Anwarul Aloom v3

Anwarul Aloom v3

انوارالعلوم (جلد 3)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود حمد الصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 3

Page 2

ANWARUL 'ULŪM by HADRAT MIRZĀ BASHĪR-UD-DĪN MAḤMŪD AḤMAD KHALIFATUL MASIḤ II Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, Tilford, Surrey.

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ پیشگوئی مصلح موعود اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجید ے بھیجا ہے.دو سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور دہ تین کو چار کرنے والا ہوگا راسکےمعنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه- فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ و العلاء كان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٹی کے ظہور کا موجب ہوگا نور آتا ہے اور میں کو خدا نے پنی رضامندی کے عطر سے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر یہ ہوگا.وہ جلد صید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا - وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيّا داشتهار ۲۰ فروری مشاه)

Page 4

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ عظ سید نا حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کا وجود باجود خد اتعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے.آپ کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہوا.آپ نے زمین کے کناروں تک شہرت پائی اور آپ کے ذریعہ اسلام کا نور تمام عالم میں پھیلا.خدا تعالی نے باون برس کی طویل مدت تک عظمت دین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جلال و جمال کے اظہار کے لئے آپ کو خلافت کے منصب پر فائز فرمایا.اور آپ کی زندگی اور کارناموں نے یہ ثابت کر دیا کہ پیشگوئی مصلح موعود کا ہر ہر لفظ آپ کی ذات بابرکات میں پورا ہوا.خدا تعالیٰ نے اس ذہین و فهیم وجود کو علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا اور خود آپ کا معلم ہو گیا.علوم ظاہری و باطنی " سے پُر اس وجود کی تصنیفات کی تیسری جلد احباب کی خدمت میں پیش ہے.اس جلد میں جو کتب شامل ہیں وہ حضور کی خلافت کے ابتدائی زمانے کی ہیں.اس وقت تقاریر کو با قاعدہ قلمبند کرنے کا کوئی جماعتی نظام نہیں تھا.بعض احباب اپنے شوق اور عقیدت سے ان تقاریر کو لکھ کر چھپواتے رہے اس وجہ سے ممکن ہے کہ بعض مقامات پر بات اس طرح واضح نہ ہوئی ہو جس طرح حضور نے واضح فرمائی ہو.تاہم عبارت کے ربط اور فقرات کی ترتیب کو نہیں چھیڑا گیا.البتہ اگر کسی جگہ کتابت کی کوئی صریح غلطی نظر آئی ہے تو اسے درست کر دیا گیا ہے.حضرت فضل عمر ہمیشہ ہی جماعت کی علمی ترقی اور روحانی رفعتوں کے لئے کوشاں رہے.خدا تعالیٰ کے فضل حضور کی مسلسل توجہ جدوجہد اور دعاؤں کی برکت سے جماعت نے ہر میدان میں بھر پور کامیابیاں حاصل کیں.اور حضور کی تحریرات و تقاریر نے جماعت کی تنظیم و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا.اس علمی و روحانی مائدہ میں سالکانِ راہِ حق کی مکمل سیری کا سامان موجود ہے.

Page 5

اداره فضل عمر فاؤنڈیشن اس خزانہ کو جماعت کی آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کرنے کی ندہ نسلوں کے.سعادت حاصل کر رہا ہے.الحمد للہ زیر نظر مجموعہ میں تزکیۂ نفس اور جماعتی ترقی کے لئے مسلسل کوشش اور مجاہدہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور نے ایک ایسی زریں نصیحت فرمائی جو ہر دور میں ہر احمدی کا لائحہ عمل اور ماٹو ہونا چاہئے.آپ فرماتے ہیں.ہمارا کام کوئی چھوٹا سا کام نہیں ہے اگر کسی ایک آدمی یا ایک شہر یا علاقہ کے لوگوں کے عقائد خراب ہوتے تو کوئی بڑی بات نہ تھی لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے.ساری دنیا کے...ایمان میں تزلزل آچکا ہے اور ان کو درست کرنا ہمارا فرض ہے کیا اتنے بڑے کام کے ہوتے ہوئے ہم سستی اور غفلت سے کام لے سکتے ہیں ؟ ہرگز نہیں.بلکہ جتنا بڑا کام ہے اتنی ہی زیادہ ہمیں تیاری کرنی چاہئے.یاد رکھو کہ تمہیں اس مقابلہ میں اچانک اور جھٹ پٹ فتح نہیں حاصل ہو جائے گی بلکہ تمہیں ایک ایک صوبہ ایک ایک علاقہ ایک ایک شہر ایک ایک گاؤں ، ایک ایک گلی ، ایک ایک گھر بلکہ ایک ایک فٹ اور ایک ایک انچ کے لئے لڑنا ہو گا اور شیطان سے مقابلہ کر کے اسے شکست دینی پڑے گی.تب جا کر فتح کا منہ دیکھو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں سرخرو ہو گے اور اس کے محبوب اور پیارے ہو جاؤ گے اور اس کے انعامات کے وارث ٹھہرو گے.پس ن کمروں کو کس لو اور سینوں کو تان لو اور آج ہی سے نئے انسان بن جاؤ.آج کے دن کی شام تم کو وہ انسان نہ دیکھے جو صبح نے دیکھا اور کل کی صبح تمہیں اس حالت میں نہ پائے جس حالت میں آج کی شام نے پایا.ہر لحظہ اور گھڑی تمہارے اندر نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کرے اور ہر منٹ تمہارے اند ر اور زیادہ ہمت پیدا کرے.اپنی جماعت احمدیہ کے فرائض صفحہ ۷۲ تا ۷۴) اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں بہت سے بزرگان اور مربیان سلسلہ نے ولی محبت اور عقیدت سے خدمات انجام دیں ہیں.خاکسار ان کا احسان مند ہے اور دعا گو ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے علم و معرفت میں برکت ڈالے اور بے انتہاء فضلوں اور رحمتوں سے نوازے.(آمین) ابتداء سے ہی اس کام میں ہمارے ساتھ شامل ہیں.پروف ریڈنگ اور مسودات کی اصلاح کے سلسلہ میں انہوں نے ہمہ تن اپنے آپ کو وقف

Page 6

رکھا.اللہ تعالیٰ ان کو احسن جزاء عطا فرمائے.آمین.نے حوالہ جات کی تلاش کے سلسلہ میں بہت محنت اور اخلاص سے ادارہ کی مدد فرمائی ہے.خاکسار ان کا بے حد ممنون ہے.کا بھی خاکسار دلی شکریہ ادا کرتا ہے.طباعت و اشاعت کے مختلف مراحل میں ان کی ماہرانہ رائے اور تجربہ سے خاکسار نے بہت فائدہ اٹھایا ہے.فجزاه الله خير الجزاء نے اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل ، مسودات کی ترتیب پروف ریڈنگ ، حوالہ جات کی تلاش اور نظر ثانی کے سلسلہ میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے اور بہت بشاشت اور دلجمعی سے بہت وقت دیگر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.فجزاهما الله خير الجزاء خدا تعالیٰ ان سب احباب کو اپنے افضال و برکات سے نوازے اور ہمیں اس اہم ذمہ داری سے صحیح طور پر عہدہ بر آمد ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.والسلام خاکسار

Page 7

ترتیب نمه شمار ا چند غلط فہمیوں کا ازالہ عنوانات ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب پیغام مسیح موعود علیہ السلام فاروق" کے فرائض انوار خلافت 4 اسلام اور دیگر مذاہب نصائح مبلغین نجات کی حقیقت 9 سیرت مسیح موعود علیہ السلام پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید 1 متفرق امور پر تقریر جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں ذكر اللي ۱۴ عید الاضحی اور مسلمانوں کا فرض ۱۵ زندہ خدا کے زبر دست نشان ۱۶ خدا کے قمری نشان ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد ۱۸ زندہ مذہب صفحہ ۳۹ 42 CA ۲۳۱ ۲۸۷ ۳۰۷ ۳۲۷ ۴۰۱ ۴۲۷ ۴۷۹ ۵۴۱ ۵۴۹ ۵۶۷ 049 ۵۸۷

Page 8

بسم الله الرحمن الرحیم محمده و فصلی علی رسولہ الکریم یہ انوار العلوم" کی تیسری جلد ہے.جو سیدنا حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کی درج ذیل ۱۸ کتب / تقاریر اور مضامین پر مشتمل ہے.« (1) چند غلط فہمیوں کا ازالہ الفصل 1 مارچ ۱۹۱۵ء میں حضرت مصلح موعود نے مولوی محمد علی صاحب کے رسالہ " القول ! کی ایک غلطی کا اظہار کے جواب میں ایک ضخیم اور مدلل کتاب "حقیقتہ النبوة " تصنیف فرمائی.اس کے بعد حضور نے اس کتاب کا اختصار " چند غلط فہمیوں کا ازالہ" کے عنوان سے شائع فرمایا.تا کثرت سے اس کی اشاعت ہو اور ہر شخص بآسانی اس کا مطالعہ کر سکے.اس رسالہ میں حضور نے حضرت مسیح موعود کی نبوت کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ فرمایا ہے اور اس اعتراض کا کہ ہر مصلح کی جماعت اس کے درجہ میں افراط سے کام لیتی ہے نہ کہ تفریط سے نہایت عمدگی سے جواب دیا اس جواب کے آخر میں آپ فرماتے ہیں: میں اس مضمون کو ختم کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسئلہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود پر دو زمانے گزرے ہیں.ایک تو وہ زمانہ تھا کہ آپ کو جب اللہ تعالی کی وحی میں نبی کہا جاتا تو آپ اس پرانے عقیدہ کی بناء پر جو اس وقت کے مسلمانوں میں پھیلا ہوا تھا.اپنے آپ کو نبی قرار دینے کی بجائے ان الہامات کے یہ معنی کر لیتے تھے کہ نبی سے مراد صرف ایک جزوی نبوت ہے.اور بعض دوسرے انبیاء پر جو مجھے فضیلت دی گئی ہے وہ بھی ایک جزوی فضیلت ہے اور جزوی فضیلت ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے".اب اس عبارت پر غور کرو کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہو گئے یا اس کا یہ مطلب ہے کہ نبی تو ہمیشہ سے

Page 9

آپ کو کہا جاتا تھا اور آپ شروع دعوئی سے نبی ہی تھے لیکن ایک وقت تک احتیاط انبیاء سے کام لے کر آپ لفظ نبی کی تاویل کر لیا کرتے تھے ".پھر فرمایا : ”میرے نزدیک حضرت مسیح موعود شروع دعوئی سے ایک سے ہی نبی تھے ہاں پہلے آپ اپنے آپ کو جزوی نبی قرار دیتے تھے اور اپنے الہامات کی تاویل کرتے تھے.لیکن بعد میں جب بار بار آپ کو نبی قرار دیا گیا تو آپ نے ان الہامات کی تحریک سے اپنے اس عقیدہ کو بدلا کہ آپ جزوی نبی ہیں نہ کہ آپ کو جزوی نبی سے نبی بنا دیا گیا" حضرت مسیح موعود کی جزوی نبوت کے بارے میں اپنے عقیدہ کو واضح کرنے کے بعد آپ نے بعض اور غلط فہمیوں کا ازالہ فرماتے ہوئے مسئلہ نبوت کے مختلف پہلوؤں پر قرآن و حدیث کے دلائل سے وضاحت فرمائی.(۲) ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب مارچ ۱۹۱۵ء میں ایک غیر از جماعت دوست نے پانچ سوالات تحریر کئے اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ حضور خود ان کا جواب ارشاد فرما ئیں.ان سوالات کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ جواب نہ صرف الفضل کی ۱۳ اپریل ۱۹۱۵ء کی اشاعت میں شائع کروا دیے بلکہ افادہ عام کے لئے ۱۹ - اپریل ۱۹۱۵ء کو پمفلٹ کی شکل میں بھی انہیں شائع کروا دیا گیا.- جن سوالات کا اس رسالہ میں جواب دیا گیا ہے وہ درج ذیل ہیں : (1) اگر میں احمدیت کا اظہار کروں تو مجھے تمام مسلمان کافر سمجھیں گے اور مجھے بھی ان کو ایسا ہی سمجھنا پڑے گا.(۲) احمد می لوگ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتے اس لئے غیر احمدی بھی ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے اس طرح مجھے تمام اسلامی مساجد سے قطع تعلق کرنا پڑے گا.حالانکہ ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ پنجوقتہ جماعت کے ساتھ قریب کی مسجد میں نماز پڑھے اور

Page 10

انوار العلوم جلد ۳ تعارف کر جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کرے.(۳) اس صورت میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ احمدی نام اختیار کرنے سے مجھے کس قدر تکلیف اٹھانی پڑے گی.قرآن کریم ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا قرآن کریم میں ہمارا نام مسلمان ہے اور ہمیں تاکید ہے کہ ہم مذہب کو فرقوں میں تقسیم نہ کریں.(۴) قرآن یا حدیث میں کسی جگہ پر مذکور نہیں کہ ہر انسان کو اپنی نجات کے لئے مسیح اور مهدی پر اعلانیہ ایمان لانا ضروری ہے.(۵) باوجود اس کے مذکورہ بالا حالات کے ماتحت میں اس میں کوئی حرج نہیں دیکھتا کہ خفیہ طور پر ایمان رکھوں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ان سوالات کا اصولی جواب دیتے ہوئے تحریر فرمایا : ” میرے خیال میں ان سب سوالات کے جواب ہم صرف ایک سوال میں دے سکتے ہیں اور وہ یہ کہ آیا حضرت مسیح موعود خدا تعالی کی طرف سے تھے یا نہیں.اگر آپ حق پر نہ تھے تو ان سوالات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ جھوٹے آدمی کا ماننا خواہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر ہر طرح گناہ اور معصیت ہے اور اگر آپ بچے تھے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور بچے تھے تو پھر یہ سوال بھی حل ہو جاتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود نے اپنی بیعت کرنے یا نہ کرنے.اپنے مخالفوں کے پیچھے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے وغیرہ سب مسائل کی بناء خدا تعالیٰ کے الہامات پر رکھی ہے.اور اپنی طرف سے ان مسائل پر کچھ نہیں لکھا.پس آپ کی صداقت ثابت ہو جانے کے بعد ایک دانا انسان کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ وہ ان سب باتوں کو قبول کرے کیونکہ ان کو رد کرنا خدا تعالیٰ کے احکام اور اس کے فیصلہ کو رد کرتا ہے.اور ان کا قبول کرنا در حقیقت خدا تعالی کے فیصلہ کو قبول کرنا ہے" اس کے علاوہ ان صاحب کی مزید تسلی کے لئے آپ نے ہر سوال کا الگ الگ جواب بھی تحریر فرمایا.

Page 11

(۳) پیغام مسیح موعود علیہ السلام جولائی ۱۹۱۵ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی علاج کے لئے لاہور تشریف لے گئے اور ایک خاص تحریک کے نتیجہ میں ایک پبلک جلسہ میں یہ خطاب ارشاد فرمایا جو دسمبر ۱۹۱۵ء میں ”پیغام مسیح" کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا.آپ نے انبیاء کی بعثت کی غرض بیان کرتے ہوئے فرمایا: " قرآن شریف نے نبیوں کی یہ غرض بتائی ہے کہ وہ آکر خدا کے غضب سے لوگوں کو بچائیں اور انسانوں کو آپس کے ضرر اور نقصان سے محفوظ رکھیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کے طریق بتائیں" آپ نے آخری زمانہ کی علامات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہی زمانہ ہے جس کی ہر مذہب اور قوم کے نبی نے خبر دی تھی اور اس زمانہ کے بداثرات سے محفوظ رہنے کے لئے اپنی اپنی قوم کو کسی مسیح، کرشن ، مہدی کے الفاظ میں خوشخبری سنائی تھی.پس اس زمانہ میں آنے والا آگیا آؤ اور اس کو قبول کرو اور آپس کے مذہبی جھگڑے ختم کر دو.آپ نے دو نہایت اہم اور ضروری پیغام دیئے.(۱) پہلا پیغام مذہبی جھگڑوں کے انسداد کی تجویز پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دوسرے کو گالیاں دیتا اور برا بھلا کہنا ترک کر دیا جائے.آپ نے فرمایا : اگر مختلف مذاہب کے لوگ اس بات میں ہمارے ساتھ شامل ہونے پر آمادہ ہو جائیں تو میں اپنی جماعت کی طرف سے جو کئی لاکھ ہے اور جس کا میں واحد امام ہوں اپنی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ گالیوں کو ترک کر کے نرمی اور آشتی کی طرف ایک قدم بڑھا ئیں گے میں دس قدم بڑھاؤں گا اور جو ہماری طرف ایک ہاتھ بڑھے گا ہم اس کی طرف دس ہاتھ بڑھیں گے".(۲) دو سرا پیغام حضرت مسیح موعود کی بعثت کا دیا کہ خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک برگزیدہ ہم میں مبعوث کیا ہے اس کو قبول کرو.آپ نے فرمایا :

Page 12

العلوم جلد تعارف کتب " ہم دلائل پیش کرتے ہیں آپ ان پر غور کریں.اور اگر حق نہ پائیں تو ان کو رد کر دیں لیکن سننا اور غور کرنا شرط ہے کیا ممکن نہیں کہ یہ سلسلہ سچا ہو پس اگر سچا ہے تو میں سب مذاہب کے لوگوں سے کہتا ہوں کہ بتلاؤ کہ خدا تعالٰی کو کیا جواب دو گے تم لوگ جھوٹے اشتہاروں اور ڈنڈھوروں کی طرف تو متوجہ ہو جاتے ہو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالی کی طرف سے جو آواز آئی ہے.اس پر کان نہیں دھرتے ".حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سوانح فضل عمر جلد دوم صفحہ سے میں اس خطاب کے ضمن میں حضرت مصلح موعود کے فن خطابت کے متعلق ایک جامع تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:." آپ کے فن خطابت کا یہ کمال تھا کہ بیک وقت مختلف طبقات اور علم کے مختلف در جے رکھنے والے سامعین کو ایسے رنگ میں مخاطب فرماتے تھے کہ ان میں سے ہر ایک بات کو خوب سمجھتا تھا خواہ وہ عارف ہو یا عامی.حتی کہ ایک ان پڑھ کے لئے بھی آپ کی بات کا سمجھنا آسان ہو تا تھا اور تقریر کے دوران خواہ کتنی ہی لمبی کیوں نہ ہو ایک ناخواندہ آدمی بھی کبھی یہ محسوس نہ کرتا تھا کہ یہ اس کے فہم و ادراک سے بالا ہے بلکہ مسلسل ہمہ تن گوش رہتا بایں ہمہ ایک عالم بھی ان سادہ اور آسان باتوں کو معمولی نہ جانتا بلکہ ہمیشہ یہ تاثر لے کر اٹھتا تھا کہ وہ ایک سمندر میں غوطہ زن ہو کر آیا ہے جو علم و عرفان کے جواہر سے پر ہے علاوہ ازیں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو احمدیت کی طرف بلایا جاتا تھا اور تمام عرصہ ہر فرقے اور ہر مذہب کے پیرو مسلسل تقریر کا اپنے ہی آپ کو مخاطب سمجھتے تھے اور کبھی یہ احساس پیدا نہ ہو تا تھا کہ یہ باتیں دوسروں کے لئے ہیں".(۴) فاروق کے فرائض وہ زریں نصائح ہیں جو حضرت مصلح موعود نے حضرت میر قاسم علی صاحب ایڈیٹر

Page 13

لوم جلد ۳ تعارف کتب " فاروق " کو اپنے دست مبارک سے لکھ کر دیں جو سات اکتوبر ۱۹۱۵ ء کے "فاروق" میں شائع ہو ئیں.حضرت صاحب نے ایڈیٹر فاروق کو اس طرف توجہ دلائی کہ ہمیشہ اس نام کی عزت کی طرف جو آپ نے اپنے اخبار کے لئے پسند کیا ہے متوجہ رہیں اور اسے کبھی نہ بھلا ئیں.عموماً مختلف اشیاء کے نام کے مفہوم میں ان کا کام بتانا مقصود ہوتا ہے.مثلا دکان یا کار خانے کے نام میں ہی اس کا کام بتا دیا جاتا ہے.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ لوگ اپنے ناموں کے متعلق فکر نہیں کرتے کہ ہمارا نام کیا ہے اور کام کیا ہے؟ عربی جو الہامی زبان ہے اس میں جس قدر اشیاء کے نام ہیں وہ ان کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں.جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نام کام کے اظہار کے لئے ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں.پس فاروق کو بھی اسم بامسمی ہونا چاہئے.فاروق کے دو معنی ہیں.ڈرنے والا اور حق و باطل میں فرق کرنے والا.یہ دونوں رنگ اس میں ہونے چاہئیں.یعنی اس کے مضامین خشیت الہی سے لکھے جائیں اور خشیت الہی پیدا کرنے والے ہوں.اسی طرح اس میں حق و باطل میں فرق کر کے دکھایا جائے.اور کبھی اس بات کے منوانے کی کوشش نہ کی جائے جو خود منوانے والے کے نزدیک غلط ہو.اور اگر کبھی غلطی ہو جائے تو اس کا اعتراف کرنے کے لئے بروقت تیار رہنا چاہئے.مضامین کی عبارت سنجیدہ ہو.مضامین کے الفاظ کو زور دار ہوں لیکن گالیوں سے بالکل خالی.دشمن کے خلاف بھی اس رنگ میں لکھنا چاہئے کہ اس کا دل بھی محسوس کرے کہ متانت اخلاص اور خیر خواہی سے مضمون لکھا گیا ہے.وہ انسان کسی عزت کے قابل نہیں جو صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لئے چٹارہ دار مضامین لکھتا ہے یا دل کا غصہ ظاہر کرنے کے لئے غصہ سے کام لیتا ہے.اخلاص اور اصلاح مدنظر ہو اس کے بغیر نہ کوئی مضمون لکھا جائے اور نہ چھاپا جائے."فاروق" کی نظر وسیع ہو اور یہ نہ ہو کہ ایک معاملہ کی طرف متوجہ ہوئے تو اسی میں لگ گئے بلکہ ہر ایک بات میں اتنا ہی زور دو جس قدر اس کے مناسب ہے.آخر میں حضور نے تحریر فرمایا : نیک نیتی اور اخلاص پر سب کاموں کی بناء ہو کیونکہ جس شخص کے کاموں کی ان پر بناء ہوتی ہے وہ کبھی ذلیل نہیں ہو تا.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور

Page 14

آپ کی مدد فرمائے.آمین (۵) انوارِ خلافت یہ کتاب ان خطابات کا مجموعہ ہے جو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنے عہد خلافت کے دوسرے جلسہ سالانہ پر ۲۸٬۲۷ اور ۳۰ دسمبر ۱۹۱۵ء کو ارشاد فرمائے اور اکتوبر ۱۹۱۶ء میں یہ نقار پر کتابی شکل میں شائع ہوئیں.۲۷ - دسمبر کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دو خطابات ارشاد فرمائے ایک قبل از ظہر اور دو سرا بعد از ظهر قبل از ظهر کا خطاب "اسمه احمد " کی تشریح پر مشتمل تھا.اس خطاب میں حضور نے سورۃ الصف اور سورۃ الجمعہ کی روشنی میں اسمُهُ أَحْمَدُ " کی صحیح تفسیر بیان فرمائی.۲۷ - دسمبر کو بعد از ظهر آپ نے مسئلہ نبوت" پر خطاب ارشاد فرمایا.اور ثابت کیا کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کسی طرح بھی قرآن و حدیث کے خلاف نہیں ہے.اپنے اسی خطاب میں جماعت کی عملی حالت اصلاح و بہتری کے پیش نظر بعض مسائل مثلاً تحصیل علم ، غیر احمدی امام کی اقتداء میں نماز غیر احمدی کا جنازہ غیروں سے لڑکی بیاہنا اور گورنمنٹ کی و فاداری وغیرہ موضوعات پر اپنا موقف بیان کرتے ہوئے ضروری نصائح فرمائیں.۲۸ - دسمبر کے خطاب میں آپ نے جماعت کی ترقی کے پیش نظر کچھ تاریخی واقعات کا تذکرہ فرما کر جماعت کو ماضی سے سبق سیکھنے اور آئندہ پیدا ہونے والے فتنوں سے متنبہ کرتے ہوئے فرمایا : تم لوگ یاد رکھو کہ آنے والا فتنہ بہت خطرناک ہے.اس سے بچنے کے لئے بہت بہت تیاری کرو پہلوں سے یہ غلطیاں ہو ئیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیا جو بد ظنیاں پھیلانے والے تھے حالانکہ اسلام اس کی حمایت کرتا ہے جس کی نسبت بدظنی پھیلائی جاتی ہے اور اس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بدظنی پھیلاتا ہے.پس تم لوگ تیار ہو جاؤ تاکہ تم بھی اس قسم کی کسی غلطی کا شکار نہ ہو جاؤ.کیونکہ اب تمہاری فتوحات کا زمانہ آ رہا ہے.اور یاد رکھو

Page 15

العلوم جلد کہ فتوحات کے زمانہ میں ہی تمام فسادات کا بیج بویا جاتا ہے.جو اپنی فتح کے وقت اپنی شکست کی نسبت نہیں سوچتا اور اقبال کے وقت ادبار کا خیال نہیں کرتا اور ترقی کے وقت تنزل کے اسباب کو نہیں مٹاتا اس کی ہلاکت یقینی اور اس کی تباہی لازمی ہے".اسلامی تاریخ کے بعض فتنوں کا ذکر کرنے کے بعد ان فتنوں سے بچنے کے ذرائع بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : پس یاد رکھو کہ یہ وہ فتنہ تھا جس نے مسلمانوں کے ۷۲ نہیں ۷۲ ہزار فرقے بنا دیئے.مگر اس کی وجہ وہی ہے جو میں نے کئی دفعہ بتائی ہے کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.ان باتوں کو خوب ذہن نشین کرلو کیونکہ تمہاری جماعت میں بھی ایسے فتنے ہوں گے جن کا علاج یہی ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور صحیح صحیح حالات سے واقفیت پیدا کرو.میں نہیں جانتا کہ یہ فتنے کس زمانہ میں ہوں گے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہوں گے ضرور لیکن اگر تم قادیان آؤ گے اور بار بار آؤ گے تو ان فتنوں کے دور کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے".تیسرا خطاب : یہ خطاب آپ نے ۳۰ - دسمبر ۱۹۱۵ء کو مسجد اقصیٰ میں ارشاد فرمایا اور اس میں آپ نے حضرت مسیح موعود کے کرشن ، بدھ ، مسیح اور مہدی ہونے کے ثبوت فراہم کئے اور اس بات کی وضاحت کی کہ چونکہ بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ نے امت واحدہ بنانا تھا اس لئے ہر مذہب کے پیروکاروں کو آخری زمانہ میں انہی کے کسی مقدس وجود کے آنے کی خوشخبری سنادی اور اس امت واحدہ کی تشکیل کے لئے آنحضرت مبعوث ہوئے.جو تمام گذشتہ انبیاء کی صفات اپنے اندر رکھتے تھے اور آپ کی اتباع میں آپ ہی کے مشن کی تکمیل کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو آپ کا بروز اور ظل بنا کر مبعوث کیا اور عقلی طور پر گذشتہ انبیاء کے نام سے سرفراز کیا تا آپ ہر ایک امت کو ان کی حقیقی تعلیم سے آگاہ کر سکیں اور انہیں امت واحدہ میں شامل کر سکیں.حضور نے آخر میں خدا تعالی کی طرف سے حضرت مسیح موعود کے ایک سے زیادہ نام رکھنے کی دس حکمتیں بیان فرما ئیں.

Page 16

انوار العلوم جلد.9 (1) اسلام اور دیگر مذاہب یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا وہ معركة الآراء مضمون ہے جو جماعت احمدیہ دہلی کے سالانہ جلسہ کے لئے حضور انور نے قلم برداشتہ لکھ کر ۱۹۱۶ء میں بھجوایا تھا.اس مضمون میں آپ نے اس بات کو ثابت کیا کہ اب صرف اور صرف اسلام ہی تمام بنی نوع انسان کے لئے نجات کا ذریعہ ہے.جبکہ گذشتہ تمام مذاہب مخصوص اقوام اور مخصوص وقت کے لئے تھے.اور سوائے آنحضرت کے کسی اور مذہب کے بانی نے عالمی رسول ہونے کا دعوی نہیں کیا.اور یہی وجہ ہے کہ گذشتہ تمام مذہبی کتب باوجودیکہ الہامی تھیں اب محترف و مبدل ہو چکی ہیں اور چونکہ اب فقط اسلام ہی قیامت تک کے لئے رہنما اور بادی ہے اس لئے اللہ تعالٰی کے وعدہ کے مطابق قرآن کریم قیامت تک اسی طرح محفوظ و مامون رہے گا جس طرح ابتداء میں نازل ہوا تھا.اس تمہید کے بعد آپ نے اسلام کی خوبیوں کو دوسرے مذاہب کے مقابل پر ثابت کرتے ہوئے فرمایا کہ فقط اسلام کی تعلیم ہی فطرت انسانی کے مطابق ہے.اور ہر مذہب کی بنیادی طور پر دو ہی اغراض ہوتی ہیں.پہلی تعلق باللہ یعنی حقوق اللہ کی بجا آوری اور دوسری حقوق العباد کی ا نگهداشت تعلق باللہ خدا تعالیٰ کی محبت کے بغیر ناممکن ہے اور محبت فقط تین وجوہ سے ہوتی ہے.خوف سے یا حسن سے یا احسان سے.ہر وہ محبت جو ان میں سے کسی ایک وجہ سے ہو یا دو وجہ سے وہ یقینا وقتی اور عارضی ہوتی ہے.اور اسلام کے سوا دیگر تمام مذاہب نے یا تو خدا تعالیٰ کے خوف سے ڈرایا ہے یا اس کے حسن سے فریفتہ کرنے کی کوشش کی ہے یا اس کے احسانوں کا بوجھ انسانوں پر ڈالا ہے.اور ان میں بہت افراط و تفریط سے کام لیا ہے.جبکہ صرف اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جس نے خدا تعالیٰ سے محبت کی ان تینوں وجوہ پر توجہ دی ہے اور ان میں ایک میانہ روی اور ربط قائم کیا جبکہ دوسرے تمام مذاہب اس خوبی سے عاری ہیں.اس بات کو ثابت کر کے آپ نے فرمایا : اس وقت اسلام ہی ہے جو اپنی بے عیب تعلیم کی وجہ سے تمام دنیا کی ہدایت کر سکتا ہے اور جس کی تعلیم کسی خاص بات پر زور نہیں دیتی بلکہ تمام ضروری

Page 17

انوار العلوم جلد ہدایتوں کو کھولتی اور شرح کرتی ہے.مختلف مذاہب اپنے اندر مختلف صداقتیں رکھتے ہیں.لیکن کوئی ایسا مذ ہب نہیں جو یکجائی طور پر ان تمام خوبیوں کا جامع ہو جو اسلام کے اندر پائی جاتی ہیں.پس آج روئے زمین پر سوائے اسلام کے اور کوئی ایسا مذ ہب نہیں جو انسان کا تعلق خدا تعالٰی سے پیدا کرا سکے.اور اب جبکہ اللہ تعالی نے کامل شریعت بھیج دی ہے تو اس نے اپنی رضا کے اظہار کے لئے اسلام کے سوا اور تمام دروازے بند کر دیئے ہیں.اور کوئی شخص اب خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک اسلام کا جوا اپنی گردن پر نہ اٹھائے".مذہب کی دوسری غرض اپنے متبعین کو شفقت علی خلق اللہ کی تعلیم دیتا ہے.اور اس کے تین حصے ہیں.(۱) اپنے نفس سے تعلق.(۲) انسان کا معاملہ دوسرے انسانوں سے (۳) انسان کا معاملہ حیوانوں سے.ان تمام معاملات میں کسی مذہب کی بھی تعلیم اس قدر جامع اور فطرت کے مطابق نہیں ہے جس قدر اسلام کی ہے کہ ان معاملات میں تمام چھوٹے بڑے مسائل کا تذکرہ بڑی تفصیل سے کیا ہے.(۷) نصائح مبلغین حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ۱۲ مارچ ۱۹۱۷ء کو مبلغین کو نصائح کرتے ہوئے ایک پر حکمت لیکچر دیا جو بعد میں "نصائح مبلغین " کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا.اس اہم خطاب میں آپ نے مبلغین کو بیش قیمت نصائح کرتے ہوئے فرمایا کہ تبلیغ کی کامیابی کے لئے سب سے ضروری چیز اپنے نفس کا تزکیہ ہے.نماز تہجد کی عادت ، قرآن مجید کا مطالعہ ، ذکر الہی میں باقاعدگی اپنی ذاتی لائبریری کا قیام ، سوال سے اجتناب، خوشامد سے نفرت اور خدا تعالی پر غیر معمولی تو کل انسان کو بہترین مبلغ بناتا ہے.کامیاب مبلغ بننے کے لئے ضروری ہے کہ کثرت سے لوگوں سے تعلقات قائم کئے جائیں کسی بھی بدی کو دیکھ کر جرات سے اس کی تردید کرنی چاہئے.اپنے کام میں مستقل مزاجی اور مسائل میں غور و فکر کامیابی کا زینہ بن جاتے ہیں.

Page 18

انوار العلوم جلد ۳ ایک مبلغ تقویٰ کے بدوں مبلغ کہلا نہیں سکتا اس واسطے آپ نے تقویٰ کے حصول کے آٹھ اہم اور آسان ذرائع بیان فرمائے کہ ان کو اختیار کرنے سے تقویٰ کا حصول بالکل سہل ہو جاتا ہے.(۸) نجات کی حقیقت مورخه ۲۵ مارچ ۱۹۱۶ء کو ایک عیسائی دوست نے حضرت مصلح موعود سے دریافت کیا کہ اصلی اور حقیقی نجات کیا ہے اور کس طرح حاصل کی جاسکتی ہے.حضور نے اس کے جواب میں جو تقریر فرمائی وہ 2 مئی 1917ء کے الفضل میں شائع ہوئی.حضرت صاحب نے اسلام اور عیسائیت کے فلسفہ نجات کا موازنہ کرتے ہوئے موجودہ عیسائیت کے پیش کردہ فلسفہ گناہ کفارہ اور نجات کے تصور کا باطل ہونا ثابت کیا اور نجات کے بارے میں اسلامی تعلیمات کی برتری کے دلائل بیان فرمائے.حضور نے فرمایا کہ انسانی فطرت اور روح میں یہ ملکہ ہے کہ وہ نہ صرف دکھ سے بچے بلکہ آرام بھی حاصل کرے جو مذہب ان دونوں مطالبات کو پورا کرتا ہے وہ انسان کی فطرت کے مطابق ہے اور جو مذہب صرف دکھ سے بچانے کا وعدہ کرتا ہے اور آرام حاصل کرنے کے متعلق خاموش ہے وہ فطرت کے مطابق نہیں ہو سکتا.عیسائیت صرف دکھ سے بچانے کا وعدہ کرتی ہے اور یہ بات کامل خوشی کا باعث نہیں ہو سکتی.لیکن اس کے مقابلہ میں اسلام دکھوں اور تکالیف سے بچا کر کامیاب اور با مراد ہونے کی بشارت دیتا ہے اور اس کا نام فلاح رکھا ہے جیسا کہ فرمایا أُولئِكَ عَلى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ وا واليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ نجات کے متعلق اسلامی تعلیمات بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ نجات خدا کے فضل سے وابستہ ہے لیکن خدا تعالٰی کے فضل کو جذب اور حاصل کرنے کا پہلا ذریعہ اعمال صالحہ ہیں اس لئے جب تک نیک اعمال نہ ہوں نجات نہیں ہو سکتی دیکھو ایک انسان کسی پر رحم کیوں کرتا ہے اس لئے کہ اس کو دکھ اور مصیبت میں دیکھتا ہے یعنی اس کا دکھ اس کے رحم کو کھینچتا ہے تو ہر بات کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ اعمال صالحہ ہیں اسی لئے اسلام نے اعمال صالحہ پر زور دیا ہے مگر نجات خدا کے فضل پر رکھی گئی ہے.حضور نے فرمایا کہ اسلام خدا تعالیٰ کا کامل عرفان بخشا

Page 19

لوم جلد ۳ ۱۲ تعارف کتب ہے اور اس کے نتیجہ میں انسان یہ صرف گناہوں سے نجات حاصل کرتا بلکہ "مفلح" یعنی مظفر و منصور ہوتا ہے اور پیدائش انسانی کے مقصد کو بھی پالیتا ہے.اس طرح اسلام نے نجات کا رہی طریق بتایا ہے جو خداتعالی کے کل انبیاء نے بتایا تھا.جسے بگاڑ دیا گیا.(۹) سیرت حضرت مسیح موعود جماعت کی روز افزوں ترقی اور اکتاب عالم میں پھیلنے والی لہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے حالات سے آگاہی کا خیال پیدا ہونا ایک ضروری اور طبعی امر ہے.اس ضرورت کے پیش نظر اور اس وجہ سے بھی کہ ابتدائی حالت میں مفصل و مبسوط کتب کا مطالعہ نئے شامل ہونے والوں کے لئے مشکل نہ ہو حضور نے نومبر 1917 ء میں مختصر سیرت حضرت مسیح موعود تصنیف فرمائی جس میں آپ نے حضرت مسیح موعود کے حالات آپ کی سیرت ، آپ کا دعوئی اور دلائل، مشکلات اور حضرت مسیح موعود کی چند پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا.(۱۰) پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے قلم مبارک سے نکلی ہوئی اس تحریر کا پس منظر یہ ہے کہ غیر مبالعین حضرت مصلح موعود پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہتے تھے.چنانچہ ۱۹۱۶ء کے پیغام صلح کے ایک پرچہ میں حضور پر نہایت گندے، جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے جن کے جوابات حضرت مصلح موعود نے ۱۰ ستمبر ۱۹۱۷ء کو تحریر فرمائے جو ۱۶ ستمبر ۱۹۱۶ ء کے الفضل میں شائع ہوئے.حضور نے الزامات کی تردید کرنے کے بعد تحریر فرمایا.جو شخص مجھ پر اعتراض کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے ڈرے کہ وہ نہیں مرے گا جب تک اس پر بھی یہ الزام نہ لگایا جائے.اس دنیا کا ( میں) محب نہیں بلکہ اس سے نفرت کرنے والا ہوں.اور وہی شخص اس دنیا کی محبت کا الزام مجھ پر لگا سکتا ہے جس کا دل خود اس گند میں ملوث ہے.میرے لئے یہ بس ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہو.میرے مخالفین کے ناپاک حملوں نے نہ پہلے میرا کچھ بگاڑا ہے اور

Page 20

انوار العلوم جلد ۳ ۱۳ نہ اب بگاڑ سکتے ہیں.خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہوئی اور ہوگی اور اس کے فضل سے دنیا کے چاروں کناروں پر مجھے اور میرے اتباع کو غلبہ حاصل ہو گا.اور وہ لوگ جو دشمنی کی آگ میں جل رہے ہیں یا منافقانہ طور پر میرے ساتھ ہو کر پھر ان دشمنوں کے ساتھ شامل ہیں.آہستہ آہستہ ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھیں گے.ذلت ان کے استقبال کے لئے ہاتھ بڑھائے کھڑی ہے.اور رسوائی ان کو بغلگیر کرنے کے لئے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے، ابھی کچھ ہی دن ہوئے محمد مصطفیٰ تمثیلی طور پر تشریف فرما ہوئے.اور آپ نے مجھے فرمایا.ہم تیری مشکلات کو دیکھتے ہیں اور ان کو دور کر سکتے ہیں.لیکن ایک دو (یا دو تین کہا) سال تک صبر کی آزمائش کرتے ہیں.محمد ﷺ کی روح میری مدد کے لئے جوش مار رہی ہے کیونکہ میرے دشمنوں نے مجھے جو اس وقت اس کا سب سے بڑا عاشق اور سب سے زیادہ محبت رکھنے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کی عظمت کے قائم کرنے کا خواہشمند ہوں.اس لئے محمد رسول اللہ ا کی ہتک کرنے والا قرار دیا کہ میں نے کیوں اس کی حقیقی عظمت کو قائم کیا اور اس کے درجہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا جو اس کی عظمت کا اظہار کرنے والا ہے.پس وہی پاک وجود بے تاب ہے کہ میری نصرت کے لئے آئے.......پس میرے یہ دن عید ہیں اور راتیں لیلۃ القدر ہیں کہ محمد ال کو بھی میری فکر ہے.اور میں اپنے دشمنوں کے حملوں سے گھبراتا نہیں.کیونکہ جس قدر سخت وہ حملہ کریں گے اتنی ہی جلدی مجھے اس محبوب رب العالمین کی روح مبارک سے فیضان خاص حاصل کرنے کا اور دعائے خاص سے حصہ لینے کا موقع ملے گا.پس میرے دشمنو! تم حملہ کرو اور جس قدر چاہو کرو.مجھے جس کی پرواہ تھی رہ مجھ سے خوش ہے.میں تمہارا بھی شکر گزار ہوں کہ تمہارے بے رحمانہ حملے نہ ہوتے تو ایک غلام کو یہ فخر ہرگز حاصل نہ ہو تا کہ مالک اس کے گھر تشریف لاتا اور ایک خادم کو یہ رتبہ کس طرح نصیب ہو تا کہ آقا اس کی آنکھوں کو اپنے تعارف کتب

Page 21

والعلوم جلد ۳ ۱۴ تعارف کتب نور سے روشن کرتا.(11) تقریر جلسه سالانه ۱۹۱۶ء (متفرق امور) یہ حضرت مصلح موعود کے اس خطاب کا عنوان ہے جو آپ نے ۲۷- دسمبر ۱۹۱۶ء کے جلسہ پر ارشا فرمایا تھا.اس خطاب میں آپ نے حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کے سالانہ پر مندرجہ ذیل بیان :- ”میں نے محض اتحاد جماعت قائم رکھنے کی خاطر یہی مناسب سمجھا کہ ہم سب لوگ صاحبزادہ محمود احمد صاحب کی بیعت کرلیں تاکہ وحدت قومی قائم رہے.مجھے اس وقت تک علم نہ تھا کہ صاحبزادہ صاحب کے عقائد میں کوئی فساد واقع ہو چکا ہے".کی تردید کرتے ہوئے اصل واقعات بیان فرمائے.حضرت خلیفہ المسیح نے بڑے زور سے ان کے اس خیال کو رد فرمایا کہ انہیں بیعت سے قبل میرے خیالات کا علم نہ تھا.اور اسی بات پر انہیں مؤکد بعذ اب حلف اٹھانے کی دعوت دی جو وہ قبول نہ کر سکے.اس کے علاوہ حضور نے مولوی صاحب کا ایک خط بھی پیش فرمایا جس میں انہوں نے مذکورہ بالا بیان کے برعکس حضور کے اعتقادات کی تصدیق کی ہے.ای خطاب میں آپ نے مختصراً اپنے اعتقادات اور مخالفوں کی طرف سے ان پر ہونے والے اعتراضات کے جامع و مانع جواب مرحمت فرمائے.نوٹ : حضرت مولوی محمد احسن صاحب امروہی کا یہ وقتی خیال ہی تھا.بعد میں اللہ تعالٰی نے آپ کو توبہ کی توفیق عطا فرمائی.اور خاتمہ بالخیر ہوا.(۱۲) جماعت احمدیہ کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں ۱۹۱۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے ۲۷ - دسمبر کو بعد نماز ظہر " جماعت احمدیہ کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں" کے موضوع پر خطاب فرمایا.اس خطاب میں آپ نے خاص

Page 22

انوار العلوم جلد ۳ ۱۵ کتب طور پر آیت کریمہ ان الله اشترى من المومنين انفسهم وأموالهم بان لهم الجنه کی روشنی میں دینی کاموں کے لئے اپنے اموال کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے اور دعوت الی اللہ کے کام کی طرف متوجہ کیا.دین اسلام اور علماء اسلام کی بری حالت کا نقشہ کھینچ کر فرمایا که: اب خدا تعالٰی نے یہ اہم ذمہ داری ہم کو سونپی ہے کہ ہم دنیا میں ایک روحانی انقلاب لائیں اور وہ انقلاب ممکن نہیں جب تک کہ ہم خود حضرت مسیح موعود کی فرمودہ تعلیم پر عمل پیرا نہ ہوں" آپ نے احباب جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا : پس چاہیے کہ ہر ایک احمدی مبلغ ہو کیونکہ اس زمانہ میں تم ہی خیرامت ہو اگر تم میں سے کوئی تبلیغ نہیں کرتا تو وہ اس امت کا فرد نہیں کہلا سکتا.بلکہ یہود و نصاری میں سے ہو گا.اسی طرح خیر امت کی یہ بھی علامت ہے کہ اس میں سے ایک خاص گروہ ہو جو دن رات تبلیغ میں ہی لگا رہے.اور اس کے اخراجات دوسرے لوگ برداشت کریں.پس تم لوگ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے نہ اپنے مالوں سے اور نہ اپنی جانوں سے دریغ کرو تاکہ آج کے بعد دشمن کو تم پر حملہ کرنے کا موقع نہ ملے".(۱۳) ذکر الهی ۱۹۱۶ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۸ - دسمبر کو حضور نے ذکر الہی کے موضوع پر خطاب فرمایا.جس میں آپ نے نہایت اچھوتے اور دلنشیں انداز میں ذکر الہی اور اس سے متعلقہ امور کا ذکر کرتے ہوئے ذکر الہی سے مراد اس کی ضرورت تسمیں اور فوائد پر روشنی ڈالی آپ نے اسی مضمون میں موجودہ دور کے صوفیاء وغیرہ کے ذکر کی کیفیت بھی بیان فرمائی کہ ان کا انداز ذکر ان کو رسموں میں مبتلا اور خدا کے قرب سے دور کر رہا ہے.آپ نے وضاحت فرمائی کہ ذکر چار قسم کا ہوتا ہے.

Page 23

دم جلد ۳ 14 تعارف کتب (۱) پہلا ذکر نماز ہے (۲) دوسرا قرآن کریم کا پڑھنا (۳) تیسرا اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان تکرار سے اور ان کا اقرار کرنا اور ان کی تفصیل اپنی زبان سے بیان کرنا (۴) چوتھا خدا تعالی کی صفات کو علیحدگی اور تنہائی میں بیان کرنا اور لوگوں میں بھی ان کا اظہار کرنا.اسی تسلسل میں آپ نے ذکر الہی کو مقبول بنانے کے لئے ذرائع اور ذکر الہی کے خاص اوقات بھی بیان فرمائے.اس خطاب میں آپ نے "مقام محمود " تک پہنچانے والے ذکر یعنی نماز تہجد میں باقاعدگی کی تاکید فرمائی اور اس کے التزام و اہتمام کے ایک درجن سے زائد طریق جتلائے.اور اسی طرح نماز میں توجہ کو قائم رکھنے کے لئے آپ نے قرآن وحدیث کی روشنی میں بائیس طریق بیان فرمائے.اور آخر میں حضور نے ذکر الہی کے بارہ عظیم الشان فوائد پیش فرمائے.(۱۴) عید الاضحی پر مسلمانوں کا فرض اپریل ۱۹۱۷ ء میں عید الاضحی کے موقع پر اس پمفلٹ میں قربانی کی روح اور فلسفہ بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : " جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے فنا ہو جاتے ہیں وہ دائی بقا حاصل کرتے ہیں“ ای طرح فرمایا : پس اخلاص اور محبت سے تمام ان لوگوں سے جو خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں لیکن اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں یہ استدعا کرتا ہوں کہ وہ اس عید کے دن بجائے ظاہر پر زور دینے کے باطن پر زور دیں“.عید قربان کے موقع پر عام طور پر ہندو مسلم فسادات برپا ہو جایا کرتے تھے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: پس عقل مندوں کی طرح دشمنوں سے بدلہ لو اور اس کو اس راستہ سے پکڑو جہاں سے وہ بھاگ نہ سکے اور وہ راستہ اخلاق کا راستہ اور تبلیغ کا راستہ ہے".مسلمانوں میں عزت نفس پیدا کرنے اور ہندو غلبہ کو ختم کرنے کے لئے حضور نے ایک نهایت دور رس نتائج کی سکیم بیان کرتے ہوئے فرمایا :

Page 24

16 " مسلمان اگر واقع میں اسلام کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں تو اپنے مال کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کی کوشش کریں اور ایک طرف تو یہ عہد کریں کہ ہندو جن باتوں میں ان سے چھوت کرتے ہیں یہ بھی ان سے ان باتوں میں چھوت برتیں اور دوسرے کسی ہندو ساہوکار سے قرضہ نہ لیں".(۱۵) زندہ خدا کے زبر دست نشان ۱۹۱۷ء میں زار روس کے متعلق حضرت مسیح موعود کا نشان بڑی شان سے پورا ہوا اس کی طرف دنیا کو متوجہ کرنے کے لئے ۱۴ اپریل ۱۹۱۷ء کو حضور نے یہ کتابچہ تصنیف فرمایا جس میں حضور کی متعدد پیشگوئیاں اور الہامات جو پورے ہو کر حضور کی صداقت کی گواہی دے رہے ہیں بھی پیش فرمائے اور زار روس کے متعلق نشان کو تفصیل سے بیان کرتے ہوئے فرمایا : " جس قدر بھی اس پیشگوئی کے الفاظ پر غور کیا جاوے پھر زار کی طاقت اور رسوخ کو دیکھا جائے پھر اس کی معزولی کے حالات کو دیکھا جائے اتنی ہی اس کی عظمت ظاہر ہوتی ہے".اسی طرح آپ نے اس نشان سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا : ”اے اہل ہند! آپ خواہ کسی قوم یا کسی مذہب یا کسی زبان کے بولنے والے ہوں میں آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس نعمت اللی کی قدر کریں جو اس نے اپنے فضل سے آپ پر نازل فرمائی ہے...خوش ہو کہ خدا نے اس زمانہ کے لئے ملک ہند کو جو آپ لوگوں کا مسکن و وطن ہے چنا.مختلف ممالک کے لوگ اس نعمت کے حصول کیلئے سخت آرزو مند تھے اور ہر ایک شخص خواہش کرتا تھا کہ میرا ملک اس کا مورد ہو لیکن خدا کے فضل نے اس نعمت کا سزاوار ہند کو قرار دیا....پس حق کے قبول کرنے کے لئے دوڑو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے دینی ودنیوی دونوں طرح کی عزت ہے".اس کے ساتھ ہی آپ نے تمام دنیا کے لوگوں کو حق شناسی اور زندہ خدا پر ایمان لانے

Page 25

العلوم جلد ۳ کی تلقین فرمائی.١٨ (۱۲) خدا کے قہری نشان تعارف کتب زار روس کے متعلق خدا تعالی کے قمری نشان کو پیش کر کے حق و صداقت کو تسلیم کرنے کی دعوت پر مخالفین کے عام طریق کے مطابق لوگوں نے اس پر ہنسی مذاق سے کام لیتے ہوئے بعض بودے اور فضول قسم کے اعتراضات کئے.حضور نے مئی ۱۹۱۷ ء میں باقاعدہ اعداد و شمار اور گراف پیش کر کے اس مضمون میں یہ ثابت فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کی پیش خبریاں پوری ہو رہی ہیں آخر میں آپ نے فرمایا : میں تمام طالبان حق سے عرض کرتا ہوں کہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں پر رحم کرو اور اس دریدہ دہنی سے باز آؤ جو خدا تعالیٰ کے مرسل کے مقابلہ پر کی جاتی ہے.خوب یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ غیور ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں.مسیح موعود کی صداقت ثابت کرنے کیلئے اللہ تعالٰی نے لاکھوں نشانات دکھائے ہیں جن کو پڑھ کر دشمن بھی اقراری ہیں اور احرار یورپ بھی ان کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیں.پس کیوں اپنے آپ کو ایسا بد قسمت بناتے ہو کہ دور دراز کے علاقوں کے لوگ تو اس نعمت الہی کو قبول کریں اور تم محروم رہو ---- یاد رکھو کہ خدا کے وعدے پورے ہو کر رہتے ہیں.سورج نکل آیا ہے اور اب تاریکی سوائے بند مکانوں اور غاروں اور تنگ سوراخوں کے اور کہیں نہیں رہ سکتی.پس یہ مت سمجھو کہ کسی کی کوشش سے یہ سلسلہ ہلاک یا تباہ ہو جائے گا.اس کی سچائی پھلے گی اور ضرور پھیلے گی اور تمام ممالک میں اس کی اشاعت ہوگی.پس وقت کو پہچانو اور اسلام پر رحم کرو.نہیں بلکہ اپنی جانوں پر رحم کرو اور دوڑ کر اس حق کو قبول کرو جو تمہیں عزت دینے اور اسلام کو دیگر ادیان پر دلائل اور براہین سے غالب کرنے کیلئے ظاہر ہوا ہے".

Page 26

رالعلوم جلد ۳ ۱۹ تعارف کتب (۱۷) ترقی اسلام کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح کا ارشاد ستمبر ۱۹۱۷ء کو حضرت فضل عمر نے اس چھوٹے سے پمفلٹ میں جماعت کو اشاعت و تبلیغ کے سلسلہ میں ان کی ذمہ داریوں کی طرف نہایت موثر رنگ میں توجہ دلاتے ہوئے نصیحت فرمائی کہ : اسلام پہلے بھی اپنے بے نظیر حسن کے ذریعہ سے لوگوں کے دلوں کا فاتح ہوا تھا اور اب بھی انہی لوگوں کے قلوب کو فتح کرے گا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے اسلام کو اس کی اصلی خوبی کے ساتھ دنیا پر ظاہر کریں.اور ہمارا ایسا کرنا کسی پر احسان نہیں بلکہ اپنے فرض کی ادائیگی ہے اور دنیا میں کوئی خوشی ادائیگی فرض کی خوشی سے زیادہ نہیں ہو سکتی".بعض مالی تحریکات کے سلسلہ میں جماعت کی تعریف کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : اللہ تعالٰی کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایک ایسی جماعت کا انتظام سپرد کیا ہے.جس کی نسبت اگر میں یہ کہوں کہ وہ میری آواز پر کان نہیں رکھتی تو یہ سخت ناشکری ہوگی میری بات کی طرف توجہ کرنا تو ایک چھوٹی سی بات ہے میں تو دیکھتا ہوں کہ بہت ہیں جو میرے اشارے پر اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر ایک عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں “.(۱۸) زندہ مذہب ۳۰ ستمبر ۱۹۱۷ء کو بمقام شملہ میانک ہال میں حضور نے یہ تقریر فرمائی تھی جسے بعد ازاں کتابی شکل میں شائع کیا گیا.اس کتاب میں حضور نے زندہ مذہب کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا : " کسی مذہب کے متعلق زندہ یا مردہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دیکھیں مذہب کی غرض کیا ہے.اسے کیوں اختیار کیا جاتا ہے پس اگر جس غرض کے لئے کسی مذہب کو اختیار کیا جاتا ہے وہ پوری ہو جائے تو وہ مذہب زندہ ہے

Page 27

العلوم جلد ۳ اور اگر نہ پوری ہو تو مردہ ".مذہب کی غرض حضور کے الفاظ میں یہ ہے کہ : ”ہمارا مقصد مذہب کے اختیار کرنے سے خدا تعالیٰ تک پہنچنا اور بدیوں اور گناہوں سے نجات پانا ہے اگر وہ حاصل ہو جاتا ہے تو ہم جان دینے کے لئے بھی تیار ہیں اور اگر وہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر اس کے اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں".تعارف کر اس کے بعد حضور نے بعض مشہور مذاہب کی تعلیمات بیان کرنے اور ان کا اسلامی تعلیم سے موازنہ کرنے کے بعد فرمایا : پس جس مذہب میں یہ باتیں حاصل ہوں وہی زندہ مذہب ہو سکتا ہے اور اسی کو قبول کرنا چاہئے اور وہ صرف اسلام ہے اس کا یہ دعوئی ہے کہ وحی کا دروازہ اب بھی کھلا ہے جس کے ذریعہ خدا اپنے بندوں کے ساتھ اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے اور کرتا رہے گا".اس امر کے ثبوت کے طور پر حضور نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کے بعض نشانات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں فرمایا : ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام سچا ہے اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب بچے ہیں اس کے فیصلہ کا آسان طریق یہ ہے کہ مشاہدہ کر لیا جائے کہ کون سا مذہب سچا ہے اور جب مشاہدہ ہو سکتا ہے تو پھر کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن اس میدان میں صرف اسلام ہی کھڑا رہے گا".☆

Page 28

انوار العلوم جلد چند غلط ضمیوں کا ازالہ چند غلط فہمیوں کا ازالہ (مسئلہ نبوت کے بارہ میں مولوی محمد علی صاحب کے بعض خیالات کا رد) سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 29

Page 30

چند غلط فہمیوں کا ازالہ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم " چند غلط فہمیوں کا ازالہ جب انسان جلد بازی سے کام لیتا ہے اور بغیر کافی غور کرنے کے ایک بات پر بحث کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ٹھو کر کھاتا ہے اور بجائے راستی کو پانے کے دروغ پر ہاتھ مارتا ہے اور اپنے ساتھ اور بہت سے بے خبروں کو بھی باطل کے عمیق گڑھے میں گرا دیتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب کے رسالہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب پر جو میں نے رسالہ "القول الفصل " لکھا تھا اس کے ایک حصہ کے جواب دینے کی مولوی محمد علی صاحب نے کوشش کی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ انہوں نے بہت سی غلط فہمیوں میں پڑ کر بہت سے اور لوگوں کو بھی حق کے سمجھنے سے روکا ہے اور جلد بازی سے کام لے کر میرے مضمون پر کافی غور کئے بغیر ہی اس کا جواب لکھنے کی طرف متوجہ ہو گئے ہیں.جب آپ کا رسالہ میرے پاس پہنچا اور میں نے اسے پڑھا تو اس کے پڑھتے ہی میں نے معلوم کر لیا کہ بجائے اس کے کہ جناب مولوی صاحب رسالہ "القول الفصل" کو پڑھ کر ان غلطیوں سے متنبہ ہوتے جن میں آپ گر فتار تھے آپ نے اس کے جواب لکھنے کی فکر میں اس رسالہ کی عبارت پر بھی غور نہیں کیا اور چند اور غلط فہمیوں کا شکار ہو گئے اور القول الفصل کی کسی غلطی کا ازالہ تو کیا کرنا تھا اپنی سمجھ کی بعض غلطیوں کو دور کرنے لگ گئے اور گو بعض وہ اشخاص جنہوں نے رسالہ القول الفصل نہ پڑھا ہو دھوکا کھا جائیں کہ جناب مولوی صاحب نے واقع میں القول الفصل کی کوئی سخت غلطی معلوم کرلی ہے لیکن جو لوگ القول الفصل کے مضمون سے آگاہ ہیں وہ اس رسالہ کو دیکھتے ہی معلوم کر لیں گے کہ مولوی صاحب موصوف نے بجائے القول الفصل کی کسی غلطی کا ازالہ کرنے کے خود ایک غلطی ایجاد کی ہے اور پھر اس کا جواب دینا شروع کر دیا

Page 31

العلوم جلد.چند غلط فہمیوں کا ازالہ ہے.مگر چونکہ ممکن تھا کہ مولوی صاحب کے رسالہ کو کوئی شخص میرے رسالہ کی تردید خیال کر لیتا اس لئے میں نے اس رسالہ کے پہنچتے ہی اس کے جواب میں ایک رسالہ لکھنا شروع کر دیا.لیکن بعد میں مجھے خیال پیدا ہوا کہ مسئلہ نبوت پر ایک مستقل کتاب لکھ دی جائے تاکہ اپنی جماعت کے لوگ اس کو خوب اچھی طرح سمجھ لیں اور آئندہ ہر رسالہ کے جواب دینے کی ضرورت نہ رہے اور ہر جگہ کے احمدی خود بخود ہر اعتراض کا جواب دینے پر قادر ہو جائیں اور انہیں ایسے ٹریکٹوں کے جواب کے لئے قادیان سے جواب شائع ہونے کی انتظار نہ کرنی پڑے.اس لئے میں نے اس رسالہ کو کتاب کی صورت میں تبدیل کر دیا جو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شائع ہو چکی ہے.لیکن چونکہ احمدی جماعت کو واقف کرنے کے علاوہ غیر مبالکین کو سمجھانا بھی اور غیر احمدیوں کے دلوں سے ان غلط فہمیوں کو دور کرنا بھی جو ان میں ہمارے اعتقادات کی نسبت پھیلائی جاتی ہیں نہایت ضروری ہے اور اتنی بڑی کتاب نہ کثرت سے شائع کی جا سکتی ہے اور نہ ہر ایک شخص اس کو پڑھ سکتا ہے اس لئے میں مناسب سمجھتا ہوں کہ ایک ایسے مختصر ٹریکٹ میں مولوی صاحب کی غلط فہمیوں کو ظاہر کر دیا جائے جسے تمام غیر مبائعین اور غیر احمدی بھی آسانی سے پڑھ سکیں اور اس کی اشاعت بھی کثرت سے ہو سکے.جناب مولوی صاحب نے اپنے رسالہ کے شروع میں اس بات پر بہت زور دیا ہے کہ وہ نیک نیتی سے سب کام کر رہے ہیں اور ہمیں اس بات کے قبول کر لینے سے کوئی چیز مانع نہیں کہ وہ واقع میں نیک نیتی سے ہی سب کام کر رہے ہیں لیکن ہم اس بات کے اظہار سے بھی نہیں رک سکتے کہ نیک نیتی کے ساتھ ساتھ تعصب بھی ضرور شامل ہے کیونکہ گو اس بات کو ہم کر سکتے ہیں کہ وہ جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا نہیں دے رہے لیکن اس بات کو ہم تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ ہماری تحریرات کو ٹھنڈے دل اور اطمینان قلب کے ساتھ پڑھتے ہیں بلکہ اس کے برخلاف ان کی تحریرات کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ جوش و غضب سے مجبور ہو کر اپنی رائے سے اختلاف رکھنے والے کی تحریر پر کافی غور نہیں کر سکتے اور اس کے غلط معنی سمجھ کر اپنی غلط فہمی کا ازالہ شروع کر دیتے ہیں اور یہ عادت انسان کے لئے بہت سی ٹھوکروں کا موجب ہو جاتی ہے.ہے ہم جناب مولوی صاحب کی اس نصیحت کو بھی قبول کرتے ہیں کہ غلو نہایت بری شئے.اور مانتے ہیں کہ غلو بھی لے انسان کو ویسا ہی تباہ کر دیتا ہے جیسا کہ کسی کو اس کے درجہ سے گھٹانا.

Page 32

ال چند غلط نو لیکن آپ کے اس خیال کو ہرگز قبول نہیں کر سکتے کہ کسی مصلح کی جماعت اسے اپنے درجہ سے گھٹاتی نہیں اور تاریخ سے ثابت ہے کہ تمام مصلحین کی جماعتوں نے ان کے درجہ کے متعلق غلو سے کام لیا ہے نہ تفریط سے کیونکہ ہمارے سامنے خود ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو اپنے پیشواؤں کے درجہ کو بڑھانے کی بجائے گھٹانے کے عادی ہیں.چکڑالوی رسول اللہ کے فیصلہ کو حجت نہیں قرار دیتے اور جہاں رسولوں کی اطاعت کا حکم آتا ہے اس سے مراد قرآن کریم کو لیتے ہیں اسی طرح خوارج کا گروہ تھا کہ وہ بھی رسول اللہ ا کو وحی کے علاوہ عام مسلمانوں کا سا درجہ دیتا تھا اور ان KNN الا الله..(یوسف : ۶۸۷۴۱) کے مفہوم اِنِ الْحُكْمُ اِلَّا لِلَّهِ کو غلط سمجھ کر حق سے دور ہو رہا تھا پھر احادیث سے ثابت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت کے منہ پر کہہ دیا کہ آپ عدل سے کام لیں.پس یہ بات غلط ہے کہ تفریط سے کسی جماعت نے کام نہیں لیا بلکہ اگر افراط سے کام لیا گیا ہے تو تفریط سے بھی کام لیا گیا ہے.پھر ہم اس بات کے اقرار کرنے سے بھی نہیں رک سکتے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کی جماعتوں میں سے ایک جماعت بھی ایسی نہیں ملتی جس کے اکثر افراد اس کی وفات کے ساتھ ہی بگڑ گئے ہوں بلکہ وہ لوگ جو اس کے صحبت یافتہ ہوتے ہیں ان کا بڑا حصہ ہمیشہ حق پر قائم رہتا ہے اور ہم ھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے صحبت یافتوں کا ایک بڑا حصہ ہمارا ہم خیال ہے پھر یہ بھی بات ہے کہ اگر جناب مولوی صاحب کے مقرر کردہ اصل کو قبول کر لیا جائے تو ہمیں پہلے جماعت احمدیہ کے تمام لوگوں کے عقائد معلوم کرنے ہوں گے.اور پھر ان میں سے جس شخص کے عقائد میں حضرت مسیح موعود کا درجہ سب احمدیوں کے عقائد کی نسبت کم ہو اسے قبول کرنا ہو گا کیونکہ اگر اس کے سوا کسی اور عقیدہ کو قبول کیا جائے گا تو مانا پڑے گا کہ ماموروں کی جماعت میں سے بعض درجہ کو بڑھانے کی بجائے کم بھی کر دیتے ہیں اور یہ بات جناب مولوی صاحب کی تحقیق کے بالکل خلاف ہے پس جو احمدی حضرت مسیح موعود کے درجہ کو باقی سب احمدیوں کی نسبت گھٹا کر بیان کرتا ہے اس کا خیال صحیح تسلیم کرنا پڑے گا اور میں ایسے آدمی پیش کر سکتا ہوں جن کے خیال میں حضرت مسیح موعود کی وہ باتیں جو آپ وحی سے نہ کہیں ماننے کے قابل نہیں اور ایسے آدمی بھی پیش کر سکتا ہوں جو کہتے ہیں کہ مسیح موعود نے چونکہ ہم کو نہ مانا اس لئے بطور سزا ان کی عمر کم کر دی گئی اور ایسے بھی جو کہتے ہیں کہ آپ بلحاظ ماموریت کے جو کچھ فرماتے ہیں درست ہے لیکن مامور بھی بشر ہوتا ہے اور بلحاظ بشریت گناہ میں مبتلا ہو

Page 33

انوار العلوم جلد ۳۰ سکتا ہے چنانچہ ایک غیر مبائع صاحب نے پیسہ اخبار میں ایک خط لکھا ہے اور اس میں قبول کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود بھی نفسانیت سے پاک نہ تھے بلکہ آپ میں بھی ایک حد تک شخصیت پائی جاتی تھی.پس اگر اس اصل کو تسلیم کر لیا جائے تو ان لوگوں کے خیالات کو اصل اور درست قرار دینا ہو گا کیونکہ تفریط تو کوئی جماعت کرہی نہیں سکتی.لیکن یہ بات بالکل غلطان ہے.بعض لوگ افراط کرتے ہیں اور بعض تفریط.لیکن ہمیشہ مامور کی صحبت پانے والا حصہ زیادہ تر حق پر رہتا ہے نہ کہ افراط و تفریط میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جو لوگ حق کو چھوڑتے ہیں خواہ افراط کریں یا تفریط وہ مامور کی فیض صحبت یافتہ جماعت کا ایک قلیل گروہ ہو سکتے ہیں نہ کثیر درنہ مامور پر نا کام جانے کا الزام آتا ہے.اس بات کے ظاہر کرنے کے بعد کہ مولوی صاحب کا اس امر سے حجت پکڑنا کہ ہمیشہ کسی مصلح کی جماعت اس کے درجہ میں افراط سے کام لیتی ہے نہ کہ تفریط سے اس لئے ہم حق پر ہیں غلط ہے.میں بتانا چاہتا ہوں کہ مولوی صاحب کی وہ کونسی غلط فہمیاں ہیں جن کے ازالہ کے لئے انہیں قلم اٹھانی پڑی ہے ؟ سو یا د رہے کہ میں نے اپنے رسالہ "القول الفصل" میں لکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود کو جزوی نبی ہم اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ آپ کو پہلے اپنے آپ کو جزوی نبی خیال کرتے تھے لیکن بعد میں آپ نے اس عقیدہ کو ترک کر دیا.مولوی صاحب نے میرے منشاء کو سمجھنے کے بغیر اپنے رسالہ میں لکھ دیا کہ میاں صاحب کے خیال میں پہلے تو مرزا صاحب جزوی نبی تھے مگر بعد کے الہامات میں آپ کو نبی قرار دیا گیا.اور وہ میرا یہ عقیدہ خیال کر کے مجھ سے اس الہام کا مطالبہ کرتے ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہو کہ حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے لیکن اب نبی بنائے جاتے ہیں.(گو وہ خود اس الہام کے پیش کرنے سے قاصر ہیں جس میں حضرت مسیح موعود کو جزوی نبی کہا گیا ہو) اسی طرح وہ حضرت مسیح موعود کی کتب سے چند عبارات نقل کر کے ثابت کرتے ہیں کہ دیکھو حضرت مسیح موعود ہمیشہ یہی کہتے رہے ہیں کہ آپ کی نبوت سے صرف مکالمہ و مخاطبہ اور امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانا مراد ہے.جس سے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ہمیشہ اپنی نبوت کی ایک ہی تشریح کرتے رہے ہیں.لیکن ہر ایک ایسا انسان جس نے اللہ تعالیٰ کے عنایت کردہ قسم کو ضائع نہ کر دیا ہو سمجھ سکتا ہے کہ ان دونوں باتوں سے مولوی صاحب کا مطلب حاصل نہیں ہوتا اور ان سے میری بات کی تردید نہیں ہوتی.کیونکہ نہ تو میں نے کہیں یہ لکھا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو پہلے خدا تعالیٰ جزوی

Page 34

انوار العلوم جلد ۳۰ چند غلط فہمیوں کا ازالہ نبی کہتا تھا اور بعد میں اس نے آپ کو نبی بنا دیا اور نہ میں نے یہ لکھا ہے کہ پہلے حضرت مسیح موعود اپنی نسبت یہ لکھتے تھے کہ مجھے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے اور میری نبوت سے یہی مراد ہے اور بعد میں اس سے بڑھ کر کوئی اور دعویٰ شروع کر دیا.بلکہ میں نے اپنے رسالہ "القول الفصل " کے صفحہ ۱۹ پر صاف لکھا ہے کہ : میں اس مضمون کے ختم کرنے سے پہلے یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ مسئلہ نبوت کے متعلق حضرت مسیح موعود پر دو زمانے گزرے ہیں.ایک تو وہ زمانہ تھا کہ آپ کو جب اللہ تعالٰی کی وحی میں نبی کہا جاتا تو آپ اس پرانے عقیدہ کی بناء پر جو اس وقت کے مسلمانوں میں پھیلا ہوا تھا.اپنے آپ کو نبی قرار دینے کی بجائے ان الہامات کے یہ معنی کر لیتے تھے کہ نبی سے مراد صرف ایک جزوی نبوت ہے اور بعض دوسرے انبیاء پر جو مجھے فضیلت دی گئی ہے وہ بھی ایک جزوی فضلیت ہے.اور جزوی فضلیت ایک غیر نبی کو نبی پر ہو سکتی ہے".اب اس عبارت پر غور کرو.کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہو گئے یا اس کا یہ مطلب ہے کہ نبی تو ہمیشہ سے آپ کو کہا جاتا تھا اور آپ شروع دعوی سے نبی ہی تھے.لیکن ایک وقت تک احتیاط انبیاء سے کام لے کر آپ لفظ نبی کی تاویل کر لیا کرتے تھے.مگر کیسے تعجب کی بات ہے کہ جناب مولوی صاحب ایسی صاف عبارت کے ہوتے ہوئے لکھتے ہیں " آپ اس حد تک اور بھی ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ بے شک یہی مجددیت والی نبوت ہی اوائل میں حضرت مسیح موعود کو ملی تھی.مگر آپ کا خیال ہے کہ کچھ مدت بعد نبوت جزئی کے مرتبہ سے آپ کو ترقی دے کر نبوت تامہ کاملہ کا خلعت پہنایا گیا.اور اس کے مقابل میرا یہ دعویٰ ہے کہ نبوت تامہ کاملہ کا خلعت آپ کو کبھی نہیں پہنایا گیا".(صفحہ ۳) اب انصاف پسند طبائع اس بات پر غور کریں کہ میں تو صاف لکھتا ہوں ایک غلطی کا اظہار کہ حضرت مسیح موعود کو خدا تعالیٰ کے الہامات میں نبی پہلے سے کہا جاتا تھا.لیکن عام مسلمانوں کے عقیدہ کے ماتحت آپ اس کی تاویل کر لیتے تھے اور مولوی صاحب فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے پھر نبی بن گئے.کیا القول الفصل کی وہ عبارت جو میں اوپر نقل کر آیا ہوں کسی ایسی زبان میں ہے جسے مولوی محمد علی صاحب سمجھ نہ سکتے تھے.القول الفصل کی عبارت صاف ہے.اس کے معنی پیچ دار

Page 35

چند غلط فہمیوں کا ازالہ عبارتوں میں پوشیدہ نہیں ہیں.لیکن جہاں غور و فکر کے بغیر ہی جواب دینے کا ارادہ ہو وہاں مطلب کو سمجھنے کی کوشش کرنے کی طرف توجہ ہو تو کیونکر؟ لیکن اگر جناب مولوی محمد علی صاحب القول الفصل کے صفحہ 19 کو پھر ایک دفعہ پڑھیں گے تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ میری جس غلطی کا ازالہ انہوں نے کیا ہے وہ در حقیقت ان کی اپنی ہی غلطی تھی اور یہ کہ انہوں نے بجائے میرے خیالات کا جواب دینے کے اپنی ہی غلط فہمیوں کا ازالہ کیا ہے.میرا مذ ہب ہر گز یہی نہیں کہ حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہوئے.بلکہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود شروع دعوے سے ایک سے ہی نبی تھے ہاں پہلے آپ اپنے آپ کو جزوی تو نبی قرار دیتے تھے اور اپنے الہامات کی تاویل کرتے تھے.لیکن بعد میں الہامات میں جب بار بار آپ کو نبی قرار دیا گیا تو آپ نے ان الہامات کی تحریک سے اپنے اس عقیدہ کو بدلا کہ آپ جزوی نبی ہیں نہ کہ آپ کو جزوی نبی سے نبی بنا دیا گیا.پھر میں نے حضرت مسیح موعود کا جو حوالہ اس خیال کی تائید میں نقل کیا تھا.اس میں حضرت مسیح موعود اس اختلاف کو وفات مسیح کا سا اختلاف قرار دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ یہ اختلاف بھی دیا ہی ہے جیسا کہ میں حضرت مسیح کی نسبت ایک وقت میں حیات کا قائل رہا اور پھر وفات کا.اور باوجود اس کے کہ میرا نام عیسی رکھا گیا پھر بھی میں پچھلے مسیح کی دوبارہ آمد کا قائل رہا.اب غور کرو کہ جب میں نے اپنی تائید میں حضرت مسیح موعود کے اس حوالہ کو نقل کیا تھا جس میں حضرت مسیح موعود نے نبوت کے متعلق اپنی تبدیلی رائے کو حیات و وفات مسیح کے ساتھ مشابہت دی ہے تو میری نسبت یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا تھا کہ میں حضرت مسیح موعود کی نسبت یہ خیال کرتا ہوں کہ آپ پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہو گئے.کیا حضرت مسیح ناصری براہین لکھنے کے وقت زندہ تھے اور بعد میں فوت ہو گئے ہیں کہ ہم یہ سمجھیں کہ حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہوئے ؟ کیا مسیح کی حیات اور اس کے دوبارہ آنے کے متعلق حضرت مسیح موعود کے عقیدہ کی تبدیلی اس طرح نہیں ہوئی کہ باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں حضرت مسیح کی وفات کا ذکر تھا اور باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود کو مسیح موعود قرار دیا گیا تھا آپ حضرت مسیح کو زندہ خیال کرتے رہے اور انہی کی آمد کے منتظر رہے.اور بعد میں بار بار کے الہامات سے آپ کی توجہ اس طرف ہوئی کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اور آپ ہی مسیح موعود ہیں پھر جبکہ آپ اپنی نبوت کے عقیدہ کے متعلق اپنے دو مختلف بیانات کو اسی کے مشابہ قرار دیتے

Page 36

و هم جلوه ۳۰ 16 چند غلط فہمیوں کا ازالہ ہیں تو کیا اس کا یہی مطلب نہیں کہ جس طرح حضرت مسیح براہین لکھنے کے وقت بھی فوت شدہ تھے حضرت مسیح موعود بھی شروع دعوئی سے نبی تھے اور جس طرح بعد کے الہامات سے آپ کی توجہ اس طرف ہوئی کہ حضرت مسیح فوت ہو چکے ہیں اور آپ ہی مسیح موعود ہیں.حالانکہ یہ دونوں باتیں براہین لکھنے کے وقت بھی آپ کو الہاما بتائی گئی تھیں.اسی طرح حضرت مسیح موعود کو وحی الہی میں بار بار نبی اور رسول کے نام سے پکارے جانے سے آپ کی توجہ اس طرف منعطف ہوئی کہ آپ واقع میں نبی ہیں گو آپ کو مدت سے نبی کہا جاتا تھا.پس میری ایسی صاف تحریر اور حضرت مسیح موعود کی ایسی صاف عبارت کے ہوتے ہوئے ایسے غلط مفہوم کو لوگوں میں پھیلانا جو کسی قیاس کے ذریعہ نہیں بلکہ میرے صاف الفاظ سے رد ہوتا ہے کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ مولوی صاحب موصوف نے انصاف سے کام نہیں لیا اور خود ہی ایک غلطی ایجاد کی ہے.اور پھر اس کا ازالہ کرنے لگ گئے ہیں؟ چونکہ ایک غلطی کا نتیجہ دوسری غلطی ہوتی ہے.اس لئے ضرور تھا کہ مولوی صاحب میرے مضمون کو غلط سمجھ کر اور کئی غلطیوں میں پڑ جاتے.چنانچہ جیسا کہ میں اوپر لکھ آیا ہوں آپ نے حضرت مسیح موعود کی مختلف تحریرات اس امر کے ثابت کرنے کے لئے نقل کی ہیں کہ حضرت مسیح موعود ہمیشہ کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پانے کا نام نبوت رکھتے رہے ہیں اور ابتدائی تحریروں میں بھی انہی معنوں سے اپنے آپ کو نبی قرار دیتے تھے اور بعد میں بھی انہی معنوں سے اپنے آپ کو نبی قرار دیا ہے جس سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت ایک ہی قسم کی رہی ہے.لیکن مولوی صاحب کو ان مختلف حوالہ جات کے تلاش کرنے کی ضرورت بھی صرف اسی غلط فہمی سے پیدا ہوئی ہے کہ گویا میرے نزدیک حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہوئے.میں تو جیسا کہ پہلے ثابت کر چکا ہوں یہی عقیدہ رکھتا ہوں.اور یہی درست ہے کہ حضرت مسیح موعود پہلے اپنی نبوت کا نام جزوی نبوت رکھتے رہے ہیں لیکن بعد میں کثرت سے نبی اور رسول کے لفظ سے اپنے آپ کو پکارا جاتا دیکھ کر آپ نے اپنے نام میں تبدیلی پیدا کی اور معلوم کیا کہ میں جزوی نبی نہیں بلکہ نبی ہوں.پس جبکہ آپ ہمیشہ سے نبی ہی تھے تو آپ کی تحریرات میں کوئی ایسا فرق کیوں آتا جس سے یہ ثابت ہو تاکہ آپ پہلے نبی نہ تھے.اور جب کہ آپ شروع سے نبی تھے.اور جیسے نبی ابتدائی دعوئی کے وقت تھے ویسے ہی بلحاظ نبوت کے وفات کے وقت تھے.تو کیا وجہ تھی کہ آپ آخری عمر میں

Page 37

لوم جلد ۳ چند غلط فہمیوں کا ازالہ اس بات کا اعلان کرتے کہ اب میری نبوت سے مراد امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانا نہیں بلکہ اور ہے.یہ بات تو دو ہی صورت سے ہو سکتی تھی یا تو اس صورت میں کہ حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نہیں ہوتے بعد میں نبی بنائے جاتے.تب ضروری تھا کہ آپ اپنا کوئی نیا کام بتاتے کہ اب میں چونکہ نبی بنایا گیا ہوں مجھے فلاں نیا کام سپرد کیا گیا ہے یا فلاں نیا انعام مجھ پر کیا گیا ہے یا اس صورت میں آپ کی تحریرات میں اختلاف ہونا چاہئے تھا کہ پہلے آپ جن باتوں کے اپنے اندر پائے جانے کے مدعی تھے ان کے سوا نبیوں میں کچھ اور باتیں ہوتی ہیں.پس جب آپ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تو ان باتوں کے پائے جانے کا دعویٰ بھی کرنا چاہئے تھا جن سے کوئی شخص نبی ہوتا ہے.لیکن جب کہ یہ دونوں خیالات غلط ہیں نہ تو آپ جزوی نبی سے نبی بنائے گئے.اور نہ یہ کہ کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پانے کے سوا نبوت کسی اور چیز کو کہتے ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں اختلاف کیوں ہوتا؟ افسوس ہے کہ جناب مولوی صاحب نے رسالہ القول الفصل میں وہ عبارات نہ دیکھیں جو صفحہ ۷۶٬۵۴ پر میں نے لکھی ہیں اور حضرت مسیح موعود کے حوالہ جات سے ان کی تصدیق کی ہے جن کا یہ مطلب کا بہ ہے کہ نبی کہتے ہی اسی کو ہیں جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں اور خدائے تعالیٰ اور اس کے بھیجے ہوئے نبیوں اور قرآن کریم اور اسلام کی اصطلاح میں ایسے ہی شخص کو نبی کہتے ہیں جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں.کیونکہ اگر مولوی صاحب نے ان صفحات کو غور سے پڑھا ہوتا تو آپ میرے خلاف وہ حوالہ جات کیوں پیش کرتے جن میں حضرت مسیح موعود کثرت مکالمہ و مخاطبہ اور امور غیبیہ پر اطلاع پانے کو اپنے نبی کہلانے کی وجہ بتاتے ہیں؟ کیا اس بات سے میں نے انکار کیا تھا؟ جب کہ میں نے آپ کے نبی ہونے کے ثبوت میں خود آپ ہی کی کتب میں سے یہ ثبوت دیا تھا کہ نبی اسے کہتے ہیں جس پر کثرت سے امور غیبیہ ظاہر کئے جائیں تو مولوی صاحب کے ایسے حوالے نقل کر دینے سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے جن میں حضرت مسیح موعود نے یہ تحریر فرمایا ہے کہ میری نبوت سے مراد کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پاتا ہے؟ کیا پہلے نبیوں کے نبی کہلانے کی کوئی اور وجہ تھی ؟ پہلے نبی بھی تو اسی لئے نبی تھے " کہ ان پر کثرت سے امور غیبیہ کا اظہار ہوتا تھا جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں یہ ضرور یاد رکھو کہ اس امت کے لئے وعدہ ہے کہ وہ ہر ایک ایسے انعام پائے گی جو پہلے نبی اور صدیق پاچکے ہیں.پس منجملہ ان انعامات کے وہ نبوتیں اور پیشگوئیاں ہیں جن کے رو

Page 38

لوم جلد - ۳ چند غلط فہمیوں کا ازالہ سے انبیاء علیہم السلام نبی کہلاتے رہے.ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۵ حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۹) پس اس بات کے ثابت کرنے سے کہ حضرت مسیح موعود ہمیشہ اپنی نبوت کے یہی معنی کرتے رہے کہ آپ کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی تھی نبوت کا رد نہیں ہو تا بلکہ نبوت ثابت ہوتی ہے کیونکہ نبوت اسی کا نام ہے اللہ تعالیٰ بھی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فلا يُظهِرُ عَلى غَيْبِهِ اَحَدًا اِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَسُول - الجن : ۲۷-۲۸) یعنی اللہ تعالیٰ سوائے اپنے رسولوں کے کسی کو غیب پر غلبہ عطاء نہیں فرماتا.پس کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پانے کا یہ مطلب کیونکر نکالا جا سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی نہیں.اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ضرور نبی تھے غرض کہ جب میں نے القول الفصل میں نبی کی تعریف ہی یہ کی ہے کہ نبی اسے کہتے ہیں جسے کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جائے اور خود حضرت مسیح موعود کی تحریرات سے ثابت کیا ہے کہ نبی ایسے ہی شخص کو کہتے ہیں تو میرے مضمون کے رو کرنے کے لئے ایسی عبارتوں کے نقل کرنے سے کیا فائدہ جن سے یہ ثابت ہو کہ حضرت مسیح موعود ہمیشہ اپنے نبی ہونے کے یہ معنی کرتے رہے ہیں کہ آپ کو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی ہے جب کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پانے والے کو ہی نبی کہتے ہیں تو ان حوالوں سے تو یہ ثابت ہو گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیشہ سے نبی تھے نہ یہ کہ آپ کبھی بھی نبی نہیں ہوئے.وہ حوالے تو میری تائید میں ہیں نہ کہ میرے مخالف.ان حوالوں کو پڑھ کر شائد ان لوگوں کو تو دھوکا لگ جائے جنہوں نے القول الفصل کو غور سے نہیں پڑھا لیکن جنہوں نے القول الفصل کا غور سے مطالعہ کیا ہے وہ تو انہیں پڑھ کر حیران ہوتے ہیں کہ مولوی صاحب تردید میں رسالہ لکھ رہے ہیں یا تائید میں؟ کیونکہ جو باتیں وہ میرے مضمون کی تردید میں پیش کرتے ہیں وہ در حقیقت میری تائید میں ہیں.اور یہ سب اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جو میں پہلے بتا آیا ہوں کہ آپ کے خیال میں میرے نزدیک حضرت مسیح موعود پہلے جزوی نبی تھے اور بعد میں نبی ہو گئے حالانکہ جیسا کہ میں القول الفصل کی ایک عبارت نقل کر چکا ہوں اس نتیجہ پر وہ بغیر غور کے ہی پہنچ گئے ہیں اور ایک عقیدہ انہوں نے خود ہی ایجاد کیا ہے اور خود ہی اس کی تردید کرنی شروع کر دی ہے میرے رسالہ کا جواب تو وہ اسی طرح دے سکتے ہیں کہ یا تو یہ ثابت کریں کہ امور غیبیہ پر اس کثرت سے اطلاع پا نا کہ گویا ان پر ایک غلبہ حاصل ہو جائے اس کا نام

Page 39

چند غلط فہمیوں کا ازالہ نبوت نہیں بلکہ انبیاء کے نبی کہلانے کی کوئی اور وجہ تھی اور یا یہ ثابت کریں کہ حضرت مسیح موعود کو اس کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع نہیں دی گئی جس کثرت سے نبی ہونے کے لئے ضروری ہے.مگر وہ یاد رکھیں کہ وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے کیونکہ حضرت مسیح موعود ایک طرف تو یہ فرماتے ہیں اور جبکہ وہ مکالمہ مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا ہے جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے " (الوصیت صفحہ ۱۳) روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۱۱) " اسی طرح فرماتے ہیں ہر ایک شخص اپنی گفتگو میں ایک اصطلاح اختیار کر سکتا ہے لکل ان يصطلح سو خدا کی یہ اصطلاح ہے جو کثرت مکالمات و مخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے ہے (چشمہ معرفت صفحه ۳۲۵ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۴۱) السلام اور دوسری طرف یہ فرماتے ہیں کہ اگر کہو کہ اس وحی کے ساتھ جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کو ہوئی تھی مجزات اور پیشگوئیاں ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس جگہ اکثر گذشتہ نبیوں کی نسبت بہت زیادہ معجزات اور پیشگوئیاں موجود ہیں بلکہ بعض گذشتہ انبیاء کے معجزات اور پیشگوئیوں کو ان منجزات اور پیشگوئیوں سے کچھ نسبت ہی نہیں" (نزول المسیح صفحه ۸۴ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۷۰) ان تینوں حوالوں کو ملا کر پڑھو تو کیسا صاف ثابت ہو جاتا ہے کہ نبی مدائے تعالی اور اس کے نبیوں کی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں کہ جو کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پائے (اور قرآن کریم بھی فَلَا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِہ کی آیت کے ماتحت ایسے ہی شخص کو نبی کہتا ہے) اور یہ کہ حضرت مسیح موعود کو اکثر گذشتہ انبیاء کی نسبت امور غیبیہ پر بہت زیادہ اطلاع دی گئی ہے.جس کے معنی دو سرے الفاظ میں یہ ہیں کہ آپ یقینا یقیناً بلا ریب بلحاظ نبوت دیسے ہی نبی ہیں جیسے پہلے انبیاء تھے ہاں بلحاظ خصوصیات کے یہ بات بالکل درست ہے کہ پہلے نبیوں میں سے بعض شریعت لائے، لیکن آپ کوئی شریعت نہیں لائے اور یہ کہ آنحضرت ا سے پہلے انبياء بلا واسطہ نبوت پاتے تھے مگر آنحضرت ﷺ کے بعد اس کی کوئی ضرورت نہ تھی اس لئے حضرت مسیح موعود نے نبوت کا درجہ آپ کی غلامی میں پایا اور اگر دیکھنے والی آنکھ ہو تو وہ

Page 40

دم جلد.۱۳ چند غلط نمیوں کا ازالہ دیکھے کہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں نبی بننے والا اپنی شان میں بعض پہلے نبیوں سے بھی افضل ہو سکتا ہے.غرضکہ ہر ایک شخص القول الفصل اور مولوی صاحب کے رسالہ کو پڑھ کر بآسانی سمجھ سکتا ہے کہ مولوی صاحب نے القول الفصل کے جواب دینے کی ایک نہایت ناکام کوشش کی ہے.اور غلط نتائج نکال کر ان کو رد کرنا شروع کر دیا ہے جیسا کہ بعض غیر مذاہب والوں کی یہ عادت ہے کہ وہ اسلام پر ایک اعتراض کرتے ہیں پھر مسلمانوں کی طرف سے اس کے جواب اپنے پاس سے بنا کر نقل کرتے ہیں لیکن یہ احتیاط کر لیتے ہیں کہ وہ جواب اصل جواب نہ ہوں بلکہ نہایت بودے ہوں پھر ان جوابات کو رد کر کے دھوکا دیتے ہیں کہ گویا اسلام کی کمزوری انہوں نے ثابت کر دی مگر اس سے اسلام کی کمزوری ثابت نہیں ہوتی بلکہ ان جوابات کی کمزوری ثابت ہوتی ہے جو ان کی اپنی ایجاد تھے.مولوی صاحب نے بھی غلط فہمی سے (کیونکہ میں یہ نہیں خیال کر سکتا کہ انہوں نے جان بوجھ کر لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ایسا کیا ہے) میرے مضمون کے پہلے ایک اور معنی کئے ہیں جو میرے لفظوں سے ثابت نہیں اور پھر اس ایجاد کردہ مطلب کو رو کرنا شروع کر دیا ہے حالانکہ جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں ان کے جوابات سے القول الفصل کا مضمون رد نہیں ہو تا بلکہ صرف ان خیالات کا رد ہوتا ہے جو مولوی صاحب موصوف نے میری تو طرف منسوب کئے ہیں اور القول الفصل ابھی اسی طرح بے جواب پڑا ہے جس کا جواب دینا ابھی ان کے ذمہ باقی ہے اور وہ جواب تبھی درست ہو سکتا ہے جبکہ وہ یہ بات ثابت کر دیں کہ نبی کی تعریف وہ نہیں جو میں اوپر کر چکا ہوں اور جو میں نے القول الفصل میں ثابت کی ہے یا یہ کہ وہ تعریف حضرت مسیح موعود پر صادق نہیں آتی اور پھر یہ بھی ثابت کریں کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے سوا کسی اور مجدد کی نسبت بھی کبھی یہ لکھا ہے کہ اسے بھی پہلے انبیاء کی طرح کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی جاتی تھی لیکن وہ یہ یاد رکھیں کہ وہ ہرگز اس امر کو کبھی بھی ثابت نہیں کر سکتے.پس دیگر مجددین کو آپ کے ساتھ شامل کرنا درست نہیں ہم مانتے ہیں کہ ان کو بھی الہام ہوتے تھے اور یہ بھی مانتے ہیں کہ بعض کو کثرت سے بھی امور غیبیہ پر اطلاع ) دی گئی ہو گی.لیکن یہ ثابت کرد کہ حضرت مسیح موعود نے جس طرح اپنی نسبت لکھا ہے ان میں سے بھی کسی کی نسبت یہ لکھا ہو کہ اسے اس کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی ہے جس طرح پہلے انبیاء کو.پس جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود اپنی کتاب حقیقۃ الوحی میں لکھتے ہیں :

Page 41

نلوم جلد ۳۰ ۱۴ چند غلط نمیور "جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء اور ابدال اور اقطاب اس امت میں سے گزر چکے ہیں ان کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا.پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں" (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۰۶- ۴۰۷) - حضرت مسیح موعود کے سوا اس امت میں اور کوئی شخص نبی نہیں کہلا سکتا ، اور نہ نبیوں کی سی نبوت کسی کو ملی ہے.ہاں جزوی نبوت کے بیشک بعض لوگ مستحق ہوئے.لیکن جزوی نبوت در حقیقت کوئی نبوت نہیں بلکہ بعض کمالات نبوت پانے کا نام ہے.اور جو شخص صرف رویائے صالحہ دیکھ لے.اس کی نسبت بھی کہا جا سکتا ہے کہ نبوت کا ایک جزو اس میں بھی پایا جاتا ہے مگر وہ نبی نہیں ہو سکتا اور یہی وجہ ہے کہ جب تک حضرت مسیح موعود اپنی نبوت کو جزوی نبوت خیال کرتے رہے.آپ اپنے آپ کو نبی نہیں قرار دیتے تھے جیسا کہ تریاق القلوب کے وقت میں آپ نے اپنے آپ کو غیر نبی قرار دے کر مسیح سے اپنے من کل الوجوه افضل ہونے سے انکار کیا ہے لیکن بعد میں اپنے افضل ہونے کا اس بناء پر کہ آپ کو بار بار نبی کہا گیا ہے بڑے زور سے اعلان کیا ہے.دیکھو حقیقۃ الوحی صفحہ ۱۵۰٬۱۴۹٬۱۴۸ اور ۱۹۰۱ء سے لے کر اس کے بعد جب سے کہ حضرت مسیح موعود نے اپنے افضل ہونے اور اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا ہے کبھی اپنی نبوت کو جزوی یا ناقص نبوت نہیں قرار دیا.اور اگر ایسا کیا ہو تو اس کا ثبوت دیا جائے.تریاق القلوب تک بے شک آپ اپنے آپ کو جزوی نبی قرار دیتے رہے جو ۱۸۹۹ء میں لکھی گئی اور ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی.لیکن 1901ء سے آپ نے اس عقیدہ کو بالکل ترک کر دیا اور حقیقۃ الوحی سے ثابت ہے کہ اس کے ترک کرنے کا باعث انکشاف تام تھا.اور وحی الہی سے اسطرف توجہ منعطف ہوئی تھی.پس آپ کی نبوت کو اب جزوی نبوت نہیں کہا جا سکتا.مولوی صاحب نے اسی غلطی میں پڑ کر جو میں نے پہلے بیان کی ہے کچھ سوالات بھی کئے ہیں مثلا یہ کہ اگر ۱۹۰۲ ء میں دعوی نبوت کیا ہے تو پھر لو تقول والی آیت سے کیوں حضرت مسیح موعود پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا.اور یہ کہ جب مسیح موعود کے دعوے کے باوجود آپ کئی سال تک جزوی نبی رہ سکتے تھے تو بعد میں کیوں آپ کا نبی ہونا ضروری ہوا.اسی طرح یہ کہ حضرت مسیح موعود لکھتے ہیں کہ جو شخص کثرت مکالمہ مخاطبہ سے زیادہ کسی اور نبوت کا دعوئی

Page 42

العلوم جلد.۱۵ چند نام نمیور کرے تو اس پر خدا کی لعنت ہو وغیرہ وغیرہ.لیکن ہر ایک دانا شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ سب سوالات اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہیں جو میں اوپر بتا آیا ہوں.اور چونکہ نہ میرا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت مسیح موعود ۱۹۰۲ء سے نبی بنائے گئے ہیں اور نہ یہ کہ نبی کے لئے امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانے کے سوائے کسی اور شے کی بھی ضرورت ہے.اس لئے مجھ پر یہ اعتراض دارد نہیں ہوتے.یہ اعتراضات تو آپ کے ایجاد کردہ خیالات پر ہی پڑتے ہیں پس آپ ہی ان کے جواب دینے کی تکلیف کریں.میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے جواب دینے کا ذمہ دار ہی ممکن ہے بعض لوگ حضرت صاحب کا ۱۸۹۹ء کا ایک حوالہ نقل کر دیں جس میں حضرت مسیح موعود نے نبی کے لئے شریعت جدیدہ کا لانا یا بلاواسطہ نبوت پانا شرط رکھا ہے.اور اس سے یہ ثابت کرنا چاہیں کہ حضرت مسیح موعود نبی نہیں.سو یاد رہے کہ یہ حوالہ تو ۱۹۰۱ء سے پہلے کا ہے اور یہی تو حوالہ ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ پہلے اپنی نبوت سے کیوں انکار کرتے تھے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ عام مسلمانوں کے خیالات کے مطابق خیال کرتے تھے کہ نبی کے لئے شریعت جدیدہ کا لانا یا بلا واسطہ نبوت پانا شرط ہوتا ہے اور چونکہ آپ میں یہ شرائط نہیں پائی جاتی تھیں اس لئے آپ اپنے الہامات میں نبی کے لفظ کی تاویل کر دیتے تھے.لیکن جیسا کہ میں اوپر حضرت مسیح موعود کے حوالہ جات سے ثابت کر آیا ہوں.۱۹۰۱ء سے آپ نے اپنے الہامات سے متنبہ ہو کر اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا.اور اب نبی کی وہ تعریف بھی جو لوگوں میں مشہور تھی ترک کر دی اور جیسا کہ میں اوپر حوالہ دے چکا ہوں آپ نے صاف لکھ دیا کہ خدا کی اصطلاح میں اور نبیوں کے محاورہ میں نبی کی تعریف صرف یہ ہے کہ کثرت سے مکالمہ و مخاطبہ اسے حاصل ہو جو امور غیبیہ پر مشتمل ہو.پس اس تعریف کو حضرت مسیح موعود نے بعد میں غلط قرار دیا ہے اور لکھا ہے کہ نبی کے لئے شریعت جدیدہ کا لانا یا دوسرے نبی کا متبع نہ ہونا شرط نہیں.پس جس تعریف کو حضرت مسیح موعود غلط قرار دیتے ہیں اور جن باتوں کو نبوت کے لئے شرط ہی نہیں قرار دیتے ان سے آپ کی نبوت کے خلاف یا میرے عقیدہ کے خلاف حجت کس طرح پکڑی جاسکتی ہے ؟ اور جبکہ خود قرآن کریم بھی فَلَا يُظهِرُ عَلَى غَيْبه والى آیت میں کھلے الفاظ میں اسی خیال کی تائید کرتا ہے جو حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۱ء کے بعد ظاہر فرمایا تو پھر تو مومن کو شک کی گنجائش ہی نہیں رہتی.

Page 43

انوار العلوم جلد - ۳ 14 چند غلط فہمیوں کا ازالہ اس جگہ یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ تریاق القلوب کو اکتوبر ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی ہے لیکن در حقیقت وہ ۱۸۹۹ء کے دسمبر میں تیار ہو چکی تھی.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے تریاق القلوب کے حوالہ کو ریویو کے حوالہ سے جو جون ۱۹۰۲ء کا ہے منسوخ قرار دیا ہے حالانکہ تاریخ اشاعت کے لحاظ سے تریاق القلوب بعد کی ہے اور ریویو پہلے کا.پس حضرت مسیح موعود کا اس عقیدہ کو جو ریویو میں ظاہر فرمایا ہے ناسخ قرار دیتا اس کا جو تریاق القلوب میں ہے اس بات کا ثبوت ہے کہ تریاق القلوب پہلے کی لکھی ہوئی ہے.اور جب ہم اس کتاب کو دیکھتے ہیں تو کتاب کے خاتمہ سے صرف بائیں صفحے پہلے لکھا ہوا ہے کہ آج ۵ - دسمبر ۱۸۹۹ء کو ہم.مضمون لکھ رہے ہیں جس سے صاف ثابت ہے کہ یہ کتاب ۱۸۹۹ء کو لکھی گئی گو شائع ۱۹۰۲ء میں ہوئی ( مفصل دیکھو حقیقۃ النبوۃ ) پس جناب مولوی صاحب کا تریاق القلوب سے یہ سند پکڑنا کہ وہ ۱۹۰۲ء میں شائع ہوئی ہے اور اس سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود غیر نبی تھے درست نہیں کیونکہ وہ در حقیقت ۱۹۰۱ء سے پہلے کی ہے.میں اس جگہ اس بات کا جواب دینا بھی ضروری خیال کرتا ہوں کہ مولوی صاحب نے بعض حوالوں سے جو یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود اپنے آپ کو مجازی نبی کہتے ہیں جس سے معلوم ہوا کہ آپ نبی نہ تھے (اور بتانا چاہتا ہوں کہ) یہ بات بھی ایک غلط فہمی کا نتیجہ ہے.کیونکہ مجازی کا لفظ حقیقی کے مقابلہ میں ہوتا ہے اور حضرت مسیح موعود نے خود ہی حقیقی نبی کے یہ معنی کر دیئے ہیں کہ جو شریعت جدیدہ لائے پس مجازی کے صرف یہ معنی ہوں گے کہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے نہ یہ کہ آپ نبی ہی نہیں.آپ نے عوام کو ان کے اپنے عقائد کے مطابق نبوت کا مسئلہ سمجھانے کے لئے جو اصطلاح قرار دی ہے اس کے رو سے آپ حقیقی نبی نہیں بلکہ مجازی نبی ہیں.لیکن قرآن کریم نے نبی کی جو تعریف کی ہے اس کی رو سے آپ نبی ہیں اور خود آپ نے ایک غلطی کے ازالہ میں لکھا ہے کہ ”جس کے ہاتھ پر اخبار غیبیہ منجانب اللہ ظاہر ہوں گے بالضرور اس پر مطابق آیت فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ کے صادق آئے گا ".ایک غلطی کا ازالہ صفحہ ۴ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۰۸) پس قرآن کریم کی نبی کی تعریف کے مطابق تو آپ نبی تھے.ہاں عوام کو سمجھانے کے لئے آپ نے حقیقی نبی کے یہ معنی کئے ہیں کہ جو شریعت جدیدہ لائے ان معنوں کے مطابق آپ مجازی نبی تھے.جس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ کوئی نئی شریعت نہیں لائے.

Page 44

ار العلوم جلد - ۳ چند غلط فہمیوں کا از میں آخر میں طالبان حق سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ ایک دفعہ پھر القول الفصل اور مولوی صاحب کے غلطی کے اظہار کو پڑھ کر دیکھیں کیونکہ انہیں ان کے دوبارہ پڑھنے سے معلوم ہو جائے گا کہ مولوی صاحب نے اپنی ہی ایجاد کردہ غلطیوں کا ازالہ کیا ہے نہ کہ میرے رسالہ القول الفصل کا.اور نبوت کے متعلق بحث ابھی اسی جگہ پر ٹھہری ہوئی ہے.جہاں تک القول الفصل کے بعد وہ پہنچ چکی ہے اور مولوی صاحب کے رسالہ نے سوائے اس بات کے ظاہر کرنے کے کہ آپ جس شخص کو غلطی پر سمجھتے ہیں اس کے مضمون کو سمجھنے کے بغیر ہی جواب لکھنے کے عادی ہیں اور کچھ ثابت نہیں کیا اور یہ بات ایسی ہے جس کے ثابت کرنے.اس کا ثابت نہ کرنا بہتر تھا اور جو لوگ ان دونوں رسالوں کا مقابلہ کرنا چاہیں.وہ القول الفصل کے صرف ابتدائی ۲۷ صفحات اور پھر مولوی صاحب کا جواب پڑھ لیں.سارا القول الفصل پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ نبوت کی بحث صرف انہی صفحات میں ہے.میں امید کرتا ہوں کہ طالبان حق مسیح موعود کی نبوت کے مسئلہ پر ایک دفعہ پھر غور کریں گے.کیونکہ حق کا انکار انسان کو بہت سی صداقتوں سے محروم کر دیتا ہے اور مؤمن تو کسی صداقت سے محروم رہنا نہیں چاہتا.پس میں ہر اس شخص سے جو صداقت معلوم کرنا چاہتا ہے.اپیل کرتا ہوں کہ وہ صرف لفظوں پر نہیں بلکہ حقیقت پر غور کرے.اور کچھ نہیں تو صرف اس امر کو ہی دیکھے کہ کس طرح میری مخالفت میں بات سمجھنے سے پہلے ہی جواب دینے کی کوشش کی جاتی ہے جو ثبوت ہے اس بات کا کہ حق میری ہی طرف ہے اور خدا کی قسم کہ حق میری ہی طرف ہے کیونکہ مجھے خود اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رویا بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود نبی تھے.پس میں آپ کو علی وجہ البصیرت نبی مانتا ہوں نہ ایسا کہ آپ کوئی جدید شریعت لائے اور نہ ایسا کہ آپ آنحضرت کی اتباع سے باہر تھے بلکہ ایسا کہ آپ کی سب زندگی قرآن کریم کی اتباع میں گزری.اور ایسا کہ آپ نے جو کچھ پایا آنحضرت ﷺ کی غلامی میں پایا اور اس سے آپ کی نبوت میں کوئی فرق نہیں آتا.اور آپ کا سب سے بڑا درجہ یہی تھا کہ آپ امت محمدیہ میں سب لوگوں سے زیادہ آنحضرت ا اللہ کے فرمانبردار تھے.میں آخر میں یہ بھی ظاہر کر دیتا ہوں کہ جن لوگوں نے نبوت مسیح موعود کو سمجھنا ہو وہ میری کتاب حقیقۃ النبوۃ ضرور پڑھیں جو غیر احمدیوں اور غیر مبائعین کو مفت بھیجی جائے گی.الراقم خاکسار مرزا محمود احمد از قادیان

Page 45

دم جلد - F.١٨ چند غلط فہمیوں کا ازالہ لے مولوی صاحب اس حدیث کو پیش کر کے جس میں مسلمانوں کے یہودیوں اور عیسائیوں کے مشابہ ہو جانے کی پیشگوئی ہے.اشارہ ہمیں ضالین بھی قرار دیتے ہیں اور لکھتے ہیں کہ یہودی تو غیر احمدی ہیں منال احمدیوں میں ہونے چاہئیں.لیکن یاد رہے کہ حضرت مسیح موعود نے عیسائیوں کے مشابہ ہونے والا گروہ بھی ان لوگوں کو قرار دیا ہے جو اپنی رفتار گفتار اور لباس میں عیسائیوں کے مشابہ ہو رہے ہیں اور غیر احمدیوں کو ہی دو گروہوں میں تقسیم کیا ہے اس شخص کی بات کو چھوڑ کر جو مغضوب علیم اور ضالین میں اصلاح کے لئے آیا تھا ہم آپ کی بات کس طرح مان لیں.بعض شخص اپنی نادانی سے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ لکل ان تتطلع کے ماتحت نہی کے جو معنی کر لئے جائیں وہ ماننے کے قابل نہیں بلکہ ماننے کے قابل تو شریعت اسلام کی اصطلاح ہوگی وہ نادان اتنا نہیں خیال کرتے کہ نبی خدا بھیجتا ہے یا کوئی اور.پس نبی وہ ہو گا جو خدائے تعالی کی اصطلاح کے مطابق نبی ہو نہ وہ جسے لوگ نبی کہہ دیں اور پھر کیا اسلام خدائے تعالی کے بتائے ہوئے مذہب کے سوا کسی اور شے کا نام ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ خدائے تعالیٰ کی اصطلاح کچھ اور ہو او ر اسلام کی اصطلاح کچھ اور ؟ مرزا محمود احمد.میں بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ اس بات کا علم کس طرح ہو کہ کسی کو اس حد تک کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع دی گئی ہے یا نہیں جو نبی ہونے کے لئے ضروری ہے.سو انہیں یاد رہے کہ نبی خدابنا تا ہے نہ کہ انسان.جب کسی کے الہامات اس کثرت کو پہنچ جاتے ہیں جس پر وہ کسی کو نبی بناتا ہے تو وہ خود اس کا نام نبی رکھتا ہے ہمیں اس فکر کی کیا ضرورت ہے کہ کثرت سے کیا مراد ہے قلت کو ہم سمجھ سکتے ہیں اور کثرت کا فیصلہ خود اللہ تعالی کرتا ہے وہ خود ہی نبی کے نام رکھتا ہے اور خود ہی فیصلہ کرتا ہے کہ اب کوئی شخص نبی کہلا سکتا ہے یا نہیں.مرزا محمود احمد

Page 46

العلوم جلد ۳۰ ۱۹ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب رسیٹھ عبداللہ الہ دین صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 47

Page 48

بسم الله الرحمن الرحیم ۲۱ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب ا از حضرت حضرت سید نا مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ) مکرمی ! السلام علیکم.تیرہ مارچ کا لکھا ہوا خط جو ۱۸.مارچ کو صدر انجمن احمدیہ کے سیکرٹری کے نام پہنچا میں نے پڑھا ہے.اور چونکہ اس خط میں آپ نے اپنے سوالات کے جواب مجھ سے پوچھ کر لکھنے کی درخواست کی ہے میں نے مناسب خیال کیا کہ میں خود ہی ان سوالات کے جواب لکھوا دوں.آگے ہدایت دینا اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور دلوں پر سوائے اس کے کسی کی حکومت نہیں.میں افسوس کرتا ہوں کہ چونکہ میں کچھ دن بیمار رہا ہوں اس لئے آپ کو جلد جواب نہیں لکھوا سکا.آپ نے پانچ سوال کئے ہیں اور جہاں تک میں سمجھتا ہوں وہ پانچوں سوال در حقیقت ایک ہی سوال کی شاخیں ہیں اور ایک سوال دوسرے کے ساتھ پیوست ہے بہر حال میں آپ کے پانچوں سوالات کے جواب ذیل میں لکھواتا ہوں.آپ کے پانچ سوال یہ ہیں : میں نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب مرحوم کی بہت تعریف سنی ہے اور اسلام کے متعلق جو آپ نے تعلیم دی ہے میں اسے بہت عزت کی نظر سے دیکھتا ہوں.میں اس بات کے لئے تیار ہوں کہ ان کو ایک مصلح اعظم تسلیم کروں لیکن احمدیت کا اظہار کرتے ہوئے مجھے مفصلہ ذیل امور کی وجہ سے خوف معلوم ہوتا ہے.(1) اگر میں احمدیت کا اظہار کروں تو مجھے تمام مسلمان کافر سمجھیں گے اور مجھے بھی ان کو تو ایسا ہی سمجھنا پڑے گا.

Page 49

دم جلد ۳۰ ۲۲ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب (۲) احمدی لوگ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے اور اس لئے غیر احمدی بھی ان کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.اس طرح مجھے تمام اسلامی مساجد سے قطع تعلق کرنا پڑے گا.حالانکہ ہر ایک مسلمان کا یہ فرض ہے کہ پنجوقتہ جماعت کے ساتھ قریب کی مسجد میں نماز پڑھے اور جمعہ کی نماز جامع مسجد میں ادا کرے.(۳) اس صورت میں آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ احمدی نام اختیار کرنے سے مجھے کس قدر تکلیف اٹھانی پڑے گی قرآن کریم ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا قرآن کریم میں ہمارا نام مسلمان ہے اور ہمیں تاکید ہے کہ ہم مذہب کو فرقوں میں تقسیم نہ کریں.(۴) قرآن یا احادیث میں کسی جگہ یہ مذکور نہیں کہ ہر انسان کو اپنی نجات کے لئے مسیح اور مهدی پر اعلانیہ ایمان لانا ضروری ہے.(۵) باوجود اس کے مذکورہ بالا حالات کے ماتحت میں اس میں کوئی ہرج نہیں دیکھتا کہ خفیہ طور پر ایمان رکھوں.یہ میرے عقائد ہیں اگر میں غلطی پر ہوں تو مہربانی کر کے قرآن اور احادیث کے حوالہ جات سے مجھے اس غلطی پر مطلع کیا جائے.ان سوالات کا خلاصہ یہی نکلتا ہے کہ آپ کے خیال میں حضرت مسیح موعود کے ماننے میں آپ کو بعض باتیں روک ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے سلسلہ احمدیہ میں علی الاعلان داخل ہونے سے اسلام کے بعض فرائض کو ترک کرنا پڑتا ہے.گو ان تمام سوالات کے جواب الگ الگ بھی دوں گا لیکن پہلے میں سب سوالات پر مجموعی طور سے نظر ڈالنا چاہتا ہوں.میرے خیال میں ان سب سوالات کے جواب ہم صرف ایک سوال میں دے سکتے ہیں اور وہ یہ کہ آیا حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے یا نہیں.اگر آپ حق پر نہ تھے تو ان سوالات کی ضرورت ہی نہیں رہتی کیونکہ جھوٹے آدمی کا ماننا خواہ پوشیدہ ہو خواہ ظاہر ہر طرح گناہ اور معصیت ہے.اور اگر آپ سچے تھے اور ہمیں یقین ہے کہ وہ ضرور بچے تھے تو پھر بھی یہ سوال حل ہو جاتے ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود نے اپنی بیعت کرنے یا نہ کرنے اپنے مخالفوں کے پیچھے نماز پڑھنے یا نہ پڑھنے وغیر ہا سب مسائل کی بناء خدا تعالیٰ کے الہامات پر رکھی ہے اور اپنی طرف سے ان مسائل پر کچھ نہیں لکھا.پس آپ کی صداقت ثابت ہو جانے کے بعد ایک دانا انسان کے لئے سوائے اس کے اور کوئی چارہ باقی نہیں رہتا کہ وہ ان سب باتوں کو

Page 50

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۳ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جوا قبول کرے کیونکہ ان کو رد کرنا خدا تعالٰی کے احکام اور اس کے فیصلہ کو رد کرتا ہے.اور ان کا قبول کرنا در حقیقت خدا تعالیٰ کے فیصلہ کو قبول کرنا ہے.غرضکہ اصل جھگڑا صرف حضرت مسیح موعود کی صداقت کے متعلق ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا آپ خدا تعالی کی طرف سے تھے ؟ اگر اس سوال کا جواب یہ ملے کہ ہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے تو اب جو کچھ ان کا حکم ہے وہ ہمیں قبول کرنا پڑے گا.اور خصوصاً ان باتوں کے رد کرنے کی تو ہمارے پاس کوئی وجہ ہی نہیں جن کی نسبت مسیح موعود نے فرما دیا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.کیونکہ جب وہ سچے ہیں تو وہ باتیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے کہتے ہیں وہ بھی بچی ہیں.اور ان پر اعتراض نہیں پڑ سکتا.پس آپ کے ان سوالات کے جواب میں سب سے پہلے تو میں یہی کہوں گا کہ آپ اس بات کی تحقیق کریں کہ مسیح موعود واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یا نہیں.اگر آپ پر یہ بات کھل جائے کہ وہ واقعہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں تو پھر آپ کو ان سوالات کا جواب بھی خود ہی مل جائے گا کیونکہ جو شخص خدا تعالی کی طرف سے ہو اس کے فیصلوں کا ماننا ضروری ہے اور جن باتوں کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے وہ تو ایسی ہیں کہ ان کے متعلق مسیح موعود کا فیصلہ امرائی کے ماتحت ہے.اب میں مختصراً آپ کے سوالات کا جواب نمبر وار دیتا ہوں.کہ اگر میں احمدیت کا اظہار کروں تو مجھے تمام مسلمان کافر سمجھیں گے ا پہلا سوال یہ ہے اور مجھے بھی ان کو ایسا ہی سمجھنا پڑے گا.اگر آپ اس سوال پر مزید غور کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ آپ کے احمدی مشہور ہونے یا نہ ہونے کو مسئلہ کفر و اسلام غیر احمدیاں سے تعلق ہی نہیں کیونکہ پہلا سوال تو یہ ہو گا کہ آیا مسیح موعود کے منکر کافر ہیں یا نہیں.اگر وہ کافر نہیں تو خواہ آپ احمدی مشہور ہوں یا نہ ہوں آپ کو انہیں مسلمان ہی ماننا پڑے گا اور اگر وہ مسلمان نہیں تو پھر بھی خواہ آپ اپنے احمدی ہونے کا اظہار نہ کریں اور خفیہ رہیں آپ کو انہیں کا فر ماننا پڑے گا کیونکہ آپ کے احمدی مشہور ہونے یا نہ ہونے سے اصل واقعہ میں فرق نہیں آجاتا اگر وہ کافر ہیں تو ہر دو صورت میں کافر ہی رہیں گے اور اگر وہ مسلمان ہیں تو ہر دو صورت میں مسلمان رہیں گے اگر فرق ہو گا تو صرف یہ کہ اگر آپ احمدی مشہور ہوں تو لوگوں کو آپ کے دلی خیالات کا علم ہو جائے گا اور اگر آپ احمدی مشہور نہ ہوں تو آپ کے حقیقی خیالات سے لوگ ناواقف رہیں گے.پس سوائے اس کے کہ حقیقت پر ایک پردہ پڑا رہے نفس حقیقت میں کسی کے احمدی

Page 51

۲۴ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب مشہور ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں آتا.جو شخص مسیح موعود کو سچا مان لے اور اسے یہ بھی یقین ہو جائے کہ اس کے منکر کافر ہیں تو گو وہ اپنی احمدیت کو ظاہر کرے یا نہ کرے اور لوگوں میں غیر احمدی مشہور ہو تب بھی اپنے دل میں تو اسے غیر احمدیوں کو کافر ہی سمجھنا پڑے گا.اور اگر ایک شخص حضرت مسیح موعود کے منکروں کو کافر خیال نہیں کرتا تو خواہ وہ اپنی احمدیت کا کتنا ہی اعلان کرے غیر احمدیوں کو کافر کہنے پر مجبور نہیں کیونکہ کسی چیز کے علی الاعلان کہہ دینے سے اس کے منکروں پر کفر کا فتویٰ نہیں لگ جاتا.بلکہ صرف اسی چیز کے منکروں پر کفر کا فتویٰ لگتا ہے جس کا انکار واقعہ میں کفر ہو.اب رہا اس سوال کا دوسرا پہلو اور وہ یہ کہ آپ کے احمدی مشہور ہونے پر لوگ آپ کو کافر کہیں گے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے اسلام پر دوسروں کے کافر کہنے یا مسلمان کہنے کا کیا اثر پڑتا ہے حضرت ابو بکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان و دیگر صحابہ کرام کو مسلمانوں کی ایک جماعت منافق کہتی ہے.نعوذ باللہ من ذالک.اور ان کا خیال یہ ہے کہ یہ لوگ بچے دل سے اسلام میں داخل نہ ہوئے تھے بلکہ صرف اسلام کا اظہار کرتے تھے اور ایسا منافق در حقیقت کا فر ہی ہوتا ہے لیکن کیا ان لوگوں کے ایسا کہہ دینے سے یہ بزرگ کافر بن جاتے ہیں یا ان کا کوئی نقصان ہو جاتا ہے پھر ان کے بعد جس قدر بزرگ ہوئے ہیں قریباً سب پر کفر کا فتویٰ لگا.سید عبد القادر جیلانی پر بھی کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور بڑے بڑے مولویوں نے اس پر اپنی مہریں لگا ئیں.اور آپ کا نام نعوذ باللہ من ذالک ابلیس رکھا.مجدد الف ثانی احمد سرہندی " پر بھی کفر کا فتویٰ لگا.جنید بغدادی اور شبلی " بھی کافر قرار دیئے گئے لیکن کیا ان لوگوں نے اپنے عقائد کو اس ڈر سے کہ لوگ ہمیں کافر کہتے ہیں چھپا لیا.اور کیا لوگوں کے کافر کہنے سے وہ واقعہ میں کافر ہو گئے یا ان کے دین میں کوئی نقص پیدا ہو گیا.آج تو سنی شیعوں کو اور شیعہ سنیوں کو.اور یہ دونوں خوارج کو اسلام سے باہر خیال کرتے ہیں.اس وقت ہندوستان میں کوئی ایسا فرقہ نہیں جس کے پیروان پر کفر کا فتویٰ نہیں لگا.لیکن کسی کے دوسرے کو کافر کہنے سے اس کے مذہب میں کوئی نقص نہیں آجاتا.نقص تو تبھی آتا ہے جب واقعہ میں کوئی کفر کا عقیدہ انسان کے اندر پیدا ہو جائے.پس لوگوں کے کافر کہنے سے خوف کھا کر ایک حق کو قبول نہ کرنا کسی نفع کا باعث نہیں ہو سکتا.اگر ایک شخص مسلمان ہو اور ساری دنیا اسے کافر کے تو وہ کافر نہیں ہو جاتا اور اگر ایک شخص کافر ہو اور سب دنیا اسے مسلمان کہے تو وہ مسلمان نہیں ہو جاتا.

Page 52

۲۵ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب بات یہ ہے کہ لوگوں نے کفر و اسلام کے مسئلہ کو سمجھا ہی نہیں اگر وہ روحانی معاملات کو جسمانی معاملات پر عرض کر کے ان کی صداقت معلوم کرتے تو ان پر حق کھل جاتا اور صداقت روشن ہو جاتی.قرآن کریم کی یہ طرز ہے کہ وہ روحانی سلسلہ کا جسمانی سلسلہ سے مقابلہ کر کے اپنی پیش کردہ تعلیم کی صداقت ظاہر کرتا ہے اور کسی بات کی صداقت ثابت کرنے کے لئے یہ طریق نہایت عمدہ ہے کیونکہ جسمانی سلسلہ کی نسبت تو کسی کو شک ہی نہیں ہو سکتا کہ وہ اللہ تعالی کی طرف سے ہے اور جب کہ کسی مذہب کو ان قواعد کے مطابق ثابت کر دیا جائے جو اللہ تعالیٰ نے جسمانیات میں جاری کئے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں رہ جاتا کہ وہ مذہب اسی خدا کی طرف سے ہے جو دنیا کا خالق ہے.اگر ہم مسئلہ کفر کو اسی رنگ میں دیکھیں تو نہایت آسانی سے حل ہو جاتا ہے کفر بیماری ہے اور اسلام صحت کا نام.ہم دیکھتے ہیں کہ ایک حد تک انسان کے اندر بیماری کا مادہ ہوتے ہوئے بھی وہ تندرست کہلاتا ہے.کیونکہ دنیا میں اکثر انسان جو تندرست کہلاتے ہیں ان کی صحت میں بھی خفیف خفیف نقص ہوتے ہیں لیکن ان کی وجہ سے ہم ان کو بیمار نہیں کہہ دیتے.اسی طرح ہر بیمار میں ایک حد تک صحت کا مادہ بھی ہوتا ہے لیکن اس کی وجہ سے ہم اسے تندرست نہیں کہتے.تندرست اسی کو کہتے ہیں جس کے سب اعضاء رئیسہ بیماری سے بچے ہوئے ہوں یا اس کے جسم پر بیماری غالب نہ آگئی ہو.اور بیمار اسے کہتے ہیں جس کے جسم پر بیماری غالب آگئی ہو یا اس کے اعضاء رئیسہ میں سے کسی پر اسے غلبہ حاصل ہو گیا ہو.کفر و اسلام کا بھی یہی حال ہے ایک شخص باوجود اس کے کہ اس میں بعض گناہ پائے جاتے ہوں مسلمان کہلاتا ہے اور مسلمان اس لئے کہ اس کی روحانیت پر گناہ غالب نہیں آگیا.اور جب وہی گناہ غالب آجاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے اسی طرح ایسا شخص بھی جو بہت سے مسائل میں حق پر ہو لیکن ایک اہم مسئلہ میں جو روحانی سلسلہ کے اعضاء رئیسہ میں شامل ہو حق پر نہ ہو کافر کہلاتا ہے.پہلی بات کی مثال میں وہر یہ پیش کئے جاسکتے ہیں کہ ان کے سب جسم پر بیماری کو غلبہ حاصل ہے اور وہ مذہب کے کسی اصل کو بھی قبول نہیں کرتے پھر برہمو ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو قبول کرتے ہیں لیکن آگے الہام اور نبیوں کو قبول نہیں کرتے.ان کی روحانیت کا گویا ایک عضو درست ہے.ہے لیکن باقی بیمار ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَمَنْ يَكْفُرُ بِاللهِ وَ ملئِكَتِهِ وَ كتبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَّا بَعِيدًا.(النساء : ۱۳۷) اور

Page 53

انوار العلوم جلد - ۴۳ ۲۶ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب برہمو ان باتوں میں سے چاروں باتوں کا انکار کرتے ہیں.پھر مشرکین عرب ہیں جو خدا اور ملائکہ کو تو مانتے تھے مگر اس کے نبیوں اور کتابوں اور بعث بعد الموت کے منکر تھے اس کے بعد ہندو ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ ، ملائکہ الہام ، رسولوں اور بحث بعد الموت کے قائل ہیں لیکن صرف ابتدائی زمانہ کی ہدایت کے سوا اور سب ہدایتیوں کے منکر ہیں.پھر یہود ہیں ان میں سے دو گروہ ہیں ایک وہ جو سب مسائل کو قبول کرتے ہیں.لیکن نبیوں میں سے دو نبیوں کے منکر ہیں اور ایک ان کا گروہ وہ ہے جو علاوہ ان دو نبیوں کے انکار کے بعث بعد الموت کا بھی قائل نہیں.آخر میں مسیحیوں کا نمبر آتا ہے کہ یہ سب سے زیادہ اسلام کے قریب ہیں اور سب باتوں کو قبول کرتے ہیں.صرف نبیوں میں ہمارے آنحضرت ا کو قبول نہیں کرتے لیکن یہ بھی کافر ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو شرایط اسلام مقرر فرمائی ہیں کہ اللہ تعالی پر ایمان ہو.ملائکہ پر ایمان ہو سب کتب پر ایمان ہو.بعث بعد الموت پر ایمان ہو.ان میں سے ایک شرط ان میں پورے طور پر نہیں پائی جاتی یعنی وہ سب نبیوں پر ایمان نہیں لاتے بلکہ خاتم النبین آنحضرت کے منکر ہیں.اب آنحضرت ﷺ کے بعد اگر کوئی شخص خدا تعالی کی طرف سے دنیا کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے تو جو مسلمان کہلانے والے لوگ اس کا انکار کرتے ہیں وہ باوجود دیگر سب مذاہب کی نسبت اس کے قریب ہونے کے ایک شرط کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے بیماروں میں ہی شامل ہوں گے کیونکہ اعضاء رئیسہ میں سے ان کا ایک عضو بیمار ہے.اب جس شخص کے خیال میں ایک دوسرے شخص میں مذکور بالا قاعدہ کے ماتحت جو خود قرآن کریم نے بتایا ہے کوئی نقص پایا جاتا ہے اور وہ اسے کافر کہنے پر مجبور ہے.کیونکہ وہ دیکھتا ہے کہ اس میں ایک ایسی بیماری پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے وہ بیماروں میں شامل ہونے کے لائق ہے اس شخص کو اس پر ناراض ہونے کی کوئی وجہ نہیں اس کا حق ہے کہ اس کی غلطی اسے سمجھائے اور بتائے کہ مجھ میں سب شرائط اسلام پائی جاتی ہیں.پس بجائے مجھے جو پورا مسلمان ہوں کافر کہنے کے تو اپنے اسلام کی اصلاح کر لیکن اس کا کوئی حق نہیں کہ وہ اسے یہ کے کہ تو اپنے عقیدہ کو حق سمجھتے ہوئے مجھے کافر کیوں خیال کرتا ہے.کافر کے تو صرف یہ معنی ہیں کہ وہ اصول مسائل میں سے سب یا بعض یا ایک مسئلہ کا انکار کرتا ہے اور جو شخص کسی انسان کی نسبت ایسا خیال کرتا ہے وہ اسے کا فر خیال کرنے پر مجبور ہے اور اگر وہ اسے مسلم ہی سمجھتا ہے تو اسے اس کے خیالات کو قبول کر لینا چاہئے اور اپنے خیالات کو ترک کرنا چاہئے.

Page 54

۲۷ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب غرض جب کافر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ جس شخص کی نسبت وہ لفظ استعمال کیا گیا ہے وہ کم سے کم ایک بڑے حق کا انکار کر رہا ہے اور جبکہ اسکے صرف یہ معنی ہیں تو کیسی خلاف عقل بات ہو گی اگر ہم اپنے مخالف سے جس کے نزدیک ہمارا اور اس کا اصولی اختلاف ہے یہ امید رکھیں کہ وہ ہماری نسبت یہ اعلان کرے کہ ہم کسی حق کا انکار نہیں کرتے یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ ہم کافر نہیں ہیں.ہم اس کو یہ تو ضرور کہیں گے کہ ہمیں کافر کہنے پر تم غلطی پر ہو اور ہم میں سب شرائط اسلام پائی جاتی ہیں اور تم کو بھی چاہئے کہ اس حق کو قبول کرو جو ہمارے پاس ہے لیکن جب تک وہ اپنے عقائد پر قائم ہے وہ ہمیں کافر کے سوا اور کچھ نہیں سمجھ سکتا پس جو شخص احمدی ہوتا ہے اسے اگر دوسرے لوگ کافر کہتے ہیں تو انہیں ایسا کہنے دے اور ان کو سمجھائے کہ میں حقیقی اسلام پر ہوں اور ان لوگوں کا حق ہے کہ اپنے عقائد کے مطابق اسے کافر ہی سمجھیں جب ان کے مذہب کے رو سے واقعہ میں اس نے ایک جھوٹے مدعی کو قبول کیا ہے تو وہ اسے حق پر کس طرح کہہ سکتے ہیں اور اگر یہ واقعہ میں حق پر ہے تو لوگوں کے یہ سمجھ لینے سے کہ یہ باطل پر ہے اسے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.کہ احمدی غیر احمدیوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے.اگر ۲.آپ کا دوسرا سوال یہ ہے: کوئی شخص احمدی ہو جائے تو اسے گل مسجدوں سے علیحدہ ہونا پڑے گا.اور ایک فرض کو ترک کرنا پڑے گا جو جائز نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کی بناء صرف خیالات پر نہیں اور اسلام انسان کو رسومات میں گرفتار کرنے نہیں آیا.بلکہ اسلام میں جس قدر احکام ہیں ان سب کی غرض اطاعت الہی ہے اور کوئی کام اپنی ذات میں ثواب کا مستحق انسان کو نہیں بنا دیتا بلکہ اطاعت الہی انسان کو ثواب کا مستحق بناتی ہے نماز کیسی اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے اور عملی شریعت کے ارکان میں سے ہے لیکن اگر کوئی شخص سورج نکلتے وقت یا سورج ڈوبتے وقت نماز پڑھے تو یہی عبادت گناہ ہو جاتی ہے.روزہ قرب الہی کا ذریعہ ہے لیکن عید کے دن روزہ رکھنے والا شیطان ہو تا ہے پس کوئی عمل در حقیقت فی ذاتہ اچھا نہیں بلکہ عمل وہی اچھا ہے جو خدا تعالیٰ کی رضا کا مستحق بنا دے.جنگ احزاب میں آنحضرت ا کو چار نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑیں حالانکہ قرآن کریم میں کہیں اس بات کا ذکر نہیں مگر آپ کا یہ فعل شریعت اسلام کے خلاف نہ تھا.نہ قرآن کریم

Page 55

۲۸ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب کے حکم کے خلاف وہ ایک وقتی مجبوری تھی جس کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا.اب بھی اگر کسی کو ایسی مجبوری پیش آئے تو وہ ایسا ہی کر سکتا ہے اور اس کے لئے ایسا جائز ہوگا.سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں لیکن حضرت عمر نے کسری کے کڑے ایک صحابی کو پہنائے اور جب اس نے و ان کے پہننے سے انکار کیا تو اس کو آپ نے ڈانٹا اور فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا کہ تیرے ہاتھوں میں مجھے کسری کے کڑے نظر آتے ہیں.اسی طرح ایک موقعہ پر کسری کا تاج اور اس کا ریشمی لباس جب غنیمت کے اموال میں آیا تو حضرت عمر نے ایک شخص کو اس لباس اور اس تاج کے پہننے کا حکم دیا اور جب اس نے بہن لیا تو آپ رو پڑے اور فرمایا چند دن ہوئے کسری اس لباس کو پہن کر اور اس تاج کو سر پر رکھ کر ملک ایران پر جابرانہ حکومت کرتا تھا اور آج وہ جنگلوں میں بھاگا پھر رہا ہے.دنیا کا یہ حال ہوتا ہے اور یہ حضرت عمرہ کا فعل ظاہر بینی انسان کو شاید درست معلوم نہ ہو کیونکہ ریشم اور سونا پہننا مردوں کے لئے جائز نہیں لیکن ایک نیک بات سمجھانے اور نصیحت کرنے کے لئے حضرت عمر نے ایک شخص کو چند منٹ کے لئے سونا اور ریشم پہنا دیا.غرض اصل سے تقویٰ اللہ ہے.احکام سب تقومی اللہ کے پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں اگر تقویٰ اللہ کے حصول کے لئے کوئی شے جو بظاہر عبادت معلوم ہوتی ہے چھوڑنی پڑے تو وہی کار ثواب ہو گا جیسے میں نے بتایا ہے کہ عید کے دن روزہ اور سورج نکلتے اور غروب ہوتے وقت نماز کا ترک ہی ثواب کا موجب ہے اور ان عبادتوں کا ان اوقات میں بجالانا انسان کو شیطان بنا دیتا ہے.اس اصل کو مد نظر رکھ کر اب آپ نماز با جماعت کے معاملہ کو دیکھیں.مسیح موعود آتا ہے اس کی صداقت کو ہم نشانات سے دیکھتے ہیں اور اسے سچا پاتے ہیں.اسے اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ تیری جماعت کے لوگ غیروں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.اب بتائیں کہ خدا تعالیٰ کے اس حکم کا مانا ثواب ہو گا یا اس کو ترک کرنا ثواب ہو گا.نماز با جماعت بے شک ایک کارِ ثواب ہے لیکن اسی وقت جب کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت ہو.اگر خدا تعالٰی کے حکم کے خلاف وہ نماز ہو تو وہ ثواب نہیں بلکہ گناہ ہے.بعض علماء نے بھی اپنے مخالفوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے اپنے متبعین کو روکا ہے لیکن ان کا یہ فعل ناجائز تھا کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہ تھا.لیکن مسیح موعود کی صداقت کو جب ایک شخص مان لے اور مسیح موعود ایک بات اذن الہی سے کہے تو اس کی اطاعت ہی کارِ ثواب ہو گا نہ کہ اس کی خلاف ورزی.ہم تو احادیث میں دیکھتے ہیں کہ بارش کے وقت بھی جماعت ترک کر دینے کی اجازت.

Page 56

۲۹ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب ہے اور صَلُّوا فِي رِحَالِكُمْ (مسلم کتاب المساجد ومواقع الصلاة باب الصلوة في الرحال في المطر ) كا حکم ہے.جب اس چھوٹی سی وجہ کے پیدا ہونے سے نماز با جماعت کو ترک کیا جا سکتا ہے تو جہاں اللہ تعالیٰ کا حکم ہو وہاں یہ عذر کیونکر پیش کیا جا سکتا ہے کہ احمدی ہو کر نماز با جماعت ترک کرنی پڑے گی جس خدا نے نماز با جماعت کا حکم دیا ہے اس نے اپنے مسیح کی معرفت یہ حکم دیا ہے کہ اب غیر کے پیچھے نماز نہ پڑھو.پس اگر مسیح موعود سچا ہے تو اب ثواب اس میں ہے اور وہی نماز قبول ہے جو علیحدہ پڑھی جائے نہ وہ جو غیر احمدی کے پیچھے.اس جگہ یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ شریعت اسلام تو کامل ہو چکی ہے اب یہ نیا حکم کیونکر جاری ہوا کیونکہ یہ کوئی نیا حکم نہیں.حضرت مسیح موعود اگر یہ حکم دیتے کہ نماز باجماعت پڑھنی جائز نہیں تب بے شک ایک نیا حکم ہو تا لیکن آپ نے تو یہ حکم دیا ہے کہ غیر احمدی کے پیچھے جائز نہیں اور یہ حکم نیا نہیں نماز با جماعت سے تو آپ نے نہیں روکا.احمدی آپس میں نماز باجماعت پڑھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر جو شخص احمدیت قبول کرتا ہے اسے اللہ تعالیٰ اکیلا نہیں رکھتا بلکہ اس کے لئے جماعت کا سامان پیدا کر دیتا ہے.آپ غور فرمائیں کہ اگر آپ کو معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص جو نماز پڑھا رہا ہے وہ ناپاک ہے اور بلا غسل نماز پڑھا رہا ہے یا بلا وضو تو آپ اس کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے ؟ کبھی نہیں کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ یہ امام تو احکام اسلام کو توڑ رہا ہے اس کے پیچھے نماز کی قبولیت کیا ہوگی.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں مَنْ مَاتَ وَلَمْ يَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِهِ - مات مِيتَةً جَاهِلِيَّة (كشف الغمة عند ٣ ٥ ٣٣ اب جو شخص امام وقت اور مسیح موعود کو قبول نہیں کرتا وہ کس قدر خدا تعالیٰ سے دور ہے حتی کہ آنحضرت ا جو انسانوں میں سے اصدق الصادقین ہیں اس کی موت کو اسلام سے پہلے کے کفار کی موت کی طرح قرار دیتے ہیں.پس جو شخص آنحضرت ﷺ کو قبول کرتا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود کی صداقت کو قبول کرتا ہے وہ آپ کے منکر کے پیچھے کس طرح نماز پڑھ سکتا ہے کیونکہ نماز کا امام تو سب جماعت کا قائم مقام ہوتا ہے پھر کیا خدا تعالیٰ کے حضور اپنی التجاؤں کے پیش کرنے کے لئے انسان اس شخص کو آگے کر سکتا ہے جس پر اللہ تعالیٰ ناراض ہے اس شخص کو اینہ امام بنا نا گویا اپنی دعاؤں کو بھی قبولیت سے محروم رکھنا ہے.گورنمنٹ کے پاس لوگ ڈیپوٹیشن بھیجتے ہیں تو یہ دیکھ لیتے ہیں ایسا شخص ڈیپوٹیشن کا رئیس ہو جس سے حکام خوش ہوں اور کبھی ڈاکو یا مجرم کو آگے نہیں کرتے کیونکہ اس سے انہیں خطرہ ہوتا ہے کہ اگر درخواست قبول ہونی بھی ہو گی تو نہ ہو گی اسی

Page 57

انوار العلوم چاند ۳۰ ٣٠ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب وجہ سے آنحضرت ﷺ نے اتقى النَّاسِ اور اَعْلَمُ النَّاسِ امام بنانے کا حکم دیا یا کم سے کم متقی انسان تو امام ہونا چاہئے جس کی نسبت ہمارا گمان ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے لیکن وہ شخص جو خدا تعالیٰ کے مامور کو رد کرتا اور اس کے حکم کو ٹالتا اور رسول اللہ الی کے ارشادات اور اشارات کو پس پشت ڈالتا ہے اس کی نسبت ہم کب خیال کر سکتے ہیں کہ وہ ان لوگوں کا امام ہونے کے قابل ہے جو اللہ تعالیٰ کے فیصلے کو قبول کر چکے ہیں اور اس کی امان میں آچکے ہیں ان کا امام تو وہی ہونا چاہئے جو ان میں سے ہو.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں مومنوں کی دعا بتا تا ہے وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَاما - (الفرقان : ۷۵) ہمارے مقتدی بھی متقی ہوں.پھر بھلا وہ شخص جو امام وقت کو رد کر کے اللہ تعالی کو ناراض کر چکا ہو امام ہونے کے لائق کب ہے.پس اصل بات یہی ہے کہ حضرت مسیح موعود نے یہ حکم کبھی نہیں دیا کہ نماز با جماعت نہ پڑھو بلکہ ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکا ہے جو امام ہونے کے اہل نہیں اور اللہ تعالیٰ کو ناراض کر چکے ہوں تا ایسا نہ ہو کہ ان کو امام بنانے کی سزا میں یہ بھی ایمان سے محروم کر دیا جائے اور اس کی دعا بھی رد ہو اور جہاں ایسے آدمی میں جو امام ہونے کے اہل ہوں وہاں نماز با جماعت کا حکم اسی طرح موجود ہے جس طرح اسلام نے دیا ہے.آپ آنحضرت ﷺ کے اقوال پر بھی غور فرما دیں ان سے بھی ثابت ہے کہ مسیح کے منبع ایک دوسرے کے پیچھے ہی نماز پڑہیں گے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.كَيْفَ أَنْتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمُ ابْنُ مَرْيَمَ فَا مَّكُمْ مِنْكُمْ (مسلم کتاب الایمان باب نزول عيسى بن مريم حاكما بشريعة نبينا محمد صلى الله علیه وسلم) دوسری حدیث میں ہے وَ اِمَامُكُمْ مِنْكُمْ.(بخاری کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی ابن مریم علیه السلام) اب اس حدیث پر غور کریں کیسے صاف الفاظ میں بتایا ہے کہ احمدیوں کا امام احمد ی ہی ہونا چاہئے.فرماتے ہیں کہ جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے تو تم میں سے ہی امام ہو گا.اب یہ بات تو صاف ثابت ہے کہ نماز کا امام عیسائی یا ہندو تو ہوا ہی نہیں کرتا ہے کہ ہم اس جگہ یہ خیال کر لیں کہ آنحضرت ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ اس وقت کی یہ خصوصیت ہو گی کہ امام ہندو عیسائی یا یہودی نہ ہوا کریں گے بلکہ مسلمان ہی ہوں گے غرض اس جگہ اس حدیث کے یہ معنی کرنے کہ اے مسلمانو! اس وقت تمہارا امام تم میں سے ہو گا یعنی مسلمان ہو گا اس حدیث کو لغو اور بے معنی بنا دیتا ہے.نعوذ باللہ من ذالک.پس اس کے یہی معنی ہو سکتے ہیں کہ مسیح کے نزول تک تو سب فرق کا اختلاف ایسا نہ ہو گا کہ ایک دوسرے کے -

Page 58

م جلد ۳۱ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب پیچھے نماز ترک کر دیں لیکن چونکہ وہ اللہ تعالٰی کا مرسل ہوگا اس لئے اس کی جماعت کی خصوصیت یہ ہوگی کہ ان کا امام انہی میں سے ہو گا نہ کہ ان دوسرے فرق سے جو دعوائی اسلام کرتے ہوں گے.غرض غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنے کا ترک ہر گز کسی فرض کا ترک نہیں بلکہ قرآن کریم و احادیث کی رو سے امام جماعت امامت کے اہل انسان کو بنانا چاہیئے اور چونکہ ایک مامور اور نامور بھی مرسل نامور اور پھر مسیح موعود کا انکار ایک خطرناک جرم ہے جو انسان کے تعلق کو اللہ تعالیٰ سے تو ڑ دیتا ہے.اس لئے مسیح موعود کا منکر ہر گز ایک احمدی کی امامت کا اہل نہیں اور بموجب حدیث جماعتِ مسیح موعود کا امام خود انہی میں سے ہونا چاہئے اور خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو حکم دیا ہے اور یہ فیصلہ قیاسی نہیں مطابق الہام ہے.علاوہ ازیں آپ یہ بھی خیال فرما دیں کہ مسیح موعود کی نسبت رسول الله الا حَكَمًا عدلا (بخاری کتاب بدء الخلق باب نزول عیسی ابن مریم علیهما السلام) فرماتے ہیں یعنی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے فیصلہ کرنے کے لئے آئے گا اور اس کے فیصلے بالکل درست ہوں گے پس جب مسیح موعود کے فیصلوں کو آنحضرت او درست قرار دیتے ہیں تو اور کسی انسان کا کیا حق ہے کہ ایک شخص کو مسیح موعود مان کر پھر بھی کہے کہ اسکے بعض فیصلوں کو مان کر اسلام کے بعض احکام کو ترک کرنا پڑتا ہے.کیا حَكَمًا عدلا کے فیصلے غلط ہو سکتے ہیں ؟ اس کا تو ہر ایک حکم اسلام کے ماتحت ہی ہو گا.پس یہ بحث تو ہو سکتی ہے کہ مرزا صاحب واقعہ میں مسیح ہیں یا نہیں مگر ان کو ی مسیح مان کر ان کے فیصلوں کو اسلام کے خلاف نہیں کہا جا سکتا.کہ قرآن کریم میں ہمارا نام مسلم رکھا گیا ہے اور ہمیں - تیسرا سوال آپ کا یہ ہے : مختلف فرقے بنانے سے روکا گیا ہے پھر ہم کس طرح احمدی کہلائیں اور ایک اور فرقہ کی بنیاد رکھیں سو اس کا جواب یہ ہے کہ احمدی نام ہمارے مذہب کا نہیں.ہمارا مذہب اسلام ہی ہے.لیکن جب کہ اس وقت مسلمانوں میں ہزاروں فرقے موجود ہیں اگر ہم صرف مسلمان کہلا ئیں تو دنیا ہماری خصوصیات سے کس طرح واقف ہو.اس وقت احمدی کا لفظ گویا ہمارے لئے ایک اشتہار ہے اور اس کے یہ معنی نہیں کہ احمدی کوئی نیا ہب ہے بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ ہم مسلمان ہیں اور اس جماعت میں شامل ہیں جو مسیح موعود کو ماننے والی ہے.دیکھئے اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو خاتم النبین کا خطاب دیا ہے یا نہیں اور پھر بہت سے آدمیوں کو نبی کر کے پکارا ہے یا نہیں.پھر کیا یہ سمكُم

Page 59

انوار العلوم جلد ۳۰ ۳۲ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب الْمُسْلِمِينَ کے خلاف ہے؟ ہرگز نہیں وہ لوگ نبی بھی تھے مسلمان بھی تھے.اسلام ان کا مذہب تھا اور نبوت ان کی خصوصیت تھی جو اور دوسرے مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی تھی.پس نبی یا خاتم النبیین کے نام سے پکارنے سے یہ مطلب نہیں تھا کہ مسلم کے نام کے خلاف کیا گیا ہے بلکہ اس میں ایک خصوصیت بتلائی گئی تھی.پھر خود قرآن کریم میں مہاجرین و انصار کے دو گروہوں کا ذکر آتا ہے اور یہ دونوں گروہ مسلمانوں میں سے تھے.کیا پھر قرآن کریم نے خود اپنے ہی بتائے ہوئے قاعدہ کے خلاف کیا کہ آپ ہی تو بتایا کہ تمہارا نام مسلم ہے اور آپ ہی ایک جماعت کو مہاجر کے نام سے پکارا اور ایک کو انصار کے نام سے مگر اس کا جواب یہی ہے کہ یہ نام مسلم نام کے خلاف نہیں وہ لوگ مذہباً مسلم تھے لیکن چونکہ ان میں بعض خصوصیات ہیں جن کا ذکر کرنا ان کے درجہ اور ان کے حقوق کے اظہار کے لئے ضروری تھا اس لئے ان کا ذکر بھی کیا گیا جو سمكُمُ الْمُسْلِمِينَ (المج : ۷۹) کے خلاف نہ تھا.اسی طرح مسلمانوں میں سے کوئی سید کوئی قریشی کوئی پٹھان کوئی مغل وغیرہ کہلاتے ہیں اور یہ سمكُمُ المُسلمین کے خلاف نہیں بلکہ بعض جگہ اس کا اظہار ضروری ہو جاتا ہے.گورنمنٹ نے پنجاب میں خاص اقوام کو زمین کے خریدنے کا اہل قرار دیا ہے اور ہر قوم کو مستحق نہیں سمجھا.اب اگر مسلمان سمكُمُ الْمُسْلِمِينَ کے ماتحت اپنے ان ناموں کو پوشیدہ رکھیں جو ان کی قوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو وہ ان تمام حقوق سے محروم ہو جائیں.اسی طرح آپ غور کریں کہ ہر ایک شخص کا ایک نام ہوتا ہے اگر سب مسلمان اسی حکم کے ماتحت نام رکھنے چھوڑ دیں تو دنیا میں کس قدر تباہی آجائے.غرضکہ مختلف وجوہات کے ماتحت انسان کو اپنے بعض نام قرار دینے پڑتے ہیں کبھی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے ممتاز کرنے کے لئے وہ اپنا نام رکھتا ہے یا یہ کہ اس کے والدین اسکا کوئی نام رکھتے ہیں اور کبھی ایک قوم کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ایک قومی نام رکھا جاتا ہے کبھی بعض عہدوں اور مدارج کے بتانے کے لئے نام رکھے جاتے ہیں اور ایسا کرنے سے مسلمانوں کے مسلم نام میں کوئی فرق نہیں آجاتا.پس ہم جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں تو یہ قرآن کریم کے حکم کے خلاف نہیں کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں ہو تا کہ ہم مسلم نہیں بلکہ ہم ہمیشہ اپنے آپ کو مسلم ہی کہتے ہیں.احمدی تو ہم صرف اس بات کے ظاہر کرنے کے لئے کہلاتے ہیں کہ ہم وہ مسلمان ہیں جو مسیح موعود کے ہاتھوں پر اسلام کی حقیقت کو پاکر مسلم بنے ہیں اور جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے مامور اور

Page 60

ر العلوم جلد ۳۰ ۳۳ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب مرسل کو رد نہیں کیا بلکہ قبول کیا ہے جس طرح انصار اس لئے انصار کہلاتے تھے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے رسول کو اپنے گھروں میں جگہ دی.غرضکہ احمدی کہلانے میں اسلام کا انکار نہیں بلکہ ایک خصوصیت کا اظہار ہے.باقی رہا یہ کہ قرآن کریم نے فرقہ بندی سے منع کیا ہے سو یہ بالکل درست ہے.اسلام نے فرقہ بندی سے منع کیا ہے جو شخص فرقہ بندی کرتا ہے وہ غلطی کرتا ہے مگر ہم تو کوئی فرقہ بندی نہیں کرتے ہم تو اصل اسلام کو نقلی اسلام اور بناوٹی اسلام سے علیحدہ کرتے ہیں.اس وقت مسلمان کہلانے والے لوگ ہزاروں گندے عقائد اور بد رسومات میں مبتلا ہیں اور بہت سی صداقتوں سے منکر ہیں.مسیح موعود نے ان سب باتوں کو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت دور کیا ہے اور حقیقی اسلام کو پیش کر کے اس کی طرف لوگوں کو بلایا ہے.پس یہ فرقہ بندی نہیں بلکہ اسلام کی شیرازہ بندی ہے.کیا قرآن کریم نے اس بات سے بھی منع کیا ہے کہ اسلام کی شیرازہ بندی کبھی نہ کرنا اور خواہ مسلمان اسلام سے کتنے ہی دور ہوتے چلے جائیں تم ان کو اصل اسلام کی طرف نہ بلانا اور اگر یہ جائز ہے تو احمدی جماعت کا قیام فرقہ بندی کی بناء پر نہیں بلکہ اسلام کی شیرازہ بندی کی بناء پر ہے.اور جو لوگ اسلام سے دور چلے گئے تھے ان کو کھینچ کھینچ کر ایک مرکز پر جمع کیا جا رہا ہے.اسلام میں کسی شخص کا ہاتھ یا پیر کاٹ دینا منع ہے لیکن ایک ڈاکٹر جب ایک بے کار عضو کو کاٹ دیتا ہے تو یہ عین ثواب ہوتا ہے کیونکہ اسکا ساتھ جڑا رہنا دوسرے اعضاء کو بھی خراب کر دے گا اسی طرح محفوظ اعضاء کو بے کار اعضاء سے جدا کر دینا اور ان کو ایک شیرازہ میں لے آنا ہرگز فرقہ بندی نہیں کہلا سکتا.اس وقت اگر حقیقی اسلام کو الگ نہ کیا جائے تو اسلام کی تباہی یقینی ہے.ضروری ہے کہ اسلام کی بہتری اور اس کے احیاء اور قیام کے لئے حق کو باطل سے علیحدہ کر دیا جائے.کہ قرآن کریم میں یا احادیث میں کہیں اس بات کا حکم ۴.چوتھا سوال آپ کا یہ ہے : نہیں کہ مسیح و مہدی کو کھلے طور پر قبول کرنا.سو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم سے تو سوائے آنحضرت ا کے اور کسی نبی کی اطاعت کا قبل از وقت حکم دیا جانا معلوم نہیں ہوتا لیکن جب کہ اللہ تعالی صاف فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّدِ ِقينَ صادقوں کے ساتھ مل جاؤ.(التوبہ : (119) اور فرماتا ہے کہ واركَعُوا مَعَ الرَّاكِعِينَ (البقرہ : (۴۴) فرمانبردار لوگوں کے ساتھ شامل ہو جاؤ تو مسیح اور مہدی کا نام "

Page 61

العلوم جلد ٣٠ سوم ۳ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب لے کر اس بات کی تاکید کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ اس کی فرمانبرداری کرو.اگر مسیح موعود صادق ہے تو اس کے ساتھ ہونے اور اس کی جماعت میں علی الاعلان شامل ہونے کی ضرورت ہے اور قرآن کریم کا حکم ہے اور اگر کاذب ہے.نعوذ باللہ.تو پھر اس سوال کی ہی ضرورت نہیں پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نسل انسان کو فرماتا ہے فَا مَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّى هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ، وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِايَتِنَا أُولَئِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خُلدون - ( البقره : ۲۰:۳۹).پس جس کا نام مہدی رکھا گیا ہے وہ جب دنیا میں آئے تو اس کے ساتھ ہونا اور اس کی جماعت میں داخل ہونا تو ایک حکیم الہی ہے.اللہ تعالیٰ کی ہدایت کی اتباع کرنا تو مؤمن کا فرض اولین ہے.اسی طرح اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ المُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ - ( ال عمران : (1) تم بہتر امت ہو جو لوگوں کے نفع کے لئے نکالی گئی ہے تم لوگ سب نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور سب بری باتوں سے لوگوں کو روکتے ہو.اور اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہو.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مسلمانوں کو دوسری امتوں پر فضیلت ہی اس لئے دی گئی ہے کہ ان کا فرض مقرر کیا گیا ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو لوگوں کے نفع کے لئے وقف کر دیں اور حق باتیں لوگوں کو پہنچاتے رہیں اور بری باتوں سے روکتے رہیں.پس جبکہ مسلمان کا فرض دو سروں کو حق پہنچانا ہے تو اپنا مذ ہب پوشیدہ رکھنا اسے کس طرح جائز ہو سکتا ہے.جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نور اور ہدایت نازل ہو گئی تو ہر ایک مؤمن کا فرض ہے کہ وہ اس کو شائع کرے اور لوگوں کو اس کی طرف بلائے اور یہ مسلم کا پہلا فرض ہے اور ایک دوسری جگہ اللہ تعالی تبلیغ کرنے والے لوگوں کو کہتا ہے کہ أولئِكَ هُمُ المُفْلِحُونَ (ال عمران : (۱۰۵) یعنی جب تک لوگوں کو دعوت حق دینے کا مادہ مسلمانوں میں رہے گا اسی وقت تک مسلمان کامیاب ہوں گے.پس ان تمام آیات کے ہوتے ہوئے ایمان کا پوشیدہ رکھنا جائز نہیں.اور ان آیات میں ہرگز کہیں نہیں لکھا کہ یہ حکم صرف فلاں فلاں نبی کے لئے ہے یا یہ کہ فلاں فلاں ہدایت کے لئے.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہود کی نسبت آتا ہے کہ الَّذِينَ آتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْرِفُونَهُ كَمَا يَعْرِفُونَ أَبْنَاءَ هُمْ - (البقره : ۱۴۷) اہل کتاب رسول الله الله الا اللہ کو اس طرح پہچانتے ہیں جس طرح اپنے بیٹوں کو.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دل سے تو وہ آپ کے مومن تھے لیکن اس کا اظہار نہیں

Page 62

دم جلد ۳۰ ۳۵ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب کرتے تھے.لیکن باوجود اس کے ان پر سخت الزام لگایا گیا ہے.پھر ہم حضرت مسیح موعود کے الہامات کو دیکھتے ہیں تو وہاں بھی یہ حکم پاتے ہیں کہ جو شخص اس کشتی میں نہیں بیٹھتا جو اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کے ہاتھوں سے تیار کروائی ہے یعنی احمدی جماعت میں داخل نہیں ہو تا تو وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے محفوظ نہیں اور اس کے فضلوں کا وارث نہیں ہو سکتا.کہ مذکورہ بالا واقعات کے ہوتے ہوئے اگر میں -۵ پانچواں سوال آپ کا یہ ہے: آپ کو خطہ آپ کو خفیہ طور پر قبول کروں تو اس میں کچھ حرج نہیں ؟ سو اس کا جواب یہ ہے کہ میں پہلے سوالوں کے جواب دے چکا ہوں جن میں میں نے بتایا ہے کہ ماموروں کا ماننا اور ان کی جماعت میں شامل ہونا ضروری ہے.اللہ تعالیٰ نے مسیح موعود کی جماعت سے عظیم الشان ترقیوں اور انعامات کے وعدے کئے ہیں.ان وعدوں کا حصہ دار انسان تب ہی ہو سکتا ہے جب ان کی جماعت میں شامل ہو.مکرمی ! آپ سوچیں کہ اگر سب لوگ اسی طرح اپنے دل میں فیصلہ کر کے اپنی اپنی جگہ پر قائم رہیں تو وہ کام جو مسیح موعود کا ہے.کس طرح پورا ہو.آپ نے جو خیالات ظاہر فرمائے ہیں یہ دوسروں کے لئے بھی روک ہو سکتے ہیں.پھر اسلام کا غلبہ جو مسیح موعود کے ہاتھ سے اللہ تعالی کرانا چاہتا ہے کیونکر ہو اور کھرے اور کھوٹے میں کیا امتیاز پیدا ہو.اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام حضرت مسیح موعود کو بیعت لینے پر مقرر فرمایا تھا اور ہم دیکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد آپ کے خلفاء جو غیر مامور تھے ان کی بیعت کی نسبت بھی صحابہ کو اس قدر اصرار تھا کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے زیادہ دیر بغیر ایک امام کے رہنے کو پسند نہ کیا اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ حضرت ابو بکر کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور جس شخص نے بیعت نہ کی اس سے بالکل قطع تعلق کر لیا اور کلام تک چھوڑ دیا.پس جب یہ غیر مامور خلفاء کا حال ہے تو مأمور خلیفہ اور مسیح موعود اور امت محمدیہ کے درخشندہ گو ہر آنحضرت ا کے فیض صحبت سے ترقی کرتے ہوئے نبی کا نام پانے والے انسان کے ساتھ شامل نہ ہونا کس طرح جائز ہو سکتا ہے.ایمان کی سلامتی کے لئے ضروری ہے کہ کھلے بندوں اس کی جماعت میں شامل ہو کر ہر ایک مؤمن باللہ اپنے نفس کی درستی اور خدمت اسلام میں لگ جائے.میرے خیال میں تو جو شخص مسیح موعود کو امام برحق مان لیتا ہے اس کے لئے سوائے دنیاوی مشکلات اور مولویوں کے فتوؤں کے اور کوئی چیز مسیح موعود کے مانے میں روک نہیں ہو سکتی.لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا چند روزہ ہے اور آخر میں اللہ تعالیٰ کے حضور میں

Page 63

FY ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب حاضر ہونا ہے جہاں کسی کی سفارش یا شفاعت کام نہیں دے سکتی الا ماشاء اللہ اور جب خدا تعالیٰ کے علم سے کوئی بات مخفی نہیں.ہمارے زمانہ میں تو وہ مشکلات نہیں پہلے زمانہ میں تو لوگوں کو صداقت کی خاطر جانیں دینی پڑتی تھیں اور بعض کو اپنے سامنے اپنی بیویوں اور بچوں کو ذبح ہوتے دیکھنا پڑتا وطن چھوڑنے پڑتے تھے جائیدادیں ترک کرنی پڑتی تھیں مگر وہ لوگ صداقت کے قبول کرنے سے انکار نہ کرتے تھے.اللہ تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ انْ تُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ - (العنکبوت : (۳) کیا لوگ خیال کرتے ہیں کہ صرف ایمان کا دعوی کرنے پر ان کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی آزمائش نہ کی جائے یعنی ایسا نہیں ہو سکتا.ایمان وہی قابل قدر اور انعام الہی کا وارث کرتا ہے جس میں انسان آزمائشوں میں ڈالا جائے اور خدا تعالیٰ کے لئے ہر ایک قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جائے.پس مومن تو وہی ہے اور خدا تعالیٰ کے نزدیک اس کی قدر ہے جو اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے رازق اور اپنے مالک کے حکم کے ماتحت ہر ایک تکلیف برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.ہماری جماعت میں سے ہی بعض لوگ اس سلسلہ میں داخل ہونے کی وجہ سے ریاست کابل میں قتل کئے گئے اور بعض کو اپنے وطن چھوڑنے پڑے لیکن انہوں نے صداقت کو نہ چھپایا اور ایسا تو شاید ہی کوئی انسان ہو جس کو اور قسم قسم کے دکھ نہیں دیئے گئے.اور کچھ نہیں تو فتوائی کفر کے ذریعہ سے اسے ڈرانے کی کوشش نہ کی گئی ہو.اور ایمان قبول بھی وہی ہوتا ہے جو باوجود مشکلات کے ثابت رہے.کاش ! دنیا اس بات پر غور کرتی.اور لوگ اس بات کو سوچتے کہ انسان اس دنیا میں نہ رہے گا.اگر صداقت کے قبول کرنے میں اسے سخت سے سخت تکلیفیں بھی دی جائیں تب بھی وہ ایک محدود وقت کے لئے ہوں گی.اول تو اللہ تعالیٰ اسی دنیا میں مؤمنوں کی نصرت کرتا ہے اور اگر اس دنیا میں دکھ ہی دکھ ہو تب بھی یہ زندگی زیادہ سے زیادہ نتو سال کی سمجھ لو پھر مرتا ہے اور ایک نئے گھر میں بود و باش کرنی ہے جس کا کوئی خاتمہ نہیں پھر اس نہ ختم ہونے والے آرام کو قربان کرنا اور اس محدود زندگی کے آرام کو قبول کرنا کہاں کی دانائی ہے.اور سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ رضائے الہی کے مقابلہ میں دنیا کے دکھوں اور تکلیفوں کی ہستی ہی کیا ہے.کاش ! مسلمان اس قدر غور کرتے کہ آج اسلام خطرناک مصائب میں گرفتار ہے اور اسے پھر بڑھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کو بھیجا ہے اور اس کے ہاتھ سے اسلام کے شیرازہ کو پھر باندھنا چاہا ہے اور اس جماعت میں شامل ہونے کے لئے

Page 64

العلوم جلد - ۳ ۳۷ ایک صاحب کے پانچ سوالوں کا جواب دوڑتے جسے خدا تعالیٰ نے اسلام کی حفاظت کے لئے پیدا کیا ہے اور اس جماعت سے علیحدہ ہو جاتے جس نے حق کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.جب آنحضرت الله مسیح موعود کو اپنا سلام پہنچا دینے کا حکم ہر ایک مسلمان کو دیتے ہیں تو پھر کیا مسلمان کہلاتے ہوئے کوئی شخص مسیح موعود سے جدا ہو سکتا ہے.ہر ایک شخص کو یہ حکم دیتا کہ میری طرف سے مسیح موعود کو سلام کہنا اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ اس کی جماعت میں شامل ہونا.کیونکہ سلام پہنچانا چاہتا ہے کہ اس کے پاس بھی انسان جائے اور الہی سلسلے انسانوں کی وفات کے ساتھ ختم نہیں ہو جاتے.مسیح موعود کا ماننا جیسے اس کی زندگی میں ضروری تھا اسی طرح اب بھی ہے.اسلام کو سب سے بڑا نقصان پراگندگی سے پہنچا اور اللہ تعالی چاہتا ہے کہ پھر نئے سرے سے مسلمانوں کو ایک جماعت بنائے اور اس کے لئے اس نے مسیح موعود کو بھیجا ہے.اب جس شخص کے دل میں اسلام کی محبت ہے اور خدا تعالیٰ کا تقویٰ رکھتا ہے اسے چاہئے کہ مسیح موعود کے دعوئی کو پرکھنے کے بعد اس کی صداقت معلوم کر کے اس کے احاطہ میں آجائے تا ایسا نہ ہو کہ خدا تعالیٰ کے حضور میں وہ ان لوگوں میں شامل کیا جارے جو اسلام کو نقصان پہنچانے والے اور جماعت مسلمین کو پراگندہ کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے اور حق کی طرف ہدایت کرے.آمین..مرزا محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی قادیان دار الامان ۹ - اپریل ۱۹۱۵ء

Page 65

Page 66

لوم جلد ۳۰ ۳۹ پیغام مسیح موعود پیروان مذاہب عالم کو حضرت مسیح موعود کے پیغام کو قبول کرنے اور باہمی صلح و آشتی کی تعلیم) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی پیغام مسیح موعود

Page 67

۴۰

Page 68

رالعلوم جلد ۳۰ پیغام مسیح موعود بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم پیغام صحیح موعود علیہ السلام تقریر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ المسیح الثانی ) جو حضور نے اور جولائی ۱۹۱۵ ء بعد از نماز مغرب بمقام لاہور احاطہ میاں سراج دین صاحب میں ایک پبلک جلسہ میں فرمائی) میں لاہور کوئی تقریر کرنے یا کسی جلسہ میں شمولیت کے لئے نہیں آیا تھا ملکہ میرے حلق میں کچھ تکلیف تھی اور اس تکلیف کی وجہ سے میں مجبور ہوا کہ لاہور آکر اس کا علاج کراؤں.جب میں یہاں آیا تو میرے دل میں تحریک ہوئی کہ اللہ تعالی ہی بہتر جانتا ہے مجھے اس تکلیف سے آرام ہو گا یا نہ ہو گا اور خدا ہی اچھی طرح جانتا ہے کہ میں اس بیماری سے شفا پاؤں گا یا نہ پاؤں گا لیکن خدا تعالیٰ نے جب مجھے موقع دیا ہے کہ میں اس صوبہ کے دار الامارت میں آیا ہوں جس کا میں باشندہ ہوں تو بہتر ہے کہ میں اس جگہ پر ان تمام اصحاب کو جو حق طلبی کا مادہ اپنے اندر رکھتے ہیں وہ پیغام پہنچا دوں جو اس خدا نے جو تمام انسانوں کا خالق ہے اپنے بندوں کی طرف بھیجا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ایک معمولی چپڑاسی.چپڑاسی بھی نہیں کوئی چوہڑا چمار گلے میں ڈھولن ڈال کر ڈم ڈم کرتا ہوا گلی میں سے گزرتا ہے تو لوگ دوڑتے آتے ہیں کہ کیا ڈھنڈورا پیٹتا ہے اور کیا کہہ رہا ہے تو میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ وہ انسان جو دنیاوی حیثیت کے لحاظ سے بھی معزز ہو اور مخالف بھی اقرار کریں کہ وہ معزز و مکرم ہے.جب دنیا میں پکار پکار کر کہے کہ میں خدا کی طرف سے ڈھنڈورا دیتا ہوں.اے سننے والو سنو ! تو کیوں ہر ایک آدمی پر فرض نہ ہو کہ کم از

Page 69

العلوم جلد ۳۰ ۲سم پیغام مسیح موعود کم اس ڈھنڈورا دینے والے کی آواز کی طرح تو اس کی آواز کو سنے اور دریافت کرے کہ کیا کہتا ہے؟ پس میں ہر ایک حق پسند حق طلب اور انصاف پسند سے امید کرتا ہوں کہ وہ اس پیغام کو غور سے سنے گا جو میں بیان کرنے لگا ہوں.یہ پیغام جیسا کہ میں نے بتایا ہے خدا کا پیغام ہے اور اس خدا کا ہے جو ہر ایک چیز کا جو زمین و آسمان کے درمیان ہے خالق ہے ہر ایک چھوٹی سے لے کر بڑی چیز کا مالک ہے اور ہر ایک جاندار کا رازق ہے اور جس کے حضور ایک دن تمام انسانوں کو حاضر ہونا ہے.پھر اس پیغام کے لانے والا کوئی معمولی انسان نہیں بلکہ وہ ہے جو کہتا ہے کہ میں وہ مسیح ہوں جس کی خبر انجیل نے دی ہے.میں وہ نبی ہوں جس کی خبر دانیال نبی نے دی ہے.میں وہ مہدی ہوں جس کی خبر آنحضرت ﷺ نے دی ہے.میں وہ کرشن ہوں جس کی خبر گیتا میں درج ہے.میں وہ میسیا درہی ہوں جس کی خبر جاماسپ نے اپنی کتاب جاما پسی میں لکھی ہے اور پھر وہ یہی نہیں کہتا بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ میں تمام دنیا کی طرف صلح کرانے اور تمام کو ایک دین پر جمع کرنے کے لئے آیا ہوں.اس کا یہ دعوئی بہت بڑا دعویٰ ہے پس ہر ایک انصاف پسند کا فرض ہے کہ اس کے دعوی کو سن تو لے.میں مانتا ہوں کہ بہت سے لوگ اس کو قبول نہ کریں گے اور یہ سنت اللہ ہے کہ خدا کے فرستادوں کو بہت سے لوگ قبول نہیں کیا کرتے.کیا یہ سچ نہیں کہ کرشن کی اس کے زمانہ میں مخالفت کی گئی کیا یہ درست نہیں کہ را چند ر زرتشت موسی ، داؤد ابراہیم اور مسیح کی اپنے اپنے زمانہ میں مخالفت کی گئی.کیا یہ امر واقعہ نہیں کہ آخری لے نبی جو خاتم النبیین اور سب نبیوں کے سردار ہیں ان کی بھی مخالفت کی گئی اور کیا یہ صحیح نہیں کہ آج تک کوئی بھی نبی ایسا نہیں گزرا جس کا کوئی بھی مخالف نہ رہا ہو.جب بات یہ ہے تو یہ خیال کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ساری دنیا مان لے اور کوئی مخالف نہ رہے حماقت ہے کیونکہ یہ سنت اللہ کے خلاف ہے پس ایسا ہونا نا ممکن ہے چونکہ انسانوں کی مختلف فطرتیں ہوتی ہیں اس لئے انبیاء کو سب کے سب قبول نہیں کر سکتے.ہاں بعض ایسے ہوتے ہیں جو قبول کر لیتے ہیں لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن تک حق پہنچا ہی نہیں اور بعض جلد بازی سے کام لے کر انکار کر دیتے ہیں اس لئے یہ خیال کہ کسی ایک انسان کو ساری دنیا مان لے باطل ہے.لیکن میں اس وقت آپ لوگوں کے سامنے ایک ایسے انسان کا پیغام پیش کرتا ہوں جس کو خدا تعالیٰ نے ساری دنیا کی طرف مبعوث کیا ہے اور جس سے خدا کا وعدہ ہے کہ دنیا کا اکثر حصہ تیرے ہاتھ پر صداقت کو قبول کرے گا اور تو اسلام کا چہرہ ظاہر

Page 70

م جلد - ۴۳ پیغام مسیح موعود کرے گا پھر جس کی نسبت مختلف نبیوں نے خبر دی ہے اور ہر ایک مذہب والے اس کے منتظر بیٹھے ہیں.عیسائی صاحبان ، ہند و صاحبان یہودی اور پاری صاحبان سب مانتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں آخری زمانہ میں آنے والے کی پیشگوئی موجود ہے.چینی یہاں کوئی موجود نہیں لیکن اگر کسی چینی سے دریافت کرو گے تو معلوم ہو جائے گا کہ ان کے ہاں بھی آخری زمانہ میں آنے والے کی پیشگوئی موجود ہے.پس جب تمام مذاہب کا اس پر اتفاق ہے تو ضرور اس میں خدا تعالیٰ کی بہت بڑی حکمت ہے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں یہ سب ڈھکوسلے ہیں نہ کوئی آیا نہ آئندہ آئے گا اور نہ آسکتا ہے.میں کہتا ہوں کہ کیا ڈھکوسلے ایسے ہی ہوتے ہیں جو مختلف ملکوں میں اور مختلف مذاہب کی کتابوں میں پھیل جاتے ہیں.اگر یہ بات صرف حضرت مسیح کی کتاب میں ہوتی تو کوئی کہہ سکتا تھا ڈھکوسلا ہے.اگر صرف دانیال کی کتاب اس خبر کو شائع کرنے والی ہوتی تو کوئی کہہ سکتا تھا ڈھکوسلا ہے.لیکن مختلف نبی جو مختلف ممالک میں آئے اور مختلف کتابیں لائے انہوں نے متفق ہو کر یہ خبر دی کہ آخری زمانہ میں دنیا میں ایک نبی آئے گا اور اس کے ظہور کا وقت وہ ہو گا جب دنیا میں خطرناک جنگیں ہوں گی اور دنیا ان کے ذریعہ سے ہل جائے گی اس کے بعد اس آنے والے کے ذریعہ سے دنیا میں امن اور صلح قائم ہوگی.پس یہ کس طرح ممکن ہے کہ مختلف ممالک کے انبیاء ایک آنے والے کی ایک زبان ہو کر خبر دیں اور ان سب کا قول ڈھکو سلا کہلائے وہ انبیاء آپس میں کب اکٹھے ہوئے کہ سب نے مل کر ایک بات بنائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جو پیغام میں سنانے کے لئے حضرت مسیح موعود کا پیغام کھڑا ہوا ہوں.وہ نیا بھی نہیں اور پرانا بھی نہیں.نیا تو اس لئے نہیں کہ وہ وہی پیغام ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے مرسل ہمیشہ سے سناتے آئے ہیں اور پرانا اس لئے نہیں کہ اس وقت دنیا اس پیغام کو اس طرح بھول گئی ہے کہ گویا بھی بھیجا ہی نہیں گیا.دنیا کا کوئی مذہب نہیں جس میں وہ پیغام نہیں بھیجا گیا.ہر مذہب میں اس کی تعلیم موجود ہے مگر اب دنیا اسے بھول گئی ہے اور ایک لفظ بھی یاد نہیں ، اس لئے نیا ہے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف زمانہ میں مختلف نبی آئے ہیں اور ایسا اللہ تعالیٰ کی ربوبیت ہی ہونا چاہئے تھا.قرآن شریف شروع ہی اس طرح ہوتا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الفاتحه : (۲) تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں.کیوں ؟ اس لئے

Page 71

العلوم جلد.سمسم پیغام مسیح موعود کہ تمام جہانوں کا رب ہے.اگر ہندوستان کا رب ہے تو عرب کا بھی رب ہے.اگر یورپ کا ب ہے تو افریقہ کا بھی رب ہے.اگر ایران کا رب ہے تو شام کا بھی رب ہے.غرضیکہ دنیا کے تمام حصص کا رب ہے اور زمین و آسمان کے درمیان جس قدر چیزیں ہیں ان سب کا رس ہے.کوئی چیز کوئی ملک کوئی علاقہ ایسا نہیں جس کا کوئی اور رب ہو اس لئے فرمایا کہو رب DOWNLOALKANG ہم اس خدا کو پیش کرتے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے اور جس کی ربوبیت کسی خاص چیز سے تعلق نہیں رکھتی.مثلاً اس کا سورج ہے وہ کبھی ایسا نہیں چڑھے گا کہ اس کی روشنی صرف مسلمانوں تک ہی محدود ہو اور عیسائی ، ہندو یہودی وغیرہ مذاہب کے لوگ اس سے محروم رہیں یا اس کی روشنی صرف عیسائیوں کو ہی پہنچے یا صرف ہندوؤں کے لئے ہو یا کسی اور خاص مذہب کے لوگوں کے لئے ہو بلکہ سب لوگوں کے لئے ہے.خواہ کوئی مومن ہو یا کافر، ہندو ہو یا عیسائی ، دہریہ ہو یا خدا پرست جو کوئی بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہے اس کے لئے آزادی ہے لیکن اگر کوئی دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ رہے یا اپنی غلطی سے آنکھوں کو ضائع کر لے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے.خدا تعالیٰ کا سورج اس پر روشنی کو بند نہیں کرتا.میں اس آیت کے متعلق جب نقشہ کھینچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں کہ انسان غلہ ہوتا ہے بیل اس کے ساتھ کام کرتے ہیں اور وہ سارا سارا دن ان سے کام لیتا ہے ہل چلاتا ہے پانی دیتا ہے.اگر سال کے بعد کھیت سے تمام عملہ ہی غلہ پیدا ہوتا اور بھوسہ نہ ہوتا تو انسان ایسا حریص ہے کہ بیلوں کو دانہ نہ ڈالتا اور سب کے سب غلہ کو اپنے کام میں ہی لے آتا لیکن خدا جس طرح انسانوں کا رب ہے اسی طرح حیوانوں کا رب ہے اس نے اگر انسانوں کے لئے دانہ پیدا کیا ہے تو ساتھ ہی حیوانوں کے لئے بھی بھوسہ پیدا کر دیا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ محنت کرنے میں انسان اور حیوان دونوں شریک ہیں.اگر حیوانوں کے لئے الگ حصہ نہ رکھا گیا تو انسان اپنی ضروریات سے مجبور ہو کر انہیں محروم کر دے گا.جیسا کہ پہلے زمانہ میں حیوانوں کے چرنے کے لئے بڑی بڑی چراگاہیں چھوڑی جاتی تھیں لیکن اب ان کو کھیتی باڑی کے کام میں استعمال کیا گیا ہے اور بہت کم چراگاہیں باقی رہ گئی ہیں.تو خدا تعالیٰ نے جس طرح کھیت سے دانہ نکالا ہے اسی طرح حیوانوں کے پیٹ کے موافق بھوسہ بھی نکالا ہے اسی طرح ہر ایک چیز میں دیکھ لو.مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ اگر میووں وغیرہ میں بیج الگ نہ ہوتا تو انسان سارے کے سارے میوہ کو ہی کھا جاتے اور آگے پیدا ہونے کے لئے بیج بھی نہ رہنے دیتے لیکن خدا تعالیٰ نے ایسا سامان کر دیا ہے

Page 72

۴۵ پیغام مسیح موعود کہ ان کے بیج محفوظ رکھے جاتے ہیں.تو خدا رب العالمین ہے جو گرم اور ٹھنڈے ملک کے رہنے والوں گوروں کالوں، مسلمانوں ، عیسائیوں ، یہودیوں ہندوؤں سب کا خدا ہے.پس اسلام اور قرآن جس خدا کو دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے وہ ایسا خدا ہر قوم میں نبی نہیں ہے جس کا کسی خاص قوم سے تعلق ہو.بلکہ وہ تمام قوموں کا خدا ہے اور ساری دنیا کا خدا ہے.اسی لئے قرآن شریف یہ دعوی کرتا ہے کہ ساری ہی دنیا کی طرف رسول آتے رہے ہیں.جیسا کہ فرمایا وَ إِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ ناطر : (۲۵) کوئی قوم اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی نبی مبعوث نہ ہوا ہو کیونکہ وہ رب العالمین ہے.پس کس طرح ہو سکتا تھا کہ وہ سب اقوام میں نبی نہ بھیجا اور کسی خاص قوم میں بھیج دیتا لیکن اگر بائبل کو پڑھو تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے صرف حضرت نوح کی اولاد سے کلام کیا.حضرت ابراہیم سے کلام کیا.کیا ہندوستان کے لوگ خدا تعالیٰ کی مخلوق نہ تھے.یا یورپ افریقہ اور امریکہ کے لوگوں کا خدا خالق نہ تھا جب سب اسی کی مخلوق تھے تو جس طرح اس نے چاند سورج ہوا پانی وغیرہ میں بخل نہیں کیا حالانکہ یہ جسم کے لئے سامان ہیں پھر کیونکر ممکن تھا کہ وہ سوائے خاص خاص لوگوں کے باقیوں کی روح کے لئے کوئی سامان نہ کرتا اور انہیں یونہی چھوڑ دیتا.ہمیں اسلام نے ایسے خدا کی تعلیم دی ہے جو کسی خاص قوم کا نہیں ہے بلکہ تمام دنیا کا ہے.اس لئے وہ سب دنیا کے نبیوں کو ماننے کی تعلیم دیتا ہے.ہمارے سامنے جب کوئی شخص یہ پیش کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی فلاں نبی آیا تو ہم کہتے ہیں.اللہ اکبر - کیوں ؟ اس لئے کہ اس سے وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ کی صداقت ثابت ہوئی.ایسے موقع پر ایک مسیحی کے لئے مشکل ہے.ایک ہندو کے لئے مشکل ہے اور اسی طرح اسلام کے سوا باقی سب مذاہب کے لوگوں کے لئے مشکل ہے مگر اسلام کا ماننے والا کبھی شرمندہ نہیں ہوتا.جب کبھی اس کے سامنے کوئی نبی پیش کیا جائے گا وہ بڑی خوشی سے اللہ اکبر کہہ کر کے گا کہ الحمد للہ.وہ کتاب جس پر میں چلتا ہوں کیسی کیسی اعلیٰ صداقتیں اپنے اندر رکھتی ہے باوجود یکہ وہ ایسے ملک میں نازل ہوئی جس کے تعلقات دوسرے ممالک سے کئے ہوئے تھے اور کوئی ایسے ذرائع نہ تھے جن سے اسے دوسرے ممالک کے حالات معلوم ہو سکیں لیکن چونکہ اس کے نازل کرنے والا رب العالمین تھا اس لئے اس نے تمام دنیا کے نبیوں کی تصدیق فرما دی.غرض دنیا میں ہر قوم اور ہر ملک میں نبی گزرے ہیں جیسا کہ قرآن شریف نے بتایا ہے کہ وَ إِنْ مِنْ

Page 73

دم جلد -- ۴۶ پیغام مسیح موعود أمَّةٍ إِلَّا خَلَافِيْهَا نَذِيرُ اور جیسا کہ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَتِ الْعَلَمِيْنَ سے استدلال ہوتا ہے اور نبیوں کا سلسلہ کوئی نیا سلسلہ نہیں ہے پس حضرت مسیح موعود کی غرض اور ان کی بعثت کا مدعا دریافت کرنے کے لئے ہمیں کسی شخص سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں جو غرض ان پہلے نبیوں کی بعثت کی تھی وہی حضرت مسیح موعود کی بعثت کی ہے جب کہ اس جماعت کے ہزاروں افراد پہلے گزر چکے ہیں تو مسیح موعود کی بعثت کی غرض دریافت کرنے کے لئے ہمیں کسی مزید کوشش کی کیا ضرورت ہے جو پیغام نبیوں کی معرفت دنیا کو دیا گیا ہے وہی پیغام حضرت مسیح موعود کی معرفت دیا گیا ہے اور جس بات کی طرف ان کے ذریعہ بلایا جاتا تھا اسی کی طرف حضرت مسیح موعود کے ذریعہ بلایا گیا ہے اور اسی لحاظ سے میں نے کہا تھا کہ وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ اللہ تعالٰی نے دنیا کی طرف بھیجا ہے وہ کوئی نیا پیغام نہیں بلکہ پرانا ہی پیغام ہے اور نیا صرف اس لحاظ سے ہے کہ اس زمانہ کے لوگوں نے اسے ایسا ہی بھلا دیا ہے کہ اب وہ ان کے لئے ایک نئے پیغام کی طرح ہی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے نبی کیا پیغام دنیا کی طرف نبیوں کے آنے کی غرض لائے تھے اور کس کام پر مقرر کئے جاتے تھے سو اس کا جواب قرآن کریم میں موجود ہے اور اس کے متعدد مقامات میں اس پیغام کو خوب کھول کر بیان کیا گیا ہے جو نبیوں کی معرفت بھیجا جاتا ہے.بلکہ اس پیغام کا مغز تو اسلام اور ایمان کے لفظ سے ہی معلوم ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ نے اس آخری دین کا نام اسلام اور اس کے قبول کرنے کا نام ایمان رکھ کر تمام مذاہب کی غرض کی طرف اشارہ فرما دیا ہے.اس جگہ جو صاحبان بیٹھے ہیں ممکن ہے بلکہ اغلب ہے کہ چونکہ ان میں سے اکثر عربی کا مذاق نہیں رکھتے اس لئے میرے مطلب کو نہ سمجھ سکیں کہ ان الفاظ سے کس طرح انبیاء کی بعثت کی غرض نکلتی ہے.اس لئے میں مختصر ا بتا دیتا ہوں.اسلام کے معنے ہیں فرمانبرداری اور ایمان کے معنی ماننے کے ہیں.اس کی دنیا میں جو نبی بھیجے جاتے ہیں ان کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگ ان کی فرمانبرداری کریں اور ان کی باتوں کو مان لیں.یہ مطلب تو ان الفاظ کے عام معنوں کے مطابق ہے لیکن جب ہم ان دونوں لفظوں کی بناوٹ پر غور کریں تو اور زیادہ وضاحت سے انبیاء کی بعثت کی غرض معلوم ہو جاتی ہے مگر اس کے سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ عربی زبان کی خصوصیات میں سے یہ ایک عجیب خصوصیت ہے کہ اس میں صرف الفاظ کے معنے نہیں ہوتے بلکہ حروف کے بھی

Page 74

انوار العلوم جلد ۳۰ پیغام مسیح موعود ہوتے ہیں اور اسی طرح یہ کہ اس زبان میں جو لفظ کسی خاص شئے کے لئے وضع کیا گیا ہو وہ صرف اس چیز کے لئے بطور علامت نہیں ہو تا بلکہ اس چیز کا وہ نام کسی مناسبت کی وجہ سے رکھا جاتا ہے اور وہ نام ہی بتا دیتا ہے کہ اس چیز میں وہ کونسی بات ہے جس کی وجہ سے اس کا یہ نام رکھا گیا ہے مثلاً اردو میں ایک لمبی چیز کو لمبی کہیں گے.ماں کو ماں کہیں گے.باپ کو باپ کہیں گے تو ان الفاظ سے مراد صرف وہ چیزیں ہوں گی.ان سے یہ پتہ نہ لگے گا کہ ان میں کیا امتیازی بات ہے جس کی وجہ سے انہیں اس نام سے مخصوص کیا گیا ہے اور اگر ہم ان لفظوں کی بجائے اور لفظ بدل دیں تب بھی ہمارے مطلب میں نقص نہ آئے گا مثلاً اگر لمبی چھوٹی چیز کو کہنے لگیں اور چھوٹی لمبی کو تو اس سے اردو زبان میں کوئی نقص نہ ہو گا لیکن عربی زبان کا یہ حال نہیں اس میں اگر طویل کو قصر کہنے لگیں تو یہ کسی طرح جائز نہیں ہو سکتا کیونکہ طول جن معنوں پر دلالت کرتے ہیں ق ص ر ان پر نہیں کرتے.غرض دوسری زبانوں میں تو چیزوں کے نام صرف علامت کے طور پر ہیں اگر ان کو بدل کر اور لفظ رکھ دیں تو کوئی حرج نہیں لیکن عربی زبان میں ہر ایک نام نہ صرف بطور علامت ہوتا ہے بلکہ اس چیز کے کسی خاص امتیاز پر بھی دلالت کرتا ہے اور اس وجہ سے ایک لفظ کی بجائے دوسرا نہیں رکھ سکتے.ابھی چند ماہ ہی ہوئے جنگ یورپ کے متعلق انگلستان کے اخبارات میں ایک عجیب سوال پیدا ہوا تھا جس کا باعث یہ تھا کہ جرمن افسروں اور انگریز افسروں کے طریق جنگ میں فرق تھا جر من افسر تو پیچھے کھڑے ہو کر اپنی فوج کو لڑواتے اور انگریز افسر آگے ہو کر.اس پر یہ سوال اٹھایا گیا کہ ان دونوں طریقوں میں سے کون سا طریق بہتر ہے.انگریزی اخبارات نے لکھا کہ ہمارے افسروں کا ہی طریق درست ہے کیونکہ اس سے فوج کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ افسر ہمیں مروانا نہیں چاہتے بلکہ خود ہم سے بھی آگے رہتے ہیں مجھے اس بحث کو دیکھ کر عربی زبان کی طرف توجہ ہوئی اور میں نے دیکھا کہ عربی زبان نے انگریزوں کے حق میں فیصلہ کیا ہے کیونکہ عربی میں فوج کے افسر کو قائد کہتے ہیں اور قاد جس سے یہ لفظ نکلا ہے اس کے معنے ہیں کسی جانور کو آگے کھڑے ہو کر اس کی نکیل پکڑ کر کھینچنا.پس عربی زبان نے فوجی افسر کے لئے جو لفظ رکھا ہے.اس میں سے ہی یہ بھی نکل آیا کہ وہ افسر فوج کے آگے ہو پیچھے نہ ہو.انگریزی میں جرنیل کرنیل وغیرہ الفاظ ہیں جو صرف اشارہ کے طور پر مقرر کر دیئے گئے ہیں لیکن عربی نے ایسا لفظ مقرر کیا ہے جس سے اس افسر کے فرائض پر بھی روشنی پڑتی ہے.قائد کے لفظ میں ایک اور بھی خوبی ہے اور وہ یہ کہ وہ سپاہیوں

Page 75

العلوم جلد ۳ ۴۸ پیغام مسیح موعود کو اس طرح اپنے ہاتھ میں رکھے جس طرح باگ سے گھوڑے کو رکھا جاتا ہے یعنی فوجی افسر میں دو باتیں ہوں.ایک یہ کہ فوج کے آگے آگے چلے.دوسرے یہ کہ سپاہیوں پر وہ ایسا قبضہ رکھتا ہو اور وہ اس کے ایسے مطیع و منقاد ہوں جیسے زبردست گھوڑے باگ کے ذریعہ قابو رہتے ہیں.خداوند تعالٰی نے اسلام اور ایمان کے الفاظ ہی ایسے چنے ہیں جو اپنے اندر بڑی بڑی خوبیاں رکھتے ہیں.س - ل - م اور ل - م - ن - اسلام اور ایمان کے اصلی حروف یا روٹ ہیں.یہ جہاں اکٹھے ہوں گے وہاں ان کے معنوں میں حفاظت ضرور پائی جائے گی اور یہ ایک عجیب خوبی ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے بچے دین کے لئے ایسے الفاظ استعمال فرمائے ہیں جو مذہب کی غرض کو بھی ظاہر کر دیتے ہیں حالانکہ اور بھی ایسے الفاظ تھے جو مذہب کے لئے استعمال ہو سکتے تھے مگر قرآن شریف نے اسلام اور ایمان کے الفاظ رکھے ہیں.ان کے حروف کو جس قدر بدلوان سب صورتوں میں حفاظت کے معنے پائے جائیں گے.اول سلم کو لے لو اور اس کو بدلنا شروع کرد مثلاً اسلام ہے اس کے معنے فرمانبرداری کے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی بڑے آدمی تو کی فرمانبرداری کرتا ہے اور اس کی بات مان لیتا ہے تو تکالیف سے محفوظ ہو جاتا ہے اور اس کے مال و جان کی حفاظت کی جاتی ہے جو مطیع و منقاد ہوتا ہے.چنانچہ جو لوگ باغی ہوتے ہیں وہ گورنمنٹ کی حفاظت میں نہیں ہوتے گذشتہ زمانہ میں تو ایسے لوگ آوٹ آف لاز کہلاتے تھے اور ان کو اگر کوئی قتل کر دیتا.تو بھی اسے گورنمنٹ نہ پوچھتی تھی پھر مسلم ہے عیب اور آفت سے بچنے کو سلم کہتے ہیں اسی طرح مسلم انجند کے معنے ہیں.سلم سے چمڑے کی دباغت کر دی.اور دباغت بھی چمڑے کو گلنے سے بچانے کے لئے کرتے ہیں پس اس میں بھی حفاظت کے معنے پائے جاتے ہیں.اسی طرح کہتے ہیں سَالَعَهُ صَالَحہ اس سے مصالحت کی.صلح کرنے میں بھی حفاظت ہوتی ہے.اسی طرح کہتے ہیں تَسَلَّمَ الشیء یعنی فلاں چیز کو اس نے پکڑ لیا اور اس پر قبضہ کر لیا اور جب کوئی چیز قبضہ میں آجاتی ہے تو وہ بھی حفاظت میں ہو جاتی ہے.اسی طرح اِسْتَلَمَ الزرع کا محاورہ ہے.کھیتی نے استیلام کیا.یعنی کھیتی میں دانہ پڑ گیا.اس میں مطمئن حفاظت کے معنے ہیں کیونکہ جب تک کھیتی میں دانہ نہ پڑے اس وقت تک کسان اس پر نہیں ہوتا اور جب دانہ پڑ جائے تو پھر ایک حد تک وہ اسے محفوظ خیال کرتا ہے پھر سلام خدا کا نام ہے کہ ہر قسم کے عیب اور نقص سے پاک ہے پھر اور بدلتے چلے جائیں تو سمل بن جائے

Page 76

ام جلد.۴۹ پیغام مسیح موعود گا.جس کے معنی صلح کرانی اور خوض سے گند نکال کر صاف کرنا ہیں.لمس چھونے کو کہتے ہیں.تمام باتیں جو انسان محفوظ کرتا ہے.پانچ جو اس سے کرتا ہے ان میں سے ایک لمس بھی ہے.لَمَسَ الْمَاء کے معنے ہیں پانی یہ پڑا.جب پانی بہہ کر کھیتی میں پہنچتا ہے تو کھیتی کی حفاظت کرتا ہے اور اسے خشک ہونے سے بچاتا ہے.اسی طرح بسم ہے اس کے معنے چپ رہنے کے ہیں اور یہ ضرب المثل مشہور ہے کہ نکلی ہونٹوں چڑھی کو ٹھوں.حفاظت اور امن جو خاموشی میں نصیب ہوتا ہے.اس کو ہر ایک جانتا ہے.ملمس مداہنت کو کہتے ہیں اور مداہنت کی غرض ہمیشہ یہی ہوتی ہے کہ کسی شخص کے شرسے چکنی چپڑی باتیں کر کے محفوظ ہو جائے.یہ تو لفظ اسلام کے روٹ کو آگے پیچھے کر کے جو الفاظ بنتے ہیں ان کے معنوں کا اشتراک میں نے بتایا ہے.اب ایمان کے متعلق بتاتا ہوں.انام مخلوق کو کہتے ہیں اور کسی چیز کا بن جانا ہی اس کی حفاظت کا پہلا ذریعہ ہوتا ہے.نام کے معنے بولنے اور آواز نکالنے کے ہیں.بولنا زندگی کی علامت سمجھی جاتی ہے.اور اس مفہوم کے مطابق یہ لفظ عربی میں استعمال ہوتا ہے چنانچہ جو شخص مرجائے اس کی نسبت کہتے ہیں اَسكَتَ الله نامه جس کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی آواز بند کر دی.لیکن مراد یہ ہے کہ اسے مار دیا.مانَ الْقَوْمَ کے معنے ہیں قوم کو کھانا کھلانا.کھانا بھی حفاظت کا باعث ہے اگر کوئی کھانا نہ کھائے تو ہلاک ہو جائے.مَانَ الشَّيْئَ کے معنے ہیں اس کے جس قدر پہلو ہیں سب کو پورا کیا اور مہیا کر لیا جائے.مَانَ فِي الْأَمْرِ کے معنے غور کر کے بات کو ذہن میں جمالینے کے ہیں.مانةٌ ناف کو کہتے ہیں.اس کے ذریعہ بچہ کو غذا پہنچتی ہے اور بچہ زندہ رہتا ہے.منا الجلد کے معنے چمڑے کو رنگ کر مضبوط کرنے کے ہیں.غرض س ل م اور امن یہ تینوں حروف آگے پیچھے ہو کر جس طرح بھی آئیں ان کے معنے حفاظت کے ہی ہوتے ہیں.پس اسلام اور ایمان کے معنے یہ ہوئے کہ ایسے افعال کرنا جن سے انسان ہلاکت سے محفوظ ہو جائے.تو خدا تعالیٰ نے اپنے بچے مذہب کے نام کے لئے ایسے الفاظ رکھے ہیں کہ ان میں ہی مذہب کی اصل غرض بتادی ہے جو دوسرے الفاظ میں یہ ہے کہ خدا تعالی کے غضب سے لوگ بچ جائیں اور آپس کے لڑائی جھگڑوں سے نجات پا جائیں.اب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو اسلام کی یہی تعریف قرآن شریف سے معلوم ہوتی ہے.کیونکہ مومن کے فرائض قرآن کریم نے یہی بیان فرمائے ہیں جیسا کہ فرمایا تعلیم القرآن إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيْنَاىٰ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ

Page 77

انوار العلوم جلد - ۳ پیغام مسیح موعود الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ، يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ - ( الفل : (1) اللہ حکم دیتا ہے تمہیں عدل کا.عدل برابری کو کہتے ہیں.جس میں نہ کمی پائی جائے نہ زیادتی.پھر اللہ حکم دیتا ہے احسان کا.یعنی نہ صرف یہ کہ انسان جس طرح اپنی چیزوں کو محفوظ رکھتا ہے.اسی طرح دوسروں کی چیزوں کو رکھے.بلکہ یہ کہ محتاج کو اپنی دے دے.یہاں خدا تعالٰی نے کسی مسلمان، ہندو، عیسائی وغیرہ کی شرط نہیں لگائی.کہ فلاں کو تم دو اور فلاں کو نہ دو.عام طور پر فرما دیا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ خواہ کوئی کسی مذہب کا ہو اس سے عدل کرو یعنی جس طرح تم یہ پسند نہیں کرتے کہ کوئی تمہارے مال کو لے تمہاری عزت کو برباد کرے تمہیں کسی قسم کا نقصان پہنچائے اسی طرح تم کسی کے ساتھ نہ کرو.چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کا A يو من احد كم حتى يحب لا خيه ما يحب لنفسه (بخاری) کتاب الایمان باب من الايمان ان يحب يُحِبُّ لا خيه ما يحب لنفسه) کہ تم میں سے اس وقت تک کوئی مومن نہیں ہو سکتا جب تک اپنے بھائی کے لئے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لئے کرتا ہے.پس مؤمن کی یہ شرط رکھی گئی ہے کہ جس کے ضرر سے ساری دنیا محفوظ رہے اور جس طرح وہ اپنی جان کے لئے پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کی خیانت کرے.وہ بھی کسی کی نہ کرے اور جس طرح وہ اپنے لئے یہ پسند نہیں کرتا کہ کوئی اس کی غیبت کرے اس کے سامنے جھوٹ بولے اسے نقصان پہنچائے اسی طرح وہ بھی کسی سے اس طرح نہ کرے.پھر اللہ عدل کا ہی حکم نہیں دیتا بلکہ کہتا ہے کہ جو کسی کا حق دینا ہے اس سے بڑھ کر دو.اور دوسروں کو شر سے ہی نہ بچاؤ بلکہ نعمت سے مالا مال کرو.پھر إيتَانی ذِي الْقُربى کرو.جس طرح ماں بچہ سے محبت بغیر کسی خواہش اور لالچ کے رکھتی ہے.اسی طرح تمہار ا سب سے تعلق ہونا چاہئے.اور کسی سے نیکی اور احسان کی امید اور توقع رکھ کر نہیں کرنا چاہئے اور منع کرتا ہے اللہ فحشاء سے یعنی ایسی بدیوں سے جو مکروہ ہیں.یا ایسی باتیں ہیں جو نا پسندیدہ ہیں لیکن اپنے نفس کے متعلق ہیں.لوگ ان کو نہیں جانتے اور پھر منکر سے منع کرتا ہے یعنی ایسی ناپسندیدہ باتوں سے جو ہیں تو اپنے نفس کے متعلق لیکن لوگ بھی انہیں جانتے ہیں اور برا مناتے ہیں.اور بغی سے منع کرتا ہے یعنی ایسی برائی سے جو اپنے نفس سے گزر کر دو سروں پر بھی اثر کرتی ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی اس سے نقصان پہنچتا ہے.ان سب قسم کی بدیوں سے الله منع کرتا ہے.غرض مؤمن کی تعریف قرآن کریم نے یہ بتائی ہے کہ اول تو وہ دوسروں کے ساتھ ایسا سلوک کرے جیسا پسند کرتا ہے کہ لوگ اس کے ساتھ.-

Page 78

م جلد - اه پیغام مسیح موعود کریں اور دوسروں کا حق نہ دبائے کسی کو نقصان نہ پہنچائے.لوگوں کے حقوق کو پوری طرح ادا کرے.دوم نہ صرف یہ کہ ان کے حقوق ادا کرے بلکہ اور زیادہ احسان کرے.سوم یہ کہ احسان اس کی طبیعت میں داخل ہو جائے اور وہ اپنی طبیعت سے مجبور ہو کر احسان کرے اور ایسے تمام افعال سے بچے جو ناپاک ہوں.اور پھر ایسے افعال سے بھی بچے جو لوگوں کی نظروں میں ناپسند ہوں اور ان سے بھی جن میں کسی دوسرے پر ظلم ہوتا ہو.یہ تو بنی نوع انسان کی حفاظت اور سلوک کے متعلق تھا.باقی روح رہ جاتی ہے.اس کے متعلق کسی خاص آیت کے پیش کرنے کی ضرورت نہیں.قرآن شریف کا ہر صفحہ ہر رکوع ہر سطر خدا کی عظمت اور جلال کا مظہر ہے.یورپ کا ایک مصنف لکھتا ہے کہ محمد ( ﷺ ) نے اپنی کتاب (قرآن) میں خدا کا اتنا ذکر کیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے (نعوذ باللہ ) اسے خدا کا جنون ہے.یہ چونکہ عیسائی ہے.اس لئے اس نے قرآن کو آنحضرت ﷺ کی تصنیف کردہ کتاب بتا کر دنیاوی رنگ میں ایک نتیجہ نکال | لیا کہ اسے خدا کا جنون معلوم ہوتا ہے لیکن معرفت رکھنے والے لوگ اس بات سے اور ہی نتیجہ نکالتے ہیں.غرض قرآن شریف نے نبیوں کی یہ غرض بتائی ہے کہ وہ آکر خدا کے غضب سے لوگوں کو بچائیں اور انسانوں کو آپس کے ضرر اور نقصان سے محفوظ رکھیں.اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے کے طریق بتا ئیں.پس ہر ایک نبی جو آتا ہے انہی اغراض کو لے کر آتا ہے.اب تم اپنے دلوں میں سوچ لو کہ نبی کی تعلیم پر جہاں عمل کیا جائے.وہاں کیا سکھ اور آرام میسر ہو سکتا ہے.اگر دنیا نبیوں کی تعلیم پر چلنے لگے تو نہ پولیس کی ضرورت رہتی ہے نہ پہرہ داروں کی نہ فوج کی نہ آلات حرب کی کیونکہ مومن کے معنے ہی یہی ہیں کہ ایسا انسان جس میں کسی قسم کا شر اور کسی قسم کی بے حیائی نہ ہو اور فرمانبرداری کی صفت اپنے اندر رکھتا ہو.نبی دنیا میں سب سے بڑا مصلح ہوتا ہے.بڑے بڑے فلاسفر نبی اور فلاسفر میں فرق گزرے ہیں مگر نبیوں کے مقابلہ میں کھڑے نہیں کئے جا سکتے کیونکہ جس طرح نبیوں نے اصلاح کی ہے اس طرح وہ نہیں کر سکے.بو علی سینا کی نسبت لکھا ہے کہ اسے ایک شاگرد نے کہا کہ اگر آپ نبوت کا دعویٰ کرتے تو کیا ہی اچھا ہوتا.آپ کو یہ دعوئی سجتا ہے.محمد ( ا ) نے (نعوذ باللہ ) یو نہی دعویٰ کر دیا.وہ تو امی تھا.یہ سن کر بو علی سینا چپ ہو رہا اور کچھ جواب نہ دیا.ایک دن سردی کا موسم تھا.اس نے تالاب میں جس کا

Page 79

دم جلد - ۵۲ پیغام صحیح موعود پانی سردی کی وجہ سے یخ ہو رہا تھا.اسی شاگرد کو چھلانگ مارنے کے لئے کہا.اس نے انکار کر دیا اور کہا کیا آپ جانتے نہیں کہ سردی کا موسم ہے.پانی میں چھلانگ مارنے سے سن ہو جاؤں گا.آج آپ کو کچھ ہو تو نہیں گیا.بو علی نے کہا.احمق اسی عقیدت پر تو نے کہا تھا کہ اگر تو نبوت کا دعوی کرتا تو درست ہوتا.کیا تو نہیں جانتا کہ آنحضرت ا ل نے ایک کو نہیں دو کو نہیں بلکہ ہزاروں کو حکم دیا کہ اپنی جانوں کو لڑا دو.تو وہ اپنے بیوی بچے عزیز و اقارب مال و اموال سب کچھ چھوڑ کر چلے گئے اور جان جانے کی ذرا پرواہ نہ کی.بے تنخواہ کی پولیس، فوج اور مجسٹریٹ بن گئے.اپنا خرچ کرتے اور دنیا کی حفاظت کرتے اپنی جانیں قربان کرتے اور دنیا کو ہلاک ہونے سے بچاتے.پس نبیوں کا کام ثابت کرتا ہے کہ واقعہ میں وہ نبی ہیں.فلاسفر اصلاح خلق کا دعویٰ تو کر دیتے ہیں مگر ان کے کام میں کامیابی نہیں ہوتی بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو کہتے کچھ اور کرتے کچھ ہیں لیکن نبی دنیا کی حفاظت اور اصلاح کے لئے آیا کرتا ہے.اور شریعت بھی اسی غرض کے پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہوتی ہے.لیکن شریعت کی غرض کتنے افسوس کی بات ہے کہ جنہوں نے اس پر غور نہیں کیا.وہ کہتے ہیں شریعت لعنت ہے انہیں یہ غلطی لگی ہے کہ انسان چونکہ کمزور ہے اس لئے شریعت پر عمل نہیں کر سکتا.پس یہ لعنت ہے لیکن انہوں نے سمجھا نہیں.شریعت گائڈ ایک اور ہدایت نامہ کے طور پر ہوتی ہے اور نبی ہادی اور راہ نما ہوتا ہے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ ہدایت نامہ یا گائڈ ایک کبھی گمراہی کا باعث نہیں ہو سکتی.کیا اگر کسی کتاب میں لاہور آنے کا راستہ لکھا ہو ، عجائب گھر لارنس ہال ، چڑیا گھر وغیرہ جگہوں کے پتے درج ہوں.یا طب کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ فلاں زہر نہ کھانا اور اگر فلاں زہر کوئی کھا لے تو اس کے لئے یہ تریاق ہے وغیرہ وغیرہ.ایسی کتابیں سکھ اور آرام کا موجب ہوا کرتی ہیں یا تکلیف کا.اسی طرح شریعت ہے کہ جو تکلیفیں اور مصیبتیں لوگوں پر آتی ہیں اس میں ان سے بچنے کے طریق بتائے جاتے ہیں اور جو آ ہوں ان کو دور کرنے کی تدابیر سمجھائی جاتی ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُ اللهُ لِيُبَيِّنَ لَكُمْ وَيَهْدِيكُمْ سُنَنَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ وَ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ ، وَالله عَليم قف حَكِيمُ ، وَ اللهُ يُرِيدُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَتِ أَنْ تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا (النساء : ۲۷-۲۸) اللہ نے ارادہ کیا ہے کہ تمہارے لئے خوب کھول کر بیان کر دے کہ فلاں کام کرو گے تو فائدہ اٹھاؤ گے اور فلاں کرو گے تو نقصان.تم سے پہلے بھی کچھ

Page 80

۵۳ پیغام مسیح موعود قو میں گزری ہیں ان میں سے بعض نے اپنے اعمال کی وجہ سے سکھ پایا تھا اور بعض نے دکھ.خدا چاہتا ہے کہ ان کی باتیں تمہیں کھول کھول کر سنا دے.اور ان لوگوں کا راستہ تم کو بھی بتا دے جو ہلاکتوں سے بچ گئے کیونکہ اللہ ان کے حالات کو اچھی طرح جاننے والا اور ان حالات کے سنانے کی حکمت کو سمجھنے والا ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ تم پر اپنی رحمت کرے.اور وہ لوگ جو اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ایک ہی طرف سارے کے سارے جھک جائیں.یعنی تمام پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھیں اگر عیش میں پڑیں تو اسی میں پڑے رہیں.اگر تشدد کرنے لگیں تو اسی میں لگے رہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا نہیں ہونا چاہئے.ہم تمہیں ایسی تعلیم دیتے ہیں جس کے ذریعہ انسان سارے پہلوؤں پر نظر رکھ سکتا ہے.خواہشات کی پیروی کرنے والے کبھی سارے پہلوؤں کو مد نظر نہیں رکھ سکتے.ایسے آدمی ایک طرف جھک جاتے ہیں.اگر انہیں غصہ آتا ہے تو یہی چاہتے ہیں کہ پیس کر رکھ دیں اور اگر محبت کرتے ہیں تو کہتے ہیں سب کچھ قربان کر دیں.خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ انسان کو ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فلاں موقعہ پر اس طرح کام کرو اور فلاں موقعہ پر اس طرح تا کسی بات میں حد سے بڑھنے کی وجہ سے نقصان نہ اٹھاؤ - يُرِيدُ اللهُ أَنْ يَخَفِّفَ عَنْكُمْ ، وَخُلِقَ الْإِنْسَانُ ضَعِيفًا - (النساء) ۲۹) اللہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ تمہارے بوجھوں کو کم کر دے یعنی شریعت کی غرض یہ ہے کہ انسان کے بوجھ کو ہلکا کیا جائے نہ جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ شریعت ایک جکڑ بند ہے.شریعت کوئی بوجھ نہیں بلکہ ہدایت نامہ ہے.چونکہ انسان کمزور تھا اور اللہ خوب جانتا تھا کہ اگر اسے کوئی ہدایت نامہ نہ دیا گیا تو بڑے بڑے نقصان اٹھائے گا اور بڑے تجربوں اور نقصان اٹھانے کے بعد کسی چیز کو مضر اور کسی چیز کو مفید قرار دے گا.پس اس نے شریعتیں اور انبیاء کو اسی لئے بھیجا.تو شریعت اور نبی دنیا میں صلح و آشتی، امن اور امان کے لئے آتے ہیں.یہی وہ تعلیم ہے جس کو تمام انبیاء لے کر آئے اور یہی حضرت مسیح موعود لے کر آئے آپ کا یہی مشن تھا کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ لوگوں کا تعلق مضبوط کریں.اور دوسرے بندوں کا آپس میں ایسا سلوک کرا دیں کہ دشمنی اور عداوت رنج اور غصہ باقی نہ رہے.تمام انبیاء انہیں باتوں کیلئے آتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایک اور جگہ انبیاء کے کام کی تشریح فرما دی ہے حضرت ابراہیم انبیاء کے کام علیہ السلام دعا کرتے ہیں کہ الہی مکہ والوں میں ایک نبی مبعوث کر اور اس کا

Page 81

۵۴ پیغام مسیح موعود کام یہ ہو کہ يَتْلُوا عَلَيْهِمُ ايْتِكَ تیری طرف سے جو اسے دلا کل ملیں انہیں سنائے وَ يُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة اور انہیں کتاب اور حکمت سکھائے.وَيُزَ كَيْهِمْ اور انہیں پاک کرے اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقره: ۱۳۰) بیشک تو بڑا غالب اور بڑی حکمت والا ہے.پس یہ نبیوں کے کام ہیں.جس طرح نبی کی بعثت کا زمانہ وہ ہوتا ہے جس میں دنیا دکھوں اور مصیبتوں میں پڑی ہوتی ہے اسی طرح نبی کی آمد کا وہ زمانہ ہوتا ہے جس میں لوگ خدا تعالیٰ سے قطع تعلق کر چکے ہوتے ہیں.اور آپس میں لڑائی جھگڑے شروع کر دیتے ہیں.ایسا کبھی نہیں ہوا کہ صلح اور امن اور خدا پرستی کے زمانہ میں کوئی نبی آیا ہو.لیکن جب لڑائی فتنہ اور گند بڑھ جائے تو ضرور ہے کہ اس وقت نبی آئے اور اس فتنہ اور گند کو دور کرے.جھگڑے اور فساد کے متعلق یہ بات خوب یاد رکھو کہ لوگوں کے لڑائی جھگڑے کا سبب ان کی وجہ ونائت اور کم حوصلگی ہوتی ہے.لوگ اپنی طاقتوں کو بھلا دیتے ہیں اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے لگتے ہیں جن لوگوں کے حوصلے بلند ہوتے ہیں وہ ذرا ذرا سی بات پر نہیں لڑتے اور جن کے حوصلے بلند ہوتے ہیں ان کا خدا تعالیٰ سے بھی بڑا تعلق ہوتا ہے.خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کی نسبت جن کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں فرماتا ہے ابعث اللهُ بَشَرًا رَسُولاً (بنی اسراءیل : (۹۵) گویا انہوں نے انسان کو ایسا ذلیل اور حقیر سمجھ رکھا ہے کہ کہتے ہیں بھلا انسان خدا کا رسول ہو سکتا ہے یہ تو بہت مشکل بات ہے پس ایسے ہی زمانہ میں نبی کی بعثت ہوتی ہے.جبکہ لوگوں کے حو صلے ادنی ہو جاتے ہیں.نبی آکر ان کے حوصلے بڑھاتا اور ان میں بڑی بڑی طاقتیں بھر دیتا ہے.حتی کہ آنحضرت ا جب آئے تو آپ کو انتہائی درجہ پر انسانی حوصلہ کو پہنچانے کا شرف دیا گیا اور کہا گیا قُل اِنْ كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْيِيكُمُ اللهُ (آل عمران : ۳۲) اے لوگو! تم تو یہ اعتراض کرتے ہو کہ ایک انسان کس طرح رسول ہو سکتا ہے لیکن خدا تعالٰی نے مجھے وہ کچھ سکھایا ہے کہ اگر تم میرے بتائے ہوئے احکام پر چلو گے تو خدا کے محبوب ہو جاؤ گے اور وہ تم سے پیار کرنے لگے گا.یہ تو انسان کی ترقی کا اعلیٰ درجہ ہے جو خدا تعالیٰ نے آنحضرت ا کے ذریعہ سے دنیا کے سامنے پیش کیا لیکن جو نبی بھی آتا رہا ہے اس کا بڑا کام یہی رہا ہے کہ لوگوں کو دنائت سے بچائے.چنانچہ انبیاء اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے بہت سے ذرائع اختیار کرتے رہے ہیں جن میں سے ایک زکوۃ و صدقہ کی تعلیم بھی ہے.اسلام نے تو یہاں تک احتیاط کی ہے کہ زکوة

Page 82

انوار العلوم جلد ۵۵ پیغام مسیح موعود کی ادائیگی حکام کی معرفت رکھی ہے وہی لے کر مستحقین کو دیں تاکہ زکوۃ دینے والے کا لینے والے پر کوئی احسان نہ ہو.اور اسے اس سے دینا نہ پڑے.اس طریق سے اسلام نے دنائت کو جڑھ سے اکھیڑ دیا ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی ایسے ہی وقت میں آتے ہیں جبکہ قوم میں ونائت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ دنائت ہی تمام جھگڑوں اور فساد کی جڑھ ہوتی ہے اگر کسی انسان کا دل اس مرض سے پاک ہو تو وہ فسادوں اور جھگڑوں میں کبھی حصہ نہ لے گا اور جب دنیا صلح اور امن سے زندگی بسر کرے تو انبیاء کی بعثت کی بھی کوئی ضرورت نہیں رہتی.چنانچہ حضرت موسیٰ کی قوم کا ایک واقعہ قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ کس طرح وہ دنائت کی طرف جھکتی تھی اور حضرت موسیٰ ان کو اعلیٰ خیالات کی طرف لے جاتے تھے جس میں بتایا ہے کہ نبی ایسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے جو دنی الطبع ہو جاتی ہے اور اس کا کام ان کو اس دلدل سے نکالنا ہوتا ہے چنانچہ فرمایا ہے وَإِذْ قُلْتُمْ يَمُوسى لَنْ نَصْبِرَ عَلَى طَعَامٍ وَاحِدٍ فَادْعُ لَنَا رَبَّكَ لَنَا مِمَّا تُنْبِتُ الاَرضُ مِنْ بَعْلِهَا وَقِثَائِهَا وَنُو مِهَا وَعَدَسِهَا وَبَصَلِهَا ، قَالَ ا تَستَبْدِلُونَ الَّذِى هُوَ ادْنَى بِالَّذِي هُوَ خَيْرُ، اِهْبِطُوا مِصْرًا فَإِنَّ لَكُمْ مَّا سَالَتُمْ ، وَضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذَّلَةُ وَالْمَسْكَنَة وَبَاء وُا بِغَضَبٍ مِّنَ اللَّهِ ، ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانُوا يَكْفُرُونَ بِاتِ اللهِ وَيَقْتُلُونَ النّبِيِّنَ بِغَيْرِ الْحَقِّ من ذَلِكَ بِمَا عَصَوا وَكَانُوا يعْتَدُونَ (البقرہ : (۶۲) اس آیت میں اس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ کی قوم ایک مدت تک فرعونیوں کے ماتحت رہ کر پست حوصلہ ہو گئی.اور ان کے خیالات بہت گر گئے تو ان میں ایک نبی مبعوث ہو ا یعنی حضرت موسی.اور وہ ان کو وہاں سے نکال کر شام کی حکومت دلانے کے لئے لایا لیکن چونکہ اس قوم کے حوصلے بہت پست تھے ان کی اصلاح کے لئے ان کو ایک جنگل میں رکھا گیا تاکہ دوسری قوموں سے الگ رہ کر موسیٰ کی تعلیم کا اثر دل میں لیں اور مدت دراز کی غلامی کے بداثر سے جو دنائت پیدا ہو گئی تھی اسے دور کریں چنانچہ : ان کو حکم دیا گیا کہ کوئی کام کاج نہ کرو شکار اور جنگل کی کھمبیاں کھاؤ.مگر ایک مدت کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم اس ایک کھانے پر صبر نہیں کر سکتے.پیاز ہو لہسن ہو مسور ہو گیہوں ہو.تاکہ ہم کھائیں.اللہ نے انہیں کہا.کیا تم ادنی کے بدلہ اعلیٰ کو قربان کرنا چاہتے ہو ؟ اس کے یہ معنی نہیں کہ گوشت کوئی ایسی چیز ہے جس کے ہوتے ہوئے سبزی کا مانگنا ایک گناہ ہو جاتا ہے.یہ تو ہم مانتے ہیں کہ گوشت اعلیٰ ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی اسے اعلیٰ فرمایا ہے لیکن یہ

Page 83

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۶ پیغام مسیح موعود نہیں مانتے کہ اگر کوئی سبزی کے مقابلہ میں گوشت کو ادنیٰ قرار دے تو وہ خدا کے حضور قابل سرزنش اور لائق عذاب سمجھا جائے.پس یہاں جو اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ چونکہ انہوں نے اعلیٰ کو ادنی پر قربان کرنا چاہا.اس لئے ہم نے کہا چلے جاؤ کسی شہر میں اس میں تمہیں جو مانگتے ہو.مل جائے گا.اور ان پر ذلت اور مسکنت ڈالی گئی اور وہ اللہ کا غضب لے کر چلے گئے.اس کا یہ مطلب ہے کہ ان کو شام کی سلطنت دینے کا وعدہ تھا اور جنگل میں انہیں اس لئے رکھا گیا تھا کہ ان کی دنائت دور ہو کر اس قابل ہو جائیں کہ حکومت کر سکیں.اور طبیعت میں جرأت آزادی اور بلند حوصلگی پیدا ہو جائے لیکن انہوں نے حکومت کی بجائے سبزیوں اور ترکاریوں یعنی زراعت پیشہ کو پسند کیا اور حکومت کی بے قدری کی اس لئے مورد عتاب ہو گئے اور ان پر عذاب نازل ہوا.اور اس ادنی شے کی طرف ان کی توجہ پھر جانے کی یہ وجہ تھی کہ انہیں اللہ کی آیات پر ایمان نہ تھا اور یقین نہ آتا تھا کہ حضرت موسیٰ کا وعدہ سچا ہو گا اور اس کئی ایمان کا باعث ان کا نبیوں سے بلاوجہ جھگڑنا تھا اور نبیوں کا مقابلہ کرنے کا باعث ان کی بدیاں اور ان شرارتیں تھیں کہ انبیاء ان سے ان کو روکتے تھے اور وہ باز آنا نہ چاہتے تھے.اس آیت سے خوب واضح طور سے معلوم ہو جاتا ہے کہ نبیوں کی بعثت کیسے وقت میں ہوتی ہے اور وہ کسی طرح لوگوں کے حوصلوں کو بلند کرنا چاہتے ہیں.اور دنائت سے نکال کر اعلیٰ اخلاق کی طرف لے جاتے ہیں اور جو نبی کو چھوڑتے ہیں وہ دنائت اور کمینگی کی طرف جھکتے ہیں.حتی کہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم پر کمال فضل ہو سکتا ہے ؟ میں نے ابھی یہ آیت پڑھی ہے کہ هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الأمينَ رَسُولاً - (الجمعہ : (۳) وہی خدا ہے جس نے امیوں میں رسول بھیجا.اور انہی میں سے بھیجا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو حیرت اور تعجب ہوا کہ بھلا ہم میں سے کوئی رسول ہو سکتا ہے.ہرگز نہیں ہم تو امی ہیں.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے امیوں سے ہی ایک کو نبی بنا دیا.اسی طرح جب یوسف علیہ السلام فوت ہو گئے تو لوگوں نے کہا کہ اب کوئی نبی کہاں سے آئے گا یعنی اب کوئی نبی نہیں آسکتا.لیکن یہ بات کم حوصلگی اور دنائت سے پیدا ہوتی ہے اور پھر اس سے آپس میں لڑائی اور فساد شروع ہو جاتے ہیں اور خدا تعالٰی سے لوگوں کے تعلق قطع ہو جاتے ہیں.اس زمانہ میں بھی چونکہ لوگوں کی یہی حالت ہو گئی تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس لئے آئے اور انہوں نے آکر پکارا کہ میں اس لئے آیا ہوں کہ خدا سے تمہارا تعلق پیدا کراؤں اور تم میں صلح و آشتی اور محبت پیدا

Page 84

انوار العلوم جلد ۳۰ پیغام صحیح موعود کراؤں.خدا تعالیٰ سے تعلق کرانے اور دنیا میں صلح اور آشتی پھیلانے کے لئے نبی ایک جماعت پیدا کرتے ہیں اور یہ ایسی جماعت ہوا کرتی ہے جو کسی بات کو اندھا دھند نہیں مانتی بلکہ ہر ایک بات کو دلائل سے مانتی ہے.خدا قیامت، فرشتے ، جزاء و سزا بهشت و دوزخ وغیرہ ہر ایک چیز کو دلائل سے قبول کرتی ہے.لیکن اس جماعت کے بعد جب لوگوں میں کم حوصلگی پیدا ہو جاتی ہے تو وہ نبیوں کی باتوں کی پرواہ نہیں کرتے اور جو اعتقاد وہ رکھتے ہیں.ان کے ثبوت کے لئے ان کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی بلکہ رسم و رواج کا نام ہی دین رکھ لیتے ہیں.آپ لوگ اگر اس وقت کے مولویوں سے پوچھیں کہ خدا تعالیٰ کے ثبوت میں آپ کے پاس کیا دلائل ہیں تو اکثر کچھ جواب نہ دے سکیں گے اور الٹا یہ کہنے لگ جائیں گے کہ تم خدا کا ثبوت مانگتے ہو کیا دہر یہ ہو گئے ہو.اگر کسی قرآن شریف کی آیت کے متعلق پوچھا جائے تو کہہ دیں گے کہ کیا تم قرآن پر ایمان نہیں لاتے جو اعتراض کرتے ہو ایسا کہنا تو کفر ہے.یہی حال اہل ہنود کا ہے.لیکن نبی کی بنائی ہوئی جماعت ہر بات کے لئے دلائل رکھتی ہے.کیونکہ نبی ہر ایک بات دلائل سے منواتا ہے چنانچہ جن لوگوں نے ہمارے سلسلہ کی کتابیں پڑھی ہیں انہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہوگی.میں یقین سے کہتا ہوں کہ ہماری جماعت کے ۸۰ - ۹۰ فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ایسے لوگ ہوں گے جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم خدا تعالیٰ کو اس لئے مانتے ہیں کہ ہمارے پاس اس کی ہستی کے متعلق یہ ثبوت ہیں.اسلام کو اس لئے قبول کیا ہے کہ اس کی صداقت کے فلاں فلاں دلائل ہیں.لیکن اگر دوسرے لوگوں سے پوچھا جائے تو ان میں سے بہت ہی کم ایسے ہوں گے جو کوئی ثبوت دے سکیں.ابھی کل ہی کا ذکر ہے کہ ایک نوجوان جو میرے نہایت عزیز ہیں اور گریجوایٹ ہیں میں نے ان سے پوچھا کہ آنحضرت کی رسالت کا آپ کے پاس کیا ثبوت ہے.تو انہوں نے کہا کہ میں نے سوچا ہوا نہیں.اسی طرح اگر کسی ہندو سے پوچھیں کہ آپ کے مذہب کا کیا ثبوت ہے.تو اس کا یہی جواب ہو گا کہ چونکہ میں ہندوؤں کے گھر پیدا ہوا ہوں اس لئے ہندو ہوں.یہی حال اور مذاہب کے لوگوں کا ہے.تو نبی کا یہ کام ہوتا ہے کہ رسی اور رواجی اعتقادوں سے نکال کر یقینی باتوں کی طرف لے آتا ہے.پھر نبی کا دوسرا کام یہ ہوتا ہے.يُعَلِّمُهُمُ الْكِتب لکھنے پڑھنے کی تعلیم سکھاتا ہے.اس میں تعلیم بھی آجاتی ہے اور شریعت بھی.والحِكْمَةَ اور ہر ایک شریعت کے حکم کی حقیقت اور وجہ بھی جتاتا ہے.اس وقت اکثر لوگ نہیں جانتے کہ نماز کیوں پڑھی جاتی ہے پکسیا کیوں کی جاتی ہے

Page 85

العلوم ۵۸ پیغام مسیح موعود گر جا میں کیوں حاضر ہوا جاتا ہے.لیکن قرآن شریف میں خدا تعالٰی نے ہر ایک حکم کی وجہ بتا دی ہوئی ہے کہ نماز اس لئے پڑھو روزہ اس لئے رکھو ، شراب اس لئے نہ پیو ، زنا اس لئے نہ کرو ، جوا اس لئے نہ کھیلو.پھر نبی کا یہ کام ہے ویز کیهِمُ ان کے اعمال کو پاک کرتا اور خیالات کو بلند کرتا ہے ان میں وسعت حوصلہ پیدا کرتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کام تو یہ تھا کہ ایک دیندار جماعت پیدا کر دے.اور ایک اور کام تھا جو آپ سے نہیں بلکہ آپ کی پیدا کردہ جماعت سے تعلق رکھتا تھا.خدا تعالیٰ کے مرسلین نہ صرف ایک ایسی جماعت تیار کرتے ہیں جو ہر طرح سے اعلیٰ اور اکمل ہو بلکہ ایسی بھی ہو جو دنیا میں آشتی اور صلح پھیلائے.چنانچہ سب انبیاء نے ایسا کیا ہے.اور ایسی جماعتیں تیار کر گئے ہیں.جو دنیا میں صلح اور امن پھیلانے کا باعث ہوتی ہے.اور جو بیج ان نبیوں نے بویا تھا.اس کو پانی دے کر انہوں نے ایک بڑے درخت تک پہنچایا ہے.ہمارے آنحضرت ﷺ نے بھی اپنی امت کو مختلف اقوام میں صلح و آشتی کا نمونہ دکھانے کے لئے مدینہ میں غیر اقوام سے معاہدات کئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اسی غرض کے لئے پیغام صلح ایک رسالہ لکھا.جو لاہور میں ہی پڑھا گیا جس میں غیر مذاہب کے لوگوں کو اس طرف بلایا گیا.کہ ہم آپ کے نبیوں کو مانتے ہیں اور برا نہیں کہتے اس لئے آپ کا بھی فرض ہے کہ ہمارے آنحضرت ﷺ کو سچا سمجھیں.اور برا نہ کہیں آپ نے فرمایا کہ اگر تم اس طرح کرو تو صلح ہو سکتی ہے.کیونکہ جھگڑے اور فساد عقائد کی وجہ سے نہیں ہوتے بلکہ بد گوئی اور گالیوں کی وجہ سے ہوتے ہیں.اسی طرح آپ نے مناظرات کے متعلق یہ تجویز پیش کی کہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کی جائیں نہ کہ ایک دوسرے پر حملے کئے جایا کریں آپ کا یہ پیغام آپ کی جماعت کے لئے خضر راہ کے طور پر ہے اور اس کے لئے آپ نے ایک نظام مقرر فرما دیا کہ اس طریق پر چل کر دنیا میں صلح دامن قائم کرو.بے شک آپ فوت ہو گئے ہیں لیکن آپ کا کام اسی قدر تھا جو آپ نے کیا اور ضرور تھا کہ دوسرے نبیوں کی طرح آپ بھی ایک راستہ دکھا کر رخصت ہو جاتے اب ہمارا کام ہے کہ ہم اس راستہ پر چل کر دنیا کو صلح کی طرف لائیں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ان تدابیر پر عمل کیا جائے جو آپ نے بتائی ہیں تو دنیا میں بالکل امن قائم ہو سکتا ہے.کیونکہ جہاں نرمی اور سلوک سے کام کیا جاتا ہے وہاں صلح اور آشتی ہوتی ہے لیکن جہاں سختی کو استعمال کیا جائے وہاں جدائی ہو جاتی ہے.خواہ آپس میں کتنی ہی محبت کیوں نہ ہو لیکن اگر سختی ہو تو دشمنی اور رنج پیدا ہو جاتا

Page 86

علوم چاند - ۳ ۵۹ پیغام مسیح موعود ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مختلف مذاہب کے لوگوں کو اس طرف بلانا کہ ایک دوسرے کو گالیاں دینے کی بجائے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرو در حقیقت امن عامہ کیلئے راستہ صاف کرنا تھا اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے میں آپ لوگوں کے سامنے کھڑا ہوا ہوں.اور چاہتا ہوں کہ مختلف مذاہب کے لوگ سکھ ، ہندو، مسیحی ، آریہ ، ناتنی اور غیر احمدی جو اس وقت یہاں موجود ہیں اپنی اپنی جگہوں پر اس بات پر غور کریں کہ آپس میں گالیاں دینے کا کیا فائدہ ہے.حق کے اظہار کے لئے گالیاں دینے کی ضرورت نہیں.گالیوں سے سوائے عناد اور بغض کے ترقی کرنے کے اور آپس میں فساد ہونے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ترقی جو دین و دنیا میں ہم لوگ کر سکتے ہیں پیچھے اور پیچھے ہی پڑ رہی ہے.جبکہ وہی باتیں جو کہ سختی اور فحش کلامی کے ساتھ کسی جاسکتی ہیں نرمی سے بھی کہی جاسکتی ہیں تو کیوں اس مفید طریق کو چھوڑ کر اس گندے رویہ کو اختیار کیا جائے جن سے دین و دنیا کا نقصان ہے.دین کا تو اس لئے کہ جب اس میں عناد پیدا ہو جائے.تو دوسرے کی بات پر غور کرنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہی نہیں.اور دنیا کا اس لئے کہ اس فساد کا باعث یہ ہوتا ہے کہ ایک ہی ملک میں رہنے والی اقوام باوجود قرب مکانی کے ایک دوسرے سے ایسی بعید رہتی ہیں کہ ان فوائد سے جو متحدہ کوششوں سے حاصل ہو سکتے ہیں محروم ہو جاتی ہیں.اور یہ خیال کرتا کہ بعض لوگ باوجود اس اختلاف کے مل کر کام کرتے ہیں درست نہیں.کیونکہ اگر بعض لوگ اپنے مذہب سے دلی طور پر تنظر رکھنے کی وجہ سے دوسرے کی گالیوں کی بھی کوئی پرواہ نہیں کرتے یا مذہب پر دنیا کو مقدم رکھتے ہیں تو ان کی حالت پر سب کا قیاس کر لینا درست نہیں.جب تک دو قوموں میں کثرت ان لوگوں کی نہ ہو.جو ایک دوسرے سے بجائے نفرت رکھنے کے محبت رکھتے ہوں.اس وقت تک ان میں صلح نہیں ہو سکتی.چند آدمیوں کی کوششیں خواہ وہ کتنے ہی عالی رتبہ کیوں نہ ہوں کبھی بار آور نہیں ہو سکیں گی.اور چونکہ اکثر لوگ دین کی محبت رکھنے والے ہوتے ہیں جب تک مذہبی تنافر دور نہ ہو کبھی دو قوموں میں صلح نہیں ہو سکتی.اور مذہبی تنافر دور کرنے کا ایک ہی طریق ہے کہ سخت کلامی اور فحش گوئی سے پر ہیز کیا جائے.پس ہندوستان کے موجودہ اختلافات اور بغض و عناد کے دور کرنے کیلئے ایک ہی تجویز ہے کہ ایک دوسرے کو گالیاں دینا اور برا بھلا کہنا مذہبی جھگڑوں کے انسداد کی تجویز ترک کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 87

پیغام مسیح موعود نے وعدہ کیا تھا کہ اگر لوگ ہم پر سختی کرنا چھوڑ دیں تو ہم بھی چھوڑ دیں گے.درنہ بعض اوقات سختی کا جواب سختی سے ہی دینا پڑتا ہے.کیونکہ اگر جواب نہ دیا جائے تو بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس جواب ہی نہیں.پس اگر مختلف مذاہب کے لوگ اس بات میں ہمارے ساتھ شامل ہونے پر آمادہ ہو جائیں تو میں اپنی جماعت کی طرف سے جو کئی لاکھ ہے.اور جس کا میں واحد امام ہوں اپنی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو لوگ گالیوں کو ترک کر کے نرمی اور آشتی کی طرف ایک قدم بڑھا ئیں گے میں دس قدم بڑھاؤں گا اور جو ہماری طرف ایک ہاتھ بڑھے گا ہم اس کی طرف دس ہاتھ بڑھیں گے.جدائی کا باعث ہمیشہ سختی اور دل آزاری ہی ہوا کرتی ہے چنانچہ ہمارے اپنے اندر سے ہی جب ایک گروہ نے سختی کی تو باوجود ہزاروں اتحاد کے پہلوؤں کے ہمیں ان سے جدا ہونا پڑا.پس جب اپنے بھی گالیاں دیں تو ان سے علیحدگی ہو جاتی ہے.تو غیر تو پھر غیر ہی ہیں.لیکن سوچنا چاہئے کہ اس نا اتفاقی اور لڑائی جھگڑے کی وجہ سے کس قدر فساد بڑھ رہا ہے اور اس کے دور کرنے کے لئے کتنی قربانی کی ضرورت ہے.ایک طرف اس فساد کو رکھو اور دوسری طرف اس قربانی کو.تو معلوم ہو جائے گا کہ فساد کے مقابلہ میں اس قربانی کو جو مختلف مذاہب کے لوگوں کو کرنی پڑے گی کچھ نسبت ہی نہیں.کیونکہ دوسرے مذاہب کے بزرگوں کو گالیاں دینے سے کسی مذہب کو حقیقتاً کوئی فائدہ نہیں.مثلاً اگر کوئی ہندو یا آریہ آنحضرت کو گالی دے تو اسے کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے.گالی تو زندہ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتی فوت شدہ کا کیا بگاڑے گی.پھر اس انسان کا جس کو خدا تعالیٰ نے پاک اور مطہر ٹھہرایا کیا بگڑ سکتا ہے اس کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا.مگر اس سے مسلمانوں کے دلوں میں ایسا ناسور پڑ جاتا ہے کہ کوئی مرہم اسے بند نہیں کر سکتی.کیونکہ مسلمان یہ تو پسند کر لیں گے کہ ان کے سامنے ان کے بیوی بچوں کو قتل کر دیا جائے ان کے مال و اموال کو چھین لیا جائے ان کی گردنوں پر کند چھری ردنی جائے لیکن یہ کبھی پسند نہیں کریں گے کہ اس رسول کو جس کے ذریعہ انہیں ہدایت نصیب ہوئی کوئی برا لفظ کہا جائے.پس جو شخص رسول اللہ ﷺ کو گالی دیتا ہے.اس کے مذہب کو یا اس کو اس سے کچھ فائدہ نہیں پہنچ سکتا.لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے اس عمل سے مسلمانوں کو اس سے اور اس کے ہم مذہبوں سے ضرور نفرت ہو جائے گی جس کا نتیجہ خطرناک ہو گا.اسی طرح اگر مسلمان کریں کہ رام چندر جی یا کرشن جی کو برا بھلا کہیں تو ان کو کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا.مگر اس سے یہ ضرور ہو گا کہ ان کے اہل وطن کے دلوں پر ایسا.

Page 88

دم جلد ۳۰ 41 پیغام مسیح موعود زخم لگے گا کہ جس کو کوئی مرہم اچھا نہیں کر سکے گی اور مسلمانوں کو خطرناک نقصان پہنچے گا.غرض سخت کلامی اور دوسرے مذاہب اور ان کے بزرگوں کو گالیاں دینا یا ان کی عیب جوئی کرنا ایک ایسا خطر ناک کام ہے کہ جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہو سکتا.لیکن سوال یہ ہے کہ جو عادت اس وقت ہندوستان کے لوگوں میں پڑ چکی ہے اس کو دور کیونکر کیا جائے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یکد فعہ تو اس کام کا ہونا مشکل ہے.لیکن مشکل کام سے گھبرانا بھی انسان کا کام نہیں.اس لئے میرے خیال میں سر دست اس مدعا کو پورا کرنے کے لئے ایک مذہبی کانفرنس کی جائے جس کے اجلاس سال میں ایک یا دو دفعہ ہوا کریں.ان اجلاسوں میں مختلف مذاہب کے پیروں کو اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے لئے بلایا جائے.اور دوسرے مذاہب پر صراحتا یا کنایتاً حملہ کرنے کی ہرگز اجازت نہ ہو.بلکہ ہر ایک مقرر اپنی تقریر میں مقرر کردہ مضامین کے متعلق صرف وہ تعلیم پیش کرے جو اس کے مذہب نے دی ہے یا اس پر جو اعتراض پڑ سکتے ہوں ان کا جواب دے دے.اس کو یہ اجازت نہ ہو کہ دوسرے مذاہب پر حملہ کرے یا ان کے بزرگوں کو برا بھلا کہے.یہ کوشش نہ صرف مختلف مذاہب کے پیروں کے لئے موجب برکت ہوگی بلکہ گورنمنٹ برطانیہ کی بھی ایک خدمت ہوگی کیونکہ ملک میں امن ہو تو گورنمنٹ بھی آزادی کے ساتھ اپنی اصلاحی تدابیر پر عمل کر سکتی ہے اور ملک میں فساد گورنمنٹ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے.پس ایسی کوشش نہ صرف ملک کی خدمت ہے بلکہ گورنمنٹ کی بھی خدمت ہے.اور میرے نزدیک وہ سراسر غلطی پر ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ گورنمنٹ کی کامیابی مختلف اقوام کے اختلاف میں ہے.نہ یہ خیال درست ہے اور نہ گورنمنٹ برطانیہ کا طریق عمل اس کی تائید کرتا ہے اور نہ عقل اس کی تائید کرتی ہے.پس اس کام کو جس قدر جلد ہو سکے شروع کر دیا جائے.اور جب یہ کام شروع ہو جائے گا تو امید ہے کہ لوگ آہستہ آہستہ خود اس طریق کی خوبی کے قائل ہو جائیں گے.اور اگر پہلے ہمارے ساتھ شامل نہ ہوتے تھے تو بعد میں ہو جائیں گے.بے شک اس کام کے راستہ میں بہت سی تکالیف اور مشکلیں ہیں لیکن نام ہے جس کے راستہ میں تکالیف نہیں ہوتیں.ابتداء بے شک بعض لوگ مخالفت ریں گے لیکن آخر کار اس میں ضرور کامیابی ہوگی.کیونکہ جب تجربہ سے معلوم ہو جائے گا کہ طریق خیرو برکت کا طریق ہے تو جو لوگ اس کے مخالف ہوں گے وہ بھی اسے ضرور قبول کریں گے.کیونکہ کون ہے جو اپنے فائدہ کو معلوم کر کے پھر بھی اسکے حاصل کرنے سے دریغ کونسا کام

Page 89

پیغام مسیح موعود کرتا ہے.اگر اللہ تعالٰی آپ لوگوں میں سے جو اس جگہ موجود ہیں بعض کو اس کام کی توفیق دے تو اس کے مبارک نتائج میں تو کسی کو شک ہو ہی نہیں سکتا.اور اس وقت ضرورت ہے کہ وہ لوگ جو ایک ہی ملک میں رہتے ہیں بلکہ ایک ہی شہر میں رہتے ہیں ایک ہی زبان بولتے ہیں ایک ہی کنویں سے پانی پیتے ہیں اور ایک ہی دریا میں نہاتے ہیں.آپس میں بغض و عناد کو ترک کر کے صلح کی طرف قدم بڑھا ئیں.اس پیغام کے علاوہ ایک اور بھی پیغام ہے جو میں آپ لوگوں کو پہنچانا چاہتا ہوں دوسرا پیغام اور وہ حضرت مسیح موعود کا دعوئی ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک برگزیدہ ہم میں مبعوث کیا ہے اس کو قبول کرو.میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ میں اس کی صداقت کے دلائل پیش کروں.ہاں ایک چھوٹی سی بات بیان کرتا ہوں اس سے صداقت پسند لوگ سمجھ سکتے ہیں.اور وہ یہ کہ ایک شخص خدا تعالٰی کی طرف سے آنے کا دعویٰ کرتا ہے اور جو اس کے مقابلہ کے لئے اٹھتا ہے گرایا جاتا ہے.جو اسے رسوا کرنا چاہتا ہے خود رسوا ہو جاتا ہے جو اسے دکھ دینا چاہتا ہے خود دکھ اٹھاتا ہے تو کیا ایسا شخص مفتری ہو سکتا ہے ؟ اگر یہ مان لیا جائے کہ (نعوذ باللہ ) ایسا انسان مفتری ہو سکتا ہے تو پھر خدا کی ہستی میں بھی شک پیدا ہو جائے گا.کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی حکومتیں ایسے شخص کو جو جھوٹے طور پر ان کی طرف سے عہدہ دار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے پکڑتی اور سزا دیتی ہیں مگر ایک شخص کہتا ہے کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں حالانکہ وہ نہیں آیا تو اسے خدا تعالی کچھ نہیں کہتا بلکہ وہ ہر مقابلہ میں فتح پاتا اور ہر جگہ نصرت اس کے ساتھ ہوتی ہے.اگر ایسا ہو جائے تو پھر بچے نبی کا کوئی معیار نہیں رہ جاتا.پس آپ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ پر غور کریں کہ جس کی سچائی کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک نہیں دو نہیں بلکہ لاکھوں نشان ظاہر کئے قادیان ہی ایک بہت بڑا نشان ہے ایک وقت تھا کہ وہاں ضروری چیزیں بھی نہ مل سکتی تھیں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا.ہفتہ میں شائد ایک دفعہ ڈاک آتی تھی اور وہاں کے پرائمری سکول کے مدرس کو تین روپے ماہوار الاؤنس ڈاک کے کام کا ملا کرتا تھا.لیکن اب وہاں آبادی کی کثرت سے زمینوں کی اس قدر قیمت بڑھ گئی ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں بھی اتنی نہ ہوگی.اور یورپ امریکہ اور افریقہ سے ڈاک آتی ہے اور دور دراز ملکوں سے لوگ کھنچے آتے ہیں.ایک سب پوسٹماسٹر اور کلرک کام کرتے ہیں.بے شک بہت سے شہروں میں اس سے بڑا کام ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا

Page 90

وم جلد ۳۰ ۶۳ پیغام مسیح موعود کوئی اور بھی ایسا شہر ہے جس کے متعلق قبل از وقت ایک شخص نے اعلان کیا ہو کہ مجھے خدا تعالٰی نے الہام کے ذریعہ سے اس کی ترقی کی خبر دی ہے اور پھر وہ اس حیرت انگیز طریق سے بلا کسی دنیاوی سبب کے اس طرح ترقی پا گیا ہو.وہاں کوئی سرکاری محکمہ نہ ہو حتی کہ تھانہ بھی نہ آپ لوگ غور کریں کہ کونسی چیز لوگوں کو اس کی طرف کھینچ رہی ہے.پس اس میں کیا شک ہے کہ خدائی ہاتھ کام کر رہا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود کا الہام تھا کہ فَحَانَ انْ تُعَانَ وتُعرَفَ بَيْنَ النَّاسِ (تذکرہ صفحہ (۲) وقت آگیا ہے کہ خدا تیری مدد کرے اور دنیا میں تیرا نام روشن کر دے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شخص جس کو دنیا میں کوئی نہ جانتا تھا.اور اس کے ضلع کے لوگ بھی اس سے واقف نہ تھے اس قدر شہرت پاتا ہے کہ دنیا بھر میں اس کا نام مشہور ہو جاتا ہے.اور مختلف ممالک میں مختلف اقوام کے لوگ اس کی غلامی میں داخل ہوتے ہیں حتی کہ وہ قوم جو اس کے ملک میں حاکم ہے اس کے افراد بھی اس کی غلامی میں داخل ہوتے ہیں.اور اس کو اپنا فخر سمجھتے ہیں.بے شک بعض لوگ کہہ دیں گے کہ بعض اور گمنام لوگ بھی اسی طرح مشہور ہو گئے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں کہ اس کی نظیر بتاؤ کہ کسی شخص نے قبل از وقت گمنامی کی حالت میں الہام پا کر اعلان کیا ہو اور پھر باوجود اس کے بجائے مورد غضب الہی ہونے کے اس نے دنیا میں ترقی کی ہو.اور اس طرح اس کا نام شہرہ آفاق ہوا اور ہر رتبہ کے اور ہر طبقہ کے لوگوں نے اس کی غلامی اختیار کی ہو.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے قبل ازی وقت الهام پاکر لکھا تھا کہ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَج عميق - اب کوئی قادیان جا کر دیکھ لے کہ وہاں امریکہ اور یورپ تک کے لوگ آتے ہیں.یورپ میں تو آٹھ آدمی بیعت بھی کر چکے ہیں.اسی طرح مصر سے افریقہ کے ساحلوں سے اور ہندوستان کے مختلف اقطاع سے لوگ آتے ہیں.بھلا یہ کہنا کسی انسان کا کام ہو سکتا ہے.کوئی ایسا انسان پیش تو کرو اور اگر اس کی نظیر نہیں ملتی تو حق پسندی طالب ہے اس بات کی کہ اس کے دعوی کو قبول کیا جائے.جو باتیں میں نے سنائی ہیں کسی خاص مذہب سے تعلق نہیں رکھتیں.ہر مذہب کے پیرو اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ہاں مسلمانوں پر تو بالخصوص حجت ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ظالم کبھی کامیاب نہیں ہوتے.پس اگر نعوذ باللہ مرزا جھوٹا ہے تو قرآن بھی جھوٹا ہو جاتا ہے.اور اگر قرآن کریم سچا ہے تو مرزا صاحب کے دعوئی کے قبول کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں.اور اس جماعت کی ترقی بھی اس حالت کو پہنچ گئی ہے کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ لوگ کہیں کہ بہ

Page 91

۶۴ پیغام مسیح موعود سلسلہ مٹ جائے گا.اب دنیا کی کوئی طاقت ہماری ترقی میں روک نہیں ہو سکتی.اور کوئی حکومت روک نہیں سکتی.ہم خدا کے فضل سے اس حد کو پہنچ چکے ہیں کہ خدا نے ہمارے لئے ترقی کے دروازے کھول دیئے ہیں.اگر ساری دنیا مل کر بھی ہماری ترقی کو روکنا چاہے تو نہیں روک سکتی.آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا.اور اس نے کہا کہ آپ اس خدا کی قسم کھا ئیں جس کے قبضہ میں آپ کی جان ہے کہ میں سچا ہوں.تو آپ نے قسم کھائی.میں بھی آپ کی اتباع میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.کہ اب اس سلسلہ کے لئے کوئی چیز روک نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ نے مجھے خود ایک رویا کے ذریعہ بتایا.ہم کہ آسمان سے سخت گرج کی آواز آرہی ہے اور ایسا شور ہے جیسے توپوں کے متواتر چلنے سے پیدا ہوتا ہے اور سخت تاریکی چھائی ہوئی ہے.ہاں کچھ کچھ دیر کے بعد آسمان پر روشنی ہو جاتی ہے.اتنے میں ایک دہشت ناک حالت کے بعد آسمان پر ایک روشنی پیدا ہوئی اور نہایت موٹے اور نورانی الفاظ میں آسمان ANANA ALI AND TANG اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ لکھا گیا ہے.اس کے بعد کسی نے بآواز بلند کچھ کہا.جس کا مطلب یاد رہا کہ آسمان پر بڑے بڑے تغیرات ہو رہے ہیں جن کا نتیجہ تمہارے لئے اچھا ہو گا.پس اس سلسلہ کی ترقی کے دن آگئے ہیں کیونکہ اس خواب کا ایک حصہ پورا ہو گیا ہے.اور یورپ کی خطرناک جنگ کی شکل میں ظاہر ہوا ہے.اور صاف ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ اسلام کی صداقت کو روشن کرے.اور یہ ہو نہیں سکتا مگر اس کے ہاتھ سے جس نے مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی.خدا تعالیٰ کا منشاء ہے کہ حضرت مسیح موعود کی جماعت پھیلے.کیونکہ وہ خدا کی طرف سے آیا ہے.جن لوگوں کا یہ خیال ہو کہ یہ سلسلہ فلاں آدمی کی وجہ سے چل رہا ہے.اس کے بعد تباہ ہو جائے گا.وہ سن رکھیں کہ ایسے بہت لوگ تھے.جو کہتے تھے کہ مرزا صاحب مرگئے تو یہ سلسلہ بھی مر جائے گا.پھر بہت تھے جو یہ کہتے تھے کہ مولوی نور الدین کی وجہ سے چل رہا ہے.حتی کہ خواجہ غلام الثقلین صاحب نے بھی ایسا ہی لکھا تھا.جس کا میں نے جواب دیا تھا کہ تم غلط کہتے ہو کہ کسی انسانی طاقت سے یہ سلسلہ چل رہا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.پھر انگریزی خوانوں کا خیال تھا کہ چند انگریزی پڑھے ہوئے چلا رہے ہیں.لیکن خدا تعالیٰ نے دو تین واقعات یکے بعد دیگرے کر کے دکھا دیا کہ یہ خیال غلط ہے چنانچہ حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد ایک تو وہ بے نظیر انسان اٹھا لیا.جس کی علمیت کا اعتراف غیر احمدی عالموں کو بھی کرنا پڑتا تھا.اور دوسرے ان لوگوں کو الگ کر دیا جو سلسلہ کے لئے بطور

Page 92

انوار العلوم جلد ۳۰ ۶۵ پیغام مسیح موعود عمود سمجھے جاتے تھے.اور سلسلہ احمدیہ کو ذرا بھی کسی قسم کا ضعف نہ آنے دیا.اس سے ثابت ہو گیا کہ یہ سلسلہ انسانی نہیں بلکہ خدائی ہے.پس وقت آگیا ہے کہ جنہوں نے بدوں غور کرنے کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انکار کیا ہے.ان سے ضرور پوچھا جائے اگر (نعوذ باللہ) یہ سلسلہ جھوٹا ہے.تو قبول کرنے والوں کو سزا نہیں ہوگی.لیکن جنہوں نے غور ہی نہیں کیا.ان کو سزا دی جائے گی کہ کیوں انہوں نے غور نہیں کیا.میں امید کرتا ہوں کہ آپ صاحبان دنیا کے کاموں سے وقت نکال کر مہینہ میں ایک دفعہ یا کم از کم سال میں ایک دو دفعہ اس سلسلہ کی کتابیں ضرور پڑھیں گے.اور واقف کار لوگوں سے باتیں سنیں گے.اگر یہ باتیں حق نہ ہوں تو آپ لوگ رو کردیں.کیا ہمارے ہاتھ میں تلوار ہے کہ ہم کسی کو ان باتوں کے قبول کرنے پر مجبور کرتے ہیں.نہیں اور ہرگز نہیں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو تلوار دے کر نہیں بھیجا.اور اس میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ آنحضرت ا پر منکرین اسلام نے اعتراض کیا تھا کہ انہوں نے اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا ہے.حالانکہ آنحضرت کو جب مخالفین نے از حد تنگ کیا تھا تو تب آپ نے تلوار اٹھائی تھی.تاہم نادان لوگوں نے یہی کہا کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے لیکن اب جبکہ دنیا سے اسلام اٹھ چکا تھا.تو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو کھڑا کر کے بتا دیا کہ جب اس کا یہ غلام دلائل اور براہین سے لوگوں کے دلوں کو فتح کر سکتا ہے تو آقا نے کیوں نہ ایسا کیا ہو گا.دنیا نے چونکہ رسول اللہ ال کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی تھی اس لئے ضرور تھا کہ وہ تلوار سے ہی مقابلہ کرتے لیکن ب خدا تعالیٰ نے مذہب کے متعلق تلوار چھین لی ہے اور ایسا زمانہ آگیا ہے کہ ہم اسی گورنمنٹ کے مذہب پر جس کی حکومت میں رہتے ہیں آزادی سے اعتراض کر سکتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے دلائل سے کام لیا ہے پس ہمارے ہاتھ میں تلوار نہیں اور نہ حضرت مسیح موعود کے ہاتھ میں ہونی چاہئے تھی.ہم دلائل پیش کرتے ہیں آپ ان پر غور کریں اور اگر حق نہ پائیں تو ان کو رد کر دیں لیکن سننا اور غور کرنا شرط ہے.کیا ممکن نہیں کہ یہ سلسلہ سچا ہو پس اگر سچا ہے تو میں سب مذاہب کے لوگوں کو کہتا ہوں کہ بتلاؤ کہ خدا کو کیا جواب دو گے تم لوگ جھوٹے اشتہاروں اور ڈنڈھوروں کی طرف تو متوجہ ہو جاتے ہو.پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو آواز آئی ہے اس پر کان نہ دھرو.آخر میں میں پھر اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگوں میں سے با ہمت ضرور ان

Page 93

انوار العلوم جلد ۳۰ ۶۶ پیغام صحیح موعود تدابیر پر عمل کرنے کی کوشش کریں جن سے ہندوستان کے یہ لڑائی جھگڑے دور ہوں اگر کوئی مجھ سے اس کے متعلق خط و کتابت کرے گا تو میں ہر قسم کی بدنی مالی علمی خدمات کرنے کو تیار ہوں گا.کیونکہ میں چاہتا ہوں کہ وہ زمانہ آئے کہ ہر طرف امن اور صلح ہو.اور خدا تعالی جلد وہ وقت لائے جو نبیوں کے وقت لایا کرتا ہے.تاکہ تمام لوگ خواہ کسی مذہب کے ہوں.علمی اور قومی اور گورنمنٹ کی خدمت مل کر کریں اور مذہب میں سختی اور درشتی کو چھوڑ دیں اور بچے مذہب کی خوبیوں سے آگاہ ہونے کا ان کو موقعہ ملے.آخری اس لئے کہ آپ کے بعد کوئی نبی صاحب شریعت نہیں آسکا.کوئی نی براہ راست نہیں آسکتا.پس آئندہ نبوت آپ کے فیض اتباع اور مصر سے ملتی ہے.کے یہ رویا اخبار بدر مورخہ 9 جنوری ۱۹۱۴ء میں چھپ کر شائع ہو چکا ہے.(مولف)

Page 94

42 فاروق کے فرائض (ایڈیٹر اخبار فاروق کو چند نصائح) سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی فاروق کے فرائض

Page 95

Page 96

بسم الله الرحمن الرحیم 49 نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم فاروق کے فرائض دعا فاروق کے فرائض ( مؤرخہ ۷ - اکتوبر ۱۹۱۵ء ) حضرت مصلح موعود فضل عمر نے ذیل کے نصائح فاروق کے لئے اپنے دست مبارک سے رقم فرما کر عطا فرمائے.عاجز ایڈیٹر فاروق خدائے تعالیٰ سے دعا کرتا ہے کہ وہ القادر اپنے فضل سے بہ طفیل سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی او به تصدق امام ربانی مرسل یزدانی حضرت مسیح موعود قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام مجھے ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما کر فاروق کو اسم با مسمی بنائے.آمین.(ایڈیٹر) سب سے پہلے تو میں اللہ تعالٰی سے دعا مانگتا ہوں کہ وہ فاروق کے اجراء میں آپ کی مدد فرمائے اور اس کے چلانے میں آپ کی تائید فرمائے.آمین رب العالمین.اس کے بعد میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہمیشہ اس نام کی طرف جو آپ نے اپنے اخبار کے لئے پسند کیا ہے متوجہ رہیں اور اسے اپنے ذہن سے کبھی نہ اترنے دیں الأَسْمَاء تَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ نام آسمان سے اترتے ہیں یعنی جو مفہوم کسی کے نام سے ادا ہوتا ہے اس کے مطابق اس کے افعال ہوتے ہیں یہ بات دنیا کے تجربہ سے کہاں تک درست ثابت ہوتی ہے اس سے مجھے اس وقت غرض نہیں لیکن یہ قول ایک رنگ میں ضرور پورا ہو رہا ہے یعنی مختلف اشیاء کے ایسے نام رکھے جاتے ہیں کہ جن سے ان کا آئندہ کام بتانا مقصود ہوتا ہے اور پھر اس نام کے مفہوم کی پیروی کی جاتی ہے.نصیحت

Page 97

" فاروق کے فرائض یورپ تو اس نکتہ کا ایسا شیدا ہے کہ وہاں ہر ایک دکان کا کچھ نام رکھا جاتا ہے نام مطابق کام اور اکثر کوشش کی جاتی ہے کہ اس نام میں ہی اس دکان کا کام بھی بیان ہو جائے اور یہ کبھی نہ ہو گا کہ ایک دکان کے نام میں تو یہ ظاہر کیا جائے کہ اس میں جوتیوں کی تجارت ہوتی ہے اور در حقیقت وہاں ٹوپیوں کی تجارت ہوتی ہو غرض نام کام بتانے کے لئے رکھے جاتے ہیں اور ان ناموں کی پابندی کی جاتی ہے اور جب کسی دکان کا کام بدلنا ہوتا ہے تو پہلے اس کا نام بدلتے ہیں.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جہاں انسانوں میں اس بات کا خیال ہے کہ وہ اپنی کام خلاف نام دکان یا اپنے کارخانہ کے نام کے مطابق اپنے کاموں کو رکھتے ہیں وہاں اپنے ناموں کے متعلق ان کو اس قدر فکر نہیں ہوتی کہ ہمارا نام کیا ہے اور ہمارے کام کیا ہیں ایک دکان کا نام اگر کتب فروشی کی دکان رکھا جاتا ہے تو اس بات کی پابندی کی جاتی ہے کہ وہاں کتابیں ہی فروخت ہوں اور اگر ایک کارخانہ کا نام فلور ملز ہوتا ہے تو آٹا پینے کا ہی کام وہاں کیا جاتا ہے لیکن کتنے عبدالرحمن ہیں جو در حقیقت عبد الشیطان ہیں؟ کتنے عبد الغنی ہیں جو حرص و آز میں مبتلا ہیں ؟ اور کتنے دارا شکوہ ہیں جن کی راتیں جھونپڑیوں میں اور دن کھلیانوں میں کتے ہیں ؟ اور کتنے آسمان جاہ ہیں جن کو سر چھپانے کے لئے زمین کی کوئی غار بھی نصیب نہیں ؟ پھر کتنے اکرام الدین ہیں کہ ان کا وجود دین کے لئے بدنامی اور ذلت کا باعث ہو رہا ہے؟ کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ یہ لوگ کتنے ہیں؟ نہیں اور ہر گز نہیں کیونکہ ان کا گننا ناممکن ہے دنیا کے پردہ پر کوئی بستی کوئی قصبہ کوئی شہر کوئی ملک ایسا نہیں جو ان نمونوں سے خالی ہو.بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ کوئی جگہ ایسی نہیں جو ان نمونوں سے پر نہ ہو مگر باوجود اس کے وہی انسان جو اپنے نام کی عزت نہیں کرتا اور اس کے مطابق اپنے کاموں کو کرنے کی فکر نہیں کرتا اس کا تمام تر زور یہ ہوتا ہے کہ اس کی دکان یا اس کے کارخانہ کا جو نام ہے اس کے مطابق اس کا کام بھی ہو کیا یہ ایک عجیب بات نہیں؟ لیکن کتنے آدمی ہیں جن کی توجہ اس طرف پھری ہو اور انہیں اس دل شکن تماشہ کا علم بھی ہوا ہو جیسے تماشہ کرنے والے انسان اور نام اور لباس پہن کر لوگوں کو دھو کا دیتے ہیں اسی طرح اکثر انسان اپنے حقیقی ناموں کو بدل بدل کر اپنے ہم جنسوں کے سامنے آتے ہیں لوگ اپنے روپیہ کو ضائع کر کے تھیٹروں میں اپنے نام بدلنے والوں کا تماشہ دیک دیکھنے جاتے ہیں لیکن نہیں سمجھتے کہ یہ تماشہ تو ہر گھر میں جاری ہے اور رات اور دن ہو رہا ہے اور پھر

Page 98

وم جلد ۳۰ فاروق کے فرائض اس کے لئے کوئی ٹکٹ بھی نہیں کوئی قیمت نہیں ایک سنگدل انسان جس کا پیشہ ظلم اور جو ر ہے جس کے دل میں رحم کبھی پیدا نہیں ہوتا اپنا نام محمد لطیف بتاتا ہے اور ایک شخص جو بخل اور کنجوسی کا مجسمہ ہے اور ایک پیسہ فی سبیل اللہ خرچ نہیں کر سکتا اپنا نام محمد احسان ظاہر کرتا ہے.خیر یہ تو ایک درمیانی بات تھی.میں یہ بیان کرنا چاہتا تھا کہ نام در حقیقت کام کے اظہار کے لئے ہوتے ہیں اور صرف شناخت کے لئے علامت ہی نہیں ہوتے بلکہ اصل غرض ان سے کام کا بتانا ہی ہوتا ہے.اور یہ بات اس زبان سے بخوبی ظاہر ہے جو الہامی زبان ہے اور جس کا نام فصاحت عربی (یعنی عربی) ہی بتا رہا ہے کہ وہ ایک فصاحت سے پر اور غلطیوں سے پاک زبان ہے اور دوسری عجمی زبانوں کی طرح خیالات انسانی کے ادا کرنے میں ناکافی ثابت نہیں ہوتی اس زبان میں جس قدر اشیاء کے نام ہیں وہ ان کی حقیقت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ نام کام کے اظہار کے لئے ہوتے ہیں اور ہونے چاہئیں پس فاروق کو بھی اسم باسمتی ہونا چاہئے اور اس وسیع دنیا کے کروڑوں ایکٹروں کی طرح ایک ایکٹر نہیں بننا چاہئے کہ اس کا نام تو فاروق ہو لیکن وہ فاروقی صفات سے عاری ہو.فاروق عربی زبان کا ایک لفظ ہے جس کے دو معنے ہیں ڈرنے والا اور حق و فاروق کا کام باطل میں فرق کرنے والا پس فاروق کے مضامین یہ دونوں رنگ اپنے اندر رکھیں تب فاروق کے نام کا وہ مستحق ہو سکتا ہے اس کے مضامین خشیت الہی سے لکھے جائیں اور خشیت الہی کے پیدا کرنے والے ہوں کیونکہ خدائے تعالیٰ کا خوف اپنے دل میں رکھنے والے لوگ دوسروں کے دل میں خشیت پیدا کرنے کا باعث بھی ہو جاتے ہیں اسی طرح اس میں حق و باطل میں فرق کر کے دکھایا جائے اور کبھی اس بات کے منوانے کی کوشش نہ کی جائے جو خود منوانے والے کے نزدیک غلط ہو اور اگر کبھی غلطی بھی ہو جائے تو اس کا اعتراف کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا چاہئے.اس بات کو خوب یاد رکھیں کہ گورنمنٹ برطانیہ کے ہم پر بہت گورنمنٹ کی وفاداری احسان ہیں اگر ہماری سمجھ میں وہ احسان نہ بھی آئیں تب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس حکومت میں پیدا ہوتا ہی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ یہ حکومت خدائے تعالی کی نظروں میں دنیا کی تمام موجودہ حکومتوں سے زیادہ رعایا پرور اور

Page 99

انوار العلوم -جلد -.۷۲ فاروق کے فرائض انصاف پسند ہے حضرت مسیح موعود اپنی تمام عمر اس گورنمنٹ کی فرمانبرداری پر زور دیتے رہے ہیں پس اس نازک وقت میں کہ ہندوستان مختلف تحریکوں کی آماجگاہ بن رہا ہے فاروق کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ ہر ایک مشکل میں گورنمنٹ برطانیہ کا مددگار ہو اور نیک ارادوں کو لوگوں کے ذہن نشین کرنے کا آلہ.مگر ساتھ ہی اس بات کا بھی خیال رہے کہ ہماری خدمت بے ریا ہے اور بغیر کسی خواہش کے ہے پس خوشامد کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں انسان غلطی کر سکتا ہے اور گورنمنٹ انگریزی بھی انسانوں کی بنی ہوئی ایک گورنمنٹ ہے وہ بھی غلطی کر سکتی ہے اور کرتی ہے پس ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے کہ اس کی ہر ایک کارروائی کو جو اپنی ضمیر کے کیسی ہی خلاف کیوں نہ ہو خوبصورت کر کے دکھایا جائے بلکہ اگر ایسا کوئی موقعہ ہو تو گورنمنٹ سے امید رکھنی چاہئے کہ وہ فورا اسے درست کر دے گی اور لوگوں کو سمجھانا چاہئے کہ ایجی ٹیشن کے ذریعہ سے وہ گورنمنٹ کا مقابلہ نہ کریں بلکہ جس طرح ایک باپ سے بیٹا امیدوار ہوتا ہے کہ اس کی تکلیف کو وہ دور کرے گا اسی طرح گورنمنٹ سے امید رکھیں کہ وہ اس کی تکلیف کو دور کرے.غرض نیک باتوں کی تعریف کرنا اور اگر گورنمنٹ کسی بات میں غلطی کرے تو لوگوں کو تسلی اور تسکین دینا اور گورنمنٹ کے نیک ارادوں اور صاف نیت کو لوگوں پر ظاہر کرنا یہ فاروق کی پالیسی ہونی چاہئے.فاروق کے مضامین کی عبارت سنجیدہ ہو کہ انسی اور ٹھٹھا مومن کے فاروق کے مضامین شایان شان نہیں.مضامین کے الفاظ کو زور دار ہوں لیکن گالیوں سے بالکل خالی ہوں کہ گالی کا فائدہ کچھ نہیں ہو تا.دشمن کے خلاف اس رنگ میں لکھنا چاہئے کہ غیر تو غیر خود دشمن کا دل بھی محسوس کر لے کہ متانت اور اخلاص اور خیر خواہی سے مضمون لکھا گیا ہے کیونکہ اس کے بغیر ہدایت نہیں ہوتی اور ہدایت کے سوا اور کیا چیز ہے جس کے لئے مضمون لکھا جاتا ہے؟ وہ انسان کسی عزت کے قابل نہیں جو صرف لوگوں کو خوش کرنے کے لئے چٹخارہ دار مضامین لکھتا ہے یا اپنے دل کا غصہ ظاہر کرنے کے لئے سختی سے کام لیتا ہے اخلاص کی اور اصلاح یہ نظر ہو اور اس کے بغیر نہ کوئی مضمون لکھا جائے اور نہ چھاپا جائے.اس وقت اخبارات کی بڑی قدر ہے اور اخبارات سے بہترین خدمت ہو سکتی ہے لوگ اخبارات کے پڑھنے کے عادی ہیں

Page 100

دم جند - ۳ ۷۳ فاروق کے فرائض وہ لوگ جو کتابیں نہیں پڑھ سکتے اخبارات کا بڑے شوق سے مطالعہ کرتے ہیں اور اخبار اس وقت تعلیم یافتہ لوگوں کی غذا ہو گیا ہے پس ایک اخبار نویں بنی نوع انسان کی بڑی خدمت کر سکتا ہے اور اس کے لئے قرب الہی کا دروازہ کھلا ہے اسلام اس وقت سخت مصیبت میں ہے اور دنیا کی نظر میں ایک بدصورت بڑھیا کی شکل کے مشابہ ہے اس کے حسن کو دنیا کے سامنے پیش کرنا ایک ایسی خدمت ہے جو خدائے تعالیٰ کے قرب کا بہترین ذریعہ ہے اس کام میں دل و جان سے مشغول ہوں کہ فاروق کا نام اسی بات کا طالب ہے اسلام کے سوا اور کونسا حق ہے.اور حق و باطل میں فرق کرنا ہی تو فاروق کا کام ہے پس اسلام کی صداقت کو اسلام کے مدعیوں اور دیگر مذاہب کے پیرڈوں کے سامنے پیش کرنا فاروق کا بڑا کام ہونا چاہئے آنحضرت ا سے بڑا فاروق اور قرآن کریم سے بڑا فرقان آج تک خدائے تعالی کی طرف سے نازل نہیں ہوا پس اس فاروق اور اس فرقان کو دنیا کے آگے پیش کریں کہ جب تک انسان ان کی محبت کی عینک کو آنکھوں پر نہیں لگاتا اسے حق و باطل میں تمیز کرنے کی توفیق نہیں ملتی.دنیا نے کسی انسان پر اس قدر ظلم نہیں کیا جس قدر کہ آنحضرت ا پر.جس قدر وہ حسین ہے اسی قدر لوگوں نے اس کی عیب گیری کی ہے اور بے دردانہ طور سے اس پر حملے کئے ہیں ان حملوں کا نرمی ، محبت اور اخلاص سے جواب دیں اور اس کے وجود کا کمال مسیح موعود کے آئینہ میں ظاہر کریں کہ وہ اپنی صفائی کی وجہ سے اس کے حسن کو پورے طور پر ظاہر کرنے والا ہے.فاروق کی نظر وسیع ہو اور یہ نہ ہو کہ ایک معاملہ کی طرف متوجہ ہوئے تو اسی میں لگ گئے بلکہ ہر ایک بات پر اتنا ہی زور ہو جس قدر اسکے مناسب ہے اور ایک دشمن کے مقابلہ میں دوسرے دشمنوں کو بھلا نہ دیا جائے کہ ایسا کرنے والا کبھی کامیاب نہیں ہو تا نیک نیتی اور اخلاص پر سب کاموں کی بناء ہو کیونکہ جس شخص کے کاموں کی ان پر بناء ہوتی ہے وہ کبھی ذلیل نہیں ہو تا اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.اور آپ کی مدد فرمائے.آمین.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.خاکسار مرزا محمود احمد

Page 101

Page 102

انوار العلوم جلد.F.۷۵ انوار خلافت (مجموعه تقاریر جلسہ سالانہ 1910ء) ان سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ار خلافت

Page 103

Page 104

العلوم جلد ۳ بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی جو ۲۷ / دسمبر ۱۹۱۵ء کو جلسہ سالانہ پر فرمائی ) ر ظہر سے قبل) أشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ امَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سَبَحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ ، وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ يَا يُّهَا الَّذِينَ نوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ اَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَانَهُمْ بُنْيَانُ مَرْصُو ص ٥ وَ إِذ قَالَ مَّرْصُوصُ مُوسَى يَقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ انّى رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ ، فَلَمَّا زَاغُوا اَزَاغَ.TAKANGANANAGE GA ، وَ اللهُ لَا يَهْدِى القَوْمَ الْفَسِقِينَ ، وَ إِذْ قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِنَ إسْرَاءِيلَ اِنّى رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَ يَةِ وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولِ مِن بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ ، فَلَمَّا جَاءَ هُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ ، وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ هُوَد عَى إِلَى الْإِسْلَامِ ، وَاللهُ لا يَهْدِى الْقَوْمَ ANANAGEلِمِيْنَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ ، وَاللهُ مُتِمُّ نُودِم وَلَوْ كَرِ الْكَفِرُونَ ، هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَة بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ ، عَلَى وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُم عَذَابٍ أَلِيمٍ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِى سَبِيلِ اللهِ بِاَمْوَالِكُمْ ، اَنْفُسِكُمْ ، ذَلِكُمْ خَيْرُ لَكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ، يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ يُدْخِلَكُمْ جَنْتِ تجرى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ وَ مَسْكِنَ طَيِّبَةً فِى جَنَّتِ عَدْنٍ ، ذلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ و

Page 105

دم جلد ۳۰ ۷۸ " انوار خلافت أخرى تُحِبُّونَهَا ، نَصْرُ مِنَ اللهِ وَفَتْحٌ قَرِيبٌ ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ ، قَالَ الْحَوَارِثُونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ فَأَمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ كَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَا يَدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عَدُوِّهِمْ فَأَصْبَحُوا ظَاهِرِينَ (سورة الصمت) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ الْمَلِكِ الْقُدُّوسِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ.الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيَتِهِ وَيُزَكّيهِمْ ، ا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب وَالْحِكْمَةَ ، وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مُّبِينِ ، وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ، هوا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ، وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيم ، ( الجمعنا تا ۵) اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں اور سلامتی ہو تم لوگوں پر جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں کو چھوڑ کر اس لئے یہاں آئے ہو کہ خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی کوئی بات سنو.اللہ تعالٰی بخیل نہیں کنجوس نہیں ، ظالم نہیں اور کسی کے حقوق نہیں مارتا.پس یہ مت سمجھو کہ تمہاری وششیں اور محنتیں ضائع جائیں گی.نہیں نہیں بلکہ یہ سور اور بڑے سود کے ساتھ واپس آئیں گی اور اپنے ساتھ بڑے بڑے انعام و اکرام لائیں گی کیونکہ اگر کوئی خدا تعالی کی طرف ایک قدم چل کر جاتا ہے تو خدا تعالٰی اس کی طرف دو قدم آتا ہے اگر کوئی خدا تعالیٰ کی طرف دو گز چل کر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی طرف چار گز آتا ہے اور اگر کوئی خدا تعالیٰ کی طرف چل کر جاتا ہے تو خدا تعالٰی اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے پس وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے لئے اپنے گھروں سے چل کر یہاں آئے ہیں ان کو بشارت ہو کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جو کوئی خدا تعالی کی طرف چل کر جاتا ہے خدا تعالیٰ اس کی طرف دوڑ کر آتا ہے اگر آپ لوگ یہاں خدا کے لئے چل کر آئے ہیں تو خدا تعالیٰ تمہاری طرف دوڑ کر آئے گا.میں نے کچھ آیات اس وقت پڑھی ہیں ان کے پڑھنے کی وسیع جلسہ گاہ کی ضرورت غرض انشاء اللہ میں ابھی بتاؤں گا لیکن پہلے میں ایک اور بات بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ یہ کہ پچھلے سال کے تجربہ سے معلوم ہوا تھا اور اس سال تو ثابت ہی ہو گیا ہے کہ ہمارے اجتماع کے لئے پہلی جگہیں کافی نہیں ہیں.خدا تعالی ہماری

Page 106

انوار العلوم جلد ۳۰ 29 اتوار خلافه جماعت میں دن بدن ایسی برکتیں ڈال رہا ہے کہ ہمارے ہاتھ جو کچھ انتظام کرتے ہیں اور ہمارے دل جو کچھ سوچتے ہیں اس سے بہت بڑھ کر خدا کی مخلوق آجاتی ہے.ہم ہر سال یہ سمجھتے ہیں کہ بس اس قدر مکانات اور دیگر اسباب کافی ہوں گے.خدا تعالیٰ ان کو ناکافی ثابت کر دیتا ہے.اس دفعہ ہمارے منتظمین نے جلسہ کے لئے جو تیاری کی تھی وہ بہ نسبت پہلے کے بہت زیادہ تھی لیکن خدا تعالیٰ نے آنے والوں میں ایسی برکت ڈالی ہے کہ وہ ناکافی نکلی ہے اور دن بدن خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم زیادہ سے زیادہ نازل ہو رہے ہیں.ہماری ہر سال کی یہ ترقی ظاہر کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے خاص الخاص فضل ہم پر ہو رہے ہیں اور وہ دن جلد آنے والے ہیں کہ ہماری ترقی کو دیکھ کر مخالف لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی اور نشانات دیکھ کر محو حیرت ہو جائیں گے.اور وہ لوگ دیکھیں گے جو یہ سمجھتے تھے کہ یہ سلسلہ مٹ جائے گا کہ خود مٹ گئے ہیں اور اسی دنیا میں ان پر موت وارد ہو گئی ہے.لیکن یہ سلسلہ ترقی پر ترقی کر رہا ہے.غرض ایک طرف خدا کی یہ برکتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف ہمارا یہ بھی فرض ہے کہ جو لوگ یہاں آئیں ان کو ہم کچھ باتیں سنائیں اور ان کے فرائض سے ان کو آگاہ کریں اس لئے اب لیکچراروں کو بولنے کے لئے بہت زیادہ زور لگانا پڑتا ہے تاکہ سب کے کانوں تک ان کی آواز پہنچ جائے لیکن پھر بھی نہیں پہنچ سکتی.اس لئے میرا ارادہ ہے کہ آئندہ لیکچروں کے لئے یہ تدبیر کی جائے کہ لیکچر کسی بند مکان میں نہ ہوں جیسا کہ اس سال ہال میں تجویز تھی بلکہ کھلے میدان میں ہوں اور وہ اس طرح کہ ایک احاطہ بنایا جائے جس کی اطراف کو ڈھلوان کر دیا جائے.اس طرح بہت سے لوگ لیکچرار کی آواز کو اچھی طرح سن سکیں گے.یورپ میں اسی طرح کیا جاتا ہے اور بہت سے لوگ آواز کو سن سکتے ہیں حتی کہ دس دس ہزار آدمیوں کا مجمع بھی آسانی سے لیکچر سن سکتا ہے.اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو میں اس جلسہ کے بعد اس لیکچر گاہ کے بنانے کی تجویز کروں گا.اس صورت میں عورتوں کے لئے بھی انتظام ہو عورتوں کے لئے انتظام کرنا چاہا تھا اور اسی غرض کے لئے سکول کے ہال میں جلسہ کا انتظام کیا گیا تھا لیکن جگہ ناکافی ہوئی اور پھر گھر پر ہی عورتوں کے لیکچروں کا انتظام کرنا پڑا.پس اگر خدا تعالی نے توفیق دی تو آئندہ سال اس طرح جلسہ گاہ کا انتظام کیا جائے گا.انتظام جلسہ کے متعلق اس قدر کہنے کے بعد میں اپنے مضمون کی طرف لوٹتا ہوں.اس دفعہ میرا منشاء یہ تھا کہ جب جلسہ پر دوست و احباب آئیں تو میں بعض ایسی باتیں جو بہت ضروری ہیں ان کے سامنے بیان کروں سکتا ہے.

Page 107

م جلد - ۸۰ اور کچھ نصائح جو اللہ تعالٰی سمجھائے کروں.لیکن آخر کار میری توجہ اس طرف پھری کہ جہاں نصیحتوں اور دیگر باتوں کی ضرورت ہے.وہاں یہ بھی ضرورت ہے کہ احباب کو ان مسائل سے بھی واقف کیا جائے جن سے انہیں روز مرہ واسطہ پڑتا ہے.اس لئے میں نے چاہا کہ ان کو بھی مختصراً بیان کردوں.پیغامیوں کی بد زبانی اس وقت جماعت احمدیہ میں اختلاف کی وجہ سے بہت جھگڑا پیدا ہو گیا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ فریق ثانی نے تہذیب اور شرافت کو بالکل ترک کر دیا ہے اور ہمیں اس قدر گالیاں دی ہیں کہ غیر احمدی اخباروں نے بھی آج تک نہیں دی تھیں.میری نسبت اس وقت تک جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ تو ایک بہت بڑی فہرست ہے جس کا اس مختصر وقت میں بیان کرنا مشکل ہے لیکن اس میں سے کسی قدر میں بتاتا ہوں.وہ عام طور پر اور کثرت سے مجھے نوح کا بیٹا کہتے ہیں یعنی وہ جو حضرت نوح کے کشتی پر سوار ہونے کے وقت باوجود حضرت نوح کے بلانے کے ان کے پاس نہ آیا اور ان کو اس نے قبول نہ کیا اور طوفان میں غرق ہو گیا اور وہ جو کافروں میں سے تھا بلکہ کفار کا سردار تھا اور جو شرارت میں اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر کیا گیا ہے.اور اپنے قول کی وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نام چونکہ خدا تعالیٰ نے نوح رکھا ہے اور تم ان کے بیٹے ہو پس تم نوح کے بیٹے ہو.ہم کہتے ہیں حضرت مسیح موعود کو تو ابراہیم بھی کہا گیا ہے جن کا بیٹا اسماعیل تھا تو اگر تمہاری ہی دلیل درست ہے تو پھر مجھے اسماعیل کیوں نہیں کہتے پھر وہ میری نسبت کہتے ہیں کہ یہ دجال ہے ، کذاب ہے، مفتری ہے ، خائن ہے لوگوں کے مال کھا جاتا ہے، خدا سے دور ہے ، پوپ ہے وغیرہ وغیرہ.غرض یہ اور اسی قسم کے اور بہت سے الفاظ ہیں جو میری نسبت وہ استعمال کرتے ہیں لیکن مجھے ان کے اس طرح کہنے سے کچھ گھبراہٹ نہیں اور میرا دل ذرا بھی ان کی باتوں سے متاثر نہیں ہوتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جب انسان دلائل سے شکست کھاتا اور ہار جاتا ہے تو گالیاں دینی شروع کر دیتا ہے اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے اسی قدر اپنی شکست کو ثابت کرتا ہے.آپ لوگوں نے کئی دفعہ دیکھا ہو گا کہ ایک کمزور شخص مار تو کھاتا جاتا ہے لیکن گالیاں بھی دے رہا ہوتا ہے تو اب چونکہ ہم ان کو شکست پر شکست دے رہے ہیں اور وہ ہار پر ہار کھاتے چلے جا رہے ہیں اس لئے وہ گالیوں پر اتر آئے ہیں ان کے آدمی ہم میں آکر مل رہے ہیں اور وہ دن بدن کم ہو رہے ہیں.ان کے

Page 108

AL پاس ہمارے دلائل اور براہین کا کوئی جواب نہیں ہے اس لئے بد زبانی کے ہتھیار کو استعمال کر رہے ہیں.دیکھو جب بیعت ہوئی تھی اس وقت جماعت کا اکثر حصہ ان کے ساتھ تھا چنانچہ انہوں نے خود بھی لکھا تھا کہ ہماری طرف جماعت کے بہت آدمی ہیں.لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ کیمز قَنَّهُمْ وہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.اس کے یہ معنی نہیں کہ ان کی ہڈیاں توڑ کر ان کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے بلکہ یہ کہ خدا تعالی ان میں سے لوگوں کی کو توڑ تو ڑ کر ہماری طرف لے آئے گا اور ہم میں شامل کر دے گا.حضرت مسیح موعود کو بھی یہی الہام ہوا تھا جس کے آپ نے یہی معنی کئے ہیں.اس میں شک نہیں وہ اس بات سے بھی چڑتے ہیں کہ میں کیوں اپنے الہام اور رویا شائع کرتا ہوں.لیکن میں کہتا ہوں کہ جب یہ باتیں تمام قوم کے متعلق ہوں تو کیوں نہ انہیں شائع کیا جائے.بیشک اگر میرے الہام کسی ایک شخص کے ساتھ تعلق رکھتے تو میں بیان نہ کرتا لیکن جب یہ قومی معاملہ ہے تو کیوں چھپایا جائے.پس اس لئے میں اپنے وہ رویا جو جماعت کے متعلق ہوں شائع کرتا رہا ہوں اور کرتا رہوں گا.پھر میرے ساتھ ہماری جماعت کے اور لوگوں کو بھی اسی طرح گالیاں دیتے ہیں.ہم سب کا نام انہوں نے محمودی رکھا ہوا ہے اور اپنے خیال میں ہمیں یہ بھی گالی ہی نکالتے ہیں لیکن نادان یہ نہیں سمجھتے کہ یہ کوئی گالی نہیں.آنحضرت کو بھی کفار گالیاں دیتے تو آپ فرماتے کہ میرا نام محمد ہے جس کے معنی ہیں کہ بہت تعریف کیا گیا پھر مجھے کس طرح گالی لگ سکتی ہے.اسی طرح عرب کے کفار جب آپ کو گالی دیتے تو اس وقت آنحضرت ا کا نام محمد نہ لیتے بلکہ نذ تم کہتے.اس کے متعلق آنحضرت اللہ فرماتے کہ اگر یہ لوگ میرا نام محمدؐ لے کر گالیاں دیں تو مجھے گالی لگ ہی نہیں سکتی کیونکہ جسے خدا پاک ٹھہرائے کون ہے جو اس کی نسبت کچھ کہہ سکے اور اگر نہ تم کہہ کر گالیاں دیتے ہیں تو دیتے جائیں یہ میرا نام ہی نہیں.کفار عرب اہل زبان تھے اس لئے وہ اتنی سمجھ رکھتے تھے کہ محمد نام لے کر ہم گالی نہیں دے سکتے لیکن یہ چونکہ عربی نہیں جانتے اس لئے یہ گالی دیتے ہیں کہ تم محمودی ہو.ہم کہتے ہیں خدا تعالیٰ کا بڑا ہی فضل | ہے کہ ہم محمودی ہیں کیونکہ یہ تو رسول کریم ﷺ کا وہ مقام ہے جس کی نسبت خدا تعالٰی نے کی فرمایا ہے عسى أن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودًا - (بنی اسرائیل : ۸۰) اگر ہمارا رسول کریم سے اس عظیم الشان درجہ کے ذریعہ سے تعلق قائم ہو جسے اللہ تعالیٰ نے انعام عظیم کے طور پر آپ کے لئے وعدہ فرمایا ہے تو ہمارے لئے اس سے زیادہ فخر اور کیا ہو سکتا

Page 109

사 انوار العلوم جلد - ہے.غرض یہ فتنہ بڑھتا ہی گیا اور ابھی تک بڑھ ہی رہا ہے اور عجیب عجیب اعتراض ہمارے خلاف پیدا کئے جاتے ہیں.مثلاً مولوی محمد علی صاحب میری نسبت کہتے ہیں کہ یہ اپنے آپ کو معصوم عن الخطاء کہتا ہے.میں نے اس کے جواب میں لکھا کہ بالکل غلط ہے میں اپنے کو میں آپ کو ایسا نہیں سمجھتا اور نہ ہی کوئی انسان ہو کر ایسا سمجھ سکتا ہے لیکن اس کے جواب میں انہوں نے لکھا کہ میاں صاحب نے یہ جواب صرف لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے دے دیا ہے ورنہ واقعہ میں وہ اپنے آپ کو ایسا ہی سمجھتے ہیں.اس کی دلیل یہ ہے کہ انہوں نے ابھی تک اپنی کوئی غلطی شائع نہیں کی اور نہ ہی کسی غلطی کا اعتراف کیا ہے.میں کہتا ہوں غلطی کا ہونا اور بات ہے اور غلطی کرنے کا امکان اور بات ہے اور ان دونوں باتوں میں بہت بڑا فرق ہے.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ وہ باوجود ایم اے ہونے کے اور امیر قوم کہلانے کے اتنا نہیں سمجھ سکتے کہ غلطی کرنا اور کر سکتا الگ الگ باتیں ہیں.میں نے یہ کبھی نہیں کہا اور نہ اب کہتا ہوں کہ میں غلطی نہیں کر سکتا.لیکن اگر میری طرف سے کسی غلطی کا اعلان نہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ غلطی نہیں کر سکتا تو کوئی شخص مولوی صاحب سے پوچھے کہ جناب مولوی صاحب ! میاں ! صاحب تو آپ کی اس دلیل کی رو سے بیشک اپنے آپ کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں.مگر آپ یہ تو بتائیں کہ آپ نے اس وقت تک اپنی غلطیوں کے کتنے اشتہار دیئے ہیں اور کتنی غلطیوں کا اعتراف کیا ہے کیا آپ کو بھی معصوم عن الخطاء سمجھ لیا جائے ؟ کتنے تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ مجھ پر وہ سوال کیا جاتا ہے جو خود ان پر پڑتا ہے.لیکن پھر بھی وہ اسی پر اڑے ہوئے ہیں.اگر ان کی طرف سے اپنی غلطیوں کے اعتراف میں کوئی اشتہار شائع ہو چکا ہو تا تب تو وہ مجھے یہ کہنے کا حق رکھتے تھے.لیکن جب انہوں نے خود ہی ایسا نہیں کیا تو پھر مجھ سے کیوں یہ توقع رکھتے ہیں.لیکن میں اقرار کرتا ہوں کہ میں غلطی کر سکتا ہوں اور اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ میں نے غلطی بھی کی ہے اور بہت بڑی غلطی کی ہے جو یہ ہے کہ میں نے اپنے اخباروں کو سمجھایا کہ ان کے متعلق کچھ نہ لکھو.لیکن میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی ہمارے اخباروں نے میرے کہنے پر خاموشی اختیار کی جب ہی وہ گالیوں اور بد زبانی میں بڑھ گئے اور طرح طرح کے جھوٹ اور بہتان لکھنے شروع کر دیئے.میں نے یہ غلطی کی اور بڑی غلطی کی کہ اپنے اخباروں کو ان کے متعلق لکھنے سے روکا.چونکہ انسان غلطی کرتا ہے میں نے بھی یہ غلطی کی.ایک دوست ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ میں سفر میں گیا تو ایک مسجد میں ٹھہرا.وہاں ایک شخص بیٹھا

Page 110

٨٣ انوار خلافت تھا وہ بے تحاشا مجھے گالیاں دینے لگ گیا اور میں خاموش سنتا رہا اور خیال کرتا رہا کہ میں اب کروں تو کیا کروں اور اسے کیونکر چپ کراؤں لیکن کچھ نہ سوجھتا.آخر کچھ دیر کے بعد اسی جگہ سے ایک صف میں سے ایک اور شخص نکلا اور وہ اس کو گالیاں دینے لگ گیا جب اس نے بھی گالیاں دینی شروع کیں تب جاکر وہ پہلا شخص خاموش ہوا بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دونوں دیوانے تھے اور اتفاق سے اس جگہ اکٹھے ہو گئے تھے.اسی طرح اگر ادھر سے چپ ہو جائیں تو وہ گالیوں میں بڑھے چلے جاتے ہیں اور اعتراض پر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور آگا پیچھا کچھ نہیں دیکھتے.لیکن اگر ان کے اعتراضات کا جواب دیا جائے اور ظاہر کیا جائے کہ جو اعتراضات وہ ہم پر کرتے ہیں وہ ہم پر نہیں بلکہ ان پر پڑتے ہیں تو پھر اپنے حملوں میں وہ ذرا محتاط ہو جاتے ہیں.غرض اس جھگڑے میں ہمارا روپیہ اور وقت بہت کچھ ضائع ہوا.نہ ان کے حملوں پر خاموش ہو سکتے ہیں کہ بعض کمزور طبائع لوگوں کو ابتلاء نہ آجائے اور نہ ان کا جواب دینے کو دل چاہتا ہے کیونکہ اس وقت اور اس روپیہ کو خدمت دین اسلام میں خرچ کرنے سے بہت سے نیک نتائج کے نکلنے کی امید ہوتی ہے مگر مجبورا ان لوگوں کی طرف توجہ کرنی ہی پڑتی ہے اس وقت بھی جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے کہ گو میں اور مضامین بیان کرنا چاہتا تھا.لیکن موجودہ اختلاف کی وجہ سے دو اختلافی مسائل پر بھی کچھ بیان کرنا ضروری خیال کرتا ہوں.اور پہلے انہی اختلاف کو شروع کرتا ہوں.پہلا مسئلہ یہ ہے کہ آیا حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا یا آنحضرت ا کا اور کیا سورۃ الصف کی آیت جس میں ایک رسول کی جس کا نام احمد ہو گا بشارت دی گئی ہے آنحضرت کے متعلق ہے یا حضرت مسیح موعود کے متعلق.میرا یہ عقیدہ ہے کہ اسمہ 21 احمد کی پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہیں یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے اور احمد آپ ہی ہیں لیکن اس کے خلاف کہا جاتا ہے کہ احمد نام رسول کریم یا کا ہے اور آپ کے سوا کسی اور شخص کو احمد کہنا آپ کی ہتک ہے.لیکن میں جہاں تک غور کرتا ہوں میرا یقین بڑھتا جاتا ہے اور میں ایمان رکھتا ہوں کہ احمد کا جو لفظ قرآن کریم میں آیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق ہی ہے.میں اس بات کے ثبوت میں اپنے

Page 111

۸۴ پاس خدا کے فضل سے دلائل رکھتا ہوں اور تمام دنیا کے عالموں اور فاضلوں کے سامنے بیان کرنے کے لئے تیار ہوں حتی کہ میں انعام رکھنے کے لئے بھی تیار ہوں اور اگر کوئی میرے دلائل کو غلط ثابت کر دے اور قرآن کریم سے اور احادیث صحیحہ سے یہ بات ثابت کر دے کہ احمد آنحضرت الله کا نام تھا نہ کہ صفت اور یہ کہ جو نشانات احمد کے قرآن کریم میں آتے ہیں وہ آنحضرت ا پر چسپاں ہوتے ہیں اور یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ پیشگوئی اپنے پر چسپاں فرمائی ہے تو میں ایسے شخص کو ایک مقرر تاوان جو فریقین کو منظور ہو دینے کے لئے تیار ہوں.یہ یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو احمد کہنے میں آنحضرت ا کی ہتک نہیں اور اس سے یہ مراد نہیں کہ آنحضرت ا احمد نہ تھے.آپ احمد تھے اور ضرور تھے لیکن احمد آپ کی صفت تھی نہ کہ آپ کا نام اور جو شخص یہ کہے کہ احمد" آپ کی صفت نہ تھی وہ جھوٹا ہے کیونکہ صحیح احادیث سے یہ بات ثابت ہے اور اگر آپ احمد نہ ہوتے تو حضرت مسیح موعود احمد " ہو ہی کیونکر سکتے تھے کیونکہ آپ نے جو کچھ حاصل کیا ہے آپ کی ہی شاگردی سے حاصل کیا ہے.لیکن باوجود اس کے یہ کہنا درست نہیں کہ رسول اللہ اللہ کا نام احمد تھا اور اس قول پر غیر مبائعین کا یہ شور مچانا کہ اس طرح رسول کریم ا کی ہتک ہو گئی بالکل لخلاط اور فضول ہے.رسول کریم ﷺ کی اس میں کوئی ہتک نہیں.کیا حضرت موسیٰ کو موسیٰ کہنے سے آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے یا حضرت ابراہیم کو ابراہیم کہنے میں آنحضرت ا کی ہتک ہے اگر ایسا نہیں تو حضرت مسیح موعود کو احمد کہنے میں آنحضرت ا کی کیوں ہتک ہونے لگی.کسی شخص کا پیشگوئی کا مصداق ہونا دلائل سے معلوم ہوتا ہے اور جب دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہیں تو رسول کریم کی اس میں کس وجہ سے ہتک ہوئی.یہ کہنا کہ آنحضرت اللہ کا نام احمد نہیں آپ کی ہتک نہیں ہے کیونکہ صرف نام کا بغیر نام کی صفات کے ہونا کچھ فائدہ نہیں رکھتا جب تک کسی میں اس کے نام کے مطابق اوصاف نہ پائے جاتے ہوں.نام کوئی قابل عزت بات نہیں.دیکھو بعض لوگوں کا نام عبد الرحمن اور عبدالرحیم ہوتا ہے لیکن وہ کام عبد الشیطان کے کرتے ہیں.اسی طرح بعض کا نام نیک اور شریف ہوتا ہے لیکن دراصل وہ بد اور بد وضع ہوتے ہیں تو ماں باپ کا رکھا ہوا نام کوئی عزت کی نئے نہیں ہو جاتا.اگر ہم رسول کریم کے متعلق

Page 112

العلوم جلد ۳۰ AA یہ کہیں کہ رسول اللہ میں احمد کی صفت نہیں پائی جاتی تو یہ آپ کی ہتک ہے لیکن یہ کہنا کہ آپ کا نام احمد نہیں ہرگز آپ کی ہتک کرنا نہیں کہلا سکتا بلکہ یہ ایک امر واقعہ کہلائے گا.پس جبکہ نام فضیلت کا ذریعہ نہیں ہو تا بلکہ کام فضیلت کا ذریعہ ہوتے ہیں تو پھر آپ کا نام احمد نہ ماننے میں آپ کی ہتک کس طرح ہو سکتی ہے.اگر رسول کریم ﷺ کا نام محمد بھی نہ ہو تا بلکہ کچھ اور ہوتا تو کیا اس میں آپ کی ہتک ہو جاتی اور کیا آپ کی برکات میں کمی آجاتی.آپ کا نام جو کچھ بھی ہو تا رہی بابرکت ہوتا اور اس نام پر دنیا اسی طرح فدا ہوتی جس طرح اب محمد نام پر فدا ہوتی ہے کیونکہ لوگ آپ کے نام پر فدا نہیں ہوتے بلکہ در حقیقت آپ کے کام پر خدا ہوتے ہیں.پس اگر یہ کہا جاتا ہے کہ آنحضرت ا کا نام احمد نہیں ہاں احمد کی صفات آپ میں پائی جاتی ہیں تو پھر نادان ہے وہ جو یہ کہے کہ ایسا کہنے سے آپ کی ہتک ہوتی ہے.قرآن کریم میں جو احمد کی خبر دی گئی ہے اس کے متعلق میں نے وہ آیات پڑھ دی ہیں جن میں احمد کا ذکر ہے اور اب میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بتاتا ہوں کہ ان آیات میں احمد کا اصل مصداق حضرت مسیح موعود ہی ہیں اور آنحضرت ا صرف صفت احمدیت کی وجہ سے اس کے مصداق ہیں ورنہ جس احمد نام کے انسان کے متعلق خبر ہے وہ حضرت مسیح موعود ہی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.سَبَّحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ، وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ، يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ آنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَانَهُمْ بُنْيَانُ مرصوص ٥ وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِي وَقَدْ تَعْلَمُونَ انّى رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ ، فَلَما اغوا اذا الله قُلُوبَهُمْ ، وَ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (است زَ اَزَاغَ ۲ تا ۹ ( ترجمہ ) تسبیح کرتی ہے اللہ کے لئے ہر ایک وہ چیز جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے اور وہی غالب اور حکمت والا ہے.اے مومنو! کیوں وہ بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے.یہ بات اللہ کو بڑی ہی ناپسند ہے کہ دوسروں کو وہ کچھ کہو جو تم خود نہیں کرتے.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اس کے راستہ میں اس طرح صفیں باندھ کر لڑتے ہیں کہ گویا سیسہ پلائی ہوئی عمارت ہیں اور جب کہا موسیٰ نے اپنی قوم کو کہ اے قوم کیوں مجھے ایذاء دیتے ہو اور تحقیق تم یہ بات جانتے ہو کہ میں خدا کا رسول ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں.پس جب انہوں نے کبھی کی تو خدا نے ان کے دلوں کو سچ کر دیا اور اللہ فاسقوں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا.

Page 113

رالعلوم ۸۶ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس واقعہ کے بعد حضرت عیسی علیہ السلام کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ جب عیسی بن مریم نے بنی اسرائیل کو کہا کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ کا رسول ہو کر تمہاری طرف آیا ہوں اور ان باتوں کی تصدیق کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے کی گئی ہیں تو رات سے.اور تمہیں خوشخبری دیتا ہوں اس رسول کی جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہو گا.اب یہاں سوال ہوتا ہے کہ وہ کون سا رسول ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد آیا اور اس کا نام احمد ہے.میرا اپنا دعویٰ ہے اور میں نے یہ دعوئی یونہی نہیں کر دیا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں میں بھی اسی طرح لکھا ہوا ہے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے بھی یہی فرمایا ہے کہ مرزا صاحب احمد ہیں.چنانچہ ان کے درس کے نوٹوں میں یہی چھپا ہوا ہے اور میرا ایمان ہے کہ اس آیت کے مصداق حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں ہاں پہلے پہل جب حضرت خلیفہ اول سے یہ بات میں نے سنی تو ابتداء سے قبول نہ کیا اور بہت کچھ اس کے متعلق بحثیں ہوتی رہیں لیکن جب میں نے اس پر غور کیا تو خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق میرا سینہ کھول دیا اور دلائل قاطعہ اور براہین ساطعہ عنایت فرما دیے اور میں نے اس خیال کو قبول کر لیا.ان آیات میں خدا تعالیٰ نے اول حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر فرمایا ہے کہ جب وہ اپنی قوم میں آئے اور ان کی قوم نے انہیں دکھ دیئے تو انہوں نے کہا کہ میں خدا کی طرف سے تمہارے پاس رسول ہو کر آیا ہوں مجھے قبول کر لو لیکن جب انہوں نے قبول نہ کیا اور کبھی اختیار کی تو خدا تعالٰی نے بھی ان کے دلوں کو سج کر دیا.اس ذکر کے بعد خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کے تمام انبیاء کا ذکر چھوڑ دیا ہے اور صرف حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا ہے.اس کی غرض سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد حضرت مسیح آئے تھے اسی طرح آنحضرت کے تیرہ سو سال بعد جو مثیل موسیٰ ہیں مسیح موعود آئے گا اور اسمه احمد کا جملہ اس کو صاف کر دیتا ہے کیونکہ آنحضرت کا نام احمد نہ تھا بلکہ محمد تھا.چنانچہ اس آیت زیر بحث کو چھوڑ کر جس میں رسول اللہ کو احمد کہہ کر مخاطب نہیں فرمایا بلکہ صرف حضرت مسیح کی ایک پیشگوئی بیان فرمائی ہے جو خود زیر بحث ہے کسی جگہ بھی قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کو احمد نام سے یاد نہیں کیا گیا.اگر آنحضرت ﷺ کا نام احمد ہوتا اور جیسا کہ لوگ بیان کرتے ہیں والدہ کو الہام کے

Page 114

انوار العلوم جلد ۳۰ AL ذریعہ سے یہ نام بتایا گیا ہو تا تو قرآن کریم میں جو وحی الہی ہے اول تو احمد نام ہی آتا اور اگر محمد بھی آتا تو احمد بعض مقامات پر ضرور آتا.وہ عجیب الہامی نام تھا کہ قرآن کریم اس نام سے ایک دفعہ بھی آنحضرت ا کو نہیں پکارتا.دوسری دلیل آپ کا نام احمد نہ ہونے کی یہ ہے کہ کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں کہ آپ کا نام احمد تھا.کلمہ شہادت جس پر اسلام کا دارومدار ہے اس میں بھی محمد رسول اللہ کہا جاتا ہے کبھی احمد رسول اللہ نہیں کہا جاتا حالانکہ اگر آپ کا نام احمد ہو تا تو کلمہ شہادت کی کوئی روایت تو یہ بھی ہوتی کہ اَشْهَدُ أَنَّ أَحْمَدَ رَسُولُ اللهِ پنجوقتہ اذان میں بھی یہ بانگ بلند مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کہ کر آپ کی رسالت کا اعلان کیا جاتا ہے.کبھی احمد رسول اللہ نہیں کہا جاتا.تکبیر میں بھی محمد ہی آنحضرت کا نام آتا ہے اور درود میں بھی آنحضور کو محمد نام لے کر ہی یاد کیا جاتا ہے اور اسی نام کے رسول پر خدا تعالیٰ کی رحمتیں بھیجی جاتی ہیں.رسول کریم اللہ کے خطوط کی نقلیں موجود ہیں ان سب میں آپ نے ا.دستخط کی جگہ محمد نام کی ہی مہر لگائی ہے.ایک خط میں بھی احمد اپنا نام تحریر نہیں فرمایا.پھر صحابہ کرام کی گفتگو احادیث میں مذکور ہیں لیکن ایک دفعہ بھی ثابت نہیں ہو تاکہ کسی صحابی نے آنحضرت ﷺ کو احمد کہہ کر پکارا ہو اور نہ ان کی آپس کی گفتگو میں ہی یہ نام آتا ہے نہ تاریخ سے ثابت ہے کہ آپ کا نام احمد رکھا گیا تھا.بلکہ تاریخ سے بھی یہی ثابت ہے کہ آپ کا نام محمد رکھا گیا تھا.آپ کے مخالف جس قدر تھے جن میں خود آپ کے رشتہ دار اور چچا بھی شامل تھے سب آپ کو محمد ﷺ نام سے پکارتے تھے یا شرارت سے مذ تم کہہ کر پکارتے تھے کہ وہ بھی محمد کے وزن پر ہے.غرض جس قدر بھی غور کریں اور فکر کریں آپ کا نام قرآن کریم سے احادیث سے کلمہ سے اذان سے ، تکبیر سے درود سے ، آپ کے خطوط سے معاہدات سے تاریخ سے ، صحابہ کے اقوال سے محمد ہی معلوم ہوتا ہے نہ کہ احمد.پھر اس قدر دلائل کے ہوتے ہوئے کیونکر کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا نام احمد تھا.اگر احمد بھی آپ کا نام ہو تا تو مذکورہ بالا مقامات میں محمد نام کے ساتھ آپ کا نام احمد بھی آتا اور کچھ نہیں تو ایک ہی جگہ احمد نام سے آپ کو پکارا جاتا یا کلمہ شہادت میں بجائے اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ الله کے احمد رسول الله بھی پڑھنا جائز ہو تا مگر ایسا نہیں ہے نہ یہ بات رسول کریم سے ثابت ہے اور نہ صحابہ سے..اب ان واقعات کے ہوتے ہوئے ہر ایک شخص سمجھ سکتا ہے کہ آپ کا نام احمد نہ تھا.پس اس آیت میں جس رسول احمد نام والے کی خبر دی گئی ہے وہ آنحضرت ا نہیں

Page 115

انوار العلوم جلد ۳۰ ^^ انوار خلافت ہو سکتے ہاں اگر وہ تمام نشانات جو اس احمد نام رسول کے ہیں آپ کے وقت میں پورے ہوں تب بیشک ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں احمد نام سے مراد احمدیت کی صفت کا رسول ہے کیونکہ سب نشانات جب آپ میں پورے ہو گئے تو پھر کسی اور پر اس کے چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے لیکن یہ بات بھی نہیں جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کروں گا.دوسری صورت یہ تھی کہ اِشعُه اَحْمَدُ والی پیشگوئی میں کوئی ایسا لفظ ہو تا جس کی وجہ ہم کسی غیر پر اسے چسپاں نہ کر سکتے مثلاً یہ لکھا جاتا کہ وہ خاتم النبیین ہوگا اور چونکہ خاتم النبیین صرف رسول کریم ہی ہیں اور ایک ہی شخص خاتم النبیین ہو سکتا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے تھے کہ گو بعض نشانات آپ کے وقت میں اپنے ظاہر الفاظ میں پورے نہیں ہوئے لیکن جبکہ ایک ایسی صریح علامت موجود ہے جو آپ کے سوا کسی اور میں پائی ہی نہیں جا سکتی تو ان باتوں کی کوئی اور تادیل ہوگی اور بہر حال یہ پیشگوئی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے لیکن یہ بات بھی نہیں.اس پیشگوئی میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ یہ پیشگوئی خاتم النبین کے متعلق ہے.نہ کوئی اور ایسا لفظ ہے جس کی وجہ سے ہمیں یہ پیشگوئی ضرور آنحضرت ا پر چسپاں کرنی پڑے.سوم باوجود آپ کا نام احمد نہ ہونے کے آپ پر یہ پیشگوئی چسپاں کرنے کی یہ وجہ ہو سکتی تھی کہ آپ نے خود فرما دیا ہو تا کہ اس آیت میں جس احمد کا ذکر ہے وہ میں ہی ہوں لیکن احادیث سے ایسا ثابت نہیں ہوتا نہ کچی نہ جھوٹی نہ وضعی نہ قوی نہ ضعیف نہ مرفوع نہ مرسل کسی حدیث میں بھی یہ ذکر نہیں کہ آنحضرت نے اس آیت کو اپنے اوپر چسپاں فرمایا ہو اور اس کا مصداق اپنی ذات کو قرار دیا ہو.پس جب یہ بھی بات نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہم خلاف مضمون آیت کے اس پیشگوئی کو آنحضرت ا ا پر چسپاں کریں.ایک چوتھی مجبوری بھی ہو سکتی تھی جس کی وجہ سے ہم یہ آیت رسول کریم پر چسپاں کرنے کے لئے مجبور تھے اور وہ یہ کہ انجیل میں صرف ایک ہی نبی احمد کی خبر دی گئی ہوتی.اس صورت میں واقعہ میں مشکل تھی کہ اگر اس پیشگوئی کو ہم کسی اور شخص پر چسپاں کر دیتے تو رسول کریم مسیح کے موعود نہ رہتے حالانکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ آپ حضرت مسیح ناصری کے موعود ہیں.لیکن انجیل میں ہم دو نبیوں کے آنے کی خبر پاتے ہیں.ایک وہ نبی جو تمام نبیوں کا موعود ہے اور جس کا آنا گویا خدا تعالیٰ کا آنا قرار دیا گیا ہے.اور دوسرے مسیح کی دوبارہ آمد.اور بتایا گیا ہے کہ پہلے "وہ نبی " آئے گا.پھر مسیح دوبارہ آئے گا اور ان دونوں پیشگوئیوں میں

Page 116

العلوم جلد.انوار خلافته احمد کا نام ہی موجود نہیں.پس جب کہ اِشعُهُ أَحْمَدُ والی آیت کو اگر مطابق مضمون اس آیت کے بجائے رسول کریم کے چسپاں کرنے کے آپ کے کسی خادم پر چسپاں کیا جائے تو قرآن کریم کی کسی اور آیت کی تکذیب نہیں ہوتی اور آنحضرت ا پھر بھی حضرت مسیح کے موعود رہتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ اس آیت کے مضمون کو توڑ مروڑ کر آپ پر صرف اس لئے چسپاں کیا جائے تا یہ ثابت ہو کہ آپ کے بعد کوئی اور رسول نہیں آسکتا.کیا خدا تعالیٰ کا خوف دلوں سے اٹھ گیا ہے کہ اس طرح اس کے کلام میں تحریف کی جاتی ہے اور صریح طور پر اس کے غلط معنی کر کے اس کے مفہوم کو بگاڑا جاتا ہے.جب تک حق نہ آیا تھا اس وقت تک کے لوگ مجبور تھے لیکن اب جبکہ واقعات سے ثابت ہو گیا ہے کہ احمد سے مراد آنحضرت ﷺ کا ایک خادم ہے تو پھر بھی ہٹ دھرمی سے کام لینا شیوہ مومنانہ نہیں.پھر ایک عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو یہ زور دیا انجیل میں آپ کا نام محمد آیا ہے جاتا ہے کہ رسول کریم ﷺ کا نام احمد تھا اور دوسری طرف یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ انجیل میں آنحضرت ا کا نام محمد " آیا ہے.جبکہ انجیل میں آپ کا نام محمد آیا ہے تو پھر اشعة احمد والی پیشگوئی آپ پر چسپاں کرنا گویا آپ کی و تکذیب کرنا ہے کیونکہ انجیل تو صریح محمد نام سے آپ کی خبر دیتی ہے اور اس پیشگوئی میں کسی احمد نام رسول کی خبر دی گئی ہے تو کیا صاف ثابت نہیں ہو تا کہ وہ پیشگوئی اور ہے اور یہ اور.اور کیا اس پیشگوئی کو آپ پر چسپاں کرنے والا قرآن کریم پر غلط بیانی کا الزام نہیں لگا تا کہ انجیل میں تو محمد نام لکھا تھا لیکن قرآن کریم احمد نام بتاتا ہے.ایسا شخص ذرا غور تو کرے کہ اس کی یہ حرکت اسے کس خطرناک مقام پر کھڑا کر دیتی ہے اور وہ اپنا شوق پورا کرنے کے لئے قرآن کریم اور رسول کریم کی بھی تکذیب کر دیتا ہے.جس انجیل میں آنحضرت ﷺ کو محمد کے نام سے یاد کیا گیا ہے وہ برنباس کی انجیل ہے اور نواب صدیق حسن خاں مرحوم بھوپالوی اپنی تفسیر فتح البیان کی جلد 9 صفحہ ۳۳۵ میں اِسْمةَ اَحْمَدُ والی پیشگوئی کے نیچے لکھتے ہیں کہ برنباس کی انجیل میں جو خبر دی گئی ہے اس کا ایک فقرہ یہ ہے لكِنَّ هَذِهِ الْاِمَانَةَ وَالْاِسْتِهْزَاء تَبقِيَانِ إِلى أنْ يَجِيَّ مُحَمَّدٌ رَسُولُ الله یعنی حضرت مسیح نے فرمایا کہ میری یہ اہانت اور استہزاء باقی رہیں گے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ تشریف لا ئیں.یہ حوالہ ہمارے موجودہ اختلافات سے پہلے کا ہے اور نواب صدیق حسن خان صاحب کی قلم سے نکلا ہے.پس یہ حوالہ نہایت معتبر ہے

Page 117

۹۰ انوار خلافت بہ نسبت ان حوالہ جات کے جواب ہم کو مد نظر رکھ کر گھڑے جاتے ہیں اور اس حوالہ سے ثابت ہے کہ رسول کریم ﷺ کا نام انجیل میں محمد " آیا ہے.پس جبکہ اگر کوئی نام رسول کریم ﷺ کا انجیل میں آیا بھی ہے تو وہ محمد نام ہے تو پھر اس آیت کو خلاف منشاء آیت آپ پر چسپاں کرنے کی کیا وجہ ہے اور کیا اس میں رسول کریم ال کی ہتک نہیں کی جاتی بلکہ خدا تعالیٰ پر الزام نہیں دیا جاتا کہ اول تو انجیل میں اور نام سے خبر دی گئی تھی لیکن قرآن کریم نے وہ نام ہی بدل دیا.دوم یہ کہ وہ علامتیں بتائیں جو آنحضرت ا پر چسپاں نہیں ہوتیں.ہمارے مخالف ہمارے مقابلہ پر ایک اور رنگ بھی اختیار کرتے ہیں اور وہ یہ کہ فارقلیط انجیل میں فارقلیط کی جو خبر دی گئی ہے اس سے اسمہ احمد کی پیشگوئی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ فارقلیط سے احمد نام ثابت ہوتا ہے اور جب کہ تم اسمه احمد کی پیشگوئی رسول کریم ﷺ پر چسپاں نہیں کرتے تو فارقلیط کی پیشگوئی آپ پر چسپاں نہ ہوگی.اور وہ بھی مسیح موعود پر چسپاں ہوگی.اور اگر ایسا ہو گا تو آنحضرت ﷺ کے متعلق انجیل میں کونسی پیشگوئی رہ جائے گی.سو اس کا جواب یہ ہے کہ فارقلیط کی پیشگوئی آنحضرت ا کے متعلق ہی ہے اور ہمارے نزدیک آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.لیکن ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ اگر فارقلیط کے معنی احمد نہ کئے جائیں تو یہ پیشگوئی آنحضرت ا پر چسپاں نہیں ہوتی بلکہ ہمارے نزدیک بہر حال یہ پیشگوئی آنحضرت ﷺ پر چسپاں ہوتی ہے اور جو لوگ فارقلیط کے معنی احمد کر کے اس پیشگوئی کا مصداق رسول کریم ﷺ کو بناتے ہیں تو وہ اپنا پہلو کمزور بناتے ہیں کیونکہ احمد ترجمہ لفظ پیر یکلیو طاس کا کیا جاتا ہے حالانکہ موجودہ یونانی نسخوں میں لفظ پیر نکلی اس کا ہے پس جبکہ وہ لفظ جس سے احمد کے معنی نکالے جاتے ہیں موجودہ اناجیل میں ہے ہی نہیں.اور پہلے زمانہ کے متعلق بحث ہے کہ آیا ایسا تھا یا نہیں تو ایسے لفظ پر استدلال کی بنیاد جبکہ اور شواہد اس کے ساتھ نہ ہوں نہایت کمزوربات ہے اور صرف اس قدر کہہ دینا کافی نہیں کہ چونکہ انجیل میں تحریف ہوئی ہے اس لئے اس میں یہی لفظ ہو گا جو بعض لوگوں نے خیال کیا ہے کیونکہ اس طرح تو جو شخص چاہے انجیل کی ایک آیت لے کر کہہ سکتا ہے کہ یہ یوں نہیں یوں ہے اور اس کی دلیل وہ یہ دے دے کہ چونکہ انجیلوں میں تحریف ہوئی ہے اس لئے مان لو

Page 118

انوار العلوم جلد - ۳ ۹۱ انوار خلافت کہ جو کچھ میں کہتا ہوں وہی صحیح ہے.تحریف کا ہونا اور بات ہے اور کسی خاص جگہ تحریف ہونا اور بات ہے.جب تک یہ ثابت نہ ہو کہ کس جگہ تحریف ہوئی ہے اپنے پاس سے ایک نئی بات بنا کر انجیل میں داخل نہیں کر سکتے اور نہیں کہہ سکتے کہ اصل میں یہ تھا اور ایسا کرنے کی ہم کو ضرورت نہیں کیونکہ فارقلیط عبرانی لفظ ہے اور یہ لفظ مرکب ہے فارق اور لیط سے.فارق کے معنی بھگانے والا اور لیٹ کے معنی شیطان یا جھوٹ کے ہیں اور ان معنوں کے رو سے آنحضرت ہی اس پیشگوئی کے مصداق بنتے ہیں کیونکہ آپ ہی وہ شخص ہیں جنہوں نے روحانی ہتھیاروں سے شیطان کو بھگایا اور جھوٹ کا قلع قمع کیا اور بلند آواز سے دنیا میں خدا تعالی کی طرف سے یہ منادی کی کہ وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ ، إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - ابنی اسراءیل : (۸۲) پس ہمیں کیا ضرورت ہے کہ ہم خواہ مخواہ ایک یونانی ترجمہ پر جو خود زیر بحث ہے اپنی دلیل کی بناء رکھیں.اصل لفظ فارقلیط ہے اور اس کے لحاظ سے آنحضرت ﷺ کا نام احمد ہو یا نہ ہو آپ اس پیشگوئی کے مصداق بنتے ہیں بلکہ موجودہ ترجمہ یونانی میں جو لفظ پیر کلیماس ہے اور جس کا ترجمہ مختلف محققین نے تشفی دہندہ معلم مالک یا پاک روح کے کئے ہیں اگر اس کو بھی مان لیا جائے تو ہمارا کوئی حرج نہیں کیونکہ حضرت مسیح کے بعد کون انسان دنیا کے لئے تشفی دہندہ آیا ہے یا کس ن DOWNLOAKLARGE الكتب و الحكمة : دعوی کیا ہے یا کس کو خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان سے بیعت لینے کا حکم دیا ہے جو سنت کہ اس سے پہلے کے انبیاء میں بھی معلوم نہیں ہوتی اور بیعت کے معنی بیچ دینے کے ہوتے ہیں پس وہ مالک بھی ہوا بلکہ آگے اس کے غلام بھی مالک ہو گئے.پھر وہ کون شخص ہے جو سر سے لے کر پیر تک پاک ہی پاک تھا اور جس کو اللہ تعالیٰ نے کل جہان کے لئے اسوہ حسنہ قرار دیا.ظاہر ہے کہ شخص ایک ہی تھا اور صرف اسی نے ایسا ہونے کا دعویٰ بھی کیا یعنی ہمارے آنحضرت فداہ ابی والی ہی وہ شخص تھے جن کو یہ سب باتیں حاصل تھیں اور قیامت تک کے لئے بنی نوع انسان کی طرف مبعوث ہوئے تاکہ فارقلیط کی اس شرط کو پورا کریں کہ وہ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ رہے گی.اور کون سا نبی ہے جس پر ایمان لانا اور اس کے حکموں کو مانتا قیامت تک واجب رہے گا سوائے ہمارے آنحضرت ا کے.غرض اشعه احمد کے ساتھ فارقلیط والی پیشگوئی کا کوئی تعلق نہیں اور یہ پیشگوئی بہر حال رسول کریم کے متعلق ہے خواہ اس کے معنی احمد کے مطابق ہوں یا اس کے غیر ہوں ایسا A

Page 119

انوار العلوم جلد ۳۰ ۹۲ اور اگر اس کے معنی احمد کے مطابق بھی فرض کر لئے جائیں تو کیا رسول کریم اپنی صفات میں احمد نہ تھے.کیا کوئی اس کا انکار کرتا ہے بلکہ انجیل میں فارقلیط کا نام آنا ہی دلالت کرتا ہے کہ یہاں صفت مراد ہے کیونکہ ناموں کا ترجمہ نہیں کیا جاتا ہاں صفات کا ترجمہ کیا جاتا ہے.پس اگر اس پیشگوئی میں تسلیم کیا جائے کہ آپ کی صفت احمدیت کی طرف اشارہ ہے تو یہ کیونکر معلوم ہوتا ہے کہ فارقلیط والی پیشگوئی میں اسمه احمد والی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے.ان دونوں میں کوئی تعلق دلائل سے ثابت نہیں کہ ہم ان دونوں پیشگوئیوں کو ایک ہی شخص کے حق میں سمجھنے کے لئے مجبور ہوں.شاید بعض لوگ میرے مقابلہ میں بخاری کی حدیث پیش کریں.عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ قَالَ.سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ لِى أَسْمَاءَ أَنَا مُحَمَّدُ وَ أَنَا أَحْمَدُ وَ أَنَا.الْمَاحِي الَّذِي يَمْحُو الله بن الْكُفْرَ وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَدَمَى و أنَا الْعَاقِبُ وَ الْعَاقِبُ الَّذِى لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيُّ - (مشكوة كتاب الأداب باب اسماء النبي و صفاته) نحضرت لا فرماتے ہیں کہ میرے کئی نام ہیں میرا نام محمد ہے میرا نام احمد ہے میرا نام ماحی ہے کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے کفر کو مٹائے گا.میرا نام حاشر ہے کہ لوگ میرے قدموں پر اٹھائے جائیں گے اور میرا نام عاقب ہے اور عاقب کے معنی ہیں وہ جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا.غیر مبائعین کہتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کا نام احمد تھا مگر یہ ایسی ہی بات ہے جیسا ایک آریہ کے کہ قرآن میں چونکہ خدا کی نسبت مکر کرنے والا آیا ہے اس سے ثابت ہوا کہ مسلمانوں کا خدا مکار ہے.چونکہ آریہ نہیں جانتے کہ مکر کا لفظ اگر اردو میں استعمال ہو تو برے معنی لئے جاتے ہیں اور عربی میں برے معنوں میں نہیں آتا اس لئے وہ اس کو قابل اعتراض سمجھتے ہیں.حالانکہ عربی میں مکر کے معنی ہیں تدبیر کرنا اور چونکہ قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لئے مکر کے وہی معنی کرنے چاہئیں جو عربی زبان میں مستعمل ہوتے ہیں نہ کہ اردو کے معنی.یہی بات یہاں ہے.ان لوگوں کو یہ دھوکا لگا ہے کہ اس حدیث میں لفظ اسماء کا آیا ہے.اردو میں چونکہ اسم نام کو ہی کہتے ہیں اس لئے انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ رسول کریم کے یہ سب نام ہیں حالانکہ عربی میں اسم بمعنی صفت بھی اور اسم بمعنی نام بھی آتا ہے.انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ جب اسم کے دو معنی ہیں تو ان دو معنوں میں سے یہاں کون سے لگائے جائیں.قرآن کریم میں اسم بمعنی

Page 120

۹۳ انوار خلافت صفات کے آیا ہے جیسا کہ خدا تعالی فرماتا ہے کہ الاسماء الحسنى ( الحشر : (۲۵) یعنی سب اچھے نام خدا تعالی کے ہیں لیکن یہ بات ثابت ہے کہ اسم ذات تو اللہ تعالی کا ایک ہی ہے یعنی اللہ.باقی تمام صفاتی نام ہیں نہ کہ ذاتی.پس قرآن کریم سے ثابت ہے کہ اسم بمعنی صفت بھی آتا ہے بلکہ قرآن کریم میں تو صفات الہیہ کا لفظ ہی نہیں ملتا.سب صفات کو اسماء ہی کہا گیا ہے اور جبکہ اسم بمعنی صفت بھی استعمال ہوتا ہے تو حدیث کے معنی کرنے میں ہمیں کوئی مشکل نہیں رہتی.اس میں آنحضرت ﷺ نے اپنی صفات گنوائی ہیں کہ میری اتنی صفات ہیں.میں محمد ہوں یعنی خدا نے میری تعریف کی ہے میں احمد ہوں کہ مجھ سے زیادہ خدا تعالی کی تعریف کسی اور شخص نے بیان نہیں کی.میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعہ سے خدا تعالیٰ نے کفر مٹانا ہے.میں حاشر ہوں کہ میرے ذریعہ سے ایک حشر برپا ہو گا.میں عاقب ہوں کہ میرے بعد اور کوئی شریعت لانے والا نبی نہیں.اور اگر اس حدیث کے ماتحت رسول کریم ان کا نام احمد رکھا جائے تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ آپ کا نام مامی بھی تھا اور حاشر بھی تھا اور عاقب بھی تھا.حالانکہ سب مسلمان تیرہ سو سال سے متواتر اس بات کو تسلیم کرتے چلے آئے ہیں کہ ماحی اور عاقب اور حاشر آپ کی صفات تھیں نام نہ تھے.پس جبکہ ایک ہی لفظ پانچوں ناموں کے لئے آیا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایک جگہ اس کے معنی نام لئے جائیں اور ایک دو سرے لفظ کے متعلق اسی لفظ کے معنی صفت لئے جائیں.غرض اس جگہ اسماء سے مراد نام لئے جائیں تو پانچوں نام قرار دینے پڑیں گے جو کہ بالبداہت غلط ہے.اور اگر صفت لئے جائیں تو اس حدیث سے اسی قدر ثابت ہو گا کہ آنحضرت ﷺ کی صفت احمد بھی تھی اور اس بات سے کسی کو بھی انکار نہیں بلکہ انکار کرنے والا مؤمن ہی نہیں ہو سکتا.ممکن ہے کہ کوئی شخص اس حدیث سے یہ استدلال کرے کہ رسول کریم ﷺ نے محمد و احمد کی تو تشریح نہیں کی اور دوسرے تینوں ناموں کی تشریح کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے دونوں آپ کے نام ہیں اور دوسری تین آپ کی صفات ہیں کیونکہ تبھی ان کے معنی کر دیئے.لیکن یہ استدلال بھی درست نہیں کیونکہ اول تو یہ دلیل ہی غلط ہے کہ جس کی تشریح نہ کی جائے وہ ضرور نام ہوتا ہے.بلکہ تشریح صرف اس کی کی جاتی ہے جس کی نسبت خیال ہو کہ لوگ اس کا مطلب نہیں سمجھیں گے.دوسرے ایک اور روایت اس دلیل کو بھی رد کر دیتی ہے اور وہ یہ ہے کہ ابو دور موسی اشعری روایت کرتے ہیں کہ سمًّى لَنَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَفْسَه

Page 121

۹۴ انوار خلافت أَسْمَاء مِنْهَا مَا حَفِظْنَا فَقَالَ أَنَا مُحَمَّد وَ اَحْمَدُ وَالْمُتَقَى وَالْحَاشِرُ وَنَبِيُّ الرَّحْمَةِ وَنَبِيُّ التَّوْبَةِ وَنَبِيُّ الْمُلْحَمَةِ - مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه (۳۹۵ - ۳۰۵۰) یعنی رسول کریم ﷺ نے ہمارے سامنے اپنے کئی نام بتائے جن میں سے بعض ہم کو بھول گئے اور بعض یاد رہ گئے.آپ نے فرمایا کہ میرا نام محمد ہے میرا نام احمد ہے میرا نام مقفی ہے حاشر ہے نبي الرحمہ نبی التوبہ اور نبی المسلمہ ہے.اس حدیث میں مقفی اور نبی الرحمہ اور نبی التوبہ اور نبی الملحمہ کی تشریح نہیں کی لیکن یہ سب صفات ہیں.آج تک کسی نے بھی ان کو نام تسلیم نہیں کیا اور نہ یہ نام ہو سکتے ہیں.کیونکہ آپ کے نام تو آپ کے بزرگوں نے رکھنے تھے اور عرب لوگ نبوت کے قائل ہی نہ تھے وہ آپ کا نام نبی الرحمة کیونکر رکھ سکتے تھے غرض یہ حدیث آپ ہی پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ اس میں رسول کریم کے نام نہیں بلکہ آپ کی صفات بیان کی گئی ہیں.شائد اس جگہ کوئی شخص یہ بھی سوال کر بیٹھے کہ اوپر کے بیان سے تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم اے کا نام محمد بھی نہ تھا کیونکہ محمد بھی اس حدیث میں دوسری صفات کے ساتھ آیا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس حدیث میں محمد بطور صفت ہی بیان ہوا ہے بطور نام نہیں.ہاں قرآن کریم اور دوسری احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کا نام محمد تھا اس حدیث میں سب صفات ہی بیان ہوئی ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس حدیث میں رسول کریم نے تحدیث نعمت کے طور پر فرمایا کہ میرے یہ یہ نام ہیں.اب ظاہر ہے کہ نام ہو نا تو کوئی تعریف نہیں ہوتی.کیا رسول کریم جیسا انسان صرف نام پر فخر کرے گا نعوذ باللہ من ذالک.بات یہی ہے کہ آپ نے اس جگہ اپنی صفات ہی بیان فرمائی ہیں.اور خدا تعالیٰ کا احسان بتایا ہے کہ اس نے مجھے محمد بنایا ہے احمد بنایا ہے اور دیگر صفات حسنہ سے متصف کیا ہے اور محمد بھی اس جگہ بطور صفت کے استعمال ہوا ہے نہ بطور نام کے اور اس میں آپ نے بتایا ہے کہ میرا صرف نام ہی محمد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے کاموں اور اخلاق کے لحاظ سے بھی میں محمد ہوں جس کی خدا نے تعریف کی ہے.فرشتوں نے پاکی بیان کی ہے.میں وہ ہوں جو سب سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے والا ہوں.میں وہ ہوں جو دنیا سے کفر اور ضلالت کو مٹانے والا ہوں.میں وہ ہوں جس کے قدموں پر لوگ اٹھائے جائیں گے اور میں وہ ہوں جو سب سے آخری شریعت لانے والا نبی ہوں.اگر اس حدیث میں صرف

Page 122

العلوم جلد ۳۰ ۹۵ وار خلافت اتنا ہی آتا کہ میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں تو کوئی کہہ سکتا تھا کہ یہ آپ کے نام ہیں صفات نہیں ہیں.لیکن جب انہی کے ساتھ ماحی ، حاشر اور عاقب بھی آگیا.تو معلوم ہوا کہ یہ سب آپ کی صفات ہیں نام نہیں.اس لئے غیر مبائعین کا یہ استدلال بھی غلط ہو گیا کہ آنحضرت کا احمد نام اس حدیث میں بیان کیا گیا ہے.ورنہ اگر صرف محمد نام پر نعوذ باللہ آپ نے فخر کیا تھا تو اس نام کے تو اور بہت سے انسان دنیا میں موجود ہیں.کیا وہ سب اپنے ناموں پر فخر کر سکتے ہیں اور کیا ان کا یہ فخر بجا ہو گا.اگر نہیں تو کیوں اس حدیث کے ایسے معنی کئے جاتے ہیں جن میں رسول کریم ﷺ کی بہتک ہوتی ہے اور نعوذ باللہ آپ پر الزام آتا ہے کہ آپ اپنے ناموں پر فخر کیا کرتے تھے یہ حرکت تو ایک معمولی انسان بھی نہیں کر سکتا چہ جائیکہ خدا کا نبی اور پھر تمام نبیوں کا سردار ایسی بات کرے.ہمارے مخالف ذرا اتنا تو سوچیں کہ وہ ہماری مخالفت میں رسول کریم ال پر بھی حملہ کرنے لگ گئے ہیں.حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں کہ.منم محمد و احمد که مجتبی باشد - کیا اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ کے بھی یہ سب نام تھے.احمد نام گو اختلافی ہے لیکن محمد تو آپ کا نام ہر گز نہ تھا.پھر کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ مجھ میں صفت محمدیت ہے اور یہی بات قابل فخر ہو بھی سکتی ہے.صرف نام محمد " آپ کے لئے باعث فخر کیونکر ہو سکتا تھا اور حضرت مسیح موعود کا نام محمد تو تھا بھی نہیں کہ یہاں وہ دھو کا لگ سکے.ہمارے مخالف یہ روایت بھی پیش کیا کرتے ہیں کہ آنحضرت ا کی والدہ محترمہ کو آپ کا نام احمد بتایا گیا تھا.لیکن یہ حدیث جھوٹی ہے کیونکہ اس کا را دی وہ شخص ہے جس نے کئی ہزار جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں.اور جس نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ میں نے جھوٹی حدیثیں بنائی ہیں.پھر جبکہ صحیح روایات میں یہ آتا ہے کہ آپ کی والدہ کو آپ کا نام محمد بتایا گیا تھا.چنانچہ ابن ہشام کے صفحہ ۶۲ پر لکھا ہے کہ آپ کی والدہ فرماتی ہیں مجھے خواب میں بتایا گیا کہ جب یہ بچہ پیدا ہو گا تو سَمِيْهِ مُحَمَّدًا.(ابن ہشام جلد اصفحہ ۶۲ ناشر دار ریحانی بیروت ) اس کا نام محمد رکھنا.اسی طرح دیکھو مواہب اللہ نیہ.پھر ایک ایسے جھوٹے کی حدیث پر ہم کیونکر اعتبار کر سکتے ہیں.یہ حدیث ایسے ہی لوگوں میں سے کسی نے بنالی ہے جنہوں نے اپنی عقل سے بلاسند قرآن مجید اور قول نبی کریم" کے پہلے اسمه احمد کو آنحضرت ا پر چسپاں کیا اور پھر ان کو مشکل پیش آئی کہ اس کی سند کیا ہے.پس انہوں نے ایک روایت گھڑی درنہ کیا وجہ ہے کہ ایسی بڑی بات کا ذکر صحیح احادیث میں نہیں.کیوں اس حدیث کے راوی واقدی اور اسی

Page 123

انوار العلوم جلد - r ۹۶ انوار خلافت قماش کے اور لوگ ہیں جو محدثین کے نزدیک جھوٹے یا منکر الاحادیث ہیں ہے غرض کسی طرح بھی یہ بات ثابت نہیں کہ آنحضرت کا نام احمد تھا.پس اب دو ہی صورتیں باقی رہ جاتی ہیں یا تو یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ پیشگوئی احمد نام کے کسی اور شخص کی نسبت ہے اور یا یہ مانا جائے کہ اِسم احمد سے بھی یہ مراد نہیں کہ اس کا نام احمد ہو گا بلکہ یہ کہ اس کی صفت احمد ہوگی.اور چونکہ رسول کریم ﷺ کی صفت احمد تھی اس لئے آپ پر اس کی پیشگوئی کو اس رنگ میں چسپاں کیا جائے لیکن یہ تدبیر بھی کارگر نہیں ہوتی.کیونکہ جو علامات اس احمد نام یا صفت والے کی اس صورت میں مذکور ہیں وہ رسول کریم ﷺ میں نہیں پائی جاتیں جیسا کہ ابھی بتایا جائے گا.پس اب ایک ہی صورت باقی ہے کہ یہ احمد نام یا احمد صفت والا نبی (جیسی صورت بھی ہو) آنحضرت ا کے بعد آپ کے خدام میں سے ہو گا.اور ہمارا دعوی ہے کہ حضرت مسیح موعود ہی وہ رسول ہیں جن کی خبر اس آیت میں دی گئی ہے.بعض لوگ آنحضرت ﷺ کے اسم ذات احمد ہونے پر یہ دلیل پیش کیا کرتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت مسیح نے کہا تھا کہ وہ رسول يَا تِی مِنْ بَعْدِی میرے بعد آئے گا.پس اس پیشگوئی سے کوئی ایسا ہی شخص مراد ہونا چاہئیے جو آپ کے بعد سب سے پہلے آئے اور حضرت مسیح کے بعد آنحضرت ا ہی آئے تھے نہ کہ حضرت مسیح موعود.تو آنحضرت کے بعد آئے تھے.پس آنحضرت اللہ کے سوا کوئی اور شخص احمد کیونکر ہو سکتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اس قسم کے معتر نین بوجہ عربی زبان سے ناواقفی کے اس قسم کے اعتراض کرتے ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ بعد کے معنی پیچھے کے ہیں نہ کہ فورا پیچھے کے.ایک چیز جو کسی کے پیچھے ہو خواہ دس چیزیں چھوڑ کر ہو یا فورا پیچھے ہو وہ بعد ہی کہلائے گی.عربی زبان میں تین ہی لفظ ہیں.جو وقت کا اظہار کرتے ہیں.ایک قبل یعنی پہلے دو سرافی ذ منه یعنی اس کے وقت میں تیسرے بعد یعنی پیچھے.اور یہی تین الفاظ ہر ایک زبان میں ہیں.پس دیکھنا چاہئے کہ ان تین لفظوں میں سے کون سا لفظ حضرت مسیح موعود کی نسبت استعمال ہو سکتا ہے آیا قبل کا لفظ آپ کی نسبت استعمال ہو سکتا ہے کیا آپ مسیح سے پہلے آئے تھے اگر نہیں تو پھر کیا ساتھ کا لفظ استعمال ہو سکتا ہے کیا آپ اس کے زمانہ میں تھے.اگر یہ بھی نہیں تو وہ کون سا لفظ ہے جو آپ کی نسبت استعمال ہو سکتا ہے کیا وہ صرف بعد کا لفظ نہیں ہے پس اگر بعد کا لفظ حضرت مسیح نے استعمال کیا تو اس میں کیا حرج ہوا اس کے سوا اور کون سا لفظ ہے جو وہ

Page 124

العلوم جلد ۳۰ 94 انوار خلافت استعمال کر سکتے تھے.اگر حضرت مسیح موعود حضرت مسیح ناصری سے پہلے ہوتے یا ان کے وقت میں ہوتے تب بیشک بعد کے لفظ سے آپ کے خلاف حجت ہو سکتی تھی.لیکن جبکہ وہ واقعہ میں بعد میں ہیں تو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.حضرت مسیح نے یہ فرمایا ہے کہ وہ رسول ان کے بعد ہو گا.اس سے صرف اتنا نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ آپ کی زندگی میں نہیں آئے گا بلکہ بعد وفات آئے گا.اور یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکل سکتا کہ وہ نور ابعد آئے گا.اور پھر فور أبعد تو رسول کریم بھی کہاں ہوئے.آپ تو چھ سو سال کے بعد ہوئے تھے اور اگر کہو کہ یہ شرط ہے کہ رسول ہونے کے لحاظ سے وہ فورابعد ہی ہو اور یہ صرف رسول کریم میں ہی پائی جاتی ہے تو میں کہتا ہوں کہ ہمارا حق ہے کہ ہم کہیں کہ رسول ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ احمد ہونے کے لحاظ سے فورا بعد کہا ہے یعنی جس رسول کی میں خبر دیتا ہوں یہ احمد نام کے لحاظ سے سب سے پہلا ہو گا پس جس سب سے پہلے رسول کا نام احمد ثابت ہو جائے اس کی نسبت یہ پیشگوئی تسلیم کرنی پڑے گی غرض اگر شرائط ہی بڑھانی ہوں.تو دوسرا فریق بھی حق رکھتا ہے کہ شرائط بڑھائے اور اگر لغت عرب کے مطابق فیصلہ کیا جائے تو بھی ہماری بات کو رد کرنے کی کسی مخالف کے پاس کوئی وجہ نہیں حضرت مسیح نے بعد کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اور حضرت مسیح موعود ان کے بعد ہی ہیں.نہ ان سے پہلے نہ ان کے زمانہ میں.اب میں اس بات کا ثبوت قرآن کریم سے پیش کرتا ہوں کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہی ہو سکتے ہیں نہ اور کوئی.پہلی دلیل آپ کے اس پیشگوئی کا مصداق ہونے کی یہ ہے کہ آپ کا نام احمد تھا پہلی دلیل اور آپ کا نام احمد ہونے کے مفصلہ ذیل ثبوت ہیں:..اول اس طرح کہ آپ حضرت مسیح موعود کے احمد ہونے کے متعلق پہلا ثبوت کا نام آپ کے والدین نے احمد رکھا ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ آپ کے والد صاحب نے آپ کے نام پر گاؤں بسایا ہے اس کا نام احمد آباد رکھا ہے.اگر آپ کا نام غلام احمد رکھا گیا تھا.تو چاہئے تھا کہ اس گاؤں کا نام بھی غلام احمد آباد ہو تا.اسی طرح آپ کے بھائی کے نام پر بھی ایک گاؤں بسایا گیا ہے جس کا نام قادر آباد ہے حالانکہ ان کو غلام قادر کہا جاتا تھا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا نام بھی قادر تھا.اور دونوں بھائیوں کے نام سے پہلے غلام صرف ہندوستان کی رسم و عادت کے طور پر زیادہ

Page 125

۹۸ کر دیا گیا تھا.ہندوستان میں یہ رسم چلی آتی ہے کہ لوگ مرکب نام رکھتے ہیں.حالانکہ ان مرکب ناموں کا کوئی معنی اور کوئی مطلب نہیں ہوتا.مثلاً بعض کا نام محمد احمد.محمد علی وغیرہ رکھ دیتے ہیں حالانکہ ان ناموں کے کوئی معنی نہیں محمد ایک الگ نام ہے اور احمد یا علی ایک علیحدہ نام ہے.ان دونوں کے ملانے سے کوئی جدید فائدہ حاصل نہیں ہو تا صرف نام لمبا ہو جاتا ہے اور اسی غرض کے لئے یہ الفاظ بڑھائے جاتے ہیں ورنہ ان دونوں ناموں میں سے ایک ہی نام در حقیقت اصل نام ہوتا ہے.حضرت صاحب کے خاندان میں بھی غلام کا لفظ سب ناموں کے پہلے بڑھایا جاتا تھا آپ کے والد کا نام غلام مرتضیٰ تھا.چوں کا نام غلام حیدر.غلام محی الدین تھا.اسی طرح آپ کے نام کے ساتھ غلام بڑھایا گیا.ورنہ آپ کا نام احمد ہی تھا.جیسا کہ آپ کے والد کی اپنی شہادت موجود ہے کہ انہوں نے آپ کے نام پر جو گاؤں بسایا اس کا نام احمد آباد رکھا نہ کہ غلام احمد آباد اور غلام احمد اگر مرکب نام تسلیم کرو تو یہ تو کسی زبان کا نام نہیں عربی زبان میں یہ نام " غُلَامُ أَحْمَدَ " ہونا چاہئے تھا لیکن یہ آپ کا نام نہ تھا فارسی ترکیب لو تو " غلام احمد " ہونا چاہئے تھا لیکن آپ کا نام یوں بھی نہیں.کیونکہ آپ کے نام میں میم پر جزم ہے زیر نہیں ہے.اور اگر اردو یا پنجابی ترکیب سمجھو تو احمد کا غلام" یا "احمد دا غلام" ہونا چاہئے تھا مگر اس طرح بھی نہیں.پھر یہ کون سی زبان کا نام ہے جو حضرت صاحب کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.پس کچی بات یہی ہے کہ آپ کا نام احمد تھا اور غلام صرف خاندانی علامت کے طور پر شروع میں بڑھا دیا گیا تھا.دو سرا ثبوت آپ کا نام احمد ہونے کا یہ ہے کہ آپ نے اپنے سب لڑکوں کے ناموں کے ساتھ احمد لگایا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ اپنا نام احمد ہی جانتے تھے تبھی تو علامت کے طور پر سب بیٹوں کے نام کے بعد احمد لگایا.ورنہ جبکہ احمد لگانے سے معنوں کے لحاظ سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا تھا.تو پھر احمد بڑھانے کا کیا فائدہ تھا ؟ ظاہر ہے کہ احمد حضرت صاحب کا نام تھا اور وہ خاندانی علامت کے طور پر ہر ایک لڑکے کے نام کے ساتھ بڑھا دیا گیا.تیسرا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احمد ہونے کے متعلق یہ ہے کہ تیسرا ثبوت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے جس نام پر بیعت لیتے رہے ہیں وہ احمد ہی ہے کہ آپ نے کبھی غلام احمد کہہ کر بیعت نہیں لی.چنانچہ آپ میں سے سینکڑوں آدمی ایسے دوسرا ثبوت

Page 126

والعلوم جلد - ۳ ۹۹ انوار خلافت ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور وہ شہادت دے سکتے ہیں کہ آپ یہی کہہ کر بیعت لیا کرتے تھے کہ آج میں احمد کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو تا ہوں.پس آپ لوگ بتائیں کہ آپ نے احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی یا غلام احمد کے ہاتھ پر چاروں طرف سے بڑے زور کے ساتھ آوازیں آئیں کہ ہم نے احمد کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اگر آپ کا نام غلام احمد ہو تا.تو آپ بیعت لیتے وقت یہ فرماتے کہ کہو آج میں غلام احمد کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہوں.لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا.پس ثابت ہے کہ آپ اپنا تو نام احمد ہی قرار دیتے تھے.چوتھا ثبوت آپ کے احمد ہونے کے متعلق یہ ہے کہ آپ نے اپنی کئی کتابوں کا چوتھا ثبوت کے خاتمہ پر اپنا نام صرف احمد لکھا ہے جو اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ آپ کے نام احمد ہے اگر احمد آپ کا نام نہ ہوتا تو کیوں آپ صرف احمد لکھتے.اگر آپ کا نام غلام احمد تھا تو آپ کا اصل نام غلام قرار پا سکتا ہے نہ کہ احمد.پس اگر مختصر نام آپ کبھی لکھتے غلام لکھ سکتے تھے.نہ کہ احمد.لیکن آپ نے احمد ہی اپنا نام لکھا ہے نہ کہ غلام جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا نام احمد تھا.پانچواں ثبوت یہ ہے کہ یہی غیر مبائعین جو آج ہم پر اعتراض کرتے ہیں کہ پانچواں ثبوت ہم حضرت مسیح موعود کواحمد لکھتے ہیں.وہ بار بار اپنی کتابوں میں حضرت مسیح موعود کو احمد قادیانی لکھتے رہے ہیں.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے ہی حضرت صاحب کے حالات کے متعلق ایک رسالہ لکھا تھا.اس کا نام ہی احمد رکھا تھا.اگر آپ احمد نہیں تھے تو آپ کے حالات پر جو رسالہ لکھا گیا اس کا نام احمد کیوں رکھا گیا.اسی طرح خواجہ صاحب نے اپنی تحریروں میں حضرت صاحب کو احمد لکھا ہے.غرض یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تو یہ کہتے رہے کہ آپ احمد ہیں.لیکن آج دھوکا دیتے ہیں کہ آپ احمد نہیں ہیں.حضرت صاحب کے الہامات میں کثرت سے احمد ہی آتا ہے.ہاں ایک یا دو جگہ چھٹا ثبوت غلام احمد بھی آیا ہے.اور ان مقامات کے متعلق بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہاں بطور صفت کے آیا ہے کیونکہ رسول کریم ا ہے جبکہ صفت احمدیت کے مظہر اتم تھے.تو حضرت مسیح موعود غلام لام احمد بھی ضرور تھے.پس ان چند مقامات سے یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ نام نہیں

Page 127

١٠٠ لکہ صفت آئی ہے لیکن کثرت سے احمد کر کے پکارنا صاف دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالی کے علم میں بھی آپ کا نام احمد تھا.ورنہ تعجب ہے کہ آنحضرت اللہ کا نام احمد تھا.لیکن اللہ تعالٰی نے ایک دفعہ بھی ان کو اس نام سے یاد نہ کیا.اور حضرت مسیح موعود کا نام احمد نہ تھا بلکہ غلام احمد تھا لیکن احمد کے نام سے آپ کو بار بار پکارا گیا.اور شاذ و نادر طور پر غلام احمد کے نام سے (وہ بھی جہاں تک مجھے یاد ہے غلام احمد کہہ کر آپ کو الہام میں کبھی مخاطب نہیں کیا گیا.ہاں اس قسم کے الہامات میں کہ غلام احمد کی جے) یاد کیا.اس سے یہ ثابت نہیں ہو تا کہ اللہ تعالٰی ہمیشہ نعوذ باللہ اصل نام کو ترک کر دیتا ہے اور دوسرے نام سے یا اس نام سے جس کا پیشگوئی میں ذکر نہ ہو انسان کو پکارتا ہے.چاہئے تو یہ کہ اس نام سے پکارا جائے جس کا پیشگوئی میں خاص طور پر ذکر ہو تاکہ لوگوں کو اس طرف توجہ ہو.پھر آپ کا نام احمد ہونے پر حضرت خلیفہ اول کی بھی شہادت ہے آپ اپنے ساتواں ثبوت رساله مبادی الصرف و النحو میں لکھتے ہیں کہ "محمد ال خاص نام ہمارے سید و موٹی خاتم العبتین کا ہے.مکہ خاص شہر کا نام ہے جس میں ہمارے نبی کریم کا تولد ہوا.احمد نام ہمارے اس امام کا ہے جو قادیان سے ظاہر ہوا اور حضرت خلیفہ اول تو وہ انسان تھے جن کی طہارت اور تقویٰ کے غیر مبائعین بھی قائل ہیں.پھر کیونکر ہو سکتا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ جھوٹ بولا.یا یہ کہ حضرت خلیفہ اول کو حضرت صاحب کا نام بھی معلوم نہ خود غیر مبالعین بلکہ ان کی متفقہ انجمن کا ہے.اور اس شہادت سے زیادہ آٹھواں ثبوت غیر مبائعین کے لئے اور کونسی شہادت معتبر ہو سکتی ہے ؟ جو ان کی صدر انجمن نے دی ہے وہ شہادت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے الوصیت کے صفحہ ۸ پر لکھا ہے که اور چاہئے کہ جماعت کے بزرگ جو نفس پاک رکھتے ہیں میرے نام پر میرے بعد لوگوں سے بیعت لیں" (الوصیت من - روحانی خزائن جلد عنه ۲ ص۳۶ ) اس حکم کے ماتحت انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے جو الفاظ بیعت شائع ہوئے ہیں ان کی عبارت یہ ہے: " آج میں محمد علی کے ہاتھ پر احمد کی بیعت میں داخل ہو کر اپنے تمام گناہوں سے تو بہ کرتا

Page 128

و هم چند ۳۰ H انوار خلافت ہوں" اس عبارت کو پڑھ کر ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ الوصیت کے اس حکم کی کہ میرے نام پر بیعت لیں.انجمن اشاعت اسلام نے یہ تاویل کی ہے کہ احمد کے نام پر لوگوں کی بیعت لینی شروع کی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود کا نام احمد نہیں تو میرے نام پر بیعت لینے کا حکم کس طرح پورا ہوا.اور اگر آپ کا نام احمد ہے جیسا کہ ان الفاظ بیعت سے ظاہر ہے تو پھر اس بات پر بحث کیوں ہے کہ حضرت صاحب کا نام احمد نہ تھا اور کیوں جو الزام ہم پر دیا جاتا ہے اس کے خود مرتکب ہو رہے ہیں اور کیوں غلام احمد کو احمد بنا رہے ہیں لیکن ہر ایک شخص جو تعصب سے خالی ہو کر اس امر پر غور کرے سمجھ سکتا ہے کہ در حقیقت ہمارے مخالفین کے دل بھی یہی گواہی دے رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا نام احمد تھا.اور ہم پر جو اعتراض کئے جاتے ہیں وہ صرف دکھانے کے دانت ہیں اور ان کے کھانے کے دانت اور ہیں.نواں ثبوت حضرت مسیح موعود کا نام احمد ہونے کا یہ ہے کہ خود آپ نے اس نواں ثبوت آیت کا مصداق اپنے آپ کو قرار دیا ہے.چنانچہ آپ ازالہ اوہام جلد ۲ صفحہ ۳۶۳ میں تحریر فرماتے ہیں: اور اس آنے والے کا نام جو احمد رکھا گیا ہے وہ بھی اس کے مثیل ہونے کی طرف اشارہ ہے کیونکہ محمد جلالی نام ہے اور احمد جمالی.اور احمد اور عیسی اپنے جمالی معنوں کی رو سے ایک ہی ہیں.اسی کی طرف یہ اشارہ ہے وَ مُبَشِّرًا بِرَسُولِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُةَ أَحْمَدُ مگر ہمارے نبی ا فقط احمد ہی نہیں بلکہ محمد بھی ہیں یعنی جامع جلال و جمال ہیں.لیکن آخری زمانہ میں بر طبق پیشگوئی مجرد احمد جو اپنے اندر حقیقت عیسویت رکھتا ہے بھیجا گیا." (روحانی خزائن جلد ۳ صفحه (۴۶۳) اس عبارت سے ظاہر ہے کہ آپ اس آیت کا مصداق اپنے آپ کو ہی قرار دیتے ہیں کیونکہ آپ نے اس میں دلیل کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ اگر رسول کریم ہے اس جگہ مراد ہوتے تو محمد واحمد کی پیشگوئی ہوتی.لیکن یہاں صرف احمد کی پیشگوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اور شخص ہے جو مجرد احمد ہے پس یہ حوالہ صاف طور پر ثابت کر رہا ہے کہ آپ احمد تھے بلکہ یہ کہ اس پیشگوئی کے آپ ہی مصداق ہیں اور اگر کسی دوسری جگہ پر آپ نے رسول کریم کو بھی اس آیت کا مصداق قرار دیا ہے تو اس کے یہی معنی ہیں کہ بوجہ اس

Page 129

انوار العلوم جلد ۳۰ ١٠٢ انوار خلافت کے کہ کل فیضان جو حضرت مسیح موعود کو پہنچا ہے آپ ہی سے پہنچا ہے اس لئے جو خبر آپ کی نسبت دی گئی ہے اس کے مصداق رسول کریم ا یہ بھی ضرور ہیں کیونکہ جو خوبیاں کل میں ہوں اصل میں ضرور ہونی چاہئیں.پس عکس کی خبر دینے والا ساتھ ہی اصل کی خبر بھی دیتا ہے پس اس آیت میں ضمنی طور پر رسول کریم اے کی بھی خبر دی گئی ہے اور اس بیان سے یہ واجب نہیں آتا کہ اس پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود نہ ہوں.اس کے اصل مصداق حضرت مسیح موعود ہیں اور اس لحاظ سے کہ آپ کے سب کمالات آنحضرت ا سے حاصل کئے ہوئے ہیں.رسول کریم ﷺ کی بھی پیشگوئی اس میں سے نکل آتی ہے." - حضرت مسیح موعود کے احمد ہونے کا دسواں ثبوت یہ ہے کہ انجیل میں لفظ دسواں ثبوت احمد کہیں نہیں آتا.پس کو ایک صورت تو یہ ہے کہ انجیل سے یہ لفظ تحریف کے زمانہ میں مٹ گیا لیکن ایک دوسری صورت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ احمد کا لفظ عربی زبان میں مسیح کی کسی پیشگوئی کا ترجمہ ہے.اور یہ بات ہم کو قرآن کریم سے صاف طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ مختلف زبانوں میں جو خبریں دی گئی ہیں ان کو عربی زبان کے لباس میں ہی قرآن کریم بیان کرتا ہے.پس اس اصل کو دل میں رکھ کر جب ہم انجیل کو دیکھتے ہیں تو اس میں دو رسولوں کی خبر پاتے ہیں.ایک وہ نبی" کی خبر اور ایک مسیح کی دوبارہ آمد کی خبر.جب عربی زبان پر غور کریں تو وہ نبی" کا ترجمہ عربی زبان میں احمد نہیں ہوتا نہ کسی محاورہ کا اس میں تعلق ہے لیکن دوبارہ آنے کے متعلق ہمیں ایک محاورہ عربی زبان کا معلوم ہوتا ہے اور وہ العود احمد کا محاورہ ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دوبارہ لوٹنا احمد ہوتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب انسان کسی کام کے کرنے کی طرف دوبارہ توجہ کرے تو اسے پہلے کی نسبت اچھا کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی نے اس مضمون کی طرف یہ اشارہ فرمایا ہے کہ کا نَنسَ مِنْ آيَةٍ أَوْ نَفْسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا أَوْ مِثْلَهَا ، (البقره : ۱۰۷).یعنی جب ہم کوئی تعلیم منسوخ کر دیں یا بھلوا دیں تو اس سے بہتر لاتے ہیں یا اس جیسی تو ضرور لاتے ہیں.اس آیت میں بتایا ہے کہ جب ایک تعلیم کو مٹا کر ہم دوسری لادیں تو اس میں کوئی حکمت ہی ہوتی ہے اور اس لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس سے بہتر ہم کوئی اور تعلیم لاویں.یا کم سے کم ویسی ہی ہو.پس اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دوسری دفعہ کام کرنے میں زیادہ خوبی والی شئے مد نظر ہوتی ہے.اور اسی بات کو مد نظر رکھ کر عربی زبان کا یہ محاورہ ہو گیا ہے کہ الْعَودُ أَحْمَدُ پس

Page 130

انوار العلوم جلد ۳۰ ١٠٣ انوار خلاف جب کہ دوبارہ لوٹنے کو احمد کہتے ہیں تو حضرت مسیح کے اس قول کو کہ میں دوبارہ دنیا میں آؤں گا.عربی زبان میں استعارہ یوں بھی ادا کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک رسول کی خبر دی جس کی صفت یہ ہوگی کہ وہ دوبارہ دنیا میں آیا ہوگا اور یہ معنی احادیث کی ان پیشگوئیوں کے بھی مطابق ہیں جن میں مسیح کے دوبارہ آنے کی خبر دی گئی تھی اور اس استعارہ کے استعمال کرنے میں یہ حکمت تھی کہ ایک تو اس پیشگوئی کو جو احادیث میں تھی اس طرح حل کر دیا کہ یہ ایک استعارہ ہے نہ کہ مسیح کا لوٹنا حقیقتاً مراد ہے.دوسرے اس ایک ہی لفظ میں یہ بھی بتا دیا کہ مسیح کی یہ دوسری بعثت اس کی پہلی بعثت سے بہتر اور عمدہ ہوگی.اور اس طرح ان لوگوں کا اعتراض دور کر دیا جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب مسیح سے افضل کیونکر ہو سکتے ہیں.خدا تعالٰی نے خود ان لوگوں کا جواب دیا کہ جب دوسری دفعہ ہم نے ایک شخص کو اسی نام سے بھیجا ہے تو اس کو احمد بھی بنایا ہے یعنی پہلے مسیح پر فضیلت بھی دی ہے.غرض یہ دس ثبوت ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ہی احمد تھے اور آپ ہی کی نسبت اس آیت میں خبر دی گئی تھی.اس جگہ میں ایک اور اعتراض کو بھی دور کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ شائد کوئی شخص کہے ہے کہ حضرت صاحب کا ایک شعر ہے.ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد اس شعر سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت صاحب کا نام غلام احمد تھا.اس کا جواب یہ ہے کہ اس شعر میں تو حضرت صاحب نے اپنی صفت بیان کی ہے کہ میں جو غلام احمد ہو کر مسیح سے بڑھ کر ہوں.اس سے رسول کریم ﷺ کی عظمت معلوم ہوتی ہے اور اس جگہ اپنا نام بیان نہیں فرمایا اور اگر یہاں نام ہے تو اس شعر کے کیا معنی ہوں گے کہ کرامت گرچه بے نام و نشان است بیانگر ز علمان یعنی کرامت گو اس زمانہ میں کہیں نظر نہیں آتی لیکن آتو غلامان محمد سے کرامت دیکھ لے.کیا اس شعر کے یہ معنی ہیں کہ جن کا نام غلام محمد ہو ان سے کرامت دیکھ لے ؟ اس شعر کے یہ معنی نہیں اور غلام محمد سے یہاں نام مراد نہیں بلکہ صفت مراد ہے کہ جو محمد کا غلام ہو.اسی طرح پہلے شعر میں بھی غلام احمد سے آپ کا نام مراد نہیں بلکہ آپ کی صفت مراد ہے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہم کب کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کا پورا نام غلام احمد نہ تھا ہم تو خود

Page 131

العلوم جلد ۱۰۴ کرتے ہیں کہ پورا نام آپ کا غلام احمد ہی تھا لیکن اس تمام نام میں سے اصل حصہ نام کا احمد تھا اور غلام صرف خاندانی علامت کے طور پر بڑھا دیا گیا تھا.اسی وجہ سے کہیں آپ اپنا نام غلام احمد لکھتے تھے اور کہیں احمد.اور اصل نام وہی ہوتا ہے جو نام کا چھوٹے سے چھوٹا ٹکڑا ہو اور جسے انسان الگ استعمال کرتا ہو.دوسری دلیل آپ کے اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ (الصمت دوسری دلیل فرماتا ہے.فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ - (است : ) پس جب وہ رسول کھلے کھلے نشانات کے ساتھ آگیا تو ان لوگوں نے کہا کہ یہ تو سحر مبین ہے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ جب وہ رسول آئے گا تو لوگ ان دلائل و براہین کو سن کر جو وہ دے گا کہیں گے کہ یہ تو سحر مبین ہے یعنی کھلا کھلا غریب یا جادو ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود سے یہی سلوک ہوا ہے.جب آپ نے زبردست دلائل اور فیصلہ کن براہین اپنے مخالفوں کے سامنے پیش کئے تو بہت سے لوگ چلا اٹھے کہ باتیں تو بہت دلربا ہیں لیکن ہیں جھوٹ اور بہتوں نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کی تحریر میں کچھ ایسا جادو ہوتا ہے کہ پڑھنے والے کو اپنی طرف مائل کر لیتی ہے اس لئے اس کو پڑھنا نہیں چاہئے.اور کو خواجہ صاحب نے سیالکوٹ میں لیکچر دیتے ہوئے کہا ہے کہ مرزا صاحب کو چونکہ کسی نے جادو گر نہیں کہا اس لئے وہ اس پیشگوئی کے مصداق نہیں ہیں مگر سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جنہوں نے کہا کہ مرزا صاحب کو جادو آتا ہے اور اب بھی بہت سے ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کو جادو آتا تھا.بالْبَيِّنَتِ اس جگہ شاید کوئی شخص یہ دلیل بھی دے کہ یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلَمَّا جَاءَهُمْ بالبينت قالُوا هَذَا سِحر مبین.جب وہ رسول ان کے پاس دلائل کے ساتھ آگیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ تو کھلا کھلا جادو ہے.پس یہ کوئی ایسا رسول ہے جو اس آیت کے نزول سے پہلے آ چکا تھا اور وہ آنحضرت ا ہی ہیں لیکن ایسا اعتراض وہی شخص کرے گا جو قرآن کریم کی طرز کلام سے ناواقف ہو کیونکہ قرآن کریم میں بیسیوں جگہ پر آئندہ کی بات کو ماضی کے پیرایہ میں بیان فرمایا گیا ہے.حتی کہ بعض جگہ دوزخیوں اور جنتیوں کے اقوال کو ماضی کے صیغوں میں ادا کیا گیا.ہے.پس جبکہ دوسرے دلا کل سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ رسول کسی آئندہ زمانہ میں آنے والا تھا تو صرف ماضی کے صیغوں میں اس عبارت کا ادا ہونا اس بات کا ہرگز

Page 132

انوار العلوم جلد ۳۰ ۱۰۵ انوار خلافت ثبوت نہیں کہ وہ رسول ضرور اس آیت کے نزول سے پہلے آچکا تھا.اس آیت میں یہ بیان کرنے کے بعد کہ جب وہ رسول تیسری دلیل احمد کی تعیین پر آئے گا تو لوگ اسے جادوگر یا جھوٹا یا رتال یا فریبی میں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَراى عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعَى إِلَى الإسلام ، وَ اللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ ٥ است : ۸) یعنی اور اس سے زیادہ اور (الصف کون ظالم ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرتا ہے در آنحالیکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو ظالموں کو ہدایت نہیں دیتا.اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ پر افتراء کرے وہ تو سب سے زیادہ سزا کا مستحق ہے پھر اگر یہ شخص جھوٹا ہے جیسا کہ تم بیان کرتے ہو تو اسے ہلاک ہونا چاہئے نہ کہ کامیاب.اللہ تعالیٰ تو ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کرتا تو جو شخص خدا تعالیٰ پر افتراء کر کے ظالموں سے بھی ظالم ترین چکا ہے اس کو وہ کب ہدایت دے سکتا ہے.پس اس شخص کا ترقی پانا اس بات کی علامت ہے کہ یہ شخص خدا تعالٰی کی طرف سے ہے اور جھوٹا نہیں جیسا کہ تم لوگ بیان کرتے ہو.اس آیت میں خدا تعالٰی نے اس احمد رسول کی ایسی تعیین کر دی ہے کہ ایک منصف مزاج کو اس بات کے ماننے میں کوئی شک ہی نہیں ہو سکتا کہ یہ احمد رسول کریم ال کے بعد آنے والا ہے اور نہ آپ خود وہ رسول ہیں نہ آپ سے پہلے کوئی اس نام کا رسول گذرا ہے کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالی نے ایک ایسی شرط لگا دی ہے جو نہ آنحضرت ا میں پوری ہوتی ہے نہ آپ سے پہلے کسی اور نبی میں پوری ہو سکتی ہے اور وہ شرط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "اس شخص سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے جو اللہ تعالیٰ پر افتراء کرے حالانکہ اسے اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے اور یہ شرط کہ حالانکہ اسلام کی طرف اسے بلایا جاتا ہے ایک ایسی شرط ہے جو رسول کریم میں نہیں پائی جاتی.کیونکہ اسلام کے معنی قرآن کریم سے دو معلوم ہوتے ہیں ایک تو ہر ایک بچے دین کا نام جب تک کہ وہ اپنی اصل حالت پر قائم ہو صفاتی طور پر اسلام رکھا گیا ہے چنانچہ پہلے تمام نبیوں کو بھی جو آنحضرت ﷺ سے پہلے گزرے ہیں مسلم کہا گیا ہے.دوسرے اسلام اس دین کا نام رکھا گیا ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا.پس " حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے" کے جملہ کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں ایک تو یہ کہ وہ اس وقت کے حقیقی اور سچے مذہب کی طرف بلایا جاتا ہے یا یہ کہ اسلام نامی دین کی طرف بلایا

Page 133

1.4 انوار خلافت جاتا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں باتیں رسول کریم ﷺ پر چسپاں نہیں ہو تیں کیونکہ آپ کے وقت میں سچا دین تو کوئی تھا ہی نہیں سوائے اس دین کے جس پر آپ چل رہے تھے اور کفار کے نزدیک سچے دین کا نام اسلام تھا نہیں کہ ان پر حجت قائم کرنے کے لئے یہ کہا جاتا کہ حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے.باقی رہا یہ کہ کسی دین کا نام اسلام ہو.سو یہ بات سوائے اس دین کے جو رسول کریم ﷺ لائے اور کسی دین میں نہیں پائی جاتی اور رسول کریم کالایا ہوا دین ہی وہ دین ہے جس کا نام اسلام رکھا گیا ہے.پس یہ شرط کہ اگر وہ جھوٹا ہے اور لوگ اس کو اسلام کی طرف بلاتے ہیں رسول کریم میں نہیں پائی جاتی کیونکہ لوگ آپ کو اسلام کی طرف نہیں بلاتے تھے بلکہ کوئی لات و منات کے دین کی طرف آپ کو بلاتا تھا.کوئی یسوعی مذہب کی طرف کوئی یہودی دین کی طرف کوئی زرتشتی دین کی طرف اور ایسا کوئی بھی نہ تھا جو آپ کو اسلام کی طرف بلاتا ہو بلکہ آپ لوگوں کو اسلام نام دین کی طرف بلاتے تھے پس آپ دا عِى إِلَى الْإِسْلَامِ تھے نہ کہ بد على إِلَى الْإِسْلَامِ اور دین اسلام کی طرف کوئی ایسا ہی شخص بلایا جا سکتا ہے جو ایسے وقت میں آئے کہ اس وقت دنیا میں کوئی مذہب اسلام نامی ہو.اور اس بات میں کیا شک ہے کہ ایسا شخص رسول کریم ﷺ کے بعد ہی ہو سکتا ہے کیونکہ آپ ہی اسلام نام مذہب دنیا کی طرف لائے تھے.غرض يُدعى الى الاسلام کی شرط ظاہر کر رہی ہے کہ یہ شخص رسول کریم اے کے بعد آئے گا اور اس وقت کے مسلمان اسے کہیں گے کہ میاں تو کافر کیوں بنتا ہے اپنا دعوئی چھوڑ اور اسلام سے منہ نہ موڑ.اس کے جواب میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اگر واقعہ میں یہ جھوٹا ہے اور تم سچے ہو یہ کافر ہے اور تم مسلم اور تم اس کو اسلام کی طرف بلاتے ہو اور یہ کفر کی طرف جاتا ہے اور خدا پر جھوٹ باندھتا ہے تو اس سے زیادہ ظالم کون ہو سکتا ہے اس کو تو ہلاک ہونا چاہئے کیونکہ خدا تو ظالموں کو بھی ہدایت نہیں کرتا.اور یہ اظلم ہے پس چونکہ یہ ہلاک نہیں ہو تا بلکہ ہر میدان میں ہدایت پاتا ہے اس لئے یہ جھوٹا کیونکر ہو سکتا ہے اور کیونکر ممکن ہے کہ تم اسلام پر ہو کر پھر ذلیل ہوتے ہو.غرض اس آیت میں دشمنان احمد رسول پر ایک زبر دست حجت قائم کی گئی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ کی آیت پر زور بھی بہت دیا کرتے تھے.بعض لوگ اس جگہ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ یدعی إِلَى الْإِسْلَام رسول کی نسبت نہیں بلکہ اس کے دشمنوں کی نسبت ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو سکتا

Page 134

انوار العلوم جلد ۳۰ 1.6 انوار خلافت ہے جو اللہ تعالی پر جھوٹ باندھتا ہے حالانکہ وہ اسلام کی طرف بلایا جاتا ہے.پس اس جگہ آنحضرت کے دشمنوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور اس میں کیا شک ہے کہ وہ اسلام کی طرف بلائے جاتے تھے.یہ خیال ابتداء بیشک خوش کن معلوم ہوتا ہے لیکن قرآن کریم پر ایک ادنیٰ غور کرنے سے اس کی غلطی معلوم ہو جاتی ہے اور وہ اس طرح کہ اس جگہ کسی ایسے شخص کا ذکر ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف کوئی بات منسوب کرتا ہے کیونکہ افتراء کہتے ہی اس بات کو ہیں جو جان بوجھ کر بنائی جائے اور کذب اور افتراء میں یہ فرق ہے کہ کذب اس کو بھی کہیں گے جو بات غلط ہو خواہ اس شخص نے خود نہ بنائی ہو بلکہ کسی سے سنی ہو.مثلاً ایک شخص کسی سے سن کر کہے کہ زید لاہور چلا گیا ہے اور وہ گیا نہ ہو.تو وہ کاذب ہے مفتری نہیں لیکن اگر اس نے خود اپنے دل سے یہ بات بنائی ہو تو وہ کاذب بھی ہے اور مفتری بھی ہے.پس چونکہ آیت کریمہ میں افتری عَلَى الله کا ذکر ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی ایسے شخص کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی نسبت کوئی بات کہتا ہے.یعنی مدعی ہے اور قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی منکر کی نسبت مُفتری عَلَى الله کا لفظ نہیں آیا بلکہ یہ لفظ جب استعمال ہوا ہے.مدعی کی نسبت ہی ہوا ہے چنانچہ کفار کی نسبت بھی جب یہ لفظ استعمال کیا گیا ہے تو پہلے ان کا دعوی بیان کیا ہے.غرض اِفْتَرَى عَلَى اللہ کے الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ کوئی مدعی ہے.اب ہم ان آیات کو دیکھتے ہیں تو ان میں تو کفار کا کوئی دعوئی ایسا بیان نہیں جو وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہوں بلکہ صرف ان کا انکار بیان ہے اور منکر کی نسبت مُفتَرِى عَلَى اللهِ نہیں کہتے.پس کفار اس آیت میں مراد نہیں ہو سکتے.بلکہ مدعی رسالت کا ہی اس آیت میں ذکر ہے کہ اگر وہ خدا پر اس حالت میں جھوٹ بول رہا ہے کہ اسے اسلام کی طرف بھی بلایا جاتا ہے تو ہلاک کیوں نہیں ہو جاتا.آخر میں حجت پوری کرنے کے لئے میں یہ بھی تسلیم کر لیتا ہوں کہ کفار کا جو یہ قول نقل ہے کہ انہوں نے کہا کہ یہ تو کھلا جادو ہے یہ ان کا دعوئی ہے.گو کوئی دانا اسے دعوئی نہیں کہے ہے گا بلکہ یہ انکار ہے تو بھی یہ آیت کفار پر چسپاں نہیں ہو سکتی کیونکہ اس آیت میں افتری عَلَی اللہ کا لفظ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کا دعوئی خدا تعالیٰ کی نسبت ہے اور وہ جو بات کہتا ہے اسے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے لیکن یہ کہنا کہ فلاں شخص جو بات کہتا ہے یہ فریب ہے اگر اسے دعوئی ہی مان لیا جائے تو یہ افتراء تو کہلا سکتا ہے افْتَرَى عَلَى اللهِ نہیں

Page 135

انوار العلوم ۱۰۸ انوار خلافت کہلا سکتا.کیونکہ یہ اگر جھوٹ ہے تو اس شخص پر جو سچا ہے لیکن یہ اسے جھوٹا کہتا ہے اور خدا پر یہ افتراء نہیں ہے لیکن آیت مذکورہ میں افتری عَلَی اللہ کا ذکر ہے جو اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ اس آیت میں اسی رسول کا ذکر ہے جس کی آمد کی پہلے اطلاع دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر یہ شخص جھوٹا دعویٰ رسالت کرتا ہے اور خدا پر افتراء کرتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ اسلام کے ہوتے ہوئے یہ ایسی شرارت کرتا ہے خدا تعالٰی اسے ہلاک نہیں کرتا.غرض اس آیت میں صاف طور پر بتا دیا گیا ہے کہ یہ احمد رسول رسول کریم ﷺ کے بعد آئے گا اور اس وقت کے مسلمان اسے کہیں گے کہ اسلام کی طرف آ.اور خدا تعالیٰ اپنے رسول کی زبانی ان سے کہے گا کہ اگر اسلام تمہارے پاس ہے اور تم اسے اسلام کی طرف بلاتے ہو اور یہ پھر بھی خدا پر افتراء سے باز نہیں آتا تو کیوں ہلاک نہیں ہوتا.اور جبکہ یہ ہلاک نہیں ہو تا تو معلوم ہو تا ہے کہ یہ اسلام پر ہے نہ کہ تم.آخر میں میں اس بات کی طرف بھی اشارہ کر دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ یہ اعتراض کہ قرآن کریم میں مَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا - کئی جگہ پر آیا ہے جہاں کوئی پیشگوئی نہیں درست نہیں.کیونکہ وہاں کسی جگہ بھی وَهُوَيدُ عَلَى إِلَى الْإِسْلَام کی شرط مذکور نہیں اور صرف اسی جگہ یہ شرط بیان ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ چونکہ اس جگہ عام قاعدہ نہیں بیان کیا گیا تھا بلکہ ایک پیشگوئی تھی اس لئے یہ لفظ بڑھا کر اس رسول کی ایک حد تک تعیین بھی کردی کہ وہ اسلام کے ظہور کے بعد آئے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِأَفْوَاهِهِمْ - لوگ چاہیں چوتھی دلیل ہے کہ اللہ کے نور کو اپنے مونہ کی پھونکوں سے بجھا دیں مگر اللہ اپنے نور کو پورا کر کے ہی رہے گا.اگر چہ کافر لوگ اسے ناپسند ہی کرتے ہوں.یہ آیت بھی حضرت مسیح موعود کے احمد ہونے پر ایک بہت بڑی دلیل ہے اور اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت اس پیشگوئی کے اول مصداق نہیں ہیں کیونکہ اس آیت میں بتایا ہے کہ اس رسول کے وقت لوگ اس کے سلسلہ کو مونہوں سے مٹانا چاہیں گے.رسول کریم ﷺ کے زمانہ کے حالات ہمیں بتا رہے ہیں کہ آپ کے سلسلہ کو مونہہ سے نہیں بلکہ تلوار سے مٹانے کی کوشش کی گئی اور ایسے ایسے مظالم کئے گئے کہ الامان.اور دلائل سے اسلام کا مقابلہ کرنے کی بہت ہی کم کوشش کی گئی تھی.پس اس آیت میں ضرور کسی اور زمانہ کی طرف اشارہ ہے جس میں امن و امان ہو گا اور تلوار کی بجائے زیادہ تر زبانوں سے کام لیا جائے گا اور لوگ مونہوں کی

Page 136

1.9 پھونکوں سے اس رسول کے کام کو مٹانا چاہیں گے اور چاہیں گے کہ باتیں بنا بنا کر اس کے کام کو روک دیں اور اس کی ترقی کو بند کر دیں.اور وہ زمانہ یہی ہے جبکہ اللہ تعالٰی نے ایک ایسی منصف حکومت قائم کر دی ہے کہ جس کے زیر سایہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں اور اگر کوئی شخص ظلم کرنے لگے تو یہ اس کا ہاتھ پکڑ لیتی ہے.چنانچہ اس وقت ہمارے مخالفوں کے پاس سوائے فتوؤں اور گالیوں کے کچھ نہیں.اور وہ اپنے فتوؤں سے چاہتے ہیں کہ ہمارے کام کو مٹا دیں لیکن ان کے ہاتھ میں ایسے سامان نہیں ہیں کہ جن کے ذریعہ سے زبر دستی وہ کسی کو دین سے پھیر دیں یا اسے قتل کر دیں.پس یہی زمانہ جبکہ لوگوں کے ہاتھ سے تلوار چھین لی گئی ہے اور صرف مونہہ کی لڑائی رہ گئی ہے وہ زمانہ ہو سکتا ہے جس کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے اور آنحضرت ا کا زمانہ تو وہ تھا کہ تلواروں سے مسلمانوں کو بھیڑ اور بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا.اور عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر ان کو شہید کیا گیا.پس وہ زمانہ جبکہ اصل کام تلوار کر رہی تھی اور دلائل و براہین کا استعمال مخالفین اسلام جانتے ہی نہ تھے وہ زمانہ نہیں ہو سکتا جس کی نسبت اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت لوگ اپنے مونہوں کی پھونکوں سے اسلام کو مٹانا چاہیں گے بلکہ وہ زمانہ یہی ہے کہ گو اس وقت بھی مخالفین سلسلہ جہاں تک ہو سکے احمدیوں کو دکھ دینے سے باز نہیں آتے.لیکن ان کا زیادہ زور گالیوں اور فتوؤں پر ہی ہے اور ہاتھ چلانے کی ان کو اس قدر طاقت نہیں جس قدر کہ پہلے زمانوں میں ہوا کرتی تھی.وَاللهُ مُتِمُّ نُورِ، وَلَوْ كَرِهَ الْكَفِرُونَ.اور اللہ تعالیٰ اپنے نور کو پورا کر پانچویں دلیل کے چھوڑے گا گو کہ کفار ناپسند ہی کریں.یہ آیت بھی احمد رسول کی ایک علامت ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے کیونکہ اس میں بتا دیا گیا ہے کہ احمد کا وقت اتمام نور کا وقت ہے اور گو قرآن کریم سے ہمیں یہ تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم اللہ کے ہاتھ پر شریعت کامل کر دی گئی مگر اتمام نور آپ کے وقت میں معلوم نہیں ہو تا بلکہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح موعود کے وقت میں ہو گا.اور رسول کریم نے کے وقت میں اسکی بنیاد ڈالی گئی تھی.چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے کہ وہ امت کس طرح گمراہ ہو سکتی ہے جس کے ابتداء میں میں اور آخر میں مسیح ہے (کنز العمال فی سنن الاقوال والا فعال كتاب القيامة من قسم الاقوال نزول عيسى على نبينا عليه الصلوة والسلام جلد ، صفحه ۲۰۲ مطبوعه ۱۳۱۳ھ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دشمنان اسلام کے حملوں )

Page 137

انوار العلوم جلد ۳۰ انوار خلافت سے کامل نجات اسی وقت مسلمانوں کو ملے گی جبکہ دوسری طرف مسیح موعود کی دیوار کھنچ جائے گی.پس اتمام نور مسیح موعود کے ہی وقت میں ہونا مقدر تھا.اور اس جگہ بھی اتمام نور کا ہی وقت بتایا گیا ہے.پس اس آیت میں مسیح موعود کا ہی ذکر ہے اور بات بھی یہی ہے کہ اسلام کی تائید میں جو دلائل کہ قرآن کریم اور احادیث میں دیئے گئے تھے وہ ایک مخفی خزانہ کی طرح تھے اور باوجود موجود ہونے کے لوگ ان سے غافل تھے.اب مسیح موعود نے ہی آکر ان کو کھولا ہے.اور مسلمانوں کو ایک ایسی روشنی عطا کر دی ہے کہ اب دشمن تاریکی میں ان پر حملہ آور نہیں ہو سکتا.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَ، عَلَى الدِّينِ كُلّم چھٹی دلیل یعنی وہ خدا ہی ہے کہ جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ اس کو غالب کر دے باقی سب دینوں پر.اس آیت سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صحیح موعود ہی کا ذکر ہے.کیونکہ اکثر مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مسیح موعود کے حق میں ہے کیونکہ اسی کے وقت میں اسلام کا باقی ادیان پر غلبہ مقدر ہے چنانچہ واقعات نے بھی اس بات کی شہادت دے دی ہے.کیونکہ اس زمانہ سے پہلے اشاعت دین کے ایسے سامان موجود نہ تھے جو اب ہیں.مثلا ریل ، تار دخانی جہاز ، ڈاک خانے ، مطابع ، اخبارات کی کثرت علم کی کثرت ، تجارت کی کثرت جس کی وجہ سے ہر ایک ملک کے لوگ ادھر ادھر پھرتے ہیں اور ایک شخص اپنے گھر بیٹھا ہوا چاروں طرف تبلیغ کر سکتا ہے.اور جہاں چاہے وہاں جاکر بھی اشاعت دین کا کام سر انجام دے سکتا ہے.چنانچہ ہم نے اپنے مبلغ ماریشس اور ولایت میں بھیجے ہوئے ہیں.اور دیگر ممالک میں بھی بھیجنے کا ارادہ ہے.تو یہی زمانہ ایسا ہے کہ اس میں نہایت آسانی سے سب مذاہب کا رد کیا جا سکتا ہے.آنحضرت ا کے وقت ایسے حالات نہ تھے.آپ کے وقت نہ اس طرح مذاہب سے مقابلہ ہوا.اور نہ ان مذاہب نے آپ کے وقت اس طرح سر نکالا.یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں ہی ہونا تھا اور ایسا ہی ہوا.پھر اس زمانہ میں اشاعت دین تحریر اور تقریر کے ذریعہ اس لئے بھی ضروری تھی کہ دوسرے مذاہب والوں نے آنحضرت پر اعتراض کیا تھا کہ انہوں نے تلوار کے زور سے اسلام پھیلایا.خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو رد کرنے کے لئے آپ کے ایک غلام کو کھڑا کر کے دکھلا دیا کہ جب یہ دلا کل اور براہین سے اسلام کو دیگر مذاہب پر غالب کر سکتا ہے تو اس کے آقا نے کیوں اسی

Page 138

والعلوم جلد ۳۰ انوار خلاف طرح نہ کیا ہو گا.پس یہ بات بھی حل ہو گئی کہ آنحضرت ا نے جو تلوار اٹھائی تھی وہ اس لئے اٹھائی تھی کہ آپ کے مقابلہ میں تلوار اٹھائی گئی ورنہ آپ بھی کبھی تلوار نہ اٹھاتے.غرض یہ آیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ اس رسول کے آنے کا ایسا زمانہ ہو گا جب کل مذاہب ظاہر ہو جائیں گے اور ایسے سامان پیدا ہو جائیں گے جن کے ذریعہ سے اسلام کو کل ادیان پر غالب کیا جا سکے گا اور وہ یہی زمانہ ہے اور اس لئے مسیح موعود ہی احمد ہو سکتے ہیں.اس آیت سے ایک اور طرح بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس جگہ مسیح موعود کا ذکر ہے.اور وہ یہ کہ یہ آیت قرآن کریم میں تین جگہ آئی ہے اور تینوں جگہ مسیح کا ساتھ ذکر ہے.دو جگہ تو صاف مسیح کا نام موجود ہے اور تیسری جگہ ساتھ انجیل کا ذکر ہے.پس تین جگہ اس آیت کا قرآن کریم میں آنا.اور تینوں جگہ ساتھ مسیح کا ذکر ہونا دلالت کرتا ہے کہ مسیح کے ساتھ اس آیت کا کوئی خاص تعلق ہے اور وہ یہی ہو سکتا ہے کہ اس آیت کا مضمون مسیح کی بعثت ثانیہ کے وقت پورا ہونا تھا.اور اگر اس آیت کا مسیح کے ساتھ کوئی خاص تعلق نہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ تین متفرق پر مسیح کے ذکر کے ساتھ اس آیت کو دہرایا گیا ہے ایک دفعہ سورۃ تو بہ رکوع ۵ میں.رو سری دفعہ سورۃ فتح رکوع ۴ میں.اور تیسری دفعہ اسی سورۃ صف میں.هَلْ اَدلُكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ - ) است : (1) ساتویں دلیل وہ آنے والا رسول لوگوں کو کہے گا کہ اے لوگو! تم جو دنیا کی تجارت کی طرف جھکے ہوئے ہو کیا میں تمہیں وہ تجارت بتاؤں جس کی وجہ سے تم عذاب الیم سے بچ جاؤ.یہ آیت بتاتی ہے کہ اس زمانہ میں تجارت کا بہت زور ہو گا لوگ دین کو بھلا کر دنیا کی تجارت میں لگے ہوئے ہوں گے.چنانچہ یہی وہ زمانہ ہے جس میں دنیا کی تجارت کی اس قدر کثرت ہے کہ پہلے کسی زمانہ میں نہیں ہوئی.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ان الفاظ میں بیعت لی کہ کہو میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.پس یہ آیت بھی ثابت کرتی ہے کہ ان آیات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی ذکر ہے.تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَ ایک ضمنی بات اَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْر لَكُمْ إِنْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ ) است : ١٣ الله تعالی فرماتا ہے.اے لوگو ! تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.اور اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اپنے اموال اور اپنی جانوں کے ساتھ.یہ تمہارے لئے بہت اچھی بات ہے.اگر تم جانے

Page 139

دار العلوم جلد ۳ والے ہو.انوار خلافت بہت لوگ ایسے ہیں جو چندہ دے کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم چھوٹ گئے اب ہمارے سر پر کوئی فرض نہیں.لیکن یہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مال بھی خرچ کرو اور جان بھی یعنی چندے بھی دو اور تبلیغ بھی کرو.پس احمدی جماعت کے لوگوں کو ایسا ہی کرنا چاہئے.اس آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے اگر تم مال خرچ کرو گے اور تبلیغ بھی کرو گے تو یہ تمہارے لئے بہت اچھا ہو گا.یعنی جلد جلد تم ترقی کرو گے.يَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ يُدْخِلُكُمْ جَنَّتِ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأنْهرُ وَ مَسكِنَ طَيِّبَةٌ فِى جَنْتِ عَدْنٍ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ، وَأُخرى تُحِبُّونَهَا ، نَصْرُ مِنَ اللهِ وَ فَتْحُ قَرِيبٌ ، وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ.(الصف ۱۳۹(۱۳) خدا تعالیٰ تمہارے گناہوں اور تمہاری فرو گذاشتوں کو بخش دے گا اور تم کو باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور رہنے کے لئے بڑی پاکیزہ جگہیں ہوں گی باغوں میں.یہ تمہارے لئے بہت بڑی کامیابی ہوگی.اور ایک اور بات تمہیں نصیب ہوگی جس کو تم چاہتے ہو یعنی خدا کی نصرت تمہارے لئے آئے گی اور جلدی کامیابی ہوگی.اور یہ مومنوں کے لئے بشارت ہے.) اس کے بعد فرمایا - آيَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ آٹھویں دلیل عيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ ، قَالَ الحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ فَأَمَنَتْ طَائِفَةٌ مِنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ كَفَرَتْ طَائِفَةٌ فَا يَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلى عَدُهِهِمْ فَاصْبَحُوا ظَاهِرِينَ ) است (۱۵) اے وہ لوگو! جو رسول پر ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کے دین کے لئے مدد کرنے والے بن جاؤ جیسا کہ عیسی بن مریم نے حواریوں کو کہا تھا کہ تم میں سے کون ہے جو انصار اللہ ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم سب کے سب انصار اللہ ہیں.پس ایمان لایا بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ اور ایک گروہ نے کفر کیا.پس ہم نے ان کی مدد کی جو ایمان لائے اوپر ان کے دشمنوں کے پس وہ غالب ہو گئے.اس میں یہ دلیل ہے کہ آنے والا رسول لوگوں کو کہے گا کہ انصار اللہ بن جاؤ.لیکن رسول کریم کی یہ آواز نہ تھی کہ اے لوگو انصار بن جاؤ.بلکہ آپ کے وقت میں مہاجرین و انصار دو گروہ تھے.اور مہاجرین کا گروہ انصار پر فضیلت رکھتا تھا.چنانچہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ غزوہ حنین کے بعد جب بہت سا مال غنیمت آیا اور آپ نے اسے تالیف قلب کے طور پر مکہ کے نو مسلموں میں تقسیم کر دیا تو انصار میں سے بعض نے اعتراض کیا کہ خون تو اب تک

Page 140

وم جالند ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے لیکن مال رسول اللہ نے اور لوگوں کو دے دیا اور بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ اب آپ اپنی قوم سے جاملیں گے.جب آپ نے یہ بات سنی تو انصار کو ایک جگہ جمع کیا اور فرمایا کہ اے انصار مجھے تمہاری نسبت خبر پہنچی ہے اور تم نے میری نسبت کیا برائی معلوم کی ہے.کیا تم گمراہ نہ تھے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذریعہ تم کو ہدایت دی اور کیا جب میں آیا ہوں تم غریب نہ تھے کہ خدا تعالیٰ نے تم کو مالدار کر دیا.اور کیا تم آپس میں دشمن نہ تھے کہ اللہ تعالٰی نے تم کو دوست بنا دیا.انصار نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ ! اللہ اور اس کے رسول کے فضل اور احسان سے ایسا ہی ہوا.پھر فرمایا کہ اے انصارا تم مجھے جواب کیوں نہیں دیتے انہوں نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں.فرمایا تم چاہو تو کہہ سکتے ہو اور تمہاری بات جھوٹی بھی نہ ہوگی کہ تو ہمارے پاس ایسے وقت میں آیا کہ لوگ تجھے جھٹلاتے تھے ہم نے تیری تصدیق کی.اور کوئی تیرے ساتھ نہ تھا پھر ہم نے تیری مدد کی.اور تو دھتکارا ہوا تھا ہم نے تجھے جگہ دی.اور تو غریب تھا ہم نے تیری ہمدردی کی.اے انصار ! تم نے دنیا کے مال کے لئے جس کے ذریعہ سے میں نے ایک نئی قوم کے قلوب کی تالیف کی تھی اپنے دلوں میں برا منایا.اے انصار! کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ لوگ تو بکریاں اور اونٹ اپنے گھروں کو لے جائیں اور تم اپنے گھروں کو خدا کے رسول کو لے جاؤ.مجھے اسی خدا کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں انصار میں سے ہونا پسند کرتا.اور اگر لوگ ایک وادی میں جائیں اور انصار دوسری وادی میں تو میں اس وادی میں جاؤں جس میں انصار گئے ہوں.اے خدا! انصار پر رحم کر اور ان کے بیٹوں پر اور ان کی بیٹیوں پر.اس پر انصار اس قدر روئے کہ ان کی داڑھیاں تر ہو گئیں.(بخاری کتاب المغازی باب غزوة الطائف سم..الخ ) اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ہجرت کا درجہ بلند تھا.اور قرآن کریم میں بھی ہجرت پر خاص زور ہے پس اگر رسول کریم کا زمانہ مراد ہوتا تو انصار سے پہلے ہجرت کا ذکر ہوتا اور یہ لکھا ہوتا کہ مہاجرین و انصار میں داخل ہو جاؤ.لیکن اس جگہ ہجرت کا ذکر بھی نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایسا زمانہ ہے کہ جب ہجرت فرض نہ ہوگی.اور وہ یہی زمانہ ہے.اس سورۃ سے اگلی سورۃ میں جو اس کے ساتھ ہی ہے خدا تعالیٰ فرماتا ہے.نویں دلیل الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولاً مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ابْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَ

Page 141

انوار العلوم جلد ۳۰ ووو يُعلّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ ( الجمع ٣٤ ) اور اس کے بعد فرماتا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (الجمعہ : (۴) اور وہ اس رسول کو ایک اور جماعت میں مبعوث کرے گا جو اب تک تم سے نہیں ملی.ان آیات میں آنحضرت ﷺ کی دو بعثتوں کا ذکر ہے اور چونکہ احادیث سے آپ کے بعد ایک مسیح کا ذکر ہے جس کی نسبت آپ نے یہاں تک فرمایا ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہو گا.یعنی وہ اور میں ایک ہی وجود ہوں گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسری بعثت سے مراد مسیح موعود ہی ہے.کیونکہ اسلام تاریخ کا قائل نہیں کہ یہ خیال کیا جائے کہ آپ خود ہی دوبارہ تشریف لائیں گے اس لئے آپ کی بعثت ثانیہ سے صرف یہی مراد لی جا سکتی ہے کہ کوئی شخص آپ کے رنگ میں رنگین ہو کر آئے گا.اور وہ سوائے مسیح موعود کے اور کوئی نہیں ہو سکتا جس کی نسبت فرمایا ہے کہ وہ میری قبر میں دفن ہو گا.(مشکوۃ کتاب الفتن باب نزول عیسی علیه السلام) اب ہم جب پہلی سورۃ کے ساتھ اس کو ملاتے ہیں تو اس میں بھی پہلے حضرت موسیٰ کا ذکر ہے اور پھر حضرت مسیح کا.پھر اس سورۃ میں آنحضرت ا کی دو بعثتوں کا ذکر ہے جن میں سے ایک مسیح کی بعثت کے رنگ میں ہوئی ہے.ان دونوں باتوں کو ملا کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ پہلی سورۃ میں احمد کی جو پیشگوئی ہے وہ اسی بات کو بتانے کے لئے ہے کہ جس طرح اس امت میں مثیل موسی ہوا ہے مثیل مسیح بھی احمد کے نام سے ظاہر ہو گا.چنانچہ اس بات کو صاف کرنے کے لئے سورۃ جمعہ میں رسول کریم کی دو بعثتوں کا ذکر فرما دیا.تا دانا انسان سمجھ لے کہ احمد سے مراد آپ کی بعثت ثانیہ ہے نہ کہ اول.کیونکہ اس سے پہلے موسیٰ کا واقعہ بیان ہو چکا ہے.اور آنحضرت ا حضرت موسی کے مثیل ہیں.غرض سورۃ جمعہ کو سورۃ صف کے ساتھ رکھ کر خدا نے اِسْمةَ احْمَدُ کی پیشگوئی کو اور بھی صاف کر دیا ہے.اور بات بالکل صاف ہے خواہ کوئی مانے یا نہ مانے یہ اس کا اختیار ہے.اللہ تعالی کے فضل سے تم لوگ جو مسیح موعود کے مانے والے ہو.صحابہ احمد سے ہو اور رسول کریم ﷺ کی بعثت ثانیہ پر ایمان لانے والے ہو اس وقت کوئی اور جماعت نہیں جو تمہارا مقابلہ کر سکے.اس وقت سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے صحابہ کے ہم رنگ کر دیا ہے اور یہی ایک جماعت ہے جو ہر قسم کے رکھ ، تکلیفیں اور مصیبتیں اٹھاتی ہے.لیکن پھر بھی دین خدا کے پھیلانے سے باز نہیں آتی اور نہ جھکتی ہے.اس میں کچھ شک نہیں کہ تمہیں جرات دلانے اور

Page 142

ر العلوم جلد ۳ ۱۱۵ انوار خلافت زیادہ جوش سے کام کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ تم میں یہ کمی ہے یہ نقص ہے یہ کمزوری ہے لیکن تم ہی دنیا میں ایک ایسی جماعت ہو جس کا کوئی نمونہ نہیں اور تمہیں وہ ہو جو صحابہ کا پورا پورا نمونہ ہو.اب کوئی اندھا ہی ہو گا جو یہ کہے کہ تم صحابہ کے رنگ میں رنگین نہیں ہو.گو اس وقت دنیا کی نظروں میں تم غریب اور کمزور ہو مگر خدا کی نظر میں تم بہت طاقتور ہو.دنیا کی نظروں میں ذلیل ہو لیکن خدا کے حضور تمہارا بہت بڑا درجہ ہے اور بہت عزت رکھتے ہو.اس لئے وہ دن آ رہے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ تمہیں دنیا کی نظروں میں بھی کامیاب اور با مراد کر دے گا اور دنیا اپنی آنکھوں سے تم میں جماعت احمد کی پیشگوئی پوری ہوتی دیکھ لے گی.

Page 143

ر العلوم جلد ۳۰ بسم الله الرحمن الرحیم 114 نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم انوار خلافت بقیہ تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (جو ۲۷ دسمبر ۱۹۱۵ء کو سالانہ جلسه پر بعد از نماز ظهر و عصر فرمائی) بار وانَ له أشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُول امَّا بَعْدُ قَاعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِO KNOWLKNG AT ALL الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ، مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ وَإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ( اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ٥ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ میں نے ظہر کی نماز سے پہلے اسمه احمد پر کچھ بیان کیا تھا.اب مسئلہ نبوت پر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.اس کے بعد انشاء اللہ جماعت کی عملی حالت کی درستی کے متعلق کچھ بیان کروں گا.مسئلہ نبوت مجھے مسئلہ نبوت کے متعلق ہمیشہ ہی سے تعجب آیا کرتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا شک کرنے کی کیا وجہ ہے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ باوجود ایک صاف مسئلہ ہونے کے اس کے متعلق عجیب عجیب اعتراض کئے جاتے ہیں.اور اپنی تائید میں عجیب عجیب دلیلیں پیش کی جاتی ہیں جن سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ آنحضرت ا کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا یا یہ کہ مرزا صاحب نبی نہیں تھے.مثلاً ان عجیب و غریب دلیلوں میں سے ایک یہ بھی پیش کی جاتی ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو مرکب نام والا کوئی نبی نہیں ہو سکتا چنانچہ پیسہ اخبار میں

Page 144

انوار العلوم جلد - 114 انوار خلافت کسی نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ یہ ایک ایسی دلیل ہے جس سے مرزا صاحب کی نبوت بالکل باطل ہو جاتی ہے.وہ لکھتا ہے : " خدا تعالی کی طرف سے جس قدر انبیاء دنیا میں آئے ہیں اور انہوں نے مبعوث ہو کر لوگوں کو توحید کا قائل کیا.منجملہ ان کے ایک بھی ایسا نبی و رسول نہ آیا.جس کا اسم مبارک دو لفظوں سے مل کر بنا ہو.بلکہ ہر نبی در سول منصوص من اللہ کا اسم مبارک نقطہ واحد سے مشتق ہو تا چلا آیا ہے" (روزنامه چیه اخبار مؤرخه ۲۸.نومبر ۱۹۱۵ء) یہ اور اسی قسم کی اور دلیلیں بھی دی جاتی ہیں جن کو پڑھ کر تعجب ہی آتا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کل کوئی شخص ایک ایسے نبی کو جسے وہ مانتا ہے خواب میں دیکھ لے کہ اتنی لمبی اس کی داڑھی ہے اتنا قد ہے اس طرح کی شکل ہے تو لکھ دے کہ نبی وہی ہو سکتا ہے.جس کی اس قسم کی داڑھی ہو اتنا بڑا قد ہو اگر ایسا نہ ہو تو نبی نہیں ہو سکتا.پچھلے نبیوں کی نبوت کے متعلق ان کے نام کا مفرد ہوتا دلیل ہی کس طرح ہو سکتی ہے ؟ اور کس کو معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ کے ان تمام نبیوں کے نام جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ا تک ہوئے ہیں مفرد تھے ؟ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ مجھے تمام انبیاء کے نام معلوم ہیں تو وہ جھوٹا ہے اور جھوٹا دعوئی کرتا ہے.کیونکہ جب خدا تعالی آنحضرت ﷺ کو فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ ارُ سَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ مِنْهُمْ مَنْ قَصَصْنَا عَلَيْكَ وَ مِنْهُمْ مِّنْ لَّمْ نَقْصُصْ عَلَيْكَ (المؤمن : (۷۹) اور ضرور ہم نے تجھ سے پہلے رسولوں کو بھیجا ہے ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کا ذکر ہم نے تجھے پر کر دیا ہے.اور ان میں سے کچھ ایسے ہیں جن کا تجھ سے ذکر نہیں کیا یعنی خدا تعالیٰ نے آنحضرت کو بھی بعض انبیاء کے نام نہیں بتائے تو اب اور کون ہے جس کو تمام انبیاء کے نام معلوم ہوں.اور اگر کسی کو دعوئی ہے تو کم سے کم ان ایک لاکھ چو بیس ہزار نبیوں کے نام ہی ہم کو بتائے جن کا ذکر حدیث میں آتا ہے.(مسند احمد بن مقبل جلد ۵ صفحه ۲۶۶) غرض اول تو یہ دعوئی ہی غلط ہے کہ تمام انبیاء کے نام مفرد تھے.اور اگر بفرض محال درست بھی ہو تو یہ کوئی ثبوت نہیں کیونکہ اس بات کا ثبوت نہ قرآن کریم سے ملتا ہے نہ احادیث سے نہ پہلے صحفِ انبیاء سے اور ایک عظمند انسان تو نبی کی یہ علامت سن کر حیران ہو جائے گا کہ نبی وہی ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو.گویا نبوت کا سب دارد مدار نام پر ہے نہ کہ کام پر.لیکن اگر اس دعوئی کو قبول کر لیا جائے کہ نبی وہی ہوتا ہے جس کا نام مفرد ہو تو اس کا یہ

Page 145

لوم جلد ۳۰ HA نتیجہ ہو گا کہ قرآن میں مذکور انبیاء میں سے بھی بعض انبیاء کی نبوت کا انکار کرنا پڑے گا.کون نہیں جانتا کہ ہمارے رسول کریم ان کے جد امجد حضرت اسماعیل تھے.اور آپ کا یہ نام مرکب ہے.عربی والوں نے اس کے دو حصے کئے ہیں.ایک سمع.اور دوسرا ایل اور عبرانی والے بھی اس نام کے دو ہی حصے کرتے ہیں.ایک يسمع اور دوسرا ایل.تو معلوم ہوا کہ عبرانی کے لحاظ سے یسمع اور ایل.اور عربی کے لحاظ سے سمع اور ایل دو لفظوں سے یہ.نام مرکب ہے.سمع کے معنی ہیں سن لیا.اور ایل کے معنی ہیں خدا.ایل در حقیقت عربی زبان کے لفظ آئل سے نکلا ہے جس کے معنی ہیں قدرت رکھنے والا کوٹنے والا.تو چونکہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر رحم اور کرم کی وجہ سے لوقا یعنی متوجہ ہوتا ہے اس لئے اس کا یہ نام ہو گیا.جس طرح عربی میں خدا تعالیٰ کا ایک نام تو آب ہے.اور اسی وجہ سے ہے کہ خدا اپنے بندوں کی طرف فضل کے ساتھ لوٹتا ہے.تو سمع ایل کے معنی ہیں خدا نے سنا.اس سے بگڑ کر اسماعیل بن گیا.اور بائبل میں اس نام کے رکھے جانے کی یہی وجہ لکھی ہے.چنانچہ وہاں لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم کی چھوٹی بیوی ہاجرہ ان کی بڑی بیوی سارہ کے تنگ کرنے سے گھر سے نکلی تو خداوند کے فرشتے نے اسے میدان میں پانی کے ایک چشمے کے پاس پایا.یعنی اس چشمے کے پاس جو صور کی راہ پر ہے.اور اس نے کہا کہ اے سری کی لونڈی ہاجرہ اتو کہاں سے آئی اور کدھر جاتی ہے.وہ بولی کہ میں اپنی بی بی سری کے سامنے سے بھاگی ہوں اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا.کہ تو اپنی بی بی کے پاس پھر جا اور اس کے تابع رہ.پھر خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ میں تیری اولاد کو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گنی نہ جائے.اور خداوند کے فرشتے نے اسے کہا کہ تو حاملہ ہے.اور ایک بیٹا بنے گی.اس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خداوند نے تیرا دکھ سن لیا ( پیدائش باب ۱۶ آیت ۷ تا لا اب یہ دلیل پیش کرنے والا بتائے کہ خدا اور سن لی دو الگ الگ لفظ ہیں یا نہیں.اور یہ بھی بتائے کہ یہ نام مرکب ہوا یا مفرد.پس اگر حضرت اسمعیل باوجود مرکب نام رکھنے کے نبی ہو سکتے ہیں.تو کیا وجہ ہے کہ حضرت مرزا صاحب مرکب نام کی وجہ سے نبی نہیں بن سکتے.لیکن وہ نادان جو نہ عربی جانتا ہے عبرانی.وہ کہتا ہے کہ کسی نبی کا مرکب نام نہیں ہے.اور جب نبی کا مرکب نام نہیں تو مرزا صاحب جن کا نام مرکب ہے نبی نہیں ہو سکتے.پھر ابھی مفتی محمد صادق صاحب نے ایک رقعہ لکھ کر دیا ہے کہ حضرت ابراہیم کا نام ابی اور ه مطبوع 1904ء

Page 146

م جلد ۳۰ 119 انوار خلافت رہام سے مرکب ہے اور اسکے معنی ہیں بلندی کا باپ.اور حضرت موسیٰ کا نام مو اور شی سے مرکب ہے.مو (عربی ماء بگڑی ہوئی عربی مویہ) کہتے ہیں پانی کو.اور شی ( عربی شی ) بمعنی چیز.یعنی پانی کی چیز ہے.چونکہ حضرت موسیٰ کو پانی میں ڈالا گیا تھا.اس لئے آپ کا یہ نام ہوا.پھر یسوع بھی مرکب نام ہے.غرض بہت سے نبیوں کے نام مرکب ہیں.لیکن وہ نادان بوجہ عربی اور عبرانی کا علم نہ رکھنے کے اس بات کو نہیں سمجھا.اس لئے کہتا ہے کہ تمام نبیوں کے نام مفرد ہیں.پھر قرآن کریم پر غور کرنے سے ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ اس میں نبیوں کے مخالفوں کے نام بھی مفرد آئے ہیں (کیونکہ ابو لہب صفت ہے نہ کہ نام ) اب اگر کوئی یہ کہہ دے کہ دنیا میں جس کا نام مرکب ہو وہ شریر نہیں ہو سکتا تو یہ جہالت نہیں تو اور کیا ہے.لیکن کیا کیا جائے.حدیث میں آیا ہے کہ امت محمدیہ پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اس کے اندر سے علم اٹھ جائے گا اور جاہل لوگ عالم کہلائیں گے جو لوگوں کو اپنی بے علمی کی وجہ سے گمراہ کریں گے.پس چونکہ مسلمانوں پر یہ زمانہ آگیا ہے اور وہ علم و جہالت میں فرق نہیں کر سکتے.اس لئے اس قسم کی باتیں کرتے ہیں جو ان کو مخالفین اسلام کی نظروں میں ذلیل کرنے والی ہوں اور صداقت کے ایسے معیار بناتے ہیں جنہیں کوئی رانا انسان قبول نہیں کر سکتا.اور جو خدا تعالیٰ کی سنت سے ناواقفیت کا نتیجہ ہیں.کیا ایک مسیحی اس معیار کو سن کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ چونکہ رسول کریم ﷺ سے پہلے جس قدر نبی گزرے ہیں کسی کا نام محمد و زن پر نہیں ہوا.اس لئے آپ نبی نہیں ہیں اور کیا ایسا دعویٰ کرنے والا مجنون نہیں کہلائے گا.پھر حضرت مسیح موعود کی نبوت پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ نبی وہ ہوتا ہے جس کے نام کا پہلے کوئی آدمی نہ گزرا ہو.چونکہ آپ کا نام غلام احمد تھا.اور اس نام کے آپ سے پہلے بہت سے لوگ ہو گزرے ہیں.اس لئے آپ نبی نہیں ہو سکتے.گویا ان لوگوں کے نزدیک چونکہ آنحضرت ا سے پہلے کوئی شخص آپ کا ہم نام نہیں گزرا.اس لئے آپ نبی ہیں اور اگر غلط ثابت ہو جائے تو پھر آپ نبی نہیں.(نعوذ باللہ ) اسی طرح حضرت مسیح سے پہلے چونکہ یسوع نام کا جو آپ کا نام تھا کوئی شخص نہیں گزرا اس لئے آپ نبی ہیں.اور اگر یہ غلط ثابت ہو جائے تو پھر آپ نبی نہیں.اس بات کا اگر ان سے ثبوت پوچھیں کہ تم نے یہ دلیل کہاں سے لی ہے تو کہتے ہیں کہ قرآن شریف میں جو حضرت یحی کی نسبت لکھا ہے کہ لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيّاً - مریم : ( اول تو جو معنی کر کے وہ استدلال کرتے ہیں وہ معنی ہی ہمارے نزدیک

Page 147

علوم جلد ۳ انوار خلافت قابل تسلیم نہیں لیکن اگر انہی کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جو بات کسی نبی کی نسبت قرآن کریم میں مذکور ہو وہ نبوت کی شرط ہوتی ہے اور اگر یہ تسلیم کیا گیا تو نہایت مشکل پیش آئے گی.کیونکہ ایسی باتیں نکلیں گی جو قرآن کریم میں بعض انبیاء کے متعلق بیان ہیں اور دوسروں کی نسبت بیان نہیں اور نہ ان میں وہ پائی جاتی تھیں تو اس سے ثابت ہو گا کہ وہ نبی ہی نہ تھے مثلاً حضرت داؤد کی نسبت آتا ہے ان کو ہم نے زرہ بنائی سکھائی تھی.تو زرہ بنانی بھی شرائط نبوت میں داخل کرنی پڑے گی.اور چونکہ ہمارے نبی کریم یہ فن نہ جانتے تھے اس لئے آپ کی نبوت گو یا باطل ہو گئی.نعوذ باللہ من ذالک.پس یہ اصل ہی باطل ہے کہ جو بات ایک نبی کے متعلق بیان ہو وہ سب نبیوں میں پائی جانی چاہئے اور وہ شرائط نبوت میں سے ہونی چاہئے.لیکن ہم اس باطل کو بھی تسلیم کر لیتے ہیں اور فی الحال مان لیتے ہیں کہ نبی وہی ہے جس کے نام کا پہلے کوئی اور شخص نہ گذرا ہو.اور ثابت کرتے ہیں کہ قرآن کریم میں جن نبیوں کا ذکر آتا ہے ان کے نام کے آدمی پہلے بھی گذرے ہیں چنانچہ ذکر یا ایک نبی ہیں اور قرآن شریف نے ان کو نبی قرار دیا ہے لیکن ان سے چار سو سال پہلے ایک نبی ہوئے ہیں ان کا نام بھی زکریا تھا.اور ان کی کتاب اب تک بائبل میں موجود ہے.پھر اسی طرح حضرت یحی" کے نام کے پہلے پانچ آدمی گزر چکے تھے جن کا ذکر بائبل میں موجود ہے جن میں سے ایک حضرت داؤد سے بھی پہلے ہوئے ہیں.اب کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ پھر اس آیت کے کیا معنی ہوئے.میں کہتا ہوں لوگوں نے اس کے معنی غلط سمجھے ہیں.اس کے معنی یہ ہیں کہ بشارت کے طور پر ان سے پہلے کسی کا یہ نام نہیں رکھا گیا.لیکن مشکل رہی ہے کہ اس زمانہ میں جمال علماء بن گئے ہیں اور حقیقی علم ان سے چھین لیا گیا ہے اس لئے اس قسم کی باتیں مونہہ پر لاتے ہیں.، پھر اس معیار کے ماتحت تو حضرت مسیح کی نبوت بھی ثابت نہیں ہوتی.کیونکہ ان کا نام یسوع ہے اور اس نام کا ایک اور شخص بھی تھا جس کو یسوع بن سائرس کہتے ہیں.اس کی کتاب بھی اپو کر فاس میں موجود ہے.(یعنی بائبل کا وہ حصہ جسے بعض لوگ بائبل میں شامل سمجھتے ہیں.اور بعض نہیں اور وہ الگ چھپا ہوا ہے اور جو لوگ اسے بائبل کا حصہ مانتے ہیں ان کی چھاپی ہوئی بائبلوں میں موجود بھی ہے) تو اب کیا حضرت مسیح سے پہلے یسوع نام کا ایک اور شخص ثابت ہو جانے سے آپ کی نبوت باطل ہو گئی.پھر بڑے تعجب اور حیرانی کی بات یہ ہے کہ وہ

Page 148

انوار العلوم جلد - ١٢١ انوار خلافت نبی جو خاتم النبین ہے اور جو تمام نبیوں کا سردار ہے.اس کی نبوت بھی اس دلیل کے مطابق (نعوذ باللہ ) باطل ٹھرتی ہے.کیونکہ آپ سے پہلے پانچ شخص ایسے گزرے ہیں جن کا نام محمد تھا.چنانچہ آپ سے پہلے بنو سواءۃ میں محمد اجسمی گزرا ہے.اور ایک محمد اس ابرہہ کے دربار میں تھا جس نے مکہ پر حملہ کیا تھا.اور یہ حملہ رسول کریم ان کی پیدائش سے ایک سال پہلے ہوا.اس کی نسبت جاہلیت کا ایک شعر بھی ہے ، فَذَ الكُمْ ذُوالتَّاجِ مِنَا مُحَمَّدٌ - وَرَأَيْتُهُ فِي حَومَةِ المَوتِ تَخْفَق تیسرا شخص اس نام کا بنو تمیم میں گزرا ہے اور یہ شخص پادری تھا.چوتھا محمد الاسیدی تھا.پانچواں محمد الفتیمی.پس اگر یہی دلیل حضرت مسیح موعود کی نبوت کو باطل کرنے والی ہے تو حضرت یحی ، حضرت ذکریا ، حضرت مسیح اور آنحضرت ﷺ کی نبوت بھی ثابت نہیں ہوتی.کیسے تعجب کی بات ہے کہ ہمارے مخالفین ہماری مخالفت میں ان ہتھیاروں پر اتر آئے ہیں کہ جن سے پہلے نبیوں کی نبوت بھی باطل ہو جاتی ہے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کفار کی نسبت فرماتا ہے کہ یہ ہمارے رسول (محمد ال ) پر ایسے اعتراض کرتے ہیں جو ان کی کے نبیوں پر بھی پڑتے ہیں جن کو یہ مانتے ہیں یعنی یہ کہتے ہیں کہ آسمان پر چڑھ جا.اور ہمارے لئے کتاب لا.وغیرہ وغیرہ.تو جیسے اعتراضات وہ لوگ آنحضرت ا پر کیا کرتے تھے ایسے ہی اعتراضات یہ لوگ آج حضرت مسیح موعود پر کرتے ہیں جن کو اگر سچا مان لیا جائے تو سب نبیوں کی نبوت باطل ہو جاتی ہے.پھر ایک یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ مرزا صاحب ایک اور اعتراض اور اس کا جواب نے اپنے کئی نام رکھے ہیں.حالانکہ کسی اور نبی نے اپنے کئی نام نہیں رکھے اس لئے یہ نبی نہیں ہو سکتے.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ آنحضرت ا فرماتے ہیں کہ إِنَّ لِنْ أَسْمَاء أَنَا مُحَمَّدٌ وَ أَنَا أَحْمَدُ وَأَنَا الْمَاحِى الَّذِي يَمْحُو اللهُ بِيَ الْكَفْرَ وَانَا الْحَاشِرَ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلى قَد فَى وَأَنَا الْعَاقِبُ وَ الْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ بِى - (مشكوة كتاب الاداب باب اسماء النبي وصفاته ) یعنی آنحضرت فرماتے ہیں کہ میرے پانچ نام ہیں.پس اگر حضرت مسیح موعود کے بھی خدا تعالٰی نے کئی نام رکھ دیئے اور آپ کو مہدی اور کرشن بنا دیا.تو اس سے آپ کی نبوت کس طرح باطل ہو گئی.آپ نے اپنے آقا سے تو ایک نام کم ہی پایا ہے.پس آنحضرت ﷺ کی نبوت پانچ نام رکھنے کے باوجود ثابت ہو سکتی ہے.تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ کی نبوت چار نام رکھنے کی وجہ

Page 149

انوار العلوم جلد - ۳ انوار خلافت سے ثابت نہیں ہو سکتی.وہ لوگ جو یہ اعتراض کرتے ہیں سوچیں اور بتائیں کہ حضرت مسیح موعود کی نبوت کیوں ثابت نہیں ہو سکتی.پھر یہ کہا جاتا ہے کہ نبی کے لئے شرط ہے کہ وہ نبی کے لئے شریعت لانا شرط نہیں کتاب یعنی شریعت لائے.لیکن حضرت مسیح موعود چونکہ کوئی کتاب نہیں لائے.اس لئے نبی نہیں ہو سکتے.یہ اعتراض جن کی طرف سے کیا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو احمدی کہتے اور حضرت مسیح موعود کے شیدائی کہلاتے ہیں لیکن اتنا نہیں جانتے کہ حضرت مسیح موعود اس کے متعلق خود لکھ گئے ہیں کہ ”نبی کے حقیقی معنوں پر غور نہیں کی گئی.نبی کے معنی صرف یہ ہیں کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا ہو اور شرف مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ سے مشرف ہو.شریعت کا لانا اس کے لئے ضروری نہیں اور نہ یہ ضروری ہے کہ صاحب شریعت رسول کا متبع نہ ہو " ( براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحه ۱۳۸ روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه پھر آپ لکھتے ہیں کہ ”نبی کے لئے شارع ہونا شرط نہیں ہے.یہ صرف موہبت ہے جس کے ذریعہ سے امور غیبیہ کھلتے ہیں ایک غلطی کا ازالہ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۲۱۰) اسی طرح آپ فرماتے ہیں ” بعد توریت کے صدہا ایسے نبی بنی اسرائیل میں سے آئے کہ کوئی نئی کتاب انکے ساتھ نہیں تھی.بلکہ ان انبیاء کے ظہور کے مطالب یہ ہوتے تھے کہ تا ان کے موجودہ زمانہ میں جو لوگ تعلیم توریت سے دور پڑ گئے ہوں.پھر ان کو توریت کے اصلی منشاء کی طرف کھینچیں.(شہادۃ القرآن صفحه ۴ ۴ روحانی خزائن جلد ۶ صفحه ۳۴۰) پھر آپ لکھتے ہیں ”بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے ہیں.جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی.صرف خدا کی طرف سے پیشگوئیاں کرتے تھے " ( بدر ۵ - مارچ ۱۹۱۵ء) اب یہ لوگ کہتے ہیں کہ کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں ہوا جو شریعت نہ لایا ہو.لیکن حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ کئی نبی ایسے ہوئے ہیں.ہم کہتے ہیں جب بنی اسرائیل میں ایسے نبی آ چکے ہیں جو کوئی کتاب نہیں لائے تو پھر یہ مطالبہ حضرت مرزا صاحب کے لئے کیوں پیش کیا جاتا ہے.لیکن افسوس تو یہ ہے کہ یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمارا ادار کہاں پڑتا ہے.کیسا نادان ہے وہ شخص جو کسی کو تیر مارے اور سامنے اس کا اپنا باپ کھڑا ہو مگر وہ یہ خیال نہ کرے کہ اگر میں نے تیر مارا تو تیر پہلے میرے باپ کو چھیدے گا اور پھر کہیں اس تک پہنچے گا.

Page 150

انوار العلوم جلد ۳۰ ١٢٣ انوار خلافت یہ لوگ بھی ایسے ہی ہیں یہ نہیں جانتے کہ ہمارا حملہ حضرت مسیح موعود پر نہیں ہے بلکہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسی ، حضرت عیسی اور آنحضرت پر پڑتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ایسی باتیں پیش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے بار بار لکھا ہے کہ کئی نبی ایسے ہوئے ہیں جو کوئی کتاب نہیں لائے.لیکن ہم سے یہی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ مرزا صاحب کی کتاب بتاؤ ورنہ وہ نبی نہیں ہو سکتے.انہوں نے سمجھا ہی نہیں کہ خدا تعالیٰ کی کوئی کتاب دنیا میں کیوں آتی ہے.کتاب تو اس وقت آتی ہے جبکہ پہلی شریعت کے احکام مٹ چکے ہوں یا ایسے مسخ ہو چکے ہوں کہ ان کا معلوم کرنا مشکل ہو گیا ہو.لیکن جب پہلی شریعت موجود ہو اور اس کے احکام میں بھی کوئی نقص نہ واقعہ ہو گیا ہو تو پھر کسی اور کتاب کے آنے کی ضرورت نہیں ہوتی.نبوت خدا تعالٰی کا ایک فضل ہوتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ نبی وہی ہو جس کو شریعت بھی دی جائے...جس طرح دنیا کے بادشاہوں نے اپنے وزراء اور امراء کے لئے درجے مقرر کر کے نام رکھے ہوتے ہیں.اسی طرح خدا تعالٰی نے بھی اپنے مقربین کے لئے نام تجویز فرمائے ہوئے ہیں اور وہ نام یہ ہیں.نبی ، صدیق ، شہید اور صالح ان میں سے نبی ایک خاص درجہ ہے.اور جو یہ نام پا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے خاص الخاص انسانوں میں سے ہو جاتا ہے.جس طرح بادشاہوں کے بھی کچھ لوگ مقرب ہوتے ہیں جن سے وہ اپنے راز کی باتیں کرتے اور بڑے بڑے امور کی ان کو پیش از وقت اطلاع دے دیتے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ جن کو اپنے راز کی باتیں بتاتا اور آئندہ ہونے والے امور کی اطلاع بخشتا ہے وہ نبی ہوتے ہیں.نبی ہو نا خدا تعالیٰ کے قرب کا آخری درجہ پاتا ہے اور امور غیبیہ پر کثرت سے اطلاع پانا نبی ہونے کی علامت ہے.جس طرح بادشاہ جب اپنے کسی خاص آدمی سے مشورہ کرتا اور اس سے اپنے راز کی باتیں کہتا ہے تو لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بادشاہ کا خاص وزیر ہے.اسی طرح جب ایک انسانی خدا تعالیٰ سے غیب کی خبریں پاکر لوگوں کو بتاتا ہے اور وہ پوری ہو جاتی ہیں تو وہ جان جاتے ہیں کہ یہ کسی انسان کا کام نہیں کہ غیب کی خبریں بتائے.اس لئے یہ جو بات بتاتا ہے خدا ہی کی بتائی ہوئی بتاتا ہے پس یہ خدا کا نبی ہے.جو شخص یہ کہتا ہے کہ نبی کے لئے کتاب کا لانا ضروری ہے وہ تاریخ کا انکار کرتا ہے اور اسے ہندوؤں ، یہودیوں اور عیسائیوں کے بہت سے انبیاء کو رد کرنا پڑے گا.کیونکہ ان میں ایسے نبی آئے ہیں جو کوئی کتاب نہیں لائے.اور اگر کتاب سے الہامات کا مجموعہ مراد ہے تو ایسی

Page 151

رالعلوم جلد - ۳ ۱۲۴ کتاب تو حضرت مسیح موعود بھی لائے ہیں.دور جانے کی ضرورت نہیں پیغامیوں میں سے ہی ایک شخص نے حضرت مسیح موعود کے الہامات کا مجموعہ تین جلدوں میں شائع کیا ہے.حضرت مسیح موعود تو اپنے متعلق لکھتے ہیں کہ : خدا تعالیٰ نے اس بات کے ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں.اس قدر نشان دکھلائے ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کئے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت ثابت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ یہ آخری زمانہ تھا.اور شیطان کا مع اپنی تمام ذریت کے آخری حملہ تھا.اس لئے خدا نے شیطان کو شکست دینے کے لئے ہزار ہا نشان ایک جگہ جمع کر دئیے " چشمه معرفت صفحه ۳۱۷ روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۳۳۲) لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ ایک ایسا انسان جس پر اتنے نشانات اترے کہ ان سے ہزاروں نبیوں کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے وہ خود نبی نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ ان لوگوں نے یہ سب باتیں اپنے پاس سے بنالی ہیں.اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدر کو نہیں سمجھا.خدا تعالی کافروں کی نسبت قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِم - (الانعام : ٩٢) یعنی انہوں نے خدا تعالیٰ کی قدر کو نہیں سمجھا اور یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کے خزانے ختم ہو گئے اس لئے کسی کو کچھ نہیں دے سکتا.اسی طرح یہ کہتے ہیں کہ خواہ کتنا ہی زہد اور اتقاء میں بڑھ : جائے پر ہیزگاری اور تقویٰ میں کئی نبیوں سے آگے گزر جائے معرفت الہی کتنی ہی حاصل کرلے لیکن خدا اس کو کبھی نبی نہیں بنائے گا اور کبھی نہیں بنائے گا.ان کا یہ سمجھنا خدا تعالیٰ کی قدر کو ہی نہ سمجھنے کی وجہ سے ہے ورنہ ایک نبی کیا میں تو کہتا ہوں ہزاروں نبی ہوں گے اور ایک ایسا انسان جو اس درجہ کو پہنچ جاتا ہے جو حضرت یحی اور یوحنا وغیرہ انبیاء کا تھا وہ نبی بن سکتا ہے.وہ تو حضرت مسیح موعود کی نبوت کے متعلق کہتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ اب بھی نبی بن سکتا ہے.دنیا میں جب ضلالت اور گمراہی اور بے دینی پھیل سکتی ہے تو نبی کیوں نہیں.سکتا.جس جس وقت ضلالت اور گمراہی پھیلتی رہی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ کو بھلا دیتے رہے ہیں اور فسق و فجور میں پھنس جاتے رہے ہیں.اس وقت نبی آتا رہا ہے.اسی طرح اب بھی جب ایسا ہو گا کہ دنیا خدا تعالیٰ کو چھوڑ دے گی آنحضرت ا کو بھلا دے گی اور گند اور پلیدیوں میں مبتلا ہو جائے گی اس وقت نبی آئے گا اور ضرور آئے گا.لیکن وہ کوئی اور شریعت نہیں لائے گا بلکہ آنحضر الہی کی شریعت کو پھیلائے گا.یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی نبی

Page 152

لوم جلد ۳۰ ۱۲۵ انوار خلافت اس پر آئے اور آنحضرت اللہ کے سوا کوئی اور شریعت لائے کیونکہ آپ کی شریعت قیامت تک کے لئے ہے اس لئے جو نبی بھی آئے گا اس کے اندر آئے گا اور اسی کو آکر پھیلائے گا.آنحضرت ا حضرت موسیٰ کے بعد اس لئے شریعت لے کر آئے کہ ان کی لائی ہوئی شریعت باقی نہ رہی تھی.یعنی ان کی لائی ہوئی شریعت کو لوگوں نے اس طرح بگاڑ دیا تھا کہ کوئی عمل کر کے خدا تعالٰی تک نہیں پہنچ سکتا تھا.پس ان کی شریعت کو آنحضرت اللہ نے مٹا دیا اور ان کی شریعت میں جو نقص پیدا ہو گئے تھے ان کو دور کر دیا اور دنیا کے سامنے ایک ایسی شریعت پیش کی جس میں کبھی نقص نہیں آسکتا.غرض نئی شریعت کی ضرورت پہلی شریعت کے خراب ہو جانے یا ضائع ہو جانے یا نئی ضروریات پیدا ہو جانے پر ہوتی ہے اور اگر کوئی شریعت ایسی آجائے کہ اس میں یہ تینوں نقص پیدا نہ ہوں تو اس کے بعد کسی جدید شریعت کی ضرورت نہ رہے گی چنانچہ قرآن کریم ایسی ہی کتاب ہے جس میں کامل شریعت آئی ہے اور جو ہر ایک نقص سے محفوظ ہے.پس اس کے بعد کوئی شریعت نہیں لیکن نبی کی ضرورت کو کامل شریعت نہیں روک سکتی.اور اگر کوئی شخص کہے کہ رسول کریم اے کے بعد نبی نہیں آسکتا تو میں کہتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود آنحضرت ﷺ کے بعد نہیں آئے کیا نبی کریم کی نبوت اور آپ کی حکومت ختم ہو گئی ہے کہ کہا جائے کہ مرزا صاحب آپ کے بعد آئے ہیں مرزا صاحب کی نبوت تو نبی کریم کی نبوت کے اندر ہے.کیا اندر کی چیز کو باہر کی کہا جاتا ہے.مثلاً ایک مکان میں کچھ آدمی بیٹھے ہوں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ یہ مکان سے باہر ہیں.بلکہ یہی کہیں گے کہ مکان کے اندر ہیں.پس جب حضرت مرزا صاحب بھی آنحضرت لا کے اندر ہیں تو پھر انہیں بعد اول میں آنے والا کیوں قرار دیا جائے.ہمارے مخالفین کہتے ہیں کہ آنحضرت آنحضرت کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے کے بعد کسی نبی کا آنا خواہ وہ آپ کے فیض سے ہی کیوں نہ نبی بنے آپ کی ہتک ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ ان لوگوں کا یہ کہنا آنحضرت کی تک ہے کیونکہ نبوت تو خدا تعالیٰ کی رحمت ہے جو وہ اپنے بندوں پر نازل کیا کرتا ہے اور آنحضرت ا وہ رسول ہیں جو سارے جہان کے لئے رحمت ہو کر آئے تھے.لیکن آپ کے آنے پر کہا جاتا ہے کہ اب خدا تعالٰی نے وہ سارے فیض بند کر دیے ہیں جو

Page 153

انوار العلوم جلد.۱۲۶.آپ سے پہلے اپنے بندوں پر کیا کرتا تھا.آپ سے پہلے تو نبی پر نبی بھیجا تھا.جو اس کی طرف گر تا اسے اٹھاتا تھا.جو اس کی طرف جھکتا اسے پکڑتا تھا.جو اس کے آگے گڑ گڑاتا اسے چپ کراتا تھا.اور جو اس کی پوری پوری اطاعت اور فرمانبرداری کرتا اسے نبی بناتا تھا.لیکن (نعوذ باللہ ) اب ایسا بخیل ہو گیا ہے کہ خواہ کوئی کتنا ہی روئے چلائے اور کتنے ہی اعمال صالحہ کرے اس نے کہہ دیا ہے کہ اب میں کسی کو مونہہ نہیں لگاؤں گا اور اگر لگاؤں گا تو ادنی درجہ پر رکھوں گا پورا نبی کبھی نہیں بناؤں گا.اب بتاؤ آنحضرت ا کی یہ بنک ہے کہ آپ کی امت سے کوئی نبی نہیں بن سکتا یا یہ کہ آپ کے فیض سے آپ کی امت میں سے بھی نبی بن سکتا ہے.بڑے تعجب کی بات ہے کہ ایک انسان جو تمام جہان کے لئے رحمت اور فضل ہو کر آتا ہے اس کی نسبت کہا جاتا ہے کہ اس کو نے آکر خدا تعالیٰ تک پہنچنے کی تمام راہوں کو بند کر دیا ہے اور آئندہ نبوت تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.لیکن میں کہتا ہوں نبوت رحمت ہے یا زحمت اگر رحمت ہے تو آنحضرت ا کے بعد بند کیوں ہو گئی آپ کے بعد تو زیادہ ہونی چاہئے تھی آپ تو ایک بہت بڑے درجہ کے نبی تھے اس لئے آپ کے بعد جو نبی آتا وہ بھی بڑے درجہ کا ہونا چاہئے تھا نہ یہ کہ کوئی نبی ہی نہ بن سکتا.دیکھو! دنیا میں مدر سے ہوتے ہیں.لیکن کسی مدرسہ والے یہ اعلان نہیں کرتے کہ ہمارے مدرسہ میں اپنے لڑکوں کو بھیجو کیونکہ ہمارے مدرسہ کے استاد ایسے لائق ہیں کہ ان کے پڑھائے ہوئے لڑکے ادنی درجہ پر ہی پاس ہوتے ہیں.لیکن کتنے تعجب کی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ کی شان بلند ثابت کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ چونکہ آپ کے شاگر د ادنی درجہ پر پاس ہوتے ہیں اس لئے آپ کی بڑی شان ہے.لیکن آنحضرت اللہ کی شان پر یہ ایک ایسا زبر دست حملہ ہے کہ جو ابھی تک کسی عیسائی یا آریہ نے بھی نہیں کیا.کیونکہ وہ در حقیقت آ.دشمنی رکھتے ہیں اور آپ کو رحمت نہیں بلکہ زحمت سمجھتے ہیں لیکن یہ آپ کو رحمت سمجھ کر پھر یہ درجہ دیتے ہیں.اور وہ جو دوسروں کے درجہ کو بڑھانے آیا تھا اس کے درجہ کو گھٹاتے ہیں.مگر ہم رسول کریم ﷺ کی اس ہتک کو ایک منٹ کے لئے بھی برداشت نہیں کر سکتے.وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم حضرت مرزا صاحب کو نبی کہیں گے تو لوگ ہماری مخالفت کریں گے اور ہمیں رکھ دیں گے.میں کہتا ہوں حضرت مرزا صاحب کو نبی نہ کہنے میں آنحضرت ا کی

Page 154

العلوم جلد ۳۰ ۱۲۷ انوار خلافت سخت ہتک ہے جس کو ہم کسی مخالفت کی وجہ سے برداشت نہیں کر سکتے.وہ تو مخالفت اتے ہیں لیکن اگر میری گردن کے دونوں طرف تلوار بھی رکھ دی جائے اور مجھے کہا جائے کہ تم یہ کہو کہ آنحضرت ا کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا تو میں اسے کہوں گا تو جھوٹا ہے کذاب ہے آپ کے بعد نبی آسکتے ہیں اور ضرور آسکتے ہیں.کیونکہ آنحضرت ﷺ کی شان ہی ایسی ہے کہ آپ کے ذریعہ سے نبوت حاصل ہو سکتی ہے.آپ نے رحمتہ للعالمین ہو کر رحمت کے دروازے کھول دیئے ہیں اس لئے اب ایک انسان ایسا نبی ہو سکتا ہے جو کئی پہلے انبیاء سے بھی بڑا ہو مگر اس صورت میں کہ آنحضرت ﷺ کا غلام ہو.ہمارے لئے کتنی عزت کی بات ہے کہ قیامت کے دن تمام نبی اپنی اپنی امتوں کو لے کر کھڑے ہوں گے اور ہم کہیں گے کہ ہمارے نبی کی وہ شان ہے کہ آپ کا غلام ہی ہمارا نبی ہے.لیکن مسلمان کہتے ہیں کہ ہمارے لئے وہی مسیح آئے گا جو بنی اسرائیل کے لئے آیا تھا.اگر وہی آیا تو یہ قیامت کے دن کیا کہیں گے کہ ہمارے نبی آنحضرت ا کی وہ شان ہے کہ آپ کی امت کی اصلاح کے لئے بنی اسرائیل کا ہی ایک نبی آیا تھا.اس بات کو سوچو اور غور کرد که آنحضرت ا کی ہتک تم کر رہے ہو یا ہم.آنحضرت ﷺ کی اسی میں عزت ہے کہ آپ کی امت میں سے کسی کو نبی کا درجہ ملے نہ کہ بنی اسرائیل کا کوئی نبی آپ کی امت کی اصلاح کے لئے آئے.حضرت مسیح موعود نے اسی لئے فرمایا کہ ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو اس سے بہتر غلام احمد " ہے یعنی ابن مریم کا تم کیوں انتظار کر رہے ہو مجھے دیکھو کہ میں احمد کا غلام ہو کر اس سے بڑھ کر ہوں.کوئی کہے کہ اس شعر میں مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں غلام احمد ہوں اس لئے آپ کا یہی نام ہوا.میں کہتا ہوں کون مسلمان ہے جو اپنے آپ کو غلام احمد نہیں کہتا.ہر ایک سچا مسلمان اور مؤمن یہی کہے گا کہ میں احمد کا غلام ہوں.اسی طرح حضرت صاحب نے فرمایا ہے.چنانچہ آپ ایک اور جگہ فرماتے ہیں.غلمان کرامت گرچه بے نام و نشان است بیابنگر ز اب اس شعر سے کوئی احمق ہی یہ نتیجہ نکالے گا کہ جس شخص کا نام غلام محمد ہو وہ کرامت دکھا سکتا ہے.پس پہلے شعر میں صرف یہ دکھانا مقصود ہے کہ آنحضرت ا کا ایک غلام مسیح سے بہتر ہو سکتا ہے.

Page 155

م جالند ۱۲۸ غرض کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کے بعد کوئی نبی نہ آئے تو اس طرح آپ کی تعریف ہوتی ہے لیکن یہ عجیب تعریف ہے.مثلاً ایک مدرس کی یوں تعریف کی جائے کہ اس کے پڑھائے ہوئے لڑکے کبھی پاس نہیں ہوتے بلکہ فیل ہی ہوتے ہیں اور اگر پاس بھی ہوتے ہیں تو بہت ادنی درجہ پر.کیا یہ اس کی تعریف ہوگی اور اس سے اس کی عزت بڑھے گی.یہ تو اس پر ایک بہت بڑا حملہ ہو گا.اسی طرح مسلمان کہتے ہیں کہ بیشک آنحضرت ا تمام انبیاء کے سردار ہیں تمام سے بلند درجہ رکھتے ہیں اور تمام سے کمالات میں بڑھے ہوئے ہیں لیکن اس کا ثبوت یہ دیتے ہیں کہ آپ کے شاگرد کبھی اعلیٰ درجہ نہیں پاتے.اور اس طرح رسول کریم ﷺ کی سخت ہتک کرتے ہیں.لیکن باوجود اس کے ہم پر الزام دیتے ہیں کہ تم آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے.لیکن در حقیقت وہ آپ کی ہتک کر رہے ہیں.اور وہ جو رحمتہ للعالمین ہے اس کو عذاب للعالمین ثابت کرتے ہیں.ہمیں اس بات کا فخر ہے کہ ہم آنحضرت ا کی کچی عزت اور تعریف کرتے ہیں.اور ہم عیسائیوں کو کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم ا کی وہ عزت ہے کہ اس کا غلام بھی تمہارے نبیوں سے بڑھ کر ہے.لیکن دوسرے لوگوں کو یہ فخر حاصل نہیں ہے.بھلا بتلاؤ ایک بادشاہ کا درجہ بڑا ہوتا ہے یا شہنشاہ کا.ہر ایک جانتا ہے کہ شہنشاہ کا درجہ بڑا ہوتا ہے.تو رسول اللہ کی نسبت خیال کرو کہ ہم آپ کی یہ شان بیان کرتے ہیں کہ آپ کی غلامی میں نبی آئیں گے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ دوسرے تمام نبی بادشاہ کی مانند ہیں اور آنحضرت شہنشاہ.کیونکہ آپ کے فیض سے نبی بن سکتے ہیں.یہی تو آپ کی عزت ہے جو خدا تعالیٰ نے خاتم النبیین کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے.آپ انبیاء کی مہر ہیں جس پر آپ کی ہو.مہر لگی وہی نبی ہوگا.اس مسئلہ کے متعلق خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے دلائل دیئے جا سکتے ہیں لیکن اس وقت بیان کرنے کا موقعہ نہیں مگر یہ بات خوب یاد رکھو کہ یہ مانا کہ آنحضرت ا کے فیض سے آپ کے بعد نبی ہو سکتا ہے آپ کی ہتک نہیں بلکہ عزت ہے اور یہ آپ پر حملہ نہیں بلکہ آپ کی شان کو بلند کرنا ہے.ہاں یہ کہنا بہتک ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو سکتا یہ ایک حیرانی کی بات ہے کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے جو رسول آئے ان کے ماننے والوں نے ان کو وہ درجہ دے دیا.جو خدا تعالیٰ نے ان کو نہ دیا تھا لیکن آج ایسے بد بخت ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم آنحضرت ﷺ کو مانتے ہیں مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے جو درجہ دیا تھا وہ بھی چھین لینا چاہتے

Page 156

العلوم جلد ۳ ۱۲۹ انوار خلافت ہیں.مسئلہ رسالت کے متعلق میں اس وقت اس قدر کہنا کافی سمجھتا ہوں.اور اب دوسرے امور کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جو آپ لوگوں کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اور وہ بھی بہت ضروری ہیں.نبوت کے مسئلہ کے متعلق تو بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.اور ابھی اور بھی لکھا جائے گا.اور جب تک خدا تعالیٰ اس روک کو ہمارے رستہ سے دور نہ کر دے گا لکھا ہی جائے گا.لیکن ہمیں اس بات کا بہت افسوس ہے کہ ہم تو دشمنان اسلام پر حملہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر پیچھے گھر سے ہی ڈنڈا لے کر مارنے والے کھڑے ہو جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے ہم سے لڑ لو تو پھر کسی اور سے لڑنا.گو ہم مانتے ہیں کہ ان کا یہ سلوک ہمارے ہی گناہوں کا نتیجہ ہے تاہم وہ دن قریب آگئے ہیں جبکہ ہمارے راستہ میں کوئی روک نہیں ہوگی اور ہم خدا کے دین کو آسانی سے پھیلاتے جائیں گے.تحصیل علم تیسری بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں.وہ علم کا حصول ہے.علم اور جہالت میں بہت بڑا فرق ہے.جس طرح ایک اندھے اور سو جا کھے میں فرق ہے.اسی طرح عالم اور جاہل میں فرق ہے.جس طرح ایک اندھا نہیں جانتا کہ میں نجاست میں ہاتھ ڈال رہا ہوں یا کسی لذیذ اور مزیدار کھانے میں.سانپ پکڑ رہا ہوں یا کوئی نہایت نرم اور ملائم چیز.اسی طرح جہالت کی وجہ سے انسان بہت بری بری حرکتیں کرتا ہے اور نہیں سمجھتا کہ میں کیا کر رہا ہوں.اس لئے تباہ ہو جاتا ہے.دیکھو وہ لوگ جنہوں نے جہالت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو نہ سمجھا وہ خدا اور انسان میں فرق نہ کر سکے.پھر کیا تم ان لوگوں کو نہیں دیکھتے جو خود پتھر تراشتے ہیں اور خود ہی ان کے آگے گرتے اور سجدہ کرتے ہیں.پھر ایسے بھی فرقے ہیں جو جہالت میں اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ عورتوں کو ننگا کر کے ان کی شرمگاہوں کی پرستش کرتے ہیں اور اس کو بہت بڑی عبادت سمجھتے ہیں.پھر ایسے بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ اگر کوئی اپنی ماں سے زنا کرلے تو وہ سیدھا بہشت میں چلا جاتا ہے.البتہ اس میں وہ ایک شرط بتاتے ہیں کہ انسان ایسا کر کے پھر اس کو مخفی رکھے اور کسی کو اس کا پتہ نہ لگنے دے.شاید تم کو یہ سن کر تعجب ہو گا کہ کیا ایسے انسان بھی دنیا میں ہوتے ہیں لیکن یہ کوئی تعجب کی بات نہیں.لاہور امر تسر اور دہلی وغیرہ شہروں میں ایسے لوگ

Page 157

والعلوم جلد ۳۰.CF ١٣٠ پائے جاتے ہیں.پھر ایسے لوگ بھی ہیں جو قبروں سے مردوں کی لاشیں نکال کر کھانا بہت ثواب کا کام سمجھتے ہیں.غرض جہالت انسان کو بہت دور پھینک دیتی ہے اور جاہل انسان نہ خدا کو پا سکتا ہے اور نہ دنیا حاصل کر سکتا ہے نہ تمدن میں بڑھ سکتا ہے نہ تجارت میں فائدہ حاصل کر ہے.پس علم کو حاصل کرنا اور جہالت سے نکلنا بہت ضروری ہے.ہماری جماعت تو خدا تعالیٰ کی پیاری جماعت ہے اور آنحضرت ﷺ ہی کی جماعت کے مشابہ ہے کیونکہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تم اس قوم کے وارث ہو جن کے اہل قوم شر اور فساد میں سب سے بڑھے ہوئے تھے.ڈاکہ چوری ، راہزنی میں مشہور عام تھے فسق و فجود میں لاثانی تھے.انسان کا قتل کر دینا ان کے لئے کوئی بات ہی نہ تھی.ماؤں سے شادی کر لیتے تھے.علم و تہذیب سے بالکل نا آشنا تھے.غرضکہ ہر ایک قسم کی خرابی اور جہالت میں گرفتار تھے.لیکن ان میں سے نکل کر ان لوگوں نے ایسا پلٹا کھایا کہ یا تو جاہل تھے یا تمام دنیا کے استاد بن گئے اور ایسے استاد بنے کہ اس زمانہ کے جو عالم تھے ان سے اقرار کرایا کہ ہم جاہل ہیں.اور یا تو فسق و فجور میں مبتلا تھے یا خدا رسیدہ اور خدا نما ہو گئے.اور یہ وہ قوم تھی جو تھوڑے سے عرصہ میں بجلی کی طرح کوند کر جہاں گرتی وہاں کی سب چیزوں کو بھسم کر دیتی.اور ایسی مہذب بنی کہ تمام دنیا کے مہذبوں کو اس کے سامنے زانوئے ادب غم کرنا پڑا.پھر ان میں وہ قدرت اور روشنی پیدا ہو گئی کہ بہت دور دور کی چیزوں تک ان کی نظر پہنچتی.اور خدا تعالیٰ کی معرفت کے باریک در باریک راز پاگئی.اور ایک ایسی قوم بن گئی کہ دنیا کی کوئی قوم اس سے مقابلہ نہ کر سکی.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ اونٹوں کے چرانے والا ایک شخص عظیم الشان بادشاہ بن گیا اور صرف دنیاوی بادشاہ نہیں بلکہ روحانی بھی.یہ حضرت عمرہ تھے جو ابتدائے عمر میں اونٹ چرایا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ حج کو گئے.تو راستہ میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے.دھوپ بہت سخت تھی جس سے لوگوں کو بہت تکلیف ہوئی لیکن کوئی یہ کہنے کی جرات نہ کرتا کہ آپ یہاں کیوں کھڑے ہیں.آخر ایک صحابی کو جو حضرت عمر کے بڑے دوست تھے اور جن سے آپ فتنہ کے متعلق پوچھا کرتے تھے لوگوں نے کہا کہ آپ ان سے پوچھیں کہ یہاں کیوں کھڑے ہیں.انہوں نے حضرت عمر سے عرض کیا کہ آگے چلئے یہاں کیوں کھڑے ہو گئے ہیں.فرمایا کہ میں یہاں اس لئے کھڑا ہوا ہوں کہ ایک دفعہ میں اونٹ چرانے کی وجہ سے تھک کر اس درخت کے نیچے لیٹ گیا تھا میرا باپ آیا اور اس نے مجھے مارا کہ کیا تجھے اس لئے بھیجا تھا کہ وہاں جاکر سو رہنا.تو ایک

Page 158

را العلوم جلد ۳ 191 ۱۹ المندان انوار خلافت وقت میں میری یہ حالت تھی.لیکن میں نے رسول کریم ﷺ کو قبول کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے یہ درجہ دیا کہ آج اگر لاکھوں آدمیوں کو کہوں تو وہ میری جگہ جان دینے کے لئے تیار ہیں (طبقات ابن سعد جلد ۳ مطبوع ان اس ام اس واقعہ سے اور نیز اس قسم کے اور بہت سے واقعات معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کس حالت میں تھے اور رسول کریم کی اتباع سے ان کی کیا حالت ہو گئی.اور انہوں نے وہ درجہ اور علم پایا جو کسی کو حاصل نہ تھا.یہ قصہ میں نے اس لئے سنایا ہے کہ دیکھو ایک اونٹ چرانے والے کو دین اور دنیا کے وہ وہ علم سکھائے گئے جو کسی کو سمجھ نہیں آسکتے.ایک طرف اونٹ یا بکریاں چرانے کی حالت کو دیکھو کہ کیسی علم سے دور معلوم ہوتی ہے.اور دوسری طرف اس بات پر غور کرو کہ اب بھی جبکہ یورپ کے لوگ ملک داری کے قوانین سے نہایت واقف اور آگاہ ہیں حضرت عمر کے بنائے ہوئے قانون کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.ایک اونٹ کا چرواہا اور سلطنت کیا تعلق رکھتے ہیں لیکن دیکھو کہ انہوں نے وہ کچھ کیا کہ آج دنیا ان کے آگے سر جھکاتی اور ان کی سیاست دانی کی تعریف کرتی ہے.پھر دیکھو حضرت ابو بکر ایک معمولی تاجر تھے.لیکن اب دنیا حیران ہے کہ ان کو یہ فہم یہ عقل اور یہ فکر کہاں سے مل گیا.میں بتاتا ہوں کہ ان کو قرآن شریف سے سب کچھ ملا.انہوں نے قرآن شریف پر غور کیا اس لئے ان کو وہ کچھ آگیا جو تمام دنیا کو نہ آتا تھا کیونکہ قرآن شریف ایک ایسا ہتھیار ہے کہ جب اس کے ساتھ دل کو صیقل کیا جائے تو ایسا صاف ہو جاتا ہے کہ تمام دنیا کے علوم اس میں نظر آجاتے ہیں اور انسان پر ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے کہ پھر کسی کے روکے وہ علوم جو اس کے دل پر نازل کئے جاتے ہیں نہیں رک سکتے.پس ہر ایک انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو پڑھنے اور غور کرنے کی کوشش کرے.دیکھو دنیا کے علوم کے لئے کس قدر محنت اور روپیہ خرچ کیا جاتا ہے.آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ بچوں کی پڑھائی کے لئے کس قدر روپیہ خرچ کر کے ان کو اس محنت اور مشقت پر لگایا جاتا ہے.جب دنیا کے کے لئے اس قدر کوشش کی جاتی ہے.تو دین کے علم کے لئے کتنی کوشش کرنے کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ عالم اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے جیسا کہ فرمایا قل هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ( الزمر : (۱) کہہ دے کہ کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں ان کے برابر ہو سکتے ہیں جو علم سے بے بہرہ ہیں یعنی یہ دونوں ہرگز برابر نہیں ہو سکتے.اور آنحضرت ا یہ فرماتے ہیں کہ عالم جو عابد ہو وہ جاہل عابد سے بڑھ کر ہوتا ہے جیسا

Page 159

۱۳۲ انوار خلاف که فرمایا فَضلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِى عَلَى أدْنَاكُمْ ( ترمذی ابواب العلم ، یعنی عالم (جو) عابد بھی ہو) کو عابد (جو عالم نہ ہو) پر اسی قدر فضیلت ہے جس قدر کہ مجھے تم میں سے ادنیٰ سے ادنی انسان پر فضیلت ہے.ہماری جماعت جس نے خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے ہاتھ پر دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد کیا ہے میں اس سے پوچھتا ہوں کہ کیا اسے قرآن شریف کے پڑھنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے یا نہیں.اس وقت دنیا کے علوم سیکھنے میں جو قومیں لگی ہوئی ہیں ان کو دیکھو وہ کس طرح رات دن ان علوم کے سیکھنے میں صرف کرتی ہیں بعض لوگوں کا میں نے حال پڑھا ہے کہ انہوں نے بعض زبانیں بڑی بڑی عمروں میں سیکھی ہیں چنانچہ ایک انگریز کی نسبت لکھتے ہیں کہ اس نے ستر سال کی عمر میں لاطینی زبان سیکھنے کی طرف توجہ کی اور خوب اچھی طرح سے اسے سیکھ لیا پھر آپ لوگ جو دین کی خدمت کے لئے اور قرب الہی کے حاصل کرنے کے لئے کمر بستہ ہوئے ہیں آپ کو اس قانون کے سیکھنے کی طرف کس قدر توجہ کرنی چاہئے.مگر غور تو کرو کہ تم میں سے کتے ہیں جنہوں نے اتنی عمر میں قرآن شریف کے پڑھنے کی کوشش کی ہے.قرآن شریف تو وہ کتاب ہے جس میں ایسی ایسی باتیں ہیں کہ اگر ہم ان سے واقف ہو جائیں تو اس دنیا میں بھی سکھ پاسکتے ہیں اور اگلے جہان میں بھی آرام سے رہ سکتے ہیں.پس کیسا غافل ہے وہ انسان جون اپنے پاس خدا تعالیٰ کی کتاب کے ہوتے ہوئے اس کو نہ پڑھے.دنیا میں اگر کسی کے نام چھوٹی سے چھوٹی عدالت کا سمن آئے تو اس کو بڑی توجہ سے پڑھتا ہے اور جو خود نہ پڑھ سکتا ہو وہ ادھر ادھر گھبرایا ہوا پھرتا ہے کہ کوئی پڑھا ہوا ملے تو اس سے پڑھاؤں اور سنوں کہ اس میں کیا لکھا ہے.اور جب تک پڑھا نہ لے اسے صبر نہیں آتا.پھر اگر کسی کا خط آئے تو ان پڑھ چار چار پانچ پانچ دفعہ پڑھاتے پھرتے ہیں.اور پھر بھی ان کی تسلی نہیں ہوتی.لیکن تعجب ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے خط آیا ہے (کتاب کے معنی خط کے بھی ہیں) اس کو پڑھنے یا پڑھوا کر سننے کی طرف کسی کو توجہ نہیں ہوتی.کتنے افسوس کی بات ہے کہ قرآن شریف ایسا خط اور آنحضرت الا ایسا ڈا کیا اور خدا تعالیٰ جیسا خط بھیجنے والا لیکن دنیا اور غافل دنیا نے اس کی کچھ قدر نہ کی.ایک سات روپیہ کا چٹھی رساں اگر خط لاتا ہے تو پڑھتے پڑھاتے پھرتے ہیں لیکن خاتم الانبیاء کی لائی ہوئی کتاب کو نہیں پڑھتے.ایک پیسہ کے کارڈ کی عزت کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی بھیجی ہوئی کتاب کی نہیں کرتے.کیا قرآن شریف کی قدر ایک پیسہ کے کارڈ کے - ه باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة

Page 160

١٣٣ انوار خلاف انوار العلوم جلد - برابر بھی نہیں ہے پھر کیوں اس کی طرف توجہ نہیں کی جاتی.بیشک تم دنیا کے کام کرو.لیکن تمہارا یہ بھی کام ہے کہ قرآن شریف کے سیکھنے کی کوشش کرو.قرآن شریف میں وہ حکمت و اور وہ معرفت ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو حیران ہو جائے.میں تو قرآن شریف کی ایک ایک زیر اور زیر پر حیران ہو ہو جاتا ہوں.قرآن شریف میں بظاہر ایک لفظ ہوتا ہے لیکن بڑے بڑے مضامین ادا کرتا ہے.قرآن شریف کوئی ایسی کتاب نہیں ہے کہ انسان اس کی طرف سے مونہہ موڑ لے اور توجہ نہ کرے.خصوصاً ہماری جماعت کا فرض ہے کہ قرآن شریف کو سیکھے اور دوسروں کو سکھائے.اس کے سیکھنے کے بہت سے طریق ہیں.ہماری جماعت پر خدا تعالیٰ کے بڑے فضل ہیں کہ سینکڑوں آدمی ایسے ہیں جو قرآن شریف کے معنی جانتے ہیں اور دوسروں کو پڑھا سکتے ہیں.غیر احمدیوں نے تو قرآن شریف کو بالکل بھلا دیا ہے اس لئے وہ کچھ نہیں جانتے بلکہ ان کی یہ حالت ہو گئی ہے کہ قرآن شریف کے معنی بلا مدد تفاسیر کے کرنے کفر سمجھتے ہیں.چنانچہ ایک شخص نے مجھے ایک واقعہ سنایا ایک احمدی کچھ لوگوں کو قرآن سنایا کرتا تھا.ایک دن خطبہ میں اس نے قرآن شریف پڑھ کر مطلب بیان کیا.تو ایک شخص کہنے لگا کہ یہ باتیں تو بڑی اچھی کرتا ہے لیکن ہے کافر.اس کا کیا حق ہے کہ قرآن شریف کے معنی کرے اسے تو چاہئے تھا کہ بیضاوی دیکھتا.تفسیر کبیر پڑھتا.یہ قرآن شریف کے معنی اپنے پاس سے کیوں کر رہا ہے.یہ ہے غیر احمدیوں کی حالت.یہی ہیں وہ لوگ جن کی نسبت قرآن شریف میں آیا ہے.وَ قَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ.مهجورا (الفرقان : (۳۱) - کہ رسول کریم خدا تعالیٰ سے کہیں گے کہ اے میرے رب! اس میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ دیا.ان کے عزیزوں کے خط آتے تو بڑے شوق اور محبت سے پڑھاتے تھے.لیکن قرآن جس میں تجھ تک پہنچنے کی راہیں تھیں اور تجھے تعلق پیدا کرنے کے طریق تھے اس کو انہوں نے نہ پڑھا باوجودیکہ پڑھانے والے ان کو پڑھاتے تھے مگر انہوں نے کوئی توجہ نہ کی اور نہ پڑھا.پس وہ لوگ جنہوں نے ابھی تک قرآن شریف نہیں پڑھا اور اگر پڑھا ہے تو با معنی نہیں پڑھا وہ ہوشیار ہو جائیں اور پڑھنے کی فکر میں لگ جائیں کیونکہ بے علمی کی مرض بہت بری ہے.ایک بے علم شخص نماز پڑھتا ہے لیکن وہ نہیں جانتا کہ میں کیا پڑھ رہا ہوں.اسی طرح ایک جاہل انسان روزہ رکھتا ہے.اور سارا دن بھوکا رہتا ہے لیکن بے علمی کی وجہ سے بعض ایسی باتیں کر بیٹھتا ہے کہ جن سے روزہ کا پورا پورا.سے

Page 161

انوار العلوم جلد ۳۰ ۱۳۴ اتوار خلافت ثواب اسے حاصل نہیں ہو تا.اسی طرح ایک شخص زکوۃ دیتا ہے.مگر کئی ایسی باتیں ترک کر دیتا ہے جن کی وجہ سے وہ پورے ثواب سے محروم ہو جاتا ہے.ایسے آدمیوں کو اپنے اپنے اخلاص کا ثواب تو ملے گا.لیکن کیا ان کو ایسا ہی ثواب مل سکتا ہے جیسا ایک ایسے شخص کو ملے گا جو اپنے علم کی بناء پر اپنی عبادت کو تمام شرائط کے ساتھ بجا لاتا ہے ہرگز نہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ہر ایک انسان علم حاصل کرنے کی کوشش کرے تاکہ پورے ثواب کا مستحق ہو سکے.اور جب تک علم نہ ہو یہ بات حاصل نہیں ہو سکتی.میں نے دیکھا ہے ہماری جماعت کے بعض لوگ جو بڑے بڑے علماء بنتے ہیں اور پاک ممبر کہلاتے ہیں ان میں سے ایک شخص ایسی حالت میں جرابوں پر مسح کر کے نماز پڑھتا تھا جبکہ اس کی جراب ایسی پھٹی ہوئی تھی کہ اس کی ایڑیاں بالکل ننگی ہو گئی تھیں اور وہ غریب بھی نہ تھا بلکہ اس وقت ایک معقول تنخواہ پر ملازم تھا.اس کی کیا وجہ تھی یہی کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ جرابوں پر مسح کرنے کی کیا شرائط ہیں.تو دین کے متعلق علم حاصل کرنا نہایت ضروری ہے.ممکن ہے کہ تم میں سے بہت سے لوگ یہ کہہ دیں کہ ہمیں دین کی واقفیت ہے.غیر احمدی ہمیں مولوی کہتے ہیں اور ہم سے مسائل پوچھتے ؟ ہیں اور عالم سمجھتے ہیں.لیکن میں کہتا ہوں ان کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کی نظروں میں تم عالم نہیں ہو.کوئی تمہیں ہزار عالم کے اگر خدا کی نظر میں تم اس کے دین کے عالم نہیں ہو تو کچھ نہیں ہو.خوب یاد رکھو کہ جب تک تم خدا تعالیٰ کے لئے علم نہ سیکھو اور اس کی نظر میں عالم نہ ٹھہرو اس وقت تک ان انعامات کے مستحق نہیں ہو سکتے جو اپنے علوم حاصل کرنے والوں کو خدا تعالیٰ دیا کرتا ہے.صحابہ پڑھے ہوئے لوگ نہ تھے بلکہ بعض تو ان میں سے اپنا نام بھی نہیں لکھ سکتے تھے.لیکن دین کی ان میں ایسی محبت تھی کہ رسول کریم ال سے باتیں سن کر نہایت احتیاط سے یاد کر لیتے تھے اور جو خود نہ سنتے وہ دوسروں سے پوچھ کر حفظ کر لیتے.اس بات کی کوئی پرواہ نہ کرتے کہ اپنے سے چھوٹا بات بتا رہا ہے یا بڑا.اگر کسی چھوٹے کی نسبت بھی سنتے کہ اس کو فلاں بات یاد ہے تو اس تک پہنچتے اور اس سے سن کر یاد کر لیتے.وہ جب تک رسول کریم کی بات سن نہ لیتے انہیں چین نہ آتا تھا.لیکن ان کے لئے جو مشکلات تھیں وہ ہمارے لئے نہیں ہیں.خدا تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں ہوں محدثوں پر کہ انہوں نے ہمارے لئے بہت سی مشکلوں کو آسان کر دیا ہے حدیثیں چھپی ہوئی موجود ہیں جن کو ہر ایک شخص خرید سکتا ہے.قرآن شریف کا تو خدا تعالیٰ حافظ تھا اسے کون مٹا سکتا تھا وہ

Page 162

لوم جلد " ۱۳۵ انوار خلافت موجود ہے اور اب تو چھپنے کی وجہ سے اس کا خرید نا نہایت آسان ہو گیا ہے آٹھ آٹھ آنہ کو مل سکتا ہے.کیا اب بھی یہ مہنگا ہے یا اس کے خریدنے میں کوئی مشکل در پیش ہے ہر گز نہیں.پس آپ لوگوں کو میں نصیحت کرتا ہوں اور میرا فرض ہے کہ تمہیں نصیحت کروں کیونکہ میں اگر نہ کروں تو گنہگار ہوں گا کہ آپ لوگ قرآن شریف پڑھیں.حدیث کی کتابوں کو پڑھیں حدیثوں کے ترجمے ہو گئے ہیں.وہ لوگ جو عربی نہیں پڑھ سکتے وہ ترجمہ دیکھ کر پڑھ لیا کریں.پھر حضرت مسیح موعود کی اردو کتابیں ہیں ان کو پڑھیں.آج ہم میں جو یہ اتنا بڑا جھگڑا پیدا ہو گیا ہے تو اس کی یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگوں نے حضرت صاحب کی کتابوں کے پڑھنے کی طرف توجہ نہیں کی اور ان کا پڑھنا ضروری نہیں سمجھا.اور اگر پڑھا تو اس وقت پڑھا جبکہ ان کے دل میں بیٹھ چکا تھا کہ اگر ہم نے غیر احمدیوں میں حضرت صاحب کا ذکر کیا تو وہ ناراض ہو جائیں گے اور چندہ نہیں دیں گے.اگر یہی لوگ پہلے پڑھتے تو کبھی گمراہ نہ ہوتے.پس حضرت مسیح موعود کی کتب کا پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے.اگر وہ لوگ بھی حضرت صاحب کی کتابیں پڑھتے تو کبھی گمراہ نہ ہوتے.آپ لوگوں کے لئے علم پڑھنے کے کئی ذرائع ہیں.اول یہ کہ جن کو خدا تعالیٰ توفیق دے ہر مہینہ میں ایک یا دو یا تین دفعہ یہاں آئیں اور قرآن شریف پڑھیں.اور یہ مت خیال کریں کہ اس طرح تو بہت عرصہ میں جاکر قرآن کریم ختم ہو سکے گا کیونکہ آنحضرت الی فرماتے ہیں کہ جو شخص کسی نیک کام کا ارادہ کر لے اور اس کے کرنے سے پہلے مرجائے تو خدا تعالیٰ اس کا اجر اسی طرح دیتا ہے جس طرح کہ گویا اس نے وہ کام کر ہی لیا.پس تم میں سے اگر کوئی یہ ارادہ کر لے گا.اور خدانخواستہ فوت ہو جائے گا تو اس کو ویسا ہی ثواب ملے گا جیسا اس شخص کو ملے گا جس نے قرآن کریم بھی ختم کر لیا.تم خدا کے لئے وقت نکالو اور یہاں آکر اس کے احکام سیکھو.اگر کوئی ملازم ہیں تو چھٹی لے کر آئیں اور علم دین کو پڑھیں.اور جو ان پڑھ ہیں وہ پڑھنا سیکھیں اور اگر نہیں پڑھ سکتے یعنی حافظہ کمزور ہے تو دوسروں کی زبانی سنیں.صحابہ میں سے ایسے لوگ بھی تھے جو بہت کچھ زبانی یاد رکھتے تھے.اور بلا اس کے کہ ان کو لکھنا پڑھنا آئے دین کے پورے عالم تھے اور یہ مشکل بات نہیں حافظ روشن علی صاحب نے سب زبانی سن کر ہی حاصل کیا ہے اور بہت بڑے عالم ہیں.انہوں نے اسی طرح علم پڑھا ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کتاب پڑھتے جاتے اور وہ سنتے جاتے.اسی طرح انہوں نے سارا علم

Page 163

انوار ١٣٩ F.پڑھا ہے.پس خواہ کوئی کتنی عمر کا ہو اور اس کو لکھنا پڑھنا بھی نہ آتا ہو تب بھی اگر وہ کوشش کرے تو علم دین سیکھ سکتا ہے.میں نے ان مشکلات کے دور کرنے کے لئے جو قرآن شریف پڑھنے والوں کو پیش آتی ہیں کچھ تدابیر کی ہیں.جو امید ہے انشاء اللہ مفید ثابت ہو نگی.پہلی یہ تدبیر کی ہے کہ قرآن شریف کے پہلے پارہ کا اردو میں ترجمہ کروا کے چھپنے کے لئے بھیج دیا ہے جو انشاء اللہ کل تک تیار ہو کر آجائے گا ( آ گیا تھا) اس ترجمہ کے ذریعہ انشاء اللہ قرآن کریم کے تیسویں حصہ کے سمجھنے کے قابل تو انشاء اللہ ہماری جماعت کے لوگ ہو جائیں گے.دوسری تدبیر میں نے یہ کی ہے کہ قرآن شریف کے متعلق ایسے سبق تیار کرائے ہیں کہ جن کی مثال ! اس سے پہلے نہیں ملتی.وہ بھی کل پر سوں تک تیار ہو جائیں گے اور جو پرسوں تک ٹھہریں گے وہ لے سکیں گے اور جو نہیں ٹھہریں گے وہ منگوا سکتے ہیں.جو لوگ ان اسباق کو پڑھنا چاہیں وہ اپنے نام اور پتے دفتر ترقی اسلام میں لکھا دیں.ان اسباق میں یہ انتظام کیا گیا ہے کہ ہر لفظ کے معنی علیحدہ علیحدہ لکھ دیئے ہیں.مثلاً بسم اللہ لکھ کر اس کی یوں تشریح کر دی ہے کہ ب کے معنی ساتھ.اسم کے معنی نام.اور اللہ ایک ایسی ذات کا نام ہے جو تمام نقصوں سے پاک اور تمام خوبیوں کی جامع ہے.اسم ذات ہے.امید ہے کہ اگر کوئی ان اسباق کو چار پانچ پارے تک پڑھ لے گا.تو سارا قرآن پڑھ سکے گا.ان اسباق کو نمونے کے طور پر پہلے میں نے خود لکھا اور پھر شیخ عبدالرحمن صاحب مصری کو دیا.انہوں نے فی الحال سورۃ فاتحہ کے سبق لکھے ہیں.ان اسباق کے ساتھ یہ بھی تجویز کی ہے کہ پڑھنے والوں کے ہوشیار کرنے کے لئے ان کے ساتھ سوالات بھی لکھے گئے ہیں جن کا جواب لکھ کر بھیجنا ہر ایک طالب علم کا فرض ہو گا.مثلاً بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کا سبق ختم ہونے کے بعد ایسے سوال دے دیئے گئے ہیں کہ کہ خفن کے کیا معنی ہیں آئی کے کیا معنی و ہیں.اور ان سوالوں کے جواب دینے کے لئے یہ شرط ہے کہ سبق دیکھنے کے بغیر ان کا جواب دیا جائے.جواب کے پرچے تمام طالب علموں کو یہاں بھیجنے ہوں گے.اور یہاں ایک استادان کو درست کر دے گا.اور انہیں لکھ دے گا کہ تم نے فلاں فلاں غلطی کی ہے جو درست کر دی ہے.اس طرح ہماری ساری جماعت کے لوگ جہاں جہاں بھی ہوں گے وہیں قرآن شریف سیکھ لیں گے.ہمارا کام ہے کہ چیز تیار کر کے قوم کو دے دیں آگے جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے وہ فائدہ اٹھائے.ہم کسی کو زبردستی نہیں سکھا سکتے اس لئے جس کا دل چاہتا ہے خدا تعالیٰ کی

Page 164

انوار العلوم جلد - ۳ ۱۳۷ باتوں کو سیکھے آنحضرت اللہ کی باتوں سے واقف ہو اور حضرت مرزا صاحب کی باتوں سے آگاہ ہو ہم اپنی طرف سے ایسے لوگوں کے لئے آسانی بہم پہنچانے کی حتی الوسع کوشش کریں گے.ملہ قرآن شریف کا ایک تو وہ ترجمہ ہو گا جس میں نوٹ اور ترجمہ ہو گا لیکن یہ علیحدہ ہوگا جس میں الگ الگ الفاظ کے معنی لکھے جائیں گے.اس سے آئندہ انشاء اللہ بہت آسانیاں پیدا ہو جائیں گی.موجودہ صورت میں قرآن شریف کے با ترجمہ پڑھنے میں بہت سی مشکلات ہیں.مثلاً ائی ایک لفظ ہے جس کے معنی خاص کے ہیں.یہ جس لفظ پر آئے اس کے معنوں کو خاص کر دیتا ہے یہ حرف قرآن کریم میں سینکڑوں جگہ پر آتا ہے لیکن چونکہ یہ حرف جب آتا ہے دوسرے حرف سے مل کر آتا ہے.اس لئے عربی زبان سے ناواقف انسان ہر جگہ استاد کا محتاج ہوتا ہے لیکن اگر کسی کو ان کے معنی الگ بتا دیے جائیں تو اس ایک حرف سے اسے گویا سینکڑوں مقامات آسان ہو جائیں گے.اب یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص مثلاً قادر کے معنی جانتا ہے مگر جب القادِرُ آ جائے تو وہ کوئی اور لفظ سمجھنے لگ جاتا ہے.پس جب اسے آئی کے معنی معلوم ہوں گے تو جہاں بھی اور جس لفظ پر بھی یہ آئے گا.اس کے معنی وہ خود کر لے گا.اور اس طرح ایک لفظ کے معنی جانے سے اسے سینکڑوں الفاظ آجائیں گے.دوسری تجویز یہ ہے کہ جیسا میں نے ۱۲.اپریل ۱۹۱۴ء کے جلسہ میں بتایا تھا.خاص خاص مسائل پر چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ لکھے جائیں تاکہ عام لوگ ان کو پڑھ کر مسائل دین سے پوری طرح واقف ہو جائیں تا ایسا نہ ہو کہ بعض پاک ممبر کہلانے والوں کی طرح ان کی جرابیں ایڑیوں سے پھٹی ہوئی ہوں اور انہیں کوئی پرواہ نہ ہو.انہی پاک ممبر کہلانے والوں میں سے میں نے ایک کو دیکھا ہے کہ ایک ٹانگ پر بوجھ ڈالے اور دوسری کو ڈھیلا چھوڑے نماز پڑھا کرتا تھا.اور ایک دیوار سے ٹیک لگا کر پڑھتا تھا وجہ یہ کہ اس نے حضرت صاحب کو اس طرح پڑھتے دیکھا تھا.حالانکہ آپ بیمار تھے اور بعض دفعہ یک لخت آپ کو دوران سر کا دورہ ہو جاتا تھا.جس سے گرنے کا خطرہ ہو تا تھا اس لئے آپ ایسے وقت میں کبھی سہارا لے لیا کرتے تھے.ان لوگوں نے تکبر اور بڑائی کی وجہ سے باوجود حضرت مسیح موعود کی صحبت پانے کے کچھ نہ سیکھا.ان میں سے ایسے بھی تھے کہ حضرت صاحب کے سامنے بیٹھے ہوئے اپنی لات پر مکیاں مار رہے ہوتے.اور آہا ہا ہا ہا کرتے.کوئی ادب اور کوئی تہذیب ان کو نہ ہوتی.میں ان کو دیکھ کر تعجب ہی کیا کرتا تھا کہ یہ کس طرح کے لوگ ہیں.غرض وہ خالی آئے اور خالی ہی چلے گئے.

Page 165

۱۳۸ لیکن تم ڈرو کہ خدا تعالیٰ کی گرفت بہت سخت ہوتی ہے.وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کے احکام کی قدر نہیں کرتے اور ان کو سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے.خدا تعالیٰ بھی ان کو نہیں چاہتا کہ اپنے قرب میں جگہ دے.پس میں نے قرآن شریف کے پڑھنے کے لئے یہ تجویزیں کی ہیں ان سے فائدہ اٹھاؤ اور کچھ حاصل کر لو.غرض جماعت کو علم دین سکھانے کی دوسری تدبیر ایسے ٹریکٹوں کا شائع کرنا ہے جن میں مختلف ضروری مسائل ہوں.فی الحال ایک رسالہ مسئلہ زکوۃ پر لکھا گیا ہے جو کل چھپ جائے گا (چھپ گیا ہے) اس کا آپ لوگ خوب مطالعہ کریں اور ان احکام پر عمل کرنے کی طرف متوجہ ہوں.زکوۃ کے متعلق کئی قسم کی غلط باتیں مشہور ہیں.بعض کہتے ہیں کہ صرف رجب کے مہینہ میں زکوۃ دی جا سکتی ہے.بعض کچھ اور کہتے ہیں اور پھر کئی قسم کے بہانے اور ذریعے زکوۃ نہ دینے کے نکالے جاتے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرماتے تھے کہ ایک شخص بڑا مالدار تھا وہ جب زکوۃ دیتا تو اس طرح کرتا کہ ایک گھڑے میں روپے ڈال کر اوپر تھوڑے سے گندم کے دانے ڈال دیتا اور ایک غریب طالب علم کو بلا کر کہتا کہ میں نے یہ مال تمہیں دے دیا ہے تم اسے قبول کرو.وہ کہتا میں نے قبول کیا.پھر وہ اسے کہتا اس بوجھ کو کہاں اٹھا کر لے جاؤ گے.اس کو میرے پاس ہی بیچ دو اور دو تین روپے لے لو.اس طرح وہ اس کو دو تین روپے دے کر سارا مال گھر میں ہی رکھ لیتا.وہ آدمی خوب سمجھتا کہ اس گھڑے میں روپے ہیں لیکن اس ڈر سے کچھ نہ کہہ سکتا کہ اگر میں نے کچھ کہا تو ان دو تین روپوؤں سے بھی جاؤں گا.تو اس قسم کے چیلے تراشے جاتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جاہل لوگ نہیں جانتے کہ زکوۃ دینے کی کیا شرائط ہیں.آنحضرت ﷺ نے تو یہاں تک فرما دیا ہے کہ جو شخص کسی کو صدقہ کا مال دے وہ اس سے نہ خریدے.معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت کو معلوم تھا کہ ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ لوگ رو پوؤں پر گیہوں رکھ کر دیں گے اور خود ہی خرید لیں گے.اس لئے فرما دیا کہ کوئی صدقہ کا مال دے کر پھر نہ خریدے.اگر یہ بات انہیں معلوم ہو تو کیوں ایسا کریں.یہ زکوۃ کا رسالہ بارہ صنفی کا ہے.اس کو اگر آپ لوگ اچھی طرح پڑھ لیں اور یاد کرلیں تو کوئی مولوی ان مسائل کے متعلق آپ سے گفتگو کرنے کی جرأت نہیں کر سکے گا.یہ ٹریکٹ بہت محنت اور تحقیق سے تیار کیا گیا ہے.جلسہ کے قریب میں نے علماء کی ایک کمیٹی میں بیٹھ کر اور کتب حدیث و فقہ سامنے رکھ کر اس کو تیار کروایا ہے.پڑھنے والے کو معلوم نہیں ہو سکتا کہ فیج اعوج کے زمانہ میں کسی مسئلہ کے ھوکا

Page 166

العلوم جلد ۳۰ ۱۳۹ متعلق تحقیق کرنے میں کس قدر مشکلات پیدا ہو گئی ہیں.جنہوں نے یہ کام کیا ہے وہی اس کی مشکلات کو سمجھ سکتے ہیں.کئی مسائل ایسے ہیں کہ آئمہ نے ابتداء احادیث کے مرتب نہ ہونے کی وجہ سے ان میں قیاس سے کام لیا ہے لیکن ہمارے پاس احادیث نہایت مرتب صورت میں موجود ہیں پس ہمیں ان مسائل پر از سر نو غور اور تحقیق کی ضرورت ہوئی.اسی طرح اور بہت سی مشکلات تھیں جن کو دور کر کے یہ رسالہ تیار کیا گیا ہے جو خدا کے فضل سے بہت عمدہ تیار ہوا ہے.یہ رسالہ بارہ صفحات کا ہے.اسی طرح کے اور بھی چھوٹے چھوٹے رسائل مختلف مسائل مثلاً وراثت ، طلاق ، صدقہ نکاح وغیرہ کے متعلق ہوں گے.پھر اسی طرح اعتقادات کے متعلق کہ خدا تعالیٰ کو ہم کیا سمجھیں عرش کیا ہے ، بہشت دوزخ ، فرشتے ، تقدیر وغیرہ وغیرہ کے متعلق کیا کیا اعتقاد رکھنے چاہئیں.اس زمانہ میں جھوٹے پیروں اور جاہل علماء نے بہت سی غلط اور بیہودہ باتیں پھیلا رکھی ہیں.آج ہی صوفی غلام محمد صاحب کا خط آیا ہے.جس میں وہ اور وہاں کے دوسرے احمدی بھائی آپ سب لوگوں کو السلام علیکم لکھتے ہیں.انہوں نے اپنے اس خط میں لکھا ہے کہ ایک شخص احمدی ہوا ہے.اس نے بتایا کہ میں ایک پیر کا مرید تھا پہلے میں نماز پڑھا کرتا تھا لیکن جب اس پیر کا مرید ہوا تو اس نے کہا کہ تم یہ کیا لغو حرکت کرتے ہو.خدا تعالیٰ تو فرماتا ہے نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ( : (۱۷) کہ ہم رگ جان سے بھی قریب تر ہیں.پھر تم نماز کیسی اور کس کی پڑھتے ہو.تم تو ہندوؤں کے پتھر کے بتوں پر ہنستے ہو اور خود اینٹوں کی بنی ہوئی مسجد کے آگے سجدے کرتے ہو.غرض اس طرح اس نے نماز چھڑا دی.تو ایسے لوگوں نے اس قسم کی باتیں پھیلا کر دین کو بگاڑ دیا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو بیماری میں کہا جائے کہ علاج کراؤ تو کہہ دیتے ہیں کہ جو خدا کی مرضی وہی ہو گا علاج سے کیا بنتا ہے.یہ خیالات مسئلہ تقدیر کے نہ سمجھنے کا نتیجہ ہیں.پس میرا منشاء ہے کہ ایسے مسائل پر عمدگی کے ساتھ چھوٹے چھوٹے رسائل لکھے جائیں اور زبانی بھی سمجھایا جائے.میرا دل چاہتا ہے کہ اگلے جلسہ پر یا جب خدا تعالیٰ توفیق دے اور جس کو دے تقدیر اور تدبیر کے مسئلہ پر بحث کر کے بتایا جائے کہ ان دونوں کا آپس میں کیا تعلق ہے.کہاں تک تقدیر کو دخل ہے اور کہاں تک تدبیر کو.اس وقت وقت نہیں ورنہ میں بتا دیتا.پھر ایک مسئلہ ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت ہے اس کے متعلق میرا ایک لیکچر فیروزپور میں ہوا تھا جس کو میں ایک ٹریکٹ کی صورت میں چھپوا کر مفت شائع کر چکا ہوں جو اب بھی دفتر اخبار الفضل سے مل سکتا ہے اس میں میں نے خدا تعالیٰ کی

Page 167

ر العلوم جلد ۱۴۰ انوار خلافت ہستی کے ثبوت میں دس دلائل دیئے ہیں.ارادہ ہے کہ اسی طرح خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق ٹریکٹ لکھے جائیں جن میں موٹی موٹی دلیلیں لکھی جائیں.اور باریک باتوں میں نہ پڑا جائے.کیونکہ بہت سے ایسے لوگ ہیں کہ جب ان پر کوئی اعتراض کر بیٹھتا ہے تو جواب نہیں دے سکتے.ان رسائل کو پڑھ کر انشاء اللہ وہ اس قابل ہو جائیں گے کہ کسی کے سوال کے جواب میں لا جواب نہ ہوں.اسی طرح نبیوں کے ثبوت میں ان کے افعال میں ان کے نشانات میں اور دعا الهام، قیامت وغیرہ کے متعلق جو بہت ضروری باتیں ہیں ، پندرہ پندرہ یا میں میں صفحات کے رسالے لکھے جائیں.جن کو لوگ جلدی سے پڑھ لیا کریں.اور جو مہینہ میں دو تین چار بار پڑھنے سے حفظ ہو جائیں اور جب تک کوئی دوسرا ٹریکٹ نہ نکلے.پہلے کو اچھی طرح یاد کر لیا جایا کرے.پس میں نے علم کے حاصل کرنے کے لئے چار تدبیریں بتائی ہیں.اول یہ کہ ہر ماہ میں ایک یا دو دفعہ قادیان آؤ اور آکر قرآن پڑھو.دوم پہلا پارہ ترجمہ قرآن کا خریدو اور پڑھو.سوم اسباق قرآن پڑھو.چهارم مختلف رسائل کے ٹریکٹوں کو پڑھو اور حفظ کرو.ان باتوں کے علاوہ میرا ایک اور بھی ارادہ ہے مگر وہ ابھی وقت آدمی اور بہت سا روپیہ چاہتا ہے.اگر میری زندگی میں خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق اسباب پیدا کر دیئے تو میں اس پر بھی ضرور عمل کراؤں گا.جو یہ ہے کہ کچھ ایسے مدرس مقرر کئے جائیں جو اچھے عالم ہوں.وہ گاؤں یہ گاؤں اور شہر بہ شہر دورہ کرتے پھریں اور ایک جگہ پندرہ میں دن ٹھر کر وہاں کے لوگوں کو پڑھائیں پھر دوسرے گاؤں میں چلے جائیں.اس طرح وہ ہر سال اپنے اپنے مقررہ علاقے میں دورہ کرتے رہیں ایسا کرنے سے انشاء اللہ بہت سے لوگ عالم بن جائیں گے اور دین سے واقف ہو جائیں گے یہ دین کی ناواقفیت ہی ہے کہ لاکھوں آدمی دہریہ بن گئے ہیں اور لاکھوں نے دوسرے مذاہب کو اختیار کر لیا ہے.اور ایسے انسان جو سیدوں کے گھر پیدا ہوئے تھے.آج رسول کریم اللہ کو گالیاں دیتے اور برا بھلا کہتے ہیں اور اسلام کو ایک جھوٹا مذہب قرار دیتے ہیں.جب میں حج کرنے گیا تو میرے ساتھ جہاز میں دو تین نوجوان بیٹھے ہوئے تھے جو ولایت پڑھنے کے لئے جا رہے تھے وہ اسلام کی حمایت میں بڑے زور اور جوش

Page 168

ز العلوم جلد ۳۰ ۱۴۱ انوار خداشت سے باتیں کرتے.ایک کہتا اگر یوں ہو تو یوں ہو جائے.دوسرا کہتا اگر یوں ہو تو یوں ہو سکتا ہے.میں نے ان کی کسی بات پر کہا کہ قرآن شریف میں تو یوں لکھا ہے.ایک نے مجھے ہنس کر کہا قرآن کو کون مانتا ہے میں نے کہا ادھر تو تم اسلام کی حمایت میں بڑی بڑی باتیں کر رہے تھے اور ادھر کہتے ہو کہ قرآن کو کون مانتا ہے یہ کیا؟ اس نے کہا میں رسول اللہ کی تو عزت کرتا ہوں کیونکہ انہوں نے ایک متحد قوم تیار کر دی اور دنیا کو بہت فائدہ پہنچایا لیکن میں قرآن کی کوئی عزت نہیں کرتا.میں نے کہا رسول کریم نے قرآن شریف خود تو نہیں لکھا یہ تو خدا تعالیٰ کا کلام ہے.کہنے لگا یہ انہوں نے لوگوں کو منوانے کے لئے کہہ دیا ہے ورنہ خدا کیا اور اس کی کتاب کیا.میں نے ان باتوں سے سمجھ لیا کہ اسے اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.میں بہت دیر تک اسے سمجھاتا رہا لیکن خدا ہی جانتا ہے کہ اس پر کوئی اثر ہوا یا نہیں.مگر اتنا میں نے دیکھا کہ جس دن ہم نے جدا ہونا تھا اس سے ایک دن پہلے ایک ہندو دہریہ نے جو اس کے ساتھ ہی کا تھا خدا تعالٰی کی نسبت کوئی سخت لفظ کہا تو وہ اس کے پاس آکر کہنے لگا خدا کی نسبت ایسا نہ کہو.یہ الفاظ سن کر میرا دل دھڑکتا ہے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ متاثر ضرور ہوا.غرض لوگ ناواقفی کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ رہے ہیں.اگر ان کو واقف کر دیا جائے تو وہ بچے مسلمان بن سکتے ہیں.وہ شخص جس کو ہیرے کی قدر ہی معلوم نہ ہو وہ اسے پھینکتا ہے لیکن جسے معلوم ہو کہ : یہ نہایت قیمتی چیز ہے وہ حتی الوسع کبھی اس کو ضائع نہیں ہونے دیتا.میں نے علم کے حاصل کرنے کی یہ تجاویز کی ہیں سو ان کو کام میں لانے کی تم لوگ کوشش کرو تا اسلام کی قدر اور قیمت جاننے والے ہنو.اور اس بیش بہا ہیرے کو رائیگاں نہ جانے دو.اگر تم اس کام کے لئے کوشش کرو گے تو خدا تعالیٰ تمہاری ہمتوں میں برکت دے گا.اور جو کوئی اس کام میں اپنا کچھ وقت لگائے گا خدا تعالٰی پہلے سے کم وقت میں اس کا کام کر دیا کرے گا.میرا دل چاہتا ہے کہ ہماری جماعت کا ہر ایک فرد اس قابل ہو کہ ہر ایک سوال کا جھٹ جواب دے سکے اور ہر ایک بات کے متعلق فور اولا ئل بنا دے.اسی مضمون کا ایک اور حصہ ہے اور وہ یہ کہ ہماری جماعت عورتوں کو علم دین سکھاؤ کے وہ لوگ جو علم کا سیکھنا تو ضروری سمجھتے ہیں.لیکن اس کو فرض کفایہ جانتے ہیں یعنی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ایک گھر میں سے خاوند سیکھ لے تو سب کے لئے کافی ہو جاتا ہے.مثلاً ابا جان احمدی ہو گئے تو بیٹے بھی بخشے گئے خواہ وہ غیر احمدی ہی کیوں نہ

Page 169

وم جلد ۳۰ انوار خلافت ہوں.لیکن یہ غلط ہے اور بالکل غلط ہے.اگر باپ نیک ہے اور بیٹا بد.تو باپ ہی بخشا جائے گا اور بیٹا سزا پائے گا اور اگر ایک بھائی نیک ہے اور دوسرا بد تو نیک ہی جنت میں جائے گا اور دوسرا دوزخ میں.اگر خاوند نیک ہے اور بیوی بد تو خاوند ہی خدا تعالیٰ کے انعامات کا وارث ہوگا اور بیوی خدا کے غضب کی.پس تم یہ مت سمجھو کہ تمہارے پڑھ لینے سے یا علم دین سے واقف ہو جانے سے تمہارے بیوی بچے بھائی بہن وغیرہ بخشے جائیں گے بخشا وہی جائے گا جس کا دل صاف ہو گا اور دل صاف سوائے علم کے ہو نہیں سکتا.پس جس طرح تم اپنے لئے پڑھنا ضروری سمجھتے ہو اسی طرح ان کے لئے بھی پڑھنا ضروری سمجھ کر ان کو پڑھاؤ تا تمہارے گھر ایسے نہ ہوں کہ صرف تم ہی قرآن جاننے والے ہو اور باقی جاہل بلکہ تمہاری عورتیں بھی جانتی ہوں.خدا تعالی ، ملائکہ سزاء جزاء قضاء و قدر وغیرہ سب احکام سے واقف ہوں.خدا تعالیٰ نے عورتوں کو مردوں کا ایک حصہ قرار دیا ہے.اور جہاں مردوں کے لئے حکم آیا ہے وہاں عورتوں کو بھی ساتھ ہی رکھا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے یا يُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا ن (اسماء) (٢٤) اے لوگو! اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ہے.اور تم میں سے ہی تمہارا جوڑا پیدا کیا ہے.پھر ان دونوں سے بہت سی جانیں نکالی ہیں جو بہت سے مرد ہیں اور بہت سی عورتیں.اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جسکے نام سے تم سوال کرتے ہو.اور قرابتوں کا.بے شک اللہ تعالیٰ تم پر نگہبان ہے.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ کا حکم صرف مردوں کو ہی نہیں بلکہ عورتوں کو بھی ہے.پس ان کو بھی دین سے واقف کرو.آنحضرت کی کی عورتیں دین سے بڑی واقف تھیں یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ تم نصف دین عائشہ سے سیکھ سکتے ہو اور واقعہ میں آدھا دین حضرت عائشہ نے سکھایا ہے.لوگوں نے اس کے غلط معنے گئے ہیں کہ اس طرح ان کو حضرت ابو بکرہ حضرت عمر وغیرہ پر فضیلت ہو گئی ہے لیکن یہ غلط ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ رسول اللہ نے حضرت عائشہ کی فضیلت بتائی ہے بلکہ یہ عورتوں کے متعلق جو احکام ہیں وہ ان سے سیکھو.چنانچہ جب بھی صحابہ کو عورتوں کے متعلق کسی بات میں مشکل پیش آتی تو ان سے ہی پوچھتے.حضرت عمرؓ کو ایک دفعہ یہ دقت پیش آئی کہ مرد عورت سے صحبت کرے اور انزال نہ ہو تو غسل کرنا چاہتے یا

Page 170

العلوم جلد - ۱۴۳ نہیں.اس کے متعلق انہوں نے لوگوں سے پوچھا لیکن تسلی نہ ہوئی فرمایا دین کے معاملہ میں کیا شرم ہے آنحضرت ا کی عورتوں سے پوچھنا چاہئے.پھر انہوں نے اپنی لڑکی سے پوچھا جس نے بتایا کہ غسل کرنا فرض ہے رسول کریم اسی طرح کیا کرتے تھے.پس اگر آپ کی بیویاں آپ سے اس قسم کے احکام نہ سیکھتیں تو یہ باتیں ہم تک کس طرح پہنچتیں.حالانکہ ان میں سے بعض ایسے مسائل ہیں کہ اگر ان کے متعلق معلوم نہ ہوتا تو ہمارا آرام حرام ہو جاتا زندگی مشکل ہو جاتی اور جینا دو بھر معلوم ہوتا.اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.او مردو ! کیا تم اپنے آپ کو عورتوں سے بڑا سمجھتے ہو.تم دونوں کو ہم نے ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے.پھر تم کیوں ان کو اپنے سے علیحدہ سمجھتے ہو.ان کو بھی اپنی طرح کا ہی سمجھو اور جو بات اپنے لئے ضروری خیال کرتے ہو وہی ان کے لئے کرو.خدا تعالیٰ کے اس حکم کے ہوتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ مرد یہ تو کرے گا کہ عورت کو اچھے کپڑے پہنا دے عمدہ زیور بنوا دے لیکن وہ یہ خیال نہیں کرے گا کہ اس کو دین سکھانا بھی ضروری ہے.کیا لوگ اچھے کپڑے میزوں اور کرسیوں پر نہیں ڈالتے.اور کیا لوگ گھنگرو اپنے گھوڑوں کی گردنوں میں نہیں پہناتے.پس جب ان حیوانوں اور بے جان چیزوں کی آرائش کے لئے بھی رہی کچھ کیا جاتا ہے تو عورتوں اور ان میں فرق کیا رہا.در حقیقت جو شخص عورت کو صرف ظاہری زینت کا سامان دے کر سمجھ لیتا ہے کہ میں نے اپنا فرض ادا کر دیا وہ عورت پر کوئی احسان نہیں کرتا اور نہ اس کا ہمدرد ہے بلکہ وہ خود اپنی خوشی کا طالب ہے کیونکہ عورت کی زینت مرد کی خوشی کا باعث ہوتی ہے پس عورت کا صرف یہی حق نہیں کہ اس کے جسمانی آرام کا مرد خیال رکھے بلکہ اس سے زیادہ کی وہ حقدار ہے اس کا حق ہے کہ جس طرح انسان خود دین سے واقف ہو اسی طرح اسے بھی دین سے واقف کرے.غرض دین کی تعلیم عورتوں کو بھی ضرور دینی چاہئے کیونکہ جب تک دونوں پہلو درست نہ ہوں اس وقت تک انسان خوبصورت نہیں کہلا سکتا.کیا کانا آدمی بھی خوبصورت ہوا کرتا ہے.کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اگر کسی کی ایک آنکھ جاتی رہے تو اسے برا معلوم ہوتا ہے.لیکن بہت سے ایسے ہیں جو بیوی کی طرف سے کانا بننے کو محسوس بھی نہیں کرتے.میں تو باوجود اس کے کہ اور بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں گھر میں ضرور پڑھاتا ہوں کیونکہ عورتوں کو پڑھانا بہت ضروری ہے.خدا تعالیٰ نے مرد و عورت کے لئے زوج کا لفظ رکھا ہے.

Page 171

۱۴۴ انوار خلافت بعض لوگوں نے اس کے معنی میاں یا بیوی کے کئے ہیں.اور بعض نے جوڑا کئے ہیں.لیکن عربی زبان میں زوج اس شے کو کہتے ہیں جس کے ملے بغیر ایک دوسری شے نامکمل رہے.جوتیوں کے جوڑا میں سے ہر ایک کو زوج کہتے ہیں کیونکہ صرف ایک جوتی کام نہیں دے سکتی.پس خدا تعالٰی نے میاں بیوی کا نام زوج رکھ کر بتایا ہے کہ بیوی کے بغیر میاں اور میاں کے بغیر بیوی کسی کام کی نہیں ہوتی.پس جب مرد و عورت کا ایسا تعلق ہے تو غور کرنا چاہئے کہ عورتوں کو دین سے واقف کرنا کس قدر ضروری ہوا.ہماری جماعت کے وہ لوگ جنہوں نے اپنی عورتوں کو دین سے واقف نہیں کیا ان کا تلخ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے ان کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے بیوی بچے غیر احمدی ہو گئے.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے ان کو کچھ نہ سکھایا.خاوندوں کی وجہ سے وہ احمدی ہو گئیں جب خاوند مر گیا تو انہوں نے بھی احمدیت کو چھوڑ دیا.اگر کوئی عورت مرجائے تو خاوند اس کا جنازہ پڑھتا ہے.لیکن نہیں جانتا کہ اس حالت میں جبکہ میں نے اپنی عورت کو دین سے واقف نہیں کیا میرا جنازہ پڑھنا کیا فائدہ دے گا.مذہب اسلام کوئی ٹھٹھا نہیں بلکہ اس کی ہر ایک بات اپنے اندر حقیقت رکھتی ہے جنازہ بھی ایک حقیقت رکھتا ہے اس طرح نہیں کہ جنازہ پڑھا اور مرنے والا بخشا گیا جنازہ تو ایک دعا ہے جو نیک بندے مردہ کے لئے اس طرح کرتے ہیں کہ اے خدا! تیرا یہ انسان بہت نیکیاں کرتا رہا ہے لیکن اگر اس نے کوئی تیرا تصور بھی کیا ہے تو اسے ان نیکیوں کی وجہ سے بخش دے.لیکن وہ شخص جو زندگی میں اپنی عورت کو دین سے ناواقف رکھتا ہے وہ کس مونہہ سے کہہ سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ اسے بخش دے.غرض بیویاں انسان کا آدھا دھڑ ہیں.آنحضرت اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی بیویوں میں انصاف نہیں کرتا قیامت کے دن اس کا آدھا دھڑ گرا ہوا ہو گا.اس سے آپ نے بتایا ہے که عورت در حقیقت انسان کا جزو بدن ہے.وہ شخص جو اپنی بیوی کو علم نہیں پڑھاتا وہ بھی اس سے نا انصافی کرتا ہے اسے بھی اس وعید سے ڈرنا چاہئے.اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی کی بیوی بیمار ہو تو گھبراتا ہے علاج معالجہ کے لئے ادھر ادھر بھاگا پھرتا ہے دعا کے لئے ہماری طرف تاریں بھیجتا ہے لیکن اگر بیوی روحانی بیماری میں مبتلا ہو تو اسے کوئی فکر نہیں ہوتا.اگر بیوی کے سر میں درد ہو تو میری طرف لکھتے ہیں کہ دعا کی جائے.لیکن اگر نماز روزہ کی تارک ہو.تو پتہ بھی نہیں دیتے.اگر کھانسی ہو تو حکیم کے پاس دوڑے جاتے ہیں.لیکن اگر زکوۃ نہ دیتی ہو بخل

Page 172

العلوم جلد - ۱۴۵ انوار خلافت کرتی ہو.تو پرواہ نہیں کرتے.بخار کھانسی اور درد کو خطرناک سمجھتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ اس کھانسی بخار اور درد کی باری ہوئی بیوی تو انہیں مل جائے گی مگر دین کی ماری ہوئی نہیں ملے گی.اس دنیا کی جدائی سے گھبراتے ہیں اور ہر طرح کی کوششیں کرتے ہیں کہ جدائی نہ ہو لیکن اس ہمیشہ کی جدائی کا انہیں فکر نہیں ہے جو بے دین ہونے کی وجہ سے واقعہ ہوگی.پس اگر تمہیں اپنی عورتوں سے محبت ہے، پیار ہے، انس ہے تو جس طرح خود دین کی تعلیم سیکھتے ہو اسی طرح ان کو بھی سکھاؤ.اور یاد رکھو جب تک اس طرح نہ ہو گا ہماری جماعت کا قدم اس جگہ پر نہ پہنچے گا جس جگہ صحابہ کرام کا پہنچا تھا.کیونکہ اولاد پر عورتوں کا زیادہ اثر ہوتا ہے.اگر عورتوں کے بے دین ہونے کی وجہ سے اولاد بھی بے دین رہی تو آئندہ کس طرح ترقی ہوگی.ہمارے ایک دوست لکھتے ہیں کہ میں اپنے بچوں کو احمدیت کے متعلق سمجھاتا رہتا ہوں لیکن جب باہر جاتا ہوں تو ان کی والدہ پیار سے اپنے پاس بلا کر کہہ دیتی ہے کہ تمہارا باپ جو کچھ کہتا ہے سب جھوٹ ہے اس کو نہ مانتا.اس طرح بچے ایسے کے ویسے ہی ہو جاتے ہیں.اب غور کرو کہ بچے باہر رہنے والے ابا کی بات مانیں گے یا ہر وقت پاس رہنے والی ماں کی.ماں سے بچوں کو بالطبع محبت ہوتی ہے اس لئے اس کی بات کا ان پر زیادہ اثر ہوتا ہے اور اسی کی بات وہ جلدی قبول کر لیتے ہیں.چنانچہ بعض جگہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے مسلمان جنہوں نے عیسائی عورتوں سے شادی کی ان کی اولاد بھی عیسائی ہو گئی.جس کی وجہ یہ معلوم ہوئی کہ ماں اپنے بچوں کو خفیہ خفیہ عیسائیت کی تعلیم دیتی رہی.پس تم لوگ اگر اپنی اولاد کو دیندار بنانا چاہتے ہو تو ان کی ماؤں کو مضبوط کرو تاکہ تمہاری نسلیں مضبوط ہوں.کیونکہ بچپن سے کان میں پڑی ہوئی بات پھر مٹ نہیں سکتی.کیا اگر دنیا میں نسلی تعصب نہ ہو تا تو اسلام کبھی کا سب مذاہب کو کھانہ جاتا ؟ ضرور کھا جاتا.مگر چونکہ دوسرے مذاہب والوں نے بچپن میں ہی ماں کی گود میں بیٹھ کر یہ سنا ہوا ہے کہ اسلام جھوٹا ہے.اس لئے باوجود ہزاروں دلیلوں کے پھر بھی نہیں مانتے.اگر تم لوگ اپنی آئندہ نسلوں میں احمدیت دیکھنا چاہتے ہو تو ان ماؤں کو پورا پورا احمدی بناؤ.اور احمدیت سے خوب واقف کرو.یاد رکھو اگر تمہاری آئندہ نسلوں میں احمدیت نہ رہی تو تمہاری اس وقت کی ساری کوشش اور محنت ضائع جائے گی.کیونکہ انسان تو پچاس ساٹھ یا زیادہ سے زیادہ سو سوا سو سال کے عرصہ تک مرجاتا ہے.اگر اس کی جگہ لینے والا کوئی اور نہ ہوا تو وہ خالی ہو جائے گی.میرے چھوٹے بھائی میاں بشیر احمد نے مجھے ایک بات سنائی کہ گورنمنٹ

Page 173

ر خلافت کالج کے ایک طالب علم کو میں نے بعض دوسرے غیر احمدی طلباء سے یہ کہتے سنا کہ ہمارے ابا جان بڑے ہی نیک انسان ہیں کئی سال ہوئے کہ وہ احمدی ہوئے ہیں لیکن ہمیں کبھی ایک دن بھی انہوں نے نہیں کہا کہ تم بھی احمدی ہو جاؤ.اس لڑکے کو اپنے باپ میں یہ نیکی نظر آئی کہ مجھے احمدی بننے کے لئے کبھی نہیں کہا گیا.لیکن کس قدر افسوس ہے اس باپ پر جس نے اس طرح کیا.کیا ایک باپ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچے کو کنویں میں گرنے دے گا.نہیں بلکہ ممکن ہے کہ بچہ کو گرنے سے بچاتے ہوئے خود بھی گر پڑے.مگر بچہ جہنم میں جاتا ہے اور باپ سامنے کھڑا دیکھ رہا ہے.پکڑتا نہیں بلکہ خوش ہوتا ہے.پس تم اپنے گھروں میں تعلیم دو تاکہ تمہاری اولاد بھی سیکھے.میرا دل چاہتا ہے کہ ہماری نسلیں ہم سے بھی زیادہ احمدیت کا جوش لے کر اٹھیں.تا خدا تعالی کا یہ دین اطراف عالم میں پھیل جائے.اس لئے میں یہی نہیں کہتا کہ تم قرآن پڑھو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ اپنی عورتوں اور بچوں کو بھی پڑھاؤ تا کہ جس طرح تم اس دنیا میں اکٹھے ہو اگلے جہان میں بھی اکٹھے ہی رہو.یہ کوئی معمولی بات نہیں میں اس کو سختی سے محسوس کر رہا ہوں.اس لئے سخت تاکید کرتا ہوں کہ عورتوں کے پڑھانے کی طرف جلدی توجہ کرو.ہماری جماعت میں عورتیں کم داخل ہیں اور بچے بھی کم احمدی ہیں جس کی یہی وجہ ہے کہ وہ تعلیم دین سے ناواقف ہیں.تمہیں چاہئے کہ دونوں طرفوں کو مضبوط کرو.یعنی بیوی بچوں کو پڑھاؤ اور خود بھی پڑھو.اگر ایسا نہ ہوا تو یاد رکھو کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ وہ احمدیت جس کے لئے تم جان اور مال تک دینے کے لئے تیار ہو اسی کو تمہاری اولاد گالیاں دے گی.غور کرد که اگر خدانخواستہ ایسا ہوا تو ہمیں غیروں کو احمدی بنانے اور اس قدر کوششیں کرنے کا کیا اجر ملا جبکہ ہماری اپنی اولاد ہی اس نعمت سے محروم ہو گئی.میرے خیال میں ایک جو سینکڑوں روپیہ اس لئے دیتا ہے کہ ولایت میں مبلغوں کو بھیجو جو لوگوں کو احمدی بنائیں لیکن وہ خود اپنے بیوی بچوں کو تبلیغ نہیں کرتا جن پر نہ روپیہ خرچ ہوتا ہے نہ کسی مبلغ کی ضرورت پیش آتی ہے وہ بہت افسوس کے قابل ہے.کیونکہ اس کا کیا خرچ ہوتا یا اسے کیا تکلیف پیش آتی اگر وہ گھر میں بیٹھے بیٹھے کچھ سنا دیا کرتا.صحابہ کرام اسی طرح کیا کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ ان کی عورتیں بھی اشاعت اسلام میں بہت مدد دیتی تھیں.ایسا غرض میں نے یہ تیسری بات بتائی ہے کہ ہماری جماعت کے مرد اور عورتوں کو علم دین کی بڑی ضرورت ہے.پس تم خود بھی علم سیکھو اور اپنی عورتوں کو بھی سکھاؤ.تاکہ خدا تعالی کے

Page 174

علوم جلد ۳۰ ۱۴۷ انوار خلافت پاک انسانوں میں داخل ہو جاؤ اور ان انعامات کے وارث بنو جو خدا تعالٰی کے پاک بندوں کو ملا کرتے ہیں.خدا کرے ہماری جماعت کا ایک ایک فرد دین اسلام سیکھے.اور جس طرح ہم اس دنیا میں اکٹھے ہیں اسی طرح اگلے جہان میں بھی اکٹھے ہوں.اور خدا تعالی کی معرفت کو پائیں تاکہ جہالت کی موت نہ مریں.آمین چونکہ وقت بہت تھوڑا ہے اس لئے ہر ایک بات کو میں بہت اختصار سے بیان کر رہا ہوں.غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا منع ہے پھر ایک اور مسئلہ ہے جس کے متعلق بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.اس کے متعلق بھی میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سختی سے تاکید فرمائی ہے کہ کسی احمدی کو غیر احمدی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے.باہر سے لوگ اس کے متعلق بار بار پوچھتے ہیں.میں کہتا ہوں تم جتنی دفعہ بھی پوچھو گے اتنی دفعہ ہی میں یہی جواب دوں گا کہ غیر احمدی کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں.جائز نہیں.جائز نہیں.میں اس کے متعلق خود کر ہی کیا سکتا ہوں.میں بھی تو اسی کا فرمانبردار ہوں جس کے تم سب ہو.پھر میں کیا کر سکتا ہوں اور میرا کیا اختیار ہے.ہاں میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود کا یہ حکم بار بار سناتا رہوں خود مانوں اور تم سے منواؤں.غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے کے متعلق جو لوگ پوچھتے ہیں میں ان کو کہا کرتا ہوں مجھے یہ تو بتاؤ کہ جس شخص پر گورنمنٹ ناراض ہو اس کو تم لوگ گورنمنٹ کے آگے اپنی سفارش کرانے کے لئے پیش کیا کرتے ہو یا اس کو جس پر خوش ہو اور جو اس کے سامنے مقبول ہو اس کا یہی جواب دیتے ہیں کہ جس پر گورنمنٹ خوش ہو اسی کو پیش کیا کرتے ہیں.پس اگر گورنمنٹ کے سامنے اپنا ڈیپوٹیشن (DEPUTATION) لے جانے کے لئے کسی ایسے انسان کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کی نظر میں مقبول ہو.تو پھر یہ کونسی عقلمندی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش ہونے کے لئے ایک ایسے آدمی کو اپنے آگے کھڑا کیا جائے جو مغضوب ہو.یہ کوئی مشکل بات نہیں آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے.اس لئے ان لوگوں کو اپنا امام نہیں بنانا چاہئے جنہوں نے حضرت مسیح موعود کو قبول نہیں کیا کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور مغضوب ٹھر چکے

Page 175

لوم جلد - ۳ ۱۴۸ انوار خلافت ہیں.اور ہمیں اس وقت تک کسی کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہئے جب تک کہ وہ بیعت میں داخل نہ ہو جائے اور ہم میں شامل نہ ہو.خدا تعالیٰ کے مامور ایک بڑی چیز ہوتے ہیں جو ان کو قبول نہیں کرتا وہ خدا کی نظر میں قبول نہیں ہو سکتا.اس میں شک نہیں کہ بعض غیر احمدی ایسے ہوں گے جو کچے دل سے حضرت مسیح موعود کو صادق نہیں مانتے اس لئے قبول نہیں کرتے.لیکن ہم بھی مجبور ہیں کہ ایسے لوگوں کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ خواہ کسی وجہ سے سہی وہ حق کے منکر ہیں.غیر احمدیوں کا اس بات پر چڑنا کہ ہم ان کے پیچھے نماز کیوں نہیں پڑھتے ایک لغو امر ہے.وہ غیر احمدی جو یہ سمجھتا ہے کہ مرزا صاحب جھوٹے ہیں وہ ہم کو مسلمان کیونکر سمجھتا ہے اور کیوں اس بات کا خواہاں ہے کہ ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں.ہمارا اس کے پیچھے نماز پڑھ لینا اسے کیا فائدہ پہنچا سکتا ہے ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں.کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں یہ دین کا معاملہ ہے اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں کہ کچھ کر سکے.لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ غیر احمدیوں سے ہم دیگر دنیاوی اور تمدنی تعلقات کو منقطع کر دیں.آنحضرت ا نے تو عیسائیوں کو بھی اپنی مسجد میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی.پس جب باوجود اس قدر اختلاف کے دین میں ایک دو سرے کو مذہبی سہولتیں بہم پہنچانے کا حکم ہے تو دنیاوی تعلقات کو ترک کرنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے.دوسروں سے محبت کرد پیار کرو ان کی مصیبت کے وقت ان کے کام آؤ بیمار کا علاج کرو ، بھوکے کو روٹی کھلاؤ تنگے کو کپڑا پہناؤ ان باتوں کا تمہیں ضرور ثواب ملے گا.لیکن دین کے معاملہ میں تم ان کو اپنا امام نہیں بنا سکتے.حضرت مسیح موعود نے اس کے متعلق بار بار حکم دیا ہے.پس اس بات کو خوب یاد رکھو.اور سختی سے اس پر عملدرآمد کرو.غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا پھر ایک سوال غیر احمدی کے جنازہ پڑھنے کے متعلق کیا جاتا ہے.اس میں ایک یہ مشکل پیش کی جاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود نے بعض صورتوں میں جنازہ پڑھنے کی اجازت دی ہے.اس میں شک نہیں کہ بعض حوالے ایسے ہیں جن سے یہ بات معلوم ہوتی ہے.اور ایک خط بھی ملا ہے جس پر غور کیا جائے گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عمل اس کے برخلاف

Page 176

۱۴۹ انوار خلافت ہے چنانچہ آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا تھا.جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا ہے.ایک دفعہ میں سخت بیمار ہوا اور شدت مرض میں مجھے غش آگیا جب مجھے ہوش آیا تو میں نے دیکھا کہ وہ میرے پاس کھڑا نہایت درد سے رو رہا تھا.آپ یہ بھی فرماتے ہیں کہ یہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا.لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا حالانکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے.محمدی بیگم کے متعلق جب جھگڑا ہوا تو اس کی بیوی اور اس کے رشتہ دار بھی ان کے ساتھ شامل ہو گئے.حضرت صاحب نے اس کو فرمایا کہ تم اپنی بیوی کو طلاق دے دو اس نے طلاق لکھ کر حضرت صاحب کو بھیج دی کہ آپ کی جس طرح مرضی ہے اس طرح کریں.لیکن باوجود اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا.حدیث میں آیا ہے کہ جب ابو طالب جو آنحضرت کے چچا تھے فوت ہونے لگے ( بعض نے تو ان کو مسلمان لکھا ہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ وہ مسلمان نہ تھے) تو آنحضرت ﷺ نے کہا کہ چا ایک دفعہ لا اله الا اللہ کہدو تاکہ میں آپ کی شفاعت خدا تعالی کے حضور کر سکوں.لیکن انہوں نے کہا کہ کیا کروں جو کچھ تم کہتے ہو.اس کو دل تو مانتا ہے مگر زبان پر اس لئے نہیں لا سکتا کہ لوگ کہیں گے مرنے کے وقت ڈر گیا ہے.اسی حالت میں وہ فوت ہو گئے ( السيرة النبوية لابن هشام جلد ۲ و ۲۱۸ مطبوعه از موسسه علوم القرآن بیروت) حضرت علی کے چونکہ والد تھے اس لئے وہ چاہتے تھے کہ آنحضرت ا سے ان کے متعلق کچھ فیض حاصل کریں.مگر ساتھ ہی ڈرتے تھے کہ یہ چونکہ مسلمان نہیں ہوئے اس لئے رسول کریم ناراض نہ ہو جائیں.اس لئے انہوں نے اپنے والد کے مرنے کی خبر رسول کریم کو ان الفاظ میں پہنچائی کہ یا رسول اللہ آپ کا گمراہ بڑھا چا مر گیا ہے.آپ نے فرمایا جاؤ اور جا کر ان کو غسل دو لیکن آپ نے ان کا جنازہ نہ پڑھا.قرآن شریف سے تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا شخص جو بظاہر اسلام لے آیا ہے لیکن یقینی طور پر اس کے دل کا کفر معلوم ہو گیا ہے تو اس کا جنازہ بھی جائز نہیں.پھر غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا کس طرح جائز ہو سکتا ہے.یہ دین کی باتیں ہیں.ان میں جھگڑنے کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.دنیا کے معاملات میں ہم دوسروں کے ساتھ ایک ہیں لیکن دین کے معاملہ میں فرق ہے اس میں ایک نہیں ہو سکتے.اور سمجھدار آدمی اس کو خوب سمجھ سکتے ہیں.لکھنو میں ہم ایک آدمی سے ملے جو بڑا عالم ہے اس

Page 177

انوار العلوم جلد.+.۱۵۰ انوار خلافت نے کہا آپ لوگوں کے بڑے دشمن ہیں جو یہ مشہور کرتے پھرتے ہیں کہ آپ ہم لوگوں کو کافر کہتے ہیں میں یہ نہیں مان سکتا کہ آپ ایسے وسیع حوصلہ رکھنے والے ایسا کہتے ہوں.اس سے شیخ یعقوب علی صاحب باتیں کر رہے تھے.میں نے ان کو کہا آپ کہہ دیں کہ واقعہ میں ہم آپ لوگوں کو کافر کہتے ہیں یہ سنکر وہ حیران سا ہو گیا.لیکن جب اس سے یہ پوچھا گیا کہ آپ جس مسیح کے آنے کے منتظر ہیں اس کے منکروں کو کیا کہتے ہیں.تو کہنے لگا بس بس میں سمجھ گیا بے شک آپ کا حق ہے کہ ہم کو کافر سمجھیں.پس تم لوگ دین کو اپنی جگہ پر رکھو اور دنیا کو اپنی جگہ پر.اور جہاں دین کا معاملہ آئے وہاں فوراً الگ ہو جاؤ.وہ لوگ جو اس بات سے چڑتے ہیں کہ ہمیں کافر کیوں کہا جاتا ہے.ان سے پوچھو کہ جب تمہارا صیح آئے گا اور جو لوگ اسے نہیں مانیں گے ان کو کیا کہو گے.یہی نا کہ ان کی گردن اڑا دو.لیکن ہم تو کسی کی گردن نہیں اڑاتے ہم تو شریعت کا فتویٰ استعمال کرتے ہیں.ایسے لوگوں کو کہو اگر تمہارے خیال میں ہم ایک جھوٹے مسیح کو مانتے ہیں تو پھر ہمارے جنازہ پڑھنے سے تمہارے مردہ کو فائدہ کیا ہو گا کیا جس صورت میں کہ ہم مسلمان ہی نہیں ہماری دعا سے آپ کا مردہ بخشا جا سکتا ہے.پس اگر ان باتوں پر کوئی غور کرے تو کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہو سکتا.اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اس لئے ان کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے.لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مرجائے.تو اس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے.وہ تو مسیح موعود کا مکمفر نہیں.میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا اور کتنے لوگ ہیں جو ان کا جنازہ پڑھتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ جو ماں باپ کا مذہب ہوتا ہے شریعت وہی مذہب ان کے بچہ کا قرار دیتی ہے.پس غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمد ی ہی ہوا.اس لئے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے.پھر میں کہتا ہوں بچہ تو گنہگار نہیں ہوتا اس کو جنازہ کی ضرورت ہی کیا ہے.بچہ کا جنازہ تو دعا ہوتی ہے اس کے پسماندگان کے لئے اور اس کے پسماندگان ہمارے نہیں بلکہ غیر احمدی ہوتے ہیں.اس لئے بچہ کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہئے.باقی رہا کوئی ایسا شخص جو حضرت صاحب کو تو سچا مانتا ہے لیکن ابھی اس نے بیعت نہیں کی یا احمدیت کے متعلق غور کر رہا ہے اور اسی حالت میں مر گیا ہے اس کو ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کوئی

Page 178

۱۵۱ سزا نہ دے.لیکن شریعت کا فتویٰ ظاہری حالات کے مطابق ہوتا ہے اس لئے ہمیں اس کے متعلق بھی یہی کرنا چاہئے کہ اس کا جنازہ نہ پڑھیں.غیر احمدیوں کو لڑکی دینا ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں.حضرت مسیح موعود نے کی اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے.آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو.آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا.اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی.باوجودیکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا.اب میں نے اس کی کچی تو یہ دیکھ کر قبول کرلی ہے.بہ حضرت ابو بکر کو لوگوں نے کہا تھا کہ اگر آپ نے اپنے بعد عمر میں اللہ کو جانشین مقرر کیا تو بڑا غضب ہو گا کیونکہ یہ بہت غصیلے ہیں.انہوں نے فرمایا کہ ان کا غصہ اسی وقت تک گرمی دکھاتا ہے جب تک کہ میں نرم ہوں.اور جب میں نہ رہوں گا تو یہ خود نرم ہو جائیں گے.اسی طرح میرا نفس تھا جو یہ کہتا تھا کہ اگر کوئی ذرا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے خلاف کرنے تو اسے بہت سخت سزا دی جائے لیکن اب تو کچلا گیا ہے اور بہت نرمی کرنی پڑتی ہے.تاہم میں اس بات سے خوش ہوں کہ دس ہی پکے احمدی ہوں لیکن اس بات سے سخت ناخوش ہوں کہ دس کروڑ ایسے احمدی ہوں جو حضرت مسیح موعود کا حکم نہ ماننے والے ہوں پس وہ لوگ جو ایسے ہیں وہ سن لیں کہ حضرت مسیح موعود نے اس بات پر بہت زور دیا ہے اس لئے اس پر ضرور عمل درآمد ہونا چاہئے.میں کسی کو جماعت سے نکالنے کا عادی نہیں لیکن اگر کوئی اس حکم کے خلاف کرے گا تو میں اس کو جماعت سے نکال دوں گا.ابھی چند ماہ ہوئے ایک شخص نے غیر احمدیوں میں اپنی لڑکی دی تھی میں نے اسے جماعت سے الگ کر دیا.بعد میں اس نے بہت توبہ کی اور معافی مانگی لیکن میں نے کہا کہ تمہارا یہ اخلاص بعد از جنگ یاد آیا ہے.اس لئے برکلہ خود با کد زد کے مطابق اپنے سر پر مارو.ہمیں دیندار لوگوں کی ضرورت ہے.میں

Page 179

وم جلد ۳ ۱۵۲ انوار خلافت اگر کسی کی بیعت لے بھی لوں تو کیا اس وقت تک وہ احمدی ہو سکتا ہے جب تک کہ خدا کی نظر میں احمدی نہ ہو.احمدی اصل میں وہی ہے جو خدا کی نظر میں احمدی ہے.میرے احمدی کر لینے کوئی احمدی نہیں بن جاتا.پس تم خدا تعالیٰ کی نظر میں احمدی بنو.اور وہ اس طرح کہ حضرت مسیح موعود کے تمام احکام کو پوری پوری طرح بجالاؤ.خدا تعالیٰ تمہیں توفیق دے.گورنمنٹ کی وفاداری ایک اور خاص بات ہے جس کا بیان کر دینا بھی نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے متعلق بھی حضرت صاحب نے بار بار تاکید فرمائی ہے.میں نے پچھلے جلسہ پر اس کے متعلق بیان کیا تھا اور وہ گورنمنٹ کی وفاداری ہے.اس گورنمنٹ کے ہم پر بڑے بڑے احسان ہیں.میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مونہہ سے بارہا سنا ہے کہ اس گورنمنٹ کے ہم پر اتنے احسان ہیں کہ اگر ہم اس کی وفاداری نہ کریں اور اسے مدد نہ دیں تو ہم بڑے ہی بے وفا ہوں گے.میں بھی یہی کہتا ہوں کہ گورنمنٹ کی وفاداری ہمیں دل و جان سے کرنی چاہئے.میں اگر کسی سے کوئی ایسی بات سنتا ہوں جو گورنمنٹ کے خلاف ہوتی ہے تو کانپ جاتا ہوں.کیونکہ اس قسم کی کوئی بات کرنا بہت ہی نمک حرامی ہے یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئے کہ اگر یہ گورنمنٹ نہ ہوتی تو نہ معلوم ہمارے لئے کیا کیا مشکلات ہوتیں.ابھی چند دنوں کا ہی ذکر ہے کہ ہمارے مالا بار کے احمدیوں کی حالت بہت تشویش ناک ہو گئی تھی ان کے لڑکوں کو سکولوں کی میں آنے سے بند کر دیا گیا.ان کے مردے دفن کرنے سے روک دیئے گئے چنانچہ ایک مردہ کئی دن تک پڑا رہا.مسجدوں سے روک دیا گیا.تجارت کو بند کر دیا لیکن اس گورنمنٹ نے ایسی مدد کی ہے کہ اگر ہماری اپنی سلطنت بھی ہوتی تو بھی ہم اس سے زیادہ نہ کر سکتے.اور وہ یہ کہ گورنمنٹ نے احمدیوں کی تکلیف دیکھ کر اپنے پاس سے زمین دی ہے کہ اس میں مسجد اور قبرستان بنا لو.لیکن وہاں کا راجہ اس پر بھی باز نہیں آیا اور اس نے یہ سوال اٹھایا کہ یہ زمین تو میری ہے میں نہیں دیتا.اور یہ بھی لکھا کہ خبردار اگر تم نے اس پر کوئی عمارت بنائی تو سزا پاؤ گے.اور یہ بھی کہا کہ تم لوگ حاضر ہو کر بتاؤ کہ کیوں تمھارا بائیکاٹ نہ کر دیا جائے کیونکہ علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو.اس پر احمدیوں نے گورنمنٹ کی خدمت میں

Page 180

دم جلد ۳۰ ۱۵۳ درخواست دی تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ حکم دیا کہ اگر اب احمدیوں کو کوئی تکلیف ہوئی تو مسلمانوں کے جتنے لیڈر ہیں ان سب کو نئے قانون کے ماتحت ملک بدر کر دیا جائے گا اس طرح کا حکم کسی کے مونہہ سے نہیں نکل سکتا مگر اسی کے مونہہ سے جس کے دل میں بنی نوع انسان کی ہمدردی ہو.تو یہ تازہ سلوک اس گورنمنٹ نے تمہارے مالا باری بھائیوں کے ساتھ کیا ہے.اور جو کسی کے بھائی پر احسان کرتا ہے وہ اس پر کرتا ہے.پس جب مالا باری احمدی ہمارے بھائی ہیں تو ہمیں گورنمنٹ کا کس قدر احسان مند ہونا چاہئے.پھر ماریشس میں ہمارے ایک مبلغ گئے ہیں جو جہاں لیکچر دینا چاہتے غیر احمدی بند کروا دیتے.آخر انہوں نے گورنمنٹ سے سرکاری ہال کے لئے درخواست کی تو وہاں کے گورنر نے حکم دیا کہ آپ ہفتہ میں تین دن اس ہال میں لیکچر دے سکتے ہیں.گویا گورنمنٹ نے ہفتہ کے نصف دن ہمارے مبلغ کو دے دیئے اور نصف اپنے لئے رکھے.پس جو گورنمنٹ ایسی مہربان ہو اس کی جس قدر بھی فرمانبرداری کی جائے تھوڑی ہے.ایک دفعہ حضرت عمر ا نے فرمایا کہ اگر مجھ پر خلافت کا بوجھ نہ ہوتا تو میں موذن بنتا.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ نہ ہوتا.تو والنٹیر ہو کر جنگ میں چلا جاتا.اس وقت گورنمنٹ کو آدمیوں کی بہت ضرورت ہے.اس لئے جس کسی سے کوئی خدمت ادا ہو سکے ضرور کرے.اس جنگ سے تو ہمیں بہت فائدہ پہنچا ہے.ہمارے بہت سے احمدی احباب کی میدان جنگ میں گئے ہوئے ہیں لیکن خدا کا فضل ہے کہ ابھی تک ایک سے بھی فوت نہیں ہوا.پھر وہ احباب جو فرانس کے میدان جنگ میں ہیں وہ تو تبلیغ کا کام بھی خوب کر رہے ہیں.انہوں نے ٹیچنگز آف اسلام کا فرانسیسی میں ترجمہ کروا کر شائع کر دیا ہے.اس کے علاوہ اور بھی کئی ٹریکٹ فرانسیسی میں لکھا کر شائع کرائے ہیں.پس اگر کوئی میدان جنگ میں جائے گا تو گویا گورنمنٹ کے خرچ پر ہمارا مفت کا مبلغ ہو گا.اس لئے اگر کوئی جانا چاہے تو ضرور جائے بہت عمدہ کام ہے.مجھ سے اب تک جتنے احمدیوں نے لڑائی پر جانے کے لئے پوچھا ہے میں نے بڑی نوشی سے انہیں اجازت دی ہے.اور کہا ہے کہ اگر تم اس نیک نیتی سے جاؤ گے کہ ہم گورنمنٹ کی خدمت کرنے کے لئے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی دین کی تبلیغ بھی کریں گے تو خدا تعالیٰ تمہارا حافظ ہو گا اور تمہیں ہر ایک تکلیف سے محفوظ رکھے گا.پس یہ گورنمنٹ کی مدد کا ایک موقعہ ہے جس کو خدا تعالٰی توفیق دے.شامل ہو جائے.

Page 181

انوار العلوم جلد ۳۰ ۱۵۴ انوار خلافت (نوٹ) چونکہ نماز مغرب کا وقت بالکل قریب آگیا تھا.اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح نے تقریر کو یہاں ہی ختم کر دیا اور فرمایا کہ باتیں تو بہت تھیں لیکن وقت نہیں رہا اس لئے تقریر بند کرتا ہوں.(مرتب کننده)

Page 182

ر العلوم جلد ۳۰ بسم الله الرحمن الرحیم ۱۵۵ محمده و فصلی علیٰ رسولہ الکریم انوار خلافت تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی ار ( ۲۸ دسمبر ۱۹۱۵ ء بر موقع جلس سالانه ) اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ وَرَسُولُهُ ا مَا بَعْدُ فَاعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ ، وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًاه فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ ، إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (سورة النصر میں نے آپ لوگوں کے سامنے جو یہاں تشریف لائے ہیں.بعض باتیں بیان کرنے کا ارادہ کیا تھا.چنانچہ میں نے نوٹ کر لیا تھا کہ فلاں فلاں بات کہوں گا.اور میرا منشاء تھا کہ جس طرح پچھلے جلسہ پر یہ انتظام کیا گیا تھا کہ کچھ امور ایسے بیان کئے جائیں جو جماعت کی اصلاح کے متعلق ہوں اور کچھ ایسے جو روحانیت سے تعلق رکھتے ہوں.چنانچہ گزشتہ جلسہ پر میں نے بتایا تھا کہ انسان کی روحانی ترقی کے سات درجے ہیں اور یہ بھی بتایا تھا کہ ان کے حصول کے کیا ذرائع ہیں.اس دفعہ بھی میرا ارادہ تھا کہ ایک دن تو دوسری ضروری باتیں بیان کروں اور دوسرے دن ذکر الہی اور عبادت الہی پر کچھ کہوں.لیکن کہتے ہیں تدبیر کند بندہ تقدیر زند خندہ یہ کسی نے تو اپنے رنگ میں کہا ہو گا مگر میں جو کل اپنے ارادہ کو پورا نہیں کر سکا تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے سلسلوں کے کام اس کی منشاء اور ارادہ کے ماتحت ہوتے ہیں.کل جو میں تقریر کرنے لگا تو گو بہت اختصار سے کام لیا اور بہت حصہ مضمون کا کاٹ کر بیان کیا.مگر مغرب تک پھر بھی نہ بیان کر سکا اور ایک حصہ رہ ہی گیا جو میرے خیال میں

Page 183

دار العلوم جلد.۳ ۱۵۶ بہت ضروری ہے اور آج وقت بھی مل گیا ہے اس لئے اسی حصہ کو بیان کرتا ہوں.وہ دوسرا حصہ جس کو میں اس وقت بیان کرنا چاہتا ہوں.اس کے متعلق میں نے ایک مختصر سی سورۃ پڑھی ہے.جو گو عبارت کے لحاظ سے بہت مختصر ہے لیکن مضامین کے لحاظ سے بہت وسیع باتیں اپنے اندر رکھتی ہے اور حکمت اور معرفت کے بڑے بڑے دریا اس کے اندرہ رہے ہیں.نیز اس سورۃ میں خدا تعالٰی نے مسلمانوں کو وہ بات بتائی ہے کہ اگر وہ اس پر غورد فکر اور عمل در آمد کرتے تو ان پر وہ ہلاکت اور تباہی کبھی نہ آتی جو آج آئی ہوئی ہے.اور نہ مسلمان پر اگندہ ہوتے.نہ ان کی حکومتیں جاتیں.نہ اس قدر کشت و خون کی نوبت پہنچتی اور نہ ان میں تفرقہ پڑتا.اور اگر پڑتا تو اتنا جلدی اور اس عمدگی سے زائل ہو جاتا کہ اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہتا لیکن افسوس کہ ان میں وہ تفرقہ پڑا جو باوجود گھٹانے کے بڑھا اور باوجود دبانے کے اٹھا اور باوجود مٹانے کے ابھرا اور آخر اس حد تک پہنچ گیا کہ آج مسلمانوں میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں فرقے موجود ہیں.کیونکہ وہ بند جس نے مسلمانوں کو باندھا ہوا تھا کاٹا گیا.اور اس کے جوڑنے والا کوئی پیدا نہ ہوا.بلکہ دن بدن وہ زیادہ سے زیادہ ہی ٹوٹتا گیا.حتی کہ تیرہ سو سال کے دراز عرصہ میں جب بالکل ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے پاس سے ایک شخص کو اس لئے بھیجا کہ وہ آکر اس کو جوڑے.اس فرستادہ خدا سے پہلے کے تمام مولویوں اگدی نشینوں ، بزرگوں اور اولیاؤں نے بڑی بڑی کوششیں کیں مگر اکارت گئیں.اور اسلام ایک نقطہ پر نہ آیا.پر نہ آیا.اور کس طرح آسکتا تھا جبکہ اس طریق سے نہ لایا جاتا جو خدا تعالیٰ نے مقرر کیا تھا یعنی کسی مامور من اللہ کے ذریعے سے.غرض اس سورۃ میں خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو ایک آنے والے فتنہ پر آگاہ فرمایا ہے اور اس سے بچنے کا علاج بھی بتایا ہے.اس سورۃ میں آنحضرت ا کو تاکید کی گئی ہے کہ آپ استغفار کریں.چونکہ استغفار کے معنی عام طور پر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ہوتے ہیں.اس لئے یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا.گمراہ اور بے دین لوگوں کو باخدا بنانے آیا تھب گناہوں اور بدیوں میں گرفتار شدہ انسانوں کو پاک و صاف کرنے آیا تھا.اور جس کا درجہ قرآن شریف میں خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے قُل اِنْ كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ دال مهران : ۳۲) سب لوگوں کو کہہ دے کہ اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو.اس کا یہ نتیجہ ہو گا کہ تم خدا تعالیٰ کے محبوب اور پیارے

Page 184

۱۵۷ انوار العلوم جلد ۳ حسنة (الاحزاب : بن جاؤ گے.پھر وہ جس کی نسبت خدا تعالٰی فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ (الاحزاب : (۲۲) کہ اس رسول میں تمہارے لئے پورا پورا نمونہ ہے.اگر تم خدا کے حضور مقبول بننا چاہتے ہو.اگر تم خدا سے تعلق پیدا کرنا پسند کرتے ہو تو اس کا آسان طریق یہ ہے کہ اس رسول کے اقوال افعال اور حرکات و سکنات کی پیروی کرو.کیا اس قسم کا انسان تھا کہ وہ بھی گناہ کرتا تھا اور اسے بھی استغفار کرنے کی ضرورت تھی.جس رسول کی یہ شان ہو کہ اس کا ہر ایک قول اور فعل خدا کو پسندیدہ ہو کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی نسبت یہ کہا جائے کہ تو اپنے گناہوں کی معافی مانگ.اگر وہ بھی گناہ گار ہو سکتا ہے تو خدا تعالیٰ نے اس کی اتباع کی دوسروں کو کیوں ہدایت فرمائی ہے.ہم اس بات کو ثابت کر سکتے ہیں کہ آپ ہر ایک قسم کی بدی اور گناہ سے پاک تھے.یہی تو وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اے لوگو! اگر تمہیں مجھ سے محبت کا دعویٰ ہے اور میرے محبوب بننا چاہتے ہو تو اس کا ایک ہی طریق ہے کہ تم اس رسول کی اتباع کرو.ورنہ ممکن نہیں کہ تم میرے قرب کی کوئی راہ پا سکو.پس آنحضرت ا ی کی طرف کسی گناہ کا منسوب کرنا او تعلیم قرآن کے بالکل خلاف ہے مگر کوئی کہہ سکتا ہے کہ پھر آپ کے متعلق یہ کیوں آیا ہے کہ تو استغفار کر.استغفار کر.یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ انہی الفاظ کو مد نظر رکھ کر عیسائی صاحبان بھی مسلمانوں پر ہمیشہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا.کیونکہ قرآن اس کو حکم دیتا ہے کہ تو استغفار کر لیکن ہمارے مسیح کی نسبت قرآن میں یہ کہیں نہیں آیا.پس معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ کرتا تھا.اور بعض جگہ تو تمہارے رسول کی نسبت ذنب کا لفظ بھی آیا ہے تو معلوم ہوا کہ تمہارا رسول گناہ گار تھا اور ہمارا مسیح گناہوں سے پاک.اس سے ثابت ہو گیا کہ مسیح کا درجہ اس سے بہت بلند ہے.اس اعتراض کے جواب میں مسلمانوں کو بڑی رقت پیش آئی ہے اور گو انہوں نے جواب دینے کی بڑی کوشش کی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پہلے اس کا جواب دینے میں وہ کامیاب نہیں ہو سکے.یہی وجہ تھی کہ ہزار ہا مسلمانوں کی اولاد عیسائی ہو گئی اور تو اور سیدوں کی اولادوں نے بھی بپتسمہ لینا پسند کر لیا اور وہ اب سٹیجوں پر کھڑے ہو کر آنحضرت ﷺ کو گالیاں دیتے ہیں.غرض ان الفاظ کی وجہ سے نادانوں نے دھوکا کھایا.اور بجائے اس کے کہ عیسائیوں کو جواب دیتے خود عیسائی بن گئے.قرآن شریف پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ آنحضرت ﷺ کی نسبت ان

Page 185

انوار العلوم جلد.r.۱۵۸ معنوں کے لحاظ سے استعمال نہیں کیا گیا جن معنوں میں عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے.آپ کے متعلق اور معنوں میں استعمال ہوا ہے اور یہ بات اس طرح معلوم ہوتی ہے کہ آنحضرت ال کی نسبت ذنب کا لفظ قرآن شریف میں تین جگہ آیا ہے.اول سورہ مومن میں جہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَاصْبِرُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِ والا بكار (المؤمن : (۵۲) دوم سورہ محمد میں یوں آیا ہے فَاعْلَمْ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ ال وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤمِنتِ وَاللهُ يَعْلَمُ مَتَقَلَبَكُمْ وَمَنو سمر محمد (۲۰) سوم سورہ فتح میں آیا ہے اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنَا لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاخَرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمَ (الفتح: ۲-۳) ای طرح بعض جگہ پر استغفار کا لفظ آپ کی نسبت استعمال ہوا ہے جیسا کہ اسی سورۃ میں جو میں نے ابھی پڑھی ہے.ان سب جگہوں پر اگر ہم غور کریں تو ایک ایسی عجیب بات معلوم ہوتی ہے جو سارے اعتراضوں کو جل کر دیتی ہے اور وہ یہ کہ ان سب جگہوں میں آنحضرت کے دشمنوں کے ہلاک ہونے اور آپ کی فتح کا ذکر ہے.پس اس جگہ بالطبع یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی فتح اور آپ کے دشمنوں کی مغلوبیت کے ساتھ گناہ کا کیا تعلق ہے.اور یہی بات ہے جس کے بیان کرنے کے لئے میں نے یہ سورۃ پڑھی ہے اور جس سے ہمیں اقوام کے تنزل و ترقی کے قواعد کا علم ہوتا ہے.بعض لوگوں نے ان آیات کے یہ معنی کئے ہیں کہ خدا تعالیٰ آپ کو یہ فرماتا ہے کہ اب تمہاری فتح ہو گئی اور تمہارے دشمن مغلوب ہو گئے.اس لئے تمہارے دنیا سے رخصت ہونے کا وقت آگیا ہے پس تو تو بہ اور استغفار کر.کیونکہ تیری موت کے دن قریب آگئے ہیں اور گو یہ استدلال درست ہے لیکن ان معنوں پر بھی وہ اعتراض قائم رہتا ہے.کہ آپ نے کوئی گناہ کئے ہی ہیں اسی لئے تو بہ کا حکم ہوتا ہے.میں نے جب ان آیات پر غور کیا تو خدا تعالیٰ نے مجھے ایک عجیب بات سمجھائی اور وہ یہ کہ جب کسی قوم کو فتح حاصل ہوتی ہے اور مفتوح قوم کے ساتھ فاتح قوم کے تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان میں جو بدیاں اور برائیاں ہوتی ہیں وہ فاتح قوم میں بھی آنی شروع ہو جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ فاتح قوم جن ملکوں سے گزرتی ہے ان کے عیش و عشرت کے جذبات اپنے اندر لیتی جاتی ہے.اور چونکہ عظیم الشان فتوحات کے بعد اس قدر آبادی کے ساتھ فاتح قوم کا تعلق وتا ہے جو فاتح سے بھی تعداد میں زیادہ ہوتی ہے اس لئے اس کو فوراً تعلیم دینا اور اپنی

Page 186

۱۵۹ رالعلوم جلد ۳۰ سکتا.پس لانا مشکل ہوتا ہے اور جب فاتح قوم کے افراد مفتوح قوم میں ملتے ہیں تو بجائے اس کو نفع پہنچانے کے خود اس کے بد اثرات سے متاثر ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ رفتہ رفتہ نہایت خطرناک ہوتا ہے.جب اسلام کی فتوحات کا زمانہ آیا تو اسلام کے لئے بھی یہی مشکل در پیش تھی گو اسلام ایک نبی کے ماتحت ترقی کر رہا تھا لیکن نبی باوجود نبی ہونے کے پھر انسان ہی ہوتا ہے اور انسان کو کے تمام کام خواہ کسی حد تک وسیع ہوں محدود ہی ہوتے ہیں.ایک استاد خواہ کتنا ہی لائق ہو اور ایک وقت میں تمہیں چالیس نہیں بلکہ سو سوا سو لڑکوں تک کو بھی پڑھا سکتا ہو لیکن اگر اس کے پاس ہزار دو ہزار لڑکے لے آئیں تو نہیں پڑھا سکے گا.رسول بھی استاد ہی ہوتے ہیں جیسا کہ قرآن شریف میں آنحضرت ﷺ کی نسبت آیا ہے يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ايَتِكَ وَيُعَلِّمُهُم الكتب والحِكْمَةَ وَيُزَ كَيْهِمُ ( البقره : ۱۳۰) کہ اس رسول کا یہ کام ہو کہ وہ خدا تعالی کی آیتیں لوگوں کو سنائے.کتاب کی تعلیم دے اور ان کو پاک کرے.غرض نبی ایک استاد ہوتا ہے اس کا کام تعلیم دینا ہوتا ہے.اس لئے وہ تھوڑے لوگوں کو ہی دے سکتا ہے کیونکہ لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو سبق دینا اور پھر یاد بھی کروا دینا کسی انسان کا کام نہیں ہو جب کسی کے سامنے لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کی جماعت سبق لینے کے لئے کھڑی ہو تو ضرور ہو گا کہ اس کی تعلیم میں نقص رہ جائے اور پوری طرح علم نہ حاصل کر سکے یا یہ ہو گا کہ بعض تو پڑھ جائیں گے اور بعض کی تعلیم ناقص رہ جائے گی اور بعض بالکل جاہل کے جاہل ہی رہ جائیں گے اور کچھ تعلیم نہ حاصل کر سکیں گے.پس آنحضرت ﷺ کو جب فتوحات پر فتوحات ہوئی شروع ہو ئیں اور بے شمار لوگ آپ کے پاس آنے لگے تو ان کے دل میں جو بڑا ہی پاک دل ہے تھا یہ گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ ان تھوڑے سے لوگوں کو تو میں اچھی طرح تعلیم دے لیتا قرآن سکھا سکتا تھا (چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ا لیے بڑی پابندی سے صحابہ کو قرآن سکھاتے تھے ) لیکن یہ جو لاکھوں انسان اسلام میں داخل ہو رہے ہیں ان کو میں کس طرح تعلیم دوں گا.اور مجھ میں جو بوجہ بشریت کے یہ کمزوری ہے کہ اتنے کثیر لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا اس کا کیا علاج ہو گا.اس کا جواب سورۃ نصر میں خدا تعالٰی نے یہ دیا کہ اس میں شک نہیں کہ جب فتح ہوگی اور نئے نئے لوگ کثرت سے اسلام میں داخل ہوں گے تو ان میں بہت سی کمزوریاں ہوں گی.اور یہ بھی سچ ہے کہ وہ سب کے سب تجھ سے تعلیم نہیں پاسکتے.مگر ان کو تعلیم دلانے کا یہ علاج ہے کہ تو خدا سے دعا مانگے کہ اے خدا ! مجھ میں بشریت کے لحاظ سے یہ کمزوری ہے کہ

Page 187

14.انوار خلافت اتنے لوگوں کو تعلیم نہیں دے سکتا تو میری اس کمزوری کو ڈھانپ دے اور وہ اس طرح کہ ان سب لوگوں کو خود ہی تعلیم دے دے اور خود ہی ان کو پاک کر دے.پس یہی وہ بات ہے جس کے متعلق آنحضرت ا و استغفار کرنے کا ارشاد ہوا ہے.ذنب کے معنی ایک زائد چیز کے ہیں اور غفر ڈھانکنے کو کہتے ہیں.اس سے خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو یہ بات سکھائی ہے کہ تم یہ کہو کہ میں اس قدر لوگوں کو کچھ نہیں سکھا سکتا پس آپ ہی ان کو سکھائیے اور میری اس انسانی کمزوری کو ڈھانپ دیجئے.دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ابتدائی زمانہ میں ایک ایک سے اپنے ہاتھ پر ہاتھ رکھا کر بیعت لیتے تھے پھر ترقی ہوئی تو لوگ ایک دوسرے کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر بیعت کرنے لگے.پھر حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے زمانہ میں تو پگڑیاں پھیلا کر بیعت ہوتی تھی اور اب بھی اسی طرح ہوتی ہے.تو ایک آدمی ہر طرف نہیں پہنچ سکتا.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کوئی مسلمان یمن میں تھا کوئی شام میں کوئی عراق میں تھا کوئی بحرین میں اور کوئی نجد میں تھا.اس لئے نہ آنحضرت ا ہر ایک کے پاس پہنچ سکتے تھے اور نہ وہ آپ تک آسکتے تھے.جب حالت یہ تھی تو ضرور تھا کہ آپ کی تعلیم میں نقص رہ جاتا لیکن آپ کا دل کبھی یہ برداشت نہ کر سکتا تھا.اس لئے آپ کو حکم ہوا کہ خدا سے دعا کرو کہ اے خدا ! اب یہ کام میرے بس کا نہیں اس لئے تو ہی اسے پورا کر.کیونکہ شاگرد بہت ہیں اور میں اکیلا مدرس ہوں مجھ سے ان کی تعلیم کا پورا ہونا مشکل ہے.آج کل تو سکولوں میں یہ قاعدہ ہو گیا ہے کہ ایک استاد کے پاس چالیس یا پچاس سے زیادہ لڑکے نہ ہوں اور اس سے زیادہ لڑکوں کو جماعت میں داخل نہ کیا جائے.اور اگر کیا جائے تو ایک اور استاد رکھا جائے.کیونکہ افسران تعلیم جانتے ہیں کہ اگر ایک جماعت میں بہت زیادہ لڑکے ہوں.اور ایک اکیلا استاد پڑھانے والا ہو تو لڑکوں کی تعلیم ناقص رہ جاتی ہے.چنانچہ جن سکولوں میں بہت سے لڑکے ہوتے ہیں اور ایک استاد وہاں کے لڑکوں کی تعلیمی حالت بہت کمزور ہوتی ہے.کیونکہ زیادہ لڑکوں کی وجہ سے استاد ہر ایک کی طرف پوری پوری توجہ نہیں کر سکتا.تو چونکہ فتح کے وقت لاکھوں انسان مسلمان ہو کر اسلام میں داخل ہوتے تھے.اس لئے آنحضرت ﷺ کو یہ خطرہ دامن گیر ہوا کہ مسلمان تعلیم میں ناقص نہ رہ جائیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو اس کے متعلق یہ گر بتا دیا کہ خدا کے آگے گر جاؤ.اور اس کو کہو کہ آپ ہی اس کام کو سنبھال لے.میری طاقت سے تو اس کا سنبھالنا با ہر ہے.

Page 188

141 پس آنحضرت اللہ کے متعلق استغفار کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کیا جائے کہ اسلام میں کثرت سے داخل ہونے والے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لئے آپ خدا تعالٰی سے دعا کریں اور التجا کریں.کہ اب لوگوں کے کثرت سے آنے سے جو بد نتائج نکلیں گے ان سے آپ ہی بچائیے اور ان کو خود ہی دور کر دیجئے اور آپ کا لاکھوں انسانوں کو ایک ہی وقت میں پوری تعلیم نہ دے سکنا کوئی گناہ نہیں بلکہ بشریت کا تقاضا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ کی نسبت ذنب کا لفظ تو استعمال ہوا ہے.لیکن جناح کا لفظ کبھی استعمال نہیں ہوا.گناہ اسے کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی طاقت اور قوت کے باوجود اس کے حکم کی فرمانبرداری نہ کی جائے.اور وہ بات جس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے طاقت ہی نہ دی جائے اس کا نہ کر سکنا گناہ نہیں ہو تا بلکہ وہ بشری کمزوری کہلاتی ہے.مثلاً ایک شخص بیمار ہو جاتا ہے تو یہ اس کا گناہ نہیں بلکہ ایک کمزوری ہے جو بشریت کی وجہ سے اسے لاحق ہے.تو رسول کریم ﷺ کا یہ گناہ نہ تھا کہ آپ اس قدر زیادہ لوگوں کو پڑھانہ سکتے تھے بلکہ خدا تعالیٰ نے ہی آپ کو ایسا بنایا تھا.اور آپ کے ساتھ یہ ایسی بات لگی ہوئی تھی.جو آپ کی طاقت سے بالا تھی.اس لئے آپ کو بتایا گیا کہ آپ خدا تعالیٰ کے حضور کثرت طلباء کی وجہ سے جو نقص تعلیم میں ہونا تھا اس کے دور کرنے کے لئے دعا کریں.پس ان تمام آیات سے پتہ لگتا ہے کہ ان میں رسول کریم ﷺ کے گناہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ ایک بشری کمزوری کے بد نتائج سے بچنے کی آپ کو راہ بتائی گئی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ آپ کے وقت کثرت سے لوگ ایمان لے آئے مگر ابتلاؤں اور فتنوں کے وقت ان کا ایمان خراب نہ ہوا.اور وہ اس نعمت سے محروم نہ ہوئے.چنانچہ آنحضرت" کے زمانہ میں جو لوگ ایمان لائے تھے آپ کے بعد گو ان میں سے بھی کچھ مرتد ہو گئے.مگر جھٹ پٹ ہی واپس آگئے اور ان فتنہ وفسادوں میں شامل نہ ہوئے جو اسلام کو تباہ کرنے کے لئے شریروں اور مفسدوں نے برپا کئے تھے.چنانچہ حضرت عثمان اللہ کے زمانہ میں جو بہت بڑا فساد ہوا اس میں عراق، مصر کوفہ اور بصرہ کے لوگ تو شامل ہو گئے جو آنحضرت اللهی کی وفات کے بعد ایمان لائے تھے لیکن یمن، حجاز اور نجد کے لوگ شامل نہ ہوئے.یہ وہ ملک تھے جو آنحضرت کے وقت میں فتح ہوئے تھے.جانتے ہو اس کی کیا وجہ ہے کہ وہ خفیہ منصوبے جو مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوئے ان میں وہ ممالک تو شامل ہو گئے جو آپ کی وفات

Page 189

انوار العلوم جلد ۳۰ ۱۶۲ انوار خلافت کے بعد فتح ہوئے.مگر وہ ملک شامل نہ ہوئے جو آپ کے زمانہ میں فتح ہوئے تھے.اس کی یہی وجہ ہے جو اوپر بیان کی گئی ہے کہ خدا تعالٰی نے ان ملکوں کے لوگوں کی جو آپ کے زمانہ میں اسلام لائے تھے برائیاں اور بدیاں دور کر دی تھیں.لوگ تو کہتے ہیں کہ امیر معاویہ کا زور اور طاقت تھی کہ شام کے لوگ اس فتنہ میں شامل نہ ہوئے.لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ بھی آنحضرت ہی کی کرامت تھی کہ وہ لوگ حضرت عثمان کے خلاف نہیں اٹھے تھے.کیونکہ گو یہ ملک آپ کے زمانہ میں فتح نہ ہوا.لیکن آپ نے اس پر بھی چڑھائی کی تھی.جس کا ذکر قرآن شریف کی سورہ تو بہ میں ان تین صحابہ کا ذکر کرتے ہوئے جو اس سفر میں شامل نہ ہوئے تھے آیا ہے.پس شام کا اس فتنہ میں شامل نہ ہونا امیر معاویہ کی دانائی کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لئے تھا کہ وہاں اسلام کا پیج رسول کریم ﷺ کے وقت میں بویا گیا.اور اس سرزمین میں آپ نے اپنا قدم مبارک ڈالا تھا.پس خدا تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں میں اس ملک کو بھی شامل کر لیا اتنے بڑے فتنہ میں اس قدر صحابہ میں سے صرف تین صحابہ کے شامل ہونے کا پتہ لگتا ہے اور ان کی نسبت بھی ثابت ہے کہ صرف غلط فہمیوں کی وجہ سے شامل ہو گئے تھے اور بعد میں تو بہ کر لی تھی.تو یہ رسول کریم ﷺ کی ایک ایسی خصوصیت ہے جو کسی اور نبی کو حاصل نہیں ہوئی.اس لئے جہاں آپ کی فتح کا ذکر آیا ہے وہاں ساتھ ہی استغفار کا حکم بھی آیا ہے.جو آپ کو اس طرف متوجہ کرنے کے لئے تھا کہ دیکھنا ہم آپ کو بہت بڑی فتح اور عزت دینی چاہتے ہیں اور بے شمار لوگوں کو آپ کے ساتھ شامل کرنا چاہتے ہیں.پس یاد رکھو کہ جب تمہارے بہت سے شاگرد ہو جائیں تو تم خدا کے حضور گر جانا اور کہنا کہ الہی! اب کام انسانی طاقت سے بڑھتا جاتا ہے آپ خود ہی ان نوواردوں کی اصلاح کر دیجئے.ہم آپ کی دعا قبول کریں گے اور ان کی اصلاح کر دی جائے گی اور ان کی کمزوریوں اور بدیوں کو دور کر کے ان کو پاک کر دیا جائے گا.لیکن ان سب باتوں کو ملانے سے جہاں ایک طرف یہ اعتراض مٹ جاتا تو ہے کہ آپ کسی گناہ کے مرتکب نہیں ہوئے وہاں دوسری طرف یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت ایک قوم ترقی کرتی اور کثرت سے پھیلتی ہے وہی زمانہ اس کے تنزل اور انحطاط کا ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کو خدا تعالٰی نے فتح کے ساتھ ہی استغفار کا ارشاد فرمایا ہے.کیونکہ کسی قوم کے بڑھنے اور ترقی کرنے کا جو وقت ہوتا ہے وہی وقت اس کے تنزل کے اسباب کو بھی پیدا کرتا ہے.اور جب کوئی قوم بڑھ جاتی ہے اسی وقت اس میں فساد اور فتنے بھی

Page 190

دم -جلد ۱۶۳ شروع ہو جاتے ہیں.جس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قوم میں ایسے لوگ آجاتے ہیں جو نبی کی خدمت اور صحبت میں نہیں رہے ہوتے اچھی طرح بد آلائشوں سے پاک وصاف نہیں ہوتے.اور جنہیں وہ مشکلات پیش نہیں آئی ہو تیں.جو خدا تعالٰی نے اپنے پیارے بندوں کو پاک کرنے کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہیں اس لئے وہ فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں اور قوم کو تباہی کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں.آپ لوگ اس مضمون کو غور سے سنیں اس کا کچھ حصہ علمی اور تاریخی ہے اس لئے ممکن ہے کہ بعض کو مشکل معلوم ہو.لیکن یہ وہ بات ہے.اور میں کامل یقین سے کہتا ہوں.یہ وہ بات ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تو بیان فرمائی ہے آج تک کسی نے اسے قرآن شریف سے سیکھ کر بیان نہیں کیا.مجھے خدا تعالیٰ نے سکھائی ہے اور اس بات کا موقع دیا ہے کہ آپ لوگوں کو سناؤں.پس جو شخص اسے سنے گا اور پھر اس پر عمل کرے گا وہ کامیاب اور بامراد ہو جائے گا.اور جو نہیں سنے گا اور عمل نہیں کرے گا وہ یاد رکھے کہ ایسے ایسے فتنے آنے والے ہیں کہ جن کے ساتھ یہ فتنہ جو اس وقت برپا ہوا ہے کچھ مقابلہ ہی نہیں کر سکتا.کیا یہ فتنہ تم کو یاد نہیں ہے اور تم نے نہیں دیکھا کہ اس کے بانیوں نے کس قدر زور سے کیا مگر انہیں کیا حاصل ہوا کچھ بھی نہیں.آج یہ نظارہ دیکھ لو اور لاہور جاکر بھی دیکھ لو.باوجود اس کے کہ بیعت کے وقت وہ زیادہ تھے اور ہم تھوڑے لیکن خدا تعالیٰ نے ظاہر کر دیا ہے کہ ان کی کچھ بھی پیش نہیں گئی پس یہ وہ فتنہ نہیں ہے جو جماعتوں کی تباہی اور ہلاکت کا موجب ہوا کرتا ہے.وہ وہ فتنہ ہوتا ہے جو سمندر کی لہروں کی طرح آتا ہے اور خس و خاشاک کی طرح قوموں کو بہا کر لے جاتا ہے.پس اس فتنہ سے خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضل کے بغیر کوئی بچ نہیں سکتا.ہم سے پہلے بہت سی جماعتوں نے اس کے تلخ تجربے کئے ہیں.پس مبارک ہے وہ جو ان کے تجربوں سے فائدہ اٹھائے اور افسوس ہے اس پر جس نے پہلوں کے تجربہ سے فائدہ نہ اٹھایا اور چاہا کہ خود تجربہ کرے.دیکھو سنکھیا ایک زہر ہے اور اس کو ہر ایک زہر جانتا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ بہت سے لوگوں نے جب اس کو کھایا تو مر گئے.اس کے متعلق اب کوئی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے اس وقت تک زہر نہیں کہوں گا جب تک کہ خود تجربہ کر کے نہ دیکھ لوں.لیکن کیسا افسوس ہوگا اس شخص پر جو خود تجربہ سنکھیا کھائے کیونکہ اس کا انجام سوائے اس کے کچھ نہیں ہو گا کہ مرے.تم لوگ بھی اس بات کا تجربہ کرنے کا خیال دل میں نہ لاؤ جس کا تجربہ تم سے پہلے لوگ

Page 191

انوار خلافت ۱۶۴ F.کر چکے ہیں کیونکہ ان تجربات کا نتیجہ ایسا خطرناک تھا کہ اگر جوان سنے تو بوڑھا ہو جائے اور اگر سیدھی کمر والا سنے تو اس کی کمر ٹیڑھی ہو جائے.اور اگر کالے بالوں والا سنے تو اس کے بال سفید ہو جائیں وہ بہت تلخ اور کڑوے تجربے تھے اور از حد دل ہلا دینے والے واقعات تھے وہ نہایت پاک روحوں کے شریروں اور بد باطنوں کے ہاتھ سے قتل کے نظارے تھے.وہ ایسے درد انگیز حالات تھے کہ جن کو سن کر مومن کا دل کانپ جاتا ہے.اور وہ ایسے روح فرسا منظر تھے کہ جن کو آنکھوں کے سامنے لانے سے کلیجہ پھٹنے لگتا ہے.انہی کی سزا میں مسلمانوں میں اس قدر فتنہ اور فساد پڑا کہ جس نے انہیں تباہ کر دیا.حضرت عثمان کو جو آدمی قتل کرنے آئے تھے ان کو آپ نے فرمایا کہ اگر تم میرے قتل کرنے میں کامیاب ہو گئے.تو یاد رکھنا کہ مسلمان جو اس وقت اس طرح پیوستہ ہیں جیسے دو کنگھیوں کے دندانے ہوتے ہیں بالکل جدا ہو جائیں گے اور ایسے جدا ہوں گے کہ قیامت تک انہیں کوئی نہ اکٹھا کر سکے گا.حضرت عبد اللہ بن سلام نے بھی اس فتنہ کے بانیوں سے بیان کیا کہ میں نے بنی اسرائیل کی بعض کتب میں دیکھا ہے کہ ایک نبی ہو گا اس کے بعد اس کے خلفاء ہوں گے اس کے خلیفہ ثالث کے خلاف لوگ فساد کریں گے اگر وہ اس کے مارنے پر کامیاب ہو گئے تو اس کی سزا ان کو یہ دی جائے گی کہ وہ ہمیشہ کے لئے پراگندہ کر دیئے جائیں گے اور پھر کوئی تدبیران کو جمع نہ کر سکے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یہ فتنہ اتنا پھیلا اتنا پھیلا کہ سوائے مسیح موعود علیہ السلام کے کوئی اس کو روک نہ سکا.اور مسلمان جو ٹوٹ چکے تھے انہیں کوئی نہ جوڑ سکا.پس تم لوگ یاد رکھو کہ آنے والا فتنہ بہت خطرناک ہے اس سے بچنے کے لئے بہت بہت تیاری کرو.پہلوں سے یہ غلطیاں ہوئیں کہ انہوں نے ایسے لوگوں کے متعلق حسن ظنی سے کام لیا جو بد ظنیاں پھیلانے والے تھے.حالانکہ اسلام اس کی حمایت کرتا ہے جس کی نسبت بدظنی پھیلائی جاتی ہے.اور اس کو جھوٹا قرار دیتا ہے جو بد ظنی پھیلاتا ہے.اور جب تک کہ با قاعدہ تحقیقات پر کسی شخص پر کوئی الزام ثابت نہ ہو اس کا پھیلانے والا اور لوگوں کو سنانے والا اسلام کے نزدیک نہایت خبیث اور متفنی ہے.پس تم لوگ تیار ہو جاؤ تاکہ تم بھی اس قسم کی کسی غلطی کا شکار نہ ہو جاؤ کیونکہ اب تمہاری فتوحات کا زمانہ آرہا ہے اور یاد رکھو کہ فتوحات کے زمانہ میں ہی تمام فسادات کا بیج بویا جاتا ہے.جو اپنی فتح کے وقت اپنی شکست کی نسبت نہیں سوچتا اور اقبال کے وقت ادبار کا خیال نہیں کرتا

Page 192

م جلد - ۳ ۱۶۵ اور ترقی کے وقت تنزل کے اسباب کو نہیں مٹاتا اس کی ہلاکت یقینی اور اس کی تباہی لازمی ہے.نبیوں کی جماعتیں بھی اس فساد سے خالی نہیں ہوتیں اور وہ بھی جب ترقی کرتی ہیں اور ایسے لوگ ان میں داخل ہوتے ہیں جنہوں نے نبی کی صحبت نہیں پائی ہوتی اور ان کا ایمان اتنا مضبوط نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کا ہوتا ہے جو نبی کی صحبت میں رہے ہوتے ہیں اور جن کی تربیت بوجہ اس کے کہ وہ جماعت در جماعت آکر داخل ہوئے ہوتے ہیں نا مکمل ہوتی ہے تو ان میں بھی فساد شروع ہو جاتا ہے جو آخر کار ان کو مختلف جماعتوں میں تقسیم کر کے ان کے اتحاد کو توڑ دیتا ہے یا ان کی جڑ کو ایسا کھوکھلا کر دیتا ہے کہ آئندہ ان کی روحانی طاقتیں ضائع ہو جاتی ہیں.ہماری جماعت کی ترقی کا زمانہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت قریب آگیا ہے اور وہ دن دور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے.مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے.اور ابھی سے مختلف اطراف سے خوشخبری کی ہوائیں چل رہی ہیں.اور جس طرح خدا کی یہ سنت ہے کہ بارش سے پہلے ٹھنڈی ہوائیں چلاتا ہے تاکہ غافل لوگ آگاہ ہو جائیں اور اپنے مال و اسباب کو سنبھال لیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہماری ترقی کی ہوائیں چلا دی ہیں پس ہوشیار ہو جاؤ.آپ لوگوں میں سے خدا کے فضل سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی ہے آپ کے مونہہ سے باتیں سنی ہیں آپ سے ہم کلامی کا شرف حاصل کیا ہے.ان کا فرض ہے کہ وہ آنے والوں کے لئے ہدایت اور راہنمائی کا باعث ہوں.کیونکہ کوئی ایک شخص بہتوں کو نہیں سکھا سکتا.دیکھو اسی جلسہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنے لوگ آئے ہیں کہ ان سب تک مشکل سے میری آواز پہنچ سکتی ہے مگر جب لاکھوں اور کروڑوں انسان آئے تو انہیں کون ایک شخص نا سکے گا.لیکن جتلاؤ اگر ایک ہی سنانے والا ہوا تو یہ کیسا درد ناک نظارہ ہو گا کہ کچھ لوگ تو سن رہے ہوں گے اور کچھ لوگ پکوڑے کھا رہے ہوں گے.وہ سنیں گے کیا اور یہاں سے لے کر جائیں گے کیا.وہ اس اطاعت سے واقف نہ ہوں گے جو انبیاء لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے ہیں.وہ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ ایک دفعہ رسول کریم ال تقریر فرما رہے تھے آپ نے لوگوں کو فرمایا کہ بیٹھے جاؤ.عبد اللہ بن مسعود ایک گلی میں چلے آرہے تھے آپ کی آواز انہوں نے وہاں ہی سنی اور وہیں بیٹھ گے.کسی نے پوچھا آپ یہاں کیوں بیٹھے ہیں وہاں رسول کریم ﷺ کی تقریر ہو

Page 193

العلوم جلد +.144 انوار خلافت رہی ہے وہاں کیوں نہیں جاتے.انہوں نے کہا میرے کان میں رسول کریم ﷺ کی آواز آئی ہے کہ بیٹھ جاؤ پس میں نہیں بیٹھ گیا.(ابود اور کتاب الصلوۃ باب الامام يكلم المرجل في خطبته ) پھر ان کے سامنے یہ نظارہ نہ ہو گا کہ آنحضرت ا کی مجلس میں تین شخص آئے ایک کو آگے جگہ مل گئی وہ وہاں جا کر بیٹھ گیا دوسرے کو آگے جگہ نہ ملی وہ جہاں کھڑا تھا وہیں بیٹھے گیا.تیسرے نے خیال کیا کہ یہاں آواز تو آتی نہیں پھر ٹھرنے سے کیا فائدہ وہ واپس چلا گیا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ ایک نے تمہاری مجلس میں قرب حاصل کرنے کے لئے کوشش اور محنت کی اور آگے ہو کر بیٹھ گیا خدا تعالیٰ نے بھی اسے قریب کیا.ایک اور آیا اس نے کہا اب مجلس میں آگیا ہوں اگر اچھی جگہ نہیں ملی تو نہ سہی وہیں بیٹھ گیا اور اس نے واپس جانا مناسب نہ سمجھا خدا نے بھی اس سے چشم پوشی کی.ایک اور آیا اسے جگہ نہ ملی اور وہ واپس پھر گیا خدا تعالیٰ نے بھی اس سے مونہہ پھیر لیا.بخاری کتاب العلم باب من قعد حيث ينتهى به المجلس ومن رأى فرجة في الحلقة مجلس منها اس قسم کی باتیں نبیوں کی ہی صحبت میں رہ کر حاصل ہو سکتی ہیں.لیکن انہوں نے اس قسم کے نظارے نہ دیکھے ہوں گے پھر انہوں نے وہ محبت کی گھڑیاں نہ دیکھی ہوں گی جو آپ نے دیکھی ہیں.انہوں نے اطاعت اور فرمانبرداری کے وہ مزے نہ اٹھائے ہوں گے جو آپ نے اٹھائے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود سے وہ پیار نہ ہو گا جو آپ لوگوں کو ہے.انہوں نے وہ نشانات نہ دیکھے ہوں گے جو آپ لوگوں نے حضرت مسیح موعود کے ساتھ رہ کر دیکھے ہیں.انہیں حضرت مسیح موعود کا وہ پیار اور محبت سے دیکھنا اور باتیں کرنا نصیب نہ ہو گا جو آپ لوگوں کو ہوا ہے.ان کے دلوں میں اطاعت اور فرمانبرداری کا وہ جوش نہ ہو گا جو آپ لوگوں کی کے دلوں میں ہے.سوائے ان لوگوں کے جن کے سینے خدا تعالیٰ خاص طور پر خود کھول دے.اس میں شک نہیں کہ صحابہ کرام کے بعد بھی ایسے لوگ ہوئے ہیں جنہوں نے پہلوں کی طرح ایمان اور یقین حاصل کر لیا تھا اور ان جیسی ہی صفات بھی پیدا کر لی تھیں.مثلاً امام مالک ، امام شافعی ، امام احمد بن قبل " امام ابو حنیفہ ، شیخ عبد القادر جیلانی ، شهاب الدین سهروردی ، معین الدین چشتی و غیر ہم.ان لوگوں نے محنتیں اور کوششیں کیں اس لئے ان کے دل پاک ہو گئے.مگر جس کثرت سے صحابہ میں ایسے لوگ تھے اس کثرت سے بعد میں نہ ہو سکے.بلکہ بعد میں کثرت ان لوگوں کی تھی جن میں بہت سے نقص موجود تھے اور قلت ان کی تھی جو صحابہ

Page 194

196 انوار خلافت جیسی صفات رکھتے تھے.لیکن صحابہ کے وقت کثرت کامل ایمان والوں کی تھی.ہماری جماعت میں اس وقت خدا کے فضل سے کثرت ان لوگوں کی ہے جو حضرت مسیح موعود کی صحبت میں رہے اور قلت ان کی ہے جو بعد میں آئے لیکن یہ کثرت ایسی ہے جو دن بدن کم ہوتی جا رہی ہے.میرا مطلب اس تقریر سے یہ نہیں کہ نبی کے بعد اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہی نہیں.نہیں اعلیٰ درجہ کے لوگ ہوتے ہیں اور ضرور ہوتے ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بعض آدمیوں کے نام لئے ہیں جنہوں نے صحابہ کے بعد بڑا درجہ حاصل کیا.اپنی جماعت کے متعلق بھی آج ہی ایک شخص نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ کیا بعد میں آنے والے وہ درجہ پا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی صحبت پانے والوں نے پایا.تو میں نے اسے جواب دیا کہ ہاں وہ درجہ پا سکتے ہیں.پس اس تقریر کا یہ مطلب نہیں کہ میں بعد میں آنے والے لوگوں کو مایوس کروں بلکہ میرا مطلب تمہیں اور ان کو ہوشیار کرنا ہے.تمہیں اس لئے کہ تائم آنے والوں کی تعلیم کا فکر کرو اور انہیں اس لئے تا وہ جان لیں کہ ان کے راستہ میں بہت سی مشکلات ہیں وہ ان پر غالب آنے کی تدبیر کریں.ورنہ یہ عقیدہ کہ نبی کی جماعت کے بعد کوئی ان کے درجہ کو پاہی نہیں سکتا ایک غلط اور باطل عقیدہ ہے جو جھوٹی محبت سے پیدا ہوا ہے.صحابہ کے بعد بڑے بڑے مخدوم بڑے بڑے بزرگ اور بڑے بڑے اولیاء اللہ گزرے ہیں.جن کی نسبت ہم ہرگز نہیں کہہ سکتے کہ وہ سب کے سب ہر ایک اس شخص سے روحانیت میں ادنیٰ تھے جس نے رسول کریم کی صحبت خواہ ایک دن ہی پائی ہو.اصل بات یہ ہے کہ وہ جو صحابہ میں اعلیٰ درجہ رکھتا ہے وہ ان بعد میں آنے والوں سے اعلیٰ ہے.لیکن وہ جو ان میں ادنی ہے اس سے بعد میں آنے والوں کا اعلیٰ طبقہ اعلیٰ ہے.ہاں سب صحابہ کو یہ ایک جزوی فضیلت حاصل ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ کا چہرہ مبارک دیکھا جس کے لئے اب اگر کوئی ساری دنیا کی سلطنت بھی دینے کو تیار ہو جائے تو حاصل نہیں کر سکتا.یہی بات حضرت مسیح موعود کے صحابہ کے متعلق ہے.غرض وہ وقت آتا ہے کہ ایسے لوگ اس سلسلہ میں شامل ہوں گے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت نہ پائی ہوگی.اور اس کثرت سے ہوں گے کہ ان کو ایک آدمی تقریر نہیں سنا سکے گا اس لئے اس وقت بہت سے مدرسوں کی ضرورت ہوگی.اور پھر اس بات کی بھی ضرورت ہوگی کہ ایک شخص لاہور میں ایک امرتسر میں بیٹھا سنائے.اور لوگوں کو دین سے

Page 195

دم جلد ۳ ۱۶۸ واقف کرے.اور احکام شرع پر چلائے تاکہ تمام جماعت صحیح عقائد پر قائم رہے اور تفرقہ سے بچے.کل میں نے آپ لوگوں کو یہ بتایا تھا کہ علم ایک بہت اچھی چیز ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو لیکن آج بتاتا ہوں کہ علم بغیر خشیت اور تقویٰ کے ایک لعنت ہے.اور ایسا علم بہت دفعہ حجاب اکبر ثابت ہوا ہے.دیکھو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ایک عالم آدمی ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر وہ ایمان نہ لائے.بلکہ انہوں نے کہہ دیا کہ میں نے ہی مرزا کو بڑھایا تھا اور میں ہی گھٹاؤں گا.گویا انہوں نے اپنے علم کے گھمنڈ پر سمجھا کہ کسی کو میں ہی بڑھا سکتا ہوں اور میں ہی گھٹا سکتا ہوں.رسول کریم ﷺ کے زمانے سے پہلے ایک شخص شرک کے خلاف تعلیم دیا کرتا تھا.جب رسول کریم ﷺ مبعوث ہوئے تو کسی شخص نے اسے اسلام کی تلقین کی.اس نے جواب دیا کہ شرک کے مٹانے میں جو محنت اور کوشش میں نے کی ہے وہ اور کسی نے نہیں کی پس اگر کوئی شخص دنیا میں نبی ہوتا تو وہ میں ہوتا یہ شخص نبی کیونکر بن گیا.وہ شخص کو توحید کا علم رکھتا تھا لیکن بوجہ خشیت نہ ہونے کے اسلام لانے سے محروم ہو گیا.پس میں آپ لوگوں کو یہی نہیں کہتا کہ علم سیکھو بلکہ یہ بھی کہتا ہوں کہ تقوی اور و خشیت اللہ پیدا کرد.کیونکہ اگر یہ نہ ہو تو علم ایک عذاب ہے نہ کہ کوئی مفید چیز.تم قرآن شریف پڑھو اور خوب پڑھو کیونکہ بے علم انسان نہیں جانتا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے کیا کیا حکم دیئے ہیں لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ کئی انسان ایسے ہوتے ہیں جو قرآن شریف جانتے ہیں مگر خود گمراہ ہوتے ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے پھرتے ہیں اور اس طرح کے ہو گئے ہیں جس طرح کہ یہود کے عالم تھے جن کا ذکر قرآن شریف میں آتا ہے.وہ جانتے ہیں کہ قرآن شریف وہی ہے جو رسول اللہ کے زمانہ میں تھا.مگر جانتے ہوئے نہیں جانتے.وہ مولوی اور مفتی کہلاتے ہیں مگر ان کے اعمال میں اسلام کا کوئی اثر نہیں پایا جاتا.قرآن شریف کے معنوں کی ایسی ایسی تو جی میں نکالتے اور ایسی ایسی شرارتیں کرتے ہیں کہ ان کے دل بھی انہیں شرمندہ کرتے ہیں.عالم کہلاتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے.اس لئے گو انہوں نے علم پڑھا مگر ان کا علم ان کے کسی کام نہ آیا اور وہ گمراہ کے گمراہ ہی رہے.پس خشیت اللہ کی بہت ضرورت ہے.اس کے پیدا کرنے کے طریق نبیوں کے زمانہ میں بہت سے ہوتے ہیں.کیوں؟ اس لئے کہ وہ انسان کو سانچے میں ڈھال دیتے ہیں اور خود نمونہ

Page 196

وم جلد ۳۰ 149 انوار خلافت بن کر لوگوں کو سکھلاتے ہیں.یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ ہر ایک کام جس طرح کسی استاد کے بتانے اور تجربہ کر کے دکھانے سے آتا ہے اس طرح خود بخود کتابوں میں سے پڑھ نہیں آیا کرتا مثلاً اگر کوئی شخص ڈاکٹری کی کتابیں پڑھ لے لیکن اسے تجربہ نہ ہو تو وہ لوگوں کا تو علاج کرنے کی بجائے ان کو مارے گا.کیونکہ علاج وہی کر سکتا ہے جس کو تجربہ بھی ہو اور جسے اس نے کسی استاد سے سیکھا ہو.مگر جس نے کسی استاد کو دیکھا ہی نہ ہو اس کے علاج سے بہت مرتے اور کم جیتے ہیں اور جو جیتے ہیں وہ بھی اس لئے نہیں کہ اس کی دوائی اور علاج سے بلکہ اپنی طاقت اور قوت سے.پس خشیت اللہ نبی کی صحبت سے جس طرح حاصل ہوتی ہے اس کی طرح کسی اور طریق سے نہیں حاصل ہو سکتی.پس تم میں سے تو بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود کی صحبت سے اس کو سیکھا ہے.اس لئے تم اس زمانہ کے لئے ہوشیار ہو جاؤ جبکہ فتوحات پر فتوحات ہوں گی عنقریب ایک زمانہ آتا ہے جبکہ تمہارے نام کے ساتھ لوگ رضی اللہ عنہ لگا ئیں گے.آج اگر تمہاری قدر نہیں تو نہ سہی لیکن ایک وقت آتا ہے جبکہ اس شخص کی پگڑی کرتے اور جوتی تک کو لوگ متبرک سمجھیں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہا ہے.بیشک حضرت مسیح موعود کو ہی خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے لیکن یاد رکھو صادقوں کے ساتھ رہنے والوں کے کپڑوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود نے الوصیت میں لکھا ہے کہ ”ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفادار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھلائے گا.جس کا اس نے وعدہ فرمایا اگر چہ یہ دن دنیا کے آخری دن ہیں.اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے.پر ضرور ہے کہ یہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی.میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا.اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں.اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے".الوصیت صفحه ۸ - روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۳۰۶ ) پس وہ وقت جلد آنے والا ہے اس میں شک نہیں کہ آج تم لوگوں کی نظروں میں جاہل ہو.پر وہ دن جلدی ہی آنے والے ہیں جبکہ دنیا کے گی کہ تمہارے زمانہ میں تم سے زیادہ مہذب کوئی نہیں گذرا.تم نے خدا تعالی کا حکم مانا ہے اس کے رسول کا حکم مانا ہے اور اس کے مسیح کو قبول کیا ہے.پس تم ہی دنیا میں ایک برگزیدہ قوم ہو.تمہارے کپڑوں سے لوگ برکت

Page 197

انوار العلوم جلد - 14 انوار خلافت ڈھونڈیں گے اور تمہارے ناموں کی عزت کریں گے کیونکہ تمہارے نام عزت کے ساتھ آسمان پر لکھے گئے ہیں.پس کون ہے جو انہیں دنیا سے مٹا سکے.لیکن یہ بات بھی یاد رکھو کہ جس طرح تم پر اس قدر انعام ہوئے ہیں اسی طرح تمہارے فرض بھی بہت بڑھ گئے ہیں.بیشک بعد میں آنے والے تحریریں پڑھ سکتے ہیں حضرت مسیح موعود کی کتابوں کو پڑھ سکتے ہیں مگر اس طرح وہ اعمال نہیں سیکھ سکتے.اور نہ دوسرے لوگ انہیں سکھا سکتے ہیں جس طرح تم نے سیکھے ہیں.مگر وہی سکھا سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود کی صحبت میں پاک دل ہوئے.صرف علم نہ پہلوں کے کام آیا اور نہ پچھلوں کے کام آسکتا ہے.مگر تمہیں خود علم کی ضرورت ہے قرآن شریف عربی زبان میں ہے اس لئے جب تک عربی نہ آتی ہو اس کے پڑھنے میں لذت نہیں آسکتی اور نہ اس کے احکام سے انسان واقف ہو سکتا ہے.پس تم عربی سیکھو تاکہ قرآن شریف کو سمجھ سکو.ابھی میر حامد شاہ صاحب نے ایک نظم پڑھی ہے.عجیب بات ہے کہ اس میں انہوں نے ایک شعر ایسا بھی کہا ہے کہ اس کے مضمون کے متعلق میں اس وقت تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں اور وہ یہ ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور اگر قرآن سیکھو تا بعد میں آنے والوں کو سکھا سکو.اگر تم اس کے لئے تیار نہ ہوئے تو یاد رکھو کہ ایک عرصہ تک تو بیشک تمہیں عزت حاصل ہو گی لیکن ایسا زمانہ آئے گا جبکہ تم خاک میں ملائے جاؤ گے.اور تم سے آنے والے لوگ جن میں خشیت اللہ نہ ہوگی وہی سلوک کریں گے جو صحابہ کے ساتھ ان لوگوں نے کیا جو بعد میں آئے تھے کہ انہیں قتل کرا کر ان کی لاشوں پر تھوکا اور دفن نہ ہونے دیا.دیکھو میں آدمی ہوں اور جو میرے بعد ہو گا وہ بھی آدمی ہی ہو گا جس کے زمانہ میں فتوحات ہوں گی وہ اکیلا سب کو نہیں سکھا سکے گا.تم ہی لوگ ان کے معلم بنو گے.پس اس وقت تم خود سیکھو تا ان کو سکھا سکو.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ دنیا کے لئے پر و فیسر بنا دیئے جاؤ.اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے اور بہت ضروری ہے کہ تم خود پڑھو تا آنے والوں کے لئے استاد بن سکو.اگر تم نے خود نہ پڑھا تو ان کو کیا پڑھاؤ گے.ایک نادان اور جاہل استاد کسی شاگرد کو کیا پڑھا سکتا ہے.کہتے ہیں ایک استاد تھا اس نے چند خطوط پڑھے ہوئے تھے جو کوئی خط لا کر دیتا اسے انہیں خطوں میں سے کوئی ایک سنا دیتا.ایک دن ایک شخص خط لایا اس وقت اس کے پاس اپنے پہلے خط موجود نہ تھے اس لئے نہ پڑھ سکا.اور کہنے لگا کہ میں طاق والے خط پڑھ سکتا ہوں.پس تم بھی اس خط کے پڑھنے والے کی طرح نہ بنو.آپ لوگوں کے

Page 198

الدار العلوم جلد ۳۰ 121 لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر اخلاص اور خشیت پیدا کرو اور علم دین سیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کرو تاکہ جو لوگ تم میں آئیں ان کو تعلیم دے سکو اور ان میں خشیت اللہ پیدا کر سکو.صحابہ کے وقت جو فتنہ ہوا تھا وہ اسی بات کا نتیجہ تھا کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.اور انہوں نے قرآن شریف نہ پڑھا اور نہ سمجھا تھا.اس لئے ان میں خشیت اللہ پیدا نہ ہوئی.جس کی کا انجام یہ ہوا کہ انہوں نے صحابہ کو قتل کر کے اپنے پاؤں تلے روندا ان کی لاشوں کی بے عزتی کی.اور انہیں مکانوں میں بند کر دیا.اگر وہ مدینہ آتے اور اہل مدینہ سے تعلق رکھتے.تو کبھی یہ فتنہ نہ ہوتا.اور اگر ہوتا تو ایسی خطرناک صورت نہ اختیار کرتا.اس فتنہ میں سارے مدینہ سے صرف تین آدمی ایسے نکلے.جن کو مفسد اور شریر لوگ اپنے ساتھ ملا سکے.اور ان کو بھی دھوکا اور فریب سے.وہ ایک عمار بن یا سر تھے.دوسرے محمد بن ابی بکر اور تیسرے ایک انصاری تھے.چونکہ تم لوگ بھی صحابہ کے مشابہ ہو اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تاریخ سے بیان کروں کہ کس طرح مسلمان تباہ ہوئے.اور کون سے اسباب ان کی ہلاکت کا باعث بنے پس تم ہوشیار ہو جاؤ اور جو لوگ تم میں نئے آئیں ان کے لئے تعلیم کا بندوبست کرو.حضرت عثمان ان کے وقت جو فتنہ اٹھا تھا.وہ صحابہ سے نہیں اٹھا تھا.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ صحابہ نے اٹھایا تھا ان کو دھوکا لگا ہے.اس میں شک نہیں کہ حضرت علی کے مقابلہ میں بہت سے صحابہ تھے اور معاویہ کے مقابلہ میں بھی لیکن میں کہتا ہوں کہ اس فتنہ کے بانی صحابہ نہیں تھے بلکہ وہی لوگ تھے جو بعد میں آئے اور جنہیں آنحضرت ﷺ کی صحبت نصیب نہ ہوئی اور آپ کے پاس نہ بیٹھے.پس میں آپ لوگوں کو اس طرف متوجہ کرتا ہوں اور فتنہ سے بچنے کا یہ طریق بتاتا ہوں کہ کثرت سے قادیان آؤ.اور بار بار آؤ تاکہ تمہارے ایمان تازہ رہیں.اور تمہاری خشیت اللہ بڑھتی رہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول فرماتے تھے میں زمانہ طالب علمی میں ایک شخص کے پاس ملنے کے لئے جایا کرتا تھا.کچھ عرصہ نہ گیا پھر جو گیا تو کہنے لگے کیا تم کبھی قصائی کی دکان پر نہیں گئے میں نے کہا قصائی کی دکان تو میرے راستہ میں پڑتی ہے ہر روز میں اس کے سامنے سے گذرتا ہوں.انہوں نے کہا کیا تم نے کبھی قصائی کو نہیں دیکھا کہ وہ کچھ دیر گوشت کاٹ کر ایک چھری کو دوسری چھری پر پھیر لیتا ہے وہ ایسا اس لئے کرتا ہے کہ تا دونوں چھریاں تیز ہو جائیں.اسی طرح جب ایک نیک آدمی دوسرے نیک آدمی سے ملتا ہے تو ان پر جو کوئی بد اثر ہوتا ہے وہ دور ہو جاتا ہے.پس تم لوگ بھی کثرت سے یہاں آؤ تاکہ نیک انسانوں سے ملو.اور صاف و

Page 199

العلوم جلد ۳۰ ۱۷۲ انوار خلافت شفاف ہو جاؤ.خدا تعالیٰ نے قادیان کو مرکز بنایا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے جو برکات اور فیوض یہاں نازل ہوتے ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں.پھر جس کثرت سے حضرت مسیح موعود کے صحابہ یہاں موجود ہیں اور کسی جگہ نہیں ہیں.اس لئے یہاں کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے انسان کا دل جس طرح صیقل ہوتا ہے اور جس طرح اسے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے.اس طرح کسی جگہ کے لوگوں کے ساتھ ملنے سے نہیں ہوتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے مجھے ان کے ایمان کا خطرہ ہی رہتا ہے.اب ہی دیکھ لو ان لوگوں کو چھوڑ کر جو یہاں متکبرانہ آتے اور اسی نشہ میں چلے جاتے تھے باہر کے ایسے ہی لوگ غیر مبالعین ہیں جو یہاں نہیں آتے تھے.پس اسی وجہ سے ان کے دل زنگ آلود ہوتے گئے.جس کا یہ نتیجہ نکلا کہ وہ مردہ دل ہو گئے.انہوں نے اپنے دل میں ایمان کا پورا تو لگایا تھا مگر اسے پانی نہ دیا.اس لئے وہ سوکھ گیا.انہوں نے اپنے دل میں خشیت اللہ کا بیج تو بویا تھا مگر اس کی آبپاشی نہ کی.اس لئے وہ خشک ہو گیا.تم ان لوگوں کے نمونہ سے عبرت پکڑو اور بار بار یہاں آؤ.تاکہ حضرت مسیح موعود کی صحبت یافتہ جماعت کے پاس بیٹھو.حضرت مسیح موعود کے نشانات کو دیکھو اور اپنے دلوں کو صیقل کرو.میں یہ نہیں کہتا کہ آپ لوگوں نے اس وقت تک کچھ نہیں سیکھایا کچھ نہیں حاصل کیا آپ نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ حاصل کیا ہے مگر اس کو قائم اور تازہ رکھنے کے لئے یہاں آؤ اور بار بار آؤ.بہت لوگ ایسے ہیں جو صرف جلسہ پر آتے ہیں اور پھر نہیں آتے.میں کہتا ہوں انہیں اس طرح آنے سے کیا فائدہ ہوا.یہ فائدہ تو ہوا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود کا حکم مانا اور اس حکم کی قدر کی.مگر ایسے موقعہ پر انہیں کچھ سکھانے اور پڑھانے کا کہاں موقعہ مل سکتا ہے.بہت لوگ ایسے ہوتے ہیں جو جلسہ پر آتے اور پھر چلے جاتے ہیں ان کی بعض حرکات خلاف شرع ہوتی ہیں.لیکن ایسے وقت میں نہ کچھ بتایا جا سکتا ہے اور نہ بتانے کا کوئی موقعہ ملتا ہے.اور پھر وہ جو یہاں نہیں آتے ان کے لئے بار بار دعا بھی نہیں ہو سکتی اور کس طرح ہو.میں تو دیکھتا ہوں.ماں بھی اپنے اس بچہ کو جو ہر وقت اس سے دور رہے بھول جاتی ہے اور جو نزدیک رہے اسے یاد رکھتی ہے.اسی طرح خدا تعالی بھی ان لوگوں کی کو بھلا دیتا ہے جو اس کو یاد نہیں رکھتے.قرآن شریف میں خدا تعالیٰ کا فروں کو کہتا ہے کہ تم میرے ملنے سے نا امید ہو گئے پس میں نے بھی تم کو ترک کر دیا.تو وہ شخص جو بار بار مجھے ملتا اور اپنے آپ کو شناخت کراتا ہے وہ اپنے لئے دعا کے لئے بھی یاد دلاتا ہے.بیشک میں تمام جماعت

Page 200

انوار العلوم جلد - 1.انوار خلافت کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور کرتا رہوں گا.اور مجھے اپنی دعاؤں کے نیک نتائج نکلنے کی امید ہے.ناامیدی میری فطرت میں ہی نہیں ہے کیونکہ میری طبیعت خدا تعالیٰ نے ایسی بنائی ہے جو نا امیدی کے الفاظ کو سننا بھی گوارا نہیں کرتی.مجھے اس شخص پر بہت غصہ آتا ہے جو خدا تعالٰی کی نسبت کسی نا امیدی کا اظہار کرے اس وقت میرے تمام بدن کو آگ لگ جاتی ہے.نیز میں یہ بات بھی کبھی نہیں سن سکتا کہ فلاں بات ہو نہیں سکتی.مجھے ایسے لوگوں سے ہمیشہ نفرت رہی ہے اور ہے جو اس قسم کے ہوتے ہیں.خیر یہ ایک ضمنی بات تھی جو میں نے بیان کر دی ہے.ہاں آپ لوگوں کو میں نے بتایا ہے کہ خدا سے دور رہنے والے لوگوں کا خدا سے قرب نہیں ہوتا.اسی طرح اس کے بندوں سے دور رہنے والا بھی ان کا مقرب نہیں بن سکتا.وہ دعا ئیں جو میں کرتا ہوں مجملاً ہوتی ہیں.اس لئے ان کا اثر اجمالی طور پر سب کو ہو گا مگر فردا فردا اسی کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہوتی ہے جو بار بار سامنے نظر آئے.پس اس بات کو مد نظر رکھ کر بھی یہاں آؤ پھر قادیان میں نہ صرف قرآن شریف علمی طور پر حاصل ہوتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی ملتا ہے.یہاں خدا کے فضل سے پڑھانے والے ایسے موجود ہیں جو پڑھنے والے کے دل میں داخل کر دیں.اور یہ بات کسی اور جگہ حاصل نہیں ہو سکتی کیونکہ تفقہ فی الدین اور چیز ہے اور علم اور چیز.رسول اللہ ا نے حضرت عباس کے لئے یہی دعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کے باریک رازوں سے واقف کرے تفقہ فی الدین حاصل ہو.پس ہر ایک وہ شخص جو قرآن شریف پڑھ سکتا ہے وہ عالم ہو سکتا ہے مگر فقیہہ نہیں ہو سکتا.جب تک کہ قرآن کریم کے باریک رازوں سے بھی واقف نہ ہو.ایسے انسان خدا کے فضل سے یہاں موجود ہیں ان سے آپ یہ بات حاصل کریں.اور وہ اس طرح کہ بار بار یہاں آئیں کیونکہ وہ وقت عنقریب آنے والا ہے جبکہ آپ دنیا کے پڑھانے والے بنیں گے.پس جلدی تعلیم حاصل کرو تاکہ دوسروں کو پڑھا سکو.خدا تعالی کا جن مرکزوں کے ساتھ تعلق ہوتا ہے ان کے رہنے والوں کے ساتھ بھی وہ اپنے خاص فضل کا سلوک کرتا ہے تو یہاں نہ صرف یہ کہ خود بہت سے لوگ خدا کے فضل سے حفقہ فی الدین رکھتے ہیں.بلکہ ہر ایک بات میں دوسروں کو بھی تسلی اور تشفی کرا سکتے ہیں خدا کے فضل سے پھر یہاں کی ایک ایک اینٹ ایک ایک مکان حضرت مسیح موعود کی صداقت کی دلیل ہے کیونکہ یہ وہ شہر ہے جس کا نام بھی کوئی نہ جانتا تھا مگر اس میں پیدا ہونے والے ایک شخص نے کہا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ تمہیں تمام جہان میں مشہور کر دوں گا.اور

Page 201

رالعلوم جلد ۳ ۱۷۴ انوار خلافت یہاں دور دور سے لوگ آئیں گے.چنانچہ وہ مشہور ہو گیا اور دور دراز ملکوں سے لوگ آئے جو آپ کی صداقت کا ایک کھلا کھلا ثبوت ہے.ایک دفعہ ایک انگریز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امریکہ سے ملنے کے لئے آیا.اس نے آپ سے پوچھا کہ کیا آپ نبی ہیں.آپ نے فرمایا ہاں میں نبی ہوں.اس نے کہا اگر آپ نبی ہیں تو کوئی نشان دکھلائیے.آپ نے فرمایا آپ ہی میرے نشان ہیں.اس نے کہا میں کس طرح ہوں.فرمایا ایک وقت تھا کہ یہاں مجھے کوئی نہ جانتا تھا اور میں ایک گمنامی کی حالت میں رہتا تھا.لیکن آج آپ مجھے امریکہ سے ملنے کے لئے آئے ہیں.کیا یہ میری صداقت کا نشان نہیں ہے.غرض آپ میں سے ایک ایک شخص اور اس مسجد اور دوسرے مکانوں کی ایک ایک اینٹ آنے والوں کے لئے نشان ہے کیونکہ اگر حضرت صاحب کے ذریعہ یہاں لوگ جمع نہ ہوتے.تو کون یہ مسجدیں اور یہ سکول اور یہ بورڈنگ بناتا.حضرت مسیح موعود نے ایسے وقت میں اس کی خبر دی تھی جبکہ کسی کے خیال میں بھی یہ بات نہ آسکتی تھی.پھر آپ نے یہ بھی فرمایا ہوا ہے کہ قادیان اس دریا تک جو یہاں سے سات آٹھ میل کے فاصلہ پر ہے پھیل جائے گا.چنانچہ ایک میل تک تو اس تھوڑے سے عرصہ میں ہی پھیل گیا ہے.قاعدہ ہے کہ ابتداء میں ہر ایک چیز آہستہ آہستہ ترقی کرتی ہے اور کچھ عرصے کے بعد یک لخت بہت بڑھ جاتی ہے.مثلاً بچہ پہلے تھوڑا تھوڑا بڑھتا ہے لیکن ایک وقت میں یک لخت بڑھ جاتا ہے.تو یہ قادیان کی ابتدائی ترقی ہے اس سے اس کی انتہائی ترقی کا تی اندازہ کرلو.غرض قادیان کی ہر ایک چیز ہر ایک درخت ہر ایک اینٹ ہر ایک مکان نشان ہے.مقبرہ ، حضرت صاحب کا باغ ، بورڈنگ سکول ، مسجدیں وغیرہ سب حضرت صاحب کا معجزہ ہیں اور یہاں کی گلیاں بھی بہت بابرکت ہیں کیونکہ ان میں خدا کا مسیح چلا.کیا تم نہیں دیکھتے کہ مکہ اور مدینہ کیوں اب بھی بابرکت ہیں.ان میں کیا ایسی چیز ہے جو کسی اور جگہ نہیں ہے.وہ یہ کہ مکہ کی بنیاد حضرت ابراہیم جیسے برگزیدہ انسان نے رکھی.اور مدینہ میں رسول کریم رونق افروز رہے لیکن اب کیا وہاں رسول اللہ موجود ہیں.پھر کیوں اس کی عزت اور کی تو قیر کی جاتی ہے.اور رسول اللہ نے یہ کیوں فرمایا ہے کہ میری مسجد میں نماز پڑھنے والے کو بہ نسبت کسی اور مسجد میں پڑھنے والے کے زیادہ ثواب ہو گا حالانکہ وہاں رسول اللہ کیا آپ کے صحابہ بھی نہیں ہیں اور اب تو رہاں ایسے علماء رہتے ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود پر بھی کفر کا فتویٰ لگا دیا مگر چونکہ وہاں آنحضرت ﷺ کے قدم پڑے تھے اس لئے وہ اب بھی مقدس اور

Page 202

العلوم جلد -- ረላ انوار خلافت - مطہرہی ہے.پھر مکہ کو دیکھو وہاں نہ حضرت ابراہیم ہیں اور نہ حضرت اسماعیل.اور نہ ہی ان کے صحابہ موجود ہیں.مگر چونکہ ان متبرک انسانوں نے اس کی بنیاد رکھی تھی اس لئے باوجود اس وقت ان کے وہاں موجود نہ ہونے کے مکہ ویسا ہی متبرک ہے.تو جن مقاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کا تعلق ہوتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے متبرک بنا دیے جاتے ہیں.قادیان بھی ایک ایسی ہی جگہ ہے.یہاں خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ مبعوث ہوا اور اس نے یہاں ہی اپنی ساری عمر گزاری.اور اس جگہ سے وہ بہت محبت رکھتا تھا.چنانچہ اس موقعہ پر جبکہ حضرت مسیح موعود لاہور گئے ہیں.اور آپ کا وصال ہو گیا ہے.ایک دن مجھے آپ نے ایک مکان میں بلا کر فرمایا.محمود دیکھو یہ دھوپ کیسی زردی معلوم ہوتی ہے.چونکہ مجھے ویسی ہی معلوم ہوتی تھی جیسی کہ ہر روز دیکھتا تھا.میں نے کہا نہیں اسی طرح کی ہے جس طرح کی ہر روز ہوا کرتی ہے.آپ نے فرمایا نہیں یہاں کی دھوپ کچھ زرد اور مدھم سی ہے.قادیان کی دھوپ بہت صاف اور عمدہ ہوتی ہے.چونکہ آپ نے قادیان میں ہی دفن ہونا تھا.اس لئے آپ نے یہ ایک ایسی بات فرمائی جس سے قادیان سے آپ کی محبت اور الفت کا پتہ لگتا تھا.کیونکہ جب کہیں سے جدائی ہونے لگتی ہے تو وہاں کی ذرا ذرا چیز سے بھی محبت اور الفت کا خیال آتا ہے.تو اس جگہ کی چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی خدا کے مسیح کو وہ الفت تھی جس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے.پھر خدا تعالٰی نے تمہیں ایک ملک میں منسلک کر دیا ہے اور تم ایک لڑی میں پروئے گئے ہو.خدا تعالیٰ نے تمہیں اتفاق و اتحاد کی مضبوط چٹان پر کھڑا کر دیا ہے.اس لئے یہاں صرف مقام ہی کی برکتیں نہیں بلکہ اتحاد کی برکتیں بھی ہیں.لیکن میں کہتا ہوں اگر خدانخواستہ اتحاد نہ بھی ہو تو بھی یہاں آنا بہت ضروری ہے.ورنہ وہ شخص جو یہاں نہیں آتا.یاد رکھے کہ اس کا ایمان خطرہ میں ہے.پس وہ لوگ جو پرانے ہیں اور وہ بھی جو نئے ہیں یہاں بار بار آئیں.میں بڑے زور سے کہتا ہوں کہ ان کے یہاں آنے جانے کے روپے ضائع نہیں جائیں گے بلکہ خدا تعالی انہیں واپس کر دے گا.اور بڑے نفع کے ساتھ واپس کرے گا کیونکہ خدا تعالی کسی کا حق نہیں مارتا.اسے بڑی غیرت ہے اور اس معاملہ میں وہ بڑا غیور ہے.دیکھو اس میں اتنی غیرت ہے کہ جب مؤذن کھڑا ہو کر اذان میں کہتا ہے.حَتَّى عَلَى الصَّلوة کہ اے لوگو نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز کے لئے آؤ.تو خدا تعالیٰ اتنا برداشت نہیں کر سکتا کہ اس آواز سے لوگ یہ خیال کر کے آئیں کہ چلو خدا کا حکم ہے مسجد میں چلیں.اور اس طرح ایک طرح کا احسان

Page 203

لوم جلد - 164 انوار خلافت جتائیں.اس لئے ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ حَيَّ عَلَى الفلاح کسی کا نماز پڑھنے کے لئے آنا مجھے پر کوئی احسان نہیں ہے اگر کوئی نماز پڑھے گا تو خود ہی فلاح حاصل کرے گا.تو جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے اپنا مال خرچ کریں گے اس کی رضامندی کے لئے اپنا وطن چھوڑیں گے اس کی رضا کے لئے سفر کی تکلیفیں برداشت کریں گے.ان کی یہ باتیں ضائع نہیں جائیں گی.بلکہ وہ اس نے درجہ کو پائیں گے کہ خدا ان کا ہاتھ خدا ان کی زبان خدا ان کے کان اور خدا ان کے پاؤں ہو جائے گا.اور جو کچھ وہ اس راستہ میں ڈالیں گے وہ بیچ ہو گا جو انہیں کئی گنا ہو کر واپس ملے گا.پس کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ قادیان آنا خرچ کرتا ہے یہ خرچ کرنا نہیں بلکہ برکتیں حاصل کرنا ہے.دیکھو کھیتی میں بیج ڈالنے والا بھی پیج کو خرچ کرتا ہے لیکن اس سے گھبراتا نہیں بلکہ امید رکھتا ہے کہ کل مجھے بہت زیادہ ملے گا.پس تم بھی یہاں آنے جانے کے اخراجات سے نہ گھبراؤ.خدا تعالیٰ تمہیں اس کے مقابلہ میں بہت بڑھ کر دے گا.پس تمہارے یہاں آنے میں کوئی چیز روک نہ ہو اور کوئی بات مانع نہ ہو تاکہ تم اپنے دین اور ایمان کو مضبوط کرلو.اور اپنے میں آنے والوں سے پہلے ان کے لینے کے لئے تیار ہو جاؤ.اور اگر آنے والے ہزاروں ہوں تو تم بھی ہزاروں ہی ان کے لینے کے لئے موجود رہو.اس بات کو خوب ذہن نشین کر کے اس پر عمل کرو.صحابہ کا بڑا تلخ تجربہ ہمارے سامنے موجود ہے.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ کیسی درد ناک مصیبت ان پر آئی تھی.اور کس قدر مصائب اور آلام کا وہ نشانہ بنے تھے.یہ فساد جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے صحابہ سے پیدا نہیں ہوا تھا.بلکہ ان لوگوں نے کیا تھا جو مدینہ میں نہیں آتے تھے.اور صحابہ میں شامل نہ تھے.چنانچہ اس فساد کا بانی مبانی ایک شخص عبداللہ بن سبا تھا.اس کی ابتدائی زندگی کا حال تو معلوم نہیں ہو تاکہ سیاست کے ساتھ اس کو کیا تعلق تھا لیکن تاریخ میں اس کا ذکر حکیم بن جبلہ کے ساتھ آتا ہے.حکیم بن جبلہ ایک چور تھا جب فارس پر چڑھائی ہوئی تو یہ بھی صحابہ کے لشکر میں شامل تھا.لشکر کی واپسی پر یہ راستہ میں غائب ہو گیا.اور غیر مسلموں پر حملہ کر کے ان کے اموال لوٹ لیا کرتا تھا اور بھیس بدل کر رہتا تھا.جب غیر مسلم آبادی اور مسلم آبادی نے اس کی شرارتوں کا حال حضرت عثمان کو لکھا تو آپ نے اس کے نظر بند کرنے کا حکم دیا اور بصرہ سے باہر جانے کی اسے ممانعت کر دی گئی اس پر اس نے خفیہ شرارتیں اور منصوبے شروع کئے.چنانچہ ۳۲ ھ میں اس کے گھر پر عبد اللہ بن سبا مہمان کے طور پر آکر اترا.اور لوگوں کو بلا کر ان

Page 204

166 کو ایک خفیہ جماعت کی شکل میں بنانا شروع کیا اور آپس میں ایک انتظام قائم کیا.جب اس کی خبر والی کو ملی تو اس نے اس سے دریافت کیا کہ تو کون ہے تو اس نے کہلا بھیجا کہ میں ایک یہودی ہوں اسلام سے مجھے رغبت ہے اور تیری پناہ میں آکر رہا ہوں.چونکہ اس کی شرارتوں کا علمی گورنر کو ہو چکا تھا انہوں نے اسے ملک بدر کر دیا.یہ پہلا واقعہ ہے جو تاریخ عبد اللہ بن سبا کی سیاسی شرارتوں کے متعلق ہمیں بتاتی ہے اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ حکیم بن جبلہ بھی سچے دل سے مسلمان نہ تھا اور اس کا ذمیوں پر حملہ کرنا اس لئے نہ تھا کہ غیر مسلموں سے اسے دشمنی تھی.بلکہ غیر مسلموں کو اسلامی حکومت کے خلاف بھڑ کانے کے لئے وہ ڈاکہ مارتا تھا جیسا کہ آج کل بنگالہ کے چند شریر ہندوستانی آبادی پر ڈاکہ مارتے ہیں.اور ان کی غرض صرف اس قدر ہوتی ہے کہ عام آبادی انگریزی حکومت کو ناقابل سمجھ کر اس سے بگڑ جائے.اور یہ نتیجہ اس بات سے نکلتا ہے کہ عبداللہ بن سبا ایک یہودی جو دل سے اسلام کا دشمن تھا اسی کے پاس آکر ٹھہرا ہے اگر حکیم سچا مسلمان ہوتا اور غیر مسلموں کا دشمن تو کبھی عبد اللہ بن سبا جو دل سے اسلام کا دشمن تھا سب بصرہ میں سے اس کو نہ چنا بلکہ اسے اپنا دشمن خیال کرتا.جب عبد اللہ بن سبا بصرہ سے نکالا گیا تو کوفہ کو چلا گیا.اور وہاں ایک جماعت اپنے ہم خیالوں کی پیدا کر کے شام کو گیا لیکن وہاں اس کی بات کسی نے نہ سنی.اس لئے وہ وہاں سے مصر کو چلا گیا.مصری لوگ تازہ مسلمان تھے.ان میں ایمان اس قدر داخل نہ ہوا تھا.جیسا کہ دیگر بلاد کے باشندوں میں پھر مدینہ سے زیادہ دور تھے اور مرکز سے تعلق کم تھا اس لئے بہت کثرت سے اس کے فریب میں آگئے.اور عبد اللہ بن سبا نے دیکھ لیا کہ مصر ہی میرے قیام کے لئے مناسب ہو سکتا ہے چنانچہ اس نے مصر میں ہی رہائش اختیار کی اور لوگوں کو اکسانا شروع کیا.ادھر تو یہ فتنہ شروع تھا ادھر چند اور فتنے بھی پیدا ہو رہے تھے اور ان کے بانی بھی وہی تو لوگ تھے جو بعد میں مسلمان ہوئے تھے اور مدینہ سے ان کا تعلق بالکل نہ تھا اس لئے ان کی تربیت نہ ہو سکتی تھی.چنانچہ جس طرح بصرہ میں حکیم بن جبلہ عبد اللہ بن سبا کے ساتھ مل کر یہ شرارتیں کر رہا تھا.کوفہ میں بھی ایک جماعت اس کام میں لگی ہوئی تھی.سعید بن العاص گورنر کوفہ تھے اور ان کی صحبت اکثر ذی علم لوگوں کے ساتھ رہتی تھی.مگر کبھی کبھی تمام لوگوں کو وہ اپنے پاس آنے کی اجازت دیتے تھے تاکل حالات سے باخبر رہیں.ایک دن ایسا ہی موقعہ تھا باتیں ہو رہی تھیں.کسی نے کہا فلاں شخص بڑا سخی ہے سعید بن العاص نے کہا کہ

Page 205

انوار العلوم جلد ٣٠ IZA میرے پاس دولت ہوتی تو میں بھی تم لوگوں کو دیتا.ایک بیچ میں بول پڑا کہ کاش ال کسری کے اموال تمہارے قبضہ میں ہوتے.اس پر چند نو مسلم عرب اس سے لڑ پڑے اور کہا کہ یہ ہمارے اموال کی نسبت خواہش کرتا ہے کہ اس کو مل جائیں.سعید بن العاص نے سمجھایا تو اس نے کہا کہ تم نے اس کو سکھایا ہے کہ ایسی بات کہے اور اٹھ کر اس شخص کو مارنے لگے اس کی مدد کے لئے اس کا باپ اٹھا تو اسے بھی مارا حتیٰ کہ دونوں بیہوش ہو گئے.جب لوگوں کو علم ہوا کہ اس نے قسم کا فساد ہو گیا ہے تو وہ قلعہ کے ارد گرد جمع ہو گئے.مگر سعید بن العاص نے ان کو سمجھا کر ہٹا دیا کہ کچھ نہیں سب خیر ہے اور جن لوگوں کو مار پڑی تھی انہیں بھی منع کر دیا کہ تم اس بات کو مشهور مت کرنا خواہ مخواہ فساد پڑے گا.اور آئندہ سے اس فسادی جماعت کو اپنے پاس آنے سے روک دیا.جب انہوں نے دیکھا کہ ہمیں والی اپنے پاس نہیں آنے دیتا تو انہوں نے لوگوں نے میں طرح طرح کے جھوٹ مشہور کرنے شروع کر لیے اور دین اسلام پر طعن کرنے لگے.اور مختلف تدابیر سے لوگوں کو دین سے بدظن کرنے کی کوشش شروع کی.اس پر لوگوں نے حضرت کی عثمان سے شکایت کی اور آپ نے حکم دیا کہ ان کو کوفہ سے جلا وطن کر کے شام بھیج دیا جائے.اور حضرت معاویہ کو لکھ دیا کہ ان کی خبر رکھنا.حضرت معاویہؓ نے نہایت محبت سے ان کو رکھا اور ایک دن موقعہ پاکر ان کو سمجھایا کہ رسول کریم ال کی آمد سے پہلے عرب کی کیا حالت تھی اسے یاد کرو اور غور کرد که خدا تعالیٰ نے قریش کے ذریعہ سے تم کو عزت دی ہے پھر قریش سے تمہیں کیوں دشمنی ہے (وہ لوگ اس بات پر بھی طعن کرتے تھے کہ خلیفہ قریش میں سے کیوں ہوتے ہیں قریشیوں نے خلافت کو اپنا حق بنا چھوڑا ہے یہ ناجائز ہے ) اگر تم حکام کی عزت و نہ کرو گے تو یاد رکھو جلد وہ دن آتا ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر ایسے لوگوں کو مقرر کرے گا جو تم کو خوب تکلیف دیں گے.امام ایک ڈھال ہے جو تم کو تکلیف سے بچاتا ہے.انہوں نے کہا کہ قریش کا کیا احسان ہے کیا وہ کوئی بڑی جماعت تھی جن کے ذریعہ سے اسلام کامیاب ہو گیا اور باقی رہا کہ امام ڈھال ہے اور ہمیں تکلیف سے بچا رہا ہے.سو یہ خیال مت کرو جب وہ ڈھال ٹوٹ جائے گی تو پھر ہمارے ہاتھ میں دے دی جائے گی.یعنی خلافت اگر قریش کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو پھر ہم ہی ہم اس کے وارث ہیں اس لئے ہمیں اس کا فکر نہیں کہ خلافت قریش کے ہاتھ سے نکل گئی تو پھر کیا ہو گا.اس پر حضرت معاویہ نے ان کو سمجھایا کہ ایام جاہلیت کی سی باتیں نہ کرو اسلام میں کسی قوم کا زیادہ یا کم ہونا موجب شرف نہیں رکھا گیا.بلکہ دیندار و

Page 206

انوار العلوم جلد ۳۰ 149 خدارسیدہ ہونا اصل سمجھا گیا ہے.پس جبکہ قریش کو خدا تعالٰی نے جاہلیت اور اسلام دونوں زمانوں میں ممتاز کیا.اور ان کو دین کی اشاعت و حفاظت کا کام سپرد کیا ہے تو تم کو اس پر کیا حسد ہے اور تم لوگ اپنی پہلی حالت کو دیکھو اور سوچو کہ اسلام نے تم لوگوں پر کس قدر احسانات کئے ہیں.ایک وہ زمانہ تھا کہ تم اہل فارس کے کارندہ تھے اور بالکل ذلیل تھے اسلام کے ذریعہ سے ہی تم کو سب عزت ملی.لیکن تم نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے ایسی باتیں شروع کر دی ہیں جو اسلام کے لئے ہلاکت کا باعث ہیں تم شیطان کا ہتھیار بن گئے ہو وہ جس طرح چاہتا ہے تمہارے ذریعہ سے مسلمانوں میں پھوٹ ڈلوا رہا ہے.مگر یاد رکھو کہ اس بات کا انجام نیک نہ ہو گا اور تم دکھ پاؤ گے.بہتر ہے کہ جماعت اسلام میں شامل ہو جاؤ.میں خوب جانتا ہوں کہ تمہارے دل میں کچھ اور ہے جسے تم ظاہر نہیں کرتے لیکن اللہ تعالی اسے ظاہر کر کے چھوڑے گا (یعنی تم اصل میں حکومت کے طالب ہو اور چاہتے ہو کہ ہم بادشاہ ہو جائیں اور دین سے متنفر ہو لیکن بظاہر اپنے آپ کو مسلم کہتے ہو) اس کے بعد حضرت معاویہ نے حضرت عثمان کو ان کی حالت سے اطلاع دی اور لکھا کہ وہ لوگ اسلام و عدل سے بیزار ہیں اور ان کی غرض فتنہ کرنا اور مال کمانا ہے پس آپ ان کے متعلق گورنروں کو حکم دے دیجئے کہ ان کو عزت نہ دیں یہ ذلیل لوگ ہیں.پھر ان لوگوں کو شام سے نکالا گیا اور وہ جزیرہ کی طرف چلے گئے وہاں عبد الرحمن بن خالد بن ولید حاکم تھے انہوں نے ان کو نظر بند کر دیا اور کہا کہ اگر اس ملک میں بھی لوگوں کے دلوں میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور فتنہ ڈالنے کی کوشش کی تو یاد رکھو میں ایسی خبر لوں گا کہ سب شیخی کرکری ہو جائے گی.چنانچہ انہوں نے انہیں سخت پہرہ میں رکھا.حتی کہ ان لوگوں نے آخر میں تو بہ کی کہ اب ہم جھوٹی افواہیں نہ پھیلائیں گے.اور اسلام میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش نہ کریں گے.اس پر حضرت عبدالرحمن بن خالد بن ولید نے ان کو اجازت دے دی کہ جہاں چاہو چلے جاؤ.اور اشتر کو حضرت عثمان کی خدمت میں بھیجا کہ اب یہ معافی کے طالب ہیں آپ نے انہیں معاف کیا اور اختیار دیا کہ جہاں چاہیں رہیں.اشتر نے کہا کہ ہم عبد الرحمن بن خالد کے پاس ہی رہنا چاہتے ہیں چنانچہ وہیں ان کو واپس کیا گیا.اس گروہ کے علاوہ ایک تیسرا گروہ تھا جو تفرقہ کے پیچھے پڑا ہوا تھا.اس کا سرگروہ ایک شخص حمران بن ابان تھا اس نے ایک عورت سے عدت کے اندر شادی کرلی تھی جس پر اسے مارا گیا اور بصرہ کی طرف جلا وطن کر دیا گیا.وہاں اس نے فساد ڈلوانا شروع کیا اور تفرقہ اور

Page 207

فساد ڈالنے کے لئے یہ صورت اختیار کی کہ شرفاء کے خلاف موقعہ پا کر جھوٹ منسوب کر دیتا اور اس طرح تفرقہ ڈلواتا.غرض یہ تین گروہ اسلام کی تباہی میں کوشاں تھے اور تینوں گروہ ایسے تھے جو دین اسلام سے بے خبر او ر اپنی وجاہت کے دلدادہ تھے.اسلام کی ناواقفی کی وجہ سے اپنی عقل سے مسائل ایجاد کر کے مسلمانوں کے اعتقاد بگاڑتے تھے اور چونکہ حکومت اسلامیہ ان کے اس فعل میں روک تھی اور وہ کھلے بندوں اسلام کو بازیچہ اطفال نہیں بنا سکتے تھے اس لئے حکومت کے مٹانے کے درپے ہو گئے تھے.چنانچہ سب سے پہلے عبداللہ بن سبا نے مصر میں بیٹھ کر باقاعدہ سازش شروع کر دی اور تمام اسلامی علاقوں میں اپنے ہم خیال پیدا کر کے ان کے ساتھ خط و کتابت شروع کی اور لوگوں کو بھڑکانے کے لئے یہ راہ نکالی کہ حضرت عثمان کے عمال کے خلاف لوگوں کو بھڑکانا شروع کیا.اور چونکہ لوگ اپنی آنکھوں دیکھی بات کے متعلق دھوکا نہیں کھا سکتے اس لئے یہ تجویز کی کہ ہر ایک جگہ کے لوگ اپنے علاقہ میں اپنے گورنر کے عیب نہ مشہور کریں بلکہ دوسرے علاقہ کے لوگوں کو اس کے مظالم لکھ کر بھیجیں.وہاں کے فتنہ پرداز ان کو اپنے گورنر کے عیب لکھ کر بھیجیں اس طرح لوگوں پر ان کا فریب نہ کھلے گا.چنانچہ بصرہ کے لوگ مصر والوں کی طرف لکھ کر بھیجتے کہ یہاں کا گورنر بڑا ظالم ہے اور اس اس طرح مسلمانوں پر ظلم کرتا ہے اور مصر کے لوگ یہ خطوط لوگوں کو پڑھ کر سناتے اور کہتے کہ دیکھو تمہارے بصرہ کے بھائی اس دکھ میں ہیں اور ان کی فریاد کوئی نہیں سنتا.اسی طرح مصر کے متفنی کسی اور صوبہ کے دوستوں کو مصر کے گورنر کے ظلم لکھ کر بھیجتے اور وہ لوگوں کو سنا کر خلیفہ کے خلاف اکساتے کہ اس نے ایسے ظالم گورنر مقرر کر رکھے ہیں جن کو رعایا کی کوئی پرواہ نہیں.علاوہ ازیں لوگوں کو بھڑ کانے کے لئے چونکہ اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ ان کے دل ان کی طرف جھک جائیں.اسکے لئے عبد اللہ بن سبانے یہ تجویز کی کہ عام طور پر وعظ و لیکچر دیتے پھرو تاکہ لوگ تمہاری طرف مائل ہو جائیں اور بڑا خادم اسلام سمجھیں.چنانچہ اس کے اصل الفاظ یہ ہیں جو طبری نے لکھے ہیں و اَظْهِرُوا الأَمْرَ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهَى عَنِ الْمُنْكَرِ تَسْتَمِيلُوا النَّاسَ وَادْعُوهُم إِلى هذَا الْأَمْرِ فَبَكَ دُعَاتَه یه یعنی اس نے نصیحت کی کہ ظاہر میں تو تمہارا کام لوگوں کو نیک باتوں کا وعظ کرنا اور بری باتوں سے روکنا ہو تا کہ اس ذریعہ سے لوگوں کے دل تمہاری طرف مائل : ه تاریخ طبری جلد ۶ صفحه ۲۹۴۲ مطبوعہ مکتبه خیاط بیروت

Page 208

JAI انوار العلوم جلد ۳۰ طور پر جائیں کہ کیا عمدہ کام کرتے ہیں لیکن اصل میں تمہاری غرض ان وعظوں سے یہ ہو کہ اس طرح لوگوں کے دل جب مائل ہو جائیں تو انہیں اپنا ہم خیال بناؤ.یہ نصیحت کر کے اس نے اپنے واعظ چاروں طرف پھیلا دیئے.غرض ان لوگوں نے ایسا طریق اختیار کیا کہ سادہ لوح لوگوں کے لئے بات کا سمجھنا بالکل مشکل ہو گیا.اور فتنہ بڑے زور سے ترقی کرنے لگا.اور عام مسلمان خلافت عثمان سے بدظن ہو گئے اور ہر جگہ یہی ذکر لوگوں کی زبانوں پر رہنے لگا کہ ہم تو بڑے مزے میں ہیں.باقی علاقوں کے لوگ بڑے بڑے دکھوں میں ہیں.بصرہ کے لوگ خیال کرتے کہ کوفہ اور مصر کے لوگ سخت تکلیف میں ہیں اور کوفہ کے لوگ سمجھتے کہ بصرہ اور مصر کے لوگ سخت دکھ میں ہیں حالانکہ اگر وہ لوگ آپس میں ملتے تو ان کو معلوم ہو جاتا کہ یہ شریروں کی شرارت ہے ورنہ ہر جگہ امن و امان ہے.ہر جماعت دوسری جماعت کو مظلوم قرار دیتی تھی حالانکہ مظلوم کوئی بھی نہ تھا.اور ان سازشیوں نے ایسا انتظام کر رکھا تھا کہ اپنے ہم خیالوں کو ایک دوسرے سے ملنے نہ دیتے تھے تار از ظاہر نہ ہو جائے.آخر یہ فساد بڑھتے بڑھتے خیالات سے عمل کی طرف لوٹا.اور لوگوں نے یہ تجویز کی کہ ان گورنروں کو موقوف کروایا جائے.جن کو حضرت عثمان نے مقرر کیا ہے چنانچہ سب سے پہلے حضرت عثمان" کے خلاف کوفہ کے لوگوں کو اکسایا گیا اور وہاں فساد ہو گیا.لیکن بعض بڑے آدمیوں کے سمجھانے سے فساد تو دب گیا.مگر فساد کے بانی مبانی نے فورا ایک آدمی کو خط دے کر حمص روانہ کیا کہ وہاں جو جلا وطن تھے ان کو بلا لائے.اور لکھا کہ جس حالت میں ہو فورا چلے آؤ کہ مصری ہم سے مل گئے ہیں.وہ خط جب ان کو ملا تو باقیوں نے تو اسے رد کر دیا.لیکن مالک بن اشتر بگڑ کر فوراً کوفہ کی طرف روانہ ہو گیا.اور تمام راستہ میں لوگوں کو حضرت عثمان اور سعید بن العاص کے خلاف اکسانا گیا اور ان کو سنا تا کہ میں مدینہ سے آرہا ہوں.راستہ میں سعید بن العاص سے ملا تھا وہ تمہاری عورتوں کی عصمت دری کرنا چاہتا ہے اور فخر کرتا ہے کہ مجھے اس کام سے کون روک سکتا ہے.اسی طرح حضرت عثمان کی عیب جوئی کرتا.جو لوگ حضرت عثمان اور دیگر صحابہ کے واقف نہ تھے اور مدینہ آنا جانا ان کا کم تھا وہ دھوکے میں آتے جاتے تھے اور تمام ملک میں آگ بھڑکتی جاتی تھی عقلمند اور واقف لوگ سمجھاتے لیکن جوش میں کون کسی کی سنتا ہے.اس زمانہ میں بھی حضرت مسیح موعود کے خلاف لوگ قسم قسم کے جھوٹ مشہور کرتے تھے

Page 209

TAY انوار خلافت اور ایسے احمدی بھی جو قادیان کم آتے تھے ان کے دھوکے میں آجاتے تھے.اب بھی ہمارے مخالف میری نسبت اور قادیان کے دوسرے دوستوں کی نسبت جھوٹی باتیں مشہور کرتے ہیں کہ سب اموال پر انہوں نے تصرف کر لیا ہے اور حضرت صاحب کو حقیقی نبی (جس کے معنی حضرت مسیح موعود نے تشریعی نبی کئے ہیں) مانتے ہیں اور نعوذ باللہ من ذالک رسول کریم اے کی ہتک کرتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ جو لوگ قادیان نہیں آتے ان میں سے بعض ان کے فریب میں آجاتے ہیں.ایک رئیس نے مسجد کوفہ میں لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک تقریر کی اور سمجھایا لیکن دوسرے لوگوں نے انہیں کہا کہ اب فتنہ حد سے بڑھ گیا ہے.اب اس کا علاج سوائے تلوار کے کچھ نہیں.اس ناشکری کی سزا اب ان کو یہی ملے گی کہ یہ زمانہ بدل جائے گا اور بعد میں یہ لوگ خلافت کے لوٹنے کی تمنا کریں گے لیکن ان کی آرزو پوری نہ ہوگی.پھر سعید بن العاص ان کو سمجھانے گئے انہوں نے جواب دیا کہ ہم تجھ سے راضی نہیں.تیری جگہ پر اور گورنر طلب کریں گے انہوں نے کہا کہ اس چھوٹی سی بات کے لئے اس قدر شور کیوں ؟ ہے.ایک آدمی کو خلیفہ کی خدمت میں بھیج دو کہ ہمیں یہ گورنر منظور نہیں وہ اور بھیج دیں گے.اس بات کے لئے اس قدر اجتماع کیوں ہے ؟ یہ بات کہہ کر سعید نے اپنا اونٹ دوڑایا اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت عثمان کو سب حالات سے آگاہ کیا.آپ نے فرمایا کے گورنر بنانا چاہتے ہیں انہوں نے کہا.ابو موسیٰ اشعری کو.فرمایا ہم نے ان کو گورنر مقرر کیا اور ہم ان لوگوں کے پاس کوئی معقول عذر نہ رہنے دیں گے.جب حضرت ابو موسیٰ اشعری کو یہ اطلاع ملی تو آپ نے سب لوگوں کو جمع کر کے اس خبر سے آگاہ کیا.انہوں نے کہا تو آپ ہمیں نماز پڑھائیں.مگر انہوں نے انکار کیا اور کہا کہ جب تک کہ تم آئندہ کے لئے توبہ نہ کرو اور حضرت عثمان کی اطاعت کا وعدہ نہ کرو میں تمہاری امامت نہ کروں گا اور تم کو نماز نہ پڑھاؤں گا.انہوں نے وعدہ کیا تب آپ نے انہیں نماز پڑھائی.لیکن فتنہ اس پر بھی ختم نہ ہوا کیونکہ ان لوگوں کی اصل غرض تو خلافت کا اڑانا تھا.عمال و حکام کی تبدیلی تو صرف ایک بہانہ اور حضرت عثمان کے مظالم (نعوذ باللہ ) کا اظہار ایک ذریعہ تھے جس سے وہ لوگ جو مدینہ آتے جاتے نہ تھے اور اس برگزیدہ اور پاک انسان کے حالات سے آگاہ نہ تھے وہ دھوکے میں آجاتے تھے اور اگر وہ خود آکر حضرت عثمان کو دیکھتے تو کبھی ان شریروں کے دھوکے میں نہ آتے اور اس فساد میں نہ پڑتے.

Page 210

رالعلوم جلد ۳۰ ۱۸۳ انوار خلافت غرض یہ فتنہ دن بدن بڑھتا ہی گیا اور آخر حضرت عثمان نے صحابہ کو جمع کیا اور دریافت کیا کہ اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کیا تدبیر کرنی چاہئے.اس پر مشورہ ہوا اور یہ تجویز ہوئی کہ پہلے یہ دیکھا جائے کہ حکام کی شکایت درست بھی ہے یا نہیں اور اس بات کے معلوم کرنے کے لئے تمام صوبوں میں کچھ ایسے آدمی بھیجے جائیں جو یہ معلوم کریں کہ آیا گورنر ظالم ہیں یا یونسی ان کے متعلق غلط خبریں پھیلائی جارہی ہیں.اس کام کے لئے جو آدمی بھیجے گئے.ان سب نے لکھ دیا کہ ہر ایک صوبہ میں اچھی طرح امن اور امان قائم ہے.گورنروں کے متعلق کوئی شکایت نہیں ہے.لیکن عمار بن یا سر جو مصر میں بھیجے گئے تھے.ان کو عبد اللہ بن سبا کے ساتھی پہلے ہی مل گئے اور اپنے پاس ہی ان کو رکھا اور لوگوں سے ملنے نہ دیا بلکہ ایسے ہی لوگوں سے ملایا جو اپنے ڈھب کے اور ہم خیال تھے.اور انہیں سارے جھوٹے قصے سنائے اس لئے وہ ان کے دھوکے میں آگئے.یہ واقعہ اسی طرح ہوا جس طرح کہ آنحضرت اللہ کے عہد میں ابو جہل کرتا تھا کہ جب لوگ رسول کریم کو ملنے کے لئے آتے.تو وہ ان کو روکتا کہ اول تو اس کے پاس ہی نہ جاؤ.اور اگر جاتے ہو تو اپنے کانوں میں روئی ٹھونس کر جاؤ تاکہ اس کی آواز تمہارے کانوں تک نہ پہنچے.اسی طرح عمار بن یاسر کو گورنر اور دوسرے امراء مصر سے ملنے ہی نہ دیا گیا.ان لوگوں کے واپس آنے کے بعد جو تحقیقات کے لئے مختلف بلاد کی طرف بھیجے گئے تھے حضرت عثمان نے مزید احتیاط کے طور پر ایک خط تمام ممالک کے مسلمانوں کی طرف لکھا اور اس میں تحریر فرمایا کہ مجھے ہمیشہ سے مسلمانوں کی خیر خواہی مد نظر رہی ہے مگر میں شکایتیں سنتا ہوں کہ بعض مسلمانوں کو بلا وجہ مارا جاتا ہے اور بعض کو بلاوجہ گالیاں دی جاتی ہیں اس لئے میں اعلان کرتا ہوں کہ لوگ جن کو شکایت ہو.اس سال حج کے لئے جمع ہوں اور جو شکایات انہیں ہیں وہ پیش کریں خواہ میرے حکام کے خلاف ہوں خواہ میرے خلاف میری جان حاضر ہے اگر مجھ پر کوئی شکایت ثابت ہو تو مجھ سے بدلہ لے لیں.جب یہ خط تمام ممالک کی مساجد میں سنایا گیا.تو شریروں پر تو کیا اثر ہونا تھا مگر عام مسلمان اس خط کو سن کر بے تاب ہو گئے اور جب یہ خط سنایا گیا تو مساجد میں ایک کہرام مچ گیا اور روتے روتے مسلمانوں کی داڑھیاں تر ہو گئیں اور انہوں نے افسوس کیا کہ چند بد معاشوں کی وجہ سے امیر المؤمنین کو اس قدر صدمہ ہوا ہے.اور سب جگہ پر حضرت عثمان کے لئے دعا کی گئی.موسم حج کے قریب حضرت عثمان نے تمام

Page 211

دم -جلد ۱۸۴ گورنروں کے نام خطوط لکھے کہ حج میں حاضر ہوں.چنانچہ سب گورنر حاضر ہوئے اور آپ نے ان سے دریافت کیا کہ یہ شور کیا ہے.انہوں نے کہا کہ شور تو کوئی نہیں بعض شریروں کی شرارت ہے اور آپ نے اکابر صحابہ کو بھیج کر خود دریافت کر لیا ہے کہ اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں بلکہ تمام الزامات جھوٹے ہیں.اس پر آپ نے فرمایا کہ اچھا آئندہ کے لئے کیا مشورہ دیتے ہو.سعید بن العاص نے کہا کہ یہ ایک خفیہ منصوبہ ہے جو الگ تیار کیا جاتا ہے اور پھر ایسے لوگوں کے کان بھر دیے جاتے ہیں جو حالات سے ناواقف ہیں اور اس طرح ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک بات پہنچتی جاتی ہے.پس علاج یہی ہے کہ اصل شریروں کو تلاش کر کے انہیں سزادی جائے اور قتل کر دیا جائے.عبد اللہ بن سعد نے مشورہ دیا کہ آپ نرمی کرتے ہیں جب آپ لوگوں کو ان کے حقوق دیتے ہیں تو لوگوں سے ان حقوق کا مطالبہ بھی کریں جو ان کے ذمہ واجب ہیں.حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے علاقہ کے واقف ہوں گے.میرے علاقہ میں تو کوئی شور ہی نہیں.وہاں سے آپ نے کبھی کوئی فساد کی خبر نہ سنی ہوگی.اور جہاں شورش ہے وہاں کے متعلق میرا مشورہ یہی ہے کہ وہاں کے حکام انتظام کی مضبوطی پر زور دیں.حضرت عمرو بن العاص نے فرمایا کہ آپ بہت نرمی کرتے ہیں اور آپ نے لوگوں کو ایسے حقوق دے دیئے ہیں جو حضرت ابو بکر اور حضرت عمر نہ دیتے تھے.پس آپ اب لوگوں سے ایسا ہی سلوک کریں جیسا کہ یہ دونوں کرتے تھے.اور جس طرح نرمی سے کام لیتے ہیں سختی کے موقعہ پر سختی سے بھی کام لیں.ان سب مشوروں کو سن کر حضرت عثمان نے فرمایا کہ یہ فتنہ مقدر ہے اور مجھے اس کا سب حال معلوم ہے کوئی سختی اس فتنہ کو روک نہیں سکتی.اگر روکے گی تو نرمی.پس تم لوگ مسلمانوں کے حقوق پوری طرح ادا کرو.اور جہاں تک ہو سکے ان کے قصور معاف کرو.خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں نے لوگوں کو نفع پہنچانے میں کوئی کمی نہیں کی.پس میرے لئے بشارت ہے اگر میں اسی طرح مرجاؤں اور فتنہ کا باعث نہ بنوں.لیکن تم لوگ یہ بات یاد رکھو کہ دین کے معاملہ میں نرمی نہ کرنا بلکہ شریعت کے قیام کی طرف پورے زور سے متوجہ رہنا.یہ کہہ کر سب حکام کو واپس روانہ کر دیا.حضرت معاویہ جب روانہ ہونے لگے تو عرض کیا.اے امیر المؤمنین 1 آپ میرے ساتھ شام کو چلے چلیں سب فتنوں سے محفوظ ہو جائیں گے.آپ نے جواب دیا کہ معاویہ میں

Page 212

العلوم جلد - ۳ ۱۸۵ انوار خلافت.رسول اللہ ﷺ کی ہمسائیگی کو کسی چیز کی خاطر بھی نہیں چھوڑ سکتا.خواہ میرے چمڑے کی رسیاں ہی کیوں نہ بنادی جائیں.اس پر حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ آپ یہ بات نہیں مانتے تو میں ایک لشکر سپاہیوں کا بھیج دیتا ہوں جو آپ کی اور مدینہ کی حفاظت کریں گے آپ نے فرمایا کہ میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے ایک لشکر رکھ کر مسلمانوں کے رزق میں کمی نہیں کرنا چاہتا.حضرت معاویہ نے عرض کیا کہ امیر المومنین! خدا کی قسم آپ کو شریر لوگ دھوکا سے قتل کر دیں گے یا آپ کے خلاف جنگ کریں گے.آپ ایسا ضرور کریں لیکن آپ نے یہی جواب دیا کہ میں ایسا نہیں کر سکتا خدا میرے لئے کافی ہے.پھر حضرت معاویہؓ نے عرض کیا کہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو پھر یہ کریں کہ شرارتی لوگوں کو بڑا گھمنڈ بعض اکابر صحابہ پر ہے اور وہ خیال کرتے ہیں کہ آپ کے بعد وہ کام سنبھال لیں گے اور ان کا نام لے لے کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں.آپ ان سب کو مدینہ سے رخصت کر دیں اور دور دراز ملکوں میں پھیلا دیں.شریروں کی کمریں ٹوٹ جائیں گی.آپ نے فرمایا کہ جن کو رسول اللہ ﷺ نے جمع کیا تھا میں تو انہیں جلا وطن نہیں کر سکتا.اس پر حضرت معاویہ رو پڑے اور فرمایا کہ معلوم ہوتا ہے اس فتنہ کے لئے منشائے الہی ہو چکا ہے.اور اے امیرالمؤمنین ! شاید یہ میری آپ سے آخری ملاقات ہے.اس لئے ایک عرض میں آخر میں اور کرتا ہوں کہ اگر آپ اور کچھ بھی نہیں کرتے تو اتنا کریں کہ اعلان کر دیں کہ میرے خون کا بدلہ معاویہ لے گا.(یعنی بہ صورت آپ کے شہید ہونے کے) آپ نے فرمایا کہ معاویہ تمہاری طبیعت تیز ہے.میں ڈرتا ہوں کہ تم مسلمانوں پر سختی کرو گے.اس لئے یہ اعلان بھی نہیں کر سکتا.اس پر روتے روتے حضرت معاویہ آپ سے جدا ہوئے اور مکان سے نکلتے ہوئے یہ کہتے گئے کہ لوگو ہوشیار رہنا.اگر اس بوڑھے (یعنی حضرت عثمان) کا خون ہوا تو تم لوگ بھی اپنی سزا سے نہیں بچو گے.اس واقعہ پر ذرا غور کرو اور دیکھو اس انسان کے جس کی نسبت اس قدر بدیاں مشہور کی جاتی تھیں کیا خیالات تھے اور وہ مسلمانوں کا کتنا خیر خواہ تھا اور ان کی بہتری کے لئے کس قدر متفکر رہتا تھا اور کیوں نہ ہوتا.آپ وہ تھے کہ جنہیں آنحضرت ﷺ نے یکے بعد دیگرے اپنی دو بیٹیاں بیاہ دی تھیں اور جب دونوں فوت ہو گئیں تو فرمایا تھا کہ اگر میری کوئی تیسری بیٹی ہوتی تو اس کو بھی میں ان سے بیاہ دیتا.افسوس لوگوں نے اسے خود آکر نہ دیکھا اور اس کے خلاف شور کر کے دین و دنیا سے کھوئے گئے.

Page 213

انوار العلوم جلد TAY انوار خلافت جب مفسدوں نے دیکھا کہ اب حضرت عثمان نے تحقیقات شروع کر دی ہیں.اور اس طرح ہمارے منصوبوں کے خراب ہو جانے کا خطرہ ہے تو انہوں نے فورا ادھر ادھر خطوط دوڑا کر اپنے ہم خیالوں کو جمع کیا کہ مدینہ چل کر حضرت عثمان سے رو برو بات کریں.چنانچہ ایک جماعت جمع ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئی.حضرت عثمان کو ان کے ارادہ کی پہلے سے ہی اطلاع ہو چکی تھی.آپ نے دو معتبر آدمیوں کو روانہ کیا کہ ان سے مل کر دریافت کریں کہ ان کا منشاء کیا ہے.ان دونوں نے مدینہ سے باہر جاکر ان سے ملاقات کی اور ان کا عندیہ دریافت کیا.انہوں نے اپنا منشاء ان کے آگے بیان کیا پھر انہوں نے پوچھا کہ کیا مدینہ والوں میں سے بھی کوئی تمہارے ساتھ ہے تو انہوں نے کہا کہ صرف تین آدمی مدینہ والوں سے ہمارے ساتھ ہیں.ان دونوں نے کہا کہ کیا صرف تین آدمی تمہارے ساتھ ہیں.انہوں نے کہا ہاں صرف تین ہمارے ساتھ ہیں (اب بھی موجودہ فتنہ میں قادیان کے صرف تین چار آدمی ہی پیغام والوں کے ساتھ ملے ہیں یا دو تین ایسے آدمی جو مولفۃ القلوب میں داخل تھے اور جو بعد میں پیغام والوں سے بھی جدا ہو گئے) انہوں نے دریافت کیا کہ پھر تم کیا کرو گے.ان مفسدوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ ہے کہ ہم حضرت عثمان سے وہ باتیں دریافت کریں گے جو پہلے ہم نے ان کے خلاف لوگوں کے دلوں میں بٹھائی ہوئی ہیں.پھر ہم واپس جاکر تمام ملکوں میں مشہور کریں گے کہ ان باتوں کے متعلق ہم نے (حضرت) عثمان سے ذکر کیا لیکن اس نے ان کو چھوڑنے سے انکار کر دیا اور توبہ نہیں کی.اس طرح لوگوں کے دل ان کی طرف سے بالکل پھیر کر ہم حج کے بہانہ سے پھر لوٹیں گے اور آکر محاصرہ کریں گے.اور عثمان سے خلافت چھوڑ دینے کا مطالبہ کریں گے.اگر اس نے انکار کر دیا تو اسے قتل کر دیں گے.ان دونوں مخبروں نے ان سب باتوں کی اطلاع آ کر حضرت عثمان کو دی تو آپ نے اور دعا کی کہ یا اللہ ان لوگوں پر رحم کر.اگر تو ان پر رحم نہ کرے تو یہ بد بخت ہو جائیں گے.پھر آپ نے کوفیوں اور بصریوں کو بلوایا اور مسجد میں نماز کے وقت جمع کیا اور آپ منبر پر چڑھ گئے اور آپ کے ارد گرد وہ مفسد بیٹھ گئے.جب صحابہ کو علم ہوا تو سب مسجد میں آکر جمع ہو گئے اور ان مفسدوں کے گرد حلقہ کر لیا.پھر آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء بیان کی.اور ان لوگوں کا حال سنایا اور ان دونوں آدمیوں نے جو حال دریافت کرنے گئے تھے سب واقعہ کا ذکر کیا.اس پر صحابہ نے بالاتفاق بآواز بلند پکار کر کہا کہ ان کو قتل کردو.کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اپنی یا کسی اور کی ย

Page 214

انوار العلوم جلد - ۳ IAZ انوار خلافت خلافت کے لئے لوگوں کو بلائے اور اس وقت لوگوں میں ایک امام موجود ہو تو اس پر اللہ تعالٰی کی لعنت ہو گی اور تم ایسے شخص کو قتل کر دو.اور حضرت عمرہ کا بھی یہی فتویٰ ہے اس پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ انہیں ہم معاف کریں گے اور اس طرح ان کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کریں گے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ بعض باتیں بیان کرتے ہیں وہ ایسی باتیں ہیں کہ تم بھی جانتے ہو لیکن فرق یہ ہے کہ یہ ان کے ذریعہ سے لوگوں کو میرے خلاف بھڑکانا چاہتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں کہ اس نے سفر میں نماز قصر نہیں کی حالانکہ پہلے ایسا نہ ہوتا تھا.سنو میں نے نماز ایسے شہر میں پوری پڑھی ہے جس میں کہ میری بیوی تھی.کیا اسی طرح نہیں ہوا.سب صحابہ نے کہا کہ ہاں یہی بات ہے.پھر فرمایا یہ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ اس نے رکھ بنائی ہے حالانکہ اس سے پہلے رکھ نہ بنائی جاتی تھی مگر یہ بات بھی غلط ہے حضرت عمر کے وقت سے رکھ کا انتظام ہے.ہاں جب صدقات کے اونٹ زیادہ ہو گئے تو میں نے رکھ کو اور بڑھا دیا.اور یہ دستور بھی حضرت عمر کے وقت سے چلا آیا ہے.باقی میرے اپنے پاس تو صرف دو اونٹ ہیں اور بھیڑ اور بکری بالکل نہیں.حالانکہ جب میں خلیفہ ہوا تھا تو میں تمام عرب میں سب سے زیادہ اونٹوں اور بکریوں والا تھا.لیکن آج میرے پاس نہ بکری ہے نہ اونٹ سوائے ان دو اونٹوں کے کہ یہ بھی صرف حج کے لئے رکھے ہوئے ہیں.کیا یہ بات درست نہیں سب صحابہ نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے.پھر فرمایا کہ یہ لوگ یہ اعتراض بھی کرتے ہیں کہ قرآن کئی صورتوں میں تھا میں نے اسے ایک صورت پر لکھوا دیا ہے.سنو ا قرآن ایک ہے اور ایک خدا کی طرف سے آیا ہے اور اس بات میں میں سب صحابہ کی رائے کا تابع ہوں.میں نے کوئی بات نہیں کی کیا یہ بات درست نہیں.سب صحابہ نے عرض کیا کہ بالکل درست ہے اور یہ لوگ واجب القتل ہیں ان کو قتل کیا جائے.غرض اسی طرح حضرت عثمان نے ان کے سب اعتراضوں کا جواب دیا اور صحابہ نے ان کی تصدیق کی.اس کے بعد بہت بحث ہوئی.صحابہ اصرار کرتے تھے کہ ان شریروں کو قتل کیا جائے.لیکن حضرت عثمان نے اس مشورہ کو قبول نہ کیا اور ان کو معاف کر دیا اور وہ لوگ واپس چلے گئے.مدینہ سے واپسی پر ان مفسدوں نے سوچا کہ اب دیر کرنی مناسب نہیں.بات بہت بڑھ چکی ہے اور لوگ جوں جوں اصل واقعات سے آگاہ ہوں گے ہماری جماعت کمزور ہوتی جائے گی.چنانچہ انہوں نے فورا خطوط لکھنے شروع کر دیئے کہ اب کے حج کے موسم میں ہمارے سب ہم

Page 215

رالعلوم جلد ۳۰ خیال مل کر مدینہ کی طرف چلیں لیکن ظاہر یہ کریں کہ ہم حج کے لئے جاتے ہیں.چنانچہ ایک جماعت مصر سے ایک کوفہ سے ایک بصرہ سے ارادہ حج ظاہر کرتی ہوئی مدینہ کی طرف سے ہوتی مکہ کی طرف روانہ ہوئی.اور تمام لوگ بالکل بے فکر تھے اور کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا کہ کیا منصوبہ سوچا گیا ہے.بلکہ راستہ میں لوگ ان کو حاجی خیال کر کے خوب خاطر و مدارات بھی کرتے.لیکن بعض لوگوں کے مونہہ سے بعض باتیں نکل جاتی ہیں.چنانچہ کسی نہ کسی طرح سے ان لوگوں کی نیت ظاہر ہو گئی.اور اہل مدینہ کو ان کی آمد کا اور نیت کا علم ہو گیا.اور چاروں طرف قاصد دوڑائے گئے کہ اس نیت سے ایک جماعت مدینہ کی طرف بڑھی چلی آرہی ہے چنانچہ اُس پاس جہاں جہاں صحابہ مقیم تھے وہاں سے تیزی کے ساتھ مدینہ میں آگئے.اور دیگر قابل شمولیت جنگ مسلمان بھی مدینہ میں اکٹھے ہو گئے اور ان مفسدوں کے مدینہ پہنچنے سے پہلے ایک لشکر جرار مدینہ میں جمع ہو گیا جب یہ لوگ مدینہ کے قریب پہنچے اور انہیں اس بات کی خبر ہو گئی کہ مسلمان بالکل تیار ہیں اور ان کی شرارت کامیاب نہیں ہو سکتی تو انہوں نے چند آدمی پہلے مدینہ بھیجے کہ امہات المؤمنین اور صحابہؓ سے مل کر ان کی ہمدردی حاصل کریں چنانچہ مدینہ میں آکر ان لوگوں نے فرداً فردا امہات المومنین سے ملاقات کی.لیکن سب نے ان سے بیزاری ظاہر کی.پھر یہ لوگ تمام صحابہ سے ملے لیکن کسی نے ان کی بات کی طرف توجہ نہ کی اور صاف کہہ دیا کہ تم لوگ شرارتی ہو.ہم تمہارے ساتھ نہیں مل سکتے.اور نہ تم کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں.اس کے بعد مصری حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کی بیعت کرتے ہیں.آپ ہماری بیعت قبول کریں اس پر حضرت علی نے ان کو دھتکار دیا اور کہا کہ نیک لوگ جانتے ہیں کہ مردہ اور ذی خشب کے لشکر پر رسول کریم ﷺ نے لعنت کی ہے (یہ وہ مقامات ہیں جہاں مدینہ کے باہر باغیوں کا لشکر اترا تھا) اسی طرح بصرہ کے لوگ طلحہ کے پاس گئے اور ان سے ان کا سردار بننے کے لئے کہا لیکن انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مردہ اور ذی خشب کے لشکروں پر رسول اللہ نے لعنت فرمائی ہے میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتا.اسی طرح کوفہ کے لوگ حضرت زبیر کے پاس گئے اور ان سے یہی درخواست کی.لیکن انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ میرے پاس سے دور ہو جاؤ میں تمہارے ساتھ شامل نہیں ہو سکتا.کیونکہ سب مسلمان جانتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے مروہ ، ڈی خشب اور اعوص کے لشکروں پر لعنت کی ہے.جب

Page 216

دم جلد ۱۸۹ انوار خلافت باغی سب طرف سے مایوس ہو گئے تو انہوں نے یہ ظاہر کرنا شروع کیا کہ ان کی اصل غرض تو بعض عاملوں کا تبدیل کروانا ہے.ان کو تبدیل کر دیا جائے تو ان کو پھر کوئی شکایت نہ رہے گی.چنانچہ حضرت عثمان نے ان کو اپنی شکایت پیش کرنے کی اجازت دی اور انہوں نے بعض گورنروں کے بدلنے کی درخواست کی.حضرت عثمان نے ان کی درخواست قبول کی اور ان کے کہنے کے مطابق محمد بن ابی بکر کو مصر کا گورنر مقرر کر دیا اور حکم جاری کر دیا کہ مصر کا گورنر اپنا کام محمد بن ابی بکر کے سپرد کر دے.اسی طرح بعض اور مطالبات انہوں نے کئے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ بیت المال میں سے سوائے صحابہ کے دوسرے اہل مدینہ کو ہرگز کوئی روپیہ نہ دیا جایا کرے.یہ خالی بیٹھے کیوں فائدہ اٹھاتے ہیں جس طرح آج کل بعض لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ بعض لوگ قادیان میں یونی بیٹھے رہتے ہیں اور لنگر سے کھانا کھاتے ہیں ان کے کھانے بند کرنے چاہئیں مگر جس طرح پہلوں نے اصل حکمت کو نہیں سمجھا ان معترضوں نے بھی نہیں سمجھا) غرض انہوں نے بعض مطالبات کئے جو حضرت عثمان نے قبول کئے اور وہ لوگ یہ منصوبہ کر کے کہ اس وقت تو مدینہ کے لوگ چوکس نکلے اور مدینہ لشکر سے بھرا ہوا ہے.اس لئے واپس جانا ہی ٹھیک ہے لیکن فلاں دن اور فلاں وقت تم لوگ اچانک مدینہ کی طرف واپس لوٹو اور اپنے مدعا کو پورا کر دو.جب یہ لوگ واپس چلے گئے تو جس قدر لوگ مدینہ میں جمع ہو گئے تھے سب اپنے اپنے کاموں کے لئے متفرق ہو گئے.اور ایک دن اچانک ان باغیوں کا شکر مدینہ میں داخل ہو گیا اور تمام گلیوں میں اعلان کر دیا کہ جو شخص خاموش رہے ے گا اسے امن دیا جائے گا.چنانچہ لوگ اپنے گھروں میں بیٹھ رہے اور اس اچانک حملہ کا مقابلہ نہ کر سکے کیونکہ اگر کوئی شخص کوشش کرتا بھی تو اکیلا کیا کر سکتا تھا اور مسلمانوں کو آپس میں ملنے کی اجازت نہ دیتے تھے سوائے اوقات نماز کے کہ اس وقت بھی عین نماز کے وقت جمع ہونے دیتے اور پھر پراگندہ کر دیتے اس شرارت کو دیکھ کر بعض صحابہ ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا کہ تم نے یہ کیا حرکت کی ہے انہوں نے کہا کہ ہم تو یہاں سے چلے گئے تھے.لیکن راستہ میں ایک غلام حضرت عثمان کا ملا.اس کی طرف سے ہمیں شک ہوا ہم نے اس کی تلاشی لی تو اس کے پاس ایک خط نکلا جو گورنر مصر کے نام تھا اور جس میں ہم سب کے قتل کا فتویٰ تھا.اس لئے ہم واپس آگئے ہیں کہ یہ دھوکا ہم سے کیوں کیا گیا ہے.ان صحابہ نے ان سے کہا کہ تم یہ تو ہمیں بتاؤ کہ خط تو مصریوں کو ملا تھا اور تم تینوں جماعتوں (یعنی کوفیوں ، بصریوں اور مصریوں) کے

Page 217

انوار العلوم جلد ۳۰ اس 19.راستے الگ الگ تھے اور تم کئی منزلیں ایک دوسرے سے دور تھے پھر ایک ہی وقت میں اس قدر جلد تینوں جماعتیں واپس مدینہ میں کیونکر آگئیں اور باقی جماعتوں کو کیونکر معلوم ہوا کہ مصریوں کو اس مضمون کا کوئی خط ملا ہے.یہ تو صریح فریب ہے جو تم لوگوں نے بنایا ہے.انہوں نے کہا کہ فریب سمجھو یا درست سمجھو ہمیں عثمان کی خلافت منظور نہیں.وہ خلافت سے الگ ہو جائیں.اس کے بعد مصری حضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ اب تو شخص کا قتل جائز ہو گیا ہے آپ ہمارے ساتھ چلیں اور عثمان کا مقابلہ کریں.حضرت علی نے بھی ان کو یہی جواب دیا کہ تم جو واقعہ سناتے ہو وہ بالکل بناوٹی ہے کیونکہ اگر تمہارے ساتھ ایسا واقعہ گزرا تھا تو بصری اور کوئی کس طرح تمہارے ساتھ ہی مدینہ میں آگئے.ان کو اس واقعہ کا کس طرح علم ہوا معلوم ہوتا ہے کہ تم نے پہلے سے ہی منصوبہ بنا رکھا تھا چلے جاؤ.خدا تعالی تمہارا برا کرے.میں تمہارے ساتھ نہیں مل سکتا.(مصری لوگ خط ملنے کا جو وقت بتاتے تھے اس میں اور ان کے مدینہ میں واپس آنے کے درمیان اس قدر قلیل وقت تھا کہ اس عرصہ میں بصریوں اور کوفیوں کو خبر مل کر وہ واپس مدینہ میں نہیں آسکتے تھے پس صحابہ نے سمجھ لیا کہ یہ لوگ مدینہ سے جاتے وقت پہلے سے ہی منصوبہ کر گئے تھے کہ فلاں دن مدینہ پہنچ جاؤ اور خط کا واقعہ صرف ایک فریب تھا) جب حضرت علی کا یہ جواب ان باغیوں نے سنا تو ان میں سے بعض بول اٹھے کہ اگر یہ بات ہے تو آپ ہمیں پہلے خفیہ خط کیوں لکھا کرتے تھے.حضرت علی نے فرمایا کہ میں نے کبھی کوئی خط تم لوگوں کو نہیں لکھا آپ کا یہ جواب سن کر وہ آپس میں کہنے لگے کہ کیا اس شخص کی خاطر تم لوگ لڑتے پھرتے ہو (یعنی پہلے تو اس نے ہمیں خط لکھ کر اکسایا اور اب اپنی جان بچاتا ہے.اس گفتگو سے یہ بات صاف معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ باغی جھوٹے خط بنانے کے پکے مشاق تھے اور لوگوں کو حضرت علی کی طرف سے خطہ بنا کر سناتے رہتے تھے کہ ہماری مدد کے لئے آؤ.لیکن جب حضرت علی کے سامنے بعض ان لوگوں نے جو اس فریب میں شامل نہ تھے خطوں کا ذکر کر دیا.اور آپ نے انکار کیا تو پھر ان شریروں نے جو اس فریب کے مرتکب تھے یہ بہانہ بنایا کہ گویا حضرت علی نعوذ باللہ پہلے خط لکھ کر اب خوف کے مارے ان سے انکار کرتے ہیں حالانکہ تمام واقعات ان کے اس دعوی کی صریح تردید کرتے ہیں اور حضرت علی کا رویہ شروع سے بالکل پاک نظر آتا ہے لیکن یہ سب فساد اسی بات کا نتیجہ تھا کہ ان مفسدوں کے پھندے میں

Page 218

انوار العلوم جلد ۳۰ r.191 آئے ہوئے لوگ حضرت علی سے بھی واقف نہ تھے.الغرض حضرت علی کے پاس سے ناامید ہو کر یہ لوگ حضرت عثمان کے پاس گئے اور کہا کہ آپ نے یہ خط لکھا آپ نے فرمایا کہ شریعت اسلام کے مطابق دو طریق ہیں یا تو یہ کہ دو گواہ تم پیش کرو کہ یہ کام میرا ہے.یا یہ کہ میں خدا تعالی کی قسم کھاتا ہوں کہ یہ تحریر ہرگز میری نہیں اور نہ میں نے کسی سے لکھوائی اور نہ مجھے اس کا علم ہے اور تم جانتے ہو کہ لوگ جھوٹے خط لکھ لیتے ہیں اور مہروں کی بھی نکلیں بنا لیتے ہیں مگر اس بات پر بھی ان لوگوں نے شرارت نہ چھوڑی اور اپنی ضد پر قائم رہے.اس واقعہ سے بھی ہمیں یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ مدینہ کے لوگ ان کے ساتھ شامل نہ تھے کیونکہ اگر مدینہ میں سے بعض لوگ ان کی شرارت میں حصہ دار ہوتے تو ان کے لئے دو جھوٹے گواہ بنا لینے کچھ مشکل نہ تھے لیکن ان کا اس بات سے عاجز آ جانا بتاتا ہے کہ مدینہ میں سے دو آدمی بھی ان کے ساتھ نہ تھے (سوائے ان تین آدمیوں کے جن کا ذکر پہلے کر چکا ہوں مگر ان میں سے محمد بن ابی بکر تو ان لوگوں کے ساتھ تھے.مدینہ میں نہ تھے اور صرف عمار اور محمد بن ابی حذیفہ مدینہ میں تھے لیکن یہ دونوں بھی نیک آدمی تھے اور صرف ان کی فریب دینے والی باتوں کے دھوکے میں آئے ہوئے تھے) اور یہ لوگ اپنے میں سے گواہ نہیں بنا سکتے تھے کیونکہ یہ لوگ مدینہ میں موجود نہ تھے ان کی گواہی قابل قبول نہ تھی.کو ہر طرح ان لوگوں کو ذلت پہنچی لیکن انہوں نے اپنی کارروائی کو ترک نہ کیا اور برابر مدینہ کا محاصرہ کئے پڑے رہے.شروع شروع میں تو حضرت عثمان کو بھی اور باقی اہل مدینہ کو بھی مسجد میں نماز کے لئے آنے کی اجازت انہوں نے دے دی تھی.اور حضرت عثمان " بڑی دلیری سے ان لوگوں میں آکر نماز پڑھاتے.لیکن باقی اوقات میں ان لوگوں کی جماعتیں مدینہ کی گلیوں میں پھرتی رہتیں اور اہل مدینہ کو آپس میں کہیں جمع ہونے نہ دیتیں تاکہ وہ ان پر حملہ آور نہ ہوں.جب جمعہ کا دن آیا تو حضرت عثمان جمعہ کی نماز کے لئے مسجد نبوی میں تشریف لائے اور منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ اے دشمنان اسلام مدینہ کے لوگ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے تمہاری نسبت پیشگوئی کی ہے اور تم پر لعنت کی ہے پس تم نیکیاں کر کے اپنی بدیوں کو مٹاؤ.کیونکہ بدیوں کو سوائے نیکیوں کے اور کوئی چیز نہیں مٹاتی.اس پر محمد بن سلمہ کھڑے ہوئے اور فرمایا میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں لیکن حکیم بن جبلہ (وہی چور

Page 219

۱۹۲ جس کا پہلے ذکر آچکا ہے) نے ان کو بٹھا دیا.پھر زید بن ثابت " کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا مجھے قرآن کریم دو (ان کا غشاء بھی ان لوگوں کے خلاف گواہی دینے کا تھا، مگر باغیوں میں سے ایک شخص نے ان کو بھی بٹھا دیا اور پھر اس خیال سے کہ ایسا نہ ہو صحابہ اسی طرح گواہی دے دے کر ہمارا ملعون اور خلاف قرآن امور پر عامل ہونا ظاہر کر دیں پتھر مار مار کر صحابہ کو مسجد سے باہر نکال دیا اور اس کے بعد حضرت عثمان پر پتھر پھینکنے شروع کئے جن کے صدمہ سے وہ بیہوش ہو کر زمین پر جا پڑے.جس پر بعض لوگوں نے آپ کو اٹھا کر آپ کے گھر پہنچا دیا.جب صحابہ کو حضرت عثمان” کا حال معلوم ہوا تو باوجود اس بے بسی کی حالت کے ان میں سے ایک جماعت لڑنے کے لئے تیار ہو گئی.جن میں ابو ہریرہ زید بن ثابت کاتب رسول کریم اور حضرت امام حسن بھی تھے.جب حضرت عثمان " کو اس بات کا علم ہوا.تو آپ نے ان کو قتسم دے کر کہلا بھیجا کہ جانے دو اور ان لوگوں سے جنگ نہ کرو.چنانچہ بادل ناخواستہ یہ لوگ اپنے گھروں کو چلے گئے اور حضرت علی حضرت طلحہ اور حضرت زبیر نے آپ کے گھر پر جاکر اس واقعہ کا بہت افسوس کیا.اس واقعہ کے بعد بھی حضرت عثمان " نماز پڑھاتے رہے لیکن محاصرہ کے تعیسویں دن مفسدوں نے آپ کو نماز کے لئے نکلنے سے بھی روک دیا.اور اہل مدینہ کو بھی دق کرنا شروع کیا.اور جو شخص ان کی خواہشات کے پورا کرنے میں مانع ہو تا اسے قتل کر دیتے اور مدینہ کے لوگوں میں کوئی شخص بغیر تلوار لگائے کے باہر نہ نکل سکتا کہ کہیں اس کو یہ لوگ ایذاء نہ پہنچا ئیں.انہی دنوں میں کہ حضرت عثمان خود نماز پڑھاتے تھے.آخری جمعہ میں آپ نماز پڑھانے لگے تو ایک خبیث نے آپ کو گالی دے کر کہا کہ اتر منبر سے اور آپ کے ہاتھ میں رسول کریم ان کا عصا تھا وہ چھین لیا اور اسے اپنے گھٹنے پر رکھ کر توڑ دیا لیکن اللہ تعالٰی نے اس کو یہ سزا دی کہ اس کے گھٹنے میں کیڑے پڑ گئے.اس کے بعد حضرت عثمان صرف ایک یا دو دفعہ نکلے.پھر نکلنے کی ان باغیوں نے اجازت نہ دی.ان محاصرہ کے دنوں میں حضرت عثمان نے ایک شخص کو بلوایا اور پوچھا کہ یہ لوگ کیا چاہتے ہیں.اس نے کہا کہ دو باتوں میں سے ایک چاہتے ہیں یا تو یہ کہ آپ خلافت ترک کر دیں اور یا یہ کہ آپ پر جو الزام لگائے جاتے ہیں ان کے بدلہ میں آپ سے قصاص لیا جائے.اگر ان دونوں باتوں میں سے آپ ایک بھی نہ مانیں گے تو یہ لوگ آپ کو قتل کر دیں گے.آپ نے پوچھا کہ کیا کوئی اور تجویز نہیں ہو سکتی.اس نے کہا نہیں.اور کوئی صورت نہیں ہو سکتی.اس پر آپ نے فرمایا.کہ خلافت تو میں چھوڑ

Page 220

۱۹۳ العلوم جلد نہیں سکتا یہ قمیض خدا تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے اسے تو میں ہرگز نہیں اتاروں گا.مجھے اپنا قتل ہونا اس بات سے زیادہ پسند ہے کہ میں خدا تعالی کی پہنائی ہوئی قمیض کو اتار دوں اور مسلمانوں کو آپس میں لڑنے مرنے دوں.باقی رہا قصاص کا معاملہ.سو مجھ سے پہلے دونوں خلیفوں سے کبھی ان کے کاموں کے بدلہ میں قصاص نہیں لیا گیا.باقی رہا یہ کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے سویاد رکھو کہ اگر وہ مجھے قتل کر دیں گے تو اس دن کے بعد سب مسلمان کبھی ایک مسجد میں نماز نہیں ادا کریں گے اور کبھی سب مسلمان مل کر ایک دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.اور نہ مسلمانوں کا اتحاد قائم رہے گا (چنانچہ تیرہ سو سال کے واقعات اس قول کی صداقت پر شہادت کی دے رہے ہیں).(تاریخ طبری جلد 4 صفحه ۲۹۹۰ مطبوعہ بیروت ) ۶ اس کے بعد مفسدوں نے حکم دے دیا کہ کوئی شخص نہ حضرت عثمان کے پاس جا سکے نہ اپنے مکان سے باہر نکل سکے.چنانچہ جب یہ حکم دیا تو اس وقت ابن عباس اندر تھے جب انہوں نے نکلنا چاہا تو لوگوں نے ان کو باہر نکلنے کی اجازت نہ دی.لیکن اتنے عرصہ میں محمد بن ابی بکر آگئے اور انہوں نے ان لوگوں سے کہا کہ ان کو جانے دو.جس پر انہوں نے انہیں نکلنے کی اجازت دے دی.اس کے بعد محاصرہ سخت ہو گیا اور کسی شخص کو اندر جانے کی اجازت نہ دی جاتی.حتی کہ حضرت عثمان اور آپ کے گھر والوں کے لئے پانی تک لے جانے کی اجازت نہ تھی اور پیاس کی شدت سے وہ سخت تکلیف اٹھاتے تھے.جب نوبت یہاں تک پہنچ گئی تو ی اس پر حضرت عثمان نے اپنی دیوار پر چڑھ کر اپنے ایک ہمسایہ کے لڑکے کو حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر اور امہات المومنین کے پاس بھیجا کہ ہمارے لئے پانی کا کوئی بندوبست کرو.حضرت علی فورا پانی کی ایک مشک لے کر گئے لیکن ہر چند انہوں نے کوشش کی.مفسدوں نے ان کو پانی پہنچانے یا اندر جانے کی اجازت نہ دی.اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ کیا طریق ہے نہ مسلمانوں کا طریق ہے نہ کفار کا رومی اور ایرانی بھی اپنے دشمن کا کھانا اور پینا بند نہیں کرتے.تم لوگوں کو خوف خدا بھی اس حرکت سے نہیں روکتا.انہوں نے کہا کہ خواہ کچھ ہو اس کے پاس ایک قطرہ پانی نہیں پہنچنے دیں گے جس پر حضرت علی نے اپنی پگڑی حضرت عثمان کے گھر میں پھینک دی.تا ان کو معلوم ہو جائے کہ آپ نے تو بہت کوشش کی لیکن لوگوں نے آپ تک انکو پہنچنے نہ دیا.اسی طرح رسول کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ حضرت ام حبیبہ کو جب علم ہوا تو آپ بھی خلیفہ کی مدد کے لئے گھر سے تشریف لائیں لیکن ان بد بختوں رق

Page 221

دم جلد r.۱۹۴ انوار خلافت نے آپ سے وہ سلوک کیا کہ جو ہمیشہ کے لئے ان کے لئے باعث لعنت رہے گا.اول تو انہوں نے اس فیچر کو بد کا دیا جس پر آپ سوار تھیں.اور جب آپ نے کہا کہ حضرت عثمان کے پاس بنوامیہ کے بتائی اور بیواؤں کے اموال کے کاغذات ہیں.ان کی وفات کے ساتھ ہی بتائی اور بیواؤں کے مال ضائع ہو جائیں گے.اس کے لئے تو مجھے جانے دو کہ کوئی انتظام کروں تو انہوں نے کہا کہ تو جھوٹ بولتی ہے (نعوذ باللہ من ذالک) اور پھر تلوار مار کر آپ کی فیچر کا تنگ تو ڑ دیا اور قریب تھا کہ وہ اس انبوہ میں گر کر شہید ہو جائیں اور بے پردہ ہوتیں کہ بعض بچے مسلمانوں نے آگے بڑھ کر آپ کو سنبھالا اور حفاظت سے آپ کے گھر پہنچا دیا.اس خبر کے پہنچتے ہی حضرت عائشہ حج کے لئے چل پڑیں اور جب بعض لوگوں نے آپ کو روکا کہ آپ کے یہاں رہنے سے شاید فساد میں کچھ کمی ہو تو انہوں نے کہا کہ اگر میرے بس میں ہو تا تو میں ہر طرح اس فساد کو روکتی.لیکن کیا تم چاہتے ہو کہ میرے ساتھ بھی وہی سلوک ہو جو آنحضرت ﷺ کی دوسری بیوی ام حبیبہ کے ساتھ ہوا ہے اور اس وقت میرے بچانے والا بھی کوئی نہ ہو.خدا کی قسم میں اپنے آپ کو ایسے خطرہ میں نہ ڈالوں گی کہ میرے ننگ و ناموس پر حرف آئے.ان باغیوں نے جب دیکھا کہ ان کی طرف سے فساد کی کوئی راہ نہیں نکلتی تو آپ کے گھر پر پتھر مارنے شروع کئے تا کوئی ناراض ہو کر ان پر بھی حملہ کر دے تو ان کو عذر مل جائے کہ ہم پر حملہ کیا گیا تھا اس لئے ہم نے بھی حملہ کیا.پتھروں کے پڑنے پر حضرت عثمان نے آواز دی کہ اے لوگو! خدا سے ڈرو دشمن تو تم میرے ہو.اور اس گھر میں تو میرے سوا اور لوگ بھی ہیں ان کو کیوں تکلیف دیتے ہو.ان بد بختوں نے جواب دیا کہ ہم پتھر نہیں مارتے یہ پتھر خداتعالی کی طرف سے تمہارے اعمال کے بدلے میں پڑ رہے ہیں.آپ نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے تمہارے پھر تو کبھی ہمیں لگتے ہیں اور کبھی نہیں لگتے اور خدا تعالٰی کے پتھر تو خالی نہیں جایا کرتے وہ تو نشانہ پر ٹھیک بیٹھتے ہیں.فساد کو اس قدر بڑھتا ہوا دیکھ کر حضرت عثمان نے چاہا کہ مدینہ کے لوگوں کو بیچ میں سے ہٹاؤں تاکہ میرے ساتھ یہ بھی تکلیف میں نہ پڑیں چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ اے اہل مدینہ میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ اپنے گھروں میں بیٹھ رہو اور میرے مکان کے پاس نہ آیا کرو اور میں تم کو قسم دیتا ہوں کہ میری اس بات کو مان لو.اس پر وہ لوگ بادل نخواستہ اپنے گھروں کی طرف چلے گئے لیکن اس کے بعد چند نوجوانوں کو پہرہ کے لئے انہوں نے مقرر کر دیا.حضرت عثمان نے جب صحابہ کی اس محبت کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ اگر کوئی فساد ہوا تو صحابہ

Page 222

العلوم جلد.۱۹۵ انوار خلافه اور اہل مدینہ اپنی جانوں کو ہلاکت میں ڈال دیں گے.لیکن خاموش نہ رہیں گے تو انہوں نے اعلان کیا کہ حج کا موسم ہے لوگوں کو حسب معمول حج کے لئے جانا چاہئے اور عبد اللہ بن عباس کو جو ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے آپ کا دروازہ نہیں چھوڑا تھا.فرمایا کہ تم کو میں حج کا امیر مقرر کرتا ہوں.انہوں نے کہا اے امیر المؤمنین اخدا کی قسم یہ جہاد مجھے حج سے بہت زیادہ پیارا ہے مگر آپ نے ان کو مجبور کیا کہ فورا چلے جائیں اور حج کا انتظام کریں.اس کے بعد اپنی صیت لکھ کر حضرت زبیر کے پاس بھیجوا دی اور ان کو بھی رخصت کیا.چونکہ حضرت ابو بکر کے چھوٹے لڑکے محمد ان باغیوں کے فریب میں آئے ہوئے تھے.ان کو ایک عورت نے کہلا بھیجا کہ شمع سے نصیحت حاصل کرو وہ خود جلتی ہے اور دوسروں کو روشنی دیتی ہے پس ایسا نہ کرو کہ خود گنہگار ہو کر ان لوگوں کے لئے خلافت کی مسند خالی کرو جو گنہگار نہیں.خوب یاد رکھو کہ جس کام کے لئے تم کوشش کر رہے ہو وہ کل دوسروں کے ہاتھ میں جائے گا.اور اس وقت آج کا عمل تمہارے لئے باعث حسرت ہوگا.لیکن ان کو اس جوش کے وقت اس نصیحت کی قدر معلوم نہ ہوئی.غرض ادھر تو حضرت عثمان اہل مدینہ کی حفاظت کے لئے ان کو ان باغیوں کا مقابلہ کرنے سے روک رہے تھے اور ادھر آپ کے بعض خطوط سے مختلف علاقوں کے گورنروں کو مدینہ کے حالات کا علم ہو گیا تھا اور وہ چاروں طرف سے لشکر جمع کر کے مدینہ کی طرف بڑھے چلے آ رہے تھے.اسی طرح حج کے لئے جو لوگ جمع ہوئے تھے ان کو جب معلوم ہوا.تو انہوں نے بھی یہ فیصلہ کیا کہ حج کے بعد مدینہ کی طرف سب لوگ جائیں اور ان باغیوں کی سرکوبی کریں.جب ان حالات کا علم باغیوں کو ہوا تو انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ یہ غلطی جو ہم سے ہوئی ہے کہ ہم نے اس طرح خلیفہ کا مقابلہ کیا ہے اس سے پیچھے ہٹنے کا اب کوئی راستہ نہیں.پس اب یہی صورت نجات کی ہے کہ عثمان کو قتل کر دو.جب انہوں نے یہ ارادہ کر کے حضرت عثمان کے مکان پر حملہ کیا تو صحابہ تلواریں کھینچ کر حضرت عثمان کے دروازہ پر جمع ہو گئے.مگر حضرت عثمان نے ان کو منع کیا اور کہا کہ تم کو میں اپنی مدد کے عہد سے آزاد کرتا ہوں تم اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ لیکن اس خطرناک حالت میں حضرت عثمان کو تنہا چھوڑ دینا انہوں نے گوارا نہ کیا اور واپس لوٹنے سے صاف انکار کر دیا.اس پر وہ اسی سالہ بوڑھا جو ہمت میں بہادر جوانوں سے زیادہ تھا ہاتھ میں تلوار لے کر اور ڈھال پکڑ

Page 223

أنوار العلوم جلد - ۳ 194 کر اپنے گھر کا دروازہ کھول کر مردانہ وار صحابہ کو روکنے کے لئے اپنے خون کے پیاسے دشمنوں کو میں نکل آیا.اور آپ کے اس طرح باہر نکل آنے کا یہ اثر ہوا کہ مصری جو اس وقت حملہ کر رہے تھے الٹے پاؤں لوٹ گئے اور آپ کے سامنے کوئی نہ ٹھہرا.آپ نے صحابہ کو بہت روکا لیکن انہوں نے کہا کہ اس معاملہ میں ہم آپ کی بات نہ مانیں گے کیونکہ آپ کی حفاظت ہمارا فرض ہے.آخر حضرت عثمان ان کو اپنے گھر میں لے آئے اور پھر دروازہ بند کر لیا.اس وقت صحابہ نے ان سے کہا کہ اے امیر المومنین اگر آج آپ کے کہنے پر ہم لوگ گھروں کو چلے جائیں تو خدا تعالٰی کے سامنے کیا جواب دیں گے کہ تم میں حفاظت کی طاقت تھی پھر تم نے حفاظت کیوں نہ کی.اور ہم میں اتنی تو طاقت ہے کہ اس وقت تک کہ ہم سب مر جائیں ان کو آپ تک نہ پہنچنے دیں (ان صحابہ میں حضرت امام حسن بھی شامل تھے) جب مفسدوں نے دیکھا کہ ادھر تو صحابہ کسی طرح ان کو حضرت عثمان کے گھر میں داخل ہونے نہیں دیتے اور ادھر مکہ کے حاجیوں کی واپسی شروع ہو گئی ہے بلکہ بعض بہادر اپنی سواریوں کو دوڑا کر مدینہ میں پہنچ بھی گئے ہیں.اور شام و بصرہ کی فوجیں بھی مدینہ کے بالکل قریب پہنچ گئی ہیں بلکہ ایک دن کے فاصلہ پر رہ گئی ہیں تو وہ سخت گھبرائے اور کہا کہ یا آج ان کا کسی طرح فیصلہ کردو.ورنہ ہلاکت کے لئے تیار ہو جاؤ.چنانچہ چند آدمیوں نے یہ کام اپنے ذمہ لیا اور بے خبری میں ایک طرف سے کود کر آپ کے قتل کے لئے گھر میں داخل ہوئے.ان میں محمد بن ابی بکرہ بھی تھے جنہوں نے سب سے آگے بڑھ کر آپ کی داڑھی پکڑی.اس پر حضرت عثمان نے فرمایا کہ اگر تیرا باپ ہوتا تو ایسا نہ کرتا اور کچھ ایسی پر رعب نگاہوں سے دیکھا کہ ان کا تمام بدن کانپنے لگ گیا اور وہ اسی وقت واپس لوٹ گئے.باقی آدمیوں نے آپ کو پہلے مارنا شروع کیا.اس کے بعد تلوار مار کر آپ کو قتل کر دیا.آپ کی بیوی نے آپ کو بچانا چاہا لیکن ان کا ہاتھ کٹ گیا جس وقت آپ کو قتل کیا گیا اس وقت آپ قرآن پڑھ رہے تھے اور آپ نے ان قاتلوں کو دیکھ کر قرآن کی تلاوت نہیں چھوڑی بلکہ اسی میں مشغول رہے چنانچہ ایک خبیث نے پیر مار کر آپ کے آگے سے قرآن کریم کو پرے پھینک دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شقی دین سے کیا تعلق رکھتے تھے.آپ کے قتل کرنے کے بعد ایک شور پڑ گیا اور باغیوں نے اعلان کر دیا کہ آپ کے گھر میں جو کچھ ہو لوٹ لو.چنانچہ آپ کا سب مال و اسباب لوٹ لیا گیا.لیکن اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ آپ کے گھر کے لوٹنے کے بعد وہ لوگ بیت المال کی طرف گئے اور خزانہ میں جس قدر روپیہ

Page 224

تھا.194 اتوار خلافت سب لوٹ لیا جس سے ان لوگوں کی اصل نیست معلوم ہوتی ہے یا تو یہ لوگ حضرت عثمان پر الزام لگاتے تھے اور ان کے معزول کرنے کی یہی وجہ بتاتے تھے کہ وہ خزانہ کے روپیہ کو بری طرح استعمال کرتے ہیں اور اپنے رشتہ داروں کو دے دیتے ہیں.یا خود سرکاری خزانہ کے قفل تو ڑ کر سب روپیہ لوٹ لیا اس سے معلوم ہو گیا کہ ان کی اصل غرض دنیا تھی.اور حضرت عثمان کا مقابلہ محض اپنے آپ کو آزاد کرنے کے لئے تھا تاکہ جو چاہیں کریں اور کوئی شخص روک نہ ہو.جب حضرت عثمان شہید ہوئے تو اسلامی لشکر جو شام و بصرہ اور کوفہ سے آتے تھے ایک دن کے فاصلہ پر تھے ان کو جب یہ خبر ملی تو وہ وہیں سے واپس لوٹ گئے تا ان کے جانے کی وجہ سے مدینہ میں کشت و خون نہ ہو اور خلافت کا معاملہ انہوں نے خدا تعالی کے سپرد کر دیا.ان باغیوں نے حضرت عثمان کو شہید کرنے اور ان کا مال لوٹنے پر بس نہیں کی بلکہ ان کی لاش کو بھی پاؤں میں روندا اور دفن نہ کرنے دیا.آخر جب خطرہ ہوا کہ زیادہ پڑے رہنے سے جسم میں تغیر نہ پیدا ہو جائے.تو بعض صحابہ نے رات کے وقت پوشیدہ آپ کو دفن کر دیا.ایک دو دن تو خوب لوٹ مار کا بازار گرم رہا.لیکن جب جوش ٹھنڈا ہوا.تو ان باغیوں کو پھر اپنے انجام کا فکر ہوا.اور ڈرے کہ اب کیا ہو گا.چنانچہ بعض نے تو یہ سمجھ کر کہ حضرت معاویہ ایک زبر دست آدمی ہیں اور ضرور اس قتل کا بدلہ لیں گے شام کا رخ کیا اور وہاں جا کر خود ہی واویلا کرنا شروع کر دیا کہ حضرت عثمان شہید ہو گئے اور کوئی ان کا قصاص نہیں لیتا.کچھ بھاگ کر مکہ کے راستے میں حضرت زبیر اور حضرت عائشہ سے جاملے اور کہا کہ کس قدر ظلم ہے کہ خلیفہ اسلام شہید کیا جائے اور مسلمان خاموش رہیں کچھ بھاگ کر حضرت علی کے پاس پہنچے اور کہا کہ اس وقت مصیبت کا وقت ہے.اسلامی حکومت کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہے آپ بیعت لیں تا لوگوں کا خوف دور ہو.اور امن و امان قائم ہو جو صحابہ مدینہ میں موجود تھے انہوں نے بھی بالاتفاق یہی مشورہ دیا کہ اس وقت یہی مناسب ہے کہ آپ اس بوجھ کو اپنے سر پر رکھیں کہ آپ کا یہ کام موجب ثواب و رضائے الہی ہو گا.جب چاروں طرف سے آپ کو مجبور کیا گیا تو کئی دفعہ انکار کرنے کے بعد آپ نے مجبورا اس کام کو اپنے ذمہ لیا اور بیعت لی.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی کا یہ فعل بڑی حکمت پر مشتمل تھا.اگر آپ اس وقت بیعت نہ لیتے تو اسلام کو اس سے بھی زیادہ نقصان پہنچتا جو آپ کی اور حضرت معاویہ کی جنگ

Page 225

لوم جلد ۳ ۱۹۸ انوار خلافت سے پہنچا.کیونکہ اس صورت میں تمام اسلامی صوبوں کے آزاد ہو کر الگ الگ بادشاہتوں کے قیام کا اندیشہ تھا.اور جو بات چار سو سال بعد ہوئی وہ اسی وقت ہو جانی ممکن ہی نہیں بلکہ یقینی تھی.پس گو حضرت علی کا اس وقت بیعت لینا بعض مصالح کے ماتحت مناسب نہ تھا.اور اس کی وجہ سے آپ پر بعض لوگوں نے شرارت سے اور بعض نے غلط فہمی سے یہ الزام لگایا کہ آپ نعوذ باللہ حضرت عثمان کے قتل میں شریک تھے اور یہ خطرہ آپ کے سامنے بیعت لینے سے پہلے حضرت ابن عباس نے بیان بھی کر دیا تھا اور آپ اسے خوب سمجھتے بھی تھے لیکن آپ نے اسلام کی خاطر اپنی شہرت و عزت کی کوئی پرواہ نہیں کی اور ایک بے نظیر قربانی کر کے اپنے آپ کو ہدف ملامت بنایا لیکن اسلام کو نقصان پہنچنے سے بچا لیا.فجزاہ اللہ عناد عن جميع المسلمین.جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں قاتلوں کے گروہ مختلف جہات میں پھیل گئے تھے اور اپنے آپ کو الزام سے بچانے کے لئے دوسروں پر الزام لگاتے تھے جب ان کو معلوم ہوا کہ حضرت علی نے مسلمانوں سے بیعت لے لی ہے تو ان کو آپ پر الزام لگانے کا عمدہ موقعہ مل گیا اور یہ بات درست بھی تھی کہ آپ کے ارد گرد حضرت عثمان کے قاتلوں میں سے کچھ لوگ جمع بھی ہو گئے تھے.اس لئے ان کو الزام لگانے کا عمدہ موقعہ حاصل تھا چنانچہ ان میں سے جو جماعت مکہ کی طرف گئی تھی اس نے حضرت عائشہ کو اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وہ حضرت عثمان کے خون کا لینے کے لئے جہاد کا اعلان کریں چنانچہ انہوں نے اس بات کا اعلان کیا اور صحابہ کو اپنی مدد وہ کے لئے طلب کیا.حضرت طلحہ اور زبیر نے حضرت علی کی بیعت اس شرط پر کرلی تھی کہ حضرت عثمان کے قاتلوں سے جلد سے جلد بدلہ لیں گے انہوں نے جلدی کے جو معنی سمجھے تھے وہ حضرت علی کے نزدیک خلاف مصلحت تھی ان کا خیال تھا کہ پہلے تمام صوبوں کا انتظام ہو جائے پھر قاتلوں کو سزا دینے کی طرف توجہ کی جائے.کیونکہ اول مقدم اسلام کی حفاظت ہے قاتلوں کے معاملہ میں دیر ہونے سے کوئی ہرج نہیں.اسی طرح قاتلوں کی تعیین میں بھی اختلاف تھا جو لوگ نہایت افسردہ شکلیں بنا کر سب سے پہلے حضرت علی کے پاس پہنچ گئے تھے اور اسلام میں تفرقہ ہو جانے کا اندیشہ ظاہر کرتے تھے ان کی نسبت حضرت علی کو بالطبع شبہ نہ ہو تا تھا کہ یہ لوگ فساد کے بانی ہیں دوسرے لوگ ان پر شبہ کرتے تھے اس اختلاف کی وجہ سے طلحہ اور زبیر نے یہ سمجھا کہ حضرت علی اپنے عہد سے پھرتے ہیں.چونکہ انہوں نے ایک شرط پر بیعت کی تھی اور وہ شرط ان کے خیال میں حضرت علی نے پوری نہ کی تھی اس لئے وہ شرعاً

Page 226

وم جلد.199 انوار خلافت اپنے آپ کو بیعت سے آزاد خیال کرتے تھے جب حضرت عائشہ کا اعلان ان کو پہنچا تو وہ بھی ان کے ساتھ جا ملے اور سب مل کر بصرہ کی طرف چلے گئے.بصرہ میں گورنر نے لوگوں کو آپ کے ساتھ ملنے سے باز رکھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ طلحہ اور زبیر نے صرف اکراہ سے اور ایک شرط سے مقید کر کے حضرت علی کی بیعت کی ہے تو اکثر لوگ آپ کے ساتھ شامل ہو گئے.جب حضرت علی کو اس لشکر کا علم ہوا تو آپ نے بھی ایک لشکر تیار کیا اور بصرہ کی طرف روانہ ہوئے.بصرہ پہنچ کر آپ نے ایک آدمی کو حضرت عائشہ اور طلحہ اور زبیر کی طرف بھیجا.وہ آدمی پہلے حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا.اور دریافت کیا کہ آپ کا ارادہ کیا ہے انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ارادہ صرف اصلاح ہے اس کے بعد اس شخص نے طلحہ اور زبیر کو بھی بلوایا.اور ان سے پوچھا کہ آپ بھی اسی لئے جنگ پر آمادہ ہوئے ہیں.انہوں نے کہا کہ ہاں.اس شخص نے جواب دیا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح ہے تو اس کا یہ طریق نہیں جو آپ نے اختیار کیا ہے اس کا نتیجہ تو فساد ہے اس وقت ملک کی ایسی حالت ہے کہ اگر ایک شخص کو آپ قتل کریں گے تو ہزار اس کی تائید میں کھڑے ہو جائیں گے اور ان کا مقابلہ کریں گے تو اور بھی زیادہ لوگ ان کی مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں گے.پس اصلاح یہ ہے کہ پہلے ملک کو اتحاد کی ری میں باندھا جائے پھر شریروں کو سزا دی جائے ورنہ اس بدامنی میں کسی کو سزا دینا ملک میں اور فتنہ ڈلوانا ہے.حکومت پہلے قائم ہو جائے تو وہ سزا دے گی.یہ بات سن کر انہوں نے کہا کہ اگر حضرت علی کا یہی عندیہ ہے تو وہ آجائیں ہم ان کے ساتھ ملنے کو تیار ہیں.اس پر اس شخص نے حضرت علی کو اطلاع دی اور طرفین کے قائم مقام ایک دوسرے کو ملے اور فیصلہ ہو گیا کہ جنگ کرنا درست نہیں صلح ہونی چاہیئے.جب یہ خبر سبائیوں کو (یعنی جو عبد اللہ بن سبا کی جماعت کے لوگ اور قاتلین حضرت عثمان تھے) پہنچی تو ان کو سخت گھبراہٹ ہوئی.اور خفیہ خفیہ ان کی ایک جماعت مشورہ کے لئے اکٹھی ہوئی.انہوں نے مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ مسلمانوں میں صلح ہو جانی ہمارے لئے سخت مضر ہوگی.کیونکہ اسی وقت تک ہم حضرت عثمان کے قتل کی سزا سے بچ سکتے ہیں جب تک کہ مسلمان آپس میں لڑتے رہیں گے.اگر صلح ہو گئی اور امن ہو گیا تو ہمارا ٹھکانا کہیں نہیں.اس لئے جس طرح سے ہو صلح نہ ہونے دو.اتنے میں حضرت علی " بھی پہنچ گئے.اور آپ کے پہنچنے کے دوسرے دن آپ کی اور حضرت زبیر کی ملاقات ہوئی.وقت ملاقات حضرت علی نے فرمایا

Page 227

انوار العلوم جلد - ۳ انوار خلافت من کہ آپ نے میرے لڑنے کے لئے تو لشکر تیار کیا ہے مگر کیا خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لئے کوئی عذر بھی تیار کیا ہے.آپ لوگ کیوں اپنے ہاتھوں سے اس اسلام کے تباہ کرنے کے درپے ہوئے ہیں جس کی خدمت سخت جانکاہیوں سے کی تھی.کیا میں آپ لوگوں کا بھائی نہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ پہلے تو ایک دوسرے کا خون حرام سمجھا جاتا تھا لیکن اب حلال ہو گیا اگر کوئی نئی بات پیدا ہوئی ہوتی تو بھی بات تھی جب کوئی نئی بات پیدا نہیں ہوئی تو پھر یہ مقابلہ کیوں ہے اس پر حضرت طلحہ نے کہا.وہ بھی حضرت زبیر کے ساتھ تھے کہا کہ آپ نے حضرت عثمان کے قتل پر لوگوں کو اکسایا ہے.حضرت علی نے فرمایا کہ میں حضرت عثمان کے قتل میں شریک ہونے والوں پر لعنت کرتا ہوں پھر حضرت علی نے حضرت زبیر سے کہا کہ کیا تم کو یاد نہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا تھا کہ خدا کی قسم تو علی سے جنگ کرے گا اور تو ظالم ہو گا.یہ کر حضرت زبیر اپنے لشکر کی طرف واپس لوٹے اور قسم کھائی کہ وہ حضرت علی سے ہرگز جنگ نہیں کریں گے اور اقرار کیا کہ انہوں نے اجتہاد میں غلطی کی.جب یہ خبر لشکر میں پھیلی تو سب کو اطمینان ہو گیا کہ اب جنگ نہ ہوگی بلکہ صلح ہو جائے گی لیکن مفسدوں کو سخت گھبراہٹ ہونے لگی.اور جب رات ہوئی تو انہوں نے صلح کو روکنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ان میں سے جو حضرت علی کے ساتھ تھے انہوں نے حضرت عائشہ اور حضرت طلحہ و زبیر کے لشکر پر رات کے وقت شب خون مار دیا.اور جو ان کے لشکر میں تھے انہوں نے حضرت علی کے لشکر پر شب خون مار دیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شور پڑ گیا.اور ہر فریق نے خیال کیا کہ دوسرے فریق نے اس سے دھوکا کیا حالانکہ اصل میں یہ صرف سبائیوں کا ایک منصوبہ تھا.جب جنگ شروع ہو گئی تو حضرت علی نے آواز دی کہ کوئی شخص حضرت عائشہ کو اطلاع دے.شاید ان کے ذریعہ سے اللہ تعالی اس فتنہ کو دور کر دے.چنانچہ حضرت عائشہ کا اونٹ آگے کیا گیا لیکن نتیجہ اور بھی خطرناک نکلا مفسدوں نے یہ دیکھ کر کہ ہماری تدبیر پھر الٹی پڑنے لگی.حضرت عائشہ کے اونٹ پر تیر مارنے شروع کئے.حضرت عائشہ نے زور زور سے پکارنا شروع کیا کہ اے لوگوا جنگ کو ترک کرو.اور خدا اور یوم حساب کو یاد کرو لیکن مفسد باز نہ آئے اور برابر آپ کے اونٹ پر تیر مارتے چلے گئے.چونکہ اہل بصرہ اس لشکر کے ساتھ تھے.جو حضرت عائشہ کے ارد گرد جمع ہوا تھا.ان کو یہ بات دیکھ کر سخت طیش آیا اور ام المومنین کی یہ گستاخی دیکھ کر ان کے غصہ کی کوئی حد نہ رہی اور تلواریں کھینچ کر لشکر مخالف پر حملہ آور ہو گئے.اور اب یہ حال

Page 228

بلکہ انوار خلافت ہو گیا کہ حضرت عائشہ کا اونٹ جنگ کا مرکز بن گیا.صحابہ اور بڑے بڑے بہادر اس کے ارد گرد جمع ہو گئے اور ایک کے بعد ایک قتل ہونا شروع ہوا لیکن اونٹ کی باگ انہوں نے نہ چھوڑی.حضرت زبیر تو جنگ میں شامل ہی نہ ہوئے اور ایک طرف نکل گئے مگر ایک شقی نے ان کے پیچھے سے جاکر اس حالت میں کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے ان کو شہید کر دیا.حضرت طلحہ عین میدان جنگ میں ان مفسدوں کے ہاتھ سے مارے گئے.جب جنگ تیز ہو گئی تو یہ دیکھ کر کہ اس وقت تک جنگ ختم نہ ہوگی جب تک حضرت عائشہ کو درمیان سے ہٹایا نہ جائے.بعض لوگوں نے آپ کے اونٹ کے پاؤں کاٹ دیئے.اور ہودج اتار کر زمین پر رکھ دیا.تب کہیں جاکر جنگ ختم ہوئی.اس واقعہ کو دیکھ کر حضرت علی کا چہرہ مارے رنج کے سرخ ہو گیا لیکن یہ جو کچھ ہوا اس سے چارہ بھی نہ تھا جنگ کے ختم ہونے پر جب مقتولین میں حضرت طلحہ کی نعش ملی تو حضرت علی نے سخت افسوس کیا.ان تمام واقعات سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس لڑائی میں صحابہ" کا ہر گز کوئی دخل نہ تھا یہ شرارت بھی قاتلان عثمان کی ہی تھی.اور یہ کہ طلحہ اور زبیر حضرت علی کی بیعت ہی میں فوت ہوئے کیونکہ انہوں نے اپنے ارادہ سے رجوع کر لیا تھا اور حضرت علی کا ساتھ دینے کا اقرار کر لیا تھا.لیکن بعض شریروں کے ہاتھوں سے مارے گئے چنانچہ حضرت علی نے ان کے قاتلوں پر لعنت بھی کی.ادھر تو یہ جنگ ہو رہی تھی.ادھر عثمان کے قاتلوں کا گروہ جو معاویہ کے پاس چلا گیا تھا.اس نے وہاں ایک کہرام مچا دیا.اور وہ حضرت عثمان " کا بدلہ لینے پر آمادہ ہو گئے.جب حضرت علی کے لشکر سے ان کا لشکر ملا.اور درمیان میں صلح کی بھی ایک راہ پیدا ہونے لگی تو ایک جماعت فتنہ پردازوں کی حضرت علی " کا ساتھ چھوڑ کر الگ ہو گئی.اور اس نے یہ شور شروع کر دیا کہ خلیفہ کا وجود ہی خلاف شریعت ہے احکام تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر ہی ہیں باقی رہا انتظام مملکت سو یہ ایک انجمن کے سپرد ہونا چاہئے.کسی ایک شخص کے ہاتھ میں نہیں ہوتا چاہئے.اور یہ لوگ خوارج کہلائے.اب بھی جو لوگ ہمارے مخالف ہیں ان کا یہی دعوئی ہے اور ان کے وہی الفاظ ہیں جو خوارج کے تھے.اور یہ بھی ہماری صداقت کا ایک ثبوت ہے کہ ان لوگوں کو اس جماعت سے مشابہت حاصل ہے جسے کل مسلمان بالاتفاق کراہت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے ہیں اور ان کی غلطی کے معترف ہیں.

Page 229

دم جلد.p.۲۰۲ انوار خلافت ابھی معاملات پوری طرح سمجھے نہ تھے کہ خوارج کے گروہ نے یہ مشورہ کیا کہ اس فتنہ کو اس طرح دور کرد کہ جس قدر بڑے آدمی ہیں ان کو قتل کر دو.چنانچہ ان کے دلیر یہ اقرار کر کے نکلے کہ ان میں سے ایک حضرت علی کو ایک حضرت معاویہ کو اور ایک عمرو بن العاص کو ایک ہی دن اور ایک ہی وقت میں قتل کر دے گا.جو حضرت معاویہ کی طرف گیا تھا اس نے تو حضرت معاویہ پر حملہ کیا لیکن اس کی تلوار ٹھیک نہیں لگی اور حضرت معاویہ صرف معمولی زخمی ہوئے.وہ شخص پکڑا گیا اور بعد ازاں قتل کیا گیا.جو عمرو بن العاص کو مارنے گیا تھا وہ بھی ناکام رہا.کیونکہ وہ بوجہ بیماری نماز کے لئے نہ آئے جو شخص ان کو نماز پڑھانے کے لئے آیا تھا اس نے اس کو مار دیا اور خود پکڑا گیا اور بعد ازاں مارا گیا.جو شخص حضرت علی کو مارنے کے لئے نکلا تھا اس نے جبکہ آپ صبح کی نماز کے لئے کھڑے ہونے لگے آپ پر حملہ کیا اور آپ خطرناک طور پر زخمی ہوئے آپ پر حملہ کرتے وقت اس شخص نے یہ الفاظ کہے کہ اے علی 1 تیرا حق نہیں کہ تیری ہر بات مانی جایا کرے بلکہ یہ حق صرف اللہ کو ہے (اب بھی غیر مبائعین ہم پر شرک کا الزام لگاتے ہیں) ان سب واقعات کو معلوم کر کے آپ لوگوں نے معلوم کر لیا ہو گا کہ یہ سب فتنہ انہی لوگوں کا اٹھایا ہوا تھا جو مدینہ میں نہیں آتے تھے.اور حضرت عثمان سے واقفیت نہ رکھتے تھے آپ کے حالات نہ جانتے تھے ، آپ کے اخلاص ، آپ کے تقویٰ اور آپ کی طہارت سے نا واقف تھے آپ کی دیانت اور امانت سے بے خبر تھے.چونکہ ان کو شریروں کی طرف سے یہ بتایا گیا کہ خلیفہ خائن ہے ، بد دیانت ہے، فضول خرچ ہے ، وغیرہ وغیرہ.اس لئے وہ گھر بیٹھے ہی ان باتوں کو درست مان گئے اور فتنہ کے پھیلانے کا موجب ہوئے.لیکن اگر وہ مدینہ میں آتے.حضرت عثمان کی خدمت میں بیٹھتے آپ کے حالات اور خیالات سے واقف ہوتے تو کبھی ایسا نہ ہوتا جیسا کہ ہوا.میں نے ان حالات کو بہت مختصر کر دیا ہے ورنہ یہ اتنے لمبے اور ایسے درد ناک ہیں کہ سننے والے کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس یاد رکھو کہ یہ وہ فتنہ تھا جس نے مسلمانوں کے ۷۲ فرقے نہیں بلکہ ۷۲ ہزار فرقے بنا دیے.مگر اسکی وجہ وہی ہے جو میں نے کئی دفعہ بتائی ہے کہ وہ لوگ مدینہ میں نہ آتے تھے.ان باتوں کو خوب ذہن نشین کر لو کیونکہ تمہاری جماعت میں بھی ایسے فتنے ہوں گے جن کا علاج یہی ہے کہ تم بار بار قادیان آؤ اور صحیح صحیح حالات سے !

Page 230

انوار العلوم جلد ۳ انوار خلافت واقفیت پیدا کرو.میں نہیں جانتا کہ یہ فتنے کس زمانہ میں ہوں گے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ ہوں گے ضرور لیکن اگر تم قادیان آؤ گے اور بار بار آؤ گے تو ان فتنوں کے دور کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے.پس تم اس بات کو خوب یاد رکھو اور اپنی نسلوں در نسلوں کو یاد کراؤ تاکہ اس زمانہ میں کامیاب ہو جاؤ.صحابہ کی درد ناک تاریخ سے فائدہ اٹھاؤ اور وہ باتیں جو ان کے لئے مشکلات کا موجب ہوئی ہیں ان کے انسداد کی کوشش کرو.فتنہ اور فساد پھیلانے والوں پر کبھی حسن ظنی نہ کرنا.اور ان کی کسی بات پر تحقیق کئے بغیر اعتبار نہ کرلینا.کیا اس وقت تم نے ایسے لوگوں سے نقصان نہیں اٹھایا ضرور اٹھایا ہے پس اب ہوشیار ہو جاؤ اور جہاں کوئی فتنہ دیکھو فورا اس کا علاج کرو.توبہ اور استغفار پر بہت زور دیتا.دیکھو اس وقت بھی کس طرح دھو کے دیئے جاتے ہیں.ہمارے مخالفین میں سے ایک سرکردہ کا خط میر حامد شاہ صاحب کے پاس موجود ہے جس میں وہ انہیں لکھتے ہیں کہ نور دین اسلام کا خطرناک دشمن ہے اور انجمن پر حکومت کرنا چاہتا ہے.شاہ صاحب تو چونکہ قادیان آنے جانے والے تھے اس لئے ان پر است خط کا کچھ اثر نہ ہوا.لیکن اگر کوئی اور ہوتا جو قادیان نہ آیا کرتا تو وہ ضرور حضرت مولوی صاحب کے متعلق بدظنی کرتا.اور کہتا کہ قادیان میں واقعی اندھیر پڑا ہوا ہے.اسی طرح اور بہت سی باتیں ان لوگوں نے پھیلائی ہیں لیکن اس وقت تک خدا کے فضل سے انہیں کچھ کامیابی نہیں ہوئی.لیکن تم اس بات کے ذمہ دار ہو کہ شریر اور فتنہ انگیز لوگوں کو کرید کرید کر نکالو اور ان کی شرارتوں کے روکنے کا انتظام کرو.میں نے تمہیں خدا تعالٰی سے علم پا کر بتا دیا ہے اور میں ہی وہ پہلا شخص ہوں جس نے اس طرح تمام صحیح واقعات کو یکجا جمع کر کے تمہارے سامنے رکھ دیا ہے جن سے معلوم ہو جائے کہ پہلے خلیفوں کی خلافتیں اس طرح تباہ ہوئی تھیں.پس تم میری نصیحتوں کو یاد رکھو.تم پر خدا کے بڑے فضل ہیں اور تم اس کی برگزیدہ جماعت ہو.اس لئے تمہارے لئے ضروری ہے کہ اپنے پیٹروؤں سے نصیحت پکڑو.خدا تعالی قرآن شریف میں لوگوں پر افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ پہلی جماعتیں جو ہلاک ہوئی ہیں تم ان سے کیوں سبق نہیں لیتے.تم بھی گزشتہ واقعات سے سبق لو.میں نے جو واقعات بتائے ہیں وہ بڑی زبر دست اور معتبر تاریخوں کے واقعات ہیں جو بڑی تلاش اور کوشش سے جمع کئے گئے ہیں اور ان کا تلاش کرنا میرا فرض تھا کیونکہ خدا تعالٰی نے جبکہ مجھے خلافت کے منصب پر کھڑا کیا ہے تو مجھ پر واجب تھا کہ دیکھوں پہلے خلیفوں کے وقت کیا ہوا تھا اس کے لئے میں نے نہایت

Page 231

العلوم جلد ۳۰ Popr کوشش کے ساتھ حالات کو جمع کیا ہے.اس سے پہلے کسی نے ان واقعات کو اس طرح ترتیب نہیں دیا.پس آپ لوگ ان باتوں کو سمجھ کر ہوشیار ہو جائیں اور تیار رہیں.فتنے ہوں گے اور بڑے سخت ہوں گے ان کو دور کرنا تمہارا کام ہے.خدا تعالٰی تمہاری مدد کرے اور تمہارے ساتھ ہو اور میری بھی مدد کرے اور مجھ سے بعد آنے والے خلیفوں کی بھی کرے اور خاص طور پر کرے کیونکہ ان کی مشکلات مجھ سے بہت بڑھ کر اور بہت زیادہ ہوں گی دوست کم ہوں گے اور دشمن زیادہ.اس وقت حضرت مسیح موعود کے صحابہ بہت کم ہوں گے.مجھے حضرت علی کی یہ بات یاد کر کے بہت ہی درد پیدا ہوتا ہے.ان کو کسی نے کہا کہ حضرت ابو بکر اور عمر کے عہد میں تو ایسے فتنے اور فسادنہ ہوتے تھے جیسے آپ کے وقت میں ہو رہے ہیں.آپ نے اسے جواب دیا کہ او کم بخت ! حضرت ابو بکر اور عمر کے ماتحت میرے جیسے شخص تھے اور میرے ماتحت تیرے جیسے لوگ ہیں.غرض جوں جوں دن گزرتے جائیں گے حضرت مسیح موعود کے صحبت یافتہ لوگ کم رہ جائیں گے.اور آپ کے تیار کردہ انسان قلیل ہو جائیں گے.پس قابل رحم حالت ہوگی اس خلیفہ کی کہ جس کے ماتحت ایسے لوگ ہوں گے.خدا تعالی کا رحم اور فضل اس کے شامل ہو اور اس کی برکات اور اس کی نصرت اس کے لئے نازل ہوں جسے ایسے مخالف حالات میں اسلام کی خدمت کرنی پڑے گی.اس وقت تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ حضرت مسیح موعود کے بہت سے صحابہ موجود ہیں.جن کے دل خشیت الہی اپنے اندر رکھتے ہیں.لیکن یہ ہمیشہ نہیں رہیں گے.اور بعد میں آنے والے لوگ خلیفوں کے لئے مشکلات پیدا کریں گے.میں خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ خدا آنے والے زمانہ میں اپنے فضل اور تائید سے ہماری جماعت کو کامیاب کرے اور مجھے بھی ایسے فتنوں سے بچائے اور مجھ سے بعد میں آنے والوں کو بھی بچائے.آمین.

Page 232

وم جلد ۳۰ ۲۰۵ بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم ار خلافت تقریر حضرت فضل عمر خلیفة المسیح الثانی ( جو حضور نے ۳۰ / دسمبر ۱۹۱۵ء کو مسجد اقصیٰ میں بوقت سے بجے صبح فرمائی ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کرشن ، بدھ ، مسیح اور مہدی ہونے کا ثبوت أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ كَانَ النَّاسُ أُمَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِيِّنَ مُبَشِّرِينَ وَ مُنْذِرِينَ ، وَ أَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ لِيَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ فِيْمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ وَمَا اخْتَلَفَ فِيْهِ إِلَّا الَّذِينَ أو تُوهُ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْهُمُ الْبَيِّنْتُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ مِنَ الْحَقِّ بِإِذْنِهِ ، وَاللَّهُ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ إِلى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (البقرة : ۲۱۳) اس میں کوئی ٹھیک نہیں ہو سکتا کہ دنیا تمام مذاہب ایک ہی مذہب کی شاخیں ہیں میں اس وقت جس قدر مذاہب موجود ہیں وہ تمام کے تمام در حقیقت کسی ایک ہی مذہب کی شاخیں ہیں اور ان کی جڑ ایک ہی ہے مثلاً مسلمانوں میں ہی دیکھ لو کئی ایک فرقے ہیں، کوئی حنفی ہے ، کوئی شافعی ، کوئی حنبلی ہے کوئی مالکی کوئی شیعہ کوئی سنی کوئی ظاہری ہے کوئی باطنی کوئی خارجی ہے کوئی چکڑالوی یہ مختلف فرقے ہیں مگر ان تمام کی اصل در حقیقت ایک ہی ہے اور یہ مختلف فقہاء کے نکلنے کی وجہ ނ

Page 233

انوار العلوم جلد - ۲۰۶ انوار خلافت پیدا ہو گئے ہیں.اسلام اصل میں ایک ہی تھا اور اس کے اصول اور فروع بھی ایک ہی تھے لیکن جب مختلف علماء نکلے اور انہوں نے قرآن کریم کی آیات کے مختلف معنی کئے تو کچھ کچھ لوگ ہر ایک کے ساتھ شامل ہو گئے.اس لئے کوئی مالکی بن گیا کوئی شافعی ، کوئی حنبلی بن گیا کوئی حنفی ، کوئی شیعہ بن گیا کوئی سنی پس جس طرح اسلام کے سب فرقوں میں یہ بات پائی جاتی ہے اسی طرح تمام مذاہب میں بھی یہی بات ہے.جس وقت بنی نوع انسان پیدا ہوئے تھے اس وقت خدا تعالی نے ایک ہی مذہب پر سب کو قائم کیا تھا اور سب کا ایک ہی مذہب تھا.لیکن جب یہ لوگ اپنے مذہب میں مست ہو گئے اور دنیا میں پڑ کر خدا تعالٰی کو بھول گئے تو خدا کی طرف سے ان میں ایک نبی مبعوث ہوا.اس نے ان کو کہا کہ آؤ میں تمہیں خدا کی طرف لے جاؤں اور تمہاری ستی اور کاہلی کو دور کر کے تمہیں پاک و صاف کر دوں.اس وقت کچھ لوگ تو ایسے نکلے جنہوں نے ضد تکبر اور عزت کے گھمنڈ کی وجہ سے اسے قبول نہ کیا اس لئے ان کی دو جماعتیں بن گئیں.ایک وہ جس نے دنیا کے لحاظ سے سب سے پہلے آنے والے نبی کو قبول کیا اور دوسری وہ جس نے قبول نہ کیا.اور اس طرح اس نبی کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں میں فرق ہو گیا.لیکن وہ لوگ جنہوں نے اس نبی کو مانا تھا ان میں آہستہ آہستہ کمزوریاں، بدیاں اور برائیاں آنی شروع ہو گئیں.اور ان میں سے کچھ عرصہ کے بعد ایسے لوگ پیدا ہو گئے جو دین میں بہت کمزور تھے اس لئے کچھ مدت کے بعد ان کی حالت بدل گئی.اور وہ ویسے نہ رہے جیسے نہی کے زمانہ میں تھے.بلکہ دین سے بے بہرہ ہو گئے اس لئے ایک اور نبی آیا اور اس نے آکر سب کو اپنی طرف بلایا لیکن اس کو پہلے نبی کے کچھ ماننے والوں نے اور کچھ نہ ماننے والوں نے قبول کیا.اس وقت تین مذاہب کے لوگ ہو گئے ایک وہ جنہوں نے پہلے نبی کو نہ مانا تھا اور دوسرے کو بھی نہ مانا دوسرے وہ جنہوں نے پہلے نبی کو تو مان لیا تھا مگر دوسرے کو نہ مانا تھا اور تیسرے وہ جن میں کچھ ایسے شامل تھے جنہوں نے پہلے نبی کو مانا تھا.اور کچھ عرصہ تو یہی تین مذہب رہے.مگر جب دوسرے نبی کے ماننے والے لوگوں میں بھی نقص پیدا ہو گئے اور وہ خدا کے پیارے اور پسندیدہ نہ رہے تو خدا تعالیٰ نے ایک تیسرا نبی بھیجا.جس کو پہلے تین مذاہب کے لوگوں میں سے کچھ کچھ نے قبول کیا اب چار مذہب ہو گئے.ایک مدت تک تو اس چوتھے نبی کے تابع لوگ اس قابل رہے کہ خدا تعالٰی کے احکام کو بجا لاتے اور اس کی رضا مندی کے حاصل کرنے والے کام کرتے.لیکن رفتہ رفتہ یہ بھی خدا کو بھول گئے.اور ان میں ایسے بھی لوگ

Page 234

العلوم جلد - ۳ ۲۰۷ پیدا ہو گئے جنہوں نے نبی کے ذریعہ خدا تعالیٰ کے نشان نہ دیکھے تھے اس لئے ان میں بدیاں اور نقص پیدا ہو گئے.جب خدا تعالٰی نے ان کی یہ حالت دیکھی تو ایک اور نبی بھیج دیا جس کے آنے پر ایک اور مذہب بن گیا.غرض اسی طرح نبی پر نبی آنا شروع ہوا.اور جماعت پر جماعت بنی شروع ہوئی.اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ہزاروں ہزار مذاہب دنیا پر موجود ہیں.اور جو مٹ گئے ہیں ان کا کچھ پوچھو ہی نہ.آج کل ایسی کتابیں بنی ہیں جن میں یہ دکھایا گیا ہے کہ آج تک کس قدر مذاہب ہوئے ہیں.اس وقت تک ایک ایسی ہی کتاب کی بائیں جلدیں چھپی چکی ہیں اس میں عام طور پر ایک صفحہ سے زیادہ ایک مذہب کے حالات کے لئے نہیں دیا جا تا مگر پھر بھی بہت بڑی ضخیم کتاب بن گئی ہے.غرض اس قدر مذاہب در حقیقت مختلف انبیاء کے ساری دنیا کے لئے ایک مذہب انکار کے نتیجہ میں پیدا ہو گئے ہیں.نبی پر نبی آئے.اور ہر نبی کے آنے پر ایک اور فرقہ پیدا ہو گیا.جس سے اختلاف بڑھتا گیا اور بہت ہی بڑھ گیا حتی کہ خدا تعالیٰ نے جب دیکھا کہ انسان بے انتہاء فرقوں میں متفرق ہو گئے ہیں حق اور صداقت سے بہت دور چلے گئے ہیں ظلمت اور تاریکی میں بہت بڑھ گئے ہیں فسق و فجور میں بہت ترقی کر گئے ہیں عصیان اور طغیان میں حد سے گزر گئے ہیں تو اس نے اس طرف توجہ کی اور اس کی غیرت نے جوش مارا اور اس کی ربوبیت نے چاہا کہ جس طرح ابتداء میں دنیا میں ایک مذہب تھا اور اسی ایک پر ہی سب لوگ تھے پھر بھی ایسا ہی ہو.اس کے لئے اس نے ایک ایسا نبی بھیجا جو تمام دنیا کے لئے تھا اور جو سب کو ایک کرنے آیا تھا اور وہ آنحضرت ا تھے.خدا تعالیٰ نے چاہا کہ جس طرح وہ آسمان پر ایک ہے اسی طرح اس کے بندوں میں بھی ایک ہی رسول آئے جو تمام دنیا کو اس کی طرف بلائے.چنانچہ ایک ایسا ہی نبی آیا.لیکن سنت اللہ کے مطابق ضروری تھا کہ جس طرح اس سے پہلے آنے والے نبیوں کی مخالفت کی گئی اسی طرح اس کے کی بھی کی جائے.اور مخالفت کا ہونا ضروری بھی ہے کیونکہ جب تک مخالفت نہ ہو صداقت اور حقانیت اچھی طرح نہیں کھلتی.پس ضروری تھا کہ اس نبی کی مخالفت بھی ہو.چنانچہ ہوئی اور بڑے زور سے ہوئی اس لئے ایک اور مذہب قائم ہو گیا.لیکن اس نبی کے مبعوث کرنے سے جو خدا تعالی کا یہ منشاء تھا کہ تمام دنیا پر ایک مذہب ہو.وہ زائل نہ ہوا خدا تعالٰی نے اس کے لئے یہ تجویز کی کہ آنحضرت ا ان کے ذریعہ اس کی ابتداء کی اور حضرت مسیح موعود علیہ

Page 235

۲۰۸ انوار خلافت السلام پر اس کی انتہاء رکھی.چنانچہ خدا تعالٰی نے فرما دیا کہ هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ - (الصف : ١٠) خدادہ ہے جس نے اپنا ایک رسول ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے اور اس لئے بھیجا ہے تاکہ تم سب ایک امت بن جاؤ.اور ایسا ہی ضرور ہو کر رہے گا.خواہ مشرک لوگ اس کو نا پسند ہی کرتے ہوں.تمام علم حقیقی رکھنے والے اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت مسیح موعود کے متعلق ہے.تو خدا تعالیٰ نے اپنی اس تجویز کو آنحضرت ﷺ کے وقت میں پورا نہ کیا بلکہ آپ کے خادموں میں سے ایک کو رسول بنا کر کھڑا کر دیا اور اس کے ہاتھ سے اس غرض کو پورا کرایا.اس میں شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالٰی نے تمام دنیا کے لئے بھیجا اور چاہا کہ تمام دنیا کو آپ کے ذریعہ اکٹھا کرے مگر اپنی بہت سی مصلحتوں اور حکمتوں کی بناء پر یہ کیا کہ اس ارادہ کو حضرت مسیح موعود کے وقت پورا کرے.ان حکمتوں کو میں انشاء اللہ آگے چل کر بیان کروں گا.خدا تعالیٰ نے تمام دنیا کو ایک مذہب پر خدا تعالیٰ کے تمام کام تدبیر سے ہوتے ہیں قائم کرنے کے لئے ایک تدبیر فرمائی.اور خدا تعالیٰ کی یہی سنت ہے کہ اس کے تمام کام تدبیر سے ہی ہوتے ہیں.وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آسمان سے فرشتے آئیں اور ہمارے لئے سب کچھ بیان کریں.وہ غلط کہتے ہیں.خدا تعالی آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ دس وَ مَا مَتَنَا مِنْ لُغُوبِ ، فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوبِ ( ق : ۲۰۰۳۹) که باوجود اس طاقت اور قدرت کے کہ میں حسن سے سب کچھ پیدا کر سکتا ہوں.پھر بھی میں نے زمین و آسمان اور جو کچھ ان کے اندر ہے چھ ہی دن میں بنایا ہے.ہم سارے کام کو تو کُن سے بھی کر سکتے ہیں لیکن ہماری حکمت اور مصلحت چاہتی ہے کہ ہم آہستگی سے کریں اور ہم اس طرح کام کرنے سے جھکتے نہیں اور نہ ہی گھبراتے ہیں.پس جبکہ ہم باوجود سب طرح کی طاقت رکھنے کے آہستگی سے کام کرنے سے نہیں گھبراتے تو جو انسان ہے اس خیال سے کیوں گھبراتا ہے کہ اس قدر دیر سے کیوں اسلام کی ترقی ہو رہی ہے.تجھے تو چاہئے کہ تیرے مخالفین جو کچھ بھی کہیں اس سے ذرا نہ گھبرائے اور خدا کے حضور گر کر صبح اور شام اس کی تسبیح کرے.وہ خود تیرے سب کاموں کو

Page 236

۲۰۹ از خلافت کر دے گا اور تیرے دشمنوں کو تباہ کر دے گا.غرض خدا تعالی کے ہر ایک کام میں آہستگی اور ترتیب ہوتی ہے.اور خدا تعالیٰ نے ہر ایک کام کے لئے ایک تدبیر کی ہوئی ہے.دیکھو دنیا کی ہدایت کے لئے خدا تعالی کی طرف سے نبی آتے ہیں جو دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان ہی ہوتے ہیں لیکن ان کے منوانے کے لئے کبھی یہ نہیں ہوا کہ آسمان سے فرشتے اترے ہوں.اور آکر کہا ہو کہ ان نبیوں کو مان لو اور کبھی یہ نہیں ہوا کہ انبیاء کے منکروں پر آسمان سے گولے برسے ہوں.بلکہ قحط پڑتے ہیں ، زلازل آتے ہیں ، سیلاب آتے ہیں اور بھی بہت سی بلائیں نازل ہوتی ہیں.لیکن نادان یہی کہتے ہیں کہ یہ کوئی نشان نہیں ہیں یہ تو پہلے بھی ہوا کرتے تھے.تو خدا تعالٰی ہر ایک کام کے لئے تدبیر فرماتا ہے جیسا کہ آنحضرت ا کی کامیابی کے لئے تدبیر کی تھی اس کام کے لئے بھی خدا تعالی نے تدبیر کی.آنحضرت اللہ کے زمانہ میں بھی خدا نے یہود کو سزا دینے کے لئے ایک تدبیر فرمائی تھی جو یہ تھی کہ جب آنحضرت ا مدینہ میں تشریف لائے تو آپ نے کفار سے معاہدہ کیا کہ آپس میں ایک دوسرے کے خلاف کوئی فساد نہ کیا جائے اور مدینہ کی حفاظت میں مل کر کام کریں لیکن باوجود اس معاہدہ کے وہ شرارتوں سے باز نہ آتے.آنحضرت ا ان کو معاف کر دیا کرتے لیکن جب حالت بہت خطرناک ہو گئی اور رسول کریم ال پر پھر گرا کر قتل کرنے کا منصوبہ انہوں نے کیا اور جنگ احزاب کے وقت جبکہ مسلمانوں کی حالت سخت نازک ہو رہی تھی بر خلاف معاہدہ کے کفار سے مل کر مسلمانوں کو ہلاک کرنا چاہا تو ان کے خلاف جنگ کرنے کا حکم ہوا.لیکن جیسا کہ رسول کریم ﷺ کا طریق تھا آپ غالبا اس جنگ کے بعد بھی ان لوگوں سے نرمی کرتے.لیکن خدا تعالیٰ چاہتا تھا کہ انہیں سڑا ہو اس لئے اس نے ایک تدبیر فرمائی.آنحضرت ﷺ نے جب ان یہود کو کہا کہ آؤ میں تمہاری شرارت کے متعلق فیصلہ کروں تو انہوں نے کہہ دیا کہ ہم تمہارا فیصلہ نہیں مانتے.آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ تم اس معاملہ میں کس کو منصف مقرر کرتے ہو انہوں نے ایک آدمی کا نام لیا.لیکن جس کا انہوں نے نام لیا تھا اس نے ان کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ ان کے سب قابل جنگ مردوں کو قتل کر دیا جائے.اگر آنحضرت ا فیصلہ کرتے تو آپ ضرور نرمی فرماتے جیسا کہ اس قبیلہ کے دو بھائی قبیلوں سے نرم بر تاؤ کر چکے تھے.لیکن خدا تعالٰی چونکہ چاہتا تھا کہ انہیں ان کے اعمال کی سزا ملے اس لئے اس نے یہ تدبیر کر دی کہ انہیں کی زبانی ایک شخص مقرر کروا کر انہیں سزا دلوا

Page 237

۲۱۰ دی.تو اس مقصد کے لئے بھی کہ تمام دنیا ایک مذہب پر ہو جائے.خدا تعالیٰ نے اسی طرح ایک تدبیر فرمائی ہے.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپس میں تمام دنیا کو ایک مذہب پر لانے کی تدبیر لوگوں کے جھگڑے اور فساد ہوتے ہیں.تو عام طور پر فیصلہ کا طریق یہ مقرر کیا کرتے ہیں کہ کچھ پنچ مقرر کروائے جاتے ہیں.یا اس طرح کہ ہر ایک فریق اپنی اپنی طرف سے ایک شخص کو مقرر کر دیتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ یہ جو کچھ فیصلہ کرے وہ مجھے منظور ہے.اور کبھی اس طرح ہوتا ہے کہ ایک ہی آدمی کو فیصلہ کے لئے تمام فریق منتخب کر لیتے ہیں.دنیا کی تمام حکومتیں بھی اپنے بڑے بڑے امور کی نسبت اسی طرح فیصلے کیا کرتی ہیں کہ اپنی اپنی طرف سے نمائندے مقرر کر دیتی ہیں اور ان کا ساختہ پر داختہ منظور کرو لیتی ہیں.خدا تعالٰی نے بھی چاہا کہ مختلف مذاہب کا فیصلہ بھی اسی طرح ہو اس لئے اس نے ایسی تدبیر کی کہ تمام مذاہب میں سے پنچ مقرر کر دیئے.چونکہ اس کا ارادہ تھا کہ ایک دین کو سب دیوں پر غالب کرے اور ایک ہی دین پر سب کو جمع کرے اس لئے اس نے یہ تدبیر کی کہ حضرت کرشن کے پیروؤں کو کہہ دیا کہ جب دنیا میں لڑائی فساد بہت پھیل جائے گا فسق و مجود بہت بڑھ جائے گا.اور لوگ خدا کو بھلا دیں گے تو اس وقت کرشن دوبارہ آئے گا.اور سب بدیوں کو آکر دور کرے گا.اسی طرح خدا تعالٰی نے بدھ مذہب کے پیرووں کو کہہ دیا کہ جب فتنہ و فساد بڑھ جائے گا اور دنیا خدا سے غافل ہو جائے گی تو اس وقت بدھ دوبارہ آئے گا اور آکر لڑائی جھگڑوں کا فیصلہ کرے گا.اسی طرح مسیحی مذہب والوں کو ان کے مسیح نے کہا کہ اب میں جاتا ہوں لیکن اس وقت دوبارہ آؤں گا جب کہ قومیں ایک دوسرے پر چڑھیں گی اور دنیا میں فساد پھیل جائے گا.تب میں آکر صلح کراؤں گا.اسی طرح خدا نے آنحضرت کے مونہہ سے یہ کہلایا کہ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوبِهِمُ : الجمعه : (۴) یہ رسول آخری زمانہ میں بھی آئے گا اور اس وقت کے لوگوں کو پہلوں کی طرح بنا دے گا.غرض تمام مذاہب کے بانیوں کی طرف سے یہ کہلا دیا گیا تھا کہ ہم دوبارہ آئیں گے.اس لئے ان کے پیروؤں نے ان کے دوبارہ آنے کی توقع رکھی.حضرت کرشن کے پیرو اس بات کے منتظر تھے کہ کرشن آئے گا.حضرت بدھ کے پیرو اس بات کے منتظر تھے کہ بدھ آئے گا.حضرت مسیح کے پیرو اس بات کے منتظر تھے کہ مسیح آئے گا.اور آنحضرت ﷺ کے پیرو اس بات کے لئے چشم براہ تھے کہ

Page 238

العلوم جلد - ۲۱۱ انوار خلافت محمد مہدی آئے گا.اور سب سے یہ آپس کے اختلاف اور لڑائی جھگڑوں کے بند کرنے اور ایک مذہب پر قائم کرنے کے لئے کہلایا جا رہا تھا.ہندو مسلمان عیسائی اور یہودی سب آپس میں جھگڑتے تھے اور ہر ایک یہی چاہتا تھا کہ دوسرے کو برباد کر دے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس لڑائی جھگڑے کو دور کرنے کے لئے یہ تدبیر کی کہ ہر ایک قوم سے ایک ایک پنچ مقرر کرا دیا اور کی ہر ایک کو فرما دیا کہ تمہارا نبی دوبارہ دنیا میں آئے گا.مولانا روم اپنی مثنوی میں ایک قصہ لکھتے ہیں کہ چار آدمی کہیں جارہے تھے ایک امیر نے انہیں کچھ پیسے دیئے ان میں سے ایک نے کہا کہ ہم انگور لے کر کھا ئیں گے.دوسرے نے کہا انگور نہیں عنب لیں گے.تیسرے نے کہا نہیں عنب بھی نہیں داکھ لیں گے.چوتھے نے بھی ان تینوں کے خلاف اپنی زبان میں انگور کا نام لے کر کہا کہ نہیں فلاں چیز لیں گے.اس طرح وہ چاروں ایک دوسرے کی بات نہ مانے اور خوب آپس میں لڑے.ایک شخص پاس سے گزر رہا تھا اس نے کہا کیا بات ہے مجھے بتاؤ میں فیصلہ کرتا ہوں.ان میں سے ہر ایک نے اپنی اپنی بات بتائی اس نے کہا لاؤ میں سب کو مطلوبہ شے لا دیتا ہوں وہ پیسے لے کر انگور خرید لایا اور ان کے سامنے رکھ دیئے وہ سارے ان کو دیکھ کر خوش ہو گئے اور کھانے لگ گئے.اسی طرح خدا تعالٰی نے جو حضرت کرشن ، حضرت بدھ ، حضرت مسیح اور آنحضرت کی زبان سے ان کے دوبارہ آنے کے متعلق پیشگوئی کرائی تھی وہ بھی جب پوری ہوئی تو ایک ہی آدمی کے حق میں نکلی وہ کرشن بھی تھا، وہ بدھ بھی تھا، وہ مسیح بھی تھا اور وہ محمد بھی تھا.خدا تعالیٰ نے ہر ایک قوم کی طرف سے ایک ایک پنچ مقرر کیا تھا جس کے فیصلہ کے حق ہونے پر وہ یقین رکھتے تھے اور اسے قبول کرنے کے لئے تیار تھے.چنانچہ جب ہندوؤں نے کہا کہ کرشن ہمارا سردار ہے جو کچھ وہ کہے ہم اس کے ماننے کے لئے دل و جان سے تیار ہیں.تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ اس کو دوبارہ بھیجا جائے گا.اسی طرح بدھوں نے کہا کہ بدھ ہمارا آتا ہے جو کچھ وہ کہے اس کے ماننے سے ہمیں ذرا بھی انکار نہیں ہو سکتا تو خدا نے کہا کہ اسی کو دوبارہ بھیجا جائے گا.اسی طرح جب عیسائیوں نے کہا کہ حضرت مسیح کی ہر ایک بات ہم دل و جان سے مانتے ہیں تو خدا نے کہا کہ اس کو بھیجا جائے گا.اور اسی طرح مسلمانوں نے کہا کہ آنحضرت ﷺ ہمارے ہادی اور راہنما ہیں ان کے مونہہ سے نکلی ہوئی ہر ایک بات کا مانا ہم پر فرض ہے تو خدا تعالیٰ نے کہا کہ انہی کو ہم دوبارہ مبعوث فرما دیں گے.یوں خدا تعالیٰ نے ان قوموں سے ان پہنچوں کو قبول کروالیا.تاکہ جب یہ آئیں تو ان کے فیصلہ کو ماننے میں انہیں

Page 239

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۱۲ کوئی تردد نہ ہو اور سب ایک دین پر قائم ہو جائیں.چنانچہ یہ چاروں پنچ آئے مگر چاروں الگ الگ ہو کر نہیں بلکہ ایک ہی بن کر.اب ہندوؤں پر یہ حجت پوری ہوئی کہ تمہارے لئے حضرت کرشن کا فیصلہ ماننا ضروری ہے.پس جبکہ کرشن آگیا ہے تو اس کے فیصلہ کو مان لو.بدھوں پر یہ حجت ہوئی کہ ان کا قائم مقام حضرت بدھ آگیا.مسیحیوں پر یہ حجت ہوئی کہ ان کا قرار دادہ مسیح آگیا.اور مسلمانوں پر یہ حجت ہوئی کہ ان کا منتخب کردہ پنچ محمد ال آگیا.خدا تعالیٰ نے تو سب مذاہب کو ایک بنانے کے لئے یہ تدبیر کی تھی.لیکن غلطی اور نا سمجھی سے ہندوؤں نے سمجھا کہ کرشن آکر ہمارے ہی مذہب کو پھیلائیں گے اور باقی کو نیست و نابود کر دیں گے.یہی بات بدھوں ، عیسائیوں اور مسلمانوں نے بھی اپنے اپنے آنے والے نبیوں کے متعلق خیال کرلی.انہوں نے تو صلح کرانے کے لئے اور لڑائی جھگڑوں کو دور کرنے کے لئے آنا تھا لیکن سمجھا یہ گیا کہ وہ اگر کشت و خون کا بازار گرم کریں گے.یہ ایک ایسی غلط فہمی ہر ایک تو مذہب والوں کے دلوں میں بیٹھ گئی کہ جس کا اس وقت تک دور ہونا مشکل تھا جب تک کہ وہ انسان نہ آتا جس کے وہ منتظر بیٹھے تھے.چنانچہ وہ آیا اور اس نے آکر ثابت کر دیا کہ جو جو خیالات تمہارے دلوں میں ہیں وہ غلط اور بیہودہ ہیں.میں ہی وہ ہوں جو تمہارے سب کے لئے آنے والا تھا تا کہ تم کو ایک کروں اور ایک مذہب پر قائم کر کے خدا تعالیٰ کے ایک ہی دین کو تمام دینوں پر غالب کروں.چنانچہ اس نے یہ سب کچھ اس زمانہ میں کر کے دکھا دیا.اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہی ایسا زمانہ ہے جس میں یہ مقصد پورا ہو سکتا ہے اور اسی زمانہ میں کسی ایسے انسان کو آنا چاہئے تھا جو ایک دین پر سب کو قائم کرتا.اور پھر وہ سب علامتیں بھی اس زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں جو حضرت کرشن ، حضرت بدھ ، حضرت مسیح اور مہدی کی آمد پر پوری ہوئی تھیں.پس جب کہ زمانہ کے حالات اور واقعات پکار پکار کر بتا رہے ہیں کہ ہر ایک مذہب کے آنے والے کا یہی وقت ہے.اور پھر جبکہ جو علامتیں مقرر کی گئی تھیں وہ بھی پوری ہو گئی ہیں تو آنے والوں کو بھی آجانا چاہئے.لیکن ان سب کی طرف سے ایک ہی مدعی کھڑا ہوا ہے جس نے کہا ہے کہ میں کرشن ہوں میں بوجھ ہوں میں مسیح ہوں اور میں مہدی ہوں.پس وہی ان تمام جھگڑوں کا فیصلہ کرنے والا ٹھرا.اور اگر پہلے نبیوں کو سچا سمجھا جائے تو اسے قبول کرنے کے سوا کوئی اور چارہ بھی نہیں.اب اگر کوئی کہے کہ اس ایک کے آنے سے تو ایک فرقہ دنیا میں زائد ہو گیا اور بجائے پہلے

Page 240

انوار خلاقیت ۳۱۳ F.مذاہب کے ایک مذہب ہو جانے کے ان میں ایک اور کا اضافہ ہو گیا.تو اس کا یہ جواب ہے کہ گو ابتداء میں ایسا ہی خیال کیا جا سکتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ میں اس دین کو تمام دینوں پر غالب کروں گا اس لئے ضرور ایک نہ ایک دن ایسا ہو کر رہے گا.جس طرح ابتداء میں ایک چھوٹا سا بادل اٹھتا ہے اور پھر پھیل کر تمام آسمان کو ڈھانپ لیتا ہے اسی طرح اس آنے والے کا حال ہے.گو یہ اس وقت ایک چھوٹے سے ابر کی مانند ہے لیکن وہ دن قریب ہے جبکہ یہی تمام عالم پر پھیل جائے گا.کیونکہ جب ہندوؤں کے سامنے یہ پیش کیا جائے گا کہ جس کرشن کے تم منتظر بیٹھے ہو اور جس کی آمد کی علامات پوری ہو چکی ہیں وہ آگیا ہے.تو ان میں سے جو لوگ صداقت پسند ہوں گے وہ مان لیں گے اور کہیں گے کہ واقعہ میں ہمارا مذ ہب سچا ہے کیونکہ جس انسان کے آنے کی ہمیں خبر دی گئی تھی وہ آگیا ہے.اسی طرح جب بدھ مذہب والوں کو کہا جائے گا کہ تمہارا بدھ آگیا ہے اور اس کے آنے کی علامات پوری ہو چکی ہیں تو ان میں سے سمجھدار ہوں گے وہ بڑی خوشی سے قبول کر لیں گے.اسی طرح جب عیسائیوں اور یہودیوں کو کہا جائے گا کہ جس مسیح کی آمد کے انتظار میں تم بیٹھے ہو وہ دوبارہ آگیا ہے تو ان میں سے عقلمند انسان بڑے جوش سے اس کا خیر مقدم کریں گے.اور اس طرح وہ مسلمان جو اب تک اس انسان کے ماننے والوں میں شامل نہیں ہوئے جب آپ کو آنے والا مسیح اور مہدی پائیں گے تو بڑی خوشی سے قبول کرلیں گے.اس طرح کام بھی ہو جائے گا اور سارے مذاہب والے خوش بھی ہو جائیں گے کیونکہ ہر ایک یہی سمجھے گا کہ ہمارا ہی مذہب سچا ہے اور ہمارے ہی مذہب کا غلبہ دو سروں پر ہوا ہے.جس طرح وہ انگور کھانے والے سارے کے سارے خوش ہو گئے تھے اسی طرح یہ لوگ بھی اپنے اپنے مقصود کو پالیں گے تو خوش ہو جائیں گے.اور وہ کام یعنی یہ کہ تمام کو ایک مذہب پر قائم کرنا بھی ہو جائے گا.خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اب دنیا پر اس کا ایک ہی مذہب ہو.پس جوں جوں قوموں کو معلوم ہو گا اور وہ غور کریں گی اس آنے والے کو جو سب کا قائم مقام ہو کر آیا ہے.مان لیں گی کیونکہ یہ کوئی دوسرا نہیں بلکہ ان کا اپنا ہی ہے.کسی دوسرے کو ماننے سے عار آیا کرتی ہے.لیکن جب ہندوؤں کو کرشن ، بدھوں کو بدھ ، مسیحیوں کو مسیح ، اور مسلمانوں کو آنحضرت کہیں گے کہ ہمیں مان لو تو پھر کسی کو ان کے ماننے میں کوئی عذر نہ ہو گا.اور عذر ہو ہی کیا سکتا ہے جبکہ وہ اپنے مانے ہوئے نبی کو ہی دوبارہ مانیں گے.اور جب یہ قومیں مان لیں گی تو

Page 241

۲۱۴ اور سب انہی میں آجائیں گی کیونکہ باقی سب مذاہب انہی مذاہب کی شاخیں ہیں.میں نے ان چار مذاہب کے نام اسلئے لئے ہیں کہ یہ بڑے بڑے مذہب ہیں اور ان کے ماننے والی بڑی بڑی جماعتیں ہیں درنہ ہر ایک مذہب میں کسی نہ کسی نبی کے آنے کی پیشگوئی موجود ہے.غرض خدا تعالیٰ نے تمام دنیا پر ایک ہی مذہب قائم کرنے کی یہ تدبیر کی.لیکن خدا کی یہ سنت نہیں ہے کہ مذاہب کو بالکل مٹا کر اور نیست و نابود کر کے ایک ہی مذہب کو رہنے و اسی سنت کے مطابق اب بھی دیگر مذاہب کچھ کچھ رہیں گے.لیکن بہت ہی قلیل تعداد میں ان کے پیرو ہوں گے جو گویا نہ ہونے کے ہی برا بر ہوں گے.اس جگہ میں ایک اعتراض کا جو عام طور پر احمدیوں پر اعتراض اور اس کا جواب کیا جاتا ہے اور جو میری پہلی تقریر پر بھی پڑ سکتا ہے؟ ازالہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ مانا کہ تمام مذاہب کے جمع کرنے کے لئے یہ ایک عمدہ تدبیر ہے کہ سب مذاہب کے نبیوں کی دوبارہ آمد کی خبر دی جائے اور پھر ان سب کو ایک شخص کے وجود میں ظاہر کیا جائے لیکن یہ ہو کیونکر سکتا ہے کہ ایک ہی شخص کرشن بھی ہو مسیح بھی ہو محمد بھی ہو اور اسی طرح اور نبیوں کا بھی مظہر ہو.اس کے جواب میں میں کہتا ہوں کہ چار ناموں والے ایک شخص کا ہونا کچھ بھی مشکل نہیں.میں نے جلسہ کے موقعہ پر اپنی ایک تقریر میں بتایا ہے کہ آنحضرت ا فرماتے ہیں کہ میرے کئی نام ہیں.میرا نام محمد ہے کیونکہ میں سب انسانوں سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے حضور تعریف کیا گیا ہوں.میں احمد ہوں کہ مجھ سے بڑھ کر خدا کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں.میں حاشر ہوں کہ دنیا کو اس کی روحانی موت کے بعد پھر زندہ کروں گا.میں ماحی ہوں کہ دنیا کے کفر اور ضلالت کو مٹانے والا ہوں.میں عاقب ہوں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں ہو سکتا.پس اگر آنحضرت ا کے پانچ نام ہو سکتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود کے چار نام کیوں نہیں ہو سکتے.اس میں تعجب کی کونسی بات ہے.اور خدا تعالی کے تو ننانوے نام کے ہاتے ہیں.ہمارے نزدیک تو خدا تعالیٰ کے ہزار ہا نام ہیں لیکن اگر ننانوے ہی تسلیم کئے جائیں.تب بھی بات صاف ہے اگر ایک ہستی کے ننانوے نام ہو سکتے ہیں تو چار نام ایک جگہ کیوں جمع نہیں ہو سکتے.اور یہ تو صفاتی ناموں کا حال ہے.ہم تو دیکھتے ہیں کہ اسم ذات بھی بعض دفعہ ایک سے زیادہ ہوتے ہیں مثلاً ہمارا ہی چھوٹا بھائی تھا جس کا مبارک احمد بھی نام تھا.

Page 242

العلوم جلد ٣٠ ۲۱۵ اور دوست احمد بھی.کئی لڑکوں کے نام ننھیال والے اور رکھتے ہیں اور ددھیال والے اور.بعض کا تاریخی نام کچھ اور ہوتا ہے اور عام مشہور نام کوئی اور.پس جب عام طور پر متعدد نام ہوتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ایک شخص کے نام کرشن ، بدھ ، مسیح، مهدی ، احمد اور غلام احمد نہ ہوں.جب دنیا میں اور کئی شخصوں کے کئی نام ہوتے ہیں.اور اس کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں.تو یہ بھی تعجب کی کوئی بات نہیں کہ ایک ہی شخص پہلے کئی اشخاص کے نام پالے.ہاں یہ تعجب کی بات ہے کہ پہلے ہی اصل شخص پھر آجا ئیں.لیکن ہمارا یہ مذہب ہرگز نہیں کہ حضرت مسیح موعود وہی مسیح ہیں جو بنی اسرائیل کے لئے مبعوث ہوئے تھے.یا وہی بدھ ہیں جو بدھ مذہب کا بانی تھا.یا وہی کرشن ہیں جو ہندوؤں میں بھیجا گیا تھا.یا دہی محمد ہیں جو تیرہ سو سال ہوئے عرب میں مبعوث ہوئے تھے.بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان سب کے نام ایک شخص کو دے دیئے ہیں.اور ایک شخص کے بہت سے نام رکھنا ہرگز قابل تعجب نہیں.قابل تعجب یا تو یہ بات ہو سکتی تھی کہ پہلے ہی آدمی اپنے اپنے جسم عنصری کے ساتھ واپس تشریف لاتے.یا یہ کہ تاریخ کے مسئلہ کے ماتحت ان کی ارواح دنیا میں آتیں اور ان کی روحیں ایک ہی جسم میں داخل ہو جاتیں.لیکن ہم تناسخ کے قائل نہیں اور نہ اس بات کے قائل ہیں کہ ان پہلے انبیاء کی ارواح ایک شخص میں آکر داخل ہو گئیں ہیں.ہم یہ نہیں کہتے کہ چونکہ پہلے مسیح کی روح حضرت مسیح موعود کے جسم میں آگئی ہے اس لئے وہ مسیح کہلاتے ہیں.یا کرشن کی روح ان کے جسم میں آگئی ہے اس لئے وہ کرشن کہلاتے ہیں.یا بدھ کی روح آپ میں حلول کر گئی ہے اس لئے آپ بدھ کہلاتے ہیں.یا آنحضرت ﷺ کی روح مبارکہ نے آپ کے جسم کو اپنا مسکن بنایا ہے اس لئے آپ محمد " کہلاتے ہیں.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ایک شخص کئی آدمیوں کے اخلاق اور کمالات حاصل کر کے ان کے نام پا گیا ہے.اسلام اس عقیدہ کو ہے جائز نہیں رکھتا کہ کوئی روح تاریخ کے چکر میں واپس دنیا میں آئے لیکن بروز کو جائز کہتا.کیونکہ تناسخ علیحدہ بات ہے.تاریخ تو اس کو کہتے ہیں کہ ایک شخص جو وفات پا چکا ہو اس کی روح کو خدا تعالیٰ جنت سے نکالے اور کسی اور جسم میں ڈال دے.جیسا کہ ہندو کہتے ہیں کہ جو انسان مرجائے اس کی روح مختلف جانوروں کی شکل اختیاز کرتی رہتی ہے کبھی مکھی بنتی ہے ، کبھی کتا، کبھی بلی ، کبھی سور کبھی انسان وغیرہ وغیرہ.لیکن یہ ایک لغو بات ہے.پس ہمارا یہ کہنا کہ حضرت کرشن ، بدھ ، مسیح اور آنحضرت " آئے.اس سے یہ مراد نہیں کہ وہی آگئے ہیں جو پہلے

Page 243

ر العلوم جلد - ۳ M19 وفات پا چکے ہیں بلکہ یہ کہ ایک شخص نے ان کے کمالات حاصل کرنے کے باعث ان کے نام پالتے ہیں.پس اگر کوئی شخص ہم پر یہ اعتراض کرے کہ ایک جسم میں اتنے آدمیوں کی ارواح کیونکر آگئیں تو یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ ہم تو تایخ کے قائل ہی نہیں پھر ہم کیونکر یہ عقیدہ رکھ سکتے ہیں کہ ایک شخص میں متعدد آدمیوں کی ارواح حلول کر گئی ہیں.پس ہم پر ایسا اعتراض کرنے والا صرف ہمارے عقائد سے ناواقف ہونے کے باعث ایسا اعتراض کرتا ہے.پس جبکہ ہم تاسخ کی رو سے کسی کا دوبارہ آنا نہیں مانتے اور یہ بھی نہیں مانتے کہ کوئی مر کر دوبارہ اس دنیا میں آ سکتا ہے.کیونکہ قرآن شریف اس بات کو بڑے زور سے رد کرتا ہے تو پھر ہمارے اس عقیدہ پر کہ ایک شخص نے کئی نبیوں کے نام حاصل کر لئے ہیں کیا اعتراض پڑ سکتا ہے.ایک متعصب مسلمان جو یہ نہیں مانتا کہ بدھوں اور ہندوؤں کے مذہب میں بھی کوئی سچائی ہے وہ اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ کوئی کرشن اور کوئی بدھ مبعوث ہو کر نہیں آئے گا.لیکن اس بات کا منکر نہیں ہو سکتا کہ ایک مہدی آخری زمانہ کی اصلاح کے لئے آنے والا ہے.لیکن ایک صداقت پسند انسان کرشن اور بدھ کے آنے سے بھی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ان کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں اور ان کے آنے کی جو علامتیں مقرر کی گئی تھیں وہ پوری ہو رہی ہیں.تو پھر کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ یہ نبی نہیں آئیں گے.اگر ان تمام علامات کے ظاہر ہونے پر بھی کوئی شخص ان نبیوں کے دوبارہ آنے کا منکر ہی ہو تو اس کی مثال بالکل اس شخص کی ہوگی جو ایک جنگ میں شامل ہو کر زخمی ہو گیا تھا.چونکہ بزدل اور بیوقوف آدمی تھا اس لئے تیر لگتے ہی بھاگ گیا بھاگتے ہوئے اپنے زخم سے خون بھی پونچھتا جاتا تھا.اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ یا اللہ مجھے تیر لگنے والی بات جھوٹ ہی ہو.پس جب پیشگوئیاں پوری ہو گئی ہیں تو کیسا نادان ہے وہ شخص جو یہ کہے کہ ہندوؤں میں کرشن یا بدھوں میں بدھ کے آنے والی خبر جھوٹ ہے.وہ شخص بعینہ اسی قسم کا ہے جو خون بھی پونچھتا جائے اور کہے کہ الہی جھوٹ ہی ہو.یہ پیشگوئیاں ضرور بچی ہیں اور نبیوں کا کلام ہیں.کیونکہ خدا تعالی کی طرف سے جو کلام ہوتا ہے وہ سچا ہوتا ہے اور جو شیطان کی طرف سے ہوتا ہے وہ جھوٹا ہوتا ہے.پس جبکہ ہم ان پیشگوئیوں کو بھی جھوٹا نہیں کہہ سکتے اور تناسخ کے بھی قائل نہیں ہیں.تو اب ایک ہی طریق ہے اور وہ یہ کہ چونکہ کہا گیا ہے کہ کرشن آئے گا.

Page 244

۲۱۷ انوار خلافت اور وہ تاریخ کی رو سے آ نہیں سکتا مگر اس کی علامتیں پوری ہو گئی ہیں.اس لئے ہم یہ مان لیں کہ کوئی شخص اس کی خوبو پر آئے گا.پھر کہا گیا ہے کہ بدھ دوبارہ آئے گا اور اس کے آنے کی علامتیں بھی پوری ہو گئی ہیں لیکن وہ تناسخ کی رو سے آنہیں سکتا اس لئے ہمیں ماننا پڑے گا کہ کوئی شخص اس کے کمالات حاصل کر کے اس کا نام پاکر آئے گا.اسی طرح کہا گیا تھا کہ مسیح دوبارہ آئے گا.اور اس کے دوبارہ آنے کی جو علامتیں بتائی گئی تھیں وہ پوری بھی ہو گئی ہیں.لیکن چونکہ وہ فوت ہو چکا ہے.اس لئے مانا پڑے گا کہ مسیح کے رنگ میں کوئی اور آئے گانہ کہ وہی مسیح.اسی طرح آنحضرت ﷺ کے متعلق پیشگوئی تھی کہ آپ دوبارہ مبعوث ہوں.گے لیکن چونکہ حقیقتاً آپ کا آنا تعلیم قرآن کے خلاف ہے اس لئے یہی تسلیم کرنا ہو گا کہ آپ ہی دوبارہ نہیں آئیں گے بلکہ آپ کا بروز اور مثیل آئے گا.پس جبکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ کوئی شخص مرکز دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور یہ بھی ثابت ہے کہ تناسخ ایک باطل عقیدہ ہے اور یہ بھی پایہ ثبوت کو پہنچ گیا ہے کہ حضرت کرشن بدھ ، مسیح اور آنحضرت ﷺ کے دوبارہ آنے کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ بچی ہیں تو اب سوائے اس کے اور کیا کہا جا سکتا ہے.کہ ان سب کے رنگ اور صفات میں کوئی اور آئے گا.اور جب کہ ان کے مثیلوں کا آنا ثابت ہوا.تو پھر ایک ہی شخص کا ان سب کا مثیل ہو جانا بالکل ممکن ہے اور الگ الگ آدمیوں کے آنے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ صفات ایک آدمی میں بہت سی اکٹھی ہو سکتی ہیں.کیا یہ تو نہیں ہو تا کہ ایک شخص بہادر بھی ہو اور شریف بھی.سخی بھی ہو اور رحم دل بھی.حاتم ایک تو بڑا سخی انسان ہوا ہے.جب کوئی بہت سخی ہو تو اسے حاتم کہتے ہیں.رستم ایک بڑا بہادر ہوا ہے اور جس میں بہت بہادری پائی جائے اسے رستم کہتے ہیں.افلاطون ایک بڑا فلسفی ہوا ہے اور جو کوئی بڑا فلسفی ہو تو اسے افلاطون کہتے ہیں.جالینوس ایک بڑا طبیب ہوا ہے اور جو کوئی بڑا طبیب ہو تو اسے جالینوس کہتے ہیں.لیکن کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ہی شخص بڑا سخی بھی ہو بڑا بہادر بھی ہو بڑا فلسفی بھی ہو اور بڑا طبیب بھی ہو.اور جب ایسا ہو سکتا ہے تو ہم ایسے شخص کو اس کی چاروں صفات کی وجہ سے حاتم ، رستم ، افلاطون اور جالینوس کہہ سکتے ہیں.حالانکہ جب کسی کو یہ نام دیئے جائیں گے تو ان ناموں کے اصلی مصداق دنیا میں نہیں آجائیں گے.بلکہ یہی کہا جائے گا کہ ایک شخص میں ان چار آدمیوں کی صفات اکٹھی ہو گئی ہیں.پھر ذرا شاعروں کے قصیدوں کو پڑھو تو معلوم ہو جائے گا کہ وہ تو بہت سے انسانوں کے نام اپنے ممدوحوں کی

Page 245

دم جلد ۳ ۲۱۸ انوار خلافت طرف منسوب کرتے ہیں.سکندر بھی بناتے ہیں، رستم بھی بناتے ہیں ، افلاطون بھی بناتے ہیں حاتم بھی بناتے ہیں پس اس میں کون سی مشکل ہے کہ ایک ہی انسان کو پہلے نبیوں کے نام دیئے جائیں.اگر ہم کسی کو حاتم کہتے ہیں تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہی حاتم جو مر چکا ہے دوبارہ آگیا ہے اس کی روح تناسخ کے طور پر اس میں آگئی ہے بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ بھی ایک بڑا سخی تھا اور یہ بھی ایک بڑا سخی ہے.تو ایک آدمی میں بہت سی صفات اکٹھی ہو سکتی ہیں اور اس میں کوئی عجیب اور انوکھی بات نہیں ہے.دیکھو آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے ان تمام صفات حسنہ سے جو انسانوں میں پائی جاتی ہیں متصف فرمایا ہے.اس لئے آپ ابراہیم بھی ہیں نوح بھی ہیں موسیٰ بھی ہیں عیسی بھی ہیں اسماعیل بھی ہیں اسحاق بھی ہیں.اور تمام انبیاء کے جامع ہیں.اب بتاؤ.آنحضرت ا جب ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے جامع تھے جیسا کہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو آپ میں سب کے نام اکٹھے تھے یا نہیں.اگر نہیں تو یہ کہنا جھوٹ ہے کہ آپ سب نبیوں کے جامع تھے لیکن اگر جامع تھے.یعنی آدم کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ آدم تھے.اگر نوح کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ نوح تھے.اگر ابراہیم کے کمالات آپ میں پائے جاتے تھے تو آپ ابراہیم تھے.پس اگر کوئی یہ تسلیم کرتا ہے کہ آپ سب انبیاء کے جامع تھے.اور سب انبیاء کی خوبیاں آپ میں تھیں تو اسے یہ بھی ماننا پڑے گا کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نام بھی آپ کے نام تھے.جو اس بات سے انکار کرتا ہے گویا وہ آپ کے جامع کمالات انبیاء ہونے سے بھی انکار کرتا ہے.پس جبکہ آنحضرت کے اتنے ہی نام ہیں جتنے تمام انبیاء تھے.تو یہ کون سے تعجب کی بات ہے.اگر حضرت مسیح موعود نے کہا ہے کہ میں محمد ہوں میں کرشن ہوں میں بدھ ہوں.یہ ایسا کھلا کھلا مسئلہ ہے کہ انسان تھوڑا سا غور کرے تو اس پر روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے اور اسے کچھ شک و شبہ نہیں رہ جاتا.غرض میں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ کچھ لوگوں نے آنا ہے اور ان کے آنے کے متعلق کچھ علامتیں مقرر ہیں جو اس وقت پوری ہو گئی ہیں اور جب علامتیں پوری ہو گئی ہیں تو کوئی ان کے آنے سے انکار نہیں کر سکتا.حضرت کرشن کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں وہ پوری ہو گئی ہیں اور واقعات نے شہادت دے دی ہے اس لئے ان کے آنے کا کوئی انکار نہیں کر سکتا.حضرت بدھ کی آمد کی نسبت جو خبریں اور علامتیں تھیں وہ پوری ہو گئی ہیں اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا

Page 246

علوم جلد - - ۲۱۹ انوار خلافت کہ وہ نہیں آئیں گے.اسی طرح حضرت مسیح کی آمد کے متعلق انجیل میں جو بشارتیں تھیں وہ پوری ہو گئی ہیں.اسی طرح آنحضرت ﷺ کے دوبارہ آنے کے متعلق جو بشارتیں تھیں ان کی آسمان اور زمین گواہی دے رہے ہیں.پس ان انبیاء کا آنا ضروری ہے.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اصل تو واپس نہیں آسکتے اور نہ ہی ان کی روحیں کسی بدن میں داخل ہو کر آسکتی ہیں اس لئے یہی ماننا پڑتا ہے کہ ان کی صفات اور خصوصیات کا حامل کوئی اور آئے گا اور وہ ایک نہی شخص میں ہوں گی جو ان کی صفات رکھنے کی وجہ سے انہی کے نام بھی پائے گا.اب میں نے یہ تو بتا دیا ہے کہ حضرت مسیح ایک ضمنی اعتراض اور اس کا جواب موعود کے کرشن بدھ ، مسیح اور محمد نام ہونے سے یہ مراد ہے کہ آپ میں ان کی خوبیاں اور صفات پائی جاتی ہیں.لیکن اس پر ایک ضمنی اعتراض پڑتا ہے اور وہ یہ کہ اگر یہ درست ہے تو اس طرح آنحضرت ﷺ کی ہتک ہوتی ہے کیونکہ آپ تمام انبیاء کے جامع ہیں اور تمام کی صفات اپنے اندر رکھتے ہیں.مگر مرزا صاحب دعوی کرتے ہیں کہ میں محمد بھی ہوں جس سے ماننا پڑتا ہے کہ آپ میں دو ہرے کمالات ہیں.اس لئے آنحضرت ﷺ سے بڑے ہیں کیونکہ رسول اللہ تمام پچھلے انبیاء کے قائم مقام تھے مگر مرزا صاحب آپ کے بھی قائم مقام بننے کا دعوی کرتے ہیں.لیکن یہ ایک دھوکا لگا ہے جو کم سمجھی کا نتیجہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت ا تمام انبیاء کی تفصیل ہیں اور حضرت مرزا صاحب آپ کے بروز اور مثیل.لوگ تو کہتے ہیں کہ مرزا صاحب نے صرف چار نبیوں کے نام اپنے نام قرار دیتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں کہ آپ تمام انبیاء کے نام رکھتے تھے.چنانچہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ میں عیسی ہوں.ہارون ہوں.موسی ہوں.ابراہیم ہوں.داؤد ہوں.یہ تو اپنے نام لے دیئے ہیں لیکن آپ کے نام ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے نام تھے.اور پھر آپ آنحضرت ﷺ کے غلام ہی تھے.کیونکہ آپ نے سب کچھ آنحضرت ﷺ کے ذریعہ ہی حاصل کیا تھا.آپ کا نام ابراہیم ، موسی ، عیسی ، ہارون وغیرہ اس لئے تھا کہ آپ ان کی تفصیل تھے.اور محمد اس لئے تھا کہ آپ ان تمام انبیاء کے جامع تھے.پس بلحاظ الگ الگ صفات کے آپ ہر ایک نبی کا نام پانے والے تھے مگر مجموعی لحاظ سے آپ محمد تھے.اور چونکہ آپ نے یہ تمام کمالات محمد کی اطاعت میں پائے تھے اس لئے آپ ان کے غلام بھی تھے.

Page 247

العلوم جلد ۳۰ ۲۲۰ انوار خلافت اب ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے حضرت مسیح موعود کے اتنے نام کیوں رکھے گئے اور وہ یہ کہ خدا تعالٰی کی طرف سے بجائے اس کے کہ یہ کہا جاتا کہ کرشن بدھ ، مسیح اور محمد دوبارہ آئیں گے.کیوں یہ نہ کیا گیا کہ سب کی طرف سے ایک ہی نبی کے آنے کی خبر دے دی جاتی.اس طرح تمام لوگ ایک نقطہ پر بھی جمع ہو جاتے.اور جب ان انبیاء کی پیشگوئی پوری ہوتی تو کسی کو دھوکا بھی نہ لگتا.یہ کیوں کہا گیا کہ کرشن ہی آئے گا؟ یہ کیوں نہ کہہ دیا گیا کہ حضرت کرشن یہ پیشگوئی کرتے کہ ایک انسان آئے گا جس کی یہ یہ علامتیں ہوں گی.اسی طرح حضرت مسیح ، حضرت بدھ اور آنحضرت سے یہ کیوں کہلایا گیا کہ مسیح اور بدھ اور محمد ہی آئیں گے.یہ کیوں نہ کہلا دیا کہ ایک شخص آئے گا جس کی فلاں فلاں علامتیں ہوں گی.اور اگر ایسا نہ کیا گیا تھا تو یہ تو کیا جاتا کہ ان سے یہ کھلا دیا ہو تا کہ ایک مثیل بدھ آئے گا.مثیل کرشن آئے گا.مثیل مسیح آئے گا.اور مثیل محمد " آئے گا.اس کی کیا وجہ ہے کہ ان انبیاء کے اصل نام لے کر کہا گیا کہ یہی پہلی حکمت ، دوبارہ آئیں گے.ان کے اصل نام رکھ کر دھوکے میں ڈالنے کی کیا وجہ ہے؟ اس کی ایک بڑی حکمت تو اب کھلی ہے جبکہ ہماری جماعت میں اختلاف پیدا ہوا ہے.اگر مثیل کہا جاتا تو آج اس طرح یہ حقیقت نہ کھلتی.کیونکہ مثیل کہنے سے یہ بات نہیں کھلتی کہ وہ جس کا مثیل ہے اس کے برابر ہے یا کم.کیونکہ صرف ایک صفت کے اشتراک سے مثیل بن سکتا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایک شخص دوسرے کا مثیل ہو لیکن اس کے تمام کمالات کا جامع نہ ہو اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر کمالات رکھنے والا ہو.پس خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کے نام بدھ ، کرشن ، مسیح اور محمد اور سب نبیوں کے جو نام رکھے.یعنی فرمایا جَرَى اللَّهِ فِى حُلَلِ الأَنْبِيَاءِ (تذکرہ صفحہ ۷۹).تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر ان انبیاء کا مسیح موعود کو مثیل کہا جاتا.تو کہنے والے کہہ دیتے کہ آپ نبی نہیں ہیں کیونکہ مثیل کے لئے ضروری نہیں کہ ہر ایک بات میں مماثلت رکھے.پس ان ناموں کے رکھنے سے بھی حضرت مسیح موعود کی نبوت کا ثبوت ملتا ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کو کرشن کہا ہے اور کرشن ایک نبی کا نام ہے.اس لئے آپ بھی نبی ہیں.خدا تعالیٰ نے آپ کو صحیح کہا ہے اور مسیح ایک نبی کا نام ہے اس لئے آپ بھی نبی ہیں.خدا تعالٰی نے آپ کو محمد کہا ہے اور محمد ایک نبی کا نام ہے اس لئے آپ بھی نبی ہیں.تو گویا پہلے انبیاء کے نام لے کر بتانے اور مثیل نہ کہنے کی یہی وجہ

Page 248

۲۲۱.ہے کہ کیونکہ مثیل کہنے میں یہ نقص ہے کہ یہ کبھی بڑا ہوتا ہے اور کبھی چھوٹا اور کبھی برابر کا.اگر مثیل کہا جاتا تو ہمارے مخالف تیسری شق کو لے لیتے.لیکن خدا تعالیٰ نے اس بات کو پہلے ہی دور کر دیا تاکہ ایسا کرنے کا کسی کے لئے موقعہ ہی نہ رہے.دیکھو آنحضرت ﷺ کی نسبت خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلى فِرْعَونَ رَسُولاً - المنزل : (۱۶) حالانکہ آنحضرت ا حضرت موسی نے بہت بڑا درجہ رکھتے تھے تو مثل کبھی عین ہوتا ہے کبھی اعلیٰ اور کبھی ادنی.تو خدا تعالٰی نے بجائے اس کے کہ ایک ایسا لفظ رکھتا جو تین پہلو رکھتا تھا جس کا ادنی درجہ لے کر حضرت مسیح موعود کی ہتک کی جاتی ایسا لفظ رکھ دیا کہ جس سے کوئی اور پہلو نکل ہی نہیں سکتا.یعنی خدا تعالیٰ نے اس آنے والے نبی کو مثیل بدھ نہیں کہا بلکہ بدھ ہی کہا ہے.مثیل کرشن نہیں کہا بلکہ کرشن ہی کہا ہے.مثیل مسیحی نہیں کہا بلکہ مسیح ہی کہا ہے.اور اسی طرح واخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ : ( الجمع :)) میں مثیل محمد قرار نہیں دیا.بلکہ محمد ہی قرار دیا ہے تاکہ آپ کے درجہ کے کم کرنے والے آپ کے کمالات کا انکار نہ کر بیٹھیں.غرض یہ ایک بڑی حکمت تھی جس کے لئے مثیل نہیں کہا گیا بلکہ اصل نبی کا نام دیا گیا.یہ ہے کہ کوئی لفظ جو کسی کے متعلق بولا جاتا ہے وہ مثال دو سری عظیم الشان حکمت دینے کے لئے ہوتا ہے.مثلا یہ کہیں کہ فلاں شیر ہے یا یہ کہیں کہ فلاں شیر کی طرح ہے تو ان دونوں فقروں میں بڑا فرق ہے.کیونکہ مثال کے طور پر لفظ بولنے سے اس طرح مطلب واضح نہیں ہوتا.جس طرح مجازا وہی لفظ بول دینے سے ہوتا ہے.چنانچہ کسی کو مٹیل شیر کہنے سے جو اس کی حیثیت پیدا ہوتی ہے شیر کہنے سے اس سے بہت بڑھ کر ظاہر ہوتی ہے.تو مسیح موعود کو جو اصل نام دیئے گئے ہیں.اور کرشن ، بدھ ، مسیح ، محمد کہا گیا ہے اور ان کا مثیل کر کے نہیں پکارا گیا تو اسی لئے کہ تا اس سے آپ کے درجہ کی عظمت ظاہر ہو.یہ ہے کہ اگر حضرت کرشن کے منہ سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ کرشن آئے گا بلکہ تیسری حکمت مثیل کرشن آئے گا.اور حضرت بدھ کے منہ سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ بدھ آئے گا بلکہ مثیل بدھ آئے گا.اور حضرت مسیح کے منہ سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ مسیح آئے گا بلکہ مثیل مسیح آئے گا.اور آنحضرت ا سے یہ نہ کہلوایا جاتا کہ محمد " آئے گا بلکہ مثیل محمد

Page 249

رم جلد ۳۰ ۲۲۲ آئے گا.تو ان انبیاء کی تمام صفات کو تفصیل دار لکھنے کے لئے دفتر کے دفتر چاہئیں تھے.مثلاً خدا تعالیٰ نے انجیل میں فرمایا ہے کہ مسیح علیم تھا اور مثالوں میں باتیں کیا کرتا تھا.تو بتایا جاتا کہ وہ جو مثیل مسیح ہو گا وہ بھی حلیم ہو گا اور مثالوں میں باتیں کرے گا.اسی طرح ہر ایک نبی کی ہر ایک صفت کو بیان کر کے بتایا جاتا کہ یہ یہ اوصاف اس میں بھی ہوں گے اور اگر ہر ایک صفت کو بیان کر کے اس کو حضرت مسیح موعود کے متعلق بھی قرار نہ دے دیا جاتا تو یہ سمجھ لیا جاتا کہ باقی صفتیں ان میں نہیں ہیں کیونکہ ان کے متعلق مذکور نہیں ہو ئیں.لیکن یہ ایک بہت طول طویل کام تھا مگر جب خدا تعالٰی نے ہر ایک نبی کا نام لے دیا اور بتا دیا کہ یہی دوبارہ آئے گا تو اس سے پتہ لگ گیا کہ اس میں جس قدر بھی صفات ہیں وہ سب کی سب بغیر کسی استثناء کے آنے والے میں ہوں گی.اسی طرح اگر قرآن شریف میں آنحضرت کی تمام صفات کو بالتفصیل بیان فرما کر ان کو مسیح موعود کے لئے بھی بیان کیا جاتا تب یہ بات حاصل ہو سکتی تھی.لیکن نام لے دینے سے نہایت وضاحت سے یہ بات پوری ہو گئی.اور اگر حضرت کرشن یا حضرت بدھ یا حضرت مسیح یا آنحضرت ﷺ کی کوئی ایک صفت بیان کر دی جاتی اور اس کا حضرت مسیح موعود کے متعلق ذکر ہوتا لیکن ان کی اور صفات کا ذکر حضرت مسیح موعود کے متعلق نہ ہوتا.تو لوگ کہتے کہ صرف یہی صفت مسیح موعود میں پائی جاتی ہے اور کوئی صفت نہیں پائی جاتی.لیکن خدا تعالیٰ نے پہلے انبیاء کے نام رکھ دیئے تاکہ ان کی الگ الگ صفتیں نہ گنانی پڑیں.اور انجیل کا مطالعہ کرنے والے جو جو خوبیاں حضرت مسیح میں پائیں وہی مسیح موعود کی تسلیم کریں.اور قرآن شریف کے پڑھنے والے جو جو صفات آنحضرت ا کی دیکھیں دہی مسیح موعود کی قرار دیں.اسی طرح دوسرے انبیاء کی کتابیں پڑھنے والے جو کوئی خوبی بھی ان میں پائیں وہی مسیح موعود میں سمجھ لیں.تو خدا تعالیٰ نے ان انبیاء کے نام ہی حضرت مسیح موعود کے متعلق بول دیئے.تاکہ ان کی تمام کی تمام صفتیں آپ میں سمجھی جائیں.یہ دیا کہ نبی گا ہی یہ ہے کہ اگر یوں کہہ دیا جاتا کہ ایک نبی آئے گا تو خواہ اس کی کتنی ہی چوتھی حکمت تعریف کر دی جاتی پھر بھی اس کی اصل حقیقت نہ کھل سکتی.کیونکہ جب تک کسی چیز کا نمونہ موجود نہ ہو اس وقت تک اس کی اصلیت معلوم نہیں ہو سکتی.مثلاً ایسے لوگوں کو جنہوں نے قادیان کو نہیں دیکھا اس کا نام بتایا جائے تو کوئی یہ خیال کر لے گا کہ قادیان

Page 250

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۲۳ انوار خلافت ایک بڑا شہر ہو گا فٹنیں اور موٹر کاریں چلتی ہوں گی سجے سجائے بازار ہوں گے سیرو تفریح کے بڑے سامان موجود ہوں گے.اور کوئی یہ سمجھ لے گا کہ قادیان ایک چھوٹا سا گاؤں ہو گا پانچ دس شخص ہوں گے ایک پیر بیٹھا ہو گا رطب و یابس ہانک رہا ہو گا.اور جس طرح اور سینکڑوں ہزاروں گدیاں ہیں اسی طرح وہ بھی ایک گدی ہوگی اس کے سوا اور وہاں رکھا ہی کیا ہو گا.غرض جو انسان حضرت مسیح موعود کو مانتا ہو گا وہ اپنے دل میں اور ہی نظارہ کھینچے گا.اور جو نہیں مانتا ہو گا وہ کچھ اور ہی.لیکن اس قسم کے خیالی نظارے اکثر غلط ہوا کرتے ہیں.اور لاکھ میں سے ننانوے ہزار نو سو ننانوے غلط ہوتے ہیں.تو اگر حضرت مسیح موعود کی نسبت یہ کہا جاتا کہ فلاں زمانہ میں ایک نبی آئے گا جو سب لوگوں کو ایک نقطہ پر بلائے گا.تو بعض ختم نبوت کے خیال سے اس کا ایسا بھونڈا نقشہ بناتے جو دیکھنے کے قابل ہی نہ ہوتا.اور بعض غلو کی راہ ہے اسے کچھ اور کا اور ہی قرار دے لیتے.اس لئے خدا تعالٰی نے اس کا نمونہ بتا دیا اور کہہ دیا کہ کرشن ہی آئے گا تاکہ کرشن کے ماننے والے سمجھ لیں کہ وہ اس طرح کا ہو گا.یہ اسی طرح کیا گیا ہے جس طرح جب کسی کو قادیان کا نام بتایا جائے تو ساتھ ہی یہاں کا نقشہ اور صحیح حالات بھی اس کے سامنے رکھ دیئے جائیں.اس سے اس کو دھوکا نہیں لگے گا.خدا تعالیٰ نے اسی بات کو مد نظر رکھ کر کہ لوگ جھوٹا نقشہ نہ بنالیں جس سے دھوکا کھا جائیں کچھ نبیوں کے نام ہی دوبارہ آنے کے لئے رکھ دیئے.تاکہ اس طرح لوگ آسانی سے سمجھ لیں.پس اب کوئی حضرت مسیح موعود کے متعلق جھوٹا نقشہ نہیں کھینچ سکتا کیونکہ اس کے سامنے پہلے نبیوں کے نقشے موجود ہیں.پانچویں حکمت " یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی منشاء تھی کہ تمام لوگوں کو اکٹھا کر کے ایک ہاتھ پر اور ایک جگہ جمع کر دے.اور ایسا اس وقت تک ہو نہیں سکتا تھا جب تک کہ جس کے ذریعہ اکٹھا کیا جاتا اس سے لوگوں کو محبت اور انس نہ ہوتا.دیکھو ایک رائی جب بکریوں کو بلاتا ہے تو سب دوڑی آتی ہیں کیونکہ وہ جانتی ہیں کہ یہ ہمیں کوئی کھانے کی چیز دے گا یا آرام کی جگہ لے جائے گا.اسی طرح مرغے اپنے پالنے والے کی آواز پر اکٹھے ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمیں دانہ ڈالے گا.اسی طرح کبوتر پالنے والا جب انہیں بلاتا ہے.تو وہ بھاگے آتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمیں کھانے کو دے گا.تو چونکہ خدا تعالی کو منظور تھا کہ تمام لوگوں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے اور یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا تھا جب تک

Page 251

ار العلوم چند ۳۰ ۲۲۴ انوار خلافت کہ اس ہاتھ والے سے سب کو محبت نہ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ نے ان نبیوں کے نام جن سے انہیں پہلے ہی محبت اور الفت تھی ایک شخص کو دے دیئے.ہندوؤں کو حضرت کرشن سے محبت تھی اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ یہ کرشن آگیا ہے اس کے ہاتھ پر جمع ہو جاؤ.مسیحیوں کو حضرت مسیح کے ساتھ محبت تھی اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ مسیح آگیا ہے اس کا ہاتھ پکڑ لو.مسلمانوں کو آنحضرت ا سے محبت تھی اس لئے انہیں کہا گیا کہ آؤ محمد " آگیا ہے اس کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دو.مسلمان لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه کا نظارہ دیکھنے کے لئے منتظر تھے کہ محمد کب مبعوث ہوں گے.لیکن جب انہیں کہا جائے گا کہ لو تمہارے زمانہ میں محمد نازل ہو گیا ہے تو بہت خوش ہوں گے اور اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھیں گے کیونکہ جس بات کا شوق سے انتظار ہو اس کے پورا ہو جانے پر اسے شوق سے قبول بھی کیا جاتا ہے.دیکھو حضرت مسیح نے اپنے بعد دو نبیوں کے آنے کی پیشگوئی کی تھی.ایک اپنے سے بڑے کی اور ایک اپنی ہی آمد ثانی کی لیکن مسیحی لوگ یہی کہتے ہیں کہ مسیح کب آئے گا.اور وہ نبی " جو تمام انبیاء کا موعود اور سب نبیوں کا سردار تھا باوجود اس کی پیشگوئی انجیل میں موجود ہونے کے مسیحی لوگ اس کی آمد کے خواہشمند نہیں.مسیح کو خواہ کتنا ہی بڑا کہا جائے پھر بھی وہ آنحضرت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن مسیحیوں نے اس خوشی اور شوق سے آپ کا انتظار نہ کیا جس سے وہ مسیح کا انتظار کر رہے ہیں.کیونکہ مسیح کو وہ اپنا نبی سمجھتے ہیں اور آنحضرت الی کو بیگانہ.ان کی حالت اسی طرح کی ہے کہ ایک شخص کو کہا جائے کہ تمہیں بیٹا ملے گا پھر یہ کہا جائے تمہارا وہ بیٹا مر گیا ہے وہ دوبارہ زندہ ہو کر ملے گا.تو اس شخص کو مردہ بیٹے کے زندہ ہو کر ملنے سے جو خوشی ہوگی وہ دوسرے کے ملنے سے نہ ہوگی.چونکہ خدا تعالیٰ کا منشاء تھا کہ تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کر دے اس لئے ان کی محبت اور شوق کو جوش دلانے کے لئے ان کے نبیوں کے نام بتا دیے کہ یہی دوبارہ آئیں گے.لیکن اگر انہیں یہ کہا جاتا کہ ان کے مثیل آئیں گے تو انہیں ایسا شوق اور محبت ان سے ملنے کے لئے نہ ہوتی.اب مسیحیوں نے بڑے شوق سے انتظار کیا کیونکہ انہیں حضرت مسیح سے محبت تھی.ہندوؤں نے بڑی بے تابی سے انتظار کیا کیونکہ انہیں حضرت کرشن سے محبت تھی.بدھوں نے بڑے جوش سے انتظار کیا کیونکہ انہیں بدھ سے محبت تھی.مسلمانوں نے بڑی خوشی سے انتظار کیا کیونکہ انہیں آنحضرت ﷺ سے محبت تھی.یہ خدا تعالیٰ نے ایک تدبیر فرمائی تھی کہ تمام لوگ آنے والے کی انتظار میں محبت

Page 252

۲۲۵ اور شوق رکھیں.لیکن جب وہ آگیا تو پتہ لگا کہ وہ مثیل تھا.چھٹی حکمت یہ ہے کہ اگر ہر ایک مذہب کی کتابوں میں حضرت مسیح موعود کا نام لکھ دیا جاتا کہ یہ نبی آئے گا اس کو قبول کر لینا تو ہر ایک مذہب والے کسی دوسرے نبی کی پیشنگوئی دیکھ کر اس میں تحریف کر دیتے.یا اس کا نام ہی کاٹ دیتے جیسا کہ ایسا ایک واقعہ موجود ہے کہ استثناء باب ۱۸ میں آنحضرت ا کے متعلق پیشگوئی تھی لیکن یہود نے اس کی میں تحریف کر دی.بات یہ تھی کہ خدا تعالی کے بچے الہاموں کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ بڑی شان کے ساتھ نازل ہوتے ہیں.ورنہ اگر ایسا نہ ہو تا تو ہر ایک شخص یہ کہہ دیتا کہ میں خدا سے بات پوچھ لوں.وہ اپنے اوپر چادر ڈال لیتا اور تھوڑی دیر کے بعد کہہ دیتا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے بتا دیا ہے لیکن ایسا نہیں ہوتا.ہم نے مسیح موعود کو دیکھتا ہے کہ آپ کو جب الہام ہوتا تو آپ مردنی کی سی حالت ہو جاتی اور اس طرح آپ کے حلق سے آواز آتی کہ گویا کوئی سخت تکلیف میں ہے.تو خدا تعالیٰ کا کلام خاص شان کے ساتھ نازل ہوتا ہے.یہود جو ابھی پختہ ایمان والے نہ تھے انہوں نے جب الہام کا نازل ہونا دیکھا جس کو خروج باب ۲۰ آیت ۱۸ و ۱۹ میں اس طرح لکھا ہے کہ " اور سب لوگوں نے دیکھا کہ بادل گرجے.بجلیاں چھپکیں.قرنائی کی وی آواز ہوئی.پہاڑ سے دھواں اٹھا.اور سب لوگوں نے جب یہ دیکھا تو وہ ہٹے اور دور جا کھڑے رہے.تب انہوں نے موسیٰ سے کہا کہ تو ہی ہم سے بول اور ہم سنیں.لیکن خدا ہم سے نہ بولے.کہیں ہم مر نہ جائیں".تو خدا تعالیٰ نے اس کی سزا ان کو یہ دی کہ ”میں ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک نبی برپا کروں گا.اور اپنا کلام اس کے مونہہ میں ڈالوں گا.اور جو کچھ میں اسے فرماؤں گا.وہ سب ان سے کے گا (استثناء باب ۱۸ آیت (۱۸) یعنی اب ان کی میں سے کسی کو نبی نہ بناؤں گا اور ان کے ساتھ ہم کلام نہ ہوں گا.کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ " خدا ہم سے نہ بولے " بلکہ اسطرح کروں گا کہ بنی اسماعیل جو ان کے بھائی ہیں.ان میں نبی بھیجوں گا.جو تجھ (موسیٰ) جیسا ہو گا.یہود پہلے تو ڈر گئے تھے اور کہہ دیا تھا کہ ہم سے خدا نہ بولے.لیکن جب ان کو یہ سزاملی کہ ان میں سے صاحب شریعت نبی ہونے بند کئے گئے اور نبوت کا فیض بنی اسماعیل کی طرف چلا گیا.تو انہیں لالچ پیدا ہوئی کہ اب اگر غیر سے نبی پیدا ہوئے تو ہماری ذلت ہوگی اس لئے انہوں نے تحریف کر دی.اور اس طرح بنا دیا کہ خداوند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور مطبوعہ ۱۹۲۲

Page 253

نوم جلد ۲۲۶ انوار خلافت تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا".استثناء آیت ۱۵.یعنی ان کے لئے ان کے بھائیوں میں سے " کی بجائے " تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے " کر دیا گیا.لیکن جس نے یہ تحریف کی اسے یہ یاد نہ رہا کہ ۱۵ آیت میں تو میں نے تحریف کر دی ہے لیکن ۱۸ آیت اسی طرح کی ہے.پس اگر تمام مذاہب کی کتابوں میں لکھا ہوتا کہ ایک نبی اسلام میں آئے گا اس کو مان لینا تو ضرور ہر ایک مذہب والے حسد اور دشمنی کی وجہ سے اس میں ایسی تحریف کر دیتے کہ جس سے کچھ بھی پتہ نہ لگتا.خدا تعالیٰ نے اس دھوکا سے لوگوں کو بچانے کے لئے یہ تدبیر کی کہ انہی کے نبیوں کے نام رکھ دیئے تاکہ وہ بجائے ان کے کاٹنے کے سب لوگوں کو سناتے پھریں.اور اس طرح اس کی آمد سے پہلے خود تمام مذاہب کے پیروؤں کے ذریعہ اس کی شہرت ہو جائے.اور جب آنے والا آئے گا تو لوگ خود سمجھ لیں گے کہ یہی ہے.غرض خدا تعالیٰ نے اسلام کے غلبہ کے لئے یہ تدبیر فرمائی کہ ہر ایک مذہب والوں کے منہ سے اقرار کرایا کہ فلاں نبی آئے گا.یہ ہے کہ تناسخ کا مسئلہ جو ایک بہت پرانا مسئلہ ہے.لوگ اس کے دھوکا ساتویں حکمت میں نہ پڑیں.اور وہ اس طرح کہ تاریخ کے قائل کہتے ہیں کہ جب کوئی انسان مرجاتا ہے تو اسکی روح کسی اور جسم میں داخل ہو کر دنیا میں آجاتی ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کو تمام آنے والے انبیاء کی جگہ بھیج کر بتا دیا کہ روحیں کبھی واپس نہیں آیا کرتیں اور نہ کوئی اور جسم اختیار کرتی ہیں.بلکہ کوئی شخص اس رنگ میں دوبارہ دنیا میں واپس آسکتا ہے کہ اسکی خوبو کسی اور میں آجائے.دیکھو تم اپنے اپنے نبیوں کی آمد کے منتظر تھے وہ اسی طرح آئے ہیں.تو اس طرح خدا تعالٰی نے عملی رنگ میں تناسخ کا رد کر دیا.بیشک لوگ کسی بات کو دلائل اور براہین سے بھی سمجھ جاتے ہیں لیکن دلائل سے ایسی توضیح نہیں ہو سکتی جیسی کہ نمونہ سے ہوتی ہے.ہندوؤں نے کہا کہ کرشن آئے گا اور یہی تاریخ کے بڑے زور سے قائل تھے.لیکن ایک شخص آیا جو نہ پہلا کرشن تھا اور نہ کرشن کی روح اس میں تھی.ہاں اسکی صفات رکھتا تھا.اس لئے وہ کرشن کہلایا.اسی طرح مسیحیوں کے کچھ فرقے ہیں جو تناسخ کے قائل ہیں.اب معلوم نہیں ہیں یا نہیں لیکن پہلے تھے.ان کو اس غلط عقیدہ سے بچانے کے لئے مسیح آئے.پھر مسلمانوں میں بھی ایسی جماعت ہے جو تناسخ کو مانتی ہے ان کے اس وہم کو دور کرنے کے لئے محمد آئے اور اس طرح ہر ایک مذہب والوں پر حجت ہو گئی کہ تاریخ بالکل

Page 254

انوار العلوم جلد - ۲۲۷ اتوار خلافت غلط ہے.لیکن اگر آنے والے نبی کو مثیل کہا جاتا تو اس سے تاریخ کا رد نہ ہو سکتا تھا.لیکن جب انہی کا نام رکھا گیا اور وہ نہ آئے بلکہ ان کے رنگ میں ایک شخص آیا تو یہ بات ثابت ہو گئی کہ جب خدا تعالیٰ نے ایک شخص کا نام لیا تھا کہ وہ دوبارہ آئے گا اور پھر بھی وہ دوبارہ دنیا میں نہ آیا بلکہ اس کا مثیل آیا.تو بلا وعدہ کے پہلی ارواح کس طرح واپس آسکتی ہیں.یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے نبیوں اور پیاروں کی عزت کو بڑھاتا ہے.جب آٹھویں حکمت تمام دنیا میں اندھیر ہو گیا لوگ خدا کو چھوڑ کر فسق و فجور میں پڑ گئے اور اس بات کی ضرورت ہوئی کہ ایک مصلح بھیجا جائے اور ادھر اللہ تعالیٰ نے پسند نہ فرمایا کہ رسول کریم ﷺ کی نسبت یہ کہا جائے کہ آپ کی امت کے بگڑنے پر فلاں شخص نے آکر اس کی اصلاح کی پس اس آنے والے کو آپ کا بروز اور مثیل بنایا اور غیریت کو بالکل مٹانے کے لئے آپ کا نام اسے دیا تا یہ نہ کہا جائے کہ محمد ﷺ کی امت کے بگڑنے پر کسی اور نے اس کی اصلاح کی بلکہ یہی کہا جائے کہ امت محمدیہ کی اصلاح محمد نے ہی کی.لیکن گو آپ کے لئے خدا تعالیٰ نے یہ ایک نیا طریق اختیار کیا تھا مگر چونکہ دوسرے انبیاء کی امتوں کی اصلاح بھی اسی شخص کے سپرد تھی اس لئے ان کے نام بھی اس آنے والے کو دیئے گئے کیونکہ جب خدا تعالیٰ فضل کرتا ہے تو اس کا فضل وسیع ہو جاتا ہے.غرض اس طرح کی عجیب عجیب حکمتیں تھیں جن لکھا کے لئے ایک ہی انسان کو بھیجا گیا.اور آنحضرت ﷺ کی امت سے بھیجا گیا.یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے.اور حدیث و قرآن کے مطابق کے نویں حکمت ہے کہ خدا تعالٰی کے پیاروں کو جبکہ وہ فوت ہو جاتے نہیں دنیا کے حالات بتائے جاتے ہیں.پس جب دنیا میں ظلمت اور تاریکی پھیل گئی فسق و فجور بڑھ گیا اور ایسی گمراہی پھیل گئی کہ اس کی نظیر اس سے پہلے کے کسی زمانہ میں نہیں ملتی تو تمام نبیوں کی روحوں کو کرب اور اضطراب ہوا کہ ہماری امتیں گمراہ ہو رہی ہیں.پس خدا تعالٰی نے ان کے اضطراب اور ان کی دعاؤں کے ماتحت ایک مصلح کو دنیا میں مبعوث کیا.اور ہر ایک نبی کی توجہ اور دعا کی قبولیت کے اظہار کے لئے اس مصلح کو اسی نبی کا نام دیا.دسویں یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود کا نام بدھ ، کرشن ، مسیح اور محمد نہ رکھا جاتا حکمت تو رسول اللہ لال کی اس میں سخت ہتک ہوتی.اور اگر ان کا مثیل کہا جاتا تو بھی بڑی ہتک ہوتی کیونکہ آنحضرت ﷺ نے تو فرمایا کہ لَو كَانَ مُوسَى وَ عِيسَى

Page 255

وم جلد ۳۰ ۲۳۸ انوار خلافته حَيَّيْنِ مَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعى ( الیواقیت والجواهر مرتبه امام شعرانی جلد ۲ ص ( اگر موسیٰ اور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری اطاعت کے بغیر کوئی چارہ ہی نہ ہو تا.اگر اس بات کا کوئی ثبوت دنیا کے سامنے پیش نہ کیا جاتا تو لوگ کہہ دیتے کہ (نعوذ باللہ) یہ بڑ مار دی ہے اس کا کیا ثبوت ہے کہ وہ آپ کی اتباع کرتے.خدا تعالٰی نے اس بات کو دور کرنے کے لئے یہ کیا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو ان نبیوں کے کمالات کے ساتھ مبعوث کیا اور آپ کو تمام نبیوں کے نام سے یاد کیا.موسیٰ بھی کہا.عیسیٰ بھی کہا.ابراہیم بھی کہا.داود بھی کہا.اور پھر جَرِ اللهِ فِی حُلل الأنبياء کہہ کر سب نبیوں کے نام آپ کے نام رکھے اور پھر اس کے ساتھ آپ کو غلام احمد بھی کہا اور اس طرح رسول کریم ﷺ کے قول کی سچائی ثابت کی.کیونکہ جبکہ ایک شخص ان سب انبیاء کے کمالات کا جامع ہو کر رسول کریم کا غلام کہلایا.تو اگر ان ناموں کے ا مصداق الگ الگ دنیا میں زندہ ہوتے تو رسول کریم ﷺ کی کیوں غلامی نہ کرتے.پس تمام نبیوں کے نام حضرت صاحب کو دے کر رسول کریم ای کے دعوے کی تصدیق کی گئی ہے.لیکن اگر خدا تعالٰی یہ فرمانا کہ مثیل عیسی آئے گا مثیل موسیٰ آئے گا تو لوگ کہہ سکتے تھے کہ مشیل تو چھوٹا بھی ہو سکتا ہے پس اس کی غلامی سے یہ ثابت نہیں ہو سکتا کہ اگر وہ انبیاء ہوتے تو وہ بھی آپ کی غلامی کرتے.پس خدا تعالیٰ نے آپ کو پہلے نبیوں کا مثیل نہیں کہا.بلکہ مسیحی ، نوح، ابراہیم ، داؤد کیا اور سب نبیوں کے کمالات کا جامع کہا.لیکن باوجود اس کے محمد کا غلام کہا تا معلوم ہو کہ اگر وہ الگ الگ طور پر پہلے نبی دنیا میں ہوتے تو وہ بھی رسول کریم کا غلام ہونے کو فخر سمجھتے.موی غرض یہ حکمتیں تھیں حضرت مسیح موعود کے اس قدر نام رکھنے کی اور یہ مصلحتیں تھیں آپ کو وہی نبی قرار دینے کی اور مثیل نہ کہنے کی.جن کو میں نے مختصر الفاظ میں بیان کر دیا ہے.

Page 256

رالعلوم جلد ۳ ۲۲۹ انوار خلافت لے اس مضمون میں نظر مانی کے وقت میں نے اور مضامین بھی زائد کر دیئے ہیں جو لیکچر کے وقت بوجہ کمی وقت بیان نہیں کر سکا.نے حضرت خلیفۃ المسیح یہاں تک تقریر فرما چکے تھے کہ ایک شخص نے بذریعہ رقعہ ایک سوال دریافت کیا جو یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو وہ عمر ہوتا.پس جب حضرت عمرفی نہیں ہوئے تو پھر آپ کے بعد کوئی اور کس طرح نبی ہو سکتا ہے.اس کا مختصر سا جواب حضور نے اپنی مسلسل تقریر کو بند کر کے جو دیا وہ درج ذیل ہے:.حضور نے فرمایا کہ چونکہ رقعہ لکھنے والے غیر احمدی صاحب ہیں.اس لئے جواب دیتا ہوں اگر کوئی احمدی پوچھتا تو اسے روک دیتا کیونکہ دوران گفتگو میں بولنا جائز نہیں.جس صاحب نے یہ سوال کیا ہے وہ سن لیں.کہ قرآن شریف میں خدا تعالٰی نے نبی کے آنے کی یہ شرط فرمائی ہے کہ جب دنیا میں ظلمت اور تاریکی ہو جاتی ہے اور دنیا خد اتعالٰی کو چھوڑ کر بھر عصیان میں گر پڑتی ہے.اس وقت نبی آتا ہے اور اس کو ضلالت کے گڑھے سے آکر نکالتا ہے.لیکن حضرت عمر نے تو اس زمانہ میں ہوئے ہیں جبکہ چاروں طرف نور ہی نور پھیلا ہوا تھا.اور خدا تعالی کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے بے شمار ذرائع موجود تھے.اس لئے وہ کس طرح نبی ہوتے پھر آنحضرت ا نے ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ آنے والا مسیح نبی ہو گا اس لئے یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود ہیں یا نہیں.اگر آپ مسیح موعود ہیں.تو نبی بھی ہیں.اور جب آپ مسیح موعود ہیں.تو پھر یہ اعتراض نہیں ہو سکتا کہ آپ نبی کس طرح ہوئے پس نبوت کے ہونے نہ ہونے پر سوال نہیں ہو سکتا.ہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اس حدیث کا کیا مطلب ہے سو ایک مطلب اس حدیث کا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اگر رسول کریم ﷺ کے بعد فوراہی آپ کی جماعت کو سنبھالنے کے لئے کسی نبی کی ضرورت کو ہوتی.جس طرح حضرت موسیٰ کے بعد تھی تو حضرت عمربی آپ کے بعد نبوت کے مقام پر ترقی پاتے.لیکن چونکہ آپ ایک ایسی جماعت تیار کر کے رخصت ہونے والے تھے.جو اپنی نیکی اور تقویٰ میں حضرت موسی کسی جماعت سے کئی درجہ زیادہ تھی اور مکمل تھی اس لئے آپ کے جوانی بعد فورا کسی نبی کی بعثت کی ضرورت نہ تھی.کے بعد میں معلوم ہوا کہ دو دوست فوت ہو گئے ہیں.

Page 257

Page 258

۲۳۱ اسلام اور دیگر مذاہب (اسلام اور دیگر مذاہب کی تعلیم کا موازنہ) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی اسلام اور دیگر مذاہب

Page 259

۲۳۲

Page 260

بسم اللہ الرحمن الرحیم ۳۳۳ نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم اسلام اور دیگر مذاہب اسلام اور دیگر مذاہب پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کو شروع کروں جس پر بولنے کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوا ہوں.میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے ہمیں وہ طاقتیں عطا فرما ئیں جن کے ذریعہ سے ہم باریک مسائل پر غور کرنے اور فکر کرنے کے قابل ہوئے جن کی وساطت سے ہم اس وراء الورای ہستی تک پہنچ سکیں جو تمام موجودات کی خالق اور رازق اور مالک ہے ہاں میں شہنشاہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو باوجود اپنی بے انتہاء قدرتوں اور طاقتوں کے باوجود اپنی لا انتہاء پاکیزگی اور طہارت کے کمزور اور ضعیف انسان کی ہدایت کیلئے متوجہ ہوا اور اسے ایسی طاقتیں اور ایسے علوم عطا فرمائے جن کے ذریعہ سے وہ تمام درمیانی روکوں کو دور کرتے ہوئے اور تمام پردوں کو چاک کرتے ہوئے اپنے آقا کے دربار میں پہنچ سکتا اور اس کے قرب کے مقام کو پا سکتا ہے.پھر میں تیسری دفعہ شکریہ ادا کرتا ہوں اس شہنشاہ کا کہ اس نے انسان کی کمزوری دیکھ کر اپنے فضل و کرم سے انسانوں میں سے پاک اور برگزیدہ انسانوں کو چنا تاوہ اس کا شیریں کلام سنیں اور اپنے ایمان کی بنیاد مشاہدہ کی مضبوط چٹان پر رکھیں اور جس نے ان کو ایسے زبر دست نشان عطا فرمائے کہ جنہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی جو صداقت کی تڑپ اپنے اندر رکھتے ہیں اپنے ایمان کو کامل کریں.پھر میں شکریہ ادا کرتا ہوں اس محسن رب کا جس نے ہمیں ایک ایسی حکومت کے ماتحت رکھا ہے کہ جس کی پر امن حکومت میں ہم آزادی سے مذہبی امور میں تبادلہ خیالات کر سکتے ہیں اور بلا خوف و خطر اپنی تحقیقات کو دوسرے بھائیوں تک پہنچا سکتے ہیں.

Page 261

۲۳۴ اسلام اور دیگر مذاہب اس کے بعد میں آپ لوگوں کی توجہ اسلام دنیا کے تمام انبیاء کی تصدیق کرتا ہے.اس بات کی طرف منعطف کرانی چاہتا ہوں کہ میری غرض اس وقت اسلام اور دیگر مذاہب کا مقابلہ اس رنگ میں کرنا نہیں ہے کہ میں مختلف مذاہب پر کچھ الزامات لگا کر بتاؤں کہ وہ تمام مذاہب باطل ہیں اور صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے خدائے تعالی کی طرف سے بھیجا گیا ہے کیونکہ اگر میں ایسا کروں تو نہ صرف یہ کہ عقل انسانی میرے اس خیال کو بڑے زور سے رد کرے گی بلکہ خود اسلام بھی میرے اس خیال سے بریت ظاہر کرے گا کیونکہ اسلام خدائے تعالیٰ کو ظالم قرار نہیں دیتا اور وہ دنیا سے ہرگز یہ بات منوانا نہیں چاہتا کہ جب تک رسول کریم دنیا میں تشریف نہ لائے تھے اس وقت تک خدا تعالٰی نے انسان کی ہدایت کیلئے کوئی سامان پیدا نہیں کیا تھا.اگر خدائے تعالیٰ قدیم ایام سے اپنے بندوں کی جسمانی ضروریات کو پورا کرتا چلا آیا ہے تو کیا وجہ ہے کہ اس نے ان کی روحانی ضروریات کے پورا کرنے کا سامان نہ کیا ہو اور لاکھوں برس تک انسان کو گمراہی میں پڑا رہنے دیا ہو.اسلام اس خیال کا بالکل مخالف ہے اور وہ خدائے تعالی کو رب العالمین قرار دیتا ہے یعنی جس کی ربوبیت ہر زمانہ اور ہر ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور کسی خاص قوم یا خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے.جس طرح اس کا سورج ہمیشہ سے اپنی روشنی سے بنی نوع انسان کی جسمانی آنکھوں کو منور کرتا رہا ہے ہے.اسی طرح اس کا نور ہمیشہ ہمیش سے انسانی عقل کو اپنی چمکدار شعاؤں سے منور کرتا رہا ہے اور جس طرح چند گیسوں سے مرکب پانی ہمیشہ سے انسان کے جسم کو تازہ رکھنے کیلئے اس کی طرف سے نازل ہوتا رہا ہے اسی طرح راستی اور صداقت سے مرکب وحی روح کو سرسبز و شاداب رکھنے کیلئے اس کی طرف سے اترتی رہی ہے اور اس نے اپنے احسانات سے کسی قوم کو محروم نہیں رکھا.نہ تو اس نے ہندوستان کے باشندوں سے بخل کیا ہے نہ ایران کے باشندوں کے سے نہ اس نے چین کے باشندوں سے اپنی موہت کو روکے رکھا ہے نہ عرب کے باشندوں سے نہ ایشیا سے اس کی روحانی بارش رو کی گئی ہے نہ یورپ سے نہ امریکہ کے جنگل اس سے محروم رہے ہیں نہ افریقہ کے ریگستان.قرآن کریم بڑے زور سے دعوئی فرماتا ہے کہ قران من أمَةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذیر ناطر : (۲۵) یعنی کوئی بھی ایسی قوم نہیں گزری کہ جس میں خدائے تعالٰی کی طرف سے کوئی نبی نہیں بھیجا گیا اور اسی طرح فرماتا ہے وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلّ أُمَّةٍ

Page 262

العلوم جلد - ۲۳۵ اسلام اور دیگر مذاہب رَسُولاً أَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجتَنِبُوا الو (الحمل : ۳۷۰) ہر ایک قوم میں ہم نے رسول بھیجے ہیں کہ اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو.اسی طرح ہمارے رسول کریم نے فرمایا ہے کہ ہندوستان میں بھی بعض رسول گزرے ہیں اور ایران کے متعلق جب آپ سے سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں فارسی زبان بھی خدا تعالی کے کلام سے خالی نہیں رہی اور اس کا الہام اس زبان میں بھی اترتا رہا ہے.پس ان حالات کی موجودگی میں اگر اسلام اور دیگر مذاہب کا مقابلہ کرتے وقت میں یہ دعوی کروں کہ دنیا کی ہدایت کیلئے اگر کوئی مذہب بھیجا گیا ہے تو وہ صرف وہی مذہب ہے جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوا تھا تو ایسا دعوئی خود اسلام کے خلاف ہو گا.پس میری پوزیشن مختلف مذاہب کا مقابلہ کرتے وقت دیگر تمام مذاہب کے پیروؤں سے بالکل مختلف ہے کیونکہ وہ اپنے نبیوں کی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے دوسری اقوام کے نبیوں کی تکذیب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں لیکن میں اس نبی کی صداقت ثابت کرنے کے لئے جس کی غلامی میں ہونے کا مجھے فخر حاصل ہے اس بات پر مجبور ہوں کہ تمام دنیا کے نبیوں کی تصدیق کروں.ایک آریہ ویدوں کے لانیوالے رشیوں کے دعوئی کو اس وقت تک محفوظ سمجھتا ہے جب تک دنیا میں کوئی اور خدا کا پیارا اور برگزیدہ بندہ جو اس سے براہ راست کلام حاصل کرنے والا ہو ثابت نہ ہو.پس وہ اپنے مذاہب کی سچائی ثابت کرنے کیلئے ان تمام راستبازوں کو جو مختلف ممالک میں بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے بھیجے گئے جھوٹا قرار دیتا ہے.ایک یہودی یا مسیحی اپنی الہامی کتاب کی عزت اسی میں خیال کرتا ہے کہ ان کے سوا جس قدر کتب خدائے تعالی کی طرف سے اس کے ان بندوں کی ہدایت کیلئے جو سر زمین شام کے علاوہ اور ممالک میں بستے تھے نازل ہوئی تھیں جھوٹی قرار دی جائیں.پس وہ اپنے مذہب کی تائید کیلئے دیگر مذاہب کو سرے سے ہی باطل قرار دیتا ہے.اسی طرح ایک زرتشتی ایران کے با هر کسی الهامی کتاب کے نزول کو اپنے مذہب کے فوائد کے سخت خلاف سمجھتا ہے اور اس لئے ایسے تمام نبیوں کو جو ایران کے باہر گزرے ہوں کا ذب اور ایسی تمام کتب اور دھیوں کو جو ایران سے باہر نازل ہوئی ہوں انسانی مفتریات قرار دیتا ہے.غرض اسلام کے سوا تمام مذاہب کے پیرو جب تاریخ قدیم کے مفتشوں کی تحقیقات سے کبھی یہ بات معلوم کرتے ہیں کہ کسی زمانہ میں کسی اور ملک میں کسی شخص نے نبوت کا دعوی کیا تھا یا کوئی اور کتاب خدائے تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ بتائی جاتی تھی تو وہ فورا ہوشیار ہو جاتے ہیں کہ ہمارے مذہب کا ایک اور دشمن

Page 263

۲۳۶ اسلام اور دیگر مذاہب بھی پیدا ہو گیا ہے لیکن اس کے بالکل بر عکس ایک مسلمان کی حالت ہے کہ جب کبھی بھی اس کی کے سامنے کسی ملک کے کسی نبی کا ذکر کیا جائے تو اس کا دل خوشی سے اچھل پڑتا ہے کیونکہ اس کا کے ہاتھ میں قرآن کریم کی صداقت کا ایک اور ثبوت مل جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے فوراً یہ صداقت سے پُر کلام آجاتا ہے کہ وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَافِيْهَا نَذِيرٌ كوئى قوم نہیں ہے کہ جس میں کوئی خدا کا نبی نہ گزر چکا ہو.جس قدر ممالک میں جس قدر نبیوں اور جس قدر کتب کا بھی ثبوت ملے اتنا ہی قرآن کریم کا دعوی ثابت ہوتا ہے کہ ہر ایک قوم میں نبی گزرے ہیں اور اسلام کے سوا جس قدر اور مذاہب بھی ثابت ہوں ایک مسلمان کو ان کے معلوم کرنے سے رنج کی بجائے خوشی ہوتی ہے.پس اسلام اور دیگر مذاہب کا مقابلہ کرتے وقت میرا یہ کام نہیں کہ میں دیگر مذاہب کو انسانوں کا بنایا ہوا اور مختلف اقوام کے نبیوں اور رشیوں کو نعوذ باللہ مفتری اور کاذب ثابت کروں بلکہ میرا بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے فرض ہے کہ جس قدر راستباز مختلف اقوام اور مختلف ممالک میں گزرے ہیں میں ان کی تصدیق کروں اور بلا کسی انقباض کے جس طرح بنی اسرائیل کے نبیوں کی صداقت کا اقرار کروں اسی طرح ہندوستان کے برگزیدوں رام اور کرشن کی راستبازی کا اور ایران کے بزرگ زرتشت کی صداقت کا اعتراف کروں اور جس قوم کا بھی کوئی راستباز ہو جس نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور اللہ تعالٰی کی تائید اور نصرت اسے حاصل ہوئی ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کی قبولیت بنی نوع انسان کے دل میں پیدا کر دی ہو اس کو خدائے تعالی کی طرف سے تسلیم کروں کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم مجھے بتاتا ہے کہ وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ كَذِبًا أو كَذَّبَ بِايَتِهِ إِنَّهُ لَا يُفْلِحُ الظَّلِمُونَ (الانعام : (۲۲) اس شخص سے زیادہ ظالم اور قابل سزا کون ہو سکتا ہے جو خدائے تعالیٰ پر جھوٹ بولتا ہے اور لوگوں کو جھوٹے الہام بنا بنا کر سناتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعویٰ کرتا ہے حالانکہ اسے خدائے تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں اور اگر ایسا شخص بھی کامیاب اور بامراد ہو سکتا ہے تو پھر خدائے تعالی کی طرف سے آنے والوں میں اور جھوٹوں میں کیا فرق رہ جاتا ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے دوسرے مذاہب کی موجودگی میں اسلام کی ضرورت کہ جب اسلام تمام دیگر مذاہب کو جو مختلف ممالک میں پیدا ہوئے اور پھیلے خدائے تعالی کی طرف سے قبول کرتا ہے تو

Page 264

را العلوم جلد ۳۰ ۲۳۷ اسلام اور دیگر مذاہب پھر ان مذاہب کے ہوتے ہوئے اسلام کی کیا ضرورت ہے اور ان کی موجودگی میں اسے دوسرے مذاہب کے پیروان کے سامنے پیش کرنے میں کیا فائدہ ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ جہاں اسلام یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ پہلا ہی مذہب نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی تمام بلاد میں اللہ تعالیٰ ہر قوم کی ہدایت کیلئے رسول بھیجتا رہا ہے وہاں یہ بھی دعوئی کرتا ہے کہ اسلام سے پہلے جس قدر مذاہب آئے تھے وہ اس وقت کی محدود ضروریات کے مطابق تھے اور اسی لئے ہر ایک قوم میں الگ الگ نبی بھیجے جاتے تھے تا انسانوں کو اس اعلیٰ ترقی کیلئے تیار کیا جائے جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے ان کے لئے مقدر تھی اور رسول کریم الله کے زمانہ میں بوجہ انبیاء کے زمانہ سے بعد واقع ہو جانے کے تمام دین ہلاکت کے کنارہ پر پہنچے ہوئے تھے اور خدائے تعالی کے بھیجے ہوئے پاک علوم میں انسان نے اپنی نادانی سے بہت سی باتیں اپنی طرف سے زیادہ کر کے اس پاک چشمہ کو مکدر کر دیا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الروم : (۳۲) یعنی خشکی میں بھی اور تری میں بھی لوگوں کی بد اعمالیوں کی وجہ سے فساد ظاہر ہو گیا ہے.اور قرآن کریم کے محاورہ کے مطابق خشکی سے مراد وہ عقل ہوتی ہے جو وحی الہی سے مجرد ہو اور تری سے مراد کلام الہی ہوتا ہے پس اس آیت کا یہ مطلب ہے کہ لوگوں کی بد اعمالیوں کا نتیجہ اس وقت اس طرح ظاہر ہو رہا ہے کہ ایک طرف تو خواہشات نفسانی نے لوگوں کی عقلوں پر پردہ ڈال رکھا ہے اور لوگوں کی عقلیں بوجہ وفور ہوا و ہوس خراب ہو رہی ہے اور وہ اقوام جن کا دارومدار صرف عقل پر ہے بوجہ دنیا میں کامل طور پر منہمک ہونے کے اس مقام تک بھی پہنچنے سے محروم ہو رہی ہیں جہاں تک مجرد عقل انسان کو پہنچا سکتی ہے اور کلام الہی بھی بگڑ چکا ہے یعنی خدائے تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے مختلف ممالک اور مختلف اوقات میں جو نبی بھیجے تھے ان پر جو کلام نازل ہوا تھا اس میں بھی لوگوں نے اپنی عقل سے ایسے خیالات ملا دیئے ہیں کہ اسے بھی گندہ کر دیا ہے اور اس طرح وہ اقوام جن کا دارد مدار کلام الہی پر تھا اور جو اس چشمہ صافی سے سیراب ہوتی تھیں اب وہ بھی بوجہ اس چشمہ کے مکدر ہونے کے وہ روحانیت حاصل نہیں کر سکتیں جو وہ پہلے اس کے صاف پانی سے حاصل کرتی تھیں اس لئے ان میں بھی کمزوریاں اور بدیاں پھیل رہی ہیں پس جبکہ دنیا کی یہ حالت ہوتی رہی ہے تو ضرور تھا کہ خدائے تعالیٰ جو اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے ان کی خبر گیری کرے

Page 265

انوار العلوم جلد ۳۰ ٢٣٨ اسلام اور دیگر نی انب کسی اور اس ہلاکت سے ان کو بچائے.واقعہ میں آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مختلف مذاہب کے متبعین کی ایسی ہی حالت تھی جیسا کہ ایک بلند مینار کے ارد گرد مختلف رسے لٹک رہے ہوں اور کچھ لوگ ان مختلف رسوں کو پکڑ کر اس پر چڑھنا چاہیں تو سرے پر جا کر ان کے ہاتھ چھوٹ جائیں اور ان کے گرنے میں سوائے اس کے اور کوئی روک نہ ہو کہ ان کا کوئی کپڑا رسہ کے حصہ سے لپٹ جائے اور وہ اس طرح اوندھے مونہہ ہوا میں معلق پڑے ہوئے ہوں.مختلف زمانہ میں انبیاء نے مختلف اقوام کو روحانیت کے بلند مینار پر چڑھانا شروع کیا جس کی وجہ سے استعدادوں میں تو ترقی ہو گئی لیکن رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں انبیاء سے بعد کی وجہ سے مختلف مذاہب کے پیرو عملی اور اعتقادی حالت میں ایسے گر گئے کہ اگر اس وقت کوئی ان کو ہدایت کی طرف بلانے والا نہ آتا تو وہ بالکل ہلاک ہو جاتے اور وہ تمام کوششیں جو مختلف انبیاء نے کی تھیں اکارت جاتیں.لیکن جیسا کہ قرآن کریم دعوئی کرتا ہے وہ دنیا کا نجات دہندہ عین وقت پر آگیا اور اس نے ان اوندھے مونہہ لٹکتے ہوئے انسانوں کو جو یوں تو مینار کے سر پر پہنچ گئے تھے لیکن اپنی موجودہ حالت میں نیچے کھڑے ہوئے انسانوں سے بھی زیادہ خطرہ میں تھے ہاتھوں سے پکڑ پکڑ کر اوپر اٹھالیا اور ان مختلف لوگوں کو جو مختلف جہات سے چڑھنے کی کوشش کر رہے تھے مینار کی بلندی پر ایک ہی جگہ اکٹھا کر دیا اور آئندہ کیلئے سب دنیا کیلئے ایک ہی مذہب اور ایک ہی کتاب قرار پائی کیونکہ تمدن کی ترقی نے اب سب دنیا کو ایک ہی ملک کی طرح اور سب بنی نوع انسان کو ایک ہی قوم کی طرح کر دیا تھا اور وہ پہلا دن تھا جب کہ برادر مڈ آف مین (اخوت انسانی) پر اس کے حقیقی معنوں میں عمل کیا گیا اور رسول کریم ا نے حکم الہی کے ماتحت بڑے زور سے دنیا میں اعلان کیا کہ یايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ، لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِي وَيُمِيتُ ، فَا مِنوا بالله وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّنِ الَّذِى يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ كَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (الاعراف ۱۵۹) اے لوگو میں خدائے تعالی کی طرف سے تم سب کی طرف بلا استثناء کے رسول بنا کر اس خدا کی طرف سے بھیجا گیا ہوں جس کے قبضہ میں آسمان و زمین کی بادشاہت ہے اور اس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے.پس ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول پر جو خدائے تعالیٰ کی طرف سے غیب کی خبریں قبل از وقت سناتا ہے جو اسی طرح گناہ سے پاک ہے جس طرح وہ بچہ جو ابھی ماں سے جدا نہیں کیا گیا اور جو تم کو ہی ایمان و عمل کی طرف نہیں

Page 266

انوار العلوم جلد ٣٠ ۲۳۹ اسلام اور دیگر مذاہب بلا تا بلکہ خود بھی خدائے تعالیٰ پر ایمان لاتا ہے اور اس کے تمام احکام کو قبول کرتا ہے پس تم اس کی فرمانبرداری کرو تاکہ تم خدائے تعالی تک پہنچ سکو.اس آیت میں اللہ تعالٰی نے اشارہ فرمایا ہے کہ تمام دنیا کی طرف ایک ہی رسول اس لئے بھیجا گیا ہے کہ تا اس ذریعہ سے وہ خدا جو زمین و آسمان کا ایک ہی خدا ہے اپنے پورے جلال کے ساتھ ایک ہی رسول کے ذریعہ سے سب دنیا پر ظاہر ہو اور تا اس کی توحید ایک نئے رنگ میں جلوہ گر ہو اور یہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ وہ اس وقت دنیا کو چھوڑ دیتا حالانکہ وہ زندہ کرنے والا اور مارنے والا ہے.پس اس کی صفت احیاء نے چاہا کہ مردہ زمین کو پھر زندہ کرے اور جو مذاہب کہ اب دنیا کی ہدایت کیلئے کار آمد نہیں ان کو مردہ مذاہب میں شامل کر دے یعنی ان کو منسوخ کر کے ایک کار آمد اور کل انسانی ضروریات کو پورا کرنے والا نہ ہب دنیا میں پھیلائے اور یہ دعوئی ایک ایسار کوئی تھا جو نہ تو ہند کے رشیوں نے نہ ایران کے داناؤں نے نہ شام کے نابیوں نے کیا تھا بلکہ وہ ایک ہی قوم یا ایک ہی ملک کی طرف آئے تھے اور اگر کسی قوم نے اپنی تبلیغ کو کسی وقت وسیع بھی کیا ہے تو بانیان مذہب کی تعلیم کے خلاف اور ان کے بعد ایسا کیا ہے جیسا کہ اسلام کے سوا دوسرے مذاہب میں سے سب سے بڑے تبلیغی مذہب یعنی مسیحیت کی تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت مسیح نے تو تبلیغ عام سے رو کا لیکن ان کے بعد تبلیغ عام کر دی گئی پس وہ اس مذہب کا حصہ نہیں کہلا سکتی.غرض اسلام کا دعوی ہے کہ اس سے پہلے جس قدر مذاہب تھے وہ دو وجوہات سے منسوخ کر دیئے گئے اول تو یہ کہ ان کی بعض تعلیمیں وقتی تھیں اور ایک خاص قوم یا خاص ملک یا خاص زمانہ کے حالات کے مطابق تھیں اور اللہ تعالیٰ کی کامل حکمت چاہتی تھی کہ اب ان کو منسوخ کر دیا جائے اور ایک ایسی تعلیم بھیجی جائے جو سب قوموں اور سب ملکوں اور سب زمانوں کے مطابق حال ہو.اور دوم اس لئے کہ پہلی کتب کی اصل تعلیم بھی بہت کچھ بگڑ چکی تھی اور ان کی الہامی کتابیں اس شکل میں نہ رہی تھیں جس میں کہ وہ نازل ہوئی تھیں اور اب ان پر عمل کرنا ایک محقق انسان کیلئے مشکل ہو گیا تھا کیونکہ وہ اس کے لئے بوجہ مشکوک ہونے کے باعث تسلی نہ رہی تھیں اور باوجود ان کے اندر بہت کی صداقتوں کے موجود ہونے کے انسان یقین اور تسلی سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ جس حکم پر عمل کر رہا ہے واقعہ میں وہ خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہے بھی یا نہیں.پس اس بے اعتباری اور شک کو دور کرنے کیلئے جو روحانی ترقیات کیلئے ایک مسلک زہر کی طرح ہوتا ہے خدائے تعالیٰ نے چاہا کہ ایک نیا کلام اور نئی شریعت نازل کرے جس

Page 267

دهم جلد - ۲۴۰ اسلام اور دیگر مذاہب انسان بلا کھٹکے کے عمل کر سکے اور جس کے ہر ایک لفظ کی نسبت اسے یقین ہو کہ یہ خدائے تعالی کی کا کلام ہے.اور اسلام اور دیگر مذاہب میں یہ بھی ایک عظیم الشان فرق ہے کہ دیگر مذاہب میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس کی مذہبی کتب اسی طرح محفوظ ہوں جس طرح وہ نازل ہوئی تھیں یا تو جن کے محفوظ ہونے کا کوئی قطعی ثبوت ہو.لیکن اسلام کی کتاب قرآن کریم کی نسبت زبر دست تاریخی شہادتوں کی بناء پر یقینا کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی اسی شکل میں ہے جس شکل میں کہ آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی اس لئے جو تسلی ایک مسلم کو قرآن کریم پر عمل کرتے وقت ہو سکتی ہے وہ کسی اور مذہب کے پیرو کو اپنی الہامی کتب پر نہیں ہو سکتی کیونکہ باقی تمام کی تمام کتب کا یہی حال ہے کہ یا تو زبر دست تاریخی شہادتوں سے ثابت ہو گیا ہے کہ ان کی اصل شکل کی اس وقت قائم نہیں ہے اور یا وہ ایسے تاریک زمانوں میں سے گزری ہیں کہ ہرگز یقین کے ساتھ ان کی نسبت نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنی اصلی حالت پر ہیں.اس اعتراض کا جواب کہ پہلی کتب کی اور یہ اعتراض ہرگز قابل وقعت نہیں کہ کیوں خدائے تعالیٰ نے حفاظت نہ کی پہلی کتب کی کیوں خدائے تعالیٰ نے حفاظت نہ کی کیونکہ ابتدائی زمانہ میں مختلف اقوام ایک دوسرے سے کیا بلحاظ مسافت کے اور کیا بلحاظ تمدن کے اتنے بعد پر تھیں کہ ان کے لئے ایک کتاب نہیں بھیجی جا سکتی تھی اور روحانی حالت بھی اس وقت ابتدائی منازل میں سے گزر رہی تھی.پس ضرور تھا کہ اس وقت کی ضروریات کے مطابق ہر ایک علاقہ میں الگ نبی اور الگ کتاب بھیجی جاتی اور چونکہ ان ابتدائی کتب نے بہر حال انسان کی ترقی کے ساتھ ساتھ منسوخ ہونا تھا اس لئے ان کی حفاظت کی کوئی ضرورت نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ یہ دعوئی صرف قرآن کریم میں ہی ہے کہ اِنَّا نَحْنُ نَزَلنَا الذِّكْرَ وَ إِنَّا لَهُ لَحَفِظُونَ (الحجر : (١٠) ہم ہی نے اس کتاب کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں یعنی اللہ تعالی خود اس کی حفاظت کرے گا اور اسے بگڑنے نہ دے گا اور یہ وہ دعوئی ہے جو قرآن کریم کے سوا کسی اور کتاب نے نہیں کیا.اگر کیا ہے تو کوئی شخص ہمیں کسی الہامی کتاب کا یہ دعوئی دکھائے ہم اس کے نهایت ممنون احسان ہوں گے.لیکن قرآن کریم کے سوا کوئی الہامی کتاب ایسا دعوئی نہیں کرتی اور کر بھی نہیں سکتی کیونکہ قرآن کے سوا کوئی اور کتاب نہیں جس نے سب دنیا کیلئے ہونے کا اور پھر ہر رنگ میں کامل ہونے کا دعوی کیا ہو اور اگر ان دونوں دعوؤں کے بغیر کوئی کتاب ایسا

Page 268

موم جلد ۳۰ امم اسلام اور دیگر مذاہب دعوی کرتی تو اس کا یہ مطلب ہو تا کہ یا تو قیامت تک باوجود تمدن کی ترقی کے اور بنی نوع انسان کے جسمانی اور روحانی اختلاط کے خدائے تعالیٰ نے بلاوجہ نعوذ باللہ کل انسانوں کو نم با جدا جدا رکھنا چاہا ہے اور اس اتحاد سے جو تمام ترقیات کی جڑھ ہے محروم رکھنا پسند کیا ہے اور یا پھر یہ قبول کرنا پڑتا کہ اللہ تعالیٰ نے باوجود انسان کے ہر رنگ میں ترقی پا جانے کے کامل شریعت سے اسے حصہ نہیں دیا اور ان شرائع کو بلا ضرورت بلکہ خلاف مصلحت جاری رکھا جو کہ صرف خاص اوقات اور خاص زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں اور یہ دونوں باتیں کوئی دانا انسان قبول نہیں کر سکتا.پس چونکہ دیگر کتب نہ تو سب جہان کیلئے تھیں اور نہ ان کی تعلیم انسانی اعمال کے تمام شعبوں کے متعلق احکام پر حاوی تھیں اس لئے ہر گز ضروری نہ تھا کہ ان کی خاص طور پر حفاظت کی جاتی.اور ان کا حال ایسا ہی تھا کہ جیسے کسی ضرورت کے وقت ایک جگہ پر عارضی کیمپ لگائے جاتے ہیں تو ان کی حفاظت اس رنگ میں نہیں کی جاتی جس رنگ میں ان عمارتوں کی جو ہمیشہ کے قیام کیلئے بنائی جاتی ہیں کیونکہ اول الذکر کا فائدہ صرف عارضی ہوتا ہے اور اس فائدہ کے حاصل ہو چکنے کے بعد اس کی ضرورت نہیں رہتی لیکن آخر الذکر کے ساتھ ہمیشہ کا تعلق ہوتا ہے اس لئے اس کی حفاظت کی جانی ضروری ہوتی ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ تمام مذاہب میں سے صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب قرآن کا دعویٰ ہے جس کی الہامی کتاب نے دعوی کیا ہے کہ وہ تمام انسانوں اور تمام آئندہ زمانوں کیلئے ہے جیسا کہ فرمایا کہ وَ أُوحِيَ إِلَيَّ هَذَا الْقُرْآنُ لا نَذِرَكُم بِهِ وَمَنْ بَلَغَ ، ) الانعام (۲۰۰) یعنی اے زمانہ کے لوگو ! یہ قرآن میری طرف وحی کیا گیا ہے، تاکہ میں تم کو اں کے ذریعہ سے خدائے تعالیٰ کے غضب سے ڈراؤں اور ان کو بھی جن کو یہ قرآن پہنچتا جائے یعنی اس کتاب کے متعلق کسی خاص زمانہ اور کسی خاص ملک کی شرط نہیں جسے اس کی خبر ملے اس پر اس کا ماننا اور اس پر عمل کرنا فرض ہے.لہ اسی طرح اسلام ہی ایک ایسا مذ ہب ہے جس کی الہامی کتاب نے یہ دعوی کیا ہے.الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي - ( المائدہ : ۴) یعنی آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین ہر رنگ میں کامل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر پوری کر دی ہے.اور ان دونوں باتوں کا لازمی نتیجہ تھا کہ اس کتاب کی نسبت یہ بھی کہا جاتا کہ خدائے تعالیٰ اس کی حفاظت کرے گا کیونکہ جو کتاب کامل ہو گئی اس کے منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں اور جو ہر زمانہ کیلئے ہے اس کی حفاظت کئے بغیر چارہ نہیں

Page 269

۲۴۲ اسلام اور دیگر مذاہب میرے پچھلے مضمون سے یہ بات بیائی اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں فرق ثبوت پہنچ جاتی ہے کہ اسلام سب ادیان کو خدا کی طرف سے سمجھتا ہے لیکن اس بات کا مدعی ہے کہ جس وقت اسلام آیا اس وقت سب مذاہب بگڑ چکے تھے اس لئے خدائے تعالی نے دنیا کی ہدایت کیلئے قرآن کریم اتارا اور چونکہ انسان کی روحانی استعداد کامل ہو چکی تھی اور دنیا بھی اس حد تک ترقی کر چکی تھی کہ تمام عالم آپس میں مل جائے جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا اس لئے خدائے تعالیٰ نے ایک کامل اور مکمل دین دنیا کی طرف بھیجا تا اسے ترقی کے کمال پر پہنچائے.پس اس اصل کے ماتحت ہم جو اسلام کا مقابلہ دیگر ادیان کے ساتھ کرتے ہیں تو یا تو اس لئے کہ ان مذاہب میں بعض خوبیاں تھیں لیکن مرور زمانہ کے سبب سے وہ بعد میں مٹ گئیں یا ان کی جگہ بعض انسانوں نے اپنے بعض مطالب کو پورا کرنے کے لئے کچھ اور تعلیم ملا دی اور یا اس لئے کہ اس میں جو تعلیم تھی وہ بنفسہ تو اچھی تھی لیکن ایسی نہ تھی کہ ہر زمانہ اور ہر وقت میں کام آ سکتی اور اس میں خاص حالات کو مد نظر رکھ کر انسانی فطرت کے کسی خاص پہلو پر یا انسانی فرائض میں سے کسی خاص فرض پر زور دیا گیا تھا اور انسانی فطرت کے بعض دیگر پہلوؤں یا اس کے بعض فرائض کو یا تو بالکل نظر انداز کر دیا گیا تھا یا ایسے دبے الفاظ میں ان کا ذکر تھا کہ وہ انسانی اعمال کی درستی کیلئے پورے طور پر موثر نہیں ہو سکتے تھے چنانچہ اسلام اور دیگر مذاہب کے اس فرق کو اللہ تعالٰی قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے وَ كَذلِكَ جَعَلْنَكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا) ، ( البقرة : (۱۴۴) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک ایسی امت بنایا ہے کہ جو اپنے اعمال میں ایک درمیانی رنگ رکھتی ہے.اور نہ تو افراط کی طرف جھک جاتی ہے اور نہ تفریط کی طرف مائل ہو جاتی ہے بلکہ اس کے اعمال ترازو کے تولی کی طرح ایسے درمیان میں رہتے ہیں کہ کسی پہلو کو ان میں نظر انداز نہیں کیا جاتا اور ہم نے تم کو ایسا اس لئے بنایا ہے کہ تاتم دوسرے مذاہب اور دوسری اقوام کیلئے ایک گواہ کی طرح ہو یعنی جس طرح گواہ کی گواہی سے ثابت ہوتا ہے کہ حق کیا ہے اور کس کا ہے اسی طرح تم میں سے جو لوگ قرآن کریم کی تعلیم پر چل کر اس کے نیک اثرات کو اپنے اندر پیدا کریں وہ دوسری اقوام کیلئے جو اب تک قرآن کریم کی صداقت سے لذت آشنا نہیں اس کی صداقت اور اس کے وسیع اور روحانی زندگی میں تغیر عظیم پیدا کرنے والے اثرات پر بطور ایک شاہد کے

Page 270

1 انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۳ اسلام اور دیگر مذاہب ہوں یعنی زبان اور عمل دونوں سے اس بات کا اقرار کریں کہ انہوں نے اس کے دعادی کو بیچ پایا اور لوگ ان کی پاکیزہ زندگی اور آسمانی نصرت کو دیکھ کر سمجھ لیں کہ سچا راستہ یہی ہے جس پر یہ لوگ چلتے ہیں اور پھر آخر میں بتایا کہ جس طرح ان مسلمانوں کو جو قرآن کریم کی تعلیم پر چلتے ہیں دوسری اقوام کیلئے شاہد بنایا ہے رسول کریم ﷺ کو اس جماعت کیلئے شاہد بنایا ہے یعنی ان کے دل میں آپ کی زندگی کو دیکھ کر اسلام کی صداقت گھر کر جاتی ہے.غرض قرآن کریم نے خود دعوی کیا ہے کہ اسلام کو دیگر مذاہب پر یہ فضیلت ہے کہ اس میں کسی بات میں افراط تفریط سے کام نہیں لیا گیا بلکہ اس کی تعلیم درمیانی ہے اور اس لئے ہر زمانہ اور ہر ملک و قوم کیلئے ہر حالت میں کار آمد ہے اور گو قرآن کریم میں اور بھی بیسیوں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں خوبیاں ایسی مذکور ہیں اور احادیث رسول کریم ﷺ میں بھی بڑی کثرت سے ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں لیکن میں اس وقت صرف ایک ایسی خوبی پر نہایت اختصار سے کچھ بیان کروں گا جس سے معلوم ہو جائے گا کہ اس وقت اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو تمام انسانی ضروریات کو را کرتا ہے اور جس کا کوئی حکم ایسا نہیں کہ کسی خاص مصلحت اور زمانہ کیلئے دیا گیا ہو اور بعد میں اس کی ضرورت نہ رہی ہو.پس وہی ایک مذہب ہے جس کی طرف طالبان صداقت کو دو ڑنا چاہیئے اور جان بیچ کر بھی اسے خریدنا چاہئے کیونکہ نیک انسان کے لئے صداقت سے زیادہ اور کوئی چیز محبوب نہیں.میں اس نہایت ہی مختصر مقابلہ میں زیادہ زور صرف اسلام کی خوبیوں کے بیان پر دوں گا اور دیگر مذاہب کے جو احکام کہ بگڑ گئے ہیں یا وہ ہر ایک زمانہ میں اور ہر حالت میں قابل عمل نہیں ہیں ان کی طرف صرف اشارہ کرنا کافی سمجھوں گا کیونکہ اول تو گنجائش نہیں.دوم بعض لوگ شاید ان تفاصیل سے کسی قدر گھبرائیں.پیشتر اس کے کہ ہم اسلام اور دیگر مذاہب کا اس خاص پہلو میں مقابلہ مذہب کی غرض کریں جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں یہ دیکھنا چاہئے کہ مذہب کی غرض کیا ہے تا غور کیا جا سکے کہ ان اغراض کے پورا کرنے میں میانہ روی کا پہلو کس مذہب نے اختیار کیا ہے.قرآن کریم مذہب کی دو ہی غرنہیں بتاتا ہے ایک حقوق اللہ کی بجا آوری اور دوسری حقوق العباد کی نگہداشت اور دیگر مذاہب بھی اس بات میں قرآن کریم کے مخالف نہیں.پس ہم اس مقابلہ میں ان دونوں پہلوؤں کو لیتے ہیں.

Page 271

اسلام اور دیگر مذاہب وم جلد ۳۰ تعلق باللہ تعلق اس مقابلہ میں سب سے پہلے ہم تعلم قلبی تعلق کن وجوہات سے پیدا ہوتا ہے اللہ کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اسلام نے اللہ تعالٰی کے ساتھ بندوں کا تعلق قائم کرنے کے لئے کیا تدبیر کی ہے مگر پیشتر اس کے کہ ہم ان تدابیر کو بیان کریں جو اسلام نے اللہ تعالٰی کے ساتھ بندوں کا تعلق قائم کرنے کے متعلق اختیار کی ہیں اس مضمون کو زیادہ سہل اور آسان کرنے کے لئے ہمیں پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ انسان کے اندر وہ کون سی مخفی قوتیں ہیں جن کے ذریعہ سے اس کا کسی اور چیز سے قلبی تعلق قائم ہوتا ہے اور کسی اپنے سے برتر ہستی کی فرمانبرداری وہ کن قوتوں کے حکم کے ماتحت کرتا ہے.سو یاد رہے کہ انسان کا تعلق قلبی کسی دوسری شے سے صرف دو ہی جذبات کے نیچے ہو تا ہے یا محبت کی وجہ سے اور یا خوف کی وجہ سے میں قدر دوستیاں اور تعلقات ہیں ان سب پر غور کر کے دیکھ لو کہ ان کی وجہ یا محبت ہے یا خوف.یا تو ایک چیز سے انسان کو محبت پیدا ہو جاتی ہے اور اس محبت کی وجہ سے وہ اس کے ساتھ تعلق قائم کرتا ہے اسے دیکھ کر خوش ہوتا ہے اس کی جدائی کو نا پسند کرتا ہے اس کے قریب ہونے کے لئے کوشاں رہتا ہے حتی کہ اپنے محبوب کے حق میں جو چیز مضر ہو یا جو اسے ناپسند ہو اس سے یہ بھی نفرت کرنے لگ جاتا ہے اور جو چیز یا جو کام اپنے محبوب کا پسندیدہ پائے یا اس سے اسے نفع پہنچتا دیکھے تو اسے خود بھی پسند کرنے لگتا ہے.غرض محبت کی وجہ سے اپنے محبوب کی ہر پسندیدہ شے کو پسندیدہ اور ہر نا پسند شے کو نا پسند سمجھنے لگتا ہے اور محبت کی ترقی کے ساتھ اس کی حالت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ پھر اپنے محبوب کی رضا کو پورا کرنا اس کی طبیعت نامیہ ہو جاتا ہے اور یہ ایسا خیال کرتا ہے کہ گویا بعض کام اسے خود طبعاً پسند ہیں اور بعض ناپسند لیکن در حقیقت ان کاموں سے نفرت یا ان کی طرف رغبت اس محبوب کے خیالات کا عکس یا ظل ہوتی ہے.اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بعض تعلق صرف خوف کی وجہ سے ہوتے ہیں اور اگر خوف جاتا رہے تو فورا وہ تعلق ٹوٹ جائے چنانچہ بعض لوگ بعض درندوں کو پالتے ہیں اور ان کو سدھا لیتے ہیں لیکن اکثر دیکھا گیا ہے کہ ان کا تعلق ان درندوں سے صرف خوف کا ہوتا ہے اس لئے وہ ان کے پاس جاتے ہوئے کوڑایا

Page 272

رالعلوم جلد ۳۰ ۲۴۵ اسلام اور دیگر مذاہب تلوار رکھتے ہیں اور بارہا ایسا ہوا ہے کہ اگر کسی وقت وہ کو ڑایا تلوار بھول گئے اور وہ یونہی اس کو درندہ کے پاس چلے گئے تو اس نے ان پر حملہ کر دیا اور قتل یا زخمی کر دیا یہی حال بعض درنده ای طبع انسانوں کا ہوتا ہے کہ وہ بھی محبت اور پیار سے کبھی نہیں مانتے.بہت ہیں کہ وہ اپنے والدین تک کو کہ جن کے احسانات انسانوں میں سے سب سے زیادہ ہوتے ہیں زدو کوب کرتے ہیں اور ان سے سخت حقارت و نفرت کرتے ہیں اور بعض بالغ ہو کر ان کی جائیداد پر قبضہ کرنے کے لئے ان کو زہر تک دے دیتے ہیں.لیکن یہی لوگ حکام وقت کے سامنے نہیں بولتے اور بظاہر ان کی فرمانبرداری کرتے ہیں اور ان کے سامنے ایسے ہو جاتے ہیں کہ جیسے کوئی شرمیلا بچہ ہوتا ہے.اور یہ ان کا تعلق اور فرمانبرداری صرف اسی خوف کی وجہ سے ہوتی ہے کہ اگر ظاہر میں ہم نے قانون توڑ دیا تو ہمیں سزا ملے گی ورنہ اگر حکام وقت اور حکومت ملک ان کو صرف پیار اور محبت سے منوانا چاہے تو وہ ایک دن میں اس سے جدا ہو جائیں اور فورا اس کا مقابلہ شروع کر دیں.غرض انسانی فطرت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلق دو وجہ سے ہوتے ہیں یا تو محبت سے یا خوف سے.اسی طرح محبت کے اسباب کو جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کے بھی دو سبب محبت کے اسباب معلوم ہوتے ہیں یا حسن یا احسان یعنی یا تو انسان کسی نئے سے اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ اسے اچھی لگتی ہے اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے خواہ شکل کے لحاظ سے خواہ اخلاق کے لحاظ سے خواہ علم کے لحاظ سے خواہ عقل کے لحاظ سے غرض کسی قسم کی خوبصورتی ہو بعض انسان اس پر فدا ہوتے ہیں.سجے ہوئے مکان اور تصاویر اور سبزہ زار زمینیں اور بعض بے خوشبو کے خوش رنگ پھول اس قسم کی اشیاء میں سے ہیں کہ جن سے انسان اس لئے محبت کرتا ہے کہ وہ خوبصورت ہیں ورنہ ان سے اسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ان پر خرچ کرنا پڑتا ہے اسی طرح خوبصورت انسانوں سے لوگ محبت کرتے ہیں اور یہ خوبصورتی جیسا کہ اوپر بیان ہوا کئی قسم کی ہوتی ہیں کبھی تو ان کی شکل خوبصورت ہوتی ہے اور کبھی ان کے اخلاق اور ان کا علم و عقل و غیرہ خصائل و قو تیں اچھی ہوتی ہیں.اس لئے ان سے لوگ محبت کرتے ہیں دوسرا سبب محبت پیدا کرنے کا احسان ہوتا ہے اور بہت سے تعلقات محبت احسان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں چنانچہ ماں باپ سے محبت کا ایک بہت بڑا باعث ان کے احسانات بھی ہوتے ہیں جو وہ بچہ کے پیدا ہونے سے لے کر اس کے بر سر کار ہونے تک اس پر کرتے ہیں.اسی طرح

Page 273

اسلام اور دیگر مذاہب ایک ملازم اپنے محسن آقا سے محبت کرتا ہے اور ایک آتا اپنے وفادار خادم سے محبت کرتا ہے اور وفا بھی ایک قسم احسان کی ہی ہوتی ہے کیونکہ وفا احسان کے بدلہ کا نام ہے اور احسان کا بدلہ سوائے احسان کے اور کیا ہو سکتا ہے.اسی طرح خاوند اور بیوی کی محبت ہوتی ہے کہ وہ بھی حسن و احسان دونوں ذرائع سے پیدا ہوتی ہے.غرض جس قدر محبت کے تعلقات ہوتے ہیں وہ تو سب کے سب حسن اور احسان سے متفرع ہوتے ہیں چنانچہ بھائیوں کی محبت بھی انہیں دو ذرائع.سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ یہ محبت طفیلی ہوتی ہے اور دراصل اس کا باعث وہ تعلق ہے جو اولاد کو ماں باپ سے ہوتا ہے اور چونکہ بھائی بہن ایک محبوب کے محبوب بلکہ جزو بدن ہوتے ہیں اس لئے بالطبع ایک بھائی دوسرے بھائی یا بہن سے محبت کرتا ہے اور بہت دفعہ نہیں جانتا کہ اس محبت کا باعث کیا ہے.غرض محبت کا باعث یا تو حسن ہوتا ہے یا احسان.اور احسان کا تعلق پھر دو تم پر منقسم ہے یا تو کسی کے احسان کی وجہ سے ایک شخص سے محبت کی جاتی ہے یا اپنی محسن طبیعت کی وجہ سے کوئی شخص دوسرے سے محبت کرتا ہے اور یہ محبت رأفت و شفقت ہوتی ہے جو اس کی اپنی محسن طبیعت کا نتیجہ ہوتی ہے جب ہم انسانی فطرت کا اور بھی گہرا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ بعض آدمیوں کے اندر تو یہ تینوں خاصے پائے جاتے ہیں یعنی ان کے تعلقات تینوں قسم کے ہوتے ہیں بعض خوف سے بعض محبتِ حسن سے بعض محبتِ احسان سے لیکن بعض کے اندر ان تینوں خاصوں میں سے ایک یا دو بعض وجوہ سے تلف بھی ہو جاتے ہیں یعنی وہ صرف حسن یا صرف احسان یا صرف خوف کے جذبات سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے جذبہ کا ہیجان ان کے اندر نہیں ہوتا.بہت سے لوگ ایسے دیکھے جائیں گے کہ جب تک محبت سے ان سے کام لیتے رہو وہ خوشی سے کریں گے.ذرا ان پر سختی کر دیا رعب بٹھاؤ وہ نور امقابلہ کیلئے کھڑے ہو جائیں گے.بعض لوگ محبت کے دونوں بواعث یعنی حسن یا احسان کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کریں گے لیکن خوف سے فورا مطیع ہو جائیں گے.انسانی فطرت کے اس مطالعہ کے بعد ہمیں لا محالہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہی تعلیم ہر ایک زمانہ اور ہر ایک ملک اور ہر ایک انسان کے لئے مفید ہو سکتی ہے جس میں ان تینوں جذبات کو ہیجان میں لا کر تعلق پیدا کرنے کی صورت کی جائے اور اگر کوئی مذہب ایسا ہے جو صرف خدائے تعالیٰ کے حسن پر زور دیتا ہے اور ایسی محبت کی طرف انسان کو بلاتا ہے جس کا باعث کوئی خواہش یا طلب انعام نہ ہو اور کسی بدلہ کی امید جس کے ساتھ نہ ہو تو وہ ایک انسانی گروہ کا تو لحاظ کر لیتا

Page 274

انوار العلوم جلد ۲۴۷ اسلام اور دیگر مذاہب ہے لیکن دو دو سرے گروہوں کا جو احسان یا خوف کے بغیر تعلق نہیں پیدا کرتے اور نیک یا بد کسی نہ کسی سبب سے ان کے اندر وہ جذبہ مرگیا ہے جو صرف حسن سے محبت کو جوش میں لاتا اور اس طرح تعلق پیدا کراتا ہے تو ایسے لوگ اس مذہب کے ذریعہ سے ہرگز خدائے تعالی تک نہیں پہنچ سکتے اور ضرور ہے کہ ان کی طبیعت اپنا علاج نہ پا کر دین سے بیزار ہو جائے اور اس طرح ہمیشہ کی ہلاکت میں گر جائے.اسی طرح اگر کوئی مذہب صرف احسان پر زور دیتا ہے اور اللہ تعالٰی کے ان انعامات کی طرف متوجہ کر کے اس کا تعلق اس سے قائم کرنا چاہتا ہے جو وہ اپنے سے تعلق رکھنے والوں کو دیتا ہے تو یہ مذہب بھی ایک طرف جھک جاتا ہے اور میانہ روی کو ترک کر دیتا ہے اور وہ طبائع جو حسن و خوف سے تعلق پیدا کیا کرتی ہیں ان کی بیماری کا علاج اس مذہب میں نہیں اور ایسی تمام طبائع اس مذہب کے ذریعہ سے خدائے تعالی تک نہیں لائی جا سکتیں اسی طرح اگر کوئی مذہب خوف خدا پر ہی زور دیتا ہے تو اسے ایسی بھیانک شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے کہ اس سے قطعا کسی بخشش اور رحم کی امید نہیں تو بے شک وہ لوگ جو خوف کا اثر اپنے دل میں قبول کرتے ہیں اس مذہب کے ذریعہ سے کچھ فائدہ اٹھا ئیں تو اٹھا ئیں لیکن وہ طبائع جو محبت سے تعلق پیدا کرنے کی عادی ہیں کبھی اس مذہب سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں اور جو لوگ خوف سے تعلق پیدا کرتے ہیں ان کا تعلق در حقیقت ایک عارضی تعلق ہوتا ہے اور ان انعامات کا ہرگز مستحق نہیں بناتا جن کا مستحق تعلق محبت بناتا ہے پس وہ مذہب جو خدا محبت ہے کہہ کر دنیا کی اصلاح کرنا چاہتا ہے.اور صرف ایک عقیدہ پر ایمان لانے پر نجات کو منحصر کرتا ہے اور اعمال کے پہلو کو بالکل بھلا دیتا ہے کبھی کل بنی نوع انسان کیلئے کافی نہیں ہو سکتا کیونکہ بہت ہیں جو صرف ایمان پر اپنا مدار رکھ کر اپنی خونی طبیعت کے نیچے دب جائیں گے اور خدا کی محبت خواہ کیسے ہی اعلیٰ سے اعلیٰ رنگ میں ان کے سامنے پیش کی جائے وہ اس سے متاثر نہ ہوں گے اور اسی طرح خدا سے دور جا پڑیں گے جیسے کہ وہ بد بخت جو اپنے ماں باپ کے احسانات کو دیکھتے ہوئے پھر ان کے خلاف بغاوت کرتے ہیں.اسی طرح وہ مذہب جو کہتا ہے کہ خدا تعالی ایسا یک طرفہ معاملہ کرتا ہے کہ اس نے اپنا تمام تعلق ایک قوم سے مخصوص کر دیا ہے اور اس کے سب چیدہ انعامات صرف ایک خاص نسل کے ساتھ وابستہ ہونے پر ملتے ہیں کبھی سب دنیا کی اصلاح کرنے والا مذہب نہیں ہو سکتا کیونکہ ایسا مذہب خدائے تعالیٰ کے متعلق انسانوں کے دلوں میں نفرت پیدا کرتا ہے نہ محبت پھر اسی طرح وہ مذہب جو خدائے تعالیٰ کے

Page 275

۲۴۸ اسلام اور دیگر مذاہب متعلق یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ وہ کبھی کوئی گناہ نہیں بخشا اور نہ بخش سکتا ہے وہ گو زبان سے سے باپ یا ماں یا اس سے بھی زیادہ مہربان کے لیکن ایسا مذ ہب اس خالق فطرت کی طرف سے نہیں ہو سکتا جس نے انسانوں کے دلوں میں بھی ایسا ر تم پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے گناہ گاروں کو بخشتے ہیں حالانکہ ان کے دشمنوں نے ان کافی الواقعہ نقصان کیا ہوتا ہے لیکن کبھی انسان کے کسی فعل سے خدائے تعالی کا کوئی نقصان نہیں ہوتا.اسی طرح وہ مذہب جو کہتا ہے کہ خدائے تعالیٰ انسان کے گناہوں میں سے نجات دیتے وقت بعض گناہ رکھ لیتا ہے اور ان کی سزا میں پھر اسے دار العمل کی طرف واپس کرتا ہے کبھی خدائے تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کا باعث نہیں ہو سکتا کیونکہ اس عقیدہ سے خدائے تعالی سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور ساتھ ہی مایوسی پیدا ہو کر انسان گناہوں پر اور بھی دلیر ہو جاتا ہے.پس در حقیقت وہی مذہب تمام دنیا کیلئے ہو سکتا ہے جو ان تمام باتوں میں میانہ روی اختیار کرتا ہے اور ایک طرف تو خدائے تعالیٰ کا حسن پیش کر کے دنیا سے محبت کا خراج لیتا ہے اور اس کے احسانات قدیم و جدید یاد دلا کر اس کے جذبہ محبت کو ابھارتا ہے.اور دوسری طرف اس کی عظمت اس کے جبروت اس کی بدیوں سے نفرت کا نقشہ کھینچ کر اسے اس سے تعلق پیدا کرنے پر مجبور کرتا ہے.اور یہ مذہب صرف اسلام ہی ہے.چنانچہ قرآن کریم کی سب سے اسلام میں ہر طبیعت کے انسان کا علاج موجود ہے پہلی سورۃ میں جسے مسلمان ہر نماز میں پڑھتے ہیں اسی مضمون کو ادا کر کے ہر طبیعت کے انسان کا علاج کیا گیا ہے چنانچہ اس میں اللہ تعالیٰ بندہ کی طرف سے حکایہ فرماتا ہے بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ الرَّحْمَنِ الرَّجِيمِ مِلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی میں شروع کرتا ہوں خدا کا نام لے کر جو رحمن ہے رحیم ہے سب خوبیاں اور سب حسن اور سب خوبصورتیاں جو کسی تعریف کی مستحق ہیں اور انسان کے دل سے کسی چیز کی تعریف نکلوا سکتی ہیں وہ سب کی سب خدائے تعالیٰ میں جمع ہیں پھر وہ صرف حسین ہی نہیں بلکہ محسن بھی ہے وہ رب ہے تمام جہانوں کا کہ اس نے تمام مادہ اور ارواح پیدا کی ہیں اور پھر ان کی انفرادی یا اجتماعی حالتوں میں ان کی خبر گیری کرتا ہے اور ہر ایک قسم کی تربیت کر کے ان کی طاقتوں اور قوتوں کو نشو و نما دے کر کمال تک پہنچاتا ہے وہ ایسا مہربان ہے کہ خدمت کا بدلہ ہی نہیں دیتا بلکہ بلا کسی کام یا خدمت کے اپنے پاس سے بھی بندہ پر اپنے فضل کی بارش کرتا ہے اور اسی پر بس نہیں.

Page 276

انوار العلوم ۲۴۹ اسلام اور دیگر نے اہب جو لوگ ان فضلوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جو اس کی طرف سے ملتے ہیں اور ان کو صحیح طور پر اور ایسے مواقع پر استعمال کرتے ہیں جہاں ان کا استعمال کرنا مناسب ہے تو وہ اس فعل پر اور بھی فضلوں کی بارش کرتا ہے اور جس قدر انسان کام کرے اس کا بدلہ دے کر پھر زائد انعام دیتا ہے اور وہ جزاء و سزا کے دن کا مالک ہے یعنی نہ صرف یہی کہ نہایت حسین اور محسن ہے بلکہ انسان کے تمام افعال کا ایک وقت مقررہ پر وہ جائزہ بھی لیتا ہے اور پھر اپنے مالکانہ اقتدار کے ساتھ نیک کو انعام اور شریر کو سزا دیتا ہے.اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی.مالک کے لفظ میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ اس کا انعام بھی بڑا ہوتا ہے اور اس کی سزا بھی سخت ہوتی ہے کیونکہ جو مالک نہ ہو اس کی سزا سے انسان بچ جاتا ہے جیسا کہ بادشاہ کسی کو سزا دینے لگے اور وہ مر جائے یا کسی تکلیف کے عذاب کے خیال سے خود کشی کر لے تو اس بادشاہ کی سزا سے وہ بچ جائے گا لیکن فرمایا کہ ہم مالکانہ اقتدار رکھتے ہیں اور ہمارے قبضہ سے نکل جانا کسی کی طاقت میں نہیں پس اگر تمہارے لئے کوئی اور بات ہم سے تعلق پیدا کرنے کا باعث نہیں ہو سکتی تو اس بات کا خیال رکھو کہ ہم حکم عدولی پر سزا بھی سخت دیتے ہیں چنانچہ آگے فرمایا اِيَّاكَ نَعْبُدُ و إيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی بندہ جب ان تمام صفات پر غور کرتا ہے تو خواہ کسی خیال اور کسی طبیعت کا انسان ہو حسن پر شیدا ہو جانے والا ہو یا احسان پر یا خوف سے ماننے والا ہو.وہ اپنی طبیعت کے مطابق سورۃ فاتحہ میں علاج پالیتا ہے اور بے اختیار ہو کر کہہ اٹھتا ہے کہ اے خدا ! میں تیری ہی فرمانبرداری کرتا ہوں یعنی جب وہ سب باتیں جن کی وجہ سے کسی ہستی ہے محبت اور پیار کیا جاتا ہے تجھ میں پائی جاتی ہیں تو پھر تیرے سوا اور کس سے میں تعلق پیدا کر سکتا ہوں.ان الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن جب کامل تعلق اللہ تعالٰی سے پیدا کر لیتا ہے تو اس کی محبت اور خوف دونوں اس سے وابستہ ہو جاتے ہیں اور آئندہ نہ محبت میں نہ خوف میں خدائے تعالی کا شریک کسی کو نہیں کرتا اگر وہ کسی چیز سے محبت کرتا ہے تو خدا کیلئے اور خدا میں ہو کر اور اگر وہ خوف کرتا ہے تو خدا کے حکم سے اور انہی سے جن کی نافرمانی سے بچنے کا اس نے حکم دیا ہے.اور چونکہ جب ان صفات کاملہ پر انسان غور کرے تو وہ محبت یا خوف کی وجہ سے بے اختیار ہو جاتا ہے اور محبت و خوف اس پر اس قدر حاوی ہو جاتے ہیں کہ وہ اب اپنی ذات کو حقیر اور اللہ تعالیٰ کے سامنے بالکل بے جان خیال کرتا ہے.اس لئے اس خیال کی ترجمانی کرنے کے لئے ساتھ ہی فرما دیا کہ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ یعنی آپ کے اس حسن اور احسان اور اس طاقت و جلال.

Page 277

العلوم جلد - ۳ ۲۵۰ اسلام اور دیگر مذاہب کو معلوم کر کے ہم اپنے نفس پر بھروسہ نہیں کر سکتے کہ وہ ان لوازمات محبت اور تعلقات خوف کو پورا کر سکے گا جو آپ کے ساتھ تعلق میں ضروری ہیں اس لئے ہم آپ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ اس تعلق کو نباہنے کی ہمیں طاقت دے.غرض ان مختصر الفاظ میں خدائے تعالیٰ کے حسن اور احسان اور اس کے جلال کا ایسا نقشہ کھینچ دیا ہے کہ کسی ملک کسی قوم کسی تہذیب اور کسی زمانہ کے لوگ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور ہر ایک انسان جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا مطالعہ ان آیات پر نظر ڈال کر کرتا ہے جو ابھی بیان ہوئیں تو اس کا قلب اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.اس جگہ ضمنی طور پر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خوف کے تعلق کو کامل بنانے کا طریق گو خوف بھی ایک ذریعہ تعلق ہے لیکن یہ ذریعہ تعلق نہایت ادنی ہے کیونکہ خوف کا تعلق حقیقی تعلق نہیں ہو تا مگر اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض طبائع خوف کے بغیر تعلق پیدا نہیں کرتیں جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے پس ا اس تعلق کو کامل کرنے کا بھی ایک طریق قرآن کریم نے بتایا ہے اور خوف سے تعلق پیدا کرنا صرف ابتدائی ذریعہ رکھا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ بعض بچے جب سکول نہیں جاتے یا اور بعض فرائض ادا نہیں کرتے تو ان کے والدین جب معلوم کر لیتے ہیں کہ ہماری محبت اور ہمارا احسان ان کی بگڑی ہوئی طبیعت کی اصلاح نہیں کر سکتے تو وہ سختی سے کام لے کر ان کو مدرسہ بھیجتے ہیں اور کچھ مدت تک تو وہ اس ڈر اور خوف سے جو ان کے والدین ان کے دل میں پیدا کرتے ہیں مدرسہ جاتے رہتے ہیں لیکن اگر کوئی مہربان مدرس ہو تو وہ چند ہی دنوں میں ان کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر لیتا ہے اور پھر وہ خوف مبدل بہ محبت ہو جاتا ہے اور گو ان کے سکول میں جانے کے کی ابتداء خوف سے ہوئی تھی لیکن بعد میں خوف کی جگہ محبت اور ڈر کی جگہ پیار لیتا ہے اور ا اس طرح ان ناقص نتائج کا جو ایسی تعلیم سے نکلنے تھے جس کا محرک صرف خوف تھا اندیشہ جاتا رہتا ہے.بعینہ اسی طرح خدائے تعالیٰ بھی اپنے بندے سے سلوک کرتا ہے اور کو تمام بنی نوع انسان کی ہدایت کیلئے اور ان طبائع کو ہلاکت سے بچانے کیلئے جو بعض کمزوریوں کی وجہ سے ایسی مسخ ہو جاتی ہیں کہ صرف خوف سے ہی قریب آسکتی ہیں.اس شہنشاہ ارضی و سماء کا جلال اور اس کی گرفت کی سختی بھی انسان کو یاد کرائی گئی ہے لیکن اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ) الاعراف: ۱۵۷) میری رحمت اور میری بخشش ہر ایک چیز پر

Page 278

۲۵۱ اسلام اور دیگر نے اہب حاوی ہے اب اس آیت کے مضمون کو اس آیت کے مضمون سے ملا کر دیکھو تو معلوم ہو جائے گا کہ خوف صرف ایک ابتدائی ذریعہ رکھا گیا ہے ورنہ جب کوئی شخص خوف سے اللہ تعالی کی طرف آتا ہے تو وہ اپنی رحمت کی اس قدر بارش اس پر کرتا ہے اور اپنے افضال کے اتنے چھینٹے اسے دیتا ہے کہ گو اس کا بندہ اپنے تعلق کی بناء خوف پر ہی رکھے جاتا ہے لیکن آخر اس کے دل کی سختی دور ہو جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ پہلے خدائے تعالیٰ کے احسان اور پھر اس کے حسن کا ادراک اپنے دل میں پاتا ہے اور خوف کا تعلق محبت کے تعلق سے بدل جاتا ہے اور اس کا دل خدائے تعالی کے خوف سے پُر ہونے کی بجائے اس کی رحمت کی یاد سے پُر ہو جاتا ہے اور آخر رحمت ہی رحمت رہ جاتی ہے اور محبت ہی محبت جلوہ گر ہو جاتی ہے اور اگر خوف باقی رہتا ہے تو صرف اس بات کا کہ کہیں کسی فعل کی وجہ سے اس محبوب یکتا سے جدائی نہ ہو جائے.تعلق باللہ کے لئے جس تدبیر سے یہ مضمون جو اوپر بیان ہوا ہے.ان تدابیر کو ظاہر کرتا ہے جو اسلام نے اللہ تعالیٰ سے.اسلام نے کام لیا ہے دوسرے بندے کا تعلق پیدا کرنے اور پھر اسے مضبوط مذاہب اس کی نظیر لانے سے قاصر ہیں کرنے کیلئے کی ہیں اور ہر ایک شخص ایک ذرا سے غور سے معلوم کر سکتا ہے کہ کس طرح ان تدابیر میں میانہ روی سے کام لیا گیا ہے اور تمام وہ پہلو مد نظر رکھے گئے ہیں جن کے ذریعہ سے انسان کا تعلق خدائے تعالیٰ سے قائم ہو سکتا ہے لیکن اس مقابلہ میں جو تعلیم دوسرے مذاہب نے پیش کی ہے وہ ایسی وسیع اور تمام طبائع کے مطابق نہیں مثلاً یہودیت نے خدائے تعالیٰ کو نہایت ہیبت ناک شکل میں پیش کیا ہے اور اس کی غضب اور انتقام کی خواہش پر بہت زور دیا ہے جس کی یہ وجہ تھی کہ بنی اسرائیل فرعون کی ماتحتی میں رہ کر جو ایک ظالم بادشاہ تھا اس بات کے عادی ہو گئے تھے کہ خوف اور ظلم سے ہی بات مانتے تھے پس ان پر خدائے تعالیٰ کا جلوہ گرجوں اور زلزلوں کے رنگ میں ہوا لیکن آہستہ آہستہ ان کی طبیعت کی اصلاح ہو گئی اور کچھ مدت کے بعد تو ان خیالات نے ان پر حد سے زیادہ تصرف کر لیا.پس ضرورت تھی کہ اس وقت کے حالات کے ماتحت حضرت مسیح محبت کا پیام لاتے اور روح القدس کبوتری جیسے نرم طبیعت اور حلیم جانور کی شکل میں ظاہر ہوتا اور اللہ تعالیٰ کی محبت پر زور دیا جاتا تا ان غلط خیالات کی اصلاح ہو جو خدائے تعالی کی سخت گیری منتقم طبیعت کے متعلق ان کے اندر پھیل گئے تھے چنانچہ اس وقت کے نقص کا علاج اسی

Page 279

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۵۲ اسلام اور دیگر نے اہب طرح کیا گیا لیکن جب ایک مدت کے بعد مسیحیوں کا میلان بالکل دوسری طرف ہو گیا اور وہ ہے اعمال سے غافل ہونے لگے تو پھر ایک اور شریعت کی ضرورت ہوئی اور یہی حال دیگر مذاہب کا ہے کہ ان میں سے کسی مذہب میں ضرور تا خدائے تعالی کے غضب اور انتقام کی صفات پر زور دیا گیا ہے اور کسی میں اس کی محبت اور پیار پر اور چونکہ یہ تمام تعلیمیں وقتی تھیں جب حالات بدل گئے تو بجائے نفع رسانی کے نقصان دہ ہو گئیں اور اب چونکہ وہ وقت آگیا تھا جسے اللہ تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے ایک کامل اور عالمگیر مذہب کیلئے پسند فرمایا تھا اس لئے نبیوں کے سردار اور نیکیوں کے پیشوا محمد ﷺ پر وہ وحی نازل کی گئی جو ایسی جامع اور مانع تھی کہ کسی طبیعت اور کسی تعلیم اور کسی تہذیب کے آدمیوں کی ضرورت اس میں نظر انداز نہیں کی گئی اور نہ کوئی غیر ضروری اور وقتی بات اس میں داخل کی گئی.پس ہم ان نادانوں کی طرح جو اپنے خبث کا اظہار خدائے تعالیٰ کے پاک بندوں کو گالیاں دے کر کرتے ہیں یہ نہیں کہتے کہ اسلام سے پہلے کے سب مذاہب جھوٹے تھے بلکہ ہم ان کو سچا تسلیم کرتے ہیں.ہاں واقعات اور حق کی محبت ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ جو جامعیت اسلام میں ہے وہ کسی مذہب میں نہیں اور یہ کہ اسلام کے آنے کے بعد اب اور کسی مذہب کی ضرورت نہیں.ان مذاہب نے خدائے تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کے لئے جو تدابیر اختیار کی تھیں وہ اپنے وقت کے مطابق رست تھیں لیکن اب اس زمانہ میں جبکہ تمدن کی ترقی نے سب دنیا کو ایک کر دیا ہے اور انسانی تو علوم بہت ترقی کر چکے ہیں وہ انسان کی ہدایت کیلئے کافی نہیں ہو سکتیں اور اس وقت اسلام ہی تو ہے جو اپنی بے عیب تعلیم کی وجہ سے تمام دنیا کی ہدایت کر سکتا ہے اور جس کی تعلیم کسی خاص بات پر زور نہیں دیتی بلکہ تمام ضروری ہدایتوں کو کھولتی اور شرح کرتی ہے.مختلف مذاہب اپنے اندر مختلف صداقتیں رکھتے ہیں لیکن کوئی ایسا مذہب نہیں جو یکجائی طور پر ان تمام خوبیوں کا جامع ہو جو اسلام کے اندر پائی جاتی ہیں پس آج روئے زمین پر سوائے اسلام کے اور کوئی ایسا مذہب نہیں جو انسان کا تعلق خدائے تعالیٰ سے پیدا کرا سکے اور اب جبکہ اللہ تعالیٰ نے کامل شریعت بھیج دی ہے تو اس نے اپنی رضا کے اظہار کے لئے اسلام کے سوا اور تمام دروازے بند کر دیئے ہیں اور کوئی شخص اب خدائے تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ اسلام کا جوا اپنی گردن پر نہ اٹھائے.افسوس ہے کہ قلت وقت کی وجہ سے اس موضوع پر بالتفصیل بحث نہیں ہو سکتی ورنہ اور بہت سی مثالوں کے ساتھ بتایا جاتا کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق قائم کرنے کے

Page 280

رالعلوم جلد ۲۵۳ اسلام اور دیگر نے اجب لئے اسلام نے کونسی ایسی تدابیر اختیار کی ہیں کہ جن کی نظیر لانے سے اور سب مذاہب قاصر ہیں.دوسرا حصہ شفقت على خلق الله ہے جیسا کہ میں اوپر بتا آیا ہوں اللہ تعالٰی سے بندے کا تعلق قائم کرنے کے علاوہ مذہب کا ایک اور بھی کام ہے اور وہ اپنے پیروان کو شفقت علی خلق اللہ کی تعلیم دیتا ہے چنانچہ پہلے حصہ - فارغ ہو کر میں اس کے متعلق اسلام کی تعلیم بیان کرتا ہوں.شفقت علی خلق اللہ کے مضمون کے بڑے بڑے حصے تین ہیں اول انسان کا معالمہ اپنے نفس سے.دوم انسان کا معاملہ دوسرے انسانوں سے.سوم انسان کا معاملہ دوسرے حیوانوں سے چنانچہ ان تینوں حصوں میں سے سب سے پہلے میں اس مضمون پر کچھ بیان کرتا ہوں کہ اسلام نے انسان کو اپنے نفس کے ساتھ کیسا معاملہ کرنے کا حکم دیا ہے.مختلف مذاہب نے بنی نوع انسان کے آپس کے سلوک انسان کا معاملہ اپنے نفس سے کے متعلق تو بہت کچھ کہا ہے لیکن اس کے متعلق کہ انسان کو اپنے نفس کے ساتھ کیا معاملہ کرنا چاہئے بہت کم مذاہب میں کوئی تعلیم پائی جائے گی ا سوائے اسلام کے کہ اس نے اس امر پر بھی نہایت تشریح کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور علاوہ ان روحانی طریقوں کے بتانے کے جن کے ذریعہ انسان خدائے تعالی تک پہنچ سکتا ہے انسان کو اس بات کی طرف بھی متوجہ فرمایا ہے کہ اسے اپنے نفس کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہئے اور یہ معاملہ ایسا ضروری اور زبردست ہے کہ اس پر روشنی ڈالے بغیر کوئی مذہب کامل نہیں ہو سکتا کیونکہ جب تک انسان کو یہ نہ بتایا جائے کہ وہ اپنے نفس سے کیسا معاملہ کرے تب تک اس کی کامل طور پر اصلاح نہیں ہو سکتی کیونکہ جسم کا روح پر بڑا اثر پڑتا ہے اور جسم کی مختلف حالتوں سے روح متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی شخص کے جسم پر چوٹ آئے تو اس کی روح کو بھی اس سے سخت صدمہ پہنچتا ہے اور انسان کا دل مغموم ہو جاتا ہے اور بارہا ایسا ہوتا ہے کہ سخت چوٹ سے انسان کے حواس میں فرق آجاتا ہے اور کبھی سخت غم کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بدن گھلنے لگتا ہے اور انسان چند گھنٹوں کے اندر ضعیف ہو جاتا ہے چنانچہ

Page 281

انوار العلوم جلد.۲۵۴ اسلام اور دیگر مذاہب ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں کہ کسی شخص کو کوئی سخت صدمہ پہنچا تو چند گھنٹوں یا چند دنوں کے اندر اس کے بال سفید ہو گئے.غرض ہمارا تجربہ ہمیں بتاتا ہے کہ جسم و روح کو خدائے تعالٰی نے ایسا ایک دوسرے سے پیوستہ کیا ہے کہ ایک کا اثر دوسرے پر فورا پڑتا ہے پس جب کہ جسم و روح کے قرب کی یہ حالت ہے تو ضرور ہے کہ جو حالت جسم کی ہوگی وہی حالت روحانی ترقیات کی ہوگی اور جو مذہب کہ انسان کو یہ نہیں بتاتا کہ اسے اپنے جسم کے ساتھ کیسا معاملہ کرنا چاہئے وہ در حقیقت انسان کو منجدھار دیتا ہے کہ تا ہلاک ہو اور جو مذہب اس کے متعلق ادھوری تعلیم دیتا ہے وہ بھی کسی خاص حالت میں تو درست ہو سکتی ہے لیکن ہر انسان کے لئے نہیں بلکہ اغلب ہے کہ بہتوں کی ہلاکت کا باعث ہو چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض مذاہب کی یہ تعلیم ہے کہ جسم کو جس قدر بھی دکھ دیا جائے اسی قدر روحانیت میں ترقی ہوتی ہے.اس کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ان کے پیروان اپنے پورے زور سے اپنی جسمانی طاقتوں کو توڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے ذرائع استعمال کرتے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے وہ اپنے جسم کو بالکل تباہ کر دیں چنانچہ بعض لوگ گرمی کے دنوں میں ہر وقت آگ کا آلاؤ لگا کر اس کے اندر بیٹھے رہتے ہیں اور اس طرح اپنے جسم کی تمام طاقتوں کو اپنے ہاتھوں سے زائل کر دیتے ہیں.اسی طرح سردی میں ٹھنڈے پانی میں کھڑے رہتے ہیں.بعض سورج کے نکلتے ہی اس کی طرف ٹکٹکی لگا کر کھڑے رہتے ہیں اور اس طرح اس منور دن کو جو خدائے تعالیٰ نے کام کرنے کے لئے پیدا کیا ہے ضائع کر دیتے ہیں بعض ہر وقت ٹانگیں اوپر کر کے اور سر نیچے کر کے لٹکے رہتے ہیں اور اسی کو بڑی خوبی خیال کرتے ہیں.بعض اپنے آپ کو خصی کرا کے انسانیت کے دائرہ سے باہر نکال دیتے ہیں.بعض نفس کشی کے نام سے ہر قسم کی طیبات سے پر ہیز کرتے ہیں اور گل لطیف غذا ئیں ترک کر دیتے ہیں اور اگر کوئی لطیف نے کھاتے بھی ہیں تو اس کے اندر کچھ ایسی چیز ملا دیتے ہیں جیسے راکھ وغیرہ اور اس طرح اپنا نفس مارتے ہیں بعض لوگ ہر وقت خاموش رہتے ہیں اور اس طرح خدائے تعالیٰ کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں.بعض نجاستیں کھا لیتے ہیں.بعض مردہ انسان کا گوشت کھاتے ہیں.بعض ہر روز روزہ رکھتے ہیں.بعض لوگ یہ نیت کر لیتے ہیں کہ ساری عمر شادی نہیں کریں گے اور بہت سے مرد اور عورتیں اپنی عمریں اسی طرح گزار دیتے ہیں.بعض لوگ نہانا اور ناخن کتروانا وغیرہ صفائی کے کام چھوڑ دیتے ہیں غرض اس قسم کے سینکڑوں کام ہیں جو مختلف مذاہب میں بتائے گئے ہیں اور انہیں پسند کیا جاتا

Page 282

العلوم جلد ۳۰ ۲۵۵ اسلام اور دیگر مذاہب ہے اور ان کے کرنے والوں کو خدائے تعالی کا برگزیدہ اور پیارا انسان سمجھا جاتا ہے.لیکن در حقیقت یہ ایک ظلم ہے جو یہ لوگ اپنی جان سے کرتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالی کی نعمتوں کی ناشکری کرتے ہیں جبکہ خدائے تعالٰی نے ہاتھ پکڑنے کیلئے اور زبان بولنے کیلئے اور آنکھیں نے کیلئے اور پاؤں چلنے کیلئے دیئے ہیں اور یہ اعضاء اس کے انعامات میں سے ہیں.تو کیسا قابل ملامت ہے وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کے ان انعامات کو ضائع کر دیتا ہے اور ان کی قدر نہیں کرتا.ایسا شخص تو اللہ تعالٰی کی بہتک کرتا ہے کیونکہ اس کی دی ہوئی نعمت کو حقارت سے پھینک دیتا ہے کہ میں نہیں لیتا اور خود اپنے نفس پر بھی ظلم ہے کہ اسے بے وجہ اور بے فائدہ ایسی تکالیف دی جاتی ہیں کہ جن کا کوئی فائدہ نہیں.اسی طرح جو لوگ ساری عمر بغیر شادی کے رہنے کا عہد کرتے ہیں یا ان طاقتوں کو ضائع کر دیتے جن سے نسل انسانی چلتی ہے وہ اپنے نفوس پر ظلم کرتے ہیں کہ انہیں ان پاک جذبات سے روکتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر رکھے تھے ایسے فعل کبھی خدائے تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نہیں ہو سکتے کیونکہ جو اس کی نعمت کو رد کرتا ہے وہ کبھی اس کا پسندیدہ نہیں ہوتا.اسی طرح جو لوگ طیبات کو چھوڑ دیتے ہیں یا نجاستوں کا استعمال کرتے ہیں وہ بھی اپنے نفس پر ایسا ظلم کرتے ہیں کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں اور یہ سب لوگ اپنے آپ کو ایسے حالات میں ڈال دیتے ہیں کہ جن سے اکثر بجائے شیطان سے بچنے کے وہ شیطان کے پھندے میں پھنس جاتے ہیں کیونکہ جو شخص اپنے جسم کو سخت صدمہ پہنچاتا ہے.اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس کی روح کو بھی اس سے صدمہ پہنچ جائے گا اور یا تو اس کے دماغ میں بلادت پیدا ہو جائے گی کہ وہ باریک مسائل کو سمجھ ہی نہیں سکے گا اور یا جنون کا کوئی شعبہ اس کے اندر پیدا ہو جائے گا جس کی وجہ سے وہ ان انعامات سے قطعی محروم ہو جائے گا جو خدائے تعالی کی عبادت کرنے والوں کے لئے مقرر ہیں.چنانچہ خدائے تعالیٰ کے جس قدر برگزیدے دنیا میں گزرے ہیں ان کی نسبت صحیح تواریخ سے ہرگز ثابت نہیں ہوتا کہ ان میں سے ایک نے بھی اپنی طاقتوں کو اس طرح ضائع کر دیا ہو.ہاں ممکن ہے کہ انہوں نے بعض لوگوں کے اندر جذبات کا سخت جوش دیکھ کر ان کے جوش کے کم کرنے کی وقتی ضرورت دیکھ کر ان کو بعض ایسی سخت ریاضتیں کرنے کا حکم دے دیا ہو؟ لیکن ایک عالمگیر مذہب میں کسی ایسی تعلیم کا گزر نہیں ہو سکتا کیونکہ اس تعلیم کا پھیلانا نوع انسان کو ان تمام ترقیات سے محروم کر دینا ہے جو وہ ان علوم کے ذریعہ سے کر رہی ہے جو خدائے تعالیٰ نے اسے عنایت فرمائے ہیں.ذرا

Page 283

لوم جلد ۳ ۲۵۶ اسلام اور دیگر مذاہب خیال تو کرو کہ اگر کسی ملک کے سب لوگ سب کچھ چھوڑ کر درختوں میں رسیاں ڈال کر الٹے لٹکنے لگ جائیں یا جنگل کاٹ کاٹ کر اپنے ارد گرد آگ کے الاؤ لگا لگا کر سب اس کے اندر بیٹھ جائیں یا سب مرد و عورت یہ عہد کرلیں کہ فلاں او تاریا نبی کی خاطر ساری عمر مجرد رہیں گے اور نکاح نہ کریں گے تو اس قوم یا اس ملک کا کیا حشر ہو گا.کیا اس میں کوئی شک ہے کہ چند ہی سال میں وہ ملک برباد ہو جائے گا اور انسان کی بجائے درندے اسکے شہروں میں بسیرا کریں گے اگر اللہ تعالی نے انسان کے اندر ایسے جذبات نہ رکھے ہوئے ہوتے جو انسان کو ان ریاستوں سے روکتے ہیں تو شاید بہت سی قومیں ایسے تجربوں کے ذریعہ ہلاک ہو جاتیں مگر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے اپنے بندوں کی حفاظت کیلئے خود ان کے اندر ہی ایسے سامان پیدا کر دیئے ہیں جو اکثروں کو ہلاک ہونے سے بچا لیتے ہیں.علاوہ اس کے کہ انسان کا اپنے نفس سے وہ معاملہ کرنا جو اوپر بیان ہوا ایک ظلم عظیم ہے اور سوسائٹی کے حقوق کا اتلاف ہے بلکہ خدائے تعالیٰ کی نعمتوں کا رد کرتا ہے.اس قسم کی ریاضتوں کا یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ نفس انسانی ایسا کمزور ہو جاتا ہے کہ اس کے اندر بد خیالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی چنانچہ یہ ایک ثابت شدہ امر ہے کہ جب انسان کمزور ہو جاتا ہے تو وہ اپنے خیالات و توہمات کا جلد شکار ہو جاتا ہے پس ایسی ریاضتوں کے ذریعہ سے جسم کی طاقت کو توڑ دینے کا نتیجہ بہت دفعہ یہی نکلتا ہے کہ انسان بجائے گناہ سے بچنے کے گناہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جس اژدہا سے بھاگنا چاہتا تھا اس کے مونہہ میں چلا جاتا ہے اور جو لوگ اپنے آپ کو ان نعماء سے بکلی روکنا چاہتے ہیں جو خدائے تعالیٰ نے انسان کے استعمال کے لئے پیدا کی ہیں وہ حلال ذرائع سے تو محروم ہو جاتے ہیں لیکن بہت دفعہ اپنے طبعی جوشوں سے مغلوب ہو کر حرام خوری اور حرام کاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں.غرض انسان کا اپنے جسم کو سخت مشقتوں میں ڈالنا اپنے آپ پر ظلم کرنا ہے اور اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اور ان قیمتی طاقتوں کا ضائع کرنا ہے جو خدائے تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اسے دین و دنیا کی ترقی کے لئے عطا فرمائی تھیں.پس جو مذہب اپنے پیروؤں کو اس قسم کی تعلیم دیتا ہے وہ تفریط سے کام لیتا ہے اور نفس کے حقوق کو بلا وجہ روک کر اسے ہلاکت کے گڑھے میں گرا دیتا ہے اور ایسا مذہب کسی خاص وقت میں کسی خاص قوم کے لئے تو ممکن ہے کہ مفید ہو لیکن دنیا کی ہدایت کے لئے وہ ہرگز کار آمد نہیں ہو

Page 284

۲۵۷ اسلام اور دیگر نداہب اس تفریط کے مقابلہ میں بعض مذاہب نے افراط سے کام لیا ہے اور انہوں نے جسمانی ریاضتوں کو سرے سے ہی مضر اور لغو قرار دیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ جسم کو کسی ریاضت میں ڈالنا بالکل لغو اور فضول ہے اور اس میں سوائے نقصان کے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ خدائے تعالی کو کسی انسان کو تکلیف دینے یا اسے بھوکا پیاسا رکھنے سے کیا سروکار ہے اور اس عذر کے ماتحت انہوں نے تمام عبادات کو ترک کر دیا ہے.لیکن جس طرح ان مذاہب نے جنہوں نے نفس کو بلاوجہ دکھ میں ڈالنے اور تمام لذائذ و نعماء سے بچنے کی ترغیب دی ہے نفس کے حق میں تفریط سے کام لیا ہے اسی طرح اس جماعت نے اس کے حق کی ادائیگی میں افراط سے کام لیا ہے.کیونکہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جو لوگ طرح طرح کی دنیاوی لذتوں کے حصول میں مشغول رہتے ہیں اور ہر وقت اپنے جسم کی تربیت میں مشغول رہتے ہیں ان کا جسم اسقدر آرام طلب ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں روح بھی مست ہو جاتی ہے اور ایسے لوگوں کا رفتہ رفتہ قلب بھی سیاہ ہو جاتا ہے کیونکہ جسم انسان کی روح کے ساتھ وہی تعلق رکھتا ہے جو کہ ایک میوہ کا قشر اس کے مغز سے.اس میں کوئی شک نہیں کہ قشر خود مطلوب نہیں لیکن قشر کو جب مغز سے جدا کر دو گے تو وہ فور آیا کچھ دیر کے بعد بالکل برباد ہو جائے گا اسی طرح اگر عبادات میں جسم کو بھی شامل نہ کیا جائے تو ایسی عبادات جلد فنا ہو جاتی ہیں اور ایسے لوگ جو عبادت کا تعلق صرف قلب کے متعلق سمجھ کر یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف دل کی عبادت کافی ہے کچھ دنوں کے بعد ولی عبادت سے بھی محروم رہ جاتے ہیں کیونکہ تھوڑے ہی عرصہ میں ان کی روح کی تازگی جاتی رہتی ہے اور سستی اس پر غالب آجاتی ہے اور وہ اس طرح مرجھائی جاتی ہے جس طرح قشر سے الگ کیا ہوا مغز.اور اس بات کو اگر نظر انداز بھی کر دیا جائے تب بھی اس بات میں کوئی شک نہیں ہو سکتا کہ جس طرح انسان کی روح خدائے تعالیٰ کے احسان کے نیچے ہے اسی طرح اس کا جسم بھی ہے.پس روح اور جسم دونوں کو عبادت میں لگانا ہی انسان کو اس شکر گزاری کے فرض سے سبکدوش کر سکتا ہے جس کا بجالانا اس کے لئے نہایت ضروری ہے.اصل بات یہ ہے کہ انسان کا جسم مثل ایک سواری کے گھوڑے کے ہے جس پر سوار ہو کر انسان اس زندگی کے سفر کو طے کرتا ہے اور اس کو جب تک ایسی حالت میں نہ رکھا جائے جس سے ایک تو یہ چست و چالاک ہو جائے اور دو سری طرف ایسے دبلا پن سے محفوظ رہے کہ جس کا نتیجہ ہلاکت ہو تب تک کبھی انسان اپنے سفر زندگی کو عمدگی سے طے نہیں کر سکتا.کیا نہیں دیکھتے

Page 285

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۵۸ اسلام اور دیگر مذاہب کہ ہوشیار آقا کس طرح اپنے گھوڑے کو ایسا موٹا اور فربہ ہونے سے بچانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہو کہ وہ سفر کے ناقابل ہو جائے اسی طرح وہ اسے ایسا دبلا ہونے سے بھی بچاتا ہے کہ جس کا نتیجہ اس کی ہلاکت ہو یہی حال جسم کا ہے جب تک اس کے متعلق دونوں باتوں کا خیال نہ رکھا جائے انسان کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا یعنی ایک طرف تو اس سے اس قدر ریاضت کی جائے کہ وہ بالکل دنیا کی طرف نہ جھک جائے اور ضرورت کے وقت خدائے تعالی کے حکم کو بجالانے سے قاصر رہے اور دوسری طرف اسے اس قدر کمزور نہ کر دیا جائے کہ وہ اپنے دنیاوی فرائض سے بھی معذور ہو جائے اور قسم قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جائے اور اپنی کمزور حالت سے روح کو بھی صدمہ پہنچائے پس جو نہ ہب انسان کو اپنے نفس سے اس قسم کا سلوک کرنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ یادہ تفریط کی طرف چلا جاتا ہے یا افراط کی طرف وہ مذہب کامل نہیں کہلا سکتا اور نہ تمام دنیا کے لئے ایسا مذ ہب قابل عمل ہو سکتا ہے.اور وہی مذہب تمام دنیا کے لئے قابل عمل ہو سکتا ہے جو تمام انسانی ضروریات کو پورا کرنے والا ہو اور انسان کو ایسے راستہ پر چلائے جس پر چل کر وہ آسانی سے خدائے تعالی تک پہنچ جائے اور باوجود اس بات کا اقرار کرنے کے کہ تمام مذاہب خدائے تعالیٰ کی طرف سے ہی آئے ہیں میں یہ بات کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اگر کوئی مذہب اس مسئلہ پر کہ انسان کو اپنے نفس کے ساتھ کیسا معاملہ کرتا چاہئیے تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر اور کل طبائع کا خیال رکھ کر روشنی ڈالتا ہے تو وہ صرف اسلام ہی ہے.وہی ہے جو ایک طرف تو ایسے لوگوں کا خیال رکھتا ہے جو جسم کے نحیف اور صحت کے کمزور ہوتے ہیں تو دوسری طرف ان لوگوں کا علاج کرتا ہے جو اپنے جسم کی فربہی کی فکر میں اپنی روح کو بالکل بھلا دیتے ہیں چنانچہ قرآن کریم ایک قاعدہ کلیہ کے طور پر اس بارہ میں کہ انسان کو اپنے نفس سے کیسا معاملہ کرنا چاہئے یوں فرماتا ہے کہ وَلَا تُلْقُوا بِايْدِيكُمْ إِلَى التهلُكَةِ - (البقرة : (۱۹۶) یعنی تم لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے نفس کو ہلاکت میں نہ ڈالا کرو یعنی عبادات میں یا کھانے پینے میں یا محنت و مشقت میں یا صفائی و طہارت میں کبھی کوئی ایسی راہ نہ اختیار کرو جس کا نتیجہ تمہاری صحت یا تمہاری عقل یا تمہارے اخلاق کے حق میں برا نکلے.تهلكة کا لفظ جو اس آیت میں اللہ تعالی نے استعمال کیا ہے اس کے معنے کسی ایسے فعل کے ہوتے ہیں جس کا انجام ہلاکت ہو اس لفظ کے استعمال کرنے میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ تهلكة کے اصل معنے ایسا کام کرنے کے نہیں جس کا نتیجہ برا نکلے.پس اس لفظ کے

Page 286

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۵۹ اسلام اور دیگر مذاہب استعمال کرنے سے قرآن کریم نے اس طرف بھی اشارہ کر دیا ہے کہ اسلام دین یا عزت یا تمدن کی حفاظت کے لئے انسان کو اپنی جان خطرہ میں ڈال دینے سے نہیں روکتا بلکہ ایسے کاموں سے روکتا ہے جن کا کوئی نیک نتیجہ برآمد ہونے کی امید نہ ہو اور جن میں انسان کی جان یا کسی اور مفید شے کے بلاوجہ برباد ہونے کا خطرہ ہو.یہ تو ایک عام حکم ہے جس میں اصولاً انسان کو بتایا گیا ہے کہ اسے اپنے نفس سے کیسا معاملہ کرنا چاہئے لیکن اس کے علاوہ قرآن کریم و احادیث میں اس کے متعلق بہت سی تفاصیل بھی پائی جاتی ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ انسان کے کھانے اور پینے کے متعلق فرماتا ہے يَسْتَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ، قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَتُ - ( المائدة : (۵) یعنی لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کو کون کونسی اشیاء کھانے کی اجازت ہے تو اس کے جواب میں کہہ دے کہ ہر ایک چیز جو تمہارے جسم یا تمہاری عقل یا تمہارے اخلاق یا تمہارے دین کے لئے مضر نہیں وہ تمہارے لئے حلال ہے بے شک اس کا استعمال کرو.اسی طرح ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ آبَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُحَرِّمُوا طَيِّبَتِ مَا اَحَلَّ الله لَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ - (المائدة : (۸۸) یعنی اے مومنو! جو پاک اشیاء (جو کسی طرح بھی تمہارے لئے مضر نہیں) طلال کی گئی ہیں ان کو اپنے نفس پر کبھی حرام نہ کرد یعنی کبھی اپنے نفس سے عہد نہ کرو کہ فلاں چیز جو صحت بدن و سلامتی عقل و درستی اخلاق و حفاظت دین میں سے کسی شئے کے لئے بھی مضر نہیں صرف نفس کشی کے لئے ہم اپنے نفس پر حرام کرتے ہیں.اور اس کے علاوہ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اگر ایک طرف تم کو ان چیزوں کو اپنے نفس پر حرام کرنے کی اجازت نہیں تو دوسری طرف اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ تم اپنے نفس کو بس کھانے پینے ہی میں لگا دو اور دیگر فرائض کو بھول جاؤ.اگر ایسا کرو گے تو یہ فعل تمہارا حد سے نکلا ہوا ہو گا اور اللہ تعالیٰ حد سے بڑھ جانے اور ایک طرف ہی جھک جانے کو ہرگز پسند نہیں کرتا.اس آیت پر غور کرو کہ کھانے پینے کے متعلق کس طرح ایک طرف تو بلا وجہ اپنے نفس کو طیب اور پاک اشیاء سے محروم رکھنے سے منع کیا ہے اور دوسری طرف بالکل جسم کی پرورش میں ہی مشغول ہو جانے سے روکا ہے.کیا یہی وہ تعلیم نہیں کہ جو ہر ایک طبیعت اور ہر ایک ملک اور ہر ایک زمانہ اور ہر ایک ضعیف یا قومی انسان کے مناسب حال ہے پھر کیا اسلام کے سوا کوئی اور بھی مذہب ہے جس نے اس رنگ میں انسان کی ہدایت کی ہو.اگر نہیں تو کیا تو اس امر سے یہ بات پوری طرح ثابت نہیں ہو جاتی کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جو اس وقت

Page 287

انوار العلوم جلد.۳ ۲۶۰ اسلام اور دیگر مذاہب خدائے تعالی تک انسان کو پہنچا سکتا ہے اور جس کی تعلیم تمام بنی نوع انسان کو ہدایت دے سکتی ہے.مذکورہ بالا آیت کے علاوہ ایک اور آیت بھی کھانے پینے کے متعلق قرآن کریم میں آتی ہے اور وہ یہ ہے وَ كُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا - (الاعراف : (۳۲) یعنی کھاؤ اور پیو لیکن کھانے اور پینے میں اسراف نہ کر د یعنی ایسا نہ ہو کہ اپنی زندگی عمدہ کھانوں اور ٹھنڈے شربتوں کے لئے وقف کر دو بلکہ ضرورت کے مطابق ہر طیب چیز بے شک استعمال کرو.کھانے پینے اور باقی زینت اور آرام کی اشیاء کے لئے جو انسان اپنے آرام کے لئے استعمال کرتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِنَ اَخْرَجَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَتِ مِنَ الرِّزْقِ (الاعراف (۳۳) یعنی کہہ کہ کس نے حرام کی ہیں وہ زینت کی اشیاء جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے ا کی ہیں اسی طرح کس نے طیب رزق حرام کئے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب خدائے تعالیٰ نے کچھ اشیاء بطور زینت پیدا کی ہیں تو پھر کس کی طاقت ہے کہ ان اشیاء کو کوئی استعمال نہ کرے - اگر ان کا استعمال کرنا نا جائز تھا تو پھر خدائے تعالیٰ نے انہیں پیدا کیوں کیا؟ اسی طرح عبادت کے متعلق رسول کریم نے تاکید فرمائی ہے کہ اتنی عبادت کرو جس پر نفس راضی ہو اور جب نفس میں ملال پیدا ہونے لگے اسی وقت چھوڑ دو اور آپ کی نسبت یہ روایت ہے کہ آپ ایک دفعہ مسجد میں داخل ہوئے تو وہاں ایک رسی لٹکی ہوئی دیکھی.آپ نے دریافت کیا کہ یہ کیسی رہی ہے تو لوگوں نے جواب دیا کہ ام المومنین زینب نے اس لئے لٹکوائی ہے کہ جب وہ نماز میں مشغول ہوتی ہیں تو کبھی سخت نیند آئے تو اس پر سہارا لے لیتی ہیں.آپ نے فرمایا اس رسی کو ابھی کھول رو (بخارى كتاب التهجد باب يكره من التشديد في العبادة ، ایسی عبادت کی اجازت نہیں.اسی طرح روزوں کے متعلق عبد اللہ بن عمر کی روایت ہے کہ رسول الله الا اللہ کو اطلاع ملی کہ انہوں نے کہا ہے کہ میں ہمیشہ روزہ رکھوں گا تو اس پر آپ نے ان کو بلا کر فرمایا کہ یہ درست نہیں اور آخر ان کے بہت اصرار کرنے پر اس بات کی اجازت دی کہ ایک دن روزہ رکھ لیں اور ایک دن انظار کریں اور جب انہوں نے کہا کہ میں اس سے بھی بہتر روزوں کی طاقت رکھتا ہوں یعنی میں اس سے زیادہ برداشت کر سکتا ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اس سے بہتر کوئی روزہ نہیں یعنی اگر اس سے زیادہ کوئی انسان رکھے گا تو اس کی صحت کو صدمہ پہنچے گا اور نتیجہ اچھا نہ نکلے گا.غرض آپ نے آخر میں یہ کہہ کر ان کو رخصت کیا کہ اے عبداللہ تیرے جسم کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری آنکھ کا

Page 288

ر العلوم جلد ۳۰ ۲۶۱ اسلام اور دیگر مذاہب بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے.(بخاری کتاب الصیام باب صوم الدهر) اسی طرح جسم کے بعض اعضاء کے ضائع کرنے کی نسبت حدیث میں آتا ہے کہ جب بعض صحابہ نے ساری عمر مجرد رہنے کیلئے یہ تجویز کی کہ وہ اپنے آپ کو خصی کر لیں تو رسول کریم نے ان کو منع فرمایا اور شادی نہ کرنے کے خیال کو بھی رسول کریم نے ناپسند فرمایا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ لَا رَهْبَانِيَّةَ فِي الْإِسلام (المبسوط سرخی جلد ۱۰ صفحه (11) اسلام میں رہبانیت نہیں یعنی اسلام مسیحیوں کی طرح مانکس (Monks) اور ننز (Nuns) بننے کی اجازت نہیں دیتا.پچھلے تمام حوالہ جات سے آپ لوگوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ اسلام نے کس طرح شفقت علی خلق اللہ کے اس حصہ کے متعلق بھی کامل اور مکمل تعلیم دی ہے اور کس طرح افراط و تفریط سے اجتناب کر کے میانہ روی کی طرف مسلمانوں کو متوجہ کیا ہے اور ایسے احکام دیتے ہیں جو ہر زمانہ اور ہر ملک میں جاری ہو سکتے ہیں اور اگر ایک طرف جسم انسانی کو روح کا شریک حال کرنے کے لئے بلکہ روحانی طاقت کو بڑھانے کے لئے جسم کو بھی ریاضت اور عبادت میں شریک کیا ہے تو دوسری طرف اس کی تربیت کی ہے اور اس کی ضروریات کو پورا کرنے کا حکم دیا ہے اور اسلام نے تو یہاں تک صحت انسانی کا خیال رکھا ہے کہ ان مختصر سی عبادات میں بھی جو مسلمانوں کے لئے مقرر کی ہیں بیماری اور سفر کی حالت میں بہت کچھ سہولت رکھ دی ہے تاکہ کسی انسان پر وہ بوجھ نہ ہوں اور کسی کی طبعی قوتیں اور استعدادیں اس سے تباہ نہ ہو جائیں.پس اس حصہ شریعت کے متعلق بھی صرف اسلام ہی ایک ایسانہ ہب ہے جو ایسی کامل تعلیم پیش تو کرتا ہے جس پر تمام دنیا کے انسان عمل کر سکتے ہیں.دوسرے انسانوں سے سلوک دو سرا حصہ شفقت علی خلق اللہ کا وہ تعلیم ہوتی ہے جو کسی مذہب نے اپنے پیروؤں کو اپنے سوا دوسرے بنی نوع انسان سے سلوک کے متعلق دی ہوتی ہے.پس پہلے حصہ سے فارغ ہو کر ہم اس حصہ کے متعلق کچھ بیان کرتے ہیں تا معلوم ہو کہ اس میدان میں بھی اسلام ہی دیگر ادیان پر غالب ہے مگر پیشتر اس کے کہ اس حصہ کے متعلق ہم کچھ تفصیل دار بیان کریں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان سے سلوک کرنے کے متعلق جو تعلیم اجمالی طور پر قرآن کریم میں مذکور ہے پہلے بیان کر دی جائے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ

Page 289

.۲۶۲ اسلام اور دیگر مذاہب وَالْإِحْسَانِ وَابْتَلَى ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ ، يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.(النحل : (۹) یعنی اللہ تعالٰی تم کو عدل اور احسان اور ایتاء ذی القربی کا حکم دیتا ہے اور تم کو فحشاء اور منکر اور بغاوت سے روکتا ہے وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے تا تم اپنی اصلاح کر لو.اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے ہر ایک مسلمان کو تین باتوں کا حکم دیا ہے اور تین باتوں سے روکا ہے.گویا ایک حکم کے مقابلہ میں ایک نہی ہے اور ہر ایک نیکی جس کے کرنے کا حکم دیا ہے اس کے مقابل کی بدی کو بھی بیان کر دیا ہے کہ اس سے تم کو بچنا چاہئے.پہلا زینہ جس پر ایک مومن کو چڑھنے کا حکم دیا ہے وہ عدل کا زینہ ہے یعنی کسی کی حق تلفی نہ کرے.اگر کسی کے ہاں ملازم ہے تو اس کا کام دیانت سے کرے جتنی تنخواہ لیتا ہے اس کے مطابق حسب معاہدہ کام بھی کرے اگر مزدور ہے تو محنت سے اپنا وقت اس شخص کے کام میں صرف کرے جس نے اس کو لگایا ہے اگر کسی کا کوئی روپیہ دینا ہے تو اسے ادا کرے اگر کسی کا کوئی اور حق ادا کرنا ہے تو دیانت سے ادا کرے.غرض اپنے ہر ایک فعل میں عدل سے کام لے اور کسی کی حق تلفی نہ کرے پورا پورا حق ادا کر دے.اس کے بعد فرمایا کہ عدل کے زینہ پر جب مؤمن چڑھ جائے تو پھر اسے چاہئے کہ احسان کے زینہ پر قدم رکھے یعنی نہ صرف اسے اس بات کا خیال رہے کہ میں ہر ایک شخص کے حقوق پورے پورے ادا کر دوں بلکہ اب اس کی ایمانی حالت اس درجہ تک ترقی پا جائے کہ وہ لوگوں کے حقوق ادا کر کے اپنی طرف سے بھی کچھ بطور احسان ان کو دے اور لوگوں کے ساتھ عدل کرنا تو اس کے لئے ایسا ہو جائے جیسے ایک معمولی بات ہے اور اس کو اب اس بات کی فکر رہے کہ میں اپنی طاقت اپنی قوت ، اپنے مال اپنی دولت اپنی عزت اپنی وجاہت سے کس طرح لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں اور جب وہ اس درجہ کو بھی پالے تو ایک مسلمان کو چاہئے کہ اس سے بھی بلند ہو اور احسان کرنا بھی اس کی نظر میں ادنی ہو جائے اور وہ ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ حاصل کر کے جو احسان سے بہت بڑا درجہ ہے.اور احسان میں اور ایتاء ذی القربیٰ میں یہ فرق ہے کہ احسان ایک آدمی دوسرے آدمی سے بعض حالات کے ماتحت کرتا ہے یعنی کسی کو تکلیف میں دیکھا اور اس پر رحم آگیا تو اس پر احسان کر دیا.کسی نے کبھی پہلے کوئی سلوک کیا ہوا ہو تو اس کا بدلہ اتار کر اس کے احسان کو یاد کر کے اس کے ساتھ کچھ مروت کر دی غرض عام احسان کا محرک ہمیشہ رحم یا شفقت ہوتی ہے لیکن ایتاء ذی القربی یعنی قریبوں کو دینا رحم و شفقت کا نتیجہ نہیں ہوتا ایک ماں اپنے بچہ کی خدمت

Page 290

العلوم جلد ۳ ۲۶۳ اسلام اور دیگر مذاہب.کرتی ہے اور اس کی ناز برداریاں کرتی ہے نہ اس لئے کہ اس کی حالت زار دیکھتی ہے یا اسے مصیبت میں پاتی ہے بلکہ صرف اس لئے کہ وہ اس کے جگر کا ٹکڑا ہے اور اس کا بیٹا ہے.بارہا اولاد امیر ہوتی ہے اور ماں باپ غریب ہوتے ہیں تو وہ اسی طرح اپنی اولاد کے ساتھ اپنے محدود ذرائع سے سلوک کرتے رہتے ہیں جیسا کہ ایک امیر ماں باپ اپنی حیثیت کے مطابق اپنی اولاد سے سلوک کرتے ہیں پس ماں باپ کا سلوک نہ تو انعام کی خواہش پر ہوتا ہے نہ کسی پہلے احسانی کے بدلہ میں نہ مصیبت یا دکھ کا نظارہ دیکھ کر رحم کے جوش کی وجہ سے بلکہ ان کا سلوک ان تمام باتوں سے پاک ہوتا ہے اور صرف محبت اس کا باعث اور محرک ہوتی ہے.پس اِبْتَاءِ ذِی القُربى یعنی ایسا دینا جیسا کہ قریبی رشتہ دار دیتے ہیں عام احسان سے زیادہ اعلیٰ درجہ کا احسان ہوتا ہے اور اسی درجہ کی طرف اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ایک مؤمن کوی صرف احسان کے درجہ پر کھڑا نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ اسے چاہئے کہ وہ آگے بڑھے اور اپنے اندر بنی نوع انسان کی ایسی محبت پیدا کرے جیسی محبت کہ مہربان باپ اور محبت کرنے والی ماں اپنے بچہ سے رکھتے ہیں اور ان سے بلا امتیاز امارت و غربت نیک سلوک کرے اور کسی وقتی جوش کے ماتحت ان سے تعلق نہ ہو.اسی طرح ان تین نیکیوں کے حاصل کرنے کے ساتھ ہی وہ تین بدیاں بھی ترک کرے یعنی ان بدیوں کو بھی ترک کر دے جو اس کی اپنی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور ان کو بھی جو ہیں تو اس کی ذات کے ہی متعلق مگر ایسی ہیں کہ لوگ بھی ان سے واقف ہوتے ہیں اور انہیں ناپسند کرتے ہیں اور وہ بریاں بھی چھوڑ دے جن میں دوسرے لوگوں کے حقوق کو نقصان پہنچتا ہے یا کسی حکومت کے انتظام میں ان سے خلل آتا ہے اور ان دونوں حکموں کو ملا کر گویا شفقت علی خلق اللہ کے تمام مدارج کو پورا کر دیا کیوں کہ شفقت دو ہی قسم پر منقسم ہوتی ہے اول ایصالِ خیر دوم دفع شر اور اس آیت میں دونوں قسموں کو بتام و کمال بیان کر دیا گیا ہے یعنی ایک مسلم کو لوگوں سے نیکی تو اتنی کرنی چاہئے کہ عدل سے ترقی کرتے کرتے وہ اس حد تک پہنچ جائے کہ لوگوں کے ساتھ ایسی محبت کے ساتھ معاملہ کرے اور بلا امتیاز ان پر اس طرح احسان کرے جس طرح ماں باپ بچہ پر کرتے ہیں اور بدی سے بھی اس قدر دور رہنا چاہیئے کہ خطرناک بغاوتوں اور شرارتوں کو چھوڑتے چھوڑتے اس حد تک پہنچ جائے کہ ان بدیوں کو بھی چھوڑے جو صرف ان کے نفس کے اندر مخفی ہیں کیونکہ نہ معلوم کسی نامعلوم رنگ میں ان سے ہی کسی کو نقصان پہنچ جائے غرض شفقت علی خلق اللہ کے دونوں

Page 291

۲۶۴ اسلام اور دیگر نه اجب پہلوؤں یعنی ایصال خیر اور دفع شر کے تمام مدارج کو اس آیت میں بیان کر دیا گیا ہے اور اس سے بڑھ کر نہ کوئی اور درجہ شفقت علی خلق اللہ کا ہے جو انسان حاصل کر سکے اور نہ کوئی باریک بدی ہے جسے انسان چھوڑ سکے پس شفقت علی خلق اللہ کے متعلق اس تعلیم سے بڑھ کر کوئی مذہب کوئی اور تعلیم پیش ہی نہیں کر سکتا کیونکہ جو آخری مقام ہے اس پر اسلام کھڑا ہے اور اس سے اوپر جانے کی انسان کے لئے گنجائش نہیں اور بڑھ کر تو کسی نے کیا پیش کرنی ہے ہم دعوئی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس تعلیم کے برابر بھی کوئی اور مذہب کوئی تعلیم پیش نہیں کر سکتا.اسلام نے شفقت علی خلق اللہ کے متعلق جو تعلیم اجمالی طور پر دی ہے اس کے بیان کرنے کے بعد میں اب وہ تعلیم پیش کرتا ہوں کہ جو تفصیلی طور پر شفقت علی خلق اللہ کے متعلق اسلام اپنے پیروؤں کو دیتا ہے اور سب سے پہلے وہ تعلیم بیان کرتا ہوں جو رشتہ داروں کے متعلق اسلام دیتا ہے..والدین سے تعلق بنی نوع انسان میں سے دنیاوی تعلقات کے لحاظ سے سب سے بڑا تعلق انسان کو اپنے والدین سے ہوتا ہے کہ ان کو خدائے تعالیٰ نے اس کے دنیا میں لانے کا ذریعہ بنایا ہے.والدین کی محبت جیسی پاک اور بے غرض ہوتی ہے اس کی نظیر دنیا میں بہت کم ملتی ہے.وہ اس وقت بچہ کی خبر گیری کرتے ہیں جب اسے اپنے وجود کی بھی خبر نہیں ہوتی اور وہ اپنی زندگی کے قیام کے لئے کوئی تدبیر نہیں کر سکتا ایسی حالت میں جن تکالیف سے وہ ان کی پرورش کرتے ہیں اسے صرف والدین ہی سمجھ سکتے ہیں دوسرا انسان اس کا خیال بھی نہیں کر سکتا اور یہی وجہ ہے کہ والدین جس محبت سے بچہ کی خبر گیری کرتے ہیں بچہ اس کا عشر عشیر بھی ادا نہیں کر سکتا اور بہت کم بچے ایسے ملیں گے جو اس احسان کا پورا بدلہ دے سکیں جو ان پر ان کے والدین نے کیا ہوتا ہے اسی وجہ سے اسلام نے ان کی فرمانبرداری کرنے کا سخت حکم دیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ قَضَى رَبُّكَ الَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ، اِمَا يَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَهُمَا فَلَا تَقُلْ لَهُمَا أف ولا تنهر هُمَا وَقُلْ لَهُمَا قَوْلاً كَرِيمًا ، وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ ربِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَينِي صَغِيرًا - (بنی اسرامیل : ۲۴-۲۵) یعنی اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرد اگر ماں باپ میں سے ایک یا دونوں تمہارے جوان ہونے پر بوڑھے ہو جائیں تو ان کو اک تک نہ کہو اور کبھی اور

Page 292

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۶۵ اسلام اور دیگر مذاہب ان سے سختی سے کلام نہ کرو بلکہ جب ان سے بات کرو تو ادب و احترام کو مد نظر رکھو اور ان کے آرام و آسائش کے لئے کمال رحم کے ساتھ اپنی خدمت کے بازو ان کے سامنے بچھا دو اور باوجود اس سلوک کے یہی سمجھو کہ تم نے ان کی خدمت کا حق پورے طور پر ادا نہیں کیا اس لئے خدا تعالیٰ کے حضور میں دعا کرتے رہو کہ الہی! میں تو ان کے احسانات کا بدلہ بھی نہیں دے سکتا پس تو ہی ہماری طرف سے ان کا متکفل ہو جا اور جس طرح انہوں نے اس وقت کہ ہم بے بس و بے کس تھے ہماری مدد کی تو بھی اس دن کہ یہ بے بس و بے کس ہوں اسی محبت اور پیار کے ساتھ ان سے معاملہ کیجیو.یہ وہ بے نظیر تعلیم ہے جو اسلام والدین کے حق میں دیتا ہے اور دنیا کا کونسا مذہب ہے جو اس کے مقابلہ میں اپنی تعلیم کو پیش کر سکے اس میں کوئی شک نہیں کہ سب مذاہب اپنے اندر خوبیاں رکھتے ہیں اور چونکہ وہ خدائے تعالی کے بھیجے ہوئے ہیں اس لئے ان کے اندر بہت ہی صداقتیں موجود ہیں.لیکن والدین کے متعلق وہ افراط و تفریط سے خالی اور کامل تعلیم جو اسلام پیش کرتا ہے اور کسی مذہب میں نہیں پائی جاتی.کس طرح ایک ہی آیت میں اول تو یہ بتایا ہے کہ عبادت صرف اللہ تعالٰی کی ہوتی ہے اور والدین کے احسان بھی اس کے مقابلہ میں بیچ ہوتے ہیں پس تم ہر گز اس مذہب کی پیروی نہ کرو جو والدین کے حقوق کی ادائیگی میں اس قدر افراط سے کام لیتا ہے کہ ان کے آگے سجدہ کرنا اور عبادت کی شرائط بجا لانے کو جائز قرار دیتا ہے کیونکہ یہ کام حد سے بڑھا ہوا ہے اور والدین کی تکریم کرتے ہوئے اس میں اس حقیقی محسن کی بہتک کی گئی ہے کہ جو اس احسان کا بھی خالق ہے جو والدین انسان پر کرتے ہیں.دوسری بات اس آیت میں یہ بتائی ہے کہ والدین کی عبادت تو نہیں کرنی لیکن ان کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا ہے یہ وہ تعلیم ہے کہ جس کے مقابلہ میں اور کوئی مذہب کھڑا نہیں ہو سکتا کیونکہ دیگر مذاہب صرف یہ کہتے ہیں کہ تو اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کر اور ان کی خدمت کر لیکن اسلام صرف یہی نہیں کہتا تو ان سے نیک سلوک کر بلکہ اسلام یہ کہتا ہے کہ تو ان سے احسان کرنے کی کوشش کر اور احسان اس خدمت یا اس انعام کو کہتے ہیں جو دو سرے کی خدمت یا انعام سے زائد ہو.ایک مزدور اگر کسی شخص کی مزدوری کرتا ہے اور وہ دو سرے وقت میں اسے اس کا حق ادا کر دیتا ہے تو وہ ہر گز اس کا محسن نہیں کہلا تا محسن وہ کہلاتا ہے جو اس کے حق سے زیادہ بدلہ اس کو دے.پس اسلام نے والدین کے ساتھ سلوک کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ نہیں کہا کہ تو ان سے نیک سلوک کر کیونکہ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص اپنے

Page 293

العلوم جلد ۳ ۲۶۶ اسلام اور دیگر مذاہب والدین سے نیک سلوک کرے لیکن اس کا نیک سلوک اس سلوک کی حد کو بھی نہ پہنچے جو والدین نے اس سے کیا تھا پس ایسے شخص کا سلوک نیک تو کہلائے گا لیکن وہ ان کا محسن نہیں کہلا سکتا محسن وہ تبھی کہلا سکتا ہے جب ان کے سلوک سے بڑھ کر محبت کا سلوک کرے اور والدین کے سلوک کو مدنظر رکھتے ہوئے.دیکھو کہ اسلام نے والدین کے حق میں کیسی شاندار تعلیم دی ہے اور کیا کوئی اور بھی مذہب ہے جس نے اس رنگ میں والدین کے ساتھ سلوک کو بیان کیا ہو کہ ایک طرف تو افراط کو روکا ہو اور ایک طرف تفریط کو.ایک طرف تو عبادت سے منع کر کے خدائے تعالیٰ کی شان کا لحاظ فرمایا اور دوسری طرف ان مذاہب کی تردید کر دی جو بیوی کا تو لحاظ کرتے ہیں لیکن والدین کی نسبت کوئی حکم نہیں دیتے اور بیاہ کے بعد بیوی کو ہی تمام تر توجہ کا مستحق قرار دیتے ہیں.پھر فرمایا کہ اگر والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کو ان تک بھی نہ کہو کہ فلاں کام تمہارا ہم نا پسند کرتے ہیں.بوڑھے ہو جانے کی شرط اس لئے لگائی گئی ہے کہ اول تو جب والدین خود کام کے قابل ہوں تو وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں ڈالتے.دوم جب انسان بوڑھا ہو جاتا ہے تو بوجہ بیدست و پا ہونے کے اور مختلف قسم کی بیماریوں اور ضعفوں کے پیدا ہو جانے کے اس کا مزاج چڑ چڑا ہو جاتا ہے پس فرمایا کہ اس حالت میں بھی کہ جب وہ نہایت چڑ چڑے اور ترش رو ہو جائیں اور ان کی حرکات برداشت سے باہر ہوتی جائیں تم کو چاہئے کہ ان کی کسی حرکت پر اظہار ناراضگی نہ کرو بلکہ ان کی خواہش ) اگر پوری کر سکتے ہو تو کر دو اور اگر پوری نہیں کر سکتے تو بڑی نرمی سے عرض کر دو کہ یہ بات ہماری طاقت سے باہر ہے اور جب ان سے کلام کرو تو نہایت ادب کے ساتھ کرو اور ان کے سامنے ایسے نرم ہو جاؤ کہ گویا رحمت کے مارے تم ان کے سامنے بچھے جاتے ہو اور پھر اسی پر بس نہ کرو بلکہ ان کے لئے دعا ئیں کرتے رہو کہ ان کی خدمت میں جو کچھ کو تاہی ہم سے ہوتی ہے اس کا بدلہ خدائے تعالیٰ اپنے پاس سے ان کو دے.یہ تو وہ سلوک ہے جس کا حکم اسلام نے اولاد کو اس حالت میں دیا ہے جب وہ زندہ ہو لیکن اگر کوئی شخص مرجائے اور اس کے والدین زندہ ہوں تو پھر بھی والدین کو نہیں بھلایا اور نہ ان کے حقوق کی نگہداشت میں دوسرے رشتہ داروں کو بھلا دیا ہے.نہ تو اسلام نے بعض مذاہب کی طرح یہ حکم دیا ہے کہ اولاد کا سب مال والدین کو دے دیا جائے کیونکہ اس طرح کئی اور رشتہ داروں کی کہ وہ بھی رحم کے مستحق ہوتے ہیں حق تلفی ہے مثلاً اگر اس کی بیوی ہو اور چھوٹے چھوٹے بچے ہوں تو وہ اس حکم کے ماتحت بالکل بے دست وپارہ

Page 294

انوار العلوم جای ۳۰ ۲۶۷ اسلام اور دیگر مذاہب جاتے ہیں.اور نہ اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ والدین کو بالکل محروم رکھا جائے جیسا کہ بعض دیگر مذاہب کی تعلیم ہے بلکہ اسلام نے ان دونوں تعلیموں کے خلاف ایک میانہ راہ اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ مرنے والے کے مال کے ایک حصہ کا وارث والدین کو قرار دیا ہے یعنی اگر اس کی اولاد ہو تو چھٹا چھٹا حصہ والدین کو دیا جائے اور اگر اولاد نہ ہو تو تیسرا حصہ والدہ کو اور باقی کل والد کو لیکن یہ صورت خاوند یا بیوی کے موجود ہونے کے ان کا حصہ نکال کر باقی اس کو ملے ماں باپ کا اولاد سے سلوک والدین سے جس سلوک کا اولاد کو حکم دیا ہے اسے تو ہم اوپر بیان کر چکے ہیں اب دوسرے نمبر پر اس سلوک کا ذکر کرتے ہیں جس کا حکم والدین کو ان کی اولاد کے متعلق دیا گیا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین کے دل میں اپنی اولاد سے طبعاً محبت ہوتی ہے اور انہیں اپنی اولاد سے نیک معاملہ کرنے کے متعلق کسی خاص حکم کی بظاہر ضرورت نہیں معلوم ہوتی لیکن تاریخ عالم ہمیں بتاتی ہے کہ اصل واقعہ یوں نہیں بلکہ باوجود اس فطرتی محبت کے جو والدین کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے کئی وجوہ سے اس بات کی ضرورت ہے کہ والدین کو بھی اس بات کی ہدایت کی جائے کہ اپنی اولاد سے کیا سلوک کریں اور مختلف مذاہب کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس تعلیم سے خالی ہونے کی وجہ سے ان کے پیروان کو سخت دقتیں پیش آئی ہیں.سوائے ایک ورثہ کے کہ اس کی ضرورت ہر ایک گھر میں پیش آتی تھی باقی امور کے متعلق دیگر مذاہب بالکل خاموش ہیں اور نہیں بتاتے کہ والدین کو اپنی اولاد سے کیسا معالمہ کرنا چاہئے.لیکن اسلام چونکہ کامل اور آخری مذہب ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے آیا ہے کہ اس نقص سے خالی ہے کیونکہ و ایسے زمانہ میں آیا جب بنی نوع انسان کی حالت چاہتی تھی کہ ان کو ایک ایسی شریعت دی جائے تو جو ہر رنگ میں کامل ہو اور جس میں انسانی معاملات کے تمام پہلوؤں کا لحاظ رکھا جائے.اسلام سے جو پہلے مذاہب ہیں ان کو صرف اسی قدر تعلیم کی ضرورت تھی جو اس وقت کی ضروریات کے لئے کافی ہو اور جس کے ذریعے اس وقت کے لوگوں کو اِس کامل شریعت کے قبول کرنے 83.کے لئے تیار کیا جائے جو بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے روز ازل سے مقدر تھی.مختلف ممالک میں کسی نہ کسی سبب سے اولاد کے قتل کر دینے کا رواج تھا اور اولاد کا قتل بعض لوگ لڑکیوں کو اس لئے قتل کر دیتے تھے کہ وہ کسی اور گھر میں بیاہی

Page 295

PYA اسلام اور دیگر مذاہب جائیں گی اور اس میں ہماری ہتک ہے.بعض اس خوف سے کہ کہیں بڑی ہو کر وہ کوئی گناہ نہ کر میٹھیں اور اس میں ہماری ذلت ہو ان کو قتل کر دیتے بعض بوجہ غربت کے بچوں کو ضائع کر دیتے کہ ان کو کھانا کون کھلائے گا.چنانچہ ان دنوں میں کہ تعلیم میراں ہے بہت سے لوگ یورپ و امریکہ و ایشیاء کے ایسے ہیں جو ایسی تدابیر اختیار کرتے ہیں کہ جن سے اولاد نہ ہو اور یہ بھی ایک قسم اولاد کے ضائع کر دینے کی ہے.جب ان سے پوچھا جائے تو کہتے ہیں کہ اس وقت تعلیم نہایت گراں ہے اولاد زیادہ ہوئی تو ان کو تعلیم دلانا مشکل ہو گا.اسلام نے اس فعل کو سخت نا پسند فرمایا ہے اور فرماتا ہے کہ وَإِذَا المَوْدَةُ سُئِلَتْ بِاتِي ذَنْبٍ قُتِلَتْ الكور 19) جو لوگ اپنی لڑکیوں کو زندہ گاڑ دیتے ہیں ان سے سوال کیا جائے گا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا اور کس گناہ کی سزا میں کیا.اسی طرح فرماتا ہے وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةً اِ مُلَاقِ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ، إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطا كبيرا : ( بنی اسرائیل : ۳۲) یعنی اپنی اولاد کو اس ڈر سے نہ قتل کر دیا کرو کہ ہمارے مال ان کی تربیت اور تعلیم اور کھلانے اور پلانے پر خرچ ہوں گے کیونکہ تم کو بھی جو کچھ ملتا ہے ہمارے خزانہ سے ملتا ہے اور ان کو بھی ہم ہی دیں گے اور پھر اس شک کو دور کرنے کے لئے کہ کیا صرف مال کے فنا ہو جانے کے ڈر سے اولاد کو مارنا منع ہے یا اس کا کوئی اور باعث بھی ہو تب بھی منع ہے فرمایا کہ اِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خطا كبيرا اولاد کا مارنا ہی بڑا گناہ تھا یعنی مال کے فنا ہو جانے کے ڈر سے مارنا ہی گناہ نہیں بلکہ منع کرنے کا اصل باعث یہی ہے کہ اولاد کا قتل کرنا خواہ وہ کسی باعث سے ہو گناہ اور برا کام ہے اور اوپر جو وجہ بتائی گئی ہے صرف بطور ایک مثال کے ہے.یہ تو اولاد کو قتل کرنے کے متعلق اسلام کی تعلیم ہے اس کے بعد وہ تعلیم ہے جس میں اولاد کی تعلیم و تربیت کے متعلق احکام ہیں.پہلا حکم ان کی ولایت کے متعلق ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ اولاد کی کفالت والد کے ذمہ ہے اور اس طرح اولاد کو اس کی تباہی سے بچالیا گیا ہے جو اس وقت ان کو پیش آتی ہے جب بعض دفعہ والدین میں لڑائی ہو جانے کی وجہ سے بعض والد اولاد کا خرچ اس لئے ادا کرنے سے پہلو تہی کرتے ہیں کہ وہ اس والدہ کے بچہ ہیں جس سے وہ ناراض ہیں.اس حکم کے ماتحت خواہ والد راضی ہو یا نہ ہو حکومت اسے مجبور کرے گی کہ وہ اپنے ذرائع آمد کے مطابق اولاد کو ان کے بلوغ تک خرچ

Page 296

العلوم جلد.۲۶۹ اسلام اور دیگر مذاہب اس کے علاوہ اولاد کی تربیت کے متعلق بھی اسلام بہت تاکید کرتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آيَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَادًا (الحريم : ٧) - یعنی اے لوگو اپنی جانوں کو اور اپنے اہل و عیال بیوی اور بچوں کو بھی آگ سے بچاؤ یعنی ان کو تعلیم و تربیت دو اور یوں ہی آوارہ نہ رہنے دو کہ جاہل رہ کر خدائے تعالی سے بھی پھر جائیں اور آخر ہلاک اور برباد ہو جائیں.ای طرح اولاد کی تربیت کے متعلق حدیث میں حکم آتا ہے کہ ان کی عزت کرو اور ایسا معاملہ ان سے نہ کرو جس کا نتیجہ آخر یہ نکلے کہ ان کے اندر دنائت پیدا ہو جائے.اسی طرح فرمایا کہ اولاد کو علم و عقل سکھانا صدقہ و خیرات سے بہتر ہے اور یہ بات بھی درست ہے کیونکہ جو شخص لوگوں کی خیر خواہی میں اپنی اولاد کی تربیت کو بھول جاتا ہے وہ اپنے ساتھ ہی نیکی کو ختم کر دیتا ہے اور جو شخص اپنی اولاد کو بھی علم و عقل اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے وہ ایصال خیر کا دروازہ اپنی موت کے بعد بھی کھلا چھوڑ جاتا ہے.اسی طرح اولاد کو مارنے سے بھی منع فرمایا گیا ہے اور حکم ہے کہ اولاد کو دکھ دینا اور ستانا درست نہیں اور اس کی یہ حکمت ہے کہ مارنے اور دکھ دینے سے ہمیشہ اخلاق ناقص اور خراب ہو جاتے ہیں اور آئندہ زندگی میں انسان کام کا نہیں رہتا لیکن چونکہ اولاد کی تربیت میں کبھی مارنے کی ضرورت پیش آتی ہے اس لئے اگر کبھی ضرورت اور مجبوری ہو تو اس کے لئے حکم دیا گیا ہے کہ مونہہ پر نہ مارا جائے بلکہ کسی ایسی جگہ مارا جائے جس پر مارنے سے اس کے جسم کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے.(سنن ابی داؤد کتاب الحدود باب في ضرب الوجه في الحد ) پھر بھائیوں کی محبت قائم رکھنے کے لئے حکم دیا کہ والدین کو سب بیٹوں اور بیٹیوں سے برابر کا سلوک اور معاملہ کرنا چاہئے اور بعض سے خاص رعایت کا معاملہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آپس میں جھگڑے اور لڑائیوں کی نوبت پہنچ جاتی ہے چنانچہ لکھا ہے کہ ایک شخص رسول کریم اللے کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں نے اپنے فلاں بیٹے کو ایک غلام دیا ہے.آپ گواہ رہیں.آپ نے فرمایا کہ کیا سب بیٹوں کو دیا ہے اس نے کہا کہ نہیں.فرمایا کیا تیرا دل چاہتا ہے کہ سب ایک سے نیک ہوں اس نے کہا کہ ہاں.فرمایا تو کس طرح پسند کرتا ہے کہ ایک بیٹے کو خاص کر کے انعام دے یہ جائز نہیں.یا سب کو دے یا اس سے واپس کرلے.اس طرح آپ نے بتایا کہ جب تم ایک بیٹے کو دوسرے سے خاص کرو

Page 297

انوار العلوم جلد - هم ۲۷۰ اسلام اور دیگر نے اہب گے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے اس سے بغض کریں گے اور آخر اس کے دشمن ہو کر گناہ میں مبتلا ہوں گے پس جبکہ ایک باپ نہیں چاہتا کہ اس کی اولاد گناہ گار اور ایسی راہ پر چلے جس سے خدائے تعالیٰ سے دور ہو جائے تو وہ کیوں اپنے ہاتھ سے ایسے سامان کرتا ہے کہ جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کی اولاد میں سے بعض گناہ گار ہوں گے.اس تعلیم کا مقابلہ بعض اقوام کے اس طریق عمل سے کرو جو وہ اپنی اولاد سے کرتے ہیں کہ ایک کو وارث بنا کر باقی سب کو محروم کر دیتے ہیں تو معلوم ہو گا کہ اسلام نے کس طرح باریک در بار یک مسائل کو بھی کھول دیا ہے تا لوگ ٹھوکر کھا کر ہلاک نہ ہوں چنانچہ اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ مرنے کے بعد بھی کوئی شخص اپنے کسی بیٹے کو زائد مال نہیں دے سکتا.علاوہ ان احکام کے عورتوں کی قابل رحم حالت معلوم کر کے اسلام نے لڑکیوں کی تربیت اور ان کی خبر گیری کے لئے خاص طور پر حکم دیا ہے.چنانچہ رسول کریم و فرماتے ہیں کہ جسکو خدائے تعالی تین بیٹیاں دے اور وہ ان کی اچھی طرح خبر گیری کرے تو وہ اس کیلئے جہنم سے بچانے کا ذریعہ ہو جائیں گی.(ابن ماجہ کتاب الادب باب بر الوالد واحسانه الى البنات) ان تمام احکام سے ہر ایک شخص معلوم کر سکتا ہے کہ شفقت علی خلق اللہ کے اس پہلو کو جسے اکثر مذاہب نے یا تو بالکل ترک کر دیا ہے یا نہایت ناقص احکام اس کے متعلق دیئے ہیں.اسلام نے کس کامل طور پر بیان کیا ہے اور کس طرح والدین کو ایسے راستہ پر چلایا ہے کہ جس پر چل کر وہ اپنی اولاد کو ہلاکت سے بچا سکتے ہیں اور خود ہلاکت سے بچ سکتے ہیں.کیا کوئی اور مذہب ہے جس نے اولاد کے حق میں ایسے بالتفصیل احکام دیئے ہیں.اگر نہیں تو اسلام کے مقابلہ میں کسی اور مذہب کا کیا حق ہے کہ دنیا کی اصلاح کا دعوی کرے وہ مذاہب اپنا وقت ختم کر چکے اور اپنے اپنے وقتوں میں انہوں نے بھی دنیا کو فائدہ پہنچایا لیکن اس کامل مذہب کے آنے پر اب ان کی ضرورت نہیں رہی.ماں باپ اور اولاد کے علاوہ اسلام نے بھائیوں اور بہنوں کو تو بھائیوں کے متعلق احکام بھی فراموش نہیں کیا اور ان سے بھی نیک سلوک کا حکم دیا ہے اور اولاد و والدین کی عدم موجودگی میں ان کو اپنے بھائی کا وارث بنا کر ان کے سلوک کو کامل کیا ہے.

Page 298

العلوم جلد ۳۰ ۲۷۱ اسلام اور دیگر مذاہب کو مختلف مذاہب اس ترقی علوم کے زمانہ میں اس بات کے مدعی بیوی کے متعلق احکام ہیں کہ ان کا مذہب عورتوں کے حقوق کی دیگر سب مذاہب سے زیادہ خبر گیری کرتا ہے اور ان کے حقوق بیان کرتا ہے لیکن ان کا یہ دعوئی قابل توجہ نہیں کیونکہ کوئی مذہب ایسا نہیں جو عورتوں کے حقوق کو اپنے مذہب کی طرف سے پیش کرے بلکہ موجودہ زمانہ کی تمدنی حالت کے لحاظ سے اپنا دعویٰ پیش کیا جاتا ہے حالانکہ کسی خاص شخص یا خاص قوم کا عمل اس کے مذہب کو تعریف کا مستحق نہیں بنا سکتا جب تک کہ خود اس مذہب کی طرف سے وہ تعلیم نہ پیش کی گئی ہو اور ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے سوا جس قدر دیگر مذاہب ہیں وہ باوجود سینکڑوں ہزاروں خوبیاں رکھنے کے بوجہ اس کے کہ صرف خاص زمانہ اور خاص قوم و کے لئے تھے عورت کے حقوق کے متعلق بہت حد تک خاموش ہیں چنانچہ اسلام سے سب سے قریب کا مذہب مسیحیت بھی عورت کے متعلق کوئی مشرح تعلیم نہیں دیتا اور یورپ کا طریق عمل مسیحیت کے لئے باعث فخر نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ مسیحیت کے حکم سے نہیں پیدا ہوا بلکہ علوم کی ترقی یا اسلام کی صحبت کا نتیجہ ہے.ہاں اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنی توجہ کو اس مظلوم فرقہ کے بلند کرنے کی طرف بھی کی ہے اور اپنی شفقت کو صرف کسی خاص گروہ کے ساتھ خاص نہیں کیا چنانچہ والدہ بیٹی اور بہن کے متعلق جو احکام اسلام نے دیئے ہیں وہ تو اوپر بیان ہو چکے ہیں.اب ہم بیوی کے متعلق جو احکام اسلام نے دیئے ہیں ان کو بیان کرتے ہیں.دیگر مذاہب میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے اس موضوع کو ہاتھ بھی نہیں لگایا اور جنہوں نے اس کے متعلق کچھ احکام بیان کئے ہیں وہ نہایت ناقص اور نامکمل ہیں اور آج سے سینکڑوں سال پہلے جب علوم و تمدن کی حالت گری ہوئی تھی اس وقت کے لئے تو بے شک عورتوں کو بعض شدید مظالم سے بچانے کے لئے کافی ہوں گے لیکن اب جبکہ تمام جہان میں ایک زندگی کی روح پھونکی گئی ہے ان پر عمل کر کے بیویوں کے حقوق کی کامل طور پر نگہداشت نہیں ہو سکتی اور صرف اسلام ہی کے احکام ایسے کامل ہیں کہ ان کے ذریعہ سے عورتوں کے حقوق ادا ہو سکتے ہیں عورتوں کے حقوق کے متعلق سب سے پہلا حکم جس کے ذریعہ سے اسلام عورتوں کو یک لخت پستی کی حالت سے بلند کر کے مرد کے برابر لا کھڑا کرتا ہے یہ ہے کہ عورت و مرد دونوں کو ایک ہی قسم کے اور ایک ہی جنس کے قرار دے کر برابر کے حقوق کا مستحق کر دیا ہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا) النحل : (۷۳) یعنی

Page 299

العلوم جلد ۳ اسلام اور دیگر مذاہب اللہ تعالی نے تمہاری ہی جنس سے تمہاری بیویاں پیدا کی ہیں پس تم کو یہ نہیں چاہئے کہ ان کو کوئی ادنی مخلوق سمجھ کر ان کو حقارت کی نظر سے دیکھو اور ان کے ساتھ درشتی یا سختی سے پیش آؤ.اس کے علاوہ قرآن کریم میں مرد و عورت کے حقوق کے متعلق حکم ہے کہ وَلَهُنَّ مِثلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ، (البقرہ : (۲۲۹) یعنی عورتوں کو مردوں پر اسی قسم کے حقوق حاصل ہیں جس قسم کے مردوں کو عورتوں پر.ہاں مردوں کو عورتوں پر انتظامی معاملات میں ایک درجہ عطا ہے یعنی گھر کا آخری فیصلہ مرد کے اختیار میں ہوتا ہے اور یہ حکم ایسا ہے کہ جس نے عورتوں کے حقوق کے متعلق جو افراط کی جاتی ہے اس کو مٹا دیا ہے بعض لوگ عورتوں کو معلقہ کے طور پر چھوڑ رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ نیک برتاؤ نہیں کرتے ان کے متعلق حکم دیا وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُوا بِبَعْضِ مَا أَتَيْتُمُوهُنَّ (النساء : (۲۰) یعنی یہ نہ کرو کہ نہ ان سے نیک معاملہ کرو اور نہ ان کو آزاد کرو تا اس طرح ڈرا کر تم ان سے ان کا مال چھین لو.اسی طرح حکم دیا کہ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء : (۲۰) عورتوں سے نہایت عمدہ معاملہ کرو.پھر عورتوں کے حقوق کو پورا کرنے کے لئے اسلام ان کو اپنے خاوندوں کے مال میں سے اولاد ہونے کی صورت میں آٹھویں حصہ کا اور اولاد نہ ہونے کی صورت میں چوتھے حصہ کا وارث قرار دیتا ہے اور پھر جس مال کی وہ مالک ہو جائیں اس پر انہی کا قبضہ قرار دیتا ہے نہ ان کے والدین یا خاوندوں کا.قرآن کریم کے احکام کے علاوہ رسول کریم نے بھی اپنے عمل اور اپنی تاکیدات سے عورتوں کے حقوق نہایت تاکید کے ساتھ قائم کئے ہیں اور یہاں تک فرما دیا کہ خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لا هله ابن ماجہ کتاب النکاح با حسن معاشرة النساء تم میں سے سب سے بہتر وہی انسان ہے جو اپنی بیوی سے سب سے بہتر سلوک کرتا ہے اسی طرح فرمایا کہ اے مسلمانو ! عورت کے متعلق میری یہ بات مانو کہ ان کے ساتھ نیک معاملہ کیا کرو تمہارا کوئی حق نہیں کہ اپنی بیویوں سے نیک سلوک کے سوا کسی اور قسم کا سلوک کرو سوائے اس کے کہ وہ ایسی بدی کریں جسے سب لوگ برا منائیں اور جو نہایت کھلی کھلی ہو.اگر وہ کوئی ایسی بدی کریں تو کچھ دن اپنے سے علیحدہ کرو اگر مان لیں تو بہتر ورنہ ان کو کچھ بدنی سزا دو لیکن ایسی سزا نہ ہو کہ ان کے جسم پر اس سے نشان پڑ جائیں.(ابن ماجبر كتاب النكاح باب حق المرأة على الزوج ) جس طرح اسلام نے مرد پر عورت کے کچھ حقوق رکھتے ہیں عورت پر بھی مرد کے کچھ

Page 300

۲۷۳ اسلام اور دیگر مذاہب حقوق رکھے ہیں عورت کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے خاوند کی امانت کو پوری طرح ادا کرے اس کے آرام اور اس کے سکھ کی فکر کرے اس کی مشکل کے وقت اس کی ممکنار ہو اس کی اولاد کی تربیت کرے اور اس کی ناشکری نہ کرے.غرض یہ نہیں کیا کہ اگر مرد کے حقوق بیان کئے ہوں تو عورتوں کو ترک کر دیا ہو اور اگر عورت کے حقوق بیان کئے ہوں تو مرد کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہو یا دونوں کے حقوق بیان کئے ہوں لیکن ان میں افراط و تفریط سے کام لیا ہو.بلکہ مرد و عورت کے تمام حقوق کو نہایت مناسب طور پر تمام پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر بیان کیا ہے اور اس طرح اس عظیم الشان تعلق کو جو تمام انسانی ترقی کی جڑ ہے ایسی مضبوط چٹان پر قائم کر دیا ہے کہ کوئی آندھی اور کوئی طوفان اس کو ہلا نہیں سکتا.ان نہایت ہی قریبی رشتہ داروں کے علاوہ جن دیگر رشتہ داروں کے ساتھ سلوک کے حقوق اوپر بیان ہوئے دیگر رشتہ داروں کو بھی اسلام نے فراموش نہیں کیا چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَاتِ ذَا الْقُربى حقه (الروم : (۳۹) یعنی جو تمہارے قریبی اور رشتہ دار ہیں ان کو ان کا حق ادا کرو.اس حکم کے ذریعہ نہ صرف رشته داروں کے ساتھ نیک تعلقات کے قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے بلکہ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ حقدار ہیں کہ ان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے اور ان سے نیک سلوک کرنا گویا ان کا حق ادا کرنا ہے.حق کا لفظ اس لئے استعمال کیا گیا ہے کہ رشتہ داروں کو بہت دفعہ ماں باپ یا خاوند کے نہ ہونے کی وجہ سے اولاد یا بیواؤں کی خبر گیری کرنی پڑتی ہے اور وہ بھی گویا ایک قسم کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں کیونکہ ان کو وقت پر ماں باپ کا ہی کام کرنا پڑتا ہے.اس لئے فرمایا کہ جب رشتہ داروں کے اوپر یہ حق رکھا گیا ہے کہ ضرورت کے وقت وہ ایک دوسرے کی اولاد کی کفالت کریں تو ان کا حق ہے کہ ان کے ساتھ خاص طور پر نیک سلوک کیا جائے.اس حکم کے علاوہ اور بھی بہت سے احکام ہیں جن میں رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا گیا ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے رسول کریم ﷺ سے دریافت کیا کہ کوئی ایسا عمل مجھے بتائیں جس سے میں جنت کا وارث ہو جاؤں فرمایا کہ وہ عمل یہ ہے کہ تو خدا کی عبادت کر اور اس کا شریک کسی کو نہ بنا اور نماز پڑھ اور زکوۃ دے اور رشتہ داروں سے یک سلوک کر.(بخاری کتاب الزکوۃ باب وجوب الزكوة )

Page 301

۲۷۴ اسلام اور دیگر مذاہب قرابت داروں کے علاوہ جن کا تعلق ہمسایہ اور شریک سے نیک سلوک کا حکم انسان کے ساتھ خون کے ذریعہ سے ہو A ہوتا ہے ایک اور قسم کے بھی قریبی ہوتے ہیں جن کو بوجہ خونی رشتہ کے تعلق نہیں ہو تا لیکن قرب مکانی کے لحاظ سے وہ بھی قریبی ہوتے ہیں اس لئے اسلام نے ان کو بھی فراموش نہیں کیا چنانچہ ان کے متعلق حکم دیا ہے کہ وَاعْبُدُوا اللهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِى القربى واليتمى وَالْمَسَكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَى وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ، إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَا لَا فَخُورًا (النساء : ۳۷) یعنی اللہ تعالٰی کی عبادت کرو اور کسی کو اس کا شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کا معاملہ کرو اور قریبوں سے بھی احسان کا معاملہ کرو اور بتائی اور مساکین سے اور ہمسایہ سے جو دیوار بدیوار رہتا ہے اور اس سے بھی جو فاصلہ پر ہے احسان کر د یعنی جس کا مکان ساتھ تو نہیں لیکن ایک محلہ میں یا ایک گاؤں میں رہتا ہے یا پاس کے گاؤں میں رہتا ہے اور اس شخص کے ساتھ بھی نیک سلوک کرو جو تمہاری تجارت میں شریک ہے یا ایک جگہ پر تمہارے ساتھ ملازم ہے یا تمہارا رفیق سفر ہے.یہ وہ تعلیم ہے جو ہمسایہ اور شریک کے متعلق کہ ایک بوجہ مکان کے پاس رہنے کے اور دو سرا بوجہ کسی کام میں اس کا ساتھی ہو جانے کے قریبوں میں شامل ہو جاتا ہے اسلام نے دی ہے.رسول کریم فرماتے ہیں کہ مجھے جبریل نے ہمسایہ سے نیک سلوک رکھنے کی اس قدر تاکید کی اور اتنی دفعہ کی کہ مجھے خیال ہو گیا کہ شائد ہمسایہ کو وارث قرار دے دیا جائے گا.(بخاری کتاب الادب باب الوصاية بالجار) اسی طرح ہم سفروں کے متعلق آپ نے فرمایا کہ جو شخص اونٹنی پر سوار ہو اور دوسرے آدمی کی جگہ خالی ہو تو چاہئے کہ کسی ہم سفر کو اپنے ساتھ سوار کر لے اور جو شخص کہ سفر پر ہو اور اس کے پاس کچھ زیادہ کھانا ہو وہ اپنے ہم سفر کو شریک کرے.ہم سفر کے علاوہ ایک مجلس میں بیٹھنے والوں کے متعلق بھی اسلام نے نیک سلوک کا حکم دیا ہے چنانچہ فرمایا یا يُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَتَحُوا فِي الْمَجْلِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ (الجادله : (۱۲) یعنی اے مومنو! جب تم کسی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہو اور کوئی اور آدمی آکر کہے کہ ذرا کھل جاؤ اور ہمیں بھی جگہ دو تو چاہئے کہ تم سمٹ کر جگہ دے دیا کرو.خدا تعالیٰ تم کو اپنے قرب میں جگہ دے گا.اسی طرح ہم مجلس کی فیلنگز کا خیال رکھنے کے لئے رسول کریم ﷺ نے حکم دیا ہے کہ جب ایک جگہ پر

Page 302

م جلد - ۲۷۵ اسلام اور دیگر مذاہب تین آدمی بیٹھے ہوں تو دو مل کر سرگوشیاں نہ کیا کریں کیونکہ اس سے تیسرے کو تکلیف ہوتی ہے.(بخاری کتاب الاستيذان باب لا يتناجى اثنان دون الثالث) بڑوں کے ساتھ چھوٹوں کا معاملہ اور علاوہ ان تفصیلی احکام کے ان تمام تعلقات چھوٹوں کے ساتھ بڑوں کا معاملہ کے متعلق جو اوپر بیان ہوئے ہیں ایک عام حکم بھی اسلام نے دیا ہے چنانچہ رسول کریم و فرماتے ہیں.لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَلَمْ يُوَفِّرْ كَبِيرَنَا - (ترندی ابواب البر والصلة باب ما جاء في رحمة الصبيان، یعنی جو چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور بڑوں کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں.اس مختصر مگر جامع فقرہ میں تمام ان تعلقات کی تشریح کر دی جو چھوٹوں اور بڑوں کے متعلق ہیں.جہاں اور متعلقین کے ساتھ اسلام نے نیک سلوک کیا مہمان کے ساتھ نیک سلوک حکم دیا ہے وہاں مہمان کو بھی فراموش نہیں کیا چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُكرم ضَيْفَهُ (ابو داود كتاب الاطعمة باب في الضيافة یعنی جو شخص اللہ اور یوم آخر پر ایمان لاتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مہمانوں کی عزت کرے.دوستی اور محبت کے تعلق کے علاوہ ایک تعلق انسان کا دشمن سے دشمن کے ساتھ تعلق بھی ہوتا ہے اور یہ تعلق ایسا ہے کہ اس میں پڑ کر انسان کا حال معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے اندر کہاں تک شفقت علی خلق اللہ کا مادہ رکھتا ہے کیونکہ جہاں محبت ہوتی ہے وہاں تو انسان محبت کی وجہ سے نیک سلوک کرنے پر مجبور ہوتا ہے.جہاں محبت نہ ہو بلکہ عداوت ہو ایسی جگہ پر انسان کی قلبی کیفیت کا علم ہو سکتا ہے.پس وہ مذہب جو دشمنوں کے متعلق بھی ایسی تعلیم دے جو شفقت اور رحمت والی ہو اور ہر ایک فساد اور شر سے پاک ہو رہی مذہب اس قابل ہے کہ دنیا کی اصلاح کا کام اس کے سپرد کیا جائے.مختلف مذاہب نے دشمنوں کے متعلق مختلف تعلیمیں دی ہیں لیکن ایک ادنیٰ غور سے معلوم ہو سکتا ہے کہ جو تعلیم اسلام نے اپنے دشمنوں سے سلوک کے متعلق دی ہے وہی ایسی تعلیم ہے جو ہر ایک زمانہ اور ہر ایک ملک کی اصلاح کا باعث ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ سے دنیا میں امن و امان قائم ہو سکتا ہے.اسلام دشمنی اور عداوت کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہے ایک دینی اور ایک دنیاوی.دینی

Page 303

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۷۶ اسلام اور دیگر مذاہب عداوت سے مراد وہ عداوت ہے جس کا باعث اختلاف مذہبی ہو اور دنیاوی عداوت سے مراد وہ عداوت ہے جس کا باعث کوئی دنیاوی جھگڑا یا فساد ہو.ان دونوں کا ذکر الگ الگ کیا جائے گا.پہلے ہم دنیوی عداوت کو لیتے ہیں کہ اس کے متعلق اسلام کا کیا حکم ہے.سو یاد رہے کہ وہ عدادت جس کا باعث کوئی دنیا دی جھگڑا یا فساد ہو اسلام نے دو قسموں میں تقسیم کی ہے ایک وہ جس کا تعلق دل کے ساتھ ہے اور ایک جس کا تعلق اعمال کے ساتھ ہے.جس کا تعلق قلب کے ساتھ ہے اس کے متعلق اسلام کا یہ حکم ہے کہ تم اس کی بالکل پرواہ نہ کرو اور ہر گز کسی شخص کا بغض اپنے دل میں نہ رکھو حتی کہ یہ بھی منع فرمایا کہ اگر کسی شخص سے جھگڑا ہو جائے تو اس سے کلام ترک کر دے بلکہ فرمایا کہ تین دن سے زیادہ کسی شخص سے کلام ترک کرنا منع ہے پھر فرمایا کہ جو شخص کسی سے جھگڑا ہو جانے پر سب سے پہلے اپنے دل سے بغض نکال کر اس سے صلح کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے رحم کا مستحق ہوتا ہے.(بخاری کتاب الادب باب الحجرة - مسلم کتاب البر والصلة) غرض قلبی عداوت سے اسلام قطعی طور پر روکتا ہے اور بڑے زور سے اپنے پیروؤں کو اس سے باز رکھتا ہے کیونکہ یہ انسان کے لئے ایک زہر کی طرح ہوتی ہے جو اندر ہی اندر اس کے تمام اخلاق حسنہ کو برباد کر دیتی ہے اور اس کا نتیجہ خطرناک نتن ہوتے ہیں جو نسلاً بعد نسل چلتے ہیں اور قوموں کو تباہ کر دیتے ہیں.یہ تعلیم تو وہ ہے جو اسلام نے اس عدادت کے متعلق دی ہے جس کا مرکز قلب ہوتا ہے.باقی رہی وہ عداوت جو اعمال سے تعلق رکھتی ہے یعنی ذہنی اور خیالی عداوت نہ ہو بلکہ عملی طور پر ظاہر ہو یعنی ایک شخص ظلم سے کسی کو نقصان پہنچاتا ہو اور اسے دکھ دیتا ہو تو اس کی نسبت اسلام نے پہلا حکم تو یہ دیا ہے کہ دل میں بغض تو ایسے شخص کے متعلق بھی نہ رکھے کیونکہ کینہ رکھنا ہر حال میں منع ہے کیونکہ وہ فتنوں کا پیدا کرنے والا ہے اور اخلاق کا بگاڑنے والا ہے.باقی رہا دشمن کی عملی شرارت کا بدلہ سو اس کے متعلق دو حکم ہیں ایک یہ کہ عفو کرو دوسرا یہ کہ سزا دو اور یہ دونوں حکم مختلف موقعوں کے متعلق ہیں کسی موقعہ پر عضو کا حکم ہے اور کسی موقعہ پر سزا کا حکم ہے اور یہ دونوں حکم اور ان کا موقعہ اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں.وَ جَزُوا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِّثْلَهَا ، فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَاجْرُهُ عَلَى اللهِ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ (الشورى : ۳۱) یعنی برائی کی سزا اتنی ہی ہوتی ہے جتنی کہ بدی ہو لیکن جو شخص کہ معاف کر دے ایسی صورت میں کہ اس کے عفو سے اصلاح وتی ہو پس اس کا اجر اللہ پر ہے اللہ تعالی ظالموں کو پسند نہیں کرتا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ

Page 304

العلوم جلد - ۳ ۲۷۷ اسلام اور دیگر مذاہب نے ایک دشمن کی شرارت کے مقابلہ میں دو قسم کے سلوک کا ایک مؤمن کو حکم دیا ہے ایک یہ کہ اسی قدر سزا اسے دلوا دو.دوسرے یہ کہ اسے معاف کر دو اور دونوں کا موقعہ بھی بتا دیا ہے.اور وہ یہ کہ جہاں امید ہو کہ معاف کرنے سے اصلاح ہوتی ہے وہاں معاف کر دینا چاہئے اور جہاں معاف کرنے سے اصلاح نہ ہوتی ہو وہاں سزا دلانی چاہئے.اور یہ حکم در حقیقت دو قسم کی طبائع کے لوگوں کے لئے ہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ انسانوں میں سے دو قسم کے انسان ہیں ایک ایسے ہیں کہ جب ان کے قصور کو نظر انداز کیا جائے اور باوجود ان کی شرارت کے ان سے چشم پوشی کی جائے تو ان پر ایسا اثر ہوتا ہے کہ وہ آئندہ دشمنی سے باز آجاتے ہیں اور اپنے کئے پر سخت پشیمان ہوتے ہیں اور بجائے دشمن کے دوست بن جاتے ہیں چنانچہ یہ وجہ بھی خود قرآن کریم نے ہی بیان فرمائی ہے جیسا کہ فرمایا وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعُ بالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَانَهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ (تم السجده : (٣٥) یعنی نیکی کرنی اور بخش دیتا اور سزا دینی ایک نہیں ہو سکتے پس تو اپنے دشمن کی شرارت کا نیک سلوک کے ساتھ جواب دے جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ جس شخص کے ساتھ تیرا تعلق عداوت کا تھا وہ ایک گہرا دوست بن جائے گا.اس آیت سے معلوم ہو جاتا ہے کہ عضو میں اللہ تعالی نے کونسی حکمت رکھی ہے اور اس سے کیا غرض ہے.پس عفو جیسا کہ پہلی آیت سے ظاہر ہے اسی وقت کرنا چاہئے جب اس میں اصلاح ہوتی ہو اور جب عفو سے اصلاح نہ ہوتی ہو بلکہ وہ شخص اور بگڑتا ہو تو اس وقت سزا دینی چاہئے کیونکہ اس وقت عفو کرنا در حقیقت اس شخص پر بھی اور دیگر بنی نوع انسان پر بھی ظلم کرنا ہے کیونکہ ایسے شخص سے عفو کرنے کا جو عفو سے اور بھی تیز ہوتا ہے اور بغیر سزا کے مانتا ہی نہیں یہ نتیجہ نکلے گا کہ وہ شرارت پر اور دلیر ہو جائے گا اور دوسرے لوگوں پر بھی زیادتی کرے گا اور جس سے ذرا اس کا جھگڑا ہو گا اسے تباہ اور برباد کرنے کی کوشش کرے گا اور اس طرح دنیا میں فتنہ ترقی کرے گا.اور اس تمام فتنہ کا باعث یہی شخص ہو گا جس نے ایسے شریر آدمی کو جو دوسروں کو دکھ دیتا ہے اور ان پر ظلم کرتا ہے خالی چھوڑ دیا اور باوجود اس بات کے تجربہ کے کہ عفو سے وہ نہیں مانتا اس سے درگزر کیا.اس موقعہ پر شاید کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ کسی شخص کو کیا معلوم ہو سکتا ہے کہ جس شخص سے میرا معاملہ پڑا ہے وہ سزا سے مانے گا یا عفو سے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تجربہ سے معلوم ہوگی اگر دو تین دفعہ کے تجربہ سے معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص عفو اور درگزر سے اپنی -

Page 305

۲۷۸ اسلام اور دیگر نے اہب اصلاح نہیں کرتا تو پھر اس کو سزا دینا ہی بہتر سمجھے.اور اگر تجربہ سے اس کا عفو اور درگزر سے اپنی دشمنی اور شرارت سے باز آجانا ثابت ہو تو درگزر ہی کرے اور یہی وہ تعلیم ہے جو میانہ روی اور انصاف پر مبنی ہے اور اس کے سوا اگر کوئی تعلیم ہو تو ضرور وقتی ہی کہلا سکتی ہے.مثلاً یہود کو بوجہ ایک مدت تک محکومیت میں رہنے کے سزا دینے اور بدلہ لینے کی بہت تاکید کی گئی تھی تاکہ ان کے اندر جوش اور ہمت پیدا ہو چنانچہ اس تعلیم کا یہ نتیجہ نکلا کہ تھوڑی ہی مدت میں حضرت موسیٰ کے زمانہ میں بنی اسرائیل اپنی کمزوری سے پاک ہو گئے ورنہ انکی یہ حالت تھی کہ جب فرعون نے انکو آگھیرا تو باوجود فرعون کے مظالم کے ان میں سے بہت تھے جو اس بات پر راضی ہو گئے تھے کہ ہم واپس چلے جاتے ہیں اور یہ حالت اسی وقت قوم میں پیدا ہوتی ہے کہ جب وہ حد درجہ کی بزدل ہو جائے ورنہ اپنے مظالم اور چھیڑنے والے سے تنگ آکر ایسے جانور بھی مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جو شکاری جانور نہیں ہوتے حالانکہ وہ اپنے دشمن کے مقابلہ میں کوئی بھی ہستی نہیں رکھتے.پس بنی اسرائیل میں سے کئی قبائل کا واپس جانے کے لئے تیار ہو جانا اور پھر ہر موقع پر ڈرنا بتاتا ہے کہ اس وقت وہ جرات و بہادری کے لحاظ سے نہایت گری ہوئی حالت میں تھے.پس انکے ابھارنے اور بڑھانے کے لئے اسی بات پر زور دینے کی ضرورت تھی کہ تم بدلہ ضرور او اور اس وقت کے مناسب حال یہ حکم تھا کہ " اور تیری آنکھ مروت نہ کرے کہ جان کا بدلہ جان آنکھ کا بدلہ آنکھ دانت کا بدلہ دانت ہاتھ کا بدلہ ہاتھ اور پاؤں کا بدلہ پاؤں ہوگا.(استثناء باب ۱۹ آیت ۲۱ مطبوعہ ۱۹۲۲ء) لیکن جب ایک زمانہ گزر گیا اور نسلاً بعد نسل بنی اسرائیل نے اس قاعدہ پر عمل کیا تو ان کے اندر ایک قسم کی خونخواری اور سخت دلی پیدا ہوگئی اور اس کے دور کرنے کیلئے حضرت مسیح کے ذریعہ یہ اعلان کرایا گیا کہ ”تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور اگر کوئی تجھ پر نالش کر کے تیرا گر تا لینا چاہے تو چونہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جاوے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا جو کوئی تجھ سے مانگے اسے دے اور جو تجھ سے قرض چاہے اس سے منہ نہ موڑ تم سن چکے ہو کہ کہا گیا تھا اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دشمن سے عداوت لیکن میں تم سے کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کیلئے دعا مانگو تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو اور جو تم پر لعنت کریں ان کیلئے برکت چاہو جو تم سے کینہ رکھیں انکا بھلا کرو اور جو تمہیں

Page 306

دم جلد ۳۰ ۲۷۹ اسلام اور دیگر مذاہب دکھ دیں اور ستادیں ان کے لئے دعا مانگو " (متی باب ۵ آیت (۳۸ تا ۴۵) اس اعلان پر جن لوگوں نے کان دھرے انہوں نے اس پر عمل کرنے کی بدولت اپنے اندر سے اس خونخواری کو نکال پھینکا جو اس وقت کے بنی اسرائیل کے دل میں پیدا ہو گئی تھی اور رفتہ رفتہ ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہو گئی جو بجائے لڑنے اور جھگڑنے کے محبت و پیار کرنے والے تھے لیکن کیا یہ تعلیم ہمیشہ کے لئے اور ہر ملک کے لئے ہو سکتی تھی کیا اس سے دنیا میں امن قائم ہو سکتا تھا اور بنی نوع انسان کی اصلاح ممکن تھی؟ اپنے وقت میں اس تعلیم سے بے شک نہایت عمدہ اور نیک نتائج پیدا ہوئے لیکن اس کا رواج انہی میں دیا جا سکتا تھا جو موسوی تعلیم پر عمل کرتے کرتے دوسری حد پر پہنچ گئے تھے ورنہ سب دنیا میں اس پر عمل ہر گز نہیں ہو سکتا تھا.نہ اس وقت نہ اس کے بعد.پس ضرور تھا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا کے لئے کوئی ایسی تعلیم آتی جو دونوں پہلوؤں پر مشتمل ہوتی اور ہر ایک موقعہ و محل کے مناسب انسان کو ہدایت کرتی.چنانچہ قرآن کریم آیا اور جیسا کہ ابھی آپ لوگوں کے سامنے پڑھا گیا ہے قرآن کریم نے ایک طرف تو موسوی شریعت کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ شریر اور بد کار کو اس کی بدی کے اندازہ کے مطابق سزا دو اور دوسری طرف مسیحی تعلیم کو بھی پیش کیا کہ تو بدی کے بدلہ میں اعلیٰ سے اعلیٰ نیک سلوک کر اور ان دونوں تعلیموں سے زائد بات یہ بیان فرما دی کہ جہاں سزا سے اصلاح ہوتی ہو وہاں سزا دے اور جہاں عفو سے اصلاح ہوتی ہو وہاں عفو کر.غرض دونوں سلوکوں میں سے جو سلوک بھی اس شخص کے مناسب حال ہو اس سے کر.تا دنیا میں حقیقی امن قائم ہو اور دنیا سے ظلم اور بے جاعد اوت دور ہو.اور یہی تعلیم ہے جو درمیانی ہے اور ہر زمانہ اور ہر ملک کے لئے مفید ہو سکتی ہے اور ایک ادنیٰ سے غور سے بھی انسان معلوم کر سکتا ہے کہ اس تعلیم کے بغیر اور کوئی تعلیم نہیں جسے سب دنیا میں رائج کیا جا سکے اور جس پر عمل کرنے سے انسانی طبیعت کے ایک طرف جھک جانے کا خطرہ بالکل مٹ جائے.ہم دعوئی سے کہتے ہیں کہ ایسی کامل تعلیم اور کسی مذہب میں موجود نہیں اور اگر ہے تو اس مذہب کے پیروؤں کو چاہئے کہ ان تمام شرائط کے ساتھ مشروط تعلیم اپنی مذہبی کتب سے بھی دکھا ئیں.دنیا میں تین ہی قسم کے مذہب نکلیں گے یا وہ جو کہتے ہیں کہ تو بدی کے بدلہ میں بدی کر.یا وہ جو کہتے ہیں کہ تو بدی کے بدلہ میں بھی نیکی ہی کر.یا وہ جو بلا کسی شرط کے یہ بھی کہتے ہیں کہ تو معاف کر اور یہ بھی کہ سزا دے.لیکن سوائے اسلام کے ایسا کوئی مذہب نہ پاؤ گے جو انسان کو یہ بھی بتا تا ہو کہ تو سزا کس

Page 307

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۸۰ اسلام اور دیگر مذاہب وقت دے اور معاف کس وقت کر.اور جب تک مذہب انسان کو اسباب کی بھی ہدایت نہ کرتا ہو اس وقت تک اس کی تعلیم کامل نہیں کہلا سکتی.اس بیان کے بعد اب ہم مذہبی اعداء کو لیتے ہیں کہ ان کے ساتھ کس قسم مذہبی عداوتیں کے سلوک کا اسلام نے حکم دیا ہے سو یاد رکھنا چاہئے کہ اسلام مذہبی اختلاف اور عداوت کو دو الگ الگ چیزیں قرار دیتا ہے.اسلام ہمیں یہ تعلیم نہیں دیتا کہ جن لوگوں کو تم سے مذہبا اختلاف ہے تم ان کو اپنا دشمن سمجھو اور ان سے دشمنوں کا سا سلوک کرو بلکہ اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ تم تمام مذاہب کے پیروان کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا سلوک کرد اور مذہبی اختلاف کو عداوت نہ سمجھو اور ایسے لوگ جو مذہبی طور پر تم سے کوئی عداوت نہیں رکھتے اور تم پر مذہبی اختلافات کی وجہ سے کوئی ظلم نہیں کرتے ان سے بے شک احسان اور مروت سے پیش آؤ اور ان سے نیک معاملہ کرو اور انصاف کے ساتھ ان سے سلوک کرو.لیکن جو لوگ کہ دین کے معاملہ میں جبر سے کام لیتے ہیں اور اپنے عقیدہ کے خلاف کوئی اور عقیدہ نہیں دیکھ سکتے ان سے بالکل قطع تعلق رکھو کیونکہ یہ بات غیرت کے خلاف ہے کہ ایک شخص تمہارے دین کو تلوار کے ساتھ مٹانا چاہے اور خدا اور اس کی کتاب کو گالیاں دے اور تم اس سے دوستی رکھو چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے لَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ اَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ، إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ، إِنَّمَا يَنكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَاتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَآخَرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِ كُمْ وَظَاهِرُوا عَلَى اِخْوَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ ، وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَا وَاليْكَ هُمُ.الظَّلِمُونَ (التحنہ : (109) یعنی اللہ تعالیٰ تم کو ان لوگوں سے جو دین کے معاملہ میں تم سے نہیں لڑتے اور جنہوں نے دینی عداوت سے تم کو گھروں سے نہیں نکالا.نیکی اور حسن سلوک کا معاملہ کرنے سے نہیں روکتا بلکہ اللہ تعالیٰ تو عدل و انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.ہاں وہ تو ان لوگوں کے ساتھ دوستی و تعلق رکھنے سے روکتا ہے جو تم سے اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ تم نے یہ دین کیوں اختیار کر لیا اور تم کو اسی باعث سے گھر سے بھی نکال دیا اور تمہارے دشمنوں کے مددگار ہوئے.ایسے لوگوں سے جو دوستی کرتا ہے وہ ظالم ہے.کیونکہ وہ اسے اس کے فعل بد پر اکسانے کا باعث ہوتا ہے اور اس کے عمل سے اس دشمن دین کے دل میں خیال پیدا ہو گا کہ دیکھو باوجود اس کے کہ میں ان کے دین کو گالیاں دیتا ہوں یہ شوق سے ملتا ہے تو ضرور ہے.

Page 308

العلوم جلد ۳ ۲۸۱ اسلام اور دیگر مذاہب کہ یہ مجھ سے متاثر ہو جائے.اور بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جب ایک شخص غیرت سے خالی ہوتی جائے تو رفتہ رفتہ وہ دوسروں کے خیالات سے متاثر ہو جاتا ہے پس حفاظت دین کے لئے اور غیرت جیسے اعلیٰ درجہ کے خلق کو زندہ رکھنے کے لئے ایسی تعلیم دینی ضروری تھی کہ جو شخص دین کے معاملہ میں لڑنے پر آمادہ ہو جاتا ہے اور اپنے عقیدہ کے خلاف عقیدہ سن کر ایسا آگے بگولہ ہو جاتا ہے کہ انسانیت کی معمولی شرائط کو بھی پورا نہیں کر سکتا وہ کب اس لائق ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ دوستی رکھی جائے اور اگر کوئی شخص پھر بھی اس شخص سے محبت رکھتا ہے تو ضرور اس کا دل غیرت سے خالی ہے.غرض اس تعلیم میں بھی اسلام نے افراط و تفریط دونوں نے باتوں کو چھوڑ کر درمیانی راہ اختیار کی ہے اور ایک طرف تو محبت اور پیار کو قائم کیا ہے اور دوسری طرف غیرت کو جو اخلاق حسنہ سے ہے اور جس کے بغیر انسان حیوانوں کی طرح ہو جاتا ہے زندہ رکھا ہے نا ایسا نہ ہو کہ اسلام کا پیرو کسی ایک طرف جھک جائے اور یہ وہ تعلیم ہے کہ جس کا مقابلہ نہ تو وہ مذاہب کر سکتے ہیں جو غیر مذاہب کے ساتھ کسی قسم کا تعلق جائز نہیں قرار دیتے اور نہ وہ جو باوجود شدید سے شدید مذہبی عداوت کے پھر بھی محبت کا حکم دیتے ہیں.کیونکہ وہ انسانی فطرت کو توڑتے ہیں جس کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکل سکتا.اس کے بعد اب میں ان لوگوں کے متعلق اسلام کی عام بنی نوع انسان سے سلوک تعلیم پیش کرتا ہوں جن سے انسان کسی قسم کا ذاتی تعلق نہیں رکھتا.چنانچہ اس قسم میں سے سب سے اول تو بتائی اور مساکین ہیں.گو یتیم اور مسکین ایک رشتہ دار بھی ہو سکتا ہے.لیکن چونکہ یتیم اور مسکین کے ساتھ سلوک کرنے میں اسلام نے کوئی شرط نہیں لگائی کہ وہ کن میں سے ہو اس لئے میں ان کو عام مخلوق کے عنوان کے نیچے ہی رکھتا ہوں.کیونکہ اکثر اوقات جن بتائی اور مساکین سے پالا پڑتا ہے وہ غیر ہی ہوتے ہیں.ان دونوں قسموں کے متعلق اسلام میں نہایت وسیع احکام ہیں جنہیں اس وقت بیان نہیں کیا جاتا سکتا کیونکہ آگے ہی مضمون بہت لمبا ہو گیا ہے اس وقت صرف اس قدر ہی بیان کر دینا کافی ہے کہ بتائی اور مساکین سے نیک سلوک کرنے کا اسلام میں نہایت زور سے حکم دیا گیا ہے.چنانچہ بعض اس کے متعلق اوپر مضامین آچکے ہیں.اس جگہ صرف یہ بات ہی لکھ دینی کافی ہوگی کہ قرآن کریم بتائی کے ساتھ نیک سلوک نہ کرنے کو ان اعمال میں سے قرار دیتا ہے جن کا نتیجہ ذلت و رسوائی ہوتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے کہ بعض لوگوں پر عذاب آتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا

Page 309

۲۸۲ اسلام اور دیگر مذاہب نے ہمارے ساتھ یہ معاملہ کیوں کیا ہے.لیکن خدا تعالی ان کی نسبت فرماتا ہے كُلَّا بَل لا تُكْرِمُونَ الْيَتِيمَ (الفجر : (۱۸) یہ بات نہیں جو تم کہتے ہو بلکہ بات یہ ہے کہ تم بیتائی کی خبر گیری نہیں کرتے تھے بلکہ ان کو بے بس دیکھ کر ان کی طرف التفات ہی نہ کرتے تھے.مساکین کی نسبت فرماتا ہے کہ ان سے حسن سلوک نہ کرنا ان افعال میں سے ہے جو انسان کو دوزخی بنا دیتا ہے.چنانچہ بعض جہنمیوں کی نسبت فرماتا ہے وَلا يَحُضُّ عَلى طَعَامِ الْمِسْكِينِ ، فَلَيْسَ لَهُ الْيَوْمَ مُهُنَا حَميمُ (الحاقہ : ۳۵-۳۶) چونکہ وہ مساکین کی خبر گیری کی تحریک نہیں کرتے تھے اس لئے خدا تعالٰی نے بھی ان کی مدد نہ کی ورنہ خدا تعالٰی ان کو عذاب سے بچاتا.بتائی اور مساکین کے علاوہ دیگر بنی نوع ان احکام میں سے جو اسلام نے عام بنی نوع انسان سے سلوک کے متعلق تعلیم انسان کے متعلق دیئے ہیں ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اتفاقاً کسی انسان کی بدی پر آگاہ ہو جائے تو اس پر پردہ ڈال دے.چنانچہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں لا يَسْتُرُ عَبْدُ عَبْدًا فِي الدُّنْيَا إِلَّا سَتَرَهُ اللهُ فِي يَوْمِ الْقِيمَةِ (مسند احمد بن خلیل جلد ۲ الأَسَتَرَهُ یعنی کوئی بندہ کسی بندہ کا کوئی عیب چھپائے تو اللہ تعالی قیامت صفحه ۳۸۹) کے دن اس کے عیب چھپائے گا.اسی طرح یہ تعلیم ہے کہ کسی انسان سے بھی ایک مسلمان کو سود لینا جائز نہیں بلکہ اگر کوئی حاجتمند ہو تو جہاں تک ہو سکے اس کی مدد کرے یا اسے قرض دے کہ سود ایک زیادتی ہے جو ایک انسان دوسرے انسان پر کرتا ہے.کیونکہ جس وقت اس کا ایک بھائی حاجتمند ہوتا ہے اس وقت وہ اس سے اور مال بھی چھیننا چاہتا ہے.انہی تعلیموں میں سے یہ تعلیم بھی ہے کہ کسی شخص کو کھڑے ہوئے پانی میں پیشاب و پاخانہ کرنے کی اجازت نہیں ( ترندی ابواب الحارة باب ما جاء في كراهية البول في الماء الراكد، كيونكم اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ بعض لوگ اگر ضرورتا ایسے پانی کو استعمال کریں گے تو بوجہ نجس ہونے کے نقصان اٹھا ئیں گے.پھر انسی تعلیموں میں سے جو اسلام نے عام بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے دی ہیں.یہ بھی ہے کہ کسی شخص کو سایہ دار درخت یا راستہ یا پانی کی گھات پر پاخانہ پھرنے کی اجازت نہیں ( ترندى البواب العماره يا انا أن النبي كان اذا اراد الحاجة ابعد في المذهب) کیونکہ اس سے تھکے ماندے ہوئے مسافروں اور راستہ چلنے والے لوگوں اور پیاسوں کو ایذاء پہنچنے کا اندیشہ ہے کنز العمال جلد 9 صفحه ۳۵۳ روایت نمبر ۲۶۴۱۳

Page 310

انوار العلوم جلد.ہوتا ہے.۲۸۳ اسلام اور دیگر مذاہب علاوہ ازیں اسلام کی یہ تعلیم بھی ہے کہ مساجد میں کوئی بدبو دار شے کھا کر یا ایسی چیز استعمال کر کے نہ آؤ جس کے بعد بد بودار ڈکار آئیں یا مونہہ سے بو آئے (مسلم کتاب الصلوۃ باب النھی اکل اقوم انہی تعلیمات میں سے ہے جن کی غرض عام بنی نوع انسان پر شفقت ہے کیونکہ ایسا کرنے سے بہت سے لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے اور مساجد کا نام تو اس لئے لیا گیا ہے کہ مسلمانوں کا اجتماع مساجد میں ہی ہوتا ہے ورنہ یہ حکم عام ہی ہے.اور یہ ایسا ضروری حکم ہے کہ آج حکام ریلوے کو یہ قانون بنانا پڑا ہے کہ ریل میں کوئی شخص سگرٹ نہ پئے کیونکہ اس سے سکھوں کو تکلیف ہوتی ہے.اگر اسلام ہی کی تعلیم پر عمل کیا جائے تو ان باتوں کے لئے کسی مزید قانون کی ضرورت نہیں اور جو اثر انسان کے اعمال پر مذہب کر سکتا ہے قانون ہر گز نہیں کرتی سکتا.پھر انہی تعلیمات میں سے ایک یہ تعلیم بھی ہے کہ جب کسی جگہ پر کوئی وباء پڑے تو لوگوں کو اجازت نہیں کہ اس جگہ سے بھاگ کر دو سرے شہروں میں چلے جائیں (مسلم کتاب السلام باب الطاعون) کیونکہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے محفوظ علاقوں میں بھی وہ مرض پھوٹ پڑے گا.اس حکم کی خوبی پچھلے دنوں ہندوستان کافی طور پر دیکھ چکا ہے کیونکہ طاعون کی کثرت ہندوستان میں اس حکم پر عمل نہ ہونے کے باعث ہوئی ہے جب ایک جگہ طاعون پڑی تھی تو وہاں کے لوگ بھاگ کر دوسرے شہروں میں چلے جاتے تھے اور طاعون کا اثر وہاں بھی ہو جاتا تھا.اگر ہندوستان مسلمان ہوتا اور وہ اس حکم پر عمل کرتا تو سمجھ سکتے ہو کہ یہ وباء کس طرح ربی رہتی.س حکم کا یہ مطلب نہیں کہ شہر کو چھوڑ کر باہر ڈیرہ لگانا بھی منع کر دیا گیا ہے کیونکہ سنت صحابہ سے یہ بات ثابت ہے کہ طاعون وغیرہ وباؤں کے وقت جنگلوں میں پھیل جانا چاہئے.اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایک وباء زدہ شہر سے نکل کر دوسرے محفوظ علاقوں میں نہیں جانا چاہیے.اسی طرح اسلام بنی نوع انسان کی ہمدردی کے لئے یہ حکم بھی دیتا ہے کہ اگر کوئی شخص عام راستہ پر کوئی ایذاء دینے والی چیز دیکھے تو اسے چاہئے کہ اسے راستہ سے ہٹا کر پرے کر دے.مثلاً عین راستہ میں کوئی پتھر پڑا ہے کانٹے دار درخت کی شاخیں پڑی ہیں جن سے چلنے والوں کے گرنے یا زخمی ہونے کا خطرہ ہے تو چاہئے کہ ان کو وہاں سے ہٹا کر ایک طرف کر دیا جائے.

Page 311

نلوم جلد ۳۰ ۲۸۴ اسلام اور دیگر مذاہب (ترندی ابواب البر والصلة باب ماجاء فی اماطة اذى عن الطريق اور آنحضرت ﷺ نے اس فعل کو صدقات میں شامل فرمایا ہے.اور یہ وہ تعلیم ہے جس کی مثال اور کوئی مذہب نہیں پیش کر سکتا.جانوروں سے نیک سلوک اسلام نے جہاں انسانوں پر شفقت کا حکم دیا ہے وہاں جانوروں پر شفقت کی بھی سخت تاکید کی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَفِی اَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ( الدايت یعنی مسلمان وہ ہوتا ہے کہ اس کے مال میں ان کا جو سوال کر سکتے ہیں یعنی انسانوں کا اور ان کا جو سوال نہیں کر سکتے یعنی جانوروں کا حق ہوتا ہے.یعنی مسلمان کا کام ہے کہ وہ اپنے مال میں محتاج انسانوں اور جانوروں کو بھی شریک کرے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ جانور کو ایذاء دینا سخت منع ہے حتی کہ آنحضرت ﷺ نے ایسے انسان پر جو کسی جانور کو باندھ کر اسے نشانہ بناتا ہے لعنت کی ہے اور یہ آنحضرت ہی ہیں جنہوں نے جانوروں کے مونہہ پر نشان لگانا منع کیا کہ مونہہ ایک نازک جگہ ہے اس پر نشان نہ لگایا کرو.اور آپ نے جانوروں کی پچھلی ران کے اوپر کے سرے پر نشان لگانے کا حکم دیا جو رواج کہ اس وقت عام طور پر دنیا میں پایا جاتا ہے.اسی طرح آنحضرت ﷺ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے ایک بلی کو بند کر دیا اور وہ بھوکی پیاسی مرگئی تو خدا تعالٰی نے اس کو جنم میں ڈال دیا مسلم کتاب البر والة والاها با تحت التعذيب المرة ) یعنی اس ظلم کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایسے اعمال میں پھنس گئی جن کا نتیجہ جنم ہوا.غرضی جانوروں سے بھی نیک سلوک کرنے کا حکم اور ان پر بے جا ظلم کرنے اور بے فائدہ تکلیف دینے سے اسلام نے روکا ہے اور اس طرح اپنی تعلیم کو ہر رنگ میں کامل کر دیا ہے.اور کسی خاص بات پر ہی زور نہیں دیا.بلکہ انسانی زندگی کے ہر شعبہ اور اس کی ہر ضرورت کے متعلق مناسب اور عدل پر مبنی احکام بتائے ہیں جن پر عمل کرنے سے انسان اس دنیا اور اگلے جہان دونوں جگہ خوش و خرم ہو سکتا ہے.پس اسلام ہی ایک مذہب ہے جو تمام دنیا کے لئے قابل عمل ہے اور وہی ایک ایسا مذہب ہے جس کی تعلیم پر ہر ایک طبقہ اور ہر ایک طبیعت کے انسان عمل کر سکتے ہیں.اور جس پر عمل کر کے کوئی مفسدہ پیدا نہیں ہوتا.اور جو ہر زمانہ کے لئے قابل عمل ہے اور اس پر چل کر انسان نجات پا سکتا ہے.اور جو خوبیاں تمام مذاہب مختلف طور پر رکھتے ہیں وہ سب کی سب اس میں جمع ہیں اور یہ تمام مفید اور بابرکت تعلیمات کو اپنے اندر

Page 312

انوار العلوم جلد ۳۰ ۲۸۵ اسلام اور دیگر مذاہب شامل رکھتا ہے.اور چونکہ یہ خدا تعالی کا بھیجا ہوا آخری مذہب ہے جو انسان کو خدا تعالٰی سے اسی دنیا میں ملا دیتا ہے اور ہمیشہ پھل دیتا ہے چنانچہ اس پر چلنے والے لوگ ہر زمانہ میں خدا تعالٰی تک پہنچتے رہے ہیں.اور یہ زمانہ بھی اس کے شیریں پھلوں سے خالی نہیں گیا.اور خدا تعالی نے اسی مذہب کے ایک پیرو حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو اس زمانہ کی اصلاح کے لئے مسیحی موعود اور مہدی مسعود بنا کر بھیجا ہے.پس اے صداقت کے طالبوا اور حق کے شیدائیو! اٹھو! اور تمام بند توڑ کر اور تمام قیود کو تو ڑ کر اس چشمہ صافی کی طرف آؤ کہ تمہاری فطرت جس خوشی اور جس راحت اور جس تسلی کو چاہتی ہے وہ اس وقت صرف اسلام میں ہی ملتی ہے.اور اسلام ہی ہے جو تم کو روحانی ترقی کے اس اعلیٰ مقام پر پہنچا سکتا ہے کہ اسی دنیا میں تم خدا کو پاسکتے ہو اور شک و شبہ سے گزر کر یقین کا مرتبہ حاصل کر سکتے ہو.خاکسار محمود احمد از قادیان ایسا ہی فرما یا تَبَارَكَ الَّذِى نَزَّلَ الـ نذير الا الفرقان :)

Page 313

Page 314

نوار العلوم جلد ۳ ۲۸۷ نصائح مبلغین (مبلغین کے لئے زریں ہدایات جو حضور نے ۱۲ مارچ ۱۹۱۶ء کو ارشاد فرمائیں) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی نصائح مبلغین

Page 315

۲۸۸

Page 316

وم جلد ۳۰ بسم الله الرحمن الرحیم ٢٨٩ محمده و فصلی علی رسولہ الکریم نصائح مبلغین نصائح مبلغین جن کے بالاستیعاب و بامعان نظر پڑھنے سے ثابت ہوتا ہے کہ فی الواقعہ یہ نصیحتیں کرنے والا خلافت مسیح موعود کی مسند پر بیٹھنے کا اہل تھا.حضور نے بہت تفصیل سے تقریر فرمائی تھی.لکھنے والا نو مشق تھا اور نظر ثانی بھی نہیں کرائی جاسکی.تاہم مجھے اطمینان ہے کہ بہت ساحصہ حضور کی تقریر کے مفہوم کا اس میں آگیا ہے.ناظرین پڑھ کر اس پر عمل کریں کہ احمدی جماعت کا ہر فرد دراصل ایک مبلغ ہے.(نوٹ از مرتب کنندہ) سب سے پہلے مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ وہ تبلیغ میں تزکیہ نفس سے غافل نہ ہو تزکیہ نفس کرے.صحابہ کی نسبت تاریخوں میں آتا ہے کہ جنگ یرموک میں دس لاکھ عیسائیوں کے مقابل میں ساٹھ ہزار صحابہ تھے.قیصر کا داماد اس فوج کا کمانڈر تھا اس نے جاسوس کو بھیجا کہ مسلمانوں کا جاکر حال دریافت کرے.جاسوس نے آکر بیان کیا مسلمانوں پر کوئی فتح نہیں پا سکتا.ہمارے سپاہی لڑکے آتے ہیں اور کمریں کھول کر ایسے سوتے ہیں کہ انہیں پھر ہوش بھی نہیں رہتی.لیکن مسلمان باوجو د دن کو لڑنے کے رات کو گھنٹوں کھڑے رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں.خدا کے حضور کرتے ہیں.یہ وہ بات تھی جس سے صحابہ نے دین کو قائم کیا.باوجود اپنے تھکے ماندے ہونے کے بھی اپنے نفس کا خیال رکھا.بعض دفعہ انسان اپنے تبلیغ کے فرض میں ایسا منہمک ہو جاتا ہے کہ پھر اسے نمازوں کا بھی خیال نہیں رہتا.ایسا نہیں ہونا چاہئے ہر ایک چیز اپنے اپنے موقعہ اور محل کے مطابق اور اعتدال کے طور پر ہی ٹھیک ہوا کرتی ہے.لوگوں کی بھلائی کرتے ہوئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ انسان اپنی بھلائی سے بے فکر ہو جائے.پس ضروری ہے کہ وہ اپنا تزکیہ نفس کرے.

Page 317

العلوم ۲۹۰ نصائح مبلغین قرآن شریف کا مطالعہ کرے.پھر اپنے نفس کا مطالعہ کرے.تبلیغ بہت عمدہ کام ہے مگر تبلیغ کرنے میں بھی انسان کے دل پر زنگ لگتا ہے کبھی اگر تقریر اچھی ہو گئی اپنے مقابل کے مباحث کو ساکت کرا دیا تو دل میں غرور آگیا.اور کبھی اگر تقریر اچھی نہ ہوئی لوگوں کو پسند نہ آئی تو مایوسی ہو گئی کبھی یہ ایک دلیل دیتا ہے دل ملامت کرتا ہے کہ تو دھوکا دے رہا ہے.اس قسم کی تی کئی باتیں ہیں جو دل پر زنگ لاتی ہیں.حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب کسی مجلس میں بیٹھا کرتے تھے تو آپ استغفار پڑھ لیا کرتے تھے حالانکہ آپ اعلیٰ درجے کے انسان تھے.اور آپ کی مجلس میں بھی نیک ذکر ہو تا تھا.یہ اس لئے تھا کہ آپ ہمارے لئے ایک نمونہ تھے یہ ہمیں سکھایا جاتا تھا کہ ہم ایسا کیا کریں کہ جب کسی مجلس میں بیٹھیں تو استغفار کرتے رہیں اس لئے کہ کسی قسم کا ہمارے دل پر زنگ نہ بیٹھے.اس لئے ذکر الہی پر زیادہ زور دینا چاہئے.نماز وقت پر ادا کرنی چاہئے.ہاں اگر کوئی ایسا ہی خاص موقعہ آجائے.تو اگر نماز جمع کرنی پڑے تو کرے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت میں لوگ جھٹ نماز جمع کر لیتے ہیں.یہ مرض نماز جمع کرنے کی بہت پھیلی ہے ایسا نہیں چاہئے.اگر کوئی تمہاری باتیں کرتے ہوئے اٹھ کر نماز پڑھنے پر برا مناتا ہے.تو منانے دو کوئی پرواہ نہ کرو اور نماز وقت پر ادا کر لو.قرآن شریف میں يُقِيمُونَ الصَّلوةَ آیا ہے اس لئے کہ وقت پر نماز پڑھنی چاہئے.جب اس کے اپنے نفس میں کمزوری ہو گی تو پھر اس کے جذب میں بھی کمزوری ہوگی.تہجد کی نماز ورتل + " تہجد کی نماز مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے.قرآن شریف میں آتا ہے.یا تیها الْمُزَّمِلُ ، قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِياً ، نِصْفَةٌ أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيلًا أَوْزِدْ عَلَيْهِ ده القُرآنَ تَرْتِيلاً (المزمل : ۲ تا ۵) دن کے تعلقات سے جو زنگ آتے ہیں.وہ رات کو کھڑے ہو کر دعائیں مانگ مانگ کر خشوع و خضوع کر کے دور کرنے چاہئیں.روزہ بھی بڑی اچھی چیز ہے.اور زنگ کے دور کرنے کے لئے بہت عمدہ آلہ ہے.صحابہ بڑی کثرت سے روزے رکھتے تھے.ہماری جماعت میں بہت سے لوگ ہیں جو روزہ رکھنے میں سستی کرتے ہیں.روزہ انسان کی حالت کو خوب صاف کرتا ہے جہاں تک توفیق مل سکے روزہ رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے.بعض ایسے مواقع تلاش کرے جن میں کسی سے کلام نہ کرے خاموش ہو کر بیٹھے خواہ یہ وقت پندرہ بیس منٹ ہی ہو.بہت وقت نہ سہی مگر کچھ وقت ضرور ہونا چاہئے تاکہ خاموشی میں ذکر کرے.تبلیغ سے ذرا فراغت ہوئی تو ذکر الہی روزه

Page 318

العلوم جلد ۳۰ ۲۹۱ نصائح مبلغین کرے اس کے لئے یہ بہت مفید وقت ہے.سورج نکلنے سے پہلے صبح کی نماز کے بعد پھر سورج ڈوبنے کے قریب.پھر نماز عشاء کے بعد اور ۹ بجے دن سے لیکر دس بجے دن تک کسی وقت کر لینا چاہئے.یہ تو اپنے نفس کی اصلاح ہے.تبلیغ کے کام میں مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہئے.بعض دفعہ اجڈ گنوار آدمی آکر کچھ سناتے ہیں.اور وہ بہت لطیف بات ہوتی ہے.سلسلے کی کتابوں کا مطالعہ رہے.حضرت صاحب کی کتابیں اور پھر دوسرے آدمیوں کی کتابیں اتنی اتنی دفعہ پڑھو کہ فورا حوالہ ذہن میں آجائے.ایک مرض مولویوں میں ہے.یاد رکھو مولوی کبھی کتاب نہیں کتابیں اپنی خریدو خریدتے اس کو لغو یا اسراف سمجھتے ہیں.شاذ و نادر زیادہ سے زیادہ مشکوۃ رکھ لی اور ایک کا فیہ رکھ لیا.لیکن انسان کے لئے جہاں وہ اور بہت سے چندے دیتا کتاب خرید نا نفس کے لئے چندہ ہے.کچھ نہ کچھ ضرور کتاب کے لئے بھی نکالنا چاہئے خواہ سال میں آٹھ آنہ کی ہی کتاب خریدی جائے.یہ کوئی ضروری نہیں کہ لاکھوں کی ہی کتابیں خریدی جائیں بلکہ جس قدر خرید سکو خرید و.یہ اس لئے کہ خریدنے والا پھر اسی کتاب کا آزادی سے مطالعہ کر سکے گا اور اس طرح اس کے علم میں اضافہ ہو گا فراست بڑھے گی.بعض جگہ ہمارے مولوی جاتے ہیں اور وہاں کے لوگوں کی کتابیں لیتے ہیں لیکن جب وہاں سے چلنے لگتے ہیں تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری کتابیں لاؤ پھر دینی پڑتی ہیں.تو دوسری بات اپنی کتابیں خریدنے سے یہ ہوتی ہے کہ آزادی پیدا ہوتی ہے احتیاج نہیں ہوتی.ہے.پھر نفس کے لئے لجاجت خوشاید سوال کی عادت نہیں سوال و خوشامد کی عادت نہ ڈالو ہونی چاہئے.یہ بھی علماء میں بڑا بھاری نقص ہے کہ وعظ کیا اور بعد میں کچھ مانگ لیا.اور اگر کوئی ایسا گرا ہوا نہ ہوا تو اس نے دوسرے پیرایہ میں اپنی ضرورت جہادی.مثلاً ہمارا کنبہ زیادہ ہے گزارہ نہیں ہو تا یا کسی دوسرے الفاظ میں لوگوں کو سنا دیا کہ کچھ روپے کی یا کوٹ وغیرہ کی ضرورت ہے.ایسا نہیں ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ پر تو کل چاہئے اس سے مانگنا چاہئے.حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا تھا کہ تیرے پاس ایسا مال لایا جائے گا کہ مال لانے والوں کو الہام ہو گا کہ مسیح موعود کے پاس لے کر جاؤ.پھر وہ مال آتا ہے.کوئی کہتا تھا کہ حضور مجھے فلاں بزرگ نے آکر خواب میں کہا اور کوئی کہتا تھا حضور مجھے الہام

Page 319

۲۹۲ نصائح مبلغین م جلد ۳۰ میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب ضرورت ہوتی اللہ پر توکل کرو.وہ خود تمہارا کفیل ہو گا ہے تو خدا تعالیٰ کہیں نہ کہیں سے بھیج دیتا ہے.خدا تعالیٰ خود لوگوں کے دلوں میں تحریک کرتا ہے.جو دوسروں کا محتاج ہو پھر اس کے لئے ایسا نہیں ہوتا.ہاں اللہ تعالٰی پر کوئی بھروسہ کرے تو پھر اللہ تعالٰی اس کے لئے سامان پیدا کرتا ہے.حضرت مولوی صاحب سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے کچھ ضرورت پیش آئی میں نے نماز میں دعا مانگی مصلی اٹھانے پر ایک پونڈ پڑا تھا میں نے اسے لیکر اپنی ضرورت پر خرچ کیا.تو خدا تعالیٰ خود سامان کرتا ہے کسی کو الہام کرتا ہے کسی کو خواب دکھاتا ہے اس طرح اس کی ضرورت پوری کرتا ہے.لیکن کبھی اس طرح پر بھی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت ہی نہیں رہتی.ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ اس کی ضروریات ہی نہیں بڑھتیں اور اگر ضروریات پیش آتی ہیں تو پھر ایسے سامان کئے جاتے ہیں کہ وہ مٹ جاتی ہیں.مثلاً ایک شخص بیمار ہے اب اس کے لئے دوائی وغیرہ کے لئے روپوں کی ضرورت ہے.دعا کی.بیمار ہی اچھا ہو گیا تو اب روپوں کی ضرورت ہی پیش نہ آئی.تو ابتدائی مرحلہ یہی ہے کہ ضرورت پیش ہی نہیں آتی.پہلی حکمت یہ ہے کہ وہ لوگوں کا محتاج ہی نہیں ہوتا.دوسری حکمت یہ ہے کہ لوگوں کا رجوع اس کی طرف ہو جاتا ہے.خدا خود لوگوں کے ذریعے سے سامان کراتا ہے.ہمارے سلسلے کے علماء اور دوسرے مولویوں کا مقابلہ کر کے دیکھ لو ان کو لوگ خود نذر پیش کرتے ہیں.اور مولوی مانگتے پھرتے ہیں.ایک پیر تھا وہ ایک اپنے مرید کے گھر گیا وہ مرید اسے جب وہ آتا تھا ایک روپیہ دیا کرتا تھا اس دن اس نے ایک اٹھنی پیش کی.پیر نے لینے سے انکار کیا اور کہا کہ میں تو روپیہ لوں گا.غرض وہ اٹھنی دیتا تھا وہ روپیہ مانگتا تھا.بہت تکرار کے بعد اس مرید نے کہا جاؤ میں نہیں دیتا.تمام رات وہ پیر باہر کھڑا رہا رات کو بارش ہوئی تھی اس میں بھیگا.صبح کہنے لگا کہ اچھا لاؤ اٹھنی.تو یہ حالت ہوتی ہے جو دوسروں کے محتاج ہیں.زلزلے کا ذکر ہے با ہر باغ میں ہم ہوتے تھے.حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی.فرمانے لگے قرض لے لیں پھر فرمانے لگے قرضہ ختم ہو جائے گا.تو پھر کیا کریں گے چلو خدا سے مانگیں نماز پڑھ کر جب آئے تو فرمانے لگے ضرورت پوری ہو گئی.ایک شخص بالکل میلے کچیلے کپڑوں والا نماز کے بعد مجھے ملا.علیکم کر کے اس نے ایک تھیلی نکال کر دی.اس کی حالت سے میں نے سمجھا کہ یہ پیسوں کی تھیلی ہو گی کھولا تو معلوم ہوا کہ دو سو روپیہ ہے.تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی حاجات کو جو السلام

Page 320

م جلد - - +.۲۹۳ اس پر تو کل رکھتے ہیں اس طرح پورا کیا کرتا ہے.تم کبھی دوسرے پر بھروسہ نہ رکھو.سوال ایک زبان سے ہوتا ہے اور ایک نظر سے تم نظر سے بھی کبھی سوال نہ کرو.پس جب تم ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالی خود سامان کرے گا.اس صورت میں جب کوئی تمہیں کچھ دیگا بھی تو دینے والا پھر تم پر احسان نہیں سمجھے گا بلکہ تمہارا احسان اپنے اوپر سمجھے گا.مبلغ کے لئے بہت ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر خادمانہ حیثیت لوگوں سے تعلقات رکھے.لوگوں نے یہ نکتہ نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت نقصان اٹھایا ہے.بعض نے سمجھا کہ نوکر چاکروں کی طرح کام کرے.یہ مراد نہیں اس غلط فہمی کی وجہ سے ملانے پیدا ہوئے جن کے کام مردے نہلانا ہوا کرتا ہے.کوئی بیمار ہو جائے تو کہتے ہیں بلاؤ میاں جی کو وہ آکر اس کی خدمت کریں.کھیتی کاٹنی ہو تو چلو میاں جی.گویا میاں جی سے وہ نائی دھوبی جس طرح ہوتے ہیں اس طرح کام لیتے ہیں.دوسری صورت پھر پیروں والی ہے.پیر صاحب چارپائی پر بیٹھے ہیں کسی کی مجال نہیں کہ پیر صاحب کے سامنے چارپائی پر بیٹھ جاوے.حافظ صاحب سناتے تھے ان کے والد بھی بڑے پیر تھے لوگ ہمیں آکر سجدے کیا کرتے تھے.تو میں نے ایک دفعہ اپنے باپ سے سوال کیا کہ ہم تو مسجد میں جاکر سجدے کسی اور کے آگے کرتے ہیں اور یہ لوگ ہمیں سجدے کرتے ہیں اس پر میرے والد نے ایک لمبی تقریر کی.تو ایک طرف کا نتیجہ میاں جی پیدا ہوئے جو جھوٹی گواہی دینی ہوئی تو چلو میاں جی.اور اگر انکار کریں تو کہدیا کہ تمہیں رکھا ہوا کیوں ہے.آپ قیامت کی کے دن کیا خاک کام آئیں گے جو اس دنیا میں کام نہ آئے.اور دوسری طرف پیر صاحب جیسے پیدا ہو گئے تو دونوں کا نتیجہ خطرناک نکلا.یہ بڑی نازک راہ ہے.مبلغ خادم ہو اور ایسا خادم ہو کہ لوگوں کے دل میں اس کا رعب ہو.خدمت کرنے کے لئے اپنی مرضی سے جائے.ڈاکٹر پاخانہ اپنے ہاتھوں سے نکالتے ہیں لیکن کوئی انہیں بھنگی نہیں کہتا.ڈاکٹر اپنے ہاتھوں سے بنا کر دوائی بھی پلاتے ہیں لیکن کوئی انہیں کمپونڈر نہیں کہتا.وہ بیمار کی خاطر داری بھی کرتے ہیں لیکن کوئی انہیں ان کا خادم نہیں کہتا.یہ اس کی شفقت سمجھی جاتی ہے.اس لئے جب تم میں بھی تو کل ہو گا اور تم کسی کی خدمت کسی بدلے کے لئے نہیں کرو گے تو پھر تمہاری بھی ایسی ہی تو قدر ہو گی.وہ شفقت سمجھی جائے گی.وہ احسان سمجھا جائے گا.اگر کوئی شخص کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو اس کی تشفی دینے والا ہمارا مبلغ ہو.کوئی بیوہ ہو تو

Page 321

لعلوم جلد - ۳ ۲۹۴ نصائح مبلغین ہدایات شریعت اسلامیہ اس کا حال پوچھنے والا اس کا سودا وغیرہ لانے والا اور اس کے دیگر کاروبار میں اس کی مدد کرنے والا ہمارا مبلغ ہو.اسکا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے دلوں میں دو چیزیں پیدا ہوں گی.ادب ہو گا اور محبت ہو گی.تو کل کا نتیجہ ادب ہو گا اور خدمت کا نتیجہ محبت ہو گی.مبلغ کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اگر ان میں دنائت نہ ہو تو دوسری طرف متکبر بھی نہ ہو.لوگ نوکر اس کو سمجھیں گے جو ان سے سوال کرتا ہو.جو سوال ہی نہیں کرتا اس کو وہ نوکر کیونکر سمجھیں گے.اگر وہ اس کے پاس آئیں گے تو تو کر سمجھ کر نہیں بلکہ ہمدرد سمجھ کر.اگر اس سے کچھ پوچھیں گے تو ہمدرد سمجھ کر.اس وقت پھر مبلغ کو یہ نہیں کہنا چاہئے کہ میں نوکر نہیں انہوں نے تو اسے نوکر نہیں سمجھا ہے وہ تو اسے ہمدرد سمجھ کر آئے ہیں.تو یہ دو رنگ ہونے چاہئیں کہ اگر سب سے بڑا خادم ہو تو ہمارا مبلغ ہو اور اگر لوگوں کے دلوں میں کسی کا ادب ہو تو وہ ہمارے مبلغ کا ہو.اس کے لئے وہ اپنے مال قربان کرنے کے لئے تیار ہوں تو اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہوں.پھر مبلغ کے لئے یہ بات ضروری ہے کہ وہ دعائیں کرتا رہے کہ الہی! دعائیں کرتے رہو میں ان لوگوں کو ناراستی کی طرف نہ لے جاؤں.جب سے خلافت قائم ہوئی ہے میں یہی دعا مانگتا ہوں.ایک امام کی نسبت ایک لطیفہ ہے کہ بارش کا دن تھا ایک لڑکا بھاگتا چلا جا رہا تھا امام صاحب نے کہا دیکھنا لڑکے کہیں گر نہ پڑنا.لڑکا ہو شیار تھا بولا آپ میرے گرنے کی فکر نہ کریں میں گرا تو اکیلاگروں گا.آپ اپنے گرنے کی فکر کیجئے اگر آپ گرے تو ایک جماعت کرے گی.امام صاحب کہتے ہیں کہ مجھے اس بات کا بہت ہی اثر ہوا تو مبلغ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ اگر وہ گرے گا تو اس کے ساتھ اس کا حلقہ بھی گر جائے گا.دیکھو مولوی گرے مسلمان بھی گر گئے.یہ دو باتیں ہر وقت مد نظر رہنی چاہئیں.اول کوئی ایسی بات نہ کرے جس پر پہلے سوچا اور غور نہ کیا ہو.دوئم دعا کرتا رہے کہ الہی میں جو کہوں وہ ان ہدایت پر لے جانے والا ہو.اگر غلط ہو تو الہی ان کو اس راہ پر نہ چلا.اور اگر یہ درست ہے تو الی توفیق دے کہ یہ لوگ اس راہ پر چلیں.اپنے عمل دیکھتا جو بدی کسی قوم میں ہو اس کی تردید میں جرات سے لیکچر دو رہے.کبھی سنتی.نہ کرے.لوگوں کو ان کی غلطی سے روکے.ایسا نہ ہو کہ اللہ تعالے کے قول کے نیچے آئے.

Page 322

۲۹۵ نصائح مبلغین لَوْلَا يَنهُمُ الرَّبَّانِيُّونَ وَالأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَاكْلِهِمُ السُّحْتَ ، لَبِئْسَ مَا كَانُوا يصْنَعُونَ (المائده : ۱۴) ترجمہ : عارف (لوگ) اور علماء انہیں ان کے جھوٹ بولنے اور ان کے حرام کھانے سے کیوں نہیں روکتے؟ جو کچھ وہ کرتے ہیں وہ یقیناً بہت برا ہے.کیوں انہوں نے نہ روکا.تو یہ فرض ہے.ہمیئی کے مولویوں کی طرح نہ ہو وہی لیکچر ہونا چاہئے جس کی لوگوں کو ضرورت ہو.یہی بات ہمارے اور لاہوریوں کے درمیان جھگڑے کی ہے.وہ مرض بتانا نہیں چاہتے اور ہم مرض بتانا چاہتے ہیں.ان باتوں پر لیکچر دینے کی ضرورت نہیں جو اچھی باتیں ان میں ہیں یا جو بدیاں ان میں نہیں ہیں.اگر وہ لڑکیوں کو حصہ نہ دیں تو اس پر لیکچر دو.روزے نہ رکھیں تو اس پر دو.نماز نہ پڑھیں تو اس پر دو.زکوۃ نہ دیں تو اس پر دو.صدقہ و خیرات نہ دیں تو اس پر دو.لیکن جو باتیں ان میں ہیں ان پر نہ دو.غریبوں پر اگر وہ ظلم کرتے ہیں، شریفوں کا ادب نہیں کرتے ، چوری کرتے ہیں ، جھوٹ بولتے ہیں ان پر لیکچر دو.لیکن چوری ان میں نہیں ہے اس پر نہ دو.مرضیں تلاش کرو اور پھر دوا دو.کبھی کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ ہو.میں اپنا طریقہ بتاتا ہوں میں نے جب کبھی کسی کی مرض کے متعلق بیان کرنا ہو تو میں دو تین مہینے کا عرصہ درمیان میں ڈال لیتا ہوں.تاکہ وہ بات لوگوں کے دلوں سے بھول جائے.تو اتنا عرصہ کر دینا چاہئے.اگر موقعہ ملے تو اس شخص کو جس میں یہ مرض ہے علیحدہ تخلیہ میں نرم الفاظ کے ساتھ سمجھاؤ.ایسے الفاظ میں کہ وہ چڑ نہ جائے.ہمدردی کے رنگ میں وعظ کرو.ایک طرف اتنی ہمدردی دکھاؤ کہ غریبوں کے خدمتگار تم ہی معلوم ہو دوسری طرف اتنا بڑا ہو کہ تمہیں دنیا سے کوئی تعلق نہ ہو.دو فریق بننے نہ دو.دو شخصوں کے جھگڑے کے متعلق کسی خاص کے ساتھ تمہاری طرف داری نہ ہو.کوئی مرض پاؤ تو اس کی دوا فورا دو.کسی موقعہ پر چشم پوشی کر کے مرض کو بڑھنے نہ دو.ہاں اگر اصلاح چشم پوشی ہی میں ہو تو کچھ حرج نہیں.لوگوں کو جو تبلیغ کرو اس میں ایک جوش ہونا چاہئے.جب تک تبلیغ میں ایک جوش نہ ہو وہ کام ہی نہیں کر سکتا.سننے والے پر اثر ڈالو کہ جو تم کہہ رہے ہو اس کے لئے جان دینے کے لئے تیار ہو.اور یہ جو کچھ تم سنا رہے ہو یہ تمہیں ورثے کے طور پر نہیں ملا بلکہ تم نے خود اس کو پیدا کیا ہے.تم نے خود اس پر غور کیا ہے.(۲) ٹھٹھے باز نہیں ہونا چاہئے.لوگوں کے دلوں سے ادب اور رعب جاتا رہتا ہے.

Page 323

لوم جلد ۳۰ ۲۹۶ نصائح مبلغین ہاں مذاق نبی کریم ﷺ بھی کر لیا کرتے تھے اس میں حرج نہیں.احتیاط ہونی چاہئے.سنجیدہ معلوم ہو.(۳) اور ہمدردی ہونی چاہئے.نرم الفاظ ہوں سنجیدگی سے ہوں سمجھنے والا سمجھے میری زندگی اور موت کا سوال ہے.تمہاری ہمدردی وسیع ہونی چاہئے احمدیوں سے بھی ہو غیر احمدیوں سے بھی ہو.ہمدردی دونوں فریق کے ساتھ نہ ہونے کی وجہ سے ہی جھگڑے ہوا کرتے ہیں.ایک فریق کہتا ہے ہم اپنے مولوی کو بلاتے ہیں دوسرے کہتے ہیں ہم اپنے مولوی کو بلاتے ہیں.لیکن اگر تمہاری ہمدردی دونوں فریق کے ساتھ ہو تو دونوں فریق کے تم ہی مولوی ہو گے.اور پھر انہیں کسی اور مولوی کے بلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ وہ تمہیں اپنا مولوی سمجھیں گے.پھر تبلیغ صرف مسلمانوں میں ہی نہیں ہونی چاہئے.(۴) آج تک ہمارے مبلغوں کا زور غیر احمدیوں پر ہی رہا ہے.کثرت سے ہندو آباد ہیں ان میں بھی تبلیغ ہونی چاہئے.بہت سی سعید رو میں ان میں بھی ہوتی ہیں.تمہاری ہمدردی ان کی کے ساتھ بھی ویسی ہی ہونی چاہئے جیسے مسلمانوں اور احمدیوں کے ساتھ تاکہ تم ان کے بھی پنڈت ہو جاؤ.اسلام کی تبلیغ ہندوستان میں اسی طرح پھیلی ہے حضرت معین الدین چشتی کوئی اتنے بڑے عالم نہ تھے بلکہ انہوں نے اپنے اعمال کے ساتھ دعاؤں کے ساتھ ہمدردی کے ساتھ ہندوؤں کو مسلمان بنایا.اس لئے تم اپنی تبلیغ غیر احمدیوں سے ہی مخصوص نہ کرو بلکہ ہندوؤں عیسائیوں میں بھی تمہاری تبلیغ ہو اور ان سے بھی تمہارا ویسا ہی سلوک ہو.مجھے ہندو یہاں دعا کے لئے لکھتے ہیں نذریں بھیجتے ہیں ان میں بھی سعید رو میں موجود ہیں.اگر ان کو صداقت کی طرف بلایا جائے اور صداقت کی راہ دکھائی جائے تو وہ صداقت کو قبول کرلیں.مبلغ کا فرض ہے کہ ایسا طریق اختیار نہ کرے کہ کوئی قوم اسے اپنا دشمن سمجھے.اگر یہ کسی ہندوؤں کے شہر میں جاتا ہے تو یہ نہ ہو کہ وہ سمجھیں کہ ہمارا کوئی دشمن آیا ہے بلکہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمارا پنڈت ہے.اگر عیسائیوں کے ہاں جائے تو سمجھیں کہ یہ ہمارا پادری ہے وہ اس کے جانے پر ناراض نہ ہوں بلکہ خوش ہوں.اگر یہ اپنے اندر ایسا رنگ پیدا کرے تو پھر غیر احمدی کبھی تمہارے کسی شہر میں جانے پر کسی مولوی کو نہ بلائیں گے.نہ ہندو کسی پنڈت کو اور نہ عیسائی کسی پادری کو.بلکہ وہ تمہارے ساتھ محبت سے پیش آئیں گے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بڑے بڑے لوگوں کو جو کسی مذہب میں گزر چکے ہوں گالیاں دینے سے روکا ہے.

Page 324

۲۹۷ نصائح مبلغین اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ تمام دنیا کے لئے نبی آئے اور انہوں نے اپنی امتوں میں ایک استعداد پیدا کر دی پھر بتایا کہ اسلام تمام دنیا کے لئے تبلیغ کرنے والا ہے.تبلیغ میں یہ یاد رکھو کہ کبھی کسی شخص کے قول سے گھبراؤ نہیں اور نہ قول پر دارومدار رکھو.دلیل اور قول میں فرق ہے دلیل پر زور دینا چاہئے.لوگ دلیل کو نہیں سمجھتے مسلمان آریوں سے بات کرتے ہوئے کہہ دیتے ہیں قرآن میں یوں آیا ہے آریوں کے لئے قرآن حجت نہیں.تم رویہ دلیل کو پیش کرنے کا اختیار کرو تا جماعت احمدیہ میں یہ رنگ آجائے.دلائل سے فیصلہ کرو عقلی دلائل بھی ہوں اور نقلی بھی.دلیل ایسی نہ ہو کہ حضرت مولوی نور الدین اتنے بڑے عالم تھے وہ بھلا مرزا صاحب کو ماننے میں غلطی کر سکتے تھے.پس چونکہ انہوں نے مرزا صاحب کو مان لیا اس لئے حضرت صاحب بچے ہیں.ایسی دلیل نہیں ہونی چاہئے بلکہ دلیل سے بات کرو تاکہ جماعت میں دلا کل سے ماننے کا رنگ پیدا ہو.اگر جماعت میں دلائل سے ماننے کا رنگ پیدا ہو جائے گا تو پھر وہ کسی شخص کے جماعت سے نکلنے پر گھبرا ئیں گے نہیں.کچی اتباع پیدا کرو.جھوٹی اتباع نہ ہو آریوں کے سامنے قرآن شریف دلیل کے طور پر پیش کرو..اس طرح پیش نہ کرو کہ تم مانتے ہو.ایک اور دھوکا بھی لگتا ہے کہ بعض پھر دعوئی کے لئے بھی دلیل مانگتے ہیں.دعوئی پڑھو تو کہتے ہیں دلیل دو.جہاں دعوئی کا اثبات ہو وہاں دعوی خود دلیل ہوتا ہے.مثلاً حضرت صاحب کی نسبت کوئی پوچھے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو ہم دعوی پڑھ دیں گے.اور اس کی دلیل دینے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس نے دعوئی مانگا ہے.لاہوریوں اور ہمارے در میان حضرت صاحب کا دعوی ہی دلیل ہے.جب بحث کرد تو مد مقابل کی بات کو سمجھو کہ وہ کیا کہتا ہے.مثلاً متناسخ کی بات شروع ہوئی ہو.تو فورا تاریخ کے رد میں دلائل دینے نہ شروع کرو.کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے لیکر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے میں بھی اختلاف آتا ہے.اب اگر تم اس کے برخلاف دلیلیں دینے لگ پڑو اور آخر میں وہ کہدے کہ آپ تو میری بات سمجھے ہی نہیں تو تقریر بے فائدہ جائے گی.اس کی بات سمجھو کہ آیا وہ وہی تو نہیں کہتا جو تمہارا بھی عقیدہ ہے.بغیر خیالات معلوم کئے بات نہ کرو.تاریخ کے متعلق بات کرو تو پوچھو کہ تمہارا تناسخ سے کیا مطلب ہے.اس کی ضرورت کیا پیش آئی.غرض ایسے سوالات کر کے پہلے اس کی اصل حقیقت سے آگاہ ہو اور پھر

Page 325

انوار العلوم جلد - ۲۹۸ نصائح مبلغین بات کرو.اس طرح اول تو اس کے دعوئی میں ہی اور نہیں تو پھر دلیلوں میں ہی تمہیں آسانی پیدا ہو جائے گی.کوئی گورنمنٹ اپنے دشمن کو اپنا قلعہ نہیں دکھاتی.قانون بنے ہوئے ہیں.اگر کوئی کوشش کرے تو پکڑا جاتا ہے.کیونکہ کمزور موقعہ معلوم کر کے پھر اس پر آسانی سے حملہ ہو سکتا ہے.اس لئے پہلے کمزور موقعے معلوم کرو اور پھر حملہ کرو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا سیکھو.تھوڑے وقت میں بہت کام کرنا ایسا گر ہے کہ انسان اس کے ذریعے سے بڑے بڑے عہدے حاصل کرتا ہے.انسان محنت کرتا ہے اور ایک وائسرائے بھی.مزدور آٹھ آنے روز لیتا ہے وائسرائے ہزاروں روپیہ روز کیا وجہ ؟ وہ تھوڑے وقت میں بہت کام کرتا ہے.اس کا نام لیاقت ہے.دوسرا طریق دو سروں سے کام لینے کا ہے.بڑے بڑے عہدے دار خود تھوڑا کام کرتے ہیں دوسروں سے کام لیتے ہیں.وہ تو خوب تنخواہیں پاتے ہیں لیکن ایک محنتی مزدور آٹھ آنہ ہی کماتا ہے.یہ لیاقت کام کرنے کی لیاقت سے بڑی ہے.پس جتنی لیاقت کام کروانے کی ہوگی اتنا بڑا ہی عہدہ ہو گا.محمد رسول اللہ کو کیوں سب سے بڑا درجہ ملا ہے.محنت کرنے میں تو لوگ جو سالہا سال غاروں میں رہتے تھے آپ سے بڑھے ہوئے تھے.آپ میں کام لینے کی لیاقت تھی.یہ بھی اللہ تعالیٰ نے تو انسان میں ایک طاقت رکھی ہے.بہت جگہ سیکرٹری ہوتے ہیں خود محنتی ہوتے ہیں لوگوں سے کام لینا نہیں جانتے پھر لکھتے ہیں لوگ مانتے نہیں.دوسری جگہ سیکرٹری ہوتا ہے وہ خود تھوڑا کام کرتا ہے.لیکن لوگوں سے کام لیتا ہے اور خوب لیتا ہے تمام انتظام ٹھیک رہتا ہے.ہمیشہ اپنے کاموں میں خود کام کرنے اور کام لینے کی طاقت پیدا کرو.ایسے طریق سے لوگوں سے کام لو کہ وہ اسے بوجھ نہ سمجھیں.بہت لوگ خود محنتی ہوتے ہیں جب تک وہ وہاں رہتے ہیں کام چلتا رہتا ہے لیکن جب وہ وہاں سے ہٹتے ہیں کام بھی بند ہو جاتا ہے.اللہ تعالٰی کے سلسلے جو ہوتے ہیں جب نبی مرجاتا ہے تو وہ سلسلہ متا نہیں بلکہ اس کے آگے کام کرنے والے پیدا ہو گئے ہوتے ہیں.یہ اس لئے کہ نبی ایک جماعت کام کرنے والی تیار کر جاتا ہے.پس تمہارے سپرد بھی یہی کام ہوا ہے.یہ ایک مشق ہوتی ہے خوب مشق کرو لوگوں میں کام کرنے کی روح پھونک دو.حضرت عمرؓ کے زمانے میں صحابہ میں کام کرنے کی ایک روح پھونکی گئی تھی.ہر دو مہینے کے بعد کوفے کا گورنر بدلتا تھا حضرت عمر فرماتے تھے اگر کوفے والے مجھے روزگور نر بدلنے کے لئے کہیں تو میں روز بھی بدل سکتا ہوں.ایسے رنگ میں کام کرو کہ

Page 326

انوار العلوم جلد - ۲۹۹ نصائح مبلغین لوگوں کے اندر ایک روح پھونک دو.کبھی مت سمجھو کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو مانتے نہیں.عرب کی زمین کیسے شریروں کی تھی پھر کیسے شریفوں کی بن گئی.یہ بات غلط ہے کہ وہ مانتے نہیں.تم ایک دفعہ سناؤ دو دفعہ سناؤ آخر مائیں گے.یہ اس شخص کی اپنی کمزوری ہوتی ہے جو کہتا ہے مانتے نہیں.ہمیشہ اپنے کام کی پڑتال کرو کیا کامیابی ہوئی.تمہارے اپنے کام کی پڑتال کرتے رہو پاس ایک رجسٹر ہونا چاہئے اس میں لکھا ہوا ہو کہ فلاں جگہ گئے وعظ فلاں مضمون پر کیا اس اس طبقے کے لوگ شامل ہوئے فلاں فلاں وجوہات پر مخالفت کی گئی فلاں فلاں بات لوگوں نے پسند کی.یہ رجسٹر آئندہ تمہارے علم کو وسیع کرنے والا ہو گا.تم سوچو گے کیوں مخالفت ہوئی.اہم مسائل کا تمہیں پتہ لگ جائے گا ان پر آئندہ غور کرتے رہو گے.اگر تم وہاں سے بدل جاؤ گے تو پھر تمہارے بعد آنے والے کے کام آئے گا.آج کل اس بات کو نہ سوچنے کی وجہ سے مسلمان گرے ہوئے ہیں.ایک استاد تمام عمر فلسفہ پڑھاتا ہے وہ کبھی ان باتوں کو نوٹ نہیں کرتا کہ فلاں بات پر فلاں لڑکے نے سوال کیا اس کا اس طرح جواب ہوا.فلاں بات کی اس طرح تجدید یا تردید ہونی چاہئے.وہ جتنا تجربہ حاصل کر چکا ہوتا ہے جب مرجاتا ہے تو پھر دوسرے کو جو اس کی جگہ آتا ہے از سر نو تجربہ کرنا پڑتا ہے.یورپ کے علوم کی ترقی کا باعث یہی بات ہوئی کہ ایک کچھ نئی معلومات حاصل کرتا ہے اور انہیں نوٹ کرتا ہے اس کے بعد آنے والا پھر وہی معلومات حاصل نہیں کرتا وہ ان نوٹوں سے آگے فائدہ اٹھاتا ہے.تم بھی اس طرح کرو کہ ہر سال کے بعد نتیجہ نکالو.کون سی نئی باتیں پیدا ہو ئیں کون سی باتیں مفید ثابت ہوئی ہیں.جب یہ رپورٹ دوسرے مبلغ کے ہاتھوں میں جائے گی تو وہ اپنی بناء زیادہ مضبوط کرے گا.کبھی اپنی جگہ نہیں چھوڑنی چاہئے.یہ خیال کر کے کہ اگر یہ یوں نہیں مانتا تو اس نے استقلال طرح مان لے گا.اس میں وہ تو نہ ہارا تم ہار گئے کہ تم نے اپنی بات کو نا کافی سمجھ کر میں چھوڑ دیا.تم نے اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کو منوا بھی لیا تو کیا فائدہ.بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ غیر احمدی وفات مسیح پر چڑتے ہیں.چلو وفات مسیح چھوڑ کر اور باتیں منواتے ہیں یہ غلط ہے.وفات مسیح مان جائیں تو پھر آگے پیش کرو.ترتیب سے پیش کرو.ملمع سازی سے پیش نہ کر و ملمع سازی سے پیش کرنے کا یہ نتیجہ ہو گا کہ جب اس پر بات کھلے گی تو یا وہ تم سے بد ظن

Page 327

العلوم جلد.نصائح مبلغین ہوں گے اور یا پھر تمہارے مذہب سے.جن جن باتوں پر خدا نے تمہیں قائم کیا ہے ان کو پیش کرو.اگر لوگ نہ مانیں تو تمہارا کام پیش کرتا ہے منوانا نہیں وہ اللہ کا کام ہے.محمد رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَذ رند إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّرُه لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرٍ (الغاشیه : ۲۲-۲۳) جماعت میں ایک احساس پیدا کرو.وہ احمدیوں کی محبت جماعت میں کیا احساس پیدا کرد پر دوسرے رشتہ داروں کی محبت کو قربان کر دیں ایسی محبت احمدی لوگوں سے ہونی چاہئے کہ رشتہ داری کی محبت سے بھی بڑھ جائے.حق کی تائید ہونی چاہئے یہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگر احمدی کے مقابل میں رشتہ دار آگیا ہے تو رشتہ دار کی طرف داری اختیار کر لی جائے ہماری قوم ہماری جماعت احمدیت ہے.پھر اس بات کا احساس پیدا کرنا بھی ضروری ہے کہ دین کا اب سب کام ہم پر ہے جب یہ کام ہم پر ہے تو ہم نے دنیا کے کتنے مفاسد کو دور کرتا ہے.پھر اس کے لئے کتنی بڑی قربانی کی ضرورت ہے.اس بات کو پیدا کرو کہ ہر ایک آدمی مبلغ ہے صحابہ سب مبلغ تھے.اگر ہر ایک آدمی مبلغ ہو گا تب اس کام میں کچھ آسانی پیدا ہو گی اس لئے ہر ایک احمدی میں تبلیغ کا جوش پیدا کرو.پھر مالی امداد کا احساس پیدا کر و.اگر چہ ہماری جماعت کا معیار تو قائم ہو گیا ہے کہ فضول جگہوں میں جو روپیہ خرچ کیا جاتا ہے مثلاً بیاہ شادیوں میں وہ اب دین کے کاموں میں خرچ ہوتا ہے.لیکن یہ احساس پیدا ہونا چاہئے کہ ضروریات کو کم کر کے بھی دین کی راہ میں روپیہ خرچ کیا جائے.جماعت کا اکثر حصہ ست ہے.کچھ لوگ ہیں جو بہت جوش رکھتے ہیں.لیکن یہ بات پوشیدہ نہیں کہ آخر میں سارا بوجھ انہیں لوگوں پر پڑ کر ان لوگوں میں سستی آنی شروع ہو جائے گی.تو ایک حصہ پہلے ہی ست ہوا دوسرا پھر اس طرح ست ہو گیا تو یہ اچھی بات نہیں اس لئے چاہئے کہ جماعت کو ایک پیمانہ پر لایا جائے.جماعت کی یہ حالت ہے کہ اخبار میں چندے کے متعلق نکلے تو کان ہی نہیں دھرتے.ہاں علیحدہ خط کی انتظار میں رہتے ہیں.لیکن اگر کسی شخص کا لڑکا کم ہوا ہو اور اخبار میں نکل جائے تو جس کے ہاں ہوتا ہے وہ اسے وہیں روک لیتا ہے خط کی انتظار نہیں کرتا.انکے دلوں میں ایسا جوش پیدا کرو کہ جو نہی یہ دین کے لئے آواز سنیں فورا دوڑ پڑیں.پہلے مبلغ اپنی زندگی میں یہ احساس پیدا کریں.

Page 328

۳۰۱ نصائح مبلغین جب کوئی اعتراض پیش آوے پہلے خود اس کے حل کرنے مسائل کے متعلق غور کرو! کی کوشش کرو.فورا قادیان لکھ کر نہ بھیج دو.خود سوچنے سے اس کا جواب مل جائے گا.اور بیسیوں مسائل پر غور ہو جائے گی جواب دینے کا مادہ پیدا ہو گا.ہم سے پوچھو گے تو ہم تو جواب بھیج دیں گے لیکن پھر یہ فائدے تمہیں نہ ملیں گے.اس لئے جب اعتراض ہو خود اس کو حل کرو جب حل کر چکو تو پھر تبادلہ خیالات ہونا چاہئے.اس سے ایک اور ملکہ پیدا ہو گا.جو آپ ہی سوچے اور پھر اپنے سوچے پر ہی بیٹھ جائے.اس کا ذہن کند ہو جاتا ہے.لیکن تبادلہ خیالات سے ذہن تیز ہوتا ہے.ایک بات ایک نے لگالی ہوتی ہے ایک اور دوسرے نے اس طرح پھر سب اکٹھی کر کے ایک مجموعہ ہو جاتا ہے.دو مبلغ جہاں ملیں تو لغو باتیں کرنے کی بجائے وہ ان مسائل پر گفتگو کریں.خدا تعالیٰ سے تعلق ہو.دعا ہو.تو کل ہو.لوگوں کو قادیان بار بار آنے کے لئے اور تعلق قادیان آنے کی تاکید کرتے رہو پیدا کرنے کے لئے کوشاں رہو.جب تک کسی شاخ کا جڑ سے تعلق ہوتا ہے وہ ہری رہتی ہے.لیکن شاخ کا جڑ سے تعلق ٹوٹ جانا اس کے سوکھ جانے کا باعث ہوتا ہے.موجودہ فتنے میں نوے فیصدی ایسے لوگ ہیں جو اسی وجہ سے کہ ان کا تعلق قادیان سے نہ تھا فتنے میں پڑے.بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ قادیان میں کچھ کام نہیں رہا روپیہ جاتا ہے اور وہ لوگ بانٹ کر کھا لیتے ہیں.اس لئے لوگوں کو قادیان سے تعلق رکھنے کے لئے کوشش کرتے رہو.اپنے کاموں کی رپورٹ ہر سہ ماہی پر بھیجو.اس کے دوسری طرف میں نے زائد نوٹ لکھوا دیئے ہیں ان کے متعلق بھی لکھو.یہ بھی یاد رکھو کہ شہروں میں بھی ہماری جماعت میں وفاداری کا اثر لاہوریوں کی دیکھا دیکھی کم نہ ہو جائے.ہمیشہ جہاں جاؤ ان کے فرائض انہیں یاد دلاتے رہو.سیاست میں پڑنا ایک زہر ہے جب آدمی اس میں پڑتا ہے دین سے غافل ہو جاتا ہے.سیاست میں پڑنا امن کا نی مخل ہوتا ہے اور امن کا نہ ہونا تبلیغ میں روک ہوتا ہے.میں لاہوریوں سے اتنا نہیں ڈرتا جتنا کہ میں سیاست میں پڑنے سے ڈرتا ہوں سیاست صداقت کے خلاف احسان کے خلاف شریعت کے احکام کے خلاف ہے یہ ایسا زہر ہے کہ جس جماعت میں اس زہر نے اثر کیا ہے پھر وہ ترقی نہیں کر سکی.اس پر بڑا زور دو اس وقت سیاست کی ایک ہوا چل رہی ہے.یہ تبلیغ میں

Page 329

۳۰۲ نصائح مبلغین بڑی رکاوٹ ہے.بعض لوگ اس سلسلے میں اس لئے نہیں داخل ہوتے کہ اس نے وفاداری کی تعلیم دی ہے.پس تم سیاست میں پڑنے سے لوگوں کو روکو.دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی تعلیم روح تقویٰ کے حصول کے ذرائع رحضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی کی تقریر سے لئے ہوئے نوٹوں کی بناء پر تیار کیا گیا.اکمل) اللہ تعالٰی سورہ مائدہ میں فرماتا ہے.وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا ، والله تقویٰ کی تعریف لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الفيسقِينَ ، الامر : ) اللہ کا تقوی اختیار کرو.(المائدہ: b اچھی طرح اس کے احکام کی فرمانبرداری کرو.اور اللہ نا فرمان لوگوں کو کامیاب نہیں کرتا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ تقولٰی فرمانبرداری کا نام ہے.اور فرمانبرداری محبت کی وجہ سے کی جاتی ہے یا خوف کی فرمانبرداری کس طرح پیدا ہو وجہ سے.محبت حسن و احسان کے مطالعہ سے پیدا ہوگی اور خوف جلال کے مطالعہ سے.چونکہ انسانی فطرت میں بھی دو باتیں ہیں اس لئے سورہ فاتحہ میں ان دونوں سے کام لیا گیا ہے.فرماتا ہے.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ ، یہ تمام احسان یاد دلا کر کہ ایک پہلو سے یہی حسن بھی ہے.لوگوں کو اپنی فرمانبرداری کی طرف متوجہ کیا ہے.چونکہ بعض طبائع بجز خوف دلانے کے فرمانبرداری نہیں کرتیں.اس لئے ان کے لئے فرمایا.مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ یعنی جزاء و سزا کا بھی میں مالک ہوں.الغرض فرمانبرداری کامل محبت یا کامل خوف پر ہے.اور اس تقویٰ انبیاء کی بعثت سے کے لئے اللہ نے دو سامان مقرر کئے ہیں ایک آسمانی ایک زمینی.آسمانی سامان جس سے لوگوں میں فرمانبرداری یا تقویٰ پیدا ہو وہ انبیاء کی بعثت ہے.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب دیکھا کہ تقویٰ کی روح دنیا سے گم ہو چلی ہے تو انہوں نے اپنے مولیٰ کے حضور گڑ گڑا کر دعا کی.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ، إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) البقرة (۱۳۰) اسے ہمارے رب ان میں ایک رسول انہی میں سے مبعوث کر.جو ان پر تیری آیتیں پڑھ

Page 330

انوار العلوم جلد ۳۰ ٣٠٣ نصائح مبلغین رستادے اور ان کو کتاب و حکمت سکھائے اور ان کا تزکیہ کرے تحقیق تو عزیز و حکیم ہے.یہ دعا قبول ہوئی اور ایک رسول مبعوث ہوا جس نے اکھڑ سے اکھڑ قوم میں فرمانبرداری کی روح پیدا کر دی.انبیاء کا ہاتھ خدائے قدوس کے ہاتھ میں ہوتا ہے اس لئے جو ان سے تعلق پیدا کرتا ہے وہ بھی پاک کیا جاتا ہے.ان کی مثال بجلی کی بیٹری ہی ہے کہ جس کا ذرا بھی تعلق اس کے ساتھ ہوا وہ متاثر ہوئے بغیر نہ رہا.کیا تم دیکھتے نہیں کہ ہزاروں ٹمپرنس سوسائٹیاں اتنے سالوں سے کام کر رہی ہیں ان کا کوئی قابل ذکر فائدہ نہیں.مگر محمد رسول اللہ ﷺ کے دربار سے ایک آواز اٹھتی ہے اور تمام بلا استثناء شراب کے مٹکے لنڈ ہا دیتے ہیں.مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ دنیا کے ادنی نفع کے لئے دین کو متأخر کرنے پر تیار ہیں مگر انسی مسلمانوں میں سے عبد اللطیف" ایک نبی کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیتا ہے اور پھر دین پر اپنی جان تک قربان کر دیتا ہے.امیر کابل کی طرف سے ایماء ہوتا ہے کہ صرف ظاہر داری کے لئے کہدو میں مرزا کو مسیح نہیں مانتا مگر وہ سنگسار ہونا پسند کرتا ہے اور یہ کلمہ زبان پر نہیں لاتا.ایسا کیوں ہوا؟ اس لئے کہ وہ آسمانی ذریعہ سے پاک کیا گیا.دوسرا ذریعہ زمینی ہے.جس سے مراد انسان کا اپنی طرف سے مجاہدہ ہے.اس وقت روح انسانی کی حالت اس گھوڑے کی طرح ہوتی ہے جو آہستہ آہستہ سدھایا جاتا ہے.اس لئے فرماتا ہے.وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا - (العنکبوت : ۷۰) جو ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں.ہم انہیں رستے دکھا دیتے ہیں.ان مجاہدات میں سے چند کا ذکر اس جگہ کیا جاتا ہے اول صحبت صادقین.صادقین کی صحبت ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ انسان پاک کیا جاتا ہے.صحبت کا اثر ایک مانی ہوئی بات ہے.لوگ اکسیر کو تلاش کرتے پھرتے ہیں میرے نزدیک دنیا میں اگر کوئی اکسیر ہے تو صحبت صادقین.مبارک وہ جو اس سے فائدہ حاصل کریں.اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے.کیا تُهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ.( التوبه : 119) یعنی اے مومنو! تقویٰ اختیار کرو.اور اس تقویٰ کے حصول کا ذریعہ کیا ہے.یہ کہ تم صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.صادقوں میں ایک برقی اثر ہوتا ہے.جس سے گناہوں کے جراثیم مارے جاتے ہیں.صادق خدا کے حضور ایک عزت رکھتا ہے.اس کے طفیل صادق سے تعلق رکھنے والا بھی باریاب ہو جاتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ اپنے ایک بھانجے پر اس لئے ناراض ہو ئیں کہ وہ ان کے بہت صدقہ کرنے کا شاکی تھا.آپ نے حکم فرما J

Page 331

۳۰۴ نصائح مبلغین دیا کہ ہمارا بھانجہ کبھی ہمارے گھر میں نہ آئے.ایک روز چند صحابہ کبار نے باریابی کی اجازت چاہی جو انہیں دی گئی.ان میں صدیقہ کے بھانجے بھی شامل تھے.اور وہ بھی اندر چلے گئے.دیکھا صادقوں کی صحبت نے کیا فائدہ دیا.اسی طرح دیکھا گیا ہے کہ اچھی جنس کے ساتھ ادنی جنس مل کر بک جاتی ہے.دوسرا ذریعہ نفس کا محاسبہ ہے.یعنی ہر روز تم اپنے کاموں پر ایک تنقیدی نظر کرو.اور دیکھو کہ تمہاری حرکت دنیا کی طرف ہے یا دین کی طرف اور آیا کوئی کام اللہ کی نافرمانی کا تو نہیں کیا اور پھر اس کی اصلاح کرو.اللہ تعالٰی فرماتا ہے.يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله ین وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ ، وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر: (19) اے مومنو! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.اور وہ تقویٰ یوں حاصل ہو گا کہ ہر جان نظر کرتی رہے کہ اس نے کل کے لئے کیا کیا اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اللہ جو کچھ تم کرتے ہو اس سے خبر رکھنے والا ہے.جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا نگران حال ہے.اور اپنے اعمال پر نظر ثانی کرتا ہے اور دیکھتا رہتا ہے کہ میں نے روز فردا کے لئے کیا تیاری کی ہے وہ متقی بن جاتا ہے.تیسرا ذریعہ گناہوں پر پشیمانی یعنی تو بہ ہے.التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهُ (ابن ماجه کتاب الزہد باب ذکر التوبہ) جو شخص اپنے گناہوں پر پشیمانی کا اظہار کرتا ہے.وہ ان کے بد نتائج سے محفوظ رہتا ہے.اور آئندہ کے لئے نیکی و تقویٰ کے واسطے اپنے آپ کو تیار کرتا ہے اور شیطان کے مزید حملوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.حضرت معاویہ کی نماز فجر قضاء ہو گئی اس پر ان کو اس قدر پریشانی ہوئی اور اس قدر وہ خدا کے حضور روئے اور چلائے کہ انہیں ایک نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب ملا.دوسرے روز کسی نے انہیں اٹھایا پوچھا تو کون ؟ کہا میں تو شیطان ہوں.انہوں نے تعجب کیا کہ نماز کے لئے شیطان بیدار کرے.اس نے کہا.اگر میں نہ اٹھاؤں تو آپ ایک نماز کے بدلے دس نمازوں کا ثواب پائیں.غرض تم اپنی کسی لغزش پر اس قدر پشیمانی ظاہر کرو کہ تمہارا شیطان مسلمان ہو جائے.چوتھا ذریعہ تمام کاموں میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا رہے.حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص رات بھر سوچتا رہے اور کہے کہ ابن عمر میرا کام کر دے گا.تو خواہ مخواہ میری توجہ اس طرف ہو گی.اسی طرح جو انسان اللہ تعالیٰ کو اپنا سہارا ہر امر میں ٹھہراتا ہے اللہ تعالیٰ

Page 332

العلوم جلد ۳۰۵ نصائح مبلغین اس پر خاص توجہ کرتا ہے اور جس پر اللہ تعالیٰ کی توجہ ہو وہ کیوں فرمانبردار نہ بنے گا.پانچواں ذریعہ حصول تقویٰ کا استخارہ ہے.یعنی ہر روز اپنے کاموں کے لئے استخارہ کرے.اور اپنے موٹی سے دعا کرے کہ جو کام نیک اور تیری مرضی کے مطابق ہیں ان کی توفیق عطا ہو.اور جو تیری مرضی کے موافق نہیں ان سے مجھے ہٹالے.اگر ہر روز ایسا نہ کر سکے تو ہفتہ میں ایک بار تو ضرور ہی کرے.چھٹا ذریعہ یہ کہ دعاؤں میں لگا رہے.جو شخص اپنے اللہ سے دعا کرتا رہے اللہ اسے اپنی رضا مندی کی راہیں دکھاتا ہے اور گمراہ ہونے سے بچاتا ہے.ساتواں ذريعه لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : (۸) سے ظاہر ہے کہ جس نعمت باری تعالی پر ہم شکر کریں گے وہ بڑھ بڑھ کر دی جائے گی.پس انسان اگر کوئی نیکی کرے تو ای اسے چاہئے کہ بہت بہت شکر بجالائے تاکہ اور نیکیوں کی توفیق ملے اور وہ متقی بن جائے.آٹھواں ذریعہ سُبْحَانَ اللَّهِ وَالْحَمْدُ DNA LANGUAGENT ANNE الله والله اكبر - پڑھتا | رہے.اس میں یہ سر ہے کہ جو کسی کی تعریف کرے وہ ممدوح چاہتا ہے کہ یہ بھی ایسا ہی بن جائے.نبی کریم AND ANWALA NANG A NAT اللہ پر زور دیا ہے.اللہ تعالیٰ کو وحدہ لا شریک ثابت کیا تو خدا نے فرمایا اے نبی اہم نے تجھے بھی دنیا میں فرد بنا دیا.جو اللہ اکبر کہہ کے خدا کی دل و جان اور اپنے عمل سے بڑائی بیان کرے اسے اللہ بڑا بنا دے گا.اور جو اس کی تسبیح کرے گا خدا اسے پاک بنا دے گا.اور جو اس کا حامد بنے گا وہ محمود ہو جائے گا.نواں ذریعہ نمازوں سے اپنی اصلاح کرے.کیونکہ فرماتا ہے.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنكَرِ ، (العنکبوت : ۴۶) نما ز نا پسندیدہ کاموں سے روکتی ہے.نماز معراج المؤمنین یعنی مومنوں کو ترقیات روحانی دینے والی ہے.پس نمازیں بہت پڑھو تاکہ تقویٰ حاصل ہو اور تم میں فرمانبرداری کی روح پیدا ہو جائے.دسواں ذریعہ اللہ تعالیٰ کے جلال و جمال کا معائنہ کرتا رہے.جلال کے متعلق فرماتا ہے اَوَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسْكِنِهِمْ ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لايت ، أَفَلَا يَسْمَعُونَ (السجدہ : (۲۷) یعنی کیا یہ بات ان کو ہدایت نہیں دیتی کہ اس سے پہلے کئی قوموں کو ہم نے ہلاک کیا اور یہ ان کے مکانوں کے کھنڈروں میں چلتے پھرتے ہیں اس میں بہت سے نشان ہیں کیوں نہیں سنتے.جب تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کے نافرمانوں کا انجام یہ

Page 333

ا علوم جدید ۳۰ ۳۰۶ نصائح مبلغین ، ہو گا.اور جس ساز و سامان دنیوی کے لئے خدا کو ناراض کیا اس کا انجام یہ ہے.تو لا محالہ فرمانبرداری کی طرف توجہ ہو گی.اور جمال یعنی انعامات کے متعلق اس کے ساتھ ارشاد ہوتا ہے.اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تا كُل مِنْهُ انْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ (الجده: (۲۸) کیا نہیں غور کرتے کہ ہم پانی کو خشک زمین کی طرف بہاتے ہیں پھر اس سے کھیتی پیدا کرتے ہیں.جس سے ان کے چوپائے اور یہ خود کھاتے ہیں کیا بصارت سے کام نہیں لیتے.آدمی انعامات الہی کا مطالعہ کرے.اور اس کے احسانات اپنے روئیں روئیں پر دیکھے تو اپنے موٹی و محسن پر قربان ہونے کو جی چاہے.تِلْكَ عَشَرَةُ كَامِلَةٌ

Page 334

العلوم جلد.نجات کی حقیقت (ایک عیسائی کے استفسار پر پر معارف تقریر) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی نجات کی حقیقت

Page 335

Page 336

انوارا بسم اللہ الرحمن الرحیم ۳۰۹ نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم نجات کی حقیقت نجات کی حقیقت از افاضات سید نا حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی مؤرخہ ۲۵ مارچ ۱۹۱۶ء کو ایک عیسائی صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حضور عرض کی کہ میں آپ کی خدمت میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ مجھے اصلی اور حقیقی نجات دہندہ کا پتہ بتا ئیں آج تک میں جسکو اپنے لئے نجات دہندہ اور راہنما سمجھتا رہا ہوں.معلوم ہوا ہے کہ وہ بجائے نجات دلانے کے مجھے کسی اور طرف لے جارہا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ یسوع مسیح جس کی نسبت میرا اعتقاد ہے کہ اس نے ہمارے لئے رکھ اٹھائے.مصیبتیں نہیں.حتی کہ مارا گیا کہ ہم نجات پائیں اس سے اچھا مجھے کوئی نجات دہندہ بتایا جائے.حضور اس وقت ڈاک دیکھنے کے لئے تشریف لائے تھے اس وقت یہ تقرر فرمائی.رایڈیٹر) حضور نے فرمایا.نجات کے متعلق مسیحی مذہب اور اسلام میں جو عیسائی فلسفہ نجات اختلاف ہے.میں پہلے اس کو بتاتا ہوں.مسیحی مذہب میں نجات کے متعلق یہ عقیدہ ہے کہ آدم نے گناہ کیا اس لئے وہ درہ کے طور پر سب انسانوں میں آگیا.جس طرح باپ کی دولت ورثہ میں سب بیٹوں کو آتی ہے اسی طرح آدم جو سب کا باپ ہے.اس کا گناہ اس کی اولاد میں یعنی انسان میں آگیا.اس سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا.اور جب تک

Page 337

٣١٠ نجات کی حقیقت اس سے بچنے کی کوشش کرے گا.اس وقت تک اس سے کئی گناہ سرزد ہو جائیں گے.کیونکہ خدا کی شریعت اس لئے آتی ہے کہ سب پر پورا پورا عمل کیا جائے.اگر کسی نے ایک حکم بھی توڑ دیا تو ضرور ہے کہ وہ سزا پائے.اور اگر خدا کسی ایسے گنہگار کو سزا نہ دے تو ظالم ٹھرتا ہے لیکن خدا کا رحم چاہتا ہے کہ بخشدے کیونکہ وہ ماں باپ سے زیادہ محبت اور پیار کرنے والا ہے.اس لئے اس نے یہ تجویز کی کہ ایک بے گناہ کو جو اپنے اندر الوہیت کی شان بھی رکھتا تھا پکڑ کر صلیب پر چڑھا دیا.اور جس طرح ایک قرضدار کا قرضہ اگر کوئی اور ادا کر دے تو ادا ہو جاتا ہے.اسی طرح ہمارے گناہوں کی سزا یسوع مسیح نے اٹھالی.اور ہم بخشے گئے.اس طرح خدا کا عدل بھی قائم رہا.اور محبت بھی پوری ہو گئی یہ مسیحیوں کا اعتقاد ہے.اس کے مقابلہ میں اسلام کہتا ہے کہ ہر ایک انسان کی نجات اپنے اسلامی فلسفه نجات اعمال کے ذریعہ ہوگی.جب تک کوئی انسان خود نیکی اور تقویٰ نہ اختیار کرے گا.گناہوں اور بدیوں اور عیبوں سے نہ بچے گا.نجات کا مستحق نہیں ہو سکے گا.اس کے علاوہ عیسائیت اور اسلام کے اسلام کا مطمح نظر عیسائیت سے بلند تر ہے دعوئی ہی میں بہت بڑا فرق ہے.اور وہ یہ کہ اسلام صرف نجات کی طرف نہیں بلاتا.یہ مسیحی اور دیگر مذاہب مثلاً بدھ وغیرہ کا آئڈیا ہے.اور اسلام کا مطمح نظر اس سے بہت ہی بلند ہے.جس کے مقابلہ میں نجات کچھ چیز ہی نہیں.نجات کے معنی تو دیکھ اور تکالیف سے بچ جانے کے ہوتے ہیں لیکن انسان کی فطرت میں نہ صرف دکھ سے بچنے کی خواہش ہے بلکہ آرام اور سکھ حاصل کرنے کی بھی تمنا ہے.وہ انسان جو کسی ایسی زمین پر بیٹھا ہو جہاں کانٹے نہ ہوں وہ دکھ سے بچا ہوا ہو گا.مگر وہ انسان جو گدیلے والی کرسی پر بیٹھا ہو گا وہ نہ صرف دکھ سے بچا ہو گا.بلکہ آرام بھی پا رہا ہو گا.اسی طرح ایک انسان کے پیٹ میں درد نہیں.آنکھیں نہیں رکھتیں تو وہ سکھ میں ہے.مگر ایسا ہو سکتا ہے کہ اس کی صحت ایسی نہ ہو کہ اسے فرحت اور خوشی حاصل ہوتی ہو.تو دکھ سے بچنا علیحدہ بات ہے اور راحت اور آرام محسوس کرنا علیحدہ اسلام یہی پیش کرتا ہے.کیونکہ جب انسانی فطرت میں آرام حاصل کرنے کی بھی خواہش ہے.اور یہ دکھ سے بچ جانے کے علاوہ بات ہے تو کیوں نہ یہی انسان کو حاصل ہو.دیکھئے ایک بے علم انسان ہے.اس کو اس بات سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوگی کہ میں فلاں کتاب نہیں پڑھ سکتا.لیکن جو شخص علم حاصل کر لے گا.اس کے لئے یہ

Page 338

انوار العلوم جلد ۳۰ ۳۱۱ نجات کی حقیقت نہیں ہو گا.کہ اس کا کوئی دکھ یا تکلیف دور ہو جائے گی.بلکہ اسے سکھ مل جائے گا.پس پڑھنا اس لئے اچھا نہیں کہ انسان دکھ سے بچ جاتا ہے بلکہ اس لئے اچھا ہے کہ اس کی وجہ سے آرام حاصل ہوتا ہے.پھر دیکھئے دنیا میں لوگ دولت جمع کرنے کے لئے بڑی بڑی کوششیں کرتے ہیں.لیکن اگر کسی کو پیٹ بھر کر کھانے کو اور حسب ضرورت کپڑا پہنے کو مل جائے تو اس طرف سے اس کے لئے کوئی دکھ باقی نہیں رہتا.لیکن کوئی اس بات پر قناعت نہیں کرتا.کیوں؟ اس لئے کہ ہر ایک سمجھتا ہے زیادہ مال سے زیادہ آرام حاصل ہو گا.تو انسان کی فطرت میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے پیدا کرنے والے نے (ابھی اسبات پر بحث نہیں کی کہ کونسا مذ ہب سچا ہے.اس لئے کسی مذہب کا پیدا کرنے والا ہو) یہ بھی خواہش رکھ دی ہے کہ انسان آرام حاصل کرے.چونکہ یہ بات ہر ایک انسان وہی قول حق ہے جس کی تائید میں خدا کا فعل ہے میں پائی جاتی ہے.اس لئے معلوم ہوا ہے کہ یہ خدا کا فعل ہے اس کے ساتھ خدا کے قول کو پرکھ لو.خدا نے آنکھیں پیدا کی ہیں کہ انسان دیکھا کرے.لیکن اگر کوئی مذہب یہ کہے کہ آنکھوں سے نہیں بلکہ کانوں سے دیکھا کرو.تو ہم فورا کہ دیں گے کہ یہ غلط بات ہے.کیونکہ خدا نے دیکھنے کی طاقت آنکھوں میں رکھی ہے نہ کہ کانوں میں.تو مذہب کی ہر ایک بات کے پر کھنے کے لئے خدا تعالیٰ کے فعل کو دیکھنا چاہئے.جس قول (یعنی مذہب کے حکم کی فعل یعنی قانون قدرت تائید کرے.اس کو قبول کر لینا چاہئے اور جس کی تردید کرے.اسے غلط قرار دیکر چھوڑ دینا چاہئے.اب ہم اس بات کو دیکھتے ہیں کہ جب فطرت حقہ کے مطابق کو نسامذ ہب ہے؟ خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں یہ رکھ دیا ہے کہ وہ نہ صرف دکھ سے بچنا چاہتا ہے.بلکہ سکھ بھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو جو مذہب ان دونوں باتوں کے متعلق جو احکام بیان کرتا ہے وہ انسان کی فطرت کے مطابق ہے.اور جو صرف دکھ سے بچنے کے متعلق بتاتا ہے.مگر آرام حاصل کرنے کی نسبت بالکل خاموش ہے.وہ فطرت کے مطابق نہیں ہو سکتا.کیونکہ اس مذہب کا بیان کرنے والا فطرت انسان سے واقف نہیں ہے.خدا نے جو طاقت انسان میں رکھی ہے.اس کے لئے سامان بھی ضرور پیدا کئے ہیں.مثلاً معدہ میں ہضم کرنے کی طاقت ہے تو خوراک بھی پیدا کی گئی ہے.دیکھنے کے لئے آنکھیں ہیں تو روشنی بھی بنائی گئی ہے.سننے کے لئے کان ہیں تو ہوا بھی رکھی گئی ہے.اسی طرح روح میں بھی طاقتیں ہیں

Page 339

اور ان کے لئے بھی سامان ہیں.۳۱۲ نجات کی روح میں یہ کشش ہے کہ وہ نہ اسلام نہ صرف نجات دلاتا ہے بلکہ مفلح بناتا ہے صرف دکھ سے بچے بلکہ آرام بھی حاصل کرے.لیکن جو مذہب اسے صرف دکھ سے بچاتا ہے وہ اس کے آدھے حصہ کو پورا کرتا ہے.کیونکہ اس کے دو مطالبے ہیں ایک دکھ سے بچنا.اور دوسرا آرام حاصل کرنا.عیسائیت صرف نجات یعنی دکھ سے بچانے کا وعدہ کرتی ہے.اور یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص دشمن کے مقابلہ کے لئے جائے تو اسے کہا جائے کہ کوئی فکر نہ کرو تم اس کے ضرر سے بچ جاؤ گے لیکن اصل میں یہ اس کے لئے اتنی خوشی کی بات نہیں ہوگی جتنی یہ ہو سکتی ہے کہ تم نہ صرف دشمن کے ضرر سے بچ جاؤ گے بلکہ اس پر کامیابی بھی حاصل کر لو گے.کیونکہ صرف دکھ سے بچنا کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انسان کے لئے کامل خوشی کا موجب ہو سکے.اسلام نے یہی آخری درجہ یعنی دکھوں اور تکلیفوں سے بیچ کر کامیاب اور بامراد ہونے کا رکھا ہے.اور اس کا نام فلاح قرار دیا ہے یعنی مظفر و منصور اور غالب ہو کر اپنی راحت و آرام کے سامان مہیا کرلینا.پس اسلام نہ صرف یہ بتاتا ہے کہ تم دکھوں سے بچو بلکہ یہ بھی بتاتا ہے کہ تم اس طرح آرام حاصل کر سکتے ہو.یہ اسلام اور مسیحیت میں پہلا اور سب سے بڑا فرق ہے.عیسائیت کے لیکچرار اپنے سارے زور اور قوت سے لوگوں کو نجات کی طرف بلاتے ہیں.لیکن قرآن کریم ابتداء میں ہی فرماتا ہے.اولَيْكَ عَلى هُدًى مِنْ رَتِهِمْ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ: اسلام کے احکام پر چلنے والے ہدایت اور ہر قسم کے روحانی مدارج کے حاصل کرنے والے ہوں گے.اور اس کے علاوہ وہی اپنے مقصد اور مدعا میں کامیاب اور بامراد ہو جائیں گے.یہ درجہ دکھ درد سے مخلصی حاصل کرنے سے بہت اعلیٰ ہے.اس میں شک نہیں کہ مسیحی مذہب میں بھی آرام حاصل کرنے کی طرف متوجہ کیا جاتا ہے مگر اس پر زور نہیں دیا جاتا.اسکو ایک ضمنی بات سمجھا جاتا ہے.اور اصل مقصد نجات کو قرار دیا جاتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کے مرتب کرنے والوں کی نظر وسیع نہ تھی.یا بعد میں لوگوں نے اس میں تغیر و تبدل کر دیا.یہ تو ایک بڑا فرق ہوا.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ عیسائیت کی نجات کے مقابلہ عیسائیت اور اسلام میں پہلا فرق میں اسلام میں نجات بھی ہے مگر یہ فلاح سے ادنیٰ يت ه البقره : ۶

Page 340

ر العلوم جلد ۳۰ ۳۱۳ نجات کی حقیقت درجہ رکھتی ہے.جس طرح ایک کالج میں ایم.اے بی.اے ایف.اے اور انٹرنس کے درجے ہوتے ہیں.یعنی کوئی اعلیٰ اور کوئی ادنی اسی طرح انسانی مدارج کے اسلام میں بھی درجے ہیں.اور نجات بھی ایک درجہ ہے مگر اوٹی اس لئے گو اسلام اور عیسائیت اس بات میں تو متفق ہیں کہ نجات ہوتی ہے.مگر اسلام اس کو ادنی درجہ قرار دیتا ہے.اور عیسائیت سب سے اعلیٰ رجد دوسرا ما بہ الامتیاز پھر اسلام اور عیسائیت میں بھی فرق ہے کہ مسیحیت اس بات پر زور دیتی ہے کہ نجات انسان کے اعمال سے نہیں ہوتی.بلکہ صرف خدا کے فضل سے ہو سکتی ہے.کیونکہ کوئی انسان تمام اعمال کو بجا نہیں لا سکا.اس لئے خدا نے اپنے بیٹے کو دنیا کے گناہوں کے بدلے قتل کیا.تاکہ وہ نجات پائیں.اسلام اس بات میں تو متفق ہے کہ نجات خدا کے فضل سے ہوتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ ہر ایک چیز کا ایک باعث ہوتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی چیز ہو اور اس کا کوئی باعث نہ ہو.گو بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی چیز کا باعث معلوم نہیں ہو سکتا.مگر ہوتا ضرور ہے اور پھر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس باعث کا کوئی اور باعث ہو.مثلاً ایک شخص ایک مزدور کو چار آنے یومیہ پر نوکر رکھتا ہے.وہ مزدور سارے دن میں جس قدر بھی محنت اور مشقت سے کام کرے.اسی قدر وہ اپنے فرض کو اچھی طرح ادا کرنے والا ہو گا.اور اگر ستی سے کام لیگا تو بد دیانتی کرے گا مگر بہت اچھی طرح کام کرنے سے اس کا یہ حق نہیں ہو گا کہ زیادہ مزدوری مانگے.ہاں اگر وہ ایک دن کی بجائے ڈیڑھ دن لگائے تو اس کا حق ہو گا کہ چار آنے کی بجائے چھ آنے طلب کرے.لیکن اگر اسپر خوش ہو کر کام کرانے والا ایک دن کی محنت کرنے پر چار آنے کی بجائے آٹھ آنے دیدے.تو یہ زائد چار آنے اسکی مزدوری نہیں ہوگی.بلکہ دینے والے کا اس پر رحم اور فضل ہو گا.لیکن یہ فضل کیوں اس پر ہوا؟ کسی اور پر کیوں نہ ہو گیا.اس لئے کہ اس نے کچھ محنت کی تھی.اس محنت نے فضل کو کھینچا ہے.گو یہ فضل اس محنت کا نتیجہ نہیں کیونکہ اس کا نتیجہ تو صرف چار آنے ہے.لیکن اس نے اس فضل کو حاصل کرایا ہے اسی طرح اسلام نجات کے متعلق کہتا ہے کہ وہ ہوگی تو خدا کے فضل سے.مگر خدا کے فضل کو کھینچنے والے اس کے اعمال ہی ہوں گے.دنیا کے تمام کاروبار میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ گو ایک بات دوسرے کے نتیجہ میں نہیں ہوتی.مگر اس کی وجہ سے ہوتی ہے.مثلا گورنمنٹ فوج کے آدمیوں کو جو تنخواہ دیتی ہے وہ انہیں اس زیادہ سے زیادہ کوشش

Page 341

العلوم جلد ۳ ۳۱۴ نجات کی حقیقت کے معاوضہ میں دیتی ہے جو وہ لڑائی میں کر سکتے ہیں.مگر پھر بھی جو لڑائی میں خاص جرات اور ولیری دکھاتا ہے.اس کو کئی قسم کے انعام دیئے جاتے ہیں.حالانکہ جب ملازم رکھا جاتا ہے.تو اس وقت یہ اقرار لیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کے لئے جان دینی پڑی تو بھی دریغ نہ کروں گا.آپ جانتے ہیں پھر گورنمنٹ کیوں انعام دیتی ہے.اس لئے کہ وہ کسی کی خدمت سے خوش ہو جاتی ہے پس گورنمنٹ کا انعام سپاہی کی خدمت کا معاوضہ نہیں ہوتا لیکن ہو تا خدمت ہی کی وجہ سے ہے.اس طرح خدا تعالیٰ کا نجات دینا ہے.انسان اعمال کرتا ہے.اس میں شک نہیں کہ انسان میں کمزوریاں ہیں.لیکن جب وہ اپنی طرف سے پورے زور اور کوشش سے اعمال کرتا ہے.تو اس کے اعمال خدا تعالی کے رحم اور فضل کو کھینچ لیتے ہیں.اور وہ نجات پا جاتا ہے.دنیا کے کاروبار میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی شخص خاص ہمت اور کوشش سے کام کرتا ہے تو اپنے کام کرانے والے انسان کے رحم کو حاصل کر لیتا ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے کوئی کام کرے اور اس کے رحم کو نہ پاسکے.پس ہمارے نزدیک اعمال ضروری ہیں.کیونکہ ان نجات کے لئے اعمال ضروری ہیں کے ذریعہ فضل حاصل ہوتا ہے.اور خدا کے فضل سے نجات ہوتی ہے.اور جب تک اعمال نہ ہوں نجات ہو نہیں سکتی.دیکھو ایک انسان کسی پر کیوں رحم کرتا ہے.اس لئے کہ اس کو دکھ اور مصیبت میں دیکھتا ہے یعنی اس شخص کا دکھ اس کے رحم کو کھینچتا ہے تو ہر بات کے لئے کوئی نہ کوئی ذریعہ ہوتا ہے خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کرنے کا پہلا ذریعہ اعمال ہیں اسی لئے اسلام نے اعمال پر بہت زور دیا ہے.لیکن نجات خدا کے فضل پر ہی رکھی ہے.آنحضرت ا نے پوچھا گیا.کہ نجات کے لئے اعمال پر بھروسہ ٹھیک نہیں! آپ کی نجات تو اعمال کی وجہ سے ہوگی.آپ نے فرمایا.نہیں میری نجات بھی خدا کے فضل سے ہو گی.آنحضرت ا سے بڑھ کر اور کوئی شخص درجہ نہیں رکھتا.جب آپ فرماتے ہیں کہ میری نجات خدا کے فضل سے ہوگی.تو اور کون ہے جو اپنے اعمال پر بھروسہ رکھ سکے.ہاں فضل کے لئے اعمال کا ہونا ضروری ہے.اور اسی تھیوری کو اسلام پیش کرتا ہے.اس سے آپ عیسائیت کی تھیوری کا مقابلہ کرکے دیکھ لیں کہ کون غلط اور کون درست ہے.سے مسلم شرح النووی - صفات المنافقين و احكامهم - باب لن يدخل احد الجنة بعمله بل برحمته الله

Page 342

انوار العلوم جلد ۳۰ ۳۱۵ نجات کی حقیقت مسیحی مذہب کا دعوی ہے کہ مسیحی مذہب والوں کو اعمال کے متعلق کیا دھوکا لگا انسان کو اس لئے نجات حاصل نہیں ہو سکتی کہ انسان گنہگار ہے اور شریعت کے احکام کو پورا نہیں کر سکتا.کیونکہ شریعت کے ایک چھوٹے سے چھوٹے حکم کی خلاف ورزی کرنا بھی گناہ ہے اور کوئی انسان نہیں ہے ہے جو تمام احکام کو پورا کر سکے.پس جبکہ کوئی انسان ایسا نہیں کر سکتا.تو ضرور ہے کہ جو گناہ اس سے سرزد ہوں.ان کی اسے سزا ملے.جس طرح گورنمنٹ کے اگر کسی حکم کی خلاف ورزی کی جائے تو وہ سزا دیتی ہے اسی طرح جو کوئی خدا کے کسی حکم کی خلاف ورزی کرے گا وہ ضرور سزا پائے گا.اس سے ثابت ہوا کہ شریعت پر چل کر کوئی نجات نہیں پاسکتا.مگر اصل بات یہ ہے کہ عیسائی مذہب والوں کو یہ دھوکا لگا ہے.اور انہوں نے تمام شریعت پر عمل کرنا انسان کی نجات کے لئے اصل قرار دیکر یہ سمجھ لیا ہے کہ چونکہ کوئی انسان شریعت کی ساری شرائط کو پورا نہیں کر سکتا.اس لئے خدا سے نجات بھی نہیں دیتا لیکن اسلام یہ نہیں کہتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ خدا کو کسی کے عبادت کرنے یا نہ کرنے کی کوئی پرواہ نہیں ہے.خدا تعالی کی ذات اس سے مستغنی ہے.کسی کی عبادت کرنے یا شریعت پر چلنے سے اسے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.اور کسی کی عبادت نہ کرنے یا شریعت کے احکام پر عمل نہ کرنے سے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.ساری دنیا اگر دن رات اس کی تقدیس اور تحمید میں لگی رہے تو اس کا کچھ بڑھ نہیں جاتا.اور اگر ساری دنیا گندی اور بد کار ہو جائے تو اس کی شان میں کچھ کمی نہیں آسکتی.پس خدائے تعالیٰ نے شریعت اس لئے نہیں بھیجی کہ اس سے اس کا فائدہ ہے بلکہ اس لئے کہ انسان اس کے محتاج ہیں.اگر کوئی اس پر عمل کرے گا تو وہ اعمال اس کو فائدہ دیں گے.تو خدا تعالی کا شریعت کو بھیجنے سے صرف یہی مقصد نہیں کہ لوگ اس کے ہر ایک حکم پر عمل کریں بلکہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ انسان خدا تعالی تک پہنچ جائے یعنی اعمال کے ذریعہ وہ استعداد پیدا کرنی مقصود ہے جس سے انسان کی روح ایسی پاک ہو جائے کہ اس کا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو سکے.اس لئے ہم قوانین سلطنت و شریعت میں مشابہت قائم کرنا غلطی ہے.خداتعالی کی شریعت کو گورنمنٹ کے قوانین سے تشبیہ نہیں دے سکتے.کیونکہ گورنمنٹ کا مدعا صرف قوانین پر عمل کرانا ہوتا ہے تاکہ امن قائم رہے.اگر لوگ چوری کریں ، ڈاکے ڈالیں ، رہزنی کریں تو

Page 343

لوم جلد ۳ 1714 نجات کی حق گورنمنٹ ہی نہیں رہ سکتی.مگر ساری دنیا کے شریعت چھوڑ دینے اور اس کے بالکل برعکس کرنے سے خدا خدا ہی رہتا ہے.اس کی شان اور پاکیزگی میں ذرہ بھر بھی فرق نہیں آسکتا.اس لئے قوانین سلطنت اور شریعت میں مشابہت ہی غلط ہے.گورنمنٹ اس بات کی محتاج ہے کہ لوگ اس کے قوانین پر چلیں.لیکن خدا محتاج نہیں ہے کہ لوگ شریعت پر عمل کریں.خداتعالی نے تو اپنے رحم اور فضل سے شریعت کے احکام اس لئے نازل فرمائے ہیں کہ اگر تم ان پر عمل کرو گے تو خداتعالی سے تمہارا تعلق ہو جائے گا.شریعت کی مشابہت شریعت کی مشابہت یونیورسٹی کے کورس سے صحیح ہے.یونیورسٹی کے کورس سے دی جاسکتی ہے.یونیورسٹی میں مثلاً کسی مصنف کی تاریخی کتاب پڑھائی جاتی ہے.لیکن اس کے پڑھانے کا یہ مقصد نہیں ہو تا کہ اس خاص شخص کی لکھی ہوئی تاریخ پڑھی جاوے.بلکہ یہ ہوتا ہے کہ پڑھنے والے میں ایک حد تک تاریخ دانی کی قابلیت پیدا ہو جائے یہی وجہ ہے کہ کتابیں بدل دی جاتی ہیں.اور جو مفید اور مناسب سمجھی جاتی ہیں انہیں پڑھایا جاتا ہے پھر یونیورسٹی امتحان کے لئے کچھ سوال مقرر کرتی ہے لیکن کوئی طالب علم ایسا نہیں ہوتا جو تمام سوالوں کے تمام و کمال جواب دے سکے.تاہم ہر سال ہزاروں طلباء پاس ہوتے ہیں.حالانکہ ان میں سے ہر ایک نے کچھ نہ کچھ غلطیاں کی ہوتی ہیں.ان کے پاس ہونے کی وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹی کی غرض ان سے سارے سوال پورے کرانا نہیں بلکہ ایک حد تک استعداد پیدا کرنا ہے.جب کسی میں اس حد تک استعداد پیدا ہو جاتی ہے تو وہ پاس کر دیا جاتا ہے.اسی طرح شریعت ہے.خدا تعالیٰ نے کچھ احکام بیان فرمائے ہیں.تاکہ ان کے ذریعہ انسان میں خدا سے تعلق پیدا کرنے کی استعداد پیدا ہو جائے.چنانچہ نماز پڑھنے کا حکم اس لئے نہیں کہ اٹھائے بیٹھائے بلکہ اس لئے ہے کہ پاکیزگی پیدا ہو.روزہ رکھنے کا اس لئے ارشاد نہیں کہ بھوکا رکھا جائے.بلکہ اس لئے ہے کہ تقویٰ حاصل ہو.اسی طرح تمام دوسرے احکام کے متعلق ہے.جب کوئی انسان ان پر اس وقت تک عمل کر لیتا ہے کہ اس میں استعداد پیدا ہو جاتی ہے تو وہ پاس ہو جاتا ہے جس طرح یونیورسٹی میں ۴۰ یا ۶۰ یا ۸۰ فیصدی نمبر پاس ہونے کے لئے رکھے ہوتے ہیں اور اتنے نمبر حاصل کرنے والا پاس ہو جاتا ہے اسی طرح شریعت کے احکام کے متعلق بھی استعداد دیکھی جاتی ہے.

Page 344

ظوم جلد - ۳۱۷ نجات کی عیسائی صاحبان یہ تو کہتے ہیں کہ کیا شریعت کے جس حکم پر انسان عمل نہیں کرتا وہ خدا کی طرف سے نہ تھا.لیکن یہ نہیں کہتے کہ کیا امتحان کے جس سوال کو طالب علم حل نہیں کرتا.وہ یونیورسٹی کی طرف سے نہیں تھا.اصل بات یہ ہے کہ جس طرح یونیورسٹی باوجود بعض سوالات کے حل نہ کئے جانے کے قابلیت کی ایک حد کو دیکھ کر پاس کر دیتی ہے.اسی طرح شریعت کے سب احکام کو پورا نہ کرنے کی حالت میں بھی جبکہ انسان ایک خاص حد تک استعداد پیدا کر لے نجات پاسکتا ہے.ہاں جسطرح زیادہ نمبر حاصل کرنے والا اعلیٰ درجہ پر پاس ہوتا ہے اسی طرح شریعت کے احکام کے ذریعہ زیادہ استعداد پیدا کرنے والا اعلیٰ مرتبہ پر ہوتا ہے.اگر نجات میں شریعت کا تعلق نہیں اور خدائے تعالیٰ کے حضور اس لحاظ سے مدارج ہیں.اور مدارج کو مسیحی صاحبان بھی تو پھر عیسائی مدارج کیوں مانتے ہیں.مانتے ہیں چنانچہ انبیاء کے درجوں میں فرق کرتے ہیں.مسیحی صاحبان جو درجہ حضرت ابراہیم کو دیتے ہیں وہ کسی اور نبی کو نہیں دیتے.لیکن نجات کو اگر اعمال کے لحاظ سے نہ مانا جائے تو پھر مدارج میں بھی فرق نہیں ہونا چاہئے.اسلام نے اعمال کے مطابق ہی مدارج قرار دیئے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں آیا ہے.وَالوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقِّ فَمَنْ ثَقَلَتْ مَوَازِينُهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِينه فَا وَلَئِكَ الَّذِينَ خَسِرُوا أَنْفُسَهُمْ بِمَا كَانُوا بِايَتِنَا يَظْلِمُونَ (الاعراف : 9-10) یعنی قیامت کے دن ہر ایک کے اعمال کا وزن دیکھا جائے گا.اگر کسی نے اس حد تک عمل کئے ہوں گے.کہ اس میں خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرنے کی استعداد پیدا ہو گئی ہوگی.تو اس کی چھوٹی چھوٹی فروگذاشتوں کو معاف کر دیا جائے گا.جس طرح یونیورسٹی بھی باوجود تمام سوالات کے حل نہ کرنے کے پاس کر دیتی ہے اس سے ثابت ہو گیا کہ اگر شریعت کے تمام احکام پر باوجودیکہ اپنی طرف سے پوری پوری کوشش کی جائے.عمل نہ ہو سکے.تو انسان نجات پاسکتا ہے.ہم اس بات کے قائل نہیں کہ انسان لیکن ہم تو اس بات کو قبول ہی نہیں کرتے کہ تمام شریعت پر عمل نہیں کر سکتا.انسان تمام احکام پر عمل نہیں کر سکتا.عیسائی صاحبان تعزیرات ہند پر عمل کرتے ہیں یا نہیں ضرور کرتے ہیں.کیونکہ ان کا آزاد پھرنا اس بات کا ثبوت ہے اگر وہ اس پر عمل نہ کرتے تو سزا پاتے.لیکن قرآن کریم تو اس سے بہت چھوٹا ہے.پھر اس پر کیوں عمل نہیں

Page 345

انوار العلوم جلد ۳۰ -- FA نجات کی حقیقت و سکتا.پس یہ کہنا کہ شریعت کے تمام احکام پر عمل نہیں ہو سکتا ، غلط ہے اور عیسائی صاحبان اس متعلق اس طرح دھوکا دیتے ہیں کہ کسی سے پوچھتے ہیں.کیا آپ نیک ہیں وہ آگے کسر نفسی اور انکسار سے کہتا ہے.جی نہیں میں تو گنہگار ہوں عیسائی کہہ دیتے ہیں.دیکھو یہ خود اقرار کرتا ہے کہ میں گنہگار ہوں اس سے ثابت ہوا کہ کوئی انسان گناہوں سے پاک نہیں ہو سکتا.حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جب حضرت مسیح کو بھی کہا گیا تھا کہ "اے نیک استاد! میں کیا کروں تاکہ ہمیشہ کی زندگی کا وارث بنوں یسوع نے اس سے کہا تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے.کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا" (لوقا باب ۱۸ آیت ۱۹۸۸) اور بات بھی یہی ٹھیک ہے.کیونکہ اصل نیک جس میں کوئی کسی قسم کی بدی اور نقص نہ ہو سوائے خدا کے اور کوئی نہیں ہو سکتا.لیکن ہر ایک انسان میں کمزوریاں ہیں مثلاً عالم الغیب نہ ہونا وغیرہ.اس لئے اصل نیکی کا اطلاق پورے طور سے خدا تعالیٰ پر ہی ہو سکتا ہے.لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالنا چاہئے کہ دنیا میں کوئی انسان نہ نیک ہوا ہے اور نہ ہو سکتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ وہ انسان جو نیک ہو وہ انکسار کی وجہ سے کہتا ہے کہ میں نیک نہیں ہوں کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ غرور اور تکبر جو انسان کی ہلاکت کا موجب ہے اس میں میں گرفتار نہ ہو جاؤں.اور اس کا یہ اقرار بدی سے بچنے کے لئے ہوتا ہے نہ کہ بدی کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے.ورنہ ہزار ہا انبیاء نے دعوی کیا ہے کہ ہم ہر ایک قسم کی بدی اور برائی سے پاک ہیں.دوسری بات یہ ہے کہ جو شخص اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہے وہ خدا تعالی کے مقابلہ پر کرتا ہے.اور اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دیا ہوتا ہے.دیا بھی روشن ہوتا ہے لیکن سورج کے مقابلہ پر اس کی روشنی کچھ چیز نہیں ہے.یہی بات انسانوں میں ہے ورنہ بہت سے لوگ ایسے ہوئے ہیں جو شریعت کے احکام پر پورے پورے عمل کرنے والے تھے اور اب بھی ہیں.یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انسان شریعت کے احکام پر عمل کر سکتا ہے.واقعہ میں شریعت کا کوئی حکم ایسا نہیں ہے جس پر عمل نہ ہو سکتا ہو.کیا زنا ایسا ہے جس سے انسان بچ نہیں سکتا یا چوری یا ڈاکہ، جھوٹ، قتل، چغلی وغیرہ ایسے ہیں جن سے بچنا ناممکن ہے.ہرگز نہیں اگر انسان کے دل میں خدا کا خوف ہو.تو ضرور بچ سکتا ہے عیسائی صاحبان کے پاس صرف انسان کا انکسار اور کسر نفسی اسبات کا ثبوت ہے کہ کوئی انسان گناہوں سے بچ نہیں سکتا لیکن یہ ایک غلط دلیل ہے.دیکھو اگر کسی کو یہ کہا جائے کہ تم گناہوں سے بالکل پاک ہو تو فروتنی کے لحاظ سے کہے گا کہ میں ایک گنہگار بندہ ہوں لیکن اگر اسے یہ کہا جائے کہ کیا تم تعزیرات ہند پر پورا پورا سة مطبوعه ۱۹۲۲ء

Page 346

العلوم -جلد ۳۱۹ نجات کی دا عمل کرتے ہو تو وہ یہی جواب دے گا کہ ہاں میں ضرور کرتا ہوں اور کبھی یہ نہیں کہے گا کہ میں اس کے خلاف کرتا ہوں.کیوں؟ اس لئے کہ یہ کہنے سے وہ شرمندہ نہیں ہوتا وہ جانتا ہے کہ تعزیرات انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین ہیں اور انسان کوئی ایسی ہستیاں نہیں ہیں جن کے مقابلہ میں یہ کہنا نا روا ہو لیکن شریعت کے احکام کے متعلق جواب دیتے ہوئے اس کے پیش نظر خدا تعالیٰ ہوتا ہے.اس لئے وہ انکسار اور عاجزی سے جواب دیتا ہے.باقی رہا یہ کہ گناہ انسان کو ورثہ میں ملا یہ بات غلط ہے کہ انسانوں کو گناہ ورثہ میں ملا ہے.اس لئے وہ گناہوں سے پاک ہو ہی نہیں سکتا.یہ بھی غلط ہے اگر انسانوں کو ورثہ میں گناہ ملا تھا تو حضرت آدم میں کہاں سے آگیا تھا اگر اس میں اپنے طور پر آگیا تھا تو اب بھی یہ کیوں نہ مانیں کہ باقی انسانوں میں بھی اپنے طور پر آتا ہے.پھر اگر انسان میں گناہ ورثہ کے طور پر آیا تھا.تو اس کا اور اتنا گناہ پر سزا دینا ظلم ہے ذمہ دار انسان نہیں قرار پا سکتا.مثلا ایک شخص حرام زادہ ہے کیا وہ اس لئے دوزخ میں ڈالا جاسکتا ہے کہ اس کی ماں نے زنا کیا تھا اور وہ پیدا ہوا تھا ہرگز نہیں کیونکہ اس کا کوئی قصور نہیں ہے.قصور اس کی ماں کا ہے.پس جو چیز ماں باپ کی طرف سے ورثہ میں ملے.اس کی وجہ سے کوئی انسان مستوجب سزا نہیں ہو سکتا اور جب کوئی اس طرح مستوجب سزا نہیں ہو سکتا تو تمام انسان نجات یافتہ ہوئے کیونکہ ان کا اس میں کوئی قصور نہیں ہے.گناہ تو انہیں ورثہ میں ملا ہے اور تمام انسانوں کی نجات اس صورت میں ہو نہیں سکتی جبکہ یہ مانا جائے کہ گناہ ورثہ میں نہیں آیا بلکہ ہر ایک انسان خود کرتا ہے.پس عیسائیت کا یہ مسئلہ سمرے سے ہی باطل ہے.مشاہدہ سے یہ بات بھی غلط ثابت پھر عیسائی صاحبان کے سامنے جب ہم یہ پیش ہو رہی ہے کہ کفارہ سے موروثی گناہ کرتے ہیں کہ انسان خود گناہ کرتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ایسے گناہ جو انسان خود کرتا ہے بخشا جاتا ہے.ان سے تو بیچ سکتا ہے.لیکن ورثہ کا گناہ سوائے کفارہ پر ایمان لانے کے نہیں بخشا جا سکتا.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ یہ بات بھی ضرور غلط ہے.جس گناہ کو درہ میں آنا قرار دیا جاتا ہے.وہ حضرت آدم نے کیا تھا جس کی یہ سزا تجویز ہوئی تھی کہ.

Page 347

العلوم جلد نجات کی حقیقت خداوند خدا نے سانپ سے کہا.اس واسطے کہ تو نے یہ کیا ہے.تو سب مویشیوں اور میدان کے سب جانوروں سے ملعون ہوا تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا.اور عمر بھر خاک کھائے گا اور میں تیرے اور عورت کے اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان دشمنی ڈالوں گا.وہ تیرے سر کو کچلے گی اور تو اس کی ایڑی کو کاٹے گا.اس نے عورت سے کہا کہ میں تیرے حمل میں تیرے درد کو بہت بڑھاؤں گا اور درد سے تو لڑکے جنے گی اور اپنے خصم کی طرف تیرا شوق ہو گا اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا اور آدم سے کہا اس واسطے کہ تو نے اپنی جو رو کی بات سنی اور اس درخت سے کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم کیا کہ اس سے مت کھانا زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی اور تکلیف کے ساتھ تو اپنی عمر بھر اس سے کھائے گا اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اونٹ کٹارے اگائے گی اور تو کھیت کی بات کھائے گا تو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا".(پیدائش باب ۳ آیت ۱۴ تا ۱۹ مطبوعه ۱۹۲۲ شه اب ہم دیکھتے ہیں کہ اگر یہ سزائیں کفارہ پر ایمان لانے سے مٹ جاتی ہیں.تب تو کفارہ ٹھیک ہے ورنہ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ ورثہ کا گناہ کفارہ کے ماننے سے معاف ہو جاتا ہے کوئی بھی نہیں ہے.اس گناہ کی وجہ سے سانپ کو یہ سزا دی گئی تھی کہ " تو اپنے پیٹ کے بل چلے گا اور عمر بھر خاک کھائے گا اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان دشمنی ڈالوں گا وہ تیرے سر کو کچلے گی اور تو اس کی ایڑی کو کاٹے گا".( چونکہ سانپ کے لئے عیسائی صاحبان کفارہ کا مانا کسی طرح نہیں بتا سکتے.اس لئے اس کی سزا تو کبھی دور ہو ہی نہیں سکتی.باقی رہا مرد اور عورت عورت کو یہ سزا ملی تھی کہ ” میں تیرے حمل میں درد کو بہت بڑھاؤں گا اور درد سے تو لڑکے بنے گی اور اپنے خصم کی طرف تیرا شوق ہو گا اور وہ تجھ پر حکومت کرے گا".اگر کفارہ پر ایمان لاتے ہی عورت کی یہ تمام سزائیں معاف ہو جاتیں.تو ہم سمجھتے کہ یہ عقیدہ درست ہے لیکن اس وقت تک کوئی عیسائی عورت ان تکلیفوں سے بچ نہیں سکتی.اس لئے کس طرح مان لیا جائے کہ کفارہ ٹھیک ہے اسی طرح مرد کو جو سزا ملی ہے وہ بھی کسی مرد کے کفارہ کو مان لینے سے دور نہیں ہو سکتی پس جب کفارہ کے ذریعہ اس جہان کی سزائیں معاف نہیں ہو سکتیں تو دوسرے جہاں کی کہاں ہو سکیں گی.مسیحیت کے نزدیک نجات پانے کی ینی علامتیں ہیں.مگر یہ کسی عیسائی کے عمل سے پوری نہیں ہوتیں.اس لئے کفارہ باطل و گیا اور جب کفارہ باطل ہوا تو اس کا نتیجہ یعنی نجات بھی باطل ہو گئی.

Page 348

۳۲۱ جب مسیح جان دینے پر رضامند نہ تھے.تو کفارہ کس طرح ہوا؟ نجات کی پھر حضرت مسیح کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ.اس وقت اس نے ان سے کہا.میری جان نہایت غمگین ہے یہاں تک کہ مرنے کی نوبت کی پہنچ گئی ہے تم یہاں ٹھہرو اور میرے ساتھ جاگتے رہو پھر تھوڑا آگے بڑھا اور منہ کے بل گر کر یہ دعا مانگی.اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے مل جائے ہے.(متی باب ۲۶، آیت ۳۸ ۳۹ معبور اس سے پتہ لگتا ہے کہ حضرت مسیح کو مجبور اصلیب پر چڑھایا گیا ہے.باقی رہا یہ کہنا کہ روح تو مستعد ہے مگر جسم کمزور ہے تو جسم کو بچ جانا چاہئے تھا.کیونکہ وہ تو صلیب پر لٹکنے کے لئے تیار نہیں تھا.مگر سزا اسی کو دی گئی.اب اگر حضرت مسیح کو چارو ناچار صلیب پر لٹکایا جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ گناہوں کے لئے کفارہ ہو گیا تو ہر ایک قوم کہہ سکتی ہے کہ ہمار ا فلاں انسان جو قتل کیا گیا تھا وہ ہمارے لئے کفارہ ہوا تھا.اس لئے یہ کوئی دلیل نہیں ہو سکتی.اور جب تک کسی بات کے متعلق دلائل نہ ہوں اس وقت تک وہ قابل قبول نہیں ہو سکتی.پھر مسیحی صاحبان جب کوئی دلیل نہیں دے سکتے تو ہم پر قربانی اور کفارہ میں فرق ہے اعتراض کیا کرتے ہیں کہ تمہارے ہاں بھی تو قربانی ہے.اگر بکرا وغیرہ ذبح کرنے سے گناہ معاف ہو سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ خداوند یسوع مسیح کی قربانی ہمارے گناہوں کو معاف نہیں کراسکتی.لیکن یہ اعتراض کرتے وقت وہ قربانی اور حضرت مسیح کے صلیب پر دیئے جانے کے فرق کو مد نظر نہیں رکھتے.ہم اگر کسی جانور کی قربانی کرتے ہیں تو یہ نہیں کہتے کہ اس نے ہمارے گناہ اٹھالئے ہیں.اور ان گناہوں کی سزا میں اسے ذبح کیا جارہا ہے.بلکہ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے مال کا کچھ حصہ اس طریق سے خدا تعالی کی رضاء کے لئے الگ کر کے خدا تعالٰی سے ہی توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے گناہ معاف کر دے.میں اس بات کو اور واضح کر دیتا ہوں.جو چیز قربانی دی جاتی ہے وہ ہمار ا مال ہوتا ہے.دوسرے ہم اسے خدا تعالیٰ کے لئے اپنے سے جدا کرتے ہیں.تیرے خدا تعالیٰ سے امید رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے اس فعل کی وجہ سے جو اس کی رضامندی کے لئے کیا گیا ہے ہمارے گناہ معاف کر دے گا.مگر یسوع مسیح کے مصلوب ہونے میں ان میں سے کوئی بات بھی نہیں پائی جاتی.(۱) نہ تو وہ ان لوگوں کا مال ہے جو اس کی قربانی پر اپنے گناہوں کا معاف ہونا سمجھے بیٹھے ہیں.(۲) نہ وہ اس کو قربانی کرنے والے سے تا ہم بیائیں چاہتا ہوں.ویسا نہیں.بلکہ جیسا تو چاہتا ہے.ویسا ہی ہو."

Page 349

۳۳۲ نجات کی انوار العلوم جلد ۳۰ ہیں.قربانی کا فائدہ تو اسی کو ہوتا ہے جو کرتا ہے نہ کسی اور کو یسوع مسیح کو قربانی کرنے والے تو یہود ہیں.ان کی نسبت تو کہا جاتا ہے کہ وہ دوزخ میں جائیں گے.اور عیسائی صاحبان کہتے ہیں کہ ان کی قربانی کی وجہ سے ہم نجات پا جائیں گے.یسوع مسیح خدا کا بیٹا ہے.عیسائیوں کا اس پر کوئی حق نہیں.یہودی اس کو صلیب پر چڑھانے والے ہیں نہ کہ عیسائی اس لئے انہیں کو اس قربانی کا فائدہ ہونا چاہئے لیکن عیسائی صاحبان بالکل الٹی بات کہتے ہیں کہ ان کی موت پر ایمان لانے سے ہم نجات پا جائیں گے پس جو نجات کا طریق مسیحی صاحبان پیش کرتے ہیں وہ کسی طرح بھی درست نہیں ہو سکتا.ہاں اسلام نے جو طریق بتایا ہے.اس میں کسی قسم کا شریعت رحمت ہے نہ کہ لعنت شک و شبہ نہیں ہے.میں نے بتایا ہے اسلام نے شریعت کے احکام اس لئے بیان کئے ہیں تا انسان ان پر چل کر آرام پائے اور مشکلات سے بیچ جائے اور یہ ایسے ہی ہیں جیسے کہ ریل والوں نے بنا دیا ہے کہ جو کوئی کسی سٹیشن پر وقت مقررہ شخص پر پہنچ کر جہاں کا ٹکٹ لے گا.گاڑی پر سوار ہو کر وہاں ہی پہنچ جائے گا.اب اگر کوئی روئے اور چلائے کہ یہ میرے لئے مصیبت ہے کہ میں ریل پر سوار ہو کر فلاں جگہ پہنچ جاؤں گا تو وہ بے وقوف ہے.یہی بات شریعت کی ہے شریعت تو تب لعنت ہوتی جبکہ اس میں ایسے احکام ہوتے جو انسان کو دکھ اور تکلیف میں ڈال دیتے.مگر اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں ہے جو انسان کے لئے بجائے نفع کے نقصان کا باعث ہو.کیا چوری کرنا بہت عمدہ کام تھا.جس سے منع کیا گیا ہے یا زنا کرنا بہت اچھا نعل تھا.جس سے روکا گیا ہے.یا جھوٹ بولنا بہت اچھی بات تھی جس سے باز رکھا گیا ہے.ہر گز نہیں یہی حال تمام احکام کا ہے شریعت تو ایک ہدایت نامہ اور گائڈ بک ہے.جن باتوں سے خدا تعالٰی نے منع فرمایا ہے.اگر وہ خود ہی نہ بتا دیتا تو مدتوں کے تجربہ اور نقصان اٹھانے کے بعد لوگ اس نتیجہ پر پہنچتے کہ یہ باتیں بری ہیں.انہیں نہیں کرنا چاہئے مگر خدا تعالیٰ نے انسانوں پر انعام کر کے خود بتا دیا.افسوس! کہ عیسائی صاحبان نے خدا کے اس انعام کو لعنت قرار دے دیا مگر خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم کر کے شریعت کے قوانین اور احکام بطور گر کے بتا دیئے ہیں.چونکہ انسان میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہر ایک بات کے متعلق خود نیک نتیجہ نکال لے.اس لئے خود خدا نے بتا دیا اگر ایسا نہ ہو تا تو انسان بہت دکھ اور نقصان اٹھاتے اور وہ بعض ایسی باتوں کو کر بیٹھتے جن سے انہیں دکھ اور تکلیف کے علاوہ نقصان

Page 350

رام چاند ۳۰ ۳۲۳ نجات کی حقیقت بھی پہنچتا اور بعض ایسی باتوں کو کرتے ہی نہ جو ان کے لئے مفید اور فائدہ مند ہوتیں.اسلام خدا کا عرفان کامل بخشا اور اس اسلام نے نہ صرف ہر ایک مفید اور نقصان طرح انسان کو گناہوں سے نجات دلاتا رساں بات کو بیان کر دیا ہے بلکہ اچھی باتوں اور مفلح بناتا ہے.پر عمل کرنے اور بری باتوں سے بچنے کا طریق بھی بتا دیا ہے کیونکہ دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ کسی انسان کو ایک چیز کے مضرات اور نقصان بتا دینے اس بات کے لئے کافی نہیں ہوتے کہ وہ اس کو استعمال کرنے سے رک بھی جائے کیونکہ جب تک وہ اس فعل کو کر نہیں لیتا.اس و وقت تک اس کی نگاہ میں اس کے نقصانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور ایسی حالت میں اسے باز رکھنے کی ایک اور طاقت کی بھی ضرورت ہے.دیکھو ایک چھوٹا بچہ آگ میں ہاتھ ڈالتا ہے اور اس کا ہاتھ جل جاتا ہے لیکن اگر اس کا باپ یا ماں سامنے ہو تو آگ میں ہاتھ نہیں ڈالے گا.کیوں؟ اس لئے کہ آگ جو تکلیف اسے پہنچاتی ہے وہ اس کی نظر سے پوشیدہ ہے اور اس کی نسبت کافی علم نہیں رکھتا مگر باپ یا ماں کے ہاتھ کو مارنے کے لئے اٹھتا دیکھتا ہے اس لئے باز رہتا ہے.تو جو بات پوشیدہ ہو اس سے انسان کو کم خوف ہوتا ہے.خواہ اس کی نسبت اسے علم بھی کیوں نہ ہوتی اور جو ظاہر ہو اس سے زیادہ ڈرتا ہے.دیکھو ایک چور چوری کرتا ہے لیکن اگر اسے یہ معلوم ہو کہ پولیس میں سامنے کھڑا ہے تو کبھی چوری نہیں کرتا.اسی طرح اگر کوئی ایسا مذہب ہے جو خدا تعالیٰ کو سامنے رکھا دیتا ہے.تو وہی انسان کو گناہوں سے نجات بھی دلا سکتا ہے.اسپر چلنے والے انسان کو جب تک کامل معرفت نہیں ہوتی.اس وقت تک وہ گناہ کرتا ہے لیکن جوں جوں اس کی معرفت بڑھتی جاتی ہے.وہ گناہوں سے بچتا جاتا ہے.اور جب وہ معرفت میں کامل ہو جاتا ہے تو گناہوں سے بالکل بچ جاتا ہے.ایسا مذہب صرف اسلام ہی ہے.اسلام اول خدا تعالیٰ کی ہستی کو دلائل سے ثابت کرتا ہے.پھر ہر زمانہ میں اسلام پر چلنے والے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ایسے نشانات دکھلاتے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے.تمام انبیاء آکر یہی کرتے رہے ہیں کہ ایسے نشانات دکھلاتے رہے جن سے زندہ خدا کا ثبوت ملتا رہا ہے چونکہ حضرت مسیح کے بعد مسیحیت میں یہ کام کسی سے نہ ہو سکا اور ایسے لوگ پیدا ہونے بند ہو گئے اس لئے کفارہ کا مسئلہ نکالا گیا.مگر خدا تعالیٰ کے زندہ دکھانے کا اصل طریق یہی ہے کہ نبی آتے رہیں اور وہ آکر اسی طرح لوگوں کو نجات دلائیں.

Page 351

انوار العلوم جلد ۳۰ نجات کی حقیقت کیا حضرت موسیٰ" کے کفارہ کے مسئلہ سے پہلے بھی لوگ نجات پاتے رہے وقت جبکہ کفارہ نہیں تھا.نجات نہیں ہو سکتی تھی.اگر کوئی یہ کہے کہ حضرت موسی بھی حضرت مسیح کے کفارہ پر ایمان رکھتے تھے اس لئے نجات پاگئے.تو میں کہوں گا کہ وہ مجھ پر ایمان رکھتے تھے.اس لئے نجات پاگئے.اس بات کا ثبوت کہ حضرت موسیٰ حضرت مسیح کے کفارہ پر ایمان رکھتے تھے.عیسائیوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اس لئے ان کا کہنا اور میرا کہنا دونوں برابر ہیں مگر عیسائی صاحبان مانتے ہیں کہ حضرت ابراہیم ، حضرت موسیٰ ، حضرت یعقوب ، حضرت اسحق و غیره انبیاء نجات یافته تھے.حالانکہ ان کے وقت کوئی کفارہ نہ تھا.پس معلوم ہوا کہ انکی نجات شریعت کی وجہ سے ہوئی نہ کہ کفارہ سے اور ان کی شریعت کا یہی مقصد تھا کہ زندہ خدا کو پیش کریں.اب بھی یہی بات اسلام اسلام نے وہی طریق نجات بتایا جو گل نبیوں نے سنایا جاتا ہے.اول، دلائل کے ساتھ خداتعالی کا ثبوت دیتا ہے اور جب کوئی مان جائے اور اسلام کے احکام پر عمل کرنا شروع کر دے تو خدا کو دیکھ بھی لیتا ہے.خدا کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے.آئندہ کی باتیں اسے بتاتا ہے اور وہ گناہوں سے بچ جاتا ہے اور جب گناہوں سے بچ گیا تو نجات پا گیا اور صرف نجات ہی نہیں بلکہ فلاح پا گیا.اسلام یہ طریق گناہوں کے معاف ہونے کا بتلاتا ہے.عیسائی صاحبان کہتے ہیں.جس طرح ایک مجسٹریٹ ملزم کو رہا گناہ معاف کرنے سے خدا غیر منصف نہیں ٹھرتا کرنے سے غیر منصف ٹھہرتا ہے.اسی طرح اگر خدا کسی کے گناہ معاف کر دے تو وہ غیر منصف ٹھہرتا ہے لیکن ایک مجسٹریٹ اور خدا میں بہت بڑا فرق ہے.اگر کوئی ملزم مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوتا ہے تو اس نے اس کا قصور نہیں کیا ہوتا.بلکہ گورنمنٹ کا کیا ہوتا ہے اس لئے اسے نہیں چھوڑ سکتا لیکن ہر ایک گناہ جو انسان کرتا ہے.وہ خدا کا ہوتا ہے اس لئے وہ معاف کر سکتا ہے.پھر یہ بھی غلط بات ہے کہ عدالتیں کسی مجرم کو معاف نہیں کرتیں.بنی جرائم ایسے ہوتے ہیں کہ ان کے کرنے والوں کو بعض وجوہات سے معاف کر دیا جاتا ہے.ابھی تھوڑے ہی دنوں کی بات ہے کہ عدالت نے کچھ ملزموں کو پھانسی کی سزا دی تھی لیکن وائسرائے نے انکی یہ سزا عبور دریائے شور سے بدل دی ہے.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا ہر گز نہیں.پھر عدالتیں

Page 352

ر العلوم جاد - ۳ ۳۲۵ نجات کی حقیقت اس لئے ملزم کو رہا نہیں کرتیں کہ انہیں یہ نہیں معلوم ہو تا کہ ملزم کچی تو بہ کر رہا ہے یا صرف اس سزا سے بچنے کے لئے کرتا ہے.اب اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو وہ پھر جاکر جرم شروع کر دے.لیکن خدا تعالیٰ تو چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی جانتا ہے جو شخص اس کے سامنے گناہوں سے توبہ کرتا ہے اس کی نسبت وہ خوب جانتا ہے کہ یہ آئندہ گناہوں سے بچے گا یا نہیں ؟ اس نے لئے اگر وہ کسی کو بخش دیتا ہے.تو اس پر کوئی اعتراض نہیں آتا.پس اسلام یہی تعلیم دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ بچی تو بہ کو قبول کرتا ہے.دلوں رحضور یہاں تک بیان فرما چکے تو اس عیسائی لے اور کانوں پر مہر کا کیا مطلب صاحب نے سوال کیا کہ قرآن کچھ لوگوں کی نسبت کہتا ہے کہ خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دی ہے.ایسے لوگ کس طرح نجات پاسکتے ہیں.حضور نے اس کے متعلق فرمایا کہ قرآن کریم میں یہ کسی جگہ نہیں آیا کہ کوئی انسان برا پیدا کیا گیا ہے.یہ جو دلوں اور کانوں پر مر کے متعلق آیا ہے.یہ اور بات ہے دیکھئے انسان کے ہاتھ میں طاقت ہے کہ کوئی چیز پکڑلے لیکن ہندوؤں میں بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے ہاتھ کو سکھا دیتے ہیں اور اس میں پکڑنے کی بالکل طاقت نہیں رہتی.یہ کس کا قصور ہے سکھانے والے کا مگر اس کے ہاتھ کو سکھایا کس نے خدا نے اگر خدا نہ چاہتا تو ہاتھ نہ سوکھتا مگر اس کا قانون ہی یہی ہے کہ جو اس کی نعمت کی بے قدری کرتا ہے اس سے چھین لیتا ہے.جو آپ نے کہا ہے یہ ایسے لوگوں کے متعلق ہے جو کہ اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ كم تنذر هُمْ لَا يُؤْمِنُونَ.خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلى سَمِعهُمْ که تحقیق وہ لوگ جو کافر ہوئے در آنحالیکہ برابر ہوا ڈرانا یا نہ ڈرانا وہ توجہ ہی نہیں کرتے.پس جبکہ وہ توجہ ہی نہیں کرتے تو انکے دلوں اور کانوں پر مہر لگ گئی.جن لوگوں کا ذکر پہلے ہے انہیں کے دل اور کانوں کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ مہر لگ گئی ہے.خدا تعالیٰ نے ہر ایک انسان میں روحانی طاقتیں رکھی ہوئی ہیں لیکن اگر کوئی ان سے کام نہیں لیتا اور ان کو ضائع کر دیتا ہے تو یہ اس کا اپنا قصور ہے پس وہ لوگ جو خدا تعالٰی کی باتوں پر غور نہیں کرتے اور اس کی باتوں کو سنکر بھی عمل نہیں کرتے.انکی یہ طاقتیں ماری جاتی ہیں.پھر ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا برابر ہوتا ہے.تو ایسے لوگ خود گمراہ ہوتے ہیں نہ یہ کہ ان میں ہدایت پانے کی طاقت ہی نہیں رکھی جاتی.ے.الحمد للہ کہ یہ صاحب اس تقریر کے اثر سے آخر احمدی ہو گئے البقرة : ٨٠٠

Page 353

Page 354

سم جلد ۳۰ ۳۲۷ سیرت مسیح موعود حضرت بانی جماعت احمدیہ کے مختصر حالات زندگی) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی سیرت مسیح موعود

Page 355

۳۲۸

Page 356

م چاند بسم اللہ الرحمن الرحیم ۳۲۹ محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم دیباچہ چونکہ احمدیہ جماعت کی روز مرہ ترقی اور اطراف عالم میں پھیلنے والی ہر کو دیکھ کر بہت سے لوگوں کو جو اس کے حالات سے واقف نہیں.خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کے حالات سے آگاہ ہوں.لیکن بوجہ مجبوری کے وہ مفصل کتب کو نہیں دیکھ سکتے اس لئے میں نے چاہا کہ ایک ایسا رسالہ لکھ دوں جس میں مختصر طور پر اس سلسلہ اور اس کے بانی کے حالات درج ہوں تاکہ طالبان حق کے لئے وہ اللہ تعالی کے فضل کے ماتحت راہنما کا کام دے اور مزید تحقیق کے لئے ان کے دلوں میں تحریک پیدا کرے اور آسمانی بادشاہت میں داخل ہونے والوں کے لئے راستہ صاف کرے.اس مختصر ٹریکٹ میں مندرجہ ذیل امور پر روشنی ڈالی جاوے گی.احمد بانی سلسلہ احمدیہ کے حالات.اس کی سیرت.اس کا دعوئی اور دلائل.اس کی مشکلات.اس کی پیش گوئیاں.اس کا کام - اسکے بعد اس کے قائم کردہ سلسلہ کے حالات.

Page 357

۳۳۰

Page 358

العلوم جلد - ۳۳۱ سیرت مسیح موعود بسم اللہ الرحمن الرحیم نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم احمد قادیانی اور آپ کے خاندانی حالات احمد جو سلسلہ احمدیہ کے بانی تھے ، آپ کا پورا نام غلام احمد تھا اور آپ قادیان کے باشندے تھے.جو بٹالہ ریلوے اسٹیشن سے گیارہ میل امرت سر سے چوبیس میل اور لاہور سے ستاون میل جانب مشرق پر ایک قصبہ ہے.آپ قریباً ۱۸۳۶ ء یا ۱۸۳۷ء میں اسی گاؤں میں مرزا غلام مرتضی صاحب کے ہاں جمعہ کے دن پیدا ہوئے اور آپ کی ولادت توام تھی.یعنی آپ کے ساتھ ایک لڑکی بھی پیدا ہوئی تھی جو تھوڑی ہی مدت کے بعد فوت ہو گئی.پیشتر اس کے کہ میں آپ کے حالات بیان کروں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مختصراً آپ کے خاندان کے بھی کچھ حالات بیان کر دیئے جائیں.آپ کا خاندان اپنے علاقہ میں ایک معزز خاندان تھا.اور اس کا سلسلہ نسب برلاس سے جو امیر تیمور کا چا تھا ملتا ہے اور جب کہ امیر تیمور نے علاقہ رکش پر بھی جس پر اس کا چچا حکمران تھا قبضہ کر لیا تو برلاس خاندان خراسان میں چلا آیا اور ایک مدت تک یہیں رہا.لیکن دسویں صدی ہجری یا سولہویں صدی مسیحی کے آخر میں اس خاندان کا ایک ممبر مرزا ہادی بیگ بعض غیر معلوم وجوہات کے باعث اس ملک کو چھوڑ کر قریباً دو سو آدمیوں سمیت ہندوستان میں آگیا اور دریائے بیاس کے قریب کے علاقہ میں اس نے اپنا ڈیرہ لگایا.اور بیاس سے نومیل کے فاصلہ پر ایک گاؤں بسایا اور اس کا نام اسلام پور رکھا.(یعنی اسلام کا شہر چونکہ آپ ایک نہایت قابل آدمی تھے دہلی کی حکومت کی طرف سے اس علاقہ کے قاضی مقرر کئے گئے اور اس عہدہ کی وجہ سے آپ کے گاؤں کا نام بجائے اسلام پور کے اسلام پور قاضی ہو گیا یعنی اسلام پور جو قاضی کا مقام ہے.اور بگڑتے بگڑتے اسلام پور کا نام تو مٹ گیا اور صرف قاضی رہ گیا.جو پنجابی تلفظ

Page 359

ر العلوم جلد ۳۰ ۳۳۲ میرت مسیح موعود میں قادی بن گیا.اور آخر اس سے بگڑ کر اس گاؤں کا نام قادیان ہو گیا.غرض مرزا ہادی بیگ صاحب نے خراسان سے آکر بیاس کے پاس ایک گاؤں بسا کر اس میں بودوباش اختیار کی اور اسی جگہ پر ان کا خاندان ہمیشہ قیام پذیر رہا.اور باوجود دہلی پایہ تخت حکومت سے دور رہنے کے اس خاندان کے ممبر مغلیہ حکومت کے ماتحت معزز عہدوں پر مامور رہے.اور جب مغلیہ خاندان کو ضعف پہنچا اور پنجاب میں طوائف الملوکی پھیل گئی تو یہ خاندان ایک آزاد حکمران کے طور پر قادیان کے ارد گرد کے علاقہ پر جو قریباً ساٹھ میل کا رقبہ تھا حکمران رہا.لیکن سکھوں کے زور کے وقت رام گڑھیہ سکھوں نے بعض اور خاندانوں کے ساتھ مل کر اس خاندان کے خلاف جنگ شروع کی.اور گو ان کے پڑدادا نے تو اپنے زمانہ میں ایک حد تک دشمن کے حملوں کو روکا لیکن آہستہ آہستہ مرزا صاحب کے دادا کے وقت اس ریاست کی حالت ایسی کمزور ہوگئی کہ صرف قادیان جو اس وقت ایک قلعہ کی صورت میں تھا اور اس کے چاروں طرف فصیل تھی ان کے قبضہ میں رہ گیا اور باقی سب علاقہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور آخر بعض گاؤں کے باشندوں سے سازش کر کے سکھ اس گاؤں پر بھی قابض ہو گئے اور اس خاندان کے سب مرد و زن قید ہو گئے.لیکن کچھ دنوں کے بعد سکھوں نے ان کو اس علاقہ سے.جانے کی اجازت دے دی.اور وہ ریاست کپور تھلہ میں چلے گئے اور وہاں قریبا سولہ سال ملے رہے.اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ آگیا اور انہوں نے سب چھوٹے چھوٹے راجوں کو اپنے ماتحت کر لیا اور اس انتظام میں حضرت مرزا صاحب کے والد کو بھی ان کی جاگیر کا بہت کچھ حصہ واپس کر دیا.اور وہ اپنے بھائیوں سمیت مہا راجہ کی فوج میں ملازم ہو گئے.اور جب انگریزی حکومت نے سکھوں کی حکومت کو تباہ کیا.تو ان کی جاگیر ضبط کی گئی مگر قادیان کی زمین پر ان کو مالکیت کے حقوق دیئے گئے.ان مختصر حالات کے لکھنے کے بعد سر لیپل گریفن کی آپ کا خاندانی تذکرہ تاریخوں میں کتاب پنجاب چیفس کا وہ حصہ جو حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے متعلق ہے ہم لکھ دینا مناسب سمجھتے ہیں.شہنشاہ بابر کے عہد حکومت کے آخری سال یعنی ۱۵۳۰ ء میں ایک مغل مسٹمی ہادی بیگ باشندہ سمر قد اپنے وطن کو چھوڑ کر پنجاب میں آیا اور ضلع گورداسپور میں بودوباش اختیار کی.یہ کسی قدر لکھا پڑھا آدمی تھا اور قادیان کے گردو نواح کے ستر مواضعات کا قاضی یا مجسٹریٹ

Page 360

العلوم جلد.٣٣٣ میرت مسیح موعود مقرر کیا گیا.کہتے ہیں کہ قادیان اس نے آباد کیا اور اس کا نام اسلام پور قاضی رکھا جو بدلتے بدلتے قادیان کے ہو گیا.کئی پشتوں تک یہ خاندان شاہی عہد حکومت میں معزز عہدوں پر ممتاز رہا اور محض سکھوں کے عروج کے زمانہ میں یہ افلاس کی حالت میں ہو گیا تھا.گل محمد اور اس کا بیٹا عطا محمد رام گڑھیہ اور کنھیہ مسلوں سے جن کے قبضے میں قادیان کے گرد و نواح کا علاقہ تھا ہمیشہ لڑتے رہے.آخر کار اپنی تمام جاگیر کو کھو کر عطا محمد بیگووال میں سردار فتح سنگھ اہلو والیہ کی پناہ میں چلا گیا اور ۱۲ سال تک امن و امان سے زندگی بسر کی.اس کی وفات پر رنجیت سنگھ نے جو رام گڑھیہ مسل کی تمام جاگیر پر قابض ہو گیا تھا غلام مرتضیٰ کو قادیان واپس بلا لیا.اور اس کی و جدی جاگیر کا ایک بہت بڑا حصہ اسے واپس دے دیا.اس پر غلام مرتضیٰ اپنے بھائیوں سمیت مہاراجہ کی فوج میں داخل ہوا اور کشمیر کی سرحد اور دوسرے مقامات پر قابل قدر خدمات انجام دیں.نونہال سنگھ ، شیر سنگھ اور دربار لاہور کے دور دورے میں غلام مرتضی ہمیشہ فوجی خدمت پر مامور رہا.۱۸۴۱ء میں یہ جرنیل ونچورا کے ساتھ منڈی اور کلو کی طرف بھیجا گیا اور ۱۸۴۳ء میں ایک پیادہ فوج کا کمیدان بنا کر پشاور روانہ کیا گیا.ہزارہ کے مفسدے میں اس نے کار ہائے نمایاں کئے.اور جب ۱۸۴۸ ء کی بغاوت ہوئی تو یہ اپنی سرکار کا نمک حلال رہا اور اس کی طرف سے لڑا.اس موقعہ پر اس کے بھائی غلام محی الدین نے بھی اچھی خدمات کیں.جب بھائی مہاراج سنگھ اپنی فوج لئے دیوان مولراج کی امداد کے لئے ملتان کی طرف جا رہا تھا تو غلام محی الدین اور دوسرے جاگیر داران لنگر خاں ساہیوال اور صاحب خاں ٹوانہ نے مسلمانوں کو بھڑکایا اور مصر صاحب دیال کی فوج کے ساتھ باغیوں سے مقابلہ کیا اور ان کو شکست فاش دی.ان کو سوائے دریائے چناب کے کسی اور طرف بھاگنے کا راستہ نہ تھا جہاں چھ سو سے زیادہ آدمی ڈوب کر مر گئے.الحاق کے موقع پر اس خاندان کی جاگیر ضبط کی گئی.مگر ۷۰۰ روپیہ کی پنشن غلام مرتضیٰ اور اس کے بھائیوں کو عطا کی گئی.اور قادیان اور اس کے گردو نواح کے مواضعات پر ان کے حقوق مالکا نہ رہے.اس خاندان نے غدر ۱۸۵۷ء کے دوران میں بہت اچھی خدمات کیں.غلام مرتضیٰ نے بہت سے آدمی بھرتی کئے اور اس کا بیٹا غلام قادر جنرل نکلسن صاحب بہادر کی فوج میں اس وقت تھا جب کہ افسر موصوف نے تریمو گھاٹ پر نمبر ۴۶ نیٹو انفنٹری کے باغیوں کو

Page 361

ار العلوم جلد ۳۰ ۳۳۴ جو سیالکوٹ سے بھاگے تھے تہ تیغ کیا.جنرل نکلسن صاحب بہادر نے غلام قادر کو ایک سند دی جس میں یہ لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں خاندان قادیان ضلع گورداسپور کے تمام دوسرے خاندانوں سے زیادہ نمک حلال رہا.غلام مرتضیٰ جو ایک لائق حکیم تھا.۱۸۷۶ء میں فوت ہوا.اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جانشین ہوا.غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لئے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس ان افسران کے جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا بہت سے سرٹیفکیٹ تھے.یہ کچھ عرصہ تک گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا.اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہو گیا اور اس نے تو اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنی کر لیا.جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا ہے.مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اب اکسٹرا اسسٹنٹ ہے.یہ قادیان کا نمبردار بھی ہے.نظام الدین کا بھائی امام الدین جو ۱۹۰۴ء میں فوت ہوا ، دہلی کے محاصرے کے وقت ہاؤسن ہورس (رسالہ) میں رسالدار تھا.اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا.یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ غلام احمد جو غلام مرتضیٰ کا چھوٹا بیٹا تھا مسلمانوں کے ایک مشہور مذہبی فرقہ احمدیہ کا بانی ہوا.یہ شخص ۱۸۳۷ء میں پیدا ہوا اور اس کو تعلیم نہایت اچھی ملی.۱۸۹۱ء میں اس نے بموجب اسلام مهدی یا مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا.چونکہ یہ ایک عالم اور منطقی تھا.اس لئے دیکھتے ہی دیکھتے بہت سے لوگ اس کے معتقد ہو گئے.اور اب احمدیہ جماعت کی تعداد پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے حصوں میں تین لاکھ کے قریب بیان کی جاتی ہے.مرزا عربی.فارسی اور اردو کی بہت سی کتابوں کا مصنف تھا.جن میں اس نے جہاد کے مسئلہ کی تردید کی.اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ ان کتابوں نے مسلمانوں پر اچھا اثر کیا ہے.مدت تک یہ بڑی مصیبت میں رہا کیونکہ مخالفین مذہب سے اس کے اکثر مباحثے اور مقدمے رہے.لیکن اپنی وفات سے پہلے جو ۱۹۰۸ء میں ہوئی اس نے ایک رتبہ حاصل کر لیا.کہ وہ لوگ بھی جو اس کے خیالات کے مخالف تھے اس کی عزت کرنے لگے.اس فرقہ کا صدر مقام قادیان ہے جہاں انجمن احمدیہ نے ایک بہت بڑا سکول کھولا ہے اور چھاپہ خانہ بھی ہے جس کے ذریعہ سے اس فرقہ کے متعلق خبروں کا اعلان کیا جاتا ہے.مرزا غلام احمد کا خلیفہ ایک مشہور حکیم مولوی نورالدین ہے جو چند سال مہاراجہ کشمیر کی ملازمت میں رہا ہے.

Page 362

دم جلد ۳۰ ۳۳۵ سیرت مسیح موعود اس خاندان کے سالم موضع قادیان پر جو ایک بڑا موضع ہے حقوق مالکانہ ہیں.اور نیز تین ملحقه مواضعات پر بشرح پانچ فیصدی حقوق تعلق داری حاصل ہیں".پیدائش حضرت اقدس زمانہ طفولیت و تذکره والد بزرگوار حضرت مرزا صاحب کے خاندان کے مختصر حالات لکھنے کے بعد ہم آپ کے حالات بیان کرنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جیسا کہ شروع میں بیان کیا گیا ہے.آپ ۱۸۳۶ ء یا ۱۸۳۷ء ۳ میں پیدا ہوئے تھے جو کہ آپ کے والد کے عروج کا زمانہ تھا.کیونکہ اس وقت ان کو جاگیر کے بعض مواضع اور مہاراجہ رنجیت سنگھ کی فوجی خدمت کی وجہ سے اچھی عظمت حاصل تھی.لیکن منشائے الہی یہ تھا کہ ایک ایسے رنگ میں پرورش پائیں جس میں آپ کی توجہ خدا تعالی کی طرف ہو.اس لئے آپ کی پیدائش کے تین ہی سال بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کی وفات کے ساتھ ہی سکھ حکومت پر زوال آگیا.اور اس زوال کے ساتھ آپ کے والد صاحب بھی مختلف تفکرات میں مبتلا ہو گئے.اور آخر الحاق پنجاب کے موقعہ پر ان کی جائیداد ضبط ہو گئی اور باوجود ہزاروں روپیہ خرچ کرنے کے وہ اپنی جاگیر واپس نہ لے سکے.جس کا صدمہ ان کے دل پر آخر دم تک رہا.چنانچہ خود حضرت مرزا صاحب اپنی ایک کتاب میں تحریر فرماتے ہیں.کہ ”میرے والد صاحب اپنی ناکامی کی وجہ سے اکثر مغموم اور محموم رہتے تھے انہوں نے پیروی مقدمات میں ستر ہزار کے قریب روپیہ خرچ کیا تھا جس کا انجام آخر کار ناکامی تھی.کیونکہ ہمارے بزرگوں کے دیہات مدت سے ہمارے قبضہ سے نکل چکے تھے اور ان کا واپس آنا ایک خام خیال تھا.اسی نامرادی کی وجہ سے حضرت والد صاحب مرحوم ایک نہایت عمیق گرداب غم اور جزن اور اضطراب میں زندگی بسر کرتے تھے.اور مجھے ان حالات کو دیکھ کر ایک پاک تبدیلی پیدا کرنے کا موقعہ حاصل ہو تا تھا.کیونکہ حضرت والد صاحب کی تلخ زندگی کا نقشہ مجھے اس بے لوث زندگی کا سبق دیتا تھا جو دنیاوی کدورتوں سے پاک ہے.اگر چہ مرزا صاحب کے چند دیہات ملکیت باقی تھے.اور سرکار انگریزی کی طرف سے کچھ انعام سالانہ مقرر تھا.اور ایام ملازمت کی پنشن بھی تھی.مگر جو کچھ وہ دیکھ چکے تھے اس لحاظ سے وہ سب کچھ بیچ تھا.اس وجہ سے وہ ہمیشہ مغموم اور محزون رہتے تھے کہ جس قدر میں نے اس پلید دنیا کے لئے سعی کی ہے اگر میں وہ سعی دین کے لئے کرتا.تو آج شاید قطب وقت یا غوث وقت ہو تا.اور اکثر یہ شعر پڑھا کرتے تھے.دی پنجاب چیفس حصہ اول مطبوعہ شاہ لاہور ے

Page 363

ر العلوم جلد ۳۰ ۳۳۶ عمر بگذشت و نماند است جز آیا چند به که در یاد کے صبح کنم شامے چند اور میں نے کئی دفعہ دیکھا کہ اپنا بنایا ہوا شعر رقت کے ساتھ پڑھتے اور وہ یہ ہے از درے تو اے کے ہر بے کسے نیست امیدم که بردم تا امید اور کبھی درد دل سے اپنا یہ شعر پڑھا کرتے تھے..باب دیده عشاق و خاکپائے کے مرادی است که درخوں تپد بجائے کے حضرت عزت جلشانہ کے سامنے خالی ہاتھ جانے کی حسرت روز بروز آخری عمر میں ان پر غلبہ کرتی گئی تھی.بارہا افسوس سے کہا کرتے تھے کہ ڈونیا کے بیہودہ خرخشوں کے لئے میں نے اپنی عمر نا حق ضائع کر دی." اس تحریر سے جو حضرت مرزا صاحب نے اپنے والد بچپن ہی میں عبادت الہی کا شوق کی اس حالت کے متعلق لکھی ہے.جس میں آپ کے زمانہ طفولیت اور جوانی کے وقت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ایسے رنگ میں آپ کی تربیت فرمائی تھی کہ جس کی وجہ سے دنیا کی محبت آپ کے دل میں پیدا ہی نہ ہونے پائی.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ کے والد اور بڑے بھائی کی دنیاوی حالت اس وقت بھی ایسی تھی کہ وہ دنیاوی لحاظ سے معزز و ممتاز کہلاتے تھے.اور حکام ان کا ادب و لحاظ کرتے تھے.لیکن پھر بھی ان کا دنیا کے پیچھے پڑنا اور اپنی ساری عمر اس کے حصول کے لئے خرچ کر دینا لیکن پھر بھی ان کا اس حد تک ان کو حاصل نہ ہونا جس حد تک کہ وہ اس پر خاندانی حق خیال کرتے تھے اس پاک دل کو جو اپنے اندر کسی قسم کی میں نہ رکھتا تھا یہ بتا دینے کے لئے کافی تھا کہ دنیا روزی چند و آخرت باخداوند.چنانچہ اس نے اپنی بچپن کی عمر سے اس سبق کو ایسا یاد کیا کہ اپنی وفات تک نہ بھلایا.اور گو دنیا طرح طرح کے خوبصورت لباسوں میں اس کے سامنے آئی اور اس کو اپنے راستہ سے ہٹا دینے کی کوشش کی لیکن اس نے کبھی اس طرف التفات نہ کی.اور اس سے ایسی جدائی اختیار کی کہ پھر اس سے کبھی نہ ملا.غرض مرزا صاحب کو اپنی بچپن کی عمر سے ہی اپنے والد صاحب کی زندگی میں ایک ایسا تلخ نمونہ دیکھنے کا موقع ملا کہ دنیا سے آپ کی طبیعت سرد ہو گئی.اور جب آپ بہت ہی بچہ تھے تب بھی آپ کی تمام تر خواہشات رضائے الہی کے حصول میں ہی لگی ہوئی تھیں.چنانچہ آپ کے

Page 364

موم جلد ۳۰ ۳۳۷ سیرت مسیح موعود سوانح نویس شیخ یعقوب علی صاحب آپ کے بارہ میں ایک عجیب واقعہ جو آپ کی نہایت بچپن کی عمر کے متعلق ہے تحریر کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ جب آپ کی عمر نہایت چھوٹی تھی تو اس وقت آپ اپنی ہم سن لڑکی کو جس سے بعد میں آپ کی شادی بھی ہو گئی کہا کرتے تھے کہ "نا مرا دے دعا کر کہ خدا میرے نماز نصیب کرے." اس فقرہ سے جو نہایت بچپن کی عمر کا ہے پتہ چلتا ہے.کہ نہایت بچپن کی عمر سے آپ کے دل میں کیسے جذبات موجزن تھے.اور آپ کی خواہشات کا مرکز کس طرح خدا ہی خدا ہو رہا تھا.اور ساتھ ہی اس ذہانت کا پتہ چلتا ہے جو بچپن کی عمر سے آپ کے اندر پیدا ہو گئی تھی.کیونکہ اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت بھی آپ تمام خواہشات کا پورا کرنے والا خدا تعالی کو ہی سمجھتے تھے اور عبادت کی توفیق کا دینا بھی اس پر موقوف جانتے تھے.نماز پڑھنے کی خواہش کرنا اور اس خواہش کو پورا کرنے والا خدا تعالی کو ہی جانا اور پھر جس گھر میں پرورش پا کر جس کے چھوٹے بڑے دنیا کو ہی اپنا خدا سمجھ رہے تھے ایک ایسی بات ہے جو سوائے کسی ایسے دل کے جو دنیا کی ملونی سے ہر طرح پاک ہو اور دنیا میں عظیم الشان تغیر پیدا کر دینے کے لئے خدا تعالیٰ سے تائید یافتہ ہو نہیں نکل سکتی.جس زمانہ میں آپ پیدا ہوئے ہیں وہ نہایت جہالت کا زمانہ تھا اور حصول تعلیم کا زمانہ لوگوں کی تعلیم کی طرف بہت ہی کم توجہ تھی.اور سکھوں کے زمانہ کی بات تو یہاں تک مشہور ہے کہ اگر کسی کے نام کسی دوست کا کوئی خط آجاتا تو اس کے پڑھوانے کے لئے اسے بہت مشقت اور محنت برداشت کرنی پڑتی تھی.اور بعض دفعہ مدت تک خط پڑا رہتا تھا.اور بہت سے رڈ ساء بالکل ان پڑھ تھے.لیکن خدا تعالیٰ نے چونکہ آپ سے بہت بڑا کام لینا تھا اس لئے آپ کی تعلیم کا اس نے آپ کے والد کے دل میں شوق پیدا کر دیا.اور باوجود ان دنیاوی تفکرات کے جن میں وہ مبتلا تھے انہوں نے اس جہالت کے زمانہ میں بھی اپنی اولاد کو اس زمانہ کے مناسب حال تعلیم دلانے میں کو تاہی نہ کی.چنانچہ جب آپ بچہ ہی تھے تو آپ کے والد نے ایک استاد آپ کی تعلیم کے لئے ملازم رکھا جن کا نام فضل الہی تھا.ان سے حضرت مرزا صاحب نے قرآن مجید اور فارسی کی چند کتب پڑھیں.اس کے بعد دس سال کی عمر میں فضل احمد نام ایک استاد ملازم رکھے گئے یہ استاد نہایت نیک اور دیندار آدمی تھا.اور جیسا کہ حضرت مرزا صاحب خود تحریر فرماتے ہیں.آپ کو نہایت محنت اور محبت سے

Page 365

العلوم جدید ۲۳۰ ۳۳۸ سیرت مسیح موعود تعلیم دیتا تھا.اس استاد سے حضرت صاحب نے صرف و نحو کی بعض کتب پڑھیں اس کے بعد سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں مولوی گل علی شاہ آپ کی تعلیم کے لئے ملازم رکھے گئے.ان سے نحو، منطق اور حکمت کی چند کتب آپ نے پڑھیں.اور فن طبابت کی چند کتب اپنے والد صاحب سے جو ایک نہایت تجربہ کار طبیب تھے پڑھیں.اور یہ تعلیم ان دنوں کے لحاظ سے جن میں آپ تعلیم پا رہے تھے بہت بڑی تعلیم تھی.لیکن در حقیقت اس کام کے مقابلہ میں جو آپ نے کرنا تھا کچھ بھی نہ تھی.چنانچہ ہم نے بعض وہ آدمی دیکھے ہیں جو آپ کے ساتھ ان استادوں سے پڑھتے تھے جن کو آپ کے والد صاحب نے آپ کی تعلیم کے لئے ملازم رکھا تھا وہ نہایت معمولی لیاقت کے آدمی تھے اور ان کو ایک معمولی خواندہ آدمی سے زیادہ وقعت نہیں دی جا سکتی.اور جو استاد آپ کی تعلیم کے لئے ملازم رکھے گئے تھے وہ بھی کوئی بڑے عالم نہ تھے.کیونکہ اس وقت علم بالکل مفقود تھا.اور فارسی اور عربی کی چند کتب کا پڑھ لینے والا بڑا عالم خیال کیا جاتا تھا.پس جن حالات کے ماتحت اور جن استادوں کی معرفت آپ کی تعلیم ہوئی وہ ایسے تھے کہ ان کی وجہ سے آپ کو کوئی ایسی تعلیم نہیں مل سکتی تھی جو اس کام کے لئے آپ کو تیار کر دیتی جس کے کرنے پر آپ نے مبعوث ہونا تھا.ہاں اس قدر اس تعلیم کا نتیجہ ضرور ہوا.کہ آپ کو فارسی اور عربی پڑھنی آگئی اور فارسی میں اچھی طرح سے اور عربی میں قدرے قلیل آپ بولنے بھی لگ گئے تھے.اس سے زیادہ آپ نے کوئی تعلیم نہیں حاصل کی.اور دینی تعلیم تو با قاعدہ طور پر کسی استاد سے حاصل نہیں کی.ہاں آپ کو مطالعہ کا بہت شوق تھا.اور آپ اپنے والد صاحب کے کتب خانہ کے مطالعہ میں اس قدر مشغول رہتے تھے کہ بارہا آپ کے والد صاحب کو ایک تو اس وجہ سے کہ آپکی صحت کو نقصان نہ پہنچے اور ایک اس وجہ سے کہ آپ اس طرف سے ہٹ کر ان کے کام میں مددگار ہوں آپ کو روکنا پڑتا تھا.جب آپ تعلیم سے فارغ ہوئے ملازمت کے حالات اور مسیحیوں سے مباحثات اس وقت گورنمنٹ برطانیہ کی حکومت پنجاب میں مستحکم ہو چکی تھی.غدر کا پُر آشوب زمانہ بھی گزر چکا تھا.اور اہل ہند اس بات کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے کہ اب اس گورنمنٹ کی ملازمت ہی میں تمام عزت ہے اس لئے مختلف شریف خاندانوں کے نوجوان اس کی ملازمت میں داخل ہو رہے تھے.ایسے حالات کے ماتحت اور اس بات کو معلوم کر کے کہ حضرت مرزا صاحب کی طبیعت زمینداری کے

Page 366

دم جلد ۳۳۰ ۳۳۹ سیرت مسیح موعود کاموں میں بالکل نہیں لگتی اپنے والد صاحب کے مشورہ سے آپ سیالکوٹ بحصول ملازمت تشریف لے گئے اور وہاں ڈپٹی کمشنر صاحب کے دفتر میں ملازم ہو گئے.مگر اکثر وقت علمی مشاغل میں ہی گذر تا اور ملازمت سے فراغت کے اوقات میں یا تو آپ خود مطالعہ کرتے یا دوسرے لوگوں کو پڑھاتے تھے یا مذہبی مباحث میں حصہ لیتے تھے.اور اس وقت بھی آپ کی پر ہیز گاری اور تقویٰ کا اتنا اثر تھا کہ باوجود اس کے کہ آپ بالکل نوجوان تھے.اور صرف اٹھائیس سال کی عمر تھی.مگر بوڑھے بوڑھے آدمی مسلمانوں میں سے بھی اور ہندوؤں میں سے بھی آپ کی عزت کرتے تھے لیکن آپ کی عادت اس وقت بھی خلوت پسندی کی تھی اپنے مکان سے باہر کم جاتے اور اکثر وقت وہیں گزارتے.مسیحی مشن ان دنوں پنجاب میں نیا نیا آیا تھا.اور مسلمان ان کے حملوں سے ناواقف تھے اور اکثر مسیحیوں سے شکست کھاتے.لیکن حضرت مرزا صاحب سے جب کبھی بھی مسیحیوں کی گفتگو ہوئی.ان کو نیچا دیکھنا پڑا.چنانچہ پادریوں میں سے جو لوگ حق پسند تھے وہ باوجود اختلاف مذہبی کے آپ کی بہت عزت کرتے.چنانچہ آپ کا سوانح نگار لکھتا ہے.ریورنڈ بٹلر ایم.اے جو سیالکوٹ کے مشن میں کام کرتے تھے اور جن سے حضرت صاحب کے بہت سے مباحثات ہوتے رہتے تھے.جب ولایت واپس جانے لگے تو خود کچھری میں آپ کے پاس ملنے کے لئے چلے آئے.اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے پوچھا کہ کس طرح تشریف لائے ہیں تو ریورنڈنڈ کورنے کہا کہ صرف مرزا صاحب کی ملاقات کے لئے.اور جہاں آپ بیٹھے تھے وہیں سیدھے چلے گئے اور کچھ دیر بیٹھ کر واپس چلے گئے.یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب کہ گورنمنٹ برطانیہ کی نئی نئی فتح کو پادری لوگ اپنی فتح کی علامت قرار دیتے تھے.اور ان میں تکبر اس قدر سرایت کر گیا تھا کہ ان دنوں میں جو کتب اسلام کے خلاف لکھی گئی ہیں ان کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ پادری صاحبان نے اس وقت شائد یہ خیال کر رکھا تھا کہ چند ہی روز میں تمام مسلمانوں کو پکڑ کر بزور شمشیر گورنمنٹ مسیحی بنالے گی.اور وہ اسلام اور بانی اسلام کے خلاف سخت سے سخت الفاظ استعمال کرنے سے بھی نہ رکھتے تھے.حتی کہ بعض دانا یورپین صاحبان کو بھی ان تصانیف کو دیکھ کر لکھنا پڑا کہ ان تحریروں کی وجہ سے اگر دوبارہ شہداء کی طرح غدر ہو جائے تو کوئی تعجب نہیں.اور یہ حالت اس وقت تک قائم رہی.جب تک کہ مسیحی پادریوں کو یہ یقین نہ ہو گیا کہ ہندوستان میں حکومت انگلستان کی ہے نہ کہ پادریوں کی.اور یہ کہ کوئین وکٹوریہ کی گورنمنٹ بزور شمشیر دین مسیحی پھیلانے کی ہرگز

Page 367

۳۴۰ روادار نہیں اور وہ کبھی پسند نہیں کرتی کہ کسی مذہب کی ناجائز طور پر دل آزادی کی جائے.غرض اس وقت مسیحیوں اور مسلمانوں سے تعلقات نہایت کشیدہ تھے.اور پادریوں کے اخلاق ان دنوں میں صرف انہیں لوگوں تک محدود ہوتے تھے جو ان کی باتوں کی تصدیق کریں.مگر جو آگے سے جواب دے بیٹھیں ان کے خلاف ان کا جوش بڑھ جاتا تھا.لیکن باوجود اس کے کہ حضرت مرزا صاحب دین میں غیور تھے اور مذہبی مباحثات میں کسی سے نہ دیتے تھے ریورنڈ بٹلر آپ کی نیک نیتی اور اخلاص اور تقویٰ کو دیکھ کر متاثر تھے.اور باوجود اس بات کو محسوس کرنے کے کہ یہ شخص میرا شکار نہیں ہاں ممکن ہے کہ میں اس کا شکار ہو جاؤں.اور باوجود اس طبعی نفرت کے جو ایک صید کو صیاد سے ہوتی ہے وہ دوسرے مذہبی مناظرین کی نسبت مرزا صاحب سے مختلف سلوک کرنے پر مجبور ہوئے.اور جاتے وقت کچھری میں ہی آپ سے ملنے کے لئے آگئے اور آپ سے ملے بغیر جانا پسند نہ کیا.قریباً چار سال آپ سیالکوٹ میں ملازم رہے علیحدگی ملازمت اور پیروی مقدمات لیکن نہایت کراہت کے ساتھ.آخر والد صاحب کے لکھنے پر فوراً استعفاء دے کر واپس آگئے اور اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت ان کے زمینداری مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام پر نہ لگتا تھا.چونکہ آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اس لئے والد صاحب کا حکم تو نہ ٹالتے تھے.لیکن اس کام میں آپ کا دل ہر گز نہ لگتا تھا.چنانچہ ان دنوں کے آپ کو دیکھنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرہ پر بشاشت کے آثار ہوتے تھے اور لوگ سمجھتے کہ شائد فتح ہو گئی ہے.پوچھنے پر معلوم ہو تا کہ ہار گئے ہیں.جب وجہ دریافت کی جاتی تو فرماتے کہ ہم نے جو کچھ کرنا تھا کر دیا منشائے الہی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہو گئی ہے یاد الہی میں مصروف رہنے کا موقعہ ملے گا.یہ زمانہ آپ کا کشمکش کا زمانہ تھا.والد صاحب چاہتے تھے کہ آپ یا تو زمینداری کے کام میں مصروف ہوں یا کوئی ملازمت اختیار کریں اور آپ ان دونوں باتوں سے متنفر تھے.اور اس لئے اکثر تشنیع کا شکار رہتے تھے جب تک آپ کی والدہ صاحبہ زندہ رہیں آپ پر ایک ہسپئر کے طور پر رہیں.لیکن ان کی وفات کے بعد آپ اپنے والد صاحب اور بھائی صاحب کی ملامت کا اکثر نشانہ ہو جاتے.اور بعض دفعہ لوگ سمجھتے تھے کہ آپ کا دنیاوی کاموں سے متنفر ہونا ستی کی طعن و

Page 368

م -جلد- ۳۴۱ سیرت مسیح موعود وجہ سے ہے.چنانچہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ آپ کے والد نہایت افسردہ ہو جاتے تھے اور کہتے تھے کہ میرے بعد اس لڑکے کا کس طرح گذارہ ہو گا.اور اس بات پر ان کو سخت رنج تھا کہ یہ اپنے بھائی کا دست نگر رہے گا.اور کبھی کبھی وہ آپ کے مطالعہ پر چڑ کر آپ کو ملاں بھی کہہ دیا کرتے تھے.اور فرماتے تھے کہ یہ ہمارے گھر میں ملاں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے.لیکن باوجود اس کے خود ان کے دل میں بھی آپ کا رعب تھا اور جب کبھی وہ اپنی دنیاوی نا کامیابی کو یاد کرتے تھے تو دینی باتوں میں آپ کے استغراق کو دیکھ کر خوش ہوتے تھے.اور اس وقت فرماتے تھے کہ اصل کام تو یہی ہے جس میں میرا بیٹا لگا ہوا ہے.لیکن چونکہ ان کی ساری عمر دنیا کے کاموں میں گذری تھی اس لئے افسوس کا پہلو غالب رہتا تھا.مگر حضرت مرزا صاحب اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرتے تھے بلکہ کسی وقت قرآن و حدیث اپنے والد صاحب کو بھی سنانے کے لئے بیٹھ جاتے تھے.اور یہ ایک عجیب نظارہ تھا کہ باپ اور بیٹا دو مختلف کاموں میں لگے ہوئے تھے اور دونوں میں سے ہر ایک دوسرے کو شکار کرنا چاہتا تھا.باپ چاہتا تھا کہ کسی طرح بیٹے کو اپنے خیالات کا شکار کرے اور دنیاوی عزت کے حصول میں لگا وے اور بیٹا چاہتا تھا اپنے باپ کو دنیا کے خطرناک پھندہ سے آزاد کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی کو لگا دے.غرض یہ عجیب دن تھے جن کا نظارہ کھینچنا قلم کا کام نہیں.ہر ایک شخص اپنی اپنی طاقت کے مطابق اپنے دل کے اندر ہی اس کا نقشہ کھینچ سکتا ہے.ان دنوں آپ کے سامنے پھر ملازمت کا سوال پیش ہوا.اور ریاست کپور تھلہ کے محکمہ تعلیم کا افسر بنانے کی تجویز ہوئی لیکن آپ نے نامنظور کر دیا.اور اپنے والد صاحب کے ہموم و عموم کو دیکھ کر اس بات کو ہی پسند فرمایا کہ جس تنگی سے بھی گذارہ ہو گھر پر ہی رہیں اور ان کے کاموں میں جہاں تک ہو سکے ہاتھ بٹا ئیں.گو جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے آپ کا دل اس کام کی طرف بھی راغب نہ تھا لیکن آپ اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت اور ان کے آخری ایام کو جہاں تک ہو سکے بآرام کرنے کے لئے اس کام میں لگے ضرور رہتے تھے.گو فتح و شکست سے آپ کو دلچسپی نہ تھی.ایک حضرت مسیح موعود گو اس زمانہ میں اپنے والد صاحب کی ، مقدمہ میں نشان الہی مرد کے لئے ان کے دنیاوی کاموں میں لگے ہوئے تھے لیکن آپ کا دل کسی اور طرف تھا اور دست در کار دل بایار کی مثال بنے ہوئے تھے.مقدمات سے ذرا فارغ ہوتے تو خدا تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جاتے.اور ان سفروں میں جو آپ کو ان

Page 369

لوم جلد ۳۰ ۳۲ سیرت مسیح موعود دنوں مقدمات میں کرنے پڑتے آپ ایک وقت کی نماز بھی بے وقت نہ ہونے دیتے بلکہ اپنے اوقات پر نماز ادا کرتے بلکہ مقدمات کے وقت بھی نماز کو ضائع نہ ہونے دیتے.چنانچہ ایک دفعہ تو ایسا ہوا.کہ آپ ایک ضروری مقدمہ کے لئے جس کا اثر بہت سے مقدمات پر پڑتا تھا.اور جس کے آپ کے حق میں ہو جانے کی صورت میں آپ کے بہت سے حقوق محفوظ ہو جاتے تھے.عدالت میں تشریف لے گئے اس وقت کوئی ضروری مقدمہ پیش تھا اس میں دیر ہوئی اور نماز کا وقت آگیا.جب آپ نے دیکھا کہ مجسٹریٹ تو اس مقدمہ میں مصروف ہے اور نماز کا وقت تنگ ہو رہا ہے تو آپ نے اس مقدمہ کو خدا کے حوالے کیا.اور خود ایک طرف جا کر وضوء کیا اور درختوں کے سایہ تلے نماز پڑھنی شروع کر دی.جب نماز شروع کر دی تو عدالت سے آپ کے نام پر آواز پڑی آپ آرام سے نماز پڑھتے رہے اور بالکل اس طرف توجہ نہ کی.جب نماز سے فارغ ہوئے تو یقین تھا کہ مقدمہ میں فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری مل گئی ہو گی کیونکہ عدالت ہائے کا قاعدہ ہے کہ جب ایک فریق حاضر عدالت نہ ہو تو فریق مخالف کو یکطرفہ ڈگری دی جاتی ہے.اسی خیال میں عدالت میں پہنچے.چنانچہ جب عدالت میں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا ہے.لیکن چونکہ فیصلہ عدالت معلوم کرنا ضروری تھا جا کر دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ نے جو ایک انگریز تھا کا غذات پر ہی فیصلہ کر دیا اور ڈگری آپ کے حق میں دی.اور اس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کی طرف سے وکالت کی.غرض آپ ان دنیا دی کاموں میں اس طرح مشغول تھے جس طرح ایک شخص سے کوئی ایسا کام کرایا جائے جس کے کرنے پر وہ راضی نہ ہو حالانکہ وہ کام خود آپ کے نفع کا تھا کیونکہ آپ کے والد صاحب کی جائداد کا محفوظ ہونا در حقیقت آپ کی جائداد کا محفوظ ہونا تھا کیونکہ آپ ان کے وارث تھے.پس آپ کا باوجو د عاقل و بالغ ہونے کے اس کام سے بیزار رہنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ دنیا سے بکلی متنفر تھے اور خدا تعالیٰ ہی آپ کا مقصود تھا.باوجود اس کے کہ آپ دنیا سے ایسے متنفر تھے آپ سُست ہرگز محنت اور جفاکشی کی عادت نہ تھے بلکہ نہایت محنت کش تھے اور خلوت کے دلدادہ ہونے کے باوجود مشقت سے نہ گھبراتے تھے.اور بارہا ایسا ہو تا تھا کہ آپ کو جب کسی سفر پر جانا پڑتا تو سواری کا گھوڑا نوکر کے ہاتھ آگے روانہ کر دیتے اور آپ پیادہ پا ہیں پچیس کوس کا سفر طے کر کے منزل مقصود پر پہنچ جاتے بلکہ اکثر اوقات آپ پیادہ ہی سفر کرتے تھے اور سواری پر کم

Page 370

م بلید - ۳۴۳ سیرت مسیح موعود چڑھتے تھے.اور یہ عادت پیادہ چلنے کی آپ کو آخر عمر تک تھی.ستر سال سے متجاوز عمر میں جب کہ بعض سخت بیماریاں آپ کو لاحق تھیں اکثر روزانہ ہوا خوری کے لئے جاتے تھے اور چار پانچ میل روزانہ پھر آتے.اور بعض اوقات سات میل پیدل پھر لیتے تھے.اور بڑھاپے سے پہلے کا حال آپ بیان فرمایا کرتے تھے کہ بعض اوقات صبح کی نماز سے پہلے اٹھ کر (نماز کا وقت سورج نکلنے سے سوا گھنٹہ پہلے ہوتا ہے) سیر کے لئے چل پڑتے تھے.اور وڈالہ تک پہنچ کر (جو) بٹالہ سڑک پر قادیان سے قریبا ساڑھے پانچ میل پر ایک گاؤں ہے) صبح کی نماز کا وقت ہو تا تھا.آپ کی عمر تقریبا چالیس سال کی تھی.جب کہ ۱۸۷۶ء میں آپ کے مکالمہ اللہ کا آغاز والد صاحب یک دفعہ بیمار ہوئے اور گو ان کی بیماری چنداں خوفناک نہ تھی لیکن حضرت مسیح موعود کو اللہ تعالٰی نے بذریعہ الہام بتایا.کہ وَ السَّمَاءِ وَالطَّارِقِ (تذکرہ صفحہ ۲۴ ایڈیشن چهارم یعنی رات کے آنے والے کی قسم تو کیا جانتا ہے کہ کیا ہے رات کو آنے والا.اور ساتھ ہی تقسیم ہوئی کہ اس الہام میں آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبر دی گئی ہے جو کہ بعد مغرب واقعہ ہوگی.گو حضرت صاحب کو اس سے پہلے ایک مدت سے رویائے صالحہ ہو رہے تھے جو اپنے وقت پر نہایت صفائی سے پورے ہوتے تھے اور جن کے گواہ ہندو اور سکھ بھی تھے.اور اب تک بعض ان میں سے موجود ہیں.لیکن الہامات میں سے یہ پہلا الہام ہے جو آپ کو ہوا اور اس الہام کے ذریعہ سے گویا خدا تعالیٰ نے اپنی محبت کے ساتھ آپ کو بتایا کہ تیرا دنیادی باپ فوت ہوتا ہے لیکن آج سے میں تیرا آسمانی باپ ہو تا ہوں.غرض پہلا الہام جو حضرت مسیح موعود کو ہوا.وہ یہی تھا جس میں آپ کو آپ کے والد صاحب کی وفات کی خبردی گئی تھی.اس خبر پر بالطبع آپ کے دل میں رنج پیدا ہونا تھا.چنانچہ آپ کو اس خبر سے صدمہ پیدا ہوا.اور دل میں خیال گذرا کہ اب ہمارے گزارے کی کیا صورت ہو گی.جس پر دوسری دفعہ پھر الہام ہوا اور آپ کو اللہ تعالی نے ہر طرح سے تسلی دی.اس واقعہ کو میں اس جگہ خود حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں لکھ دینا مناسب سمجھتا ہوں.آپ تحریر فرماتے ہیں.”جب مجھے یہ خبر دی گئی کہ میرے والد آپ کے والد کی وفات اور الہی تصرفات صاحب آفتاب غروب ہونے کے بعد فوت ہو جائیں گے.تو بموجب مقتضائے بشریت کے مجھے اس خبر کے سننے سے درد پہنچا.اور چونکہ ہماری معاش کے اکثر وجوہ انہی کی زندگی سے وابستہ تھے اور وہ سرکار انگریزی کی طرف.

Page 371

۳۴۴ سیرت مسیح موعود پنشن پاتے تھے.اور نیز ایک رقم کثیر انعام کی پاتے تھے.جو ان کی حیات سے مشروط تھی.اس لئے یہ خیال گذرا کہ ان کی وفات کے بعد کیا ہو گا.اور دل میں خوف پیدا ہوا.کہ شاید تنگی اور تکلیف کے دن ہم پر آئیں گے.اور یہ سارا خیال بجلی کی چمک کی طرح ایک سیکنڈ سے بھی کم عرصہ میں دل میں گزر گیا تب اسی وقت غنودگی ہو کر یہ دوسرا الہام ہوا.اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَه یعنی کیا خدا اپنے بندہ کے لئے کافی نہیں ہے.اس الہام الہی کیساتھ ایسا دل قوی ہو گیا کہ جیسے ایک سخت درد ناک زخم کسی مرہم سے ایک دم میں اچھا ہو جاتا ہے..جب مجھ کو الہام ہوا کہ اليْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ تو میں نے اسی وقت سے سمجھ لیا کہ خدا مجھے ضائع نہیں کرے گا.تب میں نے ایک ہندو کھتری ملاوائل نام کو جو ساکن قادیان ہے اور ابھی تک زندہ ہے (انکی ۱۹۵ء میں وفات ہوئی.مرتب کنندہ ) وہ الہام لکھ کر دیا اور سارا قصہ اسکو سنایا اور اس کو امر تسر بھیجا که تا حکیم مولوی محمد شریف کلانوری کی معرفت اسکو کسی نگینہ میں کھدوا کر اور مہر بنوا کر لے آوے.اور میں نے اس ہندو کو اس کام کے لئے محض اس غرض سے اختیار کیا کہ وہ اس عظیم الشان پیش گوئی کا گواہ ہو جاوے.چنانچہ مولوی صاحب موصوف کے ذریعہ سے وہ انگشتری بصرف مبلغ پانچ روپیہ تیار ہو کر میرے پاس پہنچ گئی.جو اب تک میرے پاس موجود ہے.جس کا نشان یہ ہے" (حقیقة الوحی- روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۲۰۰۲۱۹ ) غرض جس دن حضرت صاحب کے والد صاحب نے وفات پائی تھی.اس دن مغرب سے چند گھنٹے پہلے ان کی وفات کی اطلاع آپ کو دی گئی.اور بعد میں خدا تعالیٰ نے تسلی فرما دی کہ گھبراؤ نہیں.اللہ تعالیٰ خود ہی تمہارا انتظام فرما دے گا.جس دن یہ الہامات ہوئے اسی دن شام کو بعد مغرب آپ کے والد صاحب فوت ہو گئے اور آپ کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا.آپ کے والد صاحب کی جائداد کچھ مکانات اور بعض مشکلات پر آپ کا استقلال دکانات بٹالہ امر تسر اور گورداسپور میں تھی.اور کچھ مکانات اور دکانیں اور زمین قادیان میں تھی.چونکہ آپ دو بھائی تھے.اس لئے شرعاء قانونا وہ جائداد آپ دونوں کے حصہ میں آتی تھی.چونکہ آپ کا حصہ آپ کے گزارہ کے لئے کافی تھا لیکن آپ نے اپنے بڑے بھائی سے وہ جائداد تقسیم نہیں کرائی اور جو کچھ وہ دیتے اس

Page 372

م جلد ۳ ۳۴۵ سیرت مسیح موعود پر گزارہ کر لیتے اور اس طرح گویا والد کے قائم مقام آپ کے بڑے بھائی ہو گئے.لیکن چونکہ وہ ملازم تھے اور گورداسپور رہتے تھے.اس لئے ان دنوں آپ کو بہت تکلیف ہو گئی حتی کہ ضروریات زندگی کے حاصل کرنے میں بھی آپ کو بہت تکلیف ہوتی تھی.اور یہ تکلیف آپ کو آپ کے بھائی کی وفات تک برابر رہی.اور یہ گویا آپ کے لئے آزمائش کے سال تھے اور آپ نے ان آزمائش کے دنوں میں صبرو استقلال سے کام لیا.وہ آپ کے درجہ کی بلندی کی تین علامت ہے کیونکہ باوجود اس کے کہ آپ کا اپنے والد صاحب کی مترو کہ جائداد پر برابر کا حصہ تھا پھر بھی آپ نے ان کی دنیا کی رغبت دیکھ کر ان سے اپنا حصہ طلب نہ کیا اور محض کھانے اور کپڑے پر کفایت کی.گو آپ کے بھائی بھی اپنی طبیعت کے مطابق آپ کی ضروریات کے پورا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور آپ سے ایک حد تک محبت بھی رکھتے تھے اور کسی قدر ادب بھی کرتے تھے لیکن باوجود اس کے چونکہ وہ دنیا داری میں بالکل منہمک تھے اور حضرت صاحب دنیا سے بالکل متنفر تھے اس لئے وہ آپ کو ضرورت زمانہ سے ناواقف اور ست سمجھتے تھے اور بعض دفعہ اس بات پر اظہار افسوس بھی کرتے تھے کہ آپ کسی کام کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.چنانچہ ایک دفعہ کسی اخبار کے منگوانے کے لئے آپ نے ان سے ایک نہایت رقم منگوائی تو انہوں نے باوجود اس کے کہ آپ کی جائداد پر قابض تھے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ اسراف ہے.کام تو کچھ کرتے نہیں اور یونہی بیٹھے کتب و اخبار کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں.غرض آپ کے بھائی صاحب بوجہ دنیا داری میں کمال درجہ کے مشغول ہونے کے آپ کی ضروریات کو نہ خود سمجھ سکتے تھے اور نہ ان کو پورا کرنے کی طرف متوجہ تھے جس کی وجہ سے آپ کو بہت کچھ تکلیف پہنچتی.مگر اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ کے بھائی بھی اکثر قادیان سے باہر رہتے تھے اور ان کے پیچھے ان کے منتظمین آپ کے تنگ کرنے میں خاص طور پر کوشاں رہتے.انہی ایام میں آپ کو بتایا گیا کہ الہی آپ کا مجاہدہ ، ایثار اور خدمت اسلام انعامات کے حاصل کرنے کے لئے کچھ مجاہدہ کی بھی ضرورت ہے اور یہ کہ آپ کو روزے رکھنے چاہئیں.اس حکم کے ماتحت آپ نے متواتر چھ ماہ کے روزے رکھے.اور بارہا ایسا ہوتا تھا کہ آپ کا کھانا جب گھر سے آتا تو آپ بعض غرباء میں تقسیم کر دیتے اور جب روزہ کھول کر گھر سے کھانا منگواتے تو وہاں سے صاف.

Page 373

سیرت مسیح موعود جواب ملتا.اور آپ صرف پانی پر یا اور کسی ایسی ہی چیز پر وقت گزار لیتے.اور صبح پھر آٹھ پہرہ ہی روزہ رکھ لیتے.غرض یہ زمانہ آپ کے لئے ایک بڑے مجاہدات کا زمانہ تھا.جسے آپ نے نہایت صبرو استقلال سے گزارا.سخت سے سخت تکالیف کے ایام میں بھی اشارہ اور کنایہ کبھی جائداد میں سے اپنا حصہ لینے کی تحریک نہیں کی.نہ صرف روزوں کے دنوں میں بلکہ یوں بھی آپ کی ہمیشہ عادت تھی کہ ہمیشہ کھانا غرباء میں بانٹ دیتے تھے.اور بعض دفعہ ایک چپاتی کا نصف جو ایک چھٹانک سے زیادہ نہیں ہو سکتا آپ کے لئے بچتا اور آپ اسی پر گزارہ کرتے تھے.بعض دفعہ صرف چنے بھنوا کر کھا لیتے اور اپنا کھانا سب غرباء کو دے دیتے.چنانچہ کئی غریب آپ کے ساتھ رہتے تھے اور دونوں بھائیوں کی مجلسوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا.ایک بھائی کی مجلس میں سب کھاتے پیتے آدمی جمع ہوتے تھے اور دوسرے بھائی کی مجلس میں غریبوں اور محتاجوں کا ہجوم رہتا تھا جن کو وہ اپنی قلیل خوراک میں شریک کرتا تھا اور اپنی جان پر ان کو مقدم کر لیتا تھا.انہی ایام میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدمت اسلام کے لئے کوشش شروع کی اور مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ میں اخبارات میں مضامین لکھنے شروع کئے.جن کی وجہ سے آپ کا نام خود بخود گوشۂ تنہائی سے نکل کر میدان شہرت میں آگیا لیکن آپ خود اسی گوشہ تنہائی میں ہی تھے اور باہر کم نکلتے تھے.بلکہ مسجد کے ایک حجرہ میں جو صرف ۶ × ۵ فٹ کے قریب لمبا اور چوڑا تھا رہتے تھے اور اگر کوئی آدمی ملنے کے لئے آجاتا تو مسجد سے باہر نکل کر بیٹھ جاتے یا گھر میں آکر بیٹھے رہتے.غرض اس زمانہ میں آپ کا نام تو باہر نکلنا شروع ہوا لیکن آپ باہر نہ نکلے بلکہ اسی گوشہ تنہائی میں زندگی بسر کرتے.ان مجاہدات کے دنوں میں آپ کو کثرت سے الہامات ہونے شروع ہو گئے اور بعض امور غیرہ پر بھی اطلاع ملتی رہی.جو اپنے وقت پر پورے ہو جاتے.اور آپ کے ایمان کی زیادتی کا موجب ہوتے.اور آپ کے دوست جن میں بعض ہندو اور سکھ بھی شامل تھے ان باتوں کو دیکھ دیکھ کر حیران ہوتے.خمسة १९ پہلے تو آپ نے صرف اخبارات میں مضامین دینے اشتہار کتاب "براہین احمدیہ شروع کئے.لیکن جب دیکھا کہ دشمنان اسلام اپنے حملوں میں بڑھتے جاتے ہیں اور مسلمان ان کے حملوں کی تاب نہ لا کر پسپا ہو رہے ہیں تو آپ

Page 374

وم جلد ۳۰ ۳۴۷ سیرت مسیح موعود کے دل میں غیرت اسلام نے جوش مارا اور آپ نے اللہ تعالیٰ کے الہام ووحی کے ماتحت مامور ہو کر ارادہ کیا کہ ایک ایسی کتاب تحریر فرمائیں جس میں اسلام کی صداقت کے وہ اصول بیان کئے جائیں جن کے مقابلہ سے مخالف عاجز ہوں اور آئندہ ان کو اسلام کے مقابلہ کی جرات نہ ہو.اور اگر وہ مقابلہ کریں تو ہر ایک مسلمان ان کے حملہ کو رد کر سکے.چنانچہ اس ارادہ کے ساتھ آپ نے وہ عظیم الشان کتاب لکھنی شروع کی جو براہین احمدیہ کے نام سے مشہور ہے اور جس کی نظیر کسی انسان کی تصانیف میں نہیں ملتی.جب ایک حصہ مضمون کا تیار ہو گیا تو اس کی اشاعت کے لئے آپ نے مختلف جگہ پر تحریک کی.اور بعض لوگوں کی امداد سے جو آپ کے مضامین کی وجہ سے پہلے ہی آپ کی لیاقت کے قائل تھے اس کا پہلا حصہ جو صرف اشتہار کے طور پر تھا شائع کیا گیا.اس حصہ کا شائع ہونا تھا کہ ملک میں شور پڑ گیا اور گو پہلا حصہ صرف کتاب کا اشتہار تھا لیکن اس میں بھی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے ایسے اصول بتائے گئے تھے کہ ہر ایک شخص جس نے اسے دیکھا اس کتاب کی عظمت کا قائل ہو گیا اس اشتہار میں آپ نے یہ بھی شرط رکھی تھی کہ اگر وہ خوبیاں جو آپ اسلام کی پیش کریں گے وہی کسی اور مذہب کا پیرو اپنے مذہب میں دکھا دے یا ان سے نصف بلکہ چوتھا حصہ ہی اپنے مذہب میں ثابت کر دے تو آپ اپنی سب جائداد جس کی قیمت دس ہزار روپے کے قریب ہوگی اسے بطور انعام کے دیں گے.(یہ ایک ہی موقعہ ہے جس میں آپ نے اپنی جائداد سے اس وقت فائدہ اٹھایا اور اسلام کی خوبیوں کے ثابت کرنے کے لئے بطور انعام مقرر کیا تاکہ مختلف مذاہب کے پیرو کسی طرح میدان مقابلہ میں آجائیں اور اس طرح اسلام کی فتح ثابت ہو) یہ پہلا حصہ ۱۸۸۰ء میں شائع ہوا.پھر اس کتاب کا دوسرا حصہ ۱۸۸۱ء میں اور تیسرا حصہ ۱۸۸۲ء میں اور چوتھا حصہ ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا.گو جس رنگ میں آپ کا ارادہ کتاب لکھنے کا تھا وہ درمیان میں ہی رہ گیا.کیونکہ اس کتاب کی تحریر کے درمیان میں ہی آپ کو بذریعہ الہام بنایا گیا کہ آپ کے لئے اشاعت اسلام کی خدمت کسی اور رنگ میں مقدر ہے.لیکن جو کچھ اس کتاب میں لکھا گیا وہی دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھا اور اس کتاب کی اشاعت کے بعد آپ کے دوست دشمن سب کو آپ کی قابلیت کا اقرار کرنا پڑا.اور مخالفین اسلام پر ایسا رعب پڑا کہ ان میں سے کوئی اس کتاب کا جواب نہ دے سکا.مسلمانوں کو اس قدر خوشی حاصل ہوئی کہ وہ بلا آپ کے دعوئی کے آپ کو مجدد تسلیم کرنے لگے اور اس وقت کے بڑے بڑے علماء آپ کی لیاقت کا لوہا مان

Page 375

سیرت مسیح موعود ۳۴۸ F.گئے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو اس وقت تمام اہل حدیث وہابی فرقہ کے سرگروه تھے اور وہابی فرقہ میں ان کو خاص عزت حاصل تھی اور اسی وجہ سے گورنمنٹ کے ہاں بھی ان کی عزت تھی.انہوں نے اس کتاب کی تعریف میں ایک لمبا آرٹیکل لکھا اور بڑے زور سے اس کی تائید کی.اور لکھا کہ تیرہ سو سال میں اسلام کی تائید میں ایسی کتاب کوئی نہیں لکھی گئی.کثرت الہام اور غیب کی خبریں اور آپ کے بھائی صاحب کی وفات سیاس کتاب میں حضرت مسیح موعود نے اپنے بعض الہامات بھی لکھے ہیں.جن میں سے بعض کا بیان کر دینا یہاں مناسب ہو گا کیونکہ بعد کے واقعات سے ان کے غلط یا درست ہونے کا پتہ لگتا ہے.دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسکو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا.اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ" (تذکره صفحه ۵۰ ایڈیشن چهارم) " بادشاہ تیرے کپڑوں سے برگت ڈھونڈیں گے." ( تذکرہ صفحہ 10 ایڈیشن چہارم) یہ وہ الہامات ہیں جو براہین احمدیہ ۱۸۸۴ء میں شائع کئے گئے تھے.جب کہ آپ دنیا میں ایک کسمپرس آدمی کی حالت میں تھے.لیکن اس کتاب کا نکلنا تھا کہ آپ کی شہرت ہندوستان میں دور دور تک پھیل گئی.اور بہت لوگوں کی نظریں مصنف براہین احمدیہ کی طرف لگ گئیں کہ یہ اسلام کا پشتی بان ہو گا اور اسے دشمنوں کے حملوں سے بچائے گا.اور یہ خیال ان کا درست تھا لیکن خدا تعالیٰ اسے اور رنگ میں پورا کرنے والا تھا.اور واقعات یہ ثابت کرنے والے تھے کہ جو لوگ ان دنوں اس پر جان فدا کرنے کے لئے تیار ہو گئے تھے وہی اس کے خون کے پیاسے ہو جائیں گے.اور ہر طرح اس کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے.اور آپ کی قبولیت کسی انسانی امداد کے سہارے نہیں بلکہ خدا تعالٰی کے زبر دست حملوں کے ذریعہ مقدر تھی.۱۸۸۴ء میں آپ کے بھائی صاحب بھی فوت ہو گئے اور چونکہ وہ لاولد تھے اس لئے ان کے وارث بھی آپ ہی تھے.لیکن اس وقت بھی آپ نے ان کی بیوہ کی دلدہی کے لئے جائداد پر قبضہ نہ کیا.اور ان کی درخواست پر نصف حصہ تو مرزا سلطان احمد صاحب کے نام پر لکھ دیا.جنہیں آپ کی بھاوج نے رسمی طور پر متبنی قرار دیا تھا.آپ نے تبنیت کے سوال پر تو صاف لکھ دیا کہ اسلام میں جائز نہیں.لیکن مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوہ کی دلدہی اور خبر گیری کے به تذکره ها

Page 376

العلوم ميلاد - ۳ ۳۴۹ سیرت مسیح موعود لئے اپنی جائداد کا نصف حصہ بخوشی خاطر دے دیا اور باقی نصف پر بھی خود قبضہ نہ کیا.بلکہ مدت تک آپ کے رشتہ داروں ہی کے قبضہ میں رہا.بھائی صاحب کی وفات خلق خدا کا رجوع.دوسری شادی.اعلان دعوی حقہ کے ڈیڑھ سال بعد آپ نے الہام الہی کے ماتحت دوسری شادی دہلی میں کی.چونکہ براہین احمدیہ شائع ہو چکی تھی اب کوئی کوئی شخص آپ کو دیکھنے کے لئے آنے لگا تھا.اور قادیان جو دنیا سے بالکل ایک کنارہ پر ہے مہینہ دو مہینے کے بعد کسی نہ کسی مہمان کی قیام گاہ بن جاتی تھی.اور چونکہ لوگ براہین احمدیہ سے واقف ہوتے جاتے تھے آپ کی شہرت بڑھتی جاتی تھی.اور یہ براہین احمدیہ ہی تھی جسے پڑھ کر وہ عظیم الشان انسان جس کی لیاقت اور علمیت کے دوست دشمن قائل تھے اور جس حلقہ میں وہ بیٹھتا تھا خواہ یورپینوں کا ہو یا دیسیوں کا اپنی لیاقت کا سکہ ان سے منوا تا تھا آپ کا عاشق و شیدا ہو گیا.اور باوجود خود ہی ہزاروں کا معشوق ہونے کے آپ کا عاشق ہونا اس نے اپنا فخر سمجھا.میری مراد استاذی المکرم حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے ہے.جو براہین احمدیہ کی اشاعت کے وقت جموں میں مہاراجہ صاحب کے خاص طبیب تھے.انہوں نے وہاں ہی براہین احمدیہ پڑھی اور ایسے فریفتہ ہوئے کہ تادم مرگ حضرت صاحب کا دامن نہ چھوڑا.غرض براہین احمدیہ کا اثر رفتہ رفتہ بڑھنا شروع ہوا.اور بعض لوگوں نے آپ کی خدمت میں درخوست کی کہ آپ بیعت لیں.لیکن آپ نے بیعت لینے سے ہمیشہ انکار کیا اور یہی جواب دیا کہ ہمارے سب کام خدائے تعالی کے ہاتھ میں ہیں.حتی کہ ۱۸۸۸ء کا دسمبر آگیا.جب کہ آپ کو الہام کے ذریعے لوگوں سے بیعت لینے کا حکم دیا گیا.اور پہلی بیعت ۱۸۸۹ء میں لدھیانہ کے مقام پر میاں احمد جان نامی ایک مخلص تھے ان کے مکان پر ہوئی.اور سب سے پہلے حضرت مولانا مولوی نورالدین نے بیعت کی اور اس دن چالیس کے قریب آدمیوں نے بیعت کی.اس کے بعد آہستہ آہستہ کچھ لوگ بیعت میں شامل ہوتے رہے.لیکن ۱۸۹۱ء میں ایک اور تغیر عظیم ہوا.یعنی حضرت مرزا صاحب کو الہام کے ذریعے بتایا گیا کہ حضرت مسیح ناصری جن کے دوبارہ آنے کے مسلمان اور میجی دونوں قائل ہیں فوت ہو چکے ہیں.اور ایسے فوت ہوئے ہیں کہ پھر واپس نہیں آسکیں گے.اور یہ کہ مسیح کی بعثت ثانیہ سے مراد ایک ایسا شخص

Page 377

انوار العلوم جلد ۳۰ ۳۵۰ سیرت مسیح موعود ہے جو ان کی خوبو پر آوے اور وہ آپ ہی ہیں.جب اس بات پر آپ کو شرح صدر ہو گیا اور بار بار الہام سے آپ کو مجبور کیا گیا.کہ آپ اس بات کا اعلان کریں تو آپ کو مجبوراً اس کام کے لئے اٹھنا پڑا.قادیان میں ہی آپ کو یہ الہام ہوا تھا آپ نے گھر میں فرمایا کہ اب ایک ایسی بات میرے سپرد کی گئی ہے کہ اب اس سے سخت مخالفت ہو گی اس کے بعد آپ لدھیانہ چلے گئے اور مسیح موعود ہونے کا اعلان ۱۸۹۱ء میں بذریعہ اشتہار شائع کیا گیا.اس اعلان کا شائع ہونا تھا علمائے زمانہ کی شدید مخالفت اور مباحثہ دہلی کی کیفیت کہ ہندوستان بھر میں شور پڑ گیا.اور اس قدر مخالفت ہوئی.کہ الامان ! وہی علماء جو آپ کی تائید کرتے تھے آپ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے.مولوی محمد حسین بٹالوی جنہوں نے اپنے رسالہ اشاعتہ السنہ میں آپ کی تائید میں زبر دست آرٹیکل لکھے تھے.انہوں نے ہی آپ کے خلاف زمین و آسمان سر پر اٹھا لیا.اور لکھا کہ میں نے ہی اس شخص کو چڑھایا تھا اور اب میں ہی اسے گراؤں گا یعنی میری ہی تائید سے ان کی عظمت قائم ہوئی تھی.اب میں اتنی مخالفت کروں گا کہ یہ لوگوں کی نظروں سے گر جائیں گے اور بدنام ہو جائیں گے.مولوی صاحب مع بعض دیگر علماء کے لدھیانہ بھی پہنچے اور مباحثہ کا چیلنج دیا جو حضرت مسیح موعود نے منظور بھی فرمالیا.لیکن مباحثہ میں فریق مخالف نے اس قسم کی کج بحثیں شروع کیں.کہ کچھ فیصلہ نہ ہو سکا اور جب ڈپٹی کمشنر صاحب نے دیکھا کہ ایک فتنہ عظیم برپا ہے اور قریب ہے کہ کوئی صورت غدر کی پیدا ہو جائے.تو انہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو ایک خاص حکم کے ذریعے لدھیانہ سے اسی دن چلے جانے پر مجبور کیا.اس پر بعض دوستوں کے مشورہ سے کہ شاید ایسا حکم آپ کے متعلق بھی جاری ہو.آپ لدھیانہ سے امرت سر تشریف لے آئے اور آٹھ دن وہاں رہے.لیکن بعد میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب نے دریافت کرنے پر بتایا کہ آپ کے متعلق کوئی حکم نہ تھا.جس پر آپ پھر لدھیانہ تشریف لے گئے اور پھر وہاں ہفتہ بھر کے قریب رہے.اور پھر قادیان تشریف لے آئے اس کے بعد کچھ مدت قادیان رہ کر پھر لدھیانہ تشریف لے گئے.جہاں کچھ مدت رہے اور وہاں سے دہلی تشریف لے گئے جہاں آپ ۲۸ / ستمبر ۱۸۹۱ء کی صبح کو پہنچے.چونکہ دہلی اس زمانہ مین تمام ہندوستان کا علمی مرکز سمجھا جاتا تھا وہاں کے لوگوں میں پہلے سے ہی آپ کے خلاف جوش پھیلایا جاتا تھا.آپ کے وہاں پہنچتے ہی وہاں کے علماء میں ایک جوش پیدا ہوا.

Page 378

رالعلوم جلد ۳۵۱ سیرت مسیح موعود.اور انہوں نے آپ کو مباحثہ کے چیلنج دینے شروع کئے.اور مولوی نذیر حسین صاحب جو تمام ہندوستان کے علماء اہلحدیث کے استاد تھے ان سے مباحثہ قرار پایا.مسجد جامع مقام مباحثه قرار پائی.لیکن مباحثہ کی یہ سب قرار داد مخالفین نے خود ہی کر لی.کوئی اطلاع آپ کو نہ دی گئی.عین وقت پر حکیم عبدالمجید خاں صاحب دہلوی اپنی گاڑی لے کر آگئے اور کہا کہ مسجد میں مباحثہ ہے.آپ نے فرمایا کہ فساد کے موقعہ پر ہم نہیں جاسکتے جب تک پہلے سرکاری انتظام نہ ہو پھر مباحثہ کے لئے ہم سے مشورہ ہونا چاہئے تھا.اور شرائط مباحثہ طے کرنی تھیں.آپ کے نہ جانے پر اور شور ہوا.آخر آپ نے اعلان کیا کہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی جامع مسجد میں قسم کھالیں کہ حضرت مسیح قرآن کریم کے رو سے زندہ ہیں اور اب تک فوت نہیں ہوئے اور اس قسم کے بعد ایک سال تک کسی آسمانی عذاب میں مبتلا نہ ہوں تو میں جھوٹا ہوں اور میں اپنی کتب کو جلا دوں گا اور اس کے لئے تاریخ بھی مقرر کر دی.مولوی نذیر حسین صاحب کے شاگرد اس سے سخت گھبرائے اور بہت روکیں ڈالنی شروع کر دیں.لیکن لوگ مصر ہوئے کہ اس میں کیا حرج ہے کہ مرزا صاحب کا دعویٰ سن کر قسم کھا جائیں.کہ یہ جھوٹا ہے اور لوگ اس وقت کثرت سے جامع مسجد میں اکٹھے ہو گئے.حضرت صاحب کو لوگوں نے بہت روکا کہ آپ نہ جائیں سخت بلوہ ہو جائے گا.لیکن آپ وہاں گئے اور ساتھ آپ کے بارہ دوست تھے.حضرت مسیح کے بھی بارہ ہی حواری تھے.اس معرکۃ الآراء موقعہ پر آپ کے ساتھ یہ تعداد بھی ایک نشان تھی) جامع مسجد دہلی کی وسیع عمارت اندر اور باہر آدمیوں سے پر تھی.بلکہ سیڑھیوں پر بھی لوگ کھڑے تھے.ہزاروں آدمیوں کے مجمع میں سے گذر کر جبکہ سب لوگ دیوانه دار خون آلود نگاہوں سے آپ کی طرف دیکھ رہے تھے.آپ اس مختصر جماعت کے ساتھ محراب مسجد میں جا کر بیٹھ گئے.مجمع کے انتظام کے لئے سپر نٹنڈنٹ پولیس مع دیگر افسران اور قریباً سو کانسٹبلوں کے آئے ہوئے تھے.لوگوں میں سے بہتوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے تھے اور ادنیٰ سے اشارے پر پتھراؤ کرنے کو تیار تھے.اور مسیح ثانی بھی پہلے مسیح کی طرح فقیہوں اور فریسیوں کا شکار ہو رہا تھا.لوگ اس دوسرے مسیح کو سولی پر لٹکانے کی بجائے پتھروں سے مارنے پر تلے ہوئے تھے.اور گفتگوئے مباحثہ میں تو انہیں ناکامی ہوئی.مسیح کی وفات پر بحث کرنا لوگوں نے قبول نہ کیا.قسم بھی نہ کسی نے کھائی نہ مولوی نذیر حسین صاحب کو کھانے دی.خواجہ محمد یوسف صاحب پلیڈر علی گڑھ نے حضرت صاحب سے آپ کے عقائد.

Page 379

لوم جلد ۳۰ ۳۵۲ سیرت مسیح موعود لکھائے اور سنانے چاہیے.لیکن چونکہ مولویوں نے لوگوں کو یہ سنا رکھا تھا کہ یہ شخص نہ قرآن کو مانے نہ حدیث کو نہ رسول کریم کو.انہیں یہ فریب کھل جانے کا اندیشہ ہوا اس لئے لوگوں کو اکسا دیا.پھر کیا تھا ؟ ایک شور برپا ہو گیا.اور محمد یوسف صاحب کو وہ کاغذ سنانے سے لوگوں نے باز رکھا.افسر پولیس نے جب دیکھا کہ حالت خطرناک ہے تو پولیس کو مجمع منتشر کرنے کا حکم دیا.اور اعلان کیا کہ کوئی مباحثہ نہ ہو گا لوگ تتر بتر ہو گئے.پولیس آپ کو حلقہ میں لیکر مسجد سے باہر لے گئی وروازہ پر گاڑیوں کے انتظار میں کچھ دیر ٹھہرنا پڑا.لوگ وہاں جمع ہو گئے اور اشتعال میں آکر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.اس پر افسران پولیس نے گاڑی میں سوار کرا کر آپ کو روانہ کیا.اور خود مجمع منتشر کرنے میں لگ گئے.اسکے بعد مولوی محمد بشیر صاحب کو دہلی کے لوگوں نے بھوپال سے بلوایا اور ان سے مباحثہ ہوا جس کا تمام حال چھپا ہوا موجود ہے.کچھ دن کے بعد آپ واپس قادیان ڈیٹی عبد اللہ آتھم سے مباحثہ کے حالات تشریف لے آئے.چند ماہ کے بعد ۱۸۹۲ء میں پھر ایک سفر کیا پہلے لاہور گئے وہاں مولوی عبدالحکیم کلانوری سے مباحثہ ہوا وہاں سے سیالکوٹ اور وہاں سے جالندھر اور پھر وہاں سے لدھیانہ تشریف لائے لدھیانہ سے پھر قادیان تشریف لے آئے.اس کے بعد ۱۸۹۳ء میں حضور کا مباحثہ مسیحیوں سے قرار پایا اور مسیحیوں کی طرف سے ڈپٹی عبد اللہ آتھم مباحث مقرر ہوئے.یہ مباحثہ امرتسر میں ہوا اور پندرہ دن تک رہا اور جنگ مقدس کے نام سے شائع ہو چکا ہے.اس مباحثہ میں بھی جیسا کہ ہمیشہ آپ کے مخالفین کو زک ہوتی رہی ہے مسیحی مناظرین کو سخت زک ہوئی اور اس کا نہایت مفید اثر ہوا.اس مباحثہ کے پڑھنے سے (یہ مباحثہ تحریری ہوا تھا اور طرفین آمنے سامنے بیٹھ کر ایک دوسرے کے پرچہ کا جواب دیتے تھے اور وہ اصل تحریریں ایک کتاب کی صورت میں شائع کی گئی ہیں) معلوم ہوتا ہے کہ مسیحی مباحث آپ کے زبر دست استدلال سے تنگ آجا تا تھا اور بار بار دعوئی بدلتا جاتا تھا اور بعض جگہ تو مسیحیوں کی طرف سے ناروا سخت کلامی تک کی گئی ہے.آپ نے اس جدید علم کلام کو پیش کیا کہ ہر ایک فریق اپنے مذہب کی صداقت کے دعاوی اور دلائل اپنی مسلمہ کتب سے ہی پیش کرے.اس مباحثہ میں ایک عجیب واقعہ گذرا جس میں دوست دشمن آپ کی خداداد ذہانت بلکہ الہی تائید کے قائل ہو گئے اور وہ یہ کہ گو بحث اور امور پر ہو رہی تھی مگر مسیحیوں نے آپ کو شرمندہ کرنے کے لئے ایک دن کچھ لولے لنگڑے

Page 380

نقوم جلد ۳ ۳۵۳ سیرت صحیح موعود اور اندھے اکٹھے کئے اور عین دوران مباحثہ میں آپ کے سامنے لا کر کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعوی کرتے ہیں وہ تو لولے لنگڑے اور اندھوں کو اچھا کیا کرتے تھے پس آپ کا دعوی تب ہی سچا ہو سکتا ہے جب کہ آپ بھی ایسے مریضوں کو اچھا کر کے دکھلا ئیں اور دور جانے کی ضرورت نہیں مریض حاضر ہیں.جب انہوں نے یہ بات پیش کی سب لوگ حیران رہ گئے اور ہر ایک شخص محو حیرت ہو کر اس بات کا انتظار کرنے لگا کہ دیکھیں کہ مرزا صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں؟ اور مسیحی اپنی اس عجیب کارروائی پر بہت خوش ہوئے کہ آج ان پر نہایت سخت حجت تمام ہوئی اور بھری مجلس میں کیسی خجالت اٹھانی پڑی ہے.لیکن جب آپ نے اس مطالبہ کا جواب دیا تو ان کی ساری خوشی مبدل به افسوس و ندامت ہو گئی اور فتح شکست سے بدل گئی اور سب لوگ آپ کے جواب کی برجستگی و معقولیت کے قائل ہو گئے.آپ نے فرمایا کہ اس قسم کے مریضوں کو اچھا کرنا تو انجیل میں لکھا ہے ہم تو اس کے قائل ہی نہیں بلکہ ہمارے تی نزدیک تو حضرت مسیح کے معجزات کا رنگ ہی اور تھا تو انجیل کا دعوی ہے کہ وہ ایسے بیماروں کو جسمانی رنگ میں اچھا کرتے تھے اور اسی طرح ہاتھ پھیر کر نہ کہ دعا اور دوا سے.لیکن اسی انجیل میں لکھا ہے کہ اگر تم میں ذرہ بھر بھی ایمان ہو تو تم لوگ اس سے بڑھ کر عجیب کام کر سکتے ہو.پس ان مریضوں کا ہمارے سامنے پیش کرنا آپ لوگوں کا کام نہیں بلکہ ہمارا کام ہے.اور اب ہم ان مریضوں کو جو آپ لوگوں نے نہایت مہربانی سے جمع کرلئے ہیں آپ کے سامنے پیش کر کے کہتے ہیں کہ براہ مہربانی انجیل کے حکم کے ماتحت اگر آپ لوگوں میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہے تو ان مریضوں پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اچھے ہو جاؤ.اگر یہ اچھے ہو گئے تو ہم یقین کر لیں گے کہ آپ لوگ اور آپ کا مذہب سچا ہے ورنہ جو دعوئی آپ لوگوں نے خود کیا ہے اسے بھی پورا نہ کر سکیں تو پھر آپ کی صداقت پر کس طرح یقین کیا جا سکتا ہے.اس جواب کا ایسا اثر ہوا کہ مسیحی بالکل خاموش ہو گئے.اور کچھ جواب نہ دے سکے اور بات ٹال دی.اس کے بعد انہی دنوں تعطیل جمعہ کی کوشش اور مذاہب عالم کا عظیم الشان جلسہ الشان جلسہ ایک دفعہ فیروز پور تشریف لے گئے.ان تمام سفروں میں ہر جگہ آپ کو دق کیا گیا اور لوگوں نے آپ کو بڑا دکھ دیا اور جو کچھ تحریر کے ذریعے شائع کیا گیا اس کی تو کوئی حد ہی نہیں.جہاں آپ جاتے ہیں لوگ

Page 381

العلوم جلد ۳ ۳۵۴ سیرت مسیح موعود مل کر آپ کو دکھ دیتے.یکم جنوری ۱۸۹۶ء کو آپ نے اسلامی عظمت کے اظہار اور زبر دست اسلامی شعار نماز جمعه کے عام رواج کے لئے ایک کوشش کا آغاز فرمایا یعنی گورنمنٹ ہند سے تعطیل جمعہ کی تحریک کی کارروائی شروع کی.بد قسمتی سے مسلمانوں میں جمعہ کے متعلق جو ان کے لئے مسیح موعود کا ایک زبردست عملی نشان تھا.ایسی غلط فہمیاں پیدا ہو گئی تھیں کہ بعض شرائط کو ملحوظ رکھ کر جمعہ کی فرضیت پر ہی بحث چھڑ چکی تھی اور عملی طور پر جمعہ بہت جگہ متروک ہو گیا تھا.آپ نے اس کو زندہ کیا اور چاہا کہ گورنمنٹ جمعہ کی تعطیل منظور فرمائے.اس بارہ میں جو میموریل گورنمنٹ کی خدمت میں بھیجنا آپ نے تجویز فرمایا اس کی تیاری سے پہلے ہی مولویوں نے اپنی عادت کے موافق مخالفت کی اور اس کام کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہا.حضرت مسیح موعود یہ کام محض لثیت سے کر رہے تھے آپ کو کسی تحسین وداد کی تمنا نہ تھی آپ کا مدعا تو اس اہم دینی خدمت کا انجام پانا تھا خواہ کسی کے ہاتھ سے ہو.آپ نے کل کام مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی درخواست پر ان کے سپرد کر دینے کا اعلان کر دیا کہ وہ جمعہ کی تعطیل کے لئے خود کوشش کرنے کا دعوی کرتے ہیں تو کریں.مگر افسوس انہوں نے اس مفید کام کو اس راہ سے روک دیا.مگر آپ کی یہ تحریک الی تحریک تھی آخر خدا تعالیٰ نے آپ ہی کی جماعت کے ذریعہ اس کو پورا کیا.۱۸۹۶ء کے اواخر میں چند لوگوں نے مل کر لاہور میں ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کرنے کا ارادہ کیا اور اس کے لئے تمام مذاہب کے پیروان کو شامل ہونے کی دعوت دی جنہوں نے بڑی خوشی سے اس بات کو قبول کیا.بحث میں شرط تھی کہ کسی مذہب پر حملہ نہ کیا جاوے اور حسب ذیل مضامین پر مختلف مذاہب کے پیروان سے مضامین لکھنے کی درخواست کی گئی.(1) انسان کی جسمانی اخلاقی اور روحانی حالتیں.(۲) انسان کی زندگی کے بعد کی حالت.(۳) دنیا میں انسان کی ہستی کی اصل غرض کیا ہے اور وہ کس طرح پوری ہو سکتی ہے.(۴) گرم یعنی اعمال کا اثر دنیا اور عاقبت میں کیا ہوتا ہے.(۵) علم گیان و معرفت کے ذرائع کیا کیا ہیں؟ اس کانفرنس کا مجوز حضرت کی خدمت میں بھی قادیان حاضر ہوا.اور آپ نے ہر طرح ان

Page 382

۳۵۵ سیرت مسیح موعود کی تائید کا وعدہ کیا بلکہ اصلی معنوں میں اس کا نفرنس کی بنیاد خود حضرت مسیح موعود نے ہی رکھی تھی.جو شخص بعد میں کانفرنس کا مجوز قرار پایا قادیان آیا تو حضرت نے یہ تجویز پیش کی تھی.چونکہ آپ کی غرض دنیا کو اس صداقت سے آگاہ کرنا تھا جو آپ لیکر آئے تھے اور آپ کا ہر کام نمود و نمائش سے بالا تر ہو تا تھا.اس لئے آپ نے اس شخص کو اس تحریک میں سعی کرنے پر آمادہ کیا اور اس کا پہلا اشتہار قادیان ہی میں چھاپ کر شائع کرایا.اپنے ایک مرید کو مقرر کیا کہ وہ ہر طرح ان کی مدد کرے اور خود بھی مضمون لکھنے کا وعدہ کیا.جب آپ مضمون لکھنے لگے تو آپ سخت بیمار ہو گئے اور دستوں کی بیماری شروع ہو گئی.لیکن اس بیماری میں بھی آپ نے ایک مضمون لکھا اور جب آپ وہ مضمون لکھ رہے تھے تو آپ کو الہام ہوا کہ " مضمون بالا رہا " یعنی آپ کا مضمون اس کا نفرنس میں دوسروں کے مضامین سے بالا رہے گا.چنانچہ آپ نے قبل از وقت ایک اشتہار کے ذریعہ یہ بات شائع کر دی کہ میرا مضمون بالا رہے گا.اجلاسات کا نفرنس ۲۶ ۲۷ ۲۸ دسمبر ۱۸۹۷ء کو مقرر تھے.جلسہ کے انتظام کے لئے چھ ماڈریٹر صاحبان مقرر تھے جن کے اسمائے گرامی مندرجہ ذیل ہیں.(1) رائے بہادر پر تول چند ر صاحب حج چیف کورٹ پنجاب (۲) خان بهادر شیخ خدابخش صاحب حج سال کا زکورٹ لاہور.(۳) رائے بہادر پنڈت رادھا کشن کول پلیڈر چیف کورٹ سابق گورنر جنرل جموں.(۴) حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب طبیب شاہی (۵) رائے بہادر بھوانی داس صاحب ایم اے اکسٹرا سیٹلمنٹ آفیسر جہلم (۲) سردار جو اہر سنگھ صاحب سیکرٹری خالصہ کالج کمیٹی لاہور.اس کانفرنس کے لئے مختلف مذاہب کے مشہور علماء نے مضامین تیار کئے تھے اس لئے لوگوں میں اس کے متعلق بڑی دلچسپی تھی اور بہت شوق سے حصہ لیتے تھے اور یہ جلسہ ایک نہ ہی دنگل کا رنگ اختیار کر گیا تھا.اور ہر مذہب کے پیرو اپنے اپنے قائم مقاموں کی فتح دیکھنے کے خواہشمند تھے.اس صورت میں تمام پرانے مذاہب جن کے پیرو کثرت سے پیدا ہو چکے ہیں بالکل محفوظ تھے کیونکہ ان کی داد دینے والے لوگ جلسہ گاہ میں کثرت سے پائے جاتے تھے.لیکن مرزا صاحب کا مضمون ایک ایسے جلسہ میں سنایا جانا تھا جس میں دوست برائے نام تھے اور سب دشمن ہی دشمن تھے.کیونکہ اس وقت تک آپ کی جماعت دو تین سو سے زیادہ

Page 383

العلوم جلد - ۳۵۶ سیرت مسیح موعود نہ تھی اور اس جلسہ میں تو شائد پچاس سے زائد آدمی بھی شامل نہ ہوں گے.آپ کی تقریر ۲۷/ دسمبر کو ڈیڑھ بجے سے ساڑھے تین بجے تک تھی.آپ خود تو وہاں نہ جا سکے تھے لیکن آپ نے اپنے ایک مخلص مرید مولوی عبد الکریم صاحب کو اپنی طرف سے مضمون پڑھنے پر مقرر کیا تھا.جب انہوں نے تقریر شروع کی تو تھوڑی ہی دیر میں ایسا عالم ہو گیا کہ گویا لوگ بت بنے بیٹھے ہیں اور وقت کے ختم ہونے تک لوگوں کو معلوم ہی نہ ہوا کہ کس قدر عرصہ تک آپ بولتے رہے ہیں.وقت ختم ہونے پر لوگوں کو سخت تشویش ہوئی کیونکہ آپ کے مضمون کا ابھی پہلا سوال بھی ختم نہ ہوا تھا.اور اس وقت لوگوں کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہی جب کہ مولوی مبارک علی صاحب سیالکوٹی نے جن کا لیکچر آپ کے بعد تھا اعلان کیا کہ آپ کے مضمون کا وقت بھی حضرت صاحب کو ہی دیا جائے چنانچہ مولوی عبد الکریم صاحب آپ کا لیکچر پڑھتے چلے گئے حتی کہ ساڑھے چار بج گئے جب کہ جلسہ کا وقت ختم ہونا تھا.لیکن اب بھی پہلا سوال ختم نہ ہوا تھا اور لوگ مصر تھے کہ اس لیکچر کو ختم کیا جائے.چنانچہ منتظمین جلسہ منتظمین جلسہ نے اعلان کیا کہ بلالحاظ وقت کے یہ مضمون جاری رہے.جس پر ساڑھے پانچ بجے تک بنایا گیا تب جا کر پہلا سوال ختم ہوا.مضمون کے ختم ہوتے ہی لوگوں نے اصرار کیا کہ اس مضمون کے ختم کرنے کے لئے جلسہ کا ایک دن اور بڑھایا جائے.چنانچہ ۲۸ تاریخ تک کے پروگرام کے علاوہ ۲۹ - تاریخ کو بھی جلسہ کا انتظام کیا گیا اور اس روز چونکہ بعض اور مذاہب کے قائم مقاموں نے بھی وقت کی درخواست کی تھی اس لئے کارروائی جلسہ صبح کو بجائے ساڑھے دس بجے کے ساڑھے نو بجے سے شروع ہونے کا اعلان کیا گیا اور سب سے پہلے آپ ہی کا مضمون رکھا گیا اور گو پہلے دنوں میں لوگ ساڑھے دس بجے بھی پوری طرح نہ آتے تھے لیکن آپ کے پہلے دن کے لیکچر کا یہ اثر تھا کہ ابھی نو بھی نہ بجے تھے کہ ہر مذہب وملت کے لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں جمع ہونے شروع ہو گئے اور عین وقت پر جلسہ شروع کیا گیا.اس دن بھی گو آپ کے مضمون کے لئے اڑھائی گھنٹے دیئے گئے تھے لیکن تقریر کے اس عرصہ میں ختم نہ ہو سکنے کی وجہ سے منتظمین کو وقت اور دینا پڑا.کیونکہ تمام حاضرین یک زبان اس تقریر کے جاری رکھنے پر مصر تھے.چنانچہ ماڈریٹر صاحبان کو وقت بڑھانا پڑا.غرض دو روز کے قریبا ساڑھے سات گھنٹوں میں جاکر ہے تقریر ختم ہوئی اور تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور سب لوگوں نے تسلیم کیا کہ مرزا صاحب کا مضمون بالا رہا.اور ہر مذہب وملت کے پیرو اس کی خوبی کے قائل ہوئے.جلسہ کی رپورٹ

Page 384

رالعلوم جلد - ۳ ۳۵۷ مرتب کرنے والوں کا اندازہ ہے کہ آپ کے لیکچروں کے وقت حاضرین کی تعداد بڑھتے بڑھتے سات آٹھ ہزار تک ترقی کر جاتی تھی غرض یہ لیکچر ایک عظیم الشان فتح تھی جو آپ کو حاصل ہوئی اور اس دن آپ کا سکہ آپ کے مخالفوں کے دلوں میں اور بھی بیٹھ گیا اور خود مخالف اخبارات نے اس بات کو تسلیم کیا کہ آپ کا مضمون کا نفرنس میں بالا رہا.یہ مضمون رہی ہے جس کا انگریزی ترجمہ ٹیچنگز آف اسلام یورپ اور امریکہ میں خاص طور پر قبولیت حاصل کر چکا ہے.۱۸۹۷ء کے آغاز کے ساتھ عیسائی دنیا پر اتمام حجت کے لئے ایک اور طریق پیش کیا.اور حضرت مسیح علیہ السلام کی حقیقی شخصیت کے ثابت کرنے کے لئے عیسائیوں کے غلط عقائد کی اصلاح کی خاطر چهل روزه دعوت مقابلہ کا اعلان کیا.اگرچہ اس مقابلہ میں دوسرے اہل مذاہب بھی شامل تھے مگر عیسائی بالخصوص مخاطب تھے.اس کے ساتھ ایک ہزار روپیہ کا انعام بھی اس شخص کے لئے مقرر تھا جو یسوع کی پیش گوئیوں کو حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں اور نشانوں سے قوی تر دکھا سکے.مگر کسی کو جرات اور حوصلہ نہ ہوا.واقعہ قتل لیکھرام اور مقدمہ ڈاکٹر مارٹن کلارک ١٨٩٤ء ۱۸۹۷ء میں لیکھرام نامی ایک آریہ ۶ مارچ کو آپ کی ایک پیش گوئی کے مطابق مارا گیا اور اس پر آریوں میں سخت شور برپا ہوا.اور بعض شریروں نے طرح طرح سے احمدیوں کو اور پھر ان کے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو بھی دکھ دینا شروع کیا.اور حضرت مسیح موعود کے خلاف تو سخت ہی شور برپا ہوا اور کھلے لفظوں میں آپ پر کس کا الزام لگایا گیا اور فورا آپ کی تلاشی لی گئی کہ شائد کوئی سراغ قتل کا مل جاوے لیکن اللہ تعالٰی نے دشمن کو ہر طرح ناکام رکھا اور باوجود اس کے کہ ہر طرح آپ پر الزام لگانے کی کوشش کی گئی.لیکن پھر بھی کامیابی نہ ہوئی اور آپ اس الزام سے بالکل پاک ثابت ہوئے.مئی ۱۸۹۷ء میں ایک عظیم الشان واقعہ کا آغاز ہوا جو تاریخ میں ایک نشان کے طور پر رہے گا.حسین کامی سفیر روم اپنی متعدد درخواستوں کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں قادیان حاضر ہوا حضرت نے اپنی خداداد فراست اور الہامی اطلاع پر اسے اشارة اس کی اپنی حالت اور لڑکی پر آنے والے مصائب سے اطلاع دی.کیونکہ سفیر مذکور نے سلطنت روم کی نسبت ایک خاص دعا کی تحریک کی تھی.جس پر آپ نے اس کو صاف فرما دیا کہ

Page 385

انوار العلوم جلد ۳۵۸ سیرت مسیح موعود سلطان کی سلطنت کی حالت اچھی نہیں ہے اور میں کشفی طریق سے اس کے ارکان کی حالت اچھی نہیں دیکھتا اور میرے نزدیک ان حالتوں کے ساتھ انجام اچھا نہیں.ان باتوں سے سفیر مذکور ناراض ہو کر چلا گیا اور لاہور کے ایک اخبار میں گندی گالیوں کا ایک خط چھپوایا جس سے مسلمانان ہند و پنجاب میں شور مچ گیا.مگر بعد میں آنے والے واقعات نے اس حقیقت کو کھول دیا.اس کے ضمن میں بہت سی پیش گوئیاں پوری ہو گئیں.خود سفیر مذکور حضرت کے مشہور الهام إني مُهِنَّ مَنْ اَرَادَاهَا نَتَكَ کا نشانہ بنا.کیونکہ وہ ایک سنگین الزام میں ماخوذ ہو کر سزا یاب ہوا.اور جس اخبار نے نہایت زور سے اس مضمون کی تائید کی تھی اور اسے چھاپا تھا وہ بھی سزا سے نہ بچا اور سلطنت لڑکی کی جو حالت ہے وہ ہر شخص پر عیاں ہے.اسی سن کی یکم اگست کو آپ کے خلاف ڈاکٹر مارٹن کلارک نام ایک مسیحی پادری نے مقدمہ سازش قتل مسٹراے.ای مارٹینو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امرت سر کی عدالت میں دائر کیا.اور بیان کیا کہ مرزا صاحب نے عبد الحمید نام ایک شخص کو میرے قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا.اول تو ڈپٹی کمشنر صاحب بہادر نے آپ کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا لیکن بعد میں ان کو معلوم ہوا کہ بوجہ غیر ضلع ہونے کے یہ بات ان کے اختیار سے باہر ہے.پس مقدمہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب بہادر ضلع گورداسپور کی عدالت میں منتقل کیا جن کا نام ایم ڈبلیو ڈگلس ہے اور جو اس وقت جزائر انڈمان کے چیف کمشنری سے پنشن یاب ہو کر ولایت میں ہیں آپ کے سامنے بھی عبد الحمید نے یہی بیان کیا کہ مجھے مرزا صاحب نے مارٹن کلارک صاحب کے قتل کے لئے بھیجا تھا اور کہا تھا کہ ایک بڑے پتھر سے ان کو مار دو.لیکن چونکہ اس بیان میں جو اس نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ امر تسر کے سامنے دیا تھا اور اس میں جو اب ان کے سامنے دیا.کچھ فرق تھا.اس لئے آپ کو کچھ شک پڑ گیا اور آپ نے بڑے زور سے اس امر کی تحقیقات شروع کی.اور چار ہی پیشیوں میں ۲۷ دن کے اندر مقدمہ کا فیصلہ کر دیا.اور باوجود اس کے کہ آپ کے مقابلہ پر ایک مسیحی جماعت تھی.بلا تعصب حضرت مسیح موعود کے حق میں فیصلہ دیا اور آپ کو صاف بری کر دیا بلکہ اجازت دی کہ اپنے مخالفین کے خلاف مقدمہ دائر کریں.لیکن آپ نے ان کو معاف کر دیا.اور ان پر کوئی مقدمہ نہ کیا ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب اپنے فیصلہ میں تحریر فرماتے ہیں.

Page 386

۳۵۹ سیرت مسیح موعود " ہم نے اس کا بیان سنتے ہی اس کو بعید از عقل سمجھا.کیونکہ اول تو اس کا بیان جو ہمارے سامنے ہوا اس بیان سے مختلف تھا.جو امرت سر کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ صاحب بہادر کے سامنے ہوا.علاوہ ازیں اس کی وضع قطع ہی شبہ پیدا کرنے والی تھی.دوسرے ہم نے اس کے بیانات میں یہ عجیب بات دیکھی کہ جس قدر عرصہ وہ بٹالہ میں مشن کے ملازموں کے پاس رہا اس کا بیان مفصل اور طویل ہوتا گیا.چنانچہ اس نے ایک بیان - ۱۲- اگست کو دیا اور ایک ۱۳ اگست کو اور دوسرے دن کے بیان میں کئی تفصیلات بڑھ گئیں.جو پہلے دن کے بیان میں نہ تھیں.چونکہ اس سے ہمیں شبہ پیدا ہوا کہ یا تو اسے کوئی سکھلاتا ہے یا اسے بہت کچھ معلوم ہے جسے وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس لئے ہم نے صاحب سپر نٹنڈنٹ پولیس کو کہا جو ایک یورپین آفیسر تھے کہ اس کو مشن کے قبضہ سے نکال کر اپنی تحویل میں رکھو.اور پھر بیان لو.انہوں نے اسے مشن کمپونڈ سے نکال لیا.اور جب آپ نے اس سے بیان لیا تو بلا کسی وعدہ معافی کے وہ رو کر پاؤں پر گر گیا اور بیان کیا کہ مجھ سے ڈرا کر یہ سب کچھ کہلوایا گیا ہے میں اپنی جان سے بیزار ہوں اور خود کشی کے لئے تیار تھا اور در حقیقت جو کچھ میں نے مرزا صاحب کے خلاف بیان کیا وہ عبد الرحیم ، وارث الدین اور پریم داس عیسائیوں کی سازش اور ان کے سکھانے سے کہا ہے.مرزا صاحب نے نہ مجھ کو بھیجا اور نہ میرا ان سے کوئی تعلق تھا.چنانچہ جو دقت ایک دن کے بیان میں آتی دوسرے دن یہ مجھے سکھا دیتے اور مرزا صاحب کے جس مرید کی نسبت میں نے بیان کیا تھا کہ اس نے بعد از قتل مجھے پناہ دینی تھی اس کی شکل سے بھی میں واقف نہیں نہ اس کا نام سنا تھا.انہوں نے خود ہی اس کا نام اور پتہ مجھے یاد کرا دیا.اور اس ڈر سے کہ میں بھول نہ جاؤں میری ہتھیلی پر پنسل سے نام لکھ دیا کہ اس وقت دیکھ لینا اور یہ بھی کہا کہ جب پہلے مجھ سے مرزا صاحب کے خلاف بیان لکھوایا تو ان عیسائیوں نے خوش ہو کر کہا کہ اب ہماری دل کی مراد بر آئی یعنی اب ہم مرزا صاحب کو پھنسا ئیں گے.ہم یہ تمام تفصیل لکھ کر مجسٹریٹ صاحب بہادر نے آپ کو بری کیا.اس مقدمہ پر آپ کے مخالف اس قدر خوش تھے کہ ایک آریہ وکیل نے بلا اجرت اس میں مسیحیوں کی طرف.پیروی کی اور مسلمان مولوی بھی آپ کے خلاف گواہی دینے آئے.غرض مسیحی ہندو اور مسلمان مل کر آپ پر حملہ آور ہوئے اور بعض ناجائز طریق بھی اختیار کئے گئے.لیکن خدا تعالیٰ نے کپتان ڈگلس کو پیلاطوس سے زیادہ ہمت اور حوصلہ دیا.انہوں نے ہر موقعہ پر یہی کہا کہ

Page 387

رالعلوم جلد ۳ سرم سیرت مسیح موعود میں بے ایمانی نہیں کر سکتا.اور یہ نہیں کیا کہ اپنے ہاتھ دھو کر مسیح موعود کو اس کے دشمنوں کی کے ہاتھ میں دے دیتے بلکہ انہوں نے آپ کو بری کیا اور اس طرح رومن حکومت پر برٹش راج کی برتری ثابت کر دی.انہیں دنوں میں اپنے الصلح خیر کے نام سے ایک اشتہار شائع کر کے مسلمان علماء کے آگے تجویز پیش کی کہ وہ آپ کی مخالفت سے باز آجائیں اور آپ کو دشمنوں کا مقابلہ کرنے دیں.اور اس کے لئے دس سال کی مدت مقرر کی.کہ اس معیاد کے اندر اگر میں جھوٹا ہوں تو خود تباہ ہو جاؤں گا اور اگر سچا ہوں تو تم عذاب سے بچ جاؤ گے جو بچوں کی مخالفت کے سبب خدائے تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے.لیکن مسلمانوں نے اس کو قبول نہ کیا اور دشمنان اسلام سے مقابلہ کرنے کی بجائے اپنے سے ہی مقابلہ پسند کیا.اکتوبر ۱۸۹۷ء میں آپ کو ایک شہادت پر ملتان جانا پڑا.وہاں سے شہادت دیکر جب واپس تشریف لائے تو کچھ دنوں لاہور بھی ٹھہرے یہاں جن جن گلیوں سے آپ گذرتے ان میں لوگ آپ کو گالیاں دیتے اور پکار پکار کر برے الفاظ آپ کی شان میں زبان سے نکالتے.میری عمر اس وقت آٹھ سال کی تھی اور میں بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھا.میں اس مخالفت کی جو لوگ آپ سے کرتے تھے وجہ تو نہیں سمجھ سکتا تھا اس لئے یہ دیکھ کر مجھے سخت تعجب آتا کہ جہاں سے آپ گزرتے ہیں لوگ آپ کے پیچھے کیوں تالیاں پیٹتے ہیں سیٹیاں بجاتے ہیں ؟ چنانچہ مجھے یاد ہے کہ ایک ٹنڈا شخص جس کا ایک پہونچا کٹا ہوا تھا اور بقیہ ہاتھ پر کپڑا بندھا ہوا تھا نہیں معلوم ہاتھ کے کتنے کا ہی زخم باقی تھا یا کوئی نیا زخم تھا وہ بھی لوگوں میں شامل ہو کر غالباً مسجد وزیر خاں کی سیڑھیوں پر کھڑا تالیاں پیٹتا اور اپنا کٹا ہوا ہاتھ دوسرے ہاتھ پر مارتا تھا اور دوسروں کے ساتھ مل کر شور مچا رہا تھا کہ ”ہائے ہائے مرزا انٹھ گیا" (یعنی میدان مقابلہ سے فرار کر گیا) اور میں اس نظارہ کو دیکھ کر سخت حیران تھا.خصوصاً اس شخص پڑ اور دیر تک گاڑی سے سر نکال کر شخص کو دیکھتا رہا.لاہور سے حضرت صاحب سیدھے قادیان تشریف لے آئے.اس اسی سال ملک پنجاب میں طاعون پھوٹا.اور جب کہ تمام مذہبی آدمی ان تدابیر کے سخت مخالف تھے جو گورنمنٹ نے انسداد طاعون کے متعلق نافذ کی تھیں آپ نے بڑے زور سے ان کی تائید کی اور اپنی جماعت کو آگاہ کیا کہ ان تدابیر کو اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ اسلام کا حکم ہے کہ ہر قسم کی تدابیر جو حفظان صحت کے متعلق ہوں ان پر عمل کیا جائے اور اس طرح

Page 388

جلد ۳۰ سیرت مسیح موعود ہے.آپ نے امن عامہ کے قیام میں بہت بڑا کام کیا.کیونکہ اس وقت لوگوں میں عام طور پر یہ بات پھیلائی جاتی تھی کہ گورنمنٹ خود ہی طاعون پھیلاتی ہے اور جو تدابیر اس کے انسداد کی ظاہر کی جاتی ہیں وہ در حقیقت اس وباء کو پھیلانے والی ہیں اور اسلام کے بھی خلاف ہیں.چنانچہ علماء نے بڑے زور کے ساتھ فتویٰ دے دیا تھا کہ طاعون کے دنوں میں گھر سے نکلنا سخت گناہ ہے اور اس طرح ہزاروں جاہلوں کی موت کا باعث ہو گئے.چوہے مارنے کی گولیاں تقسیم کی گئیں تو انہی کو باعث طاعون قرار دیا گیا.پنجرے دیئے گئے تو ان پر اعتراض کیا گیا.غرض اس وقت شورش برپا تھی اور بعض جگہ حکام سرکار پر حملے بھی ہوئے.ایسے وقت میں آپ کے اعلان اور آپ کی جماعت کے عمل کو دیکھ کر دوسرے لوگوں کو بھی ہدایت ہوئی اور آپ نے مسلمانوں کو آگاہ کیا کہ طاعون کے دنوں میں گھروں سے باہر نکلنا اور بستی سے باہر رہنا اسلام کی رو سے منع نہیں بلکہ منع صرف یہ بات ہے کہ ایک شہر سے بھاگ کر دو سرے شہر میں جائے کیونکہ اس سے بیماری کے دوسرے شہروں میں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے.یہ ایام مذہبی بحث مباحثہ کے قانون سٹیشن پر گورنمنٹ کو میموریل اور تجاویز سبب خطرناک ہو رہے تھے اور شتہ اور شاہ خاص طور پر ممتاز تھے.آپس کی مخالفت سخت بڑھ رہی تھی اور سیاسی مفسدہ پرداز اس مذہبی دشمنی سے فائدہ اٹھا کر گورنمنٹ کے خلاف لوگوں کو اکسانے میں مشغول تھے اور اسی شرارت کو محسوس کر کے گورنمنٹ نے ۱۸۹۷ء میں سڈیشن کا قانون بھی پاس کیا تھا.لیکن باوجود اس قانون کے ہندوستان امن سے فساد کی طرف منتقل ہو رہا تھا اور اس قانون کا کوئی عمدہ نتیجہ نہ نکلا تھا.کیونکہ ہندوستان ایک مذہبی ملک ہے اور یہاں کے لوگ جتنے مذہب کے معاملہ میں جوش میں آسکتے ہیں اتنے سیاسی امور میں نہیں آتے.لیکن اس قانون میں مذہبی لڑائی جھگڑوں کا سدباب نہیں کیا گیا تھا اور نہ اس کی ضرورت گورنمنٹ اس وقت محسوس کرتی تھی.مگر جس بات کو مدبران حکومت سمجھنے سے قاصر تھے حضرت مسیح موعود ایک گوشہ تنہائی میں بیٹھے اسے دیکھ رہے تھے.چنانچہ ستمبر ۱۸۹۷ ء میں ایک میموریل تیار کر کے لارڈا پلجن بہادر وائسرائے ہند کی خدمت میں ارسال کیا اور اسے چھاپ کر شائع بھی کر دیا.اس میں آپ نے ایکسیلینسی کو بتلایا کہ فتنہ و فساد کا باعث اصلی مذہبی جھگڑے ہیں ان کے نتیجہ میں جو شورش لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتی ہے اسے بعض شریر گورنمنٹ کے خلاف استعمال کرتے ہیں.ہزا (SEDATION) ✰

Page 389

م جلد ۳۰ ۳۶۲ سیرت مسیح موعود پس قانون سڈیشن میں سخت کلامی کو بھی داخل کرنا چاہئے اور اس کے لئے آپ نے تین تجاویز پیش کیں.(1) اول یہ کہ ایک قانون پاس کر دینا چاہئے کہ ہر ایک مذہب کے پیرو اپنے مذہب کی خوبیاں تو بیشک، بیان کریں لیکن دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی ان کو اجازت نہ ہو گی.اس قانون سے نہ تو مذہبی آزادی میں فرق آوے گا اور نہ کسی خاص مذہب کی طرفداری ہو گی.اور کوئی وجہ نہیں کہ کسی مذہب کے پیرو اس بات پر ناخوش ہوں کہ ان کو دوسرے مذاہب پر حملہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جاتی.(۲) اگر یہ طریق منظور نہ ہو تو کم سے کم یہ کیا جائے کہ کسی مذہب پر ایسے حملے کرنے سے لوگوں کو روک دیا جائے جو خود ان کے مذہب پر پڑتے ہوں یعنی اپنے مخالف کے خلاف وہ ایسی باتیں پیش نہ کریں جو خود ان کے ہی مذہب میں موجود ہوں.(۳) اگر یہ بھی نا پسند ہو تو گورنمنٹ ہر ایک فرقہ سے دریافت کر کے اس کی مسلمہ کتب مذہبی کی ایک فہرست تیار کرے اور یہ قانون پاس کر دیا جائے کہ اس مذہب پر ان کتابوں سے باہر کوئی اعتراض نہ کیا جائے.کیونکہ جب اعتراضات کی بنیاد صرف خیالات یا جھوٹی روایات پر ہو جنہیں اس مذہب کے پیرو تسلیم ہی نہیں کرتے تو پھر ان کے رو سے اعتراض کرنے کا نتیجہ باہمی بغض و عداوت ترقی کرنے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے.اگر اس تحریک پر گورنمنٹ اس وقت عمل کرتی تو جو فتنے اور فساد ہندوستان میں پچھلے ونوں نمودار ہوئے وہ کبھی نہ ہوتے.لیکن گورنمنٹ نے اس موقعہ پر اس ضرورت کو محسوس نہ کیا اور اس کے مدیران سلطنت کی آنکھ ان جراثیم کی بڑھنے والی طاقت کو نہ دیکھ سکی جنہیں اس نبئی وقت نے ان کی ابتدائی حالت میں دیکھ لیا تھا.مگر ۱۹۰۸ء میں پورے دس سال بعد گورنمنٹ کو مجبوراً یہ قانون پاس کرنا پڑا کہ ایک مذہب کے لوگوں کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنا اور ناروا سختی کرنی درست نہیں اور اگر کوئی ایسا کرے تو اس پمفلٹ یا مضمون کے چھاپنے والے پریس یا اخبار کی ضمانت لی جائے یا اسے ضبط کیا جائے.لیکن یہ قانون اس قدر عرصہ کے بعد پاس ہوا کہ اس کا وہ اثر اب نہیں ہو سکتا جو اس وقت ہو سکتا تھا.دراصل ہندوستان کے سارے فتنے کی جڑ مذہبی جھگڑا ہے جو بعض شریروں کی عجیب پیچ در پیچ سازشوں کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے.اور جب کسی مذہب کے پیروؤں کی سب سے پیاری

Page 390

انوار العلوم جلد ۳۶۳ سیرت مسیح موعود چیز ان کے مذہب پر گندے الفاظ میں حملہ کیا جاوے تو جاہل عوام کو گورنمنٹ سے بدظن کرنے کے لئے اس قدر کہہ دینا کافی ہے کہ سارا قصور گورنمنٹ کا ہے جس کے ماتحت ہمیں اس قدر دکھ دیا جاتا ہے.اور وہ لوگ اس ظالم کا پیچھا چھوڑ کر محسن گورنمنٹ کے سر ہو جاتے ہیں.۱۸۹۸ء میں ایک عیسائی مرند نے حضرت نبی کریم ﷺ کی ازواج مطہرات کے خلاف ایک نہایت دل آزار کتاب شائع کی جس سے مسلمانوں میں ایک جوش پیدا ہو گیا.حضرت مسیح موعود نے دیکھا کہ یہ ملک کے امن پر اثر انداز ہو گا.لاہور کی ایک انجمن نے گورنمنٹ کے حضور اس کتاب کی ضبطی کے لئے میموریل بھیجنے کی تیاری کی لیکن آپ نے منع فرمایا کہ اس کا نتیجہ مفید نہ ہو گا اور مشورہ دیا کہ اس کا ایک زبر دست جواب لکھا جائے.مگر انجمن والوں نے اس مشورہ کی قدر نہ کی جس پر آخر انہیں اس طرح ناکام رہنا پڑا جیسے آپ نے ان کو قبل از وقت بتلا دیا تھا.خود حضرت نے اس میموریل کی اعلانیہ مخالفت کی کیونکہ اصولی طور پر اس میموریل کا انجام بصورت منظوری یہ ہونا چاہئے تھا کہ اسلام کا ضعف ہو.آپ نے جواب دینے کے طریق کو مقدم کیا اور گورنمنٹ نے آپ کے میموریل کو قدر کی نظر سے دیکھا.اس طرح پر آپ نے مسلمانوں کے ایک جائز حق کی حفاظت کی جو انہیں تبلیغ اسلام اور اپنے مذہب کے خلاف لکھنے والوں کے جواب دینے کا تھا.اسی سال آپ نے اپنی جماعت کے جماعت کی شیرازہ بندی اور مخالفین کی ناکامی شیرازہ کو مضبوط کرنے اور وصیات سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے جماعت کے تعلقات ازدواج اور نظام معاشرت کی تحریک کی اور جماعت کو ہدایت فرمائی کہ احمدی اپنی لڑکیاں غیر احمدیوں کو نہ دیا کریں.اسی سال گورنمنٹ کو بھی آپ نے نشان بینی کی دعوت دی دراصل اس ذریعے سے آپ کو معمال حکومت تک اپنی تبلیغ کامل طور سے پہنچا دینا مقصود تھا جو علی وجہ الا تم پورا ہو گیا.۱۸۹۸ء میں آپ نے اپنی جماعت کے بچوں کے لئے ایک ہائی سکول کی بنیاد رکھی جس میں اپنی جماعت کے طلباء چاروں طرف سے آکر پڑھیں.جس کی غرض یہ تھی کہ دوسرے سکولوں کے اثرات سے محفوظ رہیں پہلے سال یہ سکول صرف پرائمری تک تھا لیکن ہر سال ترقی کرتا چلا گیا اور ۱۹۰۳ء میں میٹریکولیشن کے امتحان میں اس کے لڑکے شامل ہوئے.

Page 391

العلوم جلد ۳ ۳۶۴ سیرت مسیح موعود ۱۸۹۹ء میں آپ پر ایک اور مقدمہ حفظ امن کے متعلق آپ کے دشمنوں نے قائم کیا.لیکن اس میں بھی آپ کے دشمن سخت ذلیل اور ناکام ہوئے اور آپ کو کامیابی حاصل ہوئی.1900ء میں آپ نے عیسائی مذہب پر ایک اتمام حجت کیا.یعنی آپ نے لاہور کے بشپ صاحب کو خدائی فیصلہ کی دعوت دی.مگر باوجود یکہ ملک کے نامی اخبارات نے تحریک کی مگر بشپ صاحب اس مقابلہ میں نہ آسکے.1901ء میں مردم شماری ہونے والی تھی اس لئے ۱۹۰۱ء کے اواخر میں آپ نے اپنی جماعت کے نام ایک اعلان شائع کیا کہ ہماری جماعت کے لوگ کاغذات مردم شماری میں اپنے آپ کو احمدی لکھوائیں.گویا اس سال آپ نے اپنی جماعت کو احمدی کے نام سے مخصوص کر کے دوسرے مسلمانوں سے ممتاز کر دیا..اسی سال آپ کے بعض مخالف رشتہ داروں نے آپ کو اور آپ کی جماعت کو دکھ دینے کے لئے مسجد کے دروازہ کے آگے ایک دیوار کھینچ دی.جس کے سبب نمازیوں کو بہت دور سے پھیرا کھا کر آنا پڑتا تھا اور اس طرح بہت تکلیف اور حرج ہو تا تھا.جب انہوں نے کسی طرح نہ مانا تو مجبور ہو کر جولائی 1901ء میں آپ کو عدالت میں نالش دائر کرنی پڑی.اور اگست سن مذکور میں وہ مقدمہ آپ کے حق میں فیصل ہوا اور دیوار گرائی گئی اور خرچہ مقدمہ بھی آپ کے مخالفوں پر پڑا.لیکن آپ نے ان کو معاف کر دیا.۱۹۰۲ء میں آپ نے ولایت میں تبلیغ اسلام کے لئے ایک ماہوار رسالہ نکالنے کا حکم دیا جو ریویو آف ریلیجز کے نام سے بفضل خدا اب تک جاری ہے.اس کا ایک ایڈیشن انگریزی اور ایک اردو میں نکلتا ہے.اس ریویو کے ذریعہ سے امریکہ اور یورپ میں نہایت احسن طور پر تبلیغ اسلام ہو رہی ہے اور اس کے زبر دست مضامین کی دوست دشمن نے تعریف کی ہے.ابتداء میں علاوہ دیگر ممبران سلسلہ کے خود حضرت مسیح موعود بھی اس رسالہ میں مضمون دیا کرتے تھے جو دراصل اردو میں لکھے جاتے تھے پھر ان کا ترجمہ انگریزی رسالہ میں شائع ہوتا تھا.ان مضامین کا پڑھنے والوں پر نہایت گہرا اثر پڑتا تھا.اور یہی مضامین تھے جنہوں نے ریویو کی عظمت پہلے ہی سال میں قائم کر دی تھی.اسی سال عید الاضحیٰ کے موقعہ پر جو حج کے دوسرے دن ہوتی ہے الہام الہی کے ماتحت ایک تقریر آپ نے فی البدیہہ عربی زبان میں کی.اس وقت ایک عجیب حالت آپ پر طاری تھی اور

Page 392

م جلد ۳۰ ۳۶۵ سیرت مسیح موعود ان آپ کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور چہرہ سے نوز ٹپکتا تھا اور نہایت پر رعب ہیبت تھی اور ایسا معلوم ہو تا تھا جیسے غنودگی کے عالم میں ہیں.یہ تقریر ایسی لطیف اور اس کی زبان ایسی بے مثل ہے کہ بڑے بڑے عربی دان اس کی نظیر لانے سے قاصر ہیں اور اس کے اندر ایسے ایسے حقائق و معارف بیان ہوئے ہیں کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے یہ تقریر خطبہ الہامیہ کے نام سے چھپ کر شائع ہو چکی ہے اور سب کی سب عربی زبان میں ہے.اس زمانہ میں آپ نے اپنی جماعت کو عربی سکھانے کے لئے ایک نہایت لطیف تجویز فرمائی جو یہ تھی کہ نہایت فصیح اور آسان عبارت میں کچھ جملے بنائے جنہیں لوگ یاد کر لیں اور اس طرح آہستہ آہستہ ان کو عربی زبان پر عبور حاصل ہو جائے.اور ان فقرات میں یہ خوبی رکھی گئی تھی کہ وہ ایسے امور کے متعلق ہوتے تھے جن سے انسان کو روز مرہ کام پڑتا ہے اور جن میں ایسی اشیاء کے اسماء اور ایسے فعل استعمال کئے جاتے تھے جو انسان روز مرہ بولتا ہے.کچھ اسباق اس سلسلہ کے نکلے لیکن بعد میں بعض زیادہ ضروری امور کی وجہ سے یہ سلسلہ رہ گیا.تاہم آپ اپنی جماعت کے واسطے ایک راہ نکال گئے جس پر چل کر کامیابی ہو سکتی ہے.آپ کا منشاء یہ تھا کہ ہر ایک ملک کی اصل زبان کے علاوہ عربی زبان بھی مسلمانوں کے واسطے مادری زبان ہی کی طرح ہو جائے اور عورت مرد سب اسے سیکھیں تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے اس کا سیکھنا آسان ہو اور بچے بچپن میں ہی اپنی مادری زبان کے علاوہ عربی زبان سیکھ لیں اور یہ ارادہ تھا جس کے پورا ہوئے بغیر اسلام اپنی جڑوں پر پوری طرح نہیں کھڑا ہو سکتا.کیونکہ جو قوم اپنی دینی زبان نہیں جانتی وہ کبھی اپنے دین سے واقف نہیں ہو سکتی.اور جو قوم اپنے دین سے واقف نہیں وہ کبھی اپنے دشمنان دین کے حملوں سے محفوظ نہیں رہ سکتی اور جو قومیں دین سے واقف ہونے کے لئے صرف ترجموں پر قناعت کرتی ہیں وہ نہ دین سے واقف رہتی ہیں نہ ان کی کتاب سلامت رہتی ہے.کیونکہ ترجمہ آہستہ آہستہ لوگوں کو اصل کتاب کے مطالعہ سے غافل کر دیتا ہے اور چونکہ ترجمہ اصل کتاب کا قائم مقام نہیں ہو سکتا اس لئے آخر کار وہ جماعت کہیں سے کہیں نکل جاتی ہے.آپ کے اس ارادہ کو پورا کرنے کی طرف آپ کی جماعت کی توجہ لگی ہوئی ہے.اور انشاء اللہ تعالی ایک دن کامیابی ہو جائے گی.اس سال حضرت مسیح موعود نے بعض پیش گوئیوں کی بناء پر کہ مسیح دمشق کے مشرق کی جانب ایک سفید منارہ سے اترے گا ایک منارہ کی بنیاد رکھی تاکہ وہ پیش گوئی لفظ بھی پوری ہو

Page 393

انوار العلوم جلد ۳۰ سیرت مسیح موعود جائے گو اس پیش گوئی کے حقیقی معنی یہی تھے کہ مسیح موعود کھلے کھلے دلائل اور براہین کے ساتھ آئے گا.اور تمام دنیا پر اس کا جلال ظاہر ہو گا اور اس کو بہت بڑی کامیابی ہو گی کیونکہ علم تعبیر الرویا میں منارے سے مراد وہ دلائل ہیں جن کا انسان انکار نہ کر سکے.اور بلندی پر ہونے کے معنی ایسی شان حاصل کرنے کے ہیں جو کسی کی نظر سے پوشیدہ نہ رہے.اور مشرق کی طرف آنے سے مراد ایسی ترقی ہوتی ہے جسے کوئی نہ روک سکے.۱۹۰۲ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ حیثیت عرفی کا ن مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لئے آپ کے نام سمن جاری ہوا.چنانچہ آپ جنوری ۱۹۰۲ء میں وہاں تشریف لے گئے.یہ سفر آپ کی کامیابی کے شروع ہونے کا پہلا نشان تھا.کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لئے جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا.جس وقت آپ جہلم کے اسٹیشن پر اترے ہیں اس وقت، وہاں اس قدر انبوہ کثیر تھا کہ پلیٹ فارم پر کھڑے ہونے کی جگہ نہ رہی تھی بلکہ سٹیشن کے باہر بھی دو رویہ سڑکوں پر لوگوں کی اتنی بھیٹر تھی کہ گاڑی کا گذرنا مشکل ہو گیا تھا.حتی کہ افسران ضلع کو انتظام کے لئے خاص اہتمام کرنا پڑا اور غلام حیدر صاحب تحصیلدار اس سپیشل ڈیوٹی پر لگائے گئے.آپ حضرت صاحب کے ساتھ نہایت مشکل سے راستہ کراتے ہوئے گاڑی کو لے گئے کیونکہ شہر تک برابر ہجوم خلائق کے سبب رستہ نہ ملتان تھا.اہل شہر کے علاوہ ہزاروں آدمی دیہات سے بھی آپ کی زیارت کے لئے آئے تھے.قریباً ایک ہزار آدمی.تے اس جگہ بیعت کی اور جب آپ عدالت میں حاضر ہونے کے لئے گئے تو اس قدر مخلوق کارروائی مقدمہ سننے کے لئے موجود تھی کہ عدالت کو انتظام کرنا مشکل ہو گیا.دور میدان تک لوگ پھیلے ہوئے تھے.پہلی ہی پیشی میں آپ بری کئے گئے اور مع الخیر واپس تشریف لے آئے.۱۹۰۳ ء سے آپ کی ترقی جماعت کی ترقی اور کرم دین والے مقدمہ کا طول پکڑنا حیرت انگیز طریق سے شروع ہو گئی اور بعض دفعہ ایک ایک دن میں پانچ پانچ سو آدمی بیعت کے خطوط لکھتے تھے اور آپ کے پیرو اپنی تعداد میں ہزاروں لاکھوں تک پہنچ گئے.ہر قسم کے لوگوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور یہ سلسلہ بڑے زور سے پھیلنا شروع ہو گیا اور پنجاب سے نکل کر دوسرے

Page 394

۳۶۷ سیرت مسیح موعود صوبوں اور پھر دوسرے ملکوں میں بھی پھیلنا شروع ہو گیا.اسی سال جماعت احمدیہ کے لئے ایک درد ناک حادثہ پیش آیا کہ کابل میں اس جماعت کے ایک برگزیدہ ممبر کو صرف مذہبی مخالفت کی وجہ سے سنگسار کیا گیا.مقدمات کا سلسلہ جو جہلم میں شروع ہو کر بظاہر ختم ہو گیا تھا پھر بڑے زور سے شروع ہو گیا.یعنی کرم دین نے پہلے وہاں آپ کے خلاف مقدمہ کیا تھا اسی نے پھر گورداسپور میں آپ پر ازالہ حیثیت عرفی کی نالش دائر کر دی.اس مقدمہ نے اتنا طول پکڑا کہ جسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے اس مقدمہ کی کارروائی کے دوران میں ایک مجسٹریٹ بدل گیا اور اس کی پیشیاں ایسے تھوڑے تھوڑے وقفہ سے رکھی گئیں کہ آخر مجبور ہو کر آپ کو گورداسپور کی ہی رہائش اختیار کرنی پڑی.اس مقدمہ کو اس قدر طول دیا گیا تھا کہ صرف تین چار الفاظ پر گفتگو تھی.کرم دین نے آپ کے خلاف ایک صریح جھوٹ بولا تھا.آپ نے اس کی نسبت اپنی کتاب میں کذاب کا لفظ لکھا.جس کے معنی عربی زبان میں جھوٹا بھی ہیں اور بہت جھوٹا بھی.اسی طرح ایک لفظ لیم ہے جس کے معنی کمینہ ہیں.لیکن کبھی ولد الزنا کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے.اور اس کا زور اس بات پر تھا کہ مجھے بہت جھوٹا اور ولد الزنا کہا گیا ہے.حالانکہ اگر ثابت ہے تو یہ کہ میں نے ایک جھوٹ بولا ہے.اس پر عدالت میں ان الفاظ کی تحقیقات شروع ہوئی اور بعض اس قسم کے اور باریک سوال پیدا ہو گئے جن پر ایسی لمبی بحث چھڑی کہ دو سال ان مقدمات میں لگ گئے.دوران مقدمہ میں ایک مجسٹریٹ کی نسبت مشہور ہوا کہ اس کے ہم نہ ہوں نے کہا ہے کہ مرزا صاحب اس وقت خوب پھنسے ہوئے ہیں ان کو سزا ضرور دو خواہ ایک دن کی قید کیوں نہ ہو.جن دوستوں نے یہ بات سنی سخت گھبرائے ہوئے آپ کے پاس حاضر ہوئے اور نہایت ڈر کر عرض کیا کہ حضور ہم نے ایسا نا ہے.آپ اس وقت لیٹے ہوئے تھے.یہ بات سنتے ہی آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ایک ہاتھ کے سہارے سے ذرا اٹھ بیٹھے اور اٹھ کر بڑے زور سے فرمایا کہ کیا وہ خدا تعالی کے شیر پر ہاتھ ڈالنا چاہتا ہے ؟ اگر اس نے ایسا کیا تو وہ دیکھ لے گا کہ اس کا کیا انجام ہوتا ہے.نہ معلوم یہ خبر سچی ہے یا جھوٹی لیکن اس مجسٹریٹ کو انہیں دنوں وہاں سے بدل دیا گیا اور باوجود کوشش کے فوجداری اختیارات اس سے لے لئے گئے اور کچھ مدت کے بعد اس کا عہدہ بھی کم کر دیا گیا.اس کے بعد مقدمہ ایک اور مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوا.

Page 395

لوم جلد ۳ MYA سیرت مسیح موعود اس نے بھی نہ معلوم کیوں اس کو بہت لمبا کیا.اور گوڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں تو آپ کو کرسی ملتی تھی لیکن اس مجسٹریٹ نے باوجود آپ کے سخت بیمار ہونے کے آپ کو کرسی نہ دی اور بعض دفعہ سخت پیاس کی حالت میں پانی پینے تک کی اجازت نہ دی.آخر ایک لمبے مقدمہ کے بعد آپ پر دو سو روپیہ جرمانہ کیا.اس پر سیشن جج صاحب امرت سر مسٹر ہیری صاحب کی عدالت میں جو ایک یورپین تھے اس فیصلہ کی نگرانی کی گئی.اور جب انہوں نے مقدمہ کی مثل دیکھی تو سخت افسوس ظاہر کیا کہ ایسے لغو مقدمہ کو مجسٹریٹ نے اس قدر لمبا کیوں کیا؟ اور کہا کہ اگر یہ مقدمہ میرے پاس آتا تو میں ایک دن میں اسے خارج کر دیتا.کرم دین جیسے انسان کو جو لفظ مرزا صاحب نے استعمال کئے اگر ان سے بڑھ کر بھی کہے جاتے تو بالکل درست تھا.جو کچھ ہوا نہایت نا واجب ہوا.اور انہوں نے دو گھنٹے کے اندر آپ کو بری کر دیا اور جرمانہ معاف کر دیا.اور اس طرح دوسری دفعہ ایک یورپین حاکم نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ خدا تعالیٰ حکومت انہی لوگوں کے ہاتھ میں دیتا ہے جن کو وہ اس قابل سمجھتا.ہے.اس مقدمہ کا فیصلہ جنوری ۱۹۰۵ ء میں ہوا.اور اس فیصلہ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے جو رحی آپ پر کئی سال پیشتر متقدمہ کے انجام کی نسبت کی تھی پوری ہوئی.اس مقدمہ کی کارروائی کو ایک جگہ بیان کرنے کے لئے میں آپ کے دو ضروری سفر چھوڑ گیا ہوں.جن میں سے آپکا پہلا سفر تو لاہور کی طرف تھا جو دوران مقدمہ میں ماہ اگست ۱۹۰۴ ء میں ہوا.اس دفعہ آپ لاہور میں پندرہ دن رہے.اس سفر میں بھی چاروں طرف سے لوگ آپ کی زیارت کے لئے جوق در جوق آئے اور اسٹیشن پر مل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور اس تمام عرصہ میں ایک شور پڑا رہا.آپ کی قیام گاہ کے نیچے صبح سے شام تک برابر ایک مجمع رہتا.مخالف آن آن کر گالیاں دیتے اور شور مچاتے.حتی کہ بعض شریروں نے تو زنانہ مکان میں گھنے کی بھی کوشش کی جنہیں زبردستی باہر نکالا گیا.لاہور کے دوستوں کی درخواست پر آپ کا لیکچر مقرر ہوا جو چھاپا گیا اور ایک وسیع ہال میں وہ لیکچر مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم نے پڑھ کر سنایا.آپ بھی پاس ہی بیٹھے ہوئے تھے.قریبا سات آٹھ ہزار آدمی تھے.اس لیکچر کے ختم ہونے پر لوگوں نے درخواست کی کہ آپ کچھ زبانی بھی بیان فرما ئیں.اس پر آپ اسی وقت کھڑے ہو گئے اور آدھ گھنٹے تک ایک مختصری تقریر فرمائی.چونکہ یہ ایک تجربہ شدہ بات تھی کہ آپ جہاں جاتے ہر مذہب وملت کے لوگ آپ کے خلاف جوش دکھلاتے خصوصاً مسلمان

Page 396

ار العلوم جلد ۳۶۹ سیرت مسیح موعود کہلانے والے اس لئے افسران پولیس نے اس دفعہ بہت اعلیٰ انتظام کیا ہوا تھا.دیسی پولیس کے علاوہ یورپین سپاہی بھی انتظام کے لئے لگائے گئے تھے.جو تلواریں ہاتھ میں لئے تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے کھڑے ہوئے تھے.چونکہ پولیس افسروں کو معلوم ہو گیا تھا کہ بعض جہلاء جلسہ گاہ سے باہر فساد پر آمادہ ہیں اس لئے انہوں نے آپ کی واپسی کے لئے خاص انتظام کر رکھا تھا اور چند سوار کچھ فاصلہ پر آگے آگے چلے جاتے تھے اور پیچھے آپ کی گاڑی تھی.گاڑی کے پیچھے پھر کچھ پولیس کے جوان تھے اور ان کے پیچھے پھر پولیس کے سوار جن کے پیچھے پیادہ پولیس - اس طرح بڑی حفاظت سے آپ کو گھر پہنچایا گیا.اور منصوبہ بازوں کو اپنی شرارت میں کامیابی حاصل نہ ہو سکی.وہاں سے آپ واپس گورداسپور تشریف لے آئے.اواخر اکتوبر ۱۹۰۴ء میں آپ گورداسپور کے مقدمات سے گونہ فراغت پا کے قادیان آگئے.۲۷ اکتوبر کو سیالکوٹ تشریف لے گئے.کیونکہ وہاں کے دوستوں نے باصرار وہاں تشریف لے جانے کی درخواست کی تھی.اور عرض کیا تھا کہ آپ اپنی ابتدائی عمر میں یہاں کئی سال رہے ہیں پس اب بھی جب کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی ہے ایک اس طرف قدم رنجہ فرما کر اس زمین کو برکت دیں.یہ سفر بھی آپ کی کامیابی کا بین ثبوت تھا.کیونکہ ہر ایک سٹیشن پر آپ کی زیارت کے لئے اس قدر مخلوق آتی تھی کہ سٹیشن کے حکام کو انتظام کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور لاہور کے سٹیشن پر تو اس قدر ہجوم ہوا کہ پلیٹ فارم ختم ہو گئے اور سٹیشن ماسٹر کو بلا ٹکٹ ہی لوگوں کو اندر آنے کی اجازت دینی پڑی.جب آپ سیالکوٹ پہنچے تو سٹیشن سے آپ کی قیام گاہ تک جو میل بھر کے فاصلہ پر تھی برابر لوگوں کا ہجوم تھا.شام کے وقت ٹرین سٹیشن پر پہنچی.تو سواری گاڑیوں میں چڑھتے چڑھاتے دیر لگ گئی اور کی آپ کی گاڑی ابھی تھوڑی دور ہی چلنے پائی تھی کہ اندھیرا ہو گیا ہجوم خلائق کے سبب اور رات پڑ جانے سے اندیشہ ہوا کہ کہیں بعض لوگ گاڑیوں کے نیچے نہ آجائیں.چنانچہ پولیس کو اس بات کا خاص انتظام کرنا پڑا کہ آپ کے آگے آگے راستہ صاف رہے.سیالکوٹ کے ایک رئیس اور آنریری مجسٹریٹ پولیس کے ساتھ اس کام پر تھے.ان کو بڑی مشکل اور سختی سے راستہ کرانا پڑتا تھا اور گاڑی نہایت آہستہ آہستہ چل سکتی تھی.گاڑی کی کھڑکیاں کھول دی گئی تھیں بازاروں اور گلیوں میں لوگ علاوہ دو رویہ کھڑے ہونے کے دوکانوں کے بر آمدے بھی

Page 397

۳۷۰ سیرت مسیح موعود بھرے ہوئے تھے.اور بعض تو جگہ نہ ملنے کی وجہ سے کھڑکیوں کے چھجوں پر چڑھے بیٹھے تھے.تمام چھتوں پر ہندؤوں اور مسلمانوں نے آپ کی شکل دیکھنے کے لئے ہنڈیاں اور لیمپ جلا رکھے تھے اور چھتیں عورتوں اور مردوں سے بھری پڑی تھیں.آپ کی گاڑی کے قریب آنے پر مشعلیں آگے کر کر کے آپ کی شکل دیکھتے تھے اور بعض لوگ آپ پر پھول پھینکتے تھے.سیالکوٹ آپ نے پانچ روز قیام فرمایا اور علاوہ تبلیغ کے جو آپ گھر پر ملنے والوں کو کرتے رہے آپ کا ایک پبلک لیکچر بھی وہاں ہوا.جس وقت لیکچر کا اعلان ہوا اسی وقت سیالکوٹ کے علماء نے بڑے زور سے اعلان کیا کہ کوئی شخص مرزا صاحب کا لیکچر سنے نہ جائے اور یہ بھی فتوی دے دیا کہ جو شخص آپ کا لیکچر سننے جائے گا اس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.یہ ایک زبردست ہتھیار اس وقت سے علماء ہند کے پاس ہے جس کے ذریعے سے وہ جاہل مسلمانوں پر اپنی حکومت قائم رکھتے ہیں اور جس کے لئے جھوٹی بچی کوئی بھی دلیل ان کے پاس نہیں اور اس اعلان کو ہی کافی خیال نہ کیا گیا بلکہ جس مکان میں آپ کا لیکچر تھا اس کے مقابل چند مخالف مولویوں نے اپنے لیکچروں کا اعلان کر دیا تاکہ لوگ آپ کے لیکچر میں شامل نہ ہونے پائیں اور باہر کے باہر ہی رک جائیں.علاوہ ازیں کچھ آدمی لیکچر گاہ کے دروازہ پر مقرر کر دیئے گئے کہ اندر جانے والوں کو رو کیں اور بتائیں کہ آپ کے لیکچر میں جانا گناہ ہے.اور بعض تو اس حد تک بڑھے کہ آنے والوں کو پکڑ پکڑ کر دوسری طرف لے جاتے تھے.مگر باوجود اس کے لوگ بڑی کثرت سے آئے اور جس وقت لوگوں نے سنا کہ آپ لیکچر گاہ میں تشریف لے آئے ہیں تو مخالف علماء کا لیکچر چھوڑ کر وہاں بھاگ آئے اور اس قدر شوق سے لوگوں نے حصہ لیا کہ سرکاری ملازم بھی باوجود تعطیل کا دن نہ ہونے کے لیکچر میں شامل ہوئے.یہ لیکچر بھی چھپا ہوا تھا اور مولوی عبد الکریم صاحب نے پڑھ کر سنایا تھا.دوران لیکچر میں بعض لوگوں نے شور مچانا چاہا.پولیس افسر نے جو ایک یورپین صاحب تھے.نہایت ہوشیاری سے ان کو روکا اور ایک بڑی لطیف بات فرمائی کہ تم مسلمانوں کو ان کے لیکچر پر گھبرانے کی کیا وجہ ہے تمہاری تو یہ تائید کرتے ہیں اور تمہارے رسول ﷺ کی عظمت قائم کرتے ہیں.ناراض ہونے کا حق تو ہمارا تھا کہ جن کے خدا (صحیح) کی وفات ثابت کرنے پر یہ اس قدر زور دیتے ہیں.غرض افسران پولیس کی ہشیاری کے باعث کوئی فتنہ فساد نہ ہوا.اس لیکچر میں ایک خصوصیت یہ تھی کہ آپ نے پہلی مرتبہ اپنے آپ کو اہل ہنود پر اتمام حجت کرنے کے لئے پبلک میں بحیثیت کرشن پیش کیا.

Page 398

دم جلد ۳ سیرت مسیح موعود جب لیکچر ختم ہو کر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض لوگوں نے پتھر مارنے کا ارادہ کیا لیکن پولیس نے اس مفسدہ کو بھی روکا.لیکچر کے بعد دوسرے دن آپ واپس تشریف لے آئے اور اس موقعہ پر بھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے کوئی شرارت نہ ہو سکی.جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دکھ دینے کا کوئی موقعہ نہیں ملا.تو بعض لوگ شہر سے کچھ دور باہر جا کر ریل کی سڑک کے پاس کھڑے ہو گئے اور چلتی ہوئی ٹرین پر پتھر پھینکے لیکن اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہو سکتا تھا ؟ ۱۱ - اکتوبر ۱۹۰۵ء کو مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات اور سفرد بلی کے حالات آپ کے نہایت مخلص مرید مولوی عبدالکریم صاحب جو مختلف موقعوں پر آپ کے لیکچر سنایا کرتے تھے ایک لمبی بیماری کے بعد فوت ہوئے.اور آپ نے قادیان میں ایک عربی مدرسہ کھولنے کا ارشاد فرمایا جس میں دین اسلام سے واقف علماء پیدا کئے جائیں تاکہ فوت ہونے والے علماء کی جگہ خالی نہ رہے.مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات سے چند روز بعد دہلی تشریف لے گئے اور وہاں قریب پندرہ دن رہے.اس وقت دہلی کو پندرہ سال پہلے کی دہلی نہ تھی جس نے دیوانہ وار شور مچایا تھا.لیکن پھر بھی آپ کے جانے پر خوب شور ہو تا رہا اس پندرہ دن کے عرصہ میں آپ نے دہلی میں کوئی پبلک لیکچر نہ دیا.لیکن گھر پر قریباً روزانہ لیکچر ہوتے رہے جن میں جگہ کی تنگی کے سبب دو ڈھائی سو سے زیادہ آدمی ایک وقت میں شامل نہیں ہو سکتے تھے.ایک دو دن لوگوں نے شور بھی کیا اور ایک دن حملہ کر کے گھر پر چڑھ جانے کا بھی ارادہ کیا.لیکن پھر بھی پہلے سفر کی نسبت بہت فرق تھا.اس سفر سے واپسی پر لدھیانہ کی جماعت نے دو دن کے لئے آپ کو لدھیانہ میں ٹھرایا اور آپ کا ایک پبلک لیکچر نہایت خیر و خوبی سے ہوا.وہاں امرتسر کی جماعت کا ایک وفد پہنچا کہ آپ ایک دو روز امرتسر بھی ضرور قیام فرما ئیں جسے حضرت نے منظور فرمایا.اور لدھیانہ سے واپسی پر امرتسر میں اتر گئے.وہاں بھی آپ کے ایک عام لیکچر کی تجویز ہوئی.امرتسر سلسلہ احمدیہ کے مخالفین سے پر ہے اور مولویوں کا وہاں بہت زور ہے.ان کے اکسانے سے عوام الناس بہت شور کرتے رہے جس دن آپ کا لیکچر تھا اس روز مخالفین نے فیصلہ کر لیا کہ جس طرح ہو لیکچر نہ ہونے دیں.چنانچہ آپ لیکچر ہال میں تشریف لے گئے تو دیکھا کہ دروازہ پر مولوی بڑے بڑے جسے پہنے ہوئے لمبے لمبے ہاتھ مار کر آپ کے خلاف وعظ کر

Page 399

انوار العلوم جلد ۳۷۲ سیرت مسیح موعود رہے ہیں اور بہت سے لوگوں نے اپنے دامنوں میں پتھر بھرے ہوئے ہیں.آپ لیکچر گاہ میں اندر تشریف لے گئے اور لیکچر شروع کیا لیکن مولوی صاحبان کو اعتراض کا کوئی موقعہ نہ ملا جس لوگوں کو بھڑکا ئیں.پندرہ بیس منٹ آپ کی تقریر ہو چکی تھی کہ ایک شخص نے آپ کے آگے چائے کی پیالی پیش کی کیونکہ آپ کے حلق میں تکلیف تھی.اور ایسے وقت میں اگر تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کوئی سیال چیز استعمال کی جائے تو آرام رہتا ہے.آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ رہنے دو لیکن اس نے آپ کی تکلیف کے خیال سے پیش کر ہی دی اس پر آپ نے بھی اس میں سے ایک گھونٹ پی لیا.لیکن وہ مہینہ روزوں کا تھا مولویوں نے شور مچا دیا کہ یہ شخص مسلمان نہیں کیونکہ رمضان شریف میں روزہ نہیں رکھتا.آپ نے جواب میں فرمایا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیمار یا مسافر روزہ نہ رکھے.بلکہ جب شفا ہو یا سفر سے واپس آئے تب روزہ رکھے اور میں تو بیمار بھی ہوں اور مسافر بھی.لیکن جوش میں بھرے ہوئے لوگ کب رکھتے ہیں شور بڑھتا گیا اور باوجود پولیس کی کوشش کے فرو نہ ہو سکا.آخر مصلحاً آپ بیٹھ گئے اور ایک شخص کو نظم پڑھنے کے لئے کھڑا کر دیا گیا.اس کے نظم پڑھنے پر لوگ خاموش ہو گئے تب پھر آپ کھڑے ہوئے تو پھر مولویوں نے شور مچایا اور جب آپ نے لیکچر جاری رکھا تو فساد پر آمادہ ہو گئے اور سٹیج پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے.پولیس نے روکنے کی کوشش کی لیکن ہزاروں آدمیوں کی رو ان کے روکے نہ رکتی تھی.اور ایسا معلوم ہو تا تھا کہ سمندر کی ایک لہر ہے جو آگے ہی بڑھتی چلی آتی ہے.جب پولیس سے اس کا سنبھالنا مشکل ہو گیا تب آپ نے لیکچر چھوڑ دیا.لیکن پھر بھی لوگوں کا جوش ٹھنڈا نہ ہوا.اور انہوں نے سٹیج پر چڑھ کر حملہ آور ہونے کی کوشش جاری رکھی اس پر پولیس انسپکٹر نے آپ سے عرض کی کہ آپ اندر کے کمرہ میں تشریف لے چلیں اور فوراً سپاہی دوڑائے کہ بند گاڑی لے آئیں.پولیس لوگوں کو اس کمرہ میں آنے سے روکتی رہی اور دوسرے دروازہ کے سامنے گاڑی لا کر کھڑی کر دی گئی آپ اس میں سوار ہونے کے لئے تشریف لے چلے.آپ گاڑی میں بیٹھنے لگے تو لوگوں کو پتہ لگ گیا کہ آپ گاڑی میں سوار ہو کر چلے ہیں.اس پر جو لوگ لیکچر ہال میں باہر کھڑے تھے وہ حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے اور ایک شخص نے بڑے زور سے ایک بہت موٹا اور مضبوط سوٹا آپ کو مارا.ایک مخلص مرید پاس کھڑا تھا وہ جھٹ آپ کو بچانے کے لئے آپ کے اور حملہ کرنے والے کے درمیان میں آگیا چونکہ گاڑی کا دروازہ کھلا تھا.

Page 400

۳۷۳ میرت مسیح موعود سوٹا اس پر رک گیا اور اس شخص کے بہت کم چوٹ آئی ورنہ ممکن تھا کہ اس شخص کا خون ہو جاتا.آپ کے گاڑی میں بیٹھنے پر گاڑی چلی لیکن لوگوں نے پتھروں کا مینہ برسانا شروع کر دیا.گاڑی کی کھڑکیاں بند تھیں ان پر پتھر کرتے تھے تو وہ کھل جاتی تھیں ہم انہیں پکڑ کر سنبھالتے تھے.لیکن پتھروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے ہاتھ چھوٹ چھوٹ کر وہ گر جاتی تھیں.لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے کسی کے چوٹ نہیں آئی صرف ایک پتھر کھڑکی میں گزرتا ہوا میرے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر لگا.چونکہ پولیس گاڑی کے چاروں طرف کھڑی تھی.بہت سے پتھر ا سے لگے.جس پر پولیس نے لوگوں کو وہاں سے ہٹایا اور گاڑی کے آگے پیچھے بلکہ اس کی چھت پر بھی پولیس میں بیٹھ گئے.اور دوڑا کر گاڑی کو گھر تک پہنچایا.لوگوں میں اس قدر جوش تھا کہ باوجود پولیس کی موجودگی کے وہ دور تک گاڑی کے پیچھے بھاگے.دوسرے دن آپ قادیان واپس تشریف.لے آئے.دسمبر ۱۹۰۵ء میں آپ کو وفات کی پیشگوئی ، سلسلہ کا نظام اور صد را مجمن کا قیام الہام ہوا کہ آپ کی وفات قریب ہے.جس پر آپ نے ایک رسالہ الوصیت لکھ کر اپنی تمام جماعت میں شائع کر دیا.اور اس میں جماعت کو اپنی وفات کے قرب کی خبر دی اور ان کو تسلی دی اور الہام الہی کے ماتحت ایک مقبرہ بنائے جانے کا اعلان فرمایا.اور اس میں دفن ہونے والوں کے لئے یہ شرط مقرر کی کہ وہ اپنی تمام جائداد کا دسواں حصہ اشاعت اسلام کے لئے دیں اور تحریر فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ اس مقبرہ میں صرف وہی دفن ہو سکیں گے جو جنتی ہوں گے.اور ان اموال کی حفاظت کے لئے جو اس مقبرہ میں دفن ہونے کے لئے لوگ بغرض اشاعت اسلام دیں گے ایک انجمن مقرر فرمائی.اس انتظام کے علاوہ یہ بھی پیش گوئی کی کہ جماعت کی حفاظت اور اس کو سنبھالنے کے لئے خدا تعالیٰ خود میری وفات کے بعد اس طرح انتظام کرے گا جس طرح کہ پہلے نبیوں کے بعد کرتا رہا ہے اور ایسے لوگوں کو کھڑا کر تا رہے گا جو جماعت کی نگرانی اسی طرح کریں گے جس طرح کہ آنحضرت اس کے بعد حضرت ابو بکر نے کی تھی.سلسلہ کی ضروریات تعلیمی و تبلیغی کے لئے الوہیت کی اشاعت تک مدرسہ اور میگزین کی انتظامی کمیٹیاں تھیں.اور مقبرہ بہشتی کے لئے ایک جدید انجمن تجویز ہوئی.مگر خدام کی درخواست پر ۱۹۰۶ء کے دسمبر میں آپ نے اس انجمن کی بجائے جسے وصیتوں کے اموال کی حفاظت کے لئے

Page 401

۳۷۴ سیرت مسیح موعود مقرر کیا تھا ایک ایسی انجمن قائم کر دی جس کے سپرد دینی اور دنیاوی تعلیم کے مدارس ریویو آف ریلیجنز مقبره بهشتی وغیرہ سب متفرق کام کر دیئے.اور مختلف انجمنوں کی بجائے ایک ہی صدر انجمن قائم کر دی.۱۹۰۷ء میں ستمبر کے مہینے میں آپ کا لڑکا مبارک احمد اس پیشگوئی کے مطابق جو اس کی پیدائش کے وقت ہی چھاپ کر شائع کر دی گئی تھی ساڑھے آٹھ سال کی عمر میں فوت ہو گیا.ای سال صدر انجمن کی مختلف شہروں میں شاخیں قائم کرنے کی تجویز کی گئی.دو مرد اور ایک عورت امریکن آپ سے ملنے کے لئے آئے جن سے دیر تک گفتگو ہوئی.اور انہیں مسیح کی بعثت ثانیہ کی حکمت اور اصلیت سمجھائی.اس سال پنجاب میں کچھ ایجیٹیشن پیدا ہو گیا.اس پر آپ نے اپنی جماعت کو گورنمنٹ کا ہر طرح وفادار رہنے کی تاکید فرمائی اور مختلف.جگہ پر آپ کی جماعت نے اس شورش کے فرو کرنے میں بلا کسی لالچ کے خدمت کی.دسمبر میں آریوں نے لاہور میں ایک مذہبی کا نفرنس منعقد کی.اور سب مذاہب کے لوگوں کو اس میں شامل ہونے کی دعوت دی.لیکن یہ شرط رکھی کہ کسی مذہب کے پیروؤں کو دوسرے مذہب پر حملہ کرنے کی اجازت نہ ہو گی.اور خود بھی اس شرط کی پابندی کا اقرار کیا.آپ سے بھی اس میں شامل ہونے کی درخواست کی گئی تو آپ نے اسی وقت کہہ دیا کہ مجھے تو اس تجویز میں دھوکے کی بو آتی ہے.لیکن پھر بھی حجت پوری کرنے کے لئے ایک مضمون لکھ کر اس میں پڑھنے کے لئے بھیج دیا.اس مضمون میں آپ نے بڑے زور سے آریوں کو صلح کی دعوت دی اور نہایت نرمی سے صرف اسلام کی خوبیاں ان کے سامنے پیش کیں.ہماری جماعت کے قریبا پانچ سو آدمی ٹکٹ خرید کر اس کانفرنس میں شامل ہوتے رہے اور ہمارے باعث دوسرے مسلمان بھی شامل ہوتے رہے لیکن جب آریوں کی باری آئی تو انہوں نے نهایت گندے طور پر ہمارے نبی کریم ﷺ کو گالیاں دیں اور برے سے برے الفاظ حضور کی نسبت استعمال کئے.لیکن ہم آپ کی تعلیم کے ماتحت خاموشی سے ان کے لیکچروں کو سنتے رہے اور کسی نے اٹھ کر اتنا بھی نہیں کہا کہ ہم سے وعدہ خلافی کی گئی ہے.۲۱ مارچ ۱۹۰۸ء میں سرولسن صاحب بہادر فنانشل کمشنر صوبہ پنجاب قادیان تشریف لائے چونکہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ پنجاب کا ایک ایسا معزز اعلیٰ عہدیدار قادیان آیا آپ نے تمام جماعت کو ان کے استقبال کرنے کا حکم دیا.اور اپنی سکول گراؤنڈ میں ان کا خیمہ لگوایا اور ان کی

Page 402

سیرت مسیح موعود ۳۷۵ دعوت بھی کی.چونکہ آپ کی نسبت آپ کے مخالفین نے مشہور کر رکھا تھا کہ آپ در پردہ گورنمنٹ کے مخالف ہیں کیونکہ افسران بالا سے باوجود اپنے قدیم خاندانی تعلقات کے کبھی نہیں ملتے.آپ نے عملی طور پر اس اعتراض کو دور کر دیا.اور فنانشل کمشنر صاحب سے ملاقات کے لئے خود تشریف لے گئے اس وقت آپ کے ساتھ سات آٹھ آدمی آپ کی جماعت کے بھی تھے صاحب ممدوح نے نہایت تکریم کے ساتھ اپنے خیمہ کے دروازے پر حضرت مسیح موعود کو ریسیو (Receive) کیا.اور آپ سے مختلف امور آپ کے سلسلہ کے متعلق دریافت کرتے رہے لیکن اس تمام گفتگو میں ایک بات خاص طور پر قابل ذکر ہے.ان دنوں میں مسلم لیگ نئی نئی قائم ہوئی تھی.اور حکام انگریزی اس کی کونسی ٹیوشن پر ایسے خوش تھے کہ ان کے خیال میں کانگریس کے نقائص دور کرنے میں یہ ایک زبر دست آلہ ثابت ہو گی.اور بعض حکام رؤساء کو اشار تا اس میں شامل ہونے کی تحریک بھی کرتے تھے.فنانشل کمشنر صاحب بہادر نے بھی بر سبیل تذکرہ آپ سے مسلم لیگ کا ذکر کیا اور اس کی نسبت آپ کی رائے دریافت کی.آپ نے فرمایا میں اسے پسند نہیں کرتا.فنانشل کمشنر نے اس کی خوبی کا اقرار کیا.آپ نے فرمایا کہ یہ راہ خطرناک ہے.انہوں نے کہا کہ آپ اسے کانگریس پر قیاس نہ کریں اس کا قیام تو ایسے رنگ میں ہوا تھا کہ اس کا اپنے مطالبات میں حد سے بڑھ جانا شروع سے نظر آ رہا تھا.لیکن مسلم لیگ کی بنیاد ایسے لوگوں کے ہاتھوں اور ایسے قوانین کے ذریعے پڑی ہے کہ یہ کبھی کانگریس کا رنگ اختیار کرہی نہیں سکتی.اس پر آپ کے ایک مرید خواجہ کمال الدین نے جو دو کنگ مشن کے بانی اور رسالہ مسلم انڈیا کے مالک ہیں.سرولسن کی تائید کی اور کہا کہ میں بھی اس کا ممبر ہوں اس کے ایسے قواعد بنائے گئے ہیں کہ اس کے گمراہ ہونے کا خطرہ نہیں.مگر دونوں کے جواب میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا کہ مجھے تو اس سے بو آتی ہے کہ ایک دن یہ بھی کانگریس کا رنگ اختیار کرلے گی.میں اس طرح سیاست میں دخل دینے کو خطرناک سمجھتا یہ گفتگو تو اس پر ختم ہوئی.لیکن ہر ایک سیاسی واقعات کا مطالعہ کرنے والا جانتا ہے کہ ہوں.یہ آپ کا خیال کس طرح لفظ بلفظ پورا ہوا.اسی سال ۲۶ اپریل کو بوجہ والدہ صاحبہ کی بیماری کے آپ کو لاہور جانا پڑا جس دن قادیان سے چلنا تھا.اس رات کو الہام ہوا ” مباش ایمن از بازی روزگار" یعنی حوادث زمانہ سے بے خوف مت ہو.اس پر آپ نے فرمایا کہ آج یہ الہام ہوا ہے کہ جو کسی خطرناک حادثہ پر دلالت (CONSTITUTION)☀

Page 403

وم جلد ۳۰ سیرت مسیح موعود کرتا ہے.اتفاق سے اسی رات میرے چھوٹے بھائی مرزا شریف احمد بیمار ہو گئے.لیکن جس طرح سے ہو سکا روانہ ہوئے.جب بٹالہ پہنچے جو قادیان کا سٹیشن تھا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ بوجہ سرحدی شورش کے گاڑیاں کافی نہیں اس لئے گاڑی ریز رو نہیں ہو سکی.وہاں دو تین دن انتظار کرنا پڑا.آپ نے اپنے گھر میں فرمایا کہ ادھر الهام متوحش ہوا ہے.ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے روکیں پڑ رہی ہیں.بہتر ہے کہ یہیں بٹالہ میں کچھ عرصہ کے لئے ٹھہر جائیں.آب و ہوا تبدیل ہو جائے گی علاج کے لئے کوئی لیڈی ڈاکٹر میں بلائی جائے گی.لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں لاہور ہی چلو.آخر دو تین دن کے انتظار کے بعد آپ لاہور تشریف لے گئے.آپ کے پہنچتے ہی تمام لاہور میں ایک شور پڑ گیا اور حسب دستور مولوی لوگ آپ کی مخالفت کے لئے اکٹھے ہو گئے.جس مکان میں آپ اترے ہوئے تھے اس کے پاس ہی ایک میدان میں آپ کے خلاف لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع ہوا.جو روزانہ نماز عصر سے لیکر رات کے نو دس بجے تک جاری رہتا.ان لیکچروں میں گندی سے گندی گالیاں آپ کو دی جاتیں اور چونکہ آپ کے مکان تک پہنچنے کا یہی راستہ تھا آپ کی جماعت کو سخت تکلیف ہوتی.لیکن آپ نے سب کو سمجھا دیا کہ گالیوں سے ہمارا کچھ نہیں بگڑتا تم لوگ خاموش ہو کے پاس سے گذر جایا کرد ادھر دیکھا بھی نہ کرو.چونکہ اس دفعہ لاہور میں کچھ زیادہ رہنے کا ارادہ تھا اس لئے جماعت کے احباب چاروں طرف سے اکٹھے ہو گئے تھے اور ہر وقت ہجوم رہتا تھا اور لوگ بھی آپ سے ملنے کے لئے آتے رہتے تھے.چونکہ رؤسائے ہند بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ساری دنیا کے رؤساء دین سے نسبتا غافل ہوتے ہیں اس لئے آپ نے ان کو کچھ سنانے کے لئے یہ تجویز فرمائی کہ لاہور کے ایک غیر احمدی رئیس کی طرف سے جو آپ کا بہت معتقد تھا رؤساء کو دعوت دی اور دعوت طعام میں کچھ تقریر فرمائی.تقریر کسی قدر لمبی ہو گئی.جب گھنٹے کے قریب وقت گذر گیا تو ایک شخص نے ذرا تی گھبراہٹ کا اظہار کیا.اس پر بہت سے لوگ بول اٹھے کہ کھانا تو ہم روز کھاتے ہیں لیکن یہ کھانا (غذائے روح) تو آج ہی میسر ہوا ہے آپ تقریر جاری رکھیں.دو اڑھائی گھنٹے تک آپ کی تقریر ہوتی رہی.اس تقریر کی نسبت لوگوں میں مشہور ہوا کہ آپ نے اپنا دعویٰ نبوت واپس لے لیا.لاہور کے اردو روزانہ اخبار عام نے بھی یہ خبر شائع کر دی.اس پر آپ نے اسی وقت اس کی تردید فرمائی اور لکھا کہ ہمیں دعویٰ نبوت ہے اور ہم نے اسے کبھی واپس نہیں لیا.

Page 404

انوار العلوم جلد ۳ سیرت مسیح موعود ہمیں صرف اس بات سے انکار ہے کہ ہم کوئی نئی شریعت لائے ہیں.شریعت وہی ہے جو آنحضرت ا لائے تھے.آپ کو ہمیشہ دستوں کی شکایت رہتی تھی.لاہور تشریف لانے پر یہ شکایت زیادہ ہو گئی.اور چونکہ ملنے والوں کا ایک تانتا رہتا تھا اس لئے طبیعت کو آرام بھی نہ ملا.آپ اسی حالت میں تھے کہ الہام ہوا.اَلرَّحِيلُ ثُمَّ الرَّحِيلُ یعنی کوچ کرنے کا وقت آگیا.پھر کوچ کرنے کا وقت آگیا.اس الہام پر لوگوں کو تشویش ہوئی.لیکن فورا قادیان سے ایک مخلص دوست کی وفات کی خبر پہنچی اور لوگوں نے یہ الہام اس کے متعلق سمجھا اور تسلی ہو گئی.لیکن آپ سے جب پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ نہیں یہ سلسلہ کے ایک بہت بڑے شخص کی نسبت ہے.وہ شخص اس سے مراد نہیں.اس الہام سے گھبرا کر والدہ صاحبہ نے ایک دن فرمایا کہ چلو واپس قادیان چلیں.آپ نے جواب دیا کہ اب واپس جانا ہمارے اختیار میں نہیں.اب اگر خدا ہی کی لے جائے گا تو جاسکیں گے.مگر باوجود ان الہامات اور بیماری کے آپ اپنے کام میں لگے رہے اور اس بیماری میں ہی ہندوؤں اور مسلمانوں میں صلح و آشتی پیدا کرنے کے لئے آپ نے ایک لیکچر دینے کی تجویز فرمائی اور لیکچر لکھنا شروع کر دیا اور اس کا نام پیغام صلح رکھا.اس سے آپ کی طبیعت اور بھی کمزور ہو گئی اور دستوں کی بیماری بڑھ گئی.جس دن یہ لیکچر ختم ہو نا تھا.اس رات الهام ہوا.مکن تکیه بر عمر نا پائیدار یعنی نہ رہنے والی عمر پر بھروسہ نہ کرنا.آپ نے اسی وقت یہ الہام گھر میں سنا دیا اور فرمایا کہ ہمارے متعلق ہے.دن کو لیکچر ختم ہوا اور چھپنے کے لئے دے دیا گیا.رات کے وقت آپ کو دست آیا اور سخت ضعف ہو گیا.والدہ صاحبہ کو جگایا.وہ اٹھیں تو آپ کی حالت بہت کمزور تھی.انہوں نے گھبرا کر پوچھا کہ آپ کو کیا ہوا ہے.فرمایا وہی جو میں کہا کرتا تھا یعنی (بیماری موت) اس کے بعد پھر ایک اور دست آیا اس سے بہت ضعف ہو گیا.فرمایا مولوی نورالدین صاحب کو بلواؤ (مولوی صاحب جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے بہت بڑے طبیب تھے) پھر فرمایا کہ محمود (مصنف رساله هذا) اور میر صاحب (آپ کے خسر) کو جگاؤ.میری چارپائی آپ کی چارپائی سے تھوڑی ہی دور تھی مجھے جگایا گیا.اٹھ کر دیکھا تو آپ کو کرب بہت تھا.ڈاکٹر بھی آگئے تھے.انہوں نے علاج شروع کیا لیکن آرام نہ ہوا.آخر انجکشن کے ذریعہ بعض ادویات دی گئیں.

Page 405

٣٧٨ سیرت مسیح موعود اس کے بعد آپ سو گئے جب صبح کا وقت ہوا.اٹھے اور اٹھ کر نماز پڑھی.گلا بالکل بیٹھ گیا تھا.کچھ فرمانا چاہا لیکن بول نہ سکے.اس پر قلم دوات طلب فرمائی لیکن لکھ بھی نہ سکے قلم ہاتھ سے چھٹ گئی.اس کے بعد لیٹ گئے اور تھوڑی دیر تک غنودگی سی طاری ہو گئی اور قریباً ساڑھے دس بجے دن کے آپ کی روح پاک اس شہنشاہ حقیقی کے حضور حاضر ہو گئی جس کے دین کی خدمت میں آپ نے اپنی ساری عمر صرف کر دی تھی.اِنَّا لِلَّهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ - بیماری کے وقت ایک ہی لفظ آپ کی زبان مبارک پر تھا اور وہ لفظ اللہ تھا.آپ کی وفات کی خبر بجلی کی طرح تمام لاہور میں پھیل گئی.مختلف مقامات کی جماعتوں کو تاریں دے دی گئیں اور اسی روز شام یا دوسرے دن صبح کے اخبارات کے ذریعے کل ہندوستان کو اس عظیم الشان انسان کی وفات کی خبر مل گئی.جہاں وہ شرافت جس کے ساتھ آپ اپنے مخالفوں سے برتاؤ کرتے تھے ہمیشہ یاد رہے گی.وہاں وہ خوشی بھی کبھی نہیں بھلائی جا سکتی جس کا اظہار آپ کی وفات پر آپ کے مخالفوں نے کیا.لاہور کی پالک کا ایک گروہ نصف گھنٹے کے اندر ہی اس مکان کے سامنے اکٹھا ہو گیا جس میں آپ کا جسم مبارک پڑا تھا.اور خوشی کے گیت گا گا کر اپنی کو رباطنی کا ثبوت دینے لگا.بعضوں نے تو عجیب عجیب سوانگ بنا کر اپنی خباثت کا ثبوت دیا.آپ کے ساتھ جو محبت آپ کی جماعت کو تھی.اس کا حال اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ بہت تھے جو آپ کی نعش مبارک کو صریحاً اپنی آنکھوں کے سامنے پڑا دیکھتے تھے.مگر وہ اس بات کی کو قبول کرنے کے لئے تو تیار تھے کہ اپنے جو اس کو مختل مان لیں لیکن یہ باور کرنا انہیں دشوار و نی ناگوار تھا کہ ان کا حبیب ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو گیا ہے.پہلے مسیح کے حواریوں اور اس مسیح کے حواریوں کی اپنے مرشد کے ساتھ محبت میں یہ فرق ہے کہ وہ تو مسیح کے صلیب سے زندہ اتر آنے پر حیران تھے اور یہ اپنے مسیح کے وصال پر ششدر تھے.ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح زندہ کیونکر ہے اور ان کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ مسیح فوت کیونکر ہوا.آج سے تیرہ سو سال پہلے ایک شخص جو خاتم النبین ہو کر آیا تھا.اس کی وفات پر نہایت سچے دل سے ایک شاعر نے یہ صداقت بھرا ہوا شعر کہا تھا کہ كُنتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِي فَعَمِيَ عَلَيْكَ النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلَيَمُتْ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أَحَاذِرُ ؟ ه سيرة حسان بن ثابت مصنفه خلدون الکنانی صفحه ۲۸ مطبوعہ دمشق ۱۹۴۳ء السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحه ۳۸۳، ۳۸۴ حاشیه مطبوعه مصر

Page 406

العلوم جلد.٣٧٩ سیرت مسیح موعود ترجمہ: کہ تو میری آنکھ کی پتلی تھا.تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی.اب تیرے بعد کوئی شخص پڑا مرا کرے ہمیں اس کی پرواہ نہیں.کیونکہ ہم تو تیری ہی موت سے ڈر رہے تھے.آج سے تیرہ سو سال کے بعد اس نبی کے ایک غلام کی وفات پر پھر وہی نظارہ چشم فلک نے دیکھا کہ جنہوں نے اسے پہچان لیا تھا.ان کا یہ حال تھا کہ یہ دنیا ان کی نظروں میں حقیر ہو گئی اور ان کی تمام تر خوشی اگلے جہان میں ہی چلی گئی.بلکہ اب تک کہ آٹھ سال گزر چکے ہیں.ان کا یہی حال ہے.اور خواہ صدی بھی گذر جائے.مگر وہ دن ان کو کبھی نہیں بھول سکتے.جب کہ خدا تعالی کا پیارا رسول ان کے درمیان چلتا پھرتا تھا.درد انسان کو بیتاب کر دیتا ہے اور میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کا ذکر کر کے کہیں سے کہیں چلا گیا.میں نے ابھی بیان کیا ہے کہ ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے اسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت لاش لیکر روانہ ہوئی.اور آپ کا الہام پورا ہوا.جو قبل از وقت مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا.کہ ان کی لاش کفن میں لپیٹ کر لائے ہیں " بٹالہ پہنچ کر آپ کا جنازہ فوراً قادیان پہنچایا گیا اور قبل اس کے کہ آپ کو دفن کیا ہے جاتا.قادیان کی موجودہ جماعت نے (جن میں کئی سو قائم مقام باہر کی جماعتوں کا بھی شامل تھا) بالاتفاق آپ کا جانشین اور خلیفہ حضرت مولوی حاجی نور الدین صاحب بھیروی کو تسلیم کر کے ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی اور اس طرح الوصیت کی وہ شائع شدہ پیش گوئی پوری ہوئی کہ جیسے آنحضرت کے بعد حضرت ابو بکر کھڑے کئے گئے تھے میری جماعت کے لئے بھی خدا تعالی اس رنگ میں انتظام فرمائے گا.اس کے بعد خلیفہ وقت نے آپ کا جنازہ پڑھا اور دوپہر کے بعد آپ دفن کئے گئے.اور اس طرح آپ کا وہ الہام کہ ستائیس کو ایک واقعہ ہمارے متعلق جو دسمبر ۱۹۰۷ء میں ہوا اور مختلف اخبارات میں شائع ہو چکا تھا پورا ہوا.کیونکہ ۲۶ - مئی کو آپ فوت ہوئے اور ۲۷ تاریخ کو آپ دفن کئے گئے اور اس الہام کے ساتھ ایک اور الہام بھی تھا جس سے اس الہام کے معنی واضح کر دیئے گئے تھے.اور وہ الہام یہ تھا " وقت رسید " یعنی تیری وفات کا وقت آگیا ہے.آپ کی وفات پر انگریزی اور دیسی ہندوستان کے سب اخبارات نے باوجود مخالفت کے "

Page 407

٣٨٠ اس بات کا اقرار کیا کہ اس زمانہ کے آپ ایک بہت بڑے شخص تھے.لے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے کی تحقیق سے حضرت اقدس کی پیدائش سوار فروری ۱۸۳۵ء ہے.ے پنجابی زبان میں جسے من بولتے ہیں اکثر عربی زبان میں بولتے وقت دسے بدل جاتا ہے جیسے گنبض سے گنبد- استان سے استاد سے حضرت اقدس کی پیدائش ۱۳ فروری ۱۸۳۵ء ثابت ہے.مرتب کنندہ میزت صحیح موعود

Page 408

انوار العلوم جلد ۳۰ ٣٨١ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید (تصنیف لطیف) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 409

۳۸۲

Page 410

بسم الله الرحمن الرحیم ۳۸۳ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید محمده و فصلی علیٰ رسولہ الکریم پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید ) حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے قلم مبارک سے ) ۱۰- ستمبر ۱۹۱۲ء آج مغرب کے قریب مجھے ایڈیٹر الفضل نے پیغام کا ایک تازہ پر چہ جس پر ایک دو جگہ نشان لگا ہوا تھا بھیجا یہ تو مجھے معلوم تھا کہ غیر مبالعین ہم پر طرح طرح کے الزامات لگانے کے عادی ہیں لیکن اس پرچہ کو پڑھ کر تو بہت ہی حیرت ہوئی.ایک شخص مصطفیٰ خاں نامی نے اس قدر گالیوں اور بد زبانی سے کام لیا ہے کہ میں حیران ہوں کہ کیا شرافت اس شخص کے پاس بھی نہیں وہ مجھے جانور قرار دیتا ہے اور لکھتا ہے کہ اسے کسی چڑیا گھر میں یا عجائب گھر میں رکھنا چاہئے.پھر میری کتاب حقیقۃ النبوۃ کے زمانہ، تصنیف کی طرف اشارہ کر کے لکھتا ہے کہ تعجیل کار شیاطین بود اور اس طرح مجھے شیطان بتاتا ہے.اس طرح کے اور بہت سے حملے اس نے کئے ہیں.میں حیران ہوں کہ یہ لوگ اتنا بھی نہیں سوچتے کہ آخر میں ایک جماعت کا امام ہوں اور وہ مجھے خلیفہ یقین کرتی ہے.کیا اسی قسم کے لفظ اگر شیعہ حضرت ابو بکر کی نسبت استعمال کریں تو وہ اسے جائز رکھیں گے.اور اس پر اظہار ناراضگی نہ کریں گے اگر کہیں کہ وہ خلیفہ برحق تھے.تو میں کہتا ہوں کہ شیعوں کے نزدیک تو خلیفہ بر حق نہیں.اگر ان لوگوں کے لئے جو کسی خلیفہ کو خلیفہ نہ سمجھیں.اسے گالیاں دینا جائز ہوتا ہے.تو پھر کیوں شیعوں کا حضرت ابو بکر کو گالیاں دینا جائز نہیں.تمہارے جی میں جو حملے آئیں کرو لیکن گالیوں سے تو بچو کہ خود یہ تمہارے اخلاق کو بگاڑ دیں گی اور تم عذاب الہی میں گرفتار ہو جاؤ گے.مولوی محمد علی صاحب تو خلیفہ نہیں.نہ کسی جماعت کے امام- ایک انجمن کے پریذیڈنٹ ہیں جن کو امیر کا نام دے دیا گیا ہے لیکن کیا تم

Page 411

سلام ۳۸ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید پسند کرو گے کہ چڑیا گھر والے فقرہ کے جواب میں میری جماعت کے لوگ بھی چڑیا گھر کے کسی جانور کے نام سے انکو پکارا کریں.مثلاً خنزیر ان کا نام رکھ دیں یا کتا یا گدھا اور کسی ایسے ہی نام سے انکو یاد کیا کریں یا خواجہ کمال الدین صاحب کو کہ جنہوں نے ام الالسنہ نامی کتاب کی تیاری کے متعلق فخر کیا ہے کہ صرف تین ہفتہ میں تیار ہو گئی.انکی نسبت پسند کرتے ہیں کہ تعجیل کار شیطان بود کے مقولہ کے ماتحت شیطان کا لفظ استعمال کیا کریں.اگر نہیں تو ایک لاکھوں آدمیوں کی جماعت کے دل اس طرح نہ دکھاؤ کہ یہ بات دین و دنیا میں تمہاری بربادی کا باعث ہوگی.اور ان الفاظ کے لکھنے والے کو میں صرف اسقدر کہتا ہوں کہ ایسے گھر بھی ہیں جہاں جانوروں کی طرح انسان بند رکھے جاتے ہیں تو بہ کر کہ خدا کا غضب تجھے اس گھر میں داخل نہ کرے.وہ گھر پاگل خانہ اور جیل خانہ ہیں اپنے ہاتھوں اپنا ٹھکانا وہاں مت بنا کہ تیری شوخی کا جواب میرے خدا کے پاس موجود ہے.اب میں ان الزامات کی نسبت کچھ لکھنا چاہتا ہوں جو اس پرچہ میں مجھ پر لگائے گئے ہیں.کیونکہ ان میں سے بعض مالی خیانت کے متعلق ہیں.اور میں انکا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں.کیونکہ وہ میری ذاتی خوبیوں یا کمزوریوں کے متعلق نہیں.بلکہ ایسے الزامات ہیں جن میں جماعت کے اموال کی خیانت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.گو حسب عادت اس جملہ میں بھی مضمون نگار نے اپنا پہلو بچانے کے لئے صریح الفاظ میں حملہ نہیں کیا.بلکہ ایک تو اسے افواہ کا نام دیا ہے.دوسرے خیانت کا لفظ لکھنے سے پہلو تہی کی ہے.لیکن کسی کے مال کی نسبت اخبار میں یہ سوال کرنا کہ وہ کہاں سے آیا ہے صاف دلالت کرتا ہے کہ لکھنے والا اسے جائز ذریعہ سے آیا ہوا قرار نہیں دیتا.چونکہ میں ان الزامات کے جواب خدا کے فضل اور رحم سے دینے لگا ہوں.اس لئے اس موقعہ پر میں یہ بھی پسند کرتا ہوں کہ اسی اخبار میں جو ایک اور حملہ مجھ پر کیا گیا ہے.اس کا جواب بھی دے دوں.اور وہ مباہلہ سے فرار کے متعلق ہے.میں نے اپنے بعض خطبات میں مباہلہ کے لئے آمادگی ظاہر کی ہے.اور اب بھی اعلان کرتا ہوں کہ میں اپنے عقائد کے متعلق مباہلہ کے لئے ہر وقت تیار ہوں لیکن جیسا کہ میں بتا چکا ہوں یہ مباہلہ صرف ایسے ہی آدمی سے ہو سکتا ہے جو میری طرح کسی جماعت کا امام ہو یا امام تو نہ ہو لیکن کوئی جماعت اسے اپنا قائم مقام مقرر کر دے یا وہ اسقدر وجاہت رکھتا ہو کہ میرے نزدیک اس کے ساتھ مباہلہ کا اثر کسی

Page 412

العلوم جلد ۳۰ ۳۸۵ پیغام صلح کے چند التزامات کی تردید جماعت پر پڑے گا.اس کے سوا میں مباہلہ نہیں کر سکتا.قرآن کریم نے رسول کریم" کو ایک جماعت کے مقابلہ میں مباہلہ کرنے کے لئے فرمایا ہے.کہیں نہیں آیا کہ ہر ایک فرد جو اٹھ کر کے کہ مباہلہ کر لو اس سے مباہلہ کیا جائے.پس قرآن کریم کی آیت سے بھی یہی استدلال ہوتا ہے کہ مباہلہ تو ایک جماعت کے ساتھ ہونا چاہئے یا کسی ایسے شخص سے جو ایک جماعت کا قائم مقام ہو جیسا کہ خود آنحضرت ﷺ کو اس غرض کے لئے پیش کرنا ظاہر کرتا ہے.پس محمد یا مین داتوی کو میرے مقابلہ کے لئے پیش کرنا عبث ہے اس نے اگر مباہلہ کرنا ہے تو میری جماعت کے کئی لوگ اس سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہیں وہ ان سے مباہلہ کر لے.چنانچہ میاں بدر بخش صاحب نے تو اسے چیلنج بھی دیا تھا لیکن اس وقت تک اس نے ان سے مباہلہ نہیں کیا اگر کہو کہ بدر بخش کے مباہلہ کا جماعت پر کیا اثر ہو گا تو میں کہتا ہوں کہ محمد یا مین کے مباہلہ کا جماعت پر کیا اثر ہو گا.پس جبکہ تمہاری طرف سے ایسا شخص پیش ہے جسکے مباہلہ کا اثر تمہاری جماعت پر کچھ نہیں تو ہماری طرف سے بھی اگر کوئی ایسا ہی آدمی آگے آتا ہے تو تمہیں کیا عذر ہو سکتا ہے.ہاں ہو سکتا ہے کہ مولوی محمد علی صاحب بمعہ ممبران اشاعت اسلام انجمن کے ایک دستخطی تحریر شائع کر دیں کہ محمد یا مین ہماری طرف سے مباہلہ کرنے کا مجاز ہے.اگر مباہلہ کے نتیجہ میں یہ ہلاک ہو جائے اور عذاب الہی میں گرفتار ہو جائے تو ہم سب لوگ اس کو اپنی شکست خیال کریں گے اور آئندہ توبہ کر کے تمہاری بیعت میں شامل ہو جائیں گے.تو میں بھی اپنی جماعت کے کسی آدمی کی نسبت ایسی ہی تحریر شائع کر دوں گا اور لکھ دوں گا کہ اگر اس شخص پر بعد مباہلہ عذاب الہی نازل ہو اور یہ ہلاک ہو جائے تو میں خلافت سے علیحدہ ہو جاؤں گا اور اپنے عقائد سے توبہ کرلوں گا.اور میں نے جو مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ دوسرے ممبران انجمن کی شمولیت کی شرط لگائی ہے تو صرف اس لئے کہ ان کی جماعت انہیں واجب الاطاعت امام نہیں مانتی.بلکہ انجمن کو اصل حاکم مانتی ہے.میری جماعت مجھے واجب الاطاعت امام مانتی ہے.اور اگر تم لوگ اس بات کے لئے آمادہ نہیں تو پھر مولوی محمد علی صاحب کو میرے مقابلہ میں لاؤ.میں ان سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں اور اگر کہو کہ وہ تو دو مسلمانوں میں مباہلہ کو جائز نہیں سمجھتے تو میں کہتا ہوں کہ میں نے بھی تو ان سے مباہلہ کرنے کی رضامندی اسی خیال کے ماتحت ظاہر کی تھی کہ وہ ہم کو کافر کہہ کر خود کا فر ہو گئے ہیں کیونکہ میں نے جہاں تک ان کی تحریرات کو سمجھا ہے میں ان سے یہی مطلب سمجھا ہوں کہ وہ ہمیں کافر سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے

Page 413

۳۸۶ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سب منکر کافر نہیں مگر میرے نزدیک سب کافر ہیں اور وہ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حدیث کی رو سے مسلم کو کافر کہنے والا خود کا فر ہو جاتا ہے پس جبکہ میں ان کے مسلمہ مسلمانوں کو کافر سمجھتا ہوں تو ان کے نزدیک کافر ہوں اور اس صورت میں ان کو مجھ سے مباہلہ کرنے میں کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور اگر کہو کہ نہیں باوجود تمہارے غیر احمدیوں کو کافر کہنے کے پھر بھی کسی نہ کسی طریق سے وہ تم کو مسلمان ہی خیال کرتے ہیں تو میرا یہ جواب ہے کہ تب پھر میرا مباہلہ کا چیلنج بھی نہیں.کیونکہ وہ تو اسی خیال پر ہے کہ وہ مجھے کا فر خیال کرتے ہیں.شائد اس جگہ کسی کو خیال گزرے کہ مولوی محمد علی صاحب اگر کافر نہیں کہتے اور ان سے مباہلہ نہیں ہو سکتا تو کیوں محمد یا مین سے مباہلہ نہیں کر لیا جاتا.اس کا ایک جواب تو میں پہلے دے آیا ہوں.دوسرا جواب اس کا یہ ہے کہ احمدیوں میں سے کئی ایسے بھی ہیں جو مولوی محمد علی صاحب کو کا فریقین کرتے ہیں تو کیا مولوی محمد علی صاحب ان سے مباہلہ کریں گے.اگر وہ ایسے لوگوں سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہیں تو میں ایسے اشخاص مباہلہ کے لئے پیش کر سکتا ہوں ب وہ ان لوگوں سے جو انکو کافر سمجھتے ہیں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہونگے تو میں بھی محمد یا مین مباہلہ کرنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ نگا کیونکہ اس دو طرفہ مباہلہ میں وہ بات بھی حل ہو جائے گی کہ ایسے اشخاص میں مباہلہ ہو جن کا اثر کسی جماعت پر پڑتا ہے.شاید مولوی صاحب اس جگہ پر یہ سوال اٹھا ئیں کہ گو بعض لوگ مجھے کافر کہیں لیکن میں تو ان کو کافر نہیں کہتا.میں وسعت حو صلہ سے کام لیتا ہوں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اول تو مولوی صاحب یہ کہہ نہیں سکتے.کیونکہ وہ بارہا اعلان کر چکے ہیں کہ حدیث کی رو سے صرف وہ اہل قبلہ کافر ہو سکتے ہیں جو دوسرے کو کافر کہیں.پس اس عقیدہ کے رکھتے ہوئے اگر مولوی صاحب اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہیں تو ان لوگوں کو انہیں کافر سمجھنا پڑے گا اور اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان نہیں سمجھتے تو یہ اور بات ہے ہر شخص اپنے عقائد کا ذمہ دار ہے.ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.دوسرے محمد یامین کی نسبت میرا بھی یہی دعوی ہے کہ میں اسے کافر نہیں سمجھتا.اور میرے پاس اس کی دلیل بھی ہے.اور وہ یہ کہ میں اسے ایک قسم کا مجنون سمجھتا ہوں اور ایک قسم سے میری یہ مراد ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں کہ جو بالکل پاگل ہو جاتے ہیں لیکن اسے مینیا ہے جیسا کہ اس کے اہل وطن بھی شہادت دیتے ہیں چنانچہ سید سرور شاہ صاحب دا توی جو غیر مبالعین میں سے ہیں

Page 414

علوم جلد ۳۰ ۳۸۷ پیغام صلح کے چند اثر امات کی تردید انہوں نے اپنے ایک خط میں اسی خیال کا اظہار کیا ہے.غرض مباہلہ کے متعلق جو پہلو بھی لو ہمارا پہلو بھاری رہتا ہے اور ہم مباہلہ سے ہر گز انکاری نہیں بلکہ اس کے لئے ہر وقت تیار ہیں.اگر مولوی محمد علی صاحب مباہلہ سے ڈرتے ہیں اور یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ باوجود ان کے مسلمان بھائیوں کو کافر کہنے کے میں پھر بھی مسلمان کا مسلمان ہی ہوں اس لئے وہ مجھ سے مباہلہ نہیں کر سکتے تو خواجہ کمال الدین صاحب نے صریح طور پر ہم پر کفر کا فتوی دیا ہے اور اپنے متعدد لیکچروں میں ہم سے اصولی اختلاف ہونے کا اعلان کیا ہے انکو میرے مقابلہ میں لے آؤ اور مباہلہ کے لئے تیار کرو.میں ان سے مباہلہ کرنے کے لئے بھی تیار ہوں کیونکہ ان کی نسبت بھی میں جانتا ہوں کہ ایک جماعت میں ان کو رسوخ حاصل ہے.پس ان کے مباہلہ کا اثر ایک جماعت پر پڑ سکتا ہے.اب ان تمام باتوں کے بعد آپ لوگ مولوی محمد علی کی طرح یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بددعا کیوں کریں.اگر ہماری دعائیں خدا تعالیٰ کے حضور اتنی ہی قبول ہیں تو دعا ہی کیوں نہ کریں کہ آپکو ہدایت ہو کیونکہ اس قول آپ میری بات پر اعتراض نہیں کریں گے بلکہ قرآن کریم پر اعتراض کریں گے کیونکہ مباہلہ اگر ایسا ہی فضول ہے تو قرآن کریم نے رسول کریم کو اسکی تلقین کیوں کی.کیا نعوذ باللہ رسول کریم کی دعائیں قبول نہیں ہوتی تھیں کہ مخالفوں کو تباہی کے لئے مباہلہ کا دیا.پس جبکہ رسول کریم یے جیسا انسان جسکی دعا ئیں خاص طور پر قبول ہوتی تھیں.کسی ضرورت کے لئے بجائے اپنے مخالفوں کی ہدایت کی دعائیں کرنے کے ان سے مباہلہ کرنے پر مجبور ہوا تھا تو آپ لوگوں کی دعا ئیں اس برگزیدہ خدا سے زیادہ قبولیت کا درجہ نہیں رکھتیں کہ اب آپ مباہلہ کے ہتھیار سے مستعفی ہو گئے ہیں اور بجائے اس کے کہ اپنے مخالف سے مباہلہ کرکے فیصلہ کریں آپ یہ کر سکتے ہیں کہ دعا کر کے اسے راہ ہدایت پر لے آئیں.(یہ پہلو جو میں نے بیان کیا ہے.مولوی صاحب کی تحریر کا ایک پہلو ہے کیونکہ ان کی تحریر کے دوسرے معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مباہلہ ہم کیوں کریں.اگر ہماری دعائیں ایسی ہی قبول ہوتی ہیں تو کیوں نہ تمہارے لئے دعا کریں کہ تم کو ہدایت ہو یعنی ہماری دعائیں تو قبول ہی نہیں ہوتیں تو ہمیں مباہلہ کرنے کی کس طرح جرات ہو.اگر دعائیں قبول ہوتیں تو بجائے مباہلہ کے تمہارے لئے دعا کرتے) میں آخر میں یہ بھی اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی ایسا شخص جو کسی جماعت کا لیڈر نہ ہو یا جو کسی

Page 415

م جلد.۳۸۸ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید جماعت میں مسلم اثر نہ رکھتا ہو تو وہ اس طرح کر سکتا ہے کہ اپنی طرف سے اعلان مباہلہ کر دے جیسا کہ حضرت صاحب نے اپنے مخالفوں کو اجازت دی تھی کہ اگر وہ چاہیں تو اپنی طرف سے اعلان مباہلہ کر دیں اور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین رکھتا ہوں کہ ایسا شخص بھی اگر تو بہ نہ کرے گا تو عذاب الہی سے محفوظ نہیں رہے گا.لیکن دو طرفہ مباہلہ میں تب ہی کر سکتا ہوں جبکہ میرے مقابلہ میں کوئی ایسا شخص ہو جو یا تو کسی جماعت کا لیڈر ہو یا مثل لیڈر کے ہو.ان واضح اور آسان طریقوں کے معلوم کرنے کے بعد بھی اگر آپ لوگ مقابلہ سے جی چرائیں تو ی ہماری طرف سے آپ پر حجت ہو چکی ہے پھر آپ کا معاملہ خدا سے ہو گا اور راستی پسند طبائع خود فیصلہ کرلیں گی کہ کون حق پر ہے اور کون فریب کے ساتھ اپنی جان بچانا چاہتا ہے.مباہلہ کے متعلق جو اعتراض مجھ پر کیا گیا ہے اس کا جواب دینے کے بعد میں الزامات کے جواب دینے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں جن کو پیغام صلح نے سوالات کے رنگ میں شائع کیا ہے.اول.یہ الزام ہے کہ باوجود انجمن کی مالی حالت کے کمزور ہونے کے اور تخفیف کے سوال کے در پیش ہونے کے کیا میں نے عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کو ایک سو روپیہ ماہوار پر ہائی سکول کا پرنسپل مقرر کیا ہے.سو اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اس وقت انجمن کے سامنے مالی مشکلات ہیں اور اس کے متعلق حضرت مسیح موعود کے مخلصین سے چندوں کی تحریکیں بھی کی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت ہندوستان اور باہر کے بلاد میں تبلیغ اسلام و سلسلہ احمدیہ زور شور سے جاری ہے اور اس کا لازمی نتیجہ اخراجات کی زیادتی ہے جس کے لئے جماعت کو واقف رکھنے کے لئے اور انہیں ان ضروریات کے پورا کرنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے وقتاً فوقتاً تحریکوں کا کیا جانا ضروری ہوتا ہے اور اس پر بھی ہمیشہ غور ہوتا رہتا ہے کہ ایسی مدات خرچ جن کو بند کرنے سے چنداں نقصان نہیں ہوتا ان کو بند کر دیا جائے لیکن پھر بھی یہ بات نہیں کہ اس وقت ان دنوں سے زیادہ مالی مشکلات ہیں جو اس وقت تھیں جبکہ مولوی محمد علی صاحب نے اس کام کو ترک کر کے لاہور کی اقامت اختیار کرلی تھی اس وقت بھی مالی حالت ویسی ہی ہے بلکہ اس سے عمدہ ہے جیسی کہ اس وقت تھی لیکن چونکہ اخراجات تبلیغ زیادہ ہو گئے ہیں.اس لئے تنگی معلوم ہوتی ہے اور وہ تنگی بھی کوئی تنگی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک ایسی مخلص جماعت عطا فرمائی ہے جو دین کے لئے اپنے اموال کو

Page 416

۳۸۹ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید پانی کی طرح بہا دینے میں دریغ نہیں رکھتی اور خدا تعالیٰ سے مجھے یقین ہے کہ یہ تنگی کی حالت بہت جلد جاتی رہے گی.باقی رہا یہ سوال کہ ایسے وقت میں عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کو کیوں سو روپیہ ماہوار پر سکول کا پرنسپل مقرر کیا گیا ہے تو بات یہ ہے کہ ہیڈ ماسٹر نے یہ تجویز میرے سامنے پیش کی تھی کہ پرنسپل کی ایک اسامی سکولوں میں ہوتی ہے اور اس کی ایڈ بھی ملتی ہے.یہاں بشیر احمد صاحب کو اگر اس پر مقرر کر دیا جائے تو امید ہے کہ سکول کو بہت فائدہ ہوگا اور انتظام میں بھی تقویت ہو جائے گی لیکن میں نے ان کی اس تجویز کو منظور نہیں کیا اور یہی جواب دیا کہ اس وقت خرچ کی آگے ہی زیادتی ہو رہی ہے.ایک ایسے خرچ کو بڑھانا جو خواہ مفید ہی ہو لیکن ضروری نہیں میں پسند نہیں کرتا.اس کے بعد ہیڈ ماسٹر صاحب نے یہ تجویز کی کہ چونکہ میری صحت خراب رہتی ہے اس لئے میاں بشیر احمد صاحب کو ہیڈ ماسٹر مقرر کر دیا جائے اور مجھے کسی اور کام پر لگا دیا جائے یا مدرسہ میں ہی بحیثیت استاد کام لیا جائے تا بوجھ کی کمی سے میری صحت میں ترقی ہو لیکن میں نے اس بات سے بھی اس بناء پر انکار کر دیا کہ اگر انکو کام زیادہ ہے تو حسب قاعده مدارس استاد پورے رکھیں اور اپنے اتنے گھنٹے خالی رکھیں جتنے کہ سرکاری طور خالی رکھنے کا انکو حکم ہے (اس وقت وہ کمال دیانت داری اور اخلاص کی وجہ سے اپنی جان پر ظلم کر کے اس قدر گھنٹے پڑھاتے ہیں کہ انتظامی امور کا بار پڑکر ان کی صحت کو صدمہ پہنچ گیا) لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ ایک سابق اور تجربہ کار کارکن کو درجہ میں کم کر کے اس کی جگہ اور شخص مقرر کر دیا جائے ہاں اگر استاد کی ضرورت ہے تو میاں بشیر احمد کو سکول میں لگا لیا جائے لیکن ان کے لئے کوئی نیا عہدہ نہ نکالا جائے اور اس بات کو میں نے بار بار دہرایا کہ ان کے لئے نیا عہدہ نہ نکالا جائے.ہاں اگر واقعہ میں ضرورت ہو تو میں پسند کرتا ہوں کہ بجائے باہر کسی مقام پر ملازمت کرنے کے وہ یہیں رہیں.اس پر ایک دوست نے ان دوستوں میں سے جن کے زیر غور یہ معاملہ تھا مجھے اطلاع دی کہ سکول میں اس وقت استاد کی ضرورت ہے اور اگر اجازت ہو تو ان کو سکول میں لگایا جائے جس پر میں نے اجازت دی اور سکول کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ گو اس وقت دوسری مدات میں تنگی ہے لیکن سکول میں نہیں ہے.کیونکہ سکول میں اب اس قدر طلباء تعلیم پاتے ہیں کہ جن کی فیسوں اور سرکاری ایڈ سے جماعت کا چندہ ملکر اسکے اخراجات کے لئے کافی ہوتا ہے بلکہ بعض وقت ضرورت سے بڑھ جاتا ہے اور چونکہ اس میں سرکاری مدد ملتی ہے اس لئے اس کے سٹاف کو مضبوط رکھنا نہایت ضروری ہے اور پچھلے دنوں

Page 417

م جلد ۳۰ ۳۹۰ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید سکول سے تین گریجوایٹ باہر چلے گئے ہیں.قاضی عبداللہ صاحب بی.اے بی ٹی.صوفی غلام محمد صاحب بی اے ٹرینڈ - ماسٹر عبدالرحمن صاحب بی.اے ٹرینڈ.پس ان تین استادوں کے جانے کے بعد سکول کے سٹاف کو مضبوط کرنا نہایت ضروری تھا.پس اگر اس صورت میں بجائے اس کے کہ کوئی استاد باہر سے منگوایا جاتا.عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کو ہی سکول میں لگا لیا جائے تو اس میں کون سی قباحت ہے.اگر کوئی استاد باہر سے آتا تو کیا اس کا بوجھ نہ ہو تا یا وہ مفت کام کرتا اور کھانے پینے سے بالکل مستغنی ہو تا.اگر اس شخص نے بھی باہر سے آکر تنخواہ لینی تھی تو کیوں میاں بشیر احمد صاحب کو ہی جو سکول میں دو تین سال سے کچھ وقت کے لئے کام کرتے ہیں اس کام پر نہ لگایا جاتا.اپنے لیڈروں سے دریافت کرو حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول نے مسجد مبارک کے پاس کے کمرہ میں جہاں اس وقت مولوی محمد علی صاحب رہتے تھے.اجلاس صدر انجمن کے دوران میں آکر فرمایا تھا کہ حضرت مسیح موعود کا ایک الہام ہے کہ آپ کے خاندان کو اڑھائی سو روپیہ ماہوار خرچ کے لئے دیا جائے.جس پر آپ کے فرمانے کے مطابق عمل ہو تا تھا.عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کو نوے روپے ملتے تھے اب اگر سو روپیہ ملتا ہے تو تینتیس روپیہ گورنمنٹ کی ایڈ ملے گی جس صورت میں انجمن کو صرف ستاسٹھ روپے دینے پڑتے ہیں.اگر اس پہلی رقم کو مد نظر رکھا جائے جو الہام کے ماتحت ان کو ملتی تھی تو صرف سات روپیہ زیادہ ہر مہینہ میں انجمن کو دینے پڑتے ہیں کیونکہ ساٹھ روپے اس الہام کے ماتحت دیئے جاتے تھے تو اب انجمن کے خزانہ سے صرف سات روپے زیادہ دینے پڑے.پس اس سات روپیہ کی زیادتی سے انجمن کے سر پر کس قدر بوجھ پڑ جاتا ہے جس کے لئے تم کو اسقدر شور کرنے کی ضرورت پیش آئی.اور کیا تم خیال کرتے ہو کہ اگر عزیزم میاں بشیر احمد صاحب کہیں باہر جاکر ملازمت کرتے تو انکو اس قدر تنخواہ کی ملازمت نہ مل سکتی تھی؟ ہمارا خاندان خدا تعالیٰ کے فضل سے دنیاوی طور پر بھی معزز ہے اور گورنمنٹ کی خدمات نیک کرتا رہا ہے جس کے صلہ میں ہمارے خاندان کے آدمیوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ماتحت ملازمتیں مل سکتی ہیں.ابھی دو سال ہوئے ہیں کہ مرزا عزیز احمد صاحب ایم.اے کو ای.اے.سی کے لئے نامزد کیا گیا تھا لیکن بوجہ بعض عذرات کے اس وقت امتحان میں شامل نہ ہو سکے تو چونکہ انکی عمر زیادہ ہو گئی تھی وہاں تو ان کو نہ لیا گیا لیکن تحصیلدار نامزد کیا گیا کہ جس عہدہ کی تنخواہ بھی معقول ہے پس عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کو اگر سکول میں سو روپیہ ماہوار دیا گیا تو

Page 418

انوار العلوم جلد ۳۹۱ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید زیادہ تنخواہ نہیں وہ باہر اچھی ملازمت کر سکتے تھے وہ ایم.اے پاس ہیں اور ذہین و ہوشیار ہیں جوڈیشل سروس کے علاوہ کالج کی نوکری بھی کر سکتے ہیں اور پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مولوی محمد علی صاحب ایم.اے ابھی اس وقت جبکہ انجمن کی حالت موجودہ حالت سے بہت کمزور تھی ریویو کی ایڈیٹری کے لئے سو روپیہ ماہوار پر ہی قادیان آئے تھے گو ایک مدت تک ان کے حسابات میں بیس روپیہ ماہوار تنخواہ دکھائی جاتی رہی ہے.غرض یہ الزام جو پیغام صلح نے لگایا ہے اس کا ایک حصہ تو جھوٹ ہے اور دوسرا حصہ کوئی الزام نہیں اگر عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب اس جگہ کام کرنا منظور کریں تو اس میں انجمن کا نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے اور بہت کم خرچ پر اس کو ایک نہایت لائق استاد مل جاتا ہے.اور یہاں کی رہائش کو منظور کرنا ان کی قربانی ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ اپنی لیاقت اور خاندانی خدمات کی وجہ سے عمدہ سے عمدہ ملازمت حاصل کر سکتے ہیں جہاں ان کو ہزار بارہ سو روپیہ ماہوار تک ترقی کرنے کی امید ہو سکتی ہے.اور ان کے سکول میں تقرر پر اعتراض کرنے کا باعث سوائے کینے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا.اگر وہ اس کے باوجود نہیں لگائے جاتے تو کوئی اور لگایا جاتا یا سکول کو بند کر دیا جائے اور تمام گھروں کو چلے جائیں.دوسرا الزام یہ ہے کہ ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے امر تسر اور اجنالہ کے درمیان موٹر ایجنسی قائم کی ہے سو یہ الزام مجھ پر نہیں خلیفہ صاحب پر ہے میں اس کی نسبت صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ یہ بات میں نے اب پیغام میں دیکھی ہے ڈاکٹر صاحب اگر قادیان میں ہوتے تو اس کا جواب وہ خود دیتے وہ اس وقت ڈلہوزی ایک ضروری کام پر گئے ہوئے ہیں وہاں سے واپسی پر وہ خود جواب دیں گے میں اس وقت بحكم آيت إِذَا جَاءَ كُمْ فَاسِقٌ بِنَبَأَةُ فَتَبَيَّنُوا اور لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ صرف اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ اصل جواب تو وہ خود دیں گے مگر میں اس الزام کو سراسر جھوٹ اور افتراء یقین کرتا ہوں اور زیادہ سے زیادہ اگر حسن ظنی سے کام لوں تو کہہ سکتا ہوں کہ شاید کوئی اور رشید الدین ہو جس نے وہ ایجنسی قائم کی ہو اور تم نے اس سے خلیفہ صاحب کو سمجھ لیا ہو لیکن زیادہ قرین قیاس تو یہی ہے کہ یہ بات تم نے اپنی طرف سے افتراء کر کے اڑائی ہے.تیسرا الزام مجھ پر یہ لگایا گیا ہے کہ کیا میں نے اٹھارہ ہزار روپیہ کی کوئی زمین خریدی ہے اور اگر کوئی ایسی زمین خریدی ہے تو وہ روپیہ کہاں سے آیا.امر اول کا جواب یہ ہے کہ بے شک

Page 419

دار العلوم جلد ۳۰ ނ ۳۹۲ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید میں نے اپنے خاندان کے چند افراد سمیت اٹھارہ ہزار کی زمین خریدی ہے لیکن غیر مبائعین کا اس پر خوش ہونا اور یہ خیال کرنا کہ ہمیں اعتراض کا ایک موقع مل گیا درست نہیں بلکہ باوجود اس واقعہ کے پھر بھی ان کو اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ گویہ زمین اٹھارہ ہزار روپیہ کو خریدی گئی ہے.لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک لحاظ سے یہ زمین مفت ہی آئی ہے.اصل بات یہ ہے کہ مرزا محمد اکرم بیگ صاحب نے اپنی مملوکہ اراضی واقعہ قادیان میں پچھلے سال ۷۵ گھماؤں اراضی ایک سکھ رئیس کے پاس فروخت کی تھی چونکہ قادیان میں اس وقت تک سب ملکیت اراضی یا ہمارے خاندان کے پاس ہے یا مرزا اکرم بیگ صاحب کے پاس کہ ان کا بھی ہمارے خاندان کی ایک شاخ سے رشتہ داری کا تعلق ہے ایک غیر مذہب کے شخص کے پاس زمین کا فروخت ہو جانا ہماری جماعت کے لئے بہت سی تکالیف کا باعث تھا.چنانچہ اسی دن سے کہ یہ زمین فروخت ہوئی قادیان کے سکھوں اور ہندوؤں میں ایک جوش پیدا ہو گیا تھا اور ان میں سے بعض بلا وجہ ہماری جماعت کو تکلیف دینے لگ گئے تھے اور موقعہ تلاش کر کر کے فساد کھڑا کرتے تھے کیونکہ ان کو یہ دلیری ہو گئی تھی کہ اب ہم بطور رعایا کے نہیں بلکہ قادیان کی ملکیت میں ہمارا بھی حصہ ہے.اور اب یہاں ایک ہندو مالک بھی ہے.اس سے پہلے ان لوگوں کو فساد سے روکنے کا ایک باعث یہ بھی تھا کہ ہندوؤں کا قادیان کی زمینوں پر مالکانہ قبضہ نہ تھا.اور وہ بطور مزارعہ یا موروثی زمینوں پر قابض تھے.چنانچہ جب کبھی حضرت مسیح موعود کے وقت ان لوگوں نے فساد کیا بھی تو حکام نے اس امر کی بناء پر ان کو بہت کچھ ملزم کیا اور وہ ہمیشہ شرمندہ ہوتے رہے لیکن اب صورت معاملہ کے بدل جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کو فساد کا موقعہ مل گیا تھا.جس وقت یہ زمین فروخت ہوئی ہے اسی وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈال دی تھی کہ اس قسم کا خطرہ پیدا ہونا اس فروخت سے ممکن ہے.اسی طرح جماعت کی ضروریات کے لئے زمینوں کے ملنے میں بھی یہ سودا بعض وجوہات سے روک ثابت ہونے والا تھا پس سب باتوں پر غور کر کے میں نے جماعت کے بعض دوستوں سے تحریک کی کہ چونکہ ہمیں حق شفعہ حاصل ہے ہم اس زمین کو خرید لیتے ہیں.پھر دوست ہم سے آگے خرید لیں.ایک حصہ ہم لے لیں گے تاکہ حق شفعہ بھی قائم رہے اور زیادہ حصہ مختلف دوست اصل قیمت پر ہم سے خرید لیں.لیکن شرط یہ ہوگی کہ روپیہ پیشگی دیں کیونکہ ہمارے پاس روپیہ نہیں کہ پہلے اسے چھڑوائیں اور پھر فروخت کریں.اس پر بعض دوستوں نے روپیہ جمع މ

Page 420

انوار العلوم ۳۹۳ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید بھی کروایا اور قریباً اڑھائی ہزار روپیہ جمع ہوا لیکن چونکہ یہ زمین مکانات کے تو قابل نہ تھی صرف زراعت کے کام آسکتی تھی.اور تھوڑی تھوڑی زمین پر زراعت کرنے والوں کو کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا تھا اس لئے اس طرف بہت کم لوگوں کی توجہ ہوئی اسے بھی لوگوں نے اپنی ضروریات کے لئے واپس لینا شروع کر دیا.اور کل چار سو روپیہ باقی رہ گیا.ادھر تو زمینداری کے لئے زمین خریدنے کے لئے لوگ تیار نہ تھے یا کم سے کم مجھ سے کسی نے درخواست نہیں کی بلکہ پہلا جمع شدہ روپیہ بھی واپس لے رہے تھے ادھر قادیان کے امن کا یہ حال تھا کہ بعض لوگ پے در پے شرارت کرتے اور فتنہ کھڑا کر رہے تھے.اور اس میں اس زمین کی فروخت بھی ایک وجہ تھی اس لئے مجھے بہت فکر ہوئی کہ جس طرح ہو سکے یہ زمین واپس لی جائے اور میں نے یہ تجویز کی کہ اگر اس کے لئے یوں روپیہ جمع نہیں ہو سکتا تو ہم اپنی پہلی اراضی کا ایک حصہ یا کل جیسی ضرورت ہو گروی رکھ کر روپیہ حاصل کریں اور اس زمین کو چھڑوالیں.چنانچہ اسی امید پر شیخ ممتاز احمد صاحب بیرسٹرایٹ لاء گورداسپور کو جو باوجود غیر احمدی ہونے کے مجھ سے اس قدر اخلاص اور شرافت رکھتے ہیں کہ تم غیر مبائعین سے ان کو نسبت دینا بھی میں انکی ہتک سمجھتا ہوں میں نے کہلا بھیجا کہ وہ اس سکھ سردار سے اس زمین کے متعلق سودا کریں اور کوشش کریں کہ رقم تحریر شدہ سے وہ کچھ کم کردیں کیونکہ جیسا کہ مجھے معتبر ذرائع سے معلوم ہوا تھا زمین کی اصل قیمت پندرہ ہزار تھی.لیکن حق شفہ کے خوف سے اسکی قیمت پونے انیس ہزار لکھوائی گئی تھی.اس گفتگو سے صرف اس قدر کامیابی ہوئی کہ خریدار زمین نے ساڑھے سات سو روپیہ کم کر کے اٹھارہ ہزار روپیہ پر زمین بلا مقدمہ واپس کر دینے کا وعدہ کیا.اب میعاد شفعہ میں وقت تھوڑا رہ گیا تھا اور روپیہ کا اب تک کوئی انتظام نہ ہوا تھا اس لئے میں نے پھر شیخ مختار احمد صاحب بیرسٹرایٹ لاء کو کہلا بھیجا کہ وہ بھی کوشش کریں کہ ہماری جدی زمینوں کا کوئی حصہ رہن ہو جائے اور اسی روپیہ سے اس اراضی کی قیمت ادا کر دی جائے لیکن ان کو بھی اس کوشش میں کامیابی نہ ہوئی اور انہوں نے مجھے کہلا بھیجا کہ آپ کسی طرح چھ ہزار روپیہ کا بندو بست کر دیں میں بقیہ بارہ ہزار کچھ عرصہ کے لئے آپ کو قرض لے دوں گا چنانچہ اس تحریک پر میں نے پھر کوشش کی اور ایک تو والدہ صاحبہ کو تحریک کی کہ وہ اپنا زیور فروخت کر کے اس زمین کی خرید میں حصہ لیں چنانچہ گو والدہ صاحبہ نے وہ زیور بہ نیت حج رکھا ہوا تھا.لیکن اس خیال سے کہ یہ ضرورت بھی ایک دینی ضرورت ہے اور اس امید پر کہ بعد میں آہستہ

Page 421

انوار العلو دم -جلد ۳۹۴ پیغام صلح کے چند افرامات کی تردید آہستہ زمین فروخت کر کے پھر روپیہ واپس مل جائے گا اس بات کو منظور فرمالیا اور ساڑھے بائیس سورد پہیہ ان سے ملا.اسی طرح اپنی دونوں بیویوں کو بھی میں نے تحریک کی اور انہوں نے اپنے زیور فروخت کر کے اور کوئی اڑھائی سو روپیہ اپنے مہروں سے ڈال کر پندرہ سو روپیہ دیا.باقی ساڑھے بائیس سو روپیہ میں نے بعض ایسی امانتوں میں سے جن کے رکھنے والوں نے مجھے اجازت دی ہوئی ہے کہ میں جہاں چاہوں ان کا روپیہ خرچ کر سکتا ہوں.اور وہ اپنی ضرورت کے وقت لے لیں گے دیا اور اس طرح چھ ہزار روپیہ پورا کر کے گورداسپور بھیجا گیا.زیور لاہور اور امرتسر میں فروخت ہوا چاہو تو ان دونوں کے پتہ اور ان آدمیوں کے نام بھی لکھے جاسکتے ہیں کہ جہاں اور جنگی معرفت وہ زیور فروخت ہوا.زیور کے علاوہ جو ساڑھے بائیس سو روپیہ دیا گیا وہ بھی ایک چیک کے ذریعہ جو ڈاکٹر فضل کریم صاحب ممباسہ کا تھا اور میرے پاس انہوں نے بطور امانت بھیجا تھا اور اجازت دی تھی کہ میں اسے ضرورت پر خرچ کر سکتا ہوں لاہور سے ہی منگوالیا تھا اس کی نسبت بھی لاہور سے ہی پتہ لیا جا سکتا ہے بقیہ بارہ ہزار روپیہ کے متعلق شیخ مختار احمد صاحب بیرسٹر جو اس وقت اپنے بھائی شیخ محمد عمر صاحب کے ساتھ (جو امر تسر کے ایک مشہور وکیل ہیں) شملہ گئے ہوئے ہیں دریافت کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ایک ماہ کے وعدہ پر یہ روپیہ دیا ہے جس کی میعاد ستمبر کے اخیر میں ختم ہوتی ہے اور اس عرصہ میں وعدہ کے مطابق رقم ادا کر دینے کا خدا تعالیٰ نے یہ بندوبست فرما دیا ہے کہ جماعت کے چند مخلصین نے کچھ عرصہ کے لئے یہ رقم بطور قرض دینے کا وعدہ کیا ہے چنانچہ میاں نبی بخش صاحب سوداگر پشمینہ نے جو حضرت مسیح موعود کے نہایت دیرینہ مخلصین میں سے ہیں اس روپیہ میں سے جس قدر روپیہ کی ضرورت ہو چند ماہ کے لئے ادا کر دینے کا وعدہ کیا ہے اور ساڑھے تین ہزار روپیہ وہ بھیج بھی چکے ہیں میاں محمد طفیل و میاں فضل حق صاحبان بٹالہ نے ایک ہزار روپیہ اس کام کے لئے دیا ہے اور شیخ رحمت اللہ صاحب سب ڈویژنل افسر پشاور نے دو ہزار روپیہ بھیجنے کے متعلق تحریر فرمایا ہے اور ان میں سے سوائے ایک کے باقی وہ دوست ہیں جنہوں نے بلا میری طرف سے اشارہ کے ابتداء خود اس کام میں حصہ لینے کی خواہش ظاہر کی ہے.اور گو بعد میں ان سے میں نے خط وکتابت کی.لیکن ابتداء انہوں نے خود کی اور اپنے اخلاص کا ثبوت دیا ہے.اس قرضہ کی ادائیگی کے لئے بھی میں ساتھ کے ساتھ کوشش کر رہا ہوں اور ایک سکھ زمیندار نے وعدہ کیا ہے کہ وہ تو ہزار روپیہ تک کی زمین گروی رکھ لیں گے اسی طرح بعض

Page 422

ام جلد ۳۰ ۳۹۵ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید ہماری زمینیں جو ایسی جگہ پر واقع میں جہاں مکانات بن سکتے ہیں انکو فروخت کر کے ہم چند ماہ کے اندر اندر یہ قرضہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت اتار سکتے ہیں.چنانچہ پچھلے سال بھی ان زمینوں میں سے ایک حصہ چھ ہزار چار سو روپیہ کو ترجمہ القرآن کی چھپوائی اور بعض اور دینی ضروریات کے لئے اور بعض اپنی ضروریات کے لئے ہم نے فروخت کیا ہے پس اب بھی کچھ حصہ فروخت کر کے اس قرضہ کو ہم اتار سکتے ہیں.اس سب بیان کو پڑھ کر آپ لوگوں کو معلوم ہو گیا ہو گا کہ اس اٹھارہ ہزار کے سودے میں اگر نقد روپیہ کو مد نظر رکھیں تو ہمارا ایک پیسہ بھی خرچ نہیں ہوا پس اس پر آپ کا اچھلنا کودنا بالکل درست نہیں شاید آپ نے خیال کیا ہو گا کہ اس طرح مولوی محمد علی صاحب پر سے اٹھارہ ہزار روپیہ کی خیانت کا الزام دور ہو جائے گا جو ان پر ترجمہ قرآن پر قبضہ کر لینے اور کتب انجمن تصرف کر لینے سے عائد ہوتا ہے لیکن یہ درست نہیں.کیونکہ ہمارا یہ سودا بالکل جائز ذرائع سے ہوا ہے اور اس میں کسی کا ایک پیسہ بھی نہیں ہے خدا تعالٰی نے خود اس جماعت کو بعض فتن سے بچانے کے لئے اپنے فضل سے اس سودے کا سامان کر دیا.آخر میں اس قدر اور لکھ دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں ان لوگوں کو قابل خطاب نہیں سمجھتا.لیکن چونکہ یہ زمانہ دنیا کو دین پر مقدم کرنے کا زمانہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود زمانہ کے اس میلان کو دیکھ کر بیعت میں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا اقرار لیا کرتے تھے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ ان اعتراضات کا جو مالی معاملات کے متعلق ہیں جواب دیدوں تاکہ کسی آدمی کو ٹھوکر نہ لگے اور وہ بدظنی سے اپنے آپ کو ہلاکت کے گڑھے میں نہ گرالے اور یہی وجہ ہے کہ میں نے ایک ایک بات واضح کر کے لکھدی ہے تا ہماری جماعت کے کمزور طبع لوگ بھی اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ ان کے اموال میں خیانت کی جاتی ہے.میرے پاس جو روپیہ چندہ کا آتا ہے میں اسے فورا دفتر محاسب میں بھیج دیتا ہوں.اور اس سال سے تو میں نے ایک کاپی بنا چھوڑی ہے کہ جس پر درج کر کے محاسب کے دفتر سے رسید بھی لے لیتا ہوں.تا میرا دامن ہر ایک الزام سے پاک رہے جس شخص نے میرے پاس کوئی رقم بھیجی ہے وہ اس کا مطالبہ مجھ سے جب چاہے کر سکتا ہے میں اسے اس کا حساب دکھانے کے لئے تیار ہوں گو یہ میرا حق نہیں کیونکہ میں لوگوں کو نہیں کہتا کہ تم میرے پاس روپیہ بھیجو دہ کیوں براہ راست انجمن میں نہیں بھیجتے.ہاں جس رقم کو میں اپنے نام بھیجنے کو لکھوں اس کے متعلق ہر ایک شخص کا حق

Page 423

انوار العلوم جلد ۳۰ ۳۹۶ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید ہے کہ مجھ سے اپنی رقم کے متعلق تسلی کر والے لیکن کسی کے ابتلاء میں آجانے کے خوف سے میں نے ایک کاپی میں اندراج کا بھی انتظام کر چھوڑا ہے جس پر دفتر محاسب کے دستخط ہوتے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں شخص کی طرف سے اس قدر روپیہ پہنچ گیا.اور اس کے ذریعہ سے ہر ایک شخص اپنے مال کے متعلق جو میرے نام بھیجتا ہے تسلی کر سکتا ہے.میں کسی کے مال کا بھو کا نہیں نہ خلافت کا بار کسی کے اموال کے لالچ سے میں نے اپنے سر اٹھایا ہے خلافت سے پہلے بھی لوگ مجھے نذریں دیتے تھے بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت زیادہ آسودگی سے گزارہ کرتا تھا کیونکہ اس وقت میرے ذمے کوئی بوجھ نہیں تھا اب کئی حاجتمندوں کی خبر گیری مجھے کرنی پڑتی ہے جن کی مدد انجمن نہیں کر سکتی.میرے واقف جانتے ہیں کہ اس وقت میرے اخراجات اس وقت کی نسبت زیادہ وسیع ہوتے تھے میں تبلیغ کے لئے جاتا تھا اور کبھی میں نے ایک پیسہ کسی سے اپنے کرایہ وغیرہ کے لئے نہیں لیا.بلکہ اگر کوئی کچھ دیتا تھا تو اسے یا تو واپس کر دیتا یا ان ساتھ کے مبلغین پر خرچ کر دیتا جن کا خرچ انجمن کے ذمہ ہو تا تھا اور سال بھر میں یہ رقم اچھی خاصی ہو جاتی تھی مجھ پر کبھی اس کا بوجھ نہیں ہوا تھا لیکن پچھلے سال بیماری کے لئے جو مجھے لاہور جانا پڑا تو اس کے اخراجات میں سے اب تک کچھ روپیہ میرے ذمہ باتی ہے اسی طرح میں اپنے گھر کے اخراجات کو دیکھتا ہوں کہ انہیں بھی آگے کی نسبت بہت تنگی میں رکھتا ہوں.میں ہمیشہ خلافت سے پہلے علاوہ ان کے مقررہ خرچ کے خاص کپڑے وغیرہ بنوا کر دیتا رہتا تھا لیکن اس دن سے آج تک میں مقررہ خرچ کے علاوہ ان کو کچھ نہیں دے سکا حتی کہ ایک دن میری بیوی نے مجھ سے کہا کہ تم نے مدت سے مجھے تحفہ کچھ نہیں دیا میں کوئی قیمتی چیز طلب نہیں کرتی بلکہ کوئی نہایت معمولی سی قیمت کی چیز میرے دل کو خوش کرنے کے لئے بنوادو میں نے ان کا عندیہ معلوم کرنے کے لئے کہا کہ بتلاؤ کیا بنوادوں اور میں نے معلوم کرنا چاہا کہ ان کی خواہش کہاں تک جاتی ہے تو انہوں نے یہ کہا کہ میں زیادہ نہیں مانگتی ایک سادہ انگوٹھی مجھے بنوار و یہ بات سن کر میرے دل نے مجھے شرمندہ کیا کہ بے شک دو سرے مستحقین کی خبر گیری کرنا بھی ثواب ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے لیکن وَ لِزَوجِگ عَلَيْكَ حَقٌّ کا بھی ارشاد ہے تیری بیوی کا بھی تجھ پر کچھ حق ہے.غرض میں نہ صرف تمہارے اموال کے متعلق ممکن سے ممکن احتیاط برتا ہوں بلکہ جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ دیتا ہے اس میں سے ایک متعد بہ حصہ مستحق امداد لوگوں پر خرچ کر دیتا ہوں اور مجھے اس بات سے بھی انکار نہیں جو

Page 424

رالعلوم جلد ۳۰ ۳۹۷ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید کچھ لوگ مجھے تحفہ دیتے ہیں اس میں سے اپنے نفس پر بھی استعمال کرتا ہوں اور میں اس سے شرمندہ نہیں کیونکہ میرے آقا حضرت محمد اللہ بھی تحائف قبول کرتے اور خیبر کی فتح سے پہلے آپ کا گزارہ زیادہ تر انہی تحائف پر تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود بھی ہدایا کو قبول کرتے تھے لیکن اس سے زیادہ میں تمہارے اموال پر ہرگز تصرف نہیں کرتا.جس غرض کے لئے کوئی شخص مجھے روپیہ دیتا ہے اس کے لئے جمع کروا دیتا ہوں اور اگر میری مرضی پر چھوڑ دے تو میں اس روپیہ کو اکثر تو اشاعت و صدر انجمن میں ا.اور ۲- کی نسبت سے تقسیم کر دیتا ہوں ورنہ جس مد میں زیادہ ضرورت ہو وہاں جمع کروا دیتا ہوں اور بعض لوگ جو مجھے اس لئے روپیہ بھیجتے ہیں کہ میں خود جہاں چاہوں اس کو خرچ کر دوں تو ان روپوں کو مناسب ضروریات پر خرچ کر دیتا ہوں لیکن سوائے اس روپیہ کے جو مجھے میری ذات کے لئے لوگ دیتے ہیں ہرگز ایک پیسہ بھی اپنے استعمال میں نہیں لاتا اور جو شخص مجھے اس قابل خیال کرتا ہے اس پر حرام ہے کہ کبھی ایک پیسہ بھی وہ مجھے دے.میں حریص نہیں خدا تعالٰی نے مجھے بہت وسیع دل دیا ہے پھر وہ خود میری ضروریات کو پورا کرتا ہے بارہا ایسا ہوتا ہے کہ سخت تنگی کے وقت جب مجھے نظر نہیں آتا کہ میں خرچ کہاں سے دوں اور قرض لینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ فوراً کسی ایسے ذریعہ سے جو میرے واہمہ میں بھی نہیں ہوتا مجھے رزق بھیج دیتا ہے.بعض دفعہ ہندوؤں اور سکھوں سے روپیہ بھجوا دیتا ہے بعض دفعہ رویا کے ذریعہ کسی کو تحریک کر دیتا ہے چنانچہ ابھی چند ماہ ہی ہوئے ہیں کہ میرے کوٹ کے پھٹ جانے پر میری بیوی نے کہا کہ کوٹ پھٹ گیا ہے میں نے کہا دیکھو تو سہی خدا تعالی خود بند دست کرے گا اس کے چند دن بعد خان بہادر شیخ محمد حسین صاحب بی اے حج سمال کا زکورٹ کانپور کا ایک خط اور کوٹ کا کپڑا ملا جس میں انہوں نے تحریر فرمایا کہ ایک خواب کی بناء پر وہ یہ کوٹ کا کپڑا میرے لئے بھیجتے ہیں وہ ایک معزز عہدہ دار اور راستباز انسان ہیں ان سے دریافت کیا جا سکتا ہے کہ آیا یہ واقعہ درست ہے یا نہیں.روپیہ کے متعلق تو ایسے بہت سے تجارب ہوئے ہیں کہ ضرورت کے وقت بعض لوگوں کو رویا ہوئی اور انہوں نے روپیہ بھیج دیا قلبی تصرفات کی مثالیں اس سے بھی زیادہ ہیں پس جبکہ خداتعالی خود میرا کفیل اور مجھ سے زیادہ میری فکر رکھتا ہے تو مجھے کسی کے روپیہ کی کیا لالچ ہو سکتی ہے.لالچ اور حرص تو اسے ہوتی ہے جسے خطرہ ہوتا ہے کہ مجھے ضرورت کے وقت روپیہ کہاں سے ملے گا جبکہ میرا سہارا خدا تعالیٰ ہے او وہ میرے رزق کا زمہ دار ہے اور غیر معمولی ذرائع سے

Page 425

انوار العلوم جلد ۳ ۳۹۸ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید سکتا حتی کہ غیر احمدیوں ، ہندوؤں ، سکھوں اور پھر خوابوں کے ذریعہ سے مجھے رزق پہنچاتا ہے تو مجھے اپنے رزق کے لئے کیا فکر ہو سکتی ہے جو شخص مجھ پر اعتراض کرتا ہے وہ خداتعالی سے ڈرے کہ وہ نہیں مرے گا جب تک کہ اس پر بھی یہ الزام نہ لگایا جائے.میرا ضمیر اس معاملہ میں صاف ہے اور جس وقت بھی فرشتہ موت میرے پاس آجائے میں اس یقین کے ساتھ جان دے ہوں کہ خیانت یا سلسلہ احمدیہ کے اموال میں کسی قسم کی بے احتیاطی کے بغیر میں نے اس سلسلہ کے اموال کی حفاظت کی ہے اور اس دنیا کو چھوڑنا ہرگز میرے اوپر بوجھ نہیں کیونکہ میں اس دن کو عید کا دن سمجھتا ہوں جبکہ ایمان کے اوپر میرا خاتمہ ہو اور ان ذمہ داریوں سے سبکدوش کیا جاؤں پس اس دنیا کا محب نہیں بلکہ اس سے نفرت کرنے والا ہوں اور وہی شخص اس دنیا کی محبت کا الزام مجھ پر لگا سکتا ہے جس کا دل خود اس گند میں ملوث ہے میرے لئے یہ بس ہے کہ میرا خدا مجھ سے راضی ہے میرے مخالفین کے ناپاک حملوں نے نہ پہلے میرا کچھ بگاڑا اور نہ اب بگاڑ سکتے ہیں خدا تعالیٰ کی مرضی پوری ہوئی اور ہوگی اور اس کے فضل سے دنیا کے چاروں کناروں پر مجھے اور میرے اتباع کو غلبہ حاصل ہو گا اور وہ لوگ جو دشمنی کی آگ میں جل رہے یا منافقانہ طور پر میرے ساتھ ہو کر پھر ان دشمنوں کے ساتھ شامل ہیں آہستہ آہستہ ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھیں گے.ذلت ان کے استقبال کے لئے ہاتھ بڑھائے کھڑی ہے اور رسوائی ان کو بغل گیر کرنے کے لئے ہاتھ پھیلائے کھڑی ہے ابھی کچھ ہی دن ہوئے.محمد مصطفی ای تمثیلی طور پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے مجھے فرمایا ہم تیری مشکلات کو دیکھتے ہیں اور ان کو دور کر سکتے ہیں لیکن ایک دو یا دو تین کہا) سال تک صبر کی آزمائش کرتے ہیں محمد اس کی روح میری مدد کے لئے جوش مار رہی ہے.کیونکہ میرے دشمنوں نے مجھے جو اس وقت اس کا سب سے زیادہ عاشق اور سب سے زیادہ محبت رکھنے والا ہوں اور سب سے زیادہ اس کی عظمت کے قائم کرنے کا خواہشمند ہوں اس لئے محمد رسول اللہ ا کی ہتک کرنے والا قرار دیا کہ میں نے کیوں اس کی حقیقی عظمت کو قائم کیا اور اس کے اس درجہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا جو اس کی عظمت کا اظہار کرنے والا ہے.پس وہی پاک وجود بے تاب ہے کہ میری نصرت کے لئے آئے.اس سے پہلے وہ اس گھائی سے گزرتا ہوا مجھے دیکھنا چاہتا ہے جس میں سے گزرنے کے بغیر کسی شخص نے قرب الہی حاصل نہیں کیا پس میرے دن عید ہیں اور راتیں لیلتہ القدر ہیں کہ محمد رسول اللہ لال کو بھی میری فکر ہے اور میں اپنے دشمنوں کے حملوں پر

Page 426

أنوار العلوم جلد - ۳ ۳۹۹ پیغام صلح کے چند الزامات کی تردید.گھبراتا نہیں کیوں کہ جس قدر سخت وہ حملہ کریں گے اتنی ہی جلدی مجھے اس محبوب رب العالمین کی روح مبارک سے فیضان خاص حاصل کرنے کا اور دعائے خاص: سے حصہ لینے کا موقعہ ملے گا پس اے میرے دشمنو! تم حملہ کرو اور جس قدر چاہو کرو مجھے جس کی پرواہ تھی وہ مجھ سے خوش ہے میں تمہارا بھی شکر گزار ہوں کہ اگر تمہارے بے رحمانہ حملے نہ ہوتے تو ایک غلام کو یہ فخر ہر گز حاصل نہ ہو تا کہ مالک اس کے گھر تشریف لا تا اور ایک خادم یہ رتبہ کس طرح نصیب ہو تا کہ آقا اس کی آنکھوں کو اپنے نور سے روشن کرتا.واخِرُ دَعُو سَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ کوبه

Page 427

Page 428

انوار العلوم جلد - ۳ متفرق امور تقریر بر موقع جلسه سالانه ۱۹۱۶ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 429

۴۰۲

Page 430

انوار العلوم جلد ۲۳ بسم الله الرحمن الرحیم ۴۰۳ محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم تقریر حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی جو ۲۷ دسمبر ۱۹۱۷ء کے سالانہ جلسہ پر ہوئی ن و لقد فتنا ا اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولَهُ اما بَعْدُ فَاعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الم و أَحَسِبَ النَّاسُ أنْ تُتْرَكُوا اَنْ تَقُولُوا امَنَّا ) و هم الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَذِبِينَ أَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ يَعْمَلُونَ السَّاتِ أَنْ تَسْبِقُونَا ، سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ ، مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ اللَّهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللهِ لَاتِ ، وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ، وَ مَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ ، إِنَّ اللهَ لغَنِيُّ عَنِ الْعَلَمِيْنَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ وَ لَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ (العنکبوت ( تا ۸) میں نے قرآن کریم کی کچھ آیتیں آپ لوگوں کے سامنے پڑھی ہیں.عام مسلمانوں میں رسول کریم سے بعد اور دوری کی وجہ سے قرآن کریم کی عظمت نہیں رہی اور اس وجہ سے انہوں نے عام طور پر سمجھ لیا ہے کہ قرآن کریم ایک جادو اور ٹونے کی کتاب ہے اس لئے جس طرح ایک مشرک اور بت پرست کچھ بنے بنائے لفظ اور گھڑے گھڑائے فقرے پڑھتا ہے اور نہیں جانتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور نہیں سمجھتا کہ ان کے کہنے کی کیا غرض ہے اور ان الفاظ کا کیا مطلب ہے اسی طرح آج کل کے مسلمان کرتے ہیں.انہوں نے سمجھ رکھا ہے کہ قرآن کریم جادو اور ٹونے کے لئے آیا تھا اس لئے اس کی کوئی آیت لکھ کر باندھ لینا یا عمدہ عمدہ غلافوں میں لپیٹ کر گھر میں رکھ چھوڑنا کافی ہے.میں نے یہ آیات اس رنگ میں نہیں پڑھیں

Page 431

۴۰۴ p.انوار العلوم جلد.کیونکہ میں قرآن کریم کو جادو یا ٹونے کی کتاب نہیں سمجھتا بلکہ خدا تعالی کا کلام سمجھتا ہوں.قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا مکتوب ہے جو بندوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور اس شہنشاہ کا جو بادشاہوں کا بادشاہ اور شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے اپنی مخلوق اور مملوک کی طرف اعلان نکلا ہے.پس اس کی ایک یا دو آیتیں پڑھنا یا اس کا کوئی حصہ سنانا یا پڑھنا یہ نہیں کہ جادو یا ٹونے کے طور پر ہے بلکہ اس کی غرض اور مدعا یہ ہے کہ اس کا مطلب سمجھو اور اس پر عمل کرو.میں نے دیکھا ہے گلیوں میں بعض ڈھنڈورا دینے والے جب کسی معمولی سی بات کا ڈھنڈورا دیتے ہیں مثلا یہی کہ کوئی دوکان نیلام ہوتی ہے تو لوگ گھروں سے باہر نکل کر یا کھڑکیاں کھول کر بڑے غور سے اس آواز کو سنتے اور سمجھتے ہیں.اور اگر بادشاہ یا کسی بڑے حاکم کی طرف سے اعلان ہو تو اس کے معلوم کرنے کے لئے اس بے تابی سے دوڑے جاتے ہیں کہ گویا ان کی زندگی کا دارو مدار ہی اس کے معلوم کرنے پر ہے.مگر افسوس اور بخت افسوس کہ اس شہنشاہوں کے شہنشاہ کی طرف سے ایک اعلان آتا ہے جو ان کا ضامن اور مالک ہے.لیکن بہت کم ہیں جو اس کے سمجھنے اور سمجھ کر عمل کرنے کی طرف توجہ کرتے ہیں.میں نے جو قرآن کریم کی آیات اس وقت پڑھی ہیں جادو اور ٹونے کے رنگ میں نہیں پڑھیں.میں نے ایک دفعہ رویا دیکھی کہ ایک اعلان ہے جو اسی طرح کا ہے جس طرح کا بادشاہوں کی طرف سے شائع ہوتا ہے اور دو صفحہ ہے پہلے تو اس اعلان کے مجھے الفاظ بھی یاد تھے لیکن اب مفہوم ہی یاد رہ گیا ہے.اس میں لکھا تھا کہ اے لوگو جبکہ تم دنیا کے ادنی اونی حاکموں کی طرف سے شائع ہونے والے اعلان کی طرف فورا توجہ کرتے ہو اور اس وقت تک تمہیں چین نہیں آتا جب تک کہ معلوم نہیں کر لیتے کہ کیا اعلان ہو رہا ہے تو میں جو تمام حاکموں کا حاکم ہوں میری طرف سے جو اعلان شائع ہوا ہے اس کی طرف تم کیوں توجہ نہیں کرتے.گویا خدا تعالیٰ نے یہ اعلان میرے پاس بھیجا ہے کہ میں اسے شائع کر دوں.اسی طرح مجھے ایک اور رویا دکھایا گیا کہ وہ بھی خدا تعالیٰ کے کلام کی عظمت اور شان کے متعلق ہی تھا.اس رویا میں مجھے انگریزی کا ایک فقرہ بتایا گیا میں تو بہت انگریزی نہیں کی جانتا اس لئے شاید اس کے یاد رکھنے میں مجھ سے غلطی ہو گئی ہو.مگر وہ ایسا شاندار ہے کہ اب تو تک مجھے یاد ہے اور کم سے کم اس کے اکثر الفاظ وہی ہیں.جو مجھے رویا میں سنائے گئے کوئی میرے کان میں کہتا ہے Hearken I tell thee in thy ears that the earth would be shaken for three to one they dont care for me for a thread.

Page 432

دم جلد ۳۰ ۴۰۵ "three to one" کا یہ مطلب ہے کہ جس طرح شرط میں جس کو زیادہ یقین ہوتا ہے.وہ اپنی بات کی تائید میں دوسرے کی تھوڑی رقم کے مقابلہ میں زیادہ رقم شرط کے طور پر رکھنے کے لئے تیار ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اپنی بات پر زور دینے کے لئے اس فقرہ کو استعمال فرماتا ہے.لیکن اس رویا کے دیکھنے کے وقت مجھے اس جملہ کے معنی معلوم نہ تھے.میں اس وقت سفر میں تھا.جب یہاں آیا تو انگریزی خواں احباب سے اس کے معنی پوچھے انہوں نے کہا کہ ہمیں تو معلوم نہیں.لیکن کچھ عرصہ کے بعد میں نے یہی محاورہ ایک انگریزی اخبار میں پڑھا.ولایت میں گھوڑوں پر شرط لگاتے ہیں کہ اگر ہمارے گھوڑے سے فلاں گھوڑا جیت گیا تو ہم ایک کے مقابلہ میں تین دیں گے یا اس طرح کچھ اور.غرض اس رؤیا کا مطلب یہ کہ میرے کان میں آواز آئی کہ سُن میں تیرے کان میں تجھے ایک بات بتاؤں.اور وہ یہ کہ زمین ہلائی جائے گی.(یہ سات آٹھ سال کا رویا ہے ممکن ہے اس سے مراد موجودہ جنگ ہی ہو) کیونکہ لوگ میرے کلام کو بالکل چھوڑ چکے ہیں.اور میں اس بات پر شرط لگانے کے لئے بھی تیار ہوں کہ اگر کوئی میرے مقابلہ میں ایک چیز پیش کرے.تو میں اس سے تگنی پیش کر دوں گا کہ لوگ میری اتنی بھی پرواہ نہیں کرتے جتنی تاگے کی.تو میں نے یہ آیتیں رسم کے طور پر نہیں پڑھیں.میں تو بیمار ہوں.اور ایک ایک منٹ بلکہ ایک ایک سیکنڈ کے بعد کھانسی آتی ہے.اور قریباً ایک ماہ سے یہی حالت ہے.پس میں جو اس حالت میں آپ لوگوں کے سامنے کھڑا ہوا ہوں بلاوجہ کھڑا نہیں ہوا.بلکہ میں ایک بات کہنی چاہتا ہوں.مگر اس سے پہلے چند ایک اور باتیں ہیں جو بیان کر دیتا ہوں ان کے بیان کرنے کے بعد ان آیات کا مطلب اور منشاء بتاؤں گا.پہلی بات جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں.اسے غیرت سمجھو یا اس احساس کا چند متفرق باتیں نتیجہ کہ ہر ایک انسان چاہتا ہے کہ میں بری کیا جاؤں.حضرت یوسف علیہ السلام کو بھی جب کہا گیا کہ قید خانہ سے نکل آؤ تو انہوں نے کہا جب تک میرے الزام دور نہ ہوں میں نہیں نکلتا.وہ بات یہ ہے کہ پچھلے سالانہ جلسہ پر میں نے آپ لوگوں کے ساتھ کچھ وعدے کئے تھے.مثلاً کہا تھا کہ قرآن کریم کے پاروں کے ترجمے شائع کئے جائیں گے ، دوم یہ کہ قرآن کریم کے اسباق تیار ہوں گئے ، سوم یہ کہ مختلف مسائل کے متعلق چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ لکھے جائیں گے.مگر ایک سال گذر گیا ہے اور ان میں سے کوئی بات بھی پوری نہیں ہو سکی.اس کی وجہ کچھ تو یہ ہے کہ اس سال میں خود بہت عرصہ بیمار رہا ہوں.گو یہ دن بھی ضائع

Page 433

نلوم جلد - ۳ ۴۰۶ نہیں گئے اور اس عرصہ میں مجھے کئی ایک علمی تحقیقاتوں کا موقعہ مل گیا.جو اگر میری صحت اچھی ہوتی تو شاید کسی اور وقت پر ملتوی کرنی پڑتیں.خیر یہ تو ایک جملہ معترضہ ہے.میں یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں پچھلے سال بہت بیمار رہا ہوں اور اس ماہ کے ابتداء سے تو کھانسی بھی شروع ہو گئی ہے.اس حالت میں میں لکھنے کا تو کام کچھ کر بھی سکتا ہوں.لیکن بولنے کے وقت کھانسی شروع ہو جاتی ہے.ایک وجہ تو یہ ہوئی اور دوسری یہ کہ گذشتہ ستمبر میں میں نے ایک رویا دیکھی تھی.جو یہاں کے لوگوں کو اسی وقت بتا دی گئی تھی کہ قادیان میں سخت تپ ہو گا.جو اپنے اندر طاعون کی طرح کا زہر رکھتا ہو گا.چونکہ خدا تعالٰی نے ہماری جماعت کے متعلق طاعون سے حفاظت کرنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.اس لئے اس کو آپ سے بدل دے گا کیونکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بیماریاں اور جانوں اور مالوں کا اتلاف بھی مؤمنین کے متعلق سنت اللہ ہے اس لئے خدا تعالٰی جس نے چونکہ طاعون سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.اس کی بجائے آپ نازل کرے گا تاکہ اس طرح کرنے سے نہ تو اس وعدہ کے خلاف ہو.اور نہ وہ غلط ٹھہرے اور نہ ہی قرآن کریم کی بیان کردہ سنت کے خلاف ہو.یہ رویا میں نے انہی دنوں لوگوں کو سنا دی تھی.اس کے بعد ایسا تپ آیا کہ قریباً ہر ایک مرد و عورت پر اس کا حملہ ہوا.اور جس گھر کے آٹھ آدمی تھے.وہ آٹھوں ہی بیمار ہو گئے.اور اس قدر شدید بخار ہو تا کہ ایک سو سات درجہ تک پہنچ جاتا.ان دنوں ہر گھر میں بیماری پڑ گئی.اور اس مرض کی وجہ سے کام کرنے والے لوگ بھی یا تو خود بیمار رہے یا بیماروں کے تیمار دار بنے رہے.اب اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے بہت کچھ آرام ہو گیا ہے اور کام ہو رہا ہے.اس لئے امید کی جا سکتی ہے کہ اگلے سال اسباق اور ترجمہ القرآن تیار ہو جائے گا.اب کے جو ترجمہ کیا گیا ہے.وہ پہلے سے بھی زیادہ وسیع مطلب پر مشتمل ہے.اس ترجمہ کا بہت سا حصہ تو ہو چکا ہے اور ارادہ ہے کہ اس جزء میں سورہ بقرہ ختم کر دی جائے.یہ ترجمہ انشاء اللہ عنقریب چھپ کر آپ لوگوں کو پہنچ جائے گا.دوسری بات جو میں کہنی چاہتا ہوں یہ ہے کہ ایک تازہ شور برپا ہوا ہے اور وہ مولوی محمد احسن صاحب کے رسالہ اور اشتہارات کے متعلق ہے.مجھے سخت حیرت ہوئی.مولوی محمد احسن صاحب کا ایک تازہ اشتہار دیکھ کر اور میں حیران ہوں کہ انسان کسی کی مخالفت اور عداوت کی وجہ سے تقویٰ کو کیوں چھوڑ دیتا ہے.مولوی محمد احسن صاحب اس اشتہار میں لکھتے ہیں : ” میں نے محض اتحاد جماعت قائم رکھنے کی خاطر یہی مناسب سمجھا کہ ہم سب لوگ

Page 434

علوم چاند ۳۰ متفرق امور صاجزادہ محمود احمد صاحب کی بیعت کرلیں تاکہ وحدت قومی قائم رہے مجھے اس وقت تک علم نہ تھا کہ صاحبزادہ صاحب کے عقائد میں کوئی فساد واقع ہو چکا ہے".لیکن میں بڑے زور سے کہتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ یہ انہوں نے بالکل غلط لکھا ہے میں ان کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام رکھتا ہوں کہ وہ اسی طرح کی قسم کھا کر بیان کریں جس طرح کی قسم حضرت مسیح موعود نے تریاق القلوب میں بیان فرمائی ہے کہ انہیں اس وقت جبکہ انہوں نے میری بیعت کی تھی.میرے عقائد کا علم نہ تھا.کیا وہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں اپنے عقائد پر مجھ سے گفتگو نہیں کرتے رہے.ضرور کرتے رہے ہیں.اور اب جھوٹ کہتے ہیں کہ انہیں میرے عقائد کا علم نہ تھا.میں ان کو اس قسم کے اٹھانے کے لئے اس لئے کہتا ہوں کہ وہ اپنی جان کو قسم کے معاملہ میں لانے کے متعلق یوں لکھتے ہیں : ”میری موت اس مقابلہ کے ماتحت نہیں ہوگی.کیونکہ میں اتنی سے متجاوز ہو گیا ہوں میں اپنی موت کو ایک نعمت غیر مترقبہ اعتقاد کرتا ہوں (رسالہ القول المجد صفحہ ۸۸) یعنی یہ کہ آپ موت کے ساتھ بہت محبت رکھتے ہیں.گویا اسے نعمت غیر مترقبہ سمجھتے ہیں.اس لئے مباہلہ کے لئے سامنے نہیں آتے.حالانکہ یہ غلط ہے.قرآن کریم تو یہود کی نسبت کہتا ہے..قُلْ إِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْآخِرَةُ عِنْدَ اللهِ خَالِصَةً مِنْ دُونِ النَّاسِ فَتَمَنَّوا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صَدِقِيْنَ ، وَلَنْ يَتَمَنَّوْهُ اَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ ، وَاللهُ عَلِيمٌ بِالظَّلِمِينَ وَ لَتَجِدَتْهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيُوةٍ ، وَ مِنَ الَّذِينَ اشْرَكُوا يَوَتُ أحَدُهُمْ لَوْ يُعمرُ : الفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمَزَحْزِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَنْ يُعَمَّرَ ، وَ اللَّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ (البقره: ۹۵ تا ۹۷) کہ ان کو چیلنج دو کہ مباہلہ کرلیں.لیکن وہ قبول نہیں کریں گے.کیونکہ انہیں دنیا سے بہت محبت ہے.مگر ہم کو یہ سنایا جاتا ہے کہ میں اس لئے مباہلہ نہیں کرتا کہ مجھے موت سے محبت ہے.اب یا تو قرآن کریم کو (نعوذ باللہ ) جھوٹا کہا جائے گا.یا اس کو جو کہتا ہے کہ مجھے موت سے محبت ہے.لیکن قرآن کریم تو کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ اس خدا کا کلام ہے.جو سب بچوں سے زیادہ سچا ہے.بات اصل میں یہ ہے کہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اگر میں مباہلہ کے لئے مقابلہ پر آیا تو ہلاک ہو جاؤں گا.مولوی محمد علی صاحب تو مباہلہ کو جائز ہی نہیں سمجھتے.اور اس طرح وہ اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں.لیکن مولوی محمد احسن صاحب تو جائز

Page 435

۴۰۸ سمجھتے ہیں.پھر وہ کیوں خود اس کے لئے تیار نہیں ہوتے.خیر.اگر وہ اپنے آپ کو پیش کرنے سے ڈرتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ وہ یہ نہ کہیں کہ میں مباہلہ کرتا ہوں بلکہ اپنے بچوں کو پیش کر کے مباہلہ کرلیں.ان کے لڑکوں کی عمر مجھ سے چھوٹی ہے.اور مجھ سے صحت بھی اچھی ہے.پھر میں اکیلا ہوں.اور وہ پانچ ہیں.ان پانچوں کو میرے مقابلہ پر رکھ کر قسم کھا جائیں کہ ان کو میری بیعت کرنے کے وقت میرے عقائد کا علم نہ تھا.مگر میں ابھی کے دیتا ہوں کہ چونکہ ان لوگوں کے دلوں میں یہ بات بڑی مضبوطی سے گڑی ہوئی ہے کہ اگر میرے مقابلہ پر آئیں گے تو ہلاک ہو جائیں گے.اس لئے وہ مقابلہ کے لئے کبھی تیار نہیں ہوں گے اور ادھر ادھر کی باتیں بنا کر بچنا چاہیں گے.کیسے غضب کی بات ہے کہ جب حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے خواجہ صاحب کے اس مضمون پر دستخط کر دیئے جو میرے مقابلہ پر لکھا گیا تھا.(حضرت خلیفہ اول نے دستخط کرنے کے متعلق مجھے بتایا تھا کہ خواجہ صاحب نے آکر کہا تھا کہ میرا اور میاں صاحب کا ایک ہی مذہب ہے) تو اس وقت مولوی محمد احسن صاحب مجھ سے اس بات پر بحث کرتے رہے کہ مولوی صاحب نے یہ سخت کمزوری دکھائی ہے کہ خواجہ صاحب کے مضمون پر دستخط کر دیئے ہیں.اور میں انہیں جواب دیتا رہا.اور اس کے متعلق مولوی صاحب نے مجھے یا نواب صاحب کو ایک خط لکھا تھا.جس میں لکھا تھا کہ مولوی صاحب کے گھوڑے پر سے گرنے کی پیشگوئی ہے.وہ ان کے دستخط کرنے سے پوری ہو گئی.اور مولوی صاحب نے ارتداد کر لیا.اس کا میں نے ان کو یہ جواب دیا تھا کہ جب یہ الہام لفظاً پورا ہو گیا ہے.یعنی مولوی صاحب واقعہ میں گھوڑے پر سے گر گئے ہیں.تو پھر وہ معنی نہیں لئے جاسکتے.جو آپ نے لئے ہیں.یہ تو حضرت خلیفہ اول کی بات ہے.میری بیعت کرنے کے بعد کا ایک خط ہمارے پاس موجود ہے.جو مولوی محمد احسن صاحب کے بیٹے کا ان کی طرف سے لکھا ہوا ہے.اس میں وہ لکھتا ہے." بحضور جناب خلیفتہ المسیح و المهدی حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب فضل عمر دام اِقْبالُكُمْ وَاِجلالُكُم - وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ وبرکاتہه - مرحمت نامہ نے صدور فرما کر اعزاز دارین بخشا.رسالہ إِنَّهُ لَقَولُ فَصَلَّ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ کو خاکسار نے جناب والد صاحب کو نایا.دعاوی صادقہ اور مصدقہ سن کر ایسے خوش ہوئے کہ عوارض لاحقہ متعلقہ پیری و دیگر امراض کو فراموش کر دیا اور کہنے لگے کہ الحمد للہ میں نے وہ وقت پالیا کہ جس کا میں سالہا سال - سے منتظر تھا."

Page 436

دم جلد ۳ ۴۰۹ ان الفاظ میں مولوی صاحب نے جس رسالہ کو پڑھ کر یہ کہا ہے کہ "الحمد للہ میں نے وہ وقت پالیا کہ جس کا میں سالہا سال سے منتظر تھا وہ وہی میرا رسالہ القول الفصل ہے.جس میں میں نے ان تینوں اے مسئلوں کے متعلق اپنا عقیدہ ظاہر کیا ہے.جن سے مولوی صاحب نے اس تازہ اشتہار میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے.یعنی (1) نبوت مسیح موعود (۲) کفر و اسلام (۳) اسمہ احمد کی پیشگوئی کے مصداق حضرت مسیح موعود ہیں.مولوی صاحب نے اپنے خط میں ان عقائد کے صحیح ہونے کی صرف شہادت ہی نہیں دی.بلکہ اس رسالہ سے ان کی وہ امید بر آئی ہے جس کے وہ سالہا سال سے منتظر تھے.لیکن کیسے تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ اب انہی مسائل کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ مجھے ان کا علم نہ تھا.مولوی محمد احسن صاحب کے جس خط کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اصل خط بھی ہم دکھا سکتے ہیں.پھر اسی خط میں انہوں نے القول الفصل جس میں مسئلہ کفر و اسلام.نبوت مسیح موعود اور اسمه احمد کی بحث ہے کا جواب لکھنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ : ”یہاں پر ال فرعون لاہوریوں کی نسبت جناب والد صاحب کی طرف سے لکھتا ہوں.خارجا معلوم ہوا کہ اس رسالہ الفصل کو ایک شیطان نے یہ کہا کہ مصنف رسالہ شریر ہے کذاب ہے، چالباز ہے، میں سارے پردے اس کے کھولوں گا.یہ قول تو اس کا ایک ادنیٰ ہے.اس کا تو وہی حال ہے جو فرعون کا تھا وَ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسَى وَ لَيَدْعُ رَبَّهُ اني أَخَافُ أَنْ يُبْدِلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (المؤمن : ۲۷) قَالَ فِرْعَوْنُ ما أريكُمْ إِلَّا مَا أَرَى وَمَا اهْدِيكُمْ إِلَّا سَبْيلَ الرَّشَادِ (المومن : ۳۰) انشاء اللہ تعالیٰ اگر بالآخر تو بہ نہ کی تو غرق طوفان ضلالت میں ہو جاوے گا".ان الفاظ میں مولوی صاحب نے اس میرے رسالہ کا جواب لکھنے والے اور لاہوریوں یعنی غیر مبائعین کو فرعون قرار دیا ہے.اب میں ان سے پوچھتا ہوں کہ اگر وہ فرعون نہیں ہیں تو پھر مولوی صاحب پر سَبَابُ الْمُسْلِمِ فَسُوقُ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے والی حدیث کے مطابق کیا فتویٰ لگتا ہے.میں جانتا ہوں کہ مولوی صاحب اگر اس کا جواب دیں تو یہی دیں گے کہ اس قت مجھ سے غلطی ہو گئی کہ میں نے ان لوگوں کو فرعون کہا اور غرق طوفان ضلالت بنایا.مگریہ کیسے غضب کی بات ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ مجھے صاجزادہ صاحب کے عقائد معلوم نہیں تھے اس بخاری کتاب الفتن باب قول النبي لا ترجعوا بعدى كفارا

Page 437

جلد - ۴۱۰ متفرق لئے بیعت کی تھی.اپنی غلطی کا اقرار کر لینے میں کوئی حرج نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں کچھ ہتک ہوتی ہے.آپ صاحبان میں سے کئی لوگ ایسے ہوں گے کہ جنہوں نے پہلے بیعت نہیں کی تھی لیکن جب ان کو غلطی معلوم ہوئی تو بیعت کرلی.کیا اس سے ان کی ہتک ہو گئی.پھر کیا حضرت ابو بکر اور حضرت عمرہ کے عقیدے پہلے اور نہیں تھے اور پھر انہوں نے ان کو چھوڑ کر آنحضرت کو قبول نہیں کر لیا تھا کیا حضرت عمر رسول کریم اس کو قتل کرنے کی نیت سے گھر سے نہیں نکلے تھے لیکن اپنی غلطی کو معلوم کر کے آنحضرت کے غلام بن گئے.تو غلطی کا اقرار کرنا شان کو بڑھانے والی بات ہے نہ کہ کم کرنے والی.پس اگر مولوی محمد احسن صاحب یہ کہتے ہیں کہ پہلے میرے عقائد بھی وہی تھے جو مبائعین کے ہیں لیکن اب مجھے اپنی غلطی معلوم ہو گئی ہے اس لئے میں ان کو چھوڑتا ہوں تو ہم کبھی ان کی دیانت اور امانت پر الزام نہ لگاتے.لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ مجھے میاں صاحب کے عقائد معلوم ہی نہ تھے اب معلوم ہوئے ہیں اس لئے میں علیحدہ ہوتا ہوں اور یہ جھوٹ ہے.پھر دیکھئے جس دن حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے ہیں اس سے دوسرے ہی دن جناب نواب صاحب کے مکان پر چند آدمی مشورہ کے لئے جمع ہوئے تو وہاں مولوی محمد علی صاحب نے کہا کہ ہمارا اور میاں صاحب کا عقائد میں اختلاف ہے.یہ حضرت مسیح موعود کے نہ ماننے والوں کو کافر کہتے ہیں اور ہم نہیں کہتے.یہ حضرت مسیح موعود کو ایسا ہی نبی سمجھتے ہیں جیسے دوسرے نبی پھر ہم کس طرح ان کی بیعت کر سکتے ہیں.اس مجلسی میں مولوی محمد احسن صاحب بھی موجود تھے.وہ قسم کھا کر جتلائیں کہ کیا یہ باتیں اس وقت مولوی محمد علی صاحب نے کسی تھیں یا نہیں.اگر کسی تھیں اور مولوی محمد احسن صاحب کو اس وقت میرے یہ عقائد معلوم نہ تھے تو انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو کیوں نہ کہا کہ تم یہ غلط کہہ رہے ہو ان کے تو یہ عقائد نہیں ہیں.بلکہ اس وقت تو انہوں نے مولوی محمد علی صاحب کو یہی کہا تھا کہ ہمارے ساتھ بحث کر کے ان باتوں کا فیصلہ کر لو کہ کسی کے عقائد درست اور صحیح ہیں.پھر اسی مجلس میں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب جوش میں آکر بول اٹھے تھے کہ ہاں واقعہ میں ہم حضرت مسیح موعود کو نبی سمجھتے ہیں اور ایسا ہی نبی سمجھتے ہیں جیسا کہ پہلے تھے اور کیوں نہ سمجھیں جبکہ حضرت مسیح موعود نے خود لکھ دیا ہے کہ.تم مسیح زمان و منم کلیم خدا منم محمد و احمد که مجتبی باشد اُس وقت مولوی محمد احسن صاحب نے ان کو کیوں نہ روکا کہ یہ کیا کر رہے ہو یہ تو ہمارے عقائد

Page 438

دم جلد ۳۰ نہیں ہیں.بلکہ الٹی ان کی تائید کی.پھر میں نے بیعت لیتے وقت جو تقریر کی تھی اس میں بھی میں نے اپنے عقائد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ "میرے پیارو! میرا دہ محبوب آقاسید الانبیاء ایسی عظیم الشان شان رکھتا ہے کہ ایک شخص اس کی غلامی میں داخل ہو کر کامل اتباع اور وفاداری کے بعد نبیوں کا رتبہ حاصل کر سکتا ہے.یہ سچ ہے کہ آنحضرت ہی کی ایسی شان اور عزت ہے کہ آپ کی کچی غلامی میں نبی پیدا ہو سکتا ہے یہ میرا ایمان ہے اور پورے یقین سے کہتا ہوں لیے میری اس تقریر کے وقت مولوی محمد احسن صاحب بھی موجود تھے اس وقت وہ کیوں نہ بول پڑے.لیکن درست بات یہ ہے کہ جو کچھ میرے عقائد ہیں.وہ ان کو اس وقت بھی خوب اچھی طرح معلوم تھے اور وہ خود بھی ان کے ساتھ متفق تھے اور اب جو انہوں نے اعلان کیا ہے وہ بالکل غلط ہے.پھر ان کے اشتہار میں ایک اور لطیفہ ہے جس کو دیکھ کر مجھے افسوس بھی ہوا اور خوشی بھی.افسوس تو اس لئے کہ وہ کیسی لغو اور بیہودہ باتیں کرنے لگ گئے ہیں اور خوشی اس لئے کہ ان کے اس اشتہار سے میری حضرت مسیح موعود کے ساتھ ایک اور مماثلت ثابت ہو گئی.اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب دعوی کیا تو محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ میں نے مرزا کو بڑھایا تھا اور میں ہی اس کو گھٹاؤں گا.لیکن خدا تعالیٰ کی نے حضرت مسیح موعود کی صداقت کے لئے وہ نشانات دکھلائے کہ آپ بہت زیادہ بلند ہو گئے اور وہ بالکل گر گیا.مولوی محمد احسن صاحب نے بھی اسی کی طرح میرے متعلق اعلان کیا ہے کہ صاحبزادہ بشیر الدین محمود احمد صاحب بوجہ اپنے عقائد فاسدہ پر مصر ہونے کے میرے نزدیک ہرگز اب اس بات کے اہل نہیں کہ وہ حضرت مسیح موعود کی جماعت کے خلیفہ یا امیر ہوں.اور اس لئے میں اس خلافت سے جو محض ارادی ہے سیاسی نہیں صاحبزادہ صاحب کا اپنی طرف سے عزل کر کے عند الله و عند الناس اس ذمہ داری سے بری ہو تا ہوں.جو میرے سر پر تھی" عجیب بات ہے کہ یہ انہی مولوی محمد احسن صاحب کی طرف سے اعلان شائع ہوا ہے جنہوں نے مجھے لکھا تھا کہ میں یقین کامل سے کہتا ہوں کہ حقیقت آپ کی خلافت کی ثابت شدہ صداقت ہے اور

Page 439

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۱۲ منکرین اس کے بڑے خطا کار ہیں" کیا اب ان کے نزدیک میری خلافت ثابت شده صداقت نہیں رہی.اور پھر ان کا کیا اختیار ہے کہ ایک ثابت شدہ صداقت سے مجھے معزول کر کے بڑے خطا کار سے بھی کچھ زیادہ یا اور بنیں.کیونکہ ” بڑے خطا کار " تو انہوں نے میری خلافت کے منکروں کو خود قرار دیا ہے لیکن وہ تو مجھے خلافت سے معزول کر رہے ہیں.میں کہتا ہوں خلیفہ اگر خدا بناتا ہے اور واقعہ میں خدا ہی بناتا ہے تو مولوی محمد احسن چھوڑ دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جو اسے معزول کر سکے.ہاں میں یہ مان لیتا ہوں کہ مولوی محمد احسن نے جو مجھے خلافت دی تھی.اس سے میں معزول ہوتا اور اعلان کرتا ہوں کہ جس کسی نے ان کی دی ہوئی خلافت سمجھ کر میری بیعت کی تھی وہ اپنی بیعت فسخ کرنے میں آزاد ہے.یوں تو ہر ایک اپنے عقائد کے رکھنے میں آزاد ہے لیکن میں خود ایسے لوگوں کو کہتا ہوں کہ وہ بیعت فسخ کرلیں.لیکن جس کسی نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی خلافت کے لئے اس کے تصرف کے ماتحت بیعت کی تھی اس کے سامنے اگر ساری دنیا بھی محمد احسن بن کر اعلان کرے تو وہ کبھی فتح نہیں کرے گا.اور پھر جس قدر دنیا کے انسان ہیں ان کے خون کے ایک ایک قطرہ سے محمد احسن ہی محمد احسن بن جائیں اور دنیا کے چاروں طرف سے آکر مجھے خلافت سے معزول کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے.میں تو محمد احسن کی دی ہوئی خلافت و پر لعنت بھیجتا ہوں.وہ اپنی خلافت کو گھر رکھیں میں نے نہ ان سے خلافت لی ہے اور نہ وہ مجھے معزول کر سکتے ہیں.باقی رہا یہ کہ اُس وقت کھڑے ہو کر انہوں نے تقریر کرتے ہوئے میرا نام پیش کر دیا تھا اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں نے مجھے خلیفہ بنایا تھا.حضرت عمرؓ نے اپنے بعد حضرت عثمان کا نام خلیفہ بننے کے لئے پیش کیا تھا لیکن جب ان کو کہا گیا کہ آپ کو خلافت سے معزول کیا جاتا ہے تو انہوں نے کہا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے عبا پہنائی ہے اگر ساری دنیا مل کر بھی مجھے کہے کہ اتار دو تو میں نہیں اتاروں گا.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ ایک مولوی محمد احسن کیا اگر ساری دنیا بھی مجھے کہے کہ تجھے خلافت سے معزول کیا جاتا ہے تو میں وہی جواب دوں گا جو حضرت عثمان نے دیا تھا.یہ تو خدا تعالیٰ کی گرفت تھی کہ اس نے مولوی محمد احسن کو پکڑ کر میری تائید کرا دی اور یہ بھی میری صداقت کا ایک نشان ہے.ہاں ان کی دی ہوئی خلافت پر نہ میں قائم تھا اور نہ معزول ہوتا ہوں.لیکن اگر کسی نے ان کی دی ہوئی خلافت کے خیال سے میری بیعت کی تھی تو میری طرف سے آزادی ہے کہ اپنی بیعت نسخ کر دے.میری طرف سے

Page 440

۴۱۳ آزادی میں نے اس لئے کہا ہے کہ اگر کوئی اس طرح کی بیعت فسخ کرے گا تو میرے نزدیک اسے کوئی گناہ نہیں ہو گا.پس ان لوگوں کو میں پھر کہتا ہوں کہ جنہوں نے مولوی محمد احسن صاحب کی دی ہوئی خلافت سمجھ کر میری بیعت کی تھی وہ آزاد ہیں اور چلے جائیں (چاروں طرف سے بڑے زور کے ساتھ آوازیں آئیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی دی ہوئی خلافت سمجھ کر بیعت کی تھی.مولوی احسن کے لئے نہیں کی تھی لیکن اگر آپ لوگوں نے خدا تعالی کے لئے کی تھی اور اسی خانہ خدا میں کی تھی یا باہر سے خطوط کے ذریعہ کی تھی تو پھر کوئی انسان آپ لوگوں میں سے پھر نہیں سکتا اور یقیناً نہیں پھر سکتا اور جو پھرے گا رہ دیکھ لے گا کہ ایک کے جانے سے خدا تعالیٰ جماعت در جماعت ہم میں شامل کر دے گا.اور ہماری تائید میں اس قدر نشانات دکھلائے گا کہ دنیا حیران رہ جائے گی.اور اگر وہ غیر احمدیوں کی طرح قرآن کریم کی آئیتوں کا انکار نہ کرتے جائیں تو اور بات ہے لیکن اس آیت کا ان کے پاس کیا جواب ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَاتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الرعد (۴۲) کہ کیا وہ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کو کم کرتے آتے ہیں اس کی اطراف سے.یعنی ان میں چاروں طرف سے لوگوں کو داخل کرتے جاتے ہیں.کیا خدا تعالیٰ کی یہ عملی شہادت ہماری صداقت کی دلیل نہیں ہے.کیا ان چند ایک کے نکالے جانے کے بعد خدا تعالیٰ نے چاروں طرف سے ہزار ہائے ہم میں داخل نہیں کئے.اور کیا ہندوستان سے باہر ، سیلون ، نائجیریا ، انگلینڈ اور ماریشس میں ہماری نئی جماعتیں نہیں قائم ہو گئیں.اور اس خطہ زمین میں جہاں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کا نام لینا تم قاتل ہے.اور جہاں کہ آزادی کے نعرے مارے جاتے ہیں اس میں رہنے والے لوگ بھی ہماری بیعت میں داخل نہیں ہو گئے ہیں (جس کے معنی بیچ دینے کے ہیں) اس بات کے ہوتے ہوئے کیا ہو سکتا ہے کہ وہ ہم پر غالب آجا ئیں.ہرگز نہیں.وہ دن بدن مغلوب ہوتے جائیں گے اور ایک دن وہ آئے گا جبکہ ان کا عدم و وجود برابر ہو جائے گا.اگر ان میں سے کسی کا خیال ہے کہ وہ کامیاب ہو جائیں گے تو یہ ایک باطل خیال ہے.مولوی محمد احسن صاحب کے ان میں شامل ہونے کے متعلق مجھے خدا تعالی نے پہلے ہی خبر دے دی تھی.ایک سال کا عرصہ ہوا مجھے بتایا گیا تھا کہ ایک شخص محمد احسن نامی نے قطع تعلق کر لیا ہے.پھر ابھی چند ہی دن ہوئے جبکہ مولوی محمد احسن ابھی امروہہ میں ہی تھے اور میری طرف فضل عمر فضل عمر کر کے انکی طرف سے خط آرہے تھے.اور مجھے لکھتے تھے کہ مجھ میں اور

Page 441

دم جلد ۳۰ ۱ آپ میں جو اختلاف ہے وہ ایسا ہی ہے جیسا کہ صحابہ میں ہوتا تھا.اور پھر یہ بھی لکھا تھا کہ خدا تعالی نے آپ کا نام اولوالعزم رکھا ہے امید ہے کہ آپ مجھ سے اس اختلاف کی وجہ سے ناراض نہیں ہوں گے.انہی دنوں میں میں نے رویا میں دیکھا تھا کہ مولوی محمد احسن صاحب کی نسبت خط آیا ہے کہ مرگئے ہیں.اور مرنے کی ایک تعبیر مرتد ہونا بھی ہے.میں نے یہ رویا لوگوں کو سنا دی تھی اور اسبات کے کئی ایک گواہ اس وقت بھی موجود ہوں گے.پھر اس سے بھی بڑھ کر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی میرے چھوٹے بھائی میاں شریف احمد نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو حضرت صاحب کو سنائی گئی تھی کہ ایک شخص ہے جس کا نام محمد احسن ہے اس کی قبر بازار میں بنی ہوئی ہے.حضرت صاحب کو جب یہ خواب سنائی گئی تو آپ نے فرمایا کہ اس نام کا کوئی شخص مرتد ہو جائے گا.گلی میں قبر کے ہونے کی تعبیر مرتد یا منافق ہے.میں نے جس رویا میں دیکھا تھا کہ ان کے مرنے کا خط آیا ہے.اس میں میں نے یہ بات سن کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر کی.اس وقت میرے آنسو نکل آئے اور میں نے کہا افسوس ان کا انجام اچھا نہ ہوا.اگر اس رویا میں ان کے مرنے سے جسمانی مرنا مراد ہوتا تو حضرت مسیح موعود مجھے بتلاتے نہ کہ میں آپ کو اس کی خبر کرتا.پس اس سے بھی معلوم ہوا کہ ان کا پھر جانا ہی مراد تھا.سو مجھ پر کس قدر خدا کا فضل ہے کہ اس نے ان کے پھرنے کی قبل از وقت اطلاع دے دی تھی.پھر میں نے ایک رؤیا دیکھی تھی جو خطبہ جمعہ میں بیان کر دی تھی اور اخبار الفضل میں چھپ چکی ہے کہ مجھے دو آدمی دکھائے گئے جو مرتد ہو چکے ہیں.اس وقت مولوی محمد احسن صاحب کے متعلق وہم و گمان بھی نہ تھا.پس میں انسان پرست نہیں ہوں کہ کسی انسان کے پھر جانے کو خیال میں لاؤں.بلکہ خدا پرست ہوں اور ہمیشہ سے میرا بھروسہ خدا ہی پر رہا ہے.اس وقت جبکہ ابھی میری عمر انیس سال کی تھی اور یہ کوئی بڑی عمر نہیں عام طور پر اس عمر میں لوگ کھیلتے پھرتے ہیں.اس وقت جب حضرت مسیح موعود فوت ہوئے تو میرے دل میں خیال آیا کہ آپ کی بہت سی پیشگوئیاں ایسی ہیں جن پر لوگوں کو ابتلاء آ سکتا ہے اور میں نے سوچا کہ اگر آپ کے بعد خدانخواستہ ارتداد کا سلسلہ شروع ہو گیا تو کیا ہوگا.یہ خیال میرے دل میں آیا ہی تھا کہ میرے دل سے یہ آواز نکلی کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہو جائے تو میں کچھ پرواہ نہیں

Page 442

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۱۵ کروں گا اور اس صداقت کو لے کر جو حضرت مسیح موعود لائے ہیں میں اکیلا ہی کھڑا ہو جاؤں گا اور تمام دنیا میں پھیلا دوں گا.اس میں شک نہیں کہ میری صحت اچھی نہیں رہتی اور میں جسم کا کمزور ہوں مگر خدا تعالٰی نے مجھے بہت مضبوط اور بہادر دل دیا ہے.ہاں رحم اور شفقت کا مادہ بھی مجھ میں بہت زیادہ ہے.اس لئے جہاں تک ہو سکے میں در گذر کرتا اور اصلاح کا موقعہ دیتا ہوں.چند ہی دن ہوئے کہ میں نے اپنی طرف سے مفتی محمد صادق صاحب کو ایک خط دے کر مولوی محمد احسن صاحب کی طرف لاہور روانہ کیا تھا جس میں ان کو بہت نرمی سے سمجھایا گیا تھا.پس میں نے اپنی طرف سے ان کے معاملہ میں کوئی کوتاہی نہیں کی ہر رنگ اور ہر طریق سے ان کی دلداری کی ہے.جب مجھے ابتداء میں ان کے متعلق معلوم ہوا تو چار پانچ آدمی امروہہ ان کے پاس بھیجے لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا.اور بالآخر جو مقدر میں تھا وہ ہو گیا.لیکن یہ بھی میری صداقت کے لئے ایک نشان ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ اس طرح دکھانا چاہتا ہے کہ جو کام ہو رہا ہے وہ خدا ہی کرا رہا.ہے نہ کہ کسی انسانی مدد اور تائید سے چل رہا ہے.حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سلسلہ آپ ہی سے تعلق رکھتا ہے جب آپ نہ رہیں گے تو یہ بھی نہیں رہے گا.لیکن جب آپ فوت ہو گئے اور یہ سلسلہ پہلے سے بھی زیادہ بڑھنے لگا تو بعض نے کہا کہ ہم جو کہتے تھے کہ مولوی نور الدین صاحب مرزا صاحب کو کتابیں لکھ کر دیتے اور وہ شائع کرتے تھے.یہ بات صحیح نکلی کیونکہ اب مرزا صاحب کے بعد مولوی صاحب ہی اس کام کو چلا رہے ہیں.جب یہ فوت ہو گئے تو پھر اس کا خاتمہ ہو جائے گا.چنانچہ خواجہ غلام الثقلین نے یہی لکھا تھا.لیکن کچھ لوگوں کا یہ بھی خیال تھا کہ اس جماعت میں جو انگریزی خواں ہیں ان کی وجہ سے کام چل رہا ہے.خدا تعالیٰ نے ان دونوں قسم کے لوگوں کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے یہ نشان دکھلایا کہ ایک ہی وقت میں ادھر حضرت مولوی صاحب کو وفات دے کر سلسلہ سے جدا کر لیا اور ادھر ان انگریزی خوانوں کو جن پر لوگوں کی نظریں پڑتی تھیں جدا کر دیا تاکہ ثابت کر دے کہ یہ خدا تعالٰی کا سلسلہ ہے اور وہی اس کو چلا رہا ہے.لیکن پھر بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ اس وقت یہ سلسلہ مٹ جانا تھا لیکن مولوی محمد احسن نے خلافت کو قائم کر کے پھر بچالیا ہے.جب یہ خیال پیدا ہوا تو خدا تعالٰی نے کہا کہ لو ہم اس کو بھی علیحدہ کر دیتے ہیں اس طرح شرک کی یہ لات بھی ٹوٹ گئی.لوگوں نے اس سلسلہ کو قائم رکھنے والی چار لاتیں بنائی تھیں.ایک حضرت

Page 443

انوار العلوم جلد - - ۴۱۶ مسیح موعود کی نسبت خیال تھا کہ ان کی ہوشیاری سے سلسلہ چل رہا ہے لیکن خدا تعالٰی نے آپ کو وفات دینے کے بعد سلسلہ کو قائم رکھ کر بتا دیا کہ گو یہ ہمارا نبی اور رسول ہے مگر یہ سلسلہ اس کا نہیں ہمارا اپنا ہے.دوسرے مولوی نور الدین صاحب کی نسبت خیال تھا کہ ان کی وجہ سے اس سلسلہ کا قیام ہے مگر خدا تعالیٰ نے ان کی وفات کے بعد بھی اس سلسلہ کو قائم رکھ کر دکھا دیا کہ گو وہ ہمارا پیارا مقرب بندہ تھا مگر یہ سلسلہ اس کا بھی نہیں میرا اپنا ہے.تیسرے بعض انگریزی خوانوں کی نسبت خیال تھا کہ ان کی تدابیر سے اس سلسلہ کو شہرت حاصل ہوئی ہے مگر خدا تعالٰی نے ان کے الگ ہونے کے بعد سلسلہ کو برقرار رکھ کر سمجھا دیا کہ ان کو عزت اور رتبہ اس لئے حاصل ہوا تھا کہ یہ میرے سلسلہ میں داخل ہوئے تھے نہ کہ ان کی وجہ سے سلسلہ کو تقویت حاصل ہوئی تھی.چوتھے مولوی محمد احسن کی نسبت بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ان کی شخصیت کی وجہ سے یہ جماعت پراگندہ ہونے سے محفوظ رہی ہے سو ان کو بھی علیحدہ کر کے ثابت کر دیا کہ اس سلسلہ کا سہارا کسی انسان پر نہ تھا.اب اگر مولوی صاحب تو بہ کریں اور اپنی غلطی سے آگاہ ہو کر پھر اس سلسلہ میں شامل ہو جائیں تو بھی دنیا نے تو دیکھ ہی لیا ہے کہ ان کے نہ ہونے سے اس سلسلہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.ہماری تو یہی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت پانے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں کچھ اور بیان کرنا چاہتا ہوں.بعض دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ غیر مبائعین بعض لوگوں کو میرے عقائد کے متعلق دھوکا دیتے ہیں.میں حیران ہوں کہ جبکہ میں اپنے عقائد کو اپنی کتابوں میں نہایت واضح طور پر لکھ چکا ہوں تو پھر کیوں دھوکا لگتا ہے تاہم مختصر طور پر اس وقت کچھ بیان کر دیتا ہوں.پہلی بات میری طرف یہ منسوب کی جاتی ہے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آنحضرت کے برابر سمجھتا ہوں.اس میں شک نہیں کہ ظلیت کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود میں آنحضرت ا کے تمام کمالات آگئے ہیں مگر درجہ کے لحاظ سے آپ کو آنحضرت ا کے برابر کہنا میں کفر سمجھتا ہوں.دیکھو تصویر میں وہ باتیں آجاتی ہیں جو اصل میں ہوتی ہیں.مثلاً ہاتھ ناک کان سر ، آنکھیں وغیرہ وغیرہ مگر پھر بھی تصویر تصویر ہی ہے اور اصل اصل ہی.پس میرا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس قدر رسول کریم کے نقش قدم پر چلے کہ وہی ہو گئے لیکن کیا استاد اور شاگرد کا ایک مرتبہ ہو سکتا ہے.

Page 444

م جلد ۳ گوشاگرد علم کے لحاظ سے استاد کے برابر بھی ہو جائے تاہم استاد کے سامنے زانوئے ادب غم کر کے ہی بیٹھے گا.یہی نسبت آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود میں ہے.ہم اگر آپ کو آنحضرت ا کا کامل کل اور برو ز مانتے ہیں تو ساتھ ہی یہ بھی یقین اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ آپ کا تعلق رسول کریم ﷺ سے خادم اور غلام کا ہے.ہاں یہ بھی کہتے ہیں کہ جو کچھ رسول کریم کے ذریعہ ہوا تھا وہی مسیح موعود نے ہمیں دکھلا دیا.اس لحاظ سے برابر بھی کہا جا سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک شان اور ایک درجہ ہے.بلکہ شاگرد اور استاد آقا اور غلام کی نسبت ہے.البتہ حضرت مسیح موعود آپ کی کامل اتباع اور پوری پیروی سے ایسے صاف ہوئے کہ آنحضرت کے تمام کمالات اپنے اندر اخذ کرلئے.کوئی کہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آنحضرت ا کے تمام کمالات اپنے اندر نقل کرلئے ہیں تو پھر آپ کے درجہ اور شان کی کیا خصوصیت رہی.مگر ایسا کہنے والے کو یاد رکھنا چاہئے کہ نقل کرنا بھی خاص شان اور درجہ رکھتا ہے.ایک قصہ مشہور ہے کہ چین کے مصور مانی اور بہزاد کے لئے کسی نے انعام مقرر کیا تھا کہ جو تم میں سے اعلیٰ تصویر بنائے گا اسے دیا جائے گا.اس کے لئے ایک دیوار بنا کر ایک طرف ایک کو اور دوسری طرف دوسرے کو بٹھا دیا گیا.ایک تو تصویر بنانے میں مشغول ہو گیا اور دوسرا یونہی بیٹھا رہا.انعام یا مقرر کرنے والا شخص روز آکر دیکھتا اور اسے کہتا کہ تم کب بناؤ گے دوسرا تو بنا رہا ہے.وہ کہہ دیتا کہ آپ وقت مقررہ پر تصویر دیکھ لینا میں جب چاہوں گا بنالوں گا.وقت مقررہ پر جب دیکھا گیا تو جس طرح کی تصویر ایک نے بنائی تھی ہو بہو اسی طرح کی دوسرے نے بھی بنالی.اور انعام دینے والے کے لئے مشکل پڑ گئی کہ کس کو انعام دے کیونکہ دونوں کی تصویریں ایک ہی طرح کی تھیں.اس کام نہ کرنے والے نے کس طرح ہو بہو اسی طرح کی تصویر بنالی.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس نے چھیلتے پھیلتے دیوار کو اس قدر پتلا کر لیا تھا کہ دوسرے کی تصویر کا عکس اس پر پڑنے لگا اور اس سے اس نے تصویر بنالی.یہ ایک مثال ہے.لیکن کیا اس سے عکس کو دیکھ کر تصویر بنانے والے کی قابلیت کا پتہ نہیں لگتا.پس اس لحاظ سے کہ حضرت مسیح موعود آنحضرت ا کے کامل مظہر تھے.آپ کو عین محمد لکھا گیا.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ نے آنحضرت ا سے الگ ہو کر

Page 445

م جلد ۳۰ ۴۱۸ متفرق ام نبوت کا دعویٰ کیا اور آپ عین محمد بن گئے.بلکہ یہ کہ آنحضرت ا میں جو خوبیاں تھیں وہی آپ کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری سے آپ میں بھی آگئیں.پس جہاں آنحضرت اور مسیح موعود مقابلہ پر آئیں گے.وہاں رسول کریم آقا کے درجہ پر اور مسیح موعود خادم کے درجہ پر کھڑے ہوں گے.اور جہاں الگ الگ نام لیا جائے گا.وہاں حضرت مسیح موعود کو آنحضرت ﷺ کے تمام کمالات حاصل کرنے کی وجہ سے عین محمد " بھی کہہ سکیں گے.میں حیران ہو تا ہوں کہ حضرت مسیح موعود کی ان تحریرات کے ہوتے ہوئے جن میں آپ نے اپنے درجہ کو صاف طور پر بیان فرما دیا ہے.پھر کیوں دھوکا لگتا ہے.پہلے علماء نے بھی لکھا ہے کہ مسیح موعود کا جھنڈا آنحضرت ا کے جھنڈے سے نیچے ہو گا.اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ وائسرائے کے تخت پر بھی بادشاہ لکھا ہوتا ہے اور اس جگہ بچھایا جاتا ہے جہاں بادشاہ کا تخت ہو تا ہے.مگر جہاں بادشاہ اور وائسرائے اکٹھے ہوں وہاں وائسرائے کا تخت نیچے رکھا جائے گا.پس اس لحاظ سے کہ حضرت مسیح موعود نے جو کچھ حاصل کیا ہے وہ آنحضرت ا سے حاصل کیا.آپ خادم ہیں اور آنحضرت ا آقا اور اس لحاظ سے کہ آپ نے آنحضرت کے تمام کمالات اخذ کرلئے عین محمد ".اس بات پر اگر ساری دنیا بھی ہماری مخالف ہو اند ہے تمام جائے تو ہمیں اس کی کیا پرواہ ہے جبکہ حضرت مسیح موعود نے خود لکھ دیا ہے کہ.آنچه وار است ہر نبی را جام داد آن جام را مرا به انبیاء گرچه بوده من بعرفان نہ کمترم زکی کم نیم زاں ہمہ برائے یقیں ہر کہ گوید دروغ بست نھیں که یعنی تمام نبیوں کو جو کچھ دیا گیا ہے.وہ سب کچھ ملا کر مجھے دیا گیا ہے.اس سے آنحضرت ی کی بلند شان معلوم ہوتی ہے.کیونکہ آنحضرت ا تمام نبیوں کے جامع تھے.تب ہی تو مسیح موعود بھی آپ کے ذریعہ تمام انبیاء کے کمالات کے جامع ہو گئے.جَرِ اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ کے بھی یہی معنی ہیں کہ تمام انبیاء کے اصل جامع تو آنحضرت ا ہی تھے.لیکن حضرت مسیح موعود نے بھی اپنا سینہ آنحضرت ﷺ کی اتباع کی وجہ سے ایسا صاف کیا کہ آپ کی پوری تصویر اپنے اندر کھینچ لی.اور دیکھنے والے کے لئے کوئی فرق نہیں رہا.مگر پھر بھی آپ خادم اور آنحضرت ا آقا ہی ہیں.نبوت مسیح موعود کے متعلق میرا یہی عقیدہ ہے اور اسی کو میں نے شائع کیا ہے.اور اب

Page 446

N دم جلد ۴۱۹ متفرق بھی دعا کرتا ہوں کہ اسی عقیدہ پر خدا تعالیٰ مجھے وفات دے.باقی رہا کفر و اسلام کا مسئلہ اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ میرے نزدیک وہ - مسئلہ کفر و اسلام لوگ جنہوں نے مسیح موعود کا نام سن کر آپ کو قبول کیا اور وہ لوگ جنہوں نے سناہی نہیں برابر ہیں.لیکن یہ غلط ہے.مؤمن ماننے والے کو کہتے ہیں اور کافر انکار کرنے والے کو یہ دو گروہ ہیں.آگے نہ ماننے والے کئی قسم کے ہیں وہ سب برابر نہیں ہو سکتے.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ گورنمنٹ اعلان کرے کہ تمام لوگ ایک جگہ جمع ہوں کچھ لوگ تو اس اعلان کو سن کر جمع ہو جائیں.اور کچھ باوجود اعلان کے سننے کے شرارت سے جمع نہ ہوں.اور کچھ ایسے ہوں کہ جو اعلان کی بے علمی کی وجہ سے جمع نہ ہو سکیں.اس پر جب گورنمنٹ حکم دے گی کہ جو لوگ جمع نہیں ہوئے ان کو پکڑ کر لایا جائے.تو ان پکڑ کر لائے ہوئے لوگوں میں ہی وہ بھی شامل ہوں گے جو لا علمی کی وجہ سے نہیں آسکے.ہاں آگے یہ فیصلہ گورنمنٹ کرے گی کہ جو شرارت سے نہیں آئے ان کو سزا دی جائے اور جو لا علمی کی وجہ سے نہیں آئے ان کو چھوڑ دیا جائے.اسی طرح یہ فیصلہ کرنا بھی خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے کہ جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود کو نہیں مانا ان میں سے کن کو سزا دے اور کن کو چھوڑ دے.لیکن وہ سب شامل تو نہ ماننے والوں میں ہی ہوں گے اس لئے ان کا نام بھی ایک ہی رکھا جائے گا.ہاں خدا تعالی ظالم نہیں کہ وہ کسی کو اس لئے سزا دے کہ تم نے مسیح موعود کا نام کیوں نہیں سنا اور کیوں نہیں مانا.پس یہ مجھ پر افتراء ہے کہ میں حضرت مسیح موعود کے قبول نہ کرنے والے سب لوگوں کو ایک ہی جیسا سمجھتا ہوں.میرا تو یہ عقیدہ ہے کہ دنیا میں دو گروہ ہیں.ایک مومن دوسرا کافر اس لئے جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے والے ہیں وہ مومن ہیں اور جو ایمان نہیں لائے خواہ ان کے ایمان نہ لانے کی کوئی وجہ ہو وہ کافر.ہاں جس طرح ایمان والوں کے مدارج ہیں اسی طرح ایمان نہ لانے والوں کے بھی کئی درجے ہیں.بعض وہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود کا مقابلہ کیا اور آپ پر کفر کے فتوے لگائے.بعض وہ جنہوں نے مقابلہ کیا مگر کم کیا.بعض وہ جنہوں نے کچھ بھی مقابلہ نہیں کیا مگر راست باز نہ سمجھا.بعض وہ جنہوں نے حسن ظنی سے کام لیا مگر بیعت میں شامل نہ ہوئے.بعض وہ جن تک آپ کا نام ہی نہیں پہنچا.ان میں خدا تعالیٰ فیصلہ کرے گا.ہاں اتنا میں کہہ سکتا ہوں کہ ایسے لوگ جنہوں نے

Page 447

رالعلوم جلد - ۳ ۴۲۰ حضرت مسیح موعود کا نام تک نہیں سنا ان کو اگر خدا تعالیٰ مسیح موعود کے نہ مانے کی سزا دے تو یہ ان پر ظلم ہو گا.مگر خدا تعالی کبھی ایسا نہیں کرے گا.اسمہ احمد کے متعلق ا پھر میرے متعلق کہا جاتا ہے کہ میں آنحضرت الله کو احمد نہیں مانتا یہ بھی غلط ہے.میں تو کہتا ہوں کہ رسول کریم اسب سے بڑے احمد ہیں اگر آپ احمد نہ ہوتے تو پھر حضرت مسیح موعود بھی احمد نہ ہوتے.مگر سوال تو ایک آیت کے متعلق ہے کہ اس میں کون سے احمد کا ذکر ہے.اور یہ ایسی بات ہے کہ میں آواز دوں عبداللہ ادھر آؤ.تو اس نام کے دو شخص میرے پاس آجائیں.ان میں سے ایک کو میں کہہ دوں کہ تم چلے جاؤ میرے بلانے سے تمہارا بلانا مراد نہیں تھا بلکہ اس دوسرے کا تھا.تو کیا میرے اس قول سے کوئی یہ مراد لے سکتا ہے کہ میں نے اس کے عبداللہ نام ہونے سے انکار کر دیا ہے.یا کوئی اور شخص ہو کہ جس کا نام عبد اللہ نہ ہو لیکن وہ اللہ کا بندہ ہونے کی حیثیت سے عبداللہ کہنے پر بول پڑے اور اسے کہا جائے کہ عبد اللہ سے مراد ہماری نام عبد اللہ ہے نہ کہ عبداللہ کے معنی.تو کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اس قول کے قائل نے اس شخص کے اللہ کا بندہ ہونے سے انکار کر دیا.ہر گز نہیں.یہی بات اس پیشگوئی کے متعلق ہے.میں کہتا ہوں اور یہی میری تحقیق ہے کہ رسول کریم ﷺ کا اسم ذات احمد نہیں تھا.بلکہ آپ کے والدین نے آپ کا نام محمد لیے رکھا تھا.البتہ احمد " آپ کا خدا تعالی کی طرف سے ایسا ہی خطاب تھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ابراہیم موسی ، داؤد کہا گیا ہے.کیا کوئی احمدی کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود ابراہیم موسی نہیں تھے.ہاں یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ آپ کے نام نہیں تھے.اور کیا یہ کہنے والا آپ کی تکذیب کرتا ہے.ہرگز نہیں.پس رسول کریم کے متعلق میں بھی کہتا ہوں کہ خدا تعالٰی نے آپ کا نام احمد رکھا تھا.ماں باپ نے نہیں رکھا.آپ کا نام احمد رکھنے کے متعلق ہمارے سامنے ایسی حدیثیں پیش کی جاتی ہیں کہ جن کا کچھ اعتبار نہیں کیا جا سکتا.ہم ان کے مقابلہ میں تصحیحین کی حدیثیں دکھا سکتے ہیں جن میں محمد آپ کا نام بتایا گیا ہے.مسلم میں ایک حدیث ہے.ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا اور آپ کو محمد " محمد " کر کے پکارنے لگا.ایک صحابی نے اسے مارا کہ محمد کیوں کہتا ہے رسول اللہ کیوں نہیں کہتا.اس نے کہا میں وہی نام پکارتا ہوں جو اسکے اہل نے اس کا رکھا ہے.رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں میرے اہل نے میرا نام محمد ہی رکھا ہے یہ سے مسلم کتاب الحیض - باب بيان صفة منى الرجل والمرأة وان الولد مخلوق من مائهما

Page 448

ر العلوم جلد ۳۰ ۲۱.اس حدیث سے ایک اور بات بھی معلوم ہوتی ہے.اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا نام آپ کے دادا نے اور رکھا تھا اور والدہ نے اور.لیکن اس حدیث میں آپ نے یہ کہا ہے کہ میرے اہل نے میرا نام محمد رکھا ہے.یعنی سارے رشتہ داروں نے یہی نام رکھا ہے.نہ کہ کسی نے کچھ.اور کسی نے کچھ یہ آپ کا نام احمد نہ ہونے کے متعلق ایک ایسی شہادت ہے.جسے مخالف بھی مانتے ہیں.اور رسول کریم ﷺ کی اپنی زبانی ہے.اس کے مقابلہ میں ہمارے سامنے ایسی حدیثیں پیش کی جاتی ہیں.جن کے متعلق محدثین کہہ چکے ہیں کہ وضعی ہیں.اگر ہم ان کو وضعی قرار دیتے.تو کہا جا سکتا تھا کہ اپنے خلاف ہونے کی وجہ سے کیا جاتا ہے.لیکن ان کو تو پہلے لوگ بھی وضعی قرار دے چکے ہیں.واقدی کے متعلق امام بخاری لکھتے ہیں کہ وہ کذاب تھا.پھر اس حدیث کے بیان کرنے والا وہ شخص ہے جس نے مرنے کے وقت کہا تھا کہ میں نے تین ہزار حدیثیں خود بنائی ہیں ایسے شخص کی بیان کی ہوئی حدیث کیا وقعت رکھتی ہے.پس میرا مذہب یہ ہے کہ صفت احمدیت کے لحاظ سے رسول کریم ﷺ احمد ہیں.اور آپ سے بڑھ کر اور کوئی احمد نہیں گذرا.حضرت مسیح موعود نے بھی اعجاز المسیح میں اس بات کو تسلیم کیا ہے.تو آنحضرت ا کی صفت احمد تھی.آپ کے والدین نے آپ کا نام احمد نہ رکھا تھا.ہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اسی طرح احمد کہا گیا.جس طرح حضرت مسیح موعود کو داؤد اور سلیمان ، موسی اور ابراہیم کہا گیا.اسی طرح آنحضرت ا کو حاشر، عاقب نامی کہا گیا.(بخاری کتاب المناقب باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ پس میری طرف بات غلط طور پر منسوب کی جاتی ہے کہ میں آنحضرت ا الا یہ کو احمد نہیں سمجھتا.اور یہ بھی غلط ہے کہ میں کہتا ہوں کہ اس آیت میں آنحضرت ا کا ذکر نہیں ہے.کیونکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود آنحضرت ا کے کامل ظل ہیں.تو جو کچھ ظل ہے.ضرور ہے کہ اصل بھی ہو.اور اس کے لئے ضروری ہے کہ آنحضرت ﷺ احمد ہوں.تو پھر مسیح موعود احمد ہوں.پھر ایک بات غیر احمدیوں کو لڑکی دینے کے متعلق ہے اس کے متعلق غیر احمدی کو لڑکی دینا جو روایت پیش کی جاتی ہے.وہ حضرت مسیح موعود کے زمانہ کا واقعہ نہیں.اور نہ ہی آپ نئے اس کے متعلق مشورہ لیا گیا.ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب نے

Page 449

انوار العلوم جلد - ۴۲۲ حضرت مسیح موعود کو یہ کہا تھا کہ میرے رشتہ دار کہتے ہیں کہ ایک لڑکی کا تم نے قادیان میں نکاح کر دیا ہے.تو دوسری لڑکی ہمیں دے دو.اگر میں نے نہ دی تو وہ ناراض ہو جائیں گے.آپ نے فرمایا ہاں دے دو.لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ آپ کو یہ بھی علم تھا کہ جس لڑکے سے اس لڑکی کا نکاح ہوتا ہے وہ غیر احمدی ہے.بعد میں جب آپ کو اس بات کا علم ہوا.تو آپ نے ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ صاحبہ کو کہا کہ ڈاکٹر صاحب کو کہہ دیں کہ یہ نسبت انہوں نے کیوں کی ہے.پھر فرمایا اچھا تم ابھی ان سے نہ کہنا میں حقیقۃ الوحی دوں گا وہ اس لڑکے کو پڑھنے کے لئے دی جائے اگر وہ اس کے بعد احمدی ہو جائے تو اس سے نکاح کیا جائے ورنہ نہیں.مگر بعد میں آپ کو یہ بات یاد نہ رہی.اس روایت کی حقیقت تو میں نے بیان کر دی ہے.لیکن اس کے علاوہ ہمارے پاس ایسی گواہیاں موجود ہیں.جو اس مسئلہ کو بالکل صاف کر دیتی ہیں.چنانچہ ایک شخص فضل الرحمن نام ہیلان ضلع گجرات کے رہنے والے ہیں.انہوں نے حضرت مسیح موعود سے ایک بار نہیں بلکہ کئی بار غیر احمدیوں کے ہاں اپنی لڑکی کا رشتہ کرنے کی اجازت مانگی لیکن آپ نے اجازت نہ دی.آپ کی وفات کے بعد جب اس نے رشتہ کر دیا تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو اپنی جماعت سے نکال دیا اور وہ وہاں کے احمدیوں کا امام تھا اس کے پیچھے نماز پڑھنے سے روک دیا.حضرت مولوی صاحب نے اپنی زندگی میں اسے داخل سلسلہ نہیں کیا.اب میں نے اس کی درخواست تو به قبول کرلی ہے اور بیعت کرائی ہے.پھر غیر احمدی کے جنازہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ فلاں غیر احمدی کا غیر احمدیوں کا جنازہ جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھایا تھا.ممکن ہے آپ نے کسی کی درخواست پر پڑھایا ہو.لیکن کوئی خدا کی قسم کھا کر کہہ دے کہ میں نے حضرت مسیح موعود کو یہ کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں.اصل بات یہ ہے کہ آپ کو کہا گیا کہ فلاں کا جنازہ پڑھ دیں.اور آپ نے یہ سمجھ کر کہ وہ احمد ی ہو گا پڑھ دیا.اس طرح ہوا ہو گا.میرے متعلق تو سب جانتے ہیں کہ میں کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھتا.لیکن مجھے بھی اسی طرح کی ایک بات پیش آئی تھی.اور وہ یہ کہ یہاں ایک طالب علم ہے اس نے مجھے کہا کہ میری والدہ فوت ہو گئی ہے اس کا جنازہ پڑھ دیں.میں نے پڑھ دیا.بعد میں معلوم ہوا کہ وہ غیر احمدی تھی.وہ لڑکا مجھ سے اپنی والدہ کے لئے دعا بھی کراتا رہا کہ وہ

Page 450

ر العلوم جلد ٣٠ ۲۳ سلام احمدی ہو جائے لیکن اس وقت مجھے یاد نہ رہا.اس طرح اگر مسیح موعود نے کسی کا جنازہ پڑھ دیا تو وہ ہمارے لئے حجت نہیں ہے.ہاں اگر چند معتبر آدمی حلفیہ بیان کریں کہ ہم نے حضرت مسیح موعود کو کہا تھا کہ فلاں غیر احمدی فوت ہو گیا ہے.آپ اس کا جنازہ پڑھ دیں.اور پھر آپ نے پڑھ دیا تو ہم مان لیں گے.کیا کوئی ایسے شاہد ہیں.پس جب تک کوئی اس طرح نہ کرے.یہ بات ثابت نہیں ہو سکتی کہ آپ نے کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز قرار دیا ہے.اور ہمارے پاس غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق ایک بہت بڑا ثبوت ہے.اور وہ یہ کہ یہاں حضرت مسیح موعود کے اپنے بیٹے کی لاش لائی گئی.اور آپ کو جنازہ پڑھنے کے لئے کہا گیا.تو آپ نے انکار کر دیا.پھر سرسید کے جنازہ پڑھنے کے متعلق مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم کا خط موجود ہے کہ آپ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا.کیا وہ آپ کو کافر کہتے تھے ہر گز نہیں ان کا تو مذہب ہی یہ تھا کہ کوئی کافر نہیں ہے.جب ان کے جنازہ کے متعلق خط لکھا گیا تو جیسا کہ مولوی عبد الکریم صاحب مندرجہ ذیل خط میں ایک دوست کو تحریر فرماتے ہیں کہ آپ نے اس پر خفگی کا اظہار فرمایا : " متوفی (کی) خبر وفات سن کر خاموش رہے.ہماری لاہوری جماعت نے متفقاً زور شور سے عرضداشت بھیجی کہ وہاں جنازہ پڑھا جائے اور پھر نوٹس دیا جائے کہ سب لوگ جماعت کے ہر شہر میں اسی تقلید پر جنازہ پڑھا جائے اور اس سے نوجوانوں کو یقین ہوگا کہ ہمارا فرقہ صلح کل فرقہ ہے.اس پر حضرت صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا فرمایا اور لوگ نفاق سے کوئی کارروائی کریں تو بیچ بھی جائیں مگر ہم پر تو ضرور غضب الہی نازل ہو.اور فرمایا ہم تو ایک محرک کے تحت میں ہیں بے اسکی تحریک کے کچھ کر نہیں سکتے.نہ ہم کوئی کلمہ بد اسکے حق میں کہتے ہیں اور نہ کچھ اور کرتے ہیں.تفویض الی اللہ کرتے ہیں.فرمایا جس تبدیلی کے ہم منتظر بیٹھے ہیں اگر ساری دنیا خوش ہو جائے اور ایک خدا خوش نہ ہو تو کبھی ہم مقصود حاصل نہیں کر سکتے “ (الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۱۵ء) پس ہم کس طرح کسی غیر احمدی کا جنازہ پڑھنا جائز سمجھ سکتے ہیں.ایک اور بات میں بیان کر دینا چاہتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ بعض شک کا ازالہ کرنا چاہئے لوگوں میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے کہ اگر ان کے دل میں کسی مسئلہ کے متعلق کوئی شک ہو تو اسے اپنے دل میں ہی دبانے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بہت خراب نکلتا ہے.حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ شک ایک بیج کی طرح ہوتا ہے اگر اس

Page 451

۴۲۴ متفرق امور کو اپنے دل سے نکال نہ دیا جائے تو پھر اتنا بڑھ جاتا ہے کہ پھر اس کا اکھیڑنا مشکل ہو جاتا ہے.پس جس وقت کوئی شک پیدا ہو اسی وقت اس کے اکھیڑنے کی کوشش کرنی چاہئے.میں آپ سب لوگوں کو ایک نصیحت کرتا ہوں اور اگر آپ لوگ اس کو مانیں گے تو بہت فائدہ میں رہیں گے اور وہ یہ کہ اگر کسی کے دل میں کوئی شک پیدا ہو تو اس کو چھپایا نہ جائے بلکہ پیش کیا جائے.کیونکہ چھپانا بہت نقصان پہنچاتا ہے اور بیان کرنا بہت فائدہ مند ہوتا ہے.میں نہیں سمجھتا کہ شک کو چھپایا کیوں جاتا ہے.دنیاوی باتوں کے متعلق تو مجھ سے مشورہ لیا جاتا ہے اور دعا کرائی جاتی ہے.لیکن جب ہمارے دشمنوں کی طرف سے ان کے دلوں میں کسی قسم کے شکوک ڈالے جاتے ہیں.تو اس وقت مجھے نہیں لکھتے اور ان کا ازالہ نہیں کراتے.شاید اسے شرم سمجھتے ہیں.لیکن اکثر اوقات یہ شرم بے شرمی ہو جاتی ہے.ام المؤمنین عائشہ کہتی ہیں کہ میرے سامنے آنحضرت سے ایک عورت نے آکر پوچھا کہ کیا اگر عورت کو احتلام ہو جائے تو نہائے.عائشہ کہتی ہیں مجھے یہ سن کر بہت شرم آئی اور میں نے اس کو اپنی طرف کھینچ کر کہا یہ تو نے کیا کہا.عورتوں کو بد نام کر دیا تجھے یہ کہتے ہوئے شرم نہیں آئی.آنحضرت ﷺ نے یہ سن کر فرمایا دین کی باتوں میں شرم نہیں ہوتی.تو آپ لوگوں کو بھی دین کے معاملہ میں شرم نہیں کرنی چاہئے.اگر کسی کے دل میں کوئی شک پیدا ہو یا اس سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کا اسے جواب نہ آتا ہو تو وہ مجھے لکھ دے.جلسہ کے موقعہ پر اس قسم کی ہزاروں باتوں کے متعلق اگر بتایا جائے تو پھر اور کام کس طرح ہوں.کیونکہ وقت بہت کم ہوتا ہے.اس لئے آپ لوگوں کو چاہئے کہ دوسرے ایام میں ان باتوں کا ازالہ کروائیں.یہاں آکر تسلی کریں اور اگر ایسی ضرورت ہو کہ یہاں سے کوئی آدمی بھیجا جائے تو وہ بھی ہم بھیج دیا کریں گے.کیا دین کوئی ایسی حقیر چیز ہے کہ جس کی کچھ پرواہ نہیں ہونی چاہئے اور ردی کی طرح پھینک دینا چاہئے.غالب کہتا ہے.اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا ساغر جسم سے مرا جام سفال اچھا ہے اس میں اس نے اپنے جام کی تعریف یہ کی ہے کہ اگر ایک ٹوٹ گیا تو اور لے آئیں گے.یہی حال اس وقت لوگوں نے ایمان کا کر رکھا ہے.ایمان کی عظمت دل میں نہیں رہی.سمجھتے ہیں کہ ایک عقیدہ چھوڑا تو دوسرا اختیار کرلیں گے.دوسرا چھوڑا تو تیرا اختیار کرلیں گے.لیکن آپ لوگ یا درکھیں کہ ایمان بڑی اعلیٰ اور قیمتی چیز ہے.اس کی آپ لوگوں کو خاص طور پر حفاظت اور قدر کرنا چاہئے.حضرت خلیفہ المسیح الاول شک کو آم کی گٹھلی سے اس طرح تشبیہ دیا کرتے تھے کہ ایک وقت ہوتا ہے جبکہ چھوٹے چھوٹے بچے اکھیڑ کر پیپیاں بنا لیتے ہیں.لیکن ایک وقت وہ ہے سے مسلم مع شرح النووى كتاب الحيض باب وجوب الغسل على المودة بخروج المنى منها

Page 452

r ۴۲۵ متفرق امور بھی آتا ہے کہ اگر بیسیوں آدمی مل کر دھکا دیں تو بھی وہ ہل نہیں سکتا.پس جب شک جڑھ پکڑ جائے اور مضبوط ہو جائے تو پھر اس کا دور کرنا مشکل ہو جاتا ہے.کیونکہ ایسا زنگ لگ جاتا ہے جو صاف نہیں ہو سکتا.اللہ تعالٰی بھی فرماتا ہے خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمُ اس وقت خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کی ہلاکت اور تباہی کا فیصلہ کر چکا ہوتا ہے.پس پیشتر اس کے کہ کسی کے دل میں شک پیدا ہو کر پیدا بڑھے اور پیشتر اس کے کہ اس کو ہلاکت اور تباہی کی طرف لے جائے.بہتر بلکہ ضروری ہے کہ اپنے شک و شبہ سے مجھے اطلاع دی جائے یا ان لوگوں سے ملا جائے.جن کو خدا تعالٰی نے ازالہ شکوک کی قابلیت بخشی ہے.پس آپ لوگوں کو میری یہ نصیحت ہے کہ اگر آپ کے سامنے کوئی ایسا سوال پیش کیا جائے.جس کا آپ کو جواب نہ آتا ہو یا کوئی آپ کے دل میں کسی قسم کا شبہ اور وسوسہ ڈالے تو بجائے اس کے کہ اس کو چھپاؤ فورا ظاہر کر دو.کیا ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے دل میں کوئی مرض ہو یا تپ چڑھا ہو تو وہ اسے چھپائے اور کسی کو نہ بتائے.ہر گز نہیں.بلکہ وہ تو بھاگتا ہوا طبیب کے پاس جائے گا.پس جب درد اور تپ کے لئے جسمانی طبیبوں کے پاس لوگ جاتے اور اپنی بیماری کھول کھول کر بتا کر علاج چاہتے ہیں.اور اس کے لئے روپیہ اور وقت صرف کرتے ہیں.تو پھر کیا وجہ ہے جب ان کے ایمان میں کوئی نقص پیدا ہو یا ان کے دل میں شیطان کوئی شبہ ڈالے اور دھوکا دینا چاہے تو اس کے دور کرنے کے لئے کوئی کوشش نہیں کی جاتی.میں آپ لوگوں کو درد دل سے نصیحت کرتا ہوں کہ جس کو کوئی شبہ ہو وہ مجھے اطلاع دے میں اس کو جواب پہنچا دوں گا اور وہ اس سے ازالہ کرلے.بعض دفعہ یہ بھی ہوتا ہے کہ کسی ناواقف کے سامنے شبہ پیش کیا جاتا ہے مگر اس کے تسلی بخش جواب نہ دینے کی وجہ سے شبہ اور بھی مضبوط ہو جاتا ہے.ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ وہ اپنے شکوک میرے سامنے کیوں پیش نہیں کرتے اور کیوں مجھ سے جواب نہیں پوچھتے انہوں نے میری بیعت کسی فائدہ کے لئے ہی کی ہے اگر وہ مجھ سے ایسی باتوں میں فائدہ نہیں اٹھاتے تو ان کی بیعت کس غرض کے لئے ہوئی.انہوں نے میری بیعت اسی لئے کی ہے کہ جماعت قائم رہے اور جماعت میں کسی قسم کا فتنہ نہ ہو.پس جب کوئی شخص ان کے دل میں کوئی وسوسہ یا شبہ ڈالتا ہے تو وہ کیوں) مجھ سے اس کا ازالہ نہیں کرواتے.خلیفہ کا وجود ایک حجت اور اصل ہے ان کے لئے خدا تعالٰی کی طرف سے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلاتِ ليَسْتَخْلَفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى أرتضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمنا ( النور : ۱۵۶) پس تم لوگ اس روحانی کھانا سے فائدہ

Page 453

م جلد ۳ ۴۲۶ متفرق امور اٹھاؤ اور اپنے دین کو مضبوط کرو.لیکن اگر کوئی فائدہ نہیں اٹھاتا تو اسکی ایسی ہی مثال ہے ایک جنگل میں کھانے اور پانی کے لئے تڑپ تڑپ کر جان تو ڑ رہا ہو حالانکہ کھانا اور پانی اس کے پاس رکھا ہو ایسا انسان واقعہ میں سخت بد قسمت ہے.اگر کوئی ہم سے اپنے شکوک کا ازالہ کروانے کی کوشش کرے.پھر خواہ وہ دور نہ ہوں وہ قیامت کے دن کہہ سکتا ہے کہ اے خدا میں تیرے مقرر کردہ خلیفہ کے پاس ان شکوک کو لے کر گیا تھا مگر وہاں بھی دور نہ ہو سکے.لیکن جو شخص بجائے میرے پاس آنے کے ایسے لوگوں سے ازالہ چاہتا ہے.جو ان کے دور کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے وہ حق سے اور زیادہ دور ہو جاتا ہے.اس کو خدا تعالیٰ پوچھے گا کہ کیوں تم نے خلیفہ سے نہ پوچھا اور اس سے فائدہ نہ اٹھایا اس لئے آؤ اب تمہیں اسکی سزادی جائے.پس اپنے ایمان کی فکر کرو.اور ہر ایک بات کے متعلق مجھ سے پوچھو اسی میں تمہارا فائدہ ہے.لے (نوٹ) یہاں پر نبوت مسیح موعود اسمہ احمد اور مسئلہ کفر کے متعلق سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے اصل الفاظ القول الفصل سے نقل کئے جاتے ہیں جن کو مولوی محمد احسن صاحب نے نہ صرف صادق بتایا تھا.بلکہ انہیں سن کر اس قدر خوش ہوئے تھے کہ عوارض لاحقہ متعلقہ پیری و دیگر امراض کو بھی فراموش کر دیا تھا.(مرتب کنندہ) نبوت مسیح موعود کے متعلق القول الفصل کے صفحہ ہم پر حضرت خلیفۃ المسیح تحریر فرماتے ہیں." میں پھر بڑے زور سے اعلان کرتا ہوں جیسا کہ پہلے متعدد بار اعلان کر چکا ہوں کہ میں مرزا صاحب کو نبی مانتا ہوں.لیکن نہ ایسا کہ وہ نئی شریعت لائے ہیں.اور نہ ایسا کہ ان کو آنحضرت کی اتباع کے بغیر نبوت ملی ہے اور ان معنوں سے آپ کو حقیقی نبی نہیں مانتا.اگر حقیقی نبی کے یہ معنی ہوں کہ وہ نبی ہے یا نہیں.تو میں کہوں گا کہ اگر حقیقی کے مقابلہ میں تعلمی یا بناوٹی یا اسمی نبی کو رکھا جائے تو میں آپ کو حقیقی نبی مانتا ہوں بناوٹی نقلی یا اسمی نہیں مانتا.میں نبیوں کی تین اقسام مانتا ہوں.ایک جو شریعت لانے والے ہیں.دوسرے جو شریعت تو نہیں لاتے لیکن ان کو بلا واسطہ نبوت ملتی ہے.اور کام وہ پہلی امت کا ہی کرتے ہیں.جیسے سلیمان زکریا یحی صحیحم السلام اور ایک وہ جو نہ شریعت لاتے ہیں.اور نہ ان کو بلا واسطہ نبوت ملتی ہے.لیکن وہ پہلے نبی کی اتباع سے نبی ہوتے ہیں.اور سوائے آنحضرت ﷺ کے کوئی نبی اس شان کا نہیں گذرا کہ اس کی اتباع میں ہی انسان نہیں بن جائے.لہذا اس قسم کی نبوتہ صرف اس مکمل انسان کے اتباع میں ہی پائی جاسکتی تھی.اس لئے پہلی امتوں میں اس کی نظیر نہیں.اور اس امت میں سے بھی صرف مسیح موعود کو اس وقت تک یہ درجہ عطا ہوا ہے.اسمہ احمد کے متعلق القول الفصل صفحہ ۳۱ پر تحریر فرماتے ہیں.پس آنحضرت ا احمد تھے اور سب سے بڑے احمد تھے.کیونکہ آپ سے بڑا کوئی مظہر صفت احمدیت کا نہیں ہوا.لیکن آپ کا نام احمد نہ تھا.اور ائمہ احمد کا مصداق مسیح موعود ہے.ہاں آنحضرت ﷺ کی طرف بھی یہ پیشگوئی بوجہ آقا اور استاد ہونے کے اشارہ کرتی ہے." منکر حضرت مسیح موعود کے متعلق القول الفصل صفحہ ۳۳ پر آپ تحریر فرماتے ہیں.دوسرا مسئلہ کفر ہے.جس پر خواجہ صاحب نے بحث کی کو ہے.اس مسئلہ پر میں خود حضرت مسیح موعود کی اپنی تحریر میں شائع کر چکا ہوں.مزید تشریح کی ضرورت نہیں میرا وہی عقیدہ ہے اور جبکہ میں حضرت مرزا صاحب کی نبوت کی نسبت لکھ آیا ہوں کہ نبوت کے حقوق کے لحاظ سے وہ ایسی ہی نبوت ہے.جیسے اور نبیوں کی.صرف نبوت کے طریقوں میں فرق ہے.پہلے انبیاء نے بلاواسطہ نبوت پائی اور آپ نے بالواسطہ پس جو حکم نبی کے انکار کے متعلق قرآن کریم میں ہے.وہی مرزا صاحب کے منکر کی نسبت ہے قرآن کریم میں کہیں نہیں لکھا کہ یہ حکم فلاں فلاں قسم کے نبیوں کی نسبت ہے.ہاں میں اس فرق کو ضرور تسلیم کرتا ہوں.جو حضرت مسیح موعود نے تریاق القلوب میں لکھا ہے.اور حقیقۃ الوحی میں اس کی مزید تشریح فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ صاحب شریعت نبی چونکہ شریعت کے لانے والے ہوتے ہیں.اس لئے ان کا انکار بلا واسطہ انسان کو کافر بنا دینا تھا.لیکن ہمارے حضرت مسیح ) موعود کو چونکہ جو کچھ ملا ہے آنحضرت ﷺ کے طفیل اور آپ کے ذریعہ سے ملا ہے.اس لئے آپ کا انکار بھی اسی واسطہ سے کفر ہوتا ہے یعنی آپ کا انکار آنحضرت ﷺ کا انکار ہے" کے یہ مکمل تقریر ۱ ۲ مارچ ۱۴ء کے الفضل میں چھپ چکی ہے.(مرتب کنندہ)

Page 454

العلوم خالد ۴۲۷ F.جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی زمہ داریاں جماعت احمدیہ کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں (تقریر بر موقع جلسہ سالانہ 1914ء) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 455

۲۲۸

Page 456

بسم الله الرحمن الرحیم ۴۲۹ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم جماعت احمدیہ کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں تقریر بر موقع جلسه سالانه ۲۷ / دسمبر ۱۹۱۶ء) اشْهَدُ انْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ - بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وہ مضمون جو آج میں آپ لوگوں کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں احمد یہ جماعت کے فرائض اور اس کی ذمہ داریوں پر ہے.مگر اسکے بیان کرنے سے پیشتر ایک صاحب کا جن کی رخصت آج تک ہی ہے اور وہ آج چلے جائیں گے ان کا نکاح پڑھائے دیتا ہوں.(نکاح پڑھایا گیا.اس کے بعد حضور نے ایک غیر احمدی کے سوال کا جواب دیا.جنہوں نے لکھا تھا کہ میں کل سے مسئلہ نبوت کے متعلق جو تقریریں ہوئی ہیں سن رہا ہوں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ جب رسول کریمی کے متعلق خاتم النبین آگیا ہے تو پھر آپ کے بعد کس طرح کوئی نبی آسکتا ہے).حضور نے فرمایا کہ اگر انہوں نے مفصل جواب سننا ہو تو مغرب کے بعد اپنے کمرہ کے منتظم کو کہہ دیں وہ انہیں میر محمد اسحاق صاحب یا حافظ روشن علی صاحب کے پاس پہنچا دیں گے.وہ انہیں خاتم النبیین کے معنی سمجھا دیں گے.اور یہ بھی بتا دیں گے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کس طرح کوئی نبی آسکتا ہے.مختصر طور پر اس کا یہ جواب ہے کہ خاتم النبیین کے معنی ہیں نبیوں کی مہر اور مہر تصدیق کرنے کیلئے ہوتی ہے.یعنی جس نبی کے متعلق آنحضرت ﷺ نے اپنی طرف سے مہر لگا دی ہے وہ سچا ہے.پس جس کو نبی کریم نے کہا ہے کہ نبی ہے.وہی سچا نبی ہے اسکے علاوہ کوئی نبی سچا نہیں ثابت ہو سکتا.مثلاً حضرت یحی اور حضرت ذکریا کے ماننے والے دنیا میں موجود نہیں ہیں اور بائبل میں جس طریق سے ان کا ذکر ہے اس کی رو سے وہ نبی نہیں ہو سکتے.لیکن چونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ وہ نبی ہیں اس لئے ہم ان کو نبی مانتے ہیں.پس یہ آنحضرت ﷺ کی انکے متعلق مہر ہو گئی کہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے ان کو قرآن کریم میں نبی قرار دیا.یہی معنی ہیں خاتم النبین کے.خدا تعالی آنحضرت ﷺ کے متعلق فرماتا ہے

Page 457

۴۳۰ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں مَا كَانَ مُحَمَّدًا بَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ (الاحزاب (۴۱) که محمد تم میں سے کسی کا جسمانی باپ نہیں ہے.لیکن اللہ کا رسول ہے.اور صرف رسول ہی نہیں بلکہ خاتم النبیین ہے.یعنی اس کی تصدیق سے پہلے نبیوں کی نبوت ثابت ہوتی ہے اور اس کی تصدیق سے بعد والوں کی ہوگی.پہلے انبیاء کے متعلق دیکھ لیجئے.اگر ان کا علم آنحضرت کے ذریعہ نہ ہو تو ان کی نبوت کا ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے.مثلاً حضرت عیسی ، حضرت نوح حضرت زکریا اور دوسرے انبیاء کے متعلق جو کچھ بائبل کہتی ہے اس سے ان کا نبی ہو نا تو الگ رہا ایک متقی انسان ہونا بھی ثابت نہیں ہو سکتا.لیکن چونکہ رسول اللہ ا نے کہہ دیا ہے کہ وہ نبی ہیں اس لئے ہم ان کو نبی مانتے ہیں.یہی آنحضرت ا کی مہر کی تصدیق ہے.اور آئندہ بھی جس کے متعلق آپ کی تصدیق ہو گی وہ نبی ہوگا.مختصر سے معنی ہیں خاتم النبین کے.اور بھی کئی معنی ہیں اور کسی معنی کے رو سے یہ ثابت نہیں ہو تاکہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا.لیکن چونکہ مجھے اس وقت تقریر کرنی ہے.اس لئے میں کچھ اور نہیں بیان کروں گا.حافظ صاحب یا میر صاحب خوب کھول کر سمجھا دیں گے.کوئی صاحب ان کو مغرب کے بعد ان میں سے ایک کے پاس پہنچا دیں.اب میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں.میں نے آپ لوگوں کو بتا دیا ہے کہ آج میری تقریر کس مضمون پر ہوگی.کل بھی میری تقریر ہوگی اگر اللہ تعالیٰ نے زندگی بخشی اور صحت و توفیق دی.تو کل ایک ایسا مضمون بیان کروں گا جو میرے نزدیک نہایت ضروری اور اہم ہے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کسی کی سمجھ میں آئے گایا نہیں اور کوئی اس کی اہمیت کو سمجھے گایا نہیں لیکن میرے نزدیک وہ مضمون اس قسم کا ہے کہ ہماری ساری جماعت کو اس کی بہت بڑی ضرورت ہے اس وقت میں جو کچھ بیان کروں گا وہ بھی نہایت ضروری ہے لیکن کل جو بیان کروں گا گو اس کی ظاہر طور پر اہمیت معلوم نہیں ہوتی لیکن دراصل وہ نہایت ضروری اور اہم ہے اور اس کا کثیر حصہ ایسا ہے کہ اس سے پہلے کسی کتاب اور کسی تصنیف میں نہیں ملے گا.قرآن کریم اور حدیث کے متعلق میں نہیں کہتا ان میں تو سب کچھ ہے اور میں بھی انہیں سے اخذ کر کے بیان کروں گا.میرا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مصنفین نے ان سے اخذ کر کے اس وقت تک کہیں بیان نہیں کیا.ورنہ جو دینی مضامین ہیں وہ قرآن کریم اور احادیث سے ہی لے کر بیان کئے جاتے ہیں.میں تو نبوت کا دعویٰ نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 458

علوم جلد ۳۰ ۳۱ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.لیکن آپ نے بھی اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بتائی.بلکہ قرآن اور حدیث سے ہی اخذ کر کے سب کچھ بتایا ہے.میں بھی وہ باتیں قرآن کریم اور احادیث سے ہی اخذ کر کے بتاؤں گا.اور وہ ایسی باتیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے مجھے بتائی ہیں اور جو تعلق باللہ اور ایمان مضبوط اور تازہ کرنے کے لئے نہایت ضروری ہیں.لیکن ان میں سے بہت سی ایسی ہیں جو پہلے کسی نے نہیں بیان کیں.بلکہ مجھے خدا تعالیٰ نے سمجھائی ہیں.میں نے اہل علم لوگوں کی کتابوں کو دیکھا ہے مجھے تو وہ باتیں کہیں نظر نہیں آئیں ممکن ہے کسی نے بیان کی ہوں لیکن میری نظر سے نہیں گذریں آج ہی ان کے متعلق کیوں ذکر کر رہا ہوں اس لئے کہ میں نے ابتدائے خلافت سے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ جو باتیں میرے نزدیک خاص طور پر ضروری ہوں.ان کو میں جلسہ کے آخری دن میں بیان کیا کرتا ہوں اور اسکی وجہ یہ ہے کہ کئی لوگ آخری دن تک یہاں نہیں ٹھرتے بلکہ پہلے ہی چلے جاتے ہیں.میں کہتا ہوں کہ جو مخلص ہوں گے وہ آخری دن تک ٹھہریں گے اور میری باتوں کو بھی سنیں گے.اس لئے میں عمد ا ایسی باتوں کو آخری دن بیان کرتا ہوں تاکہ جو محبت اور شوق سے نہیں ٹھہرتے اور چلے جاتے ہیں ان کو میں بھی نہ سناؤں.پس اس دفعہ بھی وہ باتیں میں آخری دن بیان کروں گا اور جو کوئی اس دن ٹھہرے گا فائدہ اٹھائے گا..اب میں اپنے مضمون کی طرف آتا ہوں.یہ مضمون بھی بڑا ضروری اور اہم ہے کیونکہ اس میں جماعت احمدیہ کے فرائض اور اس کی ذمہ داریاں بیان کی جائیں گی.عجیب اتفاق ہے کہ آج میر حامد شاہ صاحب نے جو نظم پڑھی ہے اس کے متعلق میرا مضمون ہے.یہ خدا تعالیٰ ہی کا تصرف ہوتا ہے.مجھ سے بھی کئی دفعہ ایسا ہوا ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے مجھے خطبہ جمعہ پڑھنے کے لئے فرمایا.وہ جمعرات کا دن تھا.اسی دن شام کے وقت میرے دل میں ایک تحریک ہوئی اور وہ یہ کہ میں یہاں کی جماعت کے سامنے اس آیت پر خطبہ پڑھوں کہ وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا قصه گو (الفرقان (۳۱) اور یہ خیال ایسا غالب ہوا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا نماز میں ہی میری توجہ اس طرف پھر گئی.اور اس آیت کے متعلق مجھے بہت وسیع مطالب القاء کے طور پر سمجھائے گئے.میں بڑا حیران ہوا کہ یہ کیا معاملہ ہے.دوسرے دن میں نے خطبہ کے لئے تیاری کی.عام طور پر میری یہ عادت نہ تھی اور نہ اب ہے کہ خطبہ کے لئے تیاری کر کے جاؤں.بعض دفعہ تو ایسا

Page 459

انوار العلوم جلد - ۳ چونه * ۴۳۲ ر جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں بھی ہوتا ہے کہ خطبہ کے ابتداء میں جن کلمات کا پڑھنا مسنون ہے ان کے پڑھتے ہوئے بھی مجھے علم نہیں ہوتا کہ آج میں کیا بیان کروں گا اور کوئی بات ذہن میں نہیں ہوتی.لیکن اس وقت اللہ خود بخود ہی زبان پر کلمات جاری کر دیتا ہے اور میں خطبہ پڑھ لیتا ہوں.مگر اس دن ونکہ مجھے خاص طور پر تحریک ہوئی تھی اس لئے میں نے ارادہ کیا کہ خطبہ کی تیاری کر کے جاؤں.جب میں مسجد میں جانے کے لئے چھوٹی مسجد کی ان سیڑھیوں پر سے اترا جو ہمارے گھر کے ساتھ پیوستہ ہیں.تو دیکھا کہ حضرت مولوی صاحب مسجد کو جا رہے ہیں.آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آج آپ کہاں تھے.پچھلے دو گھنٹہ کے اندر میں آپ کے بلانے کے لئے کئی آدمی بھیج چکا ہوں.میں نے کہا حضور میں تو اندرہی تھا.کہنے لگے مجھے صبح سے تحریک ہو رہی ہے اور میں چاہتا تھا کہ آپ کو بلا کر بتلاؤں کہ اس بات پر خطبہ پڑھنا.اس کے بعد آپ مجھے خطبہ کا مضمون بتانے لگے اور بتاتے بتاتے مسجد اقصیٰ کے ساتھ جو ہندوؤں کا مکان ہے اس کے پاس آکر کہنے لگے کہ پھر اس کے متعلق کوئی آیت سوچ لو پھر خود ہی کہہ دیا کہ یہی آیت پڑھ لینا کہ و قَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ اِنَ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَذَا الْقُرْآنَ مَهْجُودًا، میں حضرت مولوی صاحب کا بہت ادب کرتا تھا مگر اس وقت بے اختیار میری ہنسی نکل گئی اور میں نے کہا یہی آیت میں نے بھی آج سوچی ہوئی تھی.اسی طرح کا تو ارد اب بھی ہوا ہے.کل میر حامد شاہ صاحب جب آئے تو انہوں نے مجھے کہا کہ میں جلسہ میں ایک نظم سنانا چاہتا ہوں.آپ پہلے سن لیں کوئی اس پر اعتراض نہ کرے.میں نے کہا سنائیے جب وہ سنا چکے تو میں نے کہا کہ میں بھی دعا کرنے کے بعد سوچ رہا تھا کہ کس مضمون پر تقریر کروں تو فورا ہی مضمون میرے ذہن میں آیا جو آپ نے اس نظم میں باندھا ہے.میں نے ظہر سے پہلے کچھ آیات آپ لوگوں کے سامنے پڑھی تھیں.ان میں اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو ہوشیار کیا ہے.فرماتا ہے.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ - اے انسان تو اس اللہ کا نام لے کر شروع کر جو رحمن اور رحیم ہے.یعنی تیرا وہ خدا ہے جس نے کچھ سامان انسان کی محنت اور مشقت کے بغیر پیدا کر دیئے ہوئے ہیں.دیکھو ایک زمیندار زمین میں بیج ڈالتا ہے بڑی محنت اور مشقت کرتا ہے اور پھر چھ ماہ یا کچھ کم و بیش عرصہ کے بعد جاکر غلہ کا تا ہے مگر زمین اور زمین میں جو اگانے کی طاقت ہے اس میں اس کا کچھ دخل اور تصرف نہیں ہے.زمین کو جو تنا.اس میں بیچ ڈالنا اور کو ئیں یا نہر سے پانی کھینچ کر دینا تو اس کا کام ہے مگر زمین میں جو پیدا کرنے کی

Page 460

م جلد -- ۳۳ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں طاقت ہے اس پر اس کا کچھ اختیار نہیں ہے.وہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت اس میں رکھی ہوئی ہے.تو اللہ تعالیٰ میں دو صفتیں ہیں.ایک یہ کہ انسان پر بغیر اس کی کسی محنت کے بعض فضل کرتا ہے.اور دوسری یہ کہ جب انسان بغیر محنت کے دی ہوئی چیزوں کو کلام میں لاتا ہے.تو اس کے نتیجہ میں اس پر اور انعام کرتا ہے.یہ احسان اس کی صفت رحیمیت کے ماتحت ہوتے ہیں.چونکہ خدا تعالیٰ کی یہ دو صفتیں ہیں.یعنی ایک یہ کہ بغیر انسان کی محنت کے اسے کچھ دیتا ہے.اور دوسرے یہ کہ جب انسان اس پر عمل کر کے کمال کو پہنچ جاتا ہے تو اسے انعام دیتا ہے.اس لئے خدا تعالٰی نے قرآن کریم کی ہر ایک سورۃ کے ابتداء میں بسم اللہ الرحمن الرحیم رکھ دیا ہے تاکہ انسان اس طرف متوجہ ہو.یہ جو اگلی سورۃ میں پڑھنے لگا ہوں اس کے حاصل کرنے کے لئے میں نے کوئی محنت نہیں کی بلکہ یہ محض خدا تعالیٰ کے فضل و کرم اور احسان و مروت سے اس کی صفت رحمانیت کے ساتھ ملی ہوئی ہے اور اگر میں اس پر عمل کروں گا.تو خدا تعالی کی دوسری صفت جو رحیمیت ہے اس کے ماتحت مجھ پر بڑے بڑے انعام ہوں گے.اور پھر اس سے یہ بتایا ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے رحمن ہو کر اس قدر احسان اور فضل کیا ہے تو جب میں اس کی صفت رحیمیت کے ماتحت آجاؤں گا تو وہ رحیم ہو کر کس قدر کرے گا.کیونکہ جو بغیر محنت کرنے کے اس قدر دیتا ہے وہ محنت کرنے پر کیوں بے انتہاء نہ دے گا.دراصل خدا تعالیٰ کی صفات رحمانیت اور رحیمیت ایک پھر کی کی طرح ہیں.پہلے خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت کا ظہور ہوتا ہے اور جب کوئی شخص اس صفت سے فائدہ اٹھاتا ہے تو پھر صفت رحیمیت اس کو خدا تعالٰی سے جاکر ملا دیتی ہے پھر خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت جلوہ گر ہوتی ہے.پھر یہ اس سے اپنے آپ کو وابستہ کرتا ہے.اور پھر اٹھایا جا کر خدا تعالٰی کے اور بھی قریب کیا جاتا ہے.گویا رحمانیت اور رحیمیت کو ئیں کے چکر کی طرح چلتی رہتی ہیں کہ پہلے ایک ظاہر ہوتی ہے پھر دوسری پھر پہلی اور اس کے بعد پھر دوسری جس طرح کو ئیں کی ٹنڈیں اوپر سے خالی آتی ہیں پھر بھر کر اوپر چلی جاتی ہیں.پھر خالی ہو کر آتی ہیں.پھر بھر کر چلی جاتی ہیں.اسی طرح صفت رحیمیت کا ظہور ہوتا ہے.پھر اس کے ساتھ انسانی اعمال وابستہ ہو جاتے ہیں اور بلند ہو کر خدا تعالی کے حضور میں پیش ہو کر خلعت قبولیت پاتے ہیں.ہر سورۃ کے پہلے بسم الله الرحمن الرحیم رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ ایک فضل میرا

Page 461

انوار العلوم جلد F.۳ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں رحیمیت کے ماتحت آتا ہے.اسی کو مضبوط پکڑ لو گے اور کام میں لاؤ گے تو یہ تم کو اٹھا کر میرے قریب کر دے گا.اور تم صفت رحیمیت کا مزا چکھو گے.اسی امر کی طرف اشارہ ہے کہ آیت کو اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيْعًا ، یعنی اللہ تعالٰی نے تمہاری طرف اپنی رحیمیت کا رتنا پھینکا ہے اس کو خوب اچھی طرح مضبوط پکڑ لو تا اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو اور اس کی صفت رحیمیت کے انعامات سے حصہ پاؤ.بسم الله الرحمن الرحیم کے بعد اللہ تعالٰی اس سورۃ میں فرماتا ہے.الہ میں اللہ بہت جاننے والا ہوں.یعنی یہ نہیں کہ تم مجھے دھوکا دے لو گے مجھے ہر گز تم دھوکا نہیں دے سکتے کیونکہ دھوکا ناواقف اور جاہل کھایا کرتے ہیں.مثلاً میں یہاں لیکچر دے رہا ہوں میری نسبت کوئی شخص کسی دوسرے شہر میں جاکر کے کہ میں قادیان کے سالانہ جلسہ پر گیا تھا وہاں میں نے دیکھا کہ وہ قرآن کے خلاف باتیں بیان کر رہا تھا اور آنحضرت ا اللہ کی بنک کرتا تھا.اس کے اس قول کو ایک ایسا شخص تو شاید مان لے جو اس جلسہ میں موجود نہ تھا کیونکہ اس کو کیا معلوم کہ میں نے جو کچھ بیان کیا قرآن کریم کے مطابق بیان کیا اور رسول کریم اے کی عظمت ظاہر کرتا تھا.مگر تم میں سے اگر کسی کے سامنے وہ یہ بات کہے تو تم کبھی نہیں مانو گے اور اسے فورا کہہ دو گے کہ تو جھوٹ بک رہا ہے.کیونکہ تمہیں اس کا علم ہے.تو جب خدا تعالیٰ نے یہ سنا دیا کہ انے لوگو میں نے تمہیں کچھ سامان اپنی صفت رحمانیت کے ماتحت دیئے ہیں اگر تم ان پر عمل کرو گے تو میری صفت رحیمیت کے ماتحت آجاؤ گے.تو ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا کہ اگر تم چاہو کہ مجھے دھوکا دے کر انعام حاصل کر لو اور رحمانیت کے ماتحت دئیے ہوئے سامان پر عمل کئے بغیر صرف منہ سے یہ کہہ کر کہ ہم نے ان پر عمل کر لیا ہے ان انعامات کے وارث بننا چاہو جو رحیمیت کے ماتحت حاصل ہوتے ہیں.تو یہ کبھی نہیں ہو سکے گا کیونکہ میں بہت بڑا جاننے والا ہوں.جب معمولی طور پر جاننے والا دھوکہ نہیں کھا سکتا تو میں جو بہت بڑا جاننے والا ہوں میں کس طرح دھوکا کھا سکتا ہوں.پس کسی کا یہ خیال درست نہیں کہ صرف منہ سے کہہ کر انعامات حاصل کر لے گا.دیکھو ! گور نمنٹ ایک قسم کے کاغذ بنا کر شائع کرتی ہے.اور ان کی مختلف قیمتیں رکھتی ہے.کوئی دس روپیہ کا کوئی نہیں کا کوئی سو کا.اس کاغذ کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ جس وقت بھی کوئی چاہے اس کو دے کر روپیہ لے سکتا ہے.اب اگر کوئی شخص اس طرح کرے کہ اپنی

Page 462

انوار العلوم جلد - - r..۴۳۵ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں طرف سے ایک کاغذ بنا کر پیش کر دے اور امید رکھے کہ گورنمنٹ کو دے کر اس سے روپیہ وصول کرلوں گا.تو یہ خواہش پوری نہیں ہو سکے گی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے انعام آیا ہے اگر تم اس کو قبول کر کے اس پر عمل کرو گے تو اور زیادہ انعام پاؤ گے.اگر یونسی انعام حاصل کرنا چاہو تو یاد رکھو کہ اللہ بڑا جاننے والا ہے وہ کبھی دھوکا نہیں کھا سکتا اور نہ ہی تمہارے فریب میں آ سکتا ہے.چنانچہ آگے اس مضمون کی تشریح فرما دی کہ اَحَسِبَ النَّاسُ أَنْ يُتْرَكُوا اَنْ يَقُولُوا امَنَا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ.(العنکبوت : ۳) کیا لوگوں نے یہ سمجھ چھوڑا ہے کہ وہ آزمائش میں نہ ڈالے جائیں گے صرف یہ کہہ دینے پر کہ ہم ایمان لے آئے.یہ نہیں ہو سکتا.جب معمولی جانے والوں اور ادنی بصارت رکھنے والوں کو کوئی دھوکا نہیں دے سکتا حالانکہ آنکھ کبھی دھوکا بھی کھا جاتی ہے تو پھر اس خدا کو جو ہر ایک پوشیدہ سے پوشیدہ باتوں کو جانتا اور نہاں در نہاں چیزوں کا علم رکھتا ہے کس طرح دھوکا دیا جا سکتا ہے.پس جب تک تم کو جو انعام ملا ہے اس کو چمٹ کر مضبوطی سے نہ پکڑ لو گے اس وقت تک خدا تعالیٰ تک نہ پہنچ سکو گے اور انعامات کے وارث نہ بن سکو گے جو صرف زبان سے ایمان لانے کا اقرار کرنے سے نہیں بلکہ عمل کر کے دکھانے سے حاصل ہوتے ہیں.پھر فرمایا - وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) العنكبوت : ۴) اول تو یہی سمجھ لو کہ میں بہت بڑا جانے والا ہوں اس لئے تم مجھے کبھی دھوکا نہیں دے سکتے.لیکن شاید کوئی کہے کہ خدا چونکہ چشم پوش ہے اس لئے ہم سے چشم پوشی کر دے گا.فرمایا یہ نہیں ہو گا.وَلَقَدْ فَتَنَا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ان لوگوں سے جو آج ایمان کا دعوی کرتے ہیں وہی معاملہ ہو گا جو ان سے پہلے زمانہ کے لوگوں سے ہوا.ہم چشم پوش ہیں اور ضرور ہیں لیکن اس معاملہ میں چشم پوشی نہیں کی جاسکتی.ان سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں ان کو یہ دیکھ لیں.کیا صرف انکے زبانی کہہ دینے سے خدا تعالیٰ نے ان کی بات مان لی تھی.ہر گز نہیں بلکہ ان کو ہم نے آزمائش میں ڈالا تھا.فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الكَذِبِينَ ( العنكبوت : ۳) اللہ تعالی ضرور ان لوگوں کو جان لے گا جو اپنے دعوئی میں بچے ہیں اور ان لوگوں کو بھی جان لے گا جو جھوٹے ہیں.پس اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ایمان کا دعوی کرنے والوں کی ضرور ضرور آزمائش کروں گا.اور یہ میری بات بلا شک و بلا ریب اہل ہے.میں اس کو ضرور عمل میں لاؤں گا.یعنی یہ کہ اللہ

Page 463

۳ بهم جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں تعالیٰ کے علم میں جو یہ بات ازل سے چلی آتی ہے کہ فلاں شخص اپنے دعوئی ایمان میں جھوٹا ہو گا اور فلاں شخص سچا اس کو اللہ تعالیٰ ظاہر کر دے گا.اور جو علم اس کو آئندہ کی نسبت تھا اب واقعہ کے ہو جانے پر ماضی کا علم ہو جائے گا.اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ کے جھوٹے اور سچے کے جاننے کا کیا مطلب ہوا.کیا وہ پہلے ان کو نہیں جانتا.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ تو پہلے ہی ہر ایک بات کو جانتا ہے.چنانچہ اس نے پہلے ہی بتا دیا ہے.کہ الہ میں بڑا جاننے والا ہوں.لیکن پہلے خدا تعالیٰ یہ جانتا ہے کہ ایسا ہو گا.اور جب اسی طرح ہو جاتا ہے تو وہ یہ جان لیتا ہے کہ اس طرح ہو گیا.اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ ہم کہیں کہ کل زید لاہور جائے گا.یہ بھی اس کے جانے کے متعلق علم ہے لیکن جب وہ چلا بھی جائے تو اس علم کی تصدیق بھی ہو جائے گی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھے یہ تو معلوم ہے کہ فلاں شخص منہ سے تو کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ اترا ہے میں اس پر ایمان لاتا ہوں.اور اس کے دل میں یہ بات نہیں.یا یہ امر واقعہ کے خلاف ہے.لیکن اس پر ایسے واقعات اور حالات گذریں گے کہ جس سے یہ امر جو پوشیدہ تھا ظاہر بھی ہو جائے گا اور اس کا عمل اللہ تعالٰی کے علم کی تصدیق کر دے گا.آج ہی میں نے آپ لوگوں کو بتایا تھا کہ قرآن کریم کوئی جادو اور ٹونے کی کتاب نہیں ہے بلکہ عمل کرنے کے لئے ہے اور عمل کر کے انعامات حاصل کرنے کے لئے ہے.پس کیا ہو سکتا ہے کہ کسی کے صرف یہ کہہ دینے سے کہ میں اس پر ایمان لاتا ہوں وہ انعامات کا مستحق ہو جائے.ہرگز نہیں.کیونکہ اللہ تعالٰی کی سنت ہے کہ وہ ایمان کا دعوی کرنے والوں کی آزمائش کیا کرتا ہے.اور اس طرح بچے اور جھوٹے کو ظاہر کر دیتا ہے.چنانچہ خدا تعالی کی یہ سنت خاص طور پر اس وقت پوری ہوتی ہے جبکہ کوئی نبی مبعوث ہوتا ہے.کیونکہ اس نبی پر جو لوگ ایمان لاتے ہیں.ان سے وہ یہ اقرار لیتا ہے کہ ہم اپنے آپ کو تیرے ہاتھ پر کامل طور سے پیچ دیتے ہیں.یہ پہلا امتحان اور پہلی آزمائش ہوتی ہے جو بچے اور جھوٹے میں امتیاز کر دیتی ہے.اس کے بعد اس نبی کے خلفاء کے ہاتھ پر جو لوگ ان کی بیعت میں داخل ہوتے ہیں ان کو بھی یہی کہا جاتا ہے کہ تم اپنے آپ کو بیچ دو اور غلام بن جاؤ.اس اقرار کے بعد جب وہ لوگ عملی طور پر بھی پکے اتریں تب جاکر پکے مؤمن کہلا سکتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ سورۃ توبہ میں فرماتا ہے.اِنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ، يَقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ

Page 464

انوار العلوم جلد - ۳ ۴۳۷ لدیہ کے فرائض ! ط حُقًّا فِي التَّواةِ وَالإِنْجِيلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أو فى بِعَهْدِهِ مِنَ اللهِ فَاسْتَبْشِرُوا أَوْفَى بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ، وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوب : (1) فرمایا ہم نے نبیوں کے ذریعہ جو تعلیم بھیجی ہے اور اس تعلیم پر عمل کرنے پر جو انعام مقرر کئے ہیں وہ کن لوگوں کے لئے ہیں.کیا ان کے لئے جو صرف منہ سے کہہ دیں گے کہ ہم ایمان لے آئے اور عمل کر کے نہیں دکھا ئیں گے.نہیں بلکہ ان کے لئے جو ہمارے ہاتھ اپنی جان اور مال بیچ دیتے ہیں.ایسے لوگوں سے ہمارا یہ عہد نامہ ہو چکا ہے کہ ہم تمہیں ہر ایک اس تکلیف اور مصیبت سے جو ہلاک اور ذلیل کر دینے والی ہوگی بچائیں گے.ہاں تکلیفیں اور مصیبتیں آئیں گی ضرور تا کہ تمہاری آزمائش ہو.لیکن ان میں بالآخر ہم تم کو اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی کامیاب کریں گے.مگر اس کے لئے ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ تم اپنی جانوں اور مالوں کو ہمارے سپرد کر دو.یہ بندہ اور خدا میں سودا ہوتا ہے.فرمایا ہم یہ وعدہ کن لوگوں سے پورا کریں گے.ان سے جو ہم سے خرید و فروخت کرتے ہیں.ہم یہ وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو دنیا میں ہر ایک ذلت اور ہلاکت سے بچائیں گے.اور آخرت میں اعلیٰ مدارج پر پہنچا ئیں گے.اور بندہ کہتا ہے کہ میں اپنی جان اور مال خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ نہیں کروں گا یہ بندہ اور خدا میں بیچ ہوئی اور کیا ہی عجیب و غریب بیچ ہے.دنیا میں تو یہ بیچ ہوتی ہے کہ ایک چیز دے کر دوسری لے لی جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ چونکہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَني ہے.اس لئے اس کی بیع بھی بے مثل ہے کیونکہ دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ ایک جوتی دیتا ہے اور روپیہ لیتا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کو دیکھئے خود بندہ کو جان اور مال دیتا ہے اور پھر کہتا ہے کہ یہ ہمارے ہاتھ بیچ دو.ایک شاعر نے کیا ہی خوب کہا ہے.تھا وہ شرابی مگر بات نہایت لطیف کہہ گیا ہے.کہتا ہے.جاں دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا ہم نہیں جانتے کہ اس نے کس کو مخاطب کر کے یہ کہا ہے.لیکن ہم حسن ظنی سے کام لے کر خیال کرتے ہیں کہ اس نے خدا تعالیٰ کی نسبت کہا ہے.کہتا ہے.اگر ہم نے اس کو جان بھی دے دی تو بھی اس کے احسان کا بدلہ نہیں ادا کریں گے کیونکہ جان بھی تو اس کی دی ہوئی ہے.واقعہ میں یہ بالکل درست اور صحیح بات ہے کہ اگر انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان بھی دے دے.تو بھی اس کے احسانات کا کچھ بھی بدلہ نہیں ادا کر سکتا.کیونکہ جان خود خدا تعالیٰ کی عطا 女

Page 465

انوار العلوم جلد - ۳ ۴۳۸ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں کردہ ہے.خدا تعالیٰ کی بیع کو دیکھو.انسان کو اپنی شفقت اور ذرہ نوازی سے پیدا کرتا ہے اور اپنے احسانات اور انعامات کے اس پر دروازے کھول دیتا ہے پھر کہتا ہے.آؤ ہم تم بیع کریں.اس وقت سب سے پہلی بات یہ سامنے آتی ہے کہ کیا بندہ کی بھی کوئی چیز ہے کہ جسے وہ خدا تعالی کو دے گا اور اس کے معاوضہ میں کچھ لے گا.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسی کوئی شئے نہیں.جو کچھ اس کے پاس ہے وہ خدا تعالٰی کا ہی دیا ہوا ہے.لیکن باوجود اس کے خدا تعالی کہتا ہے کہ آؤ مجھ سے بیچ کر لو اور جو کچھ میں نے تم کو دیا ہے وہ مجھے دے دو اور اس کے بدلہ میں بہت اعلیٰ درجہ کے انعامات تم کو دوں گا.دیکھئے انسانی جان ہوتی ہی کیا چیز ہے اور اس کی ہستی ہی کیا ایک بوند ہوتی ہے جس سے انسان پیدا ہوتا ہے.پھر دنیاوی مال و دولت کیا وقعت رکھتی ہے.دس ہیں لاکھ یا کرو ڑ دو کروڑ روپیہ ہے.اسے دے کر خدا تعالیٰ سے جو کچھ ملتا ہے.وہ جنت ہے.اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں اپنے آپ کو تمہیں دے دوں گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ال نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن کے روزے کی جزاء میں ہوں.تو خدا تعالیٰ خود انسان کو سب کچھ دیتا ہے.اور پھر کہتا ہے کہ آؤ سودا کرلیں.اور سودا اس طرح کرتا ہے کہ نہایت ادنی چیزیں لے کر ان کے بدلہ میں ابدی اور بیش بہا چیزیں دیتا ہے.اور یہاں تک فرماتا ہے کہ میں جو آتا ہوں میں بھی پھر تیرا ہو جاؤں گا.پھر اس بیع میں ایک اور بہت بڑی خوبی ہے.اور وہ خدا کوئی چیز خرید کرلے نہیں لیتا یہ کہ جو چیز خدا تعالیٰ بندہ سے بیع میں لیتا ہے.وہ لے نہیں لیتا.کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کسی انسان نے اپنی جان کو خدا تعالی کے ہاتھ بیچ کر دیا ہو.اور خدا تعالیٰ نے اسے آسمان پر اٹھا لیا ہو.یا یہ کہ کسی نے خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے مال کی بیع کی ہو اور خدا نے اس کی تمام دولت اور جائیداد وغیرہ کو اس سے اس طرح لے لیا ہو.جس طرح ہم جب کوئی چیز خریدتے ہیں تو اسے اپنے گھر لے جاتے ہیں.ہرگز نہیں.بلکہ اللہ تعالی جان و مال خود دے کر پھر خریدتا ہے.اور اس کے بدلہ میں ابدی انعامات دیتا ہے.اور پھر بھی یہ کہتا ہے کہ ان بیچی ہوئی چیزوں کو اپنے پاس ہی رکھو اور اپنے فائدہ اور نفع کے لئے خرچ کرو.لیکن اتنا یاد رکھو کہ جب ہماری طرف سے یہ آواز آئے کہ ہمارے راستہ میں خرچ کرو تو اس وقت ان میں سے کچھ دے دیا کرو.پھر یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہتا ہے کہ جب تم ہماری تمام و کمال خریدی ہوئی چیزوں میں سے کچھ ہمارے لئے خرچ کرو گے تو اس پر میں تمہیں اور انعام دوں گا.ه بنیا اما تاب الصوم باب فضل الصوم

Page 466

العلوم جلد - ۳ ۴۳۹ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں پس جب کوئی بندہ خدا تعالیٰ کے کسی نبی یا اس کے خلیفہ کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو گویا وہ اقرار کرتا ہے کہ میری جان اور میرا مال میرے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہو گئے.مگر خدا تعالٰی اس سے یہ چیزیں لے نہیں لیتا بلکہ اس کے پاس رہنے دیتا ہے.اور جب وہ ان میں سے کچھ حصہ خدا کی راہ میں لگاتا ہے تو خدا تعالیٰ اس پر اور انعام کرتا ہے.یہ ہے وہ بیچ جو خدا تعالٰی مومنین سے کرتا ہے.کیا کوئی اور بیع اس کے مقابلہ میں پیش کی جاسکتی ہے.ہرگز نہیں.کیونکہ یہ بے مثل ہے.لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آتی ہے اور اس بات کے امتحان کا وقت آتا ہے کہ کون اس کے راستہ میں خرچ کرتا ہے اور کون نہیں کرتا.تو اکثر لوگ اس میں پاس ہونے کی کوشش نہیں کرتے اور یہ نہیں سمجھتے کہ ہماری جان اور ہمارا مال ہمارے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ ہم بیچ چکے ہیں اور ہمارے پاس اس نے بطور امانت کے یہ چیزیں رکھی ہوئی ہیں.اور بہت ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ کیا ہماری اپنی ضرورتیں اور حاجتیں تھوڑی ہیں کہ خدا کی راہ میں ان کو خرچ کریں.لیکن اس سے زیادہ بے شرمی اور بے حیائی کی اور کیا بات ہو سکتی ہے.مثال کے طور پر دیکھو کہ تم زید کو ایک چیز خرید کردو.اور کہو کہ اس کو تم اپنے پاس رکھو اور استعمال بھی کرو.اگر کبھی ہمیں اس کی ضرورت ہوئی تو تم سے لے لیں گے.مثلاً تم زید کو ایک مکان خرید کر دو کہ تم اس میں رہو.جب کبھی ہمیں اس کی ضرورت ہوئی اس وقت خالی کر دینا پھر کسی وقت تم اسے جاکر کہو کہ ہم تم سے سارا مکان تو خالی نہیں کرواتے البتہ ایک کمرہ کی ضرورت ہے وہ خالی کردو.لیکن وہ آگے سے یہ کہے کہ یہ مکان تو پہلے ہی میری ضروریات کی نسبت کم ہے پھر میں آپ کو ایک کمرہ کس طرح خالی کر دوں.کیا اس کے اس جواب کو تم پسند کرو گے.یا کوئی اور عقلمند انسان پسند کرے گا.ہرگز نہیں.بلکہ تم بھی اور دوسرے بھی اس پر لعنت بھیجیں گے.اور اس سے نفرت کا اظہار کریں گے.لیکن اکثر لوگ ایسا ہی معاملہ خدا تعالٰی سے کرتے ہیں لیکن نہ ان کا نفس ان کو ملامت کرتا ہے نہ دوسرے لوگ ان کو ملامت کرتے ہیں.حالانکہ یہ امر نہایت ہی قابل نفرت اور مستحق ملامت ہے.پھر اس سے بھی بڑھ کر قابل ملامت اور لائق نفرین یہ بات ہے کہ اگر مالک مکان مکان میں رہنے والے کو یہ بھی کہے کہ تم ایک کمرہ خالی کر دو اس کا میں تمہیں کرایہ بھی دے دوں گا.لیکن پھر بھی وہ نہ مانے.اور اللہ تعالیٰ اسی طرح فرماتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے.جب میں اپنی رکھائی ہوئی امانت میں سے کچھ لوں گا.تو اس کے بدلہ میں اور بھی بہت کچھ دوں گا.مگر پھر بھی

Page 467

انوار العلوم جلد ۳۰ مم جماعت احمدیہ کے فرائض اور ا بہت لوگ ایسے ہیں جو خدا تعالی کی راہ میں خرچ کرنے سے دریغ کرتے ہیں.آپ لوگ اپنے دلوں کو ٹولیں اور غور کریں کہ کیا آپ کے دل کے کسی گوشہ سے بھی یہ آواز آتی ہے کہ تمہیں ایسے وقت میں جبکہ خدا تعالٰی کی راہ میں خرچ کرنے کی ضرورت ہو.یہی جواب دینا چاہئے کیا آپ کے پوشیدہ سے پوشیدہ خیالات میں سے کوئی بھی خیال اس بات کی تائید کرتا ہے کہ کسی سے ایک چیز خریدی جائے.اور وہ اسے ہی بطور امانت رکھنے کے لئے دے دی جائے.لیکن کسی وقت اس کا حصہ مانگا جائے اور اس کی بھی اسے قیمت پیش کی جائے.مگروہ دینے سے انکار کر دے.اگر نہیں تو پھر بھی بات اس بیع کے متعلق کیوں پیش نظر نہیں رکھتے.جو آپ میں اور اللہ تعالیٰ میں ہو چکی ہے.اس کے لئے یا تو یہ کہو کہ ہم نے بیع ہی نہیں کی.یا یہ کہو بیع تو کی تھی لیکن اس پر قائم نہیں.اور ان فانی چیزوں کو دے کر ابدی انعام کو نہیں لینا چاہتے لیکن جو شخص یہ اقرار کرتا ہے کہ میں نے اللہ تعالٰی سے بیع کی ہوئی ہے.اور میں اس پر قائم بھی ہوں.تو پھر کیا وجہ ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے مال اور جان دینے کے لئے آواز آتی ہے.تو عذر کرتا ہے اس کا تو اولین اور سب سے بڑا فرض یہ ہے کہ اس آواز کو قبول کرے اور بڑی خوشی سے اپنی جان اور مال کو خدا کی راہ میں لگا دے.یہاں سوال ہوتا ہے کہ اگر کوئی جان اور خدا کی راہ میں جان و مال لگانے کے طریق مال کو خدا کی راہ میں لگانا چاہے تو کس طرح لگا سکتا ہے.اس کے جواب میں میں تین طریق بتاتا ہوں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں.(۱) انسان اپنے عقائد کو درست کرے.یعنی خدا تعالٰی کی منشاء کے ماتحت رکھے.(۲) اپنے اعمال کا ایک حصہ تو جس طرح چاہے عمل میں لائے مگر وہ باتیں جن کے کرنے کے متعلق خدا تعالی نے ہدایات بتائی ہیں.ان کے مطابق کرے.اور جن کے کرنے سے روکا ہے ان سے رک جائے.(۳) جو بیچ اس نے خدا تعالیٰ کے ساتھ کی ہے.اس کے کرنے کے لئے دوسروں کو کہے.اور بتائے کہ اگر تم ایسا کرو گے تو خدا تعالٰی کے بڑے بڑے انعامات کے وارث بن جاؤ گے.یہ تین طریق خدا تعالیٰ کی راہ میں جان اور مال خرچ تائید الہی کے حصول کا طریق کرنے کے ہیں.مذہب اسلام جو خدا تعالیٰ کا سچا اور پاک مذہب ہے.اس میں داخل ہونے کا یہی فائدہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے انسان کی تائید کرتا ہے.جہنم سے بچاتا ہے اور انعام دیتا ہے.لیکن یہ غرض تب پوری ہو سکتی ہے.جبکہ انسان بیچ میں پورا

Page 468

اسم سلام جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں اترے.کیونکہ ایک تاجر اس وقت کسی چیز کی قیمت حاصل کر سکتا ہے.جبکہ خریدار کو وہ چیز دے بھی.لیکن اگر یہ کہے میں چیز تو نہیں دوں گا مجھے یونہی قیمت دے دو تو یہ اس کی جہالت اور نادانی ہوگی.اسی طرح اگر ایک بندہ یہ امید رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر ایک مشکل اور مصیبت میں میری تائید کرے.اور اپنے انعامات کا وارث بنائے.تو اسے چاہئے کہ وہ چیز بھی خدا تعالیٰ کو دے جس کے عوض میں اسے یہ کچھ حاصل ہو سکتا ہے ورنہ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.کیا اگر کوئی سوداگر اس طرح کرے کہ خریداروں سے اپنے مال کا سودا تو کر لے لیکن انہیں مال نہ دے بلکہ اپنے ہی گھر رکھ لے تو وہ قیمت حاصل کر سکتا ہے.ہرگز نہیں اسی طرح اگر کوئی انسان خدا تعالیٰ کے ساتھ جان اور مال کا سودا کر کے اگر ان کو خدا کی راہ میں صرف نہیں کرتا تو وہ بھی ان کا معاوضہ حاصل نہیں کر سکتا.اور کس قدر افسوس ہے اس انسان پر جو اللہ تعالی کے اس قدر فضلوں اور احسانوں کے ہوتے ہوئے اور ایسی اعلیٰ درجہ کی بیچ کے کرنے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنی جان اور مال خرچ کرنے سے گریز کرے اور خدا تعالیٰ کی آواز پر کان نہ دھرے ایسا انسان ہرگز اس بات کا حقدار نہیں ہے کہ وہ کہے کہ میں نے خدا تعالیٰ سے جان و مال کا سودا کر لیا ہے.کیونکہ اس کا صرف زبانی کہنا اور عمل کر کے نہ دکھانا اسے کوئی فائدہ اور نفع نہیں پہنچا سکتا.ہماری جماعت کے لوگ سوچیں اور غور کریں کہ انہوں نے بیعت کی غرض اور فوائد خدا تعالیٰ کے آگے اپنی جان اور مال کے بیچنے کا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دوسری دفعہ حضرت خلیفہ اول کے ذریعہ اور تیسری دفعہ میرے ذریعہ اقرار کیا ہے.ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے حضرت خلیفہ اول اور میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور بعضوں نے صرف میرے ہی ہاتھ پر بیعت کے معنی ہیں بیچنے کے اور یہ سب لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سلسلہ میں داخل ہو گئے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ ان کے خوش ہونے کی کیا وجہ ہے.کیا یہ نہیں کہ جس طرح ایک تاجر پندرہ روپیہ کی چیز خرید لاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اب میں اس کو بیس روپیہ پر بیچوں گا اس لئے وہ خوش ہوتا ہے.اسی طرح تم بھی خوش ہو کہ تم نے خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک عمدہ سودا کیا ہے اور اس کے بدلہ میں تمہیں بڑے بڑے انعام ملیں گے.لیکن ذرا غور تو کرو کہ جن چیزوں کا تم نے خدا تعالیٰ سے سودا کیا ہے.ان کو اگر تم با وجود خدا تعالیٰ کے طلب کرنے کے اس کی راہ میں

Page 469

۴۴۲ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں خرچ کرنے کے بغیر اپنے مصرف میں لے آئے.تو پھر تمہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کی قیمت کیونکر ملے گی.تم نے اپنے مال اور اپنی جانیں خدا تعالیٰ کے لئے بیع کر دی ہوئی ہیں.لیکن جب ان میں سے کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے تمہیں کہا جاتا ہے اور تم نہیں کرتے تو بتلاؤ کہ تم نے اس بیع کو عملا نخ کر دیا یا نہیں اور جب بیچ فسخ ہو گئی تو پھر خریدار تم کو ان کی قیمت کیوں دے گا.ہرگز نہیں دے گا.پس اس بات پر خوشی کرنا بے فائدہ اور لغو ہے کہ ہم نے خدا سے بیع کی ہوتی ہے.اگر ہماری جماعت کے لوگ اس بات پر خوش ہیں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے حضور اپنی جان اور مال کو بیچ دیا ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ اس کے بدلہ میں انہیں جنت حاصل ہوگی تو وہ سوچیں کہ جب خدا تعالیٰ کی طرف سے آواز آتی ہے کہ اپنے مال اور جان کا کچھ حصہ میرے لئے میری راہ میں خرچ کرو تو وہ کیوں بڑی خوشی سے اس آواز کا جواب نہیں دیتے.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ان میں سے کوئی خدا تعالی کی آواز پر اپنے مال اور جان میں سے خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتا تو اس کی بیچ مسخ ہو جاتی ہے.لیکن اگر خرچ کرتا ہے تو پھر جس قدر بھی خوش ہو تھوڑا ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو میں بہت بڑے انعام دیتا ہوں.پس جب خدا تعالٰی اس کے بدلہ میں بڑا انعام دینے کا وعدہ کرتا ہے تو وہ بہت ہی بڑا ہو گا کیونکہ جس چیز کو بڑے بڑا کہیں وہ بہت ہی بڑی ہوتی ہے.مثلا کسی کو ایک بڑا امیر کہے کہ میں تمہیں بڑا انعام دوں گا تو یہ نہ ہو گا کہ وہ کوئی پانچ دس روپے انعام دے گا بلکہ بہت بڑی رقم دے گا.لیکن اگر کوئی غریب بڑے انعام کے دینے کا وعدہ کرے تو اس کا ایک روپیہ دینا بھی بڑا انعام سمجھا جائے گا تو چونکہ خدا تعالیٰ بہت بڑا ہے.اس لئے جسے وہ بڑا فرما تا ہے.اس کی بڑائی کو انسان سمجھ بھی نہیں سکتا.چنانچہ اللہ خود فرماتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ مجھے خدا کی طرف سے یہ انعام ملے گا.لیکن کوئی جان اس کو نہیں جان سکتی.جو خدا تعالیٰ نے انسان کے دینے کے لئے اس کی نظر سے پوشیدہ رکھا ہوا ہے.حتی کہ آنحضرت ا بھی نہیں جانتے تھے کہ آپ کو کیا اور کس قدر بڑا انعام ملے گا.پس خدا تعالیٰ کے انعام کا کوئی بڑے سے بڑا انسان بھی اندازہ نہیں لگا سکتا.جب یہ صورت ہے تو جس انسان نے خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنی جان اور مال کا سودا کیا ہے.وہ جس قدر بھی خوشی کا اظہار کرے تھوڑا ہے اور جس قدر بھی اپنی حالت پر خوش ہو کم ہے مگر جس نے خدا تعالی کے ساتھ عملاً بیع نہیں کی.اس کے لئے خوشی اور شادمانی کی کوئی وجہ نہیں ہو سکتی.بلکہ اس کو تو افسوس اور ماتم کرنا چاہئے کہ خدا تعالٰی نے

Page 470

و هم جلد - ۴۴۳ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں اس کو انعام حاصل کرنے کے لئے موقعہ دیا تھا لیکن اس نے کچھ نہ حاصل کیا.پس جو لوگ بیعت کا مفہوم اور مطلب سمجھتے ہیں.جماعت کو ضروری اور قیمتی نصائح ان کو میں سناتا ہوں.مگر اس لئے نہیں کہ وہ سن کر کہہ دیں کہ بڑا مزیدار لیکچر تھا بلکہ اس لئے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور عملی طور پر ثابت کر دیں کہ خدا تعالیٰ کے حضور انہوں نے اپنی جان اور مال کو بیچ دیا ہوا ہے.اگر وہ میری باتوں کو سن کر ان پر عمل کریں گے.تو بڑے بڑے انعامات پائیں گے اور اگر نہیں کریں گے تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ ان باتوں کے سننے میں انہوں نے جو وقت صرف کیا ہو گا.وہ ضائع کیا ہو گا.پس میں جو کچھ کہتا ہوں اس کو گوش ہوش سے سنو اور میں صرف تمہیں ہی نہیں بلکہ اپنے نفس کو بھی کہتا ہوں.اگر تم نے خدا تعالیٰ سے سودا کیا ہوا ہے اور اپنی جان اور مال کو خدا کے لئے دینے کو ہر وقت تیار ہو اور اس کے بدلہ میں ہلاک کرنے والے عذاب سے بچنا اور جنت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ اول ایمان کی درستی کرد دوم اعمال کو درست بناؤ.سوم دو سروں کو حق اور صداقت پہنچاؤ.اگر کوئی یہ باتیں نہیں کرتا.تو اس کا کوئی حق نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ کے انعامات کی امید رکھے.پس اے دوستو ا سنو اور بڑے غور سے سنو کہ زمانہ گذرتا جاتا ہے اور موت قریب آرہی ہے.ہم آج کی صبح کے وقت موت کے قریب تھے.اب اس سے زیادہ قریب ہو گئے ہیں.اور جس وقت یہ لیکچر ختم ہو گا.اس وقت اور بھی زیادہ قریب ہو جائیں گے.موت اس شیر کی طرح ہے جو ہماری طرف منہ کھولے بھاگتا چلا آ رہا ہو.وہ ہر گھڑی اور ہر لحظہ ہمارے قریب اور نزدیک ہو رہی ہے.اس لئے ہمیں فرصت تھوڑی اور کام بہت ہے.اور ہم نہیں جانتے کہ اس لیکچر کے ختم ہونے تک کون زندہ رہے گا.اور کس کو موت آدبائے گی.حتی کہ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ سانس جو اس وقت آیا ہے اس کے بعد بھی کوئی آئے گا یا نہیں.اس لئے نہایت ضروری ہے اور اس میں ایک سیکنڈ کی بھی دیر نہیں کرنی چاہئے کہ ہم اس بات کا عہد اور پختہ عہد کرلیں کہ ہم اپنی جان اور مال خدا کی راہ میں دینے کو ہر وقت تیار ہیں.تاکہ اگر اس وقت جان نکل جائے.تو ہم کہہ سکیں کہ ہم نے خدا تعالٰی کے ساتھ کچی اور پکی بیع کی تھی اور اس پر شرح صدر سے قائم تھے.پس اپنے دلوں میں تبدیلی کرو اور فورا کرو تاکہ خدا تعالیٰ کے حضور انعام پانے کے مستحق ٹھہر سکو.ورنہ صرف منہ سے کہہ دینے سے کہ ہم احمدی ہو گئے ہیں کچھ نہیں ملے گا.

Page 471

دم جلد ۳۰ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے اَحَسِبَ النَّاسُ انْ مؤمن کے لئے آزمائش ضروری ہے يُتْرَكُوا أَنْ يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (العنکبوت : (۳) کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ایمان لانے کا صرف زبانی اقرار کر لینے سے وہ چھوڑ دیئے جائیں گے اور خدا ان کی آزمائش نہیں کرے گا.یہ درست نہیں ہے.خدا ضرور ان کی آزمائش کرے گا.ناس میں تمام انسان شامل ہیں.اس لئے وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ صرف زبانی اقرار کر لینا اور عمل کر کے نہ دکھانا کافی ہے وہ سوچیں کہ کیا وہ آدمی ہیں یا نہیں.اگر آدمی ہیں تو انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم کسی آدمی کو بھی بغیر آزمائش کے نہیں چھوڑتے اس لئے ان کی بھی ضرور آزمائش ہوگی.پس تم لوگ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو.خدا تعالیٰ کے احکام کو قبول کرو اور ان پر عمل کر کے دکھاؤ اسی میں تمہاری کامیابی اور اسی میں تمہاری ترقی ہے.اس کے متعلق بجائے اس کے کہ میں کچھ بیان کروں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہی حکم تمہیں سنائے دیتا ہوں.جس سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ جس بیع کا تم کو دعوی ہے وہ کس طرح پوری ہو سکتی ہے اور اس کے متعلق کیا شرائط ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں ” واضح رہے کہ صرف زبان سے بیعت کا اقرار کرنا کچھ چیز نہیں ہے جب تک دل کی عزیمت سے اس پر پورا پورا عمل نہ ہو پس جو شخص میری تعلیم پر پورا پورا عمل کرتا ہے.وہ اس میرے گھر میں داخل ہو جاتا ہے جس کی نسبت خدا تعالیٰ کی کلام میں یہ وعدہ ہے اِنِّی أَحَافِظُ كُلَّ مَنْ فِي الدَّارِ - یعنی ہر ایک جو تیرے گھر کی چار دیواری کے اندر ہے میں اس کو بچاؤں گا.(بہت لوگ کہتے ہیں کہ روپیہ پاس ہو تو قادیان میں مکان بنائیں میں کہتا ہوں.وہ گھر بیٹھے ہی قادیان میں مکان بنا سکتے ہیں وہاں ہی رہتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے گھر میں رہ سکتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں) اس جگہ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہی لوگ میرے گھر کے اندر ہیں جو میرے اس خاک و خشت کے گھر میں بود و باش رکھتے ہیں.بلکہ وہ لوگ بھی جو میری پوری پیروی کرتے ہیں

Page 472

لوم جلد ۳ ۴۴۵ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذم میرے روحانی گھر میں داخل ہیں.پیروی کرنے کے لئے یہ باتیں ہیں (یہ عقیدہ بتایا کہ وہ یقین کریں کہ ان کا ایک قادر اور قیوم اور خالق الکل خدا ہے.جو اپنی صفات میں ازلی ابدی اور غیر متغیر ہے.نہ وہ کسی کا بیٹا نہ کوئی اس کا بیٹا.وہ دکھ اٹھانے اور صلیب پر چڑھنے اور مرنے سے پاک ہے وہ ایسا ہے کہ باوجود دور ہونے کے نزدیک ہے.اور باوجود نزدیک ہونے کے وہ دور ہے.اور باوجود ایک ہونے کے اس کی تجلیات الگ الگ ہیں.انسان کی طرف سے جب ایک نئے رنگ کی تبدیلی ظہور میں آوے.تو اس کے لئے وہ ایک نیا خدا بن جاتا ہے (یعنی رحمن سے رحیم بن جاتا ہے) اور ایک نئی تجلی کے ساتھ اس سے معاملہ کرتا ہے.اور انسان بقدر اپنی تبدیلی کے خدا میں بھی تبدیلی دیکھتا ہے.مگر یہ نہیں کہ خدا میں کچھ تغیر آجاتا ہے.بلکہ وہ ازل سے غیر متغیر اور کمال تام رکھتا ہے.لیکن انسانی تغیرات کے وقت جب نیکی کی طرف انسان کے تغیر ہوتے ہیں.تو خدا بھی ایک نئی تجلی سے اس پر ظاہر ہوتا ہے اور ہر ایک ترقی یافتہ حالت کے وقت جو انسان سے ظہور میں آتی ہے خدا تعالیٰ کی قادرانہ تجلی بھی ایک ترقی کے ساتھ ظاہر ہوتی ہے.وہ خارق عادت قدرت اسی جگہ دکھلاتا ہے جہاں خارق عادت تبدیلی ظاہر ہوتی ہے.(یعنی معمولی تبدیلی نہیں بلکہ ایسی کہ انسان خود بھی حیران ہو جائے کہ میں پہلے کیا تھا اور اب کیا بن گیا ہوں) خوارق اور معجزات کی یہی جڑھ ہے.یہ خدا ہے.جو ہمارے سلسلہ کی شرط ہے.اس پر ایمان لاؤ اور اپنے نفس پر اور اپنے آراموں پر اور اپنے کل تعلقات پر اس کو مقدم رکھو اور عملی طور پر بہادری کے ساتھ اس کی راہ میں صدق و وفا دکھلاؤ.دنیا اپنے اسباب اور اپنے عزیزوں پر اس کو مقدم نہیں رکھتی.مگر تم اس کو مقدم رکھو.تا تم آسمان پر اس کی جماعت لکھے جاؤ (بعض لوگ یہاں بیعت کا کارڈ لکھ دینا کافی سمجھتے ہیں اور اپنے اندر تبدیلی نہیں پیدا کرتے.ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس طرح کرنے سے انہیں کوئی فائدہ نہیں ہو گا.بیعت دراصل وہی ہے کہ جس کے کرنے سے آسمان پر نام لکھا جائے)

Page 473

انوار العلوم جلد جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں رحمت کے نشان دکھلانا قدیم سے خدا کی عادت ہے.مگر تم اس حالت میں اس عادت سے حصہ لے سکتے ہو کہ تم میں اور اس میں کچھ جدائی نہ رہے.اور تمہاری مرضی اسکی مرضی اور تمہاری خواہشیں اس کی خواہشیں ہو جائیں.اور تمہارا سر ہر ایک وقت اور ہر ایک حالت مراد یابی اور نامرادی میں اس کے آستانہ پر پڑا رہے (یعنی یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جب کوئی انعام اور ترقی ہوئی.تو سُبْحَانَ اللہ کہنے لگ گئے.اور جب کوئی ابتلاء یا تکلیف ہوئی.تو ناشکری کرنے لگ گئے) تا جو چاہے سو کرے اگر تم ایسا کرو گے تو تم میں وہ خدا ظاہر ہو گا.جس نے مدت سے اپنا چہرہ چھپا لیا ہے.کیا کوئی تم میں ہے جو اس پر عمل کرے اور اس کی رضا کا طالب ہو جائے.اور اس کی قضاء و قدر پر ناراض نہ ہو.سو تم مصیبت کو دیکھ کر اور بھی قدم آگے رکھو کہ یہ تمہاری ترقی کا ذریعہ ہے (بعض لوگوں کو جب کوئی ابتلاء آتا ہے.تو وہ احمدیت کو خیرباد کہہ دیتے ہیں.ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ابتلاء ان کی ترقی کے لئے آتے ہیں) اور اسکی توحید زمین پر پھیلانے کے لئے اپنی تمام طاقت سے کوشش کرو اور اس کے بندوں پر رحم کرو اور ان پر زبان یا ہاتھ یا کسی تدبیر سے ظلم نہ کرو اور مخلوق کی بھلائی کے لئے کوشش کرتے رہو اور کسی پر تکبر نہ کرو گو اپنا ماتحت ہو اور کسی کو گالی مت دو گو وہ گالی دیتا ہو.غریب اور حلیم اور نیک نیت اور مخلوق کے ہمدرد بن جاؤ تا قبول کئے جاؤ.بہت ہیں جو علم ظاہر کرتے ہیں مگروہ اندر سے بھیڑئیے ہیں.بہت ہیں جو اوپر سے صاف ہیں مگر اندر سے سانپ ہیں.سو تم اس کی جناب میں قبول نہیں ہو سکتے.جب تک ظاہر و باطن ایک نہ ہو.بڑے ہو کر چھوٹوں پر رحم کرو نہ ان کی تحقیر.اور عالم ہو کر نادانوں کو نصیحت کرد نہ خود نمائی سے ان کی تذلیل.اور امیر ہو کر غریبوں کی خدمت کرو.نہ خود پسندی سے تکبر.ہلاکت کی راہوں سے ڈرو.خدا سے ڈرتے رہو.اور تقویٰ اختیار کرو اور مخلوق کی پرستش نہ کرو اور اپنے موٹی کی طرف منقطع ہو جاؤ اور دنیا سے دل برداشتہ رہو.اور اس کے ہو جاؤ اور اس کے لئے زندگی بسر کرو.اور ان پر

Page 474

م جلد - ۴۴۷ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں اس کے لئے ہر ایک ناپاکی اور گناہ سے نفرت کرو.کیونکہ وہ پاک ہے.چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی.اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا.دنیا کی لعنتوں سے مت ڈرو کہ وہ دھوئیں کی طرح دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں.اور وہ دن کو رات نہیں کر سکتیں.بلکہ تم خدا کی لعنت سے ڈرو جو آسمان سے نازل ہوتی اور جس پر پڑتی ہے اس کی دونوں جہانوں میں بیخ کنی کر جاتی ہے.تم ریا کاری کے ساتھ اپنے تئیں بچا نہیں سکتے.کیونکہ وہ خدا جو تمہارا خدا ہے اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.کیا تم اس کو دھوکا دے سکتے ہو.پس تم سیدھے ہو جاؤ اور صاف ہو جاؤ اور پاک ہو جاؤ اور کھرے ہو جاؤ اگر ایک ذرہ تیرگی تم میں باقی ہے تو وہ تمہاری ساری روشنی کو دور کر دے گی.اور اگر تمہارے کسی پہلو میں تکبر ہے یا ریا ہے یا خود پسندی ہے یا کسل ہے تو تم ایسی چیز نہیں ہو کہ جو قبول کے لائق ہو.ایسا نہ ہو کہ تم صرف چند باتوں کو لے کر اپنے تئیں دھوکا دو کہ جو کچھ ہم نے کرنا تھا کر لیا ہے.کیونکہ خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہستی پر پورا پورا انقلاب آوے.اور وہ تم سے ایک موت مانگتا ہے جس کے بعد وہ تمہیں زندہ کرے گا.تم آپس میں جلد صلح کرو اور اپنے بھائیوں کے گناہ بخشو - کیونکہ شریر ہے وہ انسان کہ جو اپنے بھائی کے ساتھ صلح پر راضی نہیں وہ کانٹا جائے گا.کیونکہ وہ تفرقہ ڈالتا ہے تم اپنی نفسانیت ہر ایک پہلو سے چھوڑ دو اور باہمی ناراضگی جانے دو.اور سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل کرو.تاتم بخشے جاؤ.نفسانیت کی فربی چھوڑ دو کہ جس دروازے کے لئے تم بلائے گئے ہو.اس میں سے ایک فربہ انسان داخل نہیں ہو سکتا.کیا ہی بد قسمت وہ شخص ہے.جو ان باتوں کو نہیں مانتا.جو خدا کے منہ سے نکلیں.اور میں نے بیان کیں تم اگر چاہتے ہو کہ آسمان پر تم سے خدا راضی ہو.تو تم باہم ایسے ایک ہو جاؤ.جیسے ایک پیٹ میں سے دو بھائی (میں دیکھتا ہوں کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں بعض اوقات ذرا ذرا سی بات پر رنجش ہو جاتی ہے) تم میں سے زیادہ بزرگ

Page 475

رالعلوم جلد - ۳ ۴۴۸ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں وہی ہے جو زیادہ اپنے بھائی کے گناہ بخشتا ہے.اور بد بخت ہے وہ جو ضد کرتا ہے اور نہیں بخشا.سو اس کا مجھ میں حصہ نہیں.خدا کی لعنت سے بہت خائف رہو کہ وہ قدوس اور غیور ہے.بد کار خدا کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.متکبر اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.ظالم اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.خائن اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.اور ہر ایک جو اس کے نام کے لئے غیرت مند نہیں اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتا.وہ جو دنیا پر کتوں یا چیونٹیوں یا گروں کی طرح گرتے ہیں اور دنیا سے آرام یافتہ ہیں وہ اس کا قرب حاصل نہیں کر سکتے.ہر ایک ناپاک آنکھ اس سے دور ہے.ہر ایک ناپاک دل اس سے بے خبر ہے وہ جو اس کے لئے آگ میں ہے وہ آگ سے نجات دیا جائے گاوہ جو اس کے لئے روتا ہے وہ ہے گا.وہ جو اس کے لئے دنیا سے توڑتا ہے وہ اس کو ملے گا.تم بچے دل سے اور پورے صدق سے اور سرگرمی کے قدم سے خدا کے دوست بنو تا وہ بھی تمہارا دوست بن جائے.تم ماتحتوں پر اور اپنی بیویوں پر اور اپنے غریب بھائیوں پر رحم کرو تا آسمان پر تم پر بھی رحم ہو.تم سچ سچ اس کے ہو جاؤ تا وہ بھی تمہارا ہو جائے.دنیا ہزاروں بلاؤں کی جگہ ہے جن میں سے ایک طاعون بھی ہے.سو تم خدا سے صدق کے ساتھ پنجہ مارد تا وہ یہ بلائیں تم سے دور رکھے.کوئی آفت زمین پر پیدا نہیں ہوتی جب تک آسمان سے حکم نہ ہو.اور کوئی آفت دور نہیں ہوتی جب تک آسمان سے رحم نازل نہ ہو.سو تمہاری عظمندی اسی میں ہے کہ تم جڑھ کو پکڑو نہ شاخ کو.تمہیں دوا اور تدبیر سے ممانعت نہیں ہے مگر ان پر بھروسہ کرنے سے ممانعت ہے.اور آخر وہی ہو گا جو خدا کا ارادہ ہو گا.اگر کوئی طاقت رکھے تو تو کل کا مقام ہر ایک مقام سے بڑھ کر ہے.اور تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف کو مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اسی میں زندگی ہے.جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے.وہ آسمان پر عزت پائیں گے.جو لوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے.ان کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے

Page 476

۴۴۹ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ دا لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی ﷺ.سو تم کوشش کرو کہ کچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو.اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو.تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ.اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی.بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے.نجات یافتہ کون ہے وہ جو یقین رکھتا ہے کہ خدا سچ ہے.اور محمد ﷺ اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے.اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے.اور نہ قرآن کے ہم مرتبہ کوئی اور کتاب ہے.اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے.اور اس کے ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے خدا نے یہ بنیاد ڈالی ہے کہ اس کے افاضہ تشریعی اور روحانی کو قیامت تک جاری رکھا اور آخر کار اس کی روحانی فیض رسانی سے اس مسیح موعود کو دنیا میں بھیجا جس کا آنا اسلامی عمارت کی تکمیل کے لئے ضروری تھا.کیونکہ ضرور تھا کہ یہ دنیا ختم نہ ہو.جب تک کہ محمدی سلسلہ کے لئے ایک مسیح روحانی رنگ کا نہ دیا جاتا.جیسا کہ موسوی سلسلہ کے لئے دیا گیا تھا.اس کی طرف یہ آیت اشارہ کرتی ہے کہ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.موسی نے وہ متاع پائے جس کو قرون اولی کھو چکے تھے.اور حضرت محمد نے وہ متاع پائے.جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا.اب محمدی سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے.مگر شان میں ہزار ہا درجہ بڑھ کر.مثیل موسیٰ موسی سے بڑھ کر اور مثیل ابن مریم ابن مریم سے بڑھ کر.اور وہ مسیح موعود نہ صرف مدت کے لحاظ سے آنحضرت ا کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا.جیسا کہ مسیح ابن مریم موسی کے بعد چودھویں صدی میں ظاہر ہوا تھا.بلکہ وہ ایسے وقت میں آیا جب کہ مسلمانوں کا وہی حال تھا جیسا کہ مسیح ابن مریم کے ظہور کے وقت یہودیوں کا حال تھا.سو وہ میں ہی ہوں".ی کشتی نوح صفحه ۱۲ تا ۱۶ اروحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۱۰ تا ۱۴

Page 477

ر العلوم جلد ۳۰ ۴۵۰ جماعت احمدیہ کے فرائض ! یہ ہے وہ تعلیم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو دی ہے.پس اگر آپ لوگ خدا تعالیٰ کے انعامات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس پر عمل کریں.اور میں خاص طور پر نصیحت کرتا ہوں کہ آپ لوگ ضرور اس پر عمل کریں.قرآن کریم کو پڑھیں اور اس کے احکام کو مانیں.یہ جھگڑے جو ہم میں پیدا ہو گئے ہیں.یہ عارضی ہیں ان کے جلد سے جلد دور کرنے کی کوشش کریں.اور تمام دنیا میں حضرت مسیح موعود کی تعلیم کو پہنچا دیں.مگر اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھیں کہ اگر آپ لوگوں نے خود اس پر عمل نہ کیا تو خواہ تمہارے ذریعے ہزاروں اور لاکھوں اس پر عمل کر کے جنت میں پہنچ جاویں تمہیں کوئی فائدہ نہ ہو گا.پس جو تم نے بیعت کرتے وقت اقرار کیا ہے اس کو عملی طور پر پورا کر کے دکھا دو.تاکہ خدا تعالٰی بھی تم پر وہ انعامات نازل کرے جن کا اس نے تم سے وعدہ کیا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ امت محمدیہ کے لئے باعث فضیلت یہی بات ہے کہ وہ دوسروں کی اصلاح کرے.پس تم لوگ اس فضیلت کو حاصل کرو.اور ایمان اور عقائد کے متعلق حضرت مسیح موعود نے جو تعلیم دی ہے اسے پیش نظر رکھو.قرآن کریم اور حدیث میں ایمان اور عقائد کے متعلق سب باتیں موجود ہیں.لیکن حضرت مسیح موعود کے زمانہ سے پہلے ان میں بہت سی غلط باتیں مل گئی تھیں.حضرت مسیح موعود نے ان کو دور کر کے اصل تعلیم آپ لوگوں کے سامنے رکھ دی ہے.پس تمہیں چاہئے کہ کوئی صبح تم پر ایسی نہ چڑھے اور کوئی شام تم پر ایسی نہ گذرے کہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم تمہارے پیش نظر نہ ہو.جو میں آپ لوگوں کو پہنچانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے گنتم تیسری بات خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ ، ( آل عمران - 1 ) اے امت محمدیہ کے لوگو کہ تم.امتوں پر فضیلت رکھتے ہو.کیوں؟ اس لئے کہ تمہارے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ اللہ کی طرف سے جو پیغام آیا ہے اس کو تمام دنیا کی طرف پہنچا دو.لوگوں کو نیکی سکھاؤ اور بدیوں سے روکو.اس کے لئے خدا تعالیٰ نے دو طریق رکھے ہیں.ایک یہ کہ ایک ایسی جماعت ہو جو رات دن اسی کام میں لگی رہے.چنانچہ فرمایا وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ، وَ ُأولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.Ind

Page 478

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۵۱ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں (ال عمران : ۱۰۵) تم میں سے ایک ایسی جماعت ہو جو رات دن خیر کی طرف لوگوں کو بلانے میں لگی رہے.نیکی کا حکم کرے.اور برائی سے روکے.یہ لوگ کامیاب ہونے والے ہیں.اس آیت میں تمام کے تمام لوگ مراد نہیں.بلکہ ایک خاص جماعت ہے.کیونکہ اگر سارے دن رات اسی طرف لگ جائیں تو پھر ان کے دوسرے کام کون کرے اور ان کے دنیاوی کام کیونکر چلیں.اس لئے فرمایا ہے کہ تم میں ایک ایسی جماعت ہو جو اپنی زندگی اپنی عزت اپنی آبرو اپنی جان اپنا مال خدا کی راہ میں لگائے رہنے کے لئے علیحدہ ہو جائے.اور وہ ہر وقت اس کام میں لگی رہے کہ اللہ کا نام دنیا میں پہنچائے.دوسرا طریق یہ بتایا ہے کہ سب مسلمان حتی المقدور تبلیغ اسلام کریں.جیسا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ میں اشارہ فرمایا ہے.کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مسلمان سب امتوں سے بہتر ہو.کیونکہ تم لوگوں کو اسلام کی طرف جو سب دینوں سے خوب تر ہے لوگوں کو بلاتے ہو.پس اس آیت میں مسلمانوں کا فرض ہی تبلیغ رکھا گیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دو گروہ قرار دیئے ہیں.ایک وہ جو اپنا سارا وقت اسی کام میں صرف کریں اور دوسرے وہ جو کچھ وقت صرف کریں.لیکن جب پہلا گروہ اپنا سارا وقت اسی میں صرف کرے گا اور بالکل خدا کی راہ میں لگ جائے گا تو یہ بھی ضروری ہوگا کہ دوسرا گروہ اس کی ضروریات کو پورا کرے ان کی کھانے پہنے اور زندگی بسر کرنے کی حاجتوں کو پورا کرے.آنحضرت ﷺ کے وقت تو جائیں مانگی جاتی تھیں.اور جب وہ خدا کی راہ میں اپنی جانوں کو قربان کر دیتے تھے تو اللہ تعالی کے حضور میں بڑے بڑے مدارج پاتے تھے.لیکن اب چونکہ زمانہ بدل گیا ہے تلوار کا جہاد نہیں رہا اس لئے قربانی کا مطالبہ بھی بدل گیا ہے.جس کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ پر نادان اور جاہل لوگوں نے یہ اعتراض کیا تھا کہ آپ نے اسلام کو تلوار کے ذریعہ پھیلایا ہے.اگر دلائل اور براہین کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا تو کبھی نہ پھیلتا.یورپ کے مصنفین خصوصا اس اعتراض کو بار بار پیش کرتے اور اسے بڑا اہم سمجھتے ہیں.بے شک قرآن کریم ، احادیث اور صحیح تاریخ اس کے خلاف گواہی دینے کے لیئے موجود ہے مگر عملی شہادت چونکہ سب سے بڑی ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے آنحضرت ا کا ایک مظہر اور بروز دنیا میں بھیجا اور اس کا کام یہ رکھا کہ اس وقت جبکہ اسلام مٹ گیا ہے دلائل اور براہین کے ذریعہ اس کو زندہ کرے.تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ

Page 479

لوم جلد ۳۰ ۴۵۲ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں جب ایک خادم اسلام کو دلائل کے ساتھ پھیلا سکتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آقا نہ پھیلا سکا ہو.اسی طرح عملی طور پر ثابت کر کے خدا تعالیٰ نے اس اعتراض کو دور کیا ہے.غرض خدا تعالیٰ کا فیصلہ ہو چکا ہے کہ اب اسلام دلائل اور براہین کے ذریعہ پھیلے.اس لئے آپ لوگوں کو اس کے پھیلانے میں خاص کوشش اور ہمت سے کام لینا چاہئے.یہ مت سمجھو کہ آسانی سے پھیل سکے گا.آنحضرت نے فرمایا ہے کہ دجال کا فتنہ سب فتنوں سے بڑا ہو گا اور تمام نبی اپنی امتوں کو اس فتنہ سے ڈراتے آئے ہیں.پھر آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے گا تو وہاں سے بھی واپس لے آیا جائے گا.یہ پیشگوئی ہے اس بات کے متعلق کہ اس زمانہ میں ایمان دنیا سے اٹھ جائے گا اور اس وقت دنیا میں ایسی تاریکی اور ظلمت ہوگی جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی.اس سے سمجھ لو کہ تمہارا کام کس قدر اہم اور کس قدر طاقت اور کوشش کو چاہتا ہے.یہ مت سمجھو کہ تم میں اور غیر احمدیوں میں حیات مسیح کا مسئلہ ہی مابہ النزاع ہے.بلکہ وہ اسلام جو آنحضرت ا کے ذریعہ دنیا کو دیا گیا تھا.وہ ایسے رنگ میں پیش کیا جاتا ہے کہ لوگ اس سے نفرت کرنے لگ گئے ہیں.پس یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ بہت بڑا ہے.وہ بیرونی مفاسد تو الگ رہے جن کے مٹانے کے لئے ہماری جماعت کھڑی کی گئی ہے.مسلمان کہلانے والوں کی عملی حالت کو ہی دیکھ لو کہ کس قدر گری ہوئی ہے.میں اگر آپ لوگوں کے سامنے ان کی عملی حالت کو پیش کردوں تو میرے الفاظ وہ اثر نہیں کر سکتے.جو آپ کو اپنے محلے کے لوگوں اپنی بستی کے لینے والوں اور اپنے علاقہ میں رہنے والوں کو دیکھ کر ہو سکتا ہے.آپ اپنے محلہ کے لوگوں اپنے ہمسایوں اور اپنے واقف کاروں کو دیکھیں.کیا وہ واقعہ میں مسلمان ہیں ، کیا وہ نمازیں پڑھتے، زکوۃ دیتے اور روزے رکھتے اور حج کرتے ہیں؟ کیا وہ اخلاق سے پیش آتے بدیوں سے بچتے ہیں؟ کیا یہ درست نہیں کہ ملک کے جیل خانوں میں کثرت سے مسلمان ہی بھرے ہوئے ہیں.کیا یہ صحیح نہیں کہ بدکاریوں اور بد افعالیوں کے اڈوں پر مسلمانوں کے ہی جمگھٹے رہتے ہیں.اور کیا یہ واقعہ نہیں کہ عیاشی اور بے دینی میں مسلمان سب سے بڑھے ہوئے ہیں.ان کے گدی نشینوں کی یہ حالت ہے کہ دین سے اس قدر دور ہو چکے ہیں کہ نہ دین کو جانتے ہیں اور نہ سیکھتے ہیں.مریدوں سے بیعت لے کر ان سے ٹیکس وصول کرنا ان کا کام رہ گیا ہے.مسلمانوں کے امراء ، صوفیاء ، تاجروں ، ملازموں اور زمینداروں کی حالت سخت خراب ہے.انہیں جھوٹ سے پر ہیز نہیں بدکاریوں سے نفرت

Page 480

۴۵۳۰ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں.نہیں ، خدا پر ایمان نہیں، محمد مصطفی ﷺ سے تعلق نہیں، قرآن کریم کو ہاتھ میں لے کر عدالتوں میں خدا تعالیٰ کی قسمیں آٹھ آٹھ آنے پر کھاتے ہیں کہ فلاں بات کچی ہے حالانکہ وہ بالکل جھوٹی ہوتی ہے.پس مسلمانوں کی حالت جو آنکھوں سے دیکھنے سے معلوم ہوتی ہے اس کو تقریر میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.آپ لوگ ان کو دیکھ کر اندازہ لگالیں کہ ان کا کہاں تک اسلام پر عمل ہے.اصل بات یہ ہے کہ اسلام مٹ چکا ہے اور کسی نے سچ کہا ہے کہ مسلماناں در گورو مسلمانی در کتاب یعنی مسلمان دین کی طرف سے ایسا مردہ ہو چکے ہیں کہ گویا قبروں میں پڑے ہیں.اور اسلام قرآن کریم میں بند پڑا ہے.بہت تھوڑے ہیں جن کا تھوڑا بہت دین سے تعلق ہے.مگر عام طور پر سب بے دین ہو چکے ہیں.ان کے امراء خراب ہیں ، ان کے غرباء خراب ہیں، ان کے زمیندار خراب ہیں، ان کے مولوی خراب ہیں.ان کے مفتی خراب ہیں.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ایک مولوی نے ایک عورت کا نکاح ایک جگہ پڑھا کر پھر دوسرے دن دوسری جگہ پڑھایا.حضرت خلیفہ اول نے اس کو کہا مولوی صاحب میں نے آپ کے متعلق ایک بات سنی ہے جس سے مجھے بڑا رنج ہوا ہے.اس نے پوچھا کیا ؟ آپ نے بتایا کہ میں نے سنا ہے آپ نے ایک عورت کا نکاح دو جگہ پڑھا دیا ہے.یہ سن کر اس نے کہا مولوی صاحب باتیں بنانی آسان ہیں اور اصل واقعات سے ناواقف رہ کر رائے دینا سہل ہے.اگر آپ کو وہ حالات معلوم ہوتے جن سے مجبور ہو کر میں نے یہ کام کیا ہے تو کبھی آپ مجھ پر افسو بن نہ کرتے.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ مجھے اس کی یہ بات سن کر اس پر رحم آگیا اور میں نے سمجھا کہ اس پر کوئی بڑی ہی مصیبت آئی ہوگی اور شاید جان جانے کا خطرہ ہو گا تب اس نے ایسا کیا ہے.میں نے کہا اچھا بتائیے تو سہی کیا بات ہوئی.تو وہ پنجابی زبان میں کہنے لگا.مولوی صاحب انہاں چڑی جیڈا روپیہ جے کڑ کے رکھ دتا تے میں کی کردا.یعنی چڑیا کے برابر روپیہ جو انہوں نے نکال کر سامنے رکھ دیا تو میں نکاح نہ پڑھتا تو اور کیا کرتا.معلوم ہوتا ہے اس کی نگاہ میں روپیہ کی بہت ہی عظمت ہو گی جب ہی تو اس نے چڑیا جتنا کہا ہے.ورنہ ہم نے کبھی دیکھا نہیں کہ کوئی روپیہ اتنا بڑا ہو.حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے کہ مجھے اس کی یہ بات سن کر سخت حیرت ہوئی کہ اس شخص کی دینی حس کس قدر مسخ ہو چکی ہے.میں نے اس کی حالت کو دیکھ کر کہا واقعہ میں تو مولوی صاحب آپ مجبور تھے اگر نکاح نہ کرتے تو اور کیا کرتے.

Page 481

رالعلوم جلد ۳۰ ۴۵۴ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں یہ ہے ان کے مولویوں کی حالت.ایک سجادہ نشین کی نسبت حضرت خلیفہ اول فرماتے کہ آپ کی نسبت لوگ کفر کا فتویٰ جو تیار کرنے لگے تو اس پر اس کے دستخط کروانے کا بھی انہوں نے ارادہ کیا.آپ اس کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ میں نے سنا ہے آپ بھی میرے خلاف فتویٰ پر دستخط کرنے لگے ہیں اگر آپ نے ایسا کیا تو یاد رکھئے کہ میرے مرید آپ کو سلام نہیں کریں گے.اس نے کہا تم اپنے مریدوں کو جا کر کہہ دو کہ میں دستخط نہیں کروں گا وہ مجھے سلام کرنا ترک نہ کریں.جب لوگ اس کے پاس فتوی دستخط کرانے کے لئے لے گئے.تو اس نے کہا کہ بھی فقیروں کا دروازہ بہت اونچا ہوتا ہے اس میں سے ہر ایک آسکتا ہے اس لئے میں تو دستخط نہیں کر سکتا.اس کے بعد وہ سجادہ نشین صاحب خاص طور پر اس گلی میں سے گزرے جس میں حضرت مولوی صاحب رہتے تھے تاکہ معلوم کریں کہ ان کے معتقد انہیں سلام کرتے ہیں یا نہیں.اور ایک آدمی کو آگے بھیج دیا کہ جاکر اطلاع دو کہ میں اس طرف سے گذرنے لگا ہوں.حضرت مولوی صاحب نے اپنے ہم خیال اور دوست اہلحدیث کو کہلا بھیجا کہ اس کو سلام کر دیں کہ خوش ہو جاویں گے اور خود بھی آگے بڑھ کر اسے سلام کیا.اس نے آپ سے کہا مولوی صاحب میں نے آپ کے خلاف فتویٰ پر دستخط نہیں کئے.اب تو آپ کے مرید مجھے سلام کرنا ترک نہیں کریں گے.اس قدر انہیں سلام کروانے کا شوق تھا.میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی ہوگی کہ میں امر تسر گیا.اور دیکھا کہ ایک مولوی صاحب بڑی لمبی داڑھی والے جبہ پہنے اور عصا ہاتھ میں لئے جا رہے تھے اور ان کے پیچھے پیچھے ایک شخص جو اپنے لباس سے کسی دفتر کا چپڑاسی معلوم ہوتا تھا ہاتھ جوڑتا اور منتیں کرتا جا رہا تھا اور ا کہتا جاتا تھا کہ مولوی صاحب مجھ پر رحم کیجئے میں بہت مفلس اور غریب ہوں.مولوی صاحب تھوڑی دور چل کر اس کی طرف مڑ کر دیکھتے اور کہ دیتے ہٹ دور ہو اور کوئی گالی بھی نکال دیتے.آخر کار اس بیچارہ نے تھک کر اس مولوی صاحب کا پیچھا چھوڑا.میں نے اس سے پوچھا کیا بات ہے.اس نے کہا کہ میں ایک دفتر میں آٹھ روپیہ کا چپڑاسی ہوں میں نے اپنی شادی کے لئے کچھ روپیہ جمع کیا تھا اور اس شخص کو مولوی اور دیندار سمجھ کر امانتا ر کھنے کے لئے دیا ہوا تھا.اب جو میری شادی ہونے لگی ہے اور میں اس سے وہ روپیہ مانگتا ہوں تو بات تک نہیں کرتا اور کہتا ہے کہ میں تجھے جانتا ہی نہیں.غرض اس قسم کی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں مثالیں ہیں جو پیش کی جاسکتی ہیں.

Page 482

العلوم جلد ۴۵۵ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں اور ہر جگہ یہی حالت ہے.اور بعض علاقے تو ایسے ہیں کہ وہاں کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ اسلام چیز کیا ہے.ایک دوست نے لکھا کہ یہاں کے لوگ آج کل کوئی جانور ذبح نہیں کر سکتے اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے مولوی نے ان کو ذبح کرنے کے لئے جو چھری پڑھ کر دی ہوئی تھی وہ گم ہو گئی ہے.اب پھر جب وہ کوئی چھری پڑھ کر دے گا تب ذبح کریں گے.کئی لوگ ہمارے پاس بیعت کرنے کے لئے ایسے بھی آتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ کسی نشان کے ذریعہ اس سلسلہ کی صداقت سمجھا دیتا ہے لیکن کلمہ شہادت نہیں پڑھ سکتے.ایسے لوگوں کو دیکھ کر رقت آجاتی ہے کہ اسلام کی کیا حالت ہے.چونکہ یہ لوگ انہی لوگوں میں سے آتے ہیں جو اسلام کو بالکل فراموش کر چکے ہیں اس لئے ان کی یہ حالت ہوتی ہے.کسی نے لطیفہ کے طور پر لکھا ہے کہ کسی پٹھان نے ایک ہندو کو پکڑ کر کہا کہ مسلمان بنو اور کلمہ پڑھو ورنہ ابھی جان سے مار دوں گا اس نے کہا.میں کلمہ نہیں جانتا.پٹھان نے کہا جلدی پڑھو ورنہ میں قتل کر دوں گا.آخر کار ہندو نے مجبور ہو کر کہا اچھا تم پڑھاؤ میں پڑھتا جاؤں گا.پٹھان نے کہا کم بخت تیری قسمت ہی خراب ہے کلمہ مجھے بھی نہیں آتا ورنہ آج تجھے میں مسلمان بنا دیتا.کہنے والے نے تو یہ قصہ کہا ہے مگر اس وقت مسلمانوں کی حالت اسی قسم کی ہو رہی ہے کہ میرے پاس ایسے لوگ بھی آئے ہیں جن کو میں نے کئی کئی منٹ میں صرف کلمہ پڑھایا ہے.حضرت مولوی صاحب کے وقت یہاں ایک عورت بیعت کرنے کے لئے آئی.مولوی صاحب نے اس سے پوچھا جانتی ہو.محمد ا کون تھے کہنے لگی.کوئی ہوں گے ہمیں ان کا کیا پتہ ہے.اب تو وہ دین سے خوب واقف ہے.لیکن اس وقت اس کی حالت کیسی دردناک تھی.یہاں ایک شخص ہو تا تھا اس سے حضرت مولوی صاحب نے پوچھا تمہارا کیا مذہب ہے.وہ کہنے لگا میرا وہی مذہب ہے جو ہمارے گاؤں کے نمبردار کا ہے.کیا ہی رونے کا مقام ہے.جب میں حج کو گیا تو ہمارے ساتھ ایک شخص جس کا نام عبد الوہاب تھا اور بہت بوڑھا وہ بھی حج کو جا رہا تھا.میں نے منیٰ میں اس سے پوچھا کہ تمہارا کیا مذ ہب ہے تو کہنے لگا کہ گھر میں جاکر اپنے مولوی سے لکھوا کر آپ کو بھیج دوں گا.میری اس سے پوچھنے کی یہ مراد تھی کہ تم کس فرقہ کے ہو.اس کے متعلق جب پھر میں نے پوچھا تو کہنے لگا میرا مذ ہب رحمہ اللہ ہے.میں حیران رہ گیا.پھر کہنے لگا جلدی نہ کرو ا چھی طرح سوچ لینے دو.میں نے کہا اچھا سوچ لو.تھوڑی دیر کے بعد کہنے لگا میرا مذ ہب اعظم علیہ ہے.اسی طرح اس کے کبھی کوئی اور کبھی کوئی

Page 483

ا تعلوم جلد - - ۴۵۶۰ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں لفظ بولنے سے میں نے یہ سمجھا کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کہنا چاہتا ہے مگر کہہ نہیں سکتا.مکہ میں جاکر وہ بیمار ہو گیا اور اس کے پاس خرچ بھی نہ تھا.لیکن وہ مدینہ جانا چاہتا تھا میں نے سمجھایا کہ وہاں نہ جاؤ کہیں راستہ میں ہی مرجاؤ گے.لیکن وہ کہتا کہ میرے بیٹوں نے مجھے کہا ہوا ہے کہ جب تک تم مدینہ نہ جاؤ گے تمہارا حج نہیں ہوگا اس لئے میں ضرور جاؤں گا.معلوم نہیں وہ گیا یا نہ گیا.لیکن اس کی اسلام سے واقفیت کو دیکھو.کہ حج کو گیا اور اسلام کی خبر تک پھر ہندوستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جہاں کے لوگ کہلاتے تو مسلمان ہیں لیکن اپنے گھروں میں بت رکھے ہوئے ہیں اور صبح اٹھ کر ان کے آگے سجدہ کرتے ہیں.یہ حالت ہے آج کل کے مسلمانوں کی.اور یہ مت سمجھو کہ ایران ، مصر اور عرب کے لوگوں کی اس سے اچھی ہوگی.ہندوستان کے رہنے والوں کی حالت ان سے ہزار درجہ اچھی ہے.میں نے مصر کے شہر پورٹ سعید کی جامع مسجد میں دیکھا ہے کہ امام نماز پڑھا رہا تھا اور اس کے پیچھے کوئی دس پندرہ آدمی کھڑے تھے.میں نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ کیا اسی قدر مسلمان یہاں نماز پڑھتے ہیں تو کہنے لگا کہ جمعہ کے دن بہت سے آجاتے ہیں.اس وقت نمازیوں کو دیکھنا چاہئے.وہاں کے بڑے بڑے مشہور و معروف مولوی شراب پیتے اور اس سے کوئی پر ہیز نہیں کرتے.شیخ عبدالرحمن صاحب جب مصر میں تھے.تو انہوں نے مجھے لکھا تھا کہ ایک بڑے عالم نے میری باتوں سے متاثر ہو کر شراب چھوڑنے کا ارادہ کیا ہے اور اب وہ طریق پوچھتا ہے کہ کس طرح چھوڑوں.غرض مسلمانوں کی عملی حالت یہ ہے اور اس کی تصدیق تم اپنے گاؤں اپنے شہروں اور اپنے محلوں کے لوگوں کو دیکھ کر کر سکتے ہو.باقی رہے ان کے اعتقادات ان کے متعلق میں مختصراً بتاتا ہوں.ان کو سن کر رونا آتا ہے.قرآن کریم جس خدا کو پیش کرتا ہے وہ ایسا خدا ہے کہ جس کی طرف کوئی بدی منسوب نہیں کی جا سکتی.وہ سب نقصوں اور عیبوں سے پاک اور ہر قسم کی کمزوریوں سے منزہ ہے اور قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ سبح اسم ربك الأعلى - اے مسلمانو ! اپنے رب کی تسبیح کرو.مگر آج وہ حالت ہے کہ مسلمان اللہ تعالیٰ کی نسبت وہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ جن کو سن کر انسان حیران رہ جاتا ہے.

Page 484

۴۵۷ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں قرآن کریم میں بہت بڑا زور خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر دیا گیا ہے.مگر بار جود اس کے آج مسلمانوں میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ جس قدر مخلوق ہے وہ سب خدا ہی خدا ہے.مسلمانوں ، فقیروں اور صوفیوں میں چلے جاؤ یہی کہیں گے کہ ہر ایک چیز خدا ہے اور ہر ذرہ خدا ہے اس کو وہ وحدت الوجود کا مسئلہ کہتے ہیں.لیکن اس سے تو ایمان بالکل ضائع ہو جاتا ہے.کیونکہ ان کے نزدیک ایک چور اور بد کار انسان بھی خدا ہے، نجاست اور پاخانہ بھی خدا ہے اینٹ اور پتھر بھی خدا ہے.لیکن میں پوچھتا ہوں کہ سبح اسم ربك الأعلیٰ کا بھی مفہوم اور یہی منشاء ہے ؟ اصل بات یہ ہے جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے.اور ابتدائی زمانہ کے صوفیاء بھی اس کو مانتے تھے کہ ہر ایک چیز اور ہر ایک ذرہ میں خدا تعالیٰ جلوہ گر ہے.لیکن اس زمانہ کے صوفیوں نے اپنی نادانی اور جہالت کی وجہ سے اس کے یہ معنی کرلئے ہیں کہ ہر ایک چیز خدا ہے.مگر درست یوں ہے کہ ہر ایک چیز میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے.یعنی ہر ایک چیز اور ہر ذرہ خدا تعالیٰ کی ہستی پر دلالت کرتا ہے.حضرت مسیح موعود بھی فرماتے ہیں.چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بیکل ہو گیا کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا چاند جمال یار کا مظہر تو ہے مگر خدا نہیں تھا.خدا تعالٰی نے بھی قرآن کریم میں اس بات کو اس طرح بیان فرمایا کہ اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِى فِى الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِنْ مَاءٍ فَاحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِنْ كُلِّ دَابَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَايْتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) (البقرہ - ۱۶۵) یعنی زمین و آسمان کی ہر ایک چیز خدا تعالیٰ پر دلالت کرتی ہے.مگر عقلمندوں کے نزدیک اور انہیں کے لئے یہ نشانیاں ہیں.آج کل کے مسلمانوں کو دیکھو.وہ گندی سے گندی چیز کو خدا بنا رہے ہیں.اور یہ عقیدہ اس قدر پھیلا ہوا ہے کہ لاکھوں لاکھ انسان اس عقیدہ کے پابند ہیں.پھر خدا تعالیٰ کے شریک کمزور اور ناتواں انسان قرار دیئے جاتے ہیں.قرآن کریم کہتا ہے - NANGANATAN ANLAN هُوَ ( البقرہ : (۲۵۶) مگر آج مسلمان کہتے ہیں کہ اور بھی اللہ ہیں.کیا مسلمانوں میں سے وہ لوگ نہیں ہیں جو بغداد کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہیں اور اسے پیر جیلانی کی نماز کہتے ہیں.اور پھر کیا ایسے لوگ نہیں ہیں جو ان کو خدا سے بھی بڑھ کر طاقت اور قدرت رکھنے والا سمجھتے ہیں.کشمیر میں میں نے

Page 485

دم جلد - ۳ ۴۵۸ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں دیکھا ہے کہ اگر کوئی چھوٹی کشتی لے جا رہے ہوتے تو زور لگاتے وقت لا الہ الا اللہ کہتے اور اگر بڑی ہوتی تو پیر دستگیر کہتے.گویا انہوں نے خدا اور پیر دستگیر کا یہ اندازہ لگایا ہوا تھا کہ چھوٹی کو تو خدا پار کر سکتا ہے مگر بڑی کے لئے پیر دستگیر کی مدد کی ضرورت ہے.پھر میں نے ایک نظارہ دیکھا کہ ایک بڑی کشتی کو کھینچ رہے تھے.لیکن وہ کھنچتی نہ تھی.اس پر انہوں نے لا الہ الا اللہ کہہ کر زور لگایا مگر نہ چلی.پھر یا شیخ ہمدان کہہ کر زور لگاتے رہے اس میں بھی انہیں کامیابی نہ ہوئی.اس کے بعد جب پیر دستگیر کہہ کر زور لگانے لگے تو تمام مرد عورت اور بچے جو کشتی میں بیٹھے ہوئے تھے سب ان کے ساتھ مل کر زور لگانے لگ گئے تاکہ اگر اب نہ چلی تو پیر دستگیر کی ہتک ہو گی.گویا ان کو خدا کی ہتک کی تو کوئی پرواہ نہ تھی مگر پیر دستگیر کی ہتک کو گوارا نہ کر سکتے تھے.پھر مسلمانوں نے یہاں تک باتیں بنائی ہوئی ہیں کہ کسی کے لڑکے کی فرشتہ جان نکال کر لے گیا تھا کہ اتنے میں پیر دستگیر آگئے.اس شخص نے ان کو کہا کہ میرا لڑ کا زندہ کر دیجئے.اس وقت عزرائیل آسمان پر چڑھ رہا تھا انہوں نے اس کو کہا کہ اس لڑکے کی روح کو چھوڑ دو تاکہ زندہ ہو جائے.لیکن اس نے کہا کہ مجھے چھوڑنے کا حکم نہیں ہے اس لئے میں نہیں چھوڑ سکتا.جب اس نے یہ کہا تو انہوں نے ایک لاٹھی دے ماری جس سے اس کا گھٹنا ٹوٹ گیا اور اس سے زنبیل لے لی جس میں اس نے روحیں بند کی ہوئی تھیں اور سب کو چھوڑ دیا.اس سے اس دن کے تمام مرنے والے زندہ ہو گئے.عزرائیل نے جاکر خدا تعالیٰ کو یہ بات بتائی اور کہا کہ آج میرے ساتھ اس قسم کا واقعہ پیش آیا اس کا انسداد ہو جانا چاہئے.اس پر خدا تعالیٰ نے کہا چپ چپ اس کے متعلق کوئی بات نہ کرنا اگر وہ آج تک کے تمام مردوں کو زندہ کر دے تو پھر میں نے اور تم نے اس کا کیا بگاڑ لینا ہے.اس سے دیکھ لیجئے کہ ان کے نزدیک خدا تعالیٰ کی کیا شان ہے.اور پیر دستگیر کی کیا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے ایک استاد مولوی عبد القیوم نام ریاست بھوپال میں رہتے تھے بڑے باغیرت اور دیندار تھے.ایک دفعہ عید کے موقع پر وہاں کے ریذیڈنٹ نے بیگم صاحبہ بھوپال کو کہا کہ میں آپ کی نماز دیکھنا چاہتا ہوں اس لئے خاص طور پر عید گاہ کو سجایا گیا اور خاص اہتمام کیا گیا.عید کے دن جب مولوی عبد القیوم صاحب نماز پڑھانے کے لئے گئے تو اس وقت تک ریذیڈنٹ اور بیگم صاحبہ نہیں آئی تھیں لیکن وقت ہو گیا تھا.مولوی صاحب نے حاضرین کو نماز پڑھا دی.نماز پڑھا چکنے کے بعد بیگم صاحبہ آئیں اور پوچھا مولوی صاحب آپ نے یہ کیا کیا

Page 486

لوم جلد ۳۰ ۴۵۹ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں کہ ہمارے آنے سے پہلے ہی نماز پڑھا دی.اور اس پر بہت غصہ کا اظہار کیا.مولوی صاحب نے کہا نہیں بیگم صاحبہ! میں نے تو نماز نہیں پڑھائی.والیہ بھوپال نے کہا کہ سب لوگ گواہی دیتے ہیں کہ آپ پڑھا چکے ہیں.انہوں نے جواب دیا کہ نہیں میں نے خدا تعالی کی نماز پڑھائی ہے.آپ کی نماز کے لئے یونہی انتظار کر رہا تھا تشریف لائیے اب پڑھا دیتا ہوں.انہی مولوی صاحب نے رویا میں ایک شکل دیکھی کہ اس کے جسم پر کیڑے پڑے ہوئے تھے اور ہڈیاں نکلی ہوئی تھیں اور بڑا بدصورت تھا انہوں نے اس سے پوچھا تم کون ہو.اس نے کہا میں خدا ہوں.انہوں نے کہا ہمیں تو قرآن نے بڑا خوبصورت اور بڑی اعلیٰ صفتوں والا خدا بتایا ہوا ہے.تم کس طرح خدا ہو سکتے ہو.اس نے جواب دیا میں وہ خدا نہیں ہوں جس کا ذکر قرآن میں ہے بلکہ میں بھوپال کا خدا ہوں.تو وہ خدا جو بڑا ہی خوبصورت اور بڑے ہی جمال والا ہے بڑی ہی شان و شوکت رکھتا ہے اور ایسا ہے کہ اس کی صفات کو سن کر انسان کا دل چاہتا ہے کہ اس کے رستہ میں اپنے جسم کو ریزہ ریزہ کر دے وہ اس وقت کے لوگوں کے خیالات کے مطابق مولوی صاحب کو اس شکل میں نظر آیا.مگر آج مسلمان جو خدا پیش کرتے ہیں وہ بھی کچھ کم نہیں.منہ سے اس کی تقدیس کی جاتی ہے مگر واقعہ میں جو تفصیلات اس کی صفات اور اس کے کاموں کے متعلق بیان کی جاتی ہیں ان سے وہ نہایت بھیانک اور خوفناک خدا معلوم ہوتا ہے.پھر یہی نہیں خدا تعالی کے کمزور بندوں کو خدا بنایا جا رہا ہے.پھر ایک ایسی جماعت جو کہتی ہے کہ ہم مشرک نہیں بلکہ موحد ہیں.لیکن انہوں نے یہ کیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے کلام کو وضعی اور جھوٹی حدیثوں کے نیچے چھپا دیا ہے.یہ لوگ اگر ایک گڑھے سے نکلے تھے تو دوسرے میں جاگرے ہیں.پھر اور عقائد میں ہزار ہا قسم کی خرابیاں ہیں.اور ان کو رسائل اور کتب میں ظاہر کرتے رہتے ہیں.ایک مولوی صاحب لکھتے ہیں کہ خدا جھوٹ نہیں بول سکتا.دوسرے کہتے ہیں نہیں وہ شخص جو یہ کہتا ہے وہ خدا کی قدرت کا منکر ہے اس لئے وہ کافر ہے.پہلے صاحب کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں لکھا ہے کہ خدا سچ بولتا اور سب بچوں سے زیادہ سچا ہے اس لئے وہ جھوٹ نہیں بول سکتا.تم قرآن کریم کو نہیں مانتے اس لئے کافر ہو.حالانکہ یہ بحث ہی لغو ہے.حضرت مسیح موعود نے فرمایا ہے کہ قدرت کے معنی طاقت رکھنے کے ہیں اور طاقت کا کمال یہ ہے کہ صاحب طاقت میں کوئی عیب اور کوئی نقص نہ ہو.جھوٹ بولنا ایک نقص ہے اس لئے قادر ہونا اور جھوٹ بولنا یکجا جمع ہی نہیں ہو سکتے.لیکن مسلمان ہیں کہ ان لغو بحثوں

Page 487

العلوم جلد ۳ ۴۶۰ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں میں پڑے ہوئے ہیں.پھر مسلمانوں کے فلسفی کہتے ہیں کہ خدا کو قادر سمجھنا ہی لغو ہے.خدا علت ہے اور مجبور ہے کہ پیدا کرے.اس لئے یہ چیزیں پیدا ہوتی رہتی ہیں.یہ لوگ مثال میں یہ بات پیش کرتے ہیں کہ آگ کا کام جلانا ہے جو اس میں انگلی ڈالے گا.اس کی انگلی کو وہ ضرور جلائے گی.اسی طرح کا خدا ہے وہ مجبور ہے کہ پیدا کرے.اس لئے چیزوں کی پیدائش ہوتی رہتی ہے.کیا ایسے خدا سے کوئی عظمند محبت کر سکتا ہے جو آپ ہی آپ بلا ارادہ اور بلا منشاء کے کام کرنے پر مجبور ہے.کیونکہ کسی کو انعام یا سزا دینا تو اس کے اختیار میں ہی نہ ہوا اور جب یہ نہ ہوا تو اس سے محبت یا خوف کیسا.پھر کہتے ہیں کہ اب خدا کسی سے کلام نہیں کر سکتا.جو کچھ اس نے بولنا تھا وہ بول چکا ہے.گویا اب اس کے بولنے کی صفت معطل ہو چکی ہے.غرض اس قسم کی بہت سی باتیں ہیں جو ان کے عقائد میں داخل ہو چکی تھیں.اور قرآن کریم نے جو کچھ بتایا تھا وہ ان کے اعتقادات میں داخل نہیں رہا تھا.اس لئے خدا تعالٰی نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا.آپ نے آکر اسلام کو ان تمام نقصوں اور عیبوں سے پاک کیا جو ان لوگوں نے اس کی طرف منسوب کر دیئے تھے.اور بتایا کہ خدا ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور نہ اس سے مقابلہ کر سکتا ہے.اور یہ کہ خدا جو کچھ کرتا ہے اپنے ارادہ سے کرتا ہے مجبور ہو کر نہیں کرتا.ہر ایک انسان جو کچھ کرتا ہے وہ اس سے پوچھا جائے گا.مگر خدا سے کوئی پوچھنے والا نہیں.خدا تعالیٰ علت نہیں بلکہ وہ اپنے فضل اور احسان سے سب کام کرتا ہے اور یہ کہ اس کی طرف جھوٹ منسوب کرنا ہی غلط ہے.اور یہ بحث ہی فضول ہے اور یہ کہ اسکے کلام کرنے کی صفت اب بھی معطل نہیں ہوئی بلکہ جاری ہے.غرض اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود نے ہی اسلام کو صاف اور شفاف کر کے پیش کیا ہے.اور خدا تعالیٰ کے اس حکم کو پورا کر کے دکھلا دیا ہے کہ سبح اسم ربك الأعلى ال علی : ٢ اب لوگ سمجھیں کہ ہم میں اور غیر احمدیوں میں وفات مسیح کا ہی اختلاف نہیں.خدا تعالیٰ کے متعلق بھی اختلاف ہے.وہ اس خدا کو نہیں مانتے جو قرآن نے پیش کیا ہے.پھر قرآن کریم کے بارہ میں اختلاف ہے.وہ اس رنگ میں اس کو نہیں مانتے جو کہ اصلی اور ہے.پھر آنحضرت الی میں بھی اختلاف ہے وہ اس شان میں آپ کو نہیں مانتے جو

Page 488

وم جلد ۳۰ ۴۶۱ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں آپ کی ہے.لیکن تم نے ان سے اصل خدا اصل قرآن اور حقیقی نبی کریم " منوانا ہے.کیا یہ کوئی چھوٹا کام ہے.آپ لوگوں نے ہزاروں اور لاکھوں انسانوں کے سامنے اپنا مال اور اپنی جائیں خرچ کر کے بتانا ہے کہ خدا کی اصل شان کیا ہے، قرآن کریم کی صحیح تعلیم کیا ہے آنحضرت ا کی اصل حقیقت کیا ہے اور پھر جو عیب جو نقص اور جو کمزوریاں وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کو دور کرتا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے کلام قرآن کریم پر کئی قسم کے اعتراض کئے جاتے ہیں.اکثر کہتے ہیں کہ اس میں ایسے واقعات بیان کئے گئے ہیں جو غلط ہیں.اکثر کہتے ہیں کہ اس میں کوئی ربط نہیں.گویا جس طرح ایک نادان بچہ کے ہاتھ سے کاغذ پر سیاہی کے گرنے سے بے ترتیب چھینٹے پڑ جاتے ہیں نعوذ باللہ اسی طرح خدا تعالیٰ نے یہ بے ترتیب کی باتیں بتادی ہیں حالانکہ یہ اتنا بڑا نقص ہے کہ کسی سمجھدار انسان میں بھی نہیں پایا جاتا پھر کس طرح ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ میں پایا جاتا ہو.پھر قرآن کے متعلق سمجھ رکھا ہے کہ یہ مُردوں کی قبروں پر پڑھنے کے لئے ہے.گویا یہ زندوں کے لئے نازل نہیں ہوا تھا.مردوں کے لئے ہوا تھا.پھر قرآن کی آیت کے ناسخ و منسوخ نے قیامت برپا کردی.کسی نے کوئی آیت منسوخ کر دی اور کسی نے کوئی.اور جس آیت کا مطلب نہ سمجھ آیا یا جو اپنی منشاء کے خلاف معلوم ہوئی اس کے متعلق کہہ دیا کہ یہ منسوخ ہے.پھر بعض نے یہاں تک کہہ دیا کہ قرآن در اصل آنحضرت ا پر نہیں اتارا گیا بلکہ حضرت علی پر اتارا گیا تھا لیکن جبرائیل غلطی سے آنحضرت ا کو دے گئے.یہ بھی بہت بڑا حملہ ہے.کیونکہ اگر (نعوذ باللہ ) آنحضرت اس قابل نہ تھے کہ آپ پر خدا کا کلام اتر تا تو پھر خدا نے اس غلطی کی اصلاح کیوں نہ کی.پھر بعض نے کہا کہ قرآن کے دس ے ہی غائب ہیں.اس سے تو قرآن کا کوئی حکم بھی قابل عمل نہ رہا کیونکہ ممکن ہے کہ جو قرآن کا حصہ غائب ہے اس میں کسی حکم کی کوئی تشریح ہو.پھر بعضوں نے کہا کہ قرآن خدائی کلام ہی نہیں آنحضرت ا کے اپنے خیالات ہیں.بعض نے کہا یہ عقل کے خلاف ہے.یہ تو خدا تعالیٰ کے کلام کے متعلق ان کے اعتقاد ہوئے.ان کے علاوہ خدا تعالیٰ کے نبیوں میں سے کوئی نبی ایسا نہ چھوڑا جس پر کوئی نہ کوئی گندے سے گندہ الزام نہ لگایا ہو.سورۃ یوسف میں جہاں آتا ہے کہ حضرت یوسف کے بھائیوں نے ان کے چھوٹے بھائی پر سے چوری کا الزام دور کرتے ہوئے خود حضرت یوسف پر بھی الزام لگا دیا کہ اس کا بھائی (یوسف) بھی پہلے

Page 489

العلوم جلد ۳۰ ۶۲ سوم جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں چوری کر چکا ہے تو ایسے بعض مفسرین نے ایسے واقعات لکھنے شروع کر دیے ہیں کہ واقعہ میں حضرت یوسف نے نعوذ باللہ چوری کی تھی.انہوں نے اپنی پھوپھی کا کرتہ چرایا تھا.تو نبیوں پر کوئی نہ کوئی الزام ضرور لگاتے ہیں.اور صاف کہتے ہیں کہ حضرت عیسی پاک تھے اور کوئی نبی بری نہیں تھا.حتی کہ رسول کریم ی پر بھی انہوں نے الزام لگائے ہیں.ان کی کتابوں میں لکھا ہوا موجود ہے کہ آنحضرت حضرت زینب پر عاشق ہو گئے تھے کیونکہ انہوں نے ان کو نگا نہاتے ہوئے دیکھ لیا تھا.کہتے ہیں رسول اللہ ا ڈرپوک تھے.آپ کے بعد حضرت علی شیر خدا خلافت لینے کے مستحق تھے.لیکن آپ نے ابو بکر سے ڈر کر نہ بنایا.پھر ملائکہ کی نسبت کہتے ہیں کہ اس دنیا میں دو فرشتے آئے تھے اور وہ ایک کنچنی پر عاشق ہو گئے اور اس سے زنا کیا.وہ کہنچنی تو ستارہ بن کر آسمان پر جا چکی اور وہ دونوں ایک کنویں میں لٹکا دیئے گئے.ہو.غرض اسلام کا کوئی عقیدہ اور کوئی بات ایسی نہیں رہی جس کو انہوں نے بالکل مسخ نہ کر دیا پھر جزاء و سزا کے متعلق ان کا یہ عقیدہ ہے اور اس کو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا خواہ کوئی کس قدر گناہ کرے لیکن لا الہ الا اللہ کہنے سے جنت میں چلا جائے گا.پھر جنت کا نقشہ ایسا برا کھینچتے ہیں کہ سن کر شرم آجاتی ہے ہم نے ایک دفعہ ندوۃ العلماء کا جلسہ دیکھا.اس میں ایک مولوی صاحب نماز کی فضیلت پر لیکچر دے رہے تھے جسے سن کر انگریزی خوان اور شریف آدمی شرم کے مارے اپنے منہ پر رومال رکھ رہے تھے.مولوی صاحب نے نماز کی ضرورت اور فضیلت صرف یہ بیان کی کہ نماز کے بدلہ میں جنت ملے گی اور جنت وہ مقام ہو گا جس میں اس اس طرح عورتوں سے تعلق کا موقعہ ملے گا اس جماع میں خاص قسم کی لذت اور سرور ہو گا وغیرہ وغیرہ.پورا ڈیڑھ گھنٹہ انہی باتوں کی تشریح اور توضیح کرنے میں اس کا صرف ہوا.یہ حالت ہے مسلمانوں کے علماء کی.اس لئے خدا تعالٰی نے مسیح موعود کو بھیجا کہ جن کے متعلق یہ پیشگوئی تھی کہ لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقَا بِالثَّرَيَّا لَنَا لَهُ رَجُلٌ أَوْ رِجَالٌ مِنْ یہاں میں ایک ضمنی بات بتاتا ہوں اور وہ یہ.هولاءه بخاری کتاب التفسير - باب قوله و اخرين منهم لما يلحقوا بهم میں روایت اس طرح ہے "لو كان الايمان عند الثريا لناله رجال او رجل من هؤلاء

Page 490

1 انوار العلوم جلد ٣٠ ۲۹۳ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں اسی پیشگوئی میں ہماری صداقت کا بھی ثبوت ہے.جو کہ آنحضرت ا کی زبانی ہے.یہ پیشگوئی دو طرح پر آئی ہے ایک میں رَجُل کا لفظ آیا ہے اور دوسری میں دجال کا اب ہم کہتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب ایمان اٹھ جائے گا اور عقائد بگڑ جائیں گے تو خدا تعالی ایک فارسی النسل انسان کو کھڑا کرے گا.جو اگر ایمان آسمان پر بھی چلا جائے گا تو واپس لے آئے گا.اور دوسری جگہ فرمایا ہے کہ ایسا شخص ایک نہیں ہو گا بلکہ کئی ہوں گے.اب یہ بات تو سب لوگ مانتے ہیں کہ اس زمانہ کی طرح پہلے کبھی ایمان ثریا پر نہیں گیا اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو یقینی طور پر دعوی کر سکے کہ میں فارسی النسل ہوں.مگر حضرت مسیح موعود کو الہام : کے ذریعہ بتایا گیا ہے اور صرف آپ ہی نے فارسی النسل ہونے کا دعویٰ کیا ہے.پس ہم کہتے ہیں تمام دنیا پر اس وقت وہ کون سا خاندان ہے.جو یقینی طور پر کہتا ہے کہ میں فارسی النسل ہوں.ہمارے سوا کوئی بھی نہیں.اور رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ ایمان کے لانے والے کئی ایک ہوں گے.اس لئے معلوم ہوا کہ ہمارے خاندان کے دوسرے لوگ بھی اس پیشگوئی میں شامل ہیں.موجودہ اختلاف کے زمانہ میں اگر یہ ہو تا کہ حضرت مسیح موعود کے لڑکوں میں سے بعض ایک طرف ہوتے اور بعض دوسری طرف تو غیر مبائعین کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی حق پر ہیں کیونکہ ہم بھی ابنائے فارس میں سے ہیں.لیکن خدا کی منشاء کے ماتحت حضرت مسیح موعود کی تمام اولاد ہماری طرف ہی ہے.اور اس کے متعلق رسول کریم ای نے پہلے ہی فیصلہ کر دیا ہے کہ وہ ایمان کو قائم کرنے والے ہوں گے نہ کہ نقصان پہنچانے والے اس سے معلوم ہوا کہ ہم حق پر ہیں.خیر یہ تو ایک ضمنی بات تھی.لیکن میں نے آپ لوگوں کو جو کچھ سنایا ہے اس سے آپ نے معلوم کر لیا ہو گا کہ ہمارا کام کوئی چھوٹا سا کام نہیں ہے.اگر کسی ایک آدمی کے یا ایک شہر یا ایک علاقہ کے لوگوں کے عقائد خراب ہوتے تو کوئی بڑی بات نہ تھی.لیکن یہاں تو آدے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ کی نسبت، فرشتوں کی نسبت، قرآن کریم کی نسبت آنحضرت کی نسبت نبیوں کی نسبت حشر و نشر کی نسبت اور قیامت کی نسبت سب عقا ئدہ بگڑے ہوئے ہیں.اور ساری دنیا کے مسلمانوں کے ایمان میں تزلزل آچکا ہے اور ان کو درست کرنا ہمارا فرض ہے.کیا اتنے بڑے کام کے ہوتے ہوئے ہم سستی اور غفلت سے کام لے سکتے ہیں.ہرگز نہیں.بلکہ جتنا بڑا کام ہے اتنی ہی زیادہ ہمیں تیاری کرنی چاہئے.دیکھو جس آدمی کو

Page 491

ر العلوم جلد ۳ ۴۶۴ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں دس کوس جانا ہوتا ہے وہ اپنے سفر کے لئے کم تیاری کرتا ہے.لیکن جس کو دور دراز جانا ہو وہ بہت زیادہ کرتا ہے.پھر دیکھو اگر کبھی سرحد پر ضرورت پڑے.تو ہماری گورنمنٹ چند سو آدمیوں کو بھیج دیتی ہے اور انہیں کو دیکھ کر فتنہ پرداز بھاگ جاتے ہیں.مگر آج جبکہ جرمن وغیرہ کے ساتھ مقابلہ ہے تو کس قدر تیاری کی جاتی ہے.اور برٹش حکومت کے دانا کس قدر زور و شور سے سامان جنگ تیار کر رہے ہیں.تمام انگلینڈ ایک کارخانہ کی طرح بن گیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس بڑے دشمن کے لئے بڑی تیاری کی ضرورت ہے.پس آپ لوگ سن لیں اور خوب غور سے سن لیں کہ ہمارا مقابلہ بھی کوئی چھوٹا سا مقابلہ نہیں بلکہ بہت بڑا ہے کیونکہ اس زمانہ میں اس شیطان کا آخری حملہ ہے جس نے حضرت نوح ، حضرت موسی حضرت عیسی اور آنحضرت ا کے مقابلہ کے لئے اپنا لشکر بھیجا تھا.اب وہ پوری تیاری اور مکمل سامان کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے.اور یہ بات دل میں رکھ کر آیا ہے کہ یا مار دوں گا یا مرجاؤں گا.اس لئے یہ ایک ایسی جنگ ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی.روحانی اور جسمانی سلسلے ایک ہی طرح چلتے ہیں.جس طرح یہ موجودہ جسمانی جنگ اس قسم کی ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسی نہیں ہوئی.اس طرح ہماری روحانی جنگ بھی ایسی ہی ہے جس کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں مل سکتی.آپ کی ایک مٹھی بھر جماعت ہے جس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ جاؤ اور جاکر شیطان اور اسکے لشکر کو ہلاک کرو.یعنی لوگوں کے عقائد کو درست کرو اور اپنے ان بھائیوں کو جو شیطان کی قید میں پھنسے ہوئے اور اس کی فوج میں بھرتی ہو چکے ہیں ان کو چھڑاؤ اور اپنے ساتھ شامل کرو.تم لوگوں نے چونکہ اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دیا ہے اس لئے تمہیں خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کی رہائی کے لئے بھیجا ہے جو شیطان کے ہاتھ میں بک چکے ہیں.پس غور کرلو.اس کے لئے تمہیں کس قدر تیاری کرنی چاہئے.اس کام میں تمہیں اپنے رات دن صرف کرنے پڑیں گے ، اپنی عزت و آبرو قربان کرنی پڑے گی اپنا آرام و آسائش چھوڑنی پڑے گی اور اپنا مال اور جان دینی پڑے گی اور جب تک یہ سب مراحل طے نہ کرد گے تمہیں کامیابی نہیں ہو سکے گی.کیونکہ شیطان کا یہ آخری حملہ اور موجودہ جنگ کی طرح بڑا خطرناک حملہ ہے.پہلے زمانہ میں جو لڑائیاں ہوتی تھیں ان میں بہت جلدی فیصلہ ہو جاتا تھا.نپولین کی لڑائیوں کے حالات پڑھنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ چند گھنٹہ کے عرصہ میں ان کا فیصلہ ہو جاتا تھا.لیکن آج کیسی خطرناک جنگ ہو رہی ہے.باوجود اس کے کہ جرمن کے مقابلہ

Page 492

العلوم جلد.۴۶۵ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں میں ہماری گورنمنٹ بہت وسیع سامان رکھتی ہے مگر پھر بھی اس کو یک لخت شکست نہیں دی جا سکتی.یہی حال روحانی جنگ کا ہے.اس لئے یاد رکھو کہ تمہیں اس مقابلہ میں اچانک اور جھٹ پٹ فتح نہیں حاصل ہو جائے گی بلکہ تمہیں ایک ایک صوبہ ایک ایک علاقہ ایک ایک شہر ایک ایک گاؤں ، ایک ایک گلی ایک ایک گھر ایک ایک کونے بلکہ ایک ایک فٹ اور ایک ایک انچ زمین کے لئے لڑنا ہو گا اور شیطان سے مقابلہ کر کے اسے شکست دینی پڑے گی تب جا کر فتح کا منہ دیکھو گے اور خدا تعالیٰ کے حضور میں سُر خبرو ہو گے اور اس کے محبوب اور پیارے ہو جاؤ گے اور اس کے انعامات کے وارث ٹھرو گے.پس اپنی کمروں کو کس لو اور سینوں کو تان لو اور آج ہی سے نئے انسان بن جاؤ.آج کے دن کی شام تم کو وہ انسان نہ دیکھے جو صبح نے دیکھا اور کل کی صبح تمہیں اس حالت میں نہ پائے جس حالت میں آج کی شام نے پایا.ہر لحظہ اور ہر گھڑی تمہارے اندر نیا جوش اور نیا ولولہ پیدا کرے.اور ہر منٹ تمہارے اندر اور زیادہ ہمت پیدا کرے.کیا تم دیکھتے نہیں کہ موجودہ جنگ میں قومیں کس طرح اپنی بہادری اور شجاعت دکھا رہی ہیں.جرمن ہمارا دشمن ہی سہی مگر ہماری گورنمنٹ اس کے متعلق کہتی ہے کہ وہ اپنے ملک کی ہر ایک چیز کو کام میں لے آیا ہے اور کوئی چیز اس نے ایسی نہیں چھوڑی جس کا انتظام سرکاری ہاتھوں میں نہ ہو ملک کے تمام زر و مال اور دوسری اشیاء پر اس نے قبضہ کر لیا ہے اور سب ملک کو ایک گھرانہ کی صورت میں بنا دیا ہے.سب کو پکی پکائی روٹی ملتی ہے.پھر ان میں قربانی کی ایسی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے کچھ دن ہوئے ایک امریکن نے لکھا تھا کہ ایک اتنی برس کی بڑھیا تھی اور اس کا ایک ہی لڑکا تھا جو میدان جنگ میں مارا گیا تھا جب اس کے مرنے کی خبر آئی تو وہ بڑھیا بلائی گئی.اور اس کے بیٹے کی وفات کی خبر سے سنائی گئی.وہ یہ خبر سن کر جب واپس آ رہی تھی تو اس کے پاؤں لڑکھڑا رہے تھے اور اس کا رنگ زرد ہو رہا تھا.لیکن جونہی اس نے دیکھا کہ لوگ سامنے کھڑے ہیں تو کمر اکڑاتی اور یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ اگر میرا بیٹا مارا گیا ہے تو کیا ہوا ملک کے لئے مارا گیا ہے.ہماری گورنمنٹ کی رعایا میں تو اس سے بھی بڑھ کر مثالیں پائی جاتی ہیں.کچھ عرصہ ہوا اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ ایک عورت کے آٹھ بچے تھے جن میں سے سات لڑائی پر گئے ہوئے تھے اور بعض مر بھی چکے تھے.لیکن جب اعلان ہوا کہ سب قابل جنگ نوجوان بھرتی کئے جائیں تو اس عورت نے اپنا آٹھواں لڑکا بھی پیش کر دیا.جس علاقہ میں وہ رہتی تھی اس کے

Page 493

العلوم جلد.جماعت احمدیہ کے فرائض آفیسر نے لکھا کہ اس کے لڑکے کو نہیں لینا چاہئے کیونکہ یہی اس کے کھانے پینے کا انتظام کرتا ہے.مگر اس عورت نے کہا کہ اگر گورنمنٹ کو اس کی ضرورت ہے تو مجھے اس کے دینے میں بھی کوئی عذر نہیں ہے جس وقت مرضی ہو لے لیا جائے.یہ وہ قربانی کا جذبہ ہے جو قوموں کو کامیاب کیا کرتا ہے.اگر ہماری گورنمنٹ کی رعایا اس طرح نہ کرتی تو اس کی کوئی عزت نہ ہوتی.مگر جو لوگ غیرت مند ہوتے ہیں وہ اسی طرح کیا کرتے ہیں اور انہوں نے ثابت کر دیا ہے کہ ہم اپنی عزت کے لئے سب کچھ قربان کرنے کے لیئے تیار ہیں.پس میں آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ جس طرح ہماری گورنمنٹ کو ایک بے مثال جنگ میں شامل ہونا پڑا اسی طرح ہم بھی ایک بے مثال جنگ کر رہے ہیں.اور جس طرح ہماری گورنمنٹ ایک جسمانی جنگ کر رہی ہے اور اس لئے لڑ رہی ہے کہ کمزوروں اور ضعیفوں کو بچارے اسی طرح ہمیں بھی خدا تعالٰی نے اس کام کے لئے کھڑا کیا ہے کہ روحانی بیکسوں ، ناداروں اور ضعیفوں کی حفاظت کریں اور ان کو ہلاکت سے بچاو یں اور جو خدا تعالیٰ سے بچھڑ چکے ہیں انہیں خدا تعالیٰ سے ملادیں.پھر کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ وہ قربانیاں نہیں کرتے جو آپ کو کرنی چاہئیں.اور کیا وجہ ہے کہ اس انجمن کے ممبر میرے کان کھا جاتے ہیں کہ لوگ ہماری اپیلوں پر توجہ نہیں کرتے اور چندہ نہیں بھیجتے.کیا آپ لوگ اس بات کے مدعی نہیں ہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کے ہاتھ اپنا سب مال بیچ دیا ہے اور اس کے بدلہ میں جنت لے لی ہے.اگر ہیں تو جب آپ سے خدا کے لئے مال مانگے جاتے ہیں.تو ان کے دینے سے کیوں دریغ کیا جاتا ہے.پھر کیا تم اس بات کے مدعی نہیں ہو کہ ہم نے اپنی جانوں کو خدا تعالی کے سپرد کر دیا ہوا ہے.اگر ہو تو جب تمہارے سپرد کوئی دین کا کام کیا جاتا ہے تو اس کے کرنے میں کیوں ستی دکھاتے ہو.جب تم نے اپنا مال اور اپنی جان خدا تعالیٰ کے آگے بیچ دی ہے تو کیوں ضرورت کے وقت اس بیچ پر قائم نہیں رہتے.دیکھو میں ایک بیمار آدمی ہوں اور مجھ پر بہت بڑے بڑے بوجھ ہیں.تمہاری روحانیت کا خیال، تمہاری تربیت کا فکر تمہاری دینی اور دنیاوی مشکلات کے دور کرنے کی کوشش کرنا کیا میرے لئے کوئی معمولی کام ہے.اگر کسی کے ایک بچہ کو کوئی تکلیف ہو یا کسی مصیبت میں ہو تو اسے آرام نہیں آتا مگر میرے تو لاکھوں بچے ہیں کوئی ک تکلیف میں ہوتا ہے کوئی کسی میں.کوئی کسی مشکل میں ہو تا ہے کوئی کسی میں.اس سے آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ میری ہر گھڑی اور ہر لحظہ کسی مصیبت اور کس رنج میں گزرتی ہے.لیکن

Page 494

انوار العلوم جلد - ۳ ۴۶۷ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں باوجود اس کے اس وقت مجھے کس قدر دکھ اور تکلیف ہوتی ہے جب مجھے یہ سنایا جاتا ہے کہ فلاں کام اخراجات کے نہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا ہے.اور فلاں بات کی تحریک کی گئی تھی لیکن کسی نے جواب نہیں دیا.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں اور اس کو خوب اچھی طرح سن لو پھر کبھی تم کو نصیب نہیں ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا زمانہ سب سے بہتر تھا.مگر وہ گذر گیا.اس کے بعد حضرت خلیفہ اول کا زمانہ آیا مگر وہ بھی نہ رہا.اب میرا زمانہ ہے اور میں بھی انسان ہوں یہ بھی نہیں رہے گا.مگر میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ میرے بعد اگر کسی غیر مامور انسان سے تمہارا معاملہ پڑا تو مجھے جیسا نہیں ملے گا.اور جس قدر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ سے بعد ہوتا رہے گا اسی قدر فرق ہوتا رہے گا.مجھے تمہارے لئے ایسا دل دیا گیا ہے جو تمہارے درد تمہاری مصیبت اور تمہاری تکلیف کو تم سے زیادہ محسوس کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ نے تمہیں ایک ایسا انسان دیا ہے جو ہر وقت تمہارے کاموں میں تمہارا ہاتھ بٹانے کے لئے تیار ہے.اور بلا کسی اجر اور امید کے صرف خدا کے لئے دن رات تمہاری بہتری اور بھلائی میں صرف کرتا ہے.خدا تعالیٰ کے حضور تمہارے لئے عجز اور نیاز سے دعائیں کرتا ہے.یہ میں اس لئے نہیں کہتا کہ تم پر احسان جتلاؤں.میرا تم میں سے کسی پر احسان نہیں ہے بلکہ اس لئے کہتا ہوں کہ جب اس قدر مجھ پر بوجھ ہے اور پھر آپ لوگ بھی ہر معاملہ میں مجھے سے دعا کرانی چاہتے ہو اور جب خدا تعالیٰ میری دعائیں سنتا اور اکثر سنتا ہے تو اس پر خوش ہوتے ہو تو پھر بتلاؤ کہ میں ان کاموں کو اس حالت میں کس طرح پورا کر سکتا ہوں جب دن رات مجھے یہ سنایا جاتا ہے کہ روپیہ نہیں.پس آج سے تم لوگ اس بات کا فیصلہ کر لو کہ اس عہد پر پختہ طور سے قائم رہو گے.جو تم نے خدا تعالیٰ کے ساتھ کیا ہے اور اپنے مال اور جان کو خدا کی راہ میں دینے سے ذرا بھی دریغ نہیں کرو گے.اور اگر اس طرح نہیں کرنا تو کہہ دو کہ ہم نے خدا سے کوئی عہد نہیں کیا تاکہ خدا تعالی اور قوم کو چن لے اور اس سے اپنا کام لے.لیکن یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ اپنا کام کرے گا اور ضرور کرے گا اور اسلام کو تمام دینوں پر غالب کرے گا.مگر افسوس ہو گا ان لوگوں پر جو اس فتح میں شامل نہیں ہوں گے اور مبارک ہوں گے وہ لوگ جن کے ذریعہ یہ فتح حاصل ہوگی.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس وقت تک اپنے خاص انعامات کا تم کو وارث

Page 495

انوار العلوم جلد.۴۶۸ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں نہیں بنائے گا جب تک تم اپنی جان اور مال اس کی راہ میں نہ لگا دو گے.اور اس زمانہ میں جو سب سے بڑا کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اس کو سرانجام نہیں دو گے.اس زمانہ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا الْجَنَّةُ ازْ لِغَتْ (التکویر : (۱۴) کہ اس وقت جنت قریب کر دی جائے گی یعنی تھوڑی سی کوشش سے بھی جنت حاصل ہو سکے گی.پس یہ مت سمجھو کہ تمہاری کوششیں اور تدبیریں تمہارا مال اور جان صرف کرنا ضائع جائے گا بلکہ ہر ایک قدم جو تم خدا کے لئے اٹھاؤ گے وہ تمہیں خدا تعالیٰ کے قریب کر دے گا.اس کے بدلہ میں خدا تعالیٰ تمہاری طرف آنے کے لئے دو قدم اٹھائے گا.اس لئے جس قدر کوشش کر سکتے ہو کر لو اور جس قدر ہمت دکھا سکتے ہو دکھالو تاکہ خدا تعالیٰ کے بڑے انعامات کے وارث بن جاؤ.ورنہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے دو قسم کے ابتلاء آتے ہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے بھی فرمایا ہے کہ پہلے تو خدا تعالیٰ اس قسم کے ابتلاء لاتا ہے جن میں انسان خود ہی اپنے آپ کو سزا دے لے.مثلاً قربانی کرنے کا حکم یا عبادت کرنے، زکوۃ دینے ، حج کرنے کے احکام ، ان میں وقت جان اور مال خرچ کرنا پڑتا ہے.اور یہ ایسا ہی ہوتا ہے جس طرح استاد شاگرد کو کہتا ہے کہ تم اس قدر سبق یاد کر لانا.لیکن اگر وہ خود بخود یاد کر کے نہ لائے تو پھر کہتا ہے کہ میرے سامنے بیٹھ کر یاد کرو.اسی طرح خدا تعالیٰ بھی پہلے ایسے ابتلاء مقرر کرتا ہے جن سے انسان خود اپنا امتحان کرلے.اگر اس طرح کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے عذاب سے بچا لیتا ہے.اور اگر نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ خود سزا دیتا ہے.اور جانتے ہو کہ دوسرے کی چوٹ بہت سخت محسوس ہوتی ہے.مثلاً ایک شخص کسی کو کہے کہ فلاں غلطی کے بدلے تم اپنے آپ کو خود ہی تھپڑ مار لو.اگر خود مارے گا تو اسے اتنی تکلیف نہیں ہوگی جتنی کہ دوسرے کے مارنے سے.اسی طرح اگر انسان اپنے آپ کی خود آزمائش کرلے تو اسے اتنی تکلیف نہیں ہوتی جتنی کہ خدا تعالیٰ کے کرنے سے.تم لوگ خدا تعالٰی کے ابتلاؤں کو اپنے اوپر آپ وارد کرلو.کیونکہ جو ایسا نہیں کرے گا اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے لاٹھی گرے گی اور اس کو چور چور کر دے گی.ہماری جماعت کو وہ نمونہ دکھانا چاہئے جو صحابہ نے دکھایا تھا اور اپنے مال اور جان کو خدا کی راہ میں دینے سے ذرا بھی دریغ نہیں کیا تھا.آپ لوگ بھی جب تک اسی طرح نہ کریں گے خدا تعالیٰ کے انعامات کے وارث نہیں ہو سکیں گے.اس میں شک نہیں کہ ہماری جماعت میں سے بہت سے ایسے ہیں جو صحابہ نمونہ دکھاتے ہیں.مگر ایک گروہ ایسا ہے جو ست ہے اور یہ گروہ اپنی تعداد کے لحاظ سے کم کا

Page 496

رالعلوم جلد ۳ ۴۶۹ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں نہیں بلکہ بہت بڑا ہے.لیکن جس طرح جسمانی جنگ میں اگر ایک آدمی بھی سستی کرتا ہے.تو سمجھا جاتا ہے کہ فتح کو شکست سے بدلنے کی کوشش کرتا ہے اسی طرح اسلام کی اشاعت میں اگر کوئی سستی سے کام لیتا ہے تو اپنے ذمہ بہت بڑا جرم لیتا ہے.حالانکہ اسلام اس وقت یہ نہیں کہتا کہ اپنے خون سے میری آبیاری کرد بلکہ یہ کہتا ہے کہ اپنے وقت اور اپنے مال کو میری اشاعت میں صرف کرد.لیکن کس قدر افسوس ہے اس انسان پر جو اس میں بھی سستی دکھاتا ہے.پس اے دوستو! اپنے نفوس کی اصلاح کرو.آپ نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ہم خدا کی راہ میں اپنے مال و جان کو خرچ کرنے کے لئے تیار ہیں.اور خدا کی فوج میں داخل ہو چکے ہیں اس لئے تمہاری ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں.دیکھو ایک ایسا شخص جو فوج میں ملازم نہیں ہے اگر کسی نوجی آفیسر کو سلام نہ کرے تو اسے کوئی نہیں پوچھتا.لیکن اگر کوئی سپاہی کسی آفیسر کو سلام نہ کرے تو فورا اس کا کورٹ مارشل کر کے اسے سزادی جاتی ہے.آپ لوگ خدا تعالی کی فوج کے سپاہی ہیں اور خدا تعالیٰ نے آپ کو اپنی فوج میں داخل کر لیا ہے اس لئے سب مل کر کام کرو.اس دنیاوی جنگ نے آپ کو بتا دیا ہے کہ مقابلہ کے وقت بڑے انتظام کی ضرورت ہوتی ہے.پس ایک انتظام کے ماتحت اکٹھے ہو کر کام کرو.آپس میں لڑائی جھگڑے نہ کرو.ایک معمولی سی بات طول دینے سے بہت دور چلی جاتی ہے اور کئی انسانوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دیتی ہے.اس لئے کوشش کرو کہ تم میں کوئی ایسی بات پیدا ہی نہ ہو.رم میرے پیارو ! اتنی عقل تو وحشی جانوروں میں بھی پائی جاتی ہے کہ جب وہ دشمن کو دیکھتے ہیں تو اکٹھے ہو جاتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے بعد حضرت علی کے وقت صحابہ میں جو لڑائیاں ہو ئیں اس وقت عیسائیوں کے بادشاہ نے چاہا کہ مسلمانوں پر حملہ کرے.اس کو سب وزراء نے مشورہ دیا کہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کا یہ بہت عمدہ موقعہ ہے لیکن اس کے پادری نے کہا کہ نہیں ہرگز حملہ نہیں کرنا چاہئے کبھی کامیابی نہیں ہو گی.ان کے متعلق میں تمہیں بتاتا ہوں.دو کتے لاؤ جب کتے لائے گئے تو کچھ عرصہ انہیں بھوکا رکھ کر گوشت ڈالا وہ آپس میں لڑنے لگ گئے.اس پر اس نے ان پر شیر چھوڑا شیر کو دیکھ کر ان دونوں نے لڑائی بند کر دی اور شیر پر پل پڑے.اس نے کہا یہی حالت مسلمانوں کی ہے اگر ان پر حملہ کیا گیا تو اسی طرح اکٹھے ہو کر وہ مقابلہ کریں گے.

Page 497

دم جلد - جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ وہ دشمن تھا اس لئے اس نے گندی مثال دی ہے.لیکن جو کچھ اس کا خیال تھا وہ صحیح تھا.چنانچہ جب حضرت معاویہ کو اس بات کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ اگر تم نے حملہ کیا تو سب سے پہلے میں وہ شخص ہوں گا جو علی کی طرف سے تمہارے مقابلہ کے لئے کھڑا ہوں گا.میں نے بتایا ہے کہ اس پادری نے مسلمانوں کو ایک گندی مثال سے تشبیہ دی تھی کیونکہ وہ ان کا دشمن تھا مگر میں کہتا ہوں کیا اس میں کچھ شک ہے کہ کتے بھی جو ذلیل مخلوق ہے دشمن کے مقابلہ کے وقت اکٹھے ہو جاتے ہیں.پھر کیا وجہ ہے کہ ایسے انسان جن کو اشرف المخلوقات بنایا گیا ہے اور جو اس زمانہ میں خدا تعالٰی کے ایک نبی کو مان کر اولی الالباب میں داخل ہو گئے.ہیں.اور جنہوں نے اس چشمہ سے پانی پیا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے بہا ہے.اور ایسے وقت میں اسلام کی مدد کے لئے کھڑے ہوئے جبکہ اسپر نہایت خطرناک وقت آیا ہوا ہے.وہ اگر آپس میں لڑنا شروع کر دیں تو کس قدر افسوس کی بات ہے.ان لوگوں کو جانے دو جو اختلاف کر کے ہم سے الگ ہو گئے ہیں مگر تم بھی جنہوں نے ایک امام کی بیعت کی ہوئی ہے اور ایک سلک میں منسلک ہو دنیاوی معاملات میں آپس میں لڑائی جھگڑا کرو تو کیسا رونے کا مقام ہے.ابھی میں نے آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود کی تعلیم سنائی ہے.اس پر عمل کرو.اور اگر تم میں کوئی اختلاف ہوتا ہے تو اس کو عمدگی سے دور کرو.اگر کوئی تکلیف پہنچاتا ہے تو اسے برداشت کرو.بعض اوقات بہت معمولی معمولی باتوں پر اختلاف ہو جاتا ہے کہ فلاں کو کیوں سیکرٹری بنایا گیا ہے.فلاں پریذیڈنٹ کیوں بن گیا.کیا موجودہ زمانہ اس قسم کے اختلاف کرنے کا ہے.ان لوگوں کو دیکھو جن کا مذہب ہمارے نزدیک سچا نہیں اور جو محض دنیا کی عزت اور توقیر کے لئے مر رہے ہیں ان میں بڑے بڑے جرنیل ہوتے ہیں مگر ضرورت کے وقت انہیں دوسروں کے ماتحت کر دیتے ہیں.مگر اتنا بھی نہیں پوچھتے کہ اس طرح کیوں کیا گیا ہے.ابھی فرانس میں ایک ایسے شخص کو کمانڈر انچیف بنایا گیا ہے جو قریب زمانہ میں ہی کرنل تھا.مگر کسی نے اس کے خلاف ذرا بھی آواز نہیں اٹھائی آپ لوگوں کو ایسے موقعہ پر جبکہ ہر چہار طرف سے دشمن حملہ آور ہو رہا ہے.چھت پھاڑ کر اور دروازے توڑ کر تم پر یورش کر رہا ہے اپنے جھگڑے اور اپنے اختلاف کیونکر سوجھتے ہیں.خدا کے لئے سوچو اور اپنے فرائض کو سمجھو.اور اگر تم میں کوئی ایسے لوگ ہیں جن میں بعض کمزوریاں ہیں تو ان کی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.ایک دوسرے کے بھائی بھائی بن جاؤ.اور آپس میں ایسی محبت اور الفت دکھاؤ کہ دیکھنے

Page 498

العلوم جلد ۳ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں والے سگے بھائیوں سے بھی زیادہ تم میں الفت دیکھیں.اپنے دلوں کو بغض اور حسد سے پاک کر لو اور آئینہ کی طرح بنالو.پھر خدا کی راہ میں اپنے مالوں کو بے دریغ خرچ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.اپنے اوقات کو خدا کے لئے لگا دو.کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جس سے تم کامیاب اور فاتح ہو سکتے ہو اور اسی ذریعہ سے خدا تعالٰی کی خوشنودی اور رضا حاصل کر سکتے ہو.پس میری اس نصیحت کو یاد رکھو اور اس پر عمل کرو.میں نہیں جانتا کہ اگلے سال میری جگہ کون کھڑا ہو گا.میری صحت تو اچھی نہیں رہتی.پھر بعض دوستوں نے میرے متعلق متوحش خوابیں بھی دیکھی ہیں.خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ اگلے سال تک کیا ہو گا مگر میں جو کچھ کہتا ہوں اس کو یاد رکھو اور اس موقعہ سے فائدہ اٹھاؤ جو خدا تعالیٰ نے تمہیں دے رکھا ہے.اگر خدا کے دیے ہوئے موقعہ کو ضائع کر دیا جائے تو پھر خدا کا غضب نازل ہوتا ہے.پس قبل اس کے کہ تم خدا کے عتاب کے مورد بنو اس سے فائدہ اٹھاؤ.اور اپنے عہدوں کو پورا کر کے دکھا دو.آج جس کسی کا کسی بھائی سے کینہ ہو وہ دل سے نکال دے.اگر کسی پر غصہ ہے تو ترک کر دے.اگر کسی سے ناراضگی ہے تو صلح کرلے.اور اگر کسی سے تکلیف پہنچی ہے تو معاف کر دے اور سب کو اپنا بھائی سمجھے.تم میں سے ہر ایک کا یہ فرض ہے کہ ایک ہو کر کام کرو اگر کوئی ست ہے تو اس کی مدد کرو.اور ہر وقت تمہارے مد نظر دین ہونا چاہئے.اس کے لئے اپنا سب کچھ صرف کردو.دیکھو تم سے پہلی جماعتیں جنہوں نے خدا تعالیٰ کی راہ میں سب کچھ دے دیا اور اس کے لئے تکلیفیں برداشت کیں مصیبتیں جھیلیں وہ ضائع نہیں ہو ئیں بلکہ بڑے بڑے انعاموں کی وارث بنیں ہیں.اب انہیں انعاموں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے اس لئے اٹھو اور جھولیاں بھر لو.خدا تعالیٰ رحمٰن ہے.جب اس نے بغیر تمہاری محنت کے یہ سب چیزیں زمین آسمان چاند سورج، تمہارا جسم ، عقل اور فہم پیدا کیا ہے تو سمجھ لو کہ جب وہ رحیمیت کا جلوہ دکھائے گا اس وقت تم پر کس قدر انعام نازل کرے گا.پس اللہ کے لئے کھڑے ہو جاؤ.اور جو موقعہ تمہیں نصیب ہے اس سے فائدہ اٹھاؤ جو لوگ یہاں آج بیٹھے ہیں وہ یہاں سے نہ اٹھیں مگر اپنے اندر تبدیلی پیدا کر کے.اور جو لوگ اپنے گھروں میں ہیں ان کو بتادیں کہ تبدیلی کر لیں.اس وقت اسلام کی حالت بہت دردناک ہو رہی ہے.بڑے چھوٹے ، عالم، جاہل، امیر، غریب سب بگڑ چکے ہیں اور ہر طرف سے دشمن حملہ آور ہو رہے ہیں.تاریخ دان تاریخ کی آڑ میں ، منطق دان منطق کے پردہ میں فلسفہ دان

Page 499

ر العلوم جلد ۳۰ ۴۷۲ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں فلسفہ کی ٹی کے پیچھے ، سائنس دان سائنس کے ذریعہ سے علم آثار قدیمہ کے ماہر مٹے مٹائے نشانات کو لے کر اور ہیئت دان ہیئت کے ذریعہ سے اسلام پر حملہ کر رہے ہیں.غرضیکہ شیطان نے تمام ذرائع سے حملہ کرنا شروع کر دیا ہے.پس ایسے موقعہ پر اگر ہم آپس میں اتفاق اور اتحاد قائم نہ رکھیں اور جان اور مال کو خدا کی راہ میں صرف کرنے کے لئے ایسے تیار نہ ہو جائیں کہ یا تو فتح حاصل کریں گے یا موت سے بغل گیر ہو جائیں تو فتح کی کیا امید ہو سکتی ہے.میں اب آپ لوگوں کے لئے اور اپنے لئے دعا کرتا ہوں.اور اس نیت سے کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمیں عمل کرنے کی توفیق دے.اگر آپ لوگ بھی یہی ارادہ کر کے دعا کریں گے تو خدا تعالیٰ ضرور تمہاری مدد کرے گا.ہاں میں پھر کہتا ہوں کہ اگر کوئی تم سے لڑائی جھگڑا کرتا یا تم پر سختی کرتا ہے تو اسے برداشت کرو.اس کا جواب نہ دو کیونکہ اس طرح جھگڑا بڑھتا اور فتنہ پھیلتا ہے.مجھے لکھو میں خود اس کا انتظام کروں گا.پھر تم لوگ اپنی اپنی مقامی جماعت کے سیکرٹری اور پریذیڈنٹ کی مدد کرو.کمزوروں کو اپنے ساتھ ملا کر زور دار بناؤ.اورستوں کی ستی دور کر کے دین کے کام میں شامل کر لو.جب اس طرح کرو گے تو خدا تعالیٰ کے انعامات کے دروازے تم پر کھولے جائیں گے.اور خدا تعالیٰ کے انعام اس قدر وسعت رکھتے ہیں کہ کوئی انسان ان کا اندازہ نہیں کر سکتا.آپ لوگوں کو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی بڑی امید میں دلائی ہیں.وہ سب پوری ہو جائیں گی.پھر اس سے بڑھ کر تمہیں اور کیا چاہئے کہ وہی انعام جو صحابہ کرام کو حاصل ہوئے تھے وہی تم کو مل جائیں گے.پس تمہارے لئے روحانی بادشاہت کے دروازے کھلے ہیں ان میں داخل ہونے کی کوشش کرو.اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اس کے حاصل کرنے کا انتظام کرو.پس چاہئے کہ ہر ایک احمدی مبلغ ہو.کیونکہ اس زمانہ میں تم ہی خیر امت ہو.اگر تم میں سے کوئی تبلیغ نہیں کرتا تو وہ اس امت کا فرد نہیں کہلا سکتا.بلکہ یہود اور نصاریٰ میں سے ہو گا.اسی طرح خیر امت کی یہ بھی علامت ہے کہ اس میں سے ایک خاص گروہ ہو جو دن رات تبلیغ میں ہی لگا رہے اور اس کے اخراجات دوسرے لوگ برداشت کریں.پس تم لوگ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے نہ اپنے مالوں اور نہ جانوں سے دریغ کرو تاکہ آج سے بعد دشمن کو تم پر حملہ کرنے کا موقعہ نہ ملے.اور نہ دین کے کام رکتے جائیں.خدا نے اپنے کام تو کرتے ہیں اور ضرور کرے گا.مگر ہمارے لئے یہ ثواب حاصل

Page 500

ا العلوم جلد ۳۳۰ ۴۷۳ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں کرنے کا موقعہ ہے اس لئے اس سے فائدہ اٹھانا چاہئے.پس اپنے پریذیڈنٹوں اور سیکرٹریوں کی مدد کرو اور کام کرنے والوں پر اعتراض نہ کرو.اپنے اندر اطاعت اور فرمانبرداری کی عادت ڈالو.اطاعت کرنا غلامی نہیں ہوتی بلکہ حقیقی آزادی یہی ہوتی ہے.آزادی کیا ہوتی ہے یہی کہ تمام لوگ قانون کی اطاعت کرتے ہوں.بتلاؤ سرحد میں آزادی ہے یا گورنمنٹ کے علاقہ میں بلاشبہ گورنمنٹ کے علاقہ میں ہی آزادی ہے کیونکہ اس میں قانون کی پابندی کی جاتی ہے.تو اصل آزادی اطاعت میں ہوتی ہے.ہاں جو اطاعت اندھا دھند کی جائے تو غلامی ہوتی ہے.لیکن آپ لوگوں نے خدا کے فضل و کرم سے ایسا نہیں کیا اس لئے تمہارا کسی کی اطاعت کرنا غلامی نہیں کہلا سکتا.پس اس بات کی پرواہ نہ کرو کہ کون سیکرٹری اور کون پریذیڈنٹ ہے بلکہ اپنے اعمال کی اصلاح کرو.جو باقاعدہ نمازیں نہیں پڑھتے وہ نمازیں پڑھیں.جو زکوۃ نہیں دیتے وہ زکوۃ دیں.جو باوجود استطاعت کے حج نہیں کرتے وہ حج کریں.پھر تم میں سے ہر ایک مبلغ ہو اور دوسروں کو تبلیغ کرے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ شاید ہماری بات کوئی نہ مانے اس لئے ہم تبلیغ نہیں کرتے.میں ایسے لوگوں کو کہتا ہوں کہ اگر تمہارے پاس صداقت ہے اور ضرور ہے تو کیا اس میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ دوسروں کے دلوں کو جذب کرے ضرور کر سکتی ہے.اگر تم ہمت اور کوشش سے کام لو.پھر بعض یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے جو دین کی خدمت کرنی تھی کرلی ہے اور جو کچھ سیکھنا تھا سیکھ لیا ہے.ایک دفعہ میں نے خواجہ کمال الدین صاحب کو ایک بات کے متعلق کہا کہ چونکہ آپ یہاں آکر کچھ سیکھتے اور سمجھتے نہیں اس لئے آپ کو دھوکا لگا ہوا ہے تو اس نے کہا کہ ہم نے جو کچھ سیکھنا تھا سیکھ چکے ہیں اور یہاں پڑھنے کے لئے نہیں آتے.آپ لوگوں نے دیکھ لیا اس کا کیا انجام ہوا.پس اس بات کو یاد رکھو کہ جو موقعہ بھی ملے اس میں دین کے سیکھنے کی کوشش کرو.دیکھو رسول کریم ﷺ کو علم کے بڑھانے کی ضرورت ہے تو اور کون ہے جو اس سے مستغنی ہو چکا ہے.پس تم آگے سے آگے بڑھو اگر فاتح بنا چاہتے ہو.کیونکہ فاتح لوگ آگے ہی آگے بڑھتے ہیں ایک مقام پر کھڑے نہیں ہوتے.اسلام بھی چونکہ ایک فاتح مذہب ہے اس لئے اپنے پیروؤں کا کھڑا رہنا پسند نہیں کرتا اور یہ دعا سکھاتا ہے کہ اهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ یعنی اے ہمارے خدا ہمیں آگے ہی آگے بڑھا.نیچر سے بھی اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ جو چلنے والی چیز کھڑی ہو جاتی ہے وہ گرنا اور مٹنا شروع ہو جاتی ہے.روحانیت میں بھی چونکہ یہی قانون کام کرتا ہے اس لئے اسلام کہتا ہے کہ یا تو آگے

Page 501

۴۷۴ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ چلو یا گر جاؤ تم کھڑے نہیں رہ سکتے.گویا ایک حملہ اور ایک دھارا ہو رہا ہے.اس میں اگر کوئی کھڑا ہو گا تو کچلا جائے گا.پس تم یہ مت سمجھو کہ اب ہمیں آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی ضرورت نہیں ہے.جو ایسا خیال کرے گا وہ گر جائے گا.اس لئے ہر دم اور ہر گھڑی آگے ہی آگے بڑھتے چلے جاؤ اور جو قربانیاں آج سے پہلے کر چکے ہو آج ان سے بڑھ کر کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.کل ان سے اور پرسوں ان سے بڑھ کر.اور ہر دم بڑھتے ہی جاؤ کیونکہ جو قوم کھڑی ہو جاتی ہے وہ گر جاتی ہے.دیکھ لو مسلمان جس دن کھڑے ہوئے اسی دن سے گرنے شروع ہو گئے.اور جب گرنے شروع ہوئے تو نا امید ہو گئے.اور جب نا امید ہوئے تو مٹ گئے.تمہارے لئے نا امید ہونے اور سستی دکھانے کی کوئی وجہ نہیں ہے.کیا تم وہ قوم ہو جو اپنی ترقی اور کامیابی کے لئے اپنی ہمت اور کوشش صرف کر چکی ہے.ہرگز نہیں تمہاری تو عمر ابھی چند سال کی ہے.تم نے کہاں کسی سے مقابلہ کیا ہے.اور کب کسی دشمن سے شکست کھائی ہے کہ نا امید ہو جاؤ.وہ مسلمان جنہوں نے شکست کھائی اور نا امید ہو چکے ہیں وہ وہ ہیں جو حق پر قائم نہیں رہے.مگر ہم تو خدا کے فضل سے اس تعلیم پر چل رہے ہیں جو خدا تعالیٰ نے دی ہے.پھر دوسرے مسلمانوں کی حالت ہم سے بالکل مختلف ہے.کیوں کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے ایک بشیر اور نذیر کا مقابلہ اور تکذیب کی ہے اور خدا تعالیٰ یہ فیصلہ کر چکا ہے جو کوئی اس کا مقابلہ کرے گا وہ مٹا دیا جائے گا.اور اس کے مقابلہ کی رد میں جو دیوار مکان جو شہر اور جو دیار آئے گارہ اکھیڑا جائے گا.لیکن ہم تو وہ قوم ہیں جنہوں نے خدا تعالی کے اس برگزیدہ کی اطاعت کی ہے جس کی فتح کا ڈنکا خدا تعالٰی نے بجاتا ہے.بس ہم تو ایک ایسی قوم ہیں جس نے گویا ابھی دشمن سے مقابلہ شروع ہی نہیں کیا اور ہمیں اپنی طاقت آزمائی کا موقعہ ہی نہیں ملا.پھر ہم وہ قوم ہیں جس کو کامیاب اور فتح مند کرنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے.پھر ہمارے چہرے کیوں زرد ہوں اور ہمارے اعضاء کیوں مست ہوں اور ہمارے دل کیوں ناامید ہوں.حضرت عمرؓ کی نسبت ایک عجیب واقعہ لکھا ہے ایک موقعہ پر ایک شخص سر ڈالے ہوئے چلا جا رہا تھا.آپ نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے مکا مارا اور کہا.او کم بخت کیا اسلام بند ہو گیا ہے کہ تو اس طرح مغموم اور غمگین شکل بنائے جا رہا ہے.میرے دوستو یاد رکھو کہ ہماری کامیابی کے لئے خدا تعالیٰ آسمان پر صور پھونک رہا ہے اور ہماری تائید کے لئے فرشتے نازل ہو رہے ہیں.اس لئے تمہارے چہروں پر فرحت کے آثار ہونے چاہئیں.اور خوشی اور

Page 502

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۷۵ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریاں چستی سے کام کرنا چاہئے.تمہاری کسی حرکت میں سستی اور غفلت نہ ہو.اور اس فتح اور نصرت کے وقت شکست خوردہ لوگوں کی سی شکل نہ بناؤ.کیونکہ یہ بدشگونی ہے اور خدا کے غضب کا مورد بنا دیتی ہے.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں سے پتہ لگتا ہے کہ تم ضرور فاتح ہو گے اور جو تمہارے مقابلہ پر آئے گا شکست کھائے گا.پس تم امید والے دل بھروسہ اور تو کل والے جوش اور چستی و ہوشیاری والے اعضاء لے کر نکلو اور دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھر جاؤ.کس قدر افسوس آتا ہے ان لوگوں پر جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے علاقہ کے لوگ ہماری باتیں نہیں سنتے اس لئے ہم تبلیغ کسی کو کریں.ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ وہ کبھی نا امید نہ ہوں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَا نَسُوا مِنْ رَوحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَا يُنَسُ مِنْ زَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَفِرُونَ (یوسف) (۸۸) مؤمن کو کبھی نا امید نہیں ہونا چاہئے.کیونکہ ناامید ہونا کافر کی علامت ہے.پس اگر اپنی کوشش اور سعی کافی الحال نتیجہ نہیں دیکھتے تو نا امید نہ ہو.بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر ہمت دکھاؤ اور یقین رکھو کہ آج تم میں سے وہ جو الف ب نہیں جانتے ایک وقت آئے گا جبکہ دنیا کے ادیب ان کے سامنے آکر زانوئے ادب خم کریں گے.اور ان سے علم سیکھیں گے.کیونکہ آپ کو وہ علم دیا گیا ہے جو خدا تعالٰی نے نازل کیا ہے.پس اپنے حوصلے بلند کرو اور ستی کو ترک کرد و نا امیدی کا خیال تک نہ لاؤ.اگر تمہیں اللہ تعالیٰ کے وعدوں پر یقین ہو گا اور کوشش وسعی سے کام لو گے تو بہت جلدی دیکھ لو گے کہ بہت سے ایسے لوگ جو اسلام کے خلاف بڑی بڑی تقریریں کرتے اور اسے جھوٹا قرار دیتے ہوں گے وہ اس کو سچا مان لیں گے.اور ہر جگہ لا الہ الا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ اور الله اکبر کی آواز بلند کرتے پھریں گے اور دنیا پر صداقت اور راستی پھیل جائے گی.یہ دن دور نہیں بلکہ قریب ہیں.پس گھبراؤ نہیں.ابتلاء آئیں گے اور ایسے آئیں گے کہ قریب ہوگا بہت لوگ مرتد ہو جائیں لیکن کامیاب تم ہی ہو گے.تم نے ان ابتلاؤں سے گھبرانا نہیں اور نہ ہی حوصلوں کو پست ہونے دیتا ہے.جب تم اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے ہو جاؤ گے تو اللہ تعالٰی خود تمہاری مدد کرے گا اور جب اللہ تمہارا مددگار ہو جائے گا تو کسی کی طاقت نہیں ہوگی کہ تمہارا مقابلہ کر سکے.اس لئے اٹھ کھڑے ہو اور خدا کی راہ میں اپنے مال اور جانوں کو بے دریغ صرف کر دو.جب ایسا کرو گے تو وہ سب کچھ اپنی آنکھوں دیکھ لو گے جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے.اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں آپ لوگ آمین کہتے جائیں.

Page 503

دعا جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی : اے ہمارے قادر مطلق خدا! اے ہمارے خالق و مالک خدا! اے ہمارے رازق و محافظ خدا اے اسلام کو بھیجنے والے خدا اے رسول کریم ﷺ کو مبعوث کرنے والے خدا اے قرآن کریم ایسی پاک کتاب دینے والے خدا! اے وہ خدا جس نے محمد کے ذریعہ دنیا میں صداقت بھیجی اور آپ کے فرمانبرداروں کو اس کے پھیلانے کی توفیق بخشی.اے وہ خدا جس نے ہمیں اس صداقت کے قبول کرنے کی توفیق دی.اے وہ خدا جس نے حضرت مسیح موعود کا زمانہ ہمیں عطا کیا.اے وہ خدا جس نے حضرت مسیح موعود کی غلامی کی ہمیں توفیق بخشی.اے وہ خدا جس نے اسلام کی صداقت پھیلانے کا کام ہمارے سپرد کیا ہم تیرا ہی واسطہ دے کر تیرے ہی دربار میں عرض کرتے ہیں کہ تو ہمیں ہمت اور طاقت بخش تاکہ ہم اس کام کو کر سکیں.ہم کمزور اور ناتواں ہیں اور ہمارا دشمن قومی اور طاقتور ہے.اے خدا ! جو تمام سامانوں اور ہتھیاروں کے پیدا کرنے والا ہے تو ہی ہم کمزوروں کو سامان عطا کر.ہمیں سہارا دے اور ہمارے دلوں کو مضبوط کر دے اور ہمیں دشمنوں کے مقابلہ سے بھاگنے سے بچا.اے شہنشاہوں کے شہنشاہ انہما را دشمن ہماری بے سرو سامانی کو دیکھ کر ہنستا اور ہمیں شکست دینا چاہتا ہے تو ہی اس کو شکست دے اور ہمارے سامنے سے بھگا دے.تیری تائید اور نصرت سے اسلام کی فتح کا جھنڈا لہرائے.اور تیری مدد سے اسلام سب پر غالب ہو.اے میرے بادشاہ! تیرے نام کی عظمت اور شوکت دنیا میں قائم ہو.اور تیری طرف جو نقص اور کمزوریاں منسوب کی جاتی ہیں وہ دور ہو جائیں.اے میرے قادر مطلق خدا! تیرے بھیجے ہوئے حضرت محمد الی کا دنیا کلمہ پڑھے اور تیرے فرستادہ حضرت مسیح موعود کو قبول کرے.اے میرے خدا ہمارے دلوں سے بغض، حسد کینہ اور دشمنی نکال دے.اے میرے خدا! ہماری کمزوریوں اور نقصوں کو دور کردے.اے میرے خدا! ہمیں قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق دے.اور اے میرے خدا! تو نے جو وعدے حضرت مسیح موعود نے کئے ہیں ان کا ہم کو مستحق بنا.اور اے میرے خدا! ان وعدوں کو ہم پر پورا کر دے.رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ وَرَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ خَزَيْتَهُ ، وَمَا لِلظَّلِمِيْنَ مِنْ أَنْصَارِهِ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَا دِيَا يُنَادِى الإِيمَانِ أَنْ امِنُوا بِرَتِكُمْ فَا مَنَا ، رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّاتِنَا وَ ق سلے تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِهِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيمَةِ.

Page 504

م۴۷ جماعت احمدیہ کے فرائض اور اسکی ذمہ داریا اِنَّكَ لا تُخْلِفُ الماده ال عمران: ۱۹۲۰ تا ۱۹۵) اے ہمارے رب! ہر قسم کی ذلت اور رسوائی سے ہمیں محفوظ رکھ اور جس طرح ہماری ابتداء بخیر کی ہے اسی طرح انجام بھی بخیر کر.اے ہمارے رب! ہر وقت اپنے فضل اور رحم کے نیچے رکھ اور ہر وقت کرم کی نظر سے دیکھ.کیونکہ جو تیرے دروازہ سے دھتکارا جائے اسے کسی جگہ عزت نہیں مل سکتی.اور جسے تو عزت دے اسے کوئی ذلیل نہیں کر سکتا اے ہمارے رب! دنیا کی عزت دنیا کا مال دنیا کی دولت دنیا کا آرام دنیا کی آسائش ، دنیا کے تعلقات دنیا کے رشتہ دار غرضیکہ دنیا کی کوئی چیز بھی تجھ تک پہنچنے کے لئے ہمارے راستہ میں روک نہ ہو.اور ہم سب کچھ تیرے لئے قربان کر دینے کی توفیق پائیں.آمین ه

Page 505

Page 506

انوار العلوم جلد - ۳ ذکراتی ذکر الهی تقریر بر موقع جلسه سالانه ۱۹۱۶ ۶) از سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 507

۲۸۰

Page 508

دم جلد - بسم الله الرحمن الرحیم ۴۸۱ ذکرالی محمدہ و نصلی علی رسوله الكريم ذکر الهی ( تقریر جلسه سالانه ۲۸ دسمبر ۱۹۱۶ء) ار اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمدا عبده ورسوله اما لَهُ مُحَمَّدًا · بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ o سبح اسْمَ رَبِّكَ الأعْلَى ٥ الَّذِى خَلَقَ فَسَوَى ٥ وَالَّذِي قَدَّرَ فَهَدَى ، وَالَّذِى أخْرَجَ الْمَرْعى فَجَعَلَهُ غُنَّاء أحوى ، سَنُقْرِتُكَ فَلَا تُنسى ه إِلَّا مَا شَاءَ اللهُ إِنَّه ه يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفى ، وَنَيَسِرُكَ لِلْيُسْرَى ، فَذَكِّرُ انُ نَفَعَتِ الذِكْرى ٥ سَيَذَّكَّرُ ه وَيَتَجَنَّبها الاشْقَى الَّذِي يَصْلَى النَّارَ الكُبرى ، ثُمَّ لَا يَمُوتُ فِيهَا وَلَا ) ه قد أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى ، وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّى ، بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا.وَالْآخِرَةُ خَيْرو ابقى ) إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى ٥ صُحُفِ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسى 0 (سورۃ الاعلی) آج میرا مضمون جیسا کہ میں نے ذکر الہی کے اس مضمون کی اہمیت کس قدر ہے کل بتایا تھا ایک ایسے امر کے متعلق ہے جس کی نسبت میرا یقین ہے کہ وہ نہایت ہی ضروری ہے.اور یہ محض قیاس اور استنباط پر ہی نہیں بلکہ اس کے متعلق قرآن کریم کی آیات کا بھی فیصلہ اور حکم ہے.شاید بعض

Page 509

ر العلوم جلد - ۳ ۴۸۲ ذکراتی لوگ اس کو سن کر کہہ دیں کہ یہ تو معمولی بات ہے اور ہم پہلے سے ہی اس کو جانتے ہیں.لوگوں کے دلوں کا حال تو سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں جانتا.مگر میں موجودہ حالات کے لحاظ سے کہہ سکتا ہوں اور کہتا ہوں کہ اس مضمون میں بہت سی باتیں ایسی بیان کی جائیں گی جن کو اکثر لوگ نہیں جانتے اور جن کو میں نے کسی کتاب میں بھی نہیں دیکھا.چونکہ مضمون ایسا عام ہے کہ اس کے ہیڈنگ کو سن کر اکثر لوگ کہہ دیں گے کہ یہ تو معمولی اور پہلے کا جانا ہوا ہے.اس لئے میں اس کے سنانے سے قبل یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون نہایت ضروری اور اہم ہے اس لئے اس کو غور سے سنئے.اگر اللہ تعالٰی نے توفیق دی تو میں اس میں بہت سی باتیں ایسی بیان کروں گا کہ اگر آپ لوگ نوٹ کر کے ان پر عمل کریں گے تو خدا تعالٰی ان کو تمہارے لئے بہت خیر اور خوبی کا موجب بنائے گا.مگر پیشتر اس کے کہ میں اصل مضمون کو شروع کروں ایک اور بات سنا دینا چاہتا ہوں جو یہ ہے.وه بعض لوگ جو جلسہ میں شامل ہونے کے لئے آتے جلسہ پر آکر فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں وہ ادھر ادھر پھر کر اپنا وقت گزار دیتے ہیں یہ بہت بری بات ہے.اللہ تعالیٰ نے ان کو روپیہ اس لئے نہیں دیا کہ ضائع کریں.اگر انہوں نے یہاں آکر بے کار ہی پھر نا تھا تو ان کو یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا تھی.جو لوگ یہاں آتے ہیں تکلیف اٹھا کر اور روپیہ خرچ کر کے اس لئے آتے ہیں کہ کچھ سنیں اور فائدہ اٹھا ئیں.لیکن مجھ تک یہ شکایت پہنچی ہے کہ لیکچراروں کے لیکچر دینے کے وقت کئی لوگ اٹھ کر اس لئے چلے جاتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہم نے پہلے ہی سنی ہوئی ہیں.ایسے لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ اگر ان کی یہ بات درست ہے کہ جو بات سنی ہوئی ہو اسے پھر نہیں سننا چاہئے تو پھر انہیں قرآن کریم بھی بار بار نہیں پڑھنا چاہئے اور ایک دفعہ پڑھ کر چھوڑ دینا چاہئے.اسی طرح نماز اور روزہ کے متعلق بھی کرنا چاہئے.لیکن یہ درست نہیں ہے.پس اگر کوئی ایسی بات سنائی جا رہی ہو جو پہلے بھی سنی ہو.تو اسے بھی پورے شوق اور دلی توجہ کے ساتھ سننا چاہئے کیونکہ اس طرح بھی بہت فائدہ ہوتا ہے.اور وہ بات پورے طور سے قلب پر نقش ہو جاتی ہے.پھر اگر مجلس سے ایک اٹھتا ہے تو دوسرا بھی اس کو دیکھ کر اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور تیسرا بھی.اسی طرح بہت سے لوگ اٹھنا شروع ہو جاتے ہیں جو بہت بری بات ہے.ہاں اگر کسی کو اٹھنے کی سخت ضرورت ہو.مثلاً پیشاب یا پاخانہ کرنا ہو تو وہ اٹھے اور باہر چلا جائے.مگر چاہئے کہ اپنی حاجت کو پورا کر

Page 510

ذکرالی ۳ کے بہت جلدی واپس چلا آئے تاکہ یہاں جس غرض اور مدعا کے لئے آیا ہے وہ اسے حاصل ہوتی سکے.اور جس نفع اور فائدہ کے لئے جلسہ میں شامل ہوا ہے وہ حاصل کر سکے.رسول کریم نے فرمایا ہے کہ جب کوئی شخص کسی نیک مجلس میں بیٹھتا ہے تو بغیر اس کے کہ وہاں کی باتیں سنے اور ان پر عمل کرے یوں بھی اسے فائدہ ہو جاتا ہے.حدیث میں آتا ہے.ایک مجلس میں کچھ آدمی بیٹھے تھے خدا تعالیٰ نے فرشتوں سے پوچھا کہ میرے فلاں بندے کیا کر رہے تھے.(رسول کریم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالی نے ان کے متعلق اس لئے سوال نہیں کیا کہ وہ جانتا نہ تھا بلکہ خدا تعالیٰ اصل واقعہ کو خوب جانتا تھا، انہوں نے کہا ذکر الہی کر رہے تھے.خدا تعالیٰ نے فرمایا جو کچھ انہوں نے مانگا میں نے ان کو دیا.فرشتوں نے کہا ان میں ایک ایسا آدمی بھی بیٹھا تھا جو ذکر الہی نہیں کرتا تھا یونہی بیٹھا تھا.خدا تعالٰی نے فرمایا ان کے پاس بیٹھنے والا شقی نہیں ہو سکتا میں اس کو بھی انعام و اکرام دوں گا.(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللہ ) مطلب یہ کہ نیکوں کی صحبت میں جو بیٹھتا ہے خواہ ایک وقت اسے ہدایت نصیب نہ ہو لیکن دو سرے وقت میں ضرور حاصل ہو جاتی ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ باوجود خلوص دل سے ایسی مجلس میں بیٹھنے کے وہ کافر ہی رہے.ہاں جو ایک آدھ دفعہ بیٹھ کر پھر نہیں آتا اور کافر ہی رہتا ہے اس کے لئے یہ بات نہیں ہے.تو آپ لوگ بہت حد تک مجلس میں بیٹھے رہنے کی کوشش کریں.اور اگر کسی کو کوئی سخت ضرورت ہو تو اس کو پورا کر کے جلدی واپس آجائے.میں نے دعا کے طریق بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ نے اور زیادہ انکشاف کر دیا پچھلے دنوں دعا کے متعلق کچھ خطبات کے تھے.اور ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قسم کے مضامین بیان ہوئے تھے کہ جن سے بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا ہے.میرے پاس کئی ایک خطوط آئے ہیں.جن میں لکھا ہوا تھا کہ ان سے بہت فائدہ ہوا ہے.ان کے متعلق مجھے ایک شخص نے لاہور سے خط لکھا تھا اس کا نام نہیں پڑھا گیا تھا معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے اس کے متعلق ستاری سے کام لیا.اس نے لکھا کہ آپ نے یہ کیا کر دیا کہ آپ نے وہ طریق بتا دیئے جو پوشیده در پوشیدہ چلے آتے تھے اور جن میں سے صوفیاء کوئی ایک آدھ برسوں خدمتیں لینے کے بعد بتاتے تھے.آپ نے تو بھانڈا ہی پھوڑ دیا اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی لکھا کہ آپ بھی ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ آپ کو اپنی جماعت سے بہت محبت ہے اسی لئے ان کو یہ طریق بتا +

Page 511

۴۸۴ ذکرالی دیئے ہیں.اس کے متعلق میں کہتا ہوں کہ میں نے صرف اس لئے وہ طریق نہیں بتائے تھے کہ مجھے اپنی جماعت سے محبت ہے.اس میں شک نہیں کہ مجھے محبت ہے اور ایسی محبت ہے کہ اور کسی کو اپنے متعلقین سے بھی کیا ہوگی.مگر میں نے وہ طریق اس لئے بھی بتائے کہ میں جانتا ہوں کہ وہ خدا جس نے مجھے وہ بتائے تھے ایسا خدا ہے کہ اس کا دیا ہوا مال جس قدر زیادہ خرچ کیا جائے اسی قدر زیادہ بڑھتا اور بڑے بڑے انعامات کا باعث بنتا ہے.یہی وجہ ہے کہ میں نے جس قدر طریق جتائے تھے ان کو بتا کر اپنا گھر خالی نہیں کیا بلکہ اور زیادہ بھر لیا تھا.پھر مجھے یقین تھا کہ ان کے بتانے سے مجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا.کیونکہ علم کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو خرچ کرنے سے گھٹے.بلکہ ایسی چیز ہے کہ جو خرچ کرنے سے بڑھتی ہے لیکن اگر مجھے یہ بھی یقین ہوتا تو جس طرح صحابہ کرام کہتے ہیں کہ اگر ہماری گردن پر تلوار رکھ دی جائے اور ہمیں رسول کریم ﷺ کی کوئی ایسی بات یاد ہو جو کسی کے سامنے بیان نہ کی جاچکی ہو.تو پیشتر اس کے کہ تلوار ہماری گردن کو کاٹے وہ بیان کر دیں گے.(بخاری کتاب العلم باب العلم قبل القول والعمل ) اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ اگر بیان کرتے کرتے تمام طریق ختم ہو جاتے تو بھی میں ضرور سب کو بیان کر دیتا.چنانچہ اس وقت جس قدر ہو سکے میں نے بیان کئے.اور میرے دل میں یونہی خیال گذرا کہ دعا کے متعلق جس قدر طریق تھے میں نے سارے کے سارے بیان کر دیئے ہیں.لیکن جب میں نماز کے بعد گھر آیا اور دعا کرنے لگا تو خدا تعالٰی نے اتنے طریق مجھے سمجھائے جو پہلے کبھی میرے وہم و گمان میں بھی نہیں آئے تھے.اب بھی میں جس مضمون پر بولنا چاہتا ہوں اس کے متعلق جہاں تک مجھ سے ہو سکا.نوٹ لکھ کر لایا تھا.لیکن راستہ میں ہی آتے آتے خدا تعالیٰ نے اور بہت سی باتیں سوجھا دیں.تو میں نے دعا کے طریق بتائے تھے جو بہت ضروری تھے.لیکن اب جو کچھ بیان کرنا اس مضمون پر عمل کرنے سے دعا خود بخود مقبول ہوگی چاہتا ہوں وہ طریق دعا سے بھی زیادہ ضروری ہے.اگر اس کو آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر عمل کریں تو آپ کی دعا خود بخود قبول ہو جائے گی.پچھلے سال اسی مضمون پر گذشتہ سال اس مضمون کو بیان نہ کر سکنے میں حکمت بیان کرنے کا میرا ارادہ تھا

Page 512

انوار العلوم جلد ۳ ۴۸۵ ذكر البي لیکن ایک دوسرا مضمون جو شروع کیا کہ وہ بھی ضروری تھا تو یہ رہ گیا.اس میں خدا تعالٰی کی حکمت ہی تھی اور وہ یہ کہ اب جو میں اس کے متعلق نوٹ لکھنے لگا.تو گذشتہ سال کے نوٹ ان کے مقابلہ میں ایسے معلوم ہونے لگے.جیسے استاد کے مقابلہ میں شاگرد کے لکھے ہوتے ہیں.کیونکہ پہلے کی نسبت اب بہت زیادہ باتیں مجھے سمجھائی گئی ہیں.غرض آج میں اس مضمون پر جو ذکر الہی کے متعلق ہے.آپ لوگوں کو کچھ سنانا چاہتا ہوں.اور اس موقعہ پر اس لئے سنانا چاہتا ہوں کہ اکثر لوگ اخبار میں تو پڑھتے نہیں.اس لئے کسی اور موقعہ پر بتائی ہوئی بات صرف انہی لوگوں تک پہنچتی ہے جو اخبار پڑھتے ہیں 1.دعاؤں کے متعلق جو طریق میں نے بتائے تھے.چھپ کر شائع ہو چکے ہیں.لیکن آپ لوگوں میں سے بہت سے ایسے بھی ہوں گے.جنہیں آج معلوم ہوا ہو گا کہ دعا کے متعلق بھی میں نے کچھ بتایا تھا.تو ذکر الہی کے متعلق بیان کرنے کے لئے یہ موقعہ میں نے اس لئے چنا ہے کہ اس موقعہ پر بیان کرنے سے کئی ہزار انسان سن لے گا.اور ان کے ذریعہ بات آگے نکل جائے گی.اس مضمون میں جو باتیں میں بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہیں ذکر الہی کے مضمون کی تقسیم (1) ذکر الہی یا ذکر اللہ سے کیا مراد ہے؟ ذکر الٹی کی ضرورت کیا ہے ؟ ذکر الہی کی قسمیں کتنی ہیں ؟ ذکر الہی میں کیا احتیاطیں برتنی ضروری ہیں؟ ذکرِ الہی کے سمجھنے میں لوگوں نے کیا غلطیاں کھائی ہیں؟ جو لوگ کہتے ہیں کہ نماز پڑھتے وقت ہماری توجہ قائم نہیں رہتی اور شیطان وسوسے ڈال دیتا ہے ان کے لئے شیطان کو بھگانے اور توجہ کو قائم رکھنے کے کیا طریق اور کیا ذرائع ہیں؟ یہ وہ حصے ہیں اس مضمون کے جن پر آج میں اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو کچھ بیان کروں گا.ان سرخیوں کو سن کر آپ لوگوں نے سمجھ لیا ہو گا کہ یہ اس قسم کا مضمون نہیں ہے.جو کسی خاص قسم کے لوگوں سے تعلق رکھتا ہے.بلکہ ہر ایک انسان خواہ وہ ادنیٰ ہوں یا اعلیٰ ، امیر ہو یا غریب، چھوٹا ہو یا بڑا ہر ایک سے تعلق رکھتا ہے.پس آپ لوگ اگر مجھ سے کوئی ایسی بات سنیں.جو معمولی معلوم ہو تو اسے ترک نہ کریں.کیونکہ جب آپ اسے تجربہ میں لائیں گے تو آپ پر ثابت ہو جائے گا کہ وہ معمولی نہ تھی.بلکہ نہایت عظیم الشان نتائج پیدا کرنے والی تھی.ذکر کے معنی ہیں یاد کرنے کے.ذکر اللہ کے یہ معنی ہوئے کہ ذکر الہی کس کو کہتے ہیں خدا تعالیٰ کو یاد کرنا.پس اللہ تعالیٰ کے یاد کرنے کے طریق کو دی گھر

Page 513

ر العلوم جلد ۳ ۴۸۶ ذکرائی ذکر اللہ کہتے ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کو سامنے رکھنا اور ان کو زبان سے بار بار یاد کرنا اور ان کا دل سے اقرار کرنا اور اس کی طاقتوں اور قدرتوں کا معائنہ کرنا ذکر اللہ ہے.مضمون کتنا اہم اور ضروری ہے.اس کے متعلق مختصر الفاظ میں یہ - الدهر : مضمون کی اہمیت کہوں گا کہ بڑا ہی اہم ہے.شاید کوئی خیال کرے کہ چونکہ اس پر میں نے لیکچر دینا شروع کیا ہے اس لئے اس کو بڑا اہم کہتا ہوں.لیکن میں اس لئے نہیں کہتا.بلکہ اس لئے کہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اسے بڑا کہا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَذِكْرُ الله اكبر - (العنکبوت : (۴۶) کہ اللہ کا ذکر تمام امور سے بڑا اور تمام عبادتوں سے بڑھ کر ہے.پس جب خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے کہ ذکر اللہ سب سے بڑا ہے.تو یہ میرا قول نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا ہے کہ یہ مضمون سب سے بڑا اور اہم ہے.اب سوال ہوتا ہے کہ اگر یہ مضمون سب سے بڑا اور اہم ہے تو اس کی طرف سب سے زیادہ توجہ کرنے کا حکم بھی چاہئے.اس کے لئے جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں.تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑی کثرت سے اس طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ لوگ اللہ کے ذکر کی طرف توجہ کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَ اصيلاً.اے میرے بندے! اپنے رب کو صبح اور شام یاد کیا کر.پھر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس مجلس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو.اس کو چاروں طرف سے ملائکہ گھیر لیتے اور خدا کی رحمت نازل کرتے ہیں.میں نے یہ مضمون اس لئے بھی سالانہ جلسہ پر بیان کرنے کے لئے رکھا کہ جب کئی ہزار لوگ دور دراز سے جمع ہوں گے تو ان سب کے سامنے بیان کروں گا تاکہ سب پر فرشتے رحمت اور برکت نازل کریں.پھر وہ لوگ جب اپنے گھروں کو جائیں گے تو یہ باتیں اپنے ساتھ لے جائیں گے.اور جو لوگ یہاں نہیں آئے ان کو سنا دیں گے.اور اس طرح ساری جماعت میں برکت پھیل جائے گی.پس میں نے اس غرض کے لئے بھی آج کا دن اس مضمون کے بیان کرنے کے لئے چنا.میں نے ابھی بتایا ہے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ جس مجلس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو اس کے ارد گرد فرشتے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اللہ کی رحمت اور برکت لاکر بیٹھنے والوں پر ڈالتے ہیں.پس جب ذکر الہی ایک ایسی اعلیٰ چیز ہے کہ اس کے سننے کے لئے فرشتے بھی اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سننے والوں پر رحمت نازل کرتے ہیں.تو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کیسی اہم چیز ہے.اور پھر جو فرشتوں کا استاد ہو گا اس کی وہ کس قدر قدر

Page 514

العلوم جلد ۳۰ ۴۸۷ کرالی کریں گے.کیونکہ جو ذکر کرے گا اس کے پاس فرشتے جمع ہوں گے اور جتنا زیادہ کرے گا اتنے ہی زیادہ فرشتے آئیں گے اور اسے نیک کاموں کی تحریکیں کریں گے.فرشتوں کا آنا کوئی خیالی بات نہیں بلکہ یقینی ہے.میں نے خود فرشتوں کو دیکھا ہے اور ایک دفعہ تو بہت بے تکلفی -.باتیں بھی کی ہیں.تو ذکر کرنے والے کے پاس ملائکہ آتے ہیں.اور اس کے ساتھ ان کی دوستی اور تعلق ہو جاتا ہے." پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ ولا أولادَكُمْ عَنْ ذِكرِ الله - المنافقون : (١٠) يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا وَسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا - (الاحزاب : ۴۲) اے مومنو! تم کو مال اور اولاد اللہ کے ذکر سے نہ روک دے.تم اللہ کا ذکر کرنے میں کسی رکاوٹ کی پرواہ نہ کرو اور کوئی کام تمہارا ایسا نہ ہو جس کو کرتے ہوئے اللہ کے ذکر کو چھوڑ دو.اللہ کا ذکر کثرت سے کرو اور صبح اور شام اس کی تسبیح بیان کرو.اسی طرح رسول کریم فرماتے ہیں اور ابو موسی اشعری کی روایت ہے مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُهُ مَثَلُ الْحَقِّ وَالْمَيِّتِ لَا يَقْعُدُ قَوْم يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلَّا حَقَّتْهُمُ الْمَلائِكَةُ (بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذكر الله) کم اس شخص کی مثال جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ایسی ہی ہے جیسے زندہ اور مُردہ کی.یعنی وہ جو اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے وہ زندہ ہوتا ہے اور جو نہیں کرتا وہ مُردہ.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ ذکر اللہ کس قدر اہم اور ضروری ہے.پھر ترندی میں وو روایت ہے ابی در داء " کہتے ہیں کہ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الا انبتُكُم بِخَيْرِ اعْمَالِكُمْ وَأَزْكَاهَا عِندَ مَلِيكِكُمْ وَارْفَعَهَا فِي دَرَجَاتِكُمْ وَ خَيْر لَكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَالْوَرَقِ وَ خَيْرٍ لَكُمْ مِنْ أَن تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوا أَعْنَاقَهُمْ وَ يَضْرِبُوا أعْنَا تَكُمْ قَالُوا بَلَى قَالَ ذِكُرُ الله - ترندی ابواب الدعوات باب ما جاء في فضل الذكر) رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو سب سے بہتر اور سب سے پسندیدہ ہو اور سونے چاندی کے خرچ کرنے سے بھی بہتر ہو اور اس سے بہتر ہو کہ کوئی جہاد کے لئے جائے اور دشمنوں کو قتل کرے اور خود بھی شہید ہو جائے.صحابہ نے کہا فرمائیے آپ نے کہا وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے.ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ذکر الہی کا درجہ بہت بلند ہے.صحابہ نے کہا یا رسول اللہ کیا جہاد سے بھی اس کا درجہ بلند ہے.آپؐ نے فرمایا.ہاں اس سے بھی بڑھ کر ہے.وجہ !

Page 515

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۸۸ ذکرانی یہ کہ ذکر الہی جہاد کی ترغیب دیتا ہے.یہ ہے ذکر الہی کی اہمیت اور ضرورت.لیکن ذکر ذکر الہی کی طرف توجہ کی کمی کی وجہ الی کے بعض حصے ایسے ہیں کہ جن کی طرف ہماری جماعت کی توجہ نہیں اور اگر ہے تو بہت کم ہے.میری فطرت میں خدا تعالٰی نے بچپن سے ہی سوچنے اور غور کرنے کا مادہ رکھا ہے.میں اسی وقت سے کہ میں نے ہوش سنبھالا ہے اس بات کو سوچتا رہا ہوں اور اب بھی اس کی فکر ہے کہ ہماری جماعت میں ذکر اللہ کی جو کمی ہے اسے دور کیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا پر بہت بڑا زور دیا ہے.اور خدا تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہماری جماعت دعا سے بہت کام لیتی ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود نے ذکر الٹی پر بھی بہت زور دیا ہے.لیکن اس کی طرف جیسی کہ توجہ کرنی چاہئے اس وقت تک ایسی نہیں کی گئی.ایک بہت بڑی وجہ تو یہ ہے کہ انگریزی تعلیم نے کچھ خیالات بدل دیئے ہیں اور یوروپین تعلیم کے اثر سے لوگ خیال کرتے ہیں کہ یونسی خدا کا نام لینے سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.اگر کوئی الگ بیٹھ کر کہتا رہے کہ لا الہ الا اللہ یا خدا قدوس ہے ، علیم ہے ، خبیر ہے قادر ہے ، خالق ہے، تو اس سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.کچھ نہیں اس لئے اس طرح کرنے کی ضرورت نہیں ہے.ہماری جماعت کے لوگ بھی چونکہ انگریزی تعلیم سے شغل رکھتے ہیں اس لئے وہ بھی اس اثر کے نیچے آگئے ہیں.دوسرے ہماری جماعت میں وہ لوگ ہیں جو زمیندار طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں.یہ لوگ پہلے ہی نہ جانتے تھے کہ ذکر الہی کیا چیز ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے اس لئے جب تک ان سب کو اچھی طرح نہ بتلایا جائے اور عمدہ طریق سے نہ سمجھا دیا جائے اس وقت تک اس طرف توجہ نہیں کر سکتے.یہی وجہ ہے کہ ان میں ذکر اللہ کم ہے.نماز بھی ذکر اللہ ہی ہے.جس کی ہماری جماعت میں خدا کے فضل سے پوری پوری پابندی کی جاتی ہے.مگر اس کے سوا اور بھی ذکر اللہ ہیں جن کا ہونا ضروری اور لازمی ہے.ان کے متعلق کو میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ ہماری جماعت میں ہیں ہی نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ کم ہیں.اور بعض لوگ ان پر عمل نہیں کرتے اور یہ بھی بہت بڑا نقص ہے.دیکھو اگر کسی کی شکل خوبصورت ہو مگر اس کی آنکھ یا کان یا ناک خراب ہو تو کیا اسے خوبصورت کہا جائے گا.ہرگز نہیں.بلکہ سے سب لوگ بد صورت ہی کہیں گے.اسی طرح اگر ہماری جماعت کے بعض لوگ ذکر اللہ کے بعض طریق کو عمل میں نہیں لاتے تو ان کی ایسی ہی مثال ہے جیسا کہ ایک شخص نے بڑا قیمتی

Page 516

$ م جلد ۳۰ ۴۸۹ ذکرائی لباس کوٹ ، قمیص ، صدری اور پاجامہ پہنا ہو مگر پاؤں میں جو تانہ رکھتا ہو یا سر پر پگڑی نہ ہو.گو اس کا تمام لباس اچھا ہو گا مگر ایک پگڑی یا جوتے کے نہ ہونے سے اس میں نقص ہوگا.اور اعلیٰ درجہ کے لوگ پسند نہیں کرتے کہ ان کی کسی بات میں نقص ہو.پس جب تمام طریقوں سے ذکر اللہ نہ کرنا ایک نقص ہے اور پھر جب ہم یہ بھی ثابت کر دیں گے کہ نماز کے علاوہ بعض دوسرے طریقوں سے ذکر اللہ کرنے کا بھی خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے چاہے ان کی حکمت کسی کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے اور رسول کریم ﷺ نے بھی ارشاد فرمایا ہے تو ضروری ہے کہ روحانیت کا کمال حاصل کرنے کے لئے ان طریقوں پر بھی عمل کیا جاوے.ہماری جماعت میں نوافل کے ادا کرنے کی طرف پوری توجہ نہ ہونے کی یہ بھی وجہ ہے کہ ان لوگوں نے ذکر اللہ کے اس طریق ذکر کے فوائد کو سمجھا نہیں.وہ فرائض کو ادا کر کے سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے کام پورا کر لیا.حالانکہ رسول کریم و فرماتے ہیں اور خود نہیں فرماتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالٰی نے مجھے فرمایا ہے کہ لَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ فَكُنْتُ سَمُعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ وَبَصَرَهُ الَّذِي يُبْصِرُ بِهِ وَيَدَهُ الَّتِى يَبْطِشُ بِهَا وَ رِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي بِهَا.(بخارى كتاب الرقاق باب التواضع) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نوافل سے میرا بندہ مجھ سے اس قدر قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے کہ وہ سنتا ہے.اور میں اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں جس سے کہ وہ دیکھتا ہے.اور میں اس کے ہاتھ ہو جاتا ہوں جس سے کہ وہ پکڑتا ہے اور میں اس کے پاؤں ہو جاتا ہوں جس سے کہ وہ چلتا ہے.اس سے آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے نوافل کا کتنا بڑا درجہ رکھا ہے اور نوافل پڑھنے والے کے لئے کتنا بڑا مقام قرار دیا ہے.گویا ان کے ذریعہ خدا تعالیٰ انسان کو اس حد تک پہنچا دیتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفات اپنے اندر لے لیتا ہے.پس نوافل کوئی معمولی چیز نہیں ہیں.مگر افسوس کہ بہت لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کرتے.اصل بات یہ ہے کہ انسان میں بہت کمزوری اور سستی ہے اس لئے وہ کم سے کم ریاضت کو عمل میں لانا چاہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ جو اپنے بندوں کی کمزوریوں سے واقف اور ان پر بہت بڑا رحم کرنے والا ہے اس نے کچھ تو فرائض مقرر کر دیئے ہیں اور کچھ نوافل - فرائض تو اس لئے کہ اگر کوئی شخص ان کو پورا کر لے گا تو اس پر کوئی الزام نہیں آئے گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آکر اسلام کے متعلق پوچھا آپ نے فرمایا.

Page 517

ر العلوم جلد ۳ ۴۹۰ ذکرالی خَمْسُ صَلَوَاتِ فِي اليَوم وَاللَّيْلَةِ فَقَالَ هَل عَلَى غَيْرُهَا قَالَ لَا إِلَّا أَنْ تَطَوَّعَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصِيَامُ رَمَضَانَ قَالَ هَلْ عَلَى غَيْرُهُ قَالَ لَا إِلا أَنْ تَطَوَّعَ قالَ وَ ذَكَرَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الزَّكَوةَ قَالَ هَلْ عَلَيَّ غَيْرُهَا قَالَ لَا اِلَّا اَنْ تَطَوَّعَ قَالَ فَادْبَرَ الرَّجُلُ وَهُوَ يَقُولُ وَاللهِ لَا اَزِيدُ عَلَى هَذَا وَلَا انْقُصُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَفَلَحَ إِنْ صَدَقَ - (بخاری کتاب الایمان باب الزكوة من الاسلام رسول کریم ﷺ نے اس کو فرمایا کہ دن رات میں پانچ نمازیں ہیں.اس نے کہا کیا ان کے سوا اور بھی ہیں.رسول کریم نے فرمایا نہیں.لیکن اگر تو نفل کے طور پر پڑھے.پھر رسول کریم نے فرمایا.ماہ رمضان کے روزے.اس نے کہا.کیا ان کے سوا اور بھی ہیں.آپ نے فرمایا نہیں.مگر جو تو نفل کے طور پر رکھے.پھر آپ نے فرمایا.اسلام میں زکوۃ بھی فرض ہے.اس نے کہا کیا اسکے سوا اور بھی ہے آپ نے فرمایا نہیں.مگر جو تو نفل کے طور پر دے.یہ سن کر وہ شخص یہ کہتا ہوا چلا گیا.کہ خدا کی قسم ہمیں نہ ان میں زیادتی کروں گا نہ کمی.رسول کریم ﷺ نے فرمایا یہ شخص کامیاب ہو گیا اگر اس نے سچ کہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو انسان فرائض کو پوری طرح ادا کر لے وہ کامیاب ہو جاتا ہے.مگر محتاط اور دور اندیش انسان صرف فرائض کی ادائیگی پر ہی نہیں رہتا بلکہ وہ نوافل میں بھی قدم رکھتا ہے تاکہ اگر فرائض کے ادا کرنے میں کوئی کمی رہ گئی ہو تو وہ اس طرح پوری ہو جائے.مثلا دن رات میں پانچ نمازیں ادا کرنا فرض ہے.ایک ایسا شخص جو یہ نمازیں تو ادا کرتا ہے مگر نوافل نہیں پڑھتا ، ممکن ہے کہ اس کی ایک نماز ایسی ادا ہوئی ہو جو اس کی کسی غلطی کی وجہ سے ردی ہو گئی ہو اور قیامت کے دن اسے اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم ایک دفعہ مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص نے آکر نماز پڑھی.آپ نے اسے فرمایا پھر پڑھ اس نے پھر پڑھی.آپ نے فرمایا پھر پڑھ.اس نے پھر پڑھی تیسری دفعہ آپ نے فرمایا پھر پڑھ اس نے پھر پڑھی.جب آپ نے چوتھی دفعہ اسے پڑھنے کے لئے کہا.تو اس نے کہا یا رسول اللہ خدا کی قسم اس سے زیادہ مجھے نماز نہیں آتی آپ بتائیں کس طرح پڑھوں.آپ نے فرمایا تم نے جلدی نماز پڑھی ہے اس لئے قبول نہیں ہوئی آہستہ پڑھو.(بخاری کتاب صفة الصلوۃ باب وجوب القراءة للامام والمأموم) تو بعض اوقات ایسے نقص ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے نماز قبول نہیں ہوتی.لیکن ، رو

Page 518

العلوم جلد - ۳ ۴۹۱ ذکر الهی شخص جو فرض نماز کے ساتھ نوافل بھی ادا کرتا ہے اس کی اگر کوئی نماز قبول نہ ہو تو نوافل اس کو کام دے سکیں گے اور اس کمی کو پورا کر دیں گے.اس کی ایسی ہی مثال ہے کہ کوئی شخص ایسا امتحان دینے کے لئے جائے جس میں پاس ہونے کے لئے صرف پچاس نمبر حاصل کرنے کی شرط ہو اور وہ جا کر اتنے سوال حل کر آئے.جن کے پچاس ہی نمبر ہوں اور یقین کرلے کہ میں پاس ہو جاؤں گا.یہ اس کی غلطی ہوگی کیونکہ ممکن ہے کہ اس کا کوئی سوال غلط نکل آئے اور اسے پورے پچاس نمبر حاصل نہ ہو سکیں اور وہ فیل ہو جائے.اسی لئے جو ہوشیار اور سمجھدار طالب علم ہوتے ہیں وہ ایسا نہیں کرتے.بلکہ انہیں جو سوال آتے ہوں وہ بھی اور جو نہ آتے ہوں وہ بھی سارے کے سارے حل کر آتے ہیں کہ شاید سب کے نمبر مل ملا کر پاس ہو سکیں.پھر اگر کوئی سفر میں چلے اور اندازہ کر لے کہ مجھے اس قدر خرچ درکار ہو گا اور اسی قدر اپنے ساتھ لے لے تو بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کا اندازہ غلط نکلتا ہے اور اسے سخت تکلیف اٹھانی پڑتی ہے.اس لئے ہو شیار اور عقلمند لوگ اندازہ سے کچھ زیادہ لے کر چلتے ہیں تا کہ اتفاقی اخراجات کے وقت تکلیف نہ ہو.تو نوافل اتفاقی اخراجات کی طرح ہوتے ہیں اور نهایت ضروری ہیں اس لئے ان کو ادا کرنے کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیئے.دوسری وجہ ہماری جماعت کے لوگوں کی ذکر الہی کی طرف پوری توجہ نہ کرنے کی یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ان نام کے صوفیاء کے رد میں جو اس زمانہ میں پیدا ہو گئے اور جنہوں نے مختلف قسم کی بدعات پھیلا رکھی ہیں بہت کچھ لکھا ہے.اور ان کو مخاطب کر کے کہا ہے کہ تمہارے طوطے کی طرح وظائف پڑھنے کا کچھ نتیجہ نہیں نکل سکتا.تم مصلوں پر بیٹھے کیا کر رہے ہو جبکہ اسلام پر چاروں طرف سے حملے ہو رہے ہیں تم کیوں اٹھ کر جواب نہیں دیتے.اس طریق سے حضرت مسیح موعود نے ان لوگوں کی مذمت کی ہے اور واقعہ میں یہ لوگ مذمت کے ہی قابل تھے.لیکن بعض لوگوں نے اس سے یہ غلطی کھائی ہے کہ انہوں نے سمجھ لیا ہے کہ شاید بیٹھ کر خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا ہی لغو ہے.حالانکہ اس طرح ذکر کرنا لغو نہیں ہے بلکہ اس کی تو غرض یہ ہے کہ خدا کی تقدیس اور تحمید ہو مگروہ لوگ چونکہ صرف گھروں میں بیٹھ کر اللہ تعالی کا ذکر کرتے تھے اور باہر نکل کر جہاں کہ خدا تعالیٰ کی مذمت ہو رہی تھی کچھ نہیں کرتے تھے اس لئے ان کو حضرت مسیح موعود نے ڈانٹا ہے اور فرمایا ہے کہ اگر تم لوگ واقعہ میں خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو اس کی تقدیس اور تحمید بیان کرتے ہو تو میں طرح گھروں میں بیٹھ کر اس کی پاکی

Page 519

انوار العلوم جلد - ۳ ۴۹۲ ذکرالی بیان کرتے اور اس کی حمد کرتے ہو اسی طرح گھروں سے باہر نکل کر بھی کرو.چونکہ انہوں نے ستی اور کاہلی کی وجہ سے باہر نکل کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا چھوڑ دیا تھا اس لئے ان کو ڈانٹا گیا ہے کہ یہ تو منافقت ہے.کیونکہ اگر تمہارے دلوں میں خدا تعالی کی سچی محبت اور عشق ہو تا تو کیا وجہ ہے کہ جب مخالفین خدا تعالیٰ پر حملہ کرتے ہیں اس وقت تم باہر نکل کر ان کا دفعیہ نہیں کرتے.اور کیا وجہ ہے کہ جس طرح تم لوگ گوشوں اور کونوں میں خدا تعالیٰ کو پاک بیان کرتے ہو اسی طرح پبلک سٹیجوں پر نہیں کرتے.پھر ان کو ڈانٹنے کا یہ بھی باعث ہوا کہ ہر کہ گیر دخلتے علت شود موجودہ صوفیاء کا ذکر الہی کے مطابق ذکر اللہ کو ان صوفیاء اور گدی نشینوں نے ایسے رنگ میں استعمال کیا کہ بگاڑ کر کچھ کا کچھ بنا دیا.اور اسلام نے جس رنگ میں پیش کیا تھا اس کا نام و نشان بھی باقی نہ رہنے دیا.چنانچہ اب ذکر اللہ کیا ہے یہ کہ دل سے آواز نکال کر سر تک لے جائی جائے اور اس زور سے چیخا جائے کہ سارے محلہ پر آرام حرام کر دیا جائے اور اردگرد کے سب لوگوں کی عبادت خراب کر دی جائے.اس کو وہ قلب پر ضرب لگانا کہتے ہیں.گویا ان کے نزدیک دل ایک ایسی چیز ہے کہ جس میں لا الہ الا اللہ کو زور سے گھیڑا جاتا ہے.اسی طرح بعض نے یہ طریق نکال رکھا ہے کہ شعر سنتے اور قوالیاں کراتے اور کہنچنیاں نچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ذکر الہی کی مجلس گرم ہو رہی ہے.پھر دل بہلاتے ہیں کہ اس میں سے اللہ اللہ کی آواز آئے.غرض عجیب عجیب باتیں ایجاد کرلی گئی ہیں.کہیں دل بہلائے جاتے ہیں کہیں قلب پر چوٹ لگائی جاتی ہے کہیں روح سے آواز نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ سب نام انہوں نے اپنے آپ ہی رکھ لئے ہیں.کبھی کہتے ہیں کہ ہم قلب سے ذکر بلند کرتے ہیں اور وہ عرش پر سجدہ کر کے واپس آتا ہے.کبھی کہتے ہیں کہ ہم جسم کے ہر عضو سے اللہ اللہ کی آواز نکالتے ہیں.یہ اور اسی قسم کی اور بہت سی بدعات انہوں نے ایجاد کرلی ہیں.بعض ایسے بھی ہیں جو قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھتے اور ناچتے ہیں.بعض یوں ذکر کرتے ہیں کہ ایک شخص کچھ اشعار وغیرہ پڑھتا ہے اور دوسرے ناچتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وجد آگیا اور غشی طاری ہو گئی.پھر مجلس میں بیٹھے بیٹھے یک لخت بہت اونچی آواز سے اللہ اللہ کہہ کر کود پڑتے ہیں.تو اس قسم کے عجیب عجیب ذکر نکالے گئے ہیں.حالانکہ ان کو مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اس سے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ذکر الہی کوئی بری چیز ہے ہاں یہ کہنا چاہئے کہ یہ بدعتیں

Page 520

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۹۳ ذکرالی جو ان لوگوں نے پیدا کرلی ہیں یہ بری ہیں.مگر ان لوگوں کو کچھ پرواہ نہیں ہے حالانکہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں كُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ وَكُلُّ ضَلَالَةٍ فِي النَّارِ (نسائى كتاب صلاة العيدين كيف الخطبة للعیدین) ہر ایک نئی بات جو دین میں پیدا کی جائے وہ گمراہی ہے اور ہر گمراہی جنم میں لے جاتی ہے.یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے بنائے ہوئے ذکر خدا تعالیٰ کے قریب لے جانے والے نہیں بلکہ بہت دور کر دینے والے ہیں.چنانچہ جب سے اس قسم کے ذکر نکلے ہیں اسی وقت سے مسلمان خدا تعالیٰ سے دور ہوتے جا رہے ہیں.چونکہ یہ سب باتیں بدعت ہیں اور جب خدا تعالیٰ اور آنحضرت اللہ کی بتائی ہوئی باتوں کے خلاف کیا جائے گا تو ضرور ہے کہ اس سے روحانیت کمزور ہو اس لئے مسلمانوں میں سے روحانیت مٹ رہی ہے.دوسرے یہ کہ ان بدعتوں میں ایک خاص بات ہے جس کی وجہ سے بظاہر لذت اور سرور محسوس ہوتا ہے.مگر چونکہ وہ ساری لذت اور سرور بناوٹی ہوتا ہے اس لئے حقیقی لذت سے غافل ہو کر بناوٹی کے پیچھے لگ جاتا ہے تو ہلاک ہو جاتا ہے.اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ ایک شخص کے پیٹ میں درد ہو.لیکن وہ بجائے اس کے کہ اس کا علاج کرے افیم کھا کر سو رہے.اس کا عارضی نتیجہ تو یہ ہو گا کہ بے ہوش ہو جانے کی وجہ سے اسے آرام محسوس ہو گا مگر دراصل وہ ہلاک ہو رہا ہو گا اور ایک وقت آئے گا جبکہ وہی درد اس کو ہلاک کر دے گا.اصل بات یہ ہے کہ آج کل جس کا نام لوگوں نے ذکر رکھا ہوا ہے وہ ایک علم ہے جسے علم الترب کہتے ہیں اور انگریزی میں مسمریزم اور ایک دوسرا علم ہے جس کا نام ہپناٹزم ہے جو فرانس کے ایک ڈاکٹر نے ایجاد کیا ہے.اس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ خیال سے تعلق رکھتا ہے اور خدا تعالیٰ نے خیال میں ایک ایسی طاقت رکھی ہے کہ جب خاص طور پر اسے ایک طرف متوجہ کیا جاتا ہے تو اس میں ایک خاص اثر پیدا ہو جاتا ہے.اور اس کے ذریعہ قلب میں لذت اور سرور بھی پیدا کیا جا سکتا ہے.لیکن وہ لذت ایسی ہی ہوتی ہے جیسی کہ ایم کو کین یا بھنگ پی کر حاصل ہوتی ہے حالانکہ دراصل وہ لذت نہیں ہوتی بلکہ صحت کو خراب کر دینے والی بیہوشی ہوتی ہے.اسی طرح جب اجتماع خیال سے اعصاب پر اثر ڈالا جاتا ہے تو ایک قسم کی غنودگی طاری ہو جاتی ہے جس سے لذت محسوس ہوتی ہے.اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ اللہ کہنے کی لذت ہے حالانکہ اس وقت اگر وہ رام رام بھی کہیں تو بھی ویسی ہی لذت محسوس ہو.لکھا ہے کہ ایک بزرگ کشتی میں بیٹھے کہیں جا رہے تھے انہوں نے ذکر کرنا شروع ،

Page 521

۴۹۴ ذکر الهی کیا اور اس زور سے کیا کہ دوسرے لوگ جو ہندو تھے وہ بھی اللہ اللہ کرنے لگ گئے.لیکن وہیں ایک ہندو سادھو بیٹھا تھا.اس کی زبان پر اللہ اللہ جاری نہ ہوا.وہ اس پر اپنی خاص توجہ ڈالنے لگے.مگر ڈال ہی رہے تھے کہ ان کے منہ سے بے اختیار رام رام نکلنا شروع ہو گیا.کیونکہ اس سادھو نے ان پر رام رام جاری کرنے کی توجہ کرنی شروع کر دی.یہ دیکھ کر وہ سخت حیران ہوئے اور اسی دن سے اس طرح ذکر کرنے سے توبہ کی کیونکہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہ ایک علم ہے نہ کہ ذکر کا اثر.کیونکہ اگر اللہ کہنے کا ہی یہ اثر ہو تاکہ دوسروں کی زبان سے بھی بے اختیار جاری ہو جاتا تو پھر رام رام کیوں جاری ہو تا.تو ان لوگوں کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے کہ کوئی شخص جنگل میں جا رہا ہو اور سخت بھوکا ہو کہ اسے ایک تھیلی مل جائے جس میں دانے سمجھ کر خوش ہو رہا ہو لیکن دراصل اس میں ٹھیکریاں پڑی ہوں.یہی حالت اس انسان کی ہوتی ہے جو اس قسم کے طریقوں پر چلتا ہے اور سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر رہا ہوں.حالانکہ اصل میں ایک نشہ ہوتا ہے.جس میں وہ مخمور ہو جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ سمجھتا ہے کہ میں خاص مقام پر پہنچ گیا ہوں لیکن اس کا قلب ویسے کا ویسا ہی گندہ اور ناپاک ہوتا ہے جیسا کہ پہلے تھا.تو یہ افیم وغیرہ کی طرح ایک نشہ ہوتا ہے ہماری جماعت کے ایک مخلص شخص ہمیشہ مجھے کہا کرتے تھے کہ اس طرح کرنے سے بڑا مزا آتا ہے میں ان کو بھی کہتا کہ جس طرح انیم اور کوکین سے مزا آتا ہے.اسی طرح اس سے بھی آتا ہے.اس کا.ثبوت یہ ہے کہ ایسے ذکروں سے روحانی صفائی نہیں ہوتی بلکہ وہ جو کہتے ہیں کہ ہمار ا ذ کر عرش تک پہنچتا ہے ان میں بھی روحانی صفائی نہیں ہوتی.اس پر انہوں نے سنایا کہ یہ بات بالکل درست ہے.ایک شخص تھا جو کہتا تھا کہ میں نے سب درجے طے کر لئے ہیں مگر باوجود اس کے لوگوں سے غلہ اور دانے مانگتا پھرتا تھا.میں اس کی نسبت خیال کرتا تھا کہ جب یہ اس مقام پر پہنچا ہوا ہے تو پھر کیوں لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتا پھرتا ہے.حضرت مسیح موعود" ایک شخص کی نسبت فرماتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو خاص لالچی پیر کا قصہ درجہ تک پہنچا ہوا سمجھتا تھا.مگر ایک دفعہ ایک مرید کے ہاں گیا اور جاکر کہا.لاؤ میرا ٹیکس (یعنی نذرانہ قحط کا موسم تھا.مرید نے کہا کچھ ہے نہیں.معاف کیجئے.پیر صاحب بہت دیر تک لڑتے جھگڑتے رہے اور آخر کوئی چیز بکوائی اور روپیہ لے کر جان چھوڑی.تو اس قسم کی کمزوریاں اور گند ان لوگوں میں دیکھے جاتے ہیں جو بڑے بڑے دعوے

Page 522

انوار العلوم جام ۳۰ کرتے ہیں.۴۹۵ ذکرائی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کی آواز اور خیالات میں بھی ایک قسم کا اثر رکھا ہوا ہے.مثلاً اگر انسان ہر وقت کسی بات کے متعلق سوچتا رہے کہ یوں ہو گیا تو اس کے خیال میں اسی قسم کا نقشہ کھنچ جاتا ہے.اسی طرح جب کوئی شخص یہ خیال کر لیتا ہے کہ میرے دل سے اللہ اللہ نکل رہا ہے تو بیٹھے بیٹھے وہ اس قسم کی آواز سنا شروع کر دیتا ہے کہ گویا اس کا دل ہی بول رہا ہے.حالانکہ اگر در حقیقت اس کا دل ہی بولتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ پاک نہیں ہو جاتا.پھر ہندوؤں میں مسلمانوں کی نسبت بھی بہت زیادہ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو نہ صرف اپنا ہی دل بلاتے ہیں بلکہ دوسروں کے دلوں کو بھی بلا لیتے ہیں.میرا ارادہ ہے کہ اس کے متعلق میں ایک کتاب لکھوں اور بتاؤں کہ نبیوں اور شعبدہ بازوں میں کیا فرق ہوتا ہے.یہ ایک معمولی علم ہے لیکن اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنی اصلاح سے غافل ہو جاتا ہے کیونکہ وہ سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ تک پہنچ گیا ہوں حالانکہ وہ نہیں پہنچا ہو تا.اگر کوئی شخص کسی مقام پر پہنچنا چاہے اور کسی اور ہی جگہ پہنچ کر سمجھ لے کہ جہاں مجھے جانا تھا وہاں پہنچ گیا ہوں تو وہیں بیٹھ جائے گا.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ سخت نقصان اٹھائے گا.اسی طرح اس قسم کے عمل کرنے والے بھی غلطی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم اصل مقام پر پہنچ گئے ہیں حالانکہ اس سے کوسوں دور ہوتے ہیں اور ایک انیمی کی طرح نشہ میں پڑے ہوتے ہیں.پس اس قسم کے ذکر و اذکار لغو تھے جن سے حضرت مسیح موعود نے روکا.اور ان کے کرنے والوں کی مذمت کی ہے.کیونکہ جب ہندو اور عیسائی بھی یہی بات کر سکتے ہیں تو یہ ذکر اللہ کس طرح کہلا سکتے ہیں.باقی رہا اونچی آواز سے ذکر کرنا یا راگ وغیرہ سننا.سو میں نے بتایا ہے کہ انسان کے اعصاب میں ایک خاص طاقت رکھی گئی ہے.اثر قبول کرنے اور اثر پہنچانے کی اور اعصاب پر اثر جن دروازوں سے ہوتا ہے ان میں سے ایک کان بھی ہے جو اچھی آواز سے متاثر ہوتے ہیں.انسان تو انسان حیوان بھی اچھی آواز سے اثر پذیر ہوتے ہیں.مثلا سانپ کے سامنے بین بجائی جائے تو وہ لوٹنے لگتا ہے.لیکن کیا اس سے یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس پر روحانیت کا کوئی خاص اثر ہوا ہے.ہرگز نہیں.اسی طرح اگر گانا سننے سے کوئی ناچنے لگتا ہے تو یہ نہیں کہا جا سکتا

Page 523

رالعلوم جلد ۳ ۴۹۶ ذکر الهی کہ اس کی روحانیت پر اثر ہوا ہے.بلکہ یہ کہ اس کے احساسات نے ایک ایسا اثر قبول کیا ہے جس کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں ہے.پس اگر کوئی شخص گانے وغیرہ کو روحانیت پر اثر ڈالنے والا سمجھتا ہے تو یہ اس کی غلطی ہے اور نادانی ہے.کیونکہ جس طرح ایک سانپ پین پر مست ہوتا ہے اسی طرح گانے اور بجانے پر آج کل کے صوفی ناچتے ہیں.پھر یہ ایک بدعت ہے کہ اونچی اور بلند آواز سے کوئی ذکر کیا جائے.ایک دفعہ رسول کریم جا رہے تھے کہ چلتے چلتے صحابہ نے زور سے کہا.اللہ اکبر اللہ اکبر اس پر آپ نے فرمایا.اِربَعُوا عَلیٰ أنْفُسِكُمْ فَاِنَّكُمْ لَا تَدْعُونَ اَصَمَ وَلَا غَائِبًا إِنَّهُ مَعَكُمْ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ (بخارى كتاب الجهاد باب ما يكره من رفع الصوت في التكبير ، ابو موسیٰ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے ان کو فرمایا تم لوگ اپنے نفوس پر رحم کرو.آہستہ آہستہ کیوں نہیں کہتے جس کو تم پکارتے ہو وہ نہ بہرہ ہے اور نہ غائب بلکہ وہ خوب سنتا اور تمہارے قریب اور تمہارے ساتھ ہے.لیکن آج کل کے صوفیاء کو دیکھو جہاں ان کی مجلس ذکر ہو وہ محلہ گونج اٹھتا ہے.اور اس کو وہ بڑا نیکی کا کام سمجھتے ہیں حالانکہ شریعت کے خلاف ہو رہا ہوتا ہے پھر اشعار و مزامیر، ذکر پر رقص و سرور چیخ مارنا اونچی آواز سے ذکر کرنا ، گرنا سر ہلانا وغیرہ میں سے کوئی بات بھی رسول کریم ﷺ سے ثابت نہیں.کہا جاتا ہے کہ رسول کریم ابھی اشعار سنتے تھے مگر یہ کہیں سے ثابت نہیں ہوا کہ آپ ای اشعار ذکر الہی کے طور پر سنا کرتے تھے.آپ کا شعر سننا اس طرح ہوتا تھا کہ حسان آئے اور آکر عرض کی یا رسول اللہ فلاں کافر نے آپ کے خلاف شعر کے ہیں اور میں نے ان کا جواب لکھا ہے.اسے آپ سن لیتے یا یہ کہ ایک شخص کے قتل کا آپ نے حکم دیا ہوا تھا اس نے اجازت لے کر ایسے شعر پڑھے جن میں اپنی جان بخشی کی اس طرح درخواست کر دی کہ جب میں آپ کے پاس آنے لگا تو لوگوں نے مجھے کہا کہ رسول اللہ نے تیرے قتل کرنے کا حکم دیا ہوا ہے.اور وہ تجھے قتل کروا دیں گے.لیکن میں نے اس پر اعتبار نہ کیا اور سمجھا کہ جب ان کے پاس جا رہا ہوں اور جاکر معافی مانگ لوں گا تو کیا پھر بھی قتل کیا جاؤں گا.یہ سن کر رسول کریم ﷺ نے اس پر اپنی چادر ڈال دی کہ کوئی اسے قتل نہ کر سکے.اس کے بعد اس نے کہا کہ مجھے اپنی جان کا خوف نہیں تھا کہ میں نے اس طرح معافی مانگی ہے بلکہ یہ خوف تھا کہ میں اس کفر کی حالت میں ہی نہ قتل کر دیا جاؤں کیونکہ میں نے سمجھ لیا ہے کہ دین اسلام سچا مذہب ہے.تو رسول کریم اس قسم کے شعر سنتے تھے.

Page 524

۴۹۷ ذکرالی لیکن اس سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ آپ کے سامنے قوالیاں پڑھی جاتیں یا نا چا جاتا تھا یا محبتِ کے شعر پڑھے جاتے اور اس پر صحابہ رقص کرتے تھے.اور ان پر بیہوشی طاری ہوتی تھی.پس آج کل جو کچھ کیا جاتا ہے یہ سب بدعت ہے جو عام طور پر پھیل گئی ہے.پھر رسول کریم اس طرح شعر سنتے تھے کہ کفار سے جنگ ہو رہی ہے ایک صحابی جوش دلانے کے لئے کہتا ہے کہ آج یا تو ہم فتح پائیں گے یا جان دے دیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے.پس یہ دلیل کہ چونکہ رسول کریم شعر سنتے تھے اس لئے ہم بھی سنتے ہیں بالکل غلط اور بیہودہ ہے.پھر شعر سن کر جن قدر حرکتیں کی جاتی ہیں وہ سب کی سب خلاف شرع ہیں.اسلام میں ان کا کوئی پتہ نہیں چلتا.برخلاف ان کے قرآن کریم ذکر الہی کرتے وقت کی پانچ حالتیں قرآن کریم سے سے جو ذکر اٹھی کرنے کی حالت معلوم ہوتی ہے اس میں یہ کہیں نہیں کہ ذکر الٹی کرتے ہوئے غشی آجاتی ہے اور بیہوشی طاری ہو جاتی ہے.یا سننے والے سر مارنا اور اچھلنا شروع کر دیتے ہیں.بلکہ ذکر الہی کے متعلق خدا تعالی پھر فرماتا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمُ (الانفال:3: پھر فرماتا ہے.تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَونَ رَبَّهُمْ ، ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَ :۳) قُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ اللهِ ، الامر : (۲۴) پھر فرماتا ہے إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ أَيْتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا (مريم : (۵۹) ذکر الٹی کرنے والوں کی یہ حالتیں ہوتی ہیں.(1) مؤمن جب ذکر اللہ کرتے ہیں تو ان کے دل ڈر جاتے اور ان میں خوف پیدا ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا رب بڑی شان والا اور شوکت والا ہے.(۲) اقشعرار ہو جاتا ہے.یعنی خوف سے ان کے بال کھڑے ہو جاتے ہیں.(۳) کہ ان کے بدن ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور دل نرم ہو جاتے ہیں.(۴) وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں.یعنی عبادت میں مشغول ہو جاتے ہیں.(۵) رونے لگ جاتے ہیں.یہ پانچ حالتیں ہیں جو خدا تعالیٰ نے بتائی ہیں.اگر ناچنا کو دنا بہوش ہونا اور زور زور سے چینا بھی ہوتا تو خدا تعالی ان کو بھی بیان کرتا اور فرما دیتا کہ مومن وہ ہوتے ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو اپنے کپڑے پھاڑ کر پرے پھینک دیتے ہیں.اور کودنے شور مچانے لگ جاتے ہیں.یا الٹے لٹک کر سر ہلانا اور حال کھیلنا شروع کر دیتے ہیں.لیکن اللہ تعالٰی نے تو ان میں سے کوئی ایک بات بھی بیان نہیں فرمائی.اس سے معلوم ہوا کہ ان کا ذکر الہی سے کوئی

Page 525

انوار العلوم جلد ۳۰ ۴۹۸ ذکرائی تعلق ہی نہیں ہے." خدا تعالیٰ کا کلام بھی کیسا پُر حکمت ہے کہ اس نے اس قسم کی سب حرکات کا اپنے کلام میں پہلے سے ہی رد کر دیا ہوا ہے.کوئی کہہ سکتا تھا کہ اگر یہ حالتیں قرآن کریم نے نہیں بیان کیں تو نہ سہی جو بیان کی ہیں یہ ان کے علاوہ ہیں.اول تو یہ کہنا ہی نادانی ہے.لیکن جب ہم قرآن کریم کی ان آیات کو دیکھتے ہیں جن میں ذکر الہی کے وقت کی حالت بتائی گئی ہے.تو معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان میں ایسے الفاظ رکھ دیئے ہوئے ہیں جو ان تمام باتوں کا رد کر دیتے ہیں.جن کو آج کل جائز اور روا قرار دیا جاتا ہے.دیکھئے ان آیات میں وَجُلٌ اقْشِعَرَارُ تلينُ جُلُودُ کے الفاظ آئے ہیں.اور لغت کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دجل کے ایک معنی نرمی اور گھنے کے ہیں اور یہ سکون کو ظاہر کرتا ہے.مگر آج کل کے صوفی حرکت شروع کر دیتے ہیں جو اس کے خلاف ہے.پھر اقشعرار بالوں کے اچانک خوف سے کھڑے ہو جانے کو کہتے ہیں یہ بھی سکون چاہتا ہے.کیونکہ اچانک خوف سے انسان کھڑے کا کھڑا رہ جاتا ہے نہ کہ حرکت کرنا شروع کر دیتا ہے.اس طرح سے تلينُ جُلُود بھی سکون پر دلالت کرتا ہے.حرکت کے لئے عربی میں طرب کا لفظ ہے جو کہ خوشی کے مارے اچھلنے کودنے کو کہتے ہیں اور قرآن کریم میں ذکر الہی کے موقعہ پر یہ لفظ کہیں نہیں آیا.اور لغت والے لکھتے ہیں کہ طرب خشوع و خضوع کے خلاف ہے.ادھر قرآن کریم بتاتا ہے کہ ذکر اللہ کرنے کا نتیجہ خشوع و خضوع ہے.پس معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر طرب نہیں ہو سکتا.کیونکہ طرب خشوع و خضوع کی ضد میں واقعہ ہوا ہے.اس لئے ناچنا کو دنا اور اچھلتا جو طرب ہے ہرگز ذکر اللہ کے نتیجہ میں نہیں را ہو سکتا بلکہ اس کے نتیجہ میں تو خشوع، رونا اور عبادت کرنا اور ڈرنا ہوتا ہے اور یہی ہونا بھی چاہئے.کیونکہ اسلام عقل اور ہوش کو قائم کرنے والا اور سیدھی راہ پر چلانے والا ہے نہ کہ بیہوش اور نادان بنانے والا.مگر کودنا اچھلتا اور شور مچانا بے ہوشی اور کم عقلی کی وجہ سے ہوتا ہے اس لئے یہ اسلام کی تعلیم نہیں ہو سکتی.اسی طرح غشی کا طاری ہونا بھی کوئی پسندیدہ بات نہیں ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام نے یہ تو جائز رکھا ہے کہ اگر کسی کا کوئی عزیز مر جائے تو اس پر روئے.مگر یہ جائز نہیں رکھا کہ وہ چیخ و پکار کرے اور غش پر غش کھاتا چلا جائے.چنانچہ رسول کریم ﷺ نے ایک عورت کو جو اپنے بچے کی قبر پر اسی طرح کی بے صبری کی حرکات کرتی تھی فرمایا صبر کرو.اس نے کہا اگر تیرا بچہ مرتا تو تجھے پتہ لگتا کہ کس طرح صبر کیا جاتا ہے.ه ابو داؤد کتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمة

Page 526

3 دم جلد ۳۰ ۴۹۹ ذکرالی یہ اس نے اپنی نادانی سے کہا.ورنہ آنحضرت ا کے کئی بچے فوت ہو چکے تھے.تو شورو خشی نتیجہ ہوتی ہے بے صبری اور ناامیدی کا یا ضعف قلب کا.اگر ضعف قلب کی وجہ سے ہو تو بھی کوئی اچھی بات نہیں.حضرت جنید کے زمانہ کے ایک بزرگ کی نسبت لکھا ہے کہ ذکر الہی سن کر ان پر غشی طاری ہو جاتی تھی.شاگردوں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا کہ اب میں چونکہ بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں اس لئے اس طرح ہوتا ہے.دیکھو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اب میں چونکہ اعلیٰ مقام اور اعلیٰ درجہ پر پہنچ گیا ہوں.اس لئے غش کھا جاتا ہوں بلکہ اس کو بڑھاپا یعنی کمزوری کی وجہ سے بتایا ہے.پھر اگر غشی مایوسی اور نا امیدی کی وجہ سے ہوتی ہے.تو اس کے متعلق خدا تعالی فرماتا ہے.وَلَا تَا يُنَسُوا مِنْ رَوحِ اللَّهِ ، إِنَّهُ لَا يَا يُنَسُ مِنْ رَوحِ الله إلَّا الْقَوْمُ الكفرُونَ (یوسف : (۸۸) پس جو شخص غش کھاتا اور بے ہوش ہوتا ہے وہ اگر ناامیدی کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو کا فربنتا ہے اور اگر ضعف قلب کی وجہ سے غش کھاتا ہے تو بیمار ہے.اس کی نقل کرنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں ہے.صحابہ کے وقت بھی یہ بات پیش ہوئی ہے.حضرت عبداللہ بن زبیر نے اسماء سے غشی کے متعلق پوچھا تو انہوں نے فرمایا.اَعُوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِیم پھر حضرت عبد الله بن زبیر کے لڑکے نے اپنی دادی کے پاس بیان کیا کہ میں ایک ایسی جگہ گیا تھا جہاں کچھ لوگ قرآن پڑھتے اور غش کھا کھا جاتے تھے.یہ سن کر ان کی پھوپھی اسماء نے جو حضرت ابوبکر کی صاحبزادی اور صحابیہ تھیں کہا اگر تم نے ایسا دیکھا تو وہ شیطانی کام ہے.ابن سیرین خواب نامہ والے جو کہ ابو ہریرہ کے داماد تھے ان کے متعلق روایت ہے کہ ان کو کسی نے کہا فلاں آدمی اگر قرآن کریم کی کوئی آیت سنتا ہے تو بیہوش ہو کر گر جاتا ہے.انہوں نے کہا میں تب اس بات کو سچا سمجھوں کہ اسے ایک اونچی دیوار پر بٹھا دو اور ایک آیت نہیں بلکہ سارا قرآن سناؤ اور پھر وہ گر پڑے.آج کل بھی جن کی نسبت کہا جاتا ہے کہ حال کھیلتے اور آپے سے باہر ہو جاتے ہیں ان کو دیکھا گیا ہے کہ وہ مجلس میں جب حال کھیلتے ہیں تو اس جگہ گرتے ہیں جہاں دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ بیٹھے ہیں تاکہ چوٹ نہ لگے.یہ کبھی نہیں ہوا کہ وہ کوٹھے سے نیچے گر جائیں.یا اور کسی ایسی جگہ گریں جہاں سخت چوٹ لگ سکے سوائے اس کے کہ کبھی غلطی سے ایسا ہو جاوے.

Page 527

ذکراتی غرض یہ سب قسمیں ممنوع اور ناجائز ہیں.اور ان کو جس قدر یہ سب باتیں ممنوع ہیں بھی برا کہا جائے درست ہے کیونکہ یہ روحانیت تباہ کرنے اور انسانوں کو بندر اور ریچھ بنانے والی باتیں ہیں.اسلام تو انسان کو فرشتے بنانے آیا تھا لیکن اس طرح انسان بندر بن جاتے ہیں.پس یہ باتیں لغو اور فضول ہیں اور ان کا کوئی فائدہ نہیں ہے.اور جو واقعہ میں ذکر اللہ ہیں اور جن کا قرآن کریم میں بڑے زور حقیقی ذکر اللہ چار ہیں سے حکم دیا گیا ہے وہ ذکر اور ہیں.اور وہ چار طرح کے ہیں.ان کا چھوڑنا بہت بڑے ثواب سے محروم رہنا ہے اس لئے ان کو کبھی ترک نہیں کرنا چاہئے.ان میں سے پہلا ذکر نماز ہے (۲) قرآن کریم کا پڑھنا (۳) اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان تکرار سے اور ان کا اقرار کرنا اور ان کی تفصیل اپنی زبان سے بیان کرنا (۴) جس طرح خدا تعالیٰ کی صفات کو علیحدہ اور گوشے میں بیان کرنا اسی طرح لوگوں میں بھی ان کا اظہار کرنا.یہ وہ چار ذکر ہیں.جو قرآن کریم سے ثابت ہیں اور جن کا کرنا روحانیت کے لئے نہایت ضروری بلکہ لازمی ہے.اب میں اس بات کا ثبوت دیتا ہوں کہ ان اذکار کو قرآن کریم نے پیش کیا ہے.نماز کے متعلق خدا تعالی فرماتا ہے.ان أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدُنِي وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى (طه: ۱۵) اے انسان میں ہی تیرا خدا ہوں اور میرے سوا تیرا کوئی معبود نہیں.پس میری ہی عبادت کر اور میرے ہی ذکر کے لئے نماز کو قائم کر.اس آیت سے معلوم ہوا کہ جہاں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اے مومنو! میرا ذکر کرو تو اس کے ایک معنی یہ ہوئے کہ اے مومنو! نماز پڑھو.پھر فرماتا ہے فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالا اور كُبَانًا ، اَ.فَإِذَا مِنْتُمْ فَاذْكُرُوا اللهَ كَمَا عَلَمَكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ - (البته : (۲۴۰) نماز پڑھنے کی تاکید کرنے کے بعد کہتا ہے کہ اگر تمہیں دشمنوں سے کسی قسم کا خوف ہے تو خواہ پیادہ ہو یا گھوڑے پر سوار ہو اسی حالت میں نماز پڑھ لو.اور جب تم امن میں ہو جاؤ تو خدا تعالیٰ کا ذکر اسی طرح کرو جس طرح اس نے سکھایا ہے اور جسے تم پہلے نہیں جانتے تھے.اس آیت میں نماز کا نام ذکر اللہ رکھا ہے.اس کے متعلق اور بھی آیتیں ہیں.مگر اس وقت میں انہیں پر بس کرتا ہوں.دوسرا ذکر قرآن کریم ہے.اس کا ثبوت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحْفِظُونَ.(الحجر: (۱) کہ ہم نے ہی ذکر اتارا ہے اور ہم ہی اس

Page 528

العلوم جلد ۳۰ ۵۰۱ ذکرانی کے محافظ ہیں.قرآن کریم کے نازل کرنے کو ذکر کا نازل کرنا قرار دیا ہے.اس سے معلوم ہو گیا کہ جہاں خدا تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ اُذْكُرُوا اللہ تو اس کے ایک یہ معنی بھی ہیں کہ قرآن پڑھا کرو.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَ هَذَا ذِكُرُ مُبَارَكَ اَنْزَلْنَهُ ، فَانْتُمْ لَهُ مُنكِرُونَ الانبیاء : ۵۱) اس آیت میں بھی قرآن کریم کو پیش کر کے فرمایا ہے کہ ہم نے تمہارے لئے یہ ذکر نازل کیا ہے کیا پھر بھی تم اس کا انکار کرتے ہو.تیسرا ذکر صفات الہیہ کا بیان ان کا تکرار اور ان کا اقرار ہے.اب میں اس کا ثبوت قرآن کریم سے دیتا ہوں.بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نماز میں جو صفات الہیہ بیان کی جاتی ہیں وہی کافی ہیں.لیکن یہ غلط ہے نماز کے علاوہ بھی ذکر الہی ہوتا ہے اور اس کا ثبوت قرآن کریم سے ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاذْكُرُوا اللهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلى جُنُوبِكُمْ (انشاء : (۱۰۴) کہ جب تم نماز پڑھ چکو تو اللہ کا ذکر کرو.کھڑے ہونے کی حالت میں بھی بیٹھنے کی حالت میں بھی.اور لیٹے ہونے کی حالت میں بھی.ملتا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر نماز کے علاوہ ہے کیونکہ نماز میں ہی اگر صفات اللہ کا بیان کرنا کافی ہوتا تو پھر خدا تعالیٰ یہ کیوں فرماتا فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ قِيَامًا فَ قعُودًا وَ عَلى جُنُوبِكُمُ کہ جب تم نماز پڑھ چکو.تو پھر اللہ کا ذکر کرو.کھڑے ہو کر بیٹھ کر لیٹ کر.پھر فرماتا ہے رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعَ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَإِقَامِ الصَّلوةِ وَإِيتَاءِ الزَّكَوةِ يَخَافُونَ يَوْمًا تَتَقَلَبُ فِيهِ الْقُلُوبُ وَالْاَبْصَارُ (النور : (۳۸) اس آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ محمد ) کے ساتھی ہیں کہ ان کو خرید و فروخت اللہ کے ذکر کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوۃ دینے سے نہیں روکتی کیونکہ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جبکہ آنکھیں اور دل منقلب ہو جائیں گے.یہاں نماز کے علاوہ ایک ذکر اللہ بیان فرمایا ہے.چوتھا ذ کر یہ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو علی الاعلان لوگوں کے سامنے بیان کیا جائے.اس کا ثبوت یہ ہے اَيُّهَا ON DOWNLOAD ثم فَانذِرُ ، وَ رَبِّكَ فَكَبِّرُه وَ ثِيَابَكَ فَطَهَرُه و الرجزَ فَا مُجرُه وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثرَه وَلِرَبِّكَ فَا صبره (المد ر ۲ - ۸) ان آیات میں رسول کریم ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ کھڑا ہو جا اور تمام لوگوں کو ڈرا دے.اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر.اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کی بڑائی لوگوں کے سامنے بیان کرنا 0

Page 529

العلوم جلد ۳ ۵۰۲ ذکر الہی چاہئے.یہ تو ہوئے وہ ذکر جن کے کرنے کا خد اتعالیٰ نے حکم دیا ہے.اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ ان کے کرنے کے طریق کیا ہیں.اس ذکر کی دو اور تمہیں کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ ان ذکروں کی دو قسمیں ہیں.ایک فرائض دوسرے نوافل.یہاں فرائض کے متعلق کچھ بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ خدا کے فضل سے ہماری جماعت کے لوگ فرائض کو تو ادا کرتے ہیں.باقی رہے نوافل ان کے متعلق کچھ بتانے کی ضرورت ہے.لیکن چونکہ یہ مضمون لمبا ہے سر دست میں اسکو چھوڑتا ہوں اور یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کس طرح پڑھنا چاہئے.اس کے متعلق یاد رکھنا چاہئے کہ انسان روزانہ پڑھنے کے لئے قرآن کریم کا ایک حصہ مقرر کرلے کہ اتنا ہر روز پڑھا کروں گا.یہ نہیں ہونا چاہئے کہ کبھی قرآن کریم اٹھایا اور کسی قدر پڑھ لیا.بلکہ باقاعدگی اور مقرر اندازہ سے پڑھنا چاہئیے.بے قاعدہ پڑھنے سے یعنی کبھی پڑھا اور کبھی نہ پڑھا کچھ فائدہ نہیں ہوتا.پس قرآن کریم کے متعلق چاہئے کہ اس کا ایک حصہ مقرر کر لیا جائے اور اس کو ہر روز پورا کیا جائے وہ حصہ خواہ ایک پارہ ہو یا آدھایا دو یا تین یا چار پارے ہوں.اس کو روزانہ پڑھا جائے اور اس کے پورا کرنے میں کو تاہی نہ کی جائے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو سب سے زیادہ وہ عبادت پسند ہے کہ جس پر انسان دوام اختیار کرے اور جس میں ناغہ نہ ہونے دے.کیونکہ ناغہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے شوق نہیں ہے اور شوق اور دلی محبت کے بغیر قلب کی صفائی نہیں ہوتی.میں نے دیکھا ہے کہ جب کبھی کسی تصنیف میں مشغول ہونے یا کسی اور وجہ سے قرآن کریم نہ پڑھا جائے تو دل تکلیف محسوس کرتا اور دوسری عبادتوں میں بھی اس کا اثر محسوس ہوتا ہے کہ اول تو قرآن کریم روزانہ پڑھنا چاہئے.دوم چاہیئے کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھا جائے اور اس قدر جلدی جلدی نہ پڑھا جائے کہ مطلب ہی سمجھ میں نہ آئے.ترتیل کے ساتھ پڑھنا چاہئے تاکہ مطلب بھی سمجھ میں آئے اور قرآن کریم کا ادب بھی ملحوظ رہے.سوم جہاں تک ہو سکے قرآن کریم پڑھنے سے پہلے وضو کر لیا جائے گو میرے نزدیک بے وضو پڑھنا بھی جائز ہے.ہاں بعض علماء نے بے وضو تلاوت قرآن کو نا پسند کیا ہے.میرے نزدیک اس طرح پڑھنا.ناجائز نہیں مگر مناسب یہی ہے کہ اثر اور ثواب کو زیادہ کرنے کے لئے وضو کر لیا جائے.ایک دوست پوچھتے ہیں کہ اگر قرآن کریم سمجھ میں نہ آئے تو کیا کیا جائے.ایسے لوگوں کو شكرة - كتاب الايمان باب القصد في العمل

Page 530

دم جلد ۳ ۵۰۳ ذکرالی چاہئے کہ قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کی کوشش کریں.لیکن اگر سارا ترجمہ نہ آتا ہو تو اس طرح کرنا چاہئے کہ کسی قدر قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ لیا جائے اور جب روزانہ منزل پڑھیں تو ساتھ ہی اس حصہ کو بھی پڑھ لیں جس کا ترجمہ جانتے ہوں.کوئی کہے کہ پھر منزل پڑھنے کا کیا فائدہ جبکہ اس کے معنی سمجھ میں نہیں آتے.اس کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہئے کہ جب کوئی کام نیک نیتی اور اخلاص سے کیا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ ضرور اس کا اجر دیتا ہے.اس لئے جب کوئی خدا تعالیٰ کے لئے بغیر ترجمہ جاننے کے ہی پڑھے گا تو خدا تعالیٰ اس کے اخلاص اور نیت کو دیکھ کر ہی اسے ثواب پہنچا دے گا اور یہ بات بھی درست ہے کہ محض الفاظ کا بھی اثر ہوتا ہے.یکھئے رسول کریم نے حکم دیا ہے کہ جب بچہ پیدا ہو تو اس کے کان میں اذان کہی جاوے.حالانکہ اس وقت بچہ بالکل کچھ جاننے اور سمجھنے کے قابل نہیں ہوتا.مگر داشتہ آید بکار کے مطابق اس کا اثر ضرور ہوتا ہے.قرآن کریم کی تلاوت کے علاوہ دیگر از کار تسبیح اور تحمید جنہیں انسان اکیلا بیٹھ کر دیگر از کار کرے یا مجالس میں.اس ذکر کی بھی ایک قسم فرض ہے جیسا کہ جانور کے ذبح کرتے وقت تکبیر پڑھنا اگر اس وقت تکبیر نہیں پڑھی جائے گی.تو جانور حرام ہو جائے گا.اور دوسری قسم نفل ہے جو دوسرے اوقات میں درد کی صورت میں پڑھی جاتی ہے اور ان کو رسول کریم ﷺ نے بہت وسیع کیا ہے.یعنی آپ نے ہر موقعہ پر اللہ تعالیٰ کا ذکر رکھا ہے.مثلاً جب کھانا کھانے بیٹھو تو بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھ لو.اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگر کوئی نہیں پڑھے گا تو اس کا پیٹ نہیں بھرے گا.بلکہ یہ ہے کہ جس غرض کے لئے کھانا کھایا جاتا ہے وہ اس طرح پورے طور پر حاصل ہو جائے گی.یعنی روحانیت کو اس سے بہت فائدہ پہنچے گا.پھر ہر کام کے شروع کرنے کے وقت بسم اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ پڑھنے کا حکم ہے تاکہ اس کام میں برکت ہو.اور جب اس کو ختم کر لیا جائے.تو الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ پڑھا جائے.تاکہ اس کام میں برکت ہو.اسی طرح اگر کوئی نیا کپڑا اپنے یا کوئی اور نئی چیز استعمال کرے تو الحمد للہ کہہ کر اس کا شکریہ ادا کرے.ہر رنج اور مصیبت کے وقت اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھنا چاہئے.اگر کوئی بات اپنی طاقت اور ہمت سے بالا پیش آئے تو لا حول و لَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ کہنا چاہئے.غرض یہ ذکر ان باتوں کے متعلق ہیں جو روزانہ پیش آتی رہتی ہیں.ہر ایک انسان کو دن - ہے.

Page 531

العلوم جلد.۵۰۴ ذکر الهی میں یا خوشی ہوگی یا رنج پس اگر خوشی ہو تو الحمد للہ رب العلمین کے اور اگر رنج ہو تو انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھے.اللہ تعالٰی فرماتا ہے فَاذْكُرُوا اللهَ قِيَا مَا وَ قُعُودًا وَعَلى جُنُوبِكُمْ اور انحضرت ا نے ہر حالت کے متعلق ذکر مقرر فرما دیئے ہیں اس لئے ان کے کرنے سے انسان ہر حالت میں خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے.مثلاً ایک شخص جو دفتر میں بیٹھا کام کر رہا ہو وہ اگر اپنے متعلق کوئی خوشخبری سنے تو الحمد للہ کہے.اگر چلتے ہوئے اسے خوشی کی بات معلوم ہو تو بھی الحمد للہ کہے.اگر لیٹے ہوئے خوشی کی بات سنے تو اسی حالت میں الحمد للہ کے.اس طرح خود بخود قِهَا مَا وَ قُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِكُمُ الله تعالیٰ کا ذکر ہوتا رہے گا.پھر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ أَفْضَلُ الذَّكَرِ لا إله إلا الله ( ترندی کتاب الدعوات باب ماجاء ان دعوة المسلم مستجابة ) جابر سے ترندی میں روایت ہے کہ سب سے بہتر اور افضل ذکر یہ ہے کہ اس بات کا اقرار کیا جائے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے.باقی اذکار کی بھی مختلف فضیلتیں ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے سُبْحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ کی نسبت فرمایا ہے.كَلِمَنَانِ حَنِیفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ ثَقِيتَانِ فِي الْمِيزَانِ حَسَنَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ ( بخارى كتاب التوحید باب قول الله تعالى و نضع الموازين القسط و ترندي ابواب الدعوات باب ماجاء في فضل التسبيح والتکبیر کہ دو کلمے ایسے ہیں کہ جو زبان سے کہنے میں چھوٹے ہیں مگر جب قیامت کے دن وزن کئے جائیں گے تو ان کا اتنا بوجھ ہو گا کہ ان کی وجہ سے نیک اعمال کا پلڑا بہت بھاری ہو جائے گا.اور وہ اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں.یہ بھی بہت اعلیٰ درجہ کا ذکر ہے.حتی کہ ایک دفعہ جب حضرت مسیح موعود بیماری کے سخت دورہ میں تہجد کے لئے اٹھے اور غش کھا کر گر گئے اور نماز نہ پڑھ سکے تو الہام ہوا کہ ایسی حالت میں تہجد کی بجائے لیٹے لیٹے یہی پڑھ لیا کرو.تو یہ بھی بہت فضیلت رکھنے والا ذکر ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم ا کثرت سے اس کو پڑھتے تھے.ان دو ذکروں کو رسول کریم ﷺ نے افضل بتایا ہے.مگر ایک اور ذکر بھی افضل ہے گو اس کے متعلق رسول کریم اے کا کوئی ارشاد محفوظ نہیں.مگر عقل بتاتی ہے کہ وہ بھی بہت اعلیٰ درجہ کا ہے اور وہ قرآن کریم کی آیات کا ذکر ہے.اگر ان کو ذکر کے طور پر پڑھا جائے تو دو ہرا ثواب حاصل ہو گا.ایک تلاوت کا اور دوسرے ذکر کا.یہ تو میں نے ذکر بتلائے ہیں.اب ان کے متعلق احتیاطیں بتاتا ہوں.

Page 532

وم باید ۳۰.۵۰۵ ذکراتی پہلی احتیاط یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں ذکر کرنے کے متعلق احتیاطیں کہ کبھی اتنا ذکر نہ کرو کہ دل ملول ہو جائے (۲) ایسے وقت میں ذکر نہیں کرنا چاہئے جبکہ دل مطمئن نہ ہو.مثلاً ایک ضروری کام کرنا ہے اس وقت کوئی اگر ذکر کرنے کے لئے بیٹھ جائے تو اس کی توجہ ذکر کی طرف نہ ہو گی.اور اس طرح خدا تعالیٰ کے کلام کی بے قدری ہوگی.اور انسان گناہگار ٹھہرے گا.تو ذکر کرنے کے لئے پہلی احتیاط یہ کرنی چاہئے کہ ذکر اس قدر لمبا عرصہ نہ کرے کہ دل ملول ہو جاوے اور دوسری یہ کہ ایسے وقت میں ذکر کے لئے نہ بیٹھے جبکہ دل کسی اور خیال میں منہمک ہو.اور بجائے ثواب حاصل کرنے کے گناہگار ٹھرے.بلکہ اختصار کے ساتھ اور توجہ کے قائم ہونے کے وقت کرے.ایک دفعہ رسول کریم و گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ سے ایک عورت باتیں کر رہی تھی.آپ نے فرمایا کیا کہہ رہی ہو.حضرت عائشہ نے کہا یہ سنا رہی ہے کہ میں اس قدر عبادت کرتی ہوں اور اس طرح کرتی ہوں.آپ نے سن کر فرمایا یہ کوئی خوبی کی بات نہیں ہے کہ اس قدر زیادہ عبادت کرتی ہے.اللہ تعالیٰ اسی عبادت کو پسند کرتا ہے جس پر دوام اختیار کیا جا سکے.(مشکوة كتاب الايمان باب القصد فى العمل ( اللہ تعالی زیادہ عبادت سے ملول نہیں ہوتا.بلکہ بندہ خود ملول ہو جاتا ہے اور جب ملول ہو جاتا ہے تو پھر اس کی عبادت کسی کام کی نہیں رہتی.پس اگر کوئی حد سے زیادہ بڑھتا ہے تو اس پر مصیبت پڑ جاتی ہے.عبد اللہ بن عمرو بن عاص کے متعلق آیا ہے وہ ایک طاقت ور انسان تھے ساری رات نماز پڑھتے اور دن کو روزہ رکھتے اور سارے قرآن کریم کی تلاوت ایک دن میں کرتے.آنحضرت کو جب معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا کہ یہ جائز نہیں ہے.رات کا چھٹایا تیسرا یا زیادہ سے زیادہ آدھا حصہ نماز پڑھنی چاہیئے.اور روزہ زیادہ سے زیادہ ایک دن رکھنا چاہئے.اور ایک دن افطار کرنا چاہئے.اور قرآن کریم تین دن سے کم عرصہ میں ختم نہیں کرنا چاہئے.(بخاری) كتاب الصوم باب حق الجسم فی الصوم) اس کے متعلق عبد اللہ بن عمرو بن عاص نے بہت کوشش کی کہ اس سے زیادہ کے لئے اجازت مل جائے.لیکن آپ نے اجازت نہ دی.وہ اسی پر عمل کرتے رہے.لیکن جب بوڑھے ہو گئے.تو بہت افسوس ظاہر کرتے کہ میں نے رسول کریم سے اقرار تو کر لیا تھا لیکن اب کر نہیں سکتا.تو حد سے زیادہ بڑھنا مشکلات میں ڈال دیتا ہے.ذکر بھی ایک بہت اچھی چیز ہے.مگر دیکھو جس طرح پلاؤ اگر زیادہ کھا لیا جائے تو وہ بد ہضمی

Page 533

انوار العلوم جلد - ۳ ۵۰۶ کرالی کر دیتا ہے.اسی طرح ذکر کا حد سے زیادہ بڑھانا بھی نفس پر ایسا بوجھ ہو جاتا ہے کہ وہ ذکر سے متنفر ہو جاتا ہے.پس آہستہ آہستہ نفس پر بوجھ ڈالنا چاہئے اور اس قدر ڈالنا چاہئے جس کو برداشت کر سکے.تیسری احتیاط یہ کرنی چاہئے کہ ابتداء میں اگر طبیعت ذکر کی طرف متوجہ نہ ہو.تو بھی دل کو مضبوط کر کے انسان کرتا رہے اور پختہ ارادہ کرلے کہ ضرور پورا کروں گا اور نیت کرلے کہ شیطان کتنا ہی زور لگائے میں اس کی بات ہرگز ہرگز نہیں مانوں گا.اگر انسان اس طرح ارادہ کر لے تو ضرور طبیعت کو منوالیتا ہے.کہتے ہیں رائے لیکن ایک مشہور وکیل تھا اس کے مقابلہ میں ایک اور وکیل آیا.اس نے سمجھا کہ رائے لیکن مقدمہ جیت جائے گا.اس نے یہ چالا کی کی کہ مجسٹریٹ کے ساتھ باتیں کرتے کرتے کہہ دیا کہ رائے لیکن کا دعوی ہے کہ خواہ کوئی مجسٹریٹ کتنا ہی ہوشیار ہو میں اس سے منوا لیتا ہوں.یہ سن کر مجسٹریٹ نے ارادہ کر لیا کہ رائے لیکن جو کچھ کہے گا میں ہر گز اسے نہیں مانوں گا.چنانچہ جب مقدمہ پیش ہوا.تو جو بات رائے لیکن پیش کرے مجسٹریٹ اس کا انکار کر دے.اور آخر کار دوسرے وکیل کے حق میں ہی فیصلہ کر دیا.تو جب انسان یہ ارادہ کر لیتا ہے کہ میں فلاں کا اثر ہرگز نہیں قبول کروں گا تو وہ اس پر قابو نہیں پاسکتا.پس ابتدائی حالت میں ذکر کرنے کے وقت ایسی ہی حالت بنانی چاہئے.چوتھی احتیاط یہ ہے کہ ذکر کرتے وقت کسی تکلیف کی حالت میں نہیں ہونا چاہئے مثلاً فرش پر بیٹھے ہوئے کوئی چیز چھتی ہو یا اور اسی قسم کی کوئی تکلیف ہو اس کو دور کر کے ذکر میں مشغول ہونا چاہئے.پانچویں یہ کہ ایسی حالت بنانی چاہئے کہ مجھے جو کچھ حاصل ہو گا اسے قبول کر لوں گا.اگر ابتداء میں بے توجہی ہو.تو بھی کسی نہ کسی وقت ذکر طبیعت میں داخل ہو جائے گا.چھٹی یہ کہ ذکر تضرع اور خشیت سے کیا جائے.اگر خشیت پیدا نہ ہو.تو ایسی صورت بنالے جس سے خشیت ظاہر ہوتی ہے.کیونکہ بعض باتیں جو ابتداء میں مصنوعی طور پر اختیار کی جاتی ہیں.آہستہ آہستہ اسی طرح ہو جاتی ہیں.پس جب کوئی تضرع پیدا کرنے کی کوشش کرتا اور رونے کی طرز بناتا ہے تو نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ واقعہ میں ایک وقت اس میں تضرع پیدا ہو جاتا ہے.ایک پروفیسر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بڑا ہی نرم دل تھا لیکن بعد میں بڑا سخت دل ہو گیا.اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک دن جو نرمی کے باعث اسے تکلیف ہوئی تو اس نے ارادہ کر لیا کہ

Page 534

العلوم جلد ۳۰ ۵۰۷ ذکرائی اب میں سخت ہو جاؤں گا.اس کے لئے اس نے سختی والی شکل بنائی گو دل میں وہی نرمی تھی.تاہم ظاہر طور پر سخت اور درشت معلوم ہو تا تھا.ہوتے ہوتے یہ ہوا کہ اس کا دل بھی سخت ہو گیا.وہ پروفیسر اگر چہ اپنی عادت کو بدی کی طرف لے گیا مگر تم لوگ اگر نیکی کی طرف جانے کے لئے اس طرح کرو گے تو رفتہ رفتہ واقعہ میں تمہارے اندر خشوع پیدا ہو جائے گا.اور اگر ایک دن ایک سیکنڈ کے لئے بھی حقیقی خشیت پیدا ہو جائے گی تو دوسرے دن اس سے زیادہ عرصہ کے لئے پیدا ہو سکے گی.پس اگر اس کے لئے کوشش کرو گے تو ضرور کامیاب ہو جاؤ گے.ذکر کرنے کے اوقات اب جبکہ یہ ثابت ہو گیا کہ ذکر کرنا بہت ضروری ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاذْكُرُوا الله قِيَا مَّا وَقُعُودًا وَ عَلى جُنُوبِكُمْ (النساء : ۱۰۴) تو یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ کس کس وقت ذکر کرنا چاہئے.یوں تو ہر وقت ہی خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے.چنانچہ رسول کریم ال کے متعلق عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں كَانَ رَسُولُ اللَّهِ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أحْيَانِهِ (ترندی کتاب الدعوات باب ما جاء ان دعوة المسلم مستجابة - رسول کریم ہر وقت ہی خدا تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے.لیکن بعض خاص وقت قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے بیان فرمائے ہیں.اور وہ یہ ہیں اُذْكُرُوا اللهَ ذِكْرًا كَثِيرًا ، وَ سَبَحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا - (الاحزاب : ۴۲-۴۳) یاد کرو اللہ کو بکرہ اور اصیل کے وقت.یہ دونوں وقت بہت اعلیٰ درجہ کے ہیں.بکرہ عربی میں پوپھوٹنے سے سورج نکلنے تک کو کہتے ہیں.اس لحاظ سے یہ معنی ہوئے کہ صبح کی نماز سے لے کر سورج کے نکلنے تک ذکر کرو.ایک یہ وقت ہوا اور دوسرا وقت اصیل ہے.لغت سے معلوم ہوتا ہے کہ اصیل عصر سے لے کر سورج کے ڈوبنے تک کو کہتے ہیں.تیرا چوتھا اور پانچواں وقت جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے.فَاصْبِرُ عَلَى مَا يَقُولُونَ وَ سَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوبِهَا وَ مِنْ أَنَاتُ اللَّيْلِ فَسَبِّحْ وَأَطْرَافَ النَّهَارِ لَعَلَّكَ تَرْضى ولا : (۱۳۱) یعنی صبر کر ان باتوں پر جو یہ لوگ اور تسبیح و تحمید کر اپنے رب کی سورج نکلنے سے پہلے اور اس کے ڈوبنے سے پہلے ان دونوں وقتوں کا ذکر پہلے آچکا ہے) اور رات کے اوقات میں اور ان کی دونوں طرفوں میں تا کہ تیری خواہشات پوری ہوں.اس آیت میں علاوہ پہلے دو وقتوں کے سورج نکلنے کے بعد کا

Page 535

دم جلد ۳۰ ۵۰۸ ذکر الهی وقت اور رات کا پہلا اور پچھلا وقت بھی ذکر کے لئے مفید بتایا گیا ہے.چھٹا وقت ہر ایک نماز کے پڑھنے کے بعد کا ہے.رسول کریم ال اس ذکر کو ہمیشہ جاری رکھتے تھے گویا سنت ہو گئی تھی.ابن عباس کہتے ہیں کہ جب ہم دور ہوتے تھے.تو انت السَّلَامُ وَمِنكَ السَّلَامُ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ کے ذکر سے معلوم کرتے تھے کہ نماز ختم ہو گئی ہے.پس نماز کے بعد پڑھنے کے لئے ایک ذکر تو یہ ہے کہ اَنْتَ السَّلَامُ وَ مِنكَ السَّلَامُ يَا ذَا الْجَلَالِ وَالإِكْرَامِ پڑھا جاوے.دوسرے یہ کہ سُبْحَانَ اللہ اور الْحَمْدُ لِلهِ تینتیس تینتیس دفعہ پڑھا جاوے اور اللہ اکبر چو نہیں دفعہ پڑھا جاوے ( ترندی کتاب الدعوات باب ما اء في التسبيح والتكبير - یہ ذکر کئی طریق پر مردی ہے.مگر سب سے زیادہ صحیح طریق یہی ہے کہ الگ الگ پہلے دونوں جملوں کو تینتیس تینتیں دفعہ کے.اور تیرے کو چونتیس دفعہ کے نماز کے بعد کا وقت ذکر کے لئے بہت ہی اعلیٰ درجہ کا ہے اس وقت ضرور ذکر کرنا چاہئے.بعض لوگ مجھے اور حضرت مولوی صاحب خلیفۃ المسیح الاول اور حضرت مسیح موعود کو دیکھ کر شائد سمجھتے ہوں کہ یہ نماز کے بعد ذکر نہیں کرتے.انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود اور حضرت خلیفہ المسیح الادل بھی ذکر کیا کرتے تھے اور میں بھی کرتا ہوں.ہاں اونچی آواز سے نہ وہ کہتے تھے اور نہ میں.دل میں کہتا ہوں.پس نماز کے بعد ضرور ذکر کرنا چاہئے.ذکر کے متعلق کچھ اور احتیاطیں بھی ہیں اور وہ یہ کہ سوائے ان موقعوں کے جو حدیث سے ثابت ہیں مجلس میں اونچی آواز سے ذکر نہ کیا جائے.بعض دفعہ اس طرح ریاد پیدا ہو جاتا ہے.اور بعض دفعہ دوسرے لوگوں کو ذکر کرنے یا نماز پڑھنے میں تکلیف ہوتی ہے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ جو بات نئی اختیار کی جائے وہ بو جھل معلوم ہوتی ہے.اور اس کے کرنے سے دل گھبراتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ذکر کرنے میں دل نہیں لگتا.لیکن کیا ایک ہی دن میں کوئی شخص کسی فن میں کامل ہو جاتا ہے.ہرگز نہیں بلکہ آہستہ آہستہ اور کچھ مدت کے بعد ایسا ہوتا ہے.پس اگر ابتداء میں کسی کا دل نہ لگے اور اسے بوجھ سا معلوم ہو تو وہ گھبرائے نہیں.آہستہ آہستہ دل قبول کر لے گا لیکن شرط یہ ہے کہ ذکر کو قائم رکھا جائے.پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ذکر کرنے میں لذت بھی آجاتی ہے.مگر انہیں چاہئے کہ نفس کے لئے لذت نہ تلاش کریں.اور ذکر کرنے کے وقت یہ نیت نہ ہو کہ لذت حاصل ہو بلکہ عبادت سمجھ کر کرنا چاہئے.کیونکہ لذت اصل چیز نہیں ہے.اصل چیز عبادت ہے.اور عبادت اسی

Page 536

انوار العلوم جلد ۵۰۹ وقت قبول ہوتی ہے جبکہ عبادت سمجھ کر کی جائے.ذکر الهی پھر بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں ذکر کرنے کے لئے کچھ دن تو قبض رہتی ہے اور کچھ دن طبیعت کھل جاتی ہے.ایسے لوگوں کو بھی گھبرانا نہیں چاہئے.قبض ہر قسم کے لوگوں کو ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک صحابی رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آکر کہا کہ حضور میں منافق ہوں.آپ نے فرمایا نہیں تم تو مسلمان ہو.اس نے کہا حضور جب میں آپ کے سامنے آتا ہوں تو جنت اور دوزخ میری آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور جب گھر جاتا ہوں تو پھر وہ حالت قائم نہیں رہتی.آپ نے فرمایا اگر وہی حالت ہر وقت قائم رہے تو مر جاؤ.(مسلم کتاب التوبة باب فضل دوام الذكر و الفکر فی امور الآخرة، اصل بات یہ ہے کہ اگر ہر وقت ایک ہی حالت رہے.تو پھر بڑھنے اور ترقی کرنے کی طاقت سلب ہو جاتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کبھی تو اصل حالت سے نیچے کر دیتا ہے تاکہ انسان کود کر پہلے سے بھی آگے بڑھ جائے.اور کبھی اوپر چڑھا دیتا ہے.ہاں قبض کے متعلق ایک خاص بات یاد رکھنی چاہئے اور وہ یہ کہ ایک قبض اچھی ہے اور ایک بری.اور ان کا پتہ اس طرح لگ سکتا ہے کہ ذکر کرنے کے متعلق لذت آنے کا ایک درجہ مقرر کر لیا جائے مثلاً ایک درجہ ہے اس سے اوپر ۲ ۳ ۴ ۵ درجے ہیں.اب اگر کوئی شخص دو درجہ پر ہے.اور قبض اسے لے جاتی ہے ایک درجہ پر.تو سمجھنا چاہئے کہ انعام دلانے والی قبض ہے.لیکن اگر تین درجہ پر ہو اور پھر قبض ہو.تو دیکھنا چاہئے اب قبض دو درجہ پر لے گئی ہے.یا ایک پر یا بالکل صفر پر.اگر دو درجہ پر ہو تو سمجھنا چاہئے کہ ترقی ولانے والی ہے اور اگر ایک پر یا صفر کے درجہ پر ہو تو پھر خطرے کا مقام ہے اس کے لئے خاص سعی اور کوشش کرنی چاہئے.اب میں نماز کے متعلق بتاتا ہوں.یہ سب سے زیادہ ضروری اور اہم ذکر ہے.ہے کیونکہ ذکر نماز اس میں کبھی انسان کھڑا ہو کر ذکر کرتا ہے اور کبھی رکوع میں، کبھی سجدہ میں کبھی بیٹھ کر ، پھر نماز میں قرآن کریم پڑھتا ہے.اور اس کے علاوہ اور اور اد بھی کرتا ہے.پس نماز سب ذکروں کی جامع ہے.پہلے میں نے اس کے متعلق بیان کرنا اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ بہت تفصیل چاہتی ہے.لیکن اب بیان کرتا ہوں.نماز کے تین حصے ہیں (۱) فرض (۲) سنن (۳) نفل.فرض اور سنن تو سب لوگ ادا کرتے ہیں باقی رہے نوافل ان کے ادا کرنے میں اکثر سستی کرتے ہیں.سنتوں کے متعلق تو یاد رکھنا

Page 537

انوار العلوم جلد - ۳ ۵۱۰ ذکرالی چاہئے کہ وہ اس لئے مقرر کی گئی ہیں کہ فرائض کے ادا کرنے میں جو کمی یا نقص رہ جائے اسے پورا کر دیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ ناقص نماز قبول نہیں کرتا بلکہ کامل قبول کرتا ہے.اور اگر نقص ہو تو سنتوں میں سے پورا کر دیتا ہے مثلاً کسی نے ایک نماز پڑھی.مگر ایک رکعت میں اس کی توجہ قائم نہ رہی اور مختلف قسم کے وساوس پیدا ہوتے رہے اس لئے وہ رکعت قبول نہ ہوگی.اس کے بدلہ میں سنتیں رکھ دی جائیں گی تاکہ نماز مکمل ہو جائے.رسول کریم ال چونکہ انسان کے قلب کی کیفیت کو خوب جانتے تھے اور سمجھتے تھے اس لئے آپ نے فرائض کے ساتھ سنتیں اپنی طرف سے لگا دیں تاکہ فرائض کی کمی کو پورا کر دیں اور یہ آپ نے اپنی امت پر بہت بڑا احسان کیا ہے.اب نوافل باقی رہے وہ خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ ہوتے ہیں.یعنی نوافل کی فضیلت نجات کے علاوہ اعلیٰ مدارج حاصل کرنے کا موجب بنتے ہیں پس جو شخص خدا تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ نوافل پڑھنے پر بہت زور دے.پھر نوافل بھی کئی قسم کے ہوتے ہیں.بعض دن میں پڑھے جاتے ہیں اور بعض رات کو.جو رات کو پڑھے جاتے ہیں.ان کو تہجد کہتے ہیں اور یہ زیادہ اہم ہوتے ہیں اور ایسے اعلیٰ کہ خدا تعالی نے قرآن کریم میں ان کی فضیلت اس طرح بیان فرمائی ہے.اِنَّ نَاشِئَةَ الَّيْلِ هِيَ اَشَدُّ وطئًا وَا قَوْمُ قِيلاً (المزمل : (۶) کہ انسان کے نفس کے درست کرنے کے لئے رات کا اٹھنا بہت بڑا ذریعہ ہے.پس اگر کوئی شخص تجربہ کر کے دیکھے گا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ کس طرح نفس کی بہت بڑی وسیع اصلاح ہو جاتی ہے اور خاص قوت اور طاقت حاصل ہوتی ہے.صحابہ کرام ان پر خاص طور پر مداومت رکھتے تھے.اور رسول کریم ﷺ کو ان نوافل کا اتنا خیال تھا کہ باوجود ان کے نفل ہونے کے آپ رات کو پھر کر دیکھتے کہ صحابہ میں سے کون یہ نفل پڑھتا ہے اور کون نہیں پڑھتا.ایک دفعہ آپ کی مجلس میں عبد اللہ بن عمرہ کا ذکر آیا کہ وہ بہت اچھا ہے اس میں یہ خوبی ہے یہ صفت ہے تو آپ نے فرمایا کہ ہاں بڑا اچھا ہے بشرطیکہ تجد پڑھے.چونکہ عبداللہ بن عمر جوان تھے اور تہجد پڑھنے میں سستی کرتے تھے اس لئے آپ نے اس طرح ان کو اس طرف توجہ دلائی.پھر رسول کریم ا نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی کا اس میاں اور بیوی پر رحم ہو کہ اگر رات کو میاں کی آنکھ کھلے تو اٹھ کر تہجد پڑھے اور بیوی کو جگائے کہ تو بھی اٹھ کر تہجد پڑھ.اور اگر بیوی نہ جاگے تو پانی کا چھینٹا اس کے منہ پر مارے اور بخاری کتاب التهجد باب فضل قیام اللیل

Page 538

را العلوم میاد ۵۱۱ ذکراتی جگائے.اسی طرح اگر بیوی کی آنکھ کھلے تو وہ بھی ایسا ہی کرے کہ خود تجد پڑھے اور میاں کو جگائے اگر وہ نہ جاگے تو اسکے منہ پر چھینٹا مارے دیکھو ایک طرف تو رسول کریم ﷺ نے بیوی کے لئے میاں کا ادب کرنا نہایت ضروری قرار دیا ہے.اور دوسری طرف تجد کے لئے جگانے کے واسطے اگر پانی کا چھینٹا بھی مارنا پڑے تو اس کو بھی جائز رکھا ہے.گویا رسول کریم تهجد کو اس قدر ضروری سمجھتے تھے.یہ رسول کریم ال کی طرف سے ہے.پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ رات کا اٹھنا نفس کو سیدھا کر دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صحابہ کو فرماتے کہ خواہ تہجد دو رکعت ہی پڑھو مگر پڑھو ضرور.پھر حدیثوں سے یہ بھی ثابت ہے کہ رات کے آخری حصہ میں اللہ تعالیٰ قریب آجاتا ہے.اور بہت زیادہ دعائیں قبول کرتا ہے اس لئے تہجد کا پڑھنا بہت ضروری اور بہت فائدہ مند ہے.اب سوال یہ ہے کہ تجد پڑھنی تو ضرور چاہئے مگر تہجد کے لئے اٹھنے کے تیرہ طریق رات کو اٹھیں کیونکر.اس کا ایک ادنی طریق میں پہلے بتاتا ہوں اگر چہ اس میں نقصان بھی ہے مگر فائدہ بھی ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ آج کل الارم والی گھڑیاں مل سکتی ہیں ان کے ذریعہ انسان جاگ سکتا ہے.مگر میرا تجربہ ہے کہ یہ کوئی ایسا مفید طریق نہیں ہے.وجہ یہ کہ چونکہ انسان کو بھروسہ ہو جاتا ہے کہ وہ مجھے وقت پر جگا دے گی اس لئے رات کو اٹھنے کی نیکی کی طرف جو توجہ اور خیال ہونا چاہئے وہ اس کو نہیں ہوتا.اگر اسے اٹھنے کا خیال ہوتا اور اسی خیال میں ہی اس کی آنکھ لگ جاتی تو گویا وہ ساری رات ہی عبادت کرتا رہتا.اس کے علاوہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر اٹھنے کو جی نچا ہے تو انسان بجتے بجتے الارم کو بند کر دیتا ہے.لیکن اگر نیت اور ارادہ سے سوئے گا تو وقت پر ضرور اٹھ کھڑا ہو گا.پھر ایسے لوگ جو گھڑی کے ذریعہ اٹھتے ہیں وہ اس بات کی شکایت کرتے ہیں کہ نماز میں نیند آتی ہے.اس کی بھی وجہ یہی ہے کہ وہ گھڑی سے اٹھتے ہیں نہ کہ اپنے طور پر اس لئے یہ طریق کوئی مفید نہیں ہے.ہاں ابتدائی حالت کے لئے یا کسی خاص ضرورت کے وقت مفید ہو تا ہے.میرے نزدیک وہ طریق جن سے رات کو اٹھنے سے مدد مل سکتی ہے تیرہ ہیں.اگر کوئی شخص ں ان پر عمل کرے تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے ضرور کامیابی ہوگی.شروع میں تو ہر کام میں مشکلات ہوتی ہیں مگر آخر کار ضرور ان کے ذریعہ کامیابی ہوگی.ه مشكورة كتاب البيوع باب التحريص على قيام الليل

Page 539

ام جمعه ۳۰ ۵۱۲ ذکرالی سب باتیں جو میں بیان کروں گاوہ قرآن اور حدیث سے ہی اخذ کی ہوئی بیان کروں گا نہ کہ اپنی طرف سے.مگر یہ خدا تعالی کا مجھ پر خاص فضل ہے کہ یہ باتیں مجھ پر ہی کھولی گئی ہیں.اور اوروں سے پوشیدہ رہی ہیں.اگر وقت تنگ نہ ہوتا.تو میں قرآن کریم کی وہ آیات اور حدیثیں بھی بیان کر دیتا جن سے میں نے اخذ کی ہیں مگر اب صرف نتائج ہی بیان کروں گا.کہ اللہ تعالٰی نے نیچر میں قاعدہ رکھا ہے کہ جس وقت میں کوئی چیز پیدا پہلا طریق یہ ہے ہوئی ہو وہی وقت جب دوسری دفعہ آئے تو اس چیز میں پھر جوش پیدا ہو جاتا ہے.اس کی مثالیں کثرت سے مل سکتی ہیں.مثلاً انسان کو جو بیماری بچپن میں ہوئی ہو وہی بیماری بڑھاپے میں جبکہ بچپن کی سی حالت ہو جاتی ہے عود کر آتی ہے.یہی بات درختوں اور پرندوں میں پائی جاتی ہے.اس قاعدہ سے رات کو اٹھنے میں اس طرح مدد مل سکتی ہے کہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ عرصہ ذکر کر لے.اس کا یہ فائدہ ہو گا کہ جتنا عرصہ وہ ذکر کرے گا صبح سے اتنا ہی قبل اس کی آنکھ ذکر کرنے کے لئے کھل جائے گی.کہ عشاء کی نماز پڑھ لینے کے بعد کسی سے کلام نہ کرے.رسول دوسرا طریق یہ ہے کریم ﷺ نے بھی عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد کلام کرنے سے رد کا ہے.گو یہ بھی ثابت ہے کہ بعض دفعہ آپ "کلام کرتے رہے ہیں.مگر عام طور پر آپ نے منع فرمایا ہے.اس کا باعث یہ ہے کہ اگر عشاء کی نماز کے بعد باتیں شروع کر دی جائیں گی تو انسان زیادہ جاگے گا اور صبح کو دیر کر کے اٹھے گا.اور دوسرے یہ کہ اگر وہ باتیں دینی اور مذہبی نہ ہوں گی تو ان کی وجہ سے توجہ دین سے ہٹ جائے گی.اس لئے آنحضرت ا نے فرمایا کہ عشاء کی نماز کے بعد بغیر کلام کئے سو جانا چاہئے تاکہ دینی خیالات پر ہی آنکھ لگے اور سویرے کھل جائے.دفتر کے کام یا اور کوئی ضروری فعل عشاء کی نماز کے بعد منع نہیں.مگر یہ ضروری ہے کہ سونے سے پہلے ذکر کر لے.یہ دوسرا طریق ہے.کہ جب کوئی عشاء کی نماز پڑھ کر آئے اور سونے لگے تو خواہ اس کا تیسرا طریق یہ ہے وضوی ہے.تو بھی تازہ وضو کر کے چارپائی پر لیٹے.اس کا اثر قلب پر پڑتا ہے اور اس سے خاص قسم کی نشاط پیدا ہوتی ہے.اور جب کوئی تازہ وضو کی وجہ سے نشاط کی حالت میں سوئے گا تو وہ آنکھ کھلتے وقت بھی نشاط میں ہی ہو گا.عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی رو تا سوئے تو وہ چیخ مار کر اٹھ بیٹھتا ہے.اور اگر ہنستا سوئے تو اٹھتے وقت بھی اس کا چہرہ

Page 540

رالعلوم جلد ۳۰ ۵۱۳ ذکرالی بشاش ہی ہوتا ہے اسی طرح جو وضو کر کے نشاط سے ہوتا ہے وہ اٹھتا بھی نشاط سے ہی ہے.اور اس طرح اس کو اٹھنے میں مدد ملتی ہے.کہ جب سونے لگے تو کوئی ذکر کر کے سوئے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ چوتھا طریق یہ ہے رات کو ذکر کرنے کے لئے پھر اس کی آنکھ کھل جائے گی.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ا بھی سونے سے پہلے یہ ذکر کیا کرتے تھے لے آیت الکرسی پھر تینوں قل ایک ایک دفعہ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتے اور ہاتھ سارے جسم پر پھیرتے اور ایسا تین دفعہ کرتے تھے اور پھر دائیں طرف منہ کر کے یہ عبارت پڑھتے - اللهُم اَسْلَمْتُ نَفْسِی الَيْكَ وَوَجَهُتُ وَجْهِ إِلَيْكَ وَفَوَّضْتُ أَمْرِ إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةَ إِلَيْكَ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَا إِلَّا إِلَيْكَ آمَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِى اَنْزَلْتَ وَ نَبَتِكَ الَّذِى اَرْسَلْتَ (ترمی كتاب الدعوات باب ما جاء في الدعاء اذا اوى الى فراشه، اسی طرح ہر ایک مؤمن کو چاہیئے.اور پھر چارپائی پر لیٹ کر دل میں سُبحَانَ اللهِ وَ بِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ یا کوئی اور ذکر جاری رکھنا چاہئے حتی کہ اس حالت میں آنکھ لگ جائے.کیونکہ جس حالت میں انسان سوتا ہے عام طور پر وہی حالت ساری رات اس پر گزرتی رہتی ہے.اس لئے جو شخص تسبیح و تحمید کرتے سوئے گا.گویا ساری رات اسی میں لگا رہے گا.دیکھو عورتیں یا بچے اگر کسی غم اور تکلیف میں سوئیں.تو سوتے سوتے جب کروٹ بدلتے ہیں.تو دردناک اور غمگین آواز نکالتے ہیں.کیونکہ اس غم کا جو سوتے وقت ان کو تھا ان پر اثر ہوتا ہے.لیکن اگر کوئی تسبیح کرتے ہوئے گا تو جب کروٹ بدلے گا اس کے منہ سے تسبیح کی آواز ہی نکلے گی.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مومن وہ ہوتے ہیں کہ نتجا فِى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ) السجدہ : ۱۷) یعنی ان کے پہلو بستروں سے اٹھے رہتے ہیں.اور وہ خوف اور طمع سے اللہ تعالیٰ کو پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس سے خرچ کرتے ہیں.بظاہر تو یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی کیونکہ آنحضرت بھی سوتے تھے اور دوسرے سب مؤمن بھی سوتے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ چونکہ وہ تسبیح کرتے کرتے سوتے ہیں اس لئے ان کی نیند نیند نہیں ہوتی بلکہ تسبیح ہی ہوتی ہے اور اگر چہ وہ سوتے ہیں مگر در حقیقت سوتے نہیں.ان کی کمریں بستروں سے الگ رہتی ہیں اور وہ خدا کی یاد میں مشغول ہوتے ہیں.وَالجَأْتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ

Page 541

العلوم جلد.۵۱۴ ذکرالی کہ سونے کے وقت کامل ارادہ کر لیا جائے کہ تہجد کے لئے ضرور پانچواں طریق یہ ہے اٹھوں گا.انسان کے اندر خدا تعالٰی نے یہ طاقت رکھی ہے کہ جب وہ زور سے اپنے نفس کو کوئی حکم کرتا ہے تو وہ تسلیم کرلیتا ہے اور یہ ایک ایسی بات ہے جس کو تمام دانا مانتے آئے ہیں.پس تم سونے کے وقت پختہ ارادہ کر لو کہ تہجد کے وقت ضرور اٹھیں گے.اس طرح کرنے میں گو تم سو جاؤ گے مگر تمہاری روح جاگتی رہے گی کہ مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں وقت جگاتا ہے اور عین وقت پر خود بخود تمہاری آنکھ کھل جائے گی.ایسا ہے کہ جس کے کرنے کی میں صرف ایسے ہی شخص کو اجازت دیتا ہوں جو یہ چھٹا طریق دیکھتا ہو کہ میرا ایمان خوب مضبوط ہے اور وہ یہ کہ وتروں کو عشاء کی نماز کے ساتھ نہ پڑھے بلکہ تہجد کے وقت پڑھنے کے لئے رہنے دے.عام طور پر یہ بات پائی جاتی ہے کہ انسان فرض کو خاص طور پر ادا کرتا ہے مگر نفل میں ستی کر جاتا ہے.پس جب نفلوں کے ساتھ واجب مل جائے گا تو اس کی روح کبھی آرام نہ کرے گی جب تک کہ اسکو ادا نہ کرے اور اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ نفس سستی نہیں کرے گا.لیکن اگر و تر پڑھے ہوئے ہوں اور تہجد کے وقت آنکھ کھل بھی جائے تو نفس کہہ دیتا ہے کہ وتر تو پڑھے ہوئے ہیں نفل نہ پڑھے تو نہ سہی.مگر جب یہ خیال ہو گا کہ وتر بھی پڑھنے ہیں تو ضرور اٹھے گا اور جب اٹھے گا تو نفل بھی پڑھ لے گا.لیکن جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے اس کے لئے شرط ہے کہ ایمان بہت مضبوط ہو.جب ایمان مضبوط ہو گا تو وتروں کے لئے ضرور اٹھے گا.ورنہ وتروں کے پڑھنے سے بھی محروم رہے گا.بھی انہیں لوگوں کے لئے ہے جو روحانیت میں بہت بڑھے ہوئے ہیں.اور ساتواں طریق وہ یہ کہ عشاء کی نماز کے بعد نفل پڑھنے شروع کر دیں اور اتنی دیر تک پڑھیں کہ نماز میں ہی نیند آجائے اور اتنی نیند آئے کہ برداشت نہ کی جاسکے اس وقت سوئے.باوجود اس کے کہ اس میں زیادہ وقت لگے گا مگر سویرے نیند کھل جائے گی یہ روحانی ورزش ہوتی ہے.وہ ہے جس کا ہمارے صوفیاء میں رواج تھا میں نے اس کی ضرورت محسوس آٹھواں طریق نہیں کی مگر ہے مفید.اور وہ یہ ہے کہ جن دنوں میں زیادہ نیند آئے اور وقت پر آنکھ نہ کھلے ان میں نرم بستر ہٹا دیا جائے.

Page 542

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۱۵ ذکرالی یہ ہے کہ سونے سے کئی گھنٹے پہلے کھانا کھا لیا جائے.یعنی مغرب سے پہلے یا نواں طریق مغرب کی نماز کے بعد فوراً.بہت دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان کی روح چست ہوتی ہے مگر جسم ست کر دیتا ہے.جسم ایک طوق ہے جو روح کو چھٹا ہوا ہے جب یہ طوق بھاری ہو جائے تو پھر روح کو دبا لیتا ہے.اس لئے سونے کے وقت معدہ پر نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اس کا اثر قلب پر بہت پڑتا ہے اور انسان کو ست کر دیتا ہے.ہوتا یہ ہے کہ جب انسان رات کو سوئے تو ایسی حالت میں نہ ہو کہ جنبی ہو یا اسے سواں طریق کوئی غلاظت لگی ہو.بات یہ ہے کہ طہارت سے ملائکہ کا بہت بڑا تعلق ہو تا ہے اور وہ گندے انسان کے پاس نہیں آتے.بلکہ دور ہٹ جاتے ہیں.اسی لئے رسول کریم کے سامنے جب ایک بودار چیز کھانے کے لئے لائی گئی تو آپ نے صحابہ کو فرمایا کہ تم کھالو میں نہیں کھاتا.صحابہ نے کہا ہم بھی نہیں کھاتے.آپ نے فرمایا تم کھالو میرے ساتھ تو فرشتے باتیں کرتے ہیں اس لئے میں نہیں کھاتا.کیونکہ انہیں ایسی چیزوں سے نفرت ہے.تو غلاظت کو ملائکہ بہت ناپسند کرتے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کھانا کھایا اور ہاتھ دھوئے بغیر سو گیا.رویا میں میں نے دیکھا کہ میرے بھائی صاحب آئے ہیں اور انہوں نے مجھے قرآن کریم دینا چاہا لیکن جب میں ہاتھ لگانے لگا تو کہا کہ ہاتھ نہ لگانا تمہارے ہاتھ صاف نہیں ہیں.تو بدن کے صاف ہونے کا قلب پر بہت اثر پڑتا ہے.صفائی کی حالت میں سونے والے کو ملائکہ آکر جگا دیتے ہیں لیکن اگر صفائی میں فرق ہو تو پاس نہیں آتے.یہ طریق جسم کی صفائی کے متعلق ہے.یہ ہے کہ بستر پاک و صاف ہو.بہت لوگ اس بات کی پرواہ نہیں گیارہواں طریق کرتے مگر یاد رکھنا چاہئے کہ بستر کی پاکیزگی روحانیت سے خاص رکھتی ہے اس لئے اس کا خاص خیال رکھنا چاہئے.ایسا ہے کہ عوام کو اس پر عمل کرنے کی وجہ سے نقصان پہنچ سکتا ہے.ہاں بارہواں طریق خاص لوگوں کے لئے نقصان دہ نہیں اور وہ یہ کہ میاں بیوی ایک بستر میں سوئیں.رسول کریم اے سوتے تھے لیکن آپ کی شان بہت بلند اور ارفع ہے.آپ " پر اس کا کوئی اثر نہیں ہو سکتا تھا.مگر دوسرے لوگوں کو احتیاط کرنی چاہئے.بات یہ ہے کہ جسمانی شہوت کا اثر جتنا زیادہ ہو اسی قدر روحانیت کو بند کر دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ شریعت تعلق

Page 543

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۱۶ ذکر الهی اسلام نے کہا ہے کہ کھاؤ پیو مگر حد سے نہ بڑھو.کیوں نہ بڑھو اس لئے کہ شہوانی جذ بہ زیادہ بڑھ کر روحانیت کو نقصان پہنچائے گا.پس وہ لوگ جو اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں وہ اگر اکٹھے سوئیں تو کوئی حرج نہیں ہو تا مگر عام لوگوں کو اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.اور وہ لوگ جنہیں اپنے خیالات پر پورا پورا قابو نہ ہو ان کو اکٹھا نہیں سونا چاہئے.اس طرح ان کو شہوانی خیالات آتے رہیں گے.اور بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوتے سوتے جماع کرنے یا پیار کرنے لگ جاتے ہیں.اس طرح روحانیت پر برا اثر پڑتا ہے.اور اٹھنے میں سستی ہو جاتی ہے.ایسا اعلیٰ ہے کہ جو نہ صرف تجد کے لئے اٹھنے میں بہت بڑا محمد اور معاون تیرھواں طریق ہے بلکہ اس پر عمل کرنے سے انسان بدیوں اور برائیوں سے بھی بچ جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ سونے سے پہلے دیکھنا چاہے کہ ہمارے دل میں کسی کے متعلق کینہ یا بغض تو سے نہیں ہے اگر ہو تو اس کو دل سے نکال دینا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ روح کے پاک ہونے کی وجہ سے تہجد کے لئے اٹھنے کی توفیق مل جائے گی خواہ اس قسم کے خیالات ان پر پھر قابو پاہی لیں.لیکن رات کو سونے سے پہلے ضرور نکال دینے چاہئیں اور دل کو بالکل خالی کر لینا چاہئے.اس میں حرج ہی کیا ہے.اگر کوئی ایسے خیالات میں دنیاوی فائدہ سمجھتا ہے تو دل کو کہے کہ دن کو پھر یاد رکھ لینا رات کو سونے کے وقت کسی سے لڑائی تو نہیں کرنی کہ ان کو دل میں رکھا جائے.اول تو ایسا ہو گا کہ اگر ایک دفعہ اپنے دل کسی خیال کی جڑھ کاٹ دی جائے گی تو پھر وہ آئے گا ہی نہیں.دوسرے اس قسم کے خیالات رکھنے سے جو نقصان پہنچا ہوتا ہے اس سے انسان محفوظ ہو جاتا ہے.یہ ایک ثابت شدہ بات ہے کہ ایک چیز جس قدر زیادہ عرصہ دوسرے کے ساتھ رہتی ہے اسی قدر زیادہ اپنا اثر اس پر کرتی ہے.مثلاً اگر اسپنج کو پانی سے بھر کر کسی چیز پر جلدی سے پھیر کر ہٹا لیا جائے تو وہ بہت تھوڑی گیلی ہوگی.لیکن اگر دیر تک اس پر رکھا جائے تو وہ بہت زیادہ بھیگ جائے گی.اسی طرح جو خیالات انسان کو دیر تک رہیں وہ اس کے دل میں بہت زیادہ جذب ہو جاتے ہیں اور سوتے وقت جن خیالات کو انسان اپنے دل میں رکھے ان کو اس کی روح ساری رات دہراتی رہتی ہے.دن میں اگر کوئی ایسا خیال ہو تو وہ اتنا نقصان دہ نہیں ہو تا جتنا رات کے وقت کا.کیونکہ ان میں دوسرے کاروبار میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ بھلا دیتا ہے لیکن رات کو بار بار آتا ہے.پس سوتے وقت اگر کوئی برا خیال ہو.تو اسے نکال دینا چاہئے تاکہ وہ دل میں گڑ نہ جائے.گرند

Page 544

ذکرالی ر العلوم جلد ۳۰ ۵۱۷ کیونکہ اگر گڑ گیا تو پھر اس کا نکلنا بہت مشکل ہو جائے گا.پھر اگر رات کو جان ہی نکل جائے تو اس بدی کے خیال سے توبہ کرنے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا.اس طرح نفس کو ڈرانا چاہئے.اور جب ایک دفعہ خیال نکل جائے گا تو پھر اس سے نجات مل جائے گی.غرض سوتے وقت نفس میں برے خیالات نہیں رہنے دینے چاہئیں.جب اس طرح دل کو پاک و صاف کر کے کوئی سوئے گا تو تہجد کے وقت اٹھنے کی اسے ضرور توفیق مل جائے گی.ان ہے اب میں بتاتا ہوں کہ نماز میں کس طرح توجہ قائم نماز میں توجہ قائم رکھنے کے طریق رہ سکتی ہے.اس کے متعلق بہت لوگ ہمیشہ پوچھا کرتے ہیں آج میں اس کے طریق بتاتا ہوں.کچھ تو ایسے ہوں گے جنہیں آپ استعمال میں لاتے ہیں.مگر در حقیقت ان سے کام نہیں لیتے اور جو کام لیتے ہیں وہ ضرور فائدہ بھی اٹھاتے ہوں گے.اصل بات یہ ہے کہ شریعت نے توجہ قائم رکھنے کے لئے نماز میں ہی کچھ قوانین بتا دیئے ہیں مگر نا واقفیت کی وجہ سے اکثر لوگ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے.ان کے علاوہ کچھ طریق میں ایسے بتاؤں گا جن سے لوگ عام طور پر نا واقف ہیں اور ان پر کار بند نہیں.حالانکہ عمل کرنے سے نماز میں توجہ قائم رہ سکتی ہے پہلی قسم کے طریقوں کے بیان کرنے سے پہلے میں اس قدر بیان کر دینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے انسان کے اندر ایک ایسا مادہ رکھا ہے کہ جب وہ کسی چیز کو استعمال کر رہا ہو اور ساتھ ساتھ اس کا فائدہ بھی سوچتا جائے اور اس پر یقین رکھے تو اسے بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے.یورپ میں سینڈو ورزش کا استاد گذرا ہے وہ لکھتا ہے کہ صحت اور طاقت کے لئے ورزش کرو.مگر ساتھ ہی یہ بھی خیال کرتے جاؤ کہ ہمارے بازو مضبوط اور پیچھے سخت ہو رہے ہیں.واقعہ میں ورزش سے بازو مضبوط ہوتے ہیں.مگر جب اس بات کو ورزش سمجھ کر کیا جائے کہ اس کا اثر جسم پر کیا پڑ رہا ہے تو اس اثر کو قبول کرنے کے لئے جسم اور بھی تیار ہو جاتا ہے.اور اگر یہ خیال نہ رکھا جاوے تو بہت سا اثر باطل ہو جاتا ہے اور یہ فائدہ نسبتا بہت کم ہو جاتا ہے.شریعت اسلام نے بھی توجہ قائم رکھنے کے کچھ قانون مقرر کئے ہوئے ہیں.ان پہلا طریق میں سے پہلا قانون وضو ہے جو ہر ایک نماز پڑھنے والے کو کرنا پڑتا ہے اس میں یہ حکمت ہے کہ انسان کے خیالات اور جذبات کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالٰی نے کچھ ذرائع بنائے ہیں ان میں سے ایک اعصاب کا سلسلہ ہے.ان کے ذریعہ سے انسان کے

Page 545

۵۱۸ ذکرائی خیالات اور جذبات کا اثر دوسری چیزوں پر پڑتا ہے اور وہ ایک راستہ کے طور پر ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ا یہ آیت الکرسی پڑھ کر اپنے جسم پر پھونکتے تھے.کیا یہ لغو ہی تھا ؟ ہرگز نہیں.بلکہ اصل بات یہ ہے کہ خیالات کا اثر اعصاب کے ذریعہ آواز کے ذریعہ پھونک کے ذریعہ خیالات سے منتقل ہوتا ہے.پس رسول کریم اے ان تینوں طریق کو جمع کر لیتے.آیہ الکرسی منہ سے پڑھتے پھر ہاتھوں پر پھونکتے پھر ہاتھ سارے جسم پر پھیر لیتے.غرض آواز اعصاب نظر اور پھونک وغیرہ خیالات کے باہر نکلنے کے راستے ہیں اسی وجہ سے دم کرنا بھی صلحاء سے ثابت ہے بلکہ رسول کریم ال سے بھی مروی ہے.پس چونکہ اعصاب کے ذریعہ خیالات نکلتے اور پراگندہ ہو جاتے ہیں ان کو قابو میں رکھنے کے لئے آنحضرت ا نے وضو کا حکم دیا ہے.اور چونکہ ان کے نکلنے کے بڑے بڑے مرکز ہاتھ پاؤں اور منہ ہیں.اور تجربہ کیا گیا ہے کہ جب ان پر پانی ڈالا جائے تو خیالات کی رو جو ان سے نکل رہی ہوتی ہے وہ بند ہو جاتی ہے اور خیالات نکلنے رک جاتے ہیں.یہ ایک ثابت شدہ مسئلہ ہے.اور وضو کی اغراض میں ایک یہ غرض بھی ہے.وضو میں اور بھی کئی ایک علمتیں ہیں لیکن ایک یہ بھی ہے کہ اس طرح خیالات کی رورک جاتی ہے اور جب رو رک جاتی ہے تو سکون حاصل ہو جاتا ہے اور جب سکون حاصل ہو جاتا ہے تو توجہ قائم رہ سکتی ہے.پس وضو توجہ کے قائم رکھنے کے لئے ایک اعلیٰ درجہ کا ذریعہ ہے.لیکن جب وضو کرنے بیٹھو تو ساتھ ہی یہ بھی خیال رکھو کہ ہم ایسا پراگندہ خیالات کے روکنے کے لئے کر رہے ہیں.جب ایسا کرو گے تو نماز میں سکون حاصل ہو جائے گا اور خیالات تمہاری توجہ کو پراگندہ نہیں کر سکیں گے.توجہ کے قائم کرنے کا وہ ہے جو شریعت اسلام نے مسجد میں نماز پڑھنے کو قرار | دو سرا طریق دیا ہے.انسان کا خاصہ ہے کہ جب وہ ایک بات کو دیکھتا ہے تو اس سے اسے دوسری کا خیال پیدا ہو جاتا ہے.مثلاً ایک شخص زید سے ملتا ہے تو اس کے لڑکے بکر کے متعلق بھی اس سے پوچھتا ہے.حالانکہ بکر اس کے سامنے نہیں ہو تا مگر زید کو دیکھ کر ہی اسے بکر بھی یاد آجاتا ہے.تو انسان کے دماغ کی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ جب ایک چیز اس کے سامنے آئے تو اس تعلق رکھنے والی دوسری چیزوں کی بھی اسے یاد آجاتی ہے.پس اگر انسان ایک ایسی جگہ نماز ادا کرے جس کا نماز سے خاص تعلق نہ ہو تو اسے کوئی خاص بات یاد نہ آئے گی مگر جب ایسی جگہ نماز پڑھے گا جہاں صبح و شام خدا تعالیٰ کی عبادت کی جاتی ہے.اور جو خدا کا گھر کہلاتی

Page 546

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۱۹ ذکراتی ہے تو اسے ضرور یہ خیال آئے گا کہ میں اس خدا کے حضور میں کھڑا ہوا ہوں جس کی عبادت کرنے کے لئے یہ جگہ بنائی گئی ہے اور مجھ پر فرض ہے کہ میں سچے دل سے اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کروں.یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے گھروں میں نماز پڑھنے کے لئے ایک خاص جگہ مقرر کر چھوڑیں اور وہاں نماز پڑھنے کے علاوہ اور کوئی کام نہ کریں تاکہ وہاں نماز پڑھتے ہوئے یہ خیال آئے کہ یہ خدا تعالٰی کی عبادت کرنے کا مقام ہے یہ ممکن ہے کہ آپ میں سے بعض لوگوں کے دلوں میں مسجد میں جاکر بھی کبھی یہ خیال نہ آیا ہو.لیکن اب جبکہ مسجد میں نماز پڑھنے کی حکمت معلوم ہو گئی اور یہ خیال لے کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے گئے تو آپ کے خیالات فورا رک جائیں گے اور سکون حاصل ہو جائے گا.قبلہ کی طرف منہ کرنے کا جو حکم ہے وہ بھی توجہ کے قائم رکھنے کے لئے بہت محمد تیسرا طریق ہوتا ہے.مکہ معظمہ میں کئی ایک خصوصیتیں ہیں.اس جگہ ایک شخص نے اپنی بیوی اور بچہ کو بغیر دانہ پانی اور بغیر آبادی اور کسی حفاظت کے خدا کے حکم کے ماتحت چھوڑ دیا تھا اور چونکہ یہ کام خدا کے لئے اس نے کیا تھا خدا تعالیٰ نے اس کی نسل کو اس قدر بڑھایا کہ آسمان کے ستاروں کی طرح گنی نہیں جا سکتی پھر اس کی نسل میں سے کئی ایک نبی پیدا ہوئے اور آخر وہ انسان جو سب دنیا کی طرف نبی ہو کر آیا وہ بھی اسی کی نسل سے تھا.تو جب کوئی مکہ کی طرف منہ کر کے نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے اور اسے یہ حکمت بھی معلوم ہو کہ ادھر منہ کر کے نماز پڑھنا کیوں مقرر کیا گیا ہے تو اس پر فوراً حضرت اسمعیل علیہ السلام کے واقعہ کا اثر ہوتا ہے اور اس بات کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے کہ جس خدا کی عبادت میں کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں وہ بڑی شان اور بڑی قدرت والا ہے.جب اسے یہ خیال پیدا ہو جاتا ہے تو اس کے پراگندہ خیالات دور ہو جاتے اور خدا تعالیٰ کے رعب اور جلال سے دب کر بیٹھ جاتے ہیں.رسول کریم اے نے اذان مقرر کی ہے.جب بلند آواز سے اللہ اکبر اللہ اکبر چوتھا طریق کہا جاتا ہے.تو گو اسی وقت نماز شروع نہیں ہو جاتی مگر نماز پڑھنے والوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ تم خوب سوچ سمجھ کر مسجد میں نماز پڑھنے کے لئے آجانا.کیونکہ تم نے بڑے عظیم الشان خدا کے حضور پیش ہونا ہے.پس جب کوئی اذان سنے گا تو اس پر خدا تعالیٰ کی عظمت اور شان کا خاص رعب پڑے گا اور اس کی وجہ سے نماز میں اس کی توجہ قائم رہے گی.ے مشکواۃ کتاب المناسك باب المساجد ومواضع الصلواة

Page 547

رالعلوم جلد ۳ ۵۲۰ ذکر الهی رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اذان اس لئے دی جاتی ہے کہ شیطان کو بھگا دے اور حدیث میں آیا ہے کہ جب اذان ہوتی ہے تو شیطان دور بھاگ جاتا ہے.پس جب کوئی اس بات کو مد نظر رکھتا ہے کہ اذان میں جو مضمون بیان کیا جاتا ہے اس کی یہ غرض ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور جلال کی طرف توجہ ہو تو اسے اس کی حکمت بھی یاد آجائے گی.جن لوگوں نے آج یہ حکمت سن لی ہے وہ جب اذان سنیں گے تو یہ بات یاد آجائے گی اور جب یاد آئے گی تو اثر بھی ہو گا اور یہ قاعدہ ہے کہ جب ایک خیال آئے تو دوسرے خیالات دور ہو جاتے ہیں.پس جب خدا تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے خیالات پیدا ہوں گے.تو دوسرے خیالات ہٹ جائیں گے اور توجہ قائم ہو جائے گی.اقامت ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی عظمت اور شوکت کی طرف متوجہ کرتی پانچواں طریق ہے اور اذان کے متعلق جو حکمت بیان کی گئی ہے وہی اس میں بھی ہے.اقامت کے متعلق بھی رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کی آواز سے شیطان بھاگ جاتا ہے (مسلم کتاب الصلوۃ باب فضل الاذان و هرب الشيطان عند سماعه، اور اس کا مطلب یہی ہے کہ اس کے ذریعہ سے وساوس دور ہو جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے.صف بندی ہے.جسمانی با قاعدگی خیالات میں بھی باقاعدگی پیدا کر دیتی ہے اور چھٹا طریں انہیں منتشر نہیں ہونے دیتی.اور جب جسمانی طور پر قطار بندی کی جاتی ہے تو اندرونی جوش بھی ایک سلک میں منسلک ہو جاتے ہیں.پھر وہ شکل کیا ہی ہیبت ناک ہوتی ہے کہ سب لوگ خاموش اور چپ چاپ بادشاہوں کے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں.رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ صفوں کو درست کرد ورنہ تمہارے دل ٹیڑھے ہو جائیں گے (مسلم کتاب الصلوۃ باب تسوية الصفوف) درست صف کا کیا اثر ہوتا ہے.یہی کہ ظاہر کا اثر چونکہ باطن پر ہوتا ہے.اس لئے اگر ظاہری طور پر باقاعدگی نہ ہو تو باطنی با قاعدگی میں بھی فرق آجاتا ہے.نماز پڑھنے کی نیت ہے.کیونکہ جب انسان اپنے نفس کو بتا دیتا ہے کہ اس ساتواں طریق کام کے لئے میں کھڑا ہونے لگا ہوں تو توجہ اس کی طرف ہی رہتی ہے.نیت سے یہ مراد نہیں کہ کہا جائے کہ پیچھے اس امام کے اتنی رکعت نماز منه طرف کعبہ شریف و غیره وغیرہ بلکہ ذہن میں ہی نماز پڑھنے کی نیت کرنی چاہئے.ایک آدمی کی نسبت کہتے ہیں کہ اسے

Page 548

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۲۱ ذکرالی نیت کرنے کا جنون ہو گیا تھا وہ اگر کسی پچھلی صف میں کھڑا ہوتا اور نیت کرتا کہ ” پیچھے اس امام کے " تو اسے خیال آتا کہ میں امام کے پیچھے تو ہوں نہیں میرے آگے کوئی اور شخص ہے اس لئے وہ آگے جاکر کہتا پیچھے اس امام کے پھر اسے شک پڑتا کہ میں تو اب بھی امام کے پیچھے نہیں ہوں اس لئے وہ امام کے پیچھے جا کر کھڑا ہوتا اور پھر اس کو ہاتھ لگا کر کہتا کہ پیچھے اس امام کے.اس قسم کے وہم میں جو لوگ پڑے ہوئے ہیں وہ بھی غلطی کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بہت برا ہوتا ہے.نیت کیا ہوئی گویا مصیبت ہو گئی.نیت دراصل قلب کی ہوتی ہے.مگر بعض لوگوں کو کھڑے ہوتے وقت پتہ ہی نہیں ہو تاکہ کیا کرنے لگے ہیں.پس جب تم نماز پڑھنے لگو تو نماز پڑھنے کا خیال بھی کر لو اور سمجھو کہ کیا کرنے لگے ہو.جب یہ بات سمجھ لو گے تو اسی وقت سے تمہارے اندر خشیت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور جب خشیت پیدا ہو جائے گی تو توجہ بھی قائم رہ سکے گی.نماز با جماعت ہے کہ اس طرح نماز پڑھتے ہوئے خدا تعالٰی کی عظمت کی.آٹھواں طریق طرف متوجہ کرنے والے الفاظ انسان کے کان میں امام کی طرف سے ڈالے جاتے ہیں.اور جو انسان غفلت میں ہو اور دوسرے خیالات میں پڑ جائے اس کو ٹھکور دیا جاتا ہے.مثلاً جب اللہ اکبر کہا جاتا ہے تو گویا اس بات سے اسے آگاہ کیا جاتا ہے کہ دیکھو سنبھل کر کھڑے ہونا جس کے حضور میں کھڑے ہونے لگے ہو وہ بہت بڑا ہے.پھر جب کھڑے ہونے میں کچھ وقت گذر جاتا ہے اور کسی کے دل میں طرح طرح کے خیالات آنے لگتے ہیں تو پھر امام بلند آواز سے کہہ دیتا ہے اللہ اکبر اللہ ہی سب سے بڑا ہے.پھر جب غفلت آنے لگتی ہے تو سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَهُ کی آواز کان میں ڈالی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی باتیں سنتا اور قبول کرتا ہے جو اس کی حمد کرتا ہے.اور اس طرح اسے متوجہ کیا جاتا ہے کہ اگر کچھ فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرو ورنہ یونہی وقت ضائع ہو گا.غرض بار بار امام مقتدیوں کو توجہ دلاتا اور ہوشیار کرتا رہتا ہے.یہی وجہ ہے کہ امام کو مقتدیوں پر فضیلت ہے کیونکہ وہ ان کو بار بار متوجہ کرتا ہے کہ تم سب سے بڑے بادشاہ کے سامنے کھڑے ہو.ہوشیار ہو کر کھڑے رہنا.یہ ہے کہ نماز کے ادا کرنے کو ایک ہی حالت میں نہیں رکھا گیا بلکہ مختلف طور پر نواں طریق رکھا ہے.اگر کوئی نماز پڑھتے ہوئے غافل ہو جائے یا دوسرے خیالات میں محو

Page 549

ذکرائی العلوم جلد ۳۰ ۵۲۲ ہو جائے تو اس کا رکوع کرنا اور سجدہ میں جانا اس کو نماز کی طرف متوجہ کر دیتا ہے گو کوئی عادت کے طور پر ہی رکوع کرے یا سجدہ میں جائے تاہم حرکت ایک ایسی چیز ہے کہ غافل کو ہوشیار کر دیتی ہے.دوسرے مذاہب کی عبادتوں میں یہ بات نہیں ہے.یہ فضیلت صرف اسلام کو ہی حاصل ہے.مثلاً ایک شخص فرائض سے پہلے اور بعد میں سنن کا پڑھنا ہے.نیچر کا یہ قاعدہ ہے کہ جب دسواں طریق کوئی کام ہونے والا ہو تو اس کا کچھ اثر اس کے ظاہر ہونے سے پہلے اور کچھ بعد میں رونما ہو جاتا ہے.مثلاً جس وقت سورج چڑھنے لگے.تو گو وہ ابھی نکلا ہوا نہ ہو تو بھی روشنی پھیل جاتی ہے.اسی طرح اس کے ڈوبنے کے بعد بھی کچھ عرصہ روشنی رہتی ہے.لیکن جو کام خواہشات کے مطابق ہو یا اس میں کوئی لذت حاصل ہوئی ہو یا اس کے نہ ہونے میں نقصان کا اندیشہ ہو وہ دوسرے کام کے مقابلہ میں کم اثر رکھتا ہے اور اس پر غالب آجاتا ہے.کوئی ایسا کام کر رہا ہو کہ جس میں اس کو کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا اور اس کام کے بعد اس نے کوئی ایسا کام کرنا ہے جس میں اسے خاص فائدہ کی امید ہے یا اس کے ہونے پر کسی نقصان کا خطرہ ہے یا وہ کام اس کی خواہشات کے مطابق ہے تو جس کام میں یہ مشغول ہے اس کے کرتے وقت بھی دوسرے کام کے خیالات ہی غالب رہیں گے اور اسی کی طرف اس کی توجہ رہے گی.مثلاً ایک ملازم دفتر کا کام کر رہا ہو تو اگر دفتر سے فراغت کے بعد اسے کوئی اہم کام جو اس کا ذاتی ہے کرنا ہے تو دفتر کے وقت کے ختم ہونے سے ایک دو گھنٹہ پہلے ہی اس کے خیالات اس طرف متوجہ ہو جائیں گے.اور اگر دفتر کے کام میں کوئی اہم کام اس کی توجہ کو اپنی طرف کھینچنے کا باعث ہوا ہے تو دفتر سے فارغ ہو کر بھی راستہ میں اور پھر کچھ عرصہ تک گھر میں بھی اسی کی طرف اس کا خیال متوجہ رہے گا اور کچھ دیر کے بعد اس کے خیالات ان امور کی طرف متوجہ ہوں گے جن میں یہ اب مشغول ہے.اس حکمت کی وجہ سے رسول کریم ﷺ نے فرائض سے پہلے اور بعد سنتیں مقرر فرما دی ہیں تاکہ اگر نماز پڑھنے سے پہلے کوئی خیالات ہوں تو وہ فرائض کو ناقص نہ کریں بلکہ سنتوں کی ادائیگی میں ان کو دبا کر انسان مطمئن ہو جاوے اور پھر فرائض کی طرف پوری طرح توجہ کر سکے.اسی طرح فرائض کے بعد بھی سنتیں مقرر کر دیں تاکہ اگر نماز کے بعد کوئی ضروری کام ہو تو فرائض کے خاتمہ سے پہلے اس کے خیالات دل میں آکر نماز کو خراب نہ کریں.بلکہ انسان اطمینان کے ساتھ نماز ادا

Page 550

وم جلد ۳ ۵۲۳ ذکرالی کرلے.کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسے خیالات عموماً اسی وقت ہی آکر ستاتے ہیں جبکہ پہلا کام ختم ہونے کو ہو اور دوسرے کے شروع کرنے کا ارادہ ہو جب انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں ابھی فارغ نہیں ہوا بلکہ ابھی سنتیں پڑھنی ہیں تو پھر اس کے خیالات دبے رہتے ہیں اور سنتوں کے مقرر کرنے کی حکمتوں میں سے یہ ایک بہت بڑی حکمت ہے.چنانچہ رسول کریم نے اوقات کے اختلاف کی مناسبت سے سنتیں بھی مقرر کی ہیں.ظہر کی نماز کا وقت چونکہ دوسرے کاموں میں بڑی مصروفیت کا وقت ہوتا ہے اس لئے چار یا دو سنتیں پہلے اور دویا چار بعد میں رکھ دیں.گویا فرضوں کی حفاظت کے لئے یہ دو سپاہی مقرر کر دیے کہ ان میں جو خیالات آنا چاہیں انہیں روک دیں.عصر کی نماز سے پہلے سنتیں نہیں رکھیں ہاں نفل رکھے ہیں.کوئی چاہے پڑھے یا نہ پڑھے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عصر کے وقت ایک لحاظ سے انسان دو سرے کاموں سے فارغ ہو جاتا ہے.دوسرے چونکہ سب کام ختم کرنے کا وقت ہوتا ہے اس لئے اس وقت تھوڑی نماز رکھی ہے.مگر عصر کے بعد سے مغرب تک ذکر رکھ دیا ہے.جیسا کہ میں پہلے بتا آیا ہوں مغرب کی نماز سے پہلے سنتیں اس لئے نہیں رکھیں کہ وقت بہت تنگ ہوتا ہے ہاں بعد میں دو سنتیں رکھ دی ہیں.کیونکہ نماز مغرب کے بعد عام طور پر کھانا کھایا جاتا ہے اور اسی قسم کے کام ہوتے ہیں.یہ سنتیں ان مشاغل کے خیالات سے فرائض کی حفاظت کرتی ہیں.عشاء کی نماز سے پہلے سنن نہیں رکھیں کیونکہ اس نماز سے پہلے جو کام عام طور پر انسان کرتا ہے وہ ایسے نہیں ہوتے کہ ان کا اثر بعد میں بھی قائم رہے.مگر نوافل رکھ دیئے کہ اگر کوئی چاہے اور ضرورت ہو تو پڑھ لے مگر عشاء کے بعد چونکہ سونے کا وقت ہوتا ہے اور سارے دن کے کام کے بعد طبیعت آرام کی طرف متوجہ ہوتی ہے اس لئے بعد میں دو سنتیں اور تین و تر مقرر کر دیئے ہیں جن میں سے وتر پچھلے وقت میں بھی ادا کئے جاسکتے ہیں.صبح کی نماز سے پہلے دو سنتیں رکھی گئی ہیں کیونکہ نیند سے اٹھنے کی وجہ سے نماز میں غفلت نہ ہو.وہ سنتیں غفلت اور نیند کے خیالات کو روک دیتی ہیں.بعد میں سنتیں نہیں رکھیں کیونکہ بعد میں سورج نکلنے تک کے عرصہ میں کوئی خاص کام نہیں ہو سکتا ہاں ذکر رکھ دیا.یہ تو وہ ہیں جو شریعت نے نماز میں توجہ قائم رکھنے کے لئے نماز کے ساتھ وابستہ کر دیئے ہیں.لیکن ان سے فائدہ اسی وقت حاصل ہو سکتا ہے جب انسان ان کو سمجھنے کی کوشش بھی کرے.اسی لئے میں نے ان کو بیان کیا ہے تاکہ آپ لوگ اس سے واقف ہوں اور فائدہ اٹھا ئیں اور انشاءاللہ تعالیٰ

Page 551

العلوم جلد ۳ ۵۲۴ ذکراتی جو لوگ ان حکمتوں کو یاد رکھ کر ان کو عمل میں لائیں گے وہ ضرور فائدہ اٹھا ئیں گے.ہاں یہ بات خوب یاد رکھنی چاہئے کہ انسان کے جسم کے جس طرح جوڑ ہوتے ہیں.اسی طرح قیام رکوع سجود وغیرہ میں جو الفاظ کہے جاتے ہیں وہ نماز کے جوڑ ہیں.ان جوڑوں پر جو کلمات کہے جاتے ہیں ان کی طرف خاص توجہ رکھنی چاہئے.اگر ایسا کیا جائے گا تو نماز بہت مضبوط ہو جائے گی ورنہ گر جائے گی.اب میں وہ طریق نماز میں توجہ قائم رکھنے کے بتاتا ہوں جو نماز کی شرائط میں داخل نہیں ہیں اور نہ انہیں شریعت نے نماز کا جزو مقرر کیا ہے مگر کوئی ان طریق پر عمل کرے تو نماز میں توجہ قائم رہ سکتی ہے.اگر نماز پڑھتے ہوئے توجہ قائم نہ رہے تو آہستہ آہستہ لفظوں کو ادا گیارہواں طریق کرو.انسانی دماغ کی بناوٹ اس قسم کی ہے کہ جو چیز اس میں بار بار داخل کی جائے اس کو وہ فورا سامنے لے آتا ہے.اور جو کبھی کبھی اس کے سامنے آئے.اس کو مشکل سے سامنے لا سکتا ہے.مثلاً زید کو اگر ہر روز دیکھا جائے تو اس کا خیال کرنے میں فورا اس کی شکل سامنے آجائے گی.لیکن اگر کبھی کبھی دیکھا ہو تو اس کا نام سننے یا لینے کے کچھ دیر بعد اس کی شکل ذہن میں آئے گی اور وہ بھی پوری طرح صاف نہ ہوگی.پھر دیکھو جو زبان بچپن میں سیکھی جائے اس زبان میں کوئی عبارت اگر انسان بولے یا سنے تو اس کے الفاظ کے ساتھ ہی معانی اس کے ذہن میں آجاتے ہیں.مثلاً اگر پانی کا لفظ ذہن میں آئے تو بلا کسی وقفہ کے پانی کی حقیقت بھی اس کے ذہن میں آجائے گی.یا اگر روٹی کا لفظ وہ کسی سے سنے تو بلا کسی دیر کے روٹی کے معنی اس کے ذہن میں حاضر ہو جائیں گے.مگر غیر زبان میں جس پر پوری طرح اختیار حاصل نہ ہو یہ بات نہیں ہوتی بلکہ الفاظ کے سننے کے بہت دیر بعد اس کے مطالب ذہن میں آتے ہیں.مثلاً انگریزی پڑھنے والے بچے ، جب تک وہ انگریزی کے پورے ماہر نہیں ہو جاتے جب وہ CAT اپنی کتاب میں پڑھیں گے تو اس لفظ کی حقیقت ان کے ذہن میں دیر بعد آوے گی.مگر بلی کہنے سے فورا اس جانور کی تصویر ان کے ذہن میں آجاوے گی.اسی وجہ سے چونکہ سوائے عربی بولنے والے لوگوں کے عام طور پر مسلمان عربی زبان سے ناواقف ہوتے ہیں.نماز میں بہت سے لوگوں کی توجہ قائم نہیں رہتی کیونکہ توجہ تب قائم رہ سکتی ہے جبکہ مطالب بھی ذہن میں مستحضر ہوں.مگر بوجہ عربی سے ناواقفیت کے جس وقت وہ

Page 552

لوم جلد - ۳ ۵۲۵ ذکراتی عربی عبارتیں پڑھ رہے ہوتے ہیں ساتھ ساتھ ان کے معنی ان کے ذہن میں نہیں آتے بلکہ معنی اور لفظ آگے پیچھے ہو جاتے ہیں.مثلاً جب ایک شخص اِيَّاكَ نَعْبُدُ کہتا ہے تو اس کے ذہن میں اس جملہ کے معنی نہیں بلکہ الرحمنِ الرَّحِيمِ يَا مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ کے معنی آرہے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے پوری طرح توجہ قائم نہیں رہ سکتی اور نہ پوری طرح نماز کا فائدہ حاصل ہوتا ہے.اس لئے ان لوگوں کو جو عربی سے اچھی طرح واقفیت نہیں رکھتے اور اس پر ان کو اس قدر قدرت نہیں کہ مادری زبان کی طرح اس کے الفاظ کے ساتھ ساتھ معانی بھی ذہن میں مستحضر ہو جاویں ان کو چاہئے کہ جب وہ نماز پڑھنے لگیں تو جب تک اس فقرہ کے معنی جو وہ پڑھ رہے ہیں ذہن میں نہ آجادیں آگے نہ چلیں.مثلا وہ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ جب پڑھیں تو جب تک اس کے معنی اچھی طرح ذہن میں نہ آجاویں اَلحَمدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمین نہ کہیں.اور جب تک اس آیت کے معنی ذہن میں نہ آجادیں الرحمن الرحیم نہ کہیں اور اسی طرح سب آیات کے متعلق کریں.کیونکہ اگر ایسا نہ کریں گے تو الفاظ کوئی اور ان کی زبان پر جاری ہوں گے اور معنی ذہن میں کوئی اور آتے ہوں گے.جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خیالات میں انتشار پیدا ہو گا اور انتشار ہوگا تو توجہ نہ پیدا ہو سکے گی.جو لوگ عربی زبان جانتے ہیں وہ بھی اگر جلدی جلدی پڑھتے جائیں تو گو معانی ان کے ذہن میں فورا آجاو یں مگر دل میں جذب ہونے کا ان کو موقعہ نہ ملے گا اس لئے ان کو بھی چاہئے کہ قرآن آہستہ آہستہ پڑھیں اور وقفہ دے دے کر آگے بڑھیں.یہ بات قرآن میں ہی ضروری نہیں بلکہ وعظ و نصیحت میں بھی ایسا ہی کرنا چاہئے.ایک دفعہ ابو ہریرہ جلدی جلدی اور زور زور سے حدیث بیان کر رہے تھے کہ حضرت عائشہ نے کہا یہ کون ہے اور کیا کر رہا ہے.انہوں نے اپنا نام بتایا اور کہا کہ میں آنحضرت ﷺ کی احادیث سنا رہا ہوں.انہوں نے کہا کیا رسول اللہ ا بھی اسی طرح کلام کیا کرتے تھے یہ سن کر وہ خاموش ہو گئے.غرض رسول کریم ان کی یہ سنت ہے کہ آپ نہ صرف قراءت میں بلکہ عام وعظ و نصیحت میں بھی آہستگی سے کام لیتے تھے.پس توجہ قائم رکھنے کے لئے آپ لوگ بھی اس حکم اور سنت پر عمل کریں اس طرح توجہ بڑی عمدگی سے قائم رہے گی.کیونکہ یہ گڑ بڑ نہ رہے گی کہ زبان پر کچھ اور ہے اور دل میں کچھ اور.

Page 553

رالعلوم جلد ۳ ۵۲۶ ذکرالی وہ ہے جو رسول کریم ﷺ نے بتایا ہے مگر اس میں اکثر لوگ کو تا ہی بارہواں طریق کرتے ہیں.وہ طریق یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب کوئی نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو تو اپنی نظر سجدہ کرنے کی جگہ کی طرف رکھے.کئی لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کھڑے ہو کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہماری توجہ قائم رہے گی حالانکہ توجہ آنکھیں کھلی رکھنے سے قائم رہ سکتی ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کھڑے ہونے کے وقت سجدہ کرنے کی جگہ پر نظر ہونی چاہئے.حضرت شهاب الدین صاحب سہروردی اپنی کتاب عوارف المعارف میں تحریر فرماتے ہیں کہ رکوع میں دونوں پاؤں کے درمیان نظر رکھنی چاہئے اور میرے نزدیک یہ درست ہے.اس طرح کرنے سے نظر کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور خشوع بھی زیادہ پیدا ہوتا ہے.نظر کے محدود کرنے میں ایک بہت بڑی حکمت ہے اور وہ یہ کہ انسان کی پیدائش میں خدا تعالیٰ نے یہ بات ودیعت کی ہے کہ اگر اس کی ایک جس کام کر رہی ہوتی ہے تو باقی حسیں بے حس ہو جاتی ہیں.مثلاً جس وقت آنکھیں کمال مصروفیت میں ہوں اس وقت کان بے حس ہو جاتے ہیں.چنانچہ جس وقت آنکھیں پوری پوری طاقت کے ساتھ کسی چیز کے دیکھنے میں مشغول ہوں اس وقت اگر کوئی آواز دے تو وہ سنائی نہیں دے گی اور جب کان پورے طور پر کسی آواز کے سننے میں مصروف ہوں تو ناک کی سونگھنے کی قوت معطل ہو جائے گی.اور جب ناک پوری طاقت کے ساتھ کسی خوشبو کے سونگھنے میں لگا ہوا ہو گا تو کان اور آنکھیں اپنا کام کرنے سے معطل ہو جائیں گی.تو جب ایک جس کام میں لگ جاتی ہے اور اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے تو دوسری حسیں کام نہیں کرتیں.لیکن جب ساری حسیں بے کار ہوں اور کوئی بھی اپنے کام میں مشغول نہ ہو تو یہ نقص پیدا ہو جاتا ہے کہ مختلف خیالات جوش میں آجاتے ہیں.اس کی وجہ یہ کہ جب ایک حس کام کر رہی ہو تو دوسری حسوں سے تعلق رکھنے والے خیالات نہیں آتے.یہی وجہ ہے کہ وہ حس دوسرے خیالات کے آنے کو روک دیتی ہے.پس نماز پڑھتے وقت جب آنکھیں اپنا کام کر رہی ہوں گی اور دیکھنے میں مشغول ہوں گی تو متفرق خیالات ذہن میں نہیں آئیں گے.یہ امر آج ایک طبعی تجربہ کے بعد معلوم ہوا ہے لیکن دیکھو اس طبعی حکمت کو مدنظر رکھ کر آج سے تیرہ سو سال پہلے رسول کریم اللہ ﷺ نے نماز پڑھتے وقت آنکھیں کھلی رکھنے کا ارشاد فرمایا ہوا ہے.پھر آپ نے یہ بھی مدنظر رکھا ہے کہ وہ کونسی حس ہے جو کام میں لگ جائے تو متفرق ه عوارف المعارف الباب السابع والثلاثون في وصف صلاة اهل القرب جلد ۲ صفحه ۱۵

Page 554

ام جلد ۵۲۷ ذکرائی خیالات سے انسان بچ جائے گا.اگر ناک کی جس سے کام لیا جاتا تو اس کے لئے ضروری ہو تاکہ اول خوشبو کا انتظام کیا جاتا پھر ناک کی جس قید نہیں رکھی جاسکتی.متفرق لوگ جو نماز میں شامل ہوتے یا پاس سے گذرتے اگر کئی خوشبو میں استعمال کرنے والے ہوتے تو توجہ بجائے قائم رہنے کے مختلف خوشبوؤں کی وجہ سے ایک طرف سے دوسری طرف پھرتی رہتی.ناک کی طرح کان کی حس بھی قید نہیں رکھی جا سکتی یعنی یہ بات انسان کے اختیار میں نہیں کہ جس بات کو چاہے سنے جس بات کے سننے سے چاہے انکار کر دے.بلکہ جس قدر آوازیں ایک وقت میں بلند ہوں سب کو سننے کے لئے انسان مجبور ہوتا ہے.بلکہ کئی آواز میں اگر یک لخت بلند ہو جاویں تو آدمی کوئی بھی بات نہیں سن سکتا.پس اگر کانوں کو کام کرنے دیا جائے تو وہ یا تو سب آوازوں کو سنیں گے یا بالکل کچھ بھی نہ سنیں گے.مگر بر خلاف ان حسوں کے آنکھیں انسان کے اختیار میں ہوتی ہیں ان کو یہ ایک جگہ پر رکھ سکتا ہے.اور جس چیز کو دیکھنا نہ چاہے اس سے بلا تکلف نظر ہٹا سکتا ہے اور جس چیز کو دیکھنا چاہئے اس پر بلا تکلف نظر کو قائم رکھ سکتا ہے.پس رسول کریم نے خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ماتحت نماز میں توجہ قائم رکھنے کے لئے اسی جس کو چنا اور حکم دیا کہ نماز میں اپنی نظر کو سجدہ کی طرف رکھا کرو.مگر ساتھ ہی حکم دیا کہ سجدہ کے مقام پر کوئی خوبصورت چیز نہ ہو بلکہ نظارہ میں اتحاد ہو.یعنی ایک ہی قسم کا ہو.جب ایک مسلمان اپنی نظر کو سجدہ کے مقام کی طرف رکھے گا.تو اول تو سجدہ کا خیال اس کے دل پر غالب آکر اس کو عبادت کے خیال میں مشغول رکھے گا.دوم اس طرح اس کی دوسری حسیں جن کا قاعدہ ہے کہ یا تو بالکل بند کی جاویں یا بالکل آزاد رہیں بند ہو جائیں گی.تیسرے یہ فائدہ ہوگا کہ چونکہ خیالات کو تحریک دلانے والے بیرونی امور ہی ہوتے ہیں.اور بیرونی امور کی اطلاع انسان حسوں کے ذریعہ سے پاتا ہے مگر آنکھیں چونکہ کام میں لگا دی گئی ہیں اس لئے دوسری حسیں ایک حد تک باطل ہو جاویں گی اور آنکھوں کے سامنے چونکہ کوئی ایسی چیز نہ ہوگی جو نماز کے علاوہ کوئی اور خیال پیدا کر سکے اس لئے نمازی کی توجہ نماز ہی کی طرف قائم رہے گی.رسول کریم ان سے ثابت ہے کہ ایک دفعہ با تصویر پر وہ آپ کی نماز کی جگہ کے سامنے لٹکایا ) گیا تو آپ نے اسے ہٹوا دیا کہ اس سے توجہ قائم نہیں رہتی.یہ حکم آپ نے اپنی امت کے فائدہ کے لئے دیا.سے بخاری کتاب الصلوة - باب ان صلی فی ثوب مصلب ار تصاویر هل تفسد صلاته وما ينهي من ذلك

Page 555

۵۲۸ ذکر الهی جس طرح میں نے بتایا ہے کہ جب کوئی نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس کی نیت تیرہواں طریق اور قصد کر کے کھڑا ہو.اسی طرح اسے یہ بھی چاہئے کہ وہ ارادہ کرے کہ میں نماز میں کسی خیال کو نہیں آنے دوں گا.یوں تو ہر ایک جانتا ہے کہ خیال کو نہیں آنے دینا چاہئے لیکن پرانی بات بھول جایا کرتی ہے اس لئے جب نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس وقت یاد کرلے کہ میں کسی اور خیال کو نماز میں نہیں آنے دوں گا.جب مؤمن امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے کھڑا ہو.تو امام کی قراءت چودہواں طریق اسے جگاتی اور ہوشیار کرتی رہتی ہے.گویا امام اس کی حفاظت کر رہا ہوتا ہے.(اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی کس قدر ضرورت ہے) لیکن جس وقت اکیلا نماز پڑھنے لگے تو اس اعلیٰ درجہ کی بات پر عمل کرے جس پر رسول کریم ، صحابہ کرام اور صوفیائے عظام کرتے تھے.اور وہ یہ کہ بعض آیتیں خاص طور پر خشیت اللہ پیدا کرنے والی ہوتی ہیں ان کو بار بار دہرائے.مثلاً سورۃ فاتحہ پڑھتے وقت اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعینُ بار بار کہے.حتی کہ اگر اس کا نفس ادھر ادھر کے خیالات میں لگا ہو تو نفس کو شرم آجائے کہ منہ سے تو میں اللہ تعالٰی کی غلامی اور بندگی کا دعوی کر رہا ہوں اور عملاً ادھر ادھر بھاگتا پھرتا ہوں.یہ طریق میں ایسے لوگوں کے لئے بتاتا ہوں جن کی نیت زیادہ دیر تک پندرہواں طریق قائم نہیں رہ سکتی.جس طرح ایک بچہ کو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ورده ھ دینے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ وہ زیادہ دیر تک بھوک برداشت نہیں کر سکتا اور اکٹھی غذا ہضم نہیں کر سکتا.اسی طرح بعض لوگوں کو جلدی جلدی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے.وہ اس طرح کریں کہ جب کھڑے ہوں تو یہ نیت کرلیں کہ رکوع تک کوئی خیال نہیں آنے دیں گے اور جب رکوع میں جائیں تو کہیں کہ کھڑے ہونے تک کوئی خیال نہ آنے دیں گے.اسی طرح ہر حالت کے وقت نئی نیت کر لیا کریں.اس سے ان کو ایک ایسی طاقت حاصل ہو جائے گی جس سے ان کے پراگندہ خیالات دور ہو جائیں گے.اگر انسان خیالات کے آگے گر جائے تو پھر وہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے.سولہواں طریق لیکن اگر مقابلہ کرے اور کہے کہ ہرگز نہیں آنے دوں گا تو وہ رک جاتے ہیں.اس لئے چاہئے کہ خیالات کا خوب مقابلہ کیا جائے اور جب کوئی خیال آنے لگے تو فوراً

Page 556

انوار العلوم جلد - r.۵۲۹ ذکرالی اس کو روک دیا جائے.مثلاً کسی کو خیال آنے لگے کہ میرا بچہ بیمار پڑا ہے اب اس کی کیا حالت ہوگی تو فورا یہ کہہ کر روک دے کہ اگر میں یہ خیال دل میں لاؤں گا تو بچہ اچھا نہیں ہو جائے گا اور اگر نہیں لاؤں گا تو زیادہ بیمار نہیں ہو جائے گا اس لئے میں یہ لاتا ہی نہیں.اسی طرح ہر ایک بات کے متعلق کرے حتی کہ ایسے خیالات پر قابو حاصل ہو جاوے.جب گھر میں نوافل پڑھے جائیں تو اس قدر اونچی آواز سے قراءت پڑھنی سترہواں طریق چاہئے کہ آواز کانوں تک پہنچتی رہے.اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ کان چونکہ کسی چیز سے تو بند نہیں کئے جاتے اس لئے کچھ نہ کچھ کام کرتے ہیں.جب آواز سے بھی خدا تعالیٰ کا ذکر ہو جاتا ہے تو پھر توجہ زیادہ قائم ہو جاتی ہے کیونکہ کان بھی ذکر الہی کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں.اس طریق پر زیادہ تر رات کی نماز میں عمل کرنا چاہئے کیونکہ دن کے وقت جو میں ایک شور برپا ہوتا ہے اور کانوں سے اگر کام لیا جائے تو بجائے فائدہ کے بعض دفعہ توجہ بٹ جانے کا خطرہ ہوتا ہے.اٹھارہواں طریق یہ طریق اس حکمت کے ماتحت ہے کہ نیا خیال ہمیشہ نئی حرکت سے پیدا ہوتا ہے.وہ حرکتیں جو نماز میں کی جاتی ہیں.ان میں یہی خیال پیدا ہوتا ہے کہ عبادت کی جائے اس لئے ان سے کوئی حرج نہیں ہو تا.مگر اور حرکات کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ اور طرف توجہ چلی جاتی ہے.اس لئے رسول کریم ا نے فرمایا ہے کہ ضروری حرکت کے سوا نماز پڑھنے کی حالت میں کوئی حرکت نہیں کرنی چاہئے.واقعہ میں غیر ضروری حرکت کرنے سے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہیں.مثلا کسی نے یونہی کوٹ کو ہاتھ لگا دیا.ہاتھ لگاتے وقت اسے خیال آیا کہ یہ کوٹ تو پرانا ہو گیا ہے نیا بنوانا چاہئے.اس پر خیال آیا کہ کوٹ کے لئے روپیہ کہاں سے آئے تنخواہ تو بہت تھوڑی ہے پھر یہ کہ تنخواہ ملے ہوئے بھی دیر ہو گئی ہے.پھر اگر افسر کی غلطی سے تنخواہ میں دیر ہوئی ہوگی تو افسر کو برا بھلا کہے گا اور ان خیالات میں ہی محو ہو جائے گا کہ اب میں اس کے ساتھ یوں کروں گا پھر یوں کروں گا اسی طرح کرتے کرتے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کی آواز آجائے گی اور وہ بھی سلام پھیر دے گا.تو چونکہ نئی حرکت ایک نیا خیال پیدا کر دیتی ہے اس لئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ نماز میں کوئی نئی حرکت نہیں کرنی چاہئے.اور یہاں تک فرمایا کہ اگر سجدہ کے مقام پر کنکر پڑے ہوں تو ان کو بھی نہیں ہٹانا چاہئے اور اگر بہت تکلیف ہو تو ایک دفعہ ہٹا دینا چاہئے.پس نماز پڑھتے

Page 557

۵۳۰ ذکرائی ہوئے اس قسم کی حرکات سے بکلی بچنا چاہئے.قیام اور رکوع اور سجدہ کی حالت میں چستی کی شکل رکھنی چاہئے.یعنی جب انیسواں طریق کھڑا ہو تو مضبوطی اور ہوشیاری سے کھڑا ہو.یہ نہیں کہ ایک ٹانگ پر بوجھ ڈال کر دوسری کو ڈھیلا چھوڑ دیا جائے.کیونکہ جب ستی اختیار کی جاتی ہے تو دشمن قبضہ پالیتا ہے.پھر ظاہری چستی کا اثر باطنی چستی پر بھی پڑتا ہے اسی لئے رسول کریم ال نے حکم دیا ہے کہ تمام حرکات میں چست رہنا چاہئے.بعض صوفیاء نے اس میں اسراف سے کام لیا ہے.اگر چہ میں اسراف کو بیسواں طریق پسند نہیں کرتا لیکن مؤمن فائدہ اٹھا سکتا ہے.جنید بغدادی ایک بڑے بزرگ گزرے ہیں.شبلی ان کے شاگر د تھے جو بہت اخلاص اور خشیت اللہ رکھتے تھے.آپ ایک صوبہ کے گورنر تھے ایک دفعہ بادشاہ کے دربار میں جو آئے تو ایک بڑے سردار کو جس نے کوئی بہت بڑی خدمت کی تھی ان کے سامنے انعام کے طور پر خلعت دیا گیا اس سردار کو کچھ ریزش تھی اس لئے اس کے ناک سے پانی بہہ گیا.رومال لانا بھول گیا تھا.بادشاہ سے نظر بچا کر اس خلعت سے اس نے ناک پونچھ لی.بادشاہ نے دیکھ لیا اور سخت غصے ہو کر کہا ہماری خلعت کی یہی قدر کی ہے.شبلی کے دل میں چونکہ خشیت الہی تھی اس لئے ان کے قلب پر اس واقعہ کا ایسا اثر ہوا کہ بیہوش ہو گئے اور جب ہوش آیا تو کہا کہ میں گورنری سے استعفیٰ دیتا ہوں.بادشاہ نے وجہ پوچھی تو کہا کہ آپ نے اس سردار کو خلعت دی تھی جس کی اس نے بے قدری کی تو آپ اس پر اس قدر ناراض ہوئے ہیں.لیکن خدا نے جو مجھے بے شمار نعمتیں دی ہیں اگر میں ان کی ناقدری کروں گا اور ان کا شکریہ ادا نہ کروں گا تو مجھے کس قدر سزاملے گی.اس کے بعد آپ جنینڈ کے پاس گئے اور کہا کہ مجھے اپنا شاگرد بنا لیجئے.انہوں نے کہا میں تجھے شاگرد نہیں بناتا تو گورنر رہا ہے.اور اس حالت میں تو نے مخلوق خدا پر کئی قسم کے ظلم کئے ہوں گے.انہوں نے کہا اس کا کوئی علاج بھی ہے.جنید نے کہا کہ جس علاقہ کے تم گورنر رہے ہو اس میں جاؤ اور ہر گھر میں جاکر کہو کہ اگر مجھ سے کسی پر کوئی ظلم ہوا ہے تو وہ بدلہ لے لے.چنانچہ انہوں نے اسی طرح کیا.آپ کے متعلق لکھا ہے کہ آپ جب نفل پڑھتے اور جسم میں کسی قسم کی ستی پاتے یا دل میں ایسے خیالات آتے جو ان کو دوسری طرف متوجہ کرنا چاہتے تو سوٹی لے کر اپنے جسم کو پیٹنا

Page 558

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۳۱ ذکر الهی شروع کر دیتے حتی کہ سوئی ٹوٹ جاتی اور پھر پڑھنا شروع کرتے ابتداء میں تو لکڑیوں کا گٹھا اپنے پاس رکھتے تھے.یہ غلو تھا اور میرے خیال میں اسلام اس کو پسند نہیں کرتا.لیکن یہ ان کے اپنے نفس کے متعلق معاملہ ہے اس لئے میں ان پر کوئی اعتراض بھی نہیں کرتا.ہاں میرے نزدیک نفس کو سزا دینے کا یہ طریق ہے کہ اگر کسی رکعت میں کوئی خیال پیدا ہو تو دیکھنا چاہئے کہ کس عبارت کے پڑھتے وقت وہ خیال پیدا ہوا ہے.جب یہ معلوم ہو جائے تو اسی جگہ سے پھر پڑھنا شروع کر دینا چاہئے.اس طرح کرنے سے جب نفس یہ دیکھ لے گا کہ یہ تو خدا تعالٰی کی طرف ہی جھک رہا ہے اور میری نہیں مانتا تو انتشار پیدا کرنے سے رک جائے گا اور سکون حاصل ہو جائے گا.یہ طریق ایک لحاظ سے بہت بڑا اور بہت زیادہ کام میں آنے والا ہے اور وہ اکیسواں طریق یہ کہ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (المؤمنون : ۴) مؤمن کوئی لغو کام نہیں کیا کرتے.جن لوگوں کو لغو خیالات کی عادت ہوتی ہے انہیں کے دلوں میں نماز پڑھتے وقت دوسرے خیالات آتے ہیں.لیکن اگر وہ اس طرح کریں کہ شروع دن سے ہی اس قسم کے خیالات نہ آنے دیں.تو ان کو انتشار کی حالت پیدا ہی نہیں ہو گی.لیکن اکثر لوگ شیخ چلی کی طرح خیالات میں پڑے رہتے ہیں.حالانکہ ان کا کوئی فائدہ نہیں ہو تا.ایسے خیالات جو محض قیاسی اور ظنی ہوں ان میں مشغول ہونے کے لئے نفس کو ہر گز اجازت نہیں دینی چاہئے.ہاں مفید اور فائدہ رساں باتوں کے متعلق سوچنے میں کوئی حرج نہیں ہے.خصوصاً ان امور پر سوچنا جو پہلے ہو چکے ہوں اور ان پر اب سوچنے سے کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا فکر کرنا تو حد درجہ کی جہالت ہے.یہ ایک ظاہر بات ہے کہ انسانی طاقتوں کو جس طرف لگایا جاوے وہ ادھر ہی متوجہ ہو جاتی ہیں.پس جب کوئی شخص نا معقول خیالات میں دماغ کو لگاتا ہے تو پھر وہ معقول باتوں کی طرف توجہ کرنے کے قابل نہیں رہتا.پس لغو خیالات سے دماغ کو روک کر اعلیٰ اور مفید خیالات پر لگانا چاہئے.جب یہ کوشش کی جائے گی ہمیشہ مفید امور پر غور کرنے کی طرف طبیعت متوجہ اور ایک امر میں مشغول ہونے کی حالت میں دوسری طرف خیالات کو لگا دینا مفید نہیں، لغو ہے.الا ماشاء اللہ پس ایسے شخص کا دماغ جس نے اسے مفید باتوں پر غور کرنے کی عادت ڈالی ہے نماز کے وقت ادھر ادھر جائے گا ہی نہیں.-

Page 559

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۳۲ ذکراتی یہ بھی ایک عظیم الشان طریق ہے اور روحانیت کے اعلیٰ کمال پر پہنچا دیتا بائیسواں طریق ہے.رسول کریم ﷺ سے پوچھا گیا تھا کہ احسان کیا ہے.آپ نے فرمایا - اَنْ تَعْبُدَ اللهَ كَانَّكَ تَرَاهُ وَإِنْ لَمْ تَكُن تَرَاهُ فَإِنَّهُ يَرَاكَ بخاری کتاب الایمان انسوال جبريل النبي عن الايمان والاسلام والاحسان و علم الساعة، خدا تعالیٰ کی اس طرح عبادت کی جائے کہ گویا بندہ خدا کو دیکھ رہا ہے یا کم از کم یہ خیال ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے.پس جب نماز پڑھنے کے لئے کھڑے ہو تو یہی نقشہ اپنی آنکھوں کے سامنے جماؤ کہ گویا خدا تعالیٰ کے حضور کھڑے ہو اور وہ تمہیں سامنے دکھائی دے رہا ہے.کسی شکل میں نہیں بلکہ اپنے جلال اور عظمت کے ساتھ.اس طرح خدا تعالیٰ کی عظمت اور جبروت دل میں بیٹھ جاتی ہے اور نفس سمجھ لیتا ہے کہ ایسے وقت میں اسے کوئی لغو حرکت نہیں کرنی چاہئے.پھر اگر خدا کو نہ دیکھ سکو تو کم از کم اتنا تو یقین ہو کہ خدا مجھے دیکھ رہا ہے اور میرے دل کے تمام خیالات کو پڑھ رہا ہے.انسان دیکھے کہ اس وقت جب کہ میں زبان سے الحمد للہ کہہ رہا ہوں میرا دل بھی الحمد للہ کہہ رہا ہے یا کسی اور خیال میں مشغول ہے.اور اگر دل کسی طرف متوجہ ہے تو اس کو ملامت کرے اور اپنی زبان کے ساتھ شامل کرلے.رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ بندہ جو دو رکعت بھی ایسی پڑھتا ہے کہ ان میں اپنے نفس سے کلام نہیں کرتا اس کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.اب غور کرو کہ وہ انسان جس کو ہمیشہ ہی یہ حالت میسر ہو وہ کس قدر فضیلت حاصل کرلے گا.پس نماز میں خدا تعالیٰ کی طرف توجہ قائم رکھنا کوئی معمولی بات نہیں ہے.پھر یہ طریق جو محض خدا تعالیٰ کے احسان اور فضل سے میں نے آپ لوگوں کو بتائے ہیں ان کو معمولی نہ سمجھنا اہئے بلکہ ان کو پورے طور پر عمل میں لاؤ اور یاد رکھو کہ اگر عمل میں لاؤ گے تو بہت برکت پاؤ گے.نماز کے خاتمہ پر جو السلام علیکم کہا جاتا ہے اس میں بھی عجیب اشارہ ہے.اور اس میں توجہ کے قائم رکھنے کی طرف انسان کو متوجہ کیا گیا ہے.دیکھو السلام علیکم اس وقت کہا جاتا ہے جبکہ کوئی شخص کہیں سے آتا ہے.نماز ختم کرنے کے وقت جب ایک مؤمن السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتا ہے تو گویا وہ یہ کہتا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے حضور اپنی عبودیت کا اظہار کرنے کے لئے گیا تھا اب وہاں سے واپس آیا ہوں اور تمہارے لئے سلامتی اور رحمت لایا ہوں.مگر چونکہ وہ شخص تمام وقت وہیں موجود ہوتا ہے اس لئے اس کا یہی مطلب لیا جا سکتا ہے کہ اس کی روح

Page 560

ا العلوم جلد ۳ ۵۳۳ ذکرالی اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گری ہوئی تھی اور وہ عبادت میں ایسا مشغول تھا کہ گویا اس دنیا سے غائب تھا.غرض السلام علیکم کا کہنا نماز کے خاتمہ پر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مؤمن کو چاہئیے کہ ہوشیار ہو کر اپنی نماز کی حفاظت کرے کیونکہ اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہوتا ہے.اس لئے خدا تعالٰی نے بھی فرمایا ہے.وَهُمُ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ) (الأنعام ) (۹۳) مؤمنوں کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ اپنی نمازوں کی خوب حفاظت کرتے ہیں.یعنی شیطان ان کی نمازوں کو خراب کرنا چاہتا ہے لیکن وہ اس کے حملوں سے اسے اچھی طرح بچاتے ہیں.پس ہر ایک کو چاہئے کہ اپنی نماز کی حفاظت کرے اور جب نماز پڑھنے کھڑا ہو تو یہ سمجھے کہ خدا کے حضور چلا گیا ہوں.اور جب نماز ختم کرے تو اپنے دائیں اور بائیں لوگوں کو بشارت دے کہ میں تمہارے لئے سلامتی لایا ہوں.لیکن اگر کوئی شخص خدا کے حضور نہیں جاتا بلکہ اپنے خیالات میں ہی مشغول رہتا ہے تو اسے سوچنا چاہئے کہ جب وہ السلام علیکم و رحمتہ اللہ کہتا ہے تو کس قدر جھوٹ بولتا ہے.وہ لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ میں خدا کے حضور سے آ رہا ہوں حالا نکہ وہ وہاں گیا ہی نہیں تھا.پس آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ پوری طرح اپنی نماز کی حفاظت کریں اور شیطان سے خوب مقابلہ کرتے رہیں جو آپ کو خدا کے حضور سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے.اور یاد رکھیں کہ اگر آپ ساری نماز میں بھی اس سے مقابلہ کرتے رہیں گے اور اس کے آگے گریں گے نہیں تو خدا تعالٰی آپ کو اپنے دربار میں ہی سمجھے گا.لیکن اگر گر جائیں گے تو خدا تعالیٰ بھی آپ کا ہاتھ چھوڑ دے گا.اس لئے آپ کو مقابلہ ضرور کرتے رہنا چاہئے.اگر اس طرح کریں گے تو آخر کار آپ ہی کامیاب ہوں گے.اس وقت تک میں نے تین قسم کے ذکروں کا بیان کیا ہے.اول نماز.دوم قرآن ذکر جهری کریم.سوم وہ اذکار جو نماز کے علاوہ کئے جاتے ہیں لیکن علیحدگی میں کئے جاتے ہیں.اب ایک قسم کا ذکر باقی رہ گیا ہے اور وہ ذکر ہے جو مجالس میں کیا جاتا ہے.اس ذکر کے بھی دو طریق ہیں.کہ اپنے ہم مذہبوں کے ساتھ جہاں ملنے کا موقعہ ملے وہاں بجائے لغو اور اول یہ طریق بیہودہ باتوں کے خدا تعالیٰ کی طاقتوں، اس کے جلال اور اس کے احسانات کا ذکر کیا جاوے اس کی آیات کا بیان ہو اس سے دل صاف ہوتا ہے اور قلب پر نہایت نیک اثر پڑتا ہے.رسول کریم ﷺ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ آپ گھر سے باہر تشریف لائے تو

Page 561

لوم جلد - ۳ ۵۳۴ ذکر الهی دیکھا کہ مسجد میں کچھ لوگ نماز میں مشغول ہیں اور کچھ ایک حلقہ کئے بیٹھے ہیں اور دین کی باتیں کر رہے ہیں.رسول کریم ال ان لوگوں میں بیٹھ گئے جو حلقہ کئے بیٹھے تھے اور فرمایا کہ یہ کام اس سے افضل ہے جو دوسرے لوگ کر رہے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ذکر جہری بعض اوقات ذکر تری پر فضیلت رکھتا ہے.بعض اوقات میں نے اس لئے کہا ہے کہ وہ بھی اپنے وقت پر ضروری ہوتا ہے.ہاں جس وقت لوگ جمع ہوں اس وقت ذکر جہری مفید ہوتا ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ دوسرے لوگوں کے تجربات سن کر اور اپنے ان کو سنا کر استفادہ اور افادہ کا زیادہ موقعہ ملتا ہے اور ایسے وقت میں علیحدہ ذکر کرنا بعض دفعہ باعث ریا بھی ہو جاتا ہے.قرآن کریم کا درس بھی اسی قسم کے اذکار میں داخل ہے اور اپنے ہم مذہبوں میں دین کے متعلق خطب و وعظ بھی اسی میں شامل ہیں.اس ذکر کی یہ ہے کہ جو مخالفوں کی مجالس میں کیا جاتا ہے.اسلام کے سوا باقی تمام مذاہب اللہ تعالیٰ کی صفات میں کچھ نہ کچھ کمی اور زیادتی کے مرتکب ہیں.پس ان کے سامنے اللہ تعالٰی کو اس کی اصلی شان اور شوکت میں ظاہر کرنا بھی ایک ذکر ہے.جیسے کہ سورہ مدثر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آيَاتِهَا المُدَيَّرَه قُم فَانْذِرُ وَرَبِّكَ فَكَبِّرُ المدثر : ۲-۴) لوگوں کو عذاب الہی سے ڈرانے کے علاوہ ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی بڑائی بیان کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور تکبیر ذکر میں داخل ہے.پس غیر مذاہب کے لوگوں کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات کو بیان کرنا اور ان کے اثبات پر دلائل دینا بھی ذکر الہی میں شامل ہیں.سورۃ اسْمَ رَبِّكَ الأعلى (الاعلیٰ : ۲) میں بھی اسی ذکر کی طرف اشارہ کیا ہے اور صاف الفاظ میں دوسری قسم فَذَكَرَ إِنْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى (الاعلی : ۱۰) کہہ کر اس کا نام صاف طور پر ذکر رکھا ہے.اب میں ذکر کرنے کے کچھ فوائد بتاتا ہوں.سب سے بڑا فائدہ جو ذکر کرنے ذکر کے فوائد سے حاصل ہوتا ہے وہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رضا حاصل ہو جاتی ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ نیک کام ہے اس لئے دوسرے کاموں کی طرح اس سے خدا راضی ہو جاتا ہے.بلکہ اس سے خاص طور پر راضی ہوتا ہے کیونکہ جس قدر کوئی بڑا کام ہو اسی قدر اس کا بڑا انعام بھی دیا جاتا ہے.ذکر کے متعلق ایک جگہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَلَذِكْرُ اللهِ اكْبَرُ کہ اللہ کا ذکر بہت بڑا ہے.اور دوسری جگہ فرماتا ہے.وَ عَدَ الله الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا وَ مَسَكنَ.گر

Page 562

العلوم جلد ۳۰ ۵۳۵ ذکرانی جَنَّتِ عَدْنٍ ، وَرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ اكبر را توبه : ۷۲) کہ سب سے بڑا انعام رضوان اللہ ہے.چونکہ اکبر کا انعام بھی اکبر ہی ہو سکتا ہے.اصغر نہیں.اس لئے ان دونوں اکبروں نے بتا دیا کہ رضوان اللہ کس کے بدلہ میں ملتی ہے.ذکر اللہ کے بدلہ میں اس آیت میں خدا تعالیٰ نے دوسرے انعامات کو بیان فرما کر وَ رِضْوَانُ مِنَ اللهِ اَكْبَرُ سے جلا دیا کہ رضوان کوئی اور نئی چیز ہے اور یہ سب سے اکبر ہے اور واقعہ میں بندہ کے لئے سب سے بڑا انعام یہی ہے کہ اللہ اس پر راضی ہو جائے.اس بڑے انعام کو حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے فرما دیا کہ ذکر اللہ کرد گے تو یہ دوسرا اکبر جو رضوان اللہ ہے مل جائے گا.دوسرا فائدہ یہ ہے کہ اس سے اطمینان قلب حاصل ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِينَ آمَنُوا وَتَطْمَئِنُّ قُلُوبُهُمْ بِذِكْرِ اللهِ ، اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ( الرمن (٢٩) قلوب کو ذکر سے طمانیت حاصل ہوتی ہے کیوں ؟ اس لئے کہ گھبراہٹ اس وقت پیدا ہوتی ہے جبکہ انسان یہ سمجھے کہ میں اس مصیبت سے ہلاک ہونے لگا ہوں اور اگر اسے یہ یقین ہو کہ ہر ایک مصیبت اور تکلیف کا علاج ہے تو وہ نہیں گھبرائے گا.پس جب کوئی شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ غیر محدود طاقتیں رکھتا ہے اور ہر قسم کی تکلیفوں کو دور کر سکتا ہے تو اس کا دل کہتا ہے کہ جب میرا ایسا خدا ہے تو پھر مجھے کسی مصیبت سے گھبرانے کی کیا ضرورت ہے.وہ خود اس کو دور کر دے گا اس طرح اس کو اطمینان حاصل ہو جاتا ہے.تیسرا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے بندہ کو خدا تعالیٰ اپنا دوست بنا لیتا ہے اور اسی دنیا میں اسے اپنی بارگاہ میں یاد کرتا ہے.فَاذْكُرُونِی اذْكُرُكُمْ وَاشْكُرُوا لِي وَلَا تَكْفُرُونِ (البقره: (۱۵۳) اے میرے بندو! تم میرا ذکر کرو میں تمہارا ذکر کروں گا.خدا تعالیٰ کا یاد کرنا یہی ہے کہ اپنے حضور باریابی بخشتا ہے.جس طرح دنیا میں بادشاہ کا کسی کو یاد کرنا یہی ہوتا ہے کہ اس کو اپنے دربار میں بلاتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ بھی کرتا ہے.چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کا ذکر انسان کو بدیوں سے روکتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الكِتبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ ، إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ ، وَ لَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ ، وَ اللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ (العنكبوت :(٢٦) رسول کریم کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تجھ کو خدا نے جو کتاب دی ہے وہ لوگوں کو پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر.نماز بدیوں اور برائیوں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر کرنا بہت بڑا ہے اور جو کچھ

Page 563

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۳۶ ذکراتی تم کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے.جیسا کہ پہلے میں نے بتایا ہے نماز بھی ذکر اللہ ہے.اس سے ثابت ہو گیا کہ ذکر اللہ بدیوں اور برائیوں سے روکتا ہے.کیوں ؟ اس لئے کہ ذکر اللہ ایک بڑی بھاری چیز ہے اس کو جب شیطان کے سر پر مارا جائے گا تو وہ مرجائے گا اور برائیوں کی تحریک نہیں کرے گا.پانچواں فائدہ یہ ہے کہ دل مضبوط ہوتا ہے مقابلہ کی طاقت پیدا ہوتی ہے انسان ہارتا نہیں بلکہ مقابلہ میں مضبوطی سے کھڑا رہتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ( وقال : ۴۶) اے مسلمانو جب کسی طاقت کے مقابلہ میں جاؤ اور وہ زبر دست ہو تو اس کے لئے یہ کیا کرو کہ کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا شروع کر دیا کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمہارے دشمن کے پاؤں اکھڑ جائیں گے اور تم اس پر فتح پالو گے.چھٹا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والا انسان اپنے ہر مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے بشرطیکہ وہ سچے دل سے ذکر کرتا ہو.اس کا ثبوت بھی اسی آیت سے نکلتا ہے.جو میں نے پانچویں فائدہ شاهرود کے متعلق پڑھی ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ اذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ الله تعالى کا ذکر کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ.ساتواں فائدہ یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سات آدمیوں کے سر پر خدا کا سایہ ہو گا.(سنن الترمذی ابواب الترصد باب ماجاء في الحب في الله اور ان میں سے ایک ذکر کرنے والا ہو گا.رسول کریم و فرماتے ہیں کہ وہ ایسا خطرناک دن ہو گا کہ تمام نبی ڈرتے ہوں گے اور خدا تعالیٰ اس دن ایسا غضبناک ہو گا جیسا کبھی نہیں ہوا.کیونکہ تمام شریر لوگ اس کے سامنے پیش کئے جائیں گے.سورج بہت قریب ہو جائے گا.ایسی حالت میں جس پر خدا تعالیٰ کا سایہ ہو گا سمجھ لینا چاہئے کہ وہ کیسا خوش قسمت ہو گا.آٹھواں فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے کی دعا قبول ہو جاتی ہے.قرآن کریم میں جو دعا ئیں آئی ہیں ان سے پہلے ذکر یعنی تسبیح اور تحمید بھی آئی ہے.پہلی دعا سورۃ فاتحہ ہی ہے.اس کو بِسمِ اللهِ NOKAKLAND ON NNOUN: NONGUAGE للهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ 0 سے شروع کیا ہے.اور اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کو درمیان میں رکھا ہے.جو آدھی خدا تعالیٰ کے لئے اور آدھی بندہ کے لئے ہے.پھر اهْدِنَا القِرَاط

Page 564

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۳۷ ذکرالی ، O المُستَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ، غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ فرمایا یہ دعا ہے.تو پہلے خدا تعالیٰ نے ذکر رکھا ہے اور بعد میں دعا.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ جب کوئی سوالی کسی کے پاس آتا ہے تو پہلے اس کی تعریف کرتا ہے اور پھر اپنا سوال پیش کرتا ہے.تو جب انسان خدا کے حضور جاتا ہے تو اسے پہلے خدا تعالیٰ کی قدرت اور اپنے عجز کا اقرار کر لینا چاہئے.حضرت یونس علیہ السلام نے بھی اپنے متعلق اسی طرح دعا کی ہے کہ لا اله الا انت سُبْحَنَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ (الانباء: ۸۸) پہلے خدا تعالیٰ کی تسبیح بیان کی ہے اور پھر اپنی حالت پیش کی ہے.پھر رسول کریم ﷺ فرماتے ہیں مِّنْ شَغَلَهُ ذِكْرِى عَنْ مَسْئَلَتِى اعطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِي السَّائِلِينَ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو کوئی میرے ذکر میں لگا رہتا ہے اسے میں اس کی نسبت جو مانگتا رہتا ہے زیادہ دیتا ہوں.اس حدیث کا یہ مطلب نہیں کہ دعا نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ سورۃ فاتحہ جو ام القرآن ہے اس میں ذکر کے ساتھ دعا بھی ہے.اور قرآن کریم میں اور احادیث میں کثرت سے دعائیں سکھائی گئی ہیں.بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس شخص سے جو ذکر نہ کرے اور دعا ہی کرے اس کو زیادہ دیا جاتا ہے جو دعا کے علاوہ ذکر بھی کرے اور دعا کے وقت میں سے بچا کر ذکر کے لئے وقت خرچ کرے.نواں فائدہ یہ ہے کہ گناہ معاف ہوتے ہیں رسول کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جو تکبیرو تحمید و تسبیح کرتا ہے.اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں گو مثل زبد البحر یعنی سمندر کی جھاگ کے برابر کیوں نہ ہوں.( ترندی ابواب الدعوات باب ما جاء في الدعا اذا اوى الى فراشه) دسواں فائدہ یہ ہے کہ عقل تیز ہو جاتی ہے.اور ذاکر پر ایسے ایسے معارف اور نکات کھلتے ہیں کہ وہ خود بھی حیران ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الليلِ وَالنَّهَارِ لَايْتِ لِأُولِى الاَلبَابِ ٥ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيَامًا وَ قُعُودًا وَ عَلى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا با طلا ، سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ٥ ( آل عمران : ۱۹۱-۱۹۲) کہ زمین اور آسمان کی پیدائش اور دن اور رات کے اختلاف میں بہت سی نشانیاں ہیں مگر انہی لوگوں کے لئے جو عقل والے ہوں.پھر بتایا کہ عقل والے لوگ وہ ہوتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے ذکر میں مشغول اور اس کے کاموں پر فکر کرنے میں مصروف رہتے ہیں.

Page 565

دم جلد.۵۳۸ ذکرالی گیارہواں فائدہ یہ ہے کہ تقویٰ پیدا ہوتا ہے.حدیث میں آتا ہے فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِى نَفْسِى وَ إِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَاءِ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ وَ إِنْ تَقَرَّبَ إلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِ اتَيْتُهُ مَرْوَلَةً (بخاری کتاب التوحید باب قول الله تعالى ويحذركم الله نفسه ( آنحضرت فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ جب دل ہی دل میں میرا ذکر کرتا ہے تو میں بھی اپنے دل ہی دل میں اس کا ذکر کرتا ہوں.مثلاً جب انسان کہتا ہے سبحان اللہ یعنی پاک ہے تو اے اللہ تو خدا تعالیٰ بھی اس بندہ کی نسبت کہتا ہے کہ تجھے بھی پاکی حاصل ہو.اور جب خدا تعالیٰ یہ کہہ دیتا ہے تو حاصل ہو ہی جاتی ہے.پھر فرماتا ہے جب بندہ لوگوں میں بیان کرتا ہے تو میں ان لوگوں سے بہتر جن میں وہ میرا ذکر کرتا ہے اس کا ذکر کرتا ہوں.یعنی متقیوں اور نیکوں میں اس کا ذکر بلند کرتا ہوں اور دنیا اقرار کرتی ہے کہ وہ متقی ہے.بارہواں فائدہ یہ ہے کہ محبت بڑھتی ہے کیونکہ انسان کا قاعدہ ہے کہ جس چیز سے ہر وقت اسے تعلق رہے اس سے انس پیدا ہو جاتا ہے.حتی کہ جس گاؤں یا شہر میں آدمی رہتا ہے اس سے بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.پس جب بندہ صبح و شام بلکہ ہر موقعہ پر خدا تعالیٰ کو بار بار یاد کرتا اور نام لیتا ہے تو آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں بڑھتی جاتی ہے.ہیں ذکر اللہ کے فوائد جو میں نے مختصر طور پر بیان کر دیتے ہیں.اور دعا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اور مجھے بھی خدا تعالیٰ ان سے مستفید کرے.آمین

Page 566

۵۳۹ ذکر الهی انوار العلوم جلد ۳۰ لے اور خاص کر اخبار الفضل کیونکہ اس میں حضور کے خطبات وغیرہ نہایت محنت اور کوشش سے مرتب کر کے بالترتیب شائع کئے جاتے ہیں.کی (مرتب کننده) کہ (نوٹ) حضور یہاں تک فرما چکے تھے کہ کسی شخص نے سوال کیا کہ جن فرشتوں کو آپ نے دیکھا ہے ان کی شکل کیا تھی.اس کے متعلق آپ نے فرمایا کہ فرشتوں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں.اور میں نے ان کو مختلف رنگوں میں دیکھا ہے اور بعض کے تو ایسے رنگ تھے.جو دنیا میں ہیں ہی نہیں.اصل بات یہ ہے کہ فرشتے اپنی اصلی شکل میں انسان کو دکھائی نہیں دے سکتے.اس لئے وہ کبھی کسی انسان کی شکل میں اور کبھی کسی اور شکل میں نظر آتے ہیں.کے حضرت خلیفہ المسیح الثانی یہاں تک فرما چکے تھے کہ کسی صاحب نے دریافت کیا کہ کیا جمعہ کے دن بھی قرآن پڑھنا چاہئے اگر پڑھنا چاہئے تو اس دن درس کیوں نہیں ہوتا.(قادیان میں جمعہ کے دن درس نہیں دیا جاتا، اس کے متعلق حضور نے فرمایا.جمعہ کے دن بھی قرآن کریم پڑھنا چاہئے.اور درس اس لئے نہیں ہو تاکہ وہ ایک قسم کی تعلیم ہے اور جمعہ کو مسلمانوں کے لئے چھٹی کا دن مقرر کیا گیا ہے.اس لئے تعلیمی کام چھوڑ دیئے جاتے ہیں.دوسرے اس دن ایک اور عبادت بڑھادی گئی ہے.اور وہ خطبہ ہے.وہی درس کا قائم مقام ہو جاتا ہے.ہے کسی نے عرض کیا کہ کیا اس طرح پڑھنے کے لئے تسبیح رکھ لی جائے.اس کے متعلق حضور نے فرمایا کہ یہ بدعت ہے.ه (نوٹ) کسی صاحب نے سوال کیا کہ کیا اپنی بیوی سے بھی نہ کرے.حضور نے فرمایا کہ کسی خاص ضرورت کے بغیر کسی سے نہ کرے.خواہ بیوی ہی ہو.لا آیت الکرسی یہ ہے.اللہ لا الہ الام هو الحي القيوم لا تأخذه سنة ولا نوم له ما في السموت وما في الارض من الذي يشفع عنده الا باذنه يعلم ما بين ايديهم وما خلفهم، ولا يحيطون بشيء من علمه الا بما شاء وسع كرسيه السموت والارض ولا يؤده حفظهما ء و هو العلى العظيم (البقره ۲۵۶) تینوں قل یہ ہیں بسم الله الرحمن الرحیم قل هو الله احد الله الصمد لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احده بسم الله الرحمن الرحيم.قل اعوذ برب الفلق من شر ما خلق و من شر غاسق اذا وقب ومن شر النفشت في العقد ومن شر حاسد اذا حسده بسم الله الرحمن الرحيم.قل اعوذ برب الناس 0 ملك الناس وا له الناس من شر الوسواس الخناس الذي يوسوس في صدور الناس من الجنة والناس

Page 567

Page 568

انوار العلوم جلد - ۳ ۵۴۱ عید الاضحی پر مسلمانوں کا فرض عید الاضحی اور مسلمانوں کا فرض (قربانی کی حقیقت اور اس کا فلسفہ) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 569

۵۴۲

Page 570

وم جلد ۳۰ ۵۴۳ عید الاضحی پر مسلمانوں کا فرض محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم بسم الله الرحمن الرحیم اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عید الاضحی پر مسلمانوں کا فرض عید الاضحی قریب آرہی ہے اور ہر مسلمان کو اس بچی قربانی کی طرف متوجہ کر رہی ہے جو اسے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا دیتی ہے.وہ ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جو لوگ خدا تعالی کے لئے فنا ہوتے ہیں وہ دائی بقا حاصل کرتے ہیں.چنانچہ آج سے چار ہزار سال پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب اپنے اکلوتے بیٹے کو خدا تعالٰی کے لئے ذبح کرنا چاہا اور اپنے لئے ہمیشہ کی فنا کو قبول کر لیا تو اللہ تعالٰی نے بھی ہمیشہ کے لئے آپ کے نام کو بلند کر دیا.کیا آج مختلف ممالک کے لوگوں کا اس یاد کو تازہ کرنا اور اس مثال کو سامنے رکھ کر اپنے وجود کو قربانی کے لئے پیش کرنا اس امر کا ثبوت نہیں کہ خدا تعالٰی کی خاطر فنا ہونے والے ہمیشہ کی زندگی پاتے ہیں.پس عید الاضحیٰ کے موقعہ سے سبق حاصل کر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے آپ کو کچی قربانی کے لئے تیار کریں جو خدا کی رضا کے حصول کے لئے اپنے آپ کو فنا کر دینے کا نام ہے.اللہ تعالی فرماتا ہے.لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَالِكِنْ يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ (الج : ۳۸) یعنی قربانیوں کا گوشت اور خون اللہ تعالی کے حضور میں ہرگز قبول نہ ہو گا بلکہ جس نیک نیت اور نیک ارادے سے تم کام کرتے ہو وہ اس کے حضور میں قبول ہو گا.پس چاہئے کہ مسلمان عید پر ظاہری قربانی پر زور دینے کی بجائے باطنی قربانی پر زور دیں تاکہ اسلام کو فائدہ ہو اور خدا تعالیٰ کا نور دنیا میں پھیلے.اے دوستو! اگر ساری دنیا کے بیل اور گائے ہم بر سر میدان ذبح کر ڈالیں تو سوائے ایک ظاہری علامت کے اس کا اور کوئی فائدہ نہ ہو گا.لیکن اگر ہم میں سے ایک شخص ابراہیم علیہ السلام والی قربانی کے لئے اس عید کے دن تیار ہو جائے تو وہ

Page 571

العلوم جلد ۳۰ ۵۴۴ عید الا پر مسلمانوں کا فرض ہزاروں مسلمانوں کو بیدار کرنے کا موجب ہو جائے گا.پس اخلاص اور محبت سے تمام ان لوگوں سے جو خواہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں لیکن اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں یہ استدعا کرتا ہوں کہ وہ اس عید کے دن بجائے ظاہر پر زور دینے کے باطن پر زیادہ زور دیں.قربانی ان کا حق ہے اور شریعت کا حکم.اس کا چھڑوانا تو نہ کسی کے لئے جائز ہے نہ مسلمان اسے چھوڑ سکتے ہیں.لیکن ایک بات ہے جسے مسلمان اختیار کر کے اسلام کے دشمنوں کو ایک زبر دست شکست دے سکتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ اس دفعہ مسلمان ہر جگہ پر قربانی میں یہ امر مد نظر رکھیں کہ جہاں تک ہو سکے قربانی اس طرح کی جائے اور ایسی جگہوں پر کی جائے کہ ہندو صاحبان کے احساسات کو صدمہ نہ پہنچے.اسلام ہمیں ہر انسان کے احساسات کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے.پس چاہئے کہ اس وقت جب کہ بعض ہندو اپنی طرف سے ہر ایک طریقہ مسلمانوں کو اشتعال میں لانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں ہم ان پر ثابت کر دیں کہ ہم ان کے دھوکے میں آکر اسلام کی تعلیم کو نہیں چھوڑ سکتے.ہم ان کے گندے سے گندے برتاؤ کے باوجود بھی ان کے احساسات کا خیال کریں گے.اور ایسا طریق اختیار نہ کریں گے کہ جس سے بے وجہ ان کو تکلیف پہنچے.میں تمام مسلمانوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اس موقعہ پر اسلامی وسعت حوصلہ سے کام لے کر ان راستوں کو قربانی کے جانور گزارنے کے لئے اختیار نہ کریں جن پر ہندو رہتے ہیں.اور قربانی کے گوشت کو بھی حتی الوسع پوشیدہ کر کے گزاریں تا ہندو صاحبان کو خواہ مخواہ تکلیف نہ ہو.اور تا ان کے دل اس بات کو دیکھ کر شرمائیں کہ مسلمان ہمارے ادنیٰ احساسات کا خیال رکھتے ہیں ہمارے اپنے بھائی مسلمانوں کے شریف ترین جذبات کو ٹھیس لگانے کی کمینہ اور ذلیل حرکت سے بھی باز نہیں آتے.اے دوستو! ہم تمام بازاروں اور ہندو محلوں سے قربانی کے جانوروں کو باجوں کے ساتھ گزار کر اسلام کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتے.لیکن ہم اپنے وقت اور اپنے مال کو تبلیغ اسلام کے لئے وقف کر کے اسلام کو تو ہمیشہ کے لئے مضبوط کر سکتے ہیں.ہم اپنے اخلاق کو اعلیٰ بنا کر دشمنان اسلام کو شرمندہ کر سکتے ہیں اور خود ان کی نظروں میں انہیں حقیر بنا سکتے ہیں.پس عقلمندوں کی طرح دشمن سے بدلہ لو.اور اس کو اس راستہ سے پکڑو کہ جہاں سے وہ بھاگ نہ سکے.اور وہ راستہ اخلاق کا راستہ اور تبلیغ کا راستہ ہے.اپنی طاقت کو بے فائدہ باتوں میں ضائع کرنا عظمندی نہیں.اور

Page 572

دوم جلد ۳۰ ۵۴۵ عید الاضحی پر مسلمانوں کا فرض چھوٹی باتوں پر وقت خرچ کرنا جب کہ بڑے کام ہمارا انتظار کر رہے ہوں نادانی ہے.پس اس دفعہ کی عید کو حقیقی عید بنانے کے لئے ابراہیمی قربانی کو قائم کرو.تا خداوند تعالیٰ کا فضل جوش میں آئے اور وہ برکتوں سے ہمارا گھر بھر دے.اور اس دن کو مسلمانوں میں بیداری پیدا کرنے لئے وقف کر دو.اس دن جو وقت بھی عبادت سے بچے اسے بجائے بے فائدہ باتوں میں جوش دکھانے کے اپنے دوستوں کو اس بات کے سمجھانے میں خرچ کرو کہ وہ آج سے مسلمانوں کی بہبودی اور اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگی کے لئے یہ عہد کر لیں کہ جہاں وہ ہندو اور دوسری قوموں کے جائز احساسات کا حتی الوسع احترام کر کے اسلام کی اعلیٰ تعلیم کا ثبوت دیں گے وہاں اسلام کی بہتری کے لئے کسی ہندو سے کھانے پینے کی چیزیں نہیں خریدیں گے.جب تک کہ وہ چھوت چھات کو ترک کر کے مسلمانوں کے ہاتھوں کا چھوا ہوا کھانا علی الاعلان کھانا شروع نہ کریں.ہندوؤں نے چھوت چھات کے بہانے سے اس قدر روپیہ مسلمانوں سے وصول کیا ہے کہ اگر آج وہ روپیہ مسلمانوں کے پاس ہو تا تو ان کے گھر سونے کے ہوتے.لیکن آج وہ اس ظالمانہ تدبیر کی وجہ سے اپنی اولادوں کو تعلیم دینے تک سے محروم اور روٹی تک کے محتاج ہیں.پس جو شخص اسلام کا درد رکھتا ہے اسے چاہئے کہ بجائے قربانیوں کو بلا وجہ بازاروں میں پھرانے پر اپنا وقت خرچ کرنے کے وہ اپنا سب وقت اس پر خرچ کرے کہ اپنے محلہ اور اپنے قصبہ میں بلکہ ممکن ہو تو پاس کے قصبات میں جائے اور مسلمانوں کو بتائے کہ آج مسلمان ہندوؤں کے سامنے صرف ایک بیل کی حیثیت رکھتے ہیں.جس طرح بیل جو کچھ کماتا ہے وہ اس کا مالک لے جاتا ہے.اور اس کے لئے صرف بھوسہ رہ جاتا ہے.اسی طرح مسلمانوں کا حال ہے کہ وہ جو کچھ کماتے ہیں اسے ایک طرف چھوت چھات اور دوسری طرف سود سے ہندو لے جاتے ہیں.اور مسلمانوں کے لئے صرف بھوسہ باقی رہ جاتا ہے.بلکہ بسا اوقات تو بھوسہ بھی باقی نہیں رہتا.پس چاہئیے کہ مسلمان اگر واقعہ میں اسلام کا درد اپنے دل میں رکھتے ہیں تو اپنے مال کو اپنے پاس محفوظ رکھنے کی کوشش کریں.اور ایک طرف تو یہ عہد کریں کہ ہندو جن باتوں میں ان سے چھوت کرتے ہیں یہ بھی ان سے ان باتوں میں چھوت برتیں.اور دوسرے کسی ہندو ساہوکار سے سودی قرضہ نہ ملیں.جو لوگ سود سے بچ سکیں انہیں تو خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت سود سے قطعاً بچنا چاہئے.لیکن جو لوگ پہلے سے سود میں مبتلا ہوں انہیں چاہئے کہ سرکاری بنک اپنے علاقہ میں کھلوا کر ان بنکوں سے سودی روپیہ لے لیں.تاکہ ان کے آئندہ

Page 573

العلوم جلد ۳۰ ۵۶ عید الاضعی پر مسلمانوں کا فرض سود کے پھندے سے نجات پانے کی توقع ہو سکے.اور ہندو بننے کے ظالمانہ سود سے چھٹکارہ ہو.تیسری یہ بات تمام مسلمانوں کو ذہن نشین کرنی چاہئے کہ یہ وقت اسلام پر بہت نازک ہے اور تمام دشمنان اسلام متحد ہو کر اسلام پر حملہ کر رہے ہیں.پس چاہئے کہ مسلمان کہلانے والے لوگوں کے آپس میں خواہ کس قدر ہی اختلاف ہوں وہ اس حملہ کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جائیں اور وہ لوگ جو رسول کریم ان کی تکذیب کے درپے ہیں ان کے مقابلہ میں اسلام کی حفاظت کے لئے سب ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیں.ورنہ دشمن ایک ایک کر کے سب کو نقصان پہنچائے گا.اور پھر مسلمانوں سے کچھ کئے نہ بنے گا.وہ پچھتائیں گے لیکن پچھتانا نفع نہ دیگا.وہ روئیں گے اور رونا مفید نہ ہو گا.وہ فریاد کریں گے اور ان کی فریاد سننے والا کوئی نہ ہو گا.پس اس دن کے آنے سے پہلے انہیں اس عظیم الشان مصیبت کے دور کرنے کی فکر کرنی چاہئے جس کے برابر کوئی مصیبت ہندوستان کے مسلمانوں پر پچھلے چند سو سالوں میں نہیں آئی.چوتھی بات وہ لوگوں کے یہ ذہن نشین کریں کہ اسلام کی موجودہ مشکلات صرف اور صرف تبلیغ سے دور ہو سکتی ہیں.پس چاہئے کہ ہر ایک مسلمان اپنے آپ کو مبلغ سمجھے اور اپنے آس پاس کے غیر مذاہب کے لوگوں میں تبلیغ شروع کر دے.خصوصاً اچھوت اقوام میں کہ وہ ہزاروں سال سے ہندوؤں کے ظلم برداشت کرنے کے بعد آج بیدار ہو رہی ہیں.اور مسلمانوں کی طرف سے ایک ہمت بڑھانے والا کلمہ انہیں اسلام کے بالکل قریب کر سکتا ہے.پس چاہیے کہ ہر ایک مسلمان اچھوت اقوام کا خیال رکھے اور جہاں بھی ایسے آدمی پائے جائیں انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کی جائے اور اگر کسی جگہ کے مسلمان خود کام نہ کر سکیں تو کم سے کم صیغہ ترقی اسلام قادیان ضلع گورداسپور کو حالات سے اطلاع دیں تاکہ وہ جہاں تک ہو سکے مقامی لوگوں کی مدد کر کے اشاعت اسلام میں ان کا ہاتھ بٹائے.اے دوستو! اگر بجائے قربانیوں کے راستوں پر زور دینے کے آپ لوگ عید کے دن کو مذکورہ بالا چار باتوں کے لئے وقف کر دیں.تو یقیناً آپ اسلام کی عظیم الشان خدمت کریں گے اور دشمنان اسلام کو ایک ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے.پس عظمندوں کی طرح اپنے اور اسلام کے فائدہ کو مد نظر رکھتے ہوئے قربانی کے معاملہ میں تو ہندوؤں کے احساسات کا حتی الوسع خیال رکھیں کہ اس معاملہ میں انہیں چڑانا اسلام کے لئے مفید نہیں بلکہ مضر ہے.لیکن

Page 574

۵۴۷ عید الاضحی پر مسلمانوں کا فرض اتحاد عمل ، چھوت چھات سود سے پر ہیز اور تبلیغ کے متعلق مسلمانوں میں پراپیگنڈہ کر کے کام کی وہ روح مسلمانوں میں پھونک دیں کہ دشمن کو خود اپنے گھر کی فکر پڑ جائے.اللہ تعالٰی آپ لوگوں کو موقعہ کی نزاکت کو سمجھنے اور اسلام کے حقیقی فوائد کی شناخت کی توفیق عطا فرمائے.واخِرُ دَعُو مِنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ قادیان (ضلع گورداسپور) نوٹ: میں نے اس زمانہ کی ضروریات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک رسالہ " آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا کر سکتے ہیں" شائع کیا ہے.مسلمان بھائیوں کو چاہئے کہ اس رسالہ کو خود بھی پڑھیں اور اپنے دوستوں میں بھی اس کے پڑھنے کی تحریک کریں.یہ رسالہ دو پیسے کا ٹمٹ بھیجنے پر صیغہ ترقی اسلام قادیان سے مفت مل سکتا ہے.اور جو لوگ قیمت منگوانا چاہیں وہ علاوہ دو پیسے کے ٹکٹ ڈاک کے دو پیسے کے زائر ٹکٹ فی رسالہ بطور قیمت کے ارسال فرما سکتے ہیں یہ سب روپیہ ترقی اسلام کے مفاد کے ماتحت خرچ ہوتا ہے.

Page 575

Page 576

انوار العلوم جلد - ۳ ۵۴۹ زندہ خدا کے زبر دست نشان پیشگوئی زار روس کے پورا ہونے پر زندہ خدا پر ایمان لانے کی تلقین) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی زندا خدا کے ز

Page 577

۵۵۰

Page 578

نلوم جلد ۳۰ ۵۵۱ زندہ خدا کے زیر دست نشان بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم وَمَا كَانَ رَبِّكَ مُهْلِكَ الْقُرَى حَتَّى يَبْعَثَ فِى أُمِّهَا رَسُولًا يَتْلُوا عَلَيْهِمْ ابْتِنَا.وَمَا كُنَّا مُهْلِكِي الْقُرَى إِلَّا وَاهْلُهَا ظَلِمُونَ (القصص ۲۰) زندہ خدا کے زبر دست نشان دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا." (براہین احمدیہ صفحہ ۵۵۷) زار روس کی قابل رحم حالت کی خبر ہندوستان کے نبی نے بارہ سال پہلے دی تھی خدا تعالیٰ کی قدیم سنت چلی آتی ہے کہ جب کبھی دنیا فسق و فجور میں مبتلا ہو جاتی ہے.اور خدا کو بھول جاتی ہے اور لوگوں کے اخلاق بگڑ جاتے ہیں اور حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور روحانی پانی کے پیاسوں کے حلق میں کانٹے پڑ جاتے ہیں اور ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں اور آنکھوں میں شدت پیاس سے گڑھے پڑ جاتے ہیں تو وہ اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے نبی مبعوث فرماتا ہے اور ان کی اصلاح کے لئے رسول کھڑے کرتا ہے.جو روحانی پانی کے بادل ہوتے ہیں.جو ہر ایک اس زمین کو جو اپنے اندر پانی جذب کرنے کی قابلیت رکھتی ہے میراب کر دیتے ہیں.اور پیاسوں کی پیاس بجھا دیتے ہیں.وہ ایک نور ہوتے ہیں جن کی مدد سے ظلمتوں میں پڑے ہوئے لوگ دیکھنے لگتے ہیں.وہ ایک آگ ہوتے ہیں جو حق کے دشمنوں کو جلا کر خاک کر دیتی ہے.وہ ایک بجلی ہوتے ہیں کہ جو سعادت مند انسانوں کے اندر آناً فاناً ایک ایسی طاقت بھر دیتے ہیں جس سے اندھے دیکھنے گئے ہیں لولے لنگڑے چلنے لگتے ہیں اور گونگے

Page 579

۵۵۲ زندہ خدا کے زیر دست نشان بولنے لگتے ہیں.غرض ان کی دوستی ہر قسم کے سموم کا تریاق اور ان کی دشمنی ایک سخت زہر ہوتی ہے.جس کے کھانے کے بعد کوئی انسانی تدبیر انسان کو ہلاکت سے بچا نہیں سکتی.موجودہ زمانہ میں لوگ روحانیت سے جس قدر دور چلے گئے ہیں اور بدیوں کا جو انتشار ہے اور گناہوں کی جو کثرت ہے وہ بزبان حال پکار کر کہہ رہی ہے کہ اگر کسی زمانہ میں کبھی کوئی نبی آیا ہے تو اس وقت ضرور نبی آنا چاہئے اور اگر کسی وقت کوئی مصلح مبعوث کیا گیا ہے تو اس زمانہ میں ضرور مبعوث ہونا چاہئے.اور پہلے انبیاء کی پیشگوئیاں بھی بالاتفاق اس بات پر شہادت دے رہی ہیں کہ یہ وقت ایک نبی کی بعثت کا ہے.گو مختلف مذاہب میں ہزاروں باتوں کا اختلاف ہے.اور شائد ایسی ایک بات بھی نہ مل سکے جس میں تمام مذاہب متفق ہوں.لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ آخری زمانہ میں ایک نبی آئے گا.اور جو علامتیں اس کے زمانہ کی بتائی گئی ہیں وہ سب اس زمانہ میں پوری ہو رہی ہیں.لیکن افسوس کہ باوجود زمانہ کی حالت کے اقتضاء اور تمام مذاہب کی متفقہ شہادت کے لوگ اس بات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے کہ اس زمانہ کے نبی کی شناخت کریں.جو اللہ تعالیٰ نے عین ضرورت کے وقت آسمان سے اتارا ہے.کیا دنیا اس قسم کے نبی کی منتظر ہے جو آسمان سے نازل ہو اور فرشتے اس کے ساتھ ہوں اور خدا تعالی بلند آواز سے جو یک دفعہ تمام دنیا میں سنائی دے اس کی تصدیق کرے.جنت اس کے دائیں طرف اور دوزخ بائیں طرف ہو.قضاء و قدر کے فیصلے اس کے ہاتھ میں دیئے جائیں.اگر ایسا ہے تو یہ خواہش کبھی میسر نہ آئے گی.نہ ایسا کوئی نبی دنیا میں آیا ہے نہ آئندہ آئے گا.انسانوں کی ہدایت کے لئے انسان رسول ہی بھیجے جاتے ہیں.کیونکہ غیر جنس غیر جنس کے لئے نمونہ نہیں بن سکتی.اور نبی دنیا میں نمونہ بن کر آتے ہیں.وہ آسمان سے نازل نہیں ہوا کرتے بلکہ زمین ہی پر دوسرے انسانوں کی طرح عورت کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہیں.پس ایسا نبی جو پہلے انبیاء کی سنت پر نہ ہو کبھی نہیں آسکتا.جو نبی بھی آئے گا اسی طریق پر آئے گا جس پر پہلے زمانوں میں نبی آتے رہے ہیں.اے سننے والو سنوا اور اسے دیکھنے والو د یکھو! اور اے عقل و خرد رکھنے والو جان لو کہ اسی قدیم سنت اللہ کے مطابق جو پہلے نبیوں کے وقتوں میں ظاہر ہوتی رہی اس زمانہ میں بھی وہ موعود نبی جس کا وعدہ ہندوؤں میں کرشن اور بدھوں میں مسود رکھی.اور یہود و مسیحیوں اور مسلمانوں میں مسیح موعود کے نام سے کیا گیا تھا آگیا ہے.اور خدا نے اس کے لئے ویسے ہی

Page 580

انوار العلوم جلد ۵۵۳ زندہ خدا کے زبردست نشان.نشان دکھائے ہیں جیسا کہ وہ پہلے نبیوں کے ہاتھوں پر دکھاتا رہا ہے.اس نے دعائیں کیں اور خدا تعالیٰ نے اس کی دعاؤں کو قبول کیا.وہ مریض جن کی شفاء سے تمام طبی قواعد قاصر تھے اس کے ہاتھوں سے اچھے ہوئے.اور وہ اخبار جو اس نے قبل از وقت تمام دنیا میں شائع کی تھیں بعینہ پوری ہو ئیں.حالانکہ غیب کی اخبار کثرت سے سوائے رسولوں کے اور کسی پر ظاہر نہیں ہوتیں.جیسا کہ تمام ادیان کا اتفاق ہے.قرآن فرماتا ہے فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدَاهُ إِلَّا مَن ارْتَضَى مِنْ رَسُولِ (الجن : ۲۸۴۲۷) " خدا تعالیٰ اپنے غیب پر غالب نہیں کرتا مگر جس کو چن لیتا ہے اپنے رسولوں میں سے اسی طرح سے بائبل کہتی ہے ”جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کے اور وہ جو اس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خداوند نے نہیں کھی.بلکہ اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے.تو اس سے مت ڈر.راستثناء باب ۱۸ آیت ۲۲ مطبوعه ۹۳ه اے صداقت کے طالبوا اور حق کے متلاشیو! میں کس طریق پر تم کو سمجھاؤں کہ وہ مسیح موعود اور مہدی اور کرشن اور میود بھی اور بدھ جس کا وعدہ مختلف مذاہب میں دیا گیا تھا.حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی بانی سلسلہ احمدیہ کے وجود میں پورا ہو چکا ہے.اور اب قیامت تک ان پیشگوئیوں کا کوئی اور مصداق پیدا نہ ہو گا.میں کس طرح تمہارے دلوں میں یہ بات ڈالوں کہ خدا کے ماموروں کی شناخت ایک ایسی نعمت ہے جس کے مقابلہ میں کوئی دنیاوی نعمت نہیں ٹھر سکتی.میں کن الفاظ میں تمہیں بتاؤں کہ جو شخص خدا سے جنگ کرتا ہے اس کا کبھی اچھا نہیں ہوتا.اور یہ کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے رسولوں کا انکار کرتا ہے وہ در حقیقت خدا تعالیٰ کا انکار کرتا ہے.آہ میں کس بل کے ذریعہ سے تمام دنیا کے سوئے ہوئے لوگوں کو جگاؤں تا وہ دیکھیں کہ خدا کا سورج نصف النہار پر آگیا ہے.دنیا کا بیشتر حصہ خدا کے بعض گزشتہ نبیوں کے ماننے کا دعویدار ہے.مگر افسوس کہ ایسے بہت کم لوگ ہیں جنہوں نے کبھی اس بات پر غور کیا ہو کہ وہ ان نبیوں کو کیوں مانتے ہیں.اگر وہ اس بات پر غور کرتے تو جو دلائل وہ ان نبیوں کی صداقت کے معلوم کرتے ان ہی دلائل کے اس زمانہ کے رسول کی شناخت نہایت آسانی سے ان کو حاصل ہو جاتی.مگر افسوس کہ اس زمانہ میں حقیقی ایمان کی جگہ وراثتی ایمان نے لے لی ہے.اور اگر وہی نبی جن کو مختلف اقوام مان رہی ہیں اس وقت انہی دلائل کے ساتھ جو ان کے ظہور کے وقت ان کو ملے تھے واپس آجا ئیں تو ان کے ماننے والے ان کا بھی مقابلہ کرنے لگیں يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَا تِيْهِمْ مِنْ رَسُولٍ إِلَّا كَانُوا انجام را بِهِ

Page 581

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۵۴ زندہ خدا کے زیر دست نشان - زءونَ ( نہیں: ۳۱) اے افسوس بندوں پر کہ ان کے پاس کوئی رسول نہیں آیا مگر انہوں يستهزء نے اس کی تحقیر کی اس سے نہیں اور ٹھٹھا کیا.خدا تعالی نے مسیح موعود کی صداقت پر اس قدر نشان دکھائے ہیں اور اس قدر دلائل بھیجے ہیں کہ کافی ہیں ماننے کو اگر اہل کوئی ہے." جب ابھی دنیا میں کوئی شخص اس کو جانتا بھی نہ تھا.اس وقت اس نے اپنی کتاب براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ ۲۴۱ ( جو ۱۸۸۳ء میں تمام ہندوستان میں شائع ہوئی) پر یہ الہام شائع کیا کہ يَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ وَيَأْتُونَ مِنْ كُلَّ فَجٍّ عَمِيقٍ " (یعنی دنیا کے دور دراز کونوں سے تیرے پاس تھے اور آدمی آئیں گے ) (روحانی خزائن جلد ا صفحہ ۲۶۷) اور براہین احمدیہ حصہ چہارم کے صفحہ ۲۸۹ مطبوعہ ۱۸۸۴ء میں ایک یہ الہام بھی شائع کیا کہ فَحَانَ أَنْ تُعَانَ وَتُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ " یعنی وہ وقت قریب آگیا ہے کہ تیری مدد کی جاوے اور تو لوگوں میں پہچانا جادے.(روحانی خزائن جلدا صفحه (۵۸) اسی طرح ضمیمه اخبار ریاض ہند امرتسر مطبوعہ یکم مارچ ۱۸۸۶ میں منجملہ بہت سے الہاموں کے ایک یہ الہام شائع فرمایا.کہ " خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ قائم رکھے گا.اور تیری دعوت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دے گا (تذکرہ صفحہ (۱۴۱) اور میں تیری تبلیغ کو دنیا کے چاروں کونوں تک پہنچاؤں گا یعنی دنیا کے چاروں کونوں سے تیرے پاس تھے اور آدمی آئیں گے.اور اب وقت آگیا ہے کہ تیری مدد کی جاوے اور تو لوگوں کے درمیان شہرت پا جاوے.خدا تعالیٰ تیری تعلیم کو تمام دنیا میں پھیلائے گا.چنانچہ واقعات نے ثابت کر دیا کہ یہ کلام اللہ تعالٰی کا تھا.کیونکہ اس کے بعد لاکھوں آدمیوں نے اس کو قبول کیا اور یورپ و امریکہ ، افریقہ، آسٹریلیا اور ایشیا کے تمام بلاد میں اس کا نام بلند ہوا.اور ہر براعظم کے باشندوں میں سے سعید روحوں نے اس کی دعوت کو قبول کیا اور برابر قبول کرتی جاتی ہیں.اور باوجود ہر قسم کی مخالفت کے اس کی جماعت کی ترقی ہر روز پہلے کی نسبت زیادہ سرعت سے ہو رہی ہے.اسی طرح اسی کتاب براہین احمدیہ کے صفحہ ۵۱۹ پر آپ نے ہندوستان میں طاعون پھیلنے کی خبر دی تھی.چنانچہ اس پیشگوئی کے شائع ہونے کے قریباً پندرہ سال بعد ہندوستان میں طاعون نمودار ہوا.اور اب تک ہر سال لاکھوں آدمی اس مرض میں گرفتار ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں.اور ابھی تک اس کے خاتمہ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.جب یہ شروع ہی ہوا تھا اور ابھی

Page 582

دم جلد ۳۰ ۵۵۵ زندہ خدا کے زیر دست نشان بہت کم موتیں اس کے ذریعہ سے ہوئی تھیں.اس وقت آپ نے دوبارہ ایک مستقل اشتہار کے ذریعہ (جس کا عنوان ہی ” طاعون " رکھا گیا تھا اور جو 4 فروری ۱۸۹۸ء کو لکھا گیا اور شائع کیا گیا) یہ رویا شائع کی کہ مجھے دکھایا گیا ہے کہ تمام پنجاب میں پودے لگائے گئے ہیں اور وہ اسی مرض کے ہیں.جس کے بعد تمام پنجاب میں سخت طاعون پھوٹ پڑا.اسی طرح اس کے متعلق یہ الہام ہوا کہ " موتا موتی لگ رہی ہے.(دیکھو اشتہار الوصیت اشاعت ۲۷.فروری ۱۹۰۵ء اخبار الحکم جلد نمبرے صفحہ 11) اسی طرح آپ نے چار اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ کے متعلق قبل از وقت ان الفاظ میں خبر دی تھی کہ " زلزلہ کا دھکا " (دسمبر ۱۹۰۳ء) عَفَتِ الدِّيَا رُ مُحِلُّهَا وَمُقَامَها - یعنی ایک ایسا سخت زلزلہ آئے گا کہ وہ عمارتوں کو بیخ دین سے اکھاڑ کر پھینک دے گا اور عارضی اور مستقل عمارتیں اپنی بنیاد سے اکھڑ کر گر جائیں گی.چنانچہ یہ الہام زلزلہ کے آنے سے قریباً ایک سال پہلے اخبار الحکم کی اشاعت ۳۱.مئی ۱۹۰۴ء اور البدر کی اشاعت ۲۴ مئی ریکم جون ۱۹۰۴ء میں شائع ہو چکا تھا چنانچہ اس الہام کے بعد چار اپریل کو جو زلزلہ وادی کانگڑہ میں آیا.اس میں ۳۰ ہزار آدمی ہلاک ہوئے.اور جو زخمی ہوئے ان کی تعداد اس سے بہت زیادہ تھی.گاؤں کے گاؤں اس طرح مٹ گئے کہ ان کا نام و نشان نہ رہا.تمام پنجاب ایک سرے سے دو سرے تک ہل گیا.اور سینکڑوں میل پر جو شہر تھے ان میں بھی مال و جان کا نقصان ہوا.اور پنجاب کے باہر بھی بنگال تک اس زلزلہ کے دھکے محسوس ہوئے.غرض یہ زلزلہ ہندوستان کی تاریخ میں بالکل نرالا تھا.تقسیم بنگالہ کے موقعہ پر جب کہ تمام عہدہ داران حکومت اس بات پر مصر تھے کہ یہ حکم بدلا نہیں جائے گا.اور وزرائے انگلستان بار بار اس کے اٹل ہونے کا اعلان کر رہے تھے.آپ نے ۱۹۰۶ ء میں رسالہ ریویو آف ریلیجینز انگریزی و اردو جلد ۵ نمبر ۲ پرچہ فروری ۱۹۰۶ء میں اور اخبارات بدر الحکم و انڈین مرد کلکتہ میں اپنا یہ الہام شائع کیا." پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا ، اب ان کی دلجوئی ہو گی." ( تذکرہ صفحہ ۵۹۶) چنانچہ پورے چھ سال بعد بار جود حکام وقت کے بار بار کے انکار کے بادشاہ جارج پنجم کی تاج پوشی کے وقت اس حکم کو منسوخ کیا گیا.اور یہ نشان زبر دست طور پر پورا ہوا.امریکہ کے ایک شخص ڈوئی نامی نے جو شکاگو کا رہنے والا اور ایک بڑے فرقہ کا بانی تھا اور

Page 583

دم جلد ۳۰ ۵۵۶ زندہ خدا کے زبر دست نشان الیاس ہونے کا دعویٰ رکھتا تھا جب ایک موقعہ پر اسلام کے خلاف بہت زہر اگلا تو آپ نے اس کے خلاف ایک اشتہار شائع کیا.اور اس کے متعلق خبر دی کہ وہ سخت عذاب میں مبتلا کیا جائے گا.چنانچہ اس کے بعد اس کی بیوی اور اس کا بیٹا اس کے خلاف ہو گئے اور وہ حرام زادہ ثابت کیا گیا اور اس کے مریدوں نے اس کو چھوڑ دیا.آخر فالج میں مبتلا ہوا اور دیوانہ ہو کر مرا.اس قسم کے نشانات تو بہت سے ہیں.لیکن اس شخص کا اس لئے خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے کہ وہ یورپ و امریکہ میں خاص شہرت رکھتا تھا اور دونوں براعظموں میں اس کے مرید پھیلے ہوئے تھے.ترکی حکومت کی بربادی اور سلطان عبد الحمید خاں کے اپنے امراء کے ہاتھوں دکھ پانے کے متعلق بھی آپ نے قبل از وقت ۲۴.مئی ۱۸۹۷ء کو ایک اشتہار کے ذریعہ خبر دی تھی جو نہایت واضح طور پر پوری ہوئی.ایرانی حکومت کے انقلاب کے متعلق بھی آپ نے اپنا یہ الہام ۱۵ جنوری ۱۹۰۶ ء کو شائع کیا که تزلزل در ایوان کسری فتاد.شاہ ایران کا محل ہلایا گیا ہے (دیکھو ریویو آف ریلیج اُردو بابت جنوری ۱۹۰۶ء) چنانچہ تین سال کے بعد یہ الہام ایرانی بغاوت اور شاہ ایران کے بھاگ جانے سے پورا ہوا.بلقان کی جنگ کی نسبت بھی آپ کے الہامات میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.چنانچہ ۱۹۰۴ء میں یہ الہام آپ کا ریویو آف ریلیجنز اُردو بابت جنوری ۱۹۰۴ء میں شائع کیا گیا کہ غُلِبَتِ الروم فِى أَدْنَى الأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ.ترک اپنے پاس کے علاقہ میں مغلوب ہوں گے اور اپنے مغلوب ہونے کے بعد جلد پھر غالب ہو جائیں گے.چنانچہ قسطنطنیہ جو ترکوں کا دارالخلافہ ہے اس کے پاس ہی بلقانی طاقتوں سے ترکوں کو شکست ہوئی اور فوراً ہی ان کی آپس کی خانہ جنگی کے باعث ترکوں کو ایڈریا نوپل کی فتح عظیم حاصل ہوئی.جس سے پیشگوئی کے دونوں پہلو خارق عادت طور پر پورے ہوئے.موجودہ جنگ کے متعلق بھی آپ نے ان الفاظ میں یہ پیشگوئی ۱۹۰۷ء میں شائع فرمائی کہ.اک نشان ہے آنیوالا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے گردش کھائیں گے دیہات و شهر و مرغزار آئے گا قہر خدا سے خلق پر اک انقلاب اک برہنہ سے نہ یہ ہوگا کہ تا باندھے ازار

Page 584

علوم جلد ۳۰ ۵۵۷ زندہ خدا کے زیر دست نشان یک بیک اک زلزلہ سے سخت جنبش کھائیں گے * کیا بشر اور کیا شجر اور کیا حجر اور کیا ہمار اک جھپک میں یہ زمیں ہو جائے گی زیروزبر نالیاں خوں کی چلیں گی جیسے آب رودبار رات جو رکھتے تھے پوشاکیں برنگ یاسمن صبح کر دے گی انہیں مثل درختان چنار ہوش اڑ جائیں گے انساں کے پرندوں کے حواس بھولیں گے نغموں کو اپنے سب کبوتر اور ہزار ہر مسافر پر وہ ساعت سخت ہے اور وہ گھڑی راہ کو بھولیں گے ہو کر مست و بے خود راہوار خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مشتمل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس زار بھی گا تو اس گھڑی باحال زار اک نمونہ قمر کا ہو گا وه ربانی نشان ہو ہو گا آسماں حملے کرے گا کھینچ کر اپنی کٹار ہاں نہ کر جلدی سے انکار اے سفینہ ناشناس اس پہ ہے میری سچائی کا بھی دارو مدار وحی حق کی بات ہے ہو کر رہے گی بے خطا کچھ دنوں کر صبر ہو کر متقی اور بردبار یہ گماں مت کر کہ یہ سب بدگمانی معاف ہے قرض ہے واپس ملے گا تجھ کو یہ سارا ادھار اسی طرح یہ کہ کشتیاں چلتی ہیں تاہوں کشتیاں" (الهام ۱۱ مئی ۱۹۰۶ ء ر تذکرہ صفحہ ۱۱۵) یعنی جہاز کثرت سے ادھر ادھر چلیں گے تاکہ لڑائی ہو.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ جنگ میں جہازوں کا بہت بڑا دخل ہے کیونکہ ان کے ذریعہ سے مختلف علاقوں کی فوجوں کو جنگ کے مختلف میدانوں میں پہنچایا جا رہا ہے.حتی کہ اس کی نظیر تاریخ عالم میں بالکل نہیں ملتی.پھر آپ روز جهاز نهایت خطرناک تباہی کر رہے ہیں.اسی طرح بحری محاصرہ کے باعث جو اپنی نظیر آپ ہی ہے ہر وقت ہزاروں چھوٹے بڑے جہاز اس جنگ میں استعمال ہو رہے ہیں کہ ان کی مثال پہلے خداتعالی کی وحی میں زلزلہ کا بار بار لفظ ہے اور فرمایا کہ ایساز لزلہ ہو گا جو نمونہ قیامت ہو گا بلکہ قیامت کا زلزلہ اس کو کہنا چاہئے جس کی طرف سورة إِذَا زُلْزِلَتِ الأَرْضُ الا لما اشارہ کرتی ہے.لیکن میں ابھی تک اس زلزلہ کے لفظ کو قطعی یقین کے ساتھ ظاہر پر جما نہیں سکتا.ممکن ہے کہ یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.ہاں اگر ایسا فوق العادت نشان ظاہر نہ ہو ا د ر لوگ کھلے طور پر اپنی اصلاح بھی نہ کریں تو اس صورت میں میں بھر دونگا مگر میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ شدید آفت جس کو خدا تعالیٰ نے زلزلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے صرف اختلاف مذہب پر کوئی اثر نہیں رکھتی اور نہ ہندو یا عیسائی ہونے کی وجہ سے کسی پر عذاب آسکتا ہے اور نہ اس وجہ سے آسکتا ہے کہ کوئی میری بیعت میں داخل نہیں سب لوگ اس تشویش سے محفوظ ہیں.ہاں جو شخص خواہ کسی مذہب کا پابند ہو جرائم پیشہ ہونا اپنی عادت رکھے اور نسق ، نجور میں فرق ہو اور زانی خونی چور ظالم اور ناحق کے طور پر بد اندیش بد زبان اور بد چلن ہو اس کو اس سے ڈرنا چاہئے اور اگر تو بہ کرے تو اسکو بھی کچھ تم نہیں اور مخلوق کے نیک کردار اور نیک چلن ہونے سے یہ عذاب مل سکتا ہے قطعی نہیں کے منہ بر این احمد یہ جلد پنجم صفحه ۱۲۰ روحانی خزائن کازب جلد ۲ صفحه ۱۵۱)

Page 585

شوم چاند ۳۰۰ ۵۵۸ زندہ خدا کے زیرو زمانہ میں ملنی تو الگ رہی ان سے دسواں حصہ بھی کبھی کسی پہلی جنگ میں جہازوں نے کام نہیں کیا.کشتی کا لفظ رکھ کر جو گو بڑے جہاز پر بھی بولا جاتا ہے مگر خصوصاً چھوٹے جہاز پر استعمال ہوتا ہے بوٹس ( آبدوز کشتیوں) کے بے دردانہ حملہ کی طرف جو بحری محاربات میں سب سے زیادہ اہم ہے خاص طور پر اشارہ کیا گیا ہے.یہ نشانات ان ہزاروں نشانات میں سے نمونہ کے طور پر بیان کئے گئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے آپ کے ذریعہ دکھائے.اور یہ نشانات ایسے ہیں کہ جن کے معلوم کر لینے کے بعد حضرت مسیح موعود کے دعوئی کی صداقت میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی.کیونکہ یہ انسان کا کام نہیں کہ وہ اس طرح کثرت کے ساتھ آئندہ ہونے والے واقعات کی خبریں دے اور وہ نہایت صفائی سے اپنے وقت پر پوری ہوں.ایک یا دو یا تین ہوں تو انسان ان کو ڈھکو سلایا قیاس کہہ سکتا ہے.لیکن اس کثرت سے بار بار پیشگوئیاں کرنا اور ان سب کا اپنے وقت پر پورا ہونا ایک ایسی بات ہے جو انسانی طاقت.بالکل بالا ہے.مختلف مذاہب کے پیرو جب کہ اپنی کتب میں اپنے نبیوں کی پیشگوئیوں کا حال پڑھ کر ان پر ایمان لاتے ہیں اور ان سے ان کی صداقت پر استدلال کرتے ہیں حالانکہ ان کتب کی نسبت شبہ بھی ہو سکتا ہے کہ شائد وہ پیشگوئیاں بعد میں ملا دی گئی ہوں تو پھر کیوں ان کو ان پیشگوئیوں کے ظہور پر جن کی صداقت میں کوئی شبہ ہی نہیں مسیح موعود کی صداقت کے اقرار سے انکار ہے.یہ زمانہ پریس کا زمانہ ہے.صرف زبانی روایت پر کسی بات کا دارو مدار نہیں ہو تا حضرت مسیح موعود کی جن پیشگوئیوں کا ذکر میں نے کیا ہے وہ قبل از وقت مختلف کتب اور اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکی تھیں اس لئے کسی خطرناک سے خطرناک دشمن کو بھی یہ طاقت نہیں کہ وہ یہ بات کہہ سکے کہ یہ پیشگوئیاں بعد میں بنائی گئی ہیں.کیونکہ نہ صرف یہ کہ وہ قبل از این وقت شائع ہو کر دوست و دشمن میں تقسیم ہو گئی تھیں بلکہ ان کے ثابت کرنے کا خدا تعالیٰ نے ایک اور بھی ذریعہ نکالا ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود ایک غیر مذہب کی حکومت کے ماتحت رہتے تھے اور اس گورنمنٹ کا یہ قاعدہ ہے کہ ہر کتاب یا رسالہ یا اشتہار یا اخبار جو شائع ہو اس کی ایک کاپی بغرض فائل گورنمنٹ کے دفتر میں بھیجی جائے.پس اس بات کا ثبوت کہ آیا واقعہ میں پیشگوئیاں قبل از وقت بھی کی گئی تھیں یا نہیں.خود گورنمنٹ کے کاغذات اور فائلوں سے

Page 586

العلوم چاند ۳ ۵۵۹ زندہ خدا کے زبر دست نشان بھی مل سکتا ہے اور یہ ایک ثبوت ہے جس کو کوئی رد نہیں کر سکتا.پس ایسے نشانات اور ثبوتوں کے باوجود کیونکر ممکن ہے کہ ایک شخص حضرت مسیح موعود کے دعوے کو تو رد کر دے اور ان پہلے انبیاء کے دعوؤں کو مان لے جن کی پیشگوئیوں کا سوائے حضرت محمد مصطفے ﷺ کے کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ آیا واقعہ میں وہ قبل از وقت شائع بھی کی گئی تھیں کہ نہیں.پھر انسی پیشگوئیوں پر بس نہیں جو اس وقت تک پوری ہو چکی ہیں بلکہ ہم دیکھتے ہیں کہ متواتر نئے سے نئے نشانات آپ کی صداقت کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ رکھاتا ہے.چنانچہ انہی دنوں میں آپ کی دو اور زبردست پیشگوئیاں پوری ہوئی ہیں ایک فتح عراق کے متعلق اور ایک زار روس کی علیحدگی کے متعلق.اول الذکر پیشگوئی کا ذکر ایک علیحدہ اشتہار میں کیا جاوے گا.اس وقت ثانی الذکر پیشگوئی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں اللہ تعالیٰ سعید روحوں کو اس سے نفع حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما دے.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے حضرت مسیح موعود نے موجودہ جنگ کی نسبت ایک پیشگوئی اردو کی نظم میں شائع فرمائی تھی اس پیشگوئی میں ایک یہ شعر بھی تھا.مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار یعنی اس جنگ کا خوف تمام بڑے اور چھوٹے آدمیوں کے دلوں میں گھر کرلے گا اور اس وقت زار روس کی حالت بھی نہایت زار ہو جائے گی.یہ پیشگوئی براہین احمدیہ حصہ پنجم میں ۱۵ اپریل ۱۹۰۵ء میں لکھی گئی (روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۲) جیسا کہ اس کے نیچے نوٹ درج ہے لیکن یہ کتاب بعض وجوہ سے ۱۹۰۸ء میں شائع ہوئی.اسی طرح ۱۹۱۴ء کے پرچہ ریویو آف ریلیجنز میں یہ پیشگوئی لفظ بلفظ مع ترجمہ انگریزی شائع کی اس پیشگوئی کے نیچے ایڈیٹر کی طرف سے جو نوٹ دیا گیا تھا اس میں اس حصہ پیشگوئی کی طرف خاص طور پر اشارہ کیا گیا تھا چنانچہ کہا گیا تھا کہ.اس پیشگوئی میں جو تفصیل دی گئی ہے وہ مختلف امور پر شامل ہے اور اس کی خطرناک تفاصیل ایسی ہیبت ناک ہیں کہ ان کو پڑھ کر انسان کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور بدن کانپ اٹھتا ہے زار روس کے ذکر سے اس پیشگوئی میں ایک خاص دلچسپی پیدا ہو گئی ہے." 1910 ریویو آف ریلیجنز ا گست ۱۹۱۲ شه صفحه ۳۰۷

Page 587

العلوم جلد ۳۰ ۵۶۰ زندہ خدا کے زبردست نشان اس کے بعد ستمبر ۱۹۱۴ ء کے پرچہ میں یہ پیشگوئی شائع کی گئی.اسی طرح جون ۱۹۱۵ء میں اور جنوری ۱۹۱۶ء میں یہ پیشگوئی شائع کی گئی.پیشگوئی جن واضح الفاظ میں ہے اس کے متعلق لکھنے کی ہمیں چنداں ضرورت نہیں.صاف الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ اس جنگ کے دوران میں زار روس ایک ایسی حالت میں مبتلا ہو گا جو بالکل ردی اور قابل رحم ہو گی.اردو کے الفاظ جو زار کی حالت کے اظہار کے لئے استعمال کئے گئے ہیں حال زار کے ہیں.جن کے معنے ایسی حالت کے ہیں جس میں سب سامان ہاتھ سے جاتے رہیں اور بغیر کسی دوسرے کے بتانے کے وہ حالت اپنی خرابی اور تباہی کو آپ بیان کرے.یہ پیشگوئی جس وقت کی گئی تھی اس وقت ان حالات کا جو آج ۱۹۱۷ء میں پیش آئے ہیں کوئی نام و نشان نہ تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ روس اس وقت جاپان سے بر سر جنگ تھا لیکن اس وقت صلح کی کارروائی کی کوشش امریکہ کے ذریعہ شروع تھی اور پیشگوئی بتاتی ہے کہ اک نشاں ہے آنے والا آج سے کچھ دن کے بعد جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نشان اس تاریخ کے بعد آنے والا ہے.دوم اس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ یہی وہ آفت ہو گی جو سب دنیا پر آوے گی اور جس کی مصیبت عام ہو گی.اس پیشگوئی کے الفاظ صاف بتاتے تھے کہ یہ واقعات اس وقت کے پیش آمدہ حالات کے علاوہ تھے اور بعد میں آنے والے تھے اور ایسے رنگ میں ظاہر ہونے والے تھے کہ ان کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی.غرض یہ پیشگوئی ایسے وقت میں کی گئی تھی کہ جب قیاس سے ان واقعات کا علم نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ اس میں بتایا گیا تھا کہ زار کی حالت زار ہونے کا وہ وقت ہو گا جب کہ کل دنیا ایک عام مصیبت میں مبتلا ہو گی.اور اور خون سے مردوں کے کوہستان کے آب رواں سرخ ہو جائیں گے جیسے ہو شراب انجبار مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن و انس اور یہ حالات ۱۹۱۴ء سے پہلے نہیں پیدا ہوئے بلکہ اس وقت بھی خود وہ لوگ بھی جن کے ہاتھ میں مخاصمین حکومتوں کی باگ ڈور تھی اس خطر ناک حالت کا اندازہ نہیں کر سکتے تھے جو بعد کے واقعات سے پیدا ہو گئی.حتی کہ برطانیہ کے بعض وزراء تک اس بات پر زور دے رہے

Page 588

ردم جلد - ۳ ۵۶۱ زندہ خدا کے زبر دست نشان تھے کہ ایک سال کے اندر یہ جنگ ختم ہو جائے گی اور یہ کہ دسمبر ۱۹۱۴ ء میں سپاہی انگلستان میں آکر عید منائیں گے.پس ۱۹۰۵ء میں ایک عظیم الشان جنگ کی خبر دینا اور پھر یہ بتانا کہ اس جنگ کے دوران میں زار روس ایک خطرناک مصیبت میں مبتلا ہو گا اور اس کا حال ایسا خراب اور ختہ ہو جائے گا کہ اپنی حالت کی آپ ترجمانی کرے گا ایک ایسی زبر دست پیشگوئی ہے جس کی مثال بہت سے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی نہیں مل سکتی.اور جو تاریخی ثبوت اس پیشگوئی کے قبل از وقت شائع ہونے کا موجود ہے وہ تو اپنی نظیر آپ ہی ہے..جس قدر بھی اس پیشگوئی کے الفاظ پر غور کیا جاوے ، پھر زار کی طاقت اور رسوخ کو دیکھا جائے ، پھر اس کی معزولی کے حالات کو دیکھا جائے اتنی ہی اس کی عظمت ظاہر ہوتی ہے زار کو جو رسوخ اس کے ملک میں حاصل تھا وہ اس کی تاریخ سے واقف لوگوں سے پوشیدہ نہیں اور جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کا فاضل مضمون نگار روس کے ہیڈنگ کے نیچے لکھتا ہے.جو شورش پسند لوگ تھے وہ بھی آہستہ آہستہ امن پسندی کی طرف آ رہے تھے.اور ڈوما کے قیام سے لوگوں کے جوش بہت کچھ دب گئے تھے.علاوہ ازیں زار کی حفاظت کے لئے کا سکس کی ایک بڑی فوج رکھی جاتی تھی جن پر زار کو بہت بھروسہ تھا.لیکن باوجود زار کی اس طاقت کے اور ملک کی شورش پسند جماعتوں کے دب جانے کے ۱۲ مارچ کو یک لخت ایسا جوش نمودار ہوا کہ تین دن کے اندر اندر زار کو تخت سے دست بردار ہونا پڑا.اور ان کی شکستہ حالت کا اس سے علم ہو سکتا ہے کہ ان کو کئی پہلو بدلنے پڑے.اول اپنے وزراء کو اطلاع دی کہ انہوں نے جنرل ا.مگزیف کو انتظام دار الخلافہ کے لئے مقرر کر دیا ہے اس لئے وہ گھبرائیں نہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ بغاوت ایسی جلدی اور تیزی سے پھیلی تھی کہ زار اس کے عمق کو معلوم نہیں کر سکے اور معمولی خیال کیا.لیکن تھوڑی دیر کے بعد جب ان کو معلوم ہوا کہ دارالخلافہ کی گارد تک علیحدہ ہو گئی ہے اور باقی سپاہ بھی باغیوں سے مل رہی ہے تو اپنے بھائی کے حق میں حقوق بادشاہت منتقل کرنے چاہے.لیکن جب دیکھا کہ لوگ اس پر بھی راضی نہیں ہوتے تو آخر اعلان کیا کہ ”ڈوما کے ساتھ متفق ہو کر ہم نے یہ دیکھا کہ ملک کی بہبودی کے لئے یہ بہتر ہے کہ ہم تاج سے دست بردار ہو جائیں اور اپنے اعلیٰ اختیار سے مستعفی ہو جاویں لیکن اس پر بات ختم نہ ہوئی قائم مقامان ملک نے مناسب سمجھا کہ زار کو نظر بند کیا جائے چنانچہ رپورٹر خبر دیتا ہے کہ ”زار کے اپنے محل پر پہنچنے سے پہلے ڈوما کے وکلاء میگیلو پہنچ گئے.انہوں نے جرنیل

Page 589

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۶۲ زندہ خدا کے زبردست نشان اسمیگزین کے سامنے گرفتاری کا حکم پیش کر دیا اور اس نے زار کو جو کہ بادشاہی گاڑی کے اندر انتظار کر رہا تھا خبر دی.ڈوما کے اس فیصلہ کے جواب میں جو کچھ زار نے جواب دیا وہ گویا پیشگوئی کے الفاظ ہی کی تشریح تھی کیونکہ اس نے کہا کہ " مجھے جہاں بھی بھیجو وہاں جانے کے لئے تیار ہوں.اور ہر ایک فیصلہ کے آگے سر تسلیم خم کرتا ہوں.ان الفاظ سے ظاہر ہے کہ اس کی حالت انتہائی مایوسی تک پہنچ گئی تھی اور پھر رپورٹر اس کی حالت کی نسبت لکھتا ہے " جب وہ بادشاہی خیمہ میں پہنچا تو سابق زار روسی سپاہی کی وردی پہنے ہوئے تھا اس کا چہرہ متفکر نظر آتا تھا.گرفتاری کے بعد کی حالت اور بھی زار بتائی جاتی ہے.چنانچہ رپورٹر اطلاع دیتا ہے کہ اخبارات زار کے بھائیوں سے روزانہ ملاقاتیں شائع کرتے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ زار اور زارینہ درد انگیز علیحدگی کی حالت میں ہیں.اور وہ ملک کے اصل حالات اور شاہی خاندان کی کیفیت سے بالکل بے خبر ہیں.یہ تمام حالات بتاتے ہیں کہ غیر معمولی طور پر زار کی حالت ایک زبر دست بادشاہ کے بجائے ایک شکستہ حال انسان کی ہو گئی.اور اس طرح خدا تعالیٰ کا وہ کلام پورا ہوا کہ ”زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار" مذکورہ بالا واقعات کے علاوہ اور واقعات بھی ہیں جو بتاتے ہیں کہ یہ پیشگوئی خاص شان کے ساتھ پوری ہوئی.اول یہ کہ جیسا کہ بعد کی تاروں سے معلوم ہوتا ہے.روس کے مدبروں نے اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ اب کوئی زار نہ ہو گا بلکہ ریپبلک حکومت ہوگی اگر وہ لوگ موجودہ زار کی جگہ کسی اور کو زار بنا دیتے تو شائد بعض معترض کہتے کہ اب زار ایک اور شخص ہے اور اس کی حالت زار نہیں لیکن آئندہ ریپبلک کا فیصلہ ہو جانے کے بعد اب کوئی زار نہیں ہو سکے گا.دوم پیشگوئی کے الفاظ بتاتے ہیں کہ زار کی معزولی قتل کے سوا اور ذرائع سے ہوگی کیونکہ شخص قتل کیا جائے اس کا حال زار نہیں کہلا سکتا حال زار اسی شخص کا ہوتا ہے جو زندہ رہے پہلے کی نسبت اس کا حال خراب ہو جائے اور سب سامان جاتے رہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ زار کو قتل کرنے کی بجائے زندہ گرفتار کیا گیا اور حکومت سے علیحدہ کیا گیا اور تمام دنیا نے اس کے حال زار کا اقرار کیا.سوم یہ پیشگوئی ایسے رنگ میں پوری ہوئی ہے کہ اس کی اشاعت اچھی طرح سے کی جا سکتی ہے.اور خدا تعالیٰ کی قدرت کا ثبوت ہے ورنہ اگر زار کو تکلیف جرمن کے ہاتھوں سے پہنچتی یا جو حکومت اس کی معزولی پر قائم ہوئی تھی وہ گورنمنٹ برطانیہ سے دوستانہ تعلقات نہ

Page 590

...انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۶۳ زندہ خدا کے زبردست نشان رکھتی تو اس پیشگوئی کے پورے ہونے پر اس کی اشاعت سیاسی امور کے خلاف ہوتی.مگر جو پیشگوئیاں شائع کی جاتی ہیں وہ لوگوں کی ہدایت کے لئے ہوتی ہیں اور خدا تعالی خود ایسے سامان دیتا ہے کہ جب وہ پوری ہوں تب بھی ان کی اشاعت کثرت سے کی جائے.سو اس وقت زار کی معزولی کا جو گورنمنٹ برطانیہ کا حلیف تھا ایک ایسے رنگ میں واقع ہونا کہ جس کو شائع کرنا کسی مصلحت کے خلاف نہیں بناتا ہے کہ اس خبر کا دینے والا قادر خدا ہے جس نے اگر ایک خبر قبل از وقت بتادی تھی تو اس کے شائع کرنے کے سامان بھی خود ہی کر دیئے ہیں.میں آخر میں تمام بنی نوع انسان کو جو خواہ کسی مذہب یا فرقہ کے پیرو ہوں یا کسی ملک کے باشندے ہوں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ کیا یہ زبر دست نشان اس بات کی کافی شہادت نہیں کہ جس کے ہاتھ پر ظاہر ہوا وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور اس کے بھیجے ہوؤں میں ہے اگر نہیں تو کسی نبی کی صداقت کا بھی کوئی ثبوت نہیں.اے عزیز وا دنیا کے فسق و فجور کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے چاہا ہے کہ پھر اسے راستی اور صداقت سے بھر دے اور اسے نیکی اور تقویٰ پر قائم کر دے.وہ مہربان خدا جو ہمیشہ گمراہی اور تاریکی کے زمانوں میں ہادی بھیجتا رہا ہے اور صداقت کا سورج چڑھاتا ہے اس کی رحمت نے تقاضا کیا کہ اس زمانہ کو بھی اپنی رحمت سے محروم نہ رہنے دے.پس اس نے اپنا رسول بھیج کر اپنے قرب کے دروازے کھول دیئے.جس کے دل میں اس کی محبت ہو اور جس کی روح اس کے آستانے پر گرنے کے لئے تڑپتی ہو وہ آگے بڑھے کہ اس کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت آگیا ہے اور اس کی آرزو کے بر آنے کی گھڑی آگئی ہے.آہ! کیا داناؤں کی آنکھیں کھولنے کے لئے یہ بات کافی نہیں کہ اس وقت تمام کے تمام مذاہب اس نعمت عظمیٰ کے پانے سے محروم ہیں جس کی نسبت سب کو اقرار ہے کہ پہلے زمانہ میں ان کے بڑوں کو حاصل تھی.سب مذاہب کہتے ہیں کہ ان کے بڑوں کو الہام ہوتے تھے لیکن یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اب ان کو نہیں ہوتے.کیا کوئی سعید روح نہیں جو اس بات پر غور کرے کہ کیوں پہلے الہام کا دروازہ کھلا تھا اور اب نہیں.کیا یہ اس بات کا ثبوت نہیں کہ وہ مذاہب اس جادہ ہدایت سے جس پر وہ پہلے قائم تھے دور ہٹ گئے ہیں.کیسے افسوس کی بات ہے کہ خدا پر الزام لگایا جاتا ہے.لیکن اپنی کمزوری کا اقرار نہیں کیا جاتا.یہ تو کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بلا وجہ وحی کا دروازہ بند کر دیا ہے لوگ وہ تمام اعمال بجالاتے ہیں جو پہلے بجالاتے تھے لیکن خدا تعالیٰ ان کو وحی نہیں کرتا.لیکن یہ نہیں تسلیم کیا جاتا کہ خدا تعالیٰ تو فضل کرنے کے لئے اب

Page 591

رالعلوم جلد ۳ ۵۶۴ زندہ خدا کے زبردست نشان بھی تیار ہے مگر خود ہی اس کی رضا کی راہ کو چھوڑ گئے ہیں جس کی وجہ سے اس کے فضلوں سے محروم ہو گئے ہیں.ورنہ خدا تعالیٰ اب بھی بولتا ہے.چنانچہ اس نے اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود سے کلام کیا ہے اور ان کی اتباع کرنے والے اور ہزاروں سے ہم کلام ہوا ہے.ہو.اے اہل ہند! آپ خواہ کسی قوم یا کسی مذہب یا کسی زبان کے بولنے والے ہیں.میں آپ کو اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس نعمت الہی کی قدر کریں جو اس نے اپنے فضل سے آپ پر نازل فرمائی ہے.کسی ملک میں خدا تعالیٰ کا نبی آنا اس ملک کی کچھ کم عزت نہیں بلکہ یہ وہ انعام الہی ہے جس پر قومیں رشک کرتی ہیں.خوش ہو کہ خدا نے اس زمانہ کے لئے ملک ہند کو جو آپ لوگوں کا مسکن و وطن ہے چنا.مختلف ممالک کے لوگ اس نعمت کے حصول کے لئے سخت آرزو مند تھے اور ہر ایک شخص خواہش کرتا تھا کہ میرا ملک اس کا مورد لیکن خدا کے فضل نے اس نعمت کا سزاوار ہند کو قرار دیا.پس اہل ہند جس قدر بھی اس احسان پر خوش ہوں کم ہے.کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی نادانی ہو سکتی ہے کہ خدا تعالیٰ کسی ملک کو انعام دے اور وہ اس کے لینے سے انکار کرے.پس حق کے قبول کرنے لئے دوڑو کہ اس میں آپ لوگوں کے لئے دینی و دنیاوی دونوں طرح کی عزت ہے.وہ دن آتے ہیں جب مسیح موعود کے طفیل ہندوستان کا نام بلند کیا جائے گا.بلکہ وہ دن دروازہ پر ہے بلکہ اس کی پو پھٹ رہی ہے.پس غفلت شعار مت بنو.اور اس شخص کی طرح مت ہو جس کے گھر میں پیشمہ پھوٹ رہا ہو اور چاروں طرف کے لوگ اس میں آکر خیمہ زن ہو رہے ہوں اور اس سے سیراب ہو رہے ہوں لیکن وہ خود پیاسا تڑپ رہا ہو اور پانی پینے کی کوشش نہ کرے.مختلف ممالک کی سعادت مند رو میں خدا کے اس مامور کے دامن سے وابستہ ہو کر فیوض روحانی حاصل کر رہی ہیں.پس کس قدر افسوس ہے اس قوم پر جو قریب ہو کر بعید ہو اور پاس ہو کر دور ہو.گنگا آپ لوگوں کے گھروں میں بہہ رہی ہے اس کے متبرک پانی میں نہا کر اپنی ادناس کو دور کرو.کہ خدا کے نزدیک مادی پانی سے اپنے بدن کو صاف کرنے والا شخص پاک نہیں کہلاتا بلکہ وہ جو کہ روحانی پانی سے اپنے آپ کو پاک کرتا ہے.اے اہل ہند! اپنی عزت کا خیال ایک فطری امر ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے گو اس عزت کے معیار میں فرق ہوتا ہے.بہت سے لوگ تو نا جائز طور پر تمام عزت کی باتوں کو اپنی

Page 592

دم جلد ۳ ۵۶۵ زندہ خدا کے زیر دست نشان طرف منسوب کرتے ہیں.مسلمانوں کو دیکھو ہر ایک مشہور آدمی کا مقبرہ یا کوئی اور متبرک شئے جو کسی غیر ملک میں پائی جاتی ہے اس کی نقل انہوں نے یہاں بنا رکھی ہے اور اس کو اصل قرار دیتے ہیں.ہندوؤں کا بھی یہی حال ہے.ایک ایک بزرگ کے مسکن و مولد کے کئی علاقے دعویدار ہیں کیونکہ وہ اس میں اپنی عزت پاتے ہیں.جب غلط اور بنارٹی عزت کے لئے اس قدر کوشش کی جاتی ہے تو حقیقی اور کچی عزت کو کیوں چھوڑا جاتا ہے.خدا کے انعام کی قدر کرو کہ اس میں بھلا ہے اگر آپ لوگوں پر بڑا فضل ہوا ہے تو آپ بڑی ذمہ داری کے نیچے بھی ہیں جو خدا کے فضل کو رد کرتا ہے خدا تعالٰی کا غضب اس پر بھڑک پڑتا ہے.پس اپنے دل میں خود فیصلہ کرو کہ ان دونوں میں سے کون سی شے اس قابل ہے کہ اسے قبول کیا جائے آیا اس کا غضب یا فضل.خوب یاد رکھو خدا کا غضب برداشت کرنے کی کسی میں طاقت نہیں.پس اس کے فضل کو قبول کرو اور اس کے مامور اور او تار پر ایمان لاؤ تا دونوں جہان میں سکھ پاؤ.اے یورپ و امریکہ کے لوگو! تم نے خدا تعالیٰ کے پیدا کردہ مادی عالم کو اختیار کر کے بہت سے فوائد حاصل کئے ہیں اور علوم و فنون کے دروازے تم پر کھل گئے ہیں.کیا یہ تمہارے لئے کافی تحریص نہیں کہ اس کے عالم روحانی کی بھی سیر کرو تا اس سے بھی زیادہ کامیابی کا منہ دیکھو.تم خدا تعالیٰ کی قدرت کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کر رہے ہو اور اس جنگ عالمگیر کی عظمت اور زار روس کی حالت زار کو ان لوگوں کی نسبت جو دوسرے ممالک کے رہنے والے ہیں زیادہ لد گی.سے سمجھ سکتے ہو.پس خدا کے نشانوں سے فائدہ اٹھاؤ تا خدا تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنو.یاد رکھو کہ وہ اسلام جو پادریوں نے تمہارے سامنے پیش کیا ہے حقیقی اسلام نہیں بلکہ مسح کر کے تمہارے سامنے پیش کیا گیا ہے.حقیقی اسلام علوم روحانی کا ایک ایسا بیش بہا ذخیرہ ہے کہ اس کا مقابلہ کوئی اور مذہب نہیں کر سکتا.حضرت مسیح فرماتے ہیں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.پس اسلام کو اس نظر سے نہ دیکھو جس سے کہ اسلام کے دشمن تم کو دکھانا چاہتے ہیں بلکہ اس نظر سے دیکھو جس سے کہ صحیح تم کو دکھانا چاہتا ہے.اور غور کرو کہ اسلام کے پھل کیسے شیریں ہیں.اس وقت جب کہ سب مذاہب اپنی صداقت کا زندہ نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہیں اسلام ہی ایک مذہب ہے کہ جو اپنی زندگی کا ثبوت دیتا ہے اور جس پر چل کر انسان خدا تعالی سے ہم کلام ہوتا ہے.پس اسلام کو قبول کرو اور اس نبی پر جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں اور اسلام کی شریعت پر چل کر خدا سے اس رتبہ کو پایا ہے ایمان

Page 593

ر العلوم جلد ۳۰ ۵۶۶ زندہ خدا کے زبر دست نشان لاؤ تا تم خدا تعالیٰ کے سب احکام کے قبول کرنے والے اور اس کے سب نبیوں کے ماننے والے قرار پاؤ اور مسیح کی روح تم سے خوش ہو.کیونکہ جو اس کے مثیل کو قبول کرتا ہے وہی اس کو بھی قبول کرتا ہے اور جو اس کے مثیل کو رد کرتا ہے وہ در حقیقت اس کو رد کرتا ہے جس کے نام پر وہ آیا ہے.واجرة وما أن الحمد لله رب العلمين خاکسار مرزا محمود احمد قادیان هم ر ا پریل ۱۹۱۷ء

Page 594

دم.جلد ۵۶۷ خدا کے قہری نشان پیشگوئی زار روس پر استہزاء کرنیوالوں کو جواب) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی خدا کے قمری نشان

Page 595

۵۶۸

Page 596

العلوم جلد ۳۰ بسم الله الرحمن الرحیم ۵۶۹ نحمده و فصلی علی رسولہ الکریم دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا".ی نشان خدا کے قہری نشان پرسوں بروزبدھ مجھے کچھ ٹریکٹ ملے جن میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی متعلق زار پر کچھ اعتراض تھے اور تمسخر کیا گیا تھا.میں نے جب ان اشتہارات کو پڑھا تو میرے دل کو اس سے سخت صدمہ ہوا کہ اس وقت مسلمانوں کی حالت کہاں سے کہاں تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اسلام کی فتح پر بجائے خوش ہونے کے ناراض ہوتے ہیں اور بجائے ایمان میں بڑھنے کے کفر کی طرف قدم اٹھاتے ہیں اور بجائے خدا تعالیٰ کے مامور کی شناخت کرنے کے دوسرے کے لئے بھی گمراہی کا موجب بنتے ہیں بلکہ اس پر فخر کرتے ہیں اور میرے دل سے اپنے رب کے حضور ایک فریاد اٹھی کہ اے خدا تو ہی اس کا جواب ان نادانوں کو دے تاکہ یہ سمجھیں کہ ان کی بھلائی کس بات میں ہے اور ان کی ہلاکت کس امر میں.مجھے تعجب ہے کہ اس بات کے ثابت کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود نے جو ایک شدید آفت کی نسبت پیش گوئی کی تھی اس سے مراد یقینا زلزلہ تھا.کاتب اشتہار نے دیانتداری سے کام نہیں لیا وہ براہین احمدیہ حصہ پنجم سے ایک حوالہ نقل کرتا ہے کہ "پھر آپ خود سوچ لیں کہ یہ پیش گوئی گول مول کیسے ہوئی جب کہ صریح اس میں زلزلہ کا نام بھی موجود ہے اور یہ بھی موجود ہے کہ اُس میں ایک حصہ ملک کا نابود ہو جائے گا.اور یہ بھی موجود ہے کہ وہ میری

Page 597

انوار العلوم جلد - ۳ ۵۷۰ زندگی میں آئے گا." صفحہ ۹۰ سطر ۹- (روحانی خزائن جلد ۲۱ ق ۲۵۱) لیکن یہ حوالہ جو اس نے نقل کیا ہے آئندہ پیش گوئی کے متعلق ہے ہی نہیں بلکہ سائل کے اس سوال کے جواب میں یہ تحریر لکھی گئی ہے کہ ۴.اپریل کا زلزلہ آپ کی پیش گوئی کے مطابق کس طرح کہلا سکتا ہے.چنانچہ سائل کا اگلا فقرہ خود اس امر کی تصدیق کرتا ہے.وہ لکھتا ہے "جناب مقدس مرزا صاحب نے دوبارہ زلزلہ آنے کی خبر دی ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ کوئی زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید آفت ہے اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا حادثہ کب ہو گا." صفحہ ۹۱ یہ فقرہ صاف بتا رہا ہے کہ سائل کا پہلا سوال پہلے زلزلہ کے متعلق تھا جو پورا ہو چکا.اور دو سرا سوال آئندہ کی پیش گوئی کے متعلق تھا.اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ آئندہ آنے والی خبر کے متعلق اسی وقت کہہ دیا گیا تھا کہ اس کی مراد زلزلہ کے سوا اور کوئی آفت شدیدہ بھی ہو سکتی ہے.اور جو جواب حضرت مسیح موعود نے سائل کو دیا ہے اس سے بھی یہی ثابت ہو تا ہے کہ ضروری نہیں کہ زلزلہ ہی آئے بلکہ ممکن ہے کہ کوئی اور آفت شدیدہ ہو.چنانچہ جو حوالجا کاتب اشتہار دیتا ہے وہ بھی بتا رہے ہیں کہ آپ نے اس بات کا اظہار کر دیا تھا کہ بعید نہیں کہ زلزلہ سے مراد کوئی اور آفت ہو.چنانچہ وہ ایک حوالہ براہین احمدیہ سے لکھتا ہے."ہم نے کب اور کسوقت اپنی پیشگوئیوں کے الفاظ کے یعنی کئے ہیں کہ ان سے مراد زلزلہ نہیں ہے بلکہ ہم تو کہتے ہیں کہ اکثر او ر اغلب طور پر زلزلہ کے لفظ سے مراد زلزلہ ہی ہے." یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کو یہ خیال ضرور تھا کہ زلزلہ سے مراد کوئی اور آفت بھی ہو سکتی ہے چنانچہ اس بات کی تائید میں ہم کچھ اور حوالہ جات بھی نقل کرتے ہیں ضمیمہ براہین احمدیہ کے صفحہ ۹۶ پر آپ تحریر فرماتے ہیں کہ "تعجب کہ ہم بار بار کے جاتے ہیں کہ نکن غالب کے طور پر زلزلہ سے مراد ہماری پیش گوئیوں میں زلزلہ ہی ہے اور اگر وہ نہ ہو تو ایسی خارق عادت آفت مراد ہے جو زلزلہ سے شدید مناسبت رکھتی ہو اور پورے طور پر زلزلہ کا رنگ اس کے اندر موجود ہو.پھر بھی معترض صاحب کی اس قدر الفاظ سے تسلی نہیں ہوتی." اسی طرح براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ ۱۲۰ پر فرماتے ہیں " ممکن ہے یہ معمولی زلزلہ نہ ہو بلکہ کوئی اور شدید آفت ہو جو قیامت کا نظارہ دکھلاوے جس کی نظیر کبھی اس زمانہ نے نہ دیکھی ہو اور جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے." (روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ ۱۵۱) ان عبارتوں کے پڑھنے سے ہر ایک صاحب دانش معلوم کر سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود نے آنے والی آفت کو

Page 598

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۷۱ خدا کے قمری نشان یقینی طور پر کبھی بھی زلزلہ نہیں قرار دیا بلکہ ہمیشہ احتمال بتایا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی آفت مراد ہو جس سے جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آوے.اب غور کر کے دیکھو کہ زلزلہ کے سوادہ اور کونسی آفت ہے جس سے جانوں اور عمارتوں پر سخت تباہی آسکتی ہے اور جس کو زلزلہ سے مشابہت تامہ ہوتی ہے کیا وہ جنگ ہی نہیں.خود قرآن کریم میں جنگ کو زلزلہ سے مشابہت دی گئی ہے جیسا کہ حضرت سلیمان کے حملہ پر ملکہ سبا کا قول نقل فرماتا ہے کہ ران المُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا أَعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةٌ- (النمل: ۳۵) یعنی جنگ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب ایک بادشاہ فاتحانہ طور پر دوسرے ملک میں داخل ہوتا ہے تو اوپر کے طبقہ کو نیچے کر دیتا ہے اور یہی حال زلزلہ شدید کا بیان فرماتا ہے جیسا کے حضرت لوط کی قوم کی نسبت فرماتا ہے جَعَلْنَا عَلَيْهَا سَافِلَهَا : (ہود (۸۳) کہ اس کے اوپر کے طبقہ کو نیچے کا طبقہ بنا دیا پس جنگ کو زلزلہ سے نہایت گہری مشابہت ہے کہ جسمانی لحاظ سے بھی اور طبقات مختلفہ کے لحاظ سے بھی اس کا فعل زلزلہ کی طرح ہوتا ہے خصوصاً اس زمانہ کی جنگیں کہ جن میں کثرت سے سرنگیں اڑائی جاتی ہیں وہ تو بالکل ہی زلزلہ کے رنگ میں ہوتی ہیں.اب رہا یہ اعتراض کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ وہ زلزلہ اس ملک میں آئے گا اور آپ کی زندگی میں آئے گا یہ دونوں اعتراض قلت تدبر کا نتیجہ ہیں پہلے اعتراض کا تو یہ جواب ہے کہ حضرت مسیح موعود نے یہ نہیں لکھا کہ وہ زلزلہ دوسرے ملک میں نہیں آئے گا.بلکہ صاف طور پر فرمایا ہے کہ وہ آفت شدیدہ دیگر ممالک میں بھی آئے گی چنانچہ آپ فرماتے ہیں "اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا ! تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں" (حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه (۲۷۹) اسی طرح خود ده اشعار جن میں موجودہ جنگ کی خبر ہے بتا رہے ہیں کہ یہ آفت عام ہو گی اور سب دنیا پر آئے گی.جیسا کہ فرماتے ہیں.مضمحل ہو جائیں گے اس خوف سے سب جن وانس - زار بھی ہو گا تو ہو گا اس گھڑی باحال زار پس جب کہ حضرت مسیح موعود اس موعود آفت کا مورد تمام بنی نوع انسان کو اور خصوصاً زار روس کو جو ہندوستان سے سات ہزار میل پر رہتا ہے قرار دیتے ہیں تو یہ کہنا کہ وہ آفت

Page 599

رالعلوم جلد ۳ ۵۷۲ ہندوستان کے سوا اگر کسی اور جگہ بھی آئی تو اس سے پیش گوئی کی صداقت میں نقص آتا ہے کیسی جہالت کی بات ہے.ہاں یہ اعتراض اس وقت ہو سکتا تھا جبکہ ہندوستان اس سے بچا رہتا لیکن کیا یہ واقعہ ہے کہ ہندوستان اس آفت کے صدمہ سے محفوظ ہے.کیا ہزاروں لاکھوں اپنائے ہند دنیا کے دور دراز ملکوں میں زیر زمیں دبے ہوئے اس امر کی شہادت نہیں دے رہے کہ ہندوستان بھی اس آفت شدیدہ کے صدمے سے محفوظ نہیں اور اپنا پورا حصہ لے رہا ہے.اس اشتہار کے لکھنے والے کو اگر کوئی شبہ ہو تو وہ پنجاب کے علاقہ میں پھر کر دیکھے کہ قریباً ہر شہر اور ہر بستی اپنے ان عزیزوں پر ماتم کر رہی ہے.جو مختلف میدانوں میں دشمنان امن و صلح کی گولیوں کی نذر ہوئے.اور جنہوں نے اپنے محسن بادشاہ اور عزیز ملک کے لئے اپنے خونوں کو پانی کی طرح بہا دیا.ہاں وہ ان مصیبت زدہ ماؤں اور بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں اور بوڑھے باپوں سے سوال کرے جن کی آنکھوں کے نور اور سر کے سایہ اور بڑھاپے کے اعضاء جاتے رہے اور ہمیشہ کی لئے جاتے رہے تا اسے معلوم ہو کہ یہ ہنسی کا وقت نہیں بلکہ رونے کی گھڑی ہے اور تا اسے معلوم ہو کہ خدا کی باتیں کس طرح زبر دست طور پر پوری ہوتی ہیں.اب رہا یہ سوال کہ حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ وہ زلزلہ یا آفت شدیدہ آپ کی زندگی میں آئے گی تو اس کا یہ جواب ہے کہ بے شک حضرت مسیح موعود نے ایسا ہی لکھا ہے.لیکن خدا تعالیٰ کی حکمت کاملہ نے چاہا کہ اس کے برخلاف ہو اور وہ وقت بجائے حضرت مسیح موعود کی زندگی میں آنے کے آپ کے کسی اور موعود کے وقت میں آوے.چنانچہ اللہ تعالٰی نے آپ کو یہ دعا الهانا سکھائی کہ رَبِّ آخِرُ وَقتَ هذا اے خدا تو اس آفت کے وقت کو پیچھے ڈال دے.اور پھر اس کا جواب یہ دیا کہ آخَرُهُ اللهُ إِلى وَقْتِ تُسَمَّى یعنی اللہ تعالٰی نے اس کو اس وقت تک جو بیان ہو چکا ہے پیچھے ڈال دیا.( تذکرہ صفحہ ۱۰۶ - ایڈیشن چهارم ) پس اس الہام نے بتا دیا تھا کہ اب وہ زلزلہ آپ کے سامنے نہیں آئے گا.لیکن یہ بھی بتا دیا تھا کہ جو وقت بتایا گیا تھا اس کے اندر ہی آئے گا کیوں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ وقت جو مقرر ہو چکا ہے اس تک ہم نے پیچھے کر دیا ہے.اور ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود نے زلزلہ کی میعاد کے متعلق دو باتیں بیان کی ہیں.ایک یہ کہ آپ کی زندگی میں ہو گا اور دوسری یہ کہ سولہ سال کے اندر ہو گا.پس جب کہ آپ کی زندگی کے متعلق الہام نے بتا دیا کہ اس میں یہ واقعہ

Page 600

قوم جلد ۳۰ ۵۷۳ خدا کے قمری نشان نہیں ہو گا.اور پھر یہ بھی فرما دیا کہ جو وقت کہا گیا ہے اس کے اندر یہ واقعہ ہو گا تو معلوم ہو گیا کہ کو آپکی زندگی میں یہ واقعہ نہ ہو گا مگر سولہ سال کے اندر ہو گا اور ایسا ہی ہوا.الہام کے دس سال کے بعد گیارھویں سال یہ الہام پورا ہوا.اگر کوئی شخص یہ کہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زلزلہ کے الہامات پر اپنے مکان کو چھوڑ کر باہر خیموں میں کچھ مدت رہائش کی اور یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ آپکی مراد زلزلہ سے زلزلہ ہی تھا.تو یہ اعتراض درست نہیں کیونکہ جب کہ الفاظ الہام میں زلزلہ کا ذکر تھا تو احتیاطاً ایسا کرنا ہر گز اس پیش گوئی کی عظمت میں کمی نہیں لاتا.یہ انبیاء کا طریق ہے کہ وہ الہام کو ہر طرح پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو واقعہ حدیبیہ جو پیش آیا اسی قبیل سے تھا.ان الہامات کے متعلق یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود کو زلزلوں کے متعلق کئی الهامات ہوئے تھے.جن میں سے بعض ظاہر کرتے تھے کہ وہ زلزلہ اس ملک میں آئے گا.بعض ظاہر کرتے تھے کہ سب دنیا میں آئے گا.بعض ظاہر کرتے تھے کہ وہ آپ کی حیات میں آئے گا.اور در حقیقت یہ ایک زلزلہ نہ تھا بلکہ بہت سے زلزلے تھے.چنانچہ آپ کا یہ الہام کہ " چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی پنج بار " (۱۴ مارچ ۱۹۰۶ء.تذکرہ صفحہ ۷۰۳) اس بات کا مظہر ہے کہ پانچ دفعہ اس قهری نشان کی سخت تجلی ہو گی اور بھی الہام تھے جو چھوٹے چھوٹے زلزلوں کی کثرت سے واقعہ ہونے کی خبر دیتے تھے مگر بہر حال پانچ دفعہ کا ذکر تو صاف الفاظ میں تھا.جن میں سے دو زلر لے تو حضرت صاحب کی زندگی میں آئے.ایک امریکہ میں اور ایک چلی میں آیا اور یہ زلزلے ان الہامات کے بعد واقعہ ہوئے.اور ایک میں ڈیڑھ ہزار آدمی ہلاک ہوئے اور.دوسرے میں اڑھائی ہزار.اور جو زخمی ہوئے ان کی تعداد تو بہت زیادہ ہے.اور ان کے واقعہ ہونے کے بعد کئی لوگوں کو جو صداقت پسند تھے اور ان پیشگوئیوں سے واقف تھے ہدایت بھی ہوئی.پس زندگی میں بھی بعض زلزلے آئے اور لوگوں کو ان سے ہدایت بھی ہوئی.اور ایک آفت جو زلزلہ سے کمال مشابہ تھی الہامات کے مطابق آپ کی وفات کے بعد بھی آئی.جس کا اثر جیسا کہ پیش گوئی میں بتایا گیا تھا ساری دنیا پر پڑا.اور سب بڑے اور چھوٹے انسان اس سے متاثر ہوئے اور یورپ بر اعظموں میں سے اور زار افراد میں سے خصوصاً اس آفت عظیمہ کا مورد بنا.اور بہت لوگوں نے ان نشانات کو دیکھ کر ہدایت بھی حاصل کی لیکن جو جنم کے اندھے

Page 601

۵۷۴ ہیں وہ اس روحانی سورج کو کہاں دیکھ سکتے ہیں.ان کا حال تو ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ مہ نورے فشاند و سگ بانگ می زند - یہ لوگ خوب یاد رکھیں کہ زلزلوں کا لانا بھی خدا تعالیٰ کی طاقت سے باہر نہیں.چنانچہ اسی دن کہ میرے پاس یہ اشتہار پہنچا جس میں حضرت صاحب کی اس پیش گوئی سے استہزاء کیا گیا تھا اور جسے پڑھ کر میرے دل میں درد پیدا ہوا رات کے وقت ایک سخت دھکا آیا.اور گو اب تک تفصیلی حالات معلوم نہیں ہوئے مگر جہاں تک معلوم ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ زلزلہ بھی سخت تھا.بلکہ بعض لوگوں کے خیال میں ۴.اپریل کے زلزلہ سے سخت محسوس ہو تا تھا.چنانچہ دھرم سالہ سے ایک صاحب لکھتے ہیں." آج قریبا ۳ بج کرے امنٹ پر بوقت رات نہایت سخت زلزلہ آیا.اور قریباً نصف منٹ تک زمین برابر تھراتی رہی اور تمام مکان پھٹ گئے.اور اکثر مکان اور دکانات گر گئیں.اور نیکہ چوہلہ کے تمام مکانات گر گئے اور باغیچہ ٹوا کے مکانات گر جانے سے ایک آدمی دب کر مر گیا اور کچھ زخمی ہوئے." پھر لکھتے ہیں " یہ زلزلہ ۴.اپریل ۱۹۰۵ء کے زلزلہ سے زیادہ ہوا." یہ حال تو ابھی مجمل ہے جب تفصیلات شائع ہوں گی تو نہ معلوم کیا حال ظاہر ہو گا.مگر جس قدر بھی اس وقت تک معلوم ہو سکا ہے وہ بھی غافلوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے.اور اس میں بھی دو نشان ہیں.ایک تو یہ کہ حضرت مسیح موعود کی پیش گوئی کہ بار بار زلزلے آئیں گے پوری ہوئی اور دوسرے یہ کہ بعض دریدہ دہنوں کے اعتراضات کے جواب میں خدا تعالیٰ نے فوراً ہی اس الہام کو پورا کیا اور بتایا کہ نادانو! میرے پاس زلزلہ بھی ہے.اور اس ملک کے لوگ زلزلوں کے دھکے کھا کر اپنی شوخی چھوڑنا چاہتے ہیں تو میں اس کے لئے بھی تیار ہوں.یہ گمان مت کرو کہ زلزلے تو آیا ہی کرتے ہیں.کیونکہ یہ گمان سخت خطرناک ہے بہت سی قو میں ایسا گمان کر کے ہلاک ہو چکی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ تبِي إِلَّا اخَذْنَا أَهْلَهَا بِالْبَاسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَضَرَعُونَه ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ السَّيِّئَة الْحَسَنَةَ حَتَّى عَفَوْا وَ قَالُوا قَدْ مَسَّ بَاءَ نَا الصَّرَاءُ وَالسَّرَاء فَا خَذْنَهُمْ بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ (الاعراف: ۹۶۹۵) یعنی ہم نے کبھی کوئی رسول کسی بستی کی طرف نہیں بھیجا کہ اس کے بھیجنے کے ساتھ ہی وہاں کے لوگوں کو مالی و بدنی مصائب میں گرفتار نہ کیا ہو.اور اس سے غرض ہماری یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ خدا کے حضور عاجزی کریں.پھر ہم بدل دیا کرتے ہیں تکلیف.

Page 602

انوار العلوم جلد - ۵۷۵ کے بدلے آرام.یہاں تک کہ لوگ بڑھنے لگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تکلیف بھی اور سکھ بھی دونوں ہمارے باپ دادا کو بھی پہنچا کرتے تھے.پھر ان دکھوں میں نبی کی صداقت کا کیا ثبوت ہے.پس ہم پکڑ لیتے ہیں ان کو اچانک اور وہ نہیں سمجھتے.پس یہ خیال ایک خطرناک خیال ہے اور ان لوگوں کا خیال ہے جو حق سے دور ہونے والے ہیں.حق یہی ہے کہ عام عذاب اس وقت اور اسی زمانہ میں آتے ہیں جب پہلے کوئی رسول مبعوث ہو چکا ہو جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثُ رَسُولا؟ (بنی اسرائیل : ۱۶) یعنی ہم کبھی عذاب نہیں بھیجا کرتے جب تک اس سے پہلے رسول نہ بھیج لیا کریں.پس یہ عذاب اس قابل نہیں کہ ان کو معمولی سمجھو.یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کا کوئی رسول مبعوث ہو چکا ہے.جس کی آنکھیں ہوں دیکھے اور جس کے کان ہوں سنے کہ ان ایام کے زلازل معمولی نہیں.بلکہ ان کی کثرت اور شدت کی مثال پہلے زمانوں میں نہیں پائی جاتی.حضرت مسیح موعود نے براہین احمدیہ میں یہ الہام شائع کیا تھا کہ.”دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا.لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور اور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دیگا.اَلْفِتْنَةُ هُهُنَا فَاصْبَرُ كَمَا صَبَرَا ولوا و و الْعَزْمِ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكَّاقُوَّةُ الرَّحْمَنِ لِعُبَيْدِ اللهِ الصَّمَدِ (روحانی خز أن ما حاشیہ) اور اس کے بعد خدا تعالٰی کے حملے زلزلوں کے رنگ میں بھی جس قدر ہوئے ہیں اگر دوسرے عذابوں کو نظر انداز کر کے انہی کو دیکھا جائے تو وہ آنکھوں والوں کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں.انسائیکلو پیڈیا میں تین صدیوں کے دنیا کے بڑے بڑے زلزلوں کی فہرست اور تعداد اموات دی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت کے زلزلوں کی نسبت وہ کس قدر حقیر تھے.ہم اس تین سو سال کے زلزلوں کو دو حصوں پر تقسیم کرتے ہیں.ایک براہین احمدیہ کے شائع ہونے کے بعد کا زمانہ اور ایک اس سے پہلے کا.تاکہ معلوم ہو کہ اس قلیل عرصہ میں کس قدر کثرت زلزلوں کی ہوئی اور کیسے سخت نقصان ہوئے ہیں اور اس سے پہلے کا کیا حال تھا وہ فہرست یہ ہے.تعداد اموات ملک زلزلہ کس سن میں آیا تعداد اموات ملک زلزلہ کس سن میں آیا ساتھ ہزار سلی ٤١٦٩٣ بائیس ہزار ایل پیو Flarr اٹھارہ ہزار لیا ۱۷۲۴ء دس ہزار کیلیبیریا ۱۸۵۷ء

Page 603

رالعلوم جلد ۳ ۵۷۶ پچاس ہزار بسن ۷۵۵اء بارہ ہزار منڈورا ساٹھ ہزار کیلیپیریا ۶۱۷۸۳ پچیس ہزار پیرو اور اکتالیس ہزار کیوٹو ایکواڈور بارہ ہزار کیراکس تین ہزار فیلا ۶۱۸۶۰ FIAYA FIAA+ خدا کے قمری نشان براہین احمدیہ کی اشاعت کے بعد کا زمانہ ۶۱۸۸۳ ۶۱۸۸۳ FLAGY ۶۱۹۰۲ +19+0 سان فرانسسکو ۱۹۰۶ء ڈیڑھ ہزار اڑھائی ہزار و پلیسیریز و چلی ۱۹۰۷ ایک ہزار جمیکا $19.2 تین لاکھ مینیا اور کیل پیپر یا ۶۱۹۰۸ دو ہزار اسمحيا پتیس ہزار کیرا کیٹوا چھیں ہزار جاپان ہیں ہزار مانٹ پیلی پندرہ ہزار هندوستان اس گفتی کو دیکھو کہ پہلے دو سو نوے سال میں تین لاکھ تیرہ ہزار اموات زلزلوں سے ہوئیں ہیں اور گیارہ زلزلے آئے ہیں.اور ان چھبیس سال میں چار لاکھ تین ہزار اموات ہوئی ہیں.اور دس زلزلے آئے ہیں.گویا ایک لاکھ کے قریب ان سے زیادہ (یعنی سخت زلزے) اور اس کے بعد اٹلی کا زلزلہ جو ۱۹۱۴ء میں آیا ہے.اور لڑکی کا زلزلہ شامل کیا جائے.تو قریباً ایک لاکھ اموات اور دو زلزلے اور زیادہ ہو جاتے ہیں.پس غور کرو کہ تین سو سال میں جس قدر زلازل دنیا میں آئے تھے انکی اموات کی تعداد سے حضرت مسیح موعود کے الہام کے بعد جو زلازل آئے ہیں ان میں اموات کی تعداد زیادہ ہے.اور قلیل عرصہ میں بہت سے زلزلے آئے ہیں.پھر دیکھو کہ کس طرح حضرت کے اس الہام کے بعد جس خاص طور پر زلزلے آنے اور قریب آنے کا ذکر تھا متواتر چار سال یعنی پانچ چھ سات اور آٹھ میں زلزلے آئے ہیں.اور ان چار سال میں اموات کی جو تعداد ہے وہ بھی اس تین سو سال کی اموات سے زیادہ ہے.یعنی تین سو سال میں تین لاکھ تیرہ ہزار اموات ہوئی ہیں.اور ان چار سال کے عرصہ میں حضرت صاحب کے دعوے تین سو سال کے زلزلوں کی اموات سے سات ہزار آدمی زیادہ مرے ہیں.فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ - آخر میں میں تمام طالبان حق سے عرض کرتا ہوں کہ اپنی جانوں اور اپنے مالوں پر رحم کرو.اور اس دریدہ دہنی سے باز آؤ جو خدا تعالیٰ کے مرسل کے مقابلہ میں کی جاتی ہے.خوب یاد

Page 604

العلوم جلد - ۳ خدا کے قہری نشان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غیور ہے اور اس کا مقابلہ کرنے کی کسی انسان میں طاقت نہیں.مسیح موعود کی صداقت کے ثابت کرنے کے لئے اللہ تعالٰی نے لاکھوں نشانات دکھائے ہیں جن کو پڑھ کر دشمن بھی اقراری ہیں اور احرار یورپ بھی ان کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیں.پس کیوں اپنے آپ کو ایسا بد قسمت بناتے ہو کہ دور دراز کے علاقوں کے لوگ تو اس نعمت الہی کو قبول کریں اور تم محروم رہو.اے مسلمان کہلانے والو! اور رسول کریم ﷺ کی محبت کے دم بھرنے والو! خدا کا خوف کرو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور نائب کا مقابلہ کرنے سے باز آؤ.کیا روز قیامت اس پاک رسول کو موضہہ بھی دکھانا ہے یا نہیں ؟ کیا اسلام کی عظمت تمہارا مدعا نہیں ؟ کیا اسکی فتح تمہیں مقصود نہیں؟ اگر ہے تو خدارا سوچو کہ کیوں تم اسلام کی فتح اور اس کی عظمت کے اظہار کے وقت صرف اس لئے جوش میں آجاتے ہو کہ اس میں حضرت مرزا صاحب کی صداقت ظاہر ہوتی ہے.مرزا صاحب نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم ان کی مخالفت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی ہتک برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہو.یاد رکھو کہ خدا کے وعدے پورے ہو کر رہتے ہیں.سورج نکل آیا ہے اور اب تاریکی سوائے ہند مکانوں اور غاروں اور تنگ سوراخوں کے اور کہیں باقی نہیں رہ سکتی.پس یہ ت سمجھو کہ کسی کی کوشش سے یہ سلسلہ ہلاک یا تباہ ہو جائے گا.اس کی سچائی پھیلے گی اور ضرور پھیلے گی اور تمام ممالک میں اس کی اشاعت ہو گی.پس وقت کو پہچانو اور اسلام پر رحم کرو.نہیں بلکہ اپنی جانوں پر رحم کرو اور دوڑ کر اس حق کو قبول کرو جو تمہیں عزت دینے اور اسلام کو دیگر ادیان پر دلائل و براہین سے غالب کرنے کے لئے ظاہر ہوا ہے.واخِرَهُ مُوسَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی قادیان دار الامان ضلع گورداسپور ۱۲ مئی ۱۹۱۷ء

Page 605

Page 606

ויי ۵۷۹ ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد (فرموده ۱۲ ستمبر ۱۹۱۷ء) بمقام شمله از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد

Page 607

Page 608

علوم جلد ۳۰ بسم الله الرحمن الرحیم ۵۸۱ نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد ترقی اسلام کے متعلق حضرت خلیفہ المسیح کا ارشاد شملہ سے تمام جماعت احمدیہ کے نام برادران! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ.میں آج آپ لوگوں کو ایک نہایت ضروری اور اہم امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں جو اس لحاظ سے اور بھی اہم ہے کہ اس کی طرف اس سے بہت پہلے آپ لوگوں کو توجہ دلائی جانی چاہئے.مگر میں بوجہ بیماری معذور تھا اور ایک دو سطر کے لکھنے سے بھی مجھے سخت تکلیف ہو جاتی تھی.پس بوجہ اس کے کہ کام کرنے کا وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے بہت زیادہ ہمت اور کوشش کی ضرورت ہے.آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ اشاعت اسلام اور تبلیغ دین کا کام کس قدر اہم ہے اور یہ بھی کہ اس کام کے کرنے کا اہل اگر کوئی ہے تو وہ صرف آپ لوگ ہیں کیونکہ آپ لوگوں نے خدا تعالٰی کے ایک مرسل کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ایک نئی زندگی حاصل کی ہے اور ایک نئی روح آپ میں پھونکی گئی ہے.ورنہ باقی لوگ جو اس وقت دعوائے اسلام کرتے ہیں روحانی طور پر مردہ ہیں اور ایک مردہ دوسرے مردے کو کیا نفع دے سکتا ہے؟ خدا تعالیٰ کی قدرت نے مسیح موعود کے ذریعہ سے آپ لوگوں میں نہ صرف زندگی کی روح ہی پھونکی ہے بلکہ زندہ کرنے کی طاقت بھی عطا فرمائی ہے.کہتے ہیں کہ حضرت مسیح اسرائیلی مردے زندہ کیا کرتے تھے.مگر خدا

Page 609

العلوم جلد.۵۸۲ ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد - ހ تعالیٰ نے ہمیں ایسا مسیح عطا فرمایا ہے جو نہ صرف خود مردے زندہ کرتا تھا بلکہ اس کا مسیحی نفس جس میں پھونکا گیا وہ بھی مردے زندہ کرنے کی طاقت سے بھر گیا.چنانچہ تجربہ اس بات کا شاہد ہے کہ دشمنان اسلام کو اگر کوئی جماعت شکست دینے کے قابل ہوئی ہے اور ان کے باطل دلائل کو توڑنے پر قادر ہوئی ہے تو وہ یہی جماعت ہے.اگر ادہام پرستی اور باطل کی محبت کو دل سے نکالنے میں کوئی گروہ کامیاب ہوا ہے تو وہ یہی جماعت ہے.پس تبلیغ اسلام کے مقدس فرض کی بجا آوری کا کام اسی ایک جماعت کے متعلق ہو سکتا ہے.اور اس کے متعلق ہے کیونکہ جیسا کے خدا تعالٰی قرآن کریم میں فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ ليُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله (الصف:۱۰) مسیح موعود کی بعثت کی غرض ہی یہی ہے کہ اسلام کو دیگر ادیان پر غالب کر دے اور جو مسیح موعود کی بعثت کی غرض ہے وہی اس کی جماعت کے قیام کی غرض ہے کیونکہ مقتدی اپنے امام سے جدا نہیں ہو سکتا.پس جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف الفاظ میں فرماتا ہے.اس جماعت کا سب سے اہم فرض یہی ہے کہ وہ دیگر ادیان پر اسلام کو دلائل و براہین کے ذریعہ سے غالب کرے.کیونکہ تلوار کا غلبہ کوئی چیز نہیں.تلوار سے ایک انسان کے ظاہر کو تو بدلا جا سکتا ہے دل نہیں بدلا جا سکتا.دل پر قبضہ دلائل کے ساتھ ہو سکتا ہے.اور جب تک دل نہ بدلے اس وقت تک مونہہ کا اقرار کوئی نفع نہیں دے سکتا.پس نہ تو عقل اس بات کو قبول کرتی ہے اور نہ قرآن کریم اس بات کو جائز قرار دیتا ہے جیسا کہ بعض نادان خیال کرتے ہیں.لوگوں کو زبر دستی اسلام پر قائم کیا جاوے.اسلام پہلے بھی اپنے بے نظیر حسن کے ذریعہ سے لوگوں کے دلوں کا فاتح ہوا تھا اور اب بھی اسی طرح لوگوں کے قلوب کو فتح کرے گا.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے اسلام کو اس کی اصلی خوبصورتی کے ساتھ دنیا پر ظاہر کریں.اور ہمارا ایسا کرنا کسی پر احسان نہیں بلکہ اپنے فرض کی ادائیگی ہے اور دنیا میں کوئی خوشی ادائیگی فرض کی خوشی سے زیادہ نہیں ہو سکتی.پرانے زمانہ میں اس فرض کی ادائیگی کے لئے جانوں کی قربانی کرنی پڑتی تھی کیونکہ لوگ تلوار کے ذریعہ مذہب کی اشاعت میں روکیں ڈالتے تھے.مگر آج کل ہر مذہب کے لئے آزادی ہے اس لئے پہلے لوگوں کی نسبت ہمارے لئے ایک آسانی ہے کہ صرف مالی قربانی سے ہم اس فرض سے سبکدوش ہو جاتے ہیں.مگر یہ آسانی ہماری ذمہ داری کو بڑھا دیتی ہے.جو شخص باوجود آسانی اور سہولت کے اپنے فرض کی ادائیگی میں کو تاہی کرتا ہے وہ اس شخص کی نسبت زیادہ مستحق سرزنش ہے جس کا

Page 610

انوار العلوم جلد.۵۸۳ ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد کام زیادہ اور بوجھ بھاری تھا.پس ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ خاص طور پر اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی کوشش کرے.اور خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جماعت کا ایک بڑا حصہ اس ذمہ داری کو سمجھتا اور اس کے پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے.چنانچہ پچھلے جلسہ نے اس بات کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ ہماری جماعت کے لوگوں میں اللہ تعالٰی نے وہ اخلاص رکھا ہے اور دین کی ایسی محبت بخشی ہے کہ جس کی نظیر صحابہ کے زمانہ کے سوا اور کہیں نہیں ملتی.پچھلے سالانہ جلسہ میں میں نے خاص طور پر جماعت کو متوجہ کیا تھا کہ وہ خزانہ جماعت کی حالت کو درست کرنے کی کوشش کرے.کیونکہ اس وقت سلسلہ کے کاموں کے متعلق روپیہ کی اس قدر کمی ہو گئی تھی کہ تین تین ماہ کی تنخواہوں کے بل بغیر ادائیگی کے پڑے تھے.اور سائر اخراجات کے بعض بل تو سوا سوا سال کے بھی موجود تھے جس کا روپیہ ادا نہیں کیا گیا تھا.اس تقریر کی طرف جماعت نے ایسی توجہ کی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب صدر انجمن کا بہت سا قرضہ اتر چکا ہے.اور تنخواہوں کے پچھلے بل ادا ہونے کے بعد اب ہر ماہ کے بل آسانی سے ادا ہو جاتے ہیں.اور جو قرضہ باقی ہے وہ بھی برابر ادا ہو رہا ہے.اور چونکہ مؤمن کا خاصہ ہے کہ وہ ہر دم قدم آگئے ڈالتا ہے.میں کہہ سکتا ہوں کہ احمدی جماعت اس کوشش میں کمی نہیں آنے دے گی.بلکہ آگے ہی آگے قدم بڑھائے گی.انشاء اللہ تعالٰی.مگر جہاں یہ بات نہایت خوش کن ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کا بہت سا قرضہ اس سال اتر چکا ہے اور بقیہ اتر رہا ہے وہاں میں اس بات پر افسوس کئے بغیر بھی نہیں رہ سکتا کہ جماعت نے انجمن ترقی اسلام کی مالی حالت کے درست کرنے کی طرف اس قدر توجہ نہیں کی جس قدر کرنی مناسب تھی.میں نے احباب سے جلسہ سالانہ کے موقع پر کہا تھا کہ ان انجمنوں کی مالی حالت کی کمزوری میری صحت اور میرے کام پر بد اثر ڈالتی ہے.کیونکہ جس شخص کے کانوں میں ہر وقت یہ آواز آوے کہ اس سلسلہ کے کاموں کو چلانے کے لئے جس کا کام خدا تعالیٰ نے اس کے سپرد کیا ہے روپیہ کی سخت تنگی ہے اور ہر ایک کام سخت خطرہ کی حالت میں ہے.وہ کب تندرست رہ سکتا ہے اور کب وہ ان زیادہ ضروری کاموں کی طرف متوجہ ہو سکتا ہے جو جماعت کی حقیقی ترقی سے متعلق ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ خلفاء پر صرف مالی انتظام کا ہی بوجھ نہیں اور امور بھی ان کی طبیعت پر بوجھ ڈالنے کا باعث ہوتے ہیں.مگر اس وقت جب کہ روپیہ بہت سے کاموں کا دارومدار ہے جماعت کی روحانی ترقی کے خیال کے بعد یہ بوجھ بھی ایک

Page 611

م جلد ۳ ۵۸۴ ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد بہت بڑا بوجھ ہے.پس میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کے احباب کو پھر اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ وہ انجمن ترقی اسلام کی مالی حالت کی درستی کی بھی فکر کریں.میں ان دنوں بیمار ہوں اور مجھے فکر ہے کہ میں اپنی زندگی میں جماعت کی ہر قسم کی حالت کو درست دیکھ لوں.شملہ آنے سے میری صحت میں ترقی معلوم ہوتی ہے لیکن پھر بھی طبیعت ابھی بہت کمزور ہے.چنانچہ تین چار دن سے پھر آپ کا دورہ ہے اور اس وقت بھی کہ میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں میں تپ محسوس کرتا ہوں.پس مجھے جلدی ہے کہ کسی طرح احمدی جماعت کے تمام کام میری زندگی میں تکمیل کے درجہ پر پہنچ جائیں اور اس کی طرف میں آپ لوگوں کو خاص طور پر متوجہ کرتا ہوں.اللہ تعالی کا فضل ہے کہ اس نے مجھے ایک ایسی جماعت کا انتظام سپرد کیا ہے جس کی نسبت اگر میں یہ کہوں کہ وہ میری آواز پر کان نہیں رکھتی تو یہ ایک سخت ناشکری ہو گی.میری بات کی طرف توجہ کرنا تو ایک چھوٹی سی بات ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ بہت ہیں جو میرے اشارہ پر اپنی جان اور اپنا مال اور اپنی ہر ایک عزیز چیز کو قربان کرنے کے لئے تیار ہیں.والحمد لله عَلى ذلِکَ.اور اس اخلاص بھری جماعت کو مخاطب کرتے وقت میرا دل اس یقین سے پُر ہے کہ وہ فورا اس نقص کو رفع کرنے کی کوشش کرے گی جس کی طرف میں نے ان کو متوجہ کیا ہے.مگر اس عام تحریک کے علاوہ بعض خاص ضروریات بھی ہیں جن کے لئے فوری توجہ کی ضرورت ہے.تبلیغ ولایت کے اخراجات کے لئے فوراً ساڑھے نو ہزار روپیہ کی ضرورت ہے.یعنی اڑھائی ہزار روپیہ مکان کے لئے دو ہزار روپیہ پہلے قرضہ لے کر دیا گیا ہے.اس کی ادائیگی کے لئے ایک ہزار روپیہ ایک تیسرے آدمی کے سفر خرچ کے لئے جو وہاں کھانا پکانے اور دوسرے کاموں میں مدد کرنے کے لئے ضروری ہے (کیونکہ وہاں سو روپیہ ماہوار خرچ کرنے پر ملازم مل سکتا ہے.اور پھر اپنے آدمی جتنا مفید بھی نہیں ہو سکتا) اور چار ہزار روپیہ چھ ماہ کے خرچ کے لئے.اس ساڑھے نو ہزار روپیہ کے علاوہ دو ہزار روپیہ وفد ماریشس کے لئے اور ایک ہزار روپیه ان وفود کے اخراجات کے لئے جو پچھلے دنوں بمبئی کشمیر اور سرحد پر بھیجے گئے ہیں درکار ہے.یہ کل رقم ساڑھے بارہ ہزار بنتی ہے اور دو ماہ کے اندر اس کا جمع ہو جانا ضروری ہے.پچھلے سال جب مفتی صاحب کو ولایت بھیجنے کی تجویز ہوئی تھی تو میں نے اخراجات ولایت مہیا کرنے کے لئے یہ تجویز کی تھی کہ چند مخلص اور ذی استطاعت احباب کو خاص خطوط کے ذریعہ اس بوجھ کو برداشت کرنے کی ترغیب دلائی تھی.چنانچہ ساٹھ ستر دوستوں نے اوسطاً ایک

Page 612

انوار العلوم جلد ۳۰ ۵۸۵ ترقی اسلام کے بارہ میں ارشاد سو روپیہ فی کس دیا تھا اور اس طرح ساڑھے پانچ ہزار روپیہ کے قریب جمع ہو گیا تھا.مگر اب میں چاہتا ہوں کہ ذی استطاعت احباب کے علاوہ جماعت کے دوسرے لوگ بھی اس تحریک میں حصہ لیں.اور اس کے لئے میری یہ تجویز ہے کہ تمام جماعت کے لوگ جن تک یہ میرا اعلان کسی ذریعہ سے پہنچے علاوہ صدر انجمن احمدیہ اور ترقی اسلام کے ماہوار چندوں کے اپنے اخلاص اور خاص حالات کے لحاظ سے اپنی ایک ماہ کی آمدنی یا اسکا نصف یا اس کا تیسرا حصہ یا کم از کم اس کا چوتھا حصہ اس خاص چندہ میں دیں.ہاں سہولت کے لئے یہ کر سکتے ہیں کہ جس قدر چندہ وہ دینا چاہیں اس کو تین اقساط میں تین ماہ کے اندر ادا کر دیں.تمام جماعتوں کے سیکرٹریوں کو چاہئے کہ وہ میرے اس اعلان کو اپنی اپنی جماعتوں کو سنا کر اس تحریک کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں.اور اگر کسی جگہ باقاعدہ انجمنیں نہیں یا سیکرٹری ست ہے تو وہاں ہر ایک مخلص کا فرض ہے کہ وہ اپنے طور پر اس تحریک کو پورا کرنے کی کوشش کرے.اور اللہ تعالیٰ سے جزائے نیک حاصل کرے.جہاں انجمن بھی ہے اور سیکرٹری بھی ہے وہاں بھی جماعت کے مخلص احباب کو سیکرٹری کا ہاتھ بٹانے کی کوشش کرنی چاہئے.مرکزی طور پر اس تحریک پر عمل کرانے کے لئے میں نے ماسٹر عبد المغنی صاحب سیکرٹری فنانشل کمیٹی کو مقرر کیا ہے.وہ تمام جماعتوں سے اس کے متعلق خط و کتابت کریں گے.تمام احمدی احباب ان کے کام کو آسان کرنے اور ان کی مدد کرنے کی کوشش کریں.کیونکہ آج کل خدا تعالیٰ کے فضل کے حاصل کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ یہی ہے کہ اس کے دین کی مدد کی جاوے.وَاخِرُ دَعُو سَنَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خاکسار مرزا محمود احمد شملہ ۱۲.ستمبر ۱۹۱۷ء.

Page 613

Page 614

۵۸۷ زندہ مذہب (اسلام کے زندہ مذہب ہونے کے دلائل اور مذاہب عالم کو چیلنج ) از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد لیفتہ المسیح الثانی زنده نه

Page 615

ΑΛΛ

Page 616

انوار العلوم جلد - ۳ بسم اللہ الرحمن الرحیم ۵۸۹ محمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ر حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی وہ تقریر جو حضور نے ۳۰.ستمبر ۱۹۱۷ء کو جماعت احمد یہ شملہ کے سالانہ جلسہ پر بمقام میسانک ہال فرمائی.) يا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تكُم مَومِعَة مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاء لِمَا فِي الصُّدور و هدية رَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ (یونس : ٥٨) و مذہب ایک ایسی معزز و مکرم شے ہے کہ اس کے خدا کے متعلق کلام کرنے کا طریق ذکر میں انسان کو بہت محتاط ہونا چاہئے.اگر کوئی خدا ہے اور خدا کے ہونے کے بعد کسی مذہب کی ضرورت ہے اور وہ لوگ جو عقل و سمجھ رکھتے ہیں اور انکو اس بات کے تسلیم کرنے کے سوا چارہ نہیں کہ خدا ہے اور ضرور ہے تو پھر اس بات کے ماننے میں بھی کسی کو عذر نہیں ہو سکتا خواہ وہ عیسائی ہو یا موسائی، سناتنی ہو یا آریہ ، مسلمان ہو یا سکھ کہ اللہ تعالٰی کے متعلق جو کلام ہونا چاہئے اس میں سنجیدگی ، خوف ، ادب کو خاص طور پر مد نظر رکھنا چاہئے.ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی سے معمولی انسانوں کے سامنے جو رتبہ میں ان سے کسی قدر ہی بڑے ہوتے ہیں کلام کرتے وقت ادب اور تہذیب کو مدنظر رکھتے ہیں.ڈپٹی کمشنر ایک ضلع کا افسر ہوتا ہے اس کے پاس جو لوگ جاتے ہیں تو کلام کرنے میں خاص احتیاط اور سنجیدگی پیدا کرتے ہیں اور اس کے بالا افسروں کے سامنے تو اور بھی متانت سے گفتگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اور کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ گورنمنٹ کے کسی چھوٹے سے چھوٹے

Page 617

۵۹۰ زنده نم جب انوار العلوم جلد ۳۰ افسر کے سامنے بھی بیہودگی برتے اور بے ادبی کو کام میں لائے بلکہ بہت احتیاط کی جاتی ہے.اور یہ بات ہم ادنیٰ سے ادنیٰ قوم کے انسان میں بھی دیکھتے ہیں کہ افسر کے سامنے ادب اور تہذیب کی علامات اور آثار ظاہر کرتا ہے.پس جب یہ بات ہے تو پھر وہ خدا جو بادشاہوں کا بادشاہ اور تعلق شہنشاہوں کا شہنشاہ ہے انسان کا خالق اور رازق ہے اور جس سے نہ صرف اسی دنیا میں ضروری ہے بلکہ مرنے کے بعد بھی واسطہ پڑتا ہے اس کے متعلق کلام ہو اور اس میں سنجیدگی و متانت نہ ہو ہنسی اور مخول سے بات کی جائے کیسے غضب کی بات ہے.کیا یہ ممکن ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی ہستی کا یقین ہو اور پھر وہ ایسا کرے ہر گز نہیں.مگر بہت لوگ ہیں جو چھوٹے چھوٹے افسروں کا تو بڑا ادب کرتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے معاملہ میں ادب کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں.بحثیں ہوتی ہیں مباحثے کئے جاتے ہیں مگر ان سے یہ منظر نہیں ہو تاکہ تحقیق حق کی جائے.صداقت کو حاصل کیا جائے بلکہ محض وقت گزارنا اور خوش طبعی اور مذاق کا سامان مہیا کرنا ہوتا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بہت لوگ ان کے بحث مباحثہ کو سنتے ہیں مگر کچھ فائدہ نہیں اٹھاتے.ان کے کان میں تو آواز پڑتی ہے مگر دل میں داخل نہیں ہوتی.اس لئے یہ طریق نہایت لغو اور بیہودہ ہے.پس اللہ تعالیٰ کے متعلق جو گفتگو ہو وہ ایسی ہونی چاہئے کہ جس میں حق کا حاصل کرنا مد نظر ہو اور باطل کو ترک کرنے کا ارادہ ہو.اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خدا کا خوف پایا جاتا : ہو.قرآن کریم میں خدا تعالٰی فرماتا ہے کہ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ (الانفال : (۳) کہ سوائے ان کے اور کوئی خدا کو ماننے والا نہیں کہ جن کے سامنے جب اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل خوف سے بھر جائیں ، رونگٹے کھڑے ہو جائیں اور دل ڈر جائیں کہ ہمارے سامنے ایک ایسے عظیم الشان شہنشاہ کا ذکر آیا ہے جس کے متعلق ذرا سی بے احتیاطی کرنے سے بھی تباہی و بربادی کے کنویں میں گر جائیں گے.واقعہ میں خدا کے ذکر کے وقت انسان کے دل میں ایسا ہی خوف اور ڈر پیدا ہونا چاہئے.دیکھئے ایک انسان شیر یا سانپ سے نہیں کھیلتا کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ مارا جاؤں گا.اسی طرح ایک افسر سے ماتحت کبھی بے احتیاطی اور بد تہذیبی نہیں کرتا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ نقصان اٹھاؤں گا.اسی طرح اگر خدا کی ہستی کا پورا پورا یقین ہو تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے ذکر سے انسان کے دل میں ڈر نہ پیدا ہو.پس میں ان لوگوں کو جو یہاں موجود ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ایسا انسان جو خدا کے متعلق

Page 618

۵۹۱ زندون کچھ سنانے کے لئے کھڑا ہو.اس کی نسبت صرف یہ دیکھنا کہ کیسا بول سکتا ہے یا ایک عجوبہ کے طور پر لیکچر سننا ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے.اس لئے اپنے دل میں خوف خدا پیدا کر کے سننا اور صداقت کو قبول کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.اس کے بعد میں اصل مضمون بیان کرتا ہوں.میرا زندہ اور مردہ مذہب کی تعریف مضمون ہے " زندہ مذہب " اس بات سے تو کسی کو انکار نہیں کہ زندگیاں مختلف ہوتی ہیں.ایک انسان کی زندگی ہوتی ہے.ایک درخت کی زندگی.انسان کی زندگی کو درخت کی زندگی پر محمول نہیں کیا جا سکتا.اور درخت کی زندگی کو انسان کی زندگی کی طرح نہیں سمجھا جا سکتا.اسی طرح زندہ مذہب سے یہ مراد نہیں لی جا سکتی کہ وہ انسان کی طرح چلتا پھرتا بولتا چاہتا کھاتا پیتا ہے.بلکہ جس طرح ہر چیز کی زندگی کا الگ مفہوم ہوتا ہے اسی طرح مذہب کی زندگی بھی ایک خاص مفہوم رکھتی ہے.ہماری زبان میں یہ محاورہ ہے کہ کوئی چیز جس غرض کے لئے بنائی گئی ہو جب تک اسے پورا کرے اس وقت تک وہ زندہ کی جاتی ہے.اور جب نہ کرے اس وقت مردہ.اس لئے کوئی مذہب جب تک اپنی غرض اور غایت کو پورا کرتا ہے اس وقت تک زندہ کہا جا سکتا ہے اور جب نہ کرے مردہ.لیکن کسی مذہب کے متعلق زندہ اور مردہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ دیکھیں مذہب کی غرض کیا ہے ؟ اسے کیوں اختیار کیا جاتا ہے ؟ پس اگر جس غرض کے لئے کسی مذہب کو اختیار کیا جاتا ہے وہ پوری ہو جائے تو مذہب زندہ ہے اور اگر نہ پوری ہو تو مرده - عربی زبان کے لحاظ سے تو اس کا فیصلہ نہایت آسان ہے کیونکہ اس میں مذہب کی غرض مذہب کے معنی طریق اور راستہ کے ہیں.اور جس طرح دنیا وی رہتے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچانے کے لئے ہوتے ہیں اسی طرح وہ راستہ جو گمراہی اور بے دینی سے نکال کر خدا تک پہنچا دے اس کو مذہب کہتے ہیں.تو مذہب کے معنی راستہ کے ہیں اور اس کو اختیار کرنے کی غرض یہ ہے کہ انسان کو ظلمتوں ، تاریکیوں بدکاریوں اور گناہوں سے نکال کر خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرا دے.اس کی رضامندی حاصل ہو جائے.پس یہی ایک ایسی بات ہے کہ جس کی وجہ سے کسی مذہب کو قبول کیا جا سکتا ہے.ورنہ کیا ضرورت ہے کہ انسان اپنے اوپر کئی قسم کی پابندیاں ڈال لے.ایک مسلمان ہے اسے پانچ وقت نماز پڑھنی

Page 619

نوار العلوم جلد ۳۰ ۵۹۲ زندون پڑتی ہے.سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے وضو کیا جاتا ہے.وقت خرچ ہوتا ہے.رات کو نیند ترک کر کے عبادت کی جاتی ہے.اسی طرح ہندو، عیسائی، یہودی وغیرہ لوگ عبادات کرتے اور اپنے اوپر مذہبی قیود عائد کر لیتے ہیں.لیکن بلا کسی وجہ اور ضرورت کے کیا ضرورت ہے کہ لوگ خاص پابندیوں کے مقید ہوں اور ہر ایک کام اور ہر ایک چیز جس کو ان کا جی چاہے حاصل نہ کریں.اس کی یہی وجہ ہے کہ ہر مذہب کا انسان سمجھتا ہے کہ اگر میں اپنے مذہبی اصولوں پر چلوں گا تو خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا ہو جائے گا.اور اگر نہ چلوں گا تو خدا سے دور ہو جاؤں گا اور اس کی عنایات سے محروم رہوں گا.بہت دفعہ انسان چاہتا ہے کہ ایک چیز ناجائز طور پر حاصل کر لے.مگر چونکہ جانتا ہے کہ اول تو اس کا خمیازہ اسی دنیا میں اٹھالوں گا.اور اگر بچ رہا تو خدا ضرور سزا دے گا اور اپنے سے دور کر دے گا.اس وجہ سے وہ باز رہتا ہے.اسی طرح اور کئی باتیں ہیں جن کو انسان صرف اس لئے اختیار نہیں کرتا کہ خدا ناراض ہو جائے گا اور نتیجہ خطرناک نکلے گا.تو مذہب کی غرض یہ ہے کہ خدا کی محبت پیدا ہو، خدا کی رضا حاصل ہو اور انسان کو تاریکی اور ظلمت سے نکالے اور روشنی کی طرف لے جائے.پس زندہ مذہب وہی ہو گا جس میں یہ باتیں پائی جائیں.اور جس میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہی مذہب قابل قبول ہو گا.کیوں؟ اس لئے کہ مذہب کو انہیں اغراض کے حاصل کرنے کے لئے قبول کیا جاتا ہے.رسم اور بناوٹ کے طور پر اختیار نہیں کیا جاتا.پس جس فائدہ کے لئے مذہب قبول کیا جاتا ہے جس میں وہ حاصل ہو رہی زندہ مذہب ہے اور باقی سب مردہ.اور اسی غرض اور فائدہ کو مدنظر رکھ کر وہ مذہب قبول کرنا چاہئے.جب وہ حاصل ہو جائے تو اس کے علاوہ اور کسی مذہب کی طرف دیکھنے کی بھی ضرورت نہیں.انسان کا قاعدہ ہے کہ جس غرض کے لئے کوئی چیز حاصل کرے وہ اگر اس غرض کا پورا کرنا پوری ہو جائے تو پھر دوسری کی طرف توجہ نہیں کرتا.مثلاً ایک سے انسان کو سردی سے بچنے کے لئے کپڑے کی ضرورت ہے.وہ کپڑا خریدنے کے لئے جب بازار جائے گا تو سب سے پہلے یہ دیکھے گا کہ کسی کپڑے سے میری غرض پوری ہو سکتی ہے اور جو کپڑا سردی سے بچانے والا ہو گا اسے خرید لے گا.یہ نہیں کرے گا کہ ایک نہایت خوبصورت ریشمی کپڑے کو جو کہ بہت ہی باریک ہو سردی سے بچانے کی غرض سے خرید لے.ہاں یہ ہو گا کہ اگر اسے ایسا کپڑا جو خوبصورت بھی ہو اور سردی سے بھی بچائے مل جائے تو وہ اسے اس کپڑے پر

Page 620

۵۹۳ زند و نه آب جو صرف سردی سے بچائے اور خوبصورت نہ ہو ترجیح دے گا.تو مذہب کے قبول کرنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ کونساند ہب ، مذہب کی اصل غرض پوری کرتا ہے اور جو پوری کرے اسے اختیار کیا جائے گا.ہاں اگر دو تین مذاہب اس غرض کو پورا کریں تو پھر دیکھیں گے کہ اور باتیں کس مذہب میں دوسرے مذاہب سے اچھی اور عمدہ ہیں.لیکن اگر ایک ہی ایسا مذ ہب ہو جو اصل غرض کو پوری کرے تو پھر سوائے اس کے چارہ نہیں ہو گا کہ اسی کو اختیار کیا جائے اور باقیوں کو ترک کر دیا جائے.کیونکہ عقلمند اور دانا انسان کا کام زندہ مذہب اختیار کرتا ہے نہ کہ مردہ کو.اور ایک ایسا انسان جو کسی جگہ کا راستہ نہ جانتا ہو اور تھک کر چور ہو گیا ہو اسے کسی ایسی سواری کی ضرورت ہو گی جو اسے منزل مقصود پر پہنچا دے.یہ نہیں ہو گا کہ وہ کوئی مردہ گھوڑا یا گدھا وہاں پہنچنے کے لئے لے لے.کیونکہ وہ کہے گا کہ مردہ سواری تو میرے لئے اور زیادہ بوجھ اور تکلیف کا باعث ہوگی نہ کہ آرام دے گی.تو کوئی ایسا مذہب جو مذہب کی اصل غرض کو پورا نہیں کرتا.اس کا اختیار کرنا نہ کرنے سے بد تر ہے.کیونکہ وہ تو اور زیادہ گمراہی کا باعث ہو گا.اس لئے کسی مذہب کے قبول کرنے کے لئے ضروری ہے کہ دیکھا جائے کہ وہ اصل غرض کو پورا کرتا ہے یا نہیں.ہمارا مقصد مذہب کے اختیار کرنے سے خدا تعالیٰ تک پہنچنا اور بدیوں اور گناہوں سے نجات پانا ہے.اگر وہ حاصل ہو جاتا ہے تو ہم جان دینے کے لئے بھی تیار ہیں اور اگر وہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر اس کے اختیار کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے.پس کسی مذہب کے قبول کرنے کے لئے یہی نہیں دیکھنا چاہئے.کہ اس کی تعلیم ہمارے کانوں کو اچھی معلوم ہوتی ہے.بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ فوائد کس میں حاصل ہو سکتے ہیں.اور کس کی تعلیم ایسی ہے جس پر ہم عمل پیرا ہو سکتے ہیں.ہاں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ دانا انسان مذہب کی تحقیقات کے وقت کیا کرنا چاہئے چونکہ لغو اور بیہودہ باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کیا کرتے.اس لئے مذہب کی تحقیقات کرنے کے وقت عقلمند انسان کو ان باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے جن کا اس کی غرض اور مدعا سے کوئی تعلق نہ ہو.بلکہ اصل مقصد اور مدعا کو پیش نظر رکھ کر ان باتوں کی طرف توجہ کرنی چاہئے جو اس سے تعلق رکھتی ہوں اور جن سے وہ حاصل ہو سکتا ہو.تو عقلمند انسان کو اپنے مقصد اور مدعا کو دیکھنا چاہئے.مثلاً ایک پیاسا انسان ہو.اور وہ کسی سے پوچھے کہ مجھے بتایا جائے کہ پانی کہاں سے ملے گا جس سے میں پیاس بجھاؤں

Page 621

۵۹۴ زنده اند سب گا.تو اسے کہا جائے کہ امریکہ کے فلاں ملک میں ایک نہایت ٹھنڈے اور عمدہ پانی کا چشمہ ہے اس سے پانی پینے سے فورا پیاس دور ہو جاتی ہے اور بڑا سرور حاصل ہوتا ہے.تو وہ ان سب باتوں کو لغو اور بیہودہ سمجھے گا.اور کے گا کہ مجھے اس سے کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے.میں تو یہاں پیاسا مر رہا ہوں اور آپ مجھے امریکہ کے کسی ملک کے چشمہ کا پتہ بتا رہے ہیں.مجھے تو یہاں کسی جگہ پانی کا پتہ بتانا چاہیئے خواہ وہ کیسا ہی بد مزہ اور گرم کیوں نہ ہو تاکہ میں اپنی پیاس بجھا سکوں.ورنہ مجھے ان خیالی باتوں سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.جن کو میں عمل میں نہیں لا سکتا.یہی مثال مذہب کی ہے.ایک متلاشی حق کو کسی مذہب کی ایسی تعلیم بتائی جائے جو خواہ بظاہر کیسی ہی اعلیٰ اور اچھی کیوں نہ معلوم ہو لیکن وہ اسے اختیار نہ کر سکے.یا اس پر عمل کرنا اس کی طاقت میں نہ ہو.تو اس کے لئے بے فائدہ اور لاحاصل ہو گی.اور وہ اس کی طرف کبھی توجہ نہیں کرے گا.پس کسی مذہب کے اختیار کرنے کے لئے یہ دیکھنا بھی نہایت ضروری ہے کہ آیا اس میں کوئی ایسی باتیں تو نہیں پائی جاتیں جو ناقابل عمل ہیں اور جن کو عمل میں لانا نا ممکن ہے.اگر کسی مذہب میں ایسی باتیں پائی جائیں تو اسے بھی زندہ نہیں کہا جائے گا بلکہ مردہ ہی کہا جائے گا.کیونکہ وہ ایسی باتیں بتاتا ہے جن پر عمل نہ ہو سکنے کی وجہ سے مذہب کی اصل غرض پوری نہیں ہو سکتی.اب ہم دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کو دیکھتے ہیں کہ ان کی کیا تعلیم مسیحی مذہب کی تعلیم اب ہم ہے.اور اس پر عمل بھی ہو سکتا ہے یا نہیں.اگر ہو سکتا ہے تو فیہا درنہ وہ اس قابل نہیں کہ کوئی دانا انسان انہیں قبول کرے.اس بات کے لئے پہلے ہم مسیحی مذہب کو لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی تعلیم پیش کرتا ہے کہ جس پر ہم عمل نہیں کر سکتے.گو بظا ہر وہ بات بہت خوبصورت معلوم دیتی ہے.مگر کس کام کی.جب کہ اس کے ذریعہ ہماری غرض پوری نہیں ہو سکتی.چنانچہ انجیل میں حضرت مسیح کی طرف منسوب کر کے لکھا ہوا ہے کہ " شریر کا مقابلہ نہ کرنا.بلکہ جو کوئی تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے.دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے.اور اگر کوئی تجھ پر نالش کرکے تیرا کرتہ لینا چاہے تو چوغہ بھی اسے لے لینے دے اور جو کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے اس کے ساتھ دو کوس چلا جا.".یہ تعلیم بظاہر بڑی عمدہ اور خوبصورت معلوم ہوتی ہے.اور جب ایک شخص سٹیج پر کھڑا ہو سه منی باب ۵ آیت ۳۹ تا ۱ ۴ برگش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی پنجاب آگر لیری لاہور مطبوعہ شنشاء

Page 622

العلوم جلد ۳ ۵۹۵ زندون کر اس کی تفصیل بیان کرتا ہو گا تو قطع نظر اس کے کہ اس پر عمل بھی ہو سکتا ہے یا نہیں سامعین اس پر عش عش کرتے ہوں گے.اور بہت ہی اچھی تعلیم کہتے ہوں گے.لیکن کیا کوئی ہے جو اس پر عمل کر کے دکھا بھی سکے.جس زمانہ میں یہ تعلیم دی گئی تھی.اس وقت بے شک مفید ہوگی.مگر آج تو اس پر عمل کر کے کوئی قوم زندہ ہی نہیں رہ سکتی.کوئی انسان اپنے مال و دولت، عزت و آبرو کو نہیں بچا سکتا.یہی وجہ ہے کہ مسیحی لوگ بھی اس تعلیم پر عمل نہیں کرتے.بلکہ اسی تعلیم پر عمل کرتے ہیں جو انتقام لینے کو روا ر کھتی ہے.چنانچہ میں نے مصر کے ایک اخبار میں پڑھا تھا کہ ایک پادری بازار میں کھڑا لیکچر دیتا ہوا آنحضرت ا کی سخت ہتک کر رہا تھا کہ ایک مسلمان نے اٹھ کر اس کے منہ پر تھپڑ دے مارا.پادری آگے سے مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہوا تو اس نے کہا.آپ یہ کیا کرنے لگے ہیں.دوسری گال بھی آگے کیجئے تا تمہاری تعلیم پر پورا عمل کروں.اور اس پر بھی تھپڑ ماروں.پادری صاحب نے کہا کہ اس وقت میں تمہاری ہی تعلیم پر عمل کروں گا اپنی پر نہیں کراؤں گا.تو گو عیسائیت کی یہ تعلیم اچھی نظر آئے مگر سوال یہ ہے کہ اس کا ہمیں فائدہ کیا ہے تعلیم تو وہی ہونی چاہئے جو کوئی فائدہ بھی پہنچا سکے.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ ایک گاڑی نہایت خوبصورت اور عمدہ بنی ہوئی ہو مگر اتنی اونچی ہو کہ کوئی انسان اس پر چڑھ ہی نہ سکے.جس طرح وہ گاڑی کسی کام کی نہیں ہے اسی طرح یہ تعلیم بھی بے فائدہ ہے.کیا اس سے ہماری روحانیت کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے.یا کیا اس سے ہمارا تعلق خدا تعالیٰ سے ہو سکتا ہے.یا کیا اس سے ہم گناہوں اور بدیوں سے بچ سکتے ہیں.یا کیا اس سے ہم ظلمتوں اور تاریکیوں سے نکل سکتے ہیں.اگر نہیں تو اس کا فائدہ کیا.اور فائدہ ہو کس طرح جب کہ دنیا اس پر عمل ہی نہیں کر سکتی.چنانچہ اب موجودہ جنگ کے دوران میں ہی یورپ میں لوگوں نے مضمون لکھے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ انجیل کی اس تعلیم پر کس طرح عمل کیا جا سکتا ہے.کیا جرمنی نے حملہ کیا تھا تو اسے فرانس بھی دے دیا جاتا.اگر نہیں تو ثابت ہو گیا کہ اس تعلیم پر عمل ہی نہیں کیا جا سکتا اور اگر کیا جائے تو ساری دنیا تباہ و برباد ہو جائے.پس جس طرح انجیل کی یہ تعلیم بظاہر تو عمدہ نظر ایک اور مذہب کی ناقابل عمل تعلیم آتی ہے مگر اس پر عمل نہیں ہو سکتا.اسی طرح ہمارے مقابلہ میں ایک اور مذہب ہے.مگر ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں بھی ایسی تعلیم پائی جاتی ہے

Page 623

رالعلوم جلد ۳ ۵۹۶ زنده : جس پر عمل نہیں ہو سکتا.مثلاً اس میں مردہ جلانے کا جو طریق بتایا گیا ہے اس پر عمل نہیں ہو سکتا.وہ کہتا ہے کہ جس قدر مردہ کا وزن ہو اسی قدر مقدار میں گھی اس کے ساتھ جلانا چاہئے.یعنی اگر کوئی ڈھائی تین من کا مردہ ہو تو اتنا ہی گھی اس کے اوپر ڈال کر جلانا چاہئے.اس کے علاوہ صندل اور دیگر کئی ایک قیمتی چیزوں کو ساتھ جلانے کا حکم ہے.مگر ہر ایک انسان اس پر کہاں عمل کر سکتا ہے.غریبوں اور مفلسوں کے لئے تو اس پر عمل کرنا نا ممکن ہے.اور ہو نہیں سکتا کہ وہ اپنے مردہ کو اس طریق سے جلا سکیں.حالانکہ بتایا جاتا ہے کہ یہ وید کا حکم ہے جس پر عمل کرنا ہر ایک کے لئے ضروری ہے.مگر دنیا میں تو غریب بھی بستے ہیں اور امیر بھی بلکہ غریبوں کی تعداد زیادہ ہے.لیکن غریب تو اس پر عمل نہیں کر سکتے.پھر کیا مذہب صرف امیروں کے لئے ہے.اگر صرف امیروں کے لئے ہے تو بیچارے غریب کہاں جائیں.لیکن زندہ مذہب تو ایسا ہونا چاہئے کہ جس پر سب امیر و غریب یکساں طور پر عمل کر سکیں.ہم دیکھتے ہیں کہ اس مذہب والوں کا کثیر حصہ اس پر عمل نہیں کر سکتا.اس لئے یہ بھی قابل قبول نہیں ہے.اسی طرح اس مذہب میں ہون کی جو عبادت قرار دی گئی ہیں.ایسے طریق بتائے گئے ہیں کہ ایک ایسا شخص جو چار پانچ آنے بمشکل روزانہ کماتا ہے وہ ان پر ہرگز عمل نہیں کر سکتا.اور اگر کرے تو پھر اس کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں رہے گا.تو کسی مذہب کے وہی احکام قابل قبول ہو سکتے ہیں جس پر عمل کیا جا سکے.ورنہ یوں وہ خواہ کیسے ہی اچھے اور بھلے معلوم دیں کسی کام کے نہیں ہیں.یہ تو ہم مان لیں گے کہ تپیا سے یہ فائدے ہوتے ہیں.اور یہ بھی اقرار کر لیں گے کہ ہون سے ہوا صاف ہوتی ہے بادل آتے ہیں.اور یہ بھی ہم یقین کر لیں گے کہ کشمیر میں جو بارشیں ہوتی ہیں وہ اسی کانگڑی کی وجہ سے ہوتی ہیں جو وہاں جلائی جاتی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ اس پر اس مذہب کے کتنے لوگ ہیں جو عمل کرتے ہیں یا کر سکتے ہیں.اگر وہ عمل ہی نہیں کر سکتے تو خواہ بظاہر وہ تعلیم کیسی ہی خوشنما نظر آئے اور اس کے کیسے ہی فوائد بتائے جائیں ہمارے لئے اس کا کیا فائدہ؟ ہمیں تو اس مذہب کی ضرورت ہے جو ہمارے کام آئے اور ہم اس کی تعلیم پر عمل کر کے فائدہ حاصل کر سکیں.اگر یہ نہیں تو ایسا مذ ہب اس شگوفہ کی طرح ہے جو ایک اونچی جگہ لٹکا دیا جائے اور بچہ کو کہا جائے کہ اس کو پکڑو.وہ بیچارہ اس کو کہاں پکڑ سکے گا.اور جب پکڑ نہیں سکے گا تو اس کے لئے وہ فضول ہے.پس ایک ایسا مذ ہب جس کے احکام پر ہم عمل نہیں کر سکتے وہ خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا.کیونکہ ممکن نہیں کہ خدا اپنے

Page 624

۵۹۷ زندان العلوم جلد ۳۰ بندوں کو ایسی تعلیم دے جس پر وہ عمل نہ کر سکیں اور جو ان کی طاقت اور ہمت سے بڑھ کر ہو.دیکھئے ایک انجینئر مکان تعمیر کراتا ہے اور وہ جانتا ہے کہ اس کی دیواریں کتنی مضبوط اور کس قدر بوجھ سہار سکتی ہیں اس لئے وہ کبھی ایسا نہیں کرے گا کہ اتنے وزنی گاڈر ان پر رکھ دے جن کا بوجھ نہ سہار سکیں اور گر پڑیں.پس جب ایک انجینئر ایسا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ جو انسان کی طاقت اور ہمت کو خوب جانتا ہے وہ کہاں ایسا کر سکتا ہے کہ اس پر اس قدر بوجھ رکھ دے جسے وہ اٹھا ہی نہ سکے اور دب کر رہ جائے.مگر یہ مذاہب بتاتے ہیں کہ ان میں ایسی تعلیم پائی جاتی ہے جس پر دنیا کا کثیر حصہ عمل نہیں کر سکتا بلکہ اس کے لئے عمل کرنا نا ممکن ہے.پس یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ مذاہب خدا کی طرف سے نہیں ہیں اور جب خدا کی طرف سے نہیں ہیں تو زندہ مذہب بھی نہیں کہلا سکتے.بلکہ مردہ ہیں اور مردہ کو گلے ڈالنا کسی عقلمند انسان کا کام نہیں ہو سکتا.یہ تو ایک طریق سے ثابت ہوا ایک اور طریق سے زندہ اور مردہ مذہب کی پہچان کہ جن مذاہب کو اسلام کے - مقابلہ میں زندہ مذہب ہونے کا دعویٰ ہے وہ زندہ نہیں بلکہ مردہ ہیں اب ان کے مردہ ثابت کرنے کا ایک دوسرا طریق ہے.اور وہ یہ کہ ایک مذہب جو بجائے خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرانے اور اس سے قریب کرنے کے اس سے دور کر دے وہ بھی زندہ مذہب نہیں ہو سکتا.اس کے متعلق بھی جب ہم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے سوا باقی سب مذاہب بعض ایسی تعلیمیں رکھتے ہیں کہ جن پر عمل کرنے کا یہی نتیجہ نکلتا ہے.مثلاً عیسائیت میں بتلایا گیا ہے کہ خدا کسی پر رحم نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی کے گناہ معاف کر سکتا ہے خواہ وہ کتنی ہی آہ و زاری کرے اور آئندہ گناہوں سے بچنے کا پورا پورا یقین دلائے.اس عقیدہ کی وجہ سے پھر یہ بات بنانی پڑی کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو لوگوں کے گناہوں کے عوض قربان کر دیا اور اس طرح انہیں نجات دی.مگر یہ عقیدہ رکھ کر کوئی انسان گناہ سے نہیں بچ سکتا کیونکہ جب وہ یہ دیکھے گا کہ خدا میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے کہ میرے گناہ بخش دے اور وہ مجھ پر باوجود میری کچی تو بہ اور عاجزی کے اتنا بھی رحم نہیں کر سکتا کہ میری گذشتہ برائیوں کو ڈھانپ دے بلکہ سزا ہی دے گا تو پھر میرے لئے سوائے اس کے اور کیا چارہ ہے کہ جو جی چاہے کرتا رہوں.اور جہاں پہلے گناہوں کی سزا پاؤں وہاں ان کی بھی پالوں.پھر جب اسے یہ بتایا جائے گا کہ انسانوں کو

Page 625

العلوم جلد - ۳ ۵۹۸ نجات دینے کے لئے خدا نے ایک بے گناہ اور معصوم انسان کو قتل کر دیا.تو غور کرو کہ اس سے اس کے دل پر کیا اثر ہو گا اور خدا کی طرف سے اس کے دل میں کس قدر نفرت پیدا ہو جائے گی.پین ایک انگریز گذرا ہے جس نے فری تھنکہ مذہب نکالا ہے.وہ لکھتا ہے کہ میں ایک دفعہ اپنے باپ کے ساتھ گر جا گیا.اور پادری صاحب سے سنا کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو ہماری خاطر قربان کر دیا.میں بھی چونکہ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا مجھے پادری صاحب کی یہ بات سن کر سخت نفرت اور خوف پیدا ہوا اور میں نے خیال کیا کہ اگر ایسا ہی سلوک مجھ سے میرا باپ کرے پھر کیا ہو.یہ خیال میرے دل میں ایسا بیٹھا کہ میں گر جاسے بجائے گھر جانے کے بھاگ کھڑا ہوا.اور امریکہ چلا آیا.واقعہ میں ایسے خدا کو کوئی انسان ماننے کے لئے تیار نہیں ہو سکتا.جو اس قدر مجبور اور اتنا ظالمانہ فعل کرے.کیونکہ جب ہم انسان ہو کر دوسروں پر رحم کرتے ان کی غلطیوں کو معاف کرتے ان کو انعام دیتے اور اپنے قصور واروں کے قصور بخشتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ خدا اپنے گنہگار بندوں کو نہ بخشے اور اس کے لئے اسے اپنے اکلوتے بیٹے کو قربان کرنا پڑے.اس بھیانک نظارہ کو اپنے سامنے رکھئے کہ ایک انسان ہے وہ اقرار کرتا ہے کہ مجھ سے فلاں گناہ ہو گیا.اس کے بعد اسے پشیمانی ہوئی مگر وہ جانتا ہے کہ خواہ میں کتنا ہی روؤں چیخوں اور خدا کے حضور ماتھا رگڑوں خدا اس گناہ کو معاف نہیں کرے گا اور میں اس کی سزا سے کسی - صورت میں بھی نہیں بچ سکتا.اس سے اس کے دل میں خدا سے کتنی نفرت پیدا ہو گی.مگر اسلام کہتا ہے.فَمَنْ تَابَ مِنْ بَعْدِ ظُلْمِهِ وَأَصْلَحَ فَإِنَّ اللهَ يَتُوبُ عَلَيْهِ اِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ( المائدہ:۴۰) کہ جو گناہ کرنے کے بعد توبہ کرتا ہے اور صرف تو بہ ہی نہیں کرتا بلکہ اصلاح کے لئے بھی کوشش کرتا ہے اس کے گناہ بخشے جاسکتے ہیں کیونکہ اللہ بخشنے والا رحیم ہے.یہ ہے وہ تعلیم جو انسان کو اپنی اصلاح کا موقع دیتی اور اسے نیکیاں کرنے کی طرف متوجہ کرتی ہے.پھر اسلام کے مقابلہ میں ایک اور مذہب ہے جو اپنے زندہ ہونے کا دعویدار ہے.مگر وہ بھی کہتا ہے کہ پر میشور کسی انسان کو ہمیشہ کی نجات نہیں دیتا بلکہ ایک مدت کے بعد بلاوجہ جو نوں کے چکر میں ڈال دیتا ہے.اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ چونکہ انسان کے اعمال محدود

Page 626

۵۹۹ زندون ہوتے ہیں اور محدود اعمال کا بدلہ بھی محدود ہونا چاہئے نہ کہ غیر محدود.مگر ہم کہتے ہیں کہ انسان کو محدود اعمال کرنے پر مجبور کس نے کیا ہے.اسی نے جس نے اسے مار دیا اور زندہ نہ رہنے دیا اور وہ پر میشور ہے.اگر وہ انسان کو زندہ رہنے دیتا تو وہ اور عمل کرتا.پس جب خدا کے فعل سے انسان کے اعمال محدود رہتے ہیں تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ چونکہ تم نے اعمال محدود کئے ہیں اس لئے نجات بھی محدود وقت کے لئے دی جاتی ہے.کیا یہ ظلم نہیں ہے.ضرور ظلم ہے.کیونکہ انسان کو خود ہی تو مارا جاتا اور عمل کرنے سے روک دیا جاتا ہے.مگر پھر اس کی سزا اس پر ڈالی جاتی ہے.اور بیچارے کو بلاوجہ جونوں کے چکر میں ڈالنے کے لئے مجبور کیا جاتا ہے.جب ایک عقلمند انسان اس پر غور کرے گا کہ انسان کو بلاوجہ اور بغیر اس کے قصور کے مکتی خانہ سے نکال کر تکالیف اور مصائب میں ڈال دیا جاتا ہے تو وہ کہے گا کہ عجیب خدا ہے جو خود ہی ہمیں نیک اعمال کے کرنے سے مار کر روک دیتا ہے اور پھر خود ہی کہتا ہے کہ چونکہ تم نے محدود اعمال کئے ہیں اس لئے محدود نجات دی جاتی ہے اور اس کے بعد پھر تمہیں جو نوں کے چکر میں گردش کرنی ہے.کیا اس عقیدہ سے اس کے دل میں نفرت نہیں پیدا ہوگی.ضرور ہوگی.پھر اسی طرح جب وہ یہ خیال کرے گا کہ مجھ پر پر میشور نے بلا کسی وجہ اور سبب کے قبضہ کر لیا ہے اور اپنے قواعد مجھ پر جاری کر دیئے ہیں تو وہ کہے گا کہ اس کا کیا حق تھا کہ ایسا کرتا.کیونکہ روح اور مادہ خود بخود موجود تھے اور ان کے ملنے سے میں بن گیا ہوں.ایسی حالت میں پر میشور کا مجھ پر حکومت جتانا صریح ظلم نہیں تو اور کیا ہے.ظالم اسی کو کہتے ہیں جو کمزوروں کو دبائے.اسی طرح پر میشور نے کیا ہے.روح اور مادہ کمزور تھے ان پر اس نے قبضہ کر کے ہمیں تکلیف میں ڈال دیا ہے.اگر روح اور مادہ کو اپنی اصلی حالت میں رہنے دیا جاتا.تو نہ ہم بنتے اور نہ ان تکالیف اور مشکلات میں پڑتے.اور نہ جونوں کے چکر میں گردش کرتے.یہ اور اسی قسم کی اور باتیں ایسی ہیں کہ جو خدا تعالیٰ سے نفرت پیدا کرانے کا موجب بنتی ہیں.اس لئے جس مذہب میں یہ پائی جائیں وہ زندہ مذہب نہیں ہو سکتا.اب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کون سا مذ ہب ہے جو خدا کا قرب حاصل کرانے والا مذہب خدا سے ملاتا اس کی محبت اور قرب حاصل کراتا، اس کے فضلوں کا وارث بناتا، اور برائیوں گناہوں سے بچاتا ہے.اس کے لئے ہمیں ان بیہودہ اور لغو باتوں میں نہیں پڑنا چاہئے جن کا ہمارے مقصد اور مدعا سے کوئی تعلق نہیں

Page 627

دم جلد ۳۰ زنده ناب ہے.دیکھئے اگر ہمیں شملہ سے کا لکا جانے کی ضرورت ہو تو ہم سٹیشن پر جا کر یہ تلاش کریں گے کہ کالکا جانے والی کون سی گاڑی ہے.نہ یہ کہ ہم وہاں یہ دریافت کرنے بیٹھ جائیں گے کہ اس گاڑی کو کس نے بنایا ہے.اس کی لکڑی کہاں سے منگوائی گئی ہے اور کیا لکڑی ہے اور اس پر کیا خرچ آیا ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اس کی ہمیں ضرورت نہیں ہے.اور ہماری غرض اور مقصد سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے.اسی طرح کسی زندہ مذہب کی تلاش کرتے ہوئے اس قسم کی باتوں میں پڑنا کہ دنیا کب بنی کیوں بنی ، کس چیز سے بنی وغیرہ وغیرہ غلطی اور نادانی ہے.کیونکہ ان باتوں کے پیچھے پڑنے کی ہمیں ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی ان کا دریافت کرنا ہمیں کچھ فائدہ دے سکتا ہے.ہمارے اندر ایک تڑپ رکھی گئی ہے.ہمارے اندر ایک اضطرار پیدا کیا گیا ہے.ہمیں ایک درد دیا گیا ہے.ہم تو اس امر کا علاج چاہتے ہیں.ہمارے اندر خدا سے ملنے کے لئے جوش موجزن ہے.محبت بے چین کر رہی ہے.اور تڑپ بے آرام کئے دیتی ہے.اس لئے ہمیں تو وہ مذہب چاہئے جو خدا سے ملائے.اس کا قرب حاصل کرائے.اور اس کی خوشنودی کی نعمت عطا کرے.ہمیں اس سے کیا فائدہ اگر یہ معلوم ہو جائے کہ دنیا ایک ارب سال سے بنی ہے یا اس سے کیا نقصان ہے کہ ۶ ہزار سال سے اس کی ابتداء ہوئی ہے.اسی طرح اس سے ہمیں کیا فائدہ کہ دنیا ۰ ۲ لاکھ دفعہ بنی ہے.اور اس سے کیا نقصان کہ ایک ہی دفعہ بنی ہے.پھر اس سے کیا فائدہ کہ تمام دنیا کے لئے شروع سے لے کر اخیر تک ایک ہی کتاب نازل ہوئی ہے یا اس سے کیا نقصان کہ نئی نئی آتی رہی ہیں.پھر اس سے ہمیں کیا فائدہ کہ خدا نے اپنا پہلا کلام کہاں نازل کیا.اور اس سے کیا نقصان کہ اس کا ہمیں علم ہی نہیں.ہماری تو غرض ہی یہ ہے کہ خدا مل جائے.جس کے حاصل کرنے کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.اگر یہ غرض کسی مذہب کے ذریعہ پوری ہو جائے تو پھر کسی اور چیز کی ہمیں ضرورت ہی نہیں.وہی زندہ مذہب ہے اور اس کو ہمیں اختیار کرنا چاہئے.میں نے بتایا ہے کہ مذاہب کی غرض یہ ہے کہ خدا سے اسلام ایک زندہ مذہب ہے ملائے.اس کا قرب حاصل کرائے، اس سے اتحاد کرا دے اور بدیوں اور گناہوں سے بچائے.جو ایسا کر دیتا ہے اس کی ہمیں ضرورت ہے اور یہ صرف اسلام ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ اس کے ذریعہ تمہاری بدیاں مٹائی جائیں گی.اور نیکیوں میں ترقی دی جائے گی خدا سے ملایا

Page 628

العلوم جلد - ۳ 4.1 زند جائے گا اور اس کے فضلوں کا وارث بنا دیا جائے گا چنانچہ فرماتا ہے.يَا يُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّكُمْ وَشِفَاء لِمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ - (یونس:۵۸) کہ اے مومنو! یہ تمہارے لئے ایسی تعلیم بھیجی گئی ہے جو تمہارے دلوں سے بدیوں کو مٹا دے گی اور اعلیٰ اخلاق پیدا کرے گی.اس کے بعد تمہیں خدا تک پہنچنے کا راستہ دکھلائے گی اور جو اس رستہ پر چلیں گے ان کو خدا کے فضلوں کا وارث بنادے گی.پس جس مذہب میں یہ باتیں حاصل ہوں وہی زندہ مذہب ہو سکتا ہے دوسرا نہیں.اور اسی کو قبول کرنا چاہئے.اور وہ صرف اسلام ہے.اس کا یہ دعوئی ہے کہ وحی کا دروازہ اب بھی کھلا ہے جس کے ذریعہ خدا اپنے بندوں کے ساتھ اپنی محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے اور کرتا رہے گا.اور ایسے انسانوں کو اپنے فضلوں کا وارث بناتا ہے اور بناتا رہے گا.یہی غرض مذہب کی ہے اور چونکہ اسلام اسے نہایت خوبی اور عمدگی کے ساتھ پورا کرتا ہے اس لئے اس کو قبول کرنا چاہئے.یہ آیت جو میں نے پڑھی ہے.یہ دعویٰ ہے کہ کسی مذہب کے زندہ ہونے کا ثبوت اسلام کی تعلیم پر عمل کرنے سے ایسا ہو جاتا ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا واقعہ میں ایسا ہوا بھی ہے کہ اسلام کی تعلیم پر عمل کر کے انسان خدا کو پالیتا اور اس کا مقرب بن جاتا ہے یا نہیں؟ تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعہ میں ایسا ہوتا رہا ہے اور اب بھی ہوا ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر صدی اور ہر زمانہ میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں سے کلام کرتا رہا ہے.مگر اسلام کے سوادو سرے مذاہب والے کہتے ہیں کہ خدا پہلے تو بندوں سے کلام کیا کرتا تھا مگر اب کسی سے نہیں کرتا.گویا خواہ وہ کتنی ہی کوشش کرے اب خدا سے اس کا تعلق اور اتحاد نہیں ہو سکتا اور نہ خدا اس سے بولتا ہے.لیکن اگر کسی مذہب کی صداقت کا یہی ثبوت ہو کہ کسی زمانہ میں خدا نے اس کے پیروؤں سے کلام کیا تھا اور اب نہیں کرتا.تو اس طرح تو ہر ایک مذہب والا کہہ سکتا ہے کہ ہمارا مذ ہب زندہ ہے اور خدا کا ہم سے ہی تعلق ہے.لیکن تعلق کے لئے کوئی ایسی علامت ہونی چاہئے جس سے دوسروں کو بھی یقین ہو سکے.مثلاً ایک شخص کسی کے دروازے پر جاکر دستک دے اور اندر سے کوئی جواب نہ آئے.مگر وہ کہے کہ مالک مکان اندر بیٹھا مجھ سے بڑا خوش ہو رہا ہے تو اسے کہا جائے گا کہ اس کے خوش ہونے کی کوئی علامت تو بتلاؤ.اندر سے آواز نہ آنا تو خوش ہونے کا نشان

Page 629

انوار العلوم جلد - ۶۰۲ زندون ہے بلکہ ناراضگی کا ہے.اسی طرح اگر کوئی خدا تعالیٰ کو پکارتا ہے اور بڑے درد اور محبت کے ساتھ پکارتا ہے لیکن وہ آگے سے کوئی جواب نہیں دیتا تو اسے یہ نہیں کہا جائے گا کہ خدا اس سے بڑا خوش ہے بلکہ یہی کہا جائے گا کہ یا تو ناراض ہے اور یا کوئی ہے ہی نہیں.ورنہ کیا وجہ ہے کہ موجود ہو اور خوش بھی ہو لیکن جواب نہ دے.امریکہ میں ایک انگریز ہوا ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ اگر کوئی خدا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ دنیا مصائب اور آلام ، دکھ اور تکالیف سے تباہ اور برباد ہو رہی ہے مگر وہ اس کے بچانے کے لئے آگے نہیں بڑھتا.ایک ماں باپ جب دیکھتے ہیں کہ بچہ کو کوئی تکلیف ہے تو وہ ہمہ تن اس کے دور کرنے کی کوشش کرنی شروع کر دیتے ہیں.لیکن خدا کو تو ماں باپ سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت اور الفت ہے وہ کیوں ان کے بچانے کی کوئی صورت نہیں کرتا.اور ان کو ایسی ترکیب نہیں بتاتا جس سے وہ ہلاک نہ ہوں.اس سے معلوم ہوا کہ خدا کا انسانوں سے کوئی تعلق اور واسطہ ہی نہیں ہے.پھر وہ کہتا ہے اچھا اگر یہ مان لیا جائے.کہ سارے کے سارے انسان اس قابل نہیں کہ خدا ان سے تعلق رکھے تو پھر ساری دنیا میں کوئی تو ایسا انسان ہونا چاہئے جس سے تعلق ہو.لیکن کوئی بھی نظر نہیں آتا.اس لئے معلوم ہوا کہ کوئی خدا ہی نہیں ہے.یہ اس نے کیوں کہا؟ اس لئے کہ انسان کی فطرت گواہی دیتی ہے کہ خدا اس سے کلام کرے اور اسے اپنا مقرب بنائے.مگر اس فطرتی تقاضا کو سوائے اسلام کے اور کوئی مذہب پورا نہیں کرتا.قرآن ہی کہتا ہے.کہ جب انسان میں اعلیٰ اخلاق پیدا ہو جائیں اور وہ بدیوں سے دور ہو جائے تو اسے خدا تک لے جایا جاتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَالَّذِينَ جَاهَدُو اِفيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا العنكبوت: ۷۰) کہ ہمارے راستہ میں جو کوئی کوشش اور سعی کرتا ہے اس کو ہم ان راستوں پر چلاتے ہیں جن پر چل کر وہ ہم تک پہنچ جاتا ہے.تو اسلام اس بات کا مدعی ہے کہ اسی دنیا میں مومن کے لئے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ جن سے اسے اللہ کی محبت اور قرب حاصل ہو سکتا ہے.اور اس کے حاصل کرنے کی انسان کو ضرورت ہے.اس لئے اسلام ہی اس قابل ہے کہ قبول کیا جائے.میں ایک ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہوں جو ابتدائے اسلام کے وقت مسلمان نہیں ہوئی بلکہ

Page 630

وم جلد ۳۰ ۶۰۳ زندان بعد میں آکر ہوئی ہے.اس لئے ہم نے اسلام اس لئے قبول نہیں کیا کہ ہمارا آبائی مذہب ہے.بلکہ ہماری غرض تو یہ ہے کہ جس میں خدا مل جائے اسے قبول کیا جائے.ہم تو اس کے لئے تیار ہیں کہ اگر ثابت کر دیا جائے کہ کوئی اور ایسا مذ ہب ہے جس میں خدا المتا ہے تو اسی کو اختیار کر لیں.لیکن اسلام کے سوا اور کوئی ایسا دین نہیں ہے جس میں یہ بات حاصل ہو سکے.یہ صرف اسلام ہی کا دعوئی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ملا دیتا ہے.اور اس کا زندہ ثبوت بھی پیش کرتا ہے اس لئے یہی زندہ مذہب ہے.گذشته واقعات کو جانے دو کہ ہر ایک مذہب والا اپنے مذہب کی صداقت ظاہر کرنے کے لئے اس قسم کے واقعات سنانے کے لئے تیار ہے.اگر ہم کہیں کہ رسول کریم کے دشمن تباہ و برباد ہو گئے اور آپ کامیاب رہا مراد بن گئے تو دوسرے کہہ دیں گے کہ یہ کونسی بڑی بات ہے.ہمارے بزرگوں نے تھوڑی سی دیر میں ایک ہاتھ سے اپنے سارے دشمنوں کو تباہ کر دیا تھا.یا اگر ہم کہیں کہ ایسے موقعہ پر جہاں ظاہری سامان بالکل مخالف تھے خدا نے آنحضرت ا کی وجہ سے بہت بڑی کامیابی عطا کی تو اس سے بڑھ کر سنا دیں گے.اس لئے اس قسم کی باتوں سے صاف طور پر فیصلہ نہیں ہو سکتا کہ کون ساند ہب زندہ ہے.اس لئے ہم یہ بتا ئیں گے کہ آج بھی اسلام میں وہ طاقت اور ہمت ہے جو پہلے تھی اور جب یہ ثابت ہو گیا تو یہ بھی ثابت ہو جائے گا کہ یہی زندہ مذہب ہے.پس میں اس وقت اسلام کے زندہ ہونے کا اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت ثبوت پیش کروں گا.اس زمانہ میں خدا تعالیٰ نے اسلام کی صداقت اور زندگی ظاہر کرنے کے لئے ایک انسان کو بھیجا جس کے ہم مرید اور ماننے والے ہیں.اور عقیدہ رکھتے ہیں کہ انہوں نے آنحضرت ا کے بتائے ہوئے احکام پر عمل کر کے وہ درجہ حاصل کر لیا جو خدا تعالیٰ اپنے پیارے اور محبوب بندوں کو دیا کرتا ہے.اور انہوں نے خدا تعالٰی سے ایسا تعلق پیدا کر لیا کہ خدا نے ان سے کلام کیا.اور ایسے صاف اور بین طور پر کلام کیا کہ کوئی عظمند اور سمجھدار انسان اس سے انکار نہیں کر سکتا.دیکھئے کوئی بڑے سے بڑا فلسفی اور بڑے سے بڑا قیافہ شناس یہ نہیں بتا سکتا کہ کل کیا ہو گا.لیکن ہمارے مرشد اور مقتدا حضرت مرزا صاحب ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے کئی سال پہلے بتا دیا کہ ایسا ہو گا چنانچہ ویسا ہی ہوا.

Page 631

۶۰۴ زندهند اکثر لوگ جانتے ہیں کہ ایک زمانہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا پہلا نشان آپ پر ایسا گزرا کہ آپ کے گاؤں کے لوگ بھی آپ کو نہ جانتے تھے اور آپ کے نام تک سے واقف نہ تھے کیونکہ آپ ایک حجرہ میں اکیلے رہتے تھے.پھر آپ چار سال سیالکوٹ میں رہے ہیں وہاں بھی چند ہی لوگ آپ کو جاننے والے تھے کیونکہ آپ وہاں اکیلے ہی رہتے تھے اور بہت کم لوگوں سے تعلق رکھتے تھے.کبھی کسی سنجیدہ اور متین آریہ یا عیسائی سے مذہبی گفتگو کرنے کے لئے چلے جاتے تھے.اور کوئی پندرہ یا بیس کے قریب آدمی تھے جو سیالکوٹ میں آپ کو جانتے تھے.آج کل لاء کالج لاہور کے جو پرنسپل ہیں ان کے والد لالہ بھیم سین صاحب آپ کے ساتھ اکثر ملتے جلتے رہتے تھے.ان کی شہادت ہے کہ آپ بالکل علیحدہ اور تنہائی میں رہتے تھے اور محویت کا یہ عالم تھا کہ جس سڑک پر متواتر چھ چھ ماہ گزرتے اس کو بھول جاتے کیونکہ آپ نیچی نظر کر کے چلا کرتے تھے.ایسی گمنامی کی حالت میں آپ نے اعلان کیا تھا اور خدا سے الہام پا کر کیا تھا کہ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( تذکرہ صفحہ ۷۵۲) وہ وقت آگیا ہے جب کہ دنیا میں تیری شہرت کی جائے اور تیرے نام کو روشن کیا جائے.اس وقت دور دور سے تمہارے پاس چیزیں آئیں گی اور اس سے آئیں گی کہ رستے گھس جائیں گے ان میں گڑھے پڑ جائیں گے.پھر کہا گیا تھا.يأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ ( تذکره صح (۲۰) دور دور سے تیرے پاس لوگ آئیں گے اور ان کے آنے کی کثرت سے راستوں میں گڑے پڑ جائیں گے.یہ کتنا بڑا دعویٰ ہے.کوئی انسان نہیں کہہ سکتا کہ کل تک میں زندہ بھی رہوں گا یا نہیں چہ جائیکہ وہ کہے کہ مجھے ایک بہت بڑی جماعت دی جائے گی اور اس قدر کامیابی ہو گی کہ میرا نام ساری دنیا میں پھیل جائے گا اور اگر ایسا نہ ہوا تو میں اسلام کو جھوٹا مذہب مان لوں گا.ہو سکتا ہے کہ ایک شریر انسان یونسی بڑ مار دے کہ میں دس من بوجھ اٹھالوں گا لیکن یہ کبھی نہیں کہے گا کہ اگر میں نہ اٹھا سکوں تو میرا گھر بار ضبط کر لیا جائے.تو ایک ایسے دعوے کے متعلق کوئی انسان شرط نہیں لگا سکتا جس کے صحیح اور درست ہونے میں اسے پورا پورا یقین نہ ہو.مگر حضرت مرزا صاحب نے صرف یہی اعلان نہیں کیا کہ ایسا ہو گا.بلکہ یہ بھی کہا کہ اگر ایسا نہ ہوا تو مجھے جھوٹا اور کذاب سمجھا جائے اور کچھ وقعت نہ دی جاوے.اب یہ ایک ایسا دعویٰ ہے کہ جس کے پورا نہ ہونے پر ایک انسان اپنی عزت اور وقار

Page 632

۶۰۵ زنده در جب کھونے کے لئے تیار ہے.لیکن اتنی جرات سوائے اس کے اور کوئی نہیں کر سکتا جسے اپنے دعوے پر پورا پورا یقین ہو.چنانچہ دعوئی پورا ہوا اور آپ کو ایسی شہرت حاصل ہوئی کہ دنیا کے دور دراز حصوں سے آپ کے ملنے کے لئے لوگ آئے حتی کہ آپ کی وفات سے ایک سال پہلے امریکہ سے تین آدمی آئے.ان میں سے ایک نے سوال کیا کہ آپ صحیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مسیح تو معجزے دکھایا کرتا تھا آپ کیا معجزہ دکھاتے ہیں.آپ نے فرمایا میرے معجزے کو دیکھنے کے لئے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں تم خود ہی میرا معجزہ ہو.اس پر اس نے کہا یہ کس طرح.آپ نے فرمایا دیکھئے اس وقت جب کہ قادیان سے چل کر بھی لوگ میرے پاس نہ آتے تھے اس وقت میں نے اعلان کیا تھا کہ میرا نام دنیا میں مشہور کیا جاوے گا اور دور دور سے لوگ مجھے ملنے کے لئے آئیں گے.اب بتائیے آپ نے میرا نام امریکہ میں منایا نہیں اور میرے ملنے کے لئے آئے یا نہیں.یہ سن کر وہ خاموش ہو گیا.تو اللہ تعالی نے اس زمانہ میں اسلام کی زندگی کے ثبوت میں حضرت مرزا صاحب کو پیش کیا ہے.اور اس کی دلیل یہ دی ہے کہ حضرت مرزا صاحب سے ان قوانین اور احکام پر چلنے کی وجہ سے جو اسلام نے بتائے ہیں خدا نے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے اتنی عزت دوں گا کہ تیرا نام ساری دنیا میں پھیل جائے گا.اور لوگ دور دور سے تیرے پاس آئیں گے.چنانچہ اس دعدہ کے بعد میں ہی سال میں خدا تعالیٰ نے آپ کو ایسی شہرت دی کہ دور دراز ممالک سے لوگ آپ کا پتہ صرف یہ لکھتے کہ انڈیا مرزا غلام احمد " تو آپ کو خط پہنچ جاتے.پھر دنیا کے چاروں کونوں سے لوگ آپ کے ملنے کے لئے آئے.اور وہی لوگ جو انسانوں کو قتل کر دینا بہت معمولی بات سمجھتے تھے آپ کے پاس آئے.اور آپ کی بیعت میں داخل ہو کر با خدا انسان بن گئے.ہمارے ایک دہائی دوست سناتے تھے کہ میں ایک دفعہ سرحد کی طرف گیا تو ایک پٹھان کھیتی کرتا ہوا ملا.میں نے اسے السلام علیکم کہا.اس کا اس نے جواب تو کوئی نہ دیا مگر کام چھوڑ کر ایک طرف کو بھاگ کھڑا ہوا.دوسرے نے مجھے بتایا کہ یہاں سے جلدی چلے جاؤ وہ تمہارے مارنے کے لئے بندوق لینے گیا ہے.تو یہ ان لوگوں کی حالت تھی.اکثر تو دین سے ایسے ناواقف تھے کہ کلمہ تک نہیں پڑھ سکتے تھے.مشہور ہے کہ ایک دفعہ ایک ہندو کو کسی پٹھان نے پکڑ لیا اور کہا مسلمان ہو جاور نہ جان سے مار ڈالوں گا.پہلے تو اس نے انکار کیا.لیکن جب دیکھا کہ جان کی خیر نہیں تو کہا میں مسلمان ہو تا ہوں مجھے کلمہ پڑھاؤ.اس نے کہا تم خود ہی پڑھو ہندو نے

Page 633

العلوم ۶۰۶ زندون کہا مجھے تو نہیں آتا.اس پر پٹھان نے یہ کہہ کر کہ تمہاری قسمت ہی خراب ہے کلمہ مجھے بھی نہیں آتا چھوڑ دیا اور وہ چلا گیا.تو اس علاقہ کے لوگ اس قسم کے ہیں.مگر خدا تعالیٰ نے انہیں کو جو قتل و غارت ، لڑائی و جھگڑے، شرارت و فتنہ میں لگے رہتے تھے لا کر حضرت مرزا صاحب کے آگے ڈال دیا.اور صرف ڈال ہی نہیں دیا.بلکہ ان کی بہت بڑی اصلاح بھی ہو گئی.کیونکہ حضرت مرزا صاحب کوئی اس قسم کے پیر نہ تھے جیسے آج کل کے مسلمانوں کے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہماری بیعت کر کے ہمارا نذرانہ ادا کر دو پھر جو تمہارا جی چاہے کرتے پھرو سب کچھ تمہیں معاف ہے.چنانچہ حضرت مولوی نورالدین صاحب جو حضرت مرزا صاحب کے پہلے خلیفہ تھے.ان کے ہاں ان کی بہن آئی تو انہوں نے کہا کہ تم اپنے پیر سے جا کر پوچھنا کہ تمہاری بیعت کرنے سے کیا فائدہ ہے.جب اس نے واپس جاکر پیر صاحب سے یہ سوال کیا تو پہلے تو انہوں نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے نورالدین نے تمہیں یہ سوال سکھایا ہے اس لئے اس کا جواب دینے کی ضرورت نہیں ہے.مگر بتا دیتا ہوں ہماری بیعت کرنے کا یہ فائدہ ہے کہ بیعت کے بعد جو تمہاری مرضی ہو وہ کرو.قیامت کے دن ہم جب کہہ دیں گے کہ یہ ہمارے مرید ہیں.تو پھر کوئی نہیں پوچھے گا اور تم سیدھی جنت میں چلی جاؤ گی.تو اس قسم کی بیعتیں ہیں جو مسلمانوں کے پیر کراتے ہیں.مگر حضرت مرزا صاحب کی بیعت ایسی نہ تھی.اس میں شرط تھی کہ ہر قسم کی بدکاری، شرارت، حسد ، کینہ ، بغض، چوری وغیرہ افعال بد سے بچنا ہو گا.قرآن کریم کے کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو نہیں تو ڑنا ہو گا.قتل و غمارت لوٹ مار وغیرہ برائیوں کو چھوڑنا ہو گا.خدا کی عبادت سچے دل اور کامل فرمانبرداری سے کرنی ہوگی.خدا کی مخلوق کے ساتھ محبت اور الفت سے پیش آنا ہو گا.غریبوں، مسکینوں اور محتاجوں کی مدد کرنی ہوگی.اپنی زبان یا ہاتھ سے خدا کی کسی مخلوق کو تکلیف نہیں پہنچانی ہوگی.ہر برے فعل سے بچنے اور اچھے عمل کرنے کے لئے تیار رہنا ہو گا.یہ وہ شرائط ہیں جو حضرت مرزا صاحب اپنے ہاتھ پر بیعت کرنے والے سے پوری کراتے تھے.لیکن باوجود ان کے موجودہ زمانہ کے لحاظ سے اس قدر مشکل اور کٹھن ہونے کے جب ان لوگوں نے جنہیں وحشی اور جاہل سمجھا جاتا تھا آپ کی بیعت کی تو انسان بن گئے.خود قرآن کریم پڑھا اور دوسروں کو سکھایا.کیا یہ حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا معمولی نشان ہے.پھر ہر علاقہ اور ہر ملک سے لوگ کھینچ کھینچ کر آپ کے پاس لائے گئے اور اس کثرت کے ساتھ لائے گئے کہ جن

Page 634

انوار العلوم جلد ۳۰ 4-6 راستوں پر سے آئے وہ گھس گئے.آپ میں سے جو لوگ قادیان گئے ہیں انہوں نے دیکھا ہو گا کہ بٹالہ سے قادیان تک کی سڑک پر لوگوں کی کثرت آمد و رفت کی وجہ سے کتنے کتنے بڑے گڑھے پڑ جاتے ہیں حالانکہ ہر سال ہزاروں روپوؤں کی مٹی گورنمنٹ ڈلواتی ہے.تو یہ حضرت مرزا صاحب کی پیش گوئی پوری ہو رہی ہے جو آپ نے اس وقت کی تھی جب کہ آپ کو کوئی جانتا بھی نہ تھا.پس اس پیش گوئی نے پورا ہو کر ثابت کر دیا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے.پھر حضرت مرزا صاحب کی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا دوسرانشان صداقت کا ایک اور نشان دیکھئے.طاعون جس نے ہندوستان کے علاقوں کے علاقے تباہ و برباد کر دیئے ہیں.اس کے ہندوستان میں آنے سے پندرہ سال پہلے حضرت مرزا صاحب نے خبر دی تھی.پھر تین سال پہلے بہت کھول کر بتا دیا تھا کہ اپنی اصلاح کر لو ورنہ اس سے تباہ ہو جاؤ گے.پھر جب بمبئی میں پہلے پہل پھوٹی تو آپ نے بتایا کہ اب بھی موقع ہے کہ اصلاح کر لو ورنہ تمام ملک میں پھیل جائے گی.پھر جب جالندھر میں نمودار ہوئی تب آپ نے اس سے محفوظ رہنے کی ترکیب بتائی لیکن لوگوں نے توجہ نہ کی.جس کا نتیجہ جو کچھ ہوا وہ ظاہری ہے اس کے بعد ایسے ایسے خطر ناک حملے ہوئے اور ہو رہے ہیں کہ علاقوں کے علاقے تباہ وبرباد ہو گئے ہیں.اور میں سال کے قریب اس کو آئے ہوئے ہو گئے ہیں.مگر ابھی تک جانے کا نام نہیں لیتی.یہ بھی ایک بہت بڑا ثبوت ہے حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا.اور جب آپ کی صداقت ثابت ہو گئی تو ساتھ ہی یہ بھی ثابت ہو گیا کہ اسلام زندہ مذہب ہے کیونکہ اسی پر چل کر آپ نے یہ مرتبہ حاصل کیا.پھر ۱۹۰۵ء میں جو خطرناک زلزلہ آیا حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا تیسرا نشان ہے اور جس سے بہت زیادہ جان و مال کا نقصان ہوا ہے.بڑی بڑی عمارتیں گری ہیں اور میں ہزار انسان صرف ہندوستان میں ہی ہلاک ہوئے ہیں.اس کے آنے کی خبر بھی حضرت مرزا صاحب نے پیشتر سے دی ہوئی تھی.اس کے متعلق انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں لکھا ہے کہ آج تک اس سے زیادہ سخت زلزلہ کبھی نہیں آیا.اسی طرح حضرت مرزا صاحب نے کہا تھا کہ میں نے دنیا کو اسلام کے زندہ مذہب

Page 635

انوار العلوم جلد ۳۰ ۶۰۸ زنده ند ہونے کا ثبوت دے دیا ہے.اگر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا تو اس کی سزا میں ایسے زلزلے آئیں گے کہ جن کی نظیر پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملے گی.دیکھئے کتنا بڑا دعویٰ ہے یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی کہہ دے کہ زلزلے آئیں گے کیونکہ آتے ہی رہتے ہیں.لیکن مرزا صاحب نے یہ نہیں کہا بلکہ ساتھ یہ شرط بھی لگادی ہے کہ ایسے خطرناک اور اس کثرت سے آئیں گے کہ دنیا میں ان کی مثال نہیں پائی جائے گی.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے ۱۹۱۲ء کے ایڈیشن میں تمام ان زلزلوں کی فہرست دی گئی ہے جو ۱۹۱۲ء تک آئے.جس سے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے کہ ۱۶۰۰ء سے لے کر ۱۹۰۰ ء تک جتنے زلزلے ساری دنیا میں آئے ہیں ان میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد حضرت مرزا صاحب کی اس پیشگوئی سے لے کر ۱۹۱۲ء تک کے زلزلوں سے مرنے والوں کی نسبت بہت تھوڑی بنتی ہے.اور اس بارہ سال کے عرصہ میں پہلے تین سو سال کی مدت کی نسبت زلزلوں کی تعداد بھی زیادہ ہے.اور ان میں ہلاک ہونے والے زیادہ ہیں.اب جو شخص ذرا بھی غور و فکر سے کام لے.اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ حضرت مرزا صاحب کی یہ پیش گوئی کوئی ڈھکوسلا نہ تھی.اور نہ کسی انسان کی طاقت ہے کہ ایسی بات بتا سکے.یہ محض خدا تعالی کا فعل ہے جو حضرت مرزا صاحب کے ذریعہ ظاہر ہوا.اور اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا ثبوت قرار پایا.کیونکہ اس سے پتہ لگتا ہے کہ اسلام میں ایسے لوگ ہوتے رہتے ہیں جو خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے اور خدا ان سے کلام کرتا ہے.پس یہی مذہب اس قابل ہے کہ انسان قبول کرے.دیکھئے کوئی انسان یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنے باغ میں کوئی ایسا پودا رہنے قابل قبول مذہب دے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو یا جو کڑوے پھل لاوے.اسی طرح کسی عقلمند انسان کو وہ مذہب قبول نہیں کرنا چاہئے جس سے فائدہ نہ ہو یا جس کا نتیجہ تلخ نکلتا ہو.بلکہ اس کو اختیار کرے جس کا کوئی فائدہ ہو.اور ایسا مذہب اس وقت سوائے اسلام کے اور کوئی نہیں ہے.یہ ٹھیک ہے کہ ان مذاہب میں بھی پہلے ایسے لوگ ہوئے ہیں جو خدا کے نبی اور پیارے تھے.مثلاً رام کرشن وغیرہ اور عیسائت میں بھی ہوئے ہیں.مگر اب سوائے اسلام کے اور کسی میں یہ بات باقی نہیں ہے کہ خدا سے تعلق کرا سکے.دیگر مذاہب کی بنیاد قصہ کہانیوں پر ہے.لیکن اسلام اپنی صداقت کے ثبوت میں گذشتہ روایات کو ہی پیش نہیں کرتا بلکہ مشاہدات پیش کرتا ہے.اس لئے بھی قابل قبول ہے.دیکھئے کوئی فقیر اس گھر پر کچھ مانگنے

Page 636

العلوم جامد زنده ناب کے لئے نہیں جائے گا جہاں کسی زمانہ میں کروڑوں کروڑ روپے ملتے ہوں مگر اب کچھ نہ حاصل ہوتا ہو.لیکن اس کے بجائے اس گھر پر چلا جائے گا جہاں اسے آج ایک پیسہ ملنے کی امید ہو.پس وہ مذہب جو کسی زمانہ میں دیتے تھے خواہ وہ کتنا زیادہ ہی دیتے تھے.لیکن اب نہیں دیتے ان کا تو نام ہی نہیں لینا چاہئے.کیونکہ ہمیں تو ایک ایسے مذہب کی ضرورت ہے جو آج دے اور ہمارے موجودہ درد کی دوا کرے.ایک شاعر کہتا ہے.ابن مریم ہوا کرے کوئی میرے دل کی دوا کرے کوئی پس ہمیں تو اس وقت ضرورت ہے.ورنہ یہ تو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ دوسرے مذاہب بھی کسی وقت زندہ تھے.ان میں بھی خدا کے پیارے اور محبوب لوگ ہوئے.ان پر چلنے والے بھی خدا سے کلام کرتے تھے.اور ان میں بھی نبی اور رسول بھیجے گئے.کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ اِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرُ (قاط (۲۵) کہ کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں ہم نے نذیر نہ بھیجا ہو.اس لئے عیسوی موسوی ، زرتشی وغیرہ سب مذاہب زندہ تھے.مگر اپنے اپنے وقت میں جب ان کا وقت گزر گیا تو وہ مردہ ہو گئے.اور ہمیں آج کسی مردہ مذہب کی ضرورت نہیں بلکہ زندہ کی ہے.اور وہ اسلام ہی ہے.پھر حضرت مرزا صاحب کی اور کئی حضرت مرزا صاحب کی صداقت کا چوتھانشان ایک پیش گوئیاں ہیں جو نہایت صفائی کے ساتھ پوری ہو ئیں.جب بنگالہ کی تقسیم ہوئی اور اس پر بڑا شور پڑا.میموریل بھیجے گئے ، سٹرائیکس ہو ئیں ، فساد ہوئے.مگر گورنمنٹ نے ایک نہ مانی اور صاف جواب دے دیا.کہ اس حکم کو بدلا نہیں جا سکتا.ایسے وقت میں جب کہ بنگالیوں کو یہ جواب مل چکا تھا اور وہ مایوس ہو چکے تھے.تو حضرت مرزا صاحب نے اپنی یہ پیش گوئی شائع کی کہ "پہلے بنگالہ کی نسبت جو کچھ حکم جاری کیا گیا تھا اب ان کی دلجوئی ہوگی " ( تذکرہ صفحہ ۵۹۶) جب یہ پیش گوئی شائع ہوئی تو اور تو اور بنگالی اخباروں نے بھی اس پر ہنسی اڑائی.اور لکھا کہ ہمیں تو صاف جواب مل گیا ہے مگر یہ کہتے ہیں کہ دلجوئی ہوگی.اس کے علاوہ پنجاب کے اخباروں نے ہنسی اڑائی اور لکھا کہ مرزا صاحب پہلے تو صرف نبوت کا دعوی کرتے تھے اب سیاست دان بھی بننے لگے ہیں.مگر لوگوں کی یہ نہسی اور مخالفت ثبوت تھا اس بات کا کہ کسی انسان کے وہم و قیاس میں بھی نہیں

Page 637

انوار العلوم جلد ۳۰ 41.زنده ند آسکتا تھا کہ ایسا ہو گا.اور انسان کے نزدیک اس حکم کو بدلنا بالکل ناممکن تھا.لیکن ہمارے مکرم معظم بادشاہ سلامت ولایت سے چل کر یہاں ہندوستان میں آئے اور ان کے ہاتھوں یہ پیش گوئی پوری ہوئی اور اپنے الفاظ میں پوری ہوئی.یعنی نہ تو بنگالیوں کی خواہش کو ان کی مرضی کے مطابق پورا کیا گیا اور نہ ہی انہیں مایوس رکھا گیا.بلکہ دلجوئی کر دی گئی اور وہ اس طرح کہ مشرقی بنگال کو تو ساتھ ملا دیا گیا مگر صوبہ بہار کو جدا کر دیا گیا.تو یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ اسلام زندہ مذہب ہے اور اس پر چلنے والوں کو خدا قبل از وقت خبر دیتا ہے.اور ان سے کلام کرتا ہے.اور اپنی زندگی کے ثبوت اب بھی پیش کرتا ہے.کسی مذہب کے زندہ ہونے کا ایک اور بھی ثبوت ہے زندہ مذہب کا ایک اور ثبوت اور وہ یہ کہ اس پر چلنے والوں کو خدا کی نصرت اور تائید حاصل ہو.دیکھئے جس کو کسی سے محبت ہو یا جس چیز سے پیار ہو وہ اس کی مدد کرتا ہے.حتی کہ اس کی خاطر جان تک دے دیتا ہے.بچہ کو اگر کوئی مارے تو ماں باپ کو بہت سخت تکلیف پہنچتی ہے.یہی حال اور تعلقات کا ہے اور جس قدر انسان کو کسی سے زیادہ تعلق ہوتا ہے اسی قدر زیادہ وہ اس کی مدد اور تائید کی کوشش کرتا ہے.تو محبت پیار اور تعلق کی کچھ علامتیں وتی ہیں.جن سے دوسروں کو اس کا پتہ لگتا ہے.قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.انا لَتَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا (المؤمن : (۵۲) کہ جن کو ہم سے تعلق اور محبت ہوتی ہے ان کی ہم اسی دنیا میں مدد اور تائید کرتے ہیں.اس کے متعلق دوسرے مذاہب صرف قصے اور کہانیاں پیش کرتے اور کہتے ہیں کہ فلاں کے ساتھ خدا کی محبت تھی اور اس کی اس نے اس طرح مدد کی تھی.اس کے دشمنوں کو ہلاک و تباہ کیا اور اسے کامیابی عطا کی تھی.مگر ہم کہتے ہیں اس زمانہ میں تمہارے پاس خدا کی محبت کا کیا ثبوت ہے ؟ اس کا جواب کوئی مذہب پیش نہیں کر سکتا اور صرف قصے پیش کرتا ہے مگر ہم قصوں کو کیا کریں.اس وقت جو مذہب ایک بھی ایسا آدمی نہیں پیدا کر سکتا جس کی خدا مدد کرتا ہو ، جس سے اپنی محبت کا ثبوت دیتا ہو تو اس مذہب کا کیا فائدہ اور اس کے زندہ ہونے کا کیا ثبوت.مگر اسلام ہر زمانہ میں ایسے انسان پیدا کرتا رہا ہے اور اس زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود کو پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ نے ان کی تائید اور نصرت کر کے بتا دیا ہے کہ خدا کا ان سے تعلق تھا.کوئی کہے کہ وہ تو فوت ہو گئے ہیں اب اس کا کیا ثبوت ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم

Page 638

انوار العلوم جلد ٣٠ ད་ اپنے رسولوں اور نبیوں ہی کی مدد نہیں کرتے بلکہ جو ان کے ماننے والے ہوتے ہیں ان کی بھی مدد کرتے ہیں.اس لئے اب ان کی جماعت موجود ہے جن سے خدا تعالیٰ اپنی محبت اور پیار کا ثبوت دے رہا ہے.اور اپنی مدد اور نصرت سے ہی ہر میدان میں کامیاب کرتا اور اس کے مخالفوں کو ذلیل و خوار کرتا ہے.حضرت مرزا صاحب کے لئے خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے نشانات دکھلائے کہ جن کو دیکھ کر اسلام کے زندہ مذہب ہونے کا بہت بڑا ثبوت ملتا ہے.جب آپ نے دعویٰ کیا تو ساری دنیا نے مل کر آپ کی مخالفت میں زور لگایا.مگر آپ کے مخالفین ہر کوشش اور سعی میں نا کام اور نا مراد رہے.اور آپ کے ساتھ نصرت اور تائید رہی.یہ ثبوت تھا اس بات کا کہ خدا کے پیارے اور محبوب بندوں کو خدا سے نصرت آتی ہے.دوستی اور محبت اس کو کہتے ہیں کہ دونوں میں ایسا تعلق ہو کہ ایک دوسرے کی بات مانیں.پس زندہ مذہب کا یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ اس مذہب میں ایسے لوگ موجود ہوں جن کی باتیں خدا تعالی مانے اور ایسے حالات میں مانے جب کہ ظاہری اسباب بالکل مخالف ہوں.اور یہ اس طرح کہ ان کی دعائیں قبول ہوتی ہوں اور یہ بات اسلام کے پیروان کو نصیب ہے.میرا یہ مطلب نہیں کہ خدا تعالٰی دوسرے مذاہب کے پیرو ان کی دعا ئیں نہیں سنتا.خدا تعالٰی تنگ دل نہیں کہ وہ سوائے ایک قوم کے باقی سب کی دعاؤں کو رد کر دے.اسلام خدا تعالیٰ کے متعلق بہت وسعت کی تعلیم دیتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.وَإِذَا سَالَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَمان (البقره: ۱۸۷) کہ جب میرے بندے میرے متعلق سوال کریں تو ان کو کہہ دو کہ میں قریب ہی ہوں.اور پکارنے والے کی دعاؤں کو سنتا ہوں ” پکارنے والے " کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ صرف مسلمانوں ہی کی دعائیں نہیں سنتا بلکہ خواہ کوئی ہندو ہو یا عیسائی، سکھ ہو یا آریہ کوئی ہو جب وہ خدا کے حضور گڑ گڑائے اور اپنی حالت زار پیش کر کے مدد چاہے تو خدا اس کی سنتا اور قبول کرتا ہے.پس یہاں دعا کے قبول ہونے کے متعلق بیان کرنے سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ مسلمانوں کے سوا اور کسی انسان کی دعا سنتا ہی نہیں بلکہ یہ مراد ہے کہ خدا تعالی ایک بچے مسلمان کی دعائیں دوسرے لوگوں کی نسبت بہت زیادہ سنتا ہے.جس طرح کہ ایک سخی انسان کو اپنی سخاوت سے سب کو نفع پہنچاتا ہے مگر اس کے دوست اس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں.علاوہ ازیں یہ

Page 639

انوار العلوم جلد - ۳ ۶۱۲ زنده ند فرق بھی ہے کہ جہاں ایک مسلمان اور غیر مسلمان میں مقابلہ ہو وہاں وہ مسلمان ہی کی سنے گا اور اس کے مقابلہ میں اگر ساری دنیا بھی کھڑی ہو جائے تو کبھی ان کی دعا قبول نہ کرے گا.یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے ساری دنیا کو چیلنج دیا مگر آج تک اسے قبول کرنے کی کسی کو جرات نہ ہوئی.آپ نے کہا تھا کہ میں اسلام کی صداقت ثابت کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.اس لئے دوسرے مذاہب والے جن کو اپنا اپنا مذ ہب سچا ہونے کا دعوی ہے آئیں اور مجھ سے مقابلہ کریں.اور وہ اس طرح کہ کچھ ایسے مریض لئے جائیں جن کی بیماری نہایت خطرناک ہو اور ان کو قرعہ کے ذریعہ تقسیم کر لیا جائے اس کے بعد ان کی صحت کے لئے دعا کی جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کس کی دعا خدا قبول کرتا ہے اور کس کی رد.یعنی کس کی دعا سے زیادہ مریض اچھے ہوتے ہیں اور کس کی سے نہیں.اگر میری دعا سے زیادہ مریض اچھے ہو گئے تو معلوم ہو جائے گا کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے کیونکہ میں اسی پر چلتا ہوں اور اگر اس کے مقابلہ پر کسی اور مذہب کے پیرو کی دعا سے زیادہ اچھے ہو گئے تو وہی زندہ مذہب ثابت ہو جائے گا.لیکن آج تک اس مقابلہ کے لئے کوئی نہیں آیا حتی کہ عیسائیوں کو حضرت مرزا صاحب نے بار بار اور کئی طریق سے اس طرف بلایا اور کہا کہ تمہاری کتاب میں تو لکھا ہے کہ اگر تم میں رائی کے برابر بھی ایمان ہو گا اور تم درخت کو کہو گے کہ چل تو وہ چل پڑے گا.پھر تم کیوں میرے مقابلہ پر نہیں آتے مگر وہ نہ آئے.جس وقت حضرت مرزا صاحب نے عیسائیوں کو بار بار مقابلہ پر بلایا.اس وقت پانیر میں ایک مضمون نکلا تھا کہ ہمارے پادری صاحبان جو اتنی بڑی بڑی تنخواہیں لیتے ہیں وہ آج کیوں چیلنج مقابلہ کے لئے نہیں نکلتے تاکہ عیسائیت کی صداقت ثابت ہو.مگر پھر بھی کوئی نہ نکلا.اب آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ حضرت مرزا صاحب تو وفات پاچکے ہیں.اب کس طرح مقابلہ ہو سکتا ہے.کیونکہ آپ کا سلسلہ مٹ نہیں گیا اب بھی آپ کی جماعت موجود ہے اور ہم لوگ اس مقابلہ کے لئے تیار ہیں.کیونکہ خدا تعالیٰ آج بھی اسلام کی صداقت ظاہر کرنے اور اپنے پیارے بندوں کی اپنے نشانات سے تائید کرنے کے لئے اسی طرح موجود ہے جس طرح آنحضرت کے وقت قمری اور مری نشانوں سے تائید کرنے کے لئے موجود تھا اور جس طرح آنحضرت ا کے بعد آپ کے صحابہ کے وقت تائید کرتا رہا.اسی طرح حضرت مسیح موعود اور آپ کے بعد ہمارے وقت میں بھی تائید کرے گا.اس لئے میں حضرت

Page 640

العلوم جلد ٣٠ ۶۱۳ مسیح موعود کے بعد تمام دنیا کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص ایسا ہے جسے اسلام کے مقابلہ میں اپنے مذہب کے سچا ہونے کا یقین ہے تو آئے اور آکر ہم سے مقابلہ کرے.مجھے تجربہ کے ذریعہ ثابت ہو گیا ہے کہ اسلام ہی زندہ مذہب ہے اور کوئی مذہب اس کے مقابلہ پر نہیں ٹھر سکتا.کیونکہ خدا تعالٰی ہماری دعائیں سنتا اور قبول کرتا ہے.اور ایسے حالات میں قبول کرتا ہے جب کہ ظاہری سامان بالکل مخالف ہوتے ہیں.اور یہی اسلام کے زندہ مذہب ہونے کی بہت بڑی علامت ہے.اگر کسی کو شک و شبہ ہے تو آئے اور آزمائے.ہاتھ کنگن کو آرسی کیا.اگر کوئی ایسے لوگ ہیں.جنہیں یقین ہے کہ ہمارا مذہب زندہ ہے تو آئیں ان کے ساتھ جو خدا کا تعلق اور محبت ہے اس کا ثبوت دیں.اگر خدا کو ان سے محبت ہوگی تو وہ مقابلہ میں ضرور ان کی مدد اور تائید کرے گا.ایک کمزور اور ناتواں انسان اپنے پیاروں کو دکھ اور تکلیف میں دیکھ کر جس قدر اس کی طاقت اور ہمت ہوتی ہے مدد کرتا ہے تو کیا انہوں نے اپنے خدا کو ایک کمزور انسان سے بھی کمزور سمجھ رکھا ہے.جو ان کی مدد نہیں کرے گا.اگر نہیں تو میں ان کو چیلنج دیتا ہوں کہ مقابلہ پر آئیں تاکہ ثابت ہو کہ خدا کس کی مدد کرتا ہے اور کس کی دعا سنتا ہے.آپ لوگوں کو چاہئے کہ اپنی طرف سے لوگوں کو اس مقابلہ کے لئے کھڑا کریں.لیکن اس کے لئے یہ نہیں ہے کہ ہر ایک کھڑا ہو کر کہہ دے کہ میں مقابلہ کرتا ہوں بلکہ ان کو مقابلہ پر آنا چاہئے جو کسی مذہب یا فرقہ کے قائم مقام ہوں.اس وقت دنیا کو معلوم ہو جائے گا کہ خدا کس کی دعا قبول کرتا ہے.میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ہماری ہی دعا قبول ہوگی.افسوس ہے کہ مختلف مذاہب کے بڑے لوگ اس مقابلہ پر آنے سے ڈرتے ہیں اگر وہ مقابلہ کے لئے نکلیں تو ان کو ایسی شکست نصیب ہوگی کہ پھر مقابلہ کرنے کی انہیں جرات ہی نہ رہے گی.ہمارا دعویٰ ہے کہ اسلام سچا ہے اور دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب بچے ہیں.اس کے فیصلے کا آسان طریق یہ ہے کہ مشاہدہ کر لیا جائے کہ کون سا مذ ہب سچا ہے.اور جب مشاہدہ ہو سکتا ہے تو پھر کیوں نہ اس سے فائدہ اٹھایا جائے.لیکن اس میدان میں صرف اسلام ہی کھڑا رہے گا.اور ہم اس کا ثبوت دینے کے لئے آج بھی تیار ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اسلام ہی کی تائید کرے گا.اب میں اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ وہ لوگ جن کے دل میں حق کی تڑپ ہے اور جو ضد و ہٹ پر قائم نہیں ہیں خدا تعالیٰ ان کو ہدایت کی توفیق دے.یہ دنیا چند

Page 641

۶۱۴ زندران روزہ ہے آخر خدا کے حضور حاضر ہوتا ہے اس لئے اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ خدا تعالٰی کی وہ نعمت حاصل ہو جو نہ صرف اس دنیا میں کام آئے بلکہ آخرت میں بھی فائدہ دے اور وہ اسلام ہے.

Page 642

کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات اتریس 11 ۱۳ 16 19

Page 643

Page 644

احمدیت اسلام 1 کلید مضامین اعتراضات پہلی کتب کی خدا نے کیوں حفاظت کی؟ ۲۴۰ احمدیت کی ترقی کی پیشگوئی ۵۷۷/۲۹۸ احمدی فرقہ کیوں بنایا گیا احمدیت کی ترقی اور احباب جماعت قرآن یا حدیث میں مسیح موعود کو ماننے کا حکم نہیں کا فرض ۱۶۵ زوج کے معانی پ پیغامیوں کی بد زبانی تائید الہی کے حصول کا طریق مخالفین احمدیت کی ناکامی کی پیشگوئی ۳۹۸ اگر آپ کو خفیہ طور پر قبول کر لیا جائے تیح رکھنا بدعت ہے تو کوئی حرج تو نہیں ؟ ۳۵ تعلق باللہ.دیکھیں اللہ تعالیٰ" احمدیت کا اظہار کرنے سے تمام لوگ اسے تعلیم نیز دیکھیں اسلام احمدی احباب کا اخلاص par تمام بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے کافر سمجھیں گے.۲۶۱ ۲۳ احمدی غیر احمدی کے پیچھے نماز تقوی کے متعلق اسلام کی تعلیم جانوروں سے شفقت کی تعلیم ۲۸۴ کیوں نہیں پڑھتے ؟ ۲۷ ۴۴۰ ۵۳۹ انجیل کی تعلیم نا قابل عمل ہے 244 تقویٰ کے حصول کے دل ذرائع ۳۰۲ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے مصلی کے نیچے سے ایک پونڈ کام کام بار ج تبائی اور مساکین کے علاوہ دیگر بنی نوع نبی کے لئے شرط ہے کہ کتاب لائے ۱۲۲ تو تحل انسان سے حسین سلوک کی تعلیم ۲۸۲ الله تعالى دشمن کے ساتھ تعلق کی تعلیم حمان کے ساتھ نیک سلوک اللہ کے متعلق کلام کرنے کا طریق ۵۸۹ تعلق باشد +4 MAY ۲۵۳ ہمسایوں سے نیک سلوک کی تعلیم ۲۷۴ خوف بھی تعلق باللہ کا ذریعہ ہے ۲۵۰ جلسہ پر آکر فائدہ اُٹھانا چاہئے ۲۸۲ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک ۲۷۳ اللہ سے بندروں کا تعلق کیسے قائم ہو ۲۴۴ جلسہ مذاہب عالم کی تفصیل والدین بیوی وغیرہ کے ساتھ نیک تاک ۲۷۱۲۶۲ فلسفیوں کا خدا کے بارے میں نظریہ ۴۶۰ جمعہ کے دن درس کیوں نہیں ہوتا ۵۳۹ خدا تعالیٰ کی صفت رحمانیت اور رحیمیت ۴۳۳ جماعت احمدیہ کی ترقی اسلام دنیا کے تمام انبیاء کی تصدیق کرتا ہے.اسلام میں ہر طبیعت کے انسان کا علاج موجود ہے.اسلام کی ترقی اسلام کی ضرورت دوسرے مذاہب کی موجودگی میں AAI ۲۳۶ 14.149 مجھے اس شخص پر بہت غصہ آتا ہے جماعت احمدیہ کے فرائض اور ماریاں ۴۲۹ جو خدا کی نسبت کسی نا امیدی کا اظہار کرے ۱۷۴ نیز دیکھیں احمدیت انبیاء دیکھیں نبی انسان جنازہ غیر احمدی کا.۲۵۳ چکڑالوی انسان کا اپنے نفس سے مالا کیا ہوا چاہئے.انسان کا آدھا دھڑ بیوی ہے ۱۴۴ اسلام اور دوسرے مذاہب میں فرق ۲۴۲ نیز دیکھیں مذہب" بیعت کی اغراض و فوائد خلفاء ☆ چ است و این آنے والے خلفاء کے لئے دعا بیوی انسان کا اُدھا دھڑ ہے ۱۴۴

Page 645

دعا زور دیا ہے دم ام کرنا صحابہ ہے تاہت ہے شریعیت کی غرض ذکر الہی (حضور کی تقریر ، اس مضمون کی بہت سی باتیں کسی اور ایک خوارج خوارج کا گروہ اور ان کا نظریہ وحی حضرت مسیح موعود کی تعبیر محمد احسن صاحب کے بارے میں حضور کی روپا روبات خدا نے دعا کے اتنے طریق مجھے بجائے زکواۃ جو وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے ۲۸۴ زکواۃ کی تعلیم حضرت مسیح موعود نے دعا پر بہت ۴۸۸ ۳۸۱ زلزے ۴۱۴ ۵۴ اعلی علم الترب اسم نرم ربع کا اقرار کی انسان کو بڑھاتا ہے ونوں فرشتوں کا آنا خیالی بات نہیں ۴۸۷ تین سوسال میں آنے والے زلزلے ۵۷۵ میں نے خود فرشتوں کو دیکھا اور ۵۲ باتیں کی ہیں.ق قرآن شریف سکھنے کی کوشش کرو ۱۳۳ شریعت رحمت ہے نہ کہ لعنت ۳۲۲ قرآن شریف شفقت على خلق الله ۲۵۳ کتاب میں نہیں ہوں گی.ذکر کے معانی ذکر کرنے کے اوقات ۴۸۲ ۴۸۵ ۵۰۷ نک ایک پیج کی طرح ہوتا ہے.۲۲۳ کا طریقہ ص صحابہ کی ایک جزوی فضیلت 142 قربانی ذکر کرنے کے فوائد ۵۳۴ صدق ذکر کرنے کے طریق ۵۶۳ ۵۰۰ صدقہ کی تعلیم ۵۴ صدر انجین صدر انجمن کا قیام طاعون حقیقی ذکر اللہ چار ہیں ذکر کرنے کی حالتیں حضرت مسیح موعود نے ذکر الہی پر بہت زور دیا ہے.موجودہ زمانے کے صوفیاء کا ذکر ۴۹۲ ۲۹۰ عبادت کے متعلق اسلامی تعلیم ۲۶۰ خاص خاص مسائل پر چھوٹی چھوٹی قرآن شریف کے اسباق پڑھانے قرآن پڑھ کر غش کھا کے گرنا ۴۹۹ کر کھا قربانی کی حقیقت اور فلسفہ قربانی اور کفارہ میں فرق نیز دیکھیں کفارہ اور نجات " IMY 3 ۳۲۱ ۳۷۳ قیاس ۱۳۹ حضرت مسیح موعود کی کتب پڑھیں ۱۳۵ کتابیں اپنی خریدیں ۲۹۱ روزه رؤیا نیز و تعیین تعلیم " اسلام" عربی حضور کا قرآن کے بارے میں ایک در فریا ه ام عربی زبان سیکھنے کی طرف توجہ 14.کفاره کتا ہیں یعنی ٹرکیٹ لکھیں علم حاصل کرنے کے ذرائع ۱۴۰,۱۳۵ کفارہ کی تردید قادیان کے بارے میں ایک رویا ۴۰۶ علم بغیر مشیت اللہ اور تقویٰ کے نیز دیکھیں " قربانی " " نجات " رڈیا سے دو آدمی مرتد ہو گئے ۴۱۴ لعنت ہے مجھے بذریعہ رویا خدا نے بتایا ہے علماء تیارہ کرا کے گاؤں گاؤں بھیجنے کہ مسیح موعود نبی تھے.مرزا شریف احمد صاحب کی ایک رویا 14 کی حکیم عورتوں محمد احسن صاحب کے بارے میں اور عورتوں کو علم دین سکھاؤ.14A ۱۴۱ ۱۴۱ گ " ۱۳۷ ۳۱۹ انسان کو گناہ ورنہ میں نہیں ملا ۳۱۹ گورنمنٹ گورنمنٹ کی وفاداری

Page 646

مباہلہ اپنے عقائد کے متعلق پیغا میوں کو مباہلہ نبی اور فلاسفر میں فرق کا چیلنج مجدد ۳۸۴ محبت کے اسباب احسن و احسان ۲۲۵ ذیب مذہب کی غرض ۵۹۱۰۲۴۳ انبیاء کے آنے کی غرض انبیاء کے کام نبی ایسی قوم میں مبعوث ہوتا ہے جو دنی الطبع ہو جاتی ہے.نبی کے لئے شرط ہے کہ کتاب تمام دنیا کو ایک مذہب پر لانے کی تدبیر ۲۶۰ لائے (اعتراض) زندہ اور مردہ مذہب کی پہچان کی تدبیر ۵۹۷ میرے بعد نبی ہوتا تو عمر ہوتا.فری نگر مذہب کا بانی (اعتراض کا جواب) مسیحی مذہب اور اس کی تعلیم ۵۹۴ ایک ہی شخص مختلف نبیوں کا مظہر 044 کیسے ہو سکتا ہے.ہندو مذہب کی تعلیم اسلام ایک زندہ مذہب ہے ۲۰۰ نبی کا نام مرکب نہیں ہوتا اعتراض) 이 ۴۶ ۵۳ ۵۵ ۱۲۲ ۲۲۹ ۲۱۴ 114 نماز ایک نصیحت جماعت کو نصائح سم سلام داعیان الی اللہ کے لئے ایک نصیحت ۴۷۴ نصائح مبلغین نماز میں توجہ قائم رکھنے کے طریق ۲۸۹ داد نماز عشاء کے بعد کلام نہ کرنے کا حکم ۵۱۲ نماز تجد مبلغ کے لئے ضروری ہے ۲۹۰ نماز تہجد کے لئے اٹھنے کے تیرہ طریقی ۵۱۱ نوافل کی فضیلت ۵۱۰ وضو کی حکمتیں اسلام کے مقابلہ کے لئے مسیح موعود کی آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا ۱۷ ۱۷۹ ہپنا ٹزم نیابت میں حضور کا تمام مذاہب نیز دین بوت مسیح موعود ۱۲ نجات کو چیلنج مزامیر نجات کی حقیقت.مزامیر اور رقص و سرد آنحضرت نیز دیکھیں کفارہ قربانی" سے ثابت نہیں.مسمریزم مشرکین عرب کے عقائد مولویوں کی حالت ۴۹۳ ۲۶ ۴۵۴ عیسائی فلسفه و نجات اسلامی فلسفه نبات ١٣٠٩ ٣١٠ AIA ہپنا ٹزم فرانس کے ایک ڈاکٹرکی ایجاد ہے ۴۹۳ خدا کے جسم کے قائل ہود کے بعض فرقوں کا یوم جزا مرا سے انکار PA یہود مدینہ کی انحضرت کے خلاف نجات کے لئے عمل ضروری ہے ۳۱۴ A سازشیں ☑

Page 647

الفاتحة البقرة تفسير آیات قرآنیہ ال عمران الأعراف الحَمدُ اللهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ (۲) ۴۳ (۲۴۸ قل ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله (۳۲) ۱۵۶ وَالْوَزْنُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ (1) وَلَتَكُن مِنكُمْ أُمَّةٌ (۱۰۵) ۲۵۰ وكلوا واشر لُوْا وَلَا تُشرفوا(۳) ۲۶۰ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ ۳۲۵ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ (1) قلْ مَنْ عَرَمَ زِينَةَ اللَّهِ الَّتِي (۳۳) ۲۶۰ إنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (١٩) ٤٤٤ ومَا أَرْسَلْنَا فِي قَرية من بي (۱۳۹۵) ۵۷۴ نَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَا طلا Mariem) رحمني وسعت كل شيني: (۱۵۷) ۲۵۰ خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ (۲) ۴۲۵ ناماياني نگفتنی هدی (۳۹) ۲۴ د از كعوا مع الراكعين (۳۳) ۳۳ النساء يَاأَيُّهَا النَّاسُ القُوا تبكُمْ ۴۵۰ ۱۳۲ (۲) يَاتِهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (۱۵۹) وَإِذْ قُلْتُمْ يمُوسى لَن تُصْبِرَ ٥٥ قُلْ إِن كَانَتْ لَكُمُ الدَّارَ الْآخِرَة ( ٢٠٠ مَا نَنْسَحْ مِنْ آيَةٍ (1) رَبَّنَا وَ الْعَتْ فِيهِمْ رَسُولاً (۱۳۰) يُرِيدُ اللَّهُ أَن يُخفف نام (۳) ۵۳ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (۲۰) ۲۷۲ الانفال ۳۰۲۰ ۱۵۹ يُرِيدُ اللَّهُ يُبَيِّنَ لَكُمْ (۲۰-۳۰) ۵۲ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ اللهُ ۲۲۸ ۵۹۰۰۴۹۷ (۳) واعْبُدُ والله ولا تركوا (۳۷) ۲۷۴ ايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَ الْقِيتُمْ ( ۵۳۲ فَإِذَا قَضَيْتُمُ الصَّلوةَ فَاء كُرُ الله التوبة (19) الَّذِينَ أَتَيْنَهُم الكتب يُعْرِفُونَهُ ۵۰۷۵۰۱ (۱۰۴) ۲۴ (۱۳۷) ومن تكفر بالله (۱۳۴) ۲۵ فاذكروني أذكركم (۱۵۳) ٥٣٥ المائدة وَهَدَ اللهُ الْمُؤْمِنينَ (۲) يَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ (۱۱۹) ۵۳۵ ۳۰۳۱۳۳ ان فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (۳۹) ۲۵۷ اليوم الملت لكم دينكم (۳) ۲۴۱ یونس.وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ستكونك ماذ انجل له (ه) ۲۵۹ | ايُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَ تَكُم ويظهره لفظ تهلكة کی تشریح YOA (199) VOA فَمَن تَابَ مِن بعد كلمه (۳) ۵۹۸ هود كولاينههُمُ الربانيون (٢٣) ٢٩٥ جعَلْنَا عَالِيهَا مَائِلُهَا (۳) ٥١ كان النَّاسُ امَّة واحدة (۲۳) ۲۰۵ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُعَزِمُوا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُونِ (۲۲۹) يَان خِفْتُمْ فَرِجَالاً أَوْ رُكْبَاناً ۲۷۲ طيبت (۸۸) وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاسْمَعُوا الانعام ٢٥٩ ۳۰۲ (۱۰۹) ۱ يوسف ان الحلم الا لله (۶۸۰۳۱) وَلَا تَا يَقُوا مِنْ تَدْعِ اللهِ (ه) ۴۹۹۱۳۷۵ (۲۴۰) اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ (٢٥٧) ☆ ۵۰۰ ۴۵۷ و أوحي إلى هذا القوانُ (۲) (۲۳) الرمد ومَنْ أَظْلَمُ مِمَّن افترى (۲۲) ۲۳۹ الا بذكر الله تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (۲۹) ۵۳۵ وهُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ بِمَا فِظُونَ (۵۳۳۹۳ اولمْ يردا انا نأْتِي الْأَرْضَ (۳۲) ۴۱۳ يَرْدُ

Page 648

ابراهيم النور لَئِن نَكُمْ لين تكرتُمْ لا ريدتكم (ه) ۳۰۵ رِجَالٌ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا الحجر إنا نحن نزلنا الذكر النحل ان راجا (۲۳) ۵۰۰۱۲۴۰ (۱۰) ۲۲۴ (۳۷) 141 نع (۳۸) قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ (۱۳۱۱ نَقْشَعِرَ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ (۲۳) ۴۹۷ قَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونی (۲) ۴۰۹ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا يُرِيكُمْ إِلَّا وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ (۰) ۴۲۹ المومن الفرقان تَبَرَكَ الَّذِي نَزَّلَ الْفُرْقَانَ (۲) ۲۸۵ وَقَالَ الرَّسُولُ يُرَبِّ إِن قَوْمِي (۳۱) وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (ه)) ۳۰ ما آری إِنَّا انا لننصُرُ رُسُلَنَا (۵۲) فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرُ لذنبك (٥٧) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُل أُمَّةٍ وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنفُسِكُمْ إن الله يأمُرُ بِالْعَدْلِ (۱۱) ۲۶۲,۴۹ بني اسراءيل وَمَا كُنَّا مُعَدِّ بِيْنَ حَتَّى نَبْعَثَ که مسئولا (۱۹) النمل إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا (۳۵) ۵۷۵ العنكبوت 021 وقضى ربك الا تعبدوا (۲۵۲۳) ۲۶۴ أحَسِبَ النَّاسُ ان يتركوا را تا۸) ۴۰۳/۳۹ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَا رَكُمْ خَشْيَةَ امْلَاقٍ موسم (٣٢) عسى أن يُبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَاماً محمودا (^-) ۲۶۸ ا الروم إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ (۳۶) (۳) ۴۰۹ ۶۱۰ 10^ ولَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبلِكَ (و) ۱۱۴ لحم السجدة وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السنة (۳۵) ۱۲۸۶ ۵۳۵ الشورى وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فينا (۲) ۲۰۲۱۳۰۳ جَرُوا سَيِّئَةٍ سَيِّئَة مثلها (۴) ۲۰۶ محمد قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (۹۲) ۹۱ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَيْرِ الْبَحْرِ (۲۲) ۲۳۷ لا علم أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاسْتَغْفِر ١٥٠ لم نَجْعَل لَّهُ مِن قَبْلُ سَمِيًّا (٠ ) ١١٩ (✔) إذا تُتْلَى عَلَيْهِمْ أَنتُ الرَّحْمَنِ (٥٨) ۳۹۷ إِني أَنَا اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا انَّا رِها ، ٥٠٠ ۵۰۰ السجدة تَتَجَالَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ الاحزاب (K) تقد كان لكم في رسول الله نافسيرُ عَلى مَا يَقُولُونَ (۱۳۱) ۵۷ أسوة الأنبياء الحج وَهَذَا ذِكْرُ مُبَارَك (اه) (۲۲) الفتح إِنَّا فَتَحْنَالَكَ تعا مبينا (۳۰) ۱۵۸ ۵۱۳ ق نحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَريد ) ١٣٩ ولقد خلَقْنَا السَّمَوَاتِ وَالأَرْضَ (۳۹) ۲۰۸ ١٥ الدريت ما كان محمد انا اهل (۳۱) ۴۳۰ وَفِي أَمْوَالِهِعْر حَق لِلسَّائِلِ بايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا الهَ ذِكْراً والمحرُوم (٢٠) ۴۸۷ المجادلة لدالة الا انتَ سُبْحَنَكَ إِلى كُنتُ كثيرا ۵۲۷ (۸۸) لَن يَنَالَ اللَّهَ لُحُومُهَا وَلَا (FA) ۵۴۳ فاطر تشكُمُ الْمُسْلِمِينَ (9) ا ليس المؤمنون مَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ (۳) ۵۳۱ وسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَ اصلاً (۳۴) ۵۰۷ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قِيلَ لَكُم لفسحوا ان من أمة الا خَلَا فِيْهَا نَذيرد الحشر ۶۰۹۱۲۳۴۱۴۵ (۱۲) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا...ولننظر نفس (۱۹) يحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا ياتهم (٢١) لَها الأَسماء الحسنى (۲۵) + A ۲۸۴ ۳۰۴ ۹۳

Page 649

الممتحنة التحريم لا يَنْهَكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ (۹) ۲۸۰.....قوا انفسكم الصف تحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمواتِ وَمَا في الأرض (۲) 46 الحاقة فلمَّا جَاءَ هُم بِالْبَيِّنَتِ (۲) ۱۰۴ الجن (<) 149 الدهر وَلَا يَعَضُّ عَلى طَعَامِ المِسْكَيْنِ (۲۵)۲۸۲) التكوم ولو تقول علينا (۴۵) ۱۳ واذكرِ اسْمَ رَبِّكَ بُكْرَةً وَأَصِيلا هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ (۱) ۵۸۲/۲۰۸ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبَةٍ أَحَدًا (۲۳۲) الاعلى الجمعة يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ (ماه ) GA المزمل ۵۵۳۰ ۱۶,۱۵۰ ۱ هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمين (۵۶۳ آياتها المزمل...(٥٣) وَإِذَ المَوْدَةُ سُبلت (1) (۹) وَإِذَا الْجَنَّةُ اريقت (۱۳) ۴۶۸ تسبح اسم ربك الأعلى (۲) ۵۳۲۱۲۵۶ تسبح اسم ربك الأعلى (ا تا آخر ) ۴۸۱ فداران نُفَعَتِ الذكرى (۱) ۵۳۴ وَاخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يُلحقوا إِن نَاشِئَةَ اللَّيْلِ هِيَ أَشَدُ (4) ٥١٠ الغاشية بهم نا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً (١٢) ۲۲۲ تذكر اسما انت مذكر ۳۰۰ (۲۲) المنفقون المدثر يَاتِهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تليك أمر الله يا تها المدير - (۲ تا ۸) ۵۳۴۱۵۰۱ - النصر لا بَلْ لا تَكرِمُونَ الْيَتِيمَ (۱۸) ۲۸۲ (۱۰) ۴۸۷ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ ۱۵۵ (۲)

Page 650

וי

Page 651

اربعوا على الفيكم أنْضَلُ الذِّكْرِ لا اله الا الله احادیث ترتیب بلحاظ حروف تهجی كَيْفَ أَنتُمْ إِذَا نَزَلَ فِيكُمْ ہ پکارتا ہوں جو گھر والوں نے رکھا ہے.تم نصف دین عائشہ سے سیکھ سکتے ہو ۱۴۲ لا رهبانية في الإسلام ۲۶۱ | اگر لوگ وادی میں جائیں تو میں افلح إِن صَدَقَ ۴۹۰ PAY الا انتنكُمْ بِخَيْرِ اعْمَالِكُمْ ۴۸۰ الْأَسْمَاءُ تَنْزِلُ مِنَ السَّمَاءِ التايْبُ مِنَ الذَّنْبِ اللهُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ نَفْسِي اما من منكم 44 ۳۰۴ ۵۱۳ ۳۰ لا لو مِن أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبُّ لاخيه اس وادی میں جاؤں گا جس میں انصار گئے.۵۰ وہ میری قبر میں دفن ہو گا.لو كان الايمان معلقا ۳۶۲۱۴۵۲ وہ امت کسی طرح گمراہ ہوسکتی ہے لو كان مُوسَى وَمِنينى حيين ۲۲۸ جس کے ابتداء میں میں اور آخریں م ان لِي امْطَاء أَنَا مُحَمد وَأَنَا احمد こ M حكم عذال خ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لا هَلِه ما الْإِحْسَانُ......۵۳۲ میں ہے.ہ نبی اکرم جب مجلس میں بیٹھتے تو ما يَزَالُ عَبْدِي تَقَرَّبُ إِلَى بِالقَوَانِلِ استغفار کرلیتے.۴۸۹ تھی کو بھوکا پیاسا باندھ کر مار نے ثلُ الَّذِي يُذْكُرْرَبَهُ وَالَّذِى...۳۸۷ کی سٹرا مَنْ شَغَلَهُ ذِكْرِى.....۵۳۷ ہ جانوروں کے نمونہ پر نشان لگانے 1.4 ۲۹۰ YAM سبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوق ص صَلُّوا في رحا يكُمْ ۲۷۲ ۴۰۹ ۲۹ ۵۳۸ فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ فضلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ ۱۳۲ فَلْيُكْرِمْ ضَيْفَهُ ك ۲۷۵ كَانَ رَسُولُ اللهِ يَذْكُرُ الله ۵۰۷ كُل بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ ۴۹۳ ۵۰۴ مَن لَّمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا...۲۷۵ سے منع کیا.مَنْ مَاتَ وَلَمْ تَعْرِفُ مَامَ زَمَانِهِ ہ جو کسی جانور کو باندھ کر نشانہ بنائے اس پر لعنت وَلِزَوْجِكَ عَلَيْكَ ولزوجك منكَ حَقٌّ ٥٣٩٦ راستہ میں سے ایذاء دینے والی چیزیں ه ی بہا دینی چاہئیں يُسمّى لَنَارَسُولُ اللهِ نَفْسَهُ ه و باد والے علاقہ سے بھاگ کر نہیں جانا چاہئے.اسماء ه مساجد میں بدبودار چیزیں کھا کر احادیث بالمعنی نہ جائیں.کھڑے پانی میں پیشاب نہ کریں PAM FAN PAP ۲۳ PAY سایہ دار درخت نہیں کاٹنا چاہئے ۲۸۲ حدیث ہے کہ ایک شخص نے آکر محمد محمد جب تین آدمی بیٹھے ہوں تو سر گوشیاں پکارنا شروع کیا.کہا وہی نام کریں.

Page 652

ه حضرت زینت کا عبادت کے لئے ہ آنحضرت کا روتی ہوئی عورت کو رستی مشکوانا کہنا کہ صبر کرو.۴۹۸ کے لئے مقرر کریں ه اقامت کی آواز سے شیطان بھاگ ه عبداللہ بن عمر کا کہنا کہ میں ہمیشہ خدا کو وہ عبادت پسند ہے جس پر جاتا ہے.روزے رکھوں گا حضور کا فرمانا کہ تیر سے قسم کا بھی حق ہے.اولاد کی عزت کرو ۲۶۰ ۲۶۹ ۵۰۵٫۵۰۲ دوام ہو.ایک صحابی کا کتا کہ میں منافق ہو گیا ہوں.0-4 ہ نماز کے وقت نظر سجدہ گاہ پر ہو.ہ حضور کا تصویر والے پردہ کو ٹا دیا.۵۱۹ ۵۲۰ ۵۲۶ ۵۲۷ جس کو خدا بیٹیاں دے اور وہ آپکی اچھی ہ ایک صحابی کے بارے میں فرمانا کہ ه نماز میں بلاوجہ حرکت نہیں کرنی چاہئے ۵۲۹ طرح خبر گیری کرے تو اس کو جہنم وہ بہت اچھا ہے بشرطیکہ تجد ہ جو دو رکعت ایسی پڑھتا ہے اپنے نفس سے کلام نہیں کرتا اس کے سارے 14.پڑھے.۵۱۰ سے بچایا جائے گا.ہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مسیح موعود ہ اس میاں بیوی پر اللہ کا رحم ہو کہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں.آنکھ کھلے تو اٹھ کر تہجد پڑھے ۵۱۰ ۵۱۰ آنحضرت کا فرمانا کہ میری نجات بھی خدا ۳۷ کو سلام دینا ایک شخص کا حضور کو کہنا کہ آپ عدل ه ذکر الہی کا درجہ بہت بلند ہے ۲۸۷ سے کام لیں.ہ قیامت کے دن سات آدمیوں کے سر پر خدا کا سایہ ہوگا.ہ جو تبیع کرتا ہے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.A ۵۳۷ کے فضل سے ہو گی.۵۳۲ ام ہ ان کے پاس بیٹھنے والا شقی نہیں ہ عورتوں کے متعلق میری یہ بات مانو ۲۷۲ ه...رشتہ داروں سے نیک سلوک کرو ۲۷۳ ہو سکتا.ہ ایک شخص نے نمازہ پڑھی، فرمایا ه جبرائیل نے ہمسایہ سے نیک سلوک کا حکم دیا ہے.پھر پڑھو.اپنے گھر میں ایک خاص جگہ نمازہ YON اپنے ہمسفر کا بھی خیال رکھنا چاہئے ۲۷۲

Page 653

اسماء ابرازم ابن سیروان ۳۵۰) امام الدین وانین لارڈ ۴۲ : ۱۵۳۰۴۵ ۱۱۹ میگزین جرنیل ۴۹۹ مگر ایم اے پادری ۱۹۳ بھوانی واس ، رائے بہادر لم الرسم ۳۳۲ بهیم مین - لاله 141 1.7 پر تول چند رائے بہادر پریم داس ۳۳۹ پیلاطوس دد۳ ابن حبان ۵۰۸ بدر بخش امیال) ٣٨ ۲۱۰ تیمور امیر الوحيفة (امام) الوور وافد ابوطالب ابو موسی اشعری احمد نیز دیکھیں محمد ۴۱۰۰۳۸۳ بشیر احمد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت مرزا PAALPALLIMA ٹیکن رائے کام حضرت مصلح موعود کو خدا تعالیٰ کا الہام ج ۱۳۹ ۴۸۷۱۱۸۲۱۹۳ ۵۲۵۰۴۹۹۰۱۹۲ ہونا ليمر قَتَهُمْ جارج پنجم دده ہر ایک بات کے متعلق مجھ (خلیفہ ) جالینوس سے پوچھو وہ روایت درست نہیں جس میں آپ کا نام احمد بتایا گیا ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول بھی آپ کو حمد کہتے تھے.خدا تعالیٰ مجھ سے زیادہ میری فکر رکھتا ہے ، ۳۹ آنحضہ سنت کی صفت تھی نہ کہ نام مجھے اپنی جماعت سے ایسی محبت احمد احضرت مرزا غلام احمد قادیانی ہے کہ...دو مجھے تمہارے لئے ایسا دل دیا گیا ہے.۴۶۷ نا امیدی میری فطرت میں نہیں ہے.نیز و نگین مسیح موعود مرزا غلام احمدیانی آپ کا مولوی محمد احسن صاحب کو Ker...حامد شاه میر حسان حنت حسن (امام) حسین کا می بینیر روم ۵۳۰۱۴۹۹۰۲۴ شهردار د ۳۵ خاتم ۴۹۹ 194 ۳۵ حمد بن منیل (امام : احمد جان سوئی اسماعیل اسماء رضی اشتر اموس الملك الموان 14 144 140 149 ۱۰۰۰ روپے کا انعامی چیلنج آپ کی ایک دُعا آپ کا ایک کتاب لکھنے کا ارادہ کہ جگر هیم بن جبله حمران بن ابان نبیوں اور شعبدہ بازوں میں کیا فرق ہوتا.پیغامیوں کا آپ کو نوح کا بیٹا قرار دیا ۱۸۸ بو علی سینا ۲۱۸۰۲۱۷ | بهزاد چین کا مصور ) ۴۹۵ 191,146,164 149 خ خدانخش - خان بهادر دوم اه دانیال نبی ✓ ✓

Page 654

140 rai دوست اح العالیہ اور مرزا مبارک احمد صاحب کا نام شهر یعف احمد مرزا شهاب الدین سهروردی پاگل ایم ڈبلیو ہوئی الیگز اندر 34 ددد ۵۳۰۰۲۴ عبد الله بن عمرو بن العاصون سم آپ ساری رات نماز پڑھتے اور دان کو روزہ رکھتے جس پر آنحضرت نے منع فرمایا عبدالله بن مسعود ڈانٹی کا امیاں ہونے کا دعوی درد صدیق حسن خان صاحب نواب عبد المجید خان نسیم b عبد المفق- ماسٹر طبرق (جریر بن طبری ، ۱۸۰ عید الوباب طاران 14 ع ۴۲۴ ۱۳۰۳۱۱۹٤٠١٩٤ ۵۲۵۰۵۰۰۰ ۵۰۵ آپ کا اپنے بھانجے سے ناراض مان حضرت دود دد 149-161,4-{4} آنحضرت کا آپ سے فرمانا کہ میری تمیری بیٹی بھی ہوتی تو آپ سے بیاہ دیتا.ہونا کہ وہ آپ کے صدقہ دینے پر آپ کی شہادت کی تفصیل ۱۷۶ تا ۱۹۸ JAA ۲۵۵ ray ای خش را رها کشن کول رائے بہادر پنڈت را نداد رحمت الندا صاحب شیخ رشیدالدین ، ڈاکٹر ضعیفہ شاکی تھا.روشن علی حافظ ۴۰۹ عباس ه وهم.مولانا ز ۱۱ عبد الحكيم كلا نوری عبد الحمید زار روس ادد ۷۱,۵۶۹۵۵۹ د عبد الحمید خان - سلطان ساده 14t ۳۵۲ آپ کے خلاف ایک فتنہ کے بارے میں بنی اسرائیل کی کتب کی ایک روایت ۳۵۸ عزیز احمد مرزا دد عطاء محمد 145 ٣٩٠ Prr ۱۹۰۱۸ عبد الرحمن بن خالد بن ولید ۱۹ علی حضرت ۱۹۳۱۱۸۸۱۱۷۱۱۱۴۹ ۲۳۶۰۴۲ عبد الرحمن مصری ۴۲۹۰۱۲۱ عبد الرحم ۱۹۲ عبد القادر جیلانی - شیخ اتم المؤمنين ۴۶۲۱۲۶۰ عبد القيوم - مولوی سرور شاہ صاحب سید سعید بن العاص سکندر سلطان احمد مرزا سلیمان حضرت سید احمد خان - شافعی امام ) ۲۴ ۱۳ ۳۵۹ عمار بن یاسر ۴۵۸ عمر حضرت ۴۱۰۱۲۹۸ ۳۲۹ عبد الکریم مولانا ۴۲۳۱۳۷۱۱۳۷۰۰۳۵۶ میرے بعد نبی ہوتا تو عمر ہوتا ۱۱ عبد اللطیف شهید PAY عبداللہ الہ دین سیٹھ ۱۸۴۱۱۷۷ عبد اللہ آتھم عبد.۲۱ عبد اللہ بی اے بی ٹی.قاضی اد عبد الله بن زبیر عبد اللہ بن سبا عبد الله بن سلام حضرت عبد الله بن عباس آپ اونٹ چرایا کرتے تھے ۱۳۰ عمرو بن العاص علیستی حضرت نام ها غ ۴۹۹ غلام احمد قادیانی حضرت مرزدا ۳۳۴۱۳۳۱ J4,166,164 140 192 غلام کا لفظ صرف خاندانی علامت کے طور پر شروع میں تھا.نیز دیکھیں " احمد و مسیح موعود ۱۹۶ عبد الله بن عمر ۵۱۰۱۲۶۰ غلام استعیین خواجه ۹۸

Page 655

غلام حیدر ۹۸ مایکت د - انام غلام قادر مرزا ۳۴۸۱۳۳۴۱۳۳۳ مانی بین کا مستور ۱۳۹ ۳۹۰۱ مبارک احمد مرزا غلام محمد بی.اے صوفی غلام محی الدین فلام درانی - مرزا ۳۳۲۰۳۳۳۱۳۳۱ فار فلسط فتح سنگ مهر دار فرعون فضل احمد فضل احمد مرزا فضل الى فضل الرحمن فضل حق میاں فضل کریم مہا سہ.ڈاکٹر ۹۰ م سلام سلام ppa ۱۴۹ Fre ۴۲۲ ۱۶۶ محمد علی مولوی مولوی صاحب کو مبالہ کی دعوت ۳۸۵ آپ کا نام دوست احمد بھی تھا دام محمد عمر شیخ مبارک علی.سیالکوٹی مولوی ۳۵۶ محمد یامین داتوی محمد صلى الله عليه وسلم اد محمد یوسف پلیڈر علیگڑھ خواجہ نیز دیکھیں احمد "مرزا غلام احمد" محمد نام کے پانچ شخص آپ سے مسیح موعود علیہ السلام پہلے گزرے آپ کے کئی نام نیز دیکھیں احد صلی اللہ علیہ وسلم آنحضرت ایک لاکھ چونیں بنزار نیوں کے جامع تھے آپ کو فارسی میں الہام ہونا ۳۹۴ محمد الأسيدی ۳۹۴| محمد الجشمی محمد الفقيمي ۲۱۴ ۲۱۸ ۲۳۵ ۱۲۱ ۳۹۴ PAD ۳۵۱ ۳۳۵ ۵۵۲۱۳۷۰۲۳۹۰۲۱۰۰ ۴۲ کر دین که ی کڑے پہنانے کا واقعہ محمد احسن.مولوی مولوی صاحب کے چند اعتراض اور ان کے جواب آپ کو دعوت مباہلہ خدا نے الہانا بتایا کہ مولوی صاحب ۴۰۸ ۴۱۳ آپ کا زمانہ طفولیت اور تعلیم آپ کی ماہ زمت اور مسیحیوں سے ماشات آپ کا مجاہدہ روزے) آپ کی دوسری شادی اور دعوی ۳۴۹ آپ کی بعثت کا مقصد آپ کی صداقت کی ایک دیل ۶۳ صداقت مسیح موعود کے نشان ۶۰۴ اسمه احمد" کے مصداق آپ میں ۸۳ امه احمد" کی تشریح ۵۳۹۱۴۲۰ آپ کا نام احمد تھا آپ کئے احمد ہونے کے دس ثبوت Aμ ۹۳ تا ۱۰۳ حضرت مسیح موعود کے اتنے نام اس کا تاج ایک صحابی کو پہنا یا گیا ۲۸ قطع تعلق کریں گے.کمال دین خواجه ۳۸۷۱۳۸۴/۳۷۵۱۳ حضور کو الهاماً بتایا گیا کہ محمد احسن نامی رکھنے کی دین حکمتیں گ الگ ہو جائے گا.محمد اسحاق میر گریفن مربیل گل علی شاه مولوی ۳۳۲ محمد اکرم بیگ مرزا ۳۳۸ محمد بشیر بھو پالوی مولوی گل محمد ۳۳۳ ل اده بوط یکھرام مارٹن کلارک ڈاکٹر مار مینو.اسے امی ام ۴۲۹ (A9, 161 ۲۲۰ آپ آنحضرت کے کامل نقل تھے ۴۱۶ آپ کے کرشن یا بدھ ہونے سے زاد ۲۱۹ ایک انگریز کا آپ کو امریکہ سے اگر منا آپ کی شہرت کی مثال ۱۷۴ انڈیا.مرزا غلام احمد " محمد حسین شیخ آپ کے مخالفین کے پیچھے نماز نہ بٹالوی ، ۱۶۸, ۳۵۴/۳۵۰۱۳۴۸ پڑھنے وغیرہ مسائل کی بناء العام محمد احسن صاحب سے مشابہت ۴۱۱ پر ہے.محمد شریف کلانوری حکیم مولوی هم نامه آپ کا مسلم لیگ اور کانگریس کے ، ۳۵ محمد صادق مفتی ۳۵۰ محمد طفیل میاں ۵۸۴۱۴۱۵ ۱۱۱۸ ۳۹۴ ۶۰۵ بارے میں رائے دینا ۳۷۵ آپ کا نماز کے بارے میں التزام ۳۴۲

Page 656

میسیح موعود کے ہر ایک مذہب والے منتظر تھے.سوم مسئلہ نبوت حضرت مسیح موعود ۱۱۶ ( ۳۷۷ قرآن کی تعریف نبوت موشی يَالُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتِيكَ مِنْ كُلِّ نَجْ عَمِيقٍ مواراج - دیوان ۲۰۹۱۵۵۴۱۳۴۸ مہا راج سنگھ بھائی يا تنين من كل نع مني ۶۰۴ میلودر همی آپ نے نبوت کا درجہ آنحضرت کی غلامی ارد و المانات میں پایا.آپ کو خدا کے الہامات میں پہلے سے نہیں کہا جا تا تخف ن ۸۶۱۵۶٫۵۵۰ ۴۲ ان کی لاش کفن میں پیسٹ کرلائے ہیں ۳۷۹ ناصر نواب میر بادشاہ تیرے کیڑوں سے برکت نمی بخش، میاں ۱۹۹, ۳۴۸ نذیر حسین و بلوکی مولوی ڈھونڈیں گے.آپ اپنی نبوت سے کیوں انکار پہلے بنگالہ کی نسبت..اب ان کی نظام الدین کرتے رہے.آپ جزوی نبی نہیں تھے کیا آپ مجازی نبی تھے ؟ مجھے خدا تعالیٰ نے بذریعہ رویا بتایا ہے کہ مسیح موعود نبی تھے.۱۵ 14 16 دنجوئی ہوگی.مال لانے والوں کو الہام ہو گا کہ ۶۰۹۱۵۵۵ نکلسن جنرل نوح ۲۹۱ نور الدین حکیم مولوی میسج کے پاس مال لیکر جاؤ تسجد لیٹے لیٹے بھی پڑھ لیا کرد ۵۰۴ چمک دکھلاؤں گا تم کو اس نشاں کی جن لوگوں نے مسیح ، وعواد کی نبوت ه پنج بار 16 ۵۵۳۱۵۵۲ 746 ۳۹۴ اد ۴۳۰۱۴۵ ۴۰۸ ۱۳۷۹ ۱۳۵۷ ۱۳۵۵ ۱۳۴۹ دام و دام و ۵۰۸۱۴۵۸۱۴۲۵ ۵۷۳ نونہال سنگھ کو سمجھنا ہو وہ حقیقۃ النبوۃ پڑھیں ۱۷ خدا تیرے نام کو اس روز تک جو دنیا منقطع ہو جائے عزت کے ساتھ وارث الدین ۵۵۴ واقدی پیشگونیاں حضرت مسیح موعود آپ کی پیشنگوئیوں کی اہمیت ۵۵۸ قائم رکھے گا.آپ کی پیشگوئی زار روس اور دنیا میں ایک نذیر آیا - ۳۴۸ ۵۷۵ وکٹوریہ کوئین ۵۶۹ زلزلہ کا دھنگا و ههه ولسن کمشنر پنجاب آپ کا قادیان آنا اعتراض کا جواب آپ کی زلزلہ والی پیشگوئی اور اعتراض ۵۷۰ تائیں کو ایک واقعہ ہمارے متعلق ۲۷۹ 004 سختیاں چلتی ہیں تاجوں کشتیاں 004 ونچورا.جرنیل مضمون بالا رہا ۳۵۵ جنگ عظیم کی چیگوئی الهامات حضرت مسیح موعود عربي المانات مونا موتی لگ رہی ہے هده أَخَرَهُ اللَّهُ إِلَى وَقْتٍ مُسَمًّى ۵۰۰ فارسی الهامات الترحيل تم الترحيل اليس الله بكاف عبده بادی بیگ مرزا میری پیشن نجی تزلزل در ایوان کسری افتاد ۵۵۶ بیری سیشن جج مباش امین از بازی روزگار ۳۷۵ اني مُمِينٌ مَنْ أَراد اهانتك ۳۵۸ کمن تکیه بر هم نا پائیدار جَرِ اللهِ في حل الانبياء ۴۱۸۱۲۲۰ وقت رسید رقت هذا المالی دعا ) ۵۰۲ مصطفی خان علت الدير محلها ومقامها ٥٥٥ معاوية - امیر عَضَتِ مَحِلُهَا وَمَقَامُهَا غلبت الروم 004 فَمَانَ أنْ تُعَانَ ۵۵۴۱۶۳ معین الدین 144 يحي ۳۳۳ ۳۳۹ ¡A ٣٣١ PKA 7741114 اس نام کے پانچ آدمی گزر چکے تھے ۳۸۳ میسوع بن سائرس ۱۱۶ ۱۱۷ ۱۱۷۸ ۱۸۴ یعقوب علی شیخ و یوسف ٣٣ وَالسَّمَاءِ وَالطَّارِقِ ۳۴۳ علاوائل م ۳

Page 657

166,197108 ۵۸۹,۵۸۱ ۱۳۹۴ 141 ۴۵۹۱۲۳۴ 14 اجنالہ احمد آباد ۳۹۱ حضرت مسیح موعود کے والد صاحب نے آپ کے نام پر یہ گاؤں بسایا جس کا نام احمد آباد" رکھا.ترکی مقامات پنجاب میں طاعون کی وباء جاپان ۹۷ جالندھر اسلام پور قاضی (قادیان کا نام ) ۳۳۱ جزائر انڈیمان افریقہ اشام ش ج ۵۶۰ عراق اراده و ع ۳۴ جهلم چ ۳۵۲ ron 744 فارس 144 فرانس ۵۰ سهم ۹۳۰ نهم فیروزپور ۳۵۳۰۱۳۹ ق قادر آباد ۵۷۳ 141 حضرت مسیح موعود کے ایک بھائی کے.نام پر بسایا جانے والا گاؤں ۹۷ ۵۷۴ قادیان ١٣٩٠ ٣٤٩١٣٤١ : ۳۵۷۱۳۵۲ 16V خدا نے قادیان کو مرکز بنایا ہے قادیان آنے کی تاکیدا اور ضرورت جو لوگ یہاں نہیں آتے ان کے ایمان کا خطرہ قادیان کی دھوپ بھی حضرت میں موعود کو پسند تھی.....قادیان کی ترقی کی پیشگوئی 168 ۱۷۴ قادیان کی گلیاں بھی با برکت ہیں ۱۷۴ قسطنطنیه کانپور ۳۹۷ ۳۹۴۱۳۹۱ ۱۳۶۸ ۱۳۵۸۰۳۵۲ ۴۵۴ چین ۱۵م ۱۱۴ ۱۲۳۴ ۳۶۴۱۳۵۷ حجاز ۵۹۸۰۵۰۳۱۵۵۵ ح ۴۷ و ۲۱۳ ۱ ۵۵۵ د هرم ساله ۴۵۶۱۲۳۶۰۲۳۵۰۲۴۴ دہی ۳۷۱۰ ۳۵۰۰۳۴۹۱۳۳۱ ۳۹۱ 04.٣٥٨ ۳۳۵ rrr ۵۸۴ ۱۳ ڈلہوزی ۲۳ امروید امریکہ انگلستان ایران الشياء شال ۱۳۵۹۰۳۳۱ ۳۹۴۱۳۷۹۱۳۷۶ برطانیه (نیز دیکھیں انگلستان) ۵۶۰ روی بصره بغداد ۴۵۷ 1661141 روم س بیتی ۵۸۴۱۲۹۵ سالم موضع قادیان ۵۵۵ ساہیوال بھوپال م بیگووال سیالکوٹ ۰۹۱۳۳۴ پشاور ۳۹۴۱۳۳۳ پنجاب ۲۰۹٬۵۷۲۰۵۵۵۱۳۶۰۱۳۳۹ سیلون

Page 658

۳۴۳ , IA مارشمس ما الا بار ۵۸۴۱۴۱۳ | ووالہ (گاؤں) ۱۵۳ ۴۵۶۰۲۰۹۱۱۷۱ هزاره ۱۸۸ | هندوستان ۳۳۱۱۲۹۶۱۲۸۳۱۲۳۶۱۲۳۵ ۵۰۲۱۵۵۴۱۴۵۶ ۴۲۴ 141 ادر ۷۰ ۴۳۲ ۳۹۰ 0941M04,146,141 ۴٫۵۳ ۲۵۶/۱۷۵۱۱۷ | میلان (ضلع گجرات) ٣٩٠١٣٣٣ ی ۳۳۳ مین یورپ ۴۱۳ 141 واقعی مسجد مبارک تان منڈی نائیجیریا ۵۵۵ کانگڑہ کش (علاقہ) شمیر کوفه ۵۸۴۱۴۵۷:۳۳۳ ۳۳ 14A 1141 گ گوات ۴۲۲ گورداسپور ۳۹۳۰۴۶۹۰۳۶۷۱۳۴۴ ل الا ہوں ۳۳۱۰۱۷۵۰۱۷ ۱۵۲ ۱ ۳۶۳,۳۶۰۱۳۵۸۱۳۵۳۱۳۵۲ ۳۷۷۱۳۷۶۱۳۷۵۱۳۶۹۱۳۶۸ ٤٨٣١٣٩٩,٣٩٤٠٣٨٠١٣ ۴۷۰۰۳۵۲۰۳۵۰ لدھیانہ

Page 659

19 كتابات این ماهیه سنن) ۴۹۳/۳۰۴۰۲۷۰ با قیبل با تیبل نیز همین تکمیل ابو داود ممنون +40-799 احمد (مولوی محمد علی صاحب کا رسالہ ) و بحار الانوار اختبار عام - روزنامه ازالہ اوہام اسلام اور دیگر مذاہب ۳۷۶ بخاری ر حضرت مصلح موعود کی کتاب ۲۲۱ اشتاعته السته اختبانه ٹیچنگز آف اسلام ج MAK SCARLY جنگ مقدس چ چشمه معرفت دده ۵۳۶۰۵۱۳ الإصابة الحكم - اخبار این هشام القول مفصل ودد برا امین احمدیه ( حصه بینجمه حقيقة النبوة مدد دهد حسین لوگوں نے نبوت مسیح موعود کو سمجھنا ہو وہ یہ کتاب ضرور پڑھیں ود ۱۰۹۰۵ حقیقة الوحی برنباس کی انجیل ^4 السيرة النبوية لابن هشام ۱۴۹/۹۵ القول المسجد (مولوی محمد احسن حماد یک مساله، ۴۰۷ پا نیز - اخبار العيسوي له خسی الالم به نجاب چینی الومیت ۳۷۹۱۳۷۳/۱۹۹۱۱۰۰۰۱۲، ۵۵۵ بیسه اخبار انجیل را نیز دیکھیں بائیل، ^^ پیغام صلح (مصنفہ حضرت مسیح موعود ۹۱۲ داری سنن دانیال کی کتاب (با میل ) 114.4 + مرزا غلام احمد قادیانی ۳۷۰۵۸۱ مرتبه خواجه کمال الدین صاحب ) پیغام صلح اخبار دده اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب انگر من در کلکته انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا دیو کر فاس ایک غلطی کا ازالہ 4-6.54 ١٢٠ 179.-14.11 ۳۸۳ ریولوت ریویو ت ر هیچندر اخبار کے الزامات کا خوار.به پیغام مسیح موعود ، مصنفه به مسیح موعود ، آپ اسلام اور مسلمانوں کے لئے کیا ذکره کر سکتے ہیں ۵۴۷ | زیدی التشقه حقه بها الصلح موعود ) F* 4 م الشداد بن حماد احمد ( ۳۹ ۶۰۴۵۷۳ ، ش شروق القسم آن ۵۰۷۰۴۸۷۰۲۸۳ ۵۰۰ طبقات ابن سعد b X I اعد ۳۵۷

Page 660

۹۵ ۱۳۹ ع اس میں بیان تعلیم پر عمل کرو ۴۵۰ مواہب الله نیه ۵۲۶ کنز العمال م ۷۱٫۶۹۱۷ مبادی الصرف والنحو - رساله مسلم صحیح مسلم عوارف المعارف فاروق اخبار فاروق اخبار کو نصائح فتح البيان، تفسیر مسند احمد بن مقبل کشتی نوح (ایک طویل قنیاس (۴۴۴ شكوة ) 1+9 {" نزول السبع ن ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۲۱ ہستی باری تعالی (لیکچر ) ۵۲۰۱۵۰۹۱۲۸۴۱۲۸۳ ۹۴ ۱۱۴۱۹۲ و از حضرت مرزا بشیر الدین محمد و راجد صاحب )

Page 660