Anwarul-Uloom Volume 26

Anwarul-Uloom Volume 26

انوارالعلوم (جلد 26)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموجود خلیفة المسیح الثانی 26

Page 2

ANWARUL 'ULŪM by HADRAT MIRZĀ BASHĪR-UD-DĪN MAḤMŪD AḤMAD KHALIFATUL MASĪḤ II

Page 3

66 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی حقائق و معارف سے پر سلسلہ تصانیف انوار العلوم کی 26 ویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ انوار العلوم جلد نمبر 26 سید نا حضرت مصلح موعود کی 23 کتب و تحریرات کا مجموعہ ہے جو 26 دسمبر 1956ء تا 28 دسمبر 1963ء کے دور پر مشتمل ہیں.اس کے علاوہ جلد کے آخر پر فروری 1957ء سے ستمبر 1965ء تک حضور کے مختلف پیغامات بھی جلد ھذا کی زینت ہیں.اپنی زمانی ترتیب کے لحاظ سے جلد ھذا انوار العلوم کے سلسلۂ تصانیف کی آخری جلد ہے.البتہ بعض متفرق موضوعات و مواد پر مشتمل حضرت مصلح موعود کی تحریرات کا مجموعہ مزید جلدوں میں اشاعت پذیر ہوگا.اِنْشَاءَ اللهُ لمصل اللہ تعالیٰ نے اپنی جناب سے امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پسر موعود کی جو عظیم الشان پیشگوئی عطا فرمائی تھی اس پیشگوئی کا شاندار ظہور سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی امصلح موعود کی ذات میں ہوا.اس پیشگوئی کی متعدد علامات جو علوم ظاہری و باطنی سے پر ہونے ، ذہانت و فطانت عطا ہونے ، کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہونے ، اقوام عالم کا پسر موعود کی ذات سے برکت پانے سے متعلق ان سب علامات کے ظہور کی جھلکیاں انوار العلوم جلد 26 میں جابجا نظر آئیں گی.

Page 4

انوار العلوم کی یہ جلد حضرت مصلح موعود کی زندگی کے تقریباً آخری دس سالوں کا احاطہ کر رہی ہے.اس دور میں کئی اندرونی اور بیرونی فتنوں نے بھی سر اٹھایا.حضرت مصلح موعود نے اپنی ولولہ انگیز قیادت اور آسمانی تائیدات کے ذریعہ ان فتنوں کو ناکام و نامراد کر دیا اور احباب جماعت کو پہلے سے بڑھ کر متحد اور خلافت کا شیدائی بنادیا.جلسہ سالانہ 1956ء کی افتتاحی تقریر جو اس کتاب کی زینت ہے اس میں بڑے جلالی الفاظ میں آپ نے بیان فرمایا ,, " تم خدا کا لگایا ہوا پودا ہو، تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی جائیں گی یہاں تک کہ تم میں لگنے والے پھلوں کو جبریل آسمان پر بیٹھا ہوا کھائے گا اور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمان پر سے کھائیں گے اور خدا تعالیٰ عرش پر تعریف کرے گا کہ میرا لگایا ہوا پودا کتنا شاندار نکلا ہے.ادھر زمین میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور اُدھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیں“ انوار العلوم جلد نمبر 26 میں 1956ء تا 1965ء کے عرصہ کی جلسہ ہائے سالانہ اجتماعات انصار الله ، خدام الاحمدیہ ولجنہ اماءاللہ کے لئے خطابات و پیغامات و دیگر نقار بر شامل ہیں.سیر روحانی کے نام سے جاری سلسلہ تقاریر کی گیارہویں اور بارہویں کڑی بھی اس جلد کی زینت ہے.اسی طرح 1957ء سے 1965 ء تک حضرت مصلح موعود کے احباب جماعت مختلف اداروں، تنظیموں اور مساجد کے افتتاح کے موقع پر دیئے گئے تاریخی پیغامات جن کی تعداد 64 ہے اس جلد میں شامل اشاعت ہیں.حضرت مصلح موعود نے اپنے ولولہ انگیز خطابات اور تحریروں کے ذریعہ احباب جماعت کے دلوں میں خدمت دین کے لئے قربانی کی روح پھونک دی اور آپ کی تمنا اور تڑپ تھی کہ لوگ خدمت دین پر کمر بستہ رہیں اور جو علم ان کے ہاتھوں میں تھمایا گیا ہے اس کو بلند سے

Page 5

بلند کرتے چلے جائیں.جلسہ سالانہ 1960ء کے اختتامی اجلاس منعقدہ 28 /دسمبر کے تحریری پیغام میں آپ نے فرمایا: 66 ”ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ عہد کر لینا چاہئے کہ خواہ ہم پر کتنی بڑی مشکلات آئیں اور خواہ ہمیں مالی اور جانی لحاظ سے کتنی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں پھر بھی جو کام ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے سپرد کیا ہے ہم اس کی بجا آوری میں کسی قسم کی کو تا ہی نہیں کریں گے اور خدائی امانت میں کوئی خیانت نہیں کریں گے.ہمارے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کریں......اس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا ہمارا کام ہے.اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو ہزاروں نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آ سکتے ہیں.“ دین حق کی سربلندی کی کو حضرت مصلح موعود کے سینے میں جل رہی تھی.آپ نے جلسہ سالانہ 1959 ء جو کہ جنوری 1960ء میں منعقد ہوا اُس میں آئندہ خلفاء کو ان الفاظ میں وصیت فرمائی: و آئندہ خلفاء کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اُس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں.خصوصا اپنی اولا دکو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولادکو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑ نا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو ,, بلند رکھنا ہے.“ حضرت مصلح موعود نے تاریخ ساز کارنامے سرانجام دیئے ہیں اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر ہونے کے نظارے اپنی تحریر و تقریر سے سب پر آشکار کئے.خدمت دین کے لئے آپ کی کوششیں ہمیشہ زندہ رہیں گی.تاریخ احمدیت کا آپ روشن باب تھے.آپ کے وجود کے بغیر تاریخ احمدیت مکمل نہیں ہوتی.آپ نے خود اس بات کا اظہار جلسہ سالانہ 1961ء کی اختتامی تقریر میں فرمایا تھا جسے مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا.آپ نے تحریر فرمایا: ”میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا اور گو میں مر جاؤں گا مگر میرا نام کبھی

Page 6

د نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا.اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہو گا وہ خدا کے فضل سے نا کام رہے گا.دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے.آج نہیں آج سے چالیس پچاس بلکہ سوسال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا تھا یہ صحیح کہا تھا یا غلط.میں بیشک اُس وقت موجود نہیں ہوں گا مگر جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلمان مؤرخ اس بات پر مجبور ہو گا کہ وہ اس تاریخ میں میرا بھی ذکر کرے.اگر وہ میرے نام کو اس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا.“ اک وقت آئیگا کہ کہیں گے تمام لوگ ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے حضرت مصلح موعود تاریخ ساز وجود تھے.آپ کی تحریرات دلوں کو گرماتی رہیں گی.آپ کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور آپ کے علمی کام ہمیشہ ازدیاد علم اور ازدیاد ایمان کا باعث بنتے رہیں گے.اِنْشَاءَ اللهُ اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں بہت سے بزرگان اور مربیان نے اس اہم کام کی تدوین واشاعت کے لئے خاکسار کی معاونت فرمائی ہے.خاکسار اس موقع پر سب سے پہلے اپنے محترم و معظم صدر فضل عمر فاؤنڈیشن چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب کا ذکر خیر کرنا چاہتا ہے جو مؤرخہ 4 جنوری 2017 ء کو اس جلد کی تدوین کے دوران اس دار فانی سے کوچ کر گئے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے 32 سال تک فضل عمر فاؤنڈیشن کے صدر رہے.آپ کے دور میں حضرت مصلح موعود کی تصانیف کی تدوین واشاعت کا تاریخی کام ہوا.جس کے لئے آپ راہنمائی اور معاونت فرماتے رہے.اللہ تعالیٰ آپ کی خدمات کو قبول فرمائے اور درجات بلند فرمائے.آمین

Page 7

خاکسار ان سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم و معرفت میں ترقی دے اور اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہم سب کو احسن رنگ میں حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ، اللهم آمین والسلام

Page 8

سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 9

بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ » پیشگوئی مصلح موعود اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور....روح الحق کی برکت سے بتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اسے کلمہ تمجیدسے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور دہ تین کو چار کرنے والا ہو گا را سکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه- فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ و العلاء عمان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال اللی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے تو جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد عید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ امرا مقضيَّا داشتهار ۲۰ فروری شاه

Page 10

ترتیب نمبر شمار 1 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء عنوانات خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پس منظر سیر روحانی (10) 4 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی سے خطاب 5 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب 9 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء 10 متفرق امور 11 سیر روحانی (11) 12 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب صفحہ 1 19 135 185 197 205 223 249 263 277 301 353

Page 11

نمبر شمار 13 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء 14 متفرق امور 15 سیر روحانی (12) عنوانات 16 خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر روح پرور پیغام 17 افتتاحی و اختتامی خطاب جلسہ سالانہ 1959ء 18 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء صفحہ 365 373 403 465 477 501 19 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو اور اپنی زندگیوں کو 509 زیادہ سے زیادہ خدمت دین کیلئے وقف کرو 20 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود کا ایک 523 بہت بڑا نشان ہے.1 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کرو جب اسلام کا جھنڈ اساری 533 دنیا میں اپنی پوری شان سے لہرانے لگے 22 جلسہ سالانہ 1962ء کے افتتاحی واختتامی اجلاسات کیلئے پیغامات 23 جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی و اختتامی اجلاسات کے لئے پیغامات 24 | پیغامات 551 563 571

Page 12

انوار العلوم جلد 26 1 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ تعارف کتب انوار العلوم جلد 26 سیدنا حضرت مصلح موعود کی 24 کتب و تحریرات تعارف کنند مشتمل ہے جو دسمبر 1956 ء تا ستمبر 1965ء کے دور پر مشتمل ہے.ان کتب و تحریرات کا مختصر تعارف ذیل میں دیا جا رہا ہے.(1) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء 1953ء کے بعد جماعت کو معاندین اور مخالفین کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا رہا.حتی کہ دشمنانِ احمدیت نے یہ مشہور کر دیا بلکہ منظم طور پر پریس میں یہ پروپیگینڈا بھی کیا کہ افرادِ جماعت نے اپنے خلیفہ کے خلاف علم بغاوت بلند کر دیا ہے.جماعت کی اس شدید مخالفت کے دوران 1956 ء کا جلسہ سالانہ 27،26، 28 دسمبر کو مرکز احمدیت ربوہ میں منعقد ہوا.جلسہ کے پہلے روز 26 دسمبر کو امام جماعت احمد یہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک جلالی خطاب فرمایا.جس میں احباب جماعت کو تسلی دی اور جماعت کی ترقیات کی نوید یں سنائیں.جس کے نتیجے میں جماعت پہلے سے بڑھ کر متحد اور خلافت کے ساتھ یگانگت ، محبت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے اُبھری.کیا بڑے اور چھوٹے، کیا مرد اور عورتیں ، کیا نو جوان اور بوڑھے ہر ایک میں ایک نیا ولولہ اور جوش دیکھنے کو ملا.حضرت مصلح موعود نے احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں کے اخلاص اور محبت کو دیکھتے ہوئے اپنی تقریر کے دوران جلسہ میں موجود پریس کے نمائندوں اور صحافیوں کو مخاطب ہو کر پوچھا کہ یہ احمدی بغاوت کر رہے ہیں یا عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں؟ حضور نے اس خطاب میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:

Page 13

انوار العلوم جلد 26 2 تعارف کتب یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور یہ فضل اور احسان جب تک آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا چلا جائے گا.تم خدا کا لگایا ہوا پودا ہو، تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے.اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی جائیں گی.یہاں تک کہ تم میں لگنے والے پھلوں کو جبریل آسمان پر بیٹھا ہوا کھائے گا اور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمان پر سے کھائیں گے اور خدا تعالیٰ عرش پر تعریف کرے گا کہ میر الگایا ہوا پودا کتنا شاندار نکلا ہے.اِدھر زمین میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور اُدھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیں.أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ اِس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوں گی اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں گی.تو ادھر تو تم خدا تعالیٰ کے فضل سے زمین میں اس طرح پھیلو گے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک دن وہ آئے گا کہ دنیا میں میرے ماننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی اور دوسرے لوگ جس طرح چھوٹی تو میں تھوڑی تھوڑی ہوتی ہیں اسی طرح وہ بھی چھوٹی قومیں بن کر رہ جائیں گے.اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کے معنی یہ ہیں کہ تم صرف زمین میں پھیلو گے ہی نہیں بلکہ ذکر الہی اتنا بلند کرو گے کہ آسمان کے فرشتے اس کو سن کر ناچنے لگ جائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ہمارے خدا کا ذکر زمین پر بھی اُسی طرح ہونے لگ گیا ہے جس طرح کہ ہم آسمان پر کرتے ہیں.تب آسمان پر بھی فرشتے ہوں گے اور زمین پر بھی فرشتے ہوں گے.آسمان کے فرشتوں کا نام جبریل اور اسرافیل وغیرہ ہوگا اور زمین کے فرشتوں کا نام احمدی ہوگا کیونکہ وہ زمین کو بھی خدا کے ذکر سے بھر دیں گے جس طرح کہ آسمان کو فرشتوں نے خدا کے ذکر سے بھرا ہوا ہے.پس یہ تو ہونے والا ہے اور ہوکر رہے گا انشاءَ اللهُ تَعَالَى حضور نے اپنے اس معرکۃ الآراء خطاب میں احمدی مردوں اور خواتین کے ایمان افروز واقعات سنا کر بھی حاضرین کا ایمان تازہ کیا اور خطاب کے آخر میں حضور نے

Page 14

انوار العلوم جلد 26 3 تعارف کتب فرمایا کہ کل احمدی دوست پنسل اور کاغذ ساتھ لا کر خاکسار کے خطاب کے نوٹس لیں.تا وہ ان تقاریر کو واپس جا کر اپنے ماحول میں احباب کو سنائیں اور بعد میں امتحان بھی ہو.(2) خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر سیدنا حضرت مصلح موعود نے یہ معرکۃ الآراء خطاب مؤرخہ 27 دسمبر 1956ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے دوسرے روز ارشاد فرمایا.اس خصوصی خطاب کا پس منظر وہ فتنہ خلافت تھا جو مولوی عبد المنان عمر صاحب اور مولوی عبدالوہاب صاحب کے بعض حمایتیوں نے خلافت ثانیہ کے خلاف بر پا کرنا چاہا اور اندرون خانہ بعض نجی محافل اور مجالس میں خلافت ثانیہ پر تنقید پر مبنی تھا.جن میں سے حضرت خلیفہ المسیح الثانی پرسہ سب سے بڑا الزام یہ لگانے کا پروپیگنڈا کیا گیا کہ آپ اپنے بعد اپنے سب سے بڑے صاحبزادے مرزا ناصر احمد صاحب کو اپنا جانشین اور خلیفہ بنانا چاہتے ہیں.اس فتنہ میں شاملین کی کل تعداد تاریخ احمدیت کے مطابق تقریبا 14 افراد پر مبنی تھی.چنانچہ اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ پر اپنے دوسرے روز کا خطاب ( گزشتہ معمول سے ہٹ کر ) اس فتنہ کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا.جس میں اس فتنہ کا پس منظر اور اس کی تفصیلات پر تفصیل سے روشنی ڈالی.اس خطاب کے دو حصے تھے(i) خلافت حقہ اسلامیہ (ii) نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر حضرت مصلح موعود نے سب سے پہلے تو اپنے اس خطاب میں ” خلافت حقہ اسلامیہ کی وجہ تسمیہ بیان فرمائی اور اس کے بعد آپ نے مسند احمد بن حنبل میں بیان فرمودہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خلافت علی منہاج النبوۃ والی مشہور حدیث سے استدلال کرتے ہوئے خلافت احمدیہ کے قیامت تک قائم و دائم رہنے کو رسالہ الوصیت کی روشنی میں بیان فرمایا.اور رسالہ الوصیت میں نظامِ خلافت کیلئے استعمال کئے گئے الفاظ قدرت ثانیہ سے نظامِ خلافت ہی کو ثابت فرمایا جس کی تائید میں آپ نے پیغامیوں کے عمائدین و سرکردہ افراد میں سے خواجہ کمال الدین صاحب کی اپنی ایک تحریر کو پیش فرمایا

Page 15

انوار العلوم جلد 26 4 تعارف کنند جو انہوں نے خلافت اولی کے موقع پر تحریر کر کے احباب جماعت کو ارسال کی تھی.اس کے بعد حضرت مصلح موعود نے آئندہ انتخاب خلافت کے متعلق طریق کار اور قواعد وضوابط بیان فرمائے ، اس کے بعد بعض متفرق امور پر روشنی ڈالی.بعد ازاں حضور نے اس خطاب کے دوسرے حصہ ”نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور اس فتنہ سے متعلق افراد جماعت کی کئی شہادتیں بیان فرمائیں.آخر پر فرمایا:.” میری اس تقریر سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ جو فتنہ شیطان نے آدم کے وقت اٹھایا تھا اور جس آگ کو وہ پہلے ابراہیم کے وقت تک جلاتا چلا گیا تھا اور پھر بنوا سما عیل اور بنو اسحاق کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب زمانہ تک بھڑکا تا چلا گیا تھا اور پھر امتیہ اور ہاشم کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھڑ کا تا چلا گیا تھا اور پھر آخری زمانہ یعنی دور حاضر میں مسیح محمدی اور ابنائے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم کی لڑائی کی صورت میں اُس نے بھڑکانا شروع کر دیا تھا اور اب پیغامیوں اور مبائعین اور ابنائے مسیح موعود اور ابنائے مولوی عبداللہ غزنوی کی لڑائی کی شکل میں اس کو جاری رکھے ہوئے ہے.وہ بات حرف بحرف صحیح ہے اور اس تمام جنگ کی بنیا دلالچ یا بغض پر ہے کوئی دینی روح اس کے پیچھے نہیں ہے.“ (3) سیر روحانی 10 سیر روحانی کے مضامین پر مبنی یہ معرکۃ الآراء خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ 28 دسمبر 1956ء کو بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ ارشاد فرمایا: سیر روحانی کے موضوع پر روشنی ڈالنے سے پہلے حضور نے بعض متفرق امور

Page 16

انوار العلوم جلد 26 5 تعارف کتب بیان فرمائے جیسے ربوہ کی زمین کی فروختگی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے علم انعامی کا اعلان ، ایک امریکن کتاب کی اردو ترجمہ کے ساتھ ہندوستان میں اشاعت، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بعض نامناسب الفاظ کا استعمال ہونے پر تبصرہ، پروفیسر ٹلٹاک کا درہ خیبر دیکھنے کا شوق اور اس کو درہ خیبر دکھانے کا انتظام کروانا، حضرت مصلح موعود کے نام ایک بہت بڑی رقم پر مبنی چیک کا خزانہ سے اوور ڈرا ہونے کا پروپیگینڈا اور اس کی حقیقت ، مسئلہ کشمیر، ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت میں اضافہ کی تحریک اور جماعت احمدیہ میں موجود خالدین احمدیت کا ذکر جو پیغامیوں کے بت خانہ کو چکنا چور کرنے کی طاقت رکھتے ہوں.مذکورہ بالا تفرق امور کے بعد حضور نے اس تقریر کے اصل مضمون ”سیر روحانی“ پر روح پرور خطاب فرمایا.حضور نے اپنے اس خطاب میں حیدر آباد کے سفر کے دوران ملاحظہ کردہ ماڈی باغات کے بالمقابل روحانی باغات کا ذکر فرمایا.مگر قرآنی باغات کا ذکر کرنے سے پہلے قرآن کریم سے اس حقیقت کو ثابت فرمایا کہ سوائے خدا تعالیٰ کے سب چیزیں جوڑا جوڑا ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالی خالق ہے اور باقی چیزیں مخلوق ہیں کیونکہ احد وہی ہوسکتا ہے جو جوڑا نہ ہو.جو جوڑا ہواس کا مخلوق ہونا ضروری ہے.اس کے بعد حضور نے بڑی تفصیل سے قرآنی باغات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.اب میں دعا کروں گا آپ بھی رستہ میں دعائیں کرتے جائیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی دیتا چلا جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ اور اس کے بعد جو اس کو دوسری زندگی مسیح موعود نے بخشی ہے وہ باغ قیامت تک آباد ہوتا چلا جائے اور مسیحیوں کی طرح وہ دن نہ لائے کہ ہم موسیٰ کا باغ مسیح کے حوالے کر دیں بلکہ ہم مسیح کے باغ کو بھی محمد رسول اللہ کے حوالے کریں اور کبھی کوئی شیطان اور خناس ایسا پیدا نہ ہو جو ہمارے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ مسیح موعود جومحمد رسول اللہ کا غلام تھا وہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ محمد

Page 17

انوار العلوم جلد 26 6 تعارف کنند رسول اللہ کا ہمسر تھا بلکہ ہمیشہ ہم اس کو غلام ہی سمجھتے رہیں اور ہمیشہ اس کے کام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام اور اس کی جماعت کو محمد رسول اللہ کی امت سمجھتے رہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں اس کو ایک ادنی غلام اور ایک چھوٹا شاگر دہی سمجھتے رہیں جس کے ذریعہ سے خدا نے محمد رسول اللہ کی عظمت قائم کی ہے.ہم یقین رکھیں کہ مسیح موعود کو جو کچھ ملا ہے محمد رسول اللہ کے طفیل ملا ہے اور ہم کو جو مسیح موعوڈ سے ملا ہے وہ بھی محمد رسول اللہ کا ہی انعام ہے.جو ہمارا ہے وہ مسیح موعود کا ہے جو مسیح موعود کا ہے وہ محمد رسول اللہ کا ہے اور ہر چیز سمٹ کے آکر محمد کے ہاتھوں میں جاتی ہے اور ہر بوٹا اکھیڑا جا کر آ کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگتا ہے.“ (4) يوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی سے خطاب حضرت مصلح موعود ماہ فروری 1957 ء کوسندھ اور کراچی کے دورہ پر تشریف لے گئے.حضور کے دورہ کراچی کے دوران 20 فروری کی مناسبت سے جماعت احمدیہ کراچی نے مختلف اجلاسات کا انتظام کر رکھا تھا.پہلا جلسہ 20 فروری کو احمد یہ ہال میں منعقد ہوا جس میں احمدیوں کے علاوہ سینکڑوں غیر احمدی معززین نے بھی شرکت کی.اس جلسہ میں حضور نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جو 8 مارچ 1957ء کے الفضل میں شائع ہوا.حضور نے اپنے خطاب کے آغاز پر اختصار سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد پیغامیوں کی طرف سے پیدا ہونے والے حالات کا ذکر فرمایا.1914ء سے شروع ہونے والے اپنے دور خلافت میں دنیا بھر کے مختلف مشنوں کے قیام اور جماعت کی ترقی کا ذکر فرما کر یہ بتلایا کہ دیکھیں خدا کس کے ساتھ ہے.آپ نے بہت واضح رنگ میں پیشگوئی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ پیشگوئی مصلح موعود میں جس بیٹے کی خبر ہے اگر وہ جسمانی بیٹا مراد ہے تو وہ میں ہی ہوں.اور اگر روحانی بیٹا مراد ہے تو

Page 18

انوار العلوم جلد 26 7 تعارف کنند اس وقت جماعت کی اکثریت میرے ساتھ بیٹھی ہے.حضور نے اس خطاب میں بہت جلالی انداز میں حاضرین کو یہ بتلایا کہ خدا کی تائیدات اور حمایت ہمیشہ میرے شاملِ حال رہی ہے.وہ مجھ سے ماؤں جیسا سلوک کرتا ہے.(5) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب دورہ سندھ ، کراچی کے دوران حضرت مصلح موعود نے 24 فروری 1957 ء کو مکرم چودھری عبدالمجید صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع کراچی کی درخواست پر مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں شرکت فرما کر نو جوانوں کو نصائح سے نوازا.یہ اجتماع بمقام "دار الصدر " ہاؤسنگ سوسائٹی میں منعقد ہوا.حضور کے خطاب سے قبل مکرم قائد صاحب ضلع نے اپنی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی.حضور نے اپنے خطاب میں اس رپورٹ میں سے دو امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: 1 - مکرم قائد صاحب نے نوجوانوں کی اصلاح کے جو ذرائع اور طریق بیان فرمائے ہیں میرے نزدیک مرکز کو چاہئے کہ وہ ان سے دوسری مجالس کو بھی آگاہ کرے.2.کراچی کے 580 خدام میں سے 46 تحریک جدید میں شامل نہیں.46 کی نفی بتاتی ہے کہ انبھی ہم نے جماعت کے بہت سے افراد کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانی ہے.بے شک انہیں تھوڑی قربانی دلوا کر شامل کر لیں کیونکہ انسان جب عملِ صالح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نیکیوں میں اور زیادہ قدم بڑھانے کی توفیق دے دیتا ہے.عین ممکن ہے وہ معمولی قربانی کرنے والے آئندہ بڑی قربانی کی توفیق پائیں.حضور نے تحریک جدید میں اپنی قربانی کے متعلق فرمایا: یہ تحریک بائیس سال سے جاری ہے اور اب تک دولاکھ ستر ہزار روپیہ میں تحریک جدید میں دے چکا ہوں.اس طرح ایک مخلص دوست نے ایک دفعہ مجھے بہت بڑا

Page 19

انوار العلوم جلد 26 8 تعارف کتب نذرانہ دے دیا.میں نے سمجھا کہ اتنا بڑا نذرانہ مجھے اپنی ذات پر استعمال کرنے کی بجائے سلسلہ کے لئے استعمال کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے وہ سارے کا سارا نذرانہ اسلام کی اشاعت کے لئے دے دیا.مگر اس کے باوجود میری نیت یہی ہے کہ میں اپنے چندہ کو بڑھا دوں.66 (6) مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب ماہ اکتو بر پاکستان میں ذیلی تنظیموں کے سالانہ اجتماعات کا مہینہ تھا.امسال بھی مینوں تنظیموں کے سالانہ اجتماعات ماہ اکتوبر میں ہی ہوئے اور ہر تین مواقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے خطابات فرمائے.سب سے پہلا اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ کا 11 تا 13.اکتوبر 1957 ء ربوہ میں منعقد ہوا.جس میں 13 اکتو بر کو آخری روز آپ نے اختتامی خطاب فرمایا.حضور نے اپنے خطاب میں خدام کو خدمت دین تبلیغ اسلام، مساجد کی تعمیر اور اس کی آباد کاری اور صحابہ کرام کے اپنے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار، محبت اور عقیدت کے واقعات بیان فرما کر خدام کو صحابہ کا نمونہ اپنا کر مالی اور جانی قربانیوں میں پیش پیش رہنے کی تلقین فرمائی.حضور نے یورپ میں ہر سال 50 مساجد کی تعمیر کا عزم ظاہر فرمایا.اس کے لئے خدام کو اپنے عزیز و اقارب کو تبلیغ کر کے احمدی بنانے کی تلقین فرمائی تا ان کی مالی قربانی سے جلد از جلد اپنے ٹارگٹ کو حاصل کر لیں.حضور نے مساجد کی تعمیر اور اس کی آبادکاری کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: یا در کھود لہن ہمیشہ دولہا کے گھر ہی بسا کرتی ہے ہمسایہ کے گھر میں نہیں بسا کرتی.پایوں کہو کہ دولہا کے گھر دلہن ہیں بسا کرتی ہے ہمسائی نہیں بسا کرتی.مساجد کا کام ہماری ولین ہے اور اس نے ہمارے ہی گھر آتا ہے کسی اور کے گھر نہیں جانا.یہ ہماری بے غیرتی ہوگی کہ یہ کام کسی اور کے گھر چلا جائے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں

Page 20

انوار العلوم جلد 26 9 تعارف کنند آسمانی بادشاہت کو دلہن سے تشبیہہ دی ہے مگر عیسائیوں نے تو غفلت سے کام لیا اور چرچ کو شیطان کے سپرد کر دیا.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ دلہن کو دولہا کے سوا کسی اور کے سپرد کر دیا لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ ہم مساجد کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے لئے آباد رکھیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ مساجد اس لئے ہیں کہ ان میں میرا ذکر بلند ہو.پس جب ہم مساجد بناتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم دلہن کو اس کے دولہا کے سپر د کرتے ہیں اور جب مساجد بنانے میں کمزوری دکھاتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم دلہن کو دولہا کے پاس پہنچانے میں سستی سے کام لیتے ہیں" حضور نے جماعت کی ترقی کا ذکر فرما کر اپنے خطاب کو ان الفاظ میں ختم فرمایا: پہلے لوگ کہتے تھے کہ انگریزی سلطنت پر سورج نہیں ڈوبتا لیکن اب یہ بات عملاً احمدیت پر بھی صادق آتی ہے.اب احمدیت پر بھی سورج غروب نہیں ہوتا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری آذانوں پر بھی سورج غروب نہ ہو " " (7) ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے امسال لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر 26 اکتوبر کو حضرت مصلح موعود نے باوجود علالت طبع کے ایک جلالی اور بصیرت افروز خطاب فرمایا.جس میں حضور نے سورۃ الکوثر کی تلاوت فرما کر اس کی نہایت ہی لطیف اور ایمان افروز تفسیر فرمائی کہ دشمن اسلام ، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے کہ نعوذ باللہ (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نرینہ اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ابتر ٹھہرے ہیں اور ان کی کوئی جسمانی صلبی اولاد نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نسل آگے نہیں چلی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مثالیں دے کر وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالی نے اس سورۃ میں فرمایا ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس اولاد سے بڑھ کر کوثر یعنی روحانی اولاد عطا کی ہے.جنہوں نے جسمانی اولاد سے بڑھ کر اپنے روحانی باپ کو نہ صرف باہوں سے بڑھ کر عزت دی بلکہ اس کی خاطر اپنی جان ، اپنا مال ، اپنی عزت

Page 21

انوار العلوم جلد 26 10 تعارف کنند سب کچھ قربان کر دیا.اور واقعات بتاتے ہی کہ ابتر تو دشمن ٹھہرے جن کا کوئی نام لیوا دنیا میں نہ رہا.حتی کہ ان کی جسمانی صلبی اولادوں نے بھی اپنے والدین کو خیر باد کہہ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں شرکت اختیار کر لی.اور یہ روحانی اولا داب تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام روشن رکھے ہوئے ہے.حضور نے ابوسفیان کے بیٹے معاویہ، ابو جہل کے بیٹے عکرمہ، ولید کے بیٹے خالد کی مثالیں دے کر ان کی قربانیوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا: حضور نے نہایت جلالی انداز میں فرمایا کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد ہے.یہ ایسا کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا.بس تمہارا فرض ہے کہ تم حقیقی معنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی اولاد بنو.اس ضمن میں حضور نے فرمایا: پس اِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں کوثر سے مراد ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور اس کے معنی یہ کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تجھے مسیح موعود جیسا ایک عظیم الشان روحانی فرزند عطا کریں گے جو کثرت سے خزانے لٹائے گا.احادیث میں بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسیح موعود خزانے لگائے گا مگر وہ لوگ اسے قبول نہیں کریں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سینکڑوں کتابیں اسلام کی تائید میں لکھیں اور دینی حقائق اور معارف کے خزانے لوگوں کے سامنے رکھے مگر لوگوں نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.اگر ان خزانوں سے ظاہری مال و دولت مراد ہوتی تو اس کے قبول نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ جس کسی کو بھی روپیہ دو وہ فورا لے لیتا ہے.....تو کوثر سے مراد ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں کہ وہ صاحب خیر کثیر ہیں.ایک کوثر سے مراد تم ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑی کثرت بخشی ہے.پہلے تم

Page 22

انوار العلوم جلد 26 11 تعارف کتب اپنے اپنے علاقوں میں ایک ایک دو دو تھیں.لیکن اب وہاں سینکڑوں احمدی پائے جاتے (8) مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب حضرت مصلح موعود نے مجلس انصار اللہ کے سالانہ اجتماع پر 26 اکتوبر 1957 ء ) کو خطاب فرمایا اور حضور نے اس روز بھی سورۃ النازعات کی انہی آیات کی تلاوت فرمائی جو چند روز قبل مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر تلاوت فرما کر خدام کو تبلیغ اسلام کی طرف توجہ فرما چکے تھے.اس خطاب میں بھی حضور نے مبلغین احمدیت اور یورپ میں پہلے احمدیوں کی قربانیوں کا تفصیل سے ذکر فرما کر یورپ میں اسلام اور احمدیت کے اثر ونفوذ کی مثالیں دیں.حضور نے فرمایا کہ عمومی طور پر مفسرین النازعات سے فرشتے مراد لیتے ہیں.میرے نزدیک یہ درست نہیں.یہاں قربانی کرنے والی جماعت مراد ہے.آپ فرماتے ہیں."ہمارے نزدیک اس جگہ صحابہ کی جماعت کا ذکر ہے اور چونکہ جماعت کے لئے بھی مؤنث کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے اس لئے وَالنُّزِعَتِ غَرْقًا کے معنے یہ ہوئے کہ ہم شہادت کے طور پر صحابہ کی اُن جماعتوں کو پیش کرتے ہیں جو اسلام کی تعلیم میں محو ہو کر وہ وہ مسائل نکالتی ہیں جو اسلام کی سچائی کو روز روشن کی طرح ثابت کر دیتے ہیں.مگر چند دن ہوئے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ ان آیات کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم اُن عورتوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو والنزعتِ غَرْقًا کی مصداق ہیں اور اسلام کی تعلیم پر غور کر کے ان سے نئے نئے نکتے نکالتی ہیں اور اسلام کی تعلیم میں انہماک پیدا کرتی ہیں.اس لئے کہ اسلام نے ان پر رحم کیا ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ عورت کے ماں ہونے کے لحاظ

Page 23

انوار العلوم جلد 26 12 تعارف کتب سے کیا حقوق ہیں.بیٹی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں.بیوی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں.ترکہ میں اس کے کیا حقوق ہیں اور اس طرح تمدنی زندگی میں اس کے کیا حقوق ہیں.اسی وجہ سے احمدیت میں شامل ہو کر عورتیں جس قدر قربانی اور ایثار سے کام لے رہی ہیں اس کی مثال اور کسی قوم میں نہیں ملتی.چنانچہ دیکھ لومسجد ہیگ (ہالینڈ) صرف عورتوں نے بنائی ہے.اگر چہ ہیمبرگ (جرمنی) کی مسجد مردوں نے اپنے روپیہ سے بنائی ہے مگر اس کا پورا چندہ ابھی تک وہ ادا نہیں کر سکے لیکن ہیگ کی مسجد کا تمام چندہ عورتیں ادا کر چکی ہیں صرف اس کا تھوڑ اسا حصہ باقی ہے" حضور نے اس خطاب میں تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان فرمایا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں دشمنوں کے مکروں کا ذکر کر کے فرمایا کہ یہ تمام نا کام ہوئے اور خدا کا مکر غالب آیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام غالب ٹھہرا.اور آج بھی احمدیت ہی غالب ٹھہرے گی.آپ نے فرمایا: " جس خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نشان دکھائے تھے وہ خدا ہمارے زمانے میں بھی موجود ہے.وہ بڈھا نہیں ہو گیا.وہ ویسا ہی جوان اور طاقتور ہے جیسے پہلے تھا.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو.' (9) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء "I جماعت احمدیہ کے ستاسٹھویں جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے 26 دسمبر 1957ء کو پہلے روز جو افتتاحی خطاب فرمایا وہ الفضل میں چار اقساط میں شائع ہوا.خطاب کے آغاز میں حضور نے امسال شائع ہونے والی تین کتب کا مختصر تعارف کروا کر الفضل میں شائع ہونے والی خبر کی تصحیح یوں فرمائی کہ یہ جماعت کا 67 واں جلسہ سالانہ ہے نہ کہ گیارہواں.ہجرت کے بعد یہ جلسہ گیارہواں ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ کو درست رکھتے ہوئے الفضل میں 67 واں شائع ہونا چاہئے تھا.

Page 24

انوار العلوم جلد 26 13 تعارف کتب نیز فرمایا کہ میں نے تاریخ احمدیت شائع کرنے کو کہا تھا نہ کہ فسادات 1953ء کا پس منظر.ہماری تاریخ کا آغاز 1880 ء سے ہوتا ہے.حضور نے مخالفوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: اس عرصہ میں ہم اتنی دشمنیوں سے گزرے ہیں کہ گویا ہم نے تلواروں کے نیچے اپنا سر رکھا اور اس طرح 69 سال گزار دیئے.اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ایمانوں میں روز افزوں زیادتی ہوئی اور ہوتی چلی جارہی ہے.چنانچہ آج سے ایک سال قبل ایک احمدی میں جتنی طاقت تھی آج اُس سے دس گنا زیادہ طاقت اُس میں موجود ہے.اگر ایک سال پہلے ایک احمدی دو مخالفوں کا مقابلہ کر سکتا تھا تو آج ایک احمدی ہیں مخالفوں کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اب تو ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں" وو بعد ازاں حضور نے جماعت احمدیہ کی بعض احمدی خواتین کی قربانیوں کا تفصیل سے ذکر فر مایا اور اخیر پر جماعت کی مالی قربانی کے بارہ میں اپنی امید یوں ظاہر فرمائی کہ " ہم تو اس امید میں ہیں کہ امریکہ، روس، انگلینڈ، جرمنی اور فرانس کی آمد (incom) کو اگر ملا لیا جائے تب بھی صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی آمد اس سے زیادہ ہو تا کہ یورپ اور امریکہ میں ہم پانچ چھ ہزار مساجد سالا نہ تعمیر کر سکیں“ (10) متفرق امور حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ 1957 ء کے درمیانی دن مورخہ 27 دسمبر کو جو تاریخی خطاب فرمایا وہ متفرق امور پر مشتمل تھا.جس میں گزشتہ سال کے جماعت کے کاموں پر تبصرہ اور خوشنودی کا اظہار تھا اور آپ نے مستقبل کے پروگرامز بھی بیان فرمائے جس میں سے سب سے اہم ترین وقف جدید کا آغاز تھا.جس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا." میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال

Page 25

انوار العلوم جلد 26 14 تعارف کتب پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہمارا معلم موجود ہو اور اُس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو یا دُکان کھولی ہوئی ہو او روہ سارا سال اُسی علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے.اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں نے خرچ کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے.ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہر حال ابتدا دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی" اگر اس تقریر کو وقف جدید کے تحت زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کا عنوان دیا جائے تو بجا ہوگا.اس کے علاوہ جو متفرق امور حضور نے اس خطاب میں بیان فرمائے ان کا اختصار سے ذکر اس تعارف میں درج ذیل کیا جا رہا ہے تا تقریر مذکور میں بیان ہرامر ایک قاری کے سامنے آجائے.1- مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور مجلس انصار اللہ مرکزیہ میں اول آنے والے اضلاع و مجالس کو عکم انعامی کی تقسیم.2 تفسیر صغیر ، تبویب مسند احمد بن حنبل کی تدوین و ترتیب واشاعت میں کام کرنے والوں کی دل جوئی اور خوشنودی کے طور پر ذکر اور ان 7 احباب کو انعامی تھیلیاں عطا فرمائیں.3.گزشتہ سال رسائل خلافت کے مطالعہ کرنے اور ان کا امتحان لینے کی جو تحریک کی تھی ان میں انصار، خدام اور لجنہ میں اول، دوم، سوم آنے والوں کا اعلان اور کتب بطور انعام کی تقسیم.4 ریویو آف ریلیجنز کی خریداری دس ہزار تک پہنچانے کی خواہش کا اظہار.5 - تفسیر صغیر کے محاسن کا ذکر.6 فلپائن کی جغرافیائی حیثیت اور اس میں احمدیت کا نفوذ اور افراد فلپائن کی قربانیوں کا ذکر.فرمایا" پس فلپائن کوئی معمولی ملک نہیں بلکہ اس کی حیثیت چین سے دوسرے نمبر پر ہے "

Page 26

انوار العلوم جلد 26 15 7- تبویب مسند احمد بن حنبل کو مکمل کرنے کا عزم.8.اسلام کی اردو انسائیکلو پیڈیا کی تیاری کا اعلان.تعارف کنند 9.صحابہ کی قربانیوں کا ذکر اور جماعت کو درج ذیل الفاظ میں نصیحت.یاد رکھو کہ اگر تمہارے اندر ایمان پیدا ہو جائے اور تقویٰ اور اخلاص کو لے کر تم کھڑے ہو جاؤ تو دنیا تمہارے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہوسکتی.اگر تم ہر قسم کی قربانیوں کے لئے تیار رہو اور احمدیت کو مضبوط کرنے کے لئے کوشاں رہو اور اپنے اختلافات کو مٹاکر متحد ہو جاؤ تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنے نیک مقاصد میں کامیاب نہ کرے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ تم ہمت کر کے کھڑے ہو جاؤ اور عزم کر لو کہ تم نے احمدیت کو مضبوط کرنا ہے.اور پھر اس کام میں لگ جاؤ تو اِنْشَاءَ الله فتح و نصرت تمہارے قدم چومے گی اور دشمن کی مخالفت کے باوجود احمدیت پھیلتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ وہ وقت بھی آجائے گا جب سب دنیا میں احمدی ہی احمدی ہو جائیں گے." 10.مسجد ہالینڈ کی تعمیر کے لئے مزید چندہ کی وضاحت.11- غیر ممالک میں تبلیغ کے لئے لٹریچر کی اشاعت کی مہم کا ذکر.(11) سیر روحانی نمبر 11 سیر روحانی حضرت مصلح موعود کے وہ معرکتہ الآراء پیکچرز ہیں جن کا آپ نے اپنے ایک کشف کی بناء پر 28 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر آغاز فرمایا تھا.سیر روحانی نمبر 11 ، اسی لیکچر کی ایک کڑی ہے جو آپ نے 1957 ء کے جلسہ سالانہ کے آخری روز 28 دسمبر کور بوہ میں دیا.جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ دستور رہا ہے کہ خلیفہ مسیح آخری روز کسی علمی موضوع کا چناؤ کر کے خطاب فرماتے ہیں.چنانچہ سیر روحانی ایک علمی خزانہ ہے جو آپ نے جلسہ ہائے سالانہ کے آخری روز 12 اقساط میں تقریر کی صورت میں تقسیم فرمایا.

Page 27

انوار العلوم جلد 26 16 تعارف کتب سیر روحانی کے اس حصہ میں حضور نے عالم روحانی کے لنگر خانوں سے تشبیہہ دے کر جماعت کی ترقیات کا ذکر فرمایا ہے.اور فرمایا کہ جسمانی لنگر تو کب کے خاموش ہو چکے ہیں لیکن قرآنی لنگر کے ہمیشہ زندہ رہنے کی پیشگوئی قرآن کریم میں مذکور ہے.چنانچہ اس نے فرمایا اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ.إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ - حضور نے فرمایا: دشمن اسلام سمجھتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی جسمانی اولاد نہیں اس لئے ابتر ٹھہرے.نعوذ باللہ اس میں دراصل ایک پیشگوئی تھی کہ دشمنانِ اسلام کی اپنی اولادیں جلد ان کے والدین کو چھوڑ کر حضرت محمد کی اطاعت کا جو پہننے والی ہیں.حضور نے ابو جہل کے بیٹے عکرمہ ، العاص کے بیٹے عمر و، ولید کے بیٹے خالد کے اسلام قبول کرنے اور ان کی قربانیوں کا ذکر فرمایا: یہ روحانی اسلامی لنگر حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جاری ہے.اگر احمدی اپنے ایمان پر قائم رہے تو یہ منظر بھی ہمیشہ قائم رہے گا اور بھی نہیں مئے گا.علم و معرفت کے اس آسمانی مائدہ کے بیان کرنے سے قبل تقریر کے آغاز پر حضور نے مصلح موعود کی پیشگوئی کے بارے میں نہایت ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.جن سے قطعی طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.اس ضمن میں آپ نے تین آسمانی نشانوں کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا: 1 - حضرت مسیح موعود کی نعش مبارک کے سامنے اسلام کی اشاعت کے کام کو جاری رکھنے کا عہد 1913-2ء میں شملہ کے قیام میں ایک رؤیا کا ذکر فرمایا ہے.جس میں اللہ تعالیٰ نے بتایا تھا کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے راستے میں بلائیں آئیں گی مگر تم یہ کہتے چلے جانا خدا سے فضل اور رحم کے ساتھ " چنانچہ آپ نے ہر تحریر ، تقریر اور مضمون پر یہ الفاظ نوٹ فرمائے.اُدھر حضرت مسیح موعود نے پیشگوئی مصلح موعود کے مطابق اپنے ہاں بیٹا پیدا ہونے پر لکھا کہ تب

Page 28

انوار العلوم جلد 26 17 تعارف کنند خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے....محمود پیدا ہوا.3.حضرت خلیفہ اول کی وفات پر جماعت کی وحدت و اتحاد کی خاطر حضرت مصلح موعود نے مولوی محمد علی صاحب کا نام انتخاب خلافت کے موقع پر پیش کرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا لیکن خدا کی تقدیر نے آپ کو روکے رکھا اور مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب نے آگے بڑھ کر آپ کو بیعت لینے کا کہا.یوں خدا تعالیٰ نے حضور کی تائید میں تین نشان ظاہر فرمائے.حضور نے اس خطاب میں اپنی تائید میں مولوی محمد علی صاحب کے مقابل پر اپنی تفسیر قرآن کا ذکر فرمایا کہ مولوی محمد علی صاحب کے 1995 صفحات کے مقابل پر اس وقت تک 3366 صفحات تفسیر قرآن میں مکمل ہو چکے ہیں.1354 تفسیر صغیر کے ہیں.اگر تفسیر کبیر مکمل ہو جاوے تو یہ سات ہزار صفحات تک جا پہنچیں گے.اور تبلیغ اسلام کے لئے مبلغین کا ایک جال ہے جو ساری دنیا میں پھیلا دیا گیا ہے.(12) مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب اکتوبر 1958ء کے اواخر میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ نے اپنا چوتھا سالانہ اجتماع منعقد کرنے کی توفیق پائی.اس اجتماع کے دوسرے روز مؤرخہ یکم نومبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.آپ نے انصار اللہ کے معنوں کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: " چالیس سال سے او پر عمر والوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کر لیتا ہے.اور اگر وہ کہیں ملازم ہو تو اپنی ملازمت میں ترقی حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے.پس آپ کا نام انصار اللہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے.دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور دین کا چرچہ زیادہ سے زیادہ کریں تا آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں

Page 29

انوار العلوم جلد 26 18 تعارف کتب بھی نیکی پیدا ہو جائے.حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل و عیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے.یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے.آپ خود بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں.جب تک جماعت میں یہ روح بیدار ہے اور لوگوں کے ساتھ خدا کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلامِ الہی ان پر نازل ہوتا رہے اُسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سن کر اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں" حضور نے اس میں تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کے حوالہ سے غیر ممالک میں مساجد بنانے کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی اور یورپ میں تبلیغ کے نتیجہ میں جو پھل مل رہے ہیں ان کا بھی ذکر فرمایا.(13) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء جلسہ سالانہ 1958ء کے پہلے روز مؤرخہ 26 دسمبر کو حضرت خلیلة اسبیع الثانی نے مختصر افتتاحی خطاب فرمایا.تقریر کے آغاز پر حضور نے اپنی بیماری اور علاج کی تفصیل بتلائی.بعد ازاں جماعت کی دینی خدمت اور جماعت میں تنظیم کو سراہا کہ ایک وقت تھا کہ قادیان میں بہشتی مقبرہ کی حفاظت کے لئے نو جوانوں کی ضرورت تھی تو مجھے باہر سے خدام منگوانے پڑے تھے.ایک رات میں معائنہ کے لئے بہشتی مقبرہ چلا گیا تو ایک زمیندار نو جوان نے مجھے روک لیا اور کہا کہ آپ آگے نہیں جاسکتے.اپنا بیج یا بلا یا کارڈ دکھلائیں.بعض دوستوں نے اس نوجوان سے کہا بھی ، یہ خلیفہ اسیح ہیں.اُس نوجوان نے کہا کہ مجھے حکم ہے کہ بغیر کارڈ کے کسی کو آگے نہ جانے دوں.حضور نے اس واقعہ کوسراہا.(14) متفرق امور حضرت مصلح موعود کی یہ تقریر جلسہ سالانہ 1958ء کے درمیانے دن 27 دسمبر کی

Page 30

انوار العلوم جلد 26 19 تعارف کتب ہے.اس میں حضور نے سابق طریق کو جاری رکھتے ہوئے جماعت کے بیرونی مشنوں کی دینی خدمات اور اس کے اثمار کا ذکر فرمایا.تقریر کے آغاز پر آپ نے دورانِ سال طبع ہونے والی بعض مطبوعات کے ذکر کے ساتھ ریویو آف ریلیجنز اور الفضل کی توسیع کی طرف توجہ دلائی.تبلیغی سرگرمیوں میں سب سے پہلے حضور نے فلپائن کی مختصر تاریخ بیان فرمائی کہ اس علاقہ میں حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمان پہنچے تھے.بعد میں اسے پین اور پرتگال نے فتح کیا تو اسے جبر عیسائی بنا دیا گیا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے ذریعہ اسلام کی تبلیغ شروع ہو چکی ہے.حضور نے مزید فرمایا کہ برٹش بور نیو میں جماعتی مخالفت کے باوجود احمدی احباب نے استقامت دکھلاتے ہوئے جماعت کے پیغام کو نہ صرف پھیلانے کا بیڑا اٹھایا ہے بلکہ مسجد بنانے کا بھی اعلان کر دیا ہے.حضور نے امریکہ ، انگلستان، جرمنی ، سوئٹزر لینڈ ، سکنڈے نیویا، مشرقی افریقہ، ماریشس اور سیلون میں احمدیت کی تبلیغی سرگرمیوں کا ذکر فرمایا.تبلیغی سرگرمیوں کے ایمان افروز تذکرہ کے بعد حضور نے بعض اہم امور جیسے تحریک جدید، وقف جدید، زراعت، قادیان کی طرف واپسی کا ذکر فرمایا اور 1953ء کی مخالفت کے بیان میں یہ ایمان افروز واقعہ سنایا کہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک افسر ربوہ آیا تا اسلحہ کا کوئی ذخیرہ تلاش کر سکے.ربوہ قیام کے دوران اس نے ایک نوجوان کے متعلق سوچا کہ یہ بیوقوف سا ہے، تعلیم بھی نہیں ہے یہ مجھے اسلحہ خانہ کے متعلق بتادے گا.جب اس نے اس نوجوان سے ربوہ میں موجود اسلحہ خانہ کے بارے میں پوچھا تو وہ نو جوان اُسے ایک مسجد میں لے گیا جہاں درس القرآن ہور ہا تھا اور کہا یہ ہماری لڑائی کی تیاری ہے.حضور نے فرمایا یہ نو جوان بظاہر ایک بیوقوف لگتا تھا مگر ہے بہت ذہین اور عظمند.کیونکہ قرآن ہی ہمارا ہتھیار ہے.

Page 31

انوار العلوم جلد 26 آپ فرماتے ہیں: 20 20 تعارف کنند " قرآن کے ذریعہ مقابلہ کرنا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے.تلوار اور بندوق قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.جس کے ساتھ قرآن ہے اس کے ساتھ سب کچھ ہے.اور جس کے ساتھ قرآن نہیں ساری دنیا کے توپ خانے ، ہوائی جہاز اور گولہ بارود بھی اُس کے پاس موجود ہوں تو اُسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتے.جس کے پاس قرآن کریم ہے اور جس کے پاس خدا ہے اُسے دنیا کے کسی توپ خانے ، ہوائی جہاز، بندوقوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیوی توپ خانے ، بندوقیں اور تلواریں خدا تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کرسکتیں " (15) سیر روحانی نمبر 12 وو سیر روحانی“ کے موضوع پر حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے حقائق و معارف اور قرآنی انوار سے پُر تقاریر میں سے یہ آخری تقریر ہے جو 28 دسمبر 1958ء کو جلسہ سالانہ ربوہ میں آپ نے فرمائی.حضور نے 1938ء میں حیدرآباد دکن کے سفر کے دوران ایک رویا میں 16 مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا تھا.ان کے مقابل پر عالم روحانی میں ان کے مشابہہ 16 امور بیان فرمائے.ان میں سے ایک بادشاہوں کے کتب خانے بھی آپ نے رویا میں دیکھے.اس کے بالمقابل قرآن میں بیان کتب خانوں کا تذکرہ حضور نے اس لیکچر میں فرمایا ہے.جو روحانی عالم کے کتب خانے کے نام سے موسوم ہوئی.خطاب کے آغاز میں حضور نے فِيهَا كُتُبْ قَيِّمَةٌ سے استدلال کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن میں تمام سابقہ کتب کی قائم رہنے ۲۲ والی تعلیمات موجود ہیں.آپ فرماتے ہیں: " بہر حال قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے کہ اس میں تمام سماوی اور الہامی کتب موجود ہیں، دین کو قائم رکھنے والی تمام تعلیمیں موجود ہیں، اسی طرح تمام ضروری علوم موجود ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام کتب اور علوم اپنی پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم

Page 32

انوار العلوم جلد 26 21 تعارف کنند میں موجود ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اُن تمام سچائیوں کے اصول بیان کر دیئے گئے ہیں اور اُن میں جو غلطیاں اور زوائد تھے اُن کی اصلاح کر دی گئی ہے" حضور نے اس لیکچر میں قرآنی تعلیمات کی رو سے زمین و آسمان کی پیدائش، تاريخ وحی رسالت علم نباتات کے متعلق قرآن کریم کے اہم انکشافات ، نظام ہائے تمشی ، انبیاء پر ہونے والے الزامات کی بریت جیسے اہم مضامین بیان فرمائے.انبیاء کی بریت کے ذکر میں حضرت ہارون علیہ السلام پر لگنے والے الزام کے جواب میں آپ نے فرمایا: " قرآن کریم میں یہ بیان کردہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینی کا جس کو انگلستان کے بڑے بڑے عالموں نے مل کر لکھا ہے اُس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہارون علیہ السلام کے شرک کرنے کا واقعہ غلط ہے اور اس سے مضمون نگار استدلال کرتا ہے کہ بائبل میں دوسرے لوگوں نے اور بھی کئی باتیں ملادی ہیں اور کئی واقعات اُن کی طرف سے بڑھا دیئے گئے ہیں.اب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم ایک تاریخ بیان کرتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے باپ کو بُری قرار دیتا ہے حالانکہ وہ عیسائی اور یہودی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوذُ بِاللهِ ) کذاب کہتے ہیں.غرض قرآن کریم ایک گالی دینے والے کے باپ کی براءت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مشرک نہیں تھا.مشرک ایک اور شخص تھا جس کا نام سامری تھا" خطاب کے آخری حصہ میں قرآن کریم میں تربیت کے اصول بیان کرتے ہوئے نظام شوری پر روشنی ڈالی اور علم الاخلاق و علم الانسان کی تفصیل بیان کرنے کے ساتھ یا جوج ماجوج کے ظاہر ہونے اور فلسطین پر یہود کے قبضہ کی پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا: " اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج جس سے مراد روس اور انگلستان ہیں، ساری دنیا پر چھا جائیں گے اور یہ دونوں قو میں سمندر کی لہروں پر سے ہوتے ہوئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے پھاندتے ہوئے ساری دنیا

Page 33

انوار العلوم جلد 26 22 تعارف کتب میں پھیل جائیں گی.قرآن کریم نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے اور عربی زبان میں حدب کے معنے اونچے ٹیلوں کے بھی ہیں اور موج کے بھی ہیں.گویا اس آیت میں یہ کیا گیا ہے کہ یہ تو میں سمندر میں سے ہوتے ہوئے بھی ساری دنیا میں پھیل جائیں گی اور پہاڑوں سے بھی آئیں گی اور دنیا میں پھیل جائیں گی.چنانچہ روس پہاڑوں پر سے ہوکر چین پر قابض ہو گیا اور انگریز اور امریکہ سمندر سے آ رہے ہیں اور اس تاریخ کو جو قرآن کریم نے آئندہ زمانہ کی بیان کی تھی پورا کر رہے ہیں" پھر فرمایا: " میں نے جب پہلی تفسیر کبیر جو سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک کی تفسیر پر مشتمل ہے لکھی تھی تو میں نے اُس میں استدلال کیا تھا کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے.ایک دفعہ میں شملہ گیا اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں مہمان ٹھہرا.اُن کے ہاں اُس وقت خان علی قلی خاں بھی بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ( جو لیفٹیننٹ جنرل حبیب اللہ خاں صاحب کے والد تھے ) انہوں نے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب سے تفسیر کبیر مطالعہ کے لئے مانگی.پارٹیشن کے بعد انہوں نے مجھے لکھا کہ جب میں نے آپ کی تفسیر میں یہ پڑھا کہ بنی اسرائیل ایک وقت میں پھر فلسطین پر قابض ہو جائیں گے تو مجھے بوجہ پٹھان ہونے کے سخت غصہ آیا کیونکہ ہم تو بنی اسرائیل کے دشمن ہیں اور آپ نے لکھا تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین پر قابض ہو جائیں گے.لیکن جب امریکہ اور انگریزوں کی مدد سے بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہو گئے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ قرآن کریم سچا ثابت ہو گیا کیونکہ یہ واقعہ قرآن کریم کی اس آیت کی عملی تفسیر ہے (16) خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر روح پرور پیغام مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اٹھارویں سالانہ اجتماع کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ایک تاریخی پیغام بھجوایا جو مؤرخہ 23 /اکتوبر 1959ء کو افتتاحی اجلاس کے موقع پر

Page 34

انوار العلوم جلد 26 23 تعارف کنند محترم ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس نے پڑھ کر سنایا.بعد ازاں اگلے روز 24 را کتوبر کو حضور بنفس نفیس اجتماع میں تشریف لے آئے اور آپ نے خدام کو بعض دیگر نصائح فرمانے کے ساتھ اس بصیرت افروز پیغام کو نہ صرف پڑھ کر سنایا بلکہ حضور نے خدام سے کھڑے ہو کر ان سے احمدیت کی تبلیغ کے لئے تاریخی عہد بھی لیا.عہد کے الفاظ یہ ہیں: اشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا د نیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللهم آمِيْنَ اللَّهُمَّ آمِيْنَ اللَّهُمَّ آمَيْنَ" - (17) افتتاحی و اختتامی خطاب جلسہ سالانہ 1959ء 1960ء ایک تاریخی سال اس لحاظ سے ٹھہرا کہ امسال دو جلسہ ہائے سالانہ منعقد ہوئے.جلسہ سالانہ 1959 ء کی تاریخیں حضرت مصلح موعود نے 22, 23 اور 24 جنوری 1960ء مقرر فرما ئیں.اس عظیم الشان روحانی اجتماع میں 70 ہزار عُشاق احمدیت نے شرکت کی.

Page 35

انوار العلوم جلد 26 24 تعارف کتب اس جلسہ کے تیسرے روز حضرت مصلح موعود نے بنفس نفیس جلسہ گاہ میں تشریف لا کر بصیرت افروز خطاب فرمایا یہ علالت اور بیماری کے باوجود اسلام کی تبلیغ کا جوش ، ولولہ اور غیرت دینی آپ میں دیدنی تھی.آپ نے اپنے خطاب کے آغاز میں حاضرین جلسہ کو تبلیغ اسلام کی طرف بلاتے ہوئے دنیا میں ان ممالک کے نام لئے جو ابھی تک اسلامی تبلیغ سے خالی ہیں.حضور نے اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی اولاد کو بالخصوص اور روحانی اولاد کو بالعموم کھڑا کر کے ساری دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانے کا عہد ان الفاظ میں لیا: " " اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے.اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے.اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچارکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافتِ احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللھم مِيْنَ - اَللَّهُمَّ امِيْنَ - اَللَّهُمَّ مِيْنَ" تبلیغ کی کو اس قدر آپ کے اندر موجود تھی کہ آپ نے اس خطاب میں درج بالا عہد کے علاوہ آئندہ خلفاء کو بھی ان الفاظ میں وصیت فرمائی.

Page 36

انوار العلوم جلد 26 25 تعارف کنند آئندہ خلفاء کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کر لیں اُس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کوتاہی سے کام نہ لیں.خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کونصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو بھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے" دنیا بھر میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کے لئے حضور نے تحریک جدید اور وقف جدید کی تحریکوں کا ذکر کر کے وکالت تبشیر اور اصلاح وارشاد کو بھی ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.(18) افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء 1960ء کا جلسہ سالانہ اپنی پوری روایات کے ساتھ 26، 27، 28 دسمبر کور بوہ میں منعقد ہوا.26 دسمبر کو افتتاحی خطاب میں حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ و دیگر اجتماعات کی اہمیت و افادیت ان الفاظ میں بیان فرمائی: " دوستوں کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا یہ جلسہ تمام مروجہ جلسوں اور اجتماعوں سے بالکل مختلف رنگ رکھتا ہے.آپ لوگ یہاں کسی نمائش کے لئے اکٹھے نہیں ہوئے.کوئی کھیل یا تماشا دیکھنے کے لئے نہیں آئے بلکہ صرف اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ایک مناد کی آواز آپ لوگوں نے سنی اور اس پر دوڑتے اور لبیک کہتے ہوئے آپ زمین کے چاروں اطراف سے اس کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے.گویا آپ لوگ وہ روحانی پرندے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دو اور پھر انہیں آواز دو تو وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ اُڑتے چلے آئیں گے.آپ لوگ بھی اس زمانہ کے مامور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اور آپ ہی وہ خوش قسمت وجود ہیں جنہیں فضائے آسمانی کی بلندیوں میں پرواز کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان ایام کو ضائع مت کرو.

Page 37

انوار العلوم جلد 26 26 تعارف کنند یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں بلکہ یہ خدا اور اُس کے رسول کے ساتھ تمہارا ملاپ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے.پس اس امر کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہ ہونے دو.اور دعاؤں اور ذکر الہی میں ہر وقت مشغول رہو اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرو.اگر آپ لوگ اسلامی اجتماعات پر غور کریں تو آپ کو نہایت آسانی سے یہ امر معلوم ہوسکتا ہے کہ تمام اسلامی اجتماعات کی رُوح رواں صرف ذکر الہی اور دعا اور انابت الی اللہ ہی ہے.نماز ہے تو وہ دعا اور ذکر الہی پرمشتمل ہے.جمعہ ہے تو وہ بھی وعظ ونصیحت اور دعا اور ذکر الہی پر مشتمل ہے.عیدین کی نمازیں ہیں تو اُن میں بھی اٹھتے بیٹھتے ذکر الہی کی تاکید ہے.یہی نسخہ ہے جو ہر اجتماع کو با برکت بناتا ہے.پس اس نسخہ کو کبھی مت بھولو اور اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور اسی طرح اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے رات دن دعائیں کرتے رہو.اور پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان مقصد کو جلد سے جلد پورا فرمائے جس کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ ہمیں اپنی موت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اور پھر ہماری اولاد در اولاد کو بھی یہ توفیق بخشے کہ وہ قیامت تک اس جھنڈے کو اونچار کھتی چلی جائے یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے" نیز حضور نے اس روح پرور خطاب میں اگلی نسل میں ایمان، تقویٰ اور تبلیغ کے جذ بہ کو سرایت کروانے کی طرف ان الفاظ میں توجہ دلائی." میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے صرف اپنے اندر ہی ایمان پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اعلی نسل کو بھی دین کا جاں نثار خادم بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.دنیا میں کوئی شخص یہ پسند نہیں کر سکتا کہ وہ تو عالم بن جائے مگر اُس کا بیٹا جاہل رہے یادہ تو امیر بن جائے مگر اُس کا لڑکا کنگال رہے.پھر نہ معلوم لوگ اپنی اگلی نسل کو دین کے راستہ پر قائم رکھنے کے لیے کیوں مضطرب نہیں ہوتے اور کیوں وہ دیوانہ وار اس کے لئے جد و جہد نہیں کرتے.“

Page 38

انوار العلوم جلد 26 " 27 تعارف کتب یہ امر یاد رکھو کہ ہمارے سپرد خدا تعالیٰ نے ایک بہت بڑی امانت کی ہے.اس زمانہ میں جبکہ ایمان ثریا پر جا چکا تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پھر اسلام کو زندہ کیا اور اُس نے آپ لوگوں کے ذریعہ اسے دنیا کے کناروں تک پہنچایا بلکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرایا.اب آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی اگلی نسل کو بھی اس امانت کا اہل بنائیں.اور اُس کے اندر دین کا شغف اور محبت پیدا کریں تا کہ وہ بھی نمازوں اور دعاؤں اور ذکر الہی کی پابند ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے والی ہو.مگر یہ کام ہم اپنے زور سے نہیں کر سکتے صرف خدا ہی ہے جو اصلاح نفس کے سامان پیدا کیا کرتا ہے.پس اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنی اولادوں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں سچا ایمان پیدا کرے.اور انہیں دین کی ایسی محبت عطا کرے کہ کوئی دنیوی تعلق اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تا کہ ہماری زندگی ہی پُر مسرت نہ ہو بلکہ ہماری موت بھی خوشی کی موت ہو " (19) اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو اور اپنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ خدمت دین کیلئے وقف کرو جلسہ سالانہ 1960ء کے اختتامی اجلاس منعقدہ 28 دسمبر کو حضور بوجہ علالت طبع بنفس نفیس شریک نہ ہوئے.حضور کی ہدایت پر مکرم مولا نا جلال الدین شمس صاحب نے آپ کی املاء کردہ تقریر کو پڑھ کر سنایا.یہ اجلاس حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی زیر صدارت منعقد ہوا.حضور نے اپنے اس خطاب میں دنیا میں خدا کی بادشاہت کو قائم کرنے کے لئے احباب جماعت کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: "ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ عہد کر لینا چاہئے کہ خواہ ہم پر کتنی بڑی مشکلات آئیں اور خواہ ہمیں مالی اور جانی لحاظ سے کتنی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں پھر بھی جو کام ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے سپرد کیا ہے ہم اس کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں

Page 39

انوار العلوم جلد 26 28 تعارف کتب کریں گے اور خدائی امانت میں کوئی خیانت نہیں کریں گے.ہمارے سپرد اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کریں.اور یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس سے عاجزانہ طور پر عرض کریں کہ اے ہمارے آقا ! دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ موجود تھے ، بڑے بڑے سیاستدان موجود تھے ، بڑے بڑے مدبر موجود تھے ، بڑے بڑے نواب اور رؤساء موجود تھے ، بڑے بڑے فلاسفر اور بڑے بڑے دانشور اور علماء موجود تھے مگر تو نے ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم غریبوں اور بے کسوں کو چنا اور اپنی بیش بہا امانت ہمارے سپرد کر دی.اے ہمارے آقا ! ہم تیرے اس احسان کو کبھی بھلا نہیں سکتے اور تیری اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کر سکتے.ہم تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے شہروں اور ویرانوں میں پھریں گے.ہم تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اور ہر دُکھ اور مصیبت کے وقت میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں گے.اگر ہم یہ عزم کرلیں اور دین کے لئے متواتر قربانی کرتے چلے جائیں تو یقینا اللہ تعالی ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور اسلام اور احمدیت کو دنیا میں غالب کر دے گا" حضور نے اس خطاب میں اسلام کی حالت زار کا ذکر کے احباب کے ایمانوں کو یوں اُبھارا: اس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا ہمارا کام ہے.اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو ہزاروں نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آسکتے ہیں.ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے.ہمیں گریجوایٹوں کی بھی ضرورت ہے اور کم تعلیم والوں کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم ہر طبقہ تک اسلام کی آواز پہنچا سکیں.اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لو گے تو یقیناً اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ابدی حیات عطا فرمائے گا.تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے، بڑے بڑے علماء پیدا ہوں گے، بڑے بڑے صوفیا پیدا ہوں گے، بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے مگر یاد

Page 40

انوار العلوم جلد 26 29 تعارف کتب رکھو خدا تعالیٰ نے جو شرف تمہیں عطا فرمایا ہے بعد میں آنے والوں کو وہ میسر نہیں آسکتا.جیسے اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر جو مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کو بھی ملا وہ ان بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوا.ان بادشاہوں اور نو جوانوں کو بیشک دنیوی دولت ملی مگر اصل چیز تو صحابہ ہی کے حصہ میں آئی.باقی لوگوں کو تو صرف چھلکا ہی ملا" (20) ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود کا ایک بہت بڑا نشان ہے.حضرت مصلح موعود کا یہ املاء کردہ روح پرور پیغام جلسہ سالانہ 1961ء کے پہلے روز 26 دسمبر کو حضور کی ہی موجودگی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے پُر شوکت آواز اور پُر درد لہجے میں پڑھ کر سنایا.حضور نے اس پیغام میں جلسہ سالانہ کی اہمیت اور افادیت پر ان الفاظ میں توجہ دلائی."ہمارا یہ جلسہ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت رکھی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے اس لئے یہ بھی شعائر اللہ میں سے ہے.اور ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس کی عظمت کو پوری طرح ملحوظ رکھے اور اس کی برکات سے صحیح رنگ میں مستفیض ہونے کی کوشش کرے " حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دور کے جلسہ کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا کہ اُس میں حاضری صرف 75 تھی اور آج نصف لاکھ سے زیادہ مخلصین اس جلسہ میں شریک ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں.حضور نے جماعت کی دیگر ترقیات وفتوحات کا ذکر کر کے فرمایا: " ہم میں سے کوئی شخص اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کے ہاتھوں زمین میں ایک بیج بویا گیا اور وہ بیج ہرقسم کی مخالفانہ ہواؤں کے باوجود بڑھا اور پھولا

Page 41

انوار العلوم جلد 26 30 تعارف کتب اور پھلا یہاں تک کہ آج اُسی پیج سے ایک ایسا شاندار درخت پیدا ہو چکا ہے جس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں اور جس پر ہزار ہا آسمانی پرندوں نے بسیرا کیا ہوا ہے.مگر ابھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے کام کو اور بھی وسیع کریں اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کیلئے اس مقدس مشن کی تکمیل میں اپنی عمریں صرف کر دیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں مبعوث ہوئے تھے" (21) اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کرو جب اسلام کا جھنڈ ا ساری دنیا میں اپنی پوری شان سے لہرانے لگے حضرت مصلح موعود کا یہ خطاب بھی املاء کردہ تھا جو جلسہ سالانہ 1961ء کے تیسرے روز 28 دسمبر کو اختتامی اجلاس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے نے حضور کی موجودگی میں پڑھ کر سنایا.پُر معارف اور ایمان افروز یہ خطاب انتہائی ذوق وشوق اور ولولہ عشق کے عالم میں سنا گیا.حضور نے خطاب کے آغاز میں فرمایا کہ 1914ء میں جب خدا تعالیٰ نے مجھے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا تو غیر مبائعین بھی علی الاعلان یہ کہہ رہے تھے کہ 95 فیصد جماعت ان کے پاس ہے اور صرف 5 فیصد جماعت نے خلافت کو تسلیم کیا ہے.انجمن کا خزانہ خالی تھا.تب خاکسار نے " کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے" کے عنوان سے ایک ٹریکٹ شائع کر کے جماعتوں میں بھجوایا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں جہاں یہ ٹریکٹ پہنچا متر ڈر جماعتوں کے دل صاف ہو گئے اور سنبھل گئے.اور انہوں نے تاروں اور خطوط کے ذریعہ میری بیعت کر لی.اور اب بفضلہ تعالیٰ 95 فیصد ا حباب میرے ساتھ ہیں اور 5 فیصد ان کے ساتھ.حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد بھی غیر مبائعین کے سرکردہ احباب جو صدر انجمن احمدیہ پر قابض تھے نے فیصلہ کیا کہ سلسلہ کا جو روپیہ علماء تیار کرنے پر خرچ ہو رہا ہے یہ بے فائدہ ہے مدرسہ احمدیہ کو بند کر دینا چاہئے اور صرف ہائی اسکول میں دینیات کی

Page 42

انوار العلوم جلد 26 31 تعارف کنند تعلیم رکھ کر گزارا کرنا چاہئے.اس مضمون پر تقاریر ہورہی تھیں.اُس وقت میری عمر 20 سال تھی.میں اٹھا اور جماعت کو مخاطب ہو کر کہا کہ ہمارے کام آج ختم نہیں ہو جائیں گے..آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بعض لوگوں نے کہا تھا کہ اسامہ کی سرکردگی میں جس لشکر کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا اب اس کی کوئی ضرورت نہیں.حضرت ابو بکر نے اس موقع پر فرمایا تھا ابوقحافہ کی کیا مجال کہ وہ خلافت سنبھالتے ہی پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو آخری مہم تیار کی تھی اسے روک دے.آپ نے فرمایا.خدا کی قسم ! اگر کفار، مدینہ کو فتح کر لیں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں گئے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا.آج میں بھی یہی کہتا ہوں کہ مدرسہ احمدیہ کا قیام بھی حضرت مسیح موعود نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا.ہمیں اس کو جاری رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں کے دلوں کو میری طرف پھیر دیا.بعض کی چیچنیں نکل گئیں اور یک زبان ہوکر بولے کہ مدرسہ احمد یہ بند نہیں ہونا چاہئے.حضرت مصلح موعود نے اسلام کی اشاعت کے لئے اپنی خدمات کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا: " میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا اور گو میں مر جاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا.اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے فضل سے ناکام رہے گا.دنیا میں جھوٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا " پھر فرمایا: " خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں، مجھے کتنا بھی بُرا سمجھیں بہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے.آج نہیں آج سے چالیس پچاس بلکہ

Page 43

انوار العلوم جلد 26 32 تعارف کتب سوسال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا تھا یہ صحیح کہا تھا یا غلط.میں بیشک اُس وقت موجود نہیں ہوں گا مگر جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلمان مؤرخ اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ اس تاریخ میں میرا بھی ذکر کرے.اگر وہ میرے نام کو اس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا.ایک بہت بڑا خلاء واقع ہو جائے گا جس کو پُر کرنے والا اُسے کوئی نہیں ملے گا" پھر پیشگوئی کے رنگ میں جلالی الفاظ میں فرمایا: یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص بھی میری بیعت کا سچا اقرار کرے گا وہ خدا کے فضل سے قیامت تک میرے نہ ماننے والوں پر غالب رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور ہوتی رہے گی.زمانہ بدل جائے گا، حالات بدل جائیں گے، حکومتیں بدل جائیں گی اور میں بھی اپنے وقت پر وفات پا کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہو جاؤں گا مگر خدا تعالیٰ کی یہ بتلائی ہوئی بات کبھی نہیں بدلے گی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ میرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے" خطاب کے اخیر پر احباب کو ان الفاظ میں دعوت الی اللہ کی نصیحت فرمائی: " پس اے میرے عزیز و ! تم آسمانی آب حیات کی متلاشی اقوام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں حوض کوثر پر لے جاؤ اور انہیں گندی زیست سے نجات دلانے اور اُن کے اندر ایمان کی حرارت پیدا کرنے کے لئے کا فوری اور زنجبیلی جام پلاؤ اور اس سانپ کا سر ہمیشہ کے لئے چل دو جس نے آدم کی ایڑی پر ڈسا تھا اور اُسے جتِ ارضی سے نکال دیا تھا.اس وقت ہماری جماعت میدانِ جہاد میں کام کر رہی ہے.اور وہی فوج دشمن کا دلیری سے مقابلہ کر سکتی ہے جس کی صفوں میں انتشار نہ ہو.قرآن کریم نے اس کی اہمیت پر بڑا زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ مومنوں کی جماعت جب دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوتی ہے تو اس کی کیفیت بنیان مرصوص کی سی ہوتی ہے.یعنی وہ ایک ایسی دیوار کی طرح ہوتے ہیں جس کی مضبوطی کے لئے اُس پر سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا

Page 44

انوار العلوم جلد 26 33 تعارف کتب ہو.پس اختلافات کو کبھی اپنے قریب بھی نہ آنے دو.ہر شخص جو کسی جماعت میں تفرقہ کا بیج بوتا اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ احمدیت کا بدترین دشمن ہے.اور تمہیں اُسی طرح تباہی کے گڑھے میں گرانا چاہتا ہے جس طرح گزشتہ دور میں مسلمان صدیوں تک تنزل کا شکار رہے.تمہیں یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا ہے کہ دنیا ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو.پس ہر شخص جو اتحاد میں رخنہ اندازی کرتا ہے، ہر شخص جو اس سکیم کے راستہ میں روک بنتا ہے وہ خدائی ناراضگی کا نشانہ بنتا ہے" (22) جلسہ سالانہ 1962ء کے افتتاحی و اختتامی اجلاسات کے لئے پیغامات حضرت خلیفہ لمسیح الثانی نے جلسہ سالانہ 1962ء پر علالت طبع کے باعث بنفس نفیس شرکت نہ فرمائی تا ہم آپ نے تحریراً افتتاحی پیغام بھجوایا جو 26 دسمبر کو افتتاحی اجلاس میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا: حضور نے پیغام کے آغاز میں جلسہ سالانہ میں شرکت کے فوائد بیان کرتے ہوئے تحریر فرمایا: " آپ لوگ یا درکھیں کہ ہمارا یہ جلسہ دنیوی میلوں کا رنگ نہیں رکھتا بلکہ خالص دینی مقاصد کو ترقی دینے اور باہمی اخوت اور محبت بڑھانے کے لئے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے اس لئے ان ایام کو ضائع نہ کریں بلکہ ان سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ جب آپ واپس جائیں تو آپ اپنے دلوں میں محسوس کریں کہ آپ کے ایمان اور آ کے اخلاص اور آپ کے علم اور آپ کے عمل میں ایک نمایاں ترقی ہوئی ہے اور آپ کی روحانیت اور باطنی پاکیزگی میں اضافہ ہوا ہے.اگر آپ اس جلسہ سے یہ فائدہ اٹھا لیں تو یقیناً آپ کامیاب ہو گئے.اور اگر آپ لوگ اپنے اندر کوئی تغیر محسوس نہ کریں تو آپ کو اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے دو دن بھی نیکی کے لحاظ سے برابر رہے وہ گھاٹے میں رہا.اور آپ کے لئے

Page 45

انوار العلوم جلد 26 34 تعارف کتب تو جلسہ کے تین دن رکھے گئے ہیں.اگر ان تین دنوں میں بھی آپ کے اندر کوئی تغیر پیدانہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کتنے بڑے گھاٹے میں رہیں گے.پس یہ ایام بہت زیادہ فکر کے ساتھ بسر کریں اور اٹھتے بیٹھتے دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دیں.تقریروں سے فائدہ اٹھائیں اور سلسلہ کی ضروریات کا علم حاصل کر کے ان میں حصہ لینے کی کوشش کریں" اخیر میں حضور نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اسلام کے غلبہ کا ذکر فرما کر احباب کو نصیحت فرمائی کہ اس زمانہ میں اسلام کا غلبہ اب جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو کر رہے گا.اس لئے اپنے آپ میں اخلاص اور ایمان کی چاشنی پیدا کرنی ہوگی.1962ء کے آخری روز بھی حضرت مصلح موعود بوجہ علالت طبع خود تشریف نہ لا سکے.آپ کا حاضرین جلسہ کے نام تحریر کردہ روح پرور پیغام حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا: حضور کا یہ پیغام تبلیغ تعلیم و تربیت پر مشتمل تھا.آغاز میں حضور نے تمام دنیا میں پیغام حق پہنچانے کے لئے احباب کو فر مایا: "دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور ہزار ہا لوگ جو اس سے پہلے شرک میں مبتلا تھے یا عیسائیت کا شکار ہو چکے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے لگ گئے ہیں.لیکن ان تمام نتائج کے باوجود یہ حقیقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی اس وقت اڑھائی ارب کے قریب آبادی ہے اور ان سب کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے.پس ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بڑا بھاری بوجھ ہے جو ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا ہے.اتنے اہم کام میں اللہ تعالی کی معجزانہ تائید اور نصرت کے سواہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں.ہم اس کے عاجز اور حقیر بندے ہیں اور ہمارا کوئی

Page 46

انوار العلوم جلد 26 35 تعارف کتب کام اس کے فضل کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر آن اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ وہ ہمارے راستہ سے ہر قسم کی مشکلات دور کرے اور ہمیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دے" پھر حضور نے تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: " تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ کرو.اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنی جماعت کی تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنے اخلاق کی اصلاح کرو.قرآن کریم کے درس ہر جگہ جاری کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو اور پھر ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر دو اور تبلیغ پر زور دو.مجھے حیرت آتی ہے جب میں جماعت کے بعض دوستوں کے متعلق سنتا ہوں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں.میں ایسے تمام دوستوں کو کہتا ہوں کہ اے بھائیو! کیا وعظ ونصیحت صرف دوسروں کے لئے ہی ہے تمہارے لئے نہیں.کیا یہ جائز ہے کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے حقیقی مقصد کو فراموش کر دو اور جماعت کی کمزوری اور اس کی بدنامی کا موجب بنو میں تمہیں قرآنی الفاظ میں ہی کہتا ہوں.کہ اے مومنو! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جائیں اور تم دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب بننے کی بجائے انہیں اسلام اور احمدیت کی طرف راغب کرنے کا موجب بنو " (23) جلسہ سالانہ 1963ء کے افتتاحی و اختتامی اجلاسات کیلئے پیغامات 1963ء میں جلسہ سالانہ اپنی تاریخوں پر 28،27،26 دسمبر کو اپنی روایات کے ساتھ منعقد ہوا.اس موقع پر بھی حضور نے افتتاحی اور اختتامی اجلاس پر پیغام بھجوائے جو مکرم مولانا جلال الدین شمس صاحب نے پڑھ کر سنائے.25 دسمبر کا تحریر کردہ پیغام 26 دسمبر کو افتتاحی اجلاس میں پڑھا گیا.جس میں

Page 47

انوار العلوم جلد 26 36 تعارف کتب خالص روحانی ماحول میں اللہ اور اس کے رسول کی باتیں سن کر ایمانوں کو تازہ کرنے اور دین کی خدمت کا ایک ولولہ اپنے اندر پیدا کر کے واپس لوٹنے کی نصیحت فرمائی نیز فرمایا: " پس تقومی اور عفت کے راستوں پر قدم ماریں اور ان ایام کو دعاؤں اور ذکر الہی میں بسر کریں اور آپس میں اخوت اور محبت بڑھانے کی کوشش کریں کہ اسی میں خدا اور اُس کے رسول کی خوشنودی ہے اور اسی میں ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے" آخری روز کا پیغام حضور نے اُسی روز 28 دسمبر کو تحریر فرمایا اور پہلی دفعہ یہ 2 جنوری 1964ءکےاخبارالفضل میں شائع ہوا.اس مختصر سے پیغام میں حضور نے نہایت احسن انداز میں ایسی قربانیاں کرنے کی تلقین فرمائی جس کے پھل آئندہ نسلیں کھائیں گی.آپ نے فرمایا: پس اپنے اندر صحیح معرفت پیدا کرو اور اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی پیدا بنانے کی کوشش کرو.اور اس نکتہ کو کبھی مت بھولو کہ قربانی اپنا پھل تو ضرور لاتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر قربانی کا پھل قربانی کرنے والا ہی کھائے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ساری قربانیوں کا پھل وہ خود ہی کھائے اُس سے زیادہ نادان اور کوئی نہیں ہوسکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادئ غيرِ ذِي زَرْعٍ میں رکھا مگر اُس کا پھل ایک مدت دراز کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوا اور دنیا اس پھل کو دیکھ کر حیران رہ گئی.پھر تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری قربانیوں کا بدلہ تمہیں آج ہی ملنا چاہئے.اگر تمہاری کسی وقت بھی تمہاری قربانیوں سے فائدہ اٹھا لے تو حقیقتا تمہاری قربانیوں کا پھل تمہیں مل گیا.پس اپنے ذہنوں میں چلا اور اپنے فکر میں بلندی پیدا کرو اور قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے کی طرف قدم بڑھاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ اپنی تائیدات سے تمہیں اس طرح نوازے گا کہ تم دنیا کے میدان میں ایک فٹ بال کی حیثیت نہیں رکھو گے بلکہ تم اُس برگزیدہ انسان کا ظل بن جاؤ گے جس کے متعلق آسمانی نوشتوں میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ کونے کا پتھر ہو گا جس پر وہ گرے گا وہ بھی چکنا چور ہو گا اور جو اُس پر آگرا وہ بھی

Page 48

انوار العلوم جلد 26 چکنا چور ہوگا" (24) پیغامات 37 تعارف کنند جلد ھذا کے آخر پر حضرت مصلح موعود کے اُن بصیرت و ایمان افروز پیغامات کو بھی جمع کر دیا گیا ہے جو حضرت مصلح موعود نے فروری 1957 ء سے ستمبر 1965 ء تک جماعت کے مختلف اداروں تنظیموں کے اجتماعات اور مساجد کے افتتاحوں پر دیئے.ان تاریخی پیغامات کی گل تعداد 64 ہے.ان میں سے بعض پیغام تو وقتی نوعیت کے تھے لیکن اکثر پیغام جماعتی تاریخ کا دھارا تبدیل کرنے والے تھے.یہ عرصہ وہ ہے جب ہمارے پیارے امام حضرت خلیفہ امسیح الثانی مصلح موعود بیمار رہے.اسی بیماری اور نقاہت کے ایام میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت، مساجد کی تعمیر اور تبلیغ کا جو جذبہ اور ولولہ حضرت مصلح موعود میں پایا جاتا ہے وہ ان پیغامات سے عیاں ہے.حضور کے پیغامات میں سے چند حصے قارئین کے لئے پیش کئے جاتے ہیں.ی ٹانگانیکا ( تنزانیہ ) میں مسجد کی تعمیر کے موقع پر پیغام میں فرمایا: "مسجد کا نام السلام رکھا جائے.مسجد کی عزت و حرمت ہمیشہ برقرار رکھو.اس میں ہمیشہ نماز باجماعت ادا کرتے رہو اور زیادہ سے زیادہ تعداد کو اسلام اور احمدیت میں شامل کرنے کی کوشش کرو" ہیمبرگ میں مسجد کے افتتاح کے موقع پر اہل جرمنی کے نام پیغام میں فرمایا: "خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے".ی مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام میں خدام الاحمدیہ کے معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: خدام الاحمدیہ کے یہ معنی نہیں کہ یہ احمدیت کے خادم ہیں بلکہ یہ کہ احمدیوں میں سے بنی نوع انسان کے یہ خادم ہیں"

Page 49

انوار العلوم جلد 26 38 تعارف کنند 17 مئی 1959ء کو اپنی اولا د اور احباب جماعت کے نام پیغام میں فرمایا: ”میری نعش، میری اماں جان کی نعش اور میری بیویوں کی نعشوں کو قادیان پہنچانا تمہارا فرض ہے.میں نے ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کی تم بھی میری خواہش پوری کرنا.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہو اور تمہیں عزت بخشے.میں ساری جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا اور رسول کے لئے وقف کریں اور قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا ھیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو ، ان کی مدد کرے اور اپنی بشارتوں سے ان کو نوازے.میں امید کرتا ہوں کہ یورپ کے نئے احمدی اپنی جان اور مال سے ایشیا کے پرانے احمدیوں کی مدد کریں گے اور تبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آجائے.“ 19 مئی 1959ء کے پیغام میں جماعت کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا: " میں وصیت کرتا ہوں کہ احمدی جماعت ہمیشہ شیطان کا سر کچلنے کے لئے مستعد رہے اور دنیا کے چاروں کونوں تک اسلام کو پھیلائے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو.ان کے کام میں برکت دے اور ان کی نیتوں کو صاف رکھے.اور وہ کسی پر ظلم کرنے والے نہ بنیں بلکہ ہمیشہ عدل اور رحم اور انصاف کو قائم رکھیں اور ان کا یہ طریق عیسائیوں کے طریق کی طرح زبانی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو.وہ عیسائیوں کی طرح آپس میں اس طرح نہ لڑیں جیسے دو جانور لڑتے ہیں بلکہ دنیا میں اسلامی اتحاد کو اور آسمان پر خدا کی تو حید کو قائم رکھیں.آدم اول کے بعد دنیا نے بڑے گناہ کئے خدا کرے آدم ثانی یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے ایسی دنیا قائم ہو جو قیامت تک خدا تعالیٰ کے نام کو روشن رکھے " 29 دسمبر 1959 ء کو برادرانِ اسلام کے نام پیغام میں فرمایا: " خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی امت بنیں اور آپ کے اقوال کی پیروی کریں ورنہ خدا تعالیٰ غنی ہے اُسے بندوں کی پرواہ نہیں.محتاج انسان ہے وہ محتاج نہیں.پس دوڑیں اور خدا کے بھیجے ہوئے مامور پر ایمان لائیں.یاد

Page 50

انوار العلوم جلد 26 39 تعارف کتب رکھیں آپ کی بھلائی اسی میں ہے.اگر آپ ایمان نہ لائیں گے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا.خدا زمین کے ہر ذرے سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اسلام کا بول بالا کریں گے.اپنی عمر ضائع نہ کریں.آپ کا دین کی بات کو نہ مانا اور مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننا آپ کے اپنے لئے نقصان دہ ہے.دن تھوڑے رہ گئے ہیں جلد سے جلد ایمان لا کر اپنا بھلا کریں.خدا تعالیٰ آپ کو ایمان عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ایمان بخشے.میں بوڑھا اور بیمار ہوں مگر آپ کے لئے دعاؤں میں مشغول ہوں.آپ میرے ماں کی طرف سے اور باپ کی طرف سے کوئی رشتہ دار نہیں مگر مجھے آپ سے ایسی محبت ہے جیسی اپنے عزیزوں سے.میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو دین ودنیا میں نوازے اور ایمان عطا فرمائے.اگر آپ ایمان لے آئے تو آپ کا مقام ثریا سے بلند ہوگا" جلسہ سالانہ قادیان 1961ء پر روح پرور پیغام میں فرمایا "اے عزیز و! بے شک جسمانی لحاظ سے ہم اس وقت آپ سے دُور ہیں مگر ہمارے دل آپ کے قریب ہیں اور ہمارے قلوب میں بھی وہی جذبات موجزن ہیں جو آپ کے دلوں میں پائے جاتے ہیں.ہمیں خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہندوستان میں اپنے دین کے جھنڈے کو بلند رکھنے اور آستانہ حبیب پر ڈھونی رما کر بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی.مگر اے عزیز و! ابھی کام کا ایک وسیع میدان آپ لوگوں کے سامنے پڑا ہے جس کے لئے بے انتہاء خدمات اور قربانیوں کی ضرورت ہے.مالی قربانیوں کی بھی اور وقت کی قربانیوں کی بھی.اس لئے ہمت سے کام لو اور اپنا قدم ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کرو.اور غیر مسلم شرفاء کو اپنے عملی نمونہ سے اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ بھی اسلامی خوبیوں سے آگاہ کرتے رہو.اور ہمیشہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھو اور ایسے بلند اخلاق کا مظاہرہ کرو کہ وہ تمہیں انسانوں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے سمجھنے لگ جائیں" 8 ستمبر 1963ء کو احباب کے نام پیغام میں فرمایا: " یہ امر یا درکھو کہ ہماری عزت ہمارے اعلیٰ درجہ کے لباسوں اور بڑی بڑی جائیدادوں میں نہیں ہے یہ لباس تو چوڑھے اور چہار بھی پہن لیتے اور بڑی بڑی جائیدادیں پیدا

Page 51

انوار العلوم جلد 26 40 تعارف کتب کر لیتے ہیں.ہماری عزت اسی میں ہے کہ ہم اپنی زندگیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم م کی تعلیم کے مطابق بنائیں اور رات دن آپ کے پیغام کی اشاعت کریں تا کہ ہماری شکلوں کو دیکھ کر ہی لوگ پکار اٹھیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں اور ان کی موجودگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے.دشمن اس لئے حملہ کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوذُ بِاللهِ ابتر خیال کرتا ہے لیکن اگر اُسے معلوم ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کروڑوں بیٹے دنیا میں موجود ہیں اور اگر اسے معلوم ہو کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری جان اور اپنے سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے تو پھر اُس کی کیا طاقت ہے کہ وہ آپ پر حملہ کر سکے.پس تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرو اور اسلام کی اشاعت پر زور دو تا کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے ہیں وہ آپ پر درود اور سلام بھیجنے لگیں.مکہ کے لوگوں کی گالیاں آخر کس طرح دور ہوئیں؟ اسی طرح کہ وہ اسلام کو قبول کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے لگے.پس اب بھی یہی علاج ہے اور یہی وہ تدبیر ہے جس سے ہر شریف الطبع انسان اسلام کی خوبیوں کا قائل ہو جائے گا.اور ہر شریر الطبع انسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر مرعوب ہو جائے گا" ید کتاب ھذا کے آخر میں حضرت مصلح موعود کی بچوں کے حق میں وجد ترین دعا یوں درج ہے.”اے ہمارے پیدا کرنے والے خدا! ہم اقرار کرتے ہیں کہ تو ایک ہے تیرے سوا کوئی خدا نہیں.ہم تیرے رسول محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں اور تیرے مامور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ احمد قادیانی علیہ السلام پر یقین رکھتے ہیں.تو ہمارے دل میں اپنی محبت پیدا کر اور اپنے حکموں پر چلنے کی ہمیں توفیق دے.ہمیں دین کا علم سکھا اور قرآن جو تیری کتاب ہے پڑھا.ہمارے دل میں ماں باپ کا ادب ڈال.ہم اپنے بھائیوں، بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں سے پیار کریں.اور ہمیں گالیاں دینے ، لڑنے ، بے وجہ

Page 52

انوار العلوم جلد 26 41 تعارف کتب غصہ کرنے، چوری کرنے ، جھوٹ بولنے، بے شرمی کی باتیں کرنے سے بچا.ہم دلیر ہوں ڈرپوک نہ ہوں.ہمیں علم سیکھنے کی توفیق دے.ہم نکتے اور سُست نہ ہوں.ہم اپنے سے غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرنے والے ہوں.ہم حریص اور لالچی نہ ہوں.اے اللہ ! ہمارے بزرگوں پر رحم کر.احمدی جماعت کے امام پر اپنا فضل کر اور اُن کے حکموں کے ماتحت ہمیں بھی دین کے کام کرنے کی توفیق دے.اور اسلام کو دوسرے دینوں پر غالب کر.اے اللہ ! ہماری عمروں اور صحتوں میں بھی برکت دے اور تو ہمیشہ ہم سے محبت کیا کر.

Page 53

انوار العلوم جلد 26 1 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 54

انوار العلوم جلد 26 له 2 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء

Page 55

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 3 افتتاحی تقریر جلسه سالانه سہ سالانہ 1956ء نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء تم خدا کے ہاتھ کا گایا ہوا پودا ہو.تم بڑھتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ تم زمین کے چاروں طرف پھیل جاؤ گے (فرمودہ 26 دسمبر 1956ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ کا بے حد و حساب شکر ہے کہ اس سال پھر اس نے ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی تعلیم او محمد رسل اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کے لئے غور کرنے اور قربانی کرنے کا موقع دیا.اور پھر اللہ تعالیٰ کا مزید احسان یہ ہے کہ اس دوران میں بعض ایسے حالات پیش آئے کہ دشمن نے خوب خوشیاں منائیں اور بغلیں بجائیں کہ اب احمدیت کا خاتمہ ہو جائے گا، اب احمدیت کی دیواروں کے نیچے سے خود اس کی گندی نالیوں نے اس کی دیواروں کے گرانے کے سامان پیدا کر دیئے ہیں اور احمدیت کی حفاظتی دیوار میں احمدیت کی اپنی نالیوں کی وجہ سے گر جائیں گی.اور اخباروں نے باقاعدہ شور مچایا کہ خلیفہ ثانی کی جماعت اب اُس سے بغاوت کر رہی ہے.اب وہ اخبار نویس کہاں ہیں؟ وہ ذرا دیکھیں کہ یہ بغاوت کر رہے ہیں یا عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں؟ اگر دشمنوں میں ذرا بھی تخیم دیانت ہے اور جھوٹ کے گند پر منہ مارنے سے اُن کو ذرا بھی شرم آتی ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی بھی اُن کو نسبت حاصل ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے غلاموں کی بھی اتباع کی اُن کو توفیق ہے تو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ وہ جماعت آگے سے بہت زیادہ قربانی کرنے پر آمادہ ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ والا جذبہ ان کے اندر موجود ہے جو کہ اُحد کے موقع پر

Page 56

انوار العلوم جلد 26 4 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء انہوں نے دکھایا تھا.اُحد کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی اور ابوسفیان نے خوشی کے نعرے لگائے اور کہا کہاں ہیں محمد ؟ مطلب اُس کا یہ تھا کہ آپ فوت ہو گئے ہیں اگر زندہ ہوں گے تو یہ بولیں گے اور پھر ہم دوبارہ کوٹ کر حملہ کر دیں گے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ خاموش رہو.پھر انہوں نے کہا کہاں ہے ابو بکر ؟ پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اور وہ چُپ رہے.پھر اُس نے کہا کہاں ہیں عمر ؟ حضرت عمرؓ کھڑے ہو گئے اور کہا کہ عمر تیرا سر توڑنے کے لئے موجود ہے مگر چونکہ دشمن اس وقت بڑے جتھے میں تھا اور اسلامی لشکر کے پاؤں اکھڑ گئے تھے اور بظاہر اُسے ایک شکست نصیب ہوئی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر کو بھی منع کر دیا.فرمایا اب بھی جواب نہ دیں 1 ہماری جماعت بھی آج اُحد کے رنگ میں یہاں موجود ہے اور ابوسفیان کے مثیلوں کو اور ابوجہل کے چیلوں کو کہہ رہی ہے کہ ہم تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.دشمن یہ خیال کرتا ہے کہ تم ایک کمزور جماعت ہو، دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس جتھا ہے، دشمن یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے پاس طاقت ہے، دشمن یہ سمجھتا ہے کہ جب وہ حملہ کرے گا تو تم ایک چڑیا کی طرح اس کے قابو میں آ جاؤ گے.مگر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ آسمان سے خدا سب قسم کی حفاظت کے سامان لے کر اتر رہا ہے.وہ ان جتھوں کو توڑ دے گا ، وہ ان جماعتوں کو کچل ڈالے گا ، وہ ان تمام نظاموں کو جو خدائی سلسلہ کے مخالف کھڑے ہیں پارہ پارہ کر دے گا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا.اور ایسا ذلیل کرے گا کہ سات پشت تک ان کی اولادیں ان پر لعنت کریں گی.پس ہم اپنے خدا کا شکر یہ ادا کرتے ہیں کہ جس نے ہمیں اس کا نام بلند کرنے اور اس کے سلسلہ کی عظمت قائم کرنے کے لئے پھر اس جگہ پر جمع ہونے کی توفیق دی اور دشمن کا منہ کالا کرنے کی ہم کو ہمت بخشی.اور کیا عورتیں اور کیا بچے اور کیا مرد آج مرکز احمدیت میں لبیک اَللَّهُمَّ لَبَّیک کہتے ہوئے داخل ہورہے ہیں.اور وہ دشمن جو یہ کہتا تھا کہ احمدیت پارہ پارہ ہوگئی اللہ تعالیٰ نے اُس کو ذلیل کر دیا ہے.اور اللہ تعالیٰ سے یہی امید ہے اور اس کے وعدوں پر ہم کو اعتبار کامل ہے کہ قیامت تک یہی جماعت دشمنانِ احمدیت کو کچلتی چلی جائے گی اور قیامت

Page 57

انوار العلوم جلد 26 5 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء تک جماعت اپنا سر اونچا رکھے گی اور احمدیت پر جانثار ہونے کے لئے اپنے آپ کو کھڑا کرے گی اور دشمن ہمیشہ ان کے مقابلہ میں خائب و خاسر رہے گا.یہ موجودہ جماعت بھی اور ان کی اولادیں بھی اور اولادوں کی اولادیں بھی قیامت تک احمدیت اور اسلام کے جھنڈے کو بالا رکھیں گی.اور جس طرح ابو سفیان نے جب کہا کہ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزّى لَكُمُ اے مسلمانو! ہمارے لئے عزمی بت ہے جو ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی نہیں.تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب جواب کیوں نہیں دیتے ؟ پہلے تم جب آدمیوں کا نام لیا جارہا تھا تو جواب دینے کے لئے تیار تھے اب خدا کی بے عزتی کی جاتی ہے اب کیوں نہیں جواب دیتے ؟ تو صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا کہیں؟ فرمایا زور سے کہولَنَا مَوْلَى وَلَا مَوْلَى لَكُمْ 2 خدا ہمارے ساتھ ہے تمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں.تو قیامت تک اِنشَاءَ الله احمدیوں کی نسل اس کے محض فضل اور کرم سے باوجود ہماری کوتاہیوں اور غفلتوں کے کہ ہم اپنی اولادوں کی صحیح تربیت نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کو توفیق دے گا کہ وہ احمدیت اور اسلام کا جھنڈا اونچا رکھیں گے اور تمام عیسائی دنیا اور تمام غیر مذاہب کو پکار کر کہیں گے کہ لَنَا مَولى وَلَا مَوْلَى لَكُمْ خُدا ہمارے ساتھ ہے.اور تمہارے ساتھ کوئی خدا نہیں ہے.اب میں بیٹھنے کے بعد دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو عظیم الشان برکات کا موجب بنائے اور قیامت تک اس سے بہت بڑے بڑے اجتماع کرنے کی ہم کو تو فیق عطا فرمائے جن میں ہم خدا تعالیٰ کا نام بلند کریں، جن میں ہم اسلام کی سچی تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش کریں.اور دشمنانِ احمدیت ان اجتماؤں کو دیکھ کر اپنے اندر شرمندہ بھی ہوں اور افسردہ بھی ہوں تا کہ اُن کو نظر آئے کہ خدا ان لوگوں کے ساتھ ہے جن کو ہم نے سمجھا تھا کہ 1953ء میں مار ڈالا تھا وہ 1956ء میں اس سے بھی زیادہ زور آور ہیں، اور اگلے سالوں میں اس سے بھی زیادہ طاقتور ہوں گے.چنانچہ دیکھ لو.میں سات آٹھ دن سے کہہ رہا تھا کہ میں بیالیس سال زمانہ خلافت میں دیکھتا آیا ہوں کہ جب کبھی دشمن نے حملہ کیا تو خدا نے ہماری مدد کی اور خدا تعالیٰ نے ہمیں اور اونچا کیا.پس اب جب کہ دشمن نے کہا ہے کہ احمدیت کمزور ہوگئی ہے اور احمدیوں میں بغاوت ہوگئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ احمدیوں کے اخلاص میں اور بھی ترقی بخشے گا اور وہ زیادہ زور - &

Page 58

انوار العلوم جلد 26 6 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء آئیں گے.تو میں نے بار بار منتظمین کو توجہ دلائی مگر با وجود اس کے انہوں نے اپنی طرف سے تو کوشش کی مگر پھر بھی خدا کے اندازے کو نہ پہنچے اور آج رات بارہ بجے وہ حالت تھی کہ عورتوں کی رہائش گاہ میں تل رکھنے کی جگہ نہ تھی اور عورتیں سردی میں بچے لئے پھرتی تھیں کہ کوئی جگہ ہمیں نہیں مل رہی.اور رپورٹ سے پتا لگتا ہے کہ پچھلے سال سے اس دفعہ ڈیوڑھے آدمی اس وقت تک آچکے ہیں.پچھلے سال رات کے کھانے پر انیس ہزار اور کچھ سو تھے اور اس سال رات کے کھانے پر ستائیس ہزار سے زیادہ تھے.گویا ڈیوڑھے کے قریب تعداد تھی یا ڈیوڑھے سے بھی کچھ زیادہ تھی.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے اور یہ فضل اور احسان جب تک آپ لوگوں کے دلوں میں ایمان قائم رہے گا اللہ تعالیٰ اسے بڑھاتا چلا جائے گا.تم خدا کا لگایا ہوا پودا ہو تم بڑھتے چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے.اور جیسا کہ وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے تمہاری جڑیں زمین میں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تمہاری شاخیں آسمان میں پھیلتی چلی جائیں گی.یہاں تک کہ تم میں لگنے والے پھلوں کو جبریل آسمان پر بیٹھا ہوا کھائے گا اور اس کے ماتحت فرشتے بھی آسمانی پر سے کھائیں گے اور خدا تعالیٰ عرش پر تعریف کرے گا کہ میرا لگایا ہوا پودا کتنا شاندار نکلا ہے.ادھر زمین میں اس کی جڑیں پھیل گئی ہیں اور اُدھر آسمان میں میرے عرش کے پاس اس کی شاخیں ہل رہی ہیں اَصْلُهَا ثَابِتَ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ 3 اس کی جڑیں زمین میں پھیلی ہوئی ہوں گی اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں گی.تو ادھر تو تم خدا تعالیٰ کے فضل سے زمین میں اس طرح پھیلو گے کہ جیسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے ایک دن وہ آئے گا کہ دنیا میں میرے ماننے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہو جائے گی اور دوسرے لوگ جس طرح چھوٹی تو میں تھوڑی تھوڑی ہوتی ہیں اسی طرح وہ بھی چھوٹی قو میں بن کر رہ جائیں گے.اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کے معنی یہ ہیں کہ تم صرف زمین میں پھیلو گے ہی نہیں بلکہ ذکر الہی اتنا بلند کرو گے کہ آسمان کے فرشتے اس کو سن کرنا چنے لگ جائیں گے اور خوش ہوں گے کہ ہمارے خدا کا ذکر زمین پر بھی اُسی طرح ہونے لگ گیا ہے جس طرح کہ ہم آسمان پر کرتے ہیں.تب آسمان پر بھی فرشتے ہوں گے اور زمین پر بھی فرشتے ہوں گے.آسمان کے فرشتوں کا نام جبریل اور اسرائیل وغیرہ ہوگا اور زمین کے فرشتوں کا نام احمدی ہوگا کیونکہ وہ زمین کو بھی خدا کے ذکر

Page 59

انوار العلوم جلد 26 7 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء سے بھر دیں گے جس طرح کہ آسمان کو فرشتوں نے خدا کے ذکر سے بھرا ہوا ہے.پس یہ تو ہونے والا ہے اور ہو کر رہے گا اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی.صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ایمانوں کو سلامت رکھیں اور اپنی اولادوں کے دلوں میں ایمان پختہ کرتے چلے جائیں.اگر اس تربیت کے کام کو ہم جاری رکھیں تو یقینا دنیا میں اسلام اور احمدیت کے سوا کچھ باقی نہیں رہے گا.یہ عیسائی حکومتیں جو آج ناز اور نخرے کے ساتھ اپنے سر اٹھا اٹھا کر چل رہی ہیں اور چھاتیاں نکال نکال کر چل رہی ہیں یہ اسلام کے آگے سر جھکا ئیں گی.اور یہی لنگوٹی پوش احمدی اور دھوتی پوش احمدی جو یہاں بیٹھے ہیں ان کے آگے امریکہ کے کروڑ پتی آ کر سر جھکا ئیں گے اور کہیں گے کہ ہم ادب سے تم کو سلام کرتے ہیں کہ تم ہمارے روحانی باپ ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم جو نہ صرف ہمارا باپ تھا بلکہ ہمارے خدا کے بیٹے مسیح کا بھی باپ تھا تم اُس کے فرزند ہو اور ہم تمہارے بیٹے ہیں.پس تم نے ہمیں اپنے باپ سے اور ہمارے خدا کے بیٹے کے باپ سے روشناس کرایا ہے اس لئے تم ہم کو خاندانِ الوہیت میں واپس لانے والے ہو.تم ہم آوارہ گردوں کو پھر گھر پہنچانے والے ہو.اس لئے ہم تمہارے آگے سر جھکاتے ہیں اور تم سے برکتیں چاہتے ہیں کیونکہ تمہارے ذریعہ سے اسلام ہم تک پہنچا ہے.سو یہ دن آنے والے ہیں إِنْشَاءَ اللَّهُ تَعَالَى میں اپنی اس مختصر سی تقریر کے ختم کرنے سے پہلے عورتوں کو بھی یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رات کو ان کو تکلیف پہنچی ہے اور بعض ان میں سے شکوہ بھی کرنے لگیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان کو شکوہ کا حق نہیں تھا شکوہ کا حق ہمارا تھا.ہمارا حق تھا کہ ہم خدا سے کہتے کہ الہی ! ہم اپنا فرض ادا نہیں کر سکے تو ہم کو معاف کر.ان کو شکایت کا حق نہیں تھا ان کو تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ اللہ میاں تیرے کتنے احسان ہیں پھر تو ہمیں اتنالایا کہ جماعت کا مرکز ہمارے ٹھہرانے کا انتظام نہیں کر سکا.تو یہ تو جماعت کی ترقی کی علامت ہے.ان کو اس پر خوش ہونا چاہیے تھا.ہمیں رونا چاہیے تھا کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ نہیں لگا سکے اور ہم نے جو اندازہ لگایا تھا وہ غلط ہو گیا.ان کو ہنسنا چاہیے تھا کہ دیکھو خدا تعالیٰ ہمیں اتنی تعداد میں لایا ہے کہ یہ مرکز والے باوجود ساری کوششوں کے ہمارا انتظام کرنے سے محروم رہ گئے.اور ہمارے افسروں کو چاہیے تھا کہ وہ

Page 60

انوار العلوم جلد 26 8 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء روتے کہ باوجود خدا تعالیٰ کے فضلوں کے بار بار دیکھنے کے پھر بھی ہم اس کا اندازہ لگانے سے قاصر رہے اور پھر بھی خدا کے مہمانوں کو ہم آرام نہیں پہنچا سکے.میں سات آٹھ دن سے برابر کہہ رہا تھا کہ دیکھو خدا تعالیٰ کی غیرت اس وقت بھڑ کی ہوئی ہے.باغیوں کی بغاوت کی وجہ سے خدا تعالیٰ عرش پر غصہ سے بھرا ہوا بیٹھا ہے اور وہ ضرور ان کو نمونہ دکھائے گا اور نشان دکھائے گا اس لئے تیار ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ اب برکت کے دروازے کھولنے والا ہے اور ہزاروں ہزار آدمی پچھلے سال سے زائد آئے گا.چنانچہ اس وقت تک بھی قریباً نو ہزار آدمی زیادہ آچکا ہے.اب اگلے دنوں میں اور بھی امید ہے.ابھی تو ستائیس کی تاریخ کو لوگ زیادہ آیا کرتے ہیں.پس ستائیس بھی ہے، اٹھائیس بھی ہے.اور پھر ابھی کیا ہے پھر جن کو خدا تعالیٰ زندہ رکھے گا اگلا سال بھی ہے جبکہ اس سے بھی زیادہ لوگ آئیں گے.اور ہر دفعہ دشمن روسیاہ ہوگا اور ہر دفعہ دشمن شرمندہ ہو گا کہ جس جماعت کو ہم مارنا چاہتے تھے وہ پھر زندہ ہو کر نکل رہی ہے.پس ایک طرف تو میں منتظمین کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ پورے زور سے خدا تعالیٰ کے فضلوں کا اندازہ کر کے ایسا انتظام کیا کریں کہ آئندہ مہمانوں کو تکلیف نہ ہو اور مہمانوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ایک دن تکلیف بھی ہو تو وہ اس بات پر خوش ہوا کریں کہ دیکھو ہمارا خدا کتنا شاندار ہے کہ دشمن کی مخالفت کے باوجود ہم کو بڑھا رہا ہے.پس اگر تکلیف ہو تو تمہیں الحمد کرنی چاہیے اور خدا تعالیٰ کے ذکر میں بڑھنا چاہیے.اور جو منتظم ہیں ان کو شرمندہ ہونا چاہیے اور ان کو خدا تعالیٰ سے عاجزانہ معافی مانگنی چاہیے کیونکہ ان کا قصور ہے اور تمہارے لئے برکتوں اور رحمتوں کی علامت ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں گل سات سو آدمی آئے تھے.اب ایک ایک بلاک میں کئی کئی ہزار بیٹھا ہے.اُس وقت آپ کی زندگی کا آخری سال تھا اور گل سات سو آدمی جلسہ پر آیا اور انتظام اتنا خراب ہوا کہ رات کے تین بجے تک کھانا نہ مل سکا اور آپ کو الہام ہوا کہ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ A اے نبی ! کھو کے اور پریشان حال کو کھانا کھلاؤ.چنانچہ صبح معلوم ہوا کہ مہمان تین بجے رات تک لنگر خانہ کے سامنے کھڑے رہے اور ان کو کھانا نہیں ملا.پھر آپ نے نئے سرے سے فرمایا کہ دیکھیں چڑھاؤ اور ان کو کھانا کھلاؤ.تو دیکھو سات سو آدمیوں کی یہ حالت ہوئی مگر اُن سات سو آدمیوں کا یہ حال تھا کہ

Page 61

انوار العلوم جلد 26 9 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء جب آپ سیر کے لئے نکلے تو سات سو آدمی ساتھ تھا، ہجوم بہت تھا، آنے والے بے چاروں نے کبھی یہ نظارہ تو دیکھا نہ تھا، باہر تو دوسو آدمی بھی لوگوں کو کسی روحانی بزرگ کے گرد جاتا ہوا نظر نہ آتا تھا.میلوں میں بے شک جاتے ہیں لیکن روحانی نظاروں میں نہیں جاتے.اس لئے اُن کے لئے عجیب چیز تھی، لوگ دھکے کھا رہے تھے.حضرت صاحب ایک قدم چلتے تھے تو ٹھو کر کھا کر آپ کے پیر سے جوتی نکل جاتی تھی.پھر کوئی احمدی ٹھہرالیتا کہ حضور! جوتی پہن لیجئے اور آپ کے پیر میں جوتی ڈال دیتا.پھر آپ چلتے تو پھر کسی کا ٹھڈا لگتا اور جوتی پرے جاپڑتی.پھر وہ کہتا کہ حضور! ٹھہر جائیے جوتی پہنا دوں.اسی طرح ہو رہا تھا تو ایک زمیندار دوست نے دوسرے زمیندار دوست سے پوچھا ” او توں مسیح موعود دا دست پنجہ لے لیا ہے؟ یعنی کیا تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کر لیا ہے؟ وہ کہنے لگا ”ایتھے دست پنجہ لین دا کیہڑا ویلا ہے، نیڑے کوئی نہیں ہون دیندا ، یعنی یہ مصافحہ کرنے کا کونسا موقع ہے یہاں تو کوئی قریب بھی نہیں آنے دیتا.اس پر وہ جو عاشق زمیندار تھا وہ اس کو دیکھ کر کہنے لگا تجھے یہ موقع پھر کب نصیب ہوگا.بے شک تیرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں پھر بھی لوگوں کے درمیان میں سے گز رجا اور مصافحہ کر آ.تو گجا وہ وقت ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور گجا یہ وقت اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں.اب ہماری کم سے کم پچاس یا سو یا اس سے بھی زیادہ جماعت موجود ہے جس میں ہزار سے زیادہ آدمی ہیں.قریباً ستر اسی ہزار یالا کھ تو صرف سیالکوٹ میں موجود ہے.کوئی بیس ہزار کے قریب لائل پور میں ہے.اسی طرح جھنگ اور سرگودھا کے علاقے جو ملتے ہیں اُن میں بھی جماعت ہیں ہزار کے قریب جا پہنچی ہے.کیونکہ صرف ربوہ کی ہی اب گیارہ بارہ ہزار آبادی ہو گئی ہے.یہ کور دیہہ کے جس کی تصویر اب بھی اپنے ایمان بڑھانے کے لئے دفتروں میں جا کر دیکھ لیا کرو محض ایک جنگل تھا اور تین چار خیمے لگے ہوئے تھے.اس میں ہم آکے کہے.ابھی ساری دنیا اُجڑی پھر رہی ہے اور خدا نے ہم کو ایک مستقل وطن دے دیا ہے.ہم اس جگہ پر اکٹھے ہوئے اور تین سال کے اندراندر کی عمارتیں بن گئی ہیں.آج سے پانچ چھ سال پہلے جب جلسہ ہوا تھا تو اُس وقت ہم کچے مکانوں میں رہتے تھے.پھر اس کے بعد تمام کوٹھیاں ہی کوٹھیاں

Page 62

انوار العلوم جلد 26 10 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء کراچی اور لاہور کی طرح کی بن گئی ہیں اور یہ ساری عمارتیں اتنی جلدی بن گئی ہیں کہ سارے پاکستان میں اتنی جلدی کسی جگہ پر نہیں بنیں.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے.سو دعا ئیں کرو اللہ تعالیٰ سے کہ وہ اپنے فضل کو بڑھاتا چلا جائے اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اس فضل کا مستحق بنائے.پھر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایک دوست نے آج مصافحہ کرتے وقت اس خیال سے کہ سارے احمدی مل رہے ہیں مجھے بھی احمدی نہ سمجھ لیں کہا کہ السَّلَامُ عَلَيْكُمُ میں غیر احمدی ہوں.مجھے دل میں ہنسی آئی کہ ہم میں تو خدا نے وہ کشش رکھی ہے کہ ہمارے ہاتھ جس کے جسم کو چُھو جائیں ناممکن ہے کہ وہ اور اس کی اولا دیں غیر احمدی رہ جائیں.میں نے دل میں کہا کہ آج تو یہ بے چارہ کچھ شرمندہ ہے کہ اتنے احمدیوں میں میں ایک غیر احمدی آیا ہوں اور کسی دن اس کا سارے کا سارا خاندان احمدی بن کے آئے گا اور کہے گا حضور ! ہمارے خاندان کا ایک ہزار آدمی احمدی ہے.6 اسی طرح مجھے ملاقاتوں میں آج ایک دوست نے بتایا کہ ایک دوست تشریف لائے ہوئے ہیں جو اپنی قوم میں رئیس ہیں، احمدیت کی بہت سی کتب بھی انہوں نے پڑھی ہیں لیکن ان کے دل میں یہ شبہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی تعریف کی ہے.میں مختصر طور پر ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ پہلی تعریف تو قرآن نے کروائی ہے.انگریز آخر فرعون سے تو بدتر نہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جب خدا تعالیٰ نے فرعون کی طرف بھیجا تو فرمایا اے موسیٰ اور اس کے بھائی ہارون! تم دونوں فرعون کے پاس جانا تو فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا.دونوں اس کے ساتھ بڑے ادب اور احترام کے ساتھ باتیں کرنا.تو یہ تو قرآن کا سبق ہے.اگر مرزا صاحب اس پر عمل نہ کرتے تو پھر آپ لوگ کہتے کہ مرزا صاحب نے قرآن کی تعلیم پر عمل نہیں کیا.اب جو قرآن کی تعلیم پر عمل کیا ہے تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ ایسا کیوں کیا ہے.پھر دوسرا اعتراض آپ لوگ یہ کرتے کہ حضرت مسیح ناصرٹی کے سامنے ایک روپیہ پیش کیا گیا اور لوگوں نے کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس وصول کرنا چاہتا ہے کیا ہم دیں یا نہ دیں؟ گاندھی جی نے تحریک کی تھی کہ گورنمنٹ کو ٹیکس نہ دو.انہوں نے بھی یہی چالا کی کی اور حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئے اور ان کو کہا کہ قیصر ہم سے ٹیکس مانگتا ہے دیں کہ نہ دیں ؟ انہوں نے کہا کہ وہ کونسا

Page 63

انوار العلوم جلد 26 11 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء روپیہ تم سے مانگتا ہے؟ انہوں نے روپیہ دکھایا؟ اس پر قیصر کی تصویر تھی.حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے وہ خدا کو دو.7 اس طرح اُن کو جواب دیا اور ٹلا دیا.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انگریزوں کو بُرا کہتے تو پھر آپ کے علماء کہتے کہ یہ اچھا مسیح ہے کہ مسیح نے تو کہا تھا کہ جو قیصر کا ہے وہ قیصر کو دو.اور یہ اس کے خلاف کر رہا ہے.پھر یہ کہ قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے پہلے ان آیتوں کو کیوں نہیں نکالتے ؟ مرزا صاحب پر غصہ ہے قرآن پر غصہ کیوں نہیں آتا.قرآن میں عیسائیوں کی تعریف آئی ہے کہ ان کے دل روحانیت سے بھرے ہوئے ہیں اور ان کی آنکھوں سے خدا کی محبت میں آنسو بہتے ہیں.پھر انگریزوں نے کعبہ پر حملہ کبھی نہیں کیا مگر حبشہ کی حکومت نے مکہ پر حملہ کیا تھا جس کو سورۃ فیل میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحُب الفیل 8 یہ اصحاب الفیل حبشہ کے گورنر کے سپاہی تھے وہاں اُس وقت ابر ہ گورنر تھا.اس ابر ہ نے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تھا لیکن باوجود اس کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے صحابہ کو بلایا اور کہا کہ تم کو آب مکہ میں بڑی تکلیفیں ہیں تم کیوں نہیں اس ملک میں چلے جاتے جو ایک عادل اور نیک بادشاہ کا ملک ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! کون سا ؟ فرمایا حبشہ.تو حبشہ کا بادشاہ وہ تھا جس کے وائسرائے نے کعبہ پر حملہ کیا تھا مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو عادل اور نیک کہا.اگر تم کہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے شک اس کو عادل اور نیک کہا تھا پر آخر میں وہ مسلمان ہو گیا تھا گو پہلے عیسائی تھا.تو میں ان کو جواب دیتا ہوں کہ اِنْشَاء الله انگریز بھی مسلمان ہو جائیں گے.احمدی مبلغ اس لئے باہر نکلے ہوئے ہیں کہ انگریزوں اور امریکنوں اور دوسرے لوگوں کو مسلمان بنا ئیں.آپ لوگ صرف اعتراض کرنا جانتے ہیں.آپ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ مسیح موعود نے انگریزوں کی تعریف کیوں کی.اور احمدی مبلغ انگریزوں اور یورپین لوگوں کے منہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجوار ہے ہیں.مجھے یاد ہے کوئی 1920 ء کی بات ہے ایک دوست نے ایک انگریز نو مسلم کے متعلق مجھے لکھا کہ اُس نے کہا مجھے اسلام سے اتنی عداوت تھی کہ میں جب رات کو سوتا تھا تو

Page 64

انوار العلوم جلد 26 12 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں دے کر سوتا تھا مگر اب کسی رات مجھے نیند نہیں آتی جب تک میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود نہ بھیج لوں.تو اب بتاؤ کہ وہ قابل قدر ہے جس کی قوم دنیا میں جارہی ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجوار ہی ہے یا وہ گاندھی قابلِ قدر ہے جس کے چیلے آج چار کروڑ مسلمانوں کو ہندوستان میں دُکھ دے رہے ہیں؟ دیکھو کس کی پالیسی ٹھیک نکلی.جنہوں نے انگریزوں کا مقابلہ کیا تھا وہ گاندھی اور اس کے چیلے تھے وہ تو آج بھی ہندوؤں کی تعریف کر رہے ہیں اور ہندو ان کو ماررہے ہیں لیکن مسیح موعود جس کو کہا جاتا ہے کہ اس نے انگریزوں کی تعریف کی اس کے چیلے ہر جگہ پر مسیح کی اہنیت اور خدائی کا بطلان کر رہے ہیں اور عیسائیوں کو مسلمان کر رہے ہیں.مجھے یاد ہے میں بچہ تھا سیالکوٹ میں جلسہ ہوا جس میں حضرت صاحب کی تقریر ہوئی.بڑا ہجوم کر کے مسلمان آئے اور انہوں نے کہا کہ پتھر پھینکو اور ان کو خوب مارو.اُس وقت مسٹر بیٹی ایک انگریز ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس تھا بعد میں وہ شاید لاہور میں سپر نٹنڈنٹ پولیس ہو گیا تھا، وہ بھی انتظام کے لئے آیا ہوا تھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریر شروع کی اور لوگوں نے پتھر برسانے شروع کئے تو اُس کو غصہ آ گیا.وہ جگہ جہاں جلسہ ہورہا تھا سرائے تھی ، اُس کی ایک بڑی سی دیوار تھی.اُس دیوار پر وہ گو د کر چڑھ گیا اور کہنے لگا اے مسلمانو! بے غیر تو ! بے حیاؤ! تمہیں شرم نہیں آتی وہ تو ہمارے خدا کو مار رہا ہے تم کیوں اس کے خلاف ہو؟ غصہ تو مجھے آنا چاہیے تھا جس کے خدا کو وہ مارہا ہے تمہیں تو خوش ہونا چاہیے تھا کہ انگریزوں کے خدا کو اس نے مار دیا ہے لیکن بجائے اس کے تم اس پر پتھر پھینک رہے ہو اور میں اس کی حفاظت کے لئے آیا ہوں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انگریزوں کی خوشامد کر کے کیا لیا ؟ انگریزوں کے خدا کو تو ماردیا.مسلمانوں نے اس خدا کو آسمان پر چڑھایا تھا.مرزا صاحب نے آسمان سے اتار کے کشمیر میں دفن کر دیا اور ابھی کہتے ہیں کہ انگریزوں کی خوشامد کی.دیکھو جو بچے کو خوش کرنا چاہے تو وہ اس کے باپ کی تعریف کرتا ہے.اگر واقع میں آپ انگریزوں کی خوشامد کرنا چاہتے تو عیسی کی تعریف کرتے مگر انہوں نے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی جو جھوٹی عزت عیسائیوں نے بنالی تھی

Page 65

انوار العلوم جلد 26 13 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء اُس کی دھجیاں بکھیر دیں اور مسلمانوں نے فتویٰ لگایا کہ یہ میسٹی کی ہتک کرتا ہے.عجیب متضاد خیال ہیں.ایک طرف یہ الزام کہ عیسائیوں کی خوشامد کرتے ہیں اور دوسری طرف علماء کا یہ الزام کہ یہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے.اب دونوں میں سے کس کو سچا ما نہیں؟ اُن کو سچا مانیں جو کہتے ہیں کہ عیسی علیہ السلام کی ہتک کرتا ہے یا ان کو سچا ما نہیں جو کہتے ہیں کہ عیسائیوں کی خوشامد کرتا ہے.وہ خوشامد کیا تھی ؟ یہی تھی کہ اُن کی ملکہ کو اسلام کی تبلیغ کی.اور پھر آپ نے عربی میں ایک قصیدہ شائع کیا اور اس میں دعا کرتے ہوئے لکھا کہ اے خدا ! ان عیسائیوں کی دیوار میں گرادے، ان کے قلعے گرادے، ان کی گڑھیاں 2 گرا دے اور ان کے اوپر آسمان سے وہ عذاب مسلط کر کہ ان کے در و دیوار ہل جائیں.اگر یہ تعریف ہوتی ہے تو تم بھی ذرا کسی مولوی کو کہو کہ وہ اب یہی اعلان کرے جب کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہے.لیکن کسی کو جرات نہیں.صرف اُن باتوں کو لیتے ہیں جن باتوں کو سمجھنے کی قابلیت نہیں اور ان باتوں کو نہیں لیتے جو تعریف کی مستحق تھیں.آخر کسی قوم کی تعریف کیا اس طرح ہو سکتی ہے؟ کیا یہ بھی کوئی تعریف ہوتی ہے کہ خدایا ! ان پر غضب نازل کر.خدایا ! ان کے قلعوں کی دیواریں توڑ دے.اے خدا ! ان پر ایسی قوم کو حاکم بنادے جو ان کو ذلیل اور رسوا کر دے؟ تو انہوں نے تو انگریزی حکومت کے تباہ ہونے کی دعا کی ہے انگریزوں کی تعریف کرنے کے کیا معنے ہوئے.اگر انگریزوں کی تعریف کی ہے تو اس طرح کی ہے جس طرح نجاشی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی.جس طرح مکہ کے بعض سرداروں کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی تھی لیکن نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی اعتراض کرتا ہے اور نہ مسیح ناصری پر اعتراض کرتا ہے جس نے قیصر کی تعریف کی.بس لے دے کے ایک مرزا صاحب کی جان رہ گئی ہے جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسلام کی خدمت میں صرف کر دی.بس ان کی زبانیں اس پر چل جاتی ہیں اس لئے کہ احمدی تھوڑے ہیں.مگر یہ تھوڑے نہیں رہیں گے یہ بڑھیں گے اور پھلیں گے اور اُس وقت تم کو نظر آئے گا کہ تم تھوڑے ہو اور احمدی زیادہ ہیں.اس کے بعد میں دعا کروں گا.آج کل اپنی بیماری کی وجہ سے میرے دل پر اتنا اثر ہے کہ جب کوئی جنازہ آتا ہے یا مسجد میں جنازہ پڑھاتا ہوں تو اُس جنازہ میں اپنے آپ کو بھی اور پیچھے

Page 66

انوار العلوم جلد 26 14 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء جولوگ کھڑے ہوتے ہیں اُن کو بھی شامل کر لیتا ہوں اور پھر ساری جماعت کو شامل کرتا ہوں.مُردوں کو بھی اور زندوں کو بھی کہ کبھی تو وہ مریں گے ہی اور کہتا ہوں کہ اے خدا ! سب مُردوں کو بھی بخش اور ہم زندوں کو بھی بخش دے کہ ہم بھی کسی دن مر کے تیرے سامنے حاضر ہونے والے ہیں.تو مجھ کو بھی اور میرے پیچھے جو جنازہ پڑھ رہے ہیں ان کو بھی اور وہ ساری جماعت جو سارے پاکستان یا ہندوستان یا ہندوستان سے باہر پھیلی ہوئی ہے اور امریکہ اور یورپ میں پھیلی ہوئی ہے اُن سب کو معاف کر اور ان سب کے لئے اپنے فرشتوں کو حکم دے کہ جب وہ مریں تو وہ ان کے استقبال کے لئے آئیں اور ان کو عزت کے ساتھ تیری جنت میں داخل کریں.اور کوئی وقت ایسا نہ آئے جب وہ گھبرائیں.ہر لحظہ اور ہر سیکنڈ تو ان کے ساتھ رہیو اور مرنے کے وقت جوا کیلا ہونے اور تنہائی کا وقت آتا ہے وہ ان پر کبھی نہ آئے بلکہ ہمیشہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح یہ کہتے رہیں کہ اِنَّ الله مَعَنَا 10.خدا ہمارے ساتھ ہے ہم اکیلے کوئی نہیں.ہمارے بیوی بچے اگر چھٹ گئے ہیں تو بیوی بچوں میں کیا طاقت تھی خدا ہم کومل گیا ہے اور وہ ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا سب سے زیادہ قریبی اور سب سے زیادہ ہمارا محبوب ہے.تو ہمیشہ ہر جنازہ میں میں ساری جماعت کو شامل کر لیتا ہوں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے بھی ایک دفعہ جنازہ پڑھایا تو فرمایا آج ساری جماعت جو پیچھے جنازہ پڑھ رہی تھی میں نے ان سب کا بھی جنازہ پڑھ دیا ہے.تو میں نے اس سنت کو دیکھ کر کہا کہ اب تو جماعت بڑی پھیل گئی ہے، اب تو اتنی جماعت نہیں رہی جو پیچھے کھڑی ہوتی.وہ زمانہ تو ایسا تھا کہ تھوڑے احمدی تھے اس لئے اب مجھے چاہیے کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی ہیں اُن ساروں کو جنازہ میں شامل کر لیا کروں تا کہ جب بھی وہ مریں یہ جنازہ کی دعائیں ان کے کام آئیں اور اللہ تعالیٰ ان کا مددگار ہو اور اگلے جہان میں ان کو سکھ اور چین نصیب ہو اور اس دنیا میں ان کی اولاد دین کی خدمت کرنے والی ہو اور دنیا میں چاروں طرف پھیل کر اسلام کی روشنی کو پھیلائے.کل کی تقریر کے متعلق میں نے یہ تجویز کی ہے اور آئندہ کے لئے بھی اِنْشَاءَ اللهُ اِس پر عمل کیا جائے گا کہ ایسی تقریروں کا امتحان لیا جائے گا اور ان پر انعام مقرر ہوا کرے گا.سوچونکہ تقریر دیر سے چھپتی ہے اس لئے میری یہ تجویز ہے کہ تقریر سے پہلے تمام دوست عام طور پر اور

Page 67

انوار العلوم جلد 26 15 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء احمدی دوست خصوصاً پنسل اور کا غذ لیتے آئیں اور نوٹ کر لیں تا کہ جب وہ گھر جائیں تو ان کو چھپنے کا انتظار نہ کرنا پڑے بلکہ اپنے نوٹوں کی مدد سے اسے یاد کر لیں اور جب امتحان ہو تو اس کا امتحان دیں.جب وہ امتحان دیں گے تو جو ان میں سے فرسٹ نکلے گا اُس کو ہم ایک کتاب تذکرہ کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہاموں کی کتاب ہے اور ایک تفسیر کی جلد انعام دیں گے.اور جو سیکنڈ نکلے گا اُس کو ایک تفسیر کی جلد اور ایک سیر روحانی کی جلد دیں گے.اسی طرح جو تھرڈ نکلے گا اُس کو یا کوئی تفسیر کی جلد یا صرف سیر روحانی کی جلد دی جائے گی.اس طرح ہر سال الگ الگ انعام مقرر ہوتے چلے جائیں گے.اس سال میں نے یہ اعلان کر دیا ہے سوجو دوست لکھنا چاہتے ہیں وہ کل اپنے ساتھ پنسل اور کاغذ لے آئیں اور مختصر نوٹ لکھ لیں تا کہ ان کو یاد کر سکیں اور جب جنوری یا فروری میں امتحان لیا جائے تو اس وقت وہ صحیح طور پر جواب دے سکیں اور ان کو انتظار نہ کرنا پڑے کہ تقریر چھپے گی تو ہم امتحان دیں گے اور مضمون ان کے ذہن نشین ہوتا چلا جائے گا.جب پہلے زمانہ میں قادیان میں میں نے یہ کہا تھا تو دوست لکھا کرتے تھے.رات کے وقت جلسہ گاہ میں عجیب نظارہ ہوتا تھا.چاروں طرف دوست اپنے ساتھیوں کو موم بتیاں پکڑا دیتے تھے اور ان کی روشنی میں بیٹھے ہوئے نوٹ لکھتے تھے.اب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بجلی کی روشنی بھی آگئی ہے.اول تو میں بیمار ہوں لمبی تقریر نہیں کر سکتا لیکن اگر رات بھی ہوگئی تو بجلی کی روشنی میں دوست نوٹ لکھ سکتے ہیں.پھر فروری، مارچ میں جب امتحان ہوگا تو اُس وقت ان کو اس کا جواب دینا ہوگا.قادیان میں جلسہ سالانہ کے بعد جب لوگ جاتے تھے تو مجھے کئی دوستوں نے سنایا کہ ہم گھروں میں جا کر اپنی جماعتوں کو وہ تقریریں سناتے تھے تو اس طرح جماعتوں کو بڑی جلدی تقریریں پہنچ جاتی تھیں.اب بھی میں چاہتا ہوں کہ وہ طریق جاری ہو جائے تا کہ جب آپ لوگ جائیں تو اپنے گھروں میں ان نوٹوں کے ذریعہ سے وہ تقریر سنا ئیں اور کہیں کہ یہ تقریر ہم سن کے آئے ہیں.چاہے ہم نے ساری نہیں لکھی پر جتنی لکھی ہے وہ تم سن لو.اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کتاب پیچھے پہنچے گی اور تقریر پہلے پہنچ جائے گی.اور ان لوگوں کو بھی زیادہ سے زیادہ واقفیت

Page 68

انوار العلوم جلد 26 16 افتتاحی تقریر جلسه سالانه 1956ء ان خیالات سے ہوتی جائے گی جو اُن کا امام اس وقت اُن تک پہنچانا چاہتا ہے.اور پھر انعام کی جو عزت ہے اور سلسلہ کی کتابوں میں جو برکت ہے وہ بھی ان کو نصیب ہو جائے گی.اب میں دعا کر دیتا ہوں.باہر سے مختلف مشنوں کی تاریں آئی ہوئی ہیں.امریکہ سے بھی ، یورپ سے بھی اور مشرقی ایشیا سے بھی.اسی طرح انڈونیشیا اور سنگا پور وغیرہ سب جگہ سے تاریں آئی ہیں.اور بورنیو سے بھی تار آئی ہے کہ ہمیں بھی دعاؤں میں یاد رکھا جائے.ہندوستان سے بھی تاریں آئی ہیں اس لئے اپنے ہندوستان کے دوستوں کو بھی دعاؤں میں یاد رکھو.انڈونیشیا کی جماعت کو بھی یاد رکھو اور افریقہ کی جماعتوں کو بھی جومل کر پاکستان کے دوسرے نمبر پر بن جاتی ہیں کیونکہ کئی ممالک ہیں اگر ان کی ساری جماعتیں جمع کی جائیں تو غالباً پاکستان سے دوسرے نمبر پر ہوں.تیسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے اور چوتھے نمبر پر یورپ اور امریکہ کی جماعتیں اور مڈل ایسٹ کی جماعتیں مل کر بنتی ہیں.ان سب جماعتوں کی طرف سے تاریں آئی ہیں.سو سب کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور نصرت کرے.اور اس جلسہ میں بوجہ دُوری کے جو شامل نہیں ہو سکے خدا تعالیٰ اس جلسہ کی برکات اُن کو بھی دے.اور اللہ تعالیٰ رات کو جو اپنے فرشتے تم پر اتارے وہ اُن پر بھی اتارے اور اللہ تعالیٰ کی حفاظت میں وہ آجائیں اور دن دونی اور رات چوگنی ترقی کا نظارہ دیکھیں.اور خدا کرے کہ جو ہمارے ملک میں جماعت ہے اس سے بھی ہزاروں گنا زیادہ وہاں جماعتیں ہوں.اور ہماری جماعت جو یہاں ہے وہ اتنی بڑھ جائے کہ ہندوستان اور پاکستان کے چپہ چپہ پر پھیل جائے اور اس طرح اُن ممالک میں بھی جماعتیں پھیل جائیں.انڈونیشیا سے تار آئی ہے کہ ہمارا جلسہ سماٹرا میں قرار پایا تھا مگر سماٹرا میں بغاوت ہوگئی ہے اور وہاں کے فوجی گورنر نے حکومت خود سنبھال لی ہے.اس لئے ہمیں جلسہ ملتوی کرنا پڑا بلکہ حالات ایسے خطر ناک تھے کہ تار میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہم جہاز میں اُس وقت سماٹرا جانے کے لئے سوار تھے اس وقت تک ہم سب خیریت سے ہیں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم کو آئندہ بھی خیریت سے رکھے.سوان کے لئے بھی جو آئے ہیں.اور ان بھائیوں کیلئے بھی جو نہیں آئے یا نہیں آسکے.اور اپنی مستورات کے لئے بھی کہ جن کو بچوں کی وجہ سے رات کو زیادہ تکلیف پہنچی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ایمان کو اور بھی مضبوط کرے اور

Page 69

انوار العلوم جلد 26 17 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء تکلیف بجائے ان کے لئے ٹھوکر کا موجب ہونے کے ان کے ایمان میں زیادتی کا موجب ہو اور اللہ تعالیٰ اس جلسہ کے بعد ہم کو اتنی جلدی مزید ترقی بخشے کہ لاکھوں لاکھ لوگ احمدیت میں داخل ہوں.اور وہ دن آجائے کہ دشمن کو احمدیوں کی طرف غرور کے ساتھ انگلی اٹھانے کا موقع نہ ملے بلکہ وہ استعجاب اور حیرت کے ساتھ احمدی جماعت کی ترقی کو دیکھے.اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم زیادہ ہوں تو ہمارے دل میں بھی تکبر پیدا نہ ہو.ہم یہ خیال نہ کریں کہ ہم زیادہ اور طاقتور ہیں بلکہ ہم یہ سمجھیں کہ ہم کو زیادہ جھکنے کا حکم ہے، زیادہ خدمت کا حکم ہے اور چپے چپے پر دنیا کے ہر غریب اور امیر کی ہم خدمت کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو سچا مومن بنائے.صرف ظاہری مومن نہ بنائے.اور جتنا جتنا ہم بڑھتے جائیں اتنا ہی ہمارا سر خدا تعالیٰ کے آگے اور اس کے بندوں کی خدمت کے لئے جُھکتا چلا جائے.ایک کشمیر کے دوست کہتے ہیں کہ کشمیر کیلئے بھی دعا کرو کہ کشمیر پر خدا تعالیٰ فضل کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ پہلا آدم آیا اور شیطان نے اسے جنت سے نکال دیا.اب دوسرا آدم آیا ہے تا کہ لوگوں کو پھر جنت میں داخل کرے 11 تو پہلا سیسے کشمیر میں دفن ہوا تھا اب دعا کرو کہ دوسرا سیخ کشمیر میں زندہ ہو.آمین دعا کے بعد فرمایا:.اب میں جاتا ہوں پیچھے جلسہ شروع ہوگا.دوست دعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے کام کی توفیق دے.اس سردی میں میری طبیعت پچھلے سال سے بھی بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور اس کی وجہ یہ تھی کہ جو مضمون میں نے انتخاب کئے وہ اتنے لمبے ہو گئے کہ ان کی لمبائی کا خیال کر کے بھی دل کو گھبراہٹ ہوتی ہے.آخر دوستوں نے کہا کہ اپنے نفس پر جبر کر کے آپ صرف نوٹ پڑھ کر سنا دیں.پس دوست دعا کریں کہ دو دن جو باقی ہیں اور اس کے بعد بھی اللہ تعالیٰ مجھے ایسی صحت عطا کرے کہ میں اپنے خیالات کو اچھی طرح آپ لوگوں کے سامنے ادا کر سکوں.اور آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ ان خیالات کو قبول کر سکیں اور ان پر عمل کر سکیں.اور خدا تعالیٰ کوئی بات میرے منہ سے ایسی نہ نکلوائے جو کچی نہ ہو.اور جب ہر سچ وہ نکلوائے تو کوئی بات ایسی نہ نکلوائے جو آپ کے دل میں جا کر نہ بیٹھ جائے اور فرشتے اس کو آپ کے دلوں میں مستحکم

Page 70

انوار العلوم جلد 26 18 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1956ء طور پر قائم نہ کر دیں.اور پھر ہر سچی بات جو وہ میرے منہ سے نکلوائے اس پیچ پر عمل کرنے کی ہمیشہ ہمیش جماعت کو توفیق عطافرمائے.“ الفضل 17 مارچ 1957ء) 1 بخارى كتاب الجهاد والسير باب ما يُكْرَه مِنَ التَّنَازُعِ وَ الْاِخْتِلَافِ فِي الحرب وعقوبة مَن عَصَى إِمَامَهُ حديث نمبر 3039 صفحہ 502،501 الطبعة الثانية مطبوع رياض 1999ء 2 بخاری کتاب الجهاد والسير باب ما يُكْرَه مِنَ التَّنَازُعِ وَالْاِخْتِلَافِ فِي الحرب و عقوبة من عصى امامه حدیث نمبر 3039 صفحہ 502،501 الطبعة الثانية مطبوعہ ریاض 1919ء میں اللهُ مَوْلَانَا وَ لَا مَوْلَى لَكُمْ“ کے الفاظ ہیں.3 ابراہیم : 25 4: تذکرہ صفحہ 63.ایڈیشن چہارم 2004 ء :5 کورد یه رده : پس ماندہ گاؤں، کم آباد اور معمولی درجہ کا گاؤں، شہر سے دور اور بے رونق.اجاڑ گاؤں جو روشنیوں سے محروم ہو.( اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 15 صفحہ 338 ارد ولغت بورڈ کراچی جون 1994ء) 6: طه : 45 1 متی باب 22 آیت 21 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 8: الفيل: 2 و گڑھیاں ( گڑھی) گڑھ کی تصغیز چھوٹا قلعہ.( اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 16 صفحہ 65.اردو لغت بورڈ کراچی جون 1994ء) 10: التوبة : 40 11: حاشیہ روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 307

Page 71

انوار العلوم جلد 26 19 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پس منظر از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 72

انوار العلوم جلد 26 20 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت

Page 73

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 21 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پس منظر (فرمودہ 27 دسمبر 1956ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) (پہلا حصہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.آج کی تقریر عام طور پر عام مسائل پر ہوا کرتی تھی لیکن اس دفعہ فتنہ کی وجہ سے مجھے اس تقریر کے لئے بھی ایک ایسا موضوع چلنا پڑا جو اس زمانہ میں جماعت احمدیہ کے لئے اس وجہ سے کہ اس کا تعلق خلافتِ احمدیہ سے ہے اور جماعت احمد یہ میں جو لوگ شامل نہیں ان کے لئے اس لیے کہ اس میں ایک اسلامی موضوع بیان ہوا ہے نہایت اہمیت رکھنے والا ہے.اور دوسرے اس لئے بھی میں نے اسے چنا ہے کہ اگر وہ ہمارے اند رفتنہ پیدا ہونے سے خوش ہوتے ہیں تو اور بھی خوش ہو جائیں اور ساری تفصیل اُن کو معلوم ہو جائے.لیکن اس کی تفصیلات اتنی ہوگئی ہیں کہ میں حیران ہوں کہ اس مضمون کو کس طرح بیان کروں.بعض دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ اس کے بعض حصوں میں میں صرف نوٹ پڑھ کر سنادوں.پہلے میری عادت تھی کہ باریک نوٹ چھوٹے کاغذ پر آٹھ یا بارہ صفحے کے لکھے ہوئے ہوتے تھے ، حد سے حد سولہ صفحے کے بعض بہت لمبی لمبی پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقریریں ہوئیں تو اُن میں چوبیس صفحہ کے بھی نوٹ ہوتے تھے لیکن وہ ایسے صفحے ہوتے ہیں کہ ایک فل سکیپ سائز کے کاغذ کے آٹھ صفحے بنتے ہیں.مگر اس دفعہ یہ نوٹ بہت لمبے ہو گئے ہیں.دوستوں نے مشورہ دیا ہے کہ میں وہ نوٹ ہی پڑھ کر سنادوں، گو بعض دوسروں نے کہا ہے کہ آپ پڑھ کر سنا ہی نہیں سکتے ، جب پڑھ ھ کے سنانے

Page 74

انوار العلوم جلد 26 22 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت لگیں گے تو کچھ نہ کچھ اپنی باتیں شروع کر دیں گے اس طرح تقریر لمبی ہو جائے گی.گو یہ ہوسکتا ہے کہ بعض حصے جو رہ جائیں اُن کو بعد میں شائع کر دیا جائے مگر مناسب یہی ہے کہ احباب جو جمع ہوئے ہیں اُن تک مضمون میری زبان سے پہنچ جائے.اس لئے جہاں بھی ایسا موقع آیا کہ مجھے معلوم ہوا کہ مضمون لمبا ہورہا ہے تو میں صرف نوٹ پڑھ کے سنادوں گا تا کہ اس جلسہ میں یہ تقریر کی ختم ہو جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصُّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَسِقُوْنَ 1 اس آیت کے متعلق تمام پچھلے مفترین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت خلافت اسلامیہ کے متعلق ہے.اسی طرح صحابہ کرام رِضْوَانُ اللهِ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ اور کئی خلفائے راشدین بھی اس کے متعلق گواہی دیتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنی کتابوں میں اس آیت کو پیش کیا ہے اور بتایا ہے کہ یہ آیت خلافتِ اسلامیہ کے متعلق ہے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ اے خلافتِ حقہ اسلامیہ پر ایمان رکھنے والے مومنو ! (چونکہ یہاں خلافت کا ذکر ہے اس لئے آمَنُوا میں ایمان لانے سے مراد ایمان بالخلافت ہی ہو سکتا ہے.پس یہ آیت مبائعین کے متعلق ہے، غیر مبائعین کے متعلق نہیں.کیونکہ وہ خلافت پر ایمان نہیں رکھتے ) اے خلافت حقہ اسلامیہ کو قائم رکھنے اور اس کے حصول کے لئے کوشش کرنے والو! تم سے اللہ ایک وعدہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم تم میں سے زمین میں اُسی طرح خلفاء بناتے رہیں گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں کو خلفاء بنایا.اور ہم اُن کے لئے اسی دین کو جاری کریں گے جو ہم نے اُن کے لئے پسند کیا ہے.یعنی جو ایمان اور عقیدہ اُن کا ہے وہی خدا کو پسندیدہ ہے.اور اللہ تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اسی عقیدہ اور طریق کو دنیا میں جاری رکھے گا.اور اگر اُن پر کوئی خوف آیا تو ہم اُس کو تبدیل کر کے امن کی حالت لے آئیں گے.لیکن ہم بھی اُن سے اُمید کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ تو حید کو دنیا میں قائم کریں گے اور شرک نہیں کریں گے.یعنی

Page 75

انوار العلوم جلد 26 23 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت مشرک مذاہب کی تردید کرتے رہیں گے اور اسلام کی توحید حقہ کی اشاعت کرتے رہیں گے.خلافت کے قائم ہونے کے بعد خلافت پر ایمان لانے والے لوگوں نے خلافت کو ضائع کر دیا تو فرماتا ہے مجھ پر الزام نہیں ہوگا.اس لئے کہ میں نے ایک وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے.اس خلافت کے ضائع ہونے پر الزام تم پر ہو گا.میں اگر پیشگوئی کرتا تو مجھ پر الزام ہوتا کہ میری پیشگوئی جھوٹی نکلی.مگر میں نے پیشگوئی نہیں کی بلکہ میں نے تم سے وعدہ کیا ہے اور شرطیہ وعدہ کیا ہے کہ اگر تم مومن پا لخلافت ہو گے اور اس کے مطابق عمل کرو گے تو پھر میں خلافت کو تم میں قائم رکھوں گا.پس اگر خلافت تمہارے ہاتھوں سے نکل گئی تو یا د رکھو کہ تم مومن بالخلافت نہیں رہو گے کا فر بالخلافت ہو جاؤ گے.اور نہ صرف خلفاء کی اطاعت سے نکل جاؤ گے بلکہ میری اطاعت سے بھی نکل جاؤ گے اور میرے بھی باغی بن جاؤ گے.خلافت حقہ اسلامیہ میں نے اس مضمون کا ہیڈ نگ ” خلافتِ حقہ اسلامیہ اس لئے رکھا ہے کہ جس طرح موسوی زمانہ میں خلافت موسویہ یہود یہ دوحصوں کے عنوان کی وجہ میں تقسیم تھی ایک دور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسی السلام تک تھا اور ایک دور حضرت عیسی علیہ السلام سے لے کر آج تک چلا آ رہا ہے.اسی طرح اسلام میں بھی خلافت کے دو دور ہیں.ایک دور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد شروع ہوا اور اُس کی ظاہری شکل حضرت علی پرختم ہوگئی.اور دوسرا دور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول سے شروع ہوا.اور اگر آپ لوگوں میں ایمان اور عمل صالح قائم رہا اور خلافت سے وابستگی پختہ رہی تو انشاء اللہ یہ دور قیامت تک قائم رہے گا.جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کی تشریح میں میں ثابت کر چکا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر ایمان پالخلافت قائم رہا اور خلافت کے قیام کے لئے تمہاری کوشش جاری رہی تو میرا وعدہ ہے کہ تم میں سے ( یعنی مومنوں میں سے اور تمہاری جماعت میں سے ) میں خلیفہ بناتا رہوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کے متعلق احادیث میں تصریح فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں مَا كَانَتْ نُبُوَّةً قَطُّ إِلَّا تَبِعَتُهَا خِلَافَةٌ 20 که هر نبوت کے بعد خلافت ہوتی ہے اور 66

Page 76

انوار العلوم جلد 26 24 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.میرے بعد بھی خلافت ہو گی.اس کے بعد ظالم حکومت ہوگی.پھر جابر حکومت ہوگی یعنی غیر قو میں آکر مسلمانوں پر حکومت کریں گی جو ز بر دستی مسلمانوں سے حکومت چھین لیں گی.اس کے بعد فرماتے ہیں کہ پھر خلافت عَلَى مِنْهَاج النُّبُوَّةِ ہوگی.یعنی جیسے نبیوں کے بعد خلافت ہوتی ہے ویسی ہی خلافت پھر جاری کر دی جائے گی.23 نبیوں کے بعد خلافت کا ذکر قرآن کریم میں دو جگہ آتا ہے.ایک تو یہ ذکر ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام کے بعد خدا تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو خلافت اس طرح دی کہ کچھ ان میں سے موسیٰ علیہ السلام کے تابع نبی بنائے اور کچھ اُن میں سے بادشاہ بنائے 4.اب نبی اور بادشاہ بنانا تو خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے ہمارے اختیار میں نہیں.لیکن جو تیسرا امر خلافت کا ہے اور اس حیثیت سے کہ خدا تعالیٰ بندوں سے کام لیتا ہے ہمارے اختیار میں ہے.چنانچہ عیسائی اس کے لئے انتخاب کرتے ہیں اور اپنے میں سے ایک شخص کو بڑا مذہبی لیڈر بنا لیتے ہیں جس کا نام وہ پوپ رکھتے ہیں.گو پوپ اور پوپ کے متبعین اب خراب ہو گئے ہیں مگر اس سے یہ خیال نہیں کرنا چاہیے کہ پھر اُن سے مشابہت کیوں دی ؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے کہ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ جس طرح پہلے لوگوں کو میں نے خلیفہ بنایا تھا اسی طرح میں تمہیں خلیفہ بناؤں گا.یعنی جس طرح موسیٰ علیہ السلام کے سلسلہ میں خلافت قائم کی گئی تھی اُسی طرح تمہارے اندر بھی اُس حصہ میں جو موسوی سلسلہ کے مشابہ ہو گا میں خلافت قائم کروں گا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیحکومت براہ راست چلے گی.پھر جب مسیح موعود آ جائے گا تو جس طرح مسیح ناصرٹی کے سلسلہ میں خلافت چلائی گئی تھی اسی طرح تمہارے اندر بھی چلاؤں گا.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ موسی کے سلسلہ میں مسیح آیا اور محمدی سلسلہ میں بھی مسیح آیا مگر محمدی سلسلہ کا مسیح پہلے مسیح سے افضل ہے اس لئے وہ غلطیاں جو انہوں نے کیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میسیج محمدی کی جماعت نہیں کرے گی.انہوں نے خدا کو کھلا دیا اور خدا تعالیٰ کو کھلا کر ایک کمزور انسان کو خدا کا بیٹا بنا کر اسے پوجنے لگ گئے.مگر محمدی مسیح نے اپنی جماعت کو شرک کے خلاف بڑی شدت سے تعلیم دی.بلکہ خود قرآن کریم نے کہہ دیا ہے کہ اگر تم خلافت حاصل کرنا چاہتے ہو تو پھر شرک کبھی نہ کرنا اور میری خالص عبادت کو ہمیشہ قائم رکھنا.

Page 77

انوار العلوم جلد 26 b 25 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت جيسا كه يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا میں اشارہ کیا گیا ہے.پس اگر جماعت اس کو قائم رکھے گی تبھی وہ انعام پائے گی.اور اس کی صورت یہ بن گئی ہے که قرآن کریم نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی کہ جس کا ہزارواں حصہ بھی انجیل میں نہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی شرک کے خلاف اتنی تعلیم دی ہے جو حضرت مسیح ناصری کی موجود تعلیم میں نہیں پائی جاتی.پھر آپ کے الہاموں میں بھی یہ تعلیم پائی جاتی ہے.چنانچہ آپ کا الہام ہے خُدُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارِس کے اے مسیح موعود اور اُس کی ذریت ! توحید کو ہمیشہ قائم رکھو.سو اس سلسلہ میں خدا تعالیٰ نے تو حید پر اتنا زور دیا ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے اور قرآنی تعلیم پر غور کرتے ہوئے یہ یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے توحید کامل احمدیوں میں قائم رکھے گا.اور اس کے نتیجہ میں خلافت بھی ان کے اندر قائم رہے گی اور وہ خلافت بھی اسلام کی خدمت گزار ہو گی.حضرت مسیح ناصری کی خلافت کی طرح وہ خود اس کے اپنے مذہب کو تو ڑنے والی نہیں ہوگی.جماعت احمدیہ میں خلافت میں نے بتایا ہے کہ جس طرح قرآن کریم نے کہا ہے کہ خلیفے ہوں گے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی قائم رہنے کی بشارت فرمایا ہے کہ میرے بعد خلیفے ہوں گے.پھر مُلكًا عَاضًا ہوگا.پھر ملک جبریہ ہوگا.اور اُس کے بعد خِلافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ ہوگی.اِسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں الوصیت میں تحریر فر مایا ہے کہ:.” اے عزیز و! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے.سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں.کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اُس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے

Page 78

انوار العلوم جلد 26 26 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگا.یعنی اگر تم سیدھے رستہ پر چلتے رہو گے تو خدا کا مجھ سے وعدہ ہے کہ جو دوسری قدرت یعنی خلافت تمہارے اندر آوے گی وہ قیامت تک منقطع نہیں ہوگی.عیسائیوں کو دیکھو گو جھوٹی خلافت ہی سہی 1900 سال سے وہ اس کو لئے چلے آرہے ہیں.مگر مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خلافت کو ابھی 48 سال ہوئے تو کئی بلیاں چھیچھڑوں کی خواہیں دیکھنے لگیں اور خلافت کو توڑنے کی فکر میں لگ گئیں.پھر فرماتے ہیں کہ : تم خدا کی قدرت ثانیہ کے انتظار میں اکٹھے ہوکر دُعا کرتے رہو.“ سوتم کو بھی چاہیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے ماتحت دعائیں کرتے رہو کہ اے اللہ ! ہم کو مومن بالخلافت رکھیو اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیجیو.اور ہمیں ہمیشہ اس بات کا مستحق رکھیو کہ ہم میں سے خلیفے بنتے رہیں.اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے تا کہ ہم ایک جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوکر اور ایک صف میں کھڑے ہوکر اسلام کی جنگیں ساری دنیا سے لڑتے رہیں اور پھر ساری دنیا کو فتح کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں گرادیں.کیونکہ یہی ہمارے قیام اور مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کی غرض یہ جو میں نے ” قدرت ثانیہ کے معنے خلافت کے کئے قدرت ثانیہ سے تمہارے ہی نہیں بلکہ غیر مبائعین نے بھی اس کو تسلیم کیا ہوا مراد خلافت ہے ہے.چنانچہ خواجہ کمال الدین صاحب لکھتے ہیں:.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیة کے مطابق حسب مشوره معتمدین صدرا جمن احمد یہ موجودہ قادیان و اقرباء حضرت مسیح موعود به اجازت حضرت اماں جان ) گل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اُس وقت بارہ سو تھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو

Page 79

انوار العلوم جلد 26 27 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا.اور آپ کے ہاتھ پر بیعت کی.....یہ خط بطور اطلاع گل سلسلہ کے ممبران کو لکھا جاتا ہے.الخ یہ خط ہے جو انہوں نے شائع کیا.اس میں مولوی محمد علی صاحب، شیخ رحمت اللہ صاحب اور ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب وغیرہ کا بھی انہوں نے ذکر کیا ہے کہ معتمدین میں سے وہ اس موقع پر موجود تھے.اور انہوں نے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کی.سو ان لوگوں نے اس زمانہ میں یہ تسلیم کر لیا کہ یہ جو قدرت ثانیہ کی پیشگوئی تھی یہ خلافت " کے متعلق تھی کیونکہ الوصیۃ میں سوائے اس کے اور کوئی ذکر نہیں کہ تم قدرت ثانیہ کے لئے دعائیں کرتے رہو.اور خواجہ صاحب لکھتے ہیں کہ مطابق حکم الوصیۃ ہم نے بیعت کی.پس خواجہ صاحب کا اپنا اقرار موجود ہے کہ الوصیۃ میں جو پیشگوئی کی گئی تھی وہ ” خلافت کے متعلق تھی اور قدرت ثانیہ سے مراد" خلافت " ہی ہے.پس حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر خواجہ کمال الدین صاحب، مولوی محمد علی صاحب اور ان کو کے ساتھیوں کا بیعت کرنا اور اسی طرح میرا اور تمام خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیعت کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام جماعت احمدیہ نے پالا تفاق خلافتِ احمدیہ کا اقرار کر لیا.پھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد حضرت خلیفہ اول کے تمام خاندان اور جماعت احمدیہ کے ننانوے فیصدی افراد کا میرے ہاتھ پر بیعت کر لینا اس بات کا مزید ثبوت ہوا کہ جماعت احمد یہ اس بات پر متفق ہے کہ خلافت احمدیہ کا سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا.چونکہ اس وقت حضرت خلیفہ اول کے خاندان میں سے آئندہ انتخاب خلافت بعض نے اور اُن کے دوستوں نے خلافتِ احمدیہ کا سوال کے متعلق طریق کار پھر اُٹھایا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ اس مضمون کے متعلق پھر کچھ روشنی ڈالوں اور جماعت کے سامنے ایسی تجاویز پیش کروں جن سے خلافت احمد یہ شرارتوں سے محفوظ ہو جائے.میں نے اس سے پہلے جماعت کے دوستوں کے مشورہ کے بعد یہ فیصلہ کیا تھا کہ خلیفہ وقت کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کی مجلس شوری دوسرا خلیفہ چنے.مگر موجودہ فتنہ نے بتا دیا ہے کہ یہ طریق درست نہیں.کیونکہ بعض لوگوں نے یہ کہا کہ ہم خلیفہ ثانی کے مرنے کے بعد بیعت میاں عبدالمنان کی کریں گے اور

Page 80

انوار العلوم جلد 26 28 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.کسی کی نہیں کریں گے.اس سے پتا لگا کہ ان لوگوں نے یہ سمجھا کہ صرف دو تین آدمی ہی اگر کسی کی بیعت کرلیں تو وہ خلیفہ ہو جاتا ہے.اور پھر اس سے یہ بھی پتا لگا کہ جماعت میں خلفشار پیدا ہو سکتا ہے.چاہے وہ خلفشار پیدا کرنے والا غلام رسول نمبر 35 جیسا آدمی ہو اور خواہ وہ ڈاہڈا جیسا گمنام آدمی ہی ہو.وہ دعوی تو یہی کریں گے کہ خلیفہ چنا گیا ہے.سو جماعت احمدیہ میں پریشانی پیدا ہوگی.اس لئے وہ پرانا طریق جو طول عمل والا ہے میں اس کو منسوخ کرتا ہوں اور اُس کی بجائے میں اُس سے زیادہ قریبی طریقہ پیش کرتا ہوں.بیشک ہمارا دعویٰ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے مگر اس کے باوجود تاریخ کی اس شہادت کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلیفے شہید بھی ہو سکتے ہیں.جس طرح حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی شہید ہوئے.اور خلافت ختم بھی کی جاسکتی ہے جس طرح حضرت حسنؓ کے بعد خلافت ختم ہوگئی.جو آیت میں نے اس وقت پڑھی ہے اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں میں خلافت قائم رکھنے کا اللہ تعالیٰ کا وعدہ مشروط ہے کیونکہ مندرجہ بالا آیت میں یہی بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ خلافت پر ایمان لانے والوں اور اس کے قیام کے لئے مناسب حال عمل کرنے والے لوگوں سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ ان میں خلافت کو قائم رکھے گا.پس خلافت کا ہونا ایک انعام ہے پیشگوئی نہیں.اگر پیشگوئی ہوتا تو حضرت امام حسن کے بعد خلافت کا ختم ہونا نَعُوذُ بِاللهِ قرآن کریم کو جھوٹا قرار دیتا.لیکن چونکہ قرآن کریم نے اس کو ایک مشروط انعام قرار دیا ہے اس لئے اب ہم یہ کہتے ہیں کہ چونکہ حضرت امام حسن کے زمانہ میں عام مسلمان کامل مومن نہیں رہے تھے اور خلافت کے قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش انہوں نے چھوڑ دی تھی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو واپس لے لیا اور با وجود خلافت کے ختم ہو جانے کے قرآن سچا رہا جھوٹا نہیں ہوا.وہی صورت اب بھی ہوگی.اگر جماعت احمد یہ خلافت کے ایمان پر قائم رہی اور اس کے قیام کے لئے صحیح جدو جہد کرتی رہی تو اس میں بھی قیامت تک خلافت قائم رہے گی.جس طرح عیسائیوں میں پوپ کی شکل میں اب تک قائم ہے گو وہ بگڑ گئی ہے.میں نے بتا دیا ہے کہ اس کے بگڑنے کا احمدیت پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا.مگر بہر حال اس فساد سے اتنا پتا لگ جاتا ہے کہ شیطان ابھی مایوس نہیں ہوا.پہلے تو شیطان نے پیغامیوں کی جماعت بنائی.لیکن بیالیس سال کے انتظار کے بعد

Page 81

انوار العلوم جلد 26 29 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.اس باسی کڑھی میں پھر اُبال آیا اور وہ بھی لگے مولوی عبد المنان اور عبدالوہاب کی تائید میں مضمون لکھنے.اور ان میں سے ایک شخص محمد حسن چیمہ نے بھی ایک مضمون شائع کیا ہے کہ ہمارا نظام اور ہمارا سٹیج اور ہماری جماعت تمہاری مدد کے لئے تیار ہے.شاباش ! ہمت کر کے کھڑے رہو.مرزا محمود سے دینا نہیں.اس کی خلافت کے پردے چاک کر کے رکھ دو.ہماری مدد تمہارے ساتھ ہے.کوئی اس سے پوچھے کہ تم نے مولوی محمد علی صاحب کو کیا مدد دے لی تھی ؟ آخر مولوی محمد علی صاحب بھی تو تمہارے لیڈر تھے.خواجہ کمال الدین صاحب بھی لیڈر تھے اُن کی تم نے کیا مدد کر لی تھی جو آج عبدالمنان اور عبد الوہاب کی کرلو گے.پس یہ باتیں محض ڈھکوسلے ہیں.ان سے صرف ہم کو ہوشیار کیا گیا ہے.خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مطمئن نہ ہو جانا اور یہ نہ سمجھنا کہ خدا تعالیٰ چونکہ خلافت قائم کیا کرتا ہے اس لئے کوئی ڈر کی بات نہیں ہے.تمہارے زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہو رہے ہیں اور اسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی فتنے کھڑے ہوئے تھے.اس لئے خلافت کو ایسی طرز پر چلا ؤ جو زیادہ آسان ہو.اور کوئی ایک دو لفنگے اُٹھ کر اور کسی کے ہاتھ پر بیعت کر کے یہ نہ کہہ دیں کہ چلو خلیفہ مقرر ہو گیا ہے.پس اسلامی طریق پر جو کہ میں آگے بیان کروں گا آئندہ خلافت کے لئے میں یہ قاعدہ منسوخ کرتا ہوں کہ شوری انتخاب کرے.بلکہ میں یہ قاعدہ مقرر کرتا ہوں کہ آئندہ جب بھی خلافت کے انتخاب کا وقت آئے تو صدر انجمن احمدیہ کے ناظر اور ممبر اور تحریک جدید کے وکلاء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کے زندہ افراد اور اب نظر ثانی کرتے وقت میں یہ بات بھی بعض دوستوں کے مشورہ سے زائد کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ بھی جن کو فوراً بعد تحقیقات صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ صحابیت کا سرٹیفکیٹ دے دے اور جامعۃ المبشرین کے پرنسپل اور جامعہ احمدیہ کا پرنسپل اور مفتی سلسلہ احمدیہ اور تمام جماعتہائے پنجاب اور سندھ کے ضلعوں کے امیر اور مغربی پاکستان اور کراچی کا امیر اور مشرقی پاکستان کا امیر مل کر اس کا انتخاب کریں.اسی طرح نظر ثانی کرتے وقت میں یہ امر بھی بڑھاتا ہوں کہ ایسے سابق امراء جو دو دفعہ کسی ضلع کے امیر رہے ہوں گوانتخاب کے وقت بوجہ معذوری کے امیر نہ رہے ہوں وہ بھی اس

Page 82

انوار العلوم جلد 26 30 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت لسٹ میں شامل کئے جائیں.اسی طرح ایسے تمام مبلغ جو ایک سال تک غیر ملک میں کام کر آئے ہیں اور بعد میں سلسلہ کی طرف سے اُن پر کوئی الزام نہ آیا ہو.ایسے مبلغوں کی لسٹ شائع کرنا مجلس تحریک کا کام ہوگا.اسی طرح ایسے مبلغ جنہوں نے پاکستان کے کسی ضلع یا صوبہ میں رئیس التبلیغ کے طور پر کم سے کم ایک سال کام کیا ہو.ان کی فہرست بنانا صدرانجمن احمدیہ کے ذمہ ہوگا.مگر شرط یہ ہوگی کہ اگر وہ موقع پر پہنچ جائیں.سیکرٹری شوری تمام ملک میں اطلاع دے دے کہ فوراً پہنچ جاؤ.اس کے بعد جو نہ پہنچے اس کا اپنا قصور ہوگا اور اس کی غیر حاضری خلافت کے انتخاب پر اثر انداز نہیں ہوگی.نہ یہ عذرسنا جائے گا کہ وقت پر اطلاع شائع نہیں ہوئی.یہ ان کا اپنا کام ہے کہ وہ پہنچیں.سیکرٹری شوری کا کام اُن کو لا نا نہیں ہے.اس کا کام صرف یہ ہوگا کہ وہ ایک اعلان کر دے.اور اگر سیکرٹری شوری کہے کہ میں نے اعلان کر دیا تھا تو وہ انتخاب جائز سمجھا جائے گا.ان لوگوں کا یہ کہہ دینا یا ان میں سے کسی کا یہ کہہ دینا کہ مجھے اطلاع نہیں پہنچ سکی اس کی کوئی وقعت نہیں ہوگی نہ قانونا نہ شرعاً.یہ سب لوگ مل کر جو فیصلہ کریں گے وہ تمام جماعت کے لئے قابلِ قبول ہوگا.اور جماعت میں سے جو شخص اس کی مخالفت کرے گا وہ باغی ہو گا.اور جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور مقررہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے میں اُس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے ساتھ ہوگا.اور جو بھی اُس کے مقابل میں کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیا جائے گا اور تباہ کیا جائے گا.کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے.پس چونکہ وہ قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتوں کو پورا کرنے کے لئے کھڑا ہو گا اس لئے اُسے ڈرنا نہیں چاہیے.جب مجھے خلیفہ چنا گیا تھا تو سلسلہ کے بڑے بڑے لیڈر سارے مخالف ہو گئے تھے اور خزانہ میں کل اٹھارہ آنے تھے.اب تم بتاؤ اٹھارہ آنے میں ہم تم کو ایک ناشتہ بھی دے سکتے ہیں؟ پھر خدا تعالیٰ تم کو کھینچ کر لے آیا.اور یا تو یہ حالت تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر صرف بارہ سو آدمی جمع ہوئے تھے اور یا آج کی رپورٹ یہ ہے کہ ربوہ کے آدمیوں کو

Page 83

انوار العلوم جلد 26 31 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ملا کر اِس وقت جلسہ مردانہ اور زنانہ میں پچپن ہزار تعداد ہے.آج رات کو تینتالیس ہزار مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا ہے.بارہ ہزار ر بوہ والے ملالئے جائیں تو پچپن ہزار ہو جاتا ہے.پس عورتوں اور مردوں کو ملا کر اس وقت ہماری تعداد پچپن ہزار ہے.اُس وقت بارہ سو تھی.یہ پچپن ہزار کہاں سے آئے؟ خدا ہی لایا.پس میں ایسے شخص کو جس کو خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالیٰ پر ایمان لا کر کھڑا ہو جائے گا تو متان، وہاب اور پیغامی کیا چیز ہیں اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.جماعت احمدیہ کو حضرت خلیفہ اول کی اولاد سے ہرگز کوئی تعلق نہیں.جماعت احمدیہ کو خدا کی خلافت سے تعلق ہے.اور وہ خدا کی خلافت کے آگے اور پیچھے لڑے گی اور دنیا میں کسی شریر کو جو کہ خلافت کے خلاف ہے خلافت کے قریب بھی نہیں آنے دے گی.اب یہ دیکھ لو.ابھی تم نے گواہیاں سن لی ہیں کہ عبدالوہاب احراریوں کو مل کر قادیان کی خبریں سنایا کرتا تھا اور پھر تم نے یہ بھی سن لیا ہے کہ کس طرح پیغامیوں کے ساتھ ان لوگوں کے تعلقات ہیں.سواگر خدانخواستہ ان لوگوں کی تدبیر کامیاب ہو جائے تو اس کے معنے یہ تھے کہ بیالیس سال کی لڑائی کے بعد تم لوگ احراریوں اور پیغامیوں کے نیچے آجاتے.تم بظاہر اس کو چھوٹی بات سمجھتے ہو لیکن یہ چھوٹی بات نہیں.یہ ایک بہت بڑی بات ہے.اگر خدانخواستہ ان کی سکیم کامیاب ہو جاتی تو جماعت احمدیہ مبائعین ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی.اور اس کے لیڈر ہوتے مولوی صدرالدین اور عبدالرحمن مصری.اور ان کے لیڈر ہوتے مولوی داؤ دغزنوی اور عطاء اللہ شاہ بخاری.اب تم بتاؤ کہ مولوی عطاء اللہ شاہ بخاری اور داؤد غزنوی اگر تمہارے لیڈر ہو جائیں تو تمہارا دنیا میں کوئی ٹھکانہ رہ جائے؟ تمہارا ٹھکانہ تو تبھی رہتا ہے جب مبائعین میں سے خلیفہ ہو اور قرآن مجید نے شرط لگائی ہے منظم کی.یعنی وہ مبائعین میں سے ہونا چاہیے.اس پر کسی غیر مبائع یا احراری کا اثر نہیں ہونا چاہیے.اگر غیر مبالع کا اور احراری کا اثر ہوتو پھر وہ نہ مِنكُمُ ہوسکتا ہے نہ خلیفہ ہوسکتا ہے.پس ایک تو میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ جب بھی وہ وقت آئے آخر انسان کے لئے کوئی دن آنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ابھی میں نے حوالہ سنایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 84

انوار العلوم جلد 26 32 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت حقدار نے بھی اپنی موت کی خبر دی اور فرمایا پریشان نہ ہو کیونکہ خدا تعالیٰ دوسری قدرت ظاہر کرنا چاہتا ہے.سو دوسری قدرت کا اگر تیسرا مظہر وہ ظاہر کرنا چاہے تو اُس کو کون روک سکتا ہے.ہر انسان نے آخر مرنا ہے.مگر میں نے بتایا ہے کہ شیطان نے بتا دیا ہے کہ ابھی اس کا سر نہیں کچلا گیا.وہ ابھی تمہارے اندر داخل ہونے کی اُمید رکھتا ہے."پیغام صلح" کی تائید اور محد حسین چیمہ کا مضمون بتاتا ہے کہ ابھی مارے ہوئے سانپ کی دُم ہل رہی ہے.پس اُس کو مایوس کرنے کے لئے ضروری ہے کہ آئندہ یہ نہ رکھا جائے کہ ملتان اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ اور پشاور سب جگہ کے نمائندے جو پانچ سو کی تعداد سے زیادہ ہوتے ہیں وہ آئیں تو انتخاب ہو.بلکہ صرف ناظروں اور وکیلوں اور مقررہ اشخاص کے مشورہ کے ساتھ اگر وہ حاضر ہوں خلیفہ کا انتخاب ہوگا.جس کے بعد جماعت میں اعلان کر دیا جائے گا اور جماعت اس شخص کی بیعت کرے گی.اس طرح وہ حکم بھی پورا ہو جائے گا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے اور وہ حکم بھی پورا ہو جائے گا کہ وہ ایسا مومنوں کے ہاتھ سے کرتا ہے.در حقیقت خلافت کوئی ڈنڈے کے ساتھ تو ہوتی نہیں.مرضی سے ہوتی ہے.اگر تم لوگ ایک شخص کو دیکھو کہ وہ خلاف قانون خلیفہ بن گیا ہے اور جماعت اس کے ساتھ نہ ہو تو آپ ہی اُس کو نہ آمدن ہوگی نہ کام کر سکے گا ختم ہو جائے گا.اسی لئے یہ کہا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے یہ چیز اپنے اختیار میں رکھی ہے لیکن بندوں کے توسط سے رکھی ہے.اگر صحیح انتخاب نہیں ہوگا تو تم لوگ کہو گے کہ ہم تو نہیں مانتے.جو انتخاب کا طریق مقرر ہوا تھا اُس پر عمل نہیں ہوا.تو پھر وہ آپ ہی ہٹ جائے گا.اور اگر خدا نے اُسے خلیفہ بنایا تو تم فوراً اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہو جاؤ گے جس طرح 1914 ء میں رائے بدلنے پر مجبور ہو گئے تھے.اور جوق در جوق دوڑتے ہوئے اُس کے پاس آؤ گے اور اُس کی بیعتیں کرو گے.مجھے صرف اتنا خیال ہے کہ شیطان کے لئے دروازہ نہ کھلا رہے.اس وقت شیطان نے حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں کو چنا ہے جس طرح آدم کے وقت میں اُس نے درخت حیات کو چنا تھا.اُس وقت بھی شیطان نے کہا تھا کہ آدم! میں تمہاری بھلائی کرنا چاہتا ہوں.میں تم کو اس درخت سے کھانے کو کہتا ہوں کہ جس کے بعد تم کو وہ بادشاہت ملے گی جو کبھی خراب نہیں ہوگی.اور ایسی زندگی ملے گی جو کبھی ختم نہیں ہوگی.سو اب بھی لوگوں کو شیطان نے اسی طرح دھوکا دیا ہے کہ

Page 85

انوار العلوم جلد 26 33 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.لوجی ! حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں کو ہم پیش کرتے ہیں.گو آدم کو دھوکا لگنے کی وجہ موجود تھی تمہارے پاس کوئی وجہ نہیں.کیونکہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیٹوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہوئے ہیں.کیونکہ ان کا دعوی یہی ہے کہ یہ اپنے خاندان میں خلافت رکھنا چاہتے ہیں.خلافت تو خدا اور جماعت احمدیہ کے ہاتھ میں ہے.اگر خدا اور جماعت احمد یہ خاندان بنو فارس میں خلافت رکھنے کا فیصلہ کریں تو یہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹے کون ہیں جو اس میں دخل دیں.خلافت تو بہر حال خدا تعالیٰ اور جماعت احمدیہ کے اختیار میں ہے.اور خدا اگر ساری جماعت کو اس طرف لے آئے گا تو پھر کسی کی طاقت نہیں کہ کھڑا ہو سکے.پس میں نے یہ رستہ بتا دیا ہے.لیکن میں نے ایک کمیٹی بھی بنائی ہے جو عیسائی طریقہ انتخاب پر غور کرے گی کیونکہ قرآن شریف نے فرمایا ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ جس طرح اس نے پہلوں کو خلیفہ بنایا تھا اُسی طرح تم کو بنائے گا.سو میں نے کہا عیسائی جس طرح انتخاب کرتے ہیں اُس کو بھی معلوم کرو.ہم نے اُس کو دیکھا ہے گو پوری طرح تحقیق نہیں ہوئی وہ بہت سادہ طریق ہے.اس میں جو بڑے بڑے علماء ہیں اُن کی ایک چھوٹی سی تعداد پوپ کا انتخاب کرتی ہے اور باقی عیسائی دنیا اسے قبول کر لیتی ہے.لیکن اس کمیٹی کی رپورٹ سے پہلے ہی میں نے چند قواعد تجویز کر دیئے ہیں جو اس سال کی مجلس شوری کے سامنے پیش کر دیئے جائیں گے تاکہ کسی شرارتی کیلئے شرارت کا موقع نہ رہے.یہ قواعد چونکہ ایک ریزولیوشن کی صورت میں مجلس شوری کے سامنے علیحدہ پیش ہوں گے اس لئے اس ریزولیوشن کے شائع کرنے کی ضرورت نہیں.میں نے پُرانے علماء کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں بھی یہی لکھا ہوا پایا ہے کہ تمام صحابہ اور خلفاء اور بڑے بڑے ممتاز فقیہ اس بات پر متفق ہیں کہ یہ خلافت ہوتی تو اجماع کے ساتھ ہے لیکن یہ وہ اجماع ہوتا ہے کہ يَتَيَسَّرَ اِجْتِمَاعُهُمْ ) جن ارباب حل و عقد کا جمع ہونا آسان ہو.یہ مراد نہیں کہ اتنا بڑا اجتماع ہو جائے کہ جمع ہی نہ ہو سکے اور خلافت ہی ختم ہو جائے بلکہ ایسے لوگوں کا اجتماع ہوگا جن کا جمع ہونا آسان ہو.سو میں نے ایسا ہی اجماع بنا دیا ہے جن کا جمع ہونا آسان ہے.اور اگر ان میں سے کوئی نہ پہنچے تو میں نے کہا

Page 86

انوار العلوم جلد 26 34 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہے کہ اُس کی غلطی سمجھی جائے گی.انتخاب بہر حال تسلیم کیا جائے گا.اور ہماری جماعت اس انتخاب کے پیچھے چلے گی.مگر جماعت کو میں یہ کم نہیں دیتا بلکہ اسلام کا بتایا ہوا طریقہ بیان کر دیتا ہوں تا کہ وہ گمراہی سے بچ جائیں.ہاں جہاں میں نے خلیفہ کی تجویز بتائی ہے وہاں یہ بھی شریعت کا حکم ہے کہ جس شخص کے متعلق کوئی پرو پیگنڈا کیا جائے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتا یا جن لوگوں کے متعلق پرو پیگنڈا کیا جائے وہ خلیفہ نہیں ہو سکتے.یا جس کو خود تمنا ہو رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اُس کو وہ مقام نہ دیا جائے.تو حضرت خلیفہ اول کی موجودہ اولاد بلکہ بعض پوتوں تک نے چونکہ پرو پیگنڈا میں حصہ لیا ہے اس لئے حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں یا اُن کے پوتوں کا نام ایسے انتخاب میں ہرگز نہیں آسکے گا.ایک تو اس لئے کہ انہوں نے پروپیگنڈا کیا ہے اور دوسرے اس لئے کہ اس بناء پر اُن کو جماعت سے خارج کیا گیا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خواب بھی بتاتی ہے کہ اس خاندان میں صرف ایک ہی پھانک خلافت کی جانی ہے.اور ”پیغام صلح نے بھی تسلیم کر لیا ہے کہ اس سے مراد خلافت کی پھانک ہے 10.پس میں نفی کرتا ہوں حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی اور ان کے پوتوں تک کی یا تمام ایسے لوگوں کی جن کی تائید میں پیغامی یا احراری ہوں یا جن کو جماعت مبائعین سے خارج کیا گیا ہو.اور اثبات کرتا ہوں منگم کے تحت آنے والوں کا یعنی جو خلافت کے قائل ہوں.چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جسمانی ذریت ہوں یا روحانی ذریت ہوں.تمام علماء سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود کی روحانی ذریت ہیں اور جسمانی ذریت تو ظاہر ہی ہوتی ہے انکا نام خاص طور پر لینے کی ضرورت نہیں.یہ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے بیٹوں کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے.اب روحانی ذریت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دس لاکھ ہے اور جسمانی ذریت میں سے اس وقت صرف تین فرد زندہ ہیں ایک داماد کو شامل کیا جائے تو چار بن جاتے ہیں.اتنی بڑی جماعت کیلئے میں یہ کہ رہا ہوں کہ ان میں سے کوئی خلیفہ ہو.اس کا نام اگر یہ رکھا جائے کہ میں اپنے فلاں بیٹے کو کرنا چاہتا ہوں تو ایسے قائل سے بڑا گدھا اور کون ہوسکتا ہے.میں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت جسمانی کے چار افراد اور دس لاکھ اِس وقت تک کی روحانی ذریت کو خلافت کا مستحق قرار دیتا ہوں ( جو مکن

Page 87

انوار العلوم جلد 26 35 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہے میرے مرنے تک دس کروڑ ہو جائے) سو جو شخص کہتا ہے کہ اس دس کروڑ میں سے جو خلافت پر ایمان رکھتے ہوں کسی کو خلیفہ چن لو اس کے متعلق یہ کہنا کہ وہ اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہے نہایت احمقانہ دعویٰ ہے.میں صرف یہ شرط کرتا ہوں کہ مِنكُمْ کے الفاظ کو مد نظر رکھتے ہوئے کوئی خلیفہ چنا جائے.اور چونکہ حضرت خلیفہ اول کی نسل نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ پیغامیوں کے ساتھ ہیں اور پیغامی ان کے ساتھ ہیں اور احراری بھی ان کے ساتھ ہیں اور غزنوی خاندان جو کہ سلسلہ کے ابتدائی دشمنوں میں سے ہے اُن کے ساتھ ہے اس لئے وہ مِنْكُم نہیں رہے.ان میں سے کسی کا خلیفہ بننے کے لئے نام نہیں لیا جائے گا.اور یہ کہہ دینا کہ ان میں سے خلیفہ نہیں ہوسکتا یہ اس بات کے خلاف نہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.سوال یہ ہے کہ جب خلیفہ خدا بناتا ہے تو ان کے منہ سے وہ باتیں جو خلافت کے خلاف ہیں کہلوائیں کس نے ؟ اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کے منہ سے یہ باتیں کیوں کہلواتا ؟ اگر خدا چاہتا کہ وہ خلیفہ بنیں تو اُن کی یہ باتیں مجھ تک کیوں پہنچا دیتا؟ جماعت تک کیوں پہنچا دیتا؟ یہ باتیں خدا کے اختیار میں ہیں اس لئے ان کے نہ ہونے سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے.اور جماعت احمدیہ مبائعین میں سے کسی کا خلیفہ ہونا بھی بتاتا ہے کہ خدا خلیفہ بناتا ہے.دونوں باتیں یہی ثابت کرتی ہیں کہ خدا ہی خلیفہ بناتا ہے.بہر حال جو بھی خلیفہ ہو گا وہ منگھ ہو گا.یعنی وہ خلافت احمدیہ کا قائل ہو گا اور جماعت مبائعین میں سے نکالا ہوا نہیں ہوگا.اور میں یہ بھی شرط کرتا ہوں کہ جو بھی خلیفہ پچنا جائے وہ کھڑے ہو کر یہ قسم کھائے کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا.اور اسلام کی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کیلئے انتہائی کوشش کرتا رہوں گا.اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا.اور اگر میں بدنیتی سے کہہ رہا ہوں یا اگر میں دانستہ ایسا کرنے میں کوتا ہی کروں تو خدا کی مجھ پر لعنت ہو.جب وہ یہ قسم کھالے گا تو پھر اس کی بیعت کی جائے گی اس سے پہلے نہیں کی جائے گی.اسی طرح منتخب کرنے والی جماعت میں سے ہر شخص حلفیہ اعلان کرے کہ میں خلافت احمدیہ کا قائل ہوں اور کسی ایسے شخص کو ووٹ نہیں دوں گا جو جماعت مبائعین میں سے خارج ہو یا اس کا تعلق غیر مبائعین یا غیر احمدیوں سے ثابت ہو.غرض پہلے

Page 88

انوار العلوم جلد 26 36 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت مقررہ اشخاص اُس کا انتخاب کریں گے.اس کے بعد وہ یہ قسم کھائے گا کہ میں خلافتِ احمد یہ حقہ پر ایمان رکھتا ہوں اور میں ان کو جو خلافتِ احمدیہ کے خلاف ہیں جیسے پیغامی یا احراری و غیرہ باطل پر سمجھتا ہوں.اب ان لوگوں کو دیکھ لو.ان کے لئے کس طرح موقع تھا.میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں کہا کہ صراط مستقیم پر چلنے سے سب باتیں حل ہو جاتی ہیں.یہ لوگ بھی صراط مستقیم پر چلیں.اور اس کا طریق یہ ہے کہ پیغامی میرے متعلق کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک کر رہا ہے.یہ اعلان کر دیں کہ پیغامی جھوٹے ہیں.ہمارا پچھلا میں سالہ تجربہ ہے کہ پیغامی ہتک کرتے چلے آئے ہیں.اور مبائعین نہیں کرتے رہے.مبائعین صرف دفاع کرتے رہے ہیں.مگر باوجود اس کے ان کو توفیق نہیں ملی اور یوں معافی نامے چھاپ رہے ہیں.ڈرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ اعلان کیا تو ہمارا اڈہ جو غیر مبائعین کا ہے اور ہمارا اڈہ جو احراریوں کا ہے وہ ٹوٹ جائے گا.سو اگر اڈہ بنانے کی فکر نہ ہوتی تو کیوں نہ یہ اعلان کرتے.مگر یہ اعلان کبھی نہیں کیا.چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ عبدالمنان نے اُن سے کہا ہم اس لئے لکھ کر نہیں بھیجتے کہ پھر جرح ہوگی کہ یہ لفظ کیوں نہیں لکھا ، وہ لفظ کیوں نہیں لکھا.حالانکہ اگر دیانتداری ہے تو بیشک جرح ہو حرج کیا ہے.جو شخص حق کے اظہار میں جرح سے ڈرتا ہے تو اس کے صاف معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ حق کو چھپانا چاہتا ہے اور حق کے قائم ہونے کے مخالف ہے.غرض جب تک شوری میں معاملہ پیش ہونے کے بعد میں اور فیصلہ نہ کروں اوپر کا فیصلہ جاری رہے گا.تمہیں خوشی ہو کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت چلی تھی واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ تمہارے اندر بھی اُسی طرح چلے گی.مثلاً حضرت ابو بکر کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہوئے.میرا نام عمر نہیں بلکہ محمود ہے مگر خدا کے الہام میں میرا نام فضل عمر رکھا گیا اور اس نے مجھے دوسرا خلیفہ بنادیا.جس کے معنے یہ تھے کہ یہ خدائی فعل تھا.خدا چاہتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت بالکل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی خلافت کی طرح ہو.میں جب خلیفہ ہوا ہوں تو ہزارہ سے ایک شخص آیا.اُس نے کہا کہ میں نے خواب دیکھی تھی

Page 89

انوار العلوم جلد 26 37 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کہ میں حضرت عمرؓ کی بیعت کر رہا ہوں تو جب میں آیا تو آپ کی شکل مجھے نظر آئی.اور دوسرے میں نے حضرت عمرؓ کو خواب میں دیکھا کہ اُن کے بائیں طرف سر پر ایک داغ تھا.میں جب انتظار کرتا ہوا کھڑا رہا آپ نے سر کھلایا اور پگڑی اُٹھائی تو دیکھا کہ وہ داغ موجود تھا.اس لئے میں آپ کی بیعت کرتا ہوں.پھر ہم نے تاریخیں نکالیں تو تاریخوں میں بھی مل گیا کہ حضرت عمرؓ کو بائیں طرف خارش ہوئی تھی اور سر میں داغ پڑ گیا تھا.سونام کی تشبیہ بھی ہوگئی اور شکل کی تشبیہہ بھی ہوگئی.مگر ایک تشبیہہ نئی نکلی ہے.وہ میں تمہیں بتا تا ہوں اس سے تم خوش ہو جاؤ گے.وہ یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے جب اپنی عمر کا آخری حج کیا تو اُس وقت آپ کو یہ اطلاع ملی کہ کسی نے کہا ہے حضرت ابو بکر کی خلافت تو اچانک ہو گئی تھی یعنی حضرت عمر اور حضرت ابو عبیدہ نے آپ کی بیعت کر لی تھی.پس صرف ایک یا دو بیعت کرلیں تو کافی ہو جاتا ہے اور وہ شخص خلیفہ ہو جاتا ہے.اور ہمیں خدا کی قسم ! اگر حضرت عمر فوت ہو گئے تو ہم صرف فلاں شخص کی بیعت کریں گے اور کسی کی نہیں کریں گے.11 جس طرح غلام رسول نمبر 35 اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ خلیفہ ثانی فوت ہو گئے تو ہم صرف عبد المنان کی بیعت کریں گے.دیکھو! تو یہ بھی حضرت عمرؓ سے مشابہت ہوگئی.حضرت عمر کے زمانہ میں بھی ایک شخص نے قسم کھائی تھی کہ ہم اور کسی کی بیعت نہیں کریں گے فلاں شخص کی کریں گے.اس وقت بھی غلام رسول نمبر 35 اور اس کے بعض ساتھیوں نے یہی کہا ہے.جب حضرت عمر کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے یہ نہیں کیا جیسے مولوی علی محمد اجمیری نے شائع کیا تھا کہ آپ پانچ وکیلوں کا ایک کمیشن مقرر کریں جو تحقیقات کرے کہ بات کون سی سچی ہے.حضرت عمر نے ایک وکیل کا بھی کمیشن مقرر نہیں کیا اور کہا میں کھڑے ہو کر اس کی تردید کروں گا.بڑے بڑے صحابہ اُن کے پاس پہنچے اور انہوں نے کہا حضور ! یہ حج کا وقت ہے اور چاروں طرف سے لوگ آئے ہوئے ہیں، ان میں بہت سے جاہل بھی ہیں ان کے سامنے اگر آپ بیان کریں گے تو نہ معلوم کیا کیا باتیں باہر مشہور کریں گے.جب رینہ میں جائیں تو پھر بیان کریں.چنانچہ جب حضرت عمر حج سے واپس آئے تو مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر کھڑے ہو گئے اور کھڑے ہو کر کہا کہ اے لوگو! مجھے خبر ملی ہے کہ تم میں سے کسی نے کہا ہے کہ ابو بکر کی بیعت تو ایک اچانک واقعہ تھا اب اگر عمر مر جائے تو ہم

Page 90

انوار العلوم جلد 26 38 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت سوائے فلاں شخص کے کسی کی بیعت نہیں کریں گے.پس کان کھول کر سن لو کہ جس نے یہ کہا تھا کہ ابو بکر کی بیعت اچانک ہو گئی تھی اُس نے ٹھیک کہا ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس جلد بازی کے فعل کے نتیجہ سے بچالیا.اور یہ بھی یاد رکھو کہ تم میں سے کوئی شخص ابوبکر کی مانند نہیں جس کی طرف لوگ دُور دُور سے دین اور روحانیت سیکھنے کیلئے آتے تھے 12.پس اس وہم میں نہ پڑو کہ ایک دو آدمیوں کی بیعت سے بیعت ہو جاتی ہے اور آدمی خلیفہ بن جاتا ہے.کیونکہ اگر جمہور مسلمانوں کے مشورہ کے بغیر کسی شخص نے کسی کی بیعت کی تو نہ بیعت کرنے والے کی بیعت ہوگی اور نہ وہ شخص جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ ہو جائے گا بلکہ دونوں اس بات کا خطرہ محسوس کریں گے کہ سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں اور ان کا کیا کرایا اکارت ہو جائے گا.حالانکہ ابوبکر کی بیعت صرف اس خطرہ سے کی گئی تھی کہ مہاجرین اور انصار میں فتنہ پیدا نہ ہو جائے.مگر اس کو خدا تعالیٰ نے قائم کر دیا.پس وہ خدا کا فعل تھا.نہ کہ اس سے یہ مسئلہ نکلتا ہے کہ کوئی ایک دو شخص مل کر کسی کو خلیفہ بنا سکتے ہیں.پھر علامہ رشید رضا نے احادیث اور اقوال فقہاء سے اپنی کتاب ”الخلافہ“ میں لکھا ہے کہ خلیفہ وہی ہوتا ہے جس کو مسلمان مشورہ سے اور کثرتِ رائے سے مقرر کریں.مگر آگے چل کر وہ علامہ سعد الدین تفتازانی مصنف شرح المقاصد اور علامہ نووی وغیرہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی اکثریت کا جمع ہونا وقت پر مشکل ہوتا ہے.پس اگر جماعت کے چند بڑے آدمی جن کا جماعت میں رسوخ ہو کسی آدمی کی خلافت کا فیصلہ کریں اور لوگ اُس کے پیچھے چل پڑیں تو ایسے لوگوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور سب مسلمانوں کا اجتماع سمجھا جائے گا اور یہ ضروری نہیں ہو گا کہ دنیا کے سب مسلمان اکٹھے ہوں اور پھر فیصلہ کریں 13.اسی بناء پر میں نے خلافت کے متعلق مذکورہ بالا قاعدہ بنایا ہے جس پر پچھلے علماء بھی متفق ہیں.محدثین بھی اور خلفاء بھی متفق ہیں.پس وہ فیصلہ میرا نہیں بلکہ خلفائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور صحابہ کرام کا ہے اور تمام علمائے امت کا ہے جن میں حنفی ، شافعی ، وہابی سب شامل ہیں.وہ کہتے ہیں کہ بڑے آدمی سے مراد یہ ہے کہ جو بڑے بڑے کاموں پر مقرر ہوں جیسے ہمارے ناظر ہیں اور وکیل ہیں.اور قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی مومنوں کی جماعت کو مخاطب کیا گیا ہے وہاں مراد ایسے ہی لوگوں

Page 91

انوار العلوم جلد 26 39 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کی جماعت ہے نہ کہ ہر فرد بشر.یہ علامہ رشید کا قول ہے کہ وہاں بھی یہ مراد نہیں کہ ہر فرد بشر بلکہ مراد یہ ہے کہ ان کے بڑے بڑے آدمی 14 پس صحابہ ، احادیث رسول اور فقہائے امت اس بات پر متفق ہیں کہ خلافت مسلمانوں کے اتفاق سے ہوتی ہے مگر یہ نہیں کہ ہر مسلمان کے اتفاق سے بلکہ اُن مسلمانوں کے اتفاق سے جو مسلمانوں میں بڑا عہدہ رکھتے ہوں یا رسوخ رکھتے ہوں.اور اگر ان لوگوں کے سوا چند او باش مل کر کسی کی بیعت کر لیں تو نہ وہ لوگ مبائع کہلائیں گے اور نہ جس کی بیعت کی گئی ہے وہ خلیفہ کہلائے گا.15 اب خلافت حقہ اسلامیہ کے متعلق میں قرآنی اور احادیثی تعلیم بھی بتا چکا ہوں اور وہ قواعد بھی بیان کر چکا ہوں جو آئندہ سلسلہ میں خلافت کے انتخاب کیلئے جاری ہوں گے.چونکہ انسانی زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا.نہ معلوم میں اُس وقت تک رہوں یا نہ رہوں اس لئے میں نے اوپر کا قاعدہ تجویز کر دیا ہے تا کہ جماعت فتنوں سے محفوظ رہے.“ (ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈر بوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ )

Page 92

انوار العلوم جلد 26 40 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت (دوسرا حصہ) دوسرے حصہ تقریر نظام آسمانی کی مخالفت اور اُس کا پس منظر بیان کرنے سے قبل متفرق امور کی بابت حضور نے فرمایا:- تقریر سے پہلے میں چند باتیں تمہیدی طور پر سلسلہ کے کام کے متعلق بیان متفرق امور کرنا چاہتا ہوں.ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کل میں نے کہا تھا کہ تقریر کا امتحان لیا جائے گا.میرے پاس بعض لڑکیوں کی طرف سے یہ شکایت پہنچی ہے کہ سننے والے مردوں میں تو علماء بھی ہوں گے ہمارا ان کے ساتھ کیا مقابلہ ہے اس لئے آپ مختلف گروپ مقرر کریں.چنانچہ ان کی یہ بات مجھے ٹھیک معلوم ہوئی.اس لئے اب میں نئے گروپ یہ مقرر کرتا ہوں کہ چار امتحان ہوں گے.ایک 25 سال سے نیچے کی عمر والے مردوں کا اور ایک 25 سال سے اوپر والے مردوں کا.اسی طرح ایک 25 سال سے نیچے عمر والی لڑکیوں کا اور ایک 25 سال سے اوپر عمر والی عورتوں کا.اس طرح کوئی شکایت نہیں رہے گی اور ہر عمر اور طبقہ کے آدمی اپنے اپنے میدان میں آسکیں گے اور ہر ایک کو اس میں تین انعام ملیں گے.گویا اس طرح 12 انعام ہو جائیں گے.6 عورتوں کے ہو جائیں گے اور 6 مردوں کے ہو جائیں گے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عام طور پر ہمارے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ تحریک جدید میں صرف پانچ سات مبلغ کام کر رہے ہیں اس لئے جماعت والے سمجھتے نہیں کہ یہ لاکھوں لاکھ چندہ ہم سے کیوں مانگا جاتا ہے.میں نے آج مبلغین کی لسٹ بنوائی ہے.دیکھو انگلستان میں دو مبلغ کام کر رہے ہیں، سوئٹزرلینڈ میں ایک مبلغ کام کر رہا ہے.جرمنی میں دو مبلغ کام کر رہے ہیں.ہالینڈ میں دو مبلغ کام کر رہے ہیں.سکنڈے نیویا میں ایک کام کر رہا ہے.سپین میں ایک کام کر رہا ہے.امریکہ میں پانچ کام کر رہے ہیں جن میں سے ایک جرمن بھی ہے.ٹرینیڈاڈ میں ایک کام کر رہا ہے.گریناڈا جو ٹرینیڈاڈ کے پاس ایک جزیرہ ہے اس میں ایک مبلغ ہے جو انگریز ہے.سیرالیون میں آٹھ مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی تین ہیں.

Page 93

انوار العلوم جلد 26 41 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت گولڈ کوسٹ میں اٹھہتر مبلغ کام کر رہے ہیں.جن میں سے پاکستانی پانچ ہیں اور مقامی جہتر ہیں.نائیجریا میں چھ مبلغ کام کر رہے ہیں.مشرقی افریقہ میں ہیں مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں پاکستانی سات ہیں اور مقامی تیرہ ہیں.شام میں ایک کام کر رہا ہے.مصر میں ایک پاکستانی ہے.اسرائیل میں ایک پاکستانی ہے.ماریشس میں دو پاکستانی ہیں مقامی ایک ہے.لبنان میں ایک پاکستانی ہے.سیلون میں دو مبلغ ہیں جن میں سے ایک پاکستانی ہے اور ایک مقامی ہے.برما میں ایک پاکستانی ہے.سنگا پور میں تین مبلغ ہیں جن میں سے پاکستانی دو ہیں اور مقامی ایک ہے.برٹش نارتھ بور نیبو میں دو مبلغ کام کر رہے ہیں جو دونوں پاکستانی ہیں.انڈونیشیا میں دس مبلغ کام کر رہے ہیں جن میں سے چار پاکستانی ہیں اور مقامی چھ ہیں.مسقط میں ایک ہے جو پاکستانی ہے.لائبیریا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے.ڈچ گی آنا میں ایک ہے جو پاکستانی ہے.یہ سارے 155 ہیں.ان میں وہ مبلغین شامل نہیں جو باہر کام کرتے تھے لیکن اس وقت چھٹی پر ہیں ایسے مبلغین کی تعداد 23 ہے.ان ساروں کو ملا کر یہ لسٹ 178 کی بن جاتی ہے.آپ لوگ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ پانچ چھ آدمی ہیں اور باہر تنگ سے تنگ اور ادنیٰ سے ادنی گزارہ بھی بیس پونڈ ماہوار میں ہوتا ہے.اگر دس پونڈ بھی فرض کر لیں تو 178 مبلغین کا خرچ 1780 پونڈ بن جاتا ہے اور اگر ہمیں پونڈ خرچ ہو تو 3560 پونڈ بن جاتا ہے.مشنوں کے کرائے اور ان کے دوروں کے اخراجات اور لٹریچر کی اشاعت یہ ساری رقم مل کر کم سے کم بارہ ہزار پونڈ بن جاتی ہے.اور پھر مرکزی اخراجات علیحدہ ہیں اور آنے جانے کے کرائے الگ ہیں.یہ سارا خرچ ملا کر قریباً بیس ہزار پونڈ بنتا ہے اور بیس ہزار پونڈ تین لاکھ روپیہ کے قریب بن جاتا ہے.اور پھر قرآن مجید کی اشاعت ہے اور دوسری اشاعتیں ہیں یہ ساری مل کر پانچ چھ لاکھ روپیہ سالانہ کا خرچ بن جاتا ہے.آپ لوگ خیال کر لیتے ہیں پانچ چھ مبلغ ہیں.پانچ چھ مبلغ نہیں بلکہ ہمارے مبلغ خدا کے فضل سے 178 ہیں جو اس وقت کام کر رہے ہیں اور ابھی بہت سے مبلغ تیار ہورہے ہیں.اگر یہ نے مبلغ باہر ملکوں میں گئے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ سات سو مبلغ کام کرنے والے ہو جائیں گے اور ابھی انڈیا کے مبلغ ہم نے نہیں لئے.یہ سارے ملا کر ایک بہت بڑی تعداد بن

Page 94

انوار العلوم جلد 26 جاتی ہے.42 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اس سال سلسلہ نے مکہور کا میں جو سیرالیون میں ایک جگہ ہے ایک شاندار مسجد تعمیر کی ہے جس پر پانچ سو پاؤنڈ خرچ ہو چکا ہے یعنی سات ہزار روپیہ.اور ابھی تین سو پاؤنڈ اور خرچ ہوگا اور اس طرح دس ہزار روپیہ خرچ ہو جائے گا.مشرقی افریقہ میں دارالسلام میں ایک عالیشان مسجد تعمیر ہورہی ہے اور دار التبلیغ تعمیر ہورہا ہے.انڈونیشیا میں پاڈانگ میں ایک مسجد تیار ہو رہی ہے جس پر اڑھائی تین لاکھ روپیہ خرچ کا اندازہ ہے.اسی طرح جاوا، سماٹرا ، سولاویسی 16 (سیلبس ) میں چارنئی مساجد قائم کی گئی ہیں.جرمنی میں ہیمبرگ میں مسجد کے لئے زمین خریدی جا چکی ہے پلان کی منظوری آ جائے تو کام شروع ہو جائے گا.لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کی گورنمنٹ ہم کو ایکسچینچ دے.ابھی تک انہوں نے منظور نہیں کیا.جب وہ منظور ہو جائے گا تو وہ کام بھی شروع ہو جائے گا.اس مسجد پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ کے قریب خرچ ہوگا (جس میں سے چوبیس ہزار جمع ہو چکا ہے) سوا لاکھ کے قریب ابھی اور روپیہ چاہیے.عورتوں نے ہالینڈ کی مسجد کا چندہ اپنے ذمہ لیا تھا مگر اس پر بجائے ایک لاکھ کے جو میرا اندازہ تھا ایک لاکھ چوہتر ہزار روپیہ خرچ ہوا.اٹھہتر ہزار اُن کی طرف سے چندہ آیا تھا گویا ابھی چھیانوے ہزار باقی ہے.پس عورتوں کو بھی میں کہتا ہوں کہ وہ چھیانوے ہزار روپیہ جلد جمع کریں تاکہ مسجد ہالینڈ ان کی ہو جائے.مسجد ہالینڈ کا نقشہ بن کر آ گیا ہے جس میں بجلی بھی لگی ہوئی ہے اور مسجد خوب نظر آ جاتی ہے.لجنہ اماءاللہ نے اس کا بھی چندہ رکھا ہے اور فیصلہ کیا ہے کہ دو آنے کا ٹکٹ ضرور لیں.زیادہ کی توفیق ہو تو زیادہ کا ٹکٹ لے کر مسجد دیکھ لیں جس کا نقشہ بن کر آیا ہے اور انہوں نے اس کے اندر بجلی کا بھی انتظام کیا ہوا ہے.بجلی سے اندر روشنی ہو جاتی ہے اور پتا لگ جاتا ہے کہ وہ کیسی شاندار مسجد ہے.مگر ہمارے پروفیسر ٹلٹاک جو جرمنی کے ایک پروفیسر ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ہیمبرگ کی مسجد کا جو ہمارے ذہن میں نقشہ ہے وہ ہالینڈ کی مسجد سے زیادہ شاندار ہوگا.نے مشن بھی ہم خدا کے فضل سے کھول رہے ہیں اور ان کے ساتھ مبلغ بھی بڑھیں گے.

Page 95

انوار العلوم جلد 26 43 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت مثلاً مشرقی افریقہ سے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ جنوبی روڈ یشیا ( یہ افریقہ کے ساحل پر ایک بہت بڑا علاقہ ہے ) اور نیا سا لینڈ (Nyasaland ) اور بلجیئن کا نگو 17 میں ہمارے سواحیلی اخبار اور سواحیلی ترجمہ قرآن مجید بھجوائے گئے تھے وہاں لوگ بکثرت احمدیت کی طرف مائل ہورہے ہیں اور بلجیئن کانگو کے متعلق یہ اطلاع ملی ہے کہ وہاں سینکڑوں احمدی ہو چکے ہیں اور ان ملکوں کے لوگوں نے مبلغین کا مطالبہ کیا ہے.فلپائن جو امریکہ کے ماتحت ایک علاقہ ہے اور نہایت اہم ہے پہلے یہاں مسلمان آبادی تھی سارا علاقہ مسلمان تھا اور ترکوں اور عربوں کے ماتحت تھا (اب آزاد ہو چکا ہے ) سپین نے اس کو فتح کیا اور جس طرح سپین نے اپنے ملک سے مسلمانوں کو نکال دیا تھا اُسی طرح فلپائن پر حملہ کر کے اُس نے اِس کو فتح کیا اور تلوار کے نیچے گرد نہیں رکھ کر سب سے اقرار کروایا کہ ہم مسلمان نہیں عیسائی ہیں.تمہاری غیرت کا تقاضا تھا کہ تم وہاں جاؤ.سپین کے متعلق بھی تمہاری غیرت کا تقاضا تھا.ہم نے وہاں مبلغ بھجوایا لیکن پاکستانی گورنمنٹ زور دے رہی ہے کہ اس مبلغ کو واپس بلا لو کیونکہ سپینش گورنمنٹ کہتی ہے کہ ہم یہاں تبلیغ کی اجازت نہیں دے سکتے.حالانکہ ان کو چاہیے تھا کہ وہ پین گورنمنٹ کو کہتے کہ تم کو یہ کوئی حق نہیں کہ تم ہمارے مبلغ کو نکالو.ہمارے ملک میں بیسیوں عیسائی مبلغ ہیں اگر تم اسے نکالو گے تو ہم بھی تمہارے مبلغوں کو نکال دیں گے.لیکن بجائے اس کے انہوں نے مغربی پاکستان کی گورنمنٹ کو لکھا اور مغربی پاکستان کی گورنمنٹ نے مجھے لکھا کہ اس مبلغ کو واپس بلالو سپینش گورنمنٹ پسند نہیں کرتی.ادھر فلپائن کے جو لوگ ہیں وہ بھی چونکہ نئے عیسائی ہیں پہلے مسلمان تھے ان میں بھی تعصب زیادہ ہے.ان کے ہاں بڑی کوشش کی گئی کہ کسی طرح وہاں مبلغ جائے لیکن وہاں سے اجازت نہیں مل سکی.جب کبھی ویزا کے لئے کوشش کی جاتی ہے وہ انکار کر دیتے ہیں.مگر ہمارا خدا حکومتوں سے بڑا خدا ہے.فلپائن گورنمنٹ یا امریکن گورنمنٹ اگر وہاں جانے سے روکے گی تو بنتا کیا ہے.اللہ نے ایسا سامان کر دیا کہ پچھلے سال جاپان میں ایک مذہبی انجمن بنی.اُس نے مجھے دیکھی لکھی کہ اپنا کوئی مبلغ بھجوائیں.میں نے خلیل ناصر صاحب جو واشنگٹن کے مبلغ ہیں ان کو وہاں بھجوا دیا.وہ وہاں گئے تو وہاں سے ان کو موقع لگا کہ وہ واپسی میں کچھ دیر فلپائن ٹھہر

Page 96

انوار العلوم جلد 26 44 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت جائیں.جب وہ فلپائن ٹھہرے تو فلپائن کے کئی لوگ اُن سے آکر ملے اور انہوں نے کہا کہ ہمارے ہاں ابھی بعض جگہوں پر اسلام کا نام باقی ہے اور مسلمان جنگلوں میں رہتے ہیں.آپ ہمارے ہاں مبلغ بھیجیں تو ہم آپ کی مدد کریں گے اور اسلام پھیلائیں گے.انہوں نے مجھے لکھا ہم نے کوشش شروع کی لیکن کوئی فائدہ نہ ہوا.گورنمنٹ ویزا دینے سے انکار کرتی رہی.مگر اللہ تعالیٰ نے سامان کیا.وہ لوگ جو خلیل ناصر صاحب سے ملے تھے اُن میں سے ایک پراثر بہت زیادہ ہو گیا تھا.اُس نے خط لکھا کہ میں زندگی وقف کر کے اسلام پھیلانا چاہتا ہوں اور ربوہ آنا چاہتا ہوں کیا آپ میرے لئے انتظام کریں گے؟ ہم نے اس کو فوراً لکھ دیا کہ بڑی خوشی سے آؤ یہ تو ہماری دلی خواہش ہے چنانچہ جس ملک میں سے تلوار کے زور سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کو نکالا گیا تھا ہم اس ملک کو دلائل کے ذریعہ سے پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی گود میں لا کر دم لیں گے.وہ جس نے ہمیں لکھا تھا اس کو کوئی مشکل پیش آئی اس لئے وہ تو نہ آ سکا مگر اس کے ذریعہ ایک اور احمدی ہوا.وہ احمدی کسی فرم میں ملازم تھا.وہ وہاں سے بور نیو آ گیا.وہاں ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب جو خان صاحب فرزند علی صاحب کے بیٹے ہیں اور مفت تبلیغ کر رہے ہیں ، ڈاکٹری بھی کرتے ہیں اور تبلیغ بھی کرتے ہیں ان سے ملا اور وہاں اس نے اسلام سیکھنا شروع کیا.اب اُس کا خط آیا ہے کہ میں بڑی کوشش کر رہا ہوں کہ فرم مجھے چھوڑ دے تو میں آ جاؤں.پھر اس کے کہنے پر کچھ اور لٹریچر فلپائن بھیجا گیا.پہلے وہاں سے سولہ بیعتیں آئی تھیں.اس ضمن میں ایک کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے وہاں کے مسلمانوں کی جو انجمن تھی اسے تبلیغ شروع کر دی.ان میں سے کسی کولٹر پچر پسند آ گیا اور اس نے آگے تبلیغ شروع کر دی.پہلے 16 بیعتوں کی اطلاع آئی تھی اس کے بعد 27 بیعتیں آئیں گویا 43 ہو گئیں.اس کے بعد پھر 18 بیعتیں آئیں.یہ سارے مل کر 61 ہو گئے.اور اب اطلاع آئی ہے کہ اور لوگ بھی تیار ہیں.بلکہ انہوں نے لکھا ہے کہ جتنے کالج کے لڑکے ہیں یہ سارے مسلمان ہو جائیں گے اور احمدی بن جائیں گے.تو فلپائن گورنمنٹ نے ہمارا راستہ روکا تھا لیکن خدا نے کھول دیا ہے اور جہاں ایک مسلمان کو بھی جانے کی اجازت نہیں تھی وہاں 61 آدمی بیعت کر چکا ہے اور کالج کے

Page 97

انوار العلوم جلد 26 45 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت باقی سٹوڈنٹ کہتے ہیں کہ ہمیں جلدی بیعت فارم بھیجو.ابھی انہوں نے 100 بیعت فارم کے متعلق لکھا ہے کہ جلدی بھیجو سب لڑکے تیار ہورہے ہیں.اب جس ملک کے کالج کے لڑکے مسلمان ہو جائیں گے سیدھی بات ہے کہ وہ بڑے بڑے عہدوں پر مقرر ہوں گے اور جہاں جائیں گے اسلام کی تبلیغ کریں گے کیونکہ اسلام چیز ہی ایسی ہے کہ جو ایک دفعہ کلمہ پڑھ لیتا ہے پھر وہ چپ نہیں رہ سکتا.میرے دوست دوست پروفیسر ٹلٹاک اِس وقت یہاں بیٹھے ہیں جب میں بیماری میں علاج کرانے کے لئے گیا تو ہیمبرگ میں بھی گیا.مولوی عبداللطیف صاحب جو ہمارے مبلغ ہیں وہ ان کو لائے اور کہنے لگے یہ پروفیسر ٹلٹاک ہیں ان کو اسلام کا بڑا شغف ہے.یہ کیل (KIEL) میں یونیورسٹی کے پروفیسر ہیں.آپ کا ذکر سن کر کیل سے آئے ہیں مگر کہتے ہیں میں نے الگ بات کرنی ہے.میں نے کہا بڑی خوشی سے الگ بلالو اور لوگ چلے جائیں.چنانچہ وہ آگئے.انہوں نے تھوڑی دیر بات کی اور پھر کہنے لگے میں نے بیعت کرنی ہے.میں نے کہا بہت اچھا کر لیجئے.میں نے پوچھا کہ اسلام سمجھ لیا ہے؟ کہنے لگے ہاں میں نے سمجھ لیا ہے.مگر کسی کو پتا نہ لگے میں بڑا مشہور آدمی ہوں.میں نے کہا بہت اچھی بات ہے.ہمیں آپ کو مشہور کرنے کا کیا شوق ہے.آپ کی خدا سے صلح ہوگئی کافی ہے.چنانچہ اس کے بعد پاس کے کمرہ میں کچھ جرمن دوست نماز پڑھنے کے لئے آئے تھے.میں نماز پڑھانے کے لئے اُس کمرہ میں گیا.جب نماز پڑھ کے میں نے سلام پھیرا تو دیکھا کہ صف کے آخر میں وہ پروفیسر ٹلٹاک بیٹھے ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ میرا کسی کو پتا نہ لگے.میں نے مولوی عبداللطیف صاحب سے کہا کہ پروفیسر صاحب سے ذرا پوچھو کہ آپ تو کہتے تھے کہ میرے اسلام کا کسی کو پتا نہ لگے اور آپ تو سارے جرمنوں کے سامنے نماز پڑھ رہے ہیں تو اب تو پتا لگ گیا.کہنے لگے میں نے پوچھا تھا.یہ کہنے لگے میں نے سمجھا کہ یہاں ان کے آنے کا کیا واسطہ تھا، خدا انہیں میری خاطر لایا ہے تو اب خلیفہ کے پیچھے نماز پڑھنے کا موقع جو خدا نے مجھے میسر کیا ہے یہ ضائع نہیں ہونے دینا چاہیے چنانچہ نماز پڑھ لی.اب یا تو وہ وہاں کہتے تھے کہ میرا اسلام ظاہر نہ ہو اور یا یہاں آ کے بیٹھے ہوئے ہیں.66

Page 98

انوار العلوم جلد 26 46 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اس موقع پر دوستوں نے حضور کی خدمت میں درخواست کی کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب انہیں دکھلا دیے جائیں.چنانچہ پر وفیسر صاحب سٹیج پر تشریف لے آئے اور حضور نے فرمایا: یہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب ہیں جو جرمنی سے آپ لوگوں کو دیکھنے آئے ہیں اور آپ ان کو دیکھنے آئے ہیں.دوسری خوشخبری یہ ہے کہ پروفیسر ٹلٹاک صاحب یہ خبر لائے ہیں کہ جرمنی میں چار شہروں میں جماعتیں قائم ہوگئی ہیں.ایک بیعت پیچھے لفضل میں شائع ہوئی ہے.تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ اس نو مسلم کی بیوی نے بھی بیعت کرلی ہے.سب سے بڑی خوشخبری یہ ہے کہ پیغامیوں نے منافقین کو کہا تھا کہ ہمارا سٹیج تمہارے لئے ہے، ہماری تنظیم تمہارے لئے ہے.آج ہی جس وقت میں چلنے لگا ہوں تو مولوی عبد اللطیف صاحب کی پچٹھی پہنچی کہ ایک جرمن جو پیغامیوں کے ذریعہ سے مسلمان ہو ا تھا وہ میرے پاس آیا اور میں نے اس کو تبلیغ کی اور وہ بیعت کا خط آپ کو بھجوا رہا ہے.تو اُن کی وہ تنظیم خدا نے ہمیں دے دی.جس طرح ابو جہل کا بیٹا عکرمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مل گیا تھا اسی طرح پیغامیوں کا کیا ہوا نو مسلم ہمیں مل چکا ہے.آج ہی اس کی بیعت کا خط آ گیا ہے.وکالت تبشیر نے کہا ہے کہ باہر سے متواتر لٹریچر کی مانگ آ رہی ہے.میں نے عزیزم دا ؤ داحمد کو جسے انگریزی کا اچھا شوق ہے ولایت میں کچھ عرصہ پڑھنے کے لئے رکھا تھا اور وہ انگریزی پڑھ کے آیا ہے.میں نے تحریک کو کہا کہ اس کو ترجمہ پر لگا دو تو انہوں نے کہا ہمارے پاس گنجائش نہیں ہے.گویا اُدھر تو لوگ کہہ رہے ہیں کہ اسلام کے لئے ہمیں لٹریچر چاہیے اور ادھر وہ کہہ رہے ہیں کہ ہمارے پاس گنجائش نہیں یہ کیا؟ تم فاقے رہ جاتے اور لٹریچر شائع کرتے.یہ وکالت والوں کی غلطی ہے وہ بجٹ کو صحیح طور پر تقسیم نہیں کرتے.اگر صحیح طور پر تقسیم کریں تو ہمارے پاس بڑی گنجائش ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ساری دنیا کولٹریچر سے بھر سکتے ہیں.تازہ رپورٹ سے پتا لگتا ہے کہ پیغامی جو کچھ یہاں کرتے رہے ہیں وہ دوسرے ملکوں میں بھی انہوں نے کرنا شروع کر دیا ہے.رشید ہمارا مبلغ ڈچ گی آنا میں گیا.وہاں بھی پیغامیوں کا زور تھا.پہلے اطلاع آئی تھی کہ دوسو پیغامیوں نے بیعت کر لی ہے اور وہ احمدی ہو گئے ہیں.اب

Page 99

انوار العلوم جلد 26 47 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت پرسوں اتر سوں دوسری اطلاع آئی ہے کہ دوسو نہیں چار سو تک تعداد پہنچ چکی ہے.اب اس کے بعد رشید صاحب کی اطلاع آئی ہے کہ ایک اور خاندان احمدی ہو رہا ہے جس کے آٹھ افراد ہیں.اسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ عبد العزیز جمن بخش جو ہمارے ہاں تعلیم پارہے ہیں اور ڈچ گی آنا کے ہیں اُن کا بہنوئی سخت متعصب پیغامی ہے.اس نے ایک عورت کو بہت سی لالچ دی اور بہت سا روپیہ دیا کہ اس مبلغ کی دعوت کر اور زہر ملا کر اس کو مار دے لیکن حُسنِ اتفاق ہے خدا اُس کا حافظ تھا، اس کی باتیں اپنی بیوی سے کرتے ہوئے اُس کی ہمسائی نے سن لیں.اُس کی ہمسائی نے ایک دوسری ہمسائی کو بتا دیا.اس کا خاوند بھی احمدی تھا اُس نے آکر اس کو بتادیا کہ یہ آپ کے خلاف کارروائی ہو رہی ہے.سارے علاقہ میں بات پھیل گئی.نتیجہ یہ ہوا کہ غیر احمدی بھی ٹھوٹھو کر رہے ہیں کہ تم لوگ اپنے مبلغوں کو مرواتے ہو.پس دعائیں کرتے رہا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغین کی حفاظت فرمائے.ایک ایک آدمی ہم ہیں ہیں سال میں تیار کرتے ہیں.اگر یہ زہر دے کر مار دیں تو ہماری ہیں سال کی محنت ضائع ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور جہاں وہ جائیں اُن کے ہاتھوں پر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام قبول کریں.پھر میں احباب کو ادھر توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے پچھلے سال بھی کہا تھا کہ ریویو آف ریلیجنز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار اس کی اشاعت ہونی چاہیے.اب سنا ہے کہ تیرہ سو کی اشاعت ہوئی ہے.مگر گجا دس ہزار اور گجا تیرہ سو ، میں سمجھتا ہوں کہ بجائے تحریک کرنے کے ہمیں اب عملی قدم اٹھانا چاہیے اس لئے میں ایڈیٹر صاحب ریویو کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فی الحال تیرہ سو کی بجائے تین ہزار تین سو چھپوا نا شروع کر دیں گے.اگلے سال تک ہم کوشش کریں گے کہ دس ہزار ہو جائے.سوتین ہزار تین سو چھپوانا شروع کر دیں اور قیمت گرا دیں.جو ہندوستانی انگریزی ریویو خریدیں اُن کو دو روپیہ میں وہ دے دیا کریں اور جو غیر ملکی خرید میں اُن سے وہ صرف ڈاک کا خرچ لے لیا کریں.اگلے سال ہم اس کو دس ہزار کر دیں گے.اس طرح دو ہزار پرچہ بڑھے گا.اس کے لئے کچھ تو ہندوستانی خریداروں سے قیمت آ جائے گی، کچھ باہر والے خریداروں سے قیمت آجائے گی.باقی زیادہ چھپنے کی وجہ سے قریب بارہ ہزار کا خرچ رہ جائے گا.تحریک جدید اور انجمن کو میں مجبور کروں گا کہ وہ چھ ہزار دیں اور

Page 100

انوار العلوم جلد 26 48 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت چھ ہزار جماعت سے چندہ کی تحریک کروں گا.ہماری جماعتیں اب خدا کے فضل سے اتنی بڑھی ہوئی ہیں کہ افریقہ کے جو نئے حبشی ہیں اُن میں سے ایک شخص نے پندرہ سو پاؤنڈ مسجد کے لئے دے دیا یعنی ہیں ہزار روپیہ.حالانکہ وہ شخص ایسا تھا جو پہلے کہتا تھا کہ دریا رُخ بدل لے تو بدل لے مگر میں نہیں مسلمان ہونے کا.وہ شخص مسلمان ہوتا ہے اور اپنی خوشی سے پندرہ سو پاؤنڈ یعنی بیس ہزار روپیہ لا کر دے دیتا ہے.اُس ملک میں تو لوگ غریب ہیں.ہماری جماعت میں یہاں بڑے بڑے امیر ہیں ان سے چھ ہزار یا دس ہزار یا بیس ہزار سالانہ لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ خواہش پوری کرنا کہ ریویو کی دس ہزار اشاعت ہو جائے کون سا مشکل امر ہے.پس اس سال وہ تین ہزار اشاعت کر دیں.اگلے چھ مہینے تک ہم اسے چھ ہزار کرنے کی کوشش کریں گے.لیکن وہ ایک مینیجر مقرر کریں جو قیمتیں وصول کرے.اس سے پہلے ان سے غفلت ہوتی رہی ہے اور قیمتیں صحیح نہیں وصول ہوئیں.اگلے جلسہ سالانہ تک ہم إِنْشَاءَ اللهُ دس ہزار شائع کریں گے.کچھ لوگوں سے قیمت وصول کریں گے، کچھ جماعت سے وصول کریں گے، کچھ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک سے وصول کریں گے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کی خواہش کو ہم اگلے سال خدا چاہے تو ضرور پورا کر دیں گے.اس سال اس خواہش میں قدم بڑھانے کے لئے ہم تیسرا حصہ ادا کرتے ہیں اور چھ مہینہ تک ہم إِنْشَاءَ اللہ نصف سے زیادہ کر دیں گے اور خدا تعالیٰ زندہ رکھے اور توفیق دے تو اگلے سال اِنْشَاءَ اللهُ ہم دس ہزار کی خواہش پوری کردیں گے.اور کوشش کریں گے کہ اس سے اگلے سال حضرت صاحب کی خواہش سے دُگنی تعداد ہو جائے یعنی ہیں ہزار ہو جائے.اس طرح بڑھاتے بڑھاتے ہمارا پروگرام یہ ہوگا کہ حضرت صاحب نے دس ہزار کہا تھا ہم لاکھ تک اس کی خریداری پہنچا دیں.“ اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ :.الصلوة محمد صدیق صاحب کلکتہ والے لکھتے ہیں کہ رسالہ ریویو انگریزی کے لئے یک صد رسالہ کا چنده مبلغ دوصد روپیہ میں اپنی طرف سے دینے کا وعدہ کرتا ہوں.خدا تعالیٰ نے ان کو توفیق دی ہے.اِنْشَاءَ اللہ ثواب ہوگا.میری نیت بھی چندہ دینے کی ہے اور انْشَاءَ اللهُ اِس سے زیادہ ہی دوں گا..

Page 101

انوار العلوم جلد 26 49 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت پھر قرآن شریف کے ترجمہ کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اُردو کا ترجمہ تیار ہو گیا ہے.اور ایک چلد تفسیر کی بھی تیار ہوگئی ہے جس کا پانچ سو صفحہ اِنْشَاءَ الله شوری تک چھپ جائے گا.تفسیر لمبی ہوگئی ہے میں نے چھوٹی رکھنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن غالبا سورۃ طہ یاسورۃ الانبیاء تک پانچ سو صفحے پورے ہو جائیں گے.الشركة الاسلامیہ والے کہتے ہیں کہ ہم نے کتابیں چھاپی ہیں.ضرورت الامام راز حقیقت، نشان آسمانی، آسمانی فیصلہ، کشف الغطاء، دافع البلاء ،ستارہ قیصریہ.اس کی سفارش کرو حالانکہ میں تو اس کو بے شرمی سمجھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لکھی ہوئی کتاب ہو اور میں سفارش کروں.کیا کسی غلام کے منہ سے یہ زیب دیتا ہے کہ اپنے آقا کی کتاب کی سفارش کرے؟ اور کرے بھی اُن کے پاس جو اپنے آپ کو فدائی کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو لکھا ہے کہ جس شخص نے میری کتابیں کم سے کم تین دفعہ نہیں پڑھیں میں نہیں سمجھتا کہ وہ احمدی ہے 18.تو اب ہماری جماعت تو دس لاکھ ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہے.پس تین دفعہ اگر وہ کتابیں پڑھیں بلکہ ایک ایک کتاب بھی خریدیں اور تین سال وہی پڑھ لیں تو پھر آگے اولا د بھی ہوتی ہے تب بھی دس لاکھ کتاب لگ جاتی ہے.لیکن انہوں نے جن کتابوں کی لسٹ مجھے دی ہے وہ ساری کی ساری شاید کوئی بیس ہزار ہیں تو ایسی کتابوں کے لئے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لکھی ہوئی ہیں جن کی صدیوں تک اور نظیر نہیں ملے گی یہ کہنا کہ میں سفارش کروں یہ ان کی اپنی کمزوری ہے.کیوں نہیں وہ جماعت کو کہتے ؟ جماعت تو اپنی جانیں حضرت صاحب پر قربان کرنے کے لئے تیار ہے مگر صحیح طور پر کام نہیں کیا جاتا.یا مین صاحب تو اپنا کیلنڈر بیچ لیتے ہیں مگر ان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابیں بھی نہیں بیچی جاتیں.اسی طرح ریسرچ والوں نے کہا ہے کہ ان کی مصنوعات کے متعلق یاد دہانی کرائی جائے.لوگوں کو چاہیے کہ جو جماعت کی طرف سے چیزیں بنتی ہیں اُن کو زیادہ لیا کریں.اخلاص تو یہ ہوتا ہے کہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے والد صاحب نے مجھے سنایا کہ میں سارا سال اپنے کپڑوں کے متعلق کوشش کرتا رہتا ہوں کہ نہ بنواؤں اور جب قادیان آتا ہوں تو سید احمد نور کی

Page 102

انوار العلوم جلد 26 50 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.دُکان سے خریدتا ہوں.گو مہنگا ہوتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ ایک مہاجر کا گزارہ چل جائے گا میرا کیا حرج ہے.تو دیکھو مخلص آدمی تو ایسا کرتا ہے.چودھری صاحب نے بتایا ہے کہ وہ بنواتے بھی مرزا مہتاب بیگ صاحب سے تھے جو قادیان میں درزی تھے اور احمدی مہاجر تھے.تو دیکھو مخلص لوگ تو ایسا کرتے ہیں کہ باہر کے شہر میں کپڑے سستے ملتے ہیں لیکن خریدتے نہیں.کہتے تھے قادیان جائیں گے تو ایک مہاجر سے خریدیں گے اور بنوائیں گے بھی ایک مہاجر سے.تو اگر ہماری جماعت کے لوگ توجہ کریں کہ سلسلہ کی طرف سے جو چیزیں بنتی ہیں اُن کو خریدیں تو بڑی ترقی ہو سکتی ہے.مثلاً شائنو بُوٹ پالش ہے جس کی تعریف اتنی کثرت سے ہو رہی ہے کہ باٹا کمپنی نے بھی پچیس ہزار ڈبیہ کا آرڈر دیا ہے حالانکہ وہ کروڑ پتی کمپنی ہے.پھر نائٹ لائٹ ہے جو بڑی قیمتی چیز ہے.کف ایکس ہے.سن شائن گرائپ واٹر“ ہے.ڈاکٹروں کو بھی چاہیے کہ لے جائیں اور تجربہ کریں.اور اگر مفید ہیں تو سرٹیفکیٹ دیں.جھوٹے سرٹیفکیٹ ہم نہیں مانگتے بچے سرٹیفکیٹ مانگتے ہیں.پھر سٹرو لیکس فروٹ سالٹ ہے.با میکس سر درد کی دوا ہے.تو اگر جماعت کے لوگ سلسلہ کی مصنوعات کی طرف توجہ کریں تو یقینا تھوڑے دنوں میں باہر ملکوں میں پھیل سکتی ہیں.سفارش تو لغوسی چیز ہے میں تو ان کو کہا کرتا ہوں کہ تم اچھی طرح اشتہار نہیں دیتے ورنہ مجھے قادیان میں ایسی دکانیں معلوم ہیں کہ ایک شخص سے حضرت خلیفہ اول نے چھ پیسے میں دکان نکلوائی لیکن جب وہ قادیان سے نکلا ہے تو اُس کے گھر کی قیمت ہمیں ہزار تھی اور ہزاروں ہزار کی اس کی دُکان تھی.اور ایسے بھی دوست مجھے ربوہ میں معلوم ہیں کہ جنہوں نے چھ ہزار سے کام شروع کیا تھا اور اس وقت پختہ مکانات اُن کے پاس ہیں اور دوائیں وغیرہ ملا کر اُن کا کوئی پینتیس چالیس ہزار کا سرمایہ ہے.تو جود یا نتداری سے کام کرے خدا تعالیٰ اُس کو برکت دیتا ہے.پس سفارش کرنے کا کیا فائدہ ہے.اسی طرح تفخیذ الا ذہان ایک نیا رسالہ نکلنے والا ہے اور بھی بعض رسالے ہیں." مصلح المصلح، کراچی والے نکالتے ہیں.میں کہتا ہوں مجھ سے نہ کہلواؤ ایسے اعلیٰ کام کرو اور ان کی ایسی شکل بناؤ کہ لوگ آپ ہی لیں.کسی شخص نے کہا ہے صورت بہ میں حالت مپرس 66

Page 103

انوار العلوم جلد 26 51 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ارے میاں ! اس کا حال کیا پوچھتے ہو ، اس کی شکل دیکھ لو.تو تم بھی اپنے آپ کو ایسا بناؤ کہ تمہارے رسالے دیکھ کر لوگ خود بخود خریدیں.یہ کہنا کہ اس کو میری سفارش سے لوگ خریدیں یہ غلط ہے.میں اگر حضرت صاحب کے رسالہ کی سفارش کرتا ہوں تو ثواب کے لئے ور نہ میں ریویو کی بھی سفارش نہ کرتا کیونکہ ریویو کی سفارش کرنا تمہاری ہتک ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ مجھے تو حضرت صاحب کے قول کا پاس ہے تمہیں نہیں.میں یہ ہتک نہیں کرنا چاہتا.میں صرف اس لئے کہہ دیتا ہوں کہ مجھے ثواب مل جائے.“ اس موقع پر حضور نے ڈچ گی آنا سے آئی ہوئی وہ تصویر دکھائی جس میں وہ تمام احمدی دوست بیٹھے ہیں جو پہلے پیغامی ہوا کرتے تھے.سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:.ترکی سے ایک خط ایک دوست سیر صاحب کا آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ ” میں نے آپ کا لکھا ہوا ترجمۃ القرآن کا دیباچہ پڑھا ہے.یہ دیباچہ ایک نہایت ہی عالمانہ کتاب ہے جو خاص خدائی تائید کے ماتحت لکھی گئی ہے.اس کا مطالعہ بہت سے امور کے متعلق میرے شبہات دور کرنے کا موجب ہوا ہے.نیز اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ میری دلی خواہش ہے کہ احمدیت نے جو قابلِ تعریف مثال قائم کی ہے میں دوسرے مسلمانوں کو بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے دیکھوں ،،19.66 اس سے قبل ایک امریکن فوجی افسر نے دیباچہ انگریزی ترجمۃ القرآن کے پڑھنے کے بعد لکھا تھا کہ اس میں سے سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا حصہ میں نے پڑھا ہے میرے نزدیک آپ ( یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ) جیسا کامل انسان اس دنیا میں کبھی پیدا نہیں ہوا.میں بہت بیوقوف ہوں گا اگر اس دیباچہ میں آپ کے حالات پڑھنے کے بعد اسلام پر ایمان نہ لاؤں 20.اب یہ شخص احمدی ہو چکا ہے اور ان کا نام ناصر احمد رکھا گیا ہے.وکالت تبشیر اب سوانح آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حصہ کو ہالینڈ سے چھپوانے کا انتظام کر رہی ہے.سنہالی (Sinhali) زبان کے متعلق میرا رویا آپ لوگ پڑھ چکے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس رؤیا کے مطابق سنہالی کتابیں شائع کرنے کا موقع دیا اور وزراء نے اور گورنر نے وہ کتابیں لیں

Page 104

انوار العلوم جلد 26 52 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اور وزیر تعلیم خود ہمارے جلسہ میں آیا جس میں وہ کتاب پیش کی گئی تھی.اس کے بعد میں ایک اور خوشخبری سناتا ہوں کہ کچھ دن ہوئے مجھے خواب آئی کہ جنوبی ہندوستان میں خدا کے فضل سے ہندوؤں میں تبلیغ پھیلنی شروع ہوگئی ہے اور اتنی پھیل گئی ہے کہ جنوبی ہندوستان کے لوگوں نے دتی کی حکومت کو لکھا ہے کہ آپ لوگوں کا سلوک احمدیوں سے اچھا نہیں ہے یا تو اپنا رویہ بدلیں ورنہ ہم اس پر کوئی مناسب کارروائی کریں گے.وہ زمانہ بھی آئے گا انْشَاءَ اللَّهُ تَعَالیٰ.لیکن فی الحال ہندوؤں کی تو نہیں مسلمانوں کی خبر آئی ہے.ایک دوست کا خط آیا ہے کہ یہاں ایک علاقہ ہے جس میں ڈیڑھ لاکھ مسلمان ہیں ان میں کثرت کے ساتھ لوگ احمدی ہونا چاہتے ہیں.تو یہ بھی اللہ تعالیٰ نے ایک نیا راستہ کھولا ہے.پھر یہ بھی اطلاع آئی ہے کہ لکشادیپ (Lakshadweep) مالدیپ کے جزائر میں سے ایک جزیرہ میں احمد یہ جماعت قائم ہوئی ہے اور وہاں دار التبلیغ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس ذریعہ سے ان جزائر میں بھی جماعت پھیل جائے گی.غرض اللہ تعالیٰ خود اُن علاقوں میں جہاں ہم نہیں جا سکتے کام کر رہا ہے.چنانچہ ایک سکھ رئیس کی بیعت آئی ہے جس نے خواب کے ذریعہ سے بیعت کی ہے اور اسلام قبول کیا ہے.وہ مشرقی پنجاب کا رہنے والا ہے.اس نے خواب دیکھی اور خواب کے ذریعہ سے بیعت کی ہے.جرمنی سے ایک پادری کے مسلمان ہونے کی خبر آئی ہے جس نے اپنی زندگی بھی وقف کی ہے.وہ یہاں آ کر دینِ اسلام سیکھے گا.امریکہ سے ایک تازہ خبر آئی ہے.لکھا ہے کہ یہاں بھی ایک پادری مسلمان ہوا ہے.اور ایک نئے شہر میں جہاں پہلے جماعت نہیں تھی احمدی ہو گئے ہیں جس سے وہاں بھی جماعت بننے کا امکان ہے تو اللہ تعالیٰ ہر جگہ جماعتیں قائم کر رہا ہے.میں نے شروع میں کہا تھا دیکھو! خدا تعالیٰ نے کس طرح وہ بات پوری کی میں نے کہا تھا کہ قرآن نے بتایا ہے کہ اگر کوئی شخص تمہارے نظام دین سے الگ ہو جائے گا تو اس کی جگہ ایک جماعت آئے گی.دیکھو ان لوگوں کے نکلنے کے بعد خدا نے کئی ہزار نیا احمدی ہم کو دیا ہے اور ایسے ایسے لائق آدمی ہم کو دیے ہیں جیسے یونیورسٹیوں کے پروفیسر اور پادری وغیرہ کہ جن کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں.یہ بھی خبر آئی ہے کہ انڈونیشین زبان میں

Page 105

انوار العلوم جلد 26 53 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.18 پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے.یوگنڈا زبان میں مشرقی افریقہ کی جماعت نے پہلا پارہ شائع کیا ہے.اس سے قبل انہوں نے سواحیلی ترجمہ شائع کیا تھا باقی ترجمہ وہ کر رہے ہیں.اب میں پہلا حصہ مختصر طور پر بیان کرنے کے بعد جو خلافت کے انتخاب کے متعلق اور خلافت حقہ اسلامیہ کے قیام کے متعلق تھا دوسرا مضمون لیتا ہوں.مگر اس سے پہلے ایک بات یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہماری جماعت میں زمیندار زیادہ ہیں اس لئے میں نے صدر انجمن احمدیہ کو مجبور کیا ہے کہ وہ ایک افسر رکھیں جو جماعتوں کو زمیندارہ کے متعلق تعلیم دے.انہوں نے آدمی رکھا ہے جس کو ابھی چند مہینے ہوئے ہیں.لائل پور اور سیالکوٹ کا اس نے دورہ کیا ہے لیکن چھ مہینے کے اندر زراعت کا نتیجہ نہیں نکل سکتا اس لئے اس کا نتیجہ اِنْشَاءَ اللہ اگلے سال آپ کے سامنے پیش ہوگا کہ جماعت نے کیا کام کیا ہے.مگر میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ زمیندار اگر ایک ایک کنال خدا کے نام پر بونا شروع کر دیں تو ان کا چندہ کئی گنا زیادہ ہو جائے.ہر زمیندار ہمارے ملک میں چار پانچ ایکٹر بولیتا ہے.اگر اس میں سے ایک کنال خدا کے نام کی ہو اور اس کی ساری آمدن خدا کے نام ہی جائے تو دیکھو اس میں بھی برکت ہوگی اور پاس کی کھیتی میں بھی برکت ہوگی.مگر افسوس ہے کہ جماعت نے اس طرف پوری توجہ نہیں کی.یہ میں کہہ چکا ہوں کہ آج کا جو مضمون ہے یعنی " نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر اس کے متعلق یہ نوٹ کرلیں کہ اس کا امتحان ہو گا جو احمدی ہیں اُن کو تو یہ فائدہ ہو جائے گا کہ انہیں واقفیت ہو جائے گی.اور جو ہزاروں ہزار غیر احمدی ہمارے جلسہ میں بیٹھے ہیں اُن کو یہ پتا لگ جائے کہ جماعت میں جو فتنہ ہے اس کی حقیقت کیا ہے.پس اُن کا علم تاریخی ہو جائے گا اور آپ لوگوں کا علم ایمانی ہو جائے گا اُس وقت تک آپ لوگ تیار ہو جائیں.“ الفضل 9، 10 مارچ 1957ء) 66 اس کے بعد حضور نے ”نظام آسمانی کی مخالفت اور اس کا پس منظر پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:.نظام آسمانی کی مخالفت سورۃ اعلیٰ کے آخر میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: قَدْ أَفْلَحَ مَنْ - تَزَكَّى - وَذَكَرَ اسْمَ رَبِّ فَصَلَّى - بَلْ تُؤْثِرُونَ الْحَيُوةَ اور اس کا پس منظر الدُّنْيَا وَالْآخِرَةُ خَيْرٌ وَأَبْقَى - إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ

Page 106

انوار العلوم جلد 26 54 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت الأولى - صُحُفِ اِبْراهِيمَ وَمُوسَى 21 یعنی جو شخص پاک ہوتا ہے وہ کامیاب ہو جاتا - ہے.اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اور نمازیں پڑھتا ہے وہ بھی کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن اے قرآن کریم کے مخاطب ! تم لوگ دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دیتے ہو یعنی دنیا کو دین پر مقدم کرتے ہو حالانکہ دین دنیا پر مقدم ہے اور قائم رہنے والا ہے.یہی بات پہلی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی ہے.ابراہیم کی کتاب میں بھی لکھی ہے اور موسی کی کتاب میں بھی یہی بات لکھی ہے.ان آیات سے جو میں نے پڑھی ہیں ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام پر جو وحی نازل ہوئی تھی ان دونوں میں یہ کہا گیا تھا کہ اے لوگو! آخرت یعنی دین کو دنیا پر مقدم کرو.دنیا کو دین یعنی آخرت پر مقدم نہ کرو.ورنہ تمہارا الہی نظام سے ٹکراؤ ہو جائے گا اور تم حق کو نہیں پا سکو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہی پرانی تعلیم سکھائی گئی اور آپ نے اپنی بیعت میں یہ الفاظ رکھے کہ : میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا“ در حقیقت یہی تعلیم ہے جس کے نہ ماننے کی وجہ سے نظامِ آسمانی کی مخالفت کی جاتی ہے یعنی رقابت یا لا لچ یا بغض کی وجہ سے.آدم کے زمانہ میں چنانچہ آدم کو دیکھ لو شیطان نے اس کے لائے ہوئے نظام کی مخالفت کی.اس مخالفت کی وجہ کیا تھی؟ قرآن کریم اسے یوں شیطان کی مخالفت بیان فرماتا ہے قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ إِذْ أَمَرْتُكَ ۖ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ خَلَقْتَنِى مِنْ نَّارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ قَالَ فَاهْبِطْ مِنْهَا فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيهَا فَاخْرُجْ إِنَّكَ مِنَ الصُّغِرِينَ قَالَ انْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَأَتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَابِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شُكِرِينَ قَالَ اخْرُجُ مِنْهَا مَذْهُ وَمَا مَّدْحُورًا

Page 107

انوار العلوم جلد 26 55 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُمْ لَاَمْلَكَنَّ جَهَنَّمَ مِنْكُمُ أَجْمَعِينَ.22 یعنی اے شیطان ! جب میں نے کہا تھا کہ اس آدم کی خاطر اس کی پیدائش کی خوشی میں میرے آگے سجدہ کرو تو تم نے کیوں سجدہ نہیں کیا ؟ یا میں نے کہا تھا کہ آدم کی فرمانبرداری کرو تو تم نے کیوں فرمانبرداری نہیں کی ؟ تو اُس نے جواب دیا میں نے اس لئے ایسا نہیں کیا کہ میں اس سے اچھا ہوں (قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ) یعنی میری نافرنی کی وجہ رقابت تھی.مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے گیلی مٹی سے پیدا کیا ہے (خَلَقْتَنِى مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِنْ طِيْنِ) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان کو آدم سے یہی بغض تھا کہ میں تو اس سے اعلیٰ ہوں پھر اس کو مجھ پر فضیلت کیوں دی گئی.یہی بغض ابلیس کے ساتھیوں کو آدم کے ساتھیوں سے تھا یعنی دنیا کو دین پر مقدم کرنا ساری مخالفت کا باعث تھا.وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم کو بڑھایا ہے بلکہ وہ یہ دیکھتے تھے کہ ہم پر اس کو فضیلت دے دی گئی ہے.چنانچہ اس کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے شیطان ! میرے نظام سے باہر نکل جا ( قَالَ فَاهْبِطُ مِنْهَا ) کیونکہ تیرا کوئی حق نہیں تھا کہ میری جماعت میں شامل ہوتے ہوئے تکبر کرتا اور میرے مقرر کردہ خلیفہ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھتا ( فَمَا يَكُونُ لَكَ أَنْ تَتَكَبَّرَ فِيْهَا) پس نکل جا، کیونکہ ذلّت تیرے نصیب میں ہے ( فَاخْرُجُ إِنَّكَ مِنَ الصُّغِرِينَ ) اُس نے کہا الہی !جب تک یہ قوم ترقی کرے اور دنیا پر غالب آجائے ، مجھے ڈھیل دے اور موقع دے کہ میں ان کو خراب کروں (قَالَ انْظُرْنِي إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ) اللہ تعالیٰ نے فرمایا.ہاں ان کی ترقی کے زمانہ تک میں تجھے ڈھیل دوں گا ( قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ ) اس پر شیطان نے کہا کہ مجھے بھی تیری ہی ذات کی قسم ! کہ چونکہ تو نے اپنے نظام کو تباہی سے بچانے کیلئے مجھے ہلاکت میں ڈالا ہے اس لئے میں بھی تیرے نظام پر چلنے والوں کی تباہی کے لئے تیرے سیدھے راستہ پر ڈاکوؤں کی طرح بیٹھوں گا ( قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَا قْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) پھر میں اُن کے پاس کبھی تو اُن کے لیڈروں کے ذریعہ سے آؤں گا (ثُمَّ لَا تِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ ) اور کبھی اُن کے چھوٹے لوگوں کے ذریعہ سے آؤں گا ( وَمِنْ خَلْفِهِمْ ) اور کبھی دینی دلیلیں دے دے کر ورغلاؤں گا ( وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ ) اور کبھی دنیوی طور پر اُن کو ورغلاؤں گا کہ اگر تم نے ان تعلیموں پر عمل کیا تو حکومت مخالف

Page 108

انوار العلوم جلد 26 56 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.ہو جائے گی.( وَعَنْ شَمَابِلِهِمْ ) اور تُو اِن میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا ( وَلَا تَجِدُ اكْثَرَهُمْ شُکرین) یعنی تو دیکھ لے گا کہ ان میں سے اکثر تیری نعمت خلافت پر شکر گزار نہیں ہیں بلکہ اکثر اُن میں سے شبہات میں پڑ جائیں گے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تیری ان لافوں کی پروا نہیں کرتا.تو میرے نظامِ جماعت سے نکل جا.تجھے ہمیشہ گنہگار قرار دیا جائے گا اور تجھے حقیر سمجھا جائے گا اور تجھے جماعت حقہ اسلامیہ سے دھتکارا جائے گا.(قَالَ اخْرُجُ مِنْهَا مَدْهُ وَمَا مَّدْحُورًا) اور جو ان لوگوں میں سے تیری اتباع کریں گے اُن سب کو میں میں جھونک دوں گا یعنی ناکام اور حسرتوں کا شکار بنا دوں گا (لَمَنْ تَبَعَكَ مِنْهُمْ لا مُلَن جَهَنَّمَ مِنْكُمُ أَجْمَعِينَ).اس ارشاد پر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے پورا عمل کیا جو ہمیشہ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ کہتے آئے ہیں.باقی جماعتوں میں سے کچھ لوگوں نے اس پر عمل تو کیا ہے لیکن اس کو اہم اصل قرار دے کر اسے یاد نہیں رکھا.ان آیتوں سے صاف ظاہر ہے کہ مخالفین نظام الہی کو اپنے آپ سے جُدا کر دینا خدائی حکم ہے اور یہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ ناکام و نامرادر ہیں گے.چنانچہ جس وقت یہ فتنہ شروع ہوا ہے بہت سے جماعت کے مخلصین نے مجھے لکھا کہ آپ خواہ مخواہ ان کو موقع کیوں دیتے ہیں، کیوں نہیں انہیں جماعت سے خارج کر دیتے.بعض کمزور ایسے بھی تھے جنہوں نے یہ لکھنا شروع کیا کہ آخر حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے.اس پر مجھے مولوی رحیم بخش صاحب کا واقعہ یاد آ گیا.1914ء میں جب مولوی محمد احسن صاحب نے لاہوریوں کے لالچ دلانے پر اشتہار شائع کیا کہ میں نے ہی میاں محمود کو خلیفہ بنایا تھا اور میں ہی ان کو خلافت سے اتارتا ہوں تو جماعت نے اُس وقت یہ ریزولیوشن پیش کیا کہ ان کو جماعت سے نکالا جائے.مولوی رحیم بخش صاحب سیالکوٹ کے ایک بڑھے صحابی تھے وہ کھڑے ہو گئے اور بڑے زور سے کہنے لگے کہ ایسا ریزولیوشن پاس نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو فرشتہ قرار دیا ہے.میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ مولوی صاحب ! آپ کا کیا منشاء ہے کہ جو کہتا ہے کہ خلافت تو ڑ دو اُس کو یعنی تازه فتنه منافقین

Page 109

انوار العلوم جلد 26 57 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت جماعت سے نہ نکالیں؟ تو کہنے لگے اگر ایسا ہے تو پھر اس کو جماعت سے نکال دو.تو وہ لوگ جو آج بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے اُن سے میں کہتا ہوں کہ یہ تو حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہے اور مولوی محمد احسن کے متعلق حضرت صاحب نے کسی خط میں لکھا ہے کہ یہ جو حدیث میں آیا تھا کہ مسیح موعود دو فرشتوں پر اُترے گا اُن میں سے ایک مولوی محمد احسن بھی ہیں.اُس وقت تو جماعت نے اتنی ہمت کی کہ مولوی محمد احسن کو جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرشتہ قرار دیا تھا انہوں نے کہا کہ خلیفہ کے سامنے اگر فرشتہ بھی کھڑا ہوتا ہے تو نکالوں سے.حضرت خلیفہ اول بھی یہی کہا کرتے تھے کہ اگر تم فرشتے بھی بن جاؤ تو خلیفہ پر اعتراض کرنے پر تم پکڑے جاؤ گے.لیکن آج بعض کمزور دل کہتے ہیں کہ یہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد ہیں ان کو کچھ نہ کہو.جماعت کو تباہ ہونے دو، مرزا صاحب کے سلسلہ کو تباہ ہونے دو، محمد رسول اللہ ﷺ کے مشن کو نقصان پہنچنے دو، قرآن کریم کی تعلیم کو غلط ہونے دو، اسلام کو کمزور ہونے دو.پر حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو کچھ نہ کہو.گویا حضرت خلیفہ اول کی اولا دمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی زیادہ معزز ہے.وہ قرآن سے بھی زیادہ معزز ہے.وہ اسلام سے بھی زیادہ معزز ہے.وہ مسیح موعود سے بھی زیادہ معزز ہے.وہ مسیح موعود کے خاندان سے بھی زیادہ معزز ہے.وہ مسیح موعود کے الہامات سے بھی زیادہ معزز ہے.ان کو کچھ نہ کہو سلسلہ کو تباہ ہونے دو.قرآن کریم کی تعلیم کو غلط ہونے دو.خلافت کو مٹنے دو.خدا کے کلام کو غلط ثابت ہونے دو مگر یہ کام نہ کرو تو کچھ لوگوں نے تو یہ کہا.چنانچہ مری میں جب ایک صاحب کو پتا لگا کہ میں ایک اشتہار لکھ رہا ہوں تو کہنے لگے نہ نہ نہ نہ.آپ نے 25 سال ان کو معاف کیا ہے اب بھی معاف کردیجئے.میں نے کہا مجھے 25 سال معاف کرنے کی سزا ہی تو مل رہی ہے.اگر میں ان کو 25 سال معاف نہ کرتا اور 1926ء میں ہی ان کو کیڑے کی طرح باہر نکال کے پھینک دیتا تو آج ان کو یہ کہاں ہمت ہوتی.یہ "مولانا" بنے ہمارے وظیفے کھا کھا کے.یہ طبیب بنے سلسلہ سے وظیفے لے لے کر.اور اب اِن کو یہ جرات پیدا ہوگئی کہ کہہ دیا کہ "حضرت مولانا نے مسند احمد بن حنبل کی تبویب کی ہے.حالانکہ مسند احمد بن حنبل تبویب کا کچھ حصہ حضرت خلیفہ اول نے کیا ہو ا تھا.وہ فہرست لائبریری سے مولوی عبدالمنان

Page 110

انوار العلوم جلد 26 58 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت نے عاریتہ لی اور واپس نہ کی اور اس کے اوپر کتاب لکھی اور وہ بھی جامعہ احمدیہ کے پروفیسروں اور طالبعلموں کی مدد سے.اور پھر اس کے بعد کہہ دیا کہ یہ عظیم الشان کام میں نے کیا ہے.جب یہ ہوا تو ہمارے مولویوں کو غیرت پیدا ہوئی اور انہوں نے مجھے کہا کہ اس کتاب کو چھوڑیں ہم لکھ دیں گے.میں نے کہا بشرطیکہ جلسہ سے پہلے لکھ دو.چنانچہ بارہ دن ہوئے وہ مجھے اطلاع دے چکے ہیں کہ مسند احمد بن حنبل کی تبویب اُس سے زیادہ مکمل جس کا دعویٰ مولوی عبد المنان کرتے ہیں ہم تیار کر چکے ہیں.اور اس لئے گو اس کی چھپوائی پر بڑی رقم خرچ ہوگی مگر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس کو جزو جزو کر کے شائع کر دیا جائے تا کہ پہلے اجزاء کی قیمت سے اس کے آخری اجزاء چھاپے جاسکیں اور حضرت خلیفہ اول کی خواہش پوری ہو جائے.خود میں نے بھی اس کے متعلق 1944ء میں ایک تقریر کی ہوئی ہے اور تبویب کے متعلق بعض باتیں بیان کی ہوئی ہیں.میں نے کہہ دیا ہے کہ ان کو بھی تبویب میں مدنظر رکھا جائے تا کہ وہ بہت زیادہ مفید ہو سکے.اس بیماری کے بعد کئی باتیں مجھے اب تک پرانے زمانہ کی بھی یاد ہیں مگر کئی باتیں قریب کی کھولی ہوئی ہیں.مجھے بالکل یاد نہیں تھا کہ 1944ء میں میں نے مسند احمد بن حنبل پڑھ کے اس کے متعلق تقریر کی ہوئی ہے کہ اس میں اِن اِن اصلاحوں کی ضرورت ہے.اب ایک مبلغ آیا اور کہنے لگا کہ آپ کی تو اس پر بڑی اعلیٰ درجہ کی ایک تقریر ہے جو " الفضل " میں چھپ چکی ہے.چنانچہ اس نے وہ تقریر سنائی.پھر مجھے یاد آیا کہ میں نے اس کتاب کو خوب اچھی طرح غور سے پڑھا ہوا ہے.حضرت ابراہیم کے زمانہ حضرت آدم کے بعد پھر نئے دور روحانی کے آدم حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جن سے آگے اسحاقی اور اسمعیلی دور میں شیطان کا حملہ چلنا تھا.اسحاق کی نسل سے موسوی سلسلہ کی بنیاد پڑنی تھی اور اسمعیل کی نسل سے محمدی سلسلہ کی بنیاد پڑنی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں بھی پھر وہی آدم والی حکایت دُہرائی گئی.چنانچہ شیطان نے پھر ایک نئے حملہ کی تجویز کی.یہودی کتب میں لکھا ہے اور اشارہ قرآن کریم میں بھی اس کا ذکر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد فوت ہو گئے اور اُن کے چچا جو ایک بت خانہ کے مجاور تھے اُن کے متولی بنے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بچپن سے ہی تو حید پر قائم کر دیا

Page 111

انوار العلوم جلد 26 59 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت تھا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بچپن سے ہی تو حید پر قائم کر دیا تھا.جب انہوں نے بتوں کی مخالفت شروع کی تو چچا کے بیٹوں نے اپنے باپ کے پاس اُن کی شکایت کر دی اور لوگوں کو بھی یہ بتایا کہ یہ لڑکا بتوں کی حقارت کرتا ہے.چنانچہ لوگ جوق در جوق حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس بحث کے لئے آنے شروع ہوئے.اور جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اُن کو شرمندہ کرنے کے لئے اُن کے بعض بتوں کو توڑ دیا تو انہوں نے اس حسد کی بناء پر جس کی وجہ سے ابلیس نے آدم کا مقابلہ کیا تھا پبلک میں شور مچادیا کہ ابراہیم کو لاؤ اور اُس کو آگ میں جلا دو.جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا ملک چھوڑنا پڑا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے، یہ ہجرت اُن کو مہنگی نہیں پڑی بلکہ مفید پڑی.جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت اُن کو مہنگی نہیں پڑی بلکہ مفید پڑی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ہجرت کے بعد کنعان اور حجاز کا ملک بخشا گیا.اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکالے جانے کے بعد پہلے مدینہ اور پھر ساری دنیا ملی.پس ان دونوں بزرگوں یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی وجہ بھی وہی رقابت کی روح تھی جو کہ آدم کی مخالفت کی وجہ تھی.اور جو رقابت کہ خلافت احمدیہ کی مخالفت کی وجہ بنی.بظاہر اسے دینی سوال بنا دیا گیا ہے لیکن اس کا باعث در حقیقت رقابت اور بغض تھا.اور یہ واقعہ اُسی طرح کا ہے جس طرح ابلیس نے حوا سے کہا تھا کہ اگر تم شجرہ ممنوعہ کو چکھو گے تو تمہارے تقویٰ کی روح بڑی بلند ہو جائے گی اور " تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاؤ گے " 23 لیکن حقیقتاً اس کی غرض یہ تھی کہ آدم اور حوا کو جنت سے نکالا جائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے وقت میں اس رقابت نے دوسری دفعہ جو صورت اختیار کی وہ مندرجہ ذیل ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آخری عمر میں جب اُن کا پلوٹھا بیٹا اسماعیل ہاجرہ کے بطن سے پیدا ہوا اور اس کے بعد ان کی پہلی بیوی سارہ کے بطن سے اسحاق پیدا ہوا تو سارہ چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ماموں کی بیٹی تھیں اُن کو خیال تھا کہ میں خاندانی ہوں اور ہاجرہ باہر کی ہے اس لئے وہ اپنا درجہ بڑا سمجھتی تھیں.اتفاقاً حضرت اسماعیل جو بچے تھے حضرت اسحاق کی کسی

Page 112

انوار العلوم جلد 26 60 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت حرکت یا کسی اور وجہ سے قہقہہ مار کر ہنس پڑے.سارہ نے سمجھا کہ اس نے میری اور میرے بچہ کی حقارت کی ہے اور قہقہہ مارا ہے.شاید یہ بھی خیال کیا کہ یہ اس بات پر خوش ہے کہ یہ بڑا بیٹا ہے اور یہ وارث ہوگا اور اسحاق وارث نہیں ہو گا.تب انہوں نے غصہ میں آکر حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ یہ لڑکا مجھ پر قہقہے مارتا ہے، اس کو اور اس کی ماں کو گھر سے نکال دو.کیونکہ میں یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ میرے بیٹے کے ساتھ یہ تیرا وارث ہو.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پہلے تو اس بات کو بُرا منایا اور اس کام سے رُکے مگر خدا تعالیٰ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ظاہر کرنا چاہتا تھا اس نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو وحی کی کہ جو کچھ تیری بیوی سارہ کہتی ہے وہی کر 24.چنانچہ خدا کے حکم کے ماتحت حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور اسماعیل کو وادی حرم میں چھوڑ گئے.اور سارہ اور اسحاق کے سپرد کنعان کا علاقہ کر دیا گیا اور اسماعیل کی نسل نے مکہ میں بڑھنا شروع کیا.اور وہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھرانے میں پیدا ہو گئے.مگر یہ رقابت یہیں ختم نہیں ہوگئی بلکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش پر ان کی ماں سے کہا تھا، اُسی طرح ہوا کہ :.اس کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اُس کے خلاف ہوں گے.25 یعنی ایک زمانہ تک اسماعیلی نسل تھوڑی ہوگی اور اسحاق کی نسل زیادہ ہوگی.اور وہ سب کے سب مل کر اسماعیلی سلسلہ کی مخالفت کریں گے اور کوشش کریں گے کہ وہ کامیاب نہ ہوں.قرآن کریم میں اس کا ذکر یوں آتا ہے : وَدَّ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتُبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كَفَارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقِّ 20 الـ یعنی اہلِ کتاب میں سے بہت سے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اسماعیلی نسل یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی اُسے چھوڑ کر پھر کافر ہو جائیں.اور یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قصور کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے اپنے دلوں سے پیدا شدہ بغض کی وجہ سے ہے اور رقابت کی وجہ سے الخ ) ہے.وہ سارہ اور ہاجرہ کی لڑائی کو دو ہزار سال تک لمبالے جانا چاہتے ہیں.پھر علاوہ اس آیت کے بعض اور آیتیں بھی ہیں جو اس مضمون پر دلالت کرتی ہیں.مثلاً سورة آل عمران رکوع 8 آیت 73 74 میں فرماتا ہے وَقَالَتْ ظَابِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ

Page 113

انوار العلوم جلد 26 61 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.امِنُوا بِالَّذِى أُنْزِلَ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَجْهَ النَّهَارِ وَاكْفُرُوا أُخِرَهُ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ - وَلَا تُؤْمِنُوا إِلَّا لِمَنْ تَبِعَ دِينَكُمْ قُلْ إِنَّ الهُدَى هُدَى اللهِ أَنْ يُؤْنَ اَحَدٌ مِثْلَ مَا أوتِيتُمْ أَوْ يُحَاً جُوكُمْ عِنْدَرَبَّكُمْ قُلْ إِنَّ الْفَضْلَ بِيَدِ اللهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِع عَلِيمٌ.یعنی اہل کتاب میں سے ایک گروہ نے کہا کہ جو لوگ محمد رسول اللہ پر ایمان لائے ہیں یعنی مسلمان ہوئے ہیں اُن پر جو کچھ نازل ہوا ہے اے یہودیو! اُس پر صبح کے وقت ایمان لے آیا کرو اور شام کے وقت پھر مرتد ہو جایا کرو تا کہ تم کو دیکھ کر اور لوگ بھی مُرتد ہو جائیں (جیسے آج کل پیغام صلح شائع کر رہا ہے کہ دیکھو متان و تاب باہر آ گئے ہیں.اے ربوہ سے آزاد ہونے والو! بڑھو، بڑھو ہمارا نظام تمہارے ساتھ ہے.یہی یہودی کہا کرتے تھے ) کہ تم حقیقی طور پر امن اُس کو دو جو تمہارے دین کا پیرو ہو.تو کہہ کہ حقیقی ہدایت تو وہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے اور وہ یہ ہے کہ کسی کو وہی کچھ دیا جائے جیسا کہ اے بنی اسرائیل! تم کو دیا گیا ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ تم سے تمہارے رب کے حضور میں بحث کریں گے.پھر تو اُن سے کہہ دے کہ فصل کامل تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اُس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اپنا فضل کامل دے دیا.اُس کومل گیا.جب تمہارے نبیوں کو دے رہا تھا تو اُن کو مل گیا.وہ جس کو چاہتا ہے دیتا ہے.اللہ تعالیٰ بہت وسعت والا اور بہت جاننے والا ہے.اسی طرح سورۃ نساء رکوع 8 آیت 55 میں آتا ہے آخمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ ۚ فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْرهِيمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُم مُّلْكًا عَظِيمًا.- یعنی کیا یہ یہودی اس بات پر حسد کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کو اپنے فضل سے کچھ حصہ دے دیا ہے؟ اگر ایسا ہو گیا ہے تو بگڑا کیا ؟ پھر بھی تو آل ابراہیم کو یعنی اسماعیل کی اولاد ہی کو کتاب اور حکمت بخشی گئی اور ان کو بہت بڑا ملک عطا فرمایا گیا.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی آل ابراہیم میں سے ہیں اور موسوی سلسلہ بھی آل ابراہیم میں سے ہے.پس موسوی سلسلہ کو جو کتاب ملی وہ بھی آل ابراہیم کو ملی اور محمد رسول اللہ کو جو کتاب اور حکمت ملی وہ بھی آل ابراہیم کو ملی.اور جو ملک موٹی کی قوم کو ملا وہ بھی آل ابراہیم کو ملا اور جو ملک محمد رسول اللہ کو ملے گا وہ بھی آلِ ابراہیم کو ملے گا.

Page 114

انوار العلوم جلد 26 62 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.ان دونوں آیتوں سے ظاہر ہے کہ شیطان نے جو نظام الہی کے خلاف رقابت کا مادہ بنو اسحاق کے دل میں پیدا کیا تھا وہ حضرت اسماعیل کی زندگی تک ختم نہیں ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ تک لمبا ہوتا گیا.اور جس طرح پہلے اُس نے حضرت اسماعیل کو اُن کی وراثت سے محروم کرنا چاہا تھا اسی طرح دو ہزار سال بعد اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی وراثت سے محروم کرنا چاہا.لیکن ایک بات یاد رکھنی چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ قریب آیا اور شیطان نے دیکھا کہ اب پرانا حسد ختم ہو جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بن اسماعیل کے دشمنوں کو کچل ڈالیں گے اور ان پر غالب آجائیں گے تو اُس نے ایک نئے بغض کی بنیاد ڈالی جو محمد رسول اللہ کے بعد بھی فتنہ پیدا کرتا چلا جائے.چنانچہ اس کی تفصیل یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا عبد مناف کے ایک بیٹے عبدالشمس تھے.عبد مناف کے ایک اور چھوٹے بیٹے ہاشم تھے.اور عبد الشمس کا بیٹا امیہ تھا.عبد مناف کے مرنے کے بعد قرعہ ڈالا گیا اور با وجود چھوٹا ہونے کے ہاشم کو وارث قرار دیا گیا.اور مسافروں کو چاہ زمزم سے پانی پلانا اور حاجیوں کی خدمت کرنا جوسب سے بڑا عہدہ سمجھا جاتا تھاوہ اُسے دیا گیا.اسی طرح غیر حکومتوں کے پاس وفد بھجوانے کا جو کام تھا اور ان کی سرداری کرنے کا عہدہ بھی ان کے سپر د ہوا.عبد الشمس کے بیٹے امیہ کو یہ بات بُری لگی.شیطان نے اُس کے دل میں ڈالا کہ یہ عہدہ ہاشم کے پاس کیوں جائے.اور اُس نے قوم میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے ہاشم کے کاموں کی نقل شروع کر دی.یعنی مسافروں کو زم زم سے پانی بھی پلاتا تھا اور بہت کچھ دا دور بہش 27 بھی کرتا تھا تا کہ عوام میں مقبول ہو جائے.قریش نے جب یہ بات دیکھی تو انہوں نے سمجھا کہ یہ خاندان آپس کے مقابلہ میں تباہ ہو جائے گا.اور یہ دیکھتے ہوئے کہ امتیہ ضدی ہے انہوں نے ہاشم سے اصرار کیا کہ کوئی ثالث مقرر کر کے فیصلہ کروالو.مگر اول تو ہاشم چونکہ امیہ سے عمر میں بڑے تھے اور ریاست کا حق ان کو مل چکا تھا ނ انہوں نے انکار کر دیا کہ میں فیصلہ ثالثی نہیں کراتا مگر آخر ساری قوم نے خاندان کو تا ہی.بچانے کے لئے امیہ اور ہاشم پر ثالثی کے لئے زور دیا.آخر ہاشم بھی مان گئے اور امیہ بھی مان گئے.اور امیہ نے خزاعہ قبیلہ کے ایک کا ہن کو ثالث تجویز کیا.ہاشم نے بھی اُسے مان لیا.اس

Page 115

انوار العلوم جلد 26 63 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کا ہن کے پاس جب فیصلہ گیا تو اُس نے ہاشم کے حق میں فیصلہ کیا.اور فیصلہ کے مطابق امیہ کو مکہ سے دس سال کی جلا وطنی قبول کرنی پڑی.اور وہ شام چلے گئے.اس تاریخ سے بنو ہاشم اور بنوامیہ میں حاسدانہ لڑائی شروع ہوگئی 28 محاضرات میں شیخ محمد خضری بھی اس رقابت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:.ہاشم اور اس کے بھتیجے اُمیہ کے درمیان مفاخرت اور مقابلہ شروع ہو گیا کیونکہ ہاشم مال کی وجہ سے اور قومی ضروریات کو پورا کرنے کی وجہ سے قوم کا سردار تھا اور امیہ مال اور اولاد والا تھا.چنانچہ وہ اپنے چچا - مفاخرت اور مقابلہ کرتا تھا اور اس وجہ سے دونوں خاندانوں اور ان کی اولادوں میں رقابت رہی یہاں تک کہ اسلام ظاہر ہو گیا.29 دائرۃ المعارف یعنی عربی انسائیکلو پیڈیا میں لکھا ہے کہ بنوامیہ اور بنوقریش پہلے ایک ہی قبیلہ کے افراد تھے اور سب اپنے آپ کو عبد مناف کی طرف منسوب کرتے تھے.لیکن بنو امیہ کا خاندان بڑا تھا اور اُن کے پاس مال زیادہ تھا اس لئے باوجود اس کے کہ بنو ہاشم کے پاس سرداری تھی وہ ان سے ہر بات میں بڑھنے کی کوشش کرتا اور مقابلہ کرتا رہتا تھا.اسی طرح اُن کی اولاد میں بھی رقابت چلتی گئی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائیوں میں بھی اس لئے کہ آپ ہاشم کی اولاد تھے عام طور پر ابوسفیان جو عبد الشمس کی اولاد میں سے تھا سردار ہو کر آیا کرتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تو بنو امیہ شکست کھا گئے لیکن آپ کی وفات کے بعد اس فتنہ نے سراٹھانا شروع کیا اور شیطان نے اپنا ہتھیار اور لوگوں کو چن لیا.چنانچہ جب حضرت علی خلیفہ ہوئے تو معاویہ بن ابو سفیان نے جو بنوامیہ میں سے تھے آپ کے مقابلہ کے لئے لشکر جمع کیا.30 غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اور حضرت علی کے زمانہ میں بھی شیطان نے وہی کے زمانہ میں شیطان کا حربہ حربہ نظامِ حقہ کے خلاف استعمال کیا جو اول دن سے وہ نظام حقہ کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے یعنی حسد

Page 116

انوار العلوم جلد 26 64 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اور بغض اور لالچ کا.درمیان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قرب کی وجہ سے یہ حربہ زیادہ کامیاب نہ ہوا مگر حضرت علیؓ کے زمانہ میں یہ حربہ پھر زور پکڑ گیا اور آج تک شیعہ سنی کی شکل میں یہ جھگڑا چل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں پھر شیطان نے ایک اور رنگ میں اس کی بنیاد زمانہ میں شیطانی حربہ کی صورت رکھی.آپ کی خلافت میں پہلا جھگڑا جو زیادہ شدت سے ظاہر نہیں ہوا حضرت خلیفہ اول کے خلیفہ بننے کے وقت ہوا.یہ جھگڑا بھی درحقیقت وہی ابلیس والے جھگڑے کی طرز پر تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک انجمن مقبرہ بہشتی کی بنائی تھی اور اس میں حضرت خلیفہ اول کو صدر بنایا تھا.اور مولوی محمد علی صاحب اس کے سیکرٹری تھے.دوسرے ممبروں میں سے خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اور شیخ رحمت اللہ صاحب مولوی محمد علی صاحب کے ساتھ تھے.چھوٹے چھوٹے معاملات میں اختلاف ہوتا تو حضرت خلیفہ اول کی رائے ایک طرف ہوتی اور مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی کی رائے دوسری طرف ہوتی.اس لئے مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی میں حضرت خلیفہ اول کے خلاف بغض پیدا ہو جاتا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو اُس وقت کے حالات کی وجہ سے خواجہ کمال الدین صاحب بہت ڈر گئے اور لاہور میں جہاں وفات ہوئی تھی مولوی محمد احسن صاحب امروہی نے حضرت خلیفہ اول کی خلافت کا اعلان کر دیا اور خواجہ صاحب نے ڈر کر مان لیا.جب قادیان پہنچے تو خواجہ صاحب نے سوچا کہ حضرت خلیفہ اول ضرور خلیفہ نہیں گے اور اپنی ہوشیاری کی وجہ سے خیال کیا کہ اگر ان کی خلافت کا مسئلہ ہماری طرف سے پیش ہو تو ان پر ہمارا اثر رہے گا اور وہ ہماری بات مانتے رہیں گے.چنانچہ انہوں نے آپ کی خلافت کے متعلق ایک اعلان شائع کیا اور اس میں لکھا کہ الوصیۃ کے مطابق ایک خلیفہ ہونا چاہئے اور ہمارے نزدیک سب سے زیادہ مستحق اس کے حضرت مولوی نورالدین صاحب ہیں.اس اعلان کے الفاظ یہ ہیں:.حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا جنازہ قادیان میں پڑھا جانے سے پہلے

Page 117

انوار العلوم جلد 26 65 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت آپ کے وصایا مندرجہ رسالہ الوصیة کے مطابق حسب مشورہ معتمدین صدر انجمن احمد یہ موجودہ قادیان واقرباء حضرت مسیح موعود با جازت حضرت اماں جان) گل قوم نے جو قادیان میں موجود تھی اور جس کی تعداد اُس وقت بارہ سوتھی والا مناقب حضرت حاجی الحرمین شریفین جناب حکیم نورالدین صاحب سلمہ کو آپ کا جانشین اور خلیفہ قبول کیا.31 (میں نے بھی اسی قانون کے مطابق نیا نظام بنایا ہے.صرف تحریک کے وکلاء کو زائد کر دیا.کیونکہ اب جماعت احمدیہ کے باہر پھیل جانے کی وجہ سے اس کا مرکزی نظام دوحصوں میں تقسیم ہو گیا ہے) اس اشتہار سے پہلے حضرت خلیفہ اول کی بیعت کے وقت مولوی محمد علی صاحب.اختلاف کا اظہار کیا جیسا کہ وہ خود اپنی کتاب ”حقیقتِ اختلاف میں لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش مبارک جب قادیان میں پہنچی تو باغ میں خواجہ کمال الدین صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ یہ تجویز ہوئی ہے کہ حضرت مسیح موعود کے جانشین حضرت مولوی نورالدین صاحب ہوں.میں نے کہا بالکل صحیح ہے اور حضرت مولوی صاحب ہی ہر طرح سے اس بات کے اہل ہیں.اس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ بھی تجویز ہوئی ہے کہ سب احمدی ان کے ہاتھ پر بیعت کریں.میں نے کہا اس کی کیا ضرورت ہے جو لوگ نئے سلسلہ میں داخل ہوں گے انہیں بیعت کی ضرورت ہے اور یہی الوصیۃ کا منشاء ہے.خواجہ صاحب نے کہا کہ چونکہ وقت بڑا نازک ہے ایسا نہ ہو کہ جماعت میں تفرقہ پیدا ہو جائے اور احمدیوں کے حضرت مولوی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لینے سے کوئی حرج بھی نہیں.تب میں نے بھی اسے تسلیم کر لیا.32 غرض خواجہ صاحب کے سمجھانے سے مولوی محمد علی صاحب حضرت خلیفہ اول کی بیعت پر راضی ہو گئے اور اس طرح خلافتِ اولیٰ کا قیام بغیر مخالفت کے ہو گیا.گو اس کے بعد اس فتنہ نے

Page 118

انوار العلوم جلد 26 66 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کئی اور صورتوں میں سراٹھایا.مگر خلافت اُولی قائم ہوگئی اور ساری جماعت حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر جمع ہو گئی.اب شیطان نے دیکھا کہ جو نئے جھگڑے کی بنیاد میں نے ڈالی تھی وہ بھی ختم ہورہی ہے تو اُس نے ایک نئی طرح ڈالی.یعنی مولوی محمد علی صاحب کی پارٹی اور حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے دلوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے بغض پیدا کر دیا تا کہ یہ سلسلہ ابھی اور لمبا چلتا چلا جائے اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا گروہ پھر دنیا کو دین پر مقدم کرنے والے گروہ کے ظلموں کا شکار ہو جائے.یہ بنیاد اس طرح پڑی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیکھ کر کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں پہلی بیوی کے بطن سے کوئی نرینہ اولاد نہیں ، لدھیانہ کے ایک بزرگ صوفی احمد جان صاحب کی ایک لڑکی سے جو اُن کی موجودہ زندہ اولاد کی والدہ تھیں نکاح کروایا.اس واقعہ کی وجہ سے چاہئے تو یہ تھا کہ یہ دوسری بیوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے خاندان سے زیادہ تعلق رکھتیں جس طرح اُن کے بھائی پیر افتخار احمد صاحب مرحوم اور پیر منظور محمد صاحب مرحوم قاعدہ سرنا القرآن کے موجد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے خاندان سے والہانہ عشق رکھتے تھے.مگر ایسا نہیں ہوا.اس بغض کی بھی کچھ دنیوی وجوہات اول یہ کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاں اس بیوی سے بھی دیر تک کوئی نرینہ اولاد نہ ہوئی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جن کو شوق تھا کہ حضرت مولوی صاحب کے ہاں نرینہ اولاد ہو جائے 1896ء میں جبکہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کو آپ نے نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کو قرآن پڑھانے کے لئے مالیر کوٹلہ بھجوایا تھا مولوی صاحب کے متعلق نواب صاحب مرحوم کو ایک خط لکھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب کی مالیر کوٹلہ کی ایک سید خاندان کی لڑکی سے شادی کا انتظام کریں.گو یہ انتظام تو بعد میں رُک گیا مگر ایک خار دل میں بیٹھ گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی دوسری بیوی پر ایک اور سوکن لانے کی کوشش کی ہے.دوسری وجہ اس بغض کو بڑھانے کی ایک اور پیدا ہوگئی اور وہ یہ تھی کہ میاں عبدالسلام ،

Page 119

انوار العلوم جلد 26 67 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.عبدالوہاب اور عبدالمنان کی والدہ نے اپنے خاندان کی ایک لڑکی فاخرہ نام کی پالی ہوئی تھی.اُدھر حضرت اماں جان) نے اپنے وطن سے دُوری کی وجہ سے اپنی خالہ کے ایک بیٹے سید کبیر احمد کے لئے قادیان بلایا ہوا تھا.جب حضرت خلیفہ اول مالیر کوٹلہ گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فیصلہ کیا کہ اس بچے کو طب کی تعلیم دلوائی جائے اور اُس کو بھی اُن کے ساتھ ہی تعلیم کے سلسلہ میں مالیر کوٹلہ بھیج دیا گیا.کبیر احمد کا بیان تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی دوسری بیوی نے اُس سے وعدہ کیا تھا کہ وہ فاخرہ کا اس سے بیاہ کر دیں گی لیکن بعض ایسے حالات کی وجہ سے جن کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے سید کبیر احمد نے جو ہمارے خالہ زاد ماموں تھے زہر کھا کر خود کشی کر لی اور سارے کو ٹلہ اور دہلی میں یہ مشہور ہو گیا کہ اس خود کشی کی وجہ حضرت خلیفہ اول کی دوسری بیوی تھیں.چنانچہ آج تک بھی کچھ لوگ جو نواب لوہارو کے خاندان کے یا ہمارے ننھیال کے زندہ ہیں یہی الزام لگاتے چلے آتے ہیں کہ کبیر احمد کو نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ اپنے خاندان کی بدنامی کے ڈر سے حضرت مولوی نور الدین صاحب نے زہر دے کر مروا دیا تھا.حالانکہ واقعہ یہ تھا کہ چونکہ وہ آپ سے طب پڑھتا تھا اور دوائیں اُس کے قبضہ میں تھیں اُس نے خودزہر نکال کر کھا لیا تھا.مگر غلط نہی ان لوگوں کے دماغ میں ایسی جاگزیں ہو گئی تھی کہ میرے رشتہ کے ایک ماموں حافظ عبدالمجید صاحب سب انسپکٹر پولیس جن کو محمد امین بھی کہتے تھے 1936 ء یا 1937ء میں مجھے ملنے کے لئے قادیان آئے اور باتوں باتوں میں کہنے لگے کہ ہمارے ایک بھائی کو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے زہر دے کر مروا دیا تھا.میں نے غصہ سے اُن کو کہا کہ میں حضرت خلیفہ اول کے متعلق ایسی کوئی بات نہیں سن سکتا.اس پر وہ بھی غصہ سے اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ میں بھی اپنے بھائی کے واقعہ کو بھول نہیں سکتا اور چلے گئے.اِس واقعہ کو اور اہمیت اس طرح مل گئی کہ ہمارے نھیال کا رشتہ نواب صاحب لوہارو سے تھا.یہ اتفاق کی بات ہے کہ اُس وقت نواب صاحب مالیر کوٹلہ کم سن تھے اور گورنمنٹ نے اُن کا نگران نواب صاحب لوہارو کو مقرر کر کے بھیجا ہوا تھا.جس وقت یہ کبیر کا واقعہ ہوا اُس وقت نواب صاحب لوہار و کوٹلہ میں تھے.پہلے تو کسی کو پتا نہیں تھا کہ یہ بھی اُن کے رشتہ دار ہیں.جس طرح نواب صاحب لو ہا ر و ستمی به فرخ مرزا میرے ماموں تھے.وہ کبیر کے بھی ماموں تھے.مگر

Page 120

انوار العلوم جلد 26 68 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت وہ چونکہ معمولی کمپونڈ ر اور طالب علم کی حیثیت میں گیا تھا پہلے تو پتا نہ لگا.اس کے مرنے پر جب اُن کو پتا لگا کہ ایک لڑکے نے خود کشی کی ہے اور وہ دتی کا ہے تو انہوں نے گرید کی اور پتا لگا کہ یہ تو میرا بھانجا ہے.وہ چونکہ حاکم تھے انہوں نے فوراً کارروائی کی کہ اس کا پیٹ چاک کیا جائے اور زہر نکالا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ یہ زہر اتفاقی استعمال ہوا ہے یا جان بوجھ کر دیا گیا ہے.نواب محمد علی خاں صاحب جو نواب مالیر کوٹلہ کے جو اُس وقت بچہ تھے ماموں تھے اور بعد میں میرے بہنوئی ہوئے.(حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی بیٹی اُن سے بیاہی گئیں) اُن کو چونکہ قرآن پڑھانے کے لئے حضرت خلیفہ اول گئے تھے اور اُن کا ریاست میں رسوخ تھا انہوں نے فوراً کوشش کر کے راتوں رات کبیر کو دفن کرا دیا اور اِس طرح اس فتنہ کو دفع کیا.بیٹے کا مرجانا ماں کے لئے بڑے صدمہ کا موجب ہوتا ہے مگر یہ بغض اتنا لمبا ہو گیا کہ حضرت اماں جان کی خالہ جوا کثر قادیان آتی رہتی تھیں اور قادیان میں بڑا لمبا عرصہ والدہ کے پاس رہتی تھیں انہوں نے ہم سے ملنا جلنا چھوڑ دیا.چنانچہ 1909ء یا1911ء میں ہم ایک دفعہ دتی گئے تو حضرت اماں جان ) بھی ساتھ تھیں.چونکہ انہیں اپنی خالہ سے بڑی محبت تھی وہ اپنی اماں کی بھاوج کے ہاں ٹھہریں.اُن کو سارے "بھابی جان '' بھابی جان" کہتے تھے.اب اُن کے بچے کراچی میں ہیں.اُن کے گھر میں ہی ہم جا کر ٹھہرتے تھے.اُس وقت بھی ان کے گھر میں ہی ٹھہرے.بلکہ اُن کا ایک لطیفہ بھی مشہور ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1891ء میں دتی گئے تو آپ کے خلاف بڑا جلسہ ہوا اور شور پڑا.لوگوں نے کہا کہ اس کو قتل کر دو.مولویوں نے وعظ کیا کہ جو اس کو قتل کر دے گا وہ جنتی ہو گا.ہماری وہ بھابی بڑی مخالف تھیں مگر آخر رشتہ دار تھیں.ایک دن اُن کی نوکر آئی اور آ کر کہنے لگی.بی بی ! دعا کرو میرا بچہ بیچ الله جائے، وہ صبح چھری تیز کر رہا تھا.کوئی قادیان سے آیا ہے جو رسول اللہ ﷺ کی بہتک کرتا ہے اُس کو مارنے گیا ہے.وہ کہنے لگیں کمبخت اچپ کر.وہ تو میری بھانجی کا خاوند ہے.مگر بہر حال اُن کے گھر میں خالہ بھی ٹھہری ہوئی تھیں.اماں جان نے پرانی محبت کی وجہ سے اُن سے خواہش کی کہ مجھے ملا دو.بھائی جان نے انکار کر دیا کہ وہ تو کہتی ہیں میں اُس کی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتی.پھر ہماری ایک اور بہن تھی اُن کی بیٹی بعد میں حکیم اجمل خان صاحب مرحوم کے بھائی

Page 121

انوار العلوم جلد 26 69 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت سے بیاہی گئی تھیں.حضرت اماں جان) نے اُن سے کہا وہ چھوٹی بچی تھیں اُن کو تو ان باتوں کا پتانہیں تھا.انہوں نے پردہ اُٹھا کے کہا کہ وہ مصلی پر بیٹھی دعا کر رہی ہیں دیکھ لو.اماں جان نے جا کر جھانکا تو اُسی وقت انہوں نے کھڑکی کھولی اور ہمسایہ میں چلی گئیں اور وہاں سے ڈولی منگا کر کسی اور رشتہ دار کے پاس چلی گئیں.غرض اتنا اُن کے اندر بغض تھا کہ انہوں نے ہم سے ملنا بالکل چھوڑ دیا.اُن کے رشتہ داراب بھی کراچی میں ہیں.لاہور میں بھی لوہارو خاندان کے افراد ہیں.نوابزادہ اعتزاز الدین جو پاکستان میں انسپکٹر جنرل پولیس تھے وہ بھی نواب لوہارو کے بیٹے تھے.اور بیٹے بھی ہیں.بعض اُن کی اولاد میں سے فوج میں کرنیل ہیں.اُن کے ایک بھائی صمصام مرزا لاہور میں ہیں.ان لوگوں سے جب بھی بات کرو وہ ہم پر ہنستے ہیں کہ تم بیوقوف ہو.مولوی صاحب نے اُسے مروا دیا تھا.تم بیوقوفی میں یونہی اپنے مذہبی عقیدہ کے ماتحت سمجھتے ہو کہ نہیں مروایا تھا آپ مر گیا تھا.اُس نے خود کشی کوئی نہیں کی اُس کو مروا دیا گیا تھا.غرض یہ واقعہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے دلوں میں بغض کو بڑھانے کا ایک دوسرا سبب بن گیا.حضرت خلیفہ اول کی اس کے بعد حضرت خلیفہ اول کی وفات پر خلافت ثانیہ کے انتخاب کا وقت آیا تو مولوی محمد علی صاحب کے وفات پر اختلاف کی وجہ اختلاف کی ایک وجہ تو یہ ھی کہ اقتدار ان کے ہاتھ سے نکل جاتا تھا.دوسری وجہ یہ تھی کہ اُن کی پہلی بیوی مرحومہ جو نہایت ہی نیک عورت تھیں ( میرا یہ مطلب نہیں کہ ان کی موجودہ بیوی نیک نہیں ہے مگر وہ پہلی بیوی میری بہن بنی ہوئی تھیں اور اُن کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا.اس لئے میں نے اُن کے متعلق اپنی رائے بیان کر دی ہے.وہ مجھ سے بہت ہی محبت کرتی تھیں.فاطمہ بیگم اُن کا نام تھا.مولوی محمد علی صاحب کی جب شادی ہوئی میں بہت چھوٹا سا تھا.دس سال کا ہوں گا کہ وہ آتے ہی میری بہن بن گئیں.ہمیشہ میرا سر دیکھنا، جوئیں نکالنی، بہت ہی محبت کرتی تھیں اور کہتیں یہ میرا بھائی ہے.اور میں انہیں بہن کہا کرتا تھا) وہ نومبر 1908ء میں فوت ہوئیں.مجھے اُس وقت کسی کام کے لئے حضرت خلیفہ اول نے باہر بھیجا ہوا تھا.میں جب واپس آیا تو مجھے مرحومہ کی وفات کا علم ہوا.میں نے اُسی وقت ایک ہمدردی سے پُر خط مولوی محمد علی صاحب کو

Page 122

انوار العلوم جلد 26 70 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت لکھا.مولوی محمد علی صاحب نے اس کے جواب میں مجھے لکھا کہ آپ کے خط کا تو میں ممنون ہوں مگر مجھے افسوس ہے کہ حضرت اماں جان میری بیوی کی لاش دیکھنے نہیں آئیں (حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لاش دیکھنے کے لئے عورتوں کو باہر جانے سے منع کیا ہوا ہے ) یہ صدمہ ایسا ہے کہ میں زندگی بھر اسے نہیں بھول سکتا.یہ گویا دوسری بنیاد مولوی محمد علی صاحب کے دل میں شیطان نے رکھ دی کہ اب زندگی بھر مخالفت کرتے رہو.بلکہ اس واقعہ کا اجمالی ذکر مولوی محمد علی صاحب نے خود ریویو آف ریلیجنز میں بھی کیا ہے.اور یہ الفاظ لکھے ہیں کہ : اگر کسی نے میرا حسن ہونے کے باوجود بجائے اظہار غم و ہمدردی 33..کے کسی گزشتہ رنج کا اظہار اس وفات کے وقت کیا تو یہ شاید میرے لئے سبق تھا کہ دنیا کے کسی گھر کو اپنا گھر سمجھنا غلطی ہے.“ گو یا خود اُن کی اپنی تحریر بھی اس بارہ میں موجود ہے.غرض مولوی محمد علی صاحب نے اس صدمہ کے نتیجہ میں بغض کو انتہا تک پہنچا دیا.اور جیسے انہوں نے کہا تھا کہ میں مرنے تک یہ صدمہ نہیں بھول سکتا مرنے تک اس واقعہ کو یاد رکھا اور خاندانِ مسیح موعود کا بغض اپنے دل سے نہیں نکالا.چنانچہ حضرت خلیفہ اول کی وفات پر خلافت ثانیہ کے انتخاب پر بھی انہوں نے بغاوت کی اور اس طرح بغض و حسد کے لمبا کرنے کا سلسلہ انہوں نے جاری کر دیا.تا کہ آدم کے زمانہ کا بغض جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ تک آیا تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ کا بغض جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک آیا تھا اور آپ کے دادا ہاشم بن عبد مناف کے زمانہ کا بغض جو پہلے ابوسفیان اُموی کے زمانہ تک آیا تھا اور پھر یزید بن معاویہ اور امام حسین کے زمانہ تک آیا تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ تک بھی مستمد ہو جائے.غضب یہ ہوا کہ اکبر شاہ خان نجیب آبادی مشہور مؤرخ جو پہلے مبائعین میں تھے اور پھر بھاگ کر لاہور آگئے تھے ، انہوں نے مضمون لکھا کہ آرائیں قوم جس میں سے مولوی محمد علی صاحب تھے بنوامیہ میں سے ہے 24.گویا انہوں نے کہا کہ وہ بنوامیہ کا بغض پھر بنو محمد علے سے جاری ہونا چاہیے.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی کے صلى الله 34

Page 123

انوار العلوم جلد 26 71 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.خاندان کے متعلق فرمایا ہے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلُ الْبَيْتِ 35 کہ سلمان فارسی جن کے خاندان سے بلحاظ فارسی الاصل ہونے کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان ملتا ہے ہمارے خاندان میں سے ہیں.گویا مسیح موعود نہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند تھے بلکہ اس حدیث کے ماتحت ایک رنگ میں آپ کے جسمانی فرزند بھی تھے.تو پیغام صلح میں اکبر شاہ خان نجیب آبادی نے مضمون شائع کیا کہ مولوی محمد علی صاحب بنو امیہ میں.ہیں.گویا بنوامیہ اور حضرت علیؓ کا جو بغض تھاوہ اور لمبا ہو جائے گا ختم نہیں ہوگا.غرض انہوں نے ثابت کر دیا کہ بنو عبد مناف یعنی اولا د محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بنو امیہ کی لڑائی کا سلسلہ ابھی جاری ہے.اور وہ احمدیوں میں بھی جاری رہے گا.اختلاف کو قائم رکھنے کیلئے غیر مباھین نے اس لڑائی کونئی روح بھٹے کے لئے یہ تدبیر کی کہ حضرت خلیفہ اول کی بیوی اور اُن کے بچوں کو غیر مبائعین کی ایک تدبیر یہ کہنا شروع کیا کہ اگر حضرت خلیفہ اول کا بیٹا عبدائی مرحوم خلیفہ ہو جاتا تو ہم بیعت کر لیتے.چنانچہ ہم اس کے ثبوت میں مولوی عبد الوہاب صاحب کا ہی ایک مضمون پیش کرتے ہیں.اب وہ جتنا چاہیں جھوٹ بول لیں مگر یہ اُن کا مضمون چھپا ہوا ہے.انہوں نے 1937ء میں غیر مبائعین کے بعض اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے الفضل میں لکھا کہ : مولوی عبدالباقی صاحب بہاری ایم.اے نے بتایا کہ حضرت خلیفہ المسیح اول کی وفات کے بعد خلافت ثانیہ کے زمانہ میں خلافت کے چند دشمن حضرت مولوی عبدالحی صاحب کے پاس آئے اور کہا کہ اگر آپ خلیفہ بن جاتے تو ہم آپ کی اطاعت کرتے.مولوی عبدالحی صاحب نے باوجود بچپن کے اُن کو جو جواب دیا وہ اس قابل ہے کہ سلسلہ کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے.انہوں نے فرمایا کہ یا تو آپ کو آپ کے نفس دھوکا دے رہے ہیں یا آپ جھوٹ بول رہے ہیں.میں سچ کہتا ہوں کہ اگر میں خلیفہ بنتا تب بھی آپ میری اطاعت نہ کرتے.اطاعت کرنا آسان کام

Page 124

انوار العلوم جلد 26 72 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت نہیں.میں اب بھی تمہیں حکم دوں تو تم ہرگز نہ مانو.اس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ آپ ہمیں حکم دیں پھر دیکھیں کہ ہم آپ کی فرمانبرداری کرتے ہیں یا نہیں؟ مولوی عبدالحی صاحب نے کہا اگر تم اپنے دعویٰ میں سچے ہو تو میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ جاؤ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی بیعت کرلو.یہ بات سن کر وہ لوگ بغلیں جھانکنے لگے اور کہنے لگے یہ تو نہیں ہوسکتا.36 اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے عبدالحی مرحوم کو جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی سے پیدا ہوا تھا اس فتنہ سے بچالیا لیکن اُن کی والدہ اور ان کے چھوٹے بھائیوں کے دل میں یہ خار کھٹکتا رہا.چنانچہ جب میں نے امتہ الحی مرحومہ سے اس لئے شادی کی کہ حضرت خلیفہ اول کی روح خوش ہو جائے کیونکہ ایک دفعہ انہوں نے بڑے صدمہ سے ذکر کیا تھا کہ میری بڑی خواہش تھی کہ میرا جسمانی رشتہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہو جائے مگر وہ پوری نہیں ہوئی.جس پر میں نے آپ کی وفات کے بعد اور خلیفہ بنے کے بعد امتہ الحی مرحومہ سے شادی کی.تو پیغامیوں نے والدہ عبدالوہاب اور والدہ عبدالمنان کو یہ کہنا شروع کیا کہ یہ رشتہ مرزا محمود احمد نے اپنی خلافت کو مضبوط کرنے کے لئے کیا تھا.حالانکہ اگر میں پہلے کرتا تب تو یہ اعتراض ہوتا کہ خلافت لینے کے لئے کیا ہے.لیکن اول تو یہ سوال ہے کہ خلافت حضرت مولوی نورالدین صاحب کی تو نہیں تھی خلافت حضرت مسیح موعود کی تھی.اگر باپ سے بیٹے کو حق پہنچتا ہے تو میں مسیح موعود کا بیٹا تھا.پھر تو مولوی صاحب بھی خلیفہ نہیں رہتے.پھر تو خلیفہ مجھے ہونا چاہیے تھا.دوسرے خلیفہ میں پہلے ہو چکا تھا رشتہ بعد میں ہوا.بہر حال عبدالحی مرحوم تو اس فتنہ میں نہ آیا جیسا کہ اُس کی وفات کے موقع کے حالات سے ظاہر ہے جو میں نے ایک خط میں چودھری فتح محمد صاحب کو لکھے تھے جو اُس وقت انگلینڈ میں مبلغ تھے اور جو خط انہوں نے مولوی عبدالرحیم صاحب درد کو محفوظ رکھنے کے لئے دے دیا تھا اور اُن کے مرنے کے بعد اُن کے بیٹے لطف الرحمن نے مجھے اُن کے کاغذات میں سے نکال کر بھیج دیا وہ خط یہ ہے: برادرم مکرم چودھری صاحب! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ

Page 125

انوار العلوم جلد 26 73 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت پہلے خط کے بعد پھر قریباً تین ہفتہ سے خط نہ لکھ سکا جس کا باعث ترجمہ قرآن کا کام ہے.مولوی شیر علی صاحب کو کہا ہوا ہے کہ ہر ہفتہ خط جانا چاہیے نہ معلوم جاتا ہے پائیں.پچھلے ہفتہ ایک سخت حادثہ ہو گیا اور وہ بھی خط لکھنے میں روک رہا.عزیز میاں عہدائی کو دو ہفتہ بخار رہا اور گو سخت تھا لیکن حالت مایوسی کی نہ تھی مگر پچھلی جمعرات کو یکلخت حالت بگڑ گئی اور ایک رات اور کچھ حصہ دن کا بیہوش رہ کر عصر کے قریب اس دنیا سے رخصت ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ (اُس وقت ایک ڈاکٹر ہیرالال صاحب کو میں نے لاہور سے بلایا تھا.اس کا خیال تھا کہ ان کو ٹائیفائیڈ تھا مگر بیماری کی وقت پر تشخیص نہیں کی گئی اور اب مرض آخری مرحلہ پر پہنچ چکا ہے.) قریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ چکے تھے اور اب کے فتھ ہائی کا امتحان دینا تھا.سال ڈیرھ سال سے شبانہ روز جسم و علم میں ترقی تھی اور اب خاصا جوان آدمی معلوم ہوتے تھے.ذہن نہایت تیز اور ر سا تھا مگر منشاء الہی کے مقابلہ میں انسان کا کچھ بس نہیں چل سکتا اور اُس کے ہر ایک فعل میں حکمت ہوتی ہے.اور جیسا کہ مجھے ان کی وفات کے بعد معلوم ہوا یہ واقعہ بھی اللہ تعالیٰ کی ہی حکمتوں کے ماتحت تھاور نہ کئی فتنوں کا اندیشہ تھا.مرحوم بوجہ کم سن ہونے کے بہت سے فتنہ پردازوں کے دھوکے میں آ جاتا تھا.میں آخری دنوں میں اپنے گھر میں ہی انہیں لے آیا تھا ( اُن کی بہن امتہ الحی مرحومہ کی خواہش سے ) اور حیران تھا کہ وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مصر تھا ( یہ نظارہ اب تک میری آنکھوں کے سامنے ہے.وہ امتہ الحی مرحومہ کے دالان میں ہی رہتے تھے.میں آخر کام کرنے والا آدمی تھا.ہر وقت قرآن کریم کی تفسیر کا کام اور دوسرا کام ہوتا تھا.جب میں نیچے جاتا تو آدمی آتا کہ عبدالحی بلاتا ہے اور کہتا آپ

Page 126

انوار العلوم جلد 26 74 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت بیٹھیں ، حضرت اماں جان) بیٹھیں.میری اماں کو یہاں سے اُٹھا دیں میری جان نہیں نکلے گی.میری جان تکلیف سے نکلے گی.میری ماں کو یہاں سے ہٹا دیں.غرض وہ ہر وقت والدہ صاحبہ اور میرے پاس بیٹھے رہنے پر مُصر تھا) اور بار بار کہتا تھا کہ آپ میرے پاس بیٹھے رہیں.مجھے اس سے تسلی ہوتی ہے.اور اس کے برخلاف اگر اپنی والدہ پاس آتیں تو اُن کو ہٹا دیتا تھا اور اصرار کرتا تھا کہ میرے پاس سے ہٹ جاؤ.معلوم ہوتا ہے کہ وفات سے پہلے اُس کے دل کے دروازے اللہ تعالیٰ نے کھول دیئے تھے اور ایک پاک دل کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا.مجھے اُس سے ایسی محبت تھی جیسے ایک سگے بھائی سے ہونی چاہیے.اور اس کا باعث نہ صرف حضرت مولوی صاحب کا اس سے محبت رکھنا تھا بلکہ یہ بھی وجہ تھی کہ اُسے خود بھی مجھ سے محبت تھی.بوجہ نا تجربہ کاری کے بعض متفنی لوگوں کے فریب میں آ جانا بالکل اور بات ہے.اللہ تعالیٰ حضرت مولوی صاحب کے باقی بچوں کو نیک اور پاک عمر عطا فرمائے اور جس طرح آپ کا وجود نافع الناس تھا آپ کی اولا د بھی دعائم الملۃ 37 ہو.اَللَّهُمَّ امِینَ.(لیکن میری اس دعا کو انہوں نے ضائع کر دیا ہے اور خود اپنے لئے تباہی کا بیج بویا ہے ) خاکسار مرزا محمود احمد غرض عبدالحئی مرحوم کو اللہ تعالیٰ نے اس فتنہ میں مبتلا ہونے سے بچا لیا مگر حضرت خلیفہ اول کے باقی لڑکوں کے دلوں میں یہ خیال کھٹکتا چلا گیا کہ خلافت ہما را حق تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے نے اس کو چھین لیا ہے اور یہ حق پھر ہم کو واپس لینا چاہیے.چنانچہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی جو قریباً اتنے ہی پرانے احمدی ہیں جتنے پرانے حضرت خلیفہ اول تھے.غالباً اُن کے دو تین سال بعد آئے.اور پھر انہوں نے سلسلہ کی خدمت میں بڑا روپیہ خرچ کیا ہے.ان کی شہادت ہے کہ :

Page 127

انوار العلوم جلد 26 75 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت 1914ء میں حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد پیغامیوں نے قادیان میں ریشہ دوانیوں کا مرکز حضرت خلیفہ اول کے گھر کو بنایا.مختلف اوقات میں لاہور سے جاسوس آتے رہے اور ا کا بر بھی.اور سازش یہ کی گئی کہ اس خاندان میں ایک برائے نام خلیفے کا انتظام کیا جائے.جسے کچھ عرصہ بعد ترکی خلافت کی طرح معزول کر دیا جائے.کیونکہ ان کا تجربہ بتاتا تھا کہ 66 اس خاندان کے افراد اس قسم کے سنہری خواب دیکھ رہے ہیں.“ خود مجھے بھی یاد ہے کہ ایک دفعہ اپنے بچوں کو لے کر حضرت خلیفہ اول کی بیوی جو میری ساس تھیں میرے پاس آئیں اور بیٹھ کے کہنے لگیں کہ ہماری یہاں کوئی قدر نہیں.پیغامی میرے پاس آتے ہیں ، بڑے روپے دیتے ہیں، تھے لاتے ہیں اور کہتے ہیں لا ہور آ جاؤ ہم بڑی قدر کریں گے.میں نے کہا بڑی خوشی سے جائیے آپ کو یہ خیال ہوگا کہ شاید آپ کی وجہ سے مجھے خلافت ملی ہے.مجھے پروا نہیں.آپ چلے جائیے اور اپنی بھڑاس نکالیے.پھر جا کر آپ کو تھوڑے دنوں میں ہی پتا لگ جائے گا کہ جو کچھ سلسلہ آپ کی مدد کرتا ہے وہ اس کا دسواں حصہ بھی مدد نہیں کریں گے.چنانچہ وہ پھر نہ گئیں گو درمیان میں جماعت کی وفاداری کی وجہ سے اُن کا یہ خیال د بتا رہا مگر پھر بھی یہ چنگاری سلگتی رہی.چنانچہ 1918ء،1919ء میں دار حضرت خلیفہ اول میں مجھے زہر دینے کا منصوبہ کیا گیا.اس کے متعلق برکت علی صاحب لائق لدھیانوی جوخود اُن کے ہم وطن ہیں اور جن کے شاگرد اس وقت پاکستان میں بڑے بڑے عہدوں پر ہیں اور اب بھی مجھے خط لکھتے رہتے ہیں کہ ہمارے اُستاد بڑے نیک تھے اُن کا پتا بتائیں.اُن کی شہادت ہے کہ 1918ء میں لا ہور کے بعض معاندین نے حضرت اقدس کو زہر دینے کی سازش کی اس طریق پر کہ اماں جی مرحومہ کے گھر میں حضور کی دعوت کی جائے اور دعوت کا اہتمام لاہوری معاندین کے ہاتھ میں ہومگر ایک بچے نے جو اُن کی سرگوشیاں سن رہا تھا ساری سکیم فاش کر دی.“

Page 128

انوار العلوم جلد 26 76 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت 1918ء، 1919ء میں جیسا کہ میاں گواہی فضل محمد خان صاحب شملوی فضل محمد خان صاحب شملوی کی گواہی سے ظاہر ہے میاں عبد السلام صاحب، مولوی محمد علی صاحب سے شملہ میں ملے اور اُن سے نذرانہ وصول کیا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 1915ء کے قریب یا دو تین سال بعد میاں عبدالسلام صاحب عمر جبکہ وہ صرف ساتویں جماعت میں پڑھتے تھے حضرت مولوی غلام نبی صاحب کے ساتھ جبکہ وہ گرمی کی چھٹیوں میں تفریح کے لئے ٹوٹی کنڈی میں آ کر ٹھہرے.اس دوران میں مولوی عبدالسلام صاحب غیر مبائعین سے بھی بلا تکلف مل لیتے تھے.مجھے یہ بہت بُرا معلوم ہوتا تھا.میرے دل میں صاحبزادہ ہونے کے سبب سے جو احترام تھا کم ہو گیا.پھر اسی عید کے موقع پر مجھے یاد نہیں کہ بڑی تھی یا چھوٹی میاں عبدالسلام صاحب مولوی محمد علی صاحب سے عید کا نذرانہ لے آئے اور ان کی گود میں بیٹھ آئے.جب اس روئیداد کا علم ہوا تو خان صاحب برکت علی صاحب نے جو اُس وقت جماعت کے سیکرٹری تھے اُن کو تنبیہ کی کہ وہ مخالفین کے پاس کیوں گئے ایسا نہ چاہیے تھا.تو مولوی عبدالسلام صاحب بجائے نصیحت حاصل کرنے کے بہت بگڑے اور کہا کہ آپ کو ہمارے کسی قسم کے تعلقات پر گرفت کرنے کا حق نہیں.( یعنی ہم چاہے احراریوں سے ملیں چاہے پیغامیوں سے ملیں تم کون ہوتے ہو جو ہمیں روکو ) مولوی عمر الدین صاحب بڑی تجس کے انسان تھے.مولوی صاحب مولوی عبدالسلام صاحب کی بہت دلجوئی کرتے.اسی دوران میں مولوی عبدالسلام صاحب عمر نے مولوی عمرالدین سے کسی گفتگو کے دوران میں یہ کہا کہ میں نے خلیفہ اسیح الثانی کے ( نَعُوذُ باللهِ ( قابل اعتراض دستی خطوط اُڑائے ہوئے ہیں جو میرے پاس محفوظ ہیں.اب اگر اس خاندان میں تخم دیانت باقی ہے تو وہ میرے خط شائع

Page 129

انوار العلوم جلد 26 77 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کرے ورنہ میں کہتا ہوں کہ اگر اس خاندان کے افراد نے یہ بات کہی ہے تو لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ) مولوی عمرالدین نے یہ بات ٹوٹی کنڈی کے دوستوں کو بتائی.میں اس بناء پر سخت رنجیدہ اور متنفر ہوا.عمر بھر اگر چہ مولوی عبدالسلام صاحب بڑے تپاک سے ملتے تھے اور معانقے سے ملتے تھے مگر میرے دل میں بڑی قبض محسوس ہوتی تھی.بعد میں یہ بھی افواہا سنا رہا کہ لاہوری جماعت حضرت خلیفہ اول کے گھر والوں کو اپنے ساتھ ملانے کی جد و جہد کرتی رہتی ہے اور لاہوری لوگ مالی مدد سے تالیف کرتے رہتے ہیں.میری ساری ہی عمران سے متنفر گزری ہے.1926ء میں میاں عبدالوہاب کی طرف سے مجھ پر عبدالحی مرحوم کو زہر دینے اور عیش پرستی کرنے کا الزام لگایا گیا.اس بارہ میں ملک عزیز احمد صاحب رضاعی رشتہ دار حضرت خلیفہ اول و اتالیق میاں عبدالوہاب صاحب (جن کو ان کی ماں نے اتالیق مقرر کیا تھا ) کی گواہی ہے کہ : 1926ء میں میاں عبدالوہاب نے حضور پر مندرجہ ذیل الزام لگائے:.1.میاں عبدالحی کوزہر دے دی.2.آپا امتہ المی صاحبہ کی شادی سیاسی نوعیت سے کی گئی (یعنی خلیفہ بننے کے لئے.گویا خلیفہ پہلے بن گئے شادی بعد میں ہوئی.) 3.آپ معاذ اللہ عیش پرست ہیں.اور کہا آپ قادیان سے باہر رہتے ہیں آپ کو حالات کا کیا پتا ہو.66 اس کے علاوہ میری اپنی شہادت ہے کہ 1926 ء ، 1927ء میں مباہلہ والے جب گند اُچھال رہے تھے تو علی محمد اجمیری اور عبد الوہاب مل کر وہاں گئے اور اُن کو ایک خط لکھ کر بھجوایا کہ آپ خلیفہ ثانی کے متعلق جو چاہیں لکھیں ہمارے خلاف کچھ نہ لکھیں.انہوں نے خط لکھ کر ایک لڑکے کو دے دیا کہ آپ تسلی رکھیں ہم آپ کے ساتھ ہیں.اُس لڑکے نے جو مدرسہ احمدیہ میں پڑھتا تھا وہ خط مع جواب لا کر مجھے دے دیا.مولوی علی محمد اجمیری نے مجھے لکھا ہے کہ وہ تو بے شک گئے تھے مگر میاں عبدالوہاب اُس میں شامل نہ تھے.مگر میرا حافظہ اس کی تردید کرتا

Page 130

انوار العلوم جلد 26 78 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.ہے.مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے جو اُس وقت ہوشیاری سے مباہلہ والوں کے مکان کی نگرانی کرتے تھے مجھے بتایا کہ انہوں نے ان دونوں کو ان کے مکان کے سامنے کھڑا دیکھا تھا اور انہوں نے ایک خط زاہد کی طرف ایک لڑکے کے ہاتھ بھجوایا ( زاہد مولوی عبدالکریم مباہلہ والے کا چھوٹا بھائی تھا) اور اس لڑکے نے مجھے لا کر دے دیا.اسی طرح اس کی تردید مرزا عبدالحق صاحب امیر جماعت سابق صوبہ پنجاب کے ایک لڑکے مرزا محمد طاہر کے خط سے بھی ہوتی ہے جو زاہد کے بھانجے ہیں.اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ : میاں عبدالوہاب اور زاہد کے آپس میں "فتنہ مستریان " سے پہلے بڑے گہرے تعلقات تھے ( میں بھی اس کا ذاتی گواہ ہوں.زاہد چونکہ چھوٹا ہوتا تھا ہمارے گھر میں آیا کرتا تھا.میری بیویاں اس سے پردہ نہیں کرتی تھیں.اس کی بہن بھی ہمارے گھر میں رہتی تھی اس لئے مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ زاہد سے میاں عبدالوہاب کے بڑے گہرے تعلقات تھے اور میاں عبدالوہاب اس سے اکثر ملتا رہتا تھا) پھر مرز امحمد طاہر لکھتے ہیں کہ : زاہد سے میاں عبدالوہاب نے حضور کے خلاف باتیں کی تھیں جس پر زاہد بھی حضور کے خلاف ہو گیا.زاہد کو اب شکایت یہ تھی کہ جس آدمی نے پہلے حضور کے خلاف باتیں کی تھیں اور فتنہ کی اصل جڑ تھی وہ تو حضرت خلیفہ اول کا لڑکا ہونے کی وجہ سے بچ گیا اور وہ پھنس گیا.“ اسی طرح ڈاکٹر محمد منیر صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ امرتسر کی شہادت سے بھی ظاہر ہے کہ 1927ء، 1928ء میں میاں عبد المنان اور مولوی علی محمد اجمیری ان سازشوں میں شریک تھے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:." غالباً 1927 ء یا 1928ء میں جب مباہلہ والوں ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت کا فتنہ زور پر تھا ایک دن اس سلسلہ میں مباہلہ والوں

Page 131

انوار العلوم جلد 26 79 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت نے ایک اشتہار حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ہجو میں بڑی موٹی موٹی سُرخیوں کے ساتھ شائع کیا جس میں حضور کے اخلاق پر ذاتی حملے کئے ہوئے تھے.اُس دن مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور میاں عبدالمنان صاحب عمر اور میں ( راقم ) اکٹھے جارہے تھے کہ بازار میں اس قسم کا ایک اشتہار ہمیں بھی ملا.میں تو اُسے پڑھ کر دم بخود ہو کر رہ گیا.میرے ہاتھ سے یہ اشتہار مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے لے لیا اور میاں عبدالمنان صاحب اور مولوی علی محمد صاحب اجمیری نے اس کو اکٹھا دیکھنا شروع کیا لیکن جوں جوں وہ اشتہار کو پڑھتے جاتے تھے وہ ساتھ ساتھ عبارت پڑھتے اور ہنستے جاتے تھے.مجھے اُن کا یہ فعل طبعا بُرا معلوم ہوا کیونکہ اپنے کسی بھی عزیز اور قابل عزت اور احترام بزرگ کے متعلق ایسے گندے الفاظ پڑھ کر کوئی بھی شریف آدمی ہنسنے کی بجائے نفرت اور غصہ کے جذبات کا اظہار کرتا مجھ سے اُن کی یہ حرکت گوارا نہ ہوئی اور میں نے اُن سے یہ اشتہار چھین لیا اور کہا کہ یہ ہنسی کا کونسا موقع ہے.اشتہار پڑھ کر ہمارے دل رنجیدہ ہیں اور آپ کو ہنسی آتی ہے.جس پر وہ خاموش ہو گئے.ممکن ہے اُن کی ہنسی اس اشتہار کے لکھنے والے کے متعلق حقارت کی ہنسی ہو لیکن جو اثر اُس وقت مجھ پر ہوا وہ یہی تھا کہ میں نے اُنکی ہنسی کو اس قدر بُرا منایا کہ اُس کا اثر اب تک میری طبیعت پر رہا اور محو نہیں ہوا کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا.اب جبکہ موجودہ فتنہ منافقین کا اُٹھا ہے تو میرے اُس تأخر کی تصدیق ہوگئی ہے کہ اُس وقت کی مولوی علی محمد صاحب اجمیری اور میاں عبد المنان صاحب کی جنسی ایک نفرت، بدگمانی اور حقارت کا بیج تھا حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ذات کے متعلق جو آج ایک مکروہ اور بدنما درخت کی شکل بن کر جماعت کے سامنے ظاہر ہو گیا ہے.اِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ

Page 132

انوار العلوم جلد 26 80 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت خاکسار ڈاکٹر محمد منیر امرتسری غرض جو بات مجھے یاد تھی اُس کی تصدیق ڈاکٹر محمد منیر صاحب کی شہادت سے بھی ہوگئی اور مرز امحمد طاہر صاحب ابن مرزا عبد الحق صاحب کی شہادت سے بھی ہوگئی جو کہ زاہد کا بھانجا ہے.1929ء میں مولوی محمد اسماعیل غزنوی نبیرہ 39 حضرت خلیفہ اول اور بھانجا میاں عبد الوہاب وعبد المنان نے (جس کی خط و کتابت عبد المنان کے کاغذوں میں جنہیں وہ اور منٹل کمپنی میں جس کا وہ پریذیڈنٹ بنایا گیا تھا چھوڑ کر چلا گیا تھا مل گئی ہے) میاں عبدالسلام وعبدالوہاب سے مل کر ایک میٹنگ کی اور اس میں بقول ایک معتبر شاہد کے خلافتِ ثانیہ کے خلاف جھوٹے الزام لگانے کی سکیم بنائی.مجھے وقت پر یہ خبر مل گئی اور میں نے شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اور در دصاحب مرحوم کو مقرر کیا کہ وہ منبر کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر ان کی سکیم سنیں.چنانچہ عرفانی صاحب کی شہادت ہے کہ ان لوگوں نے آپس میں باتیں کیں کہ جتنے مالی الزام خلیفہ ثانی پر لگائے گئے ہیں ان میں سے کوئی بھی کارگر ثابت نہیں ہوا اور نہ ان کا کوئی ثبوت ملتا ہے اس لئے اب ان پر اخلاقی الزام لگانے چاہئیں.مخبر کا بیان ہے کہ اخلاقی الزام کی تشریح بھی انہوں نے کی تھی کہ مولوی عبدالسلام صاحب کی ایک بیوی جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی لڑکی تھیں اور اپنے والد کی طرف سے کئی دفعہ دعا کے خط لے کر میرے پاس آیا کرتی تھیں اُن کو بھیجا جائے جب اُن کے لئے خلیفہ ثانی دروازہ کھول دیں تو باقی پارٹی کمرہ میں گھس جائے.اور شور مچادے کہ ہم نے ان کو ایک غیر محرم عورت کے ساتھ دیکھا ہے اور تمام لوگوں کو کمرہ میں اکٹھا کر لیں.ہم اس مخبر کی روایت کی قطعی تصدیق نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ایک راوی ہے ہاں صرف شیخ یعقوب علی صاحب کی گواہی کی تصدیق کر سکتے ہیں کیونکہ اس کے ایک وہ بھی راوی ہیں اور دوسرا را وی مخبر بھی ہے.اس پارٹی کے ممبر جن کی سازش شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے سنی شیخ صاحب کے بیان کے مطابق میاں عبدالسلام صاحب، میاں عبدالوہا.ئب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی تھے.

Page 133

انوار العلوم جلد 26 81 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت 1930ء میں میر محمد اسحاق صاحب نے مجھ سے ذکر کیا کہ میاں منان کہتے ہیں کہ ہمارے خاندان کو گرانے کی کوشش کی جاتی ہے اور ہماری جائیداد کو نقصان پہنچایا جاتا ہے.ابھی وہ ہزاروں آدمی زندہ ہے جو قادیان میں جانے والا ہے انہوں نے حضرت خلیفہ اول کا کچا مکان دیکھا ہوا ہے اس کے مقابلہ میں حضرت صاحب نے ہم کو ورثہ میں پانچ گاؤں اور قادیان کا شہر دیا تھا.گویا حضرت خلیفہ اول کی جائیداد ہماری جائیداد کا بیس ہزارواں حصہ بھی نہ تھی.اب کیا وہ بیس ہزارواں حصہ جائیداد بھی ہم نے کھانی تھی؟ 1930ء میں چودھری ابوالہاشم صاحب نے مجھے اپنی مرحومہ بیٹی کا جو مولوی عبدالسلام صاحب کی بیوی تھیں ایک خط بھجوایا جو بنگالی میں تھا.اور اس میں لکھا تھا کہ خاندانِ حضرت خلیفہ اول میں ہر وقت خلافت ثانیہ سے بغاوت کی باتیں ہوتی رہتی ہیں.مگر افسوس ہے کہ وہ خط میرے پاس محفوظ نہیں رہا.شاید قادیان میں ہی رہ گیا ہے.ستمبر 1930ء میں پیغامیوں کی طرف سے یہ الزام لگایا گیا کہ ناصر احمد کو ولی عہد مقرر 40 کرنے کا پرو پیگنڈا کیا جارہا ہے.1956ء کی مجلس مشاورت کے وقت بھی یہی بات میاں عبدالمنان نے کہی.چنانچہ چودھری انور حسین صاحب ایڈووکیٹ وامیر جماعت احمد یہ شیخو پورہ تحریر کرتے ہیں کہ :.و گزشتہ مشاورت کے موقع پر مجھے میاں عبدالرحیم احمد کے مکان پر رہنے کا اتفاق ہوا.شیخ بشیر احمد صاحب، ڈاکٹر محمد یعقوب خان صاحب بھی وہیں مقیم تھے.میاں عبدالمنان اکثر اس مکان پر رہتے تھے اور ناشتہ اور کھانے کے وقت بھی وہیں ہوتے تھے.میں مشاورت کی مالی سب کمیٹی کا ممبر تھا اور میاں عبدالمنان بھی اس سب کمیٹی کے اجلاس میں شریک ہوتے تھے.اس اجلاس میں میں اور مولوی عبد المنان اکٹھے ہی گئے.رستہ میں میاں عبدالمنان نے کہا کہ لاکھوں کا بجٹ مالی سب کمیٹی کے سامنے رکھا ہی نہیں جاتا.اس کا حساب کتاب جماعت کے سامنے لایا ہی نہیں جاتا.میری دریافت پر میاں عبد المنان نے کہا کہ یہ جماعتی کا روبار

Page 134

انوار العلوم جلد 26 82 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت یا تجارت کے متعلق ہے.میں اس پر چوکس ہوا.مالی سب کمیٹی کا اجلاس آدھی رات کے قریب ختم ہوا اور واپس ہوئے.غالباً دوسرے دن دو پہر کے وقت میاں عبدالمنان نے پھر ایسی ہی گفتگو شروع کی اور کہا کہ باہر سے آنے والے لوگوں کو کیا معلوم کہ یہاں کیا ہورہا ہے، یہاں سخت پارٹی بازی ہے.پھر مکرم میاں ناصر احمد صاحب کے متعلق ولی عہد کے لفظ کہے اور پھر کہا کہ وہ کو کین استعمال کرتے ہیں.میں نے کہا کہ قطعاً غلط ہے اور وہ بضد رہا.میری طبیعت پر اس گفتگو کا یہ اثر تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ یہاں قیام کرنے میں میں نے غلطی کی ہے اور میرا یہ احساس تھا کہ اگر کوئی دوست مجھے یہاں ملنے کے لئے بھی آئے اور تھوڑا وقت بھی ٹھہرے تو وہ بھی بُرا اثر قبول کریں گے.خاکسار محمد انور حسین "14/09/1956 پھر محمد یوسف صاحب بی.ایس سی سابق افسر کویت کی گواہی ہے کہ 1931ء میں مولوی عبدالوہاب عمر خلیفہ ثانی پر گندے الزامات لگاتے رہے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.میں نے 1929ء میں بیعت کی تھی.اس کے ایک دو سال بعد یا اسی دوران میں میرے والد صاحب مجھے مولوی ظفر اقبال صاحب ( سابق پرنسپل اور مینٹل کالج لاہور ) کے پاس لے گئے (جن کے والد احمدی تھے اور جو ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب جو لاہور کے مشہور سرجن ہیں اُن کے بڑے بھائی ہیں) اور انہیں کہا کہ میرا بیٹا احمدی ہو گیا ہے اسے سمجھایا کریں.میں بہر حال والد صاحب کے کہنے پر مولوی ظفر اقبال صاحب سے ملتا رہا.انہوں نے سلسلہ کے متعلق کبھی کوئی بات نہیں کی البتہ ایک دفعہ مجھے کہنے لگے کہ بڑے مرزا صاحب تو یقیناً بڑے اچھے آدمی تھے لیکن آپ کے

Page 135

انوار العلوم جلد 26 83 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت موجودہ امام پر کئی گندے الزامات ہیں اور یہ کہ میں آپ کو اس کے ثبوت میں عینی شاہد دے سکتا ہوں.میں نے کہا کہ مولوی صاحب ! آپ کو وہ بات کہنے کا اسلام مجاز نہیں بناتا جس کے آپ عینی شاہد نہیں.جب آپ کی بات ہی اصول کے خلاف ہے تو عینی شاہد مہیا کرنے کے لئے مطالبہ کرنا غلط ہے.یہ بات یہیں ختم ہوگئی.میرا ہمیشہ سے یہی تاثر رہا ہے کہ وہ عینی شاہد جس کا مولوی صاحب ذکر کرتے تھے میاں عبدالوہاب عمر تھے.میں حتمی طور پر یہ بات نہیں کہہ سکتا لیکن کئی باتوں اور حالات کی وجہ سے میرا تاثر یہی رہا ہے.خاکسار محمد یوسف "11/11/1956 اس کی تصدیق شیخ محمد اقبال صاحب مالک بوٹ ہاؤس کوئٹہ کی شہادت سے بھی ہوتی ہے.چنانچہ شیخ صاحب لکھتے ہیں:.شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کی شہادت چودھری برکت علی مرحوم جو مکتبہ اردو اور ماہنامہ "ادب لطیف" لاہور کے مالک تھے گرمیاں گزار نے اکثر کوئٹہ آتے رہتے تھے.ان کے ہمراہ ایک اور غیر احمدی دوست ہوا کرتے تھے جو محکمہ تعلیم پنجاب سے تعلق رکھتے تھے.یہ ہر دو اصحاب میرے ایک غیر احمدی نوجوان کے گھر اکثر آتے رہتے تھے جو محکمہ ریل میں آفیسر ہیں.وہیں میری اُن سے کبھی کبھار ملاقات ہوتی.چودھری صاحب مرحوم سے مذہبی گفتگو کا سلسلہ اکثر چلا کرتا تھا.وہ مجلس احرار کے سرگرم رکن تھے اور اُن کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ احراریوں کی سرگرمیوں میں با قاعدگی سے حصہ لیتے اور ان کی بڑی مالی امداد

Page 136

انوار العلوم جلد 26 84 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت بھی کرتے تھے.احمدیت کے خلاف گونا گوں تعصب رکھتے.اُن کے لہجہ میں طنز کا پہلو نمایاں ہوتا اور بار بار کہتے کہ ہمیں کیا بتاتے ہو ہم تو آپ کی جماعت کے اندرون سے اچھی طرح واقف ہیں.غالبا 1943 ء کی گرمیوں کا ذکر ہے کہ دورانِ گفتگو میں حسب معمول چودھری برکت علی نے متذکرہ بالا ہر دو غیر احمدی احباب کی موجودگی میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے طنزاً کہا کہ تم ابھی بچے ہو تمہیں ابھی اپنی جماعت کے اندرون کا علم نہیں ہوا.تمہاری جماعت کے سرکردہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں اور اہلِ قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں.جس سے "مرزائیت کی سچائی " ہم پر خوب واضح ہو چکی ہے.میں نے ان سے کہا اگر آپ جھوٹ بول کر اپنا ایمان ضائع نہیں کر رہے ہیں تو مجھے اُن سر کردہ احمدیوں کے نام بتائیں جو آپ کو پوشیدہ ملتے ہیں.اور اگر بہت سی راز کی باتوں سے آپ پر سچائی آشکار ہو چکی ہے تو چند ایک ہمیں بھی بتا ئیں تا کہ ہم اس سچائی سے محروم نہ رہ جائیں.لیکن وہ اس سوال سے کتراتے اور نام نہ بتاتے.صرف اتنا کہتے کہ وہ لوگ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں.لیکن ان سے بہت بے انصافی کا برتاؤ ہوا ہے، وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں، ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اپنی تنگ دستی اور پریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں اور ہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں.پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگے کہ وہی لوگ ہمیں بتاتے ہیں کہ قادیان بھر میں دو شخص بھی ایسے نہیں ملیں گے جو دل سے موجودہ خلیفہ سے خوش ہوں.ڈر کے مارے گو ظا ہر طور پر اب تک مخالفت نہیں ہوئی لیکن جہاں بھی موقع ملتا ہے لوگ خفیہ مجالس کر کے موجودہ خلیفہ کے خلاف غم وغصہ کا اظہار کرتے رہتے ہیں.“

Page 137

انوار العلوم جلد 26 85 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت آج کل بھی وہ "نوائے پاکستان " میں اعلان کر رہے ہیں کہ جماعت کا اکثر حصہ خلیفہ ثانی سے بیزاری کا اظہار کر رہا ہے.وہ کذاب اور جھوٹا یہاں آکر دیکھے اور جتنے لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان کا دسواں حصہ ہی اپنی طرف دکھا دے.دسواں نہیں ہزارواں حصہ ہی دکھا دے.ہمارے اندازہ کے مطابق اس وقت جلسہ میں عورتوں اور مردوں کی تعداد ساٹھ ہزار ہے وہ ساٹھ آدمی ہی مبائعین میں سے اپنے ساتھ دکھا دے) پھر کہا:- آب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ حال میں قادیان میں ایک جلسہ عام ہوا ہے جس میں اہلِ قادیان نے متفقہ طور پر خلیفہ صاحب کی اقتداء کے خلاف نکتہ چینی کی ہے اور صدائے احتجاج بلند کی ہے (لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ) میں خاموشی سے سنتا رہا.اس کے بعد چودھری صاحب کہنے لگے کہ تمہاری جماعت کے بزرگوں کے ذاتی کیریکٹر کے متعلق بھی ہمیں اطلاعات ملتی رہتی ہیں اور کچھ بزرگوں کے خلاف الزام بھی لگائے.اس پر میری غیرت نے اور کچھ سننا گوارا نہیں کیا اور میں نے نہایت جوش میں دوسرے ہر دو غیر احمدی احباب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دوستو ! ہمارا اپنا مکان قادیان میں ہے اور میں اور میرا خاندان ایک لمبے عرصہ تک وہاں مقیم رہے ہیں.ہم بھی وہاں کے تمام حالات سے واقف ہیں لیکن میں عینی شاہد ہونے کی حیثیت سے چودھری صاحب کے تمام الزامات اور غلط واقعات کی تردید کرتا ہوں اور اس کے جواب میں یہی کہتا ہوں کہ لَعْنَتُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.اور اب میں یہ کہتا ہوں کہ اگر چودھری صاحب ان نام نہاد سرکردہ احمدیوں کا نام نہیں بتا ئیں گے جو نہ صرف منافق ہیں اور خفیہ طور پر احرار سے ملتے ہیں بلکہ اپنے کذب اور جھوٹ کو راز کی باتیں“ بتا کران کے عوض جماعت کے شدید دشمنوں کے سامنے کاسہ گدائی لئے

Page 138

انوار العلوم جلد 26 86 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت پھرتے ہیں تو میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ یہ سب کذب اور افتراء چودھری صاحب جیسے اور ان جیسے دیگر دشمنانِ احمدیت کے اپنے گھڑے ہوئے ہیں اور خواہ مخواہ احمدیوں کو بدنام کرتے پھرتے ہیں.اس پر یک لخت چودھری برکت علی صاحب نے کہا کہ " وہ آپ کے خلیفہ اول کے لڑکے مولوی عبدالوہاب ہیں.66 حضور ! مجھے اُس وقت ہرگز یقین نہیں آیا تھا کہ مولوی عبدالوہاب صاحب کے متعلق جو باتیں چودھری برکت علی نے کی ہیں وہ سچ ہیں بلکہ یہی سمجھتا رہا کہ ان پر افتراء کیا جارہا ہے.اور چونکہ تحقیق کے بغیر کسی پر عائد شدہ الزام کو پھیلانا اسلام میں ممنوع ہے میں آج تک خاموش رہا ہوں.آج تیرہ سال کے بعد اس واقعہ کو حلفیہ طور پر بیان کر کے اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں 41 ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ 1931ء ، 1932 ء میں احمد یہ ہوٹل کی رہائش کے زمانہ میں میاں عبدالوہاب احمد یہ بلڈنکس میں جاتے اور مولوی محمد علی صاحب سے ملا کرتے تھے اور اُن سے امداد بھی لیتے تھے.جیسا کہ ملک عبدالرحمن صاحب خادم کی گواہی سے ظاہر ہے جو ہمارے پاس محفوظ ہے اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ :- اگر چہ 1926 ء سے لے کر آج تک مولوی عبدالوہاب صاحب کو ایک مرتبہ بھی منافقانہ خیالات کے میرے سامنے اظہار کی جرات نہیں ہوئی لیکن میں اچھی طرح سے جانتا ہوں کہ اُن کی یہ بیماری نئی نہیں بلکہ جس زمانہ میں ہم کالج میں پڑھتے اور احمد یہ ہوٹل لاہور میں رہتے تھے تو وہ اُن دنوں بھی احمد یہ بلڈنگ میں جاتے اور مولوی محمد علی صاحب سے ملا کرتے تھے اور ان سے مالی امداد بھی لیا کرتے تھے حالانکہ صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے ان کو بہت کافی مالی امداد با قاعدہ ملتی تھی.یہ 1931ء،1932 ء کی بات ہے.“ اسی کی تائید شیخ محمد اقبال صاحب تاجر کوئٹہ کے بیان سے بھی ہوتی ہے جس کو ابھی بیان کیا

Page 139

انوار العلوم جلد 26 87 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت گیا ہے اور جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مکتبہ اردو اور ماہنامہ "ادب لطیف لاہور کے مالک چودھری برکت علی مرحوم نے اُن سے کہا کہ تمہاری جماعت کے سرکردہ لوگ ہم سے پوشیدہ ملتے رہتے ہیں اور اہلِ قادیان کے اندرونی حالات ہم کو بتاتے رہتے ہیں.جب میں نے اصرار کیا کہ بتائیں وہ کون لوگ ہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ تمہاری جماعت میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر وہ قادیان میں بہت تنگ ہیں ، ان کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور اپنی تنگدستی اور پریشانیوں کی ہم سے شکایت کرتے ہیں اور ہم سے مالی امداد بھی طلب کرتے رہتے ہیں." اور آخر میں مولوی عبدالوہاب کا نام لیا.42 ان گواہیوں سے ظاہر ہے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب اپنی تنگدستی اور پریشانیوں کی غیروں سے شکایت کرتے رہے اور یہ پروپیگنڈا کرتے رہے کہ اُن کی کوئی مالی امداد نہیں کی جاتی.حالانکہ یہ بالکل جھوٹ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 1908ء میں فوت ہوئے تھے اور حضرت خلیفہ اول 1914ء میں فوت ہوئے.گویا حضرت خلیفہ اول کی وفات پر بیالیس سال اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اڑتالیس سال گزر چکے ہیں جو حضرت خلیفہ اول کی وفات کے عرصہ سے یقیناً زیادہ ہے.اس عرصہ میں سلسلہ کی طرف سے جو دونوں خاندانوں کو امداد دی گئی ہے اُس کا میں نے حساب نکلوایا ہے جو چھپیں سال گزشتہ کا مل چکا ہے کیونکہ کچھ ریکارڈ قادیان رہ گیا ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو 25 سال کے عرصہ میں نوے ہزار ایک سو بیس روپیہ دیا گیا.اور حضرت خلیفہ اول کے خاندان کو جو بہر حال حضرت مسیح موعود کے خادم تھے اس عرصہ میں نوے ہزار دوسونوے روپیہ ملا ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے جن کے افراد زیادہ تھے حضرت خلیفہ اول کے خاندان کو ایک سو ستر روپیہ زیادہ ملا.اور ابھی وہ رقمیں الگ ہیں جو میں دیتا رہا.مگر باوجود اس کے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے کہ حضرت خلیفہ اول کے خاندان کو گرایا جارہا ہے اور ان کی مدد نہیں کی جارہی.جب اس کے ساتھ یہ بات بھی ملائی جائے کہ اس چھپیں سال میں میں نے چندے کے

Page 140

انوار العلوم جلد 26 88 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.طور پر پینتالیس ہزار کی رقم دی ہے اور پچھلے سال قریباً ڈیڑھ لاکھ کی زمین انجمن کو دی ہے تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کو ایک کوڑی بھی نہیں ملی بلکہ انہوں نے بغیر کوئی پیسہ لئے صدر انجمن احمدیہ کی خدمت کی ہے اور اس کو ایک بڑی بھاری رقم دی ہے.اور اس کے علاوہ تحریک جدید کو میں نے تین لاکھ روپیہ دیا ہے.1936ء میں کیپٹن نواب دین صاحب دار الفضل ربوہ کی گواہی کے مطابق شیخ محمد سعید صاحب نے جو آجکل صوبیدار میجر کے عہدہ سے ریٹائر ہو کر لاہور میں مقیم ہیں اُن کے پاس بیان کیا کہ ڈلہوزی میں میاں عبدالوہاب شیخ مولا بخش صاحب لائلپوری اور ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی اُن مجالس میں موجود ہوتے تھے جن میں وہ خلیفہ ثانی پر گندے الزامات لگاتے تھے اور ان لوگوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے.1940ء میں شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ کی گواہی کے مطابق مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی کے والد مولوی محمد زکریا صاحب نے یہ انکشاف کیا کہ مولوی عبدالوہاب صاحب ان کے ایجنٹ اور مخبر ہیں.چنانچہ پراچہ صاحب لکھتے ہیں :.مکرم شیخ عبدالرحیم صاحب پراچہ کی شہادت وو بہت عرصہ ہوا احمد یہ ہوٹل لاہور مزنگ کے علاقہ میں نواب صاحب بہاولپور کی کوٹھی میں جس کا نام مجھے یقینی طور پر یاد نہیں رہا (غالباً الفیض تھا ) میرے بڑے بھائی میاں فضل کریم صاحب پراچہ بی.اے ایل ایل بی سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل تھے.حضور لاہور تشریف لائے تو ہوٹل میں ہی قیام فرمایا.میں بھی لاہور میں تھا.ایک دن حضور باہر تشریف لے گئے اور حضور کے کمرہ میں کوئی نہ تھا تو مولوی عبد الوہاب اُس کمرہ میں گئے اور حضور کے کا غذات دیکھنے لگ گئے.بھائی فضل کریم صاحب نے دیکھ لیا اور انہوں نے اُن سے بہت سختی کی اور حضور کی خدمت میں بھی بعد میں عرض کر دیا.اب مجھے یاد نہیں اُس وقت میں ہوٹل میں تھا یا بعد میں بھائی صاحب نے بتایا وہ بہت غصے میں تھے اور کہتے تھے ان کا پیغامیوں سے تعلق

Page 141

انوار العلوم جلد 26 89 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہے اور اس ضمن میں تلاشی لے رہے تھے.انہوں نے مولوی عبدالوہاب کی سخت بے عزتی کی جو مجھے ناگوار گزری کیونکہ بھائی صاحب نے حضور سے عرض کر دیا تھا اور حضور نے ستاری سے کام لیا.مجھے محض حضرت خلیفہ اوّل کے مقام اور بھیروی اور ہمارے بزرگوں کے محسن ہونے اور اکثر بھیرہ کے لوگوں کے اُن کے ذریعہ جماعت میں داخل ہونے کی وجہ سے بھائی صاحب پر افسوس ہوا کہ حضور نے تو ستاری کی اور وہ ان کو ننگا کر رہے ہیں.اس کے علاوہ جنگ سے پہلے اور جنگ شروع ہونے کے زمانہ میں جو اغلبا 1937 ء،1938 ءاور 1939 ءتھا میں کاروبار کے سلسلہ میں شملہ جاتا رہا.پہلی دفعہ وہاں میں مسلم یا دہلی مسلم ہوٹل میں (صحیح نام یاد نہیں) ٹھہرا.اور پھر دوسری مختلف جگہوں پر ٹھہرا.میرا قالین کا کاروبار تھا اور قالین کے ایرانی بیو پاری مال لے کر اس ہوٹل میں ٹھہر تے تھے جس کی وجہ سے اکثر اس ہوٹل میں جانا پڑتا تھا.ہوٹل کے مالک دہلی میں ریلوے اسٹیشن پر مسلم ریفرشمنٹ روم کے کنٹریکٹر بھی تھے.اور ان کا منیجر منظور حسین یا احمد ہوتا تھا مجھے سنہ صحیح یاد نہیں مگر مندرجہ بالا اوقات کے دوران میں ایک دن اس ہوٹل کے کھانے کے کمرے میں چائے یا کھانا کھا رہا تھا تو وہاں ایک سفید ریش معمّر مولوی صاحب بھی بیٹھے ہوئے تھے.اب یاد نہیں کہ مولوی عبدالوہاب صاحب وہاں مجھ سے پہلے بیٹھے ہوئے تھے یا بعد میں آئے اُن سے وہاں ملاقات ہوئی.میں اپنے ساتھی کے ساتھ مصروف رہا.مولوی عبدالوہاب صاحب فارغ ہو کر چلے گئے اور میں وہاں بیٹھا رہا.منیجر ہوٹل منظور صاحب جن سے میری بے تکلفی تھی آ کر پاس ہی بیٹھ گئے.اُن سفید ریش مولوی صاحب نے جو نہیں جانتے تھے کہ میں احمدی ہوں ( مگر منظور صاحب کو میرا اچھی طرح علم تھا ) مولوی عبدالوہاب صاحب کا ان کے چلے جانے کے بعد ذکر شروع کر دیا کہ یہ فلاں آدمی ہیں اور یہ ہمیں خبریں دیتے ہیں اور

Page 142

انوار العلوم جلد 26 90 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہمیں انہی لوگوں سے مرزائیوں کے راز معلوم ہوتے ہیں.اور کہا کہ ( مجھے صحیح یاد نہیں آج یا کل) یہ چودھری افضل حق کے پاس بھی آئے تھے.(اُن دنوں چودھری افضل حق صاحب شملہ میں تھے ) اور بھی گفتگو ہوئی مگر اب اتنا عرصہ گزرنے کے بعد یاد نہیں مگر وہ الفاظ یا مفہوم جن سے مولوی صاحب کا احراریوں سے تعلق ظاہر ہوتا تھا اور پھر خلیفہ اول کی اولا دکس طرح بھول سکتے ہیں سخت صدمہ ہوا.میں نے کسی رنگ میں بعد میں مولوی صاحب سے خود چودھری افضل حق صاحب سے ملاقات کی تصدیق بھی کروالی.پیغامیوں سے ان کے تعلقات کا کئی دفعہ سن چکا تھا.مگر یہ الفاظ رنج دہ تھے.منظور صاحب نے میرے ساتھ تعلقات کی وجہ سے اُن سفید ریش مولوی صاحب کو یہ نہ بتایا کہ یہ احمدی ہیں بلکہ مسکراتے رہے اور انہیں نہ ٹو کا.جب وہ مولوی صاحب چلے گئے تو مجھے بتایا کہ یہ مولوی صاحب مولوی حبیب الرحمن صاحب لدھیانوی احراری لیڈر کے والد ہیں.بعد میں دوسروں سے بھی تصدیق ہوگئی کہ یہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کے والد ہیں کیونکہ پھر کئی دفعہ ملنے کا موقع ملا.میں ان الفاظ پر جو مولوی حبیب الرحمن صاحب کے والد نے کہے تھے حرف بحرف حلف نہیں اُٹھا سکتا مگر میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مولوی حبیب الرحمن صاحب کے والد صاحب نے جن کا نام مجھے یاد نہیں اس مفہوم کے الفاظ کہے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب احراریوں کے مخیر ہیں اور آج یا کل بھی (شملہ میں ) چودھری افضل حق صاحب کے پاس آئے تھے.43 پراچہ صاحب نے جلسہ سالانہ پر شہادت دیتے ہوئے بتایا کہ جب الفضل میں میرا یہ خط شائع ہوا تو اُس وقت مجھے اُن سفید ریش معمر مولوی صاحب کا جو وہاں بیٹھے ہوئے تھے نام یاد نہیں تھا اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان کا نام مولوی محمد زکریا تھا اور میں خود بھی قسم کھا کے کہتا ہوں

Page 143

انوار العلوم جلد 26 91 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کہ مجھے یاد آ گیا اور میرے حافظہ نے کام دیا کہ ان کا نام مولوی محمد زکریا تھا.اور مجھے بتایا گیا تھا کہ یہ مولوی حبیب الرحمن صاحب احراری لیڈر کے والد ہیں.1946ء میں محمد عبد اللہ صاحب ظفر وال ضلع سیالکوٹ کی گواہی کے مطابق میاں عبدالمنان صاحب نے مجھ پر اپنی جائیداد غصب کرنے کا الزام لگایا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں:.”ہمارے ایک معزز غیر احمدی دوست نے ( جو علاقہ مجسٹریٹ کے ریڈر ہیں) مجھے بتایا کہ مولوی منان میرے واقف ہیں.پارٹیشن سے پہلے جب کبھی میں ان کے ہاں جایا کرتا وہ حضور کے خلاف سخت غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے کہ دیکھو جی! کمائی ہمارے باپ کی اور کھا یہ رہے ہیں ( گویا مسیح موعود کی کمائی ہی نہیں.کمائی حضرت خلیفہ اول کی تھی.اگر جسمانی لوتب بھی حضرت خلیفہ اول کی کمائی ہم سے ہزارواں حصہ بھی نہیں تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ورثہ میں پانچ گاؤں اور ایک شہر قادیان کا ملا تھا اور خلیفہ اول کو اُن کے باپ کی طرف سے ایک کچا کوٹھا بھی نہیں ملا تھا ہمیں کوئی پوچھتا بھی نہیں اور ان کے گل بن رہے ہیں." 1950ء میں میاں عبد السلام نے یہ کہا کہ عبد الباسط اُن کے بڑے بیٹے کو زہر دیا گیا ہے.وہ لائل پور میں پڑھتا تھا اور میں نے جماعت لائل پور سے گواہی منگوائی ہے وہ کہتے ہیں کہ میونسپل کمیٹی میں اُن کا ریکارڈ موجود ہے اور میونسپل کمیٹی کی سند موجود ہے کہ اُس نے خود کشی کی تھی.بلکہ وہ کہتے ہیں کہ بعد میں جب ہم نے جنازہ نہ پڑھا کیونکہ خودکشی کرنے والے کا جنازہ جائز نہیں ہوتا تو میاں عبدالمنان نے آ کر کہا کہ عبد الباسط نے خود کشی نہیں کی بلکہ کسی نے اس کو زہر دے دیا ہے اور اُس کی موت میں مختلف لوگوں کا ہاتھ ہے.اور اس کے بعد میاں عبدالسلام اور عبدالمنان دونوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح یہ بات ثابت ہو جائے کہ اس نے خود کشی نہیں کی بلکہ اُسے زہر دیا گیا ہے.چنانچہ چودھری رشید احمد صاحب بٹ جو سکھر میں ہیں اور مولوی عبد السلام صاحب کی زمینوں کے قریب رہتے ہیں ان کی بھی یہی گواہی ہے.وہ لکھتے ہیں:.

Page 144

انوار العلوم جلد 26 92 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت دو ” میری مولوی عبد السلام مرحوم سے پہلی ملاقات جنوری 1950ء میں بمقام کنڈیارو ہوئی جبکہ ہمارا تعارف چودھری ہدایت اللہ صاحب پریذیڈنٹ جماعت کنڈیارو نے کرایا.اس سے پہلے حضرت خلیفہ اسیح الاول کے لڑکوں کے نام تو جانتا تھا مگر ان میں سے میرا کوئی واقف نہ تھا.اس دوران میں مولوی صاحب موصوف اس قسم کی باتیں کرتے رہے جس سے یہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے موجودہ نظام سے دلچسپی نہیں ہے ( یہ تو ظاہر ہی ہے مگر میاں بشیر احمد صاحب کو مولوی عبدالسلام صاحب کا بیٹا خود کہہ گیا ہے کہ میں خلافت سے بدظن ہوں.اور کہہ گیا ہے کہ آپ تو بڑھے ہوگئے ہیں، آپ کے ساتھ تو مستقبل کوئی نہیں.میں جوان آدمی ہوں میرے سامنے بڑا مستقبل ہے میں نے اس کی فکر کرنی ہے.گویا وہ بھی خلافت کا خواب دیکھ رہا ہے ) سیدی !....غالباً سب سے پہلے ایسی بات جو مولوی صاحب موصوف نے مجھ سے کی وہ یہ تھی کہ میرا بڑا لڑکا جوز ہر دے کر ہلاک کیا گیا تھا وہ دراصل مرزا خلیل احمد کی وجہ سے ہوا تھا کیونکہ وہ دونوں کمیونسٹ ہو چکے تھے.حضرت صاحب نے اپنے لڑکے کو بچا لیا اور مجھے یہ کہہ کر اب اگر تم کیس کرو گے تو مسیح موعود کے خاندان کی بے عزتی ہوگی حالانکہ میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم نے مجھے بہت کہا تھا کہ کیس کرومگر میں نے اس واسطے نہیں کیا کہ مجھے حضرت صاحب نے بلا کر منع کیا تھا ( جھوٹ ہے لَعْنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ ) بہر حال میرالڑکا (یعنی مولوی عبد السلام کا حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا پوتا ) مسیح موعود کے پوتے کے لئے قربان ہو گیا.اس دوران میں مولوی صاحب نے مجھ سے یہ بھی کہا کہ جس وقت یہ کیس ہوا اُس وقت خلیل کی الماری اشترا کی لٹریچر سے بھری ہوئی تھی جس کو خود حضرت صاحب نے جلایا ( یہ بھی جھوٹ ہے.البتہ یہ

Page 145

انوار العلوم جلد 26 93 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ٹھیک ہے کہ بعض کمیونسٹ جو ہمارے دشمن تھے انہوں نے خلیل کے نام کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا شروع کر دیا تھا) میں نے مولوی صاحب سے جواباً کہا.مجھے یہ علم نہیں نہ حضور کے علم میں یہ باتیں ہیں.“ عبدالباسط نے در حقیقت خود کشی کی تھی جس کی تائید میں جماعت احمدیہ لائلپور نے مولوی عبید اللہ صاحب قریشی، شیخ محمد یوسف صاحب، ڈاکٹر محمد طفیل صاحب، شیخ نذر محمد صاحب، میاں محمد شفیع صاحب، کمانڈر عبداللطیف صاحب ، چودھری عبدالرحمن صاحب، ڈاکٹر چودھری عبدالاحد صاحب اور شیخ عبدالقادر صاحب مربی لاہور کی گواہیاں میرے پاس بھجوا دی ہیں.جن میں انہوں نے کہا ہے کہ تحقیقات ہوئی اور پولیس بھی آئی اور پھر سارا واقعہ لکھا کہ اس طرح وہ کمیونسٹ دوستوں کے پاس سے آیا اور کہنے لگا میں ذرا غسل خانہ میں جانا چاہتا ہوں.وہاں گیا تو تھوڑی دیر کے بعد ہم کو آواز آئی.ہم نے جب جھانکا تو دیکھا کہ زمین پر گر پڑا تھا اور قے کی ہوئی تھی.پھر ہم نے اس کی جیب میں ہاتھ ڈالا تو اس میں سے رقعہ نکلا کہ میں نے خود زہر کھایا ہے کسی پر الزام نہ لگایا جائے.چنانچہ وہ رقعہ پولیس میں دیا گیا.اس نے تحقیقات کی اور میونسپل کمیٹی نے سرٹیفکیٹ دے دیا کہ سیو سائڈ (SUICIDE) ہے، دفن کر دیا جائے.اس وجہ سے پولیس نے کوئی مزید کارروائی نہ کی.خلیل کا واقعہ تمبر 1941 ء کا ہے.1941ء میں بعض احراریوں نے کمیونسٹوں سے مل کر خلیل احمد کو کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا شروع کیا اور دوسری طرف گورنمنٹ کو اطلاع دی کہ اس کے پاس کمیونسٹ لٹریچر آتا ہے اور یہ کمیونسٹ ہے.مجھے اس سازش کا پتا لگ گیا اور میں نے فوراً ڈاکخانہ کو لکھ دیا کہ خلیل کی ڈاک مجھے دی جایا کرے خلیل کو نہ دی جایا کرے.میری غرض یہ تھی کہ یہ الزام نہ لگائیں کہ ڈاک کے ذریعہ اُس کے پاس لٹریچر آتا ہے.جب وہ لٹریچر میرے پاس آئے گا تو میں اسے تلف کردوں گا اور گورنمنٹ کو کوئی بہانہ نہیں ملے گا.پولیس نے پھر بھی شرارت کی اور اس کے بعد جب میں ڈلہوزی گیا تو وہاں ڈاکیا کو ساتھ ملا کر ایک بیرنگ پیکٹ خلیل کو دلوا دیا.چونکہ میں نے اُسے منع کیا تھا وہ فوراً میرے پاس لے آیا اور میں نے وہ

Page 146

انوار العلوم جلد 26 94 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت در دصاحب کے سپرد کیا اور در دصاحب کے ہاتھ سے پولیس سب انسپکٹر چھین کر لے گیا.میں نے فوراً گورنر کو تار دلا دیا کہ اس طرح پولیس آئی ہے اور درد صاحب کے ہاتھ سے ایک ٹریکٹ چھین کر لے گئی ہے.ہمیں نہیں پتا اس میں کیا ہے.مگر اس کا منشا یہ ہے کہ خلیل کو زیر الزام لائے کیونکہ وہ خلیل کے نام آیا تھا.اس پر گورنمنٹ نے تحقیقات کی اور پولیس کی شرارت اُس پر ظاہر ہوگئی اور وہ ہیڈ کانسٹیبل جو اُس وقت سب انسپکٹر کام کر رہا تھا اُس کو ڈی گریڈ کیا گیا.اور ڈلہوزی سے بدل کر شکر گڑھ کے ایک چھوٹے سے تھانہ میں بھیج دیا گیا.اُس وقت نہ ہمیں معلوم تھا کہ عبدالباسط بھی کمیونسٹ اثر کے نیچے ہے اور نہ ہم اس کے لئے کوئی کوشش کر سکتے تھے.کیونکہ وہ لائکپور میں پڑھتا تھا اور لائکپور کالج کے کمیونسٹ لڑکوں سے ملا کرتا تھا اور ہماری حفاظت سے باہر تھا.پھر یہ مخالفت اتنی لمبی کی گئی کہ 1950ء، 1951 ء کی گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ میاں عبدالمنان کی خلافت کا پروپیگنڈا شروع کر دیا گیا.چنانچہ عزیزہ بیگم صاحبہ اہلیہ مولوی محمد صادق صاحب مبلغ سیرالیون جو محبوب علی صاحب مرحوم آف مالیر کوٹلہ کی دختر ہی لکھتی ہیں کہ : ” 1950ء یا 1951ء کا واقعہ ہے کہ میرا خالہ زاد بھائی منور شاہ ولد فضل شاہ ( ساکن نواں پنڈ احمد آباد مضافات قادیان کا ہے.اور اس وقت گوٹھ لالہ چرنجی لال نمبر 385 تحصیل میر پور خاص ضلع تھر پارکر سندھ میں رہائش رکھتا ہے ) انہی دنوں میں یعنی 1950ء، 1951ء میں جب کہ مرزا شریف احمد صاحب کی دکان بندوقوں والی میں ملازم تھا ربوہ میں میرے پاس ملنے کو آیا.اتفاقاً ایک دن باتوں باتوں میں یہ ذکر کیا کہ ایک گروہ نو جوانوں کا ایسا ہے جو کہتا ہے کہ موجودہ خلیفہ کے بعد اگر خلافت پر مرزا ناصر احمد صاحب کو جماعت نے بٹھایا تو ہماری پارٹی میں سے کوئی بھی اسے نہیں مانے گا.ہم تو میاں عبدالمنان صاحب عمر کوخلیفہ مانیں گے.میں نے اُسے بُرا منایا اور جھڑک کر کہا کہ وہ خبیث کون کون ہیں؟ اس پر غصے میں آ کر کہنے لگا کہ دیکھنا ! اس وقت تم لوگوں کا ایمان بھی قائم نہیں رہے گا.یہ کہہ کر اُسی وقت وہ میرے گھر سے باہر چلا گیا.میں اس کی وجہ سے دل میں

Page 147

انوار العلوم جلد 26 95 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت 46 گردھتی رہی مگر سمجھ نہیں آتی تھی کہ اس کا ذکر حضور سے کیونکر کروں.اب حضور کا ارشاد پڑھ کر میں نے یہ بیان مولوی عبداللطیف صاحب بہاول پوری کو لکھوا دیا.میں خدا کو حاضر ناظر جان کر حلفیہ کہتی ہوں کہ یہ بیان صحیح ہے.الفاظ میں کمی بیشی ہو تو الگ امر ہے مگر مفہوم یہی تھا.44 اسی طرح چودھری بشارت احمد صاحب لاہور کی گواہی ہے.جس میں وہ کہتے ہیں کہ غلام رسول نمبر 35 نے بھی یہی کہا کہ ہم تو میاں عبدالمنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے.45 اور مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی راولپنڈی کی بھی یہی گواہی ہے کہ اللہ رکھا نے کہا کہ اب تو لاہوریوں کی نظر حضرت خلیفہ اول کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبدالمنان صاحب کی زیادہ تعریف کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں.چنانچہ ”پیغام صلح کی تائید سے بھی ظاہر ہو گیا ہے کہ بات سچ ہے.اسی طرح عنایت اللہ صاحب انسپکٹر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ لکھتے ہیں:.ڈاکٹر محمد شفیع صاحب نثار پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ طالب آباد نے بتایا کہ آج سے دو سال قبل گوٹھ رحمت علی تھل برانچ پر مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی ( یہ حضرت خلیفہ اول کے نواسے اور عبدالوہاب اور عبدالمنان کے بھانجے ہیں) کے ایک پروردہ شخص بشیر احمد نے کہا کہ جماعت احمدیہ کی خلافت کا حق مولوی نور الدین صاحب کے بعد اُن کی اولاد کا تھا.لیکن میاں محمود احمد صاحب نے ( نَعُوذُ بِاللهِ ) ظلم سے ان کا حق غصب کر کے خلافت پر قبضہ کر لیا ہے.اب ہم لوگ ( یعنی خاندان حضرت خلیفہ اول اور ان کے غیر احمدی رشتہ دار ) اس کوشش میں ہیں کہ خلافت کی گری مولوی صاحب کی اولاد کو ملے.اور اب "حق بحقدار رسید" کے مطابق جلد ہی یہ معاملہ طے ہو کر رہے گا.“ یعنی حق حضرت خلیفہ اول کا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد نے خواہ مخواہ بیچ میں 47،، دخل دے دیا.چنانچہ ہمارے پاس بعض ٹریکٹ ایسے پہنچے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ

Page 148

انوار العلوم جلد 26 96 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت حضرت خلیفہ اول کے غیر احمدی رشتہ داروں نے مختلف کارٹونوں کے ذریعہ سے اس کے لئے پرو پیگنڈا بھی شروع کر دیا ہے اور یہ اشتہارات کثرت کے ساتھ جماعت میں شائع کئے جائیں گے.ہمیں معلوم ہوا ہے کہ اس وقت ایک ٹریکٹ چالیس ہزار چھپا ہے اور کثرت سے ایسے ٹریکٹ جماعت میں شائع کئے جائیں گے.مہاشہ محمد عمر صاحب کی شہادت وہ کہتے ہیں:.مہاشہ محمد عمر صاحب کی رپورٹ بھی اسی کی تائید کر رہی ہے کہ اب تک مخالفت بڑھائی جارہی ہے.میں بتاریخ 24/12/1956 کو جلسہ سالانے کے لئے ڈھاکہ سے ربوہ آ رہا تھا.جب میں امرتسر ریلوے سٹیشن پر گاڑی سے اُترا تو ایک نوجوان مجھے ملا.اس نے کہا.کیا آپ ربوہ جا رہے ہیں؟ میں نے کہا کہ ہاں.اِس پر اُس نے کہا کہ اگر آپ کو ہماری خدمات کی ضرورت ہو تو ہم حاضر ہیں.کیونکہ ہماری ڈیوٹی لگی ہے کہ جلسہ پر آنے والے احمدیوں کو سہولت کے ساتھ پہنچا دیں.میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور بازار چلا گیا.جب ہم بس میں سوار ہوئے تو وہ بھی ہمارے پاس آکر لاہور کے لئے اُس بس میں بیٹھ گیا اور کہنے لگا کہ آپ لوگوں کے لئے کھانے وغیرہ کا انتظام حضرت مولوی عبدالمنان صاحب نے رتن باغ میں کیا ہے اور وہ بڑے متقی ہیں آپ وہاں تشریف لے چلیں.میں نے پوچھا آپ کا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ میرا نام ارشد ہے (ممکن ہے اس نے اپنا نام غلط بتایا ہو ہمارے علم میں اس کا نام خالد ہے ) اور میں حضرت مولوی عبد المنان صاحب کا بھانجا ہوں اور مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا لڑکا ہوں.میں خدا کی قسم کھا کر بیان کرتا ہوں (مہاشہ محمد عمر ) کہ یہ میں درست کہہ رہا ہوں.“ گویا جیسے شیطان نے کہا تھا کہ قَالَ اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ 48 کہ میں آدم سے بہتر ہوں اسی

Page 149

انوار العلوم جلد 26 97 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت طرح اسماعیل غزنوی کے بیٹے نے ہمارے بنگالی مہمانوں کو ورغلانے کے لئے کہا کہ منان صاحب کی دعوت کھاؤ جو جماعت میں تقویٰ میں سب سے افضل ہے.پھر 1953ء میں مولوی عبد المنان صاحب نے سلسلہ کے مخالف وہابیوں سے ایک خفیہ ساز باز کی.چنانچہ ہمیں ایک فائل اور منٹل (ORIENTAL) کمپنی کے دفتر سے ملا ہے جس کے چیئر مین مولوی عبد المنان صاحب تھے.خدا تعالیٰ نے ان کی عقل ایسی ماری کہ وہ اپنے کئی خطوط وہاں چھوڑ کر بھاگ گئے.چنانچہ ایک خط اُن میں مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ملا ہے جو ان کے سوتیلے بھانجے ہیں اور غزنوی خاندان میں سے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شدید دشمن رہا ہے.اور جس کی مخالفت میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کئی کتابیں لکھی ہیں.اس میں وہ لکھتے ہیں.: ” جو امانت آپ کے پاس پڑی ہے ضرورت ہے کہ وہ محفوظ ترین طریق سے میرے پاس پہنچ جائے.یا تو ان 100 جیپوں میں سے کسی ایک پر جو لاہور آ رہی ہوں اشیاء بھجوا دیں ( معلوم ہوتا ہے سازشی طور پر یہاں سے لاہور تک ایک جال تنا ہوا تھا) یا کسی معتبر آدمی کے ہاتھ جسے میں کرایہ بھی ادا کر دوں گا.یا اگر آپ صالحہ بیگم زوجہ میر محمد اسحاق صاحب مرحوم کی خبر لینے کے لئے آئیں (وہ 1952ء میں لاہور علاج کے لئے گئی تھیں ) تو آپ اپنے ساتھ لیتے آئیں.مگر کسی کے ہاتھ بھجوائیں تو بے خطا بھجوائیں ضالع نہ ہو.“ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ 1953 ء سے مولوی عبدالمنان اور سلسلہ کے مخالف وہابیوں میں خفیہ ساز باز جاری تھی.ایک خط اس فائل میں اللہ رکھا کا مولوی عبد المنان کے نام ملا ہے اس میں اس نے خواہش کی ہے کہ آپ اپنے لنگر خانہ میں مجھے ملازمت دلوادیں.چنانچہ وہ لکھتا ہے :.آپ اپنے لنگر خانہ میں مجھے ملا زمت دلوا دیں ( گویا سلسلہ کا لنگر خانہ جلسہ کے کام پر مقرر کرنے کی وجہ سے اب میاں عبدالمنان کا

Page 150

انوار العلوم جلد 26 98 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہو گیا مگر جلسہ سالانہ سے پہلے کسی اچھی جگہ پر لگا دیں اب اللہ رکھا کا تازہ خط پکڑے جانے پر اس خاندان نے شور مچایا ہے کہ اللہ رکھا کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ خط تو اماں جی کی وفات پر محض ہمدردی کے خط کے جواب میں تھا.حالانکہ یہ خط بتاتا ہے کہ اللہ رکھا سے پرانے تعلقات چل رہے تھے.بلکہ قادیان سے ایک درویش نے جو کہ لنگر خانہ کا افسر تھا لکھا ہے کہ میں لنگر خانہ کے سٹور میں سویا ہوا تھا کہ رات کو میں نے دیکھا کہ اللہ رکھا آیا ، اس کی آنکھیں کمزور ہیں اور اسے اندھراتا کی شکایت ہے جس کی وجہ سے اسے رات کو ٹھیک طور پر نظر نہیں آتا.اس نے آ کر ادھر اُدھر دیکھا مگر اندھیرے کی وجہ سے مجھے دیکھ نہ سکا.اس کے بعد وہ وہاں سے سامان اٹھا کر بازار میں بیچنے کے لئے لے گیا.میں نے اس کو راستہ میں پکڑ لیا.پھر اور لوگ بھی جمع ہو گئے اور اس کو ملامت کی.جب تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ وہ سامان بیچ کر میاں عبدالوہاب کی ایجنٹی کرتا ہے اور ان کو رو پید ا کر دیتا ہے واللہ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ چونکہ راوی ایک ہی ہے اس لئے ہم اس کی شہادت کی قطعی طور پر تصدیق نہیں کر سکتے جب تک کہ کئی راوی نہ مل جائیں.اسی طرح اللہ رکھا کا ایک خط مولوی عبد المنان کے نام ملا ہے.اس میں لکھا ہے.”جناب مولوی اسماعیل کے ساتھ جس آدمی کے متعلق آپ کے سامنے ذکر فرمایا تھا (اپنے آپ کو فرمایا لکھتا ہے ) اس کو جناب مولوی (صاحب) سے ملا دیا.بعد میں کوشش کی کہ آپ کی بھی ملاقات ہووے مگر آپ کو موقع نہ ملا.اگر موقع ملتا تو آپ ضرور اس کے خیال کا پتا کرتے اور جو مال اس کے پاس تھا دیکھتے.اگر اس قابل ہوتا کہ موجودہ وقت کے مطابق شائع کرنا مناسب حال ہوتا تو آپ بات کر لیتے.“ گویا اُس وقت بھی بقول اللہ رکھا ہمارے خلاف ٹریکٹ لکھوائے جارہے تھے اور مولوی عبدالمنان مولوی اسماعیل صاحب غزنوی سے مل کر مشورے کرتا تھا.اس خط سے بالکل واضح ہو گیا ہے کہ اللہ رکھا مولوی اسماعیل غزنوی اور مولوی عبدالمنان میں سالہا سال سے ایک سازش 66

Page 151

انوار العلوم جلد 26 99 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت جاری تھی اور یہ محض غلط بیانی ہے کہ اماں جی کی وفات پر کسی ہمدردی کے خط پر اس سے تعلق پیدا ہوا.یہ سازش عام نہیں تھی بلکہ سلسلہ کے خلاف لٹریچر شائع کرنے کی سازش تھی جس میں غیر احمدی بھی شامل تھے.ہماری جماعت کے لوگ چونکہ عموماً باہر کے لوگوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے وہ سمجھتے نہیں کہ مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کون ہیں؟ مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی حضرت خلیفہ اول کی پہلی بیٹی کے بیٹے ہیں.جب آپ وہابی تھے تو آپ نے وہابی تعلق کی وجہ سے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی رحمتہ اللہ علیہ جو نہایت بزرگ اور ولی اللہ تھے اور افغانستان سے ہجرت کر کے آئے تھے اُن کے بیٹے مولوی عبدالواحد سے اپنی لڑکی امامہ کا بیاہ کر دیا.امامہ کے بطن سے تین بچے پیدا ہوئے.ایک آمنہ بڑی لڑکی پیدا ہوئی دوسرے محمد ابراہیم بیٹا پیدا ہوا اور تیسرے محمد اسماعیل پیدا ہوا جو اب مولوی اسماعیل غزنوی کہلاتا ہے.ابراہیم غزنوی بچپن میں میرے ساتھ کھیلا ہوا ہے.حضرت خلیفہ اول کے پاس جو اس کے نانا تھے آیا کرتا تھا.بہت نیک اور شریف لڑکا تھا.یعنی وہ اپنے چھوٹے بھائی کی بالکل ضد تھا.گو میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ بڑا ہوتا تو احمدی ہوتا یا باپ کے اثر کے نیچے نہ ہوتا مگر بہر حال وہ ایک نیک لڑکا تھا.اس خاندان کی سلسلہ سے عداوت بہت پرانی ہے.مولوی عبداللہ صاحب غزنوی جو ملہم تھے انہوں نے ایک خواب دیکھی تھی جو حافظ محمد یوسف صاحب نے جو امرتسر کے ایک عالم تھے اور مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کے مریدوں میں سے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہنچادی.وہ خواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی کتابوں میں چھپی ہوئی ہے.وہ خواب یہ تھی کہ قادیان میں خدا تعالیٰ کا نوراتر امگر میری اولا د اس سے محروم رہی 49 جب یہ خواب شائع ہوئی تو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی اولاد کو غصہ لگا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف بڑے بڑے فتوے دیئے.اس وقت اس خاندان کے لیڈر مولوی داؤ د غزنوی ہیں جو 1953ء کے ایجی ٹیشن میں جس میں سینکڑوں احمدی مارے گئے تھے لیڈر تھے.یہ مولوی داؤ د غزنوی مولوی عبد الجبار کے بیٹے ہیں جو مولوی عبدالواحد کے بڑے بھائی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے

Page 152

انوار العلوم جلد 26 100 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت مولوی عبدالجبار کے ایک بھائی احمد بن عبداللہ غزنوی کا فتویٰ اپنے متعلق کتابوں میں نقل کیا ہے کہ وہ کیسا بد گو آدمی تھا.اس نے جو فتوی دیا تھا وہ کتاب البریہ صفحہ 120 پر درج ہے.اس میں لکھا ہے کہ قادیانی کے حق میں میرا وہ قول ہے جو ابن تیمیہ کا قول ہے جیسے تمام لوگوں سے بہتر انبیاء علیہم السلام ہیں ویسے ہی تمام لوگوں سے بدتر وہ لوگ ہیں جو نبی نہ ہوں اور نبیوں سے مشابہہ بن کر نبی ہونے کا دعویٰ کریں....یہ ( یعنی مسیح موعود ) بدترین خلائق ہے ( یعنی چوہڑوں چماروں سے بھی بدتر ہے ) تمام لوگوں سے ذلیل تر آگ میں جھونکا جائے گا ( یعنی جہنم میں پڑے گا ).50 یہ تو ایک بھائی کا فتویٰ تھا.اب مولوی اسماعیل غزنوی کے باپ (مولوی عبد الواحد غزنوی کا فتویٰ سن لو جس کے ساتھ مل کر منان کوششیں کر رہا ہے اور جس کا بیٹا بنگال کے وفد کو لینے کے لئے بارڈر پر گیا تھا.مولوی عبدالواحد بن عبد اللہ غزنوی کا فتویٰ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اشاعۃ السنة جلد 13 میں صفحہ 202 پر شائع کیا ہے.یہ دو بھائیوں نے مل کر فتویٰ دیا تھا.ایک مولوی عبدالواحد نے جو مولوی اسماعیل غزنوی کے باپ ہیں اور ایک ان کے دوسرے بھائی مولوی دو عبدالحق نے.اس میں لکھا ہے کہ : یہ مسئول عنه شخص ( یعنی حضرت مسیح موعود ) اپنی ابتدائی حالت میں اچھا معلوم ہوتا تھا.دین کی نصرت میں ساعی تھا.اللہ تعالیٰ اس کا مددگار تھا.دن بدن فَيُوضَعُ لَهُ الْقَبُولُ فِي الْأَرْضِ کا مصداق بنا جاتا تھا.لیکن اس سے اس نعمت کی قدردانی نہ ہوئی.نفس پروری و زمانہ سازی شروع کی.زمانہ کے رنگ کو دیکھ کر اس کے موافق کتاب وسنت میں تحریف والحاد و یہودیت اختیار کی.پس اللہ تعالیٰ نے اس کو ذلیل کیا فَيُوضَعُ لَهُ الْبَغْضَاءُ فِي الْأَرْضِ کا مصداق بن گیا.51

Page 153

انوار العلوم جلد 26 101 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت یعنی اب دنیا میں لوگ اس سے بغض کریں گے.اب تم دیکھ لو کہ مولوی عبد الواحد کا قول سچا نکلا کہ لوگ اس سے بغض کر رہے یا لوگ بیٹھے ہوئے اس پر درود اور سلام بھیج رہے اور اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں.پھر اس کا ایک اور بھائی مولوی عبدالحق غزنوی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق لکھتا ہے:.ہے، دجال ہے، ملحد ہے، کاذب ہے، روسیاہ ہے، بدکار ہے، شیطان ہے لعنتی ہے، بے ایمان ہے، ذلیل ہے، خوار ہے، خستہ خراب ہے، کافر ہے، شقی سرمدی ہے ( یعنی قیامت تک شقی ہے ) لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے، لعن طعن کا جوت اُس کے سر پر پڑا، بے جا تاویل کرنے والا ہے، مارے شرمندگی کے زہر کھا کر مر جاوے گا، بکواس کرتا ہے، رسوا ہے، ذلیل ہے،شرمندہ ہوا ہے.اللہ کی لعنت ہو.جھوٹے اشتہارات شائع کرنے والا ہے.اس کی سب باتیں بکواس ہیں.52 اور اس کا ہیڈنگ بھی کیسا پاکیزہ رکھا ہے.اشتہار کا نام ہے ضَرْبُ النِّعَالِ عَلَى وَجْهِ الدَّجَال“ یعنی حضرت مسیح موعود دجال ہیں اور میں انکے منہ پر جوتیاں مارتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حجتہ اللہ کتاب کے صفحہ 7 پر اس کا ذکر کیا ہے اور لکھا ہے کہ عبد الحق غزنوی نے مجھے ایک خط میں گالیاں دیتے ہوئے لکھا ہے.دس ہزار تیرے پر لعنت پھر لعنت لعنت کئی دفعہ لکھا ہے اور آخر میں لکھا ہے عشرة الف مِائَة“ یعنی دس لاکھ دفعہ لعنت اس پر نازل ہو.پھر یہی مولوی عبدالحق غزنوی (مولوی اسماعیل غزنوی کا چا) حضرت صاحب کے متعلق لکھتا ہے:.کافر ، اکفر ہے مرزا.دجال ہے مرزا.شیطان ہے مرزا.فرعون ہے مرزا.قارون ہے مرزا.ہامان ہے مرزا.ارڈ پوپو 53 ہے مرزا.وادی کا وحشی ہے مرزا.گتا ہے جو ہانپ رہا ہے.یہ جنگی گتا ہے.54،،

Page 154

انوار العلوم جلد 26 102 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی تصنیف کتاب البریہ میں اس کے خاندان کی گالیاں لکھی ہیں.اور لکھا ہے کہ انہوں نے میری نسبت لکھا ہے کہ : ان امور کا مدعی رسولِ خدا کا مخالف ہے.....ان لوگوں میں سے ہے جن کے حق میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے کہ آخر زمانہ میں دنبال کذاب پیدا ہوں گے ان سے اپنے آپ کو بچاؤ ہم کو گمراہ نہ کر دیں اور بہکا نہ دیں.اس (قادیانی) کے چوزے ( یعنی آپ لوگ بشمولیت حضرت مولوی نورالدین صاحب جومنان کے باپ اور مولوی اسماعیل غزنوی کے نانا اور اس گالیاں دینے والے کے بھائی کے خسر تھے ) ہنود اور نصاری کے مخنث ہیں.55 گویا جب مولوی عبدالواحد غزنوی کا پوتا بارڈر پر آپ لوگوں کو یہ کہنے گیا تھا کہ منان تقویٰ میں سب سے زیادہ ہے تو اس کے معنے یہ تھے کہ ہندو اور نصاریٰ کا مخنث سب سے زیادہ ہے کیونکہ جب احمدی ہنود اور نصاریٰ کے مخنث ہیں تو اگر منان احمدی ہے اور وہ احمدیوں میں سب سے بڑا ہے تو پھر وہ ہندوؤں اور عیسائیوں کا سب سے بڑا مخنث ہے.چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کہتے ہیں کہ مولوی عبدالواحد کا ایک الگ فتویٰ بھی ہے جو اُس نے عدالت میں لکھوایا تھا کہ مرزا قادیانی کافر ہے اور اس کے مرید سب کا فر ہیں.اور جو کوئی ان کے کفر میں شک کرے وہ بھی کافر ہے.اب مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی اور مولوی داؤد صاحب غزنوی اور خالد صاحب (ابن مولوی محمد اسماعیل صاحب ) جنہوں نے بارڈر پر جا کر بنگالی وفد کے سامنے کہا تھا کہ مولوی منان سب سے بڑے متقی ہیں بتا ئیں کہ آیا وہ کافر ہیں یا نہیں؟ اور آیا ان کے کفر میں شک کرنے والا بھی کافر ہے یا نہیں؟ جیسا کہ ان کے دادا نے کہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسّلام نے یہاں تک لکھا ہے کہ مولوی اسماعیل غزنوی کی ماں یعنی حضرت خلیفہ اول کی بڑی بیٹی کی وفات بھی میرے مباہلہ کے نتیجہ میں ہوئی.مولوی عبدالحق غزنوی نے جو مولوی عبدالواحد غزنوی کا چھوٹا بھائی تھا پیشگوئی کی تھی کہ میرے

Page 155

انوار العلوم جلد 26 103 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت گھر بیٹا پیدا ہوگا اور مرزا صاحب ابتر مریں گے.حضرت صاحب کہتے ہیں تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے گھر بیٹے پیدا ہوں گے اور ہمارے ہاں کوئی نہیں ہو گا لیکن خدا نے میرے گھر میں دو اور بیٹے دے دیئے.اور وہ دونوں پیشگوئیاں جو صد ہا انسانوں کو سنائی گئی تھیں پوری ہوگئیں.اب بتلاؤ کہ تمہاری وہ پیشگوئیاں کہاں گئیں.ذرا جواب دو کہ اس فضول گوئی کے بعد کس قدرلڑ کے پیدا ہوئے.ذرا انصاف سے کہو کہ جب کہ تم منہ سے دعوی کر کے اور اشتہار کے ذریعہ سے لڑکے کی شہرت دے کر پھر صاف نامراد اور خائب و خاسر رہے.کیا یہ ذلت تھی یا عزت تھی ؟ اور اس میں کچھ شک نہیں کہ مباہلہ کے بعد جو کچھ قبولیت مجھ کو عطا ہوئی وہ سب تمہاری ذلت کا موجب تھی.56 پھر فرماتے ہیں اس نے میرے خلاف دعائیں کیں.اُس کی دعاؤں کا کیا انجام ہوا اور میری دعاؤں کا کیا انجام ہوا.اب وہ کس حالت میں ہے اور ہم کس حالت میں ہیں.دیکھو اس مباہلہ کے بعد ہر ایک بات میں خدا نے ہماری ترقی کی اور بڑے بڑے نشان ظاہر کئے.آسمان سے بھی اور زمین سے بھی.اور ایک دنیا کو میری طرف رجوع دے دیا.اور جب مباہلہ ہوا تو شاید چالیس آدمی میرے دوست تھے اور آج ستر ہزار کے قریب ان کی تعداد ہے.(اور اب خدا کے فضل سے وہ دس لاکھ کے قریب ہے اور تھوڑے ہی دنوں میں دس کروڑ سے بھی زیادہ ہو جائے گی انشاء الله) 57 پھر فرماتے ہیں:.لطف تب ہو کہ اوّل قادیان میں آؤ اور دیکھو کہ ارادت مندوں کا لشکر کس قدر اس جگہ خیمہ زن ہے.اور پھر امرتسر میں عبدالحق غزنوی کو کسی دکان پر یا بازار میں چلتا ہوادیکھو کہ کس حالت میں چل رہا ہے.58

Page 156

انوار العلوم جلد 26 104 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت پھر فرماتے ہیں کہ تمہارے مباہلے کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمہارے بھائی کا بھی خانہ ویران ہو گیا.59 تمہارے بھائی مولوی عبدالواحد کا بھی خانہ برباد ہو گیا یعنی مولوی اسماعیل غزنوی کے باپ کا جس کی بیوی حضرت خلیفہ اول کی بڑی بیٹی تھی اور فرماتے ہیں یہ میرے مباہلہ کا نتیجہ تھا.غرض یہ خاندان ، سلسلہ کا پرانا دشمن ہے.ان کے دادا نے پیشگوئی کی ہوئی ہے کہ ان کو نور قادیان یعنی صداقت احمدیت نصیب نہیں ہوگی اور ہمیشہ اس کے دشمن رہیں گے.مگر معلوم ہوتا ہے کہ اب منان اور عبدالوہاب سے انہوں نے اس فتنہ کے موقع پر خاص یارا نہ گانٹھا ہے جس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کی پیشگوئی کے مطابق مولوی عبد المنان اور مولوی عبدالوہاب بھی احمدی نہیں رہے کیونکہ اگر ان میں احمدیت رہتی تو مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی کے مطابق ان کے پوتے اور ان کے پڑپوتے ان کی دوستی اور ان کی حمایت نہ کرتے.مگر چونکہ وہ ان کی حمایت میں ہیں معلوم ہوا کہ ان لوگوں میں بھی احمدیت باقی نہیں رہی.اگر باقی ہے تو پھر مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی پیشگوئی جھوٹی جاتی ہے حالانکہ وہ ایک راست باز انسان تھے.دسمبر 1954ء میں مولوی عبدالوہاب صاحب نے لاہور میں کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کیلئے صرف دنیوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی ہے مگر حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کر دیا.چنانچہ ڈاکٹر عبدالقدوس صاحب نواب شاہ سندھ کی شہادت ہے کہ :- ” عاجز دسمبر 1954ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ پر قادیان جانے والا تھا لاہور جو دھامل بلڈنگ گیا.رات جو دھامل بلڈنگ میں گزاری.صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبدالوہاب صاحب آگئے اور پوچھا کہ جماعت ہوگئی ہے؟ بتانے پر کہ جماعت ہو چکی ہے انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی.مولوی عبدالوہاب صاحب کہنے لگے ( جیسے کہ درس دیا جاتا ہے ) کہ حضرت مسیح موعود

Page 157

انوار العلوم جلد 26 105 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت علیہ السلام نے اپنی اولاد کیلئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی ہے جیسے دے ان کو عمر و دولت پھر کہا کہ آپ دیکھیں حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا ہے کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکونِ قلب حاصل نہیں کر سکتا.“ ان کا یہ درس یا تقریر بتاتی ہے کہ ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کوئی ایمان نہیں رہا ورنہ وہ حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ترجیح نہ دیتے.پھر ان کی بات بھی غلط ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا نہیں مانگی بلکہ دین مانگا ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان یہ تیری رحمت دے رُشد اور ھدایت ، اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي شیطان سے دُور رکھیو! اپنے حضور رکھیو! جاں پُر ز نور رکھیو! دل پر سرور رکھیو! ان پر میں تیرے قرباں رحمت ضرور رکھیو! یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي یہ تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر ڈور ان سے یارب! دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میری جاں کے جانی !اے شاہِ دو جہانی! کر ایسی مہربانی ، ان کا نہ ہووے ثانی

Page 158

انوار العلوم جلد 26 106 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے واحد و یگانہ ! اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں! دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي 60 مولوی عبدالوہاب کے خیال میں رُشد اور ہدایت اور دین اور فیض آسمانی اور دین کا قمر ہونا پر سب دنیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کو تو دنیائو جبھی مگر حضرت خلیفہ اول کو جو اُن کے غلام تھے دین سو جھا.پھر مولوی عبدالوہاب کا یہ کہنا کہ : حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں اور تکلیفوں میں مبتلا 66 ہے کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکونِ قلب حاصل نہیں کر سکتا.“ یہ بھی ان کے خاندان کے نظریہ کی رُو سے غلط ہے.کیونکہ یہ بات ثابت ہے کہ مولوی عبدالمنان آخری وقت میں جاتے ہوئے ادھر سلسلہ کا روپیہ نا جائز طور پر استعمال کر رہے تھے اور اُدھر دوسرے احمدیوں سے روپیہ منگوار ہے تھے.چنانچہ تحریک جدید اور اور مینٹل کارپوریشن کے روپیہ میں انہوں نے جو ناجائز تصرف کیا اُس کے متعلق چودھری احمد جان صاحب وکیل المال تحریک جدید کی شہادت ہے کہ - : ”میاں عبدالمنان صاحب عمر جو تحریک جدید میں نائب وکیل التصنیف اور اور نینٹل کارپوریشن کے چیئر مین تھے گزشتہ سال مجلس تحریک جدید نے سات رہائشی کوارٹروں اور مسجد کی تعمیر کا کام ان کے سپرد کیا اور ان تعمیرات کے لئے 27000 روپے کا بجٹ منظور کیا جس میں سے میاں عبدالمنان صاحب نے 26998 روپے خزانہ تحریک جدید سے برآمد کرائے.اس میں سے 23843 روپے کوارٹروں کی تعمیر پر خرچ ہوئے.باقی رقم انہوں

Page 159

انوار العلوم جلد 26 107 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت نے نہ تحریک جدید کو واپس کی نہ مسجد بنوائی.بلکہ کم و بیش 3700 روپے بصورت سامان تعمیر وغیرہ اور نینٹل کمپنی کی طرف منتقل کئے اور وہاں سے اپنی ذاتی دکانوں کی تعمیر پر خرچ کر لئے.اور میٹل کارپوریشن کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کمپنی کی دکانوں اور پریس کی عمارت بنانے کے لئے ساڑھے بارہ ہزار روپے تک خرچ کرنے کی میاں عبدالمنان کو منظوری دی.انہوں نے کمپنی کی عمارت کے ساتھ ہی اپنی سات عدددُ کانات بھی تعمیر کیں اور بورڈ کی اجازت کے بغیر اپنی ذاتی اور کمپنی کی تعمیرات کا نہ صرف حساب اکٹھا رکھا بلکہ 623 روپے کی قلیل رقم کے سوا اپنی دکانوں کا سارا خرچ کمپنی کے فنڈز میں سے کیا جس کے نتیجہ میں ان تعمیرات پر اٹھارہ ہزار روپے کے قریب مجموعی خرچ ہوا جس میں تحریک جدید کی منتقل شدہ رقم بھی شامل ہے.اس میں سے ان کی اپنی دکانوں کا خرچ ساڑھے دس ہزار روپے اور باقی قریبا ساڑھے سات ہزار روپے کمپنی کی عمارت کا خرچ ہے.اس طرح ( اگر وکیل المال صاحب کی رپورٹ صحیح ہے تو ) میاں عبدالمنان صاحب تحریک جدید اور کمپنی کا دس ہزار روپیہ نا جائز طور پر اپنے تصرف میں لائے جو بعد میں 14 / اکتو بر کو ان سے وصول کرلیا گیا.“ اسی طرح چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر مکرم چودھری ظہور احمد صاحب انجمن حمد ی کی شہادت ہے کہ :- آڈیٹر صدرانجمن احمدیہ کی شہادت " میں نے صدر انجمن احمدیہ کے آڈیٹر کی حیثیت سے جب جلسہ سالانہ 1953ء کے حسابات کی پڑتال کی تو مجھے معلوم ہوا کہ صدرانجمن احمدیہ کے منظور شدہ قواعد کے ماتحت جور تم یا تو محکمہ کے سیف (SAFE) میں نقد موجود ہونی چاہئے تھی یا صدرانجمن احمد یہ کے صیغہ امانت میں جلسہ سالانہ کی امانت میں جمع موجود ہونی ضروری تھی

Page 160

انوار العلوم جلد 26 108 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اُس میں سے مبلغ 1899 روپے 1 آنہ 3 پائی کم تھے.یہ وہ زمانہ تھا جبکہ مولوی عبدالمنان صاحب افسر جلسہ سالانہ تھے.جب مولوی عبدالمنان صاحب جلسہ سالانہ کے کام سے تبدیل کئے گئے تو یہ تمام کی تمام رقم کلرک غلام احمد صاحب کے نام پیشگی ظاہر کی گئی جو اُس وقت محررجلسہ سالانہ تھے.میں نے اس معاملہ میں مزید چھان بین کی اور متعلقہ کارکنان دفتر کے بیانات لئے اور پرانا ریکارڈ دیکھا تو معلوم ہوا کہ 1949ء میں 500 روپے کی رقم مولوی عبدالمنان صاحب نے لی تھی.اس رقم میں سے مختلف وقتوں میں انہوں نے کچھ رقم واپس کی اور ابھی تک 179 روپے 12 آنے 6 پائی اس پانسو کی رقم میں سے ان کے تصرف میں ہیں اور باوجود بار بار کے مطالبات کے یہ رقم ابھی واپس نہیں ہوئی.اسی طرح اسی زمانہ میں 50 روپے دفتر جلسہ سالانہ کی نقدی میں سے پیشگی کا نام دے کر غلام رسول چک 35 کو دلائے گئے.یہ رقم بھی باوجود مطالبات کے واپس نہیں ملی.اس کے علاوہ 87 روپے 8 آنے مولوی علی محمد صاحب اجمیری کو ولائے گئے.یہ رقم بھی واپس نہیں ہوئی.اس تحقیقات سے میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس 1899 روپے 1 آنہ 3 پائی کی رقم کا بیشتر حصہ مولوی عبد المنان صاحب یا ان کے احباب نے لیا ہوا تھا لیکن تمام رقم ایک ماتحت کارکن کے نام پیشگی دکھائی ہوئی تھی.خاکسار ظہور احمد آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ پھر علاوہ ان بدعنوانیوں کے جو کہ مالی معاملات کے متعلق اور نینٹل کمپنی میں مولوی عبدالمنان صاحب نے کی ہیں یا سلسلہ کے روپیہ سے جلسہ سالانہ کے کام میں کی ہیں انہوں نے ی بھی کوشش شروع کر دی تھی کہ کچھ روپیہ جمع کر لیں تا کہ وقت ضرورت کام آئے جس سے ان کی

Page 161

انوار العلوم جلد 26 109 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت نیتوں کا پتا لگتا ہے.چنانچہ ان کا ایک خط پکڑا گیا ہے جس کا فوٹو ہمارے پاس موجود ہے.انہوں نے افریقہ میں ایک احمدی دوست کو لکھا کہ میں تمہارے لڑکے کی شادی کرانے لگا ہوں تم پانسو پونڈ (جو آج کل کے لحاظ سے سات ہزار روپیہ بنتا ہے ) بھیج دو.یہ خط اس دوست نے اپنے ایک دوست کو جو پاکستان میں ہیں بھیج دیا اور اس نے فوٹو لے کر ہمیں بھجوادیا.وہ خط یہ ہے.مکرم و محترم چودھری صاحب ربوه 17/1/1956 السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ آپ کا خط موصول ہوا.الْحَمْدُ لِلَّهِ چودھری منصور احمد اور ان کی والدہ بفضلہ تعالیٰ بخیریت ہیں.پرسوں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے منصور احمد صاحب کی ملاقات ہوئی تھی آج ابھی ابھی حضرت...خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی ملاقات کے بعد واپس آئے ہیں.حضور منصور احمد سے آپ کے اور آپ کے کاروبار کے متعلق دریافت فرماتے رہے.عزیز کی شادی کے سلسلہ میں ایک جگہ تجویز کی گئی ہے.لڑکی بی.اے پاس ہے اور اس وقت بیاٹی میں لاہور کالج میں پڑھ رہی ہے.لڑکے کے دادا نہایت مخلص اور سلسلہ کے فدائی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے.والد آجکل قادیان میں مقیم ہیں.لڑکی تعلیم یافتہ اور مخلص ہے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو یہ رشتہ پسند ہے.لڑکی کے ایک چچا یہاں سلسلہ کے مبلغ ہیں.دوسرے چا مولوی صالح محمد صاحب پیچھے سلسلہ کی طرف سے انگلستان بھجوائے گئے تھے.آج کل مغربی افریقہ گولڈ کوسٹ ان کا تبادلہ ہو گیا ہے.دادا کا نام فضل احمد صاحب ہے اور والد کا عبدالرحیم.لڑکی کا ایک بھائی یہاں رہتا ہے.کالج میں زیر تعلیم ہے اور تبلیغ کی ٹریننگ لے رہا ہے ان کی ذات راجکمار یا راجپوت ہے.میرے خیال میں رشتہ موزوں

Page 162

انوار العلوم جلد 26 110 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہے.منصور احمد اور عزیزہ نسیم کو پسند ہے.شادی کے اخراجات کے سلسلہ میں میرا ذاتی نکتہ نگاہ یہ ہے کہ معمولی سے اخراجات کافی ہوتے ہیں.اسلام میں تکلفات نہیں اور یہاں بھی عام حالات میں زیادہ اخراجات کی ضرورت نہ تھی.لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ لڑکی نے اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر ہزاروں میل دور جانا ہے پھر وہاں کے حالات بھی لڑکی والوں کے سامنے نہیں ہیں.اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ابھی باقی عزیزوں کے رشتے بھی کرنے ہیں اور ضرورت ہے کہ پہلی شادی کے بعد راستے کھل جائیں اور کئی لوگوں کی نظریں اس پہلی شادی پر ہیں اور وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں کیا خرچ ہوتا ہے اس سے وہ مالی اور دوسرے حالات کا اندازہ کریں گے اور میرے سامنے یہ حقیقت بھی ہے کہ سونا اور کپڑا افریقہ میں یہاں پاکستان کے مقابلہ میں سنتا ہے.ان تمام حالات کو دیکھ کر میری رائے یہ ہے کہ شادی کے تمام اخراجات کے لئے پانصد پونڈ (یعنی آجکل کے لحاظ سے سات ہزار روپیہ ) کافی ہوں گے.علاوہ حق مہر کے.یہ روپیہ بذریعہ ڈرافٹ بھجوانے کی ضرورت نہیں آپ یہ روپیہ وہاں کی جماعت میں میرے نام پر جمع کرا دیں اور رسید مجھے بھجوا دیں میں یہ روپیہ یہاں منصور احمد کی والدہ کو ادا کر دوں گا تا وہ اپنی نگرانی میں زیور کپڑا وغیرہ پر صرف کریں.پس آپ ڈرافٹ بینک نہ بھیجوائیں بلکہ وہاں میرے نام پر رقم جمع کروادیں.میں یہاں اس کے مطابق رقم ادا کرادوں گا.مہر انداز لڑکے کی ایک سال کی آمد کے برابر ہونی چاہئے جو میرے خیال میں آٹھ ہزار روپیہ ہوگی.خاکسار عبدالمنان عمر ( دستخط ) غرض انہوں نے ادھر سلسلہ کا کچھ مال اِدھر اُدھر استعمال کیا اور کچھ لوگوں سے منگواتے

Page 163

انوار العلوم جلد 26 رہے.111 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت یہ جو عبدالقدوس صاحب نواب شاہ کی گواہی ہے کہ میاں عبدالوہاب صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی اور ہمارے باپ نے ہمارے لئے دین مانگا، اس کی مزید شہادت لاہور کی مجلس خدام الاحمدیہ نے بھجوائی ہے کہ ایک احمدی سے ایک پیغامی نے آ کر کہا کہ میاں منان کہتے ہیں کہ ہم تو چُپ کر کے بیٹھے ہیں کیونکہ ہمارے باپ نے ہمیں خدا کے سپرد کیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے اپنی اولاد کو دنیا کے سپرد کیا تھا.یہ جوش نکال لیں.سال، دو سال، پانچ سال خوب جوش نکالیں پھر ٹھنڈے ہو جائیں گے.یہ شہادت بھی ہمارے پاس محفوظ ہے.اب تم جو مبائعین کی جماعت ہو اور جنہوں نے لکھا تھا کہ قیامت تک ہم خلافت احمدیہ کو قائم رکھیں گے تم بتاؤ کہ کیا مولوی عبدالمنان کے قول کے مطابق دو تین سال میں ٹھنڈے پڑ جاؤ گے یا قیامت تک تمہاری اولادیں خلافت احمدیہ کا جھنڈا کھڑا رکھیں گی ؟“ اس پر چاروں طرف سے آوازیں آئیں کہ ہم قیامت تک خلافت احمدیہ کا جھنڈا کھڑا رکھیں گے.اکتوبر 1955ء میں جب صوفی مطیع الرحمن صاحب شدید ذیا بیطس سے فوت ہوئے تو رشید احمد صاحب بٹ ضلع نواب شاہ سندھ کی گواہی کے مطابق میاں عبد السلام نے کہا کہ صوفی مطیع الرحمن صاحب کا علاج نہیں کروایا گیا اس لئے مر گئے.حالانکہ ان کو ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا اور سینکڑوں روپیہ سلسلہ نے ان پر خرچ کیا تھا.میاں محمد عبد اللہ صاحب سابق انجینئر ایران حال نواب شاہ سندھ لکھتے ہیں کہ میاں وہاب نے ایک دفعہ کہا کہ حضرت صاحب کی مجلسِ عرفان میں رکھا ہی کیا ہے.پھر 1955ء کے شروع کے متعلق ملک صاحب خاں صاحب نون ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر بیان کرتے ہیں کہ جب میاں عبدالمنان صاحب کا مکان دوسری جگہ بنے لگا تو میں نے بھیرہ کے تعلقات کی وجہ سے ان سے کہا کہ میاں صاحب! میں نے تو آپ کی صحبت حاصل کرنے کے لئے آپ کے قریب مکان بنایا تھا مگر آپ اب کہیں اور چلے ہیں.تو اس پر میاں عبدالمنان صاحب

Page 164

انوار العلوم جلد 26 112 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت.آگے بڑھے اور میرے سینہ کی طرف ہاتھ بڑھا کر ہلایا اور کہا ملک صاحب ! آپ گھبرائیں نہیں.ہم جہاں بھی جائیں گے آپ کو ساتھ لے کر جائیں گے.وہ کہتے ہیں اُس وقت تو میں اس کا مطلب نہ سمجھا لیکن گھبرا گیا اور بعد میں جب یہ فتنہ پیدا ہوا تو میں با قاعدہ اخبار میں دیکھتا تھا کہ اس میں میاں عبدالمنان کا نام بھی آتا ہے یا نہیں.جب میں نے ان کا نام پڑھا تو استغفار پڑھا کہ ان کی یہی غرض تھی کہ مجھے بھی اس فتنہ میں ملوث کریں.ملک صاحب سرگودھا کے مشہور خاندان ٹوانہ اور نون میں سے ہیں اور ڈپٹی کمشنر رہ چکے ہیں.گوجرانوالہ سے ریٹائر ہوئے.ملک فیروز خاں صاحب نون جو اس وقت وزیر خارجہ ہیں اُن کے بھتیجے ہیں.چنانچہ ملک صاحب کا اصل خط اس شہادت کے سلسلہ میں ذیل میں درج کیا جاتا ہے.ملک صاحب لکھتے ہیں:.مکرم ملک صاحب خان صاحب نون کی شہادت "سرگودھا 17/9/1956 میرے آقا ! سَلَّمَهُ اللَّهُ تَعَالَى السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ آپ کو صحت کاملہ اور عمر خضر عطا فرمائے.امِيْنَ ثُمَّ ا مِيْنَ.چونکہ حضور پر نور امام الوقت اور خلیفہ وقت ہیں اللہ تعالیٰ کی نصرت حضور کی تائید میں ہے اور اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی ہمیشہ رہے گی اور دشمنان خائب و خاسر اور منہ کی کھائیں گے.اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالٰی ضرور ضرور.میں ایک واقعہ حضور کی خدمت بابرکت میں گوش گزار کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ گواہ ہے کہ اس میں ذرہ بھر بھی شک وشبہ نہیں بلکہ عین اصل واقعہ ہے.جب میں نے ربوہ والے مکان کی جگہ کے متعلق حضور پرنور کے پاس شکایت کی اور حضور نے اپنے ساتھ کچے مکانوں میں مجھے اور ناظر متعلقہ ( جو اُس وقت غالباً عبدالرشید صاحب تھے ) کو بلایا.میں نے حاضر ہوکر عرض کیا کہ مجھے شکایت نہیں ہے.جس کی وجہ یہ تھی کہ ایک تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے بہت زور دیا کہ یہی جگہ لے لوں اور دوسرے یہ کہ

Page 165

انوار العلوم جلد 26 113 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت پسران حضرت خلیفہ اول میرے ہمسایہ تھے.یہ بات میرے واسطے بہت ہی خوشی و تسلی کی ہوئی.گو میں بذات خود اس جگہ کو پسند نہیں کرتا تھا.خیر مکان بنایا، بن گیا.جب ناظر صاحبان کے مکان مکمل ہوئے تو میاں عبدالمنان صاحب اس نئے مکان میں چلے گئے اور جب میں ربوہ گیا تو مجھے معلوم ہوا.اتفاق سے منان صاحب مجھے ملے.میں نے کہا واہ مولوی صاحب ! آپ مجھے چھوڑ کر چلے گئے تو اس نے ذرا آگے آکر ذرا آہستہ آواز میں دایاں ہاتھ اٹھا کر میرے سینہ کے برابر کر کے کہا.تسلی رکھو جدے جاواں گے تہانوں نالے لے جاواں گے.اُس وقت میں نے بہتیر ا زور لگایا مگر مجھے اس مہمل بات کی سمجھ نہ آئی جو متواتر میرے دل میں چبھتی رہی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی شان میں وجہ نہیں بتلا سکتا کہ کیوں میرا انس و کشش و محبت اُن سے دن بدن کم ہوتی گئی حتی کہ جب اماں جی کی وفات ہوئی ڈاک خانہ کے پاس کھڑے کھڑے ہی میں نے منان سے اظہار افسوس کیا اور ان کے مکان تک بھی نہ گیا.نوبت بایں جا رسید والا معاملہ ہوا کہ جب دو دفعہ منان صاحب میرے سامنے آئے تو میں نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ بھی اُن سے نہیں کی.میں نہیں بتلا سکتا کہ کونسی غیبی طاقت اندر ہی اندر کام کر رہی تھی.جب میں نے یہ فتنہ پڑھا تو ہر پر چہ الفضل کو اوّل سے آخر تک پڑھتارہا اور خاص توجہ اس طرف تھی کہ منان صاحب کا بھی کہیں ذکر ہے کتنی کہ اُن کے خیالات کے متعلق اطلاع آمدہ امریکہ سے میرا وہ پرانا معمہ حل ہوا کہ :.جدے جاواں گے تہانوں نال لے جاواں گے.‘ کا کیا مدعا تھا.اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر تحریر کرتا ہوں کہ اس میں ذرہ بھر بھی جھوٹ نہیں.نوٹ.میں نے اس کا ذکر بہت دن ہوئے محترم جناب مرزا عبدالحق صاحب

Page 166

انوار العلوم جلد 26 سے کیا تھا.114 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت والسلام حضور کا ادنیٰ خادم صاحب خان نون مولوی محمد احمد صاحب جلیل کی شہادت اسی طرح مولوی محمد احمد صاحب جلیل کی وو شہادت ہے کہ :- 1.چند سال قبل جب میاں عبدالمنان صاحب جامعہ احمدیہ میں پڑھایا کرتے تھے میں کسی کام کی غرض سے انہیں ملنے کے لئے اُن کے مکان پر گیا.دورانِ گفتگو میں انہوں نے اپنے جامعہ میں تقرر پر م اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس رجیم (REGIME) میں ہمارے لئے (یا یہ کہا کہ میرے لئے ) کوئی جگہ نہیں.یہ پہلا موقع تھا کہ میری طبیعت پر ان کے متعلق یہ اثر پیدا ہوا کہ وہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے قائم کردہ نظام سے شا کی اور سخت غیر مطمئن عد ہیں.2.تحریک جدید کے ایک کوارٹر کی تعمیر میں قواعد میونسپل کمیٹی کی خلاف ورزی پر سیکرٹری کمیٹی صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی شکایت پر حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے مجلس تحریک جدید کو جرمانہ کیا تھا اس کے متعلق مجھ سے بات کرتے ہوئے میاں عبدالمنان صاحب نے کہا کہ نہ کمیٹی کا کوئی ایسا قاعدہ ہے جس کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور نہ قواعد کی رُو سے یہ مجرمانہ ہو سکتا ہے یہ سب طاقت اور اقتدار کا نتیجہ ہے.3.ایک دفعہ میرا ایک معاملہ جس کا حضرت میاں شریف احمد صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے تعلق تھا اس کے متعلق بات کرتے

Page 167

انوار العلوم جلد 26 115 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہوئے ان دونوں حضرات کے متعلق یہ لفظ میاں عبدالمنان صاحب نے کہے کہ دیکھو ! کس طرح ان لوگوں کا خون سفید ہو گیا ہے.4.میاں عبدالمنان صاحب جب امریکہ گئے تو امریکہ جانے کی حضرت خلیفتہ امسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی طرف سے اجازت ملنے کے متعلق میری بیوی سے ذکر کرتے ہوئے امتہ الرحمن صاحبہ اہلیہ میاں عبدالمنان صاحب نے حضور کے متعلق یہ کہا کہ انہوں نے اجازت تو دے دی ہے مگر اس بابل دا کی اعتبار ہے کہ ڈولے پاکے بھی کڑھ لئے.“ خاکسار محمد احمد جلیل اس فتنہ کو مزید ہوا شیطان نے اس طرح دی کہ خدام الاحمدیہ میں جب ناصر احمد افسر تھا تو اُس نے حمید ڈاڈھا کو سگریٹ پیتے ہوئے دیکھا اور اُس نے اس کو سزا دینی چاہی.اس پر وہ اس کے مخالف ہو گیا.چنانچہ حافظ عبداللطیف صاحب اور اخوند فیاض احمد صاحب کی شہادتیں اس بارہ میں ہمارے پاس محفوظ ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ یہ اُسی وقت سے مرزا ناصر احمد صاحب کے خلاف بغض و عناد کا اظہار کرتا رہتا تھا.پھر چونکہ جلسہ سالانہ کا کام کئی سال تک میاں عبدالمنان کے سپرد ہوتا رہا ہے اس لئے وہ سلسلہ کے روپیہ میں سے اپنے ان ایجنٹوں کو پیشکیاں بھی دیتے رہے.چنانچہ ریکارڈ سے مولوی علی محمد اجمیری کے نام 87 روپے 8 آنے ، حمید ڈاڈھا کے نام 35 روپے اور غلام رسول چک نمبر 35 کے نام 50 روپے پیشگی دیئے جانے ثابت ہیں.اس طرح نفرت اور لالچ دونوں جذبات اکٹھے ہو گئے اور ان لوگوں نے میاں عبد المنان کی تائید میں پرو پیگنڈا شروع کر دیا.جس طرح بعض منافقوں نے حضرت عمرؓ کی زندگی میں پرو پیگنڈا شروع کیا تھا کہ جب حضرت عمر فوت ہوں گے تو ہم فلاں کی بیعت کریں گے.لیکن وہ بھی خائب و خاسر رہے اور یہ بھی خائب و خاسر رہیں گے اور اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کی خود حفاظت کرے گا اور جماعت کی خود راہنمائی کرے گا اور وہ کبھی ان منافقوں یا پیغامیوں کے چیلوں یا احراریوں کے چیلوں کو قریب

Page 168

انوار العلوم جلد 26 116 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت بھی نہیں آنے دے گا.جب 1955ء میں مجھ پر فالج کا حملہ ہوا تو یہ بغض اور زیادہ زور سے ظاہر ہونے لگا جیسا کہ شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی سے ظاہر ہے جو ذیل میں درج کی جاتی ہے.مکرم شیخ نصیر الحق صاحب کی گواہی شیخ صاحب لکھتے ہیں:.وو لمصل حضرت.......الصلح الموعود خليفة لمسیح الثاني سید نا وامامنا حضرت ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جب حضور لاہور سے کراچی تشریف لے گئے دوسرے دن شام کو آپ کی خیریت سے کراچی پہنچنے کی اطلاع حاصل کرنے کے لئے سمن آباد سے رتن باغ پہنچا.میرے ساتھ میری چھوٹی بیوی بھی تھی.انہیں رتن باغ ٹھہرا چونکہ یہاں اطلاع کوئی نہیں ملی تھی میں جو د ہامل بلڈنگ میں گیا.لوگ مغرب کی نماز ادا کر چکے تھے اور حضور کی خیریت سے کراچی پہنچنے کے متعلق گفتگو کر رہے تھے.میں مزید حالات معلوم کرنے کے لئے سید بہاول شاہ صاحب کی طرف متوجہ ہوا.انہوں نے تار کا ذکر کیا کہ الْحَمْدُ لِلهِ حضور بخیریت تمام کراچی پہنچ گئے ہیں.جب میں واپس رتن باغ کو لو ٹنے لگا تا اپنی بیوی کو ساتھ لے کر گھر سمن آباد چلا جاؤں مولوی عبدالوہاب صاحب نے مجھے آواز دی کہ حاجی صاحب ! ٹھہر جائیں میں بھی چلتا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ حاجی صاحب ! آپ نے دیکھا کہ قوم کا کتنا روپیہ خرچ ہو رہا ہے؟ میں نے عرض کیا مولوی صاحب ! حضرت صاحب تو فرماچکے ہیں کہ میں اپنا خرچ خود برداشت کروں گا پھر اعتراض کیسا؟ فرمانے لگے آگے تو سنو ! میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگے کہ دیکھو

Page 169

انوار العلوم جلد 26 117 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اب خلیفہ تو ( نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ ) اپنا دماغ کھو چکا ہے وہ اس قابل نہیں کہ خلیفہ رکھا جاسکے.میں بجبر خاموش رہا تا سارا ماجرا سُن سکوں اور جو گفتگو یہ کرنا چاہتے ہیں وہ رہ نہ جائے.میں نے کہا مولوی صاحب ! بھلا یہ تو بتائیے کہ اب اور کون خلیفہ ہوسکتا ہے؟ کہنے لگے کہ میاں بشیر احمد صاحب اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کیا کم ہیں.اب میں نہیں رہ سکا تو میں نے کہا مولوی صاحب ! آپ تو ایک بہت بزرگ ہستی کے فرزند ہیں آپ کو اتنا بھی علم نہیں کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ حضور کو جلد صحت عطا فرمائے.مولوی صاحب فرمانے لگے کہ بھئی اب تو یہ ممکن ہی نہیں.میں نے یہ بھی کہا کہ ایک خلیفہ کی موجودگی میں دوسرا خلیفہ بنانا تو کجا خیال کرنا بھی گناہ ہے چہ جائیکہ آپ ایسی باتیں کر رہے ہیں اور میرے لئے یہ امر نہایت تکلیف دہ ہو گیا ہے....پھر فرمانے لگے سنوسنو! میں نے عرض کیا کہ چونکہ میں نے سمن آباد جانا ہے اور نیلا گنبد سے بس لینی ہے اس لئے کچھ اور کہنا ہے تو چلتے چلتے بات کیجئے.کہنے لگے دیکھو یہ جو مضامین آج کل چھپ رہے ہیں انہیں میاں بشیر احمد صاحب درست کر کے پریس کو بھیجتے ہیں.وہ خود تو لکھ ہی نہیں سکتے.پھر یہ عجیب بات ہے کہ انہی میاں صاحب کو حضرت صاحب اپنے کمرہ میں سلاتے ہیں.میں اِس معمہ کو نہیں سمجھ سکا.اسکے علاوہ بھی اور کئی ایسی باتیں کہیں جو میں بھول گیا......میں نے اگلے دن سارا واقعہ چودھری اسد اللہ خان صاحب کو ہائی کورٹ میں جا کر سنایا.انہوں نے فرما یا لکھ دو.میں نے وہیں بیٹھ کر لکھ دیا جو مجھے اُس وقت یاد تھا.چودھری صاحب نے فرمایا کہ آپ مولوی صاحب کے سامنے بھی یہی بیان دیں گے؟ میں نے عرض کیا کہ میں نے آپ کو لکھ دیا ہے، آپ میرے ساتھ جو دھامل بلڈنگ چلیں اور انہیں

Page 170

انوار العلوم جلد 26 118 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت میری موجودگی میں پڑھا دیں.چنانچہ ہم دونوں گئے.مولوی صاحب اپنی دکان میں موجود نہ تھے ہم انتظار کرتے رہے.کچھ دیر کے بعد مولوی صاحب تشریف لے آئے.میرا خط چودھری صاحب نے مولوی صاحب کو پڑھایا.مولوی صاحب کا رنگ زرد ہو گیا.کچھ سکتے کے بعد فرمانے لگے نہیں میں نے نہیں کہا.چودھری صاحب نے فرمایا لکھ دیجئے.کہنے لگے اچھا لکھ دیتا ہوں چنانچہ ان کے دفتر کا کاغذ لے کر مولوی صاحب نے لکھا کہ میں نے ہرگز کوئی ایسی بات نہیں کی جس کے متعلق حاجی صاحب نے لکھا ہے.چودھری صاحب فرمانے لگے کیا آپ آپ بھی مُصر ہیں؟ میں نے کہا ہاں! اور مجھے یہ کاغذات دیجئے.میں اس پر مزید لکھتا ہوں.چنانچہ میں نے یہ الفاظ لکھے کہ مجھے سخت صدمہ ہوا کہ مولوی صاحب ایک ایسی بزرگ ہستی کی اولاد ہیں جو ہمارے خلیفہ اول رہ چکے ہیں انہوں نے صریح جھوٹ بول کر مجھے ہی نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اول کی روح کو بھی تکلیف پہنچائی ہے.مجھے ان سے یہ توقع نہ تھی کہ انکار کریں گے.مجھے معاخیال ہوا کہ اگر احمدیت کا یہی نمونہ ہے تو غیر از جماعت لوگوں پر اس کا کیا اثر ہوگا.چنانچہ یہ دونوں تحریریں جناب چودھری اسد اللہ خاں صاحب اپنے ساتھ لے گئے.خط مورخہ 1956ء-7-29) مکرم میاں غلام غوث صاحب ہیڈ کلرک اسی طرح میاں غلام غوث صاحب ہیڈ کلرک میونسپل کمیٹی ربوہ کی گواہی میونسپل کمیٹی ربوہ کی شہادت بھی قابل ذکر ہے.وہ لکھتے ہیں :.تقریباً تین چار ماہ کا عرصہ گزرا ہے تاریخ یاد نہیں حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب آنریری سیکرٹری میونسپل کمیٹی ربوہ نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں مکرم مولوی عبدالمنان صاحب انچارج صیغه تالیف و تصنیف تحریک جدید

Page 171

انوار العلوم جلد 26 119 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ربوہ کی خدمت میں حاضر ہو کر حضرت میاں منور احمد صاحب کے دستخطوں کی شناخت کروں جو انہوں نے کسی غلط تعمیر کے سلسلہ میں کمیٹی کے قواعد کے تحت مولوی عبدالمنان صاحب کو دیئے تھے.چنانچہ فدوی وہاں گیا اور مولوی عبد المنان صاحب نے فرمایا کہ دیکھو یہ دونوں نوٹس موجود ہیں اور دستخط میاں منور احمد صاحب کے ہیں.ان دونوں میں کتنا تفاوت ہے.ان میں سے کونسا صحیح ہے اور کون سا غلط؟ ( اُس وقت میرے ساتھ والی کرسی پر چودھری بشیر احمد صاحب نائب وکیل المال تحریک جدید بھی تشریف فرما تھے اور ہم دونوں مولوی عبدالمنان صاحب کے سامنے بیٹھے تھے ) بندہ نے عرض کیا کہ چونکہ میں شروع سے کمیٹی میں حضرت میاں منور احمد صاحب کے ماتحت کام کر رہا ہوں مجھے اچھی طرح معلوم ہے کہ دونوں دستخط حضرت میاں منور احمد صاحب کے ہیں.گو ایک چھوٹا ہے اور ایک بڑا لیکن دستخط انہی کے ہیں.چونکہ اس کا مضمون ذرا مطابق قواعد مقرر الفاظ میں تھا اور زیادہ تر بحث مولوی عبدالمنان صاحب کے مضمون پر تھی غصہ سے بھرے ہوئے الفاظ میں آپ تقریر فرماتے رہے.آخر میں اُن کے منہ سے حسب ذیل الفاظ ظاہر ہوئے:.”میاں منور احمد وغیرہ اس لئے سختی کرتے ہیں اور نا جائز کرتے ہیں کہ وہ حضرت صاحب کے لڑکے ہیں یعنی خلیفہ صاحب کے.جس وقت ڈنڈا میرے ہاتھ میں آیا میں سب کو سیدھا کر دوں گا یا دیکھوں گا.“ اُس وقت بندہ خاموش ہو کر واپس چلا آیا کیونکہ میاں صاحب بہت غصے میں تھے.بندہ نے اُسے SERIOUS نہیں لیا.البتہ جب دفتر کمیٹی میں پہنچا تو وہاں چودھری عبد اللطیف صاحب اوورسیئر اور چودھری عنایت احمد صاحب اکا ؤنٹنٹ و محمد الیاس چپڑ اسی موجود تھے.میں نے ہنسی کے طور پر چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر سے کہا کہ آپ نے میاں عبدالمنان صاحب

Page 172

انوار العلوم جلد 26 120 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت سے ٹکر لی ہے اب خبر دار ہو جاؤ وہ آپ سب کو سیدھا کر دیں گے کیونکہ وہ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں (میں نے ان کے الفاظ سے یہی مفہوم سمجھا تھا کہ وہ خلافت کے خواب دیکھ رہے ہیں) چنانچہ اُس وقت یہ بات ہنسی مذاق میں آئی گئی ہو گئی.اب ہنگامی واقعات کی رونمائی پر چودھری عنایت احمد اور چودھری عبد اللطیف صاحب نے مجھ سے کہا کہ لو بھائی تمہارا بیان کس قدر حقیقت کا انکشاف کر رہا تھا.اب ہم تمہارے بیان کو جو آج سے چار ماہ قبل تم نے ظاہر کیا تھا حضور ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں پیش کرنے لگے ہیں.میں نے کہا بیشک کوئی بات نہیں.میں نے سچی بات کہی تھی جو سنی تھی.مجھے الہام تو ہوا نہیں تھا کہ چار ماہ بعد کیا واقعہ پیش آنے والا ہے.خاکسار غلام غوث "9/8/1956 چودھری عبداللطیف صاحب اوورسیئر کی شہادت چودھری عبداللطیف صاحب ہیں کہ :- وو اوورسیئر بھی گواہی دیتے عرصہ قریباً اڑھائی تین ماہ کا ہوا ہے کہ ایک دن خاکسار ملک حفیظ الرحمن صاحب واقف زندگی نقشہ نویس ( جو حضرت خلیفہ اول کے رضاعی رشتہ دار ہیں اس لئے ان کے بھی رشتہ دار ہیں ) کے کوارٹر پر اُن کے پاس بیٹھا ہوا تھا میڈیم کوارٹر تحریک جدید جو میاں عبدالمنان صاحب کی زیر نگرانی تعمیر ہو رہا تھا کے خلاف نقشہ تعمیر ہونے پر بات ہوئی.حفیظ صاحب نے بتایا کہ میاں صاحب موصوف ان کے پاس جی.ٹی.پی بائی لاز پر مشورہ کرنے

Page 173

انوار العلوم جلد 26 121 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت آئے تھے.اسی طرح تعمیر کی اور باتیں بھی ہوئیں.پھر حفیظ صاحب نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چند روز ہوئے میاں عبدالرحیم احمد صاحب کی کوٹھی پر ایک دعوت تھی.اُس میں ہمارے خاندان کے حضرت خلیفہ اول کے خاندان سے تعلقات کی بناء پر میں بھی مدعو تھا.ڈاکٹر عبدالحق صاحب اور میاں نعیم احمد صاحب بھی شامل تھے.میاں عبدالمنان صاحب مجھے مخاطب کر کے باتیں کرتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے " کیا حفیظ صاحب ایسا نہیں؟ کیا حفیظ صاحب ایسا نہیں؟.“ (یعنی خلاف باتیں کرتے تھے) میاں عبدالرحیم احمد صاحب کبھی آتے اور کبھی جاتے تھے.جب آتے تو میاں عبدالمنان صاحب کو مخاطب کر کے کہتے "میاں صاحب! اس شریف آدمی کا ایمان کیوں خراب کرتے ہیں؟ یہ باتیں حفیظ صاحب نے بیان کرنے کے بعد خاکسار کو کہا " چودھری صاحب! آپ اپنی نمازوں میں سلسلہ کی ترقی کے لئے خاص طور پر دعائیں کیا کریں.آئندہ آنے والے ایام مجھے بہت خطرناک نظر آ رہے ہیں.میرے پوچھنے پر کہ میاں عبدالمنان صاحب کیا باتیں کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ وہ باتیں بتانے والی نہیں بہت خطرناک ہیں.“ اس کے بعد چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی سفارش سے میاں عبدالمنان صاحب کو امریکہ جانے کا موقع ملا اور اس پروپیگنڈا نے اور شدت پکڑ لی اور یہ کہا جانے لگا کہ ساری جماعت میں میاں عبدالمنان جیسا کوئی لائق آدمی نہیں.انہوں نے مسند احمد کی تبویب جیسا عظیم الشان کام کیا ہے.حالانکہ اصل واقعہ یہ ہے کہ تبویب کا ایک حصہ خود حضرت خلیفہ اول نے کیا ہوا تھا اور ان کا قلمی نسخہ لائبریری میں موجود تھا.5 جون 1950ء کو مولوی عبدالمنان نے یہ فہرست لائبریری سے مستعار لی اور کچھ لوگوں کی مدد سے اس میں کچھ زیادتی کر کے اسے اپنی طرف منسوب کر لیا.پس کچھ حصہ اس کام کا خود حضرت خلیفہ اول کر چکے تھے باقی حصہ

Page 174

انوار العلوم جلد 26 122 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت مولوی عبدالمنان نے کیا.لیکن وہ حصہ بھی خود نہیں کیا بلکہ جب وہ جامعہ احمدیہ میں پروفیسر تھے تو دوسرے استادوں اور لڑکوں کی مدد سے کیا تھا.بلکہ شاہد کلاس کے ایک طالب علم محمود احمد مختار نے مجھے لکھا ہے کہ اس کا دیباچہ انہوں نے اردو میں لکھا تھا.پھر مولوی محمد احمد صاحب ثاقب کے ذریعہ سے مجھے دیا کہ میں اس کا عربی میں ترجمہ کروں.پھر یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ علامہ احمدمحمد شاکر مصری جو اخوان المسلمین کے بانی بنا رخاندان میں سے ہیں انہوں نے اس کتاب کا انڈیکس تیار کیا ہوا ہے اور اس کی چودہ جلدیں چھپ چکی ہیں جو میری لائبریری میں موجود ہیں.اسی طرح احمد عبد الرحمن کی تبویب " الفتح الربانی " کی پانچ مجلدات بھی چھپی ہوئی ہیں.ہمارے پاس منڈی بہاؤالدین سے مولوی محمد ارشاد صاحب بشیر کی شہادت آئی ہے کہ وہاں پیغامی یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ مولوی منان صاحب نے ساری حدیثیں جمع کی ہیں یعنی وہ جو تبویب تھی اس کا نام ساری حدیثیں جمع کرنا رکھا ہے اس لئے میں یہ واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ اس کام کی کیا حقیقت ہے.اصل بات یہ ہے کہ حدیثوں کی کتابیں کئی قسم کی ہیں.ایک مسند کہلاتی ہیں جن میں راوی کے نام کے لحاظ سے حدیثیں جمع کی جاتی ہیں خواہ وہ کسی مضمون کی ہوں.مثلاً حضرت ابو بکر کی حدیثیں ایک جگہ، حضرت عمرؓ کی ایک جگہ، وَهَلُمَّ جَرًّا.مسند احمد حنبل بھی اسی بناء پر مسند کہلاتی ہے.اور بخاری وغیرہ چونکہ مضمونوں کی بناء پر لکھتے ہیں اس لئے ان کو جامع کہتے ہیں.جیسے جامع بخاری.جامع مسلم.جامع ابی داؤد اور جامع ابن ماجہ سنن ابن ماجہ بھی اس کا نام مشہور ہے.اسی طرح جامع ترندی.اگر وہ بہت اعلیٰ کتابیں ہوں تو انہیں صحیح کہہ دیتے ہیں.جیسے صحیح بخاری.ایک تیسری قسم کی حدیثوں کی کتابیں وہ ہیں جن میں براہ راست حدیثیں درج نہیں کی گئیں بلکہ حدیث کی پہلی کتب میں سے ضروری حدیثیں اکٹھی کر لی گئی ہیں.ان میں ابن تیمیہ کی منتھی ہے.سیوطی کی جامع الصغیر ہے.ہمارے ملک میں عام طور پر مشکوۃ اور بلوغ المرام مشہور ہیں.مسند احمد بن حنبل پہلی قسم کی کتابوں میں سے ہے جس میں انہوں نے حدیثیں نقل کی ہیں.مگر انہوں نے یہ حدیثیں راویوں کے نیچے دی ہیں مضمون وار نہیں.حضرت خلیفہ اول کی خواہش تھی کہ مضمون وار بھی ان کو جمع کیا جائے تاکہ مضمون نکالنا آسان ہو.پس یہ تو جھوٹ ہے

Page 175

انوار العلوم جلد 26 123 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کہ میاں منان نے حدیثیں جمع کی ہیں.مگر یہ صحیح ہے کہ جامعہ احمدیہ کے استادوں اور طالب علموں کی مدد سے اور کچھ حضرت خلیفہ اول کے کام کی مدد سے بخاری کے باب لے کر ان کے ماتحت مسند احمد بن حنبل کی حدیثیں انہوں نے مضمون وار جمع کر دی ہیں.یہ کام ایسا ہی ہے جس طرح کہ ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے.ہر ایک محنتی طالب علم یہ کام کر سکتا ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے حضرت خلیفہ اول کی خواہش کے مطابق میں نے علماء کو مقرر کر دیا ہے اور وہ کتاب مکمل ہو چکی ہے.اب وہ جامع کی شکل میں زیادہ مکمل صورت میں موجود ہے.حضرت خلیفہ اول کی خواہش بعض اور اصلاحات کی بھی تھی جن کو میں نے 1944 ء کی مجلس عرفان میں بیان کیا تھا.اس کے متعلق بھی میں نے ہدایت دے دی ہے کہ ان کو بھی ملحوظ رکھا جائے.وہ احمدی جن سے روپیہ جمع کرنے کی کوشش کی گئی تھی تا کہ جماعت کے فتنے پر اسے خرچ کیا جائے وہ مولوی ابراہیم صاحب بقا پوری کے لڑکے ہیں.اور اسی طرح افریقہ کا ایک دوست ہے جو بچ گیا.اس کے بیٹے نے کہہ دیا کہ میں ایسا خرچ کرنا نہیں چاہتا.ان سے میں کہتا ہوں کہ تمہاری تو وہی مثل ہے کہ " تیری جوتی تیرے ہی سر " تم سے ہی روپیہ لے کے تمہارے ہی خلاف استعمال کیا جانے والا تھا لیکن خدا نے تمہیں بچالیا.یہ فتنہ اب بیٹوں سے نکل کر پوتوں تک بھی جا پہنچا ہے.چنانچہ میاں سلطان علی صاحب ولد فتح محمد صاحب سندھ سے لکھتے ہیں کہ : میں خدا کو حاضر ناظر جان کر ایمان سے کہتا ہوں کہ گزشتہ سال شروع سردی میں میرے ساتھ عبدالواسع عمر پسر مولوی عبدالسلام عمر اور دوسرے دو آدمی مولوی عبد السلام عمر کی بستی نور آباد سے گوٹھ سلطان علی کو شام کے وقت آ رہے تھے.باتوں باتوں میں میاں عبدالواسع نے کہا کہ اگر انسان نیک ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہ بھی مانا جائے تو کوئی حرج نہیں.جس پر میں نے جواب دیا کہ اس طرح تو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہ مانا جائے تو کوئی حرج نہیں.پھر دو تین باتیں تبلیغی طور پر میں نے اور دوسرے ساتھیوں نے کیں پھر میاں صاحب چُپ ہو گئے.

Page 176

انوار العلوم جلد 26 124 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت جس سے معلوم ہوا کہ اُن پر کچھ اثر ہوا ہے.پھر کچھ دنوں کے بعد میں نے مولوی عبد السلام صاحب عمر سے عبدالواسع کے متعلق کہا کہ میں نے ایسی بات سنی ہے اور مجھے افسوس ہوا ہے.تو مولوی صاحب نے کہا کہ نئی روشنی کا اثر نو جوانوں میں ہو گیا ہے.“ ایک اور احمدی دوست عبدالرحیم صاحب کی شہادت ہے کہ مولوی عبدالسلام صاحب نے جواب میں کہا کہ وہ ابھی بچہ ہے حالانکہ اُس وقت وہ ایم اے کر چکا تھا.اسی طرح امته الرحمن بنت مولوی شیر علی صاحب زوجہ میاں عبد المنان صاحب عمر کا خط کسی نے بھیجا ہے جو مولوی عبدالسلام کے لڑکے واسع کے نام ہے.اس خط کو کسی نے پکڑ کر بھیج دیا.وہ ہمارے پاس موجود ہے.اس میں اس نے لکھا ہے کہ:.” میری رائے میں تو آپ لوگوں کا جلد ہی آ جانا بہتر تھا لیکن دیکھئے آپ کے چا کی کیا رائے ہے.“ یعنی میری رائے تو یہ ہے کہ جلدی سے ربوہ آ جاؤ مگر منان ابھی امریکہ میں ہے وہ آ جائے تو پتا لگے گا کہ اس کی کیا رائے ہے.پھر لکھا ہے:- لوگ یکے بعد دیگرے آپ لوگوں کے ماحول میں آویں گے.“ یعنی ربوہ آجائیں.ساری جماعت ٹوٹ کر آپ کے گرد جمع ہو جائے گی.پھر لکھا ہے:.کہا کچھ جاتا ہے بتایا کچھ جاتا ہے.خطبوں کو اگر حسب سابق منشی ہی 66 دیا کریں تو زیادہ بہتر ہے.کشتی نوح سے زیادہ اہم ان کے خطبے ہیں.“ حاشیہ: کوئی شخص یہ شبہ نہ کرے کہ اماں جی اور مولوی عبد السلام صاحب تو وفات پا کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہو چکے ہیں پھر ان کی مغفرت کس طرح ہو گئی.بخشش خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ جس کو چاہے معاف کر سکتا ہے.معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے ان کو بعض اور نیکیوں کی وجہ سے انکے بعض مخالفانہ افعال سے تو بہ کرنے کی توفیق بخش کر مقبرہ بہشتی میں دفن ہونے کا موقع عطا فرما دیا اور اس طرح اپنے فضل سے اس نے انہیں اپنی مغفرت کے دامن میں لے لیا.

Page 177

انوار العلوم جلد 26 125 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت اسی طرح امتہ الرحمن زوجہ میاں عبد المنان صاحب عمر نے ستمبر 1956ء میں اپنے جیٹھ کے بچوں کو لکھا کہ :.”ہمارے بزرگ دادا کو یہاں تک کہا جارہا ہے کہ انہوں نے تو کبھی بھی اپنی اولا د کو خدا کے سپرد نہ کیا تھا.“ ( اس خط کا عکس ہمارے پاس محفوظ ہے اور اُن کے بھائی دیکھ سکتے ہیں.) حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ بات عبدالوہاب اور عبدالمنان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق کہی تھی.مولوی شیر علی صاحب جیسے مخلص کی اس ناخلف بیٹی کو وہاب اور منان کی تو وہ بات بُری نہ لگی جو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کہی تھی لیکن وہ بات بُری لگی جو جواب کے طور پر مبائعین نے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کے متعلق کہی تھی.اب اخبار پیغام کے 5 دسمبر کے پرچہ میں سید تصدق حسین صاحب بغداد کا ایک خط چھپا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ "پیغام صلح میں مولوی عبدالمنان صاحب عمر کا مکتوب فتنہ قادیان اور منافقین کو سمجھنے کے لئے اخوان ربوہ کو بصیرت کا کام دے گا.“ ہم نے ”پیغام صلح کے سب پر چے دیکھ مارے ہیں ان میں وہ مضمون نہیں.مگر ہم کو ایک ٹریکٹ ملا ہے جس کے نیچے حقیقت پسند پارٹی“ لکھا ہوا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کا جتھا پیغامیوں کے ساتھ ہے اور پیغامی ان ٹریکٹوں کو جو " حقیقت پسند پارٹی چھاپ رہی ہے اپنے آدمیوں کو دنیا میں چاروں طرف یہ کہ کر بھجوا رہی ہے کہ میاں عبدالمنان نے لکھے ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ یہ اُن کے یار غار ہیں ان کو پتا ہوگا کہ میاں عبدالمنان نے بیٹریکٹ لکھے ہیں.ورنہ وہ شخص جو ان کی جماعت کا بغداد میں لیڈر ہے یہ کیوں لکھتا کہ میاں عبدالمنان کا ٹریکٹ مل گیا ہے.غرض آدم کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک دین کو دنیا پر مقدم نہ کرنے کی وجہ سے نظامِ الہی کے خلاف بغاوتیں ہوتی چلی آئی ہیں اور آج کا پیغامی جھگڑا یا حضرت خلیفہ اول کے خاندان کا فتنہ بھی اسی وجہ سے ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خدا تعالیٰ کے حکم سے اپنی جماعت

Page 178

انوار العلوم جلد 26 126 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت سے یہ عہد لینا کہ " میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا " اسی وجہ سے تھا.مگر افسوس کہ باوجود حضرت خلیفہ اول کے ہوشیار کر دینے کے ان کی اولا د اس فتنہ میں پھنس گئی.حالانکہ حضرت خلیفہ اول کی شہادت کو خود عبدالمنان نے 1945ء کے رسالہ فرقان میں شائع کیا تھا.اور پھر یہ شہادت الفضل 11 دسمبر 1956 ء میں بھی چھپ چکی ہے اور اس کے متعلق جلسہ سالانہ پر ایک ٹریکٹ بھی شائع ہوا ہے.دوست اسے دیکھ چکے ہوں گے.اس میں انہوں نے حضرت خلیفہ اول کا ایک نوٹ شائع کیا ہے جو دسمبر 1912ء کا لکھا ہوا ہے کہ مصلح موعود میں سال کے بعد ظاہر ہوگا.چنانچہ 1944ء میں خدا تعالیٰ نے مجھے رویا دکھائی کہ تم مصلح موعود ہو.اس مضمون میں انہوں نے لکھا ہے کہ:."فرقان کے پچھلے شمارہ میں میں نے بڑے دردمند دل کے ساتھ ابتدائی چند صفحات قلمبند کئے تھے اور میں حد درجہ اس کا آرزومند تھا کہ کسی طرح ہمارے یہ بچھڑے ہوئے بھائی پھر ہم میں آملیں.اور اپنی طاقتوں کو با ہمی آویزش میں ضائع نہ کریں بلکہ آپس میں مل کر متحدہ رنگ میں اکناف عالم میں اسلام کو پھیلانے اور پاک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کیلئے خرچ کر سکیں کہ یہی اس دور میں ہمارا اولین فرض اور ہماری زندگیوں کا بہترین مقصد ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ اسی دردمندانہ جذبہ کی وجہ سے ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اس احسان سے نوازا کہ میں آج اپنے بچھڑے ہوئے بھائیوں کے سامنے اس آواز کی تائید میں جو گزشتہ پرچہ میں حضرت مصلح موعود ایدہ اللہ الودود کے دامن سے اپنے دامن کو وابستہ کر لینے کے متعلق بلند کی گئی تھی.حضرت علامہ حاجی الحرمین سیدنا 66 نورالدین صدیق ثانی کی ایک زبردست شہادت کو پیش کرسکوں.“ وہ پیغا میوں کو تو 1945ء میں کہتا ہے کہ بچھڑے ہوئے بھائیومل جاؤ اور اپنے آپ کو کہتا ہے کہ بھاگ جاؤ مبائعین کے پاس سے.چلے جاؤ ابلیس کی گود میں اور جماعت احمدیہ کے اتحاد کو چاک چاک کر دو.پھر آگے لکھتا ہے :.

Page 179

انوار العلوم جلد 26 127 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت جوا ”اے مقلب القلوب خدا! تو اس برادرانہ جنگ کو ختم فرما اور اپنے پیارے مسیح کے ان خادموں کو جو تیرے اس رسول کی تخت گاہ سے کٹ گئے ہیں انہیں اس پر مخلصانہ غور کرنے کی توفیق عطا فرما.ان کے دلوں کو کھول دے اور اس طرح پھر سے انہیں لے آ کہ ہم سب مصلح موعود کی زیر ہدایت پہلو بہ پہلو کندھے سے کندھا جوڑے أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم 21 کا مصداق نہیں." 61 سو تم تو منان کی تحریک کے مطابق بن گئے مگر وہ خود اس نعمت سے محروم ہو گیا.وہی شخص جو حضرت خلیفہ اول کی پیشگوئی ظاہر کر رہا تھا کہ انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ تمیں سال کے بعد مصلح موعود ظاہر ہوگا سو وہ ظاہر ہو گیا ہے.وہی آج اپنے باپ کو جھوٹا کہہ رہا ہے اور اس کے دوست پیغامی کہتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول کی ہتک ہم کر رہے ہیں.ہتک ہم کرتے ہیں پ کے بیان کی تائید کرتے ہیں یا ہتک ان کا بیٹا کرتا ہے اور پیغا می کرتے ہیں جو اپنے باپ کو اور اپنے پہلے خلیفہ کو جس کی انہوں نے بیعت کی تھی جھوٹا کہتے ہیں؟ اگر وہ تو بہ نہ کریں گے تو خدا تعالیٰ کے غضب کو بھڑ کا ئیں گے اور نہ اجمیری اور نہ پیغامی، نہ محمد حسن چیمہ، نہ غلام رسول نمبر 35 ان کی مدد کر سکیں گے.کیونکہ خدا کی گرفت آدمیوں کے ذریعہ سے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ قانونِ قدرت کے ذریعہ سے ظاہر ہوتی ہے.اور قانونِ قدرت حکومتوں کے ماتحت بھی نہیں وہ محض خدا تعالیٰ کے ماتحت ہے.اور خدا تعالیٰ نے مجھے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور وہ الفضل 7 ستمبر 1956ء میں چھپ بھی چکی ہے کہ اب تو پیغامی اور ان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن فرشتوں نے آسمان پر چکر کھاتے ہوئے قرآن کی وہ آیتیں پڑھیں جو منافق یہودیوں کو کہا کرتے تھے کہ اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم تمہارے ساتھ مل کر لڑیں گے اور اگر تم کو نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ نکل جائیں گے.خدا تعالیٰ کہتا ہے نہ یہ لڑیں گے، نہ نکلیں گے جھوٹے ہیں.اسی طرح خدا تعالیٰ نے مجھے فرشتوں کے ذریعہ سے بتایا کہ یہی حال ان کا ہوگا.پہلے پیغامی اور احراری کہیں گے کہ ہم تمہاری مدد کریں گے لیکن بعد میں نہ وہ مدد کریں گے نہ ساتھ

Page 180

انوار العلوم جلد 26 128 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت دیں گے بلکہ سب بھاگ جائیں گے کیونکہ خدا کے غضب کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا ہے چنانچہ جلسہ سالانہ کے بعد ” نوائے پاکستان 17 جنوری 1957ء میں ان کے ایک ہمدرد نے ایک مضمون شائع کیا ہے جس سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو مجھے خبر دی تھی وہ بڑی شان سے پوری ہوگئی ہے.ہے:.اس مضمون میں جو " حقیقت پسند پارٹی سے چند گزارشات" کے زیر عنوان شائع ہوا ہے لکھا (الف) حزب مخالف نے اگر چہ حقیقت پسند پارٹی کے نام سے اپنی جماعت الگ بنانے کا اعلان کر دیا ہے مگر ہیں وہ بڑے پریشان کیونکہ قادیانی خلافت نے تو منافق، غدار ہلحد اور دونوں جہان میں خائب و خاسر کا الزام دے کر اپنے سے ان کو عضو فاسد کی طرح کاٹ دیا ہے.“ (ب) '' لاہوری حضرات ان کو دوسرے قادیانیوں کی طرح ہی سمجھتے ہیں.ان میں باہمی عقیدہ وخیال کا کوئی فرق نہیں ہے صرف تھوڑ اسا خلافتی اختلاف ہے.اس بناء پر وہ ان کو اپنے قریب تک نہیں پھٹکنے دیتے.“ (ج) ”مرزائیت کی حالت میں مسلمانوں کا اُن سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ یہ اسلام کے ایک بنیادی واساسی عقیدہ کے منکر ہیں.مسلمان کافر کی ذمی ہونے کی حیثیت سے حفاظت و صیانت تو کر سکتا ہے مگر مرتد کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے.بلکہ مرتد کی سزا اسلام میں نہایت سنگین ہے اس اعتبار سے یہ معاشرہ سے بالکل کٹ چکے ہیں.“ (و) ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ 22 کا سا اِن کا حال ہے.سرزمین پاکستان باوجود اپنی وسعت و فراخی کے ان پر تنگ ہوگئی ہے.کیا وہ ملک بدر ہو جائیں؟ آخر جائیں تو کہاں جائیں.فرض کر لیجئے کہ ان میں سے ایک آدمی کسی مکان پر صرف اکیلا ہی رہتا ہے، زندگی میں ہزاروں حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں اگر وہ بھی کسی حادثہ کا

Page 181

انوار العلوم جلد 26 129 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت غرض یہ پس منظر ہے آسمانی نظام کا ، تم آسمانی نظام کے سپاہی ہو اور شیطان اب نئی شکل میں، نئے جبہ میں آکر اور احراریوں کی اور غیر مبائعین کی مدد سے اور منان اور وہاب کا نام لے کر اور عبد السلام کے بیٹوں کا نام لے کر تمہارے اندر داخل ہونا چاہتا ہے اور تم کو جنت سے نکالنا چاہتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پہلا آدم آیا تھا اور شیطان نے اُس کو جنت سے نکال دیا تھا.اب میں دوسرا آدم بن کے آیا ہوں تا کہ لوگوں کو پھر جنت میں داخل کروں.63 پس تم دوسرے آدم کی اولاد ہو.اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق جت خلافت سے دشمن تم کو نہیں نکال سکے گا.شیطان ناکام رہے گا اور منہ کی کھائے گا اور سانپ کی طرح زمین چاہتارہے گا.لیکن خدا کی جنت میں تم جاؤ گے جو اس کے نیچے پیر و ہو.کیونکہ تم نے آدم ثانی کو قبول کیا ہے اور آدم ثانی کو خدا نے اس لئے بھیجا ہے کہ پھر آدم اول کے وقت نکلے ہوئے لوگوں کو دوبارہ جنت میں داخل کرے.میری اس تقریر سے یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہو جاتی ہے کہ جو فتنہ شیطان نے آدم کے وقت اٹھایا تھا اور جس آگ کو وہ پہلے ابراہیم کے وقت تک جلاتا چلا گیا تھا اور پھر بنو اسماعیل اور بنو اسحق کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قریب زمانہ تک بھڑکا تا چلا گیا تھا اور پھر امیہ اور ہاشم کی لڑائی کی شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک بھڑکا تا چلا گیا تھا اور پھر حضرت امام حسین اور یزید کی لڑائی کی صورت میں وہ آپ کے بعد بھی بھڑ کا تا چلا گیا تھا اور پھر آخری زمانہ یعنی دور حاضر میں مسیح محمدی اور ابناء مولوی عبداللہ صاحب غزنوی مرحوم شکار ہو جائے تو اُن سے کون اُنس ومروّت کرے گا.کیا وہ سسک سک کر نہیں مر جائے گا ؟ بالفرض وہ فوت بھی ہو جاتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین کون کرے گا ؟ اس کا جنازہ کون پڑھائے گا ؟ اور کس کے قبرستان میں وہ دفن کیا جائے گا؟ یا اُس کی لاش کو چیلوں اور درندوں کے سپرد کر دیا جائے گا؟ حقیقت پسند پارٹی کو ان بھیا نک اور خوفناک نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے.64 66

Page 182

انوار العلوم جلد 26 130 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت کی لڑائی کی صورت میں اُس نے بھڑ کا نا شروع کر دیا تھا اور اب پیغامیوں اور مبائعین اور ابنائے مسیح موعود اور ابنائے مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی لڑائی کی شکل میں اس کو جاری رکھے ہوئے ہے.وہ بات حرف بحرف صحیح ہے اور اس تمام جنگ کی بنیاد لالچ یا بغض پر ہے کوئی دینی رُوح اس کے پیچھے نہیں ہے.“ (ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈر بوہ ) 1: النور: 56 2 كنز العمال في سنن الاقوال و الافعال جلد 11 صفحہ 259.حدیث نمبر 31447.الطبعة الاولى دمشق 2012ء 3 مسند احمد بن حنبل حدیث نعمان بن بشیر حدیث نمبر 18596 صفحہ 1323 مطبوعہ لبنان $2004 4 وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَقَوْمِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيْكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُّلُوْكًا (المائده: (21) تذکرہ صفحہ 197 ایڈیشن چہارم 2004 ء 6 رساله الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 اخبار بدر 2 جون 1908 ءصفحہ 1 9 رسالة الخلافة مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحہ 19.مطبوعہ قاہرہ مصر 10: پیغام صلح 5 دسمبر 1956 ء صفحہ 10 11: تاریخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 50،49 - فصل في مبايعته مطبع لکھنو.1925ء 12: تاریخ الخلفاء للسيوطى صفحہ 50،49 - فصل في مبايعته مطبع لکھنو.1925ء 13 رسالة الخلافۃ مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحہ 19،14.مطبوعہ قاہرہ مصر :14: رسالة الخلافۃ مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحہ 14، 19.مطبوعہ قاہرہ مصر 15: رسالة الخلافۃ مصنفہ شیخ محمد رشید رضا مصری صفحہ 9 تا19.مطبوعہ قاہرہ مصر 16 سولاویسی : (سیلبس ):CELEBES)SULA WESI) (انڈونیشیا کا ایک جزیرہ

Page 183

انوار العلوم جلد 26 131 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت ہے جو BORNEO اور MALUKU ISLANDS کے درمیان واقع ہے اور یہ دنیا کا گیارھواں بڑا جزیرہ ہے.(Wikipedia, Under the topic of SULAWESI) 17: بلجین کانگو (Belgian Congo) بادشاہKING LEOPOLO II کے دور 1908ء-1960ء میں موجودہ ملک جمہوریہ کانگو کا یہ رسمی نام تھا.(Wikipedia, Under the topic of Belgian Congo) :18 سیرت المہدی جلد اول حصہ دوم صفحہ 365 میں حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص ہماری کتابوں کو کم از کم تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں ایک قسم کا کبر پایا جاتا ہے کے الفاظ ملتے ہیں.19: یہ مفصل خط الفضل یکم دسمبر 1956ء میں شائع ہوا.صفحہ 1-8 20 یہ مفضل خط الفضل 21 دسمبر 1955ء میں شائع ہوا.صفحہ 3 21: الاعلى : 15 تا20 22: الاعراف : 13 تا19 :23: پیدائش باب 3 آیت 5 صفحہ 11 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء :24: پیدائش باب 21 آیت 12 صفحہ 26 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 25 پیدائش باب 16 آیت 12 صفحہ 21 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 26: البقرة :110 27 دا دود دمش : بخشش و عطا.فیاضی، سخاوت، خیرات ارد ولغت تاریخی اصول پر جلد 8 صفحہ 908 کراچی 1987ء) 28: تاریخ الکامل لابن اثیر جلد 2 صفحہ 17،16 مطبوعہ بیروت 1965ء 29: محاضرات جلد اوّل شیخ محمد خضری صفحہ 37،36 - مصر 1382 ھجری 30 دائرة المعارف جلد اوّل صفحہ 622

Page 184

انوار العلوم جلد 26 132 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت 31 بدر2 جون 1908ء صفحہ 1 32: حقیقت اختلاف حصہ اول صفحہ 31 ایڈیشن دوم احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور 33 ریویو آف ریلیجنز دسمبر 1908 ءصفحہ 480 34: پیغام صلح 17 دسمبر 1914 ء صفحہ 2 35 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 92،91 مطبوعہ بیروت 2012ء 36 الفضل 4 اگست 1937 ءصفحہ 4 37 دعائم الملة : ( دعامة ) وہ ستون یا بنیاد جس پر عمارت کھڑی ہو (لسان العرب جلد اول زیر لفظ الدعامة بيروت 2005ء) قوم کا سردار (المنجد) 38 الفضل 16 ستمبر 1956 ءصفحہ 4 39: نبیرہ: بیٹے یا بیٹی کا بیٹا.پوتا یا نواسہ (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 19 صفحہ 754.مطبوعہ کراچی 2003 ء 40: پیغام صلح 30 ستمبر 1930ء :41 الفضل 17 اکتوبر 1956ء صفحہ 4 42 الفضل 17 اکتوبر 1956ء صفحہ 4 43 الفضل 2 /اکتوبر 1956ء صفحہ آخر 44 الفضل 22 /اگست 1956ء صفحہ 3 45 الفضل 30 / جولائی 1956ء صفحہ 4 46 الفضل 29 جولائی 1956ء صفحہ 1 47: الفضل4/اکتوبر 1956ء صفحہ 4 77::48 49: اشتہار معیار الا خیار مورخہ 16 جون 1899ء، مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 395 50 کتاب البریہ صفحہ 120 روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 148

Page 185

انوار العلوم جلد 26 133 خلافت حقہ اسلامیہ اور نظام آسمانی کی مخالفت 51 اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 202 52 کتاب البریہ صفحہ 121 روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 149 53 ارڈ پوپو : نجومی ، لاف زن ، ضدی، ہٹیلا ، احمق ( پنجابی اردو لغت مرتبه حسین بخاری صفحہ 112لاہور 1989ء) :54 حجۃ اللہ صفحہ 7 روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 155 55 کتاب البریہ صفحہ 120 روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 148 56: تخفه غزنوی صفحه 19 روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 549 57 نزول مسیح صفحه 32 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 410 58 نزول مسیح صفحه 32 ، 33 روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 410 59: تحفه غزنویہ صفحہ 19 روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 549 60 در شین اردو زیر عنوان محمود کی آمین صفحہ 37،36 61: الفتح :30 62: التوبة:118 63 خطبہ الہامیہ حاشیہ متعلقہ بالخطبة الالهامية_ما الفرق بين آدم والمسيح الموعود روحانی خزائن جلد 16.صفحہ 307-308 64 نوائے پاکستان 17 جنوری 1957ء صفحہ 4

Page 186

Page 187

نوار العلوم جلد 26 135 سیر روحانی (10) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی (10)

Page 188

نوار العلوم جلد 26 136 سیر روحانی (10)

Page 189

وار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 137 سیر روحانی (10) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (10) (فرمودہ 28 دسمبر 1956ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل مضمون سیر روحانی پر تقریر کرنے سے قبل بعض امور کی طرف احباب کو توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا.: تقریر سے پہلے میں کچھ اعلانات کرنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ ہے کہ ربوہ میں ہم نے ایک ہزا را یکٹر زمین خریدی تھی جو اس کی آبادی کے لئے اس طرح فروخت کی گئی کہ اس میں دو حصے صدر انجمن احمدیہ کے تھے اور ایک حصہ تحریک جدید کا تھا اور اس طرح ان دونوں صیغوں کے کام چلے ورنہ ربوہ میں نہ کالج بن سکتے نہ سکول بن سکتے نہ یہ دفاتر بن سکتے نہ یہ عمارتیں بن سکتیں.گویا روپیہ تو آپ لوگوں نے ہی دیا مگر زمین لے کر دیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے مکان بن چکے ہیں اور اب جماعت کے لوگ پریشان ہیں کہ انہیں اور زمین نہیں ملتی.میں نے احتیاطاً یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے بندے جو بھی انتظام کریں گے وہ تھوڑا ہی ہوگا اس لئے زمین بہر حال پک جائے گی اور آخر اور ضرورت پیش آئے گی.ربوہ کے ساتھ سرحد پر ملتی ہوئی زمینیں خریدنے کے لئے ناظم جائیداد کو حکم دیا تھا.چنانچہ انہوں نے ایک کافی مقدار میں سکنی زمین کنالوں کی صورت میں خرید لی.قریباً دو ہزار مرلے میں نے بھی خریدی.لیکن میں نے یہ حکم دیا ہوا تھا کہ چونکہ یہاں سلسلہ کا کام ہونا ہے اس لئے افراد کو خریدنے کی اجازت نہیں سوائے اس صورت کے کہ وہ انجمن سے اجازت لیں اور انجمن سے وعدہ کریں کہ اگر انہوں نے اسے سکنی زمین کر کے بیچا تو جس قیمت پر زمین خریدی ہے اور جس پر نیچی ہے اس کے

Page 190

انوار العلوم جلد 26 138 سیر روحانی (10) درمیان میں جتنی رقم آئے اس سے آدھی رقم وہ سلسلہ کو دیں گے.اور میں نے بھی اس شرط سے زمین خریدی ہے.جب وہ پکے گی تو جو رقم آئے گی جس قیمت پر میں نے اس کو خریدا ہے اس کے اور فروخت کے درمیان جو فاصلہ ہوگا اس کی آدھی رقم میں سلسلہ کو اس کے کاموں کے لئے دوں گا.اب مجھے رپورٹ پہنچی ہے کہ جو زمین خریدی گئی تھی وہ ختم ہوگئی ہے صرف پندرہ کنال باقی ہے.اس لئے جو نئی زمین ہے اس کے بیچنے کی اجازت دی جائے.چنانچہ میں نے اجازت دے دی ہے کہ فی الحال 100 کنال وہ بیچ دیں اور 100 کنال چار سو روپے کنال پر پیچیں.پس جو دوست لینا چاہتے ہیں وہ دیکھ لیں.پیچھے یہ حالت ہوتی ہے کہ آج تک لوگ میرے پاس آتے ہیں اور حسرت سے کہتے ہیں کہ پہلے جب سو روپیہ کنال تھی تو ہم نے نہ لی.اُس وقت اگر ہم ہیں چھپیں کنال خرید لیتے تو ہماری کوٹھیاں بن جاتیں.میں نے کہا تم نے خدا پر اتنا تو کل نہیں کیا اس لئے نہیں ملی تو آب جو چاہیں 100 کنال تک لے سکتے ہیں.پھر بعد میں شکوہ نہ پیدا ہو.پہلے بھی میں نے 100 کنال کہی تھی اور اس کے لئے ایک تاریخ مقرر کی تھی اس کا مطلب یہ تھا کہ 100 کنال اس تاریخ تک.یہ مطلب نہیں تھا کہ اس تاریخ تک 100 کنال اگر پک جائے تب بھی یہی قیمت لی جائے گی.اب بھی یہ ہوگا کہ دو مہینے کی ہم مہلت دیں گے لیکن اگر دو مہینے کے اندر اندر 100 کنال پک گئی تو اس کے بعد وہ رعایت ختم ہو جائے گی ہم دو مہینے کا لفظ نہیں سنیں گے.دو مہینے صرف اس میعاد کے لئے رکھے ہیں کہ اگر 100 کنال نہ پکے تب بھی ہم کچھ زمین دو مہینے کے بعد دے دیں گے اور قیمت چاہیں تو بڑھا دیں گے.لیکن دو مہینے تک 100 کنال تک کی قیمت صرف چار سو روپیہ کنال رہے گی.اگر دو مہینے کے اندر 100 کنال پک گئی اور کوئی اور گاہک آئے تو پھر بیچنے والوں کو حق ہوگا کہ وہ چارسو کی بجائے پانچ سو، چھ سو ، سات سو اور آٹھ سو وصول کریں.تو آب دو مہینے تک 100 کنال زمین خریدنے کا آپ لوگوں کو حق ہے.میں نے اپنی زمین ابھی رو کی ہوئی ہے تا کہ انجمن کی کچھ زمین پک جائے اور ان کا قدم جم جائے اور تجارت کا رُخ اُدھر ہو جائے.جب تک انجمن کی زمین پک نہ جائے اُس وقت تک میں اپنی زمین

Page 191

انوار العلوم جلد 26 139 سیر روحانی (10) فروخت نہیں کروں گا.پس اس وقت جو دوست لینا چاہیں وہ محلہ دارالیمن (الف) میں بھی لے سکتے ہیں.اس میں 15 کنال ابھی باقی ہے مگر اس کی قیمت زیادہ ہے.اس کی قیمت 562 روپے آٹھ آنے ہے.لیکن آئندہ جو زمین ہوگی اور جو کالج کی طرف ہے یعنی کالج سے ذرا پرے ہے وہ زمین 100 کنال تک چار سو روپیہ فی کنال فروخت کریں گے.جو دوست اس سے فائدہ اٹھانا چاہیں وہ دفتر میں جا کر اپنے لئے کوئی ٹکڑا ریز رو کر لیں.کچھ دنوں کی مہلت تو وہ آخر دیں گے ہی مگر پہلے کی طرح نہیں ہو گا.پہلے یہ تھا کہ لوگوں نے قیمتیں بھی قسط وارد یں اور پھر مکان بھی نہ بنائے اور لمبا کرتے چلے گئے.اب کے جو زمین لے گا یا تو مدت مقررہ کے اندر جو تین مہینے کی ہوگی یا چھ مہینے کی ہوگی وہ مکان بنائے گا یا آگے انجمن کی اجازت لے کر کسی اچھے آدمی کے پاس فروخت کر دے گا.دونوں کی اجازت ہے.یہ بھی اجازت ہے کہ مثلاً اگر کسی کے پاس کچھ روپیہ ہو فرض کرو چار ہزار روپیہ ہے تو دس کنال خرید لے اور پھر اور چھ مہینے سال کے بعد جب اس کی قیمت سات سو یا آٹھ سو ہو جائے تو بیچ دے اسے قریباً دو گنا رو پیل جائے گا.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ علم انعامی جو ہر سال خدام الاحمدیہ کو ملا کرتا ہے اس کے لحاظ سے اس دفعہ اول انعام حاصل کرنے والی مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ہے.قائد کراچی آئیں اور سرٹیفکیٹ مجھ سے لے لیں.اس کے بعد علم انہیں دفتر سے مل جائے گا.دوسرے نمبر پر شہری مجالس میں سے کوئٹہ رہا ہے.میں نے فرق کر دیا تھا کہ شہری الگ رہیں اور دیہاتی الگ رہیں.جیسے گل امتحان میں فرق کر دیا ہے کہ 25 سال سے اوپر کی عورتوں اور مردوں کا الگ امتحان ہوگا اور 25 سال سے نیچے کی عورتوں اور لڑکوں کا الگ امتحان ہوگا.دیہاتی مجالس میں سے کرونڈی ضلع خیر پور ڈویژن کی انجمن خدام میں فرسٹ (FIRST) رہی ہے سو اُن کے قائدآ ئیں اور سرٹیفکیٹ مجھ سے لے لیں.غرض شہری مجالس میں سے اول کراچی رہی ہے اور دوم کو ئٹہ رہا ہے اور دیہات میں سے اول مجلس خدام الاحمدیہ کرونڈی رہی ہے اور دوم کے متعلق کہتے ہیں کہ اس سال کوئی

Page 192

انوار العلوم جلد 26 140 سیر روحانی (10) انعام مقرر نہیں کیا گیا ، آئندہ سال شروع ہوگا.میرا کل کا مضمون کچھ کہا جال سا تھا.ایک لمبی تاریخ بیان کرنی تھی جس میں سینکڑوں واقعات تھے اور سینکڑوں شہادتیں تھیں.اس لئے باوجود اس کے کہ کئی دن ذہن میں میں اُنہیں دُہراتا رہا پھر بھی بیان کرتے وقت بہت سی باتیں ذہن سے نکل گئیں.ایک بات جو کل میں کہنی چاہتا تھا اور جو خوشی کی خبر ہے مگر میں بھول گیا وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک کتاب امریکن کتاب کا ترجمہ کر کے شائع کی گئی تھی اور اس کا ترجمہ کرنے والے بھارت کے ایک صوبہ کے گورنر مسٹر منشی بمبئی والے تھے.اس میں کچھ نامناسب الفاظ تھے.مسلمانوں نے سمجھا کہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کی گئی ہے چنانچہ وہاں اتنی شورش ہوئی اور اتنا فساد ہوا کہ سینکڑوں مسلمان مارے گئے اور ہزاروں جیل خانوں میں گئے.آج تک وہ مقدمے چل رہے ہیں اور آج تک مسلمان گرفتاریوں کی سزا بھگت رہے ہیں.اُدھر کی شورش کو دیکھ کر جبکہ گورنمنٹ نے اُدھر توجہ نہ کی تو پاکستان گورنمنٹ نے اس کتاب کو ضبط کر لیا گو اس کے بعد ہندوستانی گورنمنٹ نے بھی وہ کتاب ضبط کر لی.میں نے اس پر خطبہ پڑھا اور کہا کہ یہ ضبط کرنے والا طریق ٹھیک نہیں تب تو ان لوگوں کے دلوں میں مشبہ پیدا ہوگا کہ ہماری باتوں کا جواب کوئی نہیں.واقع میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے ہی ہوں گے تبھی کتاب ضبط کرتے ہیں ، اس کا جواب نہیں دیتے.اصل طریق یہ تھا کہ اس کا جواب دیا جاتا اور امریکہ اور ہندوستان میں شائع کرایا جاتا.میرے اس خطبہ کے بعد ہندوستان سے خصوصاً بمبئی سے رپورٹ آئی کہ ترجمہ کرانے کی ضرورت نہیں یہاں زیادہ تر انگریزی پڑھے ہوئے لوگوں میں اس کا چرچا ہے.اس لئے جو انگریزی کتاب امریکہ کے لئے چھپے وہی ہندوستان میں بھیج دی جائے اور وہ انگریزی دان طبقہ میں تقسیم کی جائے.اگر ضرورت سمجھی جائے تو بعد میں اس کا اردو ترجمہ بھی ہو جائے.چودھری ظفر اللہ خاں صاحب اب امریکہ سے آئے ہیں وہ کہتے ہیں میں نے کتاب پڑھی ہے اس کے متعلق کئی غلط فہمیاں ہیں.وہ کتاب در حقیقت ایک تحقیقی

Page 193

انوار العلوم جلد 26 141 سیر روحانی (10) رنگ میں لکھی ہوئی کتاب ہے.وہ شخص اسلام کا دشمن نہیں ہے.اس لئے جو میری تجویز تھی کہ اس کا تحقیقی جواب بھی دیا جائے اور پھر الزامی جواب بھی دیا جائے.عیسائیوں کو بھی اور ہندوؤں کو بھی.ان کی رائے یہ ہے کہ نرمی کے ساتھ تحقیقی جواب دیا جائے لیکن الزامی جواب نہ دیا جائے.کیونکہ لکھنے والے کے دل کی بد نیتی کوئی نہ تھی.اور چونکہ ہندوستان میں بھی دوستوں نے کہا ہے کہ اردو کی ضرورت نہیں انگریزی کی ہے اس لئے ایک ہی کتاب کافی ہو جائے گی جس میں تحقیقی جواب ہوں گے تحقیقی جواب جیسے عیسائیوں کے لئے کافی ہوتے ہیں اُسی طرح ہندوؤں کے لئے ، اُسی طرح زرتشتیوں کے لئے اور اُسی طرح یہودیوں کے لئے بھی کافی ہوتے ہیں.پس تحقیقی جواب کے ساتھ وہ کتاب شائع ہوگی اور مجھے اطلاع آ چکی ہے کہ وہ لکھی جاچکی ہے.مگر خدا تعالیٰ کا ہمارے ساتھ وہی معاملہ ہے جو ایک بڑھے ایرانی کے ساتھ ہوا تھا.ایک بڑھا ایرانی ایک دفعہ ایک درخت لگا رہا تھا ساٹھ سال میں کہیں جا کے وہ پھل دیتا تھا.بادشاہ وہاں سے گزرا.بادشاہ نے اس کو درخت لگاتے جو دیکھا تو کہا اس بڑھے کو بلا ؤ.جب وہ بڑھا پاس آیا تو کہا میاں بڑھے ! تم یہ درخت لگا رہے ہو پتا ہے یہ ساٹھ سال کے بعد پھل دیتا ہے تم تو اُس وقت تک مرجاؤ گے تمہیں اس درخت کے لگانے کی کیا ضرورت ہے ؟ بڑھے نے کہا بادشاہ سلامت ! آپ بھی عجیب ہیں میرے باپ دادا بھی اگر یہی سوچتے تو میں کہاں سے پھل کھا تا.میرے باپ دادوں نے درخت لگایا تو میں نے پھل کھایا میں لگاؤں گا تو میرے پوتے پڑپوتے کھائیں گے.بادشاہ کو بات پسند آ گئی اس نے کہا زہ! بادشاہ نے وزیر خزانہ کو حکم دیا ہوا تھا کہ جب میں کسی بات پر زہ کہوں تو فوراً تین ہزار اشرفی کی تھیلی اس کے آگے رکھ دیا کرو.بادشاہ نے کہا زہ.وزیر نے فوراً تین ہزار کی تھیلی اس کے آگے رکھ دی.جب اس کے آگے تین ہزار اشرفی کی تھیلی رکھی گئی تو اُس نے کہا بادشاہ سلامت! آب بتائیے آپ تو کہتے تھے کہ تُو ساٹھ سال کے بعد کہاں پھل کھائے گا چھوٹے چھوٹے درخت ہوں تو وہ بھی اگر جلدی پھل دینے والے ہوں تو کم سے کم چار پانچ سال کے بعد پھل دیتے ہیں مگر مجھے تو

Page 194

انوار العلوم جلد 26 142 سیر روحانی (10) دیکھئے ایک منٹ کے اندر پھل مل گیا.بادشاہ کو یہ بات اور بھی پسند آئی اور اس نے پھر کہازہ.اور وزیر خزانہ نے پھر تین ہزار کی تھیلی اس کے سامنے رکھ دی.جب وہ دوسری تھیلی رکھی گئی تو کہنے لگا بادشاہ سلامت! دیکھئے آپ کی کتنی غلطی تھی.آپ کہہ رہے تھے کہ ساٹھ سال کے بعد اس نے پھل دینا ہے اور اُس وقت تک تو بچے گا کہاں مگر دیکھئے لوگوں کو تو سال میں ایک دفعہ پھل ملتا ہے اور میرے درخت نے ایک منٹ میں دو دفعہ پھل دے دیئے.بادشاہ نے کہا زہ.وزیر نے پھر تیسری تھیلی رکھ دی.بادشاہ کہنے لگا کہ چلو ورنہ یہ بڑھا خزانہ لوٹ لے گا.تو اللہ تعالیٰ کا بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی معاملہ ہوتا ہے.ہندوستانی گورنمنٹ نے وہ کتاب ضبط کی اور ہندوستانیوں میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کمزور ہے.ان پر ایک امریکن نے حملہ کیا اور مسلمان جواب نہیں دے سکے.آخر شور مچایا اور گورنمنٹ کو کتاب ضبط کرنی پڑی.ادھر پاکستان گورنمنٹ نے کتاب ضبط کی پاکستان کے عیسائی بڑے خوش ہوئے ، پاکستان کے ہند و خوش ہوئے کہ دیکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کمزور ہے ان کے حملوں کا جواب کوئی نہیں.کتاب ضبط کر کے جواب دے رہے ہیں.لیکن جو میں نے تدبیر کی تھی وہ ایسی کارگر نکلی کہ ہماری کتاب ابھی چھپی نہیں اور کتاب کو چھاپنے والی فرم کا معافی نامہ پہلے آ گیا ہے اور وہ یہ ہے : Henry and Dana Thomas c/o Hanover House Publishers 575 Madison Avenue New York, N.Y.December 6,1956.We have just received your letter from our publishers.With regard to the statements made about the Prophet Mohammed in the living Biographies of

Page 195

سیر روحانی (10) 143 انوار العلوم جلد 26 Religious leaders, we were terribly shocked and saddened that there have been misunderstanding of our attitude and feeling about Mohammed.We have always believed that the teachings of the Prophet are one of the world's basic manifestations of democracy.and that the tenets of the Muslim faith are a direct progenitor of the philosophy of Abraham Lincon.Despite the Fact that the book was written fifteen years ago under the direction of a book editor who conceived of the Project as a Humanized, Romanticized approach to biography for a westernized gudience we have not had the slightest intention of detracting from the philosophical stature of Mohammed and that is why we have been so distressed our any Misunderstanding that might have arisen.We wish you Godspeed on your new work on the Prophet Mohammed and if you mention our book would you please convey to your readers how saddened we have been over any adverse reaction and would you convey that we are the last people in the world who are critical of the very great contributions of the muslim faith.sincerely,

Page 196

انوار العلوم جلد 26 144 (signed) Henry and Dana Thomas." سیر روحانی (10) اس کا ترجمہ یہ ہے : منجانب (مسٹر ) ہنری تھامس و ( مسنز ) ڈانا تھا مس معرفت ھینو در ہاؤس پبلشرز نمبر 575 میڈیسن ایونیو.نیو یارک 6 دسمبر 1956ء ہمیں اپنی کتاب کے ناشرین کی معرفت آپ کا خط ملا ( یعنی ہمارے مبلغ کا ) نبی اکرم محمد کے متعلق کتاب ”مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں میں ہمارے مضمون کے متعلق عرض ہے کہ یہ معلوم کر کے کہ نبی اکرم کے متعلق ہمارے انداز تحریر و احساسات کے متعلق بعض غلط فہمیاں پیدا ہوئی ہیں ہمیں بہت رنج اور افسوس ہوا.ہمارا ہمیشہ سے یہ اعتقاد رہا ہے کہ نبی اکرم کی تعلیم دنیا میں جمہوریت کی بنیادی مظہر ہے اور کہ مذہب اسلام کے اصول امریکی سابق پریذیڈنٹ ( جس کو وہ قریباً نبیوں کی طرح سمجھتے ہیں ) ابراہیم لنکن کی فلاسفی کا براہِ راست منبع و ماخذ ہیں ( یعنی ہم ابراہیم لنکن کو اپنا لیڈر سمجھتے ہیں اور بڑا بزرگ سمجھتے ہیں مگر ہمارا یقین ہے کہ ابراہیم لنکن نے جو امن کی تعلیم پھیلائی تھی وہ براہ راست اس نے محمد رسول اللہ سے حاصل کی تھی خود نہیں بنائی تھی ) اس امر کے باوجود کہ ہمارے مضمون کو جسے ہم نے کتاب کے ایڈیٹر کی زیر ہدایت تحریر کیا تھا لکھے پندرہ سال ہو گئے ہیں اور کتاب لکھوانے میں مرتب کا منشاء ومقصد سوانح عمری کی تحریر میں مغربی تہذیب میں رنگین قارئین و ناظرین کے مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے انسانیت کی نہج پر افسانوی رنگ دینا تھا ( یعنی ہم نے قصے کے رنگ میں لکھی تھی جس سے یورپ کے لوگ زیادہ فائدہ اُٹھا سکیں ) یہ امر کبھی ہمارے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہم کسی صورت میں محمد کے اعلیٰ عالمانہ مقام کی بے قدری یا تخفیف کریں.اس وجہ سے ان غلط فہمیوں پر جن کا واقع ہونا ہمیں بتایا جارہا ہے ہمیں نہایت درجہ غم اور افسردگی ہے.نبی اکرم کے متعلق جو کتاب آپ

Page 197

انوار العلوم جلد 26 145 سیر روحانی (10) تحریر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں اس میں ہم آپ کی کامیابی کے لئے دعا گو ہیں.اگر آپ ہماری کتاب کا ذکر فرما دیں تو ہم ممنون ہوں گے.آپ اپنے ناظرین تک ہمارا یہ پیغام بھی پہنچادیں کہ ہماری کتاب کے متعلق نا موافق اور مخالف رد عمل پر ہمیں کتنا افسوس ہوا ہے.اور کیا آپ یہ بھی انہیں پہنچا دیں گے کہ مذہب اسلام سے دنیا کو جو بڑی نعمت عطا ہوئی ہے اس کی عیب جوئی یا تنقید میں آپ ہمیں تمام دنیا کے لوگوں سے آخری فرد پائیں گے.آپ کے بہی خواہ ہنری اینڈ ڈانا تھا مس پس دیکھو ان کی ضبطی کا نتیجہ تو خبر نہیں کب نکلے گا.ہمارے جواب کا نتیجہ خدا نے فوراً نکال دیا اور کتاب کے چھاپنے والی فرم کی طرف سے معذرت آ گئی.اور نہ صرف معذرت آئی بلکہ یہ بھی آئی کہ اپنی کتاب میں بھی ہماری معذرت چھاپ دیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے تھے بلکہ ہم سب سے آخر میں وہ لوگ ہوں گے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات سن سکیں یا برداشت کر سکیں.پس یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے میری ایک حقیر کوشش کو اتنی جلدی کامیابی بخشی.سارے ہندوستان کے مسلمانوں اور پاکستان کے مسلمانوں کے شور سے ان کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی لیکن میرے اس خطبہ کے نتیجہ میں جب ان کو پتا لگا کہ کتاب لکھی جارہی ہے تو انہوں نے فوراً معذرت کر دی اور لکھوایا کہ ہماری معذرت کتابوں میں بھی چھاپ دی جائے اور اپنی جماعت کو بتایا جائے کہ ہمارے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت عزت ہے.بلکہ ابراہیم لنکن جس کو ہم نبیوں کا مقام دیتے ہیں ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگر دتھا اور اس نے جو کچھ سیکھا ہے محمد رسول اللہ.صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے.ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے دوست پروفیسر ٹلٹاک جو آئے ہوئے ہیں جرمن قوم کی طرح ان کے دل میں بھی اشتیاق ہے کہ وہ درہ خیبر اور اس کا ملحقہ علاقہ

Page 198

انوار العلوم جلد 26 146 سیر روحانی (10) دیکھیں.ہم نے انتظام کیا ہے کہ کوئی دوست ان کو وہاں لے جائے.پشاور کی جماعت یہاں بیٹھی ہے ان کو بھی میں پیغام دیتا ہوں کہ وہ جا کر کوئی مناسب انتظام کریں اور جب ان کو اطلاع ملے کہ وہ آ رہے ہیں تو اُس وقت اُن کے لئے درہ خیبر کے دیکھنے کا مناسب انتظام کریں.کیونکہ جرمن لوگوں میں جنگی قوم ہونے کی وجہ سے پٹھانوں کا ملک دیکھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے.چنانچہ جب کنزے صاحب مسلمان ہو کر آئے تھے تو وہ بھی کوئی چھ مہینے جا کر پشاور رہے تھے.یہ قدرتی اشتیاق ہے.ان کے دل پر اثر بھی ہوگا کہ ہمارے بھائی کس طرح اپنے بیرونی بھائیوں کی قدر کرتے ہیں اس لئے جماعت پشاور جا کر ان کے دیکھنے کا مناسب انتظام کرے.بلکہ اردگرد ہمارے بعض احمدی بھی ہیں جن کا علاقہ پر اچھا اثر ہے پس ان کے ارد گرد جو پٹھان ہیں وہ ان میں تحریک کریں.میں جب گیا تھا تو انہوں نے دعوت بھی کی تھی اور پھر ایک شخص تو جس سے ہمارے دوست ڈرتے تھے کہ حملہ نہ کر دے بندوق لے کرنا چنے لگ گیا اور مجھے کہنے لگا کہ میں تو آپ کو چائے پی کر جانے دوں گا.میں نے کہا ہمارے پاس وقت نہیں.کہنے لگا یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ آپ چلے جائیں اور ہماری ذلت ہو.بڑی مصیبت سے اُس سے چھٹکارا حاصل کیا.تو اُن لوگوں میں تحریک کر کے ان کو انٹروڈیوس (INTRODUCE) کر دیں تا کہ ان کی دل جوئی ہو اور ان پر یہ اثر ہو کہ پاکستانی لوگ جرمن مسافروں کے ساتھ ہمدردی اور محبت رکھتے ہیں اور احمد یہ جماعت اپنے کو مسلموں کو اپنا بھائی سمجھتی ہے.اس کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ منافقوں کی طرف سے جو حملے کئے گئے ہیں اور جو جھوٹ بولے گئے ہیں ان میں سے ایک بات ایسی تھی جو سچی تھی.میں آج اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی نہ کوئی آدمی ان کا دفتروں میں موجود ہے.وہ جو کہتے ہیں کہ جماعت میں بے انتہا بیزاری پیدا ہورہی ہے یہ تو غلط ہے.وہ یہاں دیکھ سکتے ہیں اور ان کا اگر کوئی آدمی یہاں ہو تو دیکھ کر شرمندہ ہو سکتا ہے لیکن کوئی آدمی ہے جو دفتروں میں رہنے والا بھی ہے.کیونکہ ایک سچی بات ان کو پتا لگ گئی اور وہ یہ کہ ” نوائے پاکستان میں ے متعلق چھپا تھا کہ خزانہ سے ان کے نام بڑا اوور ڈرا (OVERDRAW) ہوا

Page 199

انوار العلوم جلد 26 147 سیر روحانی (10) ہوا ہے.یہ بات ٹھیک تھی.وہ واقعہ یہ ہے کہ جب میں بیمار ہوا اور باہر گیا تو اپنی زمینوں کا انتظام وغیرہ کرنے کے لئے چونکہ کئی ہزار روپیہ ماہوار تو وہاں کے مینیجروں اور عملہ وغیرہ کی تنخواہ ہوتی ہے میں اپنے پیچھے اپنے داماد نا صر سیال کو انتظام کے لئے مقرر کر گیا.وہ بچہ اور نا تجربہ کار تھا اس نے غلطی کی وجہ سے بجٹ کو اپنے قابو میں نہ رکھا اور خرچ بڑھتا گیا.میں احتیاطاً خزانہ کے افسر کو کہہ گیا تھا کہ مہربانی کر کے اس کو اوور ڈرا کر دیں اگر ضرورت پیش آئے.اور یہ بنکوں کا قاعدہ ہے جو پرانے گاہک ہوتے ہیں اُن کو اوور ڈرا کرتے رہتے ہیں حتی کہ سرکاری بنک بھی ہمیں اوور ڈرا کر دیتے ہیں.یہ بات انہوں نے منظور کرلی اور ان کو رقم دیتے گئے.سو یہ بات ٹھیک تھی کہ اوور ڈرا میرے نام پر تھا کیونکہ میں ہی اس کا ذمہ دار تھا.ناصر سیال میری طرف سے منتظم تھا لیکن اصل ذمہ دار تو میں ہی تھا پس وہ اوور ڈرا ہوا ہوا تھا.میں اُس وقت چُپ کر کے بیٹھا رہا کہ پہلے یہ قرضہ ادا ہو جائے پھر کچھ کہوں گا.چنانچہ جلسہ سے پہلے وہ ساری رقم ادا کرنے کے بعد میں نے امانت کے افسر سے یہ تحریر لے لی ہے کہ ایک ایک پیسہ ادا ہو چکا ہے اور اب کوئی رقم آپ کے ذمہ باقی نہیں رہی.اس لئے آج میں اس کو بیان کر دیتا ہوں کہ یہ سچا واقعہ تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں اوور ڈرا تھا مگر چونکہ میں ان کا پرانا امانت دار ہوں اور جب کبھی میرے ذمہ کوئی رقم ہوئی میں نے بلا چون و چرا ان کو ادا کر دی ہے اس لئے میری بیماری کی حالت میں اور سفر کی حالت میں انہوں نے منظور کر لیا کہ ناصر سیال کے کہنے پر وہ اوور ڈرا دے دیں گے.مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے جس دن میں آیا اُسی دن سے میں نے اپنے بچوں کو کہنا شروع کیا کہ اپنے سارے خرچ رو کو مگر قرضہ ادا کرو.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سے پہلے وہ سب قرض ادا ہو گیا اور افسر صاحب امانت کی تحریر میرے پاس آگئی کہ اب ایک پیسہ بھی آپ کی امانت پر اوور ڈرا نہیں ساری کی ساری واپس ہو چکی ہے.ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے پاکستان میں لوگوں کو ایک بڑی مصیبت پڑی ہوئی ہے اور وہ کشمیر کا مسئلہ ہے.کشمیر کے مسئلہ میں آج تک پاکستان حیران بیٹھا ہے اور پاکستانی ، گورنمنٹ سے بھی زیادہ حیران بیٹھے ہیں.یہ سب کو نظر آ رہا ہے کہ جب تک

Page 200

انوار العلوم جلد 26 148 سیر روحانی (10) کشمیر نہ ملا پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا اور یہ بھی سب کو نظر آ رہا ہے کہ کرنا کرا نا کسی نے کچھ.سب حیران ہیں.پاکستان کی نظر امریکہ پر ہے اور امریکہ کی نظر روس پر ہے کہ اگر کسی وقت پاکستان نے ادھر ہلچل کی تو روس اپنی فوجیں افغانستان میں داخل کر دے گا یا گلگت میں داخل کر دے گا.اس حیرت میں پاکستانی گورنمنٹ کچھ نہیں کرتی.میں اپنی جماعت کو ایک تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج جب دعائیں ہوں گی تو کشمیر کے متعلق بھی دعائیں کریں.دوسرے میں ان کو یہ تسلی بھی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سامان نرالے ہوتے ہیں.میں جب پارٹیشن کے بعد آیا تھا تو اُس وقت بھی میں نے تقریروں میں اس طرف اشارہ کیا تھا مگر گورنمنٹ نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا.اب نظر آ رہا ہے کہ وہی باتیں جن کو میں نے ظاہر کیا تھا وہ پوری ہو رہی ہیں.یعنی پاکستان کو جنوب اور مشرق کی طرف سے خطرہ ہے لیکن ایسے سامان پیدا ہورہے ہیں کہ ہندوستان کو شمال اور مشرق کی طرف سے شدید خطرہ پیدا ہونے والا ہے.اور وہ خطرہ ایسا ہوگا کہ باوجود طاقت اور قوت کے ہندوستان اس کا مقابلہ نہیں کر سکے گا اور روس کی ہمدردی بھی اس سے جاتی رہے گی.سو دعائیں کرو اور یہ نہ سمجھو کہ ہماری گورنمنٹ کمزور ہے یا ہم کمزور ہیں.خدا کی انگلی اشارے کر رہی ہے اور میں اسے دیکھ رہا ہوں.اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ روس اور اس کے دوست ہندوستان سے الگ ہو جائیں گے.اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے گا کہ امریکہ یہ محسوس کرے گا کہ اگر میں نے جلدی قدم نہ اٹھایا تو میرے قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے روس اور اس کے دوست بیچ میں گھس آئیں گے.پس مایوس نہ ہوا اور خدا تعالیٰ پر تو کل رکھو.اللہ تعالیٰ کچھ عرصہ کے اندر ایسے سامان پیدا کر دے گا.آخر دیکھو یہودیوں نے تیرہ سو سال انتظار کیا اور پھر فلسطین میں آگئے.مگر آپ لوگوں کو تیرہ سو سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا ممکن ہے تیرہ بھی نہ کرنا پڑے ممکن ہے دس بھی نہ کرنا پڑے اور اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں کے نمونے تمہیں دکھائے گا.اس تقریر کے بعد جو حالات یو این او میں پیش آئے ہیں ان سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے بہت سے دوست پاکستان کو دے دیئے ہیں.مرتب

Page 201

نوار العلوم جلد 26 149 سیر روحانی (10) ایک بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ گل میں نے ریویو آف ریلیجنز کے متعلق تحریک کی تھی.میں چاہتا ہوں کہ اس کو جلدی منظم صورت میں کر دیا جائے.گل میں نے ریویو والوں کو کہا تھا کہ وہ تیرہ سو کی بجائے تینتیس سو چھپوا نا شروع کریں.دوسو روپیہ کلکتہ کے ایک دوست سیٹھ محمد صدیق صاحب نے سو کاپی کے لئے دینے کا وعدہ کیا تھا.دو ہزار انجمن لے رہی ہے.دو ہزار ایک سو ہو گیا.گیارہ سو کا میں وعدہ کرتا ہوں.گیارہ سو پر چہ کا دو روپے کے حساب سے بائیس سو بنتا ہے.سو میں وعدہ کرتا ہوں کہ انْشَاءَ اللہ اس سال میں یہ بائیس سو دے دوں گا اور پھر جماعت میں تحریک کر کے کوشش کروں گا کہ چھ مہینہ تک اس کی تعداد پانچ ہزار تک پہنچ جائے.مگر ریویو آف ریلیجنز کے افسروں کو چاہئے کہ وہ ایک منیجر فروخت مقرر کریں.ہمارے ہاں طریق یہ ہے کہ اللہ تو کل پر کام ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول ہمیشہ ہنسا کرتے تھے کہ مسلمان بھی عجیب ہے.مسلمان کے نزدیک اللہ کا نام ہے صفر.اور اس کی دلیل یہ دیا کرتے تھے کہ جب کسی مسلمان سے پوچھو کہ تمہارے گھر میں کیا ہے تو کہتا ہے اللہ ہی اللہ ہے.مطلب یہ ہوتا ہے کہ کچھ نہیں ہے.تو ہمارے لوگ بھی جب کام کرتے ہیں بس اللہ ہی اللہ کرتے ہیں یعنی کام کوئی نہیں کرنا بس اللہ پر ہی رہنا ہے یہ طریق غلط ہے.امریکہ سے ایک رسالہ ریڈرز ڈائجسٹ آتا ہے.قریباً دس یا بارہ ملین یعنی سوا کروڑ چھپتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہم انتظام کریں تو ہمارا رسالہ نہ پھیل سکے جبکہ ہم اس کے سب سٹی چیوٹ (Substitute) بھی دیں اور اپنے پاس سے رقم دیں اور تھوڑی قیمت پر لوگ لینے کے لئے تیار ہو جائیں.تو اس کے لئے ایک بیچنے والا منیجر ہونا چاہیے جو اس بات کی کوشش کرے کہ چھ مہینہ کے اندر اندر پانچ ہزار تک خریداری ہو جائے.اور سال کے اندر اندر اس کی دس ہزار خریداری ہو جائے اور پھر بڑھتی چلی جائے یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جو خواہش تھی اس سے دُگنی تگنی چو گنی پانچ گنی دس گنی میں گئی سو گنی پوری کرنے کے ہم قابل ہو جائیں.پس ادھر تو جماعتیں اپنی جگہوں پر جاکے دوستوں میں تحریک کر کے وعدہ کریں کہ ہم دو روپیہ فی رسالہ کے حساب سے اتنے

Page 202

انوار العلوم جلد 26 150 سیر روحانی (10) رسالوں کی قیمت دینے کے لئے تیار ہیں.کچھ دو روپیہ کے لحاظ سے خریداروں سے وصول ہو جائے گا اور کچھ باہر کے لوگوں کی طرف سے جو ان کا پیکنگ کا خرچ ہے وہ وصول ہو جائے گا.امیر جماعت کراچی کہتے ہیں کہ پانچ سو کاپی جماعت کراچی اپنے ذمہ لیتی ہے یعنی ایک ہزار روپیہ، گویا گیارہ سو کاپی میں نے لی تھی ، پانچ سو انہوں نے لی سولہ سو ہو گئی.دو ہزار انجمن لے گئی چھتیں سو ہو گئی.ایک سو پر چہ کلکتہ کے ایک دوست نے لیا سینتیس سو ہوگئی.محمد بشیر صاحب سہگل جو ڈھاکہ کے ہیں وہ کہتے ہیں کہ پچاس کا پیاں میں بھی لوں گا.اس طرح ساڑھے سینتیس سو ہو گئی اب پانچ ہزار ہونے میں صرف ساڑھے بارہ سو کی کمی رہ گئی ہے جس کا پورا کرنا ساری جماعت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں کیونکہ اکیلے میں نے گیارہ سو پر چہ لیا ہے.ایک بات میں یہ کہنی چاہتا تھا کہ حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے خلاف جب حملے ہوئے تو حضرت خلیفہ اول نے فرمایا تھا کہ مغرور مت ہو میرے پاس خالد ہیں جو تمہارا سر توڑیں گے.مگر اُس وقت سوائے میرے کوئی خالد نہیں تھا صرف میں ہی ایک شخص تھا.چنانچہ پرانی تاریخ نکال کر دیکھ لو صرف میں ہی ایک شخص تھا جس نے آپ کی طرف سے دفاع کیا اور پیغامیوں کا مقابلہ کیا اور ان سے چالیس سال گالیاں سنیں.لیکن باوجود اس کے کہ ایک شخص ان کی طرف سے دفاع کرنے والا تھا پھر بھی اللہ تعالیٰ نے اس کی زبان میں برکت دی اور ہزاروں ہزار آدمی مبائعین میں آکر شامل ہو گئے.جیسا کہ آج کا جلسہ ظاہر کر رہا ہے.مگر یہ نہ سمجھو کہ اب وہ خالد نہیں ہیں اب ہماری جماعت میں اس سے زیادہ خالد موجود ہیں ! چنانچہ شمس صاحب ہیں، مولوی ابوالعطاء ہیں، عبد الرحمن صاحب خادم ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں کہ جو دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں اور دیں گے اِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی.اور اللہ تعالیٰ ان کی قلم میں اور ان کے کلام میں زیادہ سے زیادہ برکت دے گا یہاں تک کہ یہ اُس بت خانہ کو جو پیغامیوں نے تیار کیا ہے چکنا چور کر کے رکھ دیں گے.اب میں اپنے مضمون سیر روحانی کے ایک حصہ کو بیان کرتا ہوں.”سیر روحانی

Page 203

انوار العلوم جلد 26 151 سیر روحانی (10) کے بہت سے ٹکڑے میں بیان کر چکا ہوں.اب صرف تین باقی ہیں.ایک قرآنی باغات ، ایک قرآنی لنگر اور ایک قرآنی کتب خانے.یہ تین مضمون خدا چاہے ہو جائیں تو پھر وہ سارا لیکچر مکمل ہو جائے گا.آج میں باغات کا مضمون لیتا ہوں.“ قرآنی باغات (الفضل 12 ، 15 مارچ 1957ء) پیشتر اس کے کہ میں اس موضوع پر اپنے خیالات کا اظہار کروں اور اُن باغات کے مقابلہ میں جو میں نے اپنے سفر حیدر آباد میں دیکھے تھے اُن روحانی باغات کا ذکر کروں جو قرآن کریم نے پیش کئے ہیں میں تمہیدی طور پر بعض امور کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کا میرے اس مضمون کے ساتھ تعلق ہے.اسلام کی توحید خالص پر بنیاد یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ اسلام کی بنیاد توحید خالص پر ہے اور سورۃ الاخلاص اس توحید کا معیار ہے.قرآن کریم اس بات پر زور دیتا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے سب چیزیں جوڑا جوڑا ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ خدا تعالیٰ خالق ہے اور باقی چیزیں مخلوق ہیں کیونکہ احد وہی ہوسکتا ہے جو جوڑا نہ ہو.جو جوڑا ہو اُس کا مخلوق ہونا ضروری ہے.چنانچہ سورۃ الذاریات رکوع 3 آیت 50 میں آتا ہے.وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ یعنی جتنی چیزیں ہم نے پیدا کی ہیں ان سب کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو.یعنی دنیوی چیزوں کو جوڑا جوڑا پیدا کرنے سے یہ غرض ہے کہ تم سوچو کہ جب ہر چیز جوڑا ہے تو معلوم ہوا کہ ہر چیز مخلوق ہے اور اس کا کوئی خالق ہے.اور جب خدا جوڑا نہیں تو معلوم ہوا کہ اللہ احد ہے، اللہ صمد ہے.وہ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ 1 ہے.جو شخص کسی کا بیٹا ہوتا ہے وہ جوڑا ہوتا ہے اور اس کا ایک باپ اور ایک ماں ہوتی ہے.اور جس کے ہاں کوئی بیٹا ہو اُس کی ایک بیوی بھی ہوتی ہے.غرض جو بیٹا بنے یا کسی کا بیٹا ہو وہ احد نہیں ہو سکتا.عیسائیت جو حضرت مسیح کے ابن اللہ ہونے پر ناز کرتی ہے درحقیقت وہ

Page 204

انوار العلوم جلد 26 152 سیر روحانی (10) دوسرے لفظوں میں مسیح کو ابن اللہ ہونے سے جواب دیتی ہے.کیونکہ اگر وہ ابن اللہ ہے تو وہ جوڑا ہے خالق نہیں.وہ منفرد نہیں ، وہ محتاج ہے ایک باپ کا جو اس کو وجود میں لایا ہے.وہ محتاج ہے ایک ماں کا جو اس کو وجود میں لائی ہے.اور جب وہ مخلوق ہو ا تو وہ محتاج ہے بیوی کا بھی تا کہ وہ اولاد پیدا کرے اور اگر وہ بیوی کا محتاج نہیں تو مخنث ہے جو ذلیل ہو اکرتا ہے.پس خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہے تا کہ تم اس سے نصیحت حاصل کرو.ایک نصیحت تو یہ حاصل کرو کہ جب ساری مخلوق کو دیکھو کہ وہ جوڑا جوڑا ہے تو سمجھ جاؤ کہ وہ مخلوق ہے اور خدا نے پیدا کی ہے.دوسرے تم سمجھ لو کہ جو جوڑا نہیں وہ خالق ہے اور وہ ایک ہی ہے اور وہی سچا احد ہے اور کوئی احد نہیں ہوسکتا اس لئے وہ مخلوق بھی نہیں ہوسکتا اور اس طرح توحید کامل پر قائم ہو جاؤ.ہر چیز کے جوڑا ہونے کے بارہ میں مخلوق کے بارے میں جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہم نے سب کو جوڑا جوڑا بنایا ہے یہ علم قرآن کریم کا بے مثال علمی نکتہ بھی قرآن کریم سے پہلے کسی کو معلوم نہیں تھا.سارا دید پڑھ جاؤ ، ساری بائبل پڑھ جاؤ ، ساری انجیل پڑھ جاؤ ،ساری ژند اوستا پڑھ جاؤ، یونان کے فلاسفروں کی کتابیں پڑھ جاؤ ، ہندوستان کے فلاسفروں کی کتابیں پڑھ جاؤ، چین کے کنفیوشس نبی کی کتابیں پڑھ جاؤ،شنٹو ازم جو جاپان کا مذہب ہے اُس کی کتابیں پڑھ جاؤ ، غرض بدھوں کی کتابیں پڑھو، یہودیوں کی پڑھو، عیسائیوں کی پڑھو، ہندوؤں کی پڑھو، یونانیوں کی پڑھو، کسی مذہب کی کتاب پڑھو، یہ نکتہ تمہیں کہیں نظر نہیں آئے گا کہ ہر چیز کا جوڑا ہے.صرف قرآن کریم ایک کتاب ہے جو کہتی ہے کہ ہم نے ہر چیز کا جوڑا پیدا کیا ہے.اور یہ جوڑے اس لئے پیدا کئے ہیں تا کہ ان کی حکمت سے تمہیں خدا کی تو حید کی طرف توجہ ہو.یہ علم جو قرآن کریم سے پہلے کسی کو نہیں تھا تی کہ الہامی کتابوں میں بھی نہیں تھا ، نہ ویدوں میں تھا، نہ بدھ کی پستکوں نے میں تھا ، نہ یونانیوں کی کتابوں میں تھا ، نہ ایرانیوں کی کتابوں میں تھا ، نہ یہودیوں کی کتابوں میں تھا، نہ عیسائیوں کی کتابوں

Page 205

انوار العلوم جلد 26 153 سیر روحانی (10) میں تھا.اس بارہ میں بہت ہی محدود علم عربوں کو حاصل تھا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ محدود علم بھی حاصل نہیں تھا جو اس بات کا ثبوت ہے کہ قرآن کریم خدا کی کتاب ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر چیز کا جوڑا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ بعض درختوں کے بھی جوڑے ہیں.اگر قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھا ہو ا ہوتا تو اس میں تو جوڑے کا ذکر ہی نہیں ہونا چاہئے تھا.اور اگر ہوتا تو یہ ہوتا کہ یہ سب فضول باتیں ہیں کوئی چیز جوڑا جوڑا نہیں.مگر قرآن میں لکھا ہوا ہے کہ ہر چیز کو خدا تعالیٰ نے جوڑے کی شکل میں پیدا کیا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کہ میں آگے ثابت کروں گا اس کا کوئی علم نہیں تھا.اب اگر یہ ثابت ہو جائے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ ہر چیز کا جوڑا جوڑا ہے تو پھر آیت کس نے لکھ دی.صاف ثابت ہے کہ یہ عالم الغیب خدا نے لکھی ہے جس سے محمد رسول اللہ بھی سیکھتے تھے اور ہم بھی سیکھتے ہیں.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی لکھی ہوئی ہوتی تو اُن کو بھی علم ہوتا.اور اگر اُن کو علم ہوتا تو وہ بات نہ ہوتی جو میں آگے بیان کرنے لگا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر چیز حدیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں ایک کھجوروں کے جوڑا ہونے کا کوئی علم نہیں تھا کے باغ کے پاس سے گزرے.آپ نے دیکھا کہ باغ والے پر کھجور سے کچھ چیز لے کر مادہ کھجور سے ملا رہے ہیں.آپ نے فرمایا ایسا کیوں کرتے ہو؟ انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اس کے بغیر پھل اچھا نہیں آتا.یعنی کھجور میں بھی نر اور مادہ ہے اور اگر ان کو آپس میں نہ ملایا جائے تو جیسے کر مادہ سے نہ ملے تو بچہ پیدا نہیں ہوتا اسی طرح اگر نر کھجور کو مادہ کھجور سے نہ ملایا جائے تو اس کا پھل بھی پیدا نہیں ہوتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بات سُن کر یہ نہیں فرمایا کہ ٹھیک ہے قرآن میں بھی یہی آتا ہے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھل تو خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے اُس نے جو پیدا کرنا ہے وہ تو کرے گا ہی جو نہیں پیدا کرے گا وہ کس طرح ہو جائے گا.چونکہ وہ بڑے اطاعت گزار لوگ تھے انہوں نے آپ کی بات سن کر یہ کام کرنا

Page 206

انوار العلوم جلد 26 154 سیر روحانی (10) چھوڑ دیا.جب پھل کا موسم آیا تو کھجوروں کو پھل نہ لگا، یا بہت کم لگا.اُن لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! آپ کی نصیحت پر عمل کر کے ہم تو مارے گئے.آپ نے تلقیح سے یعنی نر درخت کو مادہ درخت سے ملانے سے منع کیا تھا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا پھل بہت ہی کم آیا.آپ نے فرمایا کہ اس فن کے تم ماہر ہو میں ماہر نہیں ہوں ، مجھے اس حقیقت کا کیا علم تھا، تم کو چاہئے تھا کہ میری بات نہ مانتے.3 اس حدیث سے معلوم ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو جو قرآن کریم میں قاعدہ کے طور پر بیان کی گئی تھی اپنے کسی علم کے ذریعہ سے نہیں جانتے تھے یہ محض الہامی علم تھا.پس اس واقعہ سے ہر عقلمند خواہ کسی ملک کا رہنے والا ہو، کسی مذہب کا ماننے والا ہو سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہو انہیں تھا.ورنہ وہ بات جو وہ جانتے نہیں تھے اس میں لکھتے کس طرح؟ قرآن کریم عَالِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَة خدا کا اُتارا ہوا تھا اس لئے اس میں علاوہ روحانی علوم کے مادی علوم بھی ایسے بیان کئے گئے جن کو محمد رسول اللہ تو بالکل نہیں جانتے تھے مگر دنیا بھی نہایت محد و درنگ میں اُن سے واقف تھی.جیسے عربوں میں یہ علم تھا کہ کھجور میں نر و مادہ ہوتا ہے مگر باوجود اس کے کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں مسلمانوں نے دُنیوی علوم میں بڑی ترقی کی ہے اور باوجود اس کے کہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود تھی انہوں نے اس مسئلہ میں کوئی ترقی نہیں کی کیونکہ خدا تعالیٰ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ تیرہ سو سال بعد سائنس نے جو دریافت کی ہے وہ قرآن کریم میں پہلے سے موجود تھی.موجودہ سائنس دانوں کی تحقیق اب سائنس دان کہتے ہیں کہ صرف کھجور میں ہی نرومادہ نہیں بلکہ اور درختوں میں بھی ہیں.مثلاً پپیتا میں بھی ہیں.پپیتا کے درخت میں بھی ایک نر پتا ہوتا ہے اور ایک مادہ پپیتا.میرے سندھ کے باغ میں بہت سے پیپتے لگے ہوئے ہیں.کیونکہ وہاں پپیتے بہت ہوتے ہیں اور ہم بھی لگواتے ہیں.ایک دفعہ میں نے دیکھا تو درختوں پر پھل نہیں تھا.میں نے کہا پھل

Page 207

انوار العلوم جلد 26 155 سیر روحانی (10) کیوں نہیں؟ وہ کہنے لگے غلطی سے سب مادہ درخت لگ گئے ہیں نر کوئی نہیں لگا اس لئے ہوا نر درخت میں سے نطفہ لا کر مادہ پر نہیں گراتی اور اس وجہ سے پھل نہیں لگتا.اب ہم نر درخت لگا ئیں گے تو پھر پھل لگے گا.غرض آب سائنٹیفک تحقیق سے بھی ثابت ہو گیا ہے کہ پپیتا میں بھی نرومادہ ہے بلکہ بہت سی سبزیوں اور ترکاریوں میں بھی وہ نر و مادہ کے قائل ہو گئے ہیں بلکہ بعض سائنس دان تو تحقیق میں اتنے بڑھ گئے ہیں کہ وہ دھاتوں میں بھی نرو مادہ کے قائل ہو گئے ہیں.ایک سائنس دان کی کتاب میں نے پڑھی ، اُس میں لکھا تھا کہ ٹین 4 بھی دو قسم کے ہوتے ہیں.ایک ٹین کر ہوتا ہے اور ایک مادہ ہوتا ہے اور یہ بھی ایک دوسرے پر اثر کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے اثر کو قبول کر کے ایک نئی شکل بدل لیتے ہیں.مگر سائنس دان تو یہ کہتے ہیں کہ نباتات میں نر و مادہ ہوتا ہے اور دھاتوں میں بھی نرومادہ ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی اوپر جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ ہم نے ہر چیز میں جوڑ ا بنایا ہے اور چیز کے لفظ کے نیچے سب نباتات بھی آجاتی ہے، جمادات بھی آجاتی ہے، حیوانات بھی آجاتے ہیں.بلکہ اِس سے بڑھ کر ذرات عالم اور مجموعہ ء ذرّات عالم بھی آجاتے ہیں.چنا نچہ دیکھ لو! جہاں بہت سے مذاہب اور فلسفیوں دنیا کی زندگی بھی ایک جوڑا ہے نے صرف اس دنیا کی زندگی کو ایک حقیقت قرار دیا ہے اسلام نے مذکورہ بالا اصل کے مطابق دو جہان قرار دیئے ہیں یعنی جہانوں میں بھی جوڑا بتایا ہے.ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہان ہے، یہ بھی جوڑا ہے.ساری بائبل پڑھ کے دیکھ جاؤ صرف کہیں کہیں اشارے نظر آئیں گے کہ مرنے کے بعد دوسری زندگی ہے لیکن واضح طور پر حیات بغد الموت کا بائبل میں کوئی ذکر نہیں.حضرت مسیح نے بھی ایک مُردہ سا اشارہ بائبل سے نکالا کہ اس میں مرنے کے بعد کی زندگی کا ذکر ہے.مگر قرآن کو پڑھ جاؤ ہر جگہ اگلے جہان کا ذکر نظر آئے گا.میں نے کئی یورپین لوگوں کی کتابوں میں پڑھا ہے کہ قرآن پڑھ کر متلی ہونے لگ جاتی ہے، ہر جگہ اگلے جہان کا ہی ذکر ہے.حالانکہ اگلے جہان کا ذکر قرآن اس لئے کرتا ہے کہ قرآن دعویدار ہے کہ ہم نے ہر چیز کو

Page 208

انوار العلوم جلد 26 156 سیر روحانی (10) جوڑا پیدا کیا ہے.اگر قرآن اگلے جہان پر زور نہ دیتا تو لوگ کہتے یہ جہان تو ایک ہو گیا.آپ جو کہتے ہیں کہ ہر چیز کا جوڑا ہے تو پھر اس کا جوڑا کونسا ہے؟ قرآن نے پیش کر دیا کہ اس کا جوڑا اگلا جہان ہے.چنانچہ قرآن کریم میں صاف طور پر آتا ہے کہ وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ جَنَّتْنِ 5 جو شخص اپنے رب کی شان سے ڈرتا ہے اُس کو دو جنتیں ملیں گی.ایک اس دنیا میں ایک اگلے جہان میں.سود و زندگیوں کا اس آیت میں بھی ذکر آ گیا.یوں دونوں زندگیوں کا الگ بھی ذکر آتا ہے مگر اس آیت سے بھی نکلتا ہے کہ دوزندگیاں ہیں.جنت اور دوزخ بھی جوڑا ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مؤمنوں کو دعا سکھائی ہے کہ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ 6 اے خدا! ہم ہر چیز کے جوڑے کے قائل ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ایک یہ دنیا ہے اور ایک اگلا جہان ہے.تو ہم کو اس دنیا میں بھی آرام بخشید اور سکھ دیجیو اور اگلے جہان میں بھی سکھ دیجئے.اور اگلے جہان میں بھی ہم کو پتا ہے کہ پھر جوڑا ہے، ایک دوزخ ہے اور ایک جنت ہے.گو یا جوڑ اوہاں بھی ختم نہیں ہوتا.تو ہم کو اس جوڑے میں سے جو دوزخ والا حصہ ہے اُس سے بچائیو.اور اس جوڑے میں سے جو جنت والا حصہ ہے وہ عطا کیجیؤ.بلکہ پھر آگے چل کر اس دنیا کو بھی جوڑا بتایا ہے اور اگلے جہان کو بھی جوڑا بتایا ہے.اس دنیا کے متعلق فرماتا ہے کہ ایک عسر کی دنیا ہے اور ایک ٹیسر کی دنیا ہے.ایک نور کی دنیا ہے ایک ظلمت کی دنیا ہے.یعنی ایک زندگی اس دنیا میں ایسی ہے جو تکلیف اور دُکھ کی زندگی ہے اور ایک زندگی راحت کی زندگی ہے.اسی طرح ایک زندگی نور کی ہے اور ایک تاریکی کی.یہ دونوں اس دنیا کی زندگی کے جوڑے ہیں.چنانچہ فرماتا ہے فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا 7 یعنی یاد رکھ تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی مقدر ہے.ہاں یقیناً اس تنگی کے ساتھ ایک بڑی کامیابی مقدر ہے.اسی طرح فرماتا ہے اَلْحَمدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمَواتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمتِ وَالنُّورَ 8 یعنی سب تعریف اللہ کی ہے جس نے ایک ظلماتی دنیا پیدا کی ہے اور ایک نوری دنیا پیدا کی ہے.ظلماتی دنیا ظاہری لحاظ سے رات

Page 209

انوار العلوم جلد 26 157 سیر روحانی (10) ہوتی ہے کیونکہ رات کا کام بھی نرالا ہے اور دن کا کام بھی نرالا ہے.اور نورانی دنیا دن ہوتا ہے اور روحانی طور پر ظلماتی دنیا کفر کی دنیا ہوتی ہے اور نورانی دنیا ایمان اور اسلام کی دنیا ہوتی ہے.پھر اگلے جہان کے متعلق بھی ایک نار اور ایک جنت کی زندگی بتاتا ہے.فرماتا ہے.ج بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَ اَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَبِكَ اَصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ أوليكَ اَصْحَبُ الْجَنَّةِ هُم فِيهَا خُلِدُونَ - 2 یعنی وہ لوگ جو برائیوں میں ملوث ہوں گے اور اُن کے گناہ اُن کا چاروں طرف سے احاطہ کر لیں گے وہ دوزخ میں جائیں گے اور وہ اس میں رہتے چلے جائیں گے.لیکن جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے مناسب حال اعمال کئے وہ جنت میں جائیں گے اور وہ اُس میں ہمیشہ رہتے چلے جائیں گے.غرض قرآن کریم نے خدائی مخلوق میں ہر جگہ جوڑا پھلوں میں بھی جوڑے ہیں جوڑ استسلیم کیا ہے بلکہ قرآن کریم سے پتا لگتا ہے کہ صرف درختوں میں ہی جوڑا نہیں بلکہ پھلوں میں بھی جوڑا ہوتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَهُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ وَانْهَرَا وَمِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ جَعَلَ فِيهَا زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ 10 یعنی خدا ہی ہے جس نے زمین کو پھیلایا ہے اور اُس میں پہاڑ بنائے ہیں اور نہریں بنائی ہیں اور ہر قسم کے میوے لگائے ہیں.مگر وہ تمام قسم کے میوے بھی جوڑا جوڑا ہیں.گویا صرف کھجور کا درخت ہی جوڑا نہیں بلکہ کھجور کو جو پھل لگتا ہے وہ بھی جوڑا جوڑا ہے اور اس میں بھی نر اور مادہ ہوتا ہے.آجکل کے سائنس دانوں کے مقابلہ میں یہ زراعت کا کتنا وسیع علم ہے جو قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے.آ کے سائنس دان اس کے ہزارویں حصہ کو بھی نہیں پہنچے.پھر فرماتا ہے يُغْشِي الَّيْلَ النَّهَارَ 11 دیکھو ہم نے دن اور رات کا بھی جوڑا بنایا ہے.رات دن پر اور دن رات پر سوار ہوتا چلا جاتا ہے.

Page 210

نوار العلوم جلد 26 158 سیر روحانی (10) زمین اور آسمان کا جوڑا یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ اس آیت میں زمین کا تو ذکر کیا گیا ہے مگر آسمان کا نہیں.یہ تو کہا ہے کہ ہم نے زمین کو پھیلایا ہے مگر آسمان جو زمین کا جوڑا ہے اُس کا ذکر چھوڑ دیا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ دو متقابل چیزوں میں سے ایک کا ذکر کر دیا جائے تو دوسری کو چھوڑ دیا جاتا ہے کیونکہ ہر عقل اس کا آپ ہی قیاس کر لیتی ہے.عرب کہتے ہیں کہ اگر دو متقابل چیزیں ہوں اور ایک چیز کا ذکر کر کے دوسری کو چھوڑ دیا جائے تو عقل انسانی اُس کو آپ ہی نکال لیتی ہے.یہ قاعدہ میں اپنے پاس سے بیان نہیں کر رہا بلکہ لغت کے امام ثعالبی نے اپنی کتاب فقه اللغۃ میں اسے بیان کیا ہے.ثعالبی وہ شخص ہیں جو ابنِ جنتی 12 کے شاگرد تھے اور ابن جنتی اِمَامُ اللغة سمجھے جاتے تھے.وہ زبان کے بہت بڑے ماہر تھے.اُن کی کتاب ایسی بے نظیر ہے کہ جس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی.اس کتاب میں انہوں نے اشتقاق وغیرہ پر بحث کی ہے جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مدن الرحمن لکھی ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ عربی زبان اُم الالسنہ ہے.گوانہوں نے اس کا اپنی کتاب میں ایک ناقص نقشہ کھینچا ہے مگر بہر حال کچھ نہ کچھ نقشہ تو کھینچا ہے.پس اس جگہ پر زمین و آسمان کو جوڑا بتایا گیا ہے اور پھلوں کو بھی جوڑا جوڑا بتایا گیا ہے.پھلوں کے جوڑے میں صرف دنیاوی جوڑوں کی طرف اشارہ نہیں بلکہ اِس طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ روحانی سلسلوں میں جو پھل پیدا ہوتے ہیں یعنی نبی کی روحانی اولا د چلتی ہے وہ بھی جوڑا جوڑا ہوتی ہے.اب میں اپنے اصل مضمون یعنی باغات قرآنی باغات بھی سب جوڑا جوڑا ہیں کو لیتا ہوں.جتنے باغات میں نے اپنے سفر حیدر آباد میں دیکھے تھے وہ سب ایک ایک تھے مگر قرآن کریم نے جن باغات کو پیش کیا ہے وہ جوڑا ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں جنت کا ایک نام نہیں بلکہ چار نام آئے ہیں.جَثْتِ عَدْنٍ 13 ، جَنَّتُ الْمَأوى 14 ، جَنَّتِ النَّعِيمِ 15 اور جَنَّتُ الْفِرْدَوْسِ 16.گویا جنتوں کو صرف جوڑا ہی نہیں بتایا بلکہ دو جوڑے (یعنی چار ) بتایا ہے.اور اس

Page 211

انوار العلوم جلد 26 159 سیر روحانی (10) طرح اُس چیز کو جس کو غیر فانی قرار دیا گیا تھا تو حید کے راستہ سے ہٹا کر تو حید کی دلیل بنا دیا ہے.کیونکہ جنت کے متعلق کہا گیا تھا کہ وہ عدن ہے اور خُلد ہے یعنی دائمی طور پر رہنے والی ہے.اور چونکہ غیر فانی چیز میں خدائی پائی جاتی ہے اس لئے محبہ ہوسکتا تھا کہ شاید جنت میں بھی خدائی پائی جاتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے بتایا کہ نہیں وہ بھی جوڑا ہے.اور چونکہ وہ جوڑا ہے اس لئے اُسے بھی خدا تعالیٰ کے مقابل میں کھڑا نہیں کیا جاسکتا اور اس کے اندر کوئی خدائی نہیں پائی جاتی.اسی طرح وہ چیز جو خدا تعالیٰ کی احد یت میں مشبہ پیدا کر سکتی تھی اُس کو بھی جوڑا بنا کر خدا تعالیٰ کی احدیت کو پھر قائم کر دیا ہے.اور وہی چیز جو توحید میں شبہ ڈال سکتی تھی اُس کو تو حید کی دلیل بنا دیا ہے.پھر اگلی دنیا میں جن جنتوں کا ذکر کیا ہے اُن میں سے ہر ایک جنت کو پھر جوڑا قرار دیا گیا ہے گویا اس طرح چار جنتوں کو آٹھ جنتیں بنا دیا ہے.چنانچہ سورہ رحمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَانِ - 17 یعنی اگلے جہان کی ہر جنت جنتِ نَعِیم ہو یا جنَّتِ مأوى ، جَنَّتِ فِردَوس ہو یا جنتِ عَدْنِ.اس کے بھی دو دو حصے ہوں گے اور اس کے ہر حصہ کا پھل جُھکا ہو ا ہو گا.اوّل تو جنَّتِ نَعِيمِ اکیلی نہیں.جنتِ نَعِیم کے ساتھ جنتِ عَدْنٍ بھی ہے.اور پھر جنت ماوی بھی ہے اور جَنَّتِ فِردَوس بھی ہے.گویا چار جنتیں ہیں.مگر وہ چاروں جنتیں آگے پھر دو دو جنتیں ہیں اور ان کے ہر حصہ کا پھل جُھکا ہوا ہو گا اور مؤمن کو آسانی سے مل جائے گا.عاد کے دو باغات کا ذکر پھر اس دنیا کی جنتوں کا جہاں ذکر فرماتا ہے وہاں بھی اُس کو جوڑا کی شکل میں ظاہر کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں جہاں ایک قوم کے باغوں کا ذکر آتا ہے وہاں بھی اُس کو دو باغ قرار دیا ہے.فرماتا ہے وَبَدَّلْنَهُمْ بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ اُكُلِ خَمْطٍ وَاثْلٍ وَ شَيْءٍ مِنْ سِدْرِ قَلِیل - 18- یعنی عاد کی قوم کے پاس بھی دو جنتیں تھیں.ہم نے ان جنتوں کو تباہ کر دیا اور اُس کی جگہ نہایت بُرے پھل والے درخت لگا دیئے جو بد مزہ تھے ، کڑوے تھے اور کھتے تھے.خَمْطِ کے معنے ایسی چیز کے ہوتے ہیں جو کھٹی اور کڑوی ہو.یعنی وہ

Page 212

نوار العلوم جلد 26 160 سیر روحانی (10) ایسے پھل دینے لگے جو کڑوے بھی تھے اور کھٹے بھی.یہاں بھی درحقیقت روحانی پھل مراد ہیں کیونکہ عاد اور ثمود کی تباہی کے بعد جن کے پھل سخت کڑوے اور بدمزہ ہو چکے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام آئے تھے.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی جنتوں کو تباہ کر دیا اور اس کی جگہ نہایت بُرے پھل والے دو باغ ان کو دیئے.یعنی اچھے پھل والے باغ ابراہیم کو مل گئے اور بُرے پھل والے باغ عا د کومل گئے.موسوی قوم کے دو باغات کا ذکر سورۃ الکہف میں اللہ تعالی موسوی قوم کے متعلق بھی فرماتا ہے.وَاضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلًا رَّجُلَيْنِ جَعَلْنَا لِأَحَدِهِمَا جَنَتَيْنِ مِنْ أَعْنَابٍ وَ حَفَفْتُهُمَا بِنَخْلٍ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَ رُعًا - كِلْتَا الْجَنَّتَيْنِ أَتَتْ أكُلَهَا وَلَمْ تَظْلِمُ مِّنْهُ شَيْئًا وَ فَجَّرْنَا خِللَهُمَا نَهَرًا 19 یعنی تو اُن کے سامنے اُن دو شخصوں کی حالت بیان کر جن میں سے ایک کو ہم نے انگوروں کے دو باغ دیئے تھے اور انہیں ہم نے کھجور کے درختوں سے ہر طرف سے گھیر رکھا تھا اور ہم نے ان دونوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی.ان دونوں باغوں نے اپنا اپنا پھل خوب دیا اور اس میں سے کچھ بھی کم نہ کیا اور اُن کے درمیان ہم نے ایک نہر بھی جاری کی ہوئی تھی.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دو جنتیں عطا فرمائیں اور ان دونوں جنتوں میں فاصلہ رکھا اور چونکہ یہ باغ کنارہ کی طرف جاتے جاتے کمزور پڑگئے اس لئے ایک باغ اور دوسرے باغ کے درمیان کھیتیاں بنا دی گئیں.چنانچہ موسوی باغ اور عیسوی باغ کے در میان داؤد کے اتباع کا زمانہ آیا.اسی کی طرف اس میں اشارہ ہے کہ موسیٰ کا باغ چلے گا اور جاتے جاتے داؤد کے زمانہ کے بعد اس میں تنزل شروع ہو جائے گا اور وہ کھیتیاں بن جائے گا.چنانچہ فرماتا ہے وَ جَعَلْنَا بَيْنَهُمَا زَ دُعا.ہم نے ان دونوں باغوں کے درمیان کچھ کھیتی بھی پیدا کی تھی.یعنی ایک طرف عیسوی باغ تھا اور ایک طرف موسوی باغ اور ان کے درمیان ہم نے کھیتی پیدا کر دی.یعنی داؤد کی نسل پر وہ زمانہ آیا جبکہ بخت نصر

Page 213

انوار العلوم جلد 26 161 سیر روحانی (10) نے یہودیوں کو تباہ کر دیا.اُن کے معبد گرا دیئے اور انہیں قید کر کے لے گیا.پس اُن کی اتباع کا جو زمانہ تھا یا حزقی ایل اور دانی ایل کا زمانہ تھا وہ کھیتیوں کا زمانہ تھا.یعنی اُن کی مثال ایک کھیتی کی سی تھی نہ کہ باغ کی جو کہ غَنَمُ الْقَوْمِ کے چر جانے کے خطرہ میں ہوتی ہے.یعنی جب قوم کمزور پڑ جاتی ہے تو دشمن قو میں اس کو لوٹ سکتی ہیں.اسی کو قرآن کریم میں دوسری جگہ بیان کیا گیا ہے کہ نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ 20 - پاس کی ہمسایہ قوموں کے جو جانور تھے اور بھیڑیں وغیرہ تھیں وہ اس کھیتی میں چر گئیں.یعنی ارد گر دجو بخت نصر کا علاقہ یا رومی علاقہ تھا انہوں نے آکر موسوی کھیتی کو اپنے آگے رکھ لیا.لیکن ساتھ ہی یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ درمیان میں نہر ہو گی.یعنی آخری زمانہ اور موسوی زمانہ کے درمیان حضرت عیسی علیہ السلام کو پیدا کیا جائے گا.چنانچہ موسوی قوم کی دو ترقیوں کے درمیان حضرت عیسی علیہ السلام پیدا ہوئے اور انہوں نے موسوی باغ کے لئے نہر کا کام دیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی سلسلہ دہرانے کا محمدرسول اللّہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی وعدہ فرمایا گیا ہے.بھی دو باغ عطا کئے جانے کا وعدہ چنا نچہ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتا ہے إِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ * رَسُولًا - 21 اے مکہ والو ! ہم نے تمہاری طرف بھی ایک رسول تمہارا نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح فرعون کی طرف موسی کو رسول بنا کر بھیجا تھا.یعنی محمد رسول اللہ مثیل موسی ہیں.اور موسی کی قوم کے حالات ایک رنگ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پیش آئیں گے.یعنی ان کو بھی دو باغ ملیں گے.اور موسی کی طرح اُن کے زمانہ نبوت میں بھی ایک باغ تو وہ ہو گا جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بغیر کسی اور ماً مور کی مدد کے چلے گی.لیکن آخر میں اسلام کے تنزل کا دور آ جائے گا اور وہ کھیتیوں کی طرح رہ جائے گا.تب اللہ تعالیٰ موسوی سلسلہ کی طرح ایک مسیح محمدی بھیجے گا جس کی اُمت دوسرے باغ کی حیثیت رکھے گی.لیکن ہو گی وہ بھی محمد رسول اللہ کی اُمت اور اس کا باغ بھی محمد رسول اللہ کا باغ ہی کہلائے گا.لیکن اس فرق سے کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 214

انوار العلوم جلد 26 162 سیر روحانی (10) موسی سے افضل ہیں موسوی سلسلہ کے دوسرے حصہ کی بنیاد جس مسیح سے پڑی تھی وہ مستقل نبی تھا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے باغ کی بنیاد جس مسیح سے پڑے گی وہ امتی نبی ہوگا.یعنی وہ خود بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہوگا اور اُس کے ماننے والے بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں ہی ہوں گے.پس اُس کی کوئی جُدا اُمت نہیں ہوگی بلکہ اُس کے ماننے والے اُس کے مرید کہلائیں گے.جیسا کہ جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مرید کہلاتی ہے لیکن امت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کہلاتی ہے.چنانچہ اس کا ثبوت کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اُمت محمدیہ کا بلند مقام میں سے امتی نبی آتے رہیں گے سورۃ نساء رکوع 19 آیت 70 سے ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَيْكَ مَعَ الَّذِينَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيْنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولَبِكَ رَفِيقًا یعنی اے لوگو! یاد رکھو ہمارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا درجہ ہے کہ جو کوئی اللہ کی اطاعت کرے وَالرَّسُول اور اس رسول یعنی محمد رسول اللہ کی اطاعت کرے، فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ وہ اُن لوگوں میں شامل ہو جائے گا جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا.وہ کون لوگ ہیں؟ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِين وہ نبی اور صدیق اور شہداء اور صالحین ہیں.یعنی آپ کی اُمت میں داخل ہونے والے آپ کے فیض سے مستفیض ہو کر اور آپ کے نور سے منور ہو کر اور آپ کی روشنی کو حاصل کر کے اور آپ کے درس سے سبق سیکھ کر نبیوں اور صد یقوں اور شہداء اور صالحین کے مقام کو پہنچیں گے.لیکن فرماتا ہے یہ درجے صرف محمد رسول اللہ کی اُمت میں مل سکتے ہیں کسی غیر کو حاصل نہیں ہو سکتے.کیونکہ الرَّسُول کی اطاعت یعنی محمد رسول الله کی اطاعت سے ہی نبی اور صدیق وغیرہ بن سکتے ہیں.قرآن کریم کی دوسری آیتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ دوسرے نبیوں کی اطاعت کر کے انسان صدیق ، شہید اور صالح بن سکتا ہے مگر نبی نہیں بن سکتا.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کر کے نبی، صدیق ،شہید اور صالح سب در جے حاصل کرسکتا ہے.

Page 215

نوار العلوم جلد 26 163 سیر روحانی (10) فلسطین اور کشمیر کے متعلق خدائی وعدہ پس محمد رسول اله صلی اللہ علیہ سلم کو دو باغ مل گئے.ایک باغ مسیح موعود کے ظہور سے پہلے زمانہ میں اور ایک باغ مسیح موعود کے ظہور کے بعد کے زمانہ میں.چنانچہ پہلے زمانہ میں دنیوی لحاظ سے وہی باغ آپ کو ملا جو موسٹی کی اُمت کو دُنیوی لحاظ سے ملا تھا.یعنی فلسطین اور کشمیر کا علاقہ.فلسطین میں بھی بڑے باغات ہیں.میں نے 1924ء میں جب سفر کیا تو فلسطین بھی گیا تھا.میں ریل میں دمشق سے بیروت آیا.جب بیروت کے قریب پہنچے تو میں نے دیکھا کہ ریل شہر کے اندر داخل ہو رہی ہے اور ہر گھر میں باغیچے لگے ہوئے ہیں.اور دمشق میں میں نے دیکھا کہ گھر گھر میں نہریں جاری تھیں اور ہر گھر میں باغ لگا ہو ا تھا.اسی طرح کشمیر کا حال ہے کہ وہاں چپے چپے پر باغ ہے.کچھ خودرو اور کچھ مغل بادشاہوں کے لگائے ہوئے.پس قرآن کہتا ہے کہ دُنیوی لحاظ سے محمد رسول اللہ کو وہی باغ ملے گا جو موسٹی کی اُمت کو ملا.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فلسطین کا اپنے نیک بندوں کو وارث بنائے گا یعنی مسلمانوں کو.پھر اللہ تعالیٰ یہودیوں کو فلسطین سے نکال کر کشمیر میں لایا اور اُس نے کشمیر کے لوگوں کو مسلمان بنایا.چنانچہ شیخ ہمدان ایران سے آئے اور اُن کے ذریعہ سے سارا کشمیر مسلمان ہو گیا.محمد رسول اللہ کو موسوی باغ یہ خبر کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو موسوی باغ مل جائے گا اس کا ذکر انجیل میں حضرت مسیح نے بھی کیا ملنے کی انجیل میں پیشگوئی ہے.انجیل میں آتا ہے :.وو و پھر وہ انہی تمثیلوں میں کہنے لگا کہ ایک شخص نے انگور کا باغ لگایا.اور اُس کی چاروں طرف کھیرا اور کوٹھو کی جگہ کھودی اور ایک بُرج بنایا اور اسے باغبانوں کو سپر د کر کے پردیس گیا.پھر موسم میں اُس نے ایک نوکر کو باغبانوں کے پاس بھیجا تا کہ وہ باغبانوں سے انگور کے باغ کے پھل میں سے کچھ لے.انہوں نے اُسے پکڑ کے مارا اور خالی ہاتھ بھیجا ( چونکہ یہ مثال ایک روحانی سلسلہ کی ہے اس لئے باغ کے مالک

Page 216

نوار العلوم جلد 26 164 سیر روحانی (10) سے مراد خدا تعالیٰ ہے ) اُس نے دوبارہ ایک اور نوکر کو اُن کے پاس بھیجا.انہوں نے اُس پر پتھر پھینکے، اُس کا سر پھوڑا اور بے حُرمت کر کے پھیر بھیجا.پھر اُس نے ایک اور کو بھیجا.انہوں نے اُسے قتل کیا.پھر اور بہتیروں کو.اُن میں سے بعض کو پیٹا اور بعض کو مار ڈالا.اب اُس کا ایک ہی بیٹا تھا ( یعنی خود مسیح) جو اُس کا پیارا تھا آخر کو اُس نے اُسے بھی اُن کے پاس یہ کہہ کے بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دہیں گے.لیکن ان باغبانوں نے آپس میں کہا یہ وارث ہے آؤ ہم اسے مار ڈالیں تو میراث ہماری ہو جائے گی.اور انہوں نے اسے پکڑ کے قتل کیا ( اس میں مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کی پیشگوئی تھی ) اور انگور کے باغ کے پرے پھینک دیا ( یعنی فلسطین سے نکالا اور نصیبین بھیج دیا جہاں سے وہ کشمیر چلا گیا ) پس باغ کا مالک کیا کہے گا ؟ وہ آوے گا اور اُن باغبانوں کو ہلاک کر کے انگوروں کا باغ اوروں کو دے گا (یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئیں گے اور اُن باغبانوں کو یعنی یہودیوں کو وہاں سے نکال دیں گے اور اپنی اُمت کو دے دیں گے ) 22 اس جگہ خود مسیح نے محمد رسول اللہ کے روحانی بادشاہ ہونے کا اعلان کیا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا مظہر اور موسی کو محض ایک کا رندہ ثابت کیا ہے.اس پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ فلسطین اور اُمتِ موسویہ کا باغ محمد رسول اللہ کے حوالے کر دے گا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دوباغ مل جائیں گے.دو مادی اور دو روحانی.مادی فلسطین اور کشمیر اور روحانی مسیح موسوی کی اُمت اور مسیح محمدی کے متبع.کشمیر اور فلسطین میں اب دونوں مادی باغوں کو دیکھ لو.کشمیر میں بھی خدا کے فضل سے جو لوگ اس عزم کے جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں کہ ہم نے سارا ملک ہی مسلمان بنانا ہے وہ احمدی ہیں اور فلسطین میں بھی ایک ہی جماعت بیٹھی ہے اور وہ احمدی

Page 217

انوار العلوم جلد 26 165 سیر روحانی (10) ہیں.یہ چیز بتاتی ہے کہ یہ پیشگوئی جو محمد رسول اللہ کے ہاتھ میں فلسطین اور کشمیر لانے والی ہے احمدیوں کے ہاتھ سے ہی پوری ہوگی.پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اگر میرے زمانہ میں دس یہودی بھی مسلمان ہو جا ئیں تو سارے یہودی مسلمان ہو جائیں گے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صرف ایک یہودی عالم مسلمان ہوا دو بھی نہیں ہوئے.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی مبلغ جو یہودی فلسطین کو اسلامی فلسطین بنانے کے لئے وہاں موجود ہیں ان کے ذریعہ سے اس وقت تک تین یہودی مسلمان ہو چکے ہیں.اُن میں سے ایک بڑا مستشرق پروفیسر ہے، ایک ڈاکٹر ہے اور ایک تاجر پیشہ ہے اور ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ یہودی قوم کو پھر مسلمان بنائے گا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوش ہو جائیں گے اور بجائے اس کے کہ مسلمانوں کو تو ہیں اور بندوقیں لے کر فلسطین پر حملہ کرنا پڑے یہودی آگے بڑھ کر اپنے دروازے کھولیں گے اور کہیں گے کہ اے مسلمانو! ہم بھی تمہارے مسلمان بھائی ہیں آ جاؤ.غرض اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے کام لے کر تم لوگ جو کہ نہایت غریب سمجھے جاتے ہو اور جن کے کپڑوں کو دیکھ کر بعض شہری امراء تو حقارت کی نگاہ سے اپنے منہ پرے پھیر لیتے ہیں تمہارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ مقدر ہے کہ مسیح موعود کے ذریعہ سے تم موسوی باغ پر قبضہ کرو اور اُسے محمد رسول اللہ کے حوالے کرو.محمد رسول اللہ کا مادی باغ کشمیر اس وقت ہندوؤں کے قبضہ میں ہے اور فلسطین یہودیوں کے قبضہ میں ہے مگر خدا تعالیٰ احمدیوں کے ذریعہ سے یہ دونوں باغ پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس دلائے گا.اسی طرح دونوں روحانی باغ بھی محمد رسول اللہ کو مل جائیں گے یعنی مسیح موسوی کی اُمت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیروؤں کے ذریعہ سے دوبارہ فتح کی جائے گی اور اسلام لائے گی اور پھر حمد رسول اللہ کا باغ بن جائے گی اور مسیح محمدی کے متبع جو ہیں وہ تو ہیں ہی شروع سے محمد رسول اللہ کے.کہتے ہیں.ورکس دی گولی تے رکس

Page 218

انوار العلوم جلد 26 66 166 سیر روحانی (10) دے گہنے.ہم تو ہیں ہی محمد رسول اللہ کے غلام اور آپ کے باغ کے بُوٹے.ہم تو ہر وقت آپ ہی کی ملکیت ہیں.کبھی آپ کے حلقہء اطاعت سے باہر گئے ہی نہیں.موسوی سلسلہ کے لوگ یعنی یہودی وغیرہ بے شک نکلے اور باہر گئے مگر اُن کو بھی ہم محمد رسول اللہ کے دروازہ پر لائیں گے اور ہم تو ہیں ہی آپ کے دروازہ پر بیٹھے ہوئے.اس دروازہ کو ہم نے کبھی نہیں چھوڑا نہ چھوڑیں گے اِنشَاءَ اللَّهُ تَعَالَی.بلکہ مسیح ناصری کی امت جو عیسائی ہے اور حضرت موسی کی براہِ راست اُمت جو یہودی ہے ان دونوں کے باغوں میں سے بھی روحانی پودے نکال نکال کر ہم محمد رسول اللہ کے باغ میں لگاتے رہیں گے یہاں تک کہ محمد رسول اللہ کا باغ آباد ہو جائے گا اور موٹی کا باغ بھی محمد رسول اللہ کے باغ میں شامل ہو جائے گا.محمد رسول اللہ کا باغ دنیا کے محاورہ زبان میں بھی جسمانی یا روحانی اولا درخت کہلاتی ہے.چنانچہ پنجابی والے تو خوب جانتے چپہ چپہ پر پھیل جائے گا ہیں کہ جب کسی عورت کا بچہ مر جاتا ہے اور وہ نئین ڈالتی ہے تو کہتی ہے ”ہائے میرا باغ اُجڑ گیا ، ہائے میرابو ٹا کسے نے پٹ لیا.‘ تو ہمارے ملک میں بچے اور اولاد کو بھی بُوٹا اور باغ ہی کہتے ہیں.مگر لطیفہ یہ ہے کہ لوگ باغ لگاتے رہے اور باغ محمد رسول اللہ کو مل گئے.موسی علیہ السلام نے کوشش کر کے یہودی بنائے اور اُن کو فلسطین میں قائم کیا.خدا نے محمد رسول اللہ کو بنا بنا یا فلسطین دے دیا.موسق کی قوم ہجرت کر کے کشمیر آئی اور کشمیر بنا بنایا خدا نے محمد رسول اللہ کو دے دیا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لگایا ہو اباغ بھی محمد رسول اللہ کو ہی مل گیا.دنیا کے کناروں تک احمدی مبلغ تبلیغ کرتے ہیں اور لا اله الا الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پڑھوا کر لوگوں کو اپنے ساتھ ملاتے ہیں.یعنی جو درخت بھی اُن کو ملتا ہے وہ لا کر محمد رسول اللہ کے چمن میں لگا دیتے ہیں.موسی کے باغ میں تو صرف ایک بڑا درخت پیدا ہوا تھا جس کا نام داؤد تھا.مگر محمد رسول اللہ کے چمن کا ایک درخت یعنی مسیح موعود دعوی کرتا ہے کہ میں ہی محمد رسول اللہ کے چمن کا داؤد نامی درخت نہیں بلکہ مجھ سے اور بیج بھی نکلنے والے ہیں جن سے بہت سے

Page 219

انوار العلوم جلد 26 167 سیر روحانی (10) داؤد پیدا ہوں گے اور محمد رسول اللہ کے چمن میں ہزاروں داؤدی شجر پیدا ہو جائیں گے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں.اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے.23 یعنی میں محمد رسول اللہ کے باغ کا ایک درخت ہوں جو خود ہی داؤد نہیں بلکہ میرے اندر جو پھل لگ رہے ہیں وہ بھی داؤد ہیں.یعنی میں ہی داؤد نہیں بلکہ میرے ماننے والے مریدوں میں سے بھی ہزاروں داؤد پیدا ہوں گے.اور پھر فرماتے ہیں :- میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار 24 اگر موٹی اور عیسی کو بنی اسرائیل کی تعداد پر فخر ہے تو میرے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے شمار نسلیں دے گا.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا باغ دنیا میں چپہ چپہ پر پھیل جائے گا.زمین کا کوئی گوشہ نہیں ہو گا جس میں محمد رسول اللہ کا باغ نہ لگا ہوا ہو.اور دنیا کا کوئی انسان نہیں ہو گا جس کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی گلی نہ کھلی ہوئی ہو.ابو جہل کے باغ کا درخت عکرمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی یہی نمونہ اللہ تعالیٰ نے دکھایا اور محمد رسول اللہ کے باغ میں لگایا گیا لوگوں کے لگائے ہوئے درخت آپ کے چمن میں لاکر لگا دیئے.چنانچہ ابو جہل کے باغ کا انگور کا درخت عکرمہ وہاں سے اُکھیڑ کر آپ کے باغ میں لا کر لگا دیا گیا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی خیال کا اظہار فرماتے ہیں.آپ نے فرمایا میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ جنت سے انگور کا ایک خوشہ لایا.جب میں نے اُس سے پوچھا کہ یہ خوشہ کس کے لئے ہے؟ تو اس نے کہا ابوجہل کے لئے.اس پر میں گھبرا گیا کہ کیا خدا کا رسول اور اُس کا دشمن دونوں جنت میں

Page 220

انوار العلوم جلد 26 168 سیر روحانی (10) ہوں گے؟ مگر جب عکرمہ ابو جہل کا بیٹا مسلمان ہوا تو میں نے سمجھا کہ یہ اس خواب کی تعبیر ہے.25 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنت کے انگور کا خوشہ تو ابوجہل کے گھر میں آنا تھا مگر اُس وقت آنا تھا جب اُس کے باغ میں سے عکرمہ کے انگور کا درخت اُکھیڑ کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگایا جانا تھا.خالد بھی ولید کے چمن سے اکھیڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے مشہور دشمن ولید اور عاص بن وائل تھے.محمد رسول اللہ کے چمن میں لگایا گیا ولید کا بیٹا خالد تھا.وہ ولید کے چمن سے اُکھیڑ کر محمد رسول اللہ کے چمن میں لگا دیا گیا اور آج عالم اسلام خالد بن ولید جیسے بہادر جرنیل کے کارناموں پر فخر کرتا ہے.وہ بوٹا تھا محمد رسول اللہ کے ایک شدید دشمن کا.لیکن اُس نے پھل تب دینے شروع کئے جب اُسے محمد رسول اللہ کے باغ میں آکر لگایا گیا.اس سے پہلے وہ مکہ کے ایک نمبر دار کا بیٹا تھا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں لگنے کے بعد روم اور کسرامی کے بادشاہ اُس کے سائے میں بیٹھنے لگ گئے.اسی طرح اور بھی بہت سی مثالیں اُس زمانہ کے لوگوں کی ملتی ہیں.وہ درخت جو براہِ راست اس کے علاوہ آپ کے باغ کے کچھ درخت وہ تھے جو براہ راست آپ نے لگائے تھے جیسے ابو بکر، عمر، محمد رسول اللہ نے لگائے عثمان اور علی.ابوبکر کے خاندان کی ایسی ادنیٰ حالت تھی کہ اُن کے خلیفہ ہونے پر کوئی شخص دوڑا دوڑا گیا اور جا کر اُس نے آپ کے باپ کو اطلاع دی.ابو قحافہ اُن کا نام تھا ، وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے.اُن کو کہنے لگا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں لوگ بڑے گھبرائے اور انہوں نے کہا اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کیا بنے گا ؟ وہ کہنے لگا اُن کے بعد ایک خلیفہ مقرر ہو گیا ہے.لوگوں نے کہا کون خلیفہ ہوا ہے؟ اُس نے کہا ابوبکر ! ابو بکر کا باپ اپنے آپ کو اتنا ادنی سمجھتا تھا کہ ابوقحافہ کہنے لگا کون ابوبکر ؟ اُس نے کہا ابو بکر تمہارا بیٹا.وہ کہنے لگا ہیں ! میرے بیٹے کو عربوں نے سردار مان لیا ہے؟ کیا مکہ کے قریش اور بنو ہاشم اور بنو عبد شمس نے میرے

Page 221

انوار العلوم جلد 26 169 سیر روحانی (10) بیٹے کی بیعت کر لی ہے؟ یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ ابھی تک اُس کا ایمان کمزور تھا.اُس نے کہا سب نے کر لی ہے.ہراک نے آگے آگے بڑھ کر بیعت کی.عمر خطاب نے بھی کی، عثمان نے بھی کی اور باقی صحابہ نے بھی کی اور مہاجرین نے بھی کی اور انصار نے بھی کی.جب اُس نے یہ سنا تو اُس پر اتنا اثر ہوا کہ اُس کے دل کی جو کمزوری ایمان تھی وہ دُور ہو گئی.اور کہنے لگا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ.اگر محمد رسول اللہ کے بعد لوگوں نے میرے بیٹے کی بیعت کر لی ہے اور محمد رسول اللہ کا اتنا اثر ہے اور اتنی برکت ہے تو پھر اُن کے خدا کا رسول ہونے میں کوئی شبہ نہیں.26 پرا حضرت ابوبکر کا قیصر و کسر ٹی پر رعب لیکن ادھر تو یہ حال تھی کہ باپ اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں تھا کہ میرا بیٹا خلیفہ ہو سکتا ہے اور اُدھر یہ حالت تھی کہ ابو بکر آرام سے ایک کچھی کوٹھڑی میں مدینہ میں بیٹھے ہوئے تھے لیکن قیصر اپنے محل میں اُن کے نام سے کانپ رہا تھا اور کسری اپنے محل میں ایران میں بیٹھا ہوا ہزار ہزار میل پر کانپ رہا تھا.ابوبکر ابوقحافہ کا بیٹا جس کو مکہ میں بھی کوئی عظمت حاصل نہیں تھی وہ مدینہ کی کچی کوٹھڑی میں بیٹھا تھا لیکن قیصر قسطنطنیہ میں ایک بڑے پکتے محل میں بیٹھا ہو ا تھا اور کسری ایران میں ایک بڑے پکے محل میں بیٹھا ہو ا تھا لیکن ابوبکر کا نام آتا تھا تو کانپ جاتے تھے.یہی حال عمرہ کا تھا ، یہی حال عثمان کا تھا ، یہی حال حضرت علی کا تھا.شاہ روم کا حضرت عمرؓ سے تبرک منگوانا حضرت عمر کا سایہ تو اتنا بڑھا کہ لکھا ہے ایک دفعہ روم کے بادشاہ کے سر میں سخت درد ہوئی کسی علاج سے فائدہ نہ ہوتا تھا.رومی بادشاہ کو کسی نے کہا کہ آپ نے علاج تو بہت کر دیکھے اب ذرا عمر سے کچھ تبرک منگوائیے ، سنا ہے اُس کی چیزوں میں بڑی برکت ہے.شاید اس تبرک کی برکت سے آپ کی درد ہٹ جائے.وہ تھا تو مخالف اور اُس کی فوجیں عمر کی فوجوں کے ساتھ لڑ رہی تھیں مگر مرتا کیا نہ کرتا.سردرد کی برداشت نہ ہوئی.آخر حضرت عمر کے پاس سفیر بھیجا کہ اپنا کوئی ترک بھیجیں.حضرت عمرؓ نے بھی سمجھا

Page 222

انوار العلوم جلد 26 170 سیر روحانی (10) کہ میرا کیا تبرک ہے یہ تو محمد رسول اللہ کا تبرک ہے اور خدا اس کو محمد رسول اللہ کی قوم سے لڑنے کی وجہ سے ذلیل کرنا چاہتا ہے.انہوں نے اپنی پرانی ٹوپی جس پر دو دو انگل میں چڑھی ہوئی تھی وہ دے دی کہ جاؤ اور یہ ٹوپی اُس کو دے دو.جو تبرک لینے آیا تھا وہ سفیر اُس کو لے گیا.بادشاہ کو بڑی بُری لگی اور اُس نے اُسے حقیر سمجھا.وہ ریشمی ٹوپیاں اور سونے کے تاج پہنے والا بادشاہ بھلا حضرت عمر کی دود و انگل میل والی چکنی چپٹی ٹوپی سر پر رکھنے سے کتنا گھبراتا ہوگا.اُس نے کہا پھینکو اس کو میں نہیں پہن سکتا.مگر تھوڑی دیر بعد جو در دکا دورہ ہو ا تو کہنے لگا لے آنا ٹوپی.وہ ٹوپی رکھی تو سر کا درد دور ہو گیا اور خدا نے فضل کر دیا.جب درد کو ایک دن آرام رہا تو پھر دل میں کچھ خیال آیا کہ میرے جیسا بادشاہ ایسی غلیظ ٹوپی پہنے.کہنے لگا پھینکو پرے اس کمبخت کو.انہوں نے پھر پھینک دی مگر پھر درد ہو گئی.پھر اپنے درباریوں سے منتیں کرنے لگا کہ خدا کے واسطے وہ ٹوپی لا نا میں مرا جا رہا ہوں.پھر سر پر ٹوپی رکھی تو آرام آ گیا.بہر حال وہ ٹوپی لینے پر مجبور ہوا اور اُس کو سر پر رکھتا رہا.27 اب دیکھو حضرت عمرؓ کا درخت جو محمد رسول اللہ نے لگایا تھا اُس کا کیسا لمبا سا یہ تھا.عمر مدینہ میں بیٹھا ہو ا تھا اور روم کے بادشاہ پر اُس کا سایہ تھا.چنانچہ بادشاہ روم کو بھی اُس کے نیچے بیٹھنے سے آرام آیا.عمر کیا تھے؟ محمد رسول اللہ کے باغ کا ایک درخت ہی تھے.اور روم کا بادشاہ کیا تھا؟ مسیح اور موسیٰ کے باغ کا ایک درخت تھا.عام درختوں کے اندر تو یہ بات پائی جاتی ہے کہ بڑے درختوں کے نیچے اگر اُن کو لگایا جائے تو وہ سو کھنے لگ جاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ کے باغ کا درخت عمرؓ ایسا با برکت تھا کہ مسیح اور موسی کے باغ کا درخت جب اُس کے نیچے لگایا گیا یعنی روم کے بادشاہ کے سر پر اُس کی ٹوپی رکھی گئی تو بجائے سُوکھنے کے سرسبز و شاداب ہونے لگ گیا.وہ برکتوں والا زمانہ تو گزر گیا مگر پھر بھی محمدی باغ میں ایسے ایسے درخت لگے کہ دنیا کی آنکھیں خیرہ ہو گئیں.

Page 223

انوار العلوم جلد 26 171 سیر روحانی (10) معاویہ بن یزید کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغ میں ایک گندا پورا پیدا ہو ا جس کا نام یزید ہے.یزید یزید ہی تھا مگر آخر محمد رسول اللہ ایک ایمان افروز واقعہ کے باغ کا پودا کہلا تا تھا.اس کے گھر میں ایک بیٹا پیدا ہوا تو اُس نے اُس کا نام بھی اپنے باپ کے نام پر معاویہ رکھا.مگر ایسے گندے باپ کا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت کی وجہ سے اور اُن کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے ایسا پھلا پھولا کہ اس کے واقعہ کو پڑھ کر لطف محسوس ہوتا ہے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب یزید کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹے معاویہ کو خلیفہ مقرر کیا.لوگوں سے بیعت لینے کے بعد وہ اپنے گھر چلا گیا اور چالیس دن تک باہر نہیں نکلا.پھر ایک دن وہ باہر آیا اور منبر پر کھڑے ہو کر لوگوں سے کہنے لگا کہ میں نے تم سے بیعت تو لے لی ہے مگر اس لئے نہیں کہ میں اپنے آپ کو تم سے بیعت کا زیادہ اہل سمجھتا ہوں بلکہ اس لئے کہ میں چاہتا تھا کہ تم میں تفرقہ پیدا نہ ہو اور اُس وقت سے لے کر اب تک میں گھر میں یہی سوچتا رہا کہ اگر تم میں کوئی شخص لوگوں سے بیعت لینے کا اہل ہو تو میں یہ امارت اُس کے سپرد کر دوں اور خود بری الذمہ ہو جاؤں.مگر با وجود بہت غور کرنے کے مجھے تم میں کوئی ایسا آدمی نظر نہیں آیا اس لئے اے لوگو! یہ اچھی طرح سن لو کہ میں اس منصب کے اہل نہیں ہوں اور میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا باپ اور میرا دادا بھی اس منصب کے قابل نہیں تھے.میرا باپ یزید حسین سے درجہ میں بہت کم تھا.اور اُس کا باپ یعنی معاویہ حسن حسین کے باپ یعنی حضرت علیؓ سے کم درجے والا تھا اور اس کے بعد به نسبت میرے دادا اور باپ کے حسن اور حسین خلافت کے زیادہ حقدار تھے اس لئے میں اس امارت سے سبکدوش ہوتا ہوں.اب یہ تمہاری مرضی پر منحصر ہے کہ جس کی چاہو بیعت کر لو.اُس کی ماں اُس وقت پردہ کے پیچھے اُس کی تقریر سن رہی تھی.جب اُس نے بیٹے کے یہ الفاظ سنے تو کہا کمبخت! تو نے اپنے خاندان کی ناک کاٹ دی ہے اور اُس کی تمام عزت خاک میں ملا دی ہے.وہ سن کر کہنے لگا کہ جو سچی بات تھی وہ میں نے کہہ دی ہے اب آپ کی جو مرضی ہو مجھے کہیں.چنانچہ اس کے بعد وہ اپنے گھر میں بیٹھ گیا اور تھوڑے

Page 224

انوار العلوم جلد 26 172 سیر روحانی (10) دن گزرنے کے بعد وفات پا گیا.28 تعجب ہے کہ یہ تاریخ شیعوں کی لکھی ہوئی ہے مگر باوجود اس کے افسوس ہے کہ شیعہ اصحاب نے اُس مُردار جھاڑی یعنی یزید کو تو یا د رکھا جو یزید بن معاویہ کہلاتی ہے مگر محمد رسول اللہ کے اُس خوشنما پودے کو یاد نہ رکھا جو معاویہ بن یزید کہلاتا ہے.حالانکہ لوگ اپنے باپ کے باغ کی تعریفیں کیا کرتے ہیں مگر اس میں جو اتفاقاً ایک بُرا پودا یزید کا نکل آیا تھا اُس کو تو شیعہ یا د ر کھتے ہیں مگر یزید کے گھر میں جو بیٹا معاویہ پیدا ہوا اور جس نے اتنے فخر سے اور علی الاعلان کہا کہ حسن و حسین میرے باپ سے بھی اچھے تھے اور میرے دادا سے بھی اچھے تھے اور علی میرے دادا سے اچھے تھے اور وہ خلافت کے زیادہ مستحق تھے اُس بیچارے کا نام بھی کوئی نہیں لیتا.حالانکہ چاہئے تھا کہ محترم کے موقع پر بجائے یزید کے معاویہ کا ذکر کیا جاتا کیونکہ یزید کے ذریعہ سے تو صرف اتنا ہی پتا لگتا ہے کہ ایک گندی جھاڑی محمد رسول اللہ کے باغ میں تھی مگر معاویہ بن یزید کے ذریعہ سے یہ پتہ لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ کے باغ میں ایک گندی جھاڑی نکلی تھی مگر اس کے بیجوں سے پھر خدا نے ایک شاندار درخت پیدا کر دیا.محمدی باغات کے نمونے بے شک ایسی مثالیں شاذ و نادر ہوتی ہیں مگر پھر بھی محمد رسول اللہ کے باغ میں ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ کے بعد عمر بن عبد العزیز بھی ایک ایسا ہی پودا آپ کے باغ میں پیدا ہوا اور پھر مادی باغوں سے علیحدہ ہو کر روحانی باغوں نے اپنی نشو ونما شروع کر دی.محمدی باغوں میں ایک پودا حسن بصری کا لگا، ایک جنید بغدادی کا لگا، ایک سید عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک شبیلی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابراہیم ادھم رحمۃ اللہ علیہ کالگا، ایک محی الدین صاحب ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک امام غزالی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک ابن قیم رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک شہاب الدین سہروردی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک بہاؤ الدین صاحب نقشبندی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک معین الدین صاحب چشتی رحمتہ اللہ کا گا، ایک سلیم چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک قطب الدین صاحب بختیار کا کی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک فرید الدین صاحب شکر گنج رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک نظام الدین صاحب اولیاء

Page 225

انوار العلوم جلد 26 173 سیر روحانی (10) رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک حضرت باقی باللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک مجد دصاحب سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر ناصر رحمۃ اللہ علیہ کا لگا، ایک خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہ کا لگا، ایک سید احمد صاحب بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کا لگا اور سب سے آخر میں باغ محمد می کی حفاظت کرنے والے درخت مسیح موعود کا پودا لگا جس کو خود مسلمانوں نے بدقسمتی سے کاٹ کر چاہا کہ محمد می باغ میں لوگ گھس جائیں، بکریاں اور بھیڑیں کھس جائیں اور محمد می باغ کو تباہ کر دیں.مگر وہ پودا اس شان کا تھا کہ اُس نے کہا : - اے آنکہ سُوئے من بدویدی بصد تبر از باغبان بترس که من شارخ مثمرم 29 او شخص ! جو کہ سو کلہاڑے لے کر میرے کاٹنے کے لئے دوڑا آ رہا ہے میرے باغبان خدا سے یا محمد رسول اللہ سے ڈر کہ میں وہ شاخ ہوں جس کو پھل لگے ہوئے ہیں.اگر تو مجھے کاٹے گا تو محمد رسول اللہ کا پھل کٹ جائے گا اور نتیجہ یہ ہوگا کہ محمد رسول اللہ کا باغ بے شمر رہ جائے گا.پس تو مجھے نہیں کاٹ رہا تو محمد رسول اللہ کے باغ کو اُجاڑ رہا ہے اور خدا کبھی برداشت نہیں کرے گا کہ محمد رسول اللہ کا باغ اُجڑے وہ ضرور اس کی حفاظت کرے گا.محمد رسول اللہ کے باغ کی حفاظت چنانچہ آسمان سے اللہ تعالیٰ مسیح موعوڈ کی حفاظت کے لئے اُترا اور باوجود مولوی کے لئے خدا تعالیٰ کی تجلیات عبدالبار، مولوی عبدالحق، مولوی احمد بن عبداللہ غزنوی، مولوی عبد الواحد بن عبد اللہ غزنوی ، مولوی محمد حسین بٹالوی ، مولوی ثناء اللہ امرتسری اور اور سینکڑوں ہزاروں مولویوں اور مولوی نذیر حسین دہلوی کے فتووں اور دیو بندیوں کے جوش کے اور جمعیۃ العلماء کی تمام طاقتوں کے اور 1953 ء کا فساد پیدا کرنے والے علماء کی کوششوں کے باوجود اس کے کہ سب نے اکٹھا ہو کر حملہ کیا اللہ تعالیٰ سینہ سپر ہو کر کھڑا ہو گیا کہ میں محمد رسول اللہ کے باغ کو نہیں اُجڑ نے دوں گا.یہ تو باڑ ہے

Page 226

انوار العلوم جلد 26 174 سیر روحانی (10) محمد رسول اللہ کے باغ کی.مسیح موعود کو تم ایک انسان سمجھتے ہو مگر فر مایا میں جانتا ہوں کہ یہ محمد رسول اللہ کے باغ کی باڑ ہے اس کے کٹنے سے محمد رسول اللہ کا باغ اُجڑتا ہے اور محمد رسول اللہ میرا محبوب ہے.میں اپنے محبوب کی وفات کے بعد اُس کے باغ کو دشمنوں کو اُجاڑنے نہیں دوں گا.تم مولوی ہو یا عالم ہو یا لیڈر ہو میں تمہاری کیا پروا کرتا ہوں.میں محمد رسول اللہ کی جوتیوں کے برابر بھی تم کو نہیں سمجھتا.محمد رسول اللہ کے باغ یعنی اُس کی امت کی حفاظت کے لئے میں اس کو زندہ رکھوں گا اور یہ ایک اور جماعت کھڑی کرے گا.جس طرح کیلے کے ساتھ اور کیلے پیدا ہو جاتے ہیں اسی طرح تم تو کہتے ہو کہ اس کے جو مرید ہیں وہ شیطان ہیں اور ابلیس کے فرزند ہیں مگر میں بتاؤں گا کہ یہ ملائکہ ہیں جو محمد رسول اللہ کے باغ کی حفاظت کے لئے آئے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ کے فضل اور اُس کی تدبیر سے مسیح موعود اور پھر اُن کی جماعت کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ کے باغ کی باڑ کاٹے جانے سے بچ گئی.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ اس اُمت کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے جس کے اول میں ہوں اور آخر میں مسیح موعود - 30 یعنی میرے باغ کے ایک طرف باڑ میں ہوں اور ایک طرف مسیح موعود.نہ خدا مجھے کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑے، نہ خدا مسیح موعود کو کٹنے دے گا کہ میرا باغ اُجڑے.ہم دونوں کے کاٹے جانے سے باغ محمد مکی اُجڑتا ہے اور یہ باغ خدا کا لگایا ہوا ہے خدا اپنے لگائے ہوئے باغ کو اُجڑنے نہیں دے گا.میں بھی باڑ ہوں اس باغ محمد سی کی اور مسیح موعود بھی باڑ ہے اِس باغ محمد سی کی.نہ وہ مجھے کٹنے دے گا اور نہ وہ مسیح موعود کو کٹنے دے گا.وہ باغ محمد ی کو آباد رکھنے کے لئے اُس کی باڑ کو سلامت رکھے گا اور قیامت تک وہ باغ چلے گا اور اس کو کوئی نہیں کاٹ سکے گا.باغ محمدی کے مقابلہ میں دنیوی اب دیکھو ایک طرف دُنیوی بادشاہوں کے باغ ہیں ، وہ کتنے چھوٹے ہیں اور کتنی بادشاہوں کے بے حقیقت باغات کم عمر کے ہیں.دوسری طرف قرآنی محمد می باغ ہیں.پھر ایک باغ نہیں دو باغ ہیں اور ان کی عمر اتنی لمبی ہے کہ محمد رسول اللہ.

Page 227

انوار العلوم جلد 26 175 سیر روحانی (10) لے کر قیامت تک ممتد ہے.پس گجا وہ دُنیوی بادشاہوں کے باغ جو میں نے 1938ء میں دیکھے تھے اور گجا یہ محمد رسول اللہ کا باغ جس کا ذکر میں آج 1956 ء میں کر رہا ہوں.ان دونوں کا مقابلہ کر کے بے اختیا ر منہ سے نکلتا ہے.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ - بڑی برکت والا ہے ہمارا خدا جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان بھیجا جس نے قیامت تک کے لئے دنیا کی ہدایت کا بیڑا اُٹھا لیا.پھر بڑی برکت والا ہے وہ خدا جس نے مسیح موعود جیسا غلام محمد رسول اللہ کو دیا جس نے محمد رسول اللہ کا باغ جب اُجڑ کے کھیتی بننے لگا تھا پھر اس کو باغ کی شکل میں تبدیل کر دیا.اور اُس کے پودوں کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دیا تا کہ وہ ہر ملک میں جائیں ، ہر قوم میں جائیں ، ہر جگہ پر جا کے وہاں کے عیسی کے باغ کے پودوں کو نکال نکال کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگائیں اور موسی کے باغ کے پودوں کو اُکھیڑ اکھیڑ کر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگائیں ، یہاں تک کہ دنیا کے چپے چپے میں محمد رسول اللہ کا باغ لگ جائے اور نہ عیسی کا باغ رہے نہ موسی کا باغ رہے ، وہ ساری اُجاڑ بستیاں بن جائیں.آباد بستی اور ہرا باغ صرف محمد رسول اللہ کا ہو جو قیامت تک چلتا چلا جائے.“ ناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ ) سیر روحانی کے موضوع پر تقریر کرنے کے بعد حضور نے فرمایا: اب میں دعا کروں گا آپ بھی رستہ میں دعائیں کرتے جائیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کو دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی دیتا چلا جائے اور محمد رسول اللہ کا باغ اور اس کے بعد جو اس کو دوسری زندگی مسیح موعود نے بخشی ہے وہ باغ قیامت تک آباد ہوتا چلا جائے اور مسیحیوں کی طرح وہ دن نہ لائے کہ ہم موسیقی کا باغ مسیح کے حوالے کر دیں بلکہ ہم مسیح کے باغ کو بھی محمد رسول اللہ کے حوالے کریں.اور کبھی کوئی شیطان اور خنّاس ایسا پیدا نہ ہو جو ہمارے دل میں یہ وسوسہ ڈالے کہ مسیح موعود جو محمد رسول اللہ کا غلام تھا وہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِكَ محمد رسول اللہ کا ہمسر تھا بلکہ ہمیشہ ہم اس کو غلام ہی سمجھتے رہیں اور ہمیشہ اس کے کام کو

Page 228

انوار العلوم جلد 26 176 سیر روحانی (10) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام اور اس کی جماعت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سمجھتے رہیں اور محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں اس کو ایک ادنی غلام اور ایک چھوٹا شاگرد ہی سمجھتے رہیں جس کے ذریعہ سے خدا نے محمد رسول اللہ کی عظمت قائم کی ہے.ہم یقین رکھیں کہ مسیح موعود کو جو کچھ ملا ہے محمد رسول اللہ کے طفیل ملا ہے.اور ہم کو جو مسیح موعود سے ملا ہے وہ بھی محمد رسول اللہ کا ہی انعام ہے.جو ہمارا ہے وہ مسیح موعود کا ہے جو مسیح موعود کا ہے وہ محمد رسول اللہ کا ہے اور ہر چیز سمٹ کر آخر محمد رسول اللہ کے ہاتھوں میں جاتی ہے اور ہر بوٹا اُکھیڑا جا کر آخر محمد رسول اللہ کے باغ میں لگتا ہے.سو یہ دعائیں رستہ میں کرتے چلے جاؤ.دعا کے بعد میں رخصت کروں گا.رستہ میں بھی دعائیں کرتے چلے جانا کہ اللہ تعالیٰ اپنی برکتوں سے ہماری حفاظت کرے اور اپنے دینِ اسلام کی حفاظت کرے اور اس کی ترقی کے پھر سامان پیدا کرے.اور اللہ تعالیٰ پھر اپنی برکت اور رحمت سے قادیان ہم کو واپس دلائے تا کہ وہ جو اصل مرکز ہے ہم پھر وہاں جائیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ربوہ میں زمین نہ خرید و.دیکھو ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ بسایا تھا پھر مدینہ بھی آبادرہا اور مکہ بھی.تو یہ کبھی نہ وہم کرنا کہ ربوہ اُجڑ جائے گا.ربوہ کو خدا نے برکت دی ہے ، ربوہ کے چپہ چپہ پر اللہ اکبر کے نعرے لگے ہیں، ربوہ کے چپہ چپہ پر محمد رسول اللہ پر درود بھیجا گیا ہے.خدا اس زمین کو کبھی ضائع نہیں کرے گا جس پر نعرہ تکبیر لگے ہیں اور محمد رسول اللہ پر درود بھیجا گیا ہے.یہ بستی قیامت تک خدا تعالیٰ کی محبوب بیستی رہے گی اور قیامت تک اس پر برکتیں نازل ہوں گی.اس لئے یہ کبھی نہیں اُجڑے گی کبھی تباہ نہیں ہوگی بلکہ محمد رسول اللہ کا نام ہمیشہ یہاں سے اونچا ہوتا رہے گا اور قادیان کی اتباع میں یہ بھی محمد رسول اللہ کا جھنڈا دنیا میں کھڑا کرتی رہے گی إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالَی اس کے بعد حضور کے ارشاد پر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے وہ تاریں پڑھ کر سنائیں جو دنیا کے مختلف ممالک اور پاکستان کے اطراف و جوانب سے آئی تھیں اور جود عا اور مبارک باد کے پیغامات پر مشتمل تھیں.تاریں سنائے جانے کے بعد حضور نے ارشاد فرمایا.

Page 229

نوار العلوم جلد 26 177 سیر روحانی (10) باہر کے پیغاموں سے آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ چاہے ایک ایک دو دو ہی سہی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے محمدی باغ کا پودا مغرب سے مشرق تک سب جگہ لگا دیا ہے.کیا امریکہ اور کیا یورپ اور کیا مڈل ایسٹ اور کیا انڈونیشیا اور کیا بور نیو اور کیا ملایا اور کیا فلپائن اور کیا سپین اور کیا جرمنی اور کیا سکنڈے نیویا گویا اوپر کے برف پڑنے والے علاقوں اور نیچے کے برف پڑنے والے علاقوں اور مغرب و مشرق میں سب جگہ پر خدا تعالیٰ نے اس پودے کو لگا دیا ہے.آپ کو کافر کہنے والے مولوی آخر تیرہ سوسال سے کہاں تھے؟ انہوں نے صرف کا فر ہی بنائے ہیں.لیکن جس کو کافر اور اکفر اور دجال کہا جاتا ہے اُس نے محمد رسول اللہ پر درود پڑھنے والے لوگ برمنجمد شمالی سے لے کر بحر منجمد جنوبی تک پیدا کر دیئے ہیں.ہر جگہ پر اسلام کا جھنڈا گاڑ نا اگر کافر ہی کا کام ہے تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم میں دو چار کا فر ایسے اور بنادے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود فرماتے ہیں بعد از خدا بعشق محمد مخمرم خدا کے عشق کے بعد مجھے محمد رسول اللہ کا عشق ہے.گر کفر این بود بخدا سخت کافرم 31 اگر خدا کے بعد محمد رسول اللہ سے عشق کرنا کفر ہے تو مجھے خدا کی قسم ! میرے جیسا کافر کوئی نہیں.تو اگر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنا اور لوگوں میں قربانی کی ایسی روح پیدا کر دینا کفر ہے تو پھر سب سے بڑے کا فرہم ہیں.لوگ کہیں گے کہ مبلغ گئے اور انہوں نے تبلیغ کی.مرزا صاحب نے کیا کیا ؟ میں کہتا ہوں کہ اگر خدا چاہتا تو تم دوسرے لوگوں کے اندر کیوں نہ یہ جوش پیدا کر دیتے.آخر مسیح موعود نے جو لوگوں کے دلوں میں جوش پیدا کیا ہے تم کیوں نہیں پیدا کرتے؟ تمہارے لوگ باہر غیر ممالک میں کیوں نہیں جاتے؟ اس لوگ جانے لگے ہیں مگر دنیوی اغراض کے لئے.ایک تبلیغی پارٹی بنی ہے ، گورنمنٹ کے افسر اس کے ساتھ ہیں، گورنمنٹ کی امداد ان کی حاصل ہے.ان کو اینچ مل جاتا ہے

Page 230

انوار العلوم جلد 26 178 سیر روحانی (10) ہمارے مبلغوں کو نہیں ملتا.ورنہ اگر ہمارے مبلغوں کو ملتا تو اب تک ہمارے مبلغوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو جاتی جتنی گل میں نے بیان کی تھی.امریکہ میں ایک پاکستانی جرنیل گیا.اُس کی بیوی احمدی تھی.ایک دن وہ ہوٹل میں کھانا کھارہے تھے کہ ہمارا مبلغ پہنچا.ہم مبلغوں کو خرچ بہت کم دیتے ہیں.اس کے سیدھے سادے کپڑے تھے.ان کو بُرا لگا کہ میں جرنیل اور بڑا آدمی ہوں، پاکستان کا اِس ملک میں نمائندہ ہوں ، میرے کپڑے اچھے ہیں، میری بیوی کے کپڑے اچھے ہیں اور یہ جو اس کا پیر بھائی ہے اس کے کپڑے گندے ہیں تو اُس کی بیوی نے بتایا کہ وہ میری طرف دیکھ کر ہنس کر کہنے لگا دیکھے! وہ تیرا پیر بھائی جا رہا ہے.مطلب یہ کہ تم اتنے ذلیل ہو.وہ کہنے لگی خدا نے میری عزت رکھ لی.معاً اُس کے فقرہ کے بعد تبلیغی جماعت کے ملا آئے جن کے پانچے اوپر گھٹنوں تک چڑھے ہوئے تھے اور انہوں نے ہاتھ میں دو نے 32 لے کر ان کے اندر کھانا ڈالا ہوا تھا اور ان کے ہاتھ میں طہارت کے لئے مٹی کے لوٹے تھے.پھر انہوں نے کھا کھا کے میزوں کے نیچے کا غذ پھینکنے شروع کئے.میں نے اسے کہا یہ تمہارے پیر بھائی ہیں.وہ کہنے لگی میرا خاوند ا تنا شرمندہ ہوا کہ پھر ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکلا.تو دیکھو یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہے.تم نے سنا ہے امریکہ سے بھی تاریں آئی ہیں، سکنڈے نیویا سے بھی آئی ہیں.ایک طرف بحیرہ منجمد شمالی کے قریب ہے اور روس سے بھی اوپر ہے مگر وہاں سے بھی تاریں آئی ہیں.پھر ہالینڈ سے بھی آئی ہیں.پھر جرمنی سے بھی آئی ہیں بلکہ جرمنی کا ایک نمائندہ یہاں بیٹھا ہے جو یونیورسٹی میں پروفیسر ہے اور بڑا قابل آدمی ہے.پھر سوئٹزرلینڈ سے بھی آئی ہیں.دمشق سے بھی آئی ہیں.بیروت سے بھی آئی ہیں.سپین سے بھی آئی ہیں.لندن سے بھی آئی ہیں.پھر نیچے چلے جاؤ تو پاکستان کو چھوڑ کر ہندوستان سے آئی ہیں.اور پھر جنوبی ہند تک سے آئی ہیں.پھر ملایا سے آئی ہیں.پھر اس سے پرے جا کے انڈونیشیا سے آئی ہیں.پھر اس سے اوپر جاپان کے پاس اور فلپائن کے پاس جا کر بور نیو سے آئی ہیں.غرض مشرق اور مغرب میں کوئی گوشہ نہیں

Page 231

انوار العلوم جلد 26 179 سیر روحانی (10) جہاں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ مرزا صاحب کے طفیل نہیں پڑھا گیا.اور مولوی ابھی تک یہی کہتے چلے جاتے ہیں کہ کافر ، اکفر، اس کے ماننے والے دجال.وہ دقبال جو اسلام کو مارنے آیا تھا مرزا صاحب کا کتنا کمال ہے کہ اس دقبال کو کلمہ پڑھوانے پر مقرر کر دیا.آخر یہ کتنی بڑی شان ہے کہ دجال کا کام تو یہ لکھا تھا کہ وہ کلمہ لوگوں.چھڑوائے گا مگر مرزا صاحب نے وہ دجال پیدا کئے کہ انہوں نے دنیا بھر میں لوگوں سے ނ کلمہ پڑھوا دیا.پس دعائیں کرو ان تمام مبلغین کے لئے جو باہر ہیں کیونکہ وہ آپ لوگوں کا کام کرتے ہیں.آپ لوگ اپنے بیوی بچوں میں بیٹھے ہوئے ہیں.بے شک مال دیتے ہیں مگر مال کا کچھ حصہ.اور وہ لوگ ایسے ہیں جو اپنا بہت سا مال بھی دیتے رہے ہیں اور پھر چھوٹی نوکریوں اور چھوٹے گزاروں پر جا رہے ہیں.ایسے تنگ گزاروں پر جارہے ہیں کہ غیروں کو بھی دیکھ کر رحم آتا ہے.ایک پاکستانی فوج کا میجر با ہر کسی جگہ پر پاکستان کی طرف سے گیا.اس نے مجھے خط لکھا اور بعد میں مجھے کوئٹہ میں خاص طور پر ملا.کہنے لگا میں نے آپ کا فلاں مبلغ دیکھا ہے ، وہ بڑی اعلیٰ خدمت کرتا ہے مگر اُس کے کپڑے اور اُس کے کھانے ایسے رڈی تھے کہ مجھے شرم آتی تھی کہ وہ اسلام پھیلانے کے لئے آیا ہے اور اتنی غربت میں ہے.تو میں آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں کہ آپ اپنے مبلغ کو اتنا روپیہ تو دیا کریں کہ جس سے وہ کھانا کھا سکے اور کپڑے پہن سکے.تو ایسی تنگی میں وہ لوگ گزارہ کرتے ہیں مگر پھر بھی ان پر ایک ہی دُھن سوار ہے اور رات دن یہ جنون ہے کہ دنیا کلمہ پڑھنے لگ جائے.ان کی حالت اُس میراشن کی سی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آئی.اُس کا بیٹا عیسائی ہو گیا تھا اور وہ مسلول تھا.وہ اسے حضرت صاحب کے پاس قادیان میں تبلیغ کے لئے لائی مگر اُس پر اثر نہ ہوا اور وہ رات کو بھا گا.وہ اُسی رات کو گئی اور اُس کو پکڑ کر لائی.میں نے دیکھا حضرت صاحب چار پائی پر بیٹھے ہوئے تھے.وہ پیروں پر آکر لوٹتی تھی اور بے تحاشا روتی تھی اور کہتی تھی حضور ! میں آپ سے کوئی دولت

Page 232

انوار العلوم جلد 26 180 سیر روحانی (10) نہیں مانگتی ، کوئی روپیہ نہیں مانگتی.میں آپ سے یہ بھی نہیں کہتی کہ میرا یہ لڑکا پھر تندرست ہو جائے.اگر اچھا ہو جائے تو خدا کا فضل ہے.میں صرف یہ چاہتی ہوں کہ یہ کلمہ پڑھ کے مرے، یہ محمد رسول اللہ کا باغی ہو کر نہ مرے.یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے.میں آپ سے یہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ دعا کریں یہ بچ جائے.لیکن اگر نہیں بچ سکتا تو نہ بچے.میری صرف اتنی خواہش ہے کہ یہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ لے پھر بے شک اس کی جان نکل جائے.تو وہی جوش جو اس میراشن کے اندر تھا وہ ہمارے مبلغوں کے اندر بھی ہے.بھوکے مرتے ہیں ، لوگوں سے گالیاں سنتے ہیں، تکلیفیں اٹھاتے ہیں لیکن اس کے باوجود وہ یہی کہتے ہیں کہ جب تک دنیا بھر سے ہم محمد رسول اللہ کا کلمہ نہ پڑھوا لیں ہم بس نہیں کرنے کے.میڈرڈ یعنی پین میں ہمارا مبلغ ہے اور پین کی گورنمنٹ اسلام کی تبلیغ کی اجازت نہیں دیتی.وہ خرچ بھی کوئی نہیں لیتا.ارد گرد پھیری کر کے اپنا اور اپنی بیوی بچوں کا گزارہ کرتا ہے اور تبلیغ کرتا ہے.اب خدا کے فضل سے وہاں سات آدمی مسلمان ہو چکے ہیں لیکن ہماری گورنمنٹ کی یہ عنایت ہے کہ میرے نام گورنمنٹ کا نوٹس آیا کہ اس مبلغ کو بلا لو سپین کی حکومت نا پسند کرتی ہے.حالانکہ ان کو سپین کی گورنمنٹ کو یہ کہنا چاہیے تھا کہ اس ملک میں عیسائیت کا کئی سو مبلغ کام کر رہا ہے اگر تم نے اس سے یہ سلوک کیا تو ہم ان مبلغوں کو بھی یہاں سے نکال دیں گے ورنہ اسلام کا ایک مبلغ جو تمہارے ملک میں گیا ہے اس کو اجازت دو.تو ایسی دشمنیوں کے باوجود اور تکلیفوں کے باوجود ہمارے آدمی کام کر رہے ہیں.پس دعائیں کرو ان لوگوں کے لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی زبانوں میں برکت دے.ان کے حوصلوں میں برکت دے.ان کی تبلیغ میں برکت دے اور لاکھوں لاکھ آدمی خدا کے فضل سے اسلام میں داخل ہوں.اِدھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو توفیق دے کہ تم نمازوں کے پابند ہو.تم ذکر الہی کے پابند ہو.تمہاری محبت الہی روز بروز بڑھتی رہے.تمہاری محبت رسول ترقی کرے.تم اسلام کے بچے نمونہ بنو.تمہیں دیکھ کر دشمن بھی محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھنے لگ جائے.اور

Page 233

نوار العلوم جلد 26 181 سیر روحانی (10) کہے کہ جس محمد رسول اللہ نے یہ بچے جنے ہیں دھن ہے وہ باپ جس نے یہ بچے جنے ہیں.جھوٹ تمہارے قریب نہ آئے.فریب تمہارے قریب نہ آئے.چوری چکاری تمہارے قریب نہ آئے.دغا بازی تمہارے قریب نہ آئے.خیانت تمہارے قریب نہ آئے.تم ایمان اور اسلام کے اعلیٰ درجہ کے نمونے ہو جاؤ اور عرش پر تمہارا پیدا کنندہ تم کو دیکھ کر خوش ہو جائے.پس اپنے لئے بھی دعائیں کرو.مبلغوں کے لئے بھی کرو.اور پھر یہ دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جس اخلاص اور ایمان سے تم کو یہاں لایا ہے اس سے زیادہ اخلاص اور ایمان لے کر تم اپنے گھروں کو جاؤ.اور وہ سارا سال بڑھتا رہے.اور جب اگلے سال تم پھر آؤ ( بلکہ اور بھی زیادہ آؤ ) تو اُس وقت تمہارا ایمان اس سے کئی گنے زیادہ بڑھا ہوا ہو.اور اللہ تعالیٰ تمہارے بچوں اور تمہاری اولادوں کو صاحب کشف اور صاحب الہام بنائے اور ان کے ایمان مضبوط کرے.اور ہمیشہ ہمیش غیر متزلزل ایمان لے کر تم قیامت تک محمد رسول اللہ کے جھنڈے کو کھڑا رکھو.خدا تعالیٰ تمہارے لیڈروں اور علماء کو بھی توفیق دے کہ وہ پچھلے علماء کی طرح (گوان میں سے بعض تو بڑے نیک تھے ) کفر بازی میں اپنی عمر میں ضائع نہ کریں بلکہ وہ ہمیشہ ہمیش تم کو اسلام کی تبلیغ پر لگائے رکھیں.آپ بھی تبلیغ اسلام کریں اور دنیا میں اسلام کو روشن کرنے میں لگے رہیں.اور اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق دے کہ میں آپ لوگوں کی خدمت کرتا رہوں.اسی طرح اسلام کی خدمت کرسکوں اور محمد رسول اللہ کی خدمت کرسکوں.اُس کا بڑا فضل ہے کہ اس بیماری میں جبکہ گل کا مضمون گو ایسا علمی نہیں تھا مگر پھر بھی چونکہ بڑا بیچ دار تھا مجھے کئی دن حوالوں کو ترتیب دینے میں بڑی محنت کرنی پڑی گو پھر بھی کچھ رہ گئے.اس کی وجہ سے طبیعت پریشان تھی اور میں ڈرتا تھا کہ شاید میں جلسہ نبھا نہ سکوں لیکن خدا کا فضل ہو گیا کہ جلسہ کی آخری تقریر بھی ختم ہوگئی.اب جو تھوڑ اسا ملاقاتوں کا کام باقی رہ گیا ہے خدا تعالیٰ اُس کی بھی توفیق دے.اور مجھے صحت دے تا کہ میں قرآن شریف کی تفسیر جلدی سے لکھ لوں اور اس کا ترجمہ جلدی سے شائع کرسکوں.اور

Page 234

انوار العلوم جلد 26 182 سیر روحانی (10) P مجھے توفیق دے کہ آپ لوگوں کے لئے دعائیں کرتا رہوں اور خدا تعالیٰ میری دعاؤں کو سنے اور آپ لوگوں کے ایمان اور اخلاص میں برکت دے اور آپ محمد رسول اللہ کا شاندار پودا بنیں.وہ حیات کا پودا جو کہ بائبل کے رُو سے آدم کے زمانہ میں جنت کے وسط میں لگایا گیا تھا.علم و عرفان میں آپ ترقی کریں اور قرآن کو سمجھیں اور قرآن پر عمل کریں.اور خدا سے آپ راضی ہوں اور خدا آپ سے راضی ہو اللهُمَّ آمِینَ.اب میں دعا کرتا ہوں.جو دعائیں میں نے کی ہیں وہ بھی اور جن لوگوں نے باہر سے دعاؤں کی خواہشیں کی ہیں اُن کے لئے بھی دعا کریں.اسی طرح اپنے لئے بھی کریں ، اپنے گھر والوں کے لئے کریں، اور جو احمدی یہاں نہیں آ سکے اور اُن کے دل آنے کے لئے چاہتے تھے اُن کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو بھی ہماری سب (الفضل 14 مارچ 1957ء) دعاؤں میں شریک کرے.“ 1 : الاخلاص : 2 تا 4 2 : پیتکوں: پتک: کتاب صحیفہ، پوتھی ، گرنتھ (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 296 فیروز سنز لاہور) 3 : مسلم كتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَا قَالَهُ شرعًا حديث نمبر 6127 صفحہ 1039 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 2000ء 4 : ٹین: (Tin) ایک سفید نرم دھات (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 435 فیروز سنز لاہور ) 8:الانعام:2 5 :الرحمن: 47 6: البقرة : 202 7: الم نشرح:7،6 2 :البقرة:83،82 10: الرعد:4 11:الرعد:4 12: ابن جنّی : ابوالفتح عثمان بن جنتی.علم نحو کے ماہر 13 :التوبة:72 14: السجدة: 20 15: يونس: 10 16 : الكهف : 108 17: الرحمن: 55 18: سبا : 17 19 : الكهف: 34،33 20: الانبياء : 79 21: المزمل: 16 22 : مرقس باب 12.آیت 1 تا 9.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 23 : در مشین اُردو صفحہ 131.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

Page 235

انوار العلوم جلد 26 183 24: در مشین اُردو صفحہ 123.شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 25 : السيرة الحلبية جلد3 صفحہ 107،106 مطبوعہ مصر 1935ء سیر روحانی (10) 26 : اسـد الـغـابـه في معرفة الصحابه جلد 3 صفحہ 37 زیر عنوان عبد اللہ بن عثمان بن عامر ( ابوبکر صدیق) مطبوعہ بیروت لبنان 2001ء 27 : فتوح الشام للواقدى ذكر فتح عزاز جلد 1 صفحہ 301 دارالکتب العلمیہ 1997ء 28 : تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 301.بیروت 1283 ھجری.ذکر خلافتہ معاویہ بن یزید بن معاویہ 29 : درشین فارسی صفحه 106 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 30 : كنز العمال جلد 14 صفحہ 269 - حدیث نمبر 38682 الطبعة الاولى مطبوعہ دمشق $2012 31 : رونے : ( دونا) پتوں سے بنایا ہوا پیالہ.پنل جس میں دکاندار پھول، مٹھائی ، دہی رکھ کر دیتے ہیں.( اردو لغت تاریخی اصول پر.جلد 9 صفحہ 729.اُردو لغت بورڈ کراچی دسمبر 1988ء) 32 : درثمین فارسی صفحہ 112 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

Page 236

Page 237

انوار العلوم جلد 26 185 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.یوم مصلح موعود پر جماعت احمد یہ کراچی سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 238

انوار العلوم جلد 26 186 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.

Page 239

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 187 یوم صلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَنْ یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی سے خطاب (فرموده 20 فروری 1957ء بمقام احمد یہ ہال کراچی ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.: الہی تقدیر جب دنیا میں کوئی خاص تغیر پیدا کرنا چاہتی ہے تو بنی نوع انسان کی مخالفانہ کوششیں اور تدابیر اس کی مشیت کے پورا ہونے میں کوئی روک پیدا نہیں کر سکتیں اور آخر وہی ہوتا ہے جو خدا چاہتا ہے اور اس کی بات پوری ہو کر رہتی ہے.میں دیکھتا ہوں کہ میرے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ سے یہی سلوک چلا آ رہا ہے.1908ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے اور حضرت خلیفہ اول کی بیعت ہوئی تو میری عمر اُس وقت 19 سال کی تھی بنانے کو تو جماعت کے بڑے لوگوں نے حضرت خلیفہ اول کو خلیفہ بنادیا تھا مگر دوسرے ہی دن انہوں نے آپ کے خلاف منصوبے شروع کر دیئے.اُس وقت ان لوگوں کی سازشوں اور منصوبوں کا مجھے ہی مقابلہ کرنا پڑا اور 1908ء سے لے کر 1914 ء تک یہ جنگ جاری رہی.66 حضرت خلیفہ اول کے ہاتھ پر بیعت کر لینے اور ایک ہاتھ پر اکٹھا ہو جانے کے بعد ان لوگوں میں یہ جرات تو نہیں ہو سکتی تھی کہ وہ سامنے آسکیں اس لئے کبھی اظہارِ حقیقت کے نام پر اظہار کی بجائے اخفاء سے کام لیا جاتا اور بغیر نام کے ان ٹریکٹوں کو شائع کر کے حضرت خلیفہ اول کی مخالفت پر جماعت کو اکسایا جا تا اور کبھی ”پیغام صلح کے نام سے جس کو خود حضرت خلیفہ اول نے پیغام جنگ قرار دیا تھا صلح کی بجائے جنگ کی آگ کو بھڑ کا یا جاتا.گویا جس طرح انہوں نے اپنے ٹریکٹوں کا نام اظہارِ حقیقت“ رکھا مگر

Page 240

انوار العلوم جلد 26 188 یوم صبح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.در حقیقت ان میں اخفاء حقیقت ہوتا اسی طرح انہوں نے اپنے اخبار کا نام ”پیغام صلح رکھا مگر در حقیقت وہ پیغام جنگ تھا.یہ لڑائی 1908 ء سے شروع ہو کر 1914 ء تک جاری رہی.1914ء میں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت جب حضرت خلیفہ اول کی وفات ہوئی اور جماعت کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آئی تو چاروں طرف سے یہ آوازیں آنی شروع ہو گئیں کہ ایک بچہ کو خلیفہ بنا دیا گیا ہے، اب یہ جماعت تباہ ہو جائے گی.مگر واقعات نے بتا دیا کہ گو ایک بچہ کے ہاتھ میں جماعت کی باگ ڈور آئی مگر ” ہو نہار پر وا کے چکنے چکنے پاتاس بچہ کے خلیفہ بنتے ہی دوسرے سال دنیا کے تمام غیر ملکوں میں تبلیغی مشن جانے شروع ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہونے لگی کہ میں اس لڑکے کے ذریعہ دنیا کے کناروں تک تیرا نام پہنچاؤں گا.چنانچہ پہلا مشن سیلون گیا.پھر ماریشس بھیجا گیا.کچھ عرصہ بعد انڈونیشیا میں ہمارا مشن قائم ہوا.پھر افریقہ میں مشن بھیجا گیا.اس کے بعد یورپ اور امریکہ میں ہمارے تبلیغی مشن قائم ہوئے.چنانچہ اس وقت ہمارے دوسو کے قریب مبلغ غیر ممالک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کر رہے ہیں مگر جب جماعت مطمئن ہوگئی کہ ہماری بنیادیں مضبوط ہوگئی ہیں تو پھر خدا نے ایک اور فتنہ پیدا کر کے بتا دیا کہ میری مدد سے ہی سب کچھ ہوا تھا اور آئندہ بھی جو کچھ ہوگا میری مدد سے ہی ہوگا.چنانچہ وہی شخص جس کی خلافت کے استحکام کے لئے میں نے اپنی بلوغت اور جوانی کا زمانہ خرچ کیا تھا اُسی کے بیٹے کھڑے گئے اور کہنے لگے کہ اب پھل پک گیا ہے ہم اس پھل کو کھائیں گے.مگر جو پھل خدا تعالیٰ کے باغ کا ہو وہ وہی کھا سکتا ہے جس کو وہ خود کھلانا چاہے.کوئی دوسرا شخص اسے نہیں کھا سکتا کیونکہ وہ خدا کی چیز ہے اور وہی حق رکھتا ہے کہ وہ جس کو چاہے دے.وہ جس کو اپنے باغ کا پھل دے دیتا ہے دنیا کا کوئی شخص اُس سے وہ پھل چھین نہیں سکتا.اور جس کو وہ ہو پھل نہیں دینا چاہتا دنیا کا کو ئی شخص اس پھل کو حاصل نہیں کر سکتا.میں نے بتایا ہے کہ میری خلافت کے ابتدا سے ہی بیرونی ملکوں میں تبلیغی مشن جانے شروع ہو گئے تھے لیکن ان لوگوں کی مخالفت پر ایک سال گزر گیا ہے یہ غیر ملک چھوڑ ایک

Page 241

انوار العلوم جلد 26 189 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.چھوٹے سے چھوٹا گاؤں ہی دکھا دیں جس میں انہوں نے اپنا مشن قائم کیا ہو.صرف پکی پکائی کھانے کا شوق ہے جو ان لوگوں کے عمل سے ظاہر ہوا.لیکن بات وہی ہو رہی ہے جو خدا نے چاہی تھی اور جو خدا کے منشاء کے ماتحت دنیا میں قائم کی گئی ہے.اس پیشگوئی کے متعلق ربوہ میں جب بھی مجھ سے علماء نے پوچھا میں نے اُن سے یہی کہا کہ تم سارے جھگڑے جانے دو تم پیغامیوں سے صرف یہ پوچھو کہ آیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں کسی بیٹے کی خبر تھی یا نہیں؟ یہ بحث نہ کرو کہ میری تھی یا کسی اور کی.تم صرف یہ پوچھو کہ آیا کسی بیٹے کی خبر دی گئی تھی یا نہیں دی گئی تھی ؟ اور پھر کیا تمہارے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی بھی بیٹا ہے؟ اگر اس بیٹے سے جسمانی بیٹا مراد لو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی بھی بیٹا تم سے نہیں ملا.اور اگر روحانی بیٹا مرادلو تو اُن کی بھی اسی طرف اکثریت ہے.آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے کوئی معنے تو کرنے پڑیں گے.یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ اس سے جسمانی بیٹا مراد ہے اور وہ فلاں نہیں بلکہ فلاں بیٹا ہے مگر اس صورت میں بھی کسی نہ کسی کو اس پیشگوئی کا مصداق ماننا پڑے گا.پس ہم کہتے ہیں کہ اگر ظاہری بیٹوں میں سے کوئی بیٹا مراد ہے تو تم کوئی بیٹا ہی مان لو مگر وہ سارے کے سارے جماعت مبائعین میں ہی شامل ہیں تمہارے ساتھ ان میں سے کوئی بھی نہیں.بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ بیٹا جو آپ کی زندگی میں آپ پر ایمان نہیں لایا تھا وہ بھی حضرت خلیفہ اول کی وفات کے بعد مبائعین میں ہی شامل ہوا.غیر مبائعین کی طرف نہیں گیا.اور اگر کہو کہ اس سے روحانی بیٹے مراد ہیں تو تم یہ دیکھو که ان روحانی بیٹوں کی اکثریت کس طرف ہے؟ آخر روحانی بیٹے ایک دو تو نہیں ہو سکتے لا ز ما ہمیں یہی دیکھنا پڑے گا کہ جو لوگ شروع میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لائے ان کی اکثریت کس طرف ہے.سو وہ اکثریت بھی جماعت مبائعین کو ہی حاصل ہے.چنانچہ اُن کی شدید مخالفت اور بڑے بڑے آدمیوں کے رُعب اور اثر کے باوجود اکثر لوگ اسی طرف آئے اور پھر ہمیشہ خدا تعالیٰ نے ہماری ہی تائید فرمائی.چنانچہ جب یہ فتنہ اٹھا تو مری میں ایک کر نیل مجھے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا کہ میں آپ کو یہ بتا دینا

Page 242

انوار العلوم جلد 26 190 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.چاہتا ہوں کہ 1953 ء میں جو فسادات ہوئے تھے انہی فسادات کے پھر آثار پیدا ہور ہے ہیں.مگر اس دفعہ فوج آپ کی مدد نہیں کرے گی کیونکہ فوج مارشل لاء کی وجہ سے بدنام ہو چکی ہے.اس لئے آپ ابھی سے کوئی تدبیر سوچ لیں.میں نے انہیں ہنس کر کہا کہ اُس وقت ہم نے کون سی تدبیر کر لی تھی ؟ اُس وقت بھی خدا نے ہی تدبیر کی تھی اور اب بھی وہی کرے گا.اس پر وہ کہنے لگا فیتھ از بلائنڈ (Faith is blind) یعنی ایمان اندھا ہوتا ہے.چونکہ آپ کے دل میں ایمان اور یقین ہے اس لئے آپ سمجھتے ہیں کہ اس دفعہ بھی اللہ تعالیٰ آپ کے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی سامان پیدا کر دے گا.اس کے کچھ دنوں بعد یوپی کے ایک دوست نے مجھے لکھا کہ فلاں کرنیل صاحب جو آپ سے بھی ملنے کے لئے گئے تھے اُن سے میں ملا تو انہوں نے اس فتنہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ایک چھوٹی سی بات کو انہوں نے بہت بڑھا دیا ہے.اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے وہ ایک بے حقیقت شخص ہے مگر آپ نے اس کی تردید کر کے اسے بلا ضرورت شہرت دے دی ہے.اگر آپ اس کی تردید نہ کرتے اور اس چھوٹی سی بات کو نہ بڑھاتے تو اچھا ہوتا.میں نے انہیں لکھا کہ میری طرف سے آپ کرنیل صاحب کو کہہ دیجئے کہ ابھی چند ہفتے ہوئے آپ میرے پاس آئے تھے اور کہتے تھے کہ کوئی تدبیر کر لیں.کیونکہ پھر 1953 ء والے فسادات کے آثار پیدا ہو رہے ہیں.اس پر میں نے تدبیر کرنی شروع کی تو آپ کہتے ہیں میں نے ایک چھوٹی بات کو بڑھا دیا ہے.انہوں نے مجھے جواب میں لکھا کہ آپ کا خط آنے پر میں اس دوست کو ملا تھا اور آپ کے جواب کا ان سے ذکر کیا تھا وہ کہتے ہیں کہ اب مجھے اپنی غلطی محسوس ہوگئی ہے.مجھے خوب یاد ہے کہ میں نے ان سے یہ بات کہی تھی.اس کے بعد جب اللہ رکھا کے متعلق انہوں نے اعلان کیا تو میں نے سمجھا کہ انہوں نے یہ اعلان کر کے غلطی کی ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ لاہور کے تمام اخبارات اور پیغامی اس کی تائید میں کھڑے ہو گئے ہیں تو میں نے سمجھا کہ اس سے زیادہ عقلمندی اور کوئی نہیں تھی کہ انہوں نے وقت پر اس شرارت کو بھانپ لیا اور اس فتنہ کو بے نقاب کر دیا.اب میری طرف سے انہیں خط لکھ دیں کہ میں اپنی غلطی کو مان گیا ہوں در حقیقت آپ نے وہی بات کی تھی جو میں آپ کو کہہ آیا ا

Page 243

انوار العلوم جلد 26 191 یوم صلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.تھا مگر بجائے اس کے کہ میں خوش ہوتا میں نے اُلٹا اعتراض کر دیا.غرض یہ اللہ تعالیٰ کا کام تھا کہ اس نے میرے ہاتھ سے اس فتنہ کو بے نقاب کر دیا.ورنہ ممکن تھا کہ میں بھی یہ سمجھ لیتا کہ یہ ایک حقیر چپڑاسی ہے اس کی کسی بات کو کیا اہمیت دینی ہے.مگر بعد میں جب دوستوں کی طرف سے خطوں پر خط آنے شروع ہوئے اور سینکڑوں گواہیاں ملنی شروع ہوئیں اور جماعت کے لوگوں نے ان کے خطوط پکڑ پکڑ کر مجھے بھجوانے شروع کر دیئے تو پھر پتا لگا کہ اللہ رکھا کے پیچھے کیا چیز تھی.چنانچہ آج ہی ایک رسالہ ملا ہے جو ان منافقین کی تائید میں غزنویوں کی طرف سے شائع کیا گیا ہے.لیکن سوال یہ ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب جماعت احمد یہ بہت تھوڑی سی تھی کیا کر لیا تھا جو آج کر لیں گے جبکہ ہماری جماعت اُس وقت سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ عبد الحق غزنوی کو امرتسر کے بازاروں میں چلتا ہوا دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ اس کی کیا حیثیت ہے اور پھر قادیان میں آکر دیکھو کہ یہاں کس قدر رجوع خلائق ہے اور کتنا ارادت مندوں کا لشکر یہاں ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے.تو جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب آپ کے ساتھ صرف چند آدمی تھے غزنوی خاندان جماعت احمدیہ کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکا تو اب جبکہ جماعت اُس وقت سے ہزاروں گنا زیادہ ہے یہ لوگ اسے کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس سلسلہ کے ساتھ خدا ہے اور وہ ہمیشہ ہماری جماعت کی تائید کرتا چلا آیا ہے.چنانچہ 1953 ء میں جب فسادات ہوئے اور جماعت احمدیہ کو مٹانے کے لئے حملہ کیا گیا تو میں نے اُس وقت اعلان کیا کہ اے دوستو ! گھبراؤ نہیں بے شک فتنہ بڑا ہے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ خدا آ رہا ہے نہیں وہ دوڑا چلا آ رہا ہے.چنانچہ معاً بعد لاہور میں مارشل لاء نافذ ہو گیا اور امن قائم ہو گیا.پس ہمارا کام شروع سے خدا تعالیٰ کے سپرد ہے اور وہی آئندہ بھی اپنی مدد کو جاری رکھے گا اور دشمنوں کے حملوں کو نا کام کرے گا.وہ خدائے قادر ہے اور جب وہ اپنی قدرت نمائی پر آتا ہے تو دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی

Page 244

انوار العلوم جلد 26 192 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.طاقت بھی اس کی قدرت نمائی کو روک نہیں سکتی.ہمارا کام شروع سے یہی رہا ہے کہ مخالف کے سامنے ہم اپنی زبان بند کر لیتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے کہتے ہیں کہ اے خدا ! جماعت کو تو نے ترقی دیتے دیتے اس مقام پر پہنچایا ہے کہ اب وہ دنیا کے اکثر ممالک میں پھیل چکی ہے مگر ابھی اس کی آئندہ ترقی کے متعلق تیرے بہت بڑے وعدے باقی ہیں جن کے پورا ہونے کا ہم انتظار کر رہے ہیں.وہ پیشگوئیاں ہم نے اپنے پاس سے بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کان میں نہیں ڈالیں بلکہ اے خدا! تو نے اُس پر الہاما نازل کی تھیں اور اُس نے ان پیشگوئیوں کا دنیا میں اعلان کیا تھا.وہ تیرا ایک راستباز بندہ تھا اگر وہ پیشگوئیاں غلط ہوئیں تو اے خدا! مسیح موعود کا کچھ نہیں بگڑتا جو کچھ بگڑتا ہے وہ تیرا بگڑتا ہے.کیونکہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا ہو جائے گا کہ خدائے زمین و آسمان بھی نَعُوذُ بِاللهِ جھوٹ بول سکتے ہیں کیونکہ خدا ان سے ہم کلام ہوتا تھا اور اس نے ان سے جو کچھ کہا وہ جھوٹا ثابت ہوا.اور چونکہ خدا کو اپنی عزت کا پاس ہے وہ یہ کبھی برداشت نہیں کرسکتا کہ لوگ اسے کا ذب اور مفتری کہیں.انسان اگر جھوٹ بولتا ہے تو مجبوری سے بولتا ہے.وہ کہتا ہے اگر میں جھوٹ نہ بولتا تو کیا کرتا جھوٹ بولے بغیر میں فلاں کام نہیں کر سکتا تھا.مگر اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبوری نہیں.قیامت کے دن اگر جھوٹ بولنے پر اللہ تعالیٰ کسی کو سزا دے گا تو وہ کہہ سکتا ہے کہ خدایا! میں مجبور تھا.میں نے اپنے حالات سے مجبور ہو کر جھوٹ بولا لیکن خدا تعالیٰ کے لئے ایسی کوئی مجبوری نہیں.پس اگر خدا تعالیٰ کے وعدے پورے نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ پر زیادہ الزام عائد ہوتا ہے اور وہ چھوٹے سے چھوٹا الزام بھی برداشت نہیں کر سکتا.وہ یہی چاہتا ہے کہ میری عظمت اور میری تو حید اور میری تفرید دنیا میں قائم ہو اور اس غرض کو پورا کرنے کے لئے سوائے جماعت احمدیہ کے دنیا میں اور کوئی جماعت کام نہیں کر رہی.لوگوں کے پاس مال بھی ہے.ان کے پاس طاقت بھی ہے.ان کے پاس ذرائع اور اسباب بھی ہیں.ان کے پاس حکومت بھی ہے لیکن کوئی نہیں جو خدا کے نام کو بلند کر رہا ہو اور اُس کے دین کی اشاعت کے لئے کوشش کر رہا ہو.صرف جماعت احمدیہ ہی ہے جس کے افراد غریب ہوتے ہوئے ، کنگال ہوتے ہوئے ،

Page 245

انوار العلوم جلد 26 193 یوم صبح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی..کمزور اور ناطاقت ہوتے ہوئے جو کچھ بچتا ہے خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے دے دیتے ہیں یہاں تک کہ اپنے بچوں کے بچے ہوئے ٹکڑے بھی وہ خدا تعالیٰ کی جھولی میں ڈال دیتے ہیں.اگر کمزور اور نا طاقت اور غریب اور کنگال ہوتے ہوئے وہ خدا کے لئے ایسی قربانی کرتے ہیں تو کیا خدا ہی نَعُوذُ بِاللهِ ایسا بے غیرت ہے جو انہیں ذلت میں چھوڑ کر اپنے عرش پر جا بیٹھے گا ؟ کیا کسی انسان کی عقل میں یہ بات آ سکتی ہے کہ خدا بے غیرت ہو؟ جس طرح یہ بات کسی انسانی عقل میں نہیں آسکتی کہ خدا بے غیرت ہو اسی طرح یہ بھی کسی انسانی عقل میں نہیں آسکتا کہ دین کی ایسی خدمت کرنے والے لوگوں کو چھوڑ کر وہ آسمان پر چلا جائے گا اور وہ اُس وقت تک آسمان پر نہیں جائے گا جب تک وہ ان کو تخت پر نہ بٹھا دے اور ان کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں اشاعتِ اسلام نہ ہو جائے اور ان کے دشمنوں کو ان کے دروازوں پر نہ لے آئے.جب وہ وقت آئے گا کہ احمدیت دنیا میں چاروں طرف پھیل جائے گی اور احمدیوں میں اتناز ور پیدا ہو جائے گا کہ وہ اپنے بل اور طاقت پر اسلام کو پھیلا سکیں اُس وقت ممکن ہے کہ خدا کہے کہ چند روز تم بھی کھیل کھیل لو.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ رہے گا اور وہ تمہیں کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی نہیں چھوڑے گا.میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ ہمارے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ایسا ہی سلوک ہے جیسے ماں باپ کا اپنے بچوں کے ساتھ ہوتا ہے.ماں باپ بعض دفعہ میز یا کوئی اور چیز اٹھانا چاہتے ہیں تو بچے کو کہتے ہیں کہ تم بھی میز اٹھاؤ اور وہ بھی اپنا ہاتھ میز کے نیچے رکھ دیتا ہے اور خوش ہوتا ہے کہ میں کام کر رہا ہوں.اسی طرح ہمارے سب کام خدا کر رہا ہے.مگر بچے کی طرح ہم بھی نہایت ادنی اور حقیر قربانیاں کر کے خوش ہو جاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ ہم کام کر رہے ہیں حالانکہ ہم نہیں کر رہے ہمارا خدا سب کچھ کر رہا ہے.لیکن اس سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جس وقت میز اٹھائی جارہی ہوتی ہے تو بچہ ہی خوش نہیں ہوتا ماں باپ بھی خوش ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ ہمارے کام میں شریک ہے.اس طرح جب تم خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے کھڑے ہوتے ہو تو صرف تم ہی خوش نہیں ہوتے بلکہ خدا بھی

Page 246

انوار العلوم جلد 26 تمہارے کام پر خوش ہوتا ہے..194 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.پس یقین رکھو کہ جب تک تم ان باتوں پر قائم رہو گے اور دین کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ گے کوئی شخص تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گا.اور اگر کوئی شخص تم پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھے گا تو خدا کے فرشتے تمہارے دائیں بھی ہوں گے اور بائیں بھی ہوں گے اور آگے بھی ہوں گے اور پیچھے بھی ہوں گے.جو کچھ مدینہ کے انصار نے بدر کے موقع پر کہا تھا وہی خدا کے فرشتے تم سے کہیں گے.جس طرح انہوں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.1 اسی طرح جبریل اور اس کے ساتھی تم سے کہیں گے کہ اے خدا کے دین کی خدمت کرنے والو! ہم تمہارے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن تم تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.اور یہ ظاہر ہے کہ فرشتے کبھی مر نہیں سکتے اس لئے دشمن بھی کبھی تم تک نہیں پہنچ سکتا.صحابہ مر سکتے تھے اور وہ دشمن کے حملہ سے غافل بھی ہو سکتے تھے.چنانچہ اُحد کی جنگ میں دشمن ان کو نقصان پہنچاتے ہوئے آگے نکل آیا.مگر تمہارے لئے وہ زمانہ نہیں آسکتا تم ہمیشہ خدا تعالیٰ کی گود میں رہو گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہاری حفاظت کرتے رہیں گے اور اسلام کی اشاعت ہمیشہ تمہارے ہاتھوں سے ہوتی رہے گی.اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا جائے گا اور ترقی کرتا چلا جائے گا اور تمہاری طاقت اور عزت اور شہرت میں روز بروز اضافہ ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ تم ساری دنیا میں پھیل جاؤ گے.اور وہ لوگ جو آج تم پر اعتراض کرتے ہیں اور تمہیں حقیر اور ذلیل قرار دیتے ہیں وہ اُس وقت جب کہ تم دنیا میں غالب ہو گے تم سے کہیں گے کہ ہمیں بھی اپنی عزت اور شہرت میں سے کچھ حصہ دو.اُس وقت تمہیں ذلیل سمجھنے والا تمہاری گداگری کرے گا اور تم پر ظلم کرنے والا تمہارے رحم کا طالب ہوگا اور تمہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھنے والا تمہاری عزت کا اقرار کرے گا اور اپنے گزشتہ فعل پر شرمندہ اور نادم ہوگا.یہ

Page 247

انوار العلوم جلد 26 195 یوم مصلح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.خدا کی تقدیر ہے جو پوری ہوکر رہے گی.قضائے آسمان است ایں بہر حالت شود پیدا پس خدا تعالیٰ پر ایمان رکھو اور یقین رکھو کہ تم دنیا پر غالب آنے والے ہو.بے شک تم اس وقت کمزور اور نا طاقت سمجھے جاتے ہو مگر وہ دن زیادہ دور نہیں کہ خدا کی رحمت نئی نئی شکلوں میں ظاہر ہوگی اور تمہیں اُس کی قدرت کے وہ نمونے دکھائے گی جو تمہارے وہم اور گمان میں بھی نہیں ہیں.بد قسمت ہے وہ انسان جو مایوس ہو جاتا اور مشکلات کے وقت ہمت ہار کر بیٹھ جاتا ہے ایسا انسان خدا تعالیٰ کی رحمت سے کبھی حصہ نہیں پاسکتا.اُس کی رحمت سے حصہ پانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی مدد پر کامل یقین اور بھروسہ رکھے.بے شک تمام کام خدا تعالیٰ کی مدد سے ہی سرانجام پاتے ہیں مگر وہ یہ بھی دیکھنا چاہتا ہے کہ میرا بندہ کتنا صبر کرتا ہے پھر یکدم اُس کی رحمت کے ایسے دروازے کھلتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ یہ رحمتیں اور برکتیں تو میرے وہم اورگمان میں بھی نہیں تھیں.پس اللہ تعالیٰ کی برکتیں اور اُس کی رحمتیں آ رہی ہیں تم اُن دنوں کا انتظار کرو.اللہ تعالیٰ تمہاری مصیبتوں کی رسیاں کاٹ ڈالے گا اور وہ چیزیں جن کو تم حاصل نہیں کر سکتے اُن کو خدا آپ تمہارے لئے مہیا کر دے گا.میں یہ نہیں کہتا کہ ابھی ایسا ہو جائے گا یا ایک گھنٹہ کے بعد یا ایک دن کے بعد یا ایک ہفتہ کے بعد یا دو ہفتہ کے بعد یا ایک مہینہ کے بعد یا دو مہینہ کے بعد ایسا ہو جائے گا مگر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ آسمان ٹل سکتا ہے، زمین ٹل سکتی ہے ، سورج ٹل سکتا ہے، چاند ٹل سکتا ہے، ستارے مل سکتے ہیں ، دنیا ادھر سے اُدھر ہو سکتی ہے مگر خدا کا یہ وعدہ کبھی نہیں مل سکتا کہ وہ تمہیں ایسی برکتیں دے گا اور تم پر اپنے ایسے انعام نازل کرے گا کہ دشمن سے دشمن بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ تم ایک مبارک وجود ہو اور وہ لوگ جو آج تم پر ہنسی کرتے ہیں کل شرمندہ ہوں گے اور تم سے معافیاں مانگیں گے.آج تو وہ کہتے ہیں کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہومگر کل یہی لوگ کہیں گے کہ آپ اسلام کے بہت بڑے خدمت گزار ہیں.آپ لوگ

Page 248

انوار العلوم جلد 26 196 یوم صبح موعود پر جماعت احمدیہ کراچی.ہمارے ساتھ وہی سلوک کریں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دشمنوں سے کیا تھا.اور مجھے یقین ہے کہ تم بھی اُس وقت غرور میں نہیں آؤ گے، تکبر میں مبتلا نہیں ہو گے بلکہ تم کہو گے کہ ٹھیک ہے ہم بھی تمہیں یہی کہتے ہیں کہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 2 جاؤ آج تم پر کوئی ملامت اور سرزنش نہیں بلکہ تم انہیں بھائیوں کی طرح اپنے سینہ سے لگاؤ گے اور کہو گے کہ جو سبق اس نے ہم کو دیا تھا وہ ہم کو اچھی طرح یاد ہے مگر تم اس سبق کو بھول گئے اور تم ہمارے متعلق یہ کہتے رہے کہ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں حالانکہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق اور آپ کے کامل غلام تھے.تم وہ کام کرتے رہے جو ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے کیا مگر ہم وہ کام کریں گے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے کیا اور عفو اور محبت اور پیار کا سلوک اپنے دشمنوں سے کریں گے.اب میں دعا کر دیتا ہوں.سب دوست میرے ساتھ دعا میں ( الفضل 8 مارچ 1957 ء ) | 66 شریک ہوں.“ 1:بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ (الخ ) حديث نمبر 3952 صفحه 668 الطبعة الثانية مطبوع رياض 1999ء 2: يوسف : 93

Page 249

انوار العلوم جلد 26 197 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 250

انوار العلوم جلد 26 198 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب

Page 251

انوار العلوم جلد 26 199 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب (فرمودہ 24 فروری 1957ء بمقام دار الصدر‘ ہاؤسنگ سوسائٹی کراچی ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.: جو رپورٹ اِس وقت قائد صاحب نے پڑھی ہے اس میں انہوں نے نو جوانوں کی اصلاح کے جو ذرائع اور طریق بیان کئے ہیں میرے نزدیک مرکز کو چاہیے کہ وہ ان سے دوسری مجالس کو بھی آگاہ کرے.بہت سی مجالس ایسی ہوتی ہیں جو حیران ہوتی ہیں کہ ہم اصلاح کے کیا طریق اختیار کریں.ان کو یہ بتانا کہ ہم نو جوانوں کی اصلاح کے لئے کیا کیا ذرائع اختیار کر سکتے ہیں ایک مفید بات ہے.انہوں نے جو طریق اس وقت بیان کئے ہیں وہ سب کے سب مفید ہیں لیکن اس کے علاوہ انہیں ایک اور طریق بھی اختیار کرنا چاہیے.انہوں نے کہا ہے کہ ہم کمزور خدام کو دعاؤں کی تحریک کرتے رہتے ہیں یہ بھی اچھا ہے مگر میرے نزدیک انہیں کمزور خدام کی اصلاح کے لئے ایک یہ طریق بھی اختیار کرنا چاہیے کہ چند جو شیلے خدام مل کر اُن کے گھروں پر جائیں اور انہیں کہیں کہ آؤ ہم سب مل کر دعا کریں کہ ہم میں جو کمزور ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جو کمز ور اس دعا میں ان کے ساتھ شامل ہو جائے گا وہ اپنی اصلاح کرنے کی کوشش کرے گا.پس ہمیشہ کمزوروں کے گھروں پر جاؤ اور ان کو کہو کہ آؤ ہمارے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرو.اس طرح آہستہ آہستہ خود اُن کو اپنا نفس نصیحت کرنا شروع کر دے گا.پھر جب آپ لوگ ان ہی کمز ور خدام سے کہیں گے کہ آداب ہمارے ساتھ مل کر دوسرے خدام کے گھروں پر چلو تا کہ ہم ان کے لئے بھی دعا کریں تو سب سے پہلے ان کو بھی اپنی اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہوگی اور اس طرح کام پہلے سے بہتر ہو جائے گا.

Page 252

انوار العلوم جلد 26 200 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کراچی کے 580 خدام میں سے صرف 46 خدام ایسے ہیں جنہوں نے تحریک جدید میں حصہ نہیں لیا.باقی سب اس میں حصہ لے رہے ہیں.یہ بے شک ایک خوشی کی بات ہے لیکن خدمت سلسلہ کا کام ایسا ہے کہ 46 کی نفی بھی بہت بُری لگتی ہے.انہیں چاہیے تھا کہ ان کے اندر خدمت دین کا ایسا احساس ہوتا کہ ایک کی بھی نفی نہ ہوتی.46 کی نفی بتاتی ہے کہ ابھی ہم نے جماعت کے بہت سے افراد کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلانی ہے.اس وقت ہماری جماعت دس لاکھ تک پہنچ چکی ہے 580 خدام میں سے 46 کا کمزور ہونا بتاتا ہے کہ قریباً دوسو میں سے ایک فردا ایسا ہے جو تحریک جدید میں حصہ نہیں لے رہا.اب اگر دوسو کو چھیالیس سے ضرب دی جائے تو 92 سو بنتا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ ہماری جماعت میں نو ہزار دو سو آدمی ایسا ہے جو چندہ نہیں دے رہا.اور اگر وہ واقع میں اس طرف توجہ نہیں کر رہا تو یہ کتنی خطر ناک بات ہے.اگر یہ نو ہزار دو سو آدمی بھی حصہ لینے لگے تو یورپ میں کئی مسجدیں تعمیر ہو جائیں اور کئی نئے مشن کھل جائیں.مگر اس کا علاج بھی دعا ہی ہے.یہ میں مان نہیں سکتا کہ جماعت میں کوئی ایسا شخص بھی ہے جو تبلیغ کی ضرورت نہیں سمجھتا.اور اگر وہ ضرورت کو سمجھتے ہوئے بھی چندہ میں حصہ نہیں لیتا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اُس کے دل پر زنگ لگ گیا ہے اور دل کا زنگ دور کرنے کے لئے بھی دعا کی ہی ضرورت ہے.پس دعاؤں میں شامل کر کے کمزور خدام کی غیرت کو بھڑ کا یا جائے.ہم نے دیکھا ہے بعض ایسے آدمی جو چندہ دینے میں بڑے ست تھے جب انہیں سمجھایا گیا تو وہ بڑی بڑی قربانی کرنے والے بن گئے.ایک دوست جو اب بہت مخلص ہیں اور جنہیں اپنی پرانی بات کا ذکر بہت بُر الگتا ہے اور کہتے ہیں کہ کسی نے آپ کے پاس غلط رپورٹ کر دی تھی اُن کے متعلق شروع میں مجھے پتا لگا کہ وہ سلسلہ کی طرف توجہ رکھتے ہیں.اس پر میں نے مولوی شیر علی صاحب اور حافظ روشن علی صاحب کو ان کے پاس بھیجا.انہوں نے سنایا کہ ہم نے ان کو کہا کہ بیعت کر لیجئے.وہ کہنے لگے بیعت تو میں کرلوں گا مگر باقاعدہ چندہ نہیں دوں گا.میں نے کہا تھوڑا تھوڑا چندہ ہی دینا شروع کر دیں.پھر اللہ تعالیٰ چاہے گا تو آپ خود ہی بڑھا دیں گے.چنانچہ انہوں نے

Page 253

انوار العلوم جلد 26 201 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب تھوڑا تھوڑا چندہ دینا شروع کر دیا مگر پھر اخلاص میں اتنے بڑھ گئے کہ انہوں نے بہت زیادہ قربانی شروع کر دی.اب تو وہ پینشنز ہیں اور ان کا چندہ تھوڑا ہو گیا ہو گا مگر جب وہ ملازم تھے تو دو ہزار روپیہ با قاعدہ تحریک جدید کا چندہ دیتے تھے.میں نے ایک دفعہ حساب لگایا تو مجھے معلوم ہوا کہ چندہ دینے میں وہ میرے بعد دوسرے نمبر پر تھے حالانکہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب بھی بڑی قربانی کرنے والے ہیں.تو شروع میں بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو تھوڑے سے چندہ پر کفایت کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کے دل میں احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اسلام کی خدمت کرنی ہے اس لئے وہ اپنی قربانیوں میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع میں صرف اتنا کہا تھا کہ سال میں ایک پیسہ دے دیا کرو مگر اب دیکھ لو سال میں ایک پیسہ دینے والے اپنی ماہوار آمد پر فی روپیہ ایک آنہ سے ڈیڑھ آنہ تک چندہ دیتے ہیں.ایک پیسہ کے حساب سے ہمارا چندہ پندرہ سولہ ہزار بنتا ہے لیکن چندہ چودہ پندرہ لاکھ روپیہ آتا ہے تو قربانی کی جو نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ابتدا میں تجویز فرمائی تھی اس میں اب کئی گنا ترقی ہو گئی ہے یہ تمام برکت عمل کی ہے.جب انسان عملِ صالح کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے نیکیوں میں اور زیادہ قدم بڑھانے کی توفیق دے دیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ 1 که عملِ صالح انسان کو اونچا کرتا چلا جاتا ہے.جب انسان خدا تعالیٰ کی راہ میں ایک قدم چلتا ہے تو دوسرا قدم اٹھانے کے لئے فرشتے اسے آپ دھنگا دے دیتے ہیں.حضرت معاویہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک دفعہ صبح کی نماز کے لئے نہ اٹھ سکے اور ان کی نماز با جماعت رہ گئی.اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ سارا دن روتے رہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے کہا کہ میرے اس بندے کو نماز رہ جانے کا بڑا افسوس ہوا ہے اسے سو نماز با جماعت کا ثواب دے دو.دوسرے دن صبح کے وقت انہوں نے کشفی حالت میں دیکھا کہ ایک شخص انہیں جگا رہا ہے وہ اسے دیکھ کر ڈر گئے کیونکہ وہ بادشاہ تھے اور باہر پہرہ

Page 254

انوار العلوم جلد 26 202 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب لگا ہوا تھا وہ حیران ہوئے یہ شخص اندر کس طرح آ گیا ہے.اس نے ان کی حیرت کو دیکھ کر کہا کہ میں شیطان ہوں اور تمہیں نماز کے لئے جگانے آیا ہوں.وہ کہنے لگے کہ شیطان تو نماز سے روکا کرتا ہے تو مجھے نماز کے لئے کیوں جگا رہا ہے؟ اُس نے کہا بات اصل میں یہ ہے کہ میرے روکنے کی اصل غرض تجھے نیکی اور ثواب سے محروم رکھنا تھی مگر تم اتنا روئے کہ خدا نے کہا کہ اسے ایک سو نماز با جماعت کا ثواب دے دیا جائے.پس میں نے سمجھا کہ اب اسے ثواب سے روکنے کا یہی طریق ہے کہ اسے نماز کے لئے جگا دیا جائے.اس طرح کم از کم اسے ایک نماز کا ہی ثواب ملے گا زیادہ ثواب نہیں لے سکے گا.تو جب کوئی شخص نیک کام کرتا ہے تو اس کا قدم آگے بڑھتا ہے.اب خواہ معاویہ کے پاس جبریل آتا اور کہتا کہ معاویہ اٹھو اور نماز پڑھو اور خواہ شیطان نے کہا بات ایک ہی ہوگئی.مگر شیطان کے کہنے سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وہ حدیث حل ہو گئی کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 2 اور وہ جو بات بھی میرے دل میں ڈالتا ہے نیک ہوتی ہے.حضرت معاویہ کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت میں یہ بات حاصل ہوگئی اور شیطان نے انہیں نماز کے لئے جگا دیا.اگر تم دعائیں کرو گے اور دوسروں کو نیک تحریکیں کرو گے تو آہستہ آہستہ تمہارے کمزور خدام میں بھی تغیر پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.پس کمزوروں کو اپنی اجتماعی دعاؤں میں شریک کرو اور ان سے کہو کہ اب تحریک جدید کا نیا دور شروع ہے جس میں ماہوار آمد کا بیس فیصدی چندہ دینا ضروری ہوتا ہے تم اگر بیس فیصدی نہیں دے سکتے تو نصف فیصدی ہی دے دو.فی روپیہ ایک پیسہ ہی دے دو ہم تم سے اسی قدر چندہ لے لینا غنیمت سمجھتے ہیں.مگر ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ جس طرح پہلے لوگوں نے ایک آنہ سے مد د شروع کی تھی اور پھر سینکڑوں روپیہ دینے لگ گئے اُسی طرح تم بھی اپنی قربانیوں میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے.چنانچہ جب تحریک جدید کا آغاز ہوا تو پہلے سال میں نے 930 روپیہ دیا.اس کے بعد بڑھاتے بڑھاتے دسویں سال میں نے دس ہزار روپیہ دیا جو اب تک برابر ہر سال دیتا چلا آ رہا ہوں.مگر اب میں محسوس کرتا ہوں کہ دس ہزار روپیہ بھی کم ہے.شروع میں زمینوں کی جتنی آمد ہوتی تھی وہ ساری خرچ ہو جاتی تھی مگر اب میں

Page 255

انوار العلوم جلد 26 203 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی سے خطاب دیکھتا ہوں کہ کام منتظم ہو جانے کی وجہ سے آمد بڑھ گئی ہے اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ اپنا چندہ بڑھانا چاہیے.غرض جب بھی کوئی انسان نیکی کی طرف اپنا قدم بڑھاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مزید قدم اٹھانے کی توفیق عطا فرما دیتا ہے.یہ تحریک بائیس سال سے جاری ہے اور اب تک دولاکھ ستر ہزار روپیہ میں تحریک جدید میں دے چکا ہوں.اسی طرح ایک مخلص دوست نے ایک دفعہ مجھے بہت بڑا نذرانہ دے دیا.میں نے سمجھا کہ اتنا بڑا نذرانہ مجھے اپنی ذات پر استعمال کرنے کی بجائے سلسلہ کے لئے استعمال کرنا چاہیے چنانچہ میں نے وہ سارے کا سارا نذرانہ اسلام کی اشاعت کے لئے دے دیا مگر اس کے باوجود میری نیت یہی ہے کہ میں اپنے چندہ کو بڑھا دوں.میں اب تک صرف اس لئے رُکا رہا کہ ولایت جانے کی وجہ سے مجھ پر قرض زیادہ ہو گیا تھا جس کا اُتارنا ضروری تھا بلکہ اب جبکہ جماعت نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے چندہ جمع کرنے میں سستی دکھائی ہے میں سوچ رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے تو میں اکیلا ہی اپنے خرچ پر مغربی ممالک میں ایک مسجد بنوا دوں تا کہ اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند ہوتا رہے.اب آخر میں میں دعا کر کے آپ لوگوں کو رخصت کرتا ہوں کیونکہ بیماری کی وجہ سے ( الفضل 13 مارچ 1957ء) 66 میں زیادہ نہیں بول سکتا.“ 1 : فاطر:11 2 : مسلم کتاب صفات المنافقين باب تحريش الشَّيْطَان (الخ) حدیث نمبر 7110 صفحه 1225 ،1226 الطبعة الثانية مطبوعہ ریاض 2000ء

Page 256

Page 257

انوار العلوم جلد 26 205 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب (13/اکتوبر 1957ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمو د احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 258

انوار العلوم جلد 26 206 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..

Page 259

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 207 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب (فرموده 13 /اکتوبر 1957ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی :- وَالثَّرِعَتِ غَرِقَا و النشطتِ نَشْطًا وَ الشيحْتِ سَبْحًا فَالشَّقْتِ سَبْعًا فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرً ا يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلْود ومَدٍ وَاجِفَةٌ أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ 1 اس کے بعد فرمایا :- یہ چند آیتیں جو میں نے سورۃ النزعت کی پڑھی ہیں ان میں مومنوں کو ان کے فرائض بتائے گئے ہیں اور انہیں اُن ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر عائد ہوتی ہیں.یوں تو منہ سے انسان مومن کہلا سکتا ہے کیونکہ منہ سے مومن کہلانا کوئی مشکل امر نہیں بلکہ کہنے کو تو مسیلمہ کذاب بھی اپنے آپ کو نبی کہا کرتا تھا اور اسود عنسی بھی اپنے آپ کو نبی کہا کرتا تھا.سجاح بھی اپنے آپ کو نبی کہا کرتی تھی مگر گجا مسیلمہ کذاب کا اپنے آپ کو نبی کہنا ، اسود عنسی اور سجاح کا اپنے آپ کو نبی کہنا اور گجا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے آپ کو نبی کہنا دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.مسیلمہ کذاب نے بھی اپنے آپ کو نبی کہا اسی طرح اسود عنسی اور سجاح نے بھی اپنے آپ کو نبی کہا مگر انسانی قلوب میں اتنا تغیر بھی پیدا نہ ہوا جتنا تغیر ایک تالاب میں چھوٹی سی کنکری پھینکنے سے پیدا ہوتا ہے.مگر جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا دعویٰ کیا تو زمین ہل گئی.صرف عرب کی زمین ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کی زمین ہلی اور اس میں

Page 260

انوار العلوم جلد 26 208 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..ایک ایسا زلزلہ پیدا ہوا جو آدم سے لے کر اُس وقت تک نہیں آیا تھا.جیسا کہ انہی آیات ہے.میں جو میں نے ابھی پڑھی ہیں اس زلزلہ کا ذکر کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ تُو اُس دن کو یاد کر جس دن یہ زمین کانپ اٹھے گی اور پھر یہ زمین صرف یک دفعہ نہیں ہلے گی بلکہ بار بار ہلتی چلی جائے گی چنانچہ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وَ التَّزِعَتِ غَرْقًا کی مصداق قوم عطا کی گئی اور اللہ تعالیٰ نے سرزمین عرب کو ہلانے کا فیصلہ کیا تو بدر کی جنگ ہوئی ، اُحد کی جنگ ہوئی ، احزاب کی جنگ ہوئی اور ان کے درمیان اور بیسیوں جنگیں لڑی گئیں اور آخر مکہ فتح ہو گیا.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں زمین ایک دفعہ نہیں ہلی بلکہ ہلتی چلی گئی کیونکہ وہ سمجھتی تھی کہ مجھ پر ایسا بوجھ لاد دیا گیا ہے جس کے اٹھانے کی مجھ میں طاقت نہیں.اس لئے وہ کانپتی تھی اور بار بار کا نپتی تھی.یہ زمانہ بھی جس میں سے ہم گزر رہے ہیں ایسا ہی ہے.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں اسلام کی خدمت کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد کیا ہے اور یہ کام اتنا عظیم الشان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمینوں اور پہاڑوں کے سپرد کرنی چاہی مگر انہوں نے اس کے اٹھانے سے بڑی گھبراہٹ کا اظہار کیا 2 اس جگہ آئین کے معنے محض انکار کے نہیں بلکہ ایسی گھبراہٹ کے ہیں جس میں اگر انسان کی اپنی مرضی کا دخل ہو تو وہ ضرور انکار کر دے.غرض وہی چیز جس کے اٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑوں نے بڑی گھبراہٹ کا اظہار کیا تھا اب اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے ماتحت آپ کے سپرد کی گئی ہے.اور جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے والا ایک شخص اس زمانہ میں آپ کا بروز کہلایا ہے اسی طرح آپ کے صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی جماعت آپ کے صحابہ کی بروز کہلائی ہے.جس طرح دنیا کی حالت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھی اُسی طرح اس زمانہ میں بھی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی زمین و آسمان اور پہاڑوں نے آپ کی تعلیم کا حامل بننے سے بڑی گھبراہٹ کا اظہار کیا تھا اور اس زمانہ میں بھی جو بوجھ آ -

Page 261

انوار العلوم جلد 26 209 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے اس کے متعلق کوئی بے وقوف ہی دعوئی کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ میں اسے اٹھاؤں گا.ہاں سمجھدار اور عقل مند انسان اِنْشَاءَ اللہ کہہ کر اور ڈرتے ہوئے دل کے ساتھ کہتا ہے کہ میں اسے اٹھاتا ہوں کیونکہ بغیر اس کے کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس بوجھ کے اٹھانے کی توفیق دے اور مدد کرے میں خود اسے نہیں اٹھا سکتا.زمین و آسمان کے باشندے اپنی طاقت سے نہ اس بوجھ کو پہلے اٹھا سکتے تھے اور نہ اپنی طاقت سے اب اٹھا سکتے ہیں.دیکھ لو مسلمانوں نے کچھ عرصہ کی جدو جہد کے بعد کس طرح اس بوجھ سے آزاد ہونے کی کوشش کی.اسی حالت کا خطرہ اب آپ لوگوں کے لئے بھی ہے.ممکن ہے کچھ وقت تبلیغ کرنے کے بعد جماعت کے بڑے اور چھوٹے سُست ہو جائیں اور وہ اس بوجھ کو اتارنے کی کوشش کریں اور تبلیغ کا کام چھوڑ دیں.آج تو ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے بڑے فخر کے ساتھ کہتے ہیں کہ ہم ہر جگہ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں.اگر کوئی پوچھے کہ یورپ میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.اگر کوئی پوچھے کہ افریقہ میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.اگر کوئی پوچھے کہ فلپائن میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.اگر کوئی پوچھے کہ انڈونیشیا میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.اگر کوئی پوچھے کہ سیلون میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.اگر کوئی پوچھے کہ امریکہ میں کون تبلیغ کر رہا ہے ؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.اگر کوئی پوچھے کہ برٹش گی آنا، فریج گی آنا اور ڈچ گی آنا میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو آپ لوگ کہتے ہیں ہم.لیکن اگر خدانخواستہ ہم سے تبلیغ میں کوتاہی ہوئی اور ہم نے اپنے اس فرض کو ادا کرنا چھوڑ دیا تو ہماری وہی حالت ہوگی جس کا ایک پور بیانے مظاہرہ کیا تھا.کہتے ہیں کہ جب کوئی پور بیا مر جاتا ہے تو اس کے سارے رشتہ دار ا کٹھے ہو جاتے ہیں.اس کے بعد اس کی بیوی ئین کرتی ہے اور کہتی ہے کہ مرنے والے کا فلاں فلاں قرضہ کون ادا کرے گا یا اس سے فلاں نے جو قرض لیا تھا اسے کون وصول کرے گا ؟ ایک دفعہ ایک پور بیا مرا تو اُس کے تمام رشتہ دار جمع ہوئے.اُس کی بیوی نے بین کرتے ہوئے کہا اس نے فلاں سے اتنا روپیہ لینا تھا وہ اب کون لے گا ؟ اس پر ایک پور بیا گو دکر آگے

Page 262

انوار العلوم جلد 26 210 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..آ گیا اور کہنے لگا اری ہم ری ہم.بیوی نے پھر کہا اُس نے فلاں مکان فلاں کو دیا تھا وہ اب واپس کون لے گا ؟ تو وہی پور بیا کہنے لگا اری ہم ری ہم.اسی طرح اُس عورت نے وہ ساری رقوم گنوائیں جو مرنے والے نے دوسروں سے لینی تھیں اور وہی پور بیا جواب میں کہتا رہااری ہم ری ہم.اس کے بعد اس عورت نے کہا ارے مرنے والے نے فلاں کی اتنی رقم دینی تھی وہ اب کون دے گا ؟ تو وہ پور بیا پیچھے ہٹ گیا اور کہنے لگا ارے میں ہی بولتا جاؤں یا کوئی اور بھی بولے گا.یہی پور بیا والا حال تمہارا بھی نہ ہو.اب تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں تبلیغ کا جوش دیا ہے اور جماعت ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہی ہے اور اس وقت یہ حالت ہے کہ اگر کوئی کہے کہ انڈونیشیا میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو تم کہتے ہو کہ ارے ہم رے ہم.اگر کوئی کہے کہ ملایا میں کون تبلیغ کر رہا ہے؟ تو تم کہتے ہوارے ہم رے ہم.لیکن اگر جماعت پرستی کا وقت آیا تو تم کہو گے کوئی اور بھی بولے کیا ہم اکیلے ہی بولتے چلے جائیں.یہ سارا بوجھ اب تک ہم نے ہی اٹھایا ہوا تھا اب کوئی اور بھی تو اٹھائے ، اب کوئی اور بھی تو جرمنی جائے اور اسلام کی تبلیغ کرے.مگر یا درکھو دلہن ہمیشہ دولہا کے گھر ہی بسا کرتی ہے ہمسایہ کے گھر میں نہیں بسا کرتی.یا یوں کہو کہ دولہا کے گھر دلہن ہی بسا کرتی ہے ہمسائی نہیں بسا کرتی.مساجد کا کام ہماری دلہن ہے اور اس نے ہمارے ہی گھر آنا ہے کسی اور کے گھر نہیں جانا.ہماری بے غیرتی ہوگی کہ یہ کام کسی اور کے گھر چلا جائے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی انجیل میں آسمانی بادشاہت کو دلہن سے تشبیہہ دی ہے 3 مگر عیسائیوں نے تو غفلت سے کام لیا اور چرچ کو شیطان کے سپر د کر دیا.یا دوسرے الفاظ میں یوں کہو کہ دلہن کو دولہا کے سوا کسی اور کے سپرد کر دیا لیکن ہمارا کام یہ ہے کہ ہم مساجد کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کے لئے آباد رکھیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا ہے کہ مساجد اس لئے ہیں کہ ان میں میرا ذکر بلند ہو پس جب ہم مساجد بناتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم دلہن کو اس کے دولہا کے سپر د کرتے ہیں اور جب مساجد بنانے میں کمزوری دکھاتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ہم دلہن کو دولہا کے پاس پہنچانے میں سستی سے کام لیتے

Page 263

انوار العلوم جلد 26 211 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..ہیں.دنیا میں دیکھ لو.اگر کسی کی دلہن کو غیر کے سپرد کر دیا جائے تو کتنا اندھیر بچ جائے.اگر تم کسی کی بیوی اٹھا کر کسی اور کے سپر د کر دو تو تمہارے خلاف اغوا کا کیس بن جائے گا.عدالت میں مقدمہ چلے گا اور تمہیں قید کی سزا ہوگی اور دنیا میں جو تمہاری رسوائی ہوگی وہ الگ ہے.اسی طرح اس کام میں سستی کرنا یعنی مساجد نہ بنانا اور چرچ بننے دینا ایسی آفت ہے کہ ساری دنیا تم پر ٹھو کے گی اور تمہاری طرف دیکھ کر تھو تھو کرے گی اور وہی لوگ جو اس وقت تمہاری تعریف کرتے ہیں تمہیں بُرا بھلا کہنے لگ جائیں گے.مثلاً ہالینڈ اور جرمنی وغیرہ کے لوگ جو اس وقت ہمارے احسان مند ہیں کہ ہم نے انہیں خدائے واحد کی طرف بلایا اور دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ احمد یوں پر رحم کرے کہ انہوں نے ہمیں خدا تعالیٰ کا دین سکھایا اگر ہم نے مساجد بنانے میں سستی کی تو وہ کہیں گے کہ انہوں نے روشنی دکھا کر پھر اندھیرا کر دیا.اگر ہم اندھیرے میں ہی رہتے تو شاید ہم اسے برداشت کر لیتے لیکن اب انہوں نے روشنی دکھا کر اندھیرا کر دیا جو ہمارے لئے برداشت کرنا نا ممکن ہے کیونکہ روشنی کے بعد اگر اندھیرا ہو جائے تو انسان سخت تکلیف محسوس کرتا ہے.پس تم اُس دن سے بچو.اگر تبلیغ میں کمی واقع ہوئی تو تم پر بڑی مصیبتیں آئیں گی.لیکن اگر تم دعاؤں میں لگے رہو تو ممکن ہے کہ آپ لوگوں کو قیامت تک خدمتِ اسلام کی توفیق ملتی چلی جائے.آخر صحابہ کرام کو بھی 1300 سال تک تبلیغ کرنے کا موقع ملا ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام کے متبعین کو تو 1900 سال تک تبلیغ کا موقع ملا ہے.بظاہر دنیا کی جو حالت ہے اس میں مزید 1900 سال کی زندگی کی گنجائش نظر نہیں آتی.اگر دنیا اپنے اندرونی حالات کی وجہ سے جیسا کہ حساب دان کہتے ہیں یا بیرونی اثرات کی وجہ سے جو ایٹم یا ہائیڈ روجن بم کی وجہ سے پیدا ہو گئے ہیں ہلاک ہو گئی تو آپ لوگوں سے کوئی سوال کرنے والا زندہ ہی نہیں رہے گا.لیکن اگر سوال کرنے والے زندہ رہے تو 1900 سال تک تو عیسائی لوگ آپ لوگوں پر اعتراض کر سکتے ہیں اور وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم تو حضرت مسیح علیہ السلام کا جوا 1957 ء تک اٹھاتے چلے آئے لیکن تم ایک ہزار سال تک بھی یہ کام جاری نہ رکھ سکے.ہاں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لائے ہوئے مشن کو آپ 1900 سال تک لے

Page 264

انوار العلوم جلد 26 212 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..جائیں تو کم سے کم اتنا تو ہو سکتا ہے کہ آپ عیسائیوں کے سامنے سر اٹھا سکیں لیکن فخر اس بات میں ہے کہ آپ تبلیغ کے کام کو قیامت تک جاری رکھیں.اس میں کوئی کمزوری نہ آنے دیں.پس آپ لوگ اپنی ذمہ داری کو سمجھیں ، محنت کریں اور اپنے فرض کو پوری طرح ادا کریں اور یا درکھیں کہ اس فرض کا ادا کرنا مصیبت نہیں بلکہ آپ لوگوں کے لئے فخر کا موجب ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جب صحابہ کرام کو آپ کی خدمت کا موقع ملتا تھا یا اسلام کی خدمت کا موقع ملتا تھا تو وہ اسے مصیبت خیال نہیں کرتے تھے بلکہ فخر محسوس کرتے تھے کہ ہمیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کا موقع ملا ہے یا خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کا موقع ملا ہے اور اس غرض کے لئے وہ بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لئے تیار رہتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب جنگ اُحد کے لئے تشریف لے گئے تو ابتدا میں اسلامی لشکر کو فتح حاصل ہوگئی تھی لیکن بعد میں مسلمانوں سے غلطی ہوئی جس کے نتیجہ میں کفار نے مسلمانوں پر پشت کی طرف سے حملہ کر دیا اور اتنا سخت حملہ کیا کہ ان کے قدم اکھڑ گئے اور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گڑھے میں گر گئے اور لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.اُحد مدینہ سے قریب ہی واقع ہے اس لئے وہاں سے بھاگ کر لوگ مدینہ پہنچے اور انہوں نے وہاں یہ خبر پھیلا دی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.یہ خبر سن کر مدینہ کے مرد، عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحد کی طرف بھاگے تا کہ آپ کی آخری بار زیارت کر سکیں.اکثر لوگوں کو تو آپ کی سلامتی کی خبر راستہ میں ہی مل گئی اور وہ رُک گئے مگر ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے احد مقام تک پہنچ گئی.اُحد کی جنگ میں اس عورت کا باپ، خاوند اور بھائی تینوں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا.جب وہ دیوانہ وار اُحد کی طرف جارہی تھی تو لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سلامتی کا علم ہو چکا تھا اور لشکر کے تمام افراد نے آپ کو زندہ دیکھ لیا تھا اس لئے صحابہ آپ کی ذات کے متعلق مطمئن - لیکن اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی علم نہیں تھا وہ دوڑ کر ایک صحابی تھے

Page 265

انوار العلوم جلد 26 213 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..کے پاس پہنچی اور پوچھا کہ بتاؤ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ وہ صحابی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے اس لئے انہوں نے کہا بی بی ! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے.اس عورت نے کہا میں تجھ سے اپنے باپ کے متعلق نہیں پوچھتی مجھے یہ بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس پر اسی صحابی نے کہا بی بی! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا خاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے.اس عورت نے کہا تم بھی عجیب آدمی ہو میں تم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کرتی ہوں اور تم مجھے میرے باپ اور میرے خاوند کی موت کی خبر دیتے ہو.اس نے کہا بی بی ! مجھے بڑا افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے.اُس نے کہا خدا کیلئے تم مجھے یہ بتاؤ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے خیر سے ہیں.اس عورت نے کہا الْحَمْدُ لِلهِ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو مجھے اپنے باپ اور بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پرواہ نہیں.پھر اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہاں؟ اِس پر اُس صحابی نے آپ کی طرف انگلی کا اشارہ کیا اور کہا کہ آپ وہ ہیں.اس پر وہ عورت آپ کی طرف بھاگ کر گئی اور اُس نے آپ کے دامن کو پکڑ لیا اور کہا یا رسول اللہ ! آپ نے یہ کیا کیا ؟ یہ فقرہ بظاہر بے معنی تھا لیکن در حقیقت یہ غلط نہیں تھا.بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست تھا اور اس کا مطلب یہ تھا کہ یا رسول اللہ ! آپ جیسا وفادار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کس طرح راضی ہو گیا ؟ پھر اس عورت نے کہا یا رسول اللہ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.جب آپ سلامت ہیں تو کسی اور کی موت کی ہمیں کیا پر واہ ہوسکتی ہے.4 تو دیکھو ان لوگوں میں اس قدرا خلاص ، جوش اور ایمان تھا کہ ہر خدمت جو وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کرتے تھے اس میں اپنی عزت اور رتبہ محسوس کرتے تھے چنانچہ اسی قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخ سے ملتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ شہداء کو دفن کر کے مدینہ واپس کو ٹے تو عورتیں اور بچے شہر سے باہر

Page 266

انوار العلوم جلد 26 214 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..استقبال کے لئے نکل آئے.رسول کریم صلی اللہ صلی علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ حضرت سعد بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی.اُحد میں ان کا ایک بھائی بھی مارا گیا تھا.شہر کے پاس انہیں اپنی بوڑھی ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی ملی تو انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! میری ماں.یا رسول اللہ ! میری ماں.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے.بڑھیا آگے بڑھی اور اس نے اپنی کمزور اور پھٹی ہوئی آنکھوں سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آ جائے.آخر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہو گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مائی ! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے.اس پر اُس عورت نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو گویا میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا.5 ایسے موقع پر عموماً ہر عورت چاہتی ہے کہ کوئی شخص آئے اور اس سے ہمدردی کرے لیکن اس عورت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمدردی کا اظہار کیا تو اس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ میرے بیٹے کا کیا ذکر کرتے ہیں آپ سلامت واپس آگئے ہیں تو مجھے کسی چیز کی پروا نہیں.آپ یوں سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا ہے تو صحابہ خدا تعالیٰ کی راہ میں جانیں دینا اپنی خوش قسمتی خیال کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو کسی کام کے لئے باہر بھیجا.بعد میں جنگ تبوک کا واقعہ پیش آ گیا.یہ جنگ نہایت خطر ناک تھی.رومی حکومت اُس وقت ایسی ہی طاقتور تھی جیسے آج کل امریکہ اور روس کی حکومتیں ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چھوٹی سی فوج لے کر اتنی بڑی حکومت کے مقابلہ میں جانا پڑا.مدینہ میں بہت تھوڑے مسلمان تھے اور پھر اردگرد کے لوگ بھی اکٹھے نہیں تھے لیکن اگر وہ اکٹھے ہوتے بھی تو قیصر روما کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی.اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام لوگ جنگ کے لئے چلیں.جب اسلامی لشکر روانہ ہو گیا تو وہ صحابی جنہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باہر کام کے لئے بھیجا ہوا تھا واپس آئے.جوان آدمی تھے.نئی نئی شادی ہوئی ہوئی تھی.ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اپنے گھر میں داخل

Page 267

انوار العلوم جلد 26 215 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..ہوئے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا.وہ سیدھے اُس کی طرف گئے اور اُس سے بغلگیر ہونا چاہا مگر بیوی نے اُن کی محبت کا جواب دینے کی بجائے ان کے سینہ پر زور سے دو بہتر مارا اور پیچھے دھکا دے کر کہا خدا کا رسول تو میدانِ جنگ میں گیا ہوا ہے اور تمہیں اپنی بیوی سے پیار سوجھ رہا ہے.خدا کی قسم ! جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بخیریت واپس نہیں آ جاتے میں تمہاری شکل تک نہیں دیکھوں گی.وہ صحابی اُسی وقت گھر سے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے تین منزل کے فاصلہ پر اسلامی لشکر سے جاملے اور پھر اُسی وقت گھر واپس آئے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دوسرے صحابہ کے ساتھ مدینہ واپس لوٹے.غرض یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر خطرہ کے موقع پر اپنی جان کو بلا دریغ خطرہ میں ڈال دیا.کوئی تکلیف اور دُکھ انہیں نہیں پہنچا جسے انہوں نے تکلیف اور دُکھ جانا ہو بلکہ جب بھی کوئی خدمت کا موقع آتا وہ اپنی جان بخوشی پیش کر دیتے.حضرت عثمان بن مظعون کے متعلق تاریخ میں آتا ہے کہ ان کے باپ ایک بہت بڑے رئیس تھے.وہ مکہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے گئے تھے.وہاں جب یہ افواہ پہنچی کہ مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں تو وہ واپس آگئے واپسی پر اُن کے باپ کے ایک دوست رئیس نے انہیں پناہ دے دی.جب انہوں نے مسلمانوں کو مظالم سہتے دیکھا تو انہوں نے اس پناہ کو واپس کر دیا.اُس رئیس نے کہا دیکھو ! تم میری پناہ واپس نہ کرو اگر تم میری پناہ واپس کرو گے تو مکہ والے تمہیں تنگ کریں گے.عثمان بن مظعون نے کہا جب میرے سامنے مسلمان غلاموں اور غریب مسلمانوں کو مار پڑتی ہے تو انہیں دیکھ کر مجھے بڑی شرم آتی ہے اور میرا دل مجھے ملامت کرتا ہے کہ تیرا بُرا ہو.تیرے بھائی تو اسلام کی وجہ سے تکلیف اٹھا رہے ہیں اور تم کسی رئیس کی پناہ میں رہ کر مزے کر رہے ہو تم اپنی پنا ہ واپس لے لو تا میرا دل مجھے آئندہ کے لئے ملامت نہ کرے.اس رئیس نے جواب دیا اگر تمہاری یہی مرضی ہے تو میں واپس لے لیتا ہوں.چنانچہ اس رئیس نے خانہ کعبہ میں جا کر اعلان کر دیا کہ آج میں عثمان بن مظعون کی پناہ واپس لیتا ہوں.مکہ میں یہ قاعدہ تھا کہ جب کوئی شخص کسی کو پناہ دیتا تھا تو اُس شخص کو جو بھی تکلیف دیتا اُسے پناہ دینے والے کے

Page 268

انوار العلوم جلد 26 216 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..قبیلے سے لڑنا پڑتا تھا.لیکن جب وہ اپنی پناہ واپس لے لیتا تو یہ قید اُٹھ جاتی.عرب کا ایک مشہورشاعرلبید گزرا ہے وہ بعد میں اسلام بھی لے آیا اور اُس نے 170 سال کی عمر پائی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی وہ ایک لمبے عرصہ تک زندہ رہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اس سے شعر سنا کرتے تھے اور صحابہ میں سے بھی جس کسی کو کوئی رتبہ ملتا وہ اُسے بلاتے ، اس سے شعر سنتے اور اُسے انعام دیتے.جس حضرت عثمان بن مظعون نے پناہ واپس کر دی تو ایک دن لبید مکہ میں آیا اور اس نے ایک محفل میں شعر سنانے شروع کئے.حضرت عثمان بن مظعون بھی وہاں پہنچ گئے.محفل میں بڑے بڑے رؤساء بیٹھے ہوئے تھے اور سب لوگ لبید کو داد دے رہے تھے.شعر پڑھتے پڑھتے لبید نے یہ مصرع پڑھا کہ الا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلٌ یعنی اے لوگو! اچھی طرح سن لو کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہر چیز تباہ ہونے والی ہے.اس پر حضرت عثمان بن مظعون کہنے لگے ”صَدَقْتَ لبید تو نے سچ کہا ہے.لبید کو یہ بات بہت بُری لگی کہ وہ اتنا بڑا شاعر ہے اور یہ نوعمر نوجوان اُسے داد دے رہا ہے.لیکن اُس نے زبان سے کچھ نہ کہا اور یہ دوسرا مصرع پڑھ دیا کہ وَكُلُّ نَعِيمِ لَا مَحَالَةَ زَائِلٌ یعنی ہر نعمت آخر تباہ ہو جانے والی ہے.حضرت عثمان بن مظعون پھر بول پڑے اور کہنے لگے گــذبـت ، تو نے جھوٹ بولا ہے.جنت کی نعمتیں کبھی تباہ نہیں ہوں گی.لبید کو اس بات سے آگ لگ گئی اور اُس نے کہا.مکہ والو ! تم کب سے بداخلاق ہو گئے ہو؟ پہلے تو اس نوجوان نے مجھے داد دی اور پھر اس نے مجھے جھوٹا کہا.میں اس کے باپ کے برابر ہوں.اس کے لئے مجھے جھوٹا کہنا جائز نہیں تھا.کیا تم اپنے بڑوں کی ہتک کرنے لگ گئے ہو ؟ مکہ والوں نے چونکہ اُسے خود بُلایا ہوا تھا اس لئے اُس کی اس تقریر سے اشتعال پیدا ہو گیا اور ایک نوجوان نے غصہ میں حضرت عثمان بن مظعون کی آنکھ پر مگا مارا.جس سے ان کی ایک آنکھ پھوٹ گئی.انہیں پناہ دینے والا شخص وہیں موجود تھا.اُس

Page 269

انوار العلوم جلد 26 217 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..نے یہ نظارہ دیکھا تو کہنے لگا عثمان ! کیا میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ تم میری پناہ واپس نہ کرو.مکہ والے تمہیں تنگ کریں گے لیکن تم نے میری بات نہ مانی اور پناہ واپس کر دی اب تم نے اس کا نتیجہ دیکھ لیا کہ تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی ہے.حضرت عثمان بن مظعون نے کہا آخر ہوا کیا خدا کی قسم ! میری تو دوسری آنکھ بھی چلا چلا کر کہ رہی ہے کہ خدا تعالیٰ کے رستے میں مجھے بھی پھوڑ دو 7.یہ ان لوگوں کی کیفیت تھی جو اسلام کی راہ میں دکھ اٹھانے میں ایک فخر اور لذت محسوس کرتے تھے.یہی طریق آپ لوگوں کا ہونا چاہئے.اگر آپ لوگوں کو کوئی دکھ پہنچے تو رویا چلایا نہ کریں.جماعت کے بعض دوست ایسے ہیں کہ اگر انہیں کوئی گالی بھی دے دے تو وہ مجھے لکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم بہت سے مصائب میں مبتلا ہیں اور تحقیق پر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کہیں جارہے تھے کہ رستہ میں آواز آئی کہ مرزائی بڑے کا فر ہیں.لیکن حضرت عثمان بن مظعون کی آنکھ نکل جاتی ہے ، تکلیف سے وہ نڈھال ہورہے ہوتے ہیں لیکن کہتے ہیں خدا کی قسم ! میری تو دوسری آنکھ بھی اس بات کا انتظار کر رہی ہے کہ کوئی دشمن اسے بھی پھوڑ دے.حضرت عثمان بن مظعون کے اس شاندار فقرہ کا یہ اثر تھا کہ جب آپ فوت ہوئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی پیشانی کا بوسہ لیا اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.پھر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے حضرت ابراہیم فوت ہوئے تو آپ نے فرمایا جا اپنے بھائی عثمان بن مظعون کے پاس.گویا آپ نے حضرت عثمان بن مظعون کو اپنا بیٹا قرار دیا اور اُن کی یا دکو ایک لمبے عرصہ تک قائم رکھا.تو دین کی راہ میں جو مصائب آئیں ان کا نتیجہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ آپ لوگ ہمت ہار کر بیٹھ جائیں بلکہ ان کے نتیجہ میں اور زیادہ زور سے کام کرنا چاہیے.سورۃ نازعات جس کی چند آیات میں نے ابھی پڑھی ہیں اللہ تعالیٰ نے یہی بیان فرمایا ہے کہ مومن وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی راہ میں اپنا سارا زور لگا دیتا ہے اور جس کام میں وہ لگا ہوا ہوتا ہے اس میں وہ غرق ہو جاتا ہے.اگر واقع میں کوئی ایسی جماعت ہو تو اس کو کیا پتا لگ سکتا.کہ اس کے ارد گرد کیا ہو رہا ہے.دنیا میں ہمیں کئی لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے ہے

Page 270

انوار العلوم جلد 26 218 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..سامنے اُن کے گھروں کو آگ لگ جاتی ہے تو انہیں اس کا علم تک نہیں ہوتا اور وہ دوسروں سے پوچھتے ہیں کہ کیا ہو گیا.اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ وہ کسی اور کام میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ انہیں کسی دوسری چیز کا علم ہی نہیں ہوتا.یہ محویت مختلف لوگوں میں مختلف رنگوں میں دکھائی دیتی ہے.ڈاکٹر ڈانسن جنہوں نے انگریزی میں لغت لکھنی شروع کی تھی ان کے متعلق ان کے ایک دوست جو مشہور مصنف ہیں لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اُس جگہ گیا جو ڈاکٹر ڈانسن کو بہت پسند تھی اور میں نے دیکھا کہ بارش ہو رہی ہے اور ڈاکٹر ڈانسن اپنا ہاتھ باہر نکالے کھڑا ہے.میں نے اُس سے کہا.ڈاکٹر ! یہ تم کیا کر رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ میں شام کے بعد سے یہاں کھڑا ہوں اور روزانہ یہاں آ کر کھڑا ہوتا ہوں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ کوئی غلطی کی تو میرے باپ نے مجھے سزا کے طور پر یہاں کھڑا کیا تھا.میں نے اس سزا کو بہت بُرا محسوس کیا اور سزا قبول کرنے کی بجائے میں کہیں باہر چلا گیا.اب جب میں بڑھا ہو گیا ہوں تو مجھے یاد آتا ہے کہ اگر میں اپنے باپ کی بات مان لیتا تو اچھا تھا میں اس غلطی کا کفارہ ادا کرنے کے لئے روزانہ یہاں آتا ہوں.تو دیکھو جن لوگوں کے دلوں میں احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے کوئی غلطی کی ہے یا یہ کہ ان کا کوئی فعل خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں غلطی کہلائے گا تو وہ اس کا کفارہ ادا کرتے ہیں.آپ لوگوں کو بھی اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو خدا تعالیٰ سے دعا کیا کریں کہ وہ اسے دور کرے.لیکن اس تکلیف کے وقت دوسروں کو بلانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے کوئی ماں اپنے بچے کو مارے تو وہ محلہ والوں کو بلانا شروع کر دے.اگر وہ بچہ ماں کے مارنے کی وجہ سے روتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ کہتا ہے محلہ والو! دوڑ و اور مجھے میری ماں سے بچاؤ تو یہ درست نہیں ہوتا.اس طرح اگر تمہیں کوئی بات تکلیف دیتی ہے تو خدا تعالیٰ کے آگے گڑ گڑاؤ اور اُس سے دعا کرو لیکن اگر کسی کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ دوسروں کے آگے واویلا شروع کر دیتا ہے تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں میں خدا تعالیٰ کا شکوہ کرتا ہے اور اُس کی رضا پر راضی رہنا پسند نہیں کرتا.صحیح طریق یہی ہوتا ہے کہ وہ اس تکلیف کو برداشت کرے اور

Page 271

انوار العلوم جلد 26 219 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..خدا تعالیٰ کے سامنے اس کے ازالہ کے لئے دعا کرتا رہے.غرض سورۃ نازعات میں خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ مومن وہی ہے جو اپنے کام میں اس طرح محو ہو جائے کہ اسے اپنے گرد و پیش کا بھی علم نہ رہے.گردو پیش سے ہٹ کر اپنے کام میں محو ہو جانے والا ہی سچا مومن اور اصل صداقت کو کھینچ لانے والا ہوتا ہے.لیکن جو شخص قرآن کریم پڑھتا ہے اور اس کا دماغ کسی اور طرف متوجہ ہوتا ہے وہ سورۃ نازعات میں بیان کردہ صداقت پر عمل نہیں کرتا.سورۃ نازعات پر وہی شخص عمل کرتا ہے جو نماز پڑھتا ہے یا دعا کرتا ہے یا قرآن کریم پڑھتا ہے تو اس میں اتنا غرق ہو جاتا ہے کہ اُسے یہ علم تک نہیں ہوتا کہ اُس کے گردو پیش کیا ہو رہا ہے.اگر یہ کیفیت کسی کو نصیب نہیں ہوتی تو اُس کی وہی حالت ہوتی ہے جو ایک دنیا دار ملاں کی تھی.کہتے ہیں حضرت باوانا نک رحمۃ اللہ علیہ سفر کرتے ہوئے ایک جگہ پہنچے تو نماز ہو رہی تھی.وہ بھی نماز میں شامل ہو گئے.لیکن تھوڑی دیر کے بعد نماز توڑ کر بیٹھ گئے.حضرت با با نا نک روحانی آدمی تھے اور امام الصلوۃ کوئی دنیا دار آدمی تھا.جب نماز ہو چکی تو کسی نے دریافت کیا کہ آپ نے نماز کیوں توڑ دی تھی ؟ انہوں نے کہا.مولوی صاحب نماز پڑھاتے پڑھاتے پہلے جہلم کی طرف چلے گئے ، پھر گجرات کی طرف چلے گئے ، پھر انہوں نے بھینس خریدی اور اس کا دودھ بیچا.پھر اور بھینسیں خریدیں اور ان کا دودھ بیچا اور آخر ان کی آمد سے ایک محل تیار کیا.میں ایک کمزور انسان ہوں.میں ان کے پیچھے پیچھے کیسے چلتا.میں تو تھک کر الگ ہو گیا.حقیقت یہ تھی کہ جب امام نماز پڑھا رہا تھا تو اس کے دل میں خیال آیا کہ کل عید کا دن ہے لوگ مجھے عیدی دیں گے.میں اس سے ایک بھینس خریدوں گا مگر اچھی بھینس یہاں سے نہیں مل سکتی اس لئے کہیں باہر جاؤں گا.چنانچہ پہلے جہلم کا خیال آیا.پھر سوچا کہ ممکن ہے جہلم میں اچھی بھینس نہ ملے بہتر ہے کہ گجرات چلیں وہاں سے امید ہے کہ اچھی سی بھینس مل جائے گی.پھر اس کی آمد سے ایک اور بھینس خریدوں گا.جب بہت سی بھینسیں جمع ہو جائیں گی تو ان کی آمد سے ایک کوٹھی تیار کروں گا.وہ نماز پڑھا رہا تھا اور یہ خیالات اُس کے دماغ میں چکر لگا رہے تھے حضرت باوا نا نک پر -

Page 272

انوار العلوم جلد 26 220 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..اپنی روحانیت کی وجہ سے امام الصلوۃ کے یہ خیالات منکشف ہو گئے اور انہوں نے نماز توڑ دی اور کہا کہ میں بوڑھا آدمی ہوں میں کہاں کہاں سفر کرتا پھروں.پس اپنے اندرا خلاص پیدا کرو اور سچائی کے پھیلانے کے لئے پورے ثبات اور محویت سے کام لو.ہر شخص نے مرنا ہے اور اس کے مرنے کے بعد اسلام کا جو حال ہوگا اس کا کسی کو علم نہیں.لیکن اگر آنے والا غلبہ ہمیں دنیا میں ہی نظر آ جائے تو اس سے ہمارے دل کو بہت تقویت حاصل ہوگی.حضرت یعقوب علیہ السلام کو لوگوں نے کہا تھا کہ اپنے بیٹے یوسف کے غم میں پاگل ہو گیا ہے.حضرت یعقوب علیہ السلام کو تو اپنے بیٹے کا غم تھا اور مجھے اسلام کا غم ہے.میں تمہیں بتاتا ہوں کہ ابھی تو صرف لندن، ہیمبرگ جرمنی اور ہیگ میں ہی مساجد تعمیر ہوئی ہیں مگر جلد ہی فرینکفورٹ جرمنی میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.وئنز برگ (WEINSBERG ) جرمنی میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.نیورمبرگ جرمنی میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.روم میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.نیپلز میں ایک مسجد تعمیر ہوگی.تین مساجد سکنڈے نیویا میں بنیں گی.تم کہو گے یہ بڑھا سٹھیا گیا ہے ابھی یورپ میں صرف تین مساجد بنی ہیں اور یہ آٹھ مساجد اور بنا رہا ہے.لیکن میں کہتا ہوں کہ میں تقریر کرتا ہوا مساجد کی تعداد کم کر گیا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو میں پچاس مساجد یورپ میں بنواؤں گا تاکہ وہاں ہر بڑے شہر میں مسجد موجود ہو.باوانا تک تو ایک دنیا دار ملاں کے پیچھے کھڑے ہو گئے تھے جس کی وجہ سے وہ اس کا ساتھ نہ دے سکے لیکن تم ایک ایسے آدمی کے پیچھے لگے ہوئے ہو جس کو یورپ میں اسلام پھیلانے اور مساجد تعمیر کرنے کا شوق ہے بلکہ پچاس مساجد بھی کم سے کم اندازہ ہے میرا خیال تو اس سے بھی بلند جایا کرتا ہے.پچاس مساجد پر ایک کروڑ روپیہ لگتا ہے جو اس وقت ہمارے پاس موجود نہیں.لیکن اگر تم اپنے رشتہ داروں کو تبلیغ کر کے انہیں احمدیت میں داخل کرو تو ایک کروڑ روپیہ کا مہیا ہونا کوئی مشکل امر نہیں.مثلاً صدرانجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ پچھلے سال بارہ لاکھ تھا.اس سال وہ پچاس ساٹھ لاکھ ہو جائے اور اور دو تین سال کے اندر اس کی مقدار تین کروڑ ہو جائے تو ایسی صورت میں اگر ہم 1/3 حصہ بھی مساجد کی تعمیر کے لئے رکھیں تو ایک کروڑ روپیہ ہر سال نکل سکتا.ہے

Page 273

انوار العلوم جلد 26 221 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..اور ہر سال پچاس مساجد تعمیر کی جاسکتی ہیں.اور اگر ہم ہر سال پچاس مساجد تعمیر کر سکیں تو پانچ سال کے عرصہ میں اڑھائی سو مساجد بن سکتی ہیں.اگر اڑھائی سو مساجد یورپ میں تعمیر ہو جائیں تو اس کے چپہ چپہ پر خدا تعالیٰ کی تکبیر کی صدا بلند ہوسکتی ہے.اب کوئی مبلغ باہر سے آتا ہے یا یہاں سے جاتا ہے تو تم الله اکبر کے نعرے لگاتے ہو لیکن ان نعروں میں وہ زور نہیں پایا جاتا جو اُس اللہ اکبر کی آواز میں ہوگا جو یورپ کی مساجد سے بلند ہوگی اور سب عیسائی بھی زور سے کہیں گے کہ اللهُ اَكْبَرُ.جب ان مساجد سے مؤذن اللهُ أَكْبَرُ کی صدا بلند کریں گے اور ان کے ساتھ ساتھ قصبات والے بھی اللہ اکبر کہیں گے تو بیک وقت سارا یورپ اللہ اکبر کی آوازوں سے گونج اٹھے گا اور عیسائی اپنی زبان سے کہیں گے کہ اب عیسائیت کمزور ہو گئی ہے.اور یہ بات تو میں نے پانچ مساجد کے متعلق بیان کی ہے لیکن جب یورپ میں اڑھائی سو مساجد تعمیر ہو جائیں گی تو یورپ کے سارے کناروں تک نعرہ ہائے تکبیر کی صدائیں بلند ہوں گی.اور وہ نعرہ ہائے تکبیر ایسے ہوں گے کہ ایک مسجد کی آواز دوسری مسجد تک پہنچے گی اور پھر قریب کے علاقہ میں پھیلتی جائے گی اور یورپ والے کہیں گے کہ اب اسلام غالب آ گیا ہے اور وہ اسلام کے مقابلہ میں اپنے ہتھیار پھینک دیں گے.اُن کا سارا غرور جاتا رہے گا اور وہ خود اقرار کریں گے کہ اب اسلام غالب آچکا ہے.تب وہ زمانہ آجائے گا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ قو میں اسلام میں داخل ہوں گی، 8 پھر ہم امریکہ کی طرف متوجہ ہوں گے اور وہاں ہزار دو ہزار مساجد بنائیں گے.نتیجہ یہ ہوگا کہ آواز در آواز پھیلتی چلی جائے گی.تم دیکھ لور بوہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے لیکن یہاں جب مسجد مبارک میں مؤذن کی آواز بلند ہوتی ہے تو وہ سارے شہر میں پھیلتی ہے اور جب دوسری مساجد سے بھی اذان کی آوازیں اٹھتی ہیں تو پورے شہر کے اندر زندگی اور بیداری کی ایک لہر دوڑ جاتی ہے.اسی طرح جب یورپ اور امریکہ کی ہزاروں مساجد میں اذانیں ہوں گی تو عیسائی سمجھ لیں گے کہ اب عیسائیت مرگئی اور پھر یہ نور آہستہ آہستہ تمام

Page 274

انوار العلوم جلد 26 222 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..دنیا میں پھیلا تو چکر کھا کر جاپان، فلپائن اور انڈونیشیا سے ہوتا ہوا پاکستان آئے گا.پہلے لوگ کہتے تھے کہ انگریزی سلطنت پر سورج نہیں ڈوبتا لیکن اب یہ بات عملاً احمدیت پر بھی صادق آتی ہے.اب احمدیت پر بھی سورج غروب نہیں ہوتا لیکن ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اذانوں پر بھی سورج غروب نہ ہو.“ الفضل سالا نہ نمبر 26 دسمبر 1957ء) 1 : النزعت:2تا10 2 : إِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَةَ عَلَى السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب:73) 2 : متی باب 25 آیت 1 صفحہ 951 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء 4 : سیرت ابن هشام الجزء الثاني صفحه 880مطبوعه دمشق 2005ء : السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 530 الطبعة الاولى مطبوعہ بیروت 2012 ء 6 : اسد الغابة الجزء الرابع صفحه 133 مطبوعہ بیروت 2006ء کی ایک روایت کے مطابق لبید بن ربیعہ کی عمر 157 سال تھی.7 : سیرت ابن هشام جلد 2 صفحہ 8 تا10 مطبوعه مصر 1936ء 8 : مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 282 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

Page 275

انوار العلوم جلد 26 223 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ ہراحمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 276

انوار العلوم جلد 26 224 ہر احمد میں عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ

Page 277

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 225 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے (فرمودہ 26 اکتوبر 1957ء بر موقع اجتماع لجنہ اماءاللہ ربوہ ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی.إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَةُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْةُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ ا اس کے بعد فرمایا:.ایک اعتراض کا جواب یہ سورۃ جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ! ہم نے یقینا تجھے کوثر عطا فرمایا ہے.سو تو اس عظیم الشان نعمت کے شکریہ کے طور پر اپنے رب کی کثرت سے عبادت کر اور ہر قسم کی قربانیوں کیلئے تیار رہ.اور یقین رکھ کہ تیرا دشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہوگا.چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں نرینہ اولا د زندہ نہیں رہی اس لئے قریش مکہ آپ کی تحقیر کیلئے آپ کو ابتر کہا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ اس سورۃ میں دشمنوں کے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُن کا یہ اعتراض بالکل غلط ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں بلکہ ان کا دشمن ہی ابتر ثابت ہوگا اور وہی اولا دنر بینہ سے محروم رہے گا.اب جہاں تک جسمانی اولاد نرینہ کا سوال ہے بیشک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کوئی نرینہ اولا دزندہ نہیں رہی جس سے آپ کی جسمانی نسل چلتی.مگر جہاں تک روحانی اولاد کا سوال ہے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ اولا دمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی اور اتنی کثرت کے ساتھ ملی کہ اس کی نظیر دنیا کے کسی نبی میں بھی نظر نہیں آتی.اسی چیز کا ذکر آیت خاتم النبین میں کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ گو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 278

انوار العلوم جلد 26 226 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا کی کوئی نرینہ اولاد نہیں جس کے آپ باپ کہلا سکیں مگر خدا تعالیٰ آپ کی روحانی اولا د کو قیامت تک جاری رکھے گا جو ہمیشہ آپ کے کام کو جاری رکھے گی اور آپ کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچاتی رہے گی.جس کے مقابلہ میں صرف جسمانی اولاد کا میسر آ جانا کوئی حقیقت نہیں رکھتا.دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ جسمانی اولا د بعض اوقات انسان کیلئے ہزاروں دقتوں اور مصیبتوں کا موجب ہو جاتی ہے اور بجائے اس کے کہ اس کی اولاد کی وجہ سے باپ کی عزت ہواس کی ذلت اور رسوائی ہوتی ہے.پس صرف جسمانی اولاد کا میسر آجانا کوئی بڑی کامیابی نہیں.ہاں اگر کسی کو روحانی اولا دل جائے اور وہ اس کے نام اور کام کو دنیا میں پھیلائے تو یہ اس کی بہت بڑی کامیابی کہلائے گی.اور ایسا شخص ہر عقلمند انسان کی نگاہ میں صاحب اولاد کہلائے گا.پس خدا تعالیٰ مُشرکین کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے اِس سورۃ میں فرماتا ہے کہ اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں نرینہ اولاد نہیں تو اس کی وجہ سے آپ ابتر نہیں کہلا سکتے کیونکہ جسمانی اولاد کے متعلق یہ ضروری نہیں ہوتا کہ وہ باپ کی عزت کا موجب ہو بلکہ بسا اوقات وہ ان کی ذلت کا موجب بھی ہو سکتی ہے.اس لئے ہم آپ کو روحانی بیٹے عطا کریں گے جو آپ کے نام کو روشن کرنے والے اور آپ کے کام کو جاری رکھنے کا باعث ہوں گے اور آپ کے مقابل پر آپ کا دشمن اس قسم کی اولاد سے ہمیشہ کیلئے محروم رہے گا.کفار کی اولاد کی قربانیاں دشمن کے ہاں روحانی بیٹے نہ ہونے کا ثبوت تو اس بات سے مل جاتا ہے.کہ روحانی بیٹا وہی ہوتا ہے جو اپنے باپ کے مذہب پر چلے.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بڑے بڑے دشمنوں میں سے ابو جہل ، عاص بن وائل اور ولید بن مغیرہ وغیرہ ہی تھے.یہ لوگ آپ کو دکھ دیا کرتے تھے.اسی طرح آپ کا ایک اور دشمن ابوسفیان تھا جو ایک لمبا عرصہ آپ کے خلاف لڑتا رہا لیکن فتح مکہ کے بعد وہ مسلمان ہو گیا.ان سب دشمنوں میں سے ابوسفیان کا تو یہ حال ہوا کہ وہ نہ صرف خود اپنی آخری عمر میں اسلام لے آیا بلکہ اس کا بیٹا معاویہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور نہ صرف ایمان لایا بلکہ اس نے حضرت علیؓ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہونے کا بھی دعوی کیا.

Page 279

انوار العلوم جلد 26 227 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک ز اور جس شخص نے رسول کریم صلی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہونے کا دعویٰ کیا ہو اُس کی خلافت کے متعلق چاہے کتنے ہی شکوک ہوں بہر حال اس سے اتنا تو واضح ہو جاتا ہے کہ اس نے آپ کا روحانی فرزند ہونا تسلیم کیا ہے.پھر اسی معاویہ کی نسل نے گیارہ سو سال تک ہسپانیہ میں اسلام کی حکومت قائم رکھی.اور یہ حکومت اتنی عظیم الشان تھی کہ ایک وقت سا را یورپ اس سے ڈرتا تھا.گویا حضرت معاویہؓ نے نہ صرف خود اسلام کی خدمات بجالائیں بلکہ اس کی اولاد کے ذریعہ بھی اسلام کو عروج نصیب ہوا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر تشریف لائے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کی بیوی اُم حبیبہ نے جو ابو سفیان کی بیٹی تھیں اپنے بھائی معاویہ کا سرا اپنی گود میں رکھا ہوا ہے اور اسے پیار کر رہی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر آپ شرما گئیں اور انہوں نے حضرت معاویہؓ کو الگ کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ام حبیبہ ! کیا تم معاویہ سے پیار کر رہی تھیں ؟ انہوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! معاویہ میرا بھائی ہے.آپ نے فرمایا جو تمہیں پیارا ہے وہ ہمیں بھی پیارا ہے.اس طرح گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ کو ایک رنگ میں اپنا بیٹا قرار دے دیا.یہ تو اسلام کے ایک دشمن کا حال ہوا.یعنی ابوسفیان جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر وقت لڑتا رہتا تھا اُس کی ایک بیٹی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئی اور اُس کے بیٹے معاویہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رنگ میں اپنا بیٹا قرار دے دیا.پھر وہ آپ پر ایمان بھی لایا.اور نہ صرف آپ کی زندگی میں بلکہ بعد میں بھی اسلام کی بڑی خدمات بجالایا.پھر ابو جہل جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا شدید دشمن تھا اُس کی یہ حالت ہوئی کہ خود اُسی کی اولاد نے چاہا کہ وہ اپنی بہن حضرت علیؓ سے بیاہ دیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت نہ دی.آپ نے فرمایا اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے لیکن میں پسند نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی بیٹی اور اس کے دشمن کی بیٹی ایک گھر میں اکٹھی ہوں.میں دوسری شادی میں روک نہیں بنتا.علی کو اختیار ہے کہ اگر

Page 280

انوار العلوم جلد 26 228 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک ز وہ چاہے تو میری بیٹی کو طلاق دے دے اور دوسری شادی کر لے اور چاہے تو ابو جہل کی بیٹی سے رشتہ کا خیال ترک کر دے.بہر حال ابو جہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شدید ترین دشمن تھا اور اس کا بیٹا عکرمہ (جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا ) مخالفت میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ جب مکہ فتح ہوا تو اس نے یہ برداشت نہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہ ہوں اور وہ آپ کی رعیت کہلائے.چنانچہ وہ حبشہ کی طرف بھاگ گیا.اُس کی بیوی زیادہ شریف تھی اور دل سے مسلمان تھی.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کیا عکرمہ آپ کا رشتہ دار نہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں وہ میرا رشتہ دار ہے.اس نے کہا یا رسول اللہ ! کیا یہ بات آپ کو اچھی لگتی ہے کہ عکرمہ یہاں نہ رہے ؟ جب غیر حاکم تھے تو وہ مکہ میں رہتا تھا لیکن اب آپ جو اس کے رشتہ دار ہیں حاکم بن گئے ہیں تو وہ بھاگ کر حبشہ چلا گیا ہے.آپ نے فرمایا وہ کیوں حبشہ چلا گیا ہے ؟ عکرمہ کی بیوی نے جواب دیا اُسے خبر ملی تھی کہ آپ نے اس کے قتل کا حکم دے دیا ہے.یارسول اللہ ! جہاں آپ نے اپنے باقی دشمنوں کو معاف کر دیا ہے عکرمہ کو بھی معاف فرما دیں.آپ نے فرمایا ہم معاف کرتے ہیں.وہ واپس آجائے تو ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے.عکرمہ کی بیوی نے کہا یا رسول اللہ ! وہ بڑا با غیرت انسان ہے شاید اس کے واپس آجانے کے بعد آپ اُس سے امید رکھیں کہ وہ اسلام لے آئے وہ اسلام نہیں لائے گا.آپ نے فرمایا میری طرف سے اُسے اپنے مذہب پر قائم رہنے کی اجازت ہے.وہ عورت بڑی ہمت والی تھی وہ اپنے خاوند کی تلاش میں گئی.عکرمہ مکہ سے بھاگ کر حبشہ کی طرف جا رہا تھا.جب ساحلِ سمندر پر عرب کو ہمیشہ کیلئے چھوڑنے کی نیت سے بیٹھا ہوا تھا تو پراگندہ سر پریشان حال بیوی گھبرائی ہوئی وہاں پہنچی تو اس نے کہا میرے چا کے بیٹے ! ( عرب عورتیں اپنے خاوند کو چا کا بیٹا کہا کرتی تھیں) اتنے شریف اور رحمدل انسان چھوڑ کر تم کہاں جا رہے ہو؟ یہ جگہ جہاں سے حبشہ کو جہاز جاتے تھے مکہ سے 70 میل کے فاصلہ پر تھی.عکرمہ نے کہا تم میرے پیچھے بھاگ کر کیوں آگئی ہو کیا تم سمجھتی ہو کہ میری ساری دشمنیوں کے باوجود محمد مجھے معاف کر دیں گے؟ بیوی نے کہا ہاں میں محمد سے مل کر آئی ہوں.انہوں نے فرمایا ہے کہ میں نے

Page 281

انوار العلوم جلد 26 229 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زن عکرمہ کو معاف کر دیا ہے.وہ اگر چاہے تو مکہ واپس آجائے اور یہاں امن سے رہے اسے کچھ نہیں کہا جائے گا.بلکہ میں نے تو آپ سے یہ عہد بھی لے لیا ہے کہ تم اپنے دین پر قائم رہنا چاہو تو قائم رہو تمہیں اسلام قبول کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا.چنانچہ عکرمہ واپس آ گیا.اس کی بیوی اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ کا بھتیجا واپس آگیا ہے.پھر عکرمہ نے اسے اشارہ کیا کہ اب مجھے بولنے دو.چنانچہ عکرمہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کہا.میری بیوی میرے پیچھے گئی تھی اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ آپ نے میری ساری دشمنیوں کے باوجود مجھے معاف کر دیا ہے اور اب آپ مجھے قتل نہیں کریں گے.کیا یہ سچ ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں تمہاری بیوی سچ کہتی ہے.پھر عکرمہ نے کہا اس نے مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ آپ نے مجھے اجازت دے دی ہے کہ اگر چاہوں تو اپنے مذہب پر قائم رہوں مجھے اسلام قبول کرنے کے لئے نہیں کہا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی نے ٹھیک کہا ہے.اس پر عکرمہ نے بے اختیار کہا.اَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ - رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکرمہ ! یہ کیا ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے اور میرے باپ نے جو دشمنیاں آپ سے کیں ان کے ہوتے ہوئے آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے اور جو شخص شدید دشمنوں کو معاف کر سکتا ہے اور پھر ان کو یہ اجازت بھی دیتا ہے کہ وہ اگر چاہیں تو اپنے مذہب پر قائم رہیں وہ نبی کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا.یا رسول اللہ ! میں تو سیاسی طور پر مکہ واپس آیا تھا لیکن جب آپ نے اپنے منہ سے فرما دیا کہ آپ مجھے نہ صرف قتل نہیں کریں گے بلکہ اپنے دین پر قائم رہنے کی بھی اجازت دیں گے تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ سچے ہیں اور خدا تعالیٰ کے رسول ہیں.یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنا ہاتھ دیں کہ میں آپ کی بیعت کروں.چنانچہ عکرمہ نے آپ کا ہاتھ پکڑا اور بیعت کر لی.2 پھر بعد میں اس نے ایمان میں اتنی ترقی کی کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جنگ یرموک میں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی جانیں خطرہ میں تھیں اور مسلمان کثرت سے مارے جارہے تھے تو اسلامی کمانڈر انچیف حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے کہا کہ میں

Page 282

انوار العلوم جلد 26 230 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک ز چاہتا ہوں کہ کچھ ایسے بہادر نکل آئیں جو تعداد میں اگر چہ تھوڑے ہوں لیکن وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر رومی فوج پر رعب ڈال دیں.حضرت عکرمہ آگے نکلے اور انہوں نے حضرت ابو عبیدہ سے درخواست کی کہ مجھے اپنی مرضی کے مطابق کچھ آدمی چن لینے دیں میں ان آدمیوں کو ساتھ لے کر دشمن کے قلب لشکر پر حملہ کروں گا اور کوشش کروں گا کہ ان کے جرنیل کو مار دوں.اُس وقت رومی لشکر کا جرنیل خوب زور سے لڑ رہا تھا اور بادشاہ نے اُس سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کر لے تو وہ اپنی لڑکی کی شادی اُس سے کر دے گا اور اپنی آدھی مملکت اس کے سپر د کر دے گا.اس لالچ کی وجہ.د - وجہ سے وہ بڑے جوش میں تھا.اور اپنی ذاتی اور شاہی فوج لے کر میدان میں اترا ہوا تھا اور اس نے سپاہیوں سے بڑی رقوم کا وعدہ کیا ہوا تھا.چنانچہ رومی سپاہی بھی جان تو ڑ کر لڑ رہے تھے.جب رومی لشکر نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو وہ جرنیل لشکر کے قلب میں کھڑا تھا.حضرت عکرمہ نے قریباً چار سو آدمیوں کو لے کر لشکر کے قلب پر حملہ کیا اور ان کے ساتھیوں میں سے ایک شخص نے اس جرنیل پر حملہ کر کے اُسے نیچے گرا دیا.مقابلہ میں لاکھوں کا لشکر تھا اور یہ صرف چارسو مسلمان تھے اس لئے مقابلہ آسان نہ تھا.اس جرنیل کو تو انہوں نے مار دیا اور اس کے مرجانے کی وجہ سے لشکر بھی تتر بتر ہو گیا.مگر دشمن اُن آدمیوں پر ٹوٹ پڑا اور سوائے چند ایک کے سارے کے سارے شہید ہو گئے 3 ان آدمیوں میں سے 12 شدید زخمی تھے.جب مسلمان لشکر کو فتح ہوئی تو ان لوگوں کی تلاش شروع ہوئی.ان 12 زخمیوں میں حضرت عکرمہ بھی شامل تھے.ایک مسلمان سپاہی آپ کے پاس آیا آپ کی حالت خراب تھی.اس نے کہا عکرمہ میرے پاس پانی کی چھاگل ہے تم کچھ پانی پی لو.آپ نے منہ پھیر کر دیکھا تو پاس ہی حضرت عباس کے بیٹے فضل پڑے ہوئے تھے.وہ بھی بہت زخمی تھے.عکرمہ کہنے لگے میری غیرت یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ جن لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس وقت مدد کی جب میں آپ کا شدید مخالف تھا وہ اور ان کی اولا دتو پیاس کی وجہ سے مرجائے اور میں پانی پی کر زندہ رہوں پہلے انہیں پانی پلاؤ.اگر کچھ بچ جائے تو پھر میرے پاس لے آنا.چنانچہ وہ مسلمان فضل کے پاس گیا.انہوں نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کیا اور کہا پہلے

Page 283

انوار العلوم جلد 26 231 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زن انہیں پلا ؤ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے.وہ اُس زخمی کے پاس گیا تو اُس نے اگلے زخمی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ مستحق ہے پہلے اسے پلاؤ.اس طرح وہ جس سپاہی کے پاس جاتا وہ اسے دوسرے کی طرف بھیج دیتا اور کوئی پانی نہ پیتا.جب وہ آخری زخمی کے پاس پہنچا تو وہ فوت ہو چکا تھا.جب عکرمہ کی طرف کو ٹا تو وہ بھی دم تو ڑ چکے تھے.اس طرح باقی زخمیوں کا حال ہوا.جس کے پاس بھی وہ گیا وہ فوت ہو چکا تھا 4.اب دیکھو اس قسم کا اخلاص دکھانے والا لڑ کا ابو جہل کا لڑکا نہیں ہوسکتا وہ یقینا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا تھا.پھر جس شخص کیلئے حضرت عکرمہ نے اخلاص دکھا یا وہ ابو جہل کا لڑکا یا قریبی عزیز نہ تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ دار اور عزیز تھا.پھر انہوں نے یہ قربانی کفار اور مشرکین کے لیے نہیں کی بلکہ انہوں نے یہ قربانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لئے کی.غرض عکرمہ جو ابوجہل کی جسمانی نسل میں سے تھا ابو جہل کا بیٹا ثابت نہ ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لڑکا ثابت ہوا.اس نے آپ کی بیعت کر لی تھی اور اس کے بعد اس نے اسلام کیلئے غیر معمولی قربانیاں کیں.حدیث بھی اس بات پر گواہ ہے.چنانچہ حضرت عکرمہ کے ایمان لانے سے سالہا سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے اسلام لانے کی پیشگوئی فرمائی تھی جو پوری ہوئی.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ آرہا ہے اور اس کے ہاتھ میں انگوروں کا ایک خوشہ ہے.میں نے پوچھا یہ خوشہ کس کے لئے ہے؟ اُس فرشتے نے کہا یہ خوشہ جنت کے انگوروں کا ہے اور آپ کے رب نے یہ خوشہ آپ کیلئے بھجوایا ہے.میں بہت خوش ہوا مگر میں نے دیکھا اُس فرشتے کے پاس ایک اور خوشہ بھی ہے.میں نے دریافت کیا یہ خوشہ کس کیلئے ہے؟ اس نے کہا یہ ابو جہل کے لئے ہے.اس پر میں سخت حیران ہوا کہ یہ کیا بات ہے کہ جنت سے خدا تعالیٰ کے رسول کیلئے بھی انگوروں کا خوشہ آتا ہے اور اُس کے دشمن ابو جہل کے لئے بھی خوشہ آتا ہے.خدا تعالیٰ کا رسول اور اس کا دشمن برابر کیسے ہوئے؟ لیکن جب عکرمہ ایمان لایا تو میں نے سمجھا کہ وہ خوشه در اصل عکرمہ کے لئے تھا.5.خدا تعالیٰ نے بیٹے کی جگہ باپ کا نام ظاہر کیا

Page 284

انوار العلوم جلد 26 232 ہر احمد میں عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ جیسا کے خوابوں کا طریق ہے.اس طرح بتا دیا کہ عکرمہ ایک دن اسلام قبول کر کے جنت کے انعامات کا مستحق ہو جائے گا.تو دشمن کہتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ ابتر ہیں، ان کی نرینہ اولاد نہیں.لیکن واقعات نے ثابت کر دیا کہ دراصل ابتر آپ کے دشمن ہی تھے اللہ تعالیٰ نے ان کی جسمانی اولادوں کو اسلام میں داخل کر کے آپ کے قدموں میں ڈال دیا اور انہوں نے بعد میں آپ کے لائے ہوئے دین اور آپ کے نام کو بلند کرنے کیلئے عظیم الشان قربانیاں کیں.حضرت خالد بن ولید پھر دیکھو ولید آپ کا کس قدر دشمن تھا مگر اس کا بیٹا خالد آپ پر ایمان لایا.پھر ساری عمر وہ آپ پر اور آپ کے لائے ہوئے دین پر اپنی جان شمار کرتا رہا.حضرت خالد بھی ایک زمانہ میں اسلام کے شدید دشمن تھے لیکن بعد میں خدا تعالیٰ نے انہیں ہدایت دے دی اور انہوں نے اسلام کے لئے بڑی بھاری قربانیاں کیں.انہوں نے رومی سلطنت کو شکست دے کر شام کو اسلام کے لئے فتح کیا.حضرت عمرو بن عاص جن کے دادا اوائل اسلام میں شدید دشمن تھے وہ بھی اسلام لائے اور انہوں نے مصر اور فلسطین کو اسلام کے لئے فتح کیا اور ایسا فتح کیا کہ لوگوں کو ماننا پڑا کہ مصر اسلام کا ایک مضبوط اڈا تھا.عقبہ اور شیبہ کی اولادوں کا نام مجھے یاد نہیں.لیکن بہر حال یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی جسمانی اولادیں اُن سے چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی تھیں اور وہ اولادیں بھی بجائے اپنے ماں باپ کا نام بلند کرنے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بلندی کا موجب بنیں.حالانکہ مشرکین مکہ کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ ان کی تکالیف سے تنگ آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اب آپ طائف کی طرف جائیں گے اور وہاں کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں گے.چنانچہ آپ طائف تشریف لے گئے اور آپ کے غلام حضرت زید بن حارثہؓ آپ کے ہمراہ تھے لیکن اہلِ طائف نے خدا تعالیٰ کے پیغام کو ٹھکرا دیا اور آپ کے پیچھے گئے لگا دیئے.لڑکوں کو اکسایا اور انہوں نے جھولیوں میں پتھر بھر کے آپ پر پتھراؤ کرنا شروع کر دیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے نکال دیا.چنانچہ آپ پھر مکہ کی طرف واپس کو ٹے لیکن عرب کے دستور کے مطابق

Page 285

انوار العلوم جلد 26 233 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زن لڑائی کی وجہ سے مکہ چھوڑ دینے کے بعد آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے.اب مکہ والوں کا اختیار تھا کہ وہ آپ کو مکہ میں آنے دیتے یا نہ آنے دیتے.اس لئے مکہ میں آنے کے لئے ضروری تھا کہ وہاں کا کوئی رئیس آپ کو پناہ دے.آپ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کے پاس بھیجا اور فرمایا تم اسے کہو کہ محمد تم سے پناہ مانگتا ہے اور وہ مکہ کے دروازہ پر کھڑا ہے اگر تم پناہ دو گے تو وہ شہر میں داخل ہو سکے گا ورنہ وہ یہیں سے کوٹ جائے گا.مطعم باوجو د شدید دشمن ہونے کے ایک شریف الطبع انسان تھے اُس نے کہا مکہ کی اس سے زیادہ بدبختی اور کیا ہوگی کہ محمد جیسا آدمی اسے چھوڑ کر باہر چلا جائے ایسا کبھی نہیں ہوسکتا میں اور میرے ساتوں بیٹے مارے جائیں گے لیکن محمد مکہ میں ہی رہے گا.پھر اس نے اپنے بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا میرے بیٹو!.محمد نے مجھ سے پناہ مانگی ہے اور وہ اس وقت شہر کے دروازے پر کھڑا ہے میں وہاں چلتا ہوں تم اپنی تلواریں سونت لو اور میرے ساتھ چلوا اور شہر میں اعلان کرتے جاؤ کہ مطعم نے محمد کو پناہ دی ہے اگر کسی کو جرات ہو تو وہ ہم سے لڑے.اگر محمد کو کوئی معمولی زخم بھی آیا تو تم میں سے کوئی فرد زندہ بچ رہا تو میں زندگی بھر اس کی شکل نہیں دیکھوں گا.چنانچہ وہ شہر کے دروازے پر گیا اور وہ رئیس تھا اور شہر والوں پر اُس کا رعب تھا پھر اُس کے ساتوں بیٹے تلواریں سونتے ہوئے اس کے ساتھ تھے اس لئے کسی شخص کو ان کی مخالفت کی جرات نہ ہوئی اور وہ اپنی حفاظت میں محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو آپ کے گھر لے آئے.جب آپ اپنے مکان میں داخل ہو گئے تو مطعم بن عدی نے آپ سے دریافت کیا کہ آیا اسے اپنے گھر جانے کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا آپ کا شکر یہ اب آپ اپنے گھر جا سکتے ہیں 7 لیکن ایک دن ایسا آیا کہ اللہ تعالیٰ نے انہی کفار کی اولادوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کے ڈال دیا.ولید کتنا سخت مخالف تھا لیکن اس کا بیٹا خالد اسلام لے آیا اور اس نے فلسطین اور شام کو فتح کیا اور رومی لشکر کو شکست دی.پھر عاص کتنا سخت دشمن تھا لیکن اس کا بیٹا عمرو آپ پر ایمان لے آیا اور اس نے اسلام کے لئے کئی لڑائیاں کیں اور مصر فتح کیا.پھر ابو جہل جو آپ کے متعلق سخت بغض رکھتا تھا اُس کا بیٹا عکرمہ اسلام میں داخل ہوا اور اس نے اسلام اور

Page 286

انوار العلوم جلد 26 234 ہر احمد می عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی حفاظت کی خاطر اپنی جان کو قربان کر دیا.غرض إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں ایک نہایت زبر دست پیشگوئی بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کہتے ہیں کہ آپ کے ہاں نرینہ اولاد کوئی نہیں اس لئے آپ کا نام دنیا سے مٹ جائے گا مگر یہ جھوٹے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد نرینہ کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دے گا اور وہ ہمیشہ آپ کے نام کو بلند کرنے کا موجب رہے گی.گویا اس سورۃ میں اس بات کی پیشگوئی کی گئی تھی کہ آئندہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو روحانی اولاد دی جائے گی.تم بھی إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کا نظارہ دیکھ رہی ہو.چنانچہ اس وقت جو تم یہاں بیٹھی ہو تم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد ہو اور تم اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کا نظارہ دیکھ رہی ہو.اس ضلع کو دیکھ لو جب ہم یہاں آئے تو یہاں صرف چار پانچ احمدی تھے لیکن اب چھنڈ بھروانہ اور منگلا وغیرہ میں دو ہزار کے قریب احمدی ہو گئے ہیں.اٹھارہ انیس ہزار احمدی لائل پور ضلع میں ہیں اور ساٹھ ہزار کے قریب احمدی سیالکوٹ میں ہیں.جب 1891 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان میں جلسہ کیا اُس میں صرف 75 احمدی شامل ہوئے تھے اور اس پر آپ بڑے خوش تھے لیکن 1892ء میں جب پہلا سالانہ جلسہ ہوا تو اس پر 327 افراد آئے.8 گویا ایک سال کے عرصہ میں جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد 75 سے بڑھ کر 327 ہوگئی.اسی طرح ہر سال ہماری جماعت بڑھتی چلی گئی.اب دیکھ لو جھنگ اور سرگودھا کے اضلاع میں ہی پانچ چھ ہزار احمدی بستا ہے اور یہ تعداد پہلی تعداد سے بہت زیادہ ہے.گویا اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ہمیں کثرت عطا فرما رہا ہے.جس کی طرف اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَر میں اشارہ کیا گیا ہے.بے شک کوثر کے ایک معنی ایسے بیٹے کے بھی ہیں جو اپنے اندر خیر کثیر رکھتا ہو اور وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں لیکن کوثر سے مراد جماعت کی کثرت بھی ہے اور اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ کے

Page 287

انوار العلوم جلد 26 235 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ معنے یہ ہیں کہ تیری جماعت میں مخلص اور تبلیغ کا جوش رکھنے والے لوگ کثرت سے پیدا کئے جائیں گے.چنانچہ دیکھ لو احمدیت نے کیسے نامساعد حالات میں سے گزر کر ترقی کی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد 750 تھی.اُس سال آپ شام کے وقت سیر کیلئے تشریف لے گئے تو آپ کی جوتی بھیڑ کی وجہ سے آپ کے پاؤں سے نکل جاتی تھی.آپ سیر سے واپس تشریف لائے تو فرمایا اب جماعت کو اس قدر ترقی حاصل ہوگئی ہے کہ اس سال جلسہ پر 750 آدمی آئے ہیں.لیکن اب خدا تعالیٰ کے فضل سے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کے سالانہ اجتماع پر ہی آنے والوں کی تعداد 750 سے زیادہ ہوتی ہے اور جلسہ سالانہ پر تو اس سے کئی گنا زیادہ لوگ آتے ہیں.پچھلے سال جلسہ سالانہ پر ساٹھ ہزار آدمی آیا تھا اگر اس سال آنے والوں کی تعداد کچھ کم بھی ہو جائے تب بھی پچاس پچپن ہزار افراد کے آنے کی امید کی جاتی ہے.پھر غیر ممالک میں جلسہ سالانہ پر جس قدر لوگ آتے ہیں اگر اُن سب کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد بہت زیادہ ہو جاتی ہے.میں نے پچھلے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا تھا کہ فلپائن سے 61 بیعتیں آچکی ہیں اب وہاں سے اطلاع آئی ہے کہ بیعت کرنے والوں کی تعداد 500 تک پہنچ چکی ہے اور یہ سب لوگ عیسائی تھے.پہلے فلپائن سپین والوں نے فتح کیا تھا پھر امریکہ نے لڑائی کی اور فلپائن کو فتح کر لیا بلکہ فلپائن کے ساتھ اس نے کیوبا پر بھی قبضہ کر لیا.جس جرنیل نے فلپائن کو فتح کیا وہ پُرتگیز تھا.تاریخوں میں لکھا ہے کہ فتح کے بعد اس جرنیل نے فلپائن کے ایک مقام پر اپنی تلوار لٹکا دی اور حکم دے دیا کہ جو شخص اپنی جان بچانا چاہتا ہے وہ اس تلوار کے نیچے سے گزرتا جائے اور اعلان کرتا جائے کہ وہ عیسائی ہے لیکن جو عیسائیت کا اقرار نہیں کرے گا اسے مار ڈالا جائے گا.چنانچہ جوشخص یہ فقرہ کہتا تھا اسے کچھ نہیں کہا جا تا تھا اور جو شخص نہیں کہتا تھا اُسے وہیں تلوار سے قتل کر دیا جاتا تھا.اس طرح سارا ملک ایک دن میں عیسائی ہو گیا.پس فلپائن کا ملک ہمارے لئے نہایت قیمتی ہے کیونکہ وہ ہمارے باپ دادا کا ورثہ ہے.سینکڑوں سال تک وہ مسلمان رہا اور پھر ا سے جبراً عیسائی بنالیا گیا.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں اسلام سرعت کے ساتھ پھیل رہا ہے اور ایک خط کے ذریعہ یہ اطلاع ملی

Page 288

انوار العلوم جلد 26 236 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ ہے کہ وہاں اس وقت تک 500 آدمی مسلمان ہو چکے ہیں اور ایک نو جوان یہاں پڑھنے کے لئے بھی آ رہا ہے.اسی طرح جرمنی کے ملک کو دیکھ لو کسی وقت یہ حال تھا کہ بڑے بڑے فلاسفروں اور دشمن اسلام لوگوں نے اسلام کے خلاف جو کتابیں لکھیں ان میں جرمن لوگ بھی شامل تھے لیکن اس وقت وہاں اسلام پھیل رہا ہے.ایک مسجد بن چکی ہے اور دوسری مسجد کے لئے زمین خریدی جاچکی ہے اور امید ہے کہ 1958 ء میں وہ بھی بن جائے گی اور 1959ء تک ان مساجد کی تعداد تین تک پہنچ جائے گی.ان ممالک میں پہلے مسلمانوں سے دشمنی کا سلوک کیا جاتا تھا لیکن اب وہ اسلام کی طرف رغبت کر رہے ہیں اور اسلام میں داخل ہونے والے ترقی کر رہے ہیں.یہ انقلاب نہایت قلیل عرصہ میں ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بات ہے کہ جرمن لوگ اسلام کی مخالفت کرتے تھے.یہ مخالفت دوسری جنگ عظیم تک چلتی چلی گئی.اسلام سے رغبت کا زمانہ 1945 ء کے بعد آیا ہے گویا صرف بارہ سال کا عرصہ ہوا ہے جب خدا تعالیٰ نے جرمنوں کے دلوں کو اسلام کی طرف پھیر دیا اور وہ اس سے رغبت کرنے لگے.کوثر سے کیا مراد ہے پس اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبَّكَ وَانْحَرْ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ میں کوثر سے مراد ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم تجھے مسیح موعود جیسا ایک عظیم الشان روحانی فرزند عطا کریں گے جو کثرت سے خزانے لگائے گا.احادیث میں بھی پیشگوئی کی گئی تھی کہ مسیح موعود خزانے لٹائے گا مگر لوگ اسے قبول نہیں کریں گے 9.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سینکڑوں کتابیں اسلام کی تائید میں لکھیں اور دینی حقائق اور معارف کے خزانے لوگوں کے سامنے رکھے مگر لوگوں نے ان کو قبول کرنے سے انکار کر دیا.اگر ان خزانوں سے ظاہری مال و دولت مراد ہوتی تو اس کے قبول نہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کیونکہ جس کسی کو بھی روپیہ دو وہ فورا لے لیتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مسجد میں تشریف رکھتے تھے.ایک غیر احمدی آیا اور اس نے کہا کہ اگر

Page 289

انوار العلوم جلد 26 237 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زند - آپ سچے ہیں تو مجھے دس ہزار روپیہ دیں.آپ ہنس پڑے اور فرمایا تمہیں مولویوں نے بھیجا ہوگا کہ مرزا صاحب سے جا کر رو پیہ مانگو حالانکہ جو خزا نے مسیح موعود نے آ کر لٹانے تھے اس سے ظاہری مال و دولت مراد نہیں تھی.کیونکہ روپیہ پیسہ تو کوئی واپس نہیں کرتا.ابھی آپ کے ہاتھ پر میں ایک روپیہ بھی رکھوں تو دیکھتا ہوں کہ آپ کس طرح لگاتے ہیں.دراصل وہ خزانے جو مسیح موعود نے آکر تقسیم کرنے تھے وہ روحانی اور علمی خزانے تھے.اور ایسے خزانے بھی بڑی کثرت سے تقسیم کئے ہیں مگر افسوس ہے کہ لوگ انہیں قبول نہیں کرتے.تو کوثر سے مراد ایک تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں کہ وہ صاحب خیر کثیر ہیں.ایک کوثر سے مراد تم ہو جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑی کثرت بخشی ہے.پہلے تم اپنے اپنے علاقوں میں ایک ایک دو دو تھیں.لیکن اب وہاں سینکڑوں احمدی پائے جاتے ہیں.ایک خاتون ابھی لاہور سے آئی تھیں وہ کہنے لگیں کہ لاہور میں پہلی احمد یہ مسجد ہمارے محلہ میں تھی.میں نے کہا یہ مسجد تو قریشی محمد حسین صاحب مرحوم مفرح عنبری والوں کی برکت سے بنی تھی.انہوں نے 17 مرلہ زمین میں مسجد بنائی تھی جو اُس وقت کی ضروریات کے لحاظ سے بہت کافی تھی.پھر جماعت نے اُس پر چوبارہ بنا لیا پھر لوگوں نے گلیوں میں نماز پڑھنی شروع کر دی.اس طرح سات آٹھ سو نمازی اُس مسجد میں آجاتا.ایک دفعہ میں وہاں نماز پڑھا کر باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ تمام گلی میں لوگوں کے سائیکل پڑے ہوئے ہیں.لیکن اب اللہ تعالیٰ نے جماعت لاہور کو توفیق دی کہ انہوں نے محمد نگر میں پانچ کنال زمین اور خریدلی ہے.گویا یہ زمین پہلی مسجد سے چھ گنا زیادہ ہے.اب اس جگہ میں تین ہزار نمازی آسکتا ہے.پھر اس زمین کے ساتھ ایک اور زمین بھی جس کا رقبہ 21 کنال ہے مل رہی ہے.وہ جس آدمی کی ملکیت ہے وہ کہتا ہے یہ زمین بھی لے لو.اگر وہ زمین بھی مل گئی اور اس میں مسجد بن گئی تو اس میں بارہ تیرہ ہزار آدمی نماز پڑھ سکے گا.اب دیکھ لو.یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ پہلے جو مسجد تھی اُس میں چار پانچ سو آدمی نماز پڑھ سکتا تھا.پھر چوبارہ بنالیا گیا تو مسجد میں زیادہ آدمیوں کی گنجائش ہو گئی.اب جو زمین مسجد کے لئے خرید کی گئی ہے وہ پانچ کنال ہے اور ایک کنال 5,445 فٹ کی ہوتی ہے.گویا یہ جگہ 27,220 فٹ ہے اور ایک

Page 290

انوار العلوم جلد 26 238 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک ز آدمی 9 فٹ میں نماز پڑھ سکتا ہے.اس طرح یہ مسجد تین ہزار افراد کے لئے کافی ہوگی اور اگر ساتھ والی 21 کنال زمین مل گئی تو وہ اس سے بھی پانچ گنا زیادہ ہو گی.یہ کوثر ہے جو اللہ تعالیٰ نے جماعت کو دیا ہے.کہاں یہ حالت تھی کہ لاہور میں صرف میاں چراغ الدین صاحب کا خاندان احمدی ہوا تھا یا اب لاہور میں ہزاروں کی جماعت موجود ہے اور ایک کی بجائے دو مسجدیں بن چکیں ہیں.یہ ایک معجزہ ہے جو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہو.دوسرے لوگ خواہ کتنا مذاق کریں مگر تم میں سے ہر ایک عورت کہ سکتی ہے کہ میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ معجزہ دیکھا ہے کہ ایک وقت تھا ہمارے علاقہ میں کوئی احمدی نہیں تھا یا تھا تو ایک آدھ تھا مگر اب ہم وہاں ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص پیرانامی تھا جو نیم پاگل سا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس رہا کرتا تھا.اور آپ اسے کھانا وغیرہ دے دیا کرتے تھے.آپ بعض اوقات اسے بٹالہ بلٹیاں چھڑانے کیلئے بھیج دیا کرتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی عادت تھی کہ وہ بٹالہ اسٹیشن پر روزانہ جاتے اور اگر انہیں کوئی ایسا آدمی مل جاتا جو کہتا میں نے قادیان جانا ہے تو وہ اُس کے پیچھے پڑ جاتے اور مکہ کے مخالفوں کی طرح کہتے میں تو مرزا صاحب کا بچپن کا دوست ہوں مجھ سے پوچھو بات کیا ہے.اس نے تو محض ایک دکان بنائی ہوئی ہے.اگر ایمان بچانا ہو تو واپس چلے جاؤ.وہاں تمہیں کفر والحاد اور جھوٹ کے سوا کچھ نہیں ملے گا.ایک دن حسب عادت مولوی صاحب اسٹیشن پر گئے تو اُس دن اتفاقاً انہیں قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا.پیرا پلٹی چھڑانے گیا ہوا تھا وہ الگ بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین اُسے جاملے.پیرے نے واپس آکر بتایا کہ میں بلٹی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا کہ مولوی محمد حسین صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے پیرے! سناؤ تم نے قادیان میں کیا دیکھا ہے کہ وہاں بیٹھے ہو مفت میں تمہارا ایمان خراب ہو رہا ہے.میں نے انہیں جواب دیا کہ مولوی صاحب ! میں پڑھا ہوا تو نہیں ہوں میں نے ایک چیز دیکھی ہے جو آپ کو بتا دیتا ہوں.میں اکثر بلٹیاں چھڑانے بٹالہ آیا کرتا ہوں اور

Page 291

انوار العلوم جلد 26 239 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زن میں نے دیکھا ہے کہ آپ روزانہ اسٹیشن پر آتے ہیں اور لوگوں کو بہکاتے ہیں.شاید آپ کی یہاں آتے جاتے کئی جوتیاں بھی گھس گئی ہوں گی لیکن لوگ پھر بھی برابر قادیان جاتے ہیں اور مرزا صاحب سے ملتے ہیں حالانکہ وہ اپنے کمرہ میں بیٹھے رہتے ہیں لیکن لوگ خود بخود اُن کی طرف کھنچے چلے آتے ہیں اور آپ لوگوں کی منتیں کرتے ہیں اور آپ کی بات کوئی نہیں مانتا.اور لوگ پیدل بھی ، یکوں پر سوار ہو کر بھی یہاں سے بارہ تیرہ میل دور ایک معمولی گاؤں میں دھکے کھانے جاتے ہیں اور مرزا صاحب کی بیعت کر لیتے ہیں.اب آپ ہی بتائیں میں آپ کو مانوں یا مرزا صاحب کو مانوں؟ اس پر مولوی صاحب ہنس کر کہنے لگے مرزا صاحب نے اپنے مریدوں کو بہت چالاک بنا دیا ہے ہر بات کا جواب ان کے پاس پہلے سے تیار ہوتا ہے.اب یہ نشان ہے جو تم نے دیکھا.لوگ چاہے کتنی مخالفت کریں لیکن تم اس نشان کا انکار نہیں کر سکتیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک امریکن اور اس کی بیوی ملنے کے لئے آئے.مسجد مبارک کے نیچے ایک کمرہ ہوتا تھا جس میں انہیں بٹھایا گیا.اُن دنوں پروفیسر علی احمد صاحب مرحوم جو میری لڑکی امتہ الرشید کے خسر تھے بہار سے آئے ہوئے تھے.اُس زمانے میں قادیان میں انگریزی جاننے والے نہیں ملتے تھے.اتفاق سے اُس دن مولوی محمد علی صاحب مرحوم بھی باہر تھے.پروفیسر علی احمد صاحب نے بتایا کہ میں انگریزی جانتا ہوں میں ترجمان کا کام کرلوں گا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو اپنے پاس بٹھا لیا اور آپ ترجمانی کا کام کرتے رہے.اُس امریکن نے سوال کیا کہ کیا آپ نے مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جواب دیا ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ میں نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے.اس امریکن نے کہا پھر پہلا مسیح تو معجزے دکھایا کرتا تھا آپ نے کیا معجزہ دکھایا ہے؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میرے ہاتھ پر اب تک کئی معجزات ظاہر ہو چکے ہیں اور اس وقت بھی میں ایک معجزہ پیش کرتا ہوں اور وہ آپ اور آپ کی بیوی ہیں.اس امریکن نے کہا ہم دونوں کیسے معجزہ ہو سکتے ہیں ہم تو عیسائی ہیں اسلام کو ماننے والے نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا آپ

Page 292

انوار العلوم جلد 26 240 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ میری فلاں کتاب لے جائیں اور کسی سے پڑھا کر دیکھیں اس میں ایک الہام چھپا ہوا ہے کہ يَأْتِيْكَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ يَأْتُوْنَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ 10 یعنی دنیا کے ہر گوشہ سے لوگ تیری زیارت کے لئے آئیں گے.اب امریکہ بھی دنیا کا ایک گوشہ ہے جہاں سے آپ دونوں آئے ہیں.آپ کو یہاں قادیان میں کیا دلچسپی تھی ؟ اگر آپ کو محض سیر کے لئے کسی شہر میں جانا ہوتا تو آپ بمبئی ، کلکتہ وغیرہ بڑے شہروں میں جاسکتے تھے لیکن آپ یہاں آئے اور صرف میری ملاقات کی نیت سے یہاں آئے اور اس الہام میں یہی بتایا گیا تھا کہ دنیا کے چاروں گوشوں سے لوگ کثرت سے یہاں آئیں گے کہ رستے ٹوٹ جائیں گے اور ان میں گڑھے پڑ جائیں گے.آپ نے یہاں آتے ہوئے دیکھا ہوگا کہ بٹالہ سے قادیان تک کا رستہ کتنا خراب ہے.اور یہ خبر مجھے اللہ تعالیٰ نے چالیس سال پہلے دے دی تھی.اب اگر تم دونوں امریکہ سے یہاں میری ملاقات کیلئے آئے ہو تو تم دونوں ایک معجزہ ہو.یہی حال تمہارا ہے تم میں سے ہر عورت کہ سکتی ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے.ایک زمانہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے رشتہ دار بھی آپ کے مخالف تھے لیکن اب دنیا کے کناروں تک آپ کا نام پھیل چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں یہ علاقہ جس میں ہمارا مرکز ہے اس میں کوئی احمدی نہیں تھا.آپ کی وفات کے قریب عرصہ میں یہاں صرف ایک احمدی تھا.لیکن اب ضلع جھنگ میں ہزاروں احمدی موجود ہیں.1952 میں جبکہ ہم ہجرت کر کے یہاں آگئے تھے اس علاقے کے صرف پانچ ، چھ احمدی تھے لیکن اب دو تین ہزار احمدی ہو چکا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت میں داخل ہونے والے ایسے آسودہ حال لوگ ہیں کہ حیرت آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس طرح ان مال داروں کو احمدیت کی طرف ہدایت دے دی.ملاقات کے وقت ہر شخص جو اس علاقہ کا آتا ہے اُس سے دریافت کیا جائے کہ تمہاری کتنی زمین ہے؟ تو وہ کہتا ہے 10 مربعے یا 20 مربعے یا 40 مربعے.اور اس وقت مربع کی قیمت پچاس، ساٹھ ہزار روپیہ ہے.بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کے پاس

Page 293

انوار العلوم جلد 26 241 ہر احمد می عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زن آٹھ مربعے سے کم زمین ہوتی ہے.اگر ٹوٹل کیا جائے تو میرے خیال میں یہاں ایک ہزار مربع جماعت کا ہو گیا ہے.گو یا پانچ کروڑ کی جائیدا دصرف اس ضلع میں پیدا ہوگئی ہے اور یہ انقلاب ایک تھوڑے سے عرصہ میں ہوا ہے.صرف تین سال کی بات ہے کہ جب یہ انقلاب ہوا.اب دیکھ لو یہ معجزہ ہے یا نہیں ؟ پہلے اس علاقہ میں جس میں احمدی ہیں ایک پیر منورالدین صاحب تھے وہ قادیان بھی گئے تھے.واپس آکر انہوں نے اپنے مریدوں کو کہنا شروع کیا کہ مرزا صاحب کی بات سچی معلوم ہوتی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام یقیناً وفات پاگئے ہیں.مگر جب اُن کے مرید جماعت میں داخل ہونے لگے تو انہیں ہماری جماعت سے بغض پیدا ہو گیا کیونکہ ہماری وجہ سے ان کی آمدن کم ہوگئی.کجا تو ان کی یہ حالت تھی کہ اس علاقہ میں ان کی بڑی عزت اور قدر کی جاتی تھی اور کجا یہ کہ جب ان کے تمام مرید احمدی ہو گئے تو انہیں رہنے کے لئے کوئی جگہ نہیں مل رہی تھی.آخر ایک دوست صالح محمد صاحب نے انہیں اپنے بنگلہ میں ٹھہرایا اور پھر وہ اپنے وطن واپس چلے گئے.غرض اللہ تعالیٰ احمدیت کی تائید میں ہمیشہ نشانات دکھاتا چلا آیا ہے.مگر ان نشانات سے فائدہ وہی لوگ اٹھاتے ہیں جو تعصب کو پنے دل سے دور کر دیتے ہیں اور خدا اور اس کے رسول کو ہر بات پر مقدم رکھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک دوست تھے جن کا نام میاں نظام الدین تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی تعلق رکھتے تھے اور مولوی محمد حسین بٹالوی سے بھی ان کے دوستانہ تعلقات تھے انہیں حج کرنے کا بہت شوق تھا اور کئی حج انہوں نے کئے ہوئے تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی کیا تو اُن دنوں بھی وہ حج پر گئے ہوئے تھے.اُن کا ایک لطیفہ مجھے خوب یاد ہے.انہیں چائے پینے کی بہت عادت تھی.ایک دفعہ ایک دوست نے اُن سے سوال کیا کہ میاں صاحب! آپ کو چائے پینے کی بہت عادت ہے آپ حج کے لئے بھی جاتے ہیں تو کیا کرتے ہیں وہاں تو چائے نہیں ملتی.انہوں نے جواب دیا چائے میں ہوتا کیا ہے.صرف گرم پانی اور پتی.گرم پانی وہاں اکثر مل جاتا ہے باقی پتی ہی رہتی ہے سو وہ میں ساتھ رکھتا ہوں.پہلے پتی پھانک لیتا

Page 294

انوار العلوم جلد 26 242 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زن ہوں اور اوپر سے گرم پانی پی لیتا ہوں اس طرح چائے کی عادت پوری ہو جاتی ہے.بہر حال میاں نظام الدین صاحب جب حج سے واپس آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ مولوی محمد حسین صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی جھگڑا ہو گیا ہے.وہ فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ کیا آپ کا مولوی محمد حسین صاحب سے کوئی جھگڑا ہو گیا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کوئی دنیوی جھگڑا تو نہیں ہاں انہوں نے ایک سچی بات کا انکار کر دیا ہے.وہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر بیٹھے ہیں اور ہم لکھتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے ہیں اس بات پر آپس میں اختلاف پیدا ہو گیا ہے.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اگر قرآن کریم سے ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں تو کیا پھر بھی آپ یہی عقیدہ رکھیں گے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہم قرآن کریم کے خلاف کوئی بات کس طرح کہہ سکتے ہیں.اگر قرآن کریم سے یہ ثابت ہو جائے کہ حضرت مسیح علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں تو ہم اپنے عقیدہ کو چھوڑنے کیلئے تیار ہیں.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے میں پہلے ہی کہتا تھا کہ مرزا صاحب قرآن کریم کے خلاف کوئی بات نہیں کہہ سکتے ضرور کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے.اچھا! اگر میں پچاس آیات ایسی لے آؤں جن سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ثابت ہوتی ہو تو کیا آپ مان لیں گے؟ آپ نے فرمایا میاں نظام الدین ! قرآن کریم تو خدا تعالیٰ کی کتاب ہے اور اس کا ہر لفظ قابل عمل ہے پچاس آیات کا کیا سوال ہے اگر آپ ایک آیت بھی ایسی لے آئیں تو میں مان لوں گا.اس پر وہ کہنے لگے اچھا! میں چھپیں آیات تو ضرور لے آؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر فرمایا کہ میاں صاحب! میں تو ایک آیت بھی مان لوں گا کیونکہ قرآن کریم کی ایک آیت کا انکار کرنے والا بھی کافر ہے.یہ کہہ کر وہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے پاس گئے.وہ اُن دنوں لاہور میں چینیوں والی مسجد میں رہتے تھے وہاں چالیس پچاس اور آدمی بیٹھے تھے.اُن دنوں حضرت خلیفہ المسیح الاول ایک ماہ کی رخصت پر جموں سے لاہور تشریف لائے ہوئے تھے اور وہاں اُن کی مولوی محمد حسین بٹالوی سے بحث جاری تھی.مولوی محمد حسین صاحب کہتے تھے کہ وفات مسیح کے مسئلہ پر حدیث سے بحث

Page 295

انوار العلوم جلد 26 243 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک ہونی چاہئے اور حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے قرآن کریم سے بحث ہونی چاہئے.آخر بہت دنوں کی بحث کے بعد حضرت خلیفہ اول نے اتنامان لیا اچھا بخاری بھی پیش کی جاسکتی ہے.مولوی محمد حسین صاحب میں مبالغہ کرنے کی عادت تھی وہ بڑے فخر سے اپنے آدمیوں میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے کہ میں نے نورالدین کو یوں رگیدا اور اس طرح پچھاڑا اور آخر اُس سے منوالیا کہ حدیث بھی پیش کی جاسکتی ہے.اتنے میں مولوی نظام الدین صاحب وہاں پہنچ گئے.انہوں نے کہا مولوی صاحب ! ان باتوں کو چھوڑئیے میں نے مرزا صاحب کو قابو کر لیا ہے اور اُن سے یہ اقرار لے لیا ہے کہ اگر میں قرآن کریم کی دس آیات ایسی پیش کر دوں جن سے حیات مسیح ثابت ہوتی ہو تو وہ وفات مسیح کے عقیدہ سے تو بہ کر لیں گے.اس لئے آپ جلدی سے مجھے دس آیات لکھ دیں پھر میں مرزا صاحب کو شاہی مسجد میں لا کر اُن سے تو بہ کراؤں گا.مولوی محمد حسین صاحب جو بڑے فخر سے یہ بات بیان کر رہے تھے کہ میں نے مولوی نورالدین کو یوں رگیدا اور یوں پچھاڑا اور آخر اسے حدیث کی طرف لے آیا یہ سنتے ہی سخت برہم ہو گئے اور کہنے لگے تجھے کس جاہل نے کہا تھا کہ اس مسئلہ میں دخل دیتا.میں اتنے دنوں کی بحث کے بعد مولوی نورالدین کو بڑی مشکل سے بخاری کی طرف لایا تھا.اب تو اس بحث کو پھر قرآن کریم کی طرف لے گیا ہے.وہ جوش میں یہ فقرہ کہنے لگے مگر جب میاں نظام الدین صاحب نے یہ بات سنی تو ان پر سکتہ کی سی کیفیت طاری ہوگئی.وہ تھوڑی دیر بالکل خاموش کھڑے رہے اور پھر کہنے لگے اچھا مولوی صاحب! پھر جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں.اور یہ کہہ کر وہ واپس آگئے.اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.جس طرح میاں نظام الدین صاحب نے یہ کہا تھا کہ جدھر قرآن ہے اُدھر ہی میں ہوں.اس طرح تمہیں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے یہ موقع دیا ہے کہ تم کہہ سکو کہ جدھر قرآن ہے اُدھر ہی ہم ہیں.احادیث بے شک کچی ہیں لیکن قرآن کریم کے مقابلہ میں ان کا مرتبہ کم ہے.قرآن کریم خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کی سچائی پر ہم قسم بھی کھا سکتے ہیں لیکن کسی حدیث کے متعلق ہم قسم کھا کر نہیں کہہ سکتے کہ وہ ضرور کی ہے.

Page 296

انوار العلوم جلد 26 244 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک ز دیکھو! بعض اوقات ذراسی عقل سے کام لینے سے کام بن جاتا ہے.جب ام طاہر بیمار تھیں اور لاہور میں زیر علاج تھیں تو ہم شیخ بشیر احمد صاحب کے مکان پر ٹھہرے ہوئے تھے.اُن دنوں ایک مولوی صاحب رات کے وقت میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ کی جماعت بہت تھوڑی ہے.زیادہ سے زیادہ اس کی تعداد دس لاکھ ہو گی لیکن دوسرے مسلمان تو کروڑوں کی تعداد میں ہیں اگر آپ دوسرے مسلمانوں سے مل کر کام کرتے تو کام زیادہ ہوتا.میں نے کہا آپ رات کے وقت میرے پاس آئے ہیں.میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں کہ آپ نے یہ تکلیف کیوں اٹھائی ہے کیونکہ جہاں تک تعداد کا سوال ہے ہم خود تسلیم کرتے ہیں کہ مسلمان کروڑوں کی تعداد میں ہیں لیکن اس کے باوجود اگر آپ کے دل میں یہ احساس پیدا ہوا ہے کہ احمدی آپ کے ساتھ ملیں تو اس لئے کہ احمدی کام کرنے والے ہیں.اگر دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مل جائیں تو شاید زیادہ کام ہو سکے.لیکن آپ نے کبھی یہ سوچا بھی ہے کہ یہ لوگ جو کام کرنے والے ہیں کہاں سے آئے ہیں؟ یہ آپ لوگوں سے ہی نکل کر آئے ہیں مگر احمدی جماعت میں داخل ہوتے ہی کام کرنے والے وجود بن گئے ہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب میں کوئی ایسی تاثیر ہے کہ جو شخص اس جماعت کے ساتھ مل جاتا ہے وہ کام کرنے لگ جاتا ہے اور آپ لوگوں سے جو شخص ملتا ہے وہ ناکارہ ہو جاتا ہے.آپ اس جماعت سے چھ ہزار گنا زیادہ ہیں مگر پھر بھی آپ لوگ وہ کام نہیں کر رہے جو یہ جماعت کر رہی ہے.اگر آپ سوچتے تو در حقیقت آپ کو مجھ سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ آپ اپنی جماعت کو تاکید کر دیں کہ وہ ہمارے ساتھ نہ ملیں ورنہ وہ بھی ویسے ہی ست اور ناکارہ ہو جائیں گے جیسے عام مسلمان سست ہیں اور اسلام کی اشاعت کا کام رک جائے گا.اس پر مولوی صاحب کہنے لگے یہ درست ہے میرا فرض یہی تھا کہ میں آپ سے کہتا کہ آپ نے علیحدہ جماعت قائم کر کے مسلمانوں پر بڑا احسان کیا ہے ورنہ اگر یہ بھی ہمارے ساتھ ملے رہتے تو ان کے اندر وہی بے حسی رہتی جو ہم میں پائی جاتی ہے.اب دیکھو یہ ایک غیر احمدی کی اپنی شہادت ہے اور تم اس شہادت کا نمونہ ہر جگہ

Page 297

انوار العلوم جلد 26 245 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زندہ پیش کر سکتی ہو.اخباروں میں عموما چھپتا رہتا ہے کہ ہماری مساجد کہاں کہاں ہیں.اس وقت ساری دنیا میں مسلمانوں کی تعداد کا اندازہ ایک ارب کے قریب ہے لیکن تم جو پاکستان میں چھ ہزار میں سے ایک ہو اور دنیا کے لحاظ سے چھ لاکھ میں سے ایک ہو تم نے ہالینڈ میں ایک شاندار مسجد بنائی ہے.اس مسجد کی تصویر میں تم اپنے پاس رکھو بلکہ مرکز کو چاہیے کہ وہ ان تصاویر کو عورتوں میں پھیلائیں اور پھر یہ تصویر میں تم دوسرے مسلمانوں کے سامنے پیش کر کے کہو کہ تم 1953ء میں ہمیں مارنے کیلئے آتے تھے لیکن تمہیں کسی غیر ملک میں مسجد بنانے کی توفیق نہیں ملی اگر ملی ہے تو اسی جماعت کی عورتوں کو ملی ہے جسے تم کافر اور گمراہ کہتے ہو.حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے لئے دنیا میں گھر بناتا ہے اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جنت میں گھر بناتا ہے.11 ہم نے ہیگ میں مسجد بنالی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق ہمارے متعلق آپ کی شہادت موجود ہے کہ جنت میں اپنا گھر ہوگا لیکن تمہارے پاس اس کی کونسی شہادت ہے کہ تمہارا جنت میں گھر ہو گا.تمہارے سامنے چھ سو سال تک یورپ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں ، اس نے اسلام کے خلاف کتابیں لکھیں اور تمہارے بیٹوں کو پڑھا ئیں اور انہیں ملحد بنایا لیکن تمہیں اس بات کی توفیق نہ ملی کہ تم یورپ میں خدائے واحد کا نام بلند کرتے اور اس کی عبادت کیلئے مسجدیں بناتے.مگر ہم نے تمہاری اولادوں کو صحیح معنوں میں مسلمان بنایا اور پھر انہیں دینی تعلیم دلائی اور انہیں اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی.اور پھر ہم نے انہیں یورپ بھیج دیا اور انہوں نے وہاں مساجد بنانی شروع کر دیں.کسی نے ہیگ میں مسجد بنائی تو کسی نے لندن میں خدا تعالیٰ کے گھر کی بنیاد رکھی ہے.اس کے بعد کوئی ہنوور میں مسجد بنائے گا تو کوئی فرینکفورٹ میں بنائے گا.اور اسی طرح ہر ملک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مساجد بنتی چلی جائیں گی.غرض ہمارے ذریعہ سے اسلام کا بول بالا ہوگا.ہمارے ذریعہ سے غیر ممالک میں مساجد بنیں گی اور ہمارے ذریعہ سے خدائے واحد کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلے گا.لیکن مسلمانوں سے کچھ بھی نہیں ہو سکا.ان سے تو مغلیہ سلطنت کا آخری تاجدار ظفر ہی اچھا رہا جس نے یہ شعر کہا

Page 298

انوار العلوم جلد 26 246 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زند الہی خانہ انگریز گرجاء یہ گر جاء گھر یہ گر جاء گھر یہ گر جاء وہ سخت کمزور اور نا طاقت تھا اور انگریزوں کی قید میں تھا اور اُن سے وظیفہ لے کر گزارہ کرتا تھا لیکن ایک شعر میں اُس نے چار دفعہ یہ دعا کی کہ الہی ! خانہ انگریز گر جائے.گو اس نے ہوشیاری یہ کی کہ الفاظ ایسے رکھے کہ جن سے انسان کا ذہن دوسری طرف بھی منتقل ہوسکتا ہے.اس نے سوچا اگر کوئی انگریز پوچھے گا تو میں کہ دوں گا کہ میں نے تو یہ کہا ہے کہ الہی خانہ انگریز گرجا یہ گرجا گھر یہ گرجا گھر یہ گرجا لیکن اصل میں اُس کا منشاء یہ تھا کہ الہی ! خانہ انگریز گر جائے.الہی ! یہ گھر گر جائے یہ گھر گر جائے یہ گھر گر جائے.اس سے پتا لگتا ہے کہ اُس کے دل میں کتنی زبر دست خواہش تھی کہ عیسائیوں کے گرجے گر جائیں اور مسلمان ترقی کریں اور اس طرح خدائے واحد کا نام تمام دنیا میں پھیل جائے.لیکن مسلمانوں میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ وہ عیسائیت کا گھر گرانے کیلئے کوئی عملی قدم اٹھائیں اور کفر و شرک سے بھرے ہوئے ممالک میں خدا تعالیٰ کا گھر بنانے کے لئے جد و جہد کریں.صرف ہماری جماعت ہی ہے جو یہ کام کر رہی ہے.اور یہی اس بات کا ثبوت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں سچے راستہ پر قائم کیا ہوا ہے.“ (الفضل 17 اکتوبر 1957ء) 1: الكوثر : 2 تا 4 2 السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 198 مطبوعہ بیروت 2012ء 3 تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 198 ، 199 مطبوعہ بیروت 2009ء :4 الاستيعاب في معرفة الاصْحَاب جلد 3 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت 1995ء 5: السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 198 مطبوعہ بیروت 2012ء :6 السيرة الحلبية جلد 2 صفحه 53 54 مطبوعہ بیروت 2012ء

Page 299

انوار العلوم جلد 26 247 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت کا ایک زند : السيرة الحلبية جلد 2 صفحه 63 مطبوعہ بیروت 2012ء آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 630،629 9 بخاری کتاب احاديث الانبياء باب نزول عِيسَى ابْنِ مَرْيَم حديث نمبر 3448 صفحہ 581 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 10: تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم 2004 ء :11 بخارى كتاب الصلوة باب مَنْ بَنى مَسْجِدًا حدیث نمبر 450 صفحه 78 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء

Page 300

Page 301

انوار العلوم جلد 26 249 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب ( 26 اکتوبر 1957ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 302

انوار العلوم جلد 26 250 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..

Page 303

انوار العلوم جلد 26 251 مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب (فرموده 26 اکتوبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی :.وَالتُّزِعَتِ غَرْقًا وَ النَّشِطَتِ نَشْطًا وَ التَّبِحُتِ سَبْحًا فَالسَّبِقْتِ سَبْعًا فَالْمُدَبِّرَاتِ أَمْرًا يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاحِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ قُلُوبٌ يَوْمَدٍ وَاجِفَةٌ أَبْصَارُهَا خَاشِعَةٌ 1 اس کے بعد فرمایا :.یہ آیات جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ہم اب تک ان کے صرف ایک ہی مفہوم پر زور دیتے رہے ہیں حالانکہ ان کے اندر بعض اور مضامین بھی پائے جاتے ہیں.گزشتہ مفسرین تو ان آیات کے یہ معنے کرتے رہے ہیں کہ اس جگہ فرشتوں کا ذکر ہے کیونکہ فرشتہ کے لئے مؤنث کا صیغہ استعمال کرتے ہیں اور یہاں چونکہ سارے صیغے مؤنث کے استعمال کئے گئے ہیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں فرشتوں کا ذکر ہے.لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ آیات فرشتوں پر چسپاں ہی نہیں ہوسکتیں.اس لئے کہ وَالتَّرْعَتِ غَرُقًا ان میں ہے ہی نہیں.غرقًا کے معنے اگر جسمانی غرق کے سمجھیں تو فرشتے کون سے تالاب میں غوطہ مارا کرتے ہیں.اور اگر اس کے معنے روحانی سمجھیں تو غَرْقًا کے یہ معنے ہوں گے کہ وہ

Page 304

انوار العلوم جلد 26 252 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..علوم میں محو ہو کر نئے نئے نکتے نکالتے ہیں اور فرشتوں کے متعلق تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انہیں جن باتوں کا علم دیا جانا ضروری تھا اُس کا انہیں شروع سے علم دے دیا گیا ہے.اور جنہیں شروع سے علم دے دیا گیا ہو انہوں نے محو کیا ہونا ہے انہیں تو محو ہونے کے بغیر ہی علم مل چکا ہے.چنانچہ حضرت آدم علیہ السلام کے واقعہ میں خود فرشتے کہتے ہیں کہ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا آپ نے ہمیں سکھایا ہے 2 اور جو اُتنا ہی جانتے ہیں جتنا انہیں خدا تعالیٰ نے سکھایا ہے انہیں فقہ اور دوسرے مسائل اور علوم میں غرق ہو کر نئے نئے نکتے نکالنے کی کیا ضرورت ہے.انہیں تو خود خدا تعالیٰ نے سب کچھ سکھا دیا ہے.پس یہ آیات فرشتوں پر صادق آہی نہیں سکتیں.ہمارے نزدیک اس جگہ صحابہ کی جماعت کا ذکر ہے اور چونکہ جماعت کے لئے بھی مؤنث کا صیغہ استعمال کیا جاتا ہے.اس لئے وَالنُّزِعَتِ غَرْقًا کے معنے یہ ہوئے کہ ہم شہادت کے طور پر صحابہ کی اُن جماعتوں کو پیش کرتے ہیں جو اسلام کی تعلیم میں محو ہو کر وہ وہ مسائل نکالتی ہیں جو اسلام کی سچائی کو روزِ روشن کی طرح ثابت کر دیتے ہیں.مگر چند دن ہوئے مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا ہے کہ ان آیات کے تیسرے معنی یہ ہیں کہ ہم اُن عورتوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو وَالنُّزِعَتِ غَرْقًا کی مصداق ہیں اور اسلام کی تعلیم پر غور کر کے ان سے نئے نئے نکتے نکالتی ہیں اور اسلام کی تعلیم میں انہاک پیدا کرتی ہیں.اس لئے کہ اسلام نے ان پر رحم کیا ہے اور اسلام ہی وہ مذہب ہے جس میں عورتوں کے حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے.اور بتایا گیا ہے کہ عورت کے ماں ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں.بیٹی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں.بیوی ہونے کے لحاظ سے کیا حقوق ہیں.ترکہ میں اس کے کیا حقوق ہیں اور اس طرح تمدنی زندگی میں اس کے کیا حقوق ہیں.اسی وجہ سے احمدیت میں شامل ہو کر عورتیں جس قدر قربانی اور ایثار سے کام لے رہی ہیں اس کی مثال اور کسی قوم میں نہیں ملتی.چنانچہ دیکھ لو مسجد ہیگ (ہالینڈ) صرف عورتوں نے بنائی ہے.اگر چہ ہیمبرگ (جرمنی) کی مسجد مردوں نے اپنے روپیہ سے بنائی ہے مگر اس کا پورا چندہ ابھی تک وہ ادا نہیں کر سکے لیکن ہیگ کی مسجد کا تمام چندہ عورتیں ادا کر چکی ہیں صرف اس کا تھوڑ اسا حصہ باقی ہے.

Page 305

انوار العلوم جلد 26 253 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..یہ قربانی صرف احمدی عورتوں میں پائی جاتی ہے.مسلمانوں کا اور کوئی فرقہ نہیں جس کی عورتیں اس طرح اشاعت اسلام کا کام کر رہی ہوں.اہل حدیث کو لے لو ، حنفیوں کو لے لو، حنبلیوں کو لے لو، مالکیوں کو لے لو.ان میں کہیں ایسی عورتیں نظر نہیں آتیں جو اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر اور اسلام کی محبت میں غرق ہو کر اس کی اشاعت کے لئے کوشش کر رہی ہوں.صرف احمدیوں میں ہی یہ بات نظر آتی ہے کہ ان کی عورتیں غیر ملکوں میں تبلیغ کے لئے چندے دیتی ہیں اور بعض دفعہ تو اتنی غریب عورتیں چندہ دیتی ہیں کہ ہمیں لیتے ہوئے بھی شرم آتی ہے.مجھے یاد ہے پچھلے سال میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک سنارلڑکا جو چنیوٹ میں رہتا ہے آیا اور اس نے سونے کے کڑے میرے ہاتھ میں لا کر رکھ دیئے اور کہا کہ میری ماں کہتی ہے کہ یہ کڑے میں نے کسی خاص مقصد کے لئے رکھے ہوئے تھے.اب میں چاہتی ہوں کہ آپ انہیں بیچ کر کسی دینی کام میں لگالیں.چنانچہ میں نے انہیں بیچ کر رقم مسجد ہیگ میں دے دی.میرا خیال ہے کہ وہ چار پانچ سو کے ہوں گے.یہ چیز ہے جوصرف احمدی عورتوں میں پائی جاتی ہے.اس کی مثال نہ حنفیوں میں پائی جاتی ہے ، نہ مالکیوں میں پائی جاتی ہے ، نہ حنبلیوں میں پائی جاتی ہے، نہ شافعیوں میں پائی جاتی ہے.اسی طرح روحانی فرقوں کو لے لو تو نہ چشتیوں میں پائی جاتی ہے، نہ سہر وردیوں میں پائی جاتی ہے اور نہ قادریوں میں پائی جاتی ہے صرف احمدیوں میں پائی جاتی ہے.غرض روحانی فرقوں کے لحاظ سے بھی احمدی عورتیں تمام روحانی فرقوں کی عورتوں پر فضیلت رکھتی ہیں اور دوسرے فرقوں کے لحاظ سے بھی جو فقہی اختلاف کی وجہ سے قائم ہوئے ہیں احمدی عورتیں سب سے مقدم ہیں.ہاں اگر غیروں کو لیا جائے تو ہم ان کے مقابلے میں ابھی کمزور ہیں یعنی عیسائیوں کی عورتوں نے عیسائیت کی خاطر بہت زیادہ قربانی کی ہے.بے شک ہماری عورتوں نے بھی قربانی کی ہے اور وہ تبلیغ کا کام کرتی ہیں مگر قربانی کے لحاظ سے ابھی وہ ان سے کم ہیں.مثلاً چین میں ایک دفعہ عیسائیوں کے خلاف بغاوت ہوئی.وہاں اُن دنوں

Page 306

انوار العلوم جلد 26 254 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..ایک عورت تبلیغ کا کام کر رہی تھی.چینیوں نے حملہ کر کے اُس عورت کو مار ڈالا اور اُس کے گوشت کے کباب کھائے.جب یہ خبر انگلستان پہنچی تو انگلستان میں اعلان کیا گیا کہ چین میں ہماری ایک عورت مبلغ تھی چینیوں نے اسے مار دیا ہے اور اُس کے گوشت کے کباب بنا کر کھائے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ اس کی جگہ کام کرنے کے لئے کوئی اور عورت اپنا نام پیش کرے.شام تک ہیں ہزار عورتوں کی طرف سے تار آ گئے کہ ہم وہاں جانے کے لئے تیار ہیں.ہمیں وہاں بھجوا دیا جائے.یہ نمونہ تو ہم میں ابھی نظر نہیں آتا بلکہ ہمیں شرم آتی ہے کہ اس کام میں عیسائی ہم پر فوقیت رکھتے ہیں شاید اس لئے کہ اُن کو انیس سو سال ہو گئے ہیں اور ہمیں ابھی اتنے سال نہیں ہوئے مگر بہر حال جوانی میں زیادہ جوش ہونا چاہیے.ہم امید کرتے ہیں کہ عنقریب ہماری عورتیں ان سے بھی زیادہ جوش دکھلائیں گی.بعض مثالیں بے شک ہماری جماعت میں اچھی ملتی ہیں مثلاً ایک دفعہ ایک غیر ملکی طالب علم یہاں آیا.اس نے کہا کہ میری شادی یہاں کرا دیں.میں نے کسی خطبہ یا مجلس میں ذکر کیا کہ اس طرح ایک غیر ملکی کی خواہش ہے تو ایک لڑکی آئی اور اُس نے کہا کہ میں تیار ہوں آپ میرا نکاح اس غیر ملکی سے کردیں.اس کے بعد اُس کی بہن آئی اور میری بیوی سے کہنے لگی کہ میری بہن تو منہ پھٹ ہے وہ خود آ کر کہہ گئی ہے لیکن میں نے ابھی تک اس کا اظہار نہیں کیا تھا حالانکہ میں تین چار سال سے اس بات کے لئے تیار ہوں کہ میری کسی غیر ملکی سے شادی کر کے مجھے باہر بھیج دیا جائے.آخر ان میں سے ایک بہن کی اُس سے شادی ہو گئی اور اب وہ دتی میں ہے.ابھی کل ہی اُس کے ہاں لڑکی پیدا ہونے کی خبر چھپی ہے.صالح الشبیبی ہمارے ایک غیر ملکی احمدی نوجوان ہیں.پچھلے سال ان سے اس کی شادی ہوئی اور اب ان کے ہاں دتی میں لڑکی پیدا ہوئی ہے.تو اس قسم کی مثالیں تو احمدیوں میں پائی جاتی ہیں.لیکن یہ زیادہ شاندار مثال ہے کہ ایک عورت ماری گئی اور اُس کے کباب کھائے گئے اور جب اخباروں میں اعلان کیا گیا کہ اُس کی جگہ لینے کے لئے اور عورتیں اپنے آپ کو پیش کریں تو شام تک ہیں ہزار عورتوں کی تاریں آگئیں کہ ہم وہاں جانے کے لئے تیار ہیں.بہر حال اس سے ملتی جلتی بعض کمزور مثالیں تو ہم میں پائی

Page 307

انوار العلوم جلد 26 255 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..جاتی ہیں لیکن زیادہ شاندار اور اچھی مثالیں اُن میں پائی جاتی ہیں.اسی طرح ہمارا ایک مبلغ افریقہ گیا تھا واپس آکر ایک لڑکی سے اُس نے شادی کرنی چاہی.اُس کی پہلے ایک شادی ویسٹ افریقہ میں ہو چکی تھی.اب ایک غیر ملکی مبلغ سے شادی کرنا جبکہ اُس کی ایک بیوی پہلے موجود ہو اور جبکہ اُس ملک میں اتنا رواج ہو کہ لوگ ڈیڑھ ڈیڑھ سو بیویاں کرتے ہوں بڑی قربانی چاہتا ہے مگر وہ لڑکی راضی ہوگئی.چنانچہ اب وہ افریقہ پہنچ چکی ہے.اس نے بڑی محبت سے اپنی سوکن کے بچوں کو یہاں پالا.وہ مبلغ افریقہ سے یہاں آیا تھا اور اپنی ایک پہلی بیوی کو بھی یہاں لایا تھا اور دو بچے بھی ساتھ تھے.وہ لڑکی اپنے خاوند کی پہلی بیوی کا بھی خیال رکھتی رہی اور اس کے بچوں کا بھی خیال رکھتی رہی.گوان میں سے ایک بچہ بعد میں بھاگ گیا.اب وہ میرے ایک بھتیجے کی بیوی کے ساتھ مل کر انگلستان کے رستہ سے اپنے خاوند کے پاس پہنچ گئی ہے.تو اس قسم کی مثالیں تو ہم میں موجود ہیں مگر اُس شان کی نہیں جس شان کی عیسائیوں میں پائی جاتی ہیں.مجھے چاہیے تھا کہ میں عورتوں کے جلسہ میں یہ تقریر کرتا مگر اتفاقاً مردوں کا جلسہ آ گیا اس لئے میں مردوں کے جلسہ میں یہ تقریر کرتے ہوئے انہیں نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی عورتوں کو سمجھاؤ اور انہیں کہو کہ تم کو بھی عیسائی عورتوں کی طرح قربانی پیش کرنی چاہیے.جیسا کہ میں نے مثال دی ہے کہ ایک عورت کو مار دیا گیا اور اس کے گوشت کے کباب بنا کر کھائے گئے مگر اُس کے قائم مقام کے لئے اعلان کیا گیا تو شام تک بیس ہزار عورتوں نے اپنا نام پیش کر دیا کہ وہ اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو سمجھائیں کہ تم بھی اپنے اندر اسی قسم کا اخلاص اور ایمان پیدا کرو.کل بیماری کی وجہ سے مجھ سے ایک غلطی ہوگئی اور وہ یہ کہ مجھے کل کے خطبہ جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کی مالی قربانیوں کا اعلان کرنا چاہیے تھا مگر اس کا اعلان کرنا بھول گیا سو آج میں نئے سال کے چندہ تحریک جدید کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ غیر ممالک میں اسلام کی اشاعت کا واحد ذریعہ ہمارے پاس تحریک جدید ہی ہے.میں نوجوانوں کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں اور اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے وقف کریں اور اپنے آپ کو دینی تعلیم حاصل کر کے اس قابل بنائیں کہ

Page 308

انوار العلوم جلد 26 256 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..انہیں غیر ملکوں میں بھیجا جا سکے.اور جماعت کو میں تحریک کرتا ہوں کہ اگر ہمارے مبلغ بڑھتے گئے اور مسجدیں بڑھتی گئیں تو ہمارا خرچ بھی بڑھتا چلا جائے گا.ایک مسجد پر دولاکھ روپیہ خرچ آتا ہے اور میری سکیم پچاس مسجد میں بنانے کی ہے.گویا ایک کروڑ روپیہ کی صرف غیر ملکی مساجد کے لئے ضرورت ہے.تم یہ نہ سمجھو کہ ہماری جماعت غریب ہے.میں نے ایک رؤیا دیکھی ہے جس سے خدا تعالیٰ نے مجھے تسلی دلائی ہے کہ یہ غربت عارضی ہے اور ایسے سامان پیدا ہونے والے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں جماعت کو خدا تعالیٰ بہت کچھ مال دے گا.میں نے خواب میں دیکھا کہ زمینداروں کا ایک بہت بڑا گر وہ ہے.وہ زمیندار ایسے ہیں جومر بعوں کے مالک ہیں.وہ راجہ علی محمد صاحب کے پاس آئے اور اُن سے انہوں نے مصافحہ کیا اور پھر ایک طرف چلے گئے.میں اُن کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ ساٹھ ہزار ہو جائیں گے اور ان میں سے ہر شخص سال میں ایک ایک سو روپیہ بھی مساجد کے لئے دے تو ساٹھ لاکھ روپیہ ہو جائے گا اور ساٹھ لاکھ سے ہیں مساجد بن سکتی ہیں.اس رویا سے میں نے سمجھ لیا کہ اب خدا تعالیٰ اپنے فضل سے زمینداروں میں ہماری جماعت پھیلانا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسے زمینداروں میں جو کم سے کم ایک سور و پیہ سالانہ مساجد کے لئے دے سکیں.مثلاً ہمارے ہاں مربعوں کے ٹھیکوں کی آمد تین تین چار چار ہزار روپیہ ہے اور زمینداروں کا خرچ بہت کم ہوتا ہے.اگر وہ خود کام کریں تو تین چار ہزار کی بجائے وہ چھ سات ہزار روپیہ کما سکتے ہیں اور اس میں سے ایک سو روپیہ مساجد کے لئے دینا کوئی بڑی بات نہیں.چنانچہ میں خواب میں کہتا ہوں کہ اب یہ لوگ ساٹھ ہزار ہو جائیں گے اور اگر ایک ایک سو روپیہ بھی یہ لوگ مساجد کے لئے دیں تو ساٹھ لاکھ ہو جائے گا.اس کے بعد یکدم وہ آدمی تو میری نظروں سے غائب ہو گئے لیکن جانوروں کا ایک جھنڈ اُڑتا ہوا میرے سر پر سے گزرا.وہ جانور موسمی معلوم ہوتے ہیں جیسے مرغابیاں ہوتی ہیں.یہ جانور ایک خاص ترتیب کے ساتھ چلتے ہیں میری نظر ان جانوروں پر پڑی اور میں نے کہا اللہ تعالیٰ بھی کیسی قدرتوں والا ہے اُس نے ایسے جانور پیدا کئے ہیں کہ وہ ہیں تو انسانوں سے ادنی مگر ان کی

Page 309

انوار العلوم جلد 26 257 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..تنظیم انسانوں سے اعلیٰ ہے.اگر کوئی ایسا ذریعہ نکلے کہ ہم انسانوں میں بھی ان مرغابیوں والی تنظیم پیدا کر سکیں تو دنیا کو فتح کرنا ہمارے لئے کتنا آسان ہو جائے.گویا اس خواب کے دو حصے تھے.پہلا حصہ زمینداروں والا تھا اور دوسرا حصہ جانوروں والا ہے.وہ مرغابیاں ہیں یا کوئی اور جانور ہیں میں نہیں جانتا مگر ہیں فصلی جانور.وہ اس ترتیب سے اڑتے جا رہے ہیں کہ ایک آگے ہے اور دوسرے پیچھے ہیں.یہ بات عام طور پر مگوں ، سرخابوں، کونجوں اور مرغابیوں میں پائی جاتی ہے.میں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ کیسا قادر خدا ہے کہ ہم تو آج پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ خصلت اور صفت ان میں آدم علیہ السلام کے زمانہ سے پائی جاتی ہے اور ابتدا سے اس نے جانوروں کے دماغ میں ایسا علم بھر دیا ہے کہ جس کے ماتحت وہ ہمیشہ ایک تنظیم کے ساتھ اُڑتے ہیں.اگر انسانوں کے اندر بھی ہم یہ تنظیم پیدا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو جماعت احمد یہ باوجود تھوڑے ہونے کے ساری دنیا پر غالب آ سکتی ہے.اس وقت بھی ہماری تنظیم ہی ہے جس کی وجہ سے گو ہماری جماعت بالکل غریب ہے مگر پھر بھی اس کا سالانہ چندہ تحریک جدید اور صدر انجمن احمدیہ کو ملا کر پچھلے سال پچاس لاکھ کے قریب تھا اور ہمیں امید ہے کہ یہ چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتا چلا جائے گا.تھوڑے عرصہ میں ہی تحریک جدید اور صدرانجمن احمد یہ کا سالانہ چندہ پینسٹھ لاکھ روپیہ ہو جائے گا.میں تو اپنے ذہن میں یہ سوچا کرتا ہوں کہ اگر ہماری جماعت کا سالانہ چندہ تین کروڑ ہو جائے تو ہم پاکستان کے گوشہ گوشہ میں اپنے مبلغ پھیلا سکتے ہیں کیونکہ تین کروڑ سے پچیس لاکھ روپیہ ماہوار بنتا ہے.اور پچیس لاکھ روپیہ ماہوار کے معنے یہ ہیں کہ اگر ہر مبلغ کی ماہوار تنخواہ ایک سو روپیہ بھی ہو تو ہم چھپیس ہزار مبلغ رکھ سکتے ہیں اور چھپیں ہزار مبلغ پاکستان کے گوشہ گوشہ میں پھیلایا جا سکتا ہے.غرض آج میں تحریک جدید کے نئے سال کے لئے جماعت سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کرتا ہوں.اب الفضل اور تحریک جدید کے کارکنوں کا فرض ہے کہ وہ اس اعلان کو بار بار پھیلائیں اور اس کی اشاعت کریں.ہر دوست کو چاہیے کہ وہ کوشش کرے کہ پچھلے سال اُس نے جو کچھ چندہ دیا تھا اس سال اس سے کچھ نہ کچھ بڑھا کر دے.پچھلے سالوں

Page 310

انوار العلوم جلد 26 258 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..میں چونکہ چندے تھوڑے تھے میں نے زیادہ تختی کی تھی اور کہا تھا کہ ہر شخص اپنے گزشتہ سال کے چندہ سے ڈیوڑھا دے.مگر اب میں اس قید کو ہٹاتا ہوں کیونکہ لوگوں نے خود اپنی مرضی سے چندوں کو زیادہ کر دیا ہے.اب میں یہ کہتا ہوں کہ کوئی شخص اپنے پچھلے سال کے چندہ سے کم نہ دے اور اگر زیادہ دے سکے مثلاً دس فیصدی زیادہ دے سکے یا پندرہ فیصدی زیادہ دے سکے یا بیس فیصدی زیادہ دے سکے تو یہ اُس کی مرضی ہے اور اُس کا یہ فعل اسے مزید ثواب کا مستحق بنا دے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ ہی خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرتا ہے 3 کیونکہ نفل انسان اپنی مرضی سے ادا کرتا ہے اور فرض حکم کے ماتحت ادا کرتا ہے.ابھی ہماری شوری کے آنے میں جب نئے سال کا بجٹ تیار ہوتا ہے پانچ ماہ باقی ہیں.پانچ ماہ تک یہ چندہ جمع کرتے چلے جائیں اور اس کی تحریک دوستوں کو بار بار کریں تا کہ پانچ ماہ کے بعد اس سال کا چندہ پچھلے سال کے چندہ سے بھی زیادہ ہو جائے اور ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے یورپ میں مساجد بنا سکیں اور افریقہ اور انڈونیشیا وغیرہ میں بھی اپنے مبلغ بڑھا سکیں.یہی ذریعہ ہماری کامیابی کا ہے.اس وقت غیر فرقوں پر اگر ہمیں کوئی فضیلت حاصل ہے تو یہی ہے کہ ہمارے مبلغ غیر ملکوں میں پائے جاتے ہیں اور اُن کے نہیں پائے جاتے.اس کا اتنا اثر ہے کہ پرسوں مجھے کو یت سے ایک جرمن کا خط ملا اُس نے لکھا ہے کہ میں دیر سے اسلام کی طرف مائل ہوں لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ میں اسلام کی تعلیم کہاں سے حاصل کروں.یہاں ایک موسیٰ نامی شخص ہیں.(موسیٰ کوئی غیر احمدی ہیں غالباً بمبئی کی طرف کے ہیں کیونکہ اس علاقہ میں ایسے نام رکھے جاتے ہیں ) اُن کو پتا لگا کہ مجھے اسلام کی طرف رغبت ہے تو انہوں نے کہا اگر تو اسلام سیکھنا چاہتا ہے تو ربوہ چلا جا اور تو کہیں نہیں سیکھ سکتا.پس میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لئے کوئی انتظام کریں.مجھ سے موسیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ خرچ میں دوں گا.میں نے اُسے لکھا ہے کہ خرچ کا سوال نہیں.ہمیں صرف یہ ضرورت ہے کہ تم اپنی طبیعت کو کم خرچ کرنے کی عادت ڈالو کیونکہ وہی مبلغ کامیاب ہو سکتا ہے جسے کم خرچ کرنے کی عادت ہو.مسٹر گنزے یہاں سے تعلیم حاصل کر کے گئے

Page 311

انوار العلوم جلد 26 259 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..ہیں اور اب وہ شکاگو (امریکہ ) میں ہمارے مبلغ ہیں.ان کو ہم جو گزارہ دیتے تھے تم بھی اگر آؤ تو وہی وظیفہ ہم تمہیں دے دیں گے.اپنے لڑکوں کو ہم چالیس روپے دیتے ہیں اور دوسروں کو ساٹھ.اسی طریق کے مطابق اگر تم گزارہ کر سکو تو یہاں آ جاؤ.تعلیم حاصل کر کے چلے جانا اور اپنے ملک میں تبلیغ کرنا.ہمیں موسی کے روپیہ کی ضرورت نہیں ہم خود تم کو وظیفہ دینے کے لئے تیار ہیں.لیکن اگر تم یہ کہو کہ میرا چھ ہزار روپیہ میں گزارہ ہوتا ہے تو اس کی ہمیں توفیق نہیں کیونکہ ہم نے تو باہر سے کئی لوگوں کو بلوا کر انہیں تعلیم دلانی ہے.اگر ہم پچاس آدمی بھی منگوائیں اور چھ ہزار روپیہ ماہوار ہر ایک کا خرچ دیں تو تین لاکھ روپیہ بن جاتا ہے اور اس کی ہمیں توفیق نہیں.ابھی اُس کا جواب تو نہیں آیا لیکن اگر وہ یہاں آ گیا اور پھر جرمنی سے بھی ایک پادری آرہا ہے تو یہ دو ہو جائیں گے.پھر ایک اور نوجوان آسٹریلیا کا ہے.اسے کچھ عربی بھی آتی ہے.وہ بچپن میں تیونس چلا گیا تھا اور مدت تک وہیں رہا کوئی پندرہ ہیں سال وہاں رہ کر آسٹریلیا واپس آیا ہے.اس نے بھی لکھا ہے کہ میں اپنے آپ کو وقف کرنا چاہتا ہوں.اگر وہ بھی آ گیا تو تین بن جائیں گے.پھر ایک شخص فلپائن سے آ رہا ہے وہاں کی گورنمنٹ اس کے رستہ میں روکیں ڈال رہی ہے اس لئے وہ ابھی تک نہیں آسکا لیکن اگر وہ آ گیا تو چار ہو جائیں گے.نیو یارک سے اطلاع آئی ہے کہ ایک حبشی جو پہلے پادری تھا وہ بھی آنا چاہتا ہے اگر وہ آ گیا تو پانچ ہو جائیں گے.غرض اس وقت تک ہمارے پاس قریباً دس ممالک کے لوگوں کی درخواستیں پڑی ہوئی ہیں کہ ہم یہاں آنا چاہتے ہیں بلکہ اب تو بھارت بھی غیر ملک ہی ہے.بھارت سے بھی درخواستیں آتی رہتی ہیں.تھوڑے دن ہوئے ایک سکھ کی چٹھی آئی تھی کہ میں دین سیکھنا چاہتا ہوں اس کا انتظام کر دیں.غرض اللہ تعالیٰ دنیا میں چاروں طرف اسلام کی اشاعت کے لئے رستے کھول رہا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ ہماری جماعت قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے ہی آگے اپنا قدم بڑھاتی چلی جائے تا کہ ہر جگہ اسلام کو کامیابی کے ساتھ پھیلا یا جا سکے.بے شک دنیا ہماری مخالف ہے مگر کامیابی الہی سلسلہ کے لئے ہی مقدر ہوتی

Page 312

انوار العلوم جلد 26 260 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..مخالفانہ تدبیریں سب خاک میں مل جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی تدبیر دنیا میں غالب آ کر رہتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ ۖ وَاللهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ 4 کہ انسانوں نے بھی اسلام کو شکست دینے کی بڑی تدبیریں کیں اور ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے بھی اسلام کو فتح دینے کی تدبیریں کیں لیکن وَاللهُ خَيْرٌ الْمُكِرِينَ اللہ تعالیٰ کو بڑی تدبیریں کرنی آتی ہیں.اور آخر اللہ تعالیٰ کی تدبیریں ہی جیتی ہیں.دیکھ لو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دشمن نے کتنی تدابیر کیں لیکن بالآخر اسلام فاتح ہوا، مکہ فتح ہو گیا، سارا عرب فتح ہو گیا اور کفار کی تدابیر کسی کام نہ آئیں کیونکہ وہ انسانی تدبیریں تھیں.بے شک کفار نے مسلمانوں پر بیسیوں حملے کئے.مدینہ کے دائیں بھی اور اُس کے بائیں بھی.خود مدینہ پر بھی اور اُن مسلمانوں پر بھی جو مدینہ کے رستہ میں آباد ہو گئے تھے.مگر کفار کی ساری کوششیں بے کار ہوگئیں اور آخر حضرت عثمان کے زمانہ میں کسریٰ اور قیصر دونوں کی حکومتیں ٹوٹ کر چورچور ہو گئیں.پھر ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں اسلامی جرنیل طارق نے سپین کو فتح کیا اور یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے زیادہ دُور کی بات نہیں بلکہ اُس وقت ابھی بعض صحابہ زندہ موجود تھے.پھر معاویہ بن یزید کے ایک لڑکے عبد الرحمن نے دمشق میں جا کر اُندلس میں اموی سلطنت کی بنیاد ڈالی اور اس کے بعد گیارہ سو سال تک مسلمان اندلس پر حکمران رہے.تو جس خدا نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نشان دکھائے تھے وہ خدا ہمارے زمانے میں بھی موجود ہے.وہ بڑھا نہیں ہو گیا.وہ ویسا ہی جوان اور طاقتور ہے جیسے پہلے تھا.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے اندر ایمان ہو.ہم نے بھی سپین کو نظر انداز نہیں کیا.چنانچہ دوسری جنگ عظیم کے معا بعد ہم نے اپنے مبلغ کرم الہی ظفر کو سپین بھجوا دیا تھا.میرے بچے طاہر اور محمود جو ولایت گئے ہوئے تھے واپس آتے ہوئے سپین بھی گئے تھے.انہوں نے مجھے بتایا کہ سپین کے نو مسلم بہت زیادہ مخلص ہیں.وہ خوب سوچ سمجھ کر اسلام قبول کرتے ہیں اور پھر اس پر اپنی جانیں فدا کرتے ہیں.مجھے بھی اس کا ایک نمونہ لندن میں نظر آیا تھا.1954 ء سے قبل کا ایک سپینش ٹو مسلم

Page 313

انوار العلوم جلد 26 261 مجلس انصاراللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..ڈاکٹر لندن کے قیام کے دوران میں مجھے ملا.وہ اس وقت لندن سے سو میل کے فاصلہ پر کسی جگہ پریکٹس کرتا ہے.اُس نے جب سنا کہ میں لندن میں آیا ہوں تو وہ مجھے وہاں ملنے کے لئے آیا.اُس نے مجھے بتایا کہ کرم الہی ظفر نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے کہ اس نے ہمیں اسلام جیسی نعمت دی.پھر میں نے وہاں چھوٹے درجہ کی ڈاکٹری پاس کی تھی اُس نے مجھے تحریک کی کہ میں لندن چلا جاؤں اور وہاں اپنی تعلیم کو مکمل کروں.چنانچہ میں اُس کی تحریک کے مطابق لندن آ گیا.یہاں آکر میں نے اپنی تعلیم کی تکمیل کی اور اس وقت میری پریکٹس بڑی اچھی ہے.میں لندن سے سو میل کے فاصلہ پر کام کرتا ہوں اس لئے میں روزانہ لندن نہیں آ سکتا.اس سے بھی پتا لگتا ہے کہ ان لوگوں میں اخلاص پایا جاتا ہے اور وہ قربانی کرنے والے ہیں.میرا پہلے تو یہ ارادہ تھا کہ کرم الہی ظفر کو روم بھجوا دیا جائے.اب بچوں کی شہادت کی وجہ سے یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ کرم الہی ظفر کو سپین میں ہی رہنے دیں اور روم میں کسی اور مبلغ کو بھجوا دیں.پہلے چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ تجویز تھی کہ میڈرڈ والے روم کی زبان کو خوب سمجھتے ہیں.اگر کرم الہی ظفر مرکز پر بوجھ ہوں تو انہیں روم بھجوا دیا جائے.یہ وہاں جا کر بھی سپین والوں کو تبلیغ کر سکیں گے.لیکن اب چونکہ پتا لگا ہے کہ پین والے نو مسلم بڑے مخلص اور ترقی کرنے والے ہیں اس لئے اب یہی ارادہ ہے کہ کرم الہی ظفر کو وہیں رہنے دیں اور روم میں کسی اور مبلغ کو بھجوا دیا جائے.صرف اخراجات میں تخفیف کر دی جائے لیکن ہم پہلے بھی اپنے مبلغوں کو بہت کم خرچ دیتے ہیں.چنانچہ ملایا سے مجھے ایک غیر احمدی دوست نے ایک دفعہ خط لکھا کہ آپ اپنے مبلغوں کو اتنا خرچ تو دیں کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر کھانا کھا سکیں اور اچھا لباس پہن سکیں.بعد میں وہ مجھے کوئٹہ میں ملا تو اس نے کہا کیا آپ کو میرا خط مل گیا تھا ؟ میں نے کہا مل گیا تھا پھر اس نے دریافت کیا کہ کیا آپ نے میرے اس خط پر عمل بھی کیا ؟ میں نے کہا ہم غریب لوگ ہیں ہم اس پر کیا عمل کریں.اس نے کہا میں نے ملایا سے خط تو لکھ دیا تھا لیکن میں نے نیت کرلی تھی کہ میں واپس جاؤں گا تو ذاتی طور پر بھی آپ سے ملوں گا اور زبانی عرض کروں گا کہ آپ کے مبلغ بڑی جانفشانی سے کام کر رہے ہیں لیکن آپ

Page 314

انوار العلوم جلد 26 262 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع..اُنہیں کھانے پینے اور رہائش کے لئے اتنے اخراجات تو دیں جن سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں.میں نے دیکھا ہے کہ وہ فقیروں کی طرح رہتے ہیں.اُن کے کپڑے پھٹے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ معمولی تنوروں سے روٹی لے کر کھاتے ہیں.جس کا دیکھنے والوں پر اچھا اثر نہیں ہوتا.مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس کے باوجود ہمیں روم اور سپین میں اخراجات پر کنٹرول کرنا پڑے گا.لیکن اگر اس سال تحریک جدید کا چندہ بڑھ جائے تو ہو سکتا ہے کہ بعد میں ہم مبلغوں کے اخراجات کو بڑھا دیں تا کہ وہ زیادہ عمدگی کے ساتھ کام کر سکیں.اب میں تقریر کو ختم کرتا ہوں.اور دعا کر دیتا ہوں.دعا کے بعد میں چلا جاؤں گا تا کہ دوسرا پروگرام شروع کیا جا سکے.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا : میں نے کئی دفعہ کہا ہے کہ دوست اپنے بچوں کا بھی چندہ لکھوایا کریں اور ساتھ ہی انہیں بتا دیا کریں کہ یہ تحریک جدید کا چندہ ہے تا کہ انہیں ساری عمر یا د ر ہے اور وہ اپنی اولا دوں کو بھی اس کی نصیحت کرتے رہیں.چاہے وہ چندہ دو آنے ہی کیوں نہ ہو یا ایک آنہ ہی کیوں نہ ہو مگر بہر حال اُنہیں بتا دیا کریں کہ ہم نے تمہاری طرف سے بھی تحریک جدید کا چندہ لکھوا دیا ہے اب تم بھی اس تحریک کے ایک مجاہد ہو.“ اس موقع پر ایک دوست کے سوال کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ : پانچ روپیہ چندہ کی شرط تو اس شخص کے لئے ہے جو منفرد ہو جس کا کوئی بچہ نہیں.وہ اگر پانچ روپے سے کم دے تو ہم نہیں لیں گے لیکن اگر اپنے چندہ کے ساتھ بچوں کی طرف سے بھی کچھ چندہ لکھوا دیا جائے تو چاہے وہ کتنا ہی تھوڑا ہو ہم اُسے منظور کرلیں گے.“ ( الفضل 7 نومبر 1957 ء ) 1 : النزعت : 2تا10 b 2 : لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا (البقرة : 33) 3 : بخارى كتاب الرّقَاق باب التَّوَاضُع حديث 6502 صفحه 1127 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 4 : آل عمران : 55

Page 315

انوار العلوم جلد 26 263 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 316

انوار العلوم جلد 26 264 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء

Page 317

انوار العلوم جلد 26 265 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء فرموده 26 دسمبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.تفسیر صغیر کے متعلق مفصل باتیں تو انشاء اللہ کل ہی کی جائیں گی مگر چونکہ دوست اس سے ایک دو دن کی دُوری بھی برداشت نہیں کر سکتے اور انہوں نے شکایت کی ہے کہ تفسیر صغیر انہیں آج ہی کیوں نہیں دی گئی.اس لئے میں اس کی تقسیم کا اعلان کر دیتا ہوں.میں نے مولوی نور الحق صاحب کو اس بات کے لئے مقرر کر دیا ہے اور میں نے انہیں ہدایت دے دی ہے کہ جتنی جتنی جلدیں کسی جماعت نے مانگی ہیں ان کے علیحدہ علیحدہ بنڈل بنا کر تیار رکھیں.جماعتیں اپنا اپنا نمائندہ مقرر کر دیں اور وہ نمائندہ ان کے پاس جا کر اپنی جمع شدہ رقم کے مطابق تفسیر صغیر کی جلد میں ان سے حاصل کرے.پھر جماعتیں چاہیں تو اپنے افراد میں یہیں تقسیم کر دیں اور چاہیں تو اپنے اپنے شہر میں واپس جا کر تقسیم کر دیں.بڑی درخواستوں میں سے کراچی کی جماعت کی درخواست ہے.اگر وہ آج ہی اپنا کوئی نمائندہ مقرر کر دیں تو تفسیر صغیر انہیں آج ہی مل جائے گی.کراچی کے بعد ربوہ کی جماعت ہے.کچھ جلدیں تو مولوی محمد صدیق صاحب پہلے لے چکے ہیں اور باقی اب مولوی نور الحق صاحب سے لے سکتے ہیں.باوجود اس کے کہ پورا زور لگایا گیا ہے لیکن چونکہ کتاب حجم میں زیادہ ہو گئی تھی اس لئے وہ پوری تعداد میں چھپ کر تیار نہیں ہوئی.اصل میں تو ہم نے پانچ ہزار جلدوں کا آرڈر دیا تھا لیکن اب تک صرف تین ہزار کی تعداد میں چھپ کر ملی ہے.بہر حال جتنی تعداد میں تفسیر صغیر تقسیم ہوسکی وہ کر دیں گے.جلدی میں کچھ غلطیاں بھی رہ گئی ہیں ان کے متعلق ہر جلد کے ساتھ اغلاط نامہ لگا دیا گیا

Page 318

انوار العلوم جلد 26 266 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء ہے.بعد میں اگر کوئی زیادتی اغلاط نامہ میں ہوئی تو اس کا بھی اعلان کر دیا جائے گا.وہ بھی دوست اس کے ساتھ لگا لیں.اس طرح دو تین ماہ میں کتاب مکمل ہو کر سب دوستوں تک پہنچ جائے گی.اور اُسی تعداد میں پہنچ جائے گی جس تعداد میں دوستوں نے خواہش کی ہے.اس کے علاوہ ایک اور کتاب بھی تیار ہے.میں نے پچھلے سال جلسہ سالانہ پر تبویب مسند احمد بن جنبل کا اعلان کیا تھا.اس کی ایک جلد چھپ کر آ گئی ہے جس کی قیمت چھ روپیہ فی نسخہ ہے.وہ کتاب بھی دوستوں کو مولوی نور الحق صاحب سے مل سکتی ہے.پھر ایک کتاب تاریخ احمدیت کی بھی چھپ چکی ہے.اس کے متعلق مفصل طور پر تو میں کل بیان کروں گا لیکن اگر کوئی دوست یہ کتاب لینی چاہتے ہوں تو وہ لے سکتے ہیں.اس کتاب کا نام ” فسادات 1953 ء کا پس منظر ہے جو ملک فضل حسین صاحب نے لکھی ہے.اس کی قیمت ایک روپیہ ہے.تاریخ احمدیت کی ابھی اور جلدیں بھی چھپتی ہیں.میں نے اس کا اعلان آج سے پانچ سال قبل کیا تھا مگر کچھ تو میری بیماری کی وجہ سے ، کچھ ملک فضل حسین صاحب کی بیماری کی وجہ سے اور کچھ اُن لوگوں کی سستی کی وجہ سے جو اس کام پر مقرر کئے گئے تھے اس میں دیر ہوگئی.اب اس کا ایک حصہ شائع ہوا ہے جس کا ذکر میں نے کر دیا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اصل تاریخ 1953 ء سے نہیں بلکہ 1880ء سے شروع ہوتی ہے.اس کے متعلق سنا ہے کہ مولوی دوست محمد صاحب نے ایک کتاب تیار کی ہوئی ہے جو جلد ہی شائع کر دی جائے گی.مگر اس کے بعد ہمیں یہ سلسلہ بڑھانا ے گا.ہمیں پہلے 1908ء سے 1914 ء تک کی تاریخ کو لانا پڑے گا.1908 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وفات پائی اور 1914ء میں حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے اور پیغامیت کا زور پڑا.پھر 1914 ء سے 1931 ء تک کی تاریخ کو لانا پڑے گا کیونکہ 1931ء میں کشمیر موومنٹ ہوئی اور اس میں احرار نے اپنا سارا زور لگایا بلکہ 1931 ء نہیں اس حصہ کو 1934 ء تک بڑھانا پڑے گا.جب احرار نے قادیان پر حملہ کیا اور تحریک جدید کا قیام عمل میں لایا گیا.پھر اسے 1934 ء سے 1953 ء تک لانا پڑے گا تب کہیں سلسلہ کی تاریخ پوری ہوگی.

Page 319

انوار العلوم جلد 26 267 افتتاحی تقریر جلسه سالانه 1957ء " بہر حال ملک فضل حسین صاحب نے باوجود بیماری کے جس قدر حصہ تیار کیا تھا وہ چھپ کر آ گیا ہے لیکن جو اعلان میں نے کیا تھا وہ تاریخ احمدیت کے متعلق تھا.تاریخ احرار کے متعلق نہیں تھا.اور جو حصہ آب چھپا ہے یہ صرف تاریخ احرار پر مشتمل ہے.پس تاریخ احمدیت ا سکے علاوہ ہے اور اس کا پہلا دور 1880 ء سے شروع ہوتا ہے جب براہین احمدیہ شائع ہوئی.پھر 1891ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا ہے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کفر کا فتویٰ لگایا.وہ سارے ہندوستان میں پھرے اور انہوں نے علماء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اکسایا.یہ سارے تاریخ احمدیت کے ہی حصے ہیں ان کو چھوڑ کر صرف فسادات 1953 ء کا پس منظر لے لینا میرے نزدیک اس مقصد کو ہرگز پورا نہیں کرتا جس کے لئے میں نے اس کتاب کا اعلان کیا تھا.اب یہ تاریخ بعد میں ٹکڑے ٹکڑے کر کے شائع کی جائے گی.ایک حصہ 1908ء سے 1914 ء تک ہوگا کیونکہ اس عرصہ میں سلسلہ کے اندر رخنہ اندازیاں شروع ہوئیں اور پیغامیت کی بنیاد پڑنی شروع ہوئی.جس کا اظہار 1914 ء میں جا کر ہوا.دوسرا حصہ 1914ء سے 1934 ء تک کے حالات پر مشتمل ہوگا جس میں پیغامیت کو شکست ہوئی.احمدیت مضبوطی سے قائم ہوئی اور احرار نے بھی سر نکالنا شروع کیا.پھر 1934 ء سے 1953 ء آئے گا یا صرف پارٹیشن تک اس جلد کو رکھا جائے گا کیونکہ پارٹیشن میں بھی ہماری جماعت نے بہت کچھ خدمات ادا کی ہیں.جن کا کافی ذخیرہ ہمارے پاس موجود ہے.پھر پارٹیشن سے لے کر اب تک جو خدمات سلسلہ نے کی ہیں اور اُسے جو ترقیات حاصل ہوئی ہیں انہیں لیا جائے گا تب کہیں تاریخ احمدیت مکمل ہو گی.اور چونکہ یہ لمبا کام ہے اس لئے غالباً 1960 ء تک مکمل ہو سکے گا.پہلا جلسہ سالانہ 1891ء میں ہوا تھا اور براہین احمدیہ 1880ء میں شائع ہونا شروع ہوئی تھی.پس 1880 ء سے لے کر 1960 ء تک کے عرصہ کو مدنظر رکھتے ہوئے تاریخ احمدیت 80 سال پر مشتمل ہے مگر اسے محض 1953 ء میں مقید کر دیا گیا ہے.بہر حال مجھے بتایا گیا ہے کہ پہلا حصہ مولوی دوست محمد صاحب مکمل کر چکے ہیں اور بعد کا جو حصہ ہے اسے بھی جلد مکمل کر لیا جائے گا.

Page 320

انوار العلوم جلد 26 268 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء اس کے لئے ملک فضل حسین صاحب کو ہی یا اور کسی دوست کو مقرر کیا جائے گا.اب میں نے کتابوں کا ذکر کر دیا ہے.1953ء کے فسادات کا پس منظر چھپ کر تیار ہے اور یہ تاریخ احمدیت کی ایک کڑی ہے.تبویب مسند احمد بن حنبل کی ایک جلد بھی چھپ کر تیار ہوگئی ہے اور اس میں ایسی اصلاحات مد نظر رکھی گئی ہیں کہ مصر سے جو تبویب شائع ہوئی ہے اور جس کے لئے سعودی عرب کی طرف سے دس ہزار پونڈ دیا گیا تھا وہ بھی اس کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہے.ہماری اس کتاب کی قیمت چھ روپیہ ہے اور غالباً یہ کام میں جلدوں میں مکمل ہوگا اور اس طرح پوری کتاب کی قیمت 120 روپیہ ہو گی.لیکن اس کے مقابلہ میں مصر کی شائع شدہ تبویب مسند احمد بن حنبل کی قیمت بہت زیادہ ہے.اس کی ایک جلد کی قیمت قریباً پندرہ روپے ہے اور اس کی چودہ جلدیں ہیں.یہ کتاب ٹائپ میں چھی ہے اور اورینٹل ریلیجن اینڈ پبلشنگ کارپوریشن کے پریس میں شائع ہوئی ہے.اس تبویب میں وہ ساری حدیثیں الگ کر دی گئی ہیں جو امام احمد بن حنبل کے بعض کمزور شاگردوں نے ان کی مسند میں شامل کر دی تھیں.اسی طرح اگر کوئی حدیث کسی اور جگہ آ گئی ہو مثلاً امام بخاری نے اُس کا ذکر اپنی صحیح میں کر دیا ہو یا کسی اور کتاب میں درج ہو تو اُس کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے.غرض ہماری یہ کوشش مصری کوشش سے دس بیس گنا زیادہ فائدہ بخش ہے اور قیمت اس سے بہت کم ہے.اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو مبارک کرے.جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے ہمارا پہلا جلسہ سالانہ 1891ء میں ہوا تھا اور اب 1957ء ہے گویا ہمارا یہ جلسہ ستاسٹھواں جلسہ ہے مگر الفضل کے اعلان میں اسے گیارھواں جلسہ سالانہ قرار دیا گیا ہے.حالانکہ یہ گیارھواں نہیں بلکہ ستاسٹھواں جلسہ سالانہ ہے.56 سال کو اتنی جلدی اڑا دینا کوئی عقل کی بات نہیں.لوگ تو فخر کیا کرتے ہیں کہ ہمارے خاندان نے فلاں جگہ پر اتنے زیادہ عرصہ تک حکومت کی ہے لیکن الفضل کے اعلان کی ر معیار عزت یہ ہے کہ ہم نے اتنے کم جلسے کئے ہیں حالانکہ وہ زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتے تھے کہ قادیان کے جلسوں کو شامل کر کے اوپر موٹے حروف میں 67 واں جلسہ“ لکھتے اور رو سے

Page 321

انوار العلوم جلد 26 269 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء نیچے بار یک قلم سے لکھ دیتے کہ پاکستان میں آکر یہ گیارہواں جلسہ سالانہ ہے.اس طرح دو تاریخیں بن جاتیں اور لوگوں کے ذہنوں میں قائم رہتیں.لیکن ستاسٹھویں کو چیکے سے اُڑا دینا کسی عقل کے ماتحت نہیں.بہر حال یہ جلسہ ستاسٹھواں جلسہ ہے.اور اگر بیعت کے اعلان کو لیا جائے جو دسمبر 1888ء میں ہوا تھا اور جس پر مارچ 1889ء میں پہلی بیعت ہوئی تو ہماری جماعت کے قیام پر 69 سال گزر چکے ہیں.اس عرصہ میں ہم اتنی دشمنیوں سے گزرے ہیں کہ گویا ہم نے تلواروں کے نیچے اپنا سر رکھا اور اس طرح 69 سال گزار دیئے.اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ایمانوں میں روز افزوں زیادتی ہوئی اور ہوتی چلی جارہی ہے.چنانچہ آج سے ایک سال قبل ایک احمدی میں جتنی طاقت تھی آج اُس سے دس گنا زیادہ طاقت اُس میں موجود ہے.اگر ایک سال پہلے ایک احمدی دو مخالفوں کا مقابلہ کر سکتا تھا تو آج ایک احمدی ہیں مخالفوں کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ اب تو ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو مردوں سے زیادہ دلیر ہیں.ضلع جھنگ میں چنڈ بھروانہ اور منگلا کے لوگ نئے احمدی ہوئے ہیں.وہاں کی ایک عورت یہاں آیا کرتی ہے.وہ جب بیعت کرنے کے لئے ربوہ آئی تو مہمان خانہ میں ٹھہری.رات کو اُس کی بیٹی بھی آگئی.اُس نے کہا اماں ! تو نے مجھے کس قبیلہ میں بیاہ دیا ہے وہ تو احمدیت کی بڑی سخت مخالفت کر رہے ہیں.میں بہتیری تبلیغ کرتی ہوں مگر وہ سنتے ہی نہیں.اُس کی ماں کہنے لگی بیٹی ! تو میری جگہ آجا اور اپنے باپ اور بھائیوں کا کھانا پکا میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور میں دیکھتی ہوں کہ وہ کس طرح مخالفت کرتے ہیں اور احمدیت کی تبلیغ نہیں سنتے.تو اب ہماری عورتیں بھی ایسی ہیں جو کہتی ہیں کہ ہم دیکھیں گے کہ لوگ ہماری تبلیغ کیسے نہیں سنتے.اس عورت کو پچھلے سال لجنہ اماء اللہ نے تقریر کرنے کے لئے کھڑا کر دیا.نئی احمدی ہے اور جوش زیادہ ہے.جوش میں آکر اس نے اردو میں تقریر شروع کر دی.تقریر اپنے لحاظ سے تو بہت عمدہ تھی لیکن چونکہ وہ اردو نہیں جانتی تھی اس لئے لجنہ اماءاللہ کو اس سے التجا کرنی پڑی کہ بی بی ! تو پنجابی میں ہی تقریر کر ہم پنجابی سمجھ لیں گے.

Page 322

انوار العلوم جلد 26 270 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء اس سال وہ چند ماہ قبل ربوہ میں آئی تو کالج چلی گئی.وہاں کوئی جلسہ ہورہا تھا اور ایک بی اے کی سٹوڈنٹ لڑکی تقریر کر رہی تھی.وہ لڑ کی کچھ ہچکچا رہی تھی.یہ عورت اُسے کہنے لگی بیٹی ! تو ڈرتی کیوں ہے؟ دلیری سے تقریر کر.تو جس قوم کو خدا تعالیٰ نے ایسی بہادر عورتیں دی ہوئی ہوں اس کے مردوں کا مقابلہ کیسے کیا جاسکتا ہے.مجھے یاد ہے 1953ء کے فسادات کے دوران میں ضلع سیالکوٹ کی ایک عورت پیدل ربوہ پہنچی اور اس نے ہمیں بتایا کہ ہمارا گاؤں دوسرے علاقہ سے کٹ چکا ہے اور مخالفوں نے ہمارا پانی بند کر دیا ہے.اگر ہم پانی لینے جاتے ہیں تو وہ ہمیں مارتے ہیں.اُس وقت ایک فوجی افسر یہاں رخصت پر آیا ہوا تھا اُس کو میں نے ایک مقامی دوست کے ساتھ وہاں بھیجا تا کہ وہ وہاں جا کر احمدیوں کی امداد کرے.اب دیکھ لو کتنی بڑی ہمت کی بات ہے کہ جہاں مرد قدم نہ رکھ سکے وہاں ایک عورت نے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اُس وقت مرد اپنے گھروں سے باہر نکلنے سے ڈرتے تھے مگر وہ عورت سیالکوٹ سے پیدل سمبڑیال کی طرف گئی.وہاں سے گوجرانوالہ کی طرف آئی اور پھر گوجرانوالہ سے کسی نہ کسی طرح یہاں پہنچی اور ہمیں جماعت کے حالات سے آگاہ کیا.اور ہم نے یہاں سے ان کو امداد کے لئے آدمی بھیجوائے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری عورتیں مردوں سے زیادہ دلیر ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ قادیان میں غیر احمدی علماء نے جلسہ کیا.پولیس اور گورنمنٹ ان کی تائید میں تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اور احمدیوں کو بُرا بھلا کہا اور پولیس نے بھی عوام کے ساتھ مل کر جماعت کے خلاف نعرے لگائے جس کی وجہ سے مولوی ثناء اللہ صاحب اور بھی دلیر ہو گئے.قادیان کے قریب ہی ایک گاؤں بھینی بانگر ہے.اُس جگہ کی ایک عورت وہاں سے گزری.اُس نے گالیاں سنیں تو کھڑی ہوگئی اور پنجابی میں بلند آواز سے کہنے لگی تیرے دادے داڑھی بگیا تو مرزا صاحب نوں گالیاں کیوں دینا ایں کیونکہ اُس وقت جماعت کو صبر و تحمل کی بار بار تلقین کی گئی تھی اس لئے جماعت کے جو دوست وہاں کھڑے تھے وہ اس عورت کے پیچھے پڑگئے اور اسے کہنے لگے

Page 323

انوار العلوم جلد 26 271 افتتاحی تقریر جلسه سالانه 1957ء و بی بی ! تو نہ بول.بعد میں پولیس نے اس عورت کو دھکے دے کر باہر نکال دیا.مجھے پتالگا تو میں نے جماعت پر بڑی خفگی کا اظہار کیا اور میں نے کہا تم نے بڑی کمینگی کی کہ تم مرد ہو کر چپ ہو گئے تمہیں تو اس موقع پر اپنی غیرت کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا اور اُس عورت پر کسی شخص کو ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے تھی.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے پرانے زمانہ سے ہی جماعت میں ایسی دلیر اور مخلص عورتیں موجود رہی ہیں.کسی زمانہ میں یہ نمونہ ابتدائی مسلمانوں میں پایا جا تا تھا لیکن اب اس کا نمونہ احمدیت جو حقیقی اسلام ہے پیش کر رہی ہے.اس نمونہ کو یاد رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ ہمارے اندر ایسے لاکھوں نمونے پیدا کرے.اور اب اگر جماعت لاکھوں کی ہے تو جلد ہی کروڑوں کی ہو جائے.اور پھر اللہ تعالیٰ اسے کروڑوں سے اربوں تک پہنچا دے.اور خدا کرے کہ ہمارے رُشد و اصلاح کے نتیجہ میں سارا پاکستان احمدیت کی تعلیم کو قبول کرلے.اور پھر خدا کرے کہ ہندوستان ہمارے رُشد و اصلاح کا اثر قبول کر لے.پھر انڈو نیشیا اور ملا یا قبول کر لیں.پھر تمام مصر، ایران ، عراق ، ترکی ، جرمنی اور امریکہ قبول کر لیں.اور ان سب کی آبادی اگر ملائی جائے تو وہ ایک ارب سے زیادہ ہو جاتی ہے.پھر روس کو خدا تعالیٰ اسلام کے قبول کرنے کی توفیق دے دے تو جماعت اربوں تک پہنچ جائے گی.صرف دوستوں کو اس طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے.مگر افسوس ہے کہ جماعت اس طرف پوری توجہ نہیں کرتی.ورنہ اگر سچائی پیش کی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ کریں..کل ہی ایک غیر احمدی کے تاثرات الفضل میں شائع ہوئے ہیں 2 جو اُس نے میری کتاب ” دعوۃ الامیر کے متعلق شمس صاحب کو لکھے ہیں.اس میں وہ غیر احمدی دوست لکھتے ہیں کہ اس کتاب کے پڑھنے سے میری آنکھیں کھل گئیں اور میں سمجھتا ہوں کہ واقعی یہ ایک راہ دکھانے والی کتاب ہے.پس کوئی وجہ نہیں کہ یہ چیز میں لوگوں تک پہنچائی جائیں تو وہ متاثر نہ ہوں.صرف جماعت سستی کر رہی ہے.اگر آپ لوگوں میں سے ہر شخص یہ اقرار کرے کہ وہ اگلے سال کے ختم ہونے سے پہلے کم سے کم ایک سو آدمیوں کو سلسلہ کا لٹریچر پڑھا دے گا تو یہ کوئی مشکل امر نہیں اور نہ ہی اس پر کوئی خرچ ہوتا ہے.تم میں سے

Page 324

انوار العلوم جلد 26 272 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957 ء ہر شخص جو کوئی کتاب اپنے ساتھ لے جائے وہ کسی کو پڑھنے کے لئے دے دے.وہ پڑھ لے تو اس سے واپس لے کر کسی دوسرے کو دے دے.پھر اس سے واپس لے کر کسی تیسرے شخص کو دے دے.سال میں 360 دن ہوتے ہیں.اگر تیسرے دن بھی کسی سے کتاب واپس لی جائے تو 360 دن میں ایک سو افراد کو سلسلہ کا لٹریچر پڑھایا جا سکتا ہے.بلکہ اگر کوئی چار دن کے بعد بھی کتاب واپس دے تب بھی سو سے زیادہ لوگوں کو سلسلہ کا لٹریچر پڑھایا جا سکتا ہے کیونکہ کتاب پڑھنے میں کسی کو تین دن لگیں گے ، کسی کو چار دن لگیں گے اور کوئی شخص دو دن میں ہی کتاب ختم کر لے گا.اگر ایسا کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت جو جماعت دس لاکھ کے قریب ہے وہ دس کروڑ بن جائے گی.قادیان والوں کو بھی میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے ادھر آ جانے کی وجہ سے وہاں کی جماعت کی تعداد بہت کم ہو گئی ہے گو اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت کی تعداد وہاں اب بڑھ رہی ہے.لیکن اگر وہ کوشش کریں تو تھوڑے عرصہ میں ہی قادیان کا جلسہ سالانہ اِس جلسہ سے بھی زیادہ شان سے ہوسکتا ہے.اگر ان کی کوشش سے ہندوستان میں لاکھ ڈیڑھ لاکھ احمدی ہو جائے جس میں سے ساٹھ ستر ہزار آدمی وہاں جلسہ سالانہ پر آجائیں تو وہاں بھی اسی شان سے جلسہ کیا جا سکتا ہے.یہاں پچھلے سال جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد ساٹھ ہزار سے زیادہ تھی اس سال امید ہے کہ میری کل کی تقریر میں آنے والوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ جائے گی.قادیان میں سب سے زیادہ تعداد خلافت جو بلی کے موقع پر آئی تھی جو چالیس ہزار تھی مگر دوسرے سالوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ شامل ہوتے رہے.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب جو اُن دنوں افسر جلسہ سالا نہ تھے بڑے خوش خوش میرے پاس آئے اور کہنے لگے دیکھئے اللہ تعالیٰ نے کیسا فضل کیا ہے.میں نے خوراک کی پرچیاں اور ریلوے کے ٹکٹ خوب گنوائے ہیں اور اُن سے معلوم ہوا ہے کہ جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعدا داکتیس ہزار کے قریب ہے اور یہاں رات کو پہلے دن کی کارروائی میں شامل ہونے کے لئے جو صرف دعائیہ ہے تینتیس ہزار افراد آ گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آخری جلسہ پر سات سو احمدی

Page 325

انوار العلوم جلد 26 273 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء قادیان آئے تھے اور حضرت خلیفہ اوّل کے آخری جلسہ پر آنے والوں کی تعداد غالباً گیارہ بارہ سو تھی اور اس تعداد پر اُس زمانہ میں بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ اس سال جب شروع شروع میں 2300 مہمانوں کے آنے کی اطلاع ملی اور ابھی جلسہ سالانہ میں تین دن باقی تھے تو ہمارے ہاں بہت افسوس کیا گیا کہ اتنے کم آدمی آئے ہیں اور ابھی ربوہ کی گلیاں خالی نظر آ رہی ہیں.آج جب آنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے تب لوگوں نے کہنا شروع کیا ہے کہ اب ربوہ کی گلیوں میں رونق معلوم ہوتی ہے.لیکن جب تک مہمانوں کی تعداد 2300 تک تھی عام طور پر یہ کہا جاتا تھا کہ ربوہ کی گلیاں خالی نظر آتی ہیں آج یہاں کے لوگوں نے مانا ہے کہ ربوہ کی گلیوں میں مہمان نظر آتے ہیں.کل اور پرسوں یہ تعداد اِنْشَاءَ اللهُ اور بھی بڑھ جائے گی.تو دیکھو اللہ تعالیٰ نے کس قدر فضل جماعت پر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آخری جلسہ سالانہ پر جب سات سواحمدی آئے تو مجھے یاد ہے انتظام اتنا کمزور تھا اور روپیہ کی اتنی کمی تھی کہ لنگر خانہ میں جو کھانا پکا یا گیا وہ بہت کم لوگوں کو کفایت کر سکا اور اکثر مہمان بھوکے رہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا کہ یايُّهَا النَّبِيُّ أَطْعِمُوا الْجَائِعَ وَالْمُعْتَرَّ 3 کہ اے نبی ! وہ لوگ جو بھو کے ہیں اور شدت بھوک کی وجہ سے تکلیف پارہے ہیں تو انہیں کھانا کھلا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ نے اور دیگیں پکوائیں اور ان کو کھانا کھلایا.تو اُس وقت جماعت کی مالی حالت ایسی کمزور تھی کہ سات سو افراد کے کھانے کا انتظام بھی پورے طور پر نہیں کیا جا سکا تھا اور اب ستر ہزار افراد کا انتظام بھی بڑے آرام سے چل رہا ہے.ہاں بعض اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ مہمان اگر دیر سے پہنچیں تو اُن کو نئے سرے سے کھانا تیار کر کے بھیجنے میں کچھ دیر لگ جاتی ہے.لیکن کجا ستر ہزار اور کجا سات سو.جب سات سومہمان جلسہ سالانہ پر آئے تو اُس وقت تو یہ حالت تھی کہ خدا تعالیٰ کو الہام کرنا پڑا کہ اے نبی ! بُھوکوں اور تکلیف زدوں کو کھانا کھلاؤ.چنانچہ آپ نے نئی دیگیں پکوائیں اور مہمانوں کو کھانا کھلایا.لیکن اب ہم اس سے سو گنا زیادہ افراد کو بہت زیادہ آسانی اور آرام سے کھانا کھلا رہے ہیں.

Page 326

انوار العلوم جلد 26 274 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957 ء مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 1907ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر باہر سیر کے لئے تشریف لے گئے تو جلسہ پر آنے والے مہمان بھی آپ کے ساتھ چل پڑے.رستہ میں لوگوں کے پاؤں کی ٹھوکریں لگنے کی وجہ سے آپ کی جوتی بار بار اتر جاتی اور کوئی مخلص آگے بڑھ کر آپ کو جوتی پہنا دیتا.جب بار بار ایسا ہوا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھڑے ہو گئے اور آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے کہ اب ہماری زندگی ختم ہونے کے قریب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی جو ترقی مقدر کی ہے وہ اُس نے ہمیں دکھا دی ہے.اب کجا یہ کہ سات سو احمدی جلسہ سالانہ پر آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خیال کیا کہ اب ہماری جماعت کی ترقی اپنی انتہا کو پہنچ گئی ہے اور ہمارا کام ختم ہو گیا ہے اور کجا یہ کہ اب جلسہ سالانہ پر ستر ہزار آدمی آ جاتا ہے گویا ہماری جماعت کی تعداد اُس زمانہ کی تعداد سے سو گنا بڑھ گئی ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ لوگوں کو ایک بات سے غلطی لگی ہے اور وہ یہ کہ مفتی محمد صادق صاحب بعض دفعہ جماعت کی تعداد کے متعلق ایک اندازہ لگا لیتے اور اعلان کر دیتے کہ اب جماعت کی تعداد اتنے لاکھ ہوگئی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اگر اب ہم اپنی تعداد دس لاکھ بتاتے ہیں تو مخالف کہتے ہیں کہ تمہاری تعداد گررہی ہے تم تو آج سے کئی سال پہلے دس لاکھ سے بھی اوپر تھے.لیکن جلسہ سالانہ پر آنے والوں کی تعداد سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہماری تعداد کم نہیں ہوئی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ جماعت کی تعداد کا غلط اندازہ لگانا ایک وقت پر جا کر تکلیف دہ ہو جاتا ہے.جب میں پہلی دفعہ 1924ء میں ولایت گیا تو وہاں کے ایک اخبار نے میری آمد کی خبر شائع کرتے ہوئے لکھا کہ یہاں ہندوستان کے بیس کروڑ لوگوں کا لیڈر آیا ہے.میں نے اُسے لکھا کہ بیس کروڑ نہ کہو دولاکھ کہو.چنانچہ اس نے تردید کردی.لیکن پہلی دفعہ اُس نے ہندوستان کے سب ہندوؤں سکھوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کو ملا کر مجھے نہیں کروڑ کا لیڈر بنا دیا تھا.میں نے کہا میں تو صرف احمدیوں کا سردار ہوں باقی مسلمانوں کا نہیں.اور احمدیوں کی تعداد بیس کروڑ نہیں بلکہ بیس کروڑ تو عیسائیوں کے نزدیک گل دنیا کے مسلمان ہیں.گو

Page 327

انوار العلوم جلد 26 275 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء مسلمان مصنف مسلمانوں کی تعداد چالیس کروڑ بتاتے ہیں.درحقیقت اب ہماری تعداد پاکستان اور ہندوستان میں دس لاکھ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے.بہر حال دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ایمانوں کو بڑھاتا جائے اور غیر احمدیوں کے دلوں کو کھولے.اور بجائے اس کے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیں اور آپ کی ہتک کریں وہ آپ کی تعریف کرنے لگ جائیں اور ان کو پتا لگ جائے کہ اس زمانہ میں یورپ اور ایشیا بلکہ ساری دنیا کی نجات حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے ہے جو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو پھیلانے کے لئے دنیا میں مبعوث ہوئے ہیں.میں نے ایک خواب دیکھا تھا جو میں نے اس سال انصار اللہ کے اجتماع میں دوستوں کو سنا دیا تھا ، میں نے دیکھا کہ زمینداروں کا ایک بہت بڑا گر وہ ہے ، وہ زمیندار ایسے ہیں جومر بعوں کے مالک ہیں.وہ راجہ علی محمد صاحب کے پاس آئے اور ان سے انہوں نے مصافحہ کیا اور پھر ایک طرف چلے گئے.میں ان کو دیکھ کر کہتا ہوں کہ اب خدا تعالیٰ چاہے گا تو یہ ساٹھ ہزار ہو جائیں گے اور ان میں سے ہر شخص اگر سال میں ایک ایک سور و پریہ بھی مساجد کے لئے دے تو ساٹھ لاکھ روپیہ ہو جائے گا اور ساٹھ لاکھ سے ہیں مساجد بن سکتی ہیں.اس وقت صدرانجمن احمدیہ کا کل بجٹ بارہ لاکھ ہے لیکن اس خواب سے پتا لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ دن جلد آنے والا ہے جب ہما را چندہ ساٹھ لاکھ ہو جائے گا.اور اگر صد را انجمن احمدیہ کے بجٹ کے ساتھ تحریک جدید کے بجٹ کو بھی ملایا جائے تو جماعت کا گل بجٹ ایک کروڑ بیس لاکھ روپیہ ہو جاتا ہے.اور اگر ایسا ہو جائے تو بہاول پور اور خیر پور کی آمد سے بھی ہمارا سالانہ بجٹ بڑھ جائے گا.اور اگر خدا تعالیٰ نے مزید ترقی دی تو پاکستان کی آمد سے بھی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی آمد زیادہ ہو جائے گی بلکہ ہم تو اس امید میں ہیں کہ امریکہ، روس، انگلینڈ، جرمنی اور فرانس کی آمد کو اگر ملا لیا جائے تب بھی صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی آمد اس سے زیادہ ہو تا کہ یورپ اور امریکہ میں ہم پانچ چھ ہزار مساجد سالا نہ تعمیر کرا سکیں.

Page 328

انوار العلوم جلد 26 276 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1957ء اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ جو لوگ جلسہ سالانہ پر آئے ہیں خدا تعالیٰ انہیں بڑی بڑی برکتوں کا وارث بنائے اور جو پیچھے گھروں میں رہ گئے ہیں اور جلسہ پر نہیں آسکے.خدا تعالیٰ ان پر بھی بڑی بڑی برکتیں نازل کرے اور جو لوگ یہاں آنے والوں کی خدمت کر رہے ہیں ان پر بھی خدا تعالیٰ بڑی بڑی برکتیں نازل کرے.اس دفعہ موسم کچھ ٹھیک نہیں رہا اس لئے میری طبیعت بھی خراب رہی.موسم بڑی جلدی جلدی بدلتا رہا ہے اور اس تبدیلی کی وجہ سے سارے پنجاب پر اثر پڑ رہا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ موسم کی خرابی کی وجہ سے جو وبائیں پھیلی ہوئی ہیں اللہ تعالیٰ یہاں آنے والوں کو ان بلاؤں سے پوری طرح محفوظ رکھے اور اس سردی میں جو بچے اور نوجوان خدمت کر رہے ہیں اُن کو بھی ہر قسم کی وباؤں سے پوری طرح بچائے.اور جب جلسہ پر آنے والے واپس جائیں تو جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا خدا کرے کہ وہ فرشتے نظر آئیں اور دنیا میں دس لاکھ احمدی نہ ہوں بلکہ دس لاکھ فرشتہ ہو اور تمہیں پتا ہے کہ اُحد کے موقع پر صرف ایک فرشتہ نظر آیا تھا.4 مگر اس فرشتہ نے ہی تین ہزار کفار کو بھگا دیا تھا.اگر تم سب لوگ فرشتے بن جاؤ.تو تمہاری طاقت اتنی بڑھ جائے گی کہ تم میں سے ہر احمدی تین تین ہزار غیر احمدیوں کا مقابلہ کر سکے گا.“ (الفضل 8 جنوری 1958ء) 1 : الفضل 13 /اکتوبر 1957 ءصفحہ 2 2 : الفضل 25 دسمبر 1957ء صفحہ 5 2 : تذکرہ صفحہ 631 ایڈیشن چہارم 2004 ء 4 : بخاری کتاب المغازى باب غَزْوَة أحُدٍ حديث نمبر 4041صفحه 684 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء

Page 329

انوار العلوم جلد 26 277 متفرق امور ( 27 دسمبر جلسہ سالانہ 1957ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 330

278 انوار العلوم جلد 26

Page 331

انوار العلوم جلد 26 279 بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ متفرق امور (فرمودہ 27 دسمبر 1957ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.”سب سے پہلے مجالس خدام الاحمدیہ میں سے اول اور دوم رہنے والوں کا اعلان کیا جاتا ہے.مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس سال کی پڑتال پر شہری مجالس میں سے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی بہترین کام کرنے والی قرار پائی ہے اور مجلس خدام الاحم یہ راولپنڈی دوم رہی ہے.اسی طرح دیہاتی مجالس میں سے مجلس خدام الاحمدیہ کرونڈی خیر پور ڈویژن اول اور مجلس خدام الاحمد یہ چک نمبر 98 ( ضلع سرگودھا) دوم رہی ہے.ان مجالس کے قائدین یا ان کے نمائندے مرکزی دفتر سے اپنی سندات حاصل کرلیں.اسی طرح مجلس انصار اللہ مرکزیہ کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ مجلس انصار اللہ ملتان شہر حسن کارکردگی کے سلسلہ میں اس سال اول رہی ہے.مجلس انصار اللہ ملتان شہر کے زعیم ، مرکزی دفتر سے انعامی علم حاصل کر لیں.تفسیر صغیر اور سلسلہ کے دوسرے کاموں کے سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل شکت تو یہ ہے کہ اچھا کام کرنے والوں کو خطابات دیئے جائیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو سَيْفٌ مِنْ سُيُوفِ الله کا خطاب عطا فر مایا تھا.لیکن چونکہ خطابات کا کام غور وفکر چاہتا ہے اور میں نے اس پر ابھی غور نہیں کیا اس لئے فی الحال میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ اس سال جماعت کی طرف سے کسی قدر کام کرنے والوں کی دل جوئی اور ان کے کام کی خوشنودی کے طور پر کچھ رقم 66 انعام کے طور پر تقسیم کر دی جائے.“

Page 332

انوار العلوم جلد 26 280 اس کے بعد حضور نے سات احباب 2 کو اپنے دست مبارک سے انعامی تھیلیاں عطا فرمائیں.اور ہدایت فرمائی کہ: جب کسی دوست کو انعام دیا جائے تو باقی دوست بَارَكَ اللهُ لَكُمُ کہیں کہ اللہ تعالیٰ اس میں آپ کے لئے برکت ڈالے اور انعام لینے والا جَزَاكُمُ الله کہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس دعا کی بہترین جزا عطا فرمائے.“ اس کے بعد فرمایا: پچھلے سال میں نے کہا تھا کہ رسائل خلافت کا امتحان لیا جائے گا اور اس میں اوّل دوم سوم رہنے والوں کو انعام دیا جائے گا.میں نے کہا تھا کہ اس امتحان میں جو اول نکلے گا اُس کو تذکرہ ( مجموعہ الہامات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ) اور تفسیر کبیر کی ایک جلد ملے گی.اور جو دوم رہے گا اس کو تفسیر کبیر کی ایک جلد اور سیر روحانی کی ایک جلد ملے گی.اور سوم رہنے والے کو سیر روحانی کی ایک جلد دی جائے گی.سو دورانِ سال میں امتحان لیا گیا اور اس میں انصار اللہ میں سے مرزا برکت علی صاحب آف قادیان حال پشاور اوّل، شیخ عبدالقادر صاحب مربی سلسلہ احمدیہ لاہور دوم اور ڈاکٹر محمد دین صاحب چکوال سوم رہے ہیں.خدام الاحمدیہ میں سے نذیر احمد صاحب سیالکوٹی لاہور چھاؤنی اول، مولوی محمد سلطان صاحب اکبر بی.اے ضلع سرگودھا دوم اور مرزا منور احمد صاحب ربوہ اور عبدالمنان صاحب ناہید کیمبل پور سوم رہے ہیں.لجنہ اماءاللہ میں سے محمودہ بیگم احمد صاحبہ کراچی اوّل، قدسیہ بیگم صاحبہ بنت چودھری عبدالحمید صاحب روہڑی دوم اور عائشہ محمودہ بیگم صاحبہ کیمبل پورسوم رہی ہیں.عورتوں کے انعامات عورتوں کے جلسہ گاہ میں بھیجے جا رہے ہیں انہیں وہاں تقسیم کر دیا جائے اور مردوں کے انعامات میں 66 تقسیم کرتا ہوں.“ اس کے بعد حضور نے اپنے دست مبارک سے اوّل ، دوم اور سوم رہنے والوں کو انعامات عطا فرمائے.اس کے بعد فرمایا :.”سب سے پہلے تو میں جماعت کو سلسلہ کے لٹریچر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دوست اس

Page 333

انوار العلوم جلد 26 281 طرف خاص طور پر توجہ کریں کیونکہ لٹریچر کی طرف توجہ کئے بغیر سلسلہ ترقی نہیں کرسکتا.سب سے پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دوست الفضل کی طرف توجہ کریں.پھر ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت کی طرف بھی توجہ کریں.پچھلے سال جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت بڑھانے کے سلسلہ میں ایک تجویز پیش کی تھی مگر وہ تجویز نا کام رہ گئی.جو چندہ میں نے کروا دیا تھا یا جو صدرانجمن احمد یہ انہیں امداد کے طور پر روپیہ دیتی تھی اُس پر انہوں نے اپنے کام کا انحصار رکھا ہے اور خریداری بڑھانے کے طرف کوئی توجہ نہیں کی.جب میں نے پوچھا کہ ریویو آف ریل جینز کی خریداری کتنی ہے؟ تو مجھے بتایا گیا کہ ایک ہزار پر چہ تو تحریک جدید لیتی ہے اور ساڑھے سات ہزار روپیہ دیتی ہے.اور سات ہزار روپیہ صدرا انجمن احمد یہ گرانٹ کے طور پر دیتی ہے اور مستقل خریدار صرف 270 ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ موجودہ عملہ بالکل ناکام رہا ہے اور ہمیں اس بات پر غور کرنا پڑے گا کہ کیوں نہ اس عملہ کو بدل کر کسی نئے آدمی کو اس کام پر مقرر کیا جائے.بہر حال چونکہ پچھلے سال کوئی کام نہیں ہوا اس لئے اس سال میں ریویو آف ریلیجنز کے متعلق کوئی نئی تجویز پیش نہیں کرتا.اگر انہوں نے کوئی کام کیا ہوتا تو میں اس سال یہ تجویز پیش کرتا کہ اس کام کو مزید بڑھایا جائے کیونکہ اصل تجویز یہ تھی کہ ریویو کی اشاعت کو بڑھاتے بڑھاتے ہم اس کے خریداروں کی تعداد کو دس ہزار تک پہنچا دیں.لیکن اب یہ حالت ہے کہ باوجود اس کے کہ سات ہزار روپیہ صدر انجمن احمد یہ گرانٹ کے طور پر دیتی ہے اور ایک ہزار پر چہ تحریک جدید خرید لیتی ہے اور انہیں سو روپیہ کی رقم دو دو روپیہ فی خریدار کے حساب سے جماعت دیتی ہے پھر بھی اس رسالہ کی مستقل خریداری 270 افراد تک ہی محدود ہے.اگر کام کی یہی رفتار رہی تو ہمیں اس رسالہ کی خریداری دس ہزار تک پہنچانے کے لئے سو سال کی مدت درکار ہوگی اور اس کو ہم برداشت نہیں کر سکتے.پس ہمارے لئے اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اس رسالہ کو مفت تقسیم کریں یا بند کر دیں.فی الحال ریویو آف ریلیجنز کے متعلق میں نے ہدایت دے دی ہے کہ آئندہ جس قدر رقم صدرانجمن احمد یہ بطور امداد دیتی ہے اس کے بدلہ میں اتنے ہی پرچے اسے دے دیئے جائیں اور جتنی رقم تحریک جدید دیتی

Page 334

انوار العلوم جلد 26 282 ہے اس کے بدلہ میں اتنے پر چے تحریک جدید کو دئیے جائیں اور عملہ ریویو جوخریدار بنائے وہ پرچے منیجر ریو یو بھجوائے.اس کے بعد میں اس سال کے کام پر ریویو کرتا ہوں.اس سال خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک تو تفسیر صغیر یعنی قرآن کریم کا اردو با محاورہ ترجمہ اور مختصر تفسیر شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.یہ اس سال کا کارنامہ ہے.جو دوست اس تفسیر کو پڑھیں گے وہ إِنْشَاءَ اللهُ اس سے فائدہ اٹھائیں گے.یہ کام صرف 3 ماہ میں ہوا ہے یعنی مئی کے آخر میں یہ کام شروع ہوا تھا اور اگست کے شروع میں یہ کام مکمل ہو گیا تھا.دوسرے علماء جو ہماری جماعت سے تعلق نہیں رکھتے وہ اس کا مقابلہ اگر دوسری تفسیروں سے کریں خواہ وہ انگریزی میں ہوں یا عربی زبان میں تو اُن کو پتا لگے گا کہ یہ تفسیر خدا تعالیٰ کے فضل سے ان پر ہر لحاظ سے غالب ہے.اور گو یہ تفسیر صغیر ہے مگر اس میں بعض مضامین ایسے آگئے ہیں جو تفسیر کبیر میں بھی نہیں.ملک غلام فرید صاحب جو انگریزی تفسیر القرآن لکھ رہے ہیں انہوں نے لکھا کہ مجھے ایک نسخہ تفسیر صغیر کا جلد بھجوا دیا جائے تا کہ میں انگریزی تفسیر القرآن کے مسودہ میں مناسب جگہوں پر اصلاح کرلوں یا اضافہ کرنے کی ضرورت ہو تو اضافہ کرلوں چنانچہ اُن کو کتاب بھجوا دی گئی ہے.گوشروع میں صرف ایک ہزار کاپی کی اشاعت کا اعلان ہوا تھا مگر اس وقت تک خدا تعالیٰ کے فضل سے تین ہزار چھ سو کی درخواست آ چکی ہے مگر پریس اتنی تعداد میں تفسیر چھاپ نہیں سکا اس لئے جن لوگوں کی خریداری کے لئے درخواستیں آئی ہوئی ہیں انہیں باری باری اور آہستہ آہستہ تفسیر دے دی جائے گی.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تفسیر میں اکثر مضامین آگئے ہیں.پہلے خیال تھا کہ اس کے 1200 صفحات ہوں گے مگر بعد میں مضمون لمبا ہو گیا.چنانچہ اب اصل تفسیر کے 1320 صفحات ہیں اور 34 صفحات ضمیمہ کے ہیں.جو نوٹ لمبے ہو گئے ہیں انہیں تفسیر کے آخر میں بطور ضمیمہ لگا دیا گیا ہے.پھر 112 صفحات کی فہرست مضامین بھی جسے انگریزی میں انڈیکس کہتے ہیں کتاب کے شروع میں لگا دی گئی ہے.یہ انڈیکس اتنا وسیع ہے کہ پہلے

Page 335

انوار العلوم جلد 26 283 تمام انڈیکسوں سے اعلیٰ ہے اور ان سے بہت زیادہ مضامین اس میں آگئے ہیں.ترجمہ کے متعلق یہ خیال رکھا گیا ہے کہ وہ بامحاورہ ہو.اس سے پہلے تمام تراجم قریباً تحت اللفظ ہوتے تھے.یعنی عربی زبان میں جس لفظ کا جو مقام ہوتا تھا اُس کو بیان کر دیا جاتا تھا لیکن اُس میں یہ نقص ہوتا تھا کہ اردو جاننے والا جس کو قرآن کریم سمجھانا مقصود ہوتا تھا اس کے معنی اچھی طرح سمجھ سکتا تھا لیکن با محاورہ ترجمہ سے ہر اُردو جاننے والا قرآن کریم کا مفہوم آسانی سے سمجھ سکتا ہے.اس لئے ہم نے با محاورہ ترجمہ کیا ہے اور عربی زبان کے لحاظ سے جو مقام کسی لفظ کا تھا اُسے ترجمہ کے نیچے نوٹ میں ظاہر کر دیا ہے.اس کے علاوہ قرآن کریم کے مختصر مضامین بھی درج کر دیئے ہیں.اس طرح ترجمه با محاورہ بھی ہو گیا ہے.تحت اللفظ بھی ہو گیا ہے اور تفسیر بھی ساتھ آگئی ہے.غرض یہ تفسیر گو مختصر ہے مگر ایسی مکمل ہے کہ بعض مضامین اس میں ایسے آگئے ہیں کہ وہ تفسیر کبیر میں بھی نہیں آئے.اب جو شخص تفسیر کبیر کی طرح ان نوٹوں کو پھیلانا چاہے گا وہ انہیں پھیلا سکے گا اور جو شخص انہیں پھیلانے کی قابلیت نہیں رکھتا وہ قرآن کریم کے مفہوم سے واقف ہو جائے گا.دوسری چیز جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے وہ یہ ہے کہ پچھلے سال میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر ایک تقریر میں کہا تھا کہ گو ہم نے اب تک فلپائن میں اپنا کوئی مبلغ نہیں بھیجا مگر تا ہم وہاں 72 افراد سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے ہیں.اب اطلاع آئی ہے کہ وہاں سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے والوں کی تعداد 200 تک پہنچ گئی ہے.ان لوگوں میں سکولوں اور کالجوں کے طالب علم اور گورنمنٹ کے بعض بڑے بڑے افسر جیسے محکمہ تعلیم کے افسران اور اسی طرح بعض دوسرے محکموں کے افسر شامل ہیں.بعض سکول اور کالج ایسے ہیں جن کے طلباء کی ایک بڑی تعداد احمدیت میں داخل ہو چکی ہے.پس کیا بلحاظ کمیت اور کیا بلحاظ کیفیت دونوں لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ہمیں فلپائن میں فتح عظیم بخشی ہے.فلپائن کوئی معمولی ملک نہیں بلکہ بڑا اہم ملک ہے.اس کو ابتداء میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا بہت قدیم زمانہ میں مسلمان سیلون آئے.سیلون سے انڈونیشیا گئے اور انڈونیشیا

Page 336

انوار العلوم جلد 26 284 سے جا کر انہوں نے فلپائن فتح کیا.بعد میں اس پر سپین نے قبضہ کر لیا.اور پھر سپین سے یہ ملک امریکہ نے چھین لیا اور پین والوں نے مسلمانوں کو بالجبر عیسائی بنایا.چنانچہ ایک جگہ پر تلوار لٹکا دی گئی اور اعلان کر دیا گیا کہ جو مسلمان اس کے نیچے سے گزرتے ہوئے عیسائیت کا اقرار کرے گا اُس کو کچھ نہیں کہا جائے گا.لیکن جو عیسائیت کا اقرار نہیں کرے گا اُس کی گردن اسی تلوار سے اڑا دی جائے گی.اس طرح فلپائن کے سارے مسلمان باشندوں کو ایک ہی دن میں عیسائی بنالیا گیا.پس فلپائن کوئی معمولی ملک نہیں بلکہ اس کی حیثیت سپین سے دوسرے نمبر پر ہے.اس جگہ ہمارے سلسلہ کا پھیل جانا بڑی برکت کا موجب ہے.خصوصاً اس لئے بھی کہ اس ملک کی رومن کیتھولک حکومت ہمارے مبلغوں کو نہ صرف وہاں جانے نہیں دیتی بلکہ وہاں کے نو مسلموں کو پڑھنے کے لئے ربوہ بھی نہیں آنے دیتی.اب خبر آئی ہے کہ برابر تین سال کے جھگڑے کے بعد حکومت نے ایک نو مسلم کو ربوہ آنے کی اجازت دی ہے اور اس کے متعلق بھی یہ یقین نہیں کہ وہ یہاں آ بھی سکے گا یا نہیں.بہر حال اس ملک کی یہ کیفیت ہے کہ ہمارے آدمیوں کو اُدھر جانے نہیں دیا جاتا اور اُدھر کے آدمیوں کو ادھر نہیں آنے دیا جاتا تاکہ کہیں عیسائیت میں رخنہ نہ پیدا ہو جائے.پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فلپائن کے ایسے علاقہ کے لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جو سارے فلپائن پر غالب ہیں.پچھلی جنگِ عظیم میں جاپانیوں کا مقابلہ انہی لوگوں کی مدد سے کیا گیا تھا.یہ لوگ جنگل میں رہتے ہیں اور ہم تو اس فعل کو نا جائز سمجھتے ہیں مگر چونکہ وہ اپنے پہلے مذہب کے پیرو ہیں اس لئے وہ رائفلیں لے کر جنگل سے نکل آتے ہیں اور جو عیسائی انہیں نظر آئے اُسے گولی مار دیتے ہیں.گویا ان کی مثال قبائلی پٹھانوں کی طرح ہے جو نہی انہیں کوئی عیسائی نظر آتا ہے وہ اسے گولی مار دیتے ہیں اور پھر جنگل میں چُھپ جاتے ہیں.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی علاقہ میں احمدیت پھیل رہی ہے اور وہاں ایسے مخلص پیدا ہو گئے ہیں جو دوسرے احمدیوں کی نگرانی کرتے رہتے ہیں اور ہمیں اطلاع دیتے رہتے ہیں کہ فلاں احمدی میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے.اس کی اصلاح کی جائے یا اسے جماعت سے خارج کیا جائے.

Page 337

انوار العلوم جلد 26 285 اب میں آئندہ سال کا پروگرام بتا تا ہوں آئندہ سال کے لئے ہمارا یہ پروگرام ہے کہ مسند احمد بن حنبل کی تبویب کو مکمل کیا جائے.ملک سیف الرحمن صاحب اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں نے وعدہ کیا ہے کہ وہ آئندہ نومبر تک اس کتاب کو مکمل کر دیں گے.چونکہ اس کام کے لئے علم حدیث کی پوری مہارت کی ضرورت تھی اس لئے یہ کام سلسلہ کے علماء کے سپرد کیا گیا تھا.لیکن باوجود اس کے کہ سلسلہ سے ہزاروں روپے لے کر انہوں نے تعلیم حاصل کی تھی اور سینکڑوں روپے ماہوار دے کر ہم نے ان کو حدیث کا علم سکھانے کے لئے ماہرینِ حدیث مقرر کئے تھے پھر بھی ان میں سے بعض کی لالچ اور حرص غیر احمدی مولویوں سے کم ثابت نہیں ہوئی لیکن اس کے باوجود میرا ارادہ ہے کہ آئندہ سال اس کتاب کو ان سے مکمل کرایا جائے گا.إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالیٰ اس کے علاوہ میرا یہ بھی ارادہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اسلام کی اردو انسائیکلو پیڈیا بھی تیار کرائی جائے.میرا اندازہ ہے کہ یہ کتاب دو ہزار صفحات پر مشتمل ہوگی اور جس طرح تفسیر صغیر کے بعد قرآن کریم کی مختصر تفسیر اور با محاورہ ترجمہ کے لئے کسی اور کتاب کی کم ہی ضرورت پیش آئے گی اسی طرح اس انسائیکلو پیڈیا کے بعد اسلام کے متعلق حوالہ جات نکالنے کے لئے کسی اور کتاب کی بہت کم ضرورت پیش آئے گی.اب میں ایک نئی قسم کے وقف کی تحریک کرتا ہوں.میں نے اس سے پہلے ایک خطبہ جمعہ میں بھی اس کا ذکر کیا تھا اور اُس وقت بہت سے لوگوں نے بغیر تفصیلات سنے اپنے آپ کو پیش کر دیا تھا.میں نے اُن کو کہہ دیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی اور میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر میں اس نئے وقف کی تفصیلات بیان کر دیں تو ان تفصیلات کو سن کر اگر تم میں ہمت پیدا ہوئی تو پھر تم اپنے آپ کو پیش کر دینا.میری اس وقف سے غرض یہ ہے کہ پشاور سے لے کر کراچی تک ہمارے معلمین کا جال پھیلا دیا جائے اور تمام جگہوں پر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر یعنی دس دس پندرہ پندرہ میل پر ہما را معلم موجود ہو اور اُس نے مدرسہ جاری کیا ہوا ہو یا ڈ کان کھولی ہوئی ہو اور وہ سارا سال اُسی علاقہ کے لوگوں میں رہ کر کام کرتا رہے.اور گو یہ سکیم بہت وسیع ہے مگر میں

Page 338

انوار العلوم جلد 26 286 نے خرچ کو مد نظر رکھتے ہوئے شروع میں صرف دس واقفین لینے کا فیصلہ کیا ہے.ممکن ہے بعض واقفین افریقہ سے لئے جائیں یا اور غیر ملکوں سے بھی لئے جائیں مگر بہر حال ابتدا دس واقفین سے کی جائے گی اور پھر بڑھاتے بڑھاتے ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچانے کی کوشش کی جائے گی.اس سکیم کی تفصیل یہ ہے کہ ہم اس سکیم کے واقف زندگی کو چالیس سے ساٹھ روپیہ تک ماہوار الاؤنس دیں گے.جس کے معنے یہ ہیں کہ انتہائی الاؤنس کو مد نظر رکھتے ہوئے بھی اس سکیم کا خرج دس معلمین پر صرف 7200 روپے سالا نہ ہوا کرے گا.مگر کچھ امداد ہم زمینداروں سے بھی لیں گے.اور وہ اس طرح کہ جہاں جماعتیں زیادہ ہوں گی وہاں ہم کوشش کریں گے کہ وہ آٹھ ، دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں.اُس مقام پر ہم اپنے نئے واقف زندگی کو ٹھہرائیں گے جو اُس زمین میں باغ لگائے گا اور اُس باغ میں اپنا مکان بنائے گا.اس مکان کے بنانے میں وہ اس علاقہ کے احمدیوں سے کوئی مدد نہیں لے گا ہاں مزدوری وغیرہ کی مدد لے گا یا پرانے درخت تحفہ کے طور پر قبول کرے گا جن سے چھتیں اور دروازے بن سکیں.پھر بعض واقفین کو اگر ممکن ہو سکا تو ہم کمپونڈری بھی سکھا دیں گے اور کچھ رقم دواؤں کیلئے بھی دیدیں گے اور ان سے جو آمد ہو گی وہ ہم انہی پر خرچ کریں گے.ان سے خود کچھ نہیں لیں گے.اسی طرح ہم بعض واقفین زندگی کو کہیں گے کہ وہاں سکول کھول دیں جو ابتدا میں چاہے پرائمری تک ہی ہوں اور اُن میں مدرسہ احمدیہ کا نصاب جو اُردو میں ہوگا پڑھانا شروع کر دیں تا کہ اُس علاقہ میں دو تین سال کے اندر اندر مزید معلمین پیدا ہو جائیں.اگر ان سکولوں میں علاقہ کے مناسب حال ید کوئی فیس بھی لگا دی جائے تو وہ ہم نہیں لیں گے بلکہ وہ فیس بڑے اور چھوٹے استادوں میں تقسیم کر دی جائے گی.ہاں ہمارا دیا ہوا عطیہ اُس میں ملا لیا جائے گا تا کہ تمام استادوں کو معقول رقم مل جائے.ہمارا یہ بھی ارادہ ہے کہ بعض واقفین کو اُس علاقہ میں جن میں ان کا تقرر کیا جائے.روزمرہ کی ضرورت کی چیزوں کی دُکانیں کھلوا د میں اور جہاں دس دس میل تک کوئی حکیم اور طبیب نہ ہو وہاں عطاری کی دُکان کھلوا دیں.جس میں عرق بادیان،

Page 339

انوار العلوم جلد 26 287 عرق گاؤ زبان اور خشک دوائیں جیسے بنفشہ ، لسوڑیاں اور کالی مرچ وغیرہ رکھوائی جائیں.ان دکانوں کو چلانے کے لئے روپیہ ہم اس سکیم سے دیں گے.اس سکیم کو چلانے کے لئے اُن دوستوں سے جو تعاون کے لئے تیار ہوں چھ روپیہ سالا نہ چندہ لیا جائے گا جسے پھیلا کر یعنی آٹھ آنہ ماہوار کے حساب سے بھی دیا جاسکتا ہے.اس طرح صرف دس ہزار آدمی مل کر اس سکیم کو پانچ چھ گنا تک وسیع کر سکتے ہیں.اور پھر اس سکیم کو اور بھی پھیلایا جا سکتا ہے.اگر خدا چاہے اور ہمیں ایک لاکھ آدمی اس سکیم میں چندہ دینے والا مل جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ قریباً ایک ہزار معلم رکھا جا سکتا ہے.اور جو ابتدائی سکیم میں نے بتائی ہے اس سے سو گنا کام کیا جا سکتا ہے.پس میں جماعت کے دوستوں سے کہتا ہوں کہ وہ جتنی قربانی کر سکیں اس سلسلہ میں کریں اور اپنے نام اس سکیم کے لئے پیش کریں.اگر ہمیں ہزاروں معلم مل جائے تو پشاور سے کراچی تک کے علاقہ کو ہم دینی تعلیم کے لحاظ سے سنبھال سکتے ہیں اور ہر سال دس دس بیس بیس ہزار اشخاص کی تعلیم و تربیت ہم کر سکیں گے.بہر حال دوست اس سکیم کو نوٹ کر لیں.اس کے لئے اپنے نام پیش کریں اور اس سلسلے میں اگر کوئی مفید بات ان کے ذہن میں آئے تو اس سے بھی اطلاع دیں.میں نے مختصراً اس سکیم کو بیان کر دیا ہے کہ ہم ایسے واقفین کو 40 سے 60 روپیہ ماہوار تک دیں گے.اگر ہو سکا تو کمپونڈری کی تعلیم دلائیں گے.علاقہ کے زمینداروں کو تحریک کریں گے کہ وہ آٹھ دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں.اس زمین میں ہم باغ لگوادیں گے.بعض علاقوں میں بڑے بڑے زمیندار احمدی ہیں اُن کے لئے اس قدر زمین وقف کرنا کوئی مشکل امر نہیں.پھر واقف زندگی اس زمین سے اس قدر پیدا وار کر سکتا ہے جو اُ سے کفایت کر سکے.اب تو ایسے طریق نکل آئے ہیں جن پر عمل کر کے تھوڑی زمین سے بھی زیادہ پیداوار حاصل کی جاسکتی ہے.امریکہ میں ایک ایک ایکڑ سے اتنی پیداوار لی جاتی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنی پیداوار ہیں ایکڑ زمین سے بھی حاصل نہیں ہوتی.مثلاً امریکہ سے مجھے مکئی کا ایک نمونہ آیا تھا.اس مکئی کے متعلق فرم والوں نے لکھا تھا کہ اس سے فی ایکڑ سال میں ہم پچاس سے سومن تک

Page 340

انوار العلوم جلد 26 288 پیداوار حاصل کرتے ہیں لیکن ہم ایک ایکڑ سے صرف ہمیں چھپیں من پیدا کرتے ہیں.اگر اتنی پیداوار ہمارے ملک میں بھی ہونے لگ جائے تو یہ آٹھ ایکڑ زمین بتیس ایکڑ کے برا بر ہو جائے گی.پھر اگر ہم اس میں گندم بوئیں تو اور زیادہ آمد ہوگی.اگر گنا بوئیں تو آمد اور بھی بڑھ جائے گی.پشاور کی طرف گنا عام بویا جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں تھوڑی تھوڑی زمین سے بھی بڑی آمد پیدا کی جاتی ہے اور معمولی معمولی زمیندار بھی بڑے دولت مند ہوتے ہیں.وہاں زمین کی بڑی قدر ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ اس علاقہ کی ایک لڑکی جو بڑی مخلص احمدی ہے میرے پاس آئی.اس کے باپ نے جو بڑا زمیندار تھا اپنی زمین میں سے لڑکوں کے ساتھ اپنی اس لڑکی کو بھی حصہ دے دیا تھا.اُس نے مجھے بتایا کہ میرے باپ نے مجھے دوسو پچھتر جریب زمین دے دی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ اُسے ایک سو سینتیس ایکڑ زمین مل گئی تھی.پس اگر زمینیں رکھنے والے دوست آٹھ آٹھ دس دس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کریں تو ہمارا واقف زندگی بڑی عمدگی سے گزارہ کر سکتا ہے.چک منگلا اور چنڈ بھروانہ کی طرف جو احمدی ہوئے ہیں اُن میں سے بالعموم جو احمدی یہاں آتا ہے وہ کہتا ہے میری زمین 8 مربعے ہے.دوسرا کہتا ہے میری زمین سولہ مربعے ہے.تیسرا کہتا ہے میری زمین 40 مربعے ہے.8 مربعوں سے کم تو مجھے کسی نے بھی زمین نہیں بتائی.اور جس احمدی کے پاس 8 مربعے زمین ہو اس کے معنے یہ ہیں کہ وہ دوسو ایکٹر کا مالک ہے اور جس کے پاس 40 مربعے زمین ہے اس کے پاس ایک ہزار ایکڑ زمین ہے اور اس قدر زمین میں سے آٹھ ایکڑ اس سکیم کے لئے وقف کر دینا کونسی مشکل بات ہے.یہ علاقہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہا ہے اور یہی وہ بہادر لوگ ہیں جن کی ایک عورت کی مثال کل میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں بیان کی تھی.وہ بیعت کرنے یہاں آئی ہوئی تھی کہ شام کو اُس کی بیٹی بھی یہاں آ گئی.اُس نے کہا اماں! تو نے مجھے کہاں بیاہ دیا ہے.وہ لوگ تو میری بات سنتے ہی نہیں.تو نے مجھے جو کتابیں دی تھیں میں انہیں پڑھ کر سناتی ہوں تو وہ سنتے ہی نہیں.میں احمدیت پیش کرتی ہوں تو وہ ہنسی اور مذاق کرتے ہیں

Page 341

انوار العلوم جلد 26 289 اور مجھے پاگل قرار دیتے ہیں.وہ عورت کہنے لگی بیٹی ! تو میری جگہ آ کر اپنے والد بھائیوں اور دوسرے عزیزوں کی روٹی پکا.میں تیرے سسرال جاتی ہوں اور دیکھتی ہوں کہ کون میری بات نہیں سنتا.میں ان سب کو احمدی بنا کر ہی دم لوں گی.شاید یہی عورت جلسہ سالانہ سے چند ماہ قبل یہاں آئی.اس کے پاس ایک بچہ تھا.اس نے مجھے بتایا کہ یہ میرے بھائی کا بیٹا ہے وہ ربوہ نہیں آتا تھا.میں اُس کا بچہ اٹھا لائی ہوں کہ وہ اس بچہ کی وجہ سے تو ربوہ آئے گا.مجھے کسی نے بتایا تھا کہ اس کا وہ بھائی احمدیت کے قریب ہے لیکن چودھری فتح محمد صاحب نے جن کے سپرد یہ علاقہ ہے بتایا ہے کہ وہ احمدی ہو گیا ہے اور اس وقت جلسہ سالانہ پر آیا ہوا ہے.“ اس موقع پر چودھری فتح محمد صاحب کے کہنے پر وہ دوست کھڑے ہو گئے اور سب حاضرین جلسہ نے انہیں دیکھا.تو دیکھو یہ اللہ تعالیٰ کا کتنا بڑا فضل ہے کہ یا تو وہ بھائی ربوہ آتا نہیں تھا اور اس کی یہن اس کا بچہ اٹھالائی کہ شاید وہ اس بچہ کی وجہ سے ربوہ آ جائے اور یا اب وہ احمدی ہو گیا ہے اور اس وقت جلسہ سالانہ پر آیا ہوا ہے.“ اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ : عورتوں نے مجھے بتایا ہے کہ پچھلے سال جلسہ سالانہ کے انتظامات میں بعض باتیں ایسی تھیں جو اچھی تھیں مگر اس سال وہ نظر نہیں آئیں.مثلاً انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ پچھلے سال اُس سڑک کو جو جلسہ گاہ سے میرے گھر کی طرف جاتی ہے پندرہ ہیں خدام مقرر کر کے تین حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا.ایک طرف سے عورتیں گزرتی تھیں اور ایک طرف سے مرد گزرتے تھے اور درمیان میں سے موٹرمیں گزرتی تھیں لیکن اس سال یہ انتظام نہیں ہے.تعجب ہے کہ انتظام میں ہر سال ترقی ہونی چاہیے تھی مگر اس کے خلاف اس انتظام میں خرابی پیدا ہوگئی ہے.بجائے اس کے کہ اس سال پہلے سے بھی زیادہ اچھا انتظام کیا جاتا اور خدام کی تعداد میں اضافہ کر دیا جاتا تا وہ اس سڑک کو ہی نہیں بلکہ دوسری سڑکوں کو بھی تین حصوں میں پھاڑ کر اس قسم کا انتظام کر دیتے اس انتظام کو سرے سے ہی

Page 342

انوار العلوم جلد 26 290 اڑا دیا گیا ہے جس کے نتیجہ میں عورتوں کو تکلیف ہوئی ہے.میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے دلوں میں پختہ عزم کر لو کہ تم نے احمدیت کو مضبوط کرنا ہے اور قربانی کے لئے تیار رہنا ہے.دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کس قدر قربانی کیا کرتے تھے.چند صحابہ دشمن کے مقابلہ میں چلے جاتے تھے اور ان کے پڑے کے پڑے اُڑا دیتے تھے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں قیصر کو بار بار شکست ہوئی تو اُس نے ایک دربار منعقد کیا اور اس میں اپنے ساتھیوں کو اُبھارا کہ تم پوری ہمت اور جوش سے مسلمانوں کا مقابلہ کرو.اُس زمانہ میں قیصر کی حکومت ویسی ہی تھی جیسے آج کل امریکہ اور روس کی حکومتیں ہیں.چنانچہ قیصر کی طرف سے اس کا ایک جرنیل ایک بڑا بھاری لشکر لے کر مسلمانوں کے مقابلہ پر آیا.اسلامی سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے صحابہ کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور کہا آپ لوگ بتائیں قیصر روما کے لشکر کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟ اُس وقت حضرت خالد نے کہا میرا مشورہ تو یہ ہے کہ ساٹھ ہزار کے لشکر کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف 60 آدمی جائیں تا کہ اگر ہمیں فتح حاصل ہو تو دشمن پر ہمارا رعب بیٹھ جائے.پھر انہوں نے کہا آپ مجھے اجازت دیں کہ میں اپنی مرضی کے ساٹھ آدمی چن لوں.میں ان سپاہیوں کے ساتھ قلب لشکر پر حملہ کر دوں گا اور ہمارے مد نظر صرف یہ بات ہوگی کہ ہم دشمن کے سپہ سالار کو قتل کر دیں.چنانچہ حضرت ابو عبیدہ کی رضا مندی سے حضرت خالد نے 60 آدمی چن لئے اور انہیں کہہ دیا کہ اسلامی لشکر اس وقت خطرہ میں ہے تمہارا فرض ہے کہ تم دشمن کے اندر نیزہ کی طرح گھستے جاؤ اور سپہ سالار پر حملہ کر دو.اگر تم اس حملہ میں کامیاب ہو گئے اور تم نے سپہ سالار کو مار دیا تو اسلام کی فتح یقینی ہے.چنانچہ ان 60 سپاہیوں نے اتنی تیزی اور شدت سے دشمن کے قلب پر حملہ کیا کہ سارا لشکر بھاگ گیا.اس حملہ میں کچھ صحابہ زخمی ہو کر گر گئے.ان میں حضرت عکرمہ ، حضرت فضل بن عباس اور بعض دوسرے صحابہ بھی شامل تھے.تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت عکرمہ سخت زخمی پڑے تھے کہ ایک صحابی نے دیکھا کہ وہ شدت پیاس کی وجہ سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہے ہیں.وہ جلدی سے ان کے پاس

Page 343

انوار العلوم جلد 26 291 گئے اور کہنے لگے بھائی ! تم بہت پیاسے معلوم ہوتے ہو میرے پاس پانی کی ایک چھاگل ہے تم اس سے کچھ پانی پی لو تا تمہاری زندگی تازہ ہو جائے.حضرت عکرمہ نے اپنے دائیں طرف دیکھا تو حضرت فضل بن عباس بھی زخمی پڑے تھے اور وہ بھی شدت پیاس کی وجہ سے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہے تھے.انہوں نے اس صحابی کو کہا مجھے نظر آ رہا ہے کہ اس وقت میرا ایک اور ساتھی پانی کا حاجتمند ہے.اس لئے تمہیں خدا کی قسم ! پہلے انہیں پانی پلاؤ پھر میرے پاس آنا.چنانچہ حضرت عکرمہ کے قسم دینے پر وہ صحابی حضرت فضل کے پاس گئے لیکن انہوں نے بھی اپنے ایک اور ساتھی کی طرف اشارہ کر کے کہا پہلے اُسے پانی پلاؤ پھر میرے پاس آنا.اُس زخمی نے اگلے ساتھی کی طرف اشارہ کیا.اسی طرح وہ صحابی چھا گل لے کر سات زخمیوں کے پاس گئے جو وہاں پڑے تھے لیکن اُن ساتوں میں سے ہر ایک نے اپنے دوسرے ساتھی کو پانی پلانے کے لئے کہا.جب وہ صحابی آخری زخمی کے پاس گئے تو وہ فوت ہو چکے تھے اور جب وہ حضرت عکرمہ کے پاس واپس آئے تو وہ بھی فوت ہو چکے تھے.3 اسی طرح تاریخ میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجد کے قریب کے علاقہ کے بعض لوگ آئے اور انہوں نے درخواست کی کہ ان کے ساتھ تبلیغ کے لئے بعض مسلمانوں کو بھجوا دیا جائے.آپ نے ان کے ساتھ 70 حفاظ بھجوا دیئے.جب یہ لوگ وہاں پہنچے تو انہوں نے سازش کر کے ان مسلمانوں پر حملہ کر دیا اور دو آدمیوں کے سوا جو اونٹوں کو چرانے کے لئے باہر چلے گئے تھے باقی سب کو شہید کر دیا.جب وہ واپس آئے اور انہوں نے دیکھا کہ ان کے سب ساتھی میدان میں شہید ہو چکے ہیں تو ان میں سے ایک نے تو یہ کہتے ہوئے کہ جہاں ہماری جماعت کا سردار شہید ہوا ہے میں اس جگہ کو نہیں چھوڑ سکتا تن تنہا کفار پر حملہ کر دیا اور لڑتا ہوا مارا گیا.اور دوسرے کو گرفتار کر لیا گیا.بعد میں ایک قسم کی بناء پر جو قبیلہ کے ایک سردار نے کھائی ہوئی تھی اُسے چھوڑ دیا گیا.ان حفاظ میں جنہیں شہید کیا گیا تھا حضرت ابو بکڑ کے غلام عامر بن فہیر ہ بھی تھے یہ عا مر بن فہیرہ وہی تھے جو ہجرت کے وقت رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر کے ساتھ تھے.

Page 344

انوار العلوم جلد 26 292 جب انہیں ایک شخص نے گلے کے پاس نیزہ مارا اور وہ نیچے گرے تو گرتے وقت ان کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ 4 خدائے کعبہ کی قسم ! میں اپنی مراد کو پہنچ گیا.اُس وقت اس قبیلہ میں باہر کا ایک مہمان بھی آیا ہوا تھا جسے قبیلہ کے لوگ حملہ کے وقت اپنے ساتھ لے گئے تھے.اس نے بعد میں بتایا کہ جب میں نے انہیں فُوتُ بِرَبِّ الكَعْبَةِ کہتے سنا تو میں سخت حیران ہوا اور میں نے کسی شخص سے پوچھا کہ یہ شخص تو مر گیا ہے اور پھر مرا بھی اپنے وطن اور عزیزوں سے دُور ہے اسے تو مرتے وقت ہائے میری ماں یا ہائے میری بیوی وغیرہ کہنا چاہیے تھا اس نے فُزُتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ کے الفاظ کیوں کہے اس نے مجھے بتایا کہ مسلمان ایسے ہی پاگل ہوتے ہیں.جب وہ خدا کی راہ میں مارے جاتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے ہیں.وہ شخص کہتا ہے کہ اس بات کا میرے دل پر اتنا اثر ہوا کہ میں مدینہ پہنچا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا کہ اسلام کیا چیز ہے؟ آپ نے مجھے بتایا تو میں نے اسلام قبول کرلیا.یہ شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سالہا سال تک زندہ رہا.مسلمان اسے ملتے اور کہتے کہ ستر حفاظ کی شہادت کا واقعہ سُنا ؤ تو وہ سارا واقعہ بیان کرتا اور ساتھ ہی کہتا کہ مجھے جب کبھی اس واقعہ کا خیال آتا ہے تو میرے بدن کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اب بھی جبکہ میں نے یہ واقعہ سنایا ہے میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا کر دیکھ لو میرے بال کھڑے ہیں.مجھ پر جس چیز کا اثر ہوا وہ یہ تھا کہ ایک شخص اپنے وطن سے دُور، اپنے بیوی بچوں اور عزیزوں سے دُور ، دشمن کے علاقہ میں مارا جاتا ہے اور وہ مرتے ہوئے ہائے میر اوطن ہائے میری ماں ہائے میری بیوی یا ہائے میرے بچے نہیں کہتا بلکہ کہتا ہے.فُزُتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ خداے کعبہ کی قسم ! میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا.یہ الفاظ اُسی وقت زبان سے نکل سکتے ہیں جب کسی سچائی پر انسان کا مستحکم یقین ہو.پس میں تو اس واقعہ کو دیکھ کر مسلمان ہو گیا تھا اور سمجھ گیا تھا کہ اسلام سچا ہے.5 تو یا د رکھو کہ اگر تمہارے اندر ایمان پیدا ہو جائے اور تقویٰ اور اخلاص کو لے کر تم کھڑے ہو جاؤ تو دنیا تمہارے مقابلہ میں کامیاب نہیں ہو سکتی.اگر تم ہر قسم کی قربانیوں

Page 345

انوار العلوم جلد 26 293 کے لئے تیار رہو اور احمدیت کو مضبوط کرنے کے لئے کوشاں رہو اور اپنے اختلافات کو مٹا کر متحد ہو جاؤ تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ تمہیں اپنے نیک مقاصد میں کامیاب نہ کرے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ تم ہمت کر کے کھڑے ہو جاؤ اور عزم کر لو کہ تم نے احمدیت کو مضبوط کرنا ہے.اور پھر اس کام میں لگ جاؤ تو اِنْشَاءَ اللهُ فتح ونصرت تمہارے قدم چومے گی اور دشمن کی مخالفت کے باوجود احمدیت پھیلتی چلی جائے گی.یہاں تک کہ وہ وقت بھی آجائے گا جب سب دنیا میں احمدی ہی احمدی ہو جائیں گے.ایک ضروری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے مسجد ہالینڈ کی تعمیر کے لئے عورتوں میں ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی.جس میں سے نانوے ہزار روپیہ عورتیں اس وقت تک دے چکی ہیں.لیکن جو اندازہ وہاں سے آیا تھا وہ ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تھا اور عملاً اب تک ایک لاکھ پچہتر ہزار روپیہ خرچ ہو چکا ہے.تحریک جدید کا ریکارڈ کہتا ہے کہ عورتیں ننانوے ہزار روپیہ دے چکی ہیں اور پھر مسجد لندن جو بنی تھی وہ بھی عورتوں کے چندہ سے ہی بنی تھی.دراصل عورتوں نے برلن میں مسجد تعمیر کرنے کے لئے چندہ جمع کیا تھا.میں نے اس چندہ کی تحریک کی تو عورتوں نے اپنے زیور ا تا را تا ر کر یہ چندہ جمع کر دیا.چنانچہ اس روپیہ سے مسجد برلن کے لئے زمین خرید لی گئی.لیکن حکومت کی طرف سے بعض کڑی شرائط لگا دی گئی تھیں جن کی وجہ سے ہم نے وہ زمین بیچ دی اور جو روپیہ ملا اس سے لندن میں مسجد تعمیر کر دی.اس مسجد پر قریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ آیا تھا پھر اس کے ساتھ دو مکان سوا سات ہزار پونڈ میں خریدے گئے.سو اسات ہزار پونڈ کے معنے یہ ہیں کہ آجکل کے حساب سے ان مکانات پر ستانوے ہزار روپیہ خرچ آچکا ہے اور قریباً ڈیڑھ لاکھ مسجد پر بھی خرچ آیا تھا.گویا عورتیں دو لاکھ سینتالیس ہزار روپیہ پہلے بھی دے چکی ہیں اور نانوے ہزار روپیہ مسجد ہالینڈ کے لئے دے چکی ہیں.لیکن اس کے با وجود تحریک جدید والے عورتوں پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ وہ انہیں چھہتر ہزار روپیہ اور دیں حالانکہ اگر مسجد لندن اور وہاں کے مکانات جو عورتوں کے چندہ سے ہی بنے ہیں فروخت کئے جائیں تو اس رقم سے مسجد ہالینڈ کا سارا قرض ادا ہو سکتا ہے بلکہ وہاں ایک اور

Page 346

انوار العلوم جلد 26 مسجد بھی بنائی جاسکتی ہے.294 میں نے وکالت مال کے شعبہ بیرون کے انچارج چودھری شبیر احمد صاحب کو بلایا اور ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کے پاس کوئی ایسا ریکارڈ ہے جس سے معلوم ہو کہ جب ہیگ سے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپے کا تخمینہ آیا تھا تو میں نے عورتوں سے اس قدر چندہ کرنے کی اجازت دی ہو کیونکہ عورتوں کا حق تھا کہ چندہ لینے سے پہلے ان سے پوچھ لیا جاتا کہ کیا وہ یہ چندہ دے بھی سکتی ہیں یا نہیں ؟ انہوں نے کہا افسوس ہے کہ اُس وقت ہم سے غلطی ہوئی اور ہم نے حضور سے دریافت نہ کیا کہ آیا مزید رقم بھی عورتوں سے جمع کی جائے یا نہ کی جائے ؟ ہمارے پاس ایسا کوئی ریکارڈ نہیں جس کی رُو سے زیادہ رقم اکٹھا کرنے کی منظوری لی گئی ہو.میں نے کہا میں یہ مان لیتا ہوں کہ آپ نے ایک لاکھ چونتیس ہزار روپیہ کے جمع کرنے کی منظوری مجھ سے نہ لی لیکن جب وہ رقم ایک لاکھ پچہتر ہزار بن گئی تو پھر تو آپ نے مجھ سے منظوری لینی تھی کیا آپ نے مجھ سے منظوری لی ؟ انہوں نے پھر یہی جواب دیا کہ ہم نے اس کے متعلق بھی حضور سے کوئی منظوری نہیں لی اور ہمارے پاس کوئی ایسا کاغذ نہیں جس میں یہ لکھا ہو کہ عورتوں سے ایک لاکھ چونتیس ہزار یا ایک لاکھ پچھتر ہزار روپیہ جمع کرنا منظور ہے.اس لئے میں یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لجنہ اماءاللہ اس سال صرف چھتیس ہزار روپیہ چندہ کر کے تحریک جدید کو دے دے اور باقی روپیہ تحریک جدید خود ادا کرے.لجنہ اماءاللہ چھتیں ہزار روپے سے زیادہ نہیں دے گی اور مسجد ہالینڈ ہمیشہ کے لئے عورتوں کے نام پر ہی رہے گی.اگر مسجد لندن کو بھی ملالیا جائے تو عورتیں تین لاکھ چھیالیس ہزار رو پیادا کر چکی ہیں.اور اگر ہیمبرگ جرمنی کی مسجد پر اس کا قیاس کیا جائے تو وہ چودہ لاکھ کا شہر ہے اور ہیگ سے بڑا ہے لیکن وہاں صرف ایک لاکھ ہیں ہزار روپیہ خرچ آیا ہے.اب فرینکفورٹ میں مسجد کی زمین لی جارہی ہے اور اندازہ ہے کہ وہاں مسجد کی تعمیر پر اس سے بھی کم خرچ آئے گا.دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت پر کتنا فضل کیا ہے.منارة امسیح کی تعمیر کے لئے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریک کی تو صرف دس ہزار روپیہ کی تحریک کی تھی اس پر میر حسام الدین صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے بڑے

Page 347

انوار العلوم جلد 26 295 بے تکلف تھے آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے منارہ کی تعمیر پر ایک لاکھ روپیہ سے کم خرچ نہیں آئے گا اور پھر موجودہ بنیا دوں پر تعمیر نہیں ہوسکتا.ہمارے نانا جان مرحوم میر ناصر نواب صاحب مینار بنوا ر ہے تھے انہوں نے کہا میں نے بڑی اچھی بنیا د رکھی ہے اس پر مینار بن جائے گا.میر حسام الدین صاحب کہنے لگے پھر مجھ سے تو یہ کام نہیں ہو سکتا آپ کسی اور سے بنوالیں.نانا جان کہنے لگے میں یہ مینار بنوا دوں گا اور ان ہی بنیادوں پر بنواؤں گا جو رکھی گئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میر حسام الدین صاحب سے فرمانے لگے میر صاحب! پھر آپ کا تو یہ منشاء ہے کہ ہم منارہ ہی نہ بنا ئیں.ایک لاکھ روپیہ تو ہمارے پاس نہیں.اب دیکھو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف دس ہزار روپیه ساری جماعت سے مانگتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک لاکھ روپیہ نہیں لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہم اپنی عورتوں سے ایک لاکھ روپیہ کی اپیل کرتے ہیں تو وہ اکٹھا کر دیتی ہیں.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میر صاحب ! آپ کی رائے کو مانا جائے تو پھر منارۃ المسیح نہیں بن سکتا اس لئے میں یہ کام میر ناصر نواب صاحب کے سپر د کرتا ہوں.چنانچہ بعد میں میر صاحب مرحوم نے ہی منارہ کی تعمیر شروع کروائی لیکن یہ کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں نہ ہو سکا بلکہ کچھ مدت تک میرے زمانہ خلافت میں بھی ملتوی رہا.اس پر میں نے دوبارہ چندہ جمع کیا اور تحریک کی کہ جو دوست ایک ایک سو روپیہ چندہ دیں گے اُن کے نام منارة امسیح پر لکھے جائیں گے اور تعمیر کا کام میں نے ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کے سپرد کیا.انہوں نے اجمیر سے سنگ مرمر منگوا کر اس پر پلستر کروایا.خیال تھا کہ یہ پلستر زیادہ دیر تک نہیں رہے گا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ پلستر چڑھ گیا اور 1947ء میں جب ہم یہاں آئے تو اُس وقت تک بھی بہت تھوڑا پلستر ٹوٹا تھا.اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ این انٹر پریٹیشن آف اسلام An Interpretation of Islam)ایک کتاب ہے جو پہلے ایک اٹالین پروفیسر نے جو عورت تھی لکھی تھی اور اس کا ترجمہ بھی امریکہ میں ایک اٹالین پروفیسر نے کیا تھا.اس کتاب کا دیباچہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے لکھا

Page 348

انوار العلوم جلد 26 296 ہے.اس کتاب میں اسلام کی جو تعریف کی گئی ہے.وہ آج تک کسی عیسائی مصنف نے نہیں کی.ڈیڑھ روپیہ اس کی قیمت ہے.اس کو شائع کرنے والا محکمہ چاہتا ہے کہ میں اس کے خریدنے کی سفارش کر دوں.درحقیقت یہ کتاب ہمارے ہاں تو زیادہ مفید بھی نہیں.کراچی، کویت، امریکہ اور یورپین ممالک میں مفید ہوسکتی ہے.ان جگہوں پر جو دوست اسلام کی خدمت کرنا چاہیں وہ یہ کتاب خریدیں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.مغربی پاکستان میں صرف کراچی ہی ایسی جگہ ہے جہاں اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے.کراچی سے کئی بار مجھے غیر احمدیوں نے لکھا ہے کہ ہمیں انگریزی لٹریچر دیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جس کو انگریزی لٹریچر پڑھنے کی عادت ہے اور ان میں اس کتاب کی اشاعت کی جاسکتی ہے.پس جن لوگوں کو یورپین اور انگریزی جاننے والے لوگوں میں اسلام کی تبلیغ کا شوق ہو وہ یہ کتاب خریدیں قیمت بھی زیادہ نہیں ہے.در حقیقت ایسی چیزیں آہستہ آہستہ پکتی ہیں جلسہ سالانہ کے دنوں میں نہیں پکتیں.جلسہ سالانہ کے موقع پر تو لوگوں کو تحریک ہی کی جاسکتی ہے اور اس تحریک کو زندہ رکھنا محکمہ کا کام ہوتا ہے.یہ کتاب دیر سے چھپی ہوئی ہے چاہیے تھا کہ محکمہ اس کے متعلق لوگوں کو بار بار تحریک کرتا رہتا.ایک مداری اگر بندر کے تماشا کے لئے ڈگڈی بجا کر لوگوں کو اکٹھا کر لیتا ہے تو آپ لوگ اسلام کی ایک کتاب بیچنے کے لئے لوگوں کو کیوں آمادہ نہیں کر سکتے.اگر آپ لوگ اس کا ڈھنڈورا پیٹتے تو ہزاروں مسلمان تھے جو اُچھل کر آگے آ جاتے اور کہتے عیسائیوں کو مسلمان بنانے کا ایک حربہ ہمارے ہاتھ آ گیا ہے.آج ہی آپ لوگوں نے مسٹر بشیر احمد آرچرڈ کا لیکچر سنا ہے انہوں نے بتایا ہے کہ عیسائیوں میں ان کی تبلیغ کس طرح کامیاب ہو رہی ہے اور جزائر شرق الہند میں احمدیت کی طرف توجہ کی جارہی ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو اس نے ہم پر کیا ہے.اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی ایک برکت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا.آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار 6

Page 349

انوار العلوم جلد 26 297 چنانچہ دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی کہ ایک عیسائی پروفیسر نے اسلام کی تائید میں ایک کتاب لکھی ہے اور وہ بھی ایک عورت ہے اور عورتیں بالعموم متعصب ہوا کرتی ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ مشن کالج لاہور کی کچھ پروفیسر عورتیں قادیان آئیں.میں جب احمدیت کے متعلق باتیں کرنے لگا تو ان میں سے دو تو بڑے شوق سے سنتی رہیں لیکن ایک نے دوسری عورتوں سے کہا کہ ہم یہ باتیں برداشت نہیں کر سکتیں چلو چلیں.اسی طرح سویڈن سے ایک عورت قادیان میرے پاس آئی وہ ناروین تھی اور بڑے لمبے قد کی عورت تھی.اس نے بھی تھوڑی سی باتیں سنیں اور پھر کہنے لگی.میں یہ باتیں نہیں سن سکتی اسلام تو تلوار سے پھیلا ہے پھر اٹھ کر چلی گئی اور اُسی وقت قادیان سے واپس آگئی.تو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ہمارے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی کہ آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج بڑی شان سے پوری ہو رہی ہے.یہ توجہ تو چند سال ہوئے پیدا ہوئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے متعلق پیشگوئی کوئی پچاس سال قبل کی تھی.آپ 1908ء میں فوت ہوئے اور اب 1957 ء ہے.تو یہ الہی تصرف ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے جو الفاظ نکلوائے وہ اب پورے ہورہے ہیں.دراصل یہ الہی سنت ہے کہ وہ اپنے انبیاء کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کر دیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ یہ سلوک انبیاء کے علاوہ اپنے بعض دوسرے بندوں سے بھی کرتا ہے اور ان کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کر دیتا ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش تھی کہ امریکہ میں اسلام کی اشاعت ہو اور یہ خواہش خدا تعالیٰ نے ایک رنگ میں آپ کی زندگی میں ہی پوری کر دی اور وہ اس طرح کہ ایک شخص مسٹر ویب مسلمان ہو گیا.یہ شخص امریکہ کا پہلا مسلمان تھا.سب سے پہلے یہ شخص فلپائن میں سفیر بن کر آیا.وہاں سے بعض متمول ہندوستانی مسلمانوں نے اسے روپیہ بھیج کر ہندوستان بلوایا اور مختلف شہروں میں

Page 350

انوار العلوم جلد 26 298 اس کے لیکچر کروائے.اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھی لکھا کہ میں اسلام کی تبلیغ کرنا چاہتا ہوں آپ میری مدد کریں.آپ نے اسے لکھا کہ ہم سے جو مدد ہوسکی ہم کریں گے.لیکن جب وہ ہندوستان پہنچا اور اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کی خواہش کی تو دوسرے مسلمانوں نے اسے روکا اور کہا کہ اگر تم قادیان گئے تو لوگ تمہیں چندہ نہیں دیں گے.چنانچہ وہ قادیان نہ آیا اور واپس چلا گیا.مگر وہ آخر وقت تک اسلام پر بڑی مضبوطی سے قائم رہا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے قریب اُس نے مفتی محمد صادق صاحب کو لکھا کہ اب میں پچھتاتا ہوں کہ میں اُس وقت قادیان کیوں نہ چلا گیا.اسی طرح ایک اور شخص پر وفیسر ریگ تھا وہ بھی اسلام لے آیا.اس کا اصلی وطن تو انگلستان تھا مگر وہ بہت دیر تک آسٹریلیا میں ملازم رہا.بعد میں وہ ہندوستان میں آیا اور یہاں علم نجوم کے متعلق لیکچر بھی دیتا رہا.اس کو بھی مفتی محمد صادق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں لائے تھے.اُس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی کہ آپ کا مذہب سائنس کے مطابق ہے.میں آپ کی بیان کردہ باتوں کو تسلیم کرتا ہوں اور اپنے ملک میں واپس جا کر بھی اسلام کی تبلیغ کروں گا.یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہشات کا ظہور تھا.آپ نے فرمایا تھا آ رہا ہے اس طرف احرار یورپ کا مزاج نبض پھر چلنے لگی مُردوں کی ناگہ زندہ وار اور خدا تعالیٰ نے ان الفاظ کو اسی رنگ میں پورا کر دیا.یہ ایک نشان ہے جو ہمارے لئے ازدیاد ایمان کا موجب ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت اتنا ہو گیا ہے کہ مجھے اپنی تقریر ختم کرنی چاہئے کیونکہ کمزوری کی وجہ سے ابھی لمبی تقریر کرنا میرے لئے مشکل ہے اور پھر کل بھی میں نے تقریر کرنی ہے اور اس میں حسب سابق ایک علمی مضمون بیان کرنا ہے.اس لئے مجھے اپنے جسم میں کچھ طاقت باقی رکھنی چاہیے تا کہ میں وہ تقریر کر سکوں.“ (الفضل 23،19،16،14 فروری1958ء) صلى الله 66 1: بخاری کتاب فضائل أَصْحَاب النَّبِي ع باب مناقب خالد بن الوليد حدیث نمبر 3757 صفحه 632 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء

Page 351

انوار العلوم جلد 26 299 2 : (i) مکرم ملک سیف الرحمن صاحب ( مسند احمد بن حنبل کی تبویب کے سلسلہ میں ) -/300 روپے.روپے.( ii ) مکرم مولوی جلال الدین صاحب شمس ( تفسیر صغیر کی طباعت کے سلسلہ میں )-/300 (iii) مکرم مولوی نور الحق صاحب ( تفسیر صغیر کے کام کے سلسلہ میں ) -/300 روپے.(iv) خاکسار محمد یعقوب ( انچارج شعبہ زود نویسی ) تفسیر صغیر کے کام کے سلسلہ میں -/170 روپے.(۷) مکرم منشی عبد الحق صاحب کا تب ( تفسیر صغیر کی کتابت کے سلسلہ میں )-/150 روپے.(vi) مکرم منشی محمد اسماعیل صاحب کا تب ( تفسیر صغیر کی کتابت کے سلسلہ میں ) -/150 روپے (vii) مکرم منشی انور احمد صاحب سنگساز ( تفسیر صغیر کی سنگسازی کے سلسلہ میں ) -/150 3 الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد 3 صفحہ 191 مطبوعہ بیروت 1995ء 4:بخاری کتاب المغازى باب غزوة الرَّجيع (الخ) حدیث نمبر 1 409 صفحہ 693 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 5 : سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ 971 مطبوعہ دمشق 2005 ء 6: در متین اُردو صفحہ 130 مطبوعہ نظارت اشاعت ربوہ روپے

Page 352

300 انوار العلوم جلد 26

Page 353

انوار العلوم جلد 26 301 سیر روحانی (11) (28 دسمبر 1957ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی (11)

Page 354

انوار العلوم جلد 26 302 سیر روحانی (11)

Page 355

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 303 سیر روحانی (11) نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (11) فرموده 28 دسمبر 1957ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سیر روحانی کے اہم موضوع پر تقریر کرنے سے قبل حضور نے احباب جماعت کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا :- ” میری زندگی میں کئی دور ایسے گزرے ہیں جن میں خدا تعالیٰ نے مجھ سے ایسے کام لئے ہیں جو اس طرف اشارہ کرتے تھے کہ آنے والا صلح دین میں ہی ہوں گا.اول تو وہ وقت آیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام فوت ہوئے.اُس وقت میری عمر صرف 19 سال کی تھی اور میں نے دیکھا کہ کئی بڑے بڑے پرانے احمدی کہتے پھرتے تھے کہ بے وقت موت ہوگئی ہے اب تو اس سلسلہ میں داخل رہنا بڑا مشکل ہے.لا ہور کے ایک ڈاکٹر تھے مگر ڈاکٹر سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ ڈاکٹر محمد حسین شاہ صاحب یا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ تھے وہ اور ڈاکٹر تھے اور کسی وقت اُن میں اتنا اخلاص ہوتا تھا کہ انہوں نے اپنی بیوی کو جو ڈیرہ غازیخان کی رہنے والی تھی خود قادیان میں لا کر رکھا ہوا تھا تا کہ وہ حضرت صاحب کی خدمت کرے.وہ شاعرہ بھی تھی اور عجیب قسم کے ہنسی والے شعر بناتی تھی جن میں مولویوں کی ہنسی اُڑاتی تھی اور پھر روزانہ اپنی کاپی لا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سناتی تھی کہ میں نے یہ شعر کہے ہیں.پھر وہ لاہور چلے گئے.اُن کی لڑکی بھی با قاعد و سند یافتہ ڈاکٹر تھی اور بیوی بھی ڈاکٹری کا کام کرتی تھی لیکن وہ امتحان میں پاس نہیں ہوسکی تھی.میں لاہور میں ایک دفعہ اُن کے گھر بھی گیا تھا.انہوں نے بھینس رکھی ہوئی تھی اور بڑے خوش تھے کہ اُنہیں لاہور میں جگہ مل گئی ہے.غرض وہ ایسا نازک وقت تھا

Page 356

انوار العلوم جلد 26 304 سیر روحانی (11) کہ ایسے پرانے مخلص لوگ بھی جو قادیان میں کئی کئی مہینے اپنی بیویوں کو اس لئے رکھتے تھے کہ وہ حضرت صاحب کی خدمت کریں اور ان کی ڈائری ہم کو بھیجا کریں وہ یہ کہنے لگ گئے تھے کہ اب تو احمدیت میں رہنا بڑا مشکل ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے ہیں اُس وقت میں باہر اپنی بڑی بیوی کو لینے کے لئے گیا ہوا تھا جو اپنی والدہ سے ملنے کے لئے مجھ سے چھٹی لے کر گئی ہوئی تھیں.مگر اچانک حضرت صاحب کی وفات ہوگئی اور میں ایک ٹمٹم لے کر اور اس میں ان کو سوار کرا کے واپس لایا.جب ہم وہاں پہنچے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہو چکے تھے.اُس وقت اس ڈاکٹر کی یہ بات سن کر کہ اب احمدیت میں کون رہ سکتا ہے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑا ہوا.حضرت اماں جان ) تو اپنی ہمت کے مطابق یہ کہتی جاتی تھیں کہ اے خدا ! ہمارا آسرا ان پر نہیں تھا تجھ پر تھا.یہ مر گئے ہیں مگر تو زندہ ہے.اُمید ہے کہ تو ہمارا ساتھ نہیں چھوڑے گا.اور میرے دل میں اُس وقت جوش اٹھا اور میں نے کہا کہ اے خدا! مجھے یقین ہے کہ مسیح موعود سچا تھا.اب یہ فوت ہو گیا ہے اور اب بظاہر اس کے مشن اور اس کی تعلیم کی حفاظت کرنے والا کوئی نہیں.میں بچہ ہوں پر ، اے میرے خدا! میں تیری قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر ساری دنیا نے اس سے منہ موڑ لیا تو میں اس سے منہ نہیں موڑوں گا اور میں اُس وقت تک چین نہیں لوں گا جب تک کہ ساری دنیا کو اس کے قدموں میں لا کر نہ ڈال دوں.یہ پہلا فعل تھا جس کو دیکھ کر اب پتا لگتا ہے کہ در حقیقت اس سے میرے مصلح موعود ہونے کی طرف اشارہ ہوتا تھا.گو میں نے اُس وقت اس سے یہ اشارہ نہیں سمجھا.دوسری دفعہ پھر یہ بات اس طرح ظاہر ہوئی کہ میں 1913 ء میں شملہ گیا.وہاں میرے بہنوئی نواب محمد علی خان صاحب اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے کر گئے ہوئے تھے.جماعت شملہ نے مجھے کہا کہ یہاں آپ ایک تقریر کریں.اس تقریر کے نوٹ میں نے لکھے اور پھر اس خیال سے کہ اس جلسہ کے متعلق اشتہار بھی چھاپ دیں میں نے ارادہ کیا کہ ایک اشتہار چھپوا لیا جائے.مگر جس پریس میں بھی میں گیا انہوں نے تعصب کی وجہ

Page 357

انوار العلوم جلد 26 305 سیر روحانی (11) سے اشتہار چھاپنے سے انکار کر دیا.آخر میں نے ایک دستی پریس خریدا تا کہ اُس پر اشتہار چھاپ لیا جائے اور شہر میں تقسیم کر دیا جائے کہ فلاں وقت جلسہ ہو گا.حافظ روشن علی صاحب مرحوم میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے.وہ بھی اس کام میں میرے ساتھ شریک ہو گئے.میں نے چاہا کہ پانچ سات سو یا ایک ہزار اشتہار نکل جائے تا کہ لوگوں کو توجہ پیدا ہومگر چونکہ یہ لمبا کام تھا اس لئے کام کرتے کرتے رات کے ساڑھے بارہ بج گئے.جب رات کے ساڑھے بارہ بجے تو حافظ صاحب کہنے لگے کہ آپ کو تو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے کہ آپ اس کام کو چھوڑتے ہی نہیں.میں تو اب سوتا ہوں.یہ کہہ کر انہوں نے زمین پر سر رکھا اور سر رکھتے ہی اُن کے خراٹوں کی آواز آنے لگ گئی.میں نے سمجھا کہ شاید مذاق کر رہے ہیں مگر جب ٹولا تو سچ سچ سوئے ہوئے تھے.بہر حال دوسرے دن وہ اشتہار لوگوں میں بانٹا گیا.اُنہی دنوں میں نے خواب میں دیکھا کہ خدا تعالیٰ میرے سامنے آیا ہے اور اس نے مجھے کہا ہے کہ تیرے راستہ میں بڑی مشکلات ہیں.اُس وقت رؤیا میں مجھے نظر آیا کہ ایک پہاڑی ہے جس میں ایک راستہ بنا ہوا ہے.اللہ تعالیٰ نے مجھ سے فرمایا کہ تم اس راستہ پر نیچے کی طرف چلے جاؤ.وہ تمہاری منزل مقصود ہے.لیکن راستہ میں تم کو بڑی بڑی بلائیں ملیں گی.کبھی تو کئے ہوئے سر تمہارے سامنے آئیں گے جن کے ساتھ دھڑ نہیں ہوگا، کبھی دھڑ تمہارے سامنے آئیں گے اور ان کے سر نہیں ہوں گے.وہ بلائیں تمہیں آکر ڈرائیں گی اور بعض دفعہ تم کو اپنی طرف بلائیں گی اور کہیں گی کہ ادھر آؤ مگر تم نے اُن کی باتوں کا جواب نہیں دینا.تم اپنا کام کرتے چلے جانا اور یہ کہتے چلے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ ، خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.چنانچہ یہ ایک عجیب بات ہے کہ میری پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بالکل یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں کہ جب اس پیشگوئی کی شہرت کامل درجہ پر پہنچ گئی : ' تب خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے 12 جنوری 1889ء کو مطابق 9 جمادی الاوّل 1306ھ میں بروز شنبہ محمود پیدا ہوا.“ 1 اور پھر آج تک میں جو بھی مضمون لکھتا ہوں اس کے اوپر اس خواب کے مطابق یہ

Page 358

انوار العلوم جلد 26 ضرور لکھتا ہوں کہ : 306 ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ سیر روحانی (11) چنانچہ آج بھی جو نوٹ میرے پاس ہیں اُن پر بھی لکھا ہوا ہے کہ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ اب دیکھو پر 1913 ء کا واقعہ ہے.جس پر چوالیس سال گزر چکے ہیں مگر چوالیس سال میں میں نے کبھی اس طریق کو نہیں چھوڑا بلکہ اس کے بعد جو بھی میں نے تحریر لکھی یا تقریر کے نوٹ تیار کئے اُس کے اوپر میں نے یہ ضرور لکھا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ هُوَ النَّاصِرُ ، میں اس لئے لکھا کرتا ہوں کہ خواجہ میر درد جن کا میں نواسہ ہوں ان کے والد خواجہ محمد ناصر صاحب کو خدا تعالیٰ نے الہاماً بتایا تھا کہ جو شخص اپنی کسی تحریر کی پیشانی پر هُوَ النَّاصِرُ لکھے گا اللہ تعالیٰ اُس تحریر کو مقبولیت عطا فرمائے گا.2 اسی طرح جب ان پر آسمانی انوار کا دروازہ کھولا گیا تو اللہ تعالیٰ نے انہیں بتایا کہ یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی ہوئی تھی.اس کی ابتداء تجھ سے ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگا.“ 3 یعنی آخری زمانہ میں مسیح موعود ظاہر ہوگا اور تیرا خاندان اس کے خاندان میں مل جائے گا.چنانچہ حضرت اماں جان جو حضرت خواجہ میر درد کے خاندان میں سے تھیں جب ان کی شادی غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہوئی تو خواجہ میر درد صاحب مرحوم کا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان سے آکر مل گیا.اور عجیب بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت سید احمد صاحب بریلوی کو تیرھویں صدی کا مجدد قرار دیا ہے.4 اور ہمارے نانا جان صاحب مرحوم کی ایک بہن بھوپال میں ایک مولوی صاحب سے بیاہی گئی تھیں جو سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے اور جن کو انہوں نے اپنا خلیفہ بنا کر بھوپال میں بھیجا تھا اور کہا تھا کہ وہاں جا کر حدیث کو رائج کرو.مجھے جو خوا ہیں آئی تھیں میں نے انکی غلط تعبیر کی تھی.میں نے سمجھا تھا کہ شاید میں ہی مہدی موعود ہوں مگر معلوم ہوتا ہے میں مہدی موعود نہیں اور چونکہ میرا وقت

Page 359

انوار العلوم جلد 26 307 سیر روحانی (11) اب قریب آ گیا ہے اس لئے تم ہندوستان میں واپس جاؤ.چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے تین آدمی بھیجے تھے.ایک کو بہاولپور بھیجا.ایک صاحب کو جن کے شاگردوں میں مولوی نذیرحسین صاحب دہلوی بھی تھے جو اہلحدیث کے مشہور لیڈر تھے بنگال کی طرف بھیجا کیونکہ بنگال سے انہیں بہت مدد آتی تھی.اور ایک کو بھوپال بھیجا.اس سے پتا لگتا ہے کہ خدائی نوشتوں میں یہ پہلے سے مقدر تھا کہ ادھر سے خواجہ میر درد صاحب کے ساتھ یہ سلسلہ مل جائے اور اُدھر سے حضرت نانا جان صاحب مرحوم کی بہن کے ذریعہ.تیرھویں صدی کے مجدد سے یہ سلسلہ جاملے اور اس طرح وہ بات پوری ہو جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمائی تھی کہ خدا تعالیٰ نے سید احمد صاحب بریلوی کو میرے لئے الیاس کے رنگ میں بھیجوایا تھا کہ چونکہ انہوں نے جن لوگوں کو اپنا خلیفہ بنا کر ہندوستان بھیجا تھا اُن میں سے ایک خواجہ میر درد صاحب کی نواسی کے خاوند تھے اس لئے دونوں طرف سے یہ رشتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے آ کر مل گیا.بہر حال جیسا کہ میں نے بتایا ہے مجھے رویا میں کہا گیا کہ تم اس پہاڑی پر چلے جاؤ.جب میں چلا تو مجھے اس طرح کی شکلیں نظر آنے لگیں کہیں بڑے بڑے ہاتھیوں کی شکل جیسے آدمی دکھائی دیتے تھے.بعض کا منہ تو آدمیوں کا سا ہوتا تھا لیکن جسم ہاتھی کا.پھر کہیں اونٹ دکھائی دیتے جن کے ہاتھ پیر آدمیوں والے ہوتے اور جسم اونٹ والا.پھر آگے کوئی آدمی ملتا تو میں دیکھتا کہ اُس کا دھڑ تو ہے لیکن سر غا ئب ہے اور وہ شکلیں مجھے اپنی طرف بلاتیں اور کہتیں کہ جنگل میں آ جاؤ مگر مجھے خدا تعالیٰ کا بتایا ہوا فقرہ یا درہا اور میں یہ کہتا چلا گیا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اور میں نے اُن کی کسی بات کا جواب نہ دیا یہاں تک کہ چلتے چلتے میں اس جنگل کے پار گزر گیا.جب میں جنگل سے پار گزرا تو آگے اترائی آگئی.جب میں اترائی پر آیا تو میں نے دیکھا کہ سامنے پہاڑی پر خدا تعالیٰ بیٹھا ہوا ہے.میں نے خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہی کہا کہ خدایا ! آپ کا احسان ہے کہ آپ مجھے خیر وعافیت سے یہاں لے آئے ہیں.اس پر اللہ تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ دیکھو! مسیح موعود میرا نبی ہے اس پر یقین رکھو.اور اگر چاہو تو پھر

Page 360

انوار العلوم جلد 26 308 سیر روحانی (11) اس پہاڑی پر واپس چلے جاؤ.مگر میں نے کہا میں واپس نہیں جانا چاہتا میں اب یہیں رہوں گا.غرض اُس وقت خدا تعالیٰ کے منہ سے میں نے سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میرے نبی ہیں.یہ دوسرا موقع تھا جس میں خدا تعالیٰ نے مجھے عملی طور پر مصلح موعود ہونے کی طرف خدا کے فضل اور رحم کے الفاظ کے ساتھ توجہ دلائی لیکن میں نے پھر بھی مصلح موعود ہونے سے انکار ہی کیا.خواجہ کمال الدین صاحب نے بار بار لکھا کہ اگر تم مصلح موعود ہو تو قسم کھا جاؤ میں مان لوں گا 6 مگر میں نے کہا جب تک خدا مجھے نہیں کہے گا میں نے قسم نہیں کھانی.جب خدا مجھے صاف لفظوں میں کہے گا کہ و مصلح موعود ہے تب میں اپنے آپ کو مصلح موعود.کہوں گا.ورنہ جب تک خدا مجھے نہیں کہے گا میں اپنے آپ کو مصلح موعود نہیں کہوں گا.چنانچہ 1944ء میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ تم مصلح موعود ہو.اس پر میں نے ایک جلسہ ہوشیار پور میں جا کر کیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مصلح موعود کی پیشگوئی بتائی گئی تھی.اور دوسرا جلسہ لاہور میں کیا جہاں مجھ پر اس پیشگوئی کے متعلق یہ انکشاف ہوا تھا کہ میں ہی اس کا مصداق ہوں.اور تیسرا جلسہ لدھیانہ میں کیا جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پہلی بیعت لی تھی.اور چوتھا جلسہ دتی میں کیا کیونکہ دتی میں حضرت خواجہ میر درد صاحب والی پیشگوئی پوری ہوئی تھی اور میر درد کی اولا د مہدی کے ساتھ آ کر مل گئی تھی اور دونوں ایک ہو گئے تھے.تیسرا نشان اُس وقت ظاہر ہوا جب حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے یعنی ایک نشان تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ظاہر ہوا اور دوسرا نشان ایک اور طرح پر حضرت خلیفہ اول کی وفات پر ظاہر ہوا.حضرت خلیفہ اول کی بیماری میں میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میں جمعہ پڑھا کے نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کے گھر کی طرف جا رہا ہوں اور گاڑی میں بیٹھا ہوا ہوں کہ مجھے پتا لگا کہ حضرت خلیفہ اول فوت ہو گئے ہیں.چنانچہ ایسا ہی ہوا.میں اُس دن جمعہ کی نماز پڑھا کر نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کی شکرم 2 میں ان کی کوٹھی کی طرف جارہا تھا کہ راستہ میں مجھے اطلاع ملی کہ حضرت خلیفہ اول فوت ہو گئے ہیں.نواب صاحب کو ہی حضرت خلیفہ اول نے اپنی وصیت لکھ کر دی تھی اور اُنہی

Page 361

انوار العلوم جلد 26 309 سیر روحانی (11) کے کمرہ میں پڑھوائی تھی اور پھر اُنہی کو آپ نے یہ وصیت دے دی کہ اسے اپنے قبضہ میں رکھو بعد میں کام آئے گی.چنانچہ بعد میں ہم نے اسے چھپوا دیا.اُس وقت مولوی محمد علی صاحب بھی وہاں بھاگتے ہوئے پہنچے کہ شاید ریوڑیاں بٹ رہی ہوں گی میں بھی اپنا حصہ لے لوں.جس وقت وہ وہاں پہنچے اُس وقت اُن کے ساتھ کوئی اور دوست بھی تھے شاید شیخ رحمت اللہ صاحب تھے یا ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب تھے یہ مجھے یاد نہیں.بہر حال خواجہ کمال الدین صاحب نہیں تھے کیونکہ وہ اُس وقت ولایت گئے ہوئے تھے.انہوں نے آ کر مجھے بلوایا اور کہا کہ مولوی محمد علی صاحب آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں.میں نکلا تو قادیان سے کھارے کی طرف جو سڑک جاتی ہے اُس کی طرف وہ مجھے لے گئے اور تھوڑی دور جا کر کہنے لگے کہ میاں صاحب ! جماعت کے لئے بڑا نازک وقت ہے.میں نے کہا مولوی صاحب! بالکل ٹھیک بات ہے بڑا نازک وقت ہے.کہنے لگے مولوی صاحب ( یعنی حضرت خلیفہ اول) تو بڑے بزرگ آدمی تھے اُن کی بیعت ہم نے کر لی اب آگے کیا بنے گا؟ میں نے کہا مولوی صاحب کی بیعت ہم نے محض بزرگ ہونے کی وجہ سے نہیں کی تھی بلکہ اس لئے کی تھی کہ جماعت کا ایک ہاتھ پر اتحادر ہے.وہ ضرورت تو اب بھی موجود ہے.اس لئے اگر مولوی صاحب فوت ہو گئے ہیں تو کسی اور کے ہاتھ پر ہم جمع ہو جائیں گے.بہتر یہ ہے کہ جماعت کے آگے یہ معاملہ پیش کر دیا جائے اور وہ جس کو پچھنے اُس کے ہاتھ پر بیعت کر لی جائے.مولوی محمد علی صاحب کہنے لگے کہ آپ یہ بات اس لئے کہہ رہے ہیں کہ آپ کو پتا ہے کہ جماعت کس کو چنے گی.میں نے کہا اگر آپ کے نزدیک جماعت مجھے پچھنے گی تو پھر آپ کو کیا اعتراض ہے؟ لیکن بہر حال اگر آپ کے دل میں ایسا گندا شبہ ہے تو میں کھڑے ہو کر آپ کا نام پیش کر دوں گا اور کہوں گا کہ مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لو.پھر جو میرے ساتھی اور دوست ہیں وہ ضرور آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلیں گے اور جھگڑ اختم ہو جائے گا آپ خلیفہ ہو جائیں گے.چنانچہ اس کے بعد میں نے اپنے سارے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا.ان میں نواب محمد علی خان صاحب اور میاں بشیر احمد صاحب اور غالباً ہمارے نانا جان میر ناصر نواب صاحب بھی تھے.ان

Page 362

310 سیر روحانی (11) انوار العلوم جلد 26 سب کو جمع کر کے میں نے کہا کہ دیکھو ! یہ جماعت کے لئے بڑے فتنے کا وقت ہے.اگر اس وقت ہم قائم نہ رہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ جماعت قیامت تک کے لئے بکھر جائے گی.پھر میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں نے مولوی محمد علی صاحب کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ میں آپ کا نام لے دوں گا اور جماعت آپ کی بیعت کرلے گی.اور گو انہوں نے انکار کر دیا ہے مگر پھر بھی میں سمجھتا ہوں کہ اگر اب بھی میں ان کا نام لے دوں اور آپ لوگ میری تائید میں ہوں تو ساری جماعت ادھر ہی چلی جائے گی.اس لئے آپ لوگ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ اور کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ میں مولوی محمد علی صاحب سے کہہ دوں کہ میں آپ کا نام پیش کرتا ہوں؟ خص مجھے یاد ہے کہ اُس وقت سب سے پہلے نواب محمد علی خان صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا بالکل ٹھیک بات ہے.ہمیں کسی خاص شخص کی خلافت سے غرض نہیں.ہمیں تو جماعت کے اتحاد سے غرض ہے.آپ ان کا نام پیش کر دیں.ہم سب لوگ آپ کی تائید کریں گے.لیکن نانا جان صاحب مرحوم نے کچھ ہچکچاہٹ ظاہر کی اور کہا کہ ہم ایسے مو کی بیعت کس طرح کر سکتے ہیں.مگر میں نے کہا آپ نہ کریں میں تو کرلوں گا.اور جب میں کرلوں گا تو پھر آپ کوئی اور آدمی تلاش کر لیں.آپ کو آخر مجھ پر ہی امید ہے مگر میں نے بہر حال مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لینی ہے پھر آپ جو چاہیں کریں.اس پر وہ بھی دب گئے.مگر خدا کی قدرت ہے تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی دوڑتا ہوا آیا کہ مسجد نور میں بہت سے لوگ جمع ہیں اور آپ کو بلا رہے ہیں.میں وہاں گیا اور میں نے یہی سمجھا ہوا تھا کہ میں کوشش کروں گا کہ لوگ مولوی محمد علی صاحب کے ہاتھ پر بیعت کر لیں.لیکن جب خدا تعالیٰ نے کام مجھ سے لینا تھا تو مولوی محمد علی صاحب کس طرح کھڑے ہو جاتے.نتیجہ یہ ہوا کہ جب میں وہاں پہنچا تو مجھے مولوی محمد احسن صاحب مرحوم نے کہا کہ ہاتھ بڑھائیے اور بیعت لیجئے.مجھے بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے.میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ یاد نہیں.مولوی سید سرور شاہ صاحب آگے بڑھے اور انہوں نے کہا کہ لفظ مجھے یاد ہیں میں کہتا جاؤں گا آپ دُہراتے جائیے.اب پہلے تو مولوی محمد علی صاحب نے انکار

Page 363

انوار العلوم جلد 26 311 سیر روحانی (11) کیا تھا لیکن اُس وقت کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے میں بھی تقریر کرنا چاہتا ہوں.پہلے میری بات بھی سن لیجئے.مگر تمام احمدیوں نے شور مچا دیا کہ ہم نہیں سننا چاہتے بیٹھ جاؤ بیٹھ جاؤ.اور اتنا شور مچا کہ مولوی محمد علی صاحب نے سمجھا کہ شاید یہ لوگ مجھے ماریں گے اور وہ ڈرکر بیٹھ گئے.غرض جماعت نے میری بیعت کر لی.اس کے بعد انہوں نے لاہور میں جا کر شورش شروع کر دی اور ایسے ایسے جھوٹ بولے کہ جن کا خیال کر کے بھی شرم آتی ہے.مثلاً میں ایک دفعہ بڑی مسجد میں جہاں حضرت خلیفہ اول درس دیا کرتے تھے قرآن کریم کا درس دے رہا تھا کہ یہ بھی اِس طرف سے کسی کام کے لئے گزرے اور بعد میں کہہ دیا کہ مجھے پتا لگ گیا ہے کہ میرا اب قادیان میں رہنا ناممکن ہے کیونکہ مجھے لڑکوں نے پتھر مارے اور مجھے ذلیل کر کے میری کوٹھی تک دباتے آئے.میں نے کہا مجھے نام بتائیے میں ابھی اُن لڑکوں کو بلواتا ہوں اور انہیں سزا دیتا ہوں.پھر میں نے اپنے طور پر لڑکوں کو تحقیق کے لئے بلوایا تو انہوں نے کہا کہ ہم نے تو کوئی پتھر نہیں مارے.پھر میں نے مولوی محمد علی صاحب سے پوچھا کہ لڑکے تو انکار کرتے ہیں.وہ کہنے لگے انہوں نے پتھر نہیں مارے تھے بلکہ ایک لڑکے کو میں نے یہ کہتے سنا تھا کہ آؤ مولوی محمد علی صاحب کو روڑا ماریں.گویا بات صرف اتنی تھی مگر اس کے لئے بھی میں خود اُن کے مکان پر چل کر گیا اور میں نے کہا کہ میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ لڑکوں کی طرف سے معذرت کروں اور آپ سے خود واقعہ سنوں کہ بات کیا ہوئی ہے.اُس وقت انہوں نے مجھے یہ بات بتائی مگر میری معذرت سننے کے بعد بھی کہنے لگے کہ مجھے معلوم ہوتا ہے کہ اب میرا قادیان میں رہنا مناسب نہیں.میں نے ان سے کہا کہ آپ کا یہ دیار محبوب ہے اس کو نہ چھوڑیں اور جس قسم کی حفاظت آپ کہتے ہیں اس قسم کی حفاظت کا میں ذمہ دار ہوں.یا جس قسم کا اعلان آپ چاہتے ہوں اُس قسم کا اعلان میں جماعت کے سامنے کرنے کے لئے تیار ہوں مگر آپ قادیان کو نہ چھوڑیں.کیونکہ قادیان آپ کے اور ہمارے محبوب کا دیار ہے.اس پر پہلے تو وہ کہنے لگے کہ بہت اچھا میں نہیں جاؤں گا.مگر چوتھے دن پتا لگا کہ نہ صرف آپ گئے بلکہ ہماری لائبریری کی کتابیں بھی لے

Page 364

انوار العلوم جلد 26 312 سیر روحانی (11) کر بھاگ گئے.یہ پہلی چوری تھی جو ان سے سرزد ہوئی کہ جتنی کتابیں لائبریری کی اُن کے پاس رہتی تھیں تا کہ قرآن کریم کے ترجمہ میں ان سے مدد لے سکیں وہ ساری لے کر بھاگ گئے.قاضی امیر حسین صاحب میرے پاس آئے.وہ میرے استاد بھی تھے اور حضرت خلیفہ اول کے بہت دوست تھے.کہنے لگے احمدیوں میں بڑا جوش ہے آپ مجھے جانے کی اجازت دیں.میں نہر پر سے اُن سے کتابیں چھین کر لے آتا ہوں.میں نے کہا قاضی صاحب ! اس کا کوئی فائدہ نہیں.اگر ایک شخص دین کو چھوڑ کر چلا گیا ہے تو اُس نے تو اتنی بڑی چیز چھوڑی ہے اس کے مقابلہ میں اگر ایک دو ہزار کی کتابیں ہم نے کھو بھی دیں تو کیا نقصان ہوا.اُس نے تو دیارِ محبوب چھوڑا ہے، جماعت چھوڑی ہے، ہم نے صرف چند کتابیں چھوڑی ہیں اس لئے آپ نہ جائیں.انہیں یہ بات ناگوار معلوم ہوئی اور چونکہ وہ میرے استاد تھے کہنے لگے میاں! آپ کو سلسلہ کے مال کا درد نہیں ؟ میں نے کہا آپ کو سلسلہ کی عزت کا درد نہیں ؟ اچھا بہر حال میں ہی ہوں.اس طرح یہ تیسرا موقع تھا جس میں خدا تعالیٰ نے یہ ظاہر کیا کہ وہ مجھ سے کام لینا چاہتا ہے.اور جو شخص بھی میرے مقابلہ میں کھڑا ہو اللہ تعالیٰ اُس کو ذلیل اور نا کام رکھنا چاہتا ہے اور خود اس کے ہاتھ سے ہی ذلت کے سامان کر دیتا ہے.دیکھو! اگر مولوی محمد علی صاحب اُس وقت مان جاتے اور میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیتا کہ ساری جماعت مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کرلے تو یقیناً اُس وقت لوگوں کے دلوں کی ایسی درد ناک حالت تھی اور دل اتنے ڈرے ہوئے تھے کہ وہ میری بات کا انکار نہ کرتے.پھر انہیں مجھ سے محبت بھی تھی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فوت ہوئے ابھی تھوڑے ہی سال ہوئے تھے.پس اس محبت کی وجہ سے اور ادھر حضرت خلیفہ اول کی وفات کی وجہ سے دل بہت ڈرے ہوئے تھے.دوسرے میرے ساتھ جماعت کی محبت کی ایک نئی وجہ یہ بھی پیدا ہو گئی تھی کہ 1912 ء میں میں حج کر کے واپس آیا تو اگلے سال یعنی 1913ء میں میں نے ”الفضل“ جاری کیا.یہ اخبار بھی بڑا مقبول ہوا اور اس کی وجہ سے بھی لوگوں کو میرے ساتھ خاص محبت تھی.اور کچھ اس وجہ سے بھی اسے مقبولیت ہوئی

Page 365

انوار العلوم جلد 26 313 سیر روحانی (11) 66 کہ اس میں کچھ مضامین حضرت خلیفہ اول نے بھی لکھے تھے جن میں پیغا میوں کو بُرا بھلا کہا گیا تھا.اور ایک جگہ پر تو آپ نے یہ الفاظ تحریر فرمائے تھے کہ ”ہزار ملامت پیغام پر جس نے اپنی چٹھی شائع کر کے ہمیں پیغام جنگ دیا اور نفاق کا بھانڈا پھوڑ دیا.“ پس میں اگر کہہ دیتا کہ مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لی جائے تو سب لوگ مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لیتے مگر خدا تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ یہ کام ان سے نہ لے بلکہ مجھ سے لے.سوخدا تعالیٰ نے مجھ کو ہی کھڑا کیا اور وہ ناکام رہے.یہ تیسری مثال ہے اس بات کی کہ مصلح موعود کے لئے خدا تعالیٰ نے متواتر نشان دکھائے اور اس کی انگلی بار بار اس طرف اُٹھتی تھی کہ میں ہی وہ شخص ہوں جس سے خدا تعالیٰ یہ کام لینا چاہتا ہے.اور پھر میرے عمل نے بھی اس بات کو ثابت کر دیا.آج مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر قرآن بھی موجود ہے اور میری تفسیر بھی.ان کی تفسیر تین جلدوں میں ہے اور اس کے 1995 صفحات ہیں اور میری تفسیر قرآن آب تک 3366 صفحات تک مکمل ہو چکی ہے اور 1354 صفحہ کی آب تفسیر صغیر چھپی ہے.اگر یہ تفسیر کبیر مکمل ہو جائے تو میرا خیال ہے کہ وہ سات ہزار صفحہ کی کتاب ہو جائے گی اور مولوی صاحب کی اس کے مقابلہ میں صرف ہیں سو صفحہ کی کتاب ہو گی.پھر اگر دوسری کتابیں دیکھی جائیں جیسے دعوۃ الامیر وغیرہ ہیں اور ان کے صفحات بھی اس میں شامل کئے جائیں تو میری تفسیر کے غالباً بیس ہزار سے زیادہ صفح ہو جائیں گے اور مولوی صاحب کی کتابیں ان کے مقابلہ میں رکھی جائیں تو وہ بالکل بیچ نظر آئیں گی.پھر مبلغین کو دیکھ لو اللہ تعالیٰ نے مجھے یورپ میں تبلیغ اسلام کی ایسی توفیق دی کہ شیخ محمد طفیل صاحب جو غیر مبائعین کے مبلغ ہیں اور آجکل ایمسٹرڈم (Amsterdam) ( ہیگ) میں کام کر رہے ہیں.انہوں نے ایک دفعہ ”پیغام صلح میں مضمون لکھا کہ اس وقت مغربی دنیا میں ہالینڈ، جرمنی ، سپین اور سوئٹزر لینڈ میں مبائعین کے مبلغ کام کر رہے ہیں اور سب ہی پڑھے لکھے مخلص نوجوان ہیں اور سات آٹھ سال ان ممالک میں رہنے کی وجہ سے مغربی زبانوں سے بھی كَمَا حَقَّهُ واقف ہو چکے ہیں اور ان میں تحریر وتقریر کی کافی مہارت پیدا کر چکے ہیں.اس کے

Page 366

انوار العلوم جلد 26 314 سیر روحانی (11) 8 علاوہ ڈچ ، جرمن اور انگریزی زبان میں ان کے پاس لٹریچر بھی اچھا خاصا موجود ہے.غرض اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی کہ سپین میں میں نے کرم الہی ظفر کو بھجوایا.فرانس میں ملک عطاء الرحمن کو بھجوایا.ہالینڈ میں حافظ قدرت اللہ اور غلام احمد بشیر کو بھجوایا.پھر مولوی ابوبکر ایوب انڈو نیشین کو بھجوایا.اسی طرح شیخ ناصر کوسوئٹزرلینڈ میں بھجوایا، ابراہیم خلیل کواٹلی ،رسنلی اور فری ٹاؤن بھجوایا ، شیخ رشید احمد کو ڈچ گی آنا میں بھجوایا اور خلیل ناصر امریکہ میں کام کر رہے ہیں.پہلے مفتی محمد صادق صاحب کام کرتے تھے.پھر ماسٹر محمد دین صاحب کام کرتے رہے.پھر صوفی مطیع الرحمن صاحب بھجوائے گئے.اب خلیل ناصر کام کر رہے ہیں.اسی طرح امریکہ میں اور بھی بہت سے مبلغ کام کر رہے ہیں.غرض اُن کی کتابوں سے زیادہ کتابیں لکھنے کی مجھے توفیق ملی اور پھر ان کتابوں کے ساتھ مبلغ بھیجنے کی جو ضرورت تھی جن کے بغیر کتابیں کوئی کام نہیں دے سکتیں خدا تعالیٰ نے مجھے اس کو پورا کرنے کی بھی توفیق دی.کیونکہ یورپین لوگ اسلام سے ناواقف ہیں جب تک اُن کو کوئی سمجھانے والا نہ ہو صرف کتاب اُن کے آگے رکھ دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو سکتا.مگر ہمارے مبلغین نے ان کتابوں کے ذریعہ سے جیسا کہ آپ نے مسٹر بشیر احمد آرچرڈ کا لیکچر سنا ہے یا ملک عزیز احمد صاحب سے سنا ہے وہاں کے حالات ہی بدل دیئے ہیں.ہمارے مبلغ نے صد ر ا نڈونیشیا مسٹر سو کار نو کو قرآن شریف پیش کیا تھا جس کا فوٹو بھی چھپ گیا تھا.جب قرآن شریف انہیں پیش کیا گیا تو انہوں نے کھڑے ہوکر اُسے لیا.اس کو چوما اور پھر اسے سر پر رکھا.ہمارا مبلغ بھی اُس وقت اُن کے سامنے کھڑا تھا اس کے بعد انہوں نے خود ہی خواہش کی کہ اس کی فہرست مضامین بھی چھاپئے.چنانچہ وہ فہرست مضامین اب تفسیر صغیر کے ساتھ لگ گئی ہے.جب اس کا انگریزی میں ترجمہ ہو کر غیر ممالک میں جائے گا تو پھر لوگوں کو پتا لگے کہ مولوی محمد علی صاحب کا انڈیکس اس کے (الفضل 20 فروری 1958ء) مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.“ ,, اس کے بعد فرمایا: آج عورتوں کی طرف سے شکایت پہنچی ہے کہ آٹا نہایت گندا تھا اور روٹیاں کچی

Page 367

انوار العلوم جلد 26 315 سیر روحانی (11) - تھیں.شروع میں جب میں نے کھانے کے انتظامات کا معائنہ کیا ہے تو مجھے بتایا گیا تھا کہ کوئلہ اب کے ہم کو امریکن مل گیا ہے جس کی وجہ سے بہت ہی اچھی روٹی پکے گی اور گندم بھی ہم نے شروع میں جمع کر لی تھی.اس لئے اعلیٰ درجہ کی گندم ہم کو ملی ہے اور اس سال کا کھانا نہایت اعلیٰ درجہ کا ہوگا.اور ہم نے گوشت کیلئے بھی ایسے لوگوں سے ٹھیکہ کیا ہے جو بڑے دیانتدار ہیں اور جن سے ہم نے ضمانتیں لی ہیں اس لئے وہ وفاداری سے اچھا گوشت دیں گے.اور ہم نے آلو بھی جمع کر لئے ہیں پہلے شلغم ڈالا جاتا تھا مگر شلغم اس علاقہ میں اچھا نہیں ہوتا.وہ جانوروں کو چرانے والا ہوتا ہے اس لئے عورت مرد اس کو اٹھا کر باہر پھینک دیتے تھے.مگر اب کے ہم نے آلو جمع کئے ہیں جن کو باہر پھینکنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.گندم اچھی جمع کرلی ہے اور کوئلہ امریکن منگوا لیا ہے اس لئے اس دفعہ ہمارے کھانے کو خصوصی امتیاز حاصل ہو گا.لیکن پچھلے سال جب خصوصی امتیاز حاصل نہیں تھا تب تو مجھے کوئی شکایت نہیں پہنچی.لیکن اس سال جبکہ کھانے کو خصوصی امتیاز حاصل تھا میرے پاس شکایت آئی ہے کہ بہت سی عورتوں نے کھانا نہیں کھایا اور انہوں نے کہا ہے کہ گندم خراب ہے اور روٹی کچی پکی ہے.جہاں تک روٹی کچی پکنے کا سوال ہے اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دفعہ ایسے نان پزوں کو ٹھیکہ دیا گیا ہے جو پورے ماہر نہیں تھے.اور جہاں تک گندم کا سوال ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق غلط فہمی ہو سکتی ہے.انہوں نے اپنے خیال میں سمجھا کہ ہم نے جو ادھر اُدھر سے گندم لے لی ہے وہ اچھی ہے حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ اس سال سارے پنجاب میں کہیں اچھی گندم نہیں ہوئی.خود ہمارے گھر میں دو مہینے ایسی روٹی پکتی رہی ہے جس کے متعلق شکایت تھی کہ آٹا نہایت گندا ہے.میری اپنی زمینوں پر سے میرے لڑکے نے گندم بھیجی تو اس کے متعلق بھی گھر والوں نے کہہ دیا کہ یہ بہت خراب ہے.پھر اس نے بازار سے لے کر بھیجی تو پھر انہوں نے کہہ دیا کہ خراب ہے.پھر پیج کے لئے جو خاص طور پر گندم رکھی گئی تھی وہ منگوائی گئی تو وہ بھی خراب تھی.پس جبکہ اس سال گندم اچھی ہوئی ہی نہیں تو جلسہ کے کارکن کہاں سے اچھی گندم منگواتے.یہاں کثرت سے زمیندار بیٹھے ہیں وہ اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ

Page 368

انوار العلوم جلد 26 316 سیر روحانی (11) اچھی گندم اس سال پیدا ہی نہیں ہوئی.جس زمانہ میں گندم پیدا ہو رہی تھی اُن دنوں بے وقت بارشیں شروع ہو گئیں اور فصلیں سڑ گئیں.پہلے سندھ میں مئی کے مہینہ میں گندم کاٹ لیا کرتے تھے مگر اس سال جولائی کے آخر تک نہیں کئی کیونکہ بارشوں کی وجہ سے موسم لمبا ہوتا چلا گیا.یہی حال ربوہ میں بھی رہا.پس جو چیز ہوئی ہی نہیں اس کے لئے شکایت کرنی بے جا ہے.اس کے لئے تو دعا کرو کہ یہ عذاب جو ہمارے ملک پر کئی سال سے آیا ہوا ہے اللہ تعالیٰ اس کو دور فرمائے.اب حالت یہ ہے کہ جو نئی گندم بوئی گئی ہے اس کے متعلق بھی گورنمنٹ کی رپورٹیں یہ ہیں کہ بہت کم گندم پیدا ہوگی.ادھر امریکہ نے کہہ دیا ہے کہ ہم پہلے 9 کروڑ ٹن گندم پاکستان کو دیتے رہے ہیں مگر اب کے سال ہم نہیں دیں گے کیونکہ ہم نے بہت کوشش کی کہ پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں مگر پاکستان پھر بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوا.اس لئے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگلے سال ہم مدد نہیں دیں گے.پس امریکہ سے جو گندم آنے کی امید تھی وہ بھی ختم ہوئی اور گوامریکن گندم خراب ہوتی تھی مگر پیٹ تو بھر جاتا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہماری گورنمنٹ چین سے، روس سے ، مصر سے ،ٹرکی سے اور ایران سے گندم منگوانے کی کوشش کرے گی مگر چین ،مصر اور ٹر کی اتنی گندم مہیا نہیں کر سکتے جتنی امریکہ مہیا کر سکتا ہے بلکہ امریکہ سے تیسرا حصہ بھی مہیا نہیں کر سکتے.اگر اس نے کرسکتا 9 کروڑ ٹن مہیا کی تھی تو یہ ایک کروڑ ٹن بھی بمشکل مہیا کرسکیں گے.اور جب اپنے ملک میں گندم نہیں ہوگی تو لازمی بات ہے کہ اگلا سال ہمارے ملک کے لئے نہایت تکلیف کا موجب ہو گا سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ اعلیٰ درجہ کی بارشیں نازل کرے اور ہماری فصل کے اندر ایسی برکت رکھ دے کہ زمین اپنے اندر سے سونا نکال کر باہر پھینک دے اور ہمارے زمینداروں کی جو بُری حالت اس سال ہوئی ہے خدا تعالیٰ اس کو بدل کر نیک حالت میں تبدیل کر دے اور آئندہ سے ایسی برکتوں کا زمانہ شروع ہو جائے کہ یہ جو روزانہ طوفان آتے ہیں اور بے وقت بارشیں ہوتی ہیں اور فصلیں خراب ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ اس کو دور فرما دے.“

Page 369

انوار العلوم جلد 26 317 سیر روحانی (11) " اس کے بعد سیر روحانی، جیسے اہم موضوع پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا :- ” میری آج کی تقریر جو سیر روحانی کے سلسلہ میں ہے اس کا آج پندرھواں مضمون ہے.اس تقریر کے گل سولہ مضمون تھے جن میں سے چودہ ختم ہو چکے ہیں اور پندرھواں آج بیان ہو جائے گا.اس کے بعد صرف ایک مضمون رہ جائے گا جو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی تو اگلے سال ہو جائے گا.اس تقریر کا خیال تو مجھے ایک وقتی جذ بہ کے ماتحت آیا تھا لیکن یہ اتنی مقبول ہوئی کہ بہت سے لوگوں نے مجھے لکھا ہے کہ یہ تو اسلامک انسائیکلو پیڈیا ہے ہمیں جس مضمون کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سے نکال لیتے ہیں اور پڑھ کر فائدہ اٹھاتے ہیں.دیباچہ قرآن اور احمدیت اور سیر روحانی یہ کتابیں عام طور پر بڑی مقبول ہوئی ہیں.وہ دو مضمون جو باقی رہ گئے ہیں لنگر خانے اور کتب خانے ہیں.میں آج لنگر خانے کا مضمون لیتا ہوں.اس مضمون کی تحریک مجھے اس طرح ہوئی کہ جب میں سفر دکن سے واپس آیا تو راستہ میں ہم دتی میں ٹھہرے.میرے ساتھ اُس وقت میری چھوٹی بیوی مریم صدیقہ اور میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم اور میری بیٹی امتہ القیوم تھیں.جب ہم دتی میں آئے تو میں نے کہا کہ ہم ان کو بھی سیر کرالائیں.چنانچہ مختلف مقامات کی میں نے انہیں سیر کروائی.ایک دن ہم اوکھلا بند دیکھنے گئے جہاں ذاکر حسین صاحب نے اپنا کالج کھولا ہوا ہے.انہوں نے ایک دفعہ کسی آدمی کے ہاتھ مجھے پیغام بھجوایا تھا کہ آپ ضرور آئیں اور مجھے ملیں.چنانچہ میں ان کے کالج میں چلا گیا.وہ تو اُس وقت بمبئی چلے گئے تھے جرمنی کا کوئی پروفیسر ان کا قائم مقام تھا.اس نے مجھ سے باتیں کیں اور کہا کہ یہ بڑی اچھی سیر گاہ ہے اسے آپ پھر کر دیکھیں.چنانچہ وہاں ہم نے تعلق کا مقبرہ دیکھا.جب اس مقبرہ سے ہم باہر نکلے تو تغلق آباد کے قلعہ کو دیکھنے کے لئے چلے گئے.یہ قلعہ ایک بلند جگہ پر واقع ہے اور خاصا او پر چڑھ کر اس میں داخل ہونا پڑتا ہے میں اپنی بیوی اور بچی کو لے کر اس پر چڑھ گیا.جب میں اس کی چوٹی پر چڑھا تو مجھے ساری دتی نظر آنے لگ گئی کیونکہ وہ ایسی جگہ پر ہے جہاں سے ساری دتی کے پرانے آثار نظر آتے تھے.جب میں اس پر کھڑا ہوا تو مجھے قطب صاحب کی

Page 370

انوار العلوم جلد 26 318 سیر روحانی (11) لاٹ بھی نظر آئی، فیروز شاہ تغلق کی لاٹ بھی نظر آئی ، شاہی قلعہ بھی نظر آیا، مسجدیں بھی نظر آئیں.مقبرے بھی نظر آئے.غرض آثار قدیمہ کی بہت سی چیزیں اُس وقت میں نے دیکھیں.اور کچھ چیزیں ایسی تھیں جو حیدر آباد سے میں دیکھتا چلا آ رہا تھا.جب میں نے ان چیزوں کو دیکھا تو میں نے کہا کہ یہ تو ساری دنیا جمع ہوگئی ہے.پھر میں کھڑے ہوئے انہی پر غور کرتے کرتے ایسا محو ہوا کہ مجھے کوئی ہوش ہی نہ رہی اور میں اسی محویت کے عالم میں وہاں دیر تک کھڑا رہا.یہاں تک کہ میری بہن نے نیچے سے آواز دی کہ جلدی آئیں دیر ہو رہی ہے اور دھوپ تیز ہوتی جاتی ہے.مگر میں اُس وقت بالکل بے بس ہو رہا تھا.پھر میری بیٹی نے بھی آواز دی کہ ابا جان آجائیں آپ کب تک دیکھتے رہیں گے.اُس وقت یکدم میرے دل میں خیال گزرا کہ یہ کیا ذلیل دنیوی چیزیں ہیں ان سے بہتر چیزیں تو خود قرآن میں موجود ہیں.اور اُس وقت بے اختیار میرے منہ سے نکلا.” میں نے پالیا.میں نے پالیا جب میں نے کہا میں نے پالیا میں نے پالیا تو میری لڑکی نے کہا ابا جان آپ نے کیا پالیا؟ میں نے کہا میں یہاں نہیں بتا سکتا.جلسہ سالانہ پر میں ساری جماعت کے سامنے بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا ہے.چنانچہ اُسی سال سے یہ مضمون چلا آ رہا ہے اور ہر سال ایک ایک یا دو دو مضمون بیان ہو جاتے ہیں.اب اگلے سال صرف ایک مضمون رہ جائے گا.اس کے بعد پھر فضائل القرآن کا مضمون شروع ہو جائے گا.اگر اس کے کچھ نوٹ ہمارے مولوی یعقوب صاحب نے محفوظ رکھے ہوئے ہیں تو پھر فضائل القرآن پیش کئے جائیں گے.وہ فضائل القرآن براہین احمدیہ کے اصول پر ہیں یعنی ان میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح قرآن کریم مختلف رنگوں میں دوسری کتابوں پر فضیلت رکھتا ہے بہر حال آج میں لنگر خانے کا مضمون لے رہا ہوں.“ (الفضل 25 فروری 1958ء)

Page 371

انوار العلوم جلد 26 319 سیر روحانی (11) عالم روحانی کے لنگر خانے دنیوی لنگر خانوں کے نقائص پندرھویں چیز جو 1938ء کے سفر دکن میں میں نے دیکھی اور جس نے میرے دل کو متاثر کیا وہ شاہی لنگر خانے تھے جو غرباء کیلئے جاری کئے گئے تھے.میں نے دیکھا کہ بادشاہوں کے محلات کے ساتھ ہی غریبوں کے لئے لنگر بنائے گئے تھے تا کہ وہ بھو کے نہ رہیں اور صبح و شام وہاں سے کھانا حاصل کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پال سکیں.میرے لئے یہ بات بڑی خوشی کا موجب ہوئی اور مجھے اُن کے انتظام کی تعریف کرنی پڑی.لیکن جب میں نے سوچا اور غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ بادشاہوں نے یہ لنگر تو جاری کر دیئے تھے لیکن غریب اُن سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے تھے.اکثر امراء یا اوسط درجہ کے لوگ اُن کو دھکے دے کر پیچھے ہٹا دیتے تھے اور خوراک خود استعمال کر لیتے تھے.دوسرے میں نے دیکھا کہ ان لنگر خانوں میں جو لانگری مقرر ہوتے تھے بعض دفعہ وہ جنس خود اُڑا لیتے تھے اور بادشاہ کی لنگر جاری کرنے کی خواہش خاک میں مل جاتی تھی.قرآنی لنگر کی خوبی اور اُس میں لیکن اس کے مقابلہ میں میں نے دیکھا کہ قرآنی لنگر ان تمام نقائص سے پاک تھا اور پھر انواع و اقسام کے کھانے قرآنی لنگر میں اتنی انواع کے کھانے تھے کہ شاہی لنگر اُس کے مقابلہ میں بالکل بیچ نظر آتے تھے.مگر ظاہر ہے کہ قرآنی لنگر میں روٹیاں نہیں ملتیں بلکہ قرآن کے ذریعہ روحانی تعلیم دنیا کو بانٹی جاتی ہے.پس قرآن کریم کے روحانی لنگر کے اندر انواع و اقسام کے کھانوں کی موجودگی کے صرف اتنے ہی معنے ہیں کہ قرآن کریم نے ایسی کامل تعلیم پیش کی ہے جس کے مقابلہ میں دنیا کا کوئی روحانی لنگر

Page 372

انوار العلوم جلد 26 320 سیر روحانی (11) پیش نہیں کیا جا سکتا.اور یہ دعوی ایسا ہے جو خود قرآن کریم نے دنیا کے سامنے پیش کیا ہے.چنانچہ قرآن کریم کے روحانی لنگر کے اندر انواع واقسام کے کھانوں کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے وَ كُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ تَفْصِيلا 9 یعنی ہم نے قرآن کریم میں ہر روحانی امر کو جس کی دنیا کو ضرورت تھی اچھی طرح کھول کر بیان کر دیا ہے.گویا قرآن کے روحانی لنگر میں انواع و اقسام کے کھانے بٹ رہے ہیں جن کی مثال بادشاہوں کے لنگر خانوں میں تو کیا پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی نہیں پائی جاتی.اسی طرح قرآن میں مختلف انواع واقسام کی روحانی تعلیم کے پائے جانے کا ذکر دوسری جگہ اس طرح کیا گیا ہے کہ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمُ 10 یعنی اس قرآن کے ذریعہ سے انسان کو وہ کچھ سکھایا گیا ہے جو پہلی کتب سماویہ کے ذریعہ نہیں سکھایا گیا تھا.گویا قرآن شریف کو نہ صرف دُنیوی لنگروں پر فضیلت ہے بلکہ سب آسمانی لنگروں پر بھی فضیلت ہے.چنانچہ اس کی مثال کے طور پر میں فرعون کے واقعہ کو پیش کرتا ہوں.فرعون موسی کے متعلق قرآنی انکشاف قرآن کریم میں جو موسیٰ اور فرعون کے قریباً بائیس سو سال بعد آیا ہے اُس میں یہ لکھا ہے کہ فرعون کا جسم فرعونیوں کے سمندر میں غرق ہونے کے وقت بچالیا گیا تھا 11 صرف اس کی روح لے لی گئی تھی تا کہ وہ آئندہ عذاب اُٹھائے مگر بائبل جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ اُس زمانہ میں اُتری تھی جس زمانہ میں فرعون ڈوبا تھا اُس میں یہ سچائی کہیں بیان نہیں کی گئی.اب غور کرو کہ بائیس سو سال کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو ایک اُمّی اور ان پڑھ تھے وہ تو اِس مضمون کو بیان کرتے ہیں کہ آج سے بائیس سوسال پہلے جب موسی مصر سے بھاگے تھے اور فرعون نے اُن کا تعاقب کیا تھا تو خدا نے فرعون کو سمندر میں تو غرق کر دیا تھا لیکن اُس کی لاش کو محفوظ رکھا گیا تھا تا کہ وہ آئندہ آنے والے لوگوں کے لئے عبرت اور نصیحت کا موجب بنے مگر بائبل اس بات کو بیان نہیں کرتی حالانکہ وہ اُسی زمانہ کی کتاب ہے جس زمانہ میں فرعون غرق ہوا.اب تاریخ کو دیکھو تو وہ اسی بات کی تائید کرتی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے.چنانچہ جو پرانی ممیاں نکلی ہیں

Page 373

انوار العلوم جلد 26 321 سیر روحانی (11) اُن میں فرعونِ موسی کی ممی بھی نکلی ہے.مصریوں کو ایسی دوائیں معلوم تھیں کہ جب وہ میت کے اندر وہ دوائیں ٹیکہ کے ذریعہ پہنچا دیتے تو لاشیں کئی کئی سو سال تک محفوظ رہتی تھیں.اب انگریزوں نے بھی ایسی دوائیں نکال لی ہیں لیکن تجربہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یورپ نے جو دوائیں ایجاد کی ہیں اُن کی وجہ سے لاشیں صرف تمہیں چالیس سال تک محفوظ رہتی ہیں اس کے بعد خراب ہونا شروع ہو جاتی ہیں مگر مصریوں کی کئی کئی ہزار سال کی ممیاں ا مل گئی ہیں.اُن کو کئی ایسے نسخے معلوم تھے کہ جن کی وجہ سے کئی کئی ہزار سال تک لاشیں محفوظ رہتی تھیں.فرعون موسٹی کی ممی پر ہی پینتیس سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور وہ ممیاں جو فرعون موسی سے بھی کئی کئی ہزار سال پہلے کی ملی ہیں اُن کو لے لیا جائے تو پھر پانچ چھ ہزار سال سے وہ لاشیں محفوظ چلی آ رہی ہیں مگر یورپین لوگوں نے ابھی تک صرف تہیں چالیس سال تک کے لئے لاش کو محفوظ رکھنے کا علاج نکالا ہے اس سے زیادہ نہیں.بہر حال ہمیں تو صرف اُس فرعون کی ممی سے غرض ہے جو فرعونِ موسی کہلاتا ہے اور اُس کے متعلق موسٹی کے بائیس سو سال بعد قرآن نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی لاش کو محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا تھا.اصل بات یہ ہے کہ جب وہ ڈوبنے لگا تو اُس کو خیال آیا کہ معلوم ہوتا ہے موسی سچا ہی تھا اور میں اس کی مخالفت کر کے غلطی کرتا رہا.چنانچہ اُس نے ڈوبتے وقت کہا کہ میں ایمان لاتا ہوں کہ سوائے اُس خدا کے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے ہیں اور کوئی خدا نہیں.اُس وقت اللہ تعالیٰ نے فرعون سے کہا کہ اب ایمان لاتے ہو جب کہ تم مرنے لگے ہو.اب تو صرف یہی ہے کہ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ 12 ہم تیرے جسم کو نجات دیں گے تا کہ تو آنے والے لوگوں کے لئے نشان ہو.چنانچہ اُس کی لاش محفوظ رہی.مگر وہ لاش تو اس زمانہ میں ملی ہے جبکہ قرآن کے نزول پر بھی چودہ سو سال کا عرصہ گزر چکا ہے.لیکن قرآن کریم نے آج سے چودہ سو سال پہلے خبر دے دی تھی کہ فرعونِ موسی کی لاش محفوظ ہے اور اگر اس میں بائیس سو سال کا پہلا عرصہ بھی شامل کر لیا جائے تو پینتیس سو سال سے یہ پیشگوئی پوری ہوتی چلی آ رہی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس ممی کے نام کے متعلق اختلاف ہے لیکن یہ اختلاف صرف

Page 374

انوار العلوم جلد 26 322 سیر روحانی (11) اتنا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس فرعون کے زمانہ میں حضرت موسی علیہ السلام پیدا ہوئے اُس کا نام رمسیس تھا اور جس فرعون کے زمانہ میں حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے اُس کا نام منفتاح تھا مگر لاشیں دونوں کی مل گئی ہیں.ایک کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ رمسیس کی لاش ہے اور ایک کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ منفتاح کی لاش ہے.اب خواہ رعمسیں کی لاش کو فرعون موسی کی لاش سمجھ لو یا منفتاح کی لاش کو زمانہ موسی کے فرعون کی لاش کہو بات تو وہی رہی جو قرآن نے کہی تھی اور پتا لگ گیا کہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ سچ تھا.فرعون موسی کی لاش محفوظ رہی اور وہ اب تک محفوظ چلی آرہی ہے.حضرت سلیمان علیہ السلام دوسری مثال کے طور پر میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا واقعہ پیش کرتا ہوں.حضرت سلیمان علیہ السلام بائبل کے الزامات کے زمانہ کے کا فربھی اُن کو کافر کہتے تھے.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلكِنَّ الشَّيطِيْنَ كَفَرُوا 13 یعنی سلیمان نے ہرگز کفر نہیں کیا بلکہ اس کے دشمن جو خدا سے دُور تھے وہ سلیمان کو کا فرکہہ کے خود کافر ہو گئے تھے.اس آیت میں تمہارے لئے بھی ایک بڑا بھاری نکتہ ہے اور وہ یہ کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صرف شریعت والے نبی کا انکار کفر ہوتا ہے دوسرے نبیوں کا انکار کفر نہیں ہوتا مگر حضرت سلیمان کو نہ یہودی صاحب شریعت مانتے ہیں اور نہ مسلمان صاحب شریعت مانتے ہیں.سب کہتے ہیں کہ وہ غیر شرعی نبی تھے.مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ وَلَكِنَّ الشَّيْطِيْنَ كَفَرُوا جو لوگ اُس کے دشمن تھے اور کہتے تھے کہ اس نے کفر کیا ہے وہ خود کافر تھے.اس سے معلوم ہوا کہ غیر شرعی انبیاء کا انکا ر بھی کفر ہی ہوتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکرین بھی اگر کہیں کہ مرزا صاحب تو شریعت لانے والے نبی نہیں تھے پھر اُن کے منکر کا فرکس طرح ہو گئے تو وہ اس بہانہ سے بچ نہیں سکتے.مولوی محمد علی صاحب ہمیشہ زور دیا کرتے تھے کہ شریعت والے نبی کا انکار ہی کفر ہوتا ہے مگر خدا تعالیٰ اس آیت میں

Page 375

انوار العلوم جلد 26 323 سیر روحانی (11) صاف طور پر فرماتا ہے کہ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلَكِنَّ الشَّيْطِينَ كَفَرُوا سليمان نے کفر نہیں کیا تھا بلکہ اس کے دشمنوں نے اُس کو کا فرکہہ کے خود کفر کیا.پس جو شخص کسی سچے فرستادہ یا اُس کے ماننے والوں کو کافر کہتا ہے وہ قرآن کریم کی رُو سے خود کافر ہو جاتا ہے.بلکہ اگر ان الفاظ پر زیادہ وسیع نظر سے غور کیا جائے تو درحقیقت اس کے یہ معنے بنتے ہیں کہ کوئی کافر کہے یا نہ کہے پھر بھی صرف انکار سے وہ کافر ہو جاتا ہے.اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم نے تو یہ کہا ہے کہ سلیمان نبی تھا کا فرنہیں تھا مگر بائبل جو سلیمان کے وقت کی لکھی ہوئی ہے وہ کیا کہتی ہے؟ بائبل کی کتاب ”سلاطین" میں لکھا ہے :- ” جب سلیمان بڑھا ہو گیا تو اُس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کے ساتھ کامل نہ رہا.‘ 14 گویا قرآن کریم تو بائیس سو سال بعد میں آنے کے باوجود کہتا ہے کہ سلیمان نے کوئی کفر نہیں کیا لیکن بائبل اُس زمانہ کی کتاب ہو کر کہتی ہے کہ سلیمان بڑھا ہو گیا تو اس کی بیویوں نے اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کر لیا اور اُس کا اپنے خدا سے کامل تعلق نہ رہا.اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن کریم کا روحانی کھانا کتنا مزیدار ہے اور بائبل کا کھانا کتنا خراب اور بدمزہ ہے.وہ اپنے زمانہ کے متعلق لوگوں کو ایک خبر دیتی ہے اور جیسا کہ میں آگے چل کر ثابت کروں گا حضرت سلیمان پر یہ جھوٹا اتہام لگاتی ہے کہ اُس کی مشرک بیویوں نے اُس کا دل خدا تعالیٰ کی طرف سے پھیر دیا اور وہ غیر معبودوں کی عبادت کرنے لگا.پھر لکھا ہے :- خداوند سلیمان سے ناراض ہوا.15 گویا سلیمان نے صرف کفر ہی نہیں کیا بلکہ اس حد تک کفر کیا کہ اللہ تعالیٰ اس کا مخالف ہو گیا اور وہ سلیمان سے ناراض ہوا.کیونکہ اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے پھر گیا تھا.“ 16

Page 376

انوار العلوم جلد 26 324 اور باوجود اس عظیم الشان نشان کے پھر گیا تھا کہ اُس نے ” دو بار دکھائی دے کر اس کو اس بات کا حکم کیا تھا کہ وہ غیر معبودوں کی پیروی نہ کرے.پر اُس نے وہ بات نہ مانی جس کا حکم خداوند نے دیا تھا.“ 17 سیر روحانی (11) قرآن تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے.عام مسلمان جس پر قرآن نازل نہیں ہوا وہ بھی اگر قرآن کی تعمیل نہ کرے تو کافر ہو جاتا ہے.مگر سلیمان نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِكَ اتنا کج راہ اور اتنا خطر ناک کا فر تھا کہ دو دفعہ خدا اُس پر ظاہر ہوا اور دو دفعہ خدا نے ظاہر ہو کر اُسے کہا کہ غیر معبودوں کی پرستش نہ کرنا مگر پھر بھی وہ اپنی بیویوں کے حُسن اور اُن کی زیبائش کو دیکھ کر خدا تعالیٰ سے اتنا پھر ا کہ غیر معبودوں کے لئے اُس نے مسجد میں بنائیں اور اُن کے آگے سجدہ کرنے لگ گیا.مگر تاریخی شہادتوں سے پتا لگتا تاریخی شہادت سے قرآنی بیان کی تصدیق ہے کہ جو قرآن نے بات کہی تھی وہی ٹھیک ہے اور جو بائبل نے کہی تھی وہ غلط ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ خود عیسائی محققین نے اس بات کو تسلیم کر لیا ہے کہ بائبل میں حضرت سلیمان پر یہ جھوٹا الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے غیر معبودوں کی پرستش کی اور خدائے واحد کو چھوڑ دیا.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا بلی کا جو بڑے بڑے پادریوں اور یہودی علماء نے لکھی ہے اور جس میں نہ صرف پرانی تاریخی کتب کا نچوڑ آ گیا ہے بلکہ نئی علمی تحقیقات بھی اُس میں شامل ہیں اُس میں لکھا ہے کہ :- وو یہ بات تو صحیح ہے کہ حضرت سلیمان کی بہت سی بیویاں تھیں کچھ اسرائیلی اور کچھ غیر اسرائیلی.لیکن نہ تو انہوں نے اُن سب کے لئے قربان گاہیں بنائی تھیں اور نہ انہوں نے اپنی بیویوں کے دیوتاؤں کی عبادت کو کبھی خدا تعالیٰ کی عبادت کے ساتھ ملایا تھا.آپ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے انکار کا کبھی تصور بھی نہیں کر سکتے تھے ، 18 66

Page 377

انوار العلوم جلد 26 325 سیر روحانی (11) گویا تاریخ نے خود تسلیم کر لیا کہ بیشک حضرت سلیمان کی کئی بیویاں تھیں کچھ یہودی اور کچھ غیر یہودی مگر یہ غلط ہے کہ انہوں نے سب کے لئے بُت خانے بنائے.اور پھر یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے کبھی کسی بُت کو سجدہ کیا ہو.اب دیکھو بائبل تو یہ کہتی ہے کہ انہوں نے بتوں کو سجدے کئے اور قرآن کہتا ہے کہ نہیں کئے.اور آج کا محقق یہودی اور آج کا محقق عیسائی کہتا ہے کہ بائبل جھوٹ کہتی ہے.ہمارے ملک کی ایک مثل ہے.کہتے ہیں.” جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے.اگر صرف قرآن یہ بات کہتا تو عیسائی اور یہودی کہتے کہ ہم کو جھٹلانے کے لئے ایسا کہا گیا ہے مگر خدا نے خود عیسائی اور یہودی علماء کی زبان سے یہ بات کہلوا دی.پس اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ محقق تو تمہارے اپنے بزرگ ہیں.اگر ان بزرگوں نے اپنے بزرگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے تو تم اس کے ذمہ دار ہو ہم ذمہ دار نہیں.نہ ان یہودی پادریوں کو ہم نے پڑھایا تھا اور نہ عیسائی پادریوں کو ہم نے پڑھایا ، تمہارے اپنے باپ دادوں نے ان کو پڑھایا تھا.پس اگر جھوٹے ہیں تو تمہارے اپنے باپ دادا جھوٹے ہیں، تمہاری کلیسیا جھوٹی ہے یا یہودیوں کی مذہبی انجمن جھوٹی ہے.ہمارا قرآن تمہارے علماء کے اقرار کے ساتھ سچا ثابت ہو گیا اور ظاہر ہو گیا کہ سلیمان نے کبھی غیر معبودوں کی پرستش نہیں کی تھی.پھر اُسی سلاطین میں جس میں حضرت سلیمان پر کفر کا الزام لگایا گیا ہے لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت سلیمان کو الہاما کہا کہ : - میں نے ایک عاقل اور سمجھنے والا دل تجھ کو بخشا.19 اب کیا عاقل اور سمجھنے والا دل شرک کیا کرتا ہے؟ ایسا کہ تیری مانند نہ تو کوئی تجھ سے پہلے ہوا اور نہ کوئی تیرے پھر لکھا ہے کہ :- بعد تجھ سا بر پا ہوگا.‘20 گویا بائبل حضرت سلیمان کو اتنی عظمت دیتی اور اُسے ایسا بے نظیر آدمی قرار دیتی ہے کہ نہ تو ہزاروں سال پہلے اس جیسا کوئی آدمی ہوا اور نہ ہزاروں سال بعد اُس جیسا کوئی

Page 378

انوار العلوم جلد 26 326 سیر روحانی (11) اور پیدا ہوگا.لیکن ساتھ ہی اس کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ وہ کافر تھا.کیا ایسی کتاب کو ہم مذہبی کتاب کہہ سکتے ہیں؟ اس کتاب کے مصنفوں کو تو پاگل خانہ میں داخل کرنا چاہئے تھا جنہوں نے ایسی متضاد باتیں لکھ دیں.اسی طرح لکھا ہے :- وو سلیمان خداوند سے محبت رکھتا اور اپنے باپ داؤد کے آئین پر چلتا تھا.21 اگر سلیمان خدا تعالیٰ سے محبت رکھتا تھا اور اپنے باپ داؤد کے طریق پر چلتا تھا تو پھر اُس کو مشرک کہنا اور بتوں کی فرمانبرداری کرنے والا قرار دینا کونسی معقول بات ہے.کتاب وہی ہے اور اُس میں یہ باتیں لکھی ہیں.ان حوالہ جات سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ بائبل کا الزام جھوٹا ہے اور بیچ وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور جس کی رو سے حضرت سلیمان شروع سے لے کر آخر تک نہایت اعلیٰ درجہ کے مؤمن اور نبی قرار پاتے ہیں.غرض قرآن کریم نے ایسی باتیں بیان کی ہیں جن سے پہلی کتب گلیہ خالی ہیں اور یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن کریم ایسی سچائیوں سے پُر ہے جن میں کوئی الہامی کتاب اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور قرآن کریم کے ذریعہ جو انواع و اقسام کی روحانی غذائیں دی گئی ہیں وہ اتنی اعلیٰ ہیں کہ اُن کی نظیر دنیا کی کسی الہامی کتاب سے پیش نہیں کی جاسکتی.روحانی کھانوں کے مقابلہ میں دُنیوی حقیقت یہ ہے کہ دنیوی کھانے خواہ وہ کتنے ہی اعلیٰ درجہ کے ہوں اور کھانے ایک بے حقیقت چیز ہیں دنیوی نعماء خواہ وہ کتنی ہی بلند پایہ ہوں رُوحانی کھانوں اور روحانی نعمتوں کے مقابلہ میں ایک بالکل ادنی اور بے حقیقت چیز ہوتی ہیں.اور دنیا کے سمجھدار اور نیک فطرت لوگوں نے بھی اس امر کو تسلیم کیا ہے کہ جسمانی کھانا ایک ادنی چیز ہے.اصل چیز روحانی کھانا ہی ہے یعنی دین کی باتیں سنا اور اُس پر عمل پیرا ہونا.

Page 379

انوار العلوم جلد 26 327 سیر روحانی (11) علیہ ا میں اس کی مثال کے طور پر ایک واقعہ بیان کرتا ہوں.1908ء میں جبکہ حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام لاہور میں ٹھہرے ہوئے تھے لاہور کے بڑے بڑے احمدیوں نے وہاں کے بااثر لوگوں کی ایک دعوت کی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی شامل ہوئے اور آپ نے اُن معززین کے سامنے ایک تقریر فرمائی لیکن اتفاقاً تقریر کچھ لمبی ہو گئی.خلیفہ رجب دین صاحب مرحوم جو خواجہ کمال الدین صاحب مرحوم کے خسر تھے اور دعوتوں کا انتظام کرنے میں بڑی مشق رکھتے تھے انہوں نے پیچھے سے آکر حضرت مسیح موعود عليه الصلواۃ والسلام کو کہنا شروع کیا کہ حضور! بڑی دیر ہو گئی ہے، کھانا ٹھنڈا ہو رہا ہے اور بڑے بڑے معززین آئے ہوئے ہیں.اس پر میاں فضل حسین صاحب مرحوم کہ وہ بھی مدعووین میں سے تھے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہا کہ حضور! دنیا وی کھانے تو ہم روز ہی کھاتے ہیں ہم تو یہاں آپ کے ہاتھ سے روحانی کھانا کھانے آئے ہیں سو آپ تقریر جاری رکھیں اور ہمیں اس سے محروم نہ کریں.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقریر جاری رکھی اور تمام غیر احمدی احباب بیٹھے سنتے رہے.میاں فضل حسین صاحب بڑے عقلمند اور سمجھدار آدمی تھے.مسلمانوں کے لیڈر تھے اور ابھی اُن کی جوانی کا وقت تھا جس میں بُھوک زیادہ لگتی ہے مگر مجھے یاد ہے وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے بڑے جوش سے کہا کہ آپ تقریر جاری رکھیں یہ روحانی کھانا ہمیں کب نصیب ہوتا ہے.جسمانی کھانا تو ہم اپنے گھروں میں کھا ہی لیتے ہیں ہم جو آپ کے پاس آئے تھے تو روحانی کھانا کھانے آئے تھے.اس سے معلوم ہو ا کہ دین کی باتیں عقلمندوں کے نزدیک روحانی کھانا ہوتی ہیں.کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے ساتھ دل کو ایمانی تقویت حاصل ہوتی ہے.حضرت مسیح ناصرٹی بھی فرماتے ہیں کہ 22" -: انسان صرف روٹی سے نہیں بلکہ خدا کے کلام سے جیتا ہے.پس یہ بات کہ روحانی غذا ہی اصل غذا ہوتی ہے اور جسمانی غذا اس کے مقابلہ میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی اس کی حضرت مسیح کے کلام سے بھی تصدیق ہوگئی اور میاں فضل حسین صاحب

Page 380

انوار العلوم جلد 26 328 سیر روحانی (11) کے واقعہ سے بھی تصدیق ہوگئی.میاں فضل حسین ایک دُنیوی لیڈر تھے اور حضرت مسیح دینی لیڈر تھے دونوں نے بتا دیا کہ روحانی کھانا ہی اصل کھانا ہوتا ہے.قرآنی لنگر کی کوئی چیز چرائی نہیں جاسکتی اس نقطہ نگاہ سے جب میں نے قرآنی لنگر کا بادشاہی لنگروں سے مقابلہ کیا تو میں نے دیکھا کہ قرآنی لنگر کا کھانا نہ تو لوگ ناجائز استعمال کر سکتے تھے اور نہ لانگری اُس کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کر سکتا تھا.جبکہ بادشاہی لنگروں کی یہ کیفیت تھی کہ وہ جاری تو غرباء کے لئے کئے جاتے تھے مگر کھا نا آسودہ حال لوگ آ کے کھا جاتے تھے اور کچھ لانگری کھا جاتا تھا اور غریب بھو کے مرتے تھے.چنانچہ مجھے نظر آیا کہ قرآنی لنگر کی حفاظت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے ایک خاص ارشاد فرمایا ہے جس میں کھلے طور پر یہ بتا دیا گیا ہے کہ قرآنی لنگر میں کوئی چوری نہیں ہو سکتی.اور اگر کوئی چوری کرنے کی کوشش کرے تو وہ فوراً پکڑا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يَعْلَمُ خَابِنَةَ الْأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُورُ 23 یعنی وہ آنکھ کے اشارے کو بھی سمجھتا ہے اور دلوں کے مخفی خیالات کو بھی سمجھتا ہے.پس جو لوگ قرآنی لنگر سے چوری کرنا چاہتے ہیں وہ کامیاب نہیں ہوتے بلکہ پکڑے جاتے ہیں.عام طور پر قاعدہ ہے کہ چور یہ دیکھ کر کہ کوئی دیکھتا نہیں ایک دوسرے کو آنکھ مارتے ہیں کہ چیز اُٹھا لو، کوئی خطرے کی بات نہیں.لیکن قرآن فرماتا ہے کہ ہمارے لنگر میں اگر کوئی کسی کو آنکھ مارے تو ہم اُسے وہیں پکڑ لیتے ہیں اور اُسے وہ چیز اُٹھانے نہیں دیتے.بلکہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ دل کی مخفی باتوں کو بھی جانتا ہے.یعنی اگر کوئی شخص اپنے دل میں یہ خیال مخفی رکھ کر آئے کہ میں قرآنی لنگر سے کوئی چیز چرا ؤں گا تو وہ بھی پکڑا جائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ اُس کے دل کی حالت کو جانتا ہے اور مالک اپنے خزانہ کو کبھی چور کے ہاتھ میں نہیں جانے دیتا.خدا تعالیٰ نے اپنے لنگر خانہ کو جن لوگوں کے لئے مخصوص کیا ہے وہی اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں دوسرا قریب بھی نہیں جاسکتا.پس جیسے با دشا ہی لنگر کو لانگری کھا جاتے ہیں ویسا قرآنی لنگر میں نہیں ہو سکتا.جب کوئی قرآنی لنگر میں چوری کرنے لگے تو فوراً خدا تعالیٰ کے فرشتے اُس کو روکنے کیلئے آگے بڑھتے ہیں اور

Page 381

انوار العلوم جلد 26 329 سیر روحانی (11) اُسے پکڑ لیتے ہیں.قرآن کریم میں اسی مضمون کے متعلق ایک اور آیت بھی ہے جس میں عجیب پیرا یہ میں اس مضمون کو بیان کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَا يَسمَّعُونَ اِلَى الْمَلَا الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَاَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِب 24 یعنی قرآنی لنگر جو روحانی باتوں پر مشتمل ہے اُس کے متعلق بعض دفعہ دشمنانِ اسلام چاہتے ہیں کہ اُس کی کچھ باتیں پہلے سے سن لیں اور پھر اُن کو بگاڑ کر مسلمانوں کو شرمندہ کریں.مگر فرماتا ہے لَا يَسمَّعُونَ إلَى الْمَلَا الْأَغلى ایسے شیطان جو دشمنانِ اسلام ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی بات اُن کو معلوم ہو جائے چاہے نجوم کے ذریعہ سے یا قرآن کریم پر غور کر کے وہ اپنے مقصد میں کبھی کامیاب نہیں ہوتے بلکہ جب بھی وہ ایسا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيُقْذَفُوْنَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ فوراً خدائی فرشتے آ جاتے ہیں اور چاروں طرف سے ان کو مار پڑتی ہے.دُھورا اور پھر مار بھی ایسی پڑتی ہے کہ وہ مارکھا کر وہاں کھڑے نہیں رہ سکتے بلکہ دور چلے جاتے ہیں.گو یا مار اُن کو دُور لے جانے کے لئے پڑتی ہے اور اس لیے پڑتی ہے کہ انہیں بھگا کر زمین کے کناروں تک لے جایا جائے کیونکہ اگر وہ پاس ہوں تو پھر بھی امکان ہوتا ہے کہ شاید کچھ بھنبھناہٹ سن لیں اور یہ پھر لوگوں کو جا کر دھوکا دیں.وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِب اور پھر اُن کو پرے ہی نہیں کیا جاتا بلکہ طرح طرح کے عذاب اُن پر نازل کئے جاتے ہیں جو ہمیشہ اُن کے ساتھ لگے رہتے ہیں.یعنی اتنے خطرناک عذاب نازل ہوتے ہیں کہ دشمن سے دشمن بھی اور اُن کا گہرا دوست بھی مان لیتا ہے کہ ان پر خدا کا عذاب نازل ہو رہا ہے.إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص بندر کی طرح جھپٹا مار کر کوئی حقیر سی غذا اُٹھا کر لے جائے.پس اگر بندر کی طرح وہ ایک آدھ لقمہ اُٹھا کر لے جائے تو یہ ہو سکتا ہے مگر خدا تعالیٰ اُس کا بھی ازالہ کر دیتا ہے اور اُس سے اُسے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ ایک چھوٹا سا لقمہ جس سے پیٹ بھی نہ بھرتا ہو اُس سے کسی قوم نے کیا فائدہ اُٹھانا ہے.پس اگر وہ قرآنی تعلیم میں سے کوئی بات اُڑا بھی لیں تو وہ بہت ہی حقیر ہو گی.ایسی حقیر کہ قرآن کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکے گی ا اور

Page 382

انوار العلوم جلد 26 بہر حال قرآن ہی اس پر غالب آئے گا.330 سیر روحانی (11) قرآنی لنگر کے ہمیشہ جاری رہنے کی پیشگوئی جسمانی اور روحانی لنگر کا مقابلہ کرتے ہوئے میں نے یہ بھی دیکھا کہ جسمانی لنگر تو کب کے خاموش ہو چکے ہیں لیکن قرآنی لنگر کے ہمیشہ زندہ رہنے کی پیشگوئی قرآن کریم میں مذکور ہے.چنانچہ اُس نے فرمایا اِنَّا اَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ - إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ 25 اے محمد رسول اللہ ! ہم تجھے ایک ایسے روحانی بیٹے کی بشارت دیتے ہیں جو بڑا ہی سخی ہوگا.پس چاہئے کہ تو اُس کے پیدا ہونے کی خوشی میں اپنے رب کے فضل کی وجہ سے اُس آنے والے روحانی بچہ کے لئے بہت دعائیں کرتارہ اور کثرت سے اُس کی پیدائش کی خوشی میں قربانیاں کرتا کہ ایک وسیع لنگر جاری ہو جائے اور لاکھوں کروڑوں آدمی اُس سے فائدہ اُٹھا ئیں اور یقین رکھ کہ تیرا دشمن ہمیشہ نرینہ اولاد سے محروم رہے گا.عربوں میں رواج تھا کہ وہ بچہ کی پیدائش پر بہت قربانیاں کرتے تھے.لڑکی کو تو وہ زندہ دفن کر دیتے تھے.اُس پر قربانیاں کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا ، صرف نرینہ اولاد پر وہ قربانیاں کیا کرتے تھے.پس فرمایا کہ تیرے ہاں ایک زمانہ میں ایک ایسا بیٹا پیدا ہو گا جو امتی نبی ہوگا اور نر ہو گا کیونکہ عورت نبی نہیں ہوتی.اس کی خوشی میں تو قربانیاں کر یعنی دنیوی لنگر بھی جاری کر اور اُس کی تسبیح و تحمید بھی کر.یعنی روحانی لنگر بھی جاری کر.اور یقین رکھ کہ تیرا دشمن ہمیشہ اس دنیا میں بے اولا در ہے گا.حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر مرد کو یہ فضیلت ہے کہ مردوں میں سے تو کامل مومن ہو سکتے ہیں جو دوسروں پر حکومت کرنے کے اہل ہوں لیکن عورتوں میں سے کوئی ایسی عورت نہیں ہو سکتی جو تمام مردوں پر حکومت کرنے کی قابلیت رکھتی ہو.آجکل مساوات پر بڑا زور دیا جاتا ہے لیکن یہ دعوی کبھی کسی عیسائی پادری نے نہیں کیا کہ عورت تمام مردوں پر حکومت کر سکتی ہے.مثلاً ملکہ کو ہی لے لو، اُس کو گھر میں خاوند کے ماتحت چلنا پڑتا ہے اور چاہے اُسے تخت پر ہی لا کر بٹھا ئیں گھر میں وہ خاوند کے ماتحت ہوتی

Page 383

انوار العلوم جلد 26 331 سیر روحانی (11) بے شک بعض عورتیں ایسی بھی ہوئی ہیں جنہوں نے شادی نہیں کی لیکن شادی نہ کرنے سے اُن کی فضیلت ثابت نہیں ہوتی.اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ ڈرتی تھیں کہ مرد آ گیا تو ہم پر حکومت کرے گا.مثلاً رضیہ سلطانہ نے جو غلام خاندان میں سے تھی ابتدا میں شادی نہیں کی مگر آخر وہ بے شادی کے نہ رہ سکی.اسی طرح یورپ میں بعض حکومتیں ہیں جن کی شہزادیوں نے شادی نہیں کی مگر اُن کا شادی نہ کرنا صاف بتا تا ہے کہ وہ ڈرتی تھیں کہ اگر شادی کی تو مرد کے تابع رہنا پڑے گا.ملکہ وکٹوریہ کی شادی البرٹ وکٹر سے ہوئی تھی.اور میں نے ملکہ کی ہسٹری میں پڑھا ہے کہ وہ روٹھ جاتا تھا تو وہ دروازے بند کر لیتا تھا اور ملکه معظمه ساری دنیا کی بادشاہ ہو کر اُس کی منتیں کیا کرتی تھی اور کہتی تھی کہ دروازہ کھول دو تم جو کچھ کہومیں وہی کروں گی.اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ کی پیشگوئی کا ظہور غرض یہ جو پیشگوئی تھی کہ محمد رسول اللہ کا دشمن ہمیشہ ابتر یعنی بے اولا د رہے گا اس کے پورا ہونے کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا دشمن ابو جہل تھا اور ابو جہل کا بیٹا عکرمہ تھا.ابوجہل کمبخت وہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعویٰ نبوت کیا تو ایک دفعہ آپ صفا پر بیٹھے ہوئے تھے کہ اُس نے زور سے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا.امیر حمزہ جو آپ کے چچا تھے اُس وقت باہر شکار کے لئے گئے ہوئے تھے.جب وہ شکار سے واپس آئے تو اُن کے گھر کی ایک لونڈی جس نے پردہ کے پیچھے سے یہ تمام نظارہ دیکھا تھا بڑے غصہ سے اُن کو دیکھ کر کہنے لگی ، تجھ کو شرم نہیں آتی کہ تو تیر کمان لٹکائے فوجی بنا پھرتا ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ بڑا بہادر ہے، میں نے دیکھا کہ آج تیرے بھیجا کے منہ پر ابو جہل نے بڑے زور سے تھپڑ مارا اور وہ سر ڈالے بیٹھا تھا.خدا کی قسم ! اُس نے ابو جہل کو کوئی لفظ نہیں کہا تھا اور اُس کا کوئی قصور نہیں تھا.وہ سر جھکائے چُپ کر کے بیٹھا تھا اور اپنے خیالات میں مگن تھا کہ وہ آیا اور اس نے تھپڑ مارا اور پھر بعد میں بھی محمد نے کچھ نہیں کہا.وہ دایہ تھی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جانتی تھی.اُس نے کہا کہ محمد نے پھر بھی کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے چلا گیا.اگر تم

Page 384

انوار العلوم جلد 26 332 سیر روحانی (11) میں غیرت اور شرم ہے تو جاؤ اور جا کر بدلہ لو.حضرت حمز کا یہ سنتے ہی سیدھے خانہ کعبہ میں گئے کیونکہ اُن لوگوں میں رواج تھا کہ شام کے وقت سارے رؤساء وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے.انہوں نے دیکھا کہ ابو جہل جو سردارانِ مکہ میں سے سمجھا جاتا تھا وہ مسند پر بیٹھا ہوا ہے اور اُس کے ارد گر دیکہ کے تمام رؤساء بیٹھے ہوئے ہیں.حضرت حمز کا جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کمان اُٹھا کر زور سے اُس کے منہ پر ماری اور کہا کہ مجھے پتا لگا ہے کہ تو نے آج محمد کے منہ پر تھپڑ مارا ہے اور اُس نے نہ پہلے کچھ کہا تھا اور نہ بعد میں کچھ کہا.اب اگر تم میں کچھ ہمت ہے اور کوئی بہادری تم میں پائی جاتی ہے تو آ اور میرے ساتھ لڑ کر دکھا پھر تجھے پتا لگے گا.محمد جو کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھا تا تیری ساری بہادری اُسی پر چلتی ہے.جو مقابلہ کرنے والے اور سپاہی لوگ ہیں اُن سے تو لڑکے دکھا پھر ہم مانیں گے کہ تو بہادر ہے.اس پر سارے رؤساء کھڑے ہو گئے اور انہوں نے حضرت حمزہ کو پکڑ لیا اور مارنے لگے کہ اُس نے ہمارے لیڈر کو مارا ہے.مگر اُس وقت خدا تعالیٰ نے ابو جہل کے دل پر ایسا رعب ڈالا کہ وہ اُن سے کہنے لگا.نہیں نہیں ! اسے کچھ نہ کہو اصل میں آج مجھ سے ہی کچھ زیادتی ہوگئی تھی اور غلطی میری ہی تھی.میں نے محمد پر بلا وجہ ظلم کر دیا ، اُس نے مجھے کچھ نہیں کہا تھا.نہ پہلے نہ بعد میں.اس لئے حمزہ اپنے بھتیجے کی تائید میں جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے اسے مت مارو - 26 چنانچہ وہ لوگ رُک گئے.تو ابو جہل اپنی قوم کا سردار تھا اور ہمیشہ لوگوں سے کہتا رہتا تھا کہ محمد ( رسول اللہ ) اگر کوئی بات کہا کریں تو کبھی نہ مانا کرو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعوی نبوت سے پہلے ایک مظلوم اور ستم رسیدہ انسان سے حسن سلوک دفعہ حلف الفضول میں شامل ہو گئے تھے.یہ ایک مجلس تھی جو فضل نامی تین چار آدمیوں نے قائم کی اور انہوں نے ایک دوسرے سے قسمیں لی تھیں کہ جب کوئی مظلوم مکہ میں آئے اور وہ ہم سے مدد مانگے تو ہم اُس کی ضرور مدد کریں گے.جب یہ مجلس قائم ہوئی تو انہوں نے آپ کو بھی اُس میں شامل ہونے کی دعوت دی، آپ بڑے شوق سے شامل ہو گئے.اس کے بعد دعوی نبوت

Page 385

انوار العلوم جلد 26 333 سیر روحانی (11) کے زمانہ میں ایک شخص باہر سے آیا اور کہنے لگا ابو جہل نے مجھ سے مدت ہوئی قرض لیا تھا مگر اب وہ دیتا نہیں.آپ حلف الفضول میں شامل رہ چکے ہیں آپ مجھ کو میرا قرض دلائیں.آپ نے فرمایا اچھا میں تمہارے ساتھ چلتا ہوں.چنانچہ آپ گئے ، ابو جہل کا دروازہ بند تھا، آپ نے دستک دی.ابو جہل آیا اور اُس نے دروازہ کھولا اور آپ کو دیکھ کر ذرا پیچھے ہٹ گیا اس خیال سے کہ میں اس کا اتنا بڑا دشمن ہوں اس کو میرے دروازہ پر آنے کی جرات کس طرح ہوئی ؟ آپ نے فرمایا تم نے اس کا کچھ قرض دینا ہے؟ وہ انکار نہ کر سکا اور کہنے لگا ہاں میں نے اس سے قرض لیا ہوا ہے مگر اب تک مجھے اُس کے ادا کرنے کا موقع نہیں ملا.آپ نے فرمایا کہ موقع کا سوال نہیں تم مالدار آدمی ہو فوراً اس کا قرض ادا کر دو.وہ اندر گیا اور جتنا روپیہ قرضہ تھا اُتنا ہی روپیہ اُسے لا کر دے دیا.27 ابوجہل کیلئے ایک خدائی نشان جب وہ اپنے معمول کے مطابق کعبہ میں آیا تو سب مکہ کے لوگوں نے اُسے کہا کہ تم بڑے ذلیل آدمی ہو.ہمیں تو یہ کہا کرتے تھے کہ اس کی بات نہ مانو اور آج کسی غیر جگہ نہیں بلکہ اپنے گھر پر جب اُس نے تم کو کہا کہ اس کا قرض ادا کر دو تو تم نے فوراً اس کا قرض ادا کر دیا.اور ڈر گئے.اس سے پتا لگتا ہے کہ تم ہم کو غلط راستہ پر چلاتے ہو ورنہ خود تم میں کوئی ہمت نہیں.اُس نے کہا.خدا کی قسم ! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی اُسی طرح قرضہ ادا کر دیتے.انہوں نے پوچھا کیا ہو اتھا ؟ وہ کہنے لگا جب میں نے دروازہ کھولا اور مجھے پتا لگا کہ محمد ( رسول اللہ ) ہیں تو میں نے دیکھا کہ ایک وحشی اونٹ آپ کے دائیں بازو پر کھڑا ہے اور ایک وحشی اونٹ آپ کے بائیں بازو پر کھڑا ہے اور دونوں نے اپنے سر آگے کئے ہوئے ہیں اور وہ مجھے کاٹنا چاہتے ہیں.میں اُن وحشی اونٹوں کو دیکھ کر اتنا ڈرا کہ اُسی وقت روپیہ لا کر اُس کے حوالے کر دیا.28 اب یہ ایک خدائی معجزہ تھا مگر اس سے پتا لگ سکتا ہے کہ ابو جہل کتنا خبیث دشمن تھا.ایسے دشمن کے گھر میں عکرمہ پیدا ہو اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں باوجود یہ کہنے کے کہ تو ابتر نہیں تیرا دشمن ابتر ہے اُس زمانہ

Page 386

انوار العلوم جلد 26 334 سیر روحانی (11) تک کوئی لڑکا پیدا نہیں ہوا.بعد میں ایک لڑکا پیدا ہو ا جو فوت بھی ہو گیا.مگر جب یہ بات ہو رہی تھی آپ کے ہاں کوئی بیٹا نہیں تھا.فتح مکہ پر عکرمہ کا فرار جب مکر مہ بڑا ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو عکرمہ بھاگ کے سمندر کے اُس کنارہ کی طرف چلا گیا جہاں سے رکشتیاں حبشہ کو جاتی تھیں.اُس کی بیوی تین چار مہینے انتظار کرتی رہی کہ وہ آ جائے تو میں کوشش کر کے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی لے دوں کیونکہ وہ اُن لوگوں میں سے تھا جو مسلمانوں پر سخت ظلم کیا کرتے تھے اور اُن کو مروایا کرتے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ایسے لوگ خواہ بیت اللہ میں بھی پناہ لیں اِن کو نہ بخشا جائے.عکرمہ بھی ڈر کے بھاگ گیا تھا کہ شاید مجھے بھی قتل کیا جائے گا.عکرمہ کی بیوی کا رسول کریم صلی اللہ جب تین چار مہینے ہو گئے اور وہ واپس نہ آیا تو اُس کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی حاصل کرنا علیہ وسلم کے پاس آئی.آخر خاوند کی محبت ہوتی ہے اور آ کر عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! کیا یہ اچھا ہے کہ آپ کا رشتہ دار بھائی آپ کے ماتحت آپ کے اپنے ملک میں زندگی گزارے یا یہ اچھا ہے کہ آپ کا رشتہ دار بھائی بھاگ کر کسی غیر ملک میں چلا جائے اور غیر ملکیوں کی پناہ میں اپنی عمر گزارے؟ آپ نے فرمایا نہیں اگر ہمارا بھائی ہے تو پھر ہماری پناہ میں وہ اپنی عمر گزارے تو یہ زیادہ اچھا ہے.وہ کہنے لگی.کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ میں جا کر اُسے لے آؤں؟ آپ نے فرمایا جاؤ.وہ کہنے لگی میں جاتی تو ہوں مگر آپ جانتے ہیں عکرمہ بڑا غیرت مند ہے اگر اُسے یہ پتا لگا کہ آپ اُس کا دین بدلوائیں گے تو پھر اُس نے نہیں آنا.یہ بھی وعدہ کیجیئے کہ وہ بُت پرست رہ کر آپ کے پاس آئے گا اور یہاں مکہ میں رہے گا اور پھر اُسے مارنا نہیں اور دوسرے اُسے مجبور نہیں کرنا کہ وہ بُت پرستی چھوڑ دے.آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے.چنانچہ وہ مکرمہ کو واپس بلانے کے لئے چلی گئی.عکرمہ اپنی بیوی کو دیکھ کر کہنے لگا تم کہاں؟ وہ کہنے لگی تو جو آ گیا تھا میں کیا کرتی.وہ کہنے لگا تو جانتی نہیں میں آنے پر مجبور

Page 387

انوار العلوم جلد 26 335 سیر روحانی (11) تھا.اگر میں وہاں رہتا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مروا دینا تھا.عربوں میں رواج تھا کہ عورتیں اپنے خاوند کو چچا کا بیٹا کہا کرتی تھیں.اس دستور کے مطابق اُس نے کہا.اے میرے چچا کے بیٹے ! تجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھنے میں غلطی لگی ہے محمد رسول اللہ بڑی شان کا آدمی ہے تیرے بھاگنے کے بعد میں اُن کے پاس گئی تھی اور میں نے اُن سے پوچھا تھا کہ عکرمہ اگر واپس آ جائے اور آپ اُسے چھوڑ دیں تو یہ زیادہ اچھا ہے یا یہ اچھا ہے کہ وہ کسی غیر ملک میں جا کر دوسروں کی پناہ میں رہے؟ اس پر محمد رسول اللہ نے مجھے کہا کہ نہیں اگر وہ میرے پاس آکر رہے تو یہ زیادہ اچھا ہے.میں اُس کے ساتھ حسن سلوک کروں گا.عکرمہ کہنے لگا خدا کی قسم ! اپنے باپ دادا کے مذہب کو کبھی نہیں چھوڑوں گا.اُس نے کہا میں یہ بات بھی پوچھ چکی ہوں.میں نے خود کہا تھا کہ وہ بڑا غیرت مند ہے اپنے باپ دادا کے مذہب کو بھی نہیں چھوڑے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ وہ بے شک بُت پرستی پر قائم رہے میں اُسے کچھ نہیں کہوں گا.کہنے لگا.یہ اتنی بڑی بات ہے کہ مجھے اس پر یقین نہیں آ سکتا.میں تیرے کہنے پر مکہ میں تو واپس چلا جاتا ہوں مگر میں خود اس بارہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھوں گا.اگر انہوں نے تصدیق کی تو پھر میں کہوں گا کہ بات ٹھیک ہے.عکرمہ محمد رسول اللہ صلی اللہ چنا نچہ وہ مکہ میں واپس آیا اور اپنی بیوی کو ساتھ لے کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا.علیہ وسلم کی غلامی میں آپ کو اطلاع ہوئی تو آپ نے اُسے بلا لیا.جب وہ پہنچا تو کہنے لگا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں نے اپنی بیوی سے سنا ہے کہ آپ نے یہ کہا تھا کہ اگر عکرمہ واپس آ جائے تو اُسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.کہنے لگا جناب میں نے اپنی بیوی سے یہ بھی سنا ہے کہ اگر میں اپنے دین پر قائم رہنا چاہتا ہوں اور آپ کو نہ مانوں تو پھر بھی مجھے کچھ نہیں کہا جائے گا.آپ نے فرمایا اُس نے ٹھیک کہا ہے.یہ بھی میں نے اُسے کہا تھا.یہ بات سنتے ہی اُس کی آنکھیں کھل گئیں اور کہنے لگا.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا

Page 388

انوار العلوم جلد 26 336 سیر روحانی (11) عَبْدُهُ وَ رَسُوله _ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عکرمہ ! تو نے تو میرے بڑے بڑے معجزات دیکھے تھے مگر پھر بھی تو ایمان نہ لایا آج تو نے کیا دیکھا ہے جس کی وجہ سے تو نے کلمہ شہادت پڑھ لیا ہے اور کفر چھوڑ دیا ہے؟ وہ کہنے لگا.اتنی بڑی مہربانی جو آپ نے مجھ پر کی ہے یہ نبی کے سوا اور کوئی کر ہی نہیں کر سکتا.پس اس مہربانی اور امن کے بعد یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ میں آپ کو جھوٹا کہتا اور اپنے باپ دادا کے دین پر قائم رہتا اس لئے میں آپ پر ایمان لے آیا ہوں.29 اب دیکھو ! عکرمہ ابو جہل کا بیٹا تھا اور اُس کی نرینہ اولاد تھی بلکہ کہتے ہیں کہ اُس کی پیدائش پر کئی سو اونٹ ذبح کئے گئے تھے اور وہ اپنے وجود سے ظاہر کرتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں اور میرا باپ سچا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں کوئی اولا د نہیں تھی اور ابو جہل کے تھی.لیکن آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آیا.اور جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا تو قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہوگئی کہ اِنَّا اَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ یعنی اے محمد رسول اللہ ! ہم نے تجھے خیر کثیر بخشی ہے یعنی بڑی اُمت بھی بخشی ہے جو ہمیشہ تیری اطاعت گزار اور فرمانبردار رہے گی اور تیری روحانی اولاد میں سے ایک ایسا انسان بھی کھڑا کیا جائے گا جو اپنے اندر خیر کثیر رکھتا ہوگا.الکوثر میں مسیح موعود کے علاوہ اُمت محمد یہ دراصل کوثر کے معنے خیر کثیر کے ہیں اور جہاں اس میں مسیح موعود کے تمام مخلص افراد بھی شامل ہیں کی پیشگوئی کی گئی ہے وہاں تمام امتِ مسلمہ کو بھی آپ کے بیٹوں میں شمار کیا گیا ہے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلَ الْبَيْتِ 30 کہ سلمان بھی میرے اہل بیت میں سے ہیں.اور سلمان آپ کے اہل بیت میں شامل ہو سکتے ہیں تو کیا وجہ ہے کہ جو شخص آج خاص طور پر نیکی کرے وہ آپ کی اولاد میں شامل نہ سمجھا جائے.وہ بھی شامل ہے.ہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ ایک خاص فضیلت حاصل ہے کہ آپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 389

انوار العلوم جلد 26 337 سیر روحانی (11) کے وہ موعود بیٹے ہیں جن کی پیشگوئی پہلے نبیوں نے بھی کی ہوئی ہے ورنہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں جتنے مسلمان ہیں اگر وہ اخلاص کے ساتھ کام کریں تو وہ بھی آپ کے بیٹے ہیں.غرض عکرمہ کے بیعت کر لینے کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو صاحب اولادِ نرینہ ہو گئے مگر ابو جہل بے اولا د رہ گیا.حضرت عمر و بن العاص کی اسلامی خدمات اسی قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں پائی جاتی ہیں.مثلاً عمر و بن العاص بن وائل نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی حالانکہ عاص بھی بڑا دشمن تھا اور وائل بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا دشمن تھا.مگر باوجود اس کے کہ باپ اور دادا دونوں مخالف تھے عمر و بن العاص نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کر لی اور پھر اتنے دشمن گھرانے میں سے ہوتے ہوئے عمرو نے اسلام کے لئے مصر فتح کیا.اور پھر مصر پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ اسلامی حکومت کو مدینہ سے نکال کر افریقہ تک پہنچا دیا.عمرو بن العاص کی زندگی میں ہی اسلامی مبلغ سپین کی سرحدوں تک پہنچ گئے تھے.گویا انہوں نے اسلام کو مدینہ سے نکالا اور یورپ کی سرحدوں تک جا پہنچایا.آج ہم فخر کرتے ہیں کہ ہمارے مبلغ باہر گئے ہوئے ہیں لیکن ہمارے مبلغ اس زمانہ میں گئے ہیں جب ہوائی جہاز چل رہے ہیں اور عمر و بن العاص نے اُس زمانہ میں اسلام کو مدینہ سے ہسپانیہ تک پہنچا دیا تھا جبکہ اونٹوں کا سفر ہوتا تھا اور راستہ میں پانی بھی نہیں ملتا تھا.حضرت خالد بن ولید کی فدائیت تیسری مثال خالد بن ولید کی ہے.اِن کے باپ دادا بھی اسلام کے سخت مخالف تھے.لیکن انہوں نے اسلام قبول کیا اور سارے عرب اور ایران وفلسطین اور شام میں اسلام کو پھیلایا اور اس طرح اپنے وجود سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب اولاد نرینہ بنا دیا.لیکن اپنے باپ دادوں کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن تھے اولاد نرینہ سے

Page 390

انوار العلوم جلد 26 338 سیر روحانی (11) محروم کر دیا کیونکہ وہ اُن کے مسلک سے باہر ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلک کے تابع ہو گئے.غرض ایسی ہزاروں مثالیں ملتی ہیں جن کے ذریعہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں روحانی اولا د چلتی چلی جاتی ہے اور معنوی طور پر اُن کے عقیقے ہوتے رہتے ہیں یعنی اسلام خوشیاں مناتا ہے اور قرآنی لنگر سے دنیا فائدہ اٹھاتی رہتی ہے.رؤسائے مکہ کے بیٹوں پر حضرت عمرؓ اس کی ایک اور شاندار مثال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک حج کا واقعہ کا غلام صحابہ کو ترجیح دینا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب خلیفہ ہو گئے اور آپ حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ کو حج کی مبارکباد دینے کیلئے بعد میں کچھ لوگ آئے جن میں مکہ کے رؤساء کے لڑکے بھی شامل تھے.حضرت عمرؓ نے ان کا مناسب اعزاز کیا اور ان کو اپنے خیمہ میں جگہ دی اور اپنے قرب میں بٹھایا.مگر تھوڑی دیر کے بعد ہی ایک غلام صحابی آپ کی ملاقات کے لئے آ گیا.آپ نے اُن رؤساء کے لڑکوں سے فرمایا کہ ذرا پیچھے ہو جاؤ اور غلام صحابی سے کہا کہ آگے آ کر بیٹھ جاؤ.اس کے بعد دوسرا غلام صحابی آ گیا تو آپ نے اُن سے پھر کہا کہ اور پرے ہٹ جاؤ اور اس غلام کو آگے بٹھا لیا.پھر ایک اور غلام آ گیا تو پھر آپ نے اُن سے کہا کہ پیچھے ہٹ جاؤ اور اُس غلام کو کہا کہ آگے آجاؤ.انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو وہ وہاں سے اُٹھے اور باہر چلے گئے اور ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دیکھ لیا تم نے آج عمر نے ہماری کیسی ذلت کی ہے.اُن میں سے ایک بڑا سنجیدہ اور سمجھدار نو جوان تھا اُس نے کہا عمر نے ہماری ہتک نہیں کی ، ہمارے باپ دادوں نے ہماری ہتک کی ہے.جس وقت ہمارے باپ دادا تلوار میں لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خون بہانے کے لئے آگے بڑھ رہے تھے اُس وقت ان غلاموں نے اپنے سینے اُن تلواروں کے آگے کر دیئے اور اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچالیا.آج عمرؓ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ ہے اگر وہ

Page 391

انوار العلوم جلد 26 339 سیر روحانی (11).اِس طرح نہ کرتا تو پھر وہ اس کا خلیفہ بھی نہ رہتا.پس جو کچھ اُس نے کیا ہے وہ عین وفا شعاری اور وفاداری کا طریق تھا.31 پس دیکھ لو کہ خدا تعالیٰ نے کس طرح قرآنی لنگر کو روحانی طور پر بھی اور جسمانی طور پر بھی ظاہر کیا.آخر انہوں نے کہا کہ اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟ اُس نے کہا کہ اس کا علاج عمر ہی بتا سکتے ہیں ، چلو عمر کے پاس چلیں اور اُن سے پوچھیں کہ جو ہو گیا سو ہو گیا.ہمارے باپ دادوں نے شرارتیں کیں اور وہ ختم ہو گئیں ، اب ہم ان کو بدل نہیں سکتے مگر آپ ہمیں بتائیں کہ ہم سے اس ذلت کا داغ کس طرح دُور ہو سکتا ہے.چنانچہ وہ واپس گئے حضرت عمر اُن کو دیکھتے ہی سمجھ گئے کہ وہ کیوں آئے ہیں.آپ نے فرمایا اے بچو! میں تمہارے باپ دادا کو جانتا ہوں.وہ مکہ کے رئیس تھے اور ملکہ اُن کے قدموں کے پیچھے چلتا تھا.مجھے پتا ہے کہ جو کچھ آج میں نے تمہارے ساتھ سلوک کیا ہے اِس سے تمہارے دلوں کو زخم پہنچا ہو گا مگر میں مجبور تھا میرا آقا بھی ان غلاموں کو دوسروں پر فضیلت دیا کرتا تھا اور ان کو آگے بٹھاتا تھا اس لئے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہو کر اس کی خلاف ورزی کس طرح کر سکتا تھا.انہوں نے کہا کہ یہ سب باتیں درست ہیں ہم تو صرف یہ دریافت کرنے آئے ہیں کہ آخر اس ذلت کا کوئی علاج بھی ہے یا نہیں؟ ان کا سوال سن کر حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے شام کی طرف ہاتھ اُٹھا دیا جس میں اِس طرف اشارہ تھا کہ شام چلے جاؤ اور اُس جہاد میں شامل ہو جاؤ جو روم کے بادشاہ کے خلاف مسلمان کر رہے ہیں.اس پر وہ لڑکے فوراً اُٹھ کر باہر آگئے اور گھوڑوں پر سوار ہو کر شام کی طرف چلے گئے اور تاریخ بتاتی ہے کہ وہ سب کے سب اسلام کی تائید میں لڑتے ہوئے وہیں مارے گئے اور اُن میں سے کوئی بھی زندہ واپس نہ آیا.اب دیکھو قرآن کریم کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے کیسے کیسے دشمنوں کے بیٹے چھین کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور آپ کا لنگر جاری کر دیا.جس وقت یہ لوگ عیسائیوں کو مارتے ہوں گے تو ہر عیسائی کے مرنے پر جہاں اُن کو فتح نصیب ہوتی تھی وہاں محمد رسول اللہ کا لنگر بھی جاری ہوتا تھا اور آپ کی برکات ساری دنیا پر پھیلتی جاتی تھیں.

Page 392

انوار العلوم جلد 26 340 سیر روحانی (11) پھر قرآنی لنگر کی ایک اور مثال سورۃ قرآنی لنگر کا ایک اور شاندار منظر الذریت سے ملتی ہے.اللہ تعالی اس میں - کامل مومنوں یعنی اتباع محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ وَفِ أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ - 32 یعنی ان کے مالوں میں ایسے لوگوں کا بھی حق ہے جو مانگ سکتے ہیں اور اُن کا بھی حق ہے جو نہیں مانگ سکتے.یعنی یا تو وہ گونگے ہیں یا ان کو مانگتے ہوئے شرم آتی ہے کہ ہمارا اس سے غریب ہونا ظاہر ہوتا ہے اور یا جانور ہیں کہ وہ مانگنے اور بولنے کی طاقت ہی نہیں رکھتے.گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر اتنا وسیع ہے کہ سائل اور غیر سائل سب اس سے فیض یاب ہو رہے ہیں.بادشاہوں کے لنگر تو ایسے تھے کہ لوگ اُن لنگروں میں جا کر روٹی مانگتے تھے تو پھر انہیں روٹی ملتی تھی اور اگر کوئی پرے کھڑا ہو جاتا تو اس کو کوئی پوچھتا بھی نہیں تھا.مگر یہاں محمد رسول اللہ کے لنگر کے متعلق فرماتا ہے کہ آپ کے متبعین کے ذریعہ سے جو لنگر جاری کیا گیا ہے اُس میں اُن لوگوں کا بھی حق رکھا گیا ہے جو کہ بول سکتے ہیں اور اُن لوگوں کا بھی حق رکھا گیا ہے جو بول نہیں سکتے.یعنی بولنے سے بالکل محروم ہیں یا شرم کے مارے نہیں بولتے کہ ہماری کمزوری اور غربت لوگوں پر ظاہر ہوگی.اور جانوروں کا بھی حق رکھا گیا ہے.اب دیکھو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر کتنا وسیع ہے اور بادشاہوںکا لنگر کتنا محدود ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ اور آپ کے تمام اتباع کے اموال میں خدا تعالیٰ نے سائل اور محروم سب کا حق رکھا ہے.یہ الگ بات ہے کہ مسلمان آجکل اپنی عملی کمزوری کی وجہ سے اس آیت پر عمل نہ کریں مگر قرآن نے اس کی ہدایت دے دی ہے اور جو سچا مسلمان ہو گا وہ ضرور اس پر عمل کرے گا.جھوٹے کا تو سوال ہی نہیں ، جھوٹا تو خود ہی اپنی عاقبت خراب کرتا ہے.منشی اروڑے خاں صاحب کے مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد ایک دن میاں اخلاص کی ایک دردانگیز مثال اروزے خان صاحب جو حضرت مسیح موجود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت ہی مقرب صحابی تھے اور نائب تحصیلدار تھے قادیان آئے.

Page 393

انوار العلوم جلد 26 341 سیر روحانی (11) اُس زمانہ میں آپ کپورتھلہ میں تھے اور تنخواہیں بہت کم ملا کرتی تھیں.شروع میں نائب تحصیلدار کی پندرہ روپے تنخواہ ہوتی تھی مگر اس کے باوجود وہ ہمیشہ ہر اتوار کو قادیان آتے اور روپیہ دور و پے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نذرانہ دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب وہ آئے تو اُس وقت وہ تحصیلدار ہو چکے تھے اور تنخواہیں بھی زیادہ ہوگئی تھیں.میں نے دیکھا کہ تین یا چار اشرفیاں انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھیں.انہوں نے وہ اشرفیاں میرے ہاتھ پر رکھیں اور پھر چیخیں مار کر رونے لگ گئے.میں حیران ہوا کہ یہ روتے کیوں ہیں.مگر جب روتے روتے ذرا ہوش آئی تو کہنے لگے کہ ”ساری عمر خواہش رہی کہ میں اونہاں دے ہتھ وچ سوناں رکھاں پر کدی توفیق نہ ملی.جدوں کچھ پیسے جمع ہوندے سن میں پیدل چل کے کپورتھلہ توں اونہاں نوں دیکھن آجاندا ساں یاں ریل وچ آندا ساں تاں کرایہ لگدا سی.پر جدوں سونا ملیا ہے تے اوہ بہن نہیں.66 اُن کا یہ فقرہ ایسا دردناک تھا کہ مجھ پر بھی رقت آ گئی.میں نے اُن کو چُپ کرانے کیلئے انہیں تسلی دینے کی کوشش کی مگر اُن کی جو مذبوح حرکت تھی اُس کو دیکھتے ہوئے در حقیقت میری کوشش بالکل بے کار اور بے سود تھی.یہ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ کا ایک نظارہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اُن لوگوں میں سے تھے جولوگوں سے مانگتے نہیں تھے اور ایسے لوگ بھی محروم ہی ہوتے ہیں.مگر انہیں ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں نذرانہ پیش کریں اور خواہش بھی یہ تھی کہ سونا دیں مگر کہنے لگے.’ جدوں جیندے سن تے سونا نہیں ہتھ آیا.سونا ہتھ آیا تے اوہ ہن نہیں.ہن میں کی کراں.“ یعنی جب آپ زندہ تھے تو مجھے سونا میسر نہ آیا اور جب سونا ملا تو آپ فوت ہو چکے ہیں.اب میں کروں تو کیا کروں.پھر میں نے بتایا ہے کہ یہ لنگر اسلام میں جانوروں کے حقوق کا تحفظ انسانوں سے لے کر جانوروں

Page 394

انوار العلوم جلد 26 342 سیر روحانی (11) تک کے کام آتا ہے.بادشاہی لنگر تو بمشکل انسانوں کو کھانا دے سکتے ہیں مگر یہ لنگر انسانوں اور پرندوں سب کو نفع پہنچا رہا ہے اور قیامت تک نفع پہنچائے گا.قیامت تک نفع پہنچانے کی ایک مثال یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ دیکھا کہ کسی صحابی نے فاختہ کا ایک بچہ پکڑ لیا ہے اور وہ فاختہ بیقراری سے اِدھر اُدھر اُڑ رہی ہے.آپ نے اُسے فرمایا یا درکھو! کبھی کسی جانور کو اُس کے بچہ کے ذریعہ سے دُکھ نہ دو.جس طرح انسان کی ماں کو دُکھ پہنچتا ہے اُسی طرح جانور کی ماں کو بھی دُکھ پہنچتا ہے.پس کسی جانور کو اُس کے بچے کی وجہ سے دُکھ نہ دو.32 تو دیکھو وہ جو حَقُّ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ فرمایا تھا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کی تصدیق کر دی اور قیامت تک کے لئے حکم دے دیا کہ جانوروں سے بھی حسنِ سلوک کرو.اب جو اس کی خلاف ورزی کرے گا وہ محمد رسول اللہ کا مخالف ہو کر کرے گا.ورنہ محمد رسول اللہ کا کامل متبع کبھی ایسا نہیں کرے گا کہ کسی فاختہ یا کبوتر کا انڈہ یا بچہ لے کر چلا جائے اور وہ پرندہ تڑپتا پھرے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کسی بچے کے ذریعہ سے اُس کی ماں کو دُکھ نہ پہنچا ؤ ، اب یہ قیامت تک کیلئے احسان ہے.کیونکہ محمد رسول اللہ کی اُمت کے متعلق خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ وہ قیامت تک زندہ رہے گی.اور جب وہ قیامت تک زندہ رہے گی تو جانوروں پر احسان یا شرم و حیا کی وجہ سے سوال نہ کرنے والوں پر جو احسان کرنے کا حکم ہے یہ بھی قیامت تک چلے گا.غرض دنیا کے بادشاہوں کے لنگر تو ختم ہو گئے.کوئی دوسو سال تک رہا ، کوئی سو سال رہا، کوئی پچاس سال رہا ، کوئی بیس سال رہا مگر محمد رسول اللہ کالنگر ساڑھے تیرہ سو سال سے چل رہا ہے اور قرآن کہتا ہے کہ قیامت تک چلے گا پس اس لنگر کی مثال دنیا میں اور کہیں نہیں مل سکتی.اسی طرح سورۃ الکوثر میں جماعت احمدیہ کالنگر بھی ہمیشہ جاری رہے گا جس نظر کی خبر دی تھی تھی اُس میں کوثر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع مسیح موعود مراد تھا.چنانچہ اس کا دیکھ لو آج تک جاری ہے.اس جلسہ پر آنے والے بھی فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور

Page 395

انوار العلوم جلد 26 343 سیر روحانی (11) سارا سال بھی لنگر جاری رہتا ہے.پس مبارک ہو کہ آپ سب لوگوں کو اس موعود لنگر سے فائدہ اُٹھانے کا موقع ملا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت میں جب پرانے صحابی آیا کرتے تھے تو لنگر سے روٹیاں لے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ان میں بڑی برکت ہے ہم تو سارا سال کوئی بیماری ہو اپنے بچوں اور بیویوں کو یہی روٹیاں پانی میں گھول کر پلا دیتے ہیں اور وہ بیماریاں دُور ہو جاتی ہیں.اگر احمدی اپنے ایمان پر قائم رہے تو یہ لنگر بھی ہمیشہ قائم رہے گا اور کبھی نہیں مٹے گا کیونکہ اس کی بنیا د خدا کے مسیح موعود نے قائم کی ہے جس کو خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ تین سو سال کے اندر تیری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائے گی اور تین سو سال میں یہ لنگر ربوہ میں نہیں رہے گا بلکہ تین سو سال کے بعد ایک لنگر امریکہ میں بھی ہو گا ، ایک انڈیا میں بھی ہوگا ، ایک جرمنی میں بھی ہوگا ، ایک روس میں بھی ہوگا، ایک چین میں بھی ہوگا ، ایک انڈونیشیا میں بھی ہوگا ، ایک سیلون میں بھی ہوگا ، ایک برما میں بھی ہو گا ، ایک شام میں بھی ہوگا ، ایک لبنان میں بھی ہو گا ، ایک ہالینڈ میں بھی ہوگا ، غرض دنیا کے ہر بڑے ملک میں یہ لنگر ہو گا.محمد رسول اللہ کی برکت سے قرآنی لنگر کی ایک اور مثال پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے سامنے ہر سال آتی رہتی ہے عربوں اور سیدوں کا اعزاز اور وہ اس طرح کہ عرب جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وطن تھا وہاں سے سینکڑوں لوگ پاکستان یا ہندوستان آئے ہیں اور مسلمان صرف اُن کے عرب ہونے کی وجہ سے اُن کی خوب خاطر میں کرتے اور کھانے کھلاتے ہیں.یہ بھی محمدی لنگر ہے جو آج تک آپ کی قوم کے لئے جاری چلا آ رہا ہے اور سارا سال گھلا رہتا ہے.بیشک یہ لنگر لوگوں کے گھروں میں کھلتا ہے مگر کھلتا محمد رسول اللہ کی وجہ سے ہے.آخر عربوں کو جو لوگ عزت دیتے ہیں کیوں دیتے ہیں؟ ہمیں تو یاد ہے کہ پُرانے زمانہ میں عرب اور سید یہ دونوں اپنے عرب او رسید ہونے پر بڑا فخر کیا کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دن حضرت اماں جان چار پائی پر بیٹھی تھیں کہ ایک سیدانی مانگنے کو آگئی اور کہنے لگی میں سیدانی ہوں میری مدد کرو.پھر کہنے لگی مجھے پیاس لگی ہے کسی کو کہو کہ

Page 396

انوار العلوم جلد 26 344 سیر روحانی (11) مجھے پانی پلا دے.آپ نے کسی خادمہ کو کہا کہ اسے پانی پلا دو، اُس نے کٹورہ لیا اور کھنگال کے پانی بھر کے دے دیا.وہ بڑے غصہ سے کٹورہ پھینک کر کہنے لگی.تینوں نہیں پتا میں سیدانی ہوں.سیدانی نوں امتی دے کٹورے وچہ پانی پلانی ایں.خیر اس نوکرانی نے ہنس کر کہا کہ ا یہ امتی نہیں ایہ بھی سیدانی ہیں.اب یہ سید کی عزت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر ہی تھی ورنہ انہیں کون پوچھتا تھا.یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لنگر تھا کہ جس نے آپ سے تعلق قائم کیا وہ معزز ہو گیا.دیکھ لو.حضرت امام حسنؓ اور حسین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے تھے.حضرت امام حسین کوفہ کے پاس جنگ میں مارے گئے تو زیاد نے حکم دیا کہ ان کا سرکاٹ کر یزید کے پاس بھیجا جائے.اُس نے سمجھا کہ مجھے انعام ملے گا.جب یزید کے دربار میں اُن کا سر گیا تو یزید کے دل میں جیسا کہ اُس کی بعض باتوں سے پتا لگتا ہے اہلِ بیت کا کچھ نہ کچھ ادب تھا مگر اُس وقت اپنی فاتحانہ شان کو دیکھ کر کہ میری فوجیں فاتح ہوئی ہیں، اُس نے سوئی لمبی کی اور اُن کے دانتوں پر دو تین دفعہ ماری.مرنے کے بعد عام طور پر انسان کے ہونٹ کھینچ جاتے ہیں.اُس وقت ایک صحابی بھی اُس مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے وہ غصہ سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے." او بے شرم ! ہٹالے اپنی سوئی.میں نے محمد رسول اللہ کو ان ہونٹوں پر بوسہ دیتے دیکھا ہے اور جن ہونٹوں کو محمد رسول اللہ نے بوسہ دیا تھا تیرے جیسے خبیث کی کیا حیثیت ہے کہ اس کو سوئی مارے.34 پھر دیکھ لو خدا تعالیٰ نے اِس کا کس طرح انتقام لیا.معاویہ بن یزید کی خلافت سے دست برداری یزید کے مرنے کے بعد اُس کا بیٹا معاویہ بن یزید تخت پر بیٹھا.جسے اُس نے نامزد کر دیا تھا کہ میرے بعد یہ خلیفہ ہو.جب وہ تخت پر بٹھا دیا گیا تو وہ گھر گیا اور دروازے بند کر کے بیٹھ گیا.اس کے بعد اُس نے باہر کہلا بھیجا کہ یہ خلافت مسلمانوں کی امانت ہے میرے باپ کا کوئی حق نہیں تھا کہ وہ خلیفہ بنا تا.یہ تمہاری امانت ہے تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو.پھر اُس نے سب مسلمانوں کو جمع کر کے ایک تقریر کی اور کہا کہ خلافت پر میرا کوئی حق نہیں.تم کہتے ہو کہ میں خلیفہ ہوں کیونکہ میرے باپ نے

Page 397

انوار العلوم جلد 26 345 سیر روحانی (11) مجھے خلیفہ بنایا ہے حالانکہ میرے باپ سے وہ شخص بہتر تھا جس کو میرے باپ نے مارا.اور میرے دادا سے وہ شخص بہتر تھا جس سے اُس نے جنگ کی اور مجھ سے بیسیوں اور لوگ تم میں بہتر موجود ہیں ان لوگوں کے ہوتے ہوئے میں کیسے خلیفہ بن سکتا ہوں ؟ تمہیں اختیار ہے جس کو چا ہو خلیفہ بنالو.جب وہ تقریر کے بعد واپس آیا تو اُس کی ماں اُسے کہنے لگی کہ اے معاویہ ! تو نے اپنے خاندان کو بٹہ لگا دیا ہے.معاویہ نے کہا.اماں ! میں نے بڑے نہیں لگایا.میں نے اپنے خاندان کی عزت کو قائم کر دیا ہے.35 اب دیکھو وہ اس صحابی کا نمونہ تھا اور یہ خود یزید کے خاندان کا نمونہ ہے جس سے پتا لگتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نمک خواری کا اُن پر کتنا اثر تھا.یزید کے اپنے بیٹے نے باپ کی ذلت کی اور اُس کی خلافت پر لعنت ڈالی اور کہا کہ یہ خلافت خاندانِ نبوی کا حق ہے میں اسے نہیں لے سکتا.قرآنی لنگر کی ایک اور مثال حضرت قرآنی نظر کی ایک مثال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی.مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں پائی جاتی ہے.گو آپ چھ گاؤں کے مالک تھے مگر طبیعت میں فروتنی تھی اور آپ نے اپنی ساری جائداد اپنے بڑے بھائی کی بیوہ کے سپرد کی ہوئی تھی تا کہ اُس کے دل سے بیوگی کا صدمہ کم ہو جائے.وہ اگر چہ بعد میں احمدی ہو گئیں مگر شروع میں اُن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑا بغض تھا کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ یہ کوئی بڑا کام نہیں کر رہا بلکہ مسجد کا ملاں بن گیا ہے اور ایک رئیس خاندان میں سے ہونے کی وجہ سے اُن کو یہ بُرا لگتا تھا.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ آپ مسجد کے ملاں نہیں بنے تھے بلکہ آپ قرآنی لنگر سے استفادہ کرنے کے لئے دنیا سے علیحدہ ہو گئے تھے.مگر ظاہری حالت یہ تھی کہ اپنی بڑی بھاوج کے بغض کی وجہ سے جب کبھی کوئی مهمان دین سیکھنے کے لئے آپ کے پاس آتا تو بھاوج کا خست 36 سے بھیجا ہوا تھوڑا سا کھانا بھی آپ مہمان کو کھلا دیتے تھے اور خود ایک پیسہ کے چنے بھنو ا کر کھا لیتے تھے.حضرت تائی صاحبہ کی کیفیت مجھے یاد ہے اس وقت ہماری سیڑھیاں ان کے گھر کے پاس سے گزرا کرتی تھیں.ایک دن

Page 398

انوار العلوم جلد 26 346 سیر روحانی (11) میں اُن سیڑھیوں پر چڑھ رہا تھا کہ انہوں نے مجھے آواز دی کہ محمود! ٹھہر جا.میں اُن کی آواز سن کر بھاگا کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ یہ ہماری دشمن ہیں اور بھاگ کر کوٹھے پر چڑھ گیا.اس پر وہ کہنے لگیں.جیہو جیہا کاں او ہو جیہی کو کو “ یعنی جیسا ان کا باپ خراب ہے ویسا ہی بیٹا خراب ہے.اتنا بغض تھا ان کے دل میں.مگر پھر اُن کی یہ حالت ہوئی کہ یا تو وہ کہا کرتی تھیں.جیہو جیہا کاں او ہو جیہی کو کو.“ اور یا پھر عین اُن کی موت کے وقت میں اُن کی خبر لینے کے لئے گھر پہنچا.کہنے لگیں اُن کو بُلا دو.میری جان نہیں نکلے گی جب تک وہ آ نہ جائیں.میں گیا تو چار پائی پر انہیں لیٹا یا ہو ا تھا.میں زمین پر ہی بیٹھ گیا.میرے زمین پر بیٹھنے پر جھٹ اپنے پیر انہوں نے نیچے کرنے شروع کر دیئے اور کہا کہ زمین پر نہ بیٹھو میں چار پائی پر نہیں لیٹ سکتی.اب یا تو وہ وقت تھا کہ ”جیہو جیہا کاں او ہو جیہی کوکو ، کہتی تھیں اور یا پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اُن کے ظلم سہتے ہوئے گزر گئے اور "کوکو" - کا ادب شروع ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیٹ کی بیماری سے فوت ہوئے تھے اور اسہال کی آپ کو شکایت تھی.آپ کی وفات کے بعد مجھے خیال آیا کہ ممکن ہے متواتر چنے کھانے کی وجہ سے آپ کی صحت خراب ہو گئی ہو.اب تو وہ زمانہ گزر گیا لیکن اگر ہم اُس زمانہ میں ہوتے تو اپنی جانیں قربان کر کے بھی آپ کے لئے کھانا مہیا کرتے اور چنے نہ کھانے دیتے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں ماش کی دال کھا رہا تھا کہ مجھے دال کھاتے ہوئے حضرت خلیفہ اول نے دیکھ لیا اور فرمانے لگے.میاں ! دال بھی کوئی کھانے کی چیز ہوتی ہے.خبردار! پھر کبھی دال نہ کھانا.مگر اُدھر خدا کا مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام) ایسا تھا کہ اٹھائیس تیس سال اس کی زندگی کے ایسے گزرے ہیں جن میں وہ روزانہ پیسے کے چنے بھنوا کر کھا لیتا تھا اور اپنا کھانا لوگوں کو کھلا دیتا جو دین سیکھنے کے لئے آتے تھے.جب بعد میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر خدائی انعامات سر فضل آپ پر نازل کے ہونے شروع ہوئے اور قرآنی لنگر نے آپ کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے تو آپ

Page 399

انوار العلوم جلد 26 نے فرمایا.347 سیر روحانی (11) لُفَاظَاتُ الْمَوَائِدِ كَانَ أُكُلِي وَصِرُتُ الْيَوْمَ مِطْعَامَ الْاهَالِي 37 کہ اے لوگو! میری حالت پر غور کرو.کبھی تو ایسا تھا کہ میری بھاوج گھر کے بچے ہوئے ٹکڑے مجھے بھیجا کرتی تھی لیکن قرآنی لنگر کی برکتوں کی وجہ سے آج بہت سے خاندان میرے ذریعہ سے پل رہے ہیں.اس میں اشارہ ہے اُن مہاجرین کی طرف جو اپنا وطن چھوڑ کر قادیان آگئے تھے.یا جو آج اپنا وطن چھوڑ کر سینکڑوں مہاجروں کی صورت میں یہاں بس رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قائم کردہ لنگر اُن کو پال رہا ہے.غرض آج بھی وہی قرآنی لنگر جاری ہے اور آپ لوگ سارا سال بھی اور جلسہ کے دنوں میں بھی اس قرآنی لنگر سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ سے جاری ہو اتھا فائدہ اُٹھا رہے ہیں.وہ مسیح موعود جو ہزاروں ایکڑ زمین اور چھ گاؤں کا واحد مالک ہونے کے باوجود آپ لوگوں کی خاطر غریب بن گیا تھا تا کہ قرآنی لنگر کی کوئی روٹی آپ کے لئے بھی لے آوے آپ کے لئے بڑا بھاری نمونہ ہے.اگر آپ اس زندگی پر غور کریں تو یقیناً آپ نہایت آسانی کے ساتھ ولی اللہ بن سکتے ہیں.کفار کو بھی اپنا لنگر جاری کرنے کی ہدایت پھر قرآن کریم نے اس لنگر کو اتنا وسیع کر دیا ہے کہ کفار کو بھی دعوت دی ہے کہ اس لنگر کو جاری رکھیں ورنہ انہیں سزا سے ڈرایا ہے.چنانچہ سورۃ الماعون میں آتا ہے آرَعَيْتَ الَّذِي يُكَذِّبُ بِالدِّينِ فَذَلِكَ الَّذِى يَدُعُ اليَتِيمَن وَلَا يَحُضُ عَلَى طَعَامِ الْمِسْكِينِ فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ ، ) الَّذِينَ هُمْ يُرَارُوْنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ & 38 یعنی کیا تجھے اس شخص کا حال معلوم نہیں جو دینِ اسلام کے احکام کو جھٹلاتا ہے.یہی وہ شخص ہے جو یتیم کو دھکے دے کر اپنے گھر سے نکال دیتا ہے.یعنی ڈرتا ہے کہ کہیں یتیم کو کھانے میں سے کچھ حصہ نہ دینا پڑے اور اُسے اپنے لنگر سے محروم رکھنا چاہتا ہے.اور نہ صرف آپ قیموں کو کھانے سے ا

Page 400

انوار العلوم جلد 26 348 سیر روحانی (11) محروم رکھتا ہے بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی غریب کو کھانا کھلانے کی تحریص نہیں دلاتا.پس یا درکھ کہ ایسا آدمی کبھی سچی عبادت نہیں کر سکتا بلکہ اُس کی عبادت دکھاوے کی ہوتی ہے.اور ایسا شخص یہی نہیں کہ عالیشان دعوتوں سے غریبوں کو محروم رکھتا ہے بلکہ چھوٹی چھوٹی چیزیں اُدھار دینے سے بھی روکتا رہتا ہے اور اس طرح خدائی لنگر کو ہمیشہ کے لئے بند کرنا چاہتا ہے سو اس کے لئے ایک بہت بڑا عذاب مقدر ہے.غرباء ومساکین کو کھانا کھلانے اور ایک مثال قرآن کے لنگر کی اس آیت میں بیان کی گئی ہے کہ کیس اُن کی ضروریات کو پورا کرنے کا حکم الْبِرَّأَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَكَةِ وَالْكِتَبِ وَالنَّبِينَ وَإِلَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبى وَالْيَتَى وَالْمَكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّابِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ 39 اس جگہ پر کا لفظ آیا ہے جس کے معنے بہت بڑی نیکی کے ہوتے ہیں.مگر چونکہ یہ مصدر ہے اور عربی زبان میں مصدر بمعنی فاعل بھی آجاتا ہے اور بمعنی مفعول بھی ، اس لئے اس آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ بڑا نیکی کرنے والا وہ نہیں ہے جو صرف مشرق اور مغرب کی طرف منہ پھیر کر ظاہری نماز پڑھ لیتا ہے بلکہ بڑا نیکی کرنے والا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع وہ ہے جو اللہ پر اور آخرت کے دن پر اور ملائکہ پر اور کتب سماویہ پر اور سارے نبیوں پر ایمان لاتا ہے اور اپنے مال کو با وجود تنگی کے اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے غریبوں میں تقسیم کرتا رہتا ہے.یعنی قرآنی لنگر کی یاد میں دُنیاوی لنگر کو قائم رکھتا ہے.پس جس کو خدا تعالیٰ توفیق دے اُسے اس لنگر کو ہمیشہ جاری رکھنا چاہئے.ورنہ یا د رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قیامت کے دن اُسے سخت عذاب دیا جائے گا.لوگ یوں تو دعائیں مانگتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ! عذاب قبر سے بچائیو.یا اللہ ! دوزخ کے عذاب سے بچائیولیکن کام وہ کرتے ہیں جو دوزخ کے عذاب کو لانے والے ہوتے ہیں.یعنی

Page 401

انوار العلوم جلد 26 349 سیر روحانی (11) غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے اور لوگوں کو یہ نہیں کہتے کہ جب کبھی غرباء کو کوئی ضرورت ہو تو اُن کی ضرورت کو پورا کر دیا کرو.اسی طرح گھر میں سے کبھی ہنڈیا، کبھی کڑ چھا، کبھی چمٹا، کبھی پھکنی ایسی ہی عام استعمال میں آنے والی چیزیں انہیں دیتے رہا کرو.تا کہ غریبوں کو سہارا ہو.امراء کو چاہئے کہ شادی بیاہ کے موقع پر وہ حضرت مسیح موعود علیہ اصلوة والسلام حضرت اماں جان عارضی طور پر غرباء کو اپنے زیورات دے دیا کریں سے یہاں تک فرمایا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو زیور ہیں وہ غریبوں کو بھی پہنے کے لئے دیتی رہا کرو کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو زیور استعمال ہوتا رہے اُس پر زکوۃ نہیں.یعنی زکوۃ کی اصل غرض تو یہ ہے کہ صدقہ ہو.جب وہ پہنے کی وجہ سے گھسے گا اور غریبوں کو فائدہ پہنچے گا تو اصل غرض پوری ہو جائے گی پس ہمیشہ آپ یہ تحریک فرمایا کرتے تھے کہ اگر کسی غریب گھرانے میں شادی ہو تو اپنے زیور اُن کو دے دیا کرو تا کہ وہ اپنی بہو یا بیٹی کو پہنا دیں اور اِس ذریعہ سے کچھ مدت تک وہ اپنی عزت اور شہرت کو قائم رکھ سکیں.اب یہ ایک نہایت ہی آسان راستہ ہے کیونکہ زیور کا کچھ دنوں کے لئے کسی کو دے دینا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ ایسی چھوٹی بات ہے کہ آسانی سے ہر عورت اس پر عمل کر سکتی ہے.مگر عمل کرنا مشکل ہے.عام طور پر عورتیں اتنا کام بھی نہیں کر سکتیں.اگر وہ اتنا کام ہی کر لیا کریں تو اُن کے ہاتھ دوزخ کی آگ سے بچ جائیں.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ چندے کی تحریک کی اور فرمایا عور تو ! تم بھی چندے دو.ایک عورت نے اپنا ایک کنگن اُتار کر پھینک دیا اور کہایا رَسُولَ اللہ ! یہ میری طرف سے چندہ ہے.آپ نے فرمایا.اے عورت! تیرا دوسرا ہا تھ کہتا ہے کہ مجھے بھی دوزخ سے بچا.اُس نے فوراً اپنا دوسرا کنگن بھی اُتار کر آپ کی طرف پھینک دیا اور کہایا رَسُولَ اللہ ! یہ بھی لے لیں 40 غرض ان لوگوں میں اس حد تک اخلاص پایا جاتا تھا.احمدی خواتین کا ایک شاندار نمونہ ہماری عورتوں نے ایک موقع پر جب برلن مسجد بنی تھی ایک مہینے کے اندر اندر

Page 402

انوار العلوم جلد 26 350 سیر روحانی (11) ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ جمع کر دیا تھا.پھر بعد میں اُس کو بیچا گیا کیونکہ حکومت کی طرف سے ایسی شرطیں لگا دی گئی تھیں کہ جن کو ہم پورا نہیں کر سکتے تھے.مثلاً کہا گیا کہ جو مسجد - وہ تین منزلہ بنے اور اتنا روپیہ اس پر خرچ ہو.مولوی مبارک علی صاحب جو اُس وقت ہمارے وہاں مبلغ تھے انہوں نے لکھا کہ یہ شرائط ہم پوری نہیں کر سکتے.میں نے کہا اچھا زمین بیچ دو.چنانچہ جو روپیہ آیا اُس سے ہم نے لندن میں مسجد بنائی.اللہ تعالیٰ سے دعا آب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو اور خیریت سے آپ لوگ جائیں اور اللہ تعالیٰ کی برکات آپ کے ساتھ ہوں اور کسی قسم کے شر کی خبر آپ گھر جا کر نہ نہیں بلکہ برکت اور رحمت کی خبریں سنیں.اور نہ وہاں جا کر آپ کو کوئی تکلیف ہو اور ہر قسم کی راحت اور امن آپ کو حاصل ہو.اور ہر قسم کا رحم اور فضل آپ لوگوں پر نازل ہوتا رہے اور اللہ تعالیٰ آپ کو اگلے سال پھر خوشی اور محرمئی 41 کے ساتھ جلسہ سالانہ پر آنے کی توفیق عطا فرمائے.اس دفعہ بارشوں کی کمی کی وجہ سے زمینداروں کو بہت نقصان پہنچا ہے اور اس وجہ سے اُن کے یہاں آنے میں بہت سی مشکلات حائل تھیں.اللہ تعالیٰ آئندہ ان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ اس سال سے بہت بڑھ چڑھ کر آئیں.اور اُن پر بہت بڑی برکتیں نازل ہوں اور دشمن کا منہ کالا ہو.اور اُسے پتا لگے کہ احمد یہ جماعت ہر سال آگے سے ترقی کر رہی ہے.پھر باہر کے مبلغین کے لئے بھی اور جنہوں نے دعاؤں کے لئے تاریں دی ہیں اُن کے لئے بھی اور باہر کے ملکوں میں جو ہماری جماعتیں قائم ہیں اُن کے لئے بھی دعائیں کرو.اِسی طرح عورتوں کیلئے بھی اور مردوں کیلئے اور نئی اولاد کے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن سب کو مؤمن بنائے اور مؤمن بنا کر اپنی رحمت کے سایہ میں اُن کو رکھے.اور خود ان کا معلم بنے ہماری تعلیم پر ان کو نہ چھوڑے بلکہ وہ آپ ان کو تعلیم دے کر اس قابل بنائے کہ وہ احمدیت کی خدمت کریں اور ہمیشہ اسلام کا

Page 403

انوار العلوم جلد 26 66 جھنڈا اونچارکھیں." 351 سیر روحانی (11) الناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹیڈ ربوہ مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ) 1 تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 219 2 میخانه در دصفحہ 92 مطبوعه 1344ھ 3 میخانه در دصفحہ 26 مطبوعه 1344ھ 4 تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 194 5 ضمیمہ تحفہ گولڑو یہ روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 296 حاشیہ اندرونی اختلافات سلسلہ احمدیہ کے اسباب صفحہ 73 :7 7 شکرم ایک قسم کی چار پہیوں والی گاڑی (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 845 فیروز سنز لاہور ) پیغام صلح 21 جولائی 1954ء صفحہ 7 :9 بنی اسرائیل : 13 10: العلق :6 11 فَالْيَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً وَإِنَّ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ عَنْ أَيْتِنَا لَغَفِلُوْنَ (يونس : 93) 12: یونس:93 13: البقرة : 103 14 سلاطین 1 باب 11 آیت 4 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء :15: سلاطین 1 باب 11 آیت 9 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 16: سلاطین 1 باب 11 آیت 9 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 17: سلاطین 1 باب 11 آیت 9، 10 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 18: انسائیکلو پیڈیا بلی کا زیر لفظ سلیمان جلد 3 صفحہ 4689 مطبوعہ امریکہ 1907ء 19: سلاطین 1 باب 3 آیت 12 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 20 سلاطین 1 باب 3 آیت 12 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء

Page 404

انوار العلوم جلد 26 352 سیر روحانی (11) 21 سلاطین 1 باب 3 آیت 3 برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943 ء 22 متی باب 6 آیت 4 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء (مفہوماً) 23 المؤمن :20 24: الصفت : 119 25: الكوثر : 2تا4 26 سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحہ 98، 99 مطبوعہ مصر 1295ھ :27: سیرت ابن ھشام جلد 1 صفحہ 136،135 مطبوعہ مصر 1295ھ 28: سیرت ابن ھشام جلد 1 صفحہ 136،135 مطبوعہ مصر 1295ھ 29:السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 106 مطبوعہ مصر 1935ء 30 تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 92،91 مطبوعہ بیروت 2012ء 31: اسد الغابة الجزء الثانی صفحہ 372 مطبوعہ ریاض 1285ھ 32: الذريت : 20 33: ابوداؤد كتاب الجهاد باب في كراهية حرق العدوّ بِالنَّارِ حديث نمبر 2675 صفحہ 386 الطبعة الاولى مطبوعه رياض 1999ء :34 تاریخ ابن اثیر جلد 4 صفحہ 45 مطبوعہ بیروت 2009ء (مفہوما ) 35 تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 217 مطبوعہ بیروت 1283ھ :36 خست بخل، کنجوسی کمینگی (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 590 فیروز سنز لاہور ) 37 آئینہ کمالات اسلام.روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 596 38 : الماعون : 2 تا آخر 39: البقرة : 178 40 ابوداؤد كتاب الزكولة باب الكنز ما هو و زکواة الحلى حديث نمبر 1563 صفحہ 230 الطبعة الاولی مطبوعہ ریاض 1999ء میں اس بات کا ذکر ہے کہ عورت نے بات سن کر فوراً دونوں زیورا تار دیے.41 خرمی خوشی، شادمانی، فرحت ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 589 فیروز سنز لاہور )

Page 405

انوار العلوم جلد 26 353 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 406

انوار العلوم جلد 26 354 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب

Page 407

انوار العلوم جلد 26 بِسمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ 355 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب (فرموده یکم نومبر 1958ء بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج انصار اللہ کے سالانہ اجتماع کی تقریب ہے.میں اس موقع پر آپ سے دو باتیں کہنی چاہتا ہوں.ایک تو میں اس بارہ میں آپ سے خطاب کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے فرائض کی طرف توجہ کریں.آپ کا نام انصار اللہ سوچ سمجھ کر رکھا گیا ہے.پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر کا زمانہ جوانی اور اُمنگ کا زمانہ ہوتا ہے اس لئے اس عمر کے افراد کا نام خدام الاحمدیہ رکھا گیا ہے تا کہ وہ خدمت خلق کے سلسلہ میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں.اور چالیس سال سے اوپر عمر والوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے.اس عمر میں انسان اپنے کاموں میں استحکام پیدا کر لیتا ہے.اور اگر وہ کہیں ملازم ہو تو اپنی ملازمت میں ترقی حاصل کر لیتا ہے اور وہ اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ اپنے سرمایہ سے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کر سکے.پس آپ کا نام انصار اللہ اس لئے رکھا گیا ہے کہ جہاں تک ہو سکے آپ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں.اور یہ توجہ مالی لحاظ سے بھی ہوتی ہے اور دینی لحاظ سے بھی ہوتی ہے.دینی لحاظ سے بھی آپ لوگوں کا فرض ہے کہ عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت صرف کریں اور دین کا چرچا زیادہ سے زیادہ کریں تا آپ کو دیکھ کر آپ کی اولادوں میں

Page 408

انوار العلوم جلد 26 356 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب بھی نیکی پیدا ہو جائے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قرآن کریم میں یہی خوبی بیان کی گئی ہے کہ آپ اپنے اہل وعیال کو ہمیشہ نماز وغیرہ کی تلقین کرتے رہتے تھے.یہی اصل خدمت آپ لوگوں کی ہے.آپ خود بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ کریں اور اپنی اولا دوں کو بھی نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ دلاتے رہیں.جب تک جماعت میں یہ روح پیدار ہے اور لوگوں کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتوں کا تعلق قائم رہے اور اپنے اپنے درجہ کے مطابق کلام الہی ان پر نازل ہوتا رہے اُسی وقت تک جماعت زندہ رہتی ہے.کیونکہ اس میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی آواز سن کر اسے لوگوں تک پہنچاتے ہیں.اور جب یہ چیز مٹ جاتی ہے اور لوگ خدا تعالیٰ سے بے تعلق ہو جاتے ہیں تو اُس وقت تو میں بھی مرنے لگ جاتی ہیں.پس آپ لوگوں کو ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اپنی اولادوں کو بھی ذکر الہی کی تلقین کرتے رہنا چاہئے.اور اگر کوئی بشارت آپ پر نازل ہو تو ڈرنا نہیں چاہئے اسے اخبار میں اشاعت کے لئے بھیج دینا چاہئے.اصل میں تو یہ انبیاء کا ہی کام ہوتا ہے کہ وہ اپنی رؤیا و کشوف کو شائع کریں.لیکن انبیاء اور غیر انبیاء میں یہ فرق ہوتا ہے کہ انبیاء میں تحدی پائی جاتی ہے اور غیر انبیاء میں تحدی نہیں پائی جاتی.غیر انبیاء کے لئے یہی حکم ہے کہ وہ انکسار کے مقام کو قائم رکھیں.اور بے شک خدا تعالیٰ کی تازہ وحی کی جو بارش اُن پر نازل ہو اُس کا لوگوں کے سامنے ذکر کریں لیکن لوگوں کو یہ نہ کہیں کہ تم ہماری بات ضرور مانو.ہاں نبی کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں سے کہے کہ تم میری باتیں ما نونہیں تو تمہیں سزا ملے گی.لیکن غیر نبی کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ ایمان کی زیادتی کے لئے خواب بیان کر دیتا ہے لیکن وہ کسی سے یہ نہیں کہتا کہ تم میری بات ضرور مانو.وہ سمجھتا ہے کہ جب میں غیر نبی ہوں تو اگر خدا تعالیٰ نے میری بات کسی سے منوانی ہے تو وہ خود اُس کے لئے کوئی صورت پیدا کر دے گا مجھے اس پر زور دینے کی ضرورت نہیں.لیکن نبی اپنا حق سمجھتا ہے کہ وہ وحی پر زور دے کیونکہ وہ یقین رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُس سے ایسے رنگ میں کلام کرتا ہے جس رنگ میں وہ کسی اور سے نہیں کرتا.اس لئے اگر کوئی شخص میری بات نہیں مانے گا تو اس کو سزا ملے گی اور اسی وجہ سے وہ تحدی

Page 409

انوار العلوم جلد 26 357 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتا ہے.لیکن دوسرا شخص ایسا نہیں کر سکتا.پس جس شخص کو کوئی رؤیا یا کشف ہوا سے وہ کشف یا ر و یا اخبار میں چھپوانے کے لئے بھیج دینا چاہئے.آگے الفضل والوں کا کام ہے کہ وہ اسے شائع کریں یا نہ کریں.یہ بھی غلط طریق ہے کہ بعض لوگ مجھے کہہ دیتے ہیں کہ الفضل ہمارا مضمون شائع نہیں کرتا.وہ بیشک نہ چھاپے تم چُپ کر رہو.کیونکہ اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کا منشاء نہیں کہ وہ چھپے.لیکن اس میں خود الفضل والوں کا اپنا فائدہ بھی ہے کیونکہ اس سے جماعت کے اندر ایک بیداری پیدا ہوتی ہے.اگر کسی شخص کو کوئی رؤیا یا کشف یا الہام ہوتا ہے اور وہ شائع ہو جائے تو دوسروں کے اندر بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہم توجہ کریں تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمیں بھی کوئی رؤیا یا کشف یا الہام ہو جائے گا.اس طرح الفضل سلسلہ کی ایک خدمت کرے گا.وہ جماعت کے اندر بیداری پیدا کرنے کا موجب ہوگا.لیکن اگر وہ اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ خود گرفت کرے گا آپ لوگوں کا صرف اتنا کام ہے کہ آپ اُسے اس طرف توجہ دلائیں.لیکن اگر الفضل نہ چھاپے تو پھر اسے خدا تعالیٰ پر چھوڑ دیں اور اصرار نہ کریں کہ الفضل ہماری خواب شائع کرے.ایڈیٹر آزاد ہوتا ہے اُس کی مرضی ہے کہ کوئی چیز شائع کرے یا نہ کرے.اگر وہ اپنے فرائض کو ادا نہیں کرتا تو خدا تعالیٰ خود اس سے سمجھ لے گا.آپ اُس پر داروغہ نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ تم ان لوگوں پر داروغہ نہیں ہو 1 پھر تم داروغہ کہلانے والے کہاں سے آگئے.بہر حال آپ انصار اللہ کے مقام کو قائم رکھنے کی کوشش کریں.اور انصار اللہ کے معنے یہی ہیں کہ وہ روپیہ سے بھی دین کی خدمت کریں اور روحانی طور پر بھی دین کی خدمت کریں.میں نے بتایا ہے کہ روحانی طور پر دین کی خدمت یہی ہے کہ آپ لوگ اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں اور اگر اُس کی طرف سے بارش کا کوئی چھینٹا آپ پر بھی پڑ جائے تو ان چھینٹوں کو لوگوں تک بھی پہنچا ئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی تو الگ رہی خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والی ہر چیز کی قدر کرتے تھے.ایک دفعہ بارش

Page 410

انوار العلوم جلد 26 358 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب ہوئی تو آپ باہر نکل آئے اور اپنی زبان باہر نکال لی اُس پر بارش کا ایک قطرہ پڑا تو آپ نے فرمایا یہ خدا کی رحمت کا تازہ نشان ہے 2ے تو قرآن کریم تو الگ رہا آپ نے بارش کے ایک قطرہ کو بھی خدا تعالیٰ کا تازہ نشان قرار دیا.اب اگر کسی شخص پر خدا تعالیٰ کا اتنا فضل ہو جاتا ہے کہ اسے کوئی کشف ہو جاتا ہے یا کوئی الہام ہو جاتا ہے تو وہ تو یقینی طور پر خدا تعالیٰ کا تازہ نشان ہے پھر وہ تحدیث نعمت کیوں نہ کرے.تحدیث نعمت بھی خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کرنے کا ایک طریق ہے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ اب تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا وقت آ گیا ہے.ہمارے ذمہ بہت بڑا کام ہے اور ہم نے تمام غیر ممالک میں مساجد بنانی ہیں.اس وقت ہمارے ملک کی ایکسچینج کی حالت پوری طرح مضبوط نہیں مگر اللہ تعالیٰ ہمیشہ فضل کرتا رہا ہے اور ہمارے کام چلتے رہے ہیں.کیونکہ ہماری باہر کی بعض جماعتیں اب مضبوط ہو گئی ہیں.مثلاً افریقہ کی جماعتیں وغیرہ.اور وہ پاکستان کے قوانین کے ماتحت نہیں اس لئے ان لوگوں نے مساجد کی خاطر جو جماعت کو پونڈ اور ڈالر دیئے ہیں اُن سے کسی حد تک کام چلتا رہا ہے.مگر وہ جماعتیں ابھی کم ہیں وہ زیادہ بوجھ نہیں اٹھا سکتیں.ان کا بوجھ بٹانے کا طریق یہی ہے کہ یہاں کا بوجھ یہاں کی جماعتیں اٹھا لیں اور اُن کو اس بوجھ سے فارغ کر دیا جائے تاکہ وہ غیر ملکوں میں مسجد میں بنا ئیں.امریکہ میں عام طور پر حبشی لوگ مسلمان ہیں اور حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان کی سمجھ کم ہوتی ہے.لیکن امریکہ میں ایک مسجد بنی ہے جس کے لئے ایک حبشی مرد اور اس کی بیوی نے اپنا مکان اور جائیداد وقف کر دی تھی اور پھر انہوں نے کچھ اور روپیہ بھی دیا.اسی طرح کچھ چندہ دوسرے لوگوں نے بھی دیا بہر حال وہ مسجد بن گئی ہے.اگر امریکہ کے حبشی لوگ جو اسلام سے بہت دور رہے ہیں اور اب قریب عرصہ میں اسلام میں داخل ہوئے ہیں انہیں اتنی تو فیق مل گئی ہے کہ وہ مساجد کے لئے اپنی جائیدادیں وقف کر دیں تو کیا وجہ ہے کہ جو پرانے مسلمان چلے آتے ہیں وہ یہ کام نہ کریں.مغربی افریقہ میں بھی روپیہ بہت ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ہمارے کچھ چیفس ایسے ہیں جن کی زمینوں میں ہیروں اور سونے

Page 411

انوار العلوم جلد 26 359 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کی کا نہیں نکل آئی ہیں اور ہزاروں ہزار پونڈ انہیں بطور نفع مل جاتا ہے.اگر ہمارے مبلغ ان میں تحریک جاری رکھیں اور وہ مساجد بنانے کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیں یا کم سے کم دو دو تین تین مسجد میں مشرقی اور مغربی افریقہ والے بنادیں تو پاکستان کی پونڈ جمع کرنے کی وقت دور ہو جاتی ہے.کیونکہ ان ملکوں میں پونڈ کثرت سے پایا جاتا ہے لیکن ہمارے ملک میں پونڈ کثرت سے نہیں پایا جاتا.ہمارے ملک کی جو چیزیں ہیں اُن کے بیچنے کے لئے.انہیں دوسری قوموں کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے مگر بعض غیر ملکوں میں جن میں پونڈ پایا جاتا ہے ایسی چیزیں ہیں جن کا کوئی مقابلہ نہیں.مثلاً مغربی افریقہ میں سارا پونڈ ہیروں اور سونے کے ذریعہ سے آتا ہے اور ہیروں اور سونے میں کوئی اور قوم ان کا مقابلہ نہیں کرتی اس لئے لازماً ان کے پاس بہت سا پونڈ بچ جاتا ہے اور اس سے ہمیں مددمل سکتی ہے.پھر ہماری جماعت فلپائن میں بھی پیدا ہوگئی ہے اور ترقی کر رہی ہے.اگر چہ وہ ترقی آہستہ آہستہ ہو رہی ہے لیکن بہر حال ہو رہی ہے.پچھلے سال وہاں سے بیعت کا ایک خط آیا مجھے افسوس ہے کہ وہ گھر میں پڑا رہا.میں تو بیماری کی وجہ سے خط نہیں پڑھ سکتا اس لئے وہ کہیں پڑا رہا.اب کہ وہ خط نکلا تو معلوم ہوا کہ وہ بیعت ایک گورنر کی تھی مگر ادھر خط ملا اور اُدھر معلوم ہوا کہ وہ بیچارا قتل بھی ہو گیا ہے.اب اس کے خط کے ملنے کا یہی فائدہ ہوا ہے کہ وکیل التبشیر نے کہا ہے کہ ہم اُس کے بیوی بچوں کو ہمدردی کا خط لکھ دیتے ہیں.پہلے ہم سمجھتے تھے کہ گورنر کہاں سے آ گیا کوئی ڈپٹی کمشنر ہو گا.مگر اب وہاں سے جو طالبعلم آیا ہوا ہے اس نے کہا ہے کہ ہمارے ہاں بڑے بڑے جزیرے ہیں اُن جزیروں پر گورنر مقرر ہوتا ہے ، ڈپٹی کمشنر نہیں ہوتا.اس نے بتایا کہ بیعت کا خط لکھنے والا گورنر ہی تھا مگر وہ تو اب شہید ہو گیا ہے اب اُس کی جگہ ایک نائب گورنر نے بیعت کر لی ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں بھی ترقی ہوئی ہے.اگر خدا تعالیٰ چاہے تو امریکہ اور فلپائن وغیرہ علاقوں میں جماعت کو اور بھی ترقی ہو جائے گی اور اس طرح ڈالر کی آسانی ہو جائے گی.امریکہ میں تبلیغ کا یہ اثر بھی ہے کہ دوسرے کئی ملکوں میں بھی ہماری تبلیغ کا اچھا اثر پڑ رہا ہے.چنانچہ مولوی نور الحق صاحب انور جو حال ہی میں امریکہ سے آئے ہیں انہوں نے

Page 412

انوار العلوم جلد 26 360 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب ☆ بتایا کہ مصر کا جو وائس قونصل تھا اُس کے جبڑے میں درد تھی.اُس نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا تھا لیکن اس کو آپ کا جواب نہیں پہنچا.میں نے دفتر والوں سے خط نکالنے کے لئے کہا.انہوں نے کہا کہ ہمیں وہ خطا نہیں ملا.لیکن اب پرسوں یا اتر سوں اس کا دوسرا خط آیا ہے.اس نے لکھا ہے کہ غالباً میرا پہلا خط نہیں پہنچا اب میں دوسرا خط لکھ رہا ہوں.میرے جبڑے میں درد ہے آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دیتے.یہ امریکہ میں تبلیغ کا ہی اثر ہے.ہم امریکہ میں تبلیغ کرتے ہیں تو مصری اور شامی بھی متاثر ہوتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہی جماعت ہے جو اسلام کی خدمت کر رہی ہے اور اس طرح قدرتی طور پر انہیں ہماری جماعت کے ساتھ ہمدردی پیدا ہو جاتی ہے.پہلی شامی حکومت کی سختیوں کی وجہ سے ہمارے مبلغ منیر الحصنی صاحب کا خط آیا تھا کہ اس نے ہماری جماعت کے بعض اوقاف میں دخل اندازی کی تھی لیکن اب انہوں نے لکھا ہے کہ جو نئے قوانین بنائے گئے ہیں اُن میں کچھ گنجائش معلوم ہوتی ہے.ان کے مطابق میں دوبارہ نالش کرنے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام ہے کہ يَدْعُوْنَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ 3 ابدال شام تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ شام میں جماعت پھیلے گی.پس دوستوں کو دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ وہاں جماعت کے لئے سہولت پیدا کرے اور وہاں جماعت کو کثرت کے ساتھ پھیلائے تا ابدال شام پیدا ہوں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو ہیں نہیں يَدْعُونَ لَكَ کے یہی معنے ہیں کہ وہ جماعت کے لئے دعائیں کریں گے اور ابدال نام بتا تا ہے کہ ان کی دعائیں سنی جائیں گی.ابدال کے معنے ہیں کہ ان کے اندر بڑی عظیم الشان تبدیلی پیدا ہو جائے گی اور خدا تعالیٰ کے مقرب ہو جائیں گے.پس اس کے لئے بھی دعاؤں میں لگے رہنا چاہئے کہ شام میں جو مشکلات ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دور کرے.وہاں مضبوط جماعت پیدا ہو اور ایسے ابدال انصار اللہ کے جلسہ کے بعد مولوی نور الحق صاحب انور ملے تو انہوں نے بتایا کہ اب اس کے جبڑے کو آرام آچکا ہے بلکہ میرے یہاں آنے سے بھی پہلے اسے آرام آچکا تھا اس لئے یہ خط پہلے کا لکھا ہوا معلوم ہوتا ہے.انور صاحب نے یہ بھی بتایا کہ وہ کرنل ناصر کا بچپن کا دوست ہے اور اس پر بہت اثر رکھتا ہے.

Page 413

انوار العلوم جلد 26 361 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب سارے پیدا ہوں جو رات دن اسلام اور احمدیت کے لئے دعائیں کرتے رہیں.ہمیں پونڈ مہیا کرنے میں شام کا بھی بڑا دخل ہے.شام میں بھی ڈالر اور پونڈ کا زیادہ رواج ہے اور وہاں سے ہمیں کچھ مددمل جاتی ہے.بہر حال اگر سعودی عرب میں جماعت پھیلے، اسی طرح امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اور فلپائن میں ہماری جماعت پھیلے تو ڈالر مل سکتا ہے.اسی طرح اگر مشرقی اور مغربی افریقہ اور انگلینڈ میں جماعت پھیلے تو پونڈ جمع ہو جاتا ہے.یہ پونڈ اور ڈالر ہمیں اپنے لئے نہیں چاہئیں.خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کے گھر کی تعمیر کے لئے ہمیں ان کی ضرورت ہے.پس دعائیں کرتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ان ممالک میں جماعتیں قائم کرے اور ان میں ایسا اخلاص پیدا کرے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے گھر سا ممالک میں بنائیں.یہاں تک کہ دنیا کے چپہ چپہ سے اللهُ اَكْبَرُ کی آواز آنے لگ جائے اور جو ملک اب تک تثلیث کے پھیلانے کی وجہ سے بدنام تھا وہ اب اپنے گوشہ گوشہ سے یہ آواز بلند کرے کہ مسیح تو کچھ بھی نہیں تھا.اللہ تعالیٰ ہی سب سے بڑا ہے.اگر ایسا ہو جائے تو یہ دین اسلام کی بڑی بھاری فتح ہے اور ہمارے لئے بھی یہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے حصول کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے.ہم میں سے ہر شخص تو وہاں تبلیغ کے لئے جانہیں سکتا چند مبلغ گئے ہوئے ہیں.باقی لوگ یہ کر سکتے ہیں کہ ان کی روپیہ سے مدد کریں اور دعاؤں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا فضل چاہیں تا کہ وہ ان پر اپنے فرشتے اتارے اور ان کی باتوں میں اثر پیدا کرے.ہمارا ایک طالب علم جرمنی گیا ہو اتھا.اس کا کل ہی ایک خط آیا ہے کہ ایک پادری کی بیٹی میرے زیر تبلیغ تھی جو بہت حد تک احمدیت کی طرف مائل ہو گئی ہے لیکن اسے باپ سے ڈر ہے کہ وہ اس کی مخالفت نہ کرے کیونکہ وہ پادری ہے.میں نے لکھا ہے کہ پادری تو بہت مسلمان ہو چکے ہیں.اس لڑکی کو سمجھاؤ کہ وہ ہماری کتابیں پڑھے اور اپنے باپ کو بھی سمجھائے.وہ بھی انشاء اللہ مسلمان ہو جائے گا.اِس وقت تک یورپ میں دو پادری مسلمان ہو چکے ہیں.اب اگر یہ احمدی ہو گیا تو تین ہو جائیں گے.ایک شخص جو باقاعدہ پادری تو نہیں لیکن اس نے پادری کی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے وہ انگلینڈ میں احمدیت میں

Page 414

انوار العلوم جلد 26 362 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب داخل ہوا ہے.اس کا باپ یہودی مذہب کا عالم تھا.جب اس نے اپنے باپ سے ذکر کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے تو اسلام سچا نظر نہیں آتا لیکن اگر تمہیں سچا نظر آئے تو میں تمہیں روکتا نہیں تم بے شک اسلام قبول کر لو.جن لوگوں کے دلوں میں سچائی کی قدرو قیمت کا احساس ہوتا ہے اگر وہ خود اسلام قبول نہ کریں تو اپنی اولادوں کو اس کے قبول کرنے کی اجازت دے دیتے ہیں اور اس طرح اللہ تعالیٰ آہستہ آہستہ رستہ کھول دیتا ہے.پس آپ لوگ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یورپ اور امریکہ میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے رستہ کھو لے.اور ہماری جو سکیم ہے کہ یورپ میں ہماری کئی مساجد ہوں ، امریکہ کی ہر ریاست میں کئی مساجد ہوں اس کو خدا تعالیٰ جلد سے جلد پورا کرے.اسی طرح سپین کے لئے بھی دعا کریں کہ وہ اسلام کی ابتدائی فتوحات میں شامل تھا مگر اب وہاں جبری طور پر عیسائیت کو پھیلا دیا گیا ہے اللہ تعالیٰ اس علاقہ میں اسلام کی نصرت کے سامان پیدا کرے تا بنوامیہ کے زمانہ میں جو اسلام وہاں داخل ہو ا تھا اور پھر وہاں سے نکال دیا گیا تھا خدا تعالیٰ اسے احمدیت کے ذریعہ پھر وہاں دوبارہ قائم کر دے.“.دعا کے بعد فرمایا : - آئندہ کے لئے یا د رکھو کہ بیماری کی وجہ سے میرے پاؤں کا نپتے ہیں.اس لئے تقریر کے وقت کوئی چھوٹی سی میز ہونی چاہئے جس پر میں سہارا لے سکوں.خالی سوٹی پر سہارا لینے سے بعض اوقات کام نہیں بنتا.میز کے ساتھ میں زیادہ دیر کھڑا ہو سکتا ہوں اور بول بھی زیادہ سکتا ہوں.اس سال مجھے کمزوری زیادہ ہے.گو عقلاً ثابت ہوتا ہے کہ یہ وہم ہے.اس لئے کہ میں پہلے سمجھتا تھا کہ شاید یہ کمزوری بڑھاپے کی وجہ سے ہے لیکن یہ تو چند ماہ سے فرق پڑا ہے اور چند مہینوں میں عمر میں کوئی خاص فرق نہیں پڑتا اس لئے ڈاکٹروں کی رائے مجھے صحیح معلوم ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں کہ اصل میں کمزوری نہیں ہے صرف وہم ہے.ملنے والے بھی کہتے ہیں کہ آپ کی صحت اچھی معلوم ہوتی ہے مگر مجھے کمزوری نظر آتی ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹروں کی رائے صحیح ہے کہ مجھے بیماری نہیں.مگر بہر حال جو خرابیاں ہیں وہ تو ہیں ہی.اس لئے ضروری ہے کہ تقریر کے وقت

Page 415

انوار العلوم جلد 26 363 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کوئی چھوٹی میز ہو جس پر سہارا لے سکوں.کیونکہ خالی سوٹی سے دل پر دہشت رہتی ہے اور خیال ہوتا ہے کہ میں کہیں گر نہ جاؤں.باقی دعائیں تو میں نے آپ لوگوں کے لئے بھی کر دی ہیں اور سلسلہ کے لئے بھی کر دی ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں قبول فرمائے اور آپ لوگ خیر و عافیت سے گھر جائیں اور اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے دلیرانہ کوشش کریں تا کہ خدا تعالیٰ آپ کی کوششوں میں برکت دے اور سلسلہ کی مالی حالت اور تحریک جدید جو غیر ملکوں میں تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے ہے اس کی مالی حالتوں میں زیادہ سے زیادہ ترقی ہو.پھر اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے لوگوں کو پہلے سے زیادہ قربانی کرنے کی توفیق دے.اور پچھلے سال ہمارے ملک میں فصل ربیع کی جو تباہی آئی تھی آئندہ اس سے خدا تعالیٰ محفوظ رکھے.پھر نئی فصلوں میں بھی برکت دے تا کہ زمینداروں کے پچھلے نقصان دور ہو جائیں اور آئندہ کے لئے وہ اور قربانی کرنے کیلئے تیار ہو جائیں.ہماری جماعت میں زمیندار ہی زیادہ ہیں اور ان کی مالی کمزوری کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان پر اپنے فضلوں کی بارش نازل کرے اور اپنی تازہ بشارتوں یعنی الہاموں اور کشوف اور خوابوں کے ذریعہ سے ان کے ایمانوں کو تقویت دے تاکہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کے ایمان کو زیادہ مضبوط بناسکیں.میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں کو سچی خوابیں آتی ہیں ان کی اولادیں کہتی ہیں کہ ہمارے دادا کو ایسی خواب آئی تھی.پھر ان کی اولاد کہتی ہے کہ ہمارے پڑدادا کو ایسی خواب آئی تھی.غرض تین تین پشت تک اس کا اثر جاتا ہے.اگر ہمارے دوست اس طرف توجہ کریں اور پھر اپنی اولاد کو بھی اس طرف توجہ دلاتے رہیں تو ان کی کم سے کم تین چار پشتیں محفوظ ہو جاتی ہیں.اور پھر اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو چھ پچھتیں محفوظ ہو گئیں.پھر ایک اور اگلی نسل بھی ایسی ہو جائے تو نو پشتیں محفوظ ہو گئیں ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُن کی رحمت 1300 سال تک تو محفوظ رہی اور تیرہ سوسال میں بڑے بھاری تغیر آ جاتے ہیں.ہم تو چاہتے ہیں کہ قیامت تک ہی ہماری نسل محفوظ ہو جائے کیونکہ احمدیت خدا تعالیٰ کا آخری جلال ہے.اس آخری جلال کو کم سے کم قیامت تک قائم رہنا

Page 416

انوار العلوم جلد 26 364 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب چاہئے تا کہ ہمیشہ لوگوں میں روحانیت اور ہدایت کی طرف توجہ کے سامان پیدا ہوتے رہیں.اگر یہ سامان مٹ گئے تو اور کوئی ذریعہ ہدایت کا دنیا میں نہیں رہے گا.غرض میں نے یہ دعائیں کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت پر بشارتیں نازل کرتا رہے تا اس پر نئے 66 سے نئے فضل نازل ہوتے رہیں اور ان کا ایمان روز بروز تازہ ہوتا چلا جائے.“ (الفضل 6 نومبر 1958ء) :1 لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ (الغاشية: 23) 2: ابوداؤد کتاب الادب باب فى المطر حدیث نمبر 5100 صفحه 718،717 الطبعة الاولى مطبوعه رياض 1999ء 3: تذکرۃ صفحہ 100 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 417

انوار العلوم جلد 26 365 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958 ء افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 418

انوار العلوم جلد 26 366 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء

Page 419

انوار العلوم جلد 26 بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ 367 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تشهد افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء فرموده 26 دسمبر 1958ء بمقام ربوہ ) د تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا تو انسان کے لئے ہمیشہ ہی ضروری ہے مگر اس زمانہ میں اس کے فضلوں اور احسانات کو دیکھتے ہوئے اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اُتنا ہی کم ہے.میں اب ضعیف اور بوڑھا ہو چکا ہوں.جوانی کی عمر میں جب میں صرف 26 سال کا تھا مجھے خلیفہ منتخب کیا گیا تھا اور اگر میں زندہ رہا تو جنوری میں میں 69 سال کا ہو جاؤں گا.گویا میری خلافت پر 45 سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور اتنے لمبے عرصہ تک کام کرنے کی توفیق مجھے خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ملی ہے.لیکن پھر بھی ایک وہ زمانہ تھا جب میں بغیر سوچے سمجھے تقریر کے لئے کھڑا ہو جاتا تھا اور گھنٹوں تقریر کرتا چلا جاتا تھا اور اب میرا خطبہ بعض دفعہ پانچ سات منٹ کا ہوتا ہے.بعض دفعہ 20 منٹ کا ہوتا ہے.بعض دفعہ 25 منٹ کا ہوتا ہے اور بعض دفعہ آدھ گھنٹے کا ہوتا ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ورنہ اس عمر میں جو مجھے بیماری کا حملہ ہوا ہے یہ بڑا تکلیف دہ ہے.اس کے اثرات کی وجہ سے پہلے مجھے یہ و ہم ہو گیا تھا کہ بیماری بڑھ رہی ہے مگر جب میں نے یورپ کے اُس ڈاکٹر کو لکھا جس نے میرا علاج کیا تھا تو اس نے لکھا کہ بیماری بڑھ نہیں رہی بلکہ یہ ایک اتفاقی امر ہے اور روماٹزم 1 (RHEUMATISM) یعنی وجع المفاصل کی تکلیف ہے ورنہ یہ درست نہیں کہ آپ کا مرض بڑھ رہا ہے.مرض جو ہونا تھا وہ ہو چکا ہے مگر اس کے علاوہ عمر کا تقاضا بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک قصہ سنایا کرتے تھے کہ کسی شخص نے ایک

Page 420

انوار العلوم جلد 26 368 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء بڑی عمر کے آدمی کو کوئی بات صفائی سے کہہ دی.اس پر اُس بڑی عمر کے آدمی نے اُسے گالی دے دی.وہ کہنے لگا یہ عمر کا تقاضا ہے جب اس نے کہا کہ عمر کا تقاضا ہے تو اُس نے اور گالی دی.وہ کہنے لگا یہ بھی عمر کا تقاضا ہے.اِس پر اُس نے اور گالی دے دی.وہ کہنے لگا یہ بھی عمر کا تقاضا ہے.جب اُس نے تین دفعہ یہی کہا تو وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا تم باز نہیں آتے.تو انسانی عمر کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ کمزوری بھی بڑھتی چلی جاتی ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا ہی فضل ہوتا ہے کہ اس کمزوری کے باوجود انسان تھوڑا بہت کام کر سکتا ہے.اب یہ حالت ہے کہ کھڑا ہونا بھی میرے لئے مشکل ہوتا ہے.بیٹھنا بھی مشکل ہوتا ہے اور رات کو لیٹنا بھی میرے لئے مشکل ہوتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احسان رہا ہے کہ با وجود بیماری کے حملہ کے اور اس پر ایک لمبی مدت گزر جانے کے مجھے قرآن کریم نہیں بھولا.میں جب بھی قرآن کریم کی کوئی آیت پڑھتا ہوں اس کے نئے نئے معارف میرے دل میں آتے جاتے ہیں.اور پھر اس سال تو قرآن کریم کے کثرت سے پڑھنے کی اتنی توفیق ملی ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ملی.یعنی با وجود بیماری کی تکلیف کے اس سال جون سے لے کر اس وقت تک 24 ، 25 دفعہ میں قرآن کریم ختم کر چکا ہوں.اس وقت میں جلسہ کے افتتاح کے لئے آیا ہوں.تقریریں بعد میں ہوں گی.ہمارے خاندان کے بعض نکاح ہیں وہ بھی بعد میں ہوں گے.اس وقت تو میں خدا تعالیٰ کا شکر یہ ادا کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ احسان کیا ہے کہ اس نے ہمیں اسلام کی خدمت کے لئے اور اپنی باتیں سننے کے لئے جمع کر دیا ہے وہ ہماری اس خدمت کو قبول فرمائے اور اپنے فرشتوں کو اُتارے کہ وہ ہماری مدد کریں اور اسلام کی اشاعت دنیا میں کریں.ہم کمزور ہیں اور ہمارے کندھوں پر وہ کام لا دا گیا ہے جس کو سر انجام دینے کی ہم میں طاقت نہیں.وہ محض خدا اور اس کے فرشتے ہی کر سکتے ہیں.مغربیت دنیا میں ایسی غالب آچکی ہے کہ خود ہمارے بعض احمدی نوجوان بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں.خصوصاً سرکاری عہدوں پر جو لوگ ہیں ان پر بہت زیادہ اثر ہو رہا ہے اور ان میں سے بعض لوگوں کے اہل خانہ پردہ چھوڑ رہے ہیں.میں نے پچھلے دنوں

Page 421

انوار العلوم جلد 26 369 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958 ء اعلان کیا تھا کہ ایسے لوگ جن کی بیویاں پردہ چھوڑ رہی ہیں وہ چاہے کتنے ہی معزز ہوں اُن سے عدم تعلق کا اظہار کیا جائے.اس پر مجھے افریقہ کے ایک پریذیڈنٹ نے رپورٹ کی کہ ایک مجلس میں بعض ایسے لوگ جمع تھے جن کی بیویوں نے پردہ چھوڑا ہو ا تھا.میں نے اُن سے مصافحہ نہیں کیا.اس پر وہ ناراض ہو گئے اور جماعت کے مبلغوں نے کہا کہ تم نے غلطی کی ہے.میں نے انہیں لکھا کہ آپ نے جو کچھ کیا درست کیا.آپ میرے خطبہ کو صحیح سمجھے ہیں اور مبلغ غلط سمجھے ہیں.ہاں غیر ملکوں میں جہاں پر دہ کا رواج نہیں ہے وہاں عدم تعلق کے ساتھ ساتھ سمجھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے.کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے فَذَكِّرُ اِن نَفَعَتِ الذِكری 2 یعنی نصیحت کرتے رہو کیونکہ نصیحت ہمیشہ فائدہ بخش ثابت ہوتی رہی ہے.پس دوسروں پر صرف پریذیڈنٹی کا رُعب ہی نہ جماؤ بلکہ اخلاص ، خدمت اور پیار سے انہیں اسلام کی طرف واپس لاؤ محض رُعب سے کام نہیں چلتا بلکہ اخلاص ، خدمت اور پیار سے کام چلتا ہے.غرض میں نے انہیں لکھا کہ بات تو آپ نے سمجھ لی ہے اور صحیح طور پر سمجھ لی ہے لیکن صحیح طریق استعمال یہی ہے کہ عدم تعلق کے ساتھ ساتھ اخلاص ، خدمت اور قربانی کے ساتھ دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کی جائے.اسی طرح ہماری جماعت میں تنظیم بھی محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہی پیدا ہوئی ہے جس کے ہمیشہ خوشکن نتائج ظاہر ہوتے رہتے ہیں.مجھے یاد ہے ایک زمانہ میں جب میں جوان تھا قادیان میں مخالفوں کا جلسہ ہو ا.انہوں نے اپنی تقریروں میں کہا کہ ہم بہشتی مقبرہ پر حملہ کریں گے اور احمدیوں کی قبریں کھود دیں گے.میں نے حفاظت کے لئے باہر سے آدمی منگوائے ہوئے تھے.وہ زمیندار اور ان پڑھ تھے.رات کو میں یہ دیکھنے کے لئے باہر گیا کہ یہ لوگ کیسا پہرہ دے رہے ہیں.میرے ساتھ مولوی ذوالفقار علی خانصاحب گو ہر مرحوم تھے.اچانک ایک زمیندار دوڑتا ہوا آیا اور اُس نے مجھے کمر سے پکڑ لیا اور کہنے لگا.میں آگے نہیں جانے دوں گا.کچھ دوست کہنے لگے یہ خلیفہ امسیح ہیں.وہ کہنے لگا میں نہیں جانتا کہ یہ خلیفہ مسیح ہیں.میری ڈیوٹی یہ ہے کہ میں نے اس جگہ سے آگے کسی کو جانے نہیں دینا جب تک اس کو پاس ورڈ معلوم نہ ہو یا اس نے ڈیوٹی کا پلا نہ لگایا ہؤا و

Page 422

انوار العلوم جلد 26 370 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء ہو.میں نے اُن دوستوں کو جنہوں نے یہ کہا تھا کہ یہ خلیفہ ہمیے ہیں ڈانٹا اور کہا کہ اس شخص نے جو کچھ کیا ہے درست کیا ہے.اس کی ڈیوٹی ہی یہی تھی کہ کسی کو آگے نہ گزرنے دے.پھر اس پہریدار نے مجھے کہا پاس ورڈ مقرر ہے وہ مجھے بتائیں.خیر اس کا افسر دوڑا ہوا آیا اور اُس نے پاس ورڈ بتایا.تب پہریدار نے کہا اب آپ اندر جا سکتے ہیں.میں نے اس شخص کی تعریف کی اور کہا یہ اس قابل ہے کہ اسے انعام دیا جائے.اس نے بہت اچھا کام کیا ہے.تو ڈیوٹی کی ادائیگی اور تنظیم بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہی ہماری جماعت میں آئی ہے.مگر پھر بھی بعض دفعہ بعض لوگ غلطی کر بیٹھتے ہیں.مثلاً آج ہی ملاقات میں میں نے دیکھا ہے کہ باوجود اس کے کہ میں دیر سے جماعت کو سمجھا رہا ہوں کہ میں اب بوڑھا ہو گیا ہوں اور ضعیف ہو گیا ہوں پھر بھی بعض لوگ اظہار عقیدت کی وجہ سے اپنے گھٹنے میرے آگے ٹھیک دیتے ہیں اور مجھے آگے کو کھینچتے ہیں.ایک شخص نے تو میرے پاؤں پر اپنا گھٹنہ رکھ دیا جس کی وجہ سے مجھے کوئی دو گھنٹہ درد رہی.وہ پاؤں گو بیماری سے متاثر نہیں ہے مگر شاید یہ بیماری کا اثر ہے کہ اگر میرے دائیں طرف بھی جو بیماری سے متاثر نہیں ہے چوٹ لگے تو وہ بائیں طرف جو بیماری سے متاثر ہے اثر کر جاتی ہے.چنانچہ اس کے بعد میرے لئے ایک قدم چلنا بھی مشکل ہو گیا اور اب بھی میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچا ہوں.میری انگلیوں میں کھچاوٹ ہوتی تھی اور کانٹے سے چھتے تھے.تو ملاقات کے وقت بہت احتیاط کرنی چاہئے.ملاقات کرانے والوں کو بھی میں نے کئی دفعہ سمجھایا ہے لیکن پھر بھی وہ اپنی اصلاح نہیں کرتے.میں نے انہیں بتایا تھا کہ مجھے بائیں طرف بیماری کا حملہ ہوا ہے اگر تم ملاقات کرنے والوں کو میری بائیں طرف سے گزارو گے تو میں انہیں دیکھ نہیں سکوں گا کیونکہ بائیں طرف مجھے بیماری کا حملہ ہوا ہے اور بائیں آنکھ سے اچھی طرح دیکھ نہیں سکتا اس لئے ملاقات کرنے والوں کو میری دائیں طرف سے لانا چاہئے.لیکن باوجود میرے سمجھانے کے وہ ملاقات کرنے والوں کو میری بائیں طرف سے ہی لاتے تھے.آخر میری آنکھیں تو کمزور ہیں ملاقات کرنے والے کی آنکھیں تو کمزور نہیں ہوتیں.وہ سمجھتا ہے کہ میں نے اسے نہیں پہچانا اس لئے وہ اور زیادہ عقیدت کا

Page 423

انوار العلوم جلد 26 371 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958 ء اظہار کرتا ہے کہ مجھے پہچان لیں.اگر ملاقات کرنے والے کو دائیں طرف سے لایا جائے تو اُسے میرے چہرے سے پتا لگ جائے گا کہ میں نے اسے کچھ نہ کچھ پہچان لیا ہے.یوں تو میں کئی کئی سو صفحہ دن میں پڑھ لیتا ہوں مگر اس سال آنکھوں میں کچھ ایسی کمزوری پیدا ہو گئی ہے کہ میں چہرہ پہچانتا ہوں تو محض اُس کی شیپ (Shape) کی وجہ سے پہچانتا ہوں ور نہ چہرے کے اعضاء مجھے نظر نہیں آتے.میں صرف اندازہ لگا کر پہچان لیتا ہوں کہ اس شکل کا فلاں شخص ہوتا تھا.تو دوستوں کو چاہئے کہ ملاقات کے وقت بہت احتیاط سے کام لیں کیونکہ اب میری نظر بھی کمزور ہے اور صحت بھی کمزور ہے.یہ عقیدت کے اظہار کا طریق نہیں.میں زجر نہیں کرتا مگر شریعت اس کو گستاخی اور بد اخلاقی قرار دیتی ہے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بعض لوگ آتے تھے اور وہ بہت اونچی آواز سے باتیں کرتے تھے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ بے ادبی ہے اور اس سے ایمان ضائع ہو جاتا ہے.اسی طرح قریب آکر اور گھٹنے ٹیک کر بیٹھ جانا یہ بھی گستاخی ہے بلکہ ڈر ہے کہ اس کا اثر ایمان پر بھی نہ جاپڑے.اب میں دعا کر دیتا ہوں دوست بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو بہت برکت والا کرے اور ہمارا یہاں جمع ہونا صرف پاکستان کی جماعت کے لئے ہی برکت والا نہ ہو بلکہ ہمارے یہاں جمع ہونے کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ امریکہ، انگلینڈ اور یورپ کے دوسرے 3 ممالک میں بھی برکتیں نازل کرے اور ہر جگہ پر اسلام کی اشاعت ہو جائے.سیرالیون (ویسٹ افریقہ ) کی جماعت نے لکھا ہے کہ ہم بھی یہاں سالانہ جلسہ کر رہے ہیں دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمارے جلسہ سالانہ کو قبول فرمائے.چار چار پانچ پانچ سومیل سے لوگ جلسہ میں شرکت کے لئے آرہے ہیں.وہ لوگ ہمارے جلسہ پر آنے والوں سے تو کم ہیں مگر وہ جماعتیں ابھی نئی نئی قائم ہوئی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت ترقی کر رہی ہے اور اب وہ جلسہ سالانہ منعقد کر رہے ہیں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے جلسہ کو با برکت کرے اور دور دور کے لوگوں کو احمدیت کی طرف توجہ پیدا ہو.وہاں اگر چہ جماعت کی تعداد کم ہے مگر ملک کے وزراء بھی ہمارے جلسوں میں شریک ہوتے ہیں.اب بھی انہوں نے اطلاع دی ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی نے چار طالب علم یہاں بھیجے ہیں اور

Page 424

انوار العلوم جلد 26 372 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1958ء انہیں کہا ہے کہ احمدیت کا مطالعہ کرو اور دیکھو کہ وہ افریقہ میں کس طرح بڑھ رہی ہے.وہ طالب علم مسجد میں بھی آئے اور انہوں نے مطالعہ کے لئے بعض کتب بھی لیں.اسی طرح وہاں ہماری مسجد کا افتتاح ہو ا تو اس تقریب میں ملک کا وزیر اعظم بھی شامل ہوا.اسی طرح ملکہ الزبتھ لیگوس میں آئیں تو وہاں انہوں نے سب سے مقدم ہمارے مبلغ کو ہی کیا جس نے انہیں قرآن شریف پیش کیا جو انہوں نے بڑے اعزاز سے قبول کیا اور واپس جا کر شکریہ کا خط لکھا.غرض غیر ملکوں میں تعصب کم ہے.ہے.اس وقت بھی ہمارے جلسہ پر ایک امریکن عورت آئی ہوئی ہے.وہ مجھے ملی اور کہنے لگی خلیل احمد ناصر میرا واقف ہے اُس کے نام مجھے کوئی پیغام دے دیں.وہ ٹیپ ریکارڈر لائی ہوئی ہے.میں نے کہا میں اکیلے ناصر کے نام کیوں پیغام دوں گا میں ساری جماعت کے نام پیغام دوں گا تا کہ وہ سب اس سے فائدہ اٹھائیں.کہنے لگی اچھی بات ہے آپ ساری جماعت کے نام پیغام دے دیں چنانچہ وہ مجھ سے ٹیپ ریکارڈر پر سورۃ فاتحہ پڑھوا کر اور پیغام لے کر چلی گئی اور اس وقت وہ لاہور کے امریکن ہسپتال میں بیمار پڑی ہوئی ہے اسی طرح امریکہ سے رسالہ لائف کا ایک نمائندہ ٹیپ ریکارڈر لے کر افریقہ گیا اور ہمارے مبلغ نے لکھا کہ وہ یہاں سے میری تقریر ریکارڈ کر کے ساتھ لے گیا ہے.وہ کہتا تھا کہ میں یہ تقریر امریکہ جا کر لوگوں کو سناؤں گا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیرونجات میں ترقی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہاں کے لوگوں کے دلوں سے بھی بغض اور کینہ کو کم کرے اور انہیں صداقت پر غور کرنے اور سمجھنے کی توفیق بخشے تا کہ ان کے دل کی رگر ہیں کھل جائیں اور کل تک جو ہمارے مخالف تھے ہمارے بھائی بن جائیں.اب میں دعا کر دیتا ہوں سب دوست میرے ساتھ دعا میں شامل ہو جائیں.“ (الفضل 24 جنوری 1959ء) 66 1 روماٹزم (RHEUMATISM) جوڑوں کا درد، وجع المفاصل 2: الاعلى: 10 3: يَا يُّهَا الَّذِينَ مَنُوا لَا تَرْفَعُوا وَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَ (الحجرات: 3) وة الضو لِبَعْضٍ أَنْ تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ

Page 425

انوار العلوم جلد 26 373 متفرق امور (195827) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 426

374 انوار العلوم جلد 26

Page 427

انوار العلوم جلد 26 375 بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ متفرق امور خطاب فرموده جلسہ سالانہ 27 دسمبر 1958ء بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا، گومیری طبیعت اس دفعہ علیل ہے اور میں بہت زیادہ کمزور ہو گیا ہوں لیکن اس کے باوجود سابق طریق کے مطابق میں نے اپنی دو تقریر میں اس جلسہ کے موقع پر رکھی ہیں.ایک 27 دسمبر کی جو عام باتوں پر مشتمل ہوتی ہے اور دوسری 28 دسمبر کی جو سیر روحانی کی آخری کڑی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے زندہ رکھا اور اُس نے توفیق دی تو کل وہ بیان ہو جائے گی.پچھلے سال قرآن کریم کی تفسیر صغیر میں نے لکھی تھی تفسیر تو مکمل ہو گئی مگر اس کی وجہ سے جو محنت مجھے کرنی پڑی اس سے صحت بہت گر گئی.چنانچہ برابر ڈیڑھ سال سے میں بیمار چلا آتا ہوں.اب تو چلنا پھرنا بھی دوبھر ہو گیا ہے.یہ تفسیر ایک بہت بڑا ذریعہ لوگوں پر حق کھولنے کا ہو رہی ہے.کثرت سے غیر احمدیوں کے خطوط آ رہے ہیں جو تفسیر مانگتے ہیں یا اس کے پڑھنے پر تعریف کرتے ہیں.اس سال میں نے تفسیر کبیر کی دو جلدیں لکھوائی ہیں.درحقیقت اصل مصالحہ تو میری صحت کے زمانہ کا لکھا ہوا میرے قرآن کے حاشیہ پر موجود تھا مگر نظر ثانی کے وقت میں نے اصلاح کر دی اور مضمون کو بڑھا دیا.دوستوں کو اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.میں اس کوشش میں ہوں کہ تفسیر کبیر کے باقی حصے بھی مکمل ہو جائیں لیکن چونکہ وہ لمبی تفسیر ہے اور میری صحت کمزور ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تفسیر صغیرلکھوا دی تا کہ قرآن کریم کی مکمل تفسیر ہو جائے.بہر حال جو دوست تفسیر کبیر کی اشاعت میں حصہ لیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے

Page 428

انوار العلوم جلد 26 376 نزدیک قرآن کریم کی اشاعت میں حصہ لینے والوں میں شامل ہو کر ثواب کے مستحق ہوں گے یہ دونوں چلدیں الشرکۃ الاسلامیہ نے شائع کی ہیں جس میں جماعت کے دوستوں کا روپیہ لگا ہوا ہے.اب تک یہ کمپنی نفع پیدا نہیں کر سکی مگر امید ہے کہ آہستہ آہستہ دوستوں کی کوشش سے نفع آنے لگ جائے گا.بعض پرانی تفسیر میں بھی ابھی تک موجود ہیں یعنی اُن کی بعض کا پیاں ابھی قابلِ فروخت ہیں وہ بھی دوست وہاں سے لے سکتے ہیں.اس سال سلسلہ کی تاریخ جو 1880 ء تک کی ہے شائع ہو چکی ہے.میں نے بیماری کے باوجود اس کو ایک نشست میں ختم کرنے کی کوشش کی ہے.میری خواہش تھی کہ اب تک کی ساری تاریخ احمدیت چھپ جاتی لیکن ابھی صرف 1880ء تک کی تاریخ چھپی ہے.دوست اس سے فائدہ اٹھا ئیں.یہ کام سلسلہ کے چندہ سے ہی کیا گیا ہے.اس کے بعد میں جماعت کے دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ ریویو آف ریلیجنز دس ہزار کی تعداد میں شائع ہوا کرے لیکن اب تک با وجود پوری کوشش کے اس کی قریباً ایک ہزار کی اشاعت ہوئی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ با وجود صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید کی اعانت کے اس کا اتنی کم تعداد میں شائع ہونا اس کے عملہ کی غفلت کی علامت ہے.میں آئندہ سال کے لئے مولوی جلال الدین صاحب شمس اور چودھری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدر انجمن احمدیہ کی کمیٹی مقرر کرتا ہوں کہ وہ ہر ماہ میرے پاس رپورٹ کیا کریں کہ ریویو آف ریلیجنز کی ترقی کے لئے کیا کوشش کی جا رہی ہے.سلسلہ کے آرگن الفضل کے متعلق بھی میں ہمیشہ توجہ دلاتا رہا ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس نے بہت ترقی کی ہے.لیکن اس کے باوجود اب بھی اس کی اشاعت اتنی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہئے.جماعت کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے پندرہ لاکھ سے بھی او پر چلی گئی ہے مگر ابھی تک الفضل کی اشاعت تین ہزار کے قریب ہی ہے حالانکہ چاہئے تھا آہستہ آہستہ یہ تعداد بہت بڑھ جاتی.بڑی مشکل یہ ہے کہ ہر غریب آدمی سالانہ قیمت اکٹھی نہیں دے سکتا.اس کے لئے جو مقامی ایجنٹ ہوتے ہیں وہ بڑی مدد دیتے ہیں.ڈیڑھ آنہ

Page 429

انوار العلوم جلد 26 377 روزانہ دینا پڑتا ہے اور اتنی رقم بہت سے لوگ آسانی سے مہیا کر سکتے ہیں.لیکن مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مقامی ایجنٹس الفضل کے ساتھ دیانت دارانہ برتاؤ نہیں کرتے رہے.یہ بات ہماری جماعت کے اصول کے خلاف ہے.ہماری جماعت ہمیشہ دیانت میں اول درجہ پر رہی ہے.میں نے پہلے بھی کئی بار قصہ سنایا ہے کہ چنیوٹ کے علاقہ کا ایک غریب آدمی تھا اب تو وہ فوت ہو گیا ہے.جب وہ احمدی ہوا تو اُس کے رشتہ دار جو چوری کے عادی تھے ایک دفعہ بھینس چرا کر لائے.بھینس اندر بندھی ہوئی تھی.بھینس کے مالک کھوج لگاتے ہوئے آئے اور ان سے کہنے لگے ہمیں ہماری بھینس واپس دے دو.اس کے باپ اور بھائیوں نے کہا ہم آپ کی بھینس چرا کر نہیں لائے.بھینس کے مالکوں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے بھینس کا کھوج تمہارے گھر تک آیا ہے.لیکن چوروں نے پھر بھی انکار کیا اور کہا ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمہاری بھینس نہیں چرائی.مالکوں نے کہا ہمیں تمہاری قسم کا اعتبار نہیں.مغلا احمدی ہے وہ اگر کہہ دے کہ تم ہماری بھینس نہیں لائے تو ہم واپس چلے جائیں گے.مغلا کے باپ اور بھائی اُسے اندر لے گئے اور وہاں جا کر اسے خوب مارا اور کہا تم باہر جا کر کہہ دو کہ ہمارے پاس بھینس نہیں.لیکن اس نے کہا بھینس اندر بندھی ہے پھر میں کیسے کہہ دوں کہ تم بھینس چرا کر نہیں لائے.انہوں نے اسے پھر مارا اور کہا کہ تمہارا کیا حرج ہے تم کہہ دو کہ ہمارے پاس بھینس نہیں.اور سمجھا کہ اب مارکھا کر وہ ہمارے منشاء کے مطابق گواہی دے دے گا.لیکن جب وہ اسے باہر لائے اور کہا بتاؤ کیا ہم ان کی بھینس چرا کر لائے ہیں؟ تو اُس نے کہا ہاں وہ اندر کھڑی ہے.غرض احمدیوں کی دیانت دیر سے مشہور چلی آئی ہے مگر الفضل کے بعض ایجنٹوں نے اس پر دھبہ لگا دیا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کے لئے ایک شخص آیا اور لوگوں نے کہا حضور ! یہ شخص بڑا مخلص ہے اس کے پاس آنے کا کرایہ نہیں تھا مگر پھر بھی یہ اپنے شوق کی وجہ سے بغیر ٹکٹ کے ہی آ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی پگڑی میں روپے باندھا کرتے تھے آپ نے جھٹ اپنی پگڑی کا کنارہ کھولا اور اُس

Page 430

انوار العلوم جلد 26 378 میں سے ایک روپیہ نکال کر اس شخص کو دیا اور فرمایا کہ اب آپ ٹکٹ لے کر جائیں کیونکہ گورنمنٹ کی چوری بھی ویسی ہی ہے جیسے کسی فرد کی چوری.آپ سمجھتے ہوں گے کہ گورنمنٹ بڑی مالدار ہے اگر میں نے اس کی چوری کر لی تو کیا ہوا.لیکن کسی غریب آدمی کی چوری کرنا اور گورنمنٹ کی چوری کرنا خدا تعالیٰ کے نزدیک دونوں برابر ہیں.اب یہ روپیہ لیں اور جاتی دفعہ اس کا ٹکٹ خرید لینا.میں ہر سال جماعت کی تبلیغی سرگرمیوں کے کچھ نہ کچھ واقعات بیان کیا کرتا ہوں.اس سال فلپائن میں خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک جماعت دے دی ہے.یہ وہ علاقہ ہے جس میں حضرت عثمان کے زمانہ میں مسلمان پہنچے.بعد میں جب اسے سپین اور پرتگال نے فتح کیا تو انہوں نے ملک کو جبراً عیسائی بنا لیا اور تلوار میں گردنوں پر رکھ کر کہا کہ جو شخص بپتسمہ نہیں لے گا ہم اُسے قتل کر دیں گے.چنانچہ لوگ ڈر گئے اور انہوں نے عیسائیت اختیار کر لی.اب سارا ملک عیسائی ہے.چین اور پرتگال کی طرح فلپائن کے عیسائی بھی رومن کیتھولک ہیں جو بہت متعصب ہوتے ہیں.میری خواہش تھی کہ سپین اور فلپائن میں دوبارہ اسلام کی اشاعت کی جائے.میں نے تحریک جدید کو جس کے سپر د غیر ملکوں میں تبلیغ کا کام ہے توجہ دلائی اور انہوں نے پچھلے سال کے شروع سے ہی فلپائن میں تبلیغ شروع کر دی.فلپائن کی گورنمنٹ کیونکہ رومن کیتھولک پادریوں کے ماتحت ہے اس لئے اس کی طرف سے تبلیغ میں روکیں ڈالی گئیں اور ہمارے مبلغ کو وہاں جانے کی اجازت نہ دی گئی.قاعدہ یہ ہے کہ جس حکومت سے کوئی شخص باہر جائے پاسپورٹ وہ دیتی ہے.اور جس حکومت میں جانا ہو اگر اس کے ساتھ کوئی معاہدہ نہ ہو کہ اس ملک میں ویزہ کی ضرورت نہیں تو جانے والے کو علاوہ اپنے ملک سے پاسپورٹ لینے کے اُس ملک کا ویزہ بھی لینا پڑتا ہے لیکن فلپائن گورنمنٹ ویزہ دینے سے انکار کر دیتی تھی.نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ ہمارے آدمی وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے.چونکہ بیرونی ممالک کی تبلیغ کا کام تحریک جدید کے سپر د ہے اس لئے انہوں نے اس طرف توجہ کی اور فلپائن میں لٹریچر بھیجنا شروع کر دیا اور اس کے ذریعہ بعض لوگوں کے دلوں میں احمدیت سے دلچسپی پیدا ہو گئی.جب اس طرح میدان کچھ ہموار ہو گیا تو اللہ تعالیٰ

Page 431

انوار العلوم جلد 26 379 نے ایک اور سامان پیدا کر دیا.اور وہ یہ کہ برٹش بور نیو میں ہمارے ایک نہایت مخلص دوست ڈاکٹر بدرالدین صاحب کام کر رہے ہیں وہ خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کے بڑے لڑکے ہیں اور احمدیت کے عاشق صادق ہیں.چندہ بھی بڑا دیتے ہیں اور تبلیغ بھی بڑی کرتے ہیں ان میں قربانی کا بڑا جوش ہے.وہ اب بھی یورپ کے ملکوں کو سوسو پونڈ بھجوا دیتے ہیں تا کہ وہاں مساجد تعمیر کی جائیں اور مبلغوں کو اخراجات مہیا کئے جائیں.باوجود اس کے کہ وہاں کے انگریز گورنر نے علماء سے مل کر احمدیوں کے خلاف ایک بڑا محاذ کھڑا کر دیا تھا ڈاکٹر صاحب نے دلیری سے گورنر اور دوسرے لوگوں کا مقابلہ کیا اور اس علاقہ کے بعض لوگوں کو جہاں گورنر چاہتا تھا کہ احمدیت نہ پھیلے اپنے پاس بلا کر تبلیغ کی.خدا تعالیٰ نے ان کی تبلیغ میں برکت ڈالی اور اس کے نتیجہ میں وہاں کے کچھ لوگ احمدی ہو گئے جن کی معرفت انہوں نے اس علاقہ میں مسجد اور جماعت بنانے کی کوشش کی.ایک علاقہ کے ڈپٹی کمشنر نے ہمارے ایک مبلغ محمد سعید انصاری کو جو یہاں سے گئے ہوئے ہیں اپنے علاقہ میں تبلیغ سے باز رکھنے کی کوشش کی اور انہیں دھمکی دی کہ میں تمہیں گرفتار کرلوں گا ہم نے انگلستان کی حکومت سے احتجاج کیا.چونکہ اُس ملک میں ظاہری طور پر رواداری بہت ہے اس لئے وہاں کی حکومت نے گورنر سے جواب طلب کیا اور دریافت کیا کہ احمدی مبلغ کے رستہ میں کیوں روکیں پیدا کی جا رہی ہیں؟ گورنر نے عام قاعدہ کے مطابق ڈپٹی کمشنر سے رپورٹ مانگی اور چونکہ اُس نے خود غلطی کی تھی اس لئے لازماً اُس نے اپنے بچاؤ کے لئے جھوٹ بولا.کہہ دیا کہ میں نے انصاری صاحب کو تبلیغ سے نہیں روکا بلکہ انصاری صاحب نے ملک میں بغاوت پھیلانے کی کوشش کی تھی اور میری ہتک کی تھی اس لئے میں نے انہیں تنبیہہ کی ہے.انگریزی دستور کے مطابق گورنر نے اس جواب کو صحیح تسلیم کیا اور وہ جواب انگلستان کی حکومت کو بھجوا دیا.اس پر حکومت انگلستان نے ہمارے پاس معذرت کر دی.ہم نے اپنے مبلغ کو سمجھا دیا کہ حکومت کے افسروں سے نرمی سے برتاؤ کرنا چاہئے کیونکہ آخر اختیار اُن کے پاس ہے.اس وجہ سے اس علاقہ میں کچھ نرمی تو ہوئی مگر ہمارے مبلغ کو تبلیغ میں بہت سی وقتیں پیش آ گئیں.لیکن ہم نے صبر سے

Page 432

انوار العلوم جلد 26 380 کام لیا اور آہستہ آہستہ اپی تبلیغ کو جاری رکھا.جس میں ڈاکٹر بدرالدین صاحب کا بہت کچھ دخل تھا.چنانچہ اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اس علاقہ میں ایک جماعت گو بڑی نہیں قائم ہوگئی ہے.فلپائن جو بہت سے جزیروں کا مجموعہ ہے اس کا ایک جزیرہ برٹش بورنیو کے بالکل قریب ہے.جہاں ڈاکٹر بدرالدین صاحب رہتے ہیں ان کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ فلپائن والے ربوہ سے تو مبلغ آنے نہیں دیتے لیکن میں جو یہاں ایک ڈاکٹر کی حیثیت رکھتا ہوں اگر وہاں چلا جاؤں تو شاید میرے رستہ میں کوئی روک نہ ڈالی جائے.چنانچہ و اپنی پریکٹس کا نقصان کر کے وہاں گئے اور کچھ مہینے فلپائن میں تبلیغ کے لئے وقف کئے.کچھ لوگ تو پہلے ہی لٹریچر کے ذریعہ احمدیت کی طرف مائل ہو چکے تھے اور کچھ لوگوں کو ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے احمدی کیا اور اس کے نتیجہ میں وہاں کی جماعت تین سو سے زیادہ ہو گئی.اس جماعت کے پریذیڈنٹ وہاں کے ہی ایک دوست ہیں جن کا نام حاجی آتا ہے جو بڑی قربانی اور تبلیغ کرنے والے ہیں.ان کے ذریعہ وہاں اعلیٰ طبقہ کے لوگوں میں تبلیغ ہو رہی ہے.پچھلے سال وہاں ایک جزیرہ کا گورنر احمدی ہو گیا تھا مگر چونکہ اس علاقہ میں شورش بہت ہے اس لئے چند ماہ ہوئے اُسے قتل کر دیا گیا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ مگر اللہ تعالیٰ نے کچھ دنوں کے بعد ایک ڈپٹی کمشنر کو احمدی کر دیا.اب ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے لکھا ہے کہ حاجی ابا صاحب کو ربوہ بلوا کر کچھ مدت دینی تعلیم دی جائے تا کہ وہ واپس آ کر اس ملک میں تبلیغ کو زیادہ وسیع کر سکیں.چنانچہ میں نے تحریک جدید کو ہدایت دے دی ہے کہ ان کو یہاں بلانے کا انتظام کیا جائے.مگر تحریک جدید والوں نے مجھے اطلاع دی ہے کہ حاجی ابا صاحب نے لکھا ہے کہ چونکہ میں سرکاری ملازم ہوں میں ربوہ نہیں آسکتا.میں ایک اور نو جو ان کو تیار کر کے بھجوا رہا ہوں.جونہی اس کا پاسپورٹ بن گیا میں اسے پاکستان بھجوا دوں گا.اس عرصہ میں فلپائن کا ایک مخلص احمدی اسامه نامی (با وجود گورنمنٹ کی روکوں کے ) فلپائن سے بھاگ کر برطانوی بور نیو میں آ گیا اور وہاں سے ملایا ہوتا ہوار بوہ پہنچ گیا اور اب یہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے.اس کی

Page 433

انوار العلوم جلد 26 381 صحت کچھ خراب ہے تحریک جدید اس کا علاج لاہور میں کرا رہی ہے دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شفاء بھی دے اور پھر اپنے ملک میں کام کرنے کی توفیق بھی دے بڑی خوشی کی بات یہ ہے کہ وہاں کے زنانہ کالج کی کئی لڑکیاں بھی احمدی ہو گئی ہیں اور ان جونو جوان احمدی ہوئے ہیں اُن کا بیشتر حصہ یونیورسٹی کے طالب علموں کا ہے.اور ان میں سے ایک اور نوجوان جیسا کہ حاجی ابا صاحب نے لکھا ہے ربوہ آنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن حکومت روک پیدا کر رہی ہے.خدا کرے کہ وہ یہاں پہنچنے میں کامیاب ہو جائے اور یہاں پہنچ کر اپنے ملک میں تبلیغ کرنے کے لئے کامیاب مبلغ بن جائے.اس وقت تک وہاں احمدیوں کی تعداد خدا تعالیٰ کے فضل سے 351 تک پہنچ گئی ہے اور اس سال 54 افراد کی نئی بیعت آئی ہے.امریکہ میں زیادہ تر حبشی لوگ مسلمان ہو رہے ہیں اور ان میں سے بعض نہایت ہی مخلص ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے اس سال اپنی سالانہ کا نفرنس میں تبلیغ کرنے اور وصیت کی تحریک کو ہر احمدی تک پہنچانے کا اقرار کیا ہے.خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو اور احمدیت کو جلد تر اس ملک میں پھیلائے.اس وقت تک کچھ سفید آدمی بھی احمدیت میں داخل ہوئے ہیں جن کی تعداد 13 ہے.ان میں سے ایک کینیڈا کا ریٹائرڈ فوجی افسر ہے کینیڈا، امریکہ کا وہ حصہ ہے جو انگریزوں سے وابستہ ہے.ایک عورت جو سفید فام لوگوں میں سے احمدی ہوئی ہے اور نہایت مخلص اور تبلیغ کا جنون رکھتی ہے اس نے ہمارے مبلغ شکر الہی صاحب سے شادی کر لی ہے.اس کے والدین ابھی احمدی نہیں ہوئے.دوست دعا کریں کہ وہ بھی احمدی ہو جائیں اور اس کے خاندان میں امن قائم ہو جائے.ایک جہازوں کا کمانڈر بھی احمدی ہوا ہے.اس طرح آہستہ آہستہ سفید فام لوگوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ گئی ہے.ایک حبشی نوجوان وہاں کی ایک اعلیٰ یو نیورسٹی میں تعلیم حاصل بعد کی اطلاع ہے کہ لاہور کے ڈاکٹروں نے اس کی مرض کو تشخیص نہیں کیا اور چونکہ وہ بیماری فلپائن میں بہت ہوتی ہے اس لئے اسے واپس فلپائن بھجوا دیا گیا ہے تا کہ معلوم ہو سکے کہ اسے کیا مرض ہے اور اس کا صحیح علاج ہو سکے.

Page 434

انوار العلوم جلد 26 382 کر رہا ہے.امید ہے کہ جب وہ تعلیم سے فارغ ہو گا تو اپنے ملک میں تبلیغ کا بہت بڑا ہوگا ذریعہ ثابت ہوگا.انگلستان میں گو سب سے پہلے تبلیغ شروع ہوئی تھی مگر وہاں بہت کم لوگ احمدی ہوئے ہیں.اب موجوده امام مسجد لندن مولود احمد خان صاحب کے ذریعہ سے تعلیم یافتہ طبقہ میں تبلیغ شروع ہوگئی ہے اور چند بیعتیں بھی آئی ہیں.اب تازہ اطلاع یہ آئی ہے کہ ایک نوجوان جو پچھلے سفر میں مجھے بھی ملا تھا ایک پاکستانی احمدی مرتد نے اسے ورغلانے کی کوشش کی.اس نے مرکز انگلستان میں خط لکھا کہ فلاں پاکستانی نوجوان نے مجھے ورغلانے کی کوشش کی تھی.اگر میں نے سوچ سمجھ کر احمدیت قبول نہ کی ہوتی تو یہ شخص مجھے ورغلانے میں ضرور کامیاب ہو جاتا.لیکن میں اس کی تمام باتوں کو لغو سمجھتا ہوں.اب ایک نیا مبلغ بھی انگلستان بھیج دیا گیا ہے جو امید ہے پہنچ چکا ہو گا.میرا منشاء ہے کہ انگلستان میں دو اور مقامات پر جن کے جنوباً اور شمالاً ہر جگہ اسلام کا اثر ہو مساجد تعمیر کی جائیں.میں نے اس کے متعلق مولود احمد صاحب کو ہدایت بھجوا دی ہے مگر مولود صاحب جہاں تبلیغ میں نہایت ہی اعلیٰ ثابت ہوئے ہیں وہاں مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں ان کی ذہانت بالکل ناکام رہی ہے.چھوٹے چھوٹے کاموں پر بھی وہ بہت دیر لگا دیتے ہیں.ان کے مقابلہ میں جرمنی کے مبلغ چودھری عبد اللطیف صاحب نہایت کامیاب ثابت ہوئے ہیں.انہوں نے نہ صرف ہمبرگ میں مسجد بنائی ہے بلکہ فرینکفورٹ میں بھی جو جرمنی کا بڑا شہر ہے مسجد کے لئے زمین خرید لی ہے اور ان کا جو تازہ خط آیا ہے اس میں لکھا ہے کہ میں یہاں سے مسجد بنوانے کے لئے فرینکفورٹ جا رہا ہوں.سوئٹزر لینڈ میں شیخ ناصر احمد صاحب کام کر رہے ہیں انتظامی لحاظ سے وہ بھی مولود صاحب کی طرح بہت کمزور ہیں لیکن تبلیغی لحاظ سے بڑے اعلیٰ درجہ کے ہیں.ان کے ذریعہ سے سوئٹزرلینڈ کے ساتھ ملتے ہوئے جزیرہ اور آسٹرین علاقہ میں اسلام کی تبلیغ ہو رہی ہے اور کئی لوگ اسلامی تعلیم سے دلچسپی لے رہے ہیں.مسٹر کنزے نے جو جرمنی کے سب سے پہلے مسلمان ہیں لکھا ہے کہ وہ اس سال جلسہ سالانہ پر آنا چاہتے ہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ یہاں پہنچ گئے ہیں اور جلسہ میں

Page 435

انوار العلوم جلد 26 383 موجود ہیں.لطیف صاحب نے ان کی تعریف کی ہے اور لکھا ہے کہ تبلیغ میں یہ بہت اچھے ہیں.مگر جرمن لوگوں کی درخواست آئی ہے کہ ہمیں پاکستانی مبلغ بھیجیں.چنانچہ لطیف صاحب کی مدد کے لئے ہم ایک نیا مبلغ بھجوا رہے ہیں.سیکنڈے نیویا جو روس سے ملتا ہوا یورپین علاقہ ہے جرمنی ، ہالینڈ اور تحکیم کے شمال مشرق میں واقع ہے اور انگلستان کے شمال مشرق میں اس علاقہ کی ایک حکومت فن لینڈ کہلاتی ہے کئی لاکھ ترک اس علاقہ میں سینکڑوں سال سے بس رہا ہے.یہ لوگ گو احمدی نہیں ہوئے مگر انہوں نے احمدی مبلغ کو بلا کر تقریریں کرائی ہیں.دوسری حکومت اس علاقہ کی سویڈن کہلاتی ہے چونکہ یہ لوگ مالدار ہیں اور متعصب عیسائی ہیں اس لئے وہاں کی رہائش بڑی مہنگی ہے.ہمارا ارادہ تھا کہ سویڈن میں مسجد بنائیں لیکن ایک جرمن تو مسلم نے لکھا ہے کہ میں نے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ایک جگہ تجویز کی ہے بہتر ہوگا کہ وہاں مسجد بنائی جائے.اس کے متعلق ہم نے وہاں کے مبلغ کمال یوسف صاحب کو جو میرے سالے کے لڑکے ہیں ہدایت کر دی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر رپورٹ کریں.اگر وہ منا سب جگہ ہو تو اسے خرید لیا جائے اور مغربی افریقہ کی جماعت کو مسجد کی تعمیر کیلئے تحریک کی جائے.چونکہ ہمارے ملک کی ایکسچینج کی حالت اچھی نہیں اور حکومت پونڈ باہر نہیں جانے دیتی اس لئے مسجدوں کی تعمیر میں دقت پیش آسکتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ فضل کیا ہے کہ اس نے ہمیں مشرقی اور مغربی افریقہ میں ایسی جماعتیں دے دی ہیں جن میں سے بعض بہت مالدار ہیں.مغربی افریقہ میں بعض چیف ایسے ہیں جن کی زمینوں میں سے ہیرے کی کانیں نکلی ہیں اور مشرقی افریقہ میں احمدیت کی مدد کی تحریک اللہ تعالیٰ نے بعض سکھوں کے دلوں میں پیدا کر دی ہے.چنانچہ یوگنڈا کے علاقہ میں ایک بڑا شہر جنجہ ہے وہاں ایک مسجد کی تعمیر کے لئے ایک سکھ تاجر نے بہت سا سامان دیا ہے اور ساتھ ہی اس نے وعدہ کیا ہے کہ یوگنڈا میں جتنی مساجد بھی بنائی جائیں گی میں ان کے لئے لوہا، لکڑی اور سیمنٹ مہیا کرنے میں پوری مدددوں گا.یہ نوجوان سکھ گل قوم میں سے ہے جو قادیان کے گرد بستی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ وہ بیرونی ملکوں میں مساجد کی تعمیر کے

Page 436

انوار العلوم جلد 26 384 سلسلہ میں غیر مسلموں کے دلوں میں بھی امداد کی تحریک کر رہا ہے.گو وہ جماعتیں امیر ہیں لیکن اتنی امیر نہیں کہ سارے علاقوں میں مساجد تعمیر کر سکیں.ایک نو جوان مشرقی افریقہ سے آیا تھا.اس نے کہا کہ اس سکھ نوجوان نے اتنی مدد کی ہے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ مسجد کا افتتاح اس سے کروایا جائے.میں نے اس کے متعلق شیخ مبارک احمد صاحب سے جو وہاں کے رئیس التبلیغ ہیں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہاں غیر مسلموں کے متعلق اتنا تعصب ہے کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ہماری تبلیغ کے رستہ میں بڑی مشکلات پیش آجائیں گی.چنانچہ سوچ کر ہم نے یہ تجویز نکالی کہ مسجد کا افتتاح تو احمدی مبلغ کرے مگر افتتاحی تقریب کا صدر اس سکھ کو بنا دیا جائے تا کہ وہ اسلام کے اور زیادہ قریب آ جائے اور اس کا دل بھی خوش ہو جائے کہ اس کی قدر کی گئی ہے.اس جلسہ کے موقع پر ماریشس کی جماعت کا ایک نمائندہ بھی آیا ہوا ہے.جس نے ابھی میری اجازت سے اپنی جماعت کی طرف سے ایڈریس پڑھا ہے.یہ جماعت میری خلافت کے ابتدا میں قائم ہوئی تھی.اب وہاں کئی فتنے پیدا ہورہے ہیں اور ماریشس کے احمدی ان کا مقابلہ کر رہے ہیں مگر چونکہ حکومت بھی مخالف ہے اس لئے کچھ دقتیں پیدا ہو رہی ہیں کہ ماریشس سے پہلے سیلون میں جماعت قائم ہوئی تھی اور سیلون کے مبلغ یعنی حافظ صوفی غلام محمد صاحب کو ہی میں نے ماریشس بھجوایا تھا.سیلون میں بھی بعض فتنے پیدا ہورہے ہیں اور تامل بولنے والے ہندوستانی بڑی مخالفت کر رہے ہیں جو وہاں کثرت سے ہیں.گوملک کے اصلی باشندوں کی زبان سنہا لیز ہے.مجھے ایک خواب میں بتایا گیا تھا کہ سنہا لیز زبان کی طرف توجہ کرو.چنانچہ اس زبان میں ہمارے مبلغ نے وہاں لٹریچر شائع کیا.پہلے یہ خیال کیا گیا تھا کہ زبان کا نام سنگھالی ہے مگر بعد میں پتا لگا کہ اس کا نام جیسا کہ خواب میں بتایا گیا تھا سنگھالی نہیں سنہا لیز ہے.وہاں کے اصلی باشندے بھی یہی زبان بولتے ہیں.اور چونکہ ہماری پالیسی یہ ہے کہ اصل باشندوں کی تائید کی جائے اس بعد میں وہاں کے گورنر کی چٹھی دفتر تبشیر میں آئی جس میں خود اس نے اپنی تجاویز بتائی ہیں جن سے ان کی مشکلات بھی دور ہو جائیں اور قانون کے اعتراضات بھی نہ رہیں.

Page 437

انوار العلوم جلد 26 385 لئے میں نے مبلغ کو تاکید کی تھی کہ سنہالیز زبان میں لٹریچر شائع کیا جائے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اصل باشندے تو ہماری تائید میں ہو گئے مگر تامل بولنے والے ہندوستانی جو اکثریت میں ہیں ہمارے خلاف ہو گئے اب پیغام آیا ہے کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ یہاں کی مشکلات دور کرے اور جماعت کو مسجد بنانے کی توفیق دے.اس امر کا ذکر کر دینا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قادیان جانے میں پاکستانی احمدیوں کے لئے بڑی مشکلات ہیں.پہلے جلسہ سالانہ کے موقع پر کئی کئی سو آدمی قادیان چلا جاتا تھا لیکن چند سال سے ہندوستان کی حکومت نے ویزا دینے سے انکار کر دیا ہے.چنانچہ اس سال بھی احمدی وہاں نہیں جا سکے.مگر حال ہی میں ہندوستان کی حکومت نے پاکستانی حکومت کی وساطت سے لکھا ہے کہ اب وہ ویزا دینے کے لئے تیار ہے.چونکہ قادیان کا جلسہ سالانہ اب گزر چکا ہے اس لئے حکومت ہندوستان کے ویزا دینے سے اب کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.ہندوستان کی اس تنگ دلی پر ہمیں بہت افسوس ہے.اس سال پاکستان گورنمنٹ نے سینکڑوں سکھوں کو ویزا دیا تھا اور وہ ننگا نہ دیکھ کر گئے ہیں.اسی طرح اگر ہر سال جلسہ سالانہ پر احمدی قادیان جائیں تو ہندوستان کی 45 کروڑ آبادی کی حکومت ہے اُس کا وہ نقصان ہی کیا کر سکتے ہیں بلکہ قادیان کی اردگرد کی سکھ آبادی احمدیوں کی تائید میں ہے.اگر علاقہ کے لوگ احمدیوں سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تو حکومت با وجود اتنی بڑی ہونے کے کیوں محسوس کرتی ہے.ایک سکھ نے جو بڑا اثر رکھتا ہے اور وہ کانگرس کا بھی ممبر رہ چکا ہے لکھا ہے کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ جلسہ کے موقع پر مجھے پاکستان آنے کی اجازت مل جائے.اگر میں پاکستان آیا تو ربوہ آنے کی کوشش کروں گا.وہ اپنی قوم میں بھی اور کانگرس میں بھی بااثر آدمی ہے.اگر اللہ تعالیٰ اس کا دل کھول دے تو ممکن ہے کہ وہ کوشش کر کے احمدیوں کے متعلق حکومت کے رویہ کو بدل دے.احمدی جماعت سیاسی جماعت کبھی نہیں ہوئی.وہ ساری دنیا میں صرف مذہبی کام کرتی ہے.زیادہ تر احمدی پاکستان میں رہتے ہیں مگر یہاں بھی کبھی اس نے کسی سیاسی پارٹی سے تعلقات قائم نہیں کئے.انہیں صرف اپنے اصول کے مطابق حکومت سے تعاون کرنا آتا ہے.

Page 438

انوار العلوم جلد 26 386 اس موقع پر مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.1953 ء میں جبکہ سارے پنجاب میں فساد تھا حکومت کے پاس رپورٹیں کی جاتی تھیں کہ احمد یوں نے اپنے بچاؤ کے لئے بڑا سامان رکھا ہوا ہے اس لئے گورنمنٹ کی طرف سے کبھی کبھی سی آئی ڈی کے افسر ربوہ آ جاتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ ایک سی آئی ڈی کا افسر آیا.ایک پٹھان لڑکے کو اُس نے دیکھا کہ وہ بیوقوف سا ہے اور اس کی تعلیم اچھی نہیں ہے اس لئے اُس نے خیال کیا کہ اس نوجوان سے بات معلوم ہو جائے گی.چنانچہ اُس نے اسے کہا کہ تم مجھے وہ جگہ دکھاؤ جہاں تم نے لڑائی کا سامان رکھا ہوا ہے.اس لڑکے نے کہا تم میرے ساتھ آ جاؤ.چنانچہ اس لڑکے نے اس سی آئی ڈی کے افسر کو ساتھ لیا اور ایک مسجد میں لے گیا.وہاں قرآن کریم کا درس ہو رہا تھا.اس لڑکے نے کہا یہ ہماری لڑائی کی تیاری ہے.اس افسر نے کہا یہ کیا تیاری ہے میں نے تو پوچھا تھا کہ وہ جگہ دکھاؤ جہاں تمہارے ہتھیار پڑے ہوئے ہیں.وہ لڑکا اُسے پھر ایک اور مسجد میں لے گیا وہاں بھی قرآن کریم کا درس ہو رہا تھا.اس افسر نے کہا تم نے پھر غلطی کی ہے تم مجھے وہ جگہ بتاؤ جہاں تم نے مقابلہ کے لئے سامان جمع کیا ہوا ہے.تم لوگ کمزور ہو اس لئے تم نے مقابلہ کے لئے ضروری تیاری کی ہوگی.وہ لڑکا کہنے لگا اچھا آؤ میں تمہیں اور جگہ دکھاؤں جہاں ہمارا فوجی سامان پڑا ہے.وہ افسر خوش ہو گیا اور اس کے ساتھ ہولیا.چنانچہ وہ پھر اسے ایک اور مسجد میں لے گیا.وہاں بھی قرآن کریم کا درس ہورہا تھا.وہ افسر کہنے لگا تم مجھے پھر ایسی جگہ لے آئے ہو جہاں قرآن کریم کا درس ہو رہا ہے.اس لڑکے نے کہا ہمیں تو یہی فوجی سامان دیا جاتا ہے اور یہ میں نے تمہیں دکھا دیا ہے باقی رہا ظاہری سامان سو ہمیں تو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ سر جھکاؤ اور مارکھا ؤ.یہ کہہ کر اس نے اپنے سر سے ٹوپی اُتاری اور اپنے سر پر چپت مار کر سر جھکا لیا اور کہا کہ ہمیں تو بس یہی سکھایا جاتا ہے کہ مخالف کے آگے اپنا سر جھکا دو.وہ افسر کہنے لگا اس طرح تو لوگ تمہیں مار دیں گے وہ پٹھان لڑکا کہنے لگا پھر کیا ہو گا ہمیں شہادت ہی نصیب ہوگی اور کیا ہو گا.اس پر وہ افسر مایوس ہو کر چلا گیا.وہ افسر سمجھتا ہو گا کہ شاید یہ لڑکا بہت بیوقوف ہے لیکن تھا وہ بڑا عقلمند.دین کے لئے

Page 439

انوار العلوم جلد 26 387 مارا جانا عزت کی بات ہوتی ہے ذلت نہیں ہوتی قرآن کے ذریعہ مقابلہ کرنا ہی سب سے بڑا ہتھیار ہے.تلوار اور بندوق قرآن کریم کے مقابلہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی.جس کے ساتھ قرآن ہے اس کے ساتھ سب کچھ ہے.اور جس کے ساتھ قرآن نہیں ساری دنیا کے توپ خانے ، ہوائی جہاز اور گولہ بارود بھی اُس کے پاس موجود ہوں تو اُسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتے.جس کے پاس قرآن کریم ہے اور جس کے پاس خدا ہے اُسے دنیا کے کسی توپ خانے ، ہوائی جہاز ، بندوقوں اور تلواروں کی ضرورت نہیں کیونکہ دنیوی توپ خانے ، بندوقیں اور تلوار میں خدا تعالیٰ کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.اس زمانہ میں ہوائی جہاز ، تو ہیں اور بندوقیں ہیں لیکن کسی زمانہ میں صرف تلوار اور نیزہ سے ہی کام لیا جاتا تھا اور سپاہیوں کی کثرت اور تنظیم کے ساتھ دنیا پر حکومت کی جاتی تھی.اُس زمانہ میں ایران کے ایک بادشاہ کو مدینہ کے یہودیوں نے ورغلایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذہب پھیلتا جا رہا ہے اور یہ عربوں کو اُکسا کر ان پر حملہ کرنا چاہتا ہے.اس سے وہ دھوکا میں آ گیا اور اس نے یمن کے گورنر کو لکھا کہ تم کچھ آدمی مدینہ بھیج کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو.گورنر نے کچھ آدمی مدینہ بھیجے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے آئیں.وہ آدمی وہاں گئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورنر یمن کا پیغام دے دیا.آپ نے فرمایا ابھی کچھ ٹھہر وہم پھر جواب دیں گے.چنانچہ تین دن آپ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے اور ان سپاہیوں کو ٹلاتے رہے.تیسرے دن سفیروں نے جواب پر پھر اصرار کیا.اُس وقت تک آپ پر وحی نازل ہو چکی تھی اور حقیقت حال بتائی جا چکی تھی.آپ گھر سے باہر نکلے اور سفیروں کو بلایا اور فرمایا جاؤ اور اپنے گورنر سے کہہ دو کہ میرے خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اُس نے آج رات ایران کے بادشاہ کو مروا دیا ہے.جب گورنر یمن کے سفیروں نے یہ بات سنی تو انہوں نے نادانی سے یہ سمجھا کہ انہیں پتا نہیں ایران کے بادشاہ کی کیا حیثیت ہے.اگر اس کو یہ جواب پہنچا تو وہ سارے عرب کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گا اس لئے انہوں نے کہا آپ اپنے آپ پر، اپنے قبیلہ پر اور اپنے ملک پر رحم کریں.گورنر نے وعدہ کیا ہے کہ اگر بغیر مزاحمت کے

Page 440

انوار العلوم جلد 26 388 آپ ساتھ آجائیں تو وہ بادشاہ کے پاس رحم کی درخواست کرے گا.لیکن آپ نے فرمایا تم جاؤ اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ گورنر تک پہنچا دو.چنانچہ وہ لوگ واپس چلے گئے اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام گورنر یمن تک پہنچا دیا.وہ عقلمند آدمی تھا اس نے جب یہ جواب سنا تو کہنے لگا اگر یہ بات درست ثابت ہوئی تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہے.اور اگر اس نے یہ بات اپنے پاس سے کہی ہے تو پھر خدا ہی عرب پر رحم کرے.میں کچھ دیر انتظار کروں گا اور ایران کی تازہ خبروں کو دیکھ کر فیصلہ کروں گا.گورنر کا دربار سمندر کے سامنے تھا.چند دنوں کے بعد ایران کا ایک جہاز آیا اور یمن کے ساحل پر اس نے لنگر ڈال دیا.اس جہاز سے ایک افسر اتر کر آیا اور اس نے گورنر کو بادشاہ ایران کا ایک خط دیا.گورنر نے جب اُس حکم نامہ کو دیکھا تو لفافہ پر ایک نئے بادشاہ کی مہر تھی پرانے بادشاہ کی مہر نہیں تھی.اُس نے سفیروں کی طرف دیکھ کر کہا مدینہ والا آدمی سچا نبی معلوم ہوتا ہے.لفافہ پر دوسرے بادشاہ کی مہر ہے.یہ کہہ کر اس نے لفافہ کھولا.اس میں ایران کے نئے بادشاہ کا حکم نامہ تھا اور اس میں لکھا تھا کہ ہمارا باپ چونکہ سخت ظالم تھا اس لئے آج رات ہم نے اسے مار دیا ہے اور خود با دشاہ بن گئے ہیں.اس لئے اب تم ہماری اطاعت کا اپنے افسروں سے اقرار لو.اور یہ بھی یا درکھو کہ ہمارے باپ نے تمہیں حکم دیا تھا کہ مدینہ کے مدعی نبوت کو گرفتار کر کے میرے پاس بھجوا دو.میں اس ظالمانہ حکم کو بھی منسوخ کرتا ہوں !.اب مدینہ کے مدعی کو کچھ نہ کہو.گورنر یمن پر اس کا ایسا اثر ہوا کہ وہ فوراً ایمان لے آیا اور اس پر ایسی پختگی سے قائم رہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب عرب میں ارتداد پھیلا اور یمن کے علاقہ میں بھی اس کا اثر پہنچا تو اس گورنر نے بڑے اخلاص سے ارتداد کا مقابلہ کیا اور حضرت ابوبکر کی بیعت کر لی.اُس زمانہ میں ایران کی حکومت امریکہ کی موجودہ حکومت سے زیادہ طاقت ور تھی لیکن خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کو سنا اور ایران کے بادشاہ کو اس کے بیٹے کے ہاتھوں مروا دیا اور بتا دیا کہ سب طاقتوں سے بڑی طاقت میں ہوں.پچھلے سال جلسہ سالانہ پر میں نے تحریک کی تھی کہ دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں

Page 441

انوار العلوم جلد 26 389 کسی نیک صورت سے قادیان دلوا دے مگر کراچی کے ایک اخبار نے میری اس تقریر کی غلط رپورٹ شائع کر دی اور لکھا کہ ہم قادیان کو تلوار کے زور سے فتح کرنا چاہتے ہیں.اور ہائی کمشنر آف انڈیا نے یہ شکایت کی کہ اس سے تو معلوم ہوتا ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہندوستان کے متعلق بر ارادے ہیں حالانکہ یہ بات بدیہی طور پر غلط تھی.تلوار تو ہمارے ہاتھ میں ہے ہی نہیں اس لئے ہم تلوار کے زور سے قادیان کو کس طرح فتح کر سکتے ہیں.تلوار تو پاکستان کی حکومت کے ہاتھ میں ہے اور وہ ہمارے ماتحت نہیں ہم اس کے ماتحت ہیں.اس حکومت کے فیصلہ کرنے والے اور لوگ ہیں.قادیان کے دروازے اگر گھلے تو وہ اللہ تعالیٰ ہی کھولے گا اور خدا تعالیٰ اپنے کام فرشتوں کے ذریعہ کیا کرتا ہے جنہیں نہ تلواروں کی ضرورت ہے اور نہ انسانی مدد کی ضرورت ہے.جب اللہ تعالیٰ پاکستان پر مہربان ہوگا اور اس پر فضل کرنا چاہے گا تو وہ علاقے جہاں سے لوگ ہجرت کر کے آئے ہیں پاکستان کو دلوا دے گا.مگر یہ کب ہوگا خدا تعالیٰ کو ہی معلوم ہے.بہر حال خدا تعالیٰ جلد یا بدیر ہندوستان کی حکومت کو سمجھ دے دے گا کہ وہ ہندوستان کی جماعت احمدیہ کے ساتھ سختی نہ کرے جو بہت پُر امن جماعت ہے.اور پاکستان کے ساتھ بھی جھگڑا نہ کرے کیونکہ پاکستان زور سے کام نہیں لینا چاہتا بلکہ دلیل اور عقل سے کام لینا چاہتا ہے.اب میں زراعت کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.غلہ کی زیادتی کا تعلق اتنا سیاست سے نہیں جتنا مذ ہب سے ہے.ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ غلہ کم پیدا ہورہا ہے اور زرمبادلہ بے حد خرچ ہورہا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملک غلہ زیادہ اگاؤ پر زور دے رہے ہیں.مگر غلہ کے زیادہ ہونے کا تعلق آسمانی تدبیروں سے ہے زمینی تدبیروں سے نہیں.جماعت احمدیہ کی کثرت چونکہ پاکستان میں ہے اس لئے ہماری جماعت کے زمینداروں کو بھی غلہ زیادہ پیدا کرو“ کی کوشش میں گورنمنٹ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے کیونکہ اگر ملک کی اقتصادی حالت اچھی ہوگی تو جماعت کو بھی اس کا فائدہ پہنچے گا.مگر جیسا کہ میں نے کہا ہے اس کوشش کا تعلق آسمانی تدبیروں سے زیادہ ہے.پس ظاہری تدبیر کے علاوہ ہماری جماعت کو دعا سے بھی بہت کام لینا چاہئے تا خدا تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور اپنے -.

Page 442

انوار العلوم جلد 26 390 فضل سے اس کی فصلوں میں برکت دے تا کہ ہمارے ملک کی مصیبت دور ہو اور اس کی وجہ سے ہی ہماری مصیبت بھی دور ہو.میرا قرآن کریم میں زراعت کے متعلق ایک اصول بیان فرمایا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِ سُنبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ 2 اس آیت میں زراعت میں ترقی کے امکانات پر بحث کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ بعض حالات میں یہ ممکن ہے کہ ایک دانہ سات بالیں نکالے اور ہر بالی میں ایک سو دانہ ہو.یعنی ایک دانہ 700 گنا ہو جائے.پھر اس پر بس نہیں اللہ تعالیٰ چاہے تو اس سے بھی زیادہ بڑھا دے.اس اصول کے مطابق دیکھا جائے تو چونکہ ہمارے ملک میں عام طور پر فی ایکڑ 30 سیر پیج ڈالا جاتا ہے اگر ایک دانہ سے 700 دانہ تک کی پیداوار ہو تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ ایک ایکڑ سے 30x700 یعنی 21000 سیرا ناج پیدا ہوگا اور یہ 525 من بنتے ہیں.گویا قرآنی اصول کے مطابق 525 من فی ایکڑ پیداوار ہو سکتی ہے اور آیت ظاہر کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ چاہے تو اسے اور بھی بڑھا سکتا ہے.لیکن اگر یہی اوسط سارے پاکستان میں پیدا ہونے لگ جائے اور جو زیادتی کا وعدہ ہے وہ نہ بھی پورا ہو تب بھی پاکستان کی کاشت ہونے والی زمین کے لحاظ سے 24، 25 ارب من صرف گندم پیدا ہو سکتی ہے.چاول وغیرہ اس کے علاوہ ہیں.اگر اتنا ہی ان کو سمجھ لیا جائے تو پچاس ارب من غلہ سالانہ پیدا ہوسکتا ہے.مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں کو ملا کر ہمارے ملک کی کل آبادی آٹھ کروڑ ہے.اور حساب کی رو سے صرف چھ من گندم سالانہ فی کس خرچ ہوتی ہے.جس کے معنے یہ ہیں کہ ہمیں سالانہ اڑتالیس کروڑ من غلہ کی ضرورت ہے.لیکن ہمارے ملک میں 50 ارب من غلہ پیدا ہو سکتا ہے جو ضرورت سے سو گنے سے بھی زیادہ ہے اور 8 ارب آدمیوں کے لئے کافی ہو سکتا ہے.گویا پاکستان جس کی آبادی گل آٹھ کروڑ ہے اس کو سارا سال خوراک دے کر اتنا غلہ اور چاول بیچ سکتا ہے کہ غیر ملکوں میں بھیج کر اس سے کروڑوں کروڑ پونڈ زر مبادلہ کمایا جائے.مگر ضرورت یہ ہے کہ بچے طور پر محنت کی جائے

Page 443

انوار العلوم جلد 26 391 اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کی جائیں اور جن ملکوں نے زراعت میں ترقی کی ہے ان کی نقل کی جائے.ہمارا زمیندار محنت سے جی چراتا ہے ورنہ وہ ایک دوا یکڑ کا مالک ہو کر بھی بڑے اعلیٰ درجہ پر اپنے خاندان کو پال سکتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں قادیان میں سیر کے لئے گیا.میرے ساتھ اور بھی بعض دوست تھے ہم بسراواں کی طرف جا رہے تھے.عام طور پر مجھے اپنے کھیتوں کا بھی پتا نہیں ہوتا کہ کہاں ہیں.چنانچہ ایک گواہی میں مجھ سے میرے ایک رشتہ دار نے ایک ایسے کھیت کے متعلق سوال کیا جہاں سے میں اکثر گزرا کرتا تھا اور پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟ میں نے کہا مجھے تو علم نہیں.اس پر اُس کا وکیل ہنس پڑا.اُس کا مطلب یہ تھا کہ گویا میں جھوٹ بول رہا ہوں.اس نے کہا کیا آپ جلسہ پر جاتے ہوئے اس رستہ سے نہیں گزرتے ؟ میں نے کہا ہاں میں اسی رستہ سے گزرتا ہوں.اُس نے کہا پھر آپ کو اس کھیت کا علم کیوں نہیں؟ میں نے کہا مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں.میں نے زمین کا کام اپنے بھائی کے سپرد کیا ہوا ہے خود مجھے علم نہیں کہ میری زمین کہاں ہے.بلکہ ممکن ہے میرے بھائی کو بھی اس کھیت کا علم نہ ہو کیونکہ وہ بھی سارا دن دین کے کاموں میں لگے رہتے ہیں لیکن بہر حال مجھے تو بالکل پتا نہیں.وکیل نے عدالت کو کہا کہ دیکھئے ! اُس کا مطلب یہ تھا کہ یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے.وہ وکیل غیر احمدی ہے اور اب تک زندہ ہے بعد میں مجھے ملا تو کہنے لگا مجھے آپ کے حالات کا علم نہیں تھا اس لئے میں نے اس قسم کا سوال کر دیا.بعد میں معلوم ہوا کہ جو کچھ آپ نے کہا تھا وہ بالکل ٹھیک تھا کیونکہ آپ اس طرف توجہ ہی نہیں کرتے بلکہ دین کے کاموں میں ہی لگے رہتے ہیں.تو بسراواں جاتے ہوئے میں ایک کھیت کے پاس سے گزرا.میں نے اسے دیکھ کر کہا کہ یہ کھیت کسی سکھ کا معلوم ہوتا ہے.میرے ساتھی کہنے لگے آپ کو یہ کس طرح پتا لگ گیا کہ یہ کھیت کسی سکھ کا ہے؟ میں نے کہا اچھا کسی زمیندار کو بلا ؤ اور اس سے پوچھو.چنانچہ ایک زمیندار کو بلایا گیا اور اُس سے دریافت کیا گیا کہ یہ کھیت کس کا ہے.تو اس نے بتایا کہ یہ کھیت فلاں سکھ کا ہے.پھر میں نے کہا یہ ساتھ والا کھیت کسی مسلمان کا ہے.اور اس زمیندار نے اس بات کی بھی تصدیق کی ، ساتھ والے

Page 444

انوار العلوم جلد 26 392 کہنے لگے آپ کو یہ کس طرح پتا لگ گیا کہ یہ کھیت کسی سکھ کا ہے اور ساتھ والا کسی مسلمان کا ہے؟ میں نے کہا مجھے پتا ہے کہ سکھ محنت کرتا ہے اور مسلمان اپنے کھیت میں سارا دن حقہ پیتا رہتا ہے اس لئے مسلمان کی فصل خراب ہوتی ہے اور سکھ کی فصل اچھی ہوتی ہے.چنانچہ اس تجربہ کے ماتحت جب میں نے عمدہ فصل دیکھی تو میں نے سمجھ لیا کہ یہ کسی سکھ کا کھیت ہے.اور جب میں نے اس کے ساتھ ہی ایک رڈی فصل دیکھی تو میں نے سمجھا کہ یہ کسی مسلمان کا کھیت ہوگا.چنانچہ اس کی تصدیق بھی ہوگئی.اصل بات یہ ہے کہ ہمارا زمیندار محنت سے جی چراتا ہے اور حقہ وغیرہ میں زیادہ وقت صرف کرتا ہے.میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ ہمارا مزدور عمارت بناتے ہوئے اینٹ اٹھاتا ہے تو اُس کی یہ حالت ہوتی ہے کہ گویا اُس کی کمر ٹوٹی ہوئی ہے.وہ آہستہ آہستہ جا کر ایک اینٹ کو اٹھاتا اور پھر اُسے پھونک مار مار کر صاف کرتا ہے.پھر ٹوکری میں بڑے اطمینان سے رکھتا ہے.پھر دوسری اینٹ اٹھاتا ہے اور اس کے ساتھ بھی یہی کچھ کرتا ہے.اور پھر کوئی آدھ گھنٹہ میں ایک ٹوکری اٹھا کر معمار کے پاس پہنچتا ہے.جب میں 1924ء میں انگلستان گیا تو ایک دن میں حافظ روشن علی صاحب سے میں نے کہا کہ کیا آپ نے یہاں کوئی عمارت بنتے دیکھی ہے؟ کہنے لگے ہاں دیکھی ہے.میں نے کہا کیا اس جگہ میں اور ہمارے ملک میں کوئی فرق ہے؟ کہنے لگے اس ملک میں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی عمارت کو آگ لگی ہوئی ہے اور یہ لوگ اسے بجھانے کے لئے جارہے ہیں لیکن ہمارے ملک میں مزدور کیا اور معمار کیا سب اس طرح کام کرتے ہیں کہ گویا انہوں نے افیون کھائی ہوئی ہے.اگر زمیندار محنت سے کام کریں تو ایک ایکڑ کا مالک بھی بڑی اچھی طرح اپنے خاندان کو پال سکتا ہے.مختلف ممالک میں پیداوار کا جو اندازہ لگایا گیا ہے اس کے مطابق یورپ کے ملکوں میں اٹلی کی آمد سب سے کم ہے لیکن وہاں بھی 1400 روپیہ فی ایکٹر آمد ہے.ہالینڈ میں تین ہزار روپے فی ایکڑ آمد ہے اور جاپان میں چھ ہزار فی ایکڑ آمد ہے.چونکہ ساری زمین کا 1/3 حصہ زیر کاشت لایا جاتا ہے اس لئے اٹلی کے لحاظ سے ساری مملوکہ زمین پر 450 روپے فی ایکڑ آمد ہونی چاہئے.اور ہالینڈ کی آمد کے حساب سے

Page 445

انوار العلوم جلد 26 393 ساڑھے سات سو روپیہ فی ایکٹر آمدنی ہونی چاہئے.اور جاپان کے لحاظ سے دو ہزار روپیہ فی ایکٹر آمد ہونی چاہئے.تم سمجھ لو کہ اگر ہمارے ملک کے زمیندار اٹلی ، ہالینڈ اور جاپان کے زمینداروں جتنی محنت کریں تو ہمارا ملک کس قدر مالدار ہوسکتا ہے.اور ہماری جماعت کی تبلیغی کوششیں کتنی وسیع ہو سکتی ہیں.اگر ہمارے ملک کی پیدا وار اٹلی جتنی بھی ہو تو جماعت کی موجودہ مقدار کے لحاظ سے ہمارا سالانہ چندہ اتنی لاکھ یا ایک کروڑ کے قریب ہو جاتا ہے.اور جوں جوں جماعت بڑھتی جائے گی چندہ بھی بڑھتا جائے گا.اور ایک کروڑ سالانہ کی آمد پر ہم اسلام کو ساری دنیا پر غالب کرنے میں بڑی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں.پھر بڑی سہولت تو یہ ہے کہ اگر اس قدر پیداوار بڑھ جائے تو پاکستان کے پاس زر مبادلہ اس قدر بڑھ جائے گا کہ وہ ہمیں مبلغوں کو بھیجنے کے لئے زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ دے سکے گا اور ان کی تبلیغ بڑی وسیع ہو جائے گی.اور اگر باہر والے بھی کوشش کریں تو اُن کی مدد سے یورپ کے ہر بڑے شہر میں مساجد بن سکتی ہیں.اور یورپ جواب تثلیث کا گڑھ ہے آئندہ تو حید کا علمبر دار ہو جائے گا.اور حضرت عیسی علیہ السلام کی حکومت کی بجائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو جائے گی.اور واحد خدا کی تبلیغ اس طرح روس میں کامیاب ہو جائے گی جس طرح آج کل دہریت کی تبلیغ کامیاب ہو رہی ہے.زراعت کی زیادہ پیداوار کے لئے کھاد کی ضرورت پر بھی زور دیا جاتا ہے.خصوصا مصنوعی کھاد پر بہت زیادہ زور دیا جاتا ہے.دو سال ہوئے امریکہ سے کچھ ماہرینِ زراعت آئے تھے.میں نے پاکستان کے بعض ماہرین زراعت کو اُن کے پاس بھیجا تھا.انہوں نے کہا کہ تمہارے ملک میں مصنوعی کھا د غلط طریق پر استعمال کی جاتی ہے.ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اگر مصنوعی کھاد میں نباتاتی یا حیوانی کھاد زیادہ مقدار میں نہ ملائی جائے تو مصنوعی کھاد سے زمین خراب ہو جاتی ہے اور پیداوار ترقی نہیں کرتی.اور امریکہ کا پرانا تجربہ یہ بھی ہے کہ نباتاتی کھاد کے لئے برسیم کی بجائے جس پر ہمارے ملک میں زور دیا جاتا ہے سورج مکھی کی کاشت پر زور دیا جائے.اور جب سورج مکھی کی فصل کچھ بڑی ہو جائے تو بل کے ذریعہ زمین میں دفن کیا جائے تا کہ اس میں نباتاتی کھاد پہنچ جائے.اُس وقت مصنوعی کھاد

Page 446

انوار العلوم جلد 26 394 کی ایک دو ٹوکریاں بھی ڈال دی جائیں تو وہ بہت مفید ثابت ہوتی ہے.برسیم بے شک بہت اعلیٰ قسم کی کھاد ہے لیکن برسیم کا زیادہ مقدار میں پیدا کرنا بڑی محنت چاہتا ہے.وہ صرف چند کنال میں ہوئی جاسکتی ہے اس لئے اگر وہ برسیم سے دس حصے کم بھی فائدہ دیتی ہو تب بھی چونکہ ہزاروں ہزارا یکڑ میں بوئی جاسکتی ہے اس لئے ملک کو حقیقی فائدہ برسیم کی نسبت کئی سو گنے زیادہ پہنچ سکتا ہے.پس ہماری جماعت کو سورج مکھی کے بونے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ عام طور پر جون میں ہوئی جاتی ہے.اور پھر جب اس کے پودے زمین سے کچھ اوپر نکل آئیں تو اسے زمین میں دفن کر دینا چاہئے اور اپنے وقت پر تھوڑی سی مصنوعی کھا د بھی ڈال دینی چاہئے.امریکہ کے لوگ سورج مکھی سے نہ صرف کھاد کا کام لیتے ہیں بلکہ اس سے مرغی خانے اور ڈیری فارم بھی چلاتے ہیں.مرغیاں اس کے بیج کے کھانے سے انڈے زیادہ دیتی ہیں اور گائے اسے کھائے تو اس کا دودھ بڑھ جاتا ہے.میں آئندہ کے لئے یہ بھی اعلان کر دینا چاہتا ہوں کہ ہر سال جو جماعت ” غلہ زیادہ اگاؤ کی مہم میں فرسٹ آئے گی جلسہ سالانہ پر اس کے نام کا اعلان کیا جائے گا تا کہ دوسری جماعتوں میں بھی شوق پیدا ہو.اب میں تحریک جدید اور وقف جدید کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.تحریک جدید کو قائم ہوئے 25 سال ہو چکے ہیں لیکن وقف جدید کو قائم ہوئے ابھی ایک سال ہوا ہے وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی درخواستیں برابر چلی آرہی ہیں مگر ابھی یہ تعداد بہت کم ہے.وقف جدید میں شامل ہونے والے لوگ کم سے کم ایک ہزار ہونے چاہئیں.اگر دس ہیں ہزار ہوں تو اور بھی اچھا ہے.اگر ہماری جماعت کے زمینداراپنی آمد نہیں بڑھا ئیں تو وقف جدید کے چندے بھی بڑھ جائیں گے اور وہ مزید آدمی رکھ سکیں گے.اس وقت 80 آدمی کام کر رہے ہیں.پچھلے سال 70 ہزار کے وعدے آئے تھے جس میں سے اکثر حصہ وصول ہو چکا ہے اور یہ صیغہ اپنا کام عمدگی سے کر رہا ہے.اور ترقی ہوئی تو اس کا کام اور بھی بڑھ جائے گا.اس تحریک کے ذریعہ اس سال 400 بیعتیں آئی ہیں جبکہ اصلاح وارشاد کے ذریعہ صرف 54 بیعتیں آئی ہیں.پس یہ نہایت مبارک کام ہے.چونکہ وقف جدید میں پرائمری اور

Page 447

انوار العلوم جلد 26 395 یڈل پاس لڑکے بھی لئے جا سکتے ہیں اس لئے ہماری جماعت جو باقی سب جماعتوں سے تعلیم میں بہت زیادہ ہے وہ آسانی کے ساتھ اس تعلیم والے دس پندرہ ہزار مبلغ پیش کرسکتی ہے.امید ہے کہ جماعت کے افراد اس طرف خاص توجہ کریں گے اور ملک کی جہالت کو دور کرنے میں مددکریں گے.مجھے بعض لوگوں کی درخواستیں آتی ہیں لیکن ان میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ میں اپنا لڑکا جس کی عمر اڑھائی سال کی ہے وقف جدید میں پیش کرتا ہوں.حالانکہ جو بچہ اڑھائی سال کا ہے اور جو بولتا بھی نہیں اس نے تبلیغ کیا کرنی ہے یا تعلیم کیا دینی ہے.بے شک ہم نے تعلیم کا معیار کم رکھا ہے لیکن عمر کم نہیں کی.بڑا آدمی ہو تو چاہے وہ پرائمری پاس ہی ہو کام کر سکتا ہے لیکن جو شخص اپنا اڑھائی سال کا بچہ وقف کرتا ہے وہ دین پر جھوٹا احسان کرتا ہے.امید ہے کہ جماعت کے افراد اس طرف خاص توجہ کریں گے اور ملک کی جہالت کو دور کرنے میں مدد کریں گے.اسی طرح ملک کی بیماریوں کے دور کرنے میں بھی مدد کریں گے کیونکہ وقف جدید کے واقفین اپنے علاقہ میں تعلیم بھی دیتے ہیں اور بیماروں کا دیسی اور ہومیو پیتھک علاج بھی کرتے ہیں.گو حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ہمیں کافی ڈاکٹر مل گئے ہیں لیکن ہمارے ملک کی آبادی کے لحاظ سے ان کی تعداد بھی کافی نہیں.چنانچہ میرے پاس کئی احمدی ڈاکٹروں کے خط آتے ہیں کہ ہماری عمر ریٹائر ہونے کے قریب پہنچ چکی ہے لیکن محکمہ ہمیں ریٹائر نہیں کرتا.جس سے پتا لگتا ہے کہ ابھی محکمہ کے پاس کافی ڈاکٹر نہیں.اگر کافی ڈاکٹر ہوں تو ریٹائر ہونے کی عمر تک پہنچنے پر انہیں ریٹائر کیوں نہ کرے.یورپ کے بعض ملکوں میں فی سو آدمی ایک معالج ہوتا ہے.ہمارے ملک کی آبادی آٹھ کروڑ ہے.اس لحاظ سے ہمارے پاس تو ایک لا کھ معالج ہونا چاہئے.انگلستان میں سب سے کم معالج ہیں.وہاں دو ہزار پر ایک معالج ہے.پس انگلستان کے لحاظ سے بھی ہمارے پاس چالیس ہزار معالج ہونا چاہئے.ہومیو پیتھک اور دیسی طب میں یہی فائدہ ہے کہ ایک تو علاج سستا ہو جاتا ہے دوسرے کثرت سے معالج مہیا ہو سکتے ہیں.امریکہ میں ہومیو پیتھک معالج

Page 448

انوار العلوم جلد 26 396 کثرت سے ہیں.ہمارے ملک میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ڈاکٹری پاس لوگ ہی علاج کر سکتے ہیں.یہ درست نہیں.مجھے ہومیو پیتھک کا شوق ہے اور میں محض خدمتِ خلق کے طور پر بیس سال سے مفت علاج کر رہا ہوں.اور میرے کتب خانہ میں اتنی کتابیں ہیں جو بڑے بڑے ڈاکٹروں کے کتب خانوں میں بھی نہیں ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ مری میں ایک صاحب جو پہلے معمولی کمپاؤنڈر (COMPOUNDER) تھے اور ہومیو پیتھی کی پریکٹس کرتے تھے انہوں نے میرا علاج کیا اور اس سے مجھے بہت فائدہ ہوا.بڑے بڑے ڈاکٹروں نے میرا علاج کیا تھا لیکن میں اکڑوں نہیں بیٹھ سکتا تھا.لیکن ان صاحب نے میرا علاج کیا اور میں اکڑوں بیٹھنے لگ گیا.وہ معمولی کمپاؤنڈر تھے لیکن کتابوں کا مطالعہ کرنے کے بعد بڑے اچھے ڈاکٹر بن گئے ہیں.یہاں تک کہ لاہور کے بعض کا لجوں کے پاس شدہ ڈاکٹر ہیں اُن سے بھی زیادہ ان کی دوائی مؤثر ہوتی تھی.ہمارے ربوہ میں بھی ایک صاحب ہو میو پیتھک کی پریکٹس کرتے ہیں.وہ معمولی کلرک تھے لیکن ہومیو پیتھک کی پریکٹس میں انہوں نے بڑی مشق کر لی ہے.بہر حال جماعت کو چاہئے کہ تحریک جدید اور وقف جدید کی طرف خاص توجہ کرے.اسی طرح واقفین کو چاہئے کہ وہ تفسیر میں لے کر پڑھیں.تفسیر صغیر اور تفسیر کبیر بھی.اور لوگوں میں پھیلائیں تا کہ قرآن کریم سے لوگوں کا تعلق پیدا ہو.قرآن کریم ہی ایک ایسی چیز ہے جو دلوں میں نور پیدا کرتی ہے.اگر آپ لوگ قرآن پھیلائیں گے تو احمدیت کی دشمنی لوگوں کے دلوں سے خود بخود کم ہو جائے گی.وہ جب پڑھیں گے کہ قرآن میں لکھا ہے کہ یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ بھی سختی نہ کرو تو کیا انہیں خیال نہیں آئے گا کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ کیوں کرتے ہیں؟ ہماری جماعت شکایت کیا کرتی ہے کہ لوگ ہم پر سختی کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو قرآن سے واقف نہیں کیا.اگر وہ تفسیر صغیر وغیرہ اپنے پاس رکھیں اور لوگوں کو پڑھنے کے لئے دیں تو آہستہ آہستہ لوگوں میں قرآن سیکھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا.مجھے یاد ہے پچھلی جنگ میں ہمارے ایک دوست عراق گئے.انہوں نے ایک غیر احمدی

Page 449

انوار العلوم جلد 26 397 کرنیل کو تفسیر کبیر پڑھنے کے لئے دی.انہوں نے جب واپس لی تو وہ کہنے لگا مجھے کتاب دے دو اور سو روپیہ لے لو.چنانچہ وہ کہتے ہیں اُس نے سور و پیہ مجھے دے دیا اور میں نے تفسیر کبیر کے لئے قادیان لکھ دیا.لیکن مجھے معلوم ہوا کہ تفسیر کبیر کی وہ جلد ختم ہو چکی ہے.پس ہمارے دوست اگر تبلیغ کے لئے یہ طریق استعمال کریں تو بڑا مؤ ثر ثابت ہو سکتا ہے.مگر ایسا نہ کریں کہ وہ تفسیر کبیر کی اُن دو جلدوں کا جو ان کے پاس ہیں سوسور و پیہ مجھ سے مانگنا شروع کر دیں.میں نے پچھلے سال جلسہ پر ذکر کیا تھا کہ پندرہ سال پہلے ایسا ہوا تھا لیکن ایک دوست نے جھٹ اپنی تفسیر مجھے بھیج دی اور کہا کہ ایک سور روپیہ مجھے دے دیں.میں نے کہا یہ تو پندرہ سال پہلے کی بات ہے اب تو مجھے پتا بھی نہیں کہ وہ صاحب کہاں ہیں.کہنے لگا کچھ کم روپے دے دیں.میں نے کہا میں نے تو تفسیر خریدنی نہیں میرے پاس تفسیر موجود ہے.میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ ایک غیر احمدی افسر پر اس کا اس قد را ثر ہوا تھا کہ اُس نے سو روپیہ دے کر اس کتاب کو خریدنا چاہا.جاؤ اور عراق سے اُس آدمی کو تلاش کرو شاید وہ آدمی مل جائے اور تفسیر لے لے میں کیوں لوں ؟ بعد میں وہ پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو لکھتے ہیں کہ کچھ روپیہ ہی مجھے دے دیں.ساٹھ ہی دے دیں، چالیس ہی دے دیں.بہر حال جو شخص ان کتابوں کو پڑھتا ہے اُس پر اثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.میں نے یہاں تک بھی کہا تھا کہ اگر کوئی غیر احمدی کتاب خرید کر پڑھنا چاہے تو اُسے نصف قیمت میں دے دو.بہر حال بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے تفسیر کبیر پڑھی اور بعد میں اس کے متعلق بڑی اچھی رائے کا اظہار کیا.تفسیر کبیر کا تو ہر ایک کے لئے پڑھنا مشکل ہے لیکن تفسیر صغیر سے تھوڑی سی محنت کے بعد پورا قرآن پڑھا جا سکتا ہے اس لئے اس کی طرف توجہ بہت مفید ہو سکتی ہے.یہ تبلیغ کے لئے بہترین ذریعہ ہے.زبانی تبلیغ کرنے بیٹھو تو بعض اوقات لڑائی ہو جاتی ہے اور فتنہ پیدا کرنا اسلام کے خلاف ہے.لیکن اگر تم کسی کو کتاب پڑھنے کے لئے دے دو تو وہ گھر میں بیٹھ کر ہی اسے پڑھے گا.اور اگر وہ گھر میں بیٹھا ہوا وہ کتاب پڑھے گا تو وہ بیوی سے تو نہیں لڑے گا اور نہ تم سے لڑائی کر سکے گا اس لئے یہ طریق بہت مفید ہے.دوسرے قرآن میں یہ برکت ہے کہ وہ دوسرے پر

Page 450

انوار العلوم جلد 26 اثر کئے بغیر نہیں رہتا.398 حضرت خلیفۃ المسیح اول سنایا کرتے تھے کہ قادیان میں ایک دفعہ ایک رئیس آیا جو شراب کا عادی تھا.میں نے اسے بہت سمجھایا کہ شراب چھوڑ دو مگر وہ کہتا تھا کہ مجھ سے شراب چھوڑی نہیں جاتی.اس نے کہا مجھے حضرت صاحب سے ملا دو.چنانچہ میں نے اس کی ملاقات کا انتظام کروا دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ دار الفکر میں لے گئے.تھوڑی دیر کے بعد جب وہ باہر نکلا تو اُس کی آنکھیں سُوجی ہوئی تھیں.آپ فرماتے تھے میں نے کہا تمہیں کیا ہوا ؟ کہنے لگا آپ نے مجھے اتنی نصیحت کی تھی لیکن مجھ پر کوئی اثر نہ ہوا لیکن مرزا صاحب نے صرف چند لفظ کہے تو میری چیخیں نکل گئیں اور آج سے میں نے عہد کر لیا ہے کہ آئندہ کبھی شراب نہیں پیوں گا.حضرت خلیفہ اول فرمانے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں جو اثر ہوسکتا تھا وہ میرے کلام میں کہاں ہوسکتا تھا.اور یہ سچی بات ہے کہ جو فرق حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ اول کے کلام میں تھا اُس سے لاکھوں گنا فرق آپ لوگوں کے کلام اور قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.آپ لوگ اگر کسی کو وعظ ونصیحت کریں گے تو اتنا اثر نہیں ہو سکتا لیکن اگر قرآن اسے پڑھنے کے لئے دیں گے تو اس پر بہت زیادہ اثر ہوگا.غرض لوگوں تک حق پہنچانے اور ان کے دل نرم کرنے کا یہ سب سے بہتر ذریعہ ہے.قرآن کریم میں حُبّ وطن کا بھی ذکر آتا ہے.تہذیب و تمدن کا بھی ذکر آتا ہے.اپنے ہمسایوں پر رحم کرنے کا بھی ذکر آتا ہے.غیر مذاہب کے لوگوں سے ہمدردی کرنے کا بھی ذکر آتا ہے.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص قرآن پڑھے اور پھر دوسرے پر سختی کرے.ابھی ایک جگہ ایک احمدی کو سزا ملی ہے.چھوٹا افسر جو سزا دینے والا تھا وہ مخالف تھا.اس کی اپیل ایک اور اعلیٰ افسر کے پاس گئی تو اس نے کہا کیا مرزائی ہی سزا دینے کے لئے رہ گئے ہیں ؟ عیسائی بھی تبلیغ کرتے ہیں.اگر انہوں نے تبلیغ کی تو کیا ہوا ؟ گویا یہ فطرت کی آواز تھی جو اس کے دل سے آئی ممکن.اس نے قرآن کریم پڑھا ہوا ہو اور اُس پر یہ اثر ہو کہ اگر عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی ہے

Page 451

انوار العلوم جلد 26 399 حُسنِ سلوک کرنے کا حکم ہے تو غریب مرزائی کو کیوں سزادی جائے.تو یہ تبلیغ کا ایک نہایت ہی کامیاب ذریعہ ہے اس کی طرف خاص توجہ کرنی چاہئے.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ہمارے ایک دوست شیر محمد یکہ بان ہوتے تھے.وہ کا ٹھ گڑھ کے رہنے والے تھے.انہوں نے ایک سو سے زیادہ احمدی کیا تھا.ان کی تبلیغ کا یہ طریق تھا کہ وہ الحکم منگوایا کرتے تھے وہ ان پڑھ تھے لیکن الحکم جیب میں ڈالے رکھتے تھے اور جو آدمی پڑھا لکھا کہ میں بیٹھتا اُسے کہتے بھائی جی! مجھے یہ اخبار پڑھ کر سنائیں.وہ شخص الحکم پڑھنا شروع کرتا اور اُس پر اثر ہونا شروع ہو جاتا.اور یا تو وہ سخت مخالف ہوتا تھا اور یا پھر گھر پہنچ کر لکھتا مجھے پتا لکھوا دو میں نے بھی یہ اخبار منگوانا ہے اس میں بہت اچھی باتیں ہیں.وہ پھر تھوڑے دنوں کے بعد آتا اور کہتا میری بیعت کا خط لکھ دو.اس طرح انہوں نے سو سے زیادہ احمدی کئے.اگر الحکم دلوں پر اثر کر سکتا ہے تو قرآن سے تو یقیناً بہت زیادہ فائدہ ہوگا اور اللہ تعالیٰ ایسی برکت دے گا کہ لوگوں کے دل بالکل صاف ہو جائیں گے.اور جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے آج جو تمہارے دشمن ہیں کل وہ تم پر جان قربان کرنے لگ جائیں گے.اور اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری خود حفاظت فرمائے گا.قادیان کے قریب را جپورہ میں ہماری کچھ زمین تھی.ایک دفعہ میں وہ زمین دیکھنے گیا وہاں ایک عیسائی ہمارے تعاقب میں پہنچ گیا.وہ اس نیت سے راجپورہ گیا کہ مجھے مار ڈالے لیکن وہاں سے وہ نا کام واپس آیا اور گھر آ کر اسے پتا لگا کہ اُس کی بیوی بد کا ر ہے اس نے اسے مار دیا اور اس کے نتیجہ میں پھانسی کے تختہ پر لڑکا یا گیا.عدالت میں اس نے بتایا کہ راجپورہ میں مرزا صاحب کو مارنے گیا تھا لیکن جب میں وہاں گیا تو ان کے ایک محافظ (یحیی خان مرحوم ) بندوقیں صاف کر رہے تھے.میں نے خیال کیا کہ میرے پاس تو ایک بندوق ہے اور ان کے پاس کئی بندوقیں ہیں میں یہاں سے بیچ کر نہیں جاؤں گا.چنانچہ میں وہاں سے بھاگ آیا.گھر آیا تو مجھے پتا لگا کہ میری بیوی بد کا ر ہے.اس پر میں نے اسے مار دیا ورنہ مارنے میں مرزا صاحب کو گیا تھا.تو اللہ تعالیٰ جب حفاظت کرتا

Page 452

انوار العلوم جلد 26 400 ہے تو وہ آپ ہی آپ سامان پیدا کر دیتا ہے.میں دار الحمد میں رہتا تھا اور ایک دن میرا ایک لڑکا میرے پاس آیا اور کہنے لگا ایک آدمی با ہر آیا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے میں نے ضروری ملاقات کرنی ہے.میں جب باہر آیا تو دیکھا کہ ایک لڑکا کھڑا تھا.اُس نے کہا میں آپ سے ملنے آیا ہوں میرے پاس عبد الاحد پٹھان جواب قادیان میں رہتے ہیں کھڑے تھے انہوں نے جھٹ اُس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا اس نے آپ کو مارنے کے لئے خنجر چھپایا ہوا ہے.میں نے کہا تمہیں کیسے پتا لگا ؟ اس نے کہا میں پٹھان ہوں اور ہم میں دستور ہے کہ ہم خنجر اپنے نیفے میں چھپا کر رکھتے ہیں.میں نے دیکھا کہ یہ لڑ کا ایک خاص طرز پر اپنی ٹانگ ہلاتا تھا.میں نے سمجھ لیا کہ اس کے نیفے میں ضرور کوئی چیز ہے.چنانچہ میں نے ہاتھ مارا تو مجھے اک سخت سی چیز محسوس ہوئی اور میں نے اسے پکڑ لیا.تو اللہ تعالیٰ بچانے پر آئے تو بڑے بڑے دشمنوں کو بھی نا کام کر دیتا ہے.یہ انسان کی غلطی ہوتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے میری تدبیروں سے ہوگا حالانکہ انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ کسی کا دل بدل سکے.ہاں اللہ تعالیٰ دوسروں کے دل بدل سکتا ہے.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کیسے کیسے دشمن تھے مگر بعد میں وہ آپ کے بڑے جاں نثار ثابت ہوئے.مجھے یاد ہے کہ لکھنو میں ایک عرب آیا.لوگ اس کی بڑی خاطر تواضع کرتے تھے کہ یہ بغداد شریف سے آیا ہے.میاں چٹو اہلِ قرآن کے لیڈر ہوتے تھے.وہ اسے قادیان لے آئے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ قرآن شریف میں یوں لکھا ہے اور آپ نے ق کو پنجابی لہجہ میں ادا کیا.اس پر عرب کہنے لگا آپ کو کس نے مسیح بنایا ہے آپ توق بھی نہیں بول سکتے.صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید اُس وقت مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسے مارنے کے لئے ہاتھ اٹھایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فوراً اُن کا ہاتھ پکڑ لیا.پاس ہی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب بیٹھے ہوئے تھے آپ نے انہیں فرمایا کہ ان کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ لیں اور جب تک مجلس برخاست نہ ہو جائے ان کا ہاتھ نہ چھوڑیں.چنانچہ انہوں نے آپ کا ہاتھ پکڑے رکھا.بعد میں اس نے میاں چٹو کے

Page 453

انوار العلوم جلد 26 401 ساتھ دھوکا بازی کی اور انہوں نے اسے گھر سے نکال دیا.حکیم محمد حسین صاحب قریشی جو ہماری جماعت کے ایک بڑے مخلص دوست تھے میاں چٹو کے پوتے تھے.میاں چٹو مولوی عبداللہ صاحب چکڑالوی کے معتقد تھے مگر بعد میں انہیں پتا لگا کہ اس میں کوئی اخلاقی نقص ہے.اس پر وہ کہنے لگے کہ جس شخص کے اخلاق خراب ہیں اسے یہ حق کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرے چنانچہ وہ ان سے الگ ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیرتا رہتا ہے اور کچھ کا کچھ بنا دیتا ہے پس خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہنا چاہئے اور اُسی پر ساری امیدیں رکھنی چاہئیں کیونکہ اس سے زیادہ مہربان اور طاقت ور اور کوئی نہیں.اِسی طرح جماعت کو تحریک جدید کی طرف بھی خاص توجہ کرنی چاہئے.اگر اس کا چندہ بڑھ جائے تو ہمیں دنیا کے ہر ملک میں مسجد بنانے کی توفیق مل جائے گی اور اس طرح ہم اسلام کا جھنڈا دنیا کے ہر کونہ میں گا ڑسکیں گے.غیر ممالک میں اشاعت اسلام کا کام تحریک جدید کے سپرد ہے اور یہ کام اتنا وسیع ہے کہ جماعت کی خاص توجہ کے بغیر اسے کامیابی سے چلانا مشکل ہے.اسلام کو دنیا میں پھر سے غالب کرنے کا کام جماعت احمدیہ کے سپرد ہے اس لئے اسے اس سلسلہ میں ہمیشہ مالی اور جانی قربانیوں میں پورے جوش سے حصہ لینا چاہئے تا کہ ہم اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو سکیں.اب میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.کل انشاء اللہ دوسری تقریر ہوگی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو زیادہ سے زیادہ جلسہ سے مستفیض ہونے کی توفیق بخشے.“ ( الفضل 3 را پریل 1959 ء ) 1 تاريخ طبرى الجزء الثالث صفحہ 247 تا 249 مطبوعہ بیروت 1987ء 2: البقرة:262

Page 454

Page 455

انوار العلوم جلد 26 403 سیر روحانی (12) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمو د احمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی (12)

Page 456

انوار العلوم جلد 26 404 سیر روحانی (12)

Page 457

انوار العلوم جلد 26 405 سیر روحانی (12) بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (12) (فرمودہ 28 دسمبر 1958 ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد سیر روحانی کے اہم موضوع پر تقریر کرنے سے قبل حضور نے احباب جماعت کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا.کل دعاؤں کا جو اعلان کیا گیا تھا اُس میں ایک اعلان خان بہادر دلاور خان صاحب کی صحت کے متعلق بھی کیا جانا تھا جو غلطی سے رہ گیا سو آج میں اُن کی صحت کے لئے بھی دوستوں سے دعا کی درخواست کرتا ہوں.خان بہادر دلاور خان صاحب فالج کے شدید حملہ سے بیمار ہیں اور انہوں نے اپنی بیٹی کو جلسہ سالانہ کے موقع پر یہاں اس لئے بھجوایا ہے کہ جاؤ اور میرے لئے دوستوں سے دعا کراؤ.گو انہیں فالج سے تو افاقہ ہے مگر ابھی اُن کی زبان کام نہیں کرتی.خان بہادر دلاور خان صاحب کی زندگی بھی عجیب ہے.آپ بچے ہی تھے جب احمدی ہوئے مگر بعد میں ان پر غیر مبائعین کا اثر ہو گیا اور وہ ان کے ساتھ ملنے جلنے لگے.چنانچہ آپ اور خان بہادر مولوی غلام حسن خان صاحب مرحوم پشاوری جو میاں بشیر احمد صاحب کے خسر تھے ایک دفعہ ڈلہوزی میں میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ جماعت احمدیہ کے دونوں فریقوں میں جو کش مکش جاری ہے یہ جس حد تک بھی بند ہو سکے بند ہونی چاہئے.اس سے قبل سید عبدالجبار شاہ صاحب سابق با دشاہ سوات بھی دو تین مرتبہ قادیان میں اس بارہ میں مجھ سے ملاقات کر چکے تھے.جب انہوں نے اس بات پر بار بار زور دیا کہ کیا کوئی ایسی صورت نہیں ہو سکتی کہ مبائعین اور غیر مبائعین میں اتفاق ہو جائے ؟ تو میں نے انہیں کہا کہ صلح کے دو ہی طریق ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ

Page 458

انوار العلوم جلد 26 406 سیر روحانی (12) سارے معاملات میں متحد ہو جانا.یہ اتحاد عقائد کے حتمی فیصلہ کے بعد ہی ہو سکتا ہے.جب دینی امور میں اختلاف ہو تو بغیر اس کے کہ عقائد میں اتحاد ہو جائے اتحاد گلتی نہیں ہو سکتا.اس بات کو انہوں نے بھی تسلیم کیا.دوسری صورت میں نے یہ بتائی کہ ایک اتحاد جزوی ہوتا ہے اس میں ساری طاقت اور قوت کو کسی ایک جگہ صرف نہیں کیا جا تا بلکہ فریقین الگ الگ بھی رہتے ہیں اور مشترک مقاصد میں متحد بھی ہو جاتے ہیں.مخصوص عقائد کے لئے علیحدہ انتظام ہوتا ہے لیکن جن امور میں اتحاد ہوتا ہے اُن میں مل جاتے ہیں.اس کے متعلق میں نے انہیں کہا کہ پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ سخت کلامی کو چھوڑ دیا جائے اور جواباً بھی کوئی ایسا کلمہ اپنی تحریرات میں استعمال نہ کیا جائے جس سے کسی پر ادنیٰ سے ادنی حملہ بھی ہوتا ہو.جب یہ ہو جائے تو پھر متحدہ امور میں ملنے کے لئے طبائع راغب ہوسکتی ہیں.جب یہی امور میں نے مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری اور خان بہادر دلاور خان صاحب کے سامنے بھی بیان کئے تو انہوں نے بغیر کسی اختلاف کے ان امور سے اتفاق کیا اور مولوی غلام حسن خان صاحب نے کہا میں سمجھتا ہوں اب صلح ہو جائے گی.آپ مولوی محمد علی صاحب کی دعوت کریں اور مولوی صاحب آپ کی دعوت کریں.چنانچہ اس تحریک کے مطابق میں نے مولوی محمد علی صاحب کی دعوت کر دی اور وہ میرے ہاں آگئے اور پھر انہوں نے میری دعوت کی اور میں اُن کے ہاں چلا گیا.اس کے بعد میں نے ایک اعلان لکھا جس میں میں نے تمام ایڈیٹر ان و نامہ نگاران اور مصنفین سلسلہ کو توجہ دلائی کہ خواہ ایسے حالات بھی پیش آجائیں جن میں فریق لاہور کے متعلق الزامی جواب نہ دینے سے نقصان پہنچنے کا امکان ہو تب بھی آئندہ تین ماہ تک انہیں کوئی الزامی جواب نہ دیا جائے.اور ان کے خلاف اخبار میں کسی قسم کا سخت لفظ استعمال نہ کیا جائے.اور نہ کوئی ایسا کلمہ استعمال کیا جائے جس سے کسی پر ادنیٰ سے ادنی حملہ بھی ہوتا ہو.اور میں نے لکھا کہ اگر دوسرے فریق کا رویہ درست رہا تو بعد میں اس اعلان کی مدت کو بڑھا دیا جائے گا.مولوی غلام حسن خان صاحب یہ اعلان مولوی محمد علی صاحب کے پاس لے گئے اور انہوں نے اس اعلان کو پسند کیا.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے بھی ایک اعلان لکھا اور

Page 459

انوار العلوم جلد 26 407 سیر روحانی (12) میں نے یہ دونوں اعلان الفضل میں شائع کرادیئے.مگر اس کے بعد معاہدہ کی پہلی سہ ماہی کے آخری حصہ میں ہی پیغامِ صبح میں ہمارے خلاف نہایت سخت اور دل آزار مضامین شائع ہوئے.دوسری سہ ماہی میں اس سے زیادہ اور تیسری سہ ماہی میں اس سے بھی زیادہ دل آزار مضامین شائع ہونے شروع ہو گئے.میں نے سید عبدالجبار شاہ صاحب سابق والی سوات کو لکھا تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پہلے ہی مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری کو لکھ دیا تھا کہ یہ غلطی ہوئی ہے.اور پھر انہوں نے مل کر مولوی محمد علی صاحب کو توجہ دلائی کہ آپ کا معاہدہ تو ٹوٹ گیا.مولوی محمد علی صاحب نے کہا یہ مضامین میرے تو نہیں دوسرے لوگوں کے ہیں اور اُن پر میر از دور نہیں چل سکتا.میں نے کہا اگر یہ بات ہے تو پھر میں بھی اس معاہدہ کی پابندی سے جماعت کو آزاد کرتا ہوں.لیکن ساتھ ہی میں نے کہا کہ باوجود اس کے کہ اب معاہدہ منسوخ ہو چکا ہے پھر بھی ہمارے اخبار نویسوں کو ان کی ذاتیات کے خلاف لکھنے کی اجازت نہیں ہو گی صرف اصولی باتوں کے متعلق وہ مضامین لکھ سکتے ہیں.اور اگر کسی نے ان کی ذاتیات کے خلاف کچھ لکھا تو میں اُسے اُسی طرح پکڑوں گا جس طرح معاہدہ کے وقت پکڑتا.غرض خان بہادر دلاور خان صاحب جیسا کہ میں نے بتایا ہے درمیان میں کچھ کمزور ہو گئے تھے لیکن بعد میں احمدیت پر پختہ ہو گئے.سر عبد القیوم صاحب جو پیر صاحب کو ٹھے والوں کی اولاد میں سے تھے ان کی بہن کی لڑکی سے خان بہادر خان صاحب بیا ہے گئے تھے ان کے بھائی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب چونکہ مبائع احمدی ہو گئے تھے اس لئے سر عبدالقیوم صاحب ان کو اچھا نہیں سمجھتے تھے لیکن اپنی بہن کی بڑی عزت کرتے تھے.میں ایک دفعہ شملہ گیا ہوا تھا اور ہم اسمبلی ہال کے برآمدہ میں کھڑے تھے کہ وہ آکر میرے پاس کھڑے ہو گئے.چونکہ وہ ڈپلومیسی کے بڑے عادی تھے اور سیاست کے بہت سے عہدوں پر کام کرتے رہے تھے اور حکومت کی طرف سے سیاسی کاموں کی سرانجام دہی کے لئے انگلستان بھی جاتے رہتے تھے اس لئے میرے پاس آ کر کہنے لگے میاں صاحب! میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں.میں نے کہا فرمائیے.کہنے لگے آپ کو صاحبزادہ عبداللطیف صاحب پر بہت

Page 460

انوار العلوم جلد 26 408 سیر روحانی (12) اعتبار ہے لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ دلاور خان کی اور ان کی بحث ہوئی اور دلاور خان صاحب نے ان کو بالکل ساکت کر دیا.میں نے کہا جس شخص کے متعلق آپ کا یہ خیال ہے کہ اس نے صاحبزادہ عبداللطیف کو ساکت کر دیا تھا اس کی تو بیعت کا خط آ گیا ہے.کہنے لگے ہیں ! دلاور خان صاحب کی بیعت کا خط آیا ہے؟ میں نے کہا ہاں اُن کی بیعت کا خط آیا ہے.انہوں نے کہا بڑے تعجب کی بات ہے.انہوں نے تو صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کا منہ بند کر دیا تھا.میں نے کہا یہ تو دلاور خان صاحب کے خط سے ہی ظاہر ہو گیا ہے معلوم ہوتا ہے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے شرافت کی اور وہ چپ ہو گئے لیکن دلاور خان صاحب دل میں ان کے دلائل کے قائل ہو گئے.بعد میں دلاور خان صاحب نے احمدیت میں بڑی ترقی کی اور تحریک جدید میں بھی بہت بڑی بڑی رقوم دیتے رہے.خان بہادر دلاور خان صاحب کی ایک لڑکی جو کیپٹن اسلم صاحب مرحوم سے بیاہی ہوئی تھیں ان کی بیٹیوں میں سے سب سے زیادہ احمدیت کی شیدائی ہیں.ان کا نام آفتاب بیگم ہے ان کی خواہش ہے کہ ان کے باپ خان بہادر دلاور خان صاحب کی صحت کے لئے دعا کا اعلان کر دیا جائے.سواحباب ان کی صحت کے لئے دعا کریں.ملتان کی جماعت کی بھی خواہش ہے کہ ان کے لئے دعا کی جائے.وہ مسجد تعمیر کر رہے ہیں.وہ درخواست کرتے ہیں کہ ان کی اس کام میں کامیابی کے لئے دعا کی جائے.فضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے درخواست کی ہے کہ اس کی مصنوعات سلسلہ کی مصنوعات ہونے کے علاوہ بہت عمدہ بھی ہیں اس لئے احمدی دوست ان مصنوعات کے پھیلانے میں مدد کریں.میں نے پچھلے سال بھی اس طرف توجہ دلائی تھی ان کی بڑی مشہور چیز تو شائنر بوٹ پالش ہے پھر کف ایکس اور با میکس ہیں.اسی طرح سن شائن گرائپ واٹر ہے.اشتہار تو چھپتے رہتے ہیں دوستوں کو ان کے ذریعہ ان کے فوائد کا علم ہوسکتا ہے.ابھی ثاقب صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک نظم پڑھی ہے جس کا ایک مصرعہ یہ ہے رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹا یا ہم نے 1

Page 461

انوار العلوم جلد 26 409 سیر روحانی (12) مجھے اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی زندگی کا ایک واقعہ یاد آ گیا.میں ابھی بچہ تھا کہ حضرت صاحب کسی گواہی کے لئے ملتان تشریف لے گئے.میں نے اصرار کیا اور مجھے بھی آپ اپنے ساتھ لے گئے.واپسی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چند دنوں کے لئے لاہور میں ٹھہر گئے.ایک دفعہ آپ بعض دوستوں کے ساتھ لاہور میں سے گزر رہے تھے کہ کسی نے آپ کو پیچھے سے زور سے دھکا دیا.اور آپ گر گئے.خدا تعالیٰ مغفرت فرمائے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑی محبت تھی وہ اگر چہ غیر مبائع ہو گئے تھے مگر جب وہ مرض الموت سے بیمار ہوئے تو میں نے خاں صاحب مولوی ذوالفقار علی خان صاحب گوہر رامپوری مرحوم کو ان کے پاس عیادت کے لئے بھیجا.انہوں نے کہا میری طرف سے میاں صاحب کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ دیں اور کہہ دیں کہ میں دل سے آپ کو مانتا ہوں.میں نے ایک دفعہ رویا میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کسی نے خواجہ کمال الدین صاحب کو بُرا بھلا کہا.مولوی محمد علی صاحب کو بُرا بھلا کہا.ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بُرا بھلا کہا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاموش رہے.لیکن جب اس نے شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کو بُرا بھلا کہا تو آپ نے فرمایا نہیں نہیں اس کو بُرا نہ کہو وہ تو بڑا مخلص انسان ہے.چنانچہ وفات کے وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں تو بہ کی توفیق دے دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سے بہت محبت کرتے تھے اور وہ سیٹھ عبدالرحمان اللہ رکھا صاحب کے بعد جماعت میں سب سے زیادہ قربانی کرنے والے تھے.آگے اُن کی اولا د احمدیت میں کمزور ہو گئی ہے لیکن اب اس جلسہ پر مہمانوں کے ٹھہرانے کے لئے جو خیمے وغیرہ لگے ہوئے ہیں یہ ان کے ایک پوتے نے کرایہ پر دیئے ہیں.پہلے تو ان کا انگلش وئیر ہاؤس تھا جو انگریزی فرنیچر اور لباس کی بڑی زبر دست فرم تھی مگر اب ان کے ایک بیٹے نے خیموں اور قناتوں کی دکان نکالی ہے.ان کا بیٹا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ہم نے خیموں وغیرہ کے کرایہ پر دینے کا کام شروع کیا ہے.جلسہ سالانہ پر خیموں کا سامان آپ ہم سے کیوں نہیں لیتے ؟ میں نے ناصر احمد جو افسر جلسہ سالانہ ہیں کو لکھا کہ یہ پرانا احمدی خاندان ہے خیمے وغیرہ انہی سے

Page 462

انوار العلوم جلد 26 410 سیر روحانی (12) لیں.بلکہ یہ اگر کچھ زیادہ پیسے مانگیں تب بھی زیادہ پیسے دے دیں.چنانچہ انہیں ٹھیکہ د.دیا گیا اور یہ خیمے اور قناتیں سب انہی نے مہیا کی ہیں.بہر حال میں بتا رہا تھا کہ لاہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دن جار ہے تھے کہ ایک آدمی نے آپ کو پیچھے سے دھکا دے دیا اور آپ گر گئے.شیخ رحمت اللہ صاحب ساتھ تھے ان کو غصہ آ گیا اور وہ پیچھے مڑ کر اُس شخص کو مارنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھ لیا اور فرمایا اس کو مت مارو.اس نے جو کچھ کیا ہے سچ سمجھ کر کیا ہے.وہ دراصل مدعی نبوت تھا آپ نے فرمایا اس نے سمجھا ہے کہ ہم ظالم ہیں اور اس کا حق مار رہے ہیں اس لئے اس نے دھکا دے دیا.اگر یہ ہمیں سچا سمجھتا تو ایسا کیوں کرتا.بعد میں اس شخص کے بھائی نے بیعت کر لی.پیغمبر اسنگھ اس کا نام تھا اور بڑا اخلاص رکھتا تھا.وہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں جب بھی قادیان آیا کرتا تھا ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ میرا بھائی بعد میں ساری عمر شرمندہ رہا اور کہتا تھا کہ مجھ سے بڑی سخت غلطی ہوئی کہ میں نے حضرت مرزا صاحب کو دھکا دے دیا.آپ میرے بھائی کے لئے دعا کریں کہ خدا اسے معاف کرے.اُس نے حضرت مسیح موعود ة والسلام ایک دفعہ وہ دو آدمی میرے پاس لائے اور کہنے لگے میری جسمانی اولا د تو کوئی نہیں انہیں میری روحانی اولا دسمجھ لیں.میں نے ان کو تبلیغ کی ہے اور اب یہ آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل بھی یہی تھا کہ رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے.ہماری جماعت میں ایک دوست عبد اللہ پر وفیسر تھے وہ تاش وغیرہ کے تماشے دکھایا کرتے تھے اور لوگ انہیں پروفیسر کہا کرتے تھے، وہ بہت جو شیلے تھے، گورداسپور میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر مقدمہ چلا اور مشہور ہوا کہ مجسٹریٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قید کی سزا دے گا تو انہیں غصہ آ گیا اور انہوں نے پتھر اٹھالئے اور کہنے لگے ان پتھروں سے میں اس مجسٹریٹ کا سر پھوڑ دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس کا علم ہوا تو آپ نے ایک آدمی مقرر کیا اور اسے ہدایت کی کہ وہ پروفیسر صاحب کو پکڑے

Page 463

انوار العلوم جلد 26 411 سیر روحانی (12) رکھے اور اُس وقت تک نہ چھوڑے جب تک کہ ہم عدالت کے احاطہ سے باہر نہ نکل جائیں.مجسٹریٹ نے آپ کو صرف جرمانہ کی سزا دی جو نواب محمد علی خاں صاحب نے مرز ا خدا بخش صاحب مرحوم کے ذریعہ سے فوراً ادا کر دیا.پھر یہ پروفیسر صاحب لاہور چلے گئے.وہاں جا کر انہوں نے اپنی طبیعت کے مطابق لوگوں پر کچھ سختی کی تو خواجہ کمال الدین صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس شکایت کی اور کہا کہ پروفیسر صاحب بڑی سختی کرتے ہیں اس سے تو لوگوں میں جوش پیدا ہو جائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو بلایا اور فرمایا دیکھئے ہمارا یہ مقصد نہیں کہ ہم دوسروں پر سختی کریں بلکہ خدا تعالیٰ نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ دوسرے لوگ اگر سختی بھی کریں تو ہم اُن سے نرمی کریں.وہ چپ کر کے سنتے رہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاموش ہوئے تو وہ کہنے لگے بس بس رہنے دیجئے.میں یہ بات نہیں مان سکتا.آپ کے پیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کوئی گالی دے تو آپ فوراً اُس سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن اگر کوئی میرے پیر کو گالی دے تو آپ کہتے ہیں صبر کرو یہ مجھ سے نہیں ہوسکتا.تو حضرت مسیح موعود ہمیشہ یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ دوستوں کو نرمی کا طریق اختیار کرنا چاہئے اور کسی سے سختی نہیں کرنی چاہئے.“ الفضل 3 جنوری 1959ء)

Page 464

انوار العلوم جلد 26 412 سیر روحانی (12) اس کے بعد حضور نے ”سیر روحانی“ کے موضوع پر تقریر فرمائی جو اس موضوع کے آخری عنوان " کتب خانوں سے متعلق تھی فرمایا : - روحانی عالم کے کتب خانے ’1938 ء سے میں نے سیر روحانی کے موضوع پر اپنی تقاریر کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے اور اس کا آخری حصہ باقی ہے.اس تقریر کے 16 اہم عنوانات تھے جن کے متعلق میں نے اپنے خیالات کے اظہار کا وعدہ کیا تھا.چنانچہ پندرہ عنوانات پر میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکا ہوں اور آج اس کے آخری حصہ کے متعلق اپنے خیالات کو ظاہر کرنا چاہتا ہوں.حیدر آباد دکن کا اسلام کے اس تقریر کی تحریک مجھے اسی ملک سے شروع ہوئی ہے جس ملک کی وجہ سے ہندوستان میں عروج اور اسکے زوال میں حصہ اسلام کا وقار بڑھا تھا اور جس ملک کی وجہ سے ہندوستان میں اسلام کا وقار کم ہو ا یعنی حیدر آباد دکن.جب تک اور نگ زیب نے حیدر آباد دکن فتح نہیں کیا تھا اُس وقت تک ہندوستان میں مغلوں کی حکومت صرف اللہ آباد تک تھی اور باقی ہندوستان مغلیہ سلطنت سے باہر تھا مگر اور نگ زیب نے بڑی جانفشانی کے ساتھ اور لمبا عرصہ دارالخلافہ سے باہر رہ کر اس ملک کو اسلام کے لئے فتح کیا اور اس طرح اسلام کی بنیاد جنوبی ہندوستان میں رکھی اور سارا ہندوستان اسلام کے جھنڈے تلے جمع ہو گیا.مگر افسوس ہے کہ پھر یہیں سے تباہی آئی کیونکہ مرہٹے بھی اسی علاقہ کے قریب سے نکلے ہیں.پھر وہی حیدر آباد جس کے فتح کرنے کے بعد اسلام کو ایک بہت بڑی طاقت حاصل ہوئی تھی اسی ملک نے انگریزوں سے مل کر میسور کے مسلم بادشاہ سلطان حیدر علی ٹیپو پر حملہ کیا اور ان کو شکست دلائی.اُن کی شہادت کے بعد اسلام کی طاقت بالکل کمزور ہو گئی.وہ حقیقت میں اسلام کا آخری تاجدار تھا اور اپنے دل میں اسلام کی ایسی سچی محبت رکھتا تھا کہ جس کی نظیر نہیں پائی جاتی.اُس زمانہ میں جب دنیا کی خبریں پہنچنی مشکل تھیں اُس کو پتا لگا

Page 465

انوار العلوم جلد 26 413 سیر روحانی (12) کہ نپولین بہت طاقتور ہو گیا ہے.اِس پر اُس نے نپولین کو لکھا کہ آپ ہندوستان آئیں تو میں اپنی فوجیں لے کر آپ کی مدد کیلئے نکلوں گا تا کہ ہم یہاں پھر اسلام کو قائم کریں.مگر نپولین ترکوں کے علاقہ سے گزر سکتا تھا اور ترکوں نے اُسے راستہ دینے سے انکار کر دیا ، اس لئے وہ یہاں آنے سے رہ گیا اور انگریزوں نے اُس پر فتح حاصل کر لی.اس طرح فرانسیسی جو اُس کے ساتھ تھے ہار گئے.وہ شخص ایسا بہادر تھا کہ جب انگریز قلعہ کی دیواروں کے اندر داخل ہو گئے تو اُس کا ایک وزیر دوڑتا ہوا اُس کے پاس آیا اور اُس نے کہا فلاں دروازہ سے آپ باہر نکل جائیے ، دشمن قلعے کے اندر داخل ہو گیا ہے.لیکن بجائے اس کے کہ وہ اپنی جگہ چھوڑتا اور اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا اُس نے کہا.میں اُن لوگوں میں سے نہیں جو بھاگ کر اپنی جان بچانا چاہتے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ گیدڑ کی ایک سوسال کی زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی زیادہ اچھی ہے.میں گیدڑ کی طرح بھا گنا نہیں چاہتا بلکہ میں شیر کی طرح مقابلہ کروں گا.چنانچہ وہ دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو گیا.گویا مسلمانوں کو آخری شکست بھی وہیں ہوئی جس کی وجہ سے اسلام کا نام ہندوستان سے مٹ گیا.اُس کے مرنے کے بعد مرہٹے بہت طاقت پکڑ گئے اور انہوں نے سارے ملک کو تاخت و تاراج 2 کر دیا.بعد میں احمد شاہ ابدالی نے ایک دفعہ پھر انہیں شکست دی اور اس طرح اسلام کا بجھتا ہوا چراغ ایک دفعہ پھر ٹمٹما اُٹھا.مسلمانوں کی تباہ حالی کا شدید صدمہ جیسا کہ میں کئی دفعہ بتا چکا ہوں میں نے اس ملک کا سفر کیا تھا، میرے ساتھ میری ایک بیٹی امتہ القیوم تھیں، ایک میری بیوی مریم صدیقہ تھیں اور ایک میری بہن مبار کہ بیگم تھیں.ہم کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد گئے اور وہاں ہم نے بہت سے آثار قدیمہ دیکھے.قلعے بھی دیکھے، لائبریریاں بھی دیکھیں ، مقابر بھی دیکھے، دیوان خاص اور دیوانِ عام بھی دیکھے ، غرض بہت سے آثار قدیمہ ہمارے دیکھنے میں آئے.جب ہم واپس آئے تو دہلی میں ہم نے باقی آثار دیکھے.وہاں لال قلعہ بھی دیکھا ، قطب صاحب کا مینار بھی دیکھا، شیر شاہ کی لاٹ بھی دیکھی، جنتر منتر بھی دیکھا.ان چیزوں کو دیکھ کر

Page 466

انوار العلوم جلد 26 414 سیر روحانی (12) میری طبیعت پر بڑا اثر ہوا کہ مسلمان کسی وقت کتنے طاقتور تھے اور اس وقت وہ کتنے کمزور اور ناتواں ہیں.یہ 1938 ء کی بات ہے جبکہ ابھی انگریز حاکم تھے، بھارت کی حکومت ابھی قائم نہیں ہوئی تھی.مگر انگریزوں نے غدر کے واقعات سے دھوکا کھا کر مسلمانوں کو ذلیل کرنا شروع کر دیا تھا اور عملی طور پر ہندوستان کے بادشاہ ہندو تھے.میرے دل پر اس کا بڑا اثر تھا.میں ایک دن سیر کرنے کے لئے نکلا تو غیاث الدین تغلق کے مقبرہ کے سامنے ایک ٹیلہ تھا، میں اپنی بیوی، بہن اور لڑکی کو لے کر اُس ٹیلہ پر چڑھ گیا.وہاں سے لال قلعہ بھی نظر آتا تھا، فیروز شاہ کی لاٹ بھی نظر آتی تھی ، قطب صاحب کا مینار بھی سامنے تھا اور پیچھے تعلق بادشاہوں کی قبریں تھیں جو کسی وقت ہندوستان پر حکمران رہ چکے تھے ان کو دیکھ کر میرے دل پر یہ اثر ہوا کہ گجا وہ حالت تھی کہ مسلمانوں کی شان وشوکت حیدر آباد تک پھیلتی چلی گئی تھی اور میں سارے علاقہ میں اُن کی شوکت کے آثار دیکھتا چلا آ رہا ہوں اور گجا یہ حالت ہے کہ مسلمانوں کو کوئی پوچھتا بھی نہیں.لاہور کے ایک انگریز ڈپٹی کمشنر کا واقعہ بیشک اس میں مسلمانوں کا اپنا بھی قصور تھا مگر پھر بھی یہ ایک نہایت دردناک حالت تھی.چنانچہ 1927ء میں لاہور کا ایک انگریز ڈپٹی کمشنر جو کسی زمانہ میں گورداسپور بھی رہ آیا تھا اور ہماری جماعت کی بہت تعریف کیا کرتا تھا اُس کے پاس ایک فساد کے موقع پر جبکہ سکھوں نے لاہور کے کچھ مسلمانوں کو جو مسجد سے نماز پڑھ کر نکل رہے تھے مار دیا تھا، میں نے خانصاحب ذوالفقار علی خانصاحب کو بھیجا اور کہا کہ آپ تو مسلمانوں کے بڑے خیر خواہ تھے لیکن اس فساد میں ہندوؤں نے مسلمانوں پر ظلم کیا ہے اور آپ نے اُلٹا مسلمانوں کو پکڑ لیا ہے.وہ کہنے لگا میں آپ کو کیا بتاؤں کہ مسلمان کتنے بیوقوف ہیں.میں واقع میں مسلمانوں کا خیر خواہ تھا مگر جو کچھ میرے ساتھ گزرا وہ آپ کو معلوم نہیں.میں گورداسپور سے ملتان جا کر لگا ، وہاں میں نے مسلمان لیڈروں کو بلوایا اور کہا کہ میں نے جو پُرانے فائل دیکھے ہیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ ہندوؤں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے ظلم کئے ہیں مگر میں بحیثیت ڈپٹی کمشنر گورنمنٹ کا ملازم ہوں اور کسی کو یہ پتا نہیں

Page 467

انوار العلوم جلد 26 415 سیر روحانی (12) لگنا چاہئے کہ میں نے یہ بات تمہیں بتائی ہے.اگر تم کسی کو نہ بتاؤ تو میں تمہیں بتا تا ہوں کہ تم اِس اِس قسم کے میمورنڈم (MEMORANDUM) بھجواؤ.میں وہ میمورنڈم گورنمنٹ کے پاس بھجوا دوں گا اور اُنہیں لکھوں گا کہ مسلمانوں پر اس اس قسم کے ظلم ہور ہے ہیں ان کی مدد کرنی چاہئے.اُس ڈپٹی کمشنر نے بتایا کہ وہ لیڈر بڑا پختہ وعدہ کر کے گئے لیکن شام ہوئی تو انہوں نے ہندوؤں کو بتا دیا کہ ہمیں ڈپٹی کمشنر صاحب نے یہ یہ باتیں بتائی ہیں.چنانچہ دوسرے دن ہندوؤں کا ایک وفد میرے پاس آیا اور اُس نے شکایت کی کہ صاحب ! ہم تو آپ کو اپنا مائی باپ کہتے ہیں آپ مائی باپ ہو کر مسلمانوں کو ہمارے خلاف کرنے لگے ہیں.اس پر میں اتنا شرمندہ ہو ا کہ اس کی حد نہیں.اس کے بعد جب میں لاہور آیا تو یہاں یہ حالت تھی کہ اس فساد کی وجہ سے ایک بڑے لیڈر کو مسلمانوں نے میرے پاس بھجوایا کہ تم جا کر ڈپٹی کمشنر کو بتاؤ کہ مسلمانوں پر سختی ہو رہی ہے.مجھے پتا لگ گیا که مسلمان فلاں شخص کو میرے پاس بھیج رہے ہیں.لیکن جب وہ میرے پاس آیا تو کہنے لگا.میں نے فلاں رشتہ دار کی سفارش آپ کے پاس کی تھی وہ کام ابھی ہوا ہے یا نہیں ہوا ؟ اور اُدھر میلا رام کے بیٹے رام سرن داس نے اپنی مل کے متعلق مجھ سے وقت لیا ہوا تھا وہ ملنے آیا تو میں نے کہا.سُنائیے رائے صاحب! آپ کی مل کا کیا حال ہے؟ تو اس نے پگڑی اُتار کر میرے پاؤں پر رکھ دی اور رونے لگ گیا اور کہنے لگا.میری قوم تباہ ہو رہی ہے اور آپ میری مل کا حال پوچھ رہے ہیں.اب دیکھو! مسلمانوں نے اس فساد کے سلسلہ میں اپنے لیڈر کو میرے پاس بھیجا تو بجائے اپنا اصل مقصد بیان کرنے کے وہ مجھ سے کہنے لگا میں نے ایک شخص کی آپ کے پاس سفارش کی تھی اُس کا کیا بنا؟ اور ادھر وہ ہندو جس نے فساد سے پہلے کا وقت مقرر کیا ہو ا تھا وہ آیا اور میں نے دریافت کیا کہ رائے صاحب! آپ کی مل کا کیا حال ہے؟ تو اُس نے پگڑی اُتار کر میرے پاؤں پر رکھ دی اور رو کر کہنے لگا کہ میری قوم تباہ ہو رہی ہے اور آپ میری مل کا حال پوچھ رہے ہیں.مل کیا چیز ہے اس پر قوم مقدم ہے.تو اُس ڈپٹی کمشنر نے خانصاحب ذوالفقار علی خان صاحب سے کہا کہ جب یہ حال ہے تو میں کیا کروں.میں نے مجبوراً ہندوؤں کی مدد کی ہے کیونکہ

Page 468

انوار العلوم جلد 26 416 سیر روحانی (12) ނ ہمیں یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ ہمارا بچاؤ ہو.وہ ڈپٹی کمشنر ہم سے بعد میں بھی تعلق رکھتا رہا.چنانچہ 1934ء میں احرار کے فتنہ کے وقت جب مجھے نوٹس دیا گیا کہ تم نے باہر سے احمدیوں کو نہیں بلو انا تو چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے سنایا کہ وہ اپنی کوٹھی.آ رہا تھا کہ اُس نے مجھے دیکھ کر ٹھہر الیا اور کہنے لگا سناؤ قادیان کا کیا حال ہے؟ انہوں نے کہا.ہمیں سخت افسوس ہے ہم نے اگر کچھ کیا ہوتا اور پھر ہمارے امام کو گورنمنٹ نوٹس دیتی تو کوئی بات تھی لیکن ہم نے تو کچھ بھی نہیں کیا ، ہمارے امام کو کیوں نوٹس دیا گیا ہے؟ اس پر وہ غصہ میں آ گیا اور کہنے لگا میں نہیں جانتا جس جماعت نے چالیس سال گورنمنٹ کی خدمت کی ہے اُس نے اگر کچھ کیا بھی ہوتا تب بھی یہ نوٹس نہیں دینا چاہئے تھا، یہ گورنمنٹ کی غلطی ہے.بعد میں وہ وائسرائے کے ملٹری سیکرٹری ہو کر چلے گئے اور وہیں سے ریٹائر ہوئے.غرض اُس زمانہ میں عملی طور پر ہندوؤں کی ہی حکومت تھی.جب کشمیر میں فسادات ہوئے تو اُس وقت لارڈ ولنگڈن وائسرائے تھے.میں کشمیر کمیٹی بنانے کے بعد اُن سے ملا تو میں نے اُن سے کہا آپ کشمیر میں دخل کیوں نہیں دیتے ؟ وہ کہنے لگے دخل کیوں دیں؟ آپ نہیں جانتے اگر ہم نے دخل دیا تو کشمیر کا راجہ کتنا ناراض ہوگا ؟ اُس وقت حیدر آباد میں انگریز افسر مقرر تھے میں نے کہا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ہندوؤں کے خیر خواہ ہیں.حیدر آباد میں جہاں ایک مسلمان حکمران ہے آپ نے انگریز افسر بھجوائے ہوئے ہیں مگر کشمیر میں جہاں ایک ہندو راجہ ہے آپ نے کوئی انگریز افسر نہیں بھجوایا.اس پر وہ اور باتیں کرنے لگ گئے.بہر حال گو بھارت کی حکومت حال ہی میں قائم ہوئی ہے لیکن انگریزوں کے زمانہ میں بھی اصل حاکم بھارت ہی تھا اور وہ ہر جگہ قابض تھا.خدا تعالی کی طرف سے ایک نورانی کرن کا ظہور فرض اس سفر میں ایک طرف تو مسلمانوں کی گزشتہ شان و شوکت کے تمام آثار میری آنکھوں کے سامنے تھے اور دوسری طرف مجھے مسلمانوں کی موجودہ بے کسی اور انتہائی بے بسی دکھائی دے رہی تھی.میں اِن حالات پر خاموشی سے غور کرنے لگا اور سوچتا رہا اور کافی دیر خاموش کھڑا رہا.میری ہمشیرہ مبارکہ بیگم

Page 469

انوار العلوم جلد 26 417 سیر روحانی (12) نے مجھے آواز بھی دی کہ اب دھوپ تیز ہو گئی ہے واپس آجائیں مگر میں اپنے خیالات میں ہی محور ہا.آخر میں نے کہا.میں نے پالیا.میں نے پالیا.“ میری لڑکی امتہ القیوم بیگم کہنے لگیں ابا جان! آپ نے کیا پالیا ؟ میں نے کہا میں نے جو پانا تھا وہ پا لیا.اُس وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ یہ تمام آثار قرآن کریم میں زیادہ شان کے ساتھ موجود ہیں.تمہیں ان آثار قدیمہ پر افسوس کرنے کی ضرورت نہیں.قرآن کریم میں جو آثار قدیمہ پائے جاتے ہیں اُن کے سامنے ان آثار قدیمہ کی کچھ بھی وقعت نہیں.میری لڑکی نے کہا آپ مجھے بھی بتا ئیں کہ آپ نے کیا پا لیا ؟ مگر میں نے کہا میں اس وقت تمہیں نہیں بتاؤں گا جلسہ سالانہ کے موقع پر میں ساری جماعت کو بتاؤں گا وہاں تم بھی سن لینا.چنانچہ 1938 ء کے جلسہ پر میں نے ”سیر روحانی“ کے موضوع پر پہلا لیکچر دیا تھا اور اب یہ اس سلسلہ کی آخری تقریر ہے.جب میں نے اس سلسلہء تقاریر کو شروع کیا تو اُس وقت میں جوان تھا اور میری صحت مضبوط تھی مگر اب میں کمزور ہوں اور زیادہ دیر تک بول نہیں سکتا.مگر بہر حال خدا تعالیٰ نے مجھے جس قدر توفیق دی میں اس مضمون کو مکمل کرنے کی کوشش کروں گا.آج کی تقریر میں میں اُن کتب خانوں کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو قرآن کریم میں پائے جاتے ہیں کیونکہ اس سفر میں میں نے بادشاہوں کے کتب خانے بھی دیکھے تھے اور میں ان سے بہت متاثر ہو ا تھا.قرآن کریم کا دعویٰ کہ اُس کے اندر سب سے پہلے میں اس بات کو بیان کرتا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے ہر رقسم کے کتب خانے موجود ہیں کہ میرے اندر ہر قسم کے کتب خانے موجود ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی سورۃ البینہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ وَالْمُشْرِكِيْنَ مُنْفَكَيْنَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ ) رَسُولٌ مِنَ اللهِ يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً كُ فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ 3 یعنی اہل کتاب اور

Page 470

انوار العلوم جلد 26 418 سیر روحانی (12) →- مکہ کے مشرک کبھی بھی اپنی شرارتوں سے باز نہیں آ سکتے تھے جب تک ان کے پاس کوئی بڑی دلیل نہ آتی.لیکن دلیل کئی قسم کی ہوتی ہے.ایک دلیل وہ ہوتی ہے جو خارجی ہوتی ہے اور ایک دلیل اندرونی ہوتی ہے.یہ لوگ باہر کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کر سکتے تھے اس لئے اُن کے اندر ایک رسول آنا چاہئے تھا اور رسول بھی ایسا آنا چاہئے تھا جو ریفارمر (REFORMER) ہی نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ شریعت بھی ہو.يَتْلُوا صُحُفًا مُطَهَّرَةً اور اُن کو وہ تمام کتب پڑھ کر سُنائے جو اُن کے باپ دادوں کے زمانہ میں نازل ہوئی تھیں مگر اُن میں جو حشو و زوائد پائے جاتے تھے وہ اُن میں سے نکال دے.فِيْهَا كُتُبُ قَيِّمَةٌ - اور ایسی کتاب پڑھ کر سُنائے جس میں تمام سابقہ کتب کی قائم رہنے والی تعلیمیں موجود ہوں اور پہلی کتابوں میں سے جو باتیں منسوخ ہو گئی ہوں وہ اس میں موجود نہ ہوں تب جا کر اُن کی اصلاح ہو سکتی ہے.غرض قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں وہ جو منسوخ نہیں تعلیمیں موجود ہے ہوئیں.کوئی قائم رہنے والی چیز چاہے وہ وید میں ہو، ژند اوستا میں ہو، تو رات میں ہو ایسی نہیں کہ وہ قرآن کریم میں موجود نہ ہو.اور کوئی سچی یا قائم رہنے والی تعلیم ایسی نہیں جو وید، ژند اوستا، تو رات یا انا جیل میں موجود ہو اور اس میں حشو 4 مل گیا ہو اور اُس کا ازالہ قرآن کریم نے نہ کیا ہو.یہاں یہ امر بھی یا د رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم حجم کے لحاظ سے بہت چھوٹی سی کتاب ہے جو وید اور تورات سے ہی چھوٹی نہیں بلکہ انا جیل سے بھی چھوٹی ہے.ایسی کتاب کا دعوی کرنا کہ میرے اندر تمام سابقہ کتب موجود ہیں اور اُن کے حشو و زوائد کو میں نے دُور کر دیا ہے بتاتا ہے کہ اس کے اندر تمام سابقہ کتب بالتفصیل موجود نہیں بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر تمام اصولوں کو بیان کر دیا گیا ہے.کیونکہ اگر ساری سابقہ کتب سماوی اور تمام علوم اس کتاب میں بالتفصیل بیان ہوتے تو قرآن اتنی بڑی کتاب ہو جاتی کہ آسمان کی فضا کو بھی بھر دیتی مگر یہ تو جیب میں آجاتی ہے.بلکہ آج ایک دوست نے مجھے تحفہ بھیجا ہے وہ ایک ٹھپہ ہے جس پر کسی کا ریگر نے ایک ہی طرف سارا قرآن کریم

Page 471

انوار العلوم جلد 26 419 سیر روحانی (12) لکھ دیا ہے.لیکن اگر بڑے حجم والے قرآن کریم بھی دیکھے جائیں تو وہ چھ سات سو صفحات میں ختم ہو جاتے ہیں لیکن بائبل اور اناجیل اس سے بہت بڑی ہیں.بہر حال قرآن کریم نے جو کچھ کہا ہے کہ اس میں تمام سماوی اور الہامی کتب موجود ہیں دین کو قائم رکھنے والی تمام تعلیمیں موجود ہیں، اسی طرح تمام ضروری علوم موجود ہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام کتب اور علوم اپنی پوری تفصیل کے ساتھ قرآن کریم میں موجود ہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم میں اُن تمام سچائیوں کے اصول بیان کر دیئے گئے ہیں اور اُن میں جو غلطیاں اور زوائد تھے اُن کی اصلاح کر دی گئی ہے.زمین و آسمان کی پیدائش چھ دنوں مثال کے طور پر مئیں اس بات کو لیتا دوره " ہوں کہ بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ میں نہیں بلکہ چھ یوم میں ہوئی ہے نے زمین وآسمان کو چھ دنوں میں پیدا کیا ہے اور ساتویں دن آرام کیا حالانکہ تمام سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ زمین و آسمان چھ دنوں میں پیدا نہیں ہوئے بلکہ وہ اس عرصہ کو چھ یوم سے بھی آگے لے جاتے ہیں.قرآن کریم میں اس مفہوم کو ادا کرنے کے لئے ” یوم “ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور عربی زبان میں ”یوم “ کے معنے دن کے نہیں ہوتے بلکہ وقت کے ہوتے ہیں.پس قرآن کریم بر بتاتا ہے کہ زمین و آسمان چھ وقتوں یا چھ درجوں میں پیدا کئے گئے ہیں.گویا قرآن کریم میں زمین و آسمان کی پیدائش کے دن بیان نہیں کئے گئے بلکہ چھ درجے بیان کئے گئے ہیں.دنوں کے لحاظ سے بعض لوگوں نے اُن کا شمار جمعہ سے کیا ہے اور بعض لوگوں نے ہفتہ سے اُن کا شمار کیا ہے اور بعض نے اس کے بعد اتوار سے شمار کیا ہے.یہودی لوگ ہفتہ کو سبت " مانتے ہیں اور مسلمان جمعہ کو سبت شمار کرتے ہیں جو آرام کا دن ہے اور 66 66 عیسائیوں اور ہندوؤں میں ”سبت اتوار کا دن ہے.”سبت ، در حقیقت ہفتہ کا ہی دن تھا مگر جب رومی بادشاہ عیسائیت میں داخل ہوا تو اُس نے پادریوں کی ایک کونسل بٹھائی اور اُس کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ رومی لوگ نہ تو ایک خدا کو مانیں گے کیونکہ وہ تثلیث کے قائل ہیں اور نہ وہ ”سبت ہفتہ کو مانیں گے اس لئے یہاں عیسائیت کا پھیلنا مشکل

Page 472

انوار العلوم جلد 26 420 سیر روحانی (12) اس پر پادریوں نے کہا کہ ہمیں تو عیسائیت کی اشاعت سے غرض ہے ہم تین خدا مان لیتے ہیں.صحیح ، رُوح القدس اور خدا.اور آپ بے شک ہفتہ کی بجائے اتوار کی تعطیل کا اعلان کر دیں.چنانچہ عیسائیوں میں اتوار کی تعطیل ہونے لگ گئی.مسلمانوں میں جمعہ کی تعطیل ہوتی رہی کیونکہ قرآن کریم میں جمعہ کے دن کو ترجیح دی گئی ہے.اور یہودیوں میں ہفتہ کے دن کو آرام کا دن قرار دیا گیا ہے اور تورات میں اس کا وضاحت سے ذکر ہے.چنانچہ اُس میں لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو چھ دن میں پیدا کیا اور ساتویں دن اُس نے آرام کیا.5 بعض اردو کے نسخوں میں مترجموں نے لوگوں کے اعتراض کے ڈر سے آرام کیا کی جگہ فراغت پائی“ یا ” فارغ ہوا“ کے الفاظ لکھ دیئے ہیں.لیکن دوسرے نسخوں میں آرام کیا“ کے الفاظ ہی موجود ہیں.اور اسی بناء پر ہفتہ کے دن کو یہود میں مقدس قرار دیا گیا ہے.2 لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ زمین و آسمان بائبل کی اصلاح کو چھ وقتوں یا درجوں میں پیدا کیا گیا ہے مگر یہ بات غلط ہے کہ ساتویں دن خدا تعالیٰ کو آرام کی ضرورت محسوس ہوئی.چنانچہ خدا تعالیٰ سورۃ ق میں فرماتا ہے له وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ * وَمَا مَسَّنَا مِنْ تُغُوب 70 یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور جو کچھ اُن کے درمیان ہے چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے اور ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی.یعنی بائبل کا یہ بیان تو درست ہے کہ زمین و آسمان کو چھ وقتوں میں پیدا کیا گیا لیکن یہ بات درست نہیں کہ اس کے بعد ہم تھک گئے.ہم نہ تھکے اور نہ ہمیں آرام کی ضرورت پیش آئی.کیونکہ ہمارا پیدائش کا طریق ایسا ہے کہ ہم تھک ہی نہیں سکتے.ایک دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ الله لا إله إلا هو الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ يَعْلَمُ مَا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ۚ وَلَا ج يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِهِ إِلَّا بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ

Page 473

انوار العلوم جلد 26 421 سیر روحانی (12) 8 وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ 20 فرماتا ہے اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا پرستش کا اور کوئی مستحق نہیں.وہ اپنی ذات میں کامل حیات والا ہے اور دوسروں کو حیات عطا کرنے والا ہے اور اپنی ذات میں قائم اور ہر ایک چیز کو قائم رکھنے والا ہے.نہ اُسے اونگھ آتی ہے اور نہ وہ نیند کا محتاج ہے.جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اُسی کا ہے.کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے حضور سفارش کرے؟ جو کچھ اُن کے سامنے ہے یعنی اُن کا مستقبل اور جو کچھ اُن کے پیچھے ہے یعنی اُن کی نظروں سے غائب ہے وہ سب کچھ جانتا ہے اور وہ اس کی مرضی کے سوا اس کے علم کے کسی حصہ کو بھی نہیں پا سکتے.اُس کا علم تمام زمین و آسمان پر حاوی ہے.اور زمین و آسمان کی حفاظت اُس پر کوئی بوجھ نہیں بلکہ وہ نہایت آسانی کے ساتھ ان دونوں کا انتظام چلا رہا ہے.اور وہ بڑی بلندشان رکھنے والا اور بڑی عظمت اور جبروت کا مالک ہے.اب جس ہستی نے حسن کہہ کر ساری دنیا کو پیدا کیا ہو اور اُس پر نہ اونگھ آئے نہ نیند ، نہ زمین و آسمان کی حفاظت کا کام اُس کیلئے بوجھ ہو اُس کے لئے کسی تھکان کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے.ائشِ عالم کے متعلق قرآنی نظر یہ ایک دوسری جگہ اللہ تعلی پیدائش عالم پیدائش نظریہ متعلق فرماتا ہے انما امر إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ 2 یعنی اللہ تعالیٰ کا پیدائشِ عالم کے معاملہ میں یہ طریق ہے کہ جب وہ کسی چیز کے متعلق چاہتا ہے کہ ہو جائے تو وہ صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے اور ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں يَكُونُ کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو اپنے اندر استمرار کے معنے رکھتا ہے.پس اس کے یہ معنے نہیں کہ وہ حسن " کہتا ہے اور چیز تیار ہو جاتی ہے بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ ہوتی چلی جاتی ہے.یعنی انسان کا طریق یہ ہے کہ جس چیز کو پیدا کرتا ہے محنت سے کرتا ہے اور اس میں یہ طاقت نہیں ہوتی کہ وہ جس چیز کو چاہے پیدا کر دے بلکہ یا تو وہ نمونہ دیکھ کر اُس جیسی چیز بناتا ہے اور یا بڑی محنت سے کوئی چیز ایجاد کرتا ہے.پھر وہ جس چیز کو بناتا ہے وہ صرف ایک ہی ہوتی ہے.اُس میں تناسل کا سلسلہ نہیں ہوتا.لیکن خدا تعالیٰ بغیر نمونہ کے پیدا کرتا ہے اور پھر پیدا کرتا

Page 474

انوار العلوم جلد 26 422 سیر روحانی (12) چلا جاتا ہے.مثلاً موٹر انسان کی پیدا کی ہوئی ہے مگر ابھی تک کسی نے نہیں سنا کہ موٹر نے کبھی بچہ دیا ہو.اسی طرح ریل ہے یہ انسان کی ایجاد ہے مگر کسی نے نہیں سنا ہوگا کہ ریل نے بچہ دیا ہے اور اب ایک کی بجائے دس ریلیں بن گئی ہیں.مگر خدا تعالیٰ کی پیدائش دیکھ لو وہ ہوتی چلی جاتی ہے.اُس نے صرف ایک آدم پیدا کیا تھا مگر اب اربوں آدمی موجود ہیں گویا اُس کی نسل پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.اسی طرح ایک مسیح اُس نے پیدا کیا مگر اب اور صحیح پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور قیامت تک ہوتے چلے جائیں گے.اسی طرح ایک ابراہیم اس نے پیدا کیا تھا مگر اس کے بعد ابراہیم پر ابراہیم پیدا ہوتے چلے گئے اسی لئے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام ” فَاطِر “ بھی آتا ہے.فاطر کے معنے ہیں بغیر نمونہ کے پیدا کرنے والا.چنانچہ حضرت ابن عباس فاطر کے معنے سے روایت ہے کہ كُنتُ لَا اَدْرِى مَا فَاطِرُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ حَتَّى أَتَانِي أَعْرَابِيَّانِ يَخْتَصِمَانِ فِي بِئْرٍ - فَقَالَ أَحَدُهُمَا أَنَافَطَرُ تُهَا أَيْ إِبْتَدَأْتُهَا 10 یعنی میں قرآن کریم میں فاطر کا لفظ پڑھا کرتا تھا لیکن مجھے پتا نہیں چلتا تھا کہ فاطر کیا ہوتا ہے یعنی جب خالق کہہ دیا تو پھر فاطر کیا ہوا.یہاں تک کہ ایک دن میرے پاس دو اعرابی آئے جو ایک کنویں کے بارے میں جھگڑ رہے تھے.ایک کہہ رہا تھا میرا کنواں ہے اور دوسرا کہہ رہا تھا یہ میرا کنواں ہے.اُن میں سے ایک نے کہا میں نے اسے فطر کیا تھا.اور اس سے مراد یہ تھی کہ میں نے اسے پہلے کھودا تھا.بعد میں اس نے قبضہ کر لیا.اُس دن مجھے فاطر کے حقیقی معنوں کا علم ہوا اور میں سمجھ گیا کہ فاطر اس کو کہتے ہیں جو نئے سرے سے ایجاد کرے اور بغیر نمونہ کے ایجاد کرے.اور اعرابی کا یہ کہنا کہ آنَا فَطَرْتُهَا “ اِس کے معنے یہ تھے کہ پہلے اس علاقہ میں کوئی کنواں نہیں تھا.پہلے پہل میں نے ہی کنواں کھودا تھا.حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ اس اعرابی کے استعمال کی وجہ سے مجھے ”فاطر“ کے معنے سمجھ آئے اور مجھے معلوم ہوا کہ اس کے معنے ابتدا کرنے کے ہیں پس كُنْ فَيَكُونُ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جن چیزوں کو پیدا کرتا ہے اُن میں تناسل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور اس قسم کی اور چیزیں پیدا ہوتی چلی جاتی ہیں اور وہ ختم نہیں ہو جاتیں.مثلاً

Page 475

انوار العلوم جلد 26 423 سیر روحانی (12) اُس نے سورج اور چاند پیدا کئے ہیں اور اب نئے نئے سورج اور چاند پیدا ہو رہے ہیں جیسا کہ علم ہیئت سے ثابت ہے.اُس نے صرف ایک پہاڑ اور صرف ایک دریا ہی پیدا نہیں کیا بلکہ اُس کے بنائے ہوئے پہاڑوں اور دریاؤں سے نئے نئے پہاڑ اور دریا نکلتے جارہے ہیں.اُس نے صرف ایک انسان پیدا نہیں کیا تھا بلکہ اُس کی نسل سے کروڑوں اور اربوں انسان پیدا ہو گئے ہیں.اُس نے ایک ابرا ہیم ہی پیدا نہیں کیا بلکہ پہلے ابراہیم کی مثال میں ہزاروں ابراہیم پیدا ہو رہے ہیں.اُس نے ایک نوح ہی پیدا نہیں کیا بلکہ حضرت نوح علیہ السلام کی مثال میں ہزاروں اور نوح پیدا ہورہے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارے انبیاء کا نمونہ تھے اور اُن کے وجود میں سارے انبیا ء زندہ ہو گئے تھے.بلکہ آپ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آخری زمانہ میں مہدی آخر الزمان کے زمانہ میں سارے انبیا ء زندہ ہو جائیں گے.مہدی آخرالزمان کے متعلق چنانچہ شیعوں کے امام باقر بحارالانوار" میں فرماتے ہیں کہ امام مہدی کہے گا اے حضرت امام باقر کے ارشادات لوگو! اگر تم میں سے کوئی ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ سن لے کہ میں ہی ابراہیم اور اسماعیل ہوں 11 آجکل تو لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا ہے میں کبھی آدم کبھی موسی کبھی یعقوب ہوں نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار 12 لیکن امام باقر فرماتے ہیں کہ آخری زمانہ میں مہدی کہے گا کہ اے لوگو ! تم میں سے جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کو دیکھنا چاہتا ہو وہ سن لے کہ میں ہی ابرا ہیم اور اسماعیل ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی حضرت موسی اور حضرت یوشع کو دیکھنا چاہتا ہے تو وہ سن لے کہ میں ہی موٹی اور یوشع ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی عیسی اور شمعون کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ میں ہی عیسی اور شمعون ہوں.اور اگر تم میں سے کوئی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 476

انوار العلوم جلد 26 424 سیر روحانی (12) اور حضرت علی کو دیکھنا چاہتا ہے تو سن لے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علیؓ میں ہی ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تمام قرآن کریم میں بھی اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق انبیاء کے مثیل اور اُن سے افضل تھے وضاحت سے فرماتا ہے کہ آپ حضرت موسی کے مظہر ہیں چنانچہ فرمایا اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمُ كَمَا اَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولاً 13 یعنی اے لوگو! ہم نے تمہاری طرف اسی طرح ایک رسول تمہارا نگران بنا کر بھیجا ہے جس طرح ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا.اسی طرح سورۃ یوسف کے آخر میں بھی یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت یوسف کے مثیل ہیں 14.چنانچہ جب آپ نے مکہ فتح کیا اور آپ کے سامنے وہ تمام مجرم پیش ہوئے جنہوں نے آپ کو مکہ سے نکال دیا تھا اور وہ تیرہ سال تک آپ پر اور آپ کے صحابہ" پر بے انتہاء ظلم کرتے رہے تھے تو آپ نے اُن سے پوچھا کہ بتاؤ اب تم سے کیا سلوک کیا جائے؟ تو وہ لوگ گو آپ کے منکر تھے لیکن قرآن کریم سُن سُن کر اُن کو اتنا پتا لگ گیا تھا کہ آپ مثیل یوسف بھی ہیں.چنانچہ انہوں نے کہا آپ ہم سے وہی سلوک کریں جو یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا اور چونکہ آپ مثیل یوسف تھے اس لئے جس طرح حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں سے فرمایا تھا کہ جاؤ میں تم سب کو معاف کرتا ہوں ، اسی طرح آپ نے بھی مشرکین مکہ سے فرمایا کہ لَا تَشْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ 15 آج تم پر کسی قسم کی گرفت نہیں.گویا آپ نے عملاً وہی مثال پیش کی جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کے معاملہ میں پیش کی تھی.حالانکہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائی تو اُن کے باپ کی نسل میں سے تھے لیکن مکہ والے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ کی نسل میں سے نہیں تھے اور نہ ہی اُن سے آپ کا دودھ کا کوئی تعلق تھا.جس سے پتا چلتا ہے کہ آپ صرف حضرت یوسف علیہ السلام کے مثیل ہی نہیں تھے بلکہ اُن سے بھی بڑھ کر تھے.صرف مثال کے طور پر چند مثالیں پیش کی گئی ہیں ورنہ

Page 477

انوار العلوم جلد 26 425 سیر روحانی (12) حقیقتا آپ سب انبیاء کے مثیل تھے.آپ مثیلِ آدم بھی تھے کیونکہ آپ کے ذریعہ ایک نئی نسل چلی.حضرت آدم علیہ السلام کو صرف اتنی فضیلت حاصل ہے کہ اُن کے ذریعہ سے اور بشر پیدا ہوئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے آدم ہوئے کہ آپ کے ذریعہ سے ایک ایسی نسل چلی جو تمام انسانوں سے ممتاز تھی جیسے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد تمام جانوروں سے ممتاز تھی.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ دین تھا جو دین فطرت تھا اور آپ کو ایسی تعلیم ملی تھی جس میں ساری دنیا کے ساتھ حسن سلوک کا حکم تھا.اسی طرح آپ مثیلِ نوح بھی تھے کیونکہ آپ کی قوم پر بھی ایسا ہی طوفان آیا جیسے نوح علیہ السلام کی قوم پر آیا تھا اور اس سے وہی بچے جو آپ کی کشتی میں بیٹھے تھے.اب میں کتب خانوں کی تاریخی نقطہ نگاہ سے قرآنی کتب خانہ پر نظر مناسبت سے سب سے پہلے تاریخ کو لیتا ہوں اور بتا تا ہوں کہ باوجود اس کے کہ دنیا میں بہت سی تاریخ کی کتابیں موجود ہیں پھر بھی قرآن کریم نے جو تاریخ پیش کی ہے اس کی مثال دنیا کی کوئی تاریخی کتاب پیش نہیں کر سکتی.اس بارہ میں میں سب سے پہلے تاریخ وحی و رسالت کو لیتا تاریخ وحی و رسالت ہوں.قرآن کریم نے اصولی طور پر یہ بات بیان کی ہے كه ان مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ 160 یعنی دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی ہدایت دینے والا نہ آیا ہو.اسی طرح فرماتا ہے وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍن 17 ہر ایک قوم میں کوئی نہ کوئی ہادی گزرا ہے.نذیر کے معنے نبی کے بھی ہوتے ہیں مگر نذیر کے لغوی معنے ڈرانے والے کے ہوتے ہیں.یعنی جب قوم سوئی ہوئی ہوتی ہے تو وہ انہیں آ کر ہوشیار کرتا ہے 18.اس کے معنے زیادہ تر ریفارمر (REFORMER) کے بھی سمجھے جاسکتے ہیں.مگر ہادی کے معنوں میں نبوت زیادہ واضح ہے اور یوں قرآنی محاورہ کے مطابق بھی اور لغت کے لحاظ سے بھی نذیر کے معنے نبی کے بھی ہوتے ہیں.غرض قرآن کریم نے بتایا ہے کہ دنیا کی ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی یا کم از کم کوئی ریفار مرضرور آیا.

Page 478

انوار العلوم جلد 26 426 سیر روحانی (12) ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہندوستان میں حضرت کرشن اور رام چندر جی کو نبیوں کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور ان کا نام اوتار رکھا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ گانَ فِى الْهِنْدِ نَبِيًّا اَسْوَدُ اللَّوُن اِسْمُهُ كَا هِناً یعنی ہندوستان میں ایک سیاہ فام نبی گزرے ہیں جن کا نام کن بیا یعنی کرشن تھا.اب دیکھو کہ ہندو کہتے ہیں کہ مسلمان ہمارے دشمن ہیں لیکن قرآن کہتا ہے وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ - ہندوستان میں بھی ہمارے بعض بزرگ بندے گزرے ہیں.اور جب ہندوستان میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بھائی گزرا ہے تو اُس کی اولاد کے ہم دشمن کیسے ہو سکتے ہیں.مسلمان ہرگز ہندوؤں کے دشمن نہیں کیونکہ ہند و حضرت کرشن اور رام چندر جی کی اولاد ہیں.یا کم سے کم اُن کی اُمت ہیں اور اُن کے ماننے والے ہیں اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ تمام انبیاء آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں.19 پس کرشن اور رام چندر جی بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھتیجوں کے ہم دشمن کیسے ہو سکتے ہیں.جو لوگ ہمارے آقا کے بھیجے ہوں گے نہ ہمارا آقا اُن کا دشمن ہوگا اور نہ ہم اُن کے دشمن ہوں گے.یہ محض غلط فہمی اور ضد ہے ورنہ مسلمان جو قرآن کریم کو سمجھتا ہے وہ نہ کسی ہندو کا دشمن ہو سکتا.اور نہ اس کی عداوت اس کے اندر پیدا ہوسکتی ہے.دتی کے ایک بزرگ کا کشف پرانے زمانہ میں وتی کے ایک بزرگ گزرے ہیں اُن کے ایک مُرید نے ایک دفعہ کہا کہ w ہے ہمارا یہ خیال غلط ہے کہ کرشن جی اور رام چندر جی ہندوستان کے نبی تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ ایک آگ جل رہی ہے اور کرشن جی تو اُس کے اندر جل رہے ہیں اور رام چندر جی اُس کے کنارے کھڑے ہیں.وہ بزرگ کہنے لگے تم نے اس خواب کی تعبیر غلط سمجھی ہے.آگ کے معنے محبت الہی کی آگ کے ہیں اور اس خواب میں اللہ تعالیٰ نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ حضرت کرشن خدا تعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور رام چندر جی اُن سے کم درجہ رکھتے تھے.اب دیکھو پرانے زمانہ کے

Page 479

انوار العلوم جلد 26 427 سیر روحانی (12) اولیاء بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہندوستان میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر خدا تعالیٰ کے نبی گزرے ہیں اور محبت الہی کی آگ نے اُن کا احاطہ کیا ہو ا تھا.وو 66 اسی طرح چین میں کنفیوشس کو پیش کیا جاتا ہے گوچینی زبان میں آپ کا نام نبی کی بجائے کچھ اور رکھا گیا ہے اور آپ کو زیادہ تر اُستاد کے نام سے یاد کیا جاتا ہے مگر اسی کو عربی زبان میں نذیر اور ہادی کہتے ہیں.اسی طرح برما اور سیلون میں حضرت بدھ علیہ السلام کو پیش کیا جاتا ہے کہ وہ خدا رسیدہ انسان تھے اور خدا کا کلام اُن پر نازل ہوتا تھا.گو بدھ علیہ السلام بہار میں پیدا ہوئے ہیں مگر بہر حال جن قوموں نے انہیں مانا وہ اُن کے لئے ہادی ہی تھے.ہندوستان نے بھی ایک دفعہ اُن کو مان لیا تھا لیکن بعد میں آپ کے ماننے والوں کو اُس نے ملک سے نکال دیا.چنانچہ اُن میں سے بعض تبت چلے گئے، بعض بر ما چلے گئے ، کچھ سیلون یا جاپان چلے گئے.غرض قرآن کریم نے اس ایک آیت میں ہی تمام مذہبی تاریخ عالم بیان کر دی اور سب تاریخوں پر روشنی ڈال دی.اب اگر ایک عیسائی یا ہند و چین جاتا ہے اور وہاں کنفیوشس کا ذکر سنتا ہے تو وہ اپنی کتاب کے بچاؤ کی فکر میں پڑ جاتا ہے کیونکہ اس نے انجیل اور وید میں پڑھا ہوتا ہے کہ خدا صرف عیسائیوں اور ہندوؤں کا خدا ہے باقی قوموں کا خدا نہیں.لیکن اگر کوئی مسلمان غیر قوموں میں جاتا ہے اور وہاں اُن کے ہادیوں کا ذکر سنتا ہے تو بجائے کوئی فکر کرنے کے الحَمدُ لِلهِ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میری کتاب کی سچائی ظاہر ہوگئی.مجھے تاریخ عالم میں تلاش کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی.خود ان قوموں نے میرے سامنے اپنے ہادی پیش کر دیئے اور میری کتاب کی سچائی ظاہر کر دی.چین والے کنفیوشس کو پیش کرتے ہیں، برما اور سیلون والے بدھ علیہ السلام کو پیش کرتے ہیں تو ہندو و فکر پڑ جاتی ہے، عیسائی کو فکر پڑ جاتی ہے، یہودی کو فکر پڑ جاتی ہے کہ یہ کیا ہوا ہمیں تو بڑی مشکل پیش آگئی.لیکن ایک مسلمان جہاں کہیں جاتا ہے اُسے کوئی فکر نہیں ہوتی.اُس کے سامنے کنفیوشس کا نام پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ.اُس کے سامنے زرتشت کا نام پیش کیا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.کرشن کا نام آتا ہے تو

Page 480

انوار العلوم جلد 26 428 سیر روحانی (12) کہتا ہے الْحَمْدُ لِلهِ.رام چندر جی کا نام آتا ہے تو کہتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ.بدھ کا نام آتا ہے تو کہتا ہے اَلحَمدُ لِلهِ.کیونکہ وہ سمجھتا ہے میری کتاب میں یہی لکھا ہے کہ ہر قوم میں ہادی آئے ہیں مجھے کوئی تلاش نہیں کرنی پڑی.ہندوؤں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر کرشن اور رام چندر جی وغیرہ آئے ہیں، بدھوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر بدھ گزرے ہیں، عیسائیوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزرے ہیں ، یہودیوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر موسی علیہ السلام گزرے ہیں، یونانیوں نے آپ ہی پیش کر دیا ہے کہ ہمارے اندر سقراط گزرا ہے.سقراط بھی خدا تعالیٰ کا ایک نبی تھا عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یونان میں کوئی نبی نہیں گزرا اور گو یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم وہاں کے کسی نبی کو تلاش کرتے پھریں مگر چونکہ قرآن کریم نے اصولی طور پر کہہ دیا ہے کہ ہر قوم میں کوئی نہ کوئی نبی گزرا ہے اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ یونان میں بھی نبی آیا ہے اور سقراط کے متعلق تاریخ کہتی ہے کہ وہ کہا کرتا تھا مجھ پر فرشتے اترتے ہیں اور مجھ سے باتیں کرتے ہیں.اُس وقت کی حکومت نے جو بُت پرست تھی اُس کے قتل کی تاریخ مقرر کر دی.اُس کے ایک شاگرد نے یہ پیشکش کی کہ آپ یہاں سے بھاگ جائیں.تو سقراط نے جواب دیا کہ مجھے تو فرشتوں نے بتایا ہے کہ تیری موت اس طرح واقع ہوگی.میں اس موت سے کس طرح بھاگ سکتا ہوں.20 مذہبی تا ریخ کے سلسلہ میں پھر مذہبی تاریخ کے ضمن میں قرآن کریم نے یہ عظیم الشان انکشاف کیا کہ قرآن کریم کا ایک عظیم الشان انکشاف سمندر میں ڈوبتے وقت فرعون نے تو بہ کر لی تھی اور وہ حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے رب پر ایمان لے آیا تھا.اور یہ کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ کہا تھا کہ فَاليَوْمَ نُنَجِيكَ بِبَدَنِكَ لِتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً 21 یعنی تو بہت آخری وقت میں ایمان لایا ہے اگر تو پہلے ایمان لاتا تو ہم تیرے جسم اور روح دونوں کو بچالیتے مگر تو چونکہ ڈوبتے وقت ایمان لایا ہے اس لئے ہم

Page 481

انوار العلوم جلد 26 429 سیر روحانی (12) اس وقت تجھ پر یہ احسان تو نہیں کر سکتے کہ ہم تیری روح کو بچائیں کیونکہ موت کے وقت تیرا ایمان لانا کافی نہیں.اب ہم تجھ سے یہ وعدہ کرتے ہیں کہ تیرے جسم کو بچا لیا جائے گا تا تیرا نشان قائم رہے اور خدا تعالیٰ کی قدرت کو ظاہر کرتا رہے.چنانچہ اب انیسویں صدی میں آثار قدیمہ کی تحقیق کرنے والوں کو فرعون کی لاش مل گئی ہے اور اُسے مصر کے عجائب گھر میں میں نے خود دیکھا ہے.بعد میں اس لاش کولندن لے جایا گیا تھا لیکن اب سنا ہے کہ پھر مصر آ گئی ہے.پس یہ زبر دست ثبوت اس بات کا ہے کہ قرآن کریم میں جو تاریخ عالم پائی جاتی ہے دنیا کی کوئی تاریخ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.بائبل کا دعویٰ ہے کہ وہ حضرت موسی علیہ السلام کے وقت کی تاریخ بیان کرتی ہے لیکن وہ فرعون کے جسم کے بچائے جانے کے متعلق بالکل خاموش ہے مگر قرآن کریم جو موسیٰ علیہ السلام کے دو ہزار سال بعد آیا اُن واقعات کو بیان کرتا ہے جو بائبل میں مذکور نہیں اور تاریخ ان واقعات کی تصدیق کرتی ہے.یہ ثبوت ہے اس بات کا کہ قرآن کریم کو نازل کرنے والا وہ خدا ہے جس سے زمین و آسمان کی کوئی بات پوشیدہ نہیں.قرآن کریم میں بعض پھر قرآن کریم میں انبیاء کی تاریخ کے علاوہ قوموں کی تاریخ بھی بیان ہوئی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ عاد قوم قدیم اقوام کی تاریخ کا ذکر کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتا ہے اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادِةُ إِرَمَ ذَاتِ الْعِمَادِةُ الَّتِي لَمْ يُخْلَقُ مِثْلُهَا فِي الْبِلَادِ.22 کیا تجھے معلوم ہے کہ تیرے رب نے عاد سے کیا معاملہ کیا تھا ؟ یعنی عادِاِرم سے جو بڑی بڑی عمارتوں والے تھے اور جن کی مانند کوئی قوم ان ملکوں میں پیدا ہی نہیں کی گئی تھی.اس آیت میں قوم عاد کی اس خصوصیت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ بڑے بڑے محلات بناتی تھی جن کو ستونوں پر کھڑا کیا جاتا تھا.چنانچہ لعل انہی لوگوں کا دیوتا تھا اور بعلبک انہی لوگوں کا بسایا ہو اشہر تھا جو لبنان کی سرحد پر واقع ہے.میں 1955 ء میں جب بیمار ہوا اور لندن گیا تو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ساتھ بعلبک بھی گیا تھا.جرجی زیدان جو بڑا سخت عیسائی مؤرخ ہے وہ بھی اپنی کتاب الْعَربُ قَبْلَ الْإِسْلَامِ 66

Page 482

انوار العلوم جلد 26 430 سیر روحانی (12) میں یہ لکھنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ عاد قوم کے متعلق تاریخ کی سینکڑوں صفحات کی کتابیں اس سے زیادہ معلومات بیان نہیں کر سکیں جتنی معلومات قرآن کریم نے چند مختصر الفاظ میں بیان کر دی ہیں.میں نے خود عاد قوم کا بعلبک میں محل دیکھا ہے جو ایک سو پچاس ستونوں پر بنا ہوا ہے اور ان ستونوں پر کئی بڑے بڑے کمرے اور برآمدے بنے ہوئے ہیں.اور قرآن کریم نے بھی یہی بتایا تھا کہ وہ ستونوں پر اپنی عمارتیں کھڑی کیا کرتے تھے.معلوم ہوتا ہے اُن دنوں فنِ تعمیر اپنے عروج پر تھا.گویا قرآن کریم میں علم تاریخ کے علاوہ علم تعمیر بھی آگیا.اسی طرح قوم خمود کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادَأُ الأولى وَثَمُودَا فَمَا ابْقَى 23 یعنی اُس خدا نے پہلی عاد قوم کو ہلاک کیا تھا اور پھر ان کے بعد ثمود کو بھی اُس نے ہلاک کیا اور عذاب نے ان کا کچھ بھی نہ چھوڑا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ خمود، عاد قوم میں سے نکلے تھے.چنانچہ نئے آثار جو اب اُردن میں پائے گئے ہیں وہ نمود کے ہی معلوم ہوتے ہیں کیونکہ وہ آثار کسی متمدن قوم کے ہی ہیں.پس تاریخ عالم کو بھی قرآن کریم نے اپنے اندر خلاصہ بیان کر دیا ہے.نیچرل ہسٹری پر اسی طرح دنیا میں ایک علم نیچرل ہسٹری (Natural History) کا پایا جاتا ہے.جس کے ماتحت شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں قرآن کریم کی روشنی وغیرہ کے متعلق بڑی وسیع تحقیق کی گئی ہے.اس علم پر قرآن کریم نے بھی روشنی ڈالی ہے اور شہد کی مکھی کا خصوصیت سے ذکر کیا ہے.اور بتایا ہے کہ ہم نے خود اس کے ظرف کے مطابق اس کی طرف وحی کی کہ پہاڑوں یا درختوں یا عرشوں پر اپنا گھر بنا اور پھر ہر قسم کے پھلوں میں سے تھوڑا تھوڑا لے کر کھا اور لوگوں کے لئے شہد تیار کر 24.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ شہد کی مکھیاں بھی مختلف قسم کی ہیں.اُن میں سے بعض پہاڑوں میں چھتے بناتی ہیں ، بعض درختوں پر چھتے بناتی ہیں اور بعض عرشوں پر جو انگوروں وغیرہ کے لئے تیار کئے جاتے ہیں چھتے بناتی ہیں.اور پھر مکھی اُس استعداد باطنی سے کام لے کر جو خدا تعالیٰ نے اس کے اندر پیدا کی ہے مختلف پھلوں اور پھولوں وغیرہ سے غذا حاصل کرتی اور شہد تیار کرتی ہے جو مختلف رنگوں اور مختلف اقسام کا ہوتا ہے مگر باوجود مختلف

Page 483

انوار العلوم جلد 26 431 سیر روحانی (12) 25 اقسام ہونے کے ان سب میں یہ بات مشترک طور پائی جاتی ہے کہ شہد لوگوں کے لئے شفاء کا موجب ہوتا ہے اور مختلف قسم کے امراض کو دُور کرنے کے کام آتا ہے علم نباتات کے متعلق اسی طرح علم نباتات بھی ایک علم ہے جس پر ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں.قرآن کریم قرآن کریم کا ایک اہم انکشاف نے اس علم کے متعلق سب سے پہلے یہ انکشاف فرمایا کہ تمام نباتات میں نرومادہ کا وجود پایا جاتا ہے.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَأَنْبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ بَهِيجٍ - 26 ہم نے زمین میں ہر قسم کے خوبصورت جوڑے اُگائے ہیں.جب یہ آیت نازل ہوئی ہے تو عربوں میں صرف اتنا علم پایا جا تا تھاکہ کھجور میں نر و مادہ ہوتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن پر قرآن نازل ہوا انہیں اتنا علم بھی نہیں تھا.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں سے گزرے تو آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھیتوں میں کام کر رہے ہیں اور وہ ایک جگہ سے کوئی چیز لاتے ہیں او ر دوسری پر لگا دیتے ہیں.آپ نے فرمایا یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا يَارَسُولَ اللہ ! ہم رکھجور کا مادہ کھجور سے پیوند کرتے ہیں.آپ نے فرمایا اس کا کیا فائدہ جو پھل لگنا ہے وہ تو آپ ہی لگ جائے گا.انہوں نے یہ بات سن کر نر اور مادہ درختوں کو آپس میں ملا نا ترک کر دیا.دوسرے سال وہ لوگ آپ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہماری فصل تو بہت کم ہوئی ہے کیونکہ ہم آپ کے کہنے پر پیوند لگانے سے رُک گئے تھے.آپ نے فرمایا تم کیوں رُک گئے تھے؟ میں تو ایک انسان ہوں اور مجھے علم غیب حاصل نہیں.اگر تمہارے تجربہ سے یہ بات ثابت تھی تو تم نے میری بات نہیں ماننی تھی.27 پھر قرآن کریم نے صرف نباتات کے نرومادہ ہونے کا ہی ذکر نہیں کیا بلکہ فرمایا.وَمِنْ كُلِّ شَيْ خَلَقْنَازَ و جَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.28 ہم نے ہر چیز کے نرومادہ بنائے ہیں تا کہ تم نصیحت حاصل کرو.اب انسان کے نرومادہ کا تو سب کو علم ہے،

Page 484

انوار العلوم جلد 26 432 سیر روحانی (12) جانوروں کے نرومادہ کا بھی علم ہے، زراعت کے متعلق بھی اب بہت حد تک پتا لگ گیا ہے کہ درختوں اور نباتات میں نرومادہ کا وجود پایا جاتا ہے.چنانچہ عام طور پر یہ قانون بتایا جاتا ہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیاں پالنی چاہئیں اور اُس کی وجہ یہ ہے کہ شہد کی مکھی نرکا پھول لے کر مادہ کے پھول سے ملا دیتی ہے اور اس کے نتیجہ میں پھل زیادہ ہوتا ہے.ہمارے علاقہ میں تو اس کا رواج کم ہے لیکن پشاور کی طرف چلے جاؤ تو بڑے بڑے خاندانوں نے اپنے باغات میں شہد کی مکھیاں پالی ہوئی ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہاں باغ زیادہ لگائے جاتے ہیں اور اُن میں پھل زیادہ آتا ہے.بلکہ تازہ سائنٹیفک تحقیقات سے تو یہاں تک ثابت ہے کہ جمادات میں بھی بعض قسمیں ایسی ہیں جن میں نر و مادہ کا وجود پایا جاتا ہے.چنانچہ بعض سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ ٹین 29 میں بھی نر و مادہ پایا جاتا ہے.مسئلہ ارتقاء اور قرآنی کتب خانہ پھر نیچرل ہسٹری والے بیان کرتے ہیں که انسان بندر سے بنا ہے.چنانچہ ڈارون نے اس تھیوری کو پیش کیا کہ پہلے دنیا میں چھوٹے جانور بنے.پھر اُس سے بڑے جانور بنے اور پھر اُن جانوروں میں سے کسی جانور سے ترقی کر کے انسان بنا مگر وہ جانور جس سے انسان بنا اب ملتا نہیں.ہاں اتنا پتا چلتا ہے کہ اس جانور کی اعلیٰ قسم بندر ہے.گویا اس کے نزدیک انسانی ارتقاء بندروں کی قسم کے ایک جانور سے ہوا ہے.مگر بعض دوسرے محققین کہتے ہیں کہ گوانسان نے ارتقائی قانون کے ماتحت ہی ترقی کی ہے مگر وہ حیوانات کی نسل سے بہت پہلے سے جُدا ہو چکا تھا اور اُسی وقت سے آزادانہ ترقی کر رہا ہے.چونکہ دنیا اس بارہ میں صحیح علم کی سخت محتاج تھی اِس لئے قرآنی کتب خانہ نے اس اہم موضوع کے متعلق بھی روشنی ڈالی اور فرمایا کہ مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ اَظوَارًا - 30 یعنی اے لوگو! تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق وقار کا خیال نہیں رکھتے.وقار کے معنے عام طور پر سنجیدگی کے سمجھے جاتے ہیں حالانکہ وقار کے معنے ہوتے ہیں حکمت کے ساتھ کام کرنا.پس مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا کے یہ معنے ہیں کہ

Page 485

انوار العلوم جلد 26 433 سیر روحانی (12) تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال کرتے ہو کہ وہ یونہی بغیر حکمت کے کام کرتا ہے حالانکہ وہ ہر کام حکمت کے ساتھ کرتا ہے.وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَزْوَارًا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اُس نے تم کو درجہ بدرجہ مختلف تبدیلیوں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے تا کہ تمہاری پیدائش میں کوئی نقص نہ رہے.اگر وہ بغیر کسی حکمت کے کام کرتا تو مختلف دوروں میں سے وہ انسان کو کیوں گزارتا.وہ اُسے یکدم پیدا کر دیتا.مگر اُس نے انسان کو یکدم پیدا نہیں کیا بلکہ قدم بقدم کئی دوروں میں سے گزارتے ہوئے پیدا کیا ہے.کبھی اُس پر عدم کا دور تھا، کبھی وہ ایک وجود تو تھا مگر بغیر دماغ کے کبھی نطفہ سے اُس کی پیدائش ہونے لگی اور پھر آخر میں اُس پر وہ دور آیا جبکہ اُس کا دماغ کامل ہو گیا اور وہ صحیح معنوں میں انسان کہلانے لگ گیا.قرآنی کتب خانہ میں زمین پر قرآن کریم زمین و آسمان کی پیدائش سے متعلق فرمایا ہے أَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوتِ و آسمان کی پیدائش کا ذکر وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ - 31 یعنی کیا کفار نے یہ نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین دونوں بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا.یہ آیت بتاتی ہے کہ اب جو سورج، چاند اور زمین الگ الگ ہے پہلے ایک وجود کی شکل میں الگ الگ جُڑے ہوئے تھے، پھر علیحدہ علیحدہ کر دیئے گئے اور سورج ، چاند اور زمین بن گئے اور یہی حقیقت آجکل کے سائنسدان پیش کرتے ہیں.قرآنی کتب خانہ میں نظام ہائے شمسی کا ذکر اس طرح پہلے عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ صرف ایک نظام شمسی کام کر رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بتایا کہ اللهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوتِ وَ مِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ - 32 یعنی اللہ تعالیٰ وہی ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے ہیں اور زمینیں بھی آسمانوں کے عدد کے مطابق پیدا کی ہیں.عربی میں سَبْعَ کا لفظ مبالغہ کے لئے استعمال ہوتا ہے.پس اس لفظ کے ذریعہ سے یہ بتایا گیا ہے کہ

Page 486

انوار العلوم جلد 26 434 سیر روحانی (12) بہت سے آسمان اور زمینیں پیدا کی گئیں ضروری نہیں کہ وہ سات ہی ہوں.تاریخ انبیاء اور قرآن کریم اب میں یہ بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں تاریخ انبیاء بھی بیان کی گئی ہے اور تمام انبیاء کو ان الزامات سے پاک قرار دیا گیا ہے جو مختلف قوموں نے اُن پر عائد کئے.حضرت لوط علیہ السلام پر بائیبل کا گندا الزام مثلا بائیل میں حضرت آتا ہے :- لوط علیہ السلام کے متعلق اور لوط ضغر سے اپنی دونوں بیٹیوں سمیت نکل کر پہاڑ پر جارہا کیونکہ ضغر میں رہنے سے اُسے دہشت ہوئی.اور وہ اور اُس کی دونوں بیٹیاں ایک غار میں رہنے لگیں.تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آئے.آؤ ہم اپنے باپ کوئے پلائیں اور اُس سے ہم بستر ہوں تا کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں.سو انہوں نے اُسی رات اپنے باپ کوئے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی.پر اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا.اور دوسرے روز ایسا ہوا کہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھو کل رات کو میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آؤ آج رات بھی اُس کوئے پلائیں اور تُو بھی جا کے اُس سے ہم بستر ہوتا کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں.سو اُس رات بھی انہوں نے اپنے باپ کوئے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اُس سے ہم بستر ہوئی اور اُس نے اُس کے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا.سولو ط کی دونوں بیٹیاں اپنے باپ سے حاملہ ہوئیں اور بڑی ایک بیٹا جنی اور اُس کا نام مو آب رکھا اور چھوٹی بھی ایک بیٹا جنی اور اس کا نام بنی عمی رکھا.33 قرآن کریم کا اعلان بریت یہ وہ گندی تاریخ ہے جو دنیا کے کتب خانوں نے پیش کی اور جسے پڑھ کر شریف انسان کا دل لرز نے لگ جاتا ہے مگر جب قرآنی کتب خانہ کو دیکھا جائے تو ہمیں اس میں یہ لکھا ہو انظر

Page 487

انوار العلوم جلد 26 435 سیر روحانی (12) آتا ہے وَلُوطًا أَتَيْنَهُ حُكْمًا وَ عِلْمًا وَ نَجَّيْنُهُ مِنَ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ تَعْمَل الْخَبيثَ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمَ سَوْءٍ فَسِقِينَ وَأَدْخَلْتُهُ فِي رَحْمَتِنَا إِنَّهُ مِنَ الصُّلِحِيْنَ.34 یعنی ہم نے کوٹ کو حکم بھی دیا اور علم بھی.اور ہم نے اُس کو ایسی بستی سے نجات دی جو نہایت ہی گندے کام کرتی تھی.گویا بائبل تو کہتی ہے کہ اپنی بستی سے نکل کر خود لُوط علیہ السلام نے ہی گندے کام کرنے شروع کر دیئے تھے اور قرآن کریم کہتا ہے کہ لوط کی قوم فسق و فجور میں مبتلا تھی.کو ظ کو ہم نے اپنی رحمت میں داخل کیا تھا اور وہ ہمارے نیک بندوں میں سے تھا.اس طرح قرآن کریم نے تاریخ انبیاء بھی بیان کر دی اور بائبل میں جو جھوٹی باتیں داخل ہوگئی تھیں اُن کا بھی رڈ کر دیا.36 ہاں قرآن کریم نے حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ عذاب کا شکار ہو گئی تھی.چنانچہ فرماتا ہے فَنَجَّيْنُهُ وَأَهْلَةٌ أَجْمَعِينَ إِلَّا عَجُوْزًا في الْخَبِرِینَ.35 یعنی ہم نے کوٹ کو اور اُس کے تمام اہل کو بچا لیا تھا سوائے ایک بوڑھی عورت کے جو غا برین سے تھی.غبر کے معنی عربی زبان میں حقد یعنی کینہ کے ہوتے ہیں.26 پس یہ لفظ استعمال کر کے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی میں بڑھیا ہونے کے باوجود نا جائز شر باقی تھا اور وہ آپ کے متعلق کینہ اور بغض رکھتی تھی.اس کا تعلق اُن لوگوں کے ساتھ تھا جو حضرت لوط علیہ السلام کے مخالف تھے اس لئے وہ عذاب سے نہ بچائی گئی.اب دیکھو! حضرت لوط علیہ السلام بنی اسرائیل کے نبی ہیں لیکن قرآن کریم اُن کی براءت کرتا ہے.گویا دا دا تو وہ کسی اور قوم کا ہے لیکن اُس کی طرف سے لڑائی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کر رہے ہیں.حضرت کو ظ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور عرب اپنے آپ کو حضرت اسماعیل کی نسل قرار دیتے تھے.حضرت لوط سے اُن کا کوئی تعلق نہیں تھا لیکن یہودی قوم کا حضرت لوط علیہ السلام سے قریبی رشتہ ہے مگر انہوں نے حضرت لوط علیہ السلام پر الزام لگا دیا اور کہا وہ بد کا رتھا.لیکن قرآن کریم نے کہا کہ حضرت لوط علیہ السلام ایک بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے اور اُن پر یہ محض جھوٹا الزام لگایا گیا ہے.

Page 488

انوار العلوم جلد 26 436 سیر روحانی (12) حضرت داؤد علیہ السلام پھر قرآن کریم نے حضرت داؤد علیہ السلام کی عزت کی بھی حفاظت کی.آپ پر بھی بائبل یہ نہایت گندہ الزام کی عزت کی حفاظت لگاتی ہے کہ آپ نے (نعوذ باللہ) اور یاد کی بیوی کے ساتھ زنا کیا اور اور یاہ کو جنگ میں بھجوا کر مروا دیا اور پھر اس سے شادی کر لی چنا نچہ اس میں لکھا ہے :- ایک دن شام کو ایسا ہوا کہ داؤد اپنے بچھونے پر سے اُٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا اور وہاں سے اُس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی اور وہ عورت نہایت خوبصورت تھی.تب داؤد نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے.انہوں نے کہا کیا وہ اور یاہ کی جو رو نہیں ؟ اور داؤد نے لوگ بھیج کے اس عورت کو بُلا لیا.چنانچہ وہ اس کے پاس آئی اور وہ اُس سے ہم بستر ہوا.37 لیکن قرآن کریم نے بائبل کے اس الزام کی تردید کی ہے اور حضرت داؤد علیہ السلام کو نیک اور خدا تعالیٰ کا پاک بندہ قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَاذْكُرُ عَبْدَنَا دَاوُدَ ذَا الْاَيْدِ إِنَّةَ أَوَّاب 28 وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَابِ 39 یعنی ہمارے بندے داؤد کو یاد کرو جو بڑی طاقت کا مالک تھا اور خدا تعالیٰ کی طرف بار بار جھکتا تھا.وہ ہمارا مقرب تھا اور اُسے ہمارے پاس بڑا اچھا ٹھکا نہ ملے گا.ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیارا بندہ ایسے ظالمانہ افعال کا مرتکب نہیں ہوسکتا جو بائبل بیان کرتی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ بائبل جس طرح یہودیوں کے ہاتھ میں ہے اسی طرح عیسائیوں کے ہاتھ میں بھی ہے.اور انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت داؤد علیہ السلام حضرت عیسی کے دادا تھے.گویا جس کو وہ خدا مانتے ہیں اُس کے دادا کو وہ زانی کہتے ہیں.لیکن قرآن کریم جو حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی کا منکر ہے اور جس کے متعلق عیسائی کہتے ہیں کہ یہ ہما را دشمن ہے وہ کہتا ہے کہ داوڑ کے متعلق ایسے الزامات مت لگاؤ وہ تو خدا تعالیٰ کا ایک نیک اور مقرب بندہ تھا.

Page 489

انوار العلوم جلد 26 437 سیر روحانی (12) حضرت سلیمان علیہ السلام اسی طرح بائبل میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ :- وو پر بائبل کے الزامات " جب سلیمان بوڑھا ہو اتو اس کی جوروں نے ا اُس کے دل کو غیر معبودوں کی طرف مائل کیا اور اُس کا دل خداوند اپنے خدا کی طرف مائل نہ تھا جیسا اس کے باپ داؤد کا دل تھا.40 پھر لکھا ہے کہ :- اُس کا دل خداوند اسرائیل کے خدا سے جو اُسے دوبار دکھائی دیا برگشتہ ہوا.اس لیے خداوند سلیمان پر غضبناک ہو ا کہ اُس نے اُسے حکم دیا تھا کہ وہ اجنبی معبودوں کی پیروی نہ کرے پر اُس نے خداوند کے حکم کو یاد نہ رکھا.41 گویا بائبل حضرت سلیمان علیہ السلام پر یہ الزام لگاتی ہے کہ وہ اپنے خدا سے برگشتہ ہو گئے تھے اور اس طرح انہوں نے کفر کیا تھا.قرآن کریم کی تردید لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ السلام کے بلانے پر اُن کے پاس آئی تو حضرت سلیمان نے اُسے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا 42 گویا قرآن تو یہ کہتا ہے کہ ملکہ سبا جو اُن کی آخری بیوی تھی اُسے بھی انہوں نے غیر معبودوں کی عبادت کرنے سے روکا لیکن بائبل کہتی ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے کہنے پر خداوند تعالیٰ سے برگشتہ ہو گئے تھے.یہ کتنا بڑا فرق ہے جو بائبل اور قرآن میں پایا جاتا ہے.- اسی طرح قرآن کریم حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ وَلَكِنَّ الشَّيطِيْنَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السّحْرَ 43 یعنی جو لوگ کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے بُت پرستی کی تھی اور وہ کافر ہو گئے تھے وہ غلط کہتے ہیں بلکہ در حقیقت ایسا الزام لگانے والے خود کا فر ہیں کیونکہ وہ خدا تعالیٰ کے نبی پر اتنا بڑا اتہام لگاتے ہیں.پس قرآن کریم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کی صحیح تاریخ بیان کر دی ہے حالانکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا نہیں تھے بلکہ حضرت داؤد

Page 490

انوار العلوم جلد 26 438 سیر روحانی (12) کے بیٹے ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام کے دادا تھے.یا بائبل میں اُن کا صحیفہ شامل ہونے کی وجہ سے وہ بنی اسرائیل کے بزرگ تھے اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد آئے تھے لیکن قرآن کریم اُن کی عزت کی حفاظت کرتا ہے اور خود اُن کے اپنے پوتے پڑپوتے انہیں خدا تعالیٰ سے برگشتہ اور بُت پرست قرار دیتے ہیں.حضرت ہارون علیہ السلام پھر قرآن کریم نے حضرت ہارون علیہ السلام کی عزت کی بھی حفاظت کی.بائبل میں لکھا ہے کہ جب بائبل کے الزامات حضرت موسیٰ علیہ السلام طور پہاڑ پر تشریف لے گئے اور اُن کے بعد اُن کی قوم نے بچھڑا بنا لیا تو حضرت ہارون علیہ السلام بھی اُن کے اِس فعل میں اُن کے ساتھ شریک ہو گئے تھے.چنانچہ لکھا ہے :- اور جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ نے پہاڑ سے اُترنے میں دیر لگائی تو وہ ہارون کے پاس جمع ہو کر اُس سے کہنے لگے کہ اُٹھ ہمارے لئے دیوتا بنا جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ اس مرد موسیٰ کو جو ہم کو ملک مصر سے نکال کر لایا ، کیا ہو گیا.ہارون نے اُن سے کہا.تمہاری بیویوں اور لڑکوں اور لڑکیوں کے کانوں میں جو سونے کی بالیاں ہیں اُن کو اُتار کر میرے پاس لے آؤ.چنانچہ سب لوگ اُن کے کانوں سے سونے کی بالیاں اُتارا تا ر کر اُن کو ہارون کے پاس لے آئے اور اُس نے اُن کو ان کے ہاتھوں سے لے کر ایک ڈھالا ہوا بچھڑا بنایا جس کی صورت چھینی سے ٹھیک کی.تب وہ کہنے لگے.اے اسرائیل ! یہی تیرا وہ دیوتا ہے جو تجھ کو ملک مصر سے نکال کر لے آیا.44 غرض بائبل کہتی ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پہاڑ سے آنے میں دیر ہو گئی تو اُن کی قوم حضرت ہارون کے پاس گئی اور کہا کہ موسی ہمیں خدا کی باتیں سنایا کرتا تھا لیکن پتا نہیں وہ کہاں چلا گیا ہے اب ہم خدا کے بغیر رہ گئے ہیں.تو اُٹھ اور ہمارے لئے خدا بنا جو ہمارے آگے آگے چلے.

Page 491

انوار العلوم جلد 26 439 سیر روحانی (12) ہندوؤں کی طرح اُن میں بھی ایک رواج تھا کہ یہودیوں کی ایک قدیم رسم جب وہ نہیں جاتے تو بت سامنے رکھ لیتے.میں نے خود دیکھا ہے میرے ماموں میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم کی شادی تھی اُن کے خسر سکندر راؤ میں رہتے تھے، میں بھی شادی میں اُن کے ساتھ گیا تھا.وہاں ہندوؤں کا کوئی جلوس نکل رہا تھا.میں نے دیکھا کہ ہندوؤں نے ایک رتھ میں بُت رکھا ہوا ہے اور سب لوگ اُس کے پیچھے پیچھے چل رہے ہیں.یہودی بھی چونکہ بُت پرست قوم سے نکل کر آئے تھے اس لئے اُن میں بھی غالباً یہی دستور تھا کہ وہ بُت کو چلتے وقت آگے آگے رکھتے تھے اور اس طرح خیال کرتے تھے کہ اُن پر عذاب نازل نہیں ہوگا.چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیر ہوئی تو بائبل کے بیان کے مطابق بنی اسرائیل حضرت ہارون علیہ السلام کے پاس گئے اور انہوں نے سونے کا ایک بچھڑا ڈھال کر بنایا اور کہا اے بنی اسرائیل ! یہی تمہارا خدا ہے جو تمہیں مصر سے نکال کر لایا تھا.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَالِکَ.حالانکہ حضرت ہارون علیہ السلام خدا تعالیٰ کے نبی تھے اور وہ اتنا بڑا شرک کر ہی نہیں سکتے تھے.پھر وہ اس بات کو بھی جانتے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر لائے تھے تو آپ نے فرعون سے بحث کی تھی کہ میں اپنی قوم کو بتوں کی پرستش سے ہٹا کر خدائے واحد کی عبادت کی طرف لانا چاہتا ہوں.اتنے بڑے واقعہ کی موجودگی میں وہ یہ کہہ بھی کس طرح سکتے تھے کہ یہی وہ تمہارا خدا ہے جو تمہیں ملک مصر سے نکال کر لایا تھا.پھر لکھا ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑے کیلئے قربان گاہ بنانا چھڑے کے لئے ایک قربان گاہ بنائی اور انہیں کہا کہ یہ بچھڑا ہی تمہارا خدا ہے.بائبل کے الفاظ اس بارہ میں یہ ہیں :- یہ دیکھ کر ہارون نے اُس کے آگے ایک قربان گاہ بنائی اور اُس نے اعلان کر دیا کہ گل خداوند کے لئے عید ہوگی.اور دوسرے دن صبح سویرے اُٹھ کر انہوں نے قربانیاں چڑھائیں اور سلامتی کی قربانیاں گزرا نیں.پھر اُن لوگوں نے بیٹھ کر کھایا پیا اور اُٹھ کر کھیل کود میں لگ گئے.45

Page 492

انوار العلوم جلد 26 440 سیر روحانی (12) قرآن کریم کا اعلان کہ گویا انہوں نے خدا تعالیٰ کے دوبارہ مل جانے پر بڑی خوشی منائی لیکن قرآن کریم کہتا ہے یہ بات بچھڑ ا سامری نے بنایا تھا بالکل غلط ہے کہ حضرت ہارون علیہ السلام نے بچھڑا بنایا تھا.وہ ہارون نے نہیں بلکہ سامری نے بنایا تھا ورنہ ہارون علیہ السلام نے تو بڑے زور سے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا اور توحید پر قائم رہنے کی تلقین کی تھی.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هُرُونَ مِنْ قَبْلُ يُقَوْمِ إِنَّمَا فَتِنْتُمُ بِهِ وَإِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاَطِيْعُوا أَمْرِى - 46 یعنی حضرت ہارون نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی واپسی سے قبل اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم! بچھڑے کے ذریعہ تمہیں آزمائش میں ڈالا گیا ہے.اگر حضرت ہارون علیہ السلام نے خود بچھڑا بنایا ہوتا تو ایسا کیوں کہتے ؟ انہوں نے کہا اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاَطِيْعُوا أَمْرِى تمہارا رب | رحمن ہے.اس بچھڑے نے تمہاری کیا مدد کرنی ہے وہ تو پیدائش سے پہلے بھی تمہاری مدد کرتا رہا ہے.چنانچہ دیکھ لو انسان بعد میں پیدا ہو ا ہے اور پانی پہلے پیدا ہو چکا تھا.اسی طرح اور ہزاروں اشیاء ہیں جو پیدائش سے پہلے صفتِ رحمانیت کے ماتحت پیدا ہو چکی تھیں.پس تم میری اتباع کرو اور میرے حکم کے پیچھے چلو، شرک مت کرو.انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا کا اعتراف حقیقت قرآن کریم میں یہ بیان کردہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جس کو انگلستان کے بڑے بڑے عالموں نے مل کر لکھا ہے اُس میں بھی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہارون علیہ السلام کے شرک کرنے کا واقعہ غلط ہے اور اس سے مضمون نگا ر استدلال کرتا ہے کہ بائبل میں دوسرے لوگوں نے اور بھی کئی باتیں ملادی ہیں اور کئی واقعات اُن کی طرف سے بڑھا دیئے گئے ہیں.47 اب دیکھو یہ کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم ایک تاریخ بیان کرتا ہے اور یہودیوں اور عیسائیوں کے باپ کو بَری قرار دیتا ہے حالانکہ وہ عیسائی اور یہودی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( نَعُوذُ بِاللهِ ) کذاب کہتے ہیں.غرض قرآن کریم ایک گالی دینے والے کے

Page 493

انوار العلوم جلد 26 441 سیر روحانی (12) باپ کی براءت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ مشرک نہیں تھا مشرک ایک اور شخص تھا جس کا نام سامری تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی تاریخ بھی صرف اتنا آتا ہے کہ :- قرآن کریم نے بیان کی ہے.انجیل میں تو در مسیح اُن کے دیکھتے ہوئے او پر اُٹھایا گیا اور بدلی نے اُسے اُن 48،، کی نظروں سے چھپا لیا.8 مگر کیا بدلی کے پیچھے چلے جانے سے مراد آسمان پر چلے جانا ہوتا ہے؟ ہزاروں آدمی روزانہ پہاڑوں پر بدلی کے پیچھے جاتے اور پھر واپس آ جاتے ہیں اور کوئی شخص اُن کے متعلق نہیں کہتا کہ وہ آسمان پر چلے گئے ہیں.غرض یہ ایک نہایت ہی غیر معقول بات ہے جو انجیل نے بیان کی ہے.مگر قرآن کریم اس سارے واقعہ کو ایک علمی اور تاریخی رنگ دیتا ہے اور اُن کے بدلی میں نظروں سے غائب ہونے کے بعد کی تاریخ بھی بیان کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَ أوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَ مَعِينٍ 49 یعنی واقعہ صلیب کے بعد ہم نے حضرت مسیح اور اُس کی ماں کو ایک اونچی جگہ یعنی پلیٹیو (PLATEAU) پر پناہ دی.ربوہ سے مراد پہاڑی نہیں بلکہ اونچی جگہ ہے.ہم نے ربوہ کا نام بھی جو احمدیت کا موجودہ مرکز اور ضلع جھنگ میں واقع ہے اِسی لئے ربوہ رکھا ہے کہ یہ اونچی جگہ ہے.غرض قرآن کریم بتا تا ہے کہ ہم نے مسیح اور اُس کی ماں کو ایک ایسی جگہ پناہ دی جو اونچی تھی اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی اور ٹھہرنے کے قابل تھی یعنی وہ جگہ سطح زمین سے بلند تھی اور وہاں چشمے بھی بہتے تھے.چنانچہ قدیم ہندوؤں اور بدھوں کی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ شہزادہ یوز آسف جو خدا تعالیٰ کا نبی تھا مغرب سے آیا اور کشمیر کی پہاڑیوں میں رہا اور اُس کے ہاتھوں اور پیروں پر زخم تھے.واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر لٹکایا گیا تو آپ کے ہاتھوں اور پاؤں پر میخیں لگانے کی وجہ سے زخم ہو گئے تھے جن کو مندمل کرنے کے لئے ایک مرہم ایجاد کی گئی جس کا نام طب کی مختلف کتابوں میں مرہم رسل

Page 494

انوار العلوم جلد 26 442 سیر روحانی (12) یا مرہم حوار تین بیان کیا گیا ہے.پھر کہیں جا کر وہ زخم درست ہوئے.اس کے بعد آپ کشمیر کی طرف آگئے.چنانچہ افغانستان کے بارڈر پر جو قبائل بستے ہیں وہ اب تک یہی کہتے ہیں کہ ہم بنی اسرائیل ہیں گویا مسیح کے حواری.متی نے انجیل میں ایک نامکمل بات بیان کر دی لیکن قرآن کریم نے اُن حالات کو مکمل کر دیا اور بتا دیا کہ صرف اتنی بات نہیں کہ وہ واقعہ صلیب کے بعد بدلیوں میں چُھپ کر غائب ہو گئے تھے بلکہ صلیب سے بچنے کے بعد وہ کشمیر میں آگئے تھے اور اسرائیلی قبائل کو ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کرتے رہے.تاریخ ملل قدیمہ پھر دنیا میں تاریخ ملل قدیمہ پر بھی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں بہت کچھ رطب و یا بس بھرا پڑا ہے مگر قرآن کریم اس تاریخ کو بھی صحیح رنگ میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.چنانچہ اس کی مثال کے طور پر وہ یہ بیان کرتا ہے کہ فرعون نے ایک دفعہ ہامان سے کہا کہ فَا وَ قِدْ لِي يُهَا مَنْ عَلَى الدِّينِ فَاجْعَلْ فِي صَرْحًا لَّعَلَّى أَطَّلِعُ إِلَى إِلَهِ مُوسَى وَ إِنِّي لَأَظُنُّهُ مِنَ الْكَذِبِينَ 50 یعنی اے ہامان ! تو اپنے پتھیروں کو لگا دے تاکہ وہ اینٹیں تیار کریں ، پھر اُن اینٹوں کو پکوا کر اونچا محل تیار کرو شاید میں اُس محل پر کھڑے ہو کر موٹٹی کے خدا کو دیکھ سکوں اور میں تو اُسے جھوٹا ہی سمجھتا ہوں.اس آیت میں مصریوں کے ایک قومی عقیدہ کو بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ یہ خیال کرتے تھے کہ مرنے کے بعد رُوحیں آسمان پر چلی جاتی ہیں اور پھر اونچی جگہ پر اُترتی ہیں.اس اثر کے ماتحت فرعون نے خیال کیا کہ خدا تو ہے ہی نہیں.موسی جو کہتا ہے کہ خدا مجھ سے باتیں کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ روحوں سے باتیں کرتا ہے.میں بھی ایک اونچا محل تیار کر کے اُن روحوں تک جاؤں تا حقیقت کا پتا لگ سکے.چنانچہ اُس نے ہامان کو حکم دیا کہ وہ ایک اونچا محل تیار کرائے تا کہ وہ اُس کی چوٹی پر چڑھ کر موسی کے خدا کی حقیقت معلوم کر سکے.غرض اس آیت میں مصریوں کے ایک قدیم عقیدہ کا ذکر کیا گیا ہے جس کو بڑی مشکل سے اب کہیں آثار قدیمہ والوں نے معلوم کیا ہے.مصری اپنی ان روایات کی وجہ سے

Page 495

انوار العلوم جلد 26 443 سیر روحانی (12) اونچی اونچی عمارتیں بناتے تھے جیسے اہرام مصر ہیں اور جن میں سے ایک ابوالہول شیر کی شکل کا ہے.آخران بلند عمارتوں کے بنانے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے.وہ وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ مُردوں کی رُوحیں آسمان پر چلی جاتی ہیں اور بعد میں اونچی جگہوں پر اُترتی ہیں.اور چونکہ نیچی جگہوں میں اُترنے میں دیر لگتی ہے اس لئے وہ لوگ اپنی عمارتوں کو اونچار کھتے تھے اور اس طرح چاہتے تھے کہ اُن کے اسلاف کی رُوحیں دنیا میں اُن کے پاس آتی رہیں.پھر وہ یہ عقیدہ بھی رکھتے تھے کہ روحیں کھاتی پیتی ہیں.چنانچہ جب وہ مُردوں کو دفن کرتے تھے تو اُن کی قبروں کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی رکھتے تھے اور خیال کرتے تھے کہ جب روحیں زمین پر آتی ہیں تو انہیں یہاں آرام بھی کرنا چاہئے اور سونا بھی چاہئے اور یہ روایت اب تک اُن میں چلی آتی ہے.چنانچہ پاکستان کا ایک ایمبیسیڈر (AMBASSADOR) وہاں گیا تھا.اُس نے ہمارے ایک دوست سے بیان کیا کہ مصر میں ہماری ایمبیسی (EMBASSY) کا ایک آدمی مر گیا.ہم نے مصری حکومت کو لکھا کہ ہمیں ایک قبر کی جگہ دے دیں تو مصری حکومت نے کہا ہم ذرا انتظام کر لیں.چنانچہ انہوں نے ایک بڑا کمرہ بنایا اُس میں کھانے پینے کا سامان رکھا اور ایک ریڈیو رکھا اور پھر کہا اب آپ اپنے آدمی کی نعش کو دفن کرنے کے لئے لے آئیں.وہ ایمبیسیڈ رہنس کر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے ابھی تک مصریوں پر رُوحوں کا قبضہ ہے.قرآن کریم میں تربیت کے اصول پھر تربیت کا مضمون ایسا ہے جس پر بڑے بڑے علماء اور فلاسفروں نے بڑی بڑی کتابیں لکھی ہیں کیونکہ تربیت کے بغیر دنیا میں نہ اولا د ترقی کر سکتی ہے اور نہ قوم ترقی کر سکتی ہے.قرآن کریم نے بھی تربیت کے اصول نہایت عمدگی سے بیان کئے ہیں.چنانچہ سب سے پہلے اولاد کی تربیت کا سوال آتا ہے.اولاد کی تربیت کے متعلق قرآن کریم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے کا واقعہ آتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب میں دکھایا گیا تھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں.اس پر انہوں نے اپنے بیٹے کو حکم نہیں

Page 496

انوار العلوم جلد 26 444 سیر روحانی (12) دیا کہ میں نے خواب میں یوں دیکھا ہے اس لئے تم ذبح ہونے کے لئے تیار ہو جاؤ بلکہ آپ نے اپنے بیٹے کو بلایا اور کہا اے میرے بیٹے ! میں نے رات کو خواب میں دیکھا ہے کہ میں تم کو ذبح کر رہا ہوں.فَانْظُرُ مَا ذَا تَری 21 آب تو سوچ کر مجھے اپنی رائے دے.یہ نہیں کہا کہ مجھے خواب آئی ہے تو لیٹ جاتا کہ میں تجھے ذبح کروں بلکہ فرمایا کہ تو مجھے اپنی رائے دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کے اندر خود داری کی رُوح پیدا کرنا قرآنی اصول ہے.جو لوگ اپنی اولاد کے اندر خود داری کی رُوح پیدا نہیں کرتے وہ اپنی اولاد کو ہی نہیں بلکہ قوم کو بھی ترقی سے روک دیتے ہیں.کیونکہ قوم کی آئندہ ترقی اولاد کے اندر خودداری کی رُوح قائم رکھنے پر منحصر ہے.ڈسپلن (DISCIPLINE) پیدا کرنا اور چیز ہے لیکن خودداری کی رُوح بالکل اور چیز ہے.خود داری کے نہ ہونے کے یہ معنے ہیں کہ فطرت کو مار دیا گیا ہے.اور ڈسپلن کے معنی یہ ہیں کہ خودداری کو منظم کیا جائے.اور اسلام ڈسپلن کے خلاف نہیں.وہ یہ چاہتا ہے کہ ڈسپلن قائم کیا جائے مگر وہ اس بات کے خلاف ہے کہ خودداری کی رُوح کو کچل دیا جائے.اگر خودداری کی رُوح کو کچل دیا جائے تو قوم تباہ ہو جاتی ہے.چنانچہ اس مضمون پر ( قادیان میں ) میں نے ایک لیکچر دیا تھا.بعض لوگ باتوں کو بڑی عمدگی سے یادر کھتے ہیں.اگلا جلسہ آیا تو ایک شخص اپنا بیٹا ساتھ لایا اور اُس کے متعلق کہنے لگا کہ آپ نے یہ بات پیش کی ہے.میں نے کہا.آپ اس بچے کو آپ کہہ رہے ہیں.اُس نے کہا آپ نے ہی تو ایسا کرنے کی تلقین کی تھی.آپ نے کہا تھا کہ بچوں کے ساتھ ادب سے بات کرنی چاہئے کیونکہ بچے ماں باپ کی نقل کرتے ہیں.چنانچہ آپ نے انگریزوں کی مثال بھی دی تھی کہ وہ اپنی بیوی کو مدر (MOTHER) کہتے ہیں تا کہ بچہ بھی مدد کہنے لگ جائے.اُن کا نقطہ نگاہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو وائف (WIFE) کہیں گے تو چونکہ بچہ ماں باپ کی نقل کرتا ہے اس لئے وہ بھی اپنی ماں کو وائف کہے گا.پس وہ اپنی بیوی کو مدر (MOTHER) کہتے ہیں تا کہ بچے کے دل میں بھی اپنے ماں باپ کے متعلق ادب کا جذبہ پیدا ہو..قرآن کریم میں جمہوریت کے اصول پھر جمہوریت ایک ایسا علم ہے جس پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی

Page 497

انوار العلوم جلد 26 445 سیر روحانی (12) ہیں کیونکہ اس زمانہ میں جب بادشاہت ختم ہونے لگی تو جمہوریت پر زور دینا شروع کر دیا گیا.قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر فرمایا ہے.جمہوریت کا بڑا اصل ، مشورہ ہے.دیکھو ہر نبی اپنی امت کا افسر ہوتا ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں کے سردار ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ اگر موسی اور عیسی بھی میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو اُن کو بھی میری اتباع کرنی پڑتی.52 اب دیکھو جس نبی کی اتباع کی ضرورت دوسرے انبیاء کو بھی ہے اُس کو مشورہ کی کیا ضرورت ہو سکتی ہے.مگر خدا تعالیٰ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتا ہے کہ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ - 53 یعنی اہم معاملات میں اپنی جماعت هر سے مشورہ کر لیا کر.اسی طرح مؤمنوں کی ایک صفت قرآن کریم میں یہ بیان کی گئی ہے کہ اَمْرُهُمْ شُوْرُى بَيْنَهُمُ 54 وہ جب کبھی کوئی کام کرتے ہیں تو مشورہ سے کرتے ہیں.لیکن بعض لوگوں نے فتنہ پیدا کرنے کے لئے اس سے بھی ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے.چنانچہ خارجیوں نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغاوت کی تو انہوں نے اس آیت کو ایک چیلنج کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا.انہوں نے کہا ہمیں کسی خلیفہ کی ضرورت نہیں.الْحُكْمُ لِلَّهِ 55 والا مُرُ شُوری بَيْنَنَا - 56 حکم تو خدا تعالیٰ کا چلے گا اور ہم آپس میں مشورہ کر کے حکومت کریں گے.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کسی نے کہا تو آپ نے فرمایا.كَلِمَةُ حَق اُرِيدَ بِهَا بَاطِلٌ - 57 یعنی بات تو بڑی سچی ہے لیکن اسے بری نیست سے استعمال کیا جا رہا ہے.غرض مؤمنوں کا یہ طریق ہے کہ وہ ہراہم معاملہ کو باہمی مشورہ سے طے کرتے ہیں اور ڈکٹیٹر شپ سے کام نہیں لیتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رسول کریم صلی اللہ علیہ سلم کا اپنا طریق عمل یہ تھا کہ آپ ہر اہم معاملہ میں صحابہ سے مشورہ کیا کرتے کا صحابہ سے مشورہ لینا تھے.جنگ بدر کے موقع پر آپ نے مشورہ لیا تو صحابہ میں سے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور انہوں نے تقریر کرتے ہوئے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہمیں موسی کی جماعت کی طرح نہ سمجھیں.جنہوں نے یہ کہہ دیا تھا کہ فَاذْهَبُ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إِنَّاهَهُنَا قَاعِدُونَ - 58 جاتو اور تیرا رب دونوں لڑتے

Page 498

انوار العلوم جلد 26 446 سیر روحانی (12) پھرو.ہم تو یہیں بیٹھیں گے بلکہ يَا رَسُولَ الله ! اگر جنگ ہوئی تو ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے.اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہو انہیں آئے گا آپ تک نہیں پہنچ سکے گا.59 پھر عرب پانی سے بہت ڈرتے تھے مگر حضرت مقداد نے کہا اگر آپ ہماری قوم کو حکم دیں کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو تو يَارَسُولَ اللہ ! ہم فورا اپنے گھوڑے سمندر میں ڈال دیں گے اور اس بات کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کریں گے کہ ہم بچتے ہیں یا نہیں بچتے.60 پھر جنگِ اُحد کے موقع پر بھی آپ نے صحابہ کو اکٹھا کیا اور اپنی خواب کا ذکر کیا کہ آپ نے گائیں ذبح ہوتی دیکھی ہیں.جس کی تعبیر یہ ہے کہ کوئی ابتلاء پیش آئے گا.مگر با وجود اس خواب کے آپ نے صحابہ سے مشورہ کیا.آپ کا خیال تھا کہ اگر مدینہ سے باہر نکل کر جنگ کی گئی تو تکلیف پہنچنے کا اندیشہ ہے.لیکن صحابہ کے مشورہ پر آپ مدینہ سے باہر نکل پڑے اور لڑائی ہوئی اور نقصان بھی ہوا اور اس طرح آپ کی خواب پوری ہو گئی.11 ملکہ سبا کا ذکر اسی طرح قرآن کریم میں ملکہ سبا کا ذکر آتا ہے.ملکہ سبا گومشرکہ تھی لیکن اُس کے واقعہ کا ذکر کر کے مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتی تھی جب تک کہ ملک کے سرداروں کے ساتھ مشورہ نہیں کر لیتی تھی.چنانچہ جب اُس کے پاس حضرت سلیمان علیہ السلام کا خط پہنچا تو اُس نے کہا.يَايُّهَا الْمَلَوا أَفْتُونِي فِي أَمْرِى مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ - 62 یعنی اے میری قوم کے سردارو! میری اس پیش آمدہ مصیبت میں مجھے مشورہ دو کیونکہ میں کوئی کام نہیں کرتی جب تک تم میرے پاس حاضر ہو کر مشورہ نہ دو.ان آیات میں مسلمانوں کو توجہ دلائی گئی ہے کہ جب ایک کا فرعورت بھی حکومتی معاملات میں احتیاط سے کام لیتی تھی تو تم تو مسلمان ہو اور تمہارے لئے قرآن کریم میں حکم بھی ہے کہ مشورہ کیا کرو.پس تمہیں بھی ہر معاملہ میں باہم مشورہ کرنا چاہئے.فرعون کا عمائد قوم سے مشورہ طلب کرنا اسی طرح قرآن کریم فرعون کا ذکر کرتا ہے کہ باوجود اس کے

Page 499

انوار العلوم جلد 26 447 سیر روحانی (12) کہ وہ ایک جابر بادشاہ تھا مگر اُس کی حکومت میں بھی کوئی نہ کوئی رنگ جمہوریت کا پایا جاتا تھا.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق فیصلہ کرنے کے اور لئے اُس نے اپنے سرداروں کو جمع کیا اور انہیں کہا فَمَا ذَا تَأْمُرُونَ 63 تم موسی ہارون کے بارہ میں کیا مشورہ دیتے ہو؟ یعنی ایک جابر بادشاہ جو تلوار لے کر لوگوں کی گردنیں اُڑا دیتا تھا وہ بھی کہتا ہے کہ اے میری قوم کے لوگو! مجھے مشورہ دو کہ میں موسی کے ساتھ کیا معاملہ کروں.چنانچہ درباریوں نے کہا.اَز جِهُ وَأَخَاهُ وَابْعَثْ فِي الْمَدَا بِنِ خشِرِيْنَ - 64 موسی اور ہارون کو کچھ مدت تک ڈھیل دو.اور اس مدت میں شہروں کی طرف آدمی بھجواؤ جو قابل آدمیوں کو مقابلہ کے لئے جمع کریں.غرض قرآن کریم نے فرعون جیسے جابر بادشاہ کا ذکر کر کے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ حکومت بغیر مشورہ کے نہیں ہونی چاہئے.جب کا فرحکومتیں بھی اپنے معاملات میں مشورہ لیتی ہیں تو مسلمانوں کو تو بدرجہ اولیٰ اس کا پابند ہونا چاہئے.جب وہ لوگ جنہیں مشورہ کا حکم نہیں دیا گیا مشورہ لیتے ہیں تو جن لوگوں کو مشورہ کا حکم دیا گیا ہے وہ مشورہ کیوں نہ لیں.پھر سیاست کے متعلق بھی کئی کتابیں قرآن کریم میں سیاست کے اصول لکھی تھی ہیں اور قرآن کریم نے بھی اس کا ذکر کیا ہے.سیاست یہی ہوتی ہے کہ مناسب موقع پر مناسب کام کیا جائے اور موقع کے مطابق لوگوں سے سلوک کیا جائے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جنگ حنین کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں میں انعامات تقسیم کئے تو ایک شخص نے اعتراض کیا کہ هَذِهِ الْقِسْمَةُ مَاعُدِل فِيهَا وَمَا اُرِيْدَ بِهَا وَجُهُ اللهِ 65 یعنی یہ ایسی تقسیم ہوئی ہے کہ اس میں انصاف سے کام نہیں لیا گیا اور نہ اس میں خدا تعالیٰ کی رضا کو مد نظر رکھا گیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ بڑے غیور تھے.وہ یہ اعتراض سن کر فور اتلوار سونت کر کھڑے ہو گئے اور عرض کیا.يَا رَسُولَ الله ! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اِس منافق کی گردن اُڑا دوں.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنْ أَقْتُلَ أَصْحَابِی.66 یعنی میں اس بات سے خدا تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں کہ لوگ میرے متعلق آپس میں یہ باتیں کرتے پھریں کہ

Page 500

انوار العلوم جلد 26 448 سیر روحانی (12) یہ اپنے ساتھیوں کو مارتا پھرتا ہے.یعنی کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے غیر قوموں میں یہ چر چا شروع ہو جائے کہ یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں.صحابہ تو حقیقت جانتے تھے لیکن مصر اور قسطنطنیہ کے لوگوں کو اس کا کیا علم تھا، وہ تو یہ باتیں کر سکتے تھے کہ یہ لوگ ظلم کر رہے ہیں اس لئے آپ نے فرمایا کہ کوئی ایسی بات نہیں کرنی چاہئے جس سے غلط قسم کا چرچا شروع ہو جائے.بیشک مسلمان اس کے متعلق کوئی بات نہ کریں لیکن اگر رومی یا ایرانی ایسی باتیں کریں تو وہ بھی بُری بات ہے.اس سے انسان کی بدنامی ہو جاتی ہے.پس آپ نے اُس شخص سے در گزر کیا اور اُسے معاف فرما دیا.قرآنِ کریم میں تمدن کے اصول پھر قرآن کریم میں تمدن کے اصولوں کو بھی بیان کیا گیا ہے.چنانچہ تمدن کے بڑے اصولوں میں سے ایک اصل یہ ہے کہ اگر کوئی مجلس ہو رہی ہو تو کوئی انسان اس سے بلا اجازت نہ جائے.قرآن کریم اس بارہ میں ہدایت دیتے ہوئے فرماتا ہے اِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَإِذَا كَانُوْا مَعَهُ عَلَى أَمْرٍ جَامِع لَّمْ يَذْهَبُوا حَتَّى يَسْتَأْذِنُوهُ - 67 یعنی وہی لوگ مؤمن کہلا سکتے ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں اور جب کسی قومی کام کے لئے رسول کے پاس بیٹھے ہوں تو وہ نہیں جاتے جب تک اُس سے اجازت نہ لے لیں.اس لئے میں نے حکم دیا ہوا ہے کہ مجلس مشاورت کے اجلاس سے کوئی نمائندہ حوائج ضروریہ وغیرہ کے لئے جانا چاہے تو وہ اجازت لے کر جائے.انگریزوں کا طریق یہ ہے کہ اگر کوئی شخص پارلیمنٹ سے جائے تو وہ ایک اور آدمی کو ساتھ لے جائے.مگر یہ غلط طریق ہے.صحیح طریق یہی ہے کہ اگر کوئی باہر جانا چاہے تو سپیکر سے اجازت لے لے.یا اگر وہ دیکھے کہ میری غیر حاضری کی وجہ سے میری پارٹی کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو وہ باہر ہی نہ جائے.قرآن کریم میں تاریخ تمدن کا ذکر اسی طرح کتابوں کا ایک اور سلسلہ بھی ہے اور وہ تاریخ تمدن کا سلسلہ ہے.قرآن کریم میں اِس تاریخ کا بھی ذکر آیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ تمدن کن

Page 501

انوار العلوم جلد 26 449 سیر روحانی (12) دوروں میں سے گزرا ہے اور کس طرح اس کا ارتقاء عمل میں آیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَحَمَلْنَهُ عَلَى ذَاتِ الْوَاحِ وَرُسُرِ 68 یعنی ہم نے نوح کو تختوں اور کیلوں سے بنی ہوئی کشتی پر سوار کیا.اس آیت میں قرآن کریم نے کشتیوں کی ایک لمبی تاریخ کی طرف اشارہ کیا ہے.چنا نچہ کشتیوں کی تاریخ بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ پہلے زمانہ میں لوگ کشتیاں بنانا نہیں جانتے تھے وہ ایک بڑا سا درخت لے کر اُس کو درمیان سے کھود لیتے تھے اور اس گڑھے میں بیٹھ کر درخت کو پانی میں ڈال دیتے تھے.اب تک بغداد میں ایسی کشتیاں پائی جاتی ہیں.چنانچہ پاکستان بننے سے قبل ایک ہندوستانی وہاں گیا تھا اُس نے اُس کشتی پر بہت مذاق اُڑایا اور کہا کہ چونکہ وہ کشتی نیچے سے گول ہوتی ہے اس لئے جب میں اُس پر بیٹھا تو ایک طرف حرکت کرنے سے دوسری طرف سے کشتی اُٹھ جاتی تھی اور چکر کھانے لگتی تھی.اس پر میں نے اُس آدمی سے جو میرے ساتھ تھا کہا.اے شیخ! میری کشتی تو چکر کھارہی ہے.اُس نے سمجھا کہ یہ کہتا ہے اور چکر دو.چنانچہ اُس نے کشتی کو اور چکر دینا شروع کر دیا اور جب کشتی کنارہ پر لگی تو میں بیہوش ہو کر گر پڑا.ہوش آنے پر میں نے کہا تو نے تو بڑی حماقت کی ہے.اُس نے کہا آپ نے تو خود ہی کہا تھا کہ کشتی کو اور چکر دو.اس میں میرا کیا قصور ہے.تو وہ کشتیاں اب بھی پائی جاتی ہیں.پھر آہستہ آہستہ جو ترقی ہوئی تو تختوں والی کشتیاں بن گئیں.اُس وقت سریش وغیرہ کے ساتھ تختوں کو جوڑا جاتا تھا.لیکن وہ تختے بعض دفعہ کھل بھی جاتے تھے.پھر کیل نکلے تو اُن کے ساتھ کشتیاں جوڑی جانے لگیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ تک تمدن اتنا ترقی کر چکا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی جماعت کو ایسی کشتی میں سوار کیا جو ذَاتِ الْوَاحِ قَدُسُرِ تھی.گھرا ہوا درخت نہیں تھا بلکہ وہ کشتی با قاعدہ بنی ہوئی تھی اور اُس میں میخیں بھی لگی ہوئی تھیں.غرض اس آیت میں قرآن کریم نے کشتیوں کی ایک لمبی تاریخ کی طرف اشارہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ میں کیلوں والی کشتیاں بنے لگی تھیں.بیچ میں ایک ایسا زمانہ بھی آیا کہ گیلیوں 69 کو باندھ کر چلایا

Page 502

انوار العلوم جلد 26 450 سیر روحانی (12) کرتے تھے.مجھے یاد ہے کہ اس قسم کی کشتیاں دریائے بیاس میں بھی چلا کرتی تھیں مگر اُن میں یہ نقص ہوتا تھا کہ چھوٹی جگہوں میں آکر وہ پھنس جاتی تھیں.اسی طرح اس کی ایک اور مثال سورۃ یوسف قیدیوں کیلئے خوراک کا انتظام سے بھی ملتی ہے.حضرت یوسف علیہ السلام جب قید میں تھے تو آپ کے دو ساتھی آپ سے خوابوں کی تعبیر دریافت کرنے کے لئے آئے.آپ نے ان کو وعظ کرتے ہوئے فرمایا لَا یأْتِيْكُمَا طَعَامُ تُرْزَقَنِةٍ إِلَّا نَبَّاتُكُمَا بِتَأْوِيلِهِ قَبْلَ أَنْ يَأْتِيَكُمَا - 70 یعنی اس وقت کا کھانا ابھی نہیں آئے گا کہ میں تمہیں اس کے آنے سے پہلے اس خواب کی حقیقت بتا دوں گا.اس سے ظاہر ہے کہ فراعنہ مصر کے زمانہ میں خصوصیت سے حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں قیدیوں کو قید خانہ میں کھانا دیا جاتا تھا.جو لوگ پھانسی کے مستحق ہوتے تھے انہیں بھی کھانا دیا جاتا تھا.اسلامی خلفاء کے زمانہ میں بھی یہی طریق رائج رہا.لیکن افسوس که درمیانی عرصہ میں مسلمان اسے بھول گئے اور اسلامی ممالک میں یہ رواج ہو گیا کہ قیدیوں کو جیل خانہ سے باہر بھیک مانگنے کے لئے بھیج دیا جاتا تھا.مجھے ایک احمدی افسر نے بتایا کہ وہ ایسے ہی ملک میں قید ہو گئے تھے کہ ظہر کے بعد ہمیں قید خانہ سے باہر نکال دیا جاتا تھا اور کہا جاتا کہ بھیک مانگ لاؤ.جب ہم بھیک مانگ لاتے تو اچھا اچھا کھانا جیلر نکال لیتا اور خراب کھانا ہمیں دے دیتا.بہر حال تمدن کے لحاظ سے ضروری ہے کہ قیدیوں کو بھی کھانا دیا جائے بلکہ اب تو لوگوں کی یہ رائے ہوگئی ہے کہ اگر زمیندار چاہیں کہ قیدی اُن کے کھیت میں کام کریں تو انہیں چھوڑ دینا چاہئے.قید خانہ میں بند رہنے کی وجہ سے رشتہ داروں کی محبت کم ہو جاتی ہے اور اخلاق کمزور ہو جاتے ہیں.لوگ اسلام پر غلامی کا اعتراض کرتے ہیں لیکن اسلام کا یہ قانون ہے کہ جنگی قیدی کوکسی کے سپرد کر دو کہ وہ اُس سے کام لے اور باہر رہنے کی وجہ سے اُس قیدی کے رشتہ دار سے ملتے رہیں اور اُسے یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دنیا سے بالکل الگ ہو گیا ہے.قرآن کریم میں دہریت کا رڈ اب میں بتاتا ہوں کہ قرآن کریم میں دہریت کا رڈ بھی موجود ہے.دہریت کے

Page 503

انوار العلوم جلد 26 451 سیر روحانی (12) متعلق قریب زمانہ میں امریکہ اور یورپ کے ممالک میں بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں لیکن قرآن کریم نے اس کا رڈ فرمایا ہے اور بتایا ہے کہ یہ خیال کرنا کہ اس دنیا کا کوئی خالق نہیں بالکل غلط بات ہے.چنانچہ فرما یا برَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفَوُتِ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فَطُورِ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيون 21 یعنی بہت برکت والا ہے وہ خدا جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے اور جو ہر چیز پر قادر ہے.اُس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا ہے تا کہ دیکھے کہ تم میں سے کون اچھا عمل کرتا ہے اور وہ غالب اور بخشنے والا ہے.اُس نے ساتوں آسمان بھی پیدا کئے ہیں اور اُن میں موافقت اور مطابقت بھی پیدا کی ہے.اے مخاطب ! تو کوئی اختلاف اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں نہیں دیکھے گا.پس تو اپنی آنکھ کو لو ٹا ، کیا تجھے کوئی رخنہ یا کمی نظر آتی ہے؟ پھر دوبارہ اپنی نظر کو لو ٹا کر دیکھ تیری نظر تھکی ہوئی اور ماندہ ہو کر کوٹے گی اور خدا تعالیٰ کی پیدائش میں تجھے نقص نظر نہیں آئے گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ تمام کائنات اتفاقاً پیدا ہوگئی ہے اور اتفاقی طور پر مادہ کے ملنے سے یہ سب کچھ بن گیا ہے.اور پھر وہ سائنس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے.دنیا آپ ہی آپ پیدا ہوگئی ہے اس کی گل چلانے والا کوئی نہیں.اِن کا جواب اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں دیا ہے کہ اتفاقی طور پر جڑنے والی چیزوں میں کبھی ایک سلسلہ اور نظام نہیں ہوگا بلکہ بے جوڑ پن ہوتا ہے.مختلف رنگوں سے تصویر بنتی ہے لیکن کیا اگر مختلف رنگ ایک کاغذ پر پھینک دیں تو اُس سے تصویر بن جائے گی ؟ اینٹوں سے مکان بنتا ہے لیکن کیا اینٹیں ایک دوسری پر پھینک دی جائیں تو مکان بن جائے گا ؟ بفرضِ محال اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ بعض کام اتفاقاً ہو جاتے ہیں تو بھی نظامِ عالم کو دیکھ کر کوئی آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ یہ سب کچھ آپ ہی آپ ہو گیا ہے.مانا کہ خود بخود مادہ پیدا ہو گیا اور مانا کہ مادہ سے خود بخو دزمین پیدا ہوگئی.مانا کہ انسان بھی خود بخود پیدا ہو گیا.

Page 504

انوار العلوم جلد 26 452 سیر روحانی (12) لیکن انسان کی پیدائش پر غور تو کرو کہ کیا ایسی کامل پیدائش خود بخود ہو سکتی ہے؟ دنیا میں عام طور پر کسی صنعت کی خوبی سے اس کے صناع کا پتا لگتا ہے.ایک عمدہ تصویر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کسی اچھے مصور نے یہ تصویر بنائی ہے.ایک عمدہ تحریر دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ یہ تحریر کسی اچھے کاتب نے لکھی ہے.اور جس قدر ربط بڑھتا جائے بنانے والے کی خوبی ظاہر ہوتی ہے.پھر کس طرح تصور کیا جاسکتا ہے کہ ایسی منظم دنیا خود بخود پیدا ہوگئی ہے.قرآن کریم میں زرتشتی مذہب قرآن کریم میں زرتشتی مذہب کے اصولوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے.زرتشتیوں کے نزدیک کے اصول کا ذکر اور اُن کا رڈ ایک نُور کا خدا ہوتا ہے اور ایک تاریکی کا خدا ہوتا ہے اور ان دونوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا.تاریکی کا خدا نور پیدا نہیں کر سکتا اور ٹور کا خدا تاریکی پیدا نہیں کر سکتا.اگر ٹور کا خدا تاریکی پیدا کرے اور تاریکی کا خدا نور پیدا کر دے تو اس کا مطلب ہے کہ دنیا تباہ ہو جائے.ان کے مقابلہ میں عیسائی تین خداؤں کو مانتے ہیں اور ہندو ہزاروں دیوتاؤں کو مانتے ہیں.قرآن کریم نے زرتشتی مذہب کی طرف بھی اشارہ کیا ہے اور اس کے غلط اصولوں کی تردید کی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي خَلَقَ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظُّلُمَتِ وَالتَّوْرَ ثُمَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِرَبِّهِمْ يَعْدِلُونَ 72 یعنی سب تعریفوں کا مستحق خدا تعالیٰ ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا ہے اور پھر اُس نے اندھیروں اور نور کو پیدا کیا ہے لیکن اس کے باوجود کافر لوگ اُس کے ساتھ شریک بناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نُور کا خدا اور ہے اور تاریکی کا خدا اور ہے.چنانچہ زرتشتیوں کا بھی یہی خیال تھا کہ اہر من ظلمت کا خدا ہے اور یز دان نور کا خدا ہے.73 خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ عقیدہ اس لئے غلط ہے کہ دنیا میں بعض چیز میں نور کے ماتحت پائی جاتی ہیں اور بعض چیزیں ظلمت کے ماتحت پائی جاتی ہیں.نور اور ظلمت علیحدہ علیحدہ چیزیں نہیں بلکہ ایک ہی زنجیر کی دو کڑیاں ہیں اور دونوں چیزیں ثابت کرتی ہیں کہ خدا ایک ہے.اگر ظلمت یہ ثابت کرتی کہ خدا تعالیٰ میں کوئی نقص ہے تو بے شک ایک اور خدا ایزدان

Page 505

انوار العلوم جلد 26 453 سیر روحانی (12) کی ضرورت ہوتی لیکن یہاں یہ صورت نہیں.یہاں تو ظلمت بھی خدا تعالیٰ کی تعریف کرتی ہے اور ٹور بھی خدا تعالیٰ کی تعریف کرتا ہے.چنانچہ دوسری جگہ آتا ہے قل ارَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللهُ عَلَيْكُمُ الَّيْلَ سَرْمَدًا إِلَى يَوْمِ الْقِمَةِ مَنْ اللَّهُ غَيْرُ اللهِ يَأْتِيكُمْ بِضِيَاء أَفَلَا تَسْمَعُوْنَ قُلْ أَرَعَيْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللهُ عَلَيْكُمُ النَّهَارَ سَرْمَدًا إلى يَوْمِ الْقِيمَةِ مَنْ الهُ غَيْرُ اللهِ يَأْتِيكُمْ بِلَيْلٍ تَسْكُنُوْنَ فِيْهِ ۖ أَفَلَا تبصرون 74 فرماتا ہے ظلمت اور نور دونوں کا وجود انسان کے لئے ضروری ہے.نہ نور کے بغیر وہ زندہ رہ سکتا ہے اور نہ ظلمت کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے.انسان دن کو کام کر کے تھک جاتا ہے اور رات کو نیند کے ذریعہ آرام حاصل کر کے پھر تر و تازہ ہو جاتا ہے.اس لئے اگر خدا تعالیٰ رات کو لمبا کر دیتا تو کوئی انسان کام نہ کر سکتا.اسی طرح اگر وہ دن کو لمبا کر دیتا تو کوئی شخص آرام نہ کر سکتا.پس نور اور ظلمت دونوں چیزیں انسانی بقا کے لئے ضروری ہیں اور ان کو دو خداؤں کی پیدائش کہنا غلط ہے.قرآن کریم میں عِلْمُ الاَخلاق کا ذکر پر علم الاخلاق بھی ایک اہم علم ہے اور اس پر کئی کتابیں لکھی گئی ہیں.قرآن کریم نے اس علم کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَسُبُوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ 75 یعنی تم اُن معبودوں کو جن کو کفار خدا تعالیٰ کے سوا پکارتے ہیں گالیاں نہ دو.ورنہ وہ جہالت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گئے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ کسی قوم کے قابل عزت بزرگوں کے حق میں کوئی بُری بات نہیں کہنی چاہئے ورنہ اُن کے دل دُکھیں گے اور چونکہ وہ اخلاق سے عاری ہیں اس لئے وہ جواب میں اللہ تعالیٰ کو گالیاں دینے لگ جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں إِنَّ مِنْ اَكْبَرِ الْكَبَائِرِ أَنْ يَلْعَنَ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ.قِيْلَ يَا رَسُولَ اللهِ وَكَيْفَ يَلْعَنُ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ يَسُبُّ الرَّجُلُ اَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ آبَاهُ وَيَسُبُّ اُمَّهُ - 76 یعنی کسی شخص کو نہیں چاہیے کہ وہ اپنے ماں باپ کو گالیاں دے.صحابہ نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! اپنے ماں باپ کو کون گالیاں دیتا ہے؟ آپ نے

Page 506

انوار العلوم جلد 26 454 سیر روحانی (12).فرمایا جو شخص دوسرے کے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے وہ گویا اپنے ماں باپ کو گالیاں دیتا ہے کیونکہ دوسرا شخص جوش میں آ کر اس کے ماں باپ کو گالیاں دینے لگ جائے گا.غرض اللہ تعالیٰ نے عِلمُ الاخلاق کا بھی ذکر فر ما دیا ہے.عیسائی بڑا نا ز کرتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ تم دوسرے کیلئے بھی وہی بات پسند کرو جو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو.حالانکہ قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ دوسروں کے بتوں وغیرہ کو گالیاں نہ دو.ورنہ اگر تم اُن کے معبودوں کو گالیاں دو گے تو وہ جواباً تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے اور پھر تمہیں اس پر چڑنے یا بُرا منانے کا کوئی حق نہیں ہوگا کیونکہ ابتدا تمہاری طرف سے ہوئی ہوگی.لیکن اگر ا بتدا دوسروں کی طرف سے ہوئی ہو اور وہ تمہارے معبود کو گالیاں دیں تو پھر بیشک وہ ظالم ہوں گے لیکن اگر پہل تمہاری طرف سے ہو اور تم کسی کے معبود کو گالیاں دو اور وہ جوابا تمہارے خدا کو بھی گالیاں دینے لگ جائے تو تمہیں اس پر چڑنے کا کوئی حق نہیں ہوگا کیونکہ اسے جواب دینے والا سمجھا جائے گا ظلم کرنے والا نہیں سمجھا جائے گا.چنانچہ احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ایک صحابی نے ایک یہودی کے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسے طور پر ذکر کیا کہ آپ کی حضرت موسیٰ علیہ السلام پر فضیلت ثابت ہوتی تھی.اس سے بہر حال اس یہودی کو تکلیف ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہو ا تو آپ نے فرمایا لَا تُخَيَّرُونِي عَلَى مُوْسَی - 77 مجھے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اس طرح فضیلت نہ دیا کرو کہ اس سے کوئی جھگڑا پیدا ہو جائے.قرآن کریم میں عِلْمُ الإِنسَان کا ذکر عِلْمُ الْإِنْسَان بھی ایک نہایت ضروری علم ہے جس کو انگریزی میں ANTHROPOLOGY کہتے ہیں اور لوگوں نے اس علم پر بہت سی کتابیں لکھی ہیں.قرآن کریم نے بھی اس پر بحث کی ہے اور اس نے ابوالبشر کا نام آدم رکھا ہے.یعنی وہ پہلا انسان تھا جس نے سطح زمین پر رہنا شروع کیا.تاریخ بتاتی ہے کہ آدم سے پہلے جو لوگ تھے وہ غاروں میں چُھپ کر رہتے تھے تا کہ کہیں شیر اور بھیڑیے اُنہیں کھا نہ جائیں.پھر جب تمدن نے ترقی کی اور حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ لوگوں نے ایک دوسرے

Page 507

انوار العلوم جلد 26 455 سیر روحانی (12) کی مدد کرنی شروع کر دی تو لوگ غاروں سے باہر نکل آئے اور انہوں نے سطح زمین پر رہنا شروع کر دیا.اور سب سے پہلا انسان آدم تھا جس نے زمین کی سطح پر رہنا شروع کیا.گویا پہلا کیومین (CAVEMAN) جو زمین پر رہنا شروع ہو ا آدم تھا بلکہ قرآن کریم نے اس کا نام آدم رکھ کر ہی یہ بات واضح کر دی ہے کہ وہ CAVE یعنی غار کو چھوڑ کر باہر نکل آیا تھا اور اُس نے سطح زمین پر مل جل کر رہنا شروع کر دیا تھا.چنانچہ ادِیمُ الْأَرْضِ کے معنے عربی زبان میں سطح زمین کے ہوتے ہیں.78 گویا آدم کے معنے ہوئے غاروں سے نکل کر سطح زمین پر رہنے والا شخص.اسی طرح آدیم کے معنے اولیت کے بھی ہیں.79 گویا آدم کے لفظ میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ موجودہ نسل کا پہلا انسان آدم تھا.اسی طرح ادم کے معنے ہوتے ہیں صَارَ لَهُمُ اُسْوَةٌ - 80 وہ اُن کے لئے نمونہ ہو گیا.یعنی آدم علیہ السلام لوگوں کے لئے ایک نمونہ تھے اور انہوں نے آپ کے نقش قدم پر چلنا شروع کر دیا تھا.عیسائیوں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ چونکہ حضرت آدم علیہ السلام نے گناہ کیا تھا اِس لئے انسان کی فطرت میں گناہ کا مادہ پایا جاتا ہے لیکن یہ بات غلط ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے کوئی گناہ کیا تھا.اُن سے صرف ایک اجتہادی لغزش ہوئی تھی اور پھر اس لغزش پر بھی انہوں نے تو بہ کی.اگر عیسائیوں کا گلیہ صحیح تسلیم کر لیا جائے تو انسان کی فطرت میں تو بہ کا مادہ ہونا چاہئے تھا نہ کہ گناہ کا.کیونکہ حضرت آدم علیہ السلام لوگوں کے لئے نمونہ تھے اور وہ اُنہیں کے نقشِ قدم پر چلتے تھے.گناہ تو حوا نے کیا تھا اور حوا نے ہی بائبل کی رُو سے حضرت آدم کو پھسلایا تھا.پھر آدم سے سلسلہ گناہ کس طرح چل پڑا جبکہ آدم نے اپنی ایک اجتہادی غلطی پر تو یہ بھی کی تھی.اسی طرح ادم کے ایک معنے اَلَّفَ وَوَفَّقَ کے ہیں.81 یعنی اُس نے فساد دُور کیا اور باہم موافقت پیدا کی.ان معنوں میں اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے ہی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھی تھی اور انہوں نے ہی تمدن کو صحیح معنوں میں دنیا میں قائم کیا تھا.اس میں فرشتوں کے اُس سوال کا جواب بھی آجاتا ہے جو انہوں نے کیا تھا کہ اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء - 82 یعنی کیا

Page 508

انوار العلوم جلد 26 456 سیر روحانی (12) تو اس میں ایسا شخص پیدا کرے گا جو اُس میں فساد کرے گا اور لوگوں کا خون بہائے گا ؟ اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ہم نے تو آدم کو پیدا ہی اِس لئے کیا ہے کہ وہ دنیا سے فساد دُور کرے.خلیفہ ہونا تو الگ چیز ہے اس کی پیدائش ہی فساد کو دُور کرنے والی تھی.دوسری مثال اس کی حضرت نوح علیہ السلام کی ہے.بائبل سے پتا لگتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے باپ بڑے نیک آدمی تھے.انہوں نے الہام الہی سے نوح کا نام نوح رکھا تھا جس کے معنے ہیں نوحہ کرنے والا.اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ دنیا میں اُن کے زمانہ میں ایک عالمگیر عذاب آئے گا جس سے وہ خود تو بچ جائیں گے مگر اُن کی قوم تباہ ہو جائے گی اور وہ اپنی قوم کے تباہ ہونے پر نوحہ کریں گے.قرآن کریم نے بھی اس کی تصدیق کی ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کے نام کا ذکر کر کے اس تو جیہہ کی طرف اشارہ کیا ہے.قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ قرآن کریم میں آئندہ زمانہ کی تاریخ بھی بیان کی گئی ہے.چنانچہ ا اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُل لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتَدْعَوْنَ إِلَى قَوْمِ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ أَوْ يُسْلِمُونَ 83 دوسری کتابیں تو صرف پچھلا حال بیان کرتی ہیں لیکن قرآن کریم ایسی کتاب ہے جو آئندہ زمانہ کا حال بھی بیان کرتی ہے.چنانچہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ اے مسلمانو ! آئندہ زمانہ میں رومیوں اور ایرانیوں کے ساتھ تمہاری جنگیں ہوں گی اور وہ عرب جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سستی دکھائی تھی وہ اپنے دھتے دھوسکیں گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.یا تو وہ وقت تھا کہ رومی اور ایرانی مسلمانوں کو بڑا حقیر سمجھتے تھے اور قابل التفات ہی نہیں سمجھتے تھے اور یا پھر وہ زمانہ آیا کہ ایران اور روم دونوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا اور اس بات سے خائف ہو گئے کہ مسلمان اُن کے ملک میں نہ گھس آئیں.لیکن اس آیت کے مطابق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں مسلمانوں نے ان دونوں ملکوں پر فتح حاصل کی اور وہ عرب جو پہلے کمزوریاں دکھا رہے تھے انہوں نے

Page 509

انوار العلوم جلد 26 457 سیر روحانی (12) بھی بڑی بڑی قربانیاں کیں اور ان دونوں ملکوں کو انہوں نے تباہ کر کے رکھ دیا.اور اس طرح قرآن کریم میں جو آئندہ زمانہ کی تاریخ بیان کی گئی تھی وہ حقیقت بن کر ظاہر ہو گئی.یا جوج ماجوج کے متعلق پیشگوئی اس کی مثال میں ایک اور پیشگوئی بھی بیان کی اور کی جا سکتی ہے اور وہ یا جوج ماجوج کے متعلق ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج غالب آجائیں گے اور ساری دنیا پر چھا جائیں گے.جس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے اُس وقت یورپ بالکل وحشی تھا اور اس کے باشندے کھا لیں پہنا کرتے تھے.لیکن آج دیکھو ان کی حکومت کس قدر بڑھ گئی ہے اور وہ کس طرح ساری دنیا پر غالب آ گئے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتا ہے وَحَرام عَلَى قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُوْنَ حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَا جَوجُ وَمَاجُوجُ ) وَهُمْ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ 84 یعنی ہر ایک بستی جسے ہم نے ہلاک کیا ہے اُس کے لئے یہ فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ اُس کے بسنے والے کوٹ کر اس دنیا میں نہیں آئیں گے.یہاں تک کہ جب یا جوج اور ماجوج کے لئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی او ر ہر سمندر کی لہر پر سے پھلانگتے ہوئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گے تو اُس وقت مُردہ قوموں میں بھی بیداری پیدا ہو جائے گی اور اُن میں بھی زندگی کی حرکت پیدا ہونے لگ.جائے گی.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ آخری زمانہ میں یا جوج اور ماجوج جس سے مراد روس اور انگلستان ہیں، ساری دنیا پر چھا جائیں گے اور یہ دونوں قو میں سمندر کی لہروں پر سے ہوتے ہوئے اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر سے پھاندتے ہوئے ساری دنیا میں پھیل جائیں گی.قرآن کریم نے حدب کا لفظ استعمال کیا ہے اور عربی زبان میں حدب کے معنے اونچے ٹیلوں کے بھی ہیں اور موج کے بھی ہیں.85 گویا اس آیت میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ قومیں سمندر میں سے ہوتے ہوئے بھی ساری دنیا پر پھیل جائیں گی اور پہاڑوں سے بھی آئیں گی اور دنیا میں پھیل جائیں گی.چنانچہ روس پہاڑوں پر سے ہو کر

Page 510

انوار العلوم جلد 26 458 سیر روحانی (12) چین پر قابض ہو گیا اور انگریز اور امریکہ سمندر سے آ رہے ہیں اور اس تاریخ کو جو قرآن کریم نے آئندہ زمانہ کی بیان کی تھی پورا کر رہے ہیں.فلسطین پر یہود کے قبضہ کی پیشگوئی اسی طرح قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے متعلق واقعات بیان کرتے ہوئے بتایا ہے کہ تو رات میں ان کے متعلق پیشگوئی تھی کہ ان پر دودفعہ تباہی آئے گی اور وہ بیت المقدس سے نکالے جائیں گے.چنانچہ اُن کی پہلی تباہی نبو کد نضر بادشاہ کے حملہ سے ہوئی اور دوسری تباہی ٹائیٹس رومی کے ذریعہ سے ہوئی جو مسیح کے صلیب کے واقعہ کے 70 سال بعد یہودیوں پر حملہ آور ہو ا تھا.ان واقعات کا ذکر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ قُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ لِبَنِي إِسْرَائِيلَ اسْكُنُوا الْأَرْضَ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا - 86 یعنی فرعون کے سمندر میں ڈوب مرنے کے بعد ہم نے بنی سرائیل کو کہ دیا تھا کہ تم فلسطین میں جا کر آباد ہو جاؤ.لیکن ایک وقت کے بعد تم کو فلسطین سے نکلنا پڑے گا اور پھر خدا تعالیٰ تم کو واپس لائے گا.پھر تم نا فرمانی کرو گے اور تم پر دوسری دفعہ عذاب آئے گا.پھر تم جلا وطن رہو گے یہاں تک کہ تمہاری مثیل قوم یعنی مسلمانوں کی تباہی کے متعلق جو دوسری خبر ہے اُس کا وقت آ جائے گا.اُس وقت پھر تم کو مختلف ملکوں سے جمع کر کے ارض مقدس میں اکٹھا کر دیا جائے گا.پس اس آیت میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کی پیشگوئی تھی جواب پوری ہو چکی ہے.میں نے جب پہلی تفسیر کبیر جو سورۃ یونس سے لے کر سورۃ کہف تک کی تفسیر پر مشتمل ہے لکھی تھی تو میں نے اُس میں استدلال کیا تھا کہ ان آیات میں بنی اسرائیل کے فلسطین پر قابض ہونے کے متعلق پیشگوئی کی گئی ہے.ایک دفعہ میں شملہ گیا اور چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ہاں مہمان ٹھہرا.اُن کے ہاں اُس وقت خان علی قلی خاں بھی بطور مہمان ٹھہرے ہوئے تھے ( جو لیفٹینٹ جنرل حبیب اللہ خاں صاحب کے والد تھے ) انہوں نے چودھری ظفر اللہ خاں صاحب سے تفسیر کبیر مطالعہ کے لئے مانگی.پارٹیشن کے بعد انہوں نے مجھے لکھا کہ جب میں نے آپ کی تفسیر میں یہ پڑھا کہ بنی اسرائیل ایک وقت میں پھر

Page 511

انوار العلوم جلد 26 459 سیر روحانی (12) فلسطین پر قابض ہو جائیں گے تو مجھے بوجہ پٹھان ہونے کے سخت غصہ آیا کیونکہ ہم تو بنی اسرائیل کے دشمن ہیں اور آپ نے لکھا تھا کہ بنی اسرائیل فلسطین پر قابض ہو جائیں گے.لیکن جب امریکہ اور انگریزوں کی مدد سے بنی اسرائیل فلسطین میں داخل ہو گئے تو مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میں نے کہا کہ قرآن کریم سچا ثابت ہو گیا کیونکہ یہ واقعہ قرآن کریم کی اس آیت کی عملی تفسیر ہے.قرآن کریم میں جغرافیہ کا ذکر پھر قرآن کریم میں جغرافیہ کا علم بھی بیان کیا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قوم سبا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اُن کا ملک بہت آباد تھا اور اُن کے ملک سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی جاتی تھیں لیکن اس ملک کے رہنے والوں نے خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا نہ کیا اور انہوں نے کہا رَبَّنَا عِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ فَجَعَلْتُهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَقْنَهُمْ كُلِّ مُمَزَّقٍ - 87 یعنی اے ہمارے رب ! ہمارے سفروں کو لمبا کر دے اور انہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا پس ہم نے اُن کا نام مٹا دیا اور اُن کو قدیم زمانہ کے افسانے بنادیا اور انہیں تباہ کر کے ذرّہ ذرّہ کر دیا.گویا سبا قوم کی ناشکری کے باعث اُن پر تبا ہی آگئی اور اُن کا سارا ملک تباہ ہو کر ویران ہو گیا.قرآن کریم کے اس بیان کی تصدیق اس واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام ایک بہت بڑے لشکر کو لے کر یمن آئے اور وہ بآسانی وہاں پہنچ گئے اور اُن کو کوئی تکلیف نہ ہوئی.لیکن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے قبل ابرہہ نے یمن کے لشکر کے ساتھ مکہ پر حملہ کیا تو واپسی پر اُس کا لشکر راستہ کھو جانے کی وجہ سے بالکل تباہ ہو گیا.معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت تک وہ سب بستیاں تباہ ہو چکی تھیں.ان دونوں واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں قوم سبا کا جو جغرافیہ بیان کیا گیا ہے کہ اُن کے علاقہ سے فلسطین تک بستیاں ہی بستیاں چلی جاتی تھیں وہ بالکل درست ہے.اس طرح اُس نے سبا کی تباہی کے متعلق جو کچھ ذکر کیا ہے وہ بھی ٹھیک ہے.غرض قرآن کریم کے اندر جو عظیم الشان کتب خانے موجود ہیں اُن کی مثال دنیا کے کسی کتب خانہ میں نہیں

Page 512

انوار العلوم جلد 26 460 سیر روحانی (12) پائی جاتی.پھر دُنیوی کتب خانے تباہ بھی ہو جاتے ہیں لیکن قرآنی کتب خانہ وہ ہے جس کی دائمی حفاظت کا خدا تعالیٰ نے وعدہ کیا ہوا ہے.پس گجا دُنیوی بادشاہوں کے کتب خانے اور گجا یہ روحانی کتب خانہ جو زمانہ کی ہر دست برد سے کلی طور پر محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ سے دعا اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ ہمارے دوست جو یہاں آئے ہیں خیر و عافیت سے واپس جائیں.اُن کے گھروں میں بھی امن قائم رہے اور یہاں بھی امن رہے اور راستہ میں بھی کوئی تکلیف نہ ہو.اور اللہ تعالیٰ اُن کی آئندہ عمر میں ، اُن کے مالوں اور اولاد میں برکت ڈالے اور اُن کو ترقیات عطا فرمائے.اور اسلام کا خادم بنائے اور اُن کے ذریعہ سے ساری دنیا پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگ جائے.اللہ تعالیٰ آپ کا اور آپ کے خاندانوں کا قیامت تک حافظ و ناصر ہو اور اسلام آپ کے ذریعہ سے اور آپ کی اولادوں کے ذریعہ سے قیامت تک بڑھتا رہے.اور دنیا سے شرک اور بدعت مٹ جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت پھر دنیا میں قائم ہو جائے اور ایسی مضبوطی سے قائم ہو کہ اُسے کوئی مٹانے کی جرات نہ کر سکے.“ ناشر الشرکۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ ) 1 : در ثمین اردو صفحه 17 2 : تاخت و تاراج کرنا: برباد کرنا.تباہ کرنا ( فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 334 فیروز سنز لا ہور ) 3 : البينة : 2تا4 :4 حشو : زائد کلام.فضولیات.کوڑا کرکٹ (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 570 فیروز سنز لاہور ) 2 : پیدائش باب 2 آیت 2 ، 3 صفحه 11،10 پاکستان پائل سوسائٹی لاہور 2011 ء 6 : خروج باب 20 آیت 11.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 1 : ق: 39

Page 513

انوار العلوم جلد 26 461 سیر روحانی (12) 8 : البقرة : 256 9: يس :83 10 : تفسير كبير فخرالدین رازی جلد 6 صفحہ 372 مطبوعہ قاهره 2012ء ل1 : بحار الانوار جلد 53 صفحہ 9 مطبوعہ بیروت 1983ء 12 : در مشین اردو صفحه 131 13 : المزمل:16 :14: لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف: 93) 15 : السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 89 مطبوعہ مصر 1935ء، سیرت ابن ھشام جلد 2 صفحه 219 مطبوعہ مصر 1295ھ 16 : فاطر:25 17 : الرعد:8 18 : اقرب الموارد جلد 2 صفحہ 1288 مطبوعہ بیروت 1889ء 19 : بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول الله تعالى وَاذْكُرُ في الكتاب مريم (الخ) حدیث نمبر 3443 صفحه 580 الطبعة الثانية مطبوع رياض 1999ء 20 : سقراط: 470 سال قبل مسیح یونان کے مشہور شہر ایتھنز میں پیدا ہوا.دنیائے فلسفہ کے عظیم اور جلیل المرتبت معلم جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی.فطرتا نہایت اعلیٰ اخلاقی و روحانی اوصاف کا حامل ،حق پرست اور منصف مزاج استاد تھا.اخیر عمر دیوتاؤں کے حقیقی وجود سے انکار کیا جس کی پاداش میں ایتھنز کی عدالت نے 399 قبل مسیح میں اسے موت کی سزا دی ( آزاد دائرۃ المعارف وکی پیڈیاز سر لفظ سقراط ) 21 : يونس : 93 22: الفجر : 7 تا 9 23: النجم: 52،51 :24 وَاَوْحَى رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِى مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتَاةَ مِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ثُمَّ كُلِى مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلا يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفُ أَلْوَانُهُ فِيْهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (النحل: 70،69) 25 : النحل : 70،69

Page 514

انوار العلوم جلد 26 8:3:26 462 سیر روحانی (12) :27 : مسلم كتاب الفضائل باب وجوب امتثال ماقاله شرعًا (الخ) حديث نمبر 6127 صفحه 1039 الطبعة الثانية مطبوع رياض 2000ء 28 : الدريت : 50 29 : ٹین: (TIN) ایک سفید نرم دھات (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 435 فیروز سنز لاہور ) 30 : نوح: 15،14 31 : الانبياء : 31 32 الطلاق: 13 33 : پیدائش باب 19 آیت 30 تا 38 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 34 : الانبياء : 7675 35 : الشعراء : 172،171 36 26 : اقرب الموارد جلد 2 صفحہ 858 مطبوعہ بیروت 1889ء 31 : 2 سموئیل باب 11 آیت 2 تا 4.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 38 : ص : 18 39 : ص : 26 40 : 1.سلاطین باب 11 آیت 4.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 41 : 1.سلاطین باب 11 آیت 10،9.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 42 : وَصَدَّهَا مَا كَانَتْ تَعْبُدُ مِنْ دُونِ اللهِ إِنَّهَا كَانَتْ مِنْ قَوْمٍ كُفِرِينَ ( انمل :44) 43 : البقرة: 103 :44 : خروج باب 32 آیت 1 تا 4 ، برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 45 : خروج باب 32 آیت 5 ، 6 ، برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 46 : طه:91 47 : انسائیکلو پیڈیا برٹینیکا جلد 4 صفحہ 1004 زیر لفظ Calf the Golden وجلد 18 صفحہ 895 زیر لفظ MOSES مطبوعہ نیو یارک 1910ء،1911ء 48 : اعمال باب 1 آیت 9 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 49 : المؤمنون : 51 50 : القصص : 39

Page 515

انوار العلوم جلد 26 463 سیر روحانی (12) 51 : الصفت : 103 : 52 : اليواقيت والجواهر الجزء الثاني صفحه 342 مطبوعات بیروت 1997ء 53 : ال عمران: 160 54 : الشورى: 39 55 : تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 170 مطبوعہ بیروت 2009 ء میں "لَا حُكْمَ إِلَّا لِلَّهِ کے الفاظ ہیں.56 : تاريخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 166 مطبوعہ بیروت 2009ء میں "الامْرُشُوری بَعْدَ الْفَتْحِ“ کے الفاظ ہیں.57 : تاریخ کامل لابن اثیر جلد 3 صفحہ 335 مطبوعہ بیروت 1965ء 58 : بخاری کتاب المغازى باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ (الخ) حدیث نمبر 3952 صفحہ 668 الطبعة الثانية مطبوعہ ریاض 1999ء 59 : بخاری کتاب المغازی باب قول الله تعالى إِذْ تَسْتَغِيْثُوْنَ رَبَّكُمْ (الخ) حدیث نمبر 3952 صفحہ 668 الطبعة الثانية مطبوعہ ریاض 1999ء 60 : سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 675 مطبوعہ دمشق 2005 ء کے مطابق دوسری تقریر سعد بن معاذ انصاری کی ہے.61 : السيرة الحلبية جلد 2 صفحه 477 تا 479 مطبوعہ بیروت 2012 ء 62 : النمل:33 63 : الشعراء : 36 64 : الشعراء : 37 65 : السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 140،139 مطبوعہ مصر 1939ء 66 : السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 140،139 مطبوعہ مصر 1939ء 67 : النور:63 68 : القمر : 14 69 : گیلیوں : گیلی.تنے کی کائی ہوئی گول لکڑی (فیروز اللغات اردو جامع صفحہ 1138 فیروز سنز لاہور )

Page 516

انوار العلوم جلد 26 70 : يوسف : 38 71 : الملک: 2 تا 5 72 : الانعام:2 464 73 : دبستان مذاہب اردو تر جمه صفحه 135 136 مطبوعہ لا ہور 2002ء 74 : القصص : 73،72 75 : الانعام: 109 سیر روحانی (12) 76 : بخارى كتاب الادب باب لا يسب الرجل والديه حديث نمبر 5973 صفحه 1046 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 77 : بخاری کتاب احاديث الانبياء باب وفاة موسى (الخ) حديث نمبر 3408 صفحه 572 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 78 : لسان العرب جلد 1 صفحہ 97 مطبوعہ بیروت 1988ء 29 : اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 7 مطبوعہ بیروت 1889ء 80 اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 6 مطبوعہ بیروت 1889ء 81 : اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 6 مطبوعہ بیروت 1889ء 82 : البقرة: 31 83 : الفتح: 17 84 : الانبياء : 97،96 85 : اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 169 مطبوعہ بیروت 1889ء 86 : بنی اسرائیل : 105 87 : سبا : 20

Page 517

انوار العلوم جلد 26 465 خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر روح پرور پیغام خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر روح پرور پیغام از رنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 518

انوار العلوم جلد 26 466 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام

Page 519

انوار العلوم جلد 26 467 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر روح پرور پیغام یہ تاریخی پیغام پہلے مؤرخہ 23 /اکتوبر 1959ء کو خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاحی اجلاس میں محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے پڑھ کر سنایا اور پھر اگلے روز 24 /اکتوبر کو حضور نے بنفس نفیس مقام اجتماع میں تشریف لا کر خود یہ پیغام پڑھا اور اس میں درج شدہ تاریخی عہد دوباره خدام - د ہروایا." ” اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کو میں اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انسان دنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ کے لئے زندہ رہ سکتی ہیں.پس تمہیں اپنی قومی حیات کے قیام اور استحکام کے لئے ہمیشہ کوشش کرنی چاہئے اور نسلاً بعد نسل اسلام اور احمدیت کو پھیلانے کی جدو جہد کرتے چلے جانا چاہئے.اگر مسیح موسوی کے پیرو آج ساری دنیا میں پھیل گئے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ مسیح محمدی جو اپنی تمام شان میں مسیح موسوٹی سے افضل ہے اس کی جماعت ساری دنیا میں نہ پھیل جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو اس مقصد کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا بھی کی ہے اور فرمایا ہے کہ

Page 520

انوار العلوم جلد 26 468 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار 1 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس دعا اور خواہش کو پورا کرنے کے لئے جد و جہد کرنا آپ لوگوں میں سے ہر ایک پر فرض ہے اور آپ لوگوں کو یہ جد و جہد ہمیشہ جاری رکھنی چاہئے یہاں تک کہ قیامت آجائے.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قیامت تک جد و جہد کرنا صرف ایک خیالی بات ہے.بلکہ حقیقتاً یہ آپ لوگوں کا فرض ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد کیا گیا ہے کہ قیامت تک آپ لوگ اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند رکھیں.یہاں تک کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت عیسائیت سے بہت زیادہ پھیل جائے اور تمام دنیا کی بادشاہتیں اسلام اور احمدیت کے تابع ہو جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مجھے ایک دفعہ عالم کشف میں وہ بادشاہ دکھائے بھی گئے جو گھوڑوں پر سوار تھے اور جن میں سے بعض ہندوستان کے تھے ، بعض عرب کے بعض فارس کے ، بعض شام کے بعض روم کے اور بعض دوسرے ممالک کے.اور مجھے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے.اگر اللہ تعالیٰ چاہے اور ان پیشگوئیوں کے مطابق ،روس، جرمنی، امریکہ اور انگلستان کے بادشاہ یا پریذیڈنٹ احمدی ہو جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی اور اسلام کے مقابلہ میں باقی تمام مذاہب بے حقیقت ہو کر رہ جائیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آج کل دنیا کے اکثر ممالک میں بادشاہتیں ختم ہو چکی ہیں مگر پریذیڈنٹ بھی بادشاہوں کے ہی قائمقام ہیں.پس اگر مختلف ملکوں کے پریذیڈنٹ ہماری جماعت میں داخل ہو جائیں تو یہ پیشگوئی پوری ہو جاتی ہے.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ متواتر اور مسلسل جدوجہد کی جائے اور تبلیغ اسلام کے کام کو ہمیشہ جاری رکھا جائے.حضرت مسیح موعود وعلیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نوح بھی قرار دیا گیا ہے 2 اور حضرت نوح کی عمر جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے ساڑھے نوسوسال تھی 3 جو درحقیقت ان کے سلسلہ کی عمر تھی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 521

انوار العلوم جلد 26 469 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام بروز تھے جو تمام نبیوں سے افضل تھے اور حضرت نوح بھی ان میں شامل تھے.پس اگر نوح کو ساڑھے نو سو سال عمر ملی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بروز اور آپ کے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو ساڑھے نو ہزار سال عمر ملنی چاہئے اور اس عرصہ تک ہماری جماعت کو اپنی تبلیغی کوششیں وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جانا چاہئے.میں اس موقع پر وکالت تبشیر کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بیرونی مشنوں کی رپورٹیں با قاعدگی کے ساتھ شائع کیا کرے تا کہ جماعت کو یہ پتا لگتا ر ہے کہ یورپ اور امریکہ میں اسلام کی اشاعت کے لئے کیا کیا کوششیں ہو رہی ہیں اور نو جوانوں کے دلوں میں اسلام کے لئے زندگیاں وقف کرنے کا شوق پیدا ہو.مگر جہاں یورپ اور امریکہ میں تبلیغ اسلام ضروری ہے وہاں پاکستان اور ہندوستان میں اصلاح و ارشاد کے کام کو وسیع کرنا بھی ہمارے لئے ضروری ہے جس سے ہمیں کبھی غفلت اختیار نہیں کرنی چاہئے.دنیا میں کوئی درخت سرسبز نہیں ہو سکتا جس کی جڑھیں مضبوط نہ ہوں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم پاکستان اور ہندوستان میں بھی جماعت کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے درخت سے دی ہے جس کا تنا مضبوط ہو اور اُس کے نتیجے میں اُس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں 4.یعنی ایک طرف تو سچے مذہب کے پیرو اپنی کثرت تعداد کے لحاظ سے ساری دنیا میں پھیل جائیں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ اس کے ماننے والوں کو اتنی برکت دے کہ آسمان تک ان کی شاخیں پہنچ جائیں.یعنی ان کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہونے لگیں اور ان پر آسمانی انوار اور برکات کا نزول ہو.یہی فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کے معنی ہیں.کیونکہ جو شخص آسمان پر جائے گا وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائے گا اور چونکہ خدا تعالیٰ کا کوئی جسمانی وجود نہیں اس لئے اس کے قریب ہونے کے یہی معنے ہو سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ اس کی دعائیں سنے گا.حدیثوں میں بھی آتا ہے کہ مومن جب رات کو تہجد کے وقت دعائیں کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان دعاؤں کو قبولیت کے لئے آسمان سے اتر آتا ہے.پس ضروری ہے کہ تمام جماعت کے اندر ایسا اخلاص پیدا ہو کہ اس کی دعائیں

Page 522

انوار العلوم جلد 26 470 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام خدا تعالیٰ سننے لگ جائے اور پاتال تک اس کی جڑیں چلی جائیں.اور دنیا کا کوئی حصہ ایسا نہ رہے جس میں احمدی جماعت مضبوط نہ ہو.اور احمدی جماعت کا کوئی حصہ ایسا نہ ہو جس کی دعائیں خدا تعالیٰ کثرت کے ساتھ قبول نہ کرے.پس تبلیغ بھی کرو اور دعائیں بھی کرو تا کہ خدا تعالیٰ احمدیت کو غیر معمولی ترقی عطا فرمائے.سکھوں کو دیکھو ان کا بانی نبی نہیں تھا مگر پھر بھی وہ بڑے پھیل گئے اور اب بھی ان میں اتنا جوش ہے کہ وہ ذرا ذرا سی بات پر لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں.تمہارا بانی تو نبی تھا اور اپنی تمام شان میں مسیح موسوی سے بڑھ کر تھا.پھر اگر مسیح موسوی کی امت ساری دنیا میں پھیل گئی ہے تو مسیح محمدی جو ان سے بڑے تھے ان کی جماعت کیوں ساری دنیا میں نہیں پھیل سکتی.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ اک شجر ہوں جس کو داؤ دی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار 1 اور جالوت اُس شخص کو کہتے ہیں جو فسادی ہو اور امنِ عامہ کو برباد کر نے والا ہو.پس اس کے معنے یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ دنیا میں امن قائم فرمائے گا اور ہر قسم کے فتنہ وفساد اور شرارت کا سد باب کر دے گا.پس تبلیغ اسلام کو ہمیشہ جاری رکھو اور نظام خلافت سے اپنے آپ کو پورے اخلاس کے ساتھ وابستہ رکھو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے.و, اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ بھی لکھا ہے کہ :.تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت

Page 523

انوار العلوم جلد 26 471 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام 66 تک منقطع نہیں ہو گا ،، سو تم قیامت تک خلافت کے ساتھ وابستہ رہو تا کہ قیامت تک خدا تعالیٰ کے تم پر بڑے بڑے فضل نازل ہوتے رہیں.حضرت مسیح ناصرٹی سے آپ کا مسیح بہت بڑا تھا مگر عیسائیوں میں اب تک پوپ جو پطرس کا خلیفہ کہلاتا ہے چلا آ رہا ہے اور یورپ کی حکومتیں بھی اس سے ڈرتی ہیں.نپولین جیسا بادشاہ ایک دفعہ پوپ کے سامنے گیا اور وہ گاڑی میں بیٹھنے لگا تو اُس وقت قاعدہ کے مطابق پوپ کو مقدم رکھنا ضروری تھا.مگر نپولین نے یہ ہوشیاری کی کہ وہ دوسری طرف سے اُسی وقت اندر جا کر بیٹھ گیا جس وقت پوپ بیٹھا تھا اور اس طرح اُس نے چاہا کہ وہ پوپ کے برابر ہو جائے.اگر عیسائیوں نے اپنی مُردہ خلافت کو اب تک جاری رکھا ہوا ہے تو آپ لوگ اپنی زندہ خلافت کو کیوں قیامت تک جاری نہیں رکھ سکتے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى اَشْرَارِ النَّاسِ 10 یعنی قیامت ایسے لوگوں پر ہی آئے گی جو ا شرار ہوں گے اختیار نہیں ہوں گے.مگر آپ لوگوں کی ترقی چونکہ خدائی پیشگوئیوں کے ماتحت ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو خدا تعالیٰ نے خَيْرُ الأمم قرار دیا ہے اس لئے اگر آپ قیامت تک بھی چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ آپ کو نیک ہی رکھے گا اور اختیار میں ہی شامل فرمائے گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں ہم ہوئے خیر اُئم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 11 مگر ضروری ہے کہ اس کے لئے دعائیں کی جائیں کہ خدا تعالیٰ ہماری جماعت میں ہمیشہ صالح لوگ پیدا کرتا رہے اور کبھی وہ زمانہ نہ آئے کہ ہماری جماعت صالحین سے خالی ہو یا صالحین کی ہماری جماعت میں قلت ہو.بلکہ ہمیشہ ہماری جماعت میں صالحین کی اکثریت ہو جن کی دعائیں کثرت کے ساتھ قبول ہوتی ہوں اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود اس دنیا میں بھی ظاہر ہو.

Page 524

انوار العلوم جلد 26 472 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام میں اس وقت تمام خدام سے تبلیغ اسلام کے متعلق ایک عہد لینا چاہتا ہوں.تمام خدام کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دہرائیں.اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ہم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے اور ہر بڑی سے بڑی قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما.اللَّهُمَّ آمِینَ.اللهُمَّ آمِيْنَ اللَّهُمَّ آمَيْنَ یہ عہد جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے متواتر چار صدیوں بلکہ چار ہزار سال تک جماعت کے نوجوانوں سے لیتے چلے جائیں.اور جب تمہاری نئی نسل تیار ہو جائے تو پھر اُسے کہیں کہ وہ اس عہد کو اپنے سامنے رکھے اور ہمیشہ اسے دہراتی چلی جائے.اور پھر وہ نسل یہ عہد اپنی تیسری نسل کے سپرد کر دے.اور اس طرح ہر نسل اپنی اگلی نسل کو اس کی تاکید کرتی چلی جائے.اسی طرح بیرونی جماعتوں میں جو جلسے ہوا کریں اُن میں بھی مقامی جماعتیں خواہ خدام کی ہوں یا انصار کی یہی عہد دہرایا کریں یہاں تک کہ دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے اور اسلام اتنا ترقی کرے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل جائے.مجھے بھی ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی طرف سے رویا میں دکھایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا نور

Page 525

انوار العلوم جلد 26 473 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام ایک سفید پانی کی شکل میں دنیا میں پھیلنا شروع ہوا ہے یہاں تک کہ پھیلتے پھیلتے وہ دنیا کے گوشے گوشے اور اس کے کونے کونے تک پہنچ گیا.اُس وقت میں نے بڑے زور سے کہا کہ احمدیوں کے دلوں پر اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہوتے ہوئے ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان یہ نہیں کہے گا کہ اے میرے رب ، اے میرے رب ! تو نے مجھے کیوں پیاسا چھوڑ دیا ؟ بلکہ وہ یہ کہے گا کہ اے میرے رب ! اے میرے رب ! تو نے مجھے سیراب کر دیا یہاں تک کہ تیرے فیضان کا پانی میرے دل کے کناروں سے اُچھل کر بہنے لگا.پس اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو اور ہمیشہ دین کے پھیلانے کے لئے قربانیاں کرتے چلے جاؤ.مگر یاد رکھو کہ قومی ترقی میں سب سے بڑی روک یہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ افراد کے دلوں میں روپیہ کا لالچ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ طوعی قربانیوں سے محروم ہو جاتے ہیں.تمہارا فرض ہے کہ تم ہمیشہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھو.وہ تمہاری غیب سے مدد کرے گا اور تمہاری مشکلات کو دور کر دے گا.بلکہ تمہارے لئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ سامان بھی کیا ہوا ہے کہ اُس نے ایک انجمن بنادی ہے جو تمام مبلغین کو باقاعدہ خرچ دیتی ہے.مگر گزشتہ زمانوں میں جو مبلغین ہوا کرتے تھے اُن کو کوئی تنخواہیں نہیں دیتا تھا.بعض دفعہ ہندوستان میں ایران سے دو دو سو مبلغ آیا ہے مگر وہ سارے کے سارے اپنے اخراجات خود برداشت کرتے تھے اور کسی دوسرے سے ایک پیسہ بھی نہیں لیتے تھے.پس اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت بجالا ؤ اور لالچ اور حرص کے جذبات سے بالا رہتے ہوئے ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بلند کرنے کی کوشش کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ مجھے اس بات کا غم نہیں کہ یہ اموال کیونکر جمع ہوں گے اور ایسی جماعت کیونکر پیدا ہو گی جو ایمانداری کے جوش سے یہ مردانہ کام دکھلائے.بلکہ مجھے یہ فکر ہے کہ ہمارے زمانہ کے بعد وہ لوگ جن کے سپر دایسے مال کئے جائیں وہ کثرتِ مال کو دیکھ کر ٹھوکر نہ کھائیں اور دنیا سے پیار نہ کریں 12.سو میں دعا کرتا ہوں کہ ایسے امین ہمیشہ اس سلسلہ کو ہاتھ آتے رہیں جو خدا کے لئے کام کریں.

Page 526

انوار العلوم جلد 26 474 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام پس لالچ اور حرص کو کبھی اپنے قریب بھی مت آنے دو اور ہمیشہ احمدیت کو پھیلانے کی جدو جہد کرتے رہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مصلح موعود کے متعلق الہی بشارات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کروں گا دور اُس اندھیرا دکھاؤں گا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی فسُبْحَانَ الَّذِي أَخْذَ الْاعَادِي 13 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا میں غیر معمولی تغیرات پیدا فرمائے گا.جن کے نتیجہ میں ہماری جماعت اتنی ترقی کرے گی کہ ساری دنیا کے لوگ اس میں داخل ہونے شروع ہو جائیں گے.اسی طرح اس شہادت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دشمنوں کو رسوا اور نا کام کرے گا اور ہمیں کامیابی اور غلبہ عطا فر مائے گا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ اسلام کے غلبہ اور احمدیت کی ترقی کے لئے آپ کو رات دن کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے.اور کیا عیسائی اور کیا یہودی اور کیا دوسرے مذاہب کے پیر وسب کے سب احمدی ہو جائیں.لیکن جب تک وہ وقت نہیں آتا تمہیں کم از کم پاکستان اور ہندوستان میں تو اپنے آپ کو پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کرشن کا اوتار بھی قرار دیا گیا ہے اور آپ کا الہام ہے کہ وو ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے 14

Page 527

انوار العلوم جلد 26 475 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام پس اگر دنیا نہیں تو کم سے کم ہندوستان کے ہندوؤں کو تو اسلام اور احمدیت میں داخل کر لو تا کہ اَصلُهَا ثابت کی مثال تم پر صادق آجائے اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ 15 بھی اس کے نتیجے میں پیدا ہو جائے.آجکل ہندوستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے لوگوں کو احمدیت کی طرف بڑی رغبت پیدا ہو رہی ہے اور بڑے بڑے مخالف بھی احمدیت کے لٹریچر سے متاثر ہورہے ہیں اور زیادہ اثر ان پر ہماری تفسیر کی وجہ سے ہوا ہے.اگر اللہ تعالیٰ اس اثر کو بڑھا دے تو لاکھوں لوگ ہماری جماعت میں داخل ہو سکتے ہیں.بے شک ہم میں کوئی طاقت نہیں لیکن ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے.پس اُسی سے دعائیں کرو اور ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے تمام مذاہب کے جھنڈوں سے بلند رکھنے کی ( الفضل 28 /اکتوبر 1959ء) ا 66 کوشش کرو.“ 1 : در مشین اردو صفحہ 128 2 : تذکرہ صفحہ 220 ایڈیشن چہارم 2004 ء : وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلى قَوْمِهِ فَلَبِثَ فِيْهِمْ أَلْفَ سَنَةٍ إِلَّا خَمْسِينَ عَامًا - (العنكبوت: 15) 4 : أَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراهيم: 25) 5 : أَلَمْ تَرَكَيْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَيِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَيْبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراهيم : 25) 6 : بخاری کتاب التهجد باب الدعاء وَالصَّلواة من اخر الليل حديث نمبر 1145 صفحه 183 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 7 : در تمین اردو صفحہ 131 : الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 306 و : الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305

Page 528

انوار العلوم جلد 26 476 خدام الاحمدیہ کے نام روح پرور پیغام 10 : مسلم كتاب الفتن باب قرب الساعة حديث نمبر 7402 صفحه 1279 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 2000ء میں ” لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ “ کے الفاظ ہیں.11 : در مشین اردو صفحہ 17 12 : الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 319 13 : در مشین اردو صفحہ 50 14 تذکرہ صفحہ 312 ایڈیشن چہارم 2004 ء 15 : ابراہیم 25

Page 529

انوار العلوم جلد 26 477 افتتاحی و اختتامی خط جلسہ سالانہ 1959ء افتتاحی و اختتامی خطاب جلسه سالانه $ 1959 (فرمودہ 22 و 24 جنوری 1960ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 530

انوار العلوم جلد 26 478 افتتاحی و اختتامی خط جلسہ سالانہ 1959ء

Page 531

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 479 افتتاحی و اختتام جلسہ سالانہ 1959 ء نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی خطاب (فرموده 22 جنوری 1960ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ) نوٹ: افتتاحی خطاب جو قریبا پون گھنٹہ جاری رہا تا حال نہیں مل سکا.روز نامہ الفضل میں جو خلاصہ شائع ہوا وہ بدیں طور ہے." حضور نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے احباب جماعت کو ایک ایمان افروز خطاب سے نوازا جس میں حضور نے اس امر پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر جلسہ سالانہ کے مبارک موقع پر احباب جماعت کور بوہ میں جمع ہونے اور خدائے واحد کے نام کی تقدیس بلند کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.نیز حضور نے احباب جماعت کو نہایت اہم اور زریں ہدایات سے نوازتے ہوئے انہیں تلقین فرمائی کہ وہ اپنی نسلوں کے اندر اسلام اور احمدیت کی محبت پیدا کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈ ا ساری دنیا پر لہرانے لگے“ الفضل 28 جنوری 1960 ء صفحہ 1)

Page 532

انوار العلوم جلد 26 480 افتتاحی و اختتامی خط جلسہ سالانہ 1959ء اختتامی خطاب ) فرموده 24 جنوری 1960ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.آج سب سے پہلے میں دوستوں کو یہ اطلاع دینا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس سال تفسیر کیر کی ایک اور جلد شائع ہو گئی ہے جو سورۃ فرقان اور سورۃ شعراء کی تفسیر پر مشتمل ہے.دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس تفسیر کو زیادہ سے زیادہ تعداد میں خریدیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.اگر اس وقت دوستوں نے تفسیر نہ خریدی تو بعد میں انہیں اس تفسیر کے نایاب ہونے پر افسوس ہو گا.جیسا کہ سورۃ یونس سے کہف تک کی تفسیر کے ختم ہونے پر دوستوں کو اس کا تجربہ ہو چکا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ عراق سے ایک دوست نے خط لکھا کہ میں نے آپ کی تفسیر ایک غیر احمدی کو پڑھنے کے لئے دی.کچھ عرصہ کے بعد اس کی تبدیلی ہوگئی تو میں نے اُس سے کتاب مانگی.اُس نے کہا کہ یہ کتاب میں نہیں دے سکتا.تم میرے پاس فروخت کر دو.آخر سو روپے کو اُس غیر احمدی نے تفسیر کی کتاب خرید لی.اسی طرح ایک اور دوست کی چٹھی آئی کہ مجھے اگر آپ پچاس روپے تک تفسیر کی کتاب خرید دیں تو میں روپیہ بھیجنے کے لئے تیار ہوں.اور چھپیں چھپیں روپیہ تک تو قادیان میں یہ کتاب عام فروخت ہو رہی تھی.اسی طرح حال ہی میں ہندوستان کے ایک مشہور رسالہ کے ایڈیٹر نے تفسیر کی ایک جلد پڑھ کر لکھا کہ یہ کتاب میں نے ایک احمدی دوست سے مستعار لی ہے جسے مجھ کو واپس کرنا ہے.میں چاہتا ہوں کہ تفسیر مجھ سے کبھی جدا نہ ہو.پس اس تفسیر کا ہر گھر میں موجود ہونا ضروری ہے اور اسے ابھی سے خرید لینا چاہئے.اگر موجودہ تفسیر کی خریداری کی طرف جلد توجہ نہ کی گئی تو پھر اس تفسیر کا ملنا بھی اُسی طرح مشکل ہو جائے گا جس طرح پچھلی

Page 533

انوار العلوم جلد 26 481 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء تفسیر کا ملنا مشکل ہو گیا تھا.یہ تفسیر خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآنی علوم و معارف کا ایک بہت بڑا خزانہ ہے اور جس قدر مستشرقین یورپ کی طرف سے اسلام پر اعتراضات کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر اعتراضات کا اس میں لطیف پیرا یہ میں جواب دے دیا گیا ہے.اگر اس تفسیر کو پڑھ لیا جائے تو اسلام اور احمدیت کے متعلق کئی قسم کے نئے علوم حاصل ہوتے ہیں.اور انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس پر کیا ذمہ داریاں ہیں اور اسلام کی اشاعت اور دشمنانِ دین کے حملوں کے دفاع کے لئے اسے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے.یہ تفسیر الشرکۃ الاسلامیہ والوں نے شائع کی ہے.اسی طرح تفسیر کی کچھ پہلی جلد میں بھی ان کے پاس موجود ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس کتاب کو جلد خرید لیں ایسا نہ ہو کہ کتاب ختم ہو جائے اور پھر انہیں افسوس ہو.اسی طرح اس سال ادارۃ المصنفین نے تاریخ احمدیت کا دوسرا حصہ بھی شائع کر دیا ہے.گزشتہ سال اس کا پہلا حصہ شائع ہوا تھا.دوستوں کو چاہئے کہ وہ اس کتاب کو بھی خریدیں اور پڑھیں تا کہ انہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کے واقعات کا علم ہو.اگر کتا بیں تو چھپتی جائیں مگر فروخت نہ ہوں تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا.پس دوستوں کو اس سال کے نئے لٹریچر سے جو مختلف اداروں کی طرف سے شائع ہوا ہے فائدہ اٹھانا چاہئے.اور زیادہ سے زیادہ تعداد میں اس کی اشاعت میں حصہ لینا چاہئے.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کو اس غرض کے لئے قائم کیا ہے کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی جائے.اور دنیا کے چپہ چپہ پرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم کی جائے.یہی ہمارے تمام کاموں کا نقطہ مرکزی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کام کو ہمیشہ جاری رکھیں.یہاں تک کہ دنیا کا کوئی ملک اور کوئی گوشہ ایسا نہ ہو جہاں اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز نہ پہنچ جائے.

Page 534

انوار العلوم جلد 26 482 افتتاحی و اختتامی خط سہ سالانہ 1959ء رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے 610ء میں دعویٰ نبوت فرمایا تھا اور 632ء میں آپ نے وفات پائی.گویا آپ نے دعویٰ نبوت کے بعد صرف 23 سال عمر پائی.لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس قلیل مدت میں ہی آپ کے کام اور کلام میں عظیم الشان برکت ڈالی.اور جو غیر معمولی کامیابی اس نے آپ کو بخشی وہ کسی اور نبی کو میسر نہیں آئی.احادیث میں لکھا ہے کہ غزوہ احزاب کے موقع پر جب مدینہ کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق کھدوانی شروع کی تو اچانک ایک پتھر ایسا آ گیا جو کسی طرح ٹوٹنے میں نہیں آتا تھا.صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع دی تو آپ خود وہاں تشریف لے گئے اور کدال پکڑ کر زور سے اسے پتھر پر مارا.اس کے نتیجہ میں اس پتھر میں سے ایک روشنی نمودار ہوئی اور آپ نے فرمایا اللهُ اَكْبَرُ اور صحابہ نے بھی بلند آواز سے آپ کے ساتھ نعرہ تکبیر بلند کیا.پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا تو پھر ایک روشنی نمودار ہوئی اور آپ نے فرمایا اللهُ اَکبَرُ.اس پر صحابہ نے پھر بڑے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا.اس کے بعد آپ نے تیسری مرتبہ کدال مارا اور پھر اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا اللہ اکبر اور ساتھ ہی صحابہ نے بھی نعرہ تکبیر بلند کیا.اور پھر ریزہ ریزہ ہو گیا.جب پتھر ٹوٹ چکا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! آپ نے تین دفعہ اللهُ أَكْبَرُ کیوں کہا؟ آپ نے فرمایا کہ جب پہلی مرتبہ میں نے کدال مارا اور پتھر میں سے روشنی نکلی تو مجھے قیصر روم کے محلات دکھائے گئے اور اُن کی کنجیاں میرے سپرد کی گئیں.پھر دوسری دفعه کدال مارا اور روشنی نکلی تو مجھے مدائن کے سفید محلات دکھائے گئے اور مملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں.پھر تیسری دفعہ کدال مارا اور اس میں سے روشنی نمودار ہوئی تو مجھے صنعاء کے دروازے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں میرے سپرد کی گئیں 1.چنانچہ انہی پیشگوئیوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے خلفاء راشدین کے زمانہ میں قیصر و کسری کو زبر دست شکست دی اور شاہانِ ایران اور یمن کی سرزمین پر اسلام کا جھنڈا لہرانے لگا.مگر افسوس کہ بعد میں مسلمانوں نے تبلیغ اور آپ کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے میں کو تا ہی سے کام لیا اور اسلام کی اشاعت رک گئی ورنہ کوئی وجہ نہیں تھی کہ آج دنیا بھر میں مسلمان

Page 535

انوار العلوم جلد 26 483 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء عیسائیوں ، ہندوؤں اور بدھوں وغیرہ سے بہت زیادہ نہ ہوتے.فطرت صحیحہ کے مطابق تعلیم کی اشاعت اگر زور سے کی جاتی تو یقیناً وہ انسانوں کو کھینچ لیتی.مگر افسوس کہ تبلیغ اسلام کو انہوں نے فراموش کر دیا.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دنیا میں کمزور ہوتے چلے گئے.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس غفلت کا ازالہ کریں اور ساری دنیا کو اسلام کی طرف کھینچ کر لے آئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت پر قریباً چودہ سو سال گزر چکے ہیں مگر ابھی تک اسلام دنیا میں اقلیت ہے.عیسائیت کو 1959 سال گزر گئے مگر دنیا میں جتنی عیسائیت پھیلی ہے اُس کو دیکھتے ہوئے کہنا پڑتا ہے کہ عیسائیوں نے زیادہ وفاداری سے کام لیا ہے.مسلمان اب تک بھی صرف عرب، شام اور ایران میں ہی زیادہ ہیں ورنہ ہندوستان میں وہ کم ہیں.روس میں وہ کم ہیں، جاپان میں وہ کم ہیں ، آسٹریلیا میں وہ کم ہیں.تھائی لینڈ میں وہ کم ہیں، جرمنی میں وہ کم ہیں، ناروے اور سویڈن میں وہ کم ہیں، فرانس میں وہ کم ہیں ، سپین میں وہ کم ہیں، امریکہ میں وہ کم ہیں، فلپائن میں وہ کم ہیں حالانکہ فلپائن میں اسلام بڑی دیر سے قائم ہو چکا ہے.اب یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اس غفلت کا علاج کریں.اور جیسا کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو برتری بخشی ہے ہم اُسے دنیا میں بھی برتر کر کے چھوڑیں.یہاں تک کہ تمام مذاہب یہ اقرار کرنے پر مجبور ہوں کہ اسلام کا مقابلہ ہم نہیں کر سکتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا نور ساری دنیا میں پھیل جائے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس زمانہ میں تبلیغ اسلام کی آگ لوگوں کے دلوں میں پھر بھڑکائی اور آپ نے اپنے انفاس قدسیہ سے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی جو اسلام کو تمام دنیا میں پھیلانے کا تہیہ کئے ہوئے ہے.مگر اس کے لئے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.ابھی سارا ہندوستان باقی ہے ، سارا انگلستان باقی ہے، سارا روس باقی ہے، سارا فرانس باقی ہے ،سارا سکنڈے نیویا باقی ہے، سارا جرمنی باقی ہے، سارا آسٹریلیا باقی ہے.اس کو تا ہی کا علاج ہم نے کرنا ہے اور ہم نے ہی ساری دنیا کو حلقہ بگوش اسلام بنانا ہے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی کوششوں کو

Page 536

انوار العلوم جلد 26 484 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں اور اسلام کے غلبہ کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ مسیح محمدی مسیح موسوی سے اپنی تمام شان میں بڑھ کر ہے 2.پس اگر مسیح موسوی کی امت 1959 سال سے دنیا پر غالب چلی آ رہی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ میر محمدی کے ماننے والوں کو کم از کم چار ہزار سال تک دنیا پر غلبہ حاصل رہے گا.اور اگر اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ غلبہ عطا کر دے تو یہ اس کا احسان ہے، بہر حال تبلیغ اسلام کا کام ہماری زندگیوں تک محدود نہیں بلکہ ہم سب کے مرنے کے بعد بھی ہزاروں سال تک جاری رہے گا.اس عرصہ میں ہمیں یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت باقی تمام فرقوں اور مذہبوں پر چھا جائے گی اور اسلام دنیا میں کامل طور پر غالب آ جائے گا.میں اس موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام اولاد کو خواہ وہ آپ کے بیٹے ہیں یا پوتے اور نواسے یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ میرے سامنے اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اس بات کا اقرار کریں کہ وہ ہمیشہ اپنے آپ کو خدمت دین میں لگائے رکھیں گے اور اپنی آئندہ نسلوں کو بھی احمدیت کی تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہیں گے اور یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رکھیں گے یہاں تک کہ قیامت آ جائے.مگر چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچے دل سے ایمان لانے والے تمام احمدی بھی خواہ کسی جگہ کے رہنے والے ہوں آپ کے روحانی بیٹے ہیں اس لئے جماعت احمدیہ کے تمام دوستوں کو چاہئے کہ وہ بھی اس عہد میں شامل ہوں.میں اس وقت عہد کے الفاظ دہراؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے تمام افراد اور آپ کے روحانی بیٹے کھڑے ہو جائیں اور اس عہد کو دہرائیں.اَشْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ هم اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ ہم اسلام اور احمدیت کی اشاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی زندگیوں کے آخری لمحات تک کوشش کرتے چلے جائیں گے.اور اس مقدس فرض کی تکمیل کے لئے ہمیشہ اپنی زندگیاں خدا اور اس کے رسول کے لئے وقف رکھیں گے.اور ہر بڑی سے بڑی

Page 537

انوار العلوم جلد 26 485 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء قربانی پیش کر کے قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں گے.ہم اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لئے آخر دم تک جدو جہد کرتے رہیں گے اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تا کہ قیامت تک خلافت احمد یہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.اے خدا ! تو ہمیں اس عہد کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرما - اللهُمَّ امِيْنَ اللَّهُمَّ آمِيْنَ - اَللَّهُمَّ امِيْنَ.یہ اقرار جو اس وقت آپ لوگوں نے کیا ہے اگر اس کے مطابق قیامت تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جسمانی اور روحانی اولا دا شاعت اسلام کے کام میں مشغول رہے تو یقیناً احمد بیت تمام دنیا پر چھا جائے گی اورمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے گا.دیکھو! حضرت مسیح کے زمانہ پر 1959 سال گزر چکے ہیں مگر مسیحی اب تک اپنے مذہب پر قائم ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر تو ابھی بہت تھوڑی مدت گزری ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1908 ء میں فوت ہوئے اور اب 1960ء ہے.گویا آپ کی وفات پر ابھی صرف 52 سال گزرے ہیں.اسی طرح یہودیوں کو لو تو اُن کے زمانہ پر تین ہزار چارسو سال گزر چکے ہیں مگر پھر بھی وہ یہودیت پر قائم ہیں اور اُن کے استقلال کو دیکھ کر عیسائی بھی ان کی مدد کر رہے ہیں.چنانچہ جب نہر سویز کا جھگڑا پیدا ہوا اور مسلمانوں نے یہودیوں کو روکا تو انگریزوں نے جو عیسائی ہیں یہودیوں کی مدد کی.آپ لوگ تو محمدی مسیح کے تابع ہیں اور محمد رسول اللہ موسی سے اور آپ کا موعود خلیفہ مسیح موعود مسیح ناصری سے بہت بڑھ کر تھا.اگر آج ساری دنیا میں مسیح ناصری کی حکومت قائم ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کیوں قائم نہیں ہو سکتی.جبکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتِّبَاعِيْ

Page 538

انوار العلوم جلد 26 486 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء یعنی اگر مونٹی ور عیسی زندہ ہوتے تو انہیں میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا.اگر موسی اور عیسی جیسے نبیوں کو بھی محمد رسول اللہ کی اطاعت کے بغیر چارہ نہ تھا تو اُن کی امتوں پر آپ کی اطاعت کیوں لازمی نہ ہوگی.پس آپ کو ہمت دکھانی چاہئے اور پھر دعائیں بھی کرنی چاہئیں کیونکہ محض ہمت سے کچھ نہیں بنتا.اصل چیز دعا ہی ہے.پس دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ دنیا کے چپہ چپہ پر احمدیت پھیلا دے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی پوری ہو جائے اور اسلام دنیا پر اتنا غالب آجائے گا کہ باقی لوگ حقیر اور ذلیل ہو کر رہ جائیں گے.اگر چار پانچ ہزار سال تک آپ لوگ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے کوشش کرتے رہیں تو امید ہے کہ دنیا کے چپہ چپہ پر احمدیت پھیل جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے الوصیت میں تحریر فرمایا ہے کہ تبلیغ اسلام کا کام صرف ایک نسل کا نہیں بلکہ ہم سب کے مرنے کے بعد بھی جاری رہے گا 4 اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر ابھی صرف 52 سال ہوئے ہیں اور صرف پہلی نسل گزر رہی ہے.اگر موسی کی امت تین ہزار چارسو سال تک اپنے مذہب پر قائم رہ سکتی ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کیوں اس سے زیادہ عرصہ تک اسلام پر قائم نہیں رہ سکتی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے داؤ بھی قرار دیا ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں: اک شجر ہوں جس کو داؤدی صفت کے پھل لگے میں ہوا داؤد اور جالوت ہے میرا شکار 5 اس کے معنے یہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں بھی حضرت داؤڈ کی شان جیسے آدمی پیدا ہوں گے اور دنیا میں ہر جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روحانی اور جسمانی اولاد پھیل جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام تو وفات پاچکے ہیں.اب یہ ہم لوگوں کا جو اُن کی جماعت میں سے ہیں کام ہے کہ ہم آپ کے نام اور اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں.یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام لیوا موسی اور.

Page 539

انوار العلوم جلد 26 487 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء ان کے خلیفہ مسیح ناصرٹی کے نام لیواؤں سے ہزاروں گنا بڑھ جائیں.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے اور سستیوں اور غفلتوں سے بچائے اور سچا مسلمان اور سچا احمدی بنائے.اور قیامت تک آپ لوگوں کو عزت بخشے اور قیامت تک احمدیت چلتی چلی جائے.اور اگر آپ لوگ اپنے ایمانوں پر قائم رہیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوتے رہیں گے تو یقیناً خدا تعالیٰ آپ کی مدد کرے گا.اور قیامت تک خدا تعالیٰ آپ کو اونچا رکھے گا.کیونکہ گو خاتم النبیین کے معنے ہم نبیوں کی مہر کے کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ قیامت تک صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی زمانہ ہے.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى أَشْرَارِ النَّاسِ 6 یعنی قیامت بُرے لوگوں پر آئے گی.مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ آپ اشرار الناس بنیں بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ لوگ ہمیشہ اختیار نام کے مستحق رہیں.اور اگر آپ لوگ تو بہ واستغفار میں مشغول رہیں تو جس خدا نے اپنے رسول کو یہ خبر دی تھی وہ اسے اشرار کی بجائے اختیار میں بھی بدل سکتا ہے.اور ہوسکتا ہے کہ قیامت تک آپ لوگوں کے ذریعہ سے نیکی کا سلسلہ قائم رہے اور قیامت اشرار پر نہیں بلکہ اخیار پر آئے.آخر آپ لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کے متعلق قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ 7 پس اس آیت کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اشرار الناس نہیں ہوگی بلکہ وہ قیامت تک اخيَارُ النَّاسِ ہی ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے ہیں: ہم ہوئے خیر اُئم تجھ سے ہی اے خیر رُسُل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 8 مگر اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ آپ لوگ اپنی طاقتوں کو لوگوں کے فائدہ کے کے لئے ہے کہ آپ لوگ اپنی کو فائدہ لئے استعمال کریں اور اپنی شان نہ بڑھا ئیں بلکہ بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچائیں.کیونکہ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہے اور اگر تم سارے انسانوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے تو کم سے کم

Page 540

انوار العلوم جلد 26 488 افتتاحی و اختتامی خط جلسہ سالانہ 1959 ء اپنی جماعت کی ترقی کے لئے تو کوشش کرو.پھر آپ کو خدا تعالیٰ اس بات کی بھی توفیق عطا فرما دے گا کہ آپ تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے کام کریں.میں نے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کا قیام اسی غرض کے لئے کیا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں جہاں کام کر رہے ہیں لوگوں کے دلوں میں جماعت کی عزت بڑھ رہی ہے.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اتنا بڑھائے کہ دنیا کے تمام مذاہب کے پیرو اس کی عظمت کو تسلیم کرنے لگیں اور ہندوؤں اور سکھوں میں بھی اسلام پھیلنا شروع ہو جائے اور وہ بھی کثرت کے ساتھ اسلام میں داخل ہونے لگیں.حضرت مسیح کے واقعہ صلیب پر 1959 سال گزر چکے ہیں اور عیسائیت اب تک پھیل رہی ہے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو مسیح کے استاد حضرت موسی سے بھی بڑے تھے ان کے ماننے والے بھی کم ہیں.اگر آپ لوگ کمر ہمت کس لیں اور عیسائیوں اور یہودیوں اور ہندوؤں کی طرف توجہ شروع کر دیں تو یقیناً امت محمدیہ اپنی کثرت تعداد میں امت عیسویہ اور امتِ موسو یہ دونوں سے بڑھ جائے گی.تاریخ میں لکھا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک یہودی اپنے ایک بھائی کے ساتھ آپ کے پاس آیا اور آپ سے گفتگو کرتا رہا.جب وہ آپ سے باتیں کر کے واپس کو ٹا تو دوسرے بھائی نے اُس سے پوچھا کہ بتاؤ تمہارا اس کے متعلق کیا خیال ہے؟ وہ کہنے لگا یہ ہے تو وہی جس کی موسی نے خبر دی تھی مگر جب تک دم میں دم ہے ہم نے ماننا نہیں.پس ضد کی اور بات ہے.لیکن اگر خدا دلوں کو بدلنا چاہے تو بدل سکتا ہے.سو تبلیغ بھی کرو اور دعائیں بھی کرو تا کہ جو لوگ عیسائیوں اور یہودیوں میں سے محض ضد کی وجہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے وہ بھی آپ کو ماننے لگ جائیں.اسی طرح ہندوؤں اور سکھوں میں سے بھی جو لوگ ضد کی وجہ سے انکار پر مُصر ہیں وہ بھی سچائی کو ماننے لگ جائیں اور ہم قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہ سکیں کہ اے خدا کے مقدس رسول ! تیری لائی ہوئی تعلیم تو سب تعلیموں سے بہتر تھی مگر مسلمانوں کی غفلت کی وجہ سے عیسائیت دنیا میں غالب تھی.اور تیرے ماننے والے

Page 541

انوار العلوم جلد 26 489 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء.عیسائیوں اور مشرکوں کے تابع تھے.ہمیں خدا نے ہمت اور توفیق بخشی کہ ہم نے خدائے پاک کا نام اور اس کی سچی تعلیم دنیا میں پھیلائی اور ہزاروں لاکھوں عیسائیوں اور ہندوؤں کو کھینچ کر اسلام کی طرف لے آئے.یہ محض خدا تعالیٰ کا احسان تھا ورنہ ہماری مقدرت نہ تھی کہ ایسا کر سکتے.اے خدا کے مقدس رسول ! جس طرح خدا تعالیٰ کی بادشاہت آسمان پر ہے اُسی طرح ہم نے تیری دعاؤں کی برکت سے اور تیرے دل کے درد کی برکت سے اُس کو دنیا میں قائم کیا اور اب ساری دنیا شرک سے منتظر اور توحید کامل کی عاشق ہے.ہم تجھ سے صرف اتنا چاہتے ہیں کہ تو اپنے خدا سے یہ عرض کر کہ ان غریب اور کمزور بندوں نے تیرے اور میرے نام کو دنیا میں قائم کیا اور سچائی کی طرف لوگوں کو کھینچ لائے اب تو بھی ان کو بخش دے اور ان کے گناہوں سے درگزر فرما.اگر کمزور اور نا طاقت ہوتے ہوئے انہوں نے اتنی بڑی قربانی کی ہے تو اے خدا! تو تو غفور و رحیم اور طاقتور خدا ہے تو ان کو کیوں عزت نہیں بخش سکتا.تیری شان یہی ہے اور تیرا مقام یہی ہے اس سے تھوڑا دینا تیری شان کے خلاف ہے.پس ان کی کوششوں کو بار آور کر اور انہیں رتبہ اور بڑائی بخش.کیونکہ یہ تیری شان کے مطابق ہے اور ان کی خدمات کا یہی تقاضا ہے.مسیح موعود کو تو نے اسی لئے مبعوث کیا تھا اور اس کی جماعت نے یہ کام کر کے دکھا دیا.پس میرے تخت کے نیچے مسیح موعود کا تخت بچھا اور اس کو اور اس کے اتباع کو عزت بخش.اگر ان لوگوں نے کمزور اور بے بس ہوتے ہوئے یہ قربانیاں کی ہیں تو اے خدا! تو رحمان اور رحیم ہوتے ہوئے اور قادر مطلق ہوتے ہوئے اس سے لاکھوں گنا زیادہ انعام انہیں کیوں نہیں دے سکتا.یہ مقصد ہے جو ہماری جماعت کو ہمیشہ اپنے مد نظر رکھنا چاہئے اور اپنی نسلوں درنسلوں کو قیامت تک یہ فرض یاد دلاتے رہنا چاہئے.اسی طرح آئندہ خلفاء کو بھی وصیت کرتا ہوں کہ جب تک دنیا کے چپہ چپہ میں اسلام نہ پھیل جائے اور دنیا کے تمام لوگ اسلام قبول نہ کرلیں اُس وقت تک اسلام کی تبلیغ میں وہ کبھی کو تا ہی سے کام نہ لیں.خصوصاً اپنی اولاد کو میری یہ وصیت ہے کہ وہ قیامت تک

Page 542

انوار العلوم جلد 26 490 افتتاحی و اختتامی خطا سالانہ 1959ء اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھیں اور اپنی اولاد در اولاد کو نصیحت کرتے چلے جائیں کہ انہوں نے اسلام کی تبلیغ کو کبھی نہیں چھوڑنا اور مرتے دم تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنا ہے.اسی مقصد کو پورا کرنے اور اسلام کے نام کو پھیلانے کے لئے میں نے تحریک جدید جاری کی ہے جو چھپیں سال سے جاری ہے اور جس کے ماتحت آج دنیا بھر کے تمام اہم ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے تبلیغی مشن قائم ہیں اور لاکھوں لوگوں تک خدا اور اس کے رسول کا نام پہنچایا جا رہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تبلیغی مراکز کو وسیع کرنے اور مبلغین کا جال پھیلانے میں ہمیں خدا تعالیٰ نے بڑی بھاری کامیابی عطا کی ہے.مگر ابھی اس میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش ہے اور ابھی ہمیں ہزاروں واقفین زندگی کی ضرورت ہے جو دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کی تبلیغ کریں.ہماری جماعت اب خدا تعالیٰ کے فضل سے لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں ساٹھ ہزار واقفین زندگی کا میتر آنا کوئی مشکل امر نہیں.اور اگر ایک آدمی سواحمدی بنائے تو ساٹھ ہزار واقفین زندگی کے ذریعہ ساٹھ لاکھ احمدی ہو سکتا ہے.پھر ساٹھ لاکھ میں سے چار پانچ لاکھ مبلغ بن سکتا ہے.اور چار پانچ لاکھ مبلغ چار پانچ کروڑ احمدی بنا سکتا ہے.اور چار پانچ کروڑ احمدی اگر زور لگائے تو وہ اپنی تعداد کو چار پانچ ارب تک پہنچا سکتا ہے جو ساری دنیا کی آبادی سے بھی زیادہ ہے.لیکن دوستوں کو یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کرشن بھی قرار دیا ہے اور آپ کا الہام ہے کہ وو ہے کرشن رو در گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے.اس الہام میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کرشن اور رو در گوپال قرار دیا گیا ہے.رُو در کے معنے ہوتے ہیں درندوں اور سؤروں کو قتل کرنے والا.اور گوپال کے معنے ہوتے ہیں گائیوں کو پالنے والا.یعنی نیک طبع لوگوں کی خدمت کرنے والا.اس میں بتایا گیا ہے کہ مسیح موعود ایک طرف تو دلائل اور نشانات سے اپنے دشمنوں کو ہلاک کرے گا

Page 543

انوار العلوم جلد 26 491 افتتاحی و اختتامی خط جلسہ سالانہ 1959ء اور دوسری طرف اپنے انفاس قدسیہ سے نیک اور پاک لوگوں کی روحانی تقویت اور ان کے ایمانوں کی زیادتی کا موجب ہوگا.احادیث میں بھی مسیح موعود کے متعلق آتا ہے کہ يَقْتُلُ الْخِنْزِيْرَ وَيَكْسِرُ الصَّلِيْبَ 10 یعنی مسیح موعود خنزیری طبع لوگوں کو جو سیدھا حملہ کرتے ہیں اپنے دلائل اور نشانات سے ہلاک کرے گا اور عیسائیت کے زور کو توڑ دے گا.دتی میں ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں.انہوں نے ایک دفعہ کشف میں دیکھا کہ حضرت کرشن آگ کے اندر جل رہے ہیں اور حضرت رام چندر جی اس کے کنارہ پر کھڑے ہیں.وہ بزرگ یہ نظارہ دیکھ کر گھبرا گئے اور چونکہ وہ حضرت کرشن اور حضرت رام چندر دونوں کو بزرگ اور خدا رسیدہ انسان سمجھتے تھے اس لئے انہوں نے کسی اور بزرگ سے اس کی تعبیر پوچھی.انہوں نے کہا کہ حضرت کرشن کو آگ کے اندر دیکھنے کی تعبیر ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے عشق میں بہت بڑھے ہوئے تھے اور حضرت رام چندر کو کنارہ پر دیکھنے کی تعبیر ہے کہ اُن کے دل میں اُتنا عشق نہیں تھا جتنا حضرت کرشن کے دل میں تھا.بہر حال اس الہام سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں خدا تعالیٰ کی بے انتہا محبت تھی کیونکہ آپ کو الہام میں کرشن قرار دیا گیا ہے.اور اس بزرگ کے کشف اور تعبیر میں یہی بتایا گیا ہے کہ حضرت کرشن خدا تعالیٰ کی محبت میں بہت بڑھے ہوئے تھے.اور اس الہام میں آپ کو گو پال قرار دے کر یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہندوؤں میں جو لوگ نیک طبع اور شریف ہوں گے اُن کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کی جماعت کے لوگ مدد کریں گے.گائے سور کی طرح حملہ نہیں کرتی اور پھر وہ گوشت نہیں کھاتی بلکہ سبزی کھاتی ہے.پس آپ کو گو پال کہہ کر اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جو لوگ گائے کی سی طبیعت رکھنے والے ہوں گے یعنی نرم مزاج اور نیک اور شریف لوگ ہوں گے خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور ان کی جماعت اُن کی مدد کرے گی اور اُن سے ہمدردی رکھے گی.ابھی تو دنیا میں عیسائیت کا غلبہ ہے اور ہماری اتنی بھی تعداد نہیں کہ ہم ہندوؤں پر غالب آجائیں.مگر اللہ تعالیٰ کی

Page 544

انوار العلوم جلد 26 492 افتتاحی و اختتامی خطاب جلسہ سالانہ 1959ء طرف سے آپ کا کرشن نام رکھنا بتا تا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہندوؤں پر بھی غالب آجائیں گے اور يَكْسِرُ الصَّلِيْب بتاتا ہے کہ ہم ساری دنیا کے عیسائیوں سے بھی بڑھ جائیں گے.پس جو لوگ ہجرت کے بعد پاکستان آگئے ہیں وہ پاکستان میں احمدیت کو پھیلانے کی کوشش کریں.اور جو لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں وہ ہندوستان میں اسلام پھیلانے کی کوشش کریں.اور بیرونی ممالک کے مبلغین یورپ اور امریکہ میں اسلام پھیلانے کی کوشش کریں یہاں تک کہ ساری دنیا احمدی ہو جائے کیونکہ ہم خدا تعالیٰ کے غلام ہیں کسی ملک یا قوم کے طرفدار نہیں.لطیفہ مشہور ہے کہ کسی راجہ نے ایک دن بینگن کا بھرتہ کھایا جو اُ سے بڑا مزیدار معلوم ہوا اور اُس نے دربار میں آکر تعریف کی کہ بینگن بڑا مزیدار ہوتا ہے.اس پر ایک درباری کھڑا ہو گیا اور اُس نے بینگن کے فوائد گنوانے شروع کر دیئے اور کہا کہ حضور! طب کی کتابوں میں اس کا یہ فائدہ بھی لکھا ہے اور وہ بھی لکھا ہے.اور آخر میں کہنے لگا جناب ! اس کی شکل بھی تو دیکھیں کہ کیسی پاکیزہ ہے.جب یہ بیل سے لٹکا ہوا ہو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ کہ کوئی صوفی منش بزرگ سبز جامہ پہن کر گوشتہ تنہائی میں خدا تعالیٰ کی عبادت کر رہا ہے.مگر پھر چند دن راجہ نے مسلسل بینگن کھائے تو اُسے بواسیر کی شکایت ہو گئی.اور اس نے دربار میں آکر کہا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ بینگن اچھی چیز ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ یہ اچھی چیز نہیں ہے.اس پر وہی درباری کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حضور ! بینگن بھی کوئی کھانے کی چیز ہے.طبی کتابوں میں اس کی یہ خرابی بھی لکھی ہے اور وہ خرابی بھی لکھی ہے.اور پھر کہنے لگا حضور! اس کی شکل بھی تو دیکھیں کہ کیسی منحوس ہے.یہ بیل سے لٹکا ہوا یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کے ہاتھ پاؤں کاٹ کر اور اس کا منہ کالا کر کے اسے پھانسی پر لٹکا یا ہوا ہو.کسی نے اسے کہا کہ کمبخت ! پہلے تو تو نے اس کی اتنی تعریف کی تھی اور آج اتنی مذمت کر رہا ہے.وہ کہنے لگا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نوکر نہیں.ہم بھی خدا کے نوکر ہیں کسی بندے یا قوم کے نو کر نہیں.جدھر ہما را خدا ہوگا اُدھر ہی ہم ہوں گے.

Page 545

انوار العلوم جلد 26 493 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی میاں نظام الدین صاحب ہوا کرتے تھے.انہوں نے جب شروع شروع میں سنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہتے ہیں حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں تو چونکہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے دوستوں میں سے تھے وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کہنے لگے کہ قرآن کریم سے تو حضرت عیسی علیہ السلام کا زندہ ہونا ثابت ہے آپ یہ کس طرح کہتے ہیں کہ وہ فوت ہو گئے ہیں؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اگر قرآن کریم سے ثابت ہو جائے کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو میں مان لوں گا.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اگر میں سو آیتیں ایسی لا دوں جن سے ثابت ہو کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں تو کیا آپ مان لیں گے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.میاں صاحب ! سو آیت کا کیا سوال ہے آپ ایک آیت بھی لے آئیں تو میں مان لوں گا اور اپنے عقیدہ سے تو بہ کرلوں گا.میاں نظام الدین صاحب کہنے لگے اچھا اگر سو نہیں تو میں دس آیتیں تو ضرور نکلواؤں گا.چنانچہ وہ مولوی محمد حسین صاحب کے پاس بٹالہ گئے.وہاں سے پتا لگا کہ مولوی صاحب لاہور گئے ہوئے ہیں.چنانچہ وہ لاہور گئے.اُن دنوں حضرت خلیفہ مسیح الاوّل قادیان آنے کے لئے لاہور آئے ہوئے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اشتہار دینے شروع کئے تھے کہ میرے ساتھ وفات و حیات مسیح پر مباحثہ کرلو اور شرائط مناظرہ طے ہو رہی تھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل فرماتے تھے کہ اپنے دعوی کے ثبوت میں صرف قرآن کریم پیش کیا جائے اور مولوی محمد حسین صاحب کہتے تھے کہ حدیثیں پیش کی جائیں.آخر حضرت خلیفہ اول نے بحث کو چھوٹا کرنے کے لئے فرمایا چلو بخاری کی احادیث پیش کر دی جائیں.اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بڑے خوش ہوئے اور انہوں نے سمجھا کہ میری فتح ہوئی ہے.جب میاں نظام الدین صاحب لاہور پہنچے تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اہلحدیث کی مسجد میں اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے اور کہہ رہے تھے کہ دیکھو! ایک طرف سے مرزا صاحب کا پہلوان نور الدین نکلا اور دوسری طرف سے اہلحدیث کے پہلوان کے طور پر میں کھڑا ہوا.میں نے کہا حدیث اُس

Page 546

انوار العلوم جلد 26 494 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء نے کہا قرآن.میں نے کہا حدیث اُس نے کہا قرآن.اور دونوں اس پر اصرار کرتے رہے.آخر میں نے اُسے یوں پنچا اور یوں رگیدا اور اس طرح گرایا کہ اُسے ماننا پڑا.اور کہنے لگا کہ بخاری بھی پیش کر سکتے ہو.اتنے میں میاں نظام الدین صاحب جا پہنچے اور کہنے لگے جانے دیں اس بحث کو.میں تو مرزا غلام احمد صاحب کو بھی جو مولوی نور الدین صاحب کے سردار ہیں منوا آیا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا کیا منوا آئے ہو؟ میاں نظام الدین نے کہا مرزا صاحب تو کہتے تھے کہ ایک آیت ہی کافی ہے لیکن میں کہہ آیا ہوں کہ حیات مسیح کے ثبوت میں میں دس آیات لکھوا کر لا دیتا ہوں.اس لئے آپ جلدی سے مجھے حیات مسیح کے ثبوت میں قرآن کریم کی دس آیتیں لکھ دیں.مولوی محمد حسین صاحب تو فخر کر رہے تھے کہ میں نے مولوی نور الدین کو یوں پنچا اور یوں پچھاڑا اور یوں دلیلیں دیں آخر وہ حدیث کی طرف آگئے.میاں نظام الدین صاحب کی بات سن کر انہیں غصہ آ گیا اور وہ کہنے لگے بے وقوف کہیں کا.میں مہینہ بھر نو ر الدین کے ساتھ بحث کرتا رہا اور آخر اُسے اِس طرف لایا کہ حدیث پیش کی جائے گی اور تو پھر بحث کو قرآن کی طرف لے گیا ہے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کا یہ فقرہ میاں نظام الدین صاحب کو اس طرح چُبھا کہ وہ اُسی وقت کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے اچھا مولوی صاحب ! پھر جدھر قرآن اُدھر میں.اگر قرآن مرزا صاحب کے ساتھ ہے تو میں بھی انہیں کے ساتھ ہوں.اور یہ کہہ کر وہ واپس آگئے اور قادیان آ کر بیعت کر لی.پس ہم بھی اُدھر ہی ہوں گے جدھر قرآن ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو تمام دنیا کے لئے نازل کیا ہے اس لیے ساری دنیا میں ہی اسلام کی اشاعت کرنا ہمارا فرض ہے.کسی خاص قوم یا ملک تک ہماری مساعی محدود نہیں رہنی چاہئیں.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس وقت مقدم ہندوستان ہے جس میں ہمارا اصل مرکز ہے اور جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کرشن قرار دیا گیا ہے.جس درخت کا تنا مضبوط ہوتا ہے اُس کی شاخیں بھی وسیع ہوتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَثَلاً كَلِمَةً طَيْبَةً كَشَجَرَةٍ طَيْبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعَهَا فِي السَّمَاءِ 11 یعنی کلمہ طیبہ کی مثال ایک

Page 547

انوار العلوم جلد 26 495 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء ایسے درخت کی سی ہے جس کا تنا مضبوط ہو اور اُس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں.پس آپ لوگ پہلے پاکستان اور ہندوستان کو احمدی بنا ئیں اور جب یہ لوگ احمدی ہو گئے تو خود بخود چندے بھی دیں گے اور غیر ملکوں میں بھی اسلام کی اشاعت کے لئے اپنے آدمی بھجوانا شروع کر دیں گے.اور فَرْعُهَا فِي السَّمَاء کے مطابق آپ لوگ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے اور آپ کی دعائیں کثرت سے قبول ہونے لگیں گی.پس ہندوستان میں بھی تبلیغ اسلام کو وسیع کرنا ہمارے لئے ضروری ہے.آج ہندوستان میں جو کروڑوں مسلمان پائے جاتے ہیں یہ کہیں باہر سے نہیں آئے بلکہ خود ہندوؤں میں سے ہی نکل کر آئے ہیں.ورنہ جو مسلمان باہر سے ہندوستان میں آئے تھے وہ بہت قلیل تھے.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ہندوستان میں بھی تبلیغ اسلام پر زور دیں.اس ملک کی ترقی اور عظمت کے قیام کے لئے مسلمانوں نے آٹھ سو سال تک کوشش کی ہے اور ہندوستان کے چپہ چپہ پر ان محبانِ وطن کی لاشیں مدفون ہیں جنہوں نے اس کی ترقی کے لئے اپنی عمریں خرچ کر دی تھیں.پس ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اسلام کے خوبصورت اصول پیش کر کے ہندوؤں اور سکھوں کو بھی اپنا جزو بنانے کی کوشش کریں.جب تک ہم ہندوؤں میں تبلیغ نہیں کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کرشن ثابت نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جس طرح مسیح اور مہدی قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ کی جماعت کو مسیحیوں پر بھی غلبہ ملے گا اور مسلمانوں کو بھی آپ کے ذریعہ ہدایت حاصل ہو گی اسی طرح آپ کو کرشن قرار دے کر اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہندوؤں میں بھی آپ کی تعلیم کی قبولیت پھیلے گی.چنانچہ جو دوست قادیان میں رہتے ہیں انہوں نے بتایا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں میں اور اسی طرح مسلمانوں میں بھی احمدیت کی طرف بڑی رغبت پیدا ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی ایک دفعہ الہام ہوا کہ وو پھر ایک دفعہ ہندو مذہب کا اسلام کی طرف زور کے ساتھ

Page 548

انوار العلوم جلد 26 496 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء رجوع ہوگا.12 اور یہ ظاہر ہے کہ جب اُن کا اسلام کی طرف رجوع ہوگا تو چونکہ احمدیت اسلام سے جدا نہیں اس لئے لازماً وہ لوگ احمدیت کو قبول کریں گے اور بجائے دشمن ہونے کے قادیان کو آباد کرنے کی کوشش کریں گے.ہماری عمریں تو محدود ہیں ، ہماری اصل تمنا یہی ہے کہ اسلام اور احمدیت دنیا میں پھیلے اور ہمیں خدا تعالیٰ کے وعدوں سے یہ امید ہے کہ ہماری عمروں میں ہی اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل جائے گا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا گیا تھا کہ مصلح موعود کے زمانہ میں اسلام بہت ترقی کرے گا.مگر اس کے لئے یہ ضروری شرط ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمانوں کو مضبوط کرتے جائیں اور اپنی اولادوں کے اندر بھی اس کو راسخ کرتے جائیں تا کہ آپ کی ترقی آپ کی ترقی نہ ہو بلکہ اسلام کی ترقی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کی ترقی ہو.“ اسی طرح آپ نے فرمایا: دو دفعہ ہم نے رویا میں دیکھا کہ بہت سے ہندو ہمارے آگے سجدہ کرنے کی طرح جھکتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ اوتار ہیں اور کرشن ہیں اور ہمارے آگے نذریں دیتے ہیں.13 اس سے پتا لگتا ہے کہ ہندوؤں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت قائم ہو جائے گی اور سارا ہندوستان آپ کے کرشن ہونے کے لحاظ سے اور ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ہونے کے لحاظ سے آپ کے تابع ہو جائے گی.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم ایک طرف تو یورپ اور امریکہ والوں کو بتائیں کہ اسلام سچا مذہب ہے اور اس کے قبول کرنے میں ہی تمہاری نجات ہے اور دوسری طرف ہندوؤں میں تبلیغ اسلام پر زور دیں اور انہیں اسلام میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور اُس وقت تک صبر نہ کریں جب تک ساری دنیا کومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں لا کر نہ ڈال دیں.اسی غرض کے لئے میں نے جماعت میں تحریک جدید کے علاوہ وقف جدید کی تحریک بھی جاری کی ہوئی ہے تاکہ سارے پاکستان میں ایسے معلمین کا جال بچھ جائے جولوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں اور انہیں اسلام اور احمدیت کی تعلیم سے روشناس کریں.

Page 549

انوار العلوم جلد 26 497 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء مگر یہ کام صحیح طور پر بھی ہو سکتا ہے جب کم از کم ایک ہزار معلم ہوں اور ان کے لیے اخراجات کا اندازہ بارہ لاکھ روپے ہے.بارہ لاکھ روپیہ کی رقم مہیا کرنا جماعت کے لئے کوئی مشکل امر نہیں.کیونکہ اگر دولاکھ افراد جماعت چھ روپے سالانہ فی کس کے لحاظ سے چندہ دیں تو بارہ لاکھ بن جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ ہماری جماعت تو اس سے کہیں زیادہ ہے.پچھلے سال جماعت کی طرف سے صرف ستر ہزار روپے کے وعدے ہوئے تھے اور اس سال بھی اتنے ہی وعدے ہوئے جس سے صرف 90 معلمین رکھے جا سکے.اس سال پچھلے سال سے زیادہ اچھا کام ہوا ہے.چنانچہ مشرقی پاکستان میں بھی کام شروع ہو گیا ہے اور وہاں بھی ایک انسپکٹر اور چار معلم مقرر کئے جاچکے ہیں.پچھلے سال ان معلمین کی تعلیم و تربیت اور خدمت خلق کا جذبہ دیکھ کر پانچ سو نئے افراد نے بیعت کی تھی اس سال چھ سو اٹھائیس افراد نے بیعت کی ہے.پس میں احباب جماعت کو تاکید کرتا ہوں کہ وہ اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں اور اس کی طرف پوری توجہ کریں اور اس کو کامیاب بنانے میں پورا زور لگائیں اور کوشش کریں کہ کوئی فرد جماعت ایسا نہ رہے جو صاحب استطاعت ہوتے ہوئے اس چندہ میں حصہ نہ لے.یہ امر یا درکھو کہ قوم کی عمر انسان کی عمر سے بہت زیادہ ہوتی ہے.پس آپ لوگ ایسی کوشش کریں کہ آپ کے زمانہ میں تمام دنیا میں احمدیت پھیل جائے.ابھی تو ایک نسل بھی نہیں گزری کہ ہندوستان میں ہمارے سلسلہ کے شدید ترین مخالف بھی احمدیت کی خوبیوں کے قائل ہوتے جا رہے ہیں.اور میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنیٰ خادم ہوں میری تفسیر کی وہ بہت تعریف کرتے ہیں.یہ انقلاب جو پیدا ہورہا ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کی وجہ سے ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی تھی کہ پھیر دے میری طرف اے ساریاں جگ کی مہار 14 اور اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی طرف لوگوں کی توجہ پھیرنی شروع کر دی اور ہمیں یقین ہے کہ اس دعا کے مطابق ایک دن ساری دنیا احمدیت میں داخل ہو جائے گی.دنیا کی آبادی

Page 550

انوار العلوم جلد 26 498 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء اس وقت دوارب سے زیادہ ہے اور اگلے بیس پچیس سال میں وہ تین ارب ہو جائے گی اور پھر تعجب نہیں کہ کئی سال میں وہ اس سے بھی زیادہ ہو جائے.مگر دنیا کی آبادی خواہ کتنی بڑھ جائے اللہ تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ وہ احمدیت کو ترقی دے گا اور اسے بڑھائے گا یہاں تک کہ ساری دنیا میں احمدیت پھیل جائے گی.بشرطیکہ جماعت اپنی تبلیغی سرگرمیاں ہندوستان میں بھی اور یورپ میں بھی جاری رکھے اور وکالت تبشیر اور اصلاح وارشاد کے محکموں کے ساتھ پورا تعاون کرے.اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں سے ہیں پچیس ہزار مبلغ یورپ کے لئے اور پچاس ساٹھ ہزار مبلغ ہندوستان اور پاکستان کے لئے آسانی کے ساتھ مل سکتا ہے.پس چاہئے کہ اپنی نسل میں احمدیت کی تبلیغ کا جوش پیدا کرتے چلے جائیں.عیسائیت کو دیکھ لو حضرت مسیح کے واقعہ صلیب پر 1959 سال گزر چکے ہیں مگر عیسائی اب تک اپنے مذہب کی تبلیغ کرتے چلے جاتے ہیں.اگر مسلمان بھی تلوار کے جہاد پر زور دینے کی بجائے تبلیغ پر زور دیتے تو وہ عیسائیوں سے بہت زیادہ پھیل جاتے.عیسائی اگر ایک ارب تھے تو وہ دس ارب ہوتے.مگر وہ چالیس کروڑ صرف اس وجہ سے رہے کہ انہوں نے غلطی سے جہاد صرف تلوار کا جہاد سمجھ لیا اور تبلیغ کے جہاد کو فراموش کر دیا.لیکن حضرت مسیح ناصری نے لوگوں سے یہ کہا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تم اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دو 15.اور اگر کوئی تمہیں ایک میل تک بیگار میں لے جانا چاہے تو تم دو میل تک اُس کے ساتھ چلے جاؤ 16.یہ ایسی تعلیم تھی جو دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیتی تھی.اگر آپ لوگ بھی نرمی اور محبت اور حلم اور آشتی پر زور دیں تو دنیا میں آپ کی جماعت عیسائیوں سے بہت زیادہ پھیل جائے گی.کیونکہ آپ کے ساتھ دلائل ہیں اور خدا کا فضل ہے.پس اگر دلائل کے بغیر اُن کو اتنی کامیابی ہوئی ہے تو دلائل کی وجہ سے آپ کو تو اُن کے مقابلہ میں چار گنا ترقی ملنی چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 1908ء میں فوت ہوئے تھے اور آپ کی وفات پر ابھی صرف 52 سال گزرے ہیں.اگر آپ تبلیغ اسلام کرتے چلے جائیں تو یقیناً ایک دن دنیا کے چپہ چپہ پر احمدیت

Page 551

انوار العلوم جلد 26 499 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء پھیل جائے گی اور ساری دنیا کے لوگ اسلام میں داخل ہو جائیں گے.اب میں دعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر اپنے بڑے بڑے فضل نازل فرمائے اور ان کے مقاصد کو پورا فرمائے.ان کے ارادوں میں برکت دے، انہیں دین کی ترقی اور اس کی اشاعت کے لئے اپنی اور اپنی اولادوں کی زندگیاں وقف کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور ایسا فضل کرے کہ وہ اس جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں تا کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس جائیں تو وہ روحانی لحاظ سے ایک تبدیل شدہ انسان نظر آئیں.ان میں پہلے سے زیادہ نیکی پائی جاتی ہو، پہلے سے زیادہ ایثار پایا جاتا ہو اور پہلے سے زیادہ سلسلہ سے وابستگی اور اخلاص پایا جاتا ہو.اور پھر اللہ تعالیٰ ایسا فضل فرمائے کہ وہ قیامت تک ہماری جماعت کو اس سے بھی بڑے بڑے اجتماع کرنے کی طاقت بخشے تا کہ ہم سب کے سب احمدیت کی دن دونی اور رات چوگنی ترقی دیکھیں اور خدا اور اس کے رسول کی آواز دنیا کے کونہ کونہ میں پہنچ جائے.“ الفضل 17،16 فروری 1960ء) 1 : السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 11 مطبوعہ بیروت 2012 ء 2 : روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 697،698 ایڈیشن 2008 ء 3 : اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1351ھ 4 : الوصیت ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 318 ایڈیشن 2008 ء 5 : در مشین اردو صفحہ 131 ناشر نظارت اشاعت ربوہ 6 : مسلم كتاب الفتن باب قرب الساعة حديث نمبر 7402 صفحه 1279 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 2000ء میں لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا 66 على شِرَارِ النَّاسِ “ کے الفاظ ہیں.1 : آل عمران : 111 : در تمین اردوصفحه 17 2 : تذکرہ صفحہ 312 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 552

انوار العلوم جلد 26 500 افتتاحی و اختتامی خط سالانہ 1959ء 10 بخاری کتاب احادیث الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم (الخ) حدیث نمبر 3448 صفحہ 581 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء میں "يَكسِرُ الصَّلِيْبَ وَيَقْتُلُ الْخِنْزِيْرَ “ کے الفاظ ہیں.11 : ابراہیم : 25 12 : تذکرہ صفحہ 247 ایڈیشن چہارم 2004 ء ناشر نظارت اشاعت ربوہ 13 : تذکرہ صفحہ 343 ایڈیشن چہارم 2004 ء ناشر نظارت اشاعت ربوہ 14: در مشین اردوصفحه 128 ناشر نظارت اشاعت ربوہ 15 : متی باب 5 آیت 39 صفحہ 928 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء 16 : متی باب 5 آیت 41 صفحہ 928 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011 ء

Page 553

انوار العلوم جلد 26 501 افتتاحی خطاب جلسه سالانه 1960 ء افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960 (26 دسمبر 1960ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 554

انوار العلوم جلد 26 502 افتتاحی خطاب جلسه سالانه 1960 ء

Page 555

انوار العلوم جلد 26 503 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء (فرمودہ 26 دسمبر 1960 ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اللہ تعالیٰ کا بے انتہاء شکر ہے کہ اس نے ہماری جماعت کے افراد کو ایک بار پھر اپنے ذکر کو بلند کرنے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے یہاں جمع ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ہم اللہ تعالیٰ کے اس عظیم الشان احسان کو دیکھتے ہوئے اُس کے حضور جس قدر بھی سجدات شکر بجالا ئیں کم ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے بابرکت بنائے اور اس میں شمولیت اختیار کرنے والے تمام مردوں اور عورتوں کو ان کے اخلاص اور محبت کی جزائے خیر عطا فرمائے.اور انہیں اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ اس جلسہ سے پوری طرح فائدہ اٹھائیں اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تبدیلی پیدا کریں تا کہ جب وہ واپس جائیں تو دنیا ان کے نیک عزائم اور اعلیٰ اخلاق اور اسلام کے لئے فدائیت اور جاں نثاری کے جذبات کو دیکھ کر پکار اٹھے کہ یہی وہ لوگ ہیں جو اس دنیا کے لئے حقیقی امن اور سلامتی کا موجب ہیں اور ان کے دلوں میں بھی یہ تڑپ پیدا ہو جائے کہ وہ جماعت احمدیہ کے مرکز میں آئیں اور اُن غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہمارے متعلق ان میں پائی جاتی ہیں.دوستوں کو یہ امر اچھی طرح یاد رکھنا چاہئے کہ ہمارا یہ جلسہ تمام مروجہ جلسوں اور اجتماعوں سے بالکل مختلف رنگ رکھتا ہے.آپ لوگ یہاں کسی نمائش کے لئے اکٹھے نہیں ہوئے.کوئی کھیل یا تماشا دیکھنے کے لئے نہیں آئے بلکہ صرف اس لئے جمع ہوئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ایک مناد کی آواز آپ لوگوں نے سنی اور اس پر دوڑتے اور لبیک کہتے

Page 556

انوار العلوم جلد 26 504 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء ہوئے آپ زمین کے چاروں اطراف سے اس کے اردگر دا کٹھے ہو گئے.گویا آپ لوگ وہ روحانی پرندے ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا تھا کہ انہیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر رکھ دو اور پھر انہیں آواز دو تو وہ تیری طرف تیزی کے ساتھ اُڑتے چلے آئیں گے.آپ لوگ بھی اس زمانہ کے مامور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہاں جمع ہوئے ہیں.اور آپ ہی وہ خوش قسمت وجود ہیں جنہیں فضائے آسمانی کی بلندیوں میں پرواز کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور ان ایام کو ضائع مت کرو.یہ جلسہ کوئی دنیوی میلہ نہیں بلکہ یہ خدا اور اُس کے رسول کے ساتھ تمہارا ملاپ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ ہے جو بانی سلسلہ احمدیہ نے تمہارے لئے تجویز کیا ہے.پس اس امر کی اہمیت کو کبھی نظر انداز نہ ہونے دو.اور دعاؤں اور ذکرِ الہی میں ہر وقت مشغول رہو اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کرو.اگر آپ لوگ اسلامی اجتماعات پر غور کریں تو آپ کو نہایت آسانی سے یہ امر معلوم ہو سکتا ہے کہ تمام اسلامی اجتماعات کی رُوحِ رواں صرف ذکر الہی اور دعا اور انابت الی الله ہی ہے.نماز ہے تو وہ دعا اور ذکر الہی پر مشتمل ہے.جمعہ ہے تو وہ بھی وعظ ونصیحت اور دعا اور ذکر الہی پر مشتمل ہے.عیدین کی نمازیں ہیں تو اُن میں بھی اٹھتے بیٹھتے ذکر الہی کی تاکید ہے.یہی نسخہ ہے جو ہر اجتماع کو با برکت بناتا ہے.پس اس نسخہ کو بھی مت بھولو اور اپنے لئے اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کے لئے اور اسی طرح اسلام اور احمدیت کی ترقی کے لئے رات دن دعائیں کرتے رہو.اور پھر یہ بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اس عظیم الشان مقصد کو جلد سے جلد پورا فرمائے جس کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے اور خدا تعالیٰ ہمیں اپنی موت تک اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.اور پھر ہماری اولا د در اولا دکو بھی یہ توفیق بخشے کہ وہ قیامت تک اس جھنڈے کو اونچا رکھتی چلی جائے یہاں تک کہ ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے.احادیث میں آتا ہے کہ جنگِ اُحد کے موقع پر ایک صحابی شدید زخمی ہوئے.وہ نزع

Page 557

انوار العلوم جلد 26 505 افتتاحی خطاب جلسه سالانه 1960 ء کی حالت میں تھے کہ ایک اور صحابی ان کے پاس پہنچے اور کہنے لگے کہ اگر آپ نے اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کے نام کوئی پیغام دینا ہو تو مجھے دے دیں.وہ کہنے لگے میرے عزیزوں کو میری طرف سے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنا اور انہیں یہ پیغام دے دینا کہ جب تک ہم زندہ رہے ہم اپنی جانیں قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرتے رہے.اب ہم اس دنیا سے جار ہے ہیں اور یہ امانت تمہارے سپرد کر رہے ہیں.اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اپنی جانیں قربان کر دو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی آنچ نہ آنے دو 1.آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جسدِ عصری کے ساتھ اس دنیا میں موجود نہیں مگر اُن کا لایا ہوا دین آج بھی زندہ ہے.اُن کا لایا ہوا قرآن آج بھی موجود ہے.اور وہ دین ہم سے اُنہی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے جن قربانیوں کا صحابہؓ سے مطالبہ کیا گیا تھا.پس ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اپنی جانیں دے دیں مگر اسلام کے جھنڈے کو کبھی نیچا نہ ہونے دیں اور ہم اپنی اولا د در اولاد سے بھی یہ کہتے چلے جائیں کہ اپنی ذمہ داریوں کومت بھولنا ورنہ خدا کے حضور تم جوابدہ ہو گے.حقیقت یہ ہے کہ سلسلہ کی عظمت کو قائم رکھنا اور سلسلہ کی اشاعت میں حصہ لینا کسی ایک فرد کا کام نہیں بلکہ یہ نَسْلاً بَعْدَ نَسلِ ایک لمبے زمانہ سے تعلق رکھنے والا کام ہے اسی وجہ سے میں نے جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ اپنے اپنے خاندانوں میں سے کم سے کم ایک ایک فرد کو دین کے لئے وقف کرو.تا کہ تمہارا خاندان اس نیکی سے محروم نہ رہے اور تم سب اس ثواب میں دائمی طور پر شریک ہو جاؤ.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی حالانکہ یہ ایک نہایت ہی ضروری امر ہے جس پر ہماری جماعتی اور مذہبی حیات کا انحصار ہے.میں جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ اسے صرف اپنے اندر ہی ایمان پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے بلکہ اگلی نسل کو بھی دین کا جاں خار خادم بنانے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.دنیا میں کوئی شخص یہ پسند نہیں کر سکتا کہ وہ تو عالم بن جائے مگر اُس کا بیٹا جاہل رہے یا وہ تو امیر بن جائے مگر اُس کا لڑکا کنگال رہے.پھر نہ معلوم لوگ اپنی اگلی نسل کو

Page 558

انوار العلوم جلد 26 506 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء دین کے راستہ پر قائم رکھنے کے لیے کیوں مضطرب نہیں ہوتے اور کیوں وہ دیوانہ واراس کے لئے جد و جہد نہیں کرتے.یہ امر یا د رکھو کہ ہمارے سپر د خدا تعالیٰ نے ایک بہت بڑی امانت کی ہے.اس زمانہ میں جبکہ ایمان ثریا پر جاچکا تھا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پھر اسلام کو زندہ کیا اور اُس نے آپ لوگوں کے ذریعہ اسے دنیا کے کناروں تک پہنچایا بلکہ اسے تمام ادیان پر غالب کرایا.اب آپ لوگوں کا فرض ہے کہ اپنی اگلی نسل کو بھی اس امانت کا اہل بنائیں.اور اُس کے اندر دین سے شغف اور محبت پیدا کریں تا کہ وہ بھی نمازوں اور دعاؤں اور ذکرِ الہی کی پابند ہو اور دین کے لئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے والی ہو.مگر یہ کام ہم اپنے زور سے نہیں کر سکتے صرف خدا ہی ہے جو اصلاح نفس کے سامان پیدا کیا کرتا ہے.پس اپنے لئے بھی دعائیں کرو اور اپنی اولادوں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں سچا ایمان پیدا کرے.اور انہیں دین کی ایسی محبت عطا کرے کہ کوئی دنیوی تعلق اس کے مقابلہ میں نہ ٹھہر سکے تاکہ ہماری زندگی ہی پُر مسرت نہ ہو بلکہ ہماری موت بھی خوشی کی موت ہو.ہمارے سلسلہ کو قائم ہوئے اب 72 سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے اور یہ صدی اب ختم ہونے کے قریب پہنچ رہی ہے مگر ابھی تک ہماری جماعت کی تعداد بہت کم ہے.بے شک اللہ تعالیٰ کے فضل سے صدر انجمن احمدیہ کے مربیوں ، تحریک جدید کے مبلغوں اور وقف جدید کے معلموں اور پھر انفرادی جد و جہد کے ذریعہ ہر سال بیعتوں میں اضافہ ہوتا رہتا ہے مگر پھر بھی دنیا کی آبادی کو دیکھتے ہوئے ہماری تعداد بھی ایسی نہیں جس پر اطمینان کا اظہار کیا جا سکے.اس لئے ہمیں بہت زیادہ فکر اور توجہ کے ساتھ اپنی کوششوں کا جائزہ لینا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ ہماری زندگیوں میں ہی دنیا میں احمدیت پھیل جائے.بے شک ہم کمزور اور بے سامان ہیں مگر ہمارا خدا بڑا طاقتور ہے اس لئے ہمیں اُسی سے دعائیں کرنی چاہئیں کہ الہی ! تیری مدد آسمان سے کب نازل ہوگی ؟ تو آسمان سے اپنے ملائکہ کی فوج نازل فرما تا کہ وہ سعید دلوں پر اُتریں اور انہیں اسلام اور احمدیت کا والہ وشیدا

Page 559

انوار العلوم جلد 26 507 افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ 1960ء بنادیں اور ہم اپنی زندگیوں میں ہی وہ دن دیکھ لیں جبکہ اسلام دنیا پر غالب آجائے.اور یورپ اور امریکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو جائے.بے شک آج عیسائیت کی ترقی کو دیکھ کر انسان حیران ہوتا ہے اور اس کے واہمہ میں بھی نہیں آسکتا کہ اسلام ایک دن دنیا پر غالب آئے گا مگر دعا اور صرف دعا ہی وہ ہتھیار ہے جس سے یہ مہم ایک دن کامیاب ہو گی.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق اسلام دنیا پر غالب آئے گا اور کفر میدان میں دم تو ڑ رہا ہو گا.و میں دوستوں کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ انہیں اپنی دعاؤں میں قادیان کو بھی یا درکھنا چاہئے.قادیان ہمارا مقدس مذہبی مرکز ہے جہاں بار بار جانا ہماری جماعت کے تمام افراد کے لئے ضروری ہے.پس میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالٰی سے یہ دعا ئیں بھی کریں کہ وہ اپنے فضل سے قادیان کے رستے تمام احمد یوں کے لئے کھولے اور ہمیشہ کے لئے کھولے.اور وہ مشکلات جو اس وقت ہماری راہ میں حائل ہیں اُن کو دور فرمائے اور اپنی برکتوں اور رحمتوں سے مالا مال کرے.ان چند کلمات کے ساتھ میں جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتا ہوں اور آپ لوگوں کے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خیریت کے ساتھ رکھے اور ان با برکت ایام سے صحیح طور پر فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر نیک اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اب میں دعا کروں گا سب دوست میرے ساتھ مل کر دعا کر لیں.“ (الفضل 31 دسمبر 1960ء) 1 سیرت ابن ہشام الجزء الثانی صفحہ 875 مطبوعہ دمشق 2005 ء

Page 560

Page 561

انوار العلوم جلد 26 509 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو اور اپنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ خدمتِ دین کیلئے وقف کرو (28 دسمبر 1960ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 562

انوار العلوم جلد 26 510 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگر اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.

Page 563

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 511 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو اور اپنی زندگیوں کو زیادہ سے زیادہ خدمت دین کیلئے وقف کرو (28 دسمبر 1960 ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ ) حضور بوجہ علالت جلسہ گاہ تشریف نہ لا سکے حضور کی ہدایت پر آپ کی یہ تقریر مکرم مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنائی :.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اُس کا احسان ہے کہ اس نے ہماری جماعت کے مردوں اور عورتوں کو پھر اس مقدس اجتماع میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے جو اعلاء کلمتہ اللہ کی غرض سے 1891ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قائم فرمایا تھا.سب سے پہلا جلسہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہوا اُس میں صرف 75 آدمی شریک ہوئے تھے اور آخری جلسہ جو 1907 ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہوا اُس میں 700 افراد شریک ہوئے تھے.لیکن اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے جلسہ میں شامل ہونے والوں کی تعدا د ستر اسی ہزار تک پہنچ چکی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ تعداد اِنْشَاءَ اللہ بڑھتی چلی جائے گی اور قیامت تک اسلام اور احمدیت کا جھنڈا ہماری جماعت کے افراد کے ذریعہ دنیا کے تمام ملکوں میں بلند ہوتا رہے گا.یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کے سپر د ایک بہت بڑا کام کیا ہے.ہم نے ساری دنیا میں اسلام کی اشاعت کرنی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم پھیلانی ہے اور ہم نے ساری دنیا میں اور ہمیشہ کے لئے نیکی اور تقویٰ کی روح کو قائم ہے اور یہ کام بغیر ایک لمبی اور مستقل جدو جہد کے سر انجام نہیں دیا جا سکتا.پس کرنا

Page 564

انوار العلوم جلد 26 512 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو..ضروری ہے کہ ہمارا ہر فرد اپنی ان ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے اس پر عائد ہیں ان سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش کرے اور اپنے اوقات کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں صرف کرے.تا کہ جب وہ خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہو تو اُس کا سر اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کی بناء پر ندامت اور شرمندگی سے نیچا نہ ہو.بلکہ وہ فخر کے ساتھ کہہ سکے کہ میں نے اپنے اس فرض کو ادا کر دیا ہے جو مجھ پر اپنے رب کی طرف سے عائد کیا گیا تھا.ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام اپنے فرائض کو ادا کرنے کا اپنے اندر اس قدر احساس رکھتے تھے کہ ایک دفعہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے شام کی طرف اپنا لشکر روانہ فرمایا تو آپ نے فرمایا کہ میں زید بن حارثہ کو اس لشکر کا کمانڈر مقرر کرتا ہوں.لیکن اگر زیڈ اس جنگ میں شہید ہو جائیں تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہوں گے.اور اگر جعفر بھی شہید ہو جائیں تو عبد اللہ بن رواحہ کما نڈر ہوں گے.اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی شہید ہو جائیں تو پھر مسلمان خود کسی کو منتخب کر کے اپنا افسر بنا لیں 1.جب آپ یہ ہدایات دے رہے تھے تو اُس وقت ایک یہودی بھی پاس بیٹھا آپ کی باتیں سن رہا تھا.آپ جب اپنی بات ختم کر چکے تو وہ یہودی وہاں سے اٹھا اور سیدھا حضرت زید کے پاس پہنچا اور اُن سے کہنے لگا کہ اگر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سچے نبی ہیں تو تم اس جنگ سے کبھی زندہ واپس نہیں آؤ گے کیونکہ انہوں نے کہا ہے کہ اگر زیڈ جنگ میں مارے جائیں تو جعفر کو کمانڈر بنالینا.اور اگر جعفر بھی مارے جائیں تو عبداللہ بن رواحہ کو کمانڈر بنالینا.اور اگر عبداللہ بن رواحہ بھی مارے جائیں تو پھر کسی اور کو اپنا افسر بنا لینا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تم تینوں مارے جاؤ گے.حضرت زیڈ نے جواب دیا کہ ہم مارے جائیں یا زندہ رہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال سچے نبی ہیں.2 آخر واقعہ بھی اسی طرح ہوا کہ جب لڑائی ہوئی تو یہ تینوں صحابہ یکے بعد دیگرے شہید ہو گئے.حضرت عبداللہ بن رواحہ کے متعلق ذکر آتا ہے کہ جب وہ کمانڈر مقرر ہوئے تو انہوں نے اسلامی جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لے لیا.اُس وقت میدانِ جنگ کی یہ حالت تھی

Page 565

انوار العلوم جلد 26 513 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو..کہ دشمن کی تعداد ایک لاکھ کے قریب تھی اور مسلمان صرف تین ہزار تھے.جب عبد اللہ بن رواحہ دشمن کے مقابلہ کے لئے آگے بڑھے تو لڑتے لڑتے ان کا دایاں ہاتھ کٹ گیا.اس پر انہوں نے جھٹ اپنے دوسرے ہاتھ میں جھنڈے کو تھام لیا.اور جب ان کا دوسرا ہا تھ بھی کٹ گیا تو انہوں نے جھنڈے کو اپنی رانوں میں دبا لیا.اس کے بعد کفار نے ان کی ایک ٹانگ بھی کاٹ دی.اُس وقت چونکہ وہ مجبور تھے اور جسم کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں جھنڈے کو وہ سنبھال کر رکھ سکتے اس لئے انہوں نے زور سے آواز دی کہ اب میں جھنڈے کو نہیں سنبھال سکتا اس لئے دیکھنا اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے پائے.یہ سن کر حضرت خالد بن ولید آگے بڑھے اور انہوں نے جھنڈا اپنے ہاتھوں میں لے لیا.یہ ابھی مدینہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ ان تمام واقعات کی خبر دے دی اور آپ نے صحابہ کو بتایا کہ جب اسلامی لشکر کفار کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور زیڈ لڑتے لڑتے شہید ہو گئے تو زیڈ کی جگہ جعفر کو کمانڈر مقرر کیا گیا.اور جب جعفر شہید ہو گئے تو عبد اللہ بن رواحہ کو کمانڈر مقرر کیا گیا اور جب عبد اللہ بن رواحہ بھی شہید ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ اب وہ جھنڈ ا سَيْفَ مِنْ سُيُوفِ الله یعنی حضرت خالد بن ولید کے ہاتھ میں آگیا ہے اور وہ اسلامی لشکر کو حفاظت کے ساتھ واپس لا رہے ہیں 3.اب دیکھو حضرت عبد اللہ بن رواحہ کی قربانی کس قدر عظیم الشان تھی عام طور پر کسی شخص کے پاؤں میں کانٹا بھی چبھ جائے یا اُس کی ایک انگلی پر بھی زخم آجائے تو وہ بے چین ہو جاتا ہے.مگر ان کا پہلے ایک بازو کٹ گیا تو انہوں نے اپنے دوسرے بازو میں جھنڈے کو پکڑ لیا اور جب دوسرا بازو بھی کٹ گیا تو اُسے رانوں میں تھام لیا.اور جب ایک ٹانگ بھی کٹ گئی تو اُس وقت انہوں نے آواز دی کہ دیکھنا اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہ ہونے پائے.اس فدائیت اور جاں نثاری کی کیا وجہ تھی ؟ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے دلوں میں ا یقین رکھتے تھے کہ خدا نے ہمیں ایک عظیم الشان کام کے لئے پیدا کیا ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کے لئے اپنی موت تک جدو جہد کرتے چلے جائیں.جب یہ یقین اور ایمان کسی جماعت کے اندر پیدا ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے لئے ہر قسم کی مشکلات کو دیوانہ وار

Page 566

انوار العلوم جلد 26 514 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو...برداشت کرنے کے لئے تیار ہو جاتی ہے.اور پھر خدا تعالیٰ کی غیرت بھی یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ وہ تو خدا تعالیٰ کے لئے اپنی جانیں قربان کریں اور خدا تعالیٰ اُن کی تائید نہ کرے.کونٹ ٹالسٹائے جو روس کا مشہور مصنف گزرا ہے اُس کے ایک دادا کے متعلق ذکر آتا ہے کہ وہ شہنشاہِ روس کی ڈیوڑھی کا دربان تھا.ایک روز بادشاہ نے ملکی حالات پر غور کرنے کے لیے قلعہ کے دروازہ پر ٹالسٹائے کو کھڑا کیا اور کہا کہ آج خواہ کوئی شخص آئے اُس کو اندر نہ آنے دیا جائے کیونکہ آج میں ملک کے لئے ایک بہت بڑی سکیم سوچ رہا ہوں.ٹالسٹائے پہرے پر کھڑا ہو گیا اور بادشاہ ایک بالا خانہ پر بیٹھ کر سکیم سوچنے لگ گیا.ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ بادشاہ کو شور کی آواز سنائی دی اور وہ اُدھر متوجہ ہو گیا.واقعہ یہ ہوا کہ شاہی خاندان کا ایک شہزادہ کسی کام کے لئے بادشاہ سے ملنے گیا مگر دربان نے اُسے اندر جانے سے روک دیا اور کہا کہ بادشاہ نے حکم دیا ہے کہ آج کوئی شخص اندر نہ آئے.دربان کا یہ کہنا تھا کہ شہزادہ طیش میں آگیا اور اُس نے خیال کیا کہ ایک معمولی نوکر کی کیا حیثیت ہے کہ وہ اتنی گستاخی کرے اور مجھے اندر جانے سے روکے.اُس نے کوڑا اٹھایا اور دربان کو مارنا شروع کر دیا.دربان بیچارہ سر جھکا کر مارکھا تا رہا.جب شہزادے نے سمجھا کہ اب اسے کافی سزا مل چکی ہے تو اس نے پھر اندر جانا چاہا.مگر دربان پھر سامنے آ گیا اور کہنے لگا میں آپ کو اندر نہیں جانے دوں گا.شہزادے کو خیال آیا کہ شاید دربان مجھے پہچان نہیں سکا.اس لئے اس نے دربان سے کہا تم جانتے ہو میں کون ہوں؟ دربان نے کہا ہاں میں جانتا ہوں.آپ شاہی خاندان کے فلاں شہزادہ ہیں.یہ سن کر شہزادے کو اور غصہ آیا کہ باوجود جاننے کے کہ میں شہزادہ ہوں پھر بھی یہ مجھے روکنے کی جرات کر رہا ہے.چنانچہ اُس نے پھر اسے مارنا شروع کیا.بادشاہ یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا.آخر بادشاہ نے زور سے آواز دی کہ ٹالسٹائے ! ادھر آؤ! یہ سن کر ٹالسٹائے بادشاہ کے پاس پہنچا اور اس کے پیچھے پیچھے شہزادہ بھی غصے سے بھرا ہوا بادشاہ کے پاس پہنچ گیا.اور جاتے ہی کہا اس نالائق نے آج مجھے اندر آنے سے روکا ہے.بادشاہ نے ٹالسٹائے سے پوچھا کیا تم نے شہزادے کو اندر آنے سے روکا تھا ؟ اس نے جواب دیا ہاں حضور میں نے

Page 567

انوار العلوم جلد 26 515 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو..روکا تھا.بادشاہ نے کہا کیا تم جانتے تھے کہ یہ شہزادہ ہے؟ ٹالسٹائے نے کہا ہاں حضور مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ شہزادہ ہیں.بادشاہ نے کہا پھر تم نے اسے کیوں روکا ؟ ٹالسٹائے نے کہا چونکہ حضور کا حکم تھا اس لئے میں نے انہیں اندر داخل نہیں ہونے دیا.اس کے بعد بادشاہ نے شہزادہ سے پوچھا کہ کیا تم کو اس دربان نے بتایا تھا کہ یہ بادشاہ کا حکم ہے کہ کوئی شخص اندر نہ آئے؟ شہزادے نے کہا ہاں حضور بتایا تھا.یہ سن کر بادشاہ غصہ میں آگیا اور اس نے کہا ٹالسٹائے ! یہ لو کوڑا اور اس شہزادے کو اُتنے ہی کوڑے مارو جتنے اس نے تم کو مارے تھے.شہزادے نے کہا اے بادشاہ! روس کے قانون کے مطابق یہ مجھے نہیں مارسکتا کیونکہ میں فوجی افسر ہوں اور کوئی غیر فوجی فوجی کو نہیں مار سکتا.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے ! میں تم کو بھی فوجی افسر بناتا ہوں تم کوڑا لو اور اس کو سزا دو.شہزادے نے کہا روس کے قانون کے مطابق یہ اب بھی مجھے نہیں مار سکتا کیونکہ میں جرنیل ہوں اور یہ جرنیل نہیں.بادشاہ نے کہا ٹالٹائے ! میں تم کو بھی جرنیل بناتا ہوں.شہزادے نے کہا بادشاہ ! قانونِ روس کے مطابق یہ اب بھی مجھے نہیں مار سکتا کیونکہ میں شاہی خاندان کا شہزادہ ہوں.بادشاہ نے کہا ٹالسٹائے ! میں تم کو بھی کونٹ بناتا ہوں تم اس کو سزا دو.چنانچہ اُسی وقت ٹالسٹائے کونٹ ٹالسٹائے بن گیا.اور بادشاہ نے اس کے ہاتھوں سے شہزادہ کو سزا دی.اب دیکھو بادشاہ نے ٹالسٹائے کو ایک حکم دیا اور جب ٹالسٹائے نے اُس کی بجا آوری کے لئے مار کھائی تو بادشاہ کی غیرت جوش میں آگئی اور اُس نے نہ صرف ٹالسٹائے کا بدلہ لیا بلکہ اُسے ایک عام آدمی سے کونٹ بنا دیا.اسی طرح جو لوگ خدا تعالیٰ کے لئے قربانیاں کرتے ہیں اور اس کے احکام کی بجا آوری کے لئے ہر قسم کی تکالیف برداشت کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کے متعلق بھی اپنی غیرت کا اظہار کرتا ہے اور کہتا ہے اے غریبو! کمزورو ! اور مفلسو! تم نے چونکہ میری خاطر ماریں کھائی تھیں اور میری خاطر صعوبتیں برداشت کی تھیں اس لئے اب میں بھی تمہیں دنیا پر غلبہ دوں گا اور تمہیں اُن انعامات سے حصہ دوں گا جو تمہارے واہمہ اور گمان میں بھی نہیں آسکتے.ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ اپنے اندر ایمان اور اخلاص پیدا کیا جائے.جب کسی جماعت کے قلوب میں حقیقی ایمان پیدا ہو جاتا

Page 568

انوار العلوم جلد 26 516 میں اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.ہے تو دنیا کی کوئی مخالفت اُن کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتی.وہ بے شک دنیوی لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں مگر انہیں آسمان سے ایک بہت بڑی طاقت عطا کی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ انہیں روحانی مقاصد میں کامیاب کر دیتا ہے.ہماری جماعت کے افراد کو بھی یہ عہد کر لینا چاہئے کہ خواہ ہم پر کتنی بڑی مشکلات آئیں اور خواہ ہمیں مال اور جانی لحاظ سے کتنی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں پھر بھی جو کام ہمارے آسمانی آقا نے ہمارے سپرد کیا ہے ہم اس کی بجا آوری میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کریں گے اور خدائی امانت میں کوئی خیانت نہیں کریں گے.ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو دنیا میں قائم کریں.اور یہ اتنا بڑا اعزاز ہے کہ اس کو دیکھتے ہوئے ہمارا فرض ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اُس سے عاجزانہ طور پر عرض کریں کہ اے ہمارے آقا ! دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ موجود تھے ، بڑے بڑے سیاستدان موجود تھے، بڑے بڑے مدبر موجود تھے، بڑے بڑے نواب اور رؤساء موجود تھے، بڑے بڑے فلاسفر اور بڑے بڑے دانشور اور علماء موجود تھے مگر تو نے ان سب کو نظر انداز کرتے ہوئے ہم غریبوں اور بیکسوں کو چنا اور اپنی بیش بہا امانت ہمارے سپرد کر دی.اے ہمارے آقا ! ہم تیرے اس احسان کو کبھی بھلا نہیں سکتے اور تیری اس امانت میں کبھی خیانت نہیں کر سکتے.ہم تیری بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے شہروں اور ویرانوں میں پھریں گے.ہم تیرے نام کو بلند کرنے کے لئے دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اور ہر دُکھ اور مصیبت کے وقت میں سینہ سپر ہو کر کھڑے ہو جائیں گے.اگر ہم یہ عزم کر لیں اور دین کے لئے متواتر قربانی کرتے چلے جائیں تو یقینا اللہ تعالیٰ ہمیں ضائع نہیں کرے گا اور اسلام اور احمدیت کو دنیا میں غالب کر دے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہم سخت کمزور اور نا طاقت ہیں مگر ہمارے خدا میں بہت بڑی طاقت ہے.اور خدا تعالیٰ کی یہ سنت ہے کہ جب اُس کے بندے اُس کی راہ میں خوشی سے موت قبول کر لیتے ہیں تو خدا تعالیٰ انہیں دائی حیات عطا کر دیتا ہے.اور لوگوں کے قلوب ان کی قربانیوں کو دیکھ کر صاد ہونا شروع ہو جاتے ہیں.گویا ان کا خون جماعت کی

Page 569

انوار العلوم جلد 26 517 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.روئیدگی کے لئے کھا د کا کام دیتا ہے جس سے وہ بڑھتی اور ترقی کرتی ہے.پس ہماری جماعت کے ہر بچے ، ہر نو جوان، ہر عورت اور ہر مرد کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ نے اپنی بادشاہت کو دنیا میں قائم کرنے کا جو اہم کام کیا ہے اس سے بڑھ کر دنیا کی اور کوئی امانت نہیں ہو سکتی.ہم دیکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے گھروں کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.بعض لوگ بھیڑوں بکریوں کے گلے کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.بعض لوگ گورنمنٹ کے خزانہ کا پہرہ دیتے ہوئے مارے جاتے ہیں اور بعض لوگ فوجوں میں بھرتی ہو کر اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے ہیں.لیکن جو چیز اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد کی ہے اُس کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں بلکہ ان کو اس سے اتنی بھی نسبت نہیں جتنی ایک معمولی کنکر کو ہیرے سے ہوسکتی ہے.پس اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں سرگرمی سے حصہ لو اور اس غرض کے لئے زیادہ سے زیادہ نوجوانوں کو خدمت دین کے لئے وقف کرو.تا کہ ایک کے بعد دوسری نسل اور دوسری کے بعد تیسری نسل اس بوجھ کو اٹھاتی چلی جائے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہراتا رہے.اس عظیم الشان مقصد کی سرانجام دہی کے لئے میں نے بیرونی ممالک کے لئے تحریک جدید اور اندرون ملک کے لئے صدر انجمن احمد یہ اور وقف جدید کے ادارے قائم کئے ہوئے ہیں.دوستوں کو ان اداروں کے ساتھ پورا پورا تعاون کرنا چاہئے اور نو جوانوں کو سلسلہ کی خدمت کے لئے آگے آنے کی تحریک کرنی چاہئے.ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں سادھو اور بھکاری تک بھی اپنے ساتھی تلاش کر لیتے ہیں.پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ اگر تم اس عظیم الشان کام کے لئے دوسروں کو تحریک کرو تو تمہارا کوئی اثر نہ ہو.اِس وقت اسلام کی کشتی بھنور میں ہے اور اس کو سلامتی کے ساتھ کنارے تک پہنچانا ہمارا کام ہے.اگر ہم اس کی اہمیت کو سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھانے کی کوشش کریں تو ہزاروں نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آ سکتے ہیں.ہمیں اس وقت ہر قسم کے واقفین کی ضرورت ہے.ہمیں گریجوایٹیوں کی بھی ضرورت ہے اور کم تعلیم والوں کی بھی ضرورت ہے تا کہ ہم ہر طبقہ تک

Page 570

انوار العلوم جلد 26 518 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.اسلام کی آواز پہنچا سکیں.اگر تم اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح سمجھ لو گے تو یقیناً اس کشتی کو سلامتی کے ساتھ نکال کر لے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ تمہیں ابدی حیات عطا فرمائے گا.تمہارے بعد بڑے بڑے فلاسفر پیدا ہوں گے ، بڑے بڑے علماء پیدا ہوں گے، بڑے بڑے صوفیاء پیدا ہوں گے ، بڑے بڑے بادشاہ آئیں گے مگر یاد رکھو خدا تعالیٰ نے جو شرف تمہیں عطا فرمایا ہے بعد میں آنے والوں کو وہ میسر نہیں آسکتا.جیسے عالم اسلام میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر جو مرتبہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چھوٹے سے چھوٹے صحابی کو بھی ملا وہ ان بادشاہوں کو نصیب نہیں ہوا.ان بادشاہوں اور نوجوانوں کو بیشک دنیوی دولت ملی مگر اصل چیز تو صحابہ ہی کے حصہ میں آئی.باقی لوگوں کو تو صرف چھلکا ہی ملا.یہ تقسیم بالکل ویسی ہی تھی جیسے غزوہ حنین کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں میں اموالِ غنیمت تقسیم کئے تو ایک انصاری نوجوان نے بیوقوفی سے یہ فقرہ کہہ دیا کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مال مکہ والوں کو دے دیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے تمام انصار کو جمع کیا اور فرمایا اے انصار ! مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم میں سے ایک نوجوان نے یہ کہا ہے کہ خون تو ہماری تلواروں سے ٹپک رہا ہے اور مالِ غنیمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو دے دیا ہے.انصار نہایت مخلص اور فدائی انسان تھے ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر اُن کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہم ایسا نہیں کہتے.ہم میں سے ایک بیوقوف نوجوان نے غلطی سے یہ بات کہہ دی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انصار! اگر تم چاہتے تو تم یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ حمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے فتح و کامرانی بخشی اور اسے عزت کے ساتھ اپنے وطن میں واپس لایا.مگر جب جنگ ختم ہو گئی اور مکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبضہ میں آ گیا تو مکہ والے تو بکریوں اور بھیڑوں کے گلے ہانک کر اپنے گھروں میں لے گئے اور انصار خدا کے رسول کو اپنے گھر میں لے آئے.4.اسی طرح بیشک صحابہ کے بعد آنے والوں کو بڑی بڑی دولتیں ملیں ، حکومتوں پر انہیں

Page 571

انوار العلوم جلد 26 519 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.میں قبضہ ملا مگر جو روحانی دولت صحابہ کے حصہ میں آئی وہ بعد میں آنے والوں کو نہیں ملی.پس خدمت دین کے اس اہم موقع کو جو تمہیں صدیوں کے بعد نصیب ہوا ہے ضائع مت کرو اور اپنے گھروں کو خدا تعالیٰ کی برکتوں سے بھر لو.میں نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں جب کام شروع کیا تھا تو میرے ساتھ صرف چند ہی نوجوان رہ گئے تھے اور وہ لوگ جو اپنے آپ کو قابل اور ہوشیار سمجھتے تھے سب لا ہور چلے گئے تھے.اور ہمارے متعلق خیال کرتے تھے کہ یہ کم علم اور ناتجربہ کار لوگ ہیں مگر اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ وہی لوگ جن کو وہ نا تجربہ کار سمجھتے تھے اللہ تعالیٰ نے انہی سے ایسا کام لیا کہ دیکھنے والے حیران رہ گئے.اُس وقت میری عمر چھبیس سال تھی.میاں بشیر احمد صاحب کی عمر اکیس ساڑھے اکیس سال تھی.اسی طرح ہمارے سارے آدمی ہیں اور تمیں سال کے درمیان تھے.مگر ہم سب نے کوشش کی اور محنت سے کام کیا تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے جماعت کے کام کو سنبھال لیا.اسی طرح اب بھی نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ سلسلہ کی خدمت کا مہیا کر لیں اور دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی حاصل کریں.اگر کسی نے صرف بی اے یا ایم اے کر لیا اور دینی تعلیم سے کو رارہا تو ہمیں اس کی دنیوی تعلیم کا کیا فائدہ ہو سکتا ہے.غیر مبائعین کے الگ ہونے کے بعد میرے ساتھ جتنے نو جوان رہ گئے تھے وہ کالجوں میں بھی پڑھتے تھے مگر وقت نکال کر دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.چنانچہ چودھری فتح محمد صاحب سیال اور صوفی غلام محمد صاحب اپنے پرائیویٹ اوقات میں دینی تعلیم بھی حاصل کرتے تھے.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ایم اے اور بی اے بھی کر لیا اور دینی تعلیم بھی مکمل کر لی.میں سمجھتا ہوں اگر اب بھی ہم پوری طرح اس طرف توجہ دیں تو چند سال کے بعد ہی ہمیں ایسے مخلص نوجوان ملنے شروع ہو جائیں گے جو انجمن اور تحریک کے کاموں کو سنبھال سکیں گے.پس سلسلہ کی ضروریات اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اپنے حوصلوں کو بلند کرو.اگر انسان کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے ہی اپنے حوصلہ کو گرا دے اور سمجھے کہ میں کچھ نہیں کر سکتا تو یہ اُس کی غلطی ہوتی ہے.بیشک ایک انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ دنیا کو ہلا سکے لیکن وہ ہلانے کا ارادہ تو کر سکتا

Page 572

انوار العلوم جلد 26 520 اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو.ہے.اگر تم اپنے حوصلوں کو بلند کرو گے اور سستی اور غفلت کو چھوڑ کر اپنے اندر چستی پیدا کرو گے تو تھوڑے عرصہ میں ہی تم میں سے کئی نوجوان ایسے نکلیں گے جو پہلوں کی جگہ لے سکیں گے.میں نے تحریک جدید میں نو جوانوں کو لگا کر دیکھا ہے وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں بلکہ شروع میں میں جن کے متعلق سمجھتا تھا کہ ممکن ہے وہ اس کام کے اہل ثابت نہ ہو سکیں انہوں نے بھی جب محنت کی تو اپنے کام کو سنبھال لیا اور اب وہ خوب کام کرتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کے اندر عزم تھا اور انہوں نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ ہر ممکن کوشش کے ساتھ دین کی خدمت کریں گے.آئندہ بھی ہماری جماعت کے نوجوانوں کو اپنی زندگیاں وقف کرنے کی طرف توجہ کرنی چاہئے.کیونکہ ہمیں اب سلسلہ کی ضروریات کے لئے بہت سے نئے آدمیوں کی ضرورت ہے.اور یہ ضرورت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے.اس وقت ہمیں ایسے نوجوان درکار ہیں جن کو ہم انگلستان، امریکہ اور دوسرے یورپین ممالک میں بھیج سکیں.اسی طرح افریقہ وغیرہ کے لئے ہمیں سینکڑوں آدمیوں کی ضرورت ہے.اس کے بعد ان کی جگہ نئے آدمی بھیجنے اور انہیں واپس بلانے کے لئے ہمیں اور آدمیوں کی ضرورت ہو گی اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا جائے گا.پس نو جوانوں کو چاہئے کہ وہ خدمت دین کے لئے آگے آئیں اور اپنے دوستوں اور ساتھیوں میں بھی وقف کی تحریک کو مضبوط کریں.ہمارے کاموں نے بہر حال بڑھنا ہے لیکن انہیں تکمیل تک اسی صورت میں پہنچایا جا سکتا ہے جب زیادہ سے زیادہ نوجوان خدمت دین کے لئے آگے آئیں.ان نصائح کے ساتھ میں اپنی تقریر کوختم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے ہمارے کاموں میں برکت ڈالے اور وہ بوجھ جسے ہمارے کمزور اور نا تواں کندھے نہیں اٹھا سکتے اُسے خود اٹھا لے اور ہمیں اپنی موت تک اسلام اور احمدیت کی خدمت کی توفیق عطا کرتا چلا جائے.ہم کمزور اور بے بس ہیں لیکن ہمارا خدا بڑا طاقتور ہے.اُس کے صرف مسکن 5 کہنے کی دیر ہوتی ہے کہ زمین و آسمان میں تغیرات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے آؤ ہم اللہ تعالیٰ سے ہی دعا کریں کہ وہ ہم پر اپنا فضل

Page 573

انوار العلوم جلد 26 521 اور میں اسلام کی ترقی اور اشاعت میں سرگرمی کے ساتھ حصہ لو..نازل فرمائے ، ہمیں اپنی رضا اور محبت کی راہوں پر چلائے اور ہمارے مردوں اور عورتوں اور بچوں کو اس امر کی توفیق بخشے کہ وہ دین کی خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ قربانیوں سے کام لیں اور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہیں.اللہ تعالیٰ انہیں منافقت سے بچائے، اُن کے ایمانوں کو مضبوط کرے، ان کے دلوں میں اپنا سچا عشق پیدا کرے اور انہیں دین کی بے لوث خدمت کی اس رنگ میں توفیق بخشے جس رنگ میں صحابہ کرام کو ملی اور اللہ تعالیٰ ان کی آئندہ نسلوں کو بھی دین کا سچا خادم اور اسلام کا بہادر سپاہی بنائے اور انہیں ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین ( الفضل 7 جنوری 1961ء) 1: بخارى كتاب المغازى باب غَزْوَة مُؤْتَةَ مِنْ اَرْضِ الشَّامِ حدیث نمبر 4261 صفحه 722 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 2: السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 156 الطبعة الاولى مطبوعہ بیروت 2012 ء 3: بخاری کتاب المغازى باب غَزْوَة الطائف حدیث نمبر 4330 تا 4333 صفحہ 722 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 4 بخاری کتاب المغازى باب غَزْوَة مَوتَةَ مِنْ اَرْضِ الشَّامِ حدیث نمبر 4262 صفحہ 722 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 5: البقرة: 118

Page 574

Page 575

انوار العلوم جلد 26 523 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود کا ایک بہت بڑا نشان ہے.(26 دسمبر 1961ء) سید از رنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 576

انوار العلوم جلد 26 524 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.

Page 577

انوار العلوم جلد 26 525 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے اور صداقت حضرت مسیح موعود کا ایک بہت بڑا نشان ہے.(سیدنا حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی املاء کردہ یہ افتتاحی تقریر مؤرخہ 26 دسمبر 1961ء کو حضور کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنائی ) " بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ اللہ تعالیٰ کا بے حد و بے حساب شکر ہے کہ اُس نے محض اپنے فضل سے ہماری جماعت کے دوستوں کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ وہ اپنی عمروں میں سے ایک اور سال کے اختتام پر دین اسلام کی تقویت اور اعلائے کلمتہ اللہ کی غرض سے اُس مرکزی اجتماع میں شریک ہوں جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اُس کے مامور ومرسل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آج سے 70 سال قبل رکھی تھی.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی چیز کو قائم کرنے کا فیصلہ فرماتا ہے تو دنیا خواہ کتنا زور لگائے وہ اُسے مٹانے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی.دشمن اس کے خلاف شور بھی مچاتے ہیں ، منافق اس کے متعلق اعتراضات بھی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے کام ہمیشہ ترقی کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہی بات جسے انہونی قرار دیا جاتا ہے ایک حقیقت بن کر ظاہر ہو جاتی ہے.اور وہی جماعت جسے حقارت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے آخر اپنے دلائل اور براہین کی رو سے تمام دنیا پر غالب آجاتی ہے.یہی سنت اس زمانہ میں ہماری جماعت کے ساتھ بھی کام کر رہی ہے.ہر دن جو ہم پر طلوع کرتا ہے وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ کامیابیوں اور عروج سے ہمکنار کرتا چلا جاتا ہے

Page 578

انوار العلوم جلد 26 526 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ اس کے ماننے والے لاکھوں سے کروڑوں اور پھر کروڑوں سے اربوں ہو جائیں گے اور اُس صداقت از لی کا شکار ہو جائیں گے جو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمائی ہے.پس یہ ترقی تو ایک لازمی چیز ہے اور یقینا یہ ایک دن ہوکر رہے گی لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ جب کسی مومن کو اللہ تعالیٰ کا کلام پورا کرنے کا کوئی موقع میسر آ جائے تو یہ اس کے لئے انتہائی خوشی کا موجب ہوتا ہے.کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اسے اپنے کلام کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر اس کے لئے بھی اپنی رحمت اور بخشش کا سامان پیدا کر دیا ہے.دوستوں کو یا درکھنا چاہئے کہ الہی پیشگوئیاں جن وجودوں سے پوری ہوتی ہیں یا جن مادی نشانات کے ذریعہ اس کی جلوہ نمائی ہوتی ہے قرآن کریم نے انہیں شعائر اللہ قرار دیا ہے اور شعائر اللہ کی عظمت ملحوظ رکھنا تقوی اللہ میں شامل ہے.اور چونکہ ہمارا یہ جلسہ جس کی بنیاد اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت رکھی گئی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے نشانوں میں سے ایک بہت بڑا نشان ہے اس لئے یہ بھی شعائر اللہ میں سے ہے.اور ہم میں سے ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ اس کی عظمت کو پوری طرح ملحوظ رکھے اور اس کی برکات سے صحیح رنگ میں مستفیض ہونے کی کوشش کرے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کی بات ہے کہ امریکہ کا ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ملاقات کے لئے قادیان میں آیا اور اس نے کہا کہ آپ مجھے اپنی صداقت کا کوئی نشان دکھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسے فرمایا آپ خود میری صداقت کا ایک نشان ہیں.اُس نے کہا یہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے اُس وقت جب مجھے قادیان سے باہر کوئی بھی نہیں جانتا تھا الہاما بتایا تھا کہ يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ 1 یعنی اللہ تعالیٰ دور دراز علاقوں سے تیرے پاس آدمی بھیجے گا اور وہ اتنی کثرت سے آئیں گے کہ جن راستوں پر وہ چلیں گے اُن میں گڑھے پڑ جائیں گے.

Page 579

انوار العلوم جلد 26 527 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.اب آپ بتائیں کہ کیا میرے دعوی سے قبل آپ میرے واقف تھے ؟ اس نے کہا نہیں.آپ نے فرمایا پھر آپ جو یہاں میرا دعویٰ سن کر آئے ہیں تو الہی تصرف کے ماتحت ہی آئے ہیں.پس آپ خود میری صداقت کا ایک نشان ہیں.اسی طرح آپ لوگ جو یہاں جمع ہوئے ہیں آپ میں سے بھی ہر فرد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ نشان ہے.کجا وہ زمانہ تھا کہ قادیان میں جب پہلا سالانہ جلسہ ہوا تو اُس میں صرف 75 آدمی شریک ہوئے اور کجا یہ زمانہ ہے کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل سے نصف لاکھ سے زیادہ مخلصین اس جلسہ میں شریک ہو کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہے اور دنیا کے سامنے اس امر کا کھلے بندوں اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ کہا تھا وہ پورا ہو گیا.مگر سلسلہ کی یہ عظیم الشان ترقی جہاں ہمارے دلوں کو خوشی سے لبریز کر دیتی ہے وہاں غم واندوہ کی ایک دردناک تلخی بھی اس میں ملی ہوئی ہے.کیونکہ یہ خوشی جس مقدس انسان کے طفیل ہمیں میسر آئی وہ آج اس دنیا میں موجود نہیں ہے.خود میرے احساسات کی تو یہ حالت ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے سلسلہ کی خدمت کی اور اس دنیا سے گزر گئے وہ مجھے آج تک نہیں بھولے.میری نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات آج بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح اُس دن تھی جس دن آپ کا وصال ہوا.پھر میری نظر میں حضرت خلیفہ اول کی وفات آج بھی اُسی طرح تازہ ہے جس طرح اُس دن تھی جب آپ کا انتقال ہوا.کیونکہ میرے نزدیک وہ شخص جو اپنے کسی احسان کرنے والے کو بھول جاتا ہے وہ پرلے درجہ کا محسن کش ہے.صبر کے یہ معنے نہیں کہ انسان اپنے محسنوں کو بھول جائے.بلکہ صبر کے یہ معنی ہیں کہ کوئی صدمہ انسان کو اس کے اصل فرائض سے غافل نہ کر دے اور اس کی ہمت اور طاقت کو پست نہ کر دے.ورنہ کسی صدمہ کا بھلا دینے کا نام صبر نہیں بلکہ احسان فراموشی ہے.میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اندوہناک سانحہ نہیں دیکھا مگر مجھے تو وہ دن بھی آج تک نہیں بھولا.آج تک آپ کی

Page 580

انوار العلوم جلد 26 528 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.وفات کے حالات میں نے کبھی نہیں پڑھے کہ میری آنکھیں فرط جذبات سے پر نم نہ ہوگئی ہوں اور مجھے اُسی طرح درد و کرب محسوس نہ ہوا ہو جس طرح آپ کا زمانہ پانے والے مخلصین کو ہوا تھا.میں نے جب کبھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ پڑھا ہے کہ آپ نے جب پہلی مرتبہ چکی سے پیسے ہوئے بار یک آٹے کی روٹی کھائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد کر کے آپ کے آنسو بہہ پڑے تو اُس وقت میری آنکھوں سے بھی آنسو بہنے لگ جاتے ہیں.ایک عورت کہتی ہے میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ یہ بات کیا ہے کہ اتنی عمدہ روٹی کھا کر بھی آپ کے آنسو بہہ رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا جب میں نے اس روٹی کا ایک لقمہ اپنے منہ میں ڈالا تو مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یاد آ گئے کیونکہ آپ کے زمانہ میں چکیاں نہیں تھیں ہم صرف رسل بٹہ پر غلہ گوٹ کر اور پھونکوں سے اس کے چھلکے اڑا کر روٹی پکا لیا کرتے تھے.مجھے خیال آیا کہ اگر اس وقت بھی چنگیاں ہوتیں اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ملائم اور بار یک آٹے کی روٹی کھلاتی تو آپ کو کتنی راحت پہنچتی.میری حالت بھی ایسی ہی ہے.سلسلہ کی کوئی ترقی اور کوئی فتح نہیں جو ایک رنگ میں میرے لئے غم کا نیا سامان پیدا نہیں کرتی کیونکہ اُس وقت مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ آج اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام زندہ ہوتے تو جو فتوحات اور کامیابیاں ہمیں حاصل ہو رہی ہیں ان کے پھول ہم آپ کے قدموں میں جا کر ڈال دیتے.مگر خدا تعالیٰ کی سنت یہی ہے کہ وہ لوگ جو اپنا خون بہا کر اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں ہلکان کر کے خدائی کھیت میں بیج ڈالتے ہیں وہ پھل کاٹتے وقت اس دنیا میں موجود نہیں ہوتے.لیکن ہمارا دل ان کو کب بھلا سکتا ہے.ہم اُن کی یاد کو کس طرح فراموش کر سکتے ہیں.ایک ایک کام جو ہمارے سلسلہ میں ہو رہا ہے.ایک ایک علمی مسئلہ جو حل ہو رہا ہے، ایک ایک فیضان الہی جو ہم پر نازل ہو رہا ہے.انہی کی دعاؤں اور برکتوں اور کوششوں کا نتیجہ ہے.پھر کون ایسا تنگ دل اور احسان فراموش انسان ہوسکتا ہے.جو کھیت تو کاٹ کر لے آئے ، پھل تو ا کٹھے کر لے مگر اُن لوگوں کو یادنہ

Page 581

انوار العلوم جلد 26 529 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.کرے جنہوں نے کھیت میں بیج ڈالا اور پھلدار پودے لگائے.بے شک وہ اُس وقت خوش ہو رہا ہوگا جب وہ پھل تو ڑ رہا اور کھیت کاٹ رہا ہوگا.مگر اس کے ساتھ ہی اگر وہ خوشی سے ہنس رہا ہوگا تو دوسری طرف اس کی آنکھیں غم سے آنسو بھی بہا رہی ہوں گی کیونکہ وہ خیال کرے گا کہ جو خوشی مجھے آج حاصل ہو رہی ہے اس کا اصل حق دار وہی تھا جس نے کھیت بونے اور پودے لگانے میں اپنی زندگی خرچ کر دی.مجھے یاد ہے 1924ء میں جب میں لندن گیا اور میں نے وہاں مسجد کی بنیا د رکھی تو اُس وقت میری یہ کیفیت تھی کہ میرے آنسو تھمنے میں ہی نہیں آتے تھے کیونکہ اُس وقت وہ نظارہ میری آنکھوں کے سامنے پھر گیا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ سے الہام پا کر یہ اعلان فرمایا تھا کہ : دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.2 جب یہ الہام پا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کے مقابلہ میں کھڑے ہوئے.اُس دنیا کے مقابلہ میں جس کا ایک ایک فرد آپ کے خون کا پیاسا تھا.آپ کو لالچی ، حریص ، خود غرض اور کیا کچھ کہہ رہا تھا تو اُس وقت آپ کی کیا حالت ہوگی.آپ اس مخالفت کو دیکھ کر دنیا سے متنفر ہوں گے مگر خدا تعالیٰ نے کہا کہ اُٹھے اور دنیا میں میرے نام کی منادی کر اور اُسے کہہ دے کہ حَانَ اَنْ تُعَانَ وَ تُعْرَفَ بَيْنَ النَّاسِ 3.وہ وقت آگیا ہے کہ خدا تیری مدد کرے اور تجھے دنیا میں لازوال شہرت عطا کرے.اُس وقت آپ کو بار بار یہ خیال آتا ہوگا کہ میں تو کسی شخص سے ملنا بھی نہیں چاہتا مگر میرا خدا مجھے کہتا ہے کہ جا اور لوگوں کو بلا.پس آپ نے خدا تعالیٰ کے حکم کو قبول کر کے وہ موت اختیار کی جس سے بڑھ کر انبیاء کے لئے اور کوئی موت نہیں ہوتی.آپ گوشہ تنہائی سے نکل کر دنیا کے سامنے جا کھڑے ہوئے اور دنیا سے وہ سب کچھ کہلوایا جو پہلے نبیوں کو کہا جاتا رہا ہے.کبھی کہا گیا یہ حریص ہے ، یہ مال و دولت جمع کرنا چاہتا ہے اور اپنی دکانداری چلانا چاہتا ہے.کبھی دنیا آپ کی باتوں پر ہنستی اور کہتی کیسی پاگل نہ باتیں کر رہا ہے.کبھی آپ کو مفسد اور فتنہ پرداز

Page 582

انوار العلوم جلد 26 530 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.قرار دے کر طرح طرح کے دکھ دیئے جاتے.کبھی آپ پر قسم قسم کے غلط اور جھوٹے الزام لگا کر کوشش کی جاتی کہ کسی کو آپ کی بات تک سننے نہ دی جائے.سوچو اور غور کرو کہ وہ کیسی تلخ گھڑیاں تھیں.کیسا سخت زمانہ تھا جو آپ پر گزرا.لیکن جب اُن دنوں کی دعاؤں اور کوششوں کے نتیجہ میں وہ بابرکت دن آئے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے نام کو دنیا میں عزت و احترام کے ساتھ پھیلا دیا.کامیابیوں اور فتوحات کے دروازے کھول دیئے تو وہ اپنے مالک حقیقی کے پاس پہنچ چکا تھا اور انعامات سے اور لوگ لطف اندوز ہورہے ہیں.اس قسم کے جذبات اور خیالات نے میرے دل کو قابو میں نہ رہنے دیا اور جب بھی ہمارے سلسلہ کو کوئی فتح حاصل ہوئی اُس میں جہاں میں خوش ہوا کہ خدا تعالیٰ کا جلال ظاہر ہوا وہاں میں غمگین بھی ہوا کہ اس وقت وہ ہستیاں نہیں ہیں جو ان فتوحات کی بانی ہیں اور جو اس بات کی مستحق ہیں کہ ہم ان کے حضور اپنے اخلاص اور عقیدت کے سچے جذبات کا اظہار کریں ، بہر حال ہم میں سے کوئی شخص اس امر سے انکار نہیں کر سکتا کہ خدا تعالیٰ کے مسیح کے ہاتھوں زمین میں ایک بیج بویا گیا اور وہ بیج ہر قسم کی مخالفانہ ہواؤں کے باوجود بڑھا اور پھولا اور پھلا یہاں تک کہ آج اُسی پیج سے ایک ایسا شاندار درخت پیدا ہو چکا ہے جس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہوئی ہیں اور جس پر ہزار ہا آسمانی پرندوں نے بسیرا کیا ہوا ہے.مگر ابھی ضرورت ہے کہ ہم اپنے کام کو اور بھی وسیع کریں اور خدا تعالیٰ کے جلال اور اس کے جمال کے اظہار کیلئے اس مقدس مشن کی تکمیل میں اپنی عمریں صرف کر دیں جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس دنیا میں مبعوث ہوئے تھے.مجھے سب سے پہلے یہ خیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر آیا تھا.جب آپ نے وفات پائی تو میں نے دیکھا کہ بعض لوگوں کے چہروں کی رنگت اڑ گئی اور ان کی زبانوں سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اب کیا ہوگا.اس وقت میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نعش کے سرہانے کھڑے ہو کر یہ عہد کیا کہ اے خدا! اگر ساری جماعت بھی خدانخواسته مرتد ہو جائے تو جس کام کے لئے خدا کا یہ پیارا دنیا میں آیا تھا اُس کے لئے میں اپنی جان تک قربان کر دوں گا.میں اپنی زندگی کی بہترین گھڑیوں میں سے وہ گھڑی

Page 583

انوار العلوم جلد 26 531 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.سمجھتا ہوں جب خدا تعالیٰ نے مجھے اس عہد کی توفیق عطا فرمائی اور میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہماری جماعت کے ہر فرد کو بھی یہی توفیق عطا فرمائے اور اسے دین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرنے کی اہلیت بخشے.یہی وہ مقصد ہے جس کو جماعت کے سامنے بار بار پیش کرنے کے لئے اس جلسہ کی بنیا د رکھی گئی ہے.پس آپ لوگ جو اس جلسہ میں شمولیت کے لئے باہر سے تشریف لائے ہیں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ حکمت کی ایک بات بھی بعض دفعہ انسان کی نجات کا موجب ہو جاتی ہے اس لئے ہر بات جو یہاں بیان کی جائے اُسے آپ پورے غور اور توجہ کے ساتھ سنیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کیونکہ کوئی نہیں کہہ سکتا کونسی بات اس کے لئے نجات کا موجب بننے والی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ جن سے ہزاروں احادیث مروی ہیں وہ بیان کیا کرتے تھے کہ چونکہ میں بہت دیر کے بعد اسلام لایا تھا اور دوسرے لوگوں نے مجھ سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت سی باتیں ن لی تھیں اس لئے میں نے یہ عہد کر لیا کہ اب میں آپ کے دروازہ سے نہیں ہلوں گا.چنانچہ وہ ہر وقت مسجد میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازہ پر بیٹھے رہتے تا کہ جب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف لائیں تو وہ آپ کی باتیں سننے کے لئے مسجد میں موجود ہوں.اس طرح بعض دفعہ انہیں سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا مگر وہ اس خیال سے نہیں اٹھتے تھے کہ ممکن ہے کہ جس وقت میں جاؤں اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لے آئیں اور جو کچھ آپ فرما ئیں میں اُس کے سننے سے محروم رہ جاؤں 4 آپ لوگوں کو بھی اپنے اندر عشق کا یہی جذبہ اور یہی رنگ پیدا کرنا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جو کچھ آپ کو سنایا جائے اُسے غور سے سنیں اور نیکی کی باتوں کو اپنے اندر جذب کرنے کی کوشش کریں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے ہیں اور پھر وہاں سے اُٹھ کر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ اس شخص نے ابھی کیا کہا تھا ؟ ؟ قرآن کریم ایسے منافقوں پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتا ہے کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام سے فائدہ نہیں اٹھاتے تھے.آپ لوگوں کو چاہئے کہ اس نقص کو کبھی اپنے قریب بھی

Page 584

انوار العلوم جلد 26 532 ہمارا جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے.نہ آنے دیں اور توجہ اور انہماک کے ساتھ دین کی باتیں سنیں اور اپنے اوقات کا صحیح استعمال کریں تا کہ یہ گھڑیاں جو سال بھر کے بعد خدا تعالیٰ نے آپ لوگوں کو عطا کی ہیں ضائع نہ ہوں بلکہ آپ ان سے پورا پورا فائدہ حاصل کر کے جائیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے فضل اور عفو اور ستاری کو کام میں لاتے ہوئے ہم سے اپنی بخشش اور رحمت کا سلوک کرے اور ہماری جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں اور بچوں کو زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت کی توفیق بخشے کیونکہ جو کچھ ہو گا اُسی کے فضل اور احسان سے ہوگا.ہماری تمام کوششیں صرف ایک بیج کی حیثیت رکھتی ہیں.لیکن اس بیج کو بڑھانا اور ترقی دینا اور اس سے پھل پیدا کرنا ہمارے ہاتھ میں نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اس لئے اُسی کے آستانہ پر ہم جھکتے ہیں اور اُس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے بابرکت کرے اور اسے جماعت کے اندر ایک نیا ایمان اور نیا اخلاص اور نیا جوش پیدا کرنے کا موجب بنائے اور ہمیشہ اس کے فضل ہماری جماعت کے شاملِ حال رہیں.امِيْنَ اللَّهُمَّ (مِيْنَ.“ ( الفضل 2 جنوری 1962ء) 1 تذکرہ صفحہ 39 ایڈیشن چہارم 2004 ء 2 تذکرہ صفحہ 81 ایڈیشن چہارم 2004 ء 3 تذکرہ صفحہ 53 ایڈیشن چہارم 2004 ء 4 بخاری کتاب الاعتصام باب ما ذكر النَّبي صَلَّى الله عليه وسلم (الخ) حدیث نمبر 7324 صفحہ 1261 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 5 وَمِنْهُمْ مَّنْ يَسْتَمِعُ إِلَيْكَ حَتَّى إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِكَ قَالُوا لِلَّذِيْنَ أوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ أَيْضًا (محمد : 17)

Page 585

انوار العلوم جلد 26 533 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کرو جب اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں اپنی پوری شان سے لہرانے لگے (28 دسمبر 1961ء) از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 586

انوار العلوم جلد 26 534 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش

Page 587

انوار العلوم جلد 26 535 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کرو جب اسلام کا جھنڈ ا ساری دنیا میں اپنی پوری شان سے لہرانے لگے (سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی املاء کردہ ی تقریر مورخہ 23 دسمبر 1961ء کو حضور کی زیر صدارت حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنائی.) اشهَدُ اَنْ لَا إِلَهَ الّا اللهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْاْ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ.إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ الغَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ.احباب کو معلوم ہے کہ میری طبیعت ایک لمبے عرصہ سے ناساز چلی آرہی ہے جس کی وجہ سے اب میرے جسم میں ایسی طاقت نہیں کہ میں سابق دستور کے مطابق کوئی لمبی تقریر کرسکوں.مگر اس لئے کہ جماعت کے دوست اس سردی کے موسم میں سخت تکلیف اٹھا کر دور دور سے تشریف لائے ہوئے ہیں میں نے مناسب سمجھا کہ میں احباب کی توجہ کے لئے چند باتیں بیان کر دوں.مجھے1914ء میں جب اللہ تعالیٰ نے خلافت کے مقام پر کھڑا کیا تو اُس وقت جماعت کی یہ حالت تھی کہ غیر مبایعین علی الاعلان کہ رہے تھے کہ پچانوے فیصدی جماعت اُن کے ساتھ ہے اور صرف پانچ فیصدی جماعت نے ابھی خلافت تسلیم کی ہے.اُن دنوں مخالفت کا ایک دریا تھا جو انڈا چلا آرہا تھا.انجمن کا خزانہ خالی پڑا تھا اور بڑے بڑے کا رکن جن کا

Page 588

انوار العلوم جلد 26 536 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش سلام..صد را مجمن احمدیہ پر قبضہ رہ چکا تھا مجھے گرانے اور نا کام کرنے کے درپے تھے.اُس وقت خدا ہی تھا جو میری تائید کے لئے اٹھا اور اس نے دوسرے ہی ہفتہ مجھ سے وہ ٹریکٹ لکھوایا جس کا یہ عنوان تھا کہ کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے اور جہاں جہاں یہ ٹریکٹ پہنچا متر د د جماعتوں کے دل صاف ہو گئے اور سنبھل گئے اور وہ تاروں اور خطوط کے ذریعہ میری بیعت کرنے لگیں.پھر خدا نے مجھے اُنہی دنوں غیر مبایعین کے متعلق الها ما بتایا کہ لَيُمَزِ قَنَّهُمْ یعنی وہ ان لوگوں کی جمعیت کو منتشر کر دے گا.چنانچہ تھوڑے ہی دنوں میں دنیا نے یہ عظیم الشان انقلاب اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہی جو اپنے آپ کو پچانوے فیصدی کہا کرتے تھے پانچ فیصدی رہ گئے اور جنہیں پانچ فیصدی کہا جاتا تھا وہ پچانوے فیصدی بن گئے.یہ فوج آخر کہاں سے آئی؟ بعض نادان یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ اس وقت میرے ساتھ جماعت زیادہ ہے اس لئے میں ترقی کر رہا ہوں.مگر میں کہتا ہوں جب ان کے دعوے کے مطابق میرے ساتھ صرف پانچ فیصدی جماعت تھی تو اُس وقت کون تھا جس نے مجھے پانچ سے پچانوے فیصدی تک جماعت کو لے جانے کی توفیق بخشی.پھر دیکھنے والی بات یہ ہے کہ میں نے اس عرصہ دراز میں صرف غیر مبایعین کا ہی مقابلہ نہیں کیا بلکہ میں نے عیسائیوں کا بھی مقابلہ کیا ہے، میں نے ہندوؤں کا بھی مقابلہ کیا ہے اور میں نے غیر احمدی مسلمانوں کا بھی مقابلہ کیا ہے اور وہ کروڑوں کی تعداد میں تھے.اگر انسانوں پر ہی میری طاقت کا انحصار ہوتا تو کروڑوں مخالفوں کے مقابلہ میں میری ہستی ہی کیا تھی.مگر وہ کروڑوں ہونے کے باوجود مجھے خدا کے فضل سے نا کام نہ کر سکے اور ہر دن جو مجھ پر چڑھا وہ میری کامیابیوں کو زیادہ سے زیادہ روشن کرتا چلا گیا.اسی طرح جب تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد اندرونی منافقوں نے سر نکالا اور جماعت میں انہوں نے فتنہ پیدا کرنا چاہا تو اُس وقت بھی صرف خدا ہی تھا جس نے میری مدد کی اور میں احمدیت کی کشتی کو پُر خطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے اسے ساحل کا میابی پر لے گیا.

Page 589

انوار العلوم جلد 26 537 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش آج بھی ایسے بیسیوں لوگ زندہ ہوں گے جو یہ جانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب وفات پاگئے تو انہی غیر مبایعین کے سر کردہ اصحاب نے جو اُس وقت صدر انجمن احمد یہ پر قابض تھے یہ فیصلہ کیا کہ سلسلہ کا جو روپیہ علماء تیار کرنے پر خرچ ہو رہا ہے یہ بے فائدہ ہے.مدرسہ احمدیہ کو بند کر دینا چاہئے اور صرف ہائی سکول میں دینیات کی تعلیم رکھ کر گزارہ کرنا چاہئے.چنانچہ انہوں نے تمام جماعتوں کو ایجنڈا بھیجا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد پہلے جلسہ کے موقع پر ہی جب تمام جماعتوں کے نمائندے اکٹھے ہوئے انہوں نے مسجد مبارک میں ایک جلسہ کیا اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری اور تیسری کے بعد چوتھی تقریر کی اور کہا کہ اب ہمیں کسی نئے مسئلہ کی ضرورت نہیں کہ علماء تیار کرنا ہمارے لئے ضروری ہو.بہتر ہے کہ مدرسہ احمدیہ کو بند کر دیا جائے اور لڑکوں کو وظائف دے کر سکولوں اور کالجوں میں بھیجا جائے اور انہیں ڈاکٹر اور وکیل بنایا جائے.ان تقریروں کا ایسا اثر ہوا کہ قریباً تمام جماعت اُدھر چلی گئی اور اُن میں اِس قدر جوش بھر گیا کہ میں سمجھتا ہوں اگر مدرسہ احمدیہ کوئی آدمی ہوتا تو وہ اُس کا گلا گھونٹ دیتے.ابھی یہ تقریریں ہو ہی رہی تھیں کہ میں بھی وہاں جا پہنچا.اُس وقت میری عمر بیس سال کی تھی.ساری جماعت ایک طرف تھی اور چونکہ بہت سی تقریریں ہو چکی تھیں اس لئے لوگ اس بات پر زور دے رہے تھے کہ اب مزید تقریروں کی ضرورت نہیں.اس بات کا فیصلہ کر دیا جائے کہ مدرسہ احمدیہ کو بند کیا جاتا ہے.جب میں نے اُس مجلس کی یہ حالت دیکھی تب میرے نفس نے مجھے کہا کہ اگر آج تو نے کچھ نہ کہا اور اس موقع پر نہ بولا تو پھر کب بولے گا.چنانچہ میں تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو گیا.اُس وقت مجھے بعض آواز میں بھی آئیں کہ اب تقریریں بہت ہو چکی ہیں مگر میں نے اُن آوازوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور میں نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ نے جو کچھ فیصلہ کیا ہے یہ آپ کے خیال میں ٹھیک ہوگا.مگر ایک چیز ہے جو اے جماعت احمدیہ کے لوگو! میں آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں.اور وہ یہ کہ ہمارے کام آج ختم نہیں ہو جائیں گے بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں سال تک ان کا اثر چلتا چلا جائے گا.اور دنیا کی نگاہیں ان پر ہوں گی.اور اگر ہم کسی کام کو چھپانا بھی

Page 590

انوار العلوم جلد 26 538 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش سلام..رض چاہیں گے تو وہ نہیں چھپے گا بلکہ تاریخ کے صفحات پر ان واقعات کو نمایاں حروف میں لکھا جائے گا.اس نقطہ نگاہ کو مد نظر رکھتے ہوئے میں آپ کی توجہ اس امر کی طرف پھیرنا چاہتا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الموت سے بیمار ہوئے تو آپ نے اپنی وفات سے کچھ دن پہلے ایک لشکر رومی حکومت کے مقابلہ کے لئے تیار کیا اور حضرت اسامہ بن زید کو اس کا سردار مقرر فرمایا.ابھی یہ لشکر روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور سوائے مکہ اور مدینہ اور طائف کے سارے عرب میں بغاوت رونما ہوگئی.اُس وقت بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ نے مل کر مشورہ کیا کہ اس موقع پر اسامہ کا لشکر باہر بھیجنا درست نہیں کیونکہ ادھر سارا عرب مخالف ہے اُدھر عیسائیوں کی زبر دست حکومت سے لڑائی شروع کر دی گئی تو نتیجہ یہ ہو گا کہ اسلامی حکومت درہم برہم ہو جائے گی.چنانچہ انہوں نے ایک وفد حضرت ابو بکر صدیق کی خدمت میں روانہ کیا اور درخواست کی کہ یہ وقت سخت خطرناک ہے اگر اسامہ کا لشکر بھی عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے چلا گیا تو مدینہ میں صرف بچے اور بوڑھے رہ جائیں گے اور مسلمان عورتوں کی حفاظت نہیں ہو سکے گی.اے ابو بکر ! ہم آپ سے التجا کرتے ہیں کہ آپ اس لشکر کو روک لیں اور پہلے عرب کے باغیوں کا مقابلہ کریں.جب ہم انہیں دبا لیں گے تو پھر اسامہ کے لشکر کو عیسائیوں کے مقابلہ کے لئے روانہ کیا جا سکتا ہے.اور چونکہ اب مسلمان عورتوں کی عزت اور عصمت کا سوال بھی پیدا ہو گیا ہے اور خطرہ ہے کہ دشمن کہیں مدینہ میں گھس کر مسلمان عورتوں کی آبروریزی نہ کرے اس لئے آپ ہماری اس التجا کو قبول فرماتے ہوئے جیش اسامہ کو روک لیں اور اسے باہر نہ جانے دیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عادت تھی کہ جب وہ اپنی منکسرانہ حالت کا اظہار کرنا چاہتے تو اپنے آپ کو اپنے باپ سے نسبت دے کر بات کیا کرتے تھے.کیونکہ ان کے باپ غریب آدمی تھے اور چونکہ ان کے باپ کا نام ابو قحافہ تھا اس لئے اس موقع پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ کیا ابو قحافہ کا بیٹا خلافت کے مقام پر فائز ہونے کے بعد پہلا کام یہ کرے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو آخری مہم تیار

Page 591

انوار العلوم جلد 26 539 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش کی تھی اسے روک دے؟ پھر آپ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر کفار مدینہ کو فتح کرلیں اور مدینہ کی گلیوں میں مسلمان عورتوں کی لاشیں گنتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا.یہ لشکر جائے گا اور ضرور جائے گا.یہ مثال بیان کرنے کے بعد میں نے دوستوں سے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد آپ لوگوں کا بھی یہ پہلا اجتماع ہے.آپ لوگ غور کریں اور سوچیں کہ آئنده تاریخ آپ کو کیا کہے گی.تاریخ یہ کہے گی کہ حضرت ابو بکڑ نے ایسے خطرہ کی حالت میں جبکہ تمام عرب باغی ہو چکا تھا اور جبکہ مدینہ کی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھی کوئی مناسب سامان اُن کے پاس نہ تھا اتنا بھی پسند نہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک تیار کئے ہوئے لشکر کو روک لیں بلکہ آپ نے فرمایا کہ اگر مسلمان عورتوں کی لاشیں گنتے گھسیٹتے پھریں تب بھی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو منسوخ نہیں کروں گا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے اڑھائی سال پہلے دسمبر 1905ء کے جلسہ سالانہ پر تمام جماعت کے دوستوں سے مشورہ لینے کے بعد جس دینی مدرسہ کو قائم فرمایا تھا اور جس کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا تھا کہ وہ عبد الکریم صاحب سیالکوٹی اور مولوی برہان الدین صاحب جہلمی کی یادگار ہوگا اور سلسلہ کی ضروریات کے لئے علماء تیار کرنے کا کام اس کے سپر د ہو گا اسے مسیح موعود کی جماعت نے آپ کے وفات پانے کے معا بعد تو ڑ کر رکھ دیا.کیونکہ جس طرح جیشِ اسامہ کی تیاری کا کام خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا اُسی طرح مدرسہ دینیات کا اجراء خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی آخری عمر میں فرمایا تھا.پس دنیا کیا کہے گی کہ ایک مامور کی وفات کے بعد تو اُس کے متبعین نے اپنی عزتوں کا برباد ہونا پسند کر لیا مگر یہ برداشت نہ کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم باطل ہو لیکن دوسرے مامور کے متبعین نے باوجود اس کے کہ ان کے سامنے کوئی حقیقی خطرہ نہ تھا اس کے ایک جاری کردہ کام کو اس کی وفات کے معا بعد بند کر دیا.جب میں نے یہ کہا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمام لوگوں کے قلوب کو میری

Page 592

انوار العلوم جلد 26 540 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوش سلام..طرف پھیر دیا اور بعض کی تو رقت کی وجہ سے چیخیں نکل گئیں اور سب نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم ہرگز یہ رائے نہیں دیتے کہ مدرسہ احمد یہ بند ہونا چاہئے.ہم اسے جاری رکھیں گے اور مرتے دم تک بند نہیں ہونے دیں گے.تب خواجہ کمال الدین صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے طریق کے مطابق کہا کہ دوستوں کو غلط نہی ہوئی ہے ہمارا مطلب بعینہ وہی تھا جو میاں صاحب نے بیان کیا ہے.یہ خواجہ صاحب کا عام طریق تھا کہ جب وہ دیکھتے کہ اُن کی کسی بات کو لوگوں نے پسند نہیں کیا تو کہتے کہ دوستوں کو غلط نہی ہوگئی ہے.چنانچہ پھر انہوں نے اس غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے ایک تقریر بھی کی مگر آخر میں کہا کہ اس پر مزید غور کر لیا جائے.ابھی ہم کوئی فیصلہ نہیں کرتے.بعد میں ہم خط و کتابت کے ذریعہ مشورہ حاصل کر لیں گے.انہوں نے سمجھا کہ شاید اسی طرح جماعت کی رائے اُن کی تائید میں ہو جائے.چنانچہ کچھ وقفہ کے بعد انہوں نے پھر تمام جماعتوں سے رائے طلب کی مگر جماعت نے یہی لکھا کہ وہی فیصلہ ٹھیک ہے جو ہم قادیان میں کر کے آئے تھے.اب بتاؤ اُس وقت کون تھا جس نے میری مدد کی؟ مجھے تو کہنے والے یہی کہتے تھے کہ اب کسی اور تقریر کی ضرورت نہیں بہت تقریریں ہو چکی ہیں اور معاملہ بالکل صاف ہے مگر خدا نے میری ہر میدان میں تائید کی اور مجھے ہر جگہ مظفر و منصور کیا.بے شک غیر مبایعین ہمیشہ مجھ پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں مگر وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اسلام کے لئے کس کا وجود مفید ثابت ہوا ہے.کیا میرا یا اُن کا ؟ انہوں نے تو یہی کیا کہ وہ شخص جو اسلام کی خدمت کر رہا ہے ، جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نور دنیا میں پھیلا رہا ہے، جو قرآن کریم کی عظمت عالم میں قائم کر رہا ہے اُس پر رکیک اور بے بنیاد حملے کر دئیے.اس قسم کے حملوں سے بھلا کونسا مقدس انسان بیچا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی متعدد اعتراضات لوگوں نے کئے.حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی لوگوں نے کئی اعتراضات کئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اعتراض کرنے والوں نے اعتراض کئے.پس اس قسم کی باتوں سے کیا بنتا ہے.دیکھنے والی بات تو یہ ہے کہ اسلام کو فائدہ کس کے ذریعہ پہنچ رہا ہے.اگر کوئی شخص واقعہ میں یہ سمجھتا ہے کہ میں نے

Page 593

انوار العلوم جلد 26 541 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش اسلام کے غلبہ اور اس کی اشاعت کے لئے جس قدر کام کئے ہیں وہ نَعُوذُ بِاللهِ لغو ہیں اور اسلام کو ان کی بجائے کسی اور رنگ میں کام کرنے سے زیادہ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو میں اُسے کہتا ہوں کہ تم میدان میں آؤ اور کام کر کے دکھاؤ.اگر تمہارا کام اچھا ہوا تو دنیا خود بخود تمہارے پیچھے چلنے لگ جائے گی.آخر دنیا میں کوئی اسلام سے محبت رکھنے والی جماعت ہے یا نہیں ؟ اگر ہے تو تمہیں ماننا پڑے گا کہ جو شخص بھی اسلام کی خدمت کرے گا وہ اُسی کے پیچھے چلے گی.پھر اس میں کونسی مشکل بات ہے.وہ اسلام کی مجھ سے بہتر خدمت کر کے دکھاویں دنیا خود بخود اُن کے پیچھے چل پڑے گی.لیکن اگر ایک جماعت ایسی ہو جو صرف اعتراض کرنا ہی جانتی ہو تو اُسے یاد رکھنا چاہئے کہ یہ دنیا لا وارث نہیں ہے.اس دنیا کا ایک زندہ اور طاقتور خدا ہے.وہ مجھ پر اعتراضات کر سکتے ہیں، وہ میرے خلاف ہر قسم کے منصوبے کر سکتے ہیں، وہ مجھے لوگوں کی نگاہ سے گرانے اور ذلیل کرنے کے لئے جھوٹے الزام لگا سکتے ہیں مگر وہ ان حملوں کے نتیجہ میں میرے خدا کے زبردست ہاتھ سے نہیں بچ سکتے.لیکن میں اسی خدا کے فضلوں پر بھروسہ رکھتے ہوئے کہتا ہوں کہ میرا نام دنیا میں ہمیشہ قائم رہے گا اور گو میں مر جاؤں گا مگر میرا نام کبھی نہیں مٹے گا.یہ خدا کا فیصلہ ہے جو آسمان پر ہو چکا کہ وہ میرے نام اور میرے کام کو دنیا میں قائم رکھے گا.اور ہر شخص جو میرے مقابلہ میں کھڑا ہوگا وہ خدا کے فضل سے ناکام رہے گا.دنیا میں جھوٹ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب مبعوث ہوئے تو دنیا نے آپ پر اعتراضات کئے اور کہا کہ یہ جھوٹا ہے.فریبی ہے.مکار ہے.ضال ہے.دجال ہے.اور اس نے کوشش کی کہ آپ کے نام کو مٹا دے مگر آج ستر اسی سال کے بعد اُس نے دیکھ لیا کہ جس کے نام کومٹانے کے لئے اُس نے اپنی انتہائی کوششیں صرف کر دی تھیں اُس کا نام اکناف عالم میں پھیل گیا اور ہر دن جو چڑھتا ہے وہ آپ کے نام کو اور زیادہ روشن کر دیتا ہے.اسی طرح میں کہتا ہوں میں بھی ایک انسان ہوں مگر بعض انسان ایسے مقام پر کھڑے کر دیئے جاتے ہیں کہ گواُن کی لیڈری کی عمر تھوڑی ہو ، گو اُن کی جسمانی زندگی چند سال کی ہو مگر اُن

Page 594

انوار العلوم جلد 26 542 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش سلام..کے نام کی زندگی ہزاروں سال کی ہوتی ہے اور دنیا کے لوگ اگر کوشش کرتے کرتے مر بھی جائیں تب بھی وہ اُن کے نام کو مٹا نہیں سکتے.اس کی مثالیں ہمیں روحانی پیشواؤں میں بھی دکھائی دیتی ہیں اور دنیوی بادشاہوں میں بھی نظر آتی ہیں.سکندر جس کے ذکر سے آج تاریخ کے صفحات بھرے پڑے ہیں بیس سال کی عمر میں بادشاہ ہوا تھا اور بتیس سال کی عمر میں مر گیا.گویا صرف بارہ سال اسے بادشاہت کے لئے ملے مگر تیس سو سال گزر گئے ہیں اور آج بھی ساری دنیا سکندر کو جانتی اور بچہ بچہ کی زبان پر اُس کا نام آتا ہے.اسی طرح خدا نے مجھے اس مقام پر کھڑا کیا ہے کہ خواہ مخالف مجھے کتنی بھی گالیاں دیں، مجھے کتنا بھی بُرا سمجھیں بہر حال دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کے بھی اختیار میں نہیں کہ وہ میرا نام اسلام کی تاریخ کے صفحات سے مٹا سکے.آج نہیں آج سے چالیس پچاس بلکہ سو سال کے بعد تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں نے جو کچھ کہا تھا یہ صحیح کہا تھا یا غلط.میں بیشک اُس وقت موجود نہیں ہوں گا مگر جب اسلام اور احمدیت کی اشاعت کی تاریخ لکھی جائے گی تو مسلمان مؤ رخ اس بات پر مجبور ہوگا کہ وہ اس تاریخ میں میرا بھی ذکر کرے.اگر وہ میرے نام کو اس تاریخ میں سے کاٹ ڈالے گا تو احمدیت کی تاریخ کا ایک بڑا حصہ کٹ جائے گا.ایک بہت بڑا خلاء واقع ہو جائے گا جس کو پُر کرنے والا اُسے کوئی نہیں ملے گا.پس مجھے ان کے اعتراضات کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ گالیوں اور بد زبانیوں سے میں ڈرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دشمن کہا کرتے تھے کہ تم کابل چلو تو تمہیں پتا لگے کہ تم سے کیا سلوک ہوتا ہے.مگر ان باتوں سے کیا بن گیا ؟ اگر بندوں پر ہی میری نگاہ ہوتی تو بیشک مجھے گھبراہٹ ہو سکتی تھی مگر جس نے خدا تعالیٰ کے جلال اور جمال کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو اور جس نے اُس کے سینکڑوں نشانات کا مشاہدہ کیا ہو وہ دنیا پر نگاہ ہی کب رکھ سکتا ہے.مجھے تو میرے خدا نے اُس وقت جبکہ خلافت کا سوال تک بھی نہیں تھا اور جبکہ میں قریباً پندرہ سولہ سال کا تھا الہام کے ذریعہ یہ بتا دیا تھا کہ اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ

Page 595

انوار العلوم جلد 26 543 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش یعنی وہ لوگ جو تیرے متبع ہیں وہ تیرے نہ ماننے والوں پر قیامت تک غالب رہیں گے.پس یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ جو شخص بھی میری بیعت کا سچا اقرار کرے گا وہ خدا کے فضل سے قیامت تک میرے نہ ماننے والوں پر غالب رہے گا.یہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی ہے جو پوری ہوئی اور ہوتی رہے گی.زمانہ بدل جائے گا، حالات بدل جائیں گے، حکومتیں بدل جائیں گی اور میں بھی اپنے وقت پر وفات پا کر اپنے خدا کے حضور حاضر ہو جاؤں گا مگر خدا تعالیٰ کی یہ بتلائی ہوئی بات کبھی نہیں بدلے گی کہ میرے ماننے والے ہمیشہ میرے نہ ماننے والوں پر غالب رہیں گے.پھر میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ہماری جماعت کو قائم ہوئے 70 سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 1889ء میں اعلان بیعت کیا تھا جس پر 73 سال ہو چکے ہیں.اور اگر دعوی مجددیت کے ابتداء سے اس عرصہ کو شمار کیا جائے تو 80 سال ہو چکے ہیں.بیشک اس عرصہ میں ہم نے ترقی بھی کی، جماعت بھی بڑھی ، تعلیم و تربیت کے ادارے بھی ہم نے قائم کئے لٹریچر بھی ہم نے شائع کیا، اخبارات بھی جاری کئے ، غیر مسلموں کو اسلام میں داخل کیا مگر باوجود اس کے ابھی ہم اُس مقام پر نہیں پہنچے جس مقام پر پہنچنا خدائی جماعتوں کے لئے ضروری ہوتا ہے.نہ ہماری تعداد اتنی ہو چکی ہے کہ ہم اس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگاسکیں کہ آئندہ اتنے سال میں ہماری جماعت ساری دنیا پر غالب آجائے گی.یہ تو ہم کہتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایسا کرے گا مگر جو کام بندوں کے سپرد ہوتے ہیں اُن کے متعلق یہ دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے کہ ان کی تکمیل میں بندوں نے کتنا حصہ لیا ہے.میں نے جماعت کو بار ہا بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی جماعت کے سپر د کوئی کام کرتا ہے تو پہلے سے اُس نے انسانی طاقتوں کا اندازہ کر لیا ہوتا ہے اور وہی کام اُس کے سپرد کیا جاتا ہے جو اُس کی طاقت کے اندر ہو.یہ کبھی نہیں ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی جماعت کے سپر د کوئی کام کیا ہو اور وہ اس کو سرانجام دینے کی اہلیت اپنے اندر نہ رکھتی ہو.پس تمہارے سپرد اللہ تعالیٰ کا یہ کام کرنا کہ تم دنیا میں اسلام کا نور پھیلاؤ ظاہر کرتا ہے کہ تم میں

Page 596

انوار العلوم جلد 26 544 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش سلام..اس کام کی اہلیت موجود ہے.اور اگر تم اخلاص اور قربانی سے کام کرو تو یقیناً اس فرض کو سرانجام دے سکتے ہو.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ معمولی معمولی عذرات کی بناء پر اس اہم فریضہ کی ادائیگی میں تساہل سے کام لینے لگ جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ خود بھی ثواب سے محروم رہتے ہیں اور دنیا کی ظلمت بھی دور نہیں ہوتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جو شخص اس کام میں حصہ لے گا اُسے اپنے وقت کو بھی قربان کرنا پڑے گا ، اپنا مال بھی قربان کرنا پڑے گا، اپنے آرام اور آسائش کو بھی قربان کرنا پڑے گا.لیکن دنیا کا کونسا کام ہے جس کے لئے کوئی قربانی نہیں کی جاتی.اور اگر بغیر کسی قربانی کے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہیں تو اللہ تعالیٰ سے ہم ثواب کے کس طرح امیدوار ہو سکتے ہیں.میں نے اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے جماعت کے دوستوں کو کئی بارتحریک کی کہ ہر فرد کو سال بھر میں کم از کم ایک شخص کو راہِ راست پر لانے کا عہد کرنا چاہئے مگر باجود اس کے کہ صرف ایک شخص کو اور وہ بھی سال بھر میں اسلامی انوار کا گرویدہ بنانے کا عہد کرنا تھا پھر بھی بہت کم دوست اس میں شریک ہوئے.حالانکہ اگر صحیح کوشش سے کام لیا جائے تو انسان سال بھر میں دس دس ہیں ہیں بلکہ سوسو افراد کو بھی حق کا شکار کر سکتا ہے.ہماری جماعت کی تعداد اس وقت دس لاکھ سے کم نہیں.اگر ایک شخص سال بھر میں دس افراد کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرے تو صرف ایک سال میں ہماری تعداد ایک کروڑ تک پہنچ سکتی ہے.اور یہ کوئی مشکل امر نہیں.سیالکوٹ کے ایک دوست تھے جب میں نے یہ تحریک کی تو پہلے سال انہوں نے کہا کہ میں ایک احمدی بناؤں گا.دوسرے سال دو احمدی بنانے کا عہد کیا.تیسرے سال تین احمدی بنانے کا عہد کیا.چوتھے سال چار احمدی بنانے کا عہد کیا.اسی طرح ہوتے ہوتے دس بارہ احمدی بنانے لگ گئے.پھر ایک دفعہ میں نے زیادہ زور دیا تو وہ یہ عہد کر کے گئے کہ میں سواحمدی بناؤں گا.چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس کے بعد برابر اُن کی چٹھیوں میں ذکر ہوتا تھا کہ یہ میرا دسواں احمدی ہے، یہ بیسواں احمدی ہے، یہ چالیسواں احمدی ہے، یہ ساٹھواں یا سترواں احمدی ہے، اور اس طرح انہوں نے سو کی تعداد پوری کر دی.اگر اس روح کے ساتھ کام کرنے والے دس ہزار آدمی بھی ہماری

Page 597

انوار العلوم جلد 26 545 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش سلام..جماعت میں پیدا ہو جائیں اور ان میں سے ہر شخص سال میں صرف دس افراد کی زیادتی کا موجب بن جائے تو سال بھر میں ایک لاکھ اور دوسرے سال میں دس لاکھ نئے افراد ہماری جماعت میں شامل ہو سکتے ہیں.مگر اس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ اپنے اندرا شاعت اسلام کی ایک آگ پیدا کی جائے اور رات دن یہ مقصد اپنے سامنے رکھا جائے کہ ہم نے دنیا بھر کو اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل کرنا ہے.پھر میں نے دیکھا ہے کہ جب بعض لوگ دوسروں کو سمجھا ئیں گے تو اُن میں سنجیدگی نہیں ہوگی.کسی نے مذاق کر دیا تو خود بھی مذاق کر دیں گے.ان میں یہ سنجیدگی کہ دوسرا شخص بھی توجہ دینے اور یہ سمجھنے پر مجبور ہو کہ یہ شخص میری ہدایت کے غم میں مرا جا رہا ہے پائی نہیں جاتی.نو جوان سیروں کو جائیں گے.مجالس میں قہقہے لگائیں گے.دوستوں سے گہیں ہانکنے میں اپنا وقت ضائع کر دیں گے.مگر دنیا کے ظلمت کدہ کو منور کرنے کی طرف ان کی توجہ نہیں ہوگی.اگر ہماری جماعت میں ایک دیوانگی ہوتی تو دس لاکھ یا ایک کروڑ کا بھی سوال نہیں اب تک ہماری جماعت دس کروڑ تک پہنچ چکی ہوتی.پس میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے دلوں میں تبدیلی پیدا کرو.مخالف کی تبدیلی اتنی ضروری نہیں جتنی تمہاری اپنی تبدیلی ضروری ہے.مخالف آج مانے یا کل اگر تمہارے اپنے اندر درد پیدا ہو جائے تو وہ خود بخود مائل ہونا شروع ہو جائے گا.پس ہماری جماعت کے دوستوں کو اپنا سح نظر بلند کرنا چاہئے اور خواہ سفر ہو یا حضر ان کے مد نظر صرف یہی بات ہونی چاہئے کہ ہمارا کام لوگوں کو حقیقی اسلام کی طرف بلانا اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلقہ بگوش بنانا ہے.اس اہم فرض کی ادائیگی کا آسان طریق میں نے بتا دیا ہے کہ آپ لوگوں میں سے ہر شخص یہ عہد کرے کہ وہ سال بھر میں کم از کم ایک بُھولی بھٹکی روح کو آستانہ الہی کی طرف کھینچ لانے کا موجب بنے گا.بلکہ میں سمجھتا ہوں اب ہمیں اس سے بھی آگے قدم بڑھانے کی ضرورت ہے.اور ہماری جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے کہ وہ ایک کی بجائے کم از کم دس نئے افراد کو احمدیت میں شامل کرنے کی کوشش کرے.اگر کسی سال وہ اپنے اس عہد کو پورا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو کم سے کم اس کا اتنا فائدہ تو ضرور ہو گا کہ

Page 598

انوار العلوم جلد 26 546 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش سلام..اُسے اپنے نفس میں شرم محسوس ہوتی رہے گی اور وہ کوشش کرے گا کہ میں دوسرے سال ہی اپنی اس کو تا ہی کا ازالہ کروں.اور نہ صرف گزشتہ کمی کو پورا کروں بلکہ پہلے سے دُگنے آدمیوں کو پیغام حق پہنچا کر اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ہو جاؤں.پس یہ چیز نہایت اہم ہے اور ہماری جماعت کے افراد کو اسے ایسا ہی ضروری سمجھنا چاہئے جیسے چندہ کو ضروری سمجھا جاتا ہے.بلکہ چندے سے بھی زیادہ زور دوستوں سے عہد لینے اور پھر اس عہد کو پورا کروانے پر صرف کرنا چاہئے.کیونکہ چندہ تو بسا اوقات گھر کے تمام افراد میں سے صرف ایک شخص دیتا ہے جو کمانے والا ہوتا ہے لیکن اشاعت حقہ ایک ایسی چیز ہے جو کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ جماعت کے ہر فرد کا فرض ہے.اور پھر آجکل تو خصوصیت سے اس پر زور دینے کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان میں مسلمانوں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر عیسائیوں نے اپنی مذہبی سرگرمیوں میں بہت اضافہ کر دیا ہے.آپ لوگ اُس عظیم الشان انسان کی جماعت میں شامل ہیں جسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کاسر الصليب قرار دیا ہے اور آپ لوگوں کی تبلیغ اسلام کے مخالف تک معترف ہیں.چنانچہ مصر کے ایک مشہور اخبار الفتح نے بھی ایک دفعہ لکھا کہ جماعت احمدیہ کے تبلیغی مراکز یورپ، امریکہ اور افریقہ میں قائم ہو چکے ہیں جو اپنے علم اور کام کے لحاظ سے تو عیسائی مشنوں کے برابر ہیں لیکن کامیابی اور لوگوں کے قلوب فتح کرنے کے لحاظ سے عیسائی پادریوں کو ان سے کوئی نسبت ہی نہیں کیونکہ اُن کے پاس اسلام کی صداقتیں اور اس کے پُر حکمت معارف ہیں.پس آپ لوگوں کی ذمہ داریاں دوسرے مسلمانوں سے بہت زیادہ ہیں.اور عیسائیت کا مقابلہ کرنے کا حقیقی فرض در حقیقت آپ کے کندھوں پر ہی عاید ہوتا ہے.اس لئے جہاں دوسرے مسلمانوں کو سمجھانا اور انہیں احمدیت کی غرض و غایت سے واقف کرنا اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا آپ کا فرض ہے وہاں عیسائیت کے فتنہ کو دور کرنے کے لئے بھی اپنے اپنے علاقہ میں منظم کوشش کرنا اور مسلمانوں کے پسماندہ اور غیر تعلیم یافتہ طبقہ کو عیسائیت کے اثر سے بچانا بھی آپ کے اہم فرائض میں شامل ہے.میں سمجھتا ہوں عیسائیوں میں یہ حرکت بھی اسی لئے پیدا ہوئی ہے کہ ہماری جماعت

Page 599

انوار العلوم جلد 26 547 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش آسمانی نوروں کو پھیلانے میں سستی سے کام لے رہی ہے.اگر مسلمان اس تعلیم سے واقف ہوتے جو احمدیت پیش کرتی ہے تو ان کا ایک حصہ عیسائیت کا شکار ہی کس طرح ہوسکتا تھا.سو آپ لوگ دوسروں کو بھی اسلامی تعلیم سے آگاہ کریں اور خود بھی مسائل سے گہری واقفیت پیدا کریں.یہی اصل عزت ہے جو انبیاء کی جماعتوں کو حاصل ہوتی ہے کہ ایمان لانے کے بعد وہ نہایت جوش اور اخلاص کے ساتھ دین کی باتیں سیکھنے لگ جاتے ہیں.اور پھر وہ اس میں اس قدر ترقی کر جاتے ہیں کہ مخالف مذاہب کا بڑے سے بڑا عالم بھی اُن سے بات کرے تو وہ شرمندہ ہو جاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ان سے دینی مسائل پر بحث کرنا کوئی آسان کام نہیں.میں جب جوان تھا مجھے ڈلہوزی میں ایک پادری سے گفتگو کرنے کا موقع ملا اور میں نے اُس سے تثلیث اور کفارہ پر بحث کی.جب وہ میرے سوالات کا جواب دینے سے عاجز آ گیا تو کہنے لگا کہ سوال تو ہر بے وقوف کر سکتا ہے مگر جواب دینے کے لئے عقلمند آدمی ہونا چاہئے.میں نے کہا میں تو آپ کو منظمند سمجھ کر ہی آیا تھا.غرض عیسائیت کا مقابلہ کرنا کوئی مشکل امر نہیں.ضرورت اس امر کی ہے کہ آپ لوگ اپنے فرائض کی ادائیگی کی طرف توجہ دیں اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کریں.لیکن یہ یا درکھیں کہ دوسروں کے سامنے بات پیش کرنے کا طریق ایسا ہونا چاہئے جس سے محبت اور پیار ظاہر ہو.اور اگر کوئی شخص اپنی ناسمجھی کی وجہ سے آپ کو بُرا بھلا بھی کہے تو مسکراتے چلے جاؤ اور نرمی اور انکسار اور حسنِ اخلاق سے کام لو.اگر تم ایسا کرو گے تو خود بخود اُن کے دلوں میں یہ احساس پیدا ہوگا کہ یہ تو بالکل اور قسم کے انسان ہیں.ہم بُرا بھلا کہہ رہے ہیں اور یہ مسکرا رہے ہیں.ہم سختی کر رہے ہیں اور یہ محبت اور پیار میں بڑھتے جا رہے ہیں.تب وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ یہ لوگ زمینی نہیں بلکہ آسمانی ہیں اور وہ بھی تمہارے کندھوں کے ساتھ اپنا کندھا ملا کر اسلام کی خدمت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بلندی کے لئے کفر کے مقابلہ میں کھڑے ہو جائیں گے.پس اے میرے عزیز و ! تم آسمانی آب حیات کی متلاشی اقوام کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 600

انوار العلوم جلد 26 548 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش اسلام..کے قدموں میں حوض کوثر پر لے جاؤ اور انہیں گندی زیست سے نجات دلانے اور اُن کے اندر ایمان کی حرارت پیدا کرنے کے لئے کا فوری اور زنجبیلی جام پلا ؤ اور اس سانپ کا سر ہمیشہ کے لئے کچل دو جس نے آدم کی ایڑی پر ڈسا تھا اور اُسے جنت ارضی سے نکال دیا تھا.اس وقت ہماری جماعت میدانِ جہاد میں کام کر رہی ہے.اور وہی فوج دشمن کا دلیری سے مقابلہ کر سکتی ہے جس کی صفوں میں انتشار نہ ہو.قرآن کریم نے اس کی اہمیت پر بڑا زور دیا ہے اور بتایا ہے کہ مومنوں کی جماعت جب دشمنوں کے مقابلہ میں سینہ سپر ہوتی ہے تو اس کی کیفیت بنیان مرصوص کی سی ہوتی ہے.یعنی وہ ایک ایسی دیوار کی طرح ہوتے ہیں جس کی مضبوطی کے لئے اُس پر سیسہ پگھلا کر ڈالا گیا ہو ئے.پس اختلافات کو کبھی اپنے قریب بھی نہ آنے دو.ہر شخص جو کسی جماعت میں تفرقہ کا بیج بوتا اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچاتا ہے وہ احمدیت کا بدترین دشمن ہے.اور تمہیں اُسی طرح تباہی کے گڑھے میں گرانا چاہتا ہے جس طرح گزشتہ دور میں مسلمان صدیوں تک تنزل کا شکار رہے.تمہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اسی لئے مبعوث فرمایا ہے کہ دنیا ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو.پس ہر شخص جو اتحاد میں رخنہ اندازی کرتا ہے ، ہر شخص جو اس سکیم کے راستہ میں روک بنتا ہے وہ خدائی ناراضگی کا نشانہ بنتا ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ رویا کے ذریعہ بھی اس کی طرف توجہ دلائی تھی.چنانچہ میں نے ایک شخص کو جسے میں کوئی بادشاہ یا رئیس سمجھتا ہوں اور جو میرے سامنے بیٹھا تھا ر دیا میں کہا کہ دیکھو جو شخص ایسے نازک وقت میں بھی اتحاد کے لئے کوشش نہیں کرتا وہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گردن اونچی کس طرح کر سکے گا.“ جب میں نے یہ فقرہ کہا تو میرے دل میں بہت زیادہ جوش پیدا ہو گیا اور رقت کے ساتھ میرے گلے میں پھندا پڑ گیا اور میری آنکھوں میں آنسو آ گئے اور میں نے اپنے سامنے کے شخص کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

Page 601

انوار العلوم جلد 26 549 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش ” جب تم لوگوں میں سے کوئی شخص اپنے بیٹے کے پھٹے ہوئے کپڑے دیکھتا ہے تو اُس کے دل میں سوز و گداز پیدا ہو جاتا ہے اور رقت پیدا ہو جاتی ہے اور اُس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں.مگر تمہیں یہ خیال نہیں آتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی طرف منسوب ہونے والوں کا تفرقہ دیکھتے ہوں گے تو اُن کو کتنی تکلیف ہوتی ہو گی.جو شخص ایسے وقت میں بھی باہمی اتحاد کی طرف قدم نہیں اٹھاتا یقیناً وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گردن اٹھا کے کھڑا نہیں 66 ہو سکے گا.“ پس اتحاد کی اہمیت کو سمجھو، اشاعتِ اسلام کا فرض اپنے سامنے رکھو اور دعاؤں، عبادت اور ذکر الہی پر زور دو تا کہ آسمان سے خدا تعالیٰ کے فرشتے تمہاری مدد کے لئے نازل ہوں اور جو کام تمہارے کمزور ہاتھ نہیں کر سکتے وہ فرشتوں کی مدد سے آسانی کے ساتھ ہونے لگیں.یہ امر یا درکھو کہ کوئی حقیقی فتح فرشتوں کی مدد کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی.آخر وہ آسمان سے زمین پر کیوں آئیں.وہ اُسی وقت زمین پر آتے ہیں جب بنی نوع انسان کا ایک طبقہ انتہائی جوش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا نام بلند کر رہا ہو.پس اگر تم دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دو گے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے بیتاب ہو کر تمہاری طرف دوڑے چلے آئیں گے.اور کہیں گے کہ جب یہ خدا کے کمزور بندے ہو کر اس قدر کوشش کر رہے ہیں تو ہم خدا کے فرشتے ہو کر کیوں نہ کام کریں.اور جب خدا تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لئے اتر آئیں گے تو تمہاری فتح میں کوئی شبہ ہی نہیں رہ سکتا.پھر جس میدان میں بھی تم لڑو گے تمہارے ساتھ فرشتے بھی لڑیں گے اور جب تمہارے ساتھ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہوں گے تو تمہارے مقابل پر کون ٹھہر سکتا ہے.اب میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اسلام کے لئے سچی اور مستقل قربانی کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے اندر ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ پیدا فرمائے جو

Page 602

انوار العلوم جلد 26 550 اُس دن کو قریب سے قریب تر لانے کی کوشش اسلام اور احمدیت کے انوار پھیلانے کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنے کے لئے تیار ہوں.اور اللہ تعالیٰ وہ دن جلد لائے جب اسلام کا جھنڈا ساری دنیا میں اپنی پوری شان کے ساتھ لہرانے لگ جائے.اسی طرح میں دعا کرتا ہوں کہ ہمارے وہ مربی جو پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور وہ مبلغ جو پاکستان سے باہر غیر ممالک میں اسلام کی تبلیغ کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سب کا حافظ و ناصر ہو اور اُن کو اپنی خاص تائید اور نصرت سے بہرہ ور فرمائے.اور خواہ ہمارا مبلغ کسی ملک میں اکیلا اور تن تنہا پھر رہا ہو پھر بھی اللہ تعالیٰ اپنی نصرت اور تائید سے اُسے ایسی طاقت بخشے کہ وہ دنیا کے بڑے سے بڑے انسان کو بھی اپنے علم اور اپنی روحانیت سے مغلوب کر سکے.پھر اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے چھوٹوں اور بڑوں ، ہمارے مردوں اور عورتوں ، ہمارے بچوں اور بوڑھوں ، ہمارے بیماروں اور تند رستوں غرض سب کو اپنی پناہ میں لے لے.اپنا فضل ان کے شاملِ حال رکھے، اپنی برکات اُن پر نازل کرے، اپنے رحم اور کرم سے اُن کو نوازے اور ہماری جماعت کو اپنے خاص فضل سے ایک عرصہ دراز تک جو حیرت انگیز اور معجزانہ طور پر دراز ہو دنیا میں اپنا نام روشن کرنے اور دین کا جھنڈا بلند کرنے کا موجب بنا دے.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَلَمِيْنَ.1 : تاریخ طبری جلد 2 صفحہ 246 مطبوعہ بیروت 2012ء 2 تاريخ الخلفاء للسیوطی صفحہ 51 مطبوعہ لاہور 1892ء ( دستخط ) مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی "28-12-41961 ( الفضل 3 جنوری 1962ء) 3: إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِهِ صَفًّا كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوصٌ (الصف:5)

Page 603

انوار العلوم جلد 26 551 جلسہ سالانہ 1962ء کے افتتاحی و اختتام جلسه سالانہ 1962ء کے افتتاحی و اختتامی اجلاسات کیلئے پیغامات از رنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 604

انوار العلوم جلد 26 552 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی و اختتام

Page 605

انوار العلوم جلد 26 553 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی واختا بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلسہ سالانہ 1962ء کے افتتاحی اجلاس کیلئے پیغام یہ پیغام 26 دسمبر 1962ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس میں حضور کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا ) أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ.نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے ہمیں اپنی زندگیوں میں ایک بار پھر آپس میں ملنے اور اپنے ذکر کو بلند کرنے کے لئے اس اجتماع میں شامل ہونے کی توفیق بخشی.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے آپ لوگوں کا یہاں آنا مبارک کرے اور جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی ہے اس کو پورا کرنے کی آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آپ لوگ یاد رکھیں کہ ہمارا یہ جلسہ دنیوی میلوں کا رنگ نہیں رکھتا بلکہ خالص دینی مقاصد کو ترقی دینے اور باہمی اخوت اور محبت بڑھانے کے لئے اس کی بنیا د رکھی گئی ہے اس لئے ان ایام کو ضائع نہ کریں بلکہ ان سے ایسے رنگ میں فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں کہ جب آپ واپس جائیں تو آپ اپنے دلوں میں محسوس کریں کہ آپ کے ایمان اور آپ کے اخلاص اور آپ کے علم اور آپ کے عمل میں ایک نمایاں ترقی ہوئی ہے اور آپ کی روحانیت اور باطنی پاکیزگی میں اضافہ ہوا ہے.اگر آپ اس جلسہ سے یہ فائدہ اٹھا لیں تو یقیناً آپ کامیاب ہو گئے.اور اگر آپ لوگ اپنے اندر کوئی تغیر محسوس نہ کریں تو آپ کو

Page 606

انوار العلوم جلد 26 554 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی واخذ اپنے اعمال کا محاسبہ کرنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ جس شخص کے دو دن بھی نیکی کے لحاظ سے برابر رہے وہ گھاٹے میں رہا.اور آپ کے لئے تو جلسہ کے تین دن رکھے گئے ہیں.اگر ان تین دنوں میں بھی آپ کے اندر کوئی تغیر پیدا نہ ہو تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ آپ کتنے بڑے گھاٹے میں رہیں گے.پس یہ ایام بہت زیادہ فکر کے ساتھ بسر کریں اور اٹھتے بیٹھتے دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دیں.تقریروں سے فائدہ اٹھائیں اور سلسلہ کی ضروریات کا علم حاصل کر کے ان میں حصہ لینے کی کوشش کریں.مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے جلسہ میں شامل نہیں ہو سکا لیکن میرا یہ پیغام ہے جو آپ لوگ یا درکھیں کہ دنیا کی نجات اس وقت آپ لوگوں سے وابستہ ہے اس لئے اشاعتِ اسلام اور اشاعتِ احمدیت کی ہمیشہ کوشش کرتے رہیں اور اپنے نمونہ سے لوگوں کے دلوں کو احمدیت کی طرف مائل کریں.جس طرح ہر مغز اپنے ساتھ ایک قشر رکھتا ہے اسی طرح اشاعت اسلام کا کام بھی جہاں ظاہری جد و جہد سے تعلق رکھتا ہے جو اس کا ایک جسم ہے وہاں اس کا مغز اور اس کی روح وہ اخلاص اور تبتل الی اللہ ہے جو ایک سچے مومن کے اندر پایا جاتا ہے اور جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی تائید آسمان سے نازل ہوتی ہے.جس طرح قربانیوں کا گوشت اور خون خدا تعالیٰ کو نہیں پہنچتا بلکہ دل کا اخلاص اور تقوی خدا تعالیٰ تک پہنچتا ہے اسی طرح صرف ظاہری جد و جہد خدا تعالیٰ کے حضور مقبول نہیں ہوتی بلکہ وہ جد و جہد مقبول ہوتی ہے جس میں تقویٰ اور اخلاص اور روحانیت کی چاشنی بھی موجود ہو.اور جس شخص کے اندر سچا اخلاص اور تقوی پایا جائے اُس کے جوارح پر بھی اس کا اثر پڑتا ہے اور وہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جاتا ہے.جب لوگ اسے دیکھتے ہیں تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ بظاہر دیکھنے میں تو یہ شخص بھی ہماری طرح ہی ہے لیکن اس کے اخلاق ہم سے اعلیٰ ہیں.اس کی عادات ہم سے بہتر ہیں.اس کے اندر نماز اور روزہ اور دعاؤں اور صدقات کا زیادہ شغف پایا جاتا ہے اور یہ ہر قسم کے رذائل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے.اگر یہ شخص اپنے اندر ایک نیک اور پاک تغیر پیدا کرنے میں کامیاب ہو گیا ہے تو ہم کیوں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے وہ

Page 607

انوار العلوم جلد 26 555 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی و اختتام بھی احمدیت کو قبول کر لیتے ہیں.کیونکہ فطرتی طور پر ہر انسان پاکیزگی کا خواہشمند - صرف بیرونی علائق اور روکیں ہی ہیں جو اسے خدا تعالیٰ سے دُور رکھتی ہیں لیکن جب کوئی نیک نمونہ اس کے سامنے آتا ہے تو اس کی خوابیدہ فطرت بیدار ہو جاتی ہے اور وہ بھی د نیوی علائق کو توڑ کر اللہ تعالیٰ کے آستانہ کی طرف جھک جاتا اور اس سے سچا تعلق پیدا کر لیتا ہے.پس احمدیت پھیلانے کے لئے اپنا نیک نمونہ لوگوں کے سامنے پیش کرو اوران کی ہدایت سے کبھی مایوس نہ ہو.تمام دل اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ جب چاہے تغیر پیدا کر دیتا ہے.دیکھو فتح مکہ تک تمام عرب کفر و شرک میں گرفتار تھا مگر ادھر مکہ فتح ہوا اور اُدھر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے دل کھول دیئے اور وہ جوق در جوق اسلام میں شامل ہونے لگ گئے.یہاں تک کہ وہ ہندہ بنت عتبہ جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ کا کلیجہ تک نکلوایا تھا وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئی.اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے یہ اقرار لیا کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو ہندہ جو ایک دلیر عورت تھی فوراً بول اٹھی کہ یا رسول اللہ ! کیا اب بھی ہم شرک کریں گی؟ آپ اکیلے اور بے یار و مدگار تھے، کوئی جماعت آپ کے ساتھ نہ تھی ، کوئی ہتھیار آپ کے پاس نہ تھے اور دوسری طرف سارا مکہ تھا اور بڑے بڑے سردار آپ کے مقابلہ میں تھے مگر آپ کا خدا جیتا اور ہمارے بت ہار گئے ، کیا اتنا بڑا نشان دیکھنے کے بعد بھی ہم بت پرستی کر سکتی ہیں ؟1 اب دیکھو ہندہ بنت عتبہ کتنی شدید دشمن تھی مگر پھر کس طرح ایک دن سچے دل سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئی.اسی طرح ایک اور شخص کا واقعہ ہے جو غزوہ حنین سے تعلق رکھتا ہے.جب حنین کی جنگ ہوئی تو مکہ کے ہزاروں نو مسلم بھی اس جنگ میں شریک ہو گئے.مگر چونکہ ایمان ابھی اُن کے دلوں میں راسخ نہ تھا اس لئے جب دشمن نے تیروں کی بوچھاڑ کی تو سب سے پہلے مکہ کے نو مسلم میدانِ جنگ سے بھاگے اور اُن کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کی سواریوں کے قدم بھی اکھڑ گئے اور انہوں نے بھی میدانِ جنگ سے بھاگنا شروع کر دیا.جب

Page 608

انوار العلوم جلد 26 556 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی واخ صحابہؓ نے یہ حالت دیکھی تو انہوں نے بڑی سختی سے اپنی سواریوں کو روکنا شروع کیا مگر وہ اتنی خوف زدہ تھیں کہ ذرا باگ ڈھیلی ہوتی تو وہ پھر پیچھے کو دوڑ پڑتیں.اس جنگ میں ایک وقت ایسا آیا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد صرف چند صحابہ رہ گئے.اُس وقت ایک شخص جو دل سے کا فر تھا اور صرف اس لئے جنگ میں شامل ہوا تھا کہ مجھے موقع ملا تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا اس نے جب دیکھا کہ اس افراتفری کی وجہ سے میدان خالی پڑا ہے تو اُس نے اِس موقع کو غنیمت سمجھا اور اپنی تلوار کھینچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھنے لگا.وہ شخص خود بیان کرتا ہے کہ جب میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع ہوا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ بھڑک رہا ہے اور قریب ہے کہ وہ مجھے بھسم کر دے.اتنے میں مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ ! میرے قریب ہو جاؤ.جب میں آپ کے قریب گیا تو آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر پھیرا اور فرمایا اے خدا ! شیبہ کو ہر قسم کے شیطانی خیالات سے نجات دے.شیبہ کہتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پھیر نا تھا کہ تمام شیطانی خیالات یکدم میرے دل سے نکل گئے اور یا تو میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے کی نیت سے آگے بڑھا تھا اور یا یہ کیفیت ہوئی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارے نظر آنے لگے.پھر آپ نے فرمایا شیبہ! آگے بڑھو اور دشمن سے لڑو.تب میں آگے بڑھا اور میں نے دشمن سے لڑائی شروع کر دی اور میں اتنے جوش کے ساتھ لڑا کہ خدا کی قسم ! اگر اُس وقت میرا باپ بھی میرے سامنے آتا تو میں اُس کے پیٹ میں اپنا خنجر گھونپ دیتا اور اس کے مارنے سے قطعاً دریغ نہ کرتا.پس مشکلات کو دیکھ کر کبھی گھبراؤ نہیں.اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی فتح مقدر کر رکھی ہے.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے ایک وقت آئے گا کہ خدا اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادۃ برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائے گی.2

Page 609

انوار العلوم جلد 26 557 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی و اختتا بے شک لوگ ہمیں پیغامِ حق پہنچانے کی وجہ سے تنگ کر سکتے ہیں، ہمیں گالیاں دے سکتے ہیں، ہمیں اپنے مظالم کا نشانہ بنا سکتے ہیں لیکن وہ ہمارے سلسلہ کو نہیں مٹا سکتے کیونکہ خدا اس کی دائمی زندگی کا عرش سے فیصلہ کر چکا ہے.اور جو چیز خدا نے ہمیں دے دی اُسے کوئی انسان ہم سے چھینے کی طاقت نہیں رکھتا.پس احمدیت کو پھیلانے کی جد و جہد جاری رکھو اور اپنی نسلوں در نسلوں کو وصیت کرتے چلے جاؤ کہ انہوں نے احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلانا ہے.بے شک یہ بہت بڑا کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ اس وقت ہماری جماعت کے ہاتھوں سے یہ کام لینا چاہتا ہے.پس مبارک ہے وہ جس نے یہ کام سرانجام دیا اور افسوس اُس پر جو اس کام کے لئے آگے نہ بڑھا اور اس نے یہ قیمتی موقع ضائع کر دیا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو اس بابرکت اجتماع سے ہر رنگ میں فائدہ اٹھانے اور اپنے اندر ایک نیک اور پاک تغیر پیدا کرنے کی توفیق بخشے تا کہ اسلام کی اشاعت کا کام جو صرف ہماری زندگیوں تک محدود نہیں بلکہ قیامت تک آنے والی نسلوں تک ممتد ہے وہ پوری شان کے ساتھ سرانجام پائے اور ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے وارث ہوں.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَلَمِيْنَ 1 تفسیر رازی جلد 29 صفحہ 307 مطبوعہ طہران 1328ھ خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی "25-12-1962 (الفضل یکم جنوری 1963 ء) 2: السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 127 ،128 مطبوعہ مصر 1935ء 3 : تذکرۃ الشہادتین.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 66

Page 610

انوار العلوم جلد 26 558 جلسہ سالانہ 1962ء کے افتتاحی و اختتام جلسہ سالانہ 1962ء کے اختتامی اجلاس کیلئے پیغام یہ پیغام 28 دسمبر 1962ء کو جلسہ سالانہ کے اختتامی اجلاس میں حضور کی زیر ہدایت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے پڑھ کر سنایا ) اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ.نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جب 1908ء میں انتقال ہوا تو اُس وقت میری عمر صرف ہیں سال کے قریب تھی.اُس وقت میں نے دیکھا کہ جماعت کے بعض دوستوں کے قدم لڑکھڑا گئے اور اُن کی زبانوں سے اس قسم کے الفاظ نکلے کہ ابھی تو بعض پیشگوئیاں پوری ہونے والی تھیں مگر آپ کی وفات ہوگئی ہے.اب ہمارے سلسلہ کا کیا بنے گا؟ جب میں نے یہ الفاظ سنے تو اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک جوش پیدا کیا.میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نعش کے سرہانے کھڑا ہو گیا اور میں نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے اُسی کی قسم کھا کر یہ عہد کیا کہ اے میرے رب! اگر ساری جماعت بھی اس ابتلاء کی وجہ سے کسی فتنہ میں پڑ جائے تب بھی میں اکیلا اس پیغام کو جو تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ بھیجا ہے دنیا کے کناروں تک پہنچانے کی کوشش کروں گا اور اُس وقت تک چین نہیں لوں گا جب تک کہ میں ساری دنیا تک احمدیت کی آواز نہ پہنچا دوں.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اس نے محض اپنے فضل سے مجھے اس عہد کو پورا کرنے کی

Page 611

انوار العلوم جلد 26 559 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی و اختتام توفیق عطا فرمائی اور میں نے آپ کے پیغام کو دنیا کے کناروں تک پہنچانے کے لئے اپنی تمام زندگی وقف کر دی جس کا نتیجہ آج ہر شخص دیکھ رہا ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک میں ہمارے مشن قائم ہو چکے ہیں اور ہزار ہا لوگ جو اس سے پہلے شرک میں مبتلا تھے یا عیسائیت کا شکار ہو چکے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجنے لگ گئے ہیں.لیکن ان تمام نتائج کے باوجود یہ حقیقت ہمیں کبھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی اس وقت اڑھائی ارب کے قریب آبادی ہے اور ان سب کو خدائے واحد کا پیغام پہنچانا اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حلقہ بگوشوں میں شامل کرنا جماعت احمدیہ کا فرض ہے.پس ایک بہت بڑا کام ہے جو ہمارے سامنے ہے اور بڑا بھاری بوجھ ہے جو ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا گیا ہے.اتنے اہم کام میں اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور نصرت کے سوا ہماری کامیابی کی کوئی صورت نہیں.ہم اس کے عاجز اور حقیر بندے ہیں اور ہمارا کوئی کام اس کے فضل کے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوسکتا اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہم ہر آن اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں اور دعائیں کرتے رہیں کہ وہ ہمارے راستہ سے ہر قسم کی مشکلات کو دور کرے اور ہمیں کامیابی کی منزل تک پہنچا دے.بے شک ہم اس وقت دنیا کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کی حیثیت بھی نہیں رکھتے لیکن اگر ہم صبر اور ہمت اور استقلال سے کام لیں گے اور دعاؤں میں لگے رہیں گے اور کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ایک تغیر پیدا کر دے گا اور وہی لوگ جو اس وقت ہمیں اپنے مخالف دکھائی دیتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو صداقت کی طرف کھینچ لائے گا.تمہیں یا درکھنا چاہئے کہ اس وقت اسلام کا جھنڈا خدا تعالیٰ نے تمہارے ہاتھ میں دیا ہے اور تم پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد کی ہے.پس جس طرح صحابہ نے اپنی موت تک اسلام کے جھنڈے کو سرنگوں نہیں ہونے دیا اسی طرح تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اسلام کا جھنڈا ہمیشہ بلند رکھو اور نہ صرف اپنے اخلاق اور عادات میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کرو بلکہ آئندہ نسلوں کو بھی اسلامی رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرو.

Page 612

انوار العلوم جلد 26 560 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی و اختتام اگر اس زمانہ میں بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب کا زمانہ ہے کوئی شخص احمدی کہلاتے ہوئے اس تعلیم پر نہیں چلتا جو اسلام نے دنیا کے سامنے پیش کی ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے کیا عذر پیش کر سکے گا ؟ بندوں کے سامنے تو تم ہزار عذر کر سکتے ہومگر خدا تعالیٰ کے سامنے جب اولین و آخرین جمع ہوں گے تم اس بات کا کیا جواب دو گے کہ تم نے کیوں خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل نہ کیا اور کیوں اپنی آئندہ نسلوں کی اصلاح کی کوشش نہ کی؟ اور اگر خدا کے سامنے پیش کرنے کے لئے تمہارے پاس کوئی عذر نہیں تو تم کیوں اپنے دلوں کی اصلاح کی طرف توجہ نہیں کرتے جس کے بغیر کوئی کامیابی اور فتح حاصل نہیں ہو سکتی.پس میں تمام دوستوں سے کہتا ہوں کہ اپنی تعلیم و تربیت کی طرف خاص توجہ کرو.اپنے بچوں کی تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنی جماعت کی تربیت کی طرف توجہ کرو.اپنے اخلاق کی اصلاح کرو.قرآن کریم کے درس ہر جگہ جاری کرو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں پڑھو اور پھر ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کرو اور تبلیغ پر زور دو.مجھے حیرت آتی ہے جب میں جماعت کے بعض دوستوں کے متعلق سنتا ہوں کہ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں اور جماعتی اتحاد کو نقصان پہنچاتے ہیں.میں ایسے تمام دوستوں کو کہتا ہوں کہ اے بھائیو ! کیا وعظ ونصیحت صرف دوسروں کے لئے ہی ہے تمہارے لئے نہیں؟ کیا یہ جائز ہے کہ تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے حقیقی مقصد کو فراموش کر دو اور جماعت کی کمزوری اور اس کی بدنامی کا موجب بنو میں تمہیں قرآنی الفاظ میں ہی کہتا ہوں کہ اے مومنو! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تمہارے دل خدا تعالیٰ کے خوف سے بھر جائیں اور تم دوسروں کے لئے ٹھوکر کا موجب بننے کی بجائے اسلام اور احمدیت کی طرف راغب کرنے کا موجب بنو ؟ ان مختصر کلمات کے ساتھ میں آپ کو رخصت کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ آپ لوگوں نے ان ایام میں جو مفید باتیں سنی ہیں اللہ تعالیٰ ان پر آپ سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ کے دلوں میں وہ نور ایمان پیدا کرے جو احمدیت پیدا کرنا چاہتی ہے اور جماعت کی ترقی کے راستے کھولے.یہ امر اچھی طرح یا درکھو کہ

Page 613

انوار العلوم جلد 26 561 جلسہ سالانہ 1962 ء کے افتتاحی و اختتام اسلام اور احمدیت کی خدمت ایک عظیم الشان نعمت ہے جو خدا تعالیٰ نے صدیوں کے بعد آپ لوگوں کو عطا فرمائی ہے.پس اس نعمت کی قدر کرو اور اپنے آپ کو اسلام اور احمدیت کا سچا اور حقیقی پیرو بناؤ.اسی طرح آئندہ نسلوں کو بھی نیک اور پاک ماحول میں رکھو.انہیں دعاؤں اور ذکر الہی کا عادی بناؤ اور انہیں ان کی دینی ذمہ داریوں سے ہمیشہ آگاہ کرتے رہو تا کہ قیامت کے دن ہم خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو سکیں اور ہما را سر اس فخر سے اونچا ہو کہ ہم نے ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا ہے.اے خدا ! تو ایسا ہی کر.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ.خاکسار مرزا محمو د احمد خلیفہ المسیح الثانی "27-12-1962 تاریخ احمدیت جلد 21 صفحہ 563 تا 565)

Page 614

Page 615

انوار العلوم جلد 26 563 جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی واختتام جلسہ سالانہ 1963ء کے افتتاحی و اختتامی اجلاسات کے لئے پیغامات سیدن از حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 616

انوار العلوم جلد 26 564 جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی واختتام

Page 617

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 565 جلسہ سالانہ 3 196 ء کے افتتاحی و اختتام نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی اجلاس کیلئے پیغام یہ پیغام 26 دسمبر 1963ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس میں حضور کی زیر ہدایت مکرم مولا نا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنایا ) اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ.نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جس نے آپ لوگوں کو اس سال پھر یہ تو فیق عطا فرمائی کہ آپ اس کے مامور کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دنیوی علائق اور زنجیروں کو توڑ کر اپنی رور حانی اور علمی ترقی کے لئے مرکز سلسلہ میں تشریف لائے.یہ آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے اس کے مامور کو مان لیا اور پھر اس کی طرف سے جو آواز اٹھی اُسے آپ نے سنا اور اُس پر عمل کیا.بے شک ہمارا یہ جلسہ دوسرے دنیوی جلسوں سے مشابہت رکھتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اسے اُن سے ایک نمایاں امتیاز حاصل ہے.وہ لوگ محض دنیوی ترقی اور مفاد سے تعلق رکھنے والی سکیموں کے ماتحت اکٹھے ہوتے ہیں لیکن آپ لوگوں کا یہ اجتماع خالص روحانی ہے جس سے کوئی دنیوی غرض وابستہ نہیں بلکہ آپ صرف اس لئے اکٹھے ہوئے ہیں کہ خدا اور اُس کے رسول کی باتیں سن کر اپنے ایمانوں کو تازہ کریں اور اُس کے دین کی خدمت کا ایک ولولہ اپنے اندر پیدا کر کے واپس جائیں.پس آپ لوگوں کی مشابہت دنیا دار لوگوں.نہیں بلکہ آپ اُن صحابہ کرام سے مشابہت رکھتے ہیں جو غزوہ حنین میں اپنی سواریوں کی

Page 618

انوار العلوم جلد 26 566 جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی و اختتام گردنیں کاٹ کر خدا کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد جمع ہو گئے تھے.آپ لوگ جانتے ہیں کہ غزوہ حنین میں دشمنوں کے تیر اندازوں نے اسلامی لشکر پر اپنے تیروں کی بوچھاڑ کی تو اُس وقت مکہ کے نو مسلم بڑے بڑے دعووں کے ساتھ اگلی صفوں میں جارہے تھے.وہ تیروں کی بوچھاڑ کی تاب نہ لا کر پیچھے کی طرف بھاگے اور ان کے بھاگنے کی وجہ سے صحابہ کی سواریاں بھی بدک گئیں اور وہ بھی پیچھے کی طرف دوڑنے لگیں.یہاں تک کہ میدان خالی ہو گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اپنے چند صحابہ کے ساتھ کھڑے رہ گئے.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس سے فرمایا کہ عباس ! تم زور سے آواز دو کہ اے وہ صحابہ جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لو گو جو سورہ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.صحابہ کہتے ہیں ہمارے کانوں میں یہ آواز آئی تو ہمیں یوں محسوس ہوا کہ جیسے حشر کا دن ہے اور صور اسرافیل پھونکا جا رہا ہے.اُس وقت ہم میں سے جس کی سواری مرسکی اُس نے موڑ لی اور جس کی سواری نے مڑنے سے انکار کیا اُس نے تلوار سے اُس کی گردن کاٹ دی.اور خود دوڑتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گیا.1 اس زمانہ میں بھی اسلامی لشکر اعداء کے نرغہ میں گھرا ہوا ہے اور آج بھی کفر کا ہر سپاہی اسلام پر تیروں کی بوچھاڑ کر رہا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اظلال کے ذریعہ مسلمانوں کو آواز دے رہے ہیں کہ اے مومنو! تمہاری سواریاں کہاں جا رہی ہیں؟ آؤ اور میرے ارد گرد جمع ہو جاؤ.آپ لوگوں کی خوش قسمتی ہے کہ آپ نے صحابہ کی طرح اپنے دنیوی علائق کی سواریوں کی گردنیں کاٹیں اور اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنے کے لئے اس کے مرکز میں جمع ہو گئے.پس میں آپ لوگوں کو اس قربانی کی توفیق ملنے پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آئندہ بھی آپ کو سلسلہ کی ترقی کے لئے ہر قسم کی قربانی کی توفیق دے، آپ کے عمل میں برکت ڈالے اور آپ کو نیکی اور تقویٰ کی صلاحیتوں سے ہمیشہ بہرہ ور رکھے.

Page 619

انوار العلوم جلد 26 567 جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی واختتام مجھے ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر آنے والوں کے متعلق اللہ تعالی کی طرف سے الہاماً یہ دعا سکھائی گئی تھی کہ اَللَّهُمَّ زِدْ فَزِدْ عَلَى نَهْجِ الصَّلَاحِ وَالْعِفَّةِ یعنی اے خدا ! آنے والے تو آئیں گے مگر تو انہیں تو فیق عطا فرما کہ وہ نیکی اور اخلاص اور عفت کے راستوں پر چلتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں اور تیری رضا حاصل کریں.پس تقویٰ اور عفت کے راستوں پر قدم ماریں اور ان ایام کو دعاؤں اور ذکر الہی میں بسر کریں اور آپس میں اخوت اور محبت بڑھانے کی کوشش کریں کہ اسی میں خدا اور اُس کے رسول کی خوشنودی ہے اور اسی میں ہماری جماعت کی ترقی وابستہ ہے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کو اس اجتماع کی برکات سے بہرہ ور فرمائے اور ابد الآباد تک اُس کی تائید اور نصرت آپ کے شاملِ حال رہے.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی "25-12-1963 ( الفضل یکم جنوری 1964ء)

Page 620

انوار العلوم جلد 26 568 جلسہ سالانہ 1963 ء کے افتتاحی واختتام جلسہ سالانہ 1963 ء کے اختتامی اجلاس کے لئے پیغام (سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا یہ پیغام مورخہ 28 دسمبر 1963ء کوحضور کی ہدایت کے مطابق مکرم مولانا جلال الدین صاحب شمس نے پڑھ کر سنایا ) ” اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اپنے خاص فضل سے یہاں تین دن دعاؤں اور ذکر الہی میں بسر کرنے اور خدا اور اُس کے رسول کی باتیں سننے کی جو تو فیق عطا فرمائی ہے اُس کا یہ احسان تقاضا کرتا ہے کہ اب آپ پہلے سے بھی زیادہ دعاؤں اور انابت الی اللہ پر زور دیں اور سلسلہ کی اشاعت اور اسلام کی ترقی کے لئے والہا نہ جد و جہد سے کام لیں اور اس بارہ میں کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں.یہ امر یا درکھیں کہ وہی شاخ سرسبز رہ سکتی ہے جس کا اپنے درخت کے ساتھ پیوند ہو.ور نہ اگر ایک تازہ شاخ کو درخت سے کاٹ کر پانی کے تالاب میں بھی ڈال دیا جائے تو وہ کبھی سر سبز نہیں رہ سکتی.پس مرکز کے ساتھ اپنے تعلقات کو استوار رکھو اور اسلام اور احمدیت کی اشاعت پر بہت زور دو اور اپنی آئندہ نسل کی درستی کا فکر کرو.مجھے نظر آ رہا ہے

Page 621

انوار العلوم جلد 26 569 جلسہ سالانہ 3 196 ء کے افتتاحی و اختتام کہ جماعت کو اپنی آئندہ نسل کی درستی کا خاص فکر نہیں اور یہ ایک نہایت ہی خطر ناک بات ہے.چنانچہ اس کا ثبوت یہ ہے کہ تحریک جدید کے دو راول میں تو بڑی کثرت کے ساتھ لوگوں نے حصہ لیا مگر نئے دور میں شامل ہونے والوں کی تعداد اُن کی نسبت کے لحاظ سے بہت کم ہے.اور پھر جو لوگ وعدہ کرتے ہیں وہ وقت کے اندر اپنے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ اشاعتِ اسلام کا کام کسی ایک نسل کے ساتھ وابستہ نہیں بلکہ قیامت تک اس نے جاری رہنا ہے.پس اپنے اندر صحیح معرفت پیدا کرو اور اپنی آئندہ نسلوں کو اسلام کا بہادر سپاہی بنانے کی کوشش کرو.اور اس نکتہ کو کبھی مت بھولو کہ قربانی اپنا پھل تو ضرور لاتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ ہر قربانی کا پھل قربانی کرنے والا ہی کھائے.جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ساری قربانیوں کا پھل وہ خود ہی کھائے اُس سے زیادہ نادان اور کوئی نہیں ہوسکتا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک وادئ غیرِ ذِي زَرْعٍ میں رکھا مگر اُس کا پھل ایک مدت دراز کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل میں ظاہر ہوا اور دنیا اس پھل کو دیکھ کر حیران رہ گئی.پھر تم کیوں یہ خیال کرتے ہو کہ تمہاری قربانیوں کا بدلہ تمہیں آج ہی ملنا چاہئے.اگر تمہاری نسل کسی وقت بھی تمہاری قربانیوں سے فائدہ اٹھا لے تو حقیقتا تمہاری قربانیوں کا پھل تمہیں مل گیا.پس اپنے ذہنوں میں چلا اور اپنے فکر میں بلندی پیدا کرو اور قربانیوں کے میدان میں ہمیشہ آگے کی طرف قدم بڑھاؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو خدا تعالیٰ اپنی تائیدات سے تمہیں اس طرح نوازے گا کہ تم دنیا کے میدان میں ایک فٹ بال کی حیثیت نہیں رکھو گے بلکہ تم اُس برگزیدہ انسان کا ظل بن جاؤ گے جس کے متعلق آسمانی نوشتوں میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ کونے کا پتھر ہو گا جس پر وہ گرے گا وہ بھی چکنا چور ہوگا اور جو اُس پر آگرا وہ بھی چکنا چور ہوگا.2 میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے مردوں اور ان کی عورتوں اور ان کے بچوں اور ان کے بوڑھوں کو اپنے فرائض کے ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور

Page 622

انوار العلوم جلد 26 570 جلسہ سالانہ 3 196 ء کے افتتاحی واختتا انہیں اپنے فضل سے وہ طاقت بخشے جس سے وہ اسلام کو تمام ادیان باطلہ پر غالب کر دیں.اے خدا ! تو ایسا ہی کر.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ.1 : سیرت ابن ہشام جلد 4 صفحہ 87 مطبوعہ مصر 1936ء خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة امسیح الثانی "28-12-1963 الفضل 2 جنوری 1964ء) 2 : متی باب 21 آیت 42 ،44 صفحہ 947، 948 پاکستان بائبل سوسائٹی لاہور 2011ء

Page 623

انوار العلوم جلد 26 571 پیغامات فروری 1957 ء تا ستمبر 1965ء) از رنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی پیغامات

Page 624

انوار العلوم جلد 26 572 پیغامات

Page 625

انوار العلوم جلد 26 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 573 پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ پیغامات فروری 1957 ء تا ستمبر 1965ء) تحریر برائے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی 24 فروری 1957ء کو دارالصدر‘ واقع ہا ؤ سنگ سوسائٹی کراچی میں مجلس خدام الاحمدیہ کا ایک اہم اجتماع منعقد ہوا.اس موقع پر قائد کراچی چودھری عبدالمجید صاحب کی درخواست پر حضور نے اپنے قلم مبارک سے مندرجہ ذیل تحریر مجلس کراچی کو عنایت فرمائی.اپنے فرائض کو مجھو اور اپنی زندگی پر غور کرتے رہو کہ وہ نہایت محدود ہے.لیکن کام جو آپ لوگوں کے سپرد کیا گیا ہے ہزاروں سال کا ہے لیکن اسے ستر اسی سال میں ختم نہ کیا گیا تو اس کا پورا ہونا یا تو ناممکن ہو جائے گا یا جتنی بھی فتح حاصل کی گئی بیکار اور ضائع ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ ہم کو اُس دن سے محفوظ رکھے.آمین والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ( تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 434 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ مارٹن روڈ کراچی کے لئے تحریر 24 فروری 1957ء کو حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ حلقہ مارٹن روڈ کے دفتر کا معائنہ فرمایا اور مرزا نذیر احمد صاحب زعیم حلقہ کی درخواست پر حسب ذیل تحریر رقم فرمائی مجھے بتایا گیا ہے کہ اس حلقہ کے خدام نے غرباء کی خدمت میں بہت حصہ لیا ہے.میں نے بھی سامان خصوصا گھی پگھلاتے ہوئے دیکھا ہے جو بعد میں تقسیم کیا جائے

Page 626

انوار العلوم جلد 26 574 پیغامات گا محنت اور نفاست قابل تعریف ہے.اللہ تعالیٰ اس سے بہت زیادہ خدمت کی توفیق دے اور اخلاص اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی تڑپ دل میں پیدا کر دے.خاکسار مرزا محمود احمد 24-2-4 1957 ( تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 435 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) کارکنان شعبه مال جماعت احمدیہ کراچی کو بہ سنا مؤرخہ 2 مارچ 1957ء کو حضور نے اپنی قیام گاہ ”دار الصدر کراچی میں کارکنان شعبه مال جماعت احمدیہ کراچی کو پیغام تحریر فرمایا : - ” برادران ! السَّلَام عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ جب تاریخ میں حضرت خالد اور سعد اور عمر بن معدی کرب اور ضرار کے حالات پڑھتے ہوں گے تو آپ کے دل میں خواہش ہوتی ہو گی کہ کاش! ہم بھی اُس زمانہ میں ہوتے اور خدمت کرتے.مگر اس وقت آپ کو بھول جاتا ہے کہ ہر سخن وقتے و ہر نکتہ مقامی دارد.اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے جہاد بالسیف کی جگہ جہاد تبلیغ اور جہاد بالنفس کا دروازہ کھولا ہے.اور تبلیغ ہو نہیں سکتی جب تک روپیہ نہ ہو.کیونکہ تبلیغ بغیر روپیہ کے نہیں ہوسکتی.پس آپ لوگ اس زمانہ میں مجاہد ہیں اور وہی ثواب جو پہلوں کو ملا آپ کو مل سکتا ہے اور مل رہا ہے.پس اپنے کام کو خوش اسلوبی سے کریں اور دوسروں کو سمجھائیں تا کہ آپ سب لوگ مجاہد فی سبیل اللہ ہو جائیں.آمین والسلام خاکسار مرزا محمود احمد ( الفضل 28 مارچ1957ء)

Page 627

انوار العلوم جلد 26 575 پیغامات وزیر اعظم غانا کے نام مبارکبا دو دعا کا پیغام غانا کی آزاد مملکت بننے پر 2 مارچ 1957ء کو وزیر اعظم ڈاکٹر کو امی نکروما کے نام مبارکباد اور دعا کا جو پیغام بذریعہ تا رارسال فرمایا اُس کا ترجمہ درج ذیل ہے.میں اپنی اور جماعت احمدیہ کی طرف سے جو تمام دنیا میں پھیلی ہوئی ہے آپ کو اور آپ کے ملک کے عوام کو حصول آزادی کی تقریب پر مبارک باد دیتا ہوں اور آپ کے ملک کی مسلسل اور ہر آن بڑھنے والی خوشحالی اور ترقی کے لیے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں.آپ کے ملک کے ساتھ میرا لگا ؤ اور دلچسپی محض رسمی نہیں ہے بلکہ خلوص پر مبنی ہے کیونکہ آپ کے ملک کے قریباً ایک لاکھ باشندے احمدی ہیں اور وہاں کے بہت سے طلباء سلسلہ احمدیہ کے مرکز میں تعلیم پارہے ہیں.ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ مستقبل قریب میں جماعت احمد یہ آپ کے ملک کے طول وعرض میں اور بھی سرعت کے ساتھ پھیلے گی.اور ہر شعبۂ زندگی میں اس ملک کو آگے بڑھانے اور ترقی دینے میں نمایاں حصہ لے گی.اِنْشَاءَ اللهُ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اور آپ کے ملک کی مددفرمائے.آمین امام جماعت احمد یہ ربوہ ( تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 450 ناشر نظارت اشاعت ربوہ )

Page 628

انوار العلوم جلد 26 576 ٹانگانیکا ( مشرقی افریقہ میں احمدیہ مسجد کی تعمیر پر پیغام پیغامات رٹانگا نیکا ( مشرقی افریقہ) میں ایک عظیم الشان احمد یہ مسجد کی تعمیر پر سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے 19/03/1957 کو ایک بصیرت افروز پیغام بذریعہ تار ارسال فرمایا جس کا ترجمہ درج ذیل ہے.در مسجد کا نام السّلام رکھا جائے.مسجد کی عزت و حرمت ہمیشہ برقرار رکھو.اس میں ہمیشہ نماز با جماعت ادا کرتے رہو.اور زیادہ سے زیادہ افراد کو اسلام اور احمدیت میں شامل کرنے کی کوشش کرو.تا کہ اس مسجد کی رونق میں اضافہ ہوتا چلا جائے.حتی کہ تمہیں اس سے بھی بڑی مسجد بنانے کی ضرورت محسوس ہو.یا درکھو کہ کوئی مسجد مسجد نہیں کہلا سکتی جب تک کہ وہ زیادہ سے زیادہ نمازیوں کو اپنی طرف نہ کھینچے اور مزید مسجدیں بنانے کی محرک نہ ہو.خدا کرے کہ یہ مسجد بھی ایسی ہی ثابت ہو.میں یوگنڈا کے علاقہ میں بھی مسجد کی تعمیر کی خوشخبری سننے کا منتظر ہوں.خلیفه امسیح ربوه ( الفضل 20 مارچ 1957ء) ہمبرگ میں پہلی مسجد کے افتتاح 1957-6-22 کے موقع پر اہل جرمنی کے نام پیغام برادران اہل جرمنی اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں ہمبرگ کی مسجد کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کے لئے اپنے بیٹے مرزا مبارک احمد کو بھجوا رہا ہوں.افتتاح کی تقریب تو اِنْشَاءَ اللهُ عزیزم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ادا کریں گے مگر مرزا مبارک احمد میرے نمائندے کے طور پر اس میں شامل ہوں گے.میرا ارادہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مدد کرے تو یکے بعد دیگرے جرمنی کے بعض اور شہروں میں بھی مساجد کا افتتاح کیا جائے.امید ہے کہ مرزا مبارک احمد مولوی عبد اللطیف صاحب.

Page 629

انوار العلوم جلد 26 577 پیغامات مل کر ضروری سکیمیں اس کے لئے بنا کر لائیں گے تا کہ جلدی مساجد بنائی جاسکیں.خدا کرے کہ جرمن قوم جلد اسلام قبول کرے اور اپنی اندرونی طاقتوں کے مطابق جس طرح وہ یورپ میں مادیات کی لیڈر ہے روحانی طور پر بھی لیڈر بن جائے.فی الحال اتنی بات تو ہے کہ ایک جرمن نو مسلم زندگی وقف کر کے امریکہ میں تبلیغ اسلام کر رہا ہے.مگر ہم ایک مبلغ یا درجنوں نو مسلموں پر مطمئن نہیں بلکہ چاہتے ہیں کہ ہزاروں لاکھوں مبلغ جرمنی سے پیدا ہوں اور کروڑوں جرمن باشندے اسلام کو قبول کریں.تا اسلام کی اشاعت کے کام میں یورپ کی لیڈری جرمن قوم کے ہاتھ میں ہو.اللَّهُمَّ امِيْنَ خاکسار مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی (الفضل 26 جون 1957ء) مدراس کے ہفت روزہ ” آزاد نوجوان کے بقر عید نمبر (جو 9 جولائی 1957 ء کو شائع ہوا) کیلئے پیغام وو اخبار ”نوجوان کے لیے مجھ سے مضمون طلب کیا گیا ہے.جب میں اچھا تھا تو دن میں دو دو سو کالم بھی لکھ لیتا تھا.میری کتاب ”احمدیت یعنی حقیقی اسلام“ جو نہایت ہی مفید کتاب ہے اور یورپ اور امریکہ میں بہت مقبول ہے اس کا حجم پانچ صد صفحہ کا ہے.یہ کتاب صرف تین دن میں لکھی گئی تھی.اب عمر اور بیماری کی وجہ سے میرے لیے پرانے کام کا سواں حصہ بھی کرنا ممکن نہیں ہے مگر بہر حال چونکہ ایک دوست نے خواہش کی ہے اُن کی خواہش کے احترام میں یہ چند سطور لکھ رہا ہوں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت صحیحہ دے کر پیدا کیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فطرت الله التي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا 1 - اے لوگو ! اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ فطرت کو اختیار کرو جس پر اس نے انسان کو پیدا کیا ہے یعنی انسان کو اپنے کاموں میں رہنمائی کے لیے زیادہ تر اپنے دل کی طرف نگاہ رکھنی چاہیے کہ کیا اس

Page 630

انوار العلوم جلد 26 578 پیغامات کا دل اسے مجرم قرار دیتا ہے یا بری.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ اِسْتَفْتِ قَلْبَكَ وَلَوْ أَفْتَاكَ الْمَفْتُون 2 یعنی اپنے دل سے فتویٰ لے اور اسی پر عمل کر خواہ ہزاروں مفتی اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہوں.پس اسی اصول کے ماتحت انسان کو چاہئے کہ اپنے دل سے فتویٰ لینے کی عادت ڈالے اور محض مولویوں کے فتووں پر اسے نہیں جانا چاہئے.اگر اس کا دل کہے کہ جو کچھ تو کرتا ہے اگر یہی کام تیرا ہمسایہ کرے تو تجھے خوشی پہنچے گی اور تو اُس پر عیب نہیں لگائے گا تو اسی صورت میں اس کام کے کرنے میں تجھے کوئی حرج نہیں.لیکن اگر اُس کا دل یہ کہے کہ اگر میرا ہمسایہ یہ کام کرے گا تو میں اسے بہت برا سمجھوں گا تو سمجھ لے کہ وہ کام در حقیقت برا ہے.پس اس اصول پر انسان اپنی زندگی کو سنوار سکتا ہے.چاہیئے کہ وہ اس اصول کو ہمیشہ یادر کھے کیونکہ خدا تعالیٰ کا حکم بھی یہی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم بھی یہی ہے.مرزا محمود احمد (خلیفہ المسیح الثانی) ( تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 728 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) حملا جماعت احمد یہ امریکہ کے نام پیغام سید نا حضرت مصلح موعودؓ نے 23 اگست 1957 ء کو سالا نہ امریکن کنونشن کے موقع پر جماعت احمدیہ کے نام حسب ذیل پیغام ارسال فرمایا.وو براداران جماعت احمدیہ امریکہ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ سید جواد علی صاحب نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ سالانہ امریکن کنونشن کے موقع پر میں جماعت ہائے احمد یہ امریکہ کے نام پیغام بھجوا ؤں.اس سال جماعت امریکہ میں کچھ نئے فتنے اٹھے ہیں خصوصا نیو یارک میں.لیکن وہاں جماعت نے نہایت اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے.عزیزم محمد صادق صاحب کے ذریعہ

Page 631

انوار العلوم جلد 26 579 پیغامات جماعت کے ہر فرد نے اپنے دستخطوں سے وفاداری کا یقین دلایا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ بھی یقین کے ساتھ اس بات پر قائم ہوں گے کہ آپ نے خلیفہ کی بیعت کی ہے کسی مبلغ کے ہاتھ پر نہیں، خواہ کوئی حالات پیش آئیں آپ احمدیت کے ساتھ وفاداری پر قائم رہیں گے.امریکہ میں جماعت احمدیہ 1920 ء سے قائم ہے گویا 36 سال اس کو قائم ہوئے ہو گئے ہیں.اتنا ہی عرصہ اسے ویسٹ افریقہ میں قائم ہوئے ہو گیا.ویسٹ افریقہ کے مختلف ملکوں میں جماعت ایک لاکھ ہوگئی ہے لیکن امریکہ کے متعلق جب آپ کے مبلغوں سے رپورٹ لی جاتی ہے وہ حد سے حد تمام امریکہ میں پانچ صد کی اطلاع دیتے ہیں حالانکہ مفتی صاحب کے زمانہ میں جس کو 36 سال گزر چکے ہیں یہ جماعت سات ہزار تک پہنچ گئی تھی.اس قسم کا تنزل حیرت انگیز ہے.اس وقت امریکہ کی جماعت کم از کم پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک ہونی چاہئے تھی اور اس کا چندہ وہاں کی آمدن کے لحاظ سے کوئی آٹھ لاکھ ڈالر سالانہ ہونا چاہئے تھا لیکن چندہ بمشکل چھ سات ہزار ڈالر ہوتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ یا تو جماعت مرتد ہو رہی ہے یا چندے اپنی آمد کے مطابق نہیں دیتی.حال میں ایک مبلغ کا خط مجھے ملا کہ ایک عورت یہاں سے بدل گئی ہے اُس کا 60 ڈالر ماہوار چندہ تھا.اگر ایک عورت 60 ڈالر ماہوار دے سکتی ہے تو اوسط 30 ڈالر ماہوار کا ندازہ کرنا مشکل نہیں.اگر جماعت کے افراد پچاس ہزار ہوں تو پندرہ لاکھ ڈالر ماہوار ہوں گے.اگر جماعت کے ایک لاکھ آدمی ہوں تو تمیں لاکھ ڈالر کی آمدنی ہونی چاہئے.اگر اتنی آمد ہو تو ہم خدا کے فضل سے امریکہ کو چالیس پچاس مبلغ بھجوا سکتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں امریکہ کی جماعت نہایت منظم ہو سکتی ہے.آپ کا ملک ایک اہم ملک ہے آپ کی ہی قوم کے لوگ ویسٹ افریقہ میں جماعت احمد یہ میں داخل ہورہے ہیں جن کی تعدا د سارے ملکوں کو ملا کر ایک لاکھ سے زیادہ ہے.میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خلیفہ سے تعلق رکھنا مبلغ سے تعلق رکھنے سے بہت اعلیٰ ہے.ہر احمدی کو دوسرے تیسرے مہینے براہ راست خلیفہ کے نام خط لکھنا چاہئے جو اب

Page 632

انوار العلوم جلد 26 580 پیغامات نہیں لکھا جاتا.اور جو احمدی دوسرے مہینے بھی خط نہیں لکھتے میں سمجھتا ہوں کہ وہ احمدیت میں کمزور ہیں.سب دوست اگر براہ راست خط لکھیں گے تو میں بھی ان کو جواب دوں گا.درمیانی واسطوں کا تعلق کبھی مضبوط نہیں ہوتا.ہمارے ملک میں مثل ہے کہ خط آدھی ملاقات ہوتا ہے.آپ پاکستان سے ہزاروں میلوں پر رہتے ہوئے اور جماعت احمدیہ کا ممبر ہوتے ہوئے اگر دو مہینے میں ایک دفعہ اپنے خلیفہ سے آدھی ملاقات کی خواہش نہیں رکھتے تو آپ کی احمدیت کس کام کی ہے.ایسی عقیدت سے تو دنیا کی کمزور سے کمزور جماعت بھی کوئی خوشی محسوس نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو اپنے فرائض کو سمجھنے کی توفیق دے.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 66 23-8-4 1957 تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 477، 478 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) میجر جنرل محمد اکبر خاں کی تصانیف پر تبصرہ " حضرت مصلح موعودؓ نے پاکستان کے مشہور جنرل اور ممتاز مصنف محمد اکبر خاں کی کتاب ” حدیث دفاع پر حسب ذیل تبصرہ سپر د قلم فرمایا : - یہ چند سطور میجر جنرل محمد اکبر خاں صاحب کی کتابوں پر اظہار رائے کے طور پر لکھی جاتی ہیں.میجر جنرل محمد اکبر خاں صاحب کرنل کمانڈنٹ رائل پاکستان آرمی سروس کور پاکستان کی مخصوص شخصیتوں میں سے ہیں کیونکہ وہ صرف پاکستانی جرنیل ہی نہیں بلکہ علمی مذاق بھی رکھتے ہیں اور خصوصا ایسا علمی مذاق جو اسلام کی ایسی تعلیمات کے متعلق تجسس رکھتا ہے جو فوجی ٹیٹس (TACTICS) کے متعلق ہوتی ہیں.سب سے پہلے ان کی کتاب حدیث دفاع میرے دیکھنے میں آئی.اس کے بعد کرنل الہی بخش صاحب جو لاہور کے مشہور فزیشن (PHYSICIAN) ہیں ان سے طبی مشورہ لینے کے لیے میں گیا تو انہوں نے بتایا کہ آپ صرف ایک کتاب کا ذکر کرتے ہیں مگر وہ اس وقت تک کئی کتابیں لکھ چکے ہیں جو اپنی ذات میں نہایت مفید ہیں تب مجھے جنرل صاحب موصوف کی دوسری

Page 633

انوار العلوم جلد 26 وو 581 پیغامات کتابوں کا تجسس پیدا ہوا اور آج میں ان کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں ’ حدیث دفاع جو غالبا جرنیل صاحب کی پہلی کتاب ہے.فوجی امور سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے معلومات کا ایک گراں قدر ذخیرہ ہے کیونکہ اس میں انہوں نے جنگ کے متعلق اسلامی احکام اور صحابہ کے اعمال کو روشن کیا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ ہر مسلمان جس کو اسلام کی خوبیوں کو معلوم کرنے کا شوق ہوگا وہ اس کتاب کو پڑھ کر نہ صرف اسلام کے متعلق اپنی معلومات کو بڑھائے گا بلکہ اسلام کی عظمت کا پہلے سے بھی زیادہ قائل ہو جائے گا.میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ یہ کتاب تبلیغ اسلام میں بھی کام آسکتی ہے اور اگر اس کتاب کا انگریزی میں ترجمہ ہو جائے تو انگریزی جاننے والے ملکوں میں غیر مسلموں کو اسلام سے روشناس کرانے میں ایک نہایت اعلیٰ ذریعہ ثابت ہوگی.66 دوسری کتاب یا کم از کم وہ دوسری کتاب جو مجھے ملی ہے جنرل صاحب کی تصنیف اسلحہ جنگ ہے.یہ کتاب ” حدیث دفاع کی طرح براہ راست تو اسلام پر کوئی روشنی نہیں ڈالتی لیکن فوج کے ساتھ تعلق رکھنے والے زمانہ حال کے ہتھیاروں سے پبلک کو بہت عمدہ طور پر روشناس کراتی ہے.اس سے پتا لگتا ہے کہ پرانے زمانے میں جنگ کے جیتنے کے لیے جو آلات ایجاد ہوئے تھے موجودہ زمانہ میں اُن کو ترقی دے کر ایک ایسی شکل مل گئی ہے کہ دونوں میں موازنہ کرنا مشکل ہو گیا ہے.پہلے ایشیا جنگی ہتھیاروں میں ترقی کر رہا تھا مگر اب یورپ کی توجہ اس طرف ہوگئی ہے.بلکہ امریکہ بھی اس دوڑ میں آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے.اس ضمن میں انہوں نے جرمنی کی ان کوششوں کا بھی ذکر کیا ہے جو پچھلی جنگ جیتنے کے لیے اس نے کی تھیں اور ایسی باتیں لکھی ہیں جن سے پاکستان کی حکومت فائدہ اٹھا سکتی ہے.چونکہ جرنیل صاحب دوسری عالمگیر جنگ میں بھی شامل رہے ہیں اس لیے ان کو نئے ہتھیاروں کا بھی خاص علم ہے جس سے فائدہ اٹھانا ان کی قوم اور ان کی حکومت کا فرض ہے.انہوں نے اس کتاب میں نئے ہتھیاروں کے متعلق بڑی بحث کی ہے.غالبا ایچ بم اور ایٹم بم کے متعلق وہ کچھ نہیں لکھ سکے اس لیے کہ یہ دونوں ہم آج تک امریکہ کے فوجی محکمے کا راز رہے ہیں اور امریکہ نے آج تک حلیفوں کو بھی اس راز

Page 634

انوار العلوم جلد 26 582 پیغامات سے آگاہ نہیں کیا لیکن آہستہ آہستہ وہ راز پھیل رہا ہے اور اب شاید چند سال کی دیر لگے گی جس میں یہ راز عالمگیر سائنس بن جائے گا اور سب دنیا اس سائنس سے فائدہ اٹھانے لگ جائے گی.خدا کرے جس طرح ایٹمی ہتھیاروں سے امن کے زمانے میں فائدہ اٹھانے کے لیے جو انجمن بنائی گئی ہے اس میں عزیزم پروفیسر عبد السلام کو جو پاکستان میں کام کرنے کا موقع ملا ہے اس طرح جنگی کاموں میں ایٹمی طاقت کے استعمال کے متعلق جوا انجمنیں بنائی جائیں اُن میں مزید پاکستانی سائنسدانوں کو کام کرنے کا موقع دیا جائے اور پاکستان بھی ایسا ہی مضبوط ہو جائے جیسا کہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں.میں ان مختصر الفاظ پر اپنے ریویو کو ختم کرتا ہوں اور پھر کہتا ہوں کہ ہمارے اہلِ ملک کو علمی امور سے تغافل کرنا چھوڑ دینا چاہیئے بلکہ ان علوم سے واقفیت پیدا کرنے کے لیے ہر چھوٹے بڑے کو اپنے مطالعہ کو وسیع کرنا چاہیے جس میں میجر جنرل محمد اکبر خاں کی کتابیں وو حدیث دفاع اور اسلحہ جنگ بہت مُحمد ثابت ہوں گی دستخط مرزا محمود احمد 66 تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 505 ، 506 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) احباب جماعت کے لئے خوشخبری میں قرآن کریم کے ترجمہ کے ختم ہونے پر پہلے ایک اعلان الفضل میں شائع کرا چکا ہوں.اس کے بعد جب اس کا پہلا ہزار چھپ گیا تو اس کا بھی جماعت میں اعلان کیا جا چکا ہے.اس کے بعد خیال ہوا کہ تفسیر سے پہلے انڈیکس یعنی فہرست مضامین قرآنی بھی لگا دی جائے تا کہ اس کے مطالعہ کے بعد ہر احمدی کی آنکھوں کے سامنے قرآن کریم کے سارے مطالب آجائیں.اس طرح سے یہ کتاب جو 1200 صفحات میں چھپی تھی وہ 1466 صفحات میں چھپی ہے.نیز جابہ میں رہ کر کام کرنے کی وجہ سے اس کے اخراجات بھی بڑھ گئے ہیں.اس وجہ سے 16 روپے فی چلد کی بجائے قیمت 18 روپے فی جلد کر دی گئی.مگر جن کے نام

Page 635

انوار العلوم جلد 26 583 پیغامات پہلے ہزار میں آئے ہیں اُن کو بہر حال کتاب 16 روپے فی جلد کے حساب سے ملے گی.بعض لوگ بڑی جماعت میں شامل ہونے کی وجہ سے فائدہ اٹھا رہے ہیں کیونکہ جن کی جماعت نے زیادہ تعداد کا آرڈر بھجوایا ہو گا اُس جماعت کو بہت سا کمیشن ملے گا.وہ اپنے کمیشن میں سے کچھ حصہ اگر خریداروں کو دے دیں تو امید ہے کہ /16/8 روپے یا /17/8 روپے تک وہ بھی قرآن کریم کو اپنی جماعت کے لوگوں میں تقسیم کر سکیں گے.اب صرف یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم سارے کا سارا مع ترجمہ و تفسیر صغیر نیز 112 صفحات کی فہرست مضامین جلد سمیت خدا تعالیٰ کے فضل سے تیار ہو چکی ہے اور مجھے مل چکی ہے.لیکن میرا ارادہ ہے کہ تقسیم إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالیٰ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہی کی جائے.اُس وقت تک غالباً دو ہزار کتاب تیار ہو چکے گی.باقی جوں جوں تیار ہوتی جائے گی جماعتوں کو اُن کے آرڈروں کی ترتیب کے لحاظ سے تقسیم ہوتی رہے گی.لیکن چونکہ لوگوں میں گھبراہٹ پائی جاتی ہے اس لئے اُن کے دلوں کے اطمینان کے لئے ابھی سے اعلان شائع کیا جاتا ہے.جماعت میں شوق تو اتنا ہے کہ بعض لوگ دُور دُور سے آکر ربوہ میں بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنے تعلق کی وجہ سے پریس میں جا کر تفسیر پڑھ لیتے ہیں اور اس طرح سے اپنے دل کو تسکین دے لیتے ہیں.خلیفة المسیح الثانی "13-11-1957 الفضل 15 نومبر 1957ء)

Page 636

انوار العلوم جلد 26 احباب جماعت کے نام 584 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں نے اس سال 27 دسمبر کو ارشاد و اصلاح کی ایک اہم تجویز پیش کی تھی جس کے دو حصے تھے ایک وقف اور ایک چندہ.چندہ میں نے کہا تھا گو لازمی نہیں لیکن ہر احمدی کوشش کرے کہ چھ روپے چندہ سالانہ یکمشت یا بارہ اقساط میں دیا کرے.ہماری جماعت میں آسانی سے ایک لاکھ آدمی ایسا پیدا ہو سکتا ہے.اور اگر وہ ایسا کریں تو رشد و اصلاح کی تحریک کو ہم بڑی آسانی کے ساتھ ڈھاکہ سے کراچی تک اور کراچی سے ملتان اور لاہور ہوتے ہوئے راولپنڈی کے راستہ سے پشاور اور ہزارہ کی وادیوں میں پھیلا سکتے ہیں.وقف کی تحریک گودیر سے شروع ہوئی مگر خدا کے فضل سے شروع ہوگئی ہے.میرے اس خطبہ کے بعد پانچ درخواستیں آچکی ہیں جن میں سے دو مولوی فاضل اور میٹرک ہیں اور ایک معمولی تعلیم کا آدمی ہے.میں نے جلسہ میں بتایا تھا کہ ہم پانچویں جماعت کے آدمی کو بھی اس کام کے لئے لے سکتے ہیں.زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ ایسا نو جوان کسی زیادہ تعلیم یافتہ آدمی کے ساتھ لگا دیا جائے گا.مدرسہ احمدیہ میں جو اردو کا کورس شروع ہے اس کے مکمل ہونے میں ابھی پانچ سال لگیں گے جس کے بعد انْشَاءَ اللهُ پچاس طالب علم ہمیں مل جائیں گے.پرائمری پاس ہماری جماعت میں اب بھی پچاس ساٹھ ہزار آدمی موجود ہے لیکن وہ آگے نہیں بڑھ رہا اور سستی دکھا رہا ہے.اور خدا تعالیٰ کو چیلنج کر رہا ہے کہ اُس کو بدل کر اُس کی جگہ اور آدمی پیدا کرے.مگر چندہ کا معاملہ جو وقف سے بہت سستا تھا اس کے لئے ایک درخواست بھی نہیں آئی.حالانکہ ایک لاکھ آدمی کی درخواست کی ضرورت تھی.

Page 637

انوار العلوم جلد 26 585 پیغامات یہ کام خدا تعالیٰ کا ہے اور ضرور پورا ہو کر رہے گا.میرے دل میں چونکہ خدا تعالیٰ نے یہ تحریک ڈالی ہے اس لئے خواہ مجھے اپنے مکان بیچنے پڑیں ، کپڑے بیچنے پڑیں ، میں اس فرض کو تب بھی پورا کروں گا.اگر جماعت کا ایک فرد بھی میرا ساتھ نہ دے خدا تعالیٰ اُن لوگوں کو الگ کر دے گا جو میرا ساتھ نہیں دے رہے اور میری مدد کے لئے فرشتے آسمان سے اُتارے گا.پس میں اتمامِ حجت کے لئے ایک بار پھر اعلان کرتا ہوں تا کہ مالی امداد کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو اور وقف کی طرف بھی لوگوں کو توجہ ہو.مجھے اس کام کے لئے ایک ایسے چُست آدمی کی بھی ضرورت ہے جو سارے پنجاب کا دورہ کر کے ان نئے سکولوں کا معائنہ کر کے رپورٹ کرتا رہے اور انسپکٹر تعلیم کے طور پر کام کرے.اگر کوئی اس کام کا اہل ہو تو وہ بھی اپنے آپ کو پیش کرے.اس کام کے لئے ایسا آدمی کافی ہے جو ایف.اے پاس ہو یا مولوی فاضل اور انٹرنس پاس ہو اور اُدھیڑ عمر کا ہو.میں امید رکھتا ہوں کہ اگلے تین ہفتہ میں جماعت ان دونوں کاموں کو پورا کر دے گی.میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ کے معزز زمیندار کراچی سے لے کر پشاور تک اپنے اپنے گاؤں کے اردگر ددس ایکڑ زمین اس سکیم کے لئے وقف کر دیں گے.اس میں یہ واقفین کھیتی باڑی کریں گے اور اس سے اس سکیم کو چلانے میں مدد دیں گے.اس کی پیداوار سب ان کی ہوگی.مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی ) ربوہ 5 جنوری 1958ء ( الفضل 7 جنوری 1958ء)

Page 638

انوار العلوم جلد 26 586 احباب جماعت کے نام تازہ پیغام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت احمدیہ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جو وعدے وقف جدید کی امداد کے لئے آ رہے ہیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ شاید 6 روپے سالانہ چندہ انتہائی حد ہے.مگر یہ بات غلط ہے.اتنی بڑی سکیم کو چلانے کے لئے لاکھوں روپے کی ضرورت ہو گی.مگر وہ تو آہستہ آہستہ ہوگا.سر دست تو قدم بہ قدم چلا جائے گا.جیسے تحریک جدید کا کام قدم بہ قدم چلا ہے.لیکن دوستوں کی اطلاع کے لئے میں یہ شائع کرتا ہوں کہ جس کی توفیق 12 روپے سالانہ کی ہو وہ 12 روپے سالانہ دے سکتا ہے.جس کی توفیق 50 روپے سالانہ دینے کی ہو وہ 50 روپے سالانہ دے سکتا ہے.دوستوں کو ہدایت دینے کے لئے یہ بات کافی تھی کہ میرا چندہ چھ سو شائع ہو چکا ہے.اور چھ سو چھ سے سو گنے زیادہ ہے.پس جن کو توفیق تھی وہ 12 روپے لکھوا سکتے تھے ، 25 روپے لکھوا سکتے تھے ، 50 لکھوا سکتے تھے ، 100 لکھوا سکتے تھے.میرا ارادہ ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے توفیق دے تو بجائے چھ سو کے چھ ہزار یا اس سے بھی زیادہ دوں.پہلی تحریک کے وقت میں بھی میں نے چندہ یکدم نہیں بڑھایا تھا پہلے سال میں نے تین سود یا تھا.اس سال گیارہ ہزار لکھوایا ہے ممکن ہے اللہ تعالیٰ توفیق دے تو میرا اس تحریک کا چندہ چو ہمیں چھپیں ہزار یا اس سے بھی زیادہ ہو جائے اور ساری جماعت کا مل کر چھ سات لاکھ ہو جائے.جس سے امید ہے کہ ہم اِنْشَاءَ اللہ کراچی سے لے کر پشاور تک جال رُشد و اصلاح کا پھیلا سکیں.اللہ تعالیٰ آپ کو ہدایت دے اور نیک کاموں میں بڑھ بڑھ کر حصہ لینے کی توفیق دے.اور آپ کے مالوں میں برکت دے تا کہ آپ بڑھ بڑھ کر دین کے کاموں میں حصہ لیں.

Page 639

انوار العلوم جلد 26 587 پیغامات یہ بھی میں اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں امیر آدمی بہت زیادہ دے سکتے ہیں وہاں چھ غریب آدمی مل کر ایک ایک روپیہ ڈال کر چھ روپے پورے کر سکتے ہیں.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 13 جنوری 1958ء (الفضل 15 جنوری 1958ء) صحت کے متعلق مفصل اطلاع حضور کے اپنے الفاظ میں پچھلے سال اکتوبر میں جابہ سے واپسی پر میری بیماری کی تکلیف کچھ اس طرح بڑھ گئی تھی کہ معلوم ہوتا تھا کہ جیسے فالج میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن ڈاکٹروں کی رائے تھی کہ یہ فالج کی وجہ سے نہیں بلکہ بار بار موسم کی تبدیلی کی وجہ سے ہے.اُس وقت تو طبیعت بہت گھبرا گئی تھی اور میں ڈرتا تھا کہ جلسہ میں بھی شامل ہوسکوں گا یا نہیں.مگر اس کے بعد اس حالت میں افاقہ ہو گیا.لیکن جنوری کے آخر میں متعدد بار نقرس کا جو میری پرانی بیماری ہے شدید دورہ ہوا.پرسوں اس کا دورہ اتنا شدید ہوا اور دائیں ٹانگ پر ہوا کہ مجھے یہ وہم پڑ گیا کہ شاید میری دائیں طرف بھی فالج گر رہا ہے.ڈاکٹر کہتے ہیں کہ فالج اگر ہوتا تو ضروری تھا کہ ایک وقتی بے ہوشی آتی.چونکہ وہ آپ کو نہیں ہوئی اس لئے یہ فالج نہیں ہے بلکہ نقرس ہی ہے.چنانچہ نقرس کا علاج شروع کیا گیا.اور 3 فروری کی صبح سے کسی قدر افاقہ معلوم ہوتا ہے.اگر موسم میں خوشگوار تبدیلی رہی اور اللہ تعالیٰ کا فضل شاملِ حال رہا تو امید ہے کہ تین چار دن تک یہ بیماری بھی ہٹ جائے گی.اور پھر پرانی صحت عود کر آئے گی.جس سے مراد میری آج سے پندرہ سال پہلے والی صحت نہیں بلکہ وہ صحت مُراد ہے جو ولایت سے واپسی والے سال تھی اور جو 1956ء میں مری میں تھی.اگر وہی مکمل صحت حاصل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ میری زندگی ایک بے معنی لفظ نہ بن جائے

Page 640

انوار العلوم جلد 26 588 پیغامات گی بلکہ خدا تعالیٰ مجھ سے ایسے کام لیتا رہے گا جس سے عالم اسلام کو فائدہ پہنچتار ہے.خاکسار مرزا حمود واحمد خلیفة المسیح الثانی "3-2-1958 (الفضل 5 فروری 1958ء) جملہ یوم خلافت کی تقریب 27 مئی 1958ء بمقام راولپنڈی کیلئے ریکارڈ ڈ پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمد یہ راولپنڈی آپ کے امیر نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں ” خلافت ڈے پر کچھ الفاظ کہوں جو ٹیپ ریکارڈر کے ذریعہ ریکارڈ کر لئے جائیں اور پھر جماعت کو سنا دئیے جائیں.خلافت ڈے میں خلافت کے متعلق میرا کچھ کہنا تو میرے خیال میں مناسب نہیں ہے اس لئے کہ خلافت کے متعلق بات کرنے کا تعلق جماعت سے ہے خود خلیفہ سے نہیں کیونکہ اپنے متعلق بات کہنی آداب کے خلاف ہوتی ہے.مگر خلافت کے ساتھ تعلق رکھنے والی ایک بات ایسی ہے جو میں کہ سکتا ہوں اور مجھے کہنی چاہیئے بلکہ زور سے کہنی چاہئے اور وہ یہ کہ خلافت خدا تعالیٰ کی قائم کردہ چیز ہے اور قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب تک سچی خلافت رہے سچا دین بھی جماعت میں قائم رہتا ہے.اور بچے دین کا قائم رکھنا اور ( دین حق ) کو دنیا میں غالب کرنا یہ ہر سچے مومن کا فرض ہے.پس اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ ( دینِ حق کے لئے اور دین کے استحکام کے لئے اور دین کی درستی اور

Page 641

انوار العلوم جلد 26 589 پیغامات اصلاح کے لئے میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمیشہ اپنی زندگیوں کو خلافت احمدیہ کے استحکام اور قیام کے لئے خرچ کریں اور اس کام کے لئے اگر جان کی بازی بھی لگانی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں کیونکہ یہی ایک ذریعہ ہے جو قرآن کریم کے قول کے مطابق ( دین حق ) کو مستحکم بنا سکتا ہے اور دین کی اشاعت اطراف عالم میں کروا سکتا ہے.اور آپ لوگوں نے جو احمدیت قبول کی ہے تو اسی لئے کی ہے کہ ( دینِ حق ) کو دنیا میں مستحکم کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اور خدائے واحد کی حکومت کو دنیا میں قائم کریں.اس مقصد میں کوئی ذرا سی بھی کوتاہی ہوئی تو اس کے معنے یہ ہوں گے کہ آپ نے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا اور اپنے دعوؤں کو خود جھٹلا دیا ہے اور کا فراسی پر خوش ہوں گے اور خدا تعالیٰ اس پر ناراض ہوگا.مگر نہ کافروں کی خوشی دنیوی طور پر آپ کے لئے برداشت کے قابل ہو سکتی ہے اور نہ خدا کی ناراضگی دینی طور پر آپ کے لیے قابل برداشت ہوسکتی ہے.آپ کی کامیابی اسی میں ہے کہ کا فرآپ کی شان و شوکت کو دیکھ کر اور آپ کی خدمت کو دیکھ کر اور ( دینِ حق ) کی اشاعت کو دیکھ کر دل میں کڑھے اور اللہ تعالیٰ آپ کے ظاہر و باطن کو دیکھ کر خوش ہو اور ہمیشہ اس کے فرشتے آپ کی مدد کے لئے اور آپ کی نصرت کے لئے دنیا میں اترتے رہیں.اور جس شخص کو خدا اور اس کے فرشتوں کی مدد حاصل ہو ظاہر ہے کہ وہ اور اس کی قوم ہمیشہ بالا ہی رہے گی.کبھی نیچی نہیں ہو سکتی.پس یہ میرا پیغام ہے جو میں آپ کو پہنچاتا ہوں.امید ہے کہ آپ اس کو توجہ سے سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے.“ ( تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 106 ناشر نظارت اشاعت ربوہ)

Page 642

انوار العلوم جلد 26 590 پیغامات ہم جماعت احمد یہ انڈونیشیا کی سالانہ کانفرنس 18 تا 20 جولائی 1958ء کے موقع پر پیغام مری 16 جولائی 1958 ء.میں انڈونیشیا کے احمدی مردوں اور عورتوں کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حضور ان کی کانفرنس کی کامیابی کے لئے دعا کرتا ہوں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جماعت نے اپنی تبلیغی ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا ورنہ اس وقت تک جماعت کے افراد کی تعداد دس لاکھ سے تجاوز ہو چکی ہوتی.میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے طریقہ کار میں اصلاح کرتے ہوئے اپنے آپ کو خدائے تعالیٰ اور مخلوق کے سچے خادم ثابت کریں گے.خدا تعالیٰ آپ کے ملک کو برکت دے اور ہمیشہ صحیح راستے کی طرف اس کی رہنمائی فرماتا رہے.(خلیفة المسیح الثانی) ( تاریخ احمدیت جلد نمبر 20 صفحہ 118 ناشر نظارت اشاعت ربوہ) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے سالانہ اجتماع پر پیغام خدام الاحمدیہ کراچی کی طرف سے درخواست کی گئی ہے کہ میں اُن کے سالانہ جلسہ کے لئے کوئی پیغام بھیجوں.خدام الاحمدیہ کو ایک ہی پیغام ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے فرائض کو سمجھیں اور بنی نوع انسان کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.میں مرکزی خدام الاحمدیہ کے ایک سالانہ جلسہ میں یہ تقریر کر چکا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کے یہ معنے نہیں کہ یہ احمدیت کے خادم ہیں بلکہ یہ کہ احمدیوں میں سے بنی نوع انسان کے یہ خادم ہیں.اُس اپنی تقریر کو میں پھر یاد دلاتا ہوں اور کراچی کے خدام سے کہتا ہوں کہ وہ پاکستان کے مرکز میں بستے ہیں جہاں تمام دنیا کے آدمی آتے ہیں اور جہاں خدمت کا بہترین موقع ان کو مل سکتا ہے.وہ اس طرف توجہ کریں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو یاد رکھیں کہ سچا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں 3.خالی مسلمان کہلانے سے کچھ نہیں بنتا.بلکہ اصل مسلمان وہ ہے جو دنیا کو امن بخشے.پس دنیا کو

Page 643

انوار العلوم جلد 26 591 پیغامات امن بخشنے کی کوشش کریں.لڑائی جھگڑوں سے بچیں.بغیر کسی مذہب اور ملت کا خیال کئے ہر مذہب اور ملت کے آدمیوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کریں.خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) 6 (الفضل 7 را کتوبر 1958ء) جلسہ سالانہ قادیان 17 تا 19 اکتوبر 1958 ء کیلئے پیغام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوْد خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمد یہ ہندوستان ( بھارت) السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ قادیان جلسہ سالانہ ہو رہا ہے اور افسوس ہے کہ ابھی ہم باہر ہیں.ہم اس جلسہ سالانہ میں شمولیت کی توفیق نہیں رکھتے.اللہ تعالیٰ سے دست بدعا ہیں کہ وہ کوئی ایسے برکت والے سامان پیدا کرے کہ ہم بھی آپ لوگوں کے ساتھ مل کر اپنا جلسہ منایا کریں اور اپنے بھائیوں کی ملاقات سے خوش ہوسکا کریں.آپ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ آپ کی ذمہ داریاں دنیا کی سب جماعتوں سے زیادہ ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کا مامور آپ کے ملک میں بھیجا ہے اور اس نے ساری عمر آپ کے ملک میں کام کیا.اسی طرح حضرت خلیفہ اول بھی آپ کے ملک میں ہوئے اور خلیفہ ثانی کی عمر کا بہت سا حصہ آپ کے ملک میں گزرا.مقبرہ بہشتی بھی آپ کے ملک میں ہے.اللہ تعالیٰ کی بہت سی بشارتیں آپ کے ملک کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جن کے پورا ہونے میں تعویق تو ہو سکتی

Page 644

انوار العلوم جلد 26 592 پیغامات ہے لیکن وہ ٹل نہیں سکتیں.کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام ٹلا نہیں کرتا.مجھے خدا تعالیٰ نے خاص طور پر بتایا کہ جنوبی ہند اور سکھوں ، ہندوؤں میں احمدیت زیادہ ترقی کرے گی.اس لئے میں آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ جنوبی ہند کی طرف اور سکھوں اور ہندوؤں کی طرف خاص توجہ کریں.ہندو قوم کیونکہ تو ہم پرست قوم ہے اس کے نتیجہ میں ان کے دلوں میں تصوف اور روحانیت کی طرف بہت میلان پیدا ہو گیا ہے.پس آپ دعاؤں اور ذکر الہی کی عادت ڈالیں تا کہ آپ پر بھی خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ فضل نازل ہوتے رہیں اور ان افضال کی وجہ سے ہندو اور سکھ قوم اور مسلمانوں کا وہ حصہ جو کرامت کی طرف زیادہ توجہ کرتا ہے آپ کی طرف مائل ہوں اور جلد سے جلد احمدیت قبول کریں.اگر آپ روحانیت کے حاصل کرنے کی کوشش کریں تو آپ کو بڑی جلدی اس میں کامیابی حاصل ہوگی.مجھے بھی جوانی کا زمانہ یاد ہے کہ جب میں نیا نیا خلیفہ ہوا تھا میرے سامنے ایک دفعہ ایک فرشتہ آیا اور اس نے خدا تعالیٰ کا پیغام دیا کہ اے قادیان کی جماعت ! تجھے مبارک ہو کہ خلافت کی تازہ بتازہ برکات تجھ پر نازل ہورہی ہیں.پس اللہ تعالیٰ کے فرشتے آپ پر برکات نازل کرنے کے لئے اتر رہے ہیں تو آپ اگر ذرا بھی توجہ کریں تو دونوں طرف کی رغبت کی وجہ سے فرشتوں میں اور آپ میں جلد ہی میلان ہو جائے گا اور آپ اللہ تعالیٰ سے ایسے نشانات دیکھیں گے جو دنیا میں اور کسی کو نظر نہیں آتے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور جلد قادیان اور ر بوہ کے لوگوں کے ملنے کی صورت پیدا کرے.آمین فقط والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "6-10-, 1958 ( تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 169،168 ناشر نظارت اشاعت ربوہ)

Page 645

انوار العلوم جلد 26 593 پیغامات جماعت احمد یہ سیرالیون کی سالانہ کا نفرنس (12 تا 14 دسمبر ) 1958 ء کیلئے پیغام وو برادران جماعت احمد یہ سیرالیون السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں نے سنا ہے کہ آپ کی کانفرنس منعقد ہورہی ہے.احباب تو چاروں طرف سے آئیں گے ہی مگر خالی احباب کا جمع ہونا مفید نہیں ہوتا جب تک ان کے اندر للہیت اور اخلاص پیدا نہ ہو.پس آپ لوگ اس کا انتظام کریں کہ مبلغین للہیت کے پیدا کرنے کی تلقین کریں اور جماعت جس جوش کے ساتھ آئے اُس سے سینکڑوں گنا زیادہ جوش کے ساتھ واپس جائے تا کہ ملک کے چپہ چپہ میں احمدیت پھیل جائے.آپ کا ملک بہت وسیع ہے ابھی اس میں اشاعت حق کی بہت ضرورت ہے.جلدی اس طرف توجہ کریں اور ملک کو اپنا ہم خیال بنانے کی کوشش کریں تا کہ آپ لوگ اسلامی دنیا میں مفید عصر ثابت ہوسکیں.خالی سیرالیون اسلامی دنیا میں کوئی نقش نہیں چھوڑ سکتا ہے جب کہ پہلے وہ ایک عقیدہ پر قائم نہ ہو اور پھر باقی مسلمانوں کو اپنے ساتھ ملا کر ( دین حق ) کی خدمت کرے.پس اس مقصد کو آپ کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے اور اس کیلئے جدو جہد کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.آمین.والسلام خاکسار مرزا نمو و احمد خلیفہ المسیح الثانی 66 یکم دسمبر 1958ء “ تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 174 ، 175 ناشر نظارت اشاعت ربوہ )

Page 646

انوار العلوم جلد 26 594 پیغامات مجلس انصار اللہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع (8،7 مارچ 1959ء) کے موقع پر ریکارڈڈ پیغام تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا :.اے احباب کراچی ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ چونکہ میں اس دورہ میں بیماری سے دو چار رہا ہوں اس لئے یہاں کراچی آکر مجھے یہ موقع نہیں ملا کہ میں آپ لوگوں سے ملوں یا آپ لوگوں کو اپنے سے ملنے کا موقع دوں.دوستوں نے خواہش کی ہے کہ میں ٹیپ ریکارڈر پر کچھ الفاظ کہہ دوں اور وہ آپ کو سنا دیئے جائیں.سب سے پہلے میں آپ سے معذرت کرتا ہوں کہ کراچی میں آنے کے باوجود آپ کو وہ موقع نہیں ملا جو میزبان کو اپنے مہمان سے ملنے ملانے کا ملتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو میں پہلے ہی بیمار تھا پھر بشیر آباد سے واپسی پر مجھے کار کا ایک حادثہ پیش آیا جس کی خبر الفضل میں چھپ چکی ہے.اس حادثہ سے پہلے تو یہ خطرہ پیدا ہو گیا تھا کہ بس اب خاتمہ ہی ہے.جو دوست میرے پیچھے پیچھے آرہے تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ جب یکدم آپ کی موٹر گری تو ہمارا دل دہل گیا کہ پتا نہیں کیا ہو گیا ہے.مگر جب آپ کا رسے باہر نکلے تو آپ کو دیکھ کر ہمیں تسلی ہوگئی کہ آپ خدا تعالیٰ کے فضل سے صحیح و سلامت نہیں.پہلے خیال تھا کہ مخاع کٹ گیا ہے لیکن ڈاکٹروں نے دیکھنے کے بعد بتایا کہ ایسا نہیں ہوا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو آپ کھڑے نہیں ہو سکتے تھے لیکن میں کار سے باہر نکلا اور سہارا لے کر کھڑا ہو گیا.ناصر آباد جا کر میرے دائیں پاؤں پر نقرس کا شدید حملہ ہوا لیکن علاج کی وجہ سے جلد ہی افاقہ ہو گیا.پہلے تو چار پائی کے ساتھ ہی پاٹ رکھنا پڑتا تھا لیکن دوسرے تیسرے دن میں دوسرے کمرہ میں پاٹ کے ساتھ چلا جاتا تھا.پھر ایک دن ہم باغ میں سیر کے لئے بھی گئے لیکن جب ہم محمود آباد گئے تو چونکہ وہاں کی آب و ہوا میں رطوبت زیادہ تھی اس لئے وہاں مجھ پر نقرس کا دوبارہ حملہ ہوا جو برابر ریل میں بھی کراچی پہنچنے تک جاری رہا.یہاں

Page 647

انوار العلوم جلد 26 595 پیغامات پہنچ کر با وجود اس کے کہ جماعت کے ڈاکٹروں اور شہر کے دوسرے چوٹی کے ڈاکٹروں سے علاج کرایا گیا ابھی تک کوئی افاقہ نہیں ہوا اور اس وقت تک برابر اتنا درد ہے کہ میں نہ تو رات کو سوسکتا ہوں نہ دن کو آرام سے لیٹ سکتا ہوں.اس لئے میں مجبور ہوں کہ آپ سے مل نہیں سکا اور اس طرح میں نے آپ کے دل کو رنج پہنچایا ہے.امید ہے کہ آپ لوگ اس کا ازالہ دعا سے کریں گے.کیونکہ ہمارا اصل معالج خدا تعالیٰ ہی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام فرماتے ہیں.وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ 4 کہ جب میں اپنی بیوقوفیوں کی وجہ سے بیمار ہوتا ہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل سے شفا دیتا ہے.تو حقیقت یہی ہے کہ بیماریاں ہماری اپنی بیوقوفی سے آتی ہیں لیکن شفا خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوتی ہے.ورنہ ڈاکٹر دیکھتے رہ جاتے ہیں اور انہیں پتا نہیں لگتا کہ کیا بیماری ہے.مجھے بھی کل یہاں کے ایک چوٹی کے ڈاکٹر نے جن کی یورپ میں بھی شہرت ہے کہا ہم آپ کی مرض کا خاطر خواہ علاج نہیں کر سکتے کیونکہ عمر کے زیادہ ہونے کی وجہ سے آپ کا جسم بیماری کا مقابلہ نہیں کرتا.حالانکہ عمر کی زیادتی محض انسانی کم عقلی کا بہانہ ہے.ورنہ ایک دفعہ گجرات کا ایک شخص میری بیعت کرنے کے لئے آیا تو اس نے مجھے بتایا کہ اس وقت میری عمر 118 سال کی ہے اور میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں جوان تھا.تو انسان اپنی کوتاہی کی وجہ سے بہانے بناتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر خدا تعالیٰ حکیموں اور ڈاکٹروں کو عقل دے تو انہیں علاج سُوجھ جاتا ہے اور اگر خدا تعالیٰ انہیں عقل نہ دے تو کچھ بھی نہیں ہوتا.حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا کام تو محض قارورہ سونگھنا ہے ورنہ علاج تو اللہ تعالیٰ ہی سمجھاتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سرگودھا کا ایک رئیس میرے پاس آیا.وہ اپنے آپ کو بہت بڑا رئیس سمجھتا تھا.میں نے اسے بیماری کا معمولی سا علاج بتایا تو اس نے برا منایا اور سمجھا کہ گویا میں نے اُس کی ہتک کی ہے.پھر وہ غصہ سے کہنے لگا کہ آخر آپ لوگ پیشاب ہی سُونگھنے والے ہیں.تو حقیقت یہی ہے کہ طبیب حقیقی خدا تعالیٰ ہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ علم طب محض ظنی ہے اور طبیب کو کچھ پتا نہیں ہوتا کہ مرض کیا ہے.وہ محض تک مارتا ہے جو بعض اوقات صحیح بھی ہو جاتی.

Page 648

انوار العلوم جلد 26 596 پیغامات میرا علاج وہی ہو رہا ہے جو جوانی کی عمر میں ہوتا تھا اور اس سے فائدہ ہوجاتا تھا لیکن اب اس علاج سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا.کل ہی مجھ سے ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ یہ عمر کا تقاضا ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک شخص بیعت کے لئے میرے پاس قادیان آیا اور اس نے مجھے بتایا کہ اس کی عمر 118 سال کی ہے اور وہ لاہور سے پیدل چل کر آیا ہے.اور قادیان لاہور سے تقریباً 70 میل دور تھا.پس اگر خدا تعالیٰ طاقت دے اور وہ بڑی قدرتوں کا مالک ہے تو 118 سال کی عمر کا آدمی بھی 70 میل چل لیتا ہے میرا تو ابھی سترھواں سال شروع ہوا ہے اور میں اس کے شروع میں ہی اتنا کمزور ہو گیا ہوں کہ اس کی کوئی حد نہیں.جب میں پڑھتا ہوں یا سنتا ہوں کہ میرے زمانہ میں اسلام دنیا کے کناروں تک پہنچ گیا ہے تو میں شرمندہ ہو کر خدا تعالیٰ سے کہتا ہوں کہ یہ محض ان کی حسن ظنی ہے ورنہ حق یہ ہے کہ میں وہ فرض پورا نہیں کر سکا جو تو نے میرے سپرد کیا تھا.اگر میں وہ فرض پورا کر لیتا تو اب تک اسلام دنیا کے کناروں تک پھیل چکا ہوتا.یہ میری غفلت اور کوتاہیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ابھی دنیا کے صرف چند ملکوں میں ہی تبلیغ ہوئی ہے.میں 1914ء میں خلیفہ ہوا تھا لیکن تحریک جدید جس کے ماتحت مبلغین باہر جاتے ہیں اس کی ابتداء 1934ء میں ہوئی.گویا میں نے 20 سال غفلت میں گزار دیئے یعنی 20 سال بعد جا کر کہیں مجھے ہوش آئی کہ ابھی بہت کام باقی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عرصہ میں یورپ اور دیگر ممالک میں مساجد تعمیر کی گئیں ، جماعتیں قائم ہوئیں اور بہت سے لوگ اسلام میں داخل ہوئے.لیکن اگر یہ تحریک 20 سال قبل شروع کی جاتی تو شاید جماعت کی تعداد اور بھی بڑھ جاتی.بہر حال میں جماعت سے ان کی اس تکلیف کی وجہ سے ہمدردی کرتے ہوئے جَزَاكُمُ الله کہتا ہوں.ایک خدمت ایسی ہوتی ہے کہ باتیں کرنے یا سننے سے اس کا کسی قدر بدلہ خدمت کرنے والے کومل جاتا ہے لیکن آپ کو ایسی خدمت کی توفیق ملی ہے جو بغیر معاوضہ کے تھی.میں ابھی تک اس کا کوئی معاوضہ نہیں دے سکا.شاید اللہ تعالیٰ فضل کرے اور آپ کو اس خدمت کا بدلہ دے دے.پس میں دعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ آپ کو اس خدمت کا بدلہ دے اور ادھر مجھے صحت دے اور اسلام کی خدمت کی توفیق دے کہ میں اور پ سب اسلام کی ترقی اپنی آنکھوں سے دیکھیں.پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں قادیان بھی دے.ہم اپنی زندگی میں قادیان جائیں

Page 649

انوار العلوم جلد 26 597 پیغامات اور ہم میں سے جو لوگ مستحق ہیں ان کو اللہ تعالیٰ بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قرب میں جگہ دے.خدا تعالیٰ کا قرب تو ہمیں ہر جگہ نصیب ہے.فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللهِ 5 جہاں بھی ہم جائیں خدا تعالیٰ موجود ہے لیکن خدا تعالیٰ کو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ دیکھا ہے اس لئے ہمارا دل تڑپتا ہے کہ جہاں ہمیں خدا تعالیٰ کا ظاہری قرب نصیب ہے وہاں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظاہری قرب بھی نصیب ہو.آپ کا قرب باطنی تو ہر ایمان والے کو حاصل ہے لیکن قادیان بہشتی مقبرہ میں دفن ہونے والے کو آپ کا ظاہری قرب بھی مل جائے گا.تو اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ظاہری اور باطنی دونوں قرب عطا فرمائے.اور پھر صرف ہمیں ہی عطا نہ فرمائے بلکہ دنیا کے سب لوگوں کو عطا فرمائے کیونکہ سب لوگ ہمارے دادا حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں.اور ایک دادا کی اولاد میں کوئی فرق نہیں ہوتا بلکہ وہ سب آپس میں بھائی بھائی ہوتے ہیں.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ایک جلالی اعلان (الفضل 4 اپریل 1959ء) سیدنا حضرت مصلح موعود نے 4 مئی 1959ء کو نظام سلسلہ کی نگرانی کے لئے حسب ذیل اعلان تحریر فرمایا جو حضور کے ارشاد کی روشنی میں ربوہ کی بیوت الذکر میں پڑھ کر سنایا گیا :.تمام احباب جماعت کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے (بعد میں اخبار میں بھی شائع کر دیا جائے گا) کہ گو ہماری جماعت میں اب تک خدا تعالیٰ کے فضل سے دیانتداری چل رہی ہے لیکن پھر بھی چونکہ پچھلی اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک وقت میں آکر نہایت دیانتدار قوم میں بھی بعض بدیانت لوگ پیدا ہو گئے تھے لہذا اس امر کی نگرانی کے لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جس شخص کو کسی افسر کے متعلق ایسی شکایت ہو کہ اس نے اعلیٰ درجہ کی دیانتداری سے کام نہیں لیا وہ مجھے آکر بتائے تا کہ جرح کر کے میں اپنی تسلی

Page 650

انوار العلوم جلد 26 598 پیغامات کروں.میں بوجہ بیماری ملاقاتیں کم کرتا ہوں لیکن جو شخص ایسی رپورٹ دینا چاہے وہ دفتر میں آکر ملاقات کے لئے نام لکھوائے اور ساتھ یہ بھی لکھوائے کہ ملاقات برائے اصلاح جماعت ہے ایسے آدمی کو میں ضرور بلوالیا کروں گا مگر میں یہ وعدہ نہیں کرتا کہ اس کی بات کو ضرور مان لوں گا میں تحقیقات کروں گا اور اس پر جرح کروں گا.اگر ( دین حق ) کے قواعد کے مطابق اس کی بات میں کوئی نیم سچائی بھی نظر آئی تو افسر متعلقہ سے باز پرس کروں گا اور اگر تحقیقات سے بات سو فیصدی کچی ثابت ہوئی تو افسر متعلقہ کو اِنشَاءَ اللهُ سزا دوں گا اور خدا کے فضل سے اس بات کی بھی کبھی پروا نہیں کروں گا کہ وہ بڑا آدمی بڑا ہے یا چھوٹا.اس اعلان کے ذریعہ میں خدا کے سامنے بری ہوتا ہوں اب اگر کوئی شخص ایسی شکایت نہیں لاتا تو خدا تعالیٰ کے سامنے وہ مجرم ہے میں مجرم نہیں.اور اگر اس کی غفلت کی وجہ سے جماعت میں کوئی خرابی پیدا ہوئی تو اللہ تعالیٰ کے سامنے وہی شخص سزا کا مستحق ہوگا.مرزا محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی "4-5- & 1959 تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 332، 333 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) حمد احباب جماعت کے نام ضروری پیغام أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ اَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ ہم دوسرے انسانوں سے الگ قسم کے انسان نہیں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے خبر دی کہ مسیح موعودشاہی خاندان میں پیدا ہو گا اور اُس کے ذریعہ سے پھر اسلامی بادشاہت قائم ہو گی.7.اس کی وجہ سے باوجود نہایت نالائق

Page 651

انوار العلوم جلد 26 599 پیغامات ہونے کے ہم نے ایک لمبی سکھ کی زندگی بسر کی اور اللہ تعالیٰ کی بشارتوں کے مطابق شاہی خاندان میں پیدا ہوئے.ہماری اس میں کوئی خوبی نہیں تھی.ہم ذلیل تھے اُس نے ہمیں دین کا با دشاہ بنا دیا.ہم کمزور تھے ہمیں اس نے طاقتور کر دیا اور اسلام کی آئندہ ترقیوں کو ہم سے وابستہ کر دیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کے طفیل ہمیں اس قابل بنایا کہ ہم خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پھیلائیں.یہ وہ مشکل کام تھا جس کو بڑے بڑے بادشاہ نہ کر سکے لیکن خدا تعالیٰ نے ہم غریبوں اور بے بسوں کے ذریعہ سے یہ کام کروا دیا.اور اس بات کو سچا کر دکھایا کہ سُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي ( یعنی پاک ہے وہ خدا جس نے اسلام کے دشمنوں کو ذلیل کر دیا ) مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت تک اسلام کو برتری بخشتا رہے گا اور مجھے امید ہے کہ میری اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد ہمیشہ اسلام کے جھنڈے کو اونچا کرتی رہے گی اور اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی قربانی کے ذریعے سے اسلام کے جھنڈے کو ہمیشہ اونچار کھے گی.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو دنیا کے کناروں تک پہنچائے گی.میں اس دعا میں ہر احمدی کو شامل کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو اور ان کو اس مشن کے پورا کرنے کی توفیق دے.وہ کمزور ہیں لیکن ان کا خدا ان کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ خدا ہوا سے انسانوں کی طاقت کا کوئی ڈر نہیں ہوتا.دنیا کی بادشاہتیں ان کے ہاتھ چو میں گی اور دنیا کی حکومتیں ان کے آگے گریں گی بشرطیکہ نبیوں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق یہ لوگ نہ بھولیں اور اسلام کے جھنڈے کو اونچار کھنے کی کوشش کرتے رہیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو، ہمیشہ ان کی مدد کرتا رہے اور ہمیشہ ان کو سچا راستہ دکھاتا رہے.بے شک وہ کمزور ہیں.تعداد کے لحاظ سے بھی اور روپے کے لحاظ سے بھی اور علم کے لحاظ سے بھی.لیکن اگر وہ خدائے جبار کا دامن مضبوطی سے پکڑیں گے تو خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں ان کے حق میں پوری ہوں گی.اور دینِ اسلام کے غلبہ کے ساتھ ان کو بھی غلبہ ملے گا.اس دنیا میں بھی اور اگلی دنیا میں بھی.خدا تعالیٰ ایسا ہی کرے اور قیامت کے دن نہ وہ شرمندہ ہوں نہ ان کی وجہ سے حضرت مسیح موعود یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شرمندہ ہوں.نہ خدا تعالیٰ شرمندہ ہو

Page 652

انوار العلوم جلد 26 600 پیغامات کہ اس نے ایسی نالائق جماعت کو کیوں چنا.یہ خدا تعالیٰ کا لگایا ہوا آخری پودا ہے جو اس پودے کی آبیاری کرے گا خدا تعالیٰ قیامت تک اُس کے بیج بڑھاتا جائے گا اور وہ دونوں جہان میں عزت پائے گا.اِنْشَاءَ اللہ تعالیٰ اے عزیز و ! 1914 ء میں خدا تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کا بوجھ مجھ پر رکھا تھا اور میری پیدائش سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود کے ذریعہ میری خبر دی تھی.میں تو ایک حقیر اور ذلیل کیڑا ہوں یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے مجھے نوازا اور میرے ذریعہ سے اسلام کو دنیا میں قائم کیا.جس خدا نے میرے جیسے حقیر انسان کے ذریعہ سے دنیا میں اسلام کو قائم کیا میں اُسی خدائے قدوس کا دامن پکڑ کر اُس سے التجا کرتا ہوں کہ وہ اسلام کو برتری بخشے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اگلے جہان میں ساری دنیا کے سردار ہیں اس جہان میں بھی ساری دنیا کا سردار بنائے بلکہ اُن کے خدام کو بھی ساری دنیا کا بادشاہ بنائے مگر نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نہ کہ ظلم کے ساتھ.تو حید دنیا سے غائب ہے خدا کرے کہ پھر تو حید کا پرچم اونچا ہو جائے اور جس طرح خدا غالب ہے اُسی طرح اس کا جھنڈا بھی دنیا میں غالب رہے اور اسلام اور احمدیت دنیا میں توحید اور تقویٰ اور اسلام کی عظمت پھر دنیا میں قائم کر دیں اور قیامت تک قائم رکھتے چلے جائیں.یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے کہ خدا کے فرشتے آسمان سے نازل ہو کر خدا کے بندوں کی روحوں کو بلند کر کے آسمان پر لے جائیں اور ان میں ایک ایسا مضبوط رشتہ قائم کر دیں جو ابد تک نہ ٹوٹے.امِيْنَ ثُمَّ امِيْنَ.بادشاہت سب خدا کا حق ہے مگر افسوس ہے کہ انسان نے اپنی جھوٹی طاقت کے گھمنڈ میں اس بادشاہت کو اپنے قبضہ میں کر رکھا ہے اور خدا کے مسکین بندوں کو اپنا غلام بنا رکھا ہے.خدا تعالیٰ اس غلامی کی زنجیروں کو توڑ دے کہ وہ ہر چیز پر قادر ہے.اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد اور مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کو نیکی پر ہمیشہ قائم رکھے اور اعتدال کے راستہ سے پھرنے نہ دے.اُس سے یہ بات بعید نہیں گو انسان کی نظر میں یہ بات بڑی مشکل معلوم ہوتی ہے.میں اُس کے بندوں کی باگ اُسی کے ہاتھ میں دیتا

Page 653

انوار العلوم جلد 26 601 پیغامات ہوں اور مجھے یقین ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ ان کا خیر خواہ ثابت ہوگا اور قریب کی قیامت بلکہ دور کی قیامتوں کے موقع پر سچے مسلمانوں کی سرخروئی اور اعزاز کا موجب ہوگا.میں اپنے لڑکوں لڑکیوں اور بیویوں کو بھی اُس کے سپرد کرتا ہوں.میری نرینہ اولا دموجود ہے لیکن میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے سوا انسان کچھ نہیں کر سکتا اس لئے میں اولاد در اولاد اور بیویوں اور اُن کے وارثوں کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کرتا ہوں جس کی حوالگی سے زیادہ مضبوط حوالگی کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام تھا سپردم مایه خویش را و دانی حساب کم و بیش را ہم نے اس الہام کی سچائی کو 51 سال تک آزمایا ہے اور خدا تعالیٰ سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ دنیا کے آخر تک اس الہام کی سچائی کو ظاہر کرتا رہے گا.اُس کا کلام ہمیشہ سچا ہی ثابت ہوتا رہے گا.اصل عزت وہی ہے جو مرنے کے بعد انسان کو ملے گی.لیکن پھر بھی اس دنیا میں نیکی کا بیج قائم رکھنے سے انسان دعاؤں کا مستحق بن جاتا ہے اور اپنے پرائے اس کی بلندی کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں.یہ خوبی کا مقام بھلا یا نہیں جاسکتا.اور میں اپنے خاندان کے مردوں عورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو یہ مقام ہمیشہ عطا ر کھے.اور اسی طرح میرے بھائیوں اور بہنوں کی اولا د کو بھی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی پیدا نہیں ہوا نہ آگے پیدا ہو گا.آپ کو خدا تعالیٰ نے اس دنیا میں اور اگلے جہان میں بھی سردار مقرر کیا ہے.خدا کرے آپ کی یہ سرداری تا ابد قائم رہے.اور ہم قیامت کے دن درود پڑھتے ہوئے آپ کے نشان والا جھنڈا لے کر آپ کے سامنے حاضر ہوں.اور اپنے خدا سے بھی کہیں کہ اے خدا ! تو نے جس انسان کی عزت کو اپنی عزت قرار دیا تھا ہم اس کی عزت قائم کر کے آئے ہیں.ہم پر بھی رحم کر اور اپنے فضلوں کا وارث بنا.امِينَ ثُمَّ امِيْنَ.میری اولاد کے نام میری نعش ، میری اماں جان کی نعش اور میری بیویوں کی نعشوں کو قادیان پہنچانا تمہارا

Page 654

انوار العلوم جلد 26 602 پیغامات فرض ہے.میں نے ہمیشہ تمہاری خیر خواہی کی تم بھی میری خواہش پوری کرنا.اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ و ناصر ہوا اور تمہیں عزت بخشے.میں ساری جماعت احمدیہ کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا اور رسول کے لئے وقف کریں اور قیامت تک اسلام کے جھنڈے کو دنیا کے ہر ملک میں اونچا رکھیں.خدا تعالیٰ ان کے ساتھ ہو، ان کی مدد کرے اور اپنی بشارتوں سے ان کو نوازے.میں امید کرتا ہوں کہ یورپ کے نئے احمدی اپنی جان اور مال سے ایشیا کے پرانے احمدیوں کی مدد کریں گے اور تبلیغ کے فریضہ کو ادا کرتے رہیں گے یہاں تک کہ اسلام ساری دنیا پر غالب آ جائے.اگر لینن کے متبعین نے چند سال میں ساری دنیا پر اپنا سکہ جمالیا تھا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین یہ کام کیوں نہیں کر سکتے.صرف عزم اور ارادہ کی پختگی کی ضرورت ہے.خدا تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو.وہ کبھی ظلم نہ کریں اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے بندوں کے سامنے عجز وانکسار کے ساتھ سر جھکا ئیں تا کہ خدا تعالیٰ اور اس کے بندوں کی مددان کو ملتی رہے اور اسلام کا سر ہمیشہ اونچار ہے اور قیامت کے دن خدا کا آخری نبی بلکہ خدائے واحد خود نہایت شوق سے اپنے ہاتھ پھیلا کر ان کی ملاقات کے لئے آگے بڑھے.اور وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا تعالیٰ کی برکات کے وارث ہوں.میں احمدیت اور اس کے آثار کو بھی خدا کے سپر د کرتا ہوں.وہی ان کا بھی محافظ ہو اور ان کی عزت کو قیامت تک قائم رکھے.امِيْنَ ثُمَّ أَمِيْنَ اے دوستو ! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اُس کی تأثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حققہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو تا خدا تعالیٰ تم پر رحم کرے اور تم کو اس دنیا میں بھی اونچا کرے اور اُس جہان میں بھی اونچا کرے.تا مرگ اپنے وعدوں کو پورا کرتے رہو اور میری اولاد اور حضرت مسیح موعود کی اولا د کو بھی اُن کے خاندان کے عہد یاد دلاتے رہو.احمدیت کے مبلغ اسلام کے نیچے سپاہی ثابت ہوں اور اس دنیا میں خدائے قدوس کے کارندے بنیں.

Page 655

انوار العلوم جلد 26 603 پیغامات کیا ہمارا خدا اتنی طاقت بھی نہیں رکھتا جتنا کہ حضرت مسیح ناصری رکھتے تھے ؟ مسیح ناصری تو ایک نبی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام نبیوں کے سردار تھے.خدا تعالیٰ ان کی سرداری کو دونوں جہان میں قائم رکھے اور ان کے ماننے والوں کا جھنڈا کبھی نیچا نہ ہو اور وہ اور ان کے دوست ہمیشہ سر بلند ر ہیں.امِيْنَ ثُمَّ آمِيْنَ میں یہی نصیحتیں پاکستان سے باہر کے احمدیوں کو بھی کرتا ہوں.وہ بھی خدا تعالی کے ایسے ہی محبوب ہیں جیسے پاکستان میں رہنے والے احمدی.اور جب تک وہ اسلام کو اپنا سمح نظر قرار دیں گے خدا تعالیٰ ان کو بھی اور اسلام کو بھی دنیا میں بلند کرتا چلا جائے گا انْشَاءَ اللهُ - خدا کرے احمدیوں کے ذریعہ سے کبھی دنیا میں ظلم کی بنیا د قائم نہ ہو.بلکہ عدل، انصاف اور رحم کی بنیاد قائم ہوتی چلی جائے.اور ہمیشہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے دائیں بھی کھڑے ہوں اور بائیں بھی کھڑے ہوں اور کوئی شخص ان کی طرف نیزہ نہ پھینکے جسے خدا تعالیٰ کے فرشتے آگے بڑھ کر اپنی چھاتی پر نہ لے لیں.امِيْنَ ثُمَّ امِيْنَ آدم اول کی اولاد کے ذریعہ سے بالآخر دنیا میں بڑا ظلم قائم ہوا اب خدا کرے آدم ثانی یعنی مسیح موعود کی اولاد کے ذریعہ سے یہ ظلم ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے.اور سانپ یعنی ابلیس کا سر کچل دیا جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت اسی طرح دنیا میں بھی قائم ہو جائے جس طرح آسمان پر ہے.اور کوئی انسان دوسرے انسان کو نہ کھائے اور کوئی طاقت ور انسان کمزور انسان پر ظلم اور تعدی نہ کرے.امِيْنَ ثُمَّ امِيْنَ مرز امحمود احمد 17 مئی 1959ء الفضل 20 مئی 1959 ء )

Page 656

انوار العلوم جلد 26 604 ہ احباب جماعت کے نام تازہ پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق انسان کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھتا ہے.مسیح موسوی کو گزرے ہوئے 1900 سال ہو چکے مگر اللہ تعالیٰ نے اُن کو وہ طاقت بخشی کہ آج تک کوئی ان کا مقابلہ نہیں کر سکتا.دہر یہ یورپ بھی مجبور ہے کہ ان کا نام عزت سے لے ورنہ وہ ڈرتا ہے کہ اس کی طاقت ٹوٹ جائے گی اور باوجود دہریت کے غلبہ کے وہ مجبور ہے کہ مسیح کا نام ادب سے لے.پس میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کریں اور مسیح محمدی سے مضبوط رشتہ قائم کریں اور نیکی کو اپنا شعار بنائیں تب قیامت تک اللہ تعالیٰ ان کو غلبہ بخشے گا اور قیامت تک کوئی طاقت ان کو ہلا نہیں سکے گی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے ” جے توں میرا ہو رہیں سب جگ تیرا ہو 8 پس ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم رکھو خدا تعالیٰ تمہیں دین اور دنیا میں غلبہ بخشے گا اور کوئی طاغوتی طاقت تمہیں شکست نہیں دے سکے گی.اور دلوں میں اتحاد پیدا کرو اور ساری دنیا کے احمدیوں اور مسلمانوں کو ایک نقطہ پر جمع رکھو.اسلام کے اتحاد سے ہی خدا تعالیٰ کی شان ظاہر ہوگی اور اسلام کے اتحاد سے ہی خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی.خدا کرے حضرت مسیح موعود کی نسل ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کی حکومت کو دنیا میں قائم رکھے اور طاغوتی حکومتوں کو ہمیشہ کے لئے کچل ڈالے.امِيْنَ اللَّهُمَّ امِيْنَ مسیح موعود اللہ تعالیٰ کا آخری نشان ہے.اگر شیطان اس کے ہاتھ سے مارا گیا تو پھر شیطان کبھی سر نہیں اٹھائے گا کیونکہ شیطان کا سر کچلے جانے پر اور کوئی چیز نہیں جو دنیا میں شیطان کو قائم رکھے.اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ میں یہ برکت حضرت مسیح موعود کو بخشی

Page 657

انوار العلوم جلد 26 605 پیغامات ہے کہ ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی قائم ہو.میں وصیت کرتا ہوں کہ احمدی جماعت ہمیشہ شیطان کا سر کچلنے کے لئے مستعد رہے اور دنیا کے چاروں کونوں تک اسلام کو پھیلائے.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو.ان کے کام میں برکت دے اور ان کی نیتوں کو صاف رکھے.اور وہ کسی پر ظلم کرنے والے نہ بنیں بلکہ ہمیشہ عدل اور رحم اور انصاف کو قائم رکھیں اور ان کا یہ طریق عیسائیوں کے طریق کی طرح زبانی نہ ہو بلکہ حقیقی ہو.وہ عیسائیوں کی طرح آپس میں اس طرح نہ لڑیں جیسے دو جانور لڑتے ہیں بلکہ دنیا میں اسلامی اتحاد کو اور آسمان پر خدا کی تو حید کو قائم رکھیں.آدم اول کے بعد دنیا نے بڑے گناہ کئے خدا کرے آدم ثانی یعنی مسیح موعود کے ذریعہ سے ایسی دنیا قائم ہو جو قیامت تک خدا تعالیٰ کے نام کو روشن رکھے.مرزا محمود احمد "19-5-1959 الفضل 21 مئی 1959ء)

Page 658

انوار العلوم جلد 26 606 پیغامات مجلس انصار اللہ کے پانچویں سالانہ اجتماع کے موقع پرتحریک جدید کے نئے مالی سال کے لیے پیغام أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اب تحریک جدید کے نئے سال کا وقت آگیا ہے ہماری جماعت کا چندہ پہلے سے ہزاروں گنا بڑھ جانا چاہئے اور اگر آپ ہمت کریں اور تبلیغ کریں تو یقیناً بڑھ جائے گا.اگر پہلے ایک لاکھ ہوتا تھا تو اب ایک کروڑ ہونا چاہئے.پس میں تحریک کرتا ہوں کہ آپ آئندہ سال تحریک کے لئے اپنے وعدے لکھوائیں اور اپنے شہروں میں جا کر تمام احمد یوں سے لکھوائیں تا کہ تحریک جدید کا چندہ نہ صرف کروڑ بلکہ کروڑوں ہو جائے.خدا تعالیٰ آپ کے مالوں میں برکت دے گا اور جماعت کو بھی بڑھائے گا کیونکہ روپیہ بھی خدا تعالیٰ کے پاس ہے اور طاقتیں بھی خدا تعالیٰ کے پاس ہیں.قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ 9.یعنی وہ انسان کے خیال سے بھی زیادہ قریب ہے.آپ جانتے ہیں کہ خیال انسان کے کتنا قریب ہے مگر خدا تعالیٰ اس سے بھی زیادہ قریب ہے.پس خدا تعالیٰ سے دعائیں بھی کیجئے کہ خدا ساری دنیا کے دلوں کو احمدیت کی طرف پھیر دے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: پھیر دے میری طرف اے سارباں جگ کی مہار 10 ہے عیسائیت کو 1959 سال ہو گئے مسیح محمدی کا زمانہ اس سے بڑا ہو گا.آپ کی جماعت میں انشَاءَ اللہ کئی گنا زیادہ آدمی ہوگا اور اللہ تعالیٰ آپ کو اُس وقت تک زندگی دے گا جب تک احمدیت دنیا کے چپہ چپہ پر پھیل چکی ہوگی اور دنیا کے تمام اموال احمدیت پر

Page 659

انوار العلوم جلد 26 607 پیغامات قربان ہو رہے ہوں گے.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ دعا ہزاروں گنا زیادہ شان وشوکت سے پوری ہوگی کہ پھیر دے میری طرف اے سا رہاں جنگ کی مہار پس اپنے چندوں کو بڑھاؤ اور خدا کی رحمت کو کھینچو کیونکہ جتنا تم چندہ دو گے اُس سے ہزاروں گنے زیادہ تمہیں ملے گا.اور دنیا کی ساری دولت کھینچ کر تمہارے قدموں میں ڈال دی جائے گی.جس کے متعلق تمہارا فرض ہو گا کہ سلسلہ احمدیہ کے لئے خرچ کرو.تا کہ دنیا کے چپہ چپہ پر مبلغ بھیجے جاسکیں.اور ساری دنیا میں اسلام پھیل جائے اور دنیا کی ساری حکومتیں اسلام میں داخل ہو جائیں.آپ کو یہ بات بڑی معلوم ہوتی ہو گی مگر خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑی نہیں.پس میں اس اعلان کے ذریعہ تحریک جدید کے نئے سال کا آغاز کرتا ہوں.مرزا محمود احمد خلیفة اصبح الثاني "1-11-1959 (الفضل 3 نومبر 1959ء) جلسہ سالانہ قادیان (15 تا 17 دسمبر 1959ء کیلئے پیغام خدا تعالیٰ پر تو کل سب سے اہم چیز ہے.جو کچھ خدا کرسکتا ہے بندہ نہیں کرسکتا.خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ وہ ایسا راستہ کھولے جس سے آپ کی اور جماعت کی تکلیفیں دور ہوں.اس میں سب طاقتیں ہیں.جہاں بندہ کی عقل نہیں پہنچتی اُس کا علم پہنچتا ہے.خواہ ایک ٹکڑا ہو صدقہ بہت دیا کرو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے جہاں دعائیں نہیں پہنچتی صدقہ بلاؤں کو رد کر دیتا ہے.صدقہ کا لفظ بھی بتاتا ہے کہ تعلق باللہ سچا ہے.پس تعلق باللہ کو سچا ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ جو کام آپ نہیں کر سکتے وہ خدا کر دے.

Page 660

انوار العلوم جلد 26 608 پیغامات رَبِّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِي وَ اَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِيْنَ.رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِيْ وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي - کثرت سے پڑھا کریں.رَبِّ إِنَّكَ تَعْلَمُ وَلَا اَعْلَمُ وَأَنْتَ اَعْلَمُ مِنِيْ مِنْ حَفَاءِ نَقَائِصِيْ فَأَنْزِلْ عَلَيَّ فَضْلَكَ وَ رَحْمَتَكَ وَازِلٌ عَنْ طَرِيْقَتِى كُلَّ عَوَائِقَ لَا تَقُرنِي بَعْدِي وَ أَنْتَ أَعْلَمُ مِنِّي مِنْ حَالِي مرزا محمود احمد 13 دسمبر 1959ء تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 402 ، 403 ناشر نظارت اشاعت ربوہ ) ه دردمندانہ پیغام برادران اسلام کے نام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ اے برادرانِ اسلام ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آج 1959ء یعنی بیسویں صدی آدھی سے زیادہ گزرگئی ہے.اسلامی صدی اس سے بھی زیادہ گزرگئی ہے مگر آپ کو ابھی تک انتظار ہے کہ مسیح آئے گا.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ خدا تعالیٰ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد بھیجے گا 11.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال صادق و مصدوق ہیں اور آپ کی طرف کوئی جھوٹ کسی صورت میں منسوب نہیں ہوسکتا.پس میں خدا تعالیٰ کی ہر بات پر ایمان لاتے ہوئے کہتا ہوں کہ آپ لوگ خدا تعالیٰ کی بات مان لیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لے آئیں.اسی میں آپ کا بھلا، اسی میں آپ کے لئے برکت ہے.خدا تعالیٰ نے اپنے عمل اور اپنی بشارت سے

Page 661

انوار العلوم جلد 26 609 پیغامات بتا دیا ہے کہ احمدیت کی برکت سے اسلام یورپ میں پھیل رہا ہے.پس اب بھی وقت ہے کہ مان لیں اور خدا کے تقرب کا موقع ضائع نہ کریں.مرنے کے بعد ایمان فائدہ نہ دے گا.پس دوڑیں اور خدا تعالیٰ کی رہتی کو پکڑ لیں اور اپنا دونوں جہانوں میں بھلا کریں.خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اُمت بنیں اور آپ کے اقوال کی پیروی کریں ورنہ خدا تعالیٰ غنی ہے اُسے بندوں کی پرواہ نہیں.محتاج انسان ہے وہ محتاج نہیں.پس دوڑیں اور خدا کے بھیجے ہوئے ما مور پر ایمان لائیں.یاد رکھیں آپ کی بھلائی اسی میں ہے.اگر آپ ایمان نہ لائیں گے تو اس سے کچھ فرق نہیں پڑے گا.خدا زمین کے ہر ذرے سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اسلام کا بول بالا کریں گے.اپنی عمر ضائع نہ کریں.آپ کا دین کی بات کو نہ ماننا اور مسیح موعود علیہ السلام کو نہ ماننا آپ کے اپنے لئے نقصان دہ ہے.دن تھوڑے رہ گئے ہیں جلد سے جلد ایمان لا کر اپنا بھلا کریں.خدا تعالیٰ آپ کو ایمان عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ایمان بخشے.میں بوڑھا اور بیمار ہوں مگر آپ کے لئے دعاؤں میں مشغول ہوں.آپ میرے ماں کی طرف سے اور باپ کی طرف سے کوئی رشتہ دار نہیں مگر مجھے آپ سے ایسی محبت ہے جیسی اپنے عزیزوں سے.میں آپ کے لئے دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو دین و دنیا میں نوازے اور ایمان عطا فرمائے.اگر آپ ایمان لے آئے تو آپ کا مقام ثریا سے بلند ہوگا.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے قادیان کا راستہ جلد کھل جائے گا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرکز ہے.وہ لوگ جو ایمان اُس وقت تک لا چکے ہوں گے اُن پر اُس کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی اور وہ جو بعد میں ایمان لانے کی کوشش کریں گے اُن کو یہ مقام حاصل نہیں ہو گا.امتحان لینا خدا کا کام ہے آپ کا کام نہیں.پس آپ خدا کا امتحان نہ لیں کہ یہ سخت محرومی کا رستہ ہے.شکر کریں تا کہ خدا تعالیٰ آپ کو کامیاب کر دے.میں دعا کرتا ہوں خدا تعالیٰ آپ کو جلد ایمان لانے کی توفیق دے.آپ کے رُکے رہنے سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت میں فرق نہیں پڑے گا بلکہ آپ کی اپنی ہی بدنصیبی ہو گی.خدا آپ کی مدد کرے.آپ کو ابتلاؤں اور ٹھوکروں سے بچائے اور میں

Page 662

انوار العلوم جلد 26 610 اپنی زندگی میں دیکھ لوں کہ آپ کو ایمان عطا ہو گیا.پیغامات خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي كم الله 12 آپ منہ سے محبوب سبحانی محبوب سبحانی کرتے ہیں مگر تعجب ہے کہ ایک نہر آپ کے سامنے رواں دواں ہے اور آپ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.آپ خود ہی اس سے فیض اٹھا کر محبوب سبحانی بن سکتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر موسیٰ اور عیسیٰ عَلَيْهِمَا السلام زندہ ہوتے تو اُن کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ تھا 13.اپنے آپ کو خواہ مخواہ حقیر نہ سمجھو.خدا تعالیٰ نے آپ کو بڑا بنایا ہے حقیر نہیں بنایا.جلد آؤ کہ میرا خدا آپ کا انتظار کر رہا ہے.آپ کے لئے زمین اور آسمان اپنے خزانے اُگلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.آپ اگر اس سے فائدہ نہ اٹھا ئیں گے تو اس میں آپ کی اپنی ہی محرومی ہے.خدا آپ کے ساتھ ہو.امِینَ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ.ربوہ "29-12-1959 (رساله خالد فروری 1960ء)

Page 663

انوار العلوم جلد 26 611 پیغامات وقف جدید کے نئے سال کے آغاز پر احباب جماعت کے نام پیغام , بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت ! أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا تیسرا سال شروع ہو رہا ہے.پہلے بھی میں آپ لوگوں کو برابر تحریک کرتا رہا ہوں کہ وقف جدید کو مضبوط بنانا ضروری ہے لیکن اب تو کام کی وسعت کی وجہ سے اس کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے.پس جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کو مالوں میں ترقی دی ہے وہاں آپ کو سلسلہ کی ترقی کے لئے بھی دل کھول کر چندہ دینا چاہئے تا اللہ تعالیٰ سارے پاکستان اور سارے ہندوستان میں اسلام اور احمدیت کو پھیلا دے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو توفیق دے کہ آپ وقت کی آواز کو سنیں اور کانوں میں روئی نہ ڈالے رکھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں آسماں بارد نشاں الوقت میگوید زمیں این دو شاہد از پئے تصدیق من استاده اند 14 خدا کرے کہ آپ آسمان کی آواز کو سنیں اور زمین کی آواز کو بھی سنیں تا کہ آپ کو سرفرازی حاصل ہو.یا د رکھو جو شخص وقت پر خدا کی آواز کو نہیں سنتا وہ بد بخت ہوتا ہے.وہ دن آگئے ہیں کہ جب ساری دنیا احمدیت کے ذریعہ اسلام میں داخل ہوگی.اگر اس میں آپ کا حصہ نہیں ہوگا تو کتنی بدبختی ہوگی.تبلیغ کرنا ہر احمدی کا فرض ہے نہ معلوم آپ اس میں کتنا حصہ لیتے ہیں لیکن اس زمانہ میں تبلیغ کا بڑا ذریعہ اشاعت دین کے لئے چندہ دینا ہے اس لئے آپ لوگوں کا فرض ہے کہ وقف جدید کے چندہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں

Page 664

انوار العلوم جلد 26 612 پیغامات کہ اگر کوئی شخص کسی کو ظلم کرتا دیکھے تو اُس کو ہاتھ سے روک دے.لیکن اگر وہ یہ طاقت نہیں رکھتا تو ظلم کو دل سے بُرا سمجھے 15.اس لئے کم از کم آپ کے دل میں تو یہ خواہش پیدا ہونی چاہئے کہ آپ اسلام کے لئے قربانی کریں.جب آپ دل میں خواہش کریں گے تو آپ کو خدا کے فضل سے عمل کی توفیق بھی مل جائے گی.میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سچا ایمان بخشے اور آپ کو بڑھ چڑھ کر قربانیوں کی توفیق عطا کرے تا ہم میں سے بوڑھے سے بوڑھا شخص بھی اسلام اور احمدیت کی ترقی کو دیکھ سکے.اللهم امِيْنَ اللَّهُمَّ آمِيْنَ اللَّهُمَّ آمِيْنَ “ 66 ( الفضل 31 دسمبر 1959 ء) انڈونیشیا کی سالانہ کانفرنس 1960ء کیلئے پیغام دو تبلیغ پر زور دیں.بہت مدت سے وہاں تبلیغ جاری ہے اور اس وقت تک سارا ملک احمدی ہو جانا چاہئے تھا.آپ کا علاقہ اسلام کے پھیلنے کے لئے بہت مفید ہے.آپ کو تبلیغ کی طرف بہت توجہ کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنا فرض ادا کرنے کی توفیق دے اور آپ کی زبان میں اثر پیدا کرے.امین لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع 1960 ء پر پیغام اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيمِ ( الفضل 16 ستمبر 1960ء) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماء الله ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ ہمیں قادیان سے آئے ہوئے 13 سال ہوچکے ہیں اور اب وہاں جانے کے دن قریب معلوم ہوتے ہیں.تمہیں بھی چاہیے کہ اپنے اخلاص اور قوت عمل کو بڑھاؤ تا کہ جب بھی

Page 665

انوار العلوم جلد 26 613 پیغامات قادیان میں تمہارا جانا مقدر ہے وہ بابرکت ثابت ہو.قادیان ہمارا اصل مرکز ہے اور وہی برکت پائے گا جو قادیان سے روحانی رنگ میں اتصال رکھے گا.عیسائیوں کو انیس سو سال گزر چکے ہیں مگر اب تک وہ ہمت کر رہے ہیں اور ساری دنیا چھائے ہوئے ہیں.تم کو تو انیس ہزار سال تک دنیا پر روحانی رنگ میں قبضہ رکھنا چاہیے کیونکہ مسیح محمدی اپنی ساری شان میں مسیح ناصری سے بڑھ کر ہے.خدا تعالی تم کو توفیق دے اور تمہاری ہمتوں میں برکت دے اور تم ہمیشہ خدا تعالیٰ کے قرب میں جگہ پاؤ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لَوْ كَانَ مُوْسَىٰ وَ عِيْسَىٰ حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتَّبَاعِی 16 یعنی اگر موسیٰ اور عیسی بھی زندہ ہوتے تو اُن کیلئے میری اتباع کے بغیر کوئی چارہ نہ ہوتا.پس تمہارا آقا تو عیسی اور موسی سے بھی بڑھ کر ہے.تمہیں چاہئے کہ جب تم قادیان جاؤ تو اُس وقت تک کروڑوں احمدی ہو چکا ہو.اور اپنی نسلوں کو سکھاؤ کہ وہ احمدیت کو بڑھائیں اور ترقی دیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے 17.اس کے یہی معنے ہیں کہ ماں اگر چاہے تو اپنے بچوں کو جنتی بنا سکتی ہے.سو اے احمدی عورتو! اپنی اولاد کو جنتی بنانے کی کوشش کرو اور ان کو یہ تعلیم دو کہ احمد بیت کو دنیا میں پُر امن طریق پر پھیلا کر دم لیں.صرف پنجاب میں نہیں بلکہ ساری دنیا میں.تمہیں قادیان سے آئے ہوئے تیرہ سال ہورہے ہیں چاہئے تھا کہ اس تیرہ سال کے عرصہ میں تم جماعت کو کئی گنا بڑھا دیتیں.بیشک عورت مردوں کی طرح کام نہیں کر سکتی مگر اپنے خاوندوں اور بیٹوں کو ترغیب دے سکتی ہے.عیسائی عورتیں اپنی زندگی وقف کر کر کے ساری عمر دین کا کام کرتی ہیں تم کو بہر حال عیسائیوں سے بڑھ کر نمونہ دکھانا چاہئے اور قیامت تک اسلام اور احمدیت کے جھنڈے کو بلند رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور وہ تمہیں اپنے فرائض کو صحیح رنگ میں ادا کرنے کی توفیق بخشے.تمہیں 66 احمدیت کا سچا خادم بنائے اور تمہیں اپنی برکات سے ہمیشہ بہرہ و رفرما تا ر ہے.“ مصباح دسمبر 1960 ء صفحہ 2 ،3)

Page 666

انوار العلوم جلد 26 614 پیغامات ہی مجلس انصار اللہ کے چھٹے سالانہ اجتماع (30 اکتوبر 1960ء) کے موقع پر تحریک جدید کے نئے مالی سال کے لیے پیغام , بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہوئے دوستوں کو اس تحریک میں زیادہ سے زیادہ جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے اور اپنے وعدوں کو پچھلے سالوں سے بڑھا کر پیش کرنے کی طرف توجہ دلاؤں.تحریک جدید کوئی نئی یا عارضی چیز نہیں بلکہ قیامت تک قائم رہنے والی چیز ہے.اس لئے مجھے ہر سال اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں.لیکن چونکہ مجھے کہا گیا ہے کہ میں اس بارہ میں اعلان کروں اس لئے میں تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اور زیادہ سے زیادہ مالی قربانی کا نمونہ دکھا ئیں تا کہ تبلیغ کا کام قیامت تک جاری رہے.یہ امر یا درکھو کہ ہماری جماعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت ہے.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام قیامت تک جاری رہے گا.پس ہمیں بھی سمجھ لینا چاہئے کہ ہمارے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے اشاعتِ اسلام کا جو کام کیا گیا ہے وہ قیامت تک جاری رہنے والا ہے.اور ہمیں قیامت تک آپ کے جھنڈے کو بلند رکھنے کے لئے ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینا پڑے گا.بے شک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قیامت اشرار الناس پر آئے گی 18 لیکن لوگ نیکی پر قائم رہیں تو خدا تعالیٰ اس کو بدل بھی سکتا ہے اور بالکل ممکن ہے کہ قیامت

Page 667

انوار العلوم جلد 26 615 پیغامات اشرار الناس پر نہیں بلکہ اخیار الناس پر آئے.یہ تو امت کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسا اچھا بنائے کہ خدا تعالیٰ اپنی تقدیر کو بدل دے اور قیامت آنے کے وقت بھی دنیا میں اچھے لوگ ہی ہوں بُرے نہ ہوں.اور چونکہ اس زمانہ میں دنیا کی ہدایت کے لئے خدا تعالیٰ نے ہماری جماعت کو کھڑا کیا ہے اور ہماری جماعت نے قیامت تک اسلام اور احمدیت کو پھیلاتے چلے جانا ہے اس لئے ہماری خواہش ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسا فضل کرے کہ قیامت اچھے لوگوں پر ہی آئے اور ہماری جماعت کے افراد کبھی بگڑیں نہیں بلکہ ہمیشہ نیکی اور تقویٰ پر قائم رہیں.سلسلہ سے پورے اخلاص کے ساتھ وابستہ رہیں.اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے ہر قسم کی قربانیاں کرتے رہیں.اور اپنے نیک نمونہ سے دوسروں کی ہدایت کا موجب بنیں.مگر اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ لوگ بھی اپنا اچھا نمونہ دکھائیں اور دوسروں کو بھی اپنے عملی نمونہ اور جد و جہد سے نیک بنانے کی کوشش کریں تا کہ قیامت اشرار الناس پر نہیں بلکہ اخیار الناس پر آئے اور ہمیشہ آپ لوگ دین کی خدمت میں لگے رہیں.جو خدا تقدیریں بناتا ہے وہ اپنی تقدیروں کو بدل بھی سکتا ہے.اگر آپ لوگ اپنے اندر ہمیشہ نیکی کی روح قائم رکھیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے فعل کے ساتھ اپنی تقدیر کو بھی بدل دے گا.اور قیامت تک نیک لوگ دنیا میں قائم رہیں گے جو خدا تعالیٰ کے نام کو بلند کرتے رہیں گے.پس کوشش کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو قیامت تک لئے چلا جائے اور اخیار کی صورت میں لے جائے نہ کہ اشرار کی صورت میں.اور ہر سال جو ہماری جماعت پر آئے وہ زیادہ سے زیادہ نیک لوگوں کی تعداد ہمارے اندر پیدا کرے اور ہماری قربانیوں کے معیار کو اور بھی اونچا کر دے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اس تحریک میں پورے جوش اور اخلاص کے ساتھ حصہ لینے کی توفیق بخشے اور ہمیشہ آپ کو خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا رہے.اَللَّهُمَّ امِيْنَ ( الفضل یکم نومبر 1960ء)

Page 668

انوار العلوم جلد 26 616 جلسہ سالانہ قادیان ( 16 تا 18 دسمبر 1960ء) کیلئے روح پرور پیغام بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران بھارت ! اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ہمیں قادیان سے گئے ہوئے تیرہ سال ہو گئے ہیں اور تیرہ سال کا عرصہ کوئی معمولی عرصہ نہیں ہوتا.یہ زمانہ اپنی صعوبتوں اور مشکلات کے لحاظ سے ایک بڑا لمبا اور پُر فتن دور تھا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ لوگوں کو اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ آپ نے ہر قسم کی مشکلات کے باوجود اسلام کے جھنڈے کو بلند رکھا اور حضرت مسیح موعود کے لائے ہوئے پیغام کولوگوں کے کانوں تک پہنچایا.مجھے امید ہے اللہ تعالیٰ آئندہ بھی آپ لوگوں کیلئے ہمیشہ خیر و برکت کے سامان پیدا کرتا چلا جائے گا اور وہ مشکلات جو ابھی پائی جاتی ہیں ان کو بھی دور فرما دے گا.یہ امر یاد رکھو کہ قادیان ہمارا مرکز اور خدا کے رسول کا تخت گاہ ہے اور مرکز میں رہنے والوں اور مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے باہر سے آنے والوں پر بڑی بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور ان کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اسلام کا عملی نمونہ بنیں اور اپنی عبادتوں اور دعاؤں اور بلند اخلاق کے ذریعہ دوسروں کیلئے بھی ہدایت اور رہنمائی کا موجب بنیں اور کوئی ایسی حرکت نہ کریں جو کسی کمزور انسان کیلئے ٹھوکر کا موجب ہو.پس اپنی ان تمام ذمہ داریوں کو احسن طریق پر ادا کرو جو خدا اور اس کے رسول کی طرف سے تم پر عائد ہیں.اور حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیوں کے پورا ہونے پر یقین رکھو.یہودی قوم اسلام کی شدید دشمن ہے مگر میں اُسے داد دیتا ہوں کہ اس نے 2300 سال صبر کیا اور آخر اپنا مقدس مرکز پالیا.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے افراد کو بھی اس امر کی توفیق عطا فرمائے

Page 669

انوار العلوم جلد 26 617 پیغامات کہ وہ دعاؤں سے کبھی غافل نہ ہوں اور ہمیشہ اپنے روحانی مرکز میں روحانی اور علمی برکات کیلئے جمع ہوتے رہیں.ہمارا خدا قادر مطلق خدا ہے اور وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور ہم اس سے خیر و برکت کی امید رکھتے ہیں.ہم محمد رسول اللہ ﷺ کی امت اور حضرت مسیح موعود کی جماعت ہیں.ہمارا حق یہودیوں سے بہت زیادہ ہے بشرطیکہ ہم استقلال دکھا ئیں اور اپنے نیک اخلاق سے اللہ تعالیٰ کی رحمت کو کھینچنے والے بنیں.سود عا ئیں کرو اور پھر دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ قادیان کے دروازے تمام احمدیوں کیلئے کھول دے اور جو روکیں پائی جاتی ہیں ان کو دور فرمادے اور ہماری عمروں کو اتنا بڑھا دے کہ ہم اپنی زندگی میں قادیان میں آباد ہو جائیں.اور نہ صرف قادیان کے درو دیوار کو دیکھیں بلکہ وہاں کے انوار اور برکات سے بھی فائدہ اٹھائیں اور ساری جماعت کے دلوں کو ٹھنڈک پہنچے.مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ ساری جماعت دعاؤں میں لگ جائے اور خدا تعالیٰ کے فضل کو کھینچ لائے.وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کے راستہ میں کوئی چیز روک نہیں بن سکتی.جو روک بنے گا خود اپنا نقصان کرے گا.سو دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو اور پھر دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہم کو پھر اکٹھا کر دے اور اپنے فضل سے ہماری جھولی بھر دے.وہ احکم الحاکمین بھی ہے اور ارحم الراحمین بھی ہے.اس کے رحم کی کوئی انتہاء نہیں اور نہ اس کی طاقت کی کوئی انتہا ہے.صرف انسان کی اپنی غلطی ہوتی ہے کہ وہ اُس سے منہ موڑ لیتا اور اُس کے فضل سے نا امید ہو جاتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ ایک جنگ کے بعد رسول اللہ علیہ نے دیکھا کہ ایک عورت جس کا بچہ کھویا گیا تھا دیوانہ وار ادھر اُدھر پھر رہی ہے.وہ ایک ایک بچہ کو اٹھاتی اور سینہ سے لگاتی اور پیار کرتی اور پھر اسے چھوڑ کر اپنے بچے کی تلاش میں دوڑ پڑتی.وہ اسی حالت میں تھی کہ اسے اپنا بچہ مل گیا اور وہ نہایت اطمینان اور آرام کے ساتھ اس کو لے کر بیٹھ گئی.رسول کریم ﷺ نے صحابہ کو مخاطب کیا اور فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر اس عورت سے یہ کہا جائے کہ اپنے بچہ کو آگ میں ڈال دے تو یہ عورت اسے آگ میں ڈالنے کیلئے تیار ہو جائے گی ؟ صحابہ نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ الله! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا.آپ نے

Page 670

انوار العلوم جلد 26 618 پیغامات فرمایا تم نے اس عورت کی محبت کا جو نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے اس سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہے اور جب اس کا کوئی کھویا ہوا بندہ اسے واپس مل جاتا ہے تو اسے اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی اس عورت کو اپنے بچہ کے ملنے سے ہوئی ہے 19.پس اس ارحم الراحمین خدا پر امید رکھو.وہ عمریں بھی بڑھا سکتا ہے اور زمانہ کی طنابیں بھی کھینچ سکتا ہے.وہ اپنی قدرت اور رحمت سے ہمیں قادیان میں بسا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.ہماری دعا ہے کہ خدا تعالیٰ قادیان کو ہمیشہ اس شعر کا مصداق رکھے اور جلد ہی وہ وقت لائے کہ ہم سب کے سب کہہ اٹھیں زمین قادیاں اب محترم ہے ہجوم خلق سے ارضِ حرم ہے وہ خدا جس نے یہو دیاں پر رحم کیا اور انہیں فلسطین میں لا کر بسا دیا وہ ہم پر بھی رحم کر سکتا ہے.ہم غریب اور کمزور ہیں.ہم 2300 سال تک صبر نہیں کر سکتے.ہمارے لئے 13 ،14 سال بھی بہت ہیں اس کے بعد امید رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس تفرقہ کو مٹادے گا اور دونوں ملکوں کو صلح اور محبت اور پیار کے ساتھ رہنے کی توفیق بخشے گا.ہماری تو خواہش ہے کہ خدا تعالیٰ قادیان کو اتنا بڑھائے کہ وہ بیاس تک پھیل جائے اور ہماری عارضی جدائی دور ہو جائے اور ہمارا چہرہ خوشی سے پُر نور ہو جائے.ابھی قادیان نے بہت ترقی کرنی ہے مگر اس کیلئے خدا ہی سامان کر سکتا ہے ہم کچھ نہیں کر سکتے.اس لئے آؤ ہم خدا تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اپنے وعدوں کو پورا کرے اور ہمیں اسلام اور احمدیت کے پھیلا نے کیلئے آخر دم تک جدو جہد کرنے کی توفیق بخشے.وہ احکم الحاکمین بھی ہے اور ارحم الراحمین بھی ہے.اس سے بعید نہیں کہ وہ ہماری تمام مشکلات کا خاتمہ کر دے.ایک غزوہ میں صحابہ کے اونٹ بلک گئی تھے تو رسول کریم ﷺ نے صحابہ سے ما يا رِفْقًا بِالْقَوَارِيْرَ - 20 یعنی شیشوں کا بھی خیال رکھو اور عورتوں کی طرف توجہ کرو تا کہ انہیں کوئی تکلیف نہ پہنچے.مگر ہم تو اس وقت عورتوں سے بھی کمزور تر ہیں.اگر صحابہ سے یہ کہا گیا تھا کہ عورتوں کا خیال رکھیں تو خدا تعالیٰ سے یہ کیوں عرض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ

Page 671

انوار العلوم جلد 26 619 پیغامات عورتوں سے بھی کمزور تر لوگوں کا خیال رکھے اور ان کا حقیقی اور دائمی مرکز ان کو پھر دلا دے اور سینکڑوں سال کے لئے ان کو وہاں بسا دے اور پر امن اور روحانی ذرائع سے تمام دنیا کے احمدیوں کو وہاں کھینچ کھینچ کر لائے اور ایک لمبے عرصہ تک ان کو خوشیاں دکھائے.اُس کی طاقت میں سب کچھ ہے لیکن ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ایسا ہی کرے اور آپ لوگوں کو نیکی اور تقوی کے ساتھ اپنی تمام زندگی بسر کرنے کی توفیق بخشے.خدا تعالیٰ کا فضل جذب کرنے اور اس کی رحمت کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے ضرورت ہے کہ آپ لوگ نیکی پر ثبات اختیار کریں اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں اور گریہ وزاری سے کام لیں.خدا تعالیٰ ہر ایک کی سنتا ہے.بعض دفعہ چھوٹے بچوں کی دعاسنی جاتی ہے.بعض دفعہ عورتوں کی دعاسنی جاتی ہے اور بعض دفعہ مردوں کی دعاسنی جاتی ہے.نیوہ کے لوگوں پر جب عذاب آیا اور انہوں نے اس کے آثار دیکھے تو ان کے مرد اور عورتیں اور بچے سب میدان میں جمع ہو گئے اور انہوں نے بلبلا بلبلا کر دعائیں کرنی شروع کر دیں.مردوں نے ٹاٹ کے کپڑے پہن لیے اور عورتوں نے اپنے دودھ پیتے بچوں کو الگ پھینک دیا اور انہیں دودھ پلانا بند کر دیا اور اس قدر دعائیں کیں کہ آخر اللہ تعالیٰ کا فضل جوش میں آگیا اور اس نے آنے والا عذاب ان سے دور کر دیا.اگر قادیان کی عورتیں بھی اپنے بچے پھینک کر دعاؤں میں لگ جائیں اور مرد بھی دعاؤں اور گریہ و زاری سے کام لیں تو ہمیں امید ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنا فضل نازل فرمادے گا اور ہماری تمام مشکلات کو دور کر دے گا.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ آپ کو اسلام اور احمدیت کا جھنڈا بلند رکھنے کی توفیق بخشے.نیکی اور تقویٰ میں دوسروں کیلئے نمونہ بنائے اور احمدیت کا سچا اور مخلص خادم بننے کی توفیق عطا کرے.آمِيْنَ اللَّهُمَّ آمِيْنَ مرزا محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی "23-11-1960 تاریخ احمدیت جلد 20 صفحہ 731 تا 734 ناشر نظارت اشاعت ربوہ )

Page 672

انوار العلوم جلد 26 620 پیغامات وقف جدید کے نئے سال کے آغاز پر احباب جماعت کے نام روح پرور پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وقف جدید کی تحریک پر تین سال گزر چکے ہیں اور اب نئے سال کے آغاز سے اس تحریک کا چوتھا سال شروع ہو رہا ہے.میں نے ابتداء میں ہی جماعت کے دوستوں کو نصیحت کی تھی کہ انہیں وقف جدید کا سالانہ بجٹ بارہ لاکھ تک پہنچانا چاہئے تا کہ اس کے ذریعہ کم سے کم ایک ہزار ایسے معلم رکھے جاسکیں جو اسلام اور احمدیت کی تعلیم لوگوں تک پہنچا ئیں اور اُن غلط فہمیوں کو دور کریں جو ہمارے متعلق ان کے دلوں میں پائی جاتی ہیں.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک وقف جدید کا بجٹ ستر اسی ہزار کے اردگرد ہی چکر لگا رہا ہے اور اس میں سے بھی کچھ وعدے ایسے ہوتے ہیں جن کی وصولی میں دفتر کو مشکلات پیش آجاتی ہیں.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ انہیں اس غفلت کا ازالہ کرنا چاہئے اور نہ صرف اپنے وعدوں کو پورا کرنا چاہئے بلکہ انہیں کوشش کرنی چاہئے کہ جماعتوں کی طرف سے نئے سال کے وعدے گزشتہ سال سے اضافہ کے ساتھ پیش ہوں کیونکہ جب تک وقف جدید کی مالی حالت مضبوط نہیں ہو گی ہم معلمین کی تعداد بھی بڑھا نہیں سکتے.اس وقت صرف ساٹھ معلم کام کر رہے ہیں لیکن صحیح طور پر کام چلانے کے لئے ہمیں کم سے کم ایک ہزار معلمین کی ضرورت ہے اور ایسا تبھی ہو سکتا ہے جبکہ مالی لحاظ سے وقف جدید کو مضبوط بنایا جائے.پس دوست ہمت سے کام لیں اور وقف جدید کو ترقی

Page 673

انوار العلوم جلد 26 621 پیغامات دیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک میں کام کرنے والوں کے ذریعہ جماعت کی تعداد میں ہر سال ترقی ہو رہی ہے.اور اگر کام بڑھ جائے اور وقف جدید کی مالی حالت بہتر ہو جائے تو اس میں اور بھی اضافہ ہو سکتا ہے.پس دوست اس تحریک کو کامیاب بنا ئیں اور نئے سال کے آغاز سے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور جوش کے ساتھ اس میں حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ آپ کو اپنے فرائض کے سمجھنے اور ان ذمہ داریوں کو صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر عائد کی گئی ہیں.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی "27-12-1960 (الفضل یکم جنوری 1961ء) مجالس انصاراللہ خیر پور ڈویژن کے سالانہ اجتماع 11، 12 فروری 1961 ء کیلئے پیغام "My message is the God may enable you to become Ansarullah in true sense of the term Khalifatul Masih Rabwah" ترجمہ: میرا پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو صحیح معنوں میں انصار اللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے.خلیفة المسیح ربوه (رسالہ انصار اللہ مارچ 1961ء)

Page 674

انوار العلوم جلد 26 622 ہ احباب جماعت کے نام پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت ! اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت وصیت کا نظام قائم فرمایا تھا اور جماعت کے دوستوں کو ہدایت فرمائی تھی کہ وہ اشاعت اسلام کے لئے اپنے مالوں اور جائیدادوں کو اُس کی راہ میں پیش کریں تا کہ انہیں مرنے کے بعد جنتی زندگی حاصل ہو.اس تحریک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تک ہزاروں لوگ حصہ لے چکے ہیں مگر ابھی ایک بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی پائی جاتی ہے جنہوں نے وصیت نہیں کی اور یہ ایک افسوسناک امر ہے.میں اس پیغام کے ذریعہ تمام جماعتوں کے امراء اور پریذیڈنٹوں اور مربیان سلسلہ کو خاص طور پر توجہ دلاتا ہوں کہ وہ غیر موصی اصحاب کو وصیت کرنے اور موصی اصحاب کو اپنی قربانیوں میں اور بھی اضافہ کرنے کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہیں.اگر ہر وصیت کرنے والا کم از کم ایک نئے شخص سے ہی وصیت کروانے میں کامیاب ہو جائے تو ہمارے بجٹ میں ہزاروں لاکھوں روپیہ کا اضافہ ہوسکتا ہے.اور اگر امراء اور جماعتوں کے پریذیڈنٹ اور سلسلہ کے مربی بھی اس تحریک کی اہمیت کو سمجھیں تو چند دنوں میں ہی سلسلہ کی مالی حالت میں غیر معمولی ترقی ہو سکتی ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جو دوست ابھی موصی نہیں وہ وصیت کرنے اور موصی اصحاب دوسروں سے زیادہ سے زیادہ وصیتیں کروانے کی خاص طور پر کوشش کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فرائض کے سمجھنے اور اس نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی توفیق بخشے جو اعلائے کلمہ اسلام کے لئے جاری کیا گیا ہے.

Page 675

انوار العلوم جلد 26 623 والسلام خاکسار مرزا محمود احمد پیغامات 66 * 5-3-1961 پیغام (الفضل 6 1 مارچ 1961ء) عید الفطر کی تقریب سعید پر ماریشس کے احمدی احباب کے نام برادران ماریشس ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ عید کا دن خوشی کا دن ہوتا ہے اور مسلمانوں کی خوشی اسی میں ہے کہ اسلام ترقی کرے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام دنیا کے کناروں تک پھیلے.اس لئے میرا پیغام یہی ہے کہ اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کی کوشش کرو تا کہ تمہیں حقیقی خوشی نصیب ہو اور عید کا دن یونہی نہ گزر جائے بلکہ حقیقی خوشی کے ساتھ گزرے.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کی مدد کرے اور اس خوشی کے حاصل کرنے کا صحیح طریقہ آپ لوگوں کو سکھائے.ماریشس کا احمدیت سے بہت پرانا تعلق ہے.اس ملک میں سب سے پہلے حافظ صوفی غلام محمد صاحب تبلیغ کے لئے گئے تھے اور اُن کے بعد اور کئی دوسرے مبلغ جاتے رہے.پس آپ لوگ کوشش کریں کہ آپ پر حقیقی عید کا دن آئے اور آپ اسلام اور احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دیں.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی (الفضل 18 مارچ 1961ء)

Page 676

انوار العلوم جلد 26 624 پیغامات ہ جماعت احمد یہ انڈونیشیا کے جلسہ سالانہ 1961 ء کیلئے پیغام ترجمہ : " انڈونیشیا کی جماعت بڑی پرانی ہے اور مولوی رحمت علی صاحب کے زمانہ میں قائم ہوئی تھی.میں آپ لوگوں کو آپ کے اس لمبا عرصہ استقلال سے رہنے پر مبارکباد دیتا ہوں اور خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کی امداد کرے اور آپ کو تعداد میں بڑھائے.“ احباب جماعت کے نام دستخط حضرت خلیفۃ المسیح الثانی الفضل 3 اکتوبر 1961 ء صفحہ 4) جمله افراد جماعتِ احمدیہ کو بار بار تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے رہنے کی ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت جماعت کی تعداد آج کی تعداد کا 1/100 حصہ بھی نہ تھی لیکن بیعت کی تعداد آج کل کی نسبت سے کئی گنا زیادہ تھی.جماعت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اس موجودہ رفتار سے تو تین سو سال تک بھی دنیا میں کوئی انقلاب پیدا نہیں ہو سکتا.اور اب تک تو اس قدر معجزات ظاہر ہو چکے ہیں اور اس قدر صداقت سلسلہ ظاہر ہو چکی ہے کہ تھوڑی سی توجہ دلانے سے لوگ صداقت کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہیں.کام لینے والوں اور کام کرنے والوں کی باہمی کوشش سے ہی جلدی ترقی ہوسکتی ہے کام کرنے والوں کو تو ثواب ملے گا ہی لیکن جو افسران اور ذمہ دار احباب اس طرف توجہ دلائیں گے ان کو بھی مفت میں ثواب مل جائے گا.اس لئے افسران کو چاہئے کہ بار بار لوگوں سے ان کی کوششوں کے متعلق رپورٹیں بھی حاصل کرتے رہیں اس سے بھی توجہ قائم رہتی ہے کیونکہ دنیا کے دلوں کو فتح کرنا کسی ایک شخص کا کام نہیں ہے باہم مل کر کام کرنے سے ہی یہ مقصد حاصل ہوسکتا ہے.خدا کا نور جس قوم میں ظاہر ہوتا ہے اس کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں اور اس قوم کا

Page 677

انوار العلوم جلد 26 625 پیغامات فرض ہو جاتا ہے کہ وہ دوسرے سب لوگوں کو اس نور سے منور کرے اور جب تک ساری دنیا پر اسلام کا غلبہ نہ ہو جائے اُس کو چین نہیں آنا چاہئے.اس زمانہ میں تو بعض ہماری جتنی تعداد رکھنے والی قوموں نے بھی انقلاب پیدا کر دیا ہے.اگر جماعت کو بار بار اس کا فرض یا ددلایا جا تا رہے تو جماعت احمد یہ بھی ہر قسم کی قربانی کرنے لگ جائے گی.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو حضرت عیسی علیہ السلام کے سردار تھے ان کی قوم جس قدر کوشش عیسائیت کو پھیلانے کے لئے کر رہی ہے ہمارا فرض ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن اسلام کو پھیلانے کے لئے ان لوگوں سے کئی گنا زیادہ کوشش کریں.روزہ اور دعا کے ذریعہ روحانی طاقت بڑھتی ہے ان روحانی ذرائع کو بھی اختیار کر کے اپنی روحانی طاقتوں کو زیادہ کرو.تحریک جدید کے افریقہ اور امریکہ کے مشنوں کو توجہ دلائی جائے کہ افریقہ اور امریکہ کی حبشی اقوام کی طرف بھی خاص توجہ کی ضرورت ہے.یہ پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں حبشی قو میں اسلام کی طرف رجوع کریں گی اور خانہ کعبہ کو پھر تعمیر کریں گی 21.امریکہ کے حبشی باشندے بھی مذہب کے لئے مال و جان کی قربانیاں پیش کرنے کے لیے بالکل تیار ہیں اس لئے اسلام کی ترقی اس زمانہ میں افریقہ اور امریکہ کے حبشیوں سے وابستہ معلوم ہوتی ہے.احباب جماعت کو یہ بھی چاہئے کہ دو دو چار چار دوست مل کر مشترکہ طور پر الفضل کے خریدار بنیں تا کہ الفضل میں شائع ہونے والے مضامین اور ایمان افروز ارشادات سے فائدہ اٹھا سکیں جو ایمان کی تازگی کا موجب ہوتے ہیں.“ ( الفضل 23 ستمبر 1961ء)

Page 678

انوار العلوم جلد 26 626 پیغامات جلسہ سالانہ قادیان 1961ء پر روح پرور پیغام اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عزیزم مرزا وسیم احمد ناظر دعوة و تبلیغ قادیان نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں بھارت کے اُن احمدی احباب کے لئے جو قادیان کی مقدس سرزمین میں جلسہ سالانہ کے موقع پر جمع ہورہے ہیں کوئی پیغام ارسال کروں.سوسب سے پہلے میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے محض اپنے فضل سے آپ لوگوں کو اپنی زندگیوں میں ایک بار پھر اس امر کی توفیق عطا فرمائی کہ آپ اُس کے قائم کردہ روحانی مرکز میں جمع ہوں اور اس کے فیوض و برکات سے مستفیض ہوں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہماری جماعت کے تمام مردوں اور عورتوں اور بچوں کو اُن کے اس اخلاص کی جزائے خیر عطا فرمائے اور انہیں دین و دنیا میں اپنی برکات اور انوار سے متمتع کرے.آمین.اے عزیزو! بے شک جسمانی لحاظ سے ہم اس وقت آپ سے دُور ہیں مگر ہمارے دل آپ کے قریب ہیں اور ہمارے قلوب میں بھی وہی جذبات موجزن ہیں جو آپ کے دلوں میں پائے جاتے ہیں.ہمیں خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہندوستان میں اپنے دین کے جھنڈے کو بلند رکھنے اور آستانہ حبیب پر ڈھونی رما کر بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائی.مگر اے عزیزو! ابھی کام کا ایک وسیع میدان آپ لوگوں کے سامنے پڑا ہے جس کے لئے بے انتہا ء خدمات اور قربانیوں کی ضرورت ہے.مالی قربانیوں کی بھی اور وقت کی قربانیوں کی بھی.اس لئے ہمت سے کام لو اور اپنا قدم ہمیشہ آگے بڑھانے کی کوشش کرو.اور غیر مسلم شرفاء کو اپنے عملی نمونہ سے اور لٹریچر کی اشاعت کے ذریعہ بھی اسلامی خوبیوں سے آگاہ

Page 679

انوار العلوم جلد 26 627 پیغامات کرتے رہو.اور ہمیشہ ان کے ساتھ اچھے تعلقات رکھو اور ایسے بلند اخلاق کا مظاہرہ کرو کہ وہ تمہیں انسانوں کی صورت میں خدا تعالیٰ کے فرشتے سمجھنے لگ جائیں.یہ امر یا درکھو کہ ہم لوگ کسی سوسائٹی کے ممبر نہیں جو محد و د مقاصد کے لئے قائم کی جاتی ہے بلکہ ہم ایک مذہب کے پیرو ہیں.اور مذہب تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ کے مجموعہ کا نام ہوتا ہے.پس جس طرح تعلق باللہ کے بغیر کوئی قوم مذہب سے سچا تعلق رکھنے والی قرار نہیں دی جا سکتی اسی طرح شفقت علی خلق اللہ کے بغیر بھی کوئی مذہب سچا مذ ہب نہیں کہلا سکتا.اور شفقت علی خلق اللہ کے دائرہ میں ایک ہندو اور سکھ وغیرہ بھی اُسی طرح داخل ہے جس طرح ایک مسلمان.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے ہمسایوں یعنی ہندو اور سکھ اصحاب سے ہمیشہ اچھے تعلقات رکھو اور اُن کی خوشی میں اپنی خوشی اور اُن کی تکلیف میں اپنی تکلیف محسوس کرو.یہی وہ تعلیم ہے جو اسلام نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہمیں دی ہے اور جس کی وجہ سے اسلام کو دنیا کے تمام مذاہب پر فوقیت حاصل ہے.اسلام کوئی قومی مذہب نہیں بلکہ ایک عالمگیر مذہب ہے جو دنیا کے تمام افراد کو اپنے دائرہ ہدایت میں شامل کرتا ہے.پس جس طرح مسلمان ہمارے بھائی ہیں اُسی طرح ہندو اور سکھ بھی انسانیت کے وسیع حلقہ میں ہمارے بھائی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم ان سے برادرانہ تعلقات رکھیں اور اُن سے لطف و مدارات کا سلوک کریں.اگر کوئی شخص اپنی نادانی کی وجہ سے ہم سے عنا درکھتا ہے تو یہ اس کا ایک ذاتی فعل ہے جس کا وہ خود ذمہ دار ہے.ہماری طرف سے کسی کی دل آزاری نہیں ہونی چاہئے اور نہ کسی کو تکلیف پہنچانے کا خیال ہمارے دلوں میں آنا چاہئے.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم بدی سے نفرت رکھیں لیکن بد کی اصلاح کے لئے اُس سے محبت اور پیار کا سلوک کریں کیونکہ آخر وہ ہمارا بھائی ہے اور اُس کی اصلاح ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے.- پنجاب میں جن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق طاعون کا مرض بڑے زور سے پھیلا ہوا تھا اور لاکھوں لوگ لقمہ اجل ہورہے تھے اُن دنوں مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ مجھے بیت الدعا سے یعنی

Page 680

انوار العلوم جلد 26 628 پیغامات اُس کمرہ سے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دعاؤں کے لئے مخصوص کیا ہوا تھا اس طرح در دو کرب کے ساتھ رونے اور چیخنے چلانے کی آواز میں آئیں جیسے کوئی عورت دردِ زہ کی شدت سے کراہ رہی ہو.میں نے کان لگا کر سُنا تو مجھے محسوس ہوا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز ہے.پھر میں نے اور توجہ کے ساتھ کان لگائے تو مجھے معلوم ہوا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کر رہے ہیں اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں کہ اے خدا! تیری پیشگوئی پوری ہوئی اور طاعون دنیا میں آگئی.مگر اے میرے رب ! اب دنیا طاعون سے مرتی چلی جا رہی ہے.اگر سب لوگ مر گئے تو تجھ پر ایمان کون لائے گا.پس دنیا کی تباہی میں ہماری خوشی نہیں بلکہ دنیا کی نجات اور خوشحالی میں ہماری خوشی ہے.پس تقویٰ اور خدا ترسی پر زور دو.دشمنوں تک سے ہمدردی کرو.بد دعائیں کرنے والوں کو دعائیں دو اور بدخواہی کرنے والوں کی خیر خواہی کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو جیسا کہ قرآن کریم نے بتایا ہے جو آج تمہارا دشمن ہے وہ کل تمہارے صبر اور حسن سلوک اور نیکی کے نتیجہ میں تمہارا گہرا دوست بن جائے گا.پس سکھوں اور ہندوؤں سے اچھے تعلقات رکھو.سکھوں کا تو اس لحاظ سے بھی ہمارے ساتھ تعلق ہے کہ جس طرح ہم تو حید کے قائل ہیں اُسی طرح وہ بھی تو حید کے قائل ہیں.پس تمام غیر مسلم شرفاء سے برادرانہ تعلقات مضبوط کرو اور انہیں اسلام اور احمدیت کی خوبیوں سے روشناس کرتے رہو.اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں بھی کرو کہ وہ ہماری مدد کرے اور آسمان سے اپنی رحمت کے فرشتے ہماری تائید کے لئے نازل کرے.ہم عاجز اور بیکس ہیں.جو کچھ ہوگا اُسی کی تائید اور نصرت سے ہو گا.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالی اسلام اور احمدیت کو پھیلائے.دعائیں کرو کہ وہ ہمارے حقیر کاموں میں ایسی برکت پیدا فرمائے کہ ان کے نتائج دنیا کے لئے حیران کن ثابت ہوں اور ساتھ ہی کوشش اور جدو جہد سے کام لو.اور تمام دنیا کو ایک مرکز پر جمع کرنے کی کوشش کرو اور اسلام اور احمدیت کے پھیلانے کا پروگرام ہمیشہ وسیع سے وسیع تر کرتے چلے جاؤ.یہ امر یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ اپنے مامور کے ذریعہ دنیا میں اُسی وقت اپنی آواز بلند کیا

Page 681

انوار العلوم جلد 26 629 پیغامات کرتا ہے جب چاروں طرف کفر اور شیطانی قوتوں کے حملے ہور ہے ہوں اور روحانی امن اور چین دلوں سے مفقود ہو چکا ہو.پس جس طرح کسی خوفناک جنگل میں شیروں اور درندوں کے حملہ سے وہی بھیٹرمیں محفوظ رہ سکتی ہیں جو گڈریے کی بنسری پر دوڑتی ہوئی اُس کے پاس آجائیں اِسی طرح اس زمانہ میں بھی وہی لوگ شیطانی حملوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دامن سے وابستہ ہوں اور آپ کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہوں.پس میں آپ لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ اشاعت اسلام کا فرض ہمیشہ یادرکھو اور اپنی اولاد در اولاد کو یاد کراتے چلے جاؤ اور اپنے اعمال میں نیک تغیر پیدا کرو تا کہ خدا کا جلال دنیا پر ظاہر ہو اور وہ منشاء پورا ہو جس کے لئے اس نے ہماری جماعت کو قائم فرمایا ہے.بے شک یہ ایک مشکل اور کٹھن کام ہے لیکن استقلال اور دعاؤں سے کام لینے کے نتیجہ میں آسمان کے دروازے آپ لوگوں کے لئے کھل جائیں گے اور دنیا جن باتوں کو آج ناممکن سمجھتی ہے وہ کل ایک حقیقت بن کر ان کے سامنے ظاہر ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے بابرکت اور نتیجہ خیز بنائے اور آپ کو اپنے فضل سے اس روحانی لذت اور سرور سے حصہ بخشے جس کے لئے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس مقدس اجتماع کی بنیاد رکھی ہے.اور مرکز سلسلہ سے مخلصانہ وابستگی اور اشاعت اسلام کے لئے ہر قسم کی قربانیوں کی توفیق آپ کو عطا فرمائے.امِيْنَ اللَّهُمَّ امِيْنَ.خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی "22-11-1961 الفضل 10 جنوری 1962ء)

Page 682

انوار العلوم جلد 26 630 احباب جماعت کے نام پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اپنے روحانی مرکز سے جُدا ہوئے اتنی دیر ہوگئی ہے کہ اب طبیعت بہت گھبراتی ہے مگر ہم خدا تعالیٰ کے وعدوں پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایک دن ہمیں اپنا روحانی مرکز دلوا دے گا مگر ہمیں خود بھی جد و جہد کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دنیا کفر کے اندھیروں میں پڑی ہوئی ہے اور ہمیں خدا کا نور ملا ہے ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ دنیا کو خدا کے نور کی طرف لائیں اور جو خدا نے ہم کو دیا ہے اسے دنیا تک پہنچائیں.دنیا خدا سے دور ہوتی جا رہی ہے اور پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ میری مدد کے لئے آؤ.اب یہ ہمارا فرض ہے کہ خدا تعالیٰ کے اچھے خادموں کی طرح اس کی آواز کو سنیں اور اس تک خدا کا پیغام پہنچا ئیں.سو آگے آؤ اور لوگوں کو دین کی طرف لاؤ کہ اس سے بہتر موقع پھر کبھی نہیں ملے گا.مسیح نے جو تعلیم دی تھی اسلام کی تعلیم کے آگے عشر عشیر بھی نہ تھی مگر عیسائیوں نے اپنی جد و جہد سے اسے دنیا میں پھیلا دیا.اگر ہم اس سے ہزارواں حصہ بھی کوشش کریں تو دنیا کے چپہ چپہ پر اسلام کا چشمہ پھوٹ پڑے اور آلَستُ بِرَبِّكُمُ 22 کے مقابلہ میں بلی 23 کی آوازیں آنے لگیں.سو اٹھو اور کمر ہمت کس لو.عیسائی جھوٹ کے لئے اتنا زور لگا رہے ہیں کیا تم سچائی کے لئے زور نہیں لگا سکتے ؟ خدا تعالیٰ اپنی نصرت کے سامان پیدا کر رہا ہے.ضرورت یہ ہے کہ تم بھی بچے خادموں کی طرح آگے آؤ اور اپنے ایمان کو اپنے عمل

Page 683

انوار العلوم جلد 26 631 پیغامات سے ثابت کرو.دنیا ہزاروں سال سے پیاسی بیٹھی ہے اور اس کے پیاس بجھانے والے چشمہ کی نگرانی تمہارے سپرد ہے.کیا تم آگے نہیں بڑھو گے اور دنیا کی پیاس نہیں بجھاؤ گے؟ اٹھو اور آگے آؤ اور خدا تعالیٰ کے ثواب کے مستحق بنو.دنیا میں پھیل جاؤ اور اسلام کی تعلیم کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا دو.خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے اور دنیا کی آنکھیں کھولے اور انہیں اسلام کی طرف لائے.اسلام ہی سارے نوروں کا جامع اور سیاری صداقتوں کا سرچشمہ ہے.اس سر چشمہ کے پاس خاموش نہ بیٹھو بلکہ دنیا میں اس کا پانی تقسیم کرو.جس کے پاس چھوٹی سی چیز بھی ہوتی ہے وہ اُسے دنیا کو دکھاتا پھرتا ہے تمہارے پاس تو ایک خزانہ ہے.ایک بڑھیا کے متعلق مشہور ہے کہ اُس کے پاس ایک انگوٹھی تھی اسے لے کر کھڑی ہو جاتی اور ہر ایک کو دکھاتی.تمہارے پاس تو خدا کا نور ہے تم کیوں نہیں اسے ساری دنیا کو دکھاتے اور دنیا کے سامنے پیش کرتے.جاؤ اور دنیا کو اسلام کی طرف پھیر کے لاؤ اور اسلام کی صداقت کو دنیا پر ظاہر کرو.خدا تمہاری مدد کرے اور ہر میدان میں تمہیں فتح دے.اگر تم خدا کے لئے نکلو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں دنیا کا بادشاہ اور امام بنادے گا.یہ خدا کا کام ہے کیسے ہو سکتا ہے کہ تم خدا کے کمزور بندے ہو کر اُس کا کام کرو اور وہ قادر مطلق ہو کر اپنا کام نہ کرے.پس خدا کا نام لے کر کھڑے ہو جاؤ اور دنیا کو خدا کے نور سے منور کر دو.یقیناً وہ تمہاری مدد کرے گا اور دنیا کو تمہارے قدموں میں لا کر ڈال دے گا.تم تو مفت کا ثواب کماؤ گے اور کام سارا خدا کرے گا.صرف اتنی ضرورت ہے کہ ایک دفعہ ہمت کر کے کھڑے ہو جاؤ اور اپنے سچے غلام ہونے کا ثبوت دو.خدا تمہارے ساتھ ہوا اور تمہیں خدمت اسلام کی توفیق دے.میں تو بیمار ہوں دعا ہی کر سکتا ہوں.دنیا سچائی کی پیاسی ہے تم اگر جاؤ گے تو یقیناً کامیاب ہو جاؤ گے.ایک پیاسے کو اگر کوئی پانی کا پیالہ دے تو کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ اُس کو رڈ کر دے.پس اپنے بھائیوں کی پیاس بجھانے کے لئے تیار ہو جاؤ.تمہارا کچھ نہیں بگڑتا ان کو سب کچھ مل جاتا ہے.خدا تمہارے ساتھ ہوا اور تمہیں نیکی کی توفیق د دے

Page 684

انوار العلوم جلد 26 632 پیغامات اور ہم ایک دن دیکھ لیں کہ ساری دنیا میں خدا تعالیٰ کا نور پھیل گیا ہے.مجھے اپنی جوانی میں ایک دفعہ ایک پادری سے تثلیث کے متعلق بات کرنے کا موقع ملا.میں نے اُسے کہا آپ کی میز پر یہ پنسل پڑی ہے اگر میں آپ کو اسے اٹھانے کو کہوں اور آپ اپنے نوکروں کو آواز میں دینے لگ جائیں کہ آؤ ہم مل کر یہ پنسل اٹھا ئیں.اُس نے کہا ہم پاگل تھوڑی ہیں؟ میں نے کہا لیکن آپ کی جو باتیں ہیں اُن سے پتا لگتا ہے کہ پاگل ہیں.جو کام خدا اکیلا کر سکتا ہے اُس کے لئے تین خداؤں کی کیا ضرورت ہے.وہ اکیلا سارا کام کرے گا.تمہاری تکلیف بہت چھوٹی ہے خدا کا انعام بہت بڑا ہے.تم تو اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو تھوڑے دنوں کے لئے چھوڑو گے مگر خدا تمہیں دائی جنت دے گا.پس اٹھو اور ہمت کرو.خدا تمہارے ساتھ ہو اور دنیا کے ہر میدان میں تمہیں فتح دے.امِيْنَ ثُمَّ آمِيْنَ بکوشید اے جواناں تا بدین قوت شود پیدا بهار و رونق اندر روضه ملت شود پیدا خاکسار مرزا محمود احمد "28-11-1961 (الفضل 30 نومبر 1961ء) وقف جدید کے پانچویں سال کے آغاز پر روح پرور پیغام أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ چارسال ہوئے میں نے پاکستان کے دیہات و قصبات میں ارشاد و اصلاح کا کام

Page 685

انوار العلوم جلد 26 633 پیغامات وسیع کرنے کے لئے وقف جدید کی تحریک جاری کی تھی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے اب آہستہ آہستہ مضبوط بنیادوں پر قائم ہورہی ہے.چنانچہ دفتر کی رپورٹوں سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ 1961ء میں جو وقف جدید کا چوتھا سال تھا ہماری جماعت کے دوستوں نے گزشتہ تمام سالوں سے بڑھ کر قربانی کا مظاہرہ کیا اور چندہ کو قریباً ایک لاکھ روپے تک پہنچا دیا.میرے لئے یہ امر بڑی خوشی کا موجب ہے کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے بیداری سے کام لے رہی ہے مگر کام کی اہمیت اور اس کی وسعت کو دیکھتے ہوئے ابھی آپ لوگوں کو اپنی قربانیوں کا معیار اور بھی بلند کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ دیہاتی جماعتوں کی تربیت اور عیسائیت کا مقابلہ لاکھوں روپیہ کے خرچ کا متقاضی ہے.پس میں جماعت کے افراد کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اس بارہ میں دعاؤں سے بھی کام لیں اور زیادہ سے زیادہ مالی قربانیاں بھی پیش کریں تا کہ صحیح اسلامی تعلیم سے لوگوں کو روشناس کیا جائے اور عیسائیت کا زور توڑا جائے.مجھے بتایا گیا ہے کہ وقف جدید کے ماتحت اب اچھوت اقوام تک بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے اور اس کے امید افزا نتائج پیدا ہور ہے ہیں.پس جس طرح اس تحریک کے چوتھے سال جماعت نے قربانی کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے اسی طرح اب وقف جدید کے پانچویں سال میں بھی وہ اپنے ایمان اور اخلاص کا شاندار نمونہ دکھا ئیں اور اپنے وعدے گزشتہ سالوں سے اضافہ کے ساتھ پیش کریں.مجھے امید ہے کہ یہ تحریک جس قدر مضبوط ہو گی اُسی قدر خدا تعالیٰ کے فضل سے صد را منجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے چندوں میں بھی اضافہ ہوگا کیونکہ جب کسی کے دل میں ٹو رایمان داخل ہو جائے تو اُس کے اندر مسابقت کی روح پیدا ہو جاتی ہے اور وہ نیکی کے ہر کام میں حصہ لینے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.میں نے جن دنوں یہ تحریک کی تھی اُس وقت میں نے جماعت کے دوستوں کو توجہ دلائی تھی کہ انہیں وقف جدید کا سالانہ چندہ چھ لاکھ روپیہ تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے مگر یہ ایک ابتدائی اندازہ تھا.چنانچہ اس کے دو سال بعد میں نے وقف جدید

Page 686

انوار العلوم جلد 26 634 پیغامات کا بجٹ 12 لاکھ روپیہ تک لے جانے کی تحریک کی مگر ابھی وقف جدید کا چندہ صرف ایک لاکھ روپیہ تک پہنچا ہے.دوستوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اس کمی کو جلد سے جلد پورا کریں تا کہ زیادہ سے زیادہ قوت اور وسعت کے ساتھ تبلیغ اسلام کے کام کو جاری رکھا جا سکے.ان مختصر کلمات کے ساتھ میں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے اور اُسی سے دعا کرتے ہوئے وقف جدید کے پانچویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو ہمیشہ اپنی قربانیوں کا معیار زیادہ سے زیادہ اونچا لے جانے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ دن ہمارے قریب تر آ جائے جبکہ اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقدس روح آسمان پر یہ دیکھ کر خوش ہو جائے کہ جماعت احمدیہ نے اُس فرض کو ادا کر دیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس پر عائد کیا گیا تھا.خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسیح الثانی "3-1-1962 ( الفضل 5 جنوری 1962ء)

Page 687

انوار العلوم جلد 26 635 احباب جماعت کے نام تازہ پیغام اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ - ایک گزشتہ مجلس شوریٰ میں میں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہر سال ایک ہفتہ وصیت منایا جایا کرے تا کہ وصایا میں اضافہ ہو اور تا اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے لوگوں کے اندر زیادہ سے زیادہ قربانی کا جذبہ پیدا ہو.نظارت بہشتی مقبرہ اس فیصلہ کی تعمیل ہر سال کرتی رہی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سال بھی ہفتہ وصیت منانے کے لئے 12 سے 18 مارچ کے ایام مقرر کئے گئے ہیں.سیکرٹری صاحب بہشتی مقبرہ نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ اس موقع پر میں بھی جماعت کو کوئی پیغام دوں.میں دوستوں سے صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وصیت کی اہمیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رسالہ الوصیت میں اچھی طرح واضح کر دی ہے.اس کے بعد میں نے بھی اپنے خطبات اور تقریروں اور تحریروں میں اس کی طرف بارہا توجہ دلائی ہے مگر جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے اب تک وصیت کرنے والوں کی تعداد قریباً ساڑھے سولہ ہزار تک پہنچی ہے جو جماعت کی موجودہ تعداد کے مقابلہ میں بہت کم ہے.اگر نظارت بہشتی مقبرہ کثرت سے اس بارہ میں الوصیت اور میری تقریروں اور تحریروں کو شائع کرے تو امید ہے کہ وصایا کی کمی بہت جلد دور ہو جائے گی اور سلسلہ کی مالی حالت بھی پہلے سے زیادہ مضبوط ا ہو جائے گی کیونکہ اس کی مضبوطی کا وصایا کی زیادتی کے ساتھ گہرا تعلق ہے.پس میں اس کے ذریعہ جماعت کے ہر فرد کو جس کا گزارہ ماہوار آمدن یا جائیداد پر ہے نظامِ وصیت میں شامل ہونے کی تحریک کرتا ہوں اور ہر مرکزی اور مقامی جماعت کے

Page 688

انوار العلوم جلد 26 636 پیغامات عہد یداروں کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس طرف خاص طور پر توجہ کریں.اس غرض کیلئے مناسب ہوگا کہ ہر جماعت میں سیکرٹری وصایا مقرر کئے جائیں جو اس تحریک کو چلاتے رہیں.اسی طرح امراء اور مربیان سلسلہ کو بھی چاہئے کہ وہ اس تحریک کو زندہ رکھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور وہ ہمیشہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت کے لئے آپ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قربانیوں کی توفیق عطا فرمائے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد "21-2-, 1962 الفضل 23 فروری 1962 ء ) پاکستان میں نئے آئینی دور کے آغاز پر ( 9 جون 1962 ء کو ) صدر محمد ایوب خاں کے نام برقی پیغام پاکستان کو پہلے سے بڑھ کر پُر مسرت اور خوشحال تر بنانے کی مساعی میں میری دعا ئیں اور نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی برکت سے نوازے اور اس تعلق میں آپ کی مساعی کو با برکت فرمائے.مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ الفضل 13 جون 1962

Page 689

انوار العلوم جلد 26 637 پیغامات خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع (1962ء-10-20) پر ریکارڈڈ پیغام أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ خدام الاحمدیہ! بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کو یا د رکھنا چاہئے کہ آپ اسلام اور احمدیت کے خدام ہیں اس لئے آپ پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے.آپ کو اپنے اخلاق وغیرہ ایسے بنانے چاہئیں کہ بجائے خادم بننے کے آپ دنیا کے مخدوم بن جائیں.دنیا حق کی متلاشی ہے.تبلیغ کرنے کی بہت ضرورت ہے.آپ کو چاہئے کہ اسلام کی تبلیغ میں لگے رہیں تا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ساری دنیا میں پھیل جائے اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمارا مقدس مرکز قادیان ہمیں جلد واپس دلا دے.“ 66 الفضل 23 اکتوبر 1962 ء ) ممبرات لجنہ اماءاللہ کے سالانہ اجتماع (1962ء-10-20) پر ریکارڈڈ پیغام اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ممبرات لجنہ اماء الله ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ لجنہ کا اجتماع شروع ہے میں بیماری کی وجہ سے تقریر نہیں کر سکتا لیکن آپ تک یہ پیغام پہنچا تا ہوں کہ آپ کو یا درکھنا چاہئے کہ عورتوں کے بھی فرائض ہوتے ہیں.اگلی نسل ان کی تربیت سے ہی پیدا ہوتی ہے.اس لئے کوشش کرو کہ اگلی نسل مضبوط ہوا اور اسلام کو دنیا میں

Page 690

انوار العلوم جلد 26 638 پیغامات پھیلائے.اس وقت عیسائیت کا غلبہ ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے بڑے نبی اور دنیا کے نجات دہندہ ہیں اس لئے اسلام کو پھیلانے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو دنیا میں قائم کرنے کی تمہیں پوری کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے.“ (الفضل 23 /اکتوبر 1962ء) پیغام انصار اللہ کے سالانہ اجتماع (1962ء-10-28 ) پر ریکارڈڈ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ انصار الله ! 66 اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھے افسوس ہے کہ میں بیماری کی وجہ سے آپ کے جلسہ میں شرکت نہیں کر سکتا لیکن آپ کو آپ کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں تبلیغ کریں ،تبلیغ کریں ،تبلیغ کریں یہاں تک کہ حق آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے اور اسلام ساری دنیا میں پھیل جائے اور دنیا میں صرف محمد رسول اللہ کی حکومت ہو.اسی کام کی طرف میں آپ کو بلاتا ہوں.اب دیکھنا ہے کہ مَنْ اَنْصَارِی إِلَى اللَّه تحریک جدید کے نئے سال کا بھی اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ سب کو قربانیوں کی توفیق دے.امِيْنَ اللَّهُمَّ امِيْنَ خاکسار مرزا نمود و احمد خلیفہ المسیح الثانی ( الفضل 30 اکتوبر 1962ء)

Page 691

انوار العلوم جلد 26 639 جلسہ سالانہ قادیان 1962ء کے موقع پر روح پرور پیغام أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ پیغامات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت احمد یہ بھارت ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ میری خلافت کے ابتدائی زمانہ کا واقعہ ہے کہ میں نے ایک دفعہ کشفی طور پر دیکھا کہ ایک شخص جس کا نام مجھے عبد الصمد بتایا گیا کھڑا ہے اور وہ یہ کہہ رہا ہے کہ ” مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی برکتیں یا رحمتیں نازل ہوتی ہیں.“ یہ الہام گو عمومی رنگ میں ہماری ساری جماعت پر ہی چسپاں ہو سکتا ہے مگر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے صرف آپ کی جماعت ہی وہ غریب جماعت ہے جسے اللہ تعالیٰ نے درویشانہ رنگ میں خدمت سلسلہ کی توفیق عطا فرمائی اور نا مساعد حالات میں بھی آپ لوگ خدائے واحد کا نام بلند کرتے رہے.پس آپ لوگ یقیناً خوش قسمت ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے چن لیا.اور پھر مزید خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس بات کی بھی بشارت دے دی کہ وہ اس درویشانہ خدمت کے نتیجہ میں آپ لوگوں کو خلافت کی برکات سے خاص طور پر حصہ عطا فرمائے گا.میں سمجھتا ہوں کہ جہاں یہ الہام آپ لوگوں کے لئے بڑی بھاری بشارت کا حامل ہے وہاں اس سے آپ لوگوں کی ذمہ داریوں میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے جن سے عہدہ برآ ہونے کی صرف وہی صورت ہے جس کی طرف عبد الصمد نام میں اشارہ کیا گیا ہے.صمد کے معنی اُس ذات کے ہوتے ہیں جو کسی کی محتاج نہ ہو ،لیکن کوئی دوسرا وجود اُس سے غنی نہ ہو.یعنی کوئی وجود ایسا نہ ہو جو اُس کی مدد کے بغیر قائم رہ سکے.اسی طرح صمد کے معنی ہمیشہ قائم رہنے والے اور نہایت بلند شان والے کے بھی

Page 692

انوار العلوم جلد 26 640 پیغامات ہوتے ہیں.اور یہ تمام معانی توحید کامل کا مفہوم اپنے اندر رکھتے ہیں کیونکہ موجودات میں سے کوئی وجود ایسا نہیں جو بلندی اور عظمت میں اس کا مقابلہ کر سکے.پس عبد الصمد نام میں اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آپ لوگوں کو اپنا حقیقی ملجاء اور ما ولی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہی سمجھنا چاہئے اور اسی پر کامل تو کل اور بھروسہ رکھنا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت آپ لوگوں کے سپر د اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو عظیم الشان کام سپرد کیا گیا ہے وہ اُسی صورت میں سرانجام دیا جا سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی تائید اور نصرت شامل حال ہو.ورنہ اس کے انجام پانے کی اور کوئی صورت نہیں.پس اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق بڑھاؤ اور دعاؤں اور ذکر الہی پر خصوصیت سے زور دو.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ اسلام اور احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام ممالک میں بڑی شان اور عظمت سے لہرائے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن ایسا ہی ہوگا.بے شک دنیا ان باتوں کو ناممکن سمجھتی ہے لیکن ہم نے خدا تعالیٰ کے نشانات کو بارش کی طرح برستے دیکھا ہے اور ہم نے اُس کی قدرتوں اور جلال کا بارہا مشاہدہ کیا ہے.اس لئے ہمیں یہ یقین ہے کہ احمدیت اور اسلام بڑھیں گے اور پھیلیں گے اور پھولیں گے اور ایک دفعہ پھر ساری دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا بڑی شان کے ساتھ گاڑا جائے گا.یہ آسمانی فیصلہ ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا.آسمان پر خدا تعالیٰ کی انگلی اسلام اور احمدیت کی کامیابی کی بشارت لکھ چکی ہے اور جو فیصلہ آسمان پر ہو جائے زمین اُسے بدلنے کی طاقت نہیں رکھتی.پس اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے سے بھی زیادہ ہمت اور زیادہ استقلال اور زیادہ چستی کے ساتھ دینِ اسلام کی خدمت میں لگ جاؤ اور اپنے اندر ایک روحانی انقلاب پیدا کرو.نمازوں میں خشوع و خضوع کی عادت ڈالو.دعاؤں اور ذکر الہی پر زور دو.صدقہ و خیرات کی طرف توجہ رکھو.سچائی سے کام لو.دیانت اور امانت میں اپنا اعلیٰ نمونہ دکھاؤ اور عدل اور انصاف اپنا شیوہ بناؤ.یہ اوصاف اپنے اندر پیدا کر لو تو تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ کی نصرت اور اس کی معجزانہ تائید تمہاری طرف دوڑتی چلی آئے گی

Page 693

انوار العلوم جلد 26 641 پیغامات اور خدا تعالیٰ ایک دن ساری دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دے گا.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے.اور آپ کے مردوں اور عورتوں اور بچوں اور بوڑھوں میں وہ تغیر پیدا کرے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا کرنا چاہتے تھے.اور آپ لوگوں کو اسلام اور احمدیت کا سچا اور حقیقی خادم بنے کی توفیق بخشے.امِيْنَ يَا رَبَّ الْعَالَمِيْنَ خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی “13-12-1962 الفضل 10 جنوری 1963ء) وقف جدید کے چھٹے سال کے آغاز پر روح پرور پیغام اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وقف جدید کو مضبوط کرو.ہمت کرو، خدا برکت دے گا.اسلام کو دنیا کے کناروں تک پھیلا دو.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے یہی بتایا تھا کہ میرے زمانہ میں احمدیت پھیلے گی.وقف جدید کا کام بہت پھیل رہا ہے.چندہ ضرورت سے بہت کم ہے.بغیر دفتر کے کوئی کام نہیں ہو سکتا.اس لئے اس سال وقف جدید کا دفتر بھی بنے گا.دوستوں کو چاہئے کہ اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے اور کام

Page 694

انوار العلوم جلد 26 میں برکت دے.امِيْنَ 642 خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "20-12-, 1962 پیغامات ( الفضل 25 دسمبر 1962ء) یہ پیغام برائے وقف جدید منعقده 3 ستمبر تا 7 ستمبر 1963ء دفتر وقف جدید کی طرف سے ہفتہ وقف جدید 3 ستمبر سے 7 ستمبر 1963 ء تک منایا جا رہا ہے.یہ تحریک بہت مبارک ہے اس لئے سب دوستوں کو اس میں حصہ لینا چاہیئے.جن دوستوں نے وعدے کئے ہیں وہ ادا کریں اور جنہوں نے تا حال حصہ نہیں لیا وہ حصہ لے کر خدا کی رحمت اور اس کے فضل کے وارث ہوں."26-8-1963 احباب جماعت کے نام تازہ پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ برادران جماعت ! ( خطبات وقف جدید صفحہ 88) اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں نے آپ لوگوں کو بارہا توجہ دلائی ہے کہ ہماری جماعت کے قیام کا مقصد صرف یہی ہے کہ ہم اسلام کو ساری دنیا میں پھیلائیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا کے کونے کونے میں قائم کر دیں.مگر میں دیکھتا ہوں کہ ابھی تک جماعت نے اس بارہ

Page 695

انوار العلوم جلد 26 643 پیغامات میں اپنے فرض کو صحیح طور پر محسوس نہیں کیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان میں عیسائیت نے اسلام کے خلاف اپنے حملہ کو تیز کر دیا ہے اور وہ لوگ اس کے لئے لاکھوں روپیہ خرچ کر رہے ہیں.لیکن مسلمان کہلانے والے جن کے نبی کی زبان پر خدا تعالیٰ نے یہ الفاظ جاری کئے کہ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا 24.اے لوگو میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور جن کی نسبت اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ 25 تم سب سے بہترین امت ہو جن کو تمام بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا گیا ہے، تم نیکی کو دنیا میں پھیلاتے اور بدی سے لوگوں کو باز رکھتے ہو وہ سستی اور غفلت کا شکار ہو رہے ہیں.لیکن دوسروں کا کیا گلہ اگر آپ لوگ ہی اپنے فرض کو صحیح رنگ میں ادا کر تے تو میں سمجھتا ہوں آج دنیا میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے والے کہیں نظر نہ آتے بلکہ ساری دنیا پر اسلام کی حکومت ہوتی اور تمام دل نگین محمد سے منقش ہوتے اور بجائے گالیوں کے اس مقدس انسان پر درود اور سلام بھیجا جاتا.اب بھی وقت ہے کہ اپنی پچھلی شستی کا کفارہ ادا کرو ، اپنی غفلتوں کو ترک کرو اور اُس دروازہ کی طرف دوڑو جس کے سوا تمہارے لئے کہیں پناہ نہیں.اور ایک پختہ عہد اور نہ ٹوٹنے والا اقرار اس بات کا کرو کہ تم اپنے مال اور اپنی جانیں اور اپنی ہر ایک چیز اشاعت اسلام کے لئے قربان کرنے پر تیار رہو گے اور اس مقدس فرض کی ادائیگی کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دو گے.یہی وہ سچا اور حقیقی جواب ہے جو غیر مسلموں کے مقابلہ میں ہماری طرف سے دیا جاسکتا ہے.یہ امر یا درکھو کہ ہماری عزت ہمارے اعلیٰ درجہ کے لباسوں اور بڑی بڑی جائیدادوں میں نہیں ہے یہ لباس تو چوڑھے اور چمار بھی پہن لیتے اور بڑی بڑی جائیداد میں پیدا کر لیتے ہیں.ہماری عزت اسی میں ہے کہ ہم اپنی زندگیاں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کے مطابق بنائیں اور رات دن آپ کے پیغام کی اشاعت کریں تا کہ ہماری شکلوں کو دیکھ کر ہی لوگ پکار اٹھیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں اور ان کی موجودگی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنا ہمارے لئے ناممکن ہے.دشمن

Page 696

انوار العلوم جلد 26 644 پیغامات اس لئے حملہ کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نَعُوذُ بِاللهِ ابتر خیال کرتا ہے.لیکن اگر اُسے معلوم ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کروڑوں بیٹے دنیا میں موجود ہیں اور اگر اسے معلوم ہو کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ساری جان اور اپنے سارے دل سے پیار کرتے ہیں اور ہمارے جسم کا ذرہ ذرہ اس پاکبازوں کے سردار کی جوتیوں کی خاک پر بھی فدا ہے تو پھر اُس کی کیا طاقت ہے کہ وہ آپ پر حملہ کر سکے.پس تبلیغ کے لئے اپنے آپ کو وقف کرو اور اسلام کی اشاعت پر زور دو تا کہ وہ لوگ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہتے ہیں وہ آپ پر درود اور سلام بھیجنے لگیں.ملکہ کے لوگوں کی گالیاں آخر کس طرح دور ہوئیں ؟ اسی طرح کہ وہ اسلام کو قبول کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے لگے.پس اب بھی یہی علاج ہے اور یہی وہ تدبیر ہے جس سے ہر شریف الطبع انسان اسلام کی خوبیوں کا قائل ہو جائے گا.اور ہر شریر الطبع انسان مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت کو دیکھ کر مرعوب ہو جائے گا.میں امید کرتا ہوں کہ تمام جماعتوں کے امراء اور سیکرٹریان اس تحریک کے پہنچتے ہی اپنے اپنے علاقہ کے احمدیوں کو پوری طرح اس میں حصہ لینے کی تلقین کریں گے اور صدرانجمن احمد یہ اس کی نگرانی اور انتظام کرے گی اور ان سے غیر مسلموں میں تبلیغ اسلام کرنے کے لئے اپنے اوقات وقف کرنے کا مطالبہ کریں گے.ہر احمدی کو سال میں کم از کم ایک ہفتہ غیر مسلموں میں تبلیغ کے لئے وقف کرنا چاہئے.بے شک اس کے لئے انہیں ایک لمبی قربانی سے کام لینا پڑے گا.لیکن یہی قربانیوں کی رات ہے جو ایک خالص خوشی کا دن اُن پر چڑھائے گی اور دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پھر زندگی کا سانس لینے لگ جائے گی کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی لئے آئے ہیں کہ وہ دنیا کو زندہ کریں.اللہ تعالیٰ آسمان سے اُن کے حق میں گواہی دیتا ہے کہ کیا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ 26.اے مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی آواز پر لبیک کہو جب کہ وہ تمہیں زندہ کرنے کے لئے بلاتا ہے.پس دنیا کی زندگی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغام کو قبول کرنے میں ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم احیاء دین

Page 697

انوار العلوم جلد 26 645 پیغامات اور اشاعت اسلام کے کام کو اس زور سے اختیار کریں کہ دنیا کے کونہ کونہ سے لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کی آوازیں آنے لگیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کو اس امر کی سچی توفیق عطا فرمائے اور قیامت تک اسلام کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہراتا رہے.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد "8-9-41963 حضرت مصلح موعود کا تعزیتی مکتوب ( الفضل 10 ستمبر 1963ء) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء کے المناک حادثہ ارتحال پر حضرت مصلح موعود کی خدمت اقدس میں مخلصین جماعت کی طرف سے بکثرت تعزیتی تار اور خطوط موصول ہوئے جن کے جواب میں حضور نے حسب ذیل مکتوب تحریر فرمایا :.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مکرمی! نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات پر آپ نے جس گہری ہمدردی اور غم کے جذبات کا اظہار بذریعہ تار کیا ہے میں اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے فضل سے آپ کو اس کی بہترین جزاء عطا فرمائے اور دین و دنیا میں ہر قسم کی مکروہات سے بچا کر خیر و برکت سے متمتع کرے.عزیز مجھ سے چھوٹے تھے مگر اللہ کی مشیت کے ماتحت وہ پہلے اٹھالئے گئے.دل ان کی وفات سے زخم خوردہ ہے مگر اللہ تعالیٰ کی رضا ہمیں ہر چیز پر مقدم ہے اور اُسی کے آستانہ پر جھکنے

Page 698

انوار العلوم جلد 26 646 پیغامات 02 سے ہماری نجات ہے.اگر مومن اس قسم کے ابتلاؤں میں ثابت قدمی دکھائے اور خدا تعالیٰ کی رضا کی راہ پر پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے چلنے لگے تو وہ کامیاب ہو جاتا ہے.لیکن اگر و سست ہو جائے تو اپنے پہلے مقام کو بھی کھو بیٹھتا ہے.پس ابتلاؤں کا آنا مومنوں کیلئے بڑے فکر کا موجب ہوتا ہے اور جماعت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ابتلاؤں کے وقت پہلے سے بھی زیادہ جوش اور ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کے لئے کھڑی ہو جائے اور اپنی آئندہ نسلوں کی درستی کی فکر کرے.ہم میں سے کون ہے جس نے ایک دن اپنے رب کے حضور حاضر نہیں ہونا پھر کیوں ہم اپنے فرض سے غافل رہیں؟ ہمیں ہمیشہ اپنے دلوں کو ٹو لتے رہنا چاہئے اور اچھے قائم مقام اور اعلیٰ درجہ کی نیک نسلیں چھوڑنے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ آپ کے اور آپ کے تمام اعزہ و متعلقین کے ساتھ ہو.خاکسار مرزا محمود احمد "196329 ( تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 106 ناشر نظارت اشاعت ربوہ) حمد انصار اللہ کے نویں سالانہ اجتماع پر 1963ء -11-1 کو پیغام أعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ برادران جماعت احمدیہ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ لوگ جو اپنے سالانہ اجتماع میں شمولیت کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں میں آپ سب کیلئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ لوگوں کے ایمان اور اخلاص میں ترقی دے اور آپ کو اور آپ کی آئندہ نسلوں کو بھی خدمت دین کی ہمیشہ زیادہ.

Page 699

انوار العلوم جلد 26 647 پیغامات زیادہ تو فیق عطا فرما تا رہے.انصار اللہ کی تنظیم در حقیقت اسی غرض کیلئے کی گئی ہے کہ آپ لوگ خدمت دین کا پاک اور بے لوث جذ بہ اپنے اندر زندہ رکھیں اور وہ امانت جسے آپ نے اپنے بچپن اور جوانی میں سنبھالا، اُسے ہر قسم کے خطرات سے محفوظ رکھا اس کی اب پہلے سے بھی زیادہ نگہداشت کریں اور اپنے بچوں اور نوجوانوں کو بھی اپنے قدم بقدم چلانے کی کوشش کریں.بیشک ان کی تنظیمیں الگ ہیں لیکن اطفال احمد یہ آخر آپ کے ہی بچے ہیں اور خدام بھی کوئی علیحدہ وجود نہیں آپ لوگوں کے ہی بیٹے اور بھائی ہیں.پس جس طرح ہر باپ کا فرض ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کرے اسی طرح انصار اللہ کا بھی فرض ہے کہ وہ اپنی جماعت کے بچوں اور نوجوانوں کے حالات اور ان کے اخلاق کا جائزہ لیتے رہیں.اور اگر خدانخواستہ ان میں کوئی کمزوری دیکھیں تو نرمی اور محبت کے ساتھ اس کو دور کرنے کی کوشش کریں.اور اپنی ظاہری جد و جہد کے ساتھ ساتھ دعاؤں سے بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اُس کی نصرت کو جذب کریں.اور سب سے بڑھ کر اپنا نیک نمونہ ان کے سامنے پیش کریں تا کہ ان کی فطرت کا مخفی نور چمک اٹھے اور دین کیلئے قربانی اور فدائیت کا جذبہ ان میں ترقی کرے.اگر جماعت کے یہ تینوں طبقات اپنی اپنی ذمہ داری کو سمجھنے لگ جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری قومی زندگی ہمیشہ قائم رہ سکتی ہے.افراد بیشک زندہ نہیں رہ سکتے لیکن قوم اگر اپنے آپ کو روحانی موت سے محفوظ رکھنا چاہے تو وہ محفوظ رکھ سکتی.پس کوشش کرو کہ خدا تمہیں دائمی روحانی حیات بخشے.کوشش کرو کہ تم اپنے پیچھے نیک پاک نسلیں چھوڑ کر جاؤ تا کہ جب تمہاری موت کا وقت آئے تو تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور تمہاری زبان اللہ تعالیٰ کی حمد کر رہی ہو.ہے.تمہیں یہ امر بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ ہر زمانہ میں حالات کے بدلنے کے ساتھ خدمت دین کے تقاضے بھی بدل جایا کرتے ہیں.اس زمانہ میں عیسائیت کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ ہے جس کے استیصال کیلئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور کسر صلیب کا کام آپ کے سپر د فر مایا.پس اس زمانہ میں سب سے بڑی نیکی خدائے واحد

Page 700

انوار العلوم جلد 26 648 پیغامات کے نام کی بلندی اور کفر و شرک کی بیخ کنی کرنا ہے.جس کے لئے جماعت کو مالی اور جانی ہر قسم کی قربانیوں سے کام لینے کی ضرورت ہے.میں نے اس امر کو دیکھتے ہوئے ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے دوستوں سے کہا تھا کہ پاکستان میں عیسائیت کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر شخص کو سال بھر میں کم از کم ایک ہفتہ وقف کرنا چاہئے.مجھے معلوم نہیں کہ جماعت نے عملی رنگ میں اس کا کیا جواب دیا اور صدر انجمن احمدیہ نے اس کی نگرانی کے لئے کیا کوشش کی.لیکن اگر ابھی تک ہماری جماعت نے اس کی طرف پوری توجہ نہ کی ہو تو میں ایک دفعہ پھر آپ لوگوں کو اس فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں.عیسائیت کا فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آدم سے لے کر اب تک کوئی نبی دنیا میں ایسا نہیں آیا جس نے اپنی امت کو دجال کے فتنہ سے نہ ڈرایا ہو 27.میں نہیں سمجھ سکتا کہ اتنے بڑے فتنہ کے ہوتے ہوئے ہماری جماعت کس طرح آرام کی نیند سو سکتی ہے اور کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں وہ اپنے قیمتی وقت کو ضائع کر سکتی ہے.جب کسی کے گھر میں آگ لگ جاتی ہے تو لوگ بیٹھ کر گئیں ہانکنے نہیں لگ جاتے بلکہ پاگلا نہ طور پر ادھر اُدھر دوڑنے اور آگ پر قابو پانے کی کوشش کرتے ہیں.اگر یہی احساس ہماری جماعت کے اندر بھی موجود ہو تو کفر و شرک کی آگ جو اس وقت دنیا کو جلا کر خاکستر کر رہی ہے اُس کو بجھانے کیلئے آپ لوگوں کے اندر کیوں بے تابی پیدا نہ ہو.پس میں آپ لوگوں سے کہتا ہوں کہ وقت کی نزاکت کو سمجھو اور اس جہاد کی طرف آؤ جس سے بڑا جہاد اس زمانہ میں اور کوئی نہیں.آج ایک بہت بڑی روحانی جنگ دنیا میں لڑی جا رہی ہے اور اسلام کے مقابلہ میں ایک بڑا بھاری فتنہ سر اٹھائے ہوئے ہے.ہماری تو راتوں کی نیند بھی اس فکر میں اُڑ جانی چاہئے اور ہمیں اپنے تمام پروگرام اس نقطہ کے ارد گرد مرکوز کرنے چاہئیں.بیشک تزکیہ نفس بھی ایک بڑی ضروری چیز ہے اور دعاؤں اور ذکر الہی سے کام لینا بھی ہر مومن کا فرض ہے مگر تبلیغ اسلام ایک نہایت وسیع اور عالمگیر نیکی ہے جس میں حصہ لینے والا تزکیہ نفس اور دعاؤں اور ذکر الہی کی دولت سے بھی محروم نہیں رہے گا.پس دجالی فتنہ کے مقابلہ کے لئے اجتماعی کوشش کرو.اپنے اموال کی ہمیشہ قربانی کرتے

Page 701

انوار العلوم جلد 26 649 پیغامات رہو اور اپنے اوقات کو اس غرض کے لئے وقف کرو تا کہ اسلام دنیا میں غالب آئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا کے کونہ کو نہ میں قائم ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ لوگوں کے اس اجتماع کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنائے اور آپ کو اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے اور وقت کے تقاضوں کو صحیح رنگ میں شناخت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور آپ لوگوں میں ایسا جذب روحانی اور اخلاص پیدا کرے کہ آپ لاکھوں لاکھ لوگوں کو احمدیت میں داخل کرنے کا موجب بن جائیں تا کہ قیامت کے دن ہم شرمندہ نہ ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ ہماری کمزوریوں اور خطاؤں کو معاف فرماتے ہوئے اپنی رحمت کی چادر میں ہمیں چُھپالے اور اپنے دین کے سچے اور جاں نثار خادموں میں شامل کرے.اے خُدا! تو ایسا ہی کر.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد (الفضل 3 نومبر 1963ء) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ برادران جماعت کے نام تازہ پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران! وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جیسا کہ احباب کو علم ہے مولوی دوست محمد صاحب شاہد میری ہدایت کے ماتحت تاریخ احمدیت جمع کر رہے ہیں.الْحَمْدُ لِلہ کہ خدا کے فضل سے انہوں نے اس کا چوتھا حصہ بھی مکمل کر لیا ہے.استاذی المکرم حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفتہ المسیح الاول کے بلند مقام اور آپ کے عظیم الشان احسانات کا کم از کم تقاضا یہ ہے کہ جماعت کا ہر فرد آپ کے

Page 702

انوار العلوم جلد 26 650 پیغامات زمانہ کی تاریخ کی اشاعت میں پورے جوش و خروش سے حصہ لے.اسے خود بھی پڑھے اور دوسروں کو بھی پڑھائے.بلکہ میں تو یہ بھی تحریک کروں گا کہ جماعت کے وہ مخیر اور مخلص دوست جو سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ ہی نمایاں حصہ لیتے رہے ہیں تاریخ احمدیت کے مکمل سیٹ اپنی طرف سے پاکستان اور ہندوستان کی تمام مشہور لائبریریوں میں رکھوا دیں تا اس صدقہ جاریہ کا ثواب انہیں قیامت تک ملتا ر ہے اور وہ اور ان کی نسلیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وارث ہوتی رہیں.امِيْنَ والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "4-12-1963 (الفضل 10 دسمبر 1963ء) مد جلسہ سالانہ قادیان (18 تا 20 دسمبر ( 1963ء کیلئے پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ در ویشان قادیان! نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحَ الْمَوْعُوُد السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ تم لوگ قادیان جو احمدیت کا مرکز ہے اس میں بیٹھے ہو تم خوش قسمت ہو.میں اس سے محروم ہوں.دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں اسلام کی خدمت کی توفیق دے.آمین مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 13 دسمبر 1963ء تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 197 ، 198 ناشر نظارت اشاعت ربوہ )

Page 703

انوار العلوم جلد 26 651 پیغامات جلسہ سالانہ ربوہ 1963ء کے موقع پر وقف جدید کے ساتویں سال کے آغاز پر پیغام برادران کرام! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ وقف جدید کا ساتواں سال شروع ہو رہا ہے.میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پہلے سے زیادہ قربانی کر کے وقف جدید کو مضبوط کریں.تحریک جدید کے سال نو کیلئے پیغام بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ برادران خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی الفضل 2 جنوری 1964ء) اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ تحریک جدید کا نیا سال شروع ہو رہا ہے.دوست قربانی کریں اور پچھلے سال سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہو اور ان کی مدد کرے.امِینَ والسلام

Page 704

انوار العلوم جلد 26 652 پیغامات خاکسار وسط ( مرز امحمود احمد ) خلیفة المسیح الثانی (الفضل 4 نومبر 1964ء) انصار اللہ کے دسویں سالانہ اجتماع کے موقع پر 1964ء-11-13 کو پیغام تمہارا نام انصار اللہ " ہے.تم نے اپنے اس نام کی عزت کا خیال ہمیشہ رکھنا ہے.خدا تعالیٰ تمہیں حقیقی معنوں میں انصار اللہ بنائے.امین ا خدام الاحمدیہ کے نام تازہ پیغام بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 66-0 (الفضل 15 نومبر 1964ء) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُودِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ مجلس خدام الاحمدیہ احمدیت کے دائمی مرکز قادیان کی یاد میں جلسوں کا انعقاد کر رہی ہے.میں اِس موقع پر خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ اخلاص سے کام کرو اللہ تعالیٰ تمہارے اخلاص کو برکت دے گا.خاکسار مرزا محمود احمد الفضل 17 نومبر 1964ء)

Page 705

انوار العلوم جلد 26 653 د برادران جماعت کے نام پیغام تاریخ احمدیت کے پانچویں حصہ سے متعلق حضور فرماتے ہیں کہ :.پیغامات ”ادارۃ المصنفین ربوہ کی طرف سے تاریخ احمدیت کا پانچواں حصہ شائع کیا جارہا ہے.سلسلہ کی تاریخ سے واقفیت رکھنا ہر احمدی کے لئے ضروری ہے.احباب کو چاہئے کہ اس کا مطالعہ کریں اور اس کی اشاعت میں حصہ لیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی (الفضل 18 دسمبر 1964 ء ) جلسہ سالانہ قادیان (18 تا 20 دسمبر 1964ء کیلئے پیغام اللہ تعالیٰ آپ سب کا قادیان میں جمع ہونا مبارک کرے.میرا پیغام آپ کے لئے یہی ہے کہ اپنے نمونے سے دنیا کو احمدیت کی طرف کھینچیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.“ تاریخ احمدیت جلد 22 صفحہ 552 ناشر نظارت اشاعت ربوہ) جلسہ سالانہ ربوہ 1964 ء کے موقع پر وقف جدید کے سال ہشتم کے آغاز پر پیغام وو برادران جماعت احمدیہ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَ بَرَكَاتُهُ وَبَرَ وقف جدید کے نئے مالی سال کا آغاز ہو رہا ہے.میں امید کرتا ہوں کہ احباب اس تحریک میں پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے اور اپنی تبلیغی سرگرمیوں کو پہلے سے بھی

Page 706

انوار العلوم جلد 26 654 پیغامات تیز کریں گے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "28-12-1964 ( الفضل 2 جنوری 1965ء) فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے پاکستان کا صدر منتخب ہونے پر مبارکباد کا برقی پیغام فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صدر پاکستان راولپنڈی صدر پاکستان منتخب ہونے پر از راہ نوازش میری طرف سے انتہائی پُر خلوص مبارکباد قبول فرمائیں.اللہ تعالیٰ اپنے بے پایاں فضل و رحم سے آپ کو طاقت اور ہمت عطا فرمائے تا کہ آپ اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنانے میں اپنی مساعی کو عزم و اعتماد کے ساتھ جاری رکھ سکیں.وہ آپ کو قوم کی خدمت بجا لانے کی توفیق بخشے اور اُسی کے فضل سے آپ تحفظ و خوشحالی کی جانب قوم کی راہ نمائی کرنے میں کامیاب ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا رہبر ہو اور آپ کو اپنی تائید ونصرت سے نوازے.اور اُن سب پر اپنا فضل نازل فرمائے جو پاکستان اور اسلامی دنیا کی فلاح و بہبود کی جد و جہد میں بے لوثی اور للہیت کے جذبہ کے ماتحت آپ کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوشاں ہوں.مرزا بشیر الدین محمود احمد امام جماعت احمدیہ (الفضل 5 جنوری 1965ء)

Page 707

انوار العلوم جلد 26 تازه پیغام 655 پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ.اعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُه وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ کتاب تفہیمات ربانیہ کا دوسرا ایڈیشن کافی اضافہ کے ساتھ شائع ہوا ہے.میں نے 1930ء میں پہلی طبع کے وقت بھی احباب جماعت کو تحریک کی تھی.یہ ایک مفید کتاب ہے.اس میں مخالفین کے اعتراضات کے مدلل جوابات دیئے گئے ہیں.دوستوں کو چاہئے کہ اس کتاب کی کثرت سے اشاعت کریں اور اس سے فائدہ اٹھائیں.والسلام خاکسار مرز امحمود احمد خلیفة المسح الثانی "11-1-41965 (الفضل14 جنوری 1965ء) فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں کے نام برقی پیغام ترجمه ربوہ مؤرخہ 6 ستمبر 1965ء بخدمت فیلڈ مارشل محمد ایوب خاں صدر پاکستان.راولپنڈی مجھے یہ معلوم کر کے انتہائی قلق اور صدمہ ہوا ہے کہ بھارتی حکومت نے بغیر کسی وجد اشتعال کے بزدلانہ طور پر ہماری مقدس سرزمین پر جارحانہ حملہ کیا ہے.امتحان و آزمائش کے موجودہ وقت میں پوری کی پوری قوم یک جان ہو کر فرد واحد کی طرح آپ کے پیچھے ہے.

Page 708

انوار العلوم جلد 26 656 پیغامات میں اپنی طرف سے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے آپ کو دل و جان کے ساتھ مکمل تعاون اور مدد کا یقین دلاتا ہوں.اس نازک موقع پر ہم ہر مطلوبہ قربانی بجالانے کا عہد کرتے ہیں.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ اپنے بے پایاں فضل کے نتیجہ میں اپنی خاص رہنمائی سے آپ کو نوازے اور ہم سب کو اپنے وطن عزیز کا دفاع کرنے کی طاقت و ہمت عطا فرمائے یہاں تک کہ ہم اُس کے فضل سے گلی طور پر فتحیاب ہوں اور ہمارے کشمیری بھائی آزادی سے ہمکنار ہوں.امِینَ پاکستان پائندہ باد مرزا بشیر الدین محمو د احمد امام جماعت احمدیہ تازہ پیغام احباب جماعت کے نام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ احباب جماعت ! ( الفضل 9 ستمبر 1965ء) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کو علم ہے کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے اور پاکستان میں ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا گیا ہے.میں پاکستان کے تمام احمد یوں کو یہ ہدایت دیتا ہوں کہ وہ اپنی شاندار روایات کو قائم رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان سے ہر طرح تعاون کریں اور استحکامِ پاکستان کے لئے ہر قسم کی قربانیاں بشاشت کے ساتھ پیش کرتے ہوئے حُبُّ الوطنی کا ثبوت دیں اور اپنے رب رحیم سے دعائیں بھی کرتے رہیں کہ ہما ر وہ مہربان خداحق وصداقت اور انصاف کی فتح کا دن ہمیں جلد تر دکھائے.

Page 709

انوار العلوم جلد 26 657 پیغامات کوئی احمدی مرد اور عورت اپنے شہر، قصبہ یا گاؤں کو ہرگز نہ چھوڑے سوائے اس کے کہ حکام وقت دفاعی مصالح کے پیش نظر ان مقامات کو خالی کروانا چاہتے ہوں.دُعاؤں اور قربانیوں کے ساتھ اپنے محبوب وطن کو مستحکم اور نا قابل تسخیر بنا دیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو.والسلام مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت مصلح موعود کی دعا بچوں کے لئے ! ( الفضل 10 ستمبر 1965ء) حضرت مصلح موعود کے کاغذات میں سے حضور کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی بچوں کے لئے دعا الفضل میں اشاعت کے لئے بھجوا رہی ہوں ممکن ہے پہلے کبھی شائع بھی ہو چکی ہو.ماں باپ کو چاہئے کہ بچوں کو یہ دعا یا د کروائیں.( مریم صدیقہ ) اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هُوَ النَّاصِرُ بچوں کے لئے دعا اے ہمارے پیدا کرنے والے خدا! ہم اقرار کرتے ہیں کہ تو ایک ہے تیرے سوا کوئی خدا نہیں.ہم تیرے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں اور تیرے مامور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ احمد قادیانی علیہ السلام پر یقین رکھتے ہیں.تو ہمارے دل میں اپنی محبت پیدا کر اور اپنے حکموں پر چلنے کی ہمیں توفیق دے.ہمیں دین کا علم سکھا اور قرآن جو تیری کتاب ہے پڑھا.ہمارے دل میں ماں باپ کا ادب ڈال.ہم اپنے بھائیوں، بہنوں اور دوسرے رشتہ داروں سے پیار کریں.اور ہمیں گالیاں دینے ،لڑنے ،

Page 710

انوار العلوم جلد 26 658 پیغامات بے وجہ محضہ کرنے ، چوری کرنے ، جھوٹ بولنے، بے شرمی کی باتیں کرنے سے بچا.ہم دلیر ہوں ڈرپوک نہ ہوں.ہمیں علم سیکھنے کی توفیق دے.ہم سکتے اور سُست نہ ہوں.ہم اپنے سے غریبوں اور کمزوروں پر رحم کرنے والے ہوں.ہم حریص اور لالچی نہ ہوں.اے اللہ ! ہمارے بزرگوں پر رحم کر.احمدی جماعت کے امام پر اپنا فضل کر اور اُن کے حکموں کے ماتحت ہمیں بھی دین کے کام کرنے کی توفیق دے.اور اسلام کو دوسرے دینوں پر غالب کر.اے اللہ ! ہماری عمروں اور صحتوں میں بھی برکت دے اور تو ہمیشہ ہم 66,0 سے محبت کیا کر.امین 1: الروم:31 (الفضل 26 دسمبر 1970 ء) 2 الجامع الصغير للسيوطى الجزء الاول صفحہ 218 حدیث نمبر 991 مطبوعه رياض الطبعة الثانية میں الفاظ اس طرح ہیں.اِسْتَفْتِ نَفْسَكَ وَإِنْ أَفْتَاكَ الْمَفْتُوْنَ“ 3: بخارى كتاب الْإِيْمَانِ باب الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ (الخ) حديث ( نمبر 10 صفحه 5 الطبعة الثانية مطبوع رياض 1999ء 4: الشعراء:81 5: البقرة: 116 6:بخاری كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قَوْلِهِ وَ آخَرِيْنَ مِنْهُمْ (الخ) حدیث نمبر 4897 صفحہ 869 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء :7 سنن ابی داؤد کتاب المهدى حديث نمبر 4279 تا 4290 صفحہ 602،601 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء تذکرہ صفحہ 390 ایڈیشن چہارم 2004 ء 9: الانفال: 25 10: در مشین اردو صفحہ 128 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ

Page 711

انوار العلوم جلد 26 659 پیغامات 11: ابو داؤد کتاب الملاحم باب مَا يُذْكَر فِي قَرْنِ الْمِائَة حديث نمبر 4291 صفحہ 602 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 12: آل عمران:32 13 : اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1351ھ 14: در تمین فارسی صفحہ 140 شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ 15 : مسلم كتاب الايمان باب بيان كون النَّهى عَنِ الْمُنْكَر (الخ) حدیث نمبر 177 صفحہ 42 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 2000ء 16 اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 22 مطبوعہ مصر 1351ھ 17 : موضوعات کبیر ملا علی قاری صفحہ 35 مطبوعہ دہلی 1315ھ :18: مسلم کتاب الفتن باب قُرْب السَّاعَةِ (الخ) حدیث نمبر 7402 صفحہ 1297 الطبعة الثانية مطبوعہ ریاض 2000 ء میں لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ إِلَّا عَلَى شِرَارِ النَّاسِ “ کے الفاظ ہیں.19 بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبیله و معانقته حدیث نمبر 1050 صفحہ 5999 الطبعة الثانية مطبوعه رياض 1999ء 20 اسد الغابة الجزء الاول صفحہ 171 مطبوعہ بیروت 2006ءالطبعة الاولى :21: النسائی کتاب مناسك الحج باب بناء الْكَعْبَةِ حديث نمبر 2903 تا 2907 صفحہ 400،399 الطبعة الاولى مطبوعه رياض 1999ء.22: الاعراف : 173 23:الاعراف:173 24:الاعراف:159 25: آل عمران : 111 26: الانفال : 25 27: بخاری کتاب الفتن باب ذكر الدَّجال حدیث نمبر 7127 صفحہ 1227 الطبعة الثانية مطبوع رياض 1999ء

Page 712

انڈیکس کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات 3 15 18 20 20 34 40

Page 713

ابتلا ابتلاؤں کا آنا مومنوں کیلئے فکر کا موجب ہے ابدال ابدال کے معنی اجتماعات 645 360 3 مضامین احمدیت کی تائید میں نشانات 241 اسلام میں جانوروں کے حقوق 342،341 احمدیت خدا کا آخری جلال ہے 363 | اسلام خود داری کو کچلنے کے خلاف احمدیت کی تبلیغ کا جوش اپنی نسل ہے میں پیدا کریں 498 اسلام ڈسپلن کے خلاف نہیں 444 444 احمدیت کی اشاعت کی ہمیشہ اسلام کی اشاعت رکنے کی وجہ 482 کوشش کرتے رہیں 557،554 اسلام یورپ میں پھیل رہا ہے 609 احمدیت کے پودے کی خدا اسلام عالمگیر مذہب ہے 627 600 | اشاعت اسلام کا فرض یا درکھو 629 آبیاری کرے گا تمام اسلامی اجتماعات کی روح رواں احراری ذکر الہی ، دعا انابت الی اللہ ہے 504 احراریوں کا صاحبزادہ مرزا خلیل احمدی احمدیوں کی تعداد دنیا کو اسلام کی طرف لانے کی تلقین 631.630 کو کمیونسٹ لٹریچر بھیجنا 93، 94 | اسلام ساری صداقتوں کا سر چشمہ 244 اختلافات ہے احمدیوں کے دیگر مسلمانوں سے الگ اختلافات کو قریب بھی نہ آنے دو 548 اصلاح 631 رہنے کا فائدہ ایک احمدی لڑکے کی ذہانت سیالکوٹ کے ایک احمدی کی دعوت الی اللہ کے نتائج 244 386 اخلاص، خدمت، قربانی کے ساتھ ادارے جماعتی اداروں سے پورا تعاون دوسروں کی اصلاح کی جائے 369 کریں 517 اعتراض 544 ارتقاء احمدی حکومت پاکستان سے ہر 656 مسئلہ ارتقاء اور قرآنی کتب خانہ 432، افسران طرح تعاون کریں ایک اعتراض کا جواب 225 226 433 افسران لوگوں سے رپورٹیں احمدیت احمدیت کے روشن مستقبل کی پیشگوئی حاصل کرتے رہیں 624 اسلام 5 تا 7 640 اسلام کی بنیاد توحید خالص پر ہے 151

Page 714

4 اللہ تعالیٰ تقریروں کا امتحان ہستی باری تعالیٰ کی ایک دلیل 151 انبیاء اللہ ہی سچا احد ہے اللہ تعالیٰ کو بڑی تدبیریں کرنی آتی ہیں 15.14 انعام انعام حاصل کرنے والی مجالس 139 152 غیر شرعی انبیاء کا انکار بھی کفر ہے 322 انگریز انڈیکس لاہور کے انگریز ڈپٹی کمشنر کا 260 تفسیر صغیر کا انڈیکس 282 283 | انصاف اللہ کی تقدیر غالب آکر رہتی ہے 260 انسان اللہ تعالیٰ دلوں کو پھیرتا رہتا ہے 401 اللہ تعالیٰ سے زیادہ مہربان اور کوئی نہیں اللہ تعالیٰ بغیر نمونہ کے پیدا کرتا ہے 401 421 415.414 انگریزوں نے غدر کے واقعات آدم سے پہلے انسان غاروں میں کی وجہ سے مسلمانوں کو ذلیل کرنا 454 | شروع کیا اولاد رہتا تھا انصار الله انصار اللہ عبادت میں وقت اولاد کے اندر خود داری پیدا کرنا صرف کریں 355 قرآنی اصول 414 444 اللہ تعالیٰ کا کلام ٹلا نہیں کرتا 592 انصار اللہ اپنے فرائض کی طرف بچے کو ادب سے بلانے کا واقعہ 444 ہمارا خدا قادر مطلق خدا ہے تعلق باللہ تعلق باللہ کوسچا ثابت کرنے کی کوشش کرو 617 توجہ دیں انصار اللہ دین کی خدمت کی طرف توجہ کریں 355 355 باغات 607 انصار اللہ کو جامع نصائح 355 356 قوم عاد کے دو باغات 160،159 356 انصار اللہ کو دین کا چرچا ، تربیت اولاد موسوی قوم کے دو باغات 160 161 355 356 محمد ی باغات کے نمونے انصار اللہ کی تنظیم کی غرض و غایت، ذمہ داریاں الهام ( بشارت) الہام الہی قوموں کی زندگی کی کی تلقین انصار اللہ کے معنی علامت اگر بشارت ہوتو اخبار میں اشاعت کیلئے بھیج دو امت امت محمدیہ کا بلند مقام امتحان کے اخلاق کا جائزہ لیں 3580356 162 انصار خدام کے سامنے نیک نمونہ پیش کریں 357 پاکیزگی 647 فطرتی طور پر ہر انسان پاکیزگی 647 کا خواہش مند ہے پرده 172 555 انصار اللہ جماعت کے بچوں نوجوانوں پردہ نہ کرنے والوں سے عدم تعلق 369 647

Page 715

پونڈ تاریخ احمدیت 5 تحدیث نعمت افریقہ میں سارا پونڈ ہیروں اور سونے تاریخ احمدیت کے بارہ میں اصولی تحدیث نعمت خدا کا شکر یہ ادا کرنے کے ذریعہ سے آتا ہے پیدائش 359 ہدایات 266 | کا طریق ہے تاریخ احمدیت کی اشاعت 376 تحریک جدید عرب بچہ کی پیدائش پر بہت تاریخ ملل قدیمه قربانیاں کرتے تھے تحریک جدیدا شاعت اسلام کا واحد 330 تاریخ ملل قدیمہ پر بہت سی ذریعہ 442 | تحریک جدید چندہ بچوں کا بھی لکھوایا کریں پیدائش عالم سے متعلق قرآنی نظریہ کتب لکھی گئیں کے پیشگوئی 422.421 تبلیغ تبلیغ اسلام ہمیشہ جاری رکھو 470 تحریک جدید کے اجراء کی غرض ہندوستان کو ایک خطرہ کی پیشگوئی 148 تبلیغ اسلام کا کام ہمارے بعد جاری جماعت احمدیہ کے غلبہ کی پیشگوئی رہے گا 358 255 262 490.489 484 | تحریک جدید کے تحت نوجوان اچھا 194 195 ہندوستان میں تبلیغ اسلام کو وسیع کام کر رہے ہیں سورۃ کوثر میں حضور کو روحانی اولاد کرنا ضروری ہے 495 | تحریک جدید کے دور اول میں دیے جانے کی پیشگوئی 234 سال میں 10 احمدی بنانے کا عہد کثرت نے حصہ لیا کریں 545.544 457 458 | تبلیغ میں نرمی ،انکسار، حسنِ اخلاق یا جوج ماجوج کے متعلق پیشگوئی فلسطین پر یہود کے قبضہ کی پیشگوئی کی تلقین تاریخ 547 تحریک جدید قیامت تک رہنے والی چیز ہے 458 459 تبلیغ میں نیک نمونہ کی تلقین 555،554 تربیت تبلیغ بغیر روپیہ کے نہیں ہو سکتی 574 | تربیت کے بغیر نہ اولا د ترقی کر سکتی تبلیغ کی طرف بار بار توجہ دلانے ہے نہ قوم کی ضرورت 520 569 614 624 | تربیت کے مضمون پر بڑے بڑے علماء قرآن کی تاریخ کی مثال نہیں 425 غیر مسلموں کو تبلیغ کیلئے ایک ہفتہ نے بڑی بڑی کتب لکھیں تاریخ وحی و رسالت 425 وقف کیا جائے تاریخ سے واقفیت ہر احمدی کیلئے تبلیغ اسلام وسیع اور عالمگیر نیکی 644 تغییر تفسیر صغیر کی افادیت 443 443 282 ضروری ہے 653 ہے 648

Page 716

6 توحید خدا احمدیوں میں تو حید کامل قائم رکھے گا جلسہ سالانہ کی غرض و غایت 503 | خدمت کا کام 553،504 جماعت ساری دنیا میں تبلیغ کر رہی 25 جلسہ سالانہ شعائر اللہ میں سے ہے 526 ہے سورۃ الاخلاص تو حید کا معیار ہے 151 جلسہ سالانہ کا ایک نمایاں امتیاز 565 جماعت احمد یہ دنیا میں خدا کے گھر توکل اللہ پر توکل رکھو ل سب سے اہم چیز ہے جلسہ سالانہ ج جلسہ سالانہ کی حاضری میں ڈیڑھ گنا اضافہ جمادات 473 | جمادات میں نرومادہ 607 جماعت احمدیہ 432 جماعت دشمنوں کو کچلتی چلی جائے گی 4 بنا رہی ہے 208 210 246.245 جماعت کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے جماعت کی تعداد برصغیر میں دس لاکھ 275 544.275 جماعت احمدیہ کی اسلامی خدمات جماعت احمدیہ کا لنگر ہمیشہ جاری 166164 6 جماعت مبایعین کی غیر مبایعین رے گا 343.342 جماعت احمدیہ میں تنظیم کے خوشکن حضرت مسیح موعود کے آخری جلسہ کے مقابلہ میں نصرت 188 189 | نتائج 272،8 اکثریت جماعت مبایعین کو کی حاضری جلسہ سالانہ کی تقاریر کے نوٹس لینے حاصل ہے کی تلقین 189 جماعت احمدیہ کی اکثریت پاکستان میں ہے 16،15 جماعت کی تائید خدا ہمیشہ کرتارہا 191 جماعت تحریک جدید کی طرف توجہ جلسہ سالانہ میں شاملین کی تعداد 234 1953 ء میں جماعت کے لئے 235، 511 ،527 | تائیدی نشان جلسہ سالانہ کے بارہ میں ضروری جماعت احمدیہ کی بے مثال ہدایات 268 269 | مالی قربانیاں 191 193.192 دے جماعت احمدیہ کی ذمہ داری غلبه اسلام جلسہ جو بلی (1939ء) میں حاضری اللہ تعالیٰ جماعت کو ایک لمحہ کیلئے کی ہمدردی 44 ہزار 272 بھی نہیں چھوڑے گا مختلف جلسوں کی حاضری 272، 273 جماعت احمدیہ کو خدا برکات اور 1907ء کے جلسہ پراکثر مہمان 193 195 جماعت احمدیہ سے انگریز ڈپٹی کمشنر ضروری ہے کہ تمام جماعت میں اخلاص پیدا ہو جماعت آئندہ نسل کو خادم دین انعامات دے گا بھوکے رہے 273 جماعت احمدیہ کے سپر د اسلام کی امریکن عورت کی جلسہ میں آمد 372 بنائے 369 389 401 401 416 469 506.505

Page 717

7 جماعت احمدیہ کو ہر دکھ سکھ میں جنتیں چار ہیں 158 159 کرنی چاہیے ذمہ داریاں نبھانے کی تلقین 516 جنت دائمی ہے جماعت احمدیہ کا کام خدا کی 159 خ جوڑا بادشاہت کا قیام 517.516 جنت اور دوزخ بھی جوڑا ہیں 156 خاتم النبین جماعت اشاعت اسلام میں حصہ خاتم النبیین کے معنی لے 517 پھلوں میں بھی جوڑے 157 467 487 ہے جماعت احمدیہ کا فرض، دنیا کو پیغام حق دینا جماعت کو آئندہ نسل کی درستی کی تلقین جماعت میدانِ جہاد میں کام کر رہی زمین اور آسمان کا جوڑا 548 قرآنی باغات بھی جوڑا جوڑا ہیں خدام الاحمدیہ 158 خدام الاحمدیہ کراچی اول خدام کی اصلاح کے طریق 139 199 159.158 559 دعاؤں اور نمونہ سے کمزور خدام چ میں تغییر 202 کرے جماعت احمد یہ دنیا کے چاروں کونوں تک اسلام پھیلائے 605 جماعت احمدیہ کے بارہ میں پیشگوئی 607،606 | حبشی 569،568 چیفس جماعت اللہ سے سچا تعلق پیدا ہمارے بعض چیفس کی زمینوں میں شریک کرو 604 کمزور خدام کو اجتماعی دعاؤں میں ہیرے اور سونے کی کانیں ہیں خدام الاحمدیہ کی پوزیشنیں 202 279 358 359 خدام الاحمدیہ کا نام دینے کی حکمت جماعت احمدیہ کے قیام کا مقصد 642 امریکہ کے حبشیوں کی تعریف 358 خدام الاحمدیہ وانصار اللہ کے قیام کی غرض 488.487 355 جمہوریت جمہوریت پر ہزاروں کتابیں لکھی جا چکی ہیں 445.444 جمہوریت کا بڑا اصل مشورہ ہے 445 فرعون کی حکومت میں جمہوریت کارنگ 447 قرآن میں جنت کے چار نام 158 حدب کے معنی حکمت حکمت کی ایک بات بھی انسان کی نجات کا موجب ہے حیات قومی حیات کیلئے ہمیشہ کوشش 457 531 خدام الاحمد یا اپنے فرائض کو سمجھیں خدمت دین خدمت دین کے موقع کو ضائع نه کرد خلافت خلافت کی برکت خلافت ایک شرطیہ وعدہ ہے 590 519 10 23 1 200

Page 718

8 انتخاب خلافت کا طریق کار 27 تا 30 بہت اعلیٰ ہے خلافت قائم رہنے کی بشارت 25 ، 26 | خلیفہ سے تعلق مبلغ سے تعلق سے روزه 579 روزہ اور دعا سے روحانی طاقت خلافت ایک انعام ہے خلافت مشروط انعام ہے 28 28 بڑھتی ہے 625 انتخاب خلافت کی شرائط دجال ز 29تا36 خلافت احمدیہ کی تائید و نصرت 30 31 دجالی فتنہ کے مقابلہ کیلئے اجتماعی زرتشتی کوشش کرو خلافت احمدیہ کی اللہ حفاظت 648 زرتشتیوں میں خدا کا تصور 452 کرے گا دشمن زمیندار 115 دشمنوں سے بھی ہمدردی کرو خلافت سے قیامت تک وابستہ رہو 471 | دعا 628 | زمیندار محنت سے جی چراتا ہے 391 200 زندگی خلافت کی مضبوطی کیلئے عہد 485،472 دعاؤں میں شامل کر کے کمزور خدام خلافت ڈے کیلئے پیغام 588 کی غیرت کو بھڑ کا یا جائے خلافت خدا کی قائم کردہ چیز ہے 588 دعاؤں کی تلقین 504،486، دنیا کی زندگی بھی ایک جوڑا ہے 155 زمین و آسمان زمین و آسمان چھ وقتوں میں بنے 419 507.506 ہمیشہ اپنی زندگیاں خلافت کیلئے س خرچ کریں 589 خدا تعالیٰ ہر ایک کی دعا سنتا ہے 619 سائنسدان سب برکتیں خلافت میں ہیں 602 دفتر | سائنسدانوں کی ایک تحقیق سکھ 154 خلافت کو مضبوطی سے پکڑو 602 بغیر دفتر کے کوئی کام نہیں ہو سکتا 641 | خلفاء دین آئندہ خلفاء کو وصیت 489 490 | اولین خدام دین کا مقام خلیفہ خلیفہ سے ملاقات کے آداب 371.370 ہر احمدی کو دوسرے تیسرے ماہ خلیفہ کو خط لکھنا چاہیے 579 518 385 ایک سکھ کی احمد یہ مساجد بنانے میں معاونت 384.383 ایک صاحب اثر سکھ کار بوہ آنے کا ارادہ اصل چیز روحانی کھانا ہی ہے 326 قادیان کی ارد گرد کی سکھ آبادی احمدیوں کی تائید میں روحانی کھانوں کے مقابلہ میں دنیوی کھانے بے حقیقت 326 ایک سکھ کے کھیت کی تعریف 385 391 روحانیت

Page 719

9 سکھ توحید کے قائل ہیں 628 شیطان کی مخالفت آدم کے زمانہ سورج مکھی میں سورج مکھی کے بیج کھانے سے گائے شیطان کا حملہ حضرت ابراہیم کے کا دودھ بڑھتا ہے 394 زمانہ میں 57054 58 عزت ع اصل عزت مرنے کے بعد ملے گی 601 63 64 عمل صالح انسان کو اونچا کرتا ہے 201 شیطان کا حربہ حمد رسول اللہ کے زمانہ عمل صالح ہماری جماعت کو سورج مکھی بونے کی طرف توجہ کرنی چاہیئے مرغیاں سورج مکھی کے بیج کھانے سے انڈے زیادہ دیتی ہیں سیاست 394 394 میں شیطان کا حربہ مسیح موعود کے زمانہ ایک عملِ صالح سے مزید قدم بڑھانے میں شیطان ناکام رہے گا 64 تا 69 کی توفیق ملتی ہے 129 | عورت 201 عورتوں کا عشق رسول 212 تا214 سیاست کی تعریف 447 ایک عورت کی غیرت ایمانی 215،214 صبر کا مفہوم صحابة اسلام نے عورت کے حقوق کو تسلیم 527 کیا 252 عورتیں نئے نئے نکتے نکالتی ہیں 252 عورت نبی نہیں بن سکتی اللہ کا شکر ادا کر نا ہمیشہ ضروری ہے 367 صحابہ خدمت دین کو مصیبت نہیں شعائر الله سمجھتے تھے 212 عورت مردوں پر حکومت کی قابلیت نہیں رکھتی صحابہ جانیں دینا اپنی خوش قسمتی شعائر اللہ کی عظمت تقوی اللہ میں شامل شہد 528 شہد کی مکھیاں مختلف قسم کی ہیں 430 شہد مختلف امراض کے دور کرنے کا موجب باغوں میں شہد کی مکھیاں پالنے کی 430 سمجھتے تھے 214 احمدی عورتیں صحابہ کی قربانیاں 290 291 ہر احمدی عورت احمدیت کی صداقت 330 330 2460225 صحابہ کا عظیم مقام 519،518 ہالینڈ میں احمدی عورتوں کے چندہ صحابہ کا احساس ذمہ داری 512 | کا نشان غزوہ حنین میں صحابہ کا خلوص صحابی 566 سے مسجد احمدی عورتوں کی بے مثال قربانی 245 حکمت شیطان 432 اور ایثار 253.252 ایک صحابی کی فدائیت 505،504 احمدی عورتیں مردوں سے دلیر ہیں 269 احمدی عورتوں کے اخلاص اور بہادری صمد کے معافی 640،639 کے واقعات 289.288.270

Page 720

عیسائی عورتیں 10 389 کے متعلق 321.320 عیسائی عورتوں کی عیسائیت کی خاطر غیر مبائعین 253 254 | غیر مبائعین کی ایک تدبیر 71 تا 75 قربانی عیسائی عورتیں زندگی وقف کرتی ہیں 613 عہد فاطر تبلیغ اسلام کے متعلق ایک ضروری فاطر کے معنی عہد 472 ف 422 قرآنی بیان کی تصدیق 324 تا326 قرآن سب سے بڑا ہتھیار ہے 387 قرآن دلوں میں نور پیدا کرتا ہے قرآن کا اصول زراعت کے متعلق قرآن کسی کو پڑھنے کیلئے دیں تو 396 390 عیسائی عیسائیوں نے مُردہ خلافت کو جاری رکھا ہوا ہے 471 عیسائیوں کی وفاداری کی تعریف 483 عیسائیت حقیقی فتح فرشتوں کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی اس پر بہت اثر ہوگا 398 قرآن کی برکت سے دل صاف 399 549 قرآن میں وہ تعلیمات موجود ہیں دل فتح کرنا ایک شخص کا کام نہیں 624 | جو منسوخ نہیں ہوئیں عیسائیت کی ترقی اسلام کے مقابلہ قدرت ثانیہ میں 498 ق قدرت ثانیہ سے مراد خلافت 26 ، 27 عیسائیت کا فتنہ سب سے بڑا فتنہ 647 قرآن کریم قرآن حجم کے لحاظ سے چھوٹی کتاب ہے قرآن میں تمام سچائیوں کے اصول بیان ہیں 418 418 419 قرآن کریم کا اعلان بریت 435،434 قرآن نے حضرت داؤد کی عزت کی قرآن کے نزدیک سوائے خدا کے 151 | حفاظت کی 436 قرآن کا بے مثال علمی نکتہ 152 153 قرآن نے حضرت ہارون کی عزت کی غ ہر چیز جوڑا غرباء غرباء ومساکین کی ضروریات پورا کرنے کا حکم قرآن خدا کا اتارا ہوا کلام قرآن میں مادی علوم بھی غرباء کو زیورات ادھار دینے کی بیان ہیں غله 349.348 349 کر بیان کیا 153،152 قرآن نے ہر روحانی امر کو کھول لہ کی زیادتی کا تعلق مذہب سے ہے قرآنی انکشافات فرعون موسیٰ 154 154 320 حفاظت کی قرآن کا اعلان، بچھڑا سامری نے بنایا تھا 438 440 قرآن میں تربیت کے اصول 443، 444 قرآن میں جمہوریت کے اصول 444 445

Page 721

11 قرآن میں سیاست کے اصول 447، قرآن کی روشنی، نیچرل ہسٹری قرآنی لنگر کا شاندار منظر 340 قرآن میں تمدن کے اصول 448 448 430 قربانی تاریخ قرآن اور انبیاء 434 تا 442 قربانی اپنا پھل ضرور لاتی ہے 569 قرآن میں دہریت کا رد 450 تا 452 | قرآن میں زرتشتی مذہب کا رد 452 قرآن میں کلمہ طیبہ کی مثال درخت ذکر 4500448 469 قرآن اور تاریخ ملل قدیمہ 443،442 قرآن میں تاریخ تمدن کا قرآن نے کشتیوں کی لمبی تاریخ قیدی قیدیوں کو فراعنہ مصر کے زمانہ میں کھانا دیا جاتا تھا 450 قرآنی علوم کا ذکر کیا 449 قرآن میں تمام ضروری علوم موجود قرآن میں آئندہ زمانہ کی ہیں قرآن میں علم تعمیر بھی آگیا 419 430 تاریخ قرآنی کتب خانہ 457،456 کامیابی الہی سلسلہ کے لئے مقدر قرآن کا انکشاف علم نباتات کے قرآن میں ہر قسم کے کتب خانے ہیں ہے کشتیاں کامیابی 259 متعلق 431 417 قرآن میں علم الاخلاق کا قرآنی کتب خانہ میں نظام ہائے کشتیاں بنانے کی تاریخ 449 ذکر 454،453 سمسی کا ذکر 433 کفار قرآن میں علم الانسان کا ذکر کی پیدائش کا ذکر 433 4560454 قرآن میں جغرافیہ کا ذکر 459 460 قرآنی کتب خانہ کی دائمی حفاظت کا وعدہ قرآن اور تاریخ قرآنی لنگر قرآنی کتب خانہ میں زمین و آسمان کفار کی اولاد کی قربانیاں 226 تا 232 460 کوثر سے مراد مسیح موعود 236، 237 کوثر میں امت محمدیہ کے تمام افراد کوثر قرآن نے ایک آیت میں تمام قرآن کو سب آسمانی لنگروں پر شامل کوثر سے مراد جماعت احمدیہ 336 237 320 مذہبی تاریخ عالم بیان کردی 427 فضیلت قرآن کا ایک عظیم الشان انکشاف قرآنی لنگر کی کوئی چیز نہیں چرائی مذہبی تاریخ کے سلسلہ میں 428 جاسکتی قرآن میں قدیم اقوام کی تاریخ 3300328 قرآنی لنگر کے ہمیشہ جاری رہنے کی 430،429 | پیشگوئی 331.330 لڑ پچر لڑ پچر پڑھانے کا طریق 271 272

Page 722

12 576 لڑیچر کے بغیر سلسلہ ترقی نہیں کر سکتا 281 مساجد کی تعمیر پر پیغامات لڑیچر کی اشاعت میں زیادہ حصہ ٹانگانیکا کی مسجد کا نام، السلام 576 لینا چاہیے 481 | مسلمان لنگر خانه مسلمانوں کی تعداد دنیوی لنگر خانوں کے نقائص 319 اصل مسلمان وہ ہے جو دنیا کو قرآنی لنگر خانہ کی خوبی 319 | امن بخشے کفار کولنگر جاری کرنے کی ہدایت مشاورت 348.347 مشاورت کا ایک ادب مشوره 245.244 591 نباتات علم نباتات پر ہزاروں کتب لکھی گئیں تمام نباتات میں نر و مادہ کا وجود پایا جاتا ہے نذیر 431 431 ماں 448 ہر معاملہ میں مشورہ کرنا چاہیے 446 ماں اگر چاہے تو بچوں کو جنتی بنا سکتی بغیر مشورہ کے حکومت نہیں ہونی ہے مبلغين مبلغین کی قربانیاں 613 1800178 چاہیے مغربیت 447 نذیر کے معنی نشانات ہم نے خدا کے نشانات کو بارش کی طرح دیکھا نصائح منتظمین کو ایک نصیحت مغربیت سے بعض احمدی نوجوان نصیحت ہمیشہ فائدہ بخش ہوتی مبلغین کے گزارے قلیل 261 262 متاثر مذہب مذہب تعلق باللہ اور شفقت على خلق اللہ کے مجموعہ کا نام ہے مرکز 627 مومن مومنوں کے فرائض 368 207 ہے جامع نصائح 425 640 8 369.4750467 569.568.5610559 مومن وہی ہے جو خدا کی راہ میں سارا نصرت الہی زور لگاتا ہے مرکز سے تعلقات استوار رکھو 568 مومن وہی ہے جو اپنے کام میں مسجد، مساجد محو ہو ہم نے تمام غیر ممالک میں مساجد مومن ہر معاملہ کو باہمی مشورہ سے بنانی ہیں 358 طے کرتے ہیں 554.487 217 نصرت الہی کی شرائط نصرت الہی حاصل کرنے کے 219 | طریق نظام 445 نظام الہی کے مخالفین کو جدا کرنا خدائی حکم ہے 640 56 56

Page 723

621 633 633 13 نقطه مرکزی وقف وقف جدید کے ذریعہ ترقی دنیا کے چپہ چپہ پر حضور کی حکومت خاندان میں سے کم از کم ایک فرد وقف جدید کی وجہ سے صدر انجمن 481 کے وقف کا مطالبہ 505 | تحریک جدید کے چندوں میں نقطه مرکزی ہے نوجوان وقف زندگی کی تلقین 517 نو جوان خدمت دین کے لئے ہر قسم کے واقفین کی ضرورت 518،517 اضافہ ہوگا وقف جدید کے تحت اچھوت اقوام تک پیغام 1961ء میں وقف جدید نے تمام سالوں سے بڑھ کر قربانی کی آگے آئیں 520 وقف جديد نور وقف جدید کی سکیم کی تفصیلات نوراور ظلمت انسانی بقا کیلئے 287*285 ضروری ہیں نو مبائع 453 وقف جدید کا چندہ بڑھانے کا طریق 394 نو مبالعین سے چندہ لینے کا طریق یہ صیغہ عمدگی سے کام کر رہا ہے 394 633 وقف جدید کا کام پھیل رہا ہے 641 وکالت تبشیر 200، 201 وقف جدید کے ذریعے بیعتیں وکالت تبشیر کا ایک فرض 497،394 | ولی اللہ ایک نو مبائع کی چندہ میں قابل رشک قربانی 201 واقفین وقف جدید تعلیم بھی دیتے ولی اللہ بننے کا ایک طریق نیک نیک کی تعریف نیکی ہیں، علاج بھی کرتے ہیں 395 348 قیام کی غرض و غایت 632،496 | ہمسایہ اس زمانہ کی سب سے بڑی نیکی وقف جدید کے مطالبات 648،647 چندہ وقف جدید میں حصہ لینے وصیت کی تلقین 633 497 DO ہمسایہ ہند واورسکھوں سے اچھے تعلقات رکھو 497 ہندو چندہ وقف جدید کی تفصیلات 586 ایک ہندو لیڈر کی اپنی قوم سے وصیت کا نظام اللہ کی منشاء کے تحریک ڈالی مطابق قائم ہوا غیر موصیوں کو موصی بنانے کی کوشش کی جائے 622 622 میرے دل میں خدا نے یہ وقف جدید کو مضبوط بنانا ضروری ہے بکثرت وصیتوں سے مالی حالت چندہ وقف جدید کا ٹارگٹ مضبوط ہوگی 635 | 12 لاکھ ہمدردی 469 347 627 415 585 ہندوؤں کو اسلام میں داخل کر لو 475 611 620 ہندوؤں کا تصوف اور روحانیت کی طرف میلان ہند و قوم تو ہم پرست ہے 592 592

Page 724

439 439 458 616 14 ہومیو پیتھک یقین کر آئے ہومیو پیتھک کا فائدہ 395 خدا کی رحمت سے حصہ لینے کیلئے یہود کا بچھڑے کو معبود بنانا امریکہ میں ہومیو پیتھک معالج یقین کی ضرورت بکثرت ہیں 396.395 ہور 195 یہود کی دو مرتبہ تباہی یہود نے 2300 سال میں مرکز معمولی ہو میوڈاکٹر سے شفا 396 یہودیوں کی ایک قدیم رسم 439 پایا یہود بت پرست قوم سے نکل ی

Page 725

15 البقرة اتَجْعَلُ فِيْهَا مَنْ يُفْسِدُ (31) بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً (83.82) 455 157 مَا كَفَرَ سُلَيْمَنُ (103) 322 وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ (110) آیات قرآنیہ كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ (111) 643.487 شَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ (160) 445 النساء التوبة ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ (118) أَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ (55) 61 | يونس وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُوْلَ فَالْيَوْمَ نُنَجِّيْكَ بِبَدَنِكَ (70) الانعام 60 الْحَمْدُ للهِ الَّذِي خَلَقَ 162 (93) ايوسف فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا (116) 597 السَّمواتِ وَالْأَرْضَ (2) 452 قَالَ لَا يَأْتِيْكُمَا طَعَامٌ لَيْسَ الْبِرَّ (178) 348 وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ (38) 128 428.321 450 رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً (109) (202) 156 | الاعراف 453 لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَومَ (93) 196 اللهُ لا إِلهَ إِلَّا هُوَ (256) 420 قَالَ مَا مَنَعَكَ أَلَّا تَسْجُدَ مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُوْنَ (1913) أَمْوَالَهُمْ (262) 390 اَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ (73) الرعد 55،54 وَ هُوَ الَّذِي مَدَّ الْأَرْضَ (4) 630 آل عمران وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٌ (8) يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ 157 425 قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ (159) 643 | ابرهيم (32) 610 | الانفال مَثَلاً كَلِمَةٌ طَيِّبَةً (25) 494 وَمَكَرُوا وَمَكَرَ اللهُ أَصْلُهَا ثَابت (25) 6 وَاعْلَمُوْا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ (55) 260 المَرْءِ (25) فَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ(25) 606 وَقَالَتْ طَائِفَةٌ (74،73) 60 475.469 يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا (25) 644

Page 726

421 329 444 436 436 96 328 445 16 بنی اسرائیل كُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ (13) إِنَّمَا الْمُوْمَنُوْنَ (63) 448 | يسن الشعراء 320 فَمَاذَا تَأْمُرُوْنَ (37،36) 447 وَقُلْنَا مِنْ بَعْدِهِ (105) 458 وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ إِنَّمَا أَمْرُةً (83) الصفت لَا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلا (1109) 595 فَانْظُرْ مَاذَا ترى (103) 435 وَاذْكُرْ عَبْدَنَا دَاوُدَ (81) فَنَجَّيْنَهُ وَأَهْلَهُ (172.171) 160 النمل الكهف وَاضْرِبْ لَهُمْ مَثَلًا (34.33) طه فَقُوْلَا لَهُ قَوْلًا (45) 10 يَآيُّهَا الْمَلَؤُ أَفْتُوْنِيْ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَرُونُ (91) 440 (33) الانبياء أَوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ (31) وَلُوْطًا آتَيْنَهُ حُكْمًا (76.75) نَفَشَتْ فِيْهِ غَنَمُ الْقَوْمِ (79) وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ (97.96) 433 القصص (18) 446 إِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى | (26) 446 قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ فَأَوْقِدْ لِيْ يَهَا مَنُ (39) اَرَوَيْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللَّهُ (73.72) 435 161 457 الروم (77) 453 | المؤمن يَعْلَمُ خَائِنَةَ الْأَعْيُنِ فِطْرَتَ اللهِ الَّتِي (31) 577 (20) سبا و بدلنهُمْ (17) رَبَّنَا بِعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا شوری أَمْرُهُمْ شُوْرَى بَيْنَهُمْ 159 (39) المومنون (20) وَاوَيْنَهُمَا إِلى رَبْوَةٍ (51)441 | فاطر 459 الفتح قُلْ لِلْمُخَلَّفِيْنَ (17) 456 وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ (11) 201 أشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ (30) 127 431 النور وعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا ان مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرٌ ق (56) (25) 425 وَأَنْبَتَنَا فِيهَا (8)

Page 727

17 156 (7.6) 451 320 417 11 347 العلق عَلَّمَ الْإِنْسَانَ وَلَقَدْ خَلَقْنَا السَّمَواتِ (2تا5) (39) 420 نوح الذريَات مَالَكُمْ لَا تَرْجُوْنَ لِلَّهِ وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ (20) 340 | (1514) وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا (50) المزمل 431،151 إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا 432 (6) البيئة لَمْ يَكُنِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (4+2) النجم (16) 424،161 | الفيل وَأَنَّهُ أَهْلَكَ عَادًا النزعت أَلَمْ تَرَكَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ (52.51) 430 وَالتَزِعَتِ غَرْقًا الرحمن (1002) (2) 251.207 وَلِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهِ الاعلى فَذَكِّرْ (10) الماعون أَرَءَ يْتَ الَّذِي (2 تا آخر ) 369 330.225 150 (47) 156 جَنَا الْجَنَّتَيْنِ دَان ( 55 ) 159 قَدْ أَفْلَحَ مَنْ تَزَكَّى (55) الطلاق اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوَاتٍ (13) 433 (2015) الفجر أَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِعَادٍ 53 الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ (2 تا4) الاخلاص لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ (42) 429 (907) الملک الم نشرح تبرَكَ الَّذِي بَيَدِهِ الْمُلْكُ فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا

Page 728

18 احادیث يَقْتُلُ الْخِنْزِيرَ 491 اگر تبلیغ میں کمی ہوئی تو بڑی مصیبتیں آئیں گی اسْتَفْتِ قَلْبَكَ إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الْكَبَائِرِ رِفْقًا بِالْقَوَارِيْرَ س 578 453 211 حدیث یا معشی بیٹے کی شہادت پر ہمدردی ہے 214 ( ترتیب بلحاظ صفحات ) جو تمہیں پیارا ہے وہ ہمیں پیارا ہے 618 جواب کیوں نہیں دیتے 5،4 فرشتہ کے ہاتھ میں انگوروں کا سَلْمَانُ مِنَّا اَهْلُ الْبَيْتِ 336،71 ک كَانَ فِي الْهِنْدِ نَبِيًّا ل 426 میرے بعد خلیفے ہوں گے 25 خوشہ ہے مسیح موعود خزانے لٹائے گا 227 231 236 جس کو تمنا ہوا سے وہ مقام نہ دیا جو شخص اللہ کے لئے گھر بناتا ہے 245 جائے 34 مسیح موعود دو فرشتوں پر اترے جانور کو دکھ نہ دو لَا تُخَيِّرُوْنِيْ عَلَى مُوسَى 454 گا لَا تَقُوْمُ السَّاعَةُ 487،471 حدیث کی کتابیں کئی قسم کی ہیں 122 لَنَا مَوْلَى وَلَا مَوْلَى لَكُمْ لَو كَانَ مُوْسَى وَعِيْسَى 5 613.485 342 349 349 358 نوافل کے ذریعہ خدا کا قرب 258 57 عورتو! تم بھی چندے دو جوز یور استعمال ہوتا رہے خدا کی رحمت کا نشان ہے اس فن کے تم ماہر ہو 154 میرے خدا نے ایران کے بادشاہ اگر میرے زمانہ میں دس یہودی کو مروا دیا 387 بھی مسلمان ہوں 165 تمام انبیاء بھائی بھائی ہیں 426 23 | میں نے خواب دیکھا مَا كَانَتْ نُبُوَّةٌ قَطُّ 167 اگر موسیٰ اور عیسیٰ زندہ ہوتے 445 مَعَاذَ اللَّهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ اس امت کے اول میں میں ہوں مومن جب دعائیں کرتا ہے 469 ی 447 اور آخر میں مسیح موعود 174 میرا شیطان مسلمان ہو گیا ہے 202 مجھے قیصر روم کے محلات دکھائے گئے 482

Page 729

591.590 19 جس شخص کے دودن نیکی کے لحاظ شیبہ میرے قریب ہو جاؤ 556 سچا مسلمان وہ ہے سے برابر 554 عباس زور سے آواز دو 566

Page 730

20 اسماء حضرت اسمعیل کو وادی حرم میں آپ کا قیصر و کسری پر رعب 169 آیا چھوڑنا آدم علیہ السلام ؛ حضرت 32،17، 60 لشکر اسامہ کی روانگی پر عزم 538، حضرت ابراہیم علیہ السلام کا بیٹے کو 539 آدم کے معنی 96.70.59.58.55.54.33 208.182.167.129.125 454.425.422.257.252 648.603-597.548 455 ذبح کرنے کا خواب 444،443 ابوبکر ایوب مولوی 314 ابراہیم صاحبزادہ حضور کا فرزند ابو جہل ابراہیم اوهم 168.167.46.4 233.231.228226.196 217 337.336.333.331 172 333 70.63.5.4 227.226 11 آدم سے ایک اجتہادی لغزش 455 آپ نے تہذیب و تمدن کی بنیاد 455 456 408 رکھی آدم کی پیدائش کی غرض آفتاب بیگم آمنہ (حضرت خلیفہ اول کی نواسی ) ابا حاجی 99 381.380 ابراہیم علیہ السلام ؛ حضرت 54 167.160.129.70.61 504.435.423.422.356 595.569 59.58 59 آپ کا بتوں کو توڑنا آپ کی ہجرت ابراہیم خلیل مبلغ سلسله 314 اس کیلئے ایک نشان ابراہیم لنکن 144 145 ابوسفیان ابرہہ ابرہہ کا مکہ پر حملہ ابن تیمیه 459 ابو عبیدہ بن الجراح ، حضرت 37 122.100 ابن جنی وہ زبان کے بڑے ماہر تھے ابو قحافہ 290.230.229 538.169.168 158 ابوهريرة ، حضرت ابن عباس 422 ان سے ہزاروں احادیث مروی 531 ابن تیم ابوالعطاء، حضرت مولانا 172 ان کا شوق تحصیل علم اجمل خان حکیم خالد کا خطاب ملنا 150 احمد بن حنبل، حضرت امام 531 68 268 ابوالہاشم چودھری 81 | احمد بن عبد اللہ غزنوی 173،100 ابوبکر، حضرت 36،4 تا 38، 122 احمد جان ( حضرت صوفی ) 66 168 ، 291 ، 456،388 احمد جان چودھری وکیل المال 106

Page 731

احمد شاہ ابدالی احمد عبد الرحمان احمد نورسید اروڑے خان ، حضرت منشی ان کا اخلاص 21 413 امتہ الرحمن ( اہلیہ مولوی عبد المنان) برکت علی لائق لدھیانوی 122 115 ، 124 ، 125 برکت علی مرزا 49 امتۃ الرشید صاحبزادی 239 برہان الدین جہلمی ، حضرت مولوی 341.340 امتہ القیوم صاحبزادی 413،317 417 بشارت احمد ڈاکٹر 227 بشیر احمد 75 280 539 88 اسد اللہ خان چودھری اسلم کیپٹن اسامہ (ایک احمدی) 380 ام حبیبہ ، حضرت اسامہ بن زید حضرت 538 ام طاہر حضرت سیدہ 244 بشیر احمد حضرت مرزا اسحاق علیہ السلام حضرت 58 تا60 امیر حسین قاضی 117 امید 408 انور حسین چودھری 312 129.63.62 81 95 $109.92 519.405-309.117.112 بشیر احمد آرچرڈ اسمعیل علیہ السلام، حضرت 58 تا 62 اور نگ زیب، اس نے بشیر احمد چودھری اسود عنسی اعتزاز الدین نواب زاده افتی را حمد حضرت پیر افضل حق چودھری 569.435.423 207 69 66 90 جنوبی ہندوستان میں اسلام کی بشیر احمد شیخ بنیا درکھی اور یاہ 412 436 بہادر شاہ ظفر بہاؤالدین نقشبندی بہاول شاہ سید 645.553.535.525 314.296 119 244.81 246.245 172 116 اکبر شاہ نجیب آبادی 70، 71 باقر ، حضرت امام 423 | بیٹی، مسٹر البرٹ وکٹر الزبتھ، ملکہ اللہ رکھا الہی بخش، کرنل الیاس علیہ السلام حضرت 331 باقی باللہ 372 بخت نصر 98،97،95 | بدرالدین، ڈاکٹر 173 161.160 44 190، 191 ان کی کارکردگی اور احمدیت سے 580 والبان تعلق 307 امتہ الحئی ( حرم حضرت مصلح موعود ) 72 380.379 بدھ علیہ السلام، حضرت 427 428 برکت علی چودھری 87،86،84،83 73، 77 برکت علی خان صاحب 76 پطرس پیرا پیغمبر اسنگھ تائی ، تائی صاحبہ کی کیفیت 12 471 238 410 346.345

Page 732

407 411 خان بهادر خان خدا بخش مرزا 22 乙 125 317 تصدق حسین سید تغلق حبیب الرحمن مولوی لدھیانوی 88 خلیل احمد مرزا صا حبزاده 93،92 458 حبیب اللہ خان جنرل 91،90 خلیل احمد ناصر مبلغ 44.43 372.314 , 173 161 $160 داتا گنج بخش حضرت دانی ایل حضرت داؤد علیہ السلام حضرت 458 161 295.294 171.28 344.172 172 ٹائٹس رومی ٹالسٹائے 515،514 حزقی ایل حضرت ٹلٹاک، پروفیسر 45،42، 46 ، حسام الدین میر 437.436.326.167.166 486.470 46 102.99.31 344،172،171 داؤد احمد، سید داؤد غزنوی 158 حسین حضرت امام 12970 حفیظ الرحمن ملک نقشه نویس 145 حسن ، حضرت امام ثاقب زیروی 408 حسن بصری ثعالبی ثناء اللہ امرتسری 270-173 ج جالوت 486.470 حمزہ، حضرت جرجی زیدان (عیسائی مورخ 429 ان کے قبول اسلام کا واقعہ جعفر بن ابی طالب حضرت 512 جلال الدین شمس حضرت مولانا 121.120 در دمیر ، حضرت خواجہ 306 307 555 دلاور خان (خان بہادر ) 331 4080405 332 | دوست محمد شاہد، مولانا 266 267 حمید، ڈاھڈا 568-565-511.376.271 حوا 115.28 455.59 آپ کو خالد کا خطاب ملنا جنید بغدادی جواد علی سید 150 172 578 حیدر علی، ٹیپوسلطان 412 413 ڈارون خ ڈانسن ڈاکٹر خالد (مولوی عبدالمنان کا بھانجا ) ڈانا تھا مس 649 }} 432 218 145.144 چ 102.96 ز چٹو میاں، اہل قرآن کے لیڈر 400 مولوی عبداللہ چکڑالوی کے مرید 401 چراغ دین میاں 238 خالد بن ولید حضرت 232،168 ذاکر حسین 317 279، 290، 574،513 ذوالفقار علی خان گوہر 409،369 ان کی فدائیت 337 415.414

Page 733

رام چندر حضرت رجب دین خلیفه رحمت الله شیخ رحمت علی مولوی رحیم بخش مولوی رشید مبلغ رشید الدین خلیفه رشید احمد بٹ رشید احمد شیخ رشید رضا، علامه رضیہ سلطانہ عمسیس رنجیت سنگھ روشن علی حافظ ریاض قدیر، ڈاکٹر ریگ، پروفیسر ز زاہد زرتشت حضرت 23 4280426 ساره 491 | سامری 327 سباء ملکہ اس کا ذکر قرآن میں سجاح.309.64.27 410.409 ย 624 56 47.46 295 111.91 314 38 331 322 595 392.200 82 60.59 441.440 437 446 سیف الرحمن ملک سیوطی ، حضرت امام ش شبلی 307 285 122 207 | شبیر احمد چودھری 172 294 574 | شریف احمد حضرت مرزا 114،94 شکر الہی سعد بن معاذ سعد الدین تفتازانی علامه 214 38 مشمعون سرن داس رام 415 شہاب الدین سہروردی شیبه سرور شاہ سید سقراط سکندر سلطان علی میاں سلمان فارسی ، حضرت 310 428 542 123 71.70 شیر علی مولوی شیر محمد یکہ بان، ان کی 100 بیتیں ص سلیمان علیہ السلام، حضرت 324تا459،446،437،326 صاحب خان نون ملک، 298 آپ پر بائبل کے الزامات ان کی شہادت 322 تا437،324 صالح الشبيبي 80.78 427 سلیم چشتی سوکارنو 172 | صالح محمد مولوی 314 صالحہ بیگم 51 صدر الدین مولوی زید بن حارثہ 232 ، 233 ،512 سيبر سید احمد بریلوی 173 ،306 | صمصام مرزا 513 381 423 172 232 124.73 200-125 399 1140111 254 241.109 97 31 69

Page 734

24 طارق بن زیاد b طاہر احمد حضرت مرزا ظفر اقبال، مولوی ظ 260 260 82 عبد الحق مولوی 173 عبدالقدوس ڈاکٹر عبدالحمید چودھری 280 | عبدالقيوم ، سمر 111.104 407 عبدالحئی ابن حضرت خلیفہ اول عبدالکریم سیالکوٹی ، حضرت مولوی 77.74071 627.539.400 عبدالرحمان بن معاویہ بن یزید ) عبدالکریم مولوی مباہلہ والا 78 260 | عبداللطیف مولوی مبلغ 576،45 ظہور احمد چودھری 107 تا 112 | عبدالرحمان چودھری 93 عبداللطیف بہاولپوری 95 376 | عبد الرحمان خادم ملک 86 عبداللطیف چودھری 119 تا 121 آپ کو خالد کا خطاب ملنا 150 عبد الرحمان سیٹھ اللہ رکھا 409 عبداللطیف حافظ 383.382 115 عائشہ حضرت عائشہ محمودہ بیگم عاص بن وائل عامر بن فہیرہ عباس ، حضرت 528 280 $226.168 337.233 292.291 566-230 عبد الاحد 400،93 عبدالرحیم شیخ پراچہ، انکی گواہی عبد الشمس 63.62 عبد الباسط 93,91 عبدالسلام، پروفیسر عبدالباقی بہاری عبدالجبار شاہ سید 92.91.81.80.77.76.66 407.405 71 عبد السلام عمر ابن حضرت خلیفہ اول عبداللہ غزنوی ، مولوی | عبدالسلام 130.129.104.99 573 67 عبدالجبار مولوی 99، 173،100 123،111 تا 125 129 عبدالمجید چودھری 121 عبد العزيز جمن بخش 47 عبدالمجيد حافظ عبد الحق ، ڈاکٹر عبد الحق غزنوی 100 تا 103، 191 عبدالقادر جیلانی، حضرت 172 عبدالمنان عمر مولوی ، میاں 27 ،29 تا | جیلانی،حضرت عبد الحق مرزا 113،80،78 | عبدالقادر شیخ 280.93 عبد الرحمان مصری 31 عبداللطیف شهید عبدالرحیم 104 | حضرت صاحبزادہ 124.109 عبداللطیف ،حضرت صاحبزادہ عبدالرحیم درد مولانا 94،80،72 عبداللطیف کمانڈر عبدالرحیم احمد میاں 121.81 عبداللہ بن رواحہ عبداللہ پروفیسر 90088 582 عبداللہ چکڑالوی عبداللہ قریشی 408.407 93 513.512 410 401 93 400

Page 735

25 61،58،57،37،36،31، 67 | 230 تا 232 ، 290 291 ، 331 عمر بن عبد العزیز 9894.91.8278.72 337 | عمر الدین مولوی 106،104،102،100 تا 108 | ان کا قبول اسلام 228 229 | عمر بن معدی کرب 110 تا 118،115، 119 | فتح مکہ پر فرار عبد المنان ناہید 333 | عمرو بن عاص 120 تا 127 ، 129 ان کی بیوی کا حضور سے معافی مانگنا ان کی اسلامی خدمات 280 172 77.76 574 233.232 337 333 334 عنایت احمد چودھری 119، 120 عبدالواحد بن عبداللہ غزنوی عکرمہ حضور کی غلامی میں 335، عنایت اللہ انسپکٹر 173 104-102099 336 عیسی علیہ السلام عبدالواسع میاں 123 124 علی ، حضرت 64،63،28،23 عبدالوہاب ، میاں 29، 31، 61 172،171،169،168،71 83.80.78.72.71.67 86تا104،98،95،90 ، 106 علی احمد پروفیسر 129،125،117،116،111 علی قلی خان ، ان کا تفسیر سے 239 95 13010.7 155 152 151.25023 167 166.164162 161 241 211 210.175.170 445.227.226 420-393-328.327.242 445.438.436.428.422 471.470.467.458.454 459.458 603.498.493.488*484 79077.37 630-625-613.604 275.256.115.108 442.441 آپ کی تاریخ آپ کیلئے ایک مرہم 442،441 غ 37.36.28.3 229.169.168.122.115 عبد مناف عقبه 70،63،62 | متاثر ہونا 232 | علی محمد اجمیری عثمان ، حضرت 28، 169،168 378 | عمر، حضرت عثمان بن مظعون، حضرت 290 217215 عزیز احمد ملک 314،77 شاہ روم کا حضرت عمرؓ سے تبرک غزائی حضرت امام عزیزہ بیگم 94 منگوانا 169 170 غلام احمد قادیانی؛ حضرت مرزا 172 عطاءالرحمن ، ملک 314 آپ کا غلاموں کو رؤسا پر ترجیح مسیح موعود علیہ السلام 6، 9، 10، عطاء اللہ شاہ بخاری 31 دینا عکرمہ حضرت 168،166،46 | آپ کا تلوار سونتنا 339.338 29.2722.17.15.12 447 54.51.4947.34.33.31

Page 736

26 628.627 64،57،56تا70،68تا74،72 اولاد کے لئے دعائیں 105 ، 106 طاعون سے مرنے والوں سے 88،87، 97،95،92،91، 99 | آپ کی ایک دعا 497 | ہمدردی تا111،109،104 ،123 ، 125 آپ سے ایک امریکن کی گفتگو 239 غلام احمد محرر جلسہ سالانہ 162.158.149.129.126 240 غلام احمد بشیر 108 314 165،163 ،166، 173 تا 179 | آپ کی وفات 303 346،304 | غلام حسن خان پشاوری 405 تا 407 187 تا189، 191، 192، 201 1908ء میں لاہور میں تقریر 327 غلام رسول 209، 234،211 235 تا 238 آپ حضور کے موعود بیٹے 336 337 غلام غوث میاں 95.37.35.28 127.115.108 1200118 282 267 266.244.242.241 280.275.274.272.270 312.308306.298294 409-376-349.343340 474.4710467.423.411 491.489.4860484.481 511.507.498.494.493 542539.537.530*525 597.595-560.558.548 611.609605.603.600 624-622-618-616.613 647.641.635.634.629 آپ کا ایثار 345 غلام فرید ملک آپ پر خدائی انعامات 346 347 غلام محمد صوفی ( ماریشس کے پہلے مبلغ ) آپ کا بیان فرمودہ قصہ 367 368 623.519.384 ایک احمدی کو بددیانتی سے بچانے غلام نبی مولوی کا واقعہ 378.377 غیاث الدین تغلق 76 414 آپ کی نصائح کا شرابی پر اثر 398 آپ کے الہامات 36،25،8، ف 474،468،360،273،240 | فاخره 529،526،496،495،490 | فاطمہ بیگم 604،601 | فتح محمد 67 69 123 40 657 ایک عرب کا آپ پر اعتراض 400 فتح محمد چودھری سیال 289،72 آپ پر اعتراض کا جواب 10 تا 13 آپ کا دھگا سے گرنا 409 410 ساری جماعت کا جنازہ پڑھانا 14 آپ کا دشمن کو معاف کرنا آپ کو ورثہ میں 5 گاؤں اور آپ نے تبلیغ کی آگ بھڑکائی 483 ایک شہر ملا 91 غلبہ احمدیت کے بارہ میں پیشگوئی فرزند علی خان ، مولوی 27244 379 410 فرخ مرزا 519 67 556.506

Page 737

27 فرعون 10 ، 101 ، 161 | 426 تا428، 474، 492،491 | محبوب علی 429.428.424.3220320 496.494 محمد ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 94 442، 458،447،446 کرم الہی ظفر 260 261 ، 314 حضرت خاتم الانبیاء12،7،5،4،3 تا فریدالدین شکر گنج فضل احمد فضل بن عباس 172 | کسرای 109 کمال الدین خواجہ 26 ، 29 ،64 64،29 230 3836.34.30.26*23.14 260-168 6459.57.56.51.46.44 126.123.102.71.70.68 409-327-309.308.65 145 144.142.140.129 540.411 177168.165.154.153 196 195 188.182180 383 فضل شاه فضل حسین میاں فضل حسین ملک فضل کریم پراچہ 291.290 94 328.327 268266 88 کمال یوسف کنزے 217 212.208.207.202 382.258.146 وشس فضل محمد خان شملوی ان کی گواہی 77،76 | گاندھی فیاض احمد اخوند فیروز خان نون، ملک 115 112 البيد فیروز شاہ تغلق 414،318 لطف الرحمن صاحب درد ق لوط علیہ السلام، حضرت ت 435،434 قارون قدرت اللہ حافظ قدسیه قطب الدین بختیار کاکی قیصر 101 314 280 172 290-260-13010 ان پر بائبل کا گندا الزام لینن مبارک احمد شیخ مبارک احمد مرزا مبارک علی مولوی کبیر احمد سید کرامی نکروما 68.67 575 مبارکہ بیگم حضرت سیدہ کرشن علیہ السلام، حضرت مجدد سرہندی 258.245.234231.227 427.152 320-292-290-279-260 337 335.334.330.324 12.10 357.348.345.344.339 393-388-387.371.363 216 435.426.423.411.401 72 457.456.453.440.437 472.469.468.460.459 488 483 481.479.473 434 511.507.505.503.496 602 538.531.527.518.513 554.549.547545.540 384 578.569.561559.555 576 602-600598.590.589 350 617-613-611 608-603 317 640-627-625.623.618 416.413 657.649.648.645 173

Page 738

28 آپ کی طرف سے ہجرت حبشہ کا ہونے والی ہر چیز کی قدر کرتے 357 دونوں جہانوں کے سردار 11 | بارش کا قطرہ زبان پر لینا 357 | آپ کا کام قیامت تک جاری آپ کو دو باغ دینے کا وعدہ 358 161 162 | آپ کی گرفتاری کا حکم 387 سب سے بڑے نبی اور دنیا کے آپ کو موسوی باغ ملنے کی آپ سارے انبیاء کا نمونہ 423 | نجات دہندہ پیشگوئی 601 614 638.637 163 164 حضرت یوسف سے مماثلت 424 محمد ابراہیم (خلیفہ اول کا نواسا) آپ کا باغ دنیا کے چپہ چپہ پر تمام انبیاء کے مثیل سب پھیل جائے گا 166 167 سے افضل 424 425 محمد ابراہیم بقا پوری مولوی آپ کے باغ کی حفاظت آپ کا زمینداروں کو مشورہ 431 محمد احسن امروہی 173 174 سب نبیوں کے سردار 445 99 123 64.57.56 محمدی باغ کے مقابلہ میں دنیوی آپ کو مشورہ کا حکم 445 محمد احمد جلیل (ان کی شہادت ) بادشاہوں کے باغات 174 ، 175 آپ کا صحابہ سے مشورہ لینا 445 آپ کی اتباع سے نبوت مل سکتی ہے آپ کی اولا دنرینہ کی غیر معمولی کثرت آپ کاعکرمہ کومعاف کرنا 446 محمد احمد ثاقب 162 آپ کے تقسیم مال پر اعتراض محمد ارشاد بشیر مولوی 310 115.114 122 122 518،447 محمد اسحاق (حضرت میر ) 96،81 225 226 جنگ احد کے متعلق انداری خوابیں محمد اسمعیل غزنوی 95،80 تا 104 446 447 محمد اسمعیل میر (حضرت) 439،92 228 336.229 ایک مظلوم سے سلوک 332 ، 333 آپ کی انکساری کا واقعہ 454 محمد اقبال شیخ (ان کی شہادت) آپ کی امت خیر الامم آپ کے دشمنوں کے ابتر ہونے آپ کا کشفی نظارہ کی پیشگوئی 331 471 482 | محمد اکبر خاں، میجر جنرل 86083 تھوڑے وقت میں غیر معمولی ابو جہل کا آپ کو تھپڑ مارنا 331 ، 332 ان کی کتب پر تبصرہ 580 تا582 آپ کیلئے ایک خدائی نشان 333 کامیابی 482 محمد الیاس 119 67 آپ کا جانوروں سے حسن سلوک غزوہ احزاب میں پتھر توڑنا 482 محمد امین، انسپکٹر پولیس آپ کی برکت سے عربوں اور سیدوں کا اعزاز 342 344.343 آپ خدا کی طرف سے نازل دعوی کے بعد 23 سال عمر 482 محمد ایوب خان صدر 636 655 150 اسامہ بن زید کو سردار بنانا 538 محمد بشیر سہگل آپ کی قوت قدسیہ سے قاتل محمد حسن چیمہ کا قبول اسلام 556 محمد حسین بٹالوی 238،173،100 127.32.29

Page 739

6560654 29 411.310308 494.493.267.242.241 314-313-310.309.239 محمد حسین قریشی 237 ، 401 | محمد علی مولوی 27، 29 آپ کی دعائیں 16، 17، 175 محمد حسین شاہ ، ڈاکٹر محمد خضری شیخ 460-363-350-276-176 86-76-7169-6664 303 63 550.532.521.520.499 314 409.407 406.322 658.657.602.600 ان کا قادیان سے لاہور جانا مصر کے وائس قونصل کو آپ کی 280 91.90.88 360 دعا سے شفا قرآن 312.311 96 80078 368 کھلنا سورۃ النازلحت کی تفسیر 252،251 آپ کے لئے معارف قرآنی کا محمد یعقوب خان ڈاکٹر 81 رؤیا کشوف بشارات 51 52 ، 306 318 محمد عمر مہاشہ، ان کی شہادت محمد منیر ڈاکٹر محمد ناصر خواجہ، ان کی پیشگوئیاں محمد یعقوب (مولوی) 379 88 280 122 95 93 578 308304-275.257.256 99 محمد یوسف حافظ 94 محمد دین (ماسٹر ) محمد دین (ڈاکٹر) محمد زکریا مولوی محمد سعید انصاری محمد سعید شیخ محمد سلطان اکبر ، مولوی محمد شاکر مصری، علامہ محمد شفیع ، ڈاکٹر محمد شفیع میاں محمد صادق محمد صادق (مولوی) محمد صادق (حضرت مفتی) 274،80 محمد یوسف، سابق افسر کویت 314.298 48، 149 محمد یوسف شیخ محمد صدیق بانی 536.473.472.409.384 592.567.549.548.542 83.82 93 639 محمد صدیق شاہد 95، 265 | محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین آپ کے ساتھ اللہ کا سلوک 187 محمد طاہر مرزا محمد طفیل 78، 80 مصلح موعود 72،58،56،36،29 روایات مسیح موعود کے بارہ میں 272-237-236-12.11.9.8 345 343 341.340.274t 409-398-346 392.274.163 429 أسفار سفر ولایت 93 116114.109.95.80.79 313 474.271.261.127.126 محمد طفیل شیخ محمد ظفر اللہ خان چودھری، حضرت 587.574.557.529.525 121.117.102.50.49.36 607.605 603.591.588 416.295-261.201.140 629-623-621-619.610 576.458.429 641-638-636-634-632 111.91 محمد عبد الله محمد علی خان نواب 66 ، 304،68 649،646،645،642تا652

Page 740

30 سُسرالی گاؤں جانا 439 آپ کی مولوی محمد علی صاحب سے تفسیر صغیر میں محنت شاقہ حج سے واپسی کا سفر 312 ایک خاص گفتگو شملہ کے سفر 458،407 | مولوی محمد علی کو راضی کرنے کی 203.202 368 سیرت آپکے چندہ جات تلاوت کی کثرت 20 سال تک مفت علاج کرنا 396 کوشش 309 الفضل کا اجراء 311 علوم 375 312 370 آپ کے مطالعہ کی رفتار مولوی محمد علی صاحب کی دعوت 406 آپ کے کتب خانہ میں بہت غیر مبایعین کو چیلنج 541،540 زیادہ کتابیں ابتلاء 75 ہومیو پیتھک کا شوق مسلمانوں کی تباہ حالی کا صدمہ آپ کو زہر دینے کا منصوبہ جماعت سے تعلق 414413 آپ کی بیماری 362 363 ساری جماعت کو جنازہ میں آپ کا بجز وانکسار 599،596 | ایک عیسائی کا آپ کے قتل کا شامل کرنا 600 399 جماعت کو تسلی آپ کی کار کو حادثہ 594 مشاہدات 396 396 14.13 194.193 اراده آپ کا عشق رسول 528،527 تحریکات تائید و نصرت فرعون مصر کی لاش دیکھنا ربوہ کی زمین خریدنے کی تحریک مخالفت اور تائید و نصرت بعلبک میں عام قوم کا 138.137 عمل دیکھنا 537535.519.188 کشمیر کے متعلق دعا کی تحریک 148.147 مبلغین کے لئے دعا کی تحریک ایک مولوی سے ملاقات مری میں کرنل سے ملاقات 429 430.429 399 400 ملاقاتیں ، گفتگو معجزانہ حفاظت کارنامے 179 خلافت کے شروع سے تحریک وقف زندگی 255 بیرونی ملکوں میں مشن وقف جدید کی تحریک 285 تا 287 خدا نے آپ کے ہاتھوں 1956 188 پادری کو لاجواب کرنا پادری سے گفتگو عیسائیت کے مقابلہ کے لئے ایک کا فتنہ بے نقاب کیا 191،190 بیان کردہ واقعات، قصے ہفتہ وقف کی تحریک غیر مبائعين 648 مدرسہ احمدیہ کو بند کرنے کی کوشش ناکام بنانا 5400537 244 190-189 547 632 141 343.155.154.146.142 514.449.414.391

Page 741

31 بیان کردہ لطائف 492،209 | محمود احمد مختار عہد محمود احمد میر آپ کا تاریخی عہد 303 304 | محی الدین ابن عربی 530، 558،531 مریم صدیقہ، حضرت سیدہ 122 | منورالدین پیر 260 172 منیر الحسنی موآب 241 360 434 موسیٰ علیہ السلام، حضرت 10 ،23 164-162160.61.54.24 آپ کا اولا د سیح موعود سے عہد 484 مسٹرمنشی ساری جماعت سے ایک عہد مسلیمہ کذاب مطعم بن عدی 485.484 مطیع الرحمن صوفی متفرقات معاویہ بن ابو سفیان حضرت عمر کی خلافت سے ان کی خشیت الہی مشابہتیں تین علماء کو خالد قرار دینا هُوَ النَّاصِرُ لکھنے کی وجہ مصلح موعود ہونے کے دلائل 37.36 150 306 معاویہ بن یزید اس کا ایمان افروز واقعہ 345.344.172.171 314303 معین الدین چشتی ، حضرت خواجہ 413.317 320 175.170.167.166 140 429-428-424.423.322 207 447.445.442.440438 233 613.540.488.486.485 314.111 88 322 50 308.173 173 415 موسیٰ ( غیر احمدی) 258 259 مولا بخش شیخ ، لائل پوری مولود احمد خان مہتاب بیگ مرزا میر درد میر ناصر حضرت خواجہ میلارام 226.63 202.201 260 میاں فضل حسین کے بارہ میں آپ کی روایت 327 مغلاء احمدی اس کی سچائی 172 377 آپ کا ایک استدلال 458 مقداد، جنگ بدر کے موقع پر تقریر ناصر احمد مرزا ( خلیفہ ثالث ) آپ کی مسیح موعود سے محبت 527 اپنے بارہ میں پیشگوئیاں 5430541 خصوصی وصیت 409-115 114.94.82.81 446.445 منصور احمد چودھری 109 ، 110 ناصر احمد (امریکن احمدی) منظور محمد، پیر 66 ناصر احمد شیخ منظور حسین منفتاح 90.89 322 ناصر سیال ناصر کرنل 51 382.314 147 360 منور احمد مرزا، ڈاکٹر 118،114، ناصر نواب، حضرت میر 307،295 601 | منورشاه 467.280.119 94 310.309 حضرت اماں جان اور افراد خاندان کی نعشوں کو قادیان پہنچانے کی تلقین

Page 742

32 نبوکد نضر نپولین 458 456 ولنگڈن لارڈ 471،413 ان کے باپ نیک آدمی 456 ولی اللہ شاہ نجاشی نذر محمد شیخ 13 93 نور الحق ( ابوالمنير ( 265 266 ولید نور الحق انور مولوی 359 360 ولید بن عبدالملک نذیر احمد سیالکوٹی 280 نورالدین حضرت خلیفہ اول 23 ولید بن مغیرہ نذیر احمد مرزا نذیر حسین دہلوی نصرت جہاں بیگم، حضرت سیدہ 57.56.50.3631.27.26 573 81.80.77.75.74.7264 307.173 96.95.92.91089.87 110 118 113-106104-102.99 6 149-127125-123120 دیب مسٹر ہاجرہ حضرت ہارون علیہ السلام حضرت 416 173 232.168 260 226 297 243-242-189187.150 304.74.70 67.65.26 349.344.343.306 نصیر الحق شیخ ان کی گواہی نظام الدین اولیاء حضرت 118116 172 311،309،308،273،266 تا | ہامان 493،410،398،346،313 ہدایت اللہ، چودھری همدان شیخ 641.595.591.527.494 نظام الدین میاں 241 تا 243، آپ کا نواب محمد علی خان صاحب نعیم احمد میاں نواب دین کیپٹن نواب لوہارو نوح علیہ السلام، حضرت 494.493 121 88 67 423 ہندہ بنت عتبہ ہنری ہیر الال، ڈاکٹر کو وصیت لکھ کر دینا 309،308 نووی، علامه 649 60.59 10 447.440 438.428 129.70.63.62 442.101 92 163 555 144 73 38 یامین یحیی خان محافظ وائل 337 یزید 49 399 171.129.70 345.344.172 468،449،425 469 وسیم احمد ، حضرت مرزا نوح کے معنی نوحہ کرنے والا وکٹوریہ ملکہ 626 331 یعقوب علیہ السلام، حضرت 423.220.167

Page 743

423 441 یوشع حضرت 33 یعقوب بیگ: ڈاکٹر 303،64،27 یوز آسف 409،309 یوسف علیہ السلام حضرت 450.424.220 80.74 یعقوب علی شیخ عرفانی

Page 744

34 مقامات 214،209188، 235،221 انگلستان میں سب سے کم معالج ہیں اوسلو 395 383 ایران 271،169،163،111 473.456.388.387.337 483.482 آیا آسٹریلیا اٹلی اجمیر أردن اسرائیل افریقہ 284 275 271 259.240 361.298.259 314.297 295.290.287 483.371 371 362 358.343.316 393.392.314 458.451.394.393.372 295 492.483.469.468.459 430 546.526.520.507.496 41 625.581.578.577 48.4341.16 ایران کے بادشاہ کا مارا جانا امریکہ میں زیادہ تر حبشی مسلمان ایشا ہورہے ہیں 381 امریکہ میں جماعت احمدیہ 1920 سے قائم ہے ایمسٹرڈم 388.387 581.275.16 602 313 اندلس 579 260 493.240.238 209 350.293 427.343.41 391 594 430.429 449.400.125 43 258.240.140 413.317 انڈونیشیا 177،42،41،16 | بٹالہ 188.123.110.109.53 337.286.258.255.209 372 371 361.359.358 576-546-520.384.383 625.579 افریقہ کے ایک احمدی کی غیرت ایمانی افغانستان الہ آباد امرتر برٹش گی آنا 222.210.209.188.178 369 612.590.343.271.258 442.148.99 412 برلن برما انڈونیشیا جماعت پرانی جماعت بسراواں ہے 103،99،96،78 | انگلستان (برطانیہ) 624 72.40 بشیر آباد بعلبک 191 | 109 ،298،275،255،254 | بغداد بن کانگو 383-382-379-371.361 43.40.16.14.7 امریکہ 483.468.457.407.392 124.121.115.113.52 520 178.177.149.148.140

Page 745

52.46.42.40 378 | جرمنی 35 بنگال 307،100 | پرتگال بور نیو 44،41،16 | پشاور 220.211.210.178.177 285.280.146.32 294.275.271.259.252 585.584.432.288.287 380.379.178.177 383-382-361-343.313 586 بہار بہاولپور بھوپال بھیرہ بھینی با نگر بیروت پاڈانگ ثبت ترکی تغلق آباد 42 | تھائی لینڈ 427.239 83.78.52.29 پنجاب 307.275.88 307.306 613-585-386-315.276 111.89 627 270 178.163 383 581.576.483.468 جرمنی میں قلیل عرصہ میں انقلاب جموں جنجه پاکستان 13،10، 14 ، 16 ، 29 تھر پارکر 75،69،43،42، 110،109 - تیونس 427 316.271.75.51 317 483 94 259 236 242 383 219 جھنگ 441.269.234.9 جھنگ میں ہزاروں احمدی 240 چ جنڈ بھروانہ 147.145.142.140.128 222-179.178.176-148 چک منگلا 576 | چکوال 275،271،269،257،245، ٹرینیڈاڈ 40 چنیوٹ 359،358،343،316،296، ٹوٹی کنڈی 77،76 | چین $390.389.385..380.371 ج 234 288.269 288 280 377.253 254.253.153 458.427.343.316 474،469،449،443،393 ، جابه 587.582 334.228.215.11 59 495،492تا546،498 ، 550 جاپان 43، 392،222،178 | جشہ 483،427،393 | حجاز $611.603-590.582580 648،643،636،632 ، 650 ، جاپان کا مذہب شنٹوازم 152 حیدرآباد 318،158،151،32 416.413 42 654 تا 656 | جاوا

Page 746

36 حیدر آباد دکن خیر پور دار السلام وکن دمشق 262260-235.227.180 207.189.176.137.125 412 378.362-337.313.284 265.258.251.225.221 284-279-273-270-269 279.275.139 483 355،343،316،303،289 سرگودھا 279،234،112،9 385-381-380-375-367 42 480.479.405-396-386 319.317 163 ،178 ،260 | 583،580،575،511،503 | سعودی عرب 592،585، 653،597 | سکندر راؤ وہلی 254،89،68،67،52 | 491.413.317.308 ربوہ کی وسعت 280 314 268 439 10،9 سکنڈے نیویا 177،40 178 دہلی کے ایک بزرگ کا کشف ربوہ میں بہت سے مکان بن چکے 426 تا 428 | ہیں 51.47.46.41 ربوہ کی زمین خریدنے کی شرائط 137 139 سماٹرا سمیر یال ربوہ کی دائمی آبادی کی پیشگوئی 176 سمن آباد 314،209 ربوہ کی وجہ تسمیہ سندھ 483.383.220 91 42.16 270 117.116 111.104.94.29 ڈچ گی آنا ڈلہوزی 88، 405،94،93 | رتن باغ 547 روڈ یشیا ڈھاکہ 96، 584،150 | روس 316.154.123 41.16 407.405 號 441 116 43 214.178.148 ڈیرہ غازی خان 383.343.290.275.271 303 راجپوره 399 سوات 468،457،393، 514،483 سوئٹزر لینڈ 314،313،178،40 515 راولپنڈی 95 ، 588،584،279، روم 168 تا 170 ،220، سولاویسی 655.654 44.31.30-21.3 ربوه $109.96.94.88.61.50 382 42 483.383.297 56.53.12.9 544.270.234.91 468،456،339،262،261 | سویڈن روہڑی 280 سیالکوٹ 118،113،112، 124،119 | چین 43،40، 177 178 | سیرالیون 593،371،94،42،40

Page 747

سیرالیون میں جماعت ترقی کر رہی 555.539 37 371 372 | اہل عرب لڑکی کو زندہ دفن کرتے قادیان 50،49،31،26،15، 81.77.75.68.67.65.64 330 103.98.94.91.87.85.84 179.176.125.109.104 109.41 ہے سیلون 188،41، 283،209 427.384.343 غ غانا ( گولڈ کوسٹ ) 266-241238.234.191 575 297.280.272 270.268 311-309-304-303-298 483-314.275 512،483 | فرانس 383-369-347.341.340 209 398.397 391.389.385 314 444.416-410.405.400 178.177.44.43 527.526 496 493.480 235.233.232.222.209 304.90.89.76 شام شام کیلئے مسیح موعود کا الہام 360 فریج گی آنا 259 | فری ٹاؤن شکاگو شکر گڑھ 94 | فلپائن شملہ 233.232.63.41 468-361-343.339.337 361-297-284-283-259 458-407 607.601.597.596.540 483.381.380 626-619616.612.609 359 653.652.650.639.637 378 قادیان بار بار جانا ضروری ہے قادیان کی خصوصیات 507 591 اہل قادیان کی ذمہ داریاں 591 فلپائن کے گورنر کی بیعت طائف 232 فلپائن کی تاریخی حیثیت طالب آباد 95 | فلپائن کی گورنمنٹ رومن کیتھولک ظ پادریوں کے ماتحت ظفر وال 91 | فلسطين 378 148 81 b بیخو پوره فلسطین اور کشمیر کے متعلق قادیان ہمارا اصلی مرکز ہے 613 عراق 271 ، 480،397،396 | خدائی وعدہ عرب 208، 216، 232،228 | فن لینڈ 163 383 343،337،260 ، 361، 387 فرینکفورٹ 220، 245 ،294 قادیان کیلئے ایک خاص بشارت 639 448.169 382 538.483.468.400.388

Page 748

38 529.429 372 40 کر بناڈا 542 گلگت 148 | لیگوس 399 گوٹھ رحمت علی 95 کابل 52 کپورتھلہ 341 گوٹھ لالہ چرنجی لال 94 ماریشس 623،384،188،41 گوجرانوالہ کراچی 68،50،32،29،10 کا ٹھ گڑھ 94.68066 237 594 41 169.153.59.37 94.93.91.53.9 214.212.194.176.170 234 387.337.292.260.215 70.69.64.12.10 539.538.513.482.388 177 396.189.57.36 148،147،17،12 | لاہور 163 تا166 ، 416، 442،441 | 86،83،82،75،73 تا 88 93 | ڈل ایسٹ 48، 150،149، 240 | 104،97،96 ،116،111،109 | مری 270،112 | مالدیپ 199.187.150.139.116.69 285-280-279.265.200 گورداسپور 414،410 | مالیر کوٹلہ ل محمد نگر محمود آباد 584،413،389،296287 تا لائبیریا مدینہ 674،673،594،590،586 | لائل پور کرونڈی 279.139 کشمیر 590.587 242-238-237-191.190 92 88 41 308،303،297،280،244 | مزنگ مسقط 271.268.232.41 409،406 تا 415،414،411 | مصر 360-337-322-320.316 596.584.580.519.493 448.443.439.438.429 429.343.41 450 308.66 443.442 63.60.59.13.11 مصری اونچی عمارتیں بناتے تھے مکه 52 400 60.59 139.86.83-32 396.381 372.327.311 261.179 344 296.258.82 45 280 381 235 کلت کنڈیارو کنعان آرم لبنان لدھیانه لگا دیپ الكهنو لندن 178، 220 ، 245، 260 | 208.176.169.168.161 382.350.294.293.261 228' 226.225.217215 595.219 کوفه کویت کیل کیمبل پور کینیڈا کیوبا گجرات

Page 749

39 260-238.233.232.229 220 | هنوور 332 تا 335 338، 339، 418 نینوا، نینوا کے لوگوں کی دعائیں 619 ہوشیار پور 245 308 220 پیک 252،245،220 253 538،518،459،447،424 نیورمبرگ مگہور کا ملایا 644،566،555 نیوزی لینڈ 313.294 361 144، 578،259 | ہیمبرگ 252،220،45،42 42 نیویارک 261 210.178.177 576.382.294 ی 220 380،271 | وئنز برگ 43 یمن 482،459،388،387 یوپی 51،42،40 | یورپ 190 177.144.16.14 32، 409،408،279 | واشنگٹن ملتان 584.414 DO 245.221.220.209.188 383-343-314.313.294 261.180 313.297 296.275.258 393.392 371 362 337.331.321 584.36 منڈی بہاؤالدین 122 ہالینڈ منگلا چک 293.252.245.211.178 269.234 میڈرڈ میرپور 412 | ہزارہ 94 451 395 393.392.379 ہندوستان ( انڈیا، بھارت) 492.481.471.469.457 140.52.41.16.14.12 41 581.577.546.498.496 178.152.148.145.141 609-604-602.596.595 274 272 271.267.259 576.383 507.428.152 یورپ میں 2 پادری مسلمان 361 یورپ آئندہ توحید کا علمبر دار 393 یوگنڈا یونان 343.307.298.297.275 426-414412.389.385 475 473.469.468.427 385 498494 492.483.480 111.104 656-650-626-611.591 94 495 نائیجریا ناروے ناصر آباد نصيبين ننکانہ نواب شاہ نواں پنڈ نورآباد 123 ہندوستان کی ترقی کیلئے مسلمانوں نیا سالینڈ 43 کی کوشش 483.383 594 164

Page 750

40 آیا آسمانی فیصلہ ابن ماجه ابوداؤد کتابیات انجیل ( اناجیل) 25 ، 152 ،163 تبویب مسند احمد بن حنبل 436،427،419،418،210 | تذکره 268 49 122 122 442،441 | ترندی 280.15 122 تشحید الاذہان 50 تفسیر صغیر 313.285.265 احمدیت یعنی حقیقی اسلام 317، 577 بائبل 152 ، 320،182،155 583،396،314 577،317 ادب لطیف (رساله) اسلحہ جنگ 87.83 581 323 تا326، 434،429 تا تفسیر صغیر کی اشاعت 282،197 455،440 اس کا ترجمہ با محاورہ ہے اشاعة السنة 100 بائبل کی اصلاح 420 421 اس کی مقبولیت 423 اس کے فوائد 38 بخاری 122 ، 123 ،268،243 | تفسیر کبیر الحکم (اخبار) 399 | بحار الانوار الخلافة الفتح (اخبار) الفتح الرباني 546 494.493 283 375 397.396 283.282.280 375.313 122 براہین احمدیہ 318،267 اس کی قبولیت 396، 480،397 الفضل (اخبار) 58،46، 71 ، 90 بلوغ المرام 271.268.257.127.126 582.407.357.312.281 خریداری کی تلقین المصلح الوصيت 657،594 پیغام صلح (اخبار) 122 34 313.187.125.71.61 407 625 اس میں دل آزار مضامین 377.376 50 65.64.2725 635.486.473.470 تاریخ احمدیت اس کے بارہ میں ہدایات 481.266 267 497 480 خریداری کی تلقین تفسیر کبیر میں اعتراضات کے جوابات علوم و معارف کا خزانہ تصمیمات ربانیہ تورات 481 481 655 458.420.418 ج

Page 751

جامع الصغير 122 41 س حمہ اللہ ستارہ قیصریہ 101 سلاطین 49 متی 49 حقیقت اختلاف 65 سیر روحانی 325.323 280.150.15 محاضرات 442 63 مذہبی راہنماؤں کی سوانح عمریاں حقیقت پسند پارٹی سے چند گزارشات 128 حدیث دفاع 580 ضرورة الامام 49 مسند احمد بن حنبل ف , مشكلوة دائرۃ المعارف وافع البلاء دعوة الامير فرقان 63 49 313 126 من الرحمن 144 122 58.57 285.266.123.121 122 158 فسادات 1653 ء کا پس منظر 268.267 اس کے بارہ میں غیر احمدی کا تاثر دیباچہ تفسیر القرآن فضائل القرآن 318 نشان آسمانی 49 271 317.51 ق نوائے پاکستان 146،128,85 نوجوان 577 قاعدہ میسر نا القرآن 99 66 راز حقیقت 49 کتاب البرية ریڈرز ڈائجسٹ 149 کشتی نوح ریویو آف ریلیجنز 47 51،48، کشف الغطاء 102.100 124 49 427.418.152 متفرق عربی 149،70، 376،282،281 کون ہے جو خدا کے کام کو العرب قبل الاسلام روک سکے 429 536 ضرب النعال على وجه الدجال ژ ژند اوستا 418.152 لائف (رساله) 372 101

Page 752

فقه اللغة انگریزی 42 An Interpretation of | اس کو بڑے بڑے عالموں نے 101 Islam 295 لکھا انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا 440

Page 752