھی تھے ایک تو محمد بن ابی بکر جو حضرت ابو بکر کے لڑکے تھے.اور مورخین کا خیال ہے کہ بوجہ اس کے کہ لوگ ان کے باپ کے سبب ان کا ادب کرتے تھے ان کو خیال پیدا ہو گیا تھا کہ میں بھی کوئی حیثیت رکھتا ہوں.ورنہ نہ ان کو دنیا میں کوئی سبقت حاصل تھی نہ رسول کریم ا کی صحبت حاصل تھی نہ بعد ! میں ہی خاص طور پر دینی تعلیم حاصل کی حجتہ الوادع کے ایام میں پیدا ہوئے اور رسول کریم کی وفات کے وقت ابھی دودھ پیتے بچے تھے.چوتھے سال ہی میں تھے کہ حضرت ابو بکر فوت ہو گئے اور اس بے نظیر انسان کی تربیت سے بھی فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا.تهذیب التهذیب جلد 9 صفحہ ۷۰ مطبوعہ لاہور) دوسرا شخص محمد بن ابی حذیفہ تھا یہ بھی صحابہ میں سے نہ تھا اس کے والد یمامہ کی لڑائی میں شہید ہو گئے تھے اور حضرت عثمان نے اس کی تربیت اپنے ذمہ لے لی تھی اور بچپن سے آپ نے اسے پالا تھا.جب حضرت عثمان " خلیفہ ہوئے تو اس نے آپ سے کوئی عہدہ طلب کیا.آپ نے انکار کیا اس پر اس نے اجازت چاہی کہ میں کہیں باہر جا کر کوئی کام کروں.آپ نے اجازت دے دی اور یہ مصر چلا گیا.وہاں جا کر عبداللہ بن سبا کے ساتھیوں سے مل کر حضرت عثمان کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کیا.جب اہل مصر مدینہ پر حملہ آور ہوئے تو یہ ان کے ساتھ ہی آیا.مگر کچھ دور تک آکر واپس چلا گیا اور اس فتنہ کے وقت مدینہ میں نہیں تھا.(طبری جلد ۲ صفحه ۳۰۲۹ مطبوعہ بیروت) تیسرے شخص عمار بن یا سر تھے یہ صحابہ میں سے تھے اور ان کے دھوکا کھانے کی وجہ یہ کہ یہ سیاست سے باخبر نہ تھے.جب حضرت عثمان نے ان کو مصر بھیجا کہ وہاں کے والی کے انتظام کے متعلق رپورٹ کریں تو عبد اللہ بن سبا نے ان کا استقبال کر کے ان کے خیالات کو مصر کے گورنر کے خلاف کر دیا.اور چونکہ وہ گورنر ایسے لوگوں میں سے تھا.جنہوں نے ایام کفر میں رسول کریم ﷺ کی سخت مخالفت کی تھی اور فتح مکہ کے بعد اسلام لایا تھا.اس لئے آپ بہت جلد ان لوگوں کے قبضہ میں آگئے.والی کے خلاف بدظنی پیدا کرنے کے بعد آہستہ آہستہ حضرت عثمان پر بھی انہوں نے ان کو بدظن کر دیا.مگر انہوں نے عملاً فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا.کیونکہ باوجود اس کے کہ مدینہ پر حملہ کے وقت یہ مدینہ میں موجود تھے سوائے اس کے کہ لرحم
لوم جلد ۴ ۳۱۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز اپنے گھر میں خاموش بیٹھے رہے ہوں اور ان مفسدوں کا مقابلہ کرنے میں انہوں نے کوئی حد نہ لیا ہو عملی طور پر انہوں نے فساد میں کوئی حصہ نہیں لیا.اور ان مفسدوں کی بد اعمالیوں سے ان کا دامن بالکل پاک ہے.ان تین کے سوا حضرت عثمان کو خلافت سے دست برداری کیلئے مجبور کیا جانا باقی کوئی شخص اہل لعنت مدینہ میں سے صحابی ہو یا غیر صحابی ان مفسدوں کا ہمدرد نہ تھا.اور ہر ایک شخص ان پرا ملامت کرتا تھا.مگر ان کے ہاتھ میں اس وقت سب انتظام تھا یہ کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے تھے.میں دن تک یہ لوگ صرف زبانی طور پر کوشش کرتے رہے کہ کسی طرح حضرت عثمان" خلافت سے دست بردار ہو جائیں.مگر حضرت عثمان نے اس امر سے صاف انکار کر دیا اور فرمایا کہ جو قمیض مجھے خدا تعالیٰ نے پہنائی ہے میں اسے اتار نہیں سکتا.اور نہ امت محمد کو بے پناہ چھوڑ سکتا ہوں کہ جس کا جی چاہے دوسرے پر ظلم کرے.(طبری جلد ۲ صفحہ ۲۹۹۰ مطبوعہ بیروت) اور ان لوگوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ اس فساد سے باز آجادیں اور فرماتے رہے کہ آج یہ لوگ فساد کرتے ہیں اور میری زندگی سے بیزار ہیں.مگر جب میں نہ رہوں گا تو خواہش کریں گے کہ کاش عثمان کی عمر کا ایک ایک دن ایک ایک سال سے بدل جاتا اور وہ ہم سے جلدی رخصت نہ ہو تا.کیونکہ میرے بعد سخت خون ریزی ہوگی اور حقوق کا اتلاف ہو گا اور انتظام کچھ کا کچھ بدل جائے گا (چنانچہ بنو امیہ کے زمانہ میں خلافت حکومت سے بدل گئی اور ان مفسدوں کو ایسی سزائیں ملیں کہ سب شرارتیں ان کو بھول گئیں).بنیں دن گزرنے کے بعد ان لوگوں کو خیال ہوا کہ اب حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ جلدی ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ صوبہ جات سے فوجیں آجاویں اور ہمیں اپنے اعمال کی سزا بھگتنی پڑے.اس لئے انہوں نے حضرت عثمان کا گھر سے نکلنا بند کر دیا.اور کھانے پینے کی چیزوں کا اندر جانا بھی روک دیا اور سمجھے کہ شاید اس طرح مجبور ہو کر حضرت عثمان " ہمارے مطالبات کو قبول کرلیں گے.مدینہ کا انتظام اب ان لوگوں کے ہاتھ میں تھا اور تینوں فوجوں نے مل کر مصر کی فوجوں کے سردار غافقی کو اپنا سردار تسلیم کر لیا تھا.اس طرح مدینہ کا حاکم گویا اس وقت غافقی تھا اور کوفہ کی فوج کا سردار اشتر اور بصرہ کی فوج کا سردار حکیم بن جبلہ (وہی ڈاکو جسے اہل ذمہ کے مال
را العلوم جلدم ۳۱۶ اسلام میں اختلافات کا آغاز لوٹنے پر حضرت عثمان نے بصرہ میں نظر بند کر دینے کا حکم دیا تھا) دونوں غافقی کے ماتحت کام کرتے تھے.اور اس سے ایک دفعہ پھر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس فتنہ کی اصل جڑ مصری تھے.جہاں عبد اللہ بن سبا کام کر رہا تھا.مسجد نبوی میں غافقی نماز پڑھاتا تھا اور رسول کریم کے صحابہ اپنے گھروں میں مقید رہتے یا اس کے پیچھے نماز ادا کرنے پر مجبور تھے.جب تک ان لوگوں نے حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کرنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا تب تک تو لوگوں سے زیادہ تعریض نہیں کرتے تھے مگر محاصرہ کرنے کے ساتھ ہی دوسرے لوگوں پر بھی سختیاں شروع کر دیں.اب مدینہ دار الامن کی بجائے دارالحرب ہو گیا.اہل مدینہ کی عزت اور ننگ و ناموس خطرہ میں تھی اور کوئی شخص اسلحہ کے بغیر گھر سے نہیں نکلتا تھا اور جو شخص ان کا ی مقابلہ کرتا اسے قتل کر دیتے تھے.حضرت علی " کا محاصرہ کرنے والوں کو نصیحت کرنا جب ان لوگوں نے حضرت عثمان" کا محاصرہ کر لیا اور پانی تک اندر جانے سے روک دیا تو حضرت عثمان نے اپنے ایک ہمسایہ کے لڑکے کو حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور امہات المؤمنین کی طرف بھیجا کہ ان لوگوں نے ہمارا پانی بھی بند کر دیا ہے.آپ لوگوں سے اگر کچھ ہو سکے تو کوشش کریں اور ہمیں پانی پہنچا ئیں.مردوں میں سب سے پہلے حضرت علی" آئے اور آپ نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ تم لوگوں نے کیا رویہ اختیار کیا ہے.تمہارا عمل تو نہ مؤمنوں سے ملتا ہے نہ کافروں سے.حضرت عثمان کے گھر میں کھانے پینے کی چیزیں مت روکو.روم اور فارس کے لوگ بھی قید کرتے ہیں تو کھانا کھلاتے ہیں اور پانی پلاتے ہیں.اور اسلامی طریق کے موافق تو تمہارا یہ فعل کسی طرح جائز نہیں.کیونکہ حضرت عثمان نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کو قید کر دینے اور قتل کر دینے کو جائز سمجھنے لگے ہو.حضرت علی کی اس نصیحت کا ان پر کوئی اثر نہ ہوا.اور انہوں نے صاف کہہ دیا کہ خواہ کچھ ہو جائے ہم اس شخص تک دانہ پانی نہ پہنچنے دیں گے.یہ وہ جواب تھا جو انہوں نے اس شخص کو دیا جسے وہ رسول کریم ا ا ل ہا کا وصی اور آپ کا حقیقی جانشین قرار دیتے تھے.اور کیا اس جواب کے بعد کسی اور شہادت کی بھی اس امر کے ثابت کرنے کے لئے ضرورت باقی رہ جاتی ہے کہ یہ علی گروہ کی حضرت علی کا وصی قرار دینے والا گر وہ حق کی حمایت اور اہل بیت کی محبت کی خاطر اپنے گھروں سے نہیں نکلا تھا بلکہ اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنے کے لئے.
انوار العلوم جلدم حضرت ام حبیبہ سے مفسدوں کا سلوک اسلام میں اختلافات کا آغاز امهات المؤمنین میں سے سب سے پہلے حضرت ام حبیبہ " آپ کی مدد کے لئے آئیں.ایک خچر پر آپ سوار تھیں.آپ اپنے ساتھ ایک مشکیزہ پانی کا بھی لا ئیں.لیکن اصل غرض آپ کی یہ تھی کہ بنو امیہ کے بتائی اور بیواؤں کی وصیتیں حضرت عثمان کے پاس تھیں.اور آپ نے جب دیکھا کہ حضرت عثمان کا پانی باغیوں نے بند کر دیا ہے تو آپ کو خوف ہوا کہ وہ وصایا بھی کہیں تلف نہ ہو جائیں اور آپ نے چاہا کہ کسی طرح وہ وصایا محفوظ کر لی جائیں.ور نہ پانی آپ کسی اور ذریعہ سے بھی پہنچا سکتی تھیں.جب آپ حضرت عثمان کے دروازے تک پہنچیں تو باغیوں نے آپ کو روکنا چاہا لوگوں نے بتایا کہ یہ ام المومنین ام حبیبہ ہیں مگر اس پر بھی وہ لوگ باز نہ آئے اور آپ کی فیچر کو مارنا شروع کیا.ام المؤمنین ام حبیبہ نے فرمایا کہ میں ڈرتی ہوں کہ بنو امیہ کے بتائی اور بیوگان کی وصایا ضائع نہ ہو جائیں.اس لئے اندر جانا چاہتی ہوں تاکہ ان کی حفاظت کا سامان کر دوں.مگر ان بد بختوں نے آنحضرت اللا کی زوجہ مطہرہ کو جواب دیا کہ تم جھوٹ بولتی ہو اور آپ کی فیچر پر حملہ کر کے اس کے پالان کے رستے کاٹ دیئے اور زین الٹ گئی.اور قریب تھا کہ حضرت ام حبیبہ اگر کر ان مفسدوں کے پیروں کے نیچے روندی جا کر شہید ہو جاتیں کہ بعض اہل مدینہ نے جو قریب تھے جھپٹ کر آپ کو سنبھالا اور گھر پہنچا دیا.(طبری جلد ۲ صفحہ ۲۰۱۰ مطبوعہ بیروت) یہ وہ سلوک تھا جو ان لوگوں نے آنحضرت حضرت ام حبیبہ کی دینی غیرت کا نمونہ ر ال کی زوجہ مطہرہ سے کیا.حضرت ام 14 حبیبہ آنحضرت سے ایسا اخلاص اور عشق رکھتی تھیں کہ جب پندرہ سولہ سال کی جدائی کے بعد آپ کا باپ جو عرب کا سردار تھا اور مکہ میں ایک بادشاہ کی حیثیت رکھتا تھا ایک خاص سیاسی مشن پر مدینہ آیا اور آپ کے ملنے کیلئے گیا.تو آپ نے اسکے نیچے سے رسول کریم کا بستر کھینچ لیا.اس لئے کہ خدا کے رسول کے پاک کپڑے سے ایک مشرک کے نجس جسم کو چھوتے ہوئے دیکھنا آپ کی طاقت برداشت سے باہر تھا.تعجب ہے کہ حضرت ام حبیبہ نے تو محمد رسول اللہ ا کی غیبت میں آپ کے کپڑے تک کی حرمت کا خیال رکھا مگران مفسدوں نے محمد رسول اللہ اسی کی غیبت میں آپکے حرم محترم کی حرمت کا بھی خیال نہ کیا.نادانوں نے کہا کہ رسول کریم ﷺ کی بیوی جھوٹی ہیں حالانکہ جو کچھ انہوں نے فرمایا تھا وہ
علوم جلد ۴ FIA اسلام میں اختلافات کا آغاز درست تھا.حضرت عثمان بنو امیہ کے بیانی کے ولی تھے اور ان لوگوں کی بڑھتی ہوئی عداوت کو دیکھ کر آپ کا خوف درست تھا کہ بیتائی اور بیواؤں کے اموال ضائع نہ ہو جائیں.جھوٹے وہ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے ان کے دین کی تباہی کا بیڑا اٹھایا تھا نہ ام المؤمنین ام حبیبہ".(طبری جلد ۶ صفحه ۳۰۲۹ مطبوعہ بیروت) حضرت ام حبیبہ کے ساتھ جو کچھ سلوک کیا گیا حضرت عائشہ کی حج کے لئے تیاری تھا.جب اس کی خبر مدینہ میں پھیلی تو صحابہ پور اہل مدینہ حیران رہ گئے اور سمجھ لیا کہ اب ان لوگوں سے کسی قسم کی خیر کی امید رکھنی فضول ہے.حضرت عائشہ نے اسی وقت حج کا ارادہ کر لیا اور سفر کی تیاری شروع کر دی.جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ مدینہ سے جانے والی ہیں تو بعض نے آپ سے درخواست کی کہ اگر آپ ہیں ٹھریں تو شاید فتنہ کے روکنے میں کوئی مدد ملے اور باغیوں پر کچھ اثر ہو.مگر انہوں نے انکار کر دیا اور فرمایا کہ کیا تم چاہتے ہو کہ مجھ سے بھی وہی سلوک ہو جو ام حبیبہ سے ہوا ہے خدا کی قسم! میں اپنی عزت کو خطرہ میں نہیں ڈال سکتی کیونکہ وہ رسول کریم ﷺ کی عزت تھی اگر کسی قسم کا معاملہ مجھ سے کیا گیا.تو میری حفاظت کا کیا سامان ہو گا خدا ہی جانتا ہے کہ یہ لوگ اپنی شرارتوں میں کہاں تک ترقی کریں گے اور ان کا کیا انجام ہو گا.حضرت عائشہ صدیقہ نے چلتے چلتے ایک ایسی تدبیر کی جو اگر کارگر ہو جاتی تو شاید فساد میں کچھ کمی ہو جاتی.اور وہ یہ کہ اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو کہلا بھیجا کہ تم بھی میرے ساتھ حج کو چلو مگر اس نے انکار کر دیا.اس پر حضرت عائشہ نے فرمایا.کیا کروں بے بس ہوں.اگر میری طاقت ہوتی تو ان لوگوں کو اپنے ارادوں میں کبھی کامیاب نہ ہونے دیتی.حضرت عائشہ تو حج کو تشریف لے حضرت عثمان کا والیان صوبہ جات کو مراسلہ گئیں اور بعض صحابہ" بھی جن سے ย ممکن ہو سکا اور مدینہ سے نکل سکے مدینہ سے تشریف لے گئے اور باقی لوگ سوائے چند اکابر صحابہ کے اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور آخر حضرت عثمان کو بھی یہ محسوس ہو گیا کہ یہ لوگ نرمی سے مان نہیں سکتے اور آپ نے ایک خط تمام والیان صوبہ جات کے نام روانہ کیا جس کا خلاصہ یہ تھا.حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کے بعد بلا کسی خواہش یا درخواست کے مجھے ان لوگوں میں
العلوم جلد ) اسلام میں اختلافات کا آغاز شامل کیا گیا تھا جنہیں خلافت کے متعلق مشورہ کرنے کا کام سپرد کیا گیا تھا.پھر بلا میری خواہش یا سوال کے مجھے خلافت کے لئے چنا گیا اور میں برابر وہ کام کرتا رہا جو مجھ سے پہلے خلفاء کرتے رہے اور میں نے اپنے پاس سے کوئی بدعت نہیں نکالی.لیکن چند لوگوں کے دلوں میں بدی کا بیج بویا گیا اور شرارت جاگزیں ہوئی اور انہوں نے میرے خلاف منصوبے کرنے شروع کر دیئے.اور لوگوں کے سامنے کچھ ظاہر کیا اور دل میں کچھ اور رکھا اور مجھ پر وہ الزام لگانے شروع کئے جو مجھ سے پہلے خلفاء" پر بھی لگتے تھے.لیکن میں معلوم ہوتے ہوئے خاموش رہا.اور یہ لوگ میرے رحم سے ناجائز فائدہ اٹھا کر شرارت میں اور بھی بڑھ گئے.اور آخر کفار کی طرح مدینہ پر حملہ کر دیا.پس آپ لوگ اگر کچھ کر سکیں تو مدد کا انتظام کریں.اسی طرح ایک خط جس کا خلاصہ مطلب ذیل میں درج ہے حج پر آنے والوں کے نام لکھ کر کچھ دن بعد روانہ کیا.میں آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی طرف توجہ دلاتا حضرت عثمان " کا حاجیوں کے نام خط ہوں اور اس کے انعامات یاد دلاتا ہوں.اس وقت کچھ لوگ فتنہ پردازی کر رہے ہیں اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش میں مشغول ہیں.مگر ان لوگوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا ANALOGUE لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الأَرْضِ (النور: ۵۶) اور اتفاق کی قدر نہیں کی.حالانکہ خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعاً - (ال عمران (۱۰۴) اور مجھ پر الزام لگانے والوں کی باتوں کو قبول کیا اور قرآن کریم کے اس حکم کی پرواہ نہ کی کہ یا تھا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا (الحجرات: ۷) اور میری بیعت کا ادب نہیں کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ رسول کریم ﷺ کی نسبت فرماتا ہے کہ إِنَّ الَّذِينَ يُبَا ِيعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله ( الفتح ) اور میں رسول کریم ﷺ کا نائب ہوں.کوئی امت بغیر سردار کے ترقی نہیں کر سکتی اور اگر کوئی امام نہ ہو تو جماعت کا تمام کام خراب و برباد ہو جائے گا.یہ لوگ امت اسلامیہ کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں.اور اس کے سوا ان کی کوئی غرض نہیں.کیونکہ میں نے ان کی بات کو قبول کر لیا تھا اور والیوں کے بدلنے کا وعدہ کر لیا تھا.مگر انہوں نے اس پر بھی شرارت نہ چھوڑی.اب یہ تین باتوں میں سے ایک کا مطالبہ کرتے ہیں.اول یہ کہ جن لوگوں کی کو میرے عہد میں سزا ملی ہے ان سب کا قصاص مجھ سے لیا جاوے.اگر یہ مجھے منظور نہ ہو تو پھر
دم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز خلافت کو چھوڑ دوں اور یہ لوگ میری جگہ کسی اور کو مقرر کر دیں.یہ بھی نہ مانوں تو پھر یہ لوگ دھمکی دیتے ہیں کہ یہ لوگ اپنے تمام ہم خیال لوگوں کو پیغام بھیجیں گے کہ وہ میری اطاعت سے باہر ہو جائیں.پہلی بات کا تو یہ جواب ہے کہ مجھ سے پہلے خلفاء" بھی کبھی فیصلوں میں غلطی کرتے تھے مگر ان کو کبھی سزا نہ دی گئی اور اس قدر سزائیں مجھ پر جاری کرنے کا مطلب سوائے مجھے مارنے کے اور کیا ہو سکتا ہے.خلافت سے معزول ہونے کا جواب میری طرف سے یہ ہے کہ اگر یہ لوگ موچنوں سے - میری بوٹیاں کر دیں تو یہ مجھے منظور ہے.مگر خلافت سے میں جدا نہیں ہو سکتا.باقی رہی تیسری بات کہ پھر یہ لوگ اپنے آدمی چاروں طرف بھیجیں گے کہ کوئی میری بات نہ مانے.سو میں خدا کی طرف سے ذمہ دار نہیں ہوں اگر یہ لوگ ایک امر خلاف شریعت کرنا چاہتے ہیں تو کریں.پہلے بھی جب انہوں نے میری بیعت کی تھی تو میں نے ان پر جبر نہیں کیا تھا.جو شخص عہد تو ڑنا چاہتا ہے میں اس کے اس فعل پر راضی نہیں نہ خدا تعالیٰ راضی ہے.ہاں وہ اپنی طرف سے جو چاہے کرے.چونکہ حج کے دن قریب آرہے تھے اور چاروں طرف سے لوگ مکہ مکرمہ میں جمع ہو رہے تھے.حضرت عثمان نے اس خیال سے کہ کہیں وہاں بھی کوئی فساد نہ کھڑا کریں اور اس خیال سے بھی کہ حج کے لئے جمع ہونے والے مسلمانوں میں اہل مدینہ کی مدد کی تحریک کریں حضرت عبد اللہ بن عباس کو حج کا امیر بنا کر روانہ کیا.حضرت عبد اللہ بن عباس نے بھی عرض کی کہ ان لوگوں سے جہاد کرنا مجھے زیادہ پسند ہے مگر حضرت عثمان نے ان کو مجبور کیا کہ وہ حج کے لئے جاویں.اور حج کے ایام میں امیر حج کا کام کریں تاکہ مفسد وہاں اپنی شرارت نہ پھیلا سکیں اور وہاں جمع ہونے والے لوگوں میں بھی مدینہ کے لوگوں کی مدد کی تحریک کی جاوے.اور مذکورہ بالا خط آپ ہی کے ہاتھ روانہ کیا.جب ان خطوں کا ان مفسدوں کو علم ہوا تو انہوں نے اور بھی سختی کرنا شروع کر دی.اور اس بات کا موقع تلاش کرنے لگے کہ کسی طرح لڑائی کا کوئی بہانہ مل جاوے تو حضرت عثمان کو شہید کر دیں مگر ان کی تمام کوششیں فضول جاتی تھیں اور حضرت عثمان ان کو کوئی موقع شرارت کا ملنے نہ دیتے تھے.آخر تنگ آکر یہ تدبیر سُوجھی کہ مفسدوں کا حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکنا جب رات پڑتی اور لوگ سو
لوم جلد اسلام میں اختلافات کا آغاز جاتے.حضرت عثمان کے گھر میں پتھر پھینکتے.اور اس طرح اہل خانہ کو اشتعال دلاتے تاکہ جوش میں آکر وہ بھی پتھر پھینکیں تو لوگوں کو کہہ سکیں کہ انہوں نے ہم پر پہلے حملہ کیا ہے اس لئے ہم جواب دینے پر مجبور ہیں.مگر حضرت عثمان نے اپنے تمام اہل خانہ کو جواب دینے سے روک دیا.ایک دن موقع پاکر دیوار کے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ اے لوگو! میں تو تمہارے نزدیک تمہارا گناہ گار ہوں مگر دوسرے لوگوں نے کیا قصور کیا ہے.تم پھر پھینکتے ہو تو دوسروں کو بھی چوٹ لگنے کا خطرہ ہوتا ہے.انہوں نے صاف انکار کر دیا کہ ہم نے پتھر نہیں حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تم نہیں پھینکتے تو اور کون پھینکتا ہے.انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ پھینکتا ہو گا (نعوذ باللہ من ذالک) حضرت عثمان نے فرمایا کہ تم لوگ جھوٹ بولتے ہو.اگر خدا تعالٰی ہم پر پتھر پھینکتا تو اس کا کوئی پتھر خطا نہ جاتا.لیکن تمہارے پھینکے ہوئے پتھر تو ادھر ادھر بھی جاپڑتے ہیں.یہ فرما کر آپ ان کے سامنے سے ہٹ گئے.ھینکے گو صحابہ کو اب حضرت عثمان کے پاس جمع فرو کرنے میں صحابہ کی مساعی جمیلہ ہونے کا موقع نہ دیا جاتا تھا مگر پھر بھی وہ اپنے فرض سے غافل نہ تھے.مصلحت وقت کے ماتحت انہوں نے دو حصوں میں اپنا کام تقسیم کیا ہوا تھا.جو سن رسیدہ اور جن کا اخلاقی اثر عوام پر زیادہ تھا وہ تو اپنے اوقات کو لوگوں کے سمجھانے صرف کرتے اور جو لوگ ایسا کوئی اثر نہ رکھتے تھے یا نوجوان تھے وہ حضرت عثمان کی حفاظت کی کوشش میں لگے رہتے.اول الذکر جماعت میں سے حضرت علی اور حضرت سعد بن وقاص فاتح فارس فتنہ کے کم کرنے میں سب سے زیادہ کوشاں تھے.خصوصاً حضرت علی تو اس فتنہ کے ایام میں اپنے تمام کام چھوڑ کر اس کام میں لگ گئے تھے چنانچہ ان واقعات کی رؤیت کے گواہوں میں سے ایک شخص عبدالرحمن نامی بیان کرتا ہے کہ ان ایام فتنہ میں میں نے دیکھا ہے کہ حضرت علی نے اپنے تمام کام چھوڑ دیئے تھے اور حضرت عثمان کے دشمنوں کا غضب ٹھنڈا کرنے اور آپ کی تکالیف دور کرنے کی فکر میں ہی رات دن لگے رہتے تھے.ایک دفعہ آپ تک پانی پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو حضرت طلحہ" پر جن کے سپرد یہ کام تھا آپ سخت ناراض ہوئے اور اس وقت تک آرام نہ کیا جب تک پانی حضرت عثمان کے گھر میں پہنچ نہ گیا.دو سرا گروہ ایک ایک دو دو کر کے جس جس وقت موقع ملتا تھا تلاش کر کے حضرت عثمان
العلوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز یا آپ کے ہمسایہ گھروں میں جمع ہونا شروع ہوا.اور اس نے اس امر کا پختہ ارادہ کر لیا کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے مگر حضرت عثمان کی جان پر آنچ نہ آنے دیں گے.اس گروہ میں حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر کی اولاد کے سوائے خود صحابہ میں سے بھی ایک جماعت شامل تھی.یہ لوگ رات اور دن حضرت عثمان کے مکان کی حفاظت کرتے تھے اور آپ.ب تک کسی دشمن کو پہنچنے نہ دیتے تھے.اور گو یہ قلیل تعداد اس قدر کثیر لشکر کا مقابلہ تو نہ کر سکتی تھی مگر چونکہ باغی چاہتے تھے کوئی بہانہ رکھ کر حضرت عثمان کو قتل کریں وہ بھی اس قدر زور نہ دیتے تھے.اس وقت کے حالات سے حضرت عثمان کی اسلامی خیر خواہی پر جو روشنی پڑتی ہے اس سے عقل دنگ رہ جاتی ہے.تین ہزار کے قریب لشکر آپ کے دروازہ کے سامنے پڑا ہے اور کوئی تدبیر اس سے بچنے کی نہیں.مگر جو لوگ آپ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں ان کو بھی آپ روکتے ہیں کہ جاؤ اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالو ان لوگوں کو صرف مجھ سے عداوت ہے تم سے کوئی تعریض نہیں.آپ کی آنکھ اس وقت کو دیکھ رہی تھی جب کہ اسلام ان مفسدوں کے ہاتھوں سے ایک بہت بڑے خطرہ میں ہو گا.اور صرف ظاہری اتحاد ہی نہیں بلکہ روحانی انتظام بھی پراگندہ ہونے کے قریب ہو جاوے گا.اور آپ جانتے تھے کہ اس وقت اسلام کی حفاظت اور اس کے قیام کے لئے ایک ایک صحابی کی ضرورت ہو گی پس آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ کی جان بچانے کی بے فائدہ کوشش میں صحابہ کی جانیں جاویں اور سب کو یہی نصیحت کرتے تھے کہ ان لوگوں سے تعریض نہ کرو اور چاہتے تھے کہ جہاں تک ہو سکے آئندہ فتنوں کو دور کرنے کے لئے وہ جماعت محفوظ رہے جس نے رسول اللہ اللہ کی صحبت پائی ہے.مگر باوجود آپ کے سمجھانے کے جن صحابہ کو آپ کے گھر تک پہنچنے کا موقع مل جاتارہ اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرتے اور آئندہ کے خطرات پر موجودہ خطرہ کو مقدم رکھتے اور اگر ان کی جائیں اس عرصہ میں محفوظ تھیں تو صرف اس لئے کہ ان لوگوں کو جلدی کی کوئی ضرورت نہ معلوم ہوتی تھی اور بہانہ کی تلاش تھی.لیکن وہ وقت بھی آخر آگیا جب کہ زیادہ انتظار کرنا ناممکن ہو گیا.کیونکہ حضرت عثمان " کا وہ دل کے ہلا دینے والا پیغام جو آپ نے حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں کو بھیجا تھا متجاج کے مجمع میں سنا دیا گیا تھا اور دادی ملکہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس کی آواز سے گونج رہی تھی اور حج پر جمع ہونے والے مسلمانوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ حج کے بعد جہاد کے ثواب سے بھی محروم نہ رہیں گے اور مصری مفسدوں اور
لوم جلد ۴ ۳۲۳ اسلام میں اختلافات کا آغاز ان کے ساتھیوں کا قلع قمع کر کے چھوڑیں گے.مفسدوں کے جاسوسوں نے انہیں اس ارادہ کی اطلاع دے دی تھی اور اب ان کے کیمپ میں سخت گھبراہٹ کے آثار تھے.حتی کہ ان میں چہ میگوئیاں ہونے لگی تھیں کہ اب اس شخص کے قتل کے سوا کوئی چارہ نہیں.اور اگر اسے ہم نے قتل نہ کیا تو مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہمارے قتل میں کوئی شبہ نہیں.اس گھبراہٹ کو اس خبر نے اور بھی دوبالا کر دیا کہ شام اور کوفہ اور بصرہ میں بھی حضرت عثمان کے خطوط پہنچ گئے ہیں اور وہاں کے لوگ جو پہلے سے ہی حضرت عثمان کے احکام کے منتظر تھے.ان خطوط کے پہنچنے پر اور بھی جوش سے بھر گئے ہیں اور صحابہ نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کر کے مسجدوں اور مجلسوں میں تمام مسلمانوں کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلا کر ان مفسدوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دے دیا ہے.اور وہ کہتے ہیں جس نے آج جہاد نہ کیا اس نے گویا کچھ بھی نہ کیا.کوفہ میں عقبہ بن عمرو عبد اللہ بن ابی اوفی اور حنظلہ بن ربیع التمیمی اور دیگر صحابہ کرام نے لوگوں کو اہل مدینہ کی مدد کے لئے ابھارا ہے تو بصرہ میں عمران بن ن انس بن مالک ، ہشام بن عامر اور دیگر صحابہ نے.شام میں اگر عبادہ بن صامت ابو امامہ اور دیگر صحابہ نے حضرت عثمان کی آواز پر لبیک کہنے پر لوگوں کو اکسایا ہے تو مصر میں خارجہ و دیگر لوگوں نے.اور سب ملکوں سے فوجیں اکٹھی ہو کر مدینہ کی طرف بڑھی چلی آتی ہیں.حصین طبری جلد ۲ صفحہ ۲۹۶۰ مطبوعہ بیروت) غرض ان خبروں سے باغیوں کی گھبراہٹ اور حضرت عثمان کے گھر پر مفسدوں کا حملہ بھی بڑھ گئی آخر حضرت عثمان کے گھر پر حملہ کر کے بزور اندر داخل ہونا چاہا صحابہ نے مقابلہ کیا اور آپس میں سخت جنگ ہوئی گو صحابہ کم تھے مگر ان کی ایمانی غیرت ان کی کمی کی تعداد کو پورا کر رہی تھی.جس جگہ لڑائی ہوئی یعنی حضرت عثمان کے گھر کے سامنے وہاں جگہ بھی تنگ تھی.اس لئے بھی مفسد اپنی کثرت سے زیادہ فائدہ نہ اٹھا سکے.حضرت عثمان کو جب اس لڑائی کا علم ہوا تو آپ نے صحابہ کو لڑنے سے منع کیا.مگر وہ اس وقت حضرت عثمان کو اکیلا چھوڑ دینا ایمانداری کے خلاف اور اطاعت کے حکم کے متضاد خیال کرتے تھے اور باوجود حضرت عثمان کو اللہ کی قسم دینے کے انہوں نے کوٹنے سے انکار کر دیا.
انوار العلوم جلد ۴ ۳۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز حضرت عثمان " کا صحابہ کو وصیت کرنا آخر حضرت عثمان نے ڈھال ہاتھ میں پکڑی اور ہے باہر تشریف لے آئے اور صحابہ کو اپنے مکان کے اندر لے گئے اور دروازے بند کرا دیئے اور آپ نے سب صحابہ اور ان کے مددگاروں کو وصیت کی کہ خدا تعالٰی نے آپ لوگوں کو دنیا اس لئے نہیں دی کہ تم اس کی طرف جھک جاؤ.بلکہ اس لئے دی ہے کہ تم اس کے ذریعہ سے آخرت کے سامان جمع کرو.یہ دنیا تو فنا ہو جاوے گی اور آخرت ہی باقی رہے گی.پس چاہئے کہ فانی چیز تم کو غافل نہ کرے.باقی رہنے والی چیز کو فانی ہو جانے والی چیز پر مقدم کرو اور خدا تعالیٰ کی ملاقات کو یاد رکھو اور جماعت کو پراگندہ نہ ہونے دو.اور اس نعمت الہی کو مت بھونو کہ تم ہلاکت کے گڑھے میں گرنے والے تھے اور خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم کو نجات دے کر بھائی بھائی بنا دیا اس کے بعد آپ نے سب کو رخصت کیا.اور کہا کہ خدا تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو.تم سب اب گھر سے باہر جاؤ اور ان یہ کو بھی بلواؤ جن کو مجھ تک آنے نہیں دیا تھا.خصوصاً حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت صحابة زبیر کو.یہ لوگ باہر آگئے اور دوسرے صحابہ کو بھی بلوایا گیا.اس وقت کچھ ایسی کیفیت پیدا ہو رہی تھی اور ایسی افسردگی چھا رہی تھی کہ باغی بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.اور کیوں نہ ہو تا سب دیکھ رہے تھے کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی جلائی ہوئی ایک شمع اب اس دنیا کی عمر کو پوری کر کے اس دنیا کے لوگوں کی نظر سے اوجھل ہونے والی ہے.غرض باغیوں نے زیادہ تعریض نہ کیا اور سب صحابہ جمع ہوئے.جب لوگ جمع ہو گئے تو آپ گھر کی دیوار پر چڑھے اور فرمایا میرے قریب ہو جاؤ.جب سب قریب ہو گئے تو فرمایا کہ اے لوگو! بیٹھ جاؤ.اس پر صحابہ بھی اور مجلس کی ہیبت سے متاثر ہو کر باغی بھی بیٹھ گئے.جب سب بیٹھ گئے تو آپ نے فرمایا کہ اہل مدینہ ! میں تم کو خدا تعالٰی کے سپرد کرتا ہوں اور اس سے دعا کرتا ہوں کہ وہ میرے بعد تمہارے لئے خلافت کا کوئی بہتر انتظام فرما دے.آج کے بعد اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ میرے متعلق کوئی فیصلہ فرمادے میں باہر نہیں نکلوں گا اور میں کسی کو کوئی ایسا اختیار نہیں دے جاؤں گا کہ جس کے ذریعہ سے دین یا دنیا میں وہ تم پر حکومت کرے.اور اس امر کو خدا تعالیٰ پر چھوڑ دوں گا کہ وہ جسے چاہے اپنے کام کے لئے پسند کرے.اس کے بعد صحابہ و دیگر اہل مدینہ کو قتسم دی کہ وہ آپ کی حفاظت کر کے اپنی جانوں کو خطرہ عظیم میں نہ ڈالیں اور اپنے گھروں کو چلے
۳۲۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز العلوم جلد ۴ جاویں.پہلو کو.مقدم آپ کے اس حکم نے صحابہ میں ایک بہت بڑا اختلاف پیدا کر دیا.ایسا اختلاف کہ جس کی نظیر پہلے نہیں ملتی.صحابہ حکم ماننے کے سوا اور کچھ جانتے ہی نہ تھے.مگر آج اس حکم کے ماننے میں ان میں سے بعض کو اطاعت نہیں غداری کی بو نظر آتی تھی.بعض صحابہ نے تو اطاعت کے سمجھ کر بادل ناخواسته آئندہ کے لئے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا اور غالیا انہوں نے سمجھا کہ ہمارا کام صرف اطاعت ہے یہ ہمارا کام نہیں ہے کہ ہم دیکھیں کہ اس حکم پر عمل کرنے کے کیا نتائج ہوں گے مگر بعض صحابہ نے اس حکم کو ماننے سے انکار کر دیا.کیونکہ انہوں نے دیکھا کہ بے شک خلیفہ کی اطاعت فرض ہے مگر جب خلیفہ یہ حکم دے کہ تم مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ تو اس کے یہ معنے ہیں کہ خلافت سے وابستگی چھوڑ دو.پس یہ اطاعت در حقیقت بغاوت پیدا کرتی ہے.اور وہ یہ بھی دیکھتے تھے کہ حضرت عثمان کا ان کو گھروں کو واپس کرنا ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے تھا تو پھر کیا وہ ایسے محبت کرنے والے وجود کو خطرہ میں چھوڑ کر اپنے گھروں میں جاسکتے تھے اس مؤخر الذکر گروہ میں سب اکابر صحابہ شامل تھے.چنانچہ باوجود اس حکم کے حضرت علی، حضرت طلحہ ، حضرت زبیر کے لڑکوں نے اپنے اپنے والد کے حکم کے ماتحت حضرت عثمان کی ڈیوڑھی پر ہی ڈیرہ جمائے رکھا اور اپنی تلواروں کو میانوں میں نہ داخل کیا.باغیوں کی گھبراہٹ اور جوش کی کوئی حد باقی حاجیوں کی واپسی پر باغیوں کی گھبراہٹ نہ رہی جب کہ حج سے فارغ ہو کر آنے شخص والے لوگوں میں سے اگتے دُکے مدینہ میں داخل ہونے لگے.اور ان کو معلوم ہو گیا کہ اب ہماری قسمت کے فیصلہ کا وقت بہت نزدیک ہے.چنانچہ مغیرہ بن الاخنس سب سے پہلے شخ تھے جو حج کے بعد ثواب جہاد کے لئے مدینہ میں داخل ہوئے اور ان کے ساتھ ہی یہ خبر باغیوں کو ملی کہ اہل بصرہ کا لشکر جو مسلمانوں کی امداد کے لئے آرہا ہے صرار مقام پر جو مدینہ سے صرف ایک دن کے راستہ پر ہے آپہنچا ہے.ان خبروں سے متاثر ہو کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ جس طرح ہو اپنے مدعا کو جلد پورا کیا جائے اور چونکہ وہ صحابہ اور ان کے ساتھی جنہوں نے باوجود حضرت عثمان کے منع کرنے کے حضرت عثمان کی حفاظت نہ چھوڑی تھی اور صاف کہہ دیا تھا کہ اگر ہم آپ کو باوجود ہاتھوں میں طاقت مقابلہ ہونے کے چھوڑ دیں تو خدا تعالیٰ کو کیا منہ
لوم چاند ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز دکھا ئیں گے.بوجہ اپنی قلت تعداد اب مکان کے اندر کی طرف سے حفاظت کرتے تھے.اور دروازہ تک پہنچنا باغیوں کے لئے مشکل نہ تھا.انہوں نے دروازہ کے سامنے لکڑیوں کے انبار جمع کر کے آگ لگادی تاکہ دروازہ جل جارے اور اندر پہنچنے کا راستہ مل جاوے.صحابہ نے اس بات کو دیکھا تو اندر بیٹھنا مناسب نہ سمجھا.تلواریں پکڑ کر باہر نکلنا چاہا مگر حضرت عثمان نے اس بات سے روکا اور فرمایا کہ گھر کو آگ لگانے کے بعد اور کون سی بات رہ گئی ہے.اب جو ہونا تھا ہو چکا.تم لوگ اپنی جانوں کو خطرہ میں نہ ڈالو اور اپنے گھروں کو چلے جاؤ.ان لوگوں کو صرف میری ذات سے عداوت ہے.مگر جلد یہ لوگ اپنے کئے پر پشیمان ہوں گے.میں ہر ایک شخص کو جس پر میری اطاعت فرض ہے اس کے فرض سے سبکدوش کرتا ہوں اور اپنا حق معاف کرتا ہوں.(طبری جلد ۲ صفحہ ۲۰۰۲ مطبوعہ بیرت) مگر صحابہ نے اور دیگر لوگوں نے اس بات کو تسلیم نہ کیا اور تلواریں پکڑ کر باہر نکلے.ان کے باہر نکلتے وقت حضرت ابو ہریرہ بھی آگئے اور بار جود اس کے کہ وہ فوجی آدمی نہ تھے وہ بھی ان کے ساتھ مل گئے.اور فرمایا کہ آج کے دن کی لڑائی سے بہتر اور کون سی لڑائی ہو سکتی ہے اور پھر باغیوں کی طرف دیکھ کر فرمایا يُقَومِ مَالِی ادْعُوكُمْ إِلَى النَّجوةِ وَتَدْعُونَنِنَ إِلَى النَّارِ (المؤمن : ۴۲) یعنی اے میری قوم! کیا بات ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم لوگ مجھ کو آگ کی طرف بلاتے ہو.صحابہ کی مفسدوں سے لڑائی یہ لڑائی ایک خاص لڑائی تھی.اور مٹھی بھر صحابہ جو اس وقت جمع ہو سکے انہوں نے اس لشکر عظیم کا مقابلہ جان تو ڑ کر کیا.حضرت امام حسن جو نہایت صلح جو بلکہ صلح کے شہزادے تھے انہوں نے بھی اس دن رجز پڑھ پڑھ کر دشمن پر حملہ کیا.ان کا اور محمد بن طلحہ کا اس دن کا رجز خاص طور پر قابل ذکر ہے کیونکہ ان سے ان کے دلی خیالات کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے.حضرت امام حسن " یہ شعر پڑھ کر باغیوں پر حملہ کرتے تھے.لا دِيْنُهُمْ دِينِي وَلَا أَنَا مِنْهُمْ حَتَّى أَسِيرَ إِلَى طَعَارٍ شَمَامِ طبری جلده صفحه ۳۰۱۴ مطبوعہ بیروت) یعنی ان لوگوں کا دین میرا دین نہیں اور نہ ان لوگوں سے میرا کوئی تعلق ہے اور میں ان سے اس وقت تک لڑوں گا کہ شمام پہاڑ کی چوٹی تک پہنچ جاؤں.شمام عرب کا ایک پہاڑ ہے جس کو بلندی پر پہنچنے اور مقصد کے حصول سے مشابہت دیتے ہیں.اور حضرت امام حسن کا یہ
لوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز مطلب ہے کہ جب تک میں اپنے مدعا کو نہ پہنچ جاؤں اس وقت تک میں برابر ان سے لڑتا رہوں گا اور ان سے صلح نہ کروں گا.کیونکہ ہم میں کوئی معمولی اختلاف نہیں کہ بغیر ان پر فتح پانے کے ہم ان سے تعلق قائم کر لیں یہ تو وہ خیالات ہیں جو اس شہزادہ صلح کے دل میں موجزن تھے.اب ہم طلحہ کے لڑکے محمد کار جز لیتے ہیں وہ کہتے ہیں: انا ابْنُ مَنْ حَامَى عَلَيْهِ بِأَحَدٍ وَرَد أَحْزَابًا عَلَى رَغْمِ مَعَدٍ یعنی میں اس کا بیٹا ہوں جس نے رسول کریم ﷺ کی حفاظت احد کے دن کی تھی اور ی جس نے باوجود اس کے کہ عربوں نے سارا زور لگایا تھا ان کو شکست دے دی تھی.یعنی آج بھی احد کی طرح کا ایک واقعہ ہے اور جس طرح میرے والد نے اپنے ہاتھ کو تیروں سے چھلنی کروالیا تھا.مگر رسول کریم ﷺ کو آنچ نہ آنے دی تھی میں بھی ایسا ہی کروں گا.حضرت عبداللہ بن زبیر بھی اس لڑائی میں شریک ہوئے اور بری طرح زخمی ہوئے.مردان بھی سخت زخمی ہوا.اور موت تک پہنچ کر لوٹا.مغیرہ بن الاخنس مارے گئے.جس شخص نے ان کو مارا تھا اس نے دیکھ کر کہ آپ زخمی ہی نہیں ہوئے بلکہ مارے گئے ہیں زور سے کہا کہ إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ سردارِ لشکر نے اسے ڈانٹا کہ اس خوشی کے موقع پر افسوس کا اظہار کرتے ہو.اس نے کہا کہ آج رات میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ ایک شخص کہتا ہے مغیرہ کے قاتل کو دوزخ کی خبر دو.پس یہ معلوم کر کے کہ میں ہی اس کا قاتل ہوں مجھے اس کا صدمہ ہونا لازمی تھا.مذکورہ بالا لوگوں کے سوا اور لوگ بھی زخمی ہوئے اور مارے گئے اور حضرت عثمان کی حفاظت کرنے والی جماعت اور بھی کم ہو گئی.لیکن اگر باغیوں نے باوجود آسمانی انذار کے اپنی ضد نہ چھوڑی اور خدا تعالیٰ کی محبوب جماعت کا مقابلہ جاری رکھا تو دوسری طرف مخلصین نے بھی اپنے ایمان کا اعلیٰ نمونہ دکھانے میں کمی نہ کی.باوجود اس کے کہ اکثر محافظ مارے گئے زخمی ہو گئے پھر بھی ایک قلیل گروہ برابر دروازہ کی حفاظت کرتا رہا.چونکہ باغیوں کو بظاہر غلبہ حاصل ہو چکا تھا.انہوں نے آخری حیلہ کے طور پر پھر ایک شخص کو حضرت عثمان کی طرف بھیجا کہ وہ خلافت سے دستبردار ہو جائیں.کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اگر خود دست بردار ہو جاویں گے تو مسلمانوں کو انہیں سزا دینے کا کوئی حق اور موقع نہ رہے گا.حضرت عثمان کے پاس جب پیغامبر پہنچا تو آپ نے فرمایا کہ میں نے تو جاہلیت میں بھی
لوم جلد ہم ٣٢٨ اسلام میں ان ت کا آغاز بدیوں سے پر ہیز کیا ہے اور اسلام میں بھی اس کے احکام کو نہیں توڑا.میں کیوں اور کس جرم میں اس عمدہ کو چھوڑ دوں جو خدا تعالیٰ نے مجھے دیا ہے.میں تو اس قمیض کو کبھی نہیں اتاروں گا جو خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے.وہ شخص یہ جواب سن کر واپس آگیا اور اپنے ساتھیوں سے ان الفاظ میں آکر مخاطب ہوا.خدا کی قسم! ہم سخت مصیبت میں پھنس گئے ہیں خدا کی قسم! مسلمانوں کی گرفت سے عثمان کو قتل کرنے کے سوائے ہم بچ نہیں سکتے کیونکہ اس صورت میں حکومت تہ و بالا ہو جائے گی اور انتظام بگڑ جاوے گا اور کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا) اور اس کا قتل کرنا کسی طرح جائز نہیں.اس شخص کے یہ فقرات نہ صرف ان لوگوں کی گھبراہٹ پر دلالت کرتے ہیں بلکہ اس امر پر بھی دلالت کرتے ہیں کہ اس وقت تک بھی حضرت عثمان نے کوئی ایسی بات پیدا نہ ہونے دی تھی جسے یہ لوگ بطور بہانہ استعمال کر سکیں اور ان کے دل محسوس کرتے تھے کہ حضرت عثمان کا قتل کسی صورت میں جائز نہیں.عبد اللہ بن سلام کا مفسدوں کو نصیحت کرنا جب یہ لوگ حضرت عثمان" کے قتل منصوبہ کر رہے تھے.حضرت عبداللہ بن سلام جو بحالت کفر بھی اپنی قوم میں نہایت معزز تھے اور جن کو یہود اپنا سردار مانتے تھے اور عالم بے بدل جانتے تھے تشریف لائے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر ان لوگوں کو نصیحت کرنی شروع کی اور حضرت عثمان کے قتل سے ان کو منع فرمایا.کہ اے قوم! خدا کی تلوار کو اپنے اوپر نہ کھینچو.خدا کی قسم اگر تم نے تلوار کھینچی تو پھر اسے میان میں کرنے کا موقع نہ ملے گا ہمیشہ مسلمانوں میں لڑائی جھگڑا ہی جاری رہے گا.عقل کرو آج تم پر حکومت صرف کوڑے کے ساتھ کی جاتی ہے.(عموماً حدود شرعیہ میں کوڑے کی سزا دی جاتی ہے) اور اگر تم نے اس شخص کو قتل کر دیا تو حکومت کا کام بغیر تلوار کے نہ چلے گا (یعنی چھوٹے چھوٹے مجرموں پر لوگوں کو قتل کیا جاوے گا) یاد رکھو کہ اس وقت مدینہ کے محافظ ملائکہ ہیں.اگر تم اس کو قتل کر دو گے تو ملائکہ مدینہ کو چھوڑ جائیں گے.اس نصیحت سے ان لوگوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ عبد اللہ بن سلام صحابی رسول کریم ایک کو دھتکار دیا.اور ان کے پہلے دین کا طعنہ دے کر کہا کہ اے یہو دن کے بیٹے ! تجھے ان کاموں سے کیا تعلق.افسوس کہ ان لوگوں کو یہ تو یاد رہا کہ عبداللہ بن سلام یہودن کے بیٹے تھے لیکن یہ بھول گیا کہ آپ رسول کریم ﷺ کے ہاتھ پر ایمان لائے
ام جلد ۳۲۹ اسلام میں اختلافات کا آغاز اور رسول کریم نے آپ کے ایمان لانے پر نہایت خوشی کا اظہار کیا اور رسول کریم اے کے ساتھ ہر ایک مصیبت اور دکھ میں آپ شریک ہوئے.اور اسی طرح یہ بھی بھول گیا کہ ان کا لیڈر اور ان کو ورغلانے والا حضرت علی کو رسول کریم ﷺ کا وصی قرار دے کر حضرت عثمان کے مقابلہ پر کھڑا کرنے والا عبد اللہ بن سبا بھی یہو دن کا بیٹا تھا بلکہ خود یہودی تھا اور صرف ظاہر میں اسلام کا اظہار کر رہا تھا.ย حضرت عبداللہ بن سلام تو ان لوگوں سے مفسدوں کا حضرت عثمان کو قتل کرنا.مایوس ہو کر چلے گئے اور ادھر ان لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ دروازہ کی طرف سے جاکر حضرت عثمان کو قتل کرنا مشکل ہے کیونکہ اس طرف تھوڑے بہت جو لوگ بھی روکنے والے موجود ہیں وہ مرنے مارنے پر تلے ہوئے ہیں یہ فیصلہ کیا لہ کسی ہمسایہ کے گھر کی دیوار پھاند کر حضرت عثمان کو قتل کر دیا جائے چنانچہ اس ارادے سے چند لوگ ایک ہمسایہ کی دیوار پھاند کر آپ کے کمرہ میں گھس گئے.جب اندر تھے تو حضرت عثمان " قرآن کریم پڑھ رہے تھے.اور جب سے کہ محاصرہ ہوا تھا رات دن آپ کا یہی شغل تھا کہ نماز پڑھتے یا قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اس کے سوا اور کسی کام کی طرف توجہ نہ کرتے اور ان دنوں میں صرف آپ نے ایک کام کیا اور وہ یہ کہ ان لوگوں کے گھروں میں داخل ہونے سے پہلے آپ نے دو آدمیوں کو خزانہ کی حفاظت کے لئے مقرر کیا.کیونکہ جیسا کہ ثابت ہے اس دن رات کو رویا میں رسول کریم یا آپ کو نظر آئے اور فرمایا کہ عثمان آج شام کو روزہ ہمارے ساتھ کھولنا.اس رویا سے آپ کو یقین ہو گیا تھا کہ آج میں شہید ہو جاؤں گا پس آپ نے اپنی ذمہ داری کا خیال کر کے دو آدمیوں کو حکم دیا کہ وہ خزانہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر پہرہ دیں تاکہ شور و شر میں کوئی شخص خزانہ لوٹنے کی کوشش نہ کرے.غرض جب یہ لوگ اندر پہنچے تو حضرت عثمان کو قرآن کریم پڑھتے پایا ان حملہ آوروں میں محمد بن ابی بکر بھی تھے.اور بوجہ اپنے اقتدار کے جو ان لوگوں پر ان کو حاصل تھا اپنا فرض سمجھتے تھے کہ ہر ایک کام میں آگے ہوں.چنانچہ انہوں نے بڑھ کر حضرت عثمان کی ڈاڑھی پکڑ لی اور زور سے جھٹکا دیا.حضرت عثمان نے ان کے اس فعل پر صرف اس قدر فرمایا کہ اے میرے بھائی کے بیٹے ! اگر تیرا باپ (حضرت ابو بکر) اس وقت ہو تا تو کبھی ایسا نہ کرتا.تجھے کیا ہوا تو خدا کے لئے مجھ پر واقعات شہادت حضرت عثمان
انوار العلوم جلوم ٣٣٠ اسلام میں اختلافات کا آغاز ناراض ہے.کیا اس کے سوا تجھے مجھ پر کوئی غصہ ہے کہ تجھ سے میں نے خدا کے حقوق ادا کروائے ہیں.اس پر محمد بن ابی بکر شرمندہ ہو کر واپس لوٹ گئے.لیکن دوسرے شخص ہیں رہے اور چونکہ اس رات بصرہ کے لشکر کی مدینہ میں داخل ہو جانے کی یقینی خبر آچکی تھی اور یہ موقع ان لوگوں کے لئے آخری موقع تھا ان لوگوں نے فیصلہ کر لیا کہ بغیر اپنا کام کئے واپس نہ ئیں گے اور ان میں سے ایک شخص آگے بڑھا اور ایک لوہے کی شیخ حضرت عثمان کے سر پر ماری اور پھر حضرت عثمان کے سامنے جو قرآن دھرا ہوا تھا اس کو لات مار کر پھینک دیا.قرآن کریم لڑھک کر حضرت عثمان کے پاس آگیا اور آپ کے سر پر سے خون کے قطرات گر کر اس پر آپڑے قرآن کریم کی بے ادبی تو کسی نے کیا کرنی ہے مگر ان لوگوں کے تقویٰ اور دیانت کا پردہ اس واقع سے اچھی طرح فاش ہو گیا.جس آیت پر آپ کا خون گرا وہ ایک زبر دست پیشگوئی تھی جو اپنے وقت میں جا کر اس شان سے پوری ہوئی کہ سخت دل سے سخت دل آدمی نے اس کے خونی حروف کی جھلک کو دیکھ کر خوف سے اپنی آنکھیں بند کر لیں.وہ آیت یہ تھی فَسَيَكْفِيكَهُمُ اللهُ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ (البقرة : ۱۳۸) اللہ تعالیٰ ضرور ان سے تیرا بدلہ لے گا اور وہ بہت سننے والا اور جاننے والا ہے.اس کے بعد ایک اور شخص سودان نامی آگے بڑھا اور اس نے تلوار سے آپ پر حملہ کرنا چاہا.پہلا وار کیا تو آپ نے اپنے ہاتھ سے اس کو روکا اور آپ کا ہاتھ کٹ گیا.اس پر آپ نے فرمایا کہ خد اتعالیٰ کی قسم یہ وہ ہاتھ ہے جس نے سب سے پہلے قرآن کریم لکھا تھا.اس کے بعد پھر اس نے دوسرادار کر کے آپ کو قتل کرنا چاہا تو آپ کی بیوی نائلہ وہاں آگئیں اور اپنے آپ کو بیچ میں کھڑا کر دیا مگر اس شقی نے ایک عورت پر وار کرنے سے بھی دریغ نہ کیا اور وار کر دیا جس سے آپ کی بیوی کی انگلیاں کٹ گئیں اور وہ علیحدہ ہو گئیں.پھر اس نے ایک دار حضرت عثمان پر کیا اور آپ کو سخت زخمی کر دیا اس کے بعد اس شقی نے یہ خیال کر کے کہ ابھی جان نہیں نکلی شاید بچ جاویں اسی وقت جب کہ زخموں کے صدموں سے آپ بے ہوش ہو چکے اور شدت درد سے تڑپ رہے تھے آپ کا گلا پکڑ کر گھونٹنا شروع کیا اور اس وقت تک آپ کا گلا نہیں چھوڑا جب تک آپ کی روح جسم خاکی سے پرواز کر کے رسول کریم اے کی دعوت کو لبیک کہتی ہوئی عالم بالا کو پرواز نہیں کرگئی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.تھے
دم جلد ۳ اسلام میں اختلافات کا آغاز پہلے حضرت عثمان کی بیوی اس نظارہ کی ہیبت سے متأثر ہو کر بول نہ سکیں.لیکن آخر انہوں نے آواز دی اور وہ لوگ جو دروازہ پر بیٹھے ہوئے تھے اندر کی طرف دوڑے.مگر اب مدد فضول تھی جو کچھ ہونا تھا وہ ہو چکا تھا.حضرت عثمان کے ایک آزاد کردہ غلام نے سودان کے ہاتھ میں وہ خون آلودہ تلوار دیکھ کر جس نے حضرت عثمان کو شہید کیا تھا نہ رہا گیا اور اس نے آگے بڑھ کر اس شخص کا تلوار سے سرکاٹ دیا.اس پر اس کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس کو قتل کر دیا.اب اسلامی حکومت کا تخت خلیفہ سے خالی ہو گیا.اہل مدینہ نے مزید کوشش فضول سمجھی اور ہر ایک اپنے اپنے گھر جا کر بیٹھ گیا.ان لوگوں نے حضرت عثمان کو مار کر گھر پر دست تعدی در از کرنا شروع کیا.حضرت عثمان کی بیوی نے چاہا کہ اس جگہ سے ہٹ جاویں تو اس کے لوٹتے وقت ان میں سے ایک کم بخت نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ دیکھو اس کے سرین کیسے موٹے ہیں.بے شک ایک حیادار آدمی کے لئے خواہ وہ کسی مذہب کا پیرو کیوں نہ ہو اس بات کو باور کرنا بھی مشکل ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ رسول کریم ال کے نہایت سابق (قدیم) صحابی آپ کے داماد! تمام اسلامی ممالک کے بادشاہ اور پھر خلیفہ وقت کو یہ لوگ ابھی ابھی مار کر فارغ ہوئے تھے ایسے گندے خیالات کا ان لوگوں نے اظہار کیا ہو.لیکن ان لوگوں کی بے حیائی ایسی بڑھی ہوئی تھی کہ کسی قسم کی بد اعمالی بھی ان سے بعید نہ تھی یہ لوگ کسی نیک مدعا کو لے کر کھڑے نہیں ہوئے تھے.نہ ان کی جماعت نیک آدمیوں کی جماعت تھی.ان میں سے بعض عبد اللہ بن سبا یہودی کے فریب خوردہ اور اس کی عجیب و غریب مخالف اسلام تعلیموں کے دلدادہ تھے.کچھ حد سے بڑھی ہوئی سوشلزم بلکہ بولشوزم کے فریفتہ تھے.کچھ سزا یافتہ مجرم تھے جو اپنا دیرینہ بغض نکالنا چاہتے تھے کچھ لٹیرے اور ڈاکو تھے جو اس فتنہ پر اپنی ترقیات کی راہ دیکھتے تھے.پس ان کی بے حیائی قابل تعجب نہیں.بلکہ یہ لوگ اگر ایسی حرکات نہ کرتے تب تعجب کا مقام تھا.جب یہ لوگ لوٹ مار کر رہے تھے ایک اور آزاد کردہ غلام سے حضرت عثمان کے گھر والوں کی چیخ و پکار سن کر نہ رہا گیا اور اس نے حملہ کر کے اس شخص کو قتل کر دیا جس نے پہلے غلام کو مارا تھا.اس پر ان لوگوں نے اسے بھی قتل کر دیا اور عورتوں کے جسم پر سے بھی زیور اتار لئے اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے گھر سے نکل گئے.
دم جلد ۴ ۳۳۲ اسلام میں اختلافات کا آغاز باغیوں کا بیت المال کو لوٹنا اس کے بعد ان لوگوں نے اپنے ساتھیوں میں عام منادی کرا دی کہ بیت المال کی طرف چلو اور اس میں جو کچھ ہو لوٹ لو.چونکہ بیت المال میں سوائے روپیہ کی دو تھیلیوں کے اور کچھ نہ تھا محافظوں نے یہ دیکھ کر کہ خلیفہ وقت شہید ہو چکا ہے اور ان لوگوں کا مقابلہ کرنا فضول ہے آپس میں یہ فیصلہ کیا کہ یہ جو کچھ کرتے ہیں ان کو کرنے دو.اور بیت المال کی کنجیاں پھینک کر چلے گئے.چنانچہ انہوں نے کی بیت المال کو جاکر کھولا اور اس میں جو کچھ تھا لوٹ لیا.اور اس طرح ہمیشہ کے لئے اس امر کی صداقت پر مہر لگادی کہ یہ لوگ ڈاکو اور لٹیرے تھے.اور ان کو اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہ تھا.اور کیا یہ تعجب کی بات نہیں نکہ وہ لوگ جو حضرت عثمان پر یہ اعتراض دھرتے تھے کہ آپ غیر مستحقین کو روپیہ دے دیتے ہیں حضرت عثمان کی شہادت کے بعد سب سے پہلا کام یہ کرتے ہیں کہ پہلے آپ کا گھر لوٹتے ہیں اور پھر بیت المال.مگر خد اتعالیٰ نے ان کی آرزوؤں کو اس معاملہ میں بھی پورا نہ ہونے دیا.کیونکہ بیت المال میں اس وقت سوائے چند روپوں کے جو ان کی حرص کو پورا نہیں کر سکتے تھے اور کچھ نہ تھا.حضرت عثمان کی شہادت کی خبر جب حضرت عثمان کی شہادت پر صحابہ کا جوش صحابہ کو پہنچی تو ان کو سخت صدمہ ہوا.حضرت زبیر نے جب یہ خبر سنی تو فرمایا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ.اے خدا عثمان پر رحم کر اور اس کا بدلہ لے اور جب ان سے کہا گیا کہ اب وہ لوگ شرمندہ ہیں اور اپنے کئے پر پشیمان ہو رہے ہیں تو آپ نے فرمایا کہ یہ منصوبہ بازی تھی اور پھر یہ آیت تلاوت فرمائی و حیل بَيْنَهُمْ وَ بَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ (: ۵۵) خدا تعالیٰ نے ان کی آرزوؤں کے پورا ہونے میں روکیں ڈال دی تھیں.یعنی جو کچھ یہ لوگ چاہتے تھے چونکہ اب پورا ہوتا نظر نہیں آتا.کل عالم اسلامی کو اپنے خلاف جوش میں دیکھ رہے ہیں اس لئے اظہار ندامت کرتے ہیں.جب حضرت طلحہ کو خبر ملی تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ خدا تعالٰی عثمان پر رحم فرما دے.اور اس کا اور اسلام کا بدلہ ان کو گوں سے لے.جب ان سے کہا گیا کہ اب تو وہ لوگ نادم ہیں تو آپ نے فرمایا کہ ان پر ہلاکت ہو اور یہ آیت کریمہ پڑھی فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةٌ وَلَا إِلَى أَهْلِهِمْ يَرْجِعُونَ (ليس (۵).ان کو وصیت کرنے کی بھی توفیق نہ ملے گی.اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف واپس نہ لوٹ سکیں گے.
م جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز مسلمان اسی طرح جب حضرت علی کو اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عثمان پر رحم فرمادے اور ان کے بعد ہمارے لئے کوئی بہتر جانشین مقرر فرمادے اور جب ان سے بھی کہا گیا کہ اب تو وہ لوگ شرمندہ ہیں تو آپ نے یہ آیت کریمہ پڑھی كَمَثَلِ الشَّيْطَنِ إِذْ قَالَ لِلْإِنْسَانِ اكْفُرْ فَلَمَّا كَفَرَ قَالَ إِنِّي بَرِى مِنْكَ إِنِّي أَخَافُ الله GUNGUNLUNG LG (الحشر: 1) - یعنی ان کی مثال اس شیطان کی ہے جو لوگوں کو کہتا ہے کہ کفر کرو جب وہ کفر اختیار کر لیتے ہیں تو پھر کہتا ہے کہ میں تجھ سے بیزار ہوں میں تو خدا سے ڈرتا ہوں.جب ان لشکروں کو جو حضرت عثمان " کی مدد کے لئے آرہے تھے معلوم ہوا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.تو وہ مدینہ سے چند میل کے فاصلہ پر سے ہی لوٹ گئے اور مدینہ کے اندر داخل ہونا انہوں نے پسند نہ کیا کیونکہ ان کے جانے سے حضرت عثمان کی تو کوئی مدد نہ ہو سکتی تھی اور خطرہ تھا کہ فساد زیادہ نہ بڑھ جاوے اور عام طور پر بلا امام کے لڑنا بھی پسند نہ کرتے تھے.اب مدینہ انہیں لوگوں کے قبضہ میں رہ گیا اور ان ایام میں ان لوگوں نے جو حرکات کیں وہ نہایت حیرت انگیز ہیں.حضرت عثمان کو شہید تو کر چکے تھے ان کی نعش کے دفن کرنے پر بھی ان کو اعتراض ہوا.اور تین دن تک آپ کو دفن نہ کیا جا سکا آخر صحابہ کی ایک جماعت نے ہمت کر کے رات کے وقت آپ کو دفن کیا.ان لوگوں کے راستہ میں بھی انہوں نے روکیں ڈالیں لیکن بعض لوگوں نے سختی سے ان کا مقابلہ کرنے کی دھمکی دی تو دب گئے.حضرت عثمان کے دونوں غلاموں کی لاشوں کو باہر جنگل میں نکال کر ڈال دیا اور کتوں کو کھلا دیا.(طبری جلد 4 صفحہ ۳۰۲۹ مطبوعہ بیروت) نُعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ - واقعات متذکرہ کا خلاصہ اور نتائج ہ صحیح واقعات ہیں جو حضرت عثمان کے آخری یہ وہ ایام خلافت میں ہوئے ان کے معلوم کرنے کے بعد کوئی شخص یہ گمان بھی نہیں کر سکتا کہ حضرت عثمان یا صحابہ کا ان فسادات میں کچھ بھی دخل تھا.حضرت عثمان نے جس محبت اور جس اخلاص اور جس بُردباری سے اپنی خلافت کے آخری چھ سال میں کام لیا ہے وہ انہی کا حصہ ہے.خدائے پاک کے بندوں کے سوا اور کسی جماعت میں ایسی مثال نہیں مل سکتی.وہ بے لوث مسند خلافت پر بیٹھے اور بے لوث ہی اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.ایسے خطرناک اوقات میں جب کہ بڑے بڑے صابروں کا خون بھی جوش میں آجاتا ہے آپ نے ایسا رویہ اختیار کیا کہ آپ کے خون کے پیاسے آپ کے قتل کے لئے کوئی
شوم جلد ۴ اسلام میں اختلافات کا آغاز کمزور سے کمزور بہانہ بھی تلاش نہ کر سکے اور آخر اپنے ظالم ہونے اور حضرت عثمان کے بری ہونے کا اقرار کرتے ہوئے انہیں آپ پر تلوار اٹھانی پڑی.اسی طرح ان واقعات سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کو حضرت عثمان کی خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا.وہ آخر دم تک وفاداری سے کام لیتے رہے اور جب کہ کسی قسم کی مدد کرنی بھی ان کے لئے ناممکن تھی تب بھی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر آپ کی حفاظت کرتے رہے.یہ بھی ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ان فسادات میں حضرت عثمان کے لے انتخاب والیان کا بھی کچھ دخل نہ تھا اور نہ والیوں کے مظالم اس کا باعث تھے کیونکہ ان کا کوئی ظلم ثابت نہیں ہو تا حضرت علی اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر خفیہ ریشہ دوانیوں کا بھی الزام بالکل غلط ہے.ان تینوں اصحاب نے اس وفاداری اور اس ہمدردی سے اس فتنہ کے دور کرنے میں سعی کی ہے کہ سگے بھائی بھی اس سے زیادہ تو کیا اس کے برابر بھی نہیں کر سکتے.انصار پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ حضرت عثمان سے ناراض تھے وہ غلط ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ انصار کے سب سردار اس فتنہ کے دور کرنے میں کوشاں رہے ہیں.فساد کا اصل باعث یہی تھا کہ دشمنان اسلام نے ظاہری تدابیر سے اسلام کو تباہ نہ ہوتے دیکھ خفیہ ریشہ دوانیوں کی طرف توجہ کی اور بعض اکابر صحابہ کی آڑ لے کر خفیہ خفیہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا.جن ذرائع سے انہوں نے کام لیا وہ اب لوگوں پر روشن ہو چکے ہیں.سزا یافتہ مجرموں کو اپنے ساتھ ملایا اور لٹیروں کو تحریص دلائی.جھوٹی مساوات کے خیالات پیدا کر کے انتظام حکومت کو کھوکھلا کیا.مذہب کے پردہ میں لوگوں کے ایمان کو کمزور کیا اور ہزاروں حیلوں اور تدبیروں سے ایک جماعت تیار کی.پھر جھوٹ سے، جعل سازی سے اور فریب سے کام لے کر ایسے حالات پیدا کر دیئے جن کا مقابلہ کرنا حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کے لئے مشکل ہو گیا.ہم نہیں جانتے کہ انجام کیا ہوتا.مگر ہم واقعات سے یہ جانتے ہیں کہ اگر اس وقت حضرت عمر کی خلافت بھی ہوتی تب بھی یہ فتنہ ضرور کھڑا ہو جاتا اور وہی الزام جو حضرت عثمان پر لگائے گئے حضرت عمر پر بھی لگائے جاتے کیونکہ حضرت عثمان نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو حضرت عمرؓ اور حضرت ابو بکر نے نہیں کیا تھا.حضرت علی کی خلافت کے واقعات چونکہ بوجہ قلت وقت چند منٹ میں بیان کئے گئے تھے اور بہت مختصر تھے اس لئے نظر ثانی کے وقت میں نے اس حصہ کو کاٹ دیا.
العلوم جلد ۳۳۵ اسلام میں اختلافات کا آغاز ا.اس مضمون پر برائے اشاعت نظر ثانی کرتے وقت میں نے حاشیہ پر بعض ضروری تاریخی حوالجات دے دیئے ہیں اور مطالعہ کنندہ کتاب کو زیادہ مشقت سے بچانے کے لئے صرف تاریخ طبری کے حوالوں پر اکتفاء کی ہے.الا ماشاء اللہ.منہ _ در حقیقت عشرہ مبشرہ ایک محاورہ ہو گیا ہے ورنہ رسول کریم ﷺ نے اس سے بہت زیادہ صحابہ کی نسبت جنت کی بشارت دی ہے.عشرہ مبشرہ سے دراصل وہ دس مہاجر مراد ہیں جو رسول کریم ﷺ کی مجلس شوری کے رکن تھے اور جن پر آپ کو خاص کا اعتماد تھا.ک اسلامی تاریخ کے بعد کے واقعات سے یہ بات خوب اچھی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ صحابہ کار ٹل کیسا مفید و با برکت تھا کیونکہ کچھ عرصہ کے لئے صحابہ کے دخل کو ہٹا کر خدا تعالٰی نے بتا دیا کہ ان کے علیحدہ ہونے سے کیسے برے نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.اسلام کی تضحیک خود مسلمان کہلانے والوں کے ہاتھوں اس عرصہ میں اس طرح ہوئی کہ دل ان حالات کو پڑھ کر خوف کھاتے ہیں اور جسموں میں لرزہ آتا ہے.(مرزا محمود احمد) ۴.اس سے آپ کی دو غرضیں تھیں.ایک تو یہ کہ مدینہ میں معلمین کی ایک جماعت موجود رہتی تھی اور دوسرے آپ کا خیال تھا کہ صحابہ کو چونکہ ان کے سابق با ایمان ہونے اور رسول کریم ﷺ کے زمانہ کی خدمات کی وجہ سے بیت المال سے خاص حصے ملتے ہیں اگر یہ لوگ جنگوں میں شامل ہوئے تو ان کو اور حصے میں نے اور دوسرے لوگوں کو ناگوار ہو گا کہ سب ماں انہی کو مل جاتا ہے.یعنی بحیثیت سابق ہونے کے بھی حصہ لیں اور اب بھی جہاد کر کے حصہ لیں تو دوسرے لوگ محروم رہ جائیں گے.- لَا تَأْكُلُوا اَبَدًا جِيرَانَكُمْ سَرَفا امل التَّعَارَةِ فِي مُلْكِ ابْنِ عَفَّانَ ان ابن عَفَّانَ الَّذِي جَرَّبْتُم فَطِمُ اللمُوسِ بِحُكْمِ الْفُرْقَانِ ما زال يَعْمَلُ بِالْكِتَبِ مُهَيْمِنًا في كُلِّ عُنْقِ مِنْهُمْ وَ بَنَانِ.جیسا کہ آگے ثابت کیا جاوے گا.یہ اس کا جھوٹ تھا کہ مدینہ کے لوگ اس فتنہ سے محفوظ تھے.بوقت نظر ثانی.یہ پیشگوئی فتح مکہ کی ہے جسے بگاڑ کر اس شخص نے رجعت کا عقیدہ بنالیا.چونکہ مکہ کی طرف لوگ بہ نیت حج اور حصول ثواب بار بار جاتے ہیں اس لئے اس کا نام بھی معاد ہے یعنی وہ جگہ جس کی طرف لوگ بار بار لوٹتے ہیں.جہاں جلاوطن کر کے یہ لوگ بھیجے گئے تھے وہاں کے لوگوں کو خراب کرنے کا ان کو موقع نہ تھا کیونکہ وہاں خاص نگرانی اور نظر بندی کی حالت میں ان کو رکھا جا تا تھا.حضرت معاویہ کے کلام اور ان لوگوں کے جواب سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت عثمان یا ان کے مقرر کردہ حکام سے ان لوگوں کو مخالفت نہ تھی بلکہ قریش سے ہی یا دوسرے لفظوں میں ایمان میں سابق لوگوں سے ہی ان کو حسد تھا.اگر حضرت عثمان کی جگہ کوئی اور صحابی خلیفہ ہوتا.اور ان کے مقرر کردہ والیوں کی جگہ کوئی اور والی ہوتے تو ان سے بھی یہ لوگ اسی طرح حسد کرتے کیونکہ ان کا مدعا صرف حصول جاہ تھا.طبری کی روایت کے مطابق شام میں حضرت عثمان کی مدد کے لئے لوگوں میں جوش دلانے والے صحابہ میں حضرت ابودرداء انصاری بھی شامل تھے.مگر دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرت عثمان کی شہادت سے پہلے فوت ہو چکے تھے جیسا کہ استیعاب اور اصابہ سے ثابت ہے اور یہی بات درست ہے مگر جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے یہ بھی اپنے ایام زندگی میں اس فتنہ کے منانے میں کوشاں رہے ہیں.
رالعلوم جلد ۴ عرفان الهی ( تقریر جلسه سالانه ۱۲ مارچ ۱۹۱۹ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی عرفان الهی
العلوم جلدم ۳۳۹ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرفان انی عرفان الهی تقریر جلسه سالانه ۱۶ مارچ ۱۹۱۹ء) اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ O مَلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ، اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ أمِين - میری عادت پچھلے سالوں میں جلسے کے موقع پر یہ رہی ہے کہ پہلے دن وہ نصائح بیان کیا کرتا ہوں جو عام طور پر جماعت کی اصلاح کے لئے ضروری ہوں اور دوسرے دن کسی ایسے علمی مسئلہ پر لیکچر ہوتا ہے جو جماعت کی عملی اصلاح کا ممدو معاون ہو سکتا ہے.مگر اس سال بعض واقعات کی وجہ سے میں نے ارادہ کیا ہے بشرطیکہ یہ ارادہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے ساتھ مل جائے کہ بجائے اس کے کہ دوسرے دن اس مضمون کو بیان کروں جو علمی طور پر کسی مسئلہ کی تحقیق کے متعلق ہو وہ پہلے ہی دن بیان کروں اور جیسا کہ پہلے جلسوں میں پہلے دن کی تقریر چند متفرق مسائل کے متعلق ہوتی تھی اب کے وہ تقریر دوسرے دن ہو.اس ارادہ کے ماتحت آج میں آپ لوگوں کو ایک نہایت ضروری امر کے متعلق کچھ سناتا ہوں.لیکن پیشتر اس کے کہ اصل مضمون کو شروع کروں اتنا کہدینا ضروری سمجھتا ہوں کہ پچھلے دنوں کی طویل اور سخت علالت کی وجہ سے اور پھر بوجہ اس کے کہ چند ہی دن ہوئے مجھے لاہور جانا پڑا تھا اور وہاں متواتر کئی دن بہت دیر تک مذہبی گفتگو کرنی پڑی اور دو لیکچر بھی دیئے.جس سے صحت پر بہت اثر پڑا
۳۴۰۰ عرفان التی اور ابھی تک طبیعت بہت کمزور ہے.اس لئے میں اس وقت اپنے آپ کو اس قابل نہیں پاتا کہ جس طرح پہلے جلسوں میں چار پانچ چھ گھنٹے مسلسل مضمون بیان کیا کرتا تھا اسی طرح آج دو تین گھنٹے بھی بیان کر سکوں.دوسرے میں سمجھتا ہوں کہ شاید میری آواز بھی سب تک نہ پہنچ سکے.میں کوشش کرونگا کہ جہاں تک خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے بلند آواز سے بولوں تاکہ سب کو پہنچ جائے.لیکن اگر کسی تک نہ پہنچ سکے تو وہ اسے خدا تعالی کی حکمت کے ماتحت سمجھے.خدا تعالیٰ جس کو چاہتا ہے کوئی بات سنواتا ہے اور جس کو چاہتا ہے محروم رکھتا ہے.اور اس کی مرضی اور منشاء کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا اور ہر ایک انسان کو چاہئے کہ اپنی مرضی کو اس کی مرضی کے ماتحت کر دے.پس میں کوشش کرونگا کہ اس مضمون سے آپ لوگوں کو آگاہ کروں جو آج کے لئے منتخب کیا گیا ہے آگے جو خدا کی مرضی.میں نے پچھلے جلسوں پر ذکر الہی" اور "حقیقۃ الرؤیا" کے متعلق آپ لوگوں کو ان تحقیقات سے واقف کیا تھا جو مجھے ان کے متعلق ہے.لیکن آج ایک ایسے اہم مضمون کے متعلق بولنا چاہتا ہوں کہ جس کا جاننا ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے.اور اس قدر ضروری ہے کہ اس کے جانے بغیر کوئی نجات کا امیدوار ہی نہیں ہو سکتا.میرے پہلے لیکچر فروعی اور اجزاء کے متعلق تھے.لیکن آج کا لیکچر کلی اور اصلی معاملہ کے متعلق ہے.اور میں افسوس کرتا ہوں کہ اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے ایسی حالت اور ایسے وقت میں کھڑا ہوا ہوں کہ مجھے طاقت نہیں ہے کہ تفصیل کے ساتھ سنا سکوں.اس وقت بھی لوگوں کے ملنے کی کوفت اور گردو غبار کی وجہ سے میرے سر میں ایسا شدید درد ہے کہ باوجود اس کے کہ دوا کھا کے آیا ہوں ذرا سر ہلا تا ہوں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا پھٹنے لگا ہے.لیکن اگر اللہ نے چاہا تو میں اس پیغام کو جو میرے نزدیک ہر ایک مسلمان کے لئے پہلا اور آخری پیغام ہے پہنچانے کی کوشش کرونگا.پچھلے دنوں جیسا کہ آپ لوگوں کو معلوم ہے میں سخت بیمار رہا ہوں.اس بیماری میں مجھے چھ چھ گھنٹے ضعف دل کے دورے ہوتے رہے ہیں.اس حالت میں میرے قلب پر ایک خاص اثر ہوا جس کے ماتحت میں ایک ایسی بات بیان کرنا چاہتا ہوں جو میرے لئے بھی اور آپ کے لئے بھی نہایت ضروری ہے.اس وقت میں نے خیال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ہم پر بڑے بڑے احسان کئے ہیں.اور ایک تاریک گڑھے سے نکال کر نور کے مینار پر بٹھا دیا ہے.مگر باوجود اس کے وہ تعلیم جو آپ لوگوں کو دینا چاہتے تھے اور جو
انوار العلوم جلد ۴ اسم سم عرفان الهی قرآن میں درج ہے اس کے اخذ کرنے میں ابھی بڑی کوشش اور سعی کی ضرورت ہے.اس وقت جب کہ بظاہر یہی معلوم ہوتا تھا کہ میری آخری گھڑیاں ہیں میرے دل میں اگر کوئی خلش تھی تو وہ یہی تھی کہ ابھی تک ہماری جماعت اس مقام پر نہیں پہنچی جس پر پہنچانے کی حضرت مسیح موعود کو خواہش تھی.اس کے لئے میں نے اس گھڑی میں جو آخری سمجھی جاتی تھی دعا کی کہ الہی اس مصیبت کو ٹال دے اور ہماری جماعت کو وہ نور اور معرفت عطا کر جس سے ہمیشہ تیرے پاک بندے مخصوص رہے ہیں.میرے مولا نے میری اس وقت کی دعا قبول کر لی اور مجھے ہی موقع دے دیا کہ آپ لوگوں کو آپ کے فرائض کی طرف متوجہ کروں.اور پھر اس بات کا موقع دیا کہ آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاؤں کہ آپ کو کس مقصد مدعا اور غرض کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کس طرف خدا کا رسول تمہیں لے جانا چاہتا تھا.اس مضمون کے متعلق جو آج میں بیان کرنے والا ہوں گذشتہ سال میں نے کچھ تقریر میں شروع کی تھیں.جس کا مدعا اور مقصد یہ تھا کہ بتایا جائے کہ معرفتِ الہی اور عرفان الہی کسی طرح حاصل ہو سکتا ہے مگر وہ تقریر میں درمیان میں ہی رہ گئیں.ابھی صرف چار خطبے بیان کئے تھے کہ طبیعت خراب ہو گئی اور مجھے بہت سا عرصہ قادیان سے باہر رہنا پڑا.باہر سے آکر پھر بیماری کا دورہ ہوا اور یہ مضمون تعویق میں پڑ گیا.اول تو وہ مضمون ہی نامکمل رہا اور اگر مکمل بھی ہو جاتا تو یہ کوئی ضروری نہیں کہ دوبارہ بیان نہ کیا جائے.کیونکہ دوبارہ بیان کرنے کی اس وقت ضرورت نہیں رہتی جب اس پر عمل شروع ہو جائے.اور جب تک نہ ہو اس وقت تک ضرورت باقی رہتی ہے.پس جب تک لوگ عمل کرنے نہ لگ جائیں ضروری ہے کہ اسے بیان کیا جائے.میں نے بتایا ہے کہ میں اس وقت زیاد دیر نہیں بول سکتا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اگر مختصری الفاظ میں ہی یہ پیغام پہنچا دونگا تو خدا تعالیٰ کے حضور اپنے فرض سے بری ہو جاؤنگا اور کہہ سکوں گا کہ میں نے انہیں پیغام پہنچا دیا تھا.آگے اگر انہوں نے عمل نہیں کیا تو یہ ان کا قصور ہے میرا نہیں.پس میں آج اپنے فرض سے سبکدوش ہو جاؤ نگا اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی.عرفان الہی ایک ایسا اہم اور ضروری مسئلہ ہے کہ کوئی شخص اس کی ضرورت سے مستغنی نہیں ہو سکتا.بلکہ ہر ایک کو اس کی ضرورت ہے بہت لوگ ایسے ہیں جو شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں وہ لطف اور سرور حاصل نہیں ہو تا جو ایمان کا نتیجہ ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں ہم نمازیں پڑھتے
انوار العلوم جلد ۳۲ عرفان التي روزے رکھتے ، حج کرتے، زکوۃ دیتے صدقہ و خیرات کرتے ، دعائیں مانگتے ہیں مگر باوجود اس کے اس درجہ کو نہیں پہنچتے کہ لذت اور سرور حاصل ہو سکے.ایسے لوگ التجاء کرتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسے گر بتا دیے جائیں جن کے ذریعہ عرفان الہی حاصل ہو سکے.اس میں شک نہیں کہ یہ ایک ایسا ضروری امر ہے کہ انسان کی پیدائش ہی اسی لئے ہوئی ہے.اور دوسری مخلوق اور انسان میں فرق ہی یہ ہے کہ انسان کو عرفان الہی حاصل کرنے کی طاقت حاصل ہے اور دوسری مخلوق کو نہیں.اور اگر یہ انسان کو حاصل نہ ہو تو پھر وہ بہائم سے بد تر ہوتا ہے.کیونکہ ان کو طاقت نہیں دی جاتی اس لئے وہ اس کے حاصل نہ کرنے میں معذور ہیں.لیکن اس کو طاقت دی جاتی ہے جس سے یہ فائدہ نہیں اٹھاتا.تو عرفان الٹی ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے اور اس کے بغیر کوئی انسان کامل نہیں ہو سکتا.ہماری جماعت میں اس بات کی تڑپ پائی جاتی ہے کہ اللہ تعالٰی کی محبت دلوں میں پیدا ہو جائے.اور جسم کے ذرے ذرے میں خدا تعالیٰ کی جلوہ گری ہو.مگر باوجود اس سچی تڑپ کے انہیں یہ بات حاصل نہیں ہوتی اور وہ شکایت ہی کرتے رہتے ہیں.بہت لوگ ایسے ہیں جو راتوں کو اٹھ اٹھ کر روتے اور دنوں میں بہت سا وقت اسی میں صرف کرتے ہیں کہ خدا مل جائے.مگر پھر بھی ان کا مدعا حاصل نہیں ہوتا اور باوجود کوشش اور سعی کے انہیں ان کا محبوب نہیں ملتا.ان پر عرفانِ الہی کے دروازے کھولے نہیں جاتے.ان کے اور محبوب کے درمیان دیوار حائل ہی رہتی ہے.اب سوال ہو تا ہے کہ وہ کونسے ذرائع اور طریق ہیں جن سے روک دور ہو سکتی اور مدعا حاصل ہو سکتا ہے.ان کوششوں اور محنتوں کے بعد بہت سے لوگ جن کو خدا نہیں ملتا بالکل مایوس ہو جاتے اور یہ سمجھ لیتے ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں.اور یا تو وہ خدا کے ملنے کے لئے تڑپتے اور کوشش کرتے تھے یا اس کے بالکل ہی منکر ہو جاتے ہیں.وہ کہتے ہیں ہمیں بتلایا گیا تھا کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے تم خدا کو پاسکتے ہو.ہم نے اپنی طرف سے اس پر عمل کرنے میں کوئی کمی نہیں کی.اور جس قدر ہماری طاقت میں تھا ہم نے کوشش کی.مگر ہمیں خدا نہیں ملا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کوئی ہے ہی نہیں.کیونکہ اگر ہو تا تو ضرور ملتا.و اس وقت ایک دوست نے رقعہ دیا ہے.جو لکھتے ہیں کہ معرفت الہی اور عرفان الہی کی تشریح کر دی جائے.ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ کوئی مضمون اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک یہ نہ بتلا دیا جائے کہ وہ ہے کیا چیز.پس جب میں عرفان الہی کے متعلق بیان کرنے کے لئے تو کھڑا ہوں تو جب تک اس کی تعریف ہی نہ تاؤ نگا کیا بیان کر سکوں گا اور آپ لوگوں کو کیا سمجھا سکونگا.آپ تسلی رکھیں کہ معرفت الہی کی تشریح خود بخود آگے آجائیگی.
لوم جلد ۳ عرفان الهی غرض بہت لوگ خواہش رکھتے ہیں کہ کسی طرح خدا تعالی کی معرفت انہیں حاصل ہو جائے.راتوں کو جاگتے روتے اور تڑپتے ہیں.دن میں ان کی حالت اس ماں کی طرح ہوتی ہے.جس کا اکلوتا بچہ بچھڑا ہوتا ہے.وہ گویا انگاروں پر لوٹ رہے ہوتے ہیں.مگر باوجود اس کے خدا تعالیٰ کی معرفت اور عرفان انہیں حاصل نہیں ہوتا.اب سوال ہوتا ہے کہ یا تو اس قدر سعی اور کوشش کے ہوتے ہوئے خدا کے نہ ملنے کے معنی یہ ہیں کہ خدا ہے ہی نہیں.اور اگر ہے تو یہ ماننا پڑے گا کہ پھر اس کے پانے کا کوئی طریق ہی نہیں.لیکن یہ دونوں خیال باطل اور دونوں باتیں غلط ہیں.دراصل ہر ایک چیز کے پانے اور اس کے ملنے کی خاص ترکیبیں ہوتی ہیں.اور جب تک ان کو استعمال نہ کیا جائے وہ حاصل نہیں ہو سکتی پیشتر اس کے کہ میں تفصیل کے ساتھ ان ترکیبوں کو بیان کروں جن کے ذریعہ خدا حاصل ہو سکتا ہے یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ عرفانِ الہی اور معرفت الہی کے معنی کیا ہیں.یوں تو بہت لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں معرفت الہی حاصل نہیں ہوتی لیکن وہ جانتے نہیں کہ معرفت الہی ہوتی کیا ہے ؟ انہوں نے باپ دادا سے ان الفاظ کو سنا ہوا ہے مگر ان کا اصل مطلب اور معنی نہیں سمجھتے.اس لئے میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کے کیا معنی ہیں.عرفان اور معرفت عربی کے لفظ ہیں جو قریباً قریباً علم کے مترادف ہیں.مگر علم اور ان میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ علم میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ بغیر کوشش اور تدبیر کے بھی حاصل ہو جاتا ہے مگر عرفان غور اور فکر سے حاصل ہو سکتا ہے.اور گو علم کا لفظ عرفان کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے مگر عرفان کے معنوں میں یہ شرط پائی جاتی ہے کہ غور اور فکر کے بعد حاصل ہو.گویا ان میں عموم اور خصوص کی نسبت ہے.علم عام ہے اور عرفان خاص.اسی لئے عربی کے محاورہ کے ماتحت یہ تو کہتے ہیں کہ عَرَفَ رَبِّه بندہ نے اپنے رب کو پہچان لیا.مگر یہ نہیں کہتے کہ عَرَفَ عَبْدَة - اللہ نے بندہ کو پہچان لیا.بلکہ خدا تعالیٰ کی نسبت علم کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ خدا کو کسی فکر اور غور کی ضرورت نہیں.پس خدا تعالٰی کے علم کے متعلق عرفان کا لفظ نہیں بولا جا سکتا بلکہ یہ بندہ کے علم کے متعلق ہی بولا جاتا ہے.عرفان کے معنی یہ ہوئے کہ فکر، غور اور تدبر کے بعد انسان کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا علم حاصل ہو اور وہ اپنے رب کو پہچان لے.پہچاننے کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ باتیں جو کسی میں خاص طور پر پائی جاتی ہیں اور دوسروں سے ممتاز کرتی ہیں ان کے ذریعہ سے اس کی شناخت کرے.مثلاً اگر کہا جائے کہ زید
انوار العلوم جلدم لم سمسم عرفان الهی نے بکر کو پہچان لیا تو اس کا یہی مطلب ہو گا کہ وہ باتیں جو خاص بکر میں پائی جاتی تھیں اور دوسروں میں نہیں، ان کے ذریعہ سے اس نے بکر کو مشخص کر لیا کہ فلاں شخص بکر ہے.اسی طرح عرفان الہی کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ بندہ نے خدا تعالٰی کی جو صفات آسمانی کتاب میں پڑھیں اور معلوم کی ہیں کہ خدا ایسا رحیم و کریم ہے، ایسا ستار و غفار ہے ، اسکو ایک ایسی ہستی مل جاوے کہ جس میں وہ صفات پائی جاتی ہوں اور وہ ان صفات کا مشاہدہ کر لے.ورنہ عرفان کے یہ معنی نہیں کہ انسان کو یہ معلوم ہو جائے کہ خدارحیم، کریم اور رحمن ہے کیونکہ یہ تو ہر مسلمان جانتا ہی ہے.اور اگر یہی عرفان ہوتا تو اور زیادہ عرفان حاصل کرنے کی ضرورت ہی نہ رہتی اور خدا تعالی کی مختلف صفات جو قرآن اور حدیث میں بیان کی گئی ہیں ان کو معلوم کر کے ہر ایک انسان عارف کہلا سکتا ہے مگر ایسا نہیں ہوتا.سب لوگ مانتے ہیں کہ خدا رب ہے.وہ مانتے ہیں کہ خدا رحیم ہے.وہ اقرار کرتے ہیں کہ خدا کریم ہے ، حفیظ ہے ، مھیمن ہے مگر ان کو عارف باللہ نہیں کہا جاتا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محض خدا تعالیٰ کی صفات کو جان لینے سے کوئی انسان عارف نہیں ہو سکتا.دراصل عارف باللہ وہ ہوتا ہے جو خدا کو پہچان لیتا ہے.اور اس پہچانے کی تشریح یہ ہے کہ اس میں جو باتیں ایسی ہیں جو اور کسی ہستی میں نہیں پائی جاتیں ان کا مشاہدہ کر لیتا ہے.اس کی مثال یہ ہے کہ کسی نے سنا ہو کہ زید کی شکل ایسی ہے اس کی عادات ایسی ہیں ، اس کی صفات ایسی ہیں ، اس کا قد اتنا وہ کپڑے اس طرح کے پہنا کرتا ہے ، اب وہ کسی جگہ ان خصوصیات کا آدمی دیکھے اور ان خصوصیات کا خیال کر کے سمجھ لے کہ یہ زید ہے تو کہیں گے کہ اس نے زید کو پہچان لیا.اسی طرح عرفان الہی کے یہ معنی ہیں کہ خدا تعالیٰ کی صفات کا علم حاصل ہونے کے بعد انسان کو یہ بھی معلوم ہو جائے کہ یہ صفات جو ایک ہستی میں بتائی جاتی ہیں وہ فلاں ہے.ایسا انسان صرف یہی نہیں جانتا کہ ایک ہستی میں ہے بلکہ وہ ایک ایسی ہستی کو پالیتا ہے اور مشاہدہ کر لیتا ہے کہ واقعی یہی فیمی ہے.تو عرفان کے یہ معنی ہیں کہ جو باتیں سنی ہوئی ہیں ان کو کسی ہستی میں پالیا جائے اور معلوم ہو جائے کہ یہی وہ ہے جس کی فلاں فلاں صفات ہیں.مگر افسوس کہ بہت لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہو تاکہ عرفان کیا ہے.اور وہ یونہی سنے ہوئے الفاظ کو سامنے رکھ کر روتے اور چلاتے ہیں کہ ہمیں عرفان حاصل ہو جائے.ان سے اگر پوچھا جائے تو 99 فیصدی نہیں بلکہ ہزار میں سے ۹۹۹ کچھ بھی نہیں بتا سکیں گے.ان کی مثال ایسی ہوتی ہے جیسا کہ رات کے اندھیرے میں کوئی شخص ہاتھ پاؤں مارے
۵سوم ۳ عرفان امی م جلد ۴ پر اور کچھ تلاش کرے لیکن اسے یہ بھی معلوم نہ ہو کہ میں کیا تلاش کرتا ہوں.اب اگر اسے وہ چیز مل بھی جائے جس کا اس نے صرف نام سنا ہوا ہے.اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا باتیں پائی جاتی ہیں ، اس کی کیا صفات ہیں اور وہ کس طرح کی ہے تو اسے پہچان ہی نہیں سکے گا.اور اس کے کو پھینک کر پھر اپنی تلاش کو جاری رکھے گا.مثلاً ایک شخص کے کہ مجھے زید سے ملنا ہے مگر اسے یہ معلوم نہ ہو کہ زید کہاں رہتا ہے ، اس کی کیسی شکل ہے، کیسی عادات ہیں اب اگر اسے زید کہیں مل بھی جائے تو اس کے پاس سے گزر جائیگا اور اسے پہچان ہی نہیں سکے گا.اسی طرح وہ انسان جو عرفان الہی کے متعلق جانتے ہی نہیں کہ کیا ہوتا ہے اول تو وہ اس بات کے مستحق ہی نہیں کہ انہیں عرفان الہی حاصل ہو اور خدا ہے.لیکن اگر کسی طرح وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا مشاہدہ بھی کر لیں تو انہیں کیا معلوم ہو سکے گا اور وہ اس کی ذات کو دیکھتے ہوئے بے پہچانے آگے گذر جاویں گے.ایسے لوگوں کی جو بلا معرفت اور عرفان الہی کی حقیقت کو سمجھے اس کی جستجو میں لگ جاتے ہیں بعینہ اس شخص کی مثال ہے جس کی نسبت کہتے ہیں کہ اس نے کسی راستہ پر گزرنے والے سے کچھ شعر نے جن میں کسی معشوق کی بہت تعریف کی گئی تھی اور اس کی کی نسبت بتایا گیا تھا کہ وہ اس قدر خوبصورت ہے کہ ساری دنیا اس پر عاشق ہو گئی ہے.اس نے خیال کیا کہ جب ساری دنیا اس پر عاشق ہو رہی ہے تو پھر میں بھی کیوں اس کا عاشق نہ بنوں.وہ بھی عاشق کہلانے اور اس کی تعریف اور فرقت میں شعر پڑھنے لگ گیا.وہ ایک مدرسہ میں مدرس تھا.ایک دن اس کا کوئی دوست مدرسہ میں اسے ملنے کے لئے گیا.وہاں سے معلوم ہوا کہ وہ تو کچھ عرصہ سے یہاں آتا ہی نہیں.پھر وہ اس کے گھر گیا اور جا کر لونڈی سے کہا کہ اپنے مالک کو کہو ایک آدمی تم سے ملنا چاہتا ہے.لونڈی نے کہا کہ آج کل تو وہ کسی سے ملتا نہیں کیونکہ اسے سخت صدمہ پہنچا ہوا ہے اس نے کہا کہ تو جا کر میرا ذکر اس سے کر دے اگر اس نے پھر بھی ملنے سے انکار کر دیا تو میں واپس چلا جاؤنگا.اس نے جا کر پیغام سنا دیا جس پر اس مدرس نے اس شخص کو اندر بلا لیا جب اندر گیا تو دیکھا کہ وہ بہت دبلا پتلا اور کمزور ہو گیا ہے.پوچھا کیا حال ہے.اس نے کہا مجھ پر بڑا صدمہ پڑا ہے.دوست نے کہا کیا کوئی رشتہ دار فوت ہو گیا ہے.اس نے کہا رشتہ دار دنیا میں فوت ہوا ہی کرتے ہیں.دوست نے کہا پھر کیا ہوا ہے اس نے کہا میری معشوقہ مرگئی ہے.دوست نے پوچھا وہ کون تھی اور کہاں رہتی تھی ، اس کا کیا نام تھا؟ اس نے کہا مجھے اس کا نام معلوم نہیں اور نہ یہ جانتا ہوں کہ کہاں رہتی تھی اور نہ ہی یہ
م ۳ عرفان الهی پتہ ہے کہ اس کا حلیہ کیا تھا.دوست نے کہا جب آپ اس کی شکل تک کے واقف نہیں ہیں تو پھر اس پر عاشق کیونکر ہو گئے.اس نے کہا اصل بات یہ ہے کہ میں ایک دن مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی شخص یہ شعر پڑھتا جا رہا تھا کہ فلاں عورت پر ساری دنیا عاشق ہو گئی ہے.یہ سن کر میں بھی اس پر عاشق ہو گیا.اس کے بعد ایک دن میں نے کسی کو یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا کہ اتم عمر گدھے پر سوار ہو کر کسی جگہ گئی تھی مگر نہ وہ کوئی اور نہ اس کا گدھا لوٹا.اس پر میں نے خیال کیا کہ ہو نہ ہو یہ میری معشوقہ ہے اور وہ کوئی جو نہیں تو ضرور مر ہی گئی ہو گی.ورنہ اس قدر دیر تک وہاں ٹھہرنے کی کیا وجہ تھی.اب تم خود ہی سمجھ سکتے ہو کہ اس صدمہ جانکاہ کے بعد میں جس قدر رنج و غم کا اظہار کروں تھوڑا ہے.اس پر وہ دوست ظاہر میں اس کے صدمہ پر اور دل میں اس کی عقل پر اظہار افسوس کرتا ہوا اٹھ کھڑا ہوا.تو ایسے لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں جو کہتے ہیں ہائے ہمیں خدا نہیں ملتا.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ خدا ہے کیا.عرفان الہی کے معنے ہیں."خدا کی پہچان" لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کی صفات کا علم ہو جائے.کیونکہ یہ تو قرآن اور حدیث میں بیان ہو چکی ہیں.اگر عرفان الہی کے معنی خدا کی صفات کا پتہ لگانا ہو تو یہ تو پہلے سے ہی معلوم ہوتی ہیں.باقی رہی خدا تعالی کی ذات.اس کی گنہ نہ آج تک ی کوئی پاسکا ہے اور نہ پا سکتا ہے.اس لئے معلوم ہوا کہ عرفان کے کچھ اور معنی ہیں.اور وہ یہی کہ انسان نے خدا کی جو صفات سنی اور معلوم کی ہوں وہ جس ہستی میں پائی جاتی ہیں وہ اسے معلوم ہو جائے.یہ ہے عرفان الہی کے حصول کا طریق اور اسی کے آگے مختلف نام ہیں.اب اس عرفان کے لئے دیکھنا چاہئے کہ یہ کس طرح عرفانِ الہی کے حصول کا طریق حاصل ہو سکتا ہے اور اس کے حصول کے کیا ذرائع ہیں.اس کے لئے سب سے پہلی بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کچھ وہ لوگ ہیں جو کوشش کرتے ہیں مگر انہیں عرفان حاصل نہیں ہوتا.ان کا ذکر چھوڑ کر ان کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو کوشش تو کچھ نہیں کرتے مگر کہتے ہیں کہ ہمیں خدا مل جائے.ایسے لوگوں کے اعمال کو اگر دیکھا جائے تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ خدا کو پانے کے لئے کچھ بھی کوشش نہیں کرتے اور ان کا حال ایسا ہی ہوتا ہے جیسا کہ مجلس میں اگر کسی کا ذکر آجائے تو اس کا خیال آجاتا ہے.وہ جب کبھی خدا کے حاصل کرنے اور اس کے پانے کا ذکر سنتے ہیں تو وہ بھی خواہش کرتے ہیں کہ ہمیں خدا مل جائے.لیکن ایسے لوگوں کو کسی صورت میں بھی خدا نہیں مل سکتا.
انوار العلوم جلد ) سمسم عرفان الهی عرفانِ الہی تو ایک بڑی بیش قیمت اور گراں بہا چیز ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی بغیر محنت اور کوشش کے نہیں مل سکتی.چھوٹے بچے جھاڑیوں سے بیر کھاتے ہیں.بیر ایک بہت معمولی سی اور مفت ہاتھ آنے والی چیز ہے.جنگل میں بڑی کثرت سے پیدا ہوتے ہیں لیکن ان کو حاصل کرنے میں بھی ہاتھ زخمی ہو جاتے ہیں اور کپڑے پھٹ جاتے ہیں.پس اگر بیروں جیسی معمولی چیز بھی بغیر محنت اور مشقت کے حاصل نہیں ہو سکتی تو پھر خدا کس طرح بغیر محنت اور کوشش کے حاصل ہو سکتا ہے.دونوں جہانوں میں اگر کوئی چیز ہے تو وہ خدا ہے.اور جب بے حقیقت اور معمولی چیزوں کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرنی پڑتی ہے تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا جو سب چیزوں کو پیدا کرنے والا ہے وہ صرف ایک آدھ دفعہ آہ کھینچنے اور افسوس کا اظہار کرنے سے مل جائے.ایسے لوگوں کو نہ کبھی خدا ملا ہے نہ مل سکتا ہے اور نہ ملیگا.کیونکہ خدا کو پانے کے لئے ضروری ہے کہ مجاہدات کئے جائیں ورنہ اگر کوئی اس امید پر بیعت کرتا ہے کہ ادھر ہاتھ پر ہاتھ رکھا اور ادھر خدا کی درگاہ میں پہنچ جائیگا تو یہ اس کی غلطی ہے اور وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا.بعض نادان سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ایسے بزرگ ہوئے ہیں کہ ادھر انہوں نے کسی کی طرف نظر کی اور ادھر اس کے سارے زنگ دور ہو گئے اور وہ قطب بن گیا.لیکن یہ بالکل غلط ہے خدا کی معرفت اس قدر آسانی سے نہ کبھی ملی ہے اور نہ آئندہ مل سکتی ہے.اور اس وقت تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں پائی جاتی کہ معرفت بغیر کسی قربانی ، بغیر کسی کوشش اور بغیر کسی محنت کے کسی کو حاصل ہوئی ہو.سب سے اعلیٰ درجہ کے انسان تو انبیاء ہیں.اولیاء تو ان سے بہت کم درجہ کے ہوتے ہیں.ان کے متعلق یہ کہنا کہ سید عبد القادر جیلانی نے ایک چور کی طرف دیکھا تو قطب بن گیا.یا حضرت معین الدین چشتی کو آپ کے استاد نے ایک نظر میں اس درجہ تک پہنچا دیا اور انہیں سب کچھ حاصل ہو گیا بالکل غلط ہے.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالٰی کا وہ رسول جس کے طفیل اور جس کی غلامی سے ان کو سب کچھ ملا اس کو خدا کس طرح ملا.اس کے لئے قرآن و حدیث سے پتہ لگ سکتا ہے قرآن میں خدا تعالیٰ رسول کریم اللہ ﷺ کو فرماتا ہے.وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى (الضحی : (۸) کہ ہم نے تجھ کو اپنی محبت میں جب ایسا چور پایا کہ تمہیں اپنے سر پیر کی بھی خبر نہ رہی اور توجب محبت الہی میں ایسا کم ہو گیا کہ تجھے اپنا پتہ ہی نہ رہا اس وقت ہم نے تجھے ہدایت دی.ضال کے اصل معنی محبت میں چور اور گم ہونے کے ہیں.اور قرآن اس بات کی شہادت دیتا
م جلد ۴ ۳۴۸ عرفان الهی ہے کہ رسول کریم ال کبھی گمراہی اور ضلالت میں نہیں پڑے مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَ مَا غُوى (النجم : (۳) بلکہ آپ کے ہر ایک فعل کو اسوہ حسنہ قرار دیتا ہے.لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ اسْوَةٌ حَسَنَةٌ (الاحزاب : (۲۲) اب خال کے معنی ایسے ہی کئے جائینگے جو دوسری آیات کے مطابق ہوں اور وہ یہی ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تو میری محبت میں اس قدر گم ہو گیا تھا کہ تجھے پتہ ہی نہ تھا کہ میں کہاں جارہا ہوں اور تجھے میری تلاش میں اپنے سر پیر کی بھی ہوش نہ رہی.تیرے تمام خیالات اور تمام جذبات میری محبت میں گم ہو گئے.رسول کریم کے ایسا سم ہونے کو ہم ماننے کے لئے تیار ہیں اور تیار کیا ہم تو کہتے ہیں ایسا ضرور ہوا ہے.ایسی شدید محبت پیدا ہونے پر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.فہدی اس کے بعد ہم نے ہدایت کی.اب دیکھ لو یہ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حال تھا.باقی انبیاء کو آپ پر قیاس کر لو کیونکہ آپ تمام انبیاء کے سردار اور ان کے احوال کے جامع تھے.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آپ کو تو خدا کی معرفت کے لئے محنت برداشت کرنی پڑی ہو مگر اوروں کو یونسی حاصل ہو گئی ہو.اگر کسی شخص کو محنت کے بغیر یہ نعمت حاصل ہو سکتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ضرور محنت کے بغیر حاصل ہوتی.لیکن جب رسول کریم کے متعلق آیا ہے کہ انہیں اپنے آپ کو مٹانے کے بعد خد املا تو یہ خیال بالکل غلط ہو جاتا ہے کہ کسی شخص کو اس امت کے اولیاء میں ایسی طاقت مل گئی کہ وہ ایک نظر میں لوگوں کو اقطاب بنا دیتے تھے.جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر محنت کے یہ درجہ نہیں ملا تو اور کسی کو کس طرح مل سکتا ہے.پس جو لوگ اس نعمت کو حاصل کرنا چاہتے ہیں انہیں شدید محنت کرنی پڑیگی.اس کے بغیر کچھ حاصل ہونا بالکل ناممکن ہے تعجب ہے کہ انگریزی کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لڑکے کم از کم ۱۶ سال محنت اور مشقت کرتے ہیں مگر خدا کا عرفان ایک دن میں حاصل کر لینا چاہتے ہیں.اس میں شک نہیں کہ عرفان الٹی خدا کے فضل اور اس کی توفیق سے حاصل ہو سکتا ہے.ورنہ اگر دنیا کی چیزوں کے حاصل کرنے کے لئے جس قدر محنت اور وقت خرچ ہوتا ہے ان کی نسبت سے اس کے لئے بھی محنت اور وقت رکھا جاتا تو کروڑوں کو کروڑ سال اس کے لئے لگتے.لوگ کہتے ہیں کہ ایک نظر میں حاصل ہو جانا چاہئے.مگر ہم کہتے ہیں اس سے زیادہ اس کا حاصل کرنا کیا آسان ہو سکتا ہے کہ انبیاء اور اولیاء کے ذریعہ چند سالوں یا چند ماہ میں حاصل ہو جاتا ہے اور جتنی جتنی کسی میں قابلیت ہوتی اور جس قدر کوئی زیادہ محنت کرتا ہے اتنا ہی جلدی حاصل کر لیتا ہے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ
العلوم جلد " کام عرفان المی کا عرفان یونہی حاصل نہیں ہو جاتا.کئی لوگوں کو دیکھا گیا ہے وہ یوں تو چاہتے ہیں کہ خدامل جائے.مگر ساتھ ہی یہ بھی چاہتے ہیں کہ جھٹ پٹ مل جائے.ہماری جماعت کے لوگوں پر خدا کا فضل ہے اور وہ الگ قسم کے ہیں.ورنہ دوسرے لوگ تو اس قسم کی تقریر بھی نہیں سن سکتے اور کہتے ہیں کہ ادھر ایک فقرہ منہ سے نکلے اور ادھر وہ عارف باللہ ہو جائیں.حالانکہ تقریروں نہیں بلکہ بڑی بڑی محنت کرنے ، اپنے نفس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے اور اپنے آپ کو خدا کی محبت میں بھلا دینے کے بعد یہ نعمت حاصل ہو سکتی ہے.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ اور سنت کے ماتحت اپنے آپ کو خدا کے پانے کے لئے تم کر دینے پر حاصل ہو سکتی ہے.پس تم میں سے وہ لوگ جو عرفانِ الہی حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں اور میں نہیں خیال کرتا کہ کوئی ایک شخص بھی ایسا ہو جو یہ خواہش نہ رکھتا ہو کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو قبول کرتا ہے وہ اس لئے کہ اسے عرفانِ الہی حاصل ہو.ان کو چاہئے کہ اس امر کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں.اور پھر جو کچھ میں آج ان کو بتانا چاہتا ہوں اس کو غور سے سنیں اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ ذرائع جو عرفانِ الہی کے حصول کے لئے میں بتاؤ نگا اس سے پہلے تم نے کبھی نہیں سنے بلکہ ان میں سے بہت سے تم نے پہلے سنے ہونگے.میری غرض آج کے لیکچر یہ ہے کہ میں ان امور کو جو عرفان الہی کے حصول کے لئے ضروری ہیں ایسی صورت میں آپ لوگوں کے سامنے اس علم سمیت جو خدا تعالٰی نے مجھے دیا ہے رکھدوں کہ اسے آپ لوگو آسانی سے استعمال کر سکیں اور یاد رکھ سکیں.خدا تعالیٰ نے مجھے اس مضمون کے متعلق خاص علم دیا ہے اور یہ کوئی میری ذاتی خوبی یا میرا اکتسابی علم نہیں ہے اور نہ ہی میری کوشش اور محنت کو اس میں کچھ دخل ہے.یہ محض خدا کا فضل اور رحم ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے اور مجھے ایسا علم دیا ہے کہ میں سمجھتا ہوں جو اس سے فائدہ اٹھائینگے وہ بہت جلد اپنے اندر تبدیلی پیدا کر سکیں گے.ایک مدت سے میری خواہش تھی کہ اس علم سے اپنی جماعت کو واقف کروں.مگر چونکہ یہ علم بہت اہم اور اس کی بہت سی شاخیں ہیں جن کے بیان کرنے کے لئے بہت سے وقت کی ضرورت ہے.مگر اس وقت نہ تو اتنی فرصت اور نہ صحت ایسی ہے کہ کوئی لمبی تقریر کر سکوں اس لئے اس وقت صرف ایک شق کی ہے اور منشاء ہے کہ اگر خدا تعالیٰ چاہے تو دوسری شقوں کو بھی بیان کروں.مگر میں نہیں جانتا مجھے اس کا موقع ملیگا یا نہیں.کیونکہ مجھے اور
نوم جلد ۴ ۳۵۰ عرفان اتی دوسرے دوستوں کو بھی میری صحت کی نسبت بعض منذر رویا ہوئی ہیں.اس لئے اس وقت جس قدر موقع ملا ہے اس کے مطابق ایک شق بیان کرتا ہوں اور باقی کو خدا کی منشاء پر چھوڑتا ہوں.اگر چہ خدا کی طرف سے بعض بشارتیں بھی ملی ہیں.گو وہ ایسی نہیں کہ ان کی رُو سے قطعی فیصلہ کیا جا سکے کہ مجھے باقی شقوں کے بیان کرنے کا موقع ملیگا یا نہیں مگر میرا قیاس ہے کہ وقع ملیگا.ان بشارتوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعاء میں ایک مبشر رویا بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی! میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کا ہوا.پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسمعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسمعیل کے معنی ہیں خدا نے سن لی.اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے.جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہئے.اب میں اپنے مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.میں کہہ چکا ہوں کہ توجہ سے سننے کی تاکید عرفان الہی کے حصول کے لئے بہت بڑی کوشش کی ضرورت ہے اور اس کے بغیر یہ نعمت حاصل نہیں ہو سکتی اور نہ علم کامل کے بغیر حاصل ہو سکتی ہے.پس جو کچھ میں سناؤں اسے غور سے سنو کیونکہ غور سے سنے بغیر کوئی بات یاد نہیں رہ سکتی.اور جو بات یاد ہی نہ رہے اس پر عمل بھی نہیں ہو سکتا.پس میں بڑی محبت اور اخلاص سے کہتا ہوں کہ اس وقت اگر کوئی ہوتا ہے تو جاگ اٹھے.اگر کوئی غافل ہے تو ہوشیار ہو جائے.اگر کسی کی توجہ دوسری طرف ہے تو اس طرف کرے.کیونکہ میں وہ کچھ سنانے لگا ہوں جس کے سننے میں تمہارا ہی فائدہ ہے.میں تم سے اس کے بدلے میں کچھ مانگتا نہیں کوئی مطالبہ نہیں کرتا بلکہ محض اس لئے سناتا ہوں کہ میں اپنا وہ فرض ادا کر دوں جو مجھ پر عائد ہوتا ہے.اور تم اس سے نفع اٹھالو.اگر تم اس پر عمل کرو گے جو میں تمہیں بتاؤ نگا تو دیکھو گے کہ تمہیں کیا کچھ حاصل ہوتا ہے اور اس سے تم کس قدر لذت اٹھاتے ہو.مگر یاد رکھو جو کچھ میں بتاؤ نگا وہ کوئی جادو کی بات نہیں ہوگی کہ سنتے ہی رات کو عمل کر لیا جائے اور صبح انسان عارف بن جائے.میں نے پہلے ہی کہدیا ہے کہ عرفانِ الہی اس طرح حاصل نہیں ہوا کرتا بلکہ اپنے نفس کے مٹا دینے سے حاصل
م جلد.۳۵۱ عرفان الهی ہوتا ہے.ہاں ان باتوں کو یاد رکھنے سے یہ فائدہ ہو گا کہ جس طرح لوگ شکایت کرتے ہیں کہ باوجود محنت کرنے کے ان کو کچھ حاصل نہیں ہوتا وہ شکایت تم کو پیدا نہ ہو گی.اور تم خدا تعالٰی کو انہی صفات کے مطابق دیکھ لو گے جو قرآن کریم میں بیان ہیں انشاء اللہ تعالیٰ.سب سے پہلی جو بات میں بیان کرنی چاہتا ہوں وہ دعا بغیر ذرائع کے قبول نہیں ہوتی کوشش کرنے کے متعلق خاص ہدایت ہے.یہ بات خوب اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ ہر ایک چیز کے حصول کے کچھ ذرائع ہوتے ہیں.جب ان ذرائع کو عمل میں نہ لایا جائے وہ چیز حاصل نہیں ہو سکتی.لوگ کہتے ہیں کہ دعا سے خدا حاصل ہو جاتا ہے.بے شک دعا بہت بڑی چیز ہے مگر اس کے ساتھ بھی کچھ اور ذرائع کی ضرورت ہے.اور جب تک وہ نہ ہوں تو وہ بھی قبول نہیں ہو سکتی.مثلاً کوئی شادی کر کے بیوی کے پاس تو نہ جائے اور دعائیں کرتا رہے کہ میرے ہاں اولاد ہو جائے.تو کیا اس کی دعا قبول ہو جائیگی ہرگز نہیں.ایک بزرگ کا قصہ ایک بزرگ کے متعلق لکھا ہے.ان کے پاس کوئی شخص آیا اور آکر کہا آپ دعا کریں خدا مجھے بیٹا دے.یہ کہہ کر وہ چل پڑا.اس سے انہوں نے پوچھا کہاں جاتے ہو.اس نے کہا کہیں نوکری کرنے جاتا ہوں.انہوں نے کہا اگر تم نوکری کرنے جا رہے ہو تو میری دعا کیا قبول ہو گی.تو جب تک ذرائع سے کام نہ لیا جائے صرف دعا کرنے سے کچھ نہیں بن سکتا اور دعا بغیر کوشش کے کوئی ثمرہ نہیں دے سکتی.دعا ایسی صورت میں کام آتی ہے جب اس کے ساتھ بغیر عمل کے دعا کب مفید ہے عمل ہو.ہاں دو صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ بغیر عمل کے دعا فائدہ دیتی ہے.ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے انسان کو حکم دے دیا جائے کہ فلاں کام کے لئے دعا کر عمل نہ کر.یعنی ظاہری سامان کو اس کام کے لئے استعمال نہ کر.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فرمایا گیا تھا کہ طاعون سے بچنے کے لئے وہ دعا پر زور دیں اور ٹیکا نہ لگوائیں اور نہ آپ کی جماعت ٹیکا لگوائے (کشتی نوح صفحہ ۴ روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ (۲) تو باوجود اس کے کہ یہ ٹیکا طاعون کا علاج تھا اور ہے خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے لگوانے سے منع کر دیا اور دعا کا حکم دیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی جماعت ان ٹیکا لگوانے والوں کی نسبت بہت کم اس مرض کا شکار ہوئی.
۳۵۲ عرفان الی دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ ایسا موقع ہو کہ انسان عمل کر ہی نہ سکے.مثلاً ایک ایسا شخص ہو جسے جنگل میں قید کر دیا گیا ہو اور اس کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے گئے ہوں.اب چونکہ یہ شخص عمل کر ہی نہیں سکتا اس کے لئے محض دعا کرنا ہی کافی ہے.لیکن جب اس قسم کی روکیں نہ ہوں اس وقت دعا کے ساتھ عمل کا ہونا ضروری ہوتا ہے.تو صرف یہ دو موقعے ایسے ہوتے ہیں جب کہ دعا بغیر عمل کے منظور ہو سکتی ہے ورنہ نہیں.پھر صرف دعا اور کوشش کرنے سے بھی خدا نہیں مل سکتا.میں نے خود دیکھا ہے بعض لوگ بڑی کوشش کرتے ہیں لیکن ان کو خدا نہیں مل سکتا.جس سے معلوم ہوا کہ یہ بھی کافی نہیں اب سوال ہوتا ہے کہ جب کوئی ان دونوں باتوں سے کام لیتا ہے.یعنی دعا بھی کرتا ہے اور کوشش بھی تو پھر کیوں خدا نہیں حاصل ہوتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کی کوشش صحیح کوشش نہیں ہوتی وہ کوشش کرتا ہے لیکن صحیح کوشش نہیں کرتا.اور کامیابی کیلئے شرط یہ ہے کہ کوشش کی جائے کامیابی کیلئے صحیح کوشش شرط ہے اور صحیح طریق سے کی جائے.مثلاً ایک طالب علم جو مدرسہ میں پڑھنے کیلئے جاتا ہے اس کیلئے ضروری ہے کتابیں خریدے اور انہیں پڑھے.لیکن اگر وہ کتابیں تو نہ پڑھے اور سارا دن دعائیں کرتا رہے کہ مجھے علم حاصل ہو جائے تو کیا اسے حاصل ہو جائیگا ؟ ہر گز نہیں.یا کیا اگر وہ سارا دن الٹالٹکا رہے یا اپنے جسم کو سوئیاں مارتا رہے اور سمجھے کہ میں بڑی مشقت کر رہا ہوں اسلئے پاس ہو جاؤ نگا تو وہ پاس ہو جائیگا؟ ہر گز نہیں.یا ایک شخص جو لوہاری کا کام سیکھنا چاہے وہ سارا دن نماز پڑھتا رہے اور ساری رات سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ پڑھتا ر ہے.جسکی نسبت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ، خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ، ثَقِيْلَتَانِ فِى الْمِيزَانِ: سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ (بخارى كتاب التوحيد باب قول الله تعالى " ونضع الموازين القسط ليوم القيمة يعنی دو کلمے ایسے ہیں کہ خدا تعالی کو پیارے ہیں.زبان پر ہلکے معلوم ہوتے ہیں لیکن میزان میں بو جھل ہیں.یا سارا دن کنواں کھودتا رہے.یا کڑا کے کی دھوپ میں نگا ہو کر کوتا رہے تو لوہاری کا کام آجائیگا ؟ ہرگز نہیں.اسلئے ہر ایک کام میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے دعا اور صحیح کوشش کی ضرورت ہے.اور جو ایسا نہیں کرتا وہ خواہ کتنی ہی دعا کرے اور کتنی ہی محنت و مشقت برداشت کرے کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.پس
م جلد ۳۵۳ چونکہ کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ صحیح ذرائع سے کام لیا جائے.عرفان الهی اس لئے میں سب سے پہلے معرفت الہی حاصل کرنے کے معرفتِ الہی کے تین طریقے لئے یہ تین باتیں بتاتا ہوں.اول یہ کہ انسان دعا کرے.دوم یہ کہ کوشش کرے.سوم یہ کہ صحیح طریق سے کوشش کرے.اس کے بعد جو باتیں میں بتاؤں ان کو یاد کر لو اور پھر کوشش کرو.اور اس رنگ میں کوشش کرو جو میں بیان کرونگا تو انشاء اللہ ضرور تمہیں کامیابی ہو گی.ہاں صحیح کوشش کے لئے ایک اور بات ضروری ہے اور وہ یہ کہ وہ صحیح کوشش کا طریق سب پہلوؤں پر حاوی ہونی چاہئے جن کا کسی مقصد میں کامیاب ہونے کے ساتھ تعلق ہے.مثلاً وہ طالب علم جو انٹرنس کا امتحان دینا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ جہاں تاریخ اور جغرافیہ پڑھے وہاں حساب بھی سیکھے اور اس کے ساتھ وہ باتیں بھی یاد کرے جن کا انٹرنس کے امتحان کے ساتھ تعلق ہے.لیکن اگر کوئی کسی مضمون کو چھوڑیگا اور اسے یاد نہیں کریگا تو گو دوسرے مضامین میں کتنی ہی محنت اور کوشش صرف کرے کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گا.پس کسی مقصد کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کا سب پہلوؤں پر حاوی ہونا ضروری ہے.اسلام پر اعتراض اور اس کا جواب لوگ کہتے ہیں کہ اسلام میں تنگ ظرفی پائی جاتی ہے.کیونکہ اسلام کہتا ہے کہ میرے سوا اور کوئی جب حق پر نہیں ہے.حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ کہا جاتا کہ ہر مذہب پر چلنے والا انسان نجات پاسکتا ہے تعجب ہے کہ یہ اعتراض کرنے والے قانون قدرت کی طرف نہیں دیکھتے کہ اس کے ہر ایک کام میں کیا نتیجہ نکل رہا ہے.وہ کہتے ہیں جب ایک ہندو ایک عیسائی ، ایک آریہ کے دل میں خدا کی محبت ہے اور وہ خدا کو پانے کی کوشش بھی کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے وہ خدا کو نہ پائے.میں کہتا ہوں اس کی وہی وجہ ہے جو لوہاری کا کام سیکھنے کے لئے دھوپ میں کوٹنے سے اس کام کے نہ آنے کی ہے.جو علم حاصل کرنے کے لئے الٹا لٹکے رہنے سے علم کے نہ آنے کی ہے.سب لوگ جانتے ہیں کہ جب تک کسی کام کے لئے صحیح کوشش نہ کی جائے اس وقت تک وہ حاصل نہیں ہو سکتا.پس جب دنیاوی امور میں یہ قانون چلتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ روحانی امور میں بھی یہی قانون نہ چلے.پس کسی دینی امر میں بھی اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی
انوار العلوم جلد ۴ ۳۵۴ عرفان التي جب تک کہ ان شرائط کی پابندی نہ کی جائے جو اس کے لئے مقرر ہوں.کامیابی کے دو اصول کسی کام میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دو طریق ہوتے ہیں.اول یہ کہ کچھ عام اصول ہوتے ہیں ان کے ماتحت کچھ لوگ کام سیکھتے ہیں.مثلاً علم حاصل کرنے کے لئے طالبعلم مدرسہ میں جاتے اور پڑھائی کا جو کورس مقرر ہوتا ہے وہ پڑھتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں.دوسرے بعض خاص گر ہوتے ہیں ان کو یاد کر لیا جائے تو وہ کام آجاتا ہے جس کے لئے وہ گر مقرر ہوتے ہیں.مثلاً "الجبرا کے فارمولے ہوتے ہیں.ان کے یاد کر لینے سے "الجبر" کا علم آجاتا ہے.یا بنیوں نے حساب کرنے کے خاص گر بنائے ہوتے ہیں ان سے جھٹ نیٹ حساب کر لیتے ہیں.تو ہر ایک کام کے لئے ایک عام طریق ہوتا ہے اس پر عمل کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے.اور کچھ خاص گر ہوتے ہیں ان کے ذریعہ انسان نسبتاً آسانی کے ساتھ صحیح نتیجہ پر پہنچ جاتا ہے.ہر ایک امر کے متعلق یہ دونوں باتیں ہوتی ہیں خواہ وہ امر روحانی ہو یا جسمانی.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ گر اسی وقت مفید اور نتیجہ خیز ہوتے ہیں جب کہ پہلے عام قواعد معلوم ہوں.یہ نہیں کہ کوئی صرف گر سیکھ لے کہ انگریزی اس طرح پڑھی جاتی ہے تو اسے انگریزی آجائے کیونکہ گر دراصل کام کو چھوٹا اور جلدی کرنے کے لئے ہوتے ہیں نہ کہ اس میں کامیاب ہونے کے لئے.اس وقت میں جو مضمون بیان کرنے لگا ہوں اس کے میں عام قاعدے بیان کروں گا.گر نہ بیان کرونگا کیونکہ وہ مستقل مضمون ہے.اور گر نہ بیان کرنے سے کوئی حرج بھی نہیں ہے کیونکہ یہ ٹھیک ہے کہ گروں کے ذریعہ گھنٹوں کا کام منٹوں میں اور سالوں کا کام مہینوں میں ہو سکتا ہے.مگر ان سے اسی وقت فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے جبکہ اصل قواعد آتے ہوں.اس لئے ضروری ہے کہ پہلے عام قاعدے سیکھے جائیں اور جب ان پر عمل شروع ہو جائے تو پھر کام کو مختصر کرنے اور نتیجہ تک جلدی پہنچنے کے لئے گھروں کو سیکھا جائے.پس چونکہ وہ ایک الگ اور مستقل مضمون ہے اس لئے آج میں اسے نہیں چھیڑونگا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو پھر کبھی بیان کروں گا اور آج عام قاعدے بیان کرونگا.یہاں یہ بیان کر دینا بھی ضروری عرفان الہی کا تعلق قلب سے ہے زبان سے نہیں ہے کہ معرفت الہی کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کی اصل حقیقت کو لفظوں میں بیان کیا جا سکے.اگر ایسا ہو سکتا تو ہر ایک شخص
۳۵۵ عرفان از انوار العلوم جلد " کے ذہن نشین کرائی جا سکتی اور ہر ایک شخص اس کو سمجھ سکتا مگر ایسا نہیں ہو تا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھکر اور کس کو انسانوں سے محبت اور ہمدردی ہو سکتی ہے.خدا تعالیٰ آپ کے متعلق فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ - (الشراء:۲) کہ کیا تو اپنے آپ کو اس لئے ہلاک کر لے گا کہ سب لوگ مومن کیوں نہیں ہو جاتے.تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو لوگوں کے اس قدر خیر خواہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں فرمایا ہے کہ کیا تو ان کے لئے اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا.وہ اگر معرفتِ الہی کو لفظوں میں بیان کر سکتے تو ضرور کر دیتے.لیکن آپ نے بھی بیان نہیں کیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرفان الہی چیز ہی ایسی ہے جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی اس کا تعلق قلب سے ہے.جیسا کہ میں نے بتایا عرفانِ الہی خدا کے پالینے کو کہتے ہیں.اور اس کی حقیقت لفظوں میں نہیں بتائی جا سکتی.اگر ایسا ہو سکتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود سب کو عارف بنا جاتے.پس میں بھی حقیقت بیان نہیں کرونگا اور نہ کر سکتا ہوں ہاں اس کے حصول کے ذرائع جو بتائے گئے ہیں وہ بیان کرونگا.معلوم لکھتے ہیں کہ مرید کے احوال سے پیر آگاہ نہیں ہوتا اور پیر کی حالت سے مرید کو کوئی خبر نہیں ہوتی.اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کے دل میں جو کیفیتیں ہوتی ہیں وہ ایک دوسرے کو نہیں ہوتیں.اور ایک کی قلبی کیفیت کو دوسرا معلوم نہیں کر سکتا.دراصل یہ ایک استعداد ہوتی ہے جس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جا سکتا.حتی کہ جس کو یہ حاصل ہوتی ہے وہ خود بھی اسے بیان نہیں کر سکتا.ہاں اس کے حاصل کرنے کے طریق ہیں وہ بیان کئے جاسکتے ہیں اور وہی میں بیان کرونگا.آگے یہ کہ ان پر عمل کرنے سے کیا کیفیت پیدا ہوتی ہے ؟ اس کو نہ کوئی آج تک بیان کر سکا ہے اور نہ میں بیان کر سکتا ہوں.جس طرح یہ تو کسی کو بتایا جا سکتا ہے کہ میٹھا اس طرح بنتا ہے ، اس طرح کا ہوتا ہے ، لیکن اس کا مزا نہیں بتا سکتے.جب تک کہ رکھلا نہ دیں.اسی طرح یہ تو بتا سکتے ہیں کہ عرفان الہی اس طرح ہوتا ہے لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ اس کی کیفیت کیا ہوتی ہے ہاں جب کوئی اسے حاصل کر لے تو اسے اس کی کیفیت خود بخود معلوم ہو جاتی ہے.اب میں بیان کرتا ہوں کہ عرفان الہی حاصل کرنے ہستی الہی کا پتہ لگانے کے ذریعے کے صحیح ذرائع اور طریق کیا ہیں.یہ تو میں بتا چکا
انوار العلوم جلدم ۳۵۶ عرفان المی ہوں کہ عرفانِ الہی کے معنی ہیں اس ہستی کا پتہ لگانا جس کی صفات کو قرآن کریم میں پڑھا ہے.اب یہ دیکھنا ہے کہ پتہ لگانے کے کیا ذرائع ہیں.اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ اگر پتہ لگانے کے یہ معنی ہیں کہ انسان خدا کو دوسری چیزوں کی طرح اپنے سامنے پالے اور اسے اپنے مادی اعضاء سے چھولے.تو اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان میں بھی وہ باتیں پائی جائیں جو خدا تعالی میں ہیں.کیونکہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے مادی اعضاء جن چیزوں کو چھوتے ہیں وہ مادی ہی ہوتی ہیں.اور جتنا جتنا مادہ اشیاء میں کم ہوتا جاتا ہے وہ اتنی ہی کم محسوس ہوتی ہیں.وجہ یہ کہ جب تک دو چیزوں میں مشارکت نہ ہو اس وقت تک ان کا آپس میں تعلق نہیں پیدا ہو سکتا.مثلاً بھینس اور علوم میں کسی قسم کی مشارکت نہیں.اب اس کے سامنے فلسفہ بیان کیا جائے تو کبھی نہیں سمجھ سکے گی.اسی طرح طوطے میں گو زبان کی مشارکت ہے لیکن عقل کی مشارکت نہیں رکھتا.اس لئے آواز کی نقل تو اتار لیتا ہے لیکن کوئی بات سمجھ نہیں سکتا.اس سے معلوم ہوا کہ عرفان الہی کے لئے مشارکت اور خدا سے مشارکت پیدا کرو مناسبت کا ہونا ضروری ہے.اور خدا کا عرفان اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب کہ خدا سے مشارکت پیدا ہو جائے.اور خدا کی صفات انسان کے اندر آجا ئیں.یہ تو میں نہیں کہتا.کہ جب تک ہماری ہستی خدا کی طرح نہ ہو جائے اس وقت تک عرفان الہی حاصل نہیں ہو سکتا.ہاں یہ کہتا ہوں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تَخَلَّقُوا بِأَخْلَاقِ اللہ کہ خدا کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرو.رسول کریم اے نے یہ اسی لئے فرمایا ہے کہ تم میں صفات الہیہ اپنے اندر پیدا کرد اور خدا میں مشارکت پیدا ہو جائے.اور جب مشارکت پیدا ہو جائیگی تو تم خدا کو دیکھ لو گے.یہ نہیں فرمایا کہ تم خدا جیسی ذات بنالو.بلکہ یہی فرمایا ہے کہ اپنے اخلاق خدا کے اخلاق کی طرح بناؤ.وجہ یہ کہ خدا تعالی کی ذات کو کوئی سمجھ ہی نہیں سکتا.اور جب سمجھ نہیں سکتا تو اس کی مماثلث بھی نہیں اختیار کر سکتا.پس اللہ تعالٰی کی ذات کو دوسری چیزوں کی طرح انسان نہیں دیکھ سکتا.ہاں اس کی صفات جنہیں وہ معلوم کر سکتا ہے اپنے اندر پیدا کر سکتا ہے.اس طریق سے خدا کو دیکھ بھی سکتا ہے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے اخلاق اپنے اندر پیدا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.اور اللہ تعالی کے اخلاق سے مراد اس کی صفات ہیں.
لوم جلد ۴ ۳۵۷ عرفان الی صفات کا لفظ زبان پر آتے ہی ایک دوست کی خواب یاد آگئی.اس نے بتایا تھا کہ میں نے دیکھا ہے کہ آپ سالانہ جلسہ میں اسماء الہی پر تقریر کر رہے ہیں.اس لئے اسماء الہی پر تقریر کریں.جس وقت یہ خواب بتلائی گئی اس وقت جلسہ کے لئے اور مضمون مقرر ہو چکا تھا.مگر اب صفات کا لفظ زبان پر آتے ہی ان کی خواب یاد آگئی.تو خدا تعالیٰ کی صفات اپنے اندر پیدا کرنا معرفت الہی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.کیونکہ جب تک انسان ایک قسم کا رب نہ ہو ایک قسم کا رحمن نہ ہو ایک قسم کا رحیم نہ ہو مهمین نہ ہو ، ستار نہ ہو ، غفار نہ ہو اس وقت تک اللہ تعالیٰ کا مظہر انسان نہیں ہو سکتا.اور جتنا جتنا صفات الہیہ کا پر تو اس پر پڑتا جائیگا اسی قدر وہ صفات الہیہ کا مشاہدہ کرتا جائیگا.لیکن کامل انسان وہی ہو گا اور وہی عارف ہو گا جو اللہ تعالیٰ کی ان تمام صفات کو جو بندہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اپنے اندر پیدا کرے.اس کے بعد خدا کا ملنا اس کے لئے آسان ہو جائیگا کیونکہ اس میں اور خدا میں ایک تعلق پیدا ہو جائیگا.اب سوال ہوتا ہے کہ صفات الہی اپنے اندر کیونکر پیدا کی جائیں.کسی نے کہا ہے درد سر کے واسطے صندل کو کہتے ہیں مفید اس کا گھنا اور لگانا درد سر یہ بھی تو ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ نکتہ تو معلوم ہو ینے اندر صفات الہی کے پیدا کرنے کا طریق گیا کہ عرفانِ الہی حاصل کرنے کے لئے خدا کی صفات حاصل کر لینی چاہیں.لیکن یہ بھی تو معلوم ہونا چاہئے کہ خدا کی صفات حاصل کس طرح ہو سکتی ہیں.بہت لوگ ہوتے ہیں جو کوشش کرتے ہیں کہ کسی پر رحم کریں سختی نہ کریں.لیکن ان کے دل کی سختی انہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتی.اسی طرح کئی لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ دوسروں کے عیب پر پردہ ڈالیں مگر وقت پر بات منہ سے نکل ہی جاتی ہے.اسی طرح کئی لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ معاف کرنے کی صفت پیدا کریں مگر نہیں پیدا کر سکتے.تو جب باوجود کوشش اور سعی کے لوگ یہ صفات نہیں حاصل کر سکتے تو پھر سوال ہوتا ہے کہ کیونکر انسان کے اعمال ایسے ہو جائیں کہ خدا کی صفات اس سے ظاہر ہونے لگیں.اس کے لئے سب سے پہلی ضروری بات یہ ہے کہ انسان کو پہلا طریقہ صفاتِ الہی کا علم خدا تعالیٰ کی صفات کا علم ہو.یہ نہ سمجھو کہ یہ معمولی بات ہے اس کا کسی کو علم نہیں کیونکہ بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے ذہن میں خدا تعالیٰ کی
۳۵۸ عرفان التى صفات مستحضر نہیں ہوتیں.اور اگر مستحضر ہوں تو وہ ان کے معنی نہیں جانتے.مثلاً مسلمانوں میں عام طور پر رواج ہے کہ خدا تعالیٰ کے نام یاد کر لیتے ہیں لیکن ان کے معنی نہیں جانتے.اور جب تک معنی نہ یاد ہوں.اس وقت تک محض لفظ کچھ اثر نہیں رکھتے اور نہ اعمال میں ان سے کوئی تغیر واقع ہو سکتا ہے.پس اول تو بتوں کو خدا کے نام (یعنی صفات) یاد ہی نہیں ہوتے اور جن کو یاد ہوتے ہیں وہ معنی نہیں جانتے.پھر اسی پر بس نہیں جن کو معنی یاد ہوتے ہیں ان کے ذہن میں ان سے کوئی کیفیت نہیں پیدا ہوتی اور جب تک کیفیت نہ پیدا ہو اس وقت تک بھی الفاظ کچھ فائدہ نہیں دیتے.مثلا شاہ کے معنی ہیں بکری.اب اگر کسی کو یہ بتا دیا جائے کہ شاق بکری کو کہتے ہیں لیکن اسے معلوم نہ ہو کہ بکری کیا ہوتی ہے تو کچھ نہیں سمجھ سکے گا.پس ایسے معنی جن سے انسان کے ذہن میں اس چیز کی صحیح صحیح کیفیت نہ پیدا ہو ان کا آنا نہ آنا برابر ہوتا.اس لئے صرف معنی ہی آنے کافی نہیں.بلکہ ان کی کیفیت کا ذہن میں آنا بھی ضروری ہے.لیکن اکثر لوگ کیفیت سے بالکل ناواقف ہوتے ہیں.مثلا رب کے معنی کسی سے پوچھے جائیں تو یہ کہدیگا کہ " پروردگار " مگر پروردگار کی کیفیت اس کے قلب میں نہیں آئیگی اور اس کے دل میں اس کے معنی نقش نہیں ہونگے.تو خدا تعالیٰ کی صفات کے جاننے کا یہ مطلب نہیں کہ صرف نام یاد ہوں یا معنی آتے ہوں بلکہ یہ ہے کہ خدا کی صفات معلوم ہوں ان کے معافی معلوم ہوں اور جس وقت وہ لفظ زبان پر جاری ہو یا کانوں میں پڑے معاً اس کے مطابق کیفیت قلب میں پیدا ہو.مثلا ر حمن کے معنی ہیں بغیر محنت کے انعام کرنیوالا.جس وقت یہ لفظ کسی کی زبان پر جاری ہو اس وقت صرف یہ نہ ہو کہ اس کے دل میں یہ بنا بنایا فقرہ آجاوے کہ بغیر محنت کے انعام کرنے والا بلکہ اس کا اصل مفہوم یعنی اللہ تعالیٰ کے وہ احسانات جو بغیر محنت کے ہوتے ہیں بجلی کی طرح سامنے بلکہ دل کی آنکھوں کے سامنے سے گذر جاویں.اور تصویر ی عالم میں یہ صفت اس کے سامنے آجاوے.اور جسے یہ بات حاصل نہ ہو وہ خود سوچ کر ان تفصیلات کو اپنے دل میں لاوے تاکہ اس کی پوری کیفیت دل میں پیدا ہو جائے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان سے خدا کی کسی صفت کے معنی پوچھے جائیں تو بتا دیتے ہیں لیکن جب ان معنوں کا مطلب دریافت کیا جائے تو خاموش ہو جاتے ہیں.اور ان کا وہی حال ہوتا ہے جو اس شخص کا ہوا جس نے ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے اس کی زلفوں کے سب اسیر ہوئے
رالعلوم جلد م ۳۵۹ عرفان امی کے یہ معنی کئے تھے کہ ہم لوگ تم لوگ اور میر صاحب سب کو اس کے بالوں کی زنجیر کے ساتھ باندھ کر جیل خانہ بھیج دیا.غرض صرف لفظوں کے معنی جاننے کافی حقیقی صفات الہیہ حاصل کرنے کا طریق نہیں ہوتے جب تک ان الفاظ کے ساتھ وہ کیفیت پیدا نہ ہو جو ان الفاظ سے وابستہ ہے.اس لئے ضروری ہے کہ انسان خدا کی ہر ایک صفت کے معنی جانے اور پھر اس کی تفصیل کرے تاکہ اس صفت کی کیفیت اس کے دل میں بیٹھ جائے مثلا رب کے معنی کرے کہ پیدا کرنے والا.اور پیدا کر کے ترقی دینے والا آگے اس کی تفصیل کرے کہ ترقی دینے کے کیا معنی ہیں اور کس طرح ترقی دیتا ہے اور کس کس رنگ میں دیتا ہے.جب تک اس صفت کی پوری پوری کیفیت دل میں نہ پیدا ہو جائے اس وقت تک تفصیل کرتا ہی رہے.پس جو شخص خدا کی صفات اپنے اندر پیدا کرنا چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ یہ دیکھے کہ ان صفات سے مراد کیا ہے.اس کے بعد اسے ان کا حقیقی علم حاصل ہو سکے گا.اور یہ خوب یاد رکھو کہ جب خدا کی صفات کا حقیقی علم ہو جائے تو پھر خود بخود نیکی اور ری کا علم ہو جاتا ہے.کیونکہ ان صفات کو اختیار کرنے اور ان کے مطابق کام کرنے کا ہی نام نیکی ہے.اور ان کو ترک کرنے اور ان کے خلاف کرنے کا نام بدی ہے.قرآن میں اصولی طور پر یہی بتایا گیا ہے کہ اپنے اعمال کو خدا کی صفات کے ماتحت کرو.اور ان باتوں سے جو خدا کی صفات کے خلاف ہیں بچو.باقی جس قدر نیکی اور بدی کی تفصیل ہے وہ سب اس کی تشریح اور توضیح ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جنہیں معلوم نہیں ہو تا کہ نیکی کیا ہے اور بدی کیا اس لئے اکثر اوقات وہ غلطی سے بدی کو نیکی سمجھ لیتے ہیں.اور نیکی کو بدی.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ انہیں معلوم نہیں ہو تاکہ خدا کی صفات کس بات کی متقاضی ہیں.نیکی و بدی کا امتیاز کرنے کا طریق نیکی مگر ایسے لوگ بھی دنیا میں پائے جاتے ہیں کہ جن کو ابدی کا علم ہوتا ہے اور وہ ایک حد تک باوجود اد امر اور نواہی کی تفصیل معلوم ہونے کے ان کے مطابق عمل نہیں کر سکتے ان کا کیا علاج ہے؟ لوگ کیا طریق اختیار کریں کہ انہیں ان کی خواہش کے مطابق خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے عمل کرنے کی اور اس کی منع کی ہوئی باتوں سے اجتناب کرنے کی توفیق ملے تاکہ انکے نفس کا تزکیہ ہو اور انہیں عرفانِ الہی حاصل ہو سکے ؟ ایسے لوگ جو عرفان الہی حاصل کرنے کی اعمال پر
انوار العلوم جلد ۴ عرفان الهی کوشش ہی نہیں کرتے وہ تو ایسے ہوتے ہیں جنہیں خدا کی صفات کا علم ہی نہیں ہوتا ان کے لئے ضروری ہے کہ ان کو خدا کا علم دیا جائے.مگر چونکہ اس وقت ہمارے مضمون کے مخاطب وہی لوگ ہیں جو خدا کو مانتے ہیں اسلام کے پیرو ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کا قرب اور معرفت حاصل ہو.اس لئے سردست ہم انہیں کے معاملہ پر غور کریں گے اور دیکھیں گے کہ ان کے رستہ میں کیا رد کیں ہیں اور وہ کس طرح دور ہو سکتی ہیں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں.عرفان الہی کے حصول کا واحد صفات الہیہ پیدا کرنے کا طریق ذریعہ اخلاق الہیہ اپنے اندر پیدا کرنا ہے.اور صفات الیہ اس وقت تک انسان کے اندر پیدا نہیں ہو سکتیں جب تک پہلے انسان کا قلب بدیوں سے صاف نہ ہو.پس سب سے اول روک عرفان الہی کے حاصل ہونے میں ارتکاب گناہ ہے.اور ارتکاب گناہ تین طرح ہوتا ہے.اول اس طرح کہ ارتکاب گناہ کی تین قسمیں بعض لوگوں کو بعض بدیاں معلوم ہی نہیں ہوتیں.اور لاعلمی سے وہ انکے مرتکب ہو جاتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ موٹی موٹی اور معروف بدیاں تو ہر ایک کو معلوم ہوتی ہیں.اور ہر ایک جانتا ہے کہ چوری ڈاکہ زنا جھوٹ وغیرہ برائیاں ہیں اور ان سے بچنا چاہئے لیکن جس طرح کوئی مکان اس وقت تک محفوظ نہیں ہو سکتا جب تک ہر پہلو سے مکمل نہ ہو.اگر کوئی چاروں دیواریں بنا دے اور اوپر چھت نہ ڈالے تو مکان بارش اور دھوپ سے محفوظ نہیں رہ سکتا.بلکہ محفوظ اور مکمل ہونے کے لئے ضروری ہے کہ چھت بھی ہو.روشندان اور کھڑکیاں وغیرہ بھی ہوں.اسی طرح کوئی انسان پورے طور پر پاک نفس نہیں ہو سکتا جب تک بدیوں کے تمام پہلوؤں پر اس کی نظر نہ ہو.اور بدیوں میں سے بعض ایسی پوشیدہ ہوتی ہیں کہ ان کا علم ایک دقیق اور باریک مطالعہ کے سوا اور محنت شاقہ کے بغیر نہیں ہو سکتا.ہر ایک کام کے لئے ایک تو وہ امور ہوتے ہیں جن سے اس کی حفاظت ہوتی ہیں اور دوسرے وہ جن سے اسکی زینت مد نظر ہوتی ہے.اگر زینت والے امور رہی جائیں تو کوئی زیادہ حرج نہیں ہو تا لیکن اگر حفاظت والے رہ جائیں تو وہ چیز نامکمل سمجھی جاتی ہے.مثلاً اگر کوئی مکان بنائے.اور اس کے دروازے و روشندان کھڑکیاں وغیرہ نہ لگائے تو مکمل نہیں ہو گا.لیکن اگر فرش نہ کرے پلستر نہ کرائے تو زینت نہیں ہو گی.حفاظت میں نقص نہیں واقع ہو گا.پس ایک ایسا شخص جس کو بعض بدیاں معلوم ہی نہ ہوں اس بات کی رہ
عرفان الهی والعلوم جلدم کوشش کرے کہ میں کامیاب ہو جاؤں تو ضرور وہ سارا دن اور ساری رات لگا رہے تو بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا.کیونکہ اس طرح بعض امور جن کی طرف توجہ کرنا ضروری ہو گا اس کی طرف توجہ نہیں کرے گا.اور جن سے بچنا ضروری ہو گا ان سے بچ نہیں سکے گا.ایسی صورت میں کامل بننے کی کوشش کرنا غلطی نہیں تو اور کیا ہے.جب تک سارے پہلو مڈ نظر نہ ہوں اس وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.پس اگر کوئی شخص بعض بدیوں سے غافل ہو گا تو وہ کامیاب نہیں ہو گا.اس لئے سب سے پہلے ضروری امر یہ ہے کہ انسان بدیوں کبھی واقف ہو.دوسری وجه ارتکاب گناہ کی یہ ہوتی ہے کہ انسان کو گناہوں کا تو علم ہوتا ہے مگر وقت پر اسے ایسا جوش آجاتا ہے کہ اسے کچھ یاد نہیں رہتا.اور وہ برائی کا مرتکب ہو جاتا ہے مثلاً ایک شخص جانتا ہے کہ جھوٹ نہیں بولنا چاہئے لیکن وقت پر بول دیتا ہے اور بعد میں پھر اس پر پچھتاتا بھی ہے.اسی طرح ایک شخص سمجھتا ہے کہ گالیاں دینا برا ہے مگر دے دیتا ہے اور بعد میں اپنی اس حرکت پر روتا ہے.تو پہلی روک تو یہ تھی کہ بدیاں معلوم ہی نہ تھیں اور دوسری روک یہ ہے کہ بدیوں کا علم تو ہوتا ہے لیکن وقت پر ایسا جوش آتا ہے کہ انسان ایک لمحہ کے لئے اپنا سب علم بھول جاتا ہے اور ارتکاب کرنے کے بعد کفِ افسوس ملتا ہے.ان کے علاوہ ایک تیسری صورت ارتکاب گناہ کی یہ ہے کہ بعض اوقات انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں حرکت بدی ہے.اور اس کا ارتکاب کرتے وقت اسے یاد بھی ہوتا ہے کہ یہ بدی ہے مگر پھر بھی کر بیٹھتا ہے.مثلاً ایک شخص کو علم ہوتا ہے کہ جھوٹ بولنا برائی ہے اور جب بولنے لگتا ہے اس وقت بھی جانتا ہے کہ اگر میں نے بولا تو خدا ناراض ہو گا مگر پھر بھی بول لیتا ہے.اسی طرح غیبت کے متعلق سمجھتا ہے کہ برائی ہے اور جانتا ہے کہ خدا کو نا پسند ہو گی.لیکن پھر بھی وقت پر رک نہیں سکتا اور اسے نفس برائی کے ارتکاب پر مجبور کر دیتا ہے غرض یہ تین روکیں بدیوں سے بچنے میں انسان کو پیش آتی ہیں اور ان تینوں روکوں کا دور کرنا اس کے لئے از بس ضروری ہے تاکہ وہ دوسرے قدم اٹھا سکے جن کے ذریعہ سے عرفانِ الہی کا میسر آنا اس کے لئے ممکن ہو سکتا ہے.میں تفصیلاً ان روکوں کے دور کرنے کا علاج بیان کرنے سے پہلے اصولی طور پر ایک علاج بیان کرتا ہوں اور یہ پہلی قسم کے لوگوں کو چھوڑ کر جنہیں علم ہی نہیں ہو تا کہ فلاں بدی ہے
العلوم جلد ۴ ۳۶۲ عرفان الهی دوسری دو قسموں کے انسانوں کے متعلق ہو گا.دنیا میں آج تک اس بات کو بہت کم سمجھا گیا ہے.بلکہ انبیاء اور اولیاء کو علیحدہ کر کے میں کہہ سکتا ہوں کہ اور کسی نے سمجھا ہی نہیں کہ گو بہت سی بدیاں ایسی ہیں جو شرعی بدیاں ہیں لیکن ان کا ارتکاب کرنے والا کسی شرعی گناہ کا مجرم نہیں ہو تا بلکہ وہ کسی جسمانی بیماری کا مریض ہوتا ہے.یہ ایک وسیع مضمون ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق مجھے خاص علم دیا ہے اور میرا ارادہ ہے کہ اس پر مفصل لکھوں.اور جب یہ علم کامل ہو جاوے گا اس وقت بعض لوگ جواب روحانی بیمار کہلاتے ہیں اپنے علاج کے لئے جسمانی ڈاکٹروں کے پاس جاویں گے.اس وقت بعض بڑے بڑے ڈاکٹروں کی توجہ اس طرف ہو رہی ہے لیکن تاحال ان کی تحقیقات عالم طفولیت میں ہے.مگر اس بارے میں مجھے جو علم دیا گیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان لوگوں کی تحقیقات سے بہت وسیع ہے.یہ کوئی ایسا نیا علم نہیں جو مجھ سے پہلے اوروں کو نہیں دیا گیا.خدا کے برگزیدہ اور پیارے بندوں کو دیا جاتا رہا ہے.پھر قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے اور حضرت مسیح موعود کو بتایا گیا اور آپ نے اس کا تذکرہ اصولا اپنی کتب میں کیا بھی ہے.مگر افسوس عام لوگوں نے اسے سمجھا نہیں اور اس سے فائدہ نہیں اٹھایا.اب خدا تعالیٰ نے وسیع طور پر مجھے یہ علم دیا ہے اور میں نے اس کے متعلق تحقیقات کی ہے.جس سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ شرعی گناہوں کی ایسے رنگ میں تقسیم ہو سکتی ہے کہ فلاں قسم کا گنہگار ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے اور فلاں قسم کا بزرگ کے پاس.میں نے تو یہاں تک تو تحقیقات کرلی ہے کہ بعض انسان بعض شرعی گناہ جسمانی بیماری کی وجہ سے کرتے ہیں.مگر ابھی یہ بات باقی ہے کہ کس قسم کے لوگوں کو ڈاکٹر کے پاس جانا چاہئے اور کس قسم کے لوگوں کو روحانی طبیب کے پاس.جب اس کے متعلق بھی فیصلہ ہو جائے گا تو تحقیقات مکمل طور پر پیش کی جاسکیں گی.بات یہ ہے کہ جسم اور روح کا ایک دوسرے کے ساتھ ایسا گہرا تعلق ہے کہ ایک کی چھوٹی سے چھوٹی بات کا دوسرے پر بڑا اثر پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بہت تفصیل سے لکھا ہے اور بتایا ہے کہ جب جسم میں بیماری پیدا ہو جائے تو روح میں بھی پیدا ہو جاتی ہے اور یہ تو ظاہر بات ہے کہ سخت درد اور تکلیف میں انسان پورے اطمینان سے دعا نہیں کر سکتا.اب دعا نہ کر سکنا روح کی بیماری ہے یا نہیں ؟ ضرور ہے.مگر اس کا علاج ڈاکٹر کے پاس ہے بزرگ کے پاس نہیں.تو یہ وہی باتیں ہیں جو پہلوں نے لکھیں اور اب خدا تعالٰی نے مجھے سمجھائی ہیں.اور جس طرح دنیاوی اشیاء کے خزانے ختم ہونے میں
عرفان الهی نہیں آتے بلکہ دن بدن زیادہ نکلتے رہتے ہیں.اسی طرح روحانی علوم بھی اپنے اپنے وقت پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں.اس علم کا دروازہ اس زمانہ میں خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ کھولا ہے.اور آپ کے بعد آپ کے خلفاء اس کو اور زیادہ وسیع کریں گے.میں نہیں جانتا مجھے اس کو وسعت دینے کا موقع ملے گا یا نہیں.اب بھی میں دوائی کھا کر تقریر کے لئے کھڑا ہوا ہوں مگر میں یہ ضرور بتاؤ نگا کہ آپ لوگ اس بات کو مد نظر رکھیں کہ بہت سی روحانی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کا علاج ڈاکٹروں سے کرایا جا سکتا ہے.ایک ایسا شخص جو قرآن کریم کو پڑھتا اور سمجھتا ہے.پھر اس پر عمل کرنے کی پوری کوشش کرتا ہے مگر باوجود اس کے بعض بدیاں سرزد ہوتی ہیں.اسے اندیشہ کرنا چاہئے کہ اسے کوئی جسمانی مرض لاحق ہے جو عمونا اعصابی قسم کی ہو گی اور اسے ڈاکٹر سے اپنی صحت کے متعلق مشورہ لینا چاہئے اور گو ہمارے ملک میں اعصابی امراض کے علاج کی طرف اطباء کو کم توجہ ہے.مگر میں امید کرتا ہوں که بهت دفعه عام اعصابی کمزوری کے علاج سے انسان اپنی روحانیت میں بھی ایک نمایاں ترقی محسوس کریگا.اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اس میں پیدا ہو جاو گی اور اپنے اندر اپنے جذبات پر قابو رکھ سکنے کی اہمیت وہ معلوم کرلیگا.مگر یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ ہی گناہوں سے بچنے میں بے کسی کی حالت جسمانی بیماری کا ہی نتیجہ ہوتی ہے بلکہ بالعموم ایسا ہوتا ہے.اور کبھی کبھی بطور سزا کے بھی انسان پر یہ حالت طاری کی جاتی ہے.اور کبھی بطور عادت کے بھی ایسا ہوتا ہے.ان مؤخر الذکر دونوں صورتوں میں سے اول الذکر کا علاج صرف روحانی علاج کے ماہر کر سکتے ہیں.اور ثانی الذکر کا علاج بھی وہی لوگ یا علم اخلاق کے ماہر کر سکتے ہیں.پس اس کو قاعدہ کلیہ نہیں سمجھنا چاہئے.اگر کوئی کہے کہ جب ایک شخص کوشش کرتا ہے کہ بدی سے بچے لیکن بیماری کی وجہ سے بچ نہیں سکتا تو پھر اسے سزا کیوں ہو گی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ سزا اس لئے ہوگی کہ اس نے اس کا علاج کیوں نہ کرایا یہ اس کا قصور ہے نہ کہ کسی اور کا.مجھے اگر فرصت ملی تو میں اس روحانی امراض کے علاج جسمانی ڈاکٹروں سے تحقیقات کو مکمل کر دونگا.لیکن اگر میں نہ کر سکوں تو تم لوگ یاد رکھو کہ روحانی امراض کے بعض ایسے علاج ہیں.جو ڈاکٹروں کے ذریعہ ہو سکتے ہیں.اس بات کو مد نظر رکھ کر تم اپنے طور پر کوشش میں لگے رہو اور اپنی
العلوم جلد الهر سوم سم عرفان الهی تحقیقات سے ان لوگوں کی امداد کرو جن کی توجہ اس طرف ہو رہی ہے اور جو اس کے لئے کوشش کر رہے ہیں تاکہ دنیا میں ایک نیا انقلاب واقع ہو اور دنیا ایک قدم اور ترقی کرے.فی الحال میں صرف اس قدر بیان کر دیتا ہوں کہ بعض روحانی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں.جن کے علاج کے لئے کسی عارف اور ولی اللہ کے پاس نہیں جانا چاہئے بلکہ کسی ڈاکٹر اور طبیب کو تلاش کرنا چاہئے کیونکہ اس قسم کی بیماریاں یا تو پیٹھ کے اعصاب کی کمزوری اور نقص سے یا اور خاص خاص بیماریوں کے نتیجہ میں ہوتی ہیں.مثلاً بعض اوقات زنا ایک اخلاقی یا مذ ہبی جرم نہ ہو گا بلکہ کسی خاص دماغی بیماری کا نتیجہ ہو گا.اسی طرح بعض ڈاکہ بعض چوری ، بعض جھوٹ ، خاص خاص نقصوں کے نتیجہ میں ہونگے.ان کا علاج روحانی ریاضتوں سے اس عمدگی سے نہیں ہو سکتا جتنا جسمانی علاج کے ذریعہ.مگر ابھی چونکہ میری تحقیق مکمل نہیں ہو سکی اس لئے میں اس مضمون کو اس وقت تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا.اور کسی اور وقت پر چھوڑتا ہوں.اپنے لئے یا آپ میں سے کسی کے لئے جس کو خدا تعالیٰ اسے بیان کرنے کی توفیق دے.اب میں اصولی طور پر اس امر کو بیان کر کے کہ گناہوں کا گناہوں سے بچنے کا علاج علاج بعض اوقات جسمانی علاج کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے ان دوسری تدابیر کو بیان کرتا ہوں جو برائیوں اور بدیوں سے بچنے کے لئے اختیار کی جاسکتی ہیں.اول تدبیر گناہوں سے بچنے کی یہ ہے کہ انسان اپنا پچھلا حساب درست کرے.بہت لوگ جو عرفان حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ اس بات کا خیال نہیں رکھتے اس لئے کامیاب نہیں ہو سکتے وہ بہت کوشش کرتے ہیں کہ عرفان نصیب ہو مگر اس کے لئے طریق یہ اختیار کرتے ہیں کہ خراب شدہ چیز میں اچھی چیز ڈالتے ہیں.ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے پھٹے ہوئے دودھ میں اچھا دودھ ڈالنے والے کی ہوتی ہے.اچھا دودھ تھوڑے سے خراب دودھ میں خواہ من بھر بھی ڈال دیا جائے تو بھی وہ خراب ہو جاتا ہے تو سب سے بڑی غلطی لوگ یہ کرتے ہیں کہ ابتدائی شرط کو پورا نہیں کرتے.حالانکہ سب سے پہلے ضروری ہے کہ انسان اپنا پہلا حساب درست کرے اور پھر آگے قدم بڑھائے.کیونکہ اگر پہلا ہی حساب کاپی میں غلط ہو اور اس کی میزان درست نہ ہو اور جس قدر اس میں جمع کیا جائیگا اس کی میزان بھی غلط ہی رہے گی.لیکن اگر پہلی میزان درست ہوگی تو پھر سارا حساب درست ہو تا جائیگا.پس جب کوئی انسان خدا تعالیٰ کے قرب اور معرفت کے حاصل ہو نیکی خواہش کرے تو اسے چاہئے کہ پہلے جو اس کا حساب خراب
۳۶۵ عرفان الهی ہو چکا ہو اسے صاف کر لے.اور اس کا طریق یہ ہے کہ وہ تو بہ کرے.عرفان الہی حاصل کرنے کے لئے یہ سب سے ضروری پہلی شرط عرفانِ الہی کی تو بہ ہے اور سب سے پہلا قدم ہے.اس کے متعلق کوئی یہ نہ کہے کہ یہ تو معمولی بات ہے ہم روز تو بہ کرتے ہیں.اس تو بہ سے میری مراد وہ تو بہ نہیں ہے جو روز کی جاتی ہے بلکہ کچھ اور ہے اور ابھی میں اسے کھول کر بیان کرونگا.تو سب سے پہلی شرط عرفانِ الہی حاصل کرنے کے لئے تو بہ ہے.مگر صرف مونہہ سے یہ کہہ دینے سے کہ "میری تو بہ " تو بہ نہیں ہو جاتی.بلکہ اس کے لئے سات امور کا ہونا ضروری ہے.تو بہ کے سات امور ضروریہ کا بیان اور جب تک وہ نہ ہوں اس وقت تک تو بہ پوری تو بہ نہیں ہو سکتی.وہ امور یہ ہیں.(۱) یہ کہ انسان اپنے گزشتہ گناہوں پر ندامت کا احساس پیدا کرے اور وہ اس طرح کہ پچھلے گناہوں کو یاد کر کے اور ان کو اپنے سامنے لاکر ان پر اس قدر نادم ہو کہ گویا پسینہ پسینہ ہو جائے (۲) دوسرا قدم تو بہ کے لئے یہ ہوگا کہ پچھلے فرائض جس قدر رہ چکے ہوں ان میں سے جن کو ادا کیا جا سکے ان کو ادا کیا جائے ہاں جو ادا نہیں کر سکتا انکی مجبوری ہے.مثلاً اگر نماز نہیں ھتا رہا تو اس کو ادا نہیں کر سکتا نہ اس کے ادا کرنے کا شریعت میں حکم ہے اور نہ یہ ادا ہو سکتی ہے.ہاں اگر ایسے وقت میں تو بہ کا ارادہ کیا جائے کہ کسی نماز کا وقت ہو تو ادا کرے.یا صاحب استطاعت ہونے کے باوجود حج نہیں کیا تھا اب حج کرلے.یا اگر زکوۃ نہیں دی تھی تو ساری عمر کو جانے دے اس سال کی دیدے.تو پہلے انسان اپنے گذشتہ گناہوں پر ندامت پیدا کرے.اور دوسرے پچھلے فرائض جو ادا کر سکتا ہو ادا کرے (۳) تیسرے یہ کہ پچھلے گناہوں کا ازالہ کر دے.ازالہ سے میری مراد یہ نہیں کہ اگر اس نے کسی کو قتل کیا تو زندہ کر دے.یا زنا کیا ہے تو لوٹا دے.بلکہ یہ ہے کہ جن گناہوں کا ازالہ ہو سکے ان کا کر دے.مثلاً اگر کسی کی بھینس چرا کر اپنے گھر میں باندھی ہوئی ہے تو اسے واپس کرے اور اپنے پاس نہ رکھے (۴) چوتھی شرط یہ ہے کہ جس شخص کو کوئی دکھ پہنچایا ہو اس کے دکھ کا ازالہ کرنے کے علاوہ اس سے عضو طلب کرے.یہ ایک بار یک مسئلہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بندوں کے گناہ کے
العلوم جلد عرفان اتمی لئے یہ شرط رکھی ہوئی ہے کہ بندوں سے ہی معافی کی جائے اور بندے معاف کر دیں تو پھر ان کا مؤاخذہ خدا تعالیٰ نہیں کرتا.پس جن لوگوں کو کوئی دکھ پہنچایا ہو اور ان کی رضا حاصل کرنا ممکن ہو ان سے حاصل کی جائے.ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدا تعالی بڑا ستار ہے وہ انسان کی بڑی بڑی برائیوں پر پردہ ڈالے رکھتا ہے اس لئے انسان کو چاہئے کہ اپنی ستاری آپ بھی کرے.اور وہ گناہ جن کو خدا نے چھپا رکھا ہو ان کو خود نہ ظاہر کرتا پھرے.مثلا کسی کی چوری کی ہو تو اس کے لئے یہ نہیں چاہئے کہ خود جا کر بتلائے کہ میں نے تمہاری چوری کی تھی.ایسا کرنا بجائے خود گناہ ہے.اس طریق سے ازالہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ایسی باتیں مثلا کسی کو تھپڑ مارا ہو تو اس کا ازلہ کرے اور معافی مانگے.اور جن گناہوں کو خدا نے چھپایا ہو ان کو خود ظاہر نہ کرے.(۵) پانچویں یہ کہ جن لوگوں کو نقصان پہنچایا ہو ان سے مقدور بھر احسان کرے.اور اگر کچھ نہیں کر سکتا تو دعا ہی کرے.اولیائے کرام نے بھی یہ طریق لکھا ہے کہ اگر کسی کا مال ناجائز طور پر کھا لیا ہو اور اس کے ادا کرنے کی طاقت نہ ہو تو خدا تعالیٰ سے دعا کی جائے کہ الہی مجھے تو اس کا مال دینے کی طاقت نہیں تو اپنے پاس سے ہی اسے دیدے.(۶) چھٹے یہ کہ وہ اپنے دل میں آئندہ گناہ نہ کرنے کا عہد کرے.اور پختہ ارادہ کرے کہ اب کوئی گناہ نہ کرونگا.اس کے بعد اگر مجبور ہو کر گناہ کرتا ہے تو اور بات ہے مگر تو بہ کرتے وقت اس کا اقرار ضرور کرے.اس سے میری یہ مراد نہیں کہ رات کو گناہ کر کے صبح کو اقرار کر لیا کرے کہ آئندہ نہیں کرونگا.بلکہ یہ ہے کہ انسان جس وقت یہ اقرار کرے اس وقت اس کی نیت خالص ہونی چاہئے اور اسے اپنی طرف سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہئے.(۷) ساتویں امر یہ ہے کہ انسان اپنے نفس کو نیکی کی رغبت دلانا شروع کر دے.اور اپنے دل میں نیک باتیں داخل کرنے کی کوشش کرے نیز نفس کو نیکی کے کام کرنے کے لئے تیار کرے.یہ سات باتیں تو بہ کے لئے ضروری ہیں.جب تک یہ نہ ہوں تو بہ مکمل نہیں ہو سکتی.اب آپ لوگ اپنے نفسوں میں غور کر لیں کہ آیا یہی تو یہ کیا کرتے ہیں یا کوئی اور.عام طور پر لوگ تو بہ کے متعلق یہ نہیں جانتے کہ کس بات کو مد نظر رکھ کر اور کس لئے کرنے لگے ہیں.بلکہ ان کے مونہہ سے یہ لفظ اس طرح بے ساختہ فورا نکل جاتا ہے جس طرح انگریزی دان
انوار العلوم بلدم " ۳۶ عرفان الهی لوگ بیگ یور پارڈن " (Beg your parden) میں آپ سے معافی چاہتا ہوں کہدیا کرتے ہیں حالانکہ معافی مانگنے کا انہیں کچھ بھی خیال نہیں آتا.ایسے لوگوں کی تو بہ کو توبہ نہیں کہا جا سکتا اور نہ اس طرح کی تو بہ کوئی فائدہ دے سکتی ہے.ہر ایک انسان کو چاہئے کہ جو امور میں نے بتائے ہیں انکو مد نظر رکھ کر حقیقی توبہ کرے تاکہ اسکا پچھلا حساب صاف ہو جائے.کیونکہ جب تک پچھلا حساب صاف نہ ہو اس وقت تک آگے صفائی کے ساتھ معاملہ نہیں چلتا اور پچھلا نقص بڑھتا رہتا ہے.پس ہر ایک انسان کو چاہئے کہ پچھلا حساب صاف کرنے کیلئے تو بہ کرے اور حقیقی تو بہ کرے.تو بہ کے جو طریق میں نے بتائے ہیں ان پر عمل کرنے سے پچھلا قرضہ اتر جاتا ہے اور ایک پائی بھی باقی نہیں رہ جاتی.اسکے بعد انسان کو شش کرے تو عارف باللہ بن سکتا ہے.جب پچھلا حساب بالکل صاف ہو جائے تو پھر آئندہ کا حساب چلتا ہے لیکن یہاں ایک سوال برا ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ایک تو تم کہتے ہو کہ انسان پچھلا قرضہ بے باق کرے اور دوسرے کہتے ہو کہ آئندہ نیکیاں کرے.اتنا بڑا بوجھ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ روحانی امور ایسے ہوا کرتے ہیں کہ ان میں بظاہر زیادہ بوجھ معلوم ہوتا ہے لیکن دراصل اسی بوجھ میں کامیابی کا راز ہوتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس ایک غریب اور نادار شخص آیا.آپ نے اسے غربت کا یہ علاج بتایا کہ شادی کر لو.اس نے کر لی.پھر آیا اور اپنی غربت کا اظہار کیا اس پر بھی رسول کریم نے فرمایا ایک اور شادی کر لو.اس نے اور کرلی.مگر رسول کریم کو آکر کہا کہ ایک کو کھلانے کے لئے کچھ نہیں تھا اب دو کو کیا کھلاؤں.آپ نے فرمایا ایک اور شادی کر لو.اس نے اور کرلی اور کچھ دن کے بعد آکر کہا یا رسول اللہ ! اب تو موت تک حالت پہنچ گئی ہے.آپ نے فرمایا ایک اور نکاح کرلو.اس نے وہ بھی کر لیا.کچھ عرصہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا.بتاؤ اب کیا حال ہے.تو اس نے کہا حضور دولت ہی دولت ہے تو یہ شرعی عقدے ہوتے ہیں.جن کو ہر ایک شخص نہیں سمجھ سکتا.مگر میں اس کے متعلق کسی قدر بتاتا ہوں.اول تو یہ کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے جب تک پچھلا حساب صاف نہ کر لیا جائے اس وقت تک آگے صحیح طور پر حساب نہیں چل سکتا.اور جب تک برتن کی ناقص چیز کو دور نہ کر دیا جائے اس وقت تک اس برتن میں ڈالی ہوئی چیزا چھی نہیں رہ سکتی.اسلئے ضروری ہے کہ پہلے نقائص اور خرابیوں کو دور کیا جائے تاکہ ان کا اثر آگے نہ بڑھے.دوم.جب کوئی کام نیا نیا شروع کیا جائے تو خاص جوش
ام جلد ۴ عرفان الهی ہوتا ہے جو کچھ عرصہ بعد ویسا نہیں رہتا.اس لئے جب کوئی انسان اقرار کریگا کہ اب میں فلاں گناہ نہیں کرونگا اس وقت اگر اس کے سامنے مشکل سے مشکل کام آئیگا تو اس کے کرنے کے لئے تیار ہو جائیگا.لیکن کچھ عرصہ کے بعد اس میں یہ ہمت اور جرات نہیں ہو گی.تو جب کوئی بات تازہ ہو اس وقت انسان میں بہت جوش ہوتا ہے.اس لئے تو بہ کرنے کا وقت خاص طور پر کام کرنے کا وقت ہوتا ہے.اس وقت اگر پچھلا پچھلا حساب صاف اور آئندہ نیکی کرنے کے ضروری امور حساب صاف کر لیا جائے تو ساتھ آئندہ کام کرنے کی بھی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.کیونکہ جب پچھلا بوجھ اتر جائے تو انسان آئندہ آسانی کے ساتھ ترقی کر سکتا ہے اب آئندہ حساب صاف رکھنے کے لئے اور نیکی میں ترقی کرنے کے لئے جو امور ضروری ہیں ان کو بیان کرتا ہوں.اس کے لئے سب سے پہلی اور ضروری بات جو حصول تقویٰ کے لئے ضروری اور جس کا نتیجہ عرفان الہی ہے یہ ہے کہ انسان خیالات میں پاکیزگی پیدا کرے.اس کی ابھی میں تشریح کرونگا جس سے معلوم ہو جائیگا کہ یہ تقویٰ حاصل کرنے کی ایک عجیب تدبیر ہے.خیالات کے پاک رکھنے سے میری یہ مراد نہیں کہ کوئی برا خیال ہی نہ آئے.ایسا ہونا تو اکثر لوگوں کے لئے ناممکن ہے.بلکہ یہ ہے کہ اگر کوئی ناپاک خیال آئے تو اس کو دل میں پھیلایا نہ جائے.مثلاً ایک شخص کے دل میں کسی وقت آئے کہ میں رشوت لوں تو وہ اس کے متعلق سوچنا اور تدبیریں کرنا شروع نہ کر دے.بلکہ جہاں تک جلدی ہو سکے اس خیال کو اپنے دل سے نکالنے کی کوشش کرے اور اگر موقع پر اس سے غلطی ہو بھی جائے تو اور بات ہے.لیکن جب یونہی خیال آئے اس وقت اس کو دل سے نکالنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس سے بہت فائدہ ہو گا.کیونکہ ایک ایسے شخص کی نسبت جس کو ہر وقت یہی خیال رہے کہ میں رشوت لوں اور وہ سوچتا رہے کہ کہاں سے لوں اور کس طرح لوں ہ شخص ہزار درجے اصلاح کے قریب ہے جو رشوت لینے کے خیال کو تو دل سے نکالنے کی کوشش کرتا رہتا ہے لیکن موقع آجائے تو رشوت لے لیتا ہے.وجہ یہ ہے کہ جو خیال انسان کے دل میں ہر وقت رہے اس کا بڑا اثر پڑتا ہے اور وہ دل پر ایسا نقش ہو جاتا ہے کہ پھر اس کا مٹانا سخت مشکل ہو جاتا ہے لیکن جس خیال کو نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے وہ نقش نہیں ہو سکتا.پس جب کوئی برا خیال پیدا ہو تو فورا اسے نکال دو اور دوسری طرف متوجہ ہو جاؤ اور یہ 03
ام جلاد ۱۳۴ " ۳۶۹ عرفان الهی مت خیال کرو کہ خیال کے نکالنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا.کوئی خیال جتنا زیادہ عرصہ دل میں رہتا ہے اتنا ہی زیادہ گہرا ہوتا جاتا ہے اور اگر فور انکال دیا جائے تو انسان بہت سے برے نتائج سے بچ سکتا ہے.کوئی یہ نہ سمجھے کہ برے خیال کا دل سے نکالنا کوئی مشکل کام ہے.بلکہ بہت آسان ہے اور وہ اس طرح کہ جب کوئی برا خیال آئے اسی وقت کسی اچھے شغل میں مشغول ہو جانا چاہئے.کسی سے بحث شروع کر دینی چاہئے یا کسی سے دیرینہ قضیہ ہو تو اس کے طے کرنے میں لگ جانا چاہئے.کیونکہ اس طرح وہ کسی خطرناک گناہ سے بچ جائیگا.پس کو موقع پر انسان برائی کے ارتکاب پر مجبور بھی ہو جائے مگر اس موقع سے پہلے اور پیچھے اسے اس بدی کے خیال کو اپنے دل میں نہیں آنے دینا چاہئے اور اس کو نکالتے رہنا چاہئے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اسے اپنے نفس پر قابو پانے کی طاقت آجائیگی اور وہ بالکل چھوڑ دینے کے لئے تیار ہو جائیگا.یہ مت سمجھو کہ خیال کوئی معمولی چیز ہے.دنیا میں جس قدر بھی کام ہو خیال کی حقیقت رہے ہیں وہ سب خیال ہی کا نتیجہ ہیں.مثلاً جب کوئی شخص ایمان لاتا وہ ہے تو پہلے اس کے دل میں اسلام لانے کا خیال ہی پیدا ہوتا ہے.اسی طرح اور جس قدر کام انسان کرتا ہے ان کی ابتداء خیال سے ہی شروع ہوتی ہے.اس لئے یہ نہ کہو کہ خیال کچھ حقیقت نہیں رکھتا.خیال ایک حقیقت ایک واقعہ اور بہت بڑی صداقت ہے.کہا جا سکتا ہے کہ خیال تو نظر نہیں آتا اس لئے اس کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے.ہم کہتے ہیں وہ بچ جس سے بڑ کا درخت بنتا ہے اس میں اتنا بڑا درخت کہاں نظر آتا ہے.پھر دیکھو انسان کس طرح بنتا ہے.کیا ہ نتیجہ نہیں ہو تا اس شہوت کا جو دل میں ایک خیال آنے سے پیدا ہوتی ہے.پس جب انسان کی پیدائش خیال کے اثر کے ماتحت ہوتی ہے تو اس کی حقیقت میں کس کو کلام ہو سکتا ہے راصل انسان جس قدر کام کرتا ہے وہ خیال ہی کے ذریعہ کرتا ہے.اگر کہو کہ اور چیزیں جب خیال کے ساتھ ملتی ہیں تب کام ہوتا ہے.اکیلا خیال کچھ نہیں کر سکتا اس لئے خیال بے حقیقت چیز ہے.تو میں کہتا ہوں کہ اس طرح تو اس پیج کو بھی بے حقیقت قرار دینا پڑیگا جس سے بڑکا کی درخت پیدا ہوتا ہے.کیونکہ بیج بڑ نہیں بن جاتا بلکہ وہ زمین سے جو مادہ چوستا ہے وہ بڑ بنتا ہے.یہی حال دوسرے درختوں کا ہوتا ہے اب اگر کوئی شخص بیج کو اس لئے بے حقیقت کہہ سکتا ہے کہ جب تک دوسری چیزیں اس کے ساتھ نہ ملیں اس وقت تک اس سے درخت نہیں بن سکتا تو وہ خیال کو بھی بے حقیقت کہہ سکتا ہے.لیکن جب بیج کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ بے
انوار العلوم جلد ٣٧٠ عرفان الهی حقیقت ہے.تو خیال کے متعلق بھی نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بے حقیقت سے ہے.پس خوب یاد رکھو کہ خیال کوئی بے حقیقت چیز نہیں ہے بلکہ خیال مادہ ہے تمام چیزوں کا کیونکہ اسی سے آگے نتائج نکلتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمُ بِهِ الله (البقرة : ۲۸۵) کہ اے لوگو جو خیال تمہارے دل میں آئے.اسے خواہ تم عمل میں لاؤ یا پوشیدہ رکھو اللہ اس کا حساب لے گا اس کے یہ معنی نہیں کہ یوں اگر کسی کے دل میں کوئی خیال پیدا ہو گا تو بھی اس سے مؤاخذہ کیا جائیگا.کیونکہ خدا تعالٰی بھی فرماتا ہے اور رسول کریم " بھی فرماتے ہیں کہ جس بات پر انسان کا بس نہیں اس کا مواخذہ نہیں ہو گا.مثلاً اگر کوئی شخص چلتے چلتے کہیں مال دیکھتا ہے اور اس کے دل میں آتا ہے کہ میں اسے اٹھالوں.تو صرف اس خیال کے آنے پر اس سے مؤاخذہ نہیں ہو گا.ہاں اگر یہ خیال آنے پر وہ سوچنا شروع کر دے کہ میں کس طرح اس مال کو اٹھاؤں کس وقت اٹھاؤں.تو اس کا یہ سوچنا اور تدبیریں کرنا قابل مؤاخذہ ہو گا.چنانچہ جب یہ آیت اتری تو رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے پاس صحابہ گئے.اور جا کر عرض کی کہ بعض اوقات کوئی برا خیال تو خود بخود دل میں آجاتا ہے کیا اس طرح ہم ہلاک ہو جائینگے آپ نے فرمایا کہ جب کوئی برا خیال دل میں آتا ہے اور انسان اس پر عمل نہیں کرتا تو یہ خود نیکی ہے.(بخارى كتاب الرقاق باب من هم بحسنة او سيئة) پس اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خیال جو دل میں گڑ جاتا ہے اور جس کے سوچنے میں انسان لگ جاتا اور تدبیریں شروع کر دیتا ہے اس کا محاسبہ ہو گا ورنہ اگر کسی کو خیال آئے کہ میں چوری کروں اور وہ اسے فورا نکال دے تو وہ ایک نیکی کرتا ہے.اسی طرح اگر اسے کسی کو قتل کرنے کا خیال آئے.لیکن اسے نکال دے تو وہ نیکی کرنے والا سمجھا جاتا ہے.اور سزا کا مستحق اسی حالت میں ہوتا ہے جب کہ اس خیال پر قائم رہتا ہے.پس اس نکتہ کو خوب یاد رکھو.یہ اعمال کی اصلاح کے اصلاح اعمال کا بہت بڑا زینہ لئے بہت بڑا زینہ ہے.یہ ٹھیک ہے کہ کسی برے خیال کا یدا ہونا تمہارے اختیار میں نہیں.لیکن اس کا نکالنا تمہارے اختیار میں ہے اس لئے فور انکال دیا کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ایک حکایت بیان فرمایا کرتے تھے کہ لطیف حکایت ایک شخص باغ سے انگور کا ٹوکرا اٹھا کر لئے جار ہا تھا کہ باغ کا مالک آگیا اور
انوار العلوم جلد ٣١ عرفان الهی اس نے اس سے دریافت کیا کہ میرے باغ سے انگور کیوں لئے جاتے ہو.اس نے کہا پہلے میری بات سن لو پھر جو چاہے کرنا.مالک باغ نے کہا بیان کرو.اس نے کہا مجھے ایک بگولا نے اٹھا کر باغ میں لا ڈالا.اتفاقاً جہاں میں آکر گرا وہاں انگوروں کے درخت تھے.ایسے وقت میں آپ جانتے ہیں کہ انسان اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے.میں نے جو ادھر ادھر ہاتھ مارنے شروع کئے.تو بیلوں پر سے انگور گر گر کر ایک ٹوکرے میں جو وہیں پڑا تھا جمع ہونے لگے.اب بتاؤ اس میں میرا کیا قصور ہے.باغ کے مالک نے کہا یہ تو جو کچھ ہوا ٹھیک ہوا.مگر یہ تو بتلاؤ کہ ٹو کر ا تمہارے سر پر رکھ کر تمہیں یہ کس نے کہا کہ اپنے گھر کی طرف لے جاؤ وہ کہنے لگا یہی میں بھی سوچنا آ رہا تھا کہ یہ مجھے کس نے کہا تھا.بعینہ اسی طرح اس شخص کا حال ہوتا ہے جو برے خیال کو اپنے دل میں جگہ دیتا اور قائم کرتا ہے.کیونکہ گو وہ برے خیال کے دل میں لانے میں مجرم نہیں مگر اس کے قائم رکھنے کا مجرم ہے.بیشک اس سے یہ دریافت نہیں کیا جاوے گا کہ برا خیال اس کے دل میں کیوں آیا مگر یہ اس سے ضرور دریافت کیا جاویگا کہ اس برے خیال کو اس نے دل میں قائم کیوں کیا اور اس کو سزا دی جائیگی.اس وجہ سے نہیں کہ وہ اس خیال کو دل میں کیوں لایا بلکہ اس وجہ سے کہ اس نے اسے دل میں رکھا کیوں.اور یہ انسان کے اپنے اختیار کی بات ہے.اس کے اختیار سے باہر نہیں کہ وہ برے خیالات کو دل سے نکال دے.غرض تزکیہ نفس کے لئے پہلی بات یہ ضروری ہے کہ انسان تزکیہ نفس کا پہلا طریق برے اور ناپاک خیالات کو دل سے دور کرتا رہے.دوسرا طریق قرآن کریم میں حصول تزکیہ کا بلکہ ہر ایک کام میں کامیاب دوسرا طریق ہونے کا یہ بتایا گیا ہے کہ وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِ مَا وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَى وَآتُوا الْبُيُوتَ مِنْ اَبْوَابِهَا وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (البقرة : 190) یعنی نیکی یہ نہیں کہ تم مشقت اٹھاؤ اور کود کود کر گھروں میں آؤ.بلکہ نیکی تقوی سے حاصل ہوتی ہے.پس جن کاموں کے کرنے کے جو طریق بتائے گئے ہیں ان کو اختیار کرد اور تقویٰ اللہ کرو تا کامیاب ہو.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کامیابی کے لئے ان صحیح ذرائع کا استعمال کرنا نہایت ضروری ہے جو اس غرض کے لئے اللہ تعالٰی نے مقرر کئے ہیں.اور چونکہ عرفان الہی کے حصول کا صحیح ذریعہ تزکیہ نفس ہے اور تزکیہ نفس اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک پہلے بدیوں سے اجتناب اور پھر نیکیوں کو اختیار نہ کیا جاوے.اس لئے ضروری ہے
وم جلدم ۳۷۲ عرفان الهی کہ ان افعال کا جن کو حضرت احدیت نا پسند فرماتے ہیں اور ان کا جن کو پسند فرماتے ہیں پورا علم حاصل کیا جاوے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس قرآن پر جس پر تلاوت فرماتے تھے اوامر اور نواہی کی فہرست بنائی ہوئی تھی.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آپ کو خدا تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کی تعمیل کا کس قدر خیال تھا.تو تزکیہ کے لئے ان باتوں کا معلوم ہونا نہایت ضروری ہے اور جب یہ معلوم ہو جائیں تو پھر بہت آسانی ہو جاتی ہے.کیونکہ انسان بے علمی کی تاریکی سے نکل کر علم کے اجالے میں آجاتا ہے.جب اوامر و نواہی معلوم ہو جائیں تو ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.کیونکہ صحیح ذرائع کے معلوم ہونے کے بعد ان پر کوشش کرنا ہی کامیابی کا واحد گر ہوتا ہے.لیکن عمل کرنے میں اگر کوئی غلطی ہو جائے یا پوری طرح عمل نہ کر سکے تو بھی کوشش چھوڑنی نہیں چاہئے.بلکہ کوشش جاری رکھنی چاہئے جو اس کی آئندہ ترقی کا باعث ہو جائیگی.ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جن اعمال کے بغیر ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا ان میں سے کسی کو چھوٹنے نہ دے اور سب پر عمل کرنے کی کوشش کرے.تیسرا ذریعہ صفات الہیہ کو اپنے نفس میں جاری صفات الہیہ کے حصول کا تیسرا ذریعہ کرنے کا یہ ہے کہ ایسے اعمال جن کے کرنے یا.نہ کرنے سے تزکیہ حاصل ہوتا ہے.انسان ان کو دل میں لائے اور ان کا بار بار ورد کرے.کیونکہ جن باتوں کو بار بار یاد کیا جاتا ہے وہ دل میں گڑ جاتی ہیں.میں اس کے متعلق مثال دے کر سمجھاتا ہوں مثلاً ایک ایسا شخص ہے جسے جھٹ پٹ غصہ آجاتا ہے.اسے چاہئے کہ فرصت کے اوقات میں اس امر پر غور کیا کرے کہ مجھے غصہ بہت جلد آ جاتا ہے اور یہ برا فعل ہے اور میری روحانی ترقی کے راستہ میں روک ہے اس لئے میں آئندہ ہرگز ہرگز ہرگز ایسا فعل نہ کرونگا.اور اس امر کو بار بار اپنے دل میں لاوے یہاں تک کہ دل میں نقش ہو جاوے اور وہ ی اس مرض سے بچ جائے.اگر اس طرح کا عہد کہ میں آئندہ یہ کام نہ کرونگا یا کرونگا اسے یاد نہ رہتا ہو اور اس طرح کامیابی نہ ہو تو ایک اور گر ہے اسے استعمال کرے.اور وہ یہ کہ لمبے عہد سے انسان کی طبیعت گھبرا جاتی ہے اس لئے بجائے لمبے عہد کے یہ سوچے کہ یہ فعل میں آج تو ضرور کرونگا یا آج بالکل نہیں کرونگا.اس دن اس کا نفس رکا رہیگا.کیونکہ وہ اپنے آپ کو ملامت کریگا کہ کیا ایک دن بھی میں اپنی بات پر قائم نہیں رہ سکتا.دوسرے دن سے پہلے وہ پھر
ام جلد ۴ ۳۷۳ عرفان الهی ایک دن کے لئے عہد کرے.اور اسی طرح عہد کرتا چلا جارے یہاں تک کہ نفس پر غلبہ : جاوے.پس کسی معیوب عادت کو ترک کرنے کے لئے اس طرح اپنے نفس سے مقابلہ کرنا چاہئے نہ کہ یک دم سارا بوجھ ڈال دینا چاہئے.اس طرح کامیابی مشکل ہوتی ہے آسانی سے کامیابی آہستہ آہستہ بڑھنے اور مزاولت اختیار کرنے سے ہو سکتی ہے.پس ایک دفعہ اپنے نفس سے ایک اچھا عمل کراؤ اور دوسرے وقت پھر اسی پر اسے لگاؤ.اور اسی طرح کئی بار کراؤ جس سے اسے عادت پڑ جائیگی.انسان کا نفس در اصل بچہ کی طرح ہوتا ہے.اس لئے اس سے بچوں والا معاملہ کرنا چاہے.اور اسے روحانی تعلیم دینے کے لئے وہی طریق اختیار کرنا چاہئے جو سکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے کہ پہلے انہیں چھوٹے سبق پڑھاتے ہیں اور آہستہ آہستہ زیادہ بڑھاتے جاتے ہیں.حصول تزکیہ کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ تکرار کی جاوے یہ بھی قرآن کریم سے ثابت ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَامَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَامَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَاَحْسَنُوا والله يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (المائدة: (۹۴) کہ مؤمنوں پر گناہ نہیں ان چیزوں کے متعلق جو وہ کھاتے ہیں جب کہ وہ متقی ہوں اور ایمان لائیں اور عمل صالح کریں یعنی پہلے ایسا تقویٰ کریں جس کا نتیجہ ایمان اور اعمال صالحہ ہوں.پھر تقویٰ کریں اور ایمان لائیں.پھر تقویٰ کریں اور محسن ہو جائیں اور اللہ محسنین سے محبت رکھتا ہے.اس آیت میں تین دفعہ تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور تین ہی بار تقویٰ کے الگ الگ نتیجے بتائے ہیں.پہلے تقویٰ کے ساتھ یہ بتایا ہے کہ اس کے اختیار کرنے سے ایمان اور اعمال صالحہ حاصل ہوں.ان اعمال سے وہی اعمال مراد ہیں جو اپنی تمام شرائط کے ساتھ کئے جائیں اور ایمان خالص ہو.اس کے بعد فرمایا پھر تقویٰ کرے.اس کے ساتھ صرف آمَنُوا رکھا ہے جس میں بظا ہر اعتراض پڑتا ہے کہ عجیب بات ہے کہ پہلے تقویٰ کا نتیجہ ایمان اور اعمال صالحہ بتائے تھے اور دوسری دفعہ تقویٰ کا حکم دیتے ہوئے صرف ایمان ہی نتیجہ بتا تا ہے.اس کا جواب یاد رکھنا چاہئے.کہ ایک ایمان ایسا ہوتا ہے جس کا اعمال صالحہ لازمی نتیجہ نہیں ہوتے.اور ایک ایمان ایسا ہوتا ہے جس کا لازمی نتیجہ اعمال صالحہ ہوتے ہیں.چونکہ پہلی بار اس ایمان کا ذکر کیا جس کا لازمی نتیجہ اعمال صالحہ نہیں ہوتے.اور ایسا پختہ نہیں ہو تا کہ اس کے ساتھ
انوار العلوم جلد ۴ عرفان الی لازمی طور پر اعمال صالحہ ہوں.اس لئے ساتھ انکا بھی حکم دے دیا.لیکن دوسری بار جس ایمان کا ذکر ہے وہ پہلے سے زیادہ پختہ ہے.اور اس کی وجہ سے اعمال صالحہ خود بخود ہوتے چلے جاتے ہیں.اس لئے اس کے ساتھ اعمال صالحہ کا ذکر نہیں کیا.اس کے بعد تیسری بار فرمایا.پھر تقویٰ کرو اور اس کے نتیجہ میں محسن ہو جاؤ جس میں اشارہ کیا ہے کہ تکرار عمل سے انسان کے ایمان میں خاص ترقی حاصل ہوتی ہے اور وہ ہر دفعہ قدم آگے بڑھاتا ہے.اس آیت میں جو احسان کا لفظ ہے.اس کے معنی خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائے ہیں.اور وہ یہ کہ احسان یہ ہے کہ ان تَعْبُدَ اللَّهَ كَانَّكَ تَرَاهُ فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل من الایمان و الاسلام و غیر هما) کہ تو خدا تعالی کی اس طرح عبادت کرے کہ گویا اس کو دیکھ رہا ہے.اور اگر یہ حالت نہ پیدا ہو تو کم سے کم یہ حالت ہو کہ تجھے یہ یقین ہو کہ خدا تجھے دیکھ رہا ہے اور اسی کا نام عرفان الہی ہے.پس اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ کسی عمل کا تکرار کیسا ضروری ہوتا ہے اور کس طرح ہر دفعہ اس سے پہلے کی نسبت بڑا نتیجہ نکلتا ہے.کیونکہ فرماتا ہے کہ جب ایک انسان تقوی سے کام لیتا ہے تو اسے ایمان نصیب ہوتا ہے اور عمل صالح کی توفیق ملتی ہے.اس کے بعد جب وہ پھر تقویٰ سے کام لیتا ہے تو اس کے ایمان میں اور ترقی ہوتی ہے.اور وہ ایسا پختہ ہو جاتا ہے کہ اعمال صالحہ اس کے ایمان کے جزو بن جاتے ہیں اور خود بخود ہی اس سے نیکیاں سرزد ہوتی ہیں.جب پھر تقوی سے کام لیتا ہے تو اور بھی ترقی ہو جاتی ہے اور محسن کا درجہ اسے نصیب ہو جاتا ہے.جس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے تو یہ فرمائی کہ وہ خدا تعالیٰ کا محبوب ہو جاتا ہے اور محبوب سے کون پردہ کرتا ہے.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف لفظوں میں کہہ دیا کہ وہ خدا کو دیکھ لیتا ہے اور اسی کا نام عرفان الہی ہے.یہ ہے کہ اعمال پر دوام اختیار کرو.چنانچہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے.وَاعْبُدْ رَبِّكَ چوتھی بات حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ (الحجر: ١٠٠) کہ اللہ کی عبادت اس وقت تک کرتے رہو (1** ;) جب تک کہ موت آجائے اور تم اس دنیا سے جدا کئے جاؤ.وہ لوگ جھوٹے اور کذاب ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں خدا مل گیا ہے اس لئے کب تک کشتی میں بیٹھے اس کی تلاش کرتے رہیں.اور نماز، روزہ، حج، زکوۃ ایک کشتی ہے جو خدا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے.پس جب خدا تک
انوار العلوم جلد ۴ ۳۷۵ عرفان اشمی انسان پہنچ جائے تو پھر بھی اسی کشتی میں بیٹھا رہنا نادانی ہے.یہ بعض جھوٹے اور فریبی صوفیوں کی باتیں ہیں کہ اعمال کشتی ہیں جو خدا تک پہنچاتے ہیں.اب کیا کبھی خدا تک پہنچیں گے یا نہیں.جب پہنچ جائیں تو پھر ان کی ضرورت نہیں رہتی.لیکن یہ بالکل غلط اور جھوٹ ہے وجہ یہ کہ جس ہستی کے پاس ہمیں پہنچتا ہے وہ محدود نہیں اور ہم ایک ایسے دریا کے اندر چل رہے ہیں جو کبھی ختم ہونے والا نہیں.پس ہماری مثال اس شخص کی سی ہے جو دریا میں جا رہا ہو اور جس کی غرض یہ ہو کہ وہ اس دریا کے دہانے تک پہنچے.نہ اس شخص کی جو ایک کنارہ دریا سے دوسرے کنارے تک جا رہا ہو.پس چونکہ خدا محدود نہیں اس لئے اس تک پہنچنے کے لئے ہمارے اعمال بھی محدود نہیں ہونے چاہئیں.ہاں اگر وہ محدود ہوتا تو ہماری نمازیں ہمارے روزے ہماری زکوۃ ہمارا حج بھی محدود ہوتا.لیکن جب کہ ہمارا خدا محدود نہیں تو ہمارے اعمال کس طرح محدود ہو سکتے ہیں.ہمیں اپنے اعمال کے نتیجہ میں کل جس قدر اجر ملا تھا آج اس سے زیادہ ملے گا.اور آنے والے کل میں اس سے زیادہ حتیٰ کہ ہر روز اس میں ترقی ہوتی جائیگی.پس عبادات پر دوام ہونا چاہئے.یہ نہ ہو کہ کچھ عرصہ کی اور پھر چھوڑ دی.ایسا کرنے سے پہلے جو کچھ حاصل کیا جائے اس کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا جیسا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے.کہ وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْ بَعْدِ قَوَّةٍ أَنْكَاثَاً (النحل : ۹۳) یعنی اس عورت کی طرح نہ ہنو.جس نے سوت کات کر جب وہ قابل استعمال ہو گیا اسے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیا.یہ ہے کہ بہت سی باتیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں انسان بغیر استاد کے سمجھ نہیں پانچویں بات سکتا اور ضروری ہوتا ہے کہ ان کے سمجھانے والا اسے کوئی استاد ملے.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ - (التوبة: (119) كم اے مؤمنو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.یعنی ان کی مجلسوں میں بیٹھو ماکہ پختہ ہو جاؤ.پس یہ بہت ضروری بات ہے کہ استاد کامل سے انسان فائدہ اٹھائے مجددوں ولیوں اور کامل مؤمنوں کے سلسلے ہر زمانہ میں چلتے ہیں اور جب یہ مفقود ہوتے ہیں تو خدا کسی نبی کو بھیج دیتا ہے اس لئے ان سے فائدہ اٹھانا چاہئے.کیونکہ جس طرح کوئی طالب علم خود بخود کتابیں نہیں پڑھ سکتا بلکہ اسے استاد کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح روحانی مدارج بھی خود بخود حاصل نہیں ہو سکتے ان کے لئے بھی استاد کی ضرورت ہے.اسی لئے قرآن کریم میں خدا تعالٰی فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهم
ام چاند کی عرفان الهی فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ (النور : ۵۶) کہ ہمیشہ امت محمدیہ میں خلفاء بھیجے رہیں گے.آگے یہ نہیں بتایا کہ وہ کیسے ہونگے.بلکہ یہ کہدیا کہ پہلی امتوں میں جس طرح کے ہوتے رہے ہیں اسی طرح کے اس امت میں بھی ہونگے.پہلے سیاسی بھی ہوئے ہیں اور بغیر سیاست کے بھی اسی طرح اس امت میں ہونگے.کیوں؟ اس لئے کہ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُم من الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِ لَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمَنَّا ( النور : ۵۶) تاکہ ان کے ذریعہ دین قائم ہو.اور وہ لوگوں کی اصلاح کریں.اور ان کے استاد ہوں.تو خدا تعالیٰ بھی استاد کا ہوتا ضروری قرار دیتا ہے.جس سے معلوم ہوا کہ اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.بہت سی باتیں جو انسان بغیر استاد کے سالوں میں معلوم کر سکتا ہے استاد کے ذریعہ منٹوں میں معلوم ہو سکتی ہیں.تعلیم شروع کرتے وقت ہی اگر لڑکے ڈکشنریاں استعمال کرنے لگ جائیں.اور ان کے ذریعہ تعلیم پانا چاہیں تو کئی سالوں میں بھی اتنا نہ پڑھ سکیں جتنا استاد کے ذریعہ چند دنوں میں پڑھ لیتے ہیں.یہی دیکھ لو اس وقت میں جو تقریر کر رہا ہوں اور جو باتیں بیان کر رہا ہوں ان کے دریافت کرنے کے لئے اگر آپ لوگ اپنے اپنے طور پر کوشش کرتے تو اس کے لئے کئی سالوں کی ضرورت ہوتی.مگر اب چند گھنٹوں میں آپ لوگوں نے اس قدر سن لیا ہے جو سالوں میں معلوم ہو سکتا ہے اور پھر بھی بڑی مشکل سے.تو استاد کا ہونا نہایت ضروری ہے.اور خدا نے تم سے ہ کیا ہے کہ تمہیں ہم استاد دیتے رہیں گے.اور تمہیں تو اس استاد کی تلاش کی بھی ضرورت نہیں.کیونکہ تم ایسے منظم سلسلہ میں ہو کہ تمہارے لئے خدا تعالیٰ خود چن کر استاد کھڑا کر دیتا ہے.پس تمہارے لئے وہ وقتیں نہیں ہیں جو دوسروں کے لئے ہیں اس لئے تمہیں وعدہ ضرور فائدہ اٹھانا چاہیئے.جس سے انسان بہت بڑا فائدہ حاصل کر سکتا ہے وہ محاسبہ ہے.اس سے اگر انسان فائدہ اٹھائے تو بہت جلد اسے تزکیہ نفس حاصل ہو جاتا ہے.لیکن اس کی.چھٹی بات تفصیل وہ نہیں ہے جو آپ لوگوں کے ذہن میں ہے.بلکہ وہ ہے جو میں بتاؤنگا.جس سے معلوم جائیگا کہ محاسبہ کیا چیز ہے.اس میں کیا وقتیں پیش آتی ہیں اور وہ کس طرح دور ہو سکتی ہیں اور وہ کس طرح کرنا چاہئے.پہلے قرآن کریم سے یہ بتاتا ہوں.کہ محاسبہ ہونا چاہئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللهُ جَمِيعاً فَيُنَبِّتُهُمْ بِمَا عَمِلُوا احْصُهُ اللهُ وَنَسُوهُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدُ (المجادلة:1) یعنی اس دن کو یاد کرو جس دن اللہ تعالٰی ان سب کو مبعوث کریگا.
العلوم جلد " ۳۷۷ عرفان الى اور انکے اعمال کی انہیں خبر دیگا.اللہ تعالٰی نے ان کو گن رکھا ہے.لیکن یہ لوگ جن کا فرض تھا کہ ان کو یاد رکھتے یہ ان کو بھول گئے ہیں.اور اللہ تعالی تو ہر ایک بات پر نگران ہے.گویا یاد رکھنے کی ضرورت تو انہیں تھی جنہیں حساب دینا تھا.مگر وہ بھولتے رہے اور اللہ گنتا رہا اور یہ نہایت عجیب بات ہے اور خلافِ دانش ہے.پس اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ محاسبہ ضروری ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے بندہ کے لئے ضروری تھا کہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرتا رہتا.کیونکہ اسے قیامت کو حساب دینا تھا.اسے چاہئے تھا کہ وہ اپنے اعمال اپنے سامنے رکھتا.لیکن اس نے ایسا نہ کیا.تو محاسبہ کرنا قرآن کریم سے ثابت ہے.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک قول مشہور ہے.جسے عام طور پر غلطی سے حدیث سمجھا جاتا ہے کہ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا - (ترمذی ابواب صفه القيمة باب ما جاء في صفة اواني الحوض تم اپنا محاسبہ کرو قبل اس کے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے.اب یاد رکھنا چاہئے کہ محاسبے دو قسم کے ہوتے ہیں اور ان دونوں میں محاسبہ کی دو قسمیں فرق ہے جس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت لوگ محاسبہ کو ہی نہیں سمجھ سکے اور نہ دوسروں کو اس کی طرف توجہ دلا سکے.تم لوگ ان دونوں قسموں کو خوب یاد رکھو.محاسبہ کی ایک قسم جزء کے متعلق ہے اور دوسری گل کے متعلق.ان میں فرق نہ کرنے کی وجہ سے عام لوگ محاسبہ کو نہیں سمجھ سکتے.قسم اول تو وہ ہے جو ہر عمل کیساتھ تعلق رکھتی ہے اور قسم دوم تمام اعمال کے متعلق ہے.پہلی قسم اعمال کو درست کرتی ہے اور دوسری قسم انہیں صیقل کرتی ہے.لوگوں نے ان دونوں کو ملا دیا ہے یا صرف دوسری کو بیان کیا ہے.لیکن اصل محاسبہ جس سے زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے یہی ہے کہ دونوں طرح محاسبہ کیا جاوے.اب میں ان دونوں قسموں کی تفصیل بیان کرتا ہوں.پہلی محاسبہ کی تین ضمنی قسمیں قسم جو اجزاء کے متعلق ہے.اس کی تین قسمیں ہیں.(1) محاسبہ ابتدائیہ (۲) محاسبہ وسطی (۳) محاسبه اخر می.محاسبہ اولیٰ ہر ایک انسان کو چاہئے کہ جب وہ کوئی کام کرنے لگے تو اس کے شروع کرنے سے پہلے اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور اس سے دو سوال کرے (1) اس کام کے کرنے کی غرض کیا ہے (۲) کسی کی خاطر وہ یہ کام کرنے لگا ہے.سوال اول سے تو اس کو یہ فائدہ ہو گا کہ اگر وہ کام برا ہے تو اس سوال کے جواب سے اس کی برائی کا اس کو علم ہو جاویگا.کیونکہ اغراض
وم جلد " عرفان الهی کے ساتھ ہی چیزوں کی نیکی یا بدی وابستہ ہے.جب اس کا نفس اس کے سوال کا جواب دیگا اور اس کام کی برائی اس پر ظاہر ہو گی تو خود بخود اس کے دل میں شرمندگی پیدا ہو گی اور نفس کا جوش ٹھنڈا پڑ جاویگا.کیونکہ شرمندگی اور ندامت سے نفس کا جوش ٹھنڈا پڑ جایا کرتا ہے.مثلاً چوری ہے.اس کے ارتکاب کا جب خیال پیدا ہو تو اپنے آپ سے سوال کرے کہ میں کیوں کرنے لگا ہوں؟ کے کا مال حاصل کرنے کے لئے.اس پر سوال کر سکتا ہے.کیا مال حاصل کرنے کے خدا نے اور ذریعے نہیں بنائے کہ میں دوسرے کا مال بلاوجہ لوٹتا ہوں اور اگر میرے ساتھ ایسا ہی معاملہ کوئی کرے تو میں اسے کیسا نا پسند کرونگا.اس طرح اس کا نفس لاجواب ہو جائیگا اور وہ چوری کرنے سے رک جائیگا.تو یہ پہلا محاسبہ ہے جو کسی کام کے کرنے سے پہلے نفس سے کرنا چاہئے.ہاں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض اوقات جب کسی فعل کے متعلق نفس سے سوال کیا جائیگا.تو وہ جواب دیگا کہ یہ نیکی ہے.لیکن اس پر اگر جرح کی جاویگی تو پکڑا جائیگا اور شرمندہ ہو گا.تو بہت سے گناہ پہلے ہی سوال پر چھوٹ جائیں گے.اور بہت سے دوسرے تیسرے پر.لیکن کبھی ایسا ہو گا کہ اس محاسبہ کے بعد معلوم ہو گا کہ جو کام یہ کرنے لگا ہے وہ نیکی ہے اور اس کے اور دوسروں کے لئے موجب نفع ہے.اس وقت بھی یہ محاسبہ کو ختم نہ کرے بلکہ محاسبہ اولیٰ کی دوسری شق سے کام لے اور وہ یہ ہے کہ (۲) اپنے نفس سے سوال کرے کہ یہ کام میں کس کی خاطر کرتا ہوں.اس سوال کے جواب سے اسے معلوم ہو گا کہ کئی باتیں جو بظاہر نیک معلوم ہوتی تھیں در حقیقت بدیاں تھیں.مثلاً نماز پڑھتے وقت یا صدقہ دیتے وقت یا احسان کرتے وقت پہلے محاسبہ کے جواب میں اس کا نفس ثابت کریگا کہ یہ سب کام مفید ہیں.لیکن اگر ریاء اور سمعت کے لئے اس نے یہ کام کرنے چاہے تھے.تو دوسرے سوال کے جواب پر کہ میں یہ کام کس کی خاطر کرنے لگا ہوں وہ مجبہ نیکی کا جو نفس نے ان کاموں کو پہنایا تھا اتر جاویگا اور اسے معلوم ہو جاویگا کہ یہ نیکی بھی بدی تھی.اور فورا یہ اپنے ارادہ کو بدل کر محض خدا کے لئے یا بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے اس کام کے کرنے کی نیت کرلیگا.اور بدی کو نیکی سے بدل دیگا.اس ابتدائی محاسبہ کے بعد پھر کام کے شروع کرنے پر دوسرا محاسبہ ہوتا ہے.اس محاسبہ کا بہت فائدہ ہوتا ہے.اس محاسبہ کا یہ طریق ہے کہ ہر ایک کام کے دوران یہ سوال اپنے نفس سے کرے کہ میں یہ کام کس طرح کرتا ہوں.یعنی اس کو تحمیل پر پہنچانے کے لئے کن ذرائع کو استعمال کرتا ہوں.اس محاسبہ کی یہ ضرورت ہے کہ بہت
عرفان انی دفعہ انسان ایک نیک کام کرتا ہے اور نیک ارادہ سے ہی کرتا ہے.مگر اس کے پورا کرنے کے لئے ایسے ذرائع استعمال کرتا ہے جو درست نہیں ہوتے.یا اس نیک کام کو ان شرائط کے ساتھ پورا نہیں کرتا جن سے ان کا پورا کرنا اس کے لئے ضروری تھا.پس جب یہ ہر ایک کام کے درمیان میں اپنے نفس سے سوال کریگا کہ تو کس طرح یہ کام کر رہا ہے.تو اس سوال کے جواب سے اگر کوئی غلطی اس کے طریق عمل میں ہو گی تو نکل جائیگی.اس کے بعد تیسرا اور آخری محاسبہ ہے جو کسی کام کے ختم ہونے پر کیا جاتا ہے.اور وہ یہ ہے کہ اپنے نفس سے سوال کرے کہ اس کام کا اثر اس کے دل پر کیا پڑا ہے.اس سوال کی یہ ضرورت ہے کہ بعض دفعہ انسان نیکی کرتا ہے.اور نیک ذرائع سے کرتا ہے مگر اسے کر چکنے کے بعد اس کے دل میں عجب اور تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور وہ تباہ ہو جاتا ہے.پس نیکی کرنے کے بعد جب وہ اپنے نفس کو ٹولے گا کہ اس پر اس کا کیا اثر ہوا ہے.تو اگر اس پر فخر اور بڑائی کا کوئی اثر ہوا ہو گا اس سے پیشتر کہ وہ بڑھ کر درخت بن جاوے یہ واقف ہو جاویگا.اور اپنے نفس کو ملامت کریگا اور اپنے اعمال کو ضائع ہونے سے بچائیگا.اور اگر یہ دیکھے گا کہ اس کا اثر اس کے دل میں یہ پیدا ہوا ہے کہ اور بھی بجز اور تذلل پیدا ہو گیا ہے تو پہلے عمل کے نیک اثر کو دیکھ کر اور زیادہ نیکیوں کی طرف رغبت کریگا.اور ان کی طرف اور بھی شوق سے قدم بڑھائے گا.غرض محاسبہ تین قسم کا ہے.پہلا محاسبہ یہ ہے کہ ارادہ آنے پر سوال کرے کہ میں یہ کام کس غرض سے اور کس کے لئے کرتا ہوں.یہ محاسبہ ابتدائیہ ہو گا.دوسرا محاسبہ یہ ہے کہ جب کام شروع کر دے اس وقت سوال کرے کہ میں اس کام کو کس طرح کرتا ہوں یہ محاسبہ وسطی ہو گا.تیسرا محاسبہ یہ ہے کہ جب کر چکے تو نفس سے پوچھے کہ تجھ پر اس کا کیا اثر ہوا ہے.یہ محاسبہ اخریٰ ہو گا.اگر انسان ان سوالات پر عمل شروع کر دے تو کچھ عرصہ کے بعد اسے ایسی عادت ہو جائیگی کہ خود بخود نفس سے ہر عمل پر سوال پیدا ہوتے جائینگے.یہ محاسبہ اجزائے اعمال کے متعلق ہے.دوسری قسم محاسبہ کی کلی محاسبہ ہے.یہ اکٹھا ایک دفعہ سب اعمال پر کرنا بہت مشکل ہے.کیونکہ انسان کو اپنے اعمال بھول جاتے ہیں اور چونکہ یہ محاسبہ اس قدر وسیع ہے کہ تمام اعمال پر حاوی ہے.اس لئے کئی اعمال چھوٹ جائینگے.خدا تعالٰی بھی بتاتا ہے کہ انسان کی نظر کس قدر کمزور ہے فرماتا ہے.لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَذَا فَكَشَفْنَا عَنْكَ غِطَاءَ كَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدُ (ق : (۲۳) یعنی دنیا میں تجھے یہ باتیں بھولی ہوئی تھیں.اب تجھے خوب یاد آگئی
عرفان الهی ہیں.اس لئے کوئی ایسی ترکیب ہونی چاہئے کہ انسان تمام اعمال کا آسانی سے محاسبہ کر سکے اور کوئی عمل اس سے چھوٹ نہ جائے.اس کے لئے اول ترکیب طبعی تو یہ ہے کہ اعمال کو تقسیم کر دیں.مثلا نیکیوں کی تقسیم اس طرح ہو سکتی ہے کہ اول وہ جو خدا کے متعلق ہیں.دوم وہ جو اپنے نفس کے متعلق ہیں.سوم وہ جو دوسری مخلوق کے متعلق ہیں اسی طرح بدیوں کے متعلق تقسیم ہو سکتی ہیں.اس تقسیم کو مد نظر رکھ کر جب محاسبہ کیا جائیگا تو بہت سی باتیں یاد آجائینگی.اعمال کی اور کئی طرح بھی تقسیم کی جا سکتی ہے.مثلاً اعمال اعمال حسنہ کی چار قسمیں میں حسنہ چار قسم کے ہوتے ہیں.اول وہ اعمال جن سے انسان کو خود بھی فائدہ ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.مگر بعض اوقات انسان ضد میں آکر انہیں نہیں کرتا اس کے متعلق دیکھے کہ مجھ سے کوئی اس طرح کا کام تو نہیں رہ گیا.دوم وہ اعمال ہوتے ہیں جن سے انسان کو خود تو نفع نہیں ہو تا مگر دوسروں کو ہوتا ہے.سوم وہ اعمال ہوتے ہیں جن کے نہ کرنے سے اپنے آپ کو تو نہ نفع ہوتا ہے اور نہ نقصان لیکن دوسرے کا نقصان ہوتا ہے.چہارم وہ اعمال ہوتے ہیں کہ ان سے اپنا تو کوئی نقصان ہوتا ہے لیکن دوسرے کو فائدہ ہوتا ہے ان اعمال کو اگر انسان الگ الگ کر کے دیکھے تو اسے محاسبہ میں بہت آسانی ہو سکتی ہے.اسی طرح نہی کے متعلق کیا جا سکتا ہے.اس تبویب سے ایک عظیم الشان فائدہ یہ بھی اعمال کا محاسبہ کرنے کا آسان طریق ہو گا کہ انسان کو اعمال کی جڑ اور شاخوں کا پتہ لگ جائیگا.اور جب کسی عمل میں نقص پیدا ہو جائیگا تو آسانی کے ساتھ اس کی اصلاح کر سکے گا.مگر اس طرح محاسبہ کرنے کی بھی ہر شخص میں طاقت نہیں ہوتی.اس لئے آسان ترکیب بتاتا ہوں.اور وہ یہ کہ بجائے اس کے کہ انسان سال کے بعد اپنے اعمال کا محاسبہ کرے یا چھ ماہ یا چار ماہ یا ایک ماہ بعد اس طرح کرے کہ قرآن کریم کے اوامر اور نواہی پر نشان لگا لے.اور پھر عہد کرے کہ روزانہ ایک دو تین یا جتنے رکوع پڑھ سکے پڑھا کرے.اور پڑھتے وقت اس بات کی احتیاط رکھے کہ طوطے کی طرح نہ پڑھے.بلکہ اوامر اور نواہی پر غور کرے اور روزانہ پڑھتے وقت جس حکم کا ذکر آوے اس پر سوچے کہ کیا میں یہ کام کرتا ہوں.اور جس نہی کا ذکر آوے.اس پر غور کرے کہ کیا میں اس سے باز رہتا ہوں.اس طرح بآسانی محاسبہ ہو جائیگا.
انوار العلوم جلد ۴ ٣٨١ عرفان الهی دیکھو جب کوئی شخص مکان تعمیر کراتا ہے.تو انجینئریا اور کسی واقف کار انسان سے حساب لگواتا ہے تاکہ کوئی چیز رہ نہ جائے اور مکان مکمل نہ ہو سکے.اسی طرح روحانی عمارت تعمیر کرنے کے لئے قرآن انجنیئر ہے.اس سے پوچھنا چاہئے کہ ہمیں ایمان کی تکمیل کے لئے کونسی چیزوں کی ضرورت ہے اور اس کا یہی طریق ہے کہ قرآن پڑھتے وقت جو جو امریا نہی آئے اس پر غور کرتے چلے جاویں کہ آیا اسی طرح ہمارا عمل ہے یا نہیں.یہ ایسا طریق ہے کہ جو بھی کوشش کرے وہ کر سکتا ہے.ہاں اس میں ایک احتیاط کی بھی ضرورت ہے.اور وہ یہ کہ اس معاملہ میں نفس کی بات نہیں ماننی چاہئے.مثلاً غیبت ہے.اس کے متعلق اگر نفس کے کہ میں نے غیبت کبھی کی غیبت کی حقیقت ہی نہیں.تو اس کو تسلیم نہیں کر لینا چاہئے.بلکہ اول تو اپنے اعمال کو ٹولے.اگر پھر بھی معلوم ہو کہ اس نے یہ جرم نہیں کیا تو پھر غیبت کی تشریح کرے کہ غیبت کیا ئے ہے.بہت دفعہ تشریح کرنے سے معلوم ہو گا کہ انہوں نے غیبت کو اچھی طرح سمجھا ہی نہ تھا.اس لئے سمجھ رہے تھے کہ ہم نے غیبت کبھی کی ہی نہیں.کئی ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ کسی کی برائی کر رہے ہوتے ہیں.جب انہیں سمجھایا جائے کہ کیوں غیبت کرتے ہو تو کہتے ہیں کیا ہم جھوٹ کہتے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہی نہیں کہ غیبت کیا ہوتی ہے وہ سمجھتے ہیں اگر کسی کے متعلق کوئی خلاف واقعہ بات بیان کی جائے تو وہ غیبت ہوتی ہے.حالانکہ خلاف واقعہ بات کو جھوٹ کہا جاتا ہے.اور غیبت سچی بات پس پشت بیان کرنے کو کہتے ہیں.اب ایک ایسا شخص جو غیبت کی یہ تعریف سمجھتا ہے کہ پیٹھ پیچھے غلاف واقعہ بات بیان کرنے کو کہتے ہیں وہ جب یہ پڑھے گا کہ غیبت نہ کرو تو سمجھے گا کہ میں تو نہیں کرتا.لیکن اگر غیبت کی صحیح تعریف اپنے دل میں لائیگا اور جھوٹ سے اس کا مقابلہ کریگا تو اسے معلوم ہو جائیگا کہ میں غیبت کا مرتکب ہو تا ہوں.بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ ہم یہ بات تو اس کے مونہہ پر بھی کہنے کے لئے تیار ہیں.گویا وہ غیبت کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ جو بات مونہہ پر نہ بیان ہو سکے وہ غیبت ہوتی ہے حالانکہ جو شخص کسی بھائی کے عیب اس کے پیچھے بیان کرتا ہے.اور پھر اس کے سامنے بیان کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتا ہے.وہ دو گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اول غیبت کا دوم دل آزاری کا.کسی کا وہ عیب جو خدا نے چھپایا ہو.اس کا ظاہر کرنا گناہ ہے.اور رسول کریم نے فرمایا ہے : خدا اس کا عیب چھپاتا ہے جو دوسرے کا چھپاتا ہے.(ترمذی ابواب
العلوم جلد ۳۸۲ عرفان التی البر والصلة باب ماجاء فی الستر على المسلمین لیکن اکثر لوگ غیبت کی تعریف نہ جاننے کی وجہ سے اسکے مرتکب ہوتے ہیں..اب یہ سوال ہو سکتا ہے کہ مختلف گناہوں کی تعریفیں کس طرح معلوم ہوں مختلف گناہوں اور بدیوں کی تعریفیں کس طرح معلوم ہوں.اس کے متعلق اول تو وہی صورت ہے جو میں نے بتائی ہے کہ استاد سے سیکھو.لیکن چونکہ استاد سے بھی تمام جزوی باتیں دریافت نہیں ہو سکتیں.اس لئے ایک گر بتا تا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ خدا نے انسان میں ایسا غیرت کا مادہ رکھا ہے کہ وہ ایک فعل خود تو کر لیتا ہے لیکن اس فعل کو اگر کوئی اور اس کے سامنے کرتا ہے تو اسے غیرت آجاتی ہے اور وہ اسے سخت ناپسند کرتا ہے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میں نے ایک چور سے پوچھا.تمہیں چوری کرنا برا نہیں معلوم ہوتا.وہ کہنے لگا.برا کیونکر معلوم ہو.ہم محنت و مشقت سے کماتے ہیں.اور بڑی بڑی تکلیفیں اٹھاتے ہیں.یونہی تھوڑا ہی کہیں سے اٹھا لاتے ہیں.فرماتے تھے یہ سن کر میں نے اس سے کچھ اور باتیں شروع کر دیں.اور تھوڑی دیر کے بعد پوچھا.تم مال آپس میں کس طرح تقسیم کیا کرتے ہو.اس نے کہا ایک سنار ساتھ شامل ہوتا ہے.اسے سب زیورات دے دیتے ہیں.وہ گلا کر سونا بنا دیتا ہے یا چاندی جیسا زیور ہو.پھر مقرر شدہ حصوں کے مطابق ہم تقسیم کر لیتے ہیں.میں نے کہا اگر وہ اس میں سے کچھ رکھ لے تو پھر.وہ کہنے لگا اگر وہ ایسا کرے تو ہم اس بد معاش چور کا سر نہ اڑا دیں وہ اس کے باپ کا مال ہے کہ اس میں سے رکھ لے.اس مثال سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح انسان اپنے اعمال کو اور نظر سے دیکھتا ہے.اور دوسرے کے اعمال کو اور نظر ہے.پس گناہ کی تعریف اپنے نفس کو مد نظر رکھ کر نہیں کرنی چاہئے.بلکہ دوسروں کے اعمال کو مد نظر رکھ کر کرنی چاہئے اس صورت میں انسان چھوٹی چھوٹی خطاؤں کو بھی محسوس کریگا.پھر اس جرم کی تعریف خود نہیں کرنی چاہئے.بلکہ دوسرے کو دیکھ کر تعریف سمجھنی چاہئے.دوسرے کو کرتے دیکھ کر تعریف، کو اپنے نفس پر چسپاں کریگا تو معلوم ہو گا کہ بہت سی باتیں وہ خود خوشی سے کر لیتا تھا.لیکن دوسروں کی دفعہ ان کو گناہ کبیرہ خیال کرتا تھا.یہ گناہ کی تعریف معلوم کرنے کا ایک سہل اور اعلیٰ مگر ہے جس کے استعمال سے بہت کم غلطی کا احتمال باقی رہ جاتا ہے.
العلوم جلد ۴ عرفان الهی جو تزکیہ نفس کے لئے ضروری ہے یہ ہے کہ انسان نے جو اوامر اور نواہی ساتویں بات معلوم کئے ہوں ان پر غور کرنے کی عادت ڈالے.پہلے میں نے بتایا تھا کہ خیالات بد کو دل سے نکالنا چاہئے کیونکہ ان کے دل میں جمنے سے نقصان ہوتا ہے.لیکن اب کہتا ہوں کہ اوامر اور نواہی کو دل میں جمانا چاہئے.کیونکہ ان کے جمانے سے فائدہ ہے.مثلاً نماز کی برکات اور فوائد پر غور کیا جائے.روزے اور دیگر اعمال صالحہ کی حقیقت اور فوائد پر نظر کی جائے.اسی طرح جھوٹ فریب غداری فسق و فجور وغیرہ کی حقیقت اور ان کے نتائج پر غور کیا جائے کیونکہ حقیقت کے انکشاف سے بھی انسان کے دل میں کسی چیز کی محبت یا اس سے نفرت پیدا ہوتی ہے.اس کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.لَهُمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِهَا وَ لَهُمْ.أعْيُنَ لا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَذَانَّ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا (الاعراف:۱۸۰) فرمایا بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے دل تو ہوتے ہیں مگر ان دلوں سے کام نہیں لیتے.اور آنکھیں تو ہوتی ہیں مگر ان آنکھوں سے کام نہیں لیتے اور کان تو ہوتے ہیں.مگر ان کانوں سے کام نہیں لیتے.مطلب یہ ہے کہ جب تک دل کے کانوں اور دل کی آنکھوں سے نہ کام لیا جائے اس - وقت تک کامیابی نہیں ہو سکتی.یہ ہے کہ انسان میں مادہ قبولیت ہو.یہ نہ ہو کہ کوئی بات سنے اور پھر اس پر آٹھویں بات عمل کرنے کی کوشش نہ کرے.بلکہ جب کوئی بات بتائی جائے تو اس کی طرف توجہ کرے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے.اس نکتہ کی طرف بھی اس مذکورۃ الصدر آیت میں اشارہ فرمایا ہے.جو لوگ سن کے ان سنا کر دیتے ہیں اور دیکھ کر ان دیکھا کر دیتے ہیں ان کے لئے ترقی کرنا ناممکن ہے.یہ ہے کہ اگر کسی غلطی پر تنبیہ ہو تو اسے برداشت کیا جائے.بہت لوگ اس لئے اپنی اصلاح نہیں کر سکتے کہ جب انہیں ان کی کوئی غلطی بتائی جائے تو اس پر چڑتے ہیں اور اس کی اصلاح نہیں کرتے.لیکن ایسا نہیں چاہئے جب غلطی پر تنبیہ ہو تو اس کو برداشت کرنا چاہئے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ اللهَ اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسْبُهُ جَهَنَّمَ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (البقرة: (۲۰) کہ کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جن کو اگر کہا جائے کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.تو ان کو نصیحت کے سننے سے غیرت آجاتی ہے ار اپنی ہتک عزت کے خیال سے دیوانہ ہو کر بجائے نصیحت سے فائدہ اٹھانے کے ناصح کا مقابلہ کرنے لگ جاتے نویں بات -
م جلد " ۳۸ عرفان الی ہیں.ایسے لوگوں کا ٹھکانہ جہنم ہی ہے.کیونکہ وہ بجائے اس کے کہ غلطی بتانے والے کے ممنون ہوں.الٹے اس سے لڑتے ہیں.اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ جس کسی میں غلطی یا نقص دیکھے بازار میں کھڑا ہو کر اسے تنبیہ کرنا شروع کر دے.سمجھانا ہمیشہ علیحدگی میں چاہئے.اور سمجھانے والے کو اپنی حیثیت اور قابلیت بھی دیکھنی چاہئے کہ وہ جس شخص کو سمجھانا چاہتا ہے اسے سمجھانے کی قابلیت بھی رکھتا ہے یا نہیں تاکہ اس کا نتیجہ الٹا نہ نکلے.غرض جہاں یہ ضروری ہے کہ غلطی کرنے والوں کو برداشت کی طاقت پیدا کرنی چاہئے اور ا سمجھانے والے کی بات کو ٹھنڈے دل سے سننا چاہئے وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ سمجھانے والا بھی بہت احتیاط سے کام لے.یہ نہ ہو کہ جس کو چاہے لوگوں میں ذلیل کرنا شروع کر دے.یہ ہے کہ نا امید نہ ہو اور اللہ پر توکل ہو.بعض ایسے ہوتے ہیں.جو محنت دسویں بات کرتے کرتے ایسے موقع پر ناامید ہو کر ہٹ جاتے ہیں جب کہ انہیں محنت کا شمرہ ملنے والا ہوتا ہے.ایک بزرگ کا واقعہ لکھتے ہیں کہ وہ ہر روز رات کو اٹھ کر بعض امور ایک بزرگ کا واقعہ کے متعلق دعا مانگا کرتے تھے.اتفاقاً ایک دفعہ انکا ایک مرید ان سے ملنے کے لئے آیا اور تین چار دن ان کے پاس ٹھہرا.جس وقت وہ رات کو نماز کے لئے اٹھے اس کی بھی آنکھ کھل گئی.اور وہ بھی اپنے طور پر عبادت میں مشغول رہا.جب پیر صاحب دعا سے فارغ ہوئے تو ان کو ایک آواز آئی کہ تو خواہ کتنی ہی گریہ وزاری کر تیری دعا قبول نہ ہوگی.یہ آواز گوالہامی تھی مگر اس مرید کو بھی سنائی دی.مرید نے دل میں اس پر تعجب تو کیا مگر پیر کے پاس ادب سے خاموش رہا.دوسرے دن پھر اسی طرح وہ بزرگ اٹھے اور دعا میں مشغول ہوئے.اس دن بھی اس طرح آواز آئی اور مرید نے بھی سنی مگر پھر بھی خاموش رہا.تیسرے دن پھر وہ بزرگ اٹھے اور اسی طرح دعا و عبادت میں مشغول ہوئے.اور پھر وہی آواز آئی جو مرید نے بھی سنی تب اس سے نہ رہا گیا اور اس نے پیر صاحب سے کہا کہ ایک دن ہوا دو دن ہوئے.تین دن سے آپ کو یہ آواز آرہی ہے.اور آپ بھی بس نہیں کرتے.اس پر وہ بزرگ بولے کہ نادان تو اتنی جلدی گھبرا گیا مجھے تو یہ آواز میں سال سے آرہی ہے مگر میں سستی نہیں کرتا.کیونکہ دعا عبادت ہے اور بندہ کا کام عبادت ہے.خدا تعالیٰ معبود ہے.اس کا کام دعا کو قبول کرنا یا رد کرنا ہے.وہ اپنا کام کر رہا ہے میں اپنا کام کر رہا ہوں.تو بیچ میں کون ہے
وم جلد ۴ ۳۸۵ عرفان الهی جو گھبرا رہا ہے.اس پر وہ مرید خاموش ہو گیا اگلے دن جو وہ دعا کے لئے اٹھے تو ان کو الہام ہوا کہ اس میں سال کے اندر کی تیری سب دعائیں قبول کی گئیں کیونکہ تو امتحان میں کامیاب ہوا اور آزمائش میں پورا اترا.اس پر انہوں نے مرید سے کہا کہ دیکھ اگر میں تیری نصیحت پر عمل کرتا تو کس قدر گھاٹے میں رہتا مجھے خدا تعالیٰ پر توکل تھا آخر اس کا قرب مجھے نصیب ہوا.اب دیکھو کہ اگر وہ بزرگ مرید کی بات مان لیتا تو ایسے دعا میں استقلال ضروری ہے وقت میں جب کہ اس کی ساری دعائیں قبول ہونے میں بہت ہی تھوڑا عرصہ رہ گیا تھا.اس کا دعا کو ترک کر دینا کیسا خطرناک ہوتا اور اس کی سب محنت ضائع ہو جاتی.پس مؤمن کو کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے ہمت سے قدم آگے ہی بڑھاتا چلا جادے اور اپنی ناکامی پر کام نہ چھوڑ بیٹھے.ہاں بے شک غور کرے کہ میری ناکامی کے اسباب کیا ہیں اور اگر کوئی سبب معلوم ہو تو اس کو دور کرنے کی کوشش کرے.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے نا امید کبھی نہ ہو.بعض لوگ کہتے ہیں ہمارے اعمال کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے ترک کر دیتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر کوئی نتیجہ نہیں نکلتا تو نہ کی تم اپنا کام کئے جاؤ بالآخر تم ضرور کامیاب ہو جاؤ گے.دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ کس طرح مؤمن اللہ پر توکل کر کے کامیاب ہوتے ہیں.فرماتا ہے.الَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوهُمْ فَزَادَهُمْ إِيْمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ (آل عمران : ۱۷۴) یعنی مسلمانوں کو لوگوں نے ڈرانا شروع کیا کہ وہ کامیابی کی پیشگوئیاں کہاں گئیں اب تو سب دنیا تمہارے خلاف جمع ہو گئی ہے پس ان سے ڈر جاؤ.تو ان کی اس گفتگو سے وہ ایمان میں اور بھی ترقی کر گئے.کیونکہ یہ بھی تو خبر ان کو مل چکی تھی کہ دشمن بڑے زور سے ان پر حملہ کریگا اور ان کو پامال کرنا چاہے گا مگر پھر بھی وہ کامیاب ہونگے.پس انہوں نے ان ڈرانے والوں کو یہی جواب دیا کہ جو ہمارا مخالف ہوتا ہے اسے ہونے دو ہمیں تو اللہ ہی کافی ہے.اور وہ نهایت عمده کار ساز ہے.جب اس پر تو کل کیا تو پھر کسی اور شے کی کیا پرواہ ہے.اس آیت سے نتیجہ نکلتا ہے کہ جس قدر مقابلہ سخت ہو اسی قدر مضبوطی سے مؤمن کو کھڑا ہونا چاہئے.دیکھو کوئی جسمانی مریض اس طرح نہیں کرتا کہ ایک علاج سے اگر اسے فائدہ نہ ہو تو پھر علاج کرانا ہی چھوڑ دیتا ہے.بلکہ برابر علاج میں لگا رہتا ہے.یہاں تک کہ فوت ہو جاوے یا اسے صحیح علاج میسر آجاوے.اسی طرح روحانی امراض کے مریضوں کو بھی چاہئے.اور اگر بڑا مرض ہو
انوار العلوم بلدم ۳۸۶ عرفان اتمی.تو اس کے ازالہ کے لئے پہلے سے بھی زیادہ کوشش کرنی چاہئے.کوشش میں اگر کامیاب ہو گئے تو سب کچھ حاصل ہو گیا اور اگر کوشش کرتے کرتے مر گئے تو بھی خدا اس کوشش کے بدلہ میں کچھ نہ کچھ چشم پوشی سے کام لیگا.لیکن اگر کوشش ہی چھوڑ بیٹھے اور اس حالت میں مر گئے تو پھر سوائے سزا کے اور کسی امر کی امید ہو سکتی ہے.پس انسان کو چاہئے کہ کوشش میں لگا ہی رہے.اور ہرگز ناامید ہو کر اسے چھوڑ نہ دے.سکولوں اور کالجوں میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بعض طالب علم صرف اپنے استقلال کی وجہ سے کامیاب ہو جاتے ہیں.میں نے ایک ہندو کے متعلق سنا کہ وہ سات سال متواتر امتحان میں فیل ہوتا رہا اور آخری دفعہ جب اس نے امتحان دیا تو اس کا بیٹا بھی اس امتحان میں شامل تھا مگر اس بات سے شرمایا نہیں اور امتحان میں شامل ہؤا اور آخر کامیاب ہو گیا تو گھبرانا نہیں چاہئے اور نہ ہی اپنے نفس کو گرانا اور پیچ سمجھنا چاہئے.یہ میں عجب کی تعلیم نہیں دے رہا بلکہ استقلال کی دے رہا ہوں تم یہ مت کہو فلاں کام ہم کر نہیں سکتے یا ہم سے ہو نہیں سکتا.بلکہ کہنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بھی سب طاقتیں دی ہیں.خدا تعالیٰ مؤمن کی یہ شان بیان فرماتا ہے.کہ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا الله عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب : ۲۲) مؤمنوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ جنہوں نے اپنے فرائض کو ادا کر دیا ہے اور بعض تیار ہیں کہ موقع ملے تو ادا کریں.حدیث میں آتا ہے کہ ایک صحابی نے ایک موقع پر کہا تھا کہ کاش میں بھی بدر کی جنگ میں ہو تا تو خوب اچھی طرح لڑتا اس قسم کی باتیں جب دل سے نکلتی ہیں اور کچی خواہش کا نتیجہ ہوتی ہیں تو عجب نہیں کہلاتیں.بلکہ ان کی مثال اس دھوئیں کی سی ہوتی ہے جو دبی ہوئی آگ سے نکلتا ہے.اس صحابی کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا.چنانچہ وہ جنگ احد میں شامل ہوئے.اور جب یہ مشہور ہوا کہ رسول کریم ان شہید ہو گئے ہیں.اور حضرت عمر کو یہ خبر پہنچی اور وہ گھبرا کر بیٹھ گئے.تو وہی صحابی آیا اور آکر پوچھا کیا بات ہے.حضرت عمرؓ کے پاس ایک اور صحابی بھی اسی طرح سر نیو ڑائے بیٹھے تھے.انہوں نے جواب دیا کہ رسول کریم شہید ہو گئے ہیں.اس نے کہا اگر رسول کریم شہید ہو گئے ہیں تو یہی موقع لڑنے کا ہے اب ہمیں دنیا میں رہ کر کیا کرتا ہے.یہ کہکر وہ دشمن پر حملہ آور ہوا اور لڑتے لڑتے مارا گیا.جب اس کی لاش ملی تو معلوم ہوا کہ اسے نشتر زخم لگے تھے.(سیرت ابن ہشام عربی جلد ۲ صفحه ۸۵ ) به انس بن نضر (بخاری کتاب المغازی باب غزوه احد )
۳۸۷ عرفان التي غرض یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ اپنے نفس پر عجب اور نا امیدی نہ ہونے میں فرق کبھی بد گمانی نہیں کرنی چاہئے اور جیسا کہ دوسرے پر بد گمانی کرنا برا ہے ایسا ہی اپنے نفس کے متعلق بد گمانی کرنا بھی اچھا نہیں بلکہ گناہ ہے.تو اللہ پر بھروسہ رکھتے ہوئے دل میں یہ سمجھنا چاہئے کہ ہم شیطان کو اپنے اوپر غالب نہیں ہونے دیں گے.ناامید نہ ہونے اور اپنے نفس پر بد گمانی نہ کرنے اور معجب اور تکبر میں یہ فرق ہے ہے کہ اول الذکر ہمیشہ آئندہ واقعات کے متعلق ہوتا ہے.اور آخر الذکر عموما پہلے کاموں پر ہوتا ہے.خود پسند اور متکبر انسان بہت جلد کام کے وقت گھبرا جاتا ہے.لیکن جب کام ہو جاوے تو فخر کرتا ہے.خدا پر توکل کرنے والا اور اپنے نفس پر بد ظنی نہ کرنے والا انسان جب تک کوئی کام ہوتا نہیں اپنی امید کو باندھے رکھتا ہے اور جب وہ ہو جاتا ہے تو پھر اس کا ذکر بھی نہیں کرتا.یہ ہے کہ بعض لوگ بعض گناہوں کو بہت بڑا قرار دے لیتے ہیں.اور گیارھویں بات بعض کو چھوٹا قرار دے لیتے ہیں.اور ان سے بچنے کی زیادہ احتیاط نہیں کرتے.حالانکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی گناہ بڑا چھوٹا نہیں ہوتا.قرآن کی رو سے چھوٹا وہی گناہ ہے جس کا خیال آئے مگر انسان کرے نہیں اور جو کرے وہ بڑا ہے.ان کے متعلق لوگوں نے صغیرہ کبیرہ کی اصطلاحیں خود بخود گھڑی ہیں.قرآن کریم میں ان معنوں میں ان کا ذکر کہیں نہیں ہے.اس لئے کسی گناہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے.کیونکہ چھوٹا سمجھ کر انسان اس کی پرواہ نہیں کرتا.کہتے ہیں.ایک شخص جو اپنے آپ کو بڑا بہادر سمجھتا تھا.گودنے والے کے پاس گیا اور جا کر کہا.میرے بازو پر شیر کی تصویر گود دو.جب وہ گود نے لگا اور اسے درد ہوا.تو اس نے پوچھا کیا بنا رہے ہو ؟ اس نے کہا شیر کا دایاں کان بنا رہا ہوں.وہ کہنے لگا کہ اگر کان نہ بنایا جائے تو شیر رہتا ہے یا نہیں.گودنے والے نے کہا رہتا ہے.اس نے کہا اچھا اسے جانے دو آگے گورد - پھر جب وہ گودنے لگا تو اس نے پوچھا اب کیا بنانے لگے ہو اس نے کہا بایاں کان.کہنے لگا.کیا یہ نہ ہو تو شیر شیر نہیں رہتا.اس نے کہا رہتا تو ہے.کہنے لگا چلو اسے بھی جانے دو آگے گورو.غرض اسی طرح ہر دفعہ وہ کہتا گیا.حتی کہ گودنے والے نے کہدیا کہ اب تو شیر کا کچھ بھی نہیں رہ گیا پس آپ جائیے.یہی حال بعض لوگوں کے اعمال کا ہوتا ہے.وہ ہر ایک بات کو معمولی کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں.جس سے پیچھے کچھ نہیں رہ جاتا.-
رالعلوم جلد ۴ ۳۸۸ عرفان امی لیکن ایسا نہیں کرنا چاہئے.اول تو میں نے بتایا ہے کہ کوئی بات چھوٹی نہیں ہوتی.دوسرے یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ایک فعل دوسرے کا محرک ہوتا ہے.جس طرح ایک بدی دوسری بدی کا موجب بنتی ہے اسی طرح ایک نیکی دوسری نیکی کی محرک ہوتی ہے.اس لئے کسی نیکی یا بدی کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے.حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے.آپ نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسلام لانے والوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج تم لوگ بعض بدیاں کرتے ہو اور انہیں چھوٹا سمجھتے ہو.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت ان کا کرنا موت سمجھا جاتا تھا.اسی طرح حدیث سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ قبرستان کے پاس سے گزرے اور فرمایا.ان دو قبروں والوں کو چھوٹی باتوں سے عذاب ہو رہا ہے.مگر دراصل وہ بڑی تھیں.چھوٹی تو اس لئے کہ ان سے بآسانی بچ سکتے تھے.اور بڑی اس لئے کہ جہنم میں لے جانے کا موجب ہو گئیں.ان میں سے ایک تو ی پیشاب کی چھینٹوں سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا.(ترمذی ابواب الطهارة باب التشديد في البول، تو کوئی بات چھوٹی نہیں ہوتی.بلکہ چھوٹی بڑی نسبت کے لحاظ سے ہو سکتی ہے.ایک ایسی بات جو انسان کر سکتا ہے اور کرتا ہے.وہ خواہ کتنی مشکل اور بڑی ہو.وہ اس کے لئے چھوٹی ہے.لیکن جو نہیں کر سکتا یا نہیں کرتا وہ خواہ کتنی ہی معمولی ہو اس کے لئے بڑی ہے مثلاً ایک ایسا شخص ہے جو نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، زکوۃ دیتا ہے، حج کرتا ہے لیکن گالی دینے سے نہیں بچتا.ہم کہیں گے وہ کیوں اس سے نہیں بچتا.یہی کہا جائے گا کہ نہیں بچ سکتا.اور جب اس سے نہیں بچ سکتا تو یہی کام اس کے لئے بڑا ہے.پس جس برائی میں کوئی گرفتار ہے اور اسے چھوڑتا نہیں وہی اس کے لئے بڑی ہے.اور جس نیکی کو انسان اختیار نہیں کرتا وہی اس کے لئے بڑی ہے.حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ جو بات انسان طبعا کر سکتا ہے اس پر اسے ثواب نہیں ملتا.ثواب ایسے ہی فعل پر ملتا ہے کہ نفس اس کے خلاف کہتا ہو اور خلاف کرنے کی قدرت بھی ہو.لیکن انسان اس سے بچے.مثلاً ایک ایسا شخص جس میں شہوت کا مادہ ہی نہیں وہ اگر کے کہ میں زنا نہیں کرتا.تو یہ اس کے لئے نیکی نہیں ہے.ہاں اگر وہ چغل خوری چھوڑ دے تو یہ نیکی ہو گی.اسی طرح جو برائی کسی میں پائی جاتی ہو اس کا چھوڑنا نیکی ہے.کیونکہ اس کے لئے وہی کبیرہ گناہ ہے.
انوار العلوم جلد " ۳۸۹ عرفان الهی یہ میں نے مجملاً بیان کر دیا ہے کہ عرفان الہی کس طرح پیدا ہو سکتا عرفانِ الہی کے درجے ہے.آپ لوگ اگر ان باتوں پر عمل کریں گے تو انشاء اللہ بہت بڑا فائدہ اٹھا ئیں گے.اب میں مختصر طور پر عرفانِ الہی کی دو تین علامتیں بتاتا ہوں کیونکہ زیادہ بیان کرنے کے لئے وقت نہیں.عرفان الہی کی علامتیں دو قسم کی ہیں.ایک بیرونی دوسری اندرونی - بیرونی تو یہ کہ حدیث میں آیا ہے نوافل کے ذریعہ انسان اتنا مقرب بن جاتا ہے کہ خدا اس کے ہاتھ اس کے پاؤں، اس کی زبان ہو جاتا ہے.(بخاری کتاب الرقاق باب التواضع اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عرفان الہی اس کو حاصل نہیں ہو تا جو صرف فرائض ادا کرتا ہے بلکہ نوافل بھی ادا کرنے ضروری ہیں.اس کے بعد اسے ایسا عرفان حاصل ہوتا ہے کہ خدا اس کے ہاتھ پاؤں ، ناک کان زبان بن جاتا ہے.اس سے یہ مراد ہے کہ جو کام وہ کرتا ہے وہ خدا کے کام ہو جاتے ہیں.یعنی جس طرح خدا کے کام ہو کر رہتے ہیں اور کوئی انہیں روک نہیں سکتا اسی طرح اس کے کاموں کو کوئی روک نہیں سکتا.اور وہ ضرور ہو کر رہتے ہیں.وہ جب کسی کو پکڑتا ہے تو پھر جانے نہیں دیتا اور جب کسی کی بات سنتا ہے تو اسے منظور کروا دیتا ہے.جس پر اپنی توجہ ڈالتا ہے اس کی اصلاح ہو جاتی ہے.اور جو کچھ کہتا ہے وہ حق کہتا ہے کیونکہ وَ مَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحَى توخى ( النجم ۴ - ۵) کا مصدق ہوتا ہے.اس کی گرفت نہایت سخت ہوتی ہے جس کو پکڑتا ہے وہ نکل نہیں سکتا.تو عرفان حاصل ہونے کے معنی یہ ہیں کہ خدا کی صفات انسان پر حاوی ہو جاتی ہیں.اور خدا کے افعال بھی اس کے ذریعہ جاری ہو جاتے ہیں.خدا اسے ایسے رنگ میں چلاتا اور اس سے ایسے کام کراتا ہے.کہ لوگ خدائی کا جلوہ دیکھ لیتے ہیں.اور وہ جلوہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض نادان تو اسے خدا ہی کہنے لگ جاتے ہیں.اس حالت تک پہنچنے کے لئے کچھ اندرونی تغیرات انسان میں ہوتے ہیں.اور وہ یہ ہیں.اول یہ کہ اسے نیکی اور بدی کا علم ہو جاتا ہے.بعض دفعہ ایک بات بظاہر بری نہیں معلوم ہوتی.لیکن جب وہ اسے کرنے لگتا ہے تو اسے پتہ لگ جاتا ہے کہ بری ہے.اس لئے چھوڑ دیتا ہے اور بعض اوقات وہ ایک کام کو برا سمجھ کر چھوڑنے لگتا ہے.لیکن اسے علم دے دیا جاتا ہے کہ یہ اچھی ہے.تو عرفان کا پہلا درجہ یہ ہوتا ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ کو نیکی اور بدی کا علم ہے اسی طرح بندہ کو علم دے دیا جاتا ہے.لیکن دوسروں کو یہ بات حاصل نہیں ہوتی.دیکھو
العلوم جلد ۴ ۳۹۰ عرفان الهی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وہی نمازیں پڑھتے وہی روزے رکھتے تھے جو اور بھی رکھتے تھے.مگر آپ کو جو درجہ حاصل تھا کیا کسی اور کو بھی حاصل تھا؟ ہرگز نہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ عام لوگوں کو جو نیکیاں نظر آتی ہیں ان کے پیچھے اور نیکیاں ہیں جو رسول کریم" کو نظر آتی تھیں اور آپ ان پر عمل کرتے تھے.اور وہ بدیاں جو عام لوگ دیکھتے ہیں ان کے پیچھے اور بدیاں ہیں جنہیں رسول کریم دیکھتے تھے اور ان سے بچتے تھے.اسی وجہ سے آپ کو وہ درجہ حاصل تھا جو اور کسی کو نہ تھا.تو ظاہری نیکیوں اور بدیوں کے پیچھے بھی نیکیاں اور بدیاں ہیں لیکن وہ ایسی ہیں کہ انہیں بیان نہیں کیا جا سکتا.ان کو وہی سمجھ سکتا ہے جس کو ان کے سمجھنے کا خاص طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ملکہ دیا جاتا ہے.اور جب یہ ایک دفعہ حاصل ہو جاتا ہے اور اس کے مطابق عمل کیا جاتا ہے تو اور بڑھ جاتا ہے اور دن بدن بڑھتا رہتا ہے.یہ چھوٹا درجہ ہے عرفان کا.اس سے دوسرا درجہ یہ ہے کہ مخفی بدیوں کو ظاہر کر دیا جاتا ہے ایک بدی تو اس قسم کی ہوتی ہے کہ اس پر پردہ پڑا ہوتا ہے اس لئے جب تک پردہ نہ اٹھایا جائے نظر نہیں آتی لیکن ایک بدی ایسی ہوتی ہے کہ کو سامنے ہوتی ہے مگر معلوم نہیں ہوتی.مثلا اگر کوئی سور کا گوشت بکرے کا کر کے پکارے تو کیا معلوم ہو سکتا ہے.یا یہ کہ گوشت تو بکرے کا ہی ہو لیکن اس کا کھانا جائز نہ ہو.اس قسم کی باتوں سے آگاہ کر دیا جائے اور ایسے لوگوں کے سامنے جنہیں عرفان حاصل ہوتا ہے جب کوئی ایسی چیز آتی ہے تو ان کے دل میں اس سے خاص حرکت یا نفرت ڈالی جاتی ہے جس سے وہ سمجھ جاتے ہیں.کہتے ہیں ایک بزرگ بہت سے لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے.لیکن بغیر کچھ کھائے اٹھ کر چلے گئے.یہ دیکھ کر دوسرے لوگوں نے بھی کھانا چھوڑ دیا اور ان سے جا کر چلے آنے کی وجہ پوچھی.تو انہوں نے کہا کہ میرے نفس میں وہ کھانا کھانے کا خاص جوش تھا جس سے میں نے سمجھا اس میں ضرور کوئی نقص ہو گا اور میں اٹھ کر چلا آیا.اس طریق سے ان لوگوں کو محفوظ رکھا جاتا ہے جن کا نفس کو ان کے قابو میں ہوتا ہے لیکن وہ مسلمان نہیں ہوتا.وہ نفس کی رغبت سے سمجھ لیتے ہیں کہ بدی ہے.لیکن جو اس سے اعلیٰ درجہ پر ہوتے ہیں.ان کا نفس نیک ہو جاتا ہے اور اس کے سامنے خواہ کیسے رنگ میں کوئی برائی پیش ہو.وہ فورا کہہ دیتا ہے.بر رنگے کہ خواہی جامه ی پوش من انداز قدت را می شناسم اور یہی آخری درجہ عرفان کا ہوتا ہے کہ انسان نیکی کو نیکی اور بدی کو بدی دیکھ لیتا ہے خواہ
انوار العلوم جلد عرفان الی وہ کتنی ہی نہاں اور پوشیدہ کیوں نہ ہو.اور جو ایسے لوگ ہوتے ہیں.ان سے یہ سوال کر نیکی ضرورت نہیں ہوتی کہ تم کون ہو بلکہ دنیا انہیں خود بخود دیکھ لیتی ہے.خدا تعالی آپ لوگوں کو ان باتوں پر عمل کرنے کی توفیق بخشے اور اپنے عرفان کی نعمت سے مالا مال کرے.آمین.
العلوم جلد ۳ ۳۹۳ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی
Nbm
۳۹۵ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خطاب حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی ( جو ۱۷- مارچ 1919 ء کو جلسہ سالانہ پر فرمایا ) أَشْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ O مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ، أين جماعت کے نئے انتظام کے متعلق اللہ تعالیٰ کے فضل اور کرم کے ماتحت ہماری جماعت روز بروز ترقی پر ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال جو آتا ہے اپنے اندر نئی سے نئی برکات مخفی رکھتا ہے.اور ہر دن جو ہم پر چڑھتا ہے نئے سے نئے فضلوں کا ہمارے لئے اظہار کرتا ہے.پس جماعت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو دیکھ کر اور ان فرائض کو مد نظر رکھ کر جو اللہ تعالی کے قائم کردہ سلسلہ کے پیشوا کی حیثیت سے مجھ پر عائد ہوتے ہیں میں نے اپنی جماعت کی ترقی اور بہبودی کے لئے ضروری اور مناسب سمجھا کہ جماعت کے کاروبار کو ایک ایسے انتظام کے ماتحت لایا جاوے کہ ہر ایک کام جو پیش آئے وہ بغیر کسی رکاوٹ کے جلد سے جلد ہو سکے.اس کے لئے میں نے ایک سکیم تیار کی تھی جو چھوا کر
العلوم جلد ۴ ۳۹۶ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مار باہر دوستوں کے پاس بھیج دی گئی.اور قادیان میں بھی اس کے متعلق مشورہ لیا گیا تھا.چنانچہ ایسے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد جو احمدیہ انجمنوں کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ ہیں یا جو اپنے تجربہ اور علم کی بناء پر مشورہ دینے کی اہمیت رکھتے ہیں اس سکیم پر عمل کرنا شروع کر دیا گیا ہے.اور سلسلہ کے تمام کاموں کو چند حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے.اس وقت تک تمام کام کسی خاص انتظام اور اتحاد کے ماتحت نہ تھے.اور سوائے ان چند کاموں کے جو قادیان میں مقامی طور پر ہوتے اور جن کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور بہت سے ایسے کام تھے جن کے کرنے کی خاص ذمہ داری کسی پر نہ تھی.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد اس وقت تک گیارہ سال کے عرصہ میں مخالفوں کی طرف سے بیسیوں ٹریکٹ اور رسالے ہمارے خلاف شائع ہوئے.اور یا تو وہ وقت تھا کہ ہمیشہ ہمارا قرضہ مخالفین کے سر پر رہتا تھا یا کاموں کے بڑھ جانے اور اندرونی انتظام کی طرف زیادہ توجہ ہونے کی وجہ سے حضرت خلیفہ اول مخالفین کے اعتراضوں کی طرف توجہ نہ کر سکے.پھر ان کے بعد میں بھی اندرونی فتنہ کو دور کرنے کی وجہ سے اس طرف خاص توجہ نہ کر سکا.باقی جو لوگ تھے انہوں نے اگر مخالفین کی کسی کتاب یا رسالہ یا مضمون کا جواب دے دیا تو یہ ان کی سعادت اور اخلاص تھا.ورنہ جماعت کی طرف سے جوابات شائع کرنے کا کوئی انتظام نہ تھا.اس لئے اعتراضات کا ذخیرہ جمع ہوتا گیا.اور آج یہ وقت آگیا کہ مخالفین کا قرضہ ہمارے سر ہو گیا.اس میں شک نہیں کہ مخالفین کے اعتراضات کا کثیر حصہ نہایت فضول اور لغو ہے.لیکن اس میں بھی شک نہیں کہ ہم ان اعتراضات کو فضول کہہ کر ان کے جواب سے سبکدوش نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارے لئے ان باتوں کا جواب دینا ضروری ہے جو خواہ فضول ہی ہوں لیکن ان سے لوگوں کو ی دھو کا لگ سکے اور غلط فہمی میں مبتلا ہو جائیں.قرآن کریم کو دیکھو اگر اس وقت کے حالات کو تہ نظر نہ رکھا جاوے جبکہ وہ نازل ہوا تو تعجب ہوتا ہے کہ کیسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا اس میں جواب دیا گیا ہے.تو دراصل ایسا اعتراض جس کا کچھ نہ کچھ اثر لوگوں پر ہو وہ بڑا اور قابل جواب اعتراض ہے.اور جس کا کچھ اثر نہ ہو وہ چھوٹا اور ناقابل التفات ہے.پس ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ فلاں اعتراض فضول یا معمولی ہے.اگر اس نے کچھ لوگوں کو حق کے قبول کرنے سے روکا ہوا ہے تو وہی بڑا ہے.حق سے روکنے والے اعتراض کو خواہ کتنا ہی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ نظر آئے کبھی چھوٹا اور معمولی نہیں کہنا چاہئے.اور اس کا دور کرنا نہایت ضروری
العلوم جلد ۳۹۷ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ ء ہے.اس کے برخلاف وہ اعتراض جو بظاہر بڑا نظر آئے.مگر اس کا لوگوں پر کچھ اثر نہ ہو اور وہ حق کے رستہ میں روک نہ ہو اس کی طرف توجہ کرنا لغو ہے.مثلاً اگر ایک شخص قرآن کریم کی پانچ سو آیتیں غلط طور پر پیش کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف کوئی مضمون لکھے اور اس کا کچھ اثر نہ ہو تو اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں.لیکن اگر ایک شخص صرف یہ کہے کہ مرزا صاحب نے مسلمان ہو کر حج نہیں کیا.اب گو وہ اس کے لئے نہ قرآن کی کوئی سند پیش کرتا ہے نہ حدیث کی.مگر ایسے لوگ نظر آتے ہیں جن پر اس اعتراض کا اثر ہے تو یہ بڑا اعتراض ہے.اس کا ازالہ کرنا ضروری ہے.تو اعتراضات کو محض بیہودہ اور فضول کہہ دینے سے ہم اپنی ذمہ داری سے بری نہیں ہو سکتے.کیونکہ ہم سے قیامت کے دن یہ دریافت نہیں کیا جائے گا کہ فلاں آیت سے غلط استدلال کر کے جو اعتراض کیا گیا تھا اس کا جواب تم نے کیوں نہیں دیا.بلکہ یہ پوچھا جائے گا کہ تم کو جب معلوم تھا کہ فلاں بات لوگوں کو کے حق قبول کرنے میں روک تھی تو کیوں تم نے اس کا ازالہ نہ کیا.پس ہمارا فرض ہے کہ جس بات سے لوگ دھوکا کھائیں خواہ وہ کتنی ہی معمولی کیوں نہ ہو اس کا ازالہ کریں.کیونکہ ہم اسے فضول کہہ کر اپنے فرض سے بری نہیں ہو سکتے.دیکھو ابو جہل ایک فضول اور لغو انسان کی تھا.مگر خدا تعالٰی نے اسے چھوڑا نہیں بلکہ پکڑا.اسی طرح فرعون کو خدا نے پکڑا.تو اللہ تعالیٰ بھی ایسی باتوں کی طرف توجہ کرتا ہے جو حق کے رستہ میں روک ہوتی ہیں.دیکھو حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے مقابلہ میں آنے والے جو مولوی مارے گئے وہ اس وقت کے سب سے بڑے علماء نہ تھے.ان سے بڑے بڑے موجود تھے.مگر وہ اس لئے مارے گئے کہ حق کے راستہ میں روک بنے اور انہوں نے لوگوں کو گمراہ کرنا چاہا.مثلاً دوالمیال کا فقیر مرزا جس کے شاید چند ہی آدمی معتقد ہوں گے اسے تو مار دیا.مگر ایسے کئی آدمیوں کو چھوڑ دیا جو اس سے زیادہ عزت اور شہرت رکھتے تھے اور مخالف بھی تھے.کیونکہ وہ خاص طور پر روک بنا تھا اور دوسرے ایسے نہ تھے پس ان کو باوجود اس کے کہ زیادہ لوگ انکے ماننے والے تھے ہلاک نہیں کیا.تو کسی اعتراض کا فضول یا لغو ہونے کا فیصلہ سلسلہ کی ترقی کے راستہ میں اس کی رکاوٹ کے لحاظ سے ہو سکتا ہے نہ کسی اور لحاظ سے.اگر وہ لوگوں کے حق قبول کرنے میں روک ہو تو خواہ حقیقت میں وہ کتنا ہی معمولی ہو تو بھی اسے فضول نہیں کہا جا سکتا.دیکھو قرآن کریم میں بعض ایسے دلائل بیان کئے گئے ہیں جو جذبات ابھارنے والے ہیں.اور عقلی دلائل
دم جلد.خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء کے مقابلہ میں ان کا مفہوم اقرب رکھا گیا ہے.اور وہ آسانی سے سمجھے جا سکتے ہیں.ان کے بیان کرنے کی وجہ یہ ہے کہ جذبات کو ابھارنے والے دلائل اور باتیں زیادہ اثر کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں بھی جذبات کو ابھارنے والے دلائل زیادہ ہیں.تو ہمارا فرض ہے کہ وہ نادرست اور غلط باتیں جو لوگوں کے جذبات پر زیادہ اور برا اثر کرتی ہیں ان کو معمولی نہ سمجھیں اور ان کا پورا جواب دیں.اسی طرح جماعت کے کئی اور کام ہیں جن کو ایک انتظام کے ماتحت لانا صیغہ بیت المال ضروری ہے.فی الحال میں نے اس کے لئے چار صیغے مقرر کئے ہیں.جن میں سے ایک بیت المال کا صیغہ ہے.جس کا یہ فرض ہو گا کہ ان کاموں کے علاوہ جن کا تعلق صدر انجمن سے ہے باقی تمام کاموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت پیش آئے اسے مہیا کرے.اس سے پہلے ہمارے روپیہ کا حساب و کتاب رکھنے والے افسروں کا یہ کام ہو تا تھا کہ جو کچھ کوئی دے جائے یا بھیج دے وہ لے لیں.لیکن جن لوگوں نے کوئی خاص کام کرنا ہو ان کے خزانے دو سروں کی رائے پر نہیں چھوڑے جا سکتے.ان کے کارکنوں کا فرض ہے کہ ضرورت کے مطابق روپیہ بہم پہنچا ئیں.البتہ ایسی حکمت اور ترکیب سے وصول کریں کہ افراد تباہ و برباد نہ ہوں.کیونکہ جماعتیں افراد سے ہی بنتی ہیں.اور وہ حکومتیں جو افراد کو برباد کر دیتی ہیں کبھی ترقی نہیں کر سکتیں.تو ہماری جماعت کے انتظام اور ضروریات کے پورا کرنے کے لئے یہی ضروری نہیں کہ جو کچھ کوئی دے دے اس کو سنبھال لیں.بلکہ جو ضرورت ہو اس کے لئے انتظام کریں اس لئے اس کے لئے خاص محکمہ قائم کیا گیا ہے.جس کا فرض ہو گا کہ جس طرح ہو سکے ضروریات کو پورا کرنے کے لئے روپیہ مہیا کرے.اور علاوہ ماہوار چندوں کے جو صورتیں بھی روپیہ فراہم کرنے کی ہوں ان کو کام میں لائے.صیغه تألیف و اشاعت دو سرا صیغہ تالیف و اشاعت کا بنایا گیا ہے.یعنی ایک آفیسر ایسا مقرر کیا گیا ہے جس کی ذمہ داری ہوگی کہ جس قدر سلسلہ کے خلاف مضامین اردو، انگریزی، عربی، فارسی، پشتو و غیرہ زبانوں میں شائع ہوں انکو جمع کرے.اور ان میں سے جن کے متعلق ذرا بھی سمجھا جائے کہ کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث ہیں ان کا فوراً جواب شائع کرائے.یہ جواب خواہ رسالوں اور اخباروں کے ذریعہ ہو.یا ٹریکٹوں اور کتابوں کے ذریعہ.لیکن ہونا ضرور چاہئے.پس ہمارے خلاف خواہ ان میں سے کوئی لکھے جو غیر مبائع
م جلد ✔ ۳۹۹ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء ہیں خواہ ان میں سے لکھے.جو غیر احمدی ہوں خواہ ان میں سے لکھے جو اسلام سے باہر ہیں اس کا ضرور جواب شائع ہو.پھر رسول کریم اور اسلام پر دیگر مذاہب کی طرف سے جو اعتراض کئے جائیں ان کا جواب دینا بھی ہمارا فرض ہے.اور اس کے ساتھ ہی ہمارا یہ بھی کام ہے کہ وہ تجاویز سوچیں جن کے ذریعہ کسی مذہب کے لوگوں میں کامیابی کے ساتھ تبلیغ ہو سکتی ہے.اس صیغہ کے افسر کے ذمہ یہ فرض ہو گا کہ وہ نہ صرف مخالفین کے اعتراضوں کے جواب لکھوائے اور شائع کرائے بلکہ یہ بھی دیکھے کہ عیسائیوں ، ہندوؤں، غیر احمدیوں اور غیر مبائعین میں تبلیغ کے لئے کونسے دلائل اور طریق زیادہ کارآمد اور مؤثر ہو سکتے ہیں.اور وہ دلائل با قاعدہ طور پر مبلغین اور واعظوں کو سکھائے جائیں.عیسائیوں نے اس طریق سے فائدہ اٹھایا.انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمان حضرت عیسی کو زندہ آسمان پر مانتے ہیں تو انہوں نے عیسائیت کی برتری جتانے کے لئے یہ کہنا شروع کر دیا کہ تمہارا رسول فوت ہو چکا اور حضرت عیسی زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں.پھر ان کی فضیلت مانے میں تمہیں کیوں انکار ہے.اس سے بہت سے مسلمانوں کو ٹھوکر لگ گئی اور وہ عیسائیت میں داخل ہو گئے.پس جب باوجود حق پر نہ ہونے کے اصولی طور پر کام کرنے سے عیسائی فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو ہم حق پر ہو کر کیوں نہ ایسے اصول کے ماتحت کام کر کے جو مفید اثرات پیدا کر دیتے ہیں فائدہ اٹھا ئیں.اس کے لئے ضرروی ہے کہ ہر مذہب میں تبلیغ کرنے کے لئے ان دلائل کو مرتب کیا جاوے جن کا کسی مذہب کے لوگوں پر زیادہ اثر ہو سکتا ہے.اور ان کے ذریعہ آسانی سے وہ ہماری باتوں کو سمجھ سکتے ہوں.کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک دلیل نهایت زیر دست ہو مگر اس کا بعض لوگوں پر زیادہ اثر نہ ہو.اور ایک دوسری دلیل کم واضح ہو مگر ان لوگوں پر اس کا بہت اثر ہو.اور چونکہ اصل غرض حق سمجھانے کی ہے.اس لئے اسی طریق کو اختیار کرنا چاہئے.جس سے لوگوں کی سمجھ میں حق آجاوے.پھر اس کے علاوہ ایک اور بات کی طرف بھی توجہ کرنے کی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ میں دیکھتا ہوں ایک زمانہ تک تو ان مسائل کی بڑے زور و شور کے ساتھ تحقیق ہوتی رہی ہے.جو ہمارے سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں.مثلاً حضرت مسیح موعود نے جب دعوی کیا تو وفات مسیح کا سوال پیدا ہوا.جس کے متعلق بہت سے دلائل تو حضرت مسیح موعود نے خود دیئے.اور کچھ اور احمدیوں نے مہیا کئے.مگر اس کے بعد کہ اٹھارہ میں سال ہو گئے ہیں کوئی دلائل نہیں نکالے گئے.حالانکہ جب اس مسئلہ کے ذریعہ ہمارے سلسلہ کو بہت بڑا فائدہ پہنچا اور پہنچ رہا ہے
خطاب جلسہ سالانہ کے ا تو ہمارے علماء کا فرض تھا کہ اس کی تائید میں نئے نئے دلائل مہیا کرتے تاکہ جس طرح اچانک حملہ سے دشمن کے لشکر کے پاؤں اکھڑ جاتے ہیں.اسی طرح اچانک نئے نئے دلائل کے حملہ سے ہمارے مخالفین بھی حیران و ششدر رہتے.دیکھو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام نے اچانک کئی ایک آیات وفات مسیح کے ثبوت میں پیش کیں تو مخالفین میں ایک کھلیلی پڑ گئی اور وہ گھبرا گئے اور کوئی جواب نہ دے سکے جس سے سمجھدار لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا.اور بہت سوں نے حق کو قبول کر لیا.لیکن اب دلائل کا وہ اثر نہیں رہا.وجہ یہ کہ مخالف مولویوں نے بھی ان کے جواب خواہ جھوٹے ہی سہی مگر تیار کر لئے ہیں.اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی کچھ نہ کچھ جواب ہے.اور چونکہ عام طور پر دنیا میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ اپنے لوگوں کی ایک حد تک پاسداری ضرور کرتے ہیں.اس لئے غیر احمدی مولوی جب ہمارے مقابلہ میں کچھ نہ کچھ جواب دیتے ہیں تو عوام ان کی ہاں میں ہاں ملا دیتے ہیں.لیکن اگر نئے سے نئے دلائل ہماری طرف سے پیش کئے جائیں تو نہ مخالفین ان کے جواب دے سکیں اور نہ دوسرے لوگ ان کی پاسداری کر سکیں.مگر کچھ عرصہ سے یہ نقص پیدا ہو گیا ہے کہ ہماری طرف سے اس امر کی کوشش نہیں کی گئی کہ تحقیق کر کے اپنے دعاوی کے نئے دلائل اور ثبوت مہیا کئے جاویں.اور اس وجہ سے اس تیزی کے ساتھ ہمیں کامیابی نہیں ہو رہی جیسی کہ ہونی چاہئے.کیونکہ ہمارے دلائل کا ذخیرہ پرانا ہے اس لئے گھبراتے ہیں.اب یہ اس صیغے کا فرض ہو گا کہ نئے نئے ولا ئل اور ثبوت نکالتا رہے اور اس تیزی اور چستی سے نکالتا رہے کہ دشمن ابھی پہلے پیش کردہ دلائل کے جواب سے عہدہ برآنہ ہوا ہو کہ اور نئے پیش کر دئیے جائیں.یہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے ہم بڑے سے بڑے دشمنوں کو ناکام کر سکتے ہیں.اس کے متعلق یہ مت سمجھو کہ ہمیں نئے دلائل نہیں مل سکیں گے.دیکھو ایک دوائی جو ہزاروں سال سے استعمال ہوتی چلی آئی ہے.دن بدن اس کے نئے نئے فوائد نکلتے رہتے ہیں اسی طرح باوجود اس کے کہ قرآن کو تیرہ سو سال سے بھی زیادہ ہو گئے ہیں.لیکن اس میں سے نئے نئے معارف نکلتے ہی چلے آتے ہیں اور ختم ہونے میں نہیں آتے.وجہ یہ ہے کہ جس طرح دنیاوی چیزوں کے بعض خزانے آئے دن ظاہر ہوتے رہتے ہیں.اسی طرح روحانی اور دینی امور بھی نئے سے نئے ظاہر ہوتے رہتے ہیں.پس اگر خاص انتظام اور پوری کوشش اور محنت کے ساتھ تحقیقات کی جائیں.تو ضرور ہے کہ نئے دلائل ہم کو مل جائیں.غرض یہ ایک نہایت ضروری
رالعلوم جلد ٤ سوم خطاب جلسہ سالانہ کا ۱۹۱۹ء اور اہم کام ہے جس کے لئے الگ صیغہ بنایا گیا ہے.تیسرا صیغہ تعلیم و تربیت ہے جس کا فرض اپنی جماعت کے لوگوں کو صیغه تعلیم و تربیت دینی اور دنیوی تعلیم دیتا ہے تعلیم ایک ایسی ضروری چیز ہے کہ جس کے بغیر کوئی جماعت محفوظ اور زندہ نہیں رہ سکتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا اتنا خیال تھا کہ آپ نے کچھ لوگوں کو اس شرط پر رہا کر دیا تھا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیں.چونکہ ابتداء میں صحابہ میں سے زیادہ تعداد پڑھے لکھے لوگوں کی نہ تھی.اور جو لوگ تعلیم یافتہ تھے وہ اور ضروری کاموں میں لگے ہوئے تھے.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی ایک ایسے لوگوں کو جو لڑائی میں گرفتار ہو کر آئے تھے.اس شرط پر رہا کر دیا کہ مسلمانوں کے بچوں کو تعلیم دیا کریں.تو تعلیم ایک نہایت ضروری چیز ہے لیکن اس وقت تک ہماری جماعت کے لئے اس کا خاطر خواہ انتظام نہ تھا.اسی طرح تربیت بھی بہت ضروری شئے ہے.کیونکہ اس کے بغیر بھی بڑے بڑے کاموں میں نقص پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ فوائد حاصل نہیں ہو سکتے جو ہونے چاہئیں.نمازی کو لے لو.بعض کلمات کا دہرانا ہی ضروری نہیں بلکہ بعض اور ہدایات کا بھی بجالانا ضروری ہے.مثلاً صف بندی کا حکم ہے.یہ حکم ایسا اہم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ صف سیدھی کرو ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے.اور تم میں پھوٹ پڑ جائے گی.(بخاری کتاب الأذان باب تسوية الصفوف عند الاقامة وبعدها، ليكن مسلمان باوجود خواہش کے عام طور پر صف سیدھی نہیں رکھ سکتے.مگر فوجی جنہیں معمولی سی تنخواہ ملتی ہے وہ ایسی سیدھی قطار باندھتے ہیں کہ بال بھر بھی فرق نہیں ہو تا.اسی لئے کہ ان کو اس امر کی مشق کرائی گئی ہے جو انہیں حاصل نہیں.اسی طرح جو لوگ بڑے ہو کر نماز پڑھنا شروع کر دیتے ہیں وہ تشہد میں ٹھیک بیٹھ نہیں سکتے.وجہ یہ کہ شروع سے ان کی تربیت نہیں ہوتی.تو تربیت نہایت ضروری چیز ہے.ہم میں وہ لوگ جو نئے داخل ہوتے ہیں ان کی تربیت کی تو ذرا مشکل کام ہے.کیونکہ وہ اپنی ابتدائی عمر کا بہت سا حصہ جس میں تربیت کی جاسکتی ہے باہر گزار کر آتے ہیں.لیکن آئندہ اولاد کا خیال رکھنا ایک حد تک آسان امر ہے اور ضروری ہے.اس لئے یہ صیغہ بنایا گیا ہے.اس کے ذمہ یہ کام ہو گا کہ جماعت کے لڑکوں کی فہرستیں تیار کرائے اور معلوم کرے کہ مثلاً زید کے تین لڑکے ہیں ان کی تعلیم کا کوئی انتظام ہے یا نہیں اور وہ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں یا نہیں.اگر معلوم ہو کہ نہیں تو اسے لکھا اور سمجھایا
انوار العلوم جلد ۴ ۴۰۲ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء جاوے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے.ایسے لوگ خواہ کہیں رہتے ہوں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی نگرانی یہ صیغہ کرے گا اور ممکن سہولتیں مہیا کرنا اس کا فرض ہو گا.اس طرح تمام جماعت کے بچوں پر اس صیغہ کی نظر ہو گی.پھر جو شخص فوت ہو جائیگا.اس کی اولاد کے متعلق یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام ہے.اس کے رشتہ داروں نے کچھ کیا ہے یا نہیں.اگر کیا ہے تو وہ تسلی بخش ہے یا نہیں اور کس قدر امداد دینے کی ضرورت ہے.ان تینوں صیغوں کے علاوہ ایک صیغہ متفرق امور کے لئے بنایا گیا ہے.یام صیغه امور عامه اس کے سپرد کئی باتیں ہونگی اول تو یہ کہ گورنمنٹ کے ساتھ ہماری جماعت کے جو تعلقات ہیں ان کو محفوظ رکھا جائے اور کسی قسم کا نقصان نہ پہنچنے دیا جائے.یہاں پنجاب میں تو اگر ہمارے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی ہے.اور گورنمنٹ کو ہم سے بدظن کرنے کے لئے کوئی چال چلی جاتی ہے تو اس کا ہمیں حکام سے پتہ لگ جاتا ہے.لیکن یوپی بہار بنگالہ وغیرہ میں احمدیوں کے خلاف اگر کوئی کوشش کی جاوے تو بوجہ مرکز کے بعد کے نہ ان کا ہمیں علم ہو سکتا ہے اور نہ ہم اس کا ازلہ کر سکتے ہیں.اور وہاں کی جماعتیں اس قدر طاقت نہیں رکھتیں کہ خود یہ کام کر سکیں.پس ضروری ہے کہ مرکز اس بات کی احتیاط رکھے.یا مثلاً کہیں ہماری جماعت کے لوگوں کو افسروں سے بوجہ انکی ناواقفیت کے یا دوسرے لوگوں تکلیفیں پہنچتی ہیں تو ان کا پتہ لگایا جاوے اور ان کے دور کرنے کی کوشش کی جائے.اسی طرح اور کئی طریق سے جو ہماری مخالفت کی جاتی ہے اس کا بھی خیال رکھا جائے.اور ان کے نقصانات سے بچنے کا انتظام کیا جائے.اس طرح اس محکمہ کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ احمدی جماعت کی دنیاوی ترقیات کے متعلق خیال رکھے.مثلاً جو لوگ بے کار ہیں انہیں کام پر لگانے کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر ایک حصہ بے کار ہو تو اس کا ساری جماعت پر اثر پڑتا ہے.اور ان کے کام پر لگنے سے جماعت کو فائدہ پہنچ سکتا ہے.مثلاً پچاس آدمی ایسے ہوں جو ملازمت کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں.لیکن نا واقف ہونے کی وجہ سے کسی جگہ ملازم نہ ہو سکیں تو ان کا بار جماعت کے افراد پر ہی پڑے گا.اور اگر وہ ملازم ہو جائیں تو نہ صرف دو سروں پر بوجھ نہیں رہیں گے بلکہ خود بھی جماعت کے کاموں میں چندہ دے سکیں گے.پس اس صیغہ کا یہ بھی کام ہو گا کہ ایسے لوگوں کی فہرستیں تیار کرے جو ملازمت تو کر سکتے ہیں.لیکن ناواقفیت کی وجہ سے ملازم نہیں ہو سکتے اور ان کے متعلق ایسے لوگوں کو لکھا جائے.جو ملازمتیں تلاش کر سکتے
۰۳م خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء رالعلوم جلد ۴ که سب ہیں کہ وہ انہیں نوکر کرائیں.اسی طرح تعلیم کے مختلف شعبوں کے متعلق خیال رکھنا اس صیغہ کا کام ہو گا.لوگوں میں عام طور پر بھیڑ چال ہوتی ہے.مثلاً اگر وہ دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگوں نے ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے فائدہ اٹھایا ہے تو وہ اس کے حصول میں لگ جاتے ہیں.لیکن کوئی قوم اور خصوصا وہ قوم جو ابھی ابتدائی حالت میں ہو.اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک قسم کے تعلیم یافتہ لوگ اس میں نہ پائے جاتے ہوں.میرے خیال میں آجکل مسلمانوں کو اس بات سے بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے کہ ان میں سے بہت ہی کم لوگوں نے انجینئری کی تعلیم کی طرف توجہ کی ہے.اور عام طور پر یہ صیغہ ہندوؤں کے قبضہ میں ہے.اگر مسلمان اس طرف خاص توجہ کرتے تو اپنی قوم کے لوگوں کو جائز طور پر بہت فائدہ پہنچا سکتے تھے.کیونکہ اس محکمہ کے آفیسروں کے اختیار میں کئی قسم کے ٹھیکے وغیرہ دینے کا کام ہوتا ہے جو آج کل عام طور پر ہندوؤں ہی کو ملتے ہیں.اور اگر کسی مسلمان کو مل بھی جائے تو اس کام میں نقص نکال کر اس کے اپنے سرمایہ کو بھی تباہ کر دیا جاتا ہے.اس سٹیج پر ایک صاحب بیٹھے ہیں ان کے ایک بزرگ کو ٹھیکہ کے معاملہ میں ہی انجینئر نے اس قدر نقصان پہنچایا کہ ان کی اپنی جائیداد جو کروڑوں کی تھی تباہ و برباد ہو گئی پس ہمارے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ نئے تعلیم پانے والوں کی خبر لیتے رہیں اور ان کے لئے انکے مذاق اور قابلیت کے مطابق تعلیم کا انتظام کریں اور انہیں ترغیب دیں کہ وہ ان مختلف شعبہ ہائے تعلیم میں تقسیم ہو جائیں جو آئندہ ان کی ذات کے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی مفید ثابت ہوں.اسی طرح شادی بیاہ کے معاملات ہیں بہت سے لڑکے اور لڑکیوں کے لئے آسانی کے ساتھ انتظام نہیں کیا جا سکتا.وجہ یہ کہ ایک دوسرے کو پتہ نہیں ہو تاکہ کہاں رشتہ ہو سکتا ہے.یہ بھی اس صیغہ کا کام ہو گا کہ بن بیا ہے لڑکے اور لڑکیوں کی فہرستیں تیار کرے.اور ان کے رشتے ناطے میں آسانیاں پیدا کرے.غرض اس طرح کے اور بہت سے کام جو نکلتے رہیں.وہ سب اسی صیغہ کے متعلق ہوں گے.پھر ہماری جماعت کے لوگوں میں اگر کسی جگہ کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے تو وہ عدالت میں جاتے ہیں جس سے احمدیت کی ذلت ہوتی ہے.ابتداء میں جب ابھی جھگڑے کی بنیاد ہی پڑتی ہے اس وقت تو ہمارے پاس اس لئے نہیں آتے کہ چھوٹی سی بات کے متعلق انہیں کیا تکلیف دیں.لیکن جب بات بڑھ جاتی ہے تو پھر اس خیال سے ہمارے سامنے پیش کرنے سے جھجھکتے ہیں کہ وہ کہیں گے پہلے کیوں ہمیں نہ بتایا اور کیوں جھگڑے کو اتنا بڑھایا.محکمہ قضاء
وم جلد سم خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ اسی طرح بات بڑھتی بڑھتی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھر اگر ہم بھی کہیں کہ اس جھگڑے کو چھوڑ دو تو نہیں مانتے اور احمدیت کو چھوڑ دیتے ہیں اس نقص کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر جگہ محکمہ قضاء مقرر نہیں ہے.اگر کچھ لوگوں کو مسائل سکھلا کر مختلف مقامات پر انہیں مقرر کر دیا جاتا تو ایسا نہ ہوتا.اب قاضی القضاۃ کا محکمہ تو یہاں مقرر کیا گیا ہے.آئندہ موٹے موٹے اور ضروری مسائل کچھ لوگوں کو سکھا کر مختلف جماعتوں میں انہیں مقرر کر دیا جائے گا تاکہ وہ مقامی جھگڑوں اور فسادوں کا تصفیہ کر دیا کریں اور بات زیادہ بڑھ کر خرابی کا موجب نہ ہو.ہاں ان کے فیصلہ کی اپیل یہاں کے محکمہ قضاء میں ہو سکے گی.پھر ایک صیغہ فتویٰ کا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد زمانہ محکمہ فتاوی خانماء میں قاعدہ تھاکہ شرعی امور میں فتوی دینے کی ہر شخص کو اجازت نہ تھی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو اتنی احتیاط کرتے تھے کہ ایک صحابی نے (غالبا عبد اللہ بن مسعود نے) جو دینی علوم میں بڑے ماہر اور ایک جلیل القدر انسان تھے ایک دفعہ کوئی مسئلہ لوگوں کو بتایا اور اس کی اطلاع آپ کو پہنچی تو آپ نے فورا ان سے جواب طلب کیا کہ کیا تم امیر ہو یا امیر نے تم کو مقرر کیا ہے کہ فتویٰ دیتے ہو.دراصل اگر ہر ایک شخص کو فتویٰ دینے کا حق ہو تو بہت مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں.اور عوام کے لئے بہت سے فتاوی ابتلاء کا موجب بن سکتے ہیں.کیونکہ بعض اوقات ایک ہی امر کے متعلق دو مختلف فتوے ہوتے ہیں اور دونوں صحیح ہوتے ہیں.مگر عوام کے لئے یہ سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ دونوں کس طرح درست ہیں.اس لئے وہ جھگڑا شروع کر دیتے ہیں.مثلاً نماز ہی میں کئی باتیں مختلف طور پر ثابت ہیں.اب کئی لوگ اس پر لڑتے ہیں کہ فلاں یوں کرتا اور فلاں اس کے خلاف کرتا ہے.حتی کہ وہ کسی کو اپنے خیال کے ذرا سا خلاف کرتے ہوئے بھی دیکھیں تو اس کے پیچھے نماز توڑ دیتے ہیں حالانکہ اگر وہ سمجھیں تو انہیں معلوم ہو جائے کہ دونوں باتوں میں کچھ حرج نہ تھا.غرض عوام جو واقف نہ ہوں ان کے سامنے اگر دو جائز باتیں بھی پیش کی جائیں تو وہ لڑنا جھگڑنا شروع کر دیتے ہیں اس لئے فتوے دینے کے لئے ایک خاص محکمہ مقرر کیا گیا ہے.ہر قسم کے فتوے دینا اس کا کام ہو گا اور کسی اور کو اجازت نہ ہوگی کہ کوئی فتوی دے.اس پر غرض فی الحال میں نے یہ انتظام کیا ہے.اور اس انتظام کی نگرانی کے لئے قابل توجه امر ایک ناظر اعلیٰ مقرر کیا ہے.اور ہر ایک صیغہ کا ایک ایک الگ ناظر رکھا
علوم جلد ۴ ۴۰۵ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ ء ہے.اور پھر ایسا انتظام کیا ہے کہ ہفتہ میں ایک بار ہر ایک صیغہ کے ناظر اپنے اپنے صیغہ کے کام کی رپورٹ میرے سامنے پیش کریں اور آئندہ کے لئے ہدایات لیں.اس وقت تک ایسا ہی ہو رہا ہے اور میں نے دیکھا ہے باوجود اس کے کہ ابھی ابتدائی کام اور دفتری انتظام سے ان صیغوں کو فراغت نہیں ہوئی.ہر ایک کام میں ایک نئی روح کام کرتی نظر آتی ہے.ان باتوں کے اسوقت میرے بیان کرنے کی ایک غرض تو یہ ہے کہ آپ لوگوں کو واقفیت ہو جائے.دوسرے یہ کہ وہ لوگ جو ان کاموں کے لئے مقرر کئے گئے ہیں.ان کو آپ سے کام پڑیگا.مثلاً لڑکوں کی فہرست بنانے کے لئے آپ کو لکھیں گے اور دوسری باتوں میں آپ سے مدد لیں گے.اس لئے میں ہدایت کرتا ہوں کہ جس احمدی سے یہ معلومات حاصل کرنا چاہیں خواہ وہ کسی جماعت کا سیکرٹری ہو یا پریذیڈنٹ یا ممبر ہو کوئی ہو اسے اگر کوئی خاص مجبوری ہو تو معذرت کر دے ورنہ جہاں تک جلد ہو سکے جواب دیں.اور ان کی طرف جو اعلانات بذریعہ اخبار یا بذریعہ خاص چھٹی پہنچیں.ان کو میری طرف سے ہی سمجھیں.کیونکہ وہ یا تو میرے حکم سے یا میرے مشورہ سے بھیجے جاتے ہیں.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جس نے میرے مقرر کئے ہوئے حاکم کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی.(بخاری کتاب الجهاد والسير باب يقاتل من وراء الامام وي ام و يتقى به پس چونکہ یہ لوگ خلیفہ کے مقرر کئے ہوئے ہوں گے اس لئے اگر آپ ان کے کسی اعلان کی تعمیل کرنے میں اس لئے سستی کریں گے کہ وہ زید یا بکر کے نام سے لکھا گیا ہے تو یہ اس کی نافرمانی نہیں ہو گی بلکہ میری نافرمانی ہوگی اور اگر اسے حتی المقدور مدد دیں گے تو یہ اس کی مدد نہیں ہو گی بلکہ میری مدد ہو گی.اسی سلسلہ میں میں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ احمدیہ گزٹ کا اجراء بعض مقامات پر کسی اعلان یا خط کی اس لئے تعمیل نہیں ہوتی کہ وہاں کے لوگوں کو علم نہیں ہو تا کہ وہ خط میری طرف سے مقرر کردہ آدمی نے لکھا ہے اور بعض اوقات تو یہ خیال کر لیا جاتا ہے کہ کسی پیغامی کی طرف سے ہی نہ ہو.اس لئے یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ایک ماہوار رسالہ گزٹ کے طور پر شائع کیا جائے.جس میں وہ امور بیان کئے جائیں جنکی واقفیت ضروری ہے.اور جو افسر مقرر ہوں ان کی اطلاع شائع کی جائے.اس طرح ایک تو دوستوں کو کام کرنے والوں کے نام کا علم ہو جائے گا.دوسرے جو کام ہو رہے ہوں گے ان
لوم جلد ۴ کے متعلق واقفیت ہو جائے گی.۲۰۶ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ اس کے بعد میں اپنے دوستوں کو ایک خاص امر کے متعلق کچھ غیر مبائعین کے متعلق سنانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ان دنوں ان لوگوں کی طرف.جنہوں نے مرکز سلسلہ سے علیحدہ ہو کر لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا ہے ہمیں صلح کا پیغام دیا گیا ہے.اور بظاہر اس سے بڑھ کر اور کیا چیز خوشی کا موجب ہو سکتی ہے کہ آپس میں صلح ہو جائے.لیکن اگر غور سے دیکھا جاوے تو یہ صلح کا پیغام اپنے اندر ہزاروں فسادوں کے بیج رکھتا ہے.اور یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ بہت دفعہ بعض ظاہر میں اچھی نظر آنے والی چیزیں باطن میں مضر ہوتی ہیں.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ حضرت معاویہ کی صبح کی نماز رہ گئی.اس پر وہ اٹھکر اتنا روئے اتنا روئے کہ شام تک روتے رہے.اور اسی حالت میں رات کو سو گئے.صبح ابھی اذان بھی نہ ہوئی تھی کہ انہوں نے رویا میں دیکھا ایک آدمی کہہ رہا ہے اٹھ نماز پڑھ.انہوں نے پوچھا تو کون ہے اس نے کہا میں ابلیس ہوں.انہوں نے کہا تو کیوں جگانے آیا ہے.اس نے کہا.کل مجھ سے غلطی ہو گئی کہ تمہیں سلائے رکھا.جس پر تم اتنا روئے کہ خدا نے کہا اسے ستر نمازوں کا ثواب دو.آج میں اس لئے جگانے آیا ہوں کہ تمہیں ایک ہی نماز کا ثواب ملے سنٹر کا نہ ملے.تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو چیز ا چھی نظر آتی ہے وہ در حقیقت اپنے اندر برائی کا بیچ رکھتی ہے.چنانچہ ان لوگوں کی طرف سے جو شرائط پیش کی گئی ہیں وہ ایسی ہی ہیں کہ بظاہر اچھی معلوم ہوتی ہیں مگر باطن میں زہر ہیں.ظاہر میں تو یہ شرائط ایسی ہی اعلیٰ معلوم ہوتی ہیں جیسی عیسائیوں کی یہ تعلیم ہے کہ اگر کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دو.مگر جب ان کی حقیقت کو دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سخت نقصان رساں ہیں.ایک شرط یہ ہے کہ ایک دوسرے کے متعلق سخت کلامی نہ ہو اس کے متعلق یہ دیکھنا چاہئے کہ آپس کی سخت کلامی کب سے شروع ہوئی.کہتے ہیں الفضل میں فلاں سخت مضمون چھپا.ہم تو پوچھتے ہیں کیوں چھپا اور اس کی کیا وجہ تھی.یہی معلوم ہو گا کہ پیغام نے فلاں مضمون لکھا تھا.اس کا جواب دیا گیا.اسی طرح اگر اس کو چلاتے جاؤ تو معلوم ہو جائیگا کہ سب سے پہلے کس نے سخت لکھا.اور وہ پیغام ہی ہو گا.اس کے مقابلہ میں ہمارے اخباروں نے بہت کم لکھا ہے.وجہ یہ کہ میں نے انہیں روکے رکھا ہے.اور جس طرح اگر گھوڑے کو زور سے روکیں تو اس کے مونہہ سے خون نکل آتا ہے.اسی طرح ہمارے بعض اخباروں کے ایڈیٹروں کا حال ہوا.کہ وہ -
العلوم جلد خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء ان لوگوں کی سخت کلامی کو اور اپنی مجبوری کو دیکھ کر خون کے آنسو روتے رہے ہیں.اور جوش میں ایسا ہی ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ ایک شخص حضرت مسیح موعود کے متعلق بعض لوگوں کی بد کلامی سن کر ان سے لڑ پڑا.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو معلوم ہوا.تو آپ نے اسے نصیحت کی کہ ایسے موقع پر صبر سے کام لینا چاہئے.وہ شخص سخت جوش سے بھرا ہوا تھا بے اختیار کہہ اٹھا کہ ہم سے ایسا نہیں ہو سکتا.آپ کے پیر ( محمد ) کو جب کوئی گالی دے تو آپ اس کے ساتھ مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.لیکن ہمیں یہ ارشاد فرماتے ہیں کہ اپنے پیر ( حضرت مسیح موعود) کے متعلق گالیاں سن کر صبر کریں.اس کی یہ بات سن کر اور اس کے غضب کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود اس وقت مسکرا کر خاموش ہو رہے.تو جوش ایک طبعی تقاضا ہے.جو ایک حد تک جائز ہوتا ہے.لیکن میں نے اخباروں کو روکے رکھا.اس وجہ سے غیر مبائعین کی درشت کلامی بڑھتی گئی.اور اب انہیں ڈر پیدا ہوا ہے کہ اگر ادھر سے بھی جواب دیا گیا تو مشکل پڑ جائے گی.اس وجہ سے انہیں تختی کو ترک کرنے کا خیال پیدا ہوا ہے.مگر یہ ایسا ہی خیال ہے جیسا کہ کسی کو تھپڑ مار کر کہا جائے کہ اب صلح کر لو.اس طرح صلح نہیں ہو سکتی.صلح اسی وقت ہو سکتی ہے جب کہ یا تو جو لینا ہو لے لیا جائے اور جو دینا ہو دید یا جائے.کیونکہ یہ مخالف کی مخالف سے صلح ہے.بھائی بھائی کی صلح نہیں اور یا پھر وہ زہر جو پھیلایا گیا ہو اس کا ازالہ کر دیا جاوے.لیکن خیر ہم اس شرط کو مان لیتے ہیں کہ ایک دوسرے کے متعلق سخت الفاظ استعمال نہ کئے جائیں.مگر اس کے ساتھ دوسری بات وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک دو سرے کے پیچھے نماز پڑھ لی جایا کرے.لیکن اس شرط کے مان لینے کے یہ معنی ہیں کہ گویا ہم اپنے ہاتھ آپ کاٹ دیں.ہمارا اختلاف کسی جدی وراثت کے متعلق نہیں ہے کہ فلاں نے زیادہ مال لے لیا اور فلاں نے کم بلکہ ہمارا اختلاف دین کے متعلق ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا اللِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِى الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأَوْلَئِكَ هُمُ الفَسِقُونَ (النور : ۵۶) ہم تو قرآن کریم کے اس ارشاد کے ماتحت اختلاف کرتے ہیں کہ جو ایسے خلیفہ کو نہیں مانتا وہ فاسق ہے.اب ایک طرف تو ہم کہیں کہ جو خلیفہ کو نہیں مانتا وہ فاسق ہے.اور دوسری طرف اعلان کریں
دام جلد خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء اور حکم دیں کہ ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھ لیا کرو یہ نہیں ہو سکتا.غیر مبائعین کی اس بات کو تسلیم کر لینے کے تو یہ معنی ہوئے کہ ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں.کیونکہ اگر اس کے ماتحت ، و تو پھر اس کے منکروں کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینے کے کیا معنی.ایسی صلح ہم نہیں کر سکتے.ہم نے مذہب کے معاملہ میں ساری دنیا کی پرواہ نہیں کی.تو ان چند لوگوں کی کیا پرواہ ہو سکتی ہے.انہوں نے ہمارا آج تک کیا بگاڑا ہے کہ آئندہ بگاڑ لینگے.ہم نے مجبوری کے وقت مثلاً ان کی مسجد میں کوئی شخص بیٹھا ہو.اور نماز کھڑی ہو جاوے تو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے.مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم ان کے پیچھے نماز پڑھنے کو حرام نہیں کہتے.لیکن ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم دینا بالکل مختلف ہے مجبوری سے کسی کام کا کرنا اور معنی رکھتا ہے.اور بلا مجبوری اس کا کرنا اور معنی رکھتا ہے.- تیسری بات وہ یہ پیش کرتے ہیں کہ ایک فریق کے آدمی دوسرے فریق کو چندہ دیں.کہتے ہیں کسی عورت سے جو غریب تھی پوچھا گیا کہ فلاں شادی پر تو نے کیا نیو تا دیا ہے.اس نے کہا ایک روپیہ دیا تھا.اور اس کی بھا وجہ جو امیر تھی اس نے ہمیں روپے.وہ کہنے لگی میں اور میری بھاوجہ نے اکیس روپے دیئے ہیں.اب غیر مبالکین ایسا ہی کرنا چاہتے ہیں.خدا کے فضل سے ہماری جماعت تو کئی لاکھ کی ہے.اور وہ چند سو سے زیادہ نہیں اس لینے دینے کا یہ مطلب ہوا کہ وہ کئی ہزار روپیہ ہمارے آدمیوں سے لے جائیں.اور سو ڈیڑھ سو روپیہ ہم ان سے لے لیں.کون عقل مند ہے جو ایسی شرط منظور کر سکتا ہے.چوتھی بات وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک دوسرے کے جلسوں میں شامل ہوا کریں یہ بھی ایسی ہی بات ہے.جس میں انہیں کا فائدہ ہے.مثلاً امر تسر میں ہمارا جلسہ ہو تو وہاں ان کے چار پانچ آدمی ہیں وہ آجائیں گے.لیکن اگر ہم نے حکم دیا تو ان کے جلسہ پر منٹو سے بھی زیادہ ہمارے آدمی چلے جائیں گے.اور اس طرح انہیں یہ کہنے کا موقع مل جائے گا کہ ہمارا جلسہ بڑا کامیاب ہوا.پس گو ہم نے کسی کو اس سے منع نہیں کیا کہ وہ ان کے جلسوں پر جاوے.سوائے اس کے کہ اس کا جانا اس کے لئے یا دوسروں کے لئے فتنہ کا موجب ہو.مگر ہم اس طرح کا حکم کس طرح دے سکتے ہیں اس میں تو صریح انہی کا فائدہ ہے نہ ہمارا.پانچویں بات وہ یہ کہتے ہیں کہ اختلافی مسائل پر صرف میں اور مولوی محمد علی صاحب لکھیں.اور کوئی نہ لکھے.اس میں انہیں یہ بات ہر نظر ہے کہ مولوی محمد علی صاحب تو ہوئے ایک انجمن
ر العلوم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء کے پریزیڈنٹ جس کا سب انتظامی کام دوسرے لوگوں کے سپرد ہے.پھر ان کے کام ہی کون سے ہے.ہیں.چند سو آدمیوں سے تعلقات ہیں.لیکن ہماری لاکھوں کی جماعت ہے.بعض دن تو میرے کئی کئی گھنٹے خطوط پڑھنے اور ان کے جواب لکھانے ہی میں صرف ہو جاتے ہیں.پھر مجھے خود نماز پڑھانی ہوتی ہے لیکن مولوی محمد علی صاحب تو گھر پر ہی نماز پڑھ لینے میں کچھ حرج نہیں محسوس کرتے پھر یہاں کے بہت سے کام میرے مشورہ سے ہوتے ہیں اسی طرح جماعت کی ترقی کے لئے غور کرنے اور اس کے لئے دعا کرنے پر بہت سا وقت صرف ہوتا ہے.اس لئے مجھے وقت ہی نہیں مل سکتا کہ ان کی ہر ایک بات کا خود جواب لکھتا رہوں.اس لئے اس شرط کا یہ مطلب ہوا کہ وہ لکھتے رہیں اور ہماری طرف سے کوئی جواب نہ شائع ہو.غرض یہ شرطیں عجیب رنگ رکھتی ہیں.مگر جیسا کہ کسی نے کہا ہے پھر من رنگے کہ خوای جامه پوش انداز تدت را شناسم ย ہم ان کی باتوں میں آنے والے نہیں ہیں.ہمارا اور ان کا اختلاف کوئی معمولی اختلاف نہیں.بلکہ بہت بڑا اختلاف ہے.اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ کے اختلاف سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جب معاویہ نے خط لکھا کہ میں آپ کی زیارت کے لئے آنا چاہتا ہوں تو انہوں نے جواب دیا کہ زیارت اسی طرح ہو سکتی ہے کہ یا میں تمہارے پاس آؤں یا تم میرے پاس آؤ اگر میں آیا تو لشکر سمیت آؤں گا.اور اگر تم آئے تو تلوار تمہارا مقابلہ کرے گی.کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس اختلاف کو مذہبی اختلاف سمجھتے تھے اور معاویہ کو اس کا بانی اور ان کے ساتھ صلح کو جائز نہیں سمجھتے تھے.پس ہم کو تو ان سے زیادہ اختلاف ہے.اور معاویہ سے زیادہ انہوں نے امت اسلامیہ میں شقاق پیدا کیا ہے.پس جب تک اس شقاق کو یہ لوگ دور نہ کریں ان سے صلح ہم کس طرح کر سکتے ہیں.یہ ایک مسلمہ قاعدہ ہے کہ غیروں کے ساتھ صلح ہو سکتی ہے.لیکن ان اپنوں سے جو معاند ہوں اور مفسد ہوں اس وقت تک صلح نہیں ہو سکتی جب تک وہ فساد نہ ترک کریں.یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر اپنے جوش نکالیں اور منصوبے پکا ئیں.لیکن چونکہ اس قسم کے تجربے ہم سے پہلے لوگ کر کے نقصان اٹھا چکے ہیں.اس لئے ہم تجربہ کرنا نہیں چاہتے.بے شک ہمیں یہ منظور ہے کہ سخت کلامی نہ ہو کیونکہ سخت کلامی شرفاء کا کام نہیں اور
رالعلوم جلد ۴۱۰ خطاب جلسه سالانه ۱۷ مارچ ۶۱۹۱۹ اگر وہ اس سے باز آجائیں.تو گو ہم نے پہلے ہی روکا ہوا ہے اب اور بھی تاکید کر دیں گے.لیکن اس کے سوا ان کی شرائط میں اور کوئی بات نہیں جو قابل قبول ہو.میں آپ لوگوں کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ میں نے بعض مصالح کے لحاظ سے گو شرح صدر نہ تھا انہیں اپنے جلسہ میں بولنے کا موقع دیا ہے.اگر چہ ہمارے جلسے تعلیمی ہوتے ہیں.اور پھر یہ حضرت مسیح موعود کی مقدس پیج ہے.اس پر باغیوں کو بولنے کا موقع دینا مناسب نہ تھا.مگر اس خیال سے کہ وہ کہتے رہتے ہیں کہ ہماری باتیں سننے کا موقع نہیں دیا جاتا.میں نے کہا آج وہ اس خواہش کو بھی پورا کرلیں.تاکہ انہیں معلوم ہو جائے کہ ان کے حملے ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے.اور پوری طرح ہماری جماعت سے نا امید ہو جاویں.چنانچہ انہوں نے اس کو دیکھ لیا ہے.میں نے بہت دفعہ بڑا غور اور فکر کیا ہے.لیکن میری سمجھ میں یہ عقائد کس نے بدلے نہیں آتا کہ ان کا جھگڑا ہی ہم سے کیوں ہے.میں نے ایک بات ان میں سے کئی آدمیوں سے پوچھی ہے.جس کا مجھے کسی نے جواب نہیں دیا.اور وہ یہ ہے کہ تم بتاؤ مولوی محمد علی صاحب کے مضامین میں حضرت مسیح موعود کو نبی لکھا جاتا رہا ہے یا نہیں وہ کہتے ہیں ہاں لکھا جاتا رہا ہے مگر اس سے مراد مجدد محدث اور غیر نبی تھی.ہم کہتے ہیں اچھا یہی سی اس کے متعلق بعض دوست اس طرف گئے ہیں کہ ان کی یہ مراد نہیں ہو سکتی.اور یہ بات تو ان کے مضامین سے ثابت ہے کہ یقینا ان کی مراد ایسا ہی نبی اور رسول تھی جیسا ہم مانتے ہیں تاہم ہم کہتے ہیں اچھا وہی مراد سہی جو تم لوگ کہتے ہو.مگر یہ تو بتلاؤ کہ اب کیوں اسی مراد کو مد نظر رکھ کر وہ حضرت مسیح موعود کو نبی نہیں لکھتے.یہ بڑی آسان راہ فیصلہ کی ہے.اگر اس وقت حضرت مسیح موعود کو نبی لکھنے میں کوئی حرج نہ تھا تو اب بھی لکھتے رہو اور اس سے مراد مجدد لو.پھر جھگڑا ہی کیا ہے اور اختلاف ہی کیا.لیکن چونکہ اب اس لفظ کا لکھنا تم لوگوں نے چھوڑ دیا ہے.اس لئے معلوم ہوا اسے جن معنوں میں تم پہلے استعمال کرتے تھے انہی کو چھوڑ دیا ہے.یہ ایک موٹی بات ہے.تمہارا اب حضرت مسیح موعود کو نبی نہ لکھنا جتاتا ہے کہ پہلے اس لفظ سے جو تمہاری مراد ہوتی تھی اس کو تم نے بدل دیا ہے.لیکن ہم جیسے پہلے لکھتے تھے اب بھی اسی طرح لکھتے ہیں.دیکھو تشخیذ الاذہان رسالہ جب جاری ہوا تو میں نے اس کے ایڈیٹر کی حیثیت سے انٹروڈکشن لکھا.جس میں پہلے انبیاء اور ان کے مخالفین کا ذکر کرتے ہوئے لکھا
انوار العلوم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے مارچ ۱۹۱۹ء کہ اب دیکھنا چاہئے کہ اس زمانہ میں کسی نبی کی ضرورت ہے یا نہیں اور پھر زمانہ کی موجودہ خطرناک حالت ثابت کر کے بتایا کہ اس وقت پہلے کی نسبت بھی زیادہ ضرورت ہے.اور حضرت مرزا صاحب اس زمانہ میں خدا کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے ہیں.یہ مضمون ۱۹۰۶ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں شائع ہوا.اور حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے اسے پڑھ کر بہت خوشی کا اظہار کیا.اور خواجہ صاحب اور محمد علی صاحب کو کہا کہ اس مضمون کو ضرور پڑھو.پھر مولوی محمد علی صاحب نے رسالہ تشخید الاذہان کا ریویو کرتے ہوئے اس مضمون کے متعلق لکھا اس رسالہ کے ایڈیٹر مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت اقدس" کے صاحبزادہ ہیں اور پہلے نمبر میں چودہ صفحوں کا انٹروڈکشن ان کی قلم سے لکھا ہوا ہے.جماعت تو اس مضمون کو پڑھے گی.مگر میں اس مضمون کو مخالفین سلسلہ کے سامنے بطور ایک بین دلیل کے پیش کرتا ہوں.جو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ ہے.خلاصہ مضمون یہ ہے کہ جب دنیا میں فساد پیدا ہو جاتا ہے.اور لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ کو چھوڑ کر معاصی میں بکثرت مبتلا ہو جاتے ہیں.اور مردار دنیا پر گدوں کی طرح گر جاتے ہیں.اور آخرت سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں تو ایسے وقت میں ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ وہ انہی لوگوں میں سے ایک نبی کو مامور کرتا ہے کہ وہ دنیا میں کچی تعلیم پھیلائے.اور لوگوں کو خدا کی حقیقی راہ دکھائے.پر جو لوگ معاصی میں بالکل نی اندھے ہوئے ہوتے ہیں وہ دنیا کے نشہ میں مخمور ہونے کی وجہ سے یا تو نبی کی باتوں پر جنسی کرتے ہیں اور یا اسے دکھ دیتے ہیں.اور اس کے ساتھیوں کو ایذا ئیں پہنچاتے ہیں.اور اس سلسلہ کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں.مگر چونکہ وہ سلسلہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے.اس لئے انسانی کوششوں سے ہلاک نہیں ہوتا.بلکہ وہ نبی اس حالت میں اپنے مخالفین کو پیش از وقت اطلاع دے دیتا ہے کہ آخر کار وہی مغلوب ہوں گے.اور بعض کو ہلاک کر کے خدا دو سروں کو راہ راست پر لے آوے گا.سو ایسا ہی ہوتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے.جو ہمیشہ سے چلی آتی ہے.ایسا ہی اس وقت میں ہوا" اس کے بعد مضمون میں سے کچھ عبارت نقل کر کے لکھا کہ ” میں نے اس مضمون کو اس سلسلہ کی صداقت پر گواہ خصوصاً اس وجہ سے نہیں ٹھرایا کہ ان دلائل کو کوئی مخالف توڑ نہیں دلائل پہلے بھی کئی دفعہ پیش ہو چکے ہیں.مگر اس دلیل میں سے جو دلیل میں سلسلہ کی سکتا.
م جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷.صداقت پر گواہ کے طور پر اس وقت گل مخالفین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.وہ اس مضمون کا آخری حصہ ہے جس کو میں نے صاحبزادہ کے اپنے الفاظ میں نقل کیا ہے.اس وقت صاحبزادہ کی عمر اٹھارہ انیس سال کی ہے.اور تمام دنیا جانتی ہے کہ اس عمر میں بچوں کا شوق اور امنگیں کیا ہوتی ہیں.زیادہ سے زیادہ اگر وہ کالجوں میں پڑھتے ہیں تو اعلیٰ تعلیم کا شوق اور آزادی کا خیال ان کے دلوں میں ہو گا.مگر دین کی یہ ہمدردی اور اسلام کی حمایت کا یہ جوش جو اوپر کے بے تکلف الفاظ سے ظاہر ہو رہا ہے ایک خارق عادت بات ہے.صرف اسی موقع پر نہیں بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ ہر موقع پر یہ ولی جوش ان کا ظاہر ہو جاتا ہے.چنانچہ ابھی میر محمد اسحاق کے نکاح کی تقریب پر چند اشعار انہوں نے لکھے تو ان میں یہی دعا ہے کہ اے خدا تو ان دونوں اور ان کی اولاد کو خادم دین بنا.برخوردار عبدالحی کی آمین کی تقریب پر اشعار لکھے.تو ان میں یہی دعا بار بار کی ہے کہ اسے قرآن کا سچا خادم بنا.ایک اٹھارہ برس کے نوجوان کے دل میں اس جوش اور ان امنگوں کا بھر جانا معمولی امر نہیں.کیونکہ یہ زمانہ سب سے بڑھ کر کھیل کود کا زمانہ ہے.اب وہ سیاہ دل لوگ جو حضرت مرزا صاحب کو مفتری کہتے ہیں.اس بات کا جواب دیں کہ اگر یہ افتراء ہے تو یہ سچا جوش اس بچہ کے دل میں کہاں سے آیا.جھوٹ تو ایک گند ہے پس اس کا اثر تو چاہئے تھا کہ گندہ ہوتا.نہ یہ کہ ایسا پاک اور نورانی جس کی کوئی نظیر ہی نہیں ملتی - ریویو مارچ ۱۹۰۶ء جلد ۵ نمبر ۳ صفحه ۱۱۸٬۱۱۷) یہ ریویو مولوی محمد علی صاحب نے اپنی قلم سے لکھا.عجیب بات ہے کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں مولوی محمد حسین صاحب نے ریویو لکھ کر اپنے ہاتھ کاٹ لئے تھے.اسی طرح میرے مقابلہ میں مولوی محمد علی صاب نے میرے اس مضمون پر ریویو لکھ کر جس میں مسیح موعود کو نبی لکھا گیا تھا اپنے ہاتھ کاٹ لئے ہیں.پھر جب حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد میں نے "صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے " کے نام سے ایک کتاب لکھی.تو حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے مولوی محمد علی صاحب کو کہا کہ مولوی صاحب مسیح موعود کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی.مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے.پھر یہی کتاب حضرت مولوی صاحب نے بذریعہ رجسٹری، مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو بھیجی.وہ کیوں ؟ محمد حسین صاحب نے کہا کہ مرزا صاحب کی اولاد اچھی نہیں ہے.اس لئے یہ کتاب بھیج کر حضرت مولوی صاحب نے ان کو
م جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء لکھوایا کہ حضرت مرزا صاحب کی اولاد میں سے ایک نے تو یہ کتاب لکھی ہے.جو میں تمہاری طرف بھیجتا ہوں.تمہاری اولاد میں سے کسی نے کوئی کتاب لکھی ہو تو مجھے بھیج دو.اس کتاب میں حضرت مسیح موعود کو نبی لکھا گیا ہے.تو ہم پہلے بھی حضرت مسیح موعود کو نبی لکھتے تھے اور اب بھی لکھتے ہیں.مگر وہ لوگ پہلے نبی لکھتے تھے اور اب نہیں لکھتے.جس ظاہر ہے کہ ہم نے کوئی تبدیلی نہیں کی.لیکن ان لوگوں نے اپنے طریق عمل میں تبدیلی کرلی ہے اس کے سوا ہم کہتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے خدا تعالیٰ کی تائید کس کے ساتھ ہے جو سلسلے ہوتے ہیں.ان کے لئے کچھ ایسے امور بھی ہوتے ہیں جن سے وہ قائم رہتے اور دن بدن ترقی کرتے ہیں.اب اگر غیر مبائعین حضرت مرزا صاحب کے بچے قائم مقام ہیں تو اللہ تعالیٰ کی وہ تائید جو حضرت مسیح موعود کو میسر تھی ان کے ساتھ ہونی چاہئے.اور اگر ہم ہیں تو ہمارے ساتھ ہونی چاہئے.ان کی طرف سے اپنی کامیابی بتانے کے لئے اگر کچھ کہا جاتا ہے تو وہ یہ کہ فلاں غیر احمدی نے ہمیں اتنا روپیہ دیا.ہم کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو کون غیر احمدی روپے دیا کرتا تھا.کیا خدا تعالیٰ نے آپ کی کبھی تائید کی یا نہیں.اگر کی تو کیا اس طرح کہ نواب حیدر آباد نے یا بیگم بھوپال نے آپ کا ماہانہ مقرر کر دیا.یا کسی سرحدی نواب نے آپ کو کوئی رقم دے دی.اگر حضرت مسیح موعود کے ساتھ ایسا ہوا تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ جس طرح حضرت مسیح موعود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی تائید تھی اس طرح ہمارے ساتھ ہے.لیکن اگر اس طرح حضرت مسیح موعود کی تائید نہیں ہوئی تو اب تمہیں بھی اسے اپنی تائید میں پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے.اب کوئی نیا امام نہیں آیا کوئی نئی جماعت قائم نہیں ہوئی.اس لئے اسی طرح جماعت کی تائید ہونی چاہئے جس طرح حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہوئی اور وہ یہی تھی کہ آپ ایک تھے مگر خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ ہزاروں لاکھوں انسان کر دیئے.اب دیکھئے کہ خود حضرت مسیح موعود اسے خدا تعالیٰ کی تائید کہتے ہیں یا نہیں.اور پھر قرآن کریم میں یہ لکھا ہے یا نہیں کہ جن کی مخالفت ہو اور عالمگیر مخالفت ہو ان کا ترقی کرنا اور اپنے دشمنوں پر غالب آنا ان کے حق پر ہونے کی دلیل ہے.اور کیا اس دلیل کو حضرت مسیح موعود نے اپنی صداقت میں پیش کیا ہے یا نہیں.اگر کیا ہے اور ضرور کیا ہے تو اس سے اب بھی ہماری صداقت معلوم ہو سکتی ہے.ہمارے متعلق یہ نہیں کہا
العلوم جلد من سم اسام خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء جا سکتا کہ جس طرح بابیوں کی ترقی ہوئی اسی طرح ہماری ہو رہی ہے.کیونکہ ان کی کوئی مخالفت نہیں کرتا.مگر ہماری مخالفت ہر طرف پھیلی ہوئی ہے.مگر باوجود اس کے ہماری جماعت دن بدن بڑھ رہی ہے.اور ان کی نسبت جو ہمارے مقابلہ میں اپنے آپ کو حق پر اور حضرت مسیح موعود کی اصلی تعلیم پر سمجھتے ہیں ہماری ترقی بہت زیادہ ہو رہی ہے.اور ایسی صورت میں ہو رہی ہے کہ وہ تو غیروں کو مسلمان کہتے ہیں اور ہم کافر قرار دیتے ہیں وہ ہمیں جاہل اجڈ بے دین خدائی سلسلہ کو تباہ کرنے والے خدا اور رسول کے دشمن بلکہ اپنی جانوں کے دشمن، عقل سے کورے اسلام میں سب سے بڑا تفرقہ ڈالنے والے قرار دیتے ہیں.مگر باوجود اس کے کہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے اور باوجود اس کے کہ وہ جو اپنے آپ کو ستون سمجھتے تھے نکل گئے ہیں اور ان کے خیال میں باقی چھڑیاں رہ گئی ہیں.یہی چھڑیاں سارا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں یا نہیں.یہ خدا تعالی کی تائید ہے یا کہ کسی نواب یا راجہ سے چند سو روپیہ مل جانا خدائی تائید ہے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود کی اس طرح تائید خدا سے فیصلہ کرالیں کرتا تھا کہ آپ پر نئے نئے علوم اور معارف کھلتے تھے.اور آپ کے بعد حضرت خلیفہ اول کو بھی خدا تعالیٰ کی یہ تائید حاصل تھی.اب میں فخر کے طور پر نہیں بلکہ اس عہدہ اور منصب کے احترام کے لئے جس پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے کہتا ہوں کہ خدا تعالی کی یہ تائید میرے ساتھ ہے.اس وجہ سے میں نے مولوی محمد علی صاحب کو چیلنج دیا تھا.کہ آئیں بالمقابل بیٹھ کر قرآن کریم کی کسی آیت یا رکوع کی تفسیر لکھیں.اور دیکھیں کہ وہ کون ہے جس کے لئے خدا تعالٰی معارف اور حقائق کے دریا بہاتا ہے.اور کون ہے جس کو خدا تعالٰی علوم کا سمندر عطا کرتا ہے.میں تو ان کے نزدیک جاہل ہوں، کم علم ہوں، بچہ ہوں.خوشامدیوں میں گھرا ہوا ہوں نا تجربہ کار ہوں.پھر مجھ سے ان کا مقابلہ کرنا کون سا مشکل کام ہے.وہ کیوں مرد میدان بن کر خدا تعالیٰ کی کتاب کے ذریعہ فیصلہ نہیں کر لیتے.اور کیوں گیدڑوں اور لومٹریوں کی طرح چھپ چھپ کر حملے کرتے ہیں.پھر کیوں خدا پر فیصلہ نہیں چھوڑتے اور خدا سے یہ دعا کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے کہ جو جھوٹا ہے اسے تباہ کر.انسانی فیصلوں اور آراء کو جانے دو اور خدا کے سامنے آؤ تاکہ اس سے دعا کی جائے کہ جو جھوٹا ہے وہ ہلاک ہو جائے.اور جو سچا ہے وہ بچ جائے.کیا خدا تعالیٰ کا فیصلہ جھوٹا ہو سکتا ہے.اگر نہیں تو
العلوم جلد ۴ ۴۱۵ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء پھر کیوں خدا سے فیصلہ نہیں کرا لیا جاتا.اور کیوں اس طرح تفرقہ نہیں مٹا دیا جاتا.یہ طریق ہیں جن سے تفرقہ مٹ سکتا ہے.اول خدا تعالٰی تفرقہ کے مٹانے کے طریق کی تائید دیکھو کس کے ساتھ ہے.کیا یہ سچ نہیں کہ ان کی طرف سے اسی جگہ کہا گیا تھا کہ ہم تو جاتے ہیں.لیکن چند ہی دنوں تک اس مدرسہ میں عیسائیوں کے بچے پھرتے نظر آئیں گے.اب جب کہ پانچ سال گزر گئے ہیں.بتاؤ اس مقام پر مسلمانوں کا قبضہ ہے یا عیسائیوں کا.اور بتاؤ اس مسجد کے صحن میں حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں کتنے لوگ بیٹھتے تھے اور آج کتنے بیٹھے ہیں.کیا یہ تائید الہی ہے یا نہیں.ہم ان کے جاہل کم عقل وغیرہ کہنے سے چڑتے نہیں.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ یہی تو معجزہ ہے اور یہی ہماری صداقت کی دلیل ہے.حضرت مسیح موعود کو مخالف کہتے کہ جاہل ہیں، کچھ جانتے نہیں.آپ فرماتے ہیں تو معجزہ ہے کہ میں اس حالت میں ایسی عربی لکھتا ہوں کہ کوئی دنیا کا بڑے سے بڑا عالم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو ان لوگوں کے مجھے بچہ کہنے پر تم پڑا نہیں.بلکہ کہو کہ یہی تو معجزہ ہے.اگر وہ میرے متعلق یہ کہتے کہ بڑا تجربہ کار ہے.فریبی ہے ، مکار ہے، تو ہو سکتا تھا کہ کہدیتے کہ اسی وجہ سے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے.لیکن اب تو وہ یہ کہہ کر کہ نا تجربہ کار ہم عقل اور بچہ ہے.اپنے ہاتھ آپ کاٹ چکے ہیں.جو ہمیں کامیابی ہو رہی ہے وہ کسی ہماری کوشش اور ہمت کا نتیجہ نہیں.بلکہ خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے ہو رہی ہے.اور وہ بتا رہا ہے کہ جن کو تم کچھ نہیں سمجھتے.ان سے خدا اس طرح سے کام لیا کرتا ہے.تو ان لوگوں نے مجھے بچہ اور جاہل قرار دے کر اپنی ناکامی اور نامرادی پر خود دستخط کر دیئے.کیونکہ یہ کہہ کر انہوں نے تسلیم کر لیا کہ اس کے ذریعہ جو ترقی ہو رہی ہے.وہ اس کی کوشش سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.پس جب ہماری ترقی خدا کی طرف سے ہے تو کون ہے جو اسے روک سکے.اب زمانہ بدل گیا ہے.دیکھو پہلے جو مسیح آیا تھا.اسے دشمنوں نے انتقام لینے کا زمانہ صلیب پر چڑھایا.مگراب مسیح اس لئے آیا کہ اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارے.اسی طرح پہلے جو آدم آیا وہ جنت سے نکلا تھا.مگر اب جو آدم آیا وہ اس لئے آیا کہ لوگوں کو جنت میں داخل کرے.اسی طرح پہلے یوسف کو قید میں ڈالا گیا تھا.مگر دوسرا یوسف قید سے نکالنے کے لئے آیا ہے پہلے خلفاء میں سے بعض جیسے عثمان رضی اللہ عنہ اور
دم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دُکھ دیا گیا.مگر میں امید کرتا ہوں کہ مسیح موعود کے زمانہ میں اللہ تعالٰی اس کا بھی ازالہ کرے گا.اور ان کے خلفاء کے دشمن ناکام رہیں گے.کیونکہ یہ وقت بدلہ لینے کا ہے.اور خدا چاہتا ہے کہ اس کے پہلے بندے جن کو نقصان پہنچایا گیا ان کے بدلے لئے جائیں.میں ماموریت یا مجددیت کا مدعی نہیں ہوں.اور نہ خاص الہام پا کر کھڑا ہوں.میں تو اس خلافت کا مدعی ہوں جس کا ذکر اس آیت میں ہے.کہ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الطَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمُ (النور : ۵۶) پس میں اپنے الہام پر کھڑے ہونے کا دعویدار نہیں.بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے الہام پر کھڑا ہونے کا مدعی ہوں.حضرت مسیح موعود نے مجھے یوسف قرار دیا ہے.میں کہتا ہوں مجھے یہ نام دینے کی کیا ضرورت تھی.یہی کہ پہلے یوسف کی جو ہتک کی گئی ہے اس کا میرے ذریعہ ازالہ کرایا جاوے.پس وہ تو ایسا یوسف تھا جسے بھائیوں نے گھر سے نکالا تھا.مگر یہ ایسا یوسف ہے جو اپنے دشمن بھائیوں کو گھر سے نکال دے گا.اس یوسف کو تو بھائیوں نے کنعان سے نکالا تھا.مگر اس یوسف نے اپنے دشمن بھائیوں کو قادیان سے نکال دیا.ہم نے اس یوسف کا بدلہ لے لیا ہے اور اس یوسف کی ہتک کا ازالہ کر دیا ہے.پس میرا مقابلہ آسان نہیں نہ اس لئے کہ میں کسی بات کا دعویدار ہوں.میں تو جانتا ہوں کہ میں جاہل ہوں.کوئی ڈگری حاصل نہیں کی اور نہ کوئی سند لی نہ انگریزی مدارس کا ڈگری یافتہ ہوں اور نہ عربی مدارس کا سند یافتہ ہوں.قرآن اور بخاری اور چند کتب خلیفہ اول نے پڑھائی تھیں.اور دروس النحویہ کے حصے مولوی سید سرور شاہ صاحب سے پڑھے تھے.اس کے سوا اور کسی جگہ عربی نہیں پڑھی.مگر کسی علم کے جاننے والے سے بھی جب کوئی دینی گفتگو ہوئی ہے تو خدا نے مجھے کامیاب کیا ہے.میں جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا.مگر جس مقام پر خدا تعالیٰ نے مجھے کھڑا کیا ہے خدا تعالیٰ کو اس کی عزت منظور ہے.اور چونکہ میں اسی کو منواتا ہوں اس لئے وہ میری تائید کرتا ہے.اب اگر مجھے اس منصب اور مقام کی عزت کا خیال نہ ہو تا تو اپنی ہتک اسی طرح برداشت کر لیتا جس طرح اس منصب پر کھڑا ہونے سے پہلے کر لیا کرتا تھا.اس وقت میری ذات پر اعتراض کئے جاتے.میرے خلاف کوششیں کی جاتیں.لیکن میں نے کبھی ان کے ازالہ کی کوشش نہ کی.کلام محمود میں کئی شعر واقعات کے متعلق ہیں.چنانچہ جب ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کو بڑے منصوبے بنا کر ان لوگوں نے مجھ سے ناراض کرانا چاہا تو اس سے مجھے بہت
العلوم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء صدمہ ہوا.اور رات کو کچھ شعر کے.جن میں سے دو تین یہ ہیں.میرے دل پر رنج و غم کا بار ہے ہاں خبر لیجئے کہ حالت زار ہے.میرے دشمن کیوں ہوئے جاتے ہیں لوگ مجھ سے پہنچا ان کو کیا آزار ہے میری غمخواری فکر سے ہیں بے خبر جو ہے میرے در پئے آزار ہے دیں میں گھل گیا ہے میرا دل مرا اک کوه آتش بار ہے جن کے سر پر کھینچ رہی تلوار ہے سے وہ کیا ڈراتے ہیں مجھے خنجر تو اس وقت مجھ سے جو کچھ کہا جاتا تھا اس کو میں مخفی رکھتا تھا.نہ کبھی میں نے اس سے اپنے کسی بھائی کو اور نہ کسی اور کو آگاہ کیا.لیکن اب ایسا نہیں ہو سکتا اب بات میری ذات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اثر اس منصب تک پہنچتا ہے جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اس لئے میں خاموش نہیں رہ سکتا اور علی الاعلان اپنے مقابلہ پر بلاتا ہوں.میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں نے خلافت دھوکا اور فریب سے لے لی.حالانکہ خدا تعالیٰ شاہد ہے مجھے اس منصب کے پانے کا خیال بھی نہ تھا.حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے ایام میں جب میں نے دیکھا کہ آپ کی حالت نازک ہے اور میری نسبت بعض لوگوں کا خیال ہے کہ خلافت حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.تو میں نے انہیں کہا کہ تم جس کو خلیفہ منتخب کرو میں اس کی بیعت کرلوں گا اور جو میرے ساتھ ہیں وہ بھی اس کی بیعت کر لیں گے.لیکن کسی قسم کا اختلاف نہیں ہونا چاہئے.پھر جب حضرت مولوی صاحب کے فوت ہو جانے پر نواب صاحب کی کوٹھی میں مشورہ کے لئے جمع ہوئے.تو اس وقت بھی میں نے یہی کہا.لیکن اس وقت بھی انہوں نے نہ مانا.پھر میں تو ان دنوں یہاں سے کہیں باہر چلا جانا چاہتا تھا.اور میں نے پختہ ارادہ کر لیا تھا کہ میں چلا جاؤں لیکن دوسرے دن حضرت مولوی صاحب کی وفات ہو گئی اس لئے نہ جا سکا.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ میں نے خلافت کے لئے کوئی منصوبہ کیا غلط کہتے ہیں.میں تو ہر چند اس بوجھ کو ہٹانا چاہتا تھا مگر خدا تعالیٰ کی مصلحت تھی کہ چونکہ خدا تعالیٰ شرک کو مٹانا چاہتا تھا.اس لئے اس نے کمزور انسان کو اس کام کے لئے چنا.پس اس نے مجھے اس منصب پر اس لئے کھڑا نہیں کیا کہ میں سب سے نیک، بڑا عارف اور خدا کا زیادہ مقرب تھا.بلکہ اس لئے چنا کہ دنیا مجھے حقیر، جاہل ، عقل سے کورا فسادی ، فریبی سمجھتی تھی.خدا نے چاہا کہ وہ لوگ جو مجھے ایسا ہیں ان کو بتائے کہ یہ سلسلہ ان لوگوں پر نہیں کھڑا ہوا.جو اپنے آپ کو بڑے بڑے
لوم جلد ۴ ۴۱۸ خطاب جلسہ سالانہ سے امار ستون سمجھتے ہیں بلکہ میرے ذریعہ کھڑا ہے.اور میں اسے اس پر کھڑا کر سکتا ہوں جس کو تم ناگا سمجھتے ہو.پس چونکہ خدا تعالٰی نے مجھے توحید کے دکھلانے اور شرک کے مٹانے کے لئے کھڑا کیا ہے.اس لئے یہاں میرے علم، میری قابلیت کا سوال نہیں بلکہ خدا کے فضل کا سوال ہے کہ وہ کس کے ساتھ ہے.حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو علم دیا گیا اس کا جب مخالفین مقابلہ نہ کر سکے تو انہوں نے کہدیا کہ مرزا صاحب نے عرب چھپا کر رکھا ہوا ہے اس سے عربی لکھواتے ہیں.پھر کہتے کہ مولوی نور الدین صاحب عربی لکھ کر دیتے ہیں حالانکہ حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود کو عربی کیا لکھ کر دینی تھی.جب آپ فوت ہو گئے تو اس کے بعد مولوی صاحب نے اردو میں بھی کوئی کتاب نہ لکھی.پھر کچھ ایسے لوگ تھے جو کہتے تھے کہ یہ سلسلہ مرزا صاحب پر چل رہا ہے.کیونکہ یہ بڑے ساحر اور ہوشیار ہیں.لیکن جب آپ کو خدا نے وفات دی اس سال سالانہ جلسہ پر سات سو آدمی آئے تھے اور بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا.مگر آپ کی وفات کے بعد ترقی کی طرف جماعت کا قدم بڑھتا ہی گیا.اور چھ سال کے بعد جو جلسہ ہوا.اس میں ۲۳ سو کے قریب آدمی آئے.پھر اس وقت یہ کہا گیا کہ اصل بات مولوی نور الدین صاحب ہی کی تھی.یہ مشہور طبیب ہے اور بڑا عالم اس لئے لوگ اس کے پاس آتے ہیں اس کی وفات کے بعد یہ سلسلہ مٹ جاوے گا.یہ تو مولوی وغیرہ کہتے.اور جو نئے تعلیم یافتہ تھے وہ یہ خیال کرتے کہ کچھ انگریزی خواں ہیں ان پر یہ سلسلہ چل رہا ت ہے.جب لوگوں میں اس قسم کے خیالات پیدا ہونے شروع ہوئے تو خدا نے نہ چاہا کہ اس کے سلسلہ کے قیام میں کسی انسان کا کام شامل ہو اس لئے ادھر تو اس نے حضرت مولوی نورالدین جیسا جلیل القدر انسان دفات دیگر جدا کرایا اور ادھر وہ لوگ جو اس سلسلہ کے رکن سمجھے جاتے تھے ان کو توڑ کر الگ کر دیا.اور اس کے بعد جو جلسہ ہوا اس پر خدا نے دکھا دیا کہ اس کی ترقی میں کسی انسان کا ہاتھ نہیں.چنانچہ اس سال تین ہزار کے قریب لوگ آئے اور کئی سونے بیعت کی.تو ان سب کو الگ کر کے خدا تعالیٰ نے مجھ جیسے کمزور کے ذریعہ اپنے سلسلہ کو ترقی دے کر بتایا کہ اس میں کسی انسان کا دخل نہیں ہے بلکہ جو کچھ ہو رہا ہے وہ خدا ہی کے فضل سے ہو رہا ہے.ہاں ہر ایک کے ایمان کے مطابق اس سے سلوک کیا.حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول سے ان کے ایمان کے مطابق سلوک کیا اور ان کے مدارج کو بلند کیا.اور ان لوگوں سے ان کے ایمان کے مطابق سلوک کیا اور جماعت سے علیحدہ کر دیا.ہم خدا کے ہاتھ
العلوم جلد ۴۱۹ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء میں ہتھیار کی طرح ہیں.اور تلوار خواہ اچھی ہو یا بری.جب اچھے چلانے والے کے ہاتھ میں آجائے تو اچھا ہی کام کرتی ہے.وہ لوگ جنہوں نے صرف مجھے دیکھا انہوں نے غلطی کی.انہیں چاہئے تھا کہ یہ دیکھتے کہ میں کس کے ہاتھ میں ہوں.غرض ان لوگوں سے فیصلہ مشکل نہیں.وہ آئیں اور انہیں معیاروں سے فیصلہ کر لیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مخالفین سے فیصلہ کرنا چاہا.یہی ہماری اور ان کی صلح ہے اور اسی طرح امن قائم ہو سکتا ہے.اب میں چند اور باتیں مختصر طور پر آپ لوگوں کی توجہ کے لئے بیان کرتا ہوں.اول یہ ہے کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے بعض نئے راستے کھولے ہیں.پانچ سال جو جنگ رہی ہے اس کی وجہ سے تبلیغ کے راستے بند تھے.لیکن اس کے خاتمہ کے ساتھ ہی دنیا میں عظیم الشان تغیر واقع ہو گیا ہے.اور لوگوں کی توجہ دنیا سے ہٹ کر خدا کی طرف ہو رہی ہے.اس کی وقت لوگوں کے دل گرم ہیں.اور یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ گرم لوہے پر چوٹ اچھا نشان پیدا کرتی ہے.آج سے کچھ سال بعد مائیں اپنے مرنے والے بچوں کو بھول جائینگی.بیویاں اپنے علیحدہ ہو جانے والے خاوندوں کو فراموش کر دیں گی.بیٹے اپنے مرنے والے باپوں اور باپ اپنے مرنے والے بیٹوں کو یاد سے اتار دیں گے.لیکن اس وقت سب کا غم تازہ ہے اور سب کے دل چھلے ہوئے ہیں.اس وقت عورتوں ، بچوں اور ماؤں، باپوں کے آنسو نہیں تھے.اور ہزاروں نہیں لاکھوں نہیں کروڑوں گھر تباہ و برباد ہو گئے ہیں.جس سے دنیا کے دل ہل گئے ہیں اور وہ خدا کی باتیں سننے کے لئے پہلے کی نسبت بہت زیادہ تیار اور آمادہ ہے.اب وہ لوگ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے خون کی ندیاں بہتی دیکھی ہیں ان کے دل بہت نرم ہو چکے ہیں.مولوی ثناء اللہ صاحب اپنے گھر بیٹھے ہوئے کہدیں کہ جنگ کے متعلق مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو کہدیں لیکن فرانس کی جنگ سے واپس آیا ہوا یہ نہیں کہہ سکتا.کیونکہ و سب نظارہ اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہے.چنانچہ کئی شخص جو جنگ سے واپس آئے انہوں نے کہا کہ خدا کی قسم ، جنگ میں ہم نے وہی نقشہ دیکھا جو حضرت مرزا صاحب نے الفاظ میں کھینچا ہے.جنگ کے ایام میں فرانس سے ایک دوست نے لکھا تھا کہ اس وقت ہم جس مقام پر ہیں اس کی ایک طرف تو خون کی ندیاں بہہ رہی ہیں اور دوسری طرف چنار کے درخت ہیں جن کا رنگ بھی خون کی طرح ہی ہے.اس خط کے ساتھ انہوں نے چنار کا ایک پتا بھی بھیجا تھا جس کا 83.
العلوم جلد ۴۲۰ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء رنگ نہایت گہرا سرخ تھا اور جسے ہوئے خون کی طرح معلوم ہو تا تھا.تو مولوی ثناء اللہ صاحب کی امر تسر میں بیٹھے ہوئے کہتے ہیں کہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تو کہتے رہیں.ہمارا کام ان کو منوانا اور ہدایت دیتا نہیں.وہ تو کھڑے ہی اس غرض سے کئے گئے ہیں کہ احمدی جماعت کو بیدار کریں.لوگ کہتے ہیں وہ شوخی میں بہت بڑھ گئے ہیں ان کو عذاب کیوں نہیں آتا.میں کہتا ہوں کہ اگر ان کو عذاب آجائے تو کئی لوگ آرام کی نیند سو کر اپنے کام سے غافل ہو جائیں.چونکہ اللہ تعالیٰ نہیں چاہتا کہ تم پر غفلت طاری ہو اس لئے اس نے ہوشیار کرنے کے لئے ان کی کو کھڑا کیا ہوا ہے.اور اگر وہ اور ان کے ساتھی بیٹھ گئے تو پھر ان کی جگہ اور لوگ کھڑے کر دیئے جاویں گے.میرے خیال میں اگر ہمارے مخالفین میں اس قسم کے لوگ نہ ہوتے تو گزشتہ چھ سال میں کئی ایک لوگ ان کے ساتھ مل جاتے.کیونکہ وہ لوگ جو اب ہم سے بالکل الگ ہو گئے ہیں وہ ہر وقت اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ غیر احمدیوں کی آپس میں اچھی تصویر میں بنا کر جماعت کے لوگوں کو ان کی طرف کھینچ کر لے جائیں.لیکن جب وہ مولوی ثناء اللہ جیسے لوگوں کو دیکھتے تو ان کی طرف مونہہ کرنا بھی پسند نہ کرتے.پس کسی کے دل میں یہ خیال کیوں آتا ہے کہ مولوی ثناء اللہ مرے نہیں.خدا تعالیٰ اس وقت تک ان کو مہلت دے گا جب تک ان کا کوئی اور قائمقام کھڑا نہ ہو جائے.اور جب تک ان کے ساتھیوں کے دلوں پر انہیں کے ادعاء کے مطابق لمبی عمر پانے کا مفہوم خوب اچھی طرح نقش نہ ہو جائے.اگر کوئی چاہے کہ مولوی ثناء اللہ ہلاک ہو جاویں تاکہ آرام مل جائے تو یہ درست نہیں.اگر خدا تعالیٰ ان کو ہلاک کرنا چاہتا تو ان کے ہاتھوں سے وہ تحریریں نہ لکھواتا جو ۱۹۰۷, ۱۹۰۸ء کے اہلحدیث (رسالہ) میں وہ لکھ چکے ہیں.خدا ہمیں ست بیٹھنے نہیں دینا چاہتا.کیونکہ اس وقت ہمارا آرام کرنا ہمارے لئے ایسا ہی نقصان دہ ہے جیسا کہ ایک خطرناک جنگل میں کسی کا آرام حاصل کرنے کے لئے سو رہنا.اسے تو جاگنے کی ضرورت ہے نہ کہ سونے کی.غرض یہ ہمارے لئے آرام کرنے کا وقت نہیں ہے.ہم نے ساری دنیا کو ہدایت کی طرف لانا ہے.گو اس میں شک نہیں کہ انسان سیرت لوگوں کو ہی ہم سمجھا سکتے ہیں نہ بہائم سیرت لوگوں کو.حضرت مسیح موعود ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ چند بنے بیٹھے ہوئے آپس میں کہہ رہے تھے کہ اگر کوئی ایک پاؤ تل کھالے تو اسے پانچ روپیہ انعام دیں گے.پاس سے کوئی جاٹ گذرا وہ سن کر کہنے لگا سلے ( پنجابی میں تل کے پودے کو کہتے ہیں) سمیت یا یونی.انہوں نے جواب دیا کہ سردار صاحب ہم.
نلوم چاند سم ۴۲۱ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۹۱۹ آدمیوں کی بات کر رہے ہیں آپ کی نہیں.غرض ہم نے سمجھانا ہے مگر آدمیوں کو جو اپنے اندر خوف خدا رکھتے ہیں نہ ان لوگوں کو جو خشیت اللہ سے خالی ہو کر دائرہ اصلاح سے آگے نکل جاتے ہیں.اور جن کو سمجھانا ہے ان کے دل اس وقت اس قدر ہلے ہوئے ہیں کہ وہ آگے سے بیہودہ باتیں نہ بنا ئیں گے.وہ پکھل چکے ہیں.اور جس طرح پگھلے ہوئے سونے چاندی کو جس سانچے میں ڈھالیں ڈھل جاتا ہے.اسی طرح یہ بھی ڈھل جائیں گے.فرانس، آسٹریا، روس، میسو پٹا میا، افریقہ ، شام وغیرہ کے میدانوں سے لائے ہوئے لوگ تمام کے تمام یا ان کا اکثر حصہ اور ان سے تعلق رکھنے والے بے شمار لوگوں کو ہمیں سمجھانا ہے.اور وہ ضرور سمجھیں گے.اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں جب ان کے سامنے رکھی جائیں گی تو وہ سن کر کانپ اٹھیں گے.پس اب ہمارے لئے تبلیغ کے دروازے کھل گئے ہیں.بعض لوگ چیچا کرتے تھے کہ ہم پر بہت بوجھ پڑا ہوا ہے.مگر دراصل بوجھ پڑنے کا زمانہ اب آیا ہے.اس میں شک نہیں کہ اس وقت تک ہماری جماعت کے لوگوں کو بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑی ہیں مگر جس دروازہ کے کھلنے کے لئے یہ قربانیاں کی جاتی رہی ہیں وہ اب کھلا ہے.اور مکان میں داخل ہونے کا اب وقت آیا ہے.پس وہ لوگ جو پہلے کسی ایک ضرب پر گھبرا جاتے تھے سن لیں کہ اب ضرب پر ضرب پڑے گی.پہلے سال میں کبھی ایک آدھ بار غیر معمولی چندہ دینا پڑتا تھا.لیکن اب اس سال میں متعدد بار غیر معمولی چندہ دینا ہو گا.کیونکہ خدا کے دین کے پھیلنے کے اب دن آئے ہیں.موجودہ حالات اور ایک اور رویا کے ماتحت مجھے تبلیغ کی طرف خاص خیال پیدا ہوا ہے.وہ رویا یہ ہے میں نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود کہیں سے تیزی کے ساتھ گھر میں آئے ہیں.اور میں نے آپ کو کہا ہے کہ آپ اتنی دیر کے بعد آئے ہیں اب کچھ عرصہ یہاں ٹھہریں.آپ نے فرمایا نہیں میں نہیں ٹھر سکتا.میں پانچ سال امریکہ رہا ہوں اور اب حکم ہوا ہے کہ بخارا جاؤں.اس سے میں نے سمجھا ہے کہ امریکہ حق کے قبول کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے اور بخارا تیار ہو رہا ہے اس لئے ایک ایک مشن وہاں ضرور قائم ہونا چاہئے.اسی طرح اور ممالک میں مشن قائم کرنے کی ضرورت ہے.افغانستان میں سید عبد اللطیف صاحب مرحوم کا خون پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ اے احمد یو! میرا خون اس سرزمین میں احمدیت کے لئے بہایا گیا.اب تم بتاؤ تم نے میرے لئے کیا غیرت دکھلائی اور اس ملک میں کیا کام کیا؟ اس کا جواب اس وقت
دم جلد ۳ ۴۲۲ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ 1414ء ہمارے پاس کیا ہے کچھ بھی نہیں.لیکن کیا ہمیں اس کا کچھ جواب نہیں دینا چاہئیے ؟ اور اس خون کا بدلہ نہیں لینا چاہئے؟ ضرور لینا چاہئے لیکن اسی طریق سے جو حضرت مسیح موعود نے بتایا ہے اور جو یہ ہے کہ کابل کی سرزمین سے اگر ایک احمدیت کا پودا کاٹا گیا ہے.تو اب خدا تعالی اس کی بجائے ہزاروں وہاں لگائے گا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کے قتل کا بدلہ یہ نہیں رکھا گیا کہ ہم ان کے قاتلوں کو قتل کریں اور ان کے خون بہا ئیں کیونکہ قتل کرنا ہمارا کام نہیں.ہمیں خدا تعالیٰ نے پر امن ذرائع سے کام کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے نہ کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے.پس ہمارا انتقام یہ ہے کہ ان کے اور ان کی نسل کے دلوں میں احمدیت کا بیج بو ئیں اور انہیں احمدی بنا ئیں.اور جس چیز کو وہ مٹانا چاہتے ہیں اسکو ہم قائم کر دیں.لیکن اس وقت تک سید عبد اللطیف کا خون بغیر بدلے کے پڑا ہے.ان کو خدا تعالٰی نے توفیق دی کہ خدا کی راہ میں اپنی جان دیں اور انہوں نے دی.ان کے علاوہ اب بھی ہماری جماعت میں سے اسی طرح جان دینے کو تیار ہیں.اور ہزاروں اس بات پر آمادہ ہیں کہ ان کے تمام اموال ، عزیز اور رشتے دار خدا کی راہ میں قربان ہو جائیں.مگر میں کہتا ہوں اس کی وقت تک خدا کے لئے جان دینے کا فخر حاصل کس کو ہو سکا.سید عبد اللطیف صاحب اور ان کے شاگرد کو.پس ان کو یہ فضلیت حاصل ہو گئی.مگر اب ہمارا یہ کام ہے کہ ان کے خون کا بدلہ لیں اور ان کے قاتل جس چیز کو مٹانا چاہتے ہیں اسے قائم کر دیں اور چونکہ خدا کی برگزیده جماعتوں میں شامل ہونے والے اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں کہ اپنے دشمنوں پر احسان کرتے ہیں.اسلئے ہمارا بھی یہ کام نہیں ہے کہ سید عبد اللطیف صاحب کے قتل کرنے والوں کو دنیا سے مٹا دیں اور قتل کر دیں بلکہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لئے قائم کر دیں اور ابدی زندگی کے مالک بنا دیں.اور اس کا طریق یہی ہے کہ انہیں احمدی بنالیں.لکھا ہے کہ ایک آفیسر نے اپنے ایک ماتحت کو جس کا کوئی قصور نہ تھا یو نہی گالیاں دیں.اور کہا کہ تو بالکل نکما اور فضول انسان ہے.اتفاقاً ایک جنگ شروع ہو گئی جس میں اسی افسر کو حکم ہوا کہ فلاں قلعہ کو جا کر فتح کرو.اس نے اس کے لئے بہت کوشش کی مگر ہر دفعہ اسے شکست ہی ہوئی.آخر اس نے اعلان کیا کہ کچھ ایسے لوگ تیار ہوں جو یہ سمجھ کر حملہ کریں کہ ہم مرنے کے لئے جا رہے ہیں واپس آنے کے لئے نہیں جا رہے.یہ اعلان اس نے ایک بار کیا تو کسی نے جواب نہ دیا.دوسری بار کیا تو بھی کسی نے جواب نہ دیا جب تیسری بار اعلان کیا تو اسی شخص نے اپنے آپ کو پیش کیا جسے اس نے
٢٣ سوم خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ 1914ء گالیاں دی تھیں.اس کو دیکھ کر اوروں نے اپنے آپ کو بھی پیش کرنا شروع کر دیا.ان سب کا اس کو افسر بنا کر حملہ کرنے کے لئے بھیجا گیا.جب آگے سے دشمن نے گولیاں چلانی شروع کیں تو کچھ ان میں سے بھاگنے لگے مگر وہ آگے ہی آگے بڑھتا گیا.اور اس کو دیکھ کر دوسرے بھی آگے بڑھتے گئے.حتی کہ انہوں نے جا کر قلعہ پر قبضہ کر لیا اس فتح کی خوشی میں جب بڑے افسر نے آکر اس سے ہاتھ ملانا چاہا تو وہ پرے ہٹ کر کہنے لگا آپ وہی ہیں جنہوں نے مجھے گالیاں دی تھیں.اس نے کہا پھر تم نے میرے کہنے پر کیوں کام کیا.اس نے کہا میں نے اس لئے کیا کہ آپ سے بدلہ لوں.اور شریف کا بدلہ لینا یہی ہوتا ہے کہ اپنے دشمن کو احسان سے شرمندہ کرے.اور اسے اپنی دشمنی پر افسوس کرنے کے لئے مجبور کرے.تو ہمیں سید عبد اللطیف صاحب کے خون کا بدلہ کابل کے لوگوں سے لینا ہے مگر اس طرح جس طرح شریف لیا کرتے ہیں.انہوں نے تو احمدیت کے نام کو مٹایا تھا ہم اس کو قائم کر دیں.پس کابل ہمیں پکار پکار کر بلا رہا ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اپنا کوئی مشن بھیجیں.پھر ایران بلا رہا ہے.دیکھو کوئی شریف انسان برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اس پر احسان کرے اور وہ اس کا بدلہ نہ دے.ایران نے تم پر احسان کیا ہے اور بہت بڑا احسان کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَوْ كَانَ الْإِيْمَانَ مُعَلَّقاً بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ مِنْ فَارَسَ اس وقت جب کہ ایمان ژیا پر چلا جائے گا ایک ایران کا انسان تم کو ایمان واپس لا کر دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور ایک فارسی النسل نے تمہیں ایمان واپس لا کر دیا.اب کیا تمہارا فرض نہیں ہے کہ تم اس کے رشتہ داروں اور اہل وطن کو اس نعمت سے بہرہ ور کرو.ضرور ہے لیکن کیا تم نے ان کے احسان کا بدلہ دیا؟ نہیں ہرگز نہیں.اس لئے فارس بھی پکار رہا ہے کہ میری طرف منسوب ہونے والے ایک انسان نے تم پر احسان کیا اور تمہیں ایمان جیسی نعمت دی.اس کے بدلے میں تم نے میرے ساتھ کیا سلوک کیا.پس تم بھی اس کے اہل ملک پر احسان کرو اور اس نعمت میں شامل کرو.پھر اس سے بھی بڑھ کر عرب پکار پکار کر کہہ کر رہا ہے کہ تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کا جس نے تمہارے آباء و اجداد کو زندہ کیا اور پھر جب تم مر گئے تو اس کے غلاموں میں سے ایک غلام نے تم کو زندہ کیا.کیا بدلہ دیا ہے؟ اس کے اہل وطن ہونے کی وجہ سے حمد بخاری کتاب التفسير باب را عمال حقو النجم میں الفاظ اس طرح ہیں " لو كان الايمان عند الثريا لناله رجال اور جل من هؤلاء نيز المعجم الكبير جلد ۱۸ صفحه ٣٤ الحافظ ابی القاسم سليمان بن احمد طبرانی میں ہے لو كان الايمان معلقا بالثريا لناله رجال من فارس
انوار العلوم جلدم پیدا سمسم خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء ہمارے تم پر حقوق تھے.ان حقوق کو تم نے کس طرح ادا کیا ہے.پس کابل سید عبد اللطیف صاحب شہید کے خون کا بدلا مانگ رہا ہے.ایران اپنے فارسی النسل انسان کے احسان کا معاوضہ طلب کر رہا ہے.اور عرب کا دعویٰ سب سے وزنی ہے.جو کہتا ہے کہ دین کی بنیاد میرے اندر یدا ہونے والے انسان نے ڈالی ہے پھر کیا وجہ ہے جب اس کی قوم اور اس کے وطن کے لوگ دین کے پیاسے ہیں تو تم نے ان کی خبر تک نہیں لی.پھر وہ امریکہ جس میں حضرت مسیح موعود پانچ سال رہے وہ بلا رہا ہے.اور بخارا جس میں اب چاہتے ہیں وہ بلا رہا ہے.فی الحال یہ مشن ہیں جنہیں فورا قائم کرنے کی ضرورت ہے اور ان کے قیام کے لئے ابھی سے کوشش شروع ہو جانی ضروری ہے.امریکہ و بخارا ایران ، کابل اور عرب یہ پانچ مشن بنتے ہیں.اور جو ان سے پہلے مشن قائم ہیں وہ الگ ہیں.اور ان کے لئے بھی مبلغ بھیجنے کی ضرورت ہے.مثلاً ایک مشن جو نائیجریا میں ہے.وہاں کے احمدی بار بار لکھتے ہیں کہ ہم تو بغیر تمہاری کوشش کے احمدی بن گئے ہیں تم نے ہمارے لئے کوئی کوشش نہ کی تھی.لیکن اب کوئی مبلغ بھیجو جو ہمیں تعلیم دے تاکہ ہم دوسروں کو احمدی بنا سکیں.ان لوگوں نے کبھی کسی احمدی کا نام بھی نہیں سنا تھا.اتفاقاً کہیں سے قادیان کا نام سن لیا اور یہاں خط لکھ دیا.اس کا جواب جب یہاں سے گیا تو احمدی ہو گئے اب وہاں مبلغ بھیجنے کی ضرورت ہے.غرض یہ نئے ملک ہیں جو ہمیں تبلیغ کے لئے بلا رہے ہیں.ان میں تبلیغ کرنے کے لئے ہمیں کوشش کرنی پڑے گی.بعض لوگ کہتے تھے کہ انگلستان میں مشن قائم کرنے کی وجہ سے جماعت پر بہت بوجھ پڑ گیا ہے.میں کہتا ہوں ٹھیک ہے وہ بوجھ ہے لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ خدا سے عشق کرنا کوئی آسان کام نہیں.کسی نے کہا ہے.عشق ہے روتا ابتدائے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ہے کیا تم لوگوں نے خدا سے محبت لگائی ہے.پس ابھی یہ کیا بوجھ ہے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا.دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يَتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت : (۳) کیا یہ ہو سکتا ہے کہ مسلمان صرف یہ کہکر چھوٹ جائیں کہ ہم ایمان لے آئے اور انکا امتحان نہ لیا جائے.ہر گز نہیں.پس تم کو بھی اسی طرح بھٹیوں میں ڈالا جائیگا.اسی طرح تمہارے مالوں ، جانوں اور رشتہ داروں کو قربان کرنا پڑے گا.جس طرح تم سے پہلے عرب کے بہادروں نے قربان کیا.اس وقت صرف سید عبد اللطیف صاحب کی شہادت کافی
دم جلد ۴ ۴۲۵ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء نہیں بلکہ بہت سی شہادتوں کی ضرورت ہے.اور اب تمہیں وہاں جانا پڑے گا جہاں ممکن ہے جانیں بھی دینی پڑیں.کیونکہ ہر جگہ تمہیں انگریزی حکومت نہیں ملے گی.بلکہ ایسے بھی ملک ہوں گے جہاں تمہیں بیدردی سے قتل کر دینا روا رکھا جائے گا.مجھے کئی ایسے علاقوں کا علم ہے جہاں عیسائیوں کی مشنری عورتیں قتل کی گئیں.لیکن وہاں اوروں نے جانا چھوڑ نہیں دیا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ گئی ہیں.پس جب عیسائیوں کی عورتیں مذہب کے لئے قتل ہونے کی کوئی پرواہ نہیں کرتیں تو کیا ہمارے مرد اس کے لئے تیار نہ ہوں گے ؟ میں جانتا ہوں کہ ہزاروں تیار ہوں گے.مگر میں انہیں متنبہ کرتا ہوں کہ ابھی سے تیار ہو جائیں کیونکہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ احمدیت کو تمام دنیا میں پھیلا دے.میں نہیں جانتا کہ وہ زمانہ کب آئے گا جب ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی.لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ایسا زمانہ آئے گا ضرور جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے اور جو مر جائیں گے وہ آسمان پر اس کا نظارہ ملاحظہ کر سکیں گے.کیونکہ اب ہمارے لئے کامیابیوں کے دروازے کھلنے والے ہیں اور وہ ضرور کھلیں گے.لیکن اپنے مالوں اپنی جانوں اپنی عزتوں، اپنی آبروؤں کے چڑھاوے چڑھا کر اپنے ملکوں میں، اپنے وطنوں اپنے عزیزوں اپنے رشتہ داروں کے چڑھاوے دے کر.اور جس وقت یہ دروازے کھل جائیں گے.اس وقت دنیا میں تمہاری وہ عزت اور وہ شان ہو گی کہ آج جو لوگ بڑے بڑے سمجھے جاتے ہیں یہ یا ان کے پیچھے کھڑے ہونے والے تمہارے پاؤں کی خاک کو سرمہ بنانا اپنا فخر مجھیں گے.آج تم ذلیل سمجھے جاتے ہو تمہیں کوئی عزت حاصل نہیں لیکن وہ وقت آنے والا ہے جب تمہارے ساتھ تعلق رکھنا لوگ اپنی عزت سمجھیں گے.دیکھو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اسلام سے پہلے کی کیا حالت تھی.جب آپ خلیفہ ہوئے آپ کے والد زندہ تھے.کسی نے نے ان کو جاکر خبر دی کہ مبارک ہو ابو بکر خلیفہ ہو گیا.انہوں نے پوچھا.کو نسا ابو بکر ؟ اس نے کہا آپ کا بیٹا.اس پر بھی انہیں یقین نہ آیا اور کہا کوئی اور ہو گا.لیکن جب ان کو یقین دلایا گیا.تو انہوں نے کہا اللہ اکبر - محمد ال کی بھی کیا شان ہے کہ ابو قحافہ کے بیٹے کو عربوں نے اپنا سردار مان لیا ر البداية والنهاية جلد 2 صفحه ۵۰ مطبوعہ بیروت ) غرض وہ ابو بکر جو دنیا میں کوئی بڑی شان نہ رکھتا تھا محمد ﷺ کے طفیل اس قدر عزت پا گیا کہ اب بھی لاکھوں کی انسان اس کی طرف اپنے آپ کو فخر کے ساتھ منسوب کرتے ہیں.پس تم آج ذلیل اور حقیر سمجھے جاتے ہو مگر ان قربانیوں کے بعد تمہیں وہ عزت اور تو قیر حاصل ہو گی جو چاند اور سورج کو
العلوم جلد ۴۲۶ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء بھی حاصل نہیں.کیونکہ تم ہمیشہ کے لئے دنیا کو روشن کرنے کا باعث بنو گے اور حقیقت اور صداقت تمہارے ذریعہ قائم ہوگی.آج تم دنیا کے سامنے جو بات پیش کرتے ہو.اس کی تم سے سند طلب کی جاتی ہے.لیکن ایک زمانہ آئیگا جب کہ قرآن اور حدیث اور تحریرات حضرت مسیح موعود کے بعد تمہارے قول پیش کئے اور مانے جائیں گے.پس خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ اسوقت جو کوششیں اور قربانیاں تم کرو گے.وہ بے فائدہ نہیں جائیں گی بلکہ بڑے بڑے عظیم الشان نتائج پیدا کریں گی.ہاں کرنی ضرور پڑیں گی اور جو کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا وہ پیچھے ہٹا دیا جاوے گا.اور جو ٹھہر جائے گا وہ گرے گا اور اگر مگر کرپس جائیگا.اس لئے اب تو سلامت وہی رہ سکے گا جو خدا کی طرف بڑھ بڑھ کر قدم مارے گا اور آگے ہی آگے چلے گا.اور جو کھڑا ہونا چاہے گا وہ کھڑا نہیں ہو سکے گا بلکہ مونہہ کے بل گر پڑے گا.پس آپ لوگوں کو بالکل تیار ہو جانا چاہئے.کیونکہ در اصل وسیع کام کا زمانہ اب آیا ہے.اور اب کام اتنا وسیع ہو گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی.اس کے علاوہ میں اس بات کی طرف بھی توجہ دعوت الی اللہ ہر احمدی کا فرض ہے دلانا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں کا ذاتی طور پر بھی فرض ہے کہ تبلیغ کریں.میرے نزدیک اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ تبلیغ کے لئے کھڑا ہو جائے.تو اسے ضرور توفیق مل جاتی ہے اور کامیابی حاصل ہو جاتی ہے.کچھ عرصہ کی بات ہے میں نے ایک نکاح پڑھا جس کا مہر دس ہزار مقرر ہوا.نکاح پڑھوانے والے نے سمجھا کہ مہر رواج کے طور پر ہے.کس نے لینا اور کس نے دیتا ہے.لیکن میں نے اسے کہا کہ اس کا ادا کرنا ضروری ہے.تمہیں ضرور ادا کرنا چاہئے.اس پر اس نے کہا کہ میں نے ادا کرنے کی نیت کرلی ہے.میں نے کہا کہ اگر تم نے نیت کرلی ہے تو خدا ادا کرنے کی ضرور توفیق دے گا.چنانچہ اس کے بعد پچیس تیس ہزار کی جائیداد اسے گورنمنٹ کی طرف سے مل گئی.تو جس بات کی کی نیت خدا کے لئے کرلی جائے اس کے کرنے کی خدا تعالٰی توفیق عطا کر دیتا ہے.پس اگر ہر ایک احمدی نیت کرلے کہ اگلے سال تک کم از کم ایک احمدی بنانا ہے.اور اس پر پختہ طور سے قائم رہے تو ضرور اسے کامیابی ہو گی.کیونکہ نیتوں کے پھل خدا تعالٰی ضرور دیتا ہے.پس تم میں سے کوئی یہ مت سمجھے کہ وہ کچھ نہیں کر سکتا.تم اپنے آپ کو کمزور مت سمجھو.بے شک تم کمزور ہو مگر یہ بھی تو خیال کرو کہ تم وہ ہو جنہوں نے حق قبول کیا ہے.اور تمہارے بالمقابل
۴۲۷ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء وہ ہیں جو حق سے بالکل بے علم اور انجان ہیں.پس اگر تم کم علم ہو تو کوئی حرج نہیں کیونکہ جن کو تمہیں پڑھانا ہے وہ تمہارے مقابلہ میں عشر عشیر بھی نہیں جانتے.اور پھر تمہیں ایک ایک جلسہ پر اتنا علم دید یا جاتا ہے کہ ہمارے مخالفین مولوی پندرہ بیس سال کیا ساری عمر میں بھی نہیں دے سکتے.اور انہوں نے دینا بھی کیا ہے.ان کے پاس کچھ ہے ہی نہیں.جو کچھ ہم بیان کرتے ہیں وہ اس کا عشر عشیر بھی بیان نہیں کر سکتے.وجہ یہ کہ ہم وہ بیان کرتے ہیں جو خدا تعالٰی ہمیں سکھاتا ہے.لیکن وہ دوسروں کے اترے ہوئے پیراہن پہن کے کھڑے ہوئے ہیں.پس کسی کی طاقت نہیں ہے کہ ہمارے علوم کا مقابلہ کر سکے لیکن اس میں ہماری کوئی خوبی نہیں ہم تو خدا تعالیٰ کے خاکسار بندے ہیں ہمیں جو کچھ دیا گیا ہے وہ اس نے اپنے فضل سے دیا ہے.پس جب ہم پر اس قدر خدا کا فضل ہے اور اس فضل سے ہر ایک احمدی کو حصہ دیا جاتا ہے تو پھر ہر ایک کا فرض ہے کہ تبلیغ کے فرض کو ادا کرے.کیا ہم نے حق کو قبول نہیں کیا.کیا صداقت ہمارے پاس نہیں ہے.کیا مخالفین کے جھوٹے ہونے کے ہمارے پاس دلائل نہیں ہیں.اگر یہ سب تو کچھ ہے تو پھر ہمارا چھوٹے سے چھوٹا آدمی انکے مولوی پر بھاری ہے کیونکہ اس کے ساتھ خدا ہے.اور کون ہے جو خدا کا بوجھ اٹھا سکے.پس تم کوئی نکمی اور بے کارے نہیں ہو.تم کوئی کوڑا کرکٹ نہیں ہو.خدا نے تو ہمیں یہ بتایا ہے کہ دنیا کی ہر ایک چھوٹی سے چھوٹی چیز کام کی ہے اور تم تو وہ ہو جو سلسلہ کی بنیاد ہو.اور خدا نے تمہارے ذریعہ اپنا جلال ظاہر کرتا ہے.اگر تم کسی کام کے نہیں ہو تم میں زندگی کی روح نہیں ہے تو کیا خدا مردوں کے ذریعہ اپنا جلال ظاہر کرنا چاہتا ہے.نہیں تم میں بہت کچھ ہے اور تم بہت کچھ کر سکتے ہو.اس لئے اگر تم ایمان کی طاقت لے کر کھڑے ہو جاؤ تو پھر کوئی مولوی بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکے گا.میں نے تو تجربہ کیا ہے کہ وقت پر خدا تعالیٰ ایسے علوم عطا کر دیتا ہے جو پہلے نہیں آتے.اور ایسے دریا بہا دیتا ہے کہ اس علم کے بڑے بڑے عالم بھی حیران رہ جاتے ہیں.پس اگر ہر سال ہر ایک احمدی یہ نیت کرلے کہ کم از کم ایک شخص کو ہدایت کی طرف لانے کی کوشش کروں گا.تو خدا تعالیٰ بہت سے لوگوں کو اس میں کامیاب ہونے کی توفیق دے گا اور جن کی نیت زیادہ خالص ہوگی انہیں اور بھی زیادہ کامیاب کرے گا.پس چاہئے کہ ہر ایک احمدی پہلے دعا اور استخارہ کرے کہ یا اللہ ! فلاں فلاں شخص کو میں سمجھانے کی نیت کرتا ہوں تو مجھے اس کے سمجھانے اور اسے حق کے قبول کرنے کی توفیق دے.اس کے بعد تبلیغ شروع کر دے.
۴۲۸ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء دوسری بات یہ ہے کہ ہر جگہ انجمنیں قائم کرو اور لیکچروں کی لیکچروں کے ذریعہ تبلیغ مشق کرو.اور دوسرے لوگوں کو اپنے لیکچروں میں شامل کرو..تیسری بات یہ ہے کہ ہر ایک احمدی کی کوشش لوگوں کو قادیان میں لانے کی کوشش ہو کہ سالانہ جلسہ پر یا دوسرے وقتوں میں غیر احمدیوں کو یہاں لائے.کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ جو یہاں آجاتا ہے وہ خالی واپس نہیں جاتا.کیوں؟ جو شیر کی غار میں آجائے وہ پھر واپس نہیں جا سکتا.سوائے اس کے جسے خدا مردار قرار دے کر پرے پھینک دے.کیونکہ شیر مردار نہیں کھایا کرتا.ایسا انسان کو تمہیں زندہ نظر آئے لیکن خدا کے نزدیک مردہ ہوتا ہے.اس لئے وہ پھینک دیتا ہے عام لوگوں میں یہ بات مشہور ہے کہ مرزا صاحب کو جادو آتا تھا.اور بعض لوگ تو کہتے تھے کہ ایک ایسا حلوا پکا کر کھلا دیتے تھے کہ جسکے کھانے کے بعد انسان ان کی ہر ایک بات مان لیتا تھا.چنانچہ ایک مولوی کی نسبت معلوم ہوا کہ وہ مختلف مقامات پر جا کر یہی وعظ کرتا تھا.اور اس نے اپنے ساتھ ایک آدمی رکھا ہوا تھا.جو کھڑا ہو کر کہہ دیتا تھا کہ جو کچھ مولوی صاحب نے کہا ہے بالکل سچ ہے.اور یہ بھی قصہ سناتا تھا کہ ہم چند آدمی مل کر قادیان گئے تھے جہاں ہمیں حلوا دیا گیا.اوروں نے تو کھا لیا لیکن میں نے نہ کھایا.اس کے بعد رفتن منگوائی گئی.جس میں ہم کو بٹھا کر لے گئے.باہر جا کر مرزا صاحب نے مجھے مخاطب کر کے کہا.تم مجھے رسول مانو میں نے کہا میں نہیں مانتا.اس پر انہوں نے مولوی حکیم نور الدین صاحب کی طرف دیکھ کر کہا کیا اسے حلوا نہیں دیا تھا.وہ بیچارے ڈر گئے.اور کہنے لگے میں نے تو اسے اپنے ہاتھ سے حلوا دیا تھا.معلوم ہوتا ہے اس نے کھایا نہیں اس کے بعد انہوں نے مجھے فٹن میں سے اتار دیا اور کہا یہاں سے اسی وقت چلے جاؤ ورنہ مار ڈالے جاؤ گے.تو مخالفین ایک جھوٹے حلوے کا کھانا مشہور کرتے ہیں.مگر میں کہتا ہوں ہاں واقع میں حضرت مرزا صاحب حلوا کھلایا کرتے تھے.اور ایسا حلوا کھلاتے تھے کہ پھر کسی اور حلوے کا مزہ آتا ہی نہیں تھا.پھر کہتے ہیں آپ ساحر تھے ہم کہتے ہیں ہاں ساحر تھے اور ایسا سحر کرتے تھے کہ باطل بالکل بھاگ جاتا تھا.ساحروں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ انسانوں کو بندر بنا دیتے ہیں.لیکن حضرت مرزا صاحب ایسے ساحر تھے کہ ان لوگوں کو جو یہودی صفت ہو کر بندروں سے مشابہ ہو چکے تھے انسان بنا دیتے تھے.پس ان لوگوں کو یہاں لانے کی کوشش کرو.تاکہ انہیں ہدایت نصیب ہو.یہ صورت تبلیغ کے لئے بہت مفید ہے.
وم جلوه ۴ ۴۲۹ خطاب جلسہ سالانہ کے امارچ ۱۹۱۹ء غیر احمدیوں سے رشتہ کرنے کے متعلق اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے مختصر طور پر کچھ کہہ کر ختم کرتا ہوں.مجھے معلوم ہوا ہے کہ اب تک احمدی غیر احمدیوں کو رشتے دیتے ہیں دنیا میں کوئی انسان یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنی اولاد کو آگ میں دھکیل دے پھر تم لوگ اپنی لڑکیوں کو کیوں آگ میں ڈالتے ہو.کیونکہ غیر احمدیوں میں رشتہ کرنا لڑکی کو غیر احمدی بناتا ہے پس اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں جنم میں نہ ڈالو اور اپنے آپ اسے تباہ نہ کرو.غیر احمدیوں کو رشتہ نہ دو بلکہ آپس میں کرو اس وقت بہت سی لڑکیاں لڑکے ہماری جماعت میں بن بیا ہے موجود ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ غیر احمدی غریب احمدیوں کو رشتہ نہیں دیتے ہاں جو آسودہ حال اور با حیثیت ہو اسے دے دیتے ہیں اور افسوس ہے کہ احمدی بھی لیتے ہیں.حالانکہ انہیں چاہئے کہ جب غریب احمدیوں کو غیر احمدی نہیں دیتے تو وہ بھی ان کی لڑکیاں نہ لیں.کیونکہ اگر احمدی امیر غیر احمدیوں کے ہاں رشتے کر لینگے.تو پھر احمدی امیروں کی لڑکیاں کہاں جائینگی.تو جہاں یہ ضروری ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکیاں نہ دیجائیں وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ جب تک کوئی خاص دینی فائدہ نہ ہو ان کی لڑکیاں لی بھی نہ جائیں.پھر ایک نہایت ضروری بات نماز باجماعت ہے اس کے متعلق نماز با جماعت کے متعلق میں نے ایک گذشتہ جلسہ پر بھی کہا تھا کہ نماز جماعت کے بغیر ہو نہیں سکتی سب سے مشکل وقت نماز کا صبح اور عشاء کا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق فرمایا ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ میں عشاء کی نماز میں اپنی جگہ اور کسی کو کھڑا کر کے کچھ لوگوں کے سروں پر لکڑیوں کے گٹھے رکھ کر لیجاؤں.اور جو نماز کے لئے نہ آئے ہوں ان کے گھروں میں آگ لگا کر انہیں بھسم کر دوں (بخاری کتاب الخصومات باب اخراج اهل المعاصي والخصوم من البيوت دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا رحیم انسان جس نے مکہ فتح کر کے اپنے جانی دشمنوں کو کہدیا تھا لا تَشْرِيْب عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - (زاد المعاد بلدا صفحه ۴۲۴ مؤلفه ابن قیم مطبوعہ مطبع میمنتر مصر ) وہ عشاء کی نماز با جماعت نہ پڑھنے والوں کے متعلق کیا کہتا ہے پس تم لوگ نماز باجماعت پڑھنے کی خاص کو شش کرو.ایک اور بات یہ ہے کہ مدرسہ احمدیہ دین کی اشاعت کے لئے قائم کیا گیا ہے اس کے لئے جو آسودہ حال لوگ ہیں انہیں چاہئے کہ اپنا ایک ایک بچہ ضرور دیں.اس وقت تک ایسے
رالعلوم جلد ۴ ۴۳۰ خطاب جلسہ سالانہ ۱۷ مارچ ۱۹۱۹ء لوگوں نے جو اپنے بچوں کا آپ خرچ برداشت کر سکتے ہوں اس طرف بہت کم توجہ کی ہے.اب میں تقریر ختم کرتا ہوں.اللہ تعالٰی آپ لوگوں پر اور مجھ پر فضل کرے اور اپنی حفاظت میں رکھے.آمین
العلوم السلام ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض (ترکی کی حالت زار پر تبصرہ اور مشورہ) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
۳۲ سرم
و العلوم جلد ۴ ۳۳ مهم ترکی کا وں کا فرض أَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرُّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر مجھے کل سترہ ۱۷ تاریخ کو ایک مطبوعہ اعلان ملا ہے جس پر دستخط کرنے والوں میں سے بعض ہندوستان کے سر بر آوردہ اصحاب بھی ہیں.اس اشتہار میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ترکی حکومت کا مستقبل بحالت موجودہ سخت خطرہ میں ہے.اس لئے سب مسلمانوں کو مل کر اس پر صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے تاکہ اصحاب حل و عقد کو معلوم ہو جائے کہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کو کیسی گہری دلچسپی اور لگاؤ ہے.یہ اشتہار مجھے بھی بھیجا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک مطبوعہ چٹھی سید ظہور احمد صاحب وکیل سیکرٹری مسلم کانفرنس کی طرف سے بھی مجھے ملی ہے جس میں اس جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے.اور اس پر مکرم جناب مولوی محمد سلامت اللہ صاحب فرنگی محل نے بھی اپنی جانب سے شمولیت جلسہ کی تاکید کی ہے.چونکہ میں بوجہ بیماری کے اور بوجہ اس کے کہ مجھے وہاں جانے میں کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا وہاں بذات خود نہیں جا سکتا اس لئے میں بذریعہ اس تحریر کے جو اپنے قائمقاموں کے ہاتھ بھیجا ہوں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس مخلصانہ مشورہ پر کافی طور پر غور کیا جاوے گا.ترکوں کے مستقبل کا سوال ایک ایسا سوال ہے کہ جس سے طبعاً ہر ایک مسلمان کہلانے والے کو دلچسپی ہونی چاہئے اور ہے.اور جب تک ان سے ہمدردی کرنی اور ان کی موافقت کرنی شریعت کے کسی اور حکم کے خلاف نہ آپڑے ضروری اور لازمی ہے.جب تک ترک گورنمنٹ برطانیہ سے بر سر پیکار رہے مسلمانان ہند کی ایک کثیر تعداد ہتھیار بند ہو کر ان کے
العلوم جلد ۴ لمسلم ترکی کا مستقبل ! خلاف لڑتی رہی.اور شاید ہزاروں ترک مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے گئے ہوں گے.مگر یہ ان کا فعل اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ ان کو ترکوں سے کسی قسم کا تعلق اور لگاؤ نہیں.بلکہ صرف اسی مسلمہ اصل کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ چھوٹی چیز بڑی چیز کے لئے قربان کی جاتی ہے.چونکہ گورنمنٹ کی فرمانبرداری ان پر مذہباً فرض تھی اور وہ اس کے ممنون احسان تھے انہوں نے اس وقت تک کہ گورنمنٹ برطانیہ کی ترکوں سے جنگ رہی اپنے اس مذہبی فرض کے ماتحت گورنمنٹ برطانیہ کی خاطر اور امن کے قیام کے لئے ایک مسلمان کہلانے والی قوم سے جنگ کی اور ان پر گولیاں چلا ئیں مگر جوں ہی جنگ ختم ہو گئی اور سلطنت برطانیہ کے تعلقات ترکوں سے درست ہو گئے مسلمانوں کی طبعی ہمدردی پھر جوش میں آئی.اور اب ان کی سے ہمدردی کرنا شرعا و عرفا کسی طرح ممنوع نہ تھا.پس اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام عالم اسلام ترکوں کے مستقبل کی طرف افسوس اور شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے.اور یہ بھی درست ہے کہ ان کی حکومت کا مٹا دینا یا ان کے اختیارات کو محدود کر دیتا ان کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچائے گا.مگر اس کی یہ وجہ بیان کرنا کہ سلطان ترکی خلیفۃ المسلمین ہیں درست نہیں.کیونکہ بہت سے لوگ ان کو خلیفۃ المسلمین نہیں مانتے مگر پھر بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں.علاوہ ازیں میرے نزدیک ایسے نازک وقت میں جبکہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرہ میں ہے.اس مسئلہ کو ایسے طور پر پیش کرنا کہ صرف ایک ہی خیال اور ایک ہی مذاق کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں سیاسی اصول کے بھی بر خلاف ہے.ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک معتد بہ حصہ شیعہ مذہب کے لوگوں کا ہے.اور سوائے بعض نہایت متعصب لوگوں کے تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ ترکوں سے ہمدردی رکھتا ہے مگر وہ کسی طرح بھی سلطان ترکی کو خلیفہ المسلمین ماننے کے لئے تیار نہیں.اسی طرح اہلحدیث میں سے گو بعض لوگ خلافت عثمانیہ کے ماننے والے ہوں مگر اپنے اصول کے مطابق وہ لوگ بھی صحیح معنوں میں خلیفۃ المسلمین سلطان کو نہیں مانتے.ہماری احمدیہ جماعت تو کسی صورت میں بھی اس اصل کو قبول نہیں کر سکتی.کیونکہ اس کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قبل از وقت دی ہوئی اطلاعوں کے ماتحت آپ کی صداقت کے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو اس زمانہ کے لئے مسیح موعود اور مہدی مسعود بنا کر مسلمانوں کی ترقی اور قیام کے لئے مبعوث فرمایا تھا.اور
م جلد ۴ ۳۵م ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض اس وقت وہی شخص خلافت کی مسند پر متمکن ہو سکتا ہے جو آپ کا متبع ہو.اور قریباً تمام کی تمام جماعت احمد یہ اس وقت اس عاجز کے ہاتھ پر بیعت خلافت کر کے اس بات کا عملی ثبوت دے چکی ہے کہ وہ کسی اور خلافت کے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.ان تینوں فرقوں کے علاوہ اور فرقے بھی ہیں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں لیکن خلافت عثمانیہ کے قائل نہیں.بلکہ خود اہل السنت والجماعت کہلانے والے لوگوں میں سے بھی ایک فریق ایسا ہے جو خلافت عثمانیہ کو نہیں مانتا ورنہ کیوں کر ہو سکتا تھا کہ ایک شخص کو رسول کریم ای کا صحیح جانشین تسلیم کر کے وہ اس کے خلاف تلوار اٹھاتے.پس اندریں حالات ایسے جلسہ کی بنیاد جس میں ترکوں کے مستقبل کے متعلق تمام عالم اسلامی کی رائے کا اظہار ہ نظر ہو ایسے اصول پر رکھنی جنہیں سب فرقے تسلیم نہیں کر سکتے درست نہیں کیونکہ اس سے سوائے فضا اختلال کے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.و میرے نزدیک اس جلسہ کی بنیاد صرف یہ ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو جس کے سلطان کو مسلمانوں کا ایک حصہ خلیفہ بھی تسلیم کرتا ہے ہٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلاتا ہے نا پسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے.اس صورت میں تمام فرقہ ہائے اسلام اس تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے قائل نہ ہوں.بلکہ باوجود اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے اور سمجھتے ہوں.اس اصل پر متحد ہو کر یک زبان ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں.کیونکہ گو ایک فریق دوسرے کو کافر سمجھتا ہو مگر کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دنیا کی نظروں میں اسلام کے نام میں سب فرقے شریک ہیں.اور اسلام کی ظاہری شان و شوکت کی ترقی یا اس کو صدمہ پہنچنا سب پر یکساں اثر ڈالتا ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک ہمارے سلطان ملک معظم جارج خامس فرمانروائے حکومت برطانیہ ہیں.اور خلیفہ وقت حضرت مسیح موعود کا صحیح جانشین یہ عاجز ہے.مگر باوجود اس کے جماعت احمد یہ اس وقت جب کہ سلطنت برطانیہ کے مفاد اور اس کی عزت کے خلاف کوئی امر نہ ہو ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے.کیونکہ باوجود اختلاف عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نام کی عظمت ہے جس میں ہم دونوں شریک ہیں اس مخلصانہ مشورہ کے بعد میں تمام احباب کرام سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ لوگ اس طرح اتفاق کے ساتھ ایک مقام پر کھڑے ہو کر کام
انوار العلوم جلد ۴ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض کرنے کے لئے تیار ہوں تو امید ہے کہ نہ صرف اس غرض کے لئے مفید ہو جس کے لئے یہ جلسہ کیا گیا ہے.بلکہ آئندہ کے لئے بھی بہت سے بابرکت نتائج پیدا کرے.تو یہ بات بھی آپ لوگوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ بڑے کام بڑی محنت اور بڑی قربانی چاہتے ہیں.حکومتوں کا فیصلہ جلسوں کے ساتھ نہیں ہوتا.نہ جلسے کسی کے خیالات کے صحیح ترجمان ہوتے ہیں.بہت دفعہ لوگ جوش میں آکر چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے جلسے کر لیتے ہیں اور خوب زور دار تقریریں کرتے ہیں مگر وہ تقریریں اور وہ اجتماع ان کے حقیقی خیالات کے ترجمان نہیں ہوتے.کیونکہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرتے کہ وہ اس امر کو بالکل فراموش کر کے خاموش بیٹھ جاتے ہیں اور ان کی قوت عمل ان کے زور بیان کی تائید نہیں کرتی.وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اس اٹل قانون کو یاد نہیں رکھتی کہ ہر ایک کام کی تکمیل کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کامیابی کے لئے ایک دروازہ ہے.جب تک اس وقت تک جو اس کے لئے مقرر ہے صحیح ذرائع سے کوشش نہ کی جاوے کامیابی محال نہیں ناممکن ہے.پچھلی جنگ کو ہی ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود بعض جلد بازوں کے اندازہ لگانے کے کہ چند ماہ میں جنگ ختم ہو جائے گی.قریباً پانچ سال اس پر خرچ ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ.کیونکہ اس کے شعلے کسی نہ کسی جگہ اب تک بھی بھڑک اٹھتے ہیں.جن قوموں نے اس میں حصہ لیا انہوں نے کس طرح کام کیا؟ یہ نہیں کہ ملک میں جلسہ کر کے اپنی حکومت کی تائید کر دی اور اپنے کام سے فارغ ہو گئے.بلکہ عورت مرد بچے اور بوڑھے ہر ایک نے الا ماشاء اللہ اپنا پورا زور لگایا اور جو جنگ پر جاسکتے تھے وہ جنگ کے لئے نکل پڑے اور جو کسی نہ کسی وجہ سے لڑائی کرنے سے معذور تھے انہوں نے دوسرے ایسے کام اختیار کرلئے جن سے جنگ پر جانے والوں کو مدد ملے.اور ان کے کام میں آسانی پیدا ہو اور ان کی تکالیف میں کمی واقع ہو.اور ساڑھے چار سال تک تمام افراد ملک نے رات کو رات نہیں سمجھا اور دن کو دن نہیں خیال کیا.اور صرف وقت کی قربانی ہی نہیں کی بلکہ عقلمندوں نے اپنی عقل خرچ کی.مالداروں نے اپنے مال گھروں سے نکال کر باہر پھینک دیئے اور جائداد والوں نے اپنی جائدادوں کو پیش کر دیا.غرض ایک ہی نمایت و مدعا ان کے سامنے رہ گیا.باقی ہر ایک چیز ان کی نظروں میں بیچ ہو گئی تب جا کر ایک فریق کو فتح نصیب ہوئی.مگر فتح کے بعد بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھے صلح کی تکمیل کے لئے
انوار العلوم جلد ۴ ۴۳۷ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض نہیں.بھی جنگ میں حصہ لینے والی حکومتوں کے سینکڑوں آدمی دن اور رات محنت سے کام کر رہے ہیں.اور اس بات کو خوب محسوس کرتے ہیں کہ بہت سے نادان میدان جنگ میں فتح پا کر صلح کے کمرہ میں شکست کھا جایا کرتے ہیں.ہر ایک قوم اپنے فوائد پر نظر جمائے بیٹھی ہے اور ایک لحظہ کے لئے ان کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی.اور اس قدر قربانیوں کے بعد وہ اس امر کو برداشت بھی کب کر سکتی ہے کہ وہ فوائد جو اس کا حق ہیں یا جن کا حاصل کرنا وہ اپنا حق مجھتی ہے یوں ہی اس کے ہاتھوں سے نکل جاویں.پس اس کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کام معمولی کام ترکوں نے میدان جنگ میں شکست کھائی ہے اور اب وہ مغلوب و مفتوح قوم کی ہے.حیثیت میں ہیں.ان پر فتح پانے والے ان کے مقبوضہ ممالک کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں اور ان کو آپس میں تقسیم کر لینا یا ان کی حکومت میں اپنے نشاء کے ماتحت تبدیلی کر دینا ان کے نزدیک عدل و انصاف کے بالکل مطابق ہے.پس وہ کسی قوم یا کسی فرقہ کے کہنے سے اپنے حقوق کو نہیں چھوڑ سکتے.ان کو اس بات پر آمادہ کرتا کہ وہ ترکوں کی سابقہ مملکت کو بلا کسی تبدیلی کے چھوڑ دیں یا تبدیلی کریں تو بہت کم ، شیر کے مونہہ سے اس کا شکار چھڑانے سے بہت زیادہ مشکل ہے.ہم اس ملک میں دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے حق کے لئے قومیں آپس میں لڑتی ہیں اور اس کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہوتیں.تو ایک سلطنت کے معاملہ میں اور پھر ایسی سلطنت کے معاملہ میں جس کا قیام ان کے نزدیک ان کی تہذیب کی حیات و موت کا سوال ہے کانفرنس صلح میں بیٹھنے والی اقوام سے یہ امید کیوں کر کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے جلسوں یا ہماری تقریروں سے متأثر ہو کر اپنے مزعومہ حقوق سے فورا دستبردار ہو جاویں.اس کے لئے کوشش کی ضرورت ہے اور محنت کی حاجت ہے.پھر کوشش و محنت بھی وہ جو جوانوں کو بوڑھا کر دے اصول اتحاد پر مبنی ہو اور سوچ سمجھ کر صحیح ذرائع سے کی جاوے اور اس میں مال و وقت کی قربانی سے دریغ نہ کیا جاوے.جب کہ وہ لوگ جو پہلے سے آپس میں معاہدات کر چکے ہیں جو اتحادیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جو ایک مذہب وملت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ایک قسم کی تہذیب کے اثر کے نیچے ہیں ان معاملات کے تصفیہ کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ایک مقام پر جمع ہیں.اور ہزاروں نہیں لاکھوں اپنے اپنے گھروں میں اس کام کو ٹھیک طور پر سرانجام دینے میں مشغول ہیں.کمیشن مقرر کرتے ہیں سب کمیٹیاں بٹھاتے ہیں ہر قسم کے علوم و فنون کے
انوار العلوم جلد ۴ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ماہروں سے مشورہ لیتے ہیں آسانی سے فیصلہ نہیں کر سکتے اور ایک ایک سوال کے حل کرنے پر مہینوں لگا دیتے ہیں.تو سیاسی نقطہ خیال سے بے تعلق ایک دوسرے مذہب کی پیرو ایک دوسری تہذیب کی دلدادہ دنیاوی طور پر کمزور اور ناتواں جماعت کی کمزور آواز کو مفید اور بااثر بنانے کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی ضرورت ہے ؟ اگر اس جلسہ کے منعقد کرنے والے اور اس میں شمولیت کرنے والے اس محنت کی برداشت کی طاقت رکھتے ہیں اور اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے بخوشی دل تیار ہیں.تو پھر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس کام کے سرانجام دینے کا ذریعہ کیا ہے؟ اس تیرے امر کے متعلق جو کچھ میری رائے ہے اور جس کی پابند تمام جماعت احمد یہ ہے وہ تمام احباب کرام کے غور کے لئے ذیل میں درج کر دیتا ہوں.میرے نزدیک اس کام کے لئے سعی کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اس امر کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ترکوں کے مستقبل کے متعلق فیصلہ جن طاقتوں نے کرنا ہے.ان میں سے صرف حکومت برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جسے ترکوں کے مفاد سے دلچسپی ہے.اور جو ان کی ایک حد تک مدد کرنا چاہتی ہے.اور جس کے وزراء نہایت محنت سے ان خیالات سے جو ترکوں کے مستقبل کے متعلق مسلمانوں کے دلوں میں موجزن ہیں صلح کی کانفرنس کو مطلع کر رہے ہیں.حکومت حجاز کی تائید اور نصرت بھی صلح کی کانفرنس میں حکومت برطانیہ ہی کر رہی ہے.اور اس کا اعتراف حکومت حجاز کا نیم سرکاری اخبار " قبلہ " کئی بار کر چکا ہے.پس اپنے تمام اعمال میں مسلمانوں کو برطانیہ کے اس احسان کو یہ نظر رکھنا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے جوش میں اس دوست کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھو دیں.اور احسان فراموشی کے جرم کے مرتکب ہوں.حکومت برطانیہ مسلمان نہیں کہ مذہباً وہ ترکوں کی ہمدرد ہو.نہ سیاسی طور پر ترکوں کی تباہی اس کے مفاد پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ اس نے ترکوں سے جنگ کر کے دیکھ لیا ہے کہ چین اسلامزم کا خطرہ ایک خیالی خطرہ ہے.وہ اگر ترکوں سے ہمدردی رکھتی ہے تو محض اپنی مسلمان رعایا کے جذبات اور احساسات کے خیال سے.پس جس قدر بھی وہ ہمدردی کرتی ہے مسلمانوں کو اس کا شکر گزار ہونا چاہئے.اور ایک دوست کے طور پر اس کی قدر کرنی چاہئے.اور یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ایک طرف حکومت برطانیہ پر یہ فرض ہے کہ وہ ہمارے احساسات کا خیال رکھے تو دوسری طرف حکومت برطانیہ پر ان دوسری اقوام کے احساسات کا
العلوم جلد م ٤٣٩ ترکی کا مستقبل لمانوں کا فرض خیال رکھنا بھی فرض ہے جو جنگ میں اس کے ساتھ شامل ہوئیں.اور جن کے سپاہی برطانیہ کے سپاہیوں کے دوش بدوش اسی طرح لڑے جس طرح مسلمان سپاہی بلکہ مسلمانوں سے بھی زیادہ تعداد میں.اور اس جنگ کو فاتحانہ رنگ میں ختم کرنے کے لئے انہوں نے اپنے اموال اس سے بہت زیادہ خرچ کئے جس قدر کہ مسلمانوں نے.پس مسلمانوں کے احساسات کا خیال رکھنے کے ساتھ حکومت برطانیہ اگر ضروری سمجھتی ہے کہ ان اقوام کے خیالات کا خیال بھی رکھے تو ہمیں اس کی مجبوری کو سمجھنا چاہئے.اور اس کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.علاوہ ازیں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس جنگ کے ابتدائی ایام میں امریکہ کے شامل ہونے سے پہلے اتحادیوں میں بعض معاہدات ہوئے تھے.جن کے پورا کرنے پر بعض طاقتیں برطانیہ پر زور دیتی ہیں اور اس مشکل کی وجہ سے بھی برطانیہ اس طرح سے مسلمانوں کے خیالات کی ترجمانی نہیں کر سکتا جس طرح کہ مسلمان اس سے امید رکھتے ہیں.پس اس کام کے شروع کرتے وقت اس امر کا فیصلہ کر لینا چاہئے کہ نہ تو کوئی ایسا ایجی ٹیشن پھیلایا جاوے اور نہ دوسروں کو پھیلانے کی اجازت دی جاوے جن میں لوگوں کے ذہن میں یہ بات آوے کہ برطانیہ مسلمانوں کے ساتھ مناسب برتاؤ نہیں کرتا اور ان کے حقوق کی کافی حفاظت سے غافل ہے کیونکہ غفلت اور لاپرواہی بالکل اور چیز ہیں اور مشکلات اور چیز.مسلمانوں کی تمام کوششیں برطانیہ کا ہاتھ مضبوط کرنے میں خرچ ہونی چاہئیں نہ کہ اس کو گھر میں مشکل ڈال دینے میں.اس بات کو خاص طور پر یاد رکھنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ بعض خود غرض لوگ ایسے موقعوں سے ناجائز فائدہ اٹھانے کے عادی ہوتے ہیں.اور التجاء کو دھمکی اور مخلصانہ اصرار کو معاندانہ دباؤ سے بدل دیتے ہیں.میرے نزدیک برطانیہ جب کہ پہلے ہی مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی کر رہا ہے تو اس کی اس کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو صرف اس سے یہ درخواست کرنی چاہئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور دے.بے شک بعض معاہدات اس کے راستہ میں روک ہیں.مگر ہر انصاف پسند برطانوی مد تبر پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ ایسے معاہدات جن میں کوئی اخلاقی نقص ہو معاہدات کہلانے کے مستحق نہیں ہیں.انسان سے غلطی ہوتی ہے مگر اس غلطی پر مصر ہونا انسان کا کام نہیں.اگر کوئی شخص کسی کو ایک چیز دینے کا معاہدہ کرتا ہے اور بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کا مال نہیں ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا.نہ اخلاق اسے اس معاہدہ کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی
۴۴۰ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض چاہئے.بے شک برطانیہ نے بعض اقوام سے ترکوں کے بعض علاقوں کے متعلق ایسے معاہدات کئے ہیں کہ وہ ان حکومتوں کے زیر حفاظت رکھے جاویں گے.مگر جب کہ ان علاقہ جات کے باشندے خود اس امر کو پسند نہ کرتے ہوں اور جب کہ اس امر کا فیصلہ کر دیا گیا ہو کہ کسی ملک کے انتظام میں اس کے باشندوں کی آراء کا بھی ایسے حالات میں کہ کسی قسم کے ظلم کا خطرہ نہ ہو خیال رکھا جاوے گا کوئی وجہ نہیں کہ ان کو دوسری حکومتوں کے سپرد کر دیا جاوے.جن کے نیچے رہنا ان کو نہ صرف ناپسند ہی ہے، بلکہ خطرہ ہے کہ ان کے مذہبی احساسات کو بھی اس طرح صدمہ پہنچے.یورپ بے شک تعلیم ظاہری میں بڑھا ہوا ہے مگر سب یورپ انگریزوں کی طرح مذہبی آزادی کے اصول پر قائم نہیں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بعض یوروپین اقوام نے جبر مذ ہب میں دخل دیا ہے اور زبردستی عقائد میں تبدیلی کروانی چاہی ہے.طرابلس اور حرب بلقان کے واقعات جو خود انگریز نامہ نگاروں نے لکھے ہیں دلالت کرتے ہیں کہ برطانیہ عظمیٰ کو تمام اہل یورپ کو اپنے جیسا مہذب خیال نہیں کرنا چاہئے.غرض دلائل اور براہین سے برطانیہ عظمی کے اصحاب حل و عقد کو سمجھانا چاہئے کہ اس بارہ میں مسلمانوں کے خیالات حق پر مبنی ہیں اور انگلستان کی عام رائے کو اصل حالات سے واقف کرنا چاہئے.اور برطانیہ کی قدیم انصاف پسندی کو دیکھتے ہوئے یقین رکھنا چاہئے کہ برطانیہ اپنی طاقت کے مطابق مسلمانوں کے احساسات کا خیال رکھنے میں کو تاہی نہیں کرے گا.اور ایسے امور سے بکی پر ہیز کیا جاوے جن سے عوام میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو یا نا مناسب جوش پیدا ہو.کیونکہ اس صورت میں حکام کی توجہ زیادہ تر اندرونی انتظام کی طرف مبذول ہو جاوے گی.اور اگر ایسے حالات میں وہ مسلمانوں کے احساسات کی تصویر پورے طور پر ان لوگوں کے سامنے نہ کھینچ سکیں جو اس وقت ترکی حکومت کے مستقبل پر غور کرنے کے لئے بیٹھے ہیں تو اس کا الزام خود مسلمانوں پر ہو گا نہ کسی اور پر.میرے نزدیک مناسب ہے کہ جہاں اس امر پر زور دیا جاوے کہ برطانیہ مسلمانوں کے خیالات کی پہلے سے زیادہ تائید کرے وہاں عامتہ الناس کو اس امر سے بھی واقف کیا جاوے کی کہ برطانیہ اب تک بہت کچھ کوشش کر چکا ہے اور کوشش کر رہا ہے جیسا کہ حکومت حجاز کی گواہی سے صاف طور پر عیاں ہے.دوسرا امر اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلمان حکومت حجاز کا سوال بیچ میں سے بالکل اٹھا دیں.عربوں نے غیر اقوام کی حکومتوں کے ماتحت اپنی زبان اور
اسلام سلام ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض اپنے تمدن کے متعلق جو کچھ نقصان اٹھایا ہے وہ مخفی امر نہیں ہے.اور ہر ایک شخص جو ان ممالک کے حالات سے آگاہ ہے اس امر سے واقف ہے.اور پھر عربوں نے جو کچھ قربانی اس آزادی کے حصول کے لئے کی ہے وہ بھی چھپی ہوئی بات نہیں.عرب کی غیرت قومی جوش مار رہی ہے اور اس کی حریت کی رگ پھڑک رہی ہے.انہیں اب کسی صورت میں ان کی مرضی کے خلاف ترکوں کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جا سکتا.تیرہ سو سال کے بعد اب وہ پھر اپنی چار دیواری کا آپ حاکم بنا ہے.اور اپنے حسن انتظام اور عدل و انصاف سے اس نے اپنے حق کو ثابت کر دیا ہے.اس کے متعلق کوئی نئی تجویز نہ کامیاب ہو سکتی ہے نہ کوئی معقول انسان اس کو قبول کر سکتا ہے نہ عرب اسے ماننے کے لئے تیار ہے.حجاز کا آزاد رہنا ہی اب اسلام کے لئے مفید ہے.وہ بنسبت ترکی سلطنت کا جزو ہونے کے علیحدہ حکومت کے رنگ میں زیادہ مفید ہے.مقامات مقدسہ کا ایک چھوٹی اور نظر طمع سے بچی ہوئی سلطنت میں رہنا بہت بہتر ہے.پس اس سوال کو ہمیشہ کے لئے فیصل شدہ خیال کرنا چاہئے.تیسری ضروری بات یہ ہے کہ مناسب مشورہ کے بعد اس غرض کے لئے ایک کو نسل مقرر کی جاوے جس کا کام ترکی حکومت کی ہمدردی کو عملی جامہ پہنانا ہو.صرف جلسوں اور لیکچروں کام نہیں چل سکتا نہ روپیہ جمع کر کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے نہ انگلستان کی کمیٹی کو روپیہ بھیجنے سے بلکہ ایک باقاعدہ جدوجہد سے جو دنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کے لئے کی جاوے.یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور لوگ ہر ایک بات کے لئے دلیل طلب کرتے ہیں.پس ضروری ہے کہ اپنے مدعا کی تائید کے لئے دلائل جمع کئے جائیں.اور جن لوگوں کے اختیار میں ان امور کا فیصلہ ہے ان کو دلائل کے زور سے منوایا جائے تلوار کے ساتھ ساڑھے چار سال میں پچھلی جنگ کا خاتمہ ہوا ہے.لیکن تلوار ایک دم میں دشمن کا فیصلہ کر دیتی ہے.دلیل ایک دم میں کسی کے دل کو نہیں پھیرتی اس کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہے.گو یہ فرق ضرور ہے کہ ایک تلوار چند محدود آدمیوں کے مقابلہ میں چلائی جاسکتی ہے.لیکن دلیل ایک وقت میں کئی ہزار بلکہ لاکھ آدمی کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے.پس اس مشکل کام کو پورا کرنے کے لئے باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے.اور اسی طرح سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے جس طرح کہ دوسری اقوام کر رہی ہیں.بے فائدہ کام دانا کا کام نہیں اور اس کے کرنے سے اس کا نہ کرنا اچھا ہے.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ برطانیہ اگر پورے طور پر مسلمانوں کے خیالات
وم جلد " م سلام سلام ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض سے متفق بھی ہو جاوے تب بھی صلح کی کانفرنس میں صرف برطانیہ ہی کے نمائندہ نہیں بیٹھتے اس میں اور بہت سی طاقتوں کے نمائندہ بھی شامل ہیں.امریکہ اپنے حق اولیت پر مصر ہے.فرانس اپنی قربانیوں کو پیش کر رہا ہے.اٹلی اپنی مظلومیت کا مظہر ہے.جاپان اور چین خواہ اس سوال سے بے تعلق ہوں مگر چین کو امریکہ کی ہمدردی حاصل کرنی ضروری ہے.اور امریکہ یونان کے قدیم دعوؤں کی تائید میں اپنا سارا زور لگا رہا ہے.اور ان حکومتوں میں یہ بحث نہیں کہ ترکوں کو کس قدر ملک دیا جاوے.بلکہ اس سوال پر بحث ہے کہ ترک اطالین وصایہ کے نیچے رہیں یا یونانی کے حتی کہ ترکوں میں سے ایک جماعت نے اس ڈر سے کہ ہمیں کہیں اٹلی یا یونان کے ماتحت نہ کر دیں خود یہ تحریک شروع کر دی ہے کہ اگر کسی کے زیر حفاظت ہمیں رکھنا ہی ہے تو انگریزوں کے ماتحت رکھو کہ ہمارا دین اور مذہب تو برباد نہ ہو.پس اتنی اقوام کے مقابلہ میں ایک انگریزی آواز کیا اثر پیدا کر سکتی ہے.فرانس شام پر قبضہ نہیں کر سکتا جب تک اناطولیہ اٹلی کو نہ دلوائے.اور امریکہ اپنے معیار انصاف کو ثابت نہیں کر سکتا جب تک کہ ترکوں کو کسی نہ کسی یوروپین حکومت کے وصالیہ میں نہ رکھے.اگر بلغاریہ کو سمندر تک راستہ دینا ضروری ہے.تو یونان کو اس کی حق تلفی کے بدلہ میں کوئی نہ کوئی اور علاقہ ملنا واجبات میں سے ہے.پس ایک انار و صد بیمار کا معاملہ ہے.برطانیہ کرے تو کیا کرے.ہم اسے کیا مشورہ دے سکتے ہیں یہی کہ وہ اس امر پر زور دے کہ ترکوں سے بھی انسانوں کا سا سلوک کیا جاوے.یہ وہ پہلے سے کر رہا ہے.ترکوں کے علاقہ میں فساد ہونے پر اگر فرانسیسی اخبارات اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے سب التزام عربوں پر لگاتے ہیں تو برطانیہ کے اخبارات ہی ہیں جو عربوں کا ساتھ دیتے ہیں.برطانیہ کو یہ مشورہ دیا جا سکتا ہے نہ اس مشورہ پر عمل ممکن ہے کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق تمام ڈول کو جنگ کی دھمکی دے.اس کے نقطہ خیال سے یہ بات حد درجہ کی بے شرمی میں داخل ہو گی.اگر وہ ان اقوام سے جو ابھی ایک سال نہیں گزرا کہ اس کے دوش بدوش اس کے اور تہذیب و تمدن کے دشمنوں سے جنگ کر رہی تھیں ایک ایسی حکومت کے بدلہ جو اس کی دشمن تھی جنگ شروع کر دے.اور پھر کون سی عقل اس کو تسلیم کر سکتی ہے کہ حکومت برطانیہ باوجود اپنی اس قدر طاقت و عظمت کے اس قدر طاقتوں کے مجموعہ سے جنگ کر سکتی ہے یہ زمانہ حقائق کا ہے تعمیلات سے اس وقت کام نہیں چل سکتا.پس اگر اس امر میں کامیاب ہونے کی کوئی امید ہو سکتی ہے تو صرف اس طرح کہ ان دیگر
لوم جلد ۴ ۴۴۳ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض اقوام کی رائے بھی بدلی جاوے جو اس وقت صلح کی کانفرنس میں حصہ لے رہی ہیں.خصوصاً امریکہ اور فرانس کی.اگر ان دونوں ملکوں کی رائے بدلی جائے تو پھر کوئی مشکل نہیں رہتی.مگر ایسی کوئی کوشش کرنے سے پہلے یہ سوال حل کرنا چاہئے کہ ان اقوام کو ترکی سے اس قدر نفرت کیوں ہے؟ کیونکہ جو خیالات ان کے ان فیصلوں کے محرک ہیں.انہی کے دور کرنے سے کامیابی ہو سکتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ جرمن قوم جو جنگ کی اصل بانی ہے اور جس نے جنگ کے دوران میں انسانیت اور آدمیت کے تمام اصول کو پامال کر دیا تھا وہ صرف ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو وہ بھی فرانس سے لیا ہوا تھا چھوڑ کر اور کسی قدر علاقہ پولینڈ کا آزاد کر کے پھر اسی طرح اپنے ملک پر قابض ہے.آسٹریا جو اس جنگ کا بانی تھا اپنے ملک میں اسی طرح حکومت کر رہا ہے اور صرف ان غیر علاقوں کو جو اس سے خود جدا ہونا چاہتے تھے جدا ہونے کی اجازت دی گئی ہے.بلغاریہ باوجود انتہائی درجہ کے مظالم اور غداری اور معاہدہ شکنی کے اپنے ملک پر قابض ہی نہیں بلکہ اسے سمندر کی طرف راستہ دینے کی تجاویز ہو رہی ہیں.رومانیہ نے تین دفعہ ادھر سے ادھر پہلو بدلا مگر اور زیادہ علاقہ کا حق دار قرار دیا گیا ہے.لیکن ترک جس نے خود یوروپین طاقتوں کے اقوال کے مطابق مجبور ہو کر جرمن دباؤ کے نیچے جنگ کی تھی.اور جس نے جنگ کے دوران میں نہایت شرافت نہایت دلیری اور بہادری سے کام کیا تھا اور بحیثیت قسم کا ظلم نہیں کیا اس کو ناقابل حکومت قرار دیا جا کر نہ صرف یہ کہ اسے اس کے رے مقبوضات سے محروم رکھا جاتا ہے بلکہ جس ملک میں وہ بستا ہے اور دوسری آبادی اس قدر کم ہے کہ نہ ہونے کے برابر ہے اس میں بھی اس کی حکومت کو مٹانے کا مشورہ دیا جاتا ہے.اور کم سے کم اسے کسی دوسرے کے اقتدار کے نیچے رکھنا تو ایک ایسی ضرورت سمجھی جاتی ہے کہ اس کے بغیر چارہ ہی نہیں.کہا جاتا ہے کہ آرمینیا کے قتل عام اس کی اصل وجہ ہیں.اور مسلمان اس اعتراض کا جواب دینے کی طرف سرعت سے متوجہ ہوتا ہے.مگر قطع نظر اس کے کہ یہ الزام خود ثبوت طلب ہے.کیونکہ ہسپانیہ میں بعض مسیحیوں کا خود ان کی مساجد میں جاکر ان کے دین کی ہتک کرنا اور بعض دفعہ کسی جوشیلے کے ہاتھ سے مارا جانا اور پھر اس کی قوم کا اسے مسلمانوں کا ظلم قرار دے کر یورپ میں شور مچانا اور اسی قسم کے اور واقعات موجود ہیں جو ایسے الزامات کو غور تحقیق کے بعد قبول کرنے کا مشورہ دیتے ہیں.لیکن ان کو صحیح تسلیم کر کے بھی دیکھا جاتا ہے کہ
انوار العلوم جلد ۴ ۴۴۴ اس قسم کے مظالم اور حکومتوں میں بھی ہیں.روس میں جو کچھ یہود سے ہو تا رہا ہے وہ آرمینیا کے قتل عام سے کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہے.اب بولشویک جو کچھ کر رہے ہیں.سب دنیا اس انگشت بدندان ہے.ہزاروں نہیں لاکھوں آدمی انہوں نے قتل کر دیئے ہیں.اور ایسے مظالم سے کام لیتے ہیں کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے اور طبیعت صحیح تسلیم کرنے سے رکتی ہے.مگر باوجود اس کے واقعات کا انکار نہیں کیا جا سکتا.مگر وہی حکومتیں جو ترکی سلطنت کے قیام کے خلاف ہیں روس کے ملک میں دخل دینے سے نہ صرف یہ کہ خود علیحدہ ہیں بلکہ برطانیہ جو اس ظلم کو برداشت نہیں کر سکتا اس کے راستہ میں بھی روک ڈالتی ہیں.اور عملی مدد تو الگ رہی ہے روس کا بائیکاٹ تک کرنے کے لئے تیار نہیں.امریکہ جو اس وقت لوائے حریت کا حامل ہے اور سب سے زیادہ انصاف و عدل کا دعویٰ کرتا ہے.اور اسی وجہ سے پریذیڈنٹ ولسن کہتا ہے کہ اگر اس جنگ کے بعد ترکی حکومت قائم رہے تو گویا اس جنگ کی غرض ہی فوت ہو گئی.خود اس کے ملک میں ہم دیکھتے ہیں کہ مذہب کے وسیع اختلافات کی وجہ سے نہیں ، کالے اور گورے رنگ کے فرق سے ایسے ایسے مظالم ہو جاتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ و کسبرگ میں لائڈ کلے نامی ایک انیس سالہ حبشی لڑکا جو کسی الزام کے ماتحت حوالات میں تھا اور جو بعد کی تحقیق سے بالکل بے گناہ ثابت ہوا اسے عام آبادی نے قید خانہ توڑ کر نکال لیا.اور پندرہ سو شہری اسے عذاب دینے کے لئے جمع ہوئے.ایک درخت پر اسے لٹکا دیا گیا اور بالکل ننگا کر دیا گیا.بعض نے مشورہ دیا کہ اسے قتل کر دیا جادے.مگر دوسروں نے کہا نہیں اسے آہستہ آہستہ مرنے دو.اور پہلے مٹی کا تیل اس کے بدن کو ملا گیا.پھر لکڑیوں کا انبار لگا کر پٹرول او پر ڈال کر اسے جلایا گیا.اس کے پہنچنے اور چلانے اور آہ و فریاد کرنے کو ایک لطف تماشہ سمجھ کر عورت و مرد نے ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ نظارہ دیکھا.اور جب اس کی لاش اتاری گئی تو وہ رسیاں جس سے وہ بندھا ہوا تھا ان کے ٹکڑے بطور یادگار کے لوگوں نے اپنے پاس رکھے.اور اس درخت کو جس سے وہ لٹکایا گیا تھا ایک مقدس یاد گار قرار دیا گیا.پھر ابھی پچھلے ماہ میں ہی نسکیگو میں جیشیوں پر جو کچھ ظلم کئے گئے ہیں اخبارات میں شائع ہوتے ہی رہے ہیں اس کی وجہ کیا تھی؟ صرف یہ کہ ایک حبشی لڑکا جھیل کے کنارہ پر غلطی سے اس حصہ پر چلا گیا تھا جو سفید رنگ کی آبادی کے لئے مخصوص کیا گیا تھا.اس پر سفید آبادی نے اس پر پتھروں کا مینہ برسایا اور اس واقعہ سے وہ خطرناک آگ بھڑک اٹھی جس نے پچھلے دنوں تمام دنیا کو
العلوم جلد م ۴۴۵ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض حیرت میں ڈالے رکھا تھا.انہی واقعات پر پریذیڈنٹ ولسن کو ایک دفعہ کہنا پڑا تھا کہ جب کہ ہم اپنی ڈیمو کریسی کو یہ ثابت کر کے کہ وہ کمزوروں کے لئے باعث حفاظت نہیں ہے ذلیل کر رہے ہیں تو دوسروں کے سامنے ڈیمو کریسی کیونکر پیش کر سکتے ہیں.پس ایسے مظالم سے تو سوائے برطانیہ کے غالباً کوئی ملک بھی پاک نہیں ہے.خود برطانیہ کے ان حصوں میں جن میں برطانیہ اندرونی نظم و نسق میں دخل نہیں رکھتا.ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو قابل افسوس ہوتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ترکوں کو ان واقعات کی وجہ سے امریکہ یا دیگر حکومتیں قابل نفرت خیال کریں.اگر کہا جائے کہ لالچ سے ایسا کیا جاتا ہے درست نہیں کیونکہ امریکہ کو کوئی لالچ نہیں.کم سے کم امریکہ کوئی حصہ اپنے لئے لینے کے لئے تیار نہیں.پس معلوم ہوتا ہے کہ اس نفرت کا باعث کچھ اور ہے.اور وہ سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ترک مسلمان کہلاتے ہیں؟ میرا مطلب اس سے یہ نہیں کہ ترک چونکہ مسلمان ہیں اور امریکہ یا فرانس اور دیگر طاقتیں عیسائی ہیں اس لئے ترکوں سے نفرت کرتی ہیں.کیونکہ مسیحی تو انگریز بھی ہیں مگر وہ ترکوں سے اس قسم کی نفرت نہیں کرتے بلکہ مسلمانوں کے حقوق کی نگہداشت کرتے ہیں.اور ان کے احساسات کا خیال رکھتے ہیں.اسی طرح یہ کہنا کہ امریکہ اور فرانس مسیحی ہیں یہ بھی درست نہیں.مغربی ممالک میں عموماً تعلیم یافتہ لوگ مسیحیت سے زیادہ تعلق نہیں رکھتے اور یا تو لوگ دہریت کی طرف مائل ہیں یا بعض عقلی مذاہب کی اتباع کرتے ہیں.پس بلحاظ مذہب کے وہ مسیحیت سے بھی علیحدہ ہیں.اور اسلام سے خاص تعصب کی ان کے لئے کوئی وجہ نہیں.پس یہ نفرت اس لئے نہیں کہ وہ مسیحی ہیں اور ترک مسلمان.مذہب کی حقیقت ان لوگوں کے دلوں میں اس قدر نہیں ہے کہ وہ اس کے لئے ایسا شدید تعصب رکھیں.میرا مطلب اس بات کے کہنے سے کہ ترکوں سے اس لئے نفرت کی جاتی ہے کہ وہ مسلمان کہلاتے ہیں یہ ہے کہ ان ممالک کے لوگوں کو اسلام سے اس قدر بعد ہے.اور آباء و اجداد سے ان کے دل میں اسلام کی نسبت اس قدر بد ظنیاں بٹھائی گئی ہیں کہ وہ اسلام کو ایک عام مذہب کے طور پر خیال نہیں کرتے بلکہ ایک ایسی تعلیم خیال کرتے ہیں جو انسان کو انسانیت سے نکال کر جانور اور وہ بھی وحشی جانور بنا دیتی ہے.ان کے نزدیک اسلام ایسی وحشیانہ تعلیم دیتا
۴۴۶ ترکی کا مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کی موجودگی میں رحم اور انصاف دل میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا.وہ لوگ طبعاً اپنے مذہب یا اپنے خیال کے سوا ہر ایک مذہب اور عقیدہ کو غلط اور جھوٹا سمجھتے ہیں جیسا کہ ہر مذہب کے لوگوں کا حال ہے مگر اسلام کے سوا دو سرے مذاہب سے وہ ڈرتے نہیں ان سے نفرت نہیں کرتے.وہ ان کے ماننے والوں کو غلطی خوردہ سمجھتے ہیں مگر قابل نفرت نہیں سمجھتے مگر اسلام سے وہ خوف کھاتے ہیں.اس کی ترقی کو تہذیب و شائستگی کے راستہ میں روک ہی نہیں خیال کرتے بلکہ خود انسانیت کے لئے اسے مُلک یقین کرتے ہیں.اس لئے وہ جہاں دوسرے مذاہب کے پیروؤں پر رحم کرتے ہیں.اسلامی حکومتوں کو ناقابل علاج اور متعدی مریضوں کی طرح سوسائٹی اور تہذیب کے لئے ملک خیال کر کے اس کے مٹ جانے یا مٹا دینے کو پسند کرتے ہیں.کیونکہ کیا اس شخص یا قوم کا جو دوسروں کے لئے بھی ہلاکت کا موجب ہو خود مٹ جانا مناسب نہیں ؟ ضرور ہے.پس مغربی ممالک کے باشندے فرض منصبی کے طور پر بلکہ باقی دنیا پر رحم کر کے پسند کرتے ہیں کہ یہ خطرناک مرض جو اسلامی حکومت کے نام سے مشہور ہے دنیا سے اٹھ ہی جائے تو بہتر ہے.یہ میرا خیال ہی نہیں بلکہ میں پہلے ثابت کر چکا ہوں کہ اس کے سوا ترکوں سے خاص سلوک کی کوئی وجہ نہیں.اور مجھے اس امر کے متعلق خاص علم حاصل ہے کیونکہ میں ایک ایسی جماعت کا امام ہوں جس کا کام ہی تبلیغ اسلام ہے اور جسے اپنے کام کے چلانے کے لئے ہر ایک ملک کے مذہبی حالات معلوم رکھنے پڑتے ہیں.اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ مغربی ممالک میں سے جتنا کوئی مذہب زیادہ آزادی کی طرف قدم اٹھاتا ہے اسی قدر وہ اسلام کا دشمن بن جاتا ہے.کیونکہ آزادی اسے ہمدردی کی طرف مائل کرتی ہے اور اسلام کی بیخ کنی میں وہ دنیا کی ہمدردی پاتا ہے.امریکہ اور یورپ میں مسیحیت کی جو حالت ہے وہ پادریوں کے رسالہ پڑھنے سے خوب ظاہر ہو جاتی ہے.پانچ فیصدی آدمی بھی نہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں فی الواقع مسیحی کہلانے کے مستحق ہوں ایک کثیر حصہ مسیحیت سے متنفر ہے مگر باوجود اس کے وہ دیگر ممالک میں تبلیغ مسیحیت کے لئے کروڑوں روپیہ دیتے ہیں.صرف اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسیحیت میں داخل ہو جانے سے ان ممالک کے باشندوں کے جسم ظلم سے بچ جاویں گے اور وہ جہالت سے نجات پا جاویں گے نہ اس لئے کہ ان کی روح کو کوئی خاص راحت حاصل ہو جاوے گی.مگر اسلامی ممالک میں تبلیغ کے کام میں وہ اور بھی جوش سے حصہ حصہ لیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک
العلوم جلد ۴ ترکی کا مسلمانوں کا فرض اس ذریعہ سے ایک حصہ مخلوق بہیمیت کا جامہ اتار کر انسانیت کا جامہ پہن لے گا.پس یہ کہنا کہ امریکہ یا کوئی اور ملک ترکوں کا دشمن ہے غلط ہے وہ اسلام کا دشمن ہے.نہ بوجہ اس مذہب سے تعصب کے جس پر وہ قائم ہے بلکہ بوجہ اس ناواقفیت کے.نہیں، بلکہ غلط واقفیت کے جو اسے اسلام کے متعلق ہے.بے شک دو سرے ممالک میں بھی ظلم ہوتے ہیں.بے شک امریکہ کا مہذب سفید رنگ کا آدمی بھی کبھی انسانیت کا جامہ اتار دیتا ہے.بے شک روس کے باشندے ظلم و ستم کی انتہائی حد کو پہنچ جاتے ہیں.مگر پھر بھی وہ ایسے مذاہب کے پابند ہیں جو رحم کی تعلیم دیتے ہیں جو اخلاق کو درست کرتے ہیں.مذہبی حیثیت سے خواہ وہ کتنے ہی گرے ہوئے ہوں.مگر اخلاقی اور انسانیت کی تعلیم تو ان میں موجود ہے جو ان کے پیروؤں کی روح کی حفاظت کرتی ہے اور ان کو ہمیشہ اوپر اٹھائے رکھتی ہے.پس ان کے جوش اور ان کے مجنونانہ افعال صرف بہیمیت کا ایک منفرد شعلہ ہوتے ہیں.لیکن اسلام (نعوذ باللہ من ذالک) تو اپنے پیروؤں کی طبیعت کو بدل دیتا ہے اور فطرت انسانیت سے فطرت ہیمیت پر قائم کر دیتا ہے.اس کے پیرو کوئی نیکی کرہی کیونکر سکتے ہیں.اور اگر ان سے کوئی نیکی ہوتی بھی ہے تو وہ اسلام کی کا نتیجہ نہیں ہوتی.بلکہ مغربی تمدن سے ملاپ کا نتیجہ.اس لئے ترکوں کے مظالم اور مغربی ممالک کے بعض مجنونانہ افعال کا مقابلہ ہی کیا ہے.ان دونوں کا مقابلہ ایسا ہی غلط ہے جیسا کہ ایک طبیب اور ایک متطبیب کا مقابلہ.اس بناء پر کہ دونوں کے ہاتھوں سے مریض مرتے بھی ہیں اور شفاء بھی پاتے ہیں.کیونکہ اول الذکر کے ہاتھوں میں مریضوں کا شفاء پانا مطابق قاعدہ ہے گو کبھی بطور استثناء موت بھی واقع ہو جاوے.اور مؤخر الذکر کے ہاتھوں سے مریضوں کے مرجانے کا قاعدہ ہے گو کبھی استثنائی طور پر شفاء بھی ہو جاوے.اور اگر کوئی ایسی مثالیں مل سکیں کہ مسلمانوں نے ظلم نہ کیا ہو تو کیا شیر جسے پنجرہ میں رکھا گیا ہو شکار کر سکتا ہے؟ وہ ضرور کسی بیرونی دباؤ کا نتیجہ ہیں کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک شخص کو اسلام کی تعلیم دی جاوے اور پھر وه آدم خور درنده ند بن جاوے.اور بنی نوع انسان کے لئے مضر و جود ثابت نہ ہو.یہ وہ خیالات ہیں جو اسلام کی نسبت مغربی ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اور یہ وہ خیالات ہیں کہ جب تک ان ممالک میں پھیلے رہیں گے اس وقت تک مسلمان کہلانے والوں کو انصاف حاصل نہ ہونے دیں گے.خدا تعالیٰ نے تو مسلمانوں کا فرض مقرر کیا ہے کہ وہ اسلام کو چاروں کونوں میں پھیلائیں
دم جلد ۴ ۲۴۸ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض اور اس کے نور سے اندھوں کو بینائی بخشیں.مگر مسلمانوں نے سستی اختیار کی.پس جب مسلمانوں نے اسلام کی قدر نہ کی اور اسے ترک کر دیا تو خدا نے بھی ان کو ترک کر دیا.خدا تعالی ظالم نہیں اس نے مسلمانوں کو صرف اسی لئے چنا تھا.کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ - (ال عمران : 11) جب تک مسلمانوں نے حکم کو قبول اور اس پر عمل کیا اس نے ان کو ترقی پر ترقی دی.اور اس وقت ان کو عذاب میں مبتلاء کیا جب انہوں نے اپنے نفسوں کو بدل دیا.جیسا کہ وہ فرماتا ہے.إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ ما بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد: (۱۲) اللہ تعالیٰ کسی قوم پر جو نعمتیں کرتا ہے ان کو اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے اندر تغیر پیدا کر کے نیکی کے راستہ کو چھوڑ نہ دے.مگر کسی وقت اگر کوئی غلطی ہو گئی ہے تو اب مسلمان اپنی غلطی سے تائب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں.اور خود اسلام کو سمجھیں اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں اور دوسروں کو آگاہ کریں.تاکہ وہ نکبت و ادبار جو اس وقت مسلمانوں پر آرہا ہے وہ دور ہو اور وہ پھر اپنے دولہا کے محبوب بنیں.اگر مذہب کی خاطر انہوں نے تبلیغ نہیں کی.اگر خدا کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس بے نظیر تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا.تو اب اپنی حیات کے قیام کے لئے ہی کچھ کوشش کریں.کیونکہ ان کی زندگی اور اسلام کی تبلیغ اب لازم و ملزوم ہو و گئے ہیں.اس مضمون پر مجھے خود کچھ زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں.میں ایک مشہور ہندوستانی کی جو آریہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ایک تازہ تحریر سے جو انہوں نے "لیڈر" اللہ آباد میں شائع کرائی ہے ذیل میں اقتباس درج کر کے اس امر کی صداقت یا بطالت کا فیصلہ آپ لوگوں پر ہی چھوڑ دیتا ہوں.یہ آریہ صاحب لالہ لاجپت رائے ہیں.وہ اپنی ایک طویل چٹھی میں جو لیڈر " الہ آباد میں شائع ہوئی ہے لکھتے ہیں.د مجھے اپنے سفروں میں اس سے زیادہ کسی امر نے تکلیف نہیں دی جس قدر کہ اس گہری ناواقفیت اور سخت تعصب نے جو اسلام اور اسلامی ممالک کے متعلق امریکہ میں پھیل رہا ہے.ممالک متحدہ میں آپ کو چین، جاپان اور ہندوستان کے ہمدرد تو ملیں گے لیکن میں نے اپنے پانچ سالہ سفروں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو اسلام اور اسلامی ممالک کے متعلق کوئی کلمہ خیر مونہہ سے نکالتا ہو.ایک مسلمان دوست سمیت مجھے ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا جس
انوار العلوم جلد ۴ ۴۴۹ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض میں ترکی حکومت کے مستقبل کے متعلق گفتگو تھی.ترکوں کی طرف سے ایک ترک ہی وکیل تھا لیکن جو لوگ اس کو جواب دینے کے لئے کھڑے ہوتے تھے انہوں نے ایسی ناواقفیت اور کھلی کھلی دشمنی اور تعصب کا ثبوت دیا کہ میرے لئے مبر کے ساتھ سننا مشکل ہو گیا.ترکی وکیل نے بہت بری طرح وکالت کی اور اپنے خلاف تعصب کا طوفان کھڑا کر لیا.ترکوں کو ایک ڈراؤنی شہرت حاصل ہے اور مسلمان اقوام کے معاملہ کو ایسی طرح پیش کرنے کے لئے کہ لوگوں کے دل میں ان سے ہمدردی پیدا ہو بڑی لیاقت دانائی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے.آخر میرے دوست نے میرے کہنے پر اس تعصب کے کم کرنے کی کوشش کی مگر اس کی آواز " اکیلی آواز تھی."مسلمانان ہند پر ان کے مذہب ان کے ہم مذہبوں اور خود اپنے نفسوں کی طرف سے یہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ چند لائق آدمی تمام ذو نفوذ ممالک میں بطور اپنے وکلاء کے مقرر کریں یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فوری توجہ چاہتی ہے یہ تمام ہندوستان کا بلا تفریق مذہب فرض ہے کہ وہ اسلام کی عزت کو بدنامی کے صدمہ سے بچائیں.اور جب کبھی انہیں کسی مفید نتیجہ کی امید ہو مسلمانوں کے لئے بھی اس انصاف اور حق کا مطالبہ کریں جس کا مطالبہ دوسری اقوام کے لئے کیا جاتا ہے.لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ خود مسلمانوں پر ایک ایسی ذمہ داری ہے کہ جسے انہیں بغیر تاخیر اور بغیر پہلوتہی کے بجا لانا چاہئے.اگر وہ اس ذمہ داری کے بجالانے سے غفلت کریں گے تو اس کا نقصان خود اٹھا ئیں گے.یہ ایک ہندو کی آواز ہے بلکہ ایک آریہ کی آواز ہے جو مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگاتی ہے.اسلام کی حالت ایسی گر گئی ہے کہ اس سے مذہبی مخالفت رکھنے والے لوگ اب اسے ہوشیار کرتے ہیں اور اس کی حالت ان کے رحم کو جذب کرتی ہے.بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے اور تھوڑا باقی ہے.اگر اب بھی ستی کی گئی تو کسی بہتری کی امید رکھنی فضول ہے.جب تک اسلام بہیمیت اور دنیا کے لئے مہلک بیماری کے رنگ میں دیکھا گیا اس وقت تک مغربی بلاد سے کسی انصاف کی امید رکھنا ایک فضول امر ہے.اور جب تک دو سرے بلاد خصوصاً امریکہ کی رائے انگلستان کے ساتھ نہ ہو اس وقت تک برطانیہ کی آواز کے سنے جانے کا خیال بھی کرنا ایک وہم ہے.برطانیہ اکیلا کچھ نہیں کر سکتا برطانیہ کو کسی مددگار کی ضرورت ہے اور چونکہ یہ کام مسلمانوں کا ہے یہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ برطانیہ کو ایسا مددگار تلاش کر کے
العلوم جلد مسلمانوں کا فرض - دیں بلکہ خود برطانیہ کو بھی اسلام سے زیادہ واقف کریں میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی تبلیغ ایک مذہبی فرض تھا ایک سخت ذمہ داری تھی ایک نازک معاہدہ تھا جو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ مسلمانوں نے کیا تھا.مگر اس کو پورا کرنے کی طرف مسلمانوں نے توجہ نہیں کی.اگر پہلے مذہب کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس کام سے غفلت برتی ہے.تو اب اپنی جان بچانے کے لئے عزت کی زندگی کے بسر کرنے کے لئے ان کو اس کام کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اور سب ذرائع عارضی ہیں مگریہ ذریعہ کامیابی مستقل ہے.جب کوئی شخص بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے.تو تو طبیب سمجھ لیتا ہے کہ یہ سب کسی خاص سبب سے پیدا ہوئی ہیں اور وہ بجائے الگ الگ بیماریوں کا علاج کرنے کے اس جڑ کا علاج کرتا ہے.اس وقت مسلمانوں کے دنیاوی مصائب کا اصل سبب ان ممالک کا اسلام کے متعلق غلط واقفیت رکھنا ہے جن کو اس وقت غلبہ اور اقتدار حاصل ہے.پس فردا فردا ان مصائب کا علاج فضول ہے.جڑ کا علاج کرو اور مرض خود دور ہو جاوے گی.بے شک یہ بات درست ہے کہ ان ملکوں کو مسلمان کرنے کے لئے صدیاں چاہئیں.لیکن اس تعصب کو دور کرنے کے لئے جو ان ممالک میں پیدا ہے صدیوں کی ضرورت نہیں.ایک معقول تعداد اسلام سے واقف کار آدمیوں کی اگر امریکہ اور فرانس کی طرف فورا نکل جاوے.تو چند ماہ میں بہت کچھ جہالت اور تعصب دور کر سکتی ہے.ہم نے انگلستان میں اس کا تجربہ کر لیا ہے اور وہ تجربہ کامیاب ہوا ہے.دو سو کے قریب تو اس وقت وہاں کے باشندے مسلمان ہو چکے ہیں.مگر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام سے واقف ہو کر اس سے تعصب چھوڑ بیٹھے ہیں.پس جلدی کرو اور اس تجربہ سے فائدہ اٹھاؤ.میرا ارادہ جلد ہی امریکہ میں بھی ایک مشن قائم کرنے کا تھا.مگر امریکہ سے اس غیر مذہب والے کی آواز نے مجھے اور بھی جلد اس کام کے کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے.مگر جس کام کو آپ لوگ چاہتے ہیں اس کے لئے اور بھی زیادہ جلدی اور زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے.اگر کسی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے تو اس طرح کہ چند آدمی اسلام کے واقف فرانس میں رکھے جاویں جو علاوہ اخباروں اور رسالوں کی کے ذریعے اسلام کی خوبیوں سے لوگوں کو واقف کرنے کے مختلف بلاد کے لیڈروں سے بھی میں اور ان کو بھی بتائیں کہ اسلام تہذیب و شائستگی کا قائم کرنے والا ایک ہی مذہب ہے نہ کہ اس کا مٹانے والا.اس طرح کچھ لوگ امریکہ جاویں اور وہاں اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ اسلام سے وہاں کے لوگوں کو واقف کرنے کے علاوہ تمام ملک کے وسیع دورے کریں.اور
انوار العلوم جلدم ۴۵۱ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ایک سرے سے دوسرے میرے تک وہاں کے باشندوں کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں.گو وہ تو فورا اس کو قبول نہیں کر سکتے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جلد اسلام کی دشمنی سے دست بردار ہو جاویں گے.مت اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ایسے آدمی کہاں سے آدیں.سو اس کا جواب میرے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا.حق چھپایا نہیں جا سکتا.اس وقت دنیا کی تباہی کو دیکھ کر اور اسلام کی موت کو مشاہدہ کر کے خدا تعالٰی نے رسول کریم ﷺ کے وعدہ کے مطابق اپنا ایک مرسل بھیجا ہے.جس نے باوجود ناواقفوں کی مخالفت اور دشمنی کے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے اسلام کے لئے فدا ہے.اور اس کے انگریزی خوان اور عربی خوان افراد دونوں اسلام کے اصول سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس پر عملی طور پر کار بند بھی ہیں.اور اسلام کی خد میں اپنی جانیں دینے سے بھی نہیں ڈرتے.وہ تعداد میں ابھی بہت تھوڑے ہیں اور غریب ہیں.مگر اب بھی مختلف بلاد میں ان کی طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے آدمی مقرر ہیں.اور ان کے سامنے مسیحی مشنری ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں ٹھرتے.اور خود ان کے دشمن اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ مسیحی مشنریوں کے بھگانے کے لئے وہ ایک حربہ ہیں.اور کیوں نہ ہو انہوں نے اسلام کو اس کی اصل شکل میں دیکھا اور سمجھا ہے.انگلستان میں اس وقت اس جماعت کی طرف سے چار آدمی موجود ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ بہت جلد وہاں پچاس تک آدمی بھیج دیئے جاویں.جب راستہ کی رکاوٹیں دور ہوں یہ لوگ روانہ ہونے شروع ہو جاویں گے.غرض اس جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کام کر سکتے ہیں اور جو اسلام سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے ہر ایک جگہ جانے کے لئے تیار ہیں.اور میں ایسے آدمیوں کی ایک معقول تعداد اس کام کے لئے مہیا کر سکتا ہوں.اگر آپ لوگ سنجیدگی سے اس کام پر آمادہ ہوں تو لندن کے چار مشنریوں میں سے کم سے کم تین فورا میں امریکہ کے لئے فارغ کر سکتا ہوں.یہ لوگ فوراً امریکہ روانہ ہو جائیں اور اسلام سے وہاں کے لوگوں کو واقف کریں اور ساتھ اس امر کی طرف بھی توجہ دلائیں کہ ترکوں سے جو سلوک ہو رہا ہے وہ درست نہیں.اور اس طرح میں اور آدمی بھی دے سکتا ہوں.اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اپنی اصلی شان میں نظر نہیں آسکتا جب تک وہ اس طرح لوگوں کے سامنے پیش نہ کیا جائے جس طرح اس زمانہ کے مصلح نے اسے پیش کیا ہے.اور اس
انوار العلوم جلد " ۴۵۲ ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض وقت تک اس کی ہیبت لوگوں کے دلوں میں نہیں بیٹھ سکتی جب تک اس کے زندہ ہونے کا ثبوت زندہ نشانوں سے نہ دیا جائے.پس یہ لوگ اپنے عقائد کو نہیں چھپا سکتے مگر آپ لوگ اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی بقاء کے لئے اگر اس بات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں تو مجھے اس کام کے اہل لوگ مہیا کر دینے میں کوئی عذر نہیں.ان لوگوں میں سے کچھ امریکہ میں کام کریں اور کچھ فرانس میں.اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے جب تک ترکوں سے معاہدہ طے ہو.میرے نزدیک ان تمام مشکلات کا حل صرف یہی ہے اور اگر اس دروازہ سے داخل ہو کر کامیابی حاصل نہ کرنی چاہی تو کامیابی کی امید رکھنی فضول ہے اور سب جلسے اور ریزولیوشن اور ڈیپوٹیشن صرف کھلونے ہیں جن سے بچے تو خوش ہو سکتے ہیں مگر صاحب تجربہ اور صاحب عقل کچھ امید نہیں رکھ سکتے.اگر آپ لوگوں کی سمجھ میں یہ نصائح آئیں تو آپ لوگ میرے قائم مقاموں سے اس کے متعلق گفتگو کر سکتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے ارشاد کے ماتحت ہماری طرف سے تو دیر سے حجت پوری ہو چکی ہے.اب لالہ لاجپت صاحب کی قلم کے ذریعہ غیر مذ ہب والوں کی طرف سے بھی آپ پر حجت قائم ہو گئی ہے.وَأَخِرُ دَعْوَمِنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ - خاکسار مرزا محمود احمد از قادیان ۱۸ ستمبر ۱۹۱۹ء الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۱۹ء)
العلوم جلد لهر ۴۵۳ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے (مسٹر ساگر چند بیر سٹرایٹ لاء کو نصائح) از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
۴۵۴
انوار العلوم جلد ۴ ۴۵۵ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے (مسٹر ساگر چند بیر سٹرایٹ لاء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی نصائح فرموده ۶ - و سمبر ۱۹۱۹ ء بیت المبارک قادیان) معمول کی ابتدائی گفتگو کے بعد حضور نے فرمایا:- اب جبکہ آپ ولایت سے واپس آگئے ہیں آپ کی روحانی اور ایمانی ترقی کا وقت روحانی اور ایمانی ترقی کا وقت ہے.جو لوگ وہاں جاتے ہیں ان میں سے بہت سے اپنے پہلے مذہب کو بدل لیتے ہیں.کتنوں پر وہاں کی آزادی کا اثر پڑتا ہے اور کتنوں ہی پر وہاں کی موجودہ عیسائیت اپنا اثر کرتی ہے اور بہت سے وہاں کے تمدن میں جذب ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ لوگ وہاں سے واپس آتے ہیں تو ان کے پرانے تعلقات پھر ان کو اپنی طرف کھینچنا شروع کر دیتے ہیں.یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ دو چیزیں ہیں جو انسان پر بہت مؤثر ثابت ہوتی ہیں.(1) تعلقات جن کو غالباًا انگریزی میں ایسوسی ایشن کہتے ہیں اور دوسری چیز جذبات اور احساسات جن کو انگریزی میں فیلنگز (FEELINGS) کہتے ہیں اثر انداز ہوتے ہیں.وہ بڑے بڑے کام جو یوں محنت اور مشقت سے نہ ہو سکیں مگر جب جذبات کو جذبات کا اثر ابھار دیا جائے تو فورا ہو جاتے ہیں.تمام علوم اور ہنر اور تحقیقا تیں جذبات کے مقابلہ میں بسا اوقات دھری رہ جاتی ہیں.تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ حکومتوں نے جذبات کے ماتحت پلٹے کھائے ہیں مثلا دلی کی حکومت کا آخری چراغ جب گل ہوا تو اس وقت ایک ایسا وقت بھی آیا کہ انگریزوں کی پوزیشن سخت نازک ہو گئی تھی.بادشاہ کی بیگم جس کا نام زینت محل تھا کہتے ہیں کہ اگر اس کے مکان کے سامنے توپ خانہ رکھا جاتا اور وہاں سے گولہ باری کی جاتی
انوار العلوم لم ۴۵۶ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی.تو امید کی جاتی تھی کہ انگریزی فوج کو سخت نقصان پہنچا مگر بادشاہ کی بیگم جو در پردہ انگریزوں کی ہم خیال اور ان سے متفق تھی.کیونکہ اس کو امید تھی کہ جو تغیر ہو گا وہ اس کے بیٹے کے لئے مفید ہو گا جب توپ خانہ وہاں رکھا گیا تو بیگم نے کہا مجھے غشی آنے لگی ہے گولہ باری نہ کرو.بادشاہ خود اس کے پاس گیا اور کہا کہ یہ وقت نہایت نازک ہے ہمارے افسر کہتے ہیں کہ یہ ایسا عمده موقع گولہ باری کے لئے ہے کہ ہمیں یقینا فتح ہو گی.بادشاہ کی بیگم چونکہ دل میں اور ارادہ رکھتی تھی اس نے بادشاہ سے کہا کہ اچھا گولہ باری ہو مگر پہلے آپ اپنے ہاتھ سے مجھے قتل کر دیں.بادشاہ اس جذبہ محبت سے مغلوب ہو گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خاندان ہمیشہ کے لئے مٹ گیا تو جذبات کا اثر علم پر تجربہ پر سب پر غالب آتا ہے اور اگر دنیا میں دیکھا جائے تو کثیر حصہ گناہوں کا محض جذبات کے ماتحت ہی ہوتا ہے مثلاً شہوت سے تعلق رکھنے والے گناہ یا رشوت ستانی وغیرہ تمام جذبات کے ماتحت ہوتے ہیں.ایک شخص جانتا ہے کہ رشوت بری چیز ہے لیکن وہ دیکھتا ہے کہ بیوی کی پرورش میرے ذمہ ہے اور میرے بچے اس سے پرورش پائیں گے.پس یہ جذبہ غالب آتا ہے اور اس کے اس علم پر پردہ پڑ جاتا ہے جو اس کو رشوت کی برائی تعلقات کا اثر کے متعلق ہوتا ہے.اس طرح فیلنگز (جذبات) علم اور تجربہ پر غالب آجاتے ہیں.دوسری بات تعلقات اور علاقے ہوتے ہیں جن کا اثر انسان پر پڑتا ہے اور ان علاقوں کا اثر در حقیقت عادت کی وجہ سے ہوتا ہے.ایک انسان جب وطن سے دور ہوتا ہے تو آہستہ آہستہ وہ عادات جو اس کو پڑی ہوئی تھیں فراموش ہوتی جاتی ہیں لیکن جب وہ واپس اپنے وطن کی طرف آتا ہے تو ان گلیوں کو دیکھ کر جن میں وہ پھرتا تھا اور ان آدمیوں کو دیکھ کر جن میں وہ رہتا تھا طبیعت خود بخود ان عادات کی طرف لوٹتی ہے جن میں وہ اس وقت مبتلا تھا جس وقت ان گلیوں اور ان آدمیوں کے ساتھ اس کا تعلق تھا چنانچہ خواہ کتنا عرصہ ایک انسان اپنے وطن سے دور رہا ہو جس وقت اپنا وطنی آدمی اسے مدت کے بعد نظر آوے تو بے اختیار اسے اپنی زبان یاد آجاوے گی.اگر وہ مہمان ہے تو ویسے کھانے تیار کرا کے اسے کھلائے گا کیونکہ عادات اس تحریک سے پھر آگے آجاویں گی.تو ایک چیز کو دیکھ کر جس سے انسان وابستہ رہا ہو پرانی آرزو کیں اور تمنا ئیں اور عادتیں اور جذبات عود کر آتے ہیں.پس آپ کے لئے اصل فیصلہ کا وقت یہی ہے جب آپ ہندوستان میں آگئے ہیں.مجھے تو اب معلوم ہوا ہے کہ آپ کے والد صاحب زندہ ہیں وہ بھی آپ کے لئے ایک کشش ہیں ان پر انے
دم چند ۴ ۴۵۷ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی.خیالات کی طرف جن کو آپ ترک کر چکے ہیں.اس ملک میں آکر بھی اگر تمام علاقوں اور جذبات کے مقابلہ حقیقی تحقیقات اب ہوگی میں آپ کی پہلی تحقیق ثابت اور قائم رہی تب آپ کی تحقیق حقیقی تحقیق کہلا سکتی ہے اور آپ کا ایمان پختہ ایمان ہو گا.آپ کا پہلا نتیجہ اور فیصلہ میرے نزدیک یقینی نتیجہ نہیں کیونکہ جس وقت آپ نے وہ نتیجہ نکالا تھا اس وقت آپ کے مقابلہ میں یہ جذبات اور علائق نہ تھے جو اب ہیں.اس لئے وہی نتیجہ دائمی نتیجہ ہو گا جس پر ان علائق اور جذبات کے مقابلہ میں آپ پہنچیں گے.یک طرفہ فیصلہ te اگر آپ ان علائق اور ان جذبات کا مقابلہ کر سکے اور عادات قدیمہ پر غالب آگئے تب آپ کا نتیجہ اور فیصلہ درست مانا جائے گا لیکن جب تک یہ چیزیں آپ کے آگے نہ تھیں اس وقت کا فیصلہ تو اس ضرب المثل کا مصداق تھا کہ " تنها پیش قاضی روی راضی آئی (یہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح نے متبسم ہو کر فرمایا کہ ) یہاں تو معاملہ اس کے بھی برعکس ہے کیونکہ آپ تنہا پیش قاضی نہیں گئے.بلکہ (قاضی عبداللہ صاحب کی طرف دیکھ کر جو پاس ہی بیٹھے تھے کہا کہ قاضی آپ کے پاس گیا تھا دوسرے فریق کی سنی ہی نہیں.ہمارے مبلغوں کی باتیں سنیں اور آپ نے سمجھا کہ یہ باتیں معقول ہیں.آپ نے ان کو قبول کر لیا لیکن ان کے مقابلہ میں دوسرا کوئی سنانے والا نہ تھا.اس لئے یہ فیصلہ یک طرفہ ہے پہلی باتیں جو آپ نے سنی ہوئی تھیں وہ اس عمر کی تھیں جس وقت کی سنی ہوئی باتیں چنداں یاد نہیں رہتیں.پس اس وقت مقابلہ نہ تھا.ہمارے مبلغوں نے آپ کو جو کچھ سنا دیا آپ نے اس کے مطابق فیصلہ کر لیا کہ یہ باتیں معقول ہیں، درست ہیں.اب آپ یہاں آئے ہیں اور یہاں فریق مخالف کے بھی لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس بھی اپنے مذہب کی صداقت کے دلائل ہیں.اس لئے یہاں مقابلہ ہو گا پھر اس وقت فیلنگز آپ کے سد راہ نہ تھے یہاں فیلنگی بھی ہیں پس وہ فیصلہ آپ کا یک طرفہ تھا اور اس فیصلہ کے قبول کرنے میں کوئی روک نہ تھی مگر اب کا فیصلہ زیادہ غور اور فکر کا نتیجہ ہو گا اور تمام روکوں کو یہ نظر رکھ کر ہو گا اگر اب بھی اسی پہلے فیصلہ پر قائم رہے تب معلوم ہو گا کہ آپ نے پہلا فیصلہ بھی خوب سوچ سمجھ کر کیا تھا ورنہ ایک جلد بازی کا فیصلہ سمجھا جاوے گا.
العلوم جلد ۴۵۸ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے در حقیقت جو مشکلات کو مد نظر رکھ کر جو فیصلہ کیا جائے وہ حقیقی فیصلہ ہوتا ہے فیصلہ بغیر راه میں آنے والی مشکلات کو مد نظر رکھنے کے کیا جاوے وہ حقیقی فیصلہ نہیں ہے.قرآن کریم نے اس بات کو نہایت لطیف طور پر بیان فرمایا ہے.فرماتا ہے:- أحَسِبَ النَّاسُ أَنْ تُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا أمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنكبوت : (٣) کہ کیا لوگوں نے خیال کر لیا ہے کہ ان کے صرف اتنا کہہ دینے سے کہ ہم ایمان لے آئے ان کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان کا امتحان نہیں لیا جائے گا.فتنہ کے معنے ہوتے ہیں آگ میں ڈال کر کھوٹے کھرے کو پرکھنا.جیسا کہ سونا آگ میں ڈالا جاتا ہے.پس اسی طرح ایک شخص اگر ایمان کا دعوی کرتا ہے تو اس کو ایک آگ میں ڈالا جاتا ہے جو تعلقات اور جذبات کی آگ ہوتی ہے اگر اس آگ میں پڑ کر وہ سلامت نکلے ، خدا تعالی فرماتا ہے تب ہم اس کو مؤمن کہیں گے.یہ فتنہ ( آزمائش) میں پڑنے کا معاملہ آپ سے ولایت میں نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ وہاں پر وہ لوگ نہ تھے جن سے آپ کا مذہبی تعلق ہو تا، نہ وہ چیزیں تھیں جن کو علائق کہتے ہیں اور نہ آپ کے جذبات ابھارنے کے سامان تھے کیونکہ وہاں کے لوگوں کے نزدیک جیسا اسلام غیر مذہب تھا ویسا ہی ہندوؤں کے مختلف مذاہب غیر.اور اگر وہ لوگ آپ سے نفرت کرتے بھی تو بھی آپ کہہ سکتے تھے کہ ان کی نفرت میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتی کیونکہ وہاں آپ کی اقامت عارضی تھی لیکن یہاں یہ بات نہیں کیونکہ یہاں پر وہ لوگ بھی ہیں جن سے آپ کا مذہبی اتحاد رہا ہے اور پھر آپ کے والد صاحب ہیں، بھائی بہن ہیں، دوسرے رشتہ دار ہیں، بیوی ہے.یہ وہ تمام باتیں ہیں جو عادات قدیمہ اور جذبات پر اثر ڈالنے والی ہوتی ہیں.ان مختلف کشوں کے مقابلہ میں اگر آپ اسی نتیجہ پر قائم رہیں جو آپ نے نکالا ہے تو وہ درست ہو گا.ولایت میں تو یہ بات تھی کہ وہاں آپ خواہ کتنا ہی لمبا عرصہ رہے لیکن آپ کا یہ کبھی خیال نہیں ہوا ہو گا کہ وہ آپ کا وطن ہے اس لئے وہاں کے لوگوں کی مخالفت پر آپ کہہ سکتے تھے کہ ہم اپنے وطن میں چلے جائیں گے یا کسی اور جگہ چلے جائیں گے مگر یہاں کے لوگوں کی مخالفت پر آپ یہ کہہ کر دل کو تسلی نہیں دے سکتے کہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا کیونکہ آپ کو اسی ملک میں رہنا ہو گا.پس یہ مختلف فتنے ہیں، مختلف آزمائشیں ہیں اور مختلف امتحان ہیں.اگر آپ ان میں پورے اتریں تو البتہ آپ کا فیصلہ درست ہو گا.مسلمان سینکڑوں
وم جلد " ۴۵۹ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے برس سے چلے آتے ہیں لیکن اسی قاعدہ کے مطابق جب ان کا امتحان لیا گیا تو بہت سے رہ گئے.رسول کریم کے وقت میں عورتوں تک کو ایمان کا اظہار کرنے کی وجہ سے مخالفین کی طرف سے طرح طرح کی مصیبتیں پہنچائی گئیں لیکن انہوں نے ان تمام کشوں اور تمام علاقوں اور جذبوں کو اسلام کے مقابلہ میں چھوڑ دیا کیونکہ انہوں نے دیکھ لیا تھا کہ اسلام حق ہے.بہت دفعہ ہوتا ہے کہ انسان خیال کرتا ہے امتحان انسان پر اس کی حقیقت کھولتا ہے کہ میں ایک بات مانتا ہوں لیکن جب امتحان آکر پڑتا ہے تو رہ جاتا ہے کیونکہ پہلے ان تمام باتوں کا جو اس بات کے ماننے میں علائق اور جذبات کی صورت میں مانع ہوتی ہیں اس کو علم نہیں ہوتا یا اگر ہوتا ہے تو وہ چیزیں اس کے سامنے نہیں ہو تیں اور جب سامنے آجاتی ہیں تو پھر اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اس کا پہلا خیال کمزور تھا اور ماننے کا دعویٰ درست نہ تھا.بہت لوگ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے ملک میں رہتے ہیں مگر ان کو معلوم نہیں ہوتا کہ انہیں اپنے ملک سے محبت ہے لیکن جب ایک شخص کو اس وطن سے علیحدہ کیا جاتا ہے اور حکماً کیا جاتا ہے تو وہ ان جگہوں کو دیکھتا ہے ، ان عمارتوں کو دیکھتا ہے، ان درختوں کو دیکھتا ہے اور دیکھ دیکھ کر رو دیتا ہے.اس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنے وطن سے کیسی محبت تھی.یہ حالت معمولی لوگوں کی ہی نہیں ہوتی بلکہ بڑے بڑے علم والوں کی ہوتی ہے.نپولین کے متعلق لکھا ہے کہ جب اس کو انگریزوں نے ماخوذ کرلیا اور اس کو لے چلے تو بادل پھٹا اور اس کو فرانس نظر آیا تو اس نے ٹوپی اتار لی اور کہا " الوداع اے فرانس" نپولین کے اس قول کا یہ اثر پڑا کہ وہ انگریز افسر جو اس کے نگہبان تھے انہوں نے بھی اپنی ٹوپیاں اتارلیں.فرانس کی محبت کا اظہار جس طرح اس وقت نپولین سے ہوا جب وہ فرانس میں ہوتا ہوگا اس کو کبھی محسوس بھی نہیں ہوا ہو گا کہ اس کو اس قدر فرانس سے محبت ہے.ہمارے ملک کا ایک مشہور بادشاہ گزرا ہے جب اس کو جلا وطن کیا گیا تو اس نے وطن کی محبت کا اظہار اس شعر میں کیا کہ - یا تو ہم پھرتے تھے ان میں یا ہوا یہ انقلاب پھرتے ہیں آنکھوں کے آگے کوچہ ہائے لکھنو یوں تو وطن سے باہر عموماً لوگ سیر کے لئے جاتے ہیں لیکن جب محکماً ان کو بھیجا جائے اور
انوار العلوم جلد ۴ ۴۶۰ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے پھر لوٹنے کی امید نہ ہو تب وطن کی محبت کا حال معلوم ہوتا ہے بچوں تک کو دیکھو اپنے والدین سے لڑتے ہیں کہ ان کو سیر کرائی جائے لیکن کسی کو یوں پکڑ کر دوسری جگہ لے جاؤ تو کس قدر اس کو رنج پہنچتا ہے.تو حقیقی استقامت ، اصل ایمان بچی بہادری کا پتہ تب ہی لگتا ہے جب مقابلہ ہو.عموماً لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ بڑے بہادر ہیں اور جب وہ اخبارات میں پڑھیں کہ کوئی فوج بھاگ گئی تو وہ حیران ہوتے ہیں کہ اس قدر بزدل آدمی بھی ہوتے ہیں جو میدان مقابلہ سے بھاگ جاتے ہیں.لیکن ان ہی لوگوں کو میدان جنگ میں لے جاؤ ان میں سے ستر اتنی فیصدی بزدل ثابت ہوں گے.عموما فوجیں اپنی ہی گولہ باری سے ڈر کر لڑتی ہیں ورنہ ایک بڑی تعداد میدان جنگ سے بھاگ جاوے: میں نے ایک دفعہ ایک سپاہی سے دریافت کیا کہ آج کل فوجوں میں بہادری کا کیا حال ہے اس نے کہا کہ ہم بہادری کو نہیں جانتے.ہمارے پیچھے توپ خانہ ہوتا ہے اور آگے دشمن کی فوج اگر بلا حکم پیچھے ہیں تو اپنے ہی توپ خانہ کا نشانہ بنتے ہیں.اس لئے یہ خیال کر کے کہ بلا حکم پیچھے ہے تب اپنوں کے ہاتھوں سے مارے جاویں گے اس لئے بہتر ہے کہ دشمن سے ہی لڑیں تا مریں تو دشمن کے ہاتھ سے مریں اور اگر بچ جاویں تو انعام پاویں.پھر بعض اقوام اسی لئے لڑنے والوں کو شراب پلا کر میدان میں بھیجتی ہیں اور سکھوں میں بھی یہی رواج تھا بلکہ سوائے مسلمانوں کے سب قوموں میں یہی طریق رائج رہا ہے.شراب پلانے سے یہی غرض ہوتی ہے کہ بزدلانہ خیالات دل میں نہ آنے پاویں.غرض حقیقی بہادر بہت کم لوگ ہوتے ہیں لیکن خیال سب لوگ ہی کر لیتے ہیں کہ ہم بہادر ہیں اور جب تک تجربہ کا موقع نہیں آتا یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ درست ہے مگر جب وہ مواقع سامنے آتے ہیں تو ان کو اپنے فیصلہ پر پچھتانا پڑتا ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ بہادر ہیں مگر موقع پر ان پر اپنی غلطی کھل جاتی ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہیں کسی سے محبت ہے اور واقع میں وہ خیال کرتے ہیں کہ ان کا سینہ مثلاً اولاد کی محبت سے معمور ہے مگر جب کوئی موقع پڑتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے کہ اصلی محبت نہ تھی صرف ایک نفس کا دھوکا تھا.یورپ کے بعض واقعات میں نے پڑھے ہیں کہ بعض تھیٹروں میں تماشہ کے وقت آگ لگی تو کئی مائیں اپنے بچوں سے کئی بھائی اپنے بھائیوں سے کئی خاوند اپنی بیویوں سے اور کئی بیویاں اپنے خاوندوں کو دھکے دیتے ہوئے اپنی جانوں کے بچانے کے لئے دروازہ کی طرف بھاگے حالانکہ اس گھبراہٹ سے اور بھی زیادہ
لوم جلد ۴ نقصان ہوتا ہے.آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے تو جو انسان جذبات سے جذبات کا مقابلہ کر کے صداقت پر قائم رہنا بہادری ہے متأثر ہو کر صداقت یا اپنے فیصلہ پر قائم نہ رہ سکے اس کا پہلا فیصلہ فیصلہ کہلانے کا مستحق نہیں.ایک شخص خیال کرتا ہے کہ خدا کا حکم ہے کہ رشوت نہ لوں مگر دوسری طرف جذبہ محبت ہے کہ وہ دیکھتا ہے کہ اولاد بھوکی ہے بیوی کے تن پر کپڑا نہیں.اس وقت باوجود جاننے کے کہ رشوت ستانی خدا کے حکم کے خلاف ہے ، وہ شخص اس جذبہ محبت کے زیر اثر رشوت لے لیتا ہے اگر چہ دل میں وہ سمجھتا تھا کہ اس کو خدا سے محبت ہے اور وہ اظہار بھی کرتا تھا مگر جب موقع آیا تب کھل گیا کہ خدا کی محبت کا دعوی بے دلیل تھا.اسی طرح بہت لوگ جھوٹ کو برا جانتے ہیں مگر جب وہ خیال کریں کہ کسی دوست کی جان جھوٹ بول کر بیچ سکتی ہے تو وہ جھوٹ بولنے میں دریغ نہیں کرتے اور اس طرح پتہ لگ جاتا ہے کہ خدا کی محبت اور جھوٹ سے نفرت قبل از امتحان کا ایک خیال تھا.غرض اب آپ کے امتحان کا وقت آیا ہے ایک طرف آپ کے جذبات ہیں امتحان کا وقت اور علائق ہیں رشتہ دار ہیں، طبعی محبت ابھرتی ہے اور وہ قرب ظاہری کے ساتھ باطنی قرب بھی چاہتی ہے ایسی حالت میں بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کیوں ایسی بات کریں جس سے ہمارے ان متعلقین کو تکلیف پہنچے.باپ کو رنج ہو ماں دکھ اٹھائے آپ شادی شدہ ہیں اور بیوی کی محبت ایک فطری اور قدرتی محبت اور تقاضا ہے.سوائے ان لوگوں کے جن کی فطرت مسخ ہو گئی سب انسانوں میں محبت ہوتی ہے اور یہ محبت اللہ تعالیٰ کی خاص حکمت کے ماتحت ہوتی ہے کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے مدنی الطبع پیدا کیا ہے.ہر شخص کا دوسرے شخص پر سہارا ہوتا ہے تو بالطبع انسان چاہتا ہے کہ کوئی دوست بنائے چونکہ انسان دوست بنانے میں غلطی کر سکتا ہے اس لئے اللہ تعالٰی نے اس قسم کے جذبات انسان میں رکھے کہ جن کے ہونے سے ایک مرد عورت کو اپنے لئے دوست اور غمگسار بنالیتا ہے اور ایک عورت ایک مرد کو غمگسار بنالیتی ہے پس بیوی کی محبت ایک فطری امر ہے جس کو بناوٹ سے تعلق نہیں.پس بیوی کی محبت بھی اپنی طرف کھینچتی ہے.یہ تمام تعلقات اور جذبات کسوٹی کی طرح ہیں.ان پر پر کھے جانے کے بعد دعوئی ثابت ہو سکتا ہے.سونا وہی قابل تسلی ہے جو کسوٹی پر لگانے سے خالص ثابت ہو.جب انسان ان آزمائشوں میں پورا اترا اور ان باتوں نے اس پر کوئی اثر نہ کیا تو معلوم
انوار العلوم جلد ۴ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے ہوتا ہے کہ وہ پاک ہو گیا اور اس وقت کہا جائے گا کہ اس میں ایمان پیدا ہو گیا ہے.آپ کے لئے یہ امتحان اب شروع ہوا ہے پس آپ کو چاہئے کہ اب خاص طور پر ان تمام نتائج پر جرح کریں جو آپ نے اب تک نکالے ہیں.اگر اب آپ کی جرح میں وہ تمام نتائج صحیح ثابت ہوں تو پھر وہ قابل قدر ہوں گے.یہ ہمارے شاہ صاحب (سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب جو مسٹر احتیاط ضروری ہے ساگر چند کے برابر ہی دائیں طرف بیٹھے تھے) جن سے شاید آپ کا اب تعارف ہو گیا ہو گا.ان کو میں نے تعلیم عربی کی تکمیل کے لئے مصر میں بھیجا تھا یہ تھوڑے عرصہ کے بعد مصر کو چھوڑ کر شام میں چلے گئے.مجھے اس قسم کے حالات نظر آئے کہ ان کا شام میں جانا مصر تھا.میں نے ان کو ملامت کے خطوط لکھے اور ان کے ساتھ جو دوسرے صاحب تعلیم کے لئے گئے تھے (یہ دوسرے صاحب جناب شیخ عبدالرحمن صاحب مولوی فاضل سابق لالہ شنکر داس لاہوری ہیں) ان کو لکھا کہ وہ فورا وہاں جائیں اور ان کو شام سے لے آئیں لیکن اس عرصہ میں جنگ شروع ہو گئی اور وہ وہاں نہ جاسکے اور شاہ صاحب وہیں رہے جب یہ یہاں سے گئے تھے تو ایسی عمر میں گئے تھے کہ صحیح نتائج پر اعلیٰ طریق سے نہ پہنچ سکتے تھے.انہوں نے وہاں علمی تحقیقاتیں کیں.خدا نے ان کو ذہن رسا دیا تھا.علوم میں بہت جلدی ترقی کر گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو وہاں یہ رتبہ دیا کہ آہستہ آہستہ وہاں کے گورنمنٹ عربی سلطانیہ کالج کے انٹرنل اسٹنٹ ڈائرکٹر (مدیر داخلیہ) ہو گئے.ہمیں نہیں معلوم کہ یہ کن کن حالات میں سے گزرے اور کن کن خیالات کا ان کو مقابلہ کرنا پڑا.یہ جو کچھ بھی تھے بہر حال نسلی طور پر ان پر ہمارا حق تھا کیونکہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ انسان کی پیدائش اس دین پر ہوتی ہے جو خدا نے اس کے لئے پسند کیا.مگر اَبَوَاهُ يُهُودَانِهِ أَو يُنَصِّرَانِهِ (مسلم کتاب المقدر باب كل مولود يولد على الفطرة بعد میں ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بناتے ہیں.اسی طرح چونکہ ان کے والدین خدا کے فضل سے احمدی ہیں.اس لئے ہمارا ان پر احمدیت کا حق تھا لیکن جب یہ چھ سال کے بعد واپس آئے اور انہوں نے آتے ہی چاہا کہ میرے ہاتھ پر بیعت کریں تو میں نے ان کو روک دیا اور کہہ دیا کہ آپ ابھی ٹھہریں اور صبر کریں اور جو کچھ ہم کہتے ہیں اس پر غور کریں اور جن خیالات پر آپ یہاں سے گئے تھے ان کو سوچیں اگر وہ باتیں اب بھی درست معلوم ہوں تو بعد میں آپ بیعت کرلیں.چنانچہ ایک یا ڈیڑھ مہینہ تک
العلوم جلد ۴ ۴۹۳ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے سوچتے رہے اور اس کے بعد انہوں نے کہا کہ میں اب کی تحقیقات کے بعد بھی اسی نتیجہ پر قائم ہوں جس پر پہلے تھا اس لئے میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.پھر میں نے ان سے بیعت لی.در حقیقت یہ انسان پر ظلم ہے کہ کسی عقیدہ پر انسان کو مجبور کرنا اس پر ظلم ہے اس کو کسی عقیدے پر مجبور کیا جائے اور اس کو موقع نہ دیا جائے کہ وہ خوب غور کرے اور سوچے اور سوچ سمجھ کر کسی عقیدہ کو ترک کرے یا کسی کو قبول کرے اور اس پر قائم رہے.اصل میں ایمان تب ہی پیدا ہوتا ہے جب یہ حالت ہو جائے کہ تمام دنیا کی محبتیں اور تمام دنیا کے علاقے اور تمام دنیا کی کششیں اس کے مقابلہ میں بیچ ہو جائیں.ایمان میں پوشیدگی کی ضرورت نہیں.اگر کمزور ایمان ہو تو وہ تو شیشے کے برتنوں کی طرح ہے کہ جس کے ہر وقت ٹوٹنے کا اندیشہ لگا رہتا ہے.کچا برتن ایک مصیبت ہے اگر انسان اس مصیبت سے نجات چاہتا ہے تو اس کو آگ میں ڈال دے تاکہ وہ پختہ ہو جائے.پس میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی تحقیقات کو دہرائیں اور دیکھیں کہ جس بات کو آپ نے علمی طور پر صحیح پایا تھا اب اس کے مخالف باتیں سن کر اور علاقوں کی موجودگی اور جذبات کے ابھرنے پر بھی آپ ان کو صحیح پاتے ہیں اور ان پر قائم رہنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں ؟ اگر اس دوبارہ غور و خوض میں بھی آپ کو یہ نتائج صحیح اور یہ فیصلہ درست معلوم ہو اور آپ اس پر قائم رہنے کی جرات اپنے اندر پاتے ہوں تو پھر یہ ایک قابل قدر چیز ہو گی.جہاں آپ نے پہلا فیصلہ کیا ہے اس ملک میں یہ جذبات اور تعلقات آپ کے آگے نہ تھے.اب آپ جب ہندوستان میں آگئے ہیں تو وہ جذبات اور تعلقات بھی پیدا ہو گئے ہیں.اس لئے آپ اس فیصلہ پر نظر ثانی کریں.اگر وہ تحقیقات صحیح ثابت ہوں اور آپ اس کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.تب آپ کی تحقیق آپ کے لئے بھی اور آپ کے دوستوں کے لئے بھی موجب تسلی اور باعث خوشی ہو گی.ہمیں تو حقیقت میں وہ ایمان پسند ہے جو ایسا پختہ ہو جس کے بعد کوئی کیسا ایمان چاہئے تحقیق اس کے مقابلہ میں نہ ٹھر سکے.بعض اوقات رسول کریم کوئی بات فرماتے اور پھر فرماتے کہ ولا فخر ترمزی ابواب المناقب باب ما ماء في نقل النبي اسی طرح میں بھی مجبور امثال کے طور پر نہ کہ کسی فخر کے لئے کہتا ہوں کہ میں اللہ تعالٰی
انوار العلوم جلدم ۴۶۴ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ کوئی علم اور کوئی تازہ ترین تحقیق قطعا قطعا مجھ پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.خواہ کسی علمی طریق پر اسلام کی صداقت کی جانچ کی جائے میں اس کا ثبوت دینے کے لئے تیار ہوں اور یہ ایمان کا ادنیٰ درجہ ہے.ورنہ ایمان کا اعلیٰ درجہ اس سے بہت بلند ہے پس ایمان کی یہ خصوصیت ہے کہ خدا خود سمجھائے.بیسیوں دفعہ نئے سے نئے علوم سامنے آتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض لوگ گھبرا جاتے ہیں لیکن مجھے اسی وقت اس کے متعلق خدا تعالیٰ علم دیتا ہے اور اس وسعت سے دیتا ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور ایسے ایسے علم دیتا ہے جن کے متعلق پہلے میں نے کبھی کوئی بات نہ پڑھی ہوتی ہے نہ سنی.اور وہ علم جو آتا ہے وہ خدا کی طرف سے کشف کے طور پر آتا ہے.یہاں پر لوگ آتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں اور بعد میں کہہ دیتے ہیں کہ آپ نے تو یہ علم خوب پڑھا ہوا ہے حالانکہ میں نے وہ علم نہیں پڑھا ہوتا اور یہ بات ایمان کو اور بھی پختہ کرتی ہے.خواہ کوئی سا علم ہو جس کو لوگ کتنا ہی اچنبا خیال کرتے ہوں اس کے سامنے آنے پر فورا خود بخود اس کی حقیقت کھل جاتی ہے.اگر وہ بات غلط ہو تو اس کی غلطی اور اگر درست ہو تو اس کی حقیقت ظاہر ہو جاتی ہے.علاقوں کا تعلق اتنا جس قدر علاقہ مضبوط ہو اسی قدر اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے ہوتا ہے مثلاً آپ کے ساتھ نام کا تعلق ہے یہ لوگ صرف اتنا جانتے ہیں کہ آپ کو اسلام سے محبت ہے.اس علاقہ کی وجہ سے کتنے ہی آپ کو آگے ملنے کے لئے گئے اور یہ جو اس قدر یہاں موجود ہیں سب آپ کو دیکھنے کے لئے آئے ہیں.حالانکہ یہ صرف نام کا تعلق ہے اور پھر جتنا جتنا تعلق بڑھتا جاتا ہے اس کے مطابق اس کا اثر بڑھتا جاتا ہے.رسول کریم ا لا لا یا اس سے بھی صحابہ کا ایک تعلق تھا.رسول کریم ﷺ کو جنگ احد میں پتھر لگے اور آپ بے ہوش ہو گئے.اس وقت ایک صحابی ابو دجانہ حضور کے پاس تھے وہ آپ کی طرف منہ اور مخالفوں کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہو گئے.ان کی پیٹھ پر بارہ تیر لگے بعد میں ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو تیر لگنے سے درد نہیں ہوتی ہے تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ کیوں نہیں.پھر کہا گیا کہ اس کا اظہار تو نہیں کیا.جواب دیا کہ میں نے اس وقت اُف نہ کی کہ اُن کے ساتھ انسان کا بدن کانپتا ہے.میں جانتا تھا کہ اگر اُف بھی کی تو جسم میں لرزہ پیدا ہو گا اور ممکن ہے اس لرزش میں کوئی حصہ حضور کے جسم کا تیر کی زد میں آجائے اور تیر آلگے اس لئے میں نے اس وقت اُف تک نہیں کی.(سیرت ابن ہشام اردو جلد ۲ صفحہ
انوار العلوم جلد ۴۶۵ آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے ۶۵ مطبع پر جنگ پریس لاہور مطبوعہ بار سوم (۱۹۷۵ء) بارہ تیر تھوڑے نہیں ہوتے.آج کل تو کسی شخص کو اگر دو تین تیر لگ جائیں تو وہ گر پڑے.تو جتنا جتنا علاقہ مضبوط ہوتا ہے اتنا ہی اس کا اثر بھی بڑھتا جاتا ہے.اسلام ہی در حقیقت ریشنلزم ہے لوگ تو بے اصلی ریشنلزم اسلام ہی ہے عقلی کا نام عقل رکھتے ہیں مگر اسلام عقل کو عقل کہتا ہے یہ اسلام ہی ہے جو کہتا ہے کہ جس بات کو مانو دلیل سے مانو - قرآن کریم میں اس کی مثال ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ منافق تیرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تو رسول ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تو سچ ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے مگر اللہ کہتا ہے کہ یہ منافق جھوٹے ہیں (المنفقون: ۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ جو کچھ کہتے ہیں بے دلیل اور اوپرے دل سے کہتے ہیں اس لئے جھوٹے ہیں.پس قرآن کریم تو کہتا ہے کہ جو مانو دلیل سے مانو.لوگ کہتے ہیں کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا ہے مگر میں کہتا ہوں کہ وہ اس آیت پر غور کریں کہ رسول کریم ﷺ کے پاس لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور آپ کی رسالت پر ایمان لاتے ہیں لیکن خدا تعالی ان کے متعلق کہتا ہے کہ یہ جھوٹے ہیں جو مذہب تلوار سے پھیلایا جاوے اس کی تو یہ کوشش ہوتی ہے کہ لوگ نام ہی اختیار کرلیں.مگر یہاں معاملہ بر عکس ہے.لوگ خود آکر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں لیکن ان کو کہہ دیا جاتا ہے کہ تم مسلمان نہیں کیونکہ تم بے دلیل اور جھوٹے دل سے کہتے ہو.یہ ایک نہایت لطیف بات ہے کی سچا ریشنلزم ہے کہ کوئی عقیدہ جو دل سے نہ مانا جائے اور جس کی بنیاد دلائل پر نہ ہو ماننے کے قابل نہیں.اس بات کو خدا تعالٰی نے ان لفظوں میں بیان کیا ہے کہ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ (الانقال : (۳۳) اسلام کی بنیاد یہ ہے کہ جس نے مرنا ہے وہ دلیل سے مرے اور جس نے زندہ ہوتا ہے وہ دلیل سے زندہ ہو اور عقل یہی چاہتی ہے کہ جس علم کے متعلق دریافت کرنا ہو اس کے حقیقی ماہر کے پاس جاویں مثلاً مریض ہو تو طبیب یا ڈاکٹر کے پاس جارے اور ڈاکٹروں میں سے بھی اس کو چنے جو واقع میں اس فن کو جانتا ہو.مگر یہ بے عقلی ہے کہ انسان ایک ڈاکٹر کا انتخاب کر کے پھر اس کو اس کے نسخہ کے متعلق مشورہ دے.عقل کا پہلا کام انتخاب کرتا ہے اس کو چاہئے کہ ڈاکٹر کے انتخاب کرنے میں محنت کرلے.مگر جب اس نے ڈاکٹر کا انتخاب کر لیا تو پھر اس کا دوسرا کام یہ ہے کہ اس کے بتائے ہوئے نسخہ عد إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنفِقِينَ لكَذِبُونَ.مرصدا
انوار العلوم جلدم آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے کو قبول کرے اور خود اس کا استاد نہ بنے کیونکہ ہر ایک شخص اپنے پیشہ کو خوب سمجھتا ہے.اسی طرح مذاہب کا حال ہے.عقل چاہتی ہے کہ جب تک کسی مذہب کی صداقت ثابت نہ ہو اس کو قبول نہ کیا جائے.لیکن یہ بات عقل کے خلاف ہے کہ سچاند ہب دیکھ کر اور معلوم کر کے پھر اس کے حکموں پر جرح کرے اور اپنے منشاء کے مطابق اس کو بنانا چاہے.خدا تعالی ہی بتا سکتا ہے کہ وہ کس طرح راضی ہو سکتا ہے.ہم اپنے ایک مہمان کو بغیر اس کے بتائے ہوئے کہ وہ کس طرح راضی ہو سکتا ہے، راضی نہیں کر سکتے.پھر خدا تعالٰی کو بغیر اس کے بتائے کے اپنے من گھڑت طریقوں پر قدم مار کر کس طرح راضی کر سکتے ہیں.ہمارا فرض ہے کہ اس سے پوچھیں کہ خدایا تیری رضامندی کس مذہب میں ہے اور خدا کا کام ہے کہ وہ بتائے کہ کو نسا مذ ہب اس کا پسندیدہ اور اس کے منشاء کے مطابق ہے اور کس مذہب پر عمل کر کے ہم اس کی رضامندی حاصل کر سکتے ہیں.پس اسلام نے عقل کی بنیاد کو قائم کیا ہے.ہمارا فرض ہے کہ ہم ڈاکٹر کے انتخاب کے وقت عقل سے کام لیں لیکن جب ہم ایک ڈاکٹر کا انتخاب کرلیں تو یہ ہمارا فرض نہیں کہ ہم اس کے بتائے ہوئے نسخہ پر جرح کریں.پہلی کتابوں کا یہ طریق تھا کہ وہ کہتی تھیں کہ ہم کہتے ہیں کہ تم مان لو لیکن اسلام کی یہ تعلیم نہیں.دیر کی بات ہے کہ ایک پادری مجھے ایک مقام پر ملا وہ تیس سال سے ہندو مسلمانوں میں تبلیغ کر رہا تھا.میں نے چاہا کہ اس سے گفتگو کروں.اس سے ملاقات کی.وہ چونکہ بازار میں ملا تھا اس لئے میں نے اس سے مکان پر ملنے کے لئے وقت مانگا.جب میں دوسرے دن اس سے ملنے کے لئے گیا تو میں نے پوچھا کہ آپ کے مذہب کی بنیاد کس مسئلہ پر ہے.اس نے کہا تو حِيْدُ فِي التَّثْلِیثِ اور تَثْلِیثُ فِی التَّوْحِيدِ پر.میں نے اس سے دریافت کیا کہ ذرا مجھے یہ سمجھائیے تو سہی.لمبی گفتگو کے بعد اس نے کہا کہ میں نے اس مسئلہ کی اچھی طرح سٹڈی نہیں کی اور میں اس کو اس لئے مانتا ہوں کہ بائبل میں لکھا ہے.میں نے کہا کہ اول تو درست نہیں کہ بائبل میں اس کی تعلیم ہے.دوسرے اگر ہو بھی تو ہم کیسے اس کو تسلیم کر سکتے ہیں کیونکہ بائبل کا ماننا تو اس مسئلہ کے ماننے پر موقوف ہے.پھر اس نے کہا کہ کفارہ کے مسئلہ کی میں نے خوب تیاری کی ہے اس میں گفتگو کرلیں میں نے کہا بہت اچھا.جب اس میں گفتگو شروع ہوئی تو آخر میں اس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ میرے ماں باپ کا یہ مذہب تھا اور میں عیسائی ہوں.اس لئے میں اس کو مانتا ہوں ورنہ میرے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں.
انوار العلوم جلدم آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی.تو یہ طریق بہت غلط ہے کہ فلاں بات فلاں کتاب میں لکھی ہے اس لئے اس کو مان لو.پہلا سوال تو یہ ہے کہ اس کتاب کی صداقت کا کیا ثبوت ہے.وہ کتاب پہلے پچی ثابت ہو جاوے تو پھر اس کے تفصیلی حالات ماننے کے قابل ہو سکتے ہیں کیونکہ یہ بات تو ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میری کتاب کچی ہے.دلائل سے جب تک اس دعویٰ کا فیصلہ نہ ہو کس طرح کسی کتاب کو مانا جا سکتا ہے لیکن جب ثابت ہو جائے کہ فلاں کتاب خدا کی کتاب ہے اور اس وقت بھی واجب العمل ہے تو اس کے متعلق بھی یہ کہنا کہ ہم اس کے ہر ایک حکم کو اپنی عقل کے ماتحت لاکر پھر ما نہیں گے نادانی ہے کیونکہ تفصیلات میں ہمیشہ ماہر فن کی بات پر اعتبار کیا جاتا ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ وہ کتاب ساتھ ہی یہ بھی بتا دے کہ کیوں فلان حکم کو مانو.مگر ایک شخص جو ہر قسم کے دلائل کی رو سے مانتا ہو کہ یہ خدا کا کلام ہے اس کے لئے حق نہیں کہ وہ اس کے احکام پر جرح کرے کہ فلاں بات ماننی چاہیے اور فلاں نہیں بلکہ اس کے پیرو کا تو یہ فرض ہے کہ وہ اس کے ہر حکم کو مانے یا پھر اس کی صداقت سے انکار کرے.جیسا کہ ایک شخص کا حق ہے کہ وہ بہترین ڈاکٹر کا انتخاب کرے لیکن ڈاکٹر کا انتخاب کرلینے کے بعد اس کا یہ حق نہیں کہ وہ اس کے بتائے ہوئے نسخہ پر جرح کرے کہ اس میں فلاں دوائی کیوں ہے اور فلاں کیوں نہیں.اگر کوئی شخص ڈاکٹر کے بتائے ہوئے نسخہ پر جرح کرے گا تو ڈاکٹر اس کو کہے گا کہ تو اس علم سے جاہل ہے جو میں بتاتا ہوں اس پر عمل کر.اسی طرح مثلاً آپ نے قانون پڑھا ہے.اگر کوئی شخص آپ کے پاس مقدمات لائے اور کہے کہ آپ اس طرح اس مقدمہ کو چلائیں جس طرح میں کہوں تو آپ اس کو کو یہی جواب دیں گے کہ قانون میں نے پڑھا ہے اس لئے مقدمہ کی باریکیوں اور قانونی نکتوں کو میں ہی سمجھ سکتا ہوں.تم اس میں دخل دینے والے کون؟ پس ہر ایک شخص کا حق ہے کہ وہ ڈاکٹر اور بیرسٹریا وکیل کا انتخاب کرتے وقت خوب عقل سے کام لے اور اچھی طرح جرح کرے.محض بڑے سائن بورڈ اور دلالوں کے چکموں میں نہ آجائے لیکن جب کامل تحقیق و تدقیق سے معلوم کرلے کہ کونسا ڈاکٹر یا بیر سٹریا وکیل قابل ہے تو پھر اس کے نسخوں اور اس کی تجاویز میں دخل نہ دے اور یہی عظمندی کا رستہ ہے اسی طرح ہر ایک شخص پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے اچھے سے اچھا پروفیسر اور مدرسہ اور کالج تلاش کرے لیکن تلاش کر چکنے کے بعد یہ حق نہیں کہ پروفیسر کو مشورہ دے کہ جس طرح آپ پڑھاتے ہیں یہ طریق ٹھیک نہیں جس طرح میں بتاتا ہوں اس طرح پڑھائیں اور اگر آپ میرے بتائے ہوئے
MYA آزمائش کے بعد ایمان کی حقیقت کھلتی ہے طریق پر پڑھائیں گے تو میں پڑھانے دوں گا ورنہ نہیں.حالانکہ یہ سخت ترین غلطی ہوگی کیونکہ جو جس فن کا آدمی ہو تا ہے وہی اس کے متعلق خوب سمجھ سکتا ہے دوسرا نہیں.پس ریشنلزم والوں اور اہل مذاہب دونوں نے غلطی کی اور دونوں افراط و تفریط میں جا پڑے.ریشنلزم والوں کا یہ کہنا کہ جو ہماری عقل میں آئے گا مانیں گے غلطی ہے اور اہل مذاہب کا محض یہ کہنا کہ چونکہ ہمارا مذ ہب تعلیم دیتا ہے اس لئے اسے ماننا چاہئے غلطی ہے.اسلام نے وسطی طریق اختیار کیا ہے.وہ کہتا ہے کہ پہلے تم خوب غور کرو اور دیکھو کہ سچاند ہب کونسا ہے اور کس میں سچائی کے دلائل اور نشانات اور برکات ہیں جب تم اپنی عقل کے زور سے یہ معلوم کرلو کہ فلاں مذہب اس وقت خدا کی طرف سے ہے.پھر اس کے احکام کے آگے چون و چرا نہ کردان کو بجا لاؤ.جس طرح ایک ڈاکٹر کے نسخہ پر بغیر چون و چرا کے عمل کرنا عین عقلمندی ہے اسی طرح جب یہ کھل جائے کہ یہ خدا کا کلام ہے اس پر بھی بے چون و چرا عمل کرنا چاہئے یہ ایک درمیانی رستہ ہے.اس کے مطابق تمام باتیں واضح ہو جاتی ہیں اور کھل جاتا ہے کہ کونسا مذ ہب حق ہے.(الفضل 11 دسمبر ۱۹۱۹ء)
والعلوم جلد من خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء خطاب جلسہ سالانہ ۱۲۷ از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
۴۷۰
العلوم جلدم خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۶۱۹۱۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خطاب حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی جو حضور نے سالانہ جلسہ کے موقع پر ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء کو مسجد نور قادیان میں فرمایا) اَشْهَدُ أن لا إله إلا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ امَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِينَه وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِهِ مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أَنْ يُطْعِمُونِهِ إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِيْنُ ، فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبَا مِّثْلَ ذُنُوبِ اَصْحْبِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِه معذرت فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوْعَدُونَ (الدريت : ۵۲ (۶۱) پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کے متعلق کچھ بیان کروں جس پر بولنے کا آج میرا ارادہ ہے میں ان سب احباب سے جو بیرون جات سے تشریف لائے ہیں ایک معذرت کرتا ہوں.مجھے آج صبح ایک نہایت افسوس ناک خبر معلوم ہوئی ہے کہ بعض احباب کو آج رات جلسہ کے منتظمین نے بہت سخت اور ناجائز تکلیف دی ہے.اسلام نے علاوہ اس اخوت اسلامی کے جو ہر ایک مسلمان پر فرض کی گئی ہے مسلمانوں کے لئے اکرام ضیف بھی ایک فرض قرار دیا ہے.اور چونکہ اس فرض کو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے اس لئے کوئی انسان اسے مٹا نہیں سکتا.اور جو اس کے خلاف کرتا ہے وہ اپنے مہمان کی ہتک نہیں کرتا بلکہ اپنی ہتک بھی کرتا ہے کیونکہ خدا تعالٰی کے مقرر کردہ حقوق کو کوئی نہیں مٹا سکتا.لوگ کہتے ہیں فلاں نے میری ہنگ کی.فلاں نے میری ہتک کی.مگر اصل بات یہ ہے کہ ہتک حق پر قائم ہوتے ہوئے
انوار العلوم، جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ ) ہو ہی نہیں سکتی.دیکھو خدا تعالیٰ فرماتا ہے انّي مُهِينٌ مَنْ أَرَادَاهَا نَتَكَ - ( تذكره صفحه ۷۲۵ ایڈیشن چهارم) کہ اے مسیح موعود جو تیری بنک کا ارادہ کرتا ہے میں اس کی ہتک کروں گا.اس میں خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ تیری عزت چونکہ میں نے قائم کی ہے تیری ہتک کوئی نہیں کی کر سکتا ہاں لوگ تیری ہتک کرنے کا ارادہ کریں گے اور جو ایسا ارادہ کریں گے میں ان کو سزا دوں گا اور ان کو ذلیل کروں گا.تو چونکہ اکرام ضیف بہت بڑا فرض ہے اور جو اس میں کو تاہی کرتا ہے وہ بہت اکرام ضعیف بڑے گناہ کا مرتکب ہوتا ہے.اس لئے ان لوگوں پر رحم کے طور پر جن کی طرف سے رات کو کو تاہی ہوئی ہے میں ان کی طرف سے آپ لوگوں سے معافی مانگتا ہوں.کیونکہ یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی وجہ سے خدا تعالی کا غضب بھڑک اٹھتا ہے.در حقیقت یہاں آنے والے لوگوں کی مہمان نوازی میرا فرض ہے.قرآن کریم میں رسول اللہ ا کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے.ہم تجھ پر لڑائی فرض کرتے ہیں.آگے تم مؤمنوں کو تحریص و ترغیب دلاؤ.اس طرح چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم مقام ہونے کی وجہ سے یہ میرا فرض ہے کہ مہمانوں کی مہمان نوازی کروں.اس لئے احباب سے اللہ تعالیٰ کا شکر میں ہی معذرت کرتا ہوں.اس کے بعد میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنے فضل سے پھر ہمیں یہ موقع دیا کہ اس جگہ اکٹھے ہوئے ہیں.در حقیقت بھائیوں بھائیوں کی ملاقات ایک بہت بڑی نعمت ہے حتی کے نبیوں کو بھی اس کا احساس ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود آمین میں لکھتے ہیں کہ احباب جانے لگے ہیں اور ان کے جانے کی تکلیف محسوس ہوتی ہے اس طرح آنے سے خوشی بھی ہوتی ہے.پس جلسہ پر جو تقریریں وغیرہ ہوتی ہیں ان کو الگ رہنے دو.خود احباب کا ایک دوسرے سے ملنا بھی بہت بڑی خوشی کی بات ہے.اور اس کے لئے میں اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں.انتظام سلسلہ کے محکمے اللہ تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کے بعد میں احباب کو ان امور کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں جو سلسلہ کے انتظام اور نظم کے متعلق ہیں.میں نے پچھلے سالانہ جلسہ پر آپ صاحبان کو اطلاع دی تھی کہ سلسلہ کے کاروبار کو ایک انتظام کے ماتحت لانے کے لئے چند محکمے قائم کئے گئے ہیں.ان میں سے ایک محکمہ تو تألیف و مح يَاتِهَا النَّبِيُّ حَرْضِ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى الْقِتَالِ لَا يَفْتَدُونَ (الانفال : ٦٦ ).ر
انوار العلوم - جلد ۴ خطاب جاسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء اشاعت کا ہے جس کا کام مخالفین کے اعتراضات کے جواب لکھنا اور ان کو موزوں طریق سے شائع کرنا ہے.اور تبلیغ کرنا اور تبلیغ کے لئے سامان بہم پہنچانا ہے.دوسرا محکمہ تعلیم و تربیت کا ہے.جس کا کام جماعت کی تعلیم اور تربیت کی طرف توجہ کرنا ہے.تیسرا محکمہ بیت المال کا ہے.اور چوتھا محکمہ امور عامہ کا یعنی جماعت کے مختلف امور مثلاً نکاح شادیاں کرانا.گورنمنٹ سے معاملات اور تعلقات کا انتظام کرنا وغیرہ وغیرہ.اور پانچواں محکمہ قضاء کا ہے اور چھٹا افتاء کا.ان محکموں نے اس سال کیا کام کیا ہے.اس کے متعلق کل کام کرنے والے اپنے اپنے صیغہ کی رپورٹ آپ لوگوں کو سنائیں گے.لیکن اس کے علاوہ بعض باتیں ایسی ہیں جنہیں شائد وہ پیش نہ کر سکیں اس لئے میں سنا دیتا ہوں.در حقیقت اس انتظام کا پہلا سال ہونے کی وجہ سے نہ تو کام کرنے والے اور نہ کام کرانے کو والے اپنے اپنے کاموں کو اچھی طرح سمجھ سکے ہیں.پھر دفتروں کے ابتدائی کام مثلا رجسٹر بنانا دفتروں کا انتظام کرنا وغیرہ باتوں کی وجہ سے جس طرح کام ہونا چاہئے تھا اس طرح نہیں ہو سکا.مگر باوجود اس کے کہ کام کرنے والے اکثر ایسے اشخاص ہیں جو اپنے اصلی فرائض کی ادائیگی کے علاوہ آنریری طور پر اس سلسلہ میں بھی کام کرتے ہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بہت دیانت داری اور ہوشیاری سے کام کیا ہے.اور یہ ذکر میں اس لئے کرتا ہوں کہ ان کا تعلق آپ لوگوں سے ہے اور آپ لوگ جب تک ان کی پوری ہمدردی اور امداد نہ کریں وہ کام نہیں کر سکتے.پس میں ان کارکنوں کی جو اب کام کر رہے ہیں یا آئندہ کریں گے سفارش کرتا ہوں کہ آپ لوگ ان کے لئے دعائیں کریں.اور ہر طرح ان کو امداد دیں.ان کو خدا تعالٰی نے دین کی خدمت کا موقع دیا ہے.اگر وہ اچھی طرح اور دیانت داری سے اس خدمت کو نبا ہیں گے تو وہی انعام پائیں گے جو خدا کے دین کی خدمت کرنے والے پہلے لوگوں نے پائے.اور اگر کوتاہی کریں گے تو اس کے نتیجہ میں جو کچھ ہو گا اس فقرہ کو میں ختم نہیں کر سکتا.بہر حال بہت کچھ اس سال کام ہوا ہے.امور عامہ کے متعلق.ا امور عامہ کی کارگزاری ہی میں دیکھتا ہوں.گورنمنٹ کے تعلقات کے متعلق یہ سال ایسا خطرناک گزرا ہے کہ بڑے بڑے عقلمند اور سمجھدار اس کو میں بہہ گئے جو گورنمنٹ کے خلاف چلی.اللہ تعالیٰ کا یہ فضل تھا کہ یہ محکمہ بن گیا جس نے بہت بڑا کام کیا.خصوصاً پنجاب میں
۴۴ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۶۱۹۱۹ ہی جو کچھ ہوا اور اس کی وجہ سے جو بوجھ ہم پر پڑے اس کا ذکر میں اس لئے نہیں کروں گا کہ ہمارے دشمنوں کو پتہ نہ لگ جائے کہ کن ذریعوں سے وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے تھے.اس کے خدشات کا ہمیں انتظام کرنا ہے مگر باوجود کام کی زیادتی اور اہم ذمہ داری اور بڑی بڑی مشکلات کے اس صیغہ کے ذریعہ ایسی عمدگی اور خوبی کے ساتھ گورنمنٹ کے سامنے اپنی خدمات اور حالات کو پیش کیا گیا کہ پنجاب کی گورنمنٹ کے آفیسر خوب اچھی طرح جان گئے ہیں کہ کس قدر تکالیف اور مشکلات اٹھا کر ہماری جماعت نے ان حالات میں وفاداری دکھلائی ہے.سیاسی طور پر اس سال جو کچھ ہوا وہ گو اچھا نہیں ہوا مگر ہمیں اس سے اس لئے خوشی ہے کہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی تھی کہ ایک وقت آئے گا جب کہ سارے کے سارے لوگ گورنمنٹ کے خلاف ہوں گے اور صرف میری جماعت ہی وفاداری پر قائم رہے گی.گورنمنٹ یہ کبھی نہیں سن سکتی تھی کہ حضرت مسیح موعود کی لیکھرام کے متعلق پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی.ای طرح گورنمنٹ یہ بھی نہیں سن سکتی تھی کہ ڈوئی کے متعلق آپ نے جو پیشگوئی کی تھی وہ سچی نکلی.مگر گورنمنٹ نے سنا اور بہت اچھی طرح اس پیشگوئی کو سنا کہ ہماری جماعت وفادار رہے گی اور رہی کیونکہ یہ اس کے مطلب کی بات تھی.گورنمنٹ کے متعلق ہماری خدمات نادان خیال کرتے ہیں کہ ہم گورنمنٹ کی وفاداری اپنے مطلب کے لئے کرتے ہیں.لیکن میں افراد کی خدمات کو علیحدہ کر کے یہ کبھی پسند نہیں کرتا کہ ہم جماعت کے طور پر گورنمنٹ کی خدمات اس خیال سے کریں کہ وہ ہمیں کچھ دے.اور اگر گورنمنٹ جماعت کے طور پر ہماری خدمات کے بدلے کچھ دے تو یہ ہماری قدردانی نہیں ہو گی بلکہ ہماری ہتک ہو گی اور یہ گورنمنٹ کی غلطی ہوگی.گورنمنٹ اگر کرے تو یہی کر سکتی ہے کہ جماعت کے رأس اور رئیس کو کوئی خطاب وغیرہ پیش کرے.لیکن اگر گورنمنٹ مجھے کوئی خطاب پیش کرے یا زمین دینا چاہے یا کچھ اور معاوضہ پیش کرے تو میں اسے اپنی سخت ہتک سمجھوں گا اور خیال کروں گا کہ گورنمنٹ نے ہماری نیتوں پر حملہ کیا ہے.کیونکہ ہم بطور جماعت کے جو کچھ کرتے ہیں وہ کسی معاوضہ کے لئے نہیں کرتے.بلکہ محض اس لئے کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہو کہ صرف میری ہی جماعت وفادار رہے گی.تو یہ بہت بڑا کام تھا جو اس سال صیغہ امور عامہ نے کیا ہے.
دم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے او کمبر ۱۹۱۹ تو اس کے علاوہ بیت المال کا کام ہے اور سب کام کرنے والوں سے زیادہ صیغہ بیت المال ناظر بیت المال کی میں تعریف کروں گا.آپ لوگوں کو یاد ہو گا گزشتہ سال جلسہ پر میں نے کہا تھا کہ آپ لوگ کیوں اس بوجھ کو میرے پر سے دور نہیں کرتے کہ صیغے کے افسر مجھے آکر کہتے ہیں کہ اتنے روپے کی ضرورت ہے اس کا کیا انتظام کیا جائے.اس وقت میں خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتے ہوئے کہ میری تعریف کا ناظر بیت المال پر عجب اور تکبر کا کوئی اثر نہ پڑے میں تعریف کرتا ہوں کہ بیت المال کے صیغہ کے متعلق یا تو روزانہ مجھے فکر لگی رہتی ہے تھی کہ فلاں بل کہاں سے ادا ہو اور فلاں کہاں سے.مگر اس تحریک کے بعد جو میں نے آپ لوگوں کو کی اور ناظر بیت المال کی اس کے متعلق ذمہ داری اٹھانے کے بعد اس صیغہ نے ایسی ترقی کی کہ میں کہہ سکتا ہوں معجزانہ ہے.ستراتی ہزار روپیہ کی آمدنی کے مقابلہ میں دو لاکھ کی آمدنی ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں ہے.اور میں سمجھتا ہوں جو جماعت اپنے امام کے مونہہ سے اتنی بات سن کر اتنا بڑا بوجھ اٹھا سکتی ہے وہ بہت بڑی ترقی کا بیج اپنے اندر رکھتی ہے اور بہت جلد ترقی کر سکتی ہے بشرطیکہ اس سے کوئی کام لے.ناظر بیت المال کی محنت کے بدلہ میں میں یہ پسند نہیں کروں گا کہ آج کل کے دستور کے مطابق تالیاں پیٹ دی جاویں یا واہ واہ کر دی جاوے کیونکہ اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کی جائے جس سے فائدہ نہ ہو.پس میں کام کرنے والے کو جزاک اللہ کہتا ہوں اور اس کے لئے دعا کرتا ہوں.اور احباب سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس کے اخلاص اور ایمان کی ترقی کے لئے دعا کریں.باقی محکموں نے بھی اس سال اچھے کام کئے ہیں مگر چونکہ یہ نئے نئے تھے اور بیت المال کا صیغہ پرانا تھا.اس لئے دوسرے محکموں والے پورے طور پر کام نہیں کر سکے.مگر میں سمجھتا ہوں آئندہ وہ بہت عمدہ اور اچھی طرح کام کریں گے.میں نے ابھی کہا تھا کہ ان کے کاموں میں جماعت کے ہر فرد کا دخل ہے اور خصوصیت سے قادیان والوں کا.یہ چار پانچ شخص کچھ نہیں کر سکتے تھے.اگر قادیان کے چھوٹے بڑے ان کی امداد نہ کرتے اور ساری جماعت ان کے کاموں میں شامل نہ ہوتی.پس میں جہاں ان کے لئے دعا کی تحریک کرتا ہوں وہاں ان تمام لوگوں کے لئے بھی کرتا ہوں جنہوں نے ان کا ہاتھ بٹایا اور ان کی امداد کی ہے.خدا تعالیٰ ان کی جانوں مالوں اور خدمت گزاری میں برکت دے.
☐ م جلد ۴ اخبارات سلسلہ کے ایڈیٹر خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء پھر خصوصیت سے کام کرنے والوں میں اخبارات کے ایڈیٹر ہیں جو خاص طور پر آپ لوگوں کی توجہ اور امداد کے مستحق ہیں.کئی ایک ان میں سے ایسے ہیں کہ گو ظاہری طور پر ان کا گزارہ ہوتا نظر آتا ہے مگر ان کی آمدنی یا ان کے اخباروں کی جو اشاعت ہے اس سے ان کا شریفانہ طور پر گزارہ کرنا بھی مشکل ہے.مگر باوجود اس کے انہوں نے اخبار جاری رکھے ہوئے ہیں اور کام کر رہے ہیں.اس لئے نہیں کہ انہیں بہت مال مل رہا ہے اور وہ بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں.بلکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے یہ دین ن کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے.ایسا نہ ہو کہ چھوڑ دیں.ورنہ ایک بھی ایسا اخبار نہیں کہ اس کا ایڈیٹر اس کے کام سے خاص طور پر مالی فائدہ اٹھا رہا ہو.پس میں جہاں ان کی خدمات کا ذکر کرتا ہوں وہاں ان کی مدد کی طرف بھی آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں.اور بڑے زور سے کہتا ہوں کہ موجودہ زمانہ میں اس اشاعت دین کے آلہ کی طرف توجہ نہ کرنا سخت کو تا ہی ہے.حضرت صاحب اخباروں کے متعلق کیا فرماتے اور ان کو کیا خطاب دیا ہوا تھا.فرماتے بدر اور الحکم میرے دو بازو ہیں.اور چونکہ بازوؤں کے ذریعہ ہی کام ہو سکتا ہے.اس لئے اگر ان کی خبر گیری نہ کی گئی تو کام کس طرح ہو سکے گا.پس میں آپ لوگوں سے اخباروں کی سفارش کرتا ہوں کہ آپ انہیں خریدیں اور ان کے ایڈیٹروں کی مدد کریں.جو پڑھ سکتے ہیں وہ بھی اور جو خود نہیں پڑھ سکتے وہ بھی اخبار خریدیں اور دوسروں سے پڑھوا کر سنیں.میں نے اس کے متعلق پہلے بھی کہا تھا اور اب بھی کہتا ہوں مگر افسوس ہے کہ اس وقت تک بہت کم توجہ کی گئی ہے.اب پھر میں سفارش کرتا ہوں ”الفضل " کی بھی کہ وہ ہماری جماعت کا آرگن ہے اس کی طرف توجہ کی جائے اور ریویو کی بھی.حضرت صاحب نے اس کے متعلق جو کچھ کہا ہے میں اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں.پھر نور فاروق ، تشخیذ اور احکم ہیں.یہ چاروں بہت عمدگی ، سے کام کرتے رہے ہیں.الحکم کے متعلق اس لئے کہتا ہوں کہ وہ ٹمٹماتے ہوئے چراغ کی طرح اس وقت تک اپنی کوشش جاری رکھے ہوئے ہے.اس کا یہ استقلال بھی قابل تعریف ہے.میں جانتا ہوں اس کی مالی حالت جو کچھ ہے.اور یہاں تک جانتا ہوں کہ اس کے چلانے والوں کی بعض اوقات فاقوں تک نوبت پہنچ جاتی رہی ہے.مگر انہوں نے اس حالت میں بھی ہمت نہیں ہاری اور خواہ چھ چھ ماہ اخبار نہ نکلے اس کے بند ہونے کا اقرار کبھی نہیں کیا تا یہ نہ کہا جاوے کہ حضرت صاحب کے وقت کا اخبار بند ہو گیا.اگر اخبار چھ ماہ بھی نہ نکلے اور کوئی کہہ
خطاب جلسہ سالانہ کے کار نمبر ۱۹۱۹ ء دے کہ الحکم بند ہو گیا ہے تو شیخ صاحب اس سے لڑنے کے لئے تیا ر ہو جاتے ہیں.سردیوں میں ان کے پاس کپڑے نہیں ہوتے کھانے کے لئے کچھ نہیں ہو تا مگر جب بھی ہاتھ میں کچھ آتا ہے اخبار جاری کر دیتے ہیں.بدر والوں پر مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے حضرت صاحب کے خطاب کی قدر نہیں کی.مگر الحکم کے متعلق اگر کوئی کہے کہ اس طرح جاری رکھنے سے کیا فائدہ.اسے بند ہی کر دو تو شیخ صاحب کہا کرتے ہیں حضرت صاحب نے اسے اپنا بازو کہا ہے میں کس طرح بند کر دوں یہ بہت بڑا اخلاص ہے.اور جب تک انسان کو عرفان سے کچھ حصہ نہ ملا ہو ایسا نہیں کر سکتا.پھر نور ہے اس کا خاص کام ہے حضرت صاحب نے اس تحریک کو اٹھایا کہ حضرت بابا نانک مسلمان تھے.اس اخبار نے اس خوبی سے اس تحریک کو چلایا ہے کہ مخالف بھی اس کی تعریف کرتے ہیں.اور وہ لوگ بھی جو ہماری مخالفت میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اگر ہم کہیں خدا ہے تو وہ کہیں گے کہ اس کے ساتھ کوئی نہ کوئی اور شق لگ جائے تب ہم مانیں گے وہ بھی اس کی تعریف کرتے ہیں.اس اخبار کے بھی خریدار بہت تھوڑے ہیں جو افسوس کی بات ہے.الفضل جو جماعت کے گزٹ کی حیثیت رکھتا ہے اس کی تو بہت خریداری ہونی چاہئے.مگر ان دوسرے پر چوں کی بھی کم سے کم ایک ایک ہزار خریداری تو ہو اس سے کم نہیں ہونی چاہئے پہلے یہ حالت تھی کہ اگر اتنے آدمی سالانہ جلسہ پر آتے جتنے میرے سامنے فرش پر بیٹھے ہیں تو اس قدر خوشی ہوتی کہ حد ہی ہو جاتی.دراصل اس وقت آدمیوں کی زیادتی خوشی کا باعث نہیں ہوتی تھی بلکہ تازہ بہ تازه نشان دیکھ کر ایمان بڑھتا تھا.اس وقت حضرت صاحب نے رسالہ ریویو کی اشاعت کے لئے جو تحریک کی وہ دس ہزار کے لئے تھی.اس سے اندازہ کر لو کہ اب کس قدر تعداد کے لئے تحریک ہونی چاہئے.ہمارے دوست ریویو کی اشاعت کے لئے تحریک کیا کرتے ہیں کہ دس ہزار خریدار پیدا کر دو.میں کہتا ہوں اب تو خدا کے فضل سے جماعت بہت بڑھ گئی ہے اب دس ہزار کے لئے نہیں بلکہ تمہیں چالیس ہزار کے لئے تحریک ہوئی چاہئے.تو میں احباب کو نور کی مدد کے لئے تحریک کرتا ہوں اور ان کی کتاب کی خریداری کے لئے بھی جس کا نام ”بادا نانک کا مذہب " ہے.یہ کتاب نہایت مفید اور تحقیق کے ساتھ لکھی گئی ہے.سکھوں میں اس کی اشاعت بہت مفید ہو سکتی ہے.پس دوستوں کو چاہئے کہ اس کی
انوار العلوم - جلدم خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء اشاعت کی طرف بھی توجہ کریں.پھر فاروق ہے لیکن جہاں میں نے شیخ یعقوب علی صاحب کی تعریف کی ہے وہاں میر صاحب کی باوجود اس کے کہ وہ میر صاحب ہیں ایک رنگ میں مزمت ہی کروں گا.ابتداء میں فاروق نے غیر مبائعین کے متعلق بہت کام کیا ہے.لیکن افسوس ہے کہ جہاں الحکم نے گر کر یہ کہا کہ میں نہیں گرا.وہاں فاروق اب جس طرح نکلتا ہے اس کو دیکھ کر معلوم نہیں ہو تا کہ اس کے پیچھے کام کرنے والے میر صاحب ہیں بھی یا نہیں.اس کی ایک وجہ ہے اور وہ یہ کہ جب انسان دیکھتا ہے کہ اس کے کام کی قدر نہیں کی جاتی تو اس کا دل کام کرنے میں نہیں لگتا.مگر میر صاحب جس کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور پھر جس کے مریدوں میں شامل ہیں ان کو دیکھنا چاہئے کیا وہ لوگوں کے قدر نہ کرنے کی وجہ سے چپ ہو گئے.حضرت مرزا صاحب کی ابتداء میں کون بات سنتا تھا مگر آپ خاموش کب ہوئے ؟ میر صاحب کو اسی طرح اخبار جاری رکھنا چاہئے تھا جس طرح ابتداء میں چلایا تھا.اگر وہ ایسا کرتے تو وہ ضرور کامیاب ہوتے.اور جس غرض کے لئے اخبار جاری ہوا تھا وہ ضرور پوری ہوتی.اس اخبار کی پہلی خدمات اور آئندہ کے لئے امید رکھتے ہوئے اس کی امداد کی طرف توجہ دلاتا ہوں.پھر رسالہ تشعیذ ہے اس کو میں نے سب سے پیچھے اس لئے نہیں رکھا کہ وہ خدمات کے لحاظ سے پیچھے رہا ہے بلکہ اس لئے رکھا ہے کہ اس کو میں نے جاری کیا تھا.میں نے اس کا ذکر پیچھے اس لئے کیا ہے کہ تا میرا نفس یہ نہ سمجھے کہ خود جاری کرنے کی وجہ سے اس کا ذکر پہلے کر رہا حسین ہوں.اس رسالہ نے پچھلے دنوں اچھا علمی کام کیا ہے اور خصوصاً شیعوں کے متعلق خادم صاحب کے مضامین بہت اچھے شائع ہوئے ہیں.میرے نزدیک ان کی علمی قابلیت سے بھی زیادہ ان میں تحریر کی قابلیت ہے.اور خاص طرز کی ہے اور لوگ تو مخالفین پر دروازہ سے حملہ کرتے ہیں لیکن وہ ان کے گھر میں داخل ہو کر اور ان کے پاس چارپائی پر بیٹھ کر ان سے پوچھتے ہیں بتائیے آپ کب مکان خالی کریں گے اور ہمارے قبضہ میں دیں گے.یہ بہت عمدہ اور مفید طریق ہے.وہ بڑی عمدگی اور متانت سے شیعوں کی تعریف کر کے پُر زور مضامین لکھتے ہیں جس کا نتیجہ بہت اچھا نکلتا ہے.اس رنگ میں لکھنے سے شیعہ گالیاں نہیں دے سکتے اور نہ کچھ کہہ سکتے ہیں.ہمارے نوجوانوں کو یہ طرز سیکھنی چاہئے.ان کے مضامین کے علاوہ اور لوگوں کے مضامین بھی نکلتے رہتے ہیں.اختلاف کے وقت مسئلہ نبوت مسیح موعود کے متعلق اس میں اچھے
علوم جلد خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء مضامین شائع ہوتے رہے ہیں.مگر رسالہ کے خریدار کم ہیں اس کے لئے بھی میں امداد کی تحریک کرتا ہوں.میرا ارادہ ہے کہ آئندہ اخبارات اور رسالوں کے کام محدود کر کے الگ الگ تقسیم کر دوں.اب تو یہ ہوتا ہے کہ جو مضمون جس کو ملتا ہے وہی شائع کر دیتا ہے.شہید سکھوں کے متعلق ملتا ہے تو اسی کو شائع کر دیتا ہے.آریوں کے متعلق ملتا ہے تو اسی کو چھاپ دیتا ہے.یہی کی فاروق کا حال ہے.لیکن اب میرا منشاء ہے کہ ان کے کام تقسیم کر دیئے جائیں.نور کا کام تو پہلے ہی تقسیم ہے کہ خاص طور پر سکھوں کے متعلق لکھتا ہے اس کے سپرد یہی کام رہے.فاروق کو بعض خاص مضامین سپرد کر دیئے جائیں.اسی طرح تشویذ کو غیر احمدیوں اور خصوصاً شیعوں کے متعلق کام سپرد کیا جائے.اس کی ایک وجہ بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک عرصہ ہوا میں نے خواب میں دیکھا کہ بمبئی سے ایک تاجر کا خط آیا ہے جو کہ فرانسیسی میں ہے.مجھے فرانسیسی نہیں آتی مگر خواب میں میں نے وہ خوب اچھی طرح پڑھا ہے.اس میں وہ تاجر لکھتا ہے کہ تشعیذ خوب کام کر سکتا ہے مگر زمانہ کے حالات کے مطابق شیعوں کا رد نہیں کرتا.یہ خواب مجھے اس وقت آئی جب کہ میں خود تشویذ کا ایڈیٹر تھا.اس وقت مجھے تو خدا تعالیٰ کی مصلحت اور حکمت کے ماتحت شیعوں کے متعلق لکھنے کی توفیق نہیں ملی.مگر پھر تشخیز نے شیعوں میں خوب کام کیا ہے.اس کو اسی کام میں لگایا جائے.اسی طرح محمد علی مونگیری کا فتنہ ہے اس کے جواب میں جو کچھ لکھا جائے وہ بھی تشخیذ میں شائع ہو.میرا ارادہ ہے کہ شروع سال سے ایڈیٹروں کو ہدایات دے دوں.مگر اس وقت میں آپ لوگوں کو ہدایت دیتا ہوں کہ آپ لوگ ان کے اخباروں کی اشاعت کی طرف توجہ کریں.اور نہ صرف خود ہی خریدیں اور اپنی جماعت کو خریداری کی تحریک کریں بلکہ دوسرے لوگوں میں بھی تحریک کریں.جب وہ لوگ ہندوؤں کے اخبار خرید لیتے ہیں تو ہمارے کیوں نہ خریدیں گے.الفضل کا جب میں ایڈیٹر تھا اس وقت اس کے دو سو کے قریب غیر احمدی خریدار تھے.اس وقت سندھ سے میرے پاس ایک غیر احمدی کا خط آیا جس نے لکھا میری شادی ہوئے دس دن ہوئے ہیں.اور مجھے اپنی بیوی سے بہت محبت ہے لیکن اگر میری بیوی مرجاتی تو مجھے اتنی تکلیف نہ ہوتی جتنی اخبار کے وقت پر نہ پہنچنے سے ہوئی ہے.تو دوستوں کو دوسرے لوگوں میں اخبار خریدنے کی تحریک کرنی چاہئے.ان کو اس طرح بہت فائدہ پہنچ جائے گا.
م خطاب جلسہ سالانہ کے آر نمبر ۱۹۱۹ء اس کے بعد میں جماعتوں کی خدمات کا اعتراف کرتا بیرونی احمدی جماعتوں کی خدمات ہوں مگر اس کے یہ معنے نہیں کہ صرف لفظی اعتراف کرتا ہوں بلکہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں ان کے کام سے ناواقف نہیں ہوں بلکہ آگاہ ہوں اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں.کیونکہ جو کام وہ کر رہے ہیں وہ میرا کام کر رہے ہیں.میں ان کو بتاتا ہوں کہ ان کی خدمتیں میرے دل پر نقش ہیں اور ان کے لئے دعا کرتا ہوں.کیونکہ یہی میرے پاس اعلیٰ سے اعلیٰ بدلہ ہے جو میں انہیں دے سکتا ہوں.اور خصوصاً ہندوستان سے باہر کی جماعتوں کے لئے دعا کرتا ہوں کیونکہ وہ بہت سی مشکلات اور مصائب میں سے گزر رہی ہیں.سیلون میں بہت تحط پڑا ہوا ہے اور یہاں تک حالت ہو گئی ہے کہ جماعت احمدیہ سیلون میں نے اخبار میں پڑھا ایک شخص کا بچہ بھو کا مر رہا تھا.وہ صبح سے لے کر شام تک سرکاری دکان پر کھانا خریدنے کے لئے کھڑا رہا.لیکن بھیڑ اس قدر تھی کہ اسے نہ مل سکا.اور وہ خالی ہاتھ واپس چلا آیا.مگر وہاں کی جماعت ایسے نازک وقت میں بھی جس جوش اور اخلاص سے کام کر رہی ہے وہ بہت ہی قابل تعریف ہے.دیکھو یہاں لاکھوں کی جماعت میں چار پانچ اخباروں اور رسالوں کا چلنا مشکل ہو رہا ہے.مگر سیلون کی مٹھی بھر جماعت نے ایک انگریزی اخبار جاری کیا ہوا ہے اور اپنا پریس بھی چلایا ہوا ہے.اس کے متعلق مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کی جماعت کے لوگ سارا دن تو اپنے کام کاج میں مشغول رہتے ہیں.لیکن رات کو اکٹھے ہو کر پریس کا کام کرتے ہیں.کوئی ایڈیٹری کا کام کرتا ہے، کوئی کمپوزیٹری کرتا ہے کوئی پریس چلاتا ہے.اس طرح کام کر کے وہ اخبار چلا رہے ہیں.اور ایسے قحط کے زمانہ میں چلا رہے ہیں کہ لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں.اس پریس اور اخبار کے بعض کارکنوں کو بھی بعض دفعہ فاقے کرنے پڑتے ہیں مگر وہ کام نہیں چھوڑتے.یہ ان کا دین کے ساتھ اخلاص اور محبت ہے.حالانکہ وہ ایسی جگہ کے رہنے والے ہیں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے معجزات صادر نہیں ہوئے.ایمان کو تازہ کرنے والی حضرت مسیح موعود کی باتیں انہوں نے نہیں سنیں.آپ کی تحریریں انہوں نے نہیں پڑھیں ، کیونکہ وہاں کی زبان اردو نہیں.کبھی یہاں نہیں آئے مگر خدمت دین میں وہ ایسا نمونہ دکھلا رہے ہیں کہ ہمارے لئے قابل رشک ہے.اور یہ اللہ تعالی کا فضل ہے کہ ایسی مضبوط
العلوم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے کار جماعتیں اس نے غیر ممالک میں ہمیں دی ہیں.ان کی مضبوطی کا پتہ اس سے لگ سکتا ہے احمدیان سیلون اور مولوی محمد علی صاحب که مولوی محمد علی صاحب نے ایک کتاب لکھی ہے جس کا نام اختلاف سلسلہ کی تاریخ ہے.اس میں بڑے زور سے اپیل کرتے ہوئے انہوں نے لکھا ہے کہ اے وہ لوگو جنہوں نے مسیح موعود کو دیکھا ہے آج فیصلہ کر دو تاکہ اختلاف مٹ جائے.مگر یہ لکھا انگریزی میں ہے حالانکہ اکثر وہ لوگ جنہوں نے مسیح موعود کو دیکھا ہے انگریزی نہیں جانتے.میں پوچھتا ہوں کہ گھٹیا لیاں اور دا تا زید کا جہاں پر انی جماعتیں ہیں وہاں کے کتنے لوگ اس کتاب کو پڑھ سکتے ہیں.پھر سیالکوٹ شہر میں کتنے لوگ ہیں جو اس کو پڑھ سکتے ہیں.پھر گجرات اور کھاریاں کی جماعت میں کتنے ہیں.شاہ پور کے چکوں میں کتنے ہیں جو اسے پڑھ سکتے ہیں ؟ پھر یہاں قاضی سید امیر حسین صاحب، مولوی سید سرور شاہ صاحب حافظ روشن علی صاحب پرانے آدمی ہیں.یہ اور ان کے علاوہ اور کتنے ہیں جو اسے پڑھ سکتے ہیں.لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ اپیل تو ان لوگوں سے کی گئی ہے.لیکن کتاب لکھی انگریزی میں ہے.جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ ان کے کھانے کے دانت اور ہیں اور دکھانے کے اور.اس کتاب کے لکھنے سے ان کی غرض یہ ہے کہ دیگر ممالک کے جو لوگ یہاں نہیں آتے اور اردو پڑھ نہیں سکتے وہ اس کتاب کو پڑھ کر ہم سے علیحدہ ہو جائیں اور ان سے مل جائیں.اس سے ظاہر ہے کہ یہ کتاب کسی فیصلہ کے لئے نہیں لکھی گئی بلکہ اس کے لکھنے کی غرض سیلون، ماریشس، سیرالیون نائجیریا وغیرہ کے احمدیوں کو گمراہ کرنا ہے.لیکن جب یہ کتاب سیلون میں پہنچی اور یہاں سے اس کے متعلق دریافت کیا گیا تو وہاں سے جواب آیا کہ اس کتاب کے ذریعہ غیر احمدی ہماری اور زور سے مخالفت کرنے لگ گئے ہیں.مگر ہم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہے.کتاب لکھنے اور بھیجنے والوں سے کہہ دیا جائے کہ ہم نے حق کو پالیا ہے تمہاری ایسی کوششوں سے اب ہم اسے چھوڑ نہیں سکتے.پھر نائجیریا والوں کو لکھا گیا کہ اگر کوئی اس قسم کی کتاب پہنچی ہو اور اس کی وجہ سے آپ لوگوں کے دلوں میں کچھ شکوک پیدا ہوئے ہوں تو ان کے متعلق ہم سے دریافت کیجئے.اس کے جواب میں وہاں سے خط آیا تو یہ آیا کہ محمد علی کی فتنہ ڈالنے والی تحریر ہم پر کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.ہم نے حضرت مرزا صاحب کی نبوت کو خوب سمجھا ہوا ہے.اور اسی ریویو آن
ཀྭ انوار العلوم.جلد ۴ ریلیجز کے ذریعہ ہی سمجھا ہے جس کے ایڈیٹر مولوی محمد علی صاحب تھے.خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء غرض ان جماعتوں میں بہت اخلاص اور بیرونی جماعتوں کے آدمیوں کا قادیان آنا جوش پایا جاتا ہے جو محض خدا کے فضل اور رحم سے ہے اور اس سال ان جماعتوں نے اور بھی ترقی کی طرف قدم بڑھایا ہے کہ اپنے آدمیوں کو یہاں پڑھنے کے لئے بھیجا ہے.سیلون سے پانچ آدمی اس سال آئے ہیں اور ایک پہلے کا آیا ہوا ہے.ماریشس سے دو شخص پہلے سے آئے ہوئے ہیں اور دو اب جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں.غرض ہماری دوسرے ممالک کی جماعتیں خاص طور پر ترقی کر رہی ہیں اور دن بدن بڑھ رہی ہیں.مگر ساتھ ہی ان کے راستہ میں مشکلات اور تکالیف بھی پیدا ہو رہی ہیں.اس لئے وہ خاص دعاؤں کی مستحق ہیں فی الحال یہ جماعتیں بہت چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن انہوں نے بڑا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور ایسا اعلیٰ اخلاص دکھلا رہی ہیں جسے قابل رشک نمونہ کہا جا سکتا ہے.اس کے بعد میں آپ لوگوں کو دو خوشخبریاں سناتا ہوں.ایک تو یہ ہے افریقہ میں احمدیت کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے ذریعہ ایک بہت بڑا کام کرانا چاہا ہے اور وہ یہ کام ہے کہ افریقہ کے ملک میں ۲۰ لاکھ کے قریب لوگوں کو عیسائی بنا لیا گیا ہے اور پادریوں نے کروڑوں روپے خرچ کر کے رئیسوں کے لڑکوں کو ورغلا کر وہاں سے نکالا ہے.وہاں کئی ایک چھوٹی چھوٹی ریاستیں ہیں ان کے شہزادوں کو عیسائی بنا لیا گیا جن کو طرح طرح کی لالچیں اور حر میں دی گئی ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں حضرت صاحب کو اور کاموں کے علاوہ اس فتنہ کو دور کرنے کے لئے بھی بھیجا ہے.اور خدا تعالیٰ نے آپ کا نام آدم رکھا ہے تاکہ جس طرح پہلے آدم کو شیطان نے جنت سے نکالا تھا آپ اس شیطان کو دنیا سے نکالیں.پھر خدا تعالیٰ نے آپ کا نام عیسی رکھا ہے تاکہ پہلے عیسی کو تو یہودیوں نے سولی پر لٹکا دیا تھا.مگر آپ اس زمانہ کے یہودی صفت لوگوں کو سولی پر لٹکا ئیں.پس خدا تعالٰی نے فیصلہ کر دیا ہے کہ افریقہ جو مسلمانوں سے عیسائیوں کے ذریعہ انکل چکا ہے اب آپ کے ذریعہ مسلمانوں کو دلائے.اور خدا تعالی کی غیرت کا وقت آگیا ہے.اب سے پہلے خدا خاموش بیٹھا رہا اور اسی طرح بیٹھا رہا ہے جس طرح صیاد جال کے نیچے دانہ ڈال کر بیٹھا رہتا ہے.اور جانوروں کو وہ دانہ جس پر اس کی قیمت لگی
انوار العلوم - جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے ۱۳ کمبر ۱۹۱۹ء ہوتی ہے چننے دیتا ہے.مگر اب جب دنیا نے اپنی غلطی سے سمجھ لیا ہے کہ اسلام مٹنے والا ہے خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اسے اکناف عالم میں پھیلا دے.ہمارا مشن جو ولایت گیا ہوا ہے وہ انگریزوں کو مسلمان کر رہا ہے.مگر ان کے مسلمان ہونے سے ہمیں کوئی خاص خوشی نہیں ہے کیونکہ دین کے متعلق ان لوگوں کی طبیعتیں بہت مسخ ہو چکی ہیں.اور ان کی کے دلوں پر جو زنگ لگ چکا ہے وہ بہت دیر کے بعد اترے گا.وہ لوگ آخر مسلمان ہوں گے اور حقیقی مسلمان ہوں گے کیونکہ ان کے متعلق رسول کریم کی پیشگوئی ہے.اور اسی لئے ہم ان کو مسلمان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.مگر ان کی اصلاح میں دیر لگے گی.لیکن یہ کام جو افریقہ کے ان رئیس زادوں کو اسلام میں لانے کا ہمارے مبلغوں نے کیا ہے وہ بہت قابل قدر ہے.اب تک دو رئیس زادے مسلمان ہو چکے ہیں.اور ان کی منشاء ہے کہ واپسی اپنے ملک میں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں.اس کے ساتھ ہی ایک اور ہوا چلی ہے اور وہ یہ ہے کہ افریقہ میں ایک سوسائٹی قائم کی ہوئی ہے.اور اس نے ہمارے مبلغوں کو لکھا ہے کہ ان میں سے کوئی یہاں آئے.اور اسلام کی تبلیغ کرے.یہ بہت امید افزا بات ہے.دوسری ایک اور خوش خبری ہے اور گوبات معمولی ہے مگر چھوٹی باتوں سے اہم نتائج مؤمن معمولی باتوں سے بھی بڑے بڑے نتائج نکال لیا کرتے ہیں.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب مسلمانوں نے ایران پر چڑھائی کی.اور ایران کی حکومت نے سمجھا کہ یہ بدو لوگ ہیں ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہیں.معلوم ہوتا ہے ان کے ملک میں قحط پڑا ہے اور یہ بھوکے مرتے یہاں آگئے ہیں.یہ خیال کر کے بادشاہ ایران نے اپنے حاکموں کو کو پیغام بھیجا کہ ان لوگوں میں اعلان کر دو کہ ہر ایک سپاہی کو دو دو اشرفیاں انعام دیا جائے گا اور سرداروں کو زیادہ انعام ملے گا.تم لوگوں کو چاہئے کہ انعام لے کر واپس چلے جاؤ.یوں کیوں لڑتے اور اپنی جانیں ضائع کرتے ہو اگر لڑو گے تو مارے جاؤ گے تمہارے لئے یہی بہتر ہے کہ انعام لے کر واپس چلے جاؤ.اس کے جواب میں مسلمانوں نے کہلا بھیجا کہ ہم روپوں کے لئے یہاں نہیں آئے.تم نے ہم پر حملہ کیا تھا اور اب ہم یہ بتانے آئے ہیں کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.جب بادشاہ نے یہ جواب سنا تو کہنے لگا عجیب آدمی ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ان میں سے چند ایک منتخب ہو کر میرے پاس آئیں میں ان سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں.اس نے ایک مٹی کا بورا بھروا کر اپنے پاس رکھ چھوڑا.اور مسلمانوں کے قائم مقاموں کو بلوا بھیجا.جب وہ It.
رالعلوم - جلد ۴ ۴۸۴ خطار ر سالانہ کے ۱۲ ممبر ۱۹۱۹ء اس کے پاس گئے تو اس نے کہا تم میرا ملک لینے کے لئے آئے ہو گے.لیکن یاد رکھو اس مٹی کی تھیلی کے سوا تمہیں کچھ نہیں دوں گا.ایک صحابی نے اس مٹی کی بوری کو اٹھالیا اور بڑے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ مار کر کہا.بادشاہ نے ایران کی زمین اپنے ہاتھ سے ہمیں دے دی.مسلمان نعرے مارتے چلے گئے.اور چونکہ وہ عربی بولتے تھے اس وقت بادشاہ کچھ نہ سمجھا.پیچھے جب ترجمان نے سمجھایا تو کہنے لگا یہ بد شگونی ہوئی ہے.ان کو پکڑو مگر اتنے میں وہ اپنے لشکر میں جاتے چکے تھے.(البداية والنهاية جلدے صفحہ ۴۲ - ۴۳ مطبوعہ بیروت) تو بادشاہ ایران نے مسلمانوں کو جو مٹی دی تھی وہ مٹی نہ تھی بلکہ ایران کی سرزمین تھی.پس چھوٹی باتوں کے بھی اہم نتائج نکل آیا کرتے ہیں.اس بات کو مد نظر رکھ کر میں یہ خوشخبری ولایت میں ایک نو مسلمہ کے بچے کا ختنہ سناتا ہوں کہ ولائت سے خبر آئی ہے.ولائت کی ایک نو مسلمہ نے اپنے لڑکے کا ختنہ کرایا ہے.شاید کہا جائے کہ ختنہ تو کئی ہندو بھی کراتے ہیں.یہاں بھی ہندوؤں کا ایک گھر ہے جو ختنہ کراتا ہے.پھر ابو جہل کا بھی ختنہ ہوا تھا.اور بھی عرب کے لوگ ختنہ کراتے ہیں پھر یہ خوش خبری کیا ہوئی؟ ختنہ کی اہمیت اس کے سمجھانے کے لئے میں آپ لوگوں کو آج سے ۴ ہزار سال پیچھے اس زمانہ میں لے جانا چاہتا ہوں جس میں وہ نبی معبوث ہوا جس کا نام ابراہیم تھا.وہ ایسا نبی ہوا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کی اولاد میں نبوت رکھ دی.وہ نبی ہوا.اس کا بیٹا نبی ہوا.اس کا بیٹا نبی ہوا.اس کا بیٹا نبی ہوا.اور اسی نبی کی اولاد سے نبوت کا ایک سلسلہ چلا جو حضرت عیسی پر آکر ختم ہوا.اور دوسرے بیٹے کی اولاد سے دوسرا سلسلہ چلا.جس کے آخر میں وہ نبی آیا کہ اس کے سلسلہ کو مٹانے کی کسی میں طاقت نہیں ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلے گا.اور قیامت کے دن اسی نبی کے پاس تمام بنی آدم جا ئیں گے کہ ہماری شفاعت کیجئے.قیامت کے دن انبیاء کے متبعین کا اپنے اپنے نبی سے مایوس ہو کر رسول کریم کے پاس شفاعت کے لئے جانے کی یہی وجہ ہے کہ اس طرح سب لوگوں کو آپ کی امت بنا دیا جائے.پس وہ نبی جو تمام نبیوں کا سردار اور خاتم النبیین ہے.وہ حضرت ابراہیم کی اولاد سے پیدا ہوا ہے.جنہیں خدا نے ان کی دینی خدمات کی وجہ سے خاص طور پر برکت دی ہے.اور آپ
ر العلوم - جلد ۴ ۴۸۵ خطاب جلسہ سالانہ کے اد ممبر ۱۹۱۹ء سے عہد کیا ہے کہ تیری امت کو برکت دوں گا.چنانچہ پیدائش باب ۱۷ میں آتا ہے.حضرت ابراہیم اور خدا کے درمیان عهد حضرت ابراہیم کو خدا نے کہا.میں اپنے اور تیرے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ان کے پشت در پشت کے لئے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہو.کرتا ہوں." ( پیدائش باب ۱۷ آیت ۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء) وہ عہد کیا ہے یہ.کہ میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں گا." et مطلب یہ کہ تیرے اور تیری نسل کے لئے اپنی شان ظاہر کروں گا.پھر فرماتا ہے." پھر خدا نے ابراہام سے کہا.کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں." (پیدائش باب ۱۷ آیت : 9 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہو ر مطبوعہ ۱۹۲۲ء) یعنی تم پر اس عہد کی پابندی کرنا ضروری ہے.اور وہ عہد یہ ہے کہ :.اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے.جسے تم یاد رکھو.سو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے.اور تم اپنے بدن کی کھلاڑی کا ختنہ کرو.اور یہ اس عہد کا نشان ہو گا جو میرے اور تمہارے درمیان ہے.( پیدائش باب ۷ آیت ۱۰ ۱۱ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء) اس عہد کے ماتحت رسول کریم ﷺ نے اپنی ساری امت میں ختنہ جاری کیا.اس کے خلاف کرنے والوں کے متعلق آتا ہے." میرا عہد تمہارے جسموں میں عہد ابدی ہو گا.اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا.شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اس نے میرا عہد توڑا." ( پیدائش باب ۱۷ آیت ۱۳ ۱۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء) اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے یہ عہد کیا تھا.کہ "میں تیرا اور تیرے بعد تیری نسل کا خدا ہوں گا.اور اس کے مقابلہ میں حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد یہ عہد لیا تھا.کہ "تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے.اور جو ایسا نہ کرے اس کے متعلق فرمایا تھا.کہ " وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا.وہی شخص اپنے لوگوں میں وہی tt
انوار العلوم جلد ۸۶ خطاب جلسہ سالانہ کے ۱۲ کمبر ۱۹۱۹ء سے کٹ جائے." اس عہد پر حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق کی نسل میں اس عہد کی خلاف ورزی عمل ہو تا رہا.مگر اس کے خلاف رومیوں باب ۳ آیت ۳۰ (برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء میں لکھا ہے.کہ ایک ہی خدا ہے.جو مختونوں کو بھی ایمان سے اور نا مختونوں کو بھی ایمان ہی کے وسیلہ سے راست باز ٹھہرائے گا." اس سے تو اتناہی معلوم ہوتا ہے کہ مختون اور نا مختون مساوی ہیں.اور اگر ختنہ نہ کرایا جائے تو کوئی حرج نہیں.لیکن پھر کہا گیا ہے کہ." پس کیا یہ مبارک بادی مختونوں ہی کے لئے ہے یا نا مختونوں کے لئے بھی؟ کیونکہ ہمارا دعوئی یہ ہے کہ ابراہیم کے لئے اس کا ایمان راست بازی گنا گیا.پس کس حالت میں گنا گیا؟ مختونی میں یا نا مختونی میں؟ مختونی میں نہیں بلکہ نا مختونی میں." (رومیوں باب ۴.آیت ۱۰۹ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲ء) گویا اس طرح یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ نامخنتونی کی حالت مختونی کی حالت سے اچھی ہے.کیونکہ ابراہیم کے لئے اس کا ایمان اور راست بازی نامختونی کی حالت میں ہی گئی گئی.تو معلوم ہوا کہ حضرت ابراہیم سے خدا تعالٰی نے یہ عہد لیا تھا کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نرینہ کا ختنہ کیا جائے.مگر حضرت مسیح کے ماننے کا دعوی کرنے والوں میں سے ایک شخص جس نے دوسری قوموں میں عیسائیت کی اشاعت کی وہ کہتا ہے کہ نا مختونی بہتر ہے.اور اس کے لئے جو دلیل دیتا ہے اس کے سمجھنے کے لئے خاص ہی قسم کے دماغ کی ضرورت ہے.کیونکہ یہ ایسی ہی بات ہے.جیسے کوئی ٹھوکر کھا کر چارپائی پر بیٹھ جائے تو کہے کہ ٹھو کر چار پائی سے اچھی ہے.یا تو ادھر اُدھر بھولا پھرنے کے بعد اسے کوئی دوست مل جاوے تو کہے کہ چونکہ دوست کا ملنا ایک نعمت ہے اور یہ بھولنے پر ملی ہے اس لئے بھولنا اچھا ہے.تو یہ دلیل جو کچھ ہے وہ تو ہے ہی.مگر اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی نسل میں خدا تعالی کی طرف سے جو انعام کی علامت مقرر کی گئی تھی اس کو اس نے مٹادیا اور عیسائیوں میں اس کا نام ونشان نہ رہنے دیا.مگر جس طرح حضرت مسیح موعود کے حواری رسم ختنہ کو جاری کریں گے حضرت مسیح موعود
انوار العلوم - جلد ۴ ۴۸۷ خطاب جلسہ سالانہ سے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء نے کہا ہے کہ یہودیوں نے پہلے مسیح کو تو صلیب پر لٹکا دیا تھا.مگر مجھے اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں صلیب کو توڑ دوں.اس طرح میں کہتا ہوں پہلے مسیح کے حواریوں نے تو اس رسم کو مٹا دیا جو خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم کی نسل کے لئے قرار دی تھی.مگر اس مسیح کے حواری اس کو پھر جاری کریں گے.اور اس رسم کا اجراء یورپ میں اسلام کے لئے خاص برکت کا موجب ہو گا.اور اب جب کہ اس احمدی خاتون نے جس کا ابھی میں نے ذکر کیا ہے محض خدا کے لئے اپنے لڑکے کا ختنہ کرایا ہے نہ کہ کسی بیماری وغیرہ کی وجہ سے.تو میں آج کہہ سکتا ہوں کہ اس عہد کے موافق جو خدا تعالٰی نے حضرت ابراہیم اور ان کی نسل سے کیا تھا اور اس وعدہ کے مطابق جو خدا تعالیٰ نے توریت اور قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود سے کیا خدا ہمارا اور ہماری نسلوں کا خدا ہو گا.اور ہمارے لئے اپنی شان خدائی ظاہر کرے گا.پس بلحاظ واقعہ کے یہ چھوٹی سی بات ہے.لیکن بلحاظ نتائج کے اتنی ہی بڑی ہے.جتنی مٹی کی بوری کو دیکھ کر صحابی نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ کسری نے ایران کی زمین ہمارے حوالہ کر دی.اس کے بعد میں اپنے دوستوں کی توجہ جماعت جماعت احمدیہ کے اندرونی مخالفین کے اختلاف کی طرف پھیرتا ہوں.یہ نہایت افسوس کی بات ہے اور آپ لوگوں میں سے ہر ایک کو افسوس ہو گا کہ ہم میں سے کچھ لوگ نکل کر دوسری طرف چلے گئے ہیں.اور ہر سال ان کی طرف سے ہم پر نئے سے نئے حملے ہوتے ہیں.بڑی بڑی گالیاں ہمیں دی جاتی ہیں.ہماری نیتوں ہماری دیانتوں اور ہمارے عقیدوں پر حملے کئے جاتے ہیں.اور ہر رنگ میں ہمیں نقصان پہنچانے کے لئے کوششیں کی جاتی ہیں.ہمارے دشمنوں کو ہمارے خلاف بھڑکایا جاتا ہے.ہمارے عقائد برے سے برے طریق سے پیش کئے جاتے ہیں.ہماری طرف سے ان کو جواب دیا جاتا ہے مگر ہمارے لوگ متانت اور سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہیں.اور اگر کوئی سختی کرتا ہے تو میں اسے سمجھا دیتا ہوں.مگر ان کی طرف سے ہمارے ساتھ بہت سختی کی جاتی ہے.لیکن اب خدا تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسے نشان ظاہر ہو رہے ہیں.جن سے خدا دکھا رہا ہے کہ نیت کس کی خراب ہے.میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں سازش کر کے خلیفہ بن گیا ہوں.مگر کئی لاکھ کی جماعت میں سے کوئی ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے کبھی خلافت کی خواہش کی اور اس کے لئے کوئی کوشش کی؟ اگر کوئی ہے تو خدا کے لئے بتائے.مگر اس کے مقابلہ میں ایسے لوگ نہیں بلکہ ایسی جماعتیں مل
-١ جلد" ۴۸۸ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء سکتی ہیں جن کی طرف سے مجھے کہا گیا کہ ہم ان لوگوں سے نہیں مل سکتے.اگر کوئی ایسا وقت آئے جب کہ ہمیں ان میں سے کسی کو خلیفہ ماننا پڑے تو ہم کسی اور کو مان لیں گے مگر ان کو نہیں مانیں گے.مگر میں نے ان کو یہی کہا کہ خواہ کچھ ہو میں جماعت میں اختلاف پسند نہیں کرتا.میں ان میں سے جو خلیفہ ہو گا اس کی بیعت کرلوں گا.مگر خدا کچھ اور چاہتا تھا اور جو کچھ وہ چاہتا تھا وہی ہوا.تو ان لوگوں کا ہماری نیتوں پر حملہ کرنا دراصل خدا تعالی پر حملہ کرنا ہے کیونکہ یہ دل کی حالت کو نہیں جانتے.رسول کریم فرماتے ہیں.هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ " کیا تم جس انسان کی نیت پر حملہ کرتے ہو اس کا دل پھاڑ کر تم نے دیکھ لیا ہے؟ ان لوگوں نے ہماری نیتوں پر بے جا حملے کئے.مگر ہماری نیتوں پر غیر مبالعین کے حملے اب خدا تعالیٰ نے ان کی نیتوں کو کھول کر رکھ دیا تو ہے.ان کی طرف سے اعلان ہوا تھا کہ مسیح موعود کے بعد کسی کو ہم اس لئے خلیفہ نہیں مان سکتے کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا.پھر انہوں نے کہا کہ واجب الاطاعت خلافت کوئی شرعی مسئلہ نہیں ہے.خلیفہ یا تو بادشاہ ہو سکتا ہے یا مامور اور جو ایسا نہ ہو وہ اسلامی طور پر خلیفہ نہیں کہلا سکتا.پھر مولوی محمد علی صاحب نے اپنے ایک ٹریکٹ میں لکھا کہ ہم مولوی صاحب کے الفاظ کا احترام کرنے کے لئے کہتے ہیں انجمن کا پریزیڈنٹ بنا لیا جائے اور وہ امیر ہو.بس اسے امارت کا حق ہو اور کچھ نہ ہو.ہم ان کی نیتوں پر حملہ نہیں کرتے کہ ان کی مرضی خود یہ حق حاصل کرنے کی تھی.لیکن جب وہ خود اپنی مرضی کا اظہار کر دیں تو ہمارا اس میں کیا دخل ہے.پچھلے ہی دنوں میرا ایک حدیث کا درس غلط طور پر رسالہ مسئلہ خلافت اور غیر مبالعین تشھید میں چھپ گیا.جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ اگر ایک خلیفہ کی موجودگی میں کوئی دوسرا شخص خلافت کا دعوی کرے تو وہ واجب القتل ہوتا ہے.اس پر ان لوگوں نے جھٹ شور مچا دیا کہ مولوی محمد علی صاحب کے قتل کا فتویٰ دے دیا گیا.اب یہ امردو حالتوں سے خالی نہیں.اول اگر مولوی محمد علی صاحب خلیفہ ہیں تو پہلے انہوں نے جھوٹ کہا کہ خلیفہ کا خلیفہ نہیں ہو سکتا.اور اگر وہ خلافت کے مدعی نہیں تو اب جو شور مچایا جاتا ہ مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الكافر بعد ان قال لا اله الا اللہ میں اس طرح ہے " أَفَلَا شُقَقْت عَنْ قلبه.
انوار العلوم - جلد ۴ ۴۸۹ خطاب جلسہ سالانہ کے ا و F1914 ہے یہ بالکل جھوٹا شور ہے.مگر اس پر ان لوگوں نے بڑا شور مچایا حالا نکہ بات بالکل صاف تھی.لیکن باوجود اس کے کہ وہ کہہ سکتے تھے کہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کو خلیفہ قرار دے کر ان کے قتل کا فتویٰ دے دیا ہے.چنانچہ ان کی طرف سے یہ کہا بھی گیا.مگر یہ بھی بالکل غلط ہے.کیونکہ میں اپنے مضامین میں لکھ چکا ہوں کہ وہ خلافت کے مدعی نہیں ہیں.مگر ہم اسے بھی چھوڑتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ان کو اس سے بھی زیادہ شرمندہ کرایا ہے اور ان کی نیتوں کو ظاہر کر دیا ہے.اور وہ اس طرح کہ تھوڑا ہی عرصہ ہوا پنجاب کے مسلمانوں کی طرف سے موجودہ لاٹ صاحب پنجاب کو ایک ایڈریس پیش کیا گیا تھا.اس میں لکھا تھا کہ ہم سب مسلمانوں کی طرف سے درخواست کرتے ہیں کہ سلطان ترکی جو ہمارا خلیفہ ہے اس کے حقوق کی حفاظت کی جائے.ان درخواست کرنے والوں میں غیر مبائعین کی انجمن کے سیکرٹری صاحب بھی شامل تھے.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ دو کنگ مشن کی طرف سے ایک جلسہ کی دعوت مولوی صدرالدین کی طرف سے دی گئی اور دعوتی رقعہ میں لکھا گیا کہ یورپ ہمارے خلیفہ سلطان ترکی کے حقوق چھینے کی تیاریاں کر رہا ہے ان کی حفاظت کے لئے یہ جلسہ کیا جائے گا.بهر حال یہ لوگ خلافت کے قائل تو ہو گئے.مگر کون سی خلافت کے ؟ اس کے کہ حضرت مسیح موعود کے پیروؤں میں سے تو کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی ہاں آپ کے منکروں میں سے خلیفہ ہو سکتا ہے.بہت اچھا ایسا ہی سہی مگر اس پر بھی بس نہیں کی.خدا تعالٰی نے انہیں اور طرح بھی پکڑا ہے.ابھی تازہ خبر آئی ہے کہ لندن میں مسلمانوں کا ایک بڑا جلسہ ہوا جس میں یہ تجویز پیش کی گئی کہ خلافت مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ ہے گورنمنٹ کو اس میں دخل نہیں دیتا چاہیے.اس جلسہ کے پریزیڈنٹ ایک انگریز ڈاکٹرلیون تھے.وہ کسی وجہ سے جلسہ میں نہ آسکے اور مولوی صدر الدین صاحب اس جلسہ کے پریزیڈنٹ ہوئے.چودھری فتح محمد صاحب کو بھی اس میں مدعو کیا گیا تھا.سوال و جواب کے وقت چودھری صاحب نے ڈاکٹر عبدالمجید صاحب سے جنہوں نے تقریر کی تھی.پوچھا.کیا مسئلہ خلافت ایک مذہبی سوال ہے ؟ ڈاکٹر عبدالمجید صاحب نے جواب دیا.ہاں.مذہبی سوال ہے.اور خلافت اسلام کا ایک اہم اور ضروری جزو ہے.چودھری صاحب نے اس پر
ر العلوم - جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء بس نہیں کیا اور پوچھا کیا خلیفہ کی اطاعت لازم اور ضروری ہے ؟ ڈاکٹر عبدالمجید نے مولوی صدر الدین صاحب سے جواب کی اجازت لے کر کہا ہاں ضروری ہے.اس سوال و جواب سے دونو باتیں حل ہو گئیں کہ مسلمانوں میں خلیفہ ہو اور ہو بھی واجب الاطاعت.کہتے ہیں کوئی شخص ساری رات زلیخا کا قصہ پڑھتا رہا جب صبح ہوئی تو اس نے پوچھا.زلیخا عورت تھی یا مرد؟ ہم کہتے ہیں یہی بات ان لوگوں نے کی ہے.اس وقت تک ہم سے اتنا جھگڑا کرتے رہے اور سمجھا ہی نہیں کہ ہم کیا کہتے رہے ہیں.ہم بھی تو یہی کہتے تھے کہ خلافت اسلام کا ایک اہم اور ضروری جزو ہے اور خلیفہ کی اطاعت لازم ہے.مگر ہمارے کہنے سے تو ان لوگوں نے نہیں سمجھا.اور اب انہیں مجبور کر کے خدا انہی کے مونہوں سے یہ بات کہلوا رہا ہے.دوسری ایک اور بات ہے اور وہ یہ ہماری مخالفت میں خواجہ صاحب کی سرگرمی کہ پچھلے کچھ دنوں سے خواجہ کمال الدین صاحب نے آکر غیر مبائعین کے مشن میں خاص حصہ لینا شروع کر دیا ہے.اور مولوی محمد علی صاحب کے بازو بنے ہوئے ہیں.اور انہوں نے اپنا وہی پرانا وعظ شروع کیا ہوا ہے.جو اظہار حق نامی خفیہ ٹریکٹ میں کسی نے حضرت خلیفہ اول کو بہت سی گالیاں دے کر درج کیا تھا اور وہ یہ کہ خلیفہ کی بیعت کرنا انسان پرستی ہے.اس وقت تو خواجہ صاحب کے ساتھیوں نے اعلان کر دیا تھا کہ یہ ہمارا مذ ہب نہیں ہے.مگر اب خواجہ صاحب وہی بات کہہ رہے تھے.پھر وہ کہتے ہیں کہ جتنے نبی دنیا میں آئے وہ انسان پرستی کو مٹانے کے لئے آئے.پھر کہتے ہیں یہ جو دنیا میں انسان پرستی پائی جاتی ہے اس میں سب سے زیادہ حصہ انبیاء اور اولیاء کی اولاد کا ہوتا ہے.اس لئے میں جماعت احمدیہ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والے لوگ کیوں احمق ہو گئے ہیں کہ انہوں نے انسان پرستی شروع کر دی ہے.ایک خلیفہ کی بیعت کرنا جماعت احمدیہ کی حماقت ہے یا خواجہ صاحب کی؟ یہ لمبا سوال ہے.مگر میں جانتا ہوں کہ ہماری جماعت میں سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جو باوجود اس کے کہ ایک لفظ بھی نہیں پڑھے ہوئے تاہم خواجہ صاحب کا ناطقہ بند کر سکتے ہیں.پھر جو شخص خدا تعالیٰ کے کلام کا اتنا بھی حق نہیں سمجھتا کہ اسے دنیا میں شائع کیا جاوے اور آج بھی اس کی اشاعت کو روکتا ہے وہ کیا حق رکھتا ہے کہ جماعت احمدیہ کو بے وقوف اور احمق کہے ؟
انوار العلوم جلدم طاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء میں یہ مانتا ہوں کہ ہماری جماعت کے غیر مبالعین کو جماعت احمدیہ سے کیا نسبت؟ سارے لوگ ایم اے اور بی اے نہیں.لیکن رسول کریم اور حضرت ابو بکر اور دوسرے صحابی بھی ایم.اے اور بی.اے نہ تھے.گو اگر اسی بات میں وہ ہماری جماعت سے اپنے ساتھیوں کا مقابلہ کرے تو اسے معلوم ہو جائے کہ خدا کے فضل سے ہم میں ان سے بہت زیادہ ایم.اے اور بی.اے ہیں.پھر اگر سیانے اور عظمند کے معنی ان کے نزدیک مال دار کے ہیں تو ان کے ساتھیوں سے بہت زیادہ مالدار ہم اپنی جماعت میں دکھا سکتے ہیں.بڑے سے بڑا چندہ ایک دفعہ ان میں سے ایک آدمی نے ہزار روپیہ دیا تھا اور اسی پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا.مگر ہمیں ایک ہی آدمی نے.ہزار روپیہ چندہ یک مشت دیا.پھر عقل اور علم کا معیار علم عربی جانتا ہے.مگر میں جانتا ہوں خواجہ صاحب اور عربی دانی خواجہ صاحب یہ معیار کبھی قائم نہیں کریں گے.کیونکہ علم عربی سے جہالت خواجہ صاحب سے زیادہ اور کسی میں کم ہی پائی جائے گی.انہوں نے ایک پشاوری مولوی سے مدد لے کر اور حضرت صاحب کی ایک کتاب چراکر ایک کتاب لکھ دی ہے اور سمجھ لیا ہے کہ میں بڑا عربی دان ہوں.مگر اس کا فیصلہ نہایت آسانی کے ساتھ اس طرح ہو سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بنائے جائیں حج.اور قرآن کریم کا کوئی ایک رکوع خواجہ صاحب کے سامنے پیش کر دیا جاوے اور وہ اس کا لفظی ترجمہ کر دیں.اور فیصلہ مولوی محمد علی صاحب قسم کھا کر دیں اور لکھ دیں کہ خواجہ صاحب کا کیا ہوا ترجمہ صحیح ہے.یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے صرف لفظی ترجمہ ہے.مگر میں جانتا ہوں خواجہ صاحب اس سوال کو کبھی اٹھنے نہیں دیں گے کیونکہ عربی دانی ان کے نزدیک جہالت ہے اور وہ علماء کو قل اعوذ نے کہا کرتے ہیں.خیر خواجہ صاحب یہ بات تو نہیں ماننے کے مگر اپنے غیر مبالعین ہر طرح مقابلہ کرلیں ساتھیوں میں سے مولوی ہی پیش کر دیں.ان کے مقابلہ میں ہم دو گنے لگتے بلکہ کئی گنا زیادہ دکھا دیں گے.پھر اگر علم کا معیار قانون دان ہوتا ہے تو یہی سہی.اگر ڈاکٹر ہونا ہے تو یہی سہی.غرض کوئی معیار وہ مقرر کر دیں.اسی پر مقابلہ کر کے ان کو دکھا دیا جائے گا کہ ہمارے مقابلہ میں ان کو کیا نسبت ہے ؟ مگر باوجود اس کے وہ ہماری جماعت کو کہتے آئے ہیں اور اب بھی کہتے ہیں کہ یہ جاہلوں کی جماعت ہے اور ان میں اہل
۴۹۲ خطاب جلسہ سالانہ کے جو نمبر ۱۹۱۹ء الرائے نہیں ہیں.حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ حضرت صاحب نے اپنی کتاب نور الحق میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اہل الرائے لوگوں کو میری جماعت میں داخل کر دیا ہے.حیرت ہے کہ حضرت صاحب کے نزدیک تو جو آپ کی طرف آتا ہے وہ اہل الرائے ہے مگر خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ یہ جاہلوں اور اجڈوں کی جماعت ہے.پھر وہ ہماری جماعت کو انسان خواجہ صاحب کی طرف سے انسان پرستی کا الزام پرست کہتے ہیں میں مانتا ہوں کہ انسان پرستی بہت بری بات ہے اور یہ شرک ہے.مگر میں پوچھتا ہوں کیا خدا تعالیٰ نے صرف انسان پرستی سے ہی منع کیا ہے اور زر پرستی کثرت پرستی، سوسائٹی پرستی سے منع نہیں کیا؟ حیرت ہے کہ وہی خواجہ صاحب جو ہم پر انسان پرستی کا الزام لگاتے ہیں خود زر پرستی کے پیچھے دوسرے لوگوں سے چندہ حاصل کرنے کی غرض سے اور غیر لوگوں سے علیحدہ ہونے کے خوف سے جماعت احمدیہ کو چھوڑتے ہیں.کیا یہ باتیں بری نہیں ہیں؟ یہ تو بے شک بری بات ہے کہ کسی شخص کو اس لئے مانا جائے کہ وہ کسی بڑے انسان کی اولاد ہے.مگر کیا بڑے بزرگ اور خدا رسیدہ انسان کی اولاد ہونا کوئی لعنت ہے؟ اگر ان لوگوں کے نزدیک حضرت صاحب کی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ ماننا جہالت ہے تو گویا کسی برگزیدہ خدا کی اولاد ہونا ان کے نزدیک لعنت ہے.مگر سوال یہ ہے کہ بڑے بڑے بد کار جو لوگ گزرے ہیں وہ کن کی اولاد میں سے تھے ؟ فرعون نمرود اور شداد کسی نبی کے بیٹے پوتے یا پڑ پوتے تھے.اور ابو جہل، عتبہ شیبہ کون سے نبی کے پوتے پڑپوتے تھے ؟ کوئی ایک بھی انبیاء اور بزرگوں کا ایسا دشمن جو دنیا کے ہلاک کرنے والا اور اہل دنیا کے لئے مملک اور مغوی ہو تو دکھایا نہیں جا سکتا.جو کسی نبی کی قریب اولاد میں سے ہوا ہو.خود گمراہ اور بے دین ہونا اور بات ہے.حضرت نوح کے لڑکے کا خدا تعالٰی نے ذکر کیا ہے.اس کے متعلق اول تو یہی جھگڑا ہے کہ وہ ان کا بیٹا تھا یا نہیں.مگر پھر بھی وہ دوسروں کے لئے مہلک اور مغوی نہیں تھا خود گمراہ تھا.تو ہم کہتے ہیں کسی کو اس لئے مانا کہ وہ بڑے آدمی کی اولاد ہے کم عقلی ہے.مگر جس کو خدا تعالی بزرگی دے دے اس کو اس لئے نہ ماننا کہ وہ کسی بڑے انسان کی اولاد ہے یہ بھی کم عقلی ہے.بہر حال دونوں طرح بات برابر ہے اب ان کی جو مرضی ہو کہیں مگر ان کا فلسفہ درست نہیں ہے اور اس کا نتیجہ وہ دیکھ رہے ہیں اور آئندہ دیکھیں گے.ان کے گھروں میں اولاد موجود ہے مگر خدا تعالیٰ نے ان کی اولادوں کو اس وقت
انوار العلوم جلدم - ۹۳ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء نک دین کے حاصل کرنے کی توفیق نہیں دی.اور اس کی وجہ صاف ہے کہ چونکہ انہوں نے ہم سے اس لئے دشمنی کی ہے کہ ہم اس بڑے انسان کی اولاد ہیں جس کو خدا تعالیٰ نے بڑا بنایا.اس کے بدلہ میں خدا تعالٰی نے ان کے گھروں میں یہ بات پیدا کر دی.اب میں اس مضمون کی طرف آتا سالانہ جلسہ پر مضمون بیان کرنے کی ترتیب ہوں جو آج میرا اصل مضمون ہے.لیکن اس کے بیان کرنے سے پہلے میں یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس وقت تک جو میرے عہد میں جلسے ہوئے ہیں ان پر میری عادت رہی ہے کہ میں ایک دن کوئی علمی مضمون بیان کیا کرتا ہوں اور ایک دن جماعت کی مختلف ضروریات کے متعلق بولتا رہا ہوں.پہلے دن عام نصائح بیان کی جاتی رہی ہیں اور دوسرے دن علمی مضمون.سوائے پچھلے سالانہ جلسہ کے.اس سال بھی میرا ارادہ ہے کہ آج عام ضروریات کے متعلق بیان کروں.اور کل وہ علمی مضمون جس کے متعلق اس دفعہ کچھ بیان کرنے کا ارادہ ہے.انشاء اللہ.اس دفعہ بیان کرنے کے لئے میں نے ایک ایسا مضمون علمی مضمون کے متعلق اطلاع منتخب کیا ہے کہ جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بیان کرنے کی نہایت اشد ضرورت ہے.اب تک میں جو مضمون بیان کرتا رہا ہوں وہ اعمال کے متعلق تھے.مگر اب کے جو مضمون بیان کرتا ہے وہ ایمان کے متعلق ہے.اور چونکہ ایمان ہی جڑ ہے اس لئے وہ مضمون نہایت اہم ہے.میں نے اس مضمون کے انتخاب کرنے کے متعلق اس وقت اس لئے سنایا ہے کہ کئی لوگ دوسرے دن بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں وہ ایسا نہ کریں.اس مضمون کے بیان کرنے کے لئے میرے دل میں بہت خوف اور ڈر پیدا ہوا.اور اس کے لئے میں نے اتنی دعا کی کہ آج تک اور کسی مضمون کے بیان کرنے کے لئے نہیں کی.میں نے خدا تعالیٰ سے عاجزانہ طور پر کہا کہ اے خدا اگر اس مضمون کا سنانا مناسب نہیں تو میرے دل میں ڈال دے کہ میں اسے نہ سناؤں.لیکن مجھے یہی تحریک ہوئی ہے کہ سناؤں.اس لئے کل انشاء اللہ سنایا جائے گا.گو وہ مضمون مشکل ہے اور اس کے سمجھنے کے لئے بہت محنت اور کوشش کی ضرورت ہے.لیکن اگر آپ لوگ اسے سمجھ لیں گے تو بہت بڑا فائدہ اٹھائیں گے.
دم - جلد هم ۴۹۴ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء آج میں عام مضمون بیان کرتا ہوں جو نصائح اور تبلیغ کے انسان کو پیدا کرنے کی غرض متعلق ہے.میں نے شروع تقریر میں کچھ آیتیں پڑھی تھیں جو یہ ہیں.وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِكْرَى تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِيْنَ ، وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ه مَا أُرِيدُ مِنْهُمْ مِنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ أنْ يُطْعِمُونِ O إِنَّ الله هو الرزاق ذو القوة ماد الْمَتِينُ ، فَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا ذَنُوبًا مِثْلَ ذَنُوبِ أَصْحْبِهِمْ فَلَا يَسْتَعْجِلُونِ هِ فَوَيْلُ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ يَوْمِهِمُ الَّذِي يُوْعُدُونَ (الذُریت : ۵۶ تا ۲۱) ان آیات میں اللہ تعالٰی نے اپنے بندوں کو ایک خاص بات اور ایک بہت بڑے فرض کی طرف متوجہ کیا ہے.رسول کریم ﷺ کو خدا تعالی فرماتا ہے تو نصیحت کر مسلمانوں کو اور انہیں کھول کر بتا دے.کیونکہ نصیحت مؤمنوں کو فائدہ دیتی ہے.وہ کیا نصیحت اور کیا وعظ ہے؟ یہ کہ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ - کہ میں نے جن و انس کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ وہ دنیا میں آئیں اور کھا پی کر چلے جائیں.اور نہ اس لئے پیدا کیا ہے کہ میں ان کا محتاج ہوں اور اگر انسان نہ ہو تا تو میری خدائی نہ ثابت ہو سکتی.میں قادر اور مالک نہ رہتا یا میں کمزور تھا اور مدد کے لئے انسان کو پیدا کیا ہے.یا میری شان و شوکت میں کچھ کمی تھی اس کو پورا کرنے کے لئے انسان کو بنایا ہے یا اپنے علم کی ترقی کے لئے بنایا ہے.مَا أُرِيدُ مِنْهُم مِّنْ رِزْقٍ وَمَا أُرِيدُ انْ تُطْعِمُونِ ان کے پیدا کرنے سے میرا یہ منشاء نہیں ہے کہ وہ مجھے رزق دیں گے اور کھانا کھلائیں گے میری اگر کوئی غرض ہے.تو یہ ہے کہ لِيَعْبُدُونِ.بندے خدا کے عابد ہو جائیں میرا فضل چاہتا تھا کہ میں اس کو پوری شان سے ظاہر کروں.پس میں نے اپنے فضل کے اظہار کے لئے انسان کو منتخب کیا اور اپنے احسان کے لئے اسے چن لیا.میں نے چاہا کہ انسان میرے عہد نہیں.پس وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ - میں نے نہیں پیدا کیا جن اور اِنس کو مگر اس لئے کہ میری عبادت کریں.میں نے ان سے کچھ لینا نہیں.ان سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کرنا.میری شان میں ان سے کوئی زیادتی نہیں ہو سکتی.میری حکومت میں کوئی اضافہ نہیں ہو جاتا.میری غرض ان کے پیدا کرنے سے صرف یہی ہے کہ میرے عبد اور فرمانبردار بن جائیں.اس کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ عبد کے معنی عام غلامی کے نہیں بلکہ خدا کا عبد بننا بہت
العلوم جلد ۴ ۴۹۵ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء بڑا انعام ہے.خدا تعالٰی کی غلامی کوئی ذلت کی بات نہیں بلکہ ایک نعمت ہے.اور اس کی چھوٹی مثال یہ ہے کہ جب کسی کو بادشاہ کی ڈیوڑھی کا دربان مقرر کیا جاتا ہے تو وہ اپنے لئے اسے بڑی عزت سمجھتا ہے.اس کے لئے تاریں چل جاتی ہیں اور بڑی خوشی منائی جاتی ہے.یہ نہیں ہوتا کہ وہ شخص ماتم شروع کر دیتا ہے بلکہ دعوتیں اور پارٹیاں دی جاتی ہیں اور اسے بڑی عزت سمجھا جاتا ہے.تو فرمایا میں نے اس لئے انسان کو پیدا کیا ہے کہ وہ میرا عبد بن جائے میری عبادت میں لگ جائے.گویا انسان کو انعامات کا وارث بنانے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس انسان کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات اس پر ظاہر ہوں.غرض خدا تعالیٰ نے انسان کی انسان کو اپنی زندگی کی اصل غرض کو یاد رکھنا چاہئے پیدائش کی یہ غرض بیان کی ہے کہ اس کا عبد بنے.اور جس غرض کے لئے کوئی آتا ہے دانا وہی ہوتا ہے جو اس غرض کو اکرتا ہے.مثلاً ایک تاجر جو لاہور تجارت کا مال خریدنے کے لئے جاتا ہے وہ اگر ایک دو گھنٹے چڑیا گھر دیکھ کر اور ایک دو گھنٹے عجائب گھر دیکھ کر واپس آجائے تو لوگ اسے یہی کہیں گے کہ بے وقوف ہے.کیونکہ جو غرض کسی کی ہوتی ہے اسے اگر وہ پورا نہ کرے تو وہ جاہل اور نادان ثابت ہوتا ہے.پس جب تک انسان اس خدا کا عبد بنے بغیر خاص انعام حاصل نہیں ہو سکتے غرض کو پورا نہیں کرتا جس کے لئے پیدا کیا گیا ہے.یعنی خدا تعالیٰ کا عبد نہیں بن جاتا دانا نہیں کہلا سکتا.انسان کے لئے دانائی یہی ہے کہ پورے طور پر خدا تعالیٰ کا عبد بن جائے.اور جب تک عبد نہ بنے خدا تعالیٰ کے انعام کا وارث نہیں بن سکتا.کیونکہ جب تک کوئی کام نہ کرے اس وقت تک انعام کیسے پا سکتا ہے ؟ مثلاً حکومت کسی کو لڑنے کے لئے بھیجے مگر وہ میر تماشہ دیکھ کر واپس آجائے تو اس کو کوئی انعام نہیں دیا جاتا.انعام وہی پاتا ہے جو فرمانبردار بن کر اور ہدایات پر کار بند ہو کر کار ہائے نمایاں دکھاتا ہے.پس جب کہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی یہ ہے کہ خدا کا عبد بنے اور ای وقت انعام حاصل کر سکتا ہے جب اس غرض کو پورا کرے.تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس غرض کو ہر وقت یاد رکھے اور اس کو پورا کرنے کی کوشش کرے.باقی جس قدر چیزیں اور کام
العلوم جلد ) خطا مالانه ہوں ان کو زائد سمجھے.نوکری ، تجارت یا کوئی اور پیشہ جو انسان اختیار کرتا ہے یا علم سیکھتا اور دوسروں کو سکھاتا ہے یا بعض لوگ ستی سے بھی اپنی زندگی گزار دیتے ہیں اور وہ اپنی زندگی کا مقصد کھانا پینا اور سیریں کرنا سمجھ لیتے ہیں یہ اصل غرنہیں نہیں ہیں.اس لئے انہی میں منہمک ہو جانا عقل و دانش سے بعید ہے.دیکھو ایک شخص جو کسی مقدمہ کے لئے گھر سے روانہ ہو یا کسی قلعہ کے فتح کرنے کے لئے جائے وہ بھی کھانا کھائے گا اور مختلف قسم کے نظارے جو راستہ میں آدیں دیکھے گا.مگر یہ سب کام اس کے ضمنی ہوں گے اصل مقصود نہ ہوں گے.ان تمام کاموں کے کرتے وقت اس کی نظر اصل مقصد سے دور نہ جاوے گی اور وہ ان کی خاطر اصل مقصد کو قربان نہیں کر دے گا.گو وہ ان باتوں کو بھی جہاں تک ممکن ہو اور یہ اس کے کاموں کی میں روک نہ ہوں چھوڑے گا نہیں.اور ان کے کرتے وقت بھی یہ نیت رکھے گا کہ یہ میرے کام میں محمد ہوں.مثلاً کھانا کھاوے گا تو سمجھے گا کہ اگر میں کھانا نہ کھاؤں گا تو لڑوں گا کیونکر؟ پس انسان کو اپنی زندگی کے متعلق بھی یہی رویہ اختیار کرنا چاہئے.اسے اول تو اپنی پیدائش کی غرض کو سمجھنا چاہئے.پھر اس کو مد نظر رکھ کر جو اور کام بھی کرنے پڑیں وہ کر سکتا ہے.دوسرے لوگ اس نکتہ کو بھول چکے ہیں.آپ لوگوں نے ایک تازہ عہد کیا ہے.پس میں آپ کی توجہ اس طرف پھیرتا ہوں.آپ لوگ ایسا نہ کریں بلکہ اس فرض کو ہمیشہ یاد رکھیں.خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو جو نور عطا کیا ہے اس نور کے ہوتے ہوئے باقی دنیا اندھی بھی ہو تو آپ کو ایسا نہیں ہونا چاہئے.دنیا قول بلی کو بھول گئی ہے.خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے جو روح دنیا روح کا خدا سے عہد میں آتی ہے اس سے سوال کیا جاتا ہے اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (الاعراف (۱۷۳) کیا میں تیرا رب نہیں ہوں؟ یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ کیا تو میرا عبد نہیں ہے.روح جواب دیتی ہے بولی ہاں.یعنی فطرت یہ گواہی دیتی ہے.مگر بہت لوگ ہوتے ہیں جو اعمال سے اپنے اس اقرار کو جھٹلاتے ہیں لیکن مؤمن وہی ہے جس کی زبان اور عمل ایک جیسے ہوں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تم لوگوں کی زبان کان جماعت احمدیہ سے خطاب آنکھیں کھول دی ہیں اور تمہاری روحانی حسیں بہت تیز کر دی ہیں.تمہارا یہ کام نہیں ہے کہ اپنی پیدائش کی اس غرض کو بھول جاؤ جس کے لئے پیدا کئے گئے ہو.دوسرے لوگ اگر غفلت کرتے ہیں تو کر سکتے ہیں.کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیوں
رالعلوم جلد خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ تو پیدا کئے گئے ہیں.مگر آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے کہ تمہارے پیدا کرنے کی کیا غرض ہے اور تمہاری روحانی آنکھیں کھول دی گئی ہیں.پس آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اس غرض کی طرف پورے طور سے توجہ کریں.اور یاد رکھو کہ تم خدا تعالٰی کے انعامات اس وقت تک نہیں پاسکتے جب تک اس غرض کو پورا نہ کرو.ایک بے وقوف نوکر سمجھ سکتا ہے کہ انعام بغیر حق کے طلب کرنے والا ذلیل ہوتا ہے مجھے بغیر نوکری کی غرض پورا کئے ! مل جائے گا.لیکن کوئی عقلمند اور دانا انسان یہ نہیں سمجھ سکتا.کہتے ہیں ایک بے وقوف لڑکا تھا اس کو ہیں نے کہا جا کہیں نوکری کر.اور بتا دیا کہ جب آقا خوش ہوتا ہے تو نوکروں کو انعام بھی دیا کرتا ہے.اس لئے ایسے موقع پر آقا سے انعام مانگنا چاہئے.اس نے پوچھا یہ کس طرح معلوم ہو کہ آقا خوش ہوا ہے.ماں نے کہا جب کسی کام پر ہنسے تو سمجھ لو کہ خوش ہے.وہ گیا اور ایک شخص کا نوکر ہو گیا.ایک دن آقا نے اسے کہا.بھئی! دیکھنا با ہر بارش ہو رہی ہے یا نہیں؟ اس نے کہا ہو رہی ہے.آقا نے کہا.تمہیں اندر ہی بیٹھے کس طرح معلوم ہو گیا؟ اس نے کہا ابھی باہر سے بلی آئی تھی وہ بھیگی ہوئی تھی.جس سے معلوم ہوا کہ بارش ہو رہی ہے.یہ جواب تو جو کچھ تھا سو تھا.ممکن تھا کہ بلی کہیں پانی میں لوٹ کر آئی ہو.مگر آقا نے زیادہ زور نہ دیا اور خاموش ہو رہا.پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا کہ ذرا اٹھ کر لیمپ بجھا دو.نوکر نے کہا.آپ لحاف اوڑھ کر سو جائیں روشنی نظر نہیں آئے گی.تھوڑی دیر بعد آقا نے کہا کہ دروازہ بند کر دو.اس نے کہا کہ دو کام میں نے کئے ہیں ایک آپ ہی کر دیں.اس پر اس کا آقا اس کی حماقت پر ہنسا.اور اس بے وقوف نو کر نے سمجھا کہ اس وقت یہ میری خدمت پر خاص طور پر خوش ہوا ہے اور یہ موقع انعام لینے کا ہے.اسی وقت اٹھ کر بیٹھ گیا.اور کہا کہ حضور بندہ انعام کا خواست گار ہے.یہ ایک بے وقوف کا قصہ ہے.جس نے اپنے آقا سے انعام کی درخواست کی حالانکہ اس نے اس غرض کو پورا نہ کیا تھا جس کے لئے اسے رکھا گیا تھا.مگر کیا کوئی عظمند اس طرح کر سکتا ہے ؟ اس کو کیا انعام مل سکتا تھا؟ یہی کہ آقا نے کان سے پکڑ کر گھر سے باہر نکال دیا.تو ایسے آدمی کا کوئی حق نہیں ہوتا کہ انعام کا طالب ہو.اور اس کا وہی حال ہوتا ہے.جو عدالت میں کرسی پر بیٹھنے کے حق کے مطالبہ کے وقت مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا ہوا تھا.جب
انوار العلوم جلد خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء مارٹن کلارک کا حضرت مسیح موعود کے خلاف مقدمہ تھا تو مولوی محمد حسین صاحب بڑی خوشی سے لمبا جبہ پہن کر عدالت میں گواہی دینے کے لئے اس خیال سے پہنچے تھے کہ بس آپ کو قید ہی کرادوں گا.اور اس بات کی بڑی امید لگا کر گئے تھے کہ ان کو ہتھ کڑی لگی ہوئی ہوگی اور وہ ہے پابز نجیر کھڑے ہوں گے.لیکن جب عدالت میں جا کر دیکھا کہ حضرت مرزا صاحب ڈپٹی کمشنر صاحب کی کرسی کے پاس کرسی پر بیٹھے ہیں.تو دیکھ کر جل گیا اور کہنے لگا مجھے بھی بیٹھنے کے لئے کری دی جائے.ڈپٹی کمشنر نے کہا آپ کا نام کرسی نشینوں میں نہیں ہے.اس نے کہا میں لاٹ صاحب کو ملا تھا انہوں نے مجھے کرسی دی تھی اس لئے مجھے کرسی دی جائے.حالانکہ ملاقات کے وقت کرسی کامل جانا اور بات ہے اور عدالت میں کرسی ملنا اور بات.لیکن اس نے اس بات کا کوئی خیال نہ کیا اور کرسی طلب کی.اس پر اسے کہا گیا بک بک مت کرو اور پیچھے ہٹ کے جوتیوں میں کھڑے ہو جاؤ.واقع میں جس چیز کا کسی کو حق نہ ہو اگر وہ اسے طلب کرے تو ذلیل کیا جاتا ہے.ہمارا خدا تعالٰی پر کوئی حق نہیں ہے.ہاں خدا تعالیٰ نے جو حق خود قرار دے دیا ہے.وہ ہے.اور وہ ہمیں مل سکتا ہے.مگر وہ بھی اسی وقت جب ہم اپنی پیدائش کی غرض کو پورا کریں.ورنہ ہمارے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کے حضور وہی سلوک کیا جائے گا جو مولوی محمد حسین کے ساتھ عدالت میں کیا گیا.مگر ہم خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہم پر اپنا فضل کرے گا اور ہمیں اپنے انعام کا وارث بنائے گا.پس تم لوگ عبد بننے کی کوشش کرو عبد بنے بغیر جنت میں نہ جانے کی طبعی وجہ کیونکہ وہ انعام جو خدا تعالٰی نے مؤمنوں کے لئے رکھا ہے.وہ اسی وقت مل سکتا ہے جب کہ انسان عبد بن جائے.اور طبعی طور پر بھی انسان اسی وقت اس انعام کا مستحق ہو سکتا ہے جو اس کے لئے خدا تعالیٰ نے مقرر کیا ہے جب کہ وہ عبد بن جائے.کیونکہ بندہ کا حق خدا تعالیٰ نے جنت مقرر کیا ہے اور اس میں سب سے بڑا انعام خدا تعالیٰ کی رؤیت ہے.اور بھی انعامات ہیں لیکن سب سے بڑا انعام یہی ہے.اب یہ سمجھنا چاہئے کہ جنت مل نہیں سکتی جب تک انسان عبد نہ ہو.اور شریعت کے احکام کے علاوہ اس کی ایک طبعی وجہ بھی ہے.یہی نہیں کہ قرآن کریم میں آگیا ہے کہ جو عبد نہیں بنے گا وہ جنت میں نہیں جا سکے گا بلکہ جنت میں جانے کے لئے طبعی طور پر بھی عبد بننا ضروری ہے.جنت اس مقام کا نام ہے جس پر کبھی فنا نہیں آنے والی.دوزخ پر بھی فنا کا وقت آجائے گا.
انوار العلوم جلدم ۴۹۹ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ دوزخ پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کہ باد صبا اس کے دروازے کھٹکھٹائے گی.(مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ (۱۰۲) لیکن جنت ہمیشہ رہنے والی چیز ہے.اور اس میں رہنے والوں کی یہ صفات بتائی گئی ہیں کہ نہ وہ کبھی ننگے ہوں گے نہ بھوکے.نہ ان پر کبھی موت آئے گی اور نہ انہیں کوئی تکلیف پہنچے گی اور یہ خدا تعالیٰ کی صفات ہیں.پس جنت الوہیت کا جلوہ گاہ ہے.اور حادث انسان کا حقیقی مقام نہیں ہو سکتا.وید اور بائبل میں آیا ہے کہ خدا جنت میں رہتا ہے یا وہاں سیر کے لئے جاتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا تعالی کو مکان کی ضرورت ہے اور وہ جنت کے مقام میں رہتا ہے.بلکہ یہ ہے کہ جنت چونکہ ہمیشہ رہنے والا مقام ہے.اس لئے الوہیت سے اس کو خاص تعلق ہے اور اس لحاظ سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کا گھر ہے.اب جب کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مؤمن کے لئے جنت مقرر کی گئی ہے.اور جنت کی میں جانے کے لئے الوہیت کا مظہر ہونا ضروری ہے تو کہا جاسکتا ہے.کہ پھر انسان اس میں کس طرح جا سکتا ہے؟ اس کا طریق وہی ہے جو ایک ایسے محل میں جانے کا ہے جس کا مالک کوئی بادشاہ ہو.دیکھو ایک بادشاہ کے محل میں خدمت گار تو بآسانی آتے جاتے ہیں.لیکن کوئی رئیس اور راجہ بھی نہیں جا سکتا جب تک کہ اجازت نہ حاصل کر لے.مگر ایک نوکر کو اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اس کو ٹھی والے کا بندہ اور خادم ہے.پس جنت میں انسان تب ہی داخل ہو سکتا ہے جب کہ عبداللہ بن جائے ورنہ اور کوئی صورت نہیں ہے.اور اس طرح انسان جنت میں داخل ہو گا تو اپنے حق اور اپنی خوبی سے نہیں بلکہ اپنے حقیقی آقا کا حقیقی غلام بن کر اس کے گھر جانے کا مستحق ہو جاوے گا ورنہ جب تک انسان اللہ کا عبد نہ ہو جائے جنت میں جاہی نہیں سکتا اور اس میں داخل ہی نہیں ہو سکتا.اسی کی طرف قرآن کریم میں نہایت لطیف پیرایہ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ فَادْخُلِي فِى عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي (الفجر: ۳۱۰۳۰) یعنی جو لوگ اپنے اعمال سے خدا تعالیٰ کو راضی کریں گے وہی اس بات کے مستحق ہوں گے کہ ان کو کہا جاوے کہ اب وہ خدا کے بندے ہو گئے ہیں.اور اس طرح خدا تعالیٰ کی جنت میں داخل ہونے کے مستحق ہو گئے ہیں.جنت ایک ایسا مقام ہے جہاں تجلیات الیہ اعلیٰ پیمانہ پر ہوتی ہیں اور اس لئے وہ خدا کا گھر
العلوم جلد ۴ ۵۰۰ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء کہلاتا ہے.اس نکتہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اگر خدا جنت میں ہے تو معلوم ہوا کہ وہ ایک محدود ہستی ہے اور اس کو مکان کی ضرورت ہے حالانکہ یہ بات نہیں ہے.ہم جو دنیا میں کعبہ کو بیت اللہ کہتے ہیں تو اس لئے نہیں کہتے کہ خدا اس میں رہتا ہے.بلکہ اس لئے کہتے ہیں کہ اس جگہ سے خدا کی تجلی ظاہر ہوتی ہے.اس لحاظ سے جنت بیت اللہ یعنی خدا کا گھر کہلاتا ہے اور اس میں کوئی داخل نہیں ہو سکتا سوائے اس کے جو عبد اللہ بن جائے اور یہی جنت میں داخل ہونے کا طبعی طریق ہے.پس جنت کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا کا بندہ بن جائے.مگر یہ جنت وہ نہیں جس کا نقشہ آج کل کے مسلمانوں کے نزدیک جنت کا نقشہ آج کل کے مسلمانوں نے اپنے ذہنوں میں کھینچا ہوا ہے اور جو مولویوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے.ایک دفعہ ہم ندوہ کے جلسہ پر گئے جو مسلمانوں کا بڑا ند ہی تعلیم کا مرکز مانا جاتا ہے.اس میں ایک مولوی صاحب کا وعظ نماز کی خوبیوں پر تھا.مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر کہا نماز پڑھنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے کہا ہے جو نماز پڑھے گا اسے جنت ملے گی.اور جنت کیا ہے ؟ یہ کہہ کر اس نے جنت کا نقشہ اس طرح کھینچنا شروع کیا کہ اس میں بڑی خوبصورت اور حسین عورتیں ہوں گی.یہ ہو گا وہ ہو گا.اس کا وعظ سن کر میں نے کہا.سرسید نے کسی ایسے ہی مولوی کا جنت کے متعلق وعظ سن کر کہا ہو گا یہ جنت جو آج کل کے مسلمان پیش کرتے ہیں چکلہ ہے.ان مولوی صاحب نے ایسے شرم ناک طور پر عورت اور مرد کے مخصوص تعلقات کو بیان کرنا شروع کیا کہ غیر احمدی خود شرمندہ ہو ہو کر اپنے مونہوں پر رومال رکھنے لگے.اور کہتے اچھا ہوا یہ لیکچر رات کو ہوا.اور کوئی غیر مذہب کا آدمی اس میں شامل نہیں ہے کی ورنہ بڑی ذلت ہوتی.خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے جو جنت مقدر کی ہے وہ جنت ایسی ہے جہاں اس ہستی سے ملاقات ہو سکتی ہے کہ اس کے لئے جتنی زیادہ آنکھیں کھلیں اتنا ہی زیادہ لطف اور سرور آتا ہے.اور اس سے ایک منٹ کی جدائی موت سے بد تر معلوم ہوتی ہے.مگر اس مقصد تک کوئی انسان اس وقت تک پہنچ نہیں سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کا عبد نہ ہو.وہ
لوم جلد ۴ ۵۰۱ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ - و مگر عبودیت کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کا عبد رہی ہو سکتا عبد بننے کے دو فرض ہے جو دو فرض ادا کرے.اول فرض یہ ہے کہ جو کام اس کے ذمہ لگائے گئے ہیں ان کو بجالائے.یا جن کاموں کے کرنے سے اسے روکا گیا ہے اس سے بچے.دوسرا فرض یہ ہے کہ اپنے آقا کے جو دوسرے عبد ہیں ان کو بھی ان کاموں کی طرف توجہ دلائے.جب کوئی شخص ان دونوں فرضوں کو بجالاتا ہے تو پھر وہ عہد ہو جاتا ہے اور فَادْخُلِی فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِنہ کا مستحق ہو جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے ہماری جماعت کو اس کی توفیق دی ہوئی ہے کہ وہ کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ خدا تعالٰی کے عبد بنیں.مگر باوجود اس کے میں کہتا ہوں جس کا انہوں نے عبد بننا ہے اس کی چونکہ بہت بڑی شان ہے.اور اس کے جتنے اعلیٰ درجہ کے عبد بنتے جاؤ اس کی اور زیادہ شان ظاہر ہوتی جاتی ہے اور عبودیت کے اور راستے کھلتے جاتے ہیں.حتی کہ رسول کریم ال جیسا انسان جو کہتا ہے کہ میری نمازیں ، میری قربانیاں، میری زندگی اور میری موت سب اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے وہ بھی کی عبودیت میں آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے.پس تم لوگوں کو بھی اپنی کوشش اور سعی میں ہر وقت لگے رہنا چاہئے.اور یاد رکھنا چاہئے کہ خدا تعالٰی کا عبد بنا کوئی معمولی بات نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالی کا بہت بڑا مرتبہ ہے.اور انسان عبودیت میں جتنی کوشش کرے اتنا ہی بڑھ سکتا ہے.پس آپ لوگ جو کوشش کرتے ہیں.اس میں اور بہت زیادہ زیادتی کی ضرورت ہے.اور میں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالٰی کا عبد بننے کے لئے اپنی کوششوں کو اور زیادہ بڑھاؤ.اور یاد رکھو کہ انسان جب تک اپنے آپ کو فنا نہیں کر دیتا خدا تعالیٰ کا عبد نہیں بن سکتا.اور جب وہ عبد بن جاتا ہے تو پھر کوئی اسے فنا نہیں کر سکتا.میں اس موقع پر آپ لوگوں کو خدا کے ایک عبد کا واقعہ سناتا ہوں خدا کے عبد کی شان جس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ خدا کا عبد کس شان کا آدمی ہوتا ہے.لکھا ہے کہ رسول کریم کے مدینہ تشریف لے جانے پر یہود نے آپ کی روز مرہ ترقی کو دیکھ کر آپ کے خلاف کسری کو اکسایا.اور کہلا بھیجا کہ اس شخص کی بڑھتی ہوئی طاقت سے آپ کو نقصان ہونے کا اندیشہ ہے.اس نے بلا تحقیق یمن کے گورنر کے نام خط لکھ بھیجا کہ میں نے سنا ہے ایک ایسا ایسا شخص ہے تم اس حکم کے پہنچتے ہی اسے گرفتار کر کے میرے پاس بھیج در حجاز کا علاقہ کسریٰ کی حکومت میں نہ تھا مگر یمن پر اس کی حکومت تھی.اور اس کے اقتدار
خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۶۱۹۱۹ ۵۰۲ ۴ کے مقابلہ میں حجاز کے لوگوں کو بھی چون و چرا کی گنجائش نہ تھی.اور گو وہ اس کے ماتحت نہ تھے مگر اس کے حکم سے سرتابی بھی نہیں کر سکتے تھے.اور رسول کریم صلی علیہ سلم کے معاملہ میں تو حجاز کے لوگوں کو کسریٰ کا حکم برا منانے کی کوئی وجہ بھی نہ تھی کیونکہ وہ خود چاہتے تھے کہ اس شخص کو کوئی سزا دے.جب یمن کے گورنر کے نام یہ حکم پہنچا تو اس نے اپنے دو معتبر آدمیوں کی معرفت آپ کے نام حکم بھیجا کہ آپ فورا یمن پہنچ جاویں تاکہ آپ کو کسری کے حضور حاضر کیا جاوے.یہ لوگ جب رسول کریم ﷺ کے پاس پہنچے اور آپ کو اطلاع دی تو ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ آپ جانے سے انکار نہ کریں.اس حکم میں انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے یہ بہت سخت اور تاکیدی حکم ہے.اگر اس حکم کی اتباع کریں گے تو بازان گورنریمن آپ کی سفارش کر دے گا.اور اس سے آپ کو فائدہ پہنچ جاوے گا لیکن اگر آپ نے اس حکم کو قبول نہ کیا تو پھر آپ کسری کو جانتے ہیں.وہ آپ کو اور آپ کی قوم کو اور آپ کے ملک کو ہلاک و برباد کر دے گا.آپ نے فرمایا میں اس بات کا جواب کل دوں گا.رات کو آپ کو وحی کے ذریعہ بتا دیا گیا کہ کسری کو اس کے بیٹے نے مار دیا ہے.آپ نے دوسرے دن ان کو بلا کر کہہ دیا کہ جاؤ تمہارے خدا کو میرے خدا نے مار دیا ہے.یعنی کسری کو اللہ تعالیٰ نے اس کے بیٹے ہی کے ہاتھوں مروا دیا ہے.ان لوگوں نے کہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کچھ انجام سوچیں معلوم بھی ہے کہ یہ بات کتنی بڑی ہے.آپ نے فرمایا حق یہی ہے جو میں کہتا ہوں.جاؤ اور اپنے بادشاہ کو اطلاع دے دو.وہ لوگ واپس چلے گئے اور جا کر گور نریمن کو اطلاع دی.گورنر یمن نے کہا اچھا چند روز ہم لوگ انتظار کر کے دیکھتے ہیں کہ یہ بات کہاں تک درست ہے.آخر کچھ مدت کے بعد اس کے نام ایک شاہی فرمان پہنچا.جب اس نے کھولا تو وہ نئے بادشاہ کی طرف سے تھا.جس میں لکھا تھا کہ ہم نے اپنے باپ کو فارس کی خیر خواہی سے مجبور ہو کر مار دیا ہے کیونکہ وہ ظالم تھا اور بے گناہ اور بلا سبب شرفاء ملک کو قتل کر رہا تھا.اور اب ہم اس کی جگہ بادشاہ ہیں تم اپنے علاقہ میں ہماری اطاعت کا سب سے اقرار لو اور ہمارے باپ نے جو ایک خط عرب کے ایک شخص کے متعلق لکھا تھا کہ اسے پکڑ کر بھیج دو اس حکم کو منسوخ سمجھو.اور جب تک اس کے متعلق کوئی اطلاع نہ آوے اس کے متعلق کوئی اور کارروائی نہ کرو.زرقانی جلد ۳ صفحه ۳۴۲ مطبوعہ مصر - فتح الباري لابن حجر عسقلانی جلد ۸ ص ۱۳ ) خدا تعالیٰ کے عہد کی یہ شان ہوتی ہے لیکن عبد بنتا آسان نہیں.سخت محنتوں اور مشقتوں
دم جلد ۴ ٥٠٣ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ تو سے انسان عبد بن سکتا ہے.بغیر اپنے نفس کے مار دینے کے کوئی شخص عبد نہیں بن سکتا.پہلے اپنے آپ کو مٹا دے تب غلام بنے.کیوں کہ غلام کے لئے شرط ہے کہ کوئی " میں " اس کی اپنی نہ ہو سب کچھ اس کے مالک کا ہو.پس جب تک انانیت بالکل نہ مٹ انانیت مٹائے بغیر انسان عبد نہیں بن سکتا جائے اس وقت تک انسان عبد نہیں بن سکتا.اور جب تک عہد نہ بنے اس وقت تک اسے خدا تعالیٰ مل نہیں سکتا.لوگ انانیت کے معنی تکبر اور غرور وغیرہ کے کرتے ہیں جو ٹھیک ہیں مگر ساتھ ہی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ لفظ انا سے نکلا ہے اور جب تک انا " میں " نہ مٹ جائے خدا تعالیٰ کی حقیقت نہیں معلوم ہو سکتی.کسی صوفی نے کہا ہے کہ "میں" کے گلے پر چھری خدا تعالیٰ کو پانے کے لئے نہایت ضروری ہے.انسان اپنے نفس پر چھری پھیر دے اور اس طرح چھری پھیرے جس طرح رسول کریم آپ کے صحابہ اور تابعین نے پھیری.انہوں نے اپنے نفسوں پر ایسی چھری پھیری کہ اس کا ذکر پڑھ کر حیرت آتی ہے.انہوں نے اپنے نفسوں کو مار دیا.مثال کے طور پر میں ایک صحابی کا ذکر کرتا ہوں.ایک دفعہ مسلمان عیسائیوں کے مقابلہ پر نکلے.اور ایک عیسائی نے کئی ایک بہادر مسلمانوں کو مار دیا.اور اس نے مطالبہ کیا کہ کوئی بڑا بہادر مسلمانوں میں سے میرے مقابلہ پر آئے.اس پر ایک صحابی نکلے.لیکن میدان میں جا کر پھر واپس اپنے خیمہ کی طرف بھاگ آئے.ضرار ان کا نام تھا اور وہ بہت بڑے بہادر سپاہی تھے.ان کے واپس بھاگ آنے سے مسلمانوں کو بہت شرمندگی ہوئی اور انہوں نے سمجھا کہ ہماری بڑی ذلت ہوتی ہے.لیکن تھوڑی دیر ہی بعد پھر جب وہ اپنے خیمہ سے نکلے اور مقابلہ کے لئے چلے تو مسلمانوں نے پوچھا آپ پہلے کیوں واپس چلے آئے تھے.انہوں نے کہا بات یہ تھی کہ پہلے جب میں لڑائی کے لئے جایا کرتا تھا تو زرہ نہیں پہنی ہوتی تھی لیکن آج اتفاق سے دو زر میں پہنی ہوئی تھیں.جب میں لڑائی کے لئے نکلا تو مجھے خیال آیا کہ عیسائی حریف اپنے آپ کو بڑا بہادر سمجھتا ہے اور بڑا دعوی کر رہا ہے.کیا میں نے اس کے خوف سے تو دو زرہیں نہیں پہنی ہو ئیں کہ مجھے مار نہ دے.اس خیال سے ڈر کر اگر میں مارا گیا تو مشرک مروں گا میں واپس بھاگا اور اب میں زرہیں اتار کر اس کے مقابلہ کے لئے چلا ہوں.یہ کہہ کر وہ چل پڑا اور جا کر عیسائی کو مار دیا.(فتوح الشام مترجم حکیم بشیر احمد انصاری
ام جلد ۴ صفحه ۲۰۲ مطبوعہ لاہور) ۵۰۴ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ء تو یہ قربانیاں تھیں جو صحابہ اپنے نفسوں کی کرتے تھے.اور اپنے آپ کو سوائے اس کے کچھ نہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالٰی کے ہاتھ میں ایک ہتھیار کی طرح ہیں رسول کریم جو یہ فرماتے ہیں.کہ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِن وَ مَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ ) (الانعام: ۱۶۳) اس میں قربانی سے مراد بکروں کی قربانی نہیں بلکہ جسمانی اور نفس کی قربانی ہے.اور صَلاتِی کا لفظ مَحْيَای کے مقابلہ میں ہے.اور نُسُکی کا لفظ مَمَاتِی کے مقابلہ میں بیان کیا گیا ہے.یعنی یہ پچھلے لفظوں کی تشریح کرتا ہے.صلاتی کے لئے فرمایا مَحْيَاءَ یعنی نماز کے مقابلہ میں زندگی کو رکھا کہ رسول کریم " فرماتے ہیں نماز پڑھنے سے میں نے زندگی حاصل کی اور خدا کو پالیا ہے.اور نُسکی کے مقابلہ میں مَمَاتِی.یعنی نفس کی قربانی کو رکھا ہے.اس میں رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ بتایا گیا ہے.کہ آپ نے اپنے نفس کو قتل کر دیا مگر ایسا قتل کیا کہ اس سے ہزاروں زندہ ہو گئے.تو جب تک انسان اپنے نفس کو قتل نہ کرے.اس وقت تک خدا تعالیٰ کا عہد نہیں کہلا سکتا.اور خدا تعالیٰ کے لئے جب تک " میں " نہ ٹوٹے کوئی انسان عبد نہیں ہو سکتا کیونکہ میں کہنے والا عبد نہیں سمجھا جا سکتا.پس تم لوگ اپنے اندر عبودیت پیدا کرو اور یہ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں دو ذریعوں سے ہو سکتی ہے.اور اس وقت میں چاہتا ہوں کہ ان دو ذریعوں کو کسی قدر تفصیل سے بھی بیان کر دوں.اول ذریعہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ ہے کہ انسان ان فرائض کو عبد بننے کا پہلا ذریعہ پورا کرے جو اس کے ذمہ لگائے گئے ہیں اور ان باتوں سے بچے جن سے منع کیا گیا ہے.اس حصہ کے متعلق یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ احکام دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کا اس کی ذات سے تعلق اور جن کا علم دوسروں کو نہیں ہو سکتا.اور ایک وہ جو ظاہر ہیں اور ان کا علم دوسروں کو بھی ہوتا ہے اور ان سے بھی اس کا تعلق ہوتا ہے.انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں ایک ظاہر اور باطن دونوں اچھے ہونے چاہئیں ظاہری اور ایک باطنی.بعض لوگ جھوٹے پیر بن جاتے ہیں اور کچھ لوگ ان کے مرید کہلانے لگ جاتے ہیں جو لوگوں کے سامنے تو
۵۰۵ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲- دسمبر ۱۹۱۹ ء ان کی بڑی تعریفیں کرتے اور کہتے ہیں کہ انہوں نے یہ معجزہ دکھایا یہ کرامت دکھائی.لیکن جب اکیلے ہوتے ہیں تو آپس میں خوب ٹھٹھے اڑاتے ہیں.اور لوگوں کی بے وقوفی پر ہنستے اور اپنی چالا کی پر خوش ہوتے ہیں.حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ ایک شخص نے ایک دوسرے شخص کو کہا کہ تم پیر بن جاؤ اور میں تمہارا مرید بن جاتا ہوں اور اس طرح بہت روپیہ کمالیں گے.عجیب بات یہ ہے کہ عام لوگ ایسے جاہل ہیں کہ جھوٹے لوگوں کی فرضی اور بناوٹی کرامتوں کی تحقیقات نہیں کرتے.اس شخص نے ایسا ہی کیا وہ پیر بن گیا اور دوسرا اس کا مرید.جس نے اس کی بڑی بڑی کرامتیں مشهور کرنی شروع کر دیں.اس پر بہت سے مرد اور عورتیں اس کے پاس نذریں لے کر جمع ہو گئے.کوئی اس پیر صاحب سے کچھ مانگتا اور کوئی کچھ.جب سب لوگ چلے گئے تو رات کو چیلے نے کہا لاؤ جو دن کو روپیہ ملا ہے اس میں سے مجھے بھی دو.اس شخص نے کہا چل بد معاش.سب روپیہ مجھ سے لے لے اور میرے پاس سے چلا جا.چیلے نے پہلے تو سمجھا یہ مجھ پر بھی اپنی پیری کا سکہ بٹھانے کے لئے اس طرح کہہ رہا ہے.لیکن جب اس نے سارا روپیہ اس کو دے دیا اور بار بار اس کو اپنے پاس سے چلے جانے کے لئے کہا تو اس نے پوچھا بتاؤ تو سہی تمہیں ہوا کیا ہے ؟ اس نے کہا مجھے یہ ہوا ہے کہ جب خدا کا جھوٹے طور پر نام لینے سے ایک دو دن میں اس قدر عزت ہو گئی ہے اور اتنا مال مل گیا ہے تو اگر میں بچے طور پر خدا کا نام لوں گا تو کیا کچھ نہ مل جائے گا.اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ بعض لوگ ظاہر میں کچھ ہوتے ہیں اور باطن میں کچھ.اسی طرح بعض ظاہر میں برے برے فعل کرتے ہیں اور باطن میں اپنے آپ کو اچھا قرار دیتے ہیں.اسلام نے ان دونوں طریقوں کو برا ٹھہرایا ہے اور قرار دیا ہے کہ انسان کو ظاہر میں بھی اچھا ہونا چاہئے اور باطن میں بھی.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ظاہری اعمال بھی رکھتے ہیں اور باطنی ظاہری اور باطنی اعمال بھی.ظاہری میں تو یہ رکھا ہے کہ لوگ مسجدوں میں اکٹھے ہو کر نمازیں پڑھیں اتر مذی ابواب الصلوة باب ماجاء فيمن سمع النداء فلا یجیب اور باطن میں یہ رکھا ہے کہ اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھی جائیں.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے.جو لوگ اپنے گھروں میں نمازیں نہیں پڑھتے ان کے گھر نہیں بلکہ قبریں ہیں.امسلم کتاب المساجد
دم جلد ۵۰۶ خطاب جلسہ سالانہ ۷ ۲- دسمبر ۱۹۱۹ء و مواضع الصلوة باب استحباب صلوة النافلة فى بيته و جوازها في المسجد تو بعض عبادتیں ایسی ہیں جو دونوں طرح یعنی ظاہری اور مخفی ادا کرنے کے لئے رکھی گئی ہیں.اور بعض صرف مخفی ہیں.مخفی امور میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان عبد بننے کے لئے عقائد کی اصلاح اپنے عقائد درست رکھے.جس طرح اسلام کے بتائے ہوئے عقائد کو ماننے کا حق ہے اسی طرح مانے.ورنہ اس وقت تک کوئی انسان عبد نہیں کہلا سکتا جب تک اس کے دل میں خدا تعالیٰ کے متعلق وہی خیالات نہ ہوں جو خدا تعالیٰ نے رکھنے کا حکم دیا ہے.تو عبد بننے کے لئے پہلا فرض یہ ہے کہ انسان مخفی فرائض کو ادا کرے یعنی اپنے عقائد کو درست کرے.پھر یہ فرض ہے کہ ایسی عبادات جن کو مخفی طور پر بجالانے کا حکم ہے ان کو بجا لائے.مثلاً مخفی صدقہ دے مخفی طور پر نمازیں پڑھے.پھر زبان کے لحاظ سے مخفی اعمال یہ ہیں کہ قرآن کریم پڑھے خدا تعالیٰ کی تسبیح کرے.پس عبد بننے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اعتقادات درست ہوں.انسان سمجھے کہ ستار غفار، رحیم، کریم ، ورود مهیمن، قادر ، خالق مالک رازق خدا ہے.اور خدا تعالی کی تمام صفات کو اپنے دل پر نقش کرلے.اور ان کے متعلق کوئی شبہ نہ کرے.یہ مخفی فرض ہے اور یسی جڑ ہے تمام فرائض کی.اور یہ نہایت ضروری اور اہم بات ہے بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو سمجھتے ہی نہیں کہ اسلام کیا چیز ہے.نمازیں پڑھتے روزے رکھتے ، حج کرتے ہیں.مگر یہ نہیں جانتے کہ خدا تعالی کے متعلق انہیں کیا جانا چاہئے.کیا آقا کے متعلق جو کچھ نہ جانے وہ نوکر کہلا سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.پس عبد بننے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنے آقا کو جانے کہ وہ کیا ہے.کیونکہ اگر وہ اپنے آقا کی صفات کو نہیں جانتا.تو ممکن ہے کہ اسے غلطی لگ جائے اس کے لئے یہی طریق ہے کہ اسلام نے جو باتیں خدا تعالیٰ کے متعلق بتائی ہیں ان کا اپنے دل پر نقش کرے.یہ پہلا فرض ہے.اور دوسرا فرض یہ ہے کہ زبان سے مخفی طور پر خدا تعالی کی صفات بیان کرے.اور تیسرا یہ کہ مخفی طور پر اعمال کرے.پھر اس کے ساتھ دوسری شق کو بھی نہ چھوڑے یعنی ظاہری اعمال بھی ضروری ہیں ظاہری اعمال کو بھی ترک نہ کرے.ان ظاہری اعمال
رالعلوم جلد ۴ ۵۰۷ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء میں سے اہم ترین اعمال عبادات ہیں.اور ان میں سے بھی اہم نماز ہے.جب تک کوئی انسان اس فرض کو پورے طور پر ادا نہیں کرتا.خدا تعالیٰ کا عبد نہیں ہو سکتا.اور اگر کوئی باوجود اس فرض کے ادا نہ کرنے کے اپنے آپ کو عبدوں میں شمار کرتا ہے تو وہ ویسا ہی عبد ہے جیسا کہ وہ بھیگی ہوئی بلی پر ہاتھ لگا کر جواب دینے والا نوکر تھا.پس یہ بہت بڑا فرض ہے.مگر افسوس ہے کہ بہت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.حالانکہ عبد کا یہی کام نہیں کہ اپنے آقا کی پوشیدہ طور پر خدمت کرے.اور پوشیدہ طور پر اس کے احکام کی تعمیل کرے.بلکہ یہ بھی ہے کہ ظاہر طور پر اس کے احکام کو بجالائے.کیونکہ جو ظاہری طور پر اپنے آقا کی خدمت نہیں کرتا اور اس کے احکام بجا نہیں لاتا اس میں عجب اور تکبر پایا جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے اگر میں نے ظاہری طور پر خدمت کی تو لوگ مجھے اس کا خدمت گار کہیں گے.میں نے دیکھا ہے ایک شخص تھا ابو سعید اس کا نام تھا.اسے خواجہ کمال الدین صاحب سے بہت محبت تھی اور ان کی بڑی خدمت کیا کرتا تھا.حتی کہ خواجہ صاحب کو پاخانہ کی چوکی پر لوٹا رکھ دیا کرتا تھا.ایک دفعہ جب کہ حضرت صاحب گورداسپور تھے اور خواجہ صاحب بھی وہیں تھے.خواجہ صاحب نے یہ سمجھ کر کہ ابو سعید میری بڑی خدمت کرتا ہے.مجلس میں اسے کہا چٹائی اٹھا لاؤ.اس نے کہا میں تمہارا نوکر نہیں ہوں خود اٹھا لاؤ.یہ جواب سن کر خواجہ صاحب حیران رہ گئے.پیچھے اس نے خواجہ صاحب کو کہا کہ میں آپ کی ہر ایک خدمت کرنے کو تیار ہوں مگر آپ یہ یاد رکھیں کہ لوگوں کے سامنے مجھے کوئی کام نہ کہیں اس طرح میری ہتک ہوتی ہے.تو جو انسان ظاہری طور پر خدا تعالیٰ کے احکام کی تعمیل نہیں کرتا اس میں انانیت پائی جاتی ہے.اور جس میں انانیت پائی جائے وہ خدا تعالیٰ کا عبد نہیں بن سکتا.اسی لئے خدا تعالیٰ نے مسجدوں میں مسجد میں نماز پڑھنے سے عجب دور ہو تا ہے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے.اس کی یہ غرض نہیں ہے کہ لوگ ریاء کے طور پر نمازیں پڑھیں.بلکہ یہ ہے کہ انسان بتائے کہ میں ایک خدا کا غلام ہوں.اور اس طرح اپنے عجب اور تکبر کو توڑے.پس خدا تعالیٰ نے اس طرح عجب کی اس ٹانگ کو بھی توڑ دیا ہے.پس اگر تم خدا تعالیٰ کی عبادت کرتے ہو.مگر اپنے گھروں میں نمازیں پڑھتے ہو.اور مسجد میں اللہ اکبر کر کے لوگوں کو نہیں بتاتے کہ ہم خدا تعالیٰ کے بندے اور عبد ہیں تو معلوم ہوا کہ
ر العلوم جلد ۴ ۵۰۸ خطاب جلسه سالانه 51919 تم میں عجب پایا جاتا ہے.اور معلوم ہوا کہ تم خدا تعالیٰ کے شریک بنتے ہو.اور اپنے آپ کو بھی کچھ سمجھتے ہو.مگر یاد رکھو جب تک تم علی الاعلان یہ نہ کہو کہ ہم خدا کے غلام ہیں.اس وقت تک تم خدا کے عبد نہیں بن سکتے.اور اس کا یہی طریق ہے کہ مسجدوں میں آکر اپنی غلامی کا اقرار کرو.اور اپنے سر کو خدا تعالیٰ کے حضور جھکاؤ.یہی وجہ ہے کہ میں نے اپنی جماعت کو بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے.اور اب پھر دلاتا ہوں کہ تم لوگ جب تک اس طرف توجہ نہ کرو گے اس وقت تک تم خدا کے عبد کہلانے کے مستحق نہیں ہو گے.مسجدوں کو چھوڑ کر گھروں میں تمہارا نماز پڑھنا تمہارے عجب کی علامت کو ظاہر کرتا ہے الا ماشاء اللہ.ہاں بیماری ہو یا کوئی اور وجہ تو اور بات ہے.ورنہ تمہارا اس طرح کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تم اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کا شریک سمجھتے ہو.اور پھر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ تمہارے مجب کی یہ ٹانگ ابھی ٹوٹی نہیں.لیکن جب مسجد میں آکر تم خدا تعالیٰ کے آگے اپنا سر جھکاتے ہو.تب معلوم ہوتا ہے کہ تم نے عجب کی اس ٹانگ کو بھی تو ڑ دیا ہے.مساجد میں مساوات دیکھو مساجد میں خدا تعالیٰ نے کیا طریق قرار دیا ہے.ایک بادشاہ ہے اور ایک غلام.لیکن غلام خدا کے اس گھر میں بادشاہ کے زانوں بہ زانوں بیٹھ سکتا ہے.مکہ اور قسطنطنیہ میں ایسا ہوا ہے کہ کوئی بادشاہ نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا ہے اور ایک ادنی آدمی اس کے پہلو بہ پہلو کھڑا ہو گیا.پولیس اور فوج وغیرہ سب عاجز تھے اور کوئی اس کو ہٹا نہیں سکتا تھا.اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہ کہ جن کے دلوں میں تکبر اور عجب تھا انہوں نے مسجدوں میں آنا چھوڑ دیا.مسجد چونکہ خدا کا گھر ہے جس کے سب ادنیٰ اور اعلیٰ غلام ہیں.اس لئے اس میں دنیوی حیثیت سے ادنیٰ درجہ کے لوگوں نے بادشاہوں کو شکست دے دی.بعضوں نے مسجد کے ساتھ الگ کو ٹھریاں بنوائیں.لیکن وہ مسجد نہیں کہلا سکتیں.کیونکہ مسجد میں آنے سے روکنے کا کسی کو حق نہیں ہے.سوائے اس صورت کے کہ کوئی شخص مسجد کو ذکر الہی کے سوا کسی اور غرض یا فتنہ کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہو.غرض نماز با جماعت بہت بڑا فرض ہے.اور اتنا بڑا فرض باجماعت نماز پڑھنے کی تاکید ہے کہ اس کو پورا کئے بغیر کوئی انسان خدا تعالیٰ کا عبد نہیں بن سکتا.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ سب سے بڑا فرض ہے جس کو ادا کرنا آپ لوگوں کا کام ہے.اپنا نقصان کر کے تکلیف اٹھا کر جہاں تک بھی ہو سکے مسجدوں میں آؤ
العلوم جلد م ۵۰۹ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷-۱ نمبر ۱۹۱۹ء اور باجماعت نماز ادا کیا کرو.کیونکہ اس کے بغیر تم خدا تعالیٰ کے عبد نہیں ہو سکتے.اس کے بعد اور بھی طریق ہیں.مثلاً حج کرنا، ظاہری طور پر صدقات دینا رمضان کے روزے رکھنا.یہ ظاہری عبادات ہیں.اعمال ظاہرنی کا دوسرا رکن معاملات ہیں.معاملات آپس کے معاملات درست رکھو کے متعلق بھی خدا تعالیٰ نے احکام دیتے ہیں.اور جب تک معاملات کو درست نہ کیا جائے اس وقت تک بھی انسان خدا تعالیٰ کا عبد نہیں بن سکتا.مثلاً باپ کا بیٹے سے معاملہ ہے.اس کو درست رکھے اور گو وہ باپ ہے.لیکن چونکہ معاملات کو درست رکھنے کا خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.اس لئے ضروری ہے کہ باپ بھی اس امر کا خیال رکھے.پھر بیٹے کا باپ سے تعلق ہے.پھر حکومت سے تعلق ہے.بھائی کا بھائی.تعلق ہے.خاوند کا بیوی سے تعلق ہے.دوست کا دوست سے تعلق ہے.بچہ کا ماں سے تعلق ہے.انسان کا دوسرے انسانوں سے تعلق ہے ان کو درست رکھنا چاہئے.پہلے تو خدا سے بندے کے تعلقات تھے.اور یہ بندے کے بندے سے تعلق ہیں.گویا اعمال ظاہری کی بھی دو لاتیں ہیں جن کے ذریعہ انسان کھڑا ہو سکتا ہے.اور جو ان سے محروم ہو وہ خدا تعالیٰ کا عبد ہونے کے مقام پر کھڑا نہیں رہ سکتا.ان میں بڑی احتیاط کی ضرورت ہے مگر بہت لوگ کو تاہی کرتے ہیں.وہ نمازیں پڑھتے ہیں، روزے رکھتے ہیں، زکوۃ دیتے ہیں ، حج کرتے ہیں.مگر دس روپیہ بھی اگر کوئی ان کے پاس امانت رکھے اور پھر مانگنے آئے تو ان کی جان نکلنے لگتی ہے.وہ امانت میں خیانت کرتے ہیں.دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتے.آپس کے معاملات درست نہیں رکھتے.حالانکہ کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک پورے طور سے دوسروں کے حقوق ادا نہیں کرتا.اس موقع پر میں ضمناً ایک اور بات بھی کہنا چاہتا ہوں.ایک شخص نے مجھے ایک ضمنی بات کہا ہے کہ میں پہلے جب احمدی ہوا تھا تو مجھ پر خوابوں کا بڑا انکشاف ہوا.لیکن پھر بند ہو گئیں اس کی کیا وجہ ہے.کیا وہ نہیں جانتے کہ گھر میں سے عبد کو ہی مستقل طور پر کھانا ملا کرتا ہے.پس یوں تو خدا تعالیٰ اپنے فضل کا نمونہ کبھی دوسروں کو بھی دکھا دیتا ہے تاکہ ان کو ایمان کی لذت چکھائے.لیکن اگر وہ اعمال صالح میں کمی کریں.تو پھر اس سلسلہ کو جاری نہیں رکھا جاتا.اس فضل کی مثال ایسی ہی ہے.جیسا کہ دکاندار اپنی چیز کا نمونہ دکھانے کے لئے
۵۱۰ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲- دسمبر ۱۹۱۹ء تھوڑی سی چیز بغیر قیمت کے دے دیا کرتا ہے.اس پر اگر کوئی سارے خوان کی طرف ہاتھ بڑھائے تو اسے دکان سے باہر نکال دیا جاتا ہے.کیونکہ اس کے لئے قیمت خرچنا ضروری ہے.تو پہلے پہلے ایمان لانے کے وقت جو کچھ انسان کو دکھایا جاتا ہے وہ اس کی کسی قیمت کوشش ، محنت اور خوبی کی وجہ سے نہیں ہو تا بلکہ نمونہ کے طور پر ہوتا ہے اور پھر اس کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ محنت اور کوشش کرے.ابتلاء اٹھائے اور ثابت قدمی دکھلائے.تب اس انعام کو پائے.پس ابتداء میں جو انعام ہوتا ہے.وہ نمونہ اور چاشنی کے طور پر ہوتا ہے.اس کے بعد اگر انسان سعی ، محنت اور کوشش کرتا ہے اور خدا تعالیٰ کا عبد ہو جاتا ہے.تو اس کے لئے خاص انعامات کا دروازہ کھولا جاتا ہے.پس یہ مت خیال کرو کہ خدا تعالیٰ کے عبد کامل یونہی بن سکتے ہو.اس کے کئی درجے ہیں.ابتداء میں یوں سہارا دینے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دلانے کے لئے خدا تعالیٰ فضل کر دیتا ہے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.جیسا کہ تھکے ہوئے گھوڑے کو راستہ میں گھاس دکھا دی جاتی ہے تاکہ وہ دوڑے.لیکن اصل وقت اس کے گھاس کھانے کا وہی ہوتا ہے جب کہ منزل مقصود پر پہنچ جاتا ہے.تو ابتداء میں خدا تعالیٰ انسان کی ہمت بندھانے اور اسے اپنے انعام کا نمونہ دکھانے کے لئے کچھ دکھا دیتا ہے.جو پورے طور پر اسی وقت حاصل ہوتا ہے جب کہ انسان عبد بن جاتا ہے.اب میں پھر اصل مضمون کی طرف آتا ہوں آپس کے معاملات کیسے ہونے چاہئیں میں نے بتایا ہے کہ عبد بننے کے لئے دوسرا فرض معاملات کو درست رکھنا ہے.اور آپ لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ اس فرض کی ادائیگی کے لئے پوری پوری کوشش کرو.ایسا نہ ہو کہ تم سودا لو اور قیمت کم دو.ایسا نہ ہو کہ تم سودا بیچو اور کھوٹا بچو.ایسا نہ ہو کہ تم کسی کے نوکر ہو اور بد دیانتی کرو.ایسا نہ ہو کہ کسی کے ساتھ تمہاری شراکت ہو اور بلا اجازت مال کھا جاؤ.ایسا نہ ہو کہ تم قاضی اور حج بنائے جاؤ اور رشوت لو.ایسا نہ ہو کہ کوئی کام تمہارے سپرد کیا جائے اور تم اس کو اچھی طرح نہ کرو.ایسا نہ ہو کہ تمہیں طاقت اور قدرت حاصل ہو اور تم لوگوں پر ظلم کرو.ایسا نہ ہو کہ کوئی مسکین اور غریب تمہارے پاس آئے اور تم اسے دھتکار دو.ایسا نہ ہو کہ کوئی خدا کے لئے تم سے سوال
انوار العلوم جلد ۴ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ - د کرے اور تم اسے ملول کرو.ایسا نہ ہو کہ لوگوں کے سامنے تم گورنمنٹ کے وفادار کہلاؤ اور دل میں کچھ اور خیالات ہوں.ایسا نہ ہو کہ تم اپنے آپ کو امین ظاہر کر کے کسی پر اعتبار جمالو اور جب وہ تم سے معاملہ کرے تو اس سے خیانت کرو.بلکہ تم ایسے بنو کہ تمہارا اندر باہر ایک جیسا ہو.اور ایسے بن جاؤ کہ خدا تعالیٰ کے ہر ایک حکم کے سامنے اپنی گردن جھکا دو اور خدا تعالیٰ کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار رہو.جب تک ایسے نہ بنو گے خدا تعالیٰ کے عبد نہیں کہلا سکو گے.پس تم اپنے معاملات کی خاص طور پر نگہداشت کرو.کچھ معاملات کا تو میں نے ذکر کر دیا ہے.لیکن چونکہ وقت کم ہے اس لئے سب معاملات کی میں تشریح نہیں کر سکتا مگر تم سب کا ہی خیال رکھو.یہ بھی یاد رکھو کہ معاملات کی بھی دو شقیں ہیں.ایک وہ کہ ان کا حکم معاملات کی دو شقیں ہے.ہماری شریعت میں ہی موجود نہیں ہے بلکہ دوسرے مذاہب میں بھی ان کے متعلق حکم پایا جاتا ہے.مثلاً ہمارے مذہب میں آتا ہے خیانت نہ کرو.عیسائی مذہب کی بھی اس بارے میں یہی تعلیم ہے اور ہندو مذہب بھی یہی کہتا ہے.اسی طرح ہمارے مذہب میں حکم ہے رحم کرو.عیسائیت اور ہندو مذہب بھی یہی کہتے ہیں.ان احکام کا پورا کرنا بھی ضروری.مگر ان سے زیادہ توجہ مؤمن کو اس دوسری قسم پر دینی چاہئے جس میں وہ احکام پائے جاتے ہیں جو دوسرے مذاہب کے احکام سے مختلف ہیں.اور پھر ان سے بھی زیادہ ان پر توجہ کرنی چاہئے جن کو دوسرے مذاہب والے بری نظر سے دیکھتے ہیں.کیونکہ اگر مسلمان بھی اپنے عمل سے یہ ظاہر کریں گے کہ اسلام کے وہ احکام قابل عمل نہیں ہیں تو جتنے لوگ ان احکام کی وجہ سے اسلام سے پھریں گے ان سب کا گناہ انہی کی گردن پر ہو گا.مثلاً انجیل میں جس شخص نے یہ تعلیم درج کی کہ اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اس کو ناقابل عمل قرار دے کر جتنے لوگ عیسائیت کو خیر باد کہیں گے ان کا ذمہ دار وہی شخص ہو گا جس نے یہ تعلیم دی.پس اسلام جن باتوں میں دوسرے مذاہب سے ممتاز ہے اور جن پر دوسرے لوگ طعنہ کرتے ہیں ان کو اگر مسلمان بھی چھوڑ دیں.اور ان کی طرف توجہ نہ کریں تو گویا وہ معترضوں کو خود موقع دیتے ہیں کہ وہ اسلام پر اعتراض کریں.اور اس طرح لوگوں کو اسلام سے متنفر کریں اس لئے ان کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.
خطاب جلسہ سالانہ ۷ ۲- د نمبر ۶۱۹۱۹ ۵۱۲ r ان معاملات میں سے ایک خاص معاملہ تعدد ازدواج کا ہے.میں ہی تعدد ازدواج کا مسئلہ شاید وہ شخص ہوں جو قرآن کریم احادیث اور حضرت مسیح موعود کی تحریروں سے استدلال کر کے احمد یہ سلسلہ میں سے اس کی تائید میں زور دیتا رہا ہوں.لیکن اس وقت میں اس کا ایک دوسرا پہلو دکھانا چاہتا ہوں.میں اس پر اس لئے زور دیا کرتا ہوں کہ رسول کریم ال پر مخالفین اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے نعوذ باللہ شہوت رانی کے لئے ایک سے زیادہ نکاح کئے تھے.اب مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ دنیا کو دکھلا دیں کہ رسول کریم کی یہ شہوت رانی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی قربانی تھی.جب کوئی ایک سے زیادہ بیویاں کرتا ہے تب اس کو پتہ لگتا ہے کہ یہ کتنی بڑی مشکل بات ہے.رسول کریم ﷺ پر تو یہ اعتراض کر دیا گیا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ شہوت رانی کے لئے زیادہ بیویاں کیں.مگر میں تجربہ کے بعد جانتا ہوں کہ دو عورتوں کے ساتھ ہی مساوی معاملہ کرنے میں کس قدر نفس کی قربانی کرنی پڑتی ہے.اور یہ رسول کریم ﷺ ہی کی شان تھی کہ آپ نے نو ۹ کے ساتھ مساوی معاملہ کیا.شہوت رانی تو یہ ہے کہ ایک کو چھوڑ کر دوسری عورت کو اپنے پاس رکھا جائے نہ یہ کہ ایک شخص جو سب کو مساوی حقوق دیتا ہے ، مساوی سلوک کرتا ہے، اسے شہوت ران کہا جائے.کیونکہ یہ کھلی بات ہے کہ جب ایک انسان کی کئی بیویاں ہوں تو ان میں سے کسی ایک کے ساتھ دوسری بیویوں کی نسبت زیادہ محبت ہو گی.اور بعض دفعہ ہو سکتا ہے کہ کسی ایک عورت سے کسی سبب سے نفرت بھی ہو.مگر باوجود اس کے جو شخص اپنی سب بیویوں سے یکساں سلوک کرتا ہے ایسے شخص کو کس طرح شہوت ران کہا جا سکتا ہے؟ کیا نفس کی قربانی کے معنی شہوت رانی ہوتے ہیں اگر نہیں تو ایک سے زیادہ بیویوں سے مساوی سلوک کرنا بہت بڑی نفس کی قربانی ہے.اور جو شخص مذہبی ، قومی یا ملی فوائد کو مد نظر رکھ کر یہ بوجھ اٹھاتا ہے وہ ندائے قوم سمجھا جائے گا نہ کہ شہوت ران.اور جو شخص اپنی ذاتی ضروریات کو مد نظر رکھ کر ایک سے زیادہ نکاح کرتا ہے لیکن سب بیویوں سے برابر کا سلوک کرتا ہے وہ بھی شہوت ران نہیں بلکہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا انسان کہلائے گا.غرض میں نے جو ایک سے زیادہ بیویاں کرنے پر زور دیا ہے تو صرف اس غرض سے کہ اس سے اسلام کے اس حکم کو صاف کیا جائے اور رسول کریم ﷺ پر سے اعتراض مٹایا جاوے.وَاللَّهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ
وم جلد ۴ ۵۱۳ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ - دسمبر ۱۹۱۹ء مگر میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان ہی اس تعدد ازدواج کے متعلق مسلمانوں کا بُرا نمونہ مسئلہ میں برا نمونہ دکھا کر دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب بن رہے ہیں.عیسائیوں کی عورتیں آکر مسلمان عورتوں کو کہتی ہیں کہ مسلمان دوسری شادی کر کے عورتوں پر بڑا ظلم کرتے ہیں.اور سو میں سے ننانوے مسلمان عورتیں ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ ہاں واقع میں ہم پر یہ بہت بڑا ظلم ہے اور یہ کہہ کر وہ کافر ہو جاتی ہیں.کیونکہ شریعت اسلام پر ظلم کا الزام لگاتی ہیں.مگر میں پوچھتا ہوں اس کا ذمہ دار کون ہے ؟ وہی جن کی وجہ سے عورتوں کو اس اعتراض کا موقع ملا.اور وہی جنہوں نے اپنی نفس پرستی کی وجہ سے دشمنوں کو محمد ﷺ پر اعتراض کا موقع دیا.اور اسلام پر ہنسی اڑوائی.یہیں وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص دو بیویاں کر کے ان سے مساوی سلوک نہیں کرتا.قیامت کے دن وہ ایسے حال میں اٹھے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ہو گا اور آدھا نہیں.اتر مذی ابواب النکاح باب ماجاء في التسوية بين الضرائر، اور کون کہہ سکتا ہے کہ وہ آدھا دھڑ کون سا ہو گا؟ وہ جس میں دل ہے یا وہ جس میں دل نہیں.پس یہ وہ حکم ہے.جس پر مخالفین کی طرف سے بڑے شور سے اعتراض کئے جاتے ہیں.اور جس کے متعلق مسلمان اپنے عمل سے مخالفین کو اعتراض کرنے کا موقع دے رہے ہیں.میرا دل نفس پاک رکھنے والے اپنے عمل سے مخالفین کا اعتراض دور کریں چاہتا ہے کہ ہماری جماعت کے جو لوگ نفس پاک رکھتے ہیں اور اسلام کو اپنی شہوت رانی پر قربان کرنے والے نہیں وہ اس حکم پر عمل کر کے اسلام پر سے اس اعتراض کو دور کریں.اور عملاً اس کا جھوٹا ہونا ثابت کر دیں.ابتداء بیشک ان کے اس فعل پر بھی اعتراض ہوں گے.لیکن آہستہ آہستہ جب لوگ اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھیں گے کہ یہ فعل شہوت رانی نہیں ہے بلکہ اس امر پر کوئی شخص قادر بھی نہیں ہو سکتا جب تک کہ شہوت کو دبانے پر قادر نہ ہو تو خود بخود ان کی آنکھیں کھل جاویں گی اور اپنی غلطی کا اقرار کرنے لگیں گے.میں آپ لوگوں کو اپنا حال سناتا ہوں بیویوں سے مساوی سلوک کرنے میں احتیاط کہ میں اس قدر احتیاط سے کام لیتا ہوں.پچھلے دنوں جب میں بیمار ہوا اور میں نے دیکھا ادھر ادھر آجا نہیں سکتا تو میں نے کہا کہ
انوار العلوم جلد ۴ ۵۱۴ خطاب جلسہ سالانہ کے ۱۰۲ نمبر ۱۹۱۹ء میری چارپائی والدہ کے گھر پہنچادی جائے تاکہ میں ایک مشترک گھر میں رہوں.اور کسی بیوی کو شکایت نہ ہو کہ دوسری کے ہاں رہتا ہوں.رسول کریم نے بیویوں کے حقوق کے متعلق خاص تاکید فرمائی ہے.اور اسی معاملہ میں اس قدر تشدد کیا ہے کہ جب آپ مرض الموت میں تھے اور نماز کے لئے بھی باہر نہیں آسکتے تھے.تو اپنی سب بیویوں کو جمع کر کے کہا کہ اگر تمہاری اجازت ہو تو میں کسی ایک گھر میں رہوں.یہ تھی آپ کی احتیاط.اس کو نادان اور اندھی دنیا شہوت رانی کہتی ہے.چنانچہ سب نے اجازت دی.(بخاری کتاب المغازی، باب مرض النبي ووفاته وقول الله تعالى - انک میت و انهم میتون) اور خدا نے چاہا کہ وہ آپس میں سے اس کو چینیں جس کو خدا نے سب پر فضیلت دی تھی اور وہ عائشہ تھیں.حضرت عائشہ کے گھر جانے کے تین چار روز بعد آپ نے فہرست ہو گئے.بیویوں کے متعلق یہ طرز عمل تھا اس انسان کا جس پر اعتراض کئے جاتے ہیں.اور مسلمانوں کی طرف سے کرائے جاتے ہیں.کیونکہ مسلمانوں میں سے آدھا حصہ عورتیں ہیں جو کہتی ہیں کہ ایک سے زیادہ بیویوں میں عدل نہیں کیا جاسکتا.اور صرف عورتیں ہی نہیں کہتیں مرد بھی کہتے ہیں کہ ایسا نہیں ہو سکتا.کیونکہ وہ دیکھتے ہیں کہ جو لوگ مسلمانوں میں سے ایک سے زیادہ عورتیں کرتے ہیں وہ ان میں عدل نہیں کرتے.پس سوچے اور غور کرے وہ مسلمان اور سوچے اور غور کرے وہ احمدی جو عیسائیوں کو کہتا ہے کہ تمہارے مذہب میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جس پر عمل نہیں کیا جاسکتا.لیکن وہ خود اپنے عمل سے بتاتا ہے کہ اسلام میں بھی ایسی تعلیم ہے جس پر عمل نہیں ہو سکتا.بعض نادان و رسول کریم پر ایک بیوی کے متعلق اعتراض اور اس کا جواب بعض حدیثوں کی بناء پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ رسول کریم نے بھی ایک بیوی کے گھر اس لئے جانا چھوڑ دیا تھا کہ وہ بوڑھی ہو گئی تھیں.حالانکہ حدیثوں سے یہی ثابت ہے کہ اس عورت نے خود رسول کریم کو کہا تھا کہ میں اپنی باری عائشہ کو دیتی ہوں.(بخارى كتاب النكاح باب المرءة تهب يومها من زوجها نضرتها وكيف يقسم ذلک) بے شک روایت کیا جاتا ہے کہ اس بیوی کے دل میں ڈر را ہو گیا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ رسول کریم اللہ مجھے بوجہ بڑھاپے کے طلاق دے دیں.اور ممکن ہے یہ بات درست ہو.عورتیں بعض دفعہ اپنی کمزوری کے باعث اس قسم کے وہموں پیدا
لم ۵۱۵ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۶۱۹۱۹ میں مبتلاء ہو جاتی ہیں.مگر رسول کریم ﷺ کے دل میں یہ خیال کبھی پیدا نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہوا.آپ کی عمر کا ایک ایک لحظہ اور ایک ایک دقیقہ اس افتراء کی تردید کرتا ہے اس بہتان کو رد کرتا ہے اور اس خیال کو دھکے دیتا ہے.بد بخت ہے وہ انسان جو محمد رسول اللہ ا کا منبع کہلا کر ایسا خیال دل میں لاتا ہے.اور اندھا ہے وہ آدمی جو محمد رسول اللہ ﷺ کی زندگی کو دیکھتے ہوئے پھر اس پر یقین کرتا ہے.رسول کریم ﷺ کی شادی پچیس برس کی عمر میں حضرت خدیجہ سے ہوئی تھی اور اس وقت حضرت خدیجہ کی عمر ۴۰ سال کی تھی.حضرت خدیجہ چونسٹھ سال کی عمر میں فوت ہو ئیں.اور اس وقت آنحضرت ﷺ کی عمر انچاس سال کی تھی.مگر دوست اور دشمن شاہد ہیں کہ آپ نے حضرت خدیجہ سے ایسا برتاؤ کیا جس کی نظیر دنیا میں بہت کم ملتی ہے.حضرت سودہ سے آپ کی شادی حضرت خدیجہ کے بعد ہوئی.اور ان کی وفات ۵۴ مجری میں ہوئی ہے.چونکہ ان کی عمر کا صحیح اندازہ مجھے معلوم نہیں.میں سن وفات سے اندازہ لگاتا ہوں کہ اگر وہ نو سال کی عمر میں فوت ہوئی ہوں.تو چوالیس سال جو وہ رسول کریم ال کے بعد زندہ رہیں.نکال کر ان کی عمر آنحضرت اللہ کی وفات کے وقت چھپن ۵۶ سال بنتی ہے.اب کیا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ وہ شخص جس نے پچاس سالہ عمر میں چونسٹھ سالہ بیوی سے نہایت وفادارانہ گزارہ کیا تھا وہ اپنی تریسٹھ سالہ عمر میں چھپن سالہ بیوی کو اس لئے طلاق دینے پر آمادہ ہو جاوے گا کہ وہ بوڑھی ہو گئی ہے.اِنْ هَذَا إِلَّا افك مبين - ۵۶ پس اگر اس روایت میں کوئی حقیقت ہے تو حضرت سودہ کے خیال سے زیادہ وقعت اسے حاصل نہیں.اور عورتوں میں اس قسم کے خیال پیدا ہو جانا قابل تعجب نہیں.رسول کریم کا یہ ہرگز خیال نہیں تھا.پس وہ مسلمان جو ایک سے زیادہ بیویاں کرتے ہیں.ان کو اسلام کی تعلیم کے مطابق عمل کر کے دکھانے کی کوشش کرنی چاہئے.اور شہوت رانی اور نفس پرستی کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے تا مخالفین اسلام کو حرف گیری کا موقع نہ ملے.اسلام کا وہ دوسرا حکم جس کے متعلق میں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں.اور جو ان احکام میں سے ہے جن میں اسلام دوسرے مذاہب سے بالکل مختلف احکام دیتا ہے وہ سود کی ممانعت کا حکم ہے.میں چاہتا تھا کہ اس کے متعلق تفصیل سے بیان کرتا مگر مسئله سود
انوار العلوم بلدم ۵۱۶ خطاب جلسہ سالانہ ۴۷ - و وقت زیادہ گزر گیا ہے اس لئے مختصر ہی بیان کرتا ہوں.سود کا مسئلہ وہ مسئلہ ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اسلام نے اس سے روک کر مسلمانوں کو ترقی کرنے سے روک دیا ہے.کہتے ہیں سود کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی اور بد قسمتی سے اکثر مسلمانوں کی بھی یہی رائے ہے.اور اسی وجہ سے بعض نے لوگوں سے ڈر کر سُود کے معنی اور اور سود کے جواز کے حیلے کرنے شروع کر دیتے ہیں.اور کہتے ہیں اسلام میں اس طرح کا سود لینے کی ممانعت آئی ہے کہ تو دے کر دو سو لیا جائے.معمولی سود لینے کی ممانعت نہیں ہے کیونکہ یہ سُود نہیں بلکہ منافع ہے.ان لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے جس سے کسی نے پوچھا تھا کہ تمہارا کوئی لڑکا بھی ہے ؟ اس نے کہا کوئی نہیں.لیکن جب وہ چلا تو چار لڑکے اس کے لیے کرتے کے نیچے سے نکل پڑے.پوچھنے والے نے کہا تم تو کہتے تھے میرا کوئی بچہ نہیں.یہ چار کس کے بچے ہیں ؟ اس نے کہا چار بچے بھی کوئی بچے ہوتے ہیں؟ یہ لوگ بھی کہتے ہیں کہ سات فیصدی بھی کوئی سود ہے ؟ بعض دوسروں نے یہ فتویٰ دے کر کہ غیر مسلموں سے سود لینا جائز ہے ایک اور راہ نکالی ہے.پھر بعض نے یہ فتویٰ دے دیا ہے کہ غیر مذہب کی حکومتوں کے ماتحت جو مسلمان ہیں ان سے بھی سود لینا جائز ہے.اب مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد تو غیر مذاہب ہی کی حکومتوں کے ماتحت ہے.ان کے لئے جواز نکل آیا.پھر اسی پر بس نہ کی گئی بلکہ یہ کہدیا گیا کہ سُود وہ ہوتا ہے جو بہت بڑی تعداد میں لیا جائے.اب کسی کے لئے بھی روک باقی نہ رہی.حالانکہ بائبل اور قرآن کریم کی تعلیم میں یہی فرق ہے کہ توریت میں کہا گیا ہے کہ تو اپنے بھائی سے سُود نہ لے.لیکن رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ تو کسی سے بھی سود نہ لے.کیونکہ آپ نے سُود لینے کے متعلق کوئی شرط نہیں لگائی.اور یہاں تک فرما دیا ہے کہ سود لینے اور دینے والا اور اس پر گواہی ڈالنے والا سب جہنم میں ہوں گے.(مسند احمد بن ضبل جلد ۳ صفحہ ۳۸۱) اور قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو سود لینے سے نہیں رکتا وہ ہم سے لڑنے کے لئے تیار ہو جائے.مگر باوجود اس کے لوگوں نے کوئی خیال نہیں کیا اور دشمنان اسلام کو یہ کہنے کا موقع دیا ہے کہ اسلام کی تعلیم بھی ہر زمانہ کے لئے قابل عمل نہیں ہے.کاش! یہ لوگ ہوش کرتے اور اپنی بد اعمالیوں سے اسلام کو تو بد نام نہ کرتے.در حقیقت سود سے روکنا اسلام کے اعلیٰ ترین احکام میں سے ہے.اسلام نہیں چاہتا کچھ +1414
انوار العلوم جلد ۴ ۵۱۷ خطاب جلسہ سالانہ کے ۱۲ کمبر ۱۹۱۹ء لوگوں کے پاس روپیہ جمع ہو جاوے اور باقی بھوکے مرتے رہیں.بلکہ چاہتا ہے کہ سب کو برابر کا موقع ملے تمدن قائم ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سُود کے لین دین کو بند کیا جائے.ہمارے زمیندار بھائی شاید خیال کرتے ہوں گے کہ تاجر لوگ سُود لیتے ہوں گے زمیندار ایسا نہیں کرتے وہ تو ہمیشہ سے سود دینے کے ہی عادی چلے آئے ہیں لیکن یہ درست نہیں.میندارہ بینکوں نے زمینداروں کو بھی سود خور بنا دیا ہے.اس کا نام بدل دیا گیا ہے اور لوگوں کو دھوکا دیا جاتا ہے کہ یہ سود نہیں ہے.ورنہ ہے یہ بھی سود ہی.خواہ اس کا نام زمینداره بینک رکھ لو یا سرکاری بینک یا بہی کھاتہ.کچھ ہو یہ سب سو رہی ہے.سود لینے سے اب تک مسلمان جو کچھ نقصان اٹھا سود لینے کے نقصانات مسلمانوں کو چکے ہیں وہ پوشیدہ نہیں.ان کی زمینیں اور جائدادیں چھن کر دوسروں کے پاس چلی گئیں اور وہ قلاش ہو گئے.یہ تو عوام کا حال ہے.مسلمانوں کی جس قدر سلطنتیں مٹیں ان کی ہلاکت کی وجہ بھی یہی ہوئی.ترکوں نے جب دوسری سلطنت سے قرض لیا تو قرض دینے والوں نے کہا کہ فلاں علاقہ کے انتظام میں ہمارا دخل ہونا چاہئے.اور وہ دخل ایسا ہوا کہ سب کچھ جاتا رہا.اودھ والوں کا معاملہ اس کے الٹ ہے.انہوں نے کسی کو سود دیا نہیں بلکہ خود لینا چاہا.اور بہت سا روپیہ بینکوں میں جمع کرا دیا.اسی روپیہ کی وجہ سے انہیں تباہ ہونا پڑا.تو سیاسی طور پر سُود کا لینا دینا مسلمانوں کے حق میں سخت نقصان دہ ثابت ہوا.کیونکہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے صریح حکم کے خلاف کیا.مسلمانوں کو نقصان اس لئے پہنچا ہے کہ ان کا خاص فرض تھا کہ اس سے بچتے اور جب نہ بچے تو دوسروں کی نسبت زیادہ سزا کے نیچے آئے.مگر یہ طبعی طور پر یورپ کے لئے بھی مضر ثابت ہو رہا ہے وجہ شود کے نقصان یورپ کو یہ کہ یورپ کی تمدنی حالت ایسی ہو گئی ہے کہ امراء اور غرباء کا مقابلہ ہو رہا ہے.اسلام میں تو امیر اور غریب بھائی بھائی سمجھے جاتے ہیں.لیکن وہاں امیر اور آدم کی اولاد اور غریب اور آدم کی اولاد قرار دیئے جاتے ہیں.اس لئے ان کا آپس میں مقابلہ ہو رہا ہے.ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے لئے کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں.جس کا بس چلتا ہے دو سرے کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتا.اس کی بڑی وجہ یہی سود ہے کیونکہ سود کے ذریعہ امراء روپیہ حاصل کر کے ہر قسم کی تجارت اور حرفت اپنے قبضہ میں کر لیتے ہیں اور کام
۵۱۸ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۶۱۹۱۹ کرنے والوں کو اپنے قابو میں رکھتے ہیں.پس سور ہی ہے جس نے چند ہاتھوں میں دولت کو دے دیا ہے اور یہ ابتری پھیل رہی ہے.لیکن اسلام نے یہ ہرگز جائز نہیں رکھا کہ چند لوگوں کے پاس دولت جمع ہو جائے اور باقی سب لوگ بھوکے مرتے رہیں.اس لئے اسلام نے مالدار پر اپنے مال کا چالیس واں حصہ ہر سال دیتا ضروری قرار دیا ہے.تو یورپ کی موجودہ خطرناک حالت سے سُود کا بڑا تعلق ہے.دوسرے ایک اور بات گذشتہ جنگ کی خبر قرآن میں اور اس کا تعلق سُود سے جو سود ہی کا خطرناک نتیجہ تھی وہ حال ہی کی جنگ تھی.اور اس جنگ کی خبر قرآن کریم میں عجب رنگ میں دی گئی تھی چنانچہ آتا ہے.الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرّبوا لا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُوْمُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَنُ مِنَ الْمَسِ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الربُوا وَاَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرَّبوا فَمَنْ جَاءَهُ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهِ فَانْتَهى فَلَهُ مَا سَلَفَ وَ أَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ وَمَنْ عَادَ فَأُولَئِكَ أصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ GNANO الله الرّبوا وَيُرْبِي الصَّدَقْتِ وَاللهُ لاَ يُحِبُّ كُلُّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ (البقرة : ۲۷۶ تا ۲۷۷) اللہ تعالٰی فرماتا ہے ہم نے سُود کے حرام ہونے کا حکم دیا ہے.نادان کہتے ہیں سود اور خرید و فروخت میں کیا فرق ہے؟ وہ نہیں جانتے کہ ان میں اگر کوئی فرق نہ ہو اور دونوں ایک جیسے ہوں تو خدا ان میں سے ایک کو حرام اور ایک کو حلال کیوں قرار دیتا؟ اللہ کے حرام قرار دینے سے ہی ظاہر ہے کہ ان میں بہت بڑا فرق ہے.پس یاد رکھو کہ جو لوگ اب سود سے باز آگئے وہ آگئے ورنہ جو باز نہ آئے وہ یاد رکھیں کہ وہ آگ یعنی لڑائی میں ڈالے جائیں گے.اور اس و میں ہمیشہ رہیں گے یعنی اس کے اثرات ان میں ہمیشہ رہیں گے.پھر خدا سود کو مٹائے گا اور صدقات کو بڑھائے گا.یہ بات یاد رکھنی چاہئیے کہ کوئی حکومت ایک لمبے عرصہ تک لڑائی جاری نہیں رکھ سکتی.ایسی لمبی لڑائیاں جو قوموں کی قوموں کو پیس دیتی ہیں ، لاکھوں عورتوں کو بیوائیں اور کروڑوں بچوں کو یتیم کر دیتی ہیں ، وہ لڑائیاں جو لاکھوں بیٹوں کو تباہ اور لاکھوں باپوں کو ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا کرتی ہیں، وہ تب ہی جاری رہ سکتی ہیں جب کہ سود کے ذریعہ مالی حالت کو قائم رکھا
انوار العلوم جلد ۵۱۹ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء جائے.اس جنگ میں سات کروڑ روپیہ روزانہ صرف گورنمنٹ انگریزی کا صرف ہو تا تھا اور جرمنی کا بھی اسی قدر بلکہ اس سے بھی زیادہ خرچ ہوتا ہو گا.اگر سود کا دروازہ کھلا نہ ہوتا تو جر منی اس خرچ کو ایک سال تک بھی برداشت نہ کر سکتا اور نہ جنگ کو اتنے عرصے تک چلا سکتا.اور اس کا سارا اندوختہ تھوڑی ہی مدت میں ختم ہو جاتا.پھر اس نے کیا کیا؟ یہی کہ سود کے ذریعہ اتنی مدت تک خرچ چلاتا رہا.پھر لڑائی کی بنیاد بھی سود ہی کی وجہ سے پڑی.یہ ٹھیک ہے کہ اتحادی حکومتوں نے اندفاعی طور پر جنگ کی.لیکن جرمنی کو کس چیز نے لڑائی چھیڑنے کی جرأت دلائی؟ اسی سود نے.وہ سمجھتا تھا کہ اگر جنگ شروع ہو گئی تو سود کے ذریعہ میں جس قدر روپیہ چاہوں گا حاصل کرلوں گا اور جنگ جاری رکھ سکوں گا.اگر سود کا دروازہ نہ کھلا ہوتا تو اس قدر عظیم الشان جنگ جاری رکھنے کا اسے خیال ہی نہ آتا.پھر اگر براہ راست جرمنوں پر ٹیکس پڑتے.تو وہ ایک سال بھی لڑائی جاری نہ رکھ سکتے.اور فور املک میں شور پڑ جاتا کہ ہم اس قدر بوجھ برداشت نہیں کر سکتے.لیکن سود کے ذریعہ روپیہ لے کر لوگوں کو اس بوجھ سے غافل رکھا جاتا ہے جو جنگ کے لمبا کرنے کی وجہ سے ان پر پڑتا ہے اور اس طرح ان کو ناراض نہیں ہونے دیا جاتا.پس سود ہی لڑائیوں اور بدامنیوں کے پھیلانے اسلام نے سُود کی کیوں ممانعت کی ؟ والا ہے.اور جو لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی وہ جھوٹ کہتے ہیں.صحابہ کے زمانہ میں جب کہ دو دو کروڑ روپیہ ایک ایک شخص کے پاس ہو تا تھا کیا اس وقت سور ہی کے ذریعہ تھا.سُود کو تو وہ حرام سمجھتے تھے.پس یہ غلط ہے کہ سُود کے بغیر مال میں ترقی نہیں ہو سکتی.پھر سود لینے سے انسان کاہل اور ست ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اتنی آمدنی تو ضرور ہی ہو جائے گی.پھر کوئی کام کرنے کی کیا ضرورت ہے.لیکن اسلام اس کو سخت نا پسند کرتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہر ایک انسان محنت کرے اور اپنے آپ کو ملک اور قوم کے لئے مفید بنائے.پس اسلام نے سود سے منع کیا اور زکوۃ اور وراثت کے طریق کو جاری کیا.اس ذریعہ سے دولت کسی خاص خاندان میں جمع نہیں رہ سکتی.بلکہ جو محنت کرے وہی مالدار ہو اور غریبوں کے راستے میں تو کوئی روک نہیں رہتی.غرض شود کے روکنے کا مسئلہ نہایت ہی حکیمانہ مسئلہ تھا مگر افسوس کہ خود مسلمانوں نے لالچ سکتا.ہے.
۵۲۰ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء اور حرص میں پڑ کر نہ صرف اس کی خوبی کو چھپایا.بلکہ دشمنان اسلام کو یہ کہنے کا موقع دیا کہ اسلام کی تعلیم ہر زمانہ کے لئے قابل عمل نہیں اور دنیا کی ترقی میں روک ہے.دوسرے لوگوں سے تو جو غلطی احمدیوں کو شودی لین دین سے پر ہیز کرنا چاہئے ہوئی سو ہوئی میں احمد یہ جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس اعتراض کے دور کرنے کے لئے بھی کمر بستہ ہو جاوے اور اسلام کا بے عیب ہونا ثابت کرے.اور اس طرح کامل عباد میں اپنے آپ کو شامل کر دے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں سود کو مٹاؤں گا اور صدقات کو بڑھاؤں گا اور یہ اسلام ہی کی ترقی کے ساتھ وابستہ ہے.گویا یہ پیشگوئی ہے کہ اس جنگ عظیم کے بعد جو سود خور قوموں میں ہوگی اللہ تعالٰی ایسے لوگوں کو ترقی دے گا جو سود سے پر ہیز کرتے ہوں گے اور صدقات پر زور دیتے ہوں گے.یعنی بجائے غریب سے کچھ لینے کے جیسا کہ سود خور کرتا ہے وہ غریبوں کی مدد کرے گا پس تمام احمدیوں کو چاہئے کہ سود کے لینے اور دینے سے پر ہیز کریں.کیونکہ یہ خدا تعالیٰ سے لڑائی ہے.اور میں نہیں جانتا کون خدا سے لڑ سکتا ہے.اور پھر یہ ایسا حکم ہے جس کی وجہ سے اسلام پر دشمن حملہ کرتا ہے.اور اس میں کمزوری دکھائی اسلام پر حملہ کروانا ہے.نعوذ باللہ من ذالك - عبد بننے کے لئے جن دو باتوں کی ضرورت تھی ان میں سے ایک کو میں بیان کر چکا ہوں.یعنی ان فرائض کو پورا کرنا جو انسان کے ذمہ لگائے گئے ہوں.اب میں دو سرے حصہ کو لیتا ہوں.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں عبد بننے کے لئے عبد بننے کے لئے دوسری ضروری باتیں دوسری ضروری بات یہ ہے کہ وہ اپنے فرائض ادا کرنے کے ساتھ یہ بھی دیکھتا رہے کہ دوسرے عبد بھی اپنا کام دیانتداری سے ادا کر رہے ہیں یا نہیں؟ کیونکہ سچی ہمدردی اور خیر خواہی یہی ہوتی ہے کہ انسان نہ خود نقصان کرے اور نہ نقصان ہونے دے.کبھی کوئی نو کر وفادار نہیں کہلا سکتا جب تک کہ وہ اپنے آقا کے مال کے ضائع ہونے کا ہر حالت میں خیال نہیں رکھتا خواہ وہ اس کے سپرد ہو خواہ غیر کے.اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تأمرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (ال عمران: 11) کہ اے مسلمانو! تم اچھے لوگ ہو
العلوم جلد ۵۲۱ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۹۱۹ خیر امت ہو کیوں؟ اس لئے کہ تم لوگوں کے فائدہ کے لئے نکالے گئے ہو.یعنی تمہارا یہی کام نہیں کہ اپنے آپ کو نیک اور خدا کے عبد بناؤ بلکہ یہ بھی ہے کہ اوروں کو بھی ایسا ہی بنانے کی کوشش کرو.عام طور پر اس آیت کے یہ معنی کئے جاتے ہیں کہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ نے اس لئے خیر امت کہا ہے کہ وہ دوسروں میں تبلیغ دین کرتے ہیں.مگر بات یہ نہیں بلکہ خیرامت للناس کی وجہ سے کہا گیا ہے یعنی تم سے پہلے تو لوگوں کے لئے محدود حلقے تبلیغ کے ہوتے تھے مگر تم کو ساری دنیا کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ورنہ تبلیغ تو پہلے نبیوں کے متبع بھی کرتے تھے.ان کو خیر امت کیوں نہ کہا گیا.اسی لئے کہ ان کا کام زیادہ وسیع اور ان کی ذمہ داری اتنی بڑی نہ تھی.تو یہ دوسرا فرض ہے جو اسلام نے خدا تعالیٰ کا عبد بننے کے لئے قرار دیا ہے.بے شک ہماری جماعت اس فرض کی ادائیگی کے لئے کوشش کرتی ہے.لیکن جس قدر کوشش کی جاتی ہے اس سے ہزاروں اور لاکھوں درجے زیادہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے.آگے اس فرض کو ادا کرنے کے بھی دو طریق ہیں.ایک تو یہ ہے امر بالمعروف کی تلقین کہ اپنے یعنی مسیح موعود کے ماننے والے لوگوں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی جائے.ایک احمدی دوسرے احمدی کو سمجھائے نصیحت اور وعظ کرے.یہ بھی بڑا بھاری فرض ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے.انْصُرُ أَخَاكَ ظَالِمًا او مظلوما - (بخاری کتاب النظالم باب اعن اخاك ظالما او مظلوما، کہ ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم.یہ سن کر صحابہ حیران ہو گئے.اور انہیں حیران ہونا بھی چاہئے تھا.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسا عادل اور منصف انسان کہ جس نے دنیا میں عدل و انصاف کو قائم کیا.اس کے مونہہ سے ان الفاظ کا نکلنا کہ اپنے ظالم بھائی کی بھی مدد کرو کچھ کم قابل تعجب نہ تھا.پس ایک صحابی نے دریافت کیا یا رسول الله " مظلوم بھائی کی تو مدد ہوئی.لیکن ظالم کی کیا مدد کی جائے.آپ نے فرمایا ظالم کی مدد یہ ہے.کہ اس کا ہاتھ ظلم کرنے سے روک دیا جائے.مثلاً اگر ایک شخص ڈاکہ مارنے کا ارادہ رکھتا ہے.اور دوسرا اسے روک دے تو یہ اس کی مدد ہو گی.پس اس فرض کو ادا کرنا بھی نہایت ضروری ہے.اگر آپس میں حق بیان کیا جائے.اور ایک دوسرے کو وعظ نصیحت کی جائے تو جماعت کبھی تنزل کی طرف نہیں جاسکتی حضرت ابن عباس سورہ اعراف کی آیت وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمَا ء الله مُهلكهم أو
م چاند ۴ ۵۲۲ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ - ۱ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا، قَالُوْا مَعْذِرَةً إِلى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ، فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوءِ وَأَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوا بِعَذَابٍ بَيْيْسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (الاعراف: ۱۲۶۰۱۶۵) جب پڑھتے تو رو پڑتے.کیونکہ فرماتے کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب الہی سے صرف وہی گروہ بچتا ہے.جو دوسروں کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہے.اور آج کل مسلمانوں میں ایسے لوگ ہیں جو اس کام سے جی چراتے ہیں یہ تو عبد اللہ بن عباس کا اس زمانہ کے لوگوں کے متعلق خیال ہے جن میں سے کثیر حصہ حق گوئی میں مشہور تھا.اگر آج کل کا حال دیکھا جاوے تو حق پوشی کی کوئی انتہاء ہی نہیں.لوگ تبلیغ سے اس طرح ڈرتے ہیں جس طرح موت سے خوف کیا جاتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.دیکھو اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کو کتنا بڑا فرض قرار دیا ہے فرماتا ہے.وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمَا اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا قَالُوا مَعْذِرَةٌ إِلى رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ، فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ أَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْءِ وَأَخَذْنَا الَّذِينَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍ بَيْيْسٍ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ (الاعراف: (۱۶۶۱۷۵ ایک قوم تھی اس میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اپنی قوم کو وعظ کرتے تھے.ان کو ایک اور فریق نے کہا کہ تم کیوں اس قوم کو وعظ کرتے ہو یہ تو ہلاک ہونے اور سخت عذاب پانے والی ہے.انہوں نے جواب دیا کہ ہم اس وجہ سے ان کو نصیحت کرتے ہیں کہ (۱) خدا تعالیٰ کے سامنے معذرت کر سکیں کہ ہم نے اپنی طرف سے بات پہنچادی تھی.(۲) اس لئے کہ سمجھانے سے ہمیشہ فائدہ ہوتا ہے شاید لوگ ہدایت پاویں اور تقویٰ اختیار کرلیں.لیکن جب ان لوگوں کی نے سمجھانا ترک کر دیا ان باتوں کا جن کی بابت ان کو سمجھایا جاتا تھا.تو ہم نے ان لوگوں کو جو برے کاموں سے روکتے تھے.بچالیا.اور ظالموں کو ان کے بد اعمال کی وجہ سے ہلاک کر دیا.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ روکنے والے تھے صرف وہ عذاب سے بچائے گئے اور باقی سب ظالم قرار دے کر ہلاک کئے گئے.پس لوگوں کو برائیوں سے بچنے کا امر بالمعروف کی تلقین حکمت سے کرنی چاہئے وعظ کرنا بہت ضروری اور اہم امر ہے.اس کی ادائیگی کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہئے.اور اس کو کبھی نظر انداز نہیں ہونے دیتا
۵۲۳ عام تبليغ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء چاہئے.لیکن اس کے ساتھ ہی حکمت سے بھی کام لینا چاہئے.اور سمجھانے کی ایسی طرز اور ایسا طریق ہونا چاہئے کہ جس کو سمجھایا جائے اسے نہ تو غصہ آوے اور نہ سمجھنا اس کے لئے مشکل ہو.اگر عام وعظ ہو تو بھی ایسے رنگ میں بیان کیا جائے کہ جس کو سمجھانا ہو اس کی طرف کوئی اشارہ نہ ہو.میں تو اتنی احتیاط کیا کرتا ہوں کہ اگر کسی خاص واقعہ سے مجھے کسی نصیحت کرنے کی تحریک ہو تو بالعموم کئی ماہ کے بعد جاکر اس کا ذکر وعظ میں کرتا ہوں اور وہ بھی عام رنگ میں تاکہ لوگوں کا ذہن اس واقعہ کی طرف نہ منتقل ہو.دوسری شق اس فرض کی عام تبلیغ ہے اور اس کی بھی آگے دو شقیں ہیں.ایک وہ جو ہر ایک فرد پر منفردانہ طور پر واجب ہے.یعنی ہر ایک مسلمان کا فرض رکھا گیا ہے کہ وہ اپنی لیاقت کے بموجب اسلام کی صداقت کو دنیا میں پھیلائے.انسان کے دل میں اس جذبہ کا پیدا ہو جانا بہت بڑی ترقی کا موجب ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود جب فوت ہوئے تو یہ سمجھا گیا کہ آپ اچانک فوت ہو گئے ہیں.لیکن مجھے پہلے سے اس کے متعلق کچھ ایسی باتیں معلوم ہو گئی تھیں جن سے معلوم ہو تا تھا کہ کوئی بڑا انقلاب آنے والا ہے.مثلاً میں نے رویا میں دیکھا کہ میں مقبرہ بہشتی سے ایک کشتی پر آرہا ہوں.رستہ میں پانی اس زور شور کا تھا کہ سخت بھنور پڑنے لگا اور کشتی خطرہ میں پڑ گئی.جس سے سب لوگ جو کشتی میں بیٹھے تھے ڈرنے لگے.جب ان کی حالت مایوسی تک پہنچ گئی تو پانی میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں ایک تحریر تھی اس میں لکھا تھا کہ یہاں ایک پیر صاحب کی قبر ہے ان سے درخواست کرو تو کشتی نکل جائے گی.میں نے کہا یہ تو شرک ہے.خواہ ہماری جان چلی جائے ہم اس طرح نہیں کریں گے.اتنے میں خطرہ اور بھی بڑھ گیا اور ساتھ والوں میں سے بعض نے کہا کیا حرج ہے ایسا ہی کر دیا جائے.اور انہوں نے پیر صاحب کو چٹھی لکھ کر بغیر میرے علم کے پانی میں ڈال دی.جب مجھے معلوم ہوا تو و میں نے اس چٹھی کو کود کر نکال لیا اور جونہی میں نے ایسا کیا وہ کشتی چلنے لگ گئی اور خطرہ جاتا رہا.جب حضرت صاحب فوت ہوئے اس وقت خدا تعالیٰ نے میرا دل نہایت مضبوط کر دیا.اور فورا میرا ذہن اس طرف منتقل ہوا کہ اب ہم پر بہت بڑی ذمہ داری آپڑی ہے.اور میں نے اسی وقت عہد کیا کہ الہی میں تیرے مسیح موعود کی لاش پر کھڑا ہو کر اقرار کرتا ہوں کہ خواہ اس کا کام کرنے کے لئے دنیا میں ایک بھی انسان نہ رہے تو بھی میں کرتا رہوں گا.اس وقت مجھے
العلوم جلد " ۵۲۴ میں ایک ایسی قوت آگئی کہ میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء پس جب کوئی انسان اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے تو اس کا دل بہت مضبوط ہو جاتا ہے.ہر ایک احمدی کو چاہئے کہ تبلیغ احمدیت کو اپنا فرض سمجھے اور اس کے لئے جس قدر بھی ہو سکے کوشش کرے.اور اگر کوشش کرے گا تو اللہ تعالٰی ضرور اس کی مدد کرے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ کوئی ہماری بات نہیں سنتا کوئی ہماری طرف توجہ نہیں کرتا پھر ہم تبلیغ کس طرح کریں.لیکن میں کہتا ہوں کوئی وجہ نہیں کہ پشاور جیسے علاقہ سے تو ایک شخص کوشش کر کے سعید روحوں کو نکال لے مگر امن کی جگہ میں رہنے والے کچھ نہ کر سکیں.انگلستان، نائیجیریا ، مصر، ماریشس، سیلون وغیرہ جیسے دور دراز علاقوں سے تو حق کو قبول کرنے والوں کی جماعت پیدا ہوتی رہے مگر ہندوستان والوں میں سے ایسے لوگ نہ نکل سکیں.اصل بات یہ ہے کہ ایسا شخص جو تبلیغ میں سستی کرتا ہے اپنی ذمہ داری کو نہیں سمجھتا.یہ ٹھیک ہے کہ ہم ظاہری طور پر کمزور ہیں.اور یہ بھی صحیح ہے کہ کیا بلحاظ افراد کے اور کیا بلحاظ جماعت کے ہمارے اندر کشش کی کوئی ظاہری چیز نہیں.لیکن اگر ہم کوشش کریں تو ضرور ہے کہ ہم کامیاب ہو جائیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہمارے ساتھ وعدے ہیں.پس تم لوگ اس کے لئے کھڑے ہو جاؤ.مجموعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی.انفرادی طور پر تو اس طرح کہ ہر احمدی اپنے آپ کو مبلغ سمجھے.اور مجموعی طور پر اس طرح کہ اشاعت اسلام اور تبلیغ اسلام کے لئے جو کام ہو رہا ہے اس میں اپنے مال کو خرچ کرے.بے شک تم لوگ اسے بڑا سمجھو گے اور یہ واقع ہے کہ ساری دنیا کو تبلیغ کرنے کا کام ہمارے لئے ایسا ہی ہے جیسا کہ آسمان کو سر پر اٹھانے کا.لوگوں نے ایک قصہ بنایا ہوا ہے کہتے ہیں.ایک پرندہ ہے جس کا نام پڑا ہے.وہ رات کو لاتیں اوپر کر کے سوتا ہے تاکہ اگر آسمان نیچے گر پڑے تو غافل اور بے خبر دنیا تباہ نہ ہو جائے بلکہ وہ آسمان کو اپنی لاتوں پر اٹھائے رکھے.یہ تو ایک قصہ ہے لیکن بلاشبہ ہماری یہی مثال ہے.ہاں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ اس پر نہ تو آسمان گرتا ہے اور نہ وہ اسے سہارتا ہے.مگر دنیا پر آسمان گرتا ہے اور ہمارا سلسلہ اس کو سہارتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے آسمان کو اٹھانے کا گر بتا دیا ہے.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ وَمَا كَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ ٥ (الانفال: ۳۴) یعنی خدا تعالیٰ کے عذاب کو روکنے والی دو ہی چیزیں ہیں.ایک تو یہ کہ خدا کا رسول ان میں موجود ہو.دوسری یہ کہ ان میں ایک جماعت ایسی موجود ہو جو استغفار کرتی رہتی ہو.
ام جلد ۴ ۵۲۵ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۱۹ء پس گو وہ جانور آسمان کو نہیں اٹھا سکتا مگر ہماری جماعت اللہ تعالٰی کے فضل سے آسمان کو اٹھا رہی ہے اور اٹھا سکتی ہے.میں نے گزشتہ سالانہ جلسہ پر کہا تھا کہ مختلف مشن قائم کئے جائیں گے.اس تبلیغی مشن کے بعد کئی ایک لوگ ہمارے مشنوں کے ذریعہ داخل سلسلہ ہوئے ہیں اور مشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہے ہیں.ایران میں مبلغ نہیں بھیجے جا سکے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے لئے جو آدمی تیار کئے گئے تھے انہیں ایک اور جگہ بھیج دیا گیا ہے.امریکہ کے لئے انتظام کیا جا رہا ہے اور مفتی صاحب کو تار دیا گیا ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے امریکہ روانہ ہو جائیں امریکہ کے متعلق حال ہی میں مجھے ایک عجیب رویا ہوئی.لکھنو کی خلافت کمیٹی کی اطلاع ابھی مجھے نہیں ملی تھی کہ میں نے دیکھا کسی جماعت کا میرے پاس ایک خط آیا ہے جس میں وہ مجھ سے کام کرنے کا مشورہ طلب کرتے ہیں.میں نے انہیں کہا کہ امریکہ کی طرف نکل جاؤ اور تبلیغ اسلام کرو.اس کے ساتھ ہی میں انہیں یہ بھی کہتا ہوں کہ میں تمہیں ثواب کا موقع دینا چاہتا ہوں ورنہ میں خود گڈریا بن کے امریکہ چلا جاؤں تو سارے امریکہ کو مسلمان بنالوں.گویا میں نے ان کو جواب میں یہ خط لکھا ہے.پھر میں نے دیکھا کہ ان کی طرف سے خط آیا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ یہاں انجمن کا اجلاس ہوا اس میں تم متمثل ہو کر ظاہر ہوئے اور کہا کہ اگر میں گڈریا بن کے امریکہ میں نکل جاؤں تو سارے امریکہ کو مسلمان بنالوں.آج ہی چودھری فتح محمد صاحب کا خط آیا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ امریکہ کا ایک شخص جو بڑا شاعر اور مصور ہے مجھ سے ملا اور گفتگو کے بعد مسلمان ہو گیا.امریکہ میں تبلیغ کرنے کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ذرائع پیدا ہو رہے ہیں اور میں امید کرتا ہوں کہ ہمیں اس ملک میں اچھی کامیابی ہوگی.اس کے علاوہ اور مشنوں کے لئے بھی تجاویز ہو رہی ہیں.خدا تعالیٰ کی طرف سے آوازیں آرہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ اٹھو اور اٹھ کر دنیا میں پھیل جاؤ.اس میں شک نہیں کہ بڑی بڑی مشکلات ہمارے راستہ میں ہیں.اور شیطان پورے زور سے حملہ آور ہو رہا ہے.مگر ضروری ہے کہ تم لوگ بھی اس کا اچھی طرح مقابلہ کرو اور پورے طور پر اس کے خلاف کھڑے ہو جاؤ.یہ وہ باتیں ہیں جو آج میں آپ لوگوں کو کہنی چاہتا تھا.اگر یہ پوری ہو گئیں یعنی جو تم پر فرائض ہیں ان کو تم نے ادا کر دیا.اور دوسروں سے ان کے فرائض ادا کرانے کی کوشش کی تو
انوار العلوم جلدم ۵۲۶ خطاب جلسہ سالانہ کے ۲ دسمبر ۱۹۱۹ نو سمجھ لو کہ تم خدا تعالیٰ کے عبد بن جاؤ گے.اور جب عبد بن جاؤ گے.تو فَادْخُلِي فِي عِبْدِی وَادْخُلِي جَنَّتِن والی آیت تمہارے لئے پوری ہو جائے گی.اور تم جنت میں داخل ہو جاؤ گے.خدا تعالٰی آپ کو اس امر کی توفیق دے.اس کے ساتھ ہی میں احباب کو نصیحت کرتا ہوں کہ ان دنوں خدا کی یاد میں کثرت سے مشغول رہیں.اور دعاؤں میں خوب لگے رہیں.اور اگر اپنے سلسلہ کے مبلغوں کی کامیابی کے لئے دعائیں کریں تو بہت مفید نتیجہ نکل سکتا ہے.پس تم لوگ جہاں اپنے نفس کے لئے دعا ئیں کرتے ہو وہاں مبلغین کے لئے کیوں نہیں کرتے ؟ ان کے لئے بھی ضرور کرو.اور یاد رکھو کہ جب ان کے لئے کرو گے تو وہ تمہارے اپنے ہی لئے ہوں گی کیونکہ خدا تعالٰی کے گا کہ جب یہ میرے ان بندوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں جو میری راہ میں نکلے ہوئے ہیں تو میں ان کے کام پورے کر دیتا ہوں.خدا تعالٰی آپ کے ساتھ ہو.آمین
م جلد ۴ ۵۳۷ تقدیر الهی (خطاب جلسه سالانه ۱۹۱۹ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی تقدیر الهی
۵۲۸
انوار العلوم جلدم ۵۲۹ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّنْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تقدیرانی مسئلہ قضاء و قدر ذیل میں مسئلہ تقدیر کے متعلق میری وہ تقریر درج ہے جو میں نے دسمبر ۱۹۱۹ء کے سالانہ جلسہ پر کی تھی بوجہ قلت وقت کے میں نے اس تقریر کو بہت مختصر کر دیا تھا.اور میرا منشاء تھا کہ صحت کے وقت اس کے اندر بعض ضروری مسائل بڑھا دوں گا.لیکن نظر ثانی کے وقت معلوم ہوا کہ تقریر کے لکھنے میں اس قدر غلطیاں ہو گئی ہیں کہ اس کا درست کرنا نہایت مشکل ہے.بعض جگہ مضمون ایسا خبط ہو گیا تھا کہ اس کے درست کرنے میں نیا مضمون لکھنے سے بہت زیادہ وقت صرف ہو تا تھا.ایک اور بھی مشکل پیش آگئی کہ مضمون میں خبط ہو جانے کی وجہ سے بعض ضروری مسائل کا بیچ میں شامل کر دینا بھی مشکل ہو گیا.اس لئے میں نے اپنا پہلا ارادہ ترک کر کے اس تقریر کو ہی درست کر دیا ہے اور کوشش کی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو وہ آسانی سے سمجھ میں آسکے اور ایک دو جگہ پر کسی قدر زیادتی بھی کر دی ہے.چونکہ اس مضمون کے بعض پہلو جو زیادہ وضاحت چاہتے تھے اور جن کو تقریر کے وقت بیان نہیں کیا جاسکا اس تقریر پر نظر ثانی کرتے وقت بھی درج نہیں ہو سکے.اس لئے اللہ تعالی اگر توفیق دے تو میرا ارادہ ہے کہ اس مسئلہ پر ایک مستقل رسالہ تحریر کر دیا جاوے.فی الحال لوگوں کے انتظار کو دیکھ کر اس قدر شائع کیا جاتا ہے.خاکسار مرزا محمود احمد
۵۳۰
۵۳۱ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّنْ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تقدیر الهی تقدیر الهی خطاب جلسہ سالانہ چار دسمبر ۱۹۱۹ء) اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ، صِرَاطَ الَّذِيْنَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ٥ أمِيْن وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ، وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ، إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ، قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا (الان : ۴۳) وَقَالَ الَّذِينَ اشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا رَّمْنَا مِنْ دُونِهِ مِنْ شَيْءٍ ، كَذَلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ، فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلا الْبَلغَ الْمُبِينُ ، وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ.فَمِنْهُم مِّنْ هَدَى اللَّهُ وَمِنْهُمْ مَنْ حَقَّتْ عَلَيْهِ الضَّلَلَةُ، فَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُكَذِّبِينَ (النحل : ۳۷۳۶) میں نے کل بیان کیا تھا کہ میں ایک اہم مسئلہ کے متعلق آپ کو مسئلہ قضاء و قدر کی اہمیت لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.میں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ مسئلہ ایمانیات کے متعلق ہے.پہلے جلسوں میں میں نے اپنی تقریروں میں اعمال کے متعلق زیادہ تر بیان کیا ہے مگر اس دفعہ ارادہ ہے کہ ایمانی امور کے متعلق کچھ بیان کروں.اس
العلوم جلد ۵۳۲ تقدیر الهی ارادہ کے ماتحت اس دفعہ میں نے اس مسئلہ کو چنا ہے جو میرے نزدیک اہم امور ایمانیہ میں سے ہے اور نہایت مشکل مسئلہ ہے حتی کہ لوگوں کے اعمال پر اس کا خطرناک اثر پڑا ہے.وہ مسئلہ کیا ہے؟ وہ قضاء و قدر کا مسئلہ ہے جس کو عام طور پر تقدیر یا قسمت یا مقدر کہتے ہیں.اور اس کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں.مسئلہ تقدیر ایمانیات میں سے ہے اور بہت مشکل مسئلہ ہے.بہت لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ اس کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہلاک ہو گئے ہیں اور کئی قومیں اسی کو نہ جاننے کی وجہ سے تباہ ہو گئی ہیں.کئی مذاہب اس کے نہ معلوم ہونے کی وجہ سے برباد ہو گئے ہیں.بلکہ یہ سمجھنا چاہئے کہ اسی مسئلہ کے نہ سمجھنے کی وجہ سے مذاہب میں ایسی تعلیمیں جو انسان کے اخلاق اور اعمال کو تباہ و برباد کرنے والی ہیں آگئی ہیں.اور یورپ کے لوگ مسلمانوں پر عموماً اس مسئلہ کی وجہ سے ہنسا کرتے ہیں.لیکن وہ بلاوجہ نہیں بنتے بلکہ ان کا ہنسنا جائز ہوتا ہے کیونکہ مسلمان ان کو خود اپنے اوپر ہنسی کرنے کا موقع دیتے ہیں.مثلاً اگر کبھی مسلمانوں کی لڑائی کا ذکر آجائے تو یوروپین مصنف لکھیں گے کہ فلاں موقع پر بڑے زور شور سے گولیاں چلتی رہیں لیکن مسلمان پیچھے نہ ہے بلکہ آگے ہی آگے بڑھتے گئے.آگے یہ نہیں لکھیں گے کہ یہ ان کی بہادری اور شجاعت کا ثبوت تھا بلکہ لکھیں گے کہ اس لئے کہ انہیں اپنی قسمت پر یقین تھا کہ اگر مرنا ہے تو مر جائیں گے اگر نہیں مرتا تو نہیں مریں گے.اگر مسلمان اس وجہ سے دشمن کے مقابلہ میں قائم رہا کرتے تو بھی کوئی حرج نہ تھا لیکن اگر گولیاں زیادہ دیر چلیں تو پھر وہ کھڑے نہیں رہیں گے بلکہ بھاگ جائیں گے.غرض تقدیر پر ایمان لانا ایک مسئلہ تقدیر کے متعلق رسول کریم ﷺ کا ارشاد اہم مسئلہ ہے اور رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک خدا کی قدر پر ایمان نہ لائے.آپ فرماتے ہیں کہ لا يُؤْمِنُ عَبْد حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَشَرِّه ترندی ابواب القد رباب ما جاء في الايمان بالقدر خيره " وشره) یعنی کوئی بندہ مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک قدر پر ایمان نہ لاوے اچھی قدر پر بھی اور بری قدر پر بھی.پھر فرماتے ہیں " مَنْ لَمْ يُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ خَيْرِهِ وَ شَرِّهِ فَانَا بَرِئَ مِنْهُ (کنز العمال جلد الفصل السادس في الايمان بالقدر روایت نمبر ۴۸۵)
تقدیرانی انوار العلوم جلدم ۵۳۳ جو شخص اچھی اور بری قدر پر ایمان نہیں لاتا میں اس سے بیزار ہوں.گویا اس مسئلہ کو بڑی اہمیت دی گئی ہے.پس قدر کا مسئلہ ایک اہم مسئلہ ہے اور جب کوئی ایمان حاصل کرنے کے لئے گھر سے نکلے اور چاہے کہ ایمان لانے والوں میں جگہ پائے تو اس کے لئے نہایت ضروری ہے کہ اس پر ایمان لائے اور یقین رکھے.لیکن اگر کوئی دعویٰ تو کرتا ہے کہ مسلمان ہے لیکن قدر کو نہیں مانتا تو رسول کریم کی تعلیم کے ماتحت وہ مسلمان نہیں کہلا سکتا کیونکہ مسلم آپ ہی کے خدام اور متبعین کا نام ہے اور اس بات کا فیصلہ کرنے کے لئے کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں آپ ہی سے فیصلہ چاہا جائے گا.پس وہ مسلم نہیں جو قدر پر ایمان نہیں لاتا کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص اس وقت وہ شخص تک مسلم نہیں ہو سکتا جب تک قدر پر ایمان نہیں لاتا.ممکن ہے بعض لوگوں کے دل میں خیال ہو اور مسئلہ تقدیر ایمانیات میں داخل ہے ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے جس طرح بعض اور باتوں کو ضروری دیکھ کر محض زور دینے کے لئے ایمان میں شامل کیا ہے اسی طرح قدر کا مسئلہ ہو.مثلاً آپ نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی غیر قوم کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے.مثلاً سید نہیں ہے اور اپنے آپ کو سید کہتا ہے مؤمن نہیں ہے (ابو داؤد - ابواب النوم باب في الرجل ينتمى الى غير موالیہ یا آپ نے فرمایا ہے کہ مسلمان کا قتل کرنا کفر ہے.(مند احمد بن حنبل جلد ۱ صفحہ ۱۷۶) اسی طرح اور کئی باتوں کے متعلق آپ نے فرمایا ہے کہ جو ایسا نہیں کرتا یا ایسا کرتا ہے وہ مؤمن نہیں ہے مثلاً جس طرح آپ نے یہ فرمایا ہے کہ جو پٹھان ہے اور اپنے آپ کو سید کہتا ہے یا مغل ہے اور سید بنتا ہے یا کسی بڑے آدمی کی نسل نہیں ہے مگر اس کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے وہ مؤمن نہیں ہے.اسی طرح مسئلہ قضاء و قدر کے متعلق فرما دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کو ضرور مان لیا جائے.پس اس کو نہ ماننا گناہ ہے اور بڑا گناہ ہے مگر ایمان اور اسلام سے خارج کر دینے والا نہیں ہے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جتنے ایمانی مسئلے ہیں اور جن پر ایمان لائے بغیر کوئی مسلمان نہیں ہو سکتا قرآن کریم میں موجود ہیں اور ان کا انحصار حدیثوں پر نہیں ہے کیونکہ حدیثوں کا علم ظنی ہے یقینی نہیں ہے.
انوار العلوم چاند تم ۵۳۴ تقدیرانی پس اس بات کو معلوم کرنے کے لئے کہ کون سا مسئلہ حقیقتاً ایمانیات میں شامل ہے ہمیں قرآن کریم کی طرف رجوع کرنا چاہئے.جس مسئلہ کے متعلق قرآن کریم میں معلوم ہو جائے کہ اس کا نہ ماننا کفر ہے وہ ایمانیات میں شامل ہے اور جس کے متعلق قرآن کریم کی شہادت نہ ملے اس کے متعلق یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اس کے متعلق جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ صرف تاکید اور زور دینے کے لئے ہیں.اب اسی قاعدہ کے ماتحت جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں کہ اس میں ایمان بالقدر کے متعلق کیا بیان ہوا ہے تو گو ہمیں ایمان بالقدر کے الفاظ تو اس میں نظر نہیں آتے مگر یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ اس پر ایمان لانا ضروری ہے.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی پر ایمان لانا سب سے پہلا حکم بتایا گیا ہے اور مسئلہ قدر خدا تعالٰی پر ایمان لانے کا ایک حصہ ہے.قدر کیا ہے؟ قدر خدا تعالیٰ کی صفات کے ظہور کا نام ہے.مثلاً جو شخص یہ مانتا ہے کہ خدا ہے اس کے لئے یہ بھی مانا ضروری ہے کہ خدا کچھ کرتا بھی ہے نہ کہ ایک بے حس و حرکت ہستی کی ہے.تو جو صفات خدا تعالیٰ میں پائی جاتی ہیں انہی کے ماننے کا نام قدر کا ماننا ہے اس لئے ایمان باللہ میں ہی قدر پر ایمان لانا بھی آگیا.پس رسول کریم اللہ کا ایمان بالقدر پر زور دینا کبیرہ گناہوں پر زور دینے کے مشابہ نہیں ہے بلکہ اس کے متعلق جو کچھ فرمایا ہے وہ حقیقی طور پر بھی ہے.قرآن کریم میں گو اس مسئلہ خدا تعالیٰ کے ماننے کے لئے تقدیر کا مانا ضروری ہے کو علیحدہ علیحدہ طور پر نہیں بیان کیا گیا.اللہ تعالٰی پر ہی ایمان لانے میں اس کو شامل کیا گیا ہے.مگر رسول کریم نے اس کو علیحدہ کر کے بیان کر دیا ہے.اور خدا تعالیٰ کو اسی وقت حقیقی طور پر مانا جاتا ہے جبکہ اس کی صفات کو بھی مانا جائے.ورنہ یوں خدا کا مان لینا کچھ حقیقت نہیں رکھتا.یوں تو بہت سے دہریے بھی مانتے ہیں.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ یہ غلط ہے کہ ہم خدا کو نہیں مانتے.ہم خدا کو تو مانتے ہیں ہاں یہ نہیں مانتے کہ وہ فرشتے نازل کرتا ہے ، نبی بھیجتا ہے ، اس کی طرف سے پیغام آتے اور کتابیں دی جاتی ہیں.لیکن ہم یہ مانتے ہیں کہ اس کائنات کو چلانے والی ایک بڑی طاقت ہے جسے ہم قوت محرکہ کہتے ہیں.تو دہریے بھی بظاہر خدا کے ماننے کا انکار نہیں کرتے.مگر وہ کیسا خدا مانتے ہیں؟ ایسا کہ جس سے ان کو کوئی کام نہ پڑے.ان کا خدا کا مانا ایسا ہی ہے جیسا کہ کسی نے کسی کو کہا تھا.جو
انوار العلوم جلد ۴ ۵۳۵ تقدیر الهی ہمارا مال سو تمہارا مال اور اس کا یہ قطعا خیال نہ تھا کہ میرا مال یہ لے بھی لے.اسی طرح بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم مانتے ہیں ایک ہستی ہے ایک طاقت ہے ایک روح ہے مگر ایسا خدا جو ہمیں حکم دے کہ اس طرح کرو اور اس طرح نہ کرو اس کے ہم قائل نہیں ہیں.اس قسم کے دہریوں کے عقیدے موجود ہیں.اگر اسی طرح کا خدا کے متعلق کسی کا ایمان ہو تو یہ تو دہریوں کا بھی ہوتا ہے اور یہ کافی نہیں ہوتا.پس خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ ایک ذات ہے بلکہ یہ بھی ہیں کہ اس کی صفات کو بھی مانا جائے.پھر یہی نہیں کہ خدا کی صفات مان لے بلکہ یہ بھی ہے کہ ان کا ظہور مانے اور یہی قدر ہے.گویا خدا تعالی پر ایمان لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اول ذات اللہ پر ایمان لائے.دوسرے صفات اللہ پر ایمان لائے.تیسرے صفات کے ظہور پر ایمان لائے.اس تیسری شق کا رسول کریم ﷺ نے قدر نام رکھ کر علیحدہ بیان کر دیا ہے اور بتا دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی جن صفات کے ظہور کا تعلق بندوں سے ہے اس کا نام قدر ہے.ادھر ایمان بالقدر ایسی ضروری چیز ہے کہ رسول قضاء و قدر کے متعلق فکر اور تنازع کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی مؤمن ہی نہیں ہو سکتا جب تک قدر پر ایمان نہ لائے.اور یہ محض زور دینے کے لئے نہیں فرمایا بلکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ صفات الہیہ پر ایمان لانا جزو ایمان ہے.مگر اس کے ساتھ ہی ایک نهایت سخت بات بھی لگی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایمان بالقدر ایسی مشکل چیز ہے کہ اس کے متعلق فکر اور تنازع کرنا انسان کو ہلاک کر دیتا ہے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدْرِ - فَغَضِبَ حَتَّى اِحْمَرَّ وَجْهُهُ حَتَّى كَأَنَّمَا فُقِنَ فِي وَجْنَتَيْهِ الرُّمَّانُ فَقَالَ اَبِهَذَا أُمِرْتُمْ أَمْ بِهَذَا أرْسِلْتُ إِلَيْكُمْ إِنَّمَا مَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ حِيْنَ تَنَازَعُوا فِي هَذَا الْأَمْرِ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ عَزَمْتُ عَلَيْكُمْ اَلا تَنَازَعُوا فِيهِ ( ترندی ابواب القدر باب ما جاء في التشديد في الخوض في القدر) ہم لوگ قضاء و قدر کے مسئلہ کے متعلق بیٹھے ہوئے جھگڑ رہے تھے کہ رسول کریم باہر تشریف لائے ہماری باتوں کو سن کر آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا.اور یوں معلوم ہو تا تھا کہ گویا
لوم جلد ۳ ۵۳۶ تقدیر الهی آپ کے منہ پر انار کے دانے توڑے گئے ہیں اور آپ نے فرمایا کہ کیا تم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا؟ کیا خدا نے مجھے اسی غرض سے بھیجا تھا؟ تم سے پہلی قومیں صرف قضاء و قدر کے مسئلہ پر جھگڑا کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئی ہیں.میں تمہیں تاکید کرتا ہوں میں تمہیں تاکید کرتا ہوں کہ اس امر میں جھگڑنا اور بحث کرنا چھوڑ دو.کہتا تھا.اسی طرح حدیث میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرہ کے پاس کوئی شخص آیا اور کہا کہ آپ کو فلاں شخص سلام کے آپ نے جواب دیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس نے اسلام میں کچھ بدعات نکالی ہیں.اگر یہ درست ہے تو میری طرف سے اس کو سلام کا جواب نہ دینا کیونکہ میں نے رسول کریم سے سنا ہے کہ آپ کی امت میں سے بعض پر عذاب آئے گا اور یہ قدر پر بحث کرنے والے لوگ ہوں گے.(ترمذی ابواب القدر باب ما جاء في الرضاعبا لقضاء) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قدر کا مسئلہ ایک مشکل مسئلہ ہے جس پر بحث کرنے پر سلب ایمان کا خطرہ ہے بلکہ رسول کریم ﷺ نے پیشگوئی کی ہے کہ اس امت میں سے ایک جماعت پر اسی سبب سے عذاب آوے گا.مگر ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ اس مسئلہ پر ایمان لانے کی بھی بڑی سختی سے تاکید کی گئی ہے اور اس کے نہ ماننے والے کو کافر قرار دیا گیا ہے اور کسی مسئلہ پر ایمان اسے سمجھے بغیر حاصل ہی نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک کسی شخص کو یہ معلوم نہ ہو کہ میں نے کس بات کو ماننا ہے وہ مانے گا کیا؟ اور ایسی بات کے منوانے سے جس کو انسان سمجھے نہیں فائدہ ہی کیا ہو سکتا ہے؟ پس مسئلہ تقدیر کے متعلق ہمیں نہایت احتیاط سے کام لینا چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ شریعت نے جب اس مسئلہ میں جھگڑنے سے منع کیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے ؟ اور جب اس پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے تو اس کا کیا مطلب ہے؟ تا ایسا نہ ہو کہ بے احتیاطی کے نتیجہ میں ہلاکت اور تباہی کا سامنا کرنا پڑے.یہ مسئلہ در حقیقت ایک دینوی پل صراط ہے کہ اگر اس پر قدم نہ رکھے تو جنت سے محروم رہ جاتا ہے اور اگر رکھے تو ڈر ہے کہ کٹ کر دوزخ کے تہہ خانے میں نہ جا پڑے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ جس طرح پل صراط پر قدم رکھے بغیر تو کوئی انسان جنت میں جاہی نہیں سکتا اور اس پر چلنے میں دونوں امکان ہیں گر جائے یا بچ جاوے.اسی طرح مسئلہ تقدیر کا حال ہے اس کو نہ سمجھے تو ایمان بالکل جاتا رہتا ہے اور اگر اس پر بحث کرے تو دونوں
م جلد ۴ ۵۳۷ تقدیر الهی باتیں ہیں خواہ صحیح سمجھ کر قرب الی اللہ حاصل کرے خواہ غلط سمجھ کر تباہ و برباد ہو جاوے.اس جگہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہی بات تھی تو رسول کریم ال نے یہ کیوں فرمایا کہ اس مسئلہ پر بحث نہ کرو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کا مطلب یہ نہ تھا کہ مطلق بحث نہ کرو.بلکہ یہ کہ عقلی ڈھکوسلوں سے کام نہ لو بلکہ اس مسئلہ کو ہمیشہ شریعت کی روشنی میں دیکھو اور اگر آپ کا یہ مطلب نہ ہوتا تو ہم خود رسول کریم ﷺ کو اس مسئلہ کے متعلق مختلف اوقات میں تفصیلات بیان کرتے ہوئے نہ پاتے.آپ کا خود اس مسئلہ کی تشریح کرنا اور اس پر جو اعتراض وارد ہوتے ہیں ان کا جواب دیتا پھر قرآن کریم کا اس مسئلہ پر تفصیلی بحث کرنا بتاتا ہے کہ جس بات سے منع کیا گیا ہے وہ اس مسئلہ کی تحقیق نہیں بلکہ اس مسئلہ کو شریعت کی مدد کے بغیر حل کرنا ہے.اور یہ بات واقع میں ایسی خطرناک ہے کہ اس کا نتیجہ دہریت، بے دینی اور اباحت کے سوا اور کچھ نہیں نکل سکتا.قدر کا مسئلہ خدا تعالیٰ کی صفات سے تعلق رکھتا.پس اگر کوئی اس مسئلہ کو حل کر سکتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے.خدا اور اس کے رسول کے سوا کسی کی طاقت اور مجال نہیں کہ اس مسئلہ کی حقیقت بیان کر سکے.عقل اس میدان میں ایسی ہی بے بس ہے جیسے ایک چھ ماہ یا سال کا بچہ ایک خطرناک جنگل میں.اس کو اس جنگل سے اگر کوئی چیز نکال سکتی ہے تو وہ شریعت کی رہبری ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ یہ مسئلہ عقل میں تو آہی نہیں سکتا بلکہ میرا یہ منشاء ہے کہ عقل بلا شریعت کی رہبری کے اس مسئلہ کو نہیں سمجھ سکتی.اللہ تعالیٰ کے بتانے پر اس کی ہدایت سے عقل اس مسئلہ کو خوب سمجھ سکتی ہے اور اگر عقل انسانی اس کو تب بھی سمجھ نہ سکتی تو اس پر ایمان لانے کا حکم بھی نہ ملتا.جن لوگوں نے اس مسئلہ کو عقل کے ذریعہ حل کرنا چاہا ہے وہ بڑی بڑی خطرناک گمراہیوں کا شکار ہوئے ہیں اور دوسروں کو بھی گمراہ کرنے کا باعث ہوئے ہیں.چنانچہ ہندوؤں میں تناسخ کا مسئلہ تقدیر ہی کے نہ سمجھنے مسئلہ تقدیر کے نہ سمجھنے کا نتیجہ کی وجہ سے پیدا ہوا ہے اور عیسائیوں میں کفارہ کا مسئلہ اس کے نہ جاننے کی وجہ سے بنایا گیا.اول تو رحم کا انکار کیا گیا اس کے نتیجہ میں کفارہ کا مسئلہ پیدا ہوا اور کفارہ کے نتیجہ میں امنیت اور شریعت کو لعنت قرار دینے کے مسائل پیدا ہوئے اور پھر لازمی طور پر اباحت کا مسئلہ پیدا ہوا.اسی طرح قدر ہی کے مسئلہ کو نہ سمجھنے کی وجہ سے کے موجودہ سائنس دانوں میں دہریت آئی.پھر اسی کے نہ سمجھنے سے یہودیوں میں
انوار العلوم جلد " ۵۳۸ تقدیرانی نجات خاص کا مسئلہ پیدا ہو گیا.پس یہ مسئلہ بہت اہم ہے اور اس کو نہ سمجھ کر ہندوؤں میں تناسخ ، عیسائیوں میں کفارہ اور یہودیوں میں نجات خاص، سائنس دانوں میں دہریت اور مسلمانوں میں ایک طرف اباحت اور دوسری طرف ذلت و نکبت آئی ہے.اگر یہ لوگ اس مسئلہ کو سمجھتے تو کبھی ٹھو کر نہ کھاتے.چنانچہ قرآن کریم مختلف اقوام کی گمراہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقٌّ قَدْرِهِ - (الانعام:۹۲) انہوں نے خدا تعالیٰ کی صفات کے مسئلہ کو اچھی طرح نہیں سمجھا اسی سے ٹھوکر کھا کر انہوں نے نئے نئے عقیدے پیدا کرلئے..تو تمام مذاہب کی حقیقت اور اصلیت سے پھر جانے کی یہی وجہ ہے کہ ان کے پیرؤوں نے صفات الہیہ کے ظہور کے مسئلہ کو یعنی تقدیر کو صحیح طور پر نہ سمجھا.پس یہ نہایت نازک مسئلہ ہے اور اس میں بہت غور و تحقیق اور بہت بڑی احتیاط کی ضرورت ہے تاکہ انسان ایک طرف ایمان پر قائم ہو جائے اور دوسری طرف خدا کے غضب سے بھی بچا رہے ورنہ بغیر اس کی تحقیق اور اس کے جاننے کے اس کا ماننا ہی کیا ہوا؟ کیا کہیں خدا تعالیٰ نے کہا ہے کہ اگر ہمالیہ پہاڑ کو مان لو کہ پہاڑ ہے یا راوی دریا کو مان لو کہ دریا ہے یا لاہور شہر کو مان لو کہ شہر ہے تو نجات پا جاؤ گے ؟ ہر گز نہیں.کیونکہ ان چیزوں کا مانا نجات کا باعث نہیں ہو سکتا کیونکہ نجات کا باعث وہی چیزیں ہو سکتی ہیں اور روحانیت کی ترقی انسی چیزوں سے ہو سکتی ہے جو روحانیت سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کا ماننا یہی ہے کہ ان کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھا جائے اور اگر ان کی حقیقت کو نہ سمجھا جائے تو پھر ماننا کیسا؟ پس اس مسئلہ کو ماننے کے مسلمانوں نے مسئلہ تقدیر میں بیہودہ طور پر دخل دیا لئے اس کے متعلق نہایت غور و فکر کی ضرورت ہے مگر ادھر رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اس مسئلہ میں جن قوموں نے تنازع کیا ہے وہ ہلاک کی گئی ہیں اور میری امت میں سے بھی ایک قوم ہوگی جو اسی وجہ سے مسخ کی جائے گی (ترمذی.ابواب القدر باب ما جاء في الرضاء بالقضاء مگر باوجود اس کے کہ رسول کریم ﷺ نے اس میں تنازع نہ کرنے کے متعلق تاکید فرمائی ہے اور باوجود اس کے کہ اسے ایمان کا جزو قرار دیا ہے افسوس ہے کہ مسلمانوں نے نہایت بیہودہ طور پر اس میں
رالعلوم جلد ۴ ۵۳۹ تقدیر الهی دخل دیا ہے اور بجائے اس کے کہ اپنے عقیدے کی خدا تعالیٰ کے بیان یعنی قرآن کریم پر بناء رکھتے انہوں نے اپنی عقل پر بناء رکھی اور پھر قرآن کریم سے اس کی تائید چاہی.اور قرآن وہ ہے جو کہتا ہے كُلا تُمِد هَؤُلَاءِ وَ هَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ (بنی اسرائیل: ۲۱) پھر وہ ہر مسئلہ کے تمام پہلوؤں کو بیان کرتا ہے.اب اگر کوئی کسی مسئلہ کے ایک پہلو کو لے لے اور باقیوں کو چھوڑ دے تو وہ کہے گا تو یہی کہ میں نے قرآن سے لیا ہے لیکن دراصل اس نے قرآن سے نہیں لیا بلکہ قرآن کو آڑ بنا لیا ہے.اگر وہ قرآن سے لیتا تو اس کے سب پہلوؤں کو لیتا نہ کہ ایک پہلو کو لے لیتا اور باقیوں کو چھوڑ دیتا.ایک دفعہ میں ایک جگہ گیا.اس وقت میں چھوٹا بچہ تھا اور مدرسہ میں پڑھتا تھا.وہاں میں نے بورڈنگ میں دیکھا کہ ایک لڑکا ریوڑیاں کھا رہا تھا اور ایسی طرز پر کھا رہا تھا کہ اس کی حالت قابل نہیں تھی.یعنی ریوڑیوں کو اس نے چھپایا ہوا تھا جیسے ڈرتا ہے کہ اور کوئی نہ دیکھ لے.مجھے ہنسی آگئی اور میں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو؟ کہنے لگا سنا ہے حضرت مسیح موعود کو ریوڑیاں پسند ہیں اس سنت کو پورا کرتا ہوں.میں نے کہا آپ تو کو نین بھی کھاتے ہیں وہ بھی کھاؤ.تو جہاں انسان اپنے آپ کو بچانا چاہتا ہے وہاں ایک پہلو لے لینا اور دوسرا چھوڑ دینا ہمیشہ ایسی باتوں کو لے لیتا ہے جو اس کے حق میں مفید ہوں اور دوسری باتوں کو چھوڑ دیتا ہے.مگر جو لوگ حق کے طالب ہوتے ہیں وہ سب پہلوؤں کو مد نظر رکھتے ہیں اور یہ پرواہ نہیں کرتے کہ اس طرح ہمارے خیال یا میلان کے خلاف کوئی اثر پڑے گا.اب اسی اختلاف کو دیکھ لو جو ہماری جماعت میں ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ میں شرعی نبی نہیں.ہاں ایسا نبی ہوں کہ رسول کریم کا خادم ہونے کی وجہ سے نبوت کا درجہ ملا اور میں امتی نبی ہوں.اب ایک دو آدمی اٹھے جو کہتے ہیں کہ اگر نبی کے لئے شریعت لانا ضروری ہے تو حضرت مسیح موعود بھی کہتے ہیں کہ میں احکام شریعت لایا ہوں پس آپ شرعی نبی ہوئے.انہوں نے دوسرا پہلو چھوڑ دیا پھر کچھ اور لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں نبی نہیں ہوں پس آپ کسی قسم کے نبی نہیں.انہوں نے بھی دوسرا پہلو چھوڑ دیا.لیکن ہم دونوں پہلوؤں کو لیتے ہیں کہ حضرت صاحب شریعت والے نبی نہیں ہیں لیکن امتی نبی ہیں.اگر اختلاف کرنے والے لوگ دونوں
لوم جلد بهم ۵۴۰ تقدیر الهی پہلوؤں کو لیتے تو ٹھو کر نہ کھاتے.ہم نے دونوں پہلوؤں کو لیا ہے کہ آپ نبی بھی ہیں اور امتی بھی.تو یہ عام قاعدہ ہے کہ جن لوگوں میں تقویٰ اور دیانت نہیں ہوتی اور نہ صاف طور پر انکار کرنے کی جرأت ہوتی ہے وہ یہ طریق اختیار کیا کرتے ہیں کہ ایک حصہ کو لے لیتے ہیں اور دوسرے کو چھوڑ دیتے ہیں اور ایک حصہ کو لے کر کہتے ہیں کہ ہم تو اس کو مانتے ہیں.حالانکہ وہ در حقیقت نہیں مانتے جیسا کہ بعض مسلمان کہلانے والے کہہ دیا کرتے ہیں کہ ہم قرآن کے حلم لا تَقْرَبُو الصَّلوةَ (النساء: ۴۴) پر عمل کرتے ہیں.جب کہا جائے کہ اس کے اگلے حصہ کو کیوں چھوڑتے ہو تو کہتے ہیں سارے قرآن پر کون عمل کر سکتا ہے.تو یہ ایک فتنہ کا طریق ہوتا ہے تقدیر کے متعلق مسلمانوں کے غلط عقائد کی بنیاد اور اس سے رسول کریم نے منع فرمایا ہے.لیکن افسوس مسلمانوں نے ممانعت کا کوئی خیال نہ کیا اور اس پر عمل کر کے بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں.ان میں سے بعض نے اپنے عقائد کی بنیاد یونانی فلسفہ پر رکھی.بعض نے ہندوستان کے فلسفیوں کے عقائد پر رکھی یعنی وحدت وجود پر بعض نے دہریت پر.ہندوستان میں وحدت الوجود کا مسئلہ بہت پھیلا ہوا تھا.اس میں اور تقدیر میں کوئی فرق نہ سمجھا گیا اور اسی کو تقدیر قرار دے دیا گیا اور اس پر اپنے عقائد کی بنیاد رکھ کر یہ سمجھ لیا گیا کہ جو کچھ ہم کرتے ہیں وہ خدا ہی کراتا ہے بندہ کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.گویا بندہ بندہ ہی نہیں بلکہ خدا ہے.ان کے مقابلہ میں دوسروں نے یہ کہا کہ جو کچھ انسان کرتا ہے اس میں خدا کا کوئی دخل نہیں ہے.سب کچھ بندہ کے اپنے ہی اختیار میں ہے.اس عقیدہ کی بنیاد فلسفہ یونان پر تھی.تو ان دونوں فلسفوں پر مسلمانوں نے تقدیر کے متعلق اپنے عقائد کی بنیاد رکھی اور پھر ان حقیقت اور اصلیت سے دور فلسفوں کو قرآن کریم کے ذریعہ مضبوط کرنا چاہا چنانچہ وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ ہمارا چلنا پھرنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، چوری کرنا زنا کرنا ڈاکہ مارنا، ٹھگی کرنا سب خدا کا ہی فعل ہے ہمارا نہیں ہے.وہ کہتے ہیں کہ یہی قرآن سے ثابت ہے.اور جنہوں نے کہا کہ خدا پارلیمینٹری حکومت کے بادشاہ جتنا بھی ہمارے افعال میں اختیار نہیں رکھتا.ایسا بادشاہ تو پھر بھی احکام پر دستخط کرتا ہے لیکن خدا اتنا بھی نہیں کرتا بلکہ ایک ایسا وجود ہے جس کا دنیا کے کاروبار میں کوئی دخل نہیں ہے.وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ قرآن سے ثابت ہے حالانکہ دونوں کی باتیں غلط ہیں.
انوار العلوم جلد ۴ ۵۴۱ تقدیر الهی یہ کہنا کہ جو کچھ انسان کرتا ہے وہ انسان نہیں کرتا بلکہ قرآن ان باتوں کو رد کرتا ہے خدا ہی کرتا ہے.اور یہ کہنا کہ جو کچھ کرتے ہیں ہم ہی کرتے ہیں خدا کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.یہ دونوں ایسی تعلیمیں ہیں کہ جن کو عقل ایک منٹ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتی.اور کسی قرآن کریم کے پڑھنے والے کا یہ خیال کر لینا کہ ان میں سے کوئی ایک تعلیم قرآن کریم میں پائی جاتی ہے ایک بیہودہ اور لغو بات ہے.میں نے قرآن کریم کو الحمد سے لے کر والناس تک اس بات کو مد نظر رکھ کر پڑھا ہے کہ اس مسئلہ کے متعلق وہ کیا کہتا ہے؟ لیکن میں یقینی طور پر اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور اگر کوئی اور پڑھے گا تو وہ بھی اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ الحمد کے الف سے لے کر والناس کے س تک ایک ایک لفظ ان دونوں باتوں کو رد کر رہا ہے اور قرآن کریم ان کو جائز ہی کس طرح رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ دونوں غلط ہونے کے علاوہ اخلاق کو قتل اور روحانیت کو تباہ کرنے والی ہیں.اسلام نے اس مسئلہ کے متعلق وہ تعلیم بیان کی ہے کہ اگر کوئی اسے سمجھ لے تو باخدا اور بڑے باخد الوگوں میں سے بن ہے.اور اس طرز پر بیان کی ہے کہ کوئی عقل اور کوئی علم اور کوئی فلسفہ اس پر اعتراض نہیں کر سکتا اور بہت مفید تعلیم ہے.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ تقدیر یہ ہے کہ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ خدا ہی کراتا ہے.مثلاً اگر کسی کو قتل کر دیں تو خدا ہی کرتا ہے ہم کیا کر سکتے ہیں.اور دوسرے جو یہ کہتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے کاموں میں دخل دینے کی خدا کو کیا ضرورت ہے.مثلاً تھوکنا پیشاب کرنا وغیرہ ان میں خدا کا کیا دخل ہے.اگر ان میں خدا کا دخل مانا جائے تو یہ ایک ہتک ہے.ان دونوں گروہوں نے قرآن کریم کی جن آیات پر اپنے خیالات کی بنیاد رکھی ہے ان میں سے بعض کے متعلق اس وقت میں بیان کرتا ہوں تاکہ پتہ لگ جائے کہ ان کی بنیاد کیسی بودی ہے.سکتا وہ جو یہ کہتے ہیں کہ جو کچھ اس خیال کی تردید کہ ہر ایک فعل خدا ہی کراتا ہے انسان کرتا ہے وہ خدا ہی کراتا ہے اس میں انسان کا کچھ دخل نہیں ہوتا وہ اپنی تائید میں سورۃ صافات کی یہ آیت پیش کرتے ہیں.والله خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ (الفت: ۹۷) کہ اللہ نے تم کو پیدا بھی کیا ہے اور تمہارے عمل کو بھی پیدا کیا ہے.وہ کہتے ہیں جب
دم جلدی ۵۴۴۲ تقدیر الهی.ہمیں بھی خدا نے پیدا کیا اور ہمارے عمل کو بھی خدا نے پیدا کیا تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ جو کچھ کر رہا ہے خدا ہی کر رہا ہے.پھر کون ہے جو کہے کہ میں کچھ کرتا ہوں.وہ سمجھتے ہیں کہ اس آیت نے اس مسئلہ کو ان کے خیال کے مطابق صاف طور پر حل کر دیا ہے.لیکن در حقیقت انہوں نے وہی غلطی کھائی ہے جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.اور وہ یہ کہ انہوں نے آیت کا ایک ٹکڑا لے لیا ہے اور دوسرے کو ساتھ نہیں ملایا.اسی آیت سے پہلی آیت یہ ہے.قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (المقت:٩٦) عربی قاعدہ کے لحاظ سے ما کبھی فعل پر آکر اس کے معنی مصدر کے کر دیتا ہے اور کبھی وہ موصولہ ہوتا ہے جس کا ترجمہ اردو میں " جو " یادہ جو " کرتے ہیں جو لوگ وَاللهُ خَلَقَكُمْ وَ مَا تَعْمَلُونَ کے معنی یہ کرتے ہیں کہ اللہ نے تم کو بھی پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو بھی.وہ اس جگہ مصدر کے معنی لیتے ہیں.لیکن پہلی آیت سے ظاہر ہے کہ یہاں مصدر کے معنی نہیں کیونکہ پہلی آیت یہ ہے کہ قَالَ اتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ کو ملا کر پڑھا جائے اور اس کے یہ معنی کئے جائیں کہ ”حالا نکہ اللہ نے تم کو بھی پیدا کیا اور تمہارے اعمال کو بھی." تو اس آیت کے معنی ہی کچھ نہیں بنتے.اور دوسری آیت پہلی کو رد کر دیتی ہے.کیونکہ پہلی آیت میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ تم کیوں اس چیز کو پوجتے ہو جسے خود خراد کر بناتے ہو.اور دوسری میں یہ بتایا گیا ہے کہ بھی اور تمہارے اعمال کو بھی خدا نے پیدا کیا ہے.اور یہ عبارت نہ صرف بے جوڑ ہے بلکہ الٹ ہے کیونکہ جب خدا نے ہی ان کے عمل پیدا کئے ہیں تو ان سے کیوں پوچھا جاتا ہے کہ تم بتوں کو کیوں پوجتے ہو ؟ پس یہ معنی اس آیت کے ہو ہی نہیں سکتے.بلکہ ان دونوں آیتوں کے یہ معنی ہیں کہ کیا تم لوگ اس چیز کی پوجا کرتے ہو جس کو خود اپنے ہاتھ سے خراد تے ہو.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تم کو بھی پیدا کیا ہے اور اس چیز کو بھی پیدا کیا ہے جسے تم بناتے ہو یعنی بتوں کو.اور ”ا“ اپنے مابعد کے ساتھ جس طرح پہلی آیت میں مفعول کے معنوں میں ہے اسی طرح دوسری آیت میں بھی اور مَا عَمَلُكُمْ کے معنی مَعْمُولُكُمْ کے ہیں.یعنی جو چیز تم بناتے ہو.غرض اس آیت کے معنی ہی غلط کئے جاتے ہیں اور خود اس آیت سے پہلی آیت اس کے معنوں کو حل کر دیتی ہے.اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں انسان کے اعمال کی پیدائش کا کہیں ذکر نہیں.
۵۴۳ تقدیرانی اس آیت کے سوا یہ لوگ کچھ اور آیات بھی پیش کرتے دوسری آیت کا صحیح مطلب ہیں جن میں سے ایک دو موٹی موٹی آیتوں کا ذکر میں اس وقت کر دیتا ہوں.ایک یہ آیت پیش کی جاتی ہے.لَّنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللهُ لَنَا : هُوَ مَوْلنَا ، وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَ كُل الْمُؤْمِنُونَ (التوبه : (۵) کہ ہمیں نہیں پہنچے گا کچھ بھی مگر وہی جو اللہ نے لکھ چھوڑا ہے اللہ تعالی ہی ہمارا مولی ہے اور اسی پر توکل کرتے ہیں مؤمن.وہ کہتے ہیں کہ جب خدا کہتا ہے کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو پہلے اس کے لئے لکھ چھوڑا گیا.ہے.اب کھانا دانہ کپڑا لتا روپیہ پیسہ جس قدر خدا نے لکھ چھوڑا ہے کہ اتنا اتنا فلاں کو ملے اس سے زیادہ یا کم نہیں ہو سکتا.یا یہ کہ فلاں فلاں کو فلاں طریق سے قتل کرے.فلاں فلاں جگہ فلاں کے ہاتھ سے پھانسی پائے.تو پھر انسان کا کیا اختیار؟ حالانکہ بات بالکل اور ہے.اس جگہ کفار کے ساتھ جنگ کا ذکر خدا تعالیٰ فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ جب مسلمانوں کو جنگ سے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو منافق لوگ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا بندو بست پہلے سے کر رکھا تھا اس لئے ہم اس تکلیف سے بچ گئے.مسلمان بیوقوف ہیں کہ اپنے سے طاقتور اور زبر دست لوگوں سے مقابلہ کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.نادان تم ہو اور اندھے تم ہو.تم سمجھتے ہو کہ مسلمان ہار جائیں گے اور کفار ان پر غلبہ پالیں گے.لیکن یہ نہیں ہو گا.کیوں ؟ اس لئے کہ خدا نے اپنی سنت مقررہ کے ماتحت کہ اس کے رسول ہمیشہ غالب رہیں گے مقدر کر چھوڑا ہے کہ مسلمان جیت جائیں گے.پس یہاں ہر ایک عمل خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت سرزد ہونے کا ذکر نہیں بلکہ صرف اس امر کے مقدر ہونے کا ذکر ہے کہ مؤمن کفار پر غلبہ پائیں گے اور جیت جائیں گے.نہ یہ کہ ڈاکہ مارنا، چوری کرنا، ٹھگی کرنا جھوٹ بولنا خدا نے لکھ دیا ہے.چنانچہ دوسری جگہ خدا تعالیٰ کی فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَا غَلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِى (المجادلة: ۲۲) میں نے مقدر کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول اپنے دشمنوں پر غالب رہیں.پس اس آیت میں کتب سے مراد انسانی اعمال نہیں بلکہ رسول اور مؤمنوں کی فتح مراد ہے.-
م جلد ۴ ۵۴۴ تقدیرانی تیسری آیت کا صحیح مطلب پھر ایک آیت یہ پیش کرتے ہیں.وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيْرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ اعْيُنَ لا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَذَانَّ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَيْكَ كَالْاَ نْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلَّ ، أولئِكَ هُمُ الْغَفِلُونَ (الاعراف: ۱۸۰) فرمایا.ہم نے پیدا کر چھوڑے جہنم کے لئے جنوں اور انسانوں میں سے بہت لوگ اور ان کی شناخت کی علامت یہ ہے کہ ان کے دل ہیں مگر سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر سنتے نہیں.وہ جانوروں کی طرح ہیں.بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ اور غافل.اس آیت کو لے کر کہتے ہیں کہ دیکھو خدا کہتا ہے کہ میں نے جنم کے لئے بہت سے جن وانس پیدا کئے ہیں.پس جب خدا نے بہت سے لوگوں کو جہنم کے لئے پیدا کیا ہے.تو پھر کون ہے جو ان لوگوں کو جنہیں جہنم کے لئے پیدا کیا گیا ہے برے کام کرنے سے روک سکے.ضرور ہے کہ وہ ایسے اعمال کریں جو انہیں دوزخ میں لے جائیں.لیکن اس آیت کے بھی جو معنی کئے جاتے ہیں وہ غلط ہیں.عربی زبان میں لام کا حرف کبھی سبب بتانے کے لئے آتا ہے اور کبھی نتیجہ بتانے کے لئے.جسے اصطلاح میں " لاَمُ الْعَاقِبَةِ " کہتے ہیں.اس جگہ لِجَهَنَّمَ کا جو لام ہے وہ اسی غرض سے ہے اور اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم نے جن وانس کو اس لئے پیدا کیا ہے کہ ان کو جہنم میں داخل کریں کیونکہ یہ معنی دوسری آیات کے خلاف ہیں.جیسا کہ فرمایا ہے.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریت : ۵۷) میں نے جن وانس کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے.اور عبد کی نسبت اللہ تعالی فرماتا ہے.فَادْخُلِي جَنَّتِي - (الفجر : ۳۱) جو عبد ہوتا ہے اس کا مقام جنت ہے.پس ان آیات کی موجودگی میں وَلَقَدْ ذَرَانَا لِجَهَنَّمَ کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کہ بہت سے لوگوں کو جنم کے لئے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے.انسان کو تو صرف خدا کا عبد بننے اور جنت کا مستحق ہونے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.اور جب یہ معنی درست نہیں تو پھر اور معنی کرنے پڑیں گے اور وہ یہی ہیں کہ یہاں لام " لامُ الْعَاقِبَةِ " ہے اور اس آیت کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا مگر بجائے جنتی بننے کے دوزخ کے مستحق ہو گئے.چنانچہ لام ان معنوں میں عربی
انوار العلوم جلد ۴ ۵۴۱ تقدیرانی زبان میں بکثرت مستعمل ہے اور خود قرآن کریم میں بھی دوسری جگہ ان معنوں میں استعمال ہوا ہے.عربوں کے کلام میں اس کی ایک مثال یہ شعر ہے أمْوَالُنَا لِذَوِي الْمِيْرَاتِ نَجْمَعُهَا وَدُورُنَا لِخَرَابِ الدَّهْرِ نَبْنِيُّهَا یعنی ہم مال اس لئے جمع کرتے ہیں تا وارث اس کو لے جاویں.اور گھر اس لئے بناتے ہیں کہ زمانہ ان کو خراب کر دے.اب ظاہر ہے کہ مالوں کو جمع کرنے اور گھروں کے بنانے کی یہ غرض نہیں ہوتی.ہاں نتیجہ یہی ہوتا ہے.پس شاعر کی یہی مراد ہے کہ لوگ مال جمع کرتے ہیں اور رشتہ دار اس کو لے جاتے ہیں اور گھر بناتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ زمانہ ان گھروں کو خراب کر دیتا ہے.قرآن کریم میں ایک نہایت واضح مثال سورہ قصص میں آتی ہے جہاں اللہ تعالٰی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی نسبت فرماتا ہے.فَالْتَقَطَة آل فِرْعَوْنَ لِيَكُونَ لَهُمْ عَدُوًّا وَ حَزَنَا - (القصص : ٩) یعنی حضرت موسیٰ کو جب ان کی والدہ نے دریا میں رکھ دیا تو ان کو فرعون کے لوگوں نے اس لئے اٹھا لیا کہ وہ بڑا ہو کر ان کا دشمن بنے اور ان کے لئے باعث غم ہو.لیکن یہ بات ظاہر ہے کہ آل فرعون کی موسیٰ کے اٹھانے میں یہ نیت نہیں ہو سکتی تھی.بلکہ جیسا کہ اگلی آیت ہی میں ہے ان کی یہ نیت نہیں تھی بلکہ اس کے خلاف تھی.چنانچہ اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فرعون کی بیوی نے فرعون سے کہا کہ.عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَّا اَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (القصص: ١٠) یعنی قریب ہے کہ یہ بچہ ہمیں نفع دے یا ہم اسے بیٹا ہی بنالیں.لیکن وہ جانتے نہ تھے کہ وہ بڑا ہو کر ان کی تباہی کا موجب ہو گا.پس آیت کے یہی معنی ہیں کہ فرعون کے لوگوں نے اس کو اٹھا لیا لیکن آخر وہ بچہ ان کا دشمن ہوا اور ان کے لئے باعث غم ہوا اور یہی معنی اس جگہ وَلَقَدْ ذَرَ أَنَا لِجَهَنَّمَ میں لام کے ہیں.پس اس آیت سے بھی یہ استدلال کرنا کہ خدا تعالیٰ جبرا بعض لوگوں کو دوزخی بناتا ہے اور بعض کو جنتی درست نہیں ہے.
انوار العلوم جلد ۵۶ چوتھی آیت کا صحیح مطلب اسی طرح یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ.تقدیر الهی وَ قَالَ مُوسَى رَبَّنَا إِنَّكَ أَتَيْتَ فِرْعَوْنَ وَمَلَاةَ زِيْنَةً وَ اَمْوَالا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا رَبَّنَا لِيُضِلُّوا عَنْ سَبِيلِكَ ٥ (يونس: ۸۹) موسی نے کہا کہ اے خدا! تو نے فرعون اور اس کے سرداروں کو اس لئے دولت دی تھی تاکہ وہ لوگوں کو گمراہ کریں.لیکن اس آیت کا یہ بھی مطلب نہیں کہ ان کو لوگوں کے گمراہ کرنے کے لئے دولت دی گئی تھی بلکہ جیسا کہ پہلی آیت کے متعلق میں بتا آیا ہوں یہاں بھی لام عاقبت کا ہے اور مطلب یہ ہے کہ.اے خدا ! تو نے تو اس غرض سے ان کو دولت نہ دی تھی کہ لوگوں کو گمراہ کریں لیکن یہ ایسا ہی کرتے ہیں.پانچویں آیت کا صحیح مطلب پھر کہتے ہیں ایک آیت نے تو ہمارے مطلب کو بالکل صاف کر دیا.اور وہ یہ ہے.أَيْنَ مَا تَكُونُوا يُدْرِكُكُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُمْ فِي بُرُوعٍ تُشَيَّدَةٍ ، وَ اِنْ تُصِبْهُمْ حَسَنَةً يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ، وَإِنْ تُصِبْهُمْ سَيِّئَةَ يَقُولُوا هَذِهِ مِنْ عِنْدِكَ ، قُلْ كُلٌّ مِنْ عِنْدِ اللهِ ، فَمَالِ هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا (النِّسَاء : ۷۹) فرمایا.جہاں کہیں تم ہو گے وہیں تمہیں موت پہنچ جائے گی.خواہ مضبوط برجوں میں ہی کیوں نہ ہو.اگر ان کو بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ اللہ کی طرف سے ہے اور اگر برائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں کہ محمد ( ال ) کی طرف سے ہے فرمایا.ان کو کہہ دو سب اللہ ہی کی طرف سے ہے.ان کو ہو کیا گیا اتنی سی بات بھی نہیں سمجھتے کہتے ہیں دیکھو اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ بھلائی برائی خدا کی طرف سے پہنچتی ہے.مگر وہ سمجھتے نہیں کہ اول تو ہر ایک فعل کے خواہ برا ہو یا بھلا.نتائج اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتے ہیں اور اس بات سے کون انکار کرتا ہے کہ ہر ایک فعل کی سزا یا جزاء خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے ملتی ہے لیکن اگر یہ بھی مان لیا جائے کہ بھلائی اور برائی خدا تعالی ہی کی طرف سے آتی ہے تو پھر بھی کچھ حرج نہیں.اصل بات یہ ہے کہ کبھی خادم کے کام کو آقا کی طرف منسوب کر
دم جلد ۴ ۵۴۷ تقدیرانی دیا جاتا ہے خواہ اس کا منشاء اس کام کے متعلق ہو یا نہ ہو.مثلاً ایک آقا کا نوکر اگر کسی کو کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو گو آقا کی یہ غرض نہیں ہوتی کہ اس کا نوکر کسی کو تکلیف پہنچائے لیکن بعض دفعہ آقا کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ تمہاری طرف سے ہمیں یہ تکلیف پہنچی.اور اس طرح نو کر کے تکلیف دینے کو آقا کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.اس قاعدہ کے ماتحت اگر اس آیت کے معنی کئے جاویں تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ چیزیں جن کے بد استعمال سے گناہ پیدا ہوا وہ چونکہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق کہہ دیا گیا کہ گویا بدی اور نیکی اس کی طرف آئی ہے.اور ان معنوں سے اعمال میں جبر ثابت نہیں ہوتا اور یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکلتا کہ خدا تعالی جبرا پکڑ کر بدی کرواتا ہے بلکہ یہ کہ خدا نے انسان میں بعض طاقتیں پیدا کی ہیں جن کو برے طور پر استعمال کر کے انسان زنایا چوری کرتا ہے.لیکن اصل معنی اس آیت کے وہی ہیں جو میں پہلے بتا چکا ہوں.یعنی یہاں اعمال کا ذکر ہی تو نہیں بلکہ دکھ اور سکھ کا ذکر ہے.پہلے تو اللہ تعالی منافقوں سے فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی ہو تم کو موت پہنچ جارے گی.یعنی خدا تعالیٰ نے تمہاری بداعمالیوں کی وجہ سے تمہارے لئے ہلاکت کی سزا تجویز کی ہے.اب چونکہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے خواہ کتنی بھی احتیاط کرو کچھ نہیں کر سکتے.پھر فرماتا ہے کہ یہ لوگ سکھ کو اللہ تعالیٰ کی طرف اور دکھ کو تیری طرف منسوب کرتے ہیں یہ ان کی نادانی ہے.تیرا جزاء وسزا میں کیا دخل اور تعلق ہے.سکھ اور دکھ بلحاظ نتائج کے اللہ تعالی کی طرف سے آتا ہے.یعنی یہ اللہ تعالٰی فیصلہ فرماتا ہے کہ فلاں شخص کو فلاں عمل کے بدلہ میں فلاں سکھ یا فلاں دکھ پہنچے تیرا اس میں کیا تعلق ہے.یہ تو خدائی طاقت ہے جو اس نے کسی بندے کے اختیار میں نہیں دی.اور اس لئے فرماتا ہے کہ ان لوگوں کو کیا ہوا کہ یہ اتنی ی بات بھی نہیں سمجھ سکتے.چنانچہ اگلی ہی آیت میں اس کی اور تشریح فرما دی کہ.ما أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللهِ وَمَا أَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ - (النا: ٨٠) یعنی جو کچھ سکھ تجھے پہنچتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے اور جو دکھ پہنچتا ہے وہ تیری جان کی طرف سے ہے.اب اگر پہلی آیت کے یہ معنی لئے جاویں کہ سب اعمال خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بن سکتے.اس آیت کے معنی تب ہی ہو سکتے ہیں جب کہ پہلی آیت کے وہ معنی کئے جائیں جو میں نے کئے ہیں اور اس صورت میں اس دوسری آیت کے یہ معنی
لوم جلد ۴ ۵۴۸ تقدیر الی ہوں گے کہ جو نیک بدلہ ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے کیونکہ نیکی کی تحریک اس کی طرف سے ہوتی ہے اور جو دکھ ہو وہ انسان کی طرف سے ہوتا ہے.کیونکہ دکھ غلطی کا نتیجہ ہے اور غلطی کی تحریک اللہ تعالٰی کی طرف سے نہیں ہوتی.چھٹی آیت کا صحیح مطلب پھر کہتے ہیں ایک اور آیت نے تو مطلب بالکل صاف کر دیا ہے اور وہ یہ ہے.قُلْ لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ (ال عمران: ۱۵۵) ان سے کہہ دے کہ اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے تو تب بھی وہ لوگ جن کے متعلق قتل کا فیصلہ کیا گیا تھا اپنے قتل ہونے کی جگہوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سب کچھ خدا ہی کرتا ہے.اس کا جواب یہ ہے اول تو جیسا کہ میں پہلی آیت کے متعلق بیان کر چکا ہوں اس جگہ بھی جزاء کا ذکر ہے اعمال کا ذکر نہیں.یہ آیت جنگ احد کے متعلق ہے.اس جنگ میں پہلے تو منافق مسلمانوں کے ساتھ جنگ کے لئے نکل کھڑے ہوئے تھے.مگر عین موقع پر ایک ہزار آدمیوں میں سے تین سو آدمی واپس لوٹ آئے اور اس طرح انہوں نے اپنے نزدیک یہ سمجھا کہ ہم مسلمانوں کو دھوکا دے کر جنگ میں پھنسا آئے ہیں کیونکہ دشمن کے سامنے جا کر لوٹنا مشکل ہوتا ہے اور جنگ کے بعد مسلمانوں پر تمسخر اڑانا شروع کیا کہ یونسی تم نے اپنے آپ کو خطرہ میں ڈالا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ای نادانو! تم یہ سمجھ رہے ہو کہ ہم ساتھ جاکر مسلمانوں کو پھنسا آئے.ہماری مدد کے بھروسہ پر یہ لوگ جنگ کے لئے گئے تھے.سوسنو! اگر تم محفوظ قلعوں میں بھی ہوتے یعنی مدینہ جیسا غیر محفوظ مقام تو الگ رہا اگر قلعوں کی حفاظت بھی ہوتی تب بھی وہ لوگ جن پر جنگ فرض کر دی گئی تھی کفار کے مقابلہ میں جنگ کرنے کے لئے نکلنے سے نہ ڈرتے اور ضرور باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کرتے.پس اس جگہ کتب کے معنی مقدر ہونے کے نہیں ہیں بلکہ فرض کئے جانے کے ہیں.جیسا کہ فرمایا کہ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصَّيَامُ (البقرة.تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں اور القتل کے معنی قتل ہونے کے نہیں بلکہ قتل کرنے کے ہیں.اور ان معنوں میں یہ لفظ قرآن (۱۸۴ : کریم میں متعدد جگہ آیا ہے.جیسے کہ الْفِتْنَةٌ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ (البقرة : ٢) اور فَلَا يُسْرِفْ (۱۹۲
العلوم جلد ۴ اسلام ۵۴۹ تقدیرانی في الْقَتْلِ (بنی اسرائیل : (۳۴) اور اِنَّ قَتَلَهُمْ كَانَ خِطاً كَبِيرًا - (بنی اسرائیل : ۳۲) غرض اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ مؤمن تو اللہ تعالیٰ کے احکام کے مانے میں خوشی پاتا ہے.کبھی بھی سستی نہیں دکھاتا.مدینہ تو کوئی محفوظ قلعہ نہیں ہے.اگر مسلمان باہر نہ جاتے تو کافر یہاں آسکتے تھے.اگر قلعوں کی حفاظت ہوتی اور مسلمانوں کو باہر نکل کر حملہ کرنے کا حکم ہوتا.تب بھی ان کو یہ بات بری نہ لگتی اور شوق سے اپنے فرض کو ادا کرتے.پس ان آیتوں میں سے کسی سے بھی یہ اس خیال کی تردید کہ خدا کچھ بھی نہیں کرتا نہیں نکلتا کہ خدا انسان کو مجبور کرا کر اس سے ہر ایک فعل کراتا ہے اور جب یہ نہیں نکلتا تو ان لوگوں کا استدلال جو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک فعل خدا ہی کراتا ہے بالکل باطل ہو گیا.اور جو یہ کہتے ہیں کہ خدا کچھ بھی نہیں کرتا اور اس کا کوئی دخل نہیں ہے ان کا عقیدہ بھی قرآن کریم سے ہی غلط ثابت ہوتا ہے مثلاً اس آیت کو لے لو.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي (المجادلة: ۲۲) کہ میں نے فرض کر دیا ہے کہ میں اور میرے رسول اپنے مخالفین پر غالب ہوں.اب دیکھ لو ایک نبی جس وقت دنیا میں آتا ہے اس وقت اس کی حالت دنیوی لحاظ سے بہت کمزور ہوتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ خواہ ساری دنیا بھی اس کے خلاف زور لگائے اس پر غالب نہیں آسکتی.چنانچہ آج تک ایسا ہی ہو تا چلا آیا ہے کہ کبھی دنیا خدا تعالیٰ کے کسی رسول پر غالب نہیں آسکی اس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کا دخل ہے اور ضرور ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ دنیا ر سولوں پر غالب نہیں آسکتی؟ تو یہ خیال بھی غلط ثابت ہو گیا.اصل بات یہ ہے کہ جن لوگوں نے تقدیر کو اس طرح علم الہی اور مسئلہ تقدیر کا خلط قرار دیا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے خدا ہی کر رہا ہے ہمارا اس میں کچھ دخل نہیں ان کے خیال کی بنیاد گو مسئلہ وحدت الوجود پر ہے لیکن ان کو ایک اور مسئلہ سے ٹھوکر لگی ہے اور اسی نے مسلمانوں کو زیادہ فتنہ میں مبتلاء کیا ہے.بات یہ ہے کہ تی انہوں نے علم الہی اور تقدیر کے مسئلہ کو ایک دوسرے میں خلط کر دیا ہے حالانکہ یہ دونوں مسئلے بالکل علیحدہ علیحدہ ہیں.موٹا ثبوت اس کا یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک نام علیم اور ایک قدیر ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ اگر علم الہی اور تقدیر ایک ہی بات ہے تو خدا تعالیٰ کے یہ دو نام علیحدہ
دم جلد ۴ ۵۵۰ تقدیرالی علیحدہ کیوں ہیں؟ قدر قدیر سے تعلق رکھتا ہے یعنی قدرت والا اور علم علیم سے تعلق رکھتا ہے یعنی جانے والا.لیکن ان لوگوں نے اس بات کو سمجھا نہیں.وہ کہتے ہیں زید جو چوری کرنے چلا ہے.خدا کو یہ پتہ تھا یا نہیں کہ زید چوری کرنے جائے گا.اگر پتہ تھا اور زید چوری کرنے نہ ہائے تو خدا کا علم جھوٹا ہو جائے گا.اس لئے معلوم ہوا کہ زید چوری کرنے کے لئے جانے پر مجبور تھا اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خدا اسے ایسا کرنے پر مجبور کرتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو خدا کا علم جھوٹا نکلتا ہے.اس ڈھنگ سے یہ لوگ عوام پر قبضہ پالیتے ہیں اور ان سے منوا لیتے ہیں کہ ہر ایک فعل خدا تعالیٰ ہی کرواتا ہے.حالانکہ نادان بات کو الٹے طور پر لے جاتے ہیں.ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے کہ چونکہ خدا کے علم میں تھا کہ زید چوری کرے گا اس لئے وہ چوری کو چھوڑ نہیں سکتا.بلکہ بات یہ ہے کہ چونکہ زید نے چوری نہیں چھوڑنی تھی اس لئے خدا کو علم تھا کہ وہ چوری کرے گا.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک ایسا آدمی ہمارے پاس آتا ہے جس کی باتوں سے ہمیں پتہ لگ جاتا ہے کہ اس نے فلاں جگہ ڈاکہ مارنا ہے.اب کیا اس ہمارے جان لینے سے کوئی عظمند یہ کہے گا کہ چونکہ ہم نے جان لیا تھا کہ وہ فلاں جگہ ڈاکہ مارے گا اس لئے وہ ڈاکہ مارنے پر مجبور تھا اور ہم نے اس سے ڈاکہ مرد ایا ہے ہرگز نہیں.یہی حال خدا تعالیٰ کے علیم ہونے کا ہے.زید نے آج جو کام کرنا تھا بغیر خدا تعالیٰ کے مجبور کرنے کے کرنا تھا لیکن چونکہ خدا تعالٰی علیم ہے اور ہر بات کا اسے علم ہے اس لئے اس کے متعلق اسے علم تھا کہ زید ایسا کرے گا.اسی طرح زید نے چونکہ چوری نہیں چھوڑنی تھی بلکہ کرنی تھی اس لئے خدا تعالٰی کو علم تھا کہ اس نے چوری کرنی ہے اور جس نے چھوڑنی تھی اس کے متعلق اسے یہ علم ہے کہ وہ چوری چھوڑ دے گا.تو خدا تعالی کا علم کسی فعل کے کرنے کا باعث نہیں ہے بلکہ وہ فعل خدا تعالیٰ کے علم کا باعث ہے.مزید توضیح زمیندار بھائی شاید اس کو نہ سمجھے ہوں اس لئے پھر سناتا ہوں.بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ہر ایک فعل خدا کراتا ہے وہ اس کے ثبوت میں کہتے ہیں کہ خدا کو یہ پتہ تھا یا نہیں کہ عبد اللہ فلاں دن چوری کرے گا یا ڈاکہ مارے گا.اگر دہریوں کا خیال درست مان لیا جائے کہ خدا نہیں ہے تو کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ جو کچھ کرے گا اپنی مرضی اور اپنے خیال سے کرے گا.لیکن چونکہ خدا ہے اس لئے اس کو پتہ ہے کہ عبد اللہ فلاں دن یہ کام کرے گا.اگر وہ اس دن وہ کام نہ کرے تو خدا کا علم غلط ٹھرتا ہے.پس خدا اسے مجبور کرتا
دم جلوه ۵۵۱ ہے کہ وہ اس دن چوری کرے یا ڈاکہ مارے یا زنا کرے.ہم کہتے ہیں یہ غلط ہے کہ چونکہ خدا کو علم ہے کہ عبد اللہ نے فلاں دن چوری کرنی ہے اس لئے وہ چوری کرتا ہے.بلکہ یہ بات ہے کہ چونکہ عبداللہ نے اس دن ایسا کرنا تھا اس لئے یہ بات خدا کے علم میں آئی ہے.اگر اس نے چوری نہ کرنی ہوتی اور خدا کے علم میں یہ بات ہوتی کہ اس نے چوری کرنی ہے تو یہ جہل کہلا تا علم نہ کہلاتا.پس چور چوری اس لئے نہیں کرتا کہ خدا تعالیٰ کے علم میں یہ بات تھی کہ وہ چوری کرے گا بلکہ خدا تعالیٰ کو اس بات کا علم اس لئے ہوا کہ چور نے چوری کرنی تھی.غرض یہ دھو کا علم اور قدر کے ملا دینے کی وجہ سے لگا ہے لیکن یہ دونوں الگ الگ صفات ہیں اور ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں.اس جگہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے خدا تعالیٰ بُرا کام کرنے سے روک کیوں نہیں دیتا کہ خدا تعالی کو جب یہ علم تھا کہ فلاں آدمی فلاں وقت یہ برا کام کرے گا تو اسے روک کیوں نہیں دیتا؟ مثلاً اگر خدا کو علم ہے کہ فلاں شخص چوری کرے گا تو کیوں اس نے چوری کرنے سے اسے روک نہ دیا ؟ ہمارے پاس اگر ایک شخص سندر سنگھ ڈاکو آئے اور کہے کہ میں نے فلاں وقت جیون لال کے گھر ڈاکہ مارنا ہے تو اس علم کے باوجود اگر ہم چپ بیٹھے رہیں تو ہم مجرم ہوں گے کہ نہیں؟ یقیناً شرعی اخلاقی، تمدنی اور اپنے ملک کے قانون کے لحاظ سے ہم مجرم ہوں گے.حالانکہ ہو سکتا ہے کہ ہمیں کوئی اور کام ہو اور ہم جیون لال کو نہ بتا سکیں کہ اس کے گھر فلاں وقت ڈاکہ پڑے گا.یا تو ہو سکتا ہے کہ یہ خطرہ ہو کہ اگر بتایا تو ڈاکو ہمیں مار دیں گے.پس جب باوجود اس کے کہ اس و ڈاکو کو اپنے ارادہ سے باز رکھنے میں ہمیں خطرات ہیں اگر ہم اس کو باز نہیں رکھتے یا ایسے لوگوں کو اطلاع نہیں دیتے جو اسے باز رکھ سکتے ہیں ہم زیر الزام آجاتے ہیں.تو پھر خدا تعالی جو طاقتور اور قدرت والا ہے اس کو کسی کا ڈر نہیں اور کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اس پر زیادہ الزام آتا ہے کہ وہ علم رکھنے کے باوجود کیوں ڈاکو کو روک نہیں دیتا یا جس کے گھر ڈا کہ پڑنا ہو اس کو نہیں بتا دیتا تاکہ وہ اپنی حفاظت کا سامان کر لے.یہ عجیب بات ہے کہ انسان تو معذور بھی ہو کیونکہ کوئی نہ کوئی وجہ اس کی معذوری کی ہو سکتی ہے وہ باوجود اس کے پکڑا جائے مگر خدا پر باوجود اس کے قادر ہونے کے کوئی الزام نہ آئے؟
انوار العلوم جلد ) سلام ۵۵۲ تقدیرانی یہ اعتراض محض قلت تدبر کا نتیجہ ہے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق اس مثال کا پیش کرنا ہی غلط ہے.اور دنیا میں انسان کی پیدائش کی غرض کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یہ مثال بنائی گئی ہے.خدا کا تعلق جو بندوں سے ہے اس کی صحیح مثال یہ ہے کہ لڑکوں کا امتحان ہو رہا ہے اور سپرنٹنڈنٹ ان کی نگرانی کر رہا ہے اس کے لئے کیا یہ جائز ہے کہ جو لڑ کا غلط سوال حل کر رہا ہو اس کو بتا دے؟ نہیں.پس جب انسان کو دنیا میں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ اس کو امتحان میں ڈال کر انعام کا وارث بنایا جائے تو اگر اس کے غلطی کرنے پر اسے بتا دیا جائے کہ تو فلاں غلطی کر رہا ہے تو پھر امتحان کیا؟ اور انعام کس کا؟ اس معاملہ میں خدا تعالی کا جو تعلق بندوں سے ہے وہ وہی ہے جو اس سپرنٹنڈنٹ کا ہوتا ہے جو کمرہ امتحان میں پھر رہا ہو اور جو دیکھ رہا ہو کہ لڑکے غلط سوال بھی حل کر رہے ہیں اور صحیح بھی.پس باوجود علم کے اللہ تعالیٰ کا بندہ کو فرداً فردانہ روکنا اس کی شان کے خلاف نہیں بلکہ اس غرض کے عین مطابق ہے جس غرض کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.آج کل کے صوفیوں میں علم اور قدر میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے صوفیوں کے فقرے عجیب عجیب قسم کے خیالات پھیلے ہوئے ہیں اور بعض خاص فقرات ہیں جو اس وقت کے صوفیوں کے منہ چڑھے ہوئے ہیں اور جن کو خدا پرستی کی خاص علامت سمجھا جاتا ہے اور جن کے ذریعے سے وہ نادانوں پر اپنا رعب جماتے ہیں مگر عقلمند آدمی ان کے قابو میں نہیں آسکتا.چنانچہ میں اس کے متعلق اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں جو ایک لطیفہ سے کم نہیں.میں ایک دفعہ لاہور سے آ رہا تھا.دو تین دوست مجھے سٹیشن پر چھوڑنے آئے.یہ ۱۹۱۰ء کا واقعہ ہے.جب ہم ریل کے ایک کمرہ میں داخل ہونے لگے تو اس کے آگے کچھ لوگ کھڑے میاں محمد شریف صاحب جو آج کل امرتسر میں ای.اے.سی ہیں انہوں نے مجھے کہا آپ اس میں نہ بیٹھیں.اس میں فلاں پیر صاحب اور ان کے مرید ہیں.(یہ پیر صاحب پنجاب کے مشہور پیر ہیں اور اس وقت ہمارے صوبہ کے پیروں میں شاید ان کی گدی سب سے زیادہ چل رہی ہے شاید کچھ نقصان پہنچائیں.اس پر کوئی اور کمرہ تلاش کیا گیا مگر نہ ملا.میاں صاحب نے مشورہ دیا کہ سیکنڈ کلاس میں جگہ نہیں انٹرہی میں بیٹھ جائیں لیکن ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب بھی ساتھ تھے انہوں نے کہا نہیں اسی کمرہ میں بیٹھنا چاہئے.ان لوگوں کا ڈر کیا
رالعلوم جلد ۴ ۵۵۳ تقدیر الهی ہے.میں تو پہلے ہی دل سے یہ چاہتا تھا.چنانچہ میں اسی کمرہ میں جا کر بیٹھ گیا.کچھ دیر کے بعد جب گاڑی چلنے لگی.تو سارے لوگ چلے گئے اور معلوم ہوا کہ پیر صاحب اکیلے ہی میرے ہمسفر ہیں.اسٹیشن پر پیر صاحب سے لوگوں نے دریافت کیا تھا کہ آپ کچھ کھا ئیں گے تو انہوں نے انکار کر دیا تھا اور کہا تھا کہ مجھے اس وقت بھوک نہیں.میں تو امر تسر جا کر ہی کچھ کھاؤں گا لیکن جونہی گاڑی چلی انہوں نے اس سبز کپڑے کو جو پگڑی پر ڈالا ہوا تھا اور جس سے منہ کا ایک ڈھانکا ہوا تھا اتار دیا.اور کھڑکی سے منہ نکال کر اپنے ملازم کو جو نوکروں کے کمرہ میں تھا آواز دی کہ کیا کچھ کھانے کو ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ کھانے کو تو کچھ نہیں.انہوں نے کہا کہ مجھے تو سخت بھوک لگ رہی ہے اس پر اس نے کہا کہ اچھا میاں میر چل کر چائے کا انتظام کروں گا.اس پر انہوں نے پوچھا کہ وہ خشک میوہ جو تیرے پاس تھا وہی دے دے.چنانچہ اس نے میوہ کا رومال ہاتھ نکال کر پیر صاحب کو پکڑا دیا.جو انہوں نے اپنے پاس رکھ لیا.اس کے بعد وہ میری طرف مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ آپ کی تعریف ! میں نے کہا میرا نام محمود احمد ہے.پھر کہا آپ کہاں جائیں گے ؟ میں نے کہا قادیان.اس پر انہوں نے سوال کیا کہ کیا آپ قادیان کے باشندہ ہیں یا صرف قادیان کسی کام جارہے ہیں؟ میں نے جواب دیا میں قادیان کا باشندہ ہوں.اس پر وہ ذرا ہوشیار ہوئے اور پوچھا کہ کیا آپ کو مرزا صاحب سے کچھ تعلق ہے؟ میں نے کہا ہاں! مجھے ان سے تعلق ہے.اس پر انہوں نے پوچھا کیا تعلق ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں ان کا بیٹا ہوں.اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہا اوہو! مجھے آپ سے ملنے کی بہت خوشی ہوئی کیونکہ مجھے مدت سے آپ سے ملنے کا اشتیاق تھا.ان کی یہ بات سن کر مجھے حیرت ہوئی کیونکہ ان پیر صاحب کو ہمارے سلسلہ سے سخت عداوت ہے اور ان کا فتویٰ ہے کہ جو احمدی سے بات بھی کر جاوے اس کی بیوی کو طلاق ہو جاتی ہے مگر میں خاموش رہا اور اس بات کا منتظر رہا کہ آئندہ کلام کس سمت کا رخ کرتا ہے.اس مرحلہ پر پہنچ کر انہوں نے وہ میوہ کا رومال کھولا اور اپنی جگہ سے اٹھ کر اس بینچ پر آبیٹھے جو میرے اور ان کے بینچ کے درمیان تھا.اور رومال کھول کر میرے سامنے بچھا دیا کہ آپ بھی کھا ئیں.چونکہ مجھے کھانسی اور نزلہ کی شکایت تھی.میں نے انکار کیا اور کہا کہ مجھے چونکہ گلے میں تکلیف ہے اس لئے آپ مجھے معاف رکھیں.پیر صاحب فرمانے لگے کہ نہیں کچھ نہیں ہو تا آپ کھا ئیں تو سہی.میں نے پھر انکار کیا کہ مجھے اس حالت میں ذراسی بد پرہیزی سے بھی بہت تکلیف ہو جاتی ہے.اس پر پیر صاحب
العلوم جلد ۵۵۴ تقدیر الهی فرمانے لگے کہ ہو تا تو رہی ہے جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے یہ تو باتیں ہیں.میں تو اس موقع کا منتظر تھا کہ پیر صاحب اپنے خاص علوم کی طرف آئیں تو مجھے کچھ ان لوگوں کے حالات سے واقفیت ہو.میں نے پیر صاحب سے کہا کہ پیر صاحب آپ نے یہ بات بہت بعد میں بتائی.اگر آپ لاہور میں بتاتے تو آپ اور میں دونوں نقصان سے بچ جاتے.میں نے اور آپ نے ٹکٹ پر روپیہ ضائع کیا.اگر آپ کے لئے امر تسر اور میرے لئے قادیان پہنچنا مقدر تھا تو ہم کو اللہ تعالیٰ آپ ہی پہنچا دیتا.ٹکٹ پر روپیہ خرچنے کی کیا ضرورت تھی؟ اس پر پیر صاحب فرمانے لگے کہ نہیں اسباب بھی تو ہیں.میں نے کہا انہی اسباب کی رعایت کے ماتحت مجھے بھی عذر تھا.اس پر پیر صاحب فرمانے لگے.یہی میرا بھی مطلب تھا.گو مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ ان کا اور میرا مطلب ایک کیوں کر ہو سکتا تھا ؟ اس کے علاوہ اور بھی باتیں پیر صاحب سے ہوئیں مگر قدر کے متعلق اسی قدر بات ان سے ہوئی.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے پیر اس مسئلہ کے متعلق کس قدر غلط خیالات میں مبتلاء ہیں مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں قرآن کریم کی رو سے یہ خیالات باطل ہیں.ہاں بعض لوگوں کے اقوال ایسے بھی ہیں کہ وہ کہتے بعض لوگوں کے اقوال کا مطلب ہیں سعی بے فائدہ میں اپنا وقت ضائع نہ کرو جو کچھ ملنا ہے وہ مل رہے گا.اس قسم کے اقوال سے بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر بات کے لئے سعی کرنے سے منع کیا گیا ہے.اگر ان کے کلام کا یہی مطلب ہے تو میں پوچھتا ہوں وہ روٹی کھانے کے لئے لقمہ پکڑتے، منہ میں ڈالتے اسے چہاتے اور نگلتے تھے یا نہیں؟ پھر وہ سونے کے لئے لیٹتے تھے یا ایک ہی حالت میں دن رات بیٹھے رہتے تھے ؟ پھر اگر خدا نے ہر ایک کام کروانا ہے تو ان کے قول کے کیا معنی ہوئے کہ سعی نہ کرو.اگر کوئی سعی کرتا ہے تو اس سے سعی بھی خدا ہی کرواتا ہے پھر منع کیوں کیا جائے ؟ مگر بات یہ ہے کہ ایسے اقوال کا مطلب لوگوں نے سمجھا صوفیاء کے کلام کا صحیح مطلب نہیں.اصل حقیقت یہ ہے کہ بعض لوگ دنیا کے کام میں ایسے منہمک ہوتے ہیں کہ ہر وقت اس میں لگے رہتے ہیں اور ساری محنت اس میں لگا دیتے ہیں.مثلاً آٹھ نو گھنٹے تو دکان پر بیٹھتے ہیں لیکن جب گھر آتے ہیں تو گھر پر بھی دکان کا ہی حساب
انوار العلوم جلد ۵۵۵ کتاب کرتے رہتے ہیں یا کوئی زمیندار ہے اسے ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ اگر یوں ہو گا تو کیا ہو گا اگر یوں ہو گا تو کیا؟ بزرگوں نے اس قسم کے خیالات سے روکا ہے اور سعی لاحاصل سے منع کیا ہے اور سعی حقیقی سے وہ نہیں روکتے.اور سعی لاحاصل یہ ہوتی ہے کہ مثلاً سردی کے موسم میں بستر ساتھ رکھنے کی ضرورت ہے.اب اگر کوئی تھیں تو شکیں اور دس لحاف لے لے تو ہم کہیں گے یہ فضول ہے ایک بستر لے لینا کافی ہے اسی طرح وہ کہتے ہیں.ورنہ اصل اور حقیقی سعی تو وہ خود بھی کرتے ہیں.ان دو گروہوں کے سوا جن کا میں نے ذکر کیا ہے.ایک تیسرا گروہ بھی ہے ایک اور گردہ اس نے اپنی طرف سے درمیانی راستہ اختیار کیا ہے مگر وہ بھی اسلام کے خلاف ہے.وہ کہتے ہیں ہر ایک کام میں تقدیر بھی چلتی ہے اور تدبیر بھی.وہ کہتے ہیں ہر ایک چیز میں طاقت خدا نے رکھی ہے.مثلاً آگ میں جلانے، پانی میں پیاس بجھانے کی طاقت خدا نے بنائی ہے کسی بندہ نے نہیں بنائی.اسی طرح یہ کہ لکڑی آگ میں جلے.لوہا، پیتل ، چاندی سونا پگھلے یہ خدا نے مقدر کیا ہے.آگے اس کو گھڑنا اور اس کی کوئی خاص شکل بنا نا لوہار یا سنار کا کام ہے جو تدبیر ہے.تو ہر چیز میں خدا نے طاقتیں رکھ دی ہیں یہ تقدیر ہے.آگے بندہ ان طاقتوں سے کام لیتا ہے یہ تدبیر ہے اور ہر کام میں دونوں باتیں جاری ہیں.یہ بات تو ٹھیک ہے مگر چونکہ وہ اسی پر بس کر دیتے ہیں اور اپنے خیالات کا انحصار اسی پر رکھتے ہیں اس لئے ہم کہتے ہیں یہ راستہ بھی ٹھیک راستہ نہیں ہے دراصل جو کچھ ایک سائنس دان کہتا ہے وہی یہ بھی کہتے ہیں.ہاں اتنا فرق ہے کہ سائنس دان بات کو کچھ دور لے جاتا ہے.مثلا یہ کہ چاندی کے پگھلنے کی کیا وجہ ہے؟ وہ کیونکر پچھلتی ہے؟ لیکن آخر میں کہہ دے گا کہ مجھے علم نہیں کہ پھر اس کی کیا وجہ ہے.میں اتنا جانتا ہوں کہ کسی غیر متبدل اور محیط گل قانون کے ماتحت یہ سب کام ہو رہا ہے.مگر اس گروہ کے لوگ ابتداء میں تمام کارخانہ عالم کو ایک قانون کی طرف منسوب کر دیتے ہیں جس کو قانون قدرت کہتے ہیں.میری تحقیق یہ ہے کہ چونکہ انہوں نے اس مسئلہ کے نام ایسے غلط نام کی وجہ سے دھو کا رکھے ہیں جو غلط ہیں.اس لئے اصل مسئلہ مشکل اور مخلوط ہو گیا ہے اور ایسا بہت دفعہ ہوتا ہے کہ غلط نام رکھنے سے دھو کا لگ جاتا ہے مثلاً اگر کسی شخص کا نام نیک بندہ ہو اور کہا جائے کہ فلاں نیک بندہ نے بہت برا کام کیا ہے تو سننے والا حیران
ام جلد ۴ تقدیر الهی رہ جائے گا کہ یہ شخص کیا کہہ رہا ہے اور تعجب کرے گا کہ ایک طرف تو یہ شخص اسے نیک بندہ کہتا ہے اور دوسری طرف اس پر عیب بھی لگاتا ہے تو اگر کسی کا غلط نام با معنی ہو تو اس سے بہت مغالطہ لگ جاتا ہے ہاں اگر بے معنی نام ہو تو دھوکا نہیں لگتا.مثلا یہ کہیں کہ رلد و نے چوری کی یا ڈاکہ مارا تو کسی کو اس فقرہ پر تعجب نہیں آتا اور اگر کہا جائے رلد و خدا کا پیارا اور نیک بندہ ہے تو بھی کوئی تعجب نہیں آتا.لیکن اگر یہ کہا جائے کہ فلاں خدا پرست (جو عبد اللہ کا ترجمہ ہے) نے شرک کیا تو سخت حیرانی ہوتی ہے.پس با معنی نام جو غلط طور پر رکھے جاویں ان سے دھو کا لگ جاتا ہے مسئلہ قدر میں غلط نام ایسا ہی ان لوگوں کو ہوا ہے.تقدیر کا لفظ تو صحیح ہے لیکن اس کے مقابلہ میں جو نام وہ رکھتے ہیں ان کے معنی بالکل الٹے ہوتے ہیں.مثلاً بعض لوگ تقدیر کے بالتقابل انسانی فعل کا نام تدبیر رکھتے ہیں.بعض دونوں کا نام جبر اور اختیار رکھتے ہیں حالانکہ یہ دونوں نام غلط ہیں.اور ان الفاظ کے معنوں کا اثر اصل مسئلہ پر پڑ گیا ہے اور اس وجہ سے یہ مسئلہ غلط ہو گیا ہے.تو پہلی غلطی انہوں نے یہ کی کہ نام غلط رکھا ہے اور صرف یہی نام غلط نہیں بلکہ ان دونوں شقوں کے جس قدر نام انہوں نے رکھے ہیں وہ سب کے سب غلط ہیں.مثلاً (۱) تقدیر اور تدبیر (۲) جبر اور اختیار (۳) قدرت قدیمہ و قدرت حادثہ.لیکن یہ نام بحیثیت مجموعی پوری طرح تسلی نہیں کرتے.تقدیر تو ٹھیک ہے لیکن اس کے مقابلہ میں تدبیر کے مقابلہ میں تدبیر غلط ہے انسانی فعل کو کہنا غلط ہے.کیونکہ تدبیر خدا بھی کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.يُدَيرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدة: 1) یعنی اللہ تعالٰی بعض خاص کاموں کی تدبیر کر کے ان کو زمین کی طرف بھیجتا ہے.پھر وہ ایک ایسے وقت میں جس کی مقدار انسانی سالوں کے ایک ہزار سال کے برابر ہوتی ہے اس کی طرف چڑھنا شروع کرتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تدبیر تو اللہ تعالٰی بھی کرتا ہے مگر یہ لوگ کہتے ہیں کہ تدبیروہ ہے
انوار العلوم جلد ۴ ۵۷ تقدیر الهی جس میں خدا کا کوئی دخل نہ ہو.مگر اس سے بھی زیادہ جبر اور التیار کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں حالانکہ یہ دونوں لفظ ہی قرآن سے ثابت نہیں ہیں.قرآن کریم سے یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جبار ہے مگر اس کے معنی اصلاح کرنے والا ہیں اور یہ کہتے ہیں جبریہ ہے کہ زبر دستی کام کراتا ہے حالانکہ یہ کسی صورت میں بھی درست نہیں ہے.عربی میں جبر کے معنی ٹوٹی ہوئی ہڈی کو درست کرنے کے ہیں اور جب یہ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہوتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ بندوں کے خراب شدہ کاموں کو درست کرنے والا اور اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ دوسرے کے حق کو دبا کر اپنی عزت قائم کرنے والا.لیکن یہ معنی تب کئے جاتے ہیں جب بندوں کی نسبت استعمال ہو.خدا تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں کئے جاتے اور نہ کئے جاسکتے ہیں کیونکہ سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہی ہے.یہ کہا ہی نہیں جا سکتا کہ دوسروں کے حقوق کو تلف کر کے اپنی عزت قائم کرتا ہے.علاوہ ازیں تدبیر کا لفظ ان معنوں پر پوری روشنی نہیں ڈالتا جن کی طرف اشارہ کرنا اس سے مقصود ہے.کیونکہ تدبیر کے معنی عربی زبان میں کسی چیز کو آگے پیچھے کرنے کے ہیں اور مراد اس سے انتظام لیا جاتا ہے.لیکن انتظام کا لفظ اس جگہ کچھ بھی نفس مسئلہ پر روشنی نہیں ڈالتا.اب رہا اختیار.اس کے معنی ہیں جو چیز پسند آئے وہ لے لینا.پس اگر خدا تعالیٰ نے انسان کو اختیار دے دیا ہے تو جو جس کو اچھا لگا وہ اس نے لیا اور جو عمدہ نظر آیا وہ کیا.پھر اس کو کسی فعل پر سزا کیسی ؟ تو یہ لفظ بھی غلط ہے.صحیح نام اصل میں قرآن شریف سے جو الفاظ ثابت ہیں وہ یہ ہیں.قدر تقدیر قضاء تدبیر الهی اور ان کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ نے کسب اور اکتساب کے لفظ رکھے ہیں.پس قرآن کریم کی رو سے اس مسئلہ کا نام تقدیر الہی اور اکتساب یا قدر الہی اور کسب یا قضاء الہی اور کسب ہو گا.اب میں ان ناموں کے ماتحت اس مسئلہ کی تشریح کرتا ہوں.اول تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم نے تقدیر الہی کے مقابلہ میں بندہ کے لئے کسب و اکتساب کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اور یہ لفظ بندہ ہی کے لئے استعمال ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ کے لئے نہیں استعمال ہو سکتا ہے کیونکہ کسب کے معنی کسی چیز کی جستجو کرنی اور اس کو محنت سے
انوار العلوم جلد ۴ ۵۵۸ تقدیر الهی حاصل کرنے کے ہیں.اور اللہ تعالیٰ نہ جستجو کرتا ہے نہ کسی بات کو محنت سے حاصل کرتا ہے.ہر چیز اسی کے تابع فرمان ہے اور اس کے ایک ذرا سے اشارہ پر اس کی رضا کو پوری کرنے کے لئے تیار ہے.پھر وہ تکلیف سے بالکل پاک ہے وہ کہتا ہے کہ یوں ہو جائے اور اسی طرح ہو جاتا ہے.پس اس کے لئے کسب کا لفظ استعمال نہیں ہو سکتا.اور اس لفظ کے استعمال سے جو امتیاز قائم ہو گیا ہے وہ اور کسی لفظ سے نہیں ہو سکتا تھا.ان الفاظ کی مختصر حقیقت بیان کرنے کے بعد اب میں اس سوال کی طرف آتا ہوں کہ قرآن کریم سے کیا ثابت ہے کہ وہ بندوں سے کس طرح معاملہ کرتا ہے ؟ آیا ان کا ہر ایک فعل اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہوتا ہے یعنی صدقہ خیرات خوش خلقی، ہمدردی یا چوری، ڈاکہ، لنگی سب کچھ خدا ہی کراتا ہے.یا یہ کہ بندوں کو اس نے چھوڑ رکھا ہے کہ وہ کمالیں اور جیسا جیسا وہ کمائیں ویسا ویسا بدلہ پائیں.قرآن کریم سے دونوں باتیں ثابت ہوتی ہیں.لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس مسئلہ تقدیر بر پر صرف لفظی ایمان لانا کافی نہیں مضمون پر کچھ بیان کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں نے اس معاملہ میں بڑی بڑی ٹھوکریں کھائی ہیں.انہوں نے خیال کر لیا ہے کہ صرف تقدیر پر ایمان لے آنا کافی ہے.حالانکہ اس کے سمجھنے اور جاننے کی ضرورت تھی کیونکہ خدا تعالیٰ نے اس کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے.اور جب یہ ایمان کی شرط ہے تو معلوم ہوا کہ ہمارے لئے مفید بھی ہے ورنہ اس پر ایمان لانا ضروری نہ ٹھہرایا جاتا.مثلاً خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کا حکم ہے.اس سے یہ فائدہ ہے کہ انسان کو اپنے محسن کا علم ہوتا ہے اور اس سے تعلق قائم کرنا جو اس کی ترقی کا موجب ہے اور اس کی پیدائش کی واحد غرض ہے اسی ایمان کے نتیجہ میں حاصل ہو سکتا ہے.اور پھر یہ بھی فائدہ ہے کہ اس علم اور ایمان سے انسان سمجھتا ہے کہ ایک ایسی ہستی ہے جس کے سامنے مجھے اپنے اعمال کے متعلق جوابدہی کرنی پڑے گی.اسی طرح انبیاء پر ایمان لانے کا حکم ہے.اس کا فائدہ ہے کہ ان کے ذریعہ انسان کو خدا تک پہنچنے کا رستہ معلوم ہوتا ہے.اسی طرح فرشتوں پر ایمان لانے کا حکم ہے.اس کا یہ فائدہ ہے کہ انسان یہ مانتا ہے کہ وہ نیک تحریکیں کرتے ہیں اور پھر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ان سے تعلق پیدا کر کے ہدایت کے راستہ پر قدم زن ہونے کے لئے مددگار اور دوست پیدا کر لیتا ہے.اسی طرح خدا کی کتابوں پر ایمان لانے کا حکم ہے.اس کا یہ
م جلد ۴ ۵۵۹ تقدیرانی فائدہ ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی مرضی اسے معلوم ہو جاتی ہے اور وہ احکام معلوم ہوتے ہیں جن پر چل کر یہ ہلاکت سے بچ جاتا ہے.اسی طرح بعث بعد الموت پر ایمان ہے اس کا یہ فائدہ ہے کہ انسان کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زندگی لغو نہیں بلکہ ہمیشہ جاری رہنے والی ہے اور یہ اس کے لئے کوشش کرتا ہے اسی طرح جتنی باتیں ایسی ہیں جن پر ایمان لانا ضروری قرار دیا گیا ہے ان میں سے ہر ایک کا فائدہ ہے مگر تقدیر کے متعلق مسلمانوں نے اس بات کو نہیں سوچا کہ اس پر ایمان لانے کا کیا فائدہ ہے ؟ وہ ڈنڈا لے کر کھڑے ہو گئے کہ تقدیر کو مانو.اس کا جواب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا تھا کہ آگے کہہ دیا جائے اچھا یہی ہماری تقدیر ! تو مسلمان بجائے اسکے کہ اس مسئلہ کو ماننے کے فائدہ پر غور کرتے بیہودہ باتوں کی طرف چلے گئے.حالانکہ انہیں اسی طرف جانا چاہئے تھا کہ تقدیر کے ماننے کا کیا فائدہ ہے ؟ اگر اس طرف جاتے تو جو تعریف انہوں نے مسئلہ تقدیر کی کی ہے وہ خود بخود لغو ثابت ہو جاتی اور ان پر واضح ہو جاتا کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں یہ تو بالکل فضول بات ہے اور تقدیر کے مسئلہ کا ماننا فضول نہیں ہو سکتا بلکہ روحانیت سے اس کا بہت بڑا تعلق ہے اور اس سے انسان کو بڑا فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ ایمانیات میں وہی باتیں داخل ہیں جن کا انسان کی روحانیت سے تعلق ہے اور جو روحانیت کی ترقی کا باعث ہیں.پس تقدیر کا ماننا جب انسان پر فرض کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ روحانیت سے اس کا تعلق ہے اور اس سے روح کو فائدہ پہنچتا ہے.جب یہ ثابت ہو گیا تو پھر اس طرف توجہ کرنی چاہئے تھی کہ معلوم کریں وہ کیا فائدہ ہے جو اس سے پہنچتا ہے.کیونکہ جب تک اس فائدہ کو معلوم نہ کریں گے اس وقت تک کیا فائدہ اٹھا سکیں گے ؟ مگر افسوس فلسفیوں نے قدر اور جبر کی بحثوں میں عمریں ضائع کر دیں اور ایک منٹ کے لئے بھی اس بات کو نہ سوچا.یہی وجہ ہے کہ وہ ایک دوسرے سے بے فائدہ سر پھٹول کرتے رہے اور اس سے انہوں نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا.اگر اس امر کو سوچتے اور اس پر عمل کرتے تو ضرور فائدہ اٹھاتے.چنانچہ ان فلسفیوں کے مقابلہ میں وہ لوگ جنہوں نے تقدیر کے مسئلہ کے متعلق یقین کر لیا کہ یہ ہماری روحانی ترقی کے لئے ضروری ہے اور پھر اسی پر غور کر کے پتہ لگایا کہ اس کے نہ ماننے کے نقصان کیا ہیں اور ماننے کے فائدے کیا ہیں؟ اور پھر اس علم سے فائدہ اٹھایا.انہوں نے تو یہاں تک ترقی کی کہ خدا تعالٰی تک پہنچ گئے مگر دوسرے لوگ بیٹھے بخشیں کرتے رہے کہ جو فعل ہوتے ہیں وہ ہم کرتے
انوار الحارم جلد ۵۶۰ تقدیر الهی ہیں یا خدا کرتا ہے.غرض اس مسئلہ کے متعلق لغو بحثیں کرنے والوں سے بہت بڑی غلطی ہوئی اور یہ رسول کریم ﷺ کی اس حدیث کے مصداق ہو گئے کہ میری امت میں سے ایک قوم ایسی ہوگی جو قدر کے مسئلہ کی وجہ سے مسخ کی جائے گی.(ترمذی ابواب القدر باب الرضاء بالقضاء) اصل بات تو یہ تھی کہ وہ دیکھتے کہ اس مسئلہ کے فوائد کیا ہر ایک فعل خدا کراتا ہے؟ کیا ہیں؟ مگر انہوں نے اس کو نہ دیکھا اور ایسے رنگ میں اس مسئلہ کو مانا کہ اس سے بجائے فائدہ کے نقصان اٹھانا پڑا.اور اور بھی جو کوئی ان کی بیان کردہ طرز کو مانے گا نقصان ہی اٹھائے گا.مثلاً ان لوگوں میں سے ایک فریق کہتا ہے کہ جو کچھ انسان کرتا ہے وہ خدا تعالٰی ہی کراتا ہے.اب اگر یہ بات درست ہے تو ہم پوچھتے ہیں کہ ادھر تو ہر ایک برے سے برا نعل خدا کراتا ہے اور ادھر قرآن کریم میں ڈانٹتا ہے کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو ؟ اب یہ عجیب بات ہے کہ آپ ہی خدا پکڑ کر انسان سے زنا کراتا ہے اور جب کوئی کرتا ہے تو کہتا ہے کیوں کرتے ہو ؟ پھر آپ ہی تو ابو جہل کے دل میں ڈالتا ہے کہ محمد () جھوٹا ہے آپ ہی اس کو رسول کریم ﷺ کے مقابلہ میں ہاتھ اٹھانے کے لئے کہتا ہے پھر آپ ہی کہتا ہے اس کو کیا ہو گیا؟ اس کی کیوں عقل ماری گئی ؟ ہم کہتے ہیں یہ تو ظلم ہے اور نہ صرف ظلم ہی ہے بلکہ کم عقلی بھی ہے کہ آپ ہی خدا انسان سے ایک برا فعل کرائے اور پھر آپ ہی ڈانٹے.اب دیکھو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ بات ماننے کس قدر نقصان ہو سکتا ہے؟ ایسے عقیدہ کے ساتھ تو ایک منٹ کے لئے بھی انسان کا ایمان قائم نہیں رہ سکتا.یہ تو قدر والوں کا حال ہے.اب رہے تدبیر والے.انہوں نے جو تعلیم پیش کی ہے اس کے تدبیروالوں کی غلطی متعلق اگر وہ خود ہی غور و فکر سے کام لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ انہوں نے ان تعلقات پر جو انسان اور خدا تعالی کے درمیان ہیں تبر رکھ دیا ہے.کیونکہ تعلقات کی مضبوطی اور ان میں زیادتی محبت ہی کی وجہ سے ہوتی ہے.ان کی تعلیم اس محبت کو جو انسانی اور خدا کے درمیان ہے بالکل مٹا دینے والی ہے.تعلقات کس طرح محبت کا باعث ہوتے ہیں اس کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد آیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اخبار عام پڑھ رہے تھے کہ مجھے آواز دی محمود ! "
دم جلد ۴ ۵۶۱ تقدیرانی.محمود ! محمود ! جب میں پاس گیا تو فرمانے لگے کلکتہ کا فلاں شخص مر گیا ہے.میں نے حیران ہو کر پوچھا مجھے کیا؟ فرمایا یہ بے تعلقی کا نتیجہ ہے.اس کے گھر تو ماتم پڑا ہو گا اور تو کہتا ہے مجھے کیا؟ تو تعلق سے محبت پیدا ہوتی ہے مگر تدبیر کے قائل لوگوں کی تعلیم اس کے خلاف ہے.وہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اشیاء پیدا کر دیں اور انسان کو پیدا کر دیا.اور اس کے بعد اس نے اس کو بالکل چھوڑ دیا کہ جس طرح چاہے کرے.اگر یہ بات درست ہے تو پھر بندہ اور خدا میں تعلق کیونکر قائم ہو سکتا ہے؟ بے شک جو چیزیں خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں ان کے اندر فوائد بھی ہیں مگر ان کے اندر نقصان بھی تو ہیں.مثلاً خدا نے آگ بنائی ہے.اگر اس کے کچھ فائدے ہیں تو نقصان بھی ہیں.اگر اس سے کھانا پکتا ہے تو لاکھوں کروڑوں روپیہ کا سامان اور گھر بھی جلا کر سیاہ راکھ کر دیتی ہے.پس ان لوگوں نے تقدیر کے مسئلہ کو اس رنگ میں منوایا کہ ایک تو نعوذ باللہ نعوذ باللہ خدا پر جو تمام عقلوں کا پیدا کرنے والا ہے خلاف عقل کام کرنے کا الزام آتا ہے.اور دوسرے خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کا جو محبت کا تعلق ہے وہ بالکل ٹوٹ جاتا ہے کیونکہ انسان کے دل میں طبعاً خیال پیدا ہوتا ہے کہ مثلاً آگ جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اگر فائدہ پہنچاتی ہے تو نقصان بھی تو کرتی ہے.پھر اس کے پیدا کرنے میں خدا تعالیٰ کا کیا احسان ہوا ؟ یہ خیالات جب پیدا ہوں تو خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلقات محبت نہیں پیدا ہو سکتے بلکہ ایسا ہی تعلق رہ جاتا ہے جیسا کہ یہاں کے لوگوں کو امریکہ والوں سے ہے بلکہ اس سے بھی کم کیونکہ امریکہ سے تو مال بھی منگوا لیا جاتا ہے مگر خدا سے کسی بات کی امید نہیں.غرض اس قسم کے خیالات نے روحانیت کو تعالٰی حد سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے.اب میں اصل مسئلہ کی وہ حقیقت بیان کرتا ہوں جو مسئلہ تقدیر کے متعلق ذوقی باتیں قرآن کریم سے ثابت ہے.پہلے میں اس کی تشریح کروں گا اور پھر اس کے فوائد بتاؤں گا.مگر یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ مسئلہ تقدیر کے بعض ایسے پہلو بھی ہیں جن کو بڑے بڑے لوگ بھی بیان نہیں کر سکے اور نہ انہوں نے ان کے بیان کرنے کی کوشش کی.کیونکہ بعض ایسی باریک باتیں ہیں جو محض زوتی ہوتی ہیں.ذوقی - میری مراد وہ نہیں جو عام لوگ کہتے ہیں.یعنی جو باتیں بلا دلیل کے ہوں اور ان کی کچھ حقیقت نہ ہو بلکہ میری مراد اس سے وہ امور ہیں کہ جب تک انسان ان کو خود نہ چکھے ان کو معلوم نہیں
انوار العلوم بلدم ۵۶۲ تقدیر الهی کر سکتا.پس ان باتوں کو نہ مجھ سے پہلے لوگ بیان کر سکے نہ میں بیان کر سکتا ہوں.تقدیر کے مسئلہ کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تقدیر کی اقسام تقدیر کئی قسم کی ہوتی ہے اور ان اقسام میں سے میں اس وقت چار قسمیں بیان کروں گا.اور وہ چونکہ ایسی ہیں جو عام بندوں سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے لوگ انہیں سمجھ سکتے ہیں اور وہ سمجھائی جاسکتی ہیں.ان میں سے ایک کا نام میں تقدیر عام طبعی رکھوں گا یعنی وہ جو دنیا کے معاملات میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہے.یعنی آگ میں یہ خاصیت ہے کہ جلائے.پانی میں یہ خاصیت ہے کہ پیاس بجھائے اور لکڑی میں یہ کہ جلنے.تاگے میں یہ کہ جب اسے خاص طرز پر کام میں لایا جائے تو کپڑا بنے.روٹی میں یہ کہ پیٹ میں جائے تو پیٹ بھر جائے.یہ سب تقدیر ہے جو خدا کی طرف سے جاری ہے.انسان کا اس میں دخل نہیں.یہ عام ہے اور طبعی معاملات سے تعلق رکھتی ہے.روح سے اس کا تعلق نہیں بلکہ جسم سے ہے.یا یہ کہ آگ جلانا انگور کی بیل کو انگور لگنا، کھجور کے درخت کو کھجور لگنا، بعض درختوں کے پیوند کا آپس میں مل جانا بچہ کا نو ماہ یا ایک خاص مدت میں پیدا ہونا، یہ سب ایسے قانون ہیں جو عام طور پر جاری ہیں ان کا نام میں تقدیر عام طبعی رکھتا ہوں.دوسری تقدیر خاص طبعی ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک تقدیر عام ہے جیسے کہ قانون مقرر ہے کہ آگ جلائے.سورج کی تمازت کے نیچے گرمی محسوس ہو.سورج کی گرمی سے پھل پکیں.فلاں چیز سے صحت ہو فلاں سے بیماری ہو.یہ تو تقدیر عام طبعی ہے.لیکن ایک خاص تقدیر طبعی ہے.یعنی بعض دفعہ خاص طور پر اللہ تعالٰی کی طرف سے احکام نازل ہوتے ہیں کہ فلاں شخص کو دولت مل جاوے.فلاں چیز کو جلا دیا جاوے.فلاں شخص کو مار دیا جاوے فلاں کے ہاں بچہ پیدا ہو (خواہ اس کی بیوی بانجھ ہی کیوں نہ ہو) یہ احکام خاص ہوتے ہیں.کسی عام طبعی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے یعنی ایسے طبعی قانون کے ماتحت نہیں ہوتے جس کا لازمی نتیجہ اسی شکل میں نکلنا ضروری ہے جس شکل میں کہ کسی خاص شخص کے لئے اللہ تعالیٰ کے خاص احکام کے ماتحت ظاہر ہوا ہے.تیسری قسم تقدیر کی تقدیر عام شرعی ہے.مثلا یہ کہ اگر انسان اس رنگ میں نماز پڑھے تو اس کا یہ نتیجہ ہو اور اس رنگ میں پڑھے تو یہ ہو.روزہ رکھے تو یہ خاص روحانی تغیر پیدا ہو.
انوار العلوم جلد ۵۶۳ تقدیرانی چوتھی قسم تقدیر کی تقدیر خاص شرعی ہے.جس کے معنی ہیں کہ خاص طور پر کسی بندہ پر اللہ تعالیٰ فضل کرے جو بطور موہت ہو جیسے کلام الہی کا نزول کہ اس کی نسبت اللہ تعالٰی فرماتا ہے.الرَّحْمَنُ ، عَلَّمَ الْقُرْآنَ (الرحمن: ۲-۳) یہ چار اقسام تقدیر کی ہیں جن کے سمجھانے اور ذہن نشین کرانے کے لئے میں نے الگ الگ نام رکھ دیئے ہیں.(۱) تقدیر عام طبعی.(۲) تقدیر خاص طبعی (۳) تقدير عام شرعی (۴) تقدیر خاص شرعی.یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف تقدیر عام طبعی جسمانی تعلقات سے ظاہر ہوتی ہے اور دوسری تمام اقسام تقدیر کی خواہ تقدیر خاص طبعی ہو یا تقدیر عام شرعی اور تقدیر خاص شرعی ان سب کا ظہور روحانی تعلقات کی بناء پر ہوتا ہے.یعنی ان کے ظہور کا باعث دنیوی اسباب نہیں ہوتے بلکہ وہ روحانی تعلقات جو بندہ کو اللہ تعالیٰ سے ہوتے ہیں یا جو اللہ تعالیٰ کو بندہ سے ہوتے ہیں.پس یہ تقدیر یا مؤمنوں کی ترقی کے لئے ظاہر ہوتی ہے یا کافروں کی ذلت کے لئے یا عام لوگوں کے لئے بطور رحم کے.تقدیر کی ان اقسام کے سوا کوئی ایسی تسم تقدیر کی نہیں ہے جو انسان کو مجبور کرتی ہے کہ چوری کرے ، ڈاکہ مارے زنا کرے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ خدا مجبورا ایسا کراتا ہے وہ جھوٹ کہتے ہیں اور خدا تعالیٰ پر الزام لگاتے ہیں.یہ معلوم کر لینے کے بعد کہ تقدیر کی کس قدر اقسام ہیں اس بات کا معلوم کرنا تقدیر کا ظہور ضروری ہے کہ خاص تقدیر کے ظہور کے اسباب کیا ہوتے ہیں؟ اس بات کے نہ سمجھنے کے باعث سے ہی بعض لوگ یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ ہم جو کچھ کرتے ہیں خدا کراتا ہے.وہ نہیں سمجھتے کہ خدا تعالیٰ ہر ایک شخص سے جبراً کام نہیں کراتا.خدا تعالیٰ کی خاص تقدیر کے نزول کے لئے خاص شرائط ہیں.در حقیقت یہ دھو کا عجب سے پیدا ہوا ہے.ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی کچھ ہیں جن سے خدا کام کراتا ہے.لیکن اصل بات یہ ہے کہ خدا تعالٰی کے خاص حکم خاص ہی لوگوں کے لئے ہوتے ہیں خواہ وہ خاص طور پر نیک ہوں خواہ وہ خاص طور
۵۶۴ مختصر طور پر تقدیر کی اقسام بیان کرنے کے بعد اب میں کسی قدر ان کی تقدیر خاص کی تفصیل کی تفصیل بیان کرتا ہوں لیکن چونکہ تقدیر عام خاص قواعد کے ماتحت ہوتی ہے اس لئے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں تقدیر خاص کی ہی تفصیل بیان کرنی کافی ہوگی.تقدیر خاص دو قسم کی ہوتی ہے.بعض اصولی قواعد کے ماتحت خدا تعالیٰ کی طرف سے احکام جاری ہوتے ہیں.مثلاً یہ ایک قاعدہ خدا تعالیٰ نے مقرر کر چھوڑا ہے کہ نبی اور نبی کی جماعت اپنے دشمنوں پر غالب آئے گی.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.كَتَبَ اللهُ لَا غَلِبَنَّ أَنَا وَرُسُلِي (المجادلة: ۲۳) اللہ تعالیٰ نے فرض کر چھوڑا ہے کہ میں اور میرے رسول دشمنوں پر غالب آئیں گے.اور فرماتا ہے.وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم:۳۸) یہ ہم پر فرض ہے کہ ہم مؤمنوں کی مدد کریں.اب جب کہ انبیاء اور ان کی جماعتوں کو اپنے دشمنوں پر فتح ہوتی ہے تو اس کو عام شرعی تقدیر کے ماتحت نہیں لا سکتے کیونکہ یہ خاص حکم ہے جو ایک خاص اصل کے ماتحت جاری ہو تا ہے اور بسا اوقات امور طبعیہ اس کے مخالف پڑے ہوئے ہوتے ہیں.دوم وہ تقدیر خاص کہ وہ خاص خاص حالات اور خاص اشخاص کے لئے جاری ہوتی ہے اور کسی اصولی قاعدہ کے ماتحت نہیں ہوتی.اس کی مثال وہ وعدہ ہے جو رسول کریم ال سے فتح مکہ کے متعلق کیا گیا.رسول کریم ﷺ کے لئے یہ بات تو عام قانون کی رو سے ہی مقدر تھی کہ آپ دشمنوں پر غالب ہوں مگر خدا تعالیٰ نے یہ قانون نہیں بنایا کہ جہاں کوئی نبی پیدا ہو وہاں وہ بادشاہ بھی ہو جائے مگر رسول کریم اے کے لئے یہ خاص حکم جاری کیا گیا کہ آپ اول مکہ سے ہجرت کریں اور پھر اس کو فتح کر کے وہاں کے بادشاہ بنیں.یہ خاص رسول کریم کے لئے حکم و تھا اور ایسا حکم تھا کہ جب یہ جاری ہو گیا تو خواہ دنیا کچھ کرتی اور ساری دنیا آپ کو مکہ کا بادشاہ بننے سے روکنا چاہتی نہ روک سکتی.نادان کہتے ہیں کہ چوری خدا کراتا ہے.ہم کہتے ہیں چوری تو ایسا فعل ہے کہ اس سے لوگ روک بھی سکتے ہیں.مگر خدا تعالی جو کچھ کراتا ہے اس کو کوئی نہیں روک سکتا.رسول کریم ﷺ کو مکہ میں وحی ہوئی.
۵۶۵ تقدیرانی إِنَّ الَّذِى فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَدِّكَ إِلَى مَعَادٍ (القصص: ۸۲) یعنی وہ پاک ذات جس نے تجھ پر قرآن نازل کیا ہے ضرور تجھے مکہ میں پھر لوٹانے والا ہے.اس میں دو پیشگوئیاں تھیں.اول یہ کہ مکہ سے نکلنا پڑے گا اور دوسری یہ کہ پھر واپس آنا ہو گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا اور کوئی اس میں روک نہ بن سکا.اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے یہ تقدیر خاص جاری ہوئی کہ ان کے دشمن کے سارے پلوٹھے مارے جائیں گے.تو یہ عام تقدیر تھی کہ انبیاء غالب ہوں گے مگر یہ کہ فلاں کس طرح غالب ہو گا اور فلاں کس طرح.یہ خاص تقدیر تھی.اسی طرح حضرت صاحب سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ قادیان کی ترقی ہوگی اور حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ دس دس میل تک اس کی آبادی پھیل جائے گی اور آپ جانتے ہیں کہ آج جہاں لیکچر ہو رہا ہے یہ جگہ اس جگہ سے جہاں پہلے لیکچر ہوتے تھے قریباً ایک میل پرے ہے تو نبیوں کا جیتنا اور غالب ہونا ایک عام تقدیر ہے جو بعض اصولی قواعد کے ماتحت جاری ہوتی ہے مگر ان کے جیتنے کا طریق ایک خاص تقدیر ہے جو ہر زمانہ کے حالات سے متعلق ہے وہ کسی ایک قاعدہ کے ماتحت جاری نہیں ہوتی.مثلاً حکم ہو گیا کہ حضرت مرزا صاحب جس جگہ میں رہتے تھے اس کو بڑھا دیا جائے.اس حکم کی وجہ یہ ہے کہ آج کل بڑے بڑے شہروں کا رواج ہو رہا ہے اور بڑے شہر دنیا کا فیشن ہو گئے ہیں.سو اس زمانہ کے لئے خدا تعالیٰ نے یہی تقدیر خاص ظاہر کی ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ تقدیر جاری کس طرح ہوتی ہے.کیا تقدیر کا تعلق اسباب سے خدا ایک شخص کی نسبت کہتا ہے کہ جل جائے تو وہ کھڑے کھڑے جل جاتا ہے اور وہیں اس کو آگ لگ جاتی ہے یا اس کے لئے کچھ سامان پیدا ہوتے ہیں؟ اس کے لئے یا د رکھنا چاہئے کہ تقدیر اور اسباب کا تعلق بھی کئی طرح ہوتا ہے.(۱) تقدیر اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ اسباب شامل ہوتے ہیں.تقدیر عام طبعی ہمیشہ اسی طرح ظاہر ہوتی ہے جیسے آگ کا لگنا.آگ جب لگے گی انہی سامان کی موجودگی میں لگے گی جن کے اندر خدا تعالیٰ نے یہ خاصہ پیدا کیا ہے کہ وہ آگ پیدا کرتے ہیں.مثلا یہ کہ آگ کی چنگاری کسی ایسی چیز کو لگ جاوے جو جلنے کی قابلیت رکھتی ہے یا یہ کہ دو ایسی چیزوں میں
وم جلد " ۵۶۶ تقدیرانی کہ جو دونوں یا دونوں میں سے ایک جلنے کے قابل ہو رگڑ پیدا ہو کر آگ نکل آوے یا دو سخت رگڑنے والی چیزوں کے پاس کوئی ایسی شے ہو جو جلنے کی قابلیت رکھتی ہے.تقدیر خاص دو طرح ظاہر ہوتی ہے.(۱) (الف) تو اسی طرح کہ اسباب اس کے ساتھ ہوں.(ب) اس طرح کہ اسباب اس کے ساتھ نہ ہوں.وہ تقدیر خاص جس کے ساتھ اسباب شامل ہوتے ہیں آگے کئی طرح ظاہر ہوتی ہے.-- یہ کہ اسباب نظر آتے ہیں اور پتہ لگ جاتا ہے کہ اس امر کے یہ اسباب ہیں اور ان میں تقدیر کا پہلو بہت مخفی ہوتا ہے.یہ آگے پھر کئی طرح ظاہر ہوتی ہے.-ii- اسباب بد کے مقابلہ میں اسباب نیک پیدا ہو جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کسی گاؤں میں تھا جہاں کے نمبردار نے مخالفت کی وجہ سے اسے تکلیف دینی شروع کی.اب خدا نے کسی وجہ سے (وہ وجہ کیا ہے اس کے متعلق آگے بیان کروں گا) یہ فیصلہ کیا کہ اس بندہ کو تکلیف نہ پہنچے.اس کے لئے ایک طریق یہ ہے کہ تحصیلدار کے دل میں خدا تعالیٰ اس کی محبت ڈال دے اور وہ اس سے دوستانہ میل ملاقات شروع کر دے.یہ دیکھ کر نمبردار خود بخود اس کی مخالفت سے باز آجائے گا کہ اس کا تو تحصیلدار سے تعلق ہے کہیں مجھ پر مقدمہ نہ دائر کر دے.(۲) یہ کہ جو اسباب بد ہوتے ہیں وہ نیک ہو جاتے ہیں.مثلاً ایک شخص کا کوئی مخالف است سے دشمنی کرتا ہے اور اسے نقصان پہنچانا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ ایسے اسباب پیدا کر دے کہ وہ مخالف دوست بن جائے جیسا کہ حضرت صاحب کے ساتھ ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کے وقت ہوا ہے.جس نے آپ کے خلاف سازش کا مقدمہ دائر کروا دیا تھا جب یہ مقدمہ ہوا ہے اس وقت ضلع گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کپتان ڈگلس صاحب تھے.یہ صاحب شروع شروع میں سخت متعصب تھے اور گورداسپور آتے ہی انہوں نے کئی لوگوں سے سوال کیا تھا کہ ایک شخص یہاں مسیحیت اور مہدویت کا دعوی کرتا ہے کیا اس کا ابھی تک کوئی انتظام نہیں کیا گیا؟ ایسے شخص کو تو سزا ہونی چاہئے تھی کیونکہ ایسا دعوئی مخل امن ہے.چونکہ یہ مقدمہ خاص اہمیت رکھتا تھا اس لئے انہی کی عدالت میں پیش ہوا.اور انہوں نے اپنے مخفی تعصب کے ماتحت جو پہلے سے ان کو تھا پہلے حکم دینا چاہا کہ بذریعہ وارنٹ حضرت صاحب کو گرفتار کرا کے منگوایا جاوے.مگر پولیس افسران نے اور ان کے عملہ کے آدمیوں نے ان کو مشورہ دیا کہ وہ ایک
العلوم جلد ۴ ۵۶۷ تقدیر الهی بڑی اور معزز جماعت کے لیڈر ہیں.ان سے اس طرح کا سلوک فتنہ پیدا کرے گا.پہلے پیشی پر ان کو یونہی بلوایا جاوے پھر مقدمہ کے حالات دیکھ کر آپ جو حکم چاہیں دیں.اس پر انہی لوگوں کے مشورہ سے ایک پولیس افسر کو حضرت صاحب کے بلانے کیلئے بھیج دیا گیا اور وہ آکر اپنے ساتھ حضرت صاحب کو لے گیا.لیکن وہی افسر جو کہتا تھا کہ ابھی تک مرزا صاحب کو سزا کیوں نہیں دی گئی خدا تعالیٰ نے اس کے دل پر ایسا تصرف کیا کہ اس کے اندر کچھ عجیب تغیر پیدا ہو گیا اور اس نے ڈائس پر کرسی بچھا کر حضرت صاحب کو اپنے ساتھ بھوایا اور جب آپ عدالت میں پہنچے تو کھڑے ہو کر اس نے مصافحہ کیا اور خاص عزت سے پیش آیا.شاید کوئی کہہ دے کہ بعض چالاک انسان ظاہر میں اس لئے محبت سے پیش آتے ہیں کہ آخر نقصان پہنچائیں اس لئے اس نے اس طرح کیا.لیکن آگے دیکھئے جب مقدمہ شروع ہوا تو باوجود اس کے کہ مقابلہ میں انگریز پادری تھا اور مقدمہ کوئی معمولی نہیں بلکہ قتل کا مقدمہ تھا اور وہ بھی مذہبی گواہ موجود تھے ملزم مقتر تھا مگر اس نے بیان من سنا کر کہہ دیا کہ میرا دل گواہی نہیں دیتا کہ یہ مقدمہ سچا ہو.اب بتاؤ دل پر کون حکومت کر رہا تھا وہی جس کا نام خدا ہے.ورنہ اگر کپتان ڈگلس صاحب کا اپنا فیصلہ ہوتا تو ظاہر پر ہوتا.مگر ظاہری تمام حالات کو خلاف پا کر بھی وہ کپتان پولیس کو کہتے ہیں کہ جاؤ اس ملزم سے پوچھو حقیقت کیا ہے ؟ وہ آکر کہتے ہیں کہ ملزم بیان دیتا ہے کہ جو کچھ میں کہہ چکا ہوں وہی صحیح ہے.اس پر بھی کپتان ڈگلس کہتے ہیں میرا دل نہیں مانتا.پھر کپتان پولیس جاتے ہیں اور وہ پھر یہی کہتا ہے مگر ادھر یہی جواب ہے کہ دل نہیں مانتا.اس پر کپتان پولیس کو بھی خاص خیال پیدا ہوا اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ ملزم کو بجائے پادریوں کے پاس رکھنے کے پولیس کی حراست میں لیا جائے تاکہ سازش کا شبہ نہ رہے.اور جب اس پر عمل کیا گیا تو ملزم فورا صاحب کے پاؤں پر گر پڑا اور اس نے سب حقیقت بیان کر دی اور بتا دیا کہ مجھے فلاں پادری سکھایا کرتے تھے اور بعض احمدیوں کے نام جن کو یہ ساتھ پھنسانا چاہتے تھے جب مجھے یاد نہ رہتے تھے تو یہ میری ہتھیلی پر پنسل سے وہ نام لکھ دیتے تھے تا عدالت میں میں ہتھیلی کو دیکھ کر اپنی یاد تازہ کرلوں.اس طرح ایک طرف تو اللہ تعالیٰ نے خود ایک مجرم کے دل کو پھیر کر اس کے مونہہ سے حق کہلوا دیا اور دوسری طرف خود ڈپٹی کمشنر کے دل کو پھیر دیا.جو پہلے مخالف تھا موافق ہو گیا اور اس نے فیصلہ کیا کہ حضرت صاحب بالکل بری ہیں اور کہا کہ اگر آپ چاہیں تو ان لوگوں پر جنہوں نے آپ کے خلاف منصوبہ کیا تھا مقدمہ کر
۵۶۸ تقدیر الهی وم جلد ۴ سکتے ہیں.یہ تقدیر خاص تھی مگر کس طرح ظاہر ہوئی.اس طرح کہ جو اسباب بد تھے ان کو خدا تعالیٰ نے نیک کر دیا.اور جو سزا دینے کا ارادہ رکھتا تھا اس نے کہا کہ میرا دل نہیں مانتا کہ مرزا صاحب پر یہ الزام سچائی سے لگایا گیا ہو.(۳) تیسرا طریق تقدیر کے جاری ہونے کا یہ ہے کہ اسباب بد کے بداثر سے اسباب ہی پیدا کر کے اسے بچا دیا جاتا ہے.مثلاً ایک شخص کسی کو قتل کرنے کے لئے اس کے گھر آتا ہے اور اس پر تلوار بھی چلاتا ہے.اور تلوار اس پر پڑتی بھی ہے مگر اُچٹ جاتی ہے اور ٹھیک طور پر لگتی ہی نہیں یا درمیان میں کوئی اور چیز آجاتی ہے اور وہ اس کے اثر سے محفوظ رہتا ہے.اس واقعہ میں اسباب تو بد ہی رہے.نیک نہیں ہو گئے.مگر ان کے اثر سے انسان بچ گیا.(۴) چوتھے تقدیر اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اسباب بد کے مقابلہ میں سعی نیک کی توفیق مل جاتی ہے.مثلا دشمن حملہ کرتا ہے.اس کے حملہ سے بچنے کا ایک تو یہ ذریعہ تھا جو میں پہلے بتا چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کسی اور طاقتور انسان کو اس کی حفاظت کے لئے کھڑا کر دیتا ہے اور سرا طریق یہ ہے کہ خود اسی کو اس کے مقابلہ کی طاقت عطا کر دیتا ہے اور اسی طرح سعی نیک کی توفیق دے کر ان بد اسباب کے اثر سے اسے بچالیتا ہے جو اس کے خلاف جمع ہو رہے تھے.یہ چار طریق ہیں جن میں تقدیر خاص اس طرح ظاہر ہوتی ہے کہ اسباب کے ذریعہ ہی سے تقدیر عام کو ٹلایا جاتا ہے اور اسباب نظر بھی آتے ہیں.تقدیر کے ساتھ مخفی اسباب دوسری صورت تقدیر کے ظاہر ہونے کی یہ ہے کہ اس کے لئے اسباب پیدا تو کئے جاتے ہیں لیکن وہ بہت مخفی ہوتے ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ نہ بتائے یا بہت غور نہ کیا جاوے ان کا پتہ نہیں لگتا اور اس لئے خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بلا اسباب کے ظاہر ہوتی ہے.مگر در حقیقت اس کا ظہور اسباب کی مدد سے ہی ہوتا ہے.مثلاً ایک شخص کسی کا دشمن ہو اور اس کو ہر طرح نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہو کسی وقت اسے اتفاقا ایسا موقع مل جائے کہ وہ چاہے تو اسے ہلاک کر دے.لیکن باوجود دیرینہ خواہش کے وہ اس وقت اپنے دشمن کو چھوڑ دے.اب بظاہر تو یہ سلوک اس کا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کوئی سبب ظاہر نہیں.لیکن ممکن ہے کہ سبب موجود ہو.مثلا یہ کہ ڈر غالب آگیا ہو کہ کوئی مجھے دیکھتا نہ ہو.یا یہ کہ اس کے رشتہ داروں کو شک گزر گیا تو وہ مجھ سے بدلہ لیں گے یا اور کوئی ایسا ہی سبب ہو جو اللہ تعالیٰ نے خاص طور پر پیدا کر دیا ہو.شخص
العلوم جلد من ۵۶۹ تقدیرانی چنانچہ قرآن کریم میں اس کی ایک مثال موجود ہے.حضرت شعیب علیہ السلام کو ان کے مخالفین کہتے ہیں.وَلَوْ لَا رَهْطُكَ لَرَ جَمْنُكَ (صور: ۹۲) یعنی اگر تیری جماعت نہ ہوتی تو ہم تجھے ضرور رجم کر دیتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ باوجود خواہش کے حضرت شعیب کو رحم نہیں کرتے تھے کیونکہ ڈرتے تھے کہ آپ کے رشتہ دار ناراض ہو کر بدلہ لیں گے.لیکن جب تک انہوں نے خود اس بات کو ظاہر نہیں کیا لوگوں کو تعجب ہی ہوتا ہو گا کہ کیوں یہ لوگ جوش دکھا کر رہ جاتے ہیں.ان کے ظاہر کرنے سے معلوم ہوا کہ یہ تقدیر بھی ایک خاص سبب کے ذریعہ ظاہر ہو رہی تھی.اس جگہ یہ شبہ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ تقدیر خاص کیونکر ہو گئی.جس کے رشتہ دار زیادہ ہوتے ہیں لوگ اس سے ڈرتے ہی ہیں.کیونکہ یہ جو کچھ ہو ا عام قانون قدرت کے ماتحت نہیں ہوا بلکہ تقدیر خاص کے ماتحت ہی ہوا.کیونکہ حضرت شعیب کا دعوی تھا کہ وہ نبی ہیں اور اس دعوئی کے ساتھ ہی انہوں نے دنیا کو بیانگ دہل کہہ دیا تھا کہ وہ کامیاب ہوں گے اور ان کا دشمن ان پر قدرت نہیں پاسکے گا.پس ان کے دشمن کا ان پر قدرت نہ پانا عام قانون قدرت کا نتیجہ نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ خاص تقدیر تھی اور اللہ تعالیٰ کا ہاتھ دشمنوں کے ہاتھ کو روک رہا تھا.خصوصاً جب کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت شعیب کے رشتہ دار خود دشمنوں کے ساتھ ہی تھے اور ان کے مرید نہ تھے.اور یہ بھی کہ بہت دفعہ بڑے بڑے بادشاہوں کو لوگ قتل کر دیتے ہیں اور کسی سے نہیں ڈرتے تو اور بھی روشن ہو جاتا ہے کہ یہ تقدیر خاص ہی تھی.ہے.اس قسم کی تقدیر کی مثال رسول کریم ﷺ کی زندگی میں جنگ احزاب میں ملتی ہے جنگ احزاب کے وقت آپ کے دشمنوں نے بڑے زور شور سے حملہ کی تیاری کی تھی.مگر باوجود ان کی تمام کوششوں کے ان سے کچھ نہ بنا.وہ اس موقع پر دس ہزار کا لشکر لائے تھے اور ایسی خطرناک صورت ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کے لئے باہر نکل کر پاخانہ پھرنے کی بھی جگہ نہ رہی تھی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس وقت کی کیفیت کو ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَ تَكُمْ جُنُودُ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ، وَكَانَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا إِذْ جَاءُ وَكُمْ مِنْ فَوْقِكُمْ وَ مِنْ أَسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الْاَبْصَارُ وَ بَلَغَتِ الْقُلُوبُ الْحَنَاجِرَ وَ تَظُنُّونَ
انوار العلوم جلدم بِاللهِ النَا مُنَالِكَ ابْتُلِيَ الْمُؤْمِنُونَ وَزُلْزِلُوا زِلْنَا لا شَدِيدًا وَإِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًاه (الاحزاب : ۱۰ تا ۱۳) یعنی اے مؤمنو! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو جب کہ بہت سے لشکر تم پر حملہ آور ہوئے.پس ہم نے ان پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر بھیجے جن کو تم نہیں دیکھتے تھے.اور اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو دیکھتا تھا.ہاں یاد کرو! جب کہ دشمن تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی آگیا اور جب کہ تمہاری نظریں سج ہو گئیں اور دل خوف کے مارے مونہہ کو آتے تھے اور تم اللہ تعالیٰ کی نسبت طرح طرح کے گمان کرنے لگے.اس موقع پر مؤمنوں کی سخت آزمائش ہوئی اور وہ خوب ہلائے گئے.اور یاد کرو! جب کہ منافق اور روحانی بیمار بھی باوجود اپنی بزدلی کے کہہ اٹھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے صرف جھوٹا وعدہ کیا تھا.اس آیت سے ثابت ہے کہ غزوہ احزاب کے وقت اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کی ایسے سامانوں سے مدد کی تھی جن کو وہ نہیں دیکھتے تھے اور ایسی حالت میں مدد کی تھی جب کہ منافق جو طبعاً ڈرپوک ہوتا ہے مسلمانوں کی جاتی طاقت کو دیکھ کر دلیر ہو گیا تھا اور کہنے لگ گیا تھا کہ مسلمانوں کے خدا اور ان کے رسول ہم سے جھوٹ بولتے رہے تھے.غزوہ احزاب میں ایسے مخفی ذرائع سے خدا تعالٰی نے مسلمانوں کی مدد کی تھی کہ خود مسلمان حیران رہ گئے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ عین ان دنوں میں جب کہ دشمن اپنے زور پر تھا اور مسلمانوں کا احاطہ کئے ہوئے تھا ایک روز رات کے وقت رسول کریم ﷺ نے آواز دی کہ کوئی ہے؟ ایک صحابی نے کہا.میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم نہیں.پھر تھوڑی دیر کے بعد آواز دی.پھروہی صحابی بولے کہ حضور میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا تم نہیں کوئی اور.پھر آپ تھوڑی دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ کوئی ہے؟ اسی صحابی نے جواب دیا.آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ دشمن بھگا دیا گیا.تم جاکر دیکھو اس کی کیا حالت ہے.وہ جب گیا تو دیکھا کہ صاف میدان پڑا ہے اور دشمن بھاگ گیا ہے.بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم اس وقت جاگ رہے تھے مگر شدت سردی سے بولنے کی طاقت نہ پاتے تھے.اب بظاہر دشمن کے بھاگنے کے کوئی اسباب نظر نہیں آتے اور اس وقت صحابہ بھی حیران تھے.مگر جیسا کہ بعد میں بعض لوگوں کے اسلام لانے سے ثابت ہوا اس کے بھی اسباب تھے مگر بخاری کتاب المغازی باب غزوه خندق الخصائص الكبرى مؤلفہ جلال الدین عبدالرحمان بن ابي بكر السيوطى جلد ا صفحہ ۲۳۰ پر ذکر ہے کہ حضرت حذیفہ دشمن کی خبر لانے کے لئے گئے تھے.
ولحلو.لوم جلد ۴ تقدیر الهی بہت مخفی اور وہ یہ کہ دشمن اچھے بھلے رات کو سوئے تھے کہ ایک قبیلہ کے سردار کی آگ بجھ گئی.عرب میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ جس کی آگ بجھ جائے اس پر مصیبت آتی ہے.اس سردار کے قبیلہ نے مشورہ کیا کہ اب کیا کرنا چاہئے.آخر یہ صلاح ہوئی کہ ہم اپنا خیمہ اکھاڑ کر کچھ دور پیچھے جالگا ئیں اور کل پھر لشکر میں آملیں گے.یہ صلاح کر کے جب وہ پیچھے جانے لگے تو ان کو دیکھ کر دوسرے قبیلہ نے اور ان کو دیکھ کر تیسرے نے حتی کہ اس طرح سب نے واپس جانا شروع کر دیا اور ہر ایک نے یہ سمجھا کہ دشمن نے شبیخون مارا ہے.یہ سمجھ کر ہر ایک نے بھاگنا شروع کر دیا.یہاں تک کہ ابو سفیان جو لشکر کا سردار تھا وہ سراسیمگی کی حالت میں بندھی ہوئی اونٹنی پر سوار ہو کر اسے مارنے لگ گیا کہ چلے.جب سب بھاگ گئے اور آگے جاکر ایک دوسرے سے پوچھا تو انہیں معلوم ہوا کہ یونہی بھاگ آئے ہیں.غرض احزاب کے بھاگنے کے اسباب تو موجود تھے مگر نظر آنے والے نہیں تھے بلکہ مخفی تھے.قرآن کریم میں یہی تشریح آئی ہے کہ جُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا.ایسے لشکر جو نظر نہیں آتے تھے اور مخفی تھے.ادھر رسول اللہ کے کسی اور کو بلانے کی وجہ کیا تھی؟ یہ کہ آپ مسلمانوں کو بتائیں کہ خدا ہی ہے جو تمہیں کامیابی دیتا ہے ورنہ تمہاری تو یہ حالت ہے کہ سردی کے مارے زبانیں اس قدر خشک ہو گئی ہیں کہ محمد ( ا ) بلاتا ہے اور تم اس کی آواز کا جواب نہیں دے سکتے.ادھر خدا کی یہ قدرت نمائی ہے کہ اس نے تمہارے اتنے بڑے دشمن کو بھگا دیا ہے.اس تقدیر خاص کے علاوہ جس کے ظہور کے لئے اللہ تعالیٰ اسباب تقدیر خاص بلا اسباب پیدا فرماتا ہے ایک تقدیر وہ بھی ہے جو بلا اسباب کے ظاہر ہوتی ہے.اس کی بھی دو قسمیں ہیں.(1) اول وہ تقدیر جس کا ظہور در حقیقت بلا اسباب کے ہی ہوتا ہے.مگر کسی خاص حکمت کے ماتحت اللہ تعالٰی اس کے ساتھ اسباب کو بھی شامل کر دیتا ہے.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ حضرت صاحب کو الہام ہوا کہ احمدیوں کو بالعموم طاعون نہیں ہوگی.مگر اس کے ساتھ ہی آپ نے یہ بھی کہا کہ جرابیں پہنیں، شام کے بعد باہر نہ نکلیں اور کونین استعمال کریں یہ اسباب تھے.مگر حقیقی بات یہی ہے کہ یہ تقدیر بغیر اسباب کے تھی.
العلوم جلدة ۵۷۲ کیونکہ جرابیں اور دستانے زیادہ پہننے والے تو اور لوگ بھی تھے.پھر زیادہ دوائیاں استعمال کرنے والے بھی اور لوگ تھے.احمدیوں کے پاس کوئی زیادہ اسباب نہ تھے کہ وہ طاعون سے محفوظ رہتے.دراصل جرمز (GERMS) کو حکم تھا کہ احمدیوں کے جسم میں مت داخل ہوں.مگر ساتھ ہی احمدیوں کو بھی حکم تھا کہ اسباب کو اختیار کرو.وجہ یہ کہ یہ حکم دشمن کے سامنے بھی جانا تھا اور ایمان اور عدم ایمان میں فرق نہ رہ جاتا.اگر بغیر ان اسباب کے احمدی طاعون سے محفوظ رہتے یا اگر اس حکم میں استثنائی صورتیں پیدا ہی نہ ہوتیں تو سب لوگ احمدی ہو جاتے اور یہ ایمان ایمان بالغیب نہ ہوتا.(۲) دوسری قسم اس تقدیر کی وہ ہے جس میں اسباب موجود بھی نہیں ہوتے اور ساتھ شامل بھی نہیں کئے جاتے.یہ تقدیر صرف نبیوں اور مؤمنوں کے سامنے ظاہر ہوتی ہے.دوسروں کے سامنے نہیں ہوتی.کیونکہ دوسروں کے سامنے اگر یہ تقدیر ظاہر ہو تو وہ ایمان حاصل کرنے کے ثواب سے محروم رہ جائیں.لیکن مؤمن جو ایمان بالغیب لاچکتے ہیں ان کو ایمان باشہادۃ اس تقدیر کے ذریعہ سے دیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ سے وہ خاص طور پر ایمان میں ترقی کرتے ہیں.اس قسم کی تقدیر کی مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں آپ کے کرتہ چھینٹے پڑنے کا واقعہ ہے.ایک دفعہ آپ نے رویا میں دیکھا کہ میں خدا کے سامنے کچھ کاغذات لے کر گیا ہوں اور ان کو خدا کے سامنے پیش کیا ہے.خدا نے ان پر دستخط کرتے وقت قلم چھڑ کا ہے اور اس کے قطرے میرے کپڑوں پر پڑے ہیں.حضرت صاحب کو جب یہ کشف ہوا.اس وقت مولوی عبداللہ صاحب سنوری آپ کے پاؤں دبا رہے تھے.دباتے دباتے انہوں نے دیکھا کہ حضرت صاحب کے ٹخنے پر سرخ رنگ کا چھینٹا پڑا ہے.جب اس کو ہاتھ لگایا تو وہ گیلا تھا.جس سے وہ حیران ہوئے کہ یہ کیا ہے؟ میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا آپ کو خیال نہ آیا کہ یہ چھینٹے غیر معمولی نہ تھے بلکہ کسی ظاہری سبب کے باعث تھے.انہوں نے کہا مجھے اس وقت خیال آیا تھا اور میں نے ادھر ادھر اور چھت کی طرف دیکھا تھا کہ شاید چھپکلی کی دم کٹ گئی ہو اور اس میں سے خون گرا ہو مگر چھت بالکل صاف تھی.اور ایسی کوئی علامت نہ تھی جس سے چھینٹوں کو کسی اور سبب کی طرف منسوب کیا جا سکتا.اس لئے جب حضرت صاحب اٹھے تو اس کے متعلق میں نے آپ سے پوچھا.آپ نے پہلے تو ٹالنا چاہا.لیکن پھر
لوم جلد ۴ ۵۷۳ تقدیراتی ساری حقیقت سنائی.تو خدا نے اس طرح خاص تقدیر کو بلا کسی سبب کے ظاہر کیا مگر ایک نبی اور اس کے متبع مولوی عبداللہ صاحب کے سامنے.کیونکہ وہ ایمان بالغیب لا چکے تھے اور اب ان کو ایمان باشارة عطا کرنا مد نظر تھا.غرض مؤمنوں کے ایمان کو تازہ کرنے کے لئے اللہ تعالٰی کبھی کبھی تقدیر بلا اسباب کے بھی ظاہر کرتا ہے تا خدا تعالی کی قدرت کا ثبوت ان کو ملے.لیکن کافر کا یہ حق نہیں ہو تا کہ اس کو اس قسم کا مشاہدہ کرایا جائے.رسول کریم جو سب نبیوں کے سردار تھے اور ہیں، آپ کی زندگی میں بھی اس کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں.جب آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے اور کفار مکہ نے آپ کا تعاقب کیا اور غار ثور تک پہنچ گئے جہاں آپ حضرت ابو بکر سمیت پوشیدہ تھے.جو کھوجی کفار کے ساتھ تھا اس نے کہہ دیا کہ یہاں تک آئے ہیں آگے نہیں گئے مگر باوجود اس کے زور دینے کے کسی کو توفیق نہیں ملی کہ گردن جھکا کر دیکھ لے.حالانکہ جو لوگ تین میل تک تعاقب کر کے گئے تھے اور تلاش کرتے کرتے پہاڑ پر چڑھ گئے تھے ان کے دل میں طبعاً خیال پیدا ہونا چاہئے تھا کہ اب یہاں تک آئے ہیں تو جھک کر دیکھ لیں کہ شاید اندر بیٹھے ہوں.مگر عین موقع کر بھی کسی نے گردن جھکا کر غار کے اندر نہ دیکھا.حضرت ابو بکر فرماتے ہیں کہ غار کا منہ اس قدر چوڑا تھا کہ اگر وہ لوگ جھک کر دیکھتے تو ہمیں دیکھ سکتے تھے.پس یہ اللی تصرف تھا جو ان کے قلوب پر ہوا اور بظاہر اس کے لئے کوئی سامان موجود نہ تھے.یہ تقدیر کی قسم بہت کم ظاہر ہوتی ہے اور اس پر آگاہی صرف مؤمنوں کو دی جاتی ہے تا ان کا ایمان بڑھے.غار ثور والے واقعہ میں بھی گو کفار وہاں موجود تھے مگر ان کو یہ نہیں معلوم ہوا کہ محمد ال وہاں موجود ہیں اور وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتے.اس بات کا علم صرف آنحضرت ا اور حضرت ابو بکر کو تھا.رسول کریم کا پانی بڑھانا بھی اس قسم کی تقدیر کی ایک مثال ہے.آج کل کے لوگ اس نشان کا انکار کر دیں تو کر دیں لیکن حدیثوں میں اس کثرت سے اس کا ذکر آیا ہے کہ کوئی مسلمان اس کا انکار نہیں کر سکتا.مگر یہ نشان مسلمانوں ہی کے سامنے ہوا تھا کیونکہ اگر کفار کے سامنے ایسا نشان ظاہر ہوتا تو یا وہ ایمان بالغیب سے محروم رہ جاتے یا ایسے کھلے نشان کو دیکھ
۵۷۴ تقدیرانی وم جلد ۴ کر بھی ساحر ساحر کہہ کر ایک عاجل عذاب کے مستحق ہو جاتے جو خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے منافی تھا.گو اس وقت تک جو کچھ میں بتا چکا ہوں اس سے معلوم تقدیر کا تعلق اعمال انسانی سے ہوجاتا.ہو جاتا ہے کہ تقدیر کا وہ مفہوم نہیں ہے کہ جو عوام میں سمجھا جاتا ہے اور جو اسلام کے فلسفیوں نے سمجھا ہے.یعنی یہ کہ جو کچھ کرتا ہے بندہ ہی کرتا ہے ؟ یا یہ کہ جو کچھ کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہی کرتا ہے بندہ کا اس میں دخل نہیں ہے.بلکہ اس کے علاوہ ایک درمیانی راستہ ہے جو صحیح اور مطابق تعلیم اسلام ہے.لیکن اب میں زیادہ تشریح سے اس امر کو بیان کر دیتا ہوں کہ تقدیر کا تعلق اعمال انسانی سے کیا ہے؟ تقدر شخص یاد رکھنا چاہئے کہ جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں تقدیر کئی قسم کی ہے.تقدیر عام طبعی اور دير عام شرعی - تقدیر خاص طبعی اور تقدیر خاص شرعی.ان میں سے اول الذکر تقدیر ہی ہے جو سب انسانوں سے تعلق رکھتی ہے.اللہ تعالٰی نے کچھ قوانین مقرر کر دیئے ہیں جن کے ماتحت سب کارخانہ عالم چل رہا ہے.یعنی ہر ایک چیز میں کچھ خاصیتیں پیدا کر دی ہیں وہ اپنی مفوضہ خدمت کو اپنے دائرہ میں ادا کر رہی ہیں.مثلاً آگ میں جلانے کی خاصیت رکھی ہے.جب آگ کسی ایسی چیز کو لگائی جائے گی جس میں جلنے کی طاقت رکھی ہوئی ہے تو وہ اسے جلا دے گی اور اس چیز کا جلنا تقدیر کے ماتحت ہو گا.لیکن خدا تعالیٰ نے یہ مقرر نہیں فرمایا کہ فلاں فلاں شخص کے گھر کو آگ لگا دے.چیزوں کی خاصیت خدا نے پیدا کی ہے مگر ان کے استعمال کے متعلق اللہ تعالیٰ کسی کو مجبور نہیں کرتا.چور جب چوری کرتا ہے تو یہ بات بے شک تقدیر ہے کہ جب وہ غیر کے مال کو اٹھاتا ہے تو وہ مال اٹھ جاتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے یہ بات مقرر نہیں کی کہ زید بکر کا مال اٹھا لے.زید کو طاقت حاصل تھی کہ خواہ اس کا مال اٹھا تا خواہ نہ اٹھاتا.یا مثلاً بارش آتی ہے تو وہ ایک عام قاعدہ کے ماتحت آتی ہے.اللہ تعالیٰ کا اس کے متعلق کوئی خاص حکم نہیں ہو تا کہ فلاں جگہ اور فلاں وقت بارش ہو.پس بارش کا آنا ایک تقدیر ہے مگر تقدیر خاص نہیں.ایک عام قاعدہ اللہ تعالیٰ نے بنا دیا ہے.اس قاعدہ کے ماتحت بارش آجاتی ہے اور جیسے حالات ہوتے ہیں ان کے ماتحت برس جاتی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس تقدیر عام کے علاوہ اور تقدیریں بھی ہیں.اور ان میں اللہ تعالیٰ کے خاص احکام نازل ہوتے ہیں.اور اس وقت جب وہ تقدیریں نازل ہوتی ہیں تو تقدیر عام کو پھیر کر ان تقدیروں کے
رالعلوم جلد ۴ ۵۷۵ تقدیر الی مطابق کر دیا جاتا ہے یا تقدیر عام کے قواعد کو توڑ دیا جاتا ہے.جیسے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کے وقت.مگریہ تقدیر ہر ایک کے لئے اور ہر روز نازل نہیں کی جاتی بلکہ یہ تقدیریں خاص بندوں کے لئے نازل ہوتی ہیں یا ان کی مدد کے لئے یا ان کے دشمنوں کی ہلاکت کے لئے.کیونکہ خاص سلوک خاص ہی لوگوں سے کیا جاتا ہے.یا ان تقدیروں کے نزول کا محرک کسی شخص کی قابل رحم حالت ہوتی ہے جو خواہ خاص طور پر نیک نہ ہو مگر اس کی حالت خاص طور پر قابل رحم ہو جائے.اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت جوش میں آکر اس کی صفت قادریت کو جوش میں لاتی ہے.جو اس مسکین کی مصیبت کو دور کرتی یا اس پر ظلم کرنے والے کو سزا دیتی ہے.یہ تقدیر خاص جو نازل ہوتی ہے کبھی انسانی اعضاء پر بھی نازل ہوتی ہے یعنی انسان کو مجبور کر کے اس سے ایک کام کروایا جاتا ہے.مثلاً زبان کو حکم ہو جاتا ہے کہ وہ ایک خاص فقرہ بولے اور خواہ بولنے والے کا دل چاہے نہ چاہے اسے وہ فقرہ بولنا پڑتا ہے اور اس کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس کو روک سکے.یا کبھی ہاتھ کو کوئی حکم ہو جاتا ہے اور کبھی سارے جسم کو کوئی حکم ہو جاتا ہے.اور اس وقت انسان کا تصرف اپنے ہاتھ یا جسم پر نہیں رہتا بلکہ خدا تعالیٰ کا تصرف ہوتا ہے.چنانچہ حضرت عمرؓ کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ان کی خلافت کے ایام میں وہ منبر پر چڑھ کر خطبہ پڑھ رہے تھے کہ بے اختیار ان کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوئے.يَا سَادِيَةٌ اَلْجَبَلُ، يَا سَارِيَةُ الْجَبَل یعنی اے ساریہ پہاڑ پر چڑھ جا.اے ساریہ پہاڑ پر چڑھ جا.چونکہ یہ فقرات بے تعلق تھے لوگوں نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے یہ کیا کہا؟ تو آپ نے فرمایا کہ مجھے دکھایا گیا کہ ایک جگہ ساریہ جو اسلامی لشکر کے ایک جرنیل تھے کھڑے ہیں اور دشمن ان کے عقب سے اس طرح حملہ آور ہے کہ قریب ہے کہ اسلامی لشکر تباہ ہو جائے.اس وقت میں نے دیکھا تو پاس ایک پہاڑ تھا کہ جس پر چڑھ کر وہ دشمن کے حملہ سے بچ سکتے تھے.اس لئے میں نے ان کو آواز دی کہ وہ اس پہاڑ پر چڑھ جائیں.ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ساریہ کی طرف سے بعینہ اسی مضمون کی اطلاع آئی اور انہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس وقت ایک آواز آئی جو حضرت عمرؓ کی آواز سے مشابہ تھی جس نے ہمیں خطرہ سے آگاہ کیا اور ہم پہاڑ پر چڑھ کر دشمن کے حملہ سے بچ گئے.( تاریخ ابن کثیر ار در جلد ۷ صفحہ ۲۶۵-۲۶۷) اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کی زبان اس وقت ان کے اپنے قابو سے نکل گئی تھی اور اس قادر مطلق ہستی کے قبضہ میں تھی جس کے لئے فاصلہ اور دوری کوئی شے ہے ہی نہیں.
انوار العلوم جلدم ۵۷۶ تقدیرانی پس تقدیر کبھی اعضاء پر جاری کی جاتی ہے اور جس طرح بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جبر سے کام کراتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ جبر سے انسان سے کام لیتا ہے.جس میں انسان کا کچھ دخل نہیں ہو تا بلکہ وہ محض ایک ہتھیار کی طرح ہوتا ہے یا مردہ کی طرح ہوتا ہے جس میں خود ہلنے کی طاقت نہیں ہوتی.وہ زندہ کے اختیار میں ہوتا ہے وہ جس طرح چاہے اس سے کرے.چنانچہ حضرت عمر کا یہ واقعہ ایسی ہی تقدیر کے ماتحت تھا اور ان کا کچھ دخل نہ تھا ورنہ ان کی کیا طاقت تھی کہ اس قدر دور اپنی آواز پہنچا سکتے.رسول کریم ﷺ کی ذات تو تمام قسم کے معجزات کی جامع ہے.آپ کی زندگی میں بھی اس قسم کی تقدیر کی بہترین مثالیں پائی جاتی ہیں.آپ ایک دفعہ ایک جنگ سے واپس آرہے تھے.راستہ میں ایک جنگل میں دوپہر کے وقت آرام کرنے کے لئے ٹھر گئے.تمام صحابہ ادھر ادھر بکھر کر سو گئے.کیونکہ کسی قسم کا خطرہ نہ تھا.آپ بھی اکیلے ایک جگہ لیٹ گئے کہ یکدم کی آنکھ کھلی اور آپ نے دیکھا کہ ایک اعرابی کے ہاتھ میں آپ کی تلوار ہے اور وہ کے سامنے تلوار کھینچے کھڑا ہے.جب آپ کی آنکھ کھلی تو اس نے دریافت کیا کہ بتا اب تجھے کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے کہا خدا.آپ کا یہ کہنا تھا کہ اعرابی کے ہاتھ سے تلوار گر گئی.(مسلم کتاب الفضائل باب تو كله على الله تعالى وعصمة الله تعالى من الناس، اس وقت اگر ساری دنیا بھی کوشش کرتی کہ اس کے ہاتھ سے تلوار نہ کرے تو کچھ نہ کر سکتی تھی.کیونکہ انسان کو وہاں تک پہنچنے میں دیر لگتی سوائے خدا تعالیٰ کے اور کوئی کچھ نہ کر سکتا تھا.ایسے خاص اوقات میں اللہ تعالیٰ کے خاص بندوں کے لئے خاص تقدیر جاری ہوتی ہے.اس اعرابی کے لئے جس کا دماغ صحیح تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ رسول کریم اسی کو مارے خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر نازل ہوئی کہ اس کا ہاتھ نہ ہے اور وہ نہ ہلا.یہ ایک تقدیر تھی جو ایک خاص وقت ایک خاص شخص کے ایک عضو پر جاری ہوئی.لیکن کیا ایسی تقدیروں کے ہوتے ہوئے کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ انسان مجبور ہے؟ یہ تقدیریں ہیں.لیکن باوجود ان کے انسان مجبور نہیں ہے بلکہ قابل مؤاخذه ہے.کیونکہ یہ تقدیریں ہمیشہ جاری نہیں ہوتیں بلکہ خاص حالتوں میں جاری ہوتی ہیں.اور ایسی کوئی تقدیر جاری نہیں کی جاتی جس کے سبب سے انسان مجبور قرار پا سکے.اور عقاب و ثواب کے دائرہ سے نکل جاوے.ایک و دو سری مثال اس قسم کی تقدیر کی آنحضرت ل اللہ ﷺ کے زمانہ میں ہمیں اور بھی ملتی
انوار العلوم جلد ۴ سا التمر تقدیر الهی ہے.رسول کریم و پر جب عرب کے لوگوں نے اجتماع کر کے وہ حملہ کیا جو غزوہ احزاب کہلاتا ہے تو اس سے پہلے یہود سے آپ کا معاہدہ ہو چکا تھا کہ اگر کوئی دشمن مدینہ پر حملہ کرے گا تو یہود اور مسلمان مل کر اس کا مقابلہ کریں گے.اس موقع پر ان کا فرض تھا کہ مدد کرتے لیکن انہوں نے اس کے برخلاف آپ کے دشمنوں سے یہ منصوبہ گانٹھا کہ باہر مردوں پر تم حملہ کرو اور شہر میں ہم ان کی عورتوں اور بچوں کو مار ڈالیں گے.جب رسول کریم اے لڑنے کے لئے گئے تو کفار نہ لڑے.واپس آکر آپ نے یہود سے پوچھا کہ بتاؤ اب تمہاری کیا سزا ہونی چاہئے.ان کو محمد ال جیسا رحیم کریم انسان سزا دیتا تو وہی دیتا جو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم کے ذریعہ اس نے مکہ والوں کو دی تھی.یعنی معاف کر دیتا.مگر انہوں نے کہا ہم تیری بات نہیں مانیں گے.یہ بات معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہی ان کے مونہہ سے جاری کرائی کیونکہ ان کو سالہا سال کا تجربہ تھا کہ آنحضرت ا اپنے دشمنوں سے نہایت نرمی کا برتاؤ کرتے ہیں.جب ان لوگوں سے دریافت کیا گیا کہ تم کس کی بات مانو گے تو انہوں نے حضرت سعد کا نام لیا.جب سعد سے دریافت کیا گیا کہ ان کو کیا سزا دی جاوے تو انہوں نے کہا کہ ان کے جتنے تلوار اٹھانے والے جوان ہیں سب قتل کئے جاویں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.(بخاری کتاب المغازی باب جب ان لا اله الا ان یہود کی زبان پر کیوں یہ تقدیر جاری کی گئی ؟ اس لئے کہ محمد ا کی زبان پر ان کے رحم اور ان کے مقام کی وجہ سے یہ تقدیر جاری نہیں کی جا سکتی تھی.اس کے جاری ہونے کا یہ مطلب ہو تا کہ آپ کا دل سخت ہو جاتا.مگر کافروں کی زبان پر جاری ہو سکتی تھی کیونکہ ان کے دل پہلے ہی سخت تھے.پس یہ تقدیر انہی کے منہ سے اس طرح جاری کرائی کہ ہم تیری بات نہیں مانتے بلکہ فلاں کی بات مانتے ہیں.لیکن یہ یاد رہے کہ یہ دونوں تقدیریں جو اعمال پر یا زبان پر جاری ہوتی ہیں یہ شرعی اعمال میں نہیں ہوتیں.کیونکہ قیامت کے دن شرعی اعمال کی پُرسش ہوگی.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے جبراً حضرت عمرؓ سے نمازیں نہیں پڑھوائیں.اگر جبرا کیا تو یہ کیا کہ زبان پر جاری کرا دیا کہ ساریہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ.اسی طرح خدا نے یہود کے متعلق یہ نہیں کیا کہ جبرا ان کو نماز سے روک دیتا یا محمد رسول اللہ پر ایمان نہ لانے دیتا.بلکہ صرف ایک سیاسی معاملہ میں جزائے عمل کے متعلق تقدیر نازل کی.تو یہ تقدیر شرعی اعمال پر جاری نہیں ہوتی بلکہ ان اعمال میں ہوتی ہے جن میں کوئی بھی عمل ہو اس سے انسان شرعی سزا کا مستحق نہیں ہوتا کیونکہ اگر شرعی اعمال پر تقدیر جاری عه زاد المعاد لابن قيم جدا صفحه ۴۲۴ الله م الاحزان
انوار العلوم جلد ۵۷۸ تقدیر ال ہو.جبرا چوری کروائی جاوے یا نماز پڑھوائی جاوے تو پھر سزا یا انعام کی وجہ نہیں رہتی بلکہ سزا کا دینا ایسے حالات میں ظلم ہو جاتا ہے جس سے خدا تعالیٰ پاک ہے.اب میں یہ بتاتا تقدیر کے نزول کے وقت استعمال اسباب جائز ہے یا نہیں؟ ہوں کہ جب تقدیر.جاری ہوتی ہے تو بندہ کو اسباب کے استعمال کی طاقت ہوتی ہے یا نہیں.اور اگر طاقت ہوتی ہے تو پھر اسباب کے استعمال کی اجازت ہوتی ہے یا نہیں.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ جو تقدیر جوارح پر جاری ہوتی ہے اس کے مقابلہ میں انسان کو استعمال اسباب کی طاقت نہیں ہوتی.چنانچہ حضرت عمر کی زبان کو جب خاص الفاظ استعمال کرنے کا حکم ہوا تھا ان کی طاقت نہ تھی کہ دنیا کے کسی سامان کو بھی استعمال کر کے وہ اپنی زبان کو اس فقرہ کے بولنے سے روک سکتے.یا اس کافر کے ہاتھ پر جب تقدیر جاری ہوئی کہ شل ہو کر تلوار اس سے گر جاوے اور محمد رسول اللہ ﷺ پر حملہ نہ کر سکے اس کی طاقت نہ تھی کہ اس کے خلاف کچھ کر سکے.اسی طرح جب دل پر تقدیر جاری ہوتی ہے تو اس تقدیر کے خلاف انسان کا میلان ہو ہی نہیں سکتا.لیکن جو تقدیریں کہ خود انسان کے قلب اور جوارح پر جاری نہیں ہوتیں بلکہ دوسروں پر جاری ہوتی ہیں یا اس کے جسم کے ایسے حصوں پر جاری ہوتی ہیں جن کا کام طبعی ہے اس کے ارادہ کے ماتحت نہیں ہے اس وقت ایسے اسباب کے استعمال کی طاقت ہوتی ہے.ایسی حالت میں پھر دو صورتیں ہوتی ہیں اول یہ کہ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تقدیر نازل ہوئی ہے.دوم وہ حالت کہ اسے معلوم ہی نہیں ہو تا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی تقدیر نازل ہوئی ہے.جب اسے معلوم ہی نہیں ہوتا کہ تقدیر نازل ہوئی ہے اس وقت اگر یہ اسباب استعمال کرتا ہے تو اسے کوئی گناہ نہیں ہو تا.لیکن جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ تقدیر نازل کی ہے تو اس وقت اس کی دو حالتیں ہوتی ہیں.یا تو اس کو خود اللہ تعالی کی ہی طرف سے بعض اسباب یا گل اسباب کے استعمال کرنے کا حکم ہوتا ہے.یعنی تقدیر تو ہوتی ہے مگر ان اسباب سے معلق ہوتی ہے.مثلا رسول کریم کے لئے فتح پانا مقدر ہو چکا تھا مگر وہ تقدیر معلق تھی جنگ کے ساتھ.پس ایسے وقت میں بندہ کے لئے فرض ہوتا ہے کہ بعض یا گل اسباب کو استعمال نہ کرے.اگر کرے گا تو اس کو نقصان پہنچے گا اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی ہوگی.اور اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ بندہ کو بتایا جائے کہ خدا تعالیٰ بغیر
انوار العلوم جلد من ۵۷۹ تقدیرانی اسباب کے بھی کام کر سکتا ہے.اس کی مثال میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.ایک دفعہ آپ کو کھانسی کی شکایت تھی.مبارک احمد کے علاج میں آپ ساری ساری رات جاگتے تھے.میں ان دنوں بارہ بجے کے قریب سوتا تھا اور جلدی ہی اٹھ بیٹھتا تھا.لیکن جب میں سوتا اس وقت حضرت صاحب کو جاگتے دیکھتا اور جب اٹھا تو بھی جاگتے دیکھتا اس محنت کی وجہ سے آپ کو کھانسی ہو گئی.ان دنوں میں ہی آپ کو دوائی وغیرہ پلایا کرتا تھا اور چونکہ دوائی کا پلانا میرے سپرد تھا اس لئے ڈاکٹروں کے مشورہ کے مطابق ایسی باتوں پر جو کھانسی کے لئے مضر ہوں ٹوک بھی دیا کرتا.ایک دن ایک شخص آپ کے لئے تحفہ کے طور پر کیلے لایا.حضرت صاحب نے کیلا کھانا چاہا مگر میرے منع کرنے پر کہ آپ کو کھانسی ہے آپ کیوں کیلا کھاتے ہیں آپ نے کیلا مسکرا کر رکھ دیا.غرض چونکہ میں ڈاکٹروں کی ہدایات پر عمل کراتا تھا اور تیمار دار تھا آپ میری بات بھی مان لیتے تھے.انہی دنوں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب حضرت صاحب کے لئے فرانسیسی سیب لائے جو اتنے کھٹے تھے کہ کھانسی نہ بھی ہو تو ان کے کھانے سے ہو جائے.لیکن حضرت صاحب نے تراش کر ایک سیب کھانا شروع کر دیا.میں نے منع کیا لیکن آپ نے نہ مانا اور کھاتے چلے گئے.میں بہت کڑھتا رہا کہ اس قدر کھانسی کی آپ کو تکلیف ہے مگر پھر بھی آپ ایسا ترش میوہ کھا رہے ہیں.لیکن آپ نے پرواہ نہ کی اور سیب کی پھانکیں کر کے کھاتے گئے اور ساتھ ساتھ مسکراتے بھی گئے.جب سیب کھا چکے تو فرمایا.تمہیں نہیں معلوم مجھے الہام ہوا ہے کہ کھانسی دور ہو گئی ہے اور اب کسی احتیاط کی ضرورت نہیں.اس لئے میں نے اللہ تعالیٰ کے کلام کے ادب کے طور پر یہ سیب باوجود ترش ہونے کے کھا لیا ہے.چنانچہ اس کے بعد آپ کی کھانسی اچھی ہو گئی اور کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی.اب یہ سوال پیدا بعض حالات میں کیوں اسباب استعمال کرائے جاتے ہیں؟ ہوتا ہے کہ بعض حالات میں بندہ سے کیوں اسباب استعمال کرائے جاتے ہیں؟ بلا اسباب کیوں کام نہیں ہو جاتے ؟ اس کے لئے یاد رکھنا چاہیئے کہ اول اگر ہمیشہ بلا اسباب کام لیا جاوے تو ایمان بالغیب جو حصول انعام اور ثواب کیلئے ضروری ہے باطل ہو جائے.علاوہ ازیں چونکہ بندہ کا عمل بھی خدا کے رحم کو جذب کرتا ہے اس لئے تقدیر بھی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ رحمت کے
انوار العلوم جلدم ۵۸۰ جذب کرنے کے لئے خدا تعالیٰ اسباب بھی استعمال کراتا ہے.اسباب تقدیر کے راستہ میں نہ روک ہو سکتے ہیں اور نہ ہوتے ہیں.لیکن اس کی کمزوری اور بے بسی جاذب رحمت ہو جاتی ہے.دوم.اسباب سے کام لینے کا اس لئے بھی حکم ہے کہ بندہ پر اس کی سعی کی کمزوری ظاہر ہو.اگر بلا اسباب کام ہو جائے تو بہت دفعہ انسان یہ خیال کرلے کہ اگر میں اس کام کو کرتا تو نہ معلوم کس طرح کرتا جب وہ ساتھ ساتھ سعی کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا جاتا ہے کہ اس کی سعی کمزور ہے اور اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا فضل کیا کام کر رہا ہے.پس سعی انسان کے ایمان کو مضبوط کرتی ہے.اور انسان ساتھ کے ساتھ دیکھتا جاتا ہے کہ اگر میرے ذمہ ہی یہ کام ہو تا تو میری کوشش اور سعی بس اس حد تک ہی پہنچ سکتی تھی اور آخر مجھے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا.بصورت دیگر اسے تقدیر ایک اتفاق نظر آتی اور ستی مزید بر آن پیدا ہوتی.اس استعمال سامان کے متعلق میں ایک مثال بیان کرتا ہوں.رسول کریم کے متعلق یہ تقدیر نازل ہو چکی تھی کہ آپ کامیاب ہوں گے اور آپ کے دشمن ناکام.اگر بلا کسی باعث کے اپنے اپنے گھروں میں لوگ بیمار پڑ کر مر جاتے تو سب لوگ کہتے کہ یہ اتفاق تھا لوگ مرا ہی کرتے ہیں.لیکن اللہ تعالٰی نے اس تقدیر کو اسباب کے ذریعہ ظاہر کر کے اپنی قدرت کا خاص ثبوت دیا.جنگ بدر کا ایک واقعہ اس امر کو خوب روشن کر دیتا ہے.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ اس دن میرا دل چاہتا تھا کہ آج دشمنوں کے مقابلہ میں خوب داد مردانگی دوں.(کیونکہ یہ پہلی جنگ تھی جس میں کفار اور مسلمانوں کا جم کر مقابلہ ہونے والا تھا.اور جس میں ایک طرف مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل اور دوسری طرف خدا اور رسول موجود تھے اور مسلمانوں کو کفار کے مظالم ایک ایک کر کے یاد آرہے تھے ) اور چونکہ لڑائی میں جس سپاہی کے دائیں بائیں بھی طاقتور آدمی ہوں وہی خوب لڑ سکتا ہے.میں نے بھی اپنے دائیں بائیں دیکھا لیکن میرے افسوس کی کوئی حد نہ رہی جب میں نے دیکھا کہ میری دونوں جانب چودہ چودہ سال کے دو انصار لڑکے تھے.انہیں دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ آج میں نے کیا لڑنا ہے.یہ وسوسہ ابھی میرے دل میں پیدا ہی ہوا تھا کہ ان میں سے ایک نے مجھے کہنی ماری اور میرے کان میں آہستہ سے کہا تاکہ دوسرا نہ سن لے کہ چا! ابو جہل کون سا ہے ؟ دل چاہتا ہے کہ اس کو قتل کر دوں
علوم جلد ۴ ۵۸۱ تقدیر الهی کر اس پر کیونکہ سنا ہے کہ وہ رسول اللہ اللہ کو سخت رکھ دیتا ہے.وہ کہتے ہیں اس کی یہ بات سن کر میں تو حیران رہ گیا کیونکہ یہ خیال میرے دل میں بھی نہ آیا تھا.لیکن ابھی میں نے اس کی پوری بات نہ سنی تھی کہ دوسرے نے میرے دوسرے پہلو میں کہنی ماری اور آہستہ سے ناکہ دوسرا نہ سن لے اس نے بھی یہی دریافت کیا کہ چچا! ابو جہل کون سا ہے ؟ جس نے سنا ہے رسول کریم پر بڑے بڑے ظلم کئے ہوئے ہیں.اس پر میری حیرت اور بھی بڑھ گئی.لیکن میری حیرت کی اس وقت کوئی حد نہ رہی جب میرے ابو جہل کی طرح اشارہ کرتے ہی باوجود اس کے کہ اس کے ارد گرد بڑے بڑے بہادر سپاہی کھڑے تھے وہ دونوں لڑکے شکروں کی طرح جھپٹ حملہ آور ہوئے (بخاری کتاب العفازى باب فضل من شهد بدرا اور چاروں طرف کی تلوار کے دار بچاتے ہوئے اس تک پہنچ ہی گئے اور اس کو زخمی کر کے گرا دیا.اس واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کفار کی ہلاکت کے لئے جنگ کرانا اور مسلمانوں کا ان کے مقابلہ پر جانا ایک سبب تھا.مگر خود اس تدبیر کی کمزوری ہی اس تقدیر کی عظمت پر دلالت تھی جو خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ ا کے لئے جاری کی تھی.مگر یہ تدبیر نہ ہوتی تو اس تقدیر کی شان بھی اس طرح ظاہر نہ ہوتی اور صحابہ کو اپنی کمزوری اور اللہ تعالی کے جلال کا ایسا پتہ نہ لگتا جو اب لگا.در حقیقت اپنی تلواروں میں ہی انہوں نے خدا تعالیٰ کی چمکتی ہوئی تلوار کو دیکھا اور ان اسباب میں ہی اپنی بے اسبابی کا علم حاصل کیا.تیرہ چودہ سال کے لڑکے کس طرح ابو جہل کو مار سکتے تھے مگر انہوں نے مارا.یہی حال ان دوسرے لوگوں کا تھا جو اس جنگ میں قتل کئے گئے.وجہ تھی کہ خدا تعالیٰ اس جنگ کے متعلق فرماتا ہے.فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ قَتَلَهُمْ (الانفال: ۱۸) کہ تم نے ان کو قتل نہیں کیا بلکہ ہم نے کیا ہے.پھر رسول کریم ال کو فرمایا ہے.وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَفى (الانفال: ۱۸) جب تو نے ان کفار پر پتھر پھینکے تھے.یہ پھینکنا تیری طرف سے نہ تھا بلکہ ہماری طرف پر ؟ سے تھا.بے شک کنکر تو رسول اللہ ا نے پھینکے تھے مگر چونکہ آندھی خدا کی طرف سے چلائی گئی تھی اور اس نے دشمن کو جنگ کے ناقابل کر دیا تھا اس لئے خدا تعالیٰ ہی کی طرف اس فعل کو منسوب کیا گیا.پس تقدیر کے ظہور میں بعض اوقات بے اسبابی کے اظہار کے لئے اسباب رکھے جاتے ہیں.سو ئم انسان کو محنت اور کوشش کا پھل دینے کے لئے تقدیر کے ساتھ اسباب کے استعمال کا ۱۳ میں
انوار العلوم جلدم ۵۸۲ تقدير الى بھی حکم دیا جاتا ہے.مثلاً صحابہ کرام کو جنگوں کا ثواب ملا اگر یونسی فتح ہو جاتی تو کہاں ملتا.وہ تقدیر محتاج نہ تھی صحابہ کی تلوار کی مگر صحابہ محتاج تھے تقدیر کے ساتھ عمل کرنے کے تاکہ ثواب سے محروم نہ رہ جائیں.یہ تین موٹی موٹی وجوہ ہیں تقدیر کے ساتھ اسباب کے استعمال کرنے کی.اب سوال ہو سکتا ہے کہ پھر بعض اوقات تقدیر میں اسباب سے منع کیوں کیا جاتا ہے ؟ اس کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ کبھی خدا تعالیٰ مؤمن کو بغیر اسباب کے تقدیر کا اظہار کر کے اپنا جلال دکھانا چاہتا ہے تاکہ معلوم ہو کہ اس کی قدرت کے مقابلہ میں سب اسباب بیچ ہیں اور خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے.اب میں اس سوال کا جواب دیتا ہوں کہ کیا تقدیر مل سکتی ہے؟ کیا تقدیر مل سکتی ہے ؟ اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ ہاں مل سکتی ہے.تقدیر کے معنی فیصلے کے ہیں اور جو فیصلہ دے سکتا ہے وہ اسے بدل بھی سکتا ہے.اور فیصلہ کر کے اس کو بدل نہ سکنا کمزوری کی علامت ہے جو خدا تعالیٰ میں نہیں پائی جاسکتی.اب میں بتاتا ہوں کہ تقدیر کس طرح مل سکتی ہے.تقدیر کس طرح مل سکتی ہے؟ اول تقدیر عالم طبعی مل سکتی ہے تقدیر عالم طبعی ہے.مثلاً تقدیر عام طبعی یہ ہے کہ آگ لگے تو کپڑا جل جائے.اب اگر کسی کپڑے کو آگ لگائی جائے ور وہ جلنے لگے تو کہا جاوے گا کہ اس پر تقدیر عام طبعی جاری ہو گئی ہے مگر اس وقت کے متعلق ایک اور تقدیر بھی ہے اور وہ یہ کہ اگر آگ پر پانی ڈال دیا جائے تو وہ اسے بجھا دیتا ہے.پس جب پانی آگ پر ڈالا جائے گا تو وہ بجھ جائے گی اور اس طرح ایک تقدیر عام طبعی دوسری تقدیر عام طبعی کو ٹلا دے گی.پس تقدیر عام مل سکتی ہے اور وہ اس طرح کہ اس کے مقابل میں ایک دوسری تقدیر کو جاری کر دیا جائے اور اس طرح اسے مٹا دیا جائے.اگر کوئی کہے کہ جو مثال دی گئی ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ تدبیر نے تقدیر کو ٹلا دیا نہ کہ تقدیر نے تقدیر کو.کیونکہ پانی کو انسان ڈالتا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر پانی انسان نے ڈالا ہے تو آگ بھی تو بسات اوقات انسان خود ہی دانستہ یا نادانستہ لگاتا ہے.پس جس طرح پہلے فعل کو تقدیر کہا جاتا ہے دوسرے فعل کو بھی تقدیر کہا جاوے گا.دوسرے جیسا کہ بیان ہو چکا ہے انسان کا فعل تو تقدیر ہوتا ہی نہیں (سوائے ان صورتوں کے جو بیان ہو ئیں) ہماری مراد آگ لگنے سے بھی اور اس
لوم جلد ۴ ۵۸۳ تقدیر الهی کے بجھنے سے بھی انسانی فعل کی طرف اشارہ کرنا نہیں بلکہ جلنے اور بجھنے کی قابلیت سے ہے.پس صحیح یہی ہے کہ ایک تقدیر نے دوسری تقدیر کو بدل دیا.ورنہ خدا تعالیٰ اگر آگ میں جلانے کی خاصیت نہ رکھتا تو کون کسی چیز کو جلا سکتا اور اگر وہ پانی میں بجھانے کا مادہ نہ رکھتا تو کون اس کے ذریعہ سے آگ کو بجھا سکتا.اسی طرح مثلاً اگر ایک شخص زیادہ مرچیں کھا لیتا ہے جو اس کی انتڑیوں کو چیرتی جاتی ہیں اور ان میں خراش پیدا کر دیتی ہیں تو وہ کہتا ہے یہ تقدیر ہے.اس کے مقابلہ میں وہ ایک تقدیر سے کام لیتا ہے یعنی گھی یا کوئی اور چکنائی یا لعاب اسپغول کھا لیتا ہے جس سے خراش دور ہو جاتی ہے اور یہ پہلی تقدیر کو مٹا دیتی ہے.اس سے بڑی مثال حضرت عمر کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے.اس وقت اسلامی لشکر میں طاعون پڑی اور ابو عبیدہ بن الجراح جو لشکر کے سردار تھے ان کا خیال تھا کہ وبائیں تقدیر الہی کے طور پر آتی ہیں.پس وہ پر ہیز وغیرہ کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکتے تھے.حضرت عمر جب اس لشکر کی طرف گئے اور مہاجرین و انصار کے مشورہ سے واپس لوٹنے کی تجویز کی تو اس پر حضرت ابو عبیدہ نے کہا.اَفِرَارًا مِنْ قَدَرِ اللهِ.یعنی اے عمر! کیا آپ اللہ تعالیٰ کی تقدیر سے بھاگ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.نَعَمْ نَفِرُّ مِنْ قَدَرِ اللهِ إِلى قَدَرِ الله - (بخاری کتاب الطب باب ما يذكر فی الطاعون یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی قدر سے بھاگ کر اس کی قدر کی طرف جاتے ہیں.اور یہ بات وہی تھی جو مسلمانوں کو ایک مسنون دعا میں سکھائی گئی ہے.اور جس کے متعلق ہر ایک مسلمان سے امید کی جاتی ہے کہ وہ اسے سونے سے قبل دعا کے طور پر پڑھا کرے اور اس کے بعد کوئی کلام نہ کیا کرے.اس دعا میں آتا ہے.لا ملجا وَلَا مَنْجى مِنْكَ إِلا اِلَيْكَ - (بخاری کتاب الدعوات باب اذا بات طاهرا) یعنی اے خدا! تیرے غضب سے بچنے کی اور اس سے پناہ پانے کی سوائے تیری درگاہ کے اور کوئی جگہ نہیں.ایک تقدیر کے مقابلہ میں دوسری تقدیر کے استعمال کرنے کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی کا ایک ہاتھ خالی ہو اور دوسرے میں روٹی ہو.کوئی شخص خالی ہاتھ کو چھوڑ کر دوسرے کی طرف جائے اور کوئی اسے کہے کہ کیا تم اس ہاتھ سے بھاگتے ہو ؟ وہ یہی جواب دے گا کہ میں اس سے نہیں بھاگتا بلکہ اس کے دوسرے ہاتھ کی طرف متوجہ ہوا ہوں.
۵۸۴ تقدیر الهی (۲) جس طرح تقدیر عام طبعی کو تقدیر عام طبعی سے ٹلایا جاتا ہے.اسی طرح اسے تقدیر خاص طبعی سے بھی ٹلایا جا سکتا ہے.اگر کسی شخص کے خلاف دنیاوی اسباب جمع ہو رہے ہوں اور وہ ان کا مقابلہ نہ کر سکتا ہو تو وہ خدا تعالٰی کے فضل کا جاذب ہو کر اس کی خاص تقدیر کے ذریعہ سے اس کو ٹلا سکتا ہے.جیسے حضرت ابراہیم کا واقعہ ہے.تقدیر عام یہ ہے کہ آگ جلائے مگر حضرت ابراہیم کے لئے خاص تقدیر جاری ہوئی کہ آگ ان کو نہ جلا سکے.اور وہ آگ کے ضرر سے محفوظ رہے.اسی طرح تقدیر عام یہ ہے کہ انسان قتل ہونے کی قابلیت رکھتا ہے لیکن رسول کریم ﷺ کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ د (المائدة : ۲۸) اور اب آپ کو دنیا قتل نہیں کر سکتی تھی کیونکہ تقدیر عام کو تقدیر خاص نے بدل دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کے ساتھ بھی ہوا.(۳) جس طرح تقدیر عام طبعی تقدیر عام طبعی اور تقدیر خاص طبعی سے ٹل جاتی ہے.اسی طرح تقدیر خاص، تقدیر خاص سے مل جاتی ہے.یہ اس طرح ہوتا ہے کہ کبھی ایک شخص کے لئے اس کے بعض حالات کے مطابق ایک خاص حکم دیا جاتا ہے.پھر وہ اپنے اندر تبدیلی کر لیتا ہے تو پھر اس حکم کو بھی بدل دیا جاتا ہے.مثلاً ایک شخص اللہ تعالیٰ کے دین کے راستہ میں خاص طور پر روک بن جاتا ہے اور لوگوں کو گمراہ کرتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ اسے موت دی جائے لیکن بسا اوقات وہ شخص اس حکم کے اجراء سے پہلے تائب ہو جاتا ہے یا کسی قدر اصلاح کر لیتا ہے تو پھر اللہ تعالی کی طرف سے بھی پہلے حکم کی منسوخی کا حکم مل جاتا ہے.خاص تقدیر کے خاص تقدیر سے بدلنے کی مثال آتھم کا واقعہ ہے.اس نے اپنی کتب میں اور زبانی طور پر رسول کریم ﷺ کی ہتک کرنی چاہی اور آپ کو (نعوذ باللہ من ذالک) دقبال کہا اور پھر اس پر ضد کی اور اصرار کیا اور آپ کے نائب اور اللہ تعالیٰ کے مامور مسیح موعود سے مباحثہ کیا اس پر خدا تعالیٰ کی تقدیر جاری ہوئی کہ اگر وہ حق کی طرف رجوع نہیں کرے گا تو پندرہ ماہ کے اندر ہادیہ میں گرایا جائے گا.یہ خاص تقدیر تھی لیکن جب وہ ڈر گیا اور اس نے کی على الاعلان کہا کہ میں محمد ( الله ) کی نسبت یہ الفاظ استعمال نہیں کرتا اور بد زبانی چھوڑ کر خاموشی اختیار کر لی تو یہ تقدیر ملا دی گئی.اگر کوئی تلوار لے کر کسی پر حملہ کرے اور کہے کہ چونکہ تم مجھ سے لڑتے ہو.اس لئے میں بھی تمہارے قتل کے لئے کھڑا ہوں اور اب میں تم کو
دم جلد ۴ ۵۸۵ تقدیرانی قتل کر دوں گا.اس پر حملہ آور اپنی تلوار نیچی کر لے تو یہی اس کا لڑائی سے رجوع سمجھا جائے گا.اور یہ ضروری نہیں ہو گا کہ وہ بغل گیر بھی ہو جائے.ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ آتھم کے متعلق رجوع الی الحق کی شرط تھی جس کا یہ مطلب ہے کہ وہ اسلام لائے.ہم کہتے ہیں کہ رجوع الی الحق کے اندر تو رسول کریم ال کا مقام بھی آجاتا ہے اس کے معنی یہی نہیں ہیں کہ انسان گمراہی سے حق کی طرف آئے بلکہ حق کی طرف بار بار توجہ کرنا بھی رجوع الی الحق کہلاتا ہے تو کیا پھر اس رجوع الی الحق کے یہ معنی کئے جاویں گے کہ آتھم نبیوں کے مقام کو پہنچ جائے تب اسے معاف کیا جائے گا.دراصل رجوع الی الحق کے کئی درجے ہیں.مسلمان ہونا حضرت مسیح موعود کو مان لینا، شہداء میں داخل ہونا، صدیق بنا ، مگر یہ بھی رجوع الی الحق ہے جو رسول کریم کو گالیاں دیتا ہو اس کا رک جانا.اور یہ رجوع الی الحق آتھم نے کیا اور اس کا فائدہ اٹھایا.اس کے متعلق جو خاص تقدیر جاری ہوئی تھی اسے دوسری تقدیر خاص نے ٹلا دیا اور خدا تعالیٰ کی صفت رحم نے اپنا غلبہ ثابت کر دیا.بر کے ملنے کا پیشگوئیوں سے تعلق چونکہ پیشگوئیوں سے نبوت کی صداقت کا بہت بڑا تعلق ہوتا ہے اور ان کے ملنے سے دشمنان انبیاء کو شور کا موقع ملتا ہے اور پیشگوئیاں مسئلہ تقدیر کی ہی ایک شاخ ہیں اس لئے میں بتاتا ہوں کہ تقدیر اور پیشنگوئیوں کا کیا تعلق ہے؟ یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ پیشگوئیاں دو طرح کی ہوتی ہیں.ایک علم ازلی کے اظہار کے لئے اور ایک قدرت کے اظہار کے لئے.تقدیر کے اس پہلو کے نہ سمجھنے کی وجہ سے عام مسلمانوں نے اسی طرح بڑے بڑے دھو کے کھائے ہیں جس طرح تقدیر کے ایک اور پہلو کو نہ سمجھنے سے ہندوؤں نے.اہل ہنود کا تناسخ کا مسئلہ بھی تقدیر کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے.وہ کہتے ہیں ایک بچہ کیوں اندھا پیدا ہوتا ہے ؟ اسی لئے کہ اس نے پہلے کچھ ایسے کام کئے تھے جن کی سزا اسے دی گئی.حالانکہ بات یہ ہے کہ تقدیر دو قسم کی ہے ایک شرعی اور دوسری طبعی.وہ کہتے ہیں کہ ایک بچہ لولا لنگڑا کیوں پیدا ہوتا ہے؟ کیا خدا ظالم ہے کہ بلا قصور اس کو عیب دار پیدا کر دیتا ہے؟ اس سے وہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس نے ضرور کسی پہلے زمانہ میں ایسے عمل کئے ہوں گے جن کی سزا میں اسے ایسا بنایا گیا ہے.مگریہ دھو کا انہیں دو غلطیوں کی وجہ سے لگا ہے.اول یہ کہ انہوں نے تقدیر کی اقسام کو نہیں سمجھا.تقدیر جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں دو قسم کی ہوتی ہے ایک طبعی اور ایک شرعی شرعی تقدیر کا
لوم جلد ۴ ۵۸۶ نقد برائی اثر شرعی احکام کے بجالانے یا ان کے توڑنے پر ظاہر ہوتا ہے اور طبعی تقدیر کا اثر اس کے احکام کے بجالانے یا ان کے توڑنے پر ظاہر ہوتا ہے.بچے جو اندھے پیدا ہوتے ہیں یا اپاہج پیدا ہوتے ہیں وہ شرعی تقدیر نہیں بلکہ طبعی تقدیر کے ٹوٹنے کی وجہ سے اندھے یا اپاہج ہوتے ہیں.طب سے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ماں باپ کے پر ہیز کا اثر بھی اور ان کی بد پرہیزی کا اثر بھی بچوں پر پڑتا ہے.بعض عورتوں کے رحم میں کمزوری ہوتی ہے تو ان کے بچے ہمیشہ اپاہج اور عیب دار پیدا ہوتے ہیں.خصوصاً بعض بیماریاں تو بچوں پر بہت ہی برا اثر کرتی ہیں.مثلاً سل خنازیری ماده آتشک ، ہسٹیریا جنون وغیرہ.پس بچہ کا عیب دار اور ناقص ہونا کسی پچھلے گناہ کی سزا میں نہیں ہو تا بلکہ اس کے ماں باپ کے کسی جسمانی نقص کی وجہ سے ہوتا ہے یا ایام حمل کی بعض بد پرہیزیوں کے سبب سے ہوتا ہے.اور چونکہ بچہ کی پیدائش ماں باپ کے ہی جسم سے ہوتی ہے اس لئے ان کے جسمانی عیوب یا جسمانی خوبیوں کا وارث ہونا اس کے لئے ضروری ہے.کیونکہ بچہ ماں باپ کے اثر سے تبھی متاثر نہ ہو گا جب خدا تعالیٰ قانون قدرت کو اس طرح بدل دے کہ ایک شخص کے کام کا اثر دوسرے پر نہ پڑے.اور اگر یہ قانون جاری ہو جائے تو سمجھ لو کہ موجودہ کارخانہ عالم بالکل درہم برہم ہو جائے.کیونکہ تمام کارخانہ عالم اسی رو قانون پر چل رہا ہے کہ ایک چیز دوسری کے نیک یا بد اثر کو قبول کرتی ہے.سری وجہ جس سے اہل ہنود کو اس مسئلہ کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے یہ ہے کہ انہوں نے خیال کیا ہے کہ روحیں کہیں جمع کر کے رکھی ہوئی ہیں اور اللہ تعالی پکڑ پکڑ کر ان کو عورتوں کے رحم میں ڈالتا ہے.حالانکہ اس سے بیہودہ عقیدہ اور کوئی نہیں ہو سکتا کیونکہ اس عقیدہ کو مان ر پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان کے اعمال بھی اللہ تعالیٰ ہی کرواتا ہے.کیونکہ ایک روح کے جسم میں آنے کا اگر وقت آگیا اور اس وقت وہ شخص جس کا پیدا کرنا منظور ہو وہ کہیں سفر پر گیا ہوا ہو یا اس نے شادی ہی نہ کی ہو تو پھر وہ روح کیونکر آسکتی ہے.پس اس عقیدہ کے ساتھ ہی یہ بھی ماننا پڑے گا کہ تمام اعمال انسان سے اللہ تعالی ہی کراتا ہے اور تمام دنیاوی اعمال بھی خدا تعالی کے حکم سے مجبور ہو کر اسے کرنے پڑتے ہیں.اور اس طرح انسان کی وہ آزادی عمل جس کی وجہ سے وہ جزاء و سزا کا مستحق ہوتا ہے برباد ہو جاتی ہے.دوسرا نقص اس عقیدہ کی وجہ سے یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے ایک مشاہدہ شدہ امر کا انکار کرنا پڑتا ہے اور وہ یہ ہے کہ در حقیقت روح نتیجہ ہے اس تغیر کا جو نطفہ رحم مادر میں پاتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس
۵۸۷ تقدیر الهی تغیر کے نقص کی وجہ سے بچہ بے جان رہتا ہے یا جان پڑ کر پھر رحم مادر ہی میں نکل جاتی ہے.پس اس عقیدہ کو مان کر کہ ارواح خدا تعالٰی نے جمع کر کے رکھی ہوئی ہیں.اس مشاہدہ کا بھی انکار کرنا پڑتا ہے اور مشاہدات کا انکار ایک عظمند انسان کے لئے بالکل ناممکن ہے.اس مسئلہ کی تفصیل حضرت صاحب کی کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ضرور دیکھنی چاہئے) عام مسلمانوں کو بھی پیشگوئیوں کو سمجھنے میں ایسا ہی دھوکا لگا ہے مگر ہندوؤں کو تقدیر طبیعی اور تقدیر شرعی میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے دھوکا لگا ہے اور مسلمانوں کو علم الہی اور تقدیر الہی میں فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے دھوکا لگا ہے کیونکہ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جس طرح تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے.اسی طرح پیشگوئیاں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک پیشگوئیاں وہ ہوتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کے ازلی علم کو ظاہر کیا جاتا ہے اور دوسری وہ پیشگوئیاں ہوتی ہیں جن میں خدا تعالی کی قدرت کے ماتحت ایک حکم کا اظہار کیا جاتا ہے.جو پیشگوئیاں کہ علم ازلی کے ماتحت ہوتی ہیں وہ کبھی نہیں ملتیں.کیونکہ اگر وہ ٹل جائیں تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ خدا کا علم ناقص ہو گیا.لیکن وہ پیشگوئیاں جو خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کے اظہار کے لئے ہوتی ہیں وہ کبھی مل بھی جاتی ہیں اور جو پیشگوئیاں ملتی ہیں وہ وہی ہوتی ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفت قدیر کے ماتحت ہوتی ہیں.اور جو صفت علیم کے ماتحت ہوتی ہیں وہ کبھی نہیں ملتیں.پیشگوئیاں کیوں ملتی ہیں؟ جو پینگوئیاں ملتی ہی ان کی کئی نہیں ہیں.(۱) یہ کہ جن حالات میں سے انسان گزر رہا ہے ان کے نتیجہ سے انسان کو اطلاع دی جاتی ہے.یعنی تقدیر عام کے ماتحت جو نتائج نکلتے ہوں ان سے اطلاع دی جاتی ہے مثلا ایک شخص ہے جو ایسی جگہ جا رہا ہے جہاں طاعون کے کیڑے ہوں.اور اس کے جسم میں ان کو قبول کرنے کی طاقت بھی ہو اور کوئی ایسے سامان بھی نہ ہوں جن کو استعمال کر کے وہ ان کے اثر سے بچ سکتا ہو اسے خدا تعالی یہ خبر ایسے رنگ میں دے کہ وہ شخص دیکھے کہ اس کو طاعون ہو گئی ہے تا وہ اس نظارہ سے متأثر ہو کر ایسی جگہ جانے کا ارادہ چھوڑ دے جہاں طاعون ہے یا اگر ایسی جگہ موجود ہے تو ان احتیاطوں کو برتنا شروع کر دے جن سے طاعون کی روک تھام ہو سکتی ہے.اگر وہ ایسا کرے گا تو وہ طاعون سے بچ جائے گا.اور اس کی رؤیا جھوٹی نہ کہلائے گی بلکہ بالکل سچی ہوگی.
۵۸۸ (۲) دوسری صورت یہ ہوتی ہے کہ انسان کے روحانی یا اخلاقی حالات کے ماتحت جو تقدیر خاص جاری ہونی ہو اس سے اطلاع دے دی جاتی ہے.(۳) تقدیر مبرم یعنی اہل تقدیر سے اطلاع دی جاتی ہے.ان تینوں صورتوں میں سے اول الذکر اور ثانی الذکر تو کثرت سے بدل جاتی ہیں لیکن آخری تقدیر نہیں بدلتی.ہاں کبھی کبھی خاص حالات میں وہ بھی بدل جاتی ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ پہلی پیشگوئی کیوں اور کس طرح بدلتی ہے ؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ پیشگوئی نام ہے اظہار تقدیر کا.یعنی جو کچھ کسی شخص کے طبعی حالات یا شرعی حالات کے حال معاملہ ہونا ہوتا ہے اسے اگر ظاہر کر دیا جائے تو اسے پیشگوئی کہتے ہیں.اس حقیقت کو مد نظر رکھ کر اب دیکھنا چاہئے کہ پہلی قسم پیشگوئی کی یہ تھی کہ کسی شخص کو اس کے طبعی حالات کا نتیجہ بتا دیا جائے.مثلاً یہ بتا دیا جائے کہ اس وقت اس کی جسمانی صحت ایسی ہے کہ اس کا نتیجہ موت ہو گا.اب فرض کرو کہ اس کو یہ خبرنہ دی جاتی اور وہ اپنی جسمانی صحت کا فکر کرنے لگ جاتا اور احتیاط برتنی شروع کر دیتا تو کیا اس نتیجہ سے بچ جاتا یا نہیں.پھر اگر خدا تعالی نے اسے قبل از وقت خبر دے دی تو اس کا وہ حق جو بصورت تبدیلی حالت اس کو حاصل تھا کسی وجہ سے ضائع ہو گیا.ضرور ہے کہ اگر وہ پورے طور پر ان ذرائع کو استعمال کرے جن سے ان حالات کو جن کے بدنتائج اس کو پہنچنے والے ہیں وہ بدل سکے تو پھر وہ مصیبت سے بچ جائے اور ہلاکت سے محفوظ ہو جائے.تقدیر عام کے ماتحت ہونے والے واقعات تقدیر خاص کے ماتحت بھی بدل جاتے ہیں.پس کبھی وہ پیشگوئی جو تقدیر عام کے ماتحت کی گئی تھی.تقدیر خاص سے بھی مل سکتی ہے.مثلاً ایک شخص کو بتایا جائے کہ اس کے گھر میں کوئی موت ہونے والی ہے.اور وہ خاص طور پر صدقہ اور دعا سے کام لے تو بالکل ممکن ہے کہ وہ موت ٹل جاوے.اس قسم کی پیشگوئی کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی شخص ایسی جگہ جا رہا ہو جس کا حال اسے معلوم نہ ہو اور سخت تاریکی ہو کچھ نظر نہ آتا ہو اور اس کے سامنے ایک گڑھا ہو جس میں اس کا گر جانا اگر وہ اپنے راستہ پر چلتا جائے یقینی ہو.اور ایک واقف شخص اسے دیکھ کر کہے کہ میاں کہاں جاتے ہو گر و گے یا یہ فقرہ کہے کہ تمہاری موت آئی ہے.اس پر وہ شخص گڑھے تک جا کر واپس آجائے اور آکر اس شخص کو کہے کہ تم بڑے جھوٹے ہو میں تو نہیں گرا اور نہیں مرا.وہ یہی کہے گا کہ اگر تم جاتے
انوار العلوم جلد ۴ ۵۸۹ تقدیر الهی تو گرتے.جب گئے نہیں تو گرتے کیوں؟ اور دوسرے لوگ بھی ایسے شخص کو ملامت کریں گے کہ کیا اسے جھوٹ کہتے ہیں.تو اپنی جان بچانے کے احسان کا بدلہ اس نا معقول طور پر دیتا ہے.یہ تو تقدیر عام کو تقدیر عام سے بدلنے کی مثال ہے.اور تقدیر خاص کی مثال یہ ہے کہ مثلاً وہ شخص جسے دو سرے آدمی نے کہا تھا کہ تو مرے گا ، یا گرے گا وہ اس تنبیہ کرنے والے شخص کو کہے کہ مجھے کام ضروری ہے مہربانی فرما کر کوئی مدد ہو سکے تو کرو.اور وہ تنبیہ کرنے والا شخص کوئی بڑا تختہ لا کر گڑھے پر رکھ دے جس پر سے وہ گزر جائے.کیا اس صورت میں بھی یہ ممکن ہے کہ اس شخص کو کوئی کہے کہ تم نے جھوٹ بولا تھا.یہ شخص تو گڑھے پر سے سلامت گزر آیا.اس میں کیا شک ہے کہ اگر وہ شخص اطلاع نہ دیتا تو یہ اندھیرے کی وجہ سے گڑھے میں گر کر ہلاک ہو جاتا.اور اگر وہ مدد نہ کرتا تو یہ گڑھے پر سے کبھی پار نہ ہو سکتا.اسی طرح کبھی اللہ تعالٰی بھی خبر دیتا ہے کہ فلاں مصیبت فلاں شخص پر آنے والی ہے اور اس سے غرض اس شخص یا اس کے رشتہ داروں کو متنبہ کرنا ہوتا ہے کہ ان کے موجودہ حالات کا نتیجہ اس طرح نکلنے والا ہے.جب وہ ان حالات کو بدل دیتے ہیں یا حالات نہیں بدل سکتے تو خدا تعالیٰ سے عاجزانہ طور پر اس کی مدد چاہتے ہیں تو پھر وہ مصیبت بھی مل جاتی ہے.اور کوئی عظمند انسان اس اطلاع کو جھوٹی نہیں کہہ سکتا نہ خدا تعالیٰ پر جھوٹ کا الزام لگا سکتا ہے.دوسری پیشگوئی وہ ہوتی ہے جس میں تقدیر خاص کی اطلاع کسی بندے کو دے دی جاتی ہے.مثلاً کوئی شخص ہے جس نے شرارت میں حد سے زیادہ ترقی کی ہے اور لوگ اس کے ظلموں سے تنگ آگئے ہیں اور خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی شرارت کی سزا اسی دنیا میں اسے دے اور ملائکہ کو حکم دیتا ہے کہ مثلاً اس کے مال و جان کو نقصان پہنچاؤ یا اس کی عزت تباہ کر دو.اس حکم کی اطلاع کبھی وہ اپنے کسی بندے کو بھی دے دیتا ہے.اس خبر کو سن کر وہ شریر آدمی جو اپنے دل کے کسی گوشے میں ایک چنگاری خشیت الہی کی بھی رکھتا تھا جو گناہوں کی راکھ کے نیچے دبی پڑی تھی گھبرا کر اپنی حالت پر نظر ڈالتا ہے اور اس توجہ کے زمانے میں اس چنگاری کی گرمی کو محسوس کرتا ہے اور اسے راکھ کے ڈھیر کے نیچے سے نکال کر دیکھتا ہے.وہ چنگاری راکھ سے باہر آکر زندہ ہو جاتی ہے.اور روشنی اور گرمی میں ترقی کرنے لگ جاتی ہے اور اسی شخص کے دل میں نئی کیفیتیں اور نئی امنگیں پیدا کرنے لگتی ہے.اور وہ جو چند دن پہلے شریر اور مفسد تھا اپنے اندر محبت اور خشیت الہی کی گرمی محسوس کرنے لگتا ہے اور اپنے پچھلے افعال
انوار العلوم جلد ۴ ۵۹۰ تقدیرالی پر نادم ہو کر اپنے رب کی دہلیز پر اپنی جبیں (پیشانی) کو رکھ دیتا ہے اور ندامت کے آنسوؤں سے اس کو دھو دیتا ہے.کیا رحمن اور رحیم خدا اس کی اس حالت کو دیکھ کر اس کے اس حال پر رحم کھائے گا یا نہیں ؟ کیا وہ اپنے پہلے فیصلہ کو جو اس شخص کے پہلے حال کے مطابق اور ضروری تھا اب نئے حال کے مطابق بدلے گا یا نہیں ؟ کیا وہ رحم سے کام لے کر اس کی سزا کے حکم کو منسوخ کرے گا یا کہہ دے گا کہ چونکہ میں اپنے فیصلہ سے ایک بندہ کو بھی اطلاع دے چکا ہوں اس لئے میں اب اس حکم کو نہیں بدلوں گا اور خواہ یہ شخص کس قدر بھی تو بہ کرے گا اس کی حالت پر رحم نہیں کروں گا.کیا اگر وہ اپنے فیصلہ کو ظاہر نہ کرتا تو اسلامی تعلیم کے ماتحت اس فیصلہ کو بدل سکتا تھا یا نہیں؟ بلکہ وہ اپنی سنت کے مطابق اس کو بدل دیتا یا نہیں؟ پھر جب کہ وہ باوجود ایک فیصلہ کر دینے کے باوجود ملائکہ کو اس پر آگاہ کر دینے کے اپنے فیصلہ کو بدل سکتا تھا بلکہ بدل دیتا تو کیا وہ اب اس لئے رحم کرنا چھوڑ دے گا کہ اس نے اپنا فیصلہ ملائکہ کے علاوہ ایک انسان پر بھی ظاہر کر دیا ہے اور اس کے ذریعہ دوسرے انسانوں کو بھی اطلاع دے دی ہے اور کیا وہ اپنے فیصلہ کو بدل دے تو کوئی نادان کہہ سکتا ہے کہ اس نے نعوذ باللہ جھوٹ بولا ہے ؟ ایک ملازم کے قصور پر اگر کوئی آقا کے کہ میں تجھے ماروں گا.اور وہ ملازم سخت ندامت کا اظہار کرے اور توبہ کرے اور آئندہ کے لئے اصلاح کا وعدہ کرے اور وہ آقا اسے معاف کر دے اور نہ مارے تو کیا کوئی صحیح العقل انسان کے گا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے ؟ اور وعدہ خلافی کی ہے؟ پہلی قسم کی پیشگوئیاں یعنی جن میں تقدیر عام کے نتائج سے اطلاع دی جاتی ہے اکثر مؤمنوں کے لئے ہوتی ہیں تا اللہ تعالیٰ ان کو ہوشیار اور متنبہ کر دے اور آفات ارضی سے بچالے اور ان پر اپنے رحم کو کامل کرے کیونکہ مؤمن قانون قدرت کے اثر سے بالا نہیں ہوتا.اور بارہا لا علمی کی وجہ سے ان کی زد میں آجاتا ہے اور طبعی قوانین کو تو ڑ کر مشکل میں پھنس جاتا ہے.تب خدا تعالی نتائج بد کے پیدا ہونے سے پہلے اسے یا کسی اور مؤمن کو اس کے لئے اصل حالت سے آگاہ کر دیتا ہے.اور وہ خود قانون قدرت کے ہی ذریعہ سے یا دعا د صدقہ سے اس کا رفعیہ کر لیتا ہے.اور دوسری قسم کی پیشگوئیاں جن میں تقدیر خاص کے ذریعہ سے کسی شخص کی نسبت حکم ہوتا ہے.خاص سرکشوں اور مفسدوں کے لئے ہوتی ہیں اور اس کی یہ وجہ ہے کہ اس تقدیر کے ماتحت ملنے والی پیشگوئی ہمیشہ عذاب کی ہوتی ہے کیونکہ عذاب ہی کی پیشگوئی ہمیشہ
۵۹۱ تقدیرانی ٹلا کرتی ہے وعدہ کی نہیں.کیونکہ اس پیشگوئی کا ٹلنا رحم کا موجب ہوتا ہے اور اس سے خدا تعالی کی شان ظاہر ہوتی ہے.لیکن جو مؤمن کے حق میں تقدیر خاص ظاہر ہوتی ہے وہ چونکہ وعدہ ہوتی ہے وہ نہیں ملتی.کیونکہ اس کے ملنے سے اظہار شان نہیں ہوتی.اور اس لئے بھی کہ وعید ہمیشہ کسی سبب سے ہوتا ہے.اور اس سبب کے بدلنے سے بدل سکتا ہے.اور وعدہ کبھی بلا سبب بھی ہوتا ہے اس لئے وہ نہیں مل سکتا کیونکہ جس چیز کو اپنے طور پر بلا خدمت کے دینے کا وعدہ کیا جاتا ہے اسے کسی اور سبب سے روک دینا خدا تعالی کی شان کے خلاف ہے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ تقدیر مبرم سوائے خاص حالات کے نہیں ملا کرتی.اور تقدیر مبرم اب میں بتاتا ہوں کہ تقدیر مبرم کے ٹلنے سے کیا مراد ہے.تقدیر مبرم کے ملنے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقع میں کلی طور پر ٹل جاتی ہے.بلکہ اس کے ملنے سے صرف یہ مراد ہے کہ اس کی شکل بدل جاتی ہے اور اسے کسی اور رنگ میں بدل دیا جاتا ہے.یہ تقدیر باریک درباریک رازوں کے ماتحت نازل ہوتی ہے.اور اس کے بدلنے سے بعض دفعہ اور بہت سے قوانین پر اثر پڑتا اور بد انتظامی ہوتی ہے.پس یہ تقدیر اللہ تعالیٰ کی خاص حکمتوں کے ماتحت کلی طور پر ٹلائی نہیں جاتی.اور اگر ملتی ہے تو شفاعت کے ماتحت ملتی ہے جو ایک خاص مقام ہے اور جب سے دنیا قائم ہوئی ہے صرف چند بار ہی اس مقام پر خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو قائم کیا ہے.اس تقدیر کے جزئی طور پر ٹل جانے کی مثال حضرت سید عبد القادر صاحب جیلانی کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے.کہتے ہیں آپ کا ایک مرید تھا جس سے انہیں بہت محبت تھی.اس کے متعلق انہیں خبر دی گئی کہ وہ ضرور زنا کرے گا اور یہ تقدیر مبرم ہے.انہوں نے اس کے متعلق متواتر دعا کرنی شروع کی اور ایک لمبے عرصہ کے بعد ان کو اطلاع ملی کہ ہم نے اپنی بات بھی پوری کر دی اور تیری دعا کو بھی سن لیا.وہ حیران ہوئے کہ یہ کیا معاملہ ہے.جب وہ مرید ملنے آیا تو انہوں نے اس کو سب حال بتایا کہ اس طرح مجھے تیری نسبت اطلاع ملی تھی.میں نے تجھے بتایا نہیں اور دعا کرتا رہا.اب یہ خبر ملی ہے کیا بات ہے؟ اس نے بتایا کہ ایک عورت پر میں عاشق ہو گیا تھا.نکاح کرنے کی کوشش کی مگر ناکامی ہوئی.آخر فیصلہ کر لیا کہ خواہ کچھ ہی ہو اس سے زناہی کرلوں گا.اسی کوشش میں تھا کہ رات کو رویا میں وہ نظر آئی اور میں اس سے ہم
رالعلوم جلد ۴ ۵۹۲ تقدیرانی صحبت ہوا.آنکھ کھلنے پر معلوم ہوا کہ دل سے اس کی محبت بالکل نکل گئی اور وہ حالت جاتی رہی.اس اظہار واقعہ سے سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو معلوم ہوا کہ کس طرح وہ تقدیر جو اس شخص کے اپنے ہی اعمال کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی تھی اور اس کے لئے ایسے حالات جمع ہو گئے تھے کہ وہ ٹل نہیں سکتی تھی خدا تعالٰی نے ایک اور صورت میں پوری کر کے اس شخص کو گناہ سے بچا دیا.اور سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی دعا کو اس کے حق میں قبول کر کے اپنی خاص قدرت کے ذریعہ سے اس شخص کو اس کے برے اعمال کے بد نتائج سے بچالیا.کیا تقدیر کے ٹلنے سے کوئی نقص تو واقع نہیں ہوتا؟ اب سوال ہو تا ہے کہ تقدیر کے ٹلنے سے خدا کی شان میں فرق نہیں آتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں آتا.کیونکہ تقدیر کے ٹلانے میں کئی ایک فوائد ہیں.اول تقدیر کے بتلانے اور پھر اس کو ملانے سے اللہ تعالیٰ کی شفقت کا اظہار ہوتا ہے.کیونکہ جب وہ ایک آنے والی مصیبت کا اظہار بندہ پر کر دیتا ہے تو اس سے بندہ ہوشیار ہو جاتا کی ہے اور اپنے بچاؤ کے سامان کر لیتا ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ کے احسان سے اس مصیبت سے بچ جاتا ہے.پس تقدیر کا قبل از وقت بتانا بھی اللہ تعالیٰ کی شفقت پر دلالت کرتا ہے اور پھر اس کا ٹلانا بھی اس کے رحم پر دلالت کرتا ہے اور بجائے نقص کے اس میں فائدہ ہے.تقدیر خاص کے ملانے میں کہ جو تقدیر عام کے نتیجہ میں نازل نہیں ہوتی بلکہ روحانی حالت کے تغیر پر اس کا نزول ہوتا ہے ایک اور فائدہ بھی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا اظہار ہے.اگر غور کیا جائے تو تقدیر خاص کو ملانے کے بغیر اللہ تعالیٰ کی کامل قدرت کا اظہار ہی نہیں ہوتا.اگر کوئی شخص انبیاء کی مخالفت کرے اور دین حق کے پھیلنے میں روک ہو اور اس کو سزا دینا ضروری ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ اطلاع اپنے مامور کو مل جائے کہ وہ شخص ہلاک ہو جائے گا اور وہ شخص باوجود تو بہ کے ہلاک ہو جائے تو اس سے خدا تعالیٰ کا قادر ہو نا مخفی ہو جائے گا اور زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ خدا تعالیٰ علیم ہے.لیکن علیم ہونا کوئی چیز نہیں جب تک وہ قادر بھی نہ ہو.اس کا قادر ہونا ہی انسان کی محبت کو اپنی طرف کھینچ سکتا ہے.پس ایک خبر کے بتائے جانے پر پھر اس کا نہ ٹلنا صرف علم غیب پر دلالت کرے گا قدرت پر نہیں.بلکہ لوگوں کو شبہ پڑ سکے گا کہ جو نبی" خبر بتا رہا ہے شاید اسے کوئی ایسا ذریعہ معلوم ہو گیا ہے جس کے
انوار العلوم جلد ۵۹۳ تقدیر الهی ذریعے وہ غیب کی خبر معلوم کر سکتا ہو.لیکن جب ایک حکم خاص حالات کے بدلنے پر ٹل جاتا ہے تو صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ یہ حکم ایک قادر ہستی کی طرف سے ہے جو ہر ایک مناسب حالت کے مطابق حکم دیتی ہے جیسا جیسا انسان اپنے حال کو بدلتا رہتا ہے وہ بھی اپنی تقدیر کو اس کے لئے بدلتی جاتی ہے.اور اس سے اس کی شوکت اور جلال کا اظہار ہوتا ہے اور بندہ کی امید بڑھتی ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر وہ پکڑتا ہے تو چھوڑ بھی سکتا ہے اور ایک مشین کی طرح نہیں ہے.میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص بھی نظر انصاف سے دیکھے گا تو اسے معلوم ہو گا کہ اگر انذاری پیشگوئیاں نہ ٹلیں تو خدا تعالیٰ کا قادر ہونا ہر گز ثابت نہ ہو.بلکہ یہ معلوم ہو کہ گویا وہ نعوذ باللہ ایک بلینے کی طرح ہے.اگر اس میں گنا ڈالا جاتا ہے تو اسے بھی پیل دیتا ہے اور اگر اس کے آقا کا ہاتھ پڑ جائے تو اسے بھی پیل دیتا ہے.خواہ کوئی کتنی ہی تو بہ کرے اس کا حکم اٹلی ہوتا ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں پڑ سکتا.اس کی دشمنی ترک کر کے اس کی دوستی کا اختیار کرنا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاتا.شاید اس جگہ کسی کے دل میں یہ شبہ پیدا ہو کہ اگر اسی طرح پیشگوئیاں بدل جاویں تو ان کی سچائی کا کیا ثبوت ہو ؟ پھر کیوں نہ کہہ دیا جائے کہ یہ سب ڈھکو سلا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ا اول تو پیشگوئیاں مخفی اسباب پر دلالت کرتی ہیں یعنی ان میں ایسی باتیں بتائی جاتی ہیں جن کے اسباب ظاہر میں موجود نہیں ہوتے اور قیاس اور ظن انہی باتوں میں چلتا ہے جن کے اسباب ظاہر ہوں.مثلاً ایک شخص بیمار ہو اور اس کی نسبت یہ بتایا جائے کہ وہ مر جائے گا تو اس میں کی قیاس کا دخل ہو سکتا ہے.لیکن ایسی خبر دی جائے جس کے اسباب ہی موجود نہ ہوں اور پھر اس کے آثار ظاہر ہو جائیں تو پھر خواہ وہ ٹل ہی جائے اسے قیاسی خبر نہیں کہا جا سکتا.کیونکہ اس کے ایک حصہ نے اس کے دوسرے حصہ کی صداقت پر مہر لگا دی ہے.پس باوجود پیشگوئیوں کے ملنے کے ان کی صداقت میں شبہ پیدا نہیں ہو سکتا اور وہ پھر بھی دنیا کی ہدایت کے لئے کافی ہوتی ہیں.دو سرا جواب اس شبہ کا یہ ہے کہ انذاری پیشگوئیاں تو اکثر دشمنوں کے لئے ہوتی ہیں اور دشمن بالعموم ضدی اور اپنے خصم پر تمسخر اڑانے والا ہوتا ہے اور اس کے قبل از وقت ڈرانے سے بہت کم فائدہ اٹھاتا ہے.ایسے تو بہت ہی کم ہوتے ہیں جو انذار سے فائدہ اٹھا ئیں اور ان پر سے عذاب ٹل جائے.پس مثلاً پانچ یا دس فیصدی انزاری پیشگوئیوں کے ٹل جانے
انوار العلوم جلد " ۵۹۴ تقدیر الهی سے کس طرح شبہ پڑ سکتا ہے جب کہ اس کے بالمقابل تمام کی تمام وعدہ والی پیشگوئیاں اور نوے یا پچانوے فیصدی انداری پیشگوئیاں پوری ہو کر روز روشن کی طرح اس پیشگوئی کرنے والے کی صداقت کی تصدیق کر رہی ہوتی ہیں.تیسرے تقدیر خاص کے ماتحت جو خبریں دی جاتی ہیں اور انہی کے متعلق مخالفوں کو زیادہ شبہ پڑتا ہے یہ طبعی امور کے نتیجہ میں نہیں ہوتیں بلکہ روحانی امور کے نتیجہ میں ہوتی ہیں.مثلاً ام کے متعلق جو خبر دی گئی کہ رسول کریم ﷺ کی گستاخی کی سزا میں وہ قتل کیا جائے گایا آتھم کی نسبت کہ وہ آپ کی گستاخی کی سزا میں ہادیہ میں گرایا جائے گا یا احمد بیگ اور اس کے داماد کے متعلق کہ وہ مر جائیں گے.تو یہ سزائیں کسی طبعی امر کے نتیجہ میں نہیں تھیں.اگر لیکھرام نے کوئی قتل کیا ہوا ہوتا اور کہا جاتا کہ وہ قتل کیا جائے گا تب اور بات تھی.یا اسی طرح آتھم اور احمد بیگ کے متعلق کوئی ایسی سزا تجویز کی جاتی جو طبعی امور کا نتیجہ ہوتی تب اعتراض ہو سکتا تھا.مگر جن جرموں کے بدلہ میں سزائیں مقرر کی گئی ہیں وہ روحانی ہیں اور ایسی اخبار میں سے اگر بعض بھی پوری ہو جائیں تو وہ اس امر کا ثبوت ہیں کہ ان کے بتانے والا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتا تھا کیونکہ اگر یہ نہ ہو تا تو وہ ایسی باتیں کس طرح بتا سکتا تھا جن کا ثبوت طبعی امور میں نہیں ملتا.روحانی گناہوں کی سزا تو اللہ تعالیٰ ہی بتا سکتا ہے.دوسرا شخص ایک روحانی گناہ گار کو دیکھ کر کیا بتا سکتا ہے کہ اسے سزا کس رنگ میں ملے گی ؟ اگر یہ کہا جائے کہ یہ جو تم نے بیان کیا ہے کہ بہت دفعہ ایک خبر جو دی جاتی ہے وہ موجودہ حالات کا نقشہ ہوتی ہے یعنی اس میں بتایا جاتا ہے کہ اس وقت جن حالات میں سے یہ گزر رہا ہے ان کا یہ نتیجہ ہو گا تو کیوں نہیں صاف صاف یہ بتا دیا جاتا کہ تمہاری یا فلاں شخص کی موجودہ حالت کا یہ نتیجہ ہے تاکہ لوگوں کو خوابوں اور الہاموں پر شبہ نہ پڑے.اگر اسی طرح صاف صاف بتا دیا جائے تو پھر لوگوں کو کوئی ابتلاء نہ آئے.اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو جن لوگوں کے دل میں مرض ہوتی ہے ان کو ہر حالت میں شبہ پڑ جاتا ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت صاحب کی جن پیشگوئیوں میں صاف طور پر یہ شرط بنادی گئی تھی ان پر بھی لوگ معترض ہیں.طاعون کی پیشگوئی میں صاف کہہ دیا گیا تھا کہ قادیان میں ایسی طاعون نہ پڑے گی کہ دوسرے گاؤں کی طرح اس میں تباہی آجائے مگر پھر بھی لوگ اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایک کیس بھی یہاں نہ ہونا چاہئے تھا.دوسرے اس طریق کے اختیار کرنے میں ایک فائدہ بھی ہے
۵۹۵ تقدیر الهی اور وہ یہ کہ اس ذریعہ سے وہ اصل غرض جس کے لئے خواب یا الہام ہوتا ہے زیادہ اچھی طرح پوری ہوتی ہے.بات یہ ہے کہ وہ منذر خواب یا الہام جن میں آئندہ کی کوئی خبر بتائی جاتی ہے ان میں علاوہ اور اغراض کے ایک غرض یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ بندہ جس کے متعلق اس خواب یا الہام میں کوئی خبر دی گئی ہے.ہوشیار ہو جائے اور اپنی اصلاح کی فکر کرے اور اگر اصلاح نہ کرے تو اس پر حجت قائم ہو جائے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.رُسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ لِئَلَّايَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللَّهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ (النساء : ۱۶۶) یعنی ہم نے مذکورہ بالا رسولوں کو (جن کا اس آیت میں پہلے ذکر ہوا ہے) بھیجا بشارت دیتے.ہوئے اور منکروں کو ڈراتے ہوئے تاکہ لوگوں کو اللہ تعالی پر کوئی حجت نہ رہے.غرض انذاری پیشگوئیاں حجت کے قیام کے لئے ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ سے اس شخص کو جس کے خلاف وہ پیشگوئیاں کی جاتی ہیں اصلاح کا آخری موقع دیا جاتا ہے اور بصورت دیگر اس پر حجت قائم کی جاتی ہے.اور یہ بات ثابت ہے کہ اگر کسی شخص کو مثلا اس کی اپنی ذات کے متعلق یہ نظارہ دکھایا جائے کہ اس کو تپ چڑھا ہوا ہے اور وہ خواب میں تپ کی تکلیف کو تو اس پر اور ہی اثر ہو گا.یہ نسبت اس کے کہ اس کو کوئی شخص کہہ دے کہ تیرے حالات ایسے ہیں کہ تجھے تپ چڑھنے کا احتمال ہے.اسی طرح اگر کسی شخص کو یہ بتایا جائے کہ فلاں شخص کو اس کی بے دینی کی وجہ سے سزا کا احتمال ہے تو اس کا اور اثر ہو گا بہ نسبت اس کے کہ اس کو یہ بتایا جاوے کہ اس شخص کے لئے سزا مقدر ہو چکی ہے اور جب کہ اس کے اعمال کی وجہ سے سزا مقدر ہو بھی چکی ہو تو پھر حق بھی یہی ہو گا اور اسی رنگ میں بتایا جانا ضروری ہے.اگر یہ شبہ کیا جائے کہ کیوں خدا تعالٰی وہی بات نہیں بتا دیتا جو آخر میں ہوئی ہوتی ہے.درمیانی حالت بتا تا ہی کیوں ہے کہ لوگ شبہ میں پڑ جاویں.تو اس کا جواب ایک تو یہ ہے کہ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں پیشگوئیوں کی غرض اصلاح ہوتی ہے.پس اگر تقدیر کا وہ پہلو بتایا ہی نہ جاوے جس نے بدل جاتا ہے تو لوگوں کو اصلاح کی تحریک کس طرح کی جائے ؟ در حقیقت تقدیر کے اس قسم کے اظہار سے ہزاروں آدمیوں کی جان بچ جاتی ہے.اور خدا تعالیٰ کا رحم اس کا محرک ہے.دوسرے جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں اللہ تعالٰی کی دو صفات ہیں ایک علیم ہونا اور ایک قادر ہونا.اگر تقدیر کا وہی حصہ بتایا جائے جو بدلتا ہی نہیں تو اس سے خدا تعالی کا ی
انوار العلوم جلد ۴ ۵۹۶ تقدیرانی علیم ہونا تو ثابت ہو جاتا مگر قادر ہونا ثابت نہ ہوتا.پس ایسی تقدیر کا ظاہر کرنا جو موجودہ حالات کے مطابق ہے خدا تعالیٰ کی قدرت کے اظہار کے لئے ضروری ہے.اس کے بغیر انسان پر اس کی قدرت کا کامل اظہار نہیں ہو سکتا.یہی ایک ذریعہ انسان پر قدرت الہی کے اظہار کا ہے کہ اس کے روحانی حالات پر خدا تعالٰی کا ایک حکم جاری ہو اور اگر وہ حالات قائم رہیں تو اس کے ساتھ اس اظہار کے مطابق معاملہ ہو اور اگر بدل جاویں تو اس کے ساتھ معاملہ بھی بدل جاوے.اگر یہ کہا جائے کہ چونکہ لوگوں کو ایسی پیشگوئیوں سے ابتلاء آجاتا ہے یہی بہتر تھا کہ خدا تعالیٰ اس قسم کی اخبار نہ دیا کرتا؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ شریر اور مفسد کی شرارت سے ڈر کر اللہ تعالیٰ حق کو نہیں چھوڑ سکتا.وہ بات جس سے اللہ تعالیٰ کے رحم کا اظہار اور اس کی قدرت کا ثبوت ملتا ہے اور اس کے فاعل بالا رادہ ہونے کی تصدیق ہوتی ہے وہ اس کو شریروں اور مفسدوں کے اغراض کی وجہ سے کیونکر چھوڑ سکتا تھا.اس قسم کی اخبار دینے میں سوائے ان لوگوں کے شور کے جن کی نیت مخالفت پر پختہ ہو چکی ہوتی ہے اور کیا چیز روک ہے.اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَا مَنَعَنَا أَنْ تُرْسِلَ بِالْايْتِ إِلَّا أَنْ كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ (بنی اسرائیل:۲۰) یعنی کیا ہم اس وجہ سے کہ پہلے زمانوں میں شریر لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کر دی تھی آیات کا بھیجنا بند کر دیں گے؟ پس یہ اللہ تعالی کی شان کے خلاف ہے کہ وہ بات جو اس کے رحم اور اس کی قدرت کا اظہار سمجھدار لوگوں پر کرتی ہے اس کو اس لئے ترک کر دے کہ شریر کو اس پر ٹھوکر لگتی ہے.شریر کو ٹھو کر کیا لگنی ہے وہ تو پہلے ہی سے ٹھوکر کھا رہا ہوتا ہے.پس اس کے خیال سے مؤمنوں کو فائدہ سے کیوں محروم رکھا جائے؟ میں اس جگہ ان لوگوں کی ہدایت کے لئے جو مسلمان کہلاتے ہوئے ایسی پیشگوئیوں پر معترض ہوتے ہیں خود اسلام میں سے بعض ایسی مثالیں بیان کر دیتا ہوں جن میں خدا تعالیٰ نے آخری امر کو بیان نہیں فرمایا بلکہ تدریجاً اپنے منشاء کا اظہار کیا ہے یا یہ کہ ہر ایک حالت کے مطابق اس کا انجام بتایا ہے.ایک مثال اس کی تو وہ عظیم الشان واقعہ ہے جو مسلمانوں میں معراج کے نام سے مشہور ہے اور جس کا تعلق اسلام کی بنیاد سے ایسا ہے کہ کوئی ذی علم مسلمان.
العلوم جلد ۴ ۵۹۷ تقدیر الهی اسے نظر انداز نہیں کر سکتا.معراج کے ذکر میں رسول کریم ال فرماتے ہیں کہ پہلے آپ کو پچاس نمازوں کا حکم ہوا.اور پھر حضرت موسیٰ کے مشورہ سے آپ نے بار بار عرض کر کے پانچ نمازوں کا حکم لیا.(مسلم کتاب الايمان باب الاسراء برسول الله صلى الله عليه وسلم إلى السموت وفرض الصلوات) اب ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو قبل از وقت معلوم تھا کہ اس طرح حضرت موسی کہیں گے اور اس طرح ان کے مشورہ سے محمد رسول اللہ ا مجھے سے تخفیف کی درخواست کریں گے.پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں خدا تعالٰی نے پہلے پچاس نمازوں کا حکم دیا اور بعد میں ان کو پانچ سے بدل دیا.کیوں نہ شروع میں ہی پانچ کا حکم دیا.جو اس کا جواب ہے وہی ایسی پیشگوئیوں کے بدلنے کے متعلق ہمارا جواب ہے.دوسری مثال اس کی وہ مشہور حدیث ہے جس میں اس شخص کا ذکر کیا گیا ہے جو سب کے آخر میں دوزخ میں رہ جاوے گا اور پھر اسے اللہ تعالیٰ اس کی خواہش کے مطابق دوزخ سے نکال کر باہر کھڑا کر دے گا اور پھر وہ ایک درخت دیکھے گا اور اس کے نیچے کھڑا ہونے کی خواہش کرے گا اور خدا تعالیٰ اس سے یہ عہد لے کر کہ وہ پھر کچھ اور طلب نہیں کرے گا اسے اس جگہ کھڑا کر دے گا.اور آخر ایک اور درخت کو دیکھ کر جو پہلے سے بھی زیادہ سرسبز ہو گا وہ پھر درخواست کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس کے عہد کو یاد دلا کر اور نیا عہد لے کر اس کے نیچے بھی کھڑا کر دے گا.آخر وہ جنت میں جانے کی خواہش کرے گا اور اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا اور اس کو جنت میں داخل کر دے گا.(مسلم) کتاب الایمان باب اخر اهل النار خروجا) اس واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ہر ایک موقع کے مطابق خبر دیتا ہے کیونکہ جب اللہ تعالیٰ نے اس سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ آئندہ پھر اور خواہش نہیں کرے گا.اس سے یہی مفہوم سمجھا جاتا تھا کہ وہ اسے جنت میں داخل نہیں کرنا چاہتا تھا.حالانکہ یہ غلط ہے.اللہ تعالٰی اسے جنت میں داخل کرنا چاہتا تھا اور پھر اسے آہستہ آہستہ جنت کی طرف لے جانا اسی اعتراض کے نیچے آجاتا ہے کہ کیوں اس نے اسے ایک دفعہ ہی جنت میں داخل نہ کر دیا اور جو اس کا جواب ہو گا وہی اس قسم کی پیشگوئیوں کے بدلنے کا بھی جواب ہے.آخر میں میں پھر یہی بات کہوں گا کہ پیشگوئی محض اظہار تقدیر کا نام ہے اور یہ سب مسلمانوں کا مسلمہ مسئلہ ہے کہ تقدیر مل جاتی ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ تقدیر کو چونکہ ظاہر کر دیا گیا ہے اس لئے تقدیر کے ملنے سے جو فائدہ انسان بصورت دیگر اٹھا سکتا ہے اس سے اسے.
انوار العلوم جلد ۴ ۵۹۸ تقدیر الی محروم کر دیا جائے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ تقدیر اور اکتاب ایک ہی وقت جاری ہوتے ہیں.مگر تقدیر علیحدہ علیحدہ رنگ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جاری ہوتی ہے اس کے ساتھ بندہ کی تدبیر مل کر انسانی اعمال مکمل ہوتے ہیں.اور ایک تقدیر وہ ہوتی ہے جس میں بندہ کے اعمال کا بالکل دخل نہیں ہوتا.لیکن یہ تقدیر اعمال کی جزاء کے متعلق جاری ہوتی ہے اور اگر کبھی اعمال کے متعلق جاری ہو تو ایسے اعمال کے متعلق انسان کو کسی قسم کی پرسش نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ اعمال بعض دوسرے اعمال کا نتیجہ اور جزاء نہ ہوں.حج ، نماز ، روزہ ، زکوۃ وغیرہ اور جھوٹ، زنا، ڈاکہ وغیرہ سب انسان کے کام ہیں جن میں اکتساب کے طور پر اپنی مرضی کے ماتحت انسان عمل کرتا ہے اس لئے ان کے متعلق جزاء و سزا کا مستحق ہے.باوجود اس کے ایک نادان اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھ سے خدا چوری یا زنا کراتا ہے اور نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر بدیوں کے لئے جاری نہیں ہوتی.وہ پاک ہے اس لئے وہ پاک ہی کام کرائے گا.اگر خدا کی تقدیر جاری ہوئی ہوتی تو ہر انسان سے نیک ہی کام کراتی جیسا کہ قرآن کریم میں خدا تعالی فرماتا ہے.وَلَوْ شِئْنَا لَا تَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدمها (السجدة : (۱۴) کہ اگر ہم جبر کرتے تو سب کو مسلمان بناتے کافر کیوں بناتے.پس اگر خدا کا انسان پر جبر تھا تو چاہئے تھا کہ ہر ایک سے نیک ہی اعمال کراتا.مگر تعجب ہے که انسان ناپاک فعل خدا تعالی کی طرف منسوب کرتا ہے اور کہتا ہے کہ خدا نے مجھ سے چوری کرائی میرا اس میں کیا دخل تھا؟ حالانکہ وہ ناپاک تقدیر اپنے اوپر خود جاری کرتا ہے.پس یہ غلط ہے کہ خدا بھی گندی تقدیر جاری کرتا ہے تاکہ انسان برے فعل کرے.ہاں ایک گندی تقدیر ہے ضرور جو شیطان جاری کرتا ہے اور اس کے ماتحت اپنے چیلوں سے کام لیتا ہے.چنانچہ خدا تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ شیطان کا تسلط ان لوگوں پر ہوتا ہے جو اس سے دوستی رکھتے ہیں.ایسے لوگ چونکہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر شیطان کے پیرو بن جاتے ہیں اس لئے خدا بھی ان کو چھوڑ دیتا ہے اور شیطان ان پر اپنی تقدیر جاری کرنا شروع کر دیتا ہے.پس وہ شخص جو برے فعل کر کے کہتا ہے کہ یہ کام مجھ سے خدا کراتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی سخت گستاخی کرتا ہے.ہمارے ملک میں تو محاورہ ہے کہ جب کسی سے برا نعل سرزد ہو جاتا ہے تو کہتا ہے تقدیری امر تھا
العلوم جلد ۵۹۹ تقدیر الهی میرا کیا بس تھا.یہ خدا تعالٰی کی بے ادبی اور گستاخی ہے.کیونکہ یہ غلط ہے کہ برے کاموں کے متعلق خدا تعالیٰ کی تقدیر جاری ہوتی ہے.ہاں بری تقدیر شیطان کی طرف سے ان لوگوں پر جاری ہوتی ہے جو اس کے بندے بن جاتے ہیں اور ایک وقت ان پر ایسا آتا ہے کہ اگر اس وقت چاہیں بھی کہ شیطان کے پنجے سے نکل جائیں تو آسانی سے نہیں نکل سکتے.یعنی وہ ایک گناہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں لیکن اس کا چھوڑنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے.پھر ان کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ شیطان کے پنجہ سے چھوٹا نہیں چاہتے اور اس کے ساتھ مل جاتے ہیں.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ مسئلہ تقدیر پر اگر ہم ایمان نہ لائیں یا یہ خدا کی طرف سے جاری نہ ہو تو کیا نقصان ہوتے ہیں.اور اس پر ایمان لانے اور اس کے جاری ہونے کے کیا فوائد ہیں؟ یہ ایک بہت اہم سوال ہے جس پر غور کرنے کی سخت ضرورت ہے لیکن افسوس کہ ظاہری صوفی اور ملاں اس طرف گئے ہی نہیں.1 (چونکہ وقت بہت ہو گیا تھا اور سردی سخت تھی.نیز ابھی تقریر کا بہت سا حصہ باقی تھا.اس لئے بقیہ حصہ دوسرے دن پر رکھا گیا اور اسی جگہ تقریر ختم ہوئی.اور اس سے اگلا حصہ ہے جو دوسرے دن بیان کیا گیا.) میرا منشاء تھا کہ تقدیر کے مسئلہ کی مسئلہ تقدیر کے متعلق بعض شبہات کا ازالہ تشریح بیان کرنے کے بعد اس پر ایمان لانے کے فوائد بھی آپ لوگوں کے سامنے بیان کروں اور آج اسی مضمون کو شروع کرنے کا ارادہ تھا مگر آج ایک صاحب نے کچھ سوالات لکھ کر دیئے ہیں اس لئے پہلے مختصر طور پر ان کا جواب بیان کر دیتا ہوں.یہ صاحب پوچھتے ہیں کہ شیطان کو گمراہ کرنے کی طاقت کہاں سے ملی؟ میں نے کل بیان کیا تھا کہ جب انسان اپنے خیالات کو شیطانی بنالیتا ہے تب شیطان سے لگاؤ پیدا ہو جانے کی وجہ سے شیطان کو بھی اس سے تعلق ہو جاتا ہے اور وہ بھی اسے گمراہ کرنا شروع کر دیتا ہے.پس یہ گمراہی در حقیقت خود انسان کے نفس سے ہی پیدا ہوتی ہے.میں اس کی مثال دیتا ہوں.مثلاً ایک شرابی دوسرے شرابی کو اپنے ساتھ لے جائے اور وہ شخص جدھر جدھر یہ شخص شراب پینے کے لئے جاتا ہے اس کے ساتھ ساتھ جائے تو گو وہ یہ کہے میں اس کا تابع ہوں
وم جلد " ۶۰ • جدھر اس کی مرضی ہے لے جائے مگر دراصل وہ خود چونکہ اس کا ہم خیال ہے اور آپ شراب کا شیدائی ہے اس کے ساتھ ساتھ جاتا ہے اور اپنے مزے کا خیال کر رہا ہے.صاحب مثنوی نے اس تعلق کو ایک لطیف مثال کے طور پر بیان کیا ہے.وہ فرماتے ہیں ایک چوہا تھا.اس نے ایک اونٹ کی رسی پکڑ لی اور اپنے پیچھے پیچھے چلانے لگ گیا اور اس پر اس نے سمجھا کہ مجھے بڑی طاقت حاصل ہو گئی ہے کہ اونٹ جیسے قد آور جانور کو اپنے پیچھے چلا رہا ہوں اور اس پر وہ پھولا نہ سماتا تھا کہ چلتے چلتے راستہ میں دریا آگیا.اونٹ چونکہ پانی میں چلنے سے خوش نہیں ہو تا اس لئے جب چوہا پانی کی طرف چلا تو وہ ٹھر گیا.چوہے نے اس کے کھینچنے میں بڑا زور لگایا لیکن اونٹ نے اس کی ایک نہ مانی چوہے نے اس سے پوچھا.اے اونٹ اس کا کیا سبب ہے کہ اس وقت تک تو جس طرح میں تجھ سے کہتا تھا تو میری بات مانتا تھا مگر اب نا فرمان ہو گیا ہے.اس نے کہا کہ جب تک میری مرضی تھی میں تمہارے پیچھے پیچھے چلا آیا.اب نہیں ہے اس لئے نہیں چلوں گا.غرض جس وقت چوہا اونٹ کو لے جا رہا تھا اس وقت گو دیکھنے میں یہ نظر آ رہا ہو کہ چوہے کے پیچھے اونٹ چل رہا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ چوہا جدھر جا رہا تھا ادھر ہی اونٹ بھی اپنی مرضی سے جا رہا تھا.اسی طرح گو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان پر شیطان کا قبضہ ہے مگر اصل میں اس کا قبضہ نہیں ہو تا بلکہ انسان اپنی باگ اس کے ہاتھ میں دے کر خود اپنی مرضی سے اس کے پیچھے چل پڑتا ہے.چنانچہ بعض انسان جب اس سے اپنی جان چھڑوانا چاہتے ہیں تو سختی سے اس کی اتباع سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ ڈر کر ان کے پاس سے بھاگ جاتا ہے.دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن میں آتا ہے.وَمَا تَشَاءُ وَنَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللَّهُ (الكور : ۳۰ یعنی تم نہیں چاہتے مگر وہی جو خدا چاہتا ہے.اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اعمال اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہیں.اس آیت کے یہ معنی نہیں ہیں جو سائل صاحب کے ذہن میں آئے ہیں اس آیت کا ما سبق یہ ہے.فَايْنَ تَذْهَبُونَ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرُ لِلْعَلَمِيْنَ ، لِمَنْ شَاءَ مِنْكُمْ أَنْ يَسْتَقِيمَ ، وَمَا تَشَاءُونَ إِلا أَنْ يَشَاء اللَّهُ رَبُّ الْعَلَمِينَ (التکویر : ۲۷ تا۳۰) خدا تعالیٰ فرماتا ہے.تم کہاں جاتے ہو.یہ قرآن کریم نہیں مگر خدا تعالیٰ کی طرف.سے
4.1 تقدیر الهی وعظ اور نصیحت ہے مگر اسی شخص کے لئے جو چاہے اپنے معاملات کو درست کرے اور حق پر قائم ہو.آگے فرماتا ہے.وَمَا تَشَاءُ وَنَ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ اللهُ رَبُّ الْعَلَمِيْنَ ، یعنی یہ تمہاری کوشش استقامت کی بھی تبھی انعام کا وارث ٹھر سکتی ہے جب کہ تمہاری مرضی خدا تعالی کی مرضی کے مطابق ہو جائے یعنی تمہارے اعمال شریعت کے مطابق ہوں اور تمہارے عقائد بھی ! شریعت کے مطابق ہوں.جن باتوں پر خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے ایمان لاؤ اور حسن اعمال یعنی نماز، روزہ ، زکوۃ، حج وغیرہ کا حکم دیا ہے ان کو بجا لاؤ.جب اس طرح کرو گے اس وقت تم اس کلام کے نیک اثرات کو محسوس کرو گے ورنہ نہیں.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کسی کو کہا جائے کہ ہم تم سے تب خوش ہوں گے جب تم ہماری منشاء کے ماتحت کام کرو.پس اس آیت سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ تمام انسانی اعمال اللہ تعالی کراتا ہے اور انسان کا اس سے کچھ واسطہ نہیں ہوتا.باقی رہی یہ آیت کہ إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ (الرعد:۲۸) اس کے متعلق اس وقت پوچھنے کی کوئی ضرورت نہ تھی.ہماری جماعت میں اس کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود کھول کر بیان کر دیا ہے کہ خدا اس کو گمراہ کرتا ہے جو خود ایسا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كذلِكَ يُضِلُّ اللهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفُ مُرْتَابُ (المؤمن: ۳۵) یعنی اسی طرح اللہ تعالی گمراہ کرتا ہے اسے جو مسرف اور شک کرنے والا ہوتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے.وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفُسِقِينَ ) (البقرة: ۲۷) اور نہیں گمراہ کرتا اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ مگر فاسقوں کو اور اسی طرح فرماتا ہے.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدْهُمْ (التوبة: ۱۱۵) یعنی یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی خود ہی ہدایت بھیجے اور پھر خود ہی بعض آدمیوں کو گمراہ کر دے.پس اللہ تعالیٰ اس کو گمراہ کرتا ہے جو خود گمراہ ہوتا ہے.اور یہ صحیح بات ہے کہ جو آنکھیں بند رکھے وہ ایک نہ ایک دن اندھا ہو جائے گا.اسی طرح جو روحانی آنکھوں سے کام نہ لے وہ بھی روحانیت سے بے بہرہ ہو جاتا ہے.اور چونکہ یہ قانون خدا تعالٰی نے مقرر کیا ہوا ہے اس کی
انوار العلوم جلد ۴ ۶۰۲ زیر الهی لئے اس کا نتیجہ خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے.باقی جت القلم اور اسی قسم کی اور حدیثیں ان کے متعلق اول تو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ ان کو قرآن کریم کے ماتحت لانا پڑے گا اور ایسے ہی معنی کئے جائیں گے جو قرآن کریم کی آیات کے مطابق ہوں اور وہ معنی یہی ہو سکتے ہیں کہ یا تو اس سے تقدیر عام مراد ہے یعنی قانون قدرت اور اس میں کیا شک ہے کہ قانون قدرت ابتدائے افرینش سے مقرر چلا آیا ہے یا اس سے مراد ہر ایک عمل نہیں بلکہ خاص تقدیر مراد ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ خاص تقدیر میں اللہ تعالی ہی جاری کرتا ہے یا پھر اس سے علم الہی مراد ہے.یہی وہ باتیں ہیں جو لوح محفوظ پر لکھی ہوئی ہیں..اب میں ایک خاص شبہ بیان کرتا ہوں.جو تقدیر کے متعلق تعلیم یافتہ طبقہ میں پھیلا ہوا ہے.آج کل جہاں لوگوں میں تحقیقات کا مادہ بڑھ گیا ہے وہاں وہ ہر ایک کام کے متعلق معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں ہوا.مثلا دانہ اگتا ہے.اس کے متعلق تحقیق کی گئی ہے کہ کیوں اگتا ، تو یہ سمجھا جاتا تھا کہ جب دانہ زمین میں ڈالا جاتا ہے تو فرشتہ کھینچ کر اس سے بال نکال دیتا ہے.لیکن اب اس قسم کی باتیں کوئی ماننے کے لئے تیار نہیں ہے اور وہ معلوم کرنا چاہتا ہے کہ کیوں اگتا ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اسی طرح یہ تحقیقات کی جاتی ہیں کہ فلاں چیز کہاں سے آئی.مثلاً کہتے ہیں.پہلے دھوپ ہوتی ہے پھر اچانک بادل آجاتا ہے.یہ کہاں سے آتا ہے؟ علوم جدیدہ کے ماننے والے کہتے ہیں.بادل کئی دن سے بن رہا تھا اور کہیں دور دراز سے چلا ہوا تھا جو اس وقت ہمارے سروں پر آگیا.یا ہمارے اوپر کی ٹھنڈک اور خنکی سے ان ابخرات سے جو دور سے چلے آرہے تھے یہاں آکر بادل بن گیا.ان لوگوں کے سامنے اگر بیان کیا جائے کہ بارش کے لئے دعا کی گئی تھی اور بادل آگیا تو وہ اس پر ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا تو اس کے وقت کی گئی تھی اور بادل اس سے کئی دن پہلے بن کر چلا ہوا تھا.پھر اس کا آنا دعا کے اثر سے کس طرح ہوا ؟ اس قسم کے اعتراضات آج کل کئے جاتے ہیں مگر یہ سب باطل ہیں.ہم یہ مانتے ہیں کہ بادل کے آنے کا سبب موجود ہے.مگر سوال یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو دس لاکھ یا دس کروڑ سال یا جو وقت بھی مقرر کیا جائے اس سے پہلے معلوم تھا یا نہیں کہ فلاں وقت اور فلاں تو موقع پر میرا فلاں بندہ دعا کرے گا.پھر اسے یہ خبر بھی تھی یا نہیں کہ اس وقت مجھے اس کی مدد کرنی ہے.اگر خبر تھی تو خواہ جس قدر عرصہ پہلے بادل تیار ہوا اسی لئے تیار ہوا کہ اس وقت
ر العلوم جلد ۴ ۶۰۳ تقدیر الهی اس کے ایک بندہ نے دعا کرنی تھی اور خدا تعالیٰ کے رحم نے اس وقت اس بادل کو وہاں پہنچانا ہے تھا.تو اس قسم کے سب اعتراض باطل ہیں کیونکہ کسی بات کا سبب پہلے ہونے سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اس کا بلاواسطہ محرک وہ امر نہ تھا جو پیچھے ہوا یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ وہ اس کے لئے نہیں ہوا.کیا ایک مہمان کے آنے سے پہلے وہ چیزیں مہیا نہیں کی جاتیں جو دور سے منگوانی پڑتی ہیں.پھر کیا ان چیزوں کا اس مہمان کی آمد سے پہلے منگوانا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وہ اس کی خاطر نہیں منگوائی گئیں.خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے.اسے معلوم تھا کہ فلاں وقت میرا بندہ بادل کے لئے دعا کرے گا اس لئے اس نے شروع پیدائش سے ایسے حکم دے چھوڑے تھے کہ اس وقت ایسے سامان پیدا ہو جاویں کہ اس بندہ کی خواہش پوری ہو جائے.پس اس بارش کا ہونا ایک تقدیر خاص کا نتیجہ تھا جو تقدیر عام کے پردہ میں ظاہر ہوئی.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کس طرح معلوم ہوا کہ اس کی محترک تقدیر تھی.اور اس کی وجہ عام اسباب قدرت نہ تھے.اس بات کے معلوم کرنے کے لئے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا ایسے متواتر واقعات ہوتے ہیں جن کی نظیر دنیا کے عام قاعدہ میں نظر نہیں آتی اور اس کی وجہ ہے انہیں اتفاق نہیں کہا جا سکتا.اگر یہ ثابت ہو جائے تو معلوم ہو گا کہ ان کے متعلق خاص تقدیر جاری ہوئی تھی.مثلاً اگر دیکھیں کہ متواتر ایسا ہوا کہ دعائیں کی گئیں اور بادل آگئے تو اس کو اتفاق نہیں کہا جا سکتا بلکہ اس کی کوئی وجہ قرار دینی پڑے گی.پھر اتفاق اس کو اس لئے بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس قسم کی مثالوں میں ایک سلسلہ نظر آتا ہے.صدیوں کے بعد صدیوں میں مختلف بزرگوں کی دعاؤں کے جواب میں ایسا معاملہ ہوتا آیا ہے.پس اسے اتفاق نہیں کہہ سکتے.پھر وہ جو ایسی باتوں کو اتفاق کہتے ہیں وہ خود لکھتے ہیں کہ اتفاق کوئی چیز نہیں ہے.ہر ایک چیز کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے.اس مسئلہ کے بیان کرنے کا یہ وقت نہیں ورنہ میں بتاتا کہ وہ اتفاق کے متعلق کیا سمجھتے ہیں.بہر حال جب وہ دنیا کے کسی معاملہ کے متعلق اتفاق کے قائل نہیں تو پھر اپنے عقیدہ کے خلاف جو بات ہو اسے اتفاق کیوں کہتے ہیں.غرض یہ بات خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے تقدیر جاری ہے گو سبب موجود ہوتے ہیں مگر ان کی وجہ سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ تقدیر نہیں ہے.اب میں نہایت افسوس سے ان نقصانات کا مسئلہ تقدیر کے غلط سمجھنے کے نقصان اظہار کرتا ہوں جو لوگ اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کی *
م جلد ۴ ۶۰۴ وجہ سے اٹھارہے ہیں.تقدیر دراصل ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی چیز تھی کہ انسانوں کو زندہ کرنیوالی تھی.مگر افسوس اس کی قدر نہیں جانی گئی اور اس سے وہی سلوک کیا گیا جو قرآن کریم سے کیا گیا ہے.خداتعالی فرماتا ہے قیامت کے دن رسول کریم ای خدا تعالیٰ کے حضور کہیں گے.يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ) (الفرقان (۳) کہ خدایا اس قرآن کو میری قوم نے پیٹھ کے پیچھے ڈال دیا.اس کے مصداق رسول کریم کے زمانہ کے وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ کو نہ مانا.مگر مسلمان بھی ہیں اور اصل قوم رسول کریم ﷺ کی یہی ہیں.وہ قرآن جو ان کی ہدایت کے لئے آیا اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو اعلیٰ سے اعلیٰ درجہ پر پہنچانے کے لئے آیا ہے اس کو آج کل کس طرح استعمال کیا جاتا ہے.ایک تو اس طرح کہ زندگی بھر تو قرآن کا ایک لفظ ان کے کانوں میں نہیں پڑتا.لیکن جب کوئی مرجائے تو اس کو قرآن سنایا جاتا ہے.حالانکہ مرنے پر سوال تو یہ ہوتا ہے کہ بتاؤ تم نے اس پر عمل کیونکر کیا؟ نہ یہ کہ مرنے کے بعد تمہاری قبر پر کتنی دفعہ قرآن ختم کیا گیا ہے.پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ ضرورت پڑے تو آٹھ آنے لے کر اس کی جھوٹی قسم کھالی جاتی ہے اور اس طرح اسے دوسروں کے حقوق دبانے کا آلہ بنایا جاتا ہے.تیرے اس طرح کہ ملانے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں.جب کوئی مرجاتا ہے تو اس کے وارث قرآن لاتے ہیں کہ اس کے ذریعہ سے اس کے گناہ بخشوا ئیں اور ملا نے ایک حلقہ سا بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور قرآن ایک دوسرے کو پکڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے یہ تیری ملک کی.وہ اس طرح سمجھتے ہیں کہ مردہ کے گناہوں کا اسقاط ہو گیا.مگر مردہ کے گناہوں کا کیا اسقاط ہونا تھا ان ملانوں اور اس مردہ کے وارثوں کے ایمانوں کا اسقاط ہو جاتا ہے.ایک اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ ملا نے آٹھ آٹھ آنہ کے قرآن لے آتے ہیں.جب کسی کے ہاں کوئی مرجاتا ہے اور وہ قرآن لینے آتا ہے تو اسے بہت سی قیمت بتا دی جاتی ہے.وہ کہتا ہے کہ یہ تو ایک روپے سے بھی کم قیمت کا ہے.ملاں صاحب کہتے ہیں کہ کیا قرآن سستے داموں بک سکتا ہے؟ تھوڑی قیمت پر تو اس کا بچنا منع ہے.خود قرآن میں آتا ہے وَلَا تَشْتَرُوا بِأيتِي ثَمَناً قَلِيلاً (البقرۃ : ۴۲) کہ تھوڑی قیمت پر قرآن نہ خرید و اس لئے کہ اس کی تھوڑی قیمت نہیں کی جا سکتی.مگر وہ نادان نہیں جانتے کہ قرآن نے تو یہ بھی فرمایا ہے کہ مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيْل (النساء: ۷۸) کہ دنیا کا سب مال و متاع قلیل ہے.اور ثَمَناً قَلِیلاً کے یہ معنی ہیں کہ دنیا کے بدلے اسے نہ بیچو.
۶۰۵ تقدیر الهی پھر ایک استعمال اس کا یہ ہے کہ عمدہ غلاف میں لپیٹ کر دیوار سے لٹکا دیتے ہیں.پھر ایک یہ کہ مجزدان میں ڈال کر گلے میں لٹکا لیتے ہیں تاکہ عوام سمجھیں کہ بڑے بزرگ اور پار سا ہیں ہر وقت قرآن پاس رکھتے ہیں.پس جس طرح قرآن کریم کو مسلمان برے طور پر استعمال کر رہے ہیں اور اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے اسی طرح تقدیر کے مسئلہ کے متعلق کرتے ہیں.چنانچہ ایک استعمال تو اس کا یہ ہوتا ہے کہ اپنی ندامت اور شرمندگی کے مٹانے کے لئے تقدیر کو آڑ بنا لیتے ہیں.مثلاً کسی کام کے لئے گئے اور وہ نہ ہوا تو اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے کہ لوگ کہیں گے تم تو بڑا دعویٰ کرتے تھے مگر فلاں کام نہ کر سکے.کہتے ہیں کہ قسمت ہی اسی طرح تھی ہم کیا کرتے؟ جہاں جہاں انہیں کوئی ذلت اور رسوائی پہنچتی ہے اسے قسمت اور تقدیر کے سرمنڈھ دیتے ہیں.حالانکہ تقدیر ندامت میں غرق کرنے کے لئے نہیں بلکہ ترقیات کے عطا کرنے کے لئے جاری کی گئی ہے.آگے جو شخص نقصان اٹھاتا ہے وہ تقدیر سے فائدہ نہ اٹھانے کے باعث ہوتا ہے.پھر اظہار مایوسی کے وقت بھی قسمت کو یاد کر لیتے ہیں.مثلاً کام کرتے کرتے جب ہمت ہار کر بیٹھ جاتے ہیں اور یہ انسان کے لئے بدترین حالت ہے.کیونکہ مایوسی کا اظہار کرنا نہایت درجہ بزدلی اور دنائت پر دلالت کرتا ہے اور شریف انسان اس سے بچتا ہے.تو اس وقت اپنی مایوسی اور ناامیدی کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ یہ بات معلوم ہوتا ہے قسمت ہی میں نہیں ہے.یعنی ہم تو آسمان میں سوراخ کر آدیں لیکن اللہ تعالیٰ نے راستہ روک دیا ہے اور چونکہ اس کا منشاء نہیں اس لئے ہم کوشش چھوڑ دیتے ہیں اس طرح اپنی کم ہمتی اور دنائت کو خدا تعالیٰ کی تقدیر کی آڑ میں چھپاتے ہیں.اور شرم نہیں کرتے کہ تقدیر کو کس رنگ میں استعمال کر رہے ہیں اور اتنا نہیں سوچتے کہ ان کو کیونکر معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر یوں ہی بہ اس کے ایسے مقرب کب ہوئے کہ وہ ان پر اپنی تقدیروں کا اظہار کرنے لگ گیا.پھر اپنی سستی کو چھپانے کے لئے اس مسئلہ کا استعمال کرتے ہیں.اس لومڑی نے تو پھر بھی اچھا کیا تھا جس نے گزرتے ہوئے دیکھا کہ انگور کی بیل کو انگور لگے ہوئے ہیں.وہ ان کو کھانے کے لئے اچھلی کو دی مگر وہ اتنے اونچے تھے کہ پہنچ نہ سکی اور یہ کہہ کر چل دی کہ تھو.کھٹے ہیں.گویا وہ ان کو اس لئے نہیں چھوڑ رہی کہ ان کو پا نہیں سکتی بلکہ ان کے کھٹے ہونے کی وجہ سے چھوڑ رہی ہے مگر یہ اس سے بھی بد تر نمونہ دکھاتے ہیں.یہ بغیر کسی کام کے لئے کوشش
نوم جلد ۴ ۶۰۶ تقدیر الهی کرنے کے یہ کہہ کر اپنی ستی پر پردہ ڈال دیتے ہیں کہ اگر قسمت ہوئی تو مل کر رہے گا اور نادان نہیں سوچتے کہ تم کب اس قابل ہوئے کہ اللہ تعالیٰ اپنے قانون کو بدل کر ایک خاص تقدیر جاری کرے گا اور تمہارے لئے رزق مہیا کرے گا.اور پھر بات تو تب تھی کہ سب کام چھوڑ دیتے.لیکن ایسا نہیں کرتے جس کام کے بغیر چارہ نہ ہو اسے کرنے کے لئے دوڑ پڑتے ہیں.یا جو کام زیادہ قربانی اور محنت نہ چاہتا ہو اس کے کرنے میں عذر نہیں کرتے.اگر قسمت پر ایسا ایمان تھا تو پھر چھوٹے چھوٹے کام کیوں کرتے ہو ؟ در حقیقت ان لوگوں کا فعل اس لومڑی کے فعل سے بھی بدتر ہے نہ صرف اس لئے کہ اس نے کوشش کے بعد چھوڑا اور یہ بغیر کوشش کے چھوڑ دیتے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ اس نے تو اپنے ترک عمل کو انگوروں کے کھٹے ہونے کی طرف منسوب کیا اور یہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں.یہ لوگ خود ست ہوتے ہیں کام کرنے کو جی نہیں چاہتا محنت سے دل گھبراتا ہے اور اسے موت سے بدتر خیال کرتے ہیں لیکن جب ترقیات کے راستوں پر قدم زن ہونے کے لئے انہیں کہا جاتا ہے تو کہہ دیتے ہیں اگر فلاں چیز نے ملنا ہو گا تو آپ ہی مل رہے گی ہمارے محنت کرنے سے کیا ملتا ہے اور اس طرح اپنی کمزوری تقدیر کی چادر میں چھپاتے ہیں.پھر گالی کے طور پر تقدیر کو استعمال کرتے ہیں.یعنی جس کو گالی دینی ہو اسے کہتے ہیں چل ر قسمت.گویا جس طرح اور برے الفاظ ہیں اسی طرح قسمت کا لفظ ہے.اور ان کے نزدیک خدا کی اس نعمت کا استعمال یہ ہے کہ اپنی زبانوں کو گندہ کریں.حالانکہ خدا تعالیٰ نے تقدیر اس لئے جاری کی تھی کہ انسان اس کے ذریعہ اپنے آپ کو پاک کریں.پھر اس کا ایک استعمال خدا کو گالیاں دینے کے لئے ہوتا ہے.خدا نے تو تقدیر اس لئے بنائی ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق مضبوط ہو مگر وہ اس کا الٹا استعمال کرتے ہیں.اگر بعض لوگوں کے گھروں میں کوئی موت ہو جائے.مثلاً کوئی بچہ مرجاوے تو وہ کہتا ہے کہ " رتبا تیرا پتر مردا تے تینوں پتہ لگدا " یعنی اے خدا تیرا لڑکا مرتا تو مجھے معلوم ہوتا کہ اس کا کس قدر صدمہ ہوتا ہے.نعوذ باللہ من ذالک گویا خدا نے ان پر بڑا ظلم کیا ہے.اور وہ چاہتے ہیں کہ خدا پر بھی ایسا ہی ظلم ہو.یہاں ایک شخص تھے بعد میں وہ بہت مخلص احمدی ہو گئے اور حضرت صاحب سے ان کا بڑا تعلق تھا.مگر احمدی ہونے سے قبل حضرت صاحب ان سے میں سال تک ناراض رہے.وجہ یہ کہ حضرت صاحب کو ان کی ایک بات سے سخت انقباض ہو گیا.اور وہ اس طرح کہ ان
انوار العلوم جلد ۴ 4-6 تقدیرانی.کا ایک لڑکا مرگیا.حضرت صاحب اپنے بھائی کے ساتھ ان کے ہاں ماتم پرسی کے لئے گئے.ان میں قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص آتا اور اس سے ان کے بہت دوستانہ تعلقات ہوتے تو اس سے بغل گیر ہو کر روتے اور چینیں مارتے.اس کے مطابق انہوں نے حضرت صاحب کے بڑے بھائی سے بغل گیر ہو کر روتے ہوئے کہا کہ خدا نے مجھے پر بڑا ظلم کیا ہے.یہ سن کر حضرت صاحب کو ایسی نفرت ہو گئی کہ ان کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتے تھے.بعد میں خدا نے انہیں دی اور وہ ان جہالتوں سے نکل آئے.غرض تقدیر کے مسئلہ کے غلط سمجھنے کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا نے ہم پر یہ ظلم کیا وہ ستم کیا اور اس طرح خدا کو گندی سے گندی گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے ان افعال کا الزام ان پر ہے جنہوں نے ان کے دلوں میں یہ خیال ڈال دیا ہے کہ سب کچھ خدا کرتا ہے.اس خیال کو رکھ کر جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں خدا نے ہم پر یہ ظلم کیا ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ایمان بالقدر کی ضرورت کیا ہے؟ میں ایمان بالقدر کی ضرورت نے بتایا ہے قدر نام ہے صفات الہیہ کے ظہور کا.اور جب تک کوئی انسان اس پر ایمان نہیں لاتا اس کا ایمان مکمل نہیں ہو سکتا.پس تقدیر ایمان کی تقویت اور تکمیل کا ذریعہ ہے.اگر یہ مسئلہ نہ ہوتا تو پہلا نقص یہ ہو تاکہ ایمان نا مکمل رہ جاتا.اگر تقدیر نہ ہوتی تو پہلا نقصان یہ ہوتا تو اگر تقدیر الہی جاری نہ ہوتی تو کیا نقصان ہوتا کہ انسان نہ دین میں مسکھ پاسکتا نہ دنیا میں.میں نے بتایا ہے کہ ایک تقدیر یہ ہے کہ آگ جلائے.پانی پیاس بجھائے یعنی وہ احکام جن کے ذریعہ سے خواص الاشیاء مقرر کئے گئے ہیں.اسی قاعدہ سے فائدہ اٹھا کر دنیا اپنا کاروبار کر رہی ہے.ایک زمیندار گھر سے دانہ لے جاکر زمین میں ڈالتا ہے.گویا بظاہر اس کو ضائع کرتا ہے.مگر کیوں؟ اس لئے کہ اسے امید ہے کہ اگ کر ایک دانہ کے کئی کئی دانے بن جائیں گے.لیکن اسے یہ امید اور یہ یقین کیوں ہے؟ اس لئے کہ اس کا باپ اس کا دادا اس کا پڑدادا جب جب اس طرح کرتا رہا ہے ایسا ہی ہوتا رہا ہے.اور خدا نے یہ قانون مقرر کر دیا ہے کہ جب دانہ زمین میں ڈالا جائے تو اس کے اُگنے سے کئی دانے پیدا ہو جائیں.لیکن اگر یہ قاعدہ مقرر نہ ہو تا بلکہ اس طرح ہوتا کہ زمیندار کو کنک (گندم) کی ضرورت ہوتی اور وہ کنک ہوتا تو کبھی کنک اگ آتی کبھی کیکر آگ آتا کبھی انگور کی بیل نکل آتی وغیرہ.تو کچھ مدت کے بعد
العلوم جلد ۶۰۸ زمیندار اس ہونے کے فعل کو لغو سمجھ کر بالکل چھوڑ دیتا اور اپنی محنت کو ضائع خیال کرتا.اسی طرح اب تو سنار کو یقین ہے کہ سونا جب آگ میں ڈالوں گا تو پکھل جائے گا اور پھر جس طرح اس سے چاہوں گا زیور بنالوں گا.لیکن اگر ایسا نہ ہو تا بلکہ یہ ہو تاکہ سنار کو کوئی کڑے بنانے کے لئے سونا دیتا اور وہ جب اسے پگھلاتا تو وہ چاندی نکل آتی یا کوئی چاندی دیتا تو وہ پیتل نکل آتی.کیونکہ کوئی قاعدہ مقرر نہ ہوتا تو کیا حالت ہوتی یہی کہ بیچارے سنار کو مار مار کر اس کی ایسی گت بنائی جاتی کہ وہ اس کام کے کرنے سے توبہ کر لیتا.اسی طرح لوہار جب لوہے کو گرم کر کے اس پر ہتھو ڑا مار تاکہ اسے لمبا کرے.لیکن وہ کبھی خود بنتا جاتا، کبھی ہارن کی شکل اختیار کر لیتا یا وہ کدال بناتا تو آگے تلوار بن جاتی اور اسے پولیس پکڑ لیتی کہ ہتھیار بنانے کی اجازت تم کو کس نے دی ہے.یا اسی طرح ڈاکٹر تپ کے اترنے کی دوائی دیتا لیکن اس سے کھانسی بھی ہو جاتی تو ڈاکٹروں کی کون سنتا.اب تو اگر کسی کو کھانسی ہو تو ایک زمیندار بھی کہتا ہے کہ اسے بنفشہ پلاؤ.کیونکہ تجربے نے بتا دیا ہے کہ اس سے کھانسی کو فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ قانون مقرر نہ ہو تا بلکہ یہ ہو تاکہ کبھی بنفشہ پلانے سے کھانسی ہو جاتی اور کبھی بخار بڑھ جاتا.کبھی قبض ہو جاتی اور کبھی دست آجاتے.کبھی بھوک بند ہو جاتی اور کبھی زیادہ ہو جاتی تو کون بنفشہ پلاتا.بنفشہ تب ہی پلایا جاتا ہے کہ خدا نے مقرر کر دیا ہوا ہے کہ اس سے خاص قسم کی کھانسی کو فائدہ ہو.اسی طرح زمیندار تب ہی غلہ گھر سے نکال کر زمین میں ڈالتا ہے کہ اسے یقین ہے کہ گیہوں سے گیہوں پیدا ہوتا ہے.اگر اسے یقین نہ ہوتا تو کبھی نہ نکالتا وہ کہتا نہ معلوم کیا پیدا ہو جائے گا میں کیوں اس غلہ کو بھی ضائع کروں لیکن اب وہ اس لئے مٹی کے نیچے گندم کے دانوں کو دباتا ہے کہ خدا نے تقدیر مقرر کی ہوئی ہے کہ گندم سے گندم پیدا ہو.اسی طرح روٹی کھانے سے پیٹ بھرتا ہے.لیکن اگر ایسا ہو تا کہ کبھی ایک لقمہ سے پیٹ بھر جاتا اور کبھی کوئی سارا دن روٹی کھاتا رہتا اور پیٹ نہ بھرتا تو پھر کس کو ضرورت تھی کہ کھانا کھاتا اور کیوں پیسے ضائع کرتا یا گھر میں آگ جلانے سے کھانا پکایا جاتا ہے.لیکن اگر یہ ہو تا کہ کبھی سارا دن بھلکہ توے پر پڑا رہتا اور آگ جلتی رہتی لیکن وہ گیلے کا گیلا ہی رہتا اور کبھی آٹا ڈالتے ہی جل جاتا اور کبھی سینک لگنے سے پھل کا پکنے لگتا اور کبھی موٹا ہو کر ڈبل روٹی بن جاتا تو کون پھلکے پکانے کی جرات کرتا.اس طرح کبھی ساگ کچا رہتا اور کبھی پک جاتا تو کون پکا تا.یا اب معلوم ہے کہ مصری ڈالنے سے چیز میٹھی ہو جاتی ہے.لیکن اگر ایسا ہو تا کہ کبھی مصری ڈالنے سے میٹھی ہو جاتی ، کبھی کڑوی، کبھی
انوار العلوم جلد نمکین اور کبھی کھٹی کبھی کھیلی اور کبھی کسی اور مزے کی تو کیا کوئی مصری یا کھانڈ کو استعمال کر سکتا.یہ جس قدر کارخانہ عالم چل رہا ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ مسئلہ تقدیر ہے.خدا تعالیٰ نے مقرر کر دیا ہے کہ میٹھا میٹھے کا مزا دے.کھٹا کھنے کا مزا دے.آگ سے کھانا پکے.روٹی سے پیٹ بھرے وغیرہ وغیرہ.اور لوگوں نے اس کا تجربہ کر لیا ہے.پس وہ ان باتوں کے لئے روپیہ صرف کرتے ہیں.محنت برداشت کرتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ دنیا کا جتنا کاروبار اور جتنی ترقیاں ہیں وہ سب تقدیر کے مقرر ہونے کی وجہ سے ہیں.اگر یہ نہ ہوتی تو دنیا ہی نہ ہوتی.اور اس کا کار خانہ نہ چل سکتا پس انسان کی زندگی تقدیر کے ساتھ قائم ہے کیونکہ انسان کھانے پینے اور دوسری ضروریات کے پورا ہونے سے زندہ رہ سکتا ہے اور ان ضروریات کے پورا کرنے کے لئے وہ سبھی محنت کرتا ہے جب وہ جانتا ہے کہ میری کوشش کا کوئی مفید نتیجہ نکلے گا.اگر کوئی قاعدہ مقرر نہ ہوتا تو وہ محنت بھی نہ کرتا اور زندہ بھی نہ رہتا.یہ تو عام تقدیر کے نہ ہونے کا نقصان تھا.اب تقدیر خاص کے نہ ہونے کے متعلق بتاتا ہوں.جس طرح تقدیر عام سے دنیا کا قیام اور اس کی تقدیر خاص کے نہ ہونے کے نقصان ترقی وابستہ ہے.اسی طرح روحانیت کا قیام اور اس کی ترقی تقدیر خاص سے وابستہ ہے.اور جس طرح اگر تقدیر عام نہ ہوتی تو دنیا باطل ہوتی اسی طرح اگر تقدیر خاص نہ ہوتی تو روحانیت باطل ہو جاتی.اس کا پہلا نقصان تو یہ ہے کہ اس کے بغیر انسان خدا پر ایمان نہیں لا سکتا.اس لئے کہ خدا پر ایمان لانے کی بڑی سے بڑی دلیل یہ دنیا کا کارخانہ ہے کہ اتنے بڑے کارخانہ کا بنانے والا کوئی ہونا چاہئے.چنانچہ کسی فلسفی نے ایک اعرابی سے پوچھا تھا کہ تمہارے پاس خدا کے ہونے کی کیا دلیل ہے.اس نے کہا کہ جب میں مینگنی دیکھتا ہوں تو سمجھ لیتا ہوں کہ ادھر سے کوئی بکری گزری ہے.یا اونٹ کا پاخانہ دیکھتا ہوں تو معلوم کر لیتا ہوں کہ یہاں سے کوئی اونٹ گزرا ہے یا پاؤں کے نشان دیکھ کر معلوم کر لیتا ہوں کہ ادھر سے کوئی انسان گزرا ہے تو کیا اتنے بڑے کارخانہ کو دیکھ کر میں نہیں سمجھ سکتا کہ خدا ہے؟ مگر یہ دلیل مکمل نہیں ہے.کیونکہ اس سے یہی ثابت ہے کہ خدا ہونا چاہئے نہ یہ کہ ہے.حضرت صاحب نے اس کے متعلق براہین احمدیہ میں خوب کھول کر لکھا ہے.اب سوال ہو سکتا ہے کہ پھر کس طرح معلوم ہو کہ خدا ہے؟ یہ بات اسی طرح معلوم
نلوم جلد ۴ 41 تقدیر الی ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرت کا کوئی نمونہ دکھائے جس کو دیکھ کر یقین کیا جاسکے کہ خدا تعالیٰ واقع میں موجود ہے.جب لوگ دیکھ لیں کہ ایک کام انسان کی طاقت سے بالا تھا اور وہ ایک شخص کے قبل از وقت خبر دینے کے بعد خارق عادت طور پر ہو گیا تو وہ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا ہی ہے جس نے یہ کام کر دیا ہے.اس موقع پر میں ایک بات بتانی چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت صاحب نے تو یہ لکھا ہے کہ الہام سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا ہے.مگر تم کہتے ہو کہ تقدیر سے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اصل میں دونوں باتیں صحیح ہیں اور وہ اس طرح کہ یہ بات کہ خدا ہے اسی الہام سے ثابت ہوتی ہے جس میں تقدیر کو ظاہر کیا جاتا ہے.ورنہ اگر خدا کی طرف سے خالی یہ الہام ہو کہ میں ہوں تو لوگ کہہ سکتے ہیں کہ یہ الہام مہم کا وہم ہے اس سے خدا کی ہستی ثابت نہیں ہوتی.بہت دفعہ الہام بطور وہم کے بھی ہو جاتا ہے.یہاں ایک دفعہ ایک شخص آیا وہ کہتا تھا کہ مجھے آوازیں آتی ہیں.” تم مہدی ہو " مہمان خانہ میں ٹھہرا ہوا تھا اور وہیں مولوی غلام رسول صاحب را جیکی ٹھرے ہوئے تھے.انہوں نے اس کو بلا کر سمجھایا کہ کیا اگر کوئی مولوی صاحب1 مولوی صاحب ! کر کے آواز دے تو سمجھ لو گے کہ تمہیں بلاتا ہے.اس نے کہا نہیں.انہوں نے پوچھا کیا اگر کوئی حکیم صاحب یا ڈاکٹر صاحب کہہ کر آواز دے تو تم کیا سمجھو گے؟ اس نے کہا یہی سمجھوں گا کہ کسی حکیم صاحب یا ڈاکٹر صاحب کو بلایا جا رہا ہے.اور میں نے بھی یہ آواز سن لی ہے.مولوی صاحب نے کہا.جب ڈاکٹر صاحب اور حکیم صاحب کی آواز سن کر تم یہ نہیں سمجھتے کہ کوئی تمہیں مخاطب کر رہا ہے تو پھر جب مہدی اور مسیح کی آواز تم کو آتی ہے تو اپنے آپ کو مہدی اور مسیح کیونکر سمجھ لیتے ہو ؟ اسی طرح حضرت صاحب کے زمانہ میں ایک شخص آیا اور اگر کہنے لگا.مجھے کبھی محمد کہا جاتا ہے، کبھی عیسی ، کبھی موسی ، کبھی ابراہیم اور میں کبھی عرش پر چلا جاتا ہوں.حضرت صاحب جب تمہیں موسیٰ کہا جاتا ہے تو حضرت موسیٰ جیسا معجزہ بھی دیا جاتا ہے؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا جب عیسی کہا جاتا ہے تو تمہیں عیسی والے نشان دیئے جاتے ہیں؟ کہا نہیں.آپ نے فرمایا.جب محمد کہا جاتا ہے تو محمد" کی طاقتیں بھی دی جاتی ہیں؟ کہا نہیں آپ نے فرمایا.جب تم عرش پر جاتے ہو تو کیا جلالی نشانات بھی دیئے جاتے ہیں؟ کہا نہیں.آپ نے
།། تقدیر الهی فرمایا جو شخص کسی کو کہتا ہے کہ لے.اور جب وہ لینے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے تو کچھ نہیں دیتا.کیا اس کے اس فعل سے معلوم نہیں ہو تاکہ اس سے نہی کی جارہی ہے یا اس کی آزمائش ہو رہی ہے.اسی طرح تم سے یہ استہزاء کیا جا رہا ہے جو تمہارے گناہوں کی وجہ سے ہے.تم بہت تو بہ کرو.غرض الهام چونکہ وہم اور وسوسہ اور مرض اور شیطانی القاء کا بھی نتیجہ ہوتا ہے.اس لئے خالی الہام پر شبہ کیا جا سکتا ہے کہ شیطانی نہ ہو یا مرض نہ ہو لیکن جب اس کے ساتھ قدرت ہوتی ہے تو معلوم ہو جاتا ہے کہ کسی زبردست ہستی کی طرف سے ہے.پس یہ دونوں باتیں ہیں کہ الہام ہی خدا تعالیٰ کے متعلق یقین کے مرتبہ پر پہنچاتا ہے اور اظہار تقدیر ہی "خدا ہے" کے مرتبہ تک پہنچاتا ہے.اور اگر تقدیر نہ ہوتی تو خدا تعالیٰ پر ایمان بھی نہ ہوتا.دنیا کو دیکھ کر کہا جاسکتا تھا کہ یونہی بن گئی ہے.مگر جب خدا کی طاقت اور قدرت کو انسان دیکھتا ہے تو اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ خدا ہے.چنانچہ حضرت صاحب فرماتے ہیں.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشان کی چہرہ نمائی یہی تو ہے اس میں حضرت صاحب نے بتایا ہے کہ خدا تعالٰی قدرت سے اپنی چہرہ نمائی کرتا ہے اور اس وقت تک خدائی ثابت نہیں ہوتی جب تک وہ قدرت نمائی نہ کرے.وہ لوگ جو قدرت دیکھنے والے نہیں ہوتے وہ یوں کہہ دیتے ہیں کہ خدا کو کس نے پیدا کیا جو اس کو مانیں لیکن جب اس کی قدرت دیکھ لیتے ہیں تو ان پر ثابت ہو جاتا ہے کہ خدا ہے.پس اگر تقدیر نہ ہو تو خداتعالی پر بھی ایمان نہیں رہتا اور اگر ایمان خدا پر کسی طرح حاصل بھی ہو جائے تو تقدیر کے بغیر محبت اور اخلاص نہیں پیدا ہو سکتا مثلا بادشاہ کی ذات ہے.کسی کا دل نہیں چاہتا کہ اس کی طرف چٹھی لکھے کیونکہ اس سے ذاتی تعلق نہیں ہو تا.لیکن جن لوگوں سے ذاتی تعلق ہو تا ہے ان کی طرف خط لکھنے کا خیال بار بار پیدا ہوتا ہے.اسی طرح عام بات کا اور مزا ہوتا ہے اور اگر وہ بات اپنی ذات سے تعلق رکھتی ہو تو اور ہی مزا ہوتا ہے.اگر بادشاہ کا عام اعلان ہو تو اس سے کوئی خاص لطف نہیں اٹھایا جاتا.لیکن اگر خاص کسی کے نام بادشاہ کی ہو تو اسے اپنے لئے بڑا فخر سمجھتا ہے.تو خدا تعالیٰ سے محبت اور اخلاص ہونے کے لئے ضروری ہے کہ اس سے انسان کا ذاتی طور پر تعلق ہو اور وہ تعلق تقدیر کے ذریعہ قائم ہو سکتا
انوار العلوم جلدم ہے.۶۱۲ تقدیر الهی تیسرا نقصان اگر تقدیر نہ ہوتی تو یہ ہو تا کہ تقریباً سارے انسانوں کی نجات نہ ہو سکتی.اس لئے کہ اکثر ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ابتداء میں گناہ کرتے ہیں اور جب انہیں سمجھ آتی ہے تو ان کو چھوڑ دیتے ہیں.اب اگر تقدیر نہ ہوتی اور تدبیر ہوتی تو یہی ہو تا کہ جو کچھ انسان کر چکا ہو تا اسی کے مطابق اسے بدلہ ملتا.کیونکہ اس کو اپنے کئے ہوئے کے مطابق ہی ملنا تھا خدا نے کچھ نہیں دینا تھا.اب ایک ایسا شخص جس نے اسی سال گناہ کئے اور اکائیویں سال نمازیں پڑھیں اور اچھے عمل کئے اسے تدبیر کا اس قدر بوجھ جہنم میں ہی لے جاتا.لیکن اس موقع پر تقدیر کام کرتی ہے اور یہ کہ خدا کی تقدیر ہے کہ اگر بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرے تو ان کو مٹا دیا جائے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِه (صور: ۱۵) کہ نیکیاں بدیوں کو مٹا دیا کرتی ہیں.لیکن اگر یہ تقدیر نہ ہوتی تو لوگوں کی نجات مشکل ہو جاتی.اگر تقدیر نہ ہوتی تو توبہ کا مسئلہ بھی نہ ہوتا اور جب تو بہ کا مسئلہ نہ ہوتا تو انسان کے گناہ معاف نہ ہو سکتے اور وہ نجات نہ یا سکتا.لیکن خدا نے یہ تقدیر رکھ دی ہے کہ اگر انسان تو بہ کرے تو اس کے گناہ مٹا دیئے جائیں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر انسان غرغرہ سے پہلے کسی وقت بھی تو بہ کرے گا تو اس کی توبہ قبول کی جائے گی اور یہ آخری وقت کی نیکی اس کی تمام عمر کی بدیوں کو مٹا دے گی.ترمذی ابواب الدعوات باب ماجاء في فضل التوبة والاستغفار وما ذكر من رحمة الله لعباده) تو تقدیر کے مسئلہ کی وجہ سے انسان ہلاکت سے بچتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ایک انسان اپنے گناہوں پر مصر تھا.میں نے اسے کہا کہ گناہوں کو چھوڑ دو.وہ کہنے لگا کہ میں نے اتنے گناہ کئے ہیں کہ سیدھا جہنم میں ہی جاؤں گا پھر گناہوں کو چھوڑنے کا کیا فائدہ؟ میں نے کہا یہ غلط ہے.خدا گناہوں کو معاف کر دیتا ہے اگر انسان تو بہ کرے.آدمی سمجھدار تھا یہ بات اس کی سمجھ میں آگئی اور اس نے گناہ چھوڑ دیئے.تو اگر تقدیر نہ ہوتی تو تو بہ نہ ہوتی.اور تو بہ نہ ہوتی یعنی خدا اپنے بندوں کی طرف رجوع نہ کرتا اور ان کی بدیوں کو نہ مٹاتا تو انسان ہلاک ہو جاتا.اب ایک اور بات بتاتا ہوں اور وہ یہ کہ تقدیر تقدیر خاص کی اہمیت اور ضرورت خاص کی اہمیت اور ضرورت کیا ہے؟ اس میں
العلوم جلد ۴ تقدیرالی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کے لئے تقدیر رکھی ہے اور بندہ کا کام ہے کہ اس کے ماتحت کام کرے.مگر یہ ہو سکتا ہے کہ بعض اوقات عام تقدیر کام نہ آسکے.مثلاً ایک انسان جنگل میں ہے اور اس کو پانی کی ضرورت ہے.لیکن وہاں نہ کوئی کنواں ہے اور نہ چشمہ.اس موقع پر پانی حاصل کرنے کے لئے کیا تقدیر ہے؟ یہی کہ کنواں کھود کر پانی نکالے.لیکن اگر وہ جنگل میں کنواں کھودنے لگے تو قبل اس کے کہ پانی نکلے وہ ہلاک ہو جائے گا.ایسے وقت کے لئے خدا تعالی نے خاص تقدیر رکھی ہے جس کے جاری ہونے سے انسان ہلاک ہونے سے بچ سکتا ہے.اگر وہ جاری نہ ہو تو اس کی ہلاکت میں کوئی شبہ نہیں رہتا.اور خاص تقدیر یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرے اور خدا اس کے لئے پانی حاصل کرنے کا کوئی خاص سامان کر دے.اس کی مثال کے طور پر میں ایک صحابی کا ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.ان کو رومیوں کے لشکر نے پکڑ کر قید کر لیا اور وہ صحابی کو پکڑ کر قید کرنے پر بہت خوش ہوئے.بادشاہ نے اس کو کوئی بہت سخت سزا دینی چاہی.کسی نے مشورہ دیا کہ ان کے مذہب میں سنور کھانا منع ہے.وہ پکا کر اسے کھلایا جائے.چنانچہ سور کا گوشت پکا کر ان کے سامنے رکھا گیا.لیکن انہوں نے کھانے سے انکار کر دیا.انہیں بار بار کہا گیا لیکن انہوں نے نہ کھایا.آخر بھوک کی وجہ سے ان کی حالت بہت خراب ہو گئی.اس موقع پر وہ اپنی جان بچانے کے لئے کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے اور تقدير عام ان کی مدد نہیں کر سکتی تھی کیونکہ وہ دوسروں کے ہاتھوں میں قید تھے.اس موقع پر خدا ہی کچھ کرتا تو ہو سکتا تھا.لیکن اگر خدا نے یہ فیصلہ کیا ہو تاکہ ہر موقع پر سامان کے ذریعہ ہی کام ہو تو ان کی نجات کی صورت نہ ہو سکتی تھی.مگر چونکہ خدا تعالیٰ نے تقدیر خاص کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہے ان کے بچاؤ کی صورت ہو گئی.اور وہ اس طرح کہ جب چار پانچ دن ان کو بھو کے گزرے تو خدا نے روم کے بادشاہ کے سر میں سخت درد پیدا کر دیا.جس قدر دوائیاں ممکن تھیں اس نے کیں لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا.کسی نے کہا اس کی وجہ یہ تو نہیں کہ جس شخص کو آپ نے قید کیا ہوا ہے اس کی آہ لگی ہے اور اس وجہ سے یہ سزا مل رہی ہے.بادشاہ نے کہا معلوم ہوتا ہے یہی وجہ ہے اس نے صحابی کو بلا کر ان سے ملاطفت کی اور حضرت عمر کو اپنی سردرد کے متعلق لکھا جنہوں نے اس کو پرانی ٹوپی بھیجی کہ یہ پہن لو سر کا درد جاتا رہے گا.اور یہ بھی لکھا کہ ہمارا ایک بھائی تمہارے پاس قید ہے اس کو بعزت و احترام چھوڑ دو.اس نے ایسا ہی کیا اور ٹوپی پہنے سے اس کی درد جاتی رہی.
انوار العلوم جلد ۴ سومال تقدیرانی پس یہ تقدیر تھی جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس صحابی کو نجات دی.تقدیر عام کے ذریعہ اس صحابی کی مشکل کا کوئی حل ممکن نہ تھا.پس خدا تعالیٰ نے بادشاہ کی گردن پکڑ کر اس سے صحابی کو آزاد کرا دیا.پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے.خدا تعالیٰ کا حکم ہوا کہ فلاں ملک میں چلے جاؤ.جب وہ اپنے ساتھیوں سمیت چلے تو راستہ میں ایسا جنگل آگیا جہاں پانی نہیں مل سکتا تھا اور کنواں بھی نہیں نکل سکتا تھا کیونکہ پتھریلی زمین تھی.اس موقع پر وہ کیا کرتے.نہ ادھر کے رہے تھے نہ ادھر کے.نہ واپس جاسکتے تھے نہ آگے بڑھ سکتے تھے.اگر اس وقت خدا ہی اپنا رحم نہ کرتا تو وہ کیا کر سکتے تھے ؟ اس وقت ایک ہی علاج تھا کہ اللہ تعالیٰ خاص تقدیر جاری کرے.چنانچہ حضرت موسیٰ نے خدا تعالیٰ سے عرض کیا کہ الہی ہم پیا سے مرنے لگے ہیں آپ ہی کوئی انتظام کیجئے کہ ہمیں پانی مل جائے.اس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ فلاں جگہ جا اور جاکر اپنا عصا مار.چنانچہ اس جگہ جا کر جب انہوں نے عصا مارا تو چشمہ پھوٹ پڑا اور ان کو پانی مل گیا.ا اس جگہ چشمہ تو ازل سے موجود تھا مگر کیوں؟ اس لئے کہ یہاں ایک موسی پہنچے گا اور اسے اور کہیں سے پانی نہیں ملے گا اس وقت یہاں سے پانی دیا جائے گا.تو جہاں اسباب کام نہیں دیتے اور ایسے مواقع پیش آتے ہیں.اس وقت اگر ہلاکت سے بچنے کا کوئی ذریعہ ہے تو تقدیر خاص ہی ہے.پس اگر تقدیر خاص نہ ہوتی تو یہ نقصان ہوتے کہ.(1) ایمان باللہ حاصل نہ ہو سکتا.(۲) خدا تعالیٰ کے ساتھ بندہ کے تعلقات مضبوط نہ ہو سکتے.(۳) توبہ کر کے گناہوں سے بچنے کا موقع نہ ملتا.(۴) ایسے مواقع پر جن میں اسباب نہیں مہیا ہو سکتے ان میں انسان ہلاکت سے نہ بچ سکتا.تقدیر نہ ہونے کا ایک اور نقصان پھر یہ کہ اگر تقدیر نہ ہوتی تو ساری دنیا شرک میں مبتلاء ہو جاتی وجہ یہ کہ ایسے نبی جو شریعت لاتے ہیں اور اپنی جماعتیں قائم کرتے ہیں وہ سارے ایسی حالت میں آتے کہ ان کے پاس سامان کچھ نہ ہوتے.نبی کریم ﷺ نے جب مکہ میں بتوں کو باطل قرار دیا تو اس وقت آپ کے ساتھ کوئی سامان نہ تھے.اور مکہ والے جن کا گزارہ ہی بتوں پر تھا چاہتے تھے کہ آپ کو مار دیں.ان کے مقابلہ کے لئے آپ کے پاس نہ فوج تھی نہ طاقت.اب اگر سامانوں پر ہی کامیابی
العلوم جلد ۶۱۵ تقدیر الهی منحصر ہوتی تو کفار کو ہوتی اور وہ رسول کریم ﷺ پر غلبہ پا کر آپ کو ہلاک کر دیتے اور آپ " کے ہلاک ہو جانے کا یہ نتیجہ ہو تا کہ دنیا ظلمت اور گمراہی میں ہی پڑی رہتی.اسی طرح حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے پاس کوئی سامان نہ تھے.اگر صرف تدبیر یا تقدیر عام ہی ہوتی تو جو نبی آتا وہ مارا جاتا اور انبیاء کا سلسلہ ہی دنیا میں نہ چلتا.کیونکہ انبیاء کے دشمن طاقتور ہوتے ہیں.ان کے پاس سامان ہوتے ہیں.مگر خدا تعالیٰ تقدیر خاص کو نازل کر کے ان کی مدد کرتا ہے اور انہیں کامیابی حاصل ہوتی ہے ورنہ وہ زندہ نہ رہ سکتے اور دنیا سے شرک کو نہ مٹا سکتے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ نبی خدا بناتا ہے یا انسان؟ اگر خدا بناتا ہے تو وہ محمد ( ا ) جیسے بے سرد سامان انسان کو نہ بناتا.قیصر جیسے زبر دست بادشاہ کو بنا دیتا؟ پس خدا بجائے کمزوروں کو نبی بنانے کے بڑے بڑے بادشاہوں کو بنا دیتا اور تقدیر جاری نہ کرتا.لیکن اگر ایسا ہو تا تو خدا تعالیٰ بندوں کا محتاج ہو تا.بندے خدا کے محتاج نہ ہوتے کیونکہ وہ کہتے کہ خدا کو ہم نے ہی اپنی طاقت سے منوایا ہے ورنہ کون اسے مان سکتا تھا.گویا خدا پر ان کا احسان ہو تا.پس خدا تعالٰی ایسے ہی لوگوں کو نبوت کے لئے چنا ہے جو ہر وقت اپنے اوپر خدا تعالیٰ کا احسان اور فضل ہوتا دیکھتے اور اس کے شکر گزار بنتے ہیں.کوئی یہ مت خیال کرے کہ حضرت داؤد اور حضرت سلیمان جو نبی تھے وہ بادشاہ تھے.کیونکہ یہ دونوں نبی نئی جماعتیں تیار کرنے والے نہ تھے.ایسے نبی امراء اور بادشاہوں میں سے ہو سکتے ہیں.مگر وہ نبی جو نئے سرے سے دنیا کو قائم کرنے کے لئے آتے ہیں اور جن کے ذریعہ مردہ قوم زندہ کی جاتی ہے وہ صرف غرباء میں سے ہی ہوتے ہیں.تقدیر پر ایمان لانے سے روحانیت کے سات درجے طے ہوتے ہیں اب میں یہ بتاتا ہوں کہ تقدیر پر ایمان لانے کے کیا فائدے ہیں.پہلا فائدہ تو عام تقدیر کے ماتحت یہ ہے کہ دنیاوی ترقیات حاصل ہوتی ہیں.اگر درجه اول تقدیر پر ایمان نہ لایا جاوے تو کوئی کام چل ہی نہیں سکتا.کیونکہ تمام کارخانہ عالم اسی بناء پر چل رہا ہے کہ انسان قدرت کے بعض قواعد پر ایمان لے آتا ہے.مثلا یہ کہ آگ جلاتی ہے ، پانی بجھاتا ہے ، اگر خواص الاشیاء پر یقین نہ ہو تو انسان سب کو ششیں چھوڑ دے اور
العلوم چاند ۴ 414 سب کار خانہ باطل ہو جائے.اور روحانیت میں یہ فائدہ ہے کہ حق اس سے قائم رہتا اور ایمان حاصل ہوتا ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح ایک زمیندار یہ دیکھ کر کہ گیہوں ہونے سے گیہوں ہی پیدا ہوتا ہے بیج ڈالتا ہے.اسی طرح جب لوگ شریعت کے احکام پر چلنے کے نیک نتائج دیکھتے ہیں تو ان کو بھی ان پر عمل کرنے کی جرأت اور جوش پیدا ہوتا ہے اور انہیں ایمان حاصل کرنے کی تحریک ہوتی ہے.ورنہ جب نبی آتے تو لوگ انہیں دھکے دے کر باہر نکال دیتے اور کہتے کہ جب ان کے ماننے کا کوئی فائدہ نہیں تو انہیں کیوں مانیں؟ محمد رسول اللہ کو لوگوں نے کیوں مانا؟ اسی لئے کہ انہوں نے دیکھا کہ آپ کی تعلیم پر عمل کر کے انسان کی روحانی اور اخلاقی حالت کچھ کی کچھ ہو جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کی تائید اور نصرت آپ " کے ماننے والوں کے شامل حال ہوتی ہے.پس ان کے دل میں بھی تحریک ہوئی کہ ہم بھی اس تقدیر سے فائدہ اٹھا ئیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کو اپنے لئے اور اپنے اہل و عیال کے لئے جذب کریں.پس تقدیر عام شرعی کے ماتحت دوسروں کے لئے ایک مثال قائم ہوتی ہے اور وہ درجہ دوم اس سے فائدہ اٹھانے کی طرف توجہ کرتے ہیں.تب ان کے لئے تقدیر خاص جاری ہوتی ہے اور اس کے ماتحت وہ اور بھی زیادہ ترقی کرتے ہیں اور درجہ دوم میں داخل ہو جاتے ہیں یعنی تقدیر پر ایمان ان کو مقام صبر اور رضا تک پہنچا دیتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو ابتلاؤں میں ڈالنے کی سنت رکھی ہوئی ہے.جب وہ ایمان لاتے ہیں تو انہیں ابتلاؤں میں ڈالا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.أحَسِبُ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ ، وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ (العنكبوت: ۴۳) کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ ایمان لائیں اور فتنہ میں نہ ڈالے جائیں صادق اور کاذب میں فرق کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ فتنہ میں ڈالے جائیں.تو جب کوئی ایمان لاتا ہے تو اس کے لئے خدا تعالی کی طرف سے ابتلاء مقدر کئے جاتے ہیں جن میں سے بعض تو اپنی کمزوریوں کی وجہ سے ہوتے ہیں اور بعض خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں.مثلاً کسی کے ہاں بیٹا پیدا کیا جاتا ہے اور وہ مرجاتا ہے.یہ بیٹا اسی لئے پیدا کیا گیا تھا کہ اس کے ذریعہ ابتلاء میں ڈالا جائے یا اسی طرح کسی کا مکان گر جائے یا دشمن کوئی ضرر پہنچائے.اب اگر تدبیر ہی تدبیر ہے تو پھر کوئی وجہ
رالعلوم جلد ۴ 412 تقدیر الهی نہیں کہ انسان مقام صبر پر قائم رہے اور اپنے دشمن کے مقابلہ پر تدبیر سے کام نہ لے.مقام صبر پر وہ تبھی قائم رہ سکتا ہے جب کہ اسے معلوم ہو کہ میرا امتحان لیا جا رہا ہے.ورنہ اگر تدبیری ہوتی تو ایسے موقع پر وہ اور زیادہ جوش دکھلاتا.بہت دفعہ جماعت کے لوگ پوچھتے تھے کہ ہمیں اجازت ہو تو مخالفین پر ان کی شرارتوں کی وجہ سے مقدمہ دائر کریں.مگر حضرت صاحب یہی کہتے کہ ہمیں صبر کرنا چاہئے حالانکہ دشمنوں کی شرارتوں کو روکنے کے لئے مقدمہ کرنا نا جائز نہیں ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ بعض دفعہ مؤمنوں پر ابتلاء خدا تعالی کی طرف سے آتے ہیں جن میں صبر د کھلانے کی ضرورت ہوتی ہے.تو مقام رضا اور صبر جو روحانیت کا ایک درجہ ہے وہ ایمان با تقدیر سے ہی پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس کے ماتحت انسان سمجھتا ہے کہ مجھ پر یہ ابتلاء خدا تعالی کی طرف سے ہے اور اس پر صبر کرتا ہے اور اس کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ جو بات آتی ہے اس کے متعلق کہتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اچھی ہے اور گو ابتلاؤں کے ایک حصہ میں اللہ تعالٰی کے حکم کے ماتحت تدبیر سے بھی کام لیتا ہے مگر ایک دوسرے حصہ کے متعلق خالی صبر اور رضا سے کام لیتا ہے اور یہی وہ مقام ہے جس پر پہنچے ہوئے لوگ مصیبت اور تکلیف کے وقت حقیقی طور پر اِنَّا لِللَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (القرة : ۱۵۷) کہتے ہیں.غرض تقدیر ہی کی وجہ سے انسان ان مقامات کو حاصل کرتا ہے اگر تقدیر نہ ہوتی اور انسان صبر کرتا تو وہ بے ہمتی ہوتی اور اگر رضا ہوتی تو وہ بے غیرتی ہوتی.لیکن تقدیر پر ایمان لاتے ہوئے جب وہ بعض ابتلاؤں پر جن کو وہ خالص آزمائش کہتا ہے اور صبر کرتا ہے تب اس کا صبر قابل تعریف ہوتا ہے.اور بعض ابتلاؤں کو جن کو وہ خالص ایمان خیال کرتا ہے خدا تعالیٰ کے فعل پر رضا کا اظہار کرتا ہے.تب اس کی رضا قابل تعریف ٹھرتی ہے.اور بہترین صبر یہی ہے کہ انسان میں طاقت ہو اور پھر برداشت کرے.اگر طاقت ہی نہ ہو تو پھر برداشت کرنا ایسا اعلیٰ درجہ صبر کا نہیں ہے اور اسی طرح رضا یہی ہے کہ انسان اس بات کا یقین رکھتے ہوئے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے امتحان ہے اپنے دل میں بعض ابتلاؤں پر شرح صدر پاوے اور اگر یہ ایمان نہ ہو تو اس کو بے غیرتی کہیں گے.اور دونوں میں امتیاز اس طرح ہوتا ہے کہ مقام رضا پر پہنچا ہوا انسان اپنے دوسرے اعمال میں نہایت چست اور باہمت اور محنتی ہوتا ہے اور اس کا حوصلہ دوسرے لوگوں کی نسبت غیر معمولی طور پر بڑھا ہوا ہوتا ہے.رضا کے لفظ پر مجھے ایک بات یاد آگئی.حضرت صاحب کی وفات سے پہلے ایام کا ذکر ہے.
کہ ملک مبارک علی صاحب تاجر لاہور ہر روز شام کو اس مقام پر آجاتے جہاں حضرت صاحب ٹھرے ہوئے تھے اور جب حضرت صاحب باہر سیر کو جاتے تو وہ اپنی بگھی میں بیٹھ کر ساتھ ہو جاتے تھے.مجھے میر کے لئے حضرت صاحب نے ایک گھوڑی منگوا دی ہوئی تھی میں بھی اس پر سوار ہو کر جایا کرتا تھا اور سواری کی سڑک پر گاڑی کے ساتھ ساتھ گھوڑی دوڑاتا چلا جاتا تھا اور باتیں بھی کرتا جاتا تھا.لیکن جس رات حضرت صاحب کی بیماری میں ترقی ہو کر دوسرے دن آپ نے فوت ہونا تھا میری طبیعت پر کچھ بوجھ سا محسوس ہو تا تھا.اس لئے میں گھوڑی پر سوار نہ ہوا.ملک صاحب نے کہا میری گاڑی میں ہی آجائیں.چنانچہ میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا لیکن بیٹھتے ہی میرا دل افسردگی کے ایک گہرے گڑھے میں گر گیا.اور یہ مصرع میری زبان پر جاری ہو گیا کہ.راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تری رضا ہو ملک صاحب نے مجھے اپنی باتیں سنائیں.میں کسی ایک آدھ بات کا جواب دے دیتا تو پھر اسی خیال میں مشغول ہو جاتا.رات کو ہی حضرت صاحب کی بیماری یک دم ترقی کر گئی اور صبح آپ فوت ہو گئے.یہ بھی ایک تقدیر خاص تھی جس نے مجھے وقت سے پہلے اس ناقابل برداشت صدمہ کے برداشت کرنے کے لئے تیار کر دیا.اسی طرح صوفیاء کے متعلق لکھا ہے کہ جب ان کو بعض ابتلاء آئے اور انہیں پتہ لگ گیا کہ یہ ابتلاء خالص آزمائش کے لئے ہیں تو گو لوگوں نے ازالہ کے لئے کوشش کرنی چاہی انہوں نے انکار کر دیا اور اس تکلیف کی حالت میں ہی لطف محسوس کیا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ ابتلاء آتے کیوں ہیں؟ اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ اول تو تو عموماً اس لئے آتے ہیں کہ انسان کا ایمان مضبوط ہو.لیکن اس لئے نہیں کہ خدا تعالی کو اس کا ی علم نہیں ہوتا بلکہ اس لئے کہ خود انسان کو معلوم نہیں ہو تاکہ میرے ایمان کی کیا حالت ہے.چنانچہ ایک حکایت بیان کی جاتی ہے کہ ایک عورت کی لڑکی سخت بیمار تھی.وہ روز دعا کرتی تھی کہ اس کی بیماری مجھے لگ جائے اور میں مرجاؤں.ایک رات کو گائے کا مونہہ ایک تنگ بر تن میں پھنس گیا اور وہ اسے برتن سے نکال نہ سکی.اور گھبرا کر اس نے ادھر ادھر دوڑنا شروع کیا.اس عورت کی آنکھ کھل گئی اور ایک عجیب قسم کی شکل اپنے سامنے دیکھ کر اس نے سمجھا کہ ملک الموت جان نکالنے کے لئے آیا ہے.اس عورت کا نام مہتی تھا بے اختیار ہو کر
انوار العلوم جلد ۴ ۶۱۹ تقدیر الهی پکارنے لگی کہ اے ملک الموت میں مہتی نہیں ہوں.میں تو ایک غریب محنت کش بڑھیا ہوں اور اپنی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا.یہ مہتی لیٹی ہوئی ہے اس کی جان نکال لے.یہ عورت خیال کرتی تھی کہ اسے اپنی لڑکی سے محبت ہے.لیکن جب اس نے سمجھا کہ جان نکالنے والا آیا تو کھل گیا کہ اسے محبت نہ تھی کہ وہ اس کے بدلے جان دے دے.یہ تو ایک حکایت ہے لیکن یہ بات کثرت سے پائی جاتی ہے کہ انسان بسا اوقات اپنے خیالات کا بھی اچھی طرح اندازہ نہیں کر سکتا اور جب اس پر ابتلاء آتے ہیں تب اسے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا کسی چیز سے محبت یا نفرت کا دعوی کہاں تک صادق تھا.اسی طرح ابتلاء میں اس لئے ڈالا جاتا ہے کہ تا لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ فلاں کا ایمان کیسا ہے ورنہ یوں دوسروں کو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ فلاں کا ایمان پختہ ہے یا نہیں.اسی لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ کوئی انسان جتنا بڑا ہو اس پر اتنے ہی بڑے ابتلاء آتے ہیں اور سب سے زیادہ ابتلاء نبیوں کو آتے ہیں (ترمذی ابواب الزهد باب في الصبر على البلاء) جیسا کہ حضرت صاحب نے اپنے متعلق فرمایا ہے..صد حسین است در گریبانم کربلائیست سیر ہر آنم لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے حضرت امام حسین کی ہتک کی ہے لیکن نادان نہیں جانتے کہ حضرت صاحب نے اپنے ابتلاؤں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ امام حسین تو ایک بار مارے گئے لیکن مجھے دشمن ہر وقت مارنے کے درپے رہتے اور ایذا ئیں دیتے ہیں اور میں ہر وقت کربلا کا نظارہ دیکھتا رہتا ہوں.سولی پر ایک دفعہ چڑھ کر مرنا اتنی بڑی بات نہیں جتنی کہ ہر وقت ابتلاؤں میں پڑے رہنا.عیسائی کہتے ہیں کہ یسوع مسیح چونکہ سولی پر چڑھ کر مرگئے اس لئے ان کو خدا کا بیٹا مان لو.ہم کہتے ہیں پھر جو ہر وقت سولی چڑھائے جاتے ہیں ان کو کیا ماننا چاہیے ؟ سب انبیاء کی یہی حالت ہوتی ہے اور جب ایسا ہوتا ہے تو لوگ دیکھ لیتے ہیں اور ان پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کا بہت ہی پختہ ایمان ہے.کہتے ہیں اَلْاِسْتَقَامَةٌ فَوْقَ الْكَرَامَةِ - اور سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ دشمن بھی خوبی کو مان لے اور اس کا انکار نہ کر سکے.اب دیکھو دشمنوں نے رسول کریم پر بڑے بڑے اعتراض کئے ہیں لیکن وہ یہ لکھنے پر بھی مجبور ہو گئے ہیں کہ اور تو جو کچھ تھا مگر محمد ( الله ) نے اپنے کام کو ایسے طرز اور استقلال سے چلایا کہ جب تک پورا پورا یقین نہ ہو کوئی اس طرح چلا نہیں سکتا اور وہ قطعاً جھوٹا نہ تھا.تو جن یورپین
انوار العلوم جلد ۶۲۰ تقدیرانی مصنفوں نے عقل سے کام لیا اور رسول کریم ﷺ کے واقعات کو دیکھا مان لیا کہ آپ نے ایسے استقلال سے کام کیا کہ کوئی جھوٹا انسان اس طرح نہیں کر سکتا.تو اس لئے بھی ابتلاء آتے ہیں کہ خوبی کا دشمنوں تک کو بھی اعتراف کرنا پڑے.پس ایمان کی ترقی اور مضبوطی کے لئے ابتلاء آتے ہیں اور بار بار آتے ہیں تا خوب مشق ہو جائے.دیکھو ایک لوہار جب لوہے پر ہتھوڑا مارتا ہے تو جو چیز وہ بنانا چاہتا ہے وہ بنتی جاتی ہے.لیکن کوئی اور شخص جسے ہتھوڑا چلانا نہیں آتا وہ ہتھو ڑا مارے گا کہیں اور پڑے گا کہیں اور ایک دفعہ جب کہ میں ابھی بچہ ہی تھا اور مکان بن رہا تھا.میں نے سمجھا تیشہ سے لکڑی گھڑنا آسان بات ہے اور یہ سمجھ کر لکڑی پر تیشہ مارا لیکن اپنا ہاتھ کاٹ لیا.تو جس کام کی انسان کو مشق نہ ہو اسے نہیں کر سکتا.فوجی سپاہیوں کو کئی کئی میل دوڑایا جاتا ہے.لیکن اس لئے نہیں کہ انہیں دکھ دیا جائے بلکہ اس لئے کہ انہیں دوڑنے کی مشق ہو اور وہ مضبوط ہوں تاکہ اگر کبھی دوڑنے کا موقع پڑے تو وہ دوڑ سکیں.تو خدا تعالیٰ انسان کے اخلاق کو اعلیٰ اور پختہ بنانے کے لئے مشق کرانے کی غرض سے ابتلاؤں میں ڈالتا ہے.مثلاً جب کوئی گالیاں دے تو اس پر صبر کرنا اور آگے سے گالیاں نہ دینا ایک صفت ہے.لیکن یہ صفت کس طرح پیدا ہو سکتی ہے ؟ اس طرح کہ کوئی کسی کو گالی دے اور وہ اس پر صبر کرنا سیکھے ورنہ اگر ایسا نہ ہو تو اس صفت کے اظہار کا موقع ہی نہ آئے.اور اگر کبھی موقع آئے تو اس پر پوری طرح انسان کار بند نہ ہو سکے.پس اخلاق کی پختگی کے لئے ابتلاؤں کا آنا اور ان کے آنے کے وقت صبرو رضا کی عادت ڈالنا ایمان کی تکمیل کے لئے ضروری ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ جس سے گالیاں دلائی جائیں گی اس پر جبر ہو گا اور وہ جبر کے ماتحت گالیاں دے گا.مگر یہ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ گالیاں کسی نیک اور بزرگ انسان سے نہیں دلائی جاتیں نہ کسی بد آدمی کو گالیاں دینے پر مجبور کیا جاتا ہے.صرف یہ کیا جاتا ہے کہ نیک آدمی کے متعلق ایسے حالات پیدا کر دیئے جاتے ہیں کہ اس کا اور ایک درشت آدمی کا اجتماع ہو جاتا ہے.آگے وہ شخص جس طرح اوروں سے خود معاملہ کرتا ہے اس سے بھی کرتا ہے اس میں کسی قسم کا جبر نہیں ہوتا.تیسرا مرتبہ تقدیر پر ایمان لانے کا بہت اعلیٰ ہے اور وہ تو کل ہے.توکل کے معنی درجہ سوم اپنے آپ کو سپرد کر دینے کے ہیں.تو کل کی دو قسمیں ہیں.ایک تو کل ایسا ہے
۶۲۱ تقدیر الهی کہ اس کے لئے تقدیر خاص کے اظہار کی ضرورت نہیں ہوتی انسان اسباب سے کام بھی لیتا ہے اور خدا تعالیٰ پر بھروسہ رکھتا ہے کہ وہ اس کی محنت کو رائیگاں نہ کرے گا اور غیر معمولی حوادث سے اس کی حفاظت کرے گا.اس قسم کے توکل میں گو انسان یہ امید کرتا ہے کہ اللہ تعالی غیر معمولی حوادث سے بچانے کے لئے خود اپنے فعل سے بندہ کا کام کر دے گا کہ اس کے اعمال کے نیک نتائج پیدا کرے گا مگر اسباب کو ترک نہیں کرتا.دوسری قسم تو کل کی یہ ہے کہ انسان اسباب کو بھی ترک کر دیتا ہے مگر یہ تو کل اعمال شریعت کے متعلق نہیں ہوتا.مثلاً یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان نماز یا روزه یا حج یا زکوۃ خدا تعالیٰ کے سپرد کر دے کہ وہ کہے گا تو نماز پڑھ لوں گا یا روزہ رکھوں گا.بلکہ اس قسم کا تو کل صرف اعمال جسمانی میں ہوتا ہے جو لوگ شرعی احکام کے متعلق ایسا کہتے ہیں وہ جھوٹ کہتے ہیں.یہ لوگ اباحتی ہوتے ہیں اور انہوں نے شریعت کے احکام سے بچنے کے لئے کئی قسم کے ڈھکوسلے بنائے ہوئے ہوتے ہیں.مثلاً یہ کہتے ہیں کہ شریعت کے احکام پر عمل کرنا تو ایسا ہے جیسے پار اترنے کے لئے کشتی پر سوار ہونا.پس یہ کون سی عقل کی بات ہے کہ انسان ہمیشہ کشتی میں ہی بیٹھا ر ہے اور جب منزل مقصود آگئی خدا مل گیا تو پھر کشتی میں ہی کیوں بیٹھا رہے.لیکن یہ مثال ٹھیک نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے وصال کا ایک مقام نہیں کہ وہاں پہنچ کر اتر جاتا ہے.اللہ تعالی کی ذات بے پایاں ہے اور اس کے وصال کے بے انتہاء مدارج ہیں.پس اس کی مثال یہ کہ جیسے دریا کے ساتھ ساتھ ہزاروں لاکھوں شہر بستے ہیں اور کوئی شخص ان سب کی سیر کو چلے.یہ شخص بیوقوف ہو گا اگر پہلے شہر میں پہنچ کر کشتی سے اتر جاوے کیونکہ پھر اس کے لئے آگے جانا نا ممکن ہو جائے گا.غرض توکل کا مقام یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپرد کر دینا کہ وہ جس طرح چاہے اپنی تقدیر خاص بندہ کے متعلق جاری کرے.لیکن یہ تو کل اعمال شریعت کے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اعمال دنیا کے متعلق ہوتا ہے.جو شخص یہ کہے کہ میں نے اپنی نماز خدا کے سپرد کر دی ہے اب مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں وہ مسلمان نہیں رہ سکتا بلکہ کافر ہو جاتا ہے.کیونکہ نماز کے متعلق تو خدا تعالیٰ ایک دفعہ حکم دے چکا ہے.جو کوئی شخص نماز خدا تعالی کے سپرد کرتا ہے وہ حقیقت نماز کا چور ہے.کیا جو حکم محمد رسول اللہ ا کی معرفت اسے ملا تھا وہ اس کے لئے کافی نہ تھا کہ اب وہ اور احکام کا منتظر رہے.تو کل صرف ایسے ہی کاموں کے متعلق ہوتا
والعلوم جلد ۴ تقدیراتی ہے جو مباح ہوں اور جن کے متعلق کوئی خاص حکم نازل نہ ہو چکا ہو اور وہ امور دنیوی اور جسمانی ہی ہوتے ہیں.ان کاموں کو جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کے سپرد کرتا ہے تو گویا وہ عرض کرتا ہے کہ الہی ! تو میرے یہ کام کر دے تاکہ میں دین کے کام کر سکوں.تیری عبادت کر سکوں.تیری راہ میں کوشش کر سکوں.اس لئے یہ تو کل در اصل خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے ہوتا ہے مگر یہ مقام کبھی حاصل نہ ہو سکتا اگر تقدیر نہ ہوتی.کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ نے کچھ کرنا ہی نہ ہو تا تو اس کے سپرد اپنے کام کر دینے کا ہی کیا مطلب؟ اور کسی شخص کو اگر تقدیر پر ایمان نہ ہو تو اسے بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا.کیونکہ اگر وہ اس امر کو مانتا ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ بھی بندہ کے کاموں میں دخل دے سکتا ہے تو وہ اپنے کام اس کے سپرد کرے گا ہی کیوں ؟ پس تقدیر پر ایمان لانا تو گل کا درجہ حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے.جب انسان اس مقام پر پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دین کی خدمت میں ایسا لطف پاتا ہے کہ اپنی دنیاوی محنتیں کم کر دیتا ہے اور اپنے دنیاوی کام اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیتا ہے اور امید رکھتا ہے کہ وہ ان کو پورا کر دے گا اور اس کو دین کی خدمت کے لئے فارغ کر دے گا.تو گل کے اس درجہ سے اوپر ایک اور درجہ ہے جس میں انسان اسباب معیشت کے حصول کے لئے محنت کرنا بالکل ہی چھوڑ دیتا ہے اور اپنا سارا وقت ہی اللہ تعالیٰ کے لئے وقف کر دیتا ہے اور دنیا سے بکلی انقطاع کر لیتا ہے اور اس سے بھی اوپر ایک اور درجہ ہے کہ انسان اس درجہ میں بعض اوقات حوائج ضروریہ کا پورا کرنا ترک کر دیتا ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ مثلاً بھو کا مرجاتا ہے.بلکہ یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالٰی کے اذن کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا.حضرت عبد القادر جیلانی لکھتے ہیں کہ مجھ پر بعض اوقات ایسی حالت آتی ہے کہ اس حالت میں میں نہیں کھا تا جب تک خدا تعالیٰ نہ کے تجھے میری ہی ذات کی قسم تو کھا تب میں کھاتا ہوں.اور نہیں پیتا جب تک خدا تعالیٰ نہ کہے کہ تجھے میری ہی ذات کی قسم تو پی تب میں پیتا ہوں.میں کپڑے نہیں پہنتا جب تک خدا تعالٰی نہ فرمائے کہ تجھے میری ہی ذات کی قسم تو کپڑے پہن لے تب میں کپڑے پہنتا ہوں.ان کی عادت تھی کہ ایک ہزار دینار کا کپڑا پہنتے.جس پر لوگ اعتراض کرتے تو کہتے نادان نہیں جانتے خدا تعالیٰ مجھے ایسا ہی کپڑا پنے کے لئے کہتا ہے تو میں کیا کروں؟ ایسے لوگوں کا خدا تعالیٰ متکفل ہو جاتا ہے اور اس مرتبہ کا نام مقام فتا ہے.آج کل کے نادان بزرگوں سے سن کر یہ تو جانتے ہیں کہ یہ بھی کوئی مقام ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا
العلوم جلد ۴ ۶۲۳ تقدیراتی ہوتا ہے.اس مقام کے لوگوں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی شراب پی کر بالکل ہی بے خبر ہو جائے.اسی طرح اس مقام پر پہنچے ہوئے لوگ خدا تعالیٰ کی محبت سے مخمور ہو کر دنیا سے بالکل غافل ہو جاتے ہیں.اور جب ان کی یہ حالت ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ ان کا ہر ایک کام کرتا ہے.نادان لوگ کہتے ہیں کہ اس نشہ کی حالت میں اولیاء اللہ جو چاہیں کہہ دیتے ہیں اور خلاف شریعت باتیں بھی ان کے مونہہ سے نکل جاتی ہیں.اور بعض اسی خود ساختہ مسئلہ کی آڑ میں کہہ دیتے ہیں کہ مرزا صاحب بھی اس مقام پر پہنچ کر دھوکے میں پڑ گئے اور بعض خلاف شریعت دعوی کرنے لگے اس لئے ان کے وہ دعوے قابل قبول نہیں.مگر یہ لوگ نہیں جانتے کہ خدا تعالی کی پلائی ہوئی شراب کو دنیا و مافیہا سے غافل کر دیتی ہے مگر عقل نہیں مارتی اور نہ دین سے غافل کرتی ہے.اس شراب کے پینے سے تو دین کی آنکھ اور بھی تیز ہو جاتی ہے.اور یہ وہ شراب ہوتی ہے کہ اس کے پینے سے تقویٰ اور طہارت بہت بڑھ جاتی ہے.مگر یہ لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کی شراب کا قیاس اس شراب پر کرتے ہیں جو گندم یا گر کو سڑا کر بنائی جاتی ہے.حالانکہ خدا تعالیٰ کی پلائی ہوئی شراب سے مراد وہ محبت کا جام ہے جو وہ اپنے برگزیدوں کو نا ہے اور جو ایک طرف اگر بندہ کے دل سے دنیا کا خیال محو کر دیتا ہے تو دوسری طرف اللہ پلاتا.تعالیٰ اور اس کے جلال کا نقش اس کے دل پر اور بھی گہرا کر دیتا ہے.اس کے بعد تقدیر پر ایمان انسان کو اور اوپر لے جاتا ہے اور وہ درجہ عبد پر درجه چهارم پہنچ جاتا ہے.اس درجہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی پرانا شرابی اس قدر شراب کا عادی ہو جاتا ہے کہ بوتلوں کی بوتلیں انڈیل جاتا ہے مگر اسے نشہ نہیں آتا.اس درجہ پر پہنچنے والا انسان بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کی شراب اس قدر پیتا ہے کہ اب وہ اس کا عادی ہو جاتا ہے اور اس حالت سے اوپر آجاتا ہے جو اسے پچھلے درجہ میں حاصل ہوئی تھی.اور اب یہ اس درجہ فنا سے جس پر پہلے تھا اوپر چڑھ جاتا ہے اور بے خودی کا رنگ جاتا رہتا ہے بلکہ جو اس تیز ہو جاتے ہیں اور یہ اپنے آپ کو عبودیت کے مقام پر کھڑا پاتا ہے.یعنی اللہ تعالیٰ کی شان کو ایک اور نقطہ نظر سے دیکھنے لگتا ہے اور اپنے عبد ہونے کی طرف اس کی توجہ رجوع کرتی ہے اور یہ اپنے نفس کو کہتا ہے کہ میں تو عبد ہوں، غلام ہوں ، میرا کیا حق ہے کہ اپنے آپ کو اپنے آقا پر ڈال دوں.اور یہ خیال کر کے وہ پھر تدبیر کی طرف یعنی تقدیر عام کی طرف لوٹتا ہے اور گو یہ سلسلہ روحانی کا نیا دور بھی اسی طرح تقدیر عام سے شروع ہوتا ہے جس طرح پہلا دور اس.
سم ۶۲ تقدیر الهی شروع ہوا تھا.اور اس مقام پر بندہ نہایت ادب کے ساتھ خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے سامانوں کو کام میں لانا شروع کرتا ہے کیونکہ ان کو اللہ تعالٰی کی طرف سے سمجھتا ہے اور تمام ضروریات کے موقعوں پر خوب اسباب سے کام لیتا ہے.آج کل نادان انسان اعتراض کرتے ہیں کہ مرزا صاحب تدبیریں کیا کرتے تھے.حالانکہ جو انسان عبودیت کے مقام پر ہو یا اس مقام سے اوپر گزر چکا ہو اس کے لئے بعض دفعہ یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ تدبیر سے کام لے.اگر وہ ایسا نہ کرے تو اس کو گناہ ہو.عبودیت کے مقام پر پہنچا ہوا انسان سب کام کرتا ہے اور ہر بات کے لئے جو اسباب مقرر ہیں ان سے کام لیتا ہے اور بعض دفعہ تو اس پر ایسی حالت آتی ہے کہ سوائے ان دعاؤں کے جن کا مانگنا اس کے لئے فرض کر دیا گیا ہے وہ اپنی طرف سے اپنے نفس کے لئے دعا بھی نہیں کرتا.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ دعا کرنا گویا تقدیر خاص کو بلانا ہے اور ایک غلام کا کیا حق ہے کہ وہ اپنے آقا کو اس طرح بلائے.یہی وہ حالت تھی جو حضرت ابراہیم کو اس وقت حاصل تھی جب کہ ان کو آگ میں ڈالنے لگے تھے.اس وقت جبرائیل ان کے پاس آئے اور آکر کہا کہ اگر خدا سے کچھ مدد مانگتا ہے تو مجھے کہو.حضرت ابراہیم نے کہا تم کو کہنے کی کیا ضرورت ہے خدا تعالیٰ خود جانتا ہے.انہوں نے کہا پھر خدا سے کہو.حضرت ابراہیم نے کہا وہ خود دیکھ رہا ہے میں اسے کیا کہوں؟ تو اس درجہ پر پہنچ کر انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ عبودیت میں محو ہو کر اللہ تعالیٰ کے رعب اور شان کو دیکھ کر اس کی طرف آنکھ بھی نہیں اٹھا سکتا کیونکہ اس وقت اس کی آنکھیں تمام طرف سے بھری ہوئی ہوتی ہیں اور اس کی نظر صرف عبودیت پر ہی ہوتی ہے.درجہ پنجم پھر اس کے آگے بندہ اور ترقی کرتا ہے اور اپنی عبودیت کا جب مطالعہ کر چکتا ہے اور اپنے اوپر تقدیر عام جاری کرتے کرتے وہ اپنے نفس کی کمزوریوں کو خوب محسوس کر لیتا ہے تو وہ کہہ اٹھتا ہے کہ خدا نے آخر تقدیر خاص کیوں جاری کی؟ اس لئے کہ میں اس کا عبد ہوں اور مجھ میں کمزوریاں ہیں.پس اس سے کام نہ لینا بھی نا شکری ہے اور اس پر وہ خاص تقدیر سے کام لینا شروع کرتا ہے.یعنی دعا سے کام لیتا ہے اور یہ مقام مقام دعا کہلاتا ہے.اس مقام پر پہنچ کر وہ خدا سے دعا مانگتا ہے.جب کوئی روک اس کے سامنے آتی ہے تو کہتا ہے خدا تعالیٰ نے تقدیر خاص اس لئے رکھی ہے کہ میں ایسے موقع پر اس سے کام لوں.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کہ ایک شخص شمر دار درخت کے نیچے بیٹھا ہو اور ایک لمبا بانس
العلوم جلدم ۶۲۵ تقدیرانی اس کے پاس ہو.جب اسے بھوک لگے درخت سے پھل جھاڑے.گو وہ اس کے لئے کوشش تو خود کرتا ہے مگر بانس اس کو مل جاتا ہے.اس مقام پر پہنچا ہوا انسان دنیا کی اصلاح اور اس کو عبودیت کی طرف لانے میں کوشاں ہوتا ہے.مگر ساتھ ہی وہ جانتا ہے کہ میں عبد ہو کر یہ کام نہیں کر سکتا اس لئے اپنے آقا کو ہی لکھنا چاہئے.پس جب وہ ضرورت سمجھتا ہے اپنے آقا کو لکھتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہے کہ فلاں کام میں مدد دیجئے اور وہاں سے مدد آجاتی ہے.اس وقت تدبیر اس کی نظر میں حقیر ہوتی ہے.اور اپنے آپ کو عبد سمجھتا ہے.مگر اسے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عبد اپنے آقا کی مدد کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا.پھر اس سے آگے انسان چلتا ہے.مگر جوں جوں انسان آگے چلتا ہے اسی عبد کے مختلف مقامات پر پہنچتا ہے اس سے اوپر اور کوئی درجہ نہیں.بلکہ بڑے سے بڑا درجہ بھی عہد کے درجہ کی کوئی شاخ ہی ہے اس سے علیحدہ نہیں.حتی کہ رسول کریم ﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ عبد ہی کہتا ہے اور سب واقفانِ اسرارِ شریعت کا اتفاق ہے کہ سب سے بڑا درجہ روحانی ترقی میں عبد ہونے کا ہی ہے.اور وہ لوگ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ اس سے آگے ابن اللہ کا درجہ ہے.سب سے بڑا عبودیت کا ہی درجہ ہے اور مقام دعا بھی اسی درجہ کی ایک اعلیٰ شاخ ہے.غرض مقام دعا پر جب انسان پہنچتا ہے تو جب کوئی روک اس کے راستہ میں آتی ہے وہ فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور میں گر جاتا ہے اور اس کی مدد سے اس روک کو دور کرتا ہے.جنگ احزاب کا واقعہ ہے کہ خندق کھودتے ہوئے صحابہ ایک پتھر کو کاٹنا چاہتے تھے مگر وہ نہ کٹتا تھا.اس پر رسول کریم ﷺ کے پاس گئے جن کے وہ عبد تو نہ تھے مگر بوجہ اس درجہ کے جو اللہ تعالی نے آپ کو دیا تھا آپ کے غلاموں میں شمار ہونا فخر سمجھتے تھے.آپ سے دریافت کیا کہ اب ہم کیا کریں؟ آپ نے فرمایا.لاؤ مجھے کدال دو.اور کدال لے کر آپ اس جگہ گئے اور اسے اٹھا کر زور سے پتھر پر مارا تو اس سے آگ نکلی.آپ نے کہا اللہ اکبر.صحابہ نے بھی کہا.اللہ اکبر.دوسری بار مارا تو پھر آگ نکلی اور آپ نے کہا اللہ اکبر.صحابہ نے بھی کہا اللہ اکبر.پھر تیسری بار مارا.پھر آگ نکلی اور آپ نے اللہ اکبر کہا اور صحابہ نے بھی کہا.اللہ اکبر.تیسری بار مارنے سے پتھر ٹوٹ گیا.اس موقع پر صحابہ رسول کریم کی اتباع میں اللہ اکبر کہتے رہے ورنہ انہیں پتہ نہ تھا کہ آپ کیوں اللہ اکبر کہتے ہیں؟ اس لئے انہوں نے بعد میں رسول کریم ﷺ سے پوچھا کہ اللہ اکبر کہنے کی وجہ کیا تھی؟ آپ
انوار العلوم جلدم ۶۲۶ تقدیرانی نے فرمایا.جب پہلی بار آگ نکلی تو اس میں مجھے کسرئی اور حیرہ کے قصر دکھائے گئے اور بتایا گیا کہ ان پر مسلمانوں کو غلبہ دیا جائے گا.پھر میں نے کدال ماری تو اس کی روشنی میں مجھے حیرہ کے قصر دکھائے گئے.اور بتایا گیا کہ قیصر کی اس مملکت پر مسلمانوں کو قبضہ ملے گا پھر جب میں نے تیسری دفعہ کدال ماری اور روشنی نکلی تو مجھے صنعا (یمن) کے قصر دکھائے گئے اور بتایا گیا کہ مسلمانوں کا قبضہ ہو گا.(الكامل فى التاريخ لابن الاثير جلد نمبر ۲ صفحہ ۱۷۹ مطبوعہ وعہ بیروت ان پر ۶۱۹۶۵ غرض جب غلام کو اس کام میں کوئی روک نظر آتی ہے جو اس کے سپرد کیا گیا ہو تو وہ آقا ہی کے پاس جاتا ہے اور اس سے مدد طلب کرتا ہے.اسی طرح عبودیت کے مقام پر پہنچا ہوا انسان دعاؤں میں خاص طور پر مشغول رہتا ہے اور ہر ایک مشکل کے وقت خدا تعالیٰ سے مدد طلب کرتا ہے.اس شخص کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص باغ میں ہو اور اس کے پاس ایک لمبا بانس ہو جس وقت چاہے درختوں کو ہلا کر پھل گرائے.خش تقدیر پر ایمان جب اور زیادہ ترقی کرتا ہے تو انسان اس درجہ سے بھی اوپر ترقی درجہ کم کرتا ہے اور دعاؤں کی قبولیت کا نظارہ دیکھ کر خدا کے اور قریب ہونا چاہتا ہے اور اس کے لئے کوشش کرتا ہے آخر یہ ہوتا ہے کہ اس کی کوشش ہو یا نہ ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی تقدیر جاری رہتی ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ سے ایک رنگ وحدت کا پیدا ہو جاتا ہے.اسی مقام کے متعلق رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے ایسا قریب ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس کے ہاتھ کان، آنکھ ، پاؤں بن جاتا ہوں.یعنی اس مقام پر جو کام بھی یہ بندہ کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کا ہی کام ہوتا ہے اور یہ کلی طور پر پاک ہو جاتا ہے اس مقام کا اعلان سوائے اللہ تعالیٰ کے حکم کے کوئی انسان نہیں کر سکتا.مگر یہ یاد ا چاہئے کہ مقام اور ہوتے ہیں اور حال اور ہوتا ہے.ہر مؤمن خدا تعالیٰ کا عبد ہوتا ہے.وہ تو کل بھی کرتا ہے.دعا بھی کرتا ہے مگر ہر مؤمن پر ان باتوں کی ایک ایک آن آتی ہے اور وہ ان حال کہلاتا ہے.اور مقام یہ ہوتا ہے کہ اکثر اوقات میں انسان اس پر قائم رہتا ہے اور آنی طور پر تھوڑی دیر کے لئے وہ حالت نہیں آتی.اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک شخص تو کسی گھر میں ٹھرا ہوا ہو اور دوسرا شخص بطور ملاقات تھوڑی دیر کے لئے وہاں آجائے ان دونوں کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کا شوق بڑھانے کے لئے کبھی کبھی اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عه بخاری کتاب الرقاق باب التواضع
ر العلوم جلد ۶۲۷ تقدیرانی کی میرا اپنے بندوں کو کرا دیتا ہے.گو بعض نادان اس حالت سے دھوکا کھا کر عجب اور تکبر کی مرض میں گرفتار ہو جاتے ہیں.یہی وہ مقام ہے جس پر صحابہ پہنچے تھے جن کے متعلق رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ اِعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ (بخاری کتاب التفسير سورة الممتحنة باب لا تتخذوا عدوى وعدوکم اولیاء کہ تم اب جو چاہو کرو.ناران اعتراض کرتے ہیں کہ کیا اگر وہ چوری بھی کرتے تو ان کے لئے جائز تھا ؟ مگر وہ نہیں جانتے کہ خدا جس کے ہاتھ ہو جائے وہ چوری کر ہی کس طرح سکتا ہے.دیکھو ٹائپ کی مشق کرنے والے اتنی مشق کر لیتے ہیں کہ آنکھیں بند کر کے چلاتے جاتے ہیں اور غلطی نہیں کرتے.اسی طرح ایک زمیندار خاص طریق سے زمین میں دانہ ڈالتا ہے اور جس کی مشق نہ ہو وہ اس طرح دانہ نہیں ڈال سکتا.اسی طرح ایک جلد ساز کو مشق ہوتی ہے اور وہ سوا ایک خاص طرز سے مارتا ہے.پس جس طرح ان کاموں میں مشق کرنے والے غلطی نہیں کر سکتے.اس طرح تقویٰ کی راہوں پر چلنے کی مشق کرتے کرتے جب انسان اس حد تک ترقی کر جاتا ہے کہ خدا ان کی آنکھ.کان.ہاتھ اور پاؤں ہو جاتا ہے وہ غلطی نہیں کر سکتے.اندھے بھی اپنے گھروں میں دوڑتے پھرتے ہیں.ہمارے ہاں ایک اندھی عورت رہتی تھی اس کی جہاں چیزیں ہوتیں سیدھی وہیں جاتی اور جاکر ان کو اٹھا لیتی.نا واقف لوگ بعض دفعہ ایسے اندھوں کو دیکھ کر خیال کر لیتے ہیں کہ یہ فریب کرتے ہیں.حالانکہ ان کو مشق سے یہ درجہ حاصل ہوا ہوتا ہے.ورنہ وہ فی الحقیقت اندھے ہوتے ہیں.پس جب اندھا بھی مشق سے اس درجہ کو حاصل کر سکتا ہے تو کیا عقل کا سوجا کھا ترقی کرتے کرتے اس مقام پر نہیں پہنچ سکتا کہ اس کا ہاتھ ہمیشہ صحیح جگہ پر ہی پڑے اور وہ غلطی سے محفوظ ہو جائے.اور خصوصاً جب کہ اللہ تعالی کسی کے ہاتھ پاؤں ہو جائے تو پھر تو اس امر میں کوئی تعجب کی بات ہی نہیں رہتی.یہ درجہ بھی تقدیر پر ایمان کا نتیجہ ہے ورنہ اگر تقدیر ہی نہ ہوتی تو وہ تقدیر خاص سے کس طرح مدد لیتے ؟ پس تقدیر خاص جاری کرنے کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ انسان عبودیت کے اس مقام پر پہنچ جائے کہ خدا تعالیٰ میں اور اس میں وحدت پیدا ہو جائے اور وہ گو عبد ہی رہے مگر اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جائے.مگر یہی مقام نہیں بلکہ اس سے آگے ایک ایسا مقام ہے کہ جس کو دیکھ کر انسان کی آنکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اور وہ نبوت کا مقام ہے.کہتے ہیں جب خدا تعالیٰ انسان کے ہاتھ پاؤں اور کان ہو گیا تو پھر اور کیا درجہ ہو سکتا ہے.مگر یہ غلط ہے اس سے اوپر اور درجہ ہے اور وہ یہ کہ پہلے تو خدا بندے کا ہاتھ پاؤں اور کان ہوا تھا.
Ура تقدیرالی اس درجہ پر پہنچنے پر اس کے ہاتھ پاؤں آنکھ اور کان خدا تعالیٰ کے ہو جاتے ہیں اور یہی مقام ہے جہاں در حقیقت انسان تقدیر کی پوری حقیقت سے آگاہ ہو سکتا ہے کیونکہ اس مقام پر یہ مجسم تقدیر ہو جاتا ہے اور تقدیر کو اگر پانی فرض کیا جائے تو یہ اس کو چلانے کے لئے بمنزلہ نہر کے ہوتا ہے اور اس مقام پر پہنچ کر خدا تعالیٰ کے راز میں شامل ہو جاتا ہے اور بندہ ہوتے ہوئے خدا کے نشان اس سے ظاہر ہوتے ہیں.اسی وجہ سے نادان اسے خدا سمجھنے لگ جاتے ہیں.پہلے تو یہ تھا کہ کبھی خدا سے مانگنے جاتا تھا مگر اب اس پر تقدیر ہی تقدیر جاری ہو جاتی ہے اور یہ وہ مقام ہے کہ اس پر پہنچنے والے انسان جو کچھ کرتے ہیں وہ ان سے خدا ہی کراتا ہے.اسی لئے خدا نے رسول کریم ال کے متعلق فرمایا ہے.وَمَا يُنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى (النجم: ۴-۵) کہ یہ جو کچھ کہتا ہے الہام ہے.ای طرح حضرت صاحب نے رویا میں دیکھا کہ آپ فرماتے ہیں کہ آؤ ہم نئی زمین اور نیا آسمان بنا ئیں.نادان کہتے ہیں کہ یہ شرک کا کلمہ ہے مگر نہیں یہ مقام نبوت کی طرف اشارہ ہے.حضرت صاحب نے پہلے مقام کا نام قمر اور دوسرے کا شمس رکھا ہے.یعنی پہلا مقام تو یہ ہے کہ خدا کے ذریعہ انسان کا نور ظاہر ہوتا ہے.اور دوسرا مقام یہ ہے کہ انسان کے ذریعہ خدا کا نور ظاہر ہوتا ہے.یہی معنی آپ نے الہام یا شَمْسُ وَ يَا قَمَرُ کے کئے ہیں.تو یہ مقام نبوت ہے اور اس مقام سے کوئی آگاہی نہیں دیا جاتا مگر بطور حال کے.سوائے ان لوگوں کے کہ جن کو اللہ تعالیٰ مقام نبوت پر کھڑا کرے.خدا تعالیٰ کا جلال انہی لوگوں کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے ہے اور یہ خدا تعالی کو دیکھنے کی کھڑکی ہوتے ہیں.جو ان میں سے ہو کر خدا کو دیکھنا نہ چاہے وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا.درجہ - ہفتہ چھٹا مقام تو یہ تھا کہ جو خدا کو نہ دیکھے وہ اس شخص کو نہیں دیکھ سکتا اور ساتواں یہ ہے کہ جو اس مقام پر کھڑے ہونے والے انسان کو نہ دیکھے وہ خدا کو نہیں دیکھ سکتا.یعنی چھٹے مقام کے متعلق تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اس مقام پر کھڑا ہونے والے شخص کو شناخت نہ کرے مگر خدا کو کرے.لیکن ساتواں مقام ایسا ہے کہ جو شخص اس پر کھڑے ہونے والے شخص کو شناخت نہیں کر سکتا وہ خدا کو بھی شناخت نہیں کر سکتا اور اسی کا نام کفر ہے.کیونکہ جب یہ خدا کے ہاتھ اور پاؤں بن جاتے ہیں تو جہاں یہ جائیں گے وہیں خدا جائے گا.
العلوم جلد ۶۲۹ تقدیرانی اور جو ان کو نہیں دیکھا یقینی ہے کہ وہ خدا کو بھی نہ دیکھ سکے اور جو خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھتا وہ کافر ہے.یہ مقام حال کے طور پر تو اور لوگوں پر بھی آتا ہے مگر مقام کے طور پر کسی نبی کے بغیر اور کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا.یہ سب سے اعلیٰ مرتبہ ہے اور اس میں تقدیر ایسے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے کہ اس کو سمجھتا ہر انسان کا کام نہیں ہے.ہاں اہل علم لوگ شناخت کر لیتے ہیں.اس مقام پر پہنچے ہوئے انسان کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ خدا ہی کا رنگ اس میں آجاتا ہے اور یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ جب تقدیر حقیقی طور پر ظاہر ہوتی ہے.محمد رسول اللہ ﷺ کا وجود خدا تعالٰی کے وجود میں مخفی ہو گیا تھا.پس آپ کا ہر ایک فعل در حقیقت خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا.لیکن تم جو کچھ کرتے ہو یہ خدا تم سے نہیں کراتا کیونکہ تم خدا کے ہاتھ نہیں ہو.اگر کوئی بد نظری کرتا ہے تو خود کرتا ہے اور چوری کرتا ہے تو خود کرتا ہے.خدا تعالیٰ اس سے ایسا نہیں کراتا.خدا تعالیٰ تو ان سے کام کروایا کرتا ہے جو اس کی صفات کے مظہر ہو جاتے ہیں اور وہ جن کا ہاتھ ہو جاتا یا پاؤں ہو جاتا ہے یا آنکھ ہو جاتا ہے یا کان ہو جاتا ہے یا جو اس کے ہاتھ ہو جاتے ہیں یا پاؤں ہو جاتے ہیں یا آنکھ ہو جاتے ہیں یا کان ہو جاتے ہیں.ایسے لوگوں کی بشریت کی غلطی پر بھی اگر کوئی معترض ہو تو سزا پاتا ہے اور یہ تقدیر الہی کی وہ حد ہے جس سے انسان کو تعلق ہے.اب میں تقدیر پر ایمان لانے کے فوائد بھی بیان کر چکا ہوں اور ان سے معلوم ہو کہ یہ مسئلہ روحانیت کو کامل کرنے کے لئے کس قدر ضروری ہے اور یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے ماننے کو ایمان کی شرط قرار دیا ہے.یہ ہے وہ مسئلہ تقدیر جس سے عام لوگ ٹھو کر کھاتے ہیں.اللہ تعالی توفیق عنایت فرمائے کہ ہم اس کو صحیح طور پر سمجھیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.آمین.- ایک صاحب سوال کرتے ہیں کہ خداتعالی کی حیثیت ممتحن ہی کی نہیں بلکہ رحیم و کریم کی ہے ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ٹھیک ہے.مگر اس حیثیت کا ظہور امتحان لینے کے بعد نمبر د یتے وقت ہوتا ہے.یہ نہیں کہ پرچہ لکھتے وقت بتاتا جائے کہ اس سوال کا جواب یہ لکھو اوراس کا یہ اس موقع پر کسی صاحب نے سوال کیا کہ قدر خیر و شرہ پر ایمان لانے کا کیا مطلب ہے ؟ حضور نے فرمایا.اس کا یہ مطلب ہے کہ خیر کی جزاء بھی اللہ کی طرف سے ملتی ہے اور بدی کی سزا بھی خدا کی طرف سے.اس پر ایمان لانے کا یہ مقصد ہے کہ انسان گندم از کی گندم بردید جو ز جو " کے مسئلہ پر ایمان رکھے اور خدا اپر ظلم کا الزام نہ لگا ہے.(منہ) ་་
العلوم جلد م واقعات خلافت علوی (فرموده ۷ افروری ۱۹۲۰ء) از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی واقعات خلافت
۶۳۲
۶۳۳ واقعات خلافت علوی بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ واقعات خلافت علوی ۱۷ فروری ۱۹۲۰ء کو شام کے سوا سات بجے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا لیکچر اسلامیہ کالج لاہور کی مارٹن ہسٹا ریکل سوسائٹی کے زیر انتظام کالج کے حبیبیه ہال میں زیر صدارت خان بهادر شیخ عبد القادر صاحب بی.اے بیر سٹرایٹ لاء ہوا.داخلہ کے لئے دو آنے کا ٹکٹ مقرر تھا.سامعین اس کثرت سے آئے کہ تمام ہال بھر گیا اور لیکچر شروع ہونے پر لوگوں کے داخلی ہونے کی جگہ بالکل نہ رہی.جلسہ کا افتتاح مکرم حافظ روشن علی صاحب نے تلاوت قرآن کریم سے کیا.اور ان کے بعد خان بہادر شیخ عبد القادر صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے لیکچر کے شروع کرنے کی درخواست کرتے ہوئے فرمایا.میں سب سے پہلے مارٹن ہسٹا ریکل سوسائٹی کا شکریہ ادا کرتا صدر جلسہ کی افتتاحی تقریر ہوں کہ اس کے منتظمین نے ایک ایسے عظیم الشان جلسہ میں جیسا کہ یہ ہے مجھے صدارت کی عزت بخشی ہے.اس شکریہ کا اظہار کرنے کے بعد سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بہت بہتر ہو تا اگر دوست ایسے مبارک موقع کے واسطے جس میں ہمارے کثیر التعداد بھائیوں کے معزز و محترم اور مقتداء ، پیشوا اور راہ نما تقریر فرمائیں گے صدارت کے لئے کسی ایسے شخص کو منتخب کیا جاتا جو بحیثیت عالم دین کے اس کے لئے موزوں و مناسب ہو تا.لیکن یہ ان کا اپنا انتخاب ہے جو ان کے نقطہ خیال پر مبنی ہے کہ انہوں نے مجھے یہ عزت بخشی ہے.میں اپنے عجز اور ناموزونیت کا اعتراف کرتے ہوئے دوبارہ ان اصحاب کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے منتخب کیا ہے.اس کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا نام میری تعریف اور توصیف کا محتاج نہیں ہے آپ لوگ خوب واقف ہیں.ان کا اس قدر کثیر مجمع کے ساتھ یہاں تشریف فرما ہونا ثبوت ہے اس بات کا کہ آپ کی ذات اور آپ کے کلام کا ان
م جلدم ۶۳۴ واقعات خلافت علوی لوگوں کے دل میں کیا درجہ ہے.کچھ عرصہ ہوا جب گزشتہ سال اس سوسائٹی میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا لیکچر ہوا تو میں اس وقت لائل پور تھا.اور اخبارات کے ذریعہ مجھے معلوم ہوا تھا کہ حضرت نے اس مضمون پر جو آج پیش فرمائیں گے اس کے اول حصہ پر تقریر کی جو نہایت درجہ مقبول ہوئی.آج جیسا کہ آپ لوگوں نے اشتہار سے معلوم کیا ہو گا اسی مضمون کا دوسرا حصہ یعنی اسلام میں اختلاف کا آغاز کس طرح اور کب ہوا تاریخی پہلو سے بیان فرمائیں گے.مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ صاحبان حضرت صاحبزادہ صاحب کا لیکچر توجہ اور غور سے سنیں.آپ ضرور سنیں گے میں صرف یہ درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ اس مجمع کثیر میں ابھی اور بہت سے لوگ آئیں گے.ان کے متعلق منتظم صاحبان ایسا انتظام کر دیں کہ انہیں ایسی جگہ آرام سے بٹھا دیا جائے جہاں گنجائش ہو.اور ان کی وجہ سے مجمع میں کسی قسم کا خلل نہ واقع ہو.اور آپ صاحبان جم کر بیٹھے رہیں تاکہ ہم لیکچر سے وہ لطف اٹھا سکیں جس کے ہم مشتاق ہیں.اس کے بعد میں حضرت صاحبزادہ صاحب سے درخواست کرتا ہوں کہ لیکچر شروع فرمائیں.حضرت خلیفہ المسیح کی تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے کلمات تشہد اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کر کے جو عظیم الشان اور نہایت موثر لیکچر دیا اس کا کسی قدر خلاصہ درج ذیل کیا جاتا ہے.حضور نے گذشتہ سال کے لیکچر کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت تنگی وقت کی وجہ سے حضرت علی کے زمانہ کے واقعات کو نہایت مختصر طور پر بیان کرنا پڑا تھا.آج میں ان کو کسی قدر تفصیل سے بیان کروں گا.اس کے بعد حضور نے مسلمانوں کے اختلاف کی وجوہات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ مسلمانوں کو روحانی اور جسمانی فتوحات جلد جلد اور اس کثرت سے حاصل ہوئیں کہ وہ دونوں پہلوؤں سے ان کا پورا پورا انتظام نہ کر سکے.صحابہ کی تعدادیدُ خُلُونَ فِي دِيْنِ اللهِ اَفَوَاجًا کے مقابلہ میں بہت کم تھی.اس وجہ سے مسلمانوں کے ایک حصہ میں کمزوری رہ گئی.دوسرے یہ کہ پہلے تو اسلام کے دشمنوں کا خیال تھا کہ مسلمان جلدی مٹ
۶۳ واقعات خلافت علوی جائیں گے.لیکن جب انہوں نے مسلمانوں کی ظاہری فتوحات کو دیکھا اور ان کی قوت اور شوکت کا ظاہری طور پر مقابلہ کرنے کے اپنے آپ کو نا قابل پایا تو انہوں نے مسلمانوں کے اندر داخل ہو کر دعا اور فریب سے ان کو مٹانے کی کوشش شروع کر دی.ایسے ہی لوگوں نے اسلام میں فتنہ کی بنیاد رکھی.اور ان لوگوں کو اول اول اپنے ساتھ ملا لیا جن کی تربیت پورے طور پر اسلام میں نہ ہوئی تھی.اس کے بعد حضور نے فرمایا.حضرت عثمان کے زمانہ میں جو فتنہ اٹھا.اس میں اور حضرت علی کے زمانہ کے فتنہ میں ایک بہت بڑا فرق ہے.اور وہ یہ کہ حضرت عثمان کے خلاف جو لوگ کھڑے ہوئے وہ اسلام میں کوئی درجہ نہ رکھتے تھے بلکہ فاسق و فاجر تھے لیکن ان کے بعد جو جھگڑا ہوا اس میں دونوں طرف بڑے بڑے جلیل القدر انسان نظر آتے ہیں.یہ بہت بھیانک نظارہ ہے.اس کے لئے تمہید کے طور پر میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ اختلاف خواہ کسی دینی امر میں ہو یا دنیوی میں ہمیشہ اس کی وجہ سے کوئی اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.ایک اختلاف کو تو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رحمت قرار دیا ہے.مگر ایک اختلاف رحمت تو نہیں ہو تا لیکن اس کے کرنے والے کو فاسق اور فاجر بھی نہیں کہا جاسکتا.اور وہ ایسا اختلاف ہے کہ اختلاف کرنے والے کے پاس اس کی تائید میں کافی وجوہ ہوں اور وہ نیک نیتی سے ان کو پیش کرتا ہو.ہاں ایسے مسئلہ میں اختلاف نہ ہو جس کے نہ ماننے سے انسان اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.ایسے شخص کو خاطی کہا جائے گا نہ کہ اسلام سے خارج قرار دیا جائے گا.اس تمہید کے بعد حضور نے حضرت علی کے زمانہ کے فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.جب حضرت عثمان کو شہید کر دیا گیا تو مفسدوں نے بیت المال کو لوٹا اور اعلان کر دیا کہ جو مقابلہ کرے گا قتل کر دیا جائے گا.لوگوں کو جمع نہیں ہونے دیا جاتا تھا اور مدینہ کا انہوں نے سخت محاصرہ کر رکھا تھا.اور کسی کو باہر نہیں نکلنے دیا جاتا تھا حتی کہ حضرت علیؓ جن کی محبت کا وہ لوگ دعوئی کرتے تھے ان کو بھی روک دیا گیا اور مدینہ میں خوب لوٹ مچائی.ادھر تو یہ حالت تھی اور ادھر انہوں نے اپنے قساوت قلبی کا یہاں تک ثبوت دیا کہ حضرت عثمان جیسے مقدس انسان کو جن کی رسول کریم ان نے بڑی تعریف کی ہے قتل کرنے کے بعد بھی نہ چھوڑا اور لاش کو تین چار دن تک دفن نہ کرنے دیا.آخر چند صحابہ نے مل کر رات کو پوشیدہ طور پر دفن کیا.
العلوم جلد ۶۳۶ واقعات خلافت علوی حضرت عثمان کے ساتھ ہی کچھ غلام بھی شہید ہوئے تھے ان کی لاشوں کو دفن کرنے سے روک دیا اور کتوں کے آگے ڈال دیا.حضرت عثمان اور غلاموں کے ساتھ یہ سلوک کرنے کے بعد مفسدوں نے مدینہ کے لوگوں کو جن کے ساتھ ان کی کوئی مخالفت نہ تھی چھٹی دے دی اور صحابہ نے وہاں سے بھاگنا شروع کر دیا.پانچ دن اسی طرح گزرے کہ مدینہ کا کوئی حاکم نہ تھا.مفسد اس کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ کسی کو خود خلیفہ بنا ئیں اور جس طرح چاہیں اس سے کرا ئیں.لیکن صحابہ میں سے کسی نے یہ برداشت نہ کیا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان کو قتل کیا ہے ان کا خلیفہ بنے.مفسد حضرت علی طلحہ اور زبیر کے پاس باری باری گئے اور انہیں خلیفہ بننے کے لئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا.جب انہوں نے انکار کر دیا اور مسلمان ان کی موجودگی میں اور کسی کو خلیفہ نہیں مان سکتے تھے تو مفسدوں نے اس کے متعلق بھی جبر سے کام لینا شروع کر دیا.کیونکہ انہوں نے خیال کیا کہ اگر کوئی خلیفہ نہ بنا تو تمام عالم اسلامی میں ہمارے خلاف ایک طوفان برپا ہو جائے گا.انہوں نے اعلان کر دیا کہ اگر دو دن کے اندر اندر کوئی خلیفہ بنا لیا جاوے تو بہتر ورنہ ہم علی طلحہ اور زبیر اور سب بڑے بڑے لوگوں کو قتل کر دیں گے.اس پر مدینہ والوں کو خطرہ پیدا ہوا کہ وہ لوگ جنہوں نے حضرت عثمان " کو قتل کر دیا وہ ہم سے اور ہمارے بچوں اور عورتوں سے کیا کچھ نہ کریں گے.وہ حضرت علی کے پاس گئے اور انہیں خلیفہ بننے کے لئے کہا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر میں خلیفہ ہوا تو تمام لوگ یہی کہیں گے میں نے عثمان کو قتل کرایا ہے اور یہ بوجھ مجھ سے نہیں اٹھ سکتا.یہی بات حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے کی.اور صحابہ نے بھی جن کو خلیفہ بننے کے لئے کہا گیا انکار کر دیا.آخر سب لوگ پھر علی کے پاس گئے اور کہا جس طرح بھی ہو آپ یہ بوجھ اٹھا ئیں.آخر کار انہوں نے کہا میں اس شرط پر یہ بوجھ اٹھاتا ہوں کہ سب لوگ مسجد میں جمع ہوں اور مجھے قبول کریں.چنانچہ لوگ جمع ہوئے اور انہوں نے قبول کیا مگر بعض نے اس بناء پر انکار کر دیا کہ جب تک حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا نہ دی جائے اس وقت تک ہم کسی کو خلیفہ نہیں مانیں گے اور بعض نے کہا جب تک باہر کے لوگوں کی رائے نہ معلوم ہو جائے کوئی خلیفہ نہیں ہونا چاہئے.مگر ایسے لوگوں کی تعداد بہت قلیل تھی.اس طرح حضرت علی نے خلیفہ بنا تو منظور کر لیا.مگروہی نتیجہ ہوا جس کا انہیں خطرہ تھا تمام عالم اسلامی نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ علی نے عثمان " کو قتل کرایا ہے.حضرت علی کی اگر اور تمام خوبیوں کو نظر انداز کر دیا جائے تو میرے نزدیک ایسی خطرناک
رالعلوم جلد واقعات خلافت علوی حالت میں ان کا خلافت کو منظور کر لینا ایسی جرأت اور دلیری کی بات تھی جو نہایت ہی قابل تعریف تھی کہ انہوں نے اپنی عزت اور اپنی ذات کی اسلام کے مقابلہ میں کوئی پرواہ نہ کی اور اتنا بڑا بوجھ اٹھا لیا.آئے حضرت علی جب خلیفہ ہو گئے اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے اس شرط پر بیعت کی کہ قرآن کے احکام کی اتباع کی جائے گی اور شریعت کے احکام کو مد نظر ر کھا جائے گا.جس سے ان کا مطلب یہ تھا کہ حضرت عثمان کے قاتلوں کو سزا دی جائے.مگر اس وقت حالت یہ تھی کہ باوجود اس کے کہ حضرت علی خلیفہ تھے مدینہ باغیوں کی چھاؤنی بنا ہوا تھا.چند دن کے بعد حضرت طلحہ اور زبیر حضرت علی کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ باغیوں سے بدلا لیجئے.انہوں نے پوچھا مدینہ کا حاکم میں ہوں یا باغی.انہوں نے کہا کہ ابھی تو باغی ہی ہیں.حضرت علی نے کہا پھر میں ان سے کس طرح بدلا لے سکتا ہوں جب تک عام جوش ٹھنڈا نہ ہو باہر سے مدد نہ انتظام نہ ہو اس وقت تک کیا ہو سکتا ہے اس بات کو انہوں نے مان لیا.اس وقت مدینہ میں تین قسم کے مفسد لوگ تھے ایک باغی ، دوسرے بدوی جو لوٹ مار کے لئے آگئے تھے تیرے غلام جو سب کے سب بے دین تھے.حضرت علی نے تجویز کی کہ آہستہ آہستہ ان کو مدینہ سے نکالیں.چنانچہ انہوں نے مسجد میں اعلان کیا کہ ہر ایک غلام اپنے آقا کے ہاں چلا جائے ورنہ میں اس کی طرف سے خدا کے سامنے بری ہوں.باغی جو بہت چالاک اور ہوشیار تھے انہوں نے خیال کیا کہ اس طرح ہم کو کمزور کرنے کی تجویز کی گئی ہے.اس پرا پر انہوں نے کہہ دیا کہ کوئی باہر نہیں جائے گا اور کوئی اس حکم کو نہ مانے.پھر حضرت علی نے بدوؤں کے متعلق اعلان کیا کہ گھروں کو چلے جائیں اس پر بھی انکار کر دیا گیا.ادھر تو یہ حالت تھی.اور ادھر بعض صحابہ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ قاتلوں کو سزا دی جائے اور ہمیں قرآن کے حکم پر عمل کرنا چاہئے خواہ ہماری جان بھی چلی جائے.حضرت علی فرماتے کہ قرآن کا حکم قاتل کو قتل کرنا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ فورا قتل کر دیا جائے.اس لئے فی الحال اس بات کو نہیں اٹھانا چاہئے.اس طرح فتنہ اور زیادہ بڑھ جائے گا اس پر ان کے متعلق کہا گیا کہ باغیوں کی طرف داری کرتے ہیں.اور صحابہ مدینہ چھوڑ کر باہر جانے لگے.حضرت طلحہ اور زبیر مدینہ چھوڑ کر مکہ پہنچے.حضرت عائشہ پہلے سے وہاں گئی ہوئی تھیں.جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علی قاتلوں کو سزا نہیں دیتے تو انہوں نے ارادہ کر لیا کہ ابھی ان کو سزا دینی چاہئے.
العلوم جلدم ۶۳۸ واقعات خلافت علومی میرے خیال میں حضرت علی کی رائے موقع اور محل کے لحاظ سے احتیاط اور بچاؤ کا پہلو لئے ہوئے ہونے کی وجہ سے اعلیٰ تھی.مگر شریعت کی پیروی کے لحاظ سے حضرت عائشہ اور دوسرے صحابیوں کی اعلیٰ تھی.حضرت طلحہ اور زبیر نے مکہ پہنچ کر حضرت عثمان کا انتقام لینے کے لئے لوگوں کو جوش دلایا.اور حضرت عائشہ اور ان کی یہی رائے ہوئی کہ خواہ کچھ ہو ابھی قاتلوں کو سزا دینی چاہئے.اس پر اعلان کر دیا گیا کہ ہم قاتلوں کو قتل کرنے کے لئے جاتے ہیں.اور لوگ بھی ان کے ساتھ ہو گئے اور کوئی سات آٹھ سو کے قریب تعداد ہو گئی.اور انہوں نے قاتلوں کے ساتھ لڑنا دین کی بہت اعلیٰ خدمت سمجھی.اس وقت سوال پیدا ہوا کہ ہماری تعداد تھوڑی ہے.اگر ہم جائیں گے تو کوئی نتیجہ نہ ہو گا وہ غالب آجائیں گے.اس لئے چاہئے کہ بصرہ چلیں جو فوج کی چھاؤنی تھی.یہ گروہ جب بصرہ کی طرف چلا اور حضرت علی کو خبر ہوئی تو وہ بھی بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے.جب بصرہ کے پاس پہنچے اور ایک صحابی قعقاع کو حضرت عائشہ کے پاس بھیجا کہ جا کر دریافت کرد کس غرض کے لئے آئے ہیں.انہوں نے کہا اصلاح کے لئے.کہا گیا پھر لڑائی کیوں کریں.خود مل کر فیصلہ کر لیتے ہیں.اس پر طرفین راضی ہو گئے اور حضرت علی نے اعلان کر دیا کہ حضرت عثمان کے قتل میں جو لوگ شریک تھے وہ میرے لشکر میں نہ رہیں.اس پر امید ہو گئی کہ صلح ہو جائے گی مگر مفسد کہاں یہ پسند کر سکتے تھے کہ صلح ہو.انہیں ڈر تھا کہ اگر صلح ہو گئی تو ہم مارے جائیں گے.انہوں نے رات کو آپس میں مشورہ کیا اور آخر یہ تجویز قرار پائی کہ رات کو شب خون ماریں.اور خود ہی چھا پہ ڈالیں.انہوں نے ایسا ہی کیا.طرفین کے لوگ بڑے اطمینان سے رات کو سوئے ہوئے تھے کہ صبح صلح ہو جائے گی.لیکن رات کو جب شور و شر سے اٹھے تو دیکھا کہ تلوار چل رہی ہے.ادھر مفسدوں نے یہ چالاکی کی کہ اگر ہماری اس سازش کا پتہ لگ گیا تو ہم قتل کئے جائیں گے اس کے لئے انہوں نے یہ کیا کہ ایک آدمی حضرت علی کے پاس کھڑا کر دیا اور اسے کہہ دیا.جس وقت تم شور کی آواز سنو.اسی وقت انہیں کہہ دو کہ ہم پر حملہ کیا گیا.ادھر انہوں نے حملہ کیا.اور ادھر اس نے حضرت علی کو یہ اطلاع دی.اور ان کی طرف سے کچھ آدمی ان پر جا پڑے.دونوں طرفوں کو اس بات کا ایک دوسرے پر افسوس تھا کہ جب صلح کی تجویز کی گئی تھی تو پھر دھوکا سے کیوں حملہ کیا گیا.حالانکہ یہ دراصل مفسدوں کی شرارت تھی.ایسی صورت میں بھی حضرت علی نے احتیاط سے کی
۶۳۹ واقعات خلافت علوی کام لیا اور اعلان کر دیا کہ ہمارا کوئی آدمی مت لڑے خواہ وہ ہمارے ساتھ لڑتے رہیں.مگر مفسدوں نے نہ مانا.ادھر بصرہ والوں کو بھی غصہ آگیا اور وہ بھی لڑنے لگ گئے.یہ ایک عجیب لڑائی تھی کہ فریقین نہ چاہتے تھے کہ لڑیں لیکن لڑ رہے تھے.اس وقت حضرت علی نے لڑائی کوی روکنے کے لئے ایک اور تجویز کی کہ ایک آدمی کو قرآن دے کر بھیجا کہ اس کے ساتھ فیصلہ کر لو.اس پر بصرہ والوں نے خیال کیا کہ رات تو خفیہ حملہ کر دیا گیا ہے اور اب کہا جاتا ہے قرآن سے فیصلہ کر لو یہ نہیں ہو سکتا.حضرت علی نے تو نیک نیتی سے ایسا کیا تھا.لیکن حالات ہی ایسے پیدا ہو گئے تھے کہ اس بات کو سمجھا نہیں جاسکتا تھا.اس وقت اس آدمی کو جو قرآن لے کر گیا تھا قتل کر دیا گیا.اس پر حضرت علی اور ان کے ساتھیوں کو اور بھی غصہ آیا کہ قرآن کی طرف بلایا جاتا ہے.اس کی طرف بھی نہیں آتے.اب کیا کیا جاوے.یہی صورت ہے کہ حملہ ہو.ادھر سے بھی حملہ ہوا.اور لڑائی بہت زور سے شروع ہو گئی.آخر جب اس کے ختم ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئی.تو ایک صحابی جن کا نام کعب تھا.حضرت عائشہ کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ مسلمان ایک دوسرے کو مار رہے ہیں.اس وقت آپ کے ذریعہ ان کی جان بچ سکتی ہے آپ میدان میں چلیں.حضرت عائشہ اونٹ پر سوار ہو کر گئیں.اور انہوں نے کعب کو قرآن دے کر کھڑا کیا کہ اس سے فیصلہ کر لو.حضرت علی نے جب ان کا اونٹ دیکھا تو فوراً حکم دیا کہ لڑائی بند کردو.مگر مفسدوں نے بے تحاشہ تیر مارنے شروع کر دیئے.اور کعب چھد کر گر پڑے.اور جب حضرت عائشہ پر تیر پڑنے لگے.تو صحابہ نے رسول کریم ا کے ناموس پر حملہ ہوتا دیکھ کر کتنا اور مرنا شروع کر دیا اور مسلمانوں میں کوئی لڑائی ایسی خونریز نہیں ہوئی جیسی یہ ہوئی.حضرت عائشہ کے سامنے ایک ایک کر کے آتے اور مارے جاتے.اس وقت بڑے بڑے جرنیل اور بہادر مارے گئے.آخر جب دیکھا گیا کہ لڑائی بند ہونے کی کوئی صورت نہیں اور قریب ہے کہ تمام مسلمان کٹ کر مر جائیں.یہ کیا گیا کہ حضرت عائشہ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے گئے.اور جوں ہی اونٹ گرا بصرہ والے بھاگ گئے اور حضرت علی کا لشکر غالب آگیا.یہ جنگ جمل کا حال ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ دراصل انسی ย لوگوں نے لڑائی کرائی جو شریر اور مفسد تھے.اور اسلام میں فتنہ ڈالنا ان کی غرض تھی.لڑائی کے بعد حضرت عائشہ مدینہ کی طرف جانا چاہتی تھیں.انہیں ادھر روانہ کر دیا گیا.اور حضرت علی اور دوسرے صحابی الوداع کرنے کے لئے ساتھ آئے.روانہ ہوتے وقت
انوار العلوم جلد ۴ ۶۴۰ واقعات خلافت علوی حضرت عائشہ نے کہا کہ ہم میں کوئی عداوت نہیں.اتناہی اختلاف تھا جتنا رشتہ داروں کا آپس میں ہو جایا کرتا ہے.یہی بات حضرت علی نے کسی (الکامل في التاريخ لابن الاثير جلد ۳ صفي ۲۵۸ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء) اور اس طرح ان کی بالکل صلح و صفائی ہو گئی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے جنگ جمل کو بیان کرنے کے بعد حضرت علی اور حضرت معاویہ کی لڑائی کے حالات بیان کئے.اور مفسدوں کی شرارتوں اور فتنہ پردازیوں کا ذکر کرتے ہوئے ثابت کیا.کہ تمام اختلاف اور انشقاق کے بانی یہی لوگ تھے.جن کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو گئے تھے کہ واقعات کا صحیح طور پر سمجھنا سخت مشکل ہو گیا تھا.آخر انہی لوگوں نے حضرت علی کے قتل کی سازش کی اور قتل کرا دیا.ان کے بعد حضرت حسن کو خلیفہ خب کیا گیا لیکن انہوں نے معاویہ کے حق میں دست بردار ہو کر صلح کرلی.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی تقریر ختم ہونے کے بعد جسے سامعین نے نہایت توجہ اور پورے سکون کے ساتھ سنا.پریزیڈنٹ صاحب نے حسب ذیل تقریر کی.حضرات! میں آپ سب صاحبان کی طرف سے حضرت صدر جلسہ کی اختتامی تقریر صاحبزادہ میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں.اس پر زور اور پر از معلومات تقریر کے لئے جو انہوں نے اس وقت ہمارے سامنے کی ہے.میں نے دیکھا ہے کہ حضرت نے قریباً تین گھنٹے تقریر کی ہے.اور آپ صاحبان نے ہمہ تن گوش ہو کر سنی ہے.اس تقریر سے جو وسیع معلومات اسلامی تاریخ کے متعلق معلوم ہوئی ہیں.ان میں سے بعض بالکل غیر معمولی ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ان کی تلاش اور تجس کے لئے کسی وقت بہت سی کتب کا مطالعہ کیا ہو گا مگر میں بلا تامل کہہ سکتا ہوں کہ یہ باتیں محض مطالعہ سے ہرگز حاصل نہیں ہو سکتیں بلکہ اس سعادت بزور نیست بازو بخشند خدائے بخشنده میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس روانی سے کسی نے تاریخی معلومات کو مسلسل بیان کیا ہو.اور پھر کسی تاریخی مضمون میں ایسا لطف آیا ہو جو کسی داستان گو کی داستان میں بھی نہ آسکے.اس کے لئے میں پھر شکریہ ادا کرتا ہوں.اس ضمن میں میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ یہ سوسائٹی جس نے ہمیں ایسے اعلیٰ درجہ کے
واقعات خلافت علوی تاریخی لیکچر سے مستفید ہونے کا موقع دیا ہے بہت اعلیٰ مقصد اور مدعا کے لئے قائم ہوئی ہے.تاریخی واقعات کو سن کر یہ ہونا چاہئے کہ انسان ان سے عبرت حاصل کرے.قرآن کریم میں جابجا تاریخی واقعات کا حوالہ دیا گیا ہے جس سے یہی غرض ہے.پس اس وقت جو حضرت صاحبزادہ صاحب نے وسیع معلومات پیش کی ہیں.میرے لئے موقع نہیں کہ فردا فردا ان کے متعلق بتاؤں کہ ان سے یہ یہ سبق حاصل ہو سکتے ہیں.مگر میں یقینا کہتا ہوں کہ معلومات اس قابل ہیں کہ جب چھپ کر آپ کے سامنے آئیں گی تو پڑھنے والے دیکھیں گے کہ ان میں بڑے بڑے سبق موجود ہیں.اس وقت میں یہ کہتا ہوں کہ جتنی باتیں آپ لوگوں کو یاد ہیں ان پر غور کریں اور ان سے سبق لیں.چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں اور وقت نہ لوں گا اور صرف یہ کہہ کر کہ گر عاقلی یک اشاره کانیست الفضل یکم ماروح ۱۹۲۰ء) حضرت سے دعا کرنے کی درخواست کروں گا.
19 ۲۳ ۲۵ ۳۵ ۳۹ انڈریس - کلید مضامین -۲- آیات قرآنیہ ۳- احادیث -۴- اسماء ۵ مقامات کتابیات
۲۵۱ 1+0 14 ۱۹ 14 ''A' آرام یہ آرام کا وقت نہیں آزمائش آزمائش کے بعد ایمان کی ۲۴۲ حقیقت کھلتی ہے ۴۵۵ تا ۴۶۸ کلید مضامین احمدی ہر بچے احمدی کی خواہش ہوئی چاہیے کہ وہ قرآن و حدیث کو جاننے والا ہو احمدیوں کو سودی لین دین سے پر ہیز کرنا چاہیے اختلافات کا ظہور حضرت عثمان کے زمانہ میں کیوں ہوا؟ اخلاص ۲۰ خدا تعالی اخلاص کو دیکھتا ہے اخلاص کے ساتھ کسی نیک ۵۲۰ انسان کے پاس جانا مشکل ہر احمدی اپنے آپ کو مبلغ سمجھے ۵۲۴ نہیں واپس آنا مشکل ہے احمدیت اسلام ابتلاء احمدیت عیسائیت کی ترقی میں اسلام نے رعایا اور حکومت کے ابتلاء کیوں آتے ہیں ۶۱۹۶۱۸ روک ہے ۶۷ ۶۸ درمیانی تعلقات کو نہایت عمدہ سب سے زیادہ ابتلاء نبیوں خدا چاہتا ہے کہ احمدیت کو تمام بنانے کا طریق بتایا ہے کو آتے ہیں ۶۱۹ دنیا میں پھیلادے ایمان کی ترقی اور مضبوطی اخبارات ۴۲۵ اسلام کی تعلیم کامل 1 بے نقص ہے اور کیلئے ابتلاء آتے ہیں ۶۲۰ اسلام نے نفاق اور غداری کو اخبارات کے ذریعہ بہت بڑا اتحاد سخت نا پسند فرمایا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے اسلام کہتا ہے کہ حکمرانوں کی وتفاق و اتحاد اس طریق سے پیدا اخبارات قوموں کی زندگی کی سچے دل سے اطاعت کرد ہوتا ہے جو اسلام نے بتایا ہے علامت ہیں احتیاط ہر بات کو احتیاط کی نظر سے دیکھنا چاہیے احکام احکام کی دو اقسام اختلاف ہجوم میں طبائع کا اختلاف ۱۰۵ ضروری ہے ۵۰۴ مسلمانوں میں اختلاف کی وجوہات ۱۴۲ اسلام بانی علوم بھی ہے اسلام میں قوانین اتحاد اسلام خدا تعالی کو حقیقی معنوں ۱۰۵ میں رب ۱ العلمین مانتا ہے بعثت مہدی سے قبل اسلام ۶۳۵٬۶۳۴ کی حالت اسلام زندہ مذہب ہے
اسلام زندہ خدا کو پیش کرتا ہے ا اعصابی کمزوری اسلام کی ترقی کے ساتھ مسلمانوں کی ترقی وابستہ ہے اسلام کا شاندار ماضی اسلام کے اولین فدائی ۲۴۲ ۲۴۸ ۲۴۹ اعصابی کمزوری کے علاج سے انسان روحانیت میں نمایاں ترقی سمسم بہت بالا ہے ۵۳ اللہ تعالی کا بندوں سے کلام کرتا ۶۶۰ اللہ تعالیٰ ہر زمانہ میں اپنے بندوں کی روحانی تربیت کرتا ہے اللہ تعالی عمل سے خوش اسلام پر اعتراض اور اس کا جواب اسلام ہی دراصل ریشنلزم ہے اسلام نے عقل کی بنیاد کو قائم کیا ہے اسلام نے اکرام ضیف فرض قرار دیا ہے اسلام نے ظاہری اور باطنی اعمال رکھے ہیں اطاعت اطاعت اور احسان شناسی اولوالامر کی اطاعت کی دو شرائط اعتراض حقیقت حال سے بے خبر لوگ اعتراض کرتے ہیں دین کا علم حاصل کرنے سے اعتراضوں کا بنواب : سینے کا ملکہ پیدا ہو جاتا ہے ۳۵۳ ۴۶۵ ۴۶۶ کرے گا اعمال اصلاح اعمال کا ایک بہت بڑا زمیند ظاہری اور باطنی اعمال ۵۰۵ کیوں نہیں روکتا ظاہری اعمال بھی ضروری ہیں ہوتا ہے ง ۷۵ اللہ تعالیٰ بُرے کام کرنے سے اده کیا ہر ایک فعل اللہ تعالٰی کراتا ہے ۵۶۰ اعمال حسنه ۵۰۶ الہی صفات ۴۷۱ اعمال حسنہ کی چار قسمیں ۵۰۵ افضال ۳۸۰ اعمال کی درستی کیلئے صفات الہیہ پر غور ضروری ہے خدا کی عنایتوں اور فضلوں کا سارے عالم پر اللہ تعالی کی شمار نہیں ہو سکتا ۳ تا ۱۶ اکرام ضیف ۵۴ ۲۷ ۱۳ صفات کا ظہور زور شور سے ہو رہا ہے ضروری ہے کہ انسان کو اکرام ضعیف بہت بڑا فرض ہے ۴۷۲ اللہ تعالیٰ (ذات) خد اتعالیٰ کبھی نیک بندوں پر ظالم حکمرانوں کو قائم نہیں رہنے دیتا خدا کا کوئی حکم چھوٹا نہیں خدا کی عنائتیں اس کی ہستی کا ثبوت ہیں ۲۱ ۵۱ ۶۰۹ صفات الہیہ کا علم ہو صفات اللہ پیدا کرنے کا طریق رحیم و کریم خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر بڑا ی رحیم و کریم ہے رب العلمین ربوبیت باری تعالی کا ئنات کی مخالفین کے اعتراضات کا جواب ہستی باری تعالی کی ایک دلیل دینا ضروری ہے خدا کی ذات حواس خمسہ سے ہر چیز پر محیط ہے ۵۳ ۵۲ ۳۵۷ ۳۵۷
خدا کیونکر رب العلمین ہے خدا کی ربوبیت کا ثبوت اسلام میں ربوبیت سے فائدہ اٹھانا انسانوں کا کام ہے خدا جس طرح پہلے اپنے بندوں ۵۶ العام یقین کے مرتبہ تک لازمی امر ہے پہنچاتا ہے انتقام F کبھی امام بطور وہم کے یہ انتقام لینے کا زمانہ ہے ہو جاتا ہے ۶۶ ۶۷ امتحان انجمن امتحان انسان پر اس کی حقیقت انجمن کے طریق کار میں اصلاح کی ربوبیت کرتا تھا اسی طرح اب کا ارادہ کو کھولتا ہے ۴۵۹ بھی کرتا ہے امراض جبار روحانی امراض کے علاج انسانیت انسانیت چاہتی ہے کہ انسان خدا کی صفت جبار ۵۵ جسمانی ڈاکٹروں سے ۳۶۳ پاک و صاف رہے الهام امر بالمعروف انعام ۴۱۶۴۱۵ تمام مذاہب کی بنیاد مسئلہ الہام ہا ہے م کشف اور رؤیا کی تعریف العام ال اگر کوئی ابہام اور وحی کو غلط ثابت کر دے تو سیارے مذاہب باطل ہو جائیں گے انہام اور کیکر چولسٹ 10+ امر بالمعروف کی تلقین ۵۲۱ ابتلاء کا انعام چاشنی کیلئے ہے امر بالمعروف کی تلقین حکمت انعام وہی پاتا ہے جو فرمانبردار بن اه سے کرنی چاہیے امور عامه ۵۲۲ کر اور ہدایات پر کاربند ہو کر کار ہائے نمایاں دکھاتا ہے انعامات ۱۵ اس محکمہ نے بہت بڑا کام کیا انسان کو انعامات کا دارت بننے کیلئے پیدا کیا گیا ہے انبیاء ۱۵۱ صیغہ امور عامہ کے فرائض ۴۰۳٬۴۰۲ مخالفین الہام کے دعاوی ۱۵۳ تا ۱۵۸ انعام کی خواہش کیوں منع ہے الہام کی صداقت معلوم کرنے کے طریق ماموروں کے الہام کی صداقت کی علامات انبیاء کے انعامات میں متشابہات ۱۳ IAY 195 انبیاء ابتدائی زمانہ میں دورے انگریز کرتے ہیں مگر پھر ایک مرکز پر ہماری جماعت کو چاہیے کہ اسم انگریزوں کو تبلیغ کریں قائم ہو جاتے ہیں انتظام ۱۹۵ انتظام کا قائم رکھنا ایک ۲۳۸ ایمان ایمان تبھی پیدا ہوتا ہے کہ دنیا ۲۲ م ۵۱۰ ۴۹۵ ۴۹۵
کی تمام محبتیں اس کے مقابلہ نظارت بیت المال کی ترقی میں بیچ ہوں ایمان کی یہ خصوصیت ہے کہ خدا خود سمجھائے بازار ۶۳ ۴۶۴ معجزانہ ہے بیماری بیماری کے وقت انسان کا دل نرم ہو جاتا ہے بیماریاں ۴۷۵ کے ساتھ ہے تاریخ اقوام کی ترقی میں تاریخ سے آگاہ ہونا ایک بڑا محرک ہوتا ہے ۲۴۷ ۲۰۲ تاریخ کی تصحیح کا زریں اصل ۳۰۱۳۰۰ تالیف و اشاعت بازار میں بخشیں فساد کا موجب بہت سی روحانی بیماریاں ایسی ہیں صیغہ تالیف و اشاعت اور ۲۴ جن کا علاج ڈاکٹروں سے کرایا اس کا کام ۳۹۸ 11 ۱۴۶ ۱۴۸ 19 ۵۲۴ ۱۳۸ ۴۰۱ تبلیغ تبلیغ اسلام بہت ضروری فرض ہے عورتیں عورتوں میں تبلیغ کریں ہو سکتی ہیں بدی جاسکتا ہے ایک بدی دوسری بدی کا موجب بنتی ہے ۳۸۸ بدیاں مرید کے حال سے پیر آگاہ کوئی انسان پورے طور پر پاک نہیں ہوتا فلس نہیں ہو سکتا جب تک پیشگوئیاں بدیوں کے تمام پہلوؤں پر اُس کی پیشگوئیاں کیوں ملتی ہیں نظر نہ ہو دسم ۳۵۵ ۵۸۷ سلسلہ کو تبلیغی خدمات کی بہت ضرورت ہے خدا نے تبلیغ کے نئے راستے کھولے ہیں ۵۹۵ ہر احمدی کو چاہیے کہ پیشگوئیوں کی غرض اصلاح بعض بدیاں ایسی پوشیدہ ہوتی ہیں کہ باریک مطالعہ کے بغیر علم نہیں ہو سکتا بیت المال قتل عثمان " کے وقت باغیوں کا بیت المال کو لوٹنا بیت المال کا انتظام ۳۳۲ ۳۹۸ بین اسلام ازم چین اسلام ازم کا خطرہ ایک خیالی خطرہ ہے تبلیغ احمدیت کو اپنا فرض سمجھے تحریک تائد خداتعالی کی تائید کس ۴۳۸ وقف زندگی کی تحریک تربیت تربیت کے بغیر بڑے بڑے کاموں میں نقص پیدا ہو جاتا ہے
تزکیہ نفس تعدد ازدواج تزکیہ نفس کا ایک طریق بُرے تعدد ازدواج کا مسئلہ خیالات کو دور کرتا ۲- کامیابی کیلئے صحیح ذرائع استعمال کیے جائیں ۳- تکرار عمل کی جاوے ۳۷۱ تعدد ازدواج کے متعلق انے لام کے سلام ۰۴ اعمال پر دوام اختیار کرنا ام کے سلام ۵- صادقوں کی صحبت ۶- محاسبہ نفس کا) ے.اوامر و نواہی پر غور ۸- انسان میں مادہ قبولیت ہو ۳۷۵ ۳۳ ۳۸۳ ۳۸۳ مسلمانوں کا برا نمونہ اتعلق ۵۱۲ ۵۱۳ خدا تعالیٰ کے ماننے کیلئے تقدیر کا ماننا ضروری ہے مسئلہ تقدیر کو نہ سمجھنے کا نتیجہ تقدیر کے متعلق مسلمانوں کے غلط عقائد کی بنیاد اس خیال کی تردید کہ ہر جن لوگوں سے ذاتی تعلق ہو تا ایک فعل خدا ہی کراتا ہے ۵۳۷ ۵۴۰ ہے ان کی طرف بخط لکھنے کا خیال تقدیر کے مقابلہ میں تدبیر غلط ہے ۵۵۶ بار بار پیدا ہوتا ہے مسئلہ تقدیر پر صرف لفظی ایمان لانا کافی نہیں تعلق سے محبت پیدا ہوتی ہے تعلقات ۵۶۱ تقدیر کا روحانیت سے بہت بڑا تعلق ہے تعلقات کا اثر انسان پر پڑتا ہے ۴۵۶ تقدیر کی اقسام خدا کی خاص تقدیر کیلئے خاص ۵۵۸ 009 ۵۶۳۵۶۲ 4 جب غلطی بتائی جائے تو اصلاح کی جائے چڑ نا جائز نہیں ۱۰ نا امید نہ ہو.اللہ پر توکل رکھے ۳۸۳ تعلیم ایک ایسی چیز ہے جس شرائط ہیں 047 کسی گناہ کو چھوٹا نہیں کے بغیر کوئی جماعت محفوظ تقدیر خاص کی تفصیل ۵۶۴ ۳۸۷ نہیں رہ سکتی مسئلہ تقدیر کے متعلق ذوقی باتیں ۵۶ تقدیر کا تعلق اسباب سے ۵۶۵ مذاق اور قابلیت کے مطابق تقدیر کے ساتھ مخفی اسباب ۵۶۸ م کھنا چاہیے تصنیف تصنیف کا کام کرنے والوں کیلئے خاص احتیاطوں کی ضرورت ۲۵ تعلیم کا انتظام کریں تعلیم و تربیت تقدیر خاص بلا اسباب تقدیر کا تعلق اعمال انسانی سے ۲۷ صیغہ تعلیم و تربیت کے فرائض ۴۰۲٬۴۰۱ تقدیر کس طرح مل سکتی ہے تصنیف کا اثر اعصاب پر پڑتا ہے تصنیف کا تعلق دماغ سے ہے تصنیف کیلئے نرم لباس نرم غذا اور تنہائی کی ضرورت ۲۷ ۲۷ تقدير مسئلہ تقدیر ایمانیات تقدیر کے ٹلنے کا پیشگوئیوں تعلق تقدیر مبرم سوائے خاص حالات میں سے ہے ۵۳۳٬۵۳۲ کے نہیں تلا کرتی ۵۷۱ ۵۷۴ QAT ۵۸۵ ۵۹۱
A تقدیر کے متعلق بعض شبهات کا ازالہ مسئلہ تقدیر کے غلط سمجھنے کے نقصان تقدیر ایمان کی تقویت اور تحمیل کا ذریعہ اگر تقدیر الہی جاری نہ ہوتی تو کیا نقصان ہوتا ۵۹۹ اصلاح اعمال کی تلقین ۲۲۵ تا ۲۴۳ | ہماری جماعت میں - سینکڑوں ایسے لوگ ہیں جن سے خدا نے کلام کیا ایک گنہگار کی توبہ کا واقعہ ۶۰۳ تا ۶۰۷ توبہ کی سات شرائط Iry ۳۶۶۳۶۵ جماعت احمدیہ میں جوش ما جماعت احمد یہ کیلئے ایک تو بہ کرنے کا وقت خاص طور پر خطرہ کی نشاندی ۱۶۸ ۱۶۷ کام کرنے کا وقت ہوتا ہے جماعت احمد یہ ترکوں سے تو قتل کی دو اقسام ۱۰۷ تا ۶۱۵ ہمدری رکھتی ہے ۳۳۵ ج جماعت احمدیہ کے اندرونی مخالفین CAL جذبات جذبات ابھارنے سے بڑے بڑے کام ہو جاتے ہیں ۴۵۵ جذبات کا اثر جنت اس مقام کا نام ہے جس پر کبھی فنا نہیں آنے والی ۴۹۸ ۳۵۵ ۶۱۵ روحانیت کا قیام اور اس کی ترقی تقدیر خاص سے وابستہ ہے تقدیر خاص کی اہمیت اور ضرورت ۶۱۴۳۶۲ تقدیر پر ایمان لانے سے روحانیت کے سات درجے طے ہوتے ہیں تقدیر پر ایمان توکل کا درجہ حاصل کرنے کیلئے ضروری ہے آجاتے ہیں تقریر پر قائم رہنا بہادری ہے جذبات علم اور تجربہ پر غالب جنت اوبیت کا جلوہ گاہ ہے ۴۵۶ ٢٥٦ جنت میں تجلیات الیہ اعلیٰ پیمانہ J مسلمانوں کے نزدیک جنت جذبات کا مقابلہ کرکے صداقت پر ہوتی ہیں تقریر سننے سے زیادہ اثر ہوتا ہے پڑھنے سے نہیں تقوی ۲۳۵ اجماعت جماعت قارین کو نصائح جماعت قادیان کو اطاعت امیر ٢٨٩ تقویٰ سب نیکیوں کی جڑ ہے ۴۸ کی نصیحت تقوی اللہ حاصل کرتا ایک ضروری چیز ہے تاقین A جماعت احمدیہ جماعت احمدیہ کا گورنمنٹ برطانیہ سے جنگ میں تعاون دا کا نقشہ صلیبی جنگوں کی وجوہات جوش ٤٩٩ ۵۰۰ A جوش بھی خدا کی ایک نعمت ہے ۱۳۳ جوش کے دو نتائج انسانی جوش اگر با قاعدہ استعمال ا قادر استمال ۱۳۴
کی علامت ہے خلافت خلفائے قدیم وھاں کے کاموں میں فرق کیا جائے تو بے نظیر تغیرات خاص سلوک کا حامل ہے مسلمانوں کا بے قاعدہ جوش اپنوں کو نقصان پہنچانے کا موجب بنا جھگڑا ۱۳۴ ۱۳۵ خاص سلوک خاص ہی لوگوں ۵۷۵ خلافت اور امارت میں فرق سے کیا جاتا ہے حمن ختنہ کی اہمیت ولایت میں ایک نو مسلمہ لڑائی جھگڑے کے نقصان کے بچے کا ختنہ حاکم ریم ختنہ کا اجراء یورپ حاکم سے بغاوت نہیں کرنی چاہیے میں اسلام کیلئے خاص برکت حائمہ کی اطاعت ضروری ہے کا موجب ہوگا حدیث النفس خدائی حدیث النفس کی پیچون ۱۷۵ خدائی کا دعوی کرنے والے حدیث النفس والا ہلاک نہیں ہوتا حرکت ۱۷۵ A ۴۸۳ ۴۸۷ خلیفہ وقت کے مشاغل خلافت راشدہ کے زمانہ کی تاریخ کا حضرت مصلح موعود نے خاص طور پر مطالعہ کیا خلافت اسلامیہ ایک مذہبی انتظام تھا اسلام کی ترقی خلافت سے وابستہ تھی لوگوں کے بلاک نہ ہونے کی وجہ ۱۷۴ خلافت راشدہ میں اٹھنے خدمت دین والے فتنوں کے بواعث ۲۵ تا ۲۷ ۲۲ ۲۶۲۵ ۲۵۵ ۲۵۹ ۲۵۴تا۲۶۰ سلطان ترکی خلیفہ المسلمین نہیں ۴۳۴ اس وقت بھی خدمت دین کرنے ا مسیح موعود" کے خلفاء کے ، ثمن کوئی حرکت ضائع نہیں ہوتی ٢٢٦ والی عورتوں کی ضرورت ہے خدمت دین کا کام ہمیشہ ناکام رہیں گے خلافت احمدیہ پر خدا کے فضل ١٦ ۴۱۸ حکومت کیلئے ہے مسئلہ خلافت اور غیر مبائعین ۴۸۸ جس حکومت کے ماتحت رہواس حضرت ابراہیم کو اُن کی دینی فی اطاعت میں فرق نہ آنے دو مظلومتِ برطانیہ کے جماعت پر احسان خواب خدمات کی وجہ سے خاص برکت دی گئی خشیت الله خ خشیت اللہ کا ہونا صداقت خدا کی طرف سے جن لوگوں کو کثرت سے خواب آتے ہیں وہ ہمیشہ مرد ہیں شیطانی خواب کے پورا MAM
۵۳ ۱۲۲ ۵۲۴ ۳۲۹ |+ ہونے کی وجہ ۱۶۹ خیالات ایک سے دوسرے شیطانی اور رحمانی خواب میں فرق ۱۷۰ کے دل میں پیدا ہوتے ہیں رحمانی خواب کی تائید خدا تعالیٰ دوسری جنسوں میں بکثرت پیدا کرتا ہے ١٧٢ ونها رحمانی خوا ہیں مرکب ہوتی ہیں شیطانی خواب کی پہچان رحمانی خوابوں کی پہچان رحمت کی خواب ابتلاء کی خواب جبیزی خواب دلداری کی خواب تحضیضی خواب و ۱۷۲ تمہارے لیے دعائیں کرنا ៤៩។ 122 129 IAL ۱۸۲ میرا فرض ہے درو دل سے دعا مانگا کریں کہ اسلام کو ترقی ہو د میر : رائع کے قبول نہیں ہوتی دعا میں استقلال ۳۳۳ ۲۶ ۴۵ ۳۵۱ ۳۸۵٬۳۸۴ کرنے کا نتیجہ ہے دیدار الہی خدا کا دیدار کس طرح ہو سکتا ہے؟ ز ذمہ داری جب کوئی انسان اپنی ذمہ داری کو سمجھ لے تو اُس کا دل بہت مضبوط ہو جاتا ہے تبشیری خواب خواہیں بند ہونے کی وجہ IAM ۵۰۹ قیدی صحابی کی دعا سے رہائی دعوت الی اللہ رجوع رجوع الی الحق کے کئی منذر خواب کی حکمت ۵۹۵ دعوت الی اللہ ہر احمدی درجے ہیں خیال کا فرض ہے (نیز دیکھئے " تبلیغ) ۴۲۶ رشتہ ناطہ اگر کوئی ناپاک خیال آئے تو ول غیر احمدیوں کو رشتہ نہ دو اُس کو دل میں پھیلایا نہ جائے ۳۶۸ ہر ایک انسان کا دل اس کے کاموں پر گواہ ہوتا ہے دلائل جذبات ابھارنے والے دلائل اور باتیں زیادہ اثر کرتی ہیں دہریت دہریت صفات اللیہ پر غور نہ ۸۰ ۳۹۸ رعب زعب ایسی چیز ہے کہ اس کی بناء پر حکومتیں قائم رہتی ہیں رنجیده معمولی باتوں پر رنجیدہ نہیں ہونا چاہیے ۳۶۹ ۳۶۹ جب کوئی برا خیال آئے ای وقت کسی اچھے شغل میں مشغول ہو جانا چاہیے دنیا میں جس قدر بھی کام ہو رہے میں وہ سب خیال کا نتیجہ ہیں خیالات
1 ۲۹۲ ۲۹۳ ٢٩٦ ۳۶۶ ٥٨٠ ۱۳۹ ۵۱۵ ស។ رو شرک کی رو شرک کی رو سے توحید کی کرو کا مقابلہ انسان کے دل میں پیدا ہونے والی کوئی رو ضائع نہیں جاتی ۲۲۸ ۲۲۹ ۲۳۰ رسول کریم کی توحید کی رو کا اثر ۲۳۰ ایک کے دل سے نکلی ہوئی رو دو سرے کے دل پر کس طرح اثر کرتی ہے قلب کی کرو ساری دنیا میں پھیلتی ہے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ ٢٣١ ۲۳۸ رؤیا و الهام کے مخالفین چار قسم کے لوگ رؤیا والسلام کے مخالفین کے دلائل رویا کے مخالفین کی تحقیقات کے مفید نتائج رؤیا الهام کشف سب اقسام وحی ہیں ۱۵۲ 109 ۱۶ سازش مفسدوں کی ایک اور سازش سازش کا انکشاف مفسدوں کی ایک گہری سازش استاری (1) انسان کو چاہیے کہ اپنی رویا دیکھتا کسی بات نہیں ۱۹۷ ستاری آپ بھی کرے رویا کی قسمیں اور ان کے مدعی ۱۷۳ رؤیا کے مدعی چار قسم کے لوگ ۱۷۳ سچائی رؤیا الہام کے ساتھ ایک خطرہ سچائی ایک تلوار ہے IAM بھی لگا ہوا ہے اسمی رویا میں رسول کریم کا حضرت سمی انسان کے ایمان کو مضبوط کرتی ہے عثمان کو فرمانا کہ آج شام روزہ ایک گائے کی قربانی سے سکھوں نے سات ہزار آدمی مردائے سوالات بیہودہ سوالات کرنے والوں کو بدایت نصیب نہیں ہوتی شود مسئله شود سود کے جواز کے حیلے شور سے روکنا اسلام کے ۳۲۹ ۳۹۸ ۲۲۵ چلی ہوئی کرو Tra ہمارے ساتھ کھولنا روایات رؤیت اختلاف روایات کی حقیقت جنت کا سب سے بڑا انعام روح رویت باری تعالی ہے روح کی ربوبیت کے سامان ۵۷ ز روحانیت زندگی انسان اور حیوان کی زندگی میں فرق س ۱۲۴ اها روحانیت اور تقویٰ کا حاصل کرنا نہایت ضروری ہے رویا رؤیا الهام کشف کی تعریف
اعلیٰ ترین احکام میں سے ہے ۵۱۶ صحابہ دہ ارکان دین تھے جن کی صالحین کی صحبت میں بیٹھنے کا حکم ۲۳۳ شود کے نقصانات ۵۱۷ اتباع روحانی مدارج کے حصول b سود ہی ہے جس نے چند ہاتھوں کیلئے خدا نے فرض کی تھی میں دولت کو دے دیا ۵۱۸ صحابہ" کے اموال غرباء کی کفالت اسلام نے سود کی کیوں ممانعت کی؟ اور خبر گیری میں صرف ہوتے ۲۵۵ ٢٥٦ طاقت اگر پچھلا حساب صاف کر لیا جائے ۵۱۹ صحابہ " کا کام ان کی محنت اور تو آئندہ کام کرنے کی طاقت پیدا قربانی دوسرے لوگوں سے بڑھی ہو جاتی ہے سیاست آجکل کے تعلیم یافتہ مسلمانوں کا ہوئی تھی صحابہ کی نسبت بد گمانی نصف وقت روزانه سیاسی بلا وجہ ہے معاملات میں خرچ ہوتا ہے 11 صحابہ اپنے اموال ہمیشہ خدا جماعت کو سیاست میں دخل نہ دینے کی نصیحت کی راہ میں تقسیم کرتے تھے ۲۵۶ ۲۵۶ MYA ٣٦٨ طاعون طاعون کے بارہ میں احتیاطیں اعه ع AчCAP صحابہ کی مفسدین کے خلاف جنگ پر آمادگی ش فتنہ فرد کرنے کیلئے صحابہ شجاعت کی مساعی جنگ بدر میں دو بچوں کی شجاعت ۵۸۱٬۵۸۰ صحابہ کی مفسدوں سے سے لڑائی ایک احمدی کا شیعہ سے مکالمہ رحیم ص ۴۶ صحابہ کو حضرت عثمان " کی عارف بالله ۳۱۳ عارف باللہ وہ ہوتا ہے جو خدا ۳۲۱ ۳۲۶ کو پہچان لیتا ہے عالم ظاہری لکھنے پڑھنے کے بغیر بھی نهم هم هم انسان دین کا عالم ہو سکتا ہے خلافت پر کوئی اعتراض نہ تھا ابتداء میں صحابہ" میں پڑھے لکھے کم تھے اعيد پیدائیش انسانی کا مقصد صحبت صالحین خدا کا عبد بنتا صحابه صحابہ نے کس طرح درجے حضرت مسیح موعود اور حاصل کیے صحابہ کرام جوش کے ساتھ ۴۹۵٬۴۹۴ خدا کا عبد بننا بہت بڑا انعام ہے ۴۹۵٬۴۹۴ حضرت خلیفہ اول کی صحبت میں خدا کا عبد بنے بغیر انعام بیٹھ کر خود بخود سوال حل حاصل نہیں ہو سکتے ۱۳۸ انسان جب تک اپنے آپ جانیں لے کر میدان میں نکلے ۱۳۵ ہوتے جاتے تھے ۴۹۵
My+ ۳۶۰ f የረ ۳۸۹ ۳۸۹ ۳۸۹ ۱۳ عرفان الهی عرفان الهی عرفان الہی ہر انسان کیلئے ضروری ہے علم اور عرفان میں فرق فکر نمور اور مدیر کے بعد انسان ٣٣٩ ٣٩١٠ کو خدا تعالی کی بستی کا علم حاصل م ۳۴۳ ہو اور وہ اپنے رب کو پہچان سم سمسم لے.یہ عرفان الہی ہے عرفان غور اور فکر سے حاصل ہوتا ہے عرفان الہی کے معنی...بنده خدا ار تکاب گناه عرفان الہی کے حصول کا ذریعہ.اخلاق الهيه عرفان انہی کی پہلی شرط تو به خیالات میں پاکیزگی پیدا کرنے کا نتیجہ عرفان الھی ہے عرفانِ الہی کے سلسلہ میں حضور " کا ایک ارشاد عرفان الہی کے درجے عرفان انہی کیلئے نوافل ادا کرنے ضروری ہیں لام السلام کام عرفان والھی کی دو علامتیں کی صفات کا مشاہدہ کرے عزت م هم م 이 ۵۰۱ 이 ۵۰۱ ۵۰۳٬۵۰۲ ۵۰۴٬۵۰۳ ۵۰۳ ۵۰۴ کو فنا نہیں کر دیتا خدا کا عبد نہیں بن سکتا خدا کے عید کی شان خدا کا عہد بننے کیلئے اپنی کوششوں کو بڑھاؤ عید کے دو فرائض سخت محنتوں اور مشقتوں سے انسان عبد بن سکتا ہے انانیت مٹائے بغیر انسان عبد نہیں بن سکتا بغیر اپنے نفس کے ماردینے کے کوئی عبد نہیں بن سکتا عبد بننے کا پہلا ذریعہ عہد بننے کیلئے عقائد کی اصلاح باجماعت نماز کے بغیر کوئی انسان خدا کا عید نہیں بن سکتا مجب ۵۰۶ ۵۰۸ م عرفان الہی کے حصوں کا طریق عزت خدا کے آگے تذل عرفان الہی کے معنی خدا کی پہچان ۳۴۶ اور انکسار میں ہے عرفان الہی بڑی محنت کے بعد حاصل ہوتا ہے جو ظاہری طور پر آقا کی خدمت عرفان الہی اپنے نفس کو مٹا؛ بینے نہیں کرتا اُس میں عجب اور تکبیر سے حاصل ہوتا ہے پایا جاتا ہے ۳۴۹ ۳۵۱۳۵۰ ۵۰۷ عرفانِ الہی کا تعلق قلب سے ہے ۳۵۴ مسجد میں نماز پڑھنے سے مجب عرفان ائی خدا کے پالینے عرفان انہی کیلئے خدا سے زور ہوتا ہے ۵۰۷ کو کہتے ہیں عربی عربی کی تحصیل ضروری ہے مشارکت پیدا کرد عرفان الہی میں روک.۳۵۵ ۳۵۶ عشق خدا سے عشق کرنا کوئی آسان کام نہیں عصا ۲۲۱ مفسدوں کا عصائے نبوی کو توڑنا ۳۱۴٬۳۱۷ عقیده کسی عقیدہ پر انسان کو مجبور کرنا ظلم ہے ۴۶۳
۳۵۳۴ ۳۴ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ام ۴۲ ۴۵ ۴۲۵ ۵۶۵۵ MAI ۱۴ تحصیل علم پر کیوں زور دیا جاتا ہے علم بہت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے کوئی علم نقصان رساں نہیں ہر ایک علم مفید اور ١١٣ ۱۱۴ کو سکھایا جائے ۱۳۹ جنگ اُحد میں ایک بڑھانے سے علم بڑھتا ہے ۱۴۰ عورت کا اخلاص حصول علم کا طریق.اخبارات سب سے پہلے جو حضور پر ایمان اور رسائل کا مطالعہ علماء ہمارے علماء کو خدا نے وہ موقی ۱۴۳ لائی وہ ایک عورت تھی عورتوں کا اہم امور میں مشورہ دیتا عورتوں کا دین سے واقف ہونا ضروری ہے ۱۱۵ دیئے ہیں جن کا کوئی نعمت فائدہ بخش ہے ۱۱۷ مقابلہ نہیں کر سکتی علم کیلئے محنت کی ضرورت ہے کسی علم کا حاصل کرنا ہر مردد عورت پر فرض ہے ہار لئے علم دین سیکھنا ضرور کیا ہے خد اتعالیٰ کا دیدار علیم دین سے ہی ہو سکتا ہے ۱۳۰ جس قدر وسعت علماء کی محبت عورتیں کیا کرتی رہی ہیں ۱۱۹ ۱۲۰ میں رہنے سے ہو سکتی ہے وہ کسی عورتیں دین کی خدمت اور طریق سے نہیں ہو سکتی ۱۲۱ ۱۲۲ علماء وفات مسیح کے نئے دلائل ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۲۳ مہیا کریں عمل بندہ کا عمل خدا کے رحم کو جذب کرتا ہے علیم دین کی دو قسمیں ظاہری علم کے بغیر باطنی علم نہیں آسکتا علیم قرآن کسی طرح حاصل کرنا چاہیے ۱۳۱ علم دین سیکھنے کا طریق.مرکز عورتوں کا مذہب ے تعلق دینی علوم کیلئے مرکز اور امام سے رابطہ کی اہمیت ۱۳۵ ۱۳۸ ۱۳۷ کرتی رہی ہیں عورتیں شرک میں مبتلاء ہیں عورتیں نماز کو مصیبت کجھتی ہیں عورتیں دعائیں کریں عیسائی عورتیں مذہب کیلئے قتل ۵۷۹ ہونے کی پرواہ نہیں کرتیں عورت غ عورتوں کو ضروری نصیحت ۳۱ غور و فکر ۳۲ غور و فکر کرنے کا نتیجہ عورتوں کو مذہب کی ضرورت اعلیٰ لکھتا ہے عورتوں پر بھی شریعت ایسی ہی عائد ہوتی ہے جیسے مردوں پر ۳۲ علم سیکھنے کا طریق- درس قرآن متقی عورتوں کا ذکر قرآن میں ۳۳ غیبت کی حقیقت اسلام میں کو عورتوں کی خدمات ۳۴٬۳۳ ۱۳۹ میں شمولیت جتنا علم خود آتا ہے بیوی بچوں
۱۵ غير مبائعين ہماری نیتوں پر غیر مبانعين کے حملے غیر مسائعین کو جماعت احمدیہ سے کیا نسبت؟ غیر مبالعین ہر طرح سے مقابلہ کر لیں ف ۴۹۱ ۴۹۱ قرآن کریم خداتعالی کا کلام ہے قرآن کریم کی خوبیاں قرآن کریم اپنے اندر خوبیاں اور برکات رکھتا ہے قرآن کریم سیکھنے کا موقع ۱۳۸ IPA قرآن کریم سیکھنے کی بہت ۱۳۰ ۱۲۹ ۱۳۱ قلوب کی اصلاح سے اشاعت اسلام میں آسانی کار کن ک کارکنوں کیلئے دعائیں کریں قرآن میں سے نئے نئے معارف کامیابی نکلتے رہتے ہیں جلد کوشش کریں بڑے فتنے زور کرنے کیلئے بڑی کوشش کی ضرورت اسلام میں فتنوں کے اصل موجب صحابہ نہ تھے ۴۵ ۲۵۰ آغاز اسلام کے فتنہ کی چار وجوہ ۲۵۴ قرب کا اثر ٢٥ قضاء و قدر محکمہ قضاء میں وسعت قضاء و قدر کی اہمیت انیز دیکھئے "تقدیر") فرائض مقامی جماعت کے فرائض ۲۶ قلب کی اصلاح سب سے ق ضروری ہے قرآن قلب کی صفائی کے طریق صفائی قلب کا نتیجہ قرآن کریم جیسے مردوں کیلئے ہے ویسے ہی عورتوں کیلئے ہے قرآن کریم کی صداقت قرآن کریم کے بعد کوئی شریعت نہیں آسکتی ۳۲ ۵۷ ۶۰ ۲۳۴ ۵۳۱ ۲۳۷ ۲۳۹ کامیابی کیلئے صحیح کوشش شرط ہے ۳۵۲ کامیابی کے دو اصول ۳۵۴ مسئلہ کفر کا حل اگناه خدا کی ربوبیت کا یقین گناہوں کو دور کر دیتا ہے ارتکاب گناہ کی تین قسمیں ۲۴۰ ار تکاب گناہ کی ایک وجہ - جوش ۲۴۰ گناہوں سے بچنے کا علاج قلب کی صفائی کے ساتھ ظاہری اول تدبیر گناہوں سے بچنے کی یہ صفائی بھی ضروری ہے قلب صاف ہو جانے کے بعد کیا ہو گا ۲۴۱ ۲۴۱ ۲۱ ۵۳ ۳۶۱ ہے کہ پچھلا حساب صاف کرتے ۳۶۴ مختلف گناہوں کی تعریفیں کی طرح معلوم ہوں ۳۸۲
۲۳ 14 کناہ کی تعریف دوسروں کے اعمال کو مد نظر رکھ کر کرنی چاہیے گورنمنٹ خدائی گورنمنٹ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے گورنمنٹ کے متعلق ماری خدمات لرو ایک بزرگ کے لڈو کھانے کا طریق ۳۸۲ ۹۶ اعمال کا محاسبہ کرنے کا آسان طریق لیکچروں کی مشق کرد محبت احباب جماعت کا مباہلہ میں ۴۷۴ شامل ہونے کا شوقی مبلغین ۵۴ ۹۸ آپس میں محبت بڑھاؤ جس سے محبت ہو اُس کی بات انسان رہ نہیں کر سکتا مخالفین حضرت مسیح موعود کے.مخالفین کا وجود ہمیں ہوشیار مبلغین کیلئے دعا کی تحریک ۵۲۶ مخالفین کا انجام مجاہدات خدا کو پانے کیلئے مجاہدات ضروری ہیں کرنے کیلئے ہے مدارج وصاب الہی کے بے انشاء مدارج ہیں ۵۳ ง ۴۲۰ ۴۲۹ لہریں روحانی دنیا کی مہریں انبیاء کے وجود کی لہریں حضرت موسی کے زمانہ کی لہر انبیاء کے ذریعہ پیدا ہونے والی ہروں کا اعتراف رسوں کریم" کے زمانہ کی لہر روحانی پیر کا در پرده اثر مخفی لہروں کے اثر کرنے کا ثبوت قرآن میں روحانی پہریں بہت گہری اور پائیدار ہوتی ہیں ۲۲۶ مجددین ۲۲۶ ۲۲۷ ۲۲۸ Frr مدرسہ احمدیہ مجددین کے مبعوث ہونے کی وجہ ۲۳۵ مدرسہ احمدیہ میں آسودہ جاں مجلس لوگ اپنا ایک بچہ بھیجیں مجلس وعظ میں صبر سے مذہب بیٹھنا چاہیے ٩٠ کئی مجلسیں ایسی ہوتی ہیں جن مذہب کو حقیقی طور پر مانا چاہیے میں یونہی بیٹھنا بڑے فائدے کا موجب ہے محاسبه ۲۳۷ محاسبہ کی اقسام ٩٠ مذہب اس راستہ کا نام ہے جو خدا تعالیٰ سے ملاتا ہے مرکز مرکز احمدیت میں بار بار آنا چاہیے
۲۴۹ ۱۳۱ ۲۳۵ ۵۰۳ ۵۰۴ ۴۰۵ 16 مساوات معاملات کی دو شقیں معاہدات Oll غیر مسلم مورخین کی غلط بیانیاں مومن مساجد میں مساوات ۵۰۸ سلمان خدا نے کئی جگہ معاہدات کی مومن کو گزشتہ واقعات پابند کی اور معاملات کو اچھا بھلانے نہیں چاہئیں مسلمانوں کی ترقی حکومتوں کا رکھنے کا حکم دیا مومن وہی ہوتا ہے جس کو مقابلہ کرنے سے نہیں ہوگی ۱۲ خدا کا خوف ہو مسلمانوں نے قوانین مقدسہ معرفت الہی مومن کو احتیاط کرنی چاہیے کو بھلادی مومن وہی ہے جس کی زبان ۲۰ خداتعالی کی صفات اپنے اندر پیدا مومن کی شان اشاعت اسلام مسلمانوں کا فرض ۴۴۷ کرنا معرفت الہی حاصل کرنے مسلمانوں کے دنیاوی مصائب کا سبب سمریزم کیلئے ضروری ہے ۳۵۰ معرفت الہی کے تین طریقے مفد مسمریزم کے ماہرین کا دعویٰ ۱۳۸ مفسدوں کا مدینہ آتا کیا اہل مدینہ مفسدوں مشکلات مشکلات کو مد نظر رکھ کر جو فیصلہ کیا جائے وہ حقیقی فیصلہ ہے مصالح مصالح سفر شمله معاملات ۴۵۸ ۲۵ کے ساتھ تھے مقامات مقدسه مقامات مقدسہ کا ایک چھوٹی اور نظر طمع سے بچی ہوئی سلطنت میں رہنا بہت بہتر ہے منصوب ۳۵۷ For ۲۹۷ اور عمل ایک جیسے ہوں جب تک " میں " نہ جائے خدا تعالی کی حقیقت معلوم نہیں ہو سکتی " میں " کہنے والا عید نہیں سمجھا جا سکتا ناظران ہفتہ میں ایک بار ہر صیفہ کے ناظر کام کی رپورٹ مجھے دیں ناظر بیت المال کیلئے دعا کی تحریک ۴۷۵ نبوت نبوت موصبت ہے مگر ائماں و ۳۰۲ 19 جب تک معاملات کو درست نہ کیا جائے انسان خدا کا عبد نہیں ہو سکتا آپس کے معاملات کیسے ہونے چاہئیں ۵۰۹ باغیوں کے منصوبہ کی اصلیت مؤرخین یور چین مورخین اسلام کے ۵۱۰ اثر کے قائل ہیں
٣٨٨ ۳۸۷ 125 ۵۲۲ ۱۳۸ ۵۷ اخلاص اس کی شرائط ہیں ۲۱۷ سلوک کرو نبی تمام دنیا میں نبی آئے ۵۸ نرم ۱۰۶ ضرور دیتا ہے قادیان والوں کا ادب کریں بیرون از قادیان کا ادب کریں 104 1+1 ایک دوسرے سے محبت اور ادب سے پیش آئیں ایک نیکی دوسری کی محرک ہوتی ہے جب انسان نرم ہو جاتا ہے تو اپنے جوشوں اور جذبات کو دباؤ پھر اس پر کوئی حملہ نہیں کرتا معمولی باتوں پر رنجیدہ نہیں 10 یہ ایک خاص نکتہ ہے کہ نشان اپنے نفس پر کبھی بد گمانی نہیں کرنی چاہیے ہماری صداقت کا ایک اور امتیازی نشان نصائح جماعت قادیان کو نصائح جماعت قادیان کو اطاعت امیر کی نصیحت جماعت قادیان دوسروں کیلئے نمونہ بنے جزوی اختلاف سے مواخات میں فرق نہ آئے 100 TACIA ۲۲ ۲۲ ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاق دکھاؤ محبت اور پیار سے سے نصیحت کرد اگر کسی میں شرعی کمزوری ہو تو بھی نرمی سے سمجھاؤ صفات الیہ اپنے اندر پیدا کرد خدا کے ہر حکم کے آگے اپنی گردن جھکادو نماز 川 ۳۵۶ وحی جھوٹی وحی کی پہچان وعظ لوگوں کو برائیوں سے بچنے کا وعظ کرنا بہت ضروری ہے نماز میں عورتیں نست وقف زندگی ۲۸۴۲۷ نظر آتی ہیں عورتوں کو ضروری نصیحت ۳۱ نماز یہ ہے کہ اللہ کے سامنے فروتنی دکھائی جائے ام خدمت دین کیلئے زندگی وقف کرنے کی تحریک ۴۲ ی یہود یہود نے حکومت کے خلاف منصوبے کئے مدینہ کے یہود کا قتل ۵۰۸ ٢٣٦٠ تمام لیکچروں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کیا کرو اپنے اوقات کو ضائع نہ ہونے دیں تم انسانیت اور مراتب کے لحاظ سے ایک دو سرے سے ۱۰۲ باجماعت نماز کی تاکید ١٠٣ نیت نیت اور عمل میں فرق نیتوں کے پھل خدا تعالی پھل خداتعالی
۵۴۶ ۵۴۷ ۲۱ ۵۹۵ ۶۰ ۵۸۴ ۸۹ ۵۳۸ ۱۳۷ ۵۰۴ ۱۹ الفاتحة بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (۷۱) آیات قرآنیہ إِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَيْنَ مَاتَكُونُوايُدْرِكُكُمْ اوْ تُخْفُوهُ (۲۸۵) (29) 720 مَا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ....(۸۰) أُولَئِكَ هُمُ الْكَافِرُونَ...۵۳۴۳۹۵٬۳۳۹ آل عمران الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (۳) البقرة وَمَايُضِلُّ به...(۲۷) وَلَا تَشْتَرُوا بِايَتِي ثَمَنًا قَلِيلاً (۴۲) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ..۵۳ (۳۳۳) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْل اللَّهِ...(1+1) 71 كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ..(111)4+1 ۳۳۰ ۱۳ فَسَيَكْفِيكَهُمُ الله (۱۳۸) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (102) كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (۱۸۴) ۶۱۷ I⚫A (۱۵۳) ٣١٩ رُسُلًا مُّبَشِّرِينَ و...(۲۲) المائدة ۵۲۰٬۳۲۸۴۱۲ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلا رَسُولٌ...(۱۴۵) نام نام (۴) يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ..(۱۳) قُلْ لَّوْ كُنتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ...وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (100) ۵۳۸ الَّذِيْنَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ....(۲۸) ۵۴۸ لَيْسَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا...وَلَيْسَ الْبِرُّبانُ تَأْتُوا البيوت..(١٩٠) ٣٧١ النساء الْفِتْنَةُ أَشَدُّمِنَ الْقَتْلِ (۱۹۳) ۵۳۸ لا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ (۴۳) وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ الله...(۱۷۴) (۹۴) ۳۸۵ الانعام ۵۴۰ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُل (1) اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا (۲) وَمَا قَدَرُوا الله (۱۳) هم (۲۰۷) ۳۸۳ فَلْيُقَاتِلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ...اَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا (۱۳۲) تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا (۳۵۴) ۲۱۶ (AIC 20) ۹۰۰ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي و...(۱۹۳) ۶۰۴ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرَّبوا مَتَاعُ الدُّنْيَا قَلِيلٌ (۷۸) ۵۱۸ (۲۷۷۲۷۶)
۵۹۶ ۱۲۲ 1040 ۲۰ الاعراف وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ...(199170) ۵۲۲۵۲۱ (۹۲) ۵۲۹ مَا مَنَعَنَا أَنْ تُرْسِلَ (۲۰) إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ...وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى (110) السْتُ بِرَبِّكُمْ (۱۷۳) ٢٩٦ الرعد وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَا (۱۷۷۱۷۶) ۱۸۴ الانبياء إِنَّ اللهَ لا يُغَير.(۱۲) ۴۴۸ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَاتِي.وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ...إِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ..(۳۸) (۱۸۰) orritar ابراهيم (۴۵) ۲۰۱ النور لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَلَا تَقْبلُوالَهُمْ...(۵) التوبة قُلْ أَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا (۵۱) وَمَا كَانَ اللهُ لِيُضِلُّ.(۱۵) كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (۱۱۹) ۲۳۳ الانفال فَلَمْ تَقْتُلُوهُمْ وَلَكِنَّ (۱۸) مَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ..(۳۴) (A) QA ۵۲۴ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ.(۳۳) ۴۶۵ الحجر ۱۴۷ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا...(01) وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى..(۱۰۰) ۳۷۴ الفرقان النَّحل ۲۲۰ ۳۷۵٬۳۱۹ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا...وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا...۵۴۳ (۳۷۳۶) ۶۰۱ ۵۳۱ وَلَا تَكُونُوا كَالَّتِي...(۹۳) ۳۷۵ (۳۱) الشعراء يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا...(۱۹) ۳۷۵ بنی اسراءیل لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ...(۳) ۳۵۵ كُلا تُمِدُّ هَؤُلَاءِ وَهَؤُلَاءِ القصص يونس قَالَ مُوسَى رَبَّنَا..(۸۹) (۲۱) ۵۴۶ هود ۵۳۹۱۶۳ فَالْتَقَطَةٌ أَن فِرْعَوْنَ (۹) إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ..(۳۳) ۵۴۹ عَسَى أَنْ يَنْفَعَنَا...(۱۰) فَلَا يُسْرِفُ فِي الْقَتْلِ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ...۵۴۵ ۵۴۵ وَلَوْلَا رَهْمُلكَ لَرَجَمْنَكَ (۳۴) (۸۶) ۵۴۹٬۵۴۸ ۵۶۵٬۲۷۳
۳۱۹ ۲۱۷ ۲۱ العنكبوت أَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ تُتْرَكُوا...(۳) مَا يَشْتَهُونَ (۵۵) فاطر ۶۱۴۵۸٬۳۲۳۴ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ..(۳) ۲۱۶ فِيهَا نَذِيرُ (۲۵) وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (۷۰) الروم إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ...۴۰ (۲۹) ۳۲۲ الحجرات يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوانُ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ (۷) ٥٧ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ...۵۷ ۱۲۰ (IC) كَانَ حَقًّا عَلَيْنَا..(۴۸) ٥ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ تَوْصِيَةً...ا لَقَدْ كُنْتَ فِي غَفْلَةٍ...(۲۳) السجدة (01) الذريت يُدَيرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء..الصفت ذُكِرْ فَانَّ الذِّكْرَى...(۳) ۵۵۶ قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ (۶۳۵۶) ۴۷۱ وَلَوْ شِئْنَا لَا تَيْنَا.(۳) (۹۶) ۵۹۸ ۵۳۲ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ الاحزاب وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ وَالْإِنْسَ إِلَّا (۵۷) ۵۳۳٬۱۶۳ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا..(۹۷) ۵۴۱ النجم (IFCI+) ۵۷۰٬۵۷۹ | المومن وَالنَّحْمِ إِذَا هَوَى..(۱۹۵۲) ۱۴۷ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي كَذَلِكَ يُضِلُّ الله (۳۵) مَاضَلَّ صَاحِبُكُمْ (۳) ۳۴۸ رَسُول الله..(۲۲) ۳۴۸ ۶۲۸٬۳۸۹ ۲۱ يُقَوْمٍ مَالِي ادْعُوكُمْ...وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلا..(۵۴) القمر (۳۲) الفتح إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ.يُبَايِعُونَ الله (1) (۳۳) ۳۱۹ MAY مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ...(۲۴) سبا وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ
I⚫A ۶۰۰ ۶۰۰ ۲۲ الرحمن الصف الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ (۳۴۲) مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ..(۲۰تا۲۳) وَلَهُ الْحَوَارِ الْمُنْشَفْتُ (۱۰) ۵۶۳ الطلاق وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَلُ...عَبَسَ وَتَوَلَّى (۳۲) التكوير ۲۶۰ فَأَيْنَ تَذْهَبُونَ (۲۷تا۳۰) وَمَا تَشَاءُ وُنَ إِلَّا أَنْ يَّشَاءَ اللَّهُ (۳۰) (۲۵) هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ...(۲) المجادلة يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ الله (۷) كَتَبَ الله لَا غُلِمَنَّ أنا...(۴۲) ง 121 (۳۴۳) ۱۴ الحاقة وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ...(۴۸۲۴۵) المزمل إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا...۵۳۱ ۱۷۴ الفجر فَادْخُلِي فِي عِبْدِى وَادْخُلِي جَنَّتِي (۳۱۳۰) الضُّحى ۴۹۹ وَوَجَدَكَ ضَالًا فَهَدَى (۸) ۳۴۷ النَّاس ی ۲۳۳ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ۲۱۳ (IM) عبس ٣٣ الحشر كَمَثَلِ الشَّيْطَنِ إِذْ (۱۷)
۱۸۹ ۲۲ ۲۷ ۵۹ ۶۹ ۱۳۹ ۲۳ احادیث ق ی اَبَوَاهُ يَهُودَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ ٢٦٣ قَدْ عَلِمْتُمْ أَنِّي أَتْقَاكُمْ يَرَاهَا الْمُسْلِمُ أَو تُرى لَهُ اعْمَلُوا مَا شِئْتُمْ الْعِلْمُ عِلْمَانِ عِلْمُ الْأَبْدَانِ وَعِلْمُ الْأَدْيَانِ انَا سَيدُ وُلْدِ ادَم ۶۲۷ ۲۱۱ اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ...۳۷۳ انْصُرْ أَخَاكَ ظَالِمًا أَوْ مَظْلُومًا ۵۲۱ لِلَّهِ وَاصْدَقُكُمْ ک كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ ٢١٦ احادیث بالمعنى اگر تیری قوم کے ابتلاء میں يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَا سَمِعَ ۲۱۳ آجانے کا اندیشہ نہ ہو تو...روزہ نہ رکھنے والے روزہ رکھنے كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ...۳۵۲ والوں سے اجر میں بڑھ گئے إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِفْضِنِي هَذَا قَوْمٌ で جَفَّ الْقَلَمُ خ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ وَنَحْنُ نَتَنَازَعُ فِي الْقَدْرِ b ٢٥ لَا يُؤْمِنُ عَبْدٌ حَتَّى يُؤْمِنَ ۶۰۲ ۵۳۵ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بالتُريَّالَنَالَهُ رَجُلٌ مِّنْ...لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى حَيَّيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا..۵۳۲ ۴۲۳ ۲۱۱ مجھے پانچ باتوں میں فضیلت دی گئی خدا ہر زمانہ میں ایسے لوگ بھیجے گا جو خدا سے کلام پاکر لوگوں کی اصلاح کریں گے دنبال اسلام کو مٹانے کیلئے کھڑا ہوگا ایک جماعت ایسی پیدا ہوگی کہ مَنْ لَّمْ يُؤْمِنُ بِالْقَدْرِ جو تم سے لمبی نمازیں پڑھے گی ۵۳۲ اگر تم اس آگ میں کودتے تو خَيْرِهِ وَشَرِه...سیدھے جنم میں جاتے ن جو شخص خدا کیلئے کسی سے محبت نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ کرتا ہے قیامت کے دن خدا کا سایہ اُس پر ہوگا قرآن کریم ایک حُمت اور غلبہ ہے ۴۸۸ هَلْ شَقَقْتَ قَلْبَهُ 114 ۲۱۸ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ وَمُؤْمِنَةٍ فَيَرْغَبُ نَبِيُّ اللَّهِ عِيسَى وَأَصْحَابُهُ
۵۰۵ ۵۱۳ ۵۱۶ ۵۱۶ ۵۳۳ ۵۳۳ مجھے لیلۃ القدر کے وقت کے متعلق بتایا گیا ڈراؤنی خواب شیطان کی طرف سے ہوتی ہے یونس اور موسیٰ پر مجھے فضیلت مت رو ابو بکر اس چیز کی وجہ سے فضیلت رکھتا ہے جو اس کے دل میں ہے سلام ۴ آئے تو انسان اس پر عمل ۱۶۵ نہ کرے 179 نماز میں نہیں پڑھتے اُن کے ۳۷۰ گھر قبریں ہیں خدا اس کا عیب چھپاتا ہے جو جو شخص دو بیویاں کر کے ان سے دوسرے کا عیب چھپاتا ہے ۳۸۱ مساوی سلوک نہیں کرتا ان دو قبر والوں کو چھوٹی باتوں قیامت کو اُس کا آدھا دھڑ ہوگا ۱۹۷ سے عذاب ہو رہا ہے ۳۸۸ تو کسی سے سود نہ لے نوافل کے ذریعہ انسان مقرب سود لینے والا اور دینے والا جنم بن جاتا ہے کہ خدا اُس کے ہاتھ میں ہوں گے ۲۳۷ پاؤں اور اس کی زبان مسلمان کا قتل کرنا گھر ہے ۶۲۶۴۳۸۹ جو شخص کسی غیر قوم کی طرف صف سیدھی کرو ورنہ تمہارے اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے انسان کے جسم میں ایک ایسا ٹکڑہ ہو جاتا ہے ہے کہ وہ خراب ہو تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے عثمان کی طبیعت میں حیاء بہت ہے ۲۳۸ دل ٹیڑھے ہو جائیں گے ۴۰۱ مومن نہیں جس نے میرے حاکم کی اطاعت میری امت میں سے ایک ۲۵ کی اس نے میری اطاعت کی ۴۰۵ قوم مسخ کی جائے گی عثمان نے اسلام کی اتنی خدمات میرا دل چاہتا ہے کہ عشاء کی ایک دوزخی کو بالآخر جنت کی ہیں کہ اب وہ جو چاہیں کریں نماز میں کسی اور کو کھڑا کروں.۳۳۹ مل جائے گی خدا ان کو نہیں پوچھے گا ۲۵۳ حضور فرماتے لا فَخْرَ تفرقہ ڈالنے والے کو قتل کردو ۲۹۱ دوزخ پر ایک وقت ایسا جو شخص امام کی موجودگی میں اپنی آئے گا جبکہ باد صبا اس اطاعت کیلئے بلائے ایسے شخص کو قتل کردو جب کوئی بڑا خیال دل میں ۴۶۳ غرغرہ سے پہلے تو بہ قبوں ہو سکتی ہے کوئی انسان جتنا بڑا ہو اُس پر کے دروازے کھٹکھٹائے گی ۴٩٩ اتنے ہی بڑے ابتلاء آتے ہیں ۲۹۳ جو لوگ اپنے گھروں میں ۵۶۰٬۵۳۸ ۵۹۷ ۶۱۲ ۶۱۹
۲۵ آدم حضرت ۵۱۷٬۴۸۲۴۱۵ ابراہیم حضرت ۱۹۱۴ ۱۷۹ ۱۸۰ اسماء ابودجانہ ابودرداء حضرت ابوذر حضرت ابوذر غفاری ۴۸۶۴۴۸۴۴۳۵۰۲۲۶ ابتدائی صحابہ میں سے نیک ۴۸۷ ۶۲۴۴۶۱۰٬۵۸۴٬۵۷۵ اور متقی صحابی تھے ابراهیم ابراہیم اور خدا کے درمیان عہد ۴۸۵ آپ مال جمع کرنا ناجائز سمجھتے تھے ۴۶۴ ان کا باغیوں سے خطاب ۲۹۱ ۳۵۵٬۲۶۷ ابو هريرة ، حضرت ۳۲۶۴۳۱۳٬۲۸۷ ۲۶۸ ان کا عبد اللہ بن سبا کے ابن الكواء (عبداللہ بن سبا کی پارٹی کا رکن) ابن تیمیه ۲۷۰ ابن تیمہ کا جانی دشمن سے سلوک ۲۸ ابن عامر (والی بصره) ۲۷۶ دھوکے میں آنا ۲۶۶ ۲۶۶ احمد بیگ ارسطو اسامہ بن زید حضرت ان کے جامع شمائل الحق حضرت اسماعیل حضرت ان کا مدینہ سے رخصت ہونا ۳۶۹ افلاطون ابو زبیر ابو زينب ابو سعید ۲۷۱ ۲۷۲ الہی بخش أم حبيبة حضرت ۵۹۴ ۱۵۵ ۲۹۴٬۲۸۷۲۸۰ PAI ۴۸۶٬۳۵۰ ۴۸۶ ۱۵۵ ١٩٣ ابن عباس ابو امامہ ۵۲۱ ۳۲۳ ابو بکر حضرت ۲۱۷۴۲۰۹۴۲۸ ۲۳۷ آپ کے خلیفہ بننے پر باپ کی حیرت ۲۶۹۲۶۱۲۵۲ ۲۵۱ ۵۷۳٬۴۹۱۳۳۴ ۴۲۵ ۵۰۷ ان سے مفسدوں کا سلوک ابو سفیان حضرت ۵۷۱ ان کی غیرت دینی ابو شریح حضرت ۲۶۴ امیر حسین قاضی ابو قحافہ ۲۲۵ امیر علی شاہ سید ابو عبیدہ بن الجراح حضرت ۵۸۳ امیر معاویہ حضرت ابو مورع رقم ۲۷۲ ۳۱۷ ۳۱۸٬۳۱۷ ۲۱۸ ۲۸۲۲۷۹۳۲۷۶ ابو موسیٰ اشعری حضرت ۲۸۷ حضرت عثمان کو ان کی تجاویز ۲۸۶۲۸۵ ان کا دائی کوفہ مقرر ہونا ابو جهل ۵۸۱٬۵۸۰٬۵۷۰٬۴۸۴٬۳۹۷ ۳۰۸۴۲۹۲ حضرت عثمان سے ان کی درد بھری ملاقات PAY
۲۶ انس بن مالک حضرت ۳۸۸٬۳۲۳ حذیفہ بن الیمان حضرت ۲۸۷ دیانند پنڈت باب بہاء اللہ تصور حسین صوفی ٹائٹس ۱۷۴ 160 ۲۶ ۱۲ حسن حضرت امام حسن میر سیالکوٹی ۳۰۳۸۱ ۶۳۰۳۳۶۳۱۳ ٢١٨ حسن نظامی خواجہ ۹۹٬۹۸٬۹۴٬۹۳ حسین حضرت امام ۶۱۹ ۵۶۷۵۶۶ ڈوئی کے ہم رشیدالدین ڈاکٹر حلیم بن جبلہ ۳۱۵٬۳۱۱۲۷۳٬۲۶۵ حمران بن ابان حمزه حضرت حنظلہ بن ربیع خ ناء اللہ مولوی 120*44 شاء اللہ کے لمبی عمربانے کی حکمت ۴۲۰ ج ۲۰۹ خادم حسين شیعوں کے متعلق ان کے مضامین خالد بن ولید حضرت ۲۶۳ ۳۶ ۳۲۳ IAN ۵۷۹٬۵۵۲٬۲۰۵ روشن علی حافظ حضرت ۶۳۳۴۸۱۲۰ ز زبير بن العوام ، حضرت ۲۹۸٬۲۸۷ ۳۲۲۳۱۹۳-۳۳۹۹ ۳۳۲٬۳۲۵٬۳۲۴ ۴۷۸ جابر حضرت ۲۷۸ جعفر طیار حضرت ۱۹ خدا بخش مرزا چ ۲۲۰ زیاد بن النصر ۲۹۷ خدیجہ " حضرت ام المؤمنين زید بن ثابت حضرت ۳۱۴۲۸۱ چراغ دین جمونی چراغ دین لاہوری انہوں نے سارا مال حضور زید بن صامت حضرت ۳۱۳ کے سپرد کر دیا ۲۲۵ ۳۴ ان کا حضور کو تسلی دینا نهم سم زین العابدین ولی اللہ شاہ حضرت ۴۶۳ حامد شاہ سیالکوٹی، حضرت سید زینت محل ۴۵۵ ۲۱۸ داؤد حضرت 16
۲۷ س ساگر چند سراقہ بن مالک سرسید سرور شاہ حضرت سید سعد بن مالک ۴۶۲۴۵۵ ۲۵۶ ۵۰۰ ۳۱۳ سعد بن الوقاص حضرت ۲۸۷ سعید بن العاص حضرت ۵۷۷۳۲۱ صدر الدین مولوی عبدالحکیم (مرتها ۲۲۱ ۲۸۹ ۲۹۰ عبد الحی (پسر خلیفہ اول) ۴۱۴٬۲۳۰۱۷۲ (پیغامی) ض ضرار حضرت ان کی بہادری ۵۰۳ b طلحه حضرت ۲۹۹٬۲۹۸٬۲۸۷ ۳۲۲۳۲۱۳۱۶۴۳۰ ۳۳۲٬۳۲۷۳۲۵٬۳۲۴ ۶۳۸۳۶۳۶۴۳۳۴ عبدالرحمن عبد الرحمن بن خالد بن ولید) ۳۲۱ ۲۸۷۲۷۹۲۷۸ عبدالرحمن بن عوف " حضرت عبد الرحمن قادیانی حضرت عبد الرحمٰن شیخ عبد القادر جیلانی ۵۸۰ ۹۸ ۴۶۲ آپ کا سخاوت کرنا b ظہور احمد سید ع ۲۷۴ ۳۳۳ حضرت شیخ ان کا ایک واقعہ عبد القادر شیخ، بیرسٹرایٹ لاء عبدالکریم سیالکوٹی حضرت مولوی عائشہ حضرت ام المؤمنین ۳۸٬۳۲ عبد اللطیف شهید حضرت ۶۴۰۳۶۳۷۵۱۴۳۹ صاحبزاده آپ قرآن کا درس دیتیں ۳۷ عبد الله (قاضی) ۵۹۲۴۵۹۱ ۶۳۳ ۲۱۹ ۴۲۱ تا ۴۲۴ ۴۵۷ ۵۹۴ ۵۸۵٬۵۸۴ عبد اللہ آتھم اس کا رجوع الی اللہ ۳۱۸ ان کی حج کیلئے تیاری عبادہ بن صامت حضرت عباس بن عتبہ ۲۹۳ عبد الله (چکڑالوی) ۲۱۰ عبد الله بن ابی سرح ۳۰۰۲۹۶ عبد الحق (غیر مبابع) ۱۳ | عبد اللہ بن ابی اوفی ۳۳۳ ۲۷۷۲۷۵۲۲۷۳ ۳۰۵٬۲۹۱۲۲۷۸ ۶۱۵ ۵۱۵ ۴۹۲ ۵۶۹ ۴۶۳ ۴۹۲ ۲۲ (والی کوفه) سلیمان حضرت سودان سودہ حضرت ام المؤمنين ش شعیب حضرت شنکر داس لالہ لاہوری شیبه شیر علی حضرت مولوی ص
۲۸ عبد الله بن الاصم ۲۹۸ ان کے شمائل عبد اللہ بن زبیر حضرت ۳۲۷ عبد اللہ بن مسعود حضرت عبد اللہ بن سبا (ابن سوداء) ۳۰۵ تا ۳۳۱٬۳۲۹۴۳۱۶٬۳۱۴٬۳۱۰ یہ ایک بد باطن یہودی تھا خلافت راشدہ کے فتنے اس ۲۶۵ ان کا حضور کا خطبہ سن کر گلی میں بیٹھنا ۲۸۲٬۳۸۱ ان کا مفسدوں کو بلوانا ان کی ایک دردمندانہ دعا وہ دینی علوم میں ماہر تھے امام عبد اللہ سنوری حضرت منشی سرخ چھینٹوں کا نشان ۵۷۳٬۵۷۲ حضرت عثمان کا اتہامات سے بریت ثابت کرنا ۲۹۳ ۲۹۳ سفر میں پوری نماز ادا کرنے کی وجہ ۲۹۴ رکھ مقرر کرنے کے الزام کی تردید اس الزام کی تردید کہ آپ عبدالمجید ڈاکٹر ۴۹۰٬۴۸۹ نے نوجوانوں کو حاکم بنایا عقبه ۴۹۲ ان کا مفسدوں پر رحم کرنا ۲۹۴ ۲۹۴ ۲۹۴ ۲۹۷۲۹۵ ۳۰۴۳۰۱ ۳۱۳ ۳۱۵ ۳۱۵ ۳۱۶ ۳۱۸ ۳۲۱۳۲۰ ย عثمان حضرت ۲۶۵ ۲۵۷۲۵۴۲۵۳ ۲۴۹ حضرت عثمان اور صحابہ ۲۶۱ تا ۲۶۹٬۲۶۸٬۳۶۵ کی بریت مفسدوں کو نصیحت ۲۸۷۲۲۷۸۴۲۷۶۲۲۷۳ ۲۷۲ ۲۷۳ مفسدوں کا مسجد نبوی میں کنکر ۲۸۹ تا ۲۹۹٬۲۹۸٬۲۹۴۴۲۹۲ برساتا اور حضرت عثمان ۳۰۵٬۳۰۳٬۳۰۲تا۳۱۴٬۳۱۰‘ کو زخمی کرنا ۳۱۶ تا ۴۳۲۹۳۲۵۴۳۲۲٬۳۱۸ ان کو خلافت سے دستبرداری کیلئے مجبور کیا جانا حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ آپ کا پانی بند کرنا والیان صوبہ جات کو آپ کا مراسلہ حاجیوں کے نام خط مفسدوں کا آپ کے گھر پتھر پھینکنا ۲۷۴ مفسد کے گرد گھومتے ہیں اس نے سزا یافتہ افراد کو اپنے ساتھ ملایا اس کا عقیدہ تھا کہ حضور دوبارہ دنیا میں آئیں گے اس نے حضرت علی کو وصی قرار دیا عبد اللہ بن سلام عبد اللہ بن سلام کا مفسدوں ۶۳۸۲۶۳۵٬۴۱۵٬۳۳۵۳۳۲ کو نصیحت کرنا ۳۲۹٬۳۲۸ حضرت عثمان کے ابتدائی حالات ۲۵۱ عبد اللہ بن عامر ۳۰۸۲۶۵ آنحضرت ﷺ کی نظر میں عبد اللہ بن عباس حضرت ۳۲۰٬۲۸۷ عبد الله بن عمر ۵۳۶٬۲۸۷٬۲۸۰ آپ کو خاص قدرومنزلت حاصل تھی آپ کے وقت فتنہ کیوں اُٹھا آپ کا ایک درد ناک خط ۲۵۲ ۲۵۱ ۲۶۰ ۲۸۴
۱۷۹٬۱۰۸٬۶۹٬۵۸٬۴۵۳۳ حضرت ۲۹۳۲۸۴٬۲۸۳ ۲۹ یہ سیاست سے باخبر نہ تھے وام عمره ، حضرت ۲۵۶۲۵۳۲۲۰۱۲۱۶ ۲۷۳۲۵۰٬۲۳۸ ۲۳۰ ۲۲۸ ۴۸۶٬۴۸۴۴۸۳٬۴۱۵۳۹۹ ۶۱۹۴۶۱۵۶۱۰٬۴۸۷ هم بهم ۵۹ ۲۶۰ تا ۲۹۳٬۳۸۱۲۶۴۲۶۲ ۵۷۸٬۵۷۷٬۴۸۳۴۴۰۴۰ حیات مسیح کے عقیدہ سے اسلام آپ راتوں کو پھر پھر کرو خبر گیری کرتے آپ کا قبوں اسلام آپ مذہبی مباحثات کرنے پر کئی اعتراض پڑتے ہیں ۲۵ حضرت عیسی کے دوبارہ ۳۹ آنے سے مراد حضرت عیسی کا مشن محدود تھا ۳۲۲ ۳۲۳ ۳۲۴ ۳۲۸۳۲۷ ۳۳۱۰۳۲۹ ۳۳ ۳۳۳ آپ کی اسلامی خیر خواہی مفسدوں کا حملہ آپ کا صحابہ کو وصیت کرنا قمیص خلافت اتارنے سے آپ کا انکار آپ کی شادت آپ کی شہادت پر صحابہ " کا جوش آپ کی نعش کو دشمنوں نے تین دن تک دفن نہ ہونے دیا آپ کے غلاموں کی لاشیں کتوں کو کھلادی گئیں عقبہ بن عمرو ย علی حضرت خلیفه چهارم والے آدمی نہ تھے آپ کا قول نِيَّةُ الْمُؤْمِن ۲۸۲٬۲۴۹۱۲۵۳۷۶۴۶ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ ۲۰۹ ۲۳۶ غافقی غ ۳۰۳٬۲۹۹٬۲۹۸٬۲۸۷ تا ۱۳۰۵ آپ پر ایک منافق کا اعتراض ۲۵۷ (مصر کی فوجوں کا سردار ) ۳۲۴ ۳۲۲۳۲۱۳۱۶ ۳۱۰ ۳۰۹ ۳۰۹۰۳۳۳۳۳۳۳۲۹٬۳۲۵ آپ کی نصائح عبداللہ بن سبا نے آپ کو وصی قرار دیا ۳۱۶ ۲۷۴ آپ کا قول حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ.۳۷۷ آپ کا ایک کشف آپ کا قول- نَفِرُّ مِنْ قَدْرِ اللَّهِ إِلَى قَدْرِ اللَّهِ آپ نے شاہ روم کو سردرد کے علاج کیلئے پرانی ٹوپی دی ۳۱۶۳۱۵ غلام احمد قادیانی حضرت مرزا ۸۶ ۵۸۳ ۱۲۸ ۱۲۷ ۱۲۵ ۱۱۶ ۱۱۳۱۰۸ ۱۳۰ تا ۱۳۳ ۱۳۷ ۱۴۰۱۳۸ ۶۱۳ ۱۷۵ ۱۷۱۱۶۵ ۱۶۴ ۱۵۰ ۱۴۹ ۲۱۳ ۱۸۹ ۱۸۶۱۸۳ ۱۸۱ ۱۸۰ ۱۷۹ ۳۲۴ ۲۰۰٬۱۹۸ ۱۹۵ ۱۹۳ ۱۹۱ ۲۸۸ خلافت حضرت علی کے حالات ۶۴۱۷۶۳۴ علی بن حيسمان الخزاعي عمار بن یاسر حضرت ۲۷۱۲۶۴ عمرالدین شملوی مولوی عمران بن حصین عمر بن الجريد
۲۰۴ تا ۲۱۱۴۲۶۰ ۲۱۸٬۲۱۵ ۲۲۱۳‘ اسلام کی صداقت کا ثبوت ۲۴۱۲۲۳۸۴۲۳۴ ۲۳۳ ۲۳۱ ۴۳۵۵٬۳۵۱٬۳۴۹۳۶۱۳۳۰ آپ کے ذریعہ آپ کے مخالفین آپ نے ایک ایسی جماعت تیار آپ کی کتابوں میں جذبات ۶۵ ۶۶ ابھارنے والے دلائل زیادہ ہیں ۳۹۸ آپ پر نئے نئے معارف کھلتے تھے کی جو اشاعت اسلام کر رہی ہے ۶۹ آپ کا بیان کردہ قصہ ۲۰۰ ۴۱۰۴۴۰۷ ۴۱۲۱۴۱۵۴۴۱۲۵ آپ نے ساری زندگی اسلام آپ کے احسان کا بدلہ ۴۱۹۴۴۱۸ ۴۲۱ ۴۲۴٬۴۲۴ پھیلانے میں صرف کی 19 ایران میں تبلیغ ۴۱۴ 쿵 ۴۲۰ ۲۳ مختلف مذاہب کو دعا کے ۴۳۵۴۳۴۴۳۸۴۳۶ ۴۴۸۳۲۴۸۱۴۸۰٬۴۷۸۴۷۴ مقابلہ کا چیلنج دعوی سے قبل آپ کا لوگوں ۴۸۰ تا ۴۹۷۴۴۹۳۴۴۹۱۴۴۸۹ کو نماز کی طرف بلانا آپ کے دو بازد- بدر الحکم ۷ آپ کے خلاف ہنری مارٹن کلارک کا مقدمہ مبارک احمد کے علاج میں آپ ۵۳۹٬۵۲۳٬۵۱۲٬۵۰۷٬۴۹۸‘ آپ نے جماعت کو ہر قسم کے ساری ساری رات جاگتے تھے ۵۶۵۴۵۶۰ ۱۵۹۴٬۵۸۴٬۵۷۱ ایجی ٹیشنوں میں حصہ لینے سے ^ Ar ۵۶۷۵۶۶ ۵۷۹ کھانسی کے باوجود آپ کا کیلا کھانا ۵۷۹ الهامات آپ کو خدا نے قرآن کی خاص آپ بارہا الہامات کے معنی کرنے منع فرمایا آپ کا طریق تقریر آپ نے تمام عمر حکومت کی اطاعت کی آپ نے سٹرائیک میں حصہ لینے والے کو جماعت سے نکال دیا مسیح ابن مریم سے مشابہتیں آپ کے ذریعہ اللہ تعالی نے آپ کا اصلاح کا طرز بڑا شریعت کو قائم کیا لطیف اور عجیب تھا آپ پر ایک اعتراض کا جواب "1 ۱۳ ۲۰ ۲۳ ۲۵ آپ کے دعوی کی صداقت ۶۵۲۶۳ آپ کے دعویٰ کی مخالفت معرفت اور علم دیا تھا آپ کی کتب تیز اور آبدار سکوار ہیں آپ کا توکل علی اللہ اور اور شجاعت چکڑالوی حضرات کی صحبت سے اجتناب کی تلقین آپ نے جو روحانی رو چلائی ساری دنیا میں پھیل رہی ہے آپ کی بیان فرمودہ ایک حکایت ۱۴۰ میں تردد اور احتیاط سے ۱۹۳ ۲۱۰ ۲۳۸ کام لیتے تھے اُردو الهامات دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا.دنیا میں ایک نبی آیا مگر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا زار بھی ہو گا تو ہو گا اُس گھڑی ۳۷۱۳۷۰ با حال زار ۲۱۴ ۶۳ ۲۱۸ 12*
عربی الهامات فقیر مرزا انى مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَكَ ۴۷۳.فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ ٢٤٤ ۶۴ م ق مارٹن کلارک قدوائی مالک الاشتر قعقاع بن عمر ۱۳۸٬۲۸۸۲۲۸۶ مبارک احمد مرزا قیصر روم کسری کعب بن اشرف ۶۱۵ ( پسر حضرت مسیح موعود) ۵۰۲٬۴۸۷۲۵۶ prop ۵۶۷٬۴۹۸ ۳۱۵٬۲۹۰۲۲۸۷ مبارک علی ملک تاجر لاہور ۵۷۹ محمد رسول الله الله حضرت 1919.۳۸٬۳۳٬۲۷۲۵٬۲۲ تا ۴۰ ۱۱ تا ۱۲۲ ۱۲۳ ۱۴۰۱۳۲۲ 'IAY'IA+‘129′120°10' ۶۳۹ ۵۰۷۴۱ ۴۹۰ ۲۱۲ ۲۱۰ ۲۰۶٬۱۹۷ ۱۹۰ ۱۸۹ ۴۹۱ ۲۱۳ ۲۱۵ تا ۲۲۹۴۲۲۷۲۱۷ تا ۲۳۱ ۲۳۶۴۲۲۳۴۴۲۳۳ تا ۴۲۳۸ ۲۵۳۲۲۴۸٬۲۴۳٬۳۴۰ ۲۶۶۴۳۶۳ ۲۶۱۲۵۹۲۲۵۵ ۲۸۱۲۷۴۲۷۳۲۶۹۰۲۶۷ ۲۹۳٬۲۹۱۲۸۹۲۲۸۵٬۲۸۳ ۳۰۳۲۹۹۲۹۸۲۹۴ ۳ تا ۳۱۹۲۳۱۷۳۱۴ ۴۹۲ ۴۴۴ ۳۹ ۶۴ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَاتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْحَائِعَ وَالْمُعْتَر آپ کا ایک رویا آپ کا ایک کشف آپ کی ہندوستان کے متعلق پیشگوئی ۶۴ TIA ۶۲۸ Azr ۱۵ حضرت کمال الدین خواجہ 10 حضرت مصلح موعود کی جنگ عظیم کے بارہ میں پیشگوئی ۴۱۹ مخالفت میں سرگرمی غلام رسول را جیکی ان کی عربی دانی کا حال حضرت مولانا ۶۰٬۱۸۰ ان کی طرف سے انسان پرستی کا الزام ل لائیڈ کلے (ایک حبشی لڑکا جسے پٹرول ڈال کر جلا دیا گیا) ۵۹۴۴۷۴۱۹۵۱۶۵ ۴۸۹ لوط حضرت لیکھرام لیون ڈاکٹر ۵۲۵٬۴۸۹۱۶۹ ۳۹۷۴۳۳ ۵۴۶٬۵۴۵٬۴۹۴ ۲۱۹ ف فتح محمد چوہدری فرعون فرعون کی عورت نے تقوی اختیار کیا فضل احمد (ابن حضرت مسیح موعود )
۳۳۱۲۳۲۹٬۳۴۷۳۲۴ آپ کے اخلاق ۳۵۴٬۳۲۵۱۳۲۷۱۳۳۵ آپ کا طریق تارا خستگی ۴۳۷۴۳۷۰٬۳۵۶٬۳۵۵ | ۱۳۹۰٬۳۸۸٬۳۸۶٬۳۸۱ قرآن کو ترک کرنے والوں پر حضور کا افسوس آپ کا حضرت عمر پر ۱۴۰۷٬۴۰۵٬۴۰۴۳۹۹ اظهار ناراضگی ۴۲۹۴۴۲۵۴۴۲۳۴۴۱۶، چھ سال تک وحی کے معنی ۴۵۹٬۴۵۱۴۳۵٬۴۳ ۴۸۳۴۷۲۴۶۵۲۴۶ کرنے میں حضور کو تردد رہا ہجرت کے متعلق بشارت کے ۱۳۸ کسری کا آپ کے نام 1+9 ۱۳۰ ۱۲۹ ۲۰۹ ۲۱۳ ظالمانہ حکم ۵۰۲۵۰۱ مخالفین کے آپ پر اعتراض ۵۱۴٬۵۱۲ بیویوں کے حقوق میں آپ کی احتیاط آپ کی شادی ۲۵ سال کی عمر میں حضرت خدیجہ سے ہوئی حضرت خدیجہ سے برتاؤ معنی کرنے میں تردد سے کام لیا ۲۱۳ جنگ احزاب میں آپ کیلئے ۴۸۸٬۳۸۵ ۴۹۴٬۴۹‘ بعثت حضور" کے وقت تمام ۵۳۴٬۵۱۳۴۵۰۴۰٬۴۹۹ تا۴۵۳۶ اقوام میں شرک تھا خاص تقدیر ۲۲۸ | پانی بڑھانے والا نشان غار ثور کا واقعہ ۵۱۴ ۵۱۵ ۵۱۵ ۵۷۱۲۵۶۹ ۵۷۳ ۵۳ آپ نے ایک غریب کو چار ۵۶۹٬۵۶۴٬۴۶۰٬۵۴۰٬۵۳۸ اسامہ بن زید کو سردار لشکر ۵۸۵٬۵۸۴٬۵۸۰٬۵۷۸۵۷۷ ۶۱۵۶۱۴۶۱۰۶۰۴۵۹۷۵۹۴ بتانے پر آپ پر اعتراض ۲۹۳ اعرابی کا حضور" پر تلوار کھینچیں آپ کبھی گمراہی میں نہ پڑے ۳۴۸ جنگ احزاب میں گندال سے آپ کا پتھر تو زنا ۶۲۶۶۲۵ ۶۱۹ ۶۲۷۴۶۲۱ ۶۳۹۴۶۲۹۳ شادیوں کی تلقین کی ۳۶۷ آنحضور امیر مقامی کا تقریر فرماتے ۲۱ آپ نے کچھ قیدیوں کو اس محمد اسحق حضرت میر ۴۱۲ بازار میں کھانے اور بحث کو شرط پر رہا کر دیا کہ مسلمان محمد اسمعیل حضرت میر ۳۵۰ ناپسند فرماتے ۲۴ بچوں کو تعلیم دیں آپ پر پہلی وحی ۲۹۳٬۲۷۴ ۳۳۰۳۲۹٬۳۱۸ ۳۱۴ ۲۹۹ ۳۱۴ آپ کے احسانوں کا بدلہ اتارنے جنگ احد میں زخمی ہونا ۳۵ کا طریق.اہل عرب کو تبلیغ ۴۲۳ محمد بن ابی بکر ان کا مختصر تعارف آپ عورتوں سے چندہ لیتے ۴۵ نماز با جماعت کیلئے آپ کی غیرت ۴۲۹ ان کا والی مصر مقرر ہوتا عورتوں کو اپنے مال میں سے حصہ دیا کرتے تھے آپ کے دائرہ رسالت کی وسعت آپ کے وقت میں عورتوں محمد بن ابی حذیفہ ۴۵ کو طرح طرح کی مصیبتیں ون پہنچائی گئیں ۴۵۹ حضرت عثمان" نے اسے پالا محمد بن طلحہ
۳۳ محمد بن مسلم جلیل القدر صحابہ میں سے تھے محمد بن مسلمہ محمد حسین بٹالوی مولوی TAI ۲۸۷ میں اپنے فرائض سے غافل نہیں ہوں بار بار آئیں اور آکر میرے پاس بیٹھیں آپ کا الہام ۲۵ مولوی محمد علی صاحب کو ۱۳۹ آپ کی نصیحت مولوی محمد علی صاحب کے ۳۱۱٬۳۰۵۳۰۳ جس مقام پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ایک اعتراض کا جواب ہے خدا کو اس کی عزت منظور ۲۱۰۱۷۰ ۴۱۴ ہے خدا تعالیٰ نے مجھے توحید کے عدالت میں اس کی ذلت ۴۹۸٬۴۹۷ محمد سلامت اللہ مولوی محمد شریف میاں محمد صادق حضرت مفتی ۵۵۲ ۴۱۶ آپ کے بارہ میں مولوی محمد علی صاحب کار یویو و کھلانے اور شرک کے مٹانے مولوی محمد علی صاحب کو آپ کی ۳۱۸ طرف سے خدا سے فیصلہ کرانے ۶۳۰٬۵۶۰ آپ کی دعائیں IAA ۲۰۷ کیلئے کھڑا کیا ہے آپ کے بچپن کے واقعات ۱۰۸ کی دعوت ۳۹۳۳۴۱ محمد صادق ہزارہ کا ایک شخص 14+ آپ کا ایک عہد محمد صادق سندھی تائید الهی ۵۲۳ ۵۲۴ بازار میں بحث کو ناپسند کرتا ترجمہ قرآن کے کام سے ۲۵ محمد علی مولوی خد اتعالیٰ کی تائید میرے رات کے ایک بجے تک جاگنا ۲۶ (امیر لاہوری جماعت ۴۰۸ تا ۴۸۱٬۴۱ ساتھ ہے ۴۱۴ آپ کی بیوی کی عیسائی عورت ۴۸۸٬۴۸۲ تا ۴۹۱ تائید انہی کے ثبوت ۴۷۹ آپ کے بارے میں خواہیں ۱۸۹ ۱۹۰ ۱۹۱ آپ کے دل میں خاص خطبہ محمد علی مونگهیری ۴۱۵ کو تبلیغ کے نام ۲۳۱ ۴۱۲ ۴۱۲ محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین مجھے بھی خدا تعالی نے خاص طور کی تحریک پر قرآن کریم کا علم بخشا ہے ۱۴۰ ۴۵۲٬۳۳۵٬۲۲۲۲۰۳ آپ کے کام عرفان انہی کے بارے میں آپ آپ کی کتاب کے بارہ میں کو خاص علم دیا گیا ۳۴۹ خلیفہ اول کے ریمارکس مقام محمود بزبان محمود مجھے خدا تعالیٰ علم دیتا ہے ۴۷ آپ کی دین سے ہمدردی میرے ذہن میں جماعت کی ۴۲۱٬۳۵۰٬۱۸۶ اور جوش آپ کے رویا ۵۲۵٬۵۲۳٬۴۷۹ آپ کے خلاف لوگوں نے ۲۵ ترقی کی سکیمیں ہیں
۳ بڑے منصوبے بنا کر خلیفہ اول کو ناراض کرونا چاہا احباب کے ملنے پر اللہ تعالٰی کا شکر آپ کی طرف سے اخبار خریدنے کی تحریک جماعتوں کی خدمات پر خوشنودی ۴۱۶ ۴۸۰ حضرت ۵۴۵٬۲۳۰ ۲۲۹٬۲۲۷ ۲۲۶ ۶۱۵۶۱۰٬۵۹۷٬۵۶۵٬۵۴۶ آپ کی ایک دعا م بیویوں سے سلوک میں احتیاط ۵۱۴۰۵۱۳ نائلہ (حضرت عثمان کی بیوی) ایک پیر سے ملاقات ۵۵۲ تا۵۵۶ نانک حضرت ، بادا آپ کی نصیحت سے ایک گندگار کی توبہ حضرت مسیح موعود کی وفات سے قبل آپ کی کیفیت ۶۱۲ ۶۱۸ محی الدین ابن عربی حضرت ۱۹۴۱۷۹ ۳۲۷۳۱۰ ۳۰۸٬۳۰۶۳۰۵ مروان مریم حضرت.ان کی پرہیز گاری مسیلمہ کذاب معاویه رید حضرت ۳۳ ۲۶۶ تا۲۷۰ ۶۴۰۴۰۹۳۳۵ ان کو ستر نمازوں کا ثواب ملتا معین الدین چشتی حضرت خواج مغيرة بن الاخنس نجاشی نپولین نپولین کا ایک واقعہ نظام الدین مرزا نمرود الم نے ہم ۲۰۱۹ ۴۵۹ 4 ۳۱۹ ۴۹۲ نوح حضرت ۴۹۴۴۲۲۶۴۱۹۶۴۲۵٬۳۹٬۱۴ نورالدین حضرت مولانا و ورقہ بن نوفل ۲۱۳ ولسن (صد (امریکہ) ۴۴۵٬۴۴۴ ولی اللہ شاہ حضرت محدث دہلوی ولید بن عتبه ۳۰۵٬۲۷۴٬۲۷۱۲۶۴ ولید بن عقبہ کا معزول کیا جانا ولید بن عقبہ کو گواہیوں کی بناء پر کوڑوں کی سزا هشام بن عامر ہندہ - ہندہ کا اخلاص ایزید بن قیس ی ۲۷۳ ۳۲۳ ۳۶ ۲۸۶تا۲۹۰٬۲۸۸ خلیفہ اول ۱۷۶۱۷۲٬۱۳۸٬۱۲۰٬۱۰۵٬۲۲ یعقوب علی حضرت شیخ عرفانی ۳۹۶٬۲۳۲٬۲۳۱۲۰۶۱۸۰ یوسف حضرت ۴۱۴۴۱۲۴۲۱۱ تا ۲۲۸۴۴۱۸ یونس آپ کا ایک الہام ان کی ایک چور سے گفتگو کے ہم سلام ان کا بیان کردہ واقعہ ۳۲۷۳۲۵ ۲۱۰ ۳۸۲ ۵۰۵ آپ کو آپ کی ساری قوم نے مان لیا ۳۱۵ ۲۱۲
۵۵۲۴۸۹٬۴۷۴ سم هم هم ۴۳۳ تا ۴۵۲ ۴۴۸۴۴۴۲٬۲۳۸ 019 ۲۸۹۲۲۸۷ 19 پولینڈ ترکی 19+ X ایشیا مقامات ۲۶۶۴۲۶۵٬۲۶۳ ترکی کا مستقبل اور ۲۷۰ ۲۸۱۴۲۸۰۲۷۳۲۷۱ مسلمانوں کا فرض ۳۰۶۳۰۳٬۳۰۱۲۹۹۳۳۹۶ ۳۲۵٬۳۲۳٬۳۱۶۴۳۱۵٬۳۰۸ ج جاپان جرمنی جزیره چ ۴۴۸٬۴۴۴۳۳۸۶۵ 乙 ۲۸۷ ۴۱۴ ۱۳۹٬۹۵ ۲۷۸٬۲۶۵ ۶۳۹٬۶۳۸٬۳۳۰ A 80 م م م م م بخارا بٹالہ م البصرة بغداد ہمیتی بلغارية ۹۳ ۲۹۷ ۴۲۱۵۸ ۴۸۳۴۸۲ ۴۴۸ ا آرمینیا آسٹریا اٹلی اجمیر اعوص - (مدینہ کا قریبی مقام) افریقہ افریقہ میں احمدیت افغانستان الجزائر اله آباد امرتسر ۵۵۲٬۴۲۰٬۴۰۸ تا ۵۵۳ امریکہ ۴۲۴٬۴۲۱۴۲۳۸٬۶۵٬۵۸ اناطولیہ ۴۴۲۴۳۹ تا ۵۶۱۵۲۵٬۴۵۲ ۴۴۲ انگلستان (برطانیه) ۴۲۴٬۶۵۱۶ ۳۳۳تا۴۴۲۰۴۳۸٬۴۳۵ بنگال بنگاله 4 ۴۰۲ بویب (مدینہ کی قریبی جگہ) ۳۰۶۳۰۵ جشہ بہار بھوپال سوم ۴۱۳ حجاز حیدر آباد دکن و دانہ زید کا دمشق ۵۱ orc'ira ۴۷۳٬۴۰۲٬۹۳۱۵ ۵۲۴٬۴۵۱ ۴۴۹٬۴۴۵ ۴۴ ۴ پٹیالہ ۲۵۹٬۲۵۸٬۶۰٬۵۷۲۱ ۴۸۳٬۴۳۴٬۴۳۳ یشاور ۵۲۵٬۴۸۷٬۴۸۴ | پنجاب ایران
۳۱۶ ۴۴۵۴۴۳۴۴۲ ۳۵۹٬۴۵۲٬۴۵۰ ١١١٠٠ ۲۶۶٬۳۵۸ تا ۲۶۸ فارس ۲۷۰ ۲۷۷۱۲۷۱ فرانس ۲۸۶٬۲۸۵٬۲۸۲۲۸۰ ۴۶۲۴۴۲۴۲۱۳۲۳ ۴۸۱ فسطاط ۲۱۳ ۱۳۹٬۹۳ فیروز پور قادیان ق 22 ۱۰۳٬۹۵٬۸۹٬۸۶٬۸۴٬۸۰ ۴۷۵٬۴۷۱۴۵۵٬۴۲۴ ۵۹۴٬۵۵۴۵۵۳ ۲۲ ۲۲ ۳۲۵ 19 ه نم نم جماعت قادیان کو اطاعت امیر کی نصیحت جماعت قادیان دوسروں کیلئے نمونہ بنے جماعت قادیان کی پوزیشن اور زمہ داریاں اشام ۳۹۷ ۲۵۵٬۹۹٬۹۳٬۸۴ دوالمیال دہلی دیلی کے تین بزرگوں کا قصہ ۲۳ ذوالمروہ امینہ کا قرینی مقامی ۲۹۹٬۲۹۷ زو خشب (مدینہ کا قریبی مقام) ۲۹۹٬۲۹۷ شاہ پور شمله مرار ص (مدینہ کے قریب ایک مقام) b طائف طرابلس ع ۲۵۲۴۲۲۹۲۲۷۹۱ ۳۲۶۴۳۱۷۲۹۴۴۲۷۶۴۲۵۹ ریزه ۲۶۹ روس روم رومانیه ومم ۴۷۹۱۰۵ MARIA CAL ۵۲۴۴۴۸۲۴٬۴۸۱ | عرب ۴۸۰ چین سندھ سیالکوٹ سیرالیون سیلون سیلون میں قحط پڑا ہوا ہے سیلون کے احمدیوں کی خدمات قابل رشک ہیں سیلون کی جماعت نازک وقت ۵۷۷٬۵۷۱۵۰۲۴۴۲۳۳ ۴۸۰ عرب کی قومی غیرت جوش مار رہی ہے میں جوش اور اخلاص سے علی گڑھ کام کر رہی ہے اللہ نے قادیان کو آئندہ ام م ترقیات کا مرکز بنایا IAZ'IAY قادیان کے احباب کے نام پیغام ۷۵ تا ۸۰
۳۷ ۷۸ ۷۹ کھاریاں ۱۳۵ ۱۳۶ ۱۳۸۱۳۷ گجرات گوجرانوالہ گورداسپور ۴۵۷۳٬۵۴۹٬۵۳۸٬۵۰۱٬۳۳۵ ۶۳۵٬۵۷۷ تا ۷ ۶۳۹٬۶۳ باغیوں کا مدینہ میں دوبارہ داخلہ ۴۸۱ بانیوں کا مدینہ پر تسلط قائم کرنا ۱۳۹ اہل مدینہ کا بانیوں کو سمجھانا ۱۸۶۱۴۲ ۱۸۷ مدینہ میں مفسدوں کے تین بڑے آدمی ۵۶۶٬۵۰۷۱۹۳ ۲۷۷۲۶۵۲۵۹ ۲۵۳ ۲۵۱ ۳۳۵٬۳۲۰٬۳۱۷۳۱۴٬۳۸۴ ۵۷۳٬۵۶۵٬۵۶۴٬۵۰۸٬۴۲۹ ۶۳۸٬۶۳۷۶۱۴٬۵۷ ۲۷۱ ۲۷۰٬۲۶۶۲۵۸ ۲۸۳۲۸۰۲۷۸٬۲۷۳ ۲۹۶۲۸ تا ۳۰۳٬۳۰۱ ۳۰۹٬۳۰۸۳۰۶۳۰۵ ۵۲۴۴۶۴۴۳۳۳۳۱۴ ۵۲۴۴۸۱۴۲۴ نائجيريا ۲۴۷ ۲۴۳٬۲۳۱ ۲۲۵ ۵۳۸٬۴۹۵٬۳۰۶۴۳۳۹ ۶۳۳۶۱۸٬۵۵۴٬۵۵۳ ۵۲۵٬۴۵۹٬۴۷ ۴۸۹ ۵۲۴۴۸۲۴۴۸۱۶۵ ۹۵ ۲۶۳٬۱۳۶۴۳۵تا۲۶۵ ۲۸۳۲۸۰۲۷۴ ۲۷ ۲۶ ۲۸۵ تا ۲۲۹۵٬۲۹۳ ۳۰۳٬۳۰۰ ۳۱۱۳۰۶۴۳۰۵ تا ۳۲۴۳۲۰ ندوه نسکیگو ۵۰۰ ایمان حبشیوں پر پتھر برسائے گئے ۴۴۴ ۱۹۶ نینوا گھٹیالیاں لاہور الکھنو النڈن ماریشس مدراس ۱۳۸ ۴۸۲ ۵۶۵ ۵۰۸ قادیات کی شہرت کی پیشگوئی قادین تمام دنیا کی بستیوں کی امت جو قارین سے تعلق نہ رکھے کا کاٹا جائے گا قادیان اکثر آنے والوں کی کیفیت دین سیکھنے کیلئے قادیان آئیں لوگوں کو قادیان ابنے کی کوشش کرد بیرونی جماعتوں کے آدمیوں کا قادیان آنا قارون کی ترقی کا وعدہ قططنيه کابل کریلا ۴۳۲ تا ۴۲۴ ۶۱۹ ۲۳۸ م کنعان کوفه ۲۷۰٬۲۶۶۲۲۶۳تا۲۷۸ ۲۹۱۲۲۸۶٬۲۸۳ ۲۸۱ ۳۳۳٬۳۱۵۳۰۹٬۳۰۸ ۳۳۳۴ ۳۳۱۴۳۳۰٬۳۲۸۴۳۲۵
نیپال , و کسبرگ ہزارہ ۹۳۹۱ تا ۹۵ ۱۸۸۱۶۷۱۱۳ 701,601,711,VLI, لماء والد الدول الداله الله الله الله ۲۵۰٬۲۳۸٬۲۳۹٬۲۳ له الله الله الله ولد الدها ولد له لا والله له له و اليد لا اله ال المهر المقر المهر 19.ہسپانیہ سممم ہندوستان ۸۴٬۸۳٬۶۰٬۵۷٬۱۵٬۱۰ اسمین یورپ ۵۳۷۵۱۷٬۴۸۹٬۴۸ کی ' مذہب میں دخل دیا ہے بعض یور چین اقوام نے جبراً یونان لله.ه العلم 0 J,VO, VL,17,WV,
۴۷۹ ۵۱۶۴۸۷ ۰۲۱۳ 1917 ۲۲۱۲۱۵ ۳۴۰ ۳۹ انجیل کتابیات اہلحدیث (رساله) ۵۱۱۲۱۳۴۲۰۷۶ خوب کام کیا تورات ۴۴۰ حجة الله البالغة ۲۰۹۱۹۶۵۸ حقيقة الرؤيا ٢٧٧ حقيقة النبوة ۴۷۷۴۷۶ حقیقۃ الوحی بائبل باوانانک کا مذہب یہ کتاب تحقیق کے ساتھ لکھی گئی ہے بد را اشتہار IAQ ۲۰۵ ۵۶۰ ۳۳۵ ۳۳۵ 1-1 آئینہ کمالات اسلام احمدیہ گزٹ احمد به گزٹ کا اجراء اخبار عام اختلاف سلسلہ کی تاریخ استیعاب الاصابه الحکم (اخبار) ۴۷۸ الحکم کا استقلال قابل تعریف ہے ۴۷۶ الحکم کے چلانے والوں کی فاقوں بخاری براہین احمدیہ ۴۱۶ ۲۱۳ ۱۶۵ ۶۰۹۴۵۸۷٬۲۱۴ دروس النحويه براہین احمدیہ قرآن کی تفسیر ہے ۱۴۰ ; تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۴۷۷۴۷۶ اس کے پڑھنے سے الفضل (اخبار) ۱۳ ۱۳۳ مطالب سوجھتے ہیں ذکر الهی الفضل جماعت کے گزٹ کی حیثیت رکھتا ہے اپیغام صلح ایک غیر احمدی کا الفضل (حضرت مسیح موعود کی کتاب) ۸۵ ے عشق پیغام صلح در ساله) حضرت مصلح موعود جب ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز ۱۶۸۱۳۳ ریویو بر مباحثه تھے الفضل کے ۲۰۰۰ غیر احمدی بٹالوی و چکڑالوی ۲۱۰ ދ ނ تشحيذ الازبان ۲۱۴۴۱۰۱۴۳ ژ المهدي (رسا) (رساله) تشحید نے شیعوں میں ژند اوستا ۲۰۷
2 : ۴۰ ف فاروق (اخبار) ۴۷۹۴۷۸٬۳۷۶۱۴۳ لیڈر (الہ آباد کا اخبار) هم بهم 4 ستاره صبح (اخبار) ستیارتھ پر کاش ۲۰۷۳ | فتوحات مکیه ص صادقوں کی روشنی کو قبلہ (حجاز کا اخبار) کون ذور کر سکتا ہے طبری عسل مصفى ط ۴۱۴ کلام محمود ق نور (اخبار) ۳۳۵٬۲۹۴۴۲۶۲ کلام محمود میں کئی شعر واقعات کے متعلق ہیں ۴۱۶ وید