Anwarul-Uloom Volume 25

Anwarul-Uloom Volume 25

انوارالعلوم (جلد 25)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محمو اسم الصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 25

Page 2

ANWARUL ‘ULŪM by HADRAT MIRZĀ BASHĪR-UD-DĪN MAḤMŪD AḤMAD KHALIFATUL MASĪḤ II

Page 3

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود کی حقائق و معارف سے پر سلسلہ تصانیف انوار العلوم کی پچیسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.وَ مَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيْزُ الْحَكِيمُ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام منشاء الہی کے مطابق جنوری 1886ء میں ہوشیار پور تشریف لے گئے اور اپنے مولیٰ سے تائید دین کے لئے نشان مانگا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی متضر عانہ دعاؤں کو سنتے ہوئے انہیں قبولیت کا شرف بخشا اور آپ کو مہتم بالشان پیشگوئی سے نوازا جسے آپ نے 20 فروری 1886ء کو شائع فرمایا.اس پیش خبری میں موعود پسر کی عظیم الشان علامات کا بیان ہوا ہے.ان علامات میں پسر موعود نے سخت ذہین و فہم ہونا تھا، اسے علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جانا تھا، اُس سے قوموں نے برکت پانی تھی، کلام اللہ کا مر تبہ اُس کے ذریعہ ظاہر ہو نا تھا.بشارت دی کہ اک بیٹا ہے تیرا جو ہو گا ایک دن محبوب میرا کر و نگادُور اُس مہ سے اندھیرا دکھاؤنگا کہ اک عالم کو پھیرا بشارت کیا ہے اک دل کی غذادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْزَى الْآعَادِي دل کی غذا اور محبوب الہی کی بشارتوں کا ظہور سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی کی ذات بابرکات میں ہوا جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر 1944ء میں مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا.

Page 4

حضرت مصلح موعود نے اپنی ذہانت، فطانت ، علوم ظاہری و باطنی اور خداداد استعدادوں سے نہ صرف جماعت کو مستفیض فرمایا بلکہ آپ اسیروں کے رستگار تھے، قوموں نے آپ کے وجود سے برکت پائی اور کلام اللہ کا مرتبہ آپ کے وجود سے ظاہر ہوا.آپ کی خدمت قرآن کا اعتراف غیر بھی کئے بغیر نہ رہ سکے.مشتمل انوار العلوم جلد 25 حضرت مصلح موعود کی 13 کتب، تحریرات و تقاریر پر م ہے جو کہ 28 دسمبر 1954ء سے اکتوبر 1956ء تک کے عرصہ کی ہیں.اس عرصہ میں ہت سے تاریخی واقعات رونما ہوئے.جن میں خاص طور پر حضرت مصلح موعود کا بغرض علاج سفر یورپ اختیار کرنا، بیماری کے دوران احباب جماعت سے محبت کا والہانہ انداز اور اُن کی راہنمائی ، منافقین کی طرف سے فتنہ خلافت اور اُس کا سد باب ، انصار الله ، لجنہ اماءاللہ اور خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماعات سے خطابات اور جلسہ ہائے سالانہ کے موقع پر شرکت کر کے معرکۃ الآراء خطابات سے احباب جماعت کو فیضیاب فرمانا بھی شامل ہے.سیر روحانی“ کے نام سے حضرت مصلح موعود نے رُوح پر ور خطابات فرمائے.جس کا سبب 1938ء میں آپ کا تاریخی مقامات کی سیر کرنے کے بعد روحانی مقامات اور مدارج کی طرف توجہ مبذول ہونا تھا.چنانچہ 1938ء کے جلسہ سالانہ سے آپ نے سیر روحانی کے نام سے سلسلہ تقاریر شروع فرمایا جس کی سات تقاریر گزشتہ جلدوں کی زینت بن چکی ہیں.اس سلسلہ کے دو معرکۃ الآراء خطابات آپ نے جلسہ سالانہ 1954ء اور 1955ء کے مواقع پر فرمائے.یہ دونوں خطابات جلد ہذا کی زینت ہیں.فروری 1955ء میں حضرت مصلح موعود پر بیماری کا شدید حملہ ہوا.ڈاکٹروں نے آپ کو یورپ سے علاج کا مشورہ دیا جسے حضور نے قبول فرمایا اور آپ بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے.سفر یورپ پر روانگی سے قبل اور دورانِ سفر مختلف مقامات سے احباب جماعت کو اپنے سفر ، علاج اور دیگر مصروفیات سے آگاہ رکھتے ہوئے متعدد پیغامات سے نوازا جن میں آپ کا احباب جماعت سے محبت کا غیر معمولی اظہار ہوتا ہے.

Page 5

ان پیغامات کی تعداد 27 ہے جو کہ 11 مارچ تا 29 جولائی 1955ء کے عرصہ میں آپ نے بھجوائے.یہ تمام پیغامات یکجائی طور پر انوار العلوم کی جلد 25 میں شامل اشاعت ہیں.1956ء میں منافقین کی طرف سے خلافت کے بارہ میں فتنہ اُٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی.اس موقع پر حضرت مصلح موعود نے استحکام خلافت کے لئے بروقت ا احباب جماعت کی راہنمائی فرمائی اور اس فتنہ کا قلع قمع فرمایا.فتنہ خلافت کے موقع پر مختلف پیغامات حضور نے احباب جماعت کے نام دیئے.اسی طرح اجتماع خدام الاحمدیہ 1956ء کے موقع پر دونوں خطابات میں آپ نے فتنہ خلافت کو ہی موضوع بنایا اور خدام کو برکاتِ خلافت یاد رکھنے کی نصیحت فرمائی اور خلافت ڈے منانے کی بھی ہدایت ی.یہ پیغامات اور خطابات انوار العلوم جلد 25 کی زینت ہیں.اسی طرح افریقن احمدیوں اور امریکن احمدیوں کے نام پیغامات بھی اس جلد میں شامل ہیں.غرضیکہ انوار العلوم جلد 25 جہاں سیدنا حضرت امصلح الموعود کی ولولہ انگیز قیادت اور متبحر علمی کی آئینہ دار ہے وہاں یہ کتاب 1954ء سے 1956ء کے دوران رونما ہونے والے تاریخی حالات سے بھی ہمیں آگاہ کرتی ہے اور تاریخ احمدیت کے کئی اہم واقعات کا پتہ دیتی ہے.اللہ تعالیٰ اس علمی خزانے کو ہر لحاظ سے نافع الناس اور بابرکت بنائے.آمین اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسب سابق بہت سے بزرگان اور مربیانِ کرام نے اس اہم اور تاریخی خزانے کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ ، حوالہ جات کی تلاش، مسودات کی ترتیب و نظر ثانی، اعراب کی درستگی ، Rechecking اور متعدد و متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.تعارف کتب

Page 6

مربی سلسلہ کا تحریر کردہ ہے.فَجَزاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ خاکسار ان سب احباب کا اور ان کے علاوہ جن دوستوں نے بھی کسی نہ کسی رنگ میں معاونت فرمائی ہے ان کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے.اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم و عرفان میں برکت عطا فرمائے.اور اپنی رحمتوں اور فضلوں سے نواز تار ہے.اور ہم سب کو احسن رنگ میں سیدنا حضرت مصلح موعود کے علمی خزانہ کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.امِيْنَ اللَّهُمَّ أَمِيْنَ.

Page 7

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 8

بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيةِ پیشگوئی مصلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیامیں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا وہ کام اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت وغیوری نے اس کلمہ تمجد سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا علم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه- فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ العلام عمان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٹی کے ظہور کا موجب ہوگا.ٹور آتا ہے اور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے ط سے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سرپر ہوگا.وہ جلد ید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا داشتهار ۲۰ فروری شادی

Page 9

صفحہ 1 89 69 143 157 163 179 195 231 293 301 383 ترتیب نمبر شمار عنوانات سیر روحانی (8) احباب جماعت کے نام پیغامات سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں نمائندگان جماعت سے خطاب افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام مجلس انصار الله و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء متفرق امور سیر روحانی (9) ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب کے نام پیغام منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11

Page 10

عنوانات قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات صفحہ 425 457 نمبر شمار 12 13

Page 11

انوار العلوم جلد 25 تعارف کن بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب انوار العلوم جلد 25 سید ناحضرت مصلح موعود کی 13 کتب و تحریرات پر مشتمل ہے جو 28 دسمبر 1954ء تا 27 اکتوبر 1956ء کے دور پر مشتمل ہے.ان کتب و تحریرات کا مختصر تعارف ذیل میں دیا جارہا ہے.(1) سیر روحانی(8) حضرت مصلح موعود نے اکتوبر 1938ء میں حیدر آباد دکن کا دورہ کیا اور وہاں کے تاریخی مقامات کی سیر کی.علاوہ زمیں حضور نے دہلی، آگرہ اور بمبئی وغیرہ کے تاریخی مقامات کی سیر کے ساتھ آثارِ قدیمہ کے بعض مقامات بھی دیکھے جن میں نمایاں طور پر جامع مسجد دہلی، قطب صاحب کی لاٹ، دیوانِ عام، جنتر منتر، مقبرے، حوض خاص، تاج محل آگرہ ، متعدد قلعے اور دیوانِ خاص وغیرہ شامل تھے.ان مقامات کی سیر کے دوران حضور پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوئی جس کی وجہ سے آپ کی توجہ عظیم الشان روحانی مقامات کی طرف مبذول ہوئی.اور آپ پر بڑے بڑے عالم روحانی کے مضامین کا انکشاف ہوا.چنانچہ مذکورہ بالا جسمانی مقامات کا موازنہ آپ نے روحانی مقامات اور مدارج سے کر کے روحانی مقامات کی ہر لحاظ سے فوقیت اور برتری کو احباب جماعت کے سامنے رکھنے کے لئے 1938ء کے جلسہ سالانہ قادیان سے انتہائی رُوح پرور اور معرکۃ الآراء تقاریر کا ایک سلسلہ شروع فرمایا.اس سلسلہ کی پہلی تقریر آپ نے مؤرخہ 28دسمبر 1938ء کو ارشاد فرمائی جو انوار العلوم کی جلد 15 میں شائع ہو چکی ہے.اس کے بعد آپ نے اس سلسلہ کا دوسر ا خطاب مؤرخہ 26 دسمبر 1940ء کو اور تیسر اخطاب

Page 12

انوار العلوم جلد 25 ii تعارف ک مؤرخہ 28 دسمبر 1941ء کو جلسہ سالانہ قادیان پر ارشاد فرمایا جو انوار العلوم کی جلد نمبر 16 میں شائع شدہ ہیں.اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے اس سلسلہ کا چوتھا خطاب مؤرخہ 18 مارچ 1948ء کو ارشاد فرمایا جو انوار العلوم کی جلد 19 میں شائع ہو چکا ہے.اور پانچواں خطاب مؤرخہ 28 دسمبر 1950ء کو اور چھٹا خطاب مؤرخہ 28 دسمبر 1951ء کو ارشاد فرمایا جو انوار العلوم کی جلد نمبر 22 میں شائع شدہ ہے.اس سلسلہ کا ساتواں خطاب 28 دسمبر 1953ء کو ارشاد فرمایا جو انوار العلوم کی جلد نمبر 24 میں شائع ہو چکا ہے.آٹھواں خطاب 28 دسمبر 1954ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ارشاد فرمایا.حضور نے اپنے اس روح پرور خطاب کے آغاز میں تو بعض متفرق اُمور کا ذکر فرمایا ہے جن میں مجلس خدام الاحمدیہ کا علم انعامی، کار کردگی کے لحاظ سے اول آنیوالی مجلس کراچی کی بجائے دوسرے نمبر پر آنے والی مجلس لاہور کو بوجوہ دیئے جانے کی سفارش پر تبصرہ کرتے ہوئے اس سفارش کو قبول نہ فرمایا اور اس کی بعض وجوہات بیان فرمائیں.اسی طرح جماعتی اخبارات جن میں روزنامہ الفضل ربوہ، البدر قادیان، ریویو آف ریلیجنز ، ماہنامہ خالد، نیز المصلح کراچی کو خریدنے کی تحریک فرمائی.نیز بعض ملکی اخبارات جن میں ”سول“ ، ”میت“ اور ” تسنیم “ شامل ہیں کو خریدنے اور اُن کا مطالعہ کرنے کی طرف بھی توجہ دلائی.اس طرح آپ نے مرکز سلسلہ کے دو حصوں کی وضاحت فرمائی.آپ نے فرمایا کہ ایک حصہ تو نظام خلافت کا ہے اور دوسرا حصہ صدر انجمن احمدیہ کا ہے.اس سلسلہ میں آپ نے ناظر ان کو اُن کی ذمہ داریوں، فرائض اور ان کی حیثیت کی طرف توجہ دلائی.نیز جماعت میں پیر پرستی والا اند از اختیار کرنے کی حوصلہ شکنی فرمائی.اس طرح رسماً دُعا کے لئے کہنے پر روشنی ڈالی.آپ نے سیر روحانی والے مضمون پر روشنی ڈالنے سے پہلے خلیفہ وقت کی ذمہ داریوں اور دائرہ کار پر روشنی ڈالتے ہوئے جماعتی کام کے بوجھ کو جماعت کے دیگر عہدیداران کی طرف منتقل کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی اور اس سلسلہ میں

Page 13

انوار العلوم جلد 25 111 تعارف زیادہ سے زیادہ قابل نوجوانوں اور پنشنروں کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی.نیز قبل ازیں افرادِ جماعت کو کام کر کے زائد آمد پیدا کر کے جماعتی ضروریات کے لئے پیش کرنے کی تحریک کی بھی یاد دہانی کروائی.1938ء کے سفر کے دوران حیدر آباد اور دہلی میں حضور نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتر بھی شامل تھے.حضور نے اپنی اس تقریر میں دنیوی نظام کے دفاتر کا عالم روحانی کے دفاتر سے موازنہ کرتے ہوئے دنیوی دفاتر کی کمزوریوں اور روحانی دفاتر کی فوقیت و پائیداری کا مفصل طور پر ذکر فرمایا ہے.(2) احباب جماعت کے نام پیغامات مورخہ 26 فروری 1955ء کو حضرت مصلح موعود پر بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے ڈاکٹر ز نے حضور کو یورپ جا کر علاج کروانے کا مشورہ دیا.حضور نے اس مشورہ کو قبول فرماتے ہوئے یورپ جانے کا فیصلہ فرمایا چنانچہ اس سلسلہ میں اپنے پروگرام سے متعلق حضور نے یورپ کے سفر پر روانگی سے قبل، دورانِ سفر مختلف مقامات سے اور یورپ میں قیام کے دوران احباب جماعت کو اپنے سفر ، علاج اور دیگر مصروفیات سے متعلق آگاہ رکھنے اور دعاؤں کی تحریک کرنے کے پیش نظر جو پیغامات بھجوائے اُن کی گل تعداد 27 ہے.یہ پیغامات مؤرخہ 11 مارچ تا 29 جولائی 1955ء کے عرصہ میں بھجوائے گئے.اور ساتھ ساتھ روز نامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوتے رہے.اب ان تمام پیغامات کو یکجائی صورت میں انوار العلوم کی اس جلد میں شائع کیا جارہا ہے.(3) سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں نمائندگان جماعت سے خطاب سیدنا حضرت مصلح موعود 1955ء میں بغرض علاج یورپ تشریف لے گئے یورپ کے سفر سے واپسی پر آپ کراچی اُترے اور کراچی میں مؤرخہ 7 ستمبر 1955ء کو نمائندگان جماعت سے یہ خطاب فرمایا.یہ خطاب غیر مطبوعہ تھا جو پہلی دفعہ اب انوار العلوم کی اس جلد میں شائع کیا جا رہا ہے.اس خطاب میں حضور نے اپنا علاج کروانے

Page 14

انوار العلوم جلد 25 iv تعارف کی تفصیلات پر روشنی ڈالی اور ڈاکٹروں کے مشوروں کا ذکر فرمایا.بیماری کی تشخیص، علاج اور ہدایات کے لحاظ سے آپ نے زیورک یونیورسٹی ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر روسیو کا بطور خاص تذکرہ فرمایا.جن کا خلاصہ یہ تھا کہ اس بیماری کے حملہ سے قبل آپ نے اپنی طاقت اور ہمت سے ڈیڑھ سو گنا زیادہ کام کیا ہے.مگر ہر چند کہ اب آپ مکمل طور پر صحتیاب ہو چکے ہیں تاہم اب آپ زیادہ سے زیادہ ایک نارمل انسان جتنا تو کام کر سکتے ہیں تاہم کوشش کی جائے کہ ایک نارمل آدمی کی طاقت سے زیادہ آپ کام نہ کریں.نیز ایسی آب و ہوا میں رہائش رکھیں جہاں موسم معتدل ہو.پس اس صورتحال کے پیش نظر حضور نے احباب جماعت کو ہدایت فرمائی کہ ڈاکٹری ہدایات کا تقاضا یہی ہے کہ مجھ پر کام کا زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے اور مجھے زیادہ سے زیادہ آرام کرنے دیا جائے.(4) افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین خطاب حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے قیام پاکستان کے بعد افریقن احمدیوں کے نام ایک نہایت اُمید افزا انگریزی زبان میں پیغام دیا جو رسالہ ”The Review of Religion“ کے ستمبر 1955ء کے شمارہ میں شائع ہوا.یہ پیغام MR.JC.AL.HASAN ATTA صدر جماعت احمد یہ شانٹی ریجن (کماسی.غانا) کے توسط سے ارضِ بلال تک پہنچایا گیا جس سے افریقن احمدیوں میں زبر دست بیداری پیدا ہوئی.حضور نے اپنے اس پیغام میں افریقنز کو ایک روشن مستقبل کی نوید سنائی.اور یہ یقین دہانی کروائی کہ پہلے تو افریقہ پر مختلف ممالک اور قوموں نے حکمرانی کی ہے اب وقت آگیا ہے کہ افریقن دنیا پر حکمرانی کریں گے.رنگ و نسل کا امتیاز مٹادیا جائے گا اور تمام احمدی برابر اور ایک جیسے اور ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہونگے.پس افریقنز کو چاہیے کہ وہ اس پیغام کو دوسرے افریقنز تک پہنچائیں.پاکستانی احمدی افریقنز کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں اور اُن کی راہوں پر آنکھیں بچھائے بیٹھے ہیں.پس یہی وہ حقیقی اسلام ہے جو احمدیت کی شکل میں موجو د ہے.

Page 15

انوار العلوم جلد 25 V (5) مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات یہ کتاب حضرت مصلح موعود کے دو خطابات پر مشتمل ہے.پہلا خطاب آپ نے مؤرخہ 18 نومبر 1955ء بمقام ربوہ مجلس انصار اللہ و مجلس خدام الاحمدیہ کے اجتماعی سالانہ اجتماع کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.جس میں انصار اور خدام کو بعض نصائح کرتے ہوئے فرمایا:.جماعت کی دماغی نمائندگی انصار اللہ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں.جب کسی قوم کے دماغ ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے........پس ایک طرف تو میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسل اسلام کی روح زندہ رہے.دوسر ا خطاب مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی اجلاس پر مورخہ 20 نومبر 1955ء کو فرمایا.جس میں خدام کو عمومی نصائح کرنے کے علاوہ تو گل کے مقام کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.دو پس تو گل کا پہلا مقام یہ ہے کہ جو کچھ خداتعالی نے ہم کو دیا ہے جسمانی ہو یا مالی ہو یا اخلاقی ہو اُس کو ہم زیادہ سے زیادہ استعمال کریں.اس کے بعد جو کمی رہ جائے وہ خدا کے سپر د کر دیں اور یقین رکھیں کہ خدا اُس کمی کو ضرور پورا کر دے گا.“ حضرت مصلح موعود کے مذکورہ بالا دونوں خطابات انوار العلوم کی اِس جلد میں پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع کئے جارہے ہیں.

Page 16

انوار العلوم جلد 25 vi (6) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء یہ روح پرور خطاب حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ 26 دسمبر 1955ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر جلسہ کا افتتاح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا.روزنامہ الفضل ربوہ میں مورخہ 10 فروری 1956ء کو شائع ہوا.اب احباب جماعت کے استفادہ کیلئے انوار العلوم کی اس جلد میں شائع کی جارہا ہے.اس تقریر کے آغاز میں تو حضور نے اپنی صحت کے متعلق احباب جماعت کو آگاہ فرمایا اور دعا کیلئے تحریک فرمائی بعد ازاں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کہ ( مجھ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تین سو سال تک تمہاری جماعت بڑی طاقتور اور مضبوط ہو جائے گی) کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ تین سو سال کا عرصہ تو بڑا لمبا ہے یوں تو مومن کو قیامت تک کیلئے عزم کرنا چاہیئے لیکن کم سے کم تین سو سال تک تو آئندہ نسلوں کو یہ عزم کرنا چاہیئے کہ یکے بعد دیگرے ہم سلسلہ کا بوجھ اٹھاتے چلے جائیں گے اور اسلام کی اشاعت میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے.اس ضمن میں حضور نے احباب جماعت کو مالی قربانی اور زندگیاں وقف کر کے خدمت سلسلہ کرنے کی تحریک فرمائی.(7) متفرق امور سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی نے جلسہ سالانہ ربوہ 1955ء پر مؤرخہ 27 دسمبر کو جو روح پرور تقریر ارشاد فرمائی وہ کسی ایک معین موضوع کی بجائے متفرق توجہ طلب امور سے متعلق تھی.یہ تقریر پہلی دفعہ مؤرخہ 14 تا 22 فروری 1956ء کو روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوئی جسے اب انوارالعلوم کی اس جلد میں کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے.اس تقریر میں حضور نے درج ذیل امور پر روشنی ڈالی اور احباب جماعت کو ان کی طرف توجہ دلائی.1.خدمت خلق

Page 17

انوار العلوم جلد 25 vii 2 ریویو آف ریلیجنز کی دس ہزار اشاعت 3.قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی اشاعت کی ضرورت 4.سکینڈے نیوین ممالک میں مشن ہاؤسز کھولنے کیلئے چندہ کی خصوصی تحریک 5.یورپ میں نئی مساجد بنانے کی تحریک 6- تحریک جدید کی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے بنائی گئی اشیاء کو خریدنے کی تحریک 7 جماعتی چندے بڑھانے کی تحریک اس خطاب کے دوران حضور نے احباب جماعت کو درج ذیل نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ:.جماعت کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ ہمارے نظام میں ابھی کچھ کمزوریاں ہیں.یورپین نظام ایسا ہے کہ خرابی ہوتی ہے تو پبلک دباؤ کے ساتھ حکومت ٹھیک ہو جاتی ہے.ہمارے ہاں اب تک دباؤ کی کوئی صورت نہیں نکالی گئی.پس ایسی کوئی تجویز سوچیں کہ آئندہ جماعت کے اندر بیداری پیدا ہو اور وہ زور ڈال کے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو ٹھیک کیا کریں.فتنہ و فساد بھی نہ ہو ، خلافت کا مقام بھی قائم رہے اور جماعت کو ایسا موقع بھی ملے کہ وہ اپنی رائے کے ساتھ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک کو مجبور کر سکیں کہ صحیح کام کرو اور وقت پر کام کیا کرو.“ نیز حضور نے احباب جماعت کو اپنی زندگیاں وقف کرنے ، بیرونی ممالک میں کثرت سے نظام وصیت میں شمولیت اور مسجد فنڈ قائم کرنے کی تحریک فرمائی.اس کے علاوہ ربوہ میں انڈسٹریاں قائم کرنے کی طرف بھی خصوصی توجہ دلائی.آخر میں روسی ترجمہ قرآن جلد شائع کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے اس طرف توجہ دلائی.(8) سیر روحانی(9) حضرت مصلح موعود کے ”سیر روحانی“ کے موضوع پر خطابات کے سلسلہ کا یہ

Page 18

انوار العلوم جلد 25 viii تعارف کر نواں خطاب ہے جو آپ نے مورخہ 28 دسمبر 1955ء کو جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ارشاد فرمایا.اصل مضمون بیان کرنے سے پہلے حضور نے حسب سابق کچھ متفرق اُمور پر روشنی ڈالی.جو درج ذیل ہیں.1.عورتوں کے جلسہ گاہ سے متعلق ہدایات 2- صفات باری تعالیٰ 3 جماعتی اخبارات ورسائل کی خریداری 4.قرآن کریم کے آخری پارہ کی تفسیر کبیر نیز سیر روحانی کی جلد نمبر 2 کی اشاعت کے بارہ میں پیشرفت 5.قرآن کریم کے گورمکھی اور ہندی ترجمہ ہونے کی ضرورت و اہمیت 6.زمینداروں کی اصلاح اور ان کی ترقی کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کو ہدایات.اسی تعلق میں صدر انجمن کو نظارت زراعت بنانے کی ہدایت.7- نظارت تعلیم کو ہر احمدی نوجوان کیلئے تعلیم کے حصول کو یقینی بنانے کے تعلق میں بعض ہدایات سیر روحانی“ کے مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے حضور نے اپنے اس خطاب میں ”عالم روحانی کی نہریں“ پر تفصیلی روشنی ڈالی.اس سلسلہ میں پہلے حضور نے دنیوی نہروں کے فوائد بیان فرمائے جس کے تسلسل میں جسمانی اور روحانی علوم کی نہروں سے مشابہت بیان فرمائی.حضور نے فرمایا:." جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ دینی علوم بخشنے کے قرآن کریم نے سابق علوم کو بھی زندہ رکھنے کا سامان کیا ہے اور وہ علمی نہریں چلا دی ہیں جو پہلے کسی زمانہ میں چلتی 66 تھیں یا کبھی بھی نہیں چلتی تھیں.قرآن کریم کے ذریعہ جاری ہونے والی درج ذیل عظیم الشان نہروں کا ذکر آپ نے بیان فرمایا:.

Page 19

انوار العلوم جلد 25 ix 1.علم کائنات کی نہر 13.علم موازنہ مذاہب کی نہر 2.علم جغرافیہ کی نہر 14.علم نباتات کی نہر 3.علم جہاز رانی کی نہر 15.علم توافق بین المخلوقات کی نہر 4.علم طب کی نہر 16.علم حیوانات کی نہر 5.علم ہندسہ کی نہر 17.علم معیشت کی نہر 18.علم الاقتصاد کی نہر 6.علم ادب کی نہر 7.علم معانی کی نہر 19.علم شہریت کی نہر 8.علم بیان کی نہر 20.علم بدء عالم کی نہر 9.علم النفس کی نہر 21.علم تاریخ کی نہر 10.علم کیمیاء کی نہر 22.علم موسمیات کی نہر 11.علم فلسفہ کی نہر 23.علم دینیہ کی نہر.وغیرہ 12.علم منطق کی نہر (9) ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمد کی احباب کے نام پیغام جنوری 1956ء میں حضرت مصلح موعود نے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب کے نام ایک پیغام تحریر کیا جو روزنامہ الفضل ربوہ میں 9 فروری 1956ء کو شائع ہوا.اس پیغام کا نفس مضمون ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں مقیم احمدیوں کو نظام وصیت میں شمولیت اختیار کرنے کی تحریک کرنے پر مبنی تھا.اس پیغام کے آخر پر حضور نے تحریر فرمایا:.برادران! ہم کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ہمارا خدا طاقتور اور ہمہ قوت ہے.ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے لیکن وہ سب کچھ کر سکتا ہے.یقین رکھو کہ اُس کی مدد تمہاری طرف دوڑی آرہی ہے.بلا شبہ وہ خود تمہارے دروازے پر کھڑا ہے اور اندر داخل ہونا چاہتا ہے.پس

Page 20

انوار العلوم جلد 25 X اٹھو اور اپنے دروازے کھول دو تا کہ وہ اندر آجائے.جب وہ تمہارے گھروں میں داخل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں سما جائے گا تو زندگی تمہارے لئے منور ہو جائے گی اور دنیا میں تم اسی طرح عزت دیئے جاؤ گے جس طرح آسمانوں میں اُس کو عزت اور عظمت حاصل ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.آمین“ (روزنامه الفضل ربوہ 9 فروری (1956 (10) منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات 1956ء میں رونما ہونے والے فتنہء خلافت سے متعلق احباب جماعت کو اس فتنہ کے پس منظر اور اس تعلق میں رُونما ہونے والے حالات و واقعات کے بارہ میں احباب جماعت کو آگاہ رکھنے کیلئے حضور نے 1956ء میں مختلف اوقات اور مواقع پر جو پیغامات اور اعلانات تحریر فرمائے جو ساتھ کے ساتھ روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوتے رہے اُن تمام پیغامات و اعلانات کو یکجائی صورت میں پہلی دفعہ انوار العلوم کی اِس جلد میں شائع کیا جارہا ہے.(11) مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات حضرت مصلح موعود نے 1956ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر جو افتتاحی اور اختتامی خطابات ارشاد فرمائے تھے وہ روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع شدہ ہیں.اُن خطابات کو انوار العلوم کی اس جلد میں پہلی دفعہ کتابی صورت میں شائع کیا جارہا ہے.دونوں خطابات کا بنیادی مضمون ایک ہی ہے جو 1956ء میں رونما ہونے والے فتنہ خلافت کے تعلق میں ہے.

Page 21

X1 انوار العلوم جلد 25 حضور نے افتتاحی خطاب میں سورۃ آل عمران کی آیت نمبر 119 يَاأَيُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالاً......الخ کی تفسیر کرتے ہوئے فتنہ خلافت میں ملوث احباب کے ساتھ روابط اور تعلقات رکھنے کو نا پسندیدہ قرار دیا اور ایسے احباب سے محتاط اور دُور رہنے کی احباب جماعت کو تلقین اور ہدایت فرمائی.اختتامی خطاب میں حضور نے سورۃ النور کی آیت استخلاف وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصلح......الخ کی تفسیر کرتے ہوئے خلافت احمدیہ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ پر ہونے والے خدا تعالیٰ کے افضال اور ترقیات کا مفصل ذکر فرمایا ہے.اور پیغامیوں کی جماعت اور خلافت کے خلاف کی گئی سرگرمیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوئے ان کے ناکام رہنے پر روشنی ڈالی ہے.اس تقریر کے آخر میں حضور نے احباب جماعت کو ہر سال یومِ خلافت“ منانے کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:.آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں.اور کسی چیز کو یاد رکھنے کیلئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کیلئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں.مثلاً شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکالتے ہیں تا قوم کو شہادتِ حسین کا واقعہ یاد رہے.اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن ” خلافت ڈے“ کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں.“ (12) قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور خطاب مؤرخہ 21 اکتوبر 1956ء کو بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماءاللہ بمقام ربوہ ارشاد فرمایا تھا.

Page 22

انوار العلوم جلد 25 xii تعارف ک حضور نے اپنے اس خطاب میں سب سے پہلے اسلام میں عورت کے مقام کو احادیث رسول کی روشنی میں بیان فرمایا ہے.اس کے بعد آپ نے اسلامی تاریخ کے حالات و واقعات کی روشنی میں مسلمان عورتوں کی قربانیوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے.اس خطاب کے آخر پر حضور نے احمدی خواتین کو دو نصائح فرمائی ہیں.ایک یہ کہ عورتیں اپنے مردوں کو قربانی پر آمادہ کریں کیونکہ مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے.وہ انہیں تحریک کر کے قربانی کیلئے آمادہ کر سکتی ہیں.اور اسکی ہمارے ہاں بہت سی مثالیں پائی جاتی ہیں جن میں سے چند ایک مثالیں حضور نے بیان فرمائی ہیں.دوسری اور آخری نصیحت اِس خطاب میں حضور نے عورتوں کو یہ فرمائی ہے کہ عور تیں اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں استعمال کریں.اس تعلق میں حضور نے فرمایا:."اگر تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرنا سیکھ لو تو تمہارے مقابلہ پر بڑی سے بڑی طاقت بھی ٹھہر نہیں سکتی بلکہ مرد بھی تم سے طاقت حاصل کریں گے.گویا تمہاری مثال دیا سلائی کی سی ہو گی اور مرد کی مثال تیل کے پینے کی سی.جب تم دیا سلائی سے آگ لگاؤ گی تو وہی مرد جو بزدلی کیوجہ سے کونہ میں کھڑا ہو گا جوش میں آجائے گا اور جس طرح آگ کی وجہ سے تیل بھڑک اٹھتا ہے تمہارے غیرت دلانے سے وہ بھی بھڑک اٹھے گا اور پھر کسی روک اور مصیبت کی پر واہ نہیں کرے گا اور قربانی کرتا چلا جائے گا.“ (13) مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات حضرت مصلح موعود نے مؤرخہ 26 اکتوبر 1956ء کو سالانہ اجتماع انصار اللہ بمقام ربوہ کے موقع پر جو افتتاحی خطاب فرمایا وہ مورخہ 24،21 مارچ 1957ء کو روزنامہ الفضل ربوہ میں شائع ہوا.اس خطاب میں حضور نے 40 سال سے زائد افراد کیلئے ” انصار الله"

Page 23

انوار العلوم جلد 25 xiii تعارف ک کا نام رکھنے کی وجوہات بیان فرمائیں اور اس لفظ کے قرآن و احادیث اور تاریخ اسلام میں استعمال پر روشنی ڈالی.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں انصار اللہ نام کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.”جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے.ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی.اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں، نوجوانوں ، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کا نام انصار اللہ رکھا گیا.گویا جس طرح قرآن میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.پہلے جن لوگوں نام انصار اللہ رکھا گیا اُن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود السلام کے صحابہ تھے کیونکہ یہ جماعت 1913ء، 1914ء میں بنائی گئی تھی اور اُس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے.“ اس خطاب میں حضور نے انصار اللہ کو اُن کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی بالخصوص مجلس انصار اللہ کو نظام خلافت کے ساتھ وابستگی اور اس کی حفاظت کرنے کی طرف توجہ دلائی.اجتماع کے اختتامی خطاب (فرمودہ مؤرخہ 27اکتوبر 1956ء) میں حضور نے احمدیت کی اشاعت اور نظامِ خلافت کی حفاظت کیلئے انصار اللہ کو اپنا عہد ہمیشہ یاد رکھنے کی تلقین فرمائی.نیز نظام خلافت کی برکت سے دنیا میں ہونے والی احمدیت کی اشاعت پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی.اور احمدیت کی ترقی اور اشاعت کیلئے نظام خلافت کی مضبوطی کو ضروری قرار دیا.اس خطاب کے آخر پر آپ نے فرمایا:.”جب خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا، خدا تعالیٰ کا تعلق

Page 24

انوار العلوم جلد 25 xiv ہمارے ساتھ رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی غیرت ہمارے لئے دکھاتا رہے گا اور کسی کی مجال نہیں ہو گی کہ ہماری طرف ترچھی آنکھوں سے دیکھے کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے فوراً آگے بڑھیں گے اور ہمارے اور اُس کے درمیان حائل ہو جائیں گے.اور وہ مدد ہمیں حاصل ہو گی جس کو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ترستے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہاری مدد کرے.“

Page 25

انوار العلوم جلد 25 سیر روحانی (8) (28دسمبر 1954ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود داحمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی (8)

Page 26

Page 27

انوار العلوم جلد 25 3 سیر روحانی (8) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (8) (فرمودہ 28دسمبر 1954ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشهد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد "سیر روحانی" کے اہم موضوع پر تقریر کرنے سے قبل حضور نے احباب جماعت کو بعض ضروری امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:- کل کی تقریر ایسی حالت میں ہوئی کہ جیسا کہ میں نے بتایا تھا علاوہ سینہ میں درد، نزلہ کی شکایت اور بخار کی شکایت کے کمر کی درد بھی تھی جس کی وجہ سے وجہ سے بہت سے مضامین ذہن میں سے نکل گئے اور جو اصل مضمون آخر میں تھا جو کہ مقصود تھا تقریر کا وہ بھی بیان نہیں ہو سکا.تمہید میں سے بھی صرف تھوڑا سا حصہ مضمون کا بیان ہو سکا ہے.اس تکلیف کی وجہ سے کئی باتیں جن کے بیان کرنے کی کئی لوگوں نے خواہش کی تھی یا مختلف اداروں نے اپنے آپ کو متعارف کرانے کی خواہش کی تھی وہ میرے ذہن سے نکل گئے.اس لئے ان باتوں کو میں آج بیان کرتا ہوں.مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ معائنہ کے نتائج ایک تو خدام الاحمدیہ کا سالانہ فیصلہ ہے کہ کونسی مجلس اچھی رہی.علاوہ خدام الاحمدیہ کی رپورٹوں کے مجلس خدام الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر مختلف انجمنوں کے کام دیکھے اور اس پر ایک فیصلہ کیا.ان کی رائے یہ ہے کہ کراچی کو 100/ 7 72 نمبر ملے ہیں اور لاہور کو 100/ 71 اور راولپنڈی کو 100/ 56 اور گو کھووال کو 18/100 اور خانیوال کو 44/100.یہ گویا پانچ جماعتیں اس ترتیب کے ساتھ آئیں.48 66%

Page 28

انوار العلوم جلد 25 4 سیر روحانی (8) اول کراچی ، دوم لاہور ، سوم راولپنڈی، چہارم گوکھو وال اور پنجم خانیوال.قاعدہ کی رو سے جو جماعت اول رہے اس کو لوائے خدام الاحمدیہ اس سال کے لئے ملنا چاہئے.مجلس کی سفارش ہے کہ لاہور کی جماعت نے چونکہ اس دفعہ غیر معمولی کام کیا ہے اس لئے اس سال لاہور کی جماعت کو باوجود دوم رہنے کے لواء دے دیا جائے اور کراچی کی جماعت چونکہ پہلے سے ہی اچھا کام کرتی چلی آرہی ہے اس لئے اس کو نہ دیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ لاہور کی جماعت خدام الاحمدیہ نے اس سال بہت عمدہ کام کیا ہے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ ایک نیم مردہ سی جماعت تھی جس میں زندگی کی روح پھونک دی گئی اور اس خدمت کا سہرا اُن کے قائد محمد سعید اور ان کے چار پانچ مدد گاروں پر ہے جنہوں نے محنت کے ساتھ ان کا ساتھ دیا اور اس مجلس کی تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹایا.پچھلے سیلاب کے موقع پر انہوں نے غیر معمولی طور پر کام کیا اور پھر غیر معمولی طور پر اس کو دنیا کے سامنے روشناس بھی کرایا.پس اس لحاظ سے وہ خاص طور پر تعریف کے قابل ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ہم اگر نمبر بدل ڈالنے کی رسم ڈال دیں گے تو اس سے بجائے حوصلہ بڑھنے کے اعتراض پیدا ہو گا.ہمیں ان کے اچھے کام کی مختلف مواقع پر تعریف کر دینی چاہئے لیکن ساتھ ہی ہم کو یہ امر بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جو اوّل نمبر پر ہے اُس کو اوّل نمبر ہی دیا جائے تاکہ آئندہ دوسرے کسی موقع پر کسی کی جنبہ داری یا کسی کی ناجائز تائید کا سامان پیدا نہ ہو.پس میں باوجود مجلس کی سفارش کے یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ لواء حسب قاعدہ جماعت کراچی کو دیا جائے.لیکن ساتھ اس کے میں لاہور کی جماعت کی تعریف بھی تمام دوستوں کے سامنے کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ آئندہ ہر جماعت ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں کی شناخت بھی بیان فرمائی ہے کہ وہ تسابق اختیار کرتے ہیں اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.اور نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش یقینا ہر قوم کے معیار کو اتنا بلند لے جاتی ہے کہ اس کا انسان قیاس بھی نہیں کر سکتا.جب کبھی نیکی دنیا سے مفقود

Page 29

انوار العلوم جلد 25 5 سیر روحانی (8) ہو جائے یا جب بھی نیکی میں آگے بڑھنے کی روح مفقود ہو جائے اُس وقت قوم یا مرنا شروع ہو جاتی ہے یا گر ناشروع ہو جاتی ہے.لیکن جب تک تسابق کی روح کسی قوم میں قائم ہو اُس وقت تک خواہ وہ کتنی بھی ذلت میں پہنچی ہوئی ہو اور کتنی بھی گری ہوئی ہو پھر بھی چمک دکھلاتی چلی جاتی ہے اور اس کے لئے موقع ہوتا ہے کہ وہ آگے بڑھے.ہمارے قریب کے بزرگان میں سے ایسے زمانہ میں جب مسلمانوں پر ایک قسم کے تنزل کی حالت آگئی تھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کہ تسابق کی وجہ سے ان لوگوں کے واقعات کو سن کر انسان کے دل میں گرمی پیدا ہو جاتی ہے.سید اسماعیل صاحب شہید جو تیرھویں صدی میں گزرے ہیں شاہ ولی اللہ صاحب کے وہ نواسے تھے اور سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے.سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے یہ کسی کام کے لئے دلی آئے ہوئے تھے تا کہ اپنے اقرباء ، مشورہ کریں.زیادہ تر ان کا کام یہ ہوتا تھا کہ شاہ اسحق صاحب جو شاہ ولی اللہ شاہ صاحب کے پوتے تھے اُن سے مشورہ کر کے سید صاحب تک ان کی رائے پہنچا دیا کرتے تھے.ایک دفعہ وہ دہلی سے واپس جارہے تھے جب کیمبل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ذکر کیا کہ اس دریا کو یہاں سے کوئی شخص تیر کر نہیں گزر سکتا.اس زمانہ میں صرف فلاں سکھ ہے جو گزر سکتا ہے مسلمانوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں.وہ جارہے تھے جہاد کے لئے ، جارہے تھے اپنے پیر کی مدد کے لئے.وہیں ٹھہر گئے کہ اچھا ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہیں کر سکتا.اب جب تک میں اس دریا کو پار نہیں کر لوں گا میں یہاں سے نہیں ہلوں گا چنانچہ وہاں تیرنے کی مشق شروع کی.چار پانچ مہینوں میں اتنے مشاق ہوئے کہ تیر کر پار گزرے اور پار گزر کر بتادیا کہ سکھ ہی نہیں ہیں اچھے کام کرنے والے مسلمان بھی جب چاہیں اُن سے بہتر کام کر سکتے ہیں.تو یکھو یہ ایک تسابق کی روح تھی اور اسی تسابق کی روح کو جب بھی ہم اپنے سامنے لاتے ہیں تو ہماری روحوں میں ایک بالیدگی پیدا ہو جاتی ہے اور ہمارے دلوں میں گرمی پید اہو جاتی ہے اور ہمارے دماغوں میں عزم پیدا ہو جاتا ہے کہ ہم اب مخالف یا مد مقابل یار قیب ا

Page 30

انوار العلوم جلد 25 6 سیر روحانی (8) سے کسی صورت میں دیں گے نہیں.پس خدام کی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ کوشش کریں کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں.لیکن ساتھ ہی یہ بھی ہمیں مدِ نظر رکھنا چاہیئے کہ جو ہم نے قانون بنایا ہے اُس کو کسی چھوٹی سی وجہ سے نہ توڑیں.انہوں نے اچھا کام کیا ہے ہم نے اس کو کئی جگہ بیان کیا ہے اور تعریف کر دی ہے.میرے کئی خطبوں میں ذکر آگیا میں اب بھی ان کی تعریف کر رہا ہوں، خدام کے جلسہ میں بھی ان کی تعریف کی.اتنی تعریفوں کے بعد انہیں یہ کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم کراچی کا لواء ان کے حوالے کر دیں.جہاں انہوں نے اتنا قدم بڑھایا ہے کہ ایک سست جماعت سے ایک زندہ جماعت بنے ہیں وہاں اگر وہ کوشش کریں اور کراچی کے نوجوانوں والی خدمات پیش کریں تو لواء بھی لے سکتے ہیں.میں کراچی کے خدام کی ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا لیکن در حقیقت انہوں نے جو قربانی کی ہے ابھی تک لاہور کی قربانی اُس کو پہنچتی نہیں.تو اگر وہ کوشش کریں تو مجلس کی کراچی والوں سے کوئی رشتہ داری نہیں ہے اور لاہور والوں سے کوئی دشمنی نہیں ہے.وہ یقینالاہور ہو یا گوجرانوالہ یا سیالکوٹ ہو جو جماعت بھی آگے نکلے گی وہ اُس کو لواء دیں گے.(الفضل 11 جنوری 1955ء) اسکے بعد حضور نے بعض جماعتوں اور افراد کی طرف سے آنے والی تاریں پڑھ کر سنائیں اور پھر فرمایا:- ” اس کے بعد میں کل کی باتوں سے جو چند تحریکیں لوگوں نے کرنے کے لئے کہا تھا اُن کو پیش کرتا ہوں.سلسلہ کے اخبارات ہمارے سلسلہ کے اخبارات میں سے ہر ایک اپنی اپنی جگہ پر ایک خصوصیت رکھتا ہے لیکن میں دیکھتا ہوں کہ جماعت کے لوگوں میں اخباروں کے پڑھنے کا چرچا اور رواج ذرا کم ہے.اس کی وجہ سے جو ان کی شہرت ہونی چاہیئے اور جو ان کا فائدہ ہونا چاہیئے وہ پوری طرح نہیں پہنچتا.الفضل سب سے مقدم چیز تو " الفضل" ہے.الفضل روزانہ اخبار ہے اور الفضل ہی ایک ایسا اخبار ہے جس کے ذریعہ سے ساری جماعتوں تک آواز پہنچتی.

Page 31

انوار العلوم جلد 25 7 سیر روحانی (8) لیکن متواتر ہم کو آجکل یہ اطلاعات آرہی ہیں کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں کہ ساری جماعت میں ایک الفضل بھی نہیں پہنچ رہا حالانکہ چھوٹی جماعتیں آپس میں چندہ کر کے اور آپس میں مل کر ایک ایک اخبار خرید سکتی ہیں.در حقیقت دو ہی چیزیں ہیں جو قوم کی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ایک اخبار اور ایک ریلوے کا سفر یا لاری کا سفر.جو قوم سفر زیادہ کرتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے اور جس قوم میں اخبار زیادہ چلتے ہیں وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے.کیونکہ اخبار پڑھنے کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ اس شخص کی روح نچلی 1 نہیں بیٹھ سکتی.اس کے اندر ایک اضطراب پایا جاتا ہے.اخبار کیا کرتا ہے ؟ وہ ہر روز ہم کو ایک نئی خبر دیتا ہے.جس دن اخبار نہیں آتا تو لوگ جس طرح افیون نہیں کھائی ہوتی گھبر ائے پھرتے ہیں.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمیں دنیا کے انقلاب کا پتہ نہیں لگتا.اور جو شخص انقلاب کی جستجو کرتا ہے در حقیقت اس کے اندر بھی ایک انقلابی مادہ پایا جاتا ہے.تو قوم کی ترقی کا اگر کسی شخص نے اندازہ لگانا ہو تو وہ دو چیزیں دیکھ لے کہ وہ قوم کتنا سفر کرتی ہے اور اخبار کے ساتھ اس کو کتنی دلچسپی ہے.میں جب فلسطین میں گیا تو اُس وقت یہودی سارے ملک کی آبادی کا دسواں حصہ تھے اور دسواں حصہ عیسائی تھے اور اسی فیصدی مسلمان تھے لیکن ریلوں میں میں نے سفر کر کے دیکھا تو یہودی ہوتا تھا قریباً ستر فیصدی اور عیسائی ہو تا تھا کوئی پندرہ بیس فیصدی اور مسلمان ہوتا تھا دس فیصدی.میرے پاس ایک سفر میں ایک یہودی آیا وہ ریلوے کا افسر تھا.میں تو اُس کا واقف نہیں تھا نہ پہلے کبھی ملا.معلوم ہوتا ہے یہودیوں نے ہماری بھی ٹوہ رکھی تھی.وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں نے آپ سے ملنا ہے.وہیں کمرہ میں آکر بیٹھ گیا.کہنے لگا کہ میں ریلوے کا افسر ہوں اور شام وغیرہ جاتے وقت بارڈر کی نگرانی میرے سپر د ہے.میں آپ سے ایک بات کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا کہو.کہنے لگا میں یہ بات کرنا چاہتا ہوں کہ آپ ہمارے کیوں مخالف ہیں ؟ میں نے کہا تمہیں کس نے بتایا ہے کہ میں مخالف ہوں؟ کہنے لگا میں سن رہا ہوں کہ آپ ہمارے خلاف باتیں کرتے ہیں.میں نے کہا میں مخالفت کروں یا کچھ کروں (اُس وقت میں نے یہی بات کہی کہ)

Page 32

انوار العلوم جلد 25 8 سیر روحانی (8) میری مخالفت تم جانے دو میں نے یہاں تو یہ نظارہ دیکھا ہے چنانچہ ریل پر دیکھ لو ابھی چلو اس وقت اگلے اسٹیشن پر اُس وقت گاڑی چل چکی تھی ) جب اگلا اسٹیشن آئے گا اُس وقت دیکھ لینا کہ ریل میں ستر فیصدی یہودی بیٹھا ہوا ہے، پندرہ بیس فیصدی عیسائی بیٹھا ہوا ہے باقی دس فیصدی اسی فیصدی کا نمائندہ بیٹھا ہوا ہے.تو میں مخالفت کروں یا کوئی کرے جب تک مسلمان اپنا نظریہ نہیں بدلیں گے ، اپنے حالات نہیں بدلیں گے ، اپنا طریقہ نہیں بدلیں گے جیتنا تم نے ہی ہے انہوں نے تو جیتنا نہیں.گھبر اتے کس بات سے ہو ؟ اور پھر یہی ہوا.آخر اس قوم میں جو باہر نکلتی ہے اور بھاگی پھرتی ہے کوئی نہ کوئی بے کلی کی وجہ ہوتی ہے یو نہی تو نہیں لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کھڑے ہوتے.ان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے، ایک ارج (URGE) ہوتی ہے پیچھے سے کہ چلو چلو چلو.اور وہ چلو چلو کی ارج (URGE) کے ماتحت چل پڑتے ہیں اور پھر ان کا بچہ بڑا ہر ایک اس میں کام کرتا ہے.امریکنوں کو دیکھ لو ساری دنیا کا سفر کرتے پھریں گے.پہلے انگلستان والے کرتے تھے اور اب ان میں کمی آگئی ہے اب امریکن ہیں کہ ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں.کسی زمانہ میں عرب میں یہ رواج تھا بلکہ اب بھی یہ بات حجاز کے لوگوں میں کسی قدر پائی جاتی ہے، اب بھی وہ دنیا کے سارے اسلامی ملکوں کے باشندوں سے زیادہ غیر ملکوں میں پھرتے ہوئے نظر آجائیں گے.کیونکہ وہ دھکا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لگایا تھا اور گاڑی چلائی تھی وہ گاڑی اب بھی رینگتی چلی جاتی ہے.چودہ پندرہ سو سال ہو گئے مگر اس گاڑی کی حرکت ساکن نہیں ہوئی.تو اخبار ایک دلیل ہو تا ہے اِس بات کی کہ قوم کے اندر کتنی بیداری ہے ، کتنا اضطراب ہے اور انقلاب کی کتنی خواہش ہے.اگر کوئی قوم اخباروں کی طرف توجہ نہیں کرتی تو یقیناً وہ اپنی ترقی کی پوری طرح خواہش نہیں رکھتی.پس میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ پورے زور سے الفضل کو پھیلانے کی کوشش کریں.ہندوستان کے لئے ہمارا اخبار "بدر" ہے.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک اس نے بدر پوری ترقی نہیں کی.ہمارے قادیان کے دوست جب گھبراتے ہیں تو مجھے لکھ دیتے

Page 33

انوار العلوم جلد 25 9 wwwwww سیر روحانی (8) ہیں کہ جماعت پاکستان کو "بدر" کے لئے توجہ دلائی جائے.حالانکہ یہاں کے لئے " لفضل" ہے.ہندوستان کے احمدیوں کے لئے "بدر " ہے.اگر پاکستان کے احمدیوں کے خریدنے سے "بدر" نے چلنا ہے تو "بدر" نے کوئی انقلاب ہندوستان میں پیدا نہیں کرنا.وہ تبھی کوئی انقلاب مسلمانوں کے دلوں میں پیدا کرے گا جب ہندوستان کے مسلمانوں تک اسے پہنچایا جائے.انقلاب سے میری مراد کوئی سیاسی انقلاب نہیں کیونکہ وہ ہمارا کام نہیں.انقلاب سے مراد ہے روحانی انقلاب، مذہبی انقلاب.تو میں ان کی اس بات کو ماننے کے لئے تیار نہیں کہ میں پاکستان کے احمدیوں کو کہوں کہ تم ضرور "بدر" کو خرید و اور پھیلاؤ.اگر پاکستان کے لوگوں کے خریدنے پر بدر آ گیا تو پھر بدر کا بند ہونا ایسا معیوب نہیں سمجھا جائے گا.ہندوستان میں بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزار ہا احمدی ہے.میرے خیال میں اب بھی بیس پچیس ہزار تو ہو گا ان کو کوشش کرنی چاہیے کہ ہندوستان کے لوگوں میں اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ مقبول بنائیں اور پھر دوسرے لوگوں میں بھی مقبول بنائیں.اگر وہ اچھے اچھے مضمون لکھیں اور ایسے لکھیں جن.مسلمانوں میں بیداری پیدا ہو، ان میں مذہبی رجحان پیدا ہو، نیکی پیدا ہو تو دوسرے مسلمان بھی اسے خریدیں گے.بلکہ میں نے تو دیکھا ہے کہ ہندوؤں میں بھی یہ شوق پایا جاتا ہے اور ہندو بھی خریدتے ہیں.دلوں میں تحریک جس وقت پیدا ہوتی ہے لوگ خرید نے لگ جاتے ہیں.الفضل جب میں نے جاری کیا تھا اُس وقت یہ پہلے ہفت روزہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے اسے اس طرح چلانے کی توفیق دی کہ باوجود اس کے کہ ہماری سخت مخالفت تھی اور لوگ کہتے تھے یہ نہیں چلے گا.ابھی پانچ سات ہفتے ہی گزرے تھے کہ مجھے سندھ سے ایک غیر احمدی کی چٹھی آئی.کسی نے اُسے مل کر تحریک کی کہ تم خریدار ہو جاؤ اور وہ خریدار ہو گیا.کسی وقت ڈاک میں اُس کا اخبار لیٹ ہو گیا تو اس کی مجھے چٹھی آئی کہ میں نوجوان آدمی ہوں، میں نے " الفضل" خرید نا شروع کیا ہے اور مجھے جو اس سے محبت اور پیار ہے اس کا اندازہ آپ اس سے کر سکتے ہیں کہ تین ہفتے ہوئے میری شادی ہوئی ہے اور مجھے اپنی بیوی بہت پیاری ہے.مگر اس دفعہ اخبار نہیں پہنچا اور میں یہ سوچتا رہا ہوں کہ سے

Page 34

انوار العلوم جلد 25 10 سیر روحانی (8) اگر میری بیوی مر جاتی تو مجھے زیادہ صدمہ ہو تا یا الفضل نہیں پہنچا تو اس سے زیادہ صدمہ ہوا ہے.تم اس سے اندازہ لگا سکتے ہو کہ کس قدر اُس کو لگاؤ تھا.یہ تو ایک عام آدمی تھا.کہہ دو گے کہ شاید اُس کو زیادہ واقفیت نہیں ہو گی مگر اب ملک کے ایک چوٹی کے آدمی کا واقعہ سن لو.ابو الکلام صاحب آزاد اُنہی دنوں میں قید ہوئے.اُن کے پاس یہ اخبار جاتا تھا.اُن کے سیکرٹری کی مجھے چٹھی آئی کہ ابو الکلام صاحب آزاد کو گورنمنٹ نے نظر بند کر دیا ہے.ان سے پوچھا گیا کہ ہم آپ کو ایک اخبار کی اجازت دیتے ہیں تو انہوں نے صرف "الفضل" کی اجازت مانگی ہے اور کہا ہے کہ " الفضل " مجھے با قاعدہ ملتار ہے.تو آب دیکھو دوسرے لوگوں کے اوپر اس کا کس قدر اثر تھا.دوسرے لوگوں پر اُس وقت اثر ہو سکتا تھا تو آج بھی ہو سکتا ہے.تم اس کو زیادہ عمدہ بنانے کی کوشش کرو گے تو لوگوں میں آپ ہی آپ وہ مقبول ہو نا شروع ہو جائے گا.تو بدر کے متعلق میں تحریک تو کر تا ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ نہ خرید و.اگر کوئی شخص خریدنا چاہتا ہے اور ہندستان کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے اور قادیان کے حالات معلوم کرنا چاہتا ہے تو بے شک خریدے مگر میں اُس زور سے جیسے الفضل کی تحریک کرتا ہوں اس کی نہیں کرتا.اس لئے کہ میرے نزدیک اس کا مقام ہندوستان ہے.اگر ہم لوگ اس کو روپیہ دے کر کھڑا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کو ضرورت ہی محسوس نہیں ہو گی کہ وہ ہندوستان میں اس کو مقبول بنائیں.ا ریویو آف ریلیجنز تیسری چیز ہمارے ہاں ریویو ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد گار ہے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا پرچہ اور ایسا پرچہ جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود حصہ لیا تھا اور اس میں مضمون لکھے تھے سوائے ریویو کے جماعت میں اور کوئی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی کہ دس ہزار پرچہ کم سے کم شائع ہو لیکن اس وقت تک صرف ایک ہزار شائع ہوتا ہے اور وہ ہزار پرچہ بھی جماعت کا ممنونِ احسان نہیں.ہزار پر چہ کی قیمت تحریک جدید دیتی ہے اور پھر اس کو عیسائی علاقوں میں یا دوسرے علاقوں میں مفت شائع کیا جاتا ہے.جو خریدار جماعت کی طرف سے ملا ہے (اگر کوئی خریدار آجاتا ہے تو تحریک

Page 35

انوار العلوم جلد 25 11 سیر روحانی (8) اس کو بھی دے دیتی ہے ) اس کے متعلق جو میرے پاس رپورٹ آئی تھی وہ شاید دو سویا ڈیڑھ سو کے قریب خریدار تھے.باقی سارے کے سارے وہ ہیں جن کو جماعت کی طرف سے مفت تقسیم کیا جاتا ہے.یہ امریکہ میں جاتا ہے، انگلینڈ میں جاتا ہے، جرمنی میں جاتا ہے.اسی طرح مختلف ممالک میں جاتا ہے.یہ فلپائن سے جو بیعت آئی ہے غالباً یہ بھی اسی طرح آئی ہے.ہم نے فلپائن وغیرہ میں بھی پرچے بھجوانے شروع کئے تھے.تو یہ پہلی بیعت غالباً اسی ریویو کی اشاعت کی وجہ سے ہوئی ہے.تو ریویو آف ریلیجنز کی طرف بھی جماعت کو توجہ ہونی چاہیے.اب ہماری جماعت اتنی ہے کہ دس ہزار پرچہ شائع ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں.اس کی دس روپے قیمت ہے.دس ہزار کے دس روپیہ قیمت ہوئی تو ایک لاکھ روپیہ ہو گیا.تم سالانہ چندوں میں اٹھارہ بیس لاکھ اپنی خوشی سے دیتے ہو.اب اگر ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے ایک لاکھ روپیہ سالانہ دے کر اس کو بیچنا شروع کریں تو یقیناً دو چار سال میں ہی چھپیں، تیس، چالیس ہزار وہ اپنی آمد خود پیدا کر لے گا.اور یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی لاگت کم ہو جائے کیونکہ پرچہ جب زیادہ چھپے تو اُس کی لاگت کم ہو جاتی ہے.اس وقت اِس کی لاگت دس روپے ہے.اگر یہ دس ہزار چھپے تو میں سمجھتا ہوں کہ آٹھ سات روپے ہو جائے گی اور ستر پچھتر ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو گا.اور یہ دس ہزار پرچہ دنیا کی تمام لائبریریوں میں جانا شروع کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ سال دو سال کے اندر تہلکہ پڑ جائے گا.فرقان چوتھا پرچہ ” فرقان“ ہے.فرقان میں اس امر کو مد نظر رکھا جاتا ہے کہ علمی مضامین اس کے اندر آئیں اور جماعت اسلامی والے جو نئی نئی باتیں پیش کرتے ہیں یا "طلوع اسلام " والے پیش کرتے ہیں یا اہل قرآن یا بہائی پیش کرتے ہیں اُن کا جواب دیا جائے.گویا جتنی نئی مذہبی تحریکیں ہیں اُن نئی مذہبی تحریکوں کے جواب کے لئے یہ رسالہ خصوصیت سے وقف ہے.دوسرے اخبار یا رسالے ایسا نہیں کر سکتے.الفضل یہ نہیں کر سکتا کیونکہ الفضل روزانہ اخبار ہے.روزانہ اخبار ان باتوں میں

Page 36

انوار العلوم جلد 25 12 سیر روحانی (8) نہیں پڑ سکتا.ریویو بھی اس کو نہیں لے سکتا کیونکہ ریویو غیر ملکوں میں جانے والا رسالہ ہے.اس کا اصل کام اسلامی نقطہ نظر سے لوگوں کو روشناس کرانا ہے اور چونکہ غیر ملکوں میں اس نے جانا ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس میں جماعت اسلامی پر بحث کریں یا طلوع اسلام پر بحث کریں.امریکہ کو یا جاپان کو یا سوئٹزرلینڈ کو یا آسٹریلیا کو یا نیوزی لینڈ کو یا انگلینڈ کو " طلوع اسلام " والوں سے یا جماعت اسلامی سے کوئی دلچسپی نہیں.وہ ان کی کوئی حقیقت ہی نہیں جانتے.وہ ہمیں جانتے ہیں یا اسلام کے نام کو جانتے ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں جانتے.اُن لوگوں کے سامنے خواہ مخواہ ان کے مضامین کو لانے کی کیا ضرورت ہے اِس لئے ریویو بھی ہمارے اس کام نہیں آسکتا.پھر یہ ایک ایسا پرچہ ہے جو اردو میں نکلتا ہے اور اِس میں اس قسم کے مضامین نکلنے سے یقیناً فائدہ ہوتا ہے کیونکہ یہ مضامین زیادہ تر پاکستان میں زیر بحث آتے ہیں اور پاکستان میں ایسے لوگ ہیں جن کو ان سے دلچسپی ہے.خالد علاوہ اس کے خدام الاحمدیہ کا پرچہ "خالد" ہے.وہ ایک خاص جماعت کا پرچہ ہے.میں ساری جماعت کو تو نہیں کہتا.اس جماعت کو کہتا ہوں کہ تم اپنے اندر بیداری پیدا کرنے کے لئے اور اپنے مرکز سے یعنی خدام کے مرکزی دفتر سے وابستگی دنیوی اخبار رکھنے کے لئے "خالد" کی اشاعت اپنے حلقہ میں وسیع کرنے کی کوشش کرو.پھر ہر جماعت کے لئے کوئی نہ کوئی دنیوی اخبار بھی چاہئے.میں نے پچھلی دفعہ بھی کہا تھا کہ بعض اخبار ایسے ہیں جو ہمارے ساتھ انصاف کا معاملہ کرتے ہیں، بعض ایسے ہیں کہ جن کے ذریعہ سے ہمارا نقطہ نگاہ پہنچ جاتا ہے.وہ گو ہمارے ساتھ شامل نہیں ہیں لیکن ہمارے میانہ روی کے جو خیالات ہیں ان سے وہ متفق ہیں.اسی طرح بعض اخبارات ایسے ہیں کہ جن کے ساتھ ایسے لوگوں کا تعلق ہے کہ جو ہمارے خیالات سے بالکل متفق ہیں گو وہ دنیوی اخبار ہیں.تو ہمیں چاہئے کہ بہر حال ایسے اخبار خریدیں.کیونکہ اگر ہم ان کو نہ خریدیں گے، دشمن کے اخباروں کو خریدیں گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ہم دشمن کو پیسہ دیتے ہیں کہ وہ ہمارے خلاف پروپیگنڈا کرے

Page 37

انوار العلوم جلد 25 13 سیر روحانی (8) مثلاً ایک شخص نے دنیوی اخبار خریدنا ہے وہ اگر "سول" خریدے "ملت" خریدے المصلح" خریدے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کے پیسہ کے ذریعہ ایسے خیالات کی اشاعت ہو گی جن میں میانہ روی پائی جائے گی، جن میں امن پسندی پائی جائے گی، جن میں حکومت کے ساتھ تعاون پایا جائے گا.لیکن اگر وہ " تسنیم " خرید ناشروع کر دیں یا اور ایسے ہی اخبار خرید نے شروع کر دیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ اس روپیہ کے ساتھ گورنمنٹ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے ، اسلامی جمہوریت کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے ، جماعت احمدیہ کے خلاف مضمون لکھے جائیں گے.تو کیا فائدہ ہے ایسے پرچہ کو روپیہ دینے کا جس کے ذریعہ سے ہمارا ملک کمزور ہو ، ہماری حکومت کمزور ہو ، ہم خود کمزور ہوں.یہ تو اول درجہ کی حماقت ہے.اگر کوئی احمدی ایسا کرتا ہے اور وہ کہتا ہے مجھے وہ پرچہ زیادہ دلچسپ نظر آتا ہے تو ہم بھی اُس کو یہ کہنے پر مجبور ہوں گے کہ ہمیں بھی تمہاری حماقت بڑی دلچسپ نظر آتی ہے.تمہاری مثال بالکل وہی ہے جیسا کہ چیتا اپنی زبان چاٹ چاٹ کر کھا گیا تھا.تم زبان کے چسکے لیتے رہو اور اپنی موت کے وارنٹ پر دستخط کرتے رہو.تم اگر ایسے احمق ہو گئے ہو تو تمہاری نجات کا کون ذمہ دار ہو سکتا ہے تم تو اپنی ہلاکت کو آپ چاہتے ہو.المصلح خریدیں پس جو دنیوی اخبار لینا چاہیں اور لازما لیے پڑتے ہیں اس کے لئے میں دوستوں کو کہوں گا کہ جس علاقہ میں "المصلح " جاتا ہے وہ "المصلح" خرید ہیں.مثلا سندھ کا علاقہ ہے ، اسی طرح ملتان تک کا علاقہ ہے ان کو چاہیے کہ اس کی خریداری کریں.وہ نہایت عمدگی سے خبریں دیتے ہیں.کبھی کبھی کمزوری بھی آ جاتی ہے کیونکہ وہ زیادہ منظم اخبار نہیں ہے.نہ اتنی طاقت والا ہے کہ اس کے بہت سارے ایڈیٹر ہوں.لیکن عام طور پر میں نے دیکھا ہے کہ وہ خبروں میں قریباً ادھر کے اخبارات کے برابر برابر پہنچ جاتا ہے اور کراچی اور حیدر آباد اور کوئٹہ وغیرہ میں تو یقیناًوہ "سول" اور "الفضل" وغیرہ سے بہت پہلے خبریں دے گا.اسی طرح "سول" ہے "ملت" ہے " لاہور" ہے جو ہفتہ واری ہے.جنہوں نے ہفتہ واری خرید نا ہو وہ خواہ مخواہ

Page 38

انوار العلوم جلد 25 14 سیر روحانی (8) ایسا پرچہ کیوں خریدیں جو حکومت اور ملت سے ٹکراتا ہو.ایسا پرچہ کیوں نہ خریدیں جو ملت سے بھی نہیں ٹکراتا، حکومت سے بھی نہیں ٹکراتا اور ہمارے ساتھ بھی نہیں ٹکراتا.اسی طرح لاہور اور پنجاب میں ڈیلی پرچہ اگر کسی نے خریدنا ہی ہے تو کیوں "سول" اور "ملت" خریدے جس کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں.ہماری پالیسی آخر ہماری پالیسی یہ ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے.اس کی بھی یہی پالیسی ہے کہ حکومت کے ساتھ تعاون کیا جائے.ہماری پالیسی یہ ہے کہ مسلمانوں میں سے افتراق کو دور کیا جائے اور ان کو ٹکڑے ہونے سے روکا جائے.یہی پالیسی "ملت" اور "سول" کی بھی ہے.اگر وہ ہماری اس پالیسی کے ساتھ متفق ہیں.چاہے وہ ہماری جماعت کے نہیں، چاہے وہ ہمارے ساتھ اتفاق نہیں رکھتے لیکن اگر اُن کا زاویہ نگاہ ہمارے ساتھ اس وقت متفق ہو گیا ہے (کل کو مخالف ہو جائیں گے تو پھر دیکھا جائے گا) تو ہم کیوں نہ دوسروں کے مقابل پر ان کو ترجیح دیں.میں سارے اخبار نہیں پڑھتا اور بھی کئی اخبار ہوں گے جو کہ اس طرح ہمارے ساتھ متفق ہوں.ہو سکتا ہے کہ وہ شیعوں کے اخبار ہوں.میں نے ایک شیعہ کا اخبار ایک دو دفعہ پڑھا ہے وہ بھی بڑا معقول پالیسی کا تھا اور اُس میں بھی اتحاد اور اتفاق اور ملک میں امن قائم کرنے والے مضامین تھے.تو یہ میں مثالیں دیتا ہوں.ہو سکتا ہے کہ تمہارے علم میں کوئی اور اخبار ہو جو کہ ملک کے لئے مفید ہو ، ہمارے لئے بھی مفید ہو مضر نہ ہو اور ہماری خواہ مخواہ مخالفت نہ کرتا ہو.پس ایسے اخباروں کو خرید و تا کہ روپیہ اُن لوگوں کی جیبوں میں جائے جو تمہارا گلا کاٹنے کی فکر میں نہ ہوں." (الفضل 12 جنوری 1955ء) کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی "ایک بات میں کل یہ کمپنی چاہتا تھا کہ جماعت اور باتوں میں تو بڑی بڑی ہوشیاریاں دکھاتی ہے اور بڑی اپنی عقل مندی پر فخر کرتی ہے اور اپنے کام کو لوگوں کے سامنے پیش کرتی ہے لیکن کبھی جماعت نے یہ بھی غور کیا کہ جماعت کے معنی ہوتے ہیں مرکز کے.کوئی جماعت بغیر مرکز کے نہیں ہو سکتی.اور مرکز کے

Page 39

انوار العلوم جلد 25 15 سیر روحانی (8) معنی ہوتے ہیں وہ کارکن جو اس کو چلا رہے ہیں.میں نے مدت سے آپ لوگوں کو توجہ دلائی ہے.کبھی آپ نے دیکھا بھی کہ آپ کا مرکز ہے کیا؟ مرکز جماعت دو حصوں میں تقسیم.ظاہری اور قانونی طور پر ایک مذہبی حصہ ہے اس کا ہیڈ خلیفہ ہے.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ تم میں سے کسی کی رائے خلافت کے کام کے متعلق کیا ہو.پر یہ میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کا دفاع کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہوں.اور دوسرا حصہ اس کا انتظامی ہے.اس کا تعلق صدر انجمن احمدیہ سے ہے اور وہ مجموعہ ہے کچھ ناظر وں کا.اگر وہ ناظر کسی کام کے ہوں تو کام چلتا رہے گا.اگر وہ ناظر کسی کام کے نہ ہوں تو وہ کام خراب ہو جائے گا.میں یہ غلطی دیکھتا ہوں جماعت میں کہ وہی پرانی پیر پرستی اب تک چلی آرہی ہے.ہم نے پیر پرستی کو دور بھی کیا، لوگوں کو آزاد بھی کیا مگر پھر بھی وہ ایسی حاوی ہے کہ وہ جو پیر پرست نہیں وہ اُن پر بھی حاوی ہے اور جو پیر پرست ہیں وہ ان پر بھی حاوی ہے.پیر پرستوں پر تو ایسی حاوی ہے کہ لوگ مجھے ملنے آتے ہیں، سلام کرتے ہیں تو کئی سامنے سر جھکا دیتے ہیں.وہ بیچارے تو سجدہ نہیں سمجھتے لیکن سر جھکا دیتے ہیں.اور پیر پرستی پیر پرستی کے مخالفوں پر بھی اتنی حاوی ہے کہ کئی لوگ آتے ہیں وہ بیچارے ہاتھ پکڑ کر اس کو چومنا چاہتے ہیں تو پاس بیٹھا ہوا آدمی کہتا ہے نہیں نہیں سجدہ منع ہے.اُس کے دماغ پر پیر پرستی اتنی حاوی ہوتی ہے کہ سجدہ ملاقات کرنے والے کے وہم میں بھی نہیں ہوتا اور یہ صاحب یو نہی ہاتھ بڑھا کر کہتے ہیں کہ نہیں نہیں یہ منع ہے حالانکہ وہ ممنوع کام کر ہی نہیں رہا ہو تا.رسما دعا کیلئے کہتا اسی طرح یہ عادت پڑگئی ہے کہ جو شخص دوسرے کو ملتا ہے کہتا ہے جی دعا کریں اور در حقیقت اُس کے دل میں دعا کا جوش اتنا ہوتا ہی نہیں نہ اس کا مطلب ہوتا ہے کہ دعا کریں.یہ رواج اتنا ہو گیا ہے کہ کئی غیر احمدی جن کی کبھی میں نے شکل بھی نہیں دیکھی.فرض کرو وہ کبھی ملنے آئے اور بات شروع ہو گئی.انہوں نے کہا پہلے میں یہ ہوتا تھا.فرض کرو وہ ای.اے.سی تھا.

Page 40

انوار العلوم جلد 25 16 سیر روحانی (8) جب وہ مجھے بھی ملا تھایا میں نے سنا تھا تو میں نے کہا سنا ہے آپ ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں.کہیں گے ہاں آپ کی دعا کے طفیل ڈپٹی کمشنر ہو گئے ہیں.بندہ خدا! نہ تم نے میری شکل دیکھی ، نہ میں نے تمہارا نام سنا، نہ میں نے کبھی تمہارے لئے دعا کی، میری دعا کے طفیل تم کہاں ڈپٹی کمشنر بن گئے.تو صرف عادت پڑی ہوئی ہے.کوئی تعلق ہی نہیں ہو تا اور کہہ دیتے ہیں دعا کریں اور کہہ دیتے ہیں آپ کی دعا کے طفیل یہ ہوا.حالانکہ نہ دعا اُس نے کروائی نہ اِس نے کی صرف ایسا کہنا ایک عادت ہے.تو عادت کے طور پر بعض خیالات لوگوں پر غالب آ جاتے ہیں اور وہ ان کے ماتحت چلتے ہیں.مثلاً کوئی بزرگ ہوں وہ کہیں گے سب کچھ تمہارے ہی اختیار میں ہے.کوئی معاملہ ہو احمدی میرے پاس آجائیں گے اور مجھ سے وہ کام کرنے کا مطالبہ کریں گے.مثلاً آئیں گے اور کہیں گے میر الڑ کا داخل ہونا ہے.میں جواب دوں گا کہ ہیڈ ماسٹر سے کہیں مگر وہ جھٹ بولیں گے نہیں جی آپ کے اختیار میں ہے.آپ نے ہی جو کرنا ہے کرنا ہے.گویا ہیڈ ماسٹر بھی میں ہوں.اسی طرح کوئی کلرک ہے تو میرے پاس آ جاتا ہے.میں پوچھتا ہوں کیا ہے؟ کہتا ہے نظارت سے کہیں مجھے کلرک لے لیں.میں جواب دیتا ہوں آپ انجمن سے کہیں وہ تمہارا انٹرویو کرے گی پھر وہ مختلف امید واروں میں سے کسی کا انتخاب کرے گی.مگر اُس کا اصرار ہو گا کہ حضور ! حکم دے دیں سب کچھ آپ کا ہے.انجمن کے ساتھ کوئی مالی جھگڑا ہو تو اُن کو میں کہتا ہوں جاؤ ناظروں سے فیصلہ کرو.کہیں گے نہیں جی سب چیز آپ کے ہاتھ میں ہے ناظروں کا کیا تعلق ہے.غرض وہ سارے کے سارے کاموں میں مجھے یہ سمجھتے ہیں کہ یہ گویا قادر الکل ہے.شاید خدا تعالیٰ کو بھی اتنا قادر نہیں سمجھتے جتناوہ مجھے سمجھتے ہیں اور یہ ہٹ آج تک قائم ہے.کہہ کہہ کر تھک گئے.میاں یہ معاملات جن کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اُسی سے جاکر کہو لیکن وہ بھی کہیں گے کہ خلیفہ ہی سب کچھ کرے اور پھر یہ مرض بڑھتی چلی جاتی ہے.پہلے تو یہ تھے کہ بچوں کا نام خلیفہ سے رکھوانا ہے.ہم ان کے بھرے 2 میں آگئے اور نام رکھنے شروع کر دیئے.پھر انہوں نے آگے قدم اٹھایا اور اذان دلوانے، نکاح پڑھوانے، بسم اللہ

Page 41

انوار العلوم جلد 25 17 سیر روحانی (8) کروانے کی خواہش کی.کوئی ایک دو ہوں تو انسان یہ کام کرے در جنوں اور سینکڑوں کی اِس خواہش کو کس طرح پورا کرے.اِس کے بعد اور ترقی ہوئی تو یہ درخواست شروع ہوئی کہ مکان کا نام رکھ دیں، دکان کا نام رکھ دیں.پھر اس سے ترقی کی اور سکول کالج والوں نے ہر کھیل میں شمولیت کی درخواست شروع کر دی کہ برکت ہو گی.ہر دعوتِ ولیمہ اور دعوت خوشی میں مدعو کرنا شروع کر دیا.کوئی نہیں سوچتا کہ ایک خلیفہ تو یہ سارے کام بھی نہیں کر سکتا.سلسلہ کے متعلق کام تو الگ رہے، تصانیف اور دفتری کام تو الگ رہے سر کہتے چلے جاؤ کوئی اس بات کو نہیں مانتا.یہ عادت دور ہونی چاہئے.آپ لوگوں کو اپنے دماغوں کی تربیت کرنی چاہیئے.ایک آدمی ایک آدمی کا ہی کام کر سکتا ہے.یہ بے شک ہو سکتا ہے کہ ایک آدمی میں کام کی قابلیت دوسروں سے زیادہ ہو.تم اس سے یہ امید تو کر سکتے ہو کہ وہ عام آدمی سے زیادہ کام کر سکتا ہے مگر یہ نہیں کہ ایک آدمی سے انسانی طاقت سے زیادہ کام کی امید کرو.اس سے زیادہ اگر آپ لوگ امید کریں گے تو نتیجہ یہ ہو گا کہ یا آپ کو ٹھو کر لگے گی یاوہ مرے گا.جس کے سر پر اتنا بوجھ ڈالو گے جس کو وہ اٹھا نہیں سکتا وہ آخر ختم ہو جائے گا اور یا یہ ہے کہ آپ کو ٹھو کر لگے گی.ہر شخص اگر آکر بیٹھ جائے کہ یہ میرا کام ہو جائے، یہ میراکام ہو جائے تو نتیجہ اِس کا یہی نکلے گا کہ وہ ایک دن گرے گا اور ختم ہو جائے گا.تو یہ امید مت کریں کہ آپ کے دنیوی انتظام بھی خلیفہ کرے اور آپ کے دینی انتظام بھی خلیفہ کرے.دنیوی کاموں کے لئے آپ کو بہر حال انجمن پر انحصار کرنا پڑے گا.یہ بے شک ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں.جب لوگوں نے اعتراض کیا ہم نے کہا نہیں انجمن خلیفہ کے تابع ہے پس یہ ٹھیک ہے کہ وہ خلیفہ کے تابع ہیں لیکن اس لحاظ سے وہ تابع ہیں کہ آپ لوگ جو چندہ دیتے ہیں میرے مرید ہیں.ورنہ میں انجمن کا ممبر نہیں.مجھے انجمن پر قانونی کوئی اختیار نہیں.پر مجھ سے ڈر کر اگر انجمن میری بات مانتی ہے تو باپ کی بیٹے مانا ہی کرتے ہیں.وہ یہ جانتے ہیں کہ اگر اُنہوں نے میری بات نہ مانی (یعنی میں جب دخل دوں اور وہ نہ مانیں) تو میں اپنے مریدوں سے کہوں گا کہ ان کو چندہ نہ دو.دیکھو تو اُسی دن انجمن سیدھی ہو

Page 42

انوار العلوم جلد 25 18 سیر روحانی (8) جاتی ہے کہ نہیں.لیکن جہاں تک انتظام اور قانون کا سوال ہے میرا کوئی دخل نہیں.وہ انہی کو کرنا پڑے گا.اور یہ جو بات ہے کہ میں کہوں چندہ روک دو یہ تو کسی اہم بات پر کروں گا.یہ تو نہیں کہ فلاں کلرک کی ترقی نہیں کی چندہ روک دو.لوگ مجھے کیا سمجھیں گے.آخر وہ ایسا ہی کام ہو گا جس کو میں دنیا کے سامنے دھڑلے سے پیش کر سکوں کہ یہ اسلام کو تباہ کرنے لگے تھے اس لئے میں نے روک دیا.ورنہ اگر لوگوں کو یہ نظر آئے گا کہ نہایت ہی ذلیل اور حقیر بات کے اوپر میں نے انہیں دھمکی دی ہے اور میں نے ان کو کہا ہے کہ میں اپنی جماعت کو کہتا ہوں کہ چندہ نہ دو تو سارے مجھے بے وقوف سمجھیں گے اور ان کے ساتھ ہمدردی کریں گے.قانونی سوال تو جہاں تک قانونی سوال ہے اور جہاں تک دنیوی اختیارات کا سوال ہے انجمن نے کام کرنا ہے.اگر انجمن صحیح ہاتھوں میں نہیں ہو گی تو آپ کا کام یقیناً خراب ہو گا.لیکن اِس وقت انجمن کے عہدے دیکھو.ناظر اعلیٰ، پنشنر.ناظر امور عامہ، پنشنر.ناظر تعلیم ، پنشنز.ناظر دعوۃ و تبلیغ ، پینشنر.ناظر بیت المال، پنشنر.ناظر امور خارجہ ، پنشنز.یہ تمہارے چھ عہدے ہیں اور چھ پر ہی پنشنرز ہیں.ایک عہدے کو تو ابھی انہوں نے تنگ آکر چھوڑا ہے.خانصاحب یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.کام کرنے کا ان کے اندر جوش تھا.فالج ان کی ایک سائیڈ پر گرا ہوا ہے.اب دوسرے ہاتھ پر بھی ہوا ہے دو آدمیوں کے سہارے اُن کو پکڑے پکڑے کرسی پر آکر بیٹھتے تھے اور اسی طرح جاتے تھے.بھلا اس طرح کوئی کام ہو سکتا ہے؟ مجھ سے ملنے آتے تھے تو ان کی اس تکلیف کو دیکھ کر مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی اور میں ہمیشہ انہیں کہتا کہ آپ نیچے آکر اطلاع دے دیا کریں بلکہ بہتر ہے اپنے نائب کو میرے پاس بھیج دیا کریں مگر وہ اپنے شوق میں آجاتے تھے.لیکن مجھے ان سے بات کرنا ایک مصیبت معلوم ہو تا تھا.دل میں خیال آتا تھا کہ کتنی تکلیف اٹھا کر یہ کام کرتے ہیں.تم کہو گے کیوں رکھا ہوا ہے ایسے آدمی کو ؟ میں پوچھوں گا کہ کون سے آدمی تم نے مجھے دیئے ہیں کہ میں اُن کو رکھتا ؟ آخر یہ تو نہیں کہ

Page 43

انوار العلوم جلد 25 19 سیر روحانی (8) میں نے مٹی سے آدمی بنانے ہیں اور عیسی علیہ السلام کی طرح ان کے ناک میں پھونکنا ہے تو وہ زندہ ہو کر آدمی بن جائیں گے.بہر حال عیسی علیہ السلام خدا کے نبی تھے.ان کے متعلق بھی یہی کہا جاتا ہے کہ چمگادڑ بناتے تھے.تو چمگادڑوں نے تو نظار تیں کرنی نہیں.اگر عیسی علیہ السلام والی خیالی اور وہمی طاقت بھی مجھے مل جائے تو میں چمگادڑ ہی بناؤں گا آدمی نہیں بناؤں گا اور چمگادڑوں نے تمہارا کیا کام کرنا ہے.آدمی تو تم ہی نے دینے ہیں لیکن یہاں تو یہ حالت ہے کہ ہر کسے در کار خود با دین احمد کار نیست ہر شخص یہی کہتا ہے کہ میں باہر جاؤں گا اور ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ شاید اگلا پرائم منسٹر میں نے ہی یہاں ہونا ہے یا اگلا گورنر جنرل میں نے ہی ہونا ہے.یا شاید بعض لوگ دل میں یہ غصہ رکھتے ہوں کہ ہمارے گورنر جنرل استعفی کیوں نہیں دیتے تا کہ میرا موقع آئے ، ہمارا پرائم منسٹر الگ کیوں نہیں ہوتا کہ میں آگے آؤں.چاہے وہ ساری عمر ہیڈ کلرک بننے کے بھی قابل نہ رہا ہو لیکن امید یہی وہ کرتا ہے کہ میں ملک کا وزیر اعظم بنوں گا اور میں ملک کا گورنر جنرل بنوں گا اور میں کمانڈر انچیف بنوں گا.اور اگر میں یہاں گیا تو زیادہ سے زیادہ مجھے تین چار سو مل جائے گا یہ کون سی بات ہے.اور اگر اس طرح نوجوان پیچھے ہٹیں گے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ کبھی تمہاری جماعت کی تنظیم ہو ہی نہیں سکتی.یہ بڑھے کب تک کام چلائیں گے.پھر اگر بڈھوں نے ہی آنا ہے تو یہ بڑھے جائیں گے تو ایک اور بڑھا آجائے گا.ممکن ہے ساٹھ سال والے کو ہم نکالیں تو چھیاسٹھ سال والا آجائے.چھیاسٹھ والا نکا لیں تو ستر والا آ جائے.ستر والا نکالیں تو اسی والا آجائے.پھر یہ ہو کہ روزانہ بازار میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ناظر صاحب نے دفتر جانا ہے ذرا چار آدمی چار پائی اٹھانے کے لئے چاہئیں.انہوں نے دفتر جا کر کام کرنا ہے.جب تک نوجوان آگے نہیں آئیں گے یہ کام کس طرح ہو گا.یہی حال وکالتوں کا ہے.وکالتوں میں ذرا حالت نسبتاً اچھی ہے.وکیل الا علیٰ پنشنز ہیں.وکیل المال بھی پنشنز ہیں لیکن باقی وکالتیں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہیں.لیکن اب وہاں بھی دقت ہو رہی ہے کہ وقف کرنے والوں کی تعداد کم

Page 44

انوار العلوم جلد 25 20 سیر روحانی (8) ہوتی جارہی ہے.جلسہ پر بہت سے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ تو حضور ہی کا بچہ ہے ہم نے وقف کیا ہے.مگر میں کیا خوش ہو تا جتنے وقف شدہ بچے میرے سامنے پیش ہوئے چار چار سال کے تھے.تو کون پچیس سال تک زندہ رہے اور ان کا انتظار کرے کہ یہ آکر کام سنبھالیں گے.پچیس سال کے بعد تو وہ کام کے قابل ہوں گے پھر کم سے کم بیس سال ان کو تجربہ کے لئے چاہییں.آدمی پنتالیس سال میں ہی جا کر مکمل بن سکتا ہے.کسی شاعر نے کہا ہے.کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک ان لوگوں کے وکیل بننے کے قابل ہونے تک کس نے زندہ رہنا ہے اور کس نے ان کا کام دیکھنا ہے.تو جماعت کو چاہیے کہ اس طرف توجہ کرے.ایک تو یہ کہ وہ اپنے اندر احساس پیدا کرے.اب تک کبھی جماعت نے احساس نہیں کیا کہ آخر ہم اتنا روپیہ جو خرچ کرتے ہیں ان سے پوچھیں تو سہی کہ یہ کام کیا کرتے ہیں.کام سوائے خط و کتابت کے اور کوئی نہیں ہوتا.ابھی میں نے اختر صاحب کو رکھا ہے ایک نیا نام ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے.دیکھئے وہ بیل منڈھے چڑھتی ہے کہ نہیں.ناظر الديوان ان کا عہدہ مقرر کیا گیا ہے یعنی وہ ناظروں کے کام کو چیک کریں گے.ان کو میں نے کہا ذرا معائنہ کرو اور دیکھو کہ نظارت امور عامہ کیوں بنائی گئی تھی؟ اور آیا جس غرض کے لئے امور عامہ کی نظارت بنائی گئی تھی اس کا کوئی کام انہوں نے کیا؟ نظارت اعلیٰ کیوں بنائی گئی تھی؟ نظارت اعلیٰ کے فرائض میں سے ہے کہ ساری نظار توں کو چیک کرے اور ہر مہینے ہر نظارت کا وہ معائنہ کرے.لیکن واقع یہ ہے ہر تیسرے مہینے چیک کرنا تو بڑی بات ہے ہر سال میں بھی اگر ثابت ہو جائے، ہر دو سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر پانچ سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے، ہر دس سال کے بعد بھی ثابت ہو جائے تو سجدہ شکر بجالاؤ.کیونکہ میرا علم یہ ہے کہ پچھلے چالیس سال میں انہوں نے کبھی کوئی معائنہ نہیں کیا.جہاں افسروں کا یہ حال ہو کہ وہ معائنہ ہی نہیں کرتے اپنے ماتحت دفتروں کا، تو ماتحت دفتر کہہ دیتے ہیں " تور اشنان سو موراشنان".وہ اگلے کو کہہ دیتا ہے.تور اشنان سو موراشنان".آخر ہوتے ہوتے کلر کوں تک بات آجاتی ہے.باقی سارے

Page 45

انوار العلوم جلد 25 21 سیر روحانی (8) کے سارے افیون کھا کر سوتے ہیں اور تم بڑے خوش ہو کہ ہم نے خلیفہ جو مان لیا ہے.بس جو خلیفہ مان لیا اب وہی کرے.خلیفہ انسان ہے آخر کیا چیز ہے.کون سی صورت ہے اس کے لئے کہ وہ ہر ایک معاملہ میں دخل دے اور ہر ایک معاملہ میں سوچے.پھر دوسرے یہ کہ اس کا دخل دینا مناسب بھی نہیں.ہر دنیوی کام میں اگر وہ دخل دینے لگ جائے تو پھر قوم میں جو تربیت اور تنظیم پیدا ہوتی ہے وہ ختم ہو جائے.کیونکہ ہم یہ تو امید نہیں کر سکتے کہ ہمیشہ ہی تم کو ایسے خلفاء ملتے رہیں گے جو تنظیمی قابلیت بھی اپنے اندر رکھتے ہوں.ہو سکتا ہے کہ ایک وقت میں محض مذہبی حیثیت کا آدمی تمہیں مل جائے کیونکہ یہی اُس کا اصل کام ہے تو پھر اگر تم نے ایک عہدہ دار پر انحصار رکھنا ہے اور عہدہ دار بھی ایسا جس کو ہٹانے کا بھی تم کو اختیار نہیں تو پھر تو تمہارا بیڑا غرق ہوا کیونکہ ایسے آدمی پر تم نے کام کا انحصار رکھا جس کو تم ہٹا سکتے نہیں اور یہ کام اس کا ہے نہیں اور سمجھ تم یہ رہے ہو کہ وہ کرے اور وہ کر سکتا نہیں.تو پھر اس سے زیادہ تمہاری تباہی کی یقینی خبر اور کیا ہو گی.پس نو جوانوں کو چاہیے کہ وہ ادھر آنے کی کوشش کریں اور کم سے کم جب تک نئے نہ آئیں اُس وقت تک پینشنز ہی آتے رہیں.پچپن سال پر پنشن مل جاتی ہے اور چار پانچ سال سلسلہ کی خدمت کر لیں.ایک بات میں بھول گیا تھا.وہ اختر صاحب نے شکر ہے یاد دلا دی.یہ بات میں نے اُن کے ذمہ لگائی تھی اور اُن کو کہا تھا کہ تقریر کے وقت یاد دلا دیں.شکر ہے انہوں نے تقریر ختم ہونے سے پہلے یاد دلا دیا.انہوں نے جب سنا کہ میں ناظر الدیوان ہوں تو انہوں نے خیال کیا کہ یہ کام مجھے کر دینا چاہیئے.میں نے پچھلے سال تحریک کی تھی کہ لوگ اپنی زائد آمد پیدا کر کے سلسلہ کے لئے دیں تاکہ ان پر بھی بوجھ نہ ہو اور سلسلہ کی مشکلات جو تبلیغ اسلام کی ہیں وہ دور ہوں اور ان میں امداد ملے.ایک دوست عبد العزیز صاحب مغل پورہ گنج کے ہیں.انہوں نے تیس روپے کل مجھے دیئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ میں نے آپ کے اُس کہنے کے مطابق زائد کام کر کے آمد پیدا کی ہے جو میں چندہ کے طور یر پیش کرتا ہوں.

Page 46

انوار العلوم جلد 25 22 سیر روحانی (8) ایک اور دوست نے اسی طرح کہا ہے کہ آپ نے زائد کام کر کے آمد پیدا کرنے کے لئے کہا تھا.میں نے اس کے لئے زائد کام کیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے 95 روپے ملے ہیں.وہ 95 روپے میں سلسلہ کی خدمت کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے پیش کرتا ہوں.میں نے چونکہ خواب میں دیکھا تھا کہ میں آپ کو خود دے رہا ہوں اس لئے میں یہ رقم پیش کرتا ہوں.محمد خان ولد چودھری نواب خان صاحب منصور آباد ضلع تھر پا کر.جلسہ میں کوئی چالیس ہزار آدمی بیٹھا تھا.اس میں سے چلو دو کو تو تو فیق مل گئی ممکن ہے بعض اور نے بھی روپے بھیجے ہوں لیکن مشکل یہ ہے کہ میں زیادہ ملامت بھی نہیں کر سکتا.میں سارا سال یہی سوچتا رہا ہوں لیکن مجھے کوئی زائد کام کرنا سمجھ میں نہیں آیا.کئی کئی طریق سوچے.کبھی یہ سوچا کہ کوئی دوائی اپنے ہاتھ سے کوٹ کاٹ کے بنائیں اور اس کا اشتہار دے دیں.کبھی کوئی اور تجویز سوچی بہر حال اب تک کسی چیز پر تسلی نہیں ہوئی مگر میں بھی سوچ رہا ہوں کہ کوئی نہ کوئی کام ایسا کروں جس سے زائد آمد پیدا ہو.اب میں حسب دستور سابق ایک علمی مضمون جس کو پہلے سے میں نے شروع کیا ہوا ہے اُس کا ایک حصہ آج بیان کرتا ہوں.یہ میرا سیر روحانی“ کا مضمون ہے.اس کے تین لیکچر شائع ہو گئے ہیں اور آپ لوگوں میں سے بعض نے وہ کتاب خریدی ہو گی اور دیکھ لی ہو گی.دوسری جلد اس کی انشاء اللہ اگلے سال میں شائع ہو جائے گی.ہاں یہ بھی میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ قرآن شریف کی انگریزی تفسیر کا اگلا حصہ چھپ رہا ہے.اس کا خلاصہ مضمون نکال کر میں ان کو ترجمہ کرنے کے لئے دے رہا ہوں.اور غالباً اگر اللہ تعالی توفیق دے گا تو میں اگلے سال کے شروع میں اس کو ختم کر دوں گا پھر وہ میرے پہلے نوٹ نکال کر نوٹ لکھ دیں گے اور اگلے سال انشاء اللہ تعالی تیسری جلد اس کی شائع ہو جائے گی.اردو کی جلد بھی جو آخری سپارہ کی باقی ہے انشاء اللہ تعالیٰ شروع سال میں شائع ہو جائے گی".(الفضل 16 جنوری 1955ء)

Page 47

انوار العلوم جلد 25 23 عالم روحانی کے دفاتر سیر روحانی (8) "1938ء کے سفر حیدر آباد اور دہلی میں میں نے جو تاریخی مقامات دیکھے اُن میں مسلمان بادشاہوں کے دفاتر بھی شامل تھے مجھے بعض عمارتیں دکھائی گئیں اور کہا گیا کہ یہ قلعہ کے شاہی دفاتر ہیں.دنیوی دفاتر کا نظام اور اُس کی غرض و غایت این دفاتر پر ایک سیکرٹری اور وزیر مقرر ہو تا تھا.باہر کے تمام صوبیدار اور ان کے ماتحت افسر اور قاضی وغیرہ بادشاہ کے پاس اپنی رپورٹیں بھجواتے تھے اور اس دفتر میں اُن کا ریکارڈر کھا جاتا تھا.چنانچہ بادشاہ کو جب ضرورت پیش آتی تھی وہ ریکارڈ اُس کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور وہ اُن سے فائدہ اُٹھا کر اپنے احکام جاری کر تا تھا.مثلاً جس قدر بڑے بڑے چور، ڈاکو اور فریبی تھے اُن کے متعلق ڈائریاں جاتی تھیں کہ فلاں شخص مشہور چور ہے، فلاں شخص مشہور ڈاکو ہے، فلاں شخص مشہور مفسد ہے ، فلاں شخص بڑا خائن ہے ، فلاں شخص بڑا جعلساز ہے، اور جب اُن کو پکڑا جاتا تھا تو ان ڈائریوں کو مد نظر رکھتے ہوئے بادشاہ اُن کے متعلق کوئی فیصلہ کرتا تھا اور وہ ڈائریاں وہاں ریکارڈ کے طور پر رکھی جاتی تھیں.اسی طرح جب وہاں سے نیچے احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً فلاں ڈاکو کی مزید نگرانی کرو اور اُس کے متعلق مزید ثبوت بہم پہنچاؤ یا اس کو فلاں سزا دے دو یا کسی کے اچھے کام کی ڈائری آئی تو محکم گیا کہ اس کی حوصلہ افزائی کرو یا اس کو فلاں انعام دے دو تو یہ ریکارڈ بھی وہاں رکھے جاتے تھے اور ان میں یہ درج کیا جاتا تھا کہ فلاں فلاں کے نام یہ حکم نافذ کیا گیا ہے.رعایا کی سزاؤں اور ترقیات کے احکام کا اندراج غرض ان دفاتر میں لوگوں کے اعمالنا مے ہوتے تھے ان اعمالناموں پر بادشاہ جو کارروائی کرتا تھا وہ ریکارڈ ہوتی تھی، جو

Page 48

انوار العلوم جلد 25 24 سیر روحانی (8) سزائیں دیتا تھا اُن کے احکام درج ہوتے تھے.اسی طرح جو سزاؤں کی تجویز نچلے افسر کرتے تھے وہ درج ہوتی تھی اور جو انعامات کی سفارشیں نیچے سے آتی تھیں وہ ریکارڈ ہوتی تھیں.پھر اُن سفارشات کے مطابق بادشاہ کے جو احکام جاری ہوتے تھے کہ مثلاً اس کو ہیں ایکڑ زمین دے دو، اس کو ایک گاؤں دے دو، اس کو دس گاؤں دے دو، یہ سارے احکام اس میں درج ہوتے تھے.اسی طرح جو ترقیات کے احکام جاتے تھے یا خطابوں کے احکام جاتے تھے کہ اِس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے ، اُس کو فلاں خطاب دیا جاتا ہے وہ ان دفاتر میں لکھے جاتے تھے.غرض مُجرموں کی ڈائریاں اور مخلصوں کے کارنامے یہ سارے کے سارے وہاں جمع ہوتے تھے اور جب کسی شخص کو سزا دینے کا سوال پید اہو تا تھا تو اس کے پچھلے اعمالنا مے دیکھ لئے جاتے تھے کہ یہ کس سزا کا مستحق ہے.بعض دفعہ فعل ایک ہی ہوتا ہے لیکن ایک شخص اس کام کا عادی ہوتا ہے اور دوسرے شخص سے اتفاقی طور پر وہ فعل سر زد ہو جاتا ہے.جس سے اتفاقی حادثہ ہو جاتا ہے اس کو تو تھوڑی سزا دی جاتی ہے اور جو عادی مجرم ہوتا ہے اُس کو اس کے پچھلے جرائم کو مد نظر رکھتے ہوئے زیادہ سزا دی جاتی ہے.ر دنیوی حکومتوں میں مجرموں مگر میں نے دیکھا کہ یہ دفاتر جو بادشاہوں نے بنائے تھے ان میں گریز کی بھی بڑی کے لئے گریز کی متعد درا ہیں بڑی راہیں تھیں.اول تو یہ لوگ چوری چھپے کام کرتے تھے مثلاً ایک شخص قتل کرتا تھا یا چوری کرتا تھا اور ظاہر میں وہ بڑا شریف آدمی نظر آتا تھا.اب جو ڈائری نویس تھا اُس کو اس کے حالات معلوم ہونے بڑے مشکل تھے پس اختفاء سے کام لینے کی وجہ سے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیتا تھا.اسی طرح میں نے دیکھا کچھ لوگ ایسے بھی تھے کہ بات تو اُن کی ظاہر ہو گئی لیکن مبالغہ کے ساتھ ظاہر

Page 49

انوار العلوم جلد 25 25 سیر روحانی (8) ہوئی.انہوں نے مکھی ماری اور بن گیا کہ ہاتھی مارا ہے.اور پھر وہی رپورٹ اوپر چلی گئی کہ فلاں شخص سے یہ یہ جرائم ہوئے ہیں.اور بعض لوگوں کو میں نے دیکھا کہ وہ رشوتیں دے کر اچھے اچھے کام لکھوا دیتے تھے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے، فلاں کام کیا ہے لیکن اُن کے اِن کاموں کی کوئی خاص قدر نہیں ہوتی تھی.سوائے اس کے کہ بادشاہ کے دربار میں بڑی شہرت ہوتی تھی کہ اس نے فلاں کام کیا ہے.عالم روحانی کے ڈائری نویس اس کے مقابل پر میں نے قرآنی دفتر دیکھا تو اس میں میں نے یہ پایا کہ تھا تو وہ بھی اسی اور ان کا اعلیٰ درجہ کا نظام شکل میں منظم لیکن وہ ایسی صورت میں تھا کہ اُس میں کسی قسم کی بناوٹ یا کسی قسم کی غلط فہمی یا کسی قسم کا دھوکا یا کسی قسم کی سازش نہیں ہو سکتی تھی.چنانچہ قرآنی دفتر میں بھی میں نے دیکھا کہ وہاں ڈائریوں کا انتظام ہے.مگر ساتھ ہی یہ بھی تھا کہ وہاں جھوٹ کی آلائش بالکل نہیں تھی.چنانچہ میں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں لکھا ہوا تھا وَ اِنَّ عَلَيْكُمْ لَحفِظِينَ - كَرَامًا كَاتِبِينَ - يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ.3 یعنی تم پر ہماری طرف سے ڈائری نویس مقرر ہیں لیکن وہ ڈائری نویس حافظ ہیں.یعنی ان کا یہی کام نہیں کہ تمہارے جرائم لکھیں بلکہ یہ کام بھی اُن کے سپر د کیا گیا ہے کہ تمہیں جرائم کرنے سے روکیں.اُن کا یہی کام نہیں کہ تمہارے اچھے کاموں کا ریکارڈ کریں بلکہ یہ بھی کام ہے کہ تمہیں اچھے کاموں میں زیادہ کامیاب ہونے میں مدد دیں.کراما اور پھر یہ ڈائری نویس جو ہم نے مقرر کئے ہیں بڑے اعلیٰ درجہ کے اور اعلیٰ پایہ کے لوگ ہیں جو ہر قسم کی رشوت خوری سے بالا ہیں، سازش سے بالا ہیں، جھوٹ سے بالا ہیں، كَاتِبِینَ اور بڑے محتاط ہیں.وہ یہ نہیں کرتے کہ اپنے حافظہ میں بات رکھیں بلکہ جیسے آجکل سٹینو ہوتا ہے وہ سٹینو کی طرح ساتھ ساتھ لکھتے چلے جاتے ہیں اور اس لکھنے کی وجہ سے اُن کی بات میں غلطی کا امکان نہیں ہوتا.يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ.اور جو کچھ تم کرتے ہو اُس کو وہ جانتے بھی ہیں.

Page 50

انوار العلوم جلد 25 26 سیر روحانی (8) دنیوی اور روحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز غرض قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہمارے سلسلہ ء روحانیہ میں بھی ڈائری نویس ہیں لیکن وہ عام ڈائری نویسوں کی طرح جیسا کہ دنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے غریب نہیں ہوتے ، چھوٹی تنخواہوں والے نہیں ہوتے کہ اُن کو رشوت خوری کی ضرورت ہو بلکہ اعلیٰ پایہ کے لوگ ہوتے ہیں وہ اعلیٰ اخلاق کے مالک ہوتے ہیں.ان کو نہ کوئی خوشامد سے منا سکتا ہے، نہ رشوت دے سکتا ہے، نہ کسی کی کوئی دشمنی اس بات کا موجب ہو سکتی ہے کہ وہ غلط رپورٹ کریں بلکہ اُن کی ہر ایک رپورٹ اور ہر ایک کام سیچ کے ساتھ ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ وہ بڑے دیانتدار ہیں، بڑے بچے ہیں، بڑے راستباز ہیں، وہ اتنے محتاط ہیں کہ صرف اپنے حافظہ پر بات نہیں رکھتے جو بڑا مکمل حافظہ ہے بلکہ وہ ساتھ ساتھ لکھتے بھی چلے جاتے ہیں گویا اس احتیاط کو وہ دوگنی کر لیتے ہیں.دنیا میں ڈائریاں لکھنے کا غلط طریق دنیا میں ہم دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ دنیوی ڈائری نو سپس کئی قسم کی غلطیاں کر جاتے ہیں کیونکہ وہ ہر وقت ساتھ نہیں رہتے.مثلاً تمام گور کمنٹیں پولیس مقرر کرتی ہیں مگر جتنی بڑی سے بڑی منظم گور کمنٹیں ہیں وہ اتنے ڈائری نویس مقرر نہیں کر سکتیں کہ ہر آدمی کے ساتھ ساتھ ڈائری نویس پھرے.اگر ملک کے سپاہیوں کی تعداد دیکھی جائے اور ادھر آدمیوں کی تعداد د یکھی جائے تو ہمیں نظر آئے گا کہ اگر ایک کروڑ آدمی ہے تو شاید پولیس تین چار ہزار ہو اور وہ تین چار ہزار بھی سارے ڈائری نویس ہی نہیں ہونگے بلکہ اُن میں سے اکثر وہ ہونگے جن کا کوئی اور کام مقرر ہو گا.مثلاً یہ کہ رستوں کی حفاظت کرنی ہے یا انہیں کسی جگہ پر ریز رور کھا ہوا ہو گا.کوئی جھگڑایا فساد ہوا تو وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں.سٹینو اور ڈائریاں لکھنے والے میرے خیال میں سارے صوبہ میں جس کی دو تین کروڑ آبادی ہو دو تین سو ہی نکلیں گے.اب اگر دو تین کروڑ کی آبادی میں ایک کروڑ پر سو آدمی ہے.یا فرض کر لو ایک کروڑ پر ہزار بھی آدمی ہے تب بھی دس ہزار آدمیوں پر ایک ہوا.اور دس ہزار آدمی پر جو ایک شخص مقرر ہے وہ ہر ایک کا نامہ اعمال نہیں لکھ سکتا

Page 51

انوار العلوم جلد 25 27 سیر روحانی (8) نہ وہ ہر ایک آدمی کے عمل کی تحقیقات کر سکتا ہے.لازمی بات ہے کہ کچھ لوگ تو یونہی ان کی نظروں سے نچھپ جائیں گے اور جو لوگ اُن کی نظروں کے نیچے آئیں گے اُن سب کے متعلق بھی وہ صحیح تحقیقات نہیں کر سکتے.کچھ کے متعلق تو وہ صحیح تحقیقات کریں گے اور کچھ کے متعلق وہ سُنی سنائی باتوں پر ہی کفایت کر لیں گے.اعتبار ہو گا کہ فلاں آدمی بڑا سچا ہے ، اُس نے کہا ہے تو ٹھیک ہی بات ہو گی اس لئے وہ مجبور ہوتے ہیں کہ جو بات اُن تک پہنچے اُس پر اعتبار کر لیں.مختلف حکومتوں کا طریق کار دنیا کی تمام گورنمنٹوں میں امریکہ میں بھی، انگلینڈ میں بھی، یورپ میں بھی، ایشیا میں بھی غرض سارے ملکوں میں دیکھا جاتا ہے اُن کی کتابوں کو ہم پڑھتے ہیں تو اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اُن کا عام قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ کسی گاؤں میں گئے اور پوچھا کہ یہاں کون کون آدمی رہتے ہیں؟ کوئی نمبر دار مل گیا تو اُس سے پوچھا کہ یہاں کونسا اچھا آدمی ہے کو نسائر اہے اور اُس کی کیا شہرت ہے ؟ اب ممکن ہے وہ شخص چند آدمیوں کا دشمن ہو اور ممکن ہے کہ چند آدمیوں کا دوست ہو.ہم نے دیکھا ہے ایک آدمی سے پوچھو تو وہ کچھ آدمیوں کی تعریف کر دیتا ہے اور دوسرے آدمیوں سے پوچھو تو وہ اُن کی مذمت کر دیتے ہیں.غرض اِس طرح کی باتیں سُن کر لازما وہ مجبور ہوتا ہے کہ اُن باتوں کو لے اور دوسروں کو پہنچا دے.اسی طرح ہم نے دیکھا ہے بعض دفعہ عورتوں سے پوچھ لیتے ہیں، ملازموں سے پوچھ لیتے ہیں، ہمسایوں سے پوچھ لیتے ہیں اور اس طرح اپنی ڈائری مکمل کر لیتے ہیں.اس میں بہت سی باتیں سچی بھی ہوتی ہیں اور بہت سی باتیں غلط بھی ہوتی ہیں.روحانی ڈائری نویس يَعْلَمُونَ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ہم نے جو یہ ڈائری نویس مقرر مَا تَفْعَلُونَ کا مصداق ہوتے ہیں! کئے ہیں یہ کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے بلکہ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ جو کچھ تم کرتے ہو وہاں تک اُن کو اپروچ (APPROACH) حاصل ہے اُن کو پہنچ حاصل ہے اور تم جو بھی کام کرتے ہو اُن کی نظر کے نیچے ہوتا ہے.پس وہ 199191

Page 52

انوار العلوم جلد 25 28 سیر روحانی (8) اپنی دیکھی ہوئی بات لکھتے ہیں کسی سے پوچھ کر نہیں لکھتے.اس لئے نہ تو لالچ کی وجہ سے کوئی نوکر جھوٹ بول سکتا ہے، نہ بیوقوفی کی وجہ سے کوئی بچہ غلط خبر دے سکتا ہے، نہ دشمنی کی وجہ سے کوئی ہمسایہ فریب کر سکتا ہے اُن کی اپنی دیکھی ہوئی بات ہوتی ہے جو صحیح ہوتی ہے.ایک عرائض نویس کا لطیفہ ہم نے دیکھا ہے دنیوی ڈائریوں میں بعض دفعہ لطیف میں ایسی ایسی غلطی ہو جاتی ہے کہ لطیفے بن جاتے ہیں.مجھے یاد ہے گورداسپور میں ایک صاحب عرائض نویس ہوا کرتے تھے.میں بھی اُن سے ملا ہوں.اُن کے اندر یہ عادت تھی کہ جب کوئی شخص اُن سے ملتا اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کر مصافحہ کرتا تو وہ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور بجائے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہنے کے ایڑی پر کھڑے ہو کر اللهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ کہنا شروع کر دیتے.یوں آدمی نمازی اور دیندار تھے.ان کے متعلق یہ لطیفہ مشہور ہوا کہ ایک دفعہ اتفاقا ڈ پٹی کمشنر کے دفتر سے کچھ مسلیں غائب ہو گئیں.کوئی صاحب غرض ہو گا یا کوئی شرارتی ہو گا یا کسی نے افسر کو دُکھ پہنچانا ہو گا اب تحقیقات کے لئے پولیس کو مقرر کیا گیا کہ پتہ لو مسلیں کہاں گئیں؟ انہوں نے تحقیقات کر کے خبر دی کہ ہم نے پتہ لے لیا ہے اگر گور نمنٹ اجازت دے تو ہم اس پر کارروائی کریں.چنانچہ ڈپٹی کمشنر نے یا جو بھی مجسٹریٹ مقرر تھا اُس نے اجازت دے دی اور وہی شخص جو مصافحہ کرتے ہوئے اللَّهُ أَكْبَرُ، اللَّهُ أَكْبَرُ کہا کرتا تھا پولیس نے اُس کے گھر پر چھاپا مارا اور بہت سے کاغذات اُٹھا کر لے گئی اور سمجھا کہ مسلیں پکڑی گئیں.چنانچہ انہوں نے فوراوہ مسلیں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں پہنچادیں کیونکہ انہیں فوری کام کرنے کا حکم تھا اُن کو دیکھنے کا بھی موقع نہیں ملا کہ ان کاغذات میں ہے کیا، سید ھے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے.اب جو اُس نے مسلیں اٹھا ئیں تو ایک کے اوپر لکھا ہو ا تھا "نمک مسل" ایک کے اوپر لکھا ہوا تھا " مرچ کی مسل" ایک پر لکھا ہوا تھا " ہلدی کی مسل".ایک پر لکھا ہوا تھا " آٹے کی مسل".ایک پر لکھا ہوا تھا "شکر کی مسل ".اب سب حیران کہ شکر اور آٹے کی مسلوں سے کیا مطلب ہے ؟ آخر کھول کر دیکھا تو پتہ لگا کہ وہ

Page 53

انوار العلوم جلد 25 29 سیر روحانی (8) بیچارہ خبطی تو تھا ہی، روز جب عدالت میں کام کرتا تھا تو دیکھتا تھا کہ مجسٹریٹ بیٹھا ہوا ہے اور کہتا ہے اہلمد ! مسل پیش کرے اور پھر ایک مسل آجاتی.اُس کو بھی شوق آتا مگر وہ حیثیت تو تھی نہیں، دل میں خواہش ہوتی کہ کاش! میں ڈپٹی کمشنر ہوتا اور میرے سامنے مسلیں پیش ہو تیں.یا میں ای.اے.سی ہوتا تو میرے سامنے مسلیں پیش ہو تیں.آخر انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی کو محکم دیا کہ آئندہ میں گھر کا خرچ نہیں دونگا جب تک ہر ایک چیز کی مسل نہ بناؤ اور پھر وہ مسل میرے سامنے پیش کیا کرو.اب نمک خرچ ہو چکا ہے، بیوی کہتی ہے کہ نمک چاہئے.اور وہ کہتے ہیں نہیں، پہلے مسل پیش کرو.اس کے لئے رات کا وقت مقرر تھا.چنانچہ نو بجے تک جب انہوں نے سمجھنا کہ ہمسائے سو گئے ہیں تو انہوں نے بیٹھ جانا اور بیوی کو کہنا کہ اچھا اہلمدہ ! نمک کی مسل پیش کرو.اب اس نے نمک کی مسل پیش کرنی اور انہوں نے اس میں لکھنا کہ دو آنے کا نمک آیا تھا جو فلاں تاریخ سے فلاں تاریخ تک چلا ہے.اس کے بعد "حضور والا مدار ! اور منظوری دیں." اور پھر اُس نے لکھنا کہ نمک کے لئے دو آنے کی اور منظوری دی جاتی ہے.غرض وہ سارے کا سارا اُس بیچارے کے گھر کا بہی کھاتہ تھا جو در حقیقت اُس کا ایک تمسخر تھا.اب بات کیا ہوئی ؟ بات یہ ہوئی کہ پولیس آخر انسان ہے اُس کو غیب کا علم تو ہے نہیں وہ یہی کرتے ہیں کہ اِدھر اُدھر سے کنسوئیاں 4 لیتے ہیں کہ کسی طرح بات کا پتہ چلے.وہ سارے شہر میں جو پھرے تو ہمسایوں نے کہا کہ اس کے گھر سے رات کو مسل مسل کی آواز آیا کرتی ہے.چنانچہ انہوں نے اُس کو پکڑ لیا.پہلے ایک ہمسایہ نے گواہی دی، پھر دوسرے نے دی، پھر تیسرے نے دی.غرض کئی گواہ مل گئے جنہوں نے تصدیق کی کہ روزانہ آدھی رات ہوتی ہے یا دس گیارہ بجتے ہیں تو یہاں سے آواز آنی شروع ہوتی ہے کہ مسل مسل! پس مسلیں اسی کے گھر میں ہیں.چنانچہ چھاپہ مارا گیا اور اندر سے نمک اور مرچ اور ہلدی کی مسلیں نکل آئیں تو اس طرح غلطیاں لگ سکتی ہیں.بہر حال انہوں نے تدبیر اور شش سے بات دریافت کرنی ہوتی ہے ان کو غیب کا علم نہیں ہو تا.لیکن قرآن کریم کے جو ڈائری نویس ہیں اُن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ وہ ارد گرد

Page 54

انوار العلوم جلد 25 30 سیر روحانی (8) بلکہ ہر واقعہ کے اوپر کھڑے ہوتے ہیں اور ان کو پتہ ہوتا ہے کہ یہ بات یوں ہوئی ہے.ایک سابق گورنر پنجاب کا وائسرائے کے نام خط اسی طرح میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ پیش آیا.جب میں 1924ء میں انگلستان گیا تو وہاں سے واپسی پر بمبئی گورنمنٹ کے ایک افسر نے ایک چٹھی کی نقل مجھے بھیجی.وہ چٹھی گورنر پنجاب کی تھی اور تھی وائسرائے کے نام.اُس کو مختلف صوبوں میں سرکلیٹ (CIRCULATE) کیا گیا تھا کیونکہ بڑے بڑے اہم معاملات کو سرکلیٹ کیا جاتا ہے.وہ چٹھی اُس نے میرے پاس بھیجی کہ یہ آپ کی دلچسپی کا موجب ہو گی اسے آپ بھی پڑھ لیں.اس چٹھی کو میں نے پڑھا تو حیران رہ گیا.اُس چٹھی میں گورنر پنجاب سر میلکم ہیلی ( جو بعد میں لارڈ بن گئے) وائسرائے کو لکھ رہے تھے کہ مجھے آپ کی طرف سے چٹھی پہنچی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ امام جماعت احمد یہ جو انگلینڈ گئے تھے تو وہاں اُن کے تعلقات سوویٹ یونین کے بڑے بڑے افسروں سے تھے اور وہ اُن سے مل کر مشورے کرتے تھے اس لئے اُن کی نگرانی کی جائے اور دیکھا جائے کہ اُن کو سوویٹ یونین کے لوگوں سے کیا دلچسپی ہے اور سوویٹ یونین کا اُن کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اگر میں امام جماعت احمدیہ کا ذاتی واقف نہ ہو تا تو انگلستان کی سی آئی ڈی کی رپورٹ پر میں یقیناً اعتبار کرتا اور میں اس کو بڑی اہمیت دیتا لیکن میں ان کا ذاتی طور پر واقف ہوں وہ ایک مذہبی آدمی ہیں اور امن پسند آدمی ہیں.وہ سوویٹ یونین یا اس کے منصوبوں کے ساتھ دُور کا بھی تعلق نہیں رکھتے اس لئے اپنے ذاتی علم کی بناء پر میں آپ کو لکھتا ہوں کہ اس میں کسی کارروائی کی ضرورت نہیں.یہ غلط رپورٹ ہے اور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے.آگے انہوں نے خود لکھا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُن کو بغیر علم کے بعض سوویٹ یونین کے بڑے بڑے آدمی ملے ہیں.ہمارے آدمیوں کو چونکہ پتہ تھا کہ وہ سوویٹ یونین کے آدمی ہیں اس لئے انہوں نے سمجھا کہ اس میں کوئی بات ہو گی اور ان کو پتہ نہیں تھا.ان کو ملنے والے آکر ملے تو انہوں نے ملاقات کر لی اور اس لئے کہ باقی لوگ بھی غلطی میں مبتلاء نہ رہیں وائسرائے نے وہ چٹھی

Page 55

انوار العلوم جلد 25 31 سیر روحانی (8) گورنر بمبئی کو بھیجی.شاید آوروں کو بھی بھیجی ہو گی بہر حال ان کے ایک افسر نے مجھے اس کی نقل بھجوائی کہ چونکہ اس سے آپ کی بریت ہوتی ہے میں آپ کو اطلاع دیتا ہوں.سفر انگلستان سے واپسی پر جہاز اب میں نے سوچا کہ کیا واقعہ ہے تو مجھے یاد کے چیف انجینئر سے ملاقات آیا کہ جب ہم جہاز سے واپس آرہے تھے تو جہاز کا جو چیف انجینئر تھا اُس کی طرف سے مجھے پیغام ملا کہ میں آپ کو جہاز کا انجن وغیرہ دکھانا چاہتا ہوں اور یہ کہ جہاز کس طرح چلائے جاتے ہیں؟ ( بڑے بڑے جہازوں کے جو انجینئر ہوتے ہیں وہ بڑے رینک کے ہوتے ہیں بلکہ اُن کے کپتان بھی کرنیل رینک کے ہوتے ہیں.یہ پیغام جو مجھے ملا جہاز کے چیف انجینئر کی طرف سے تھا) میں نے اُس کو کہلا بھیجا کہ میں تو ایک مذہبی آدمی ہوں، میرا ان باتوں سے کیا واسطہ ہے ؟ میں نے سمجھا کہ شاید یہ مجھے کوئی راجہ مہاراجہ سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ یہ کبھی میرے کام آئیں گے تو خواہ مخواہ جو یہ تکلیف اُٹھا ئیگا تو اس کا کیا فائدہ ہو گا بعد میں اس کو مایوسی ہو گی پس میں کیوں اس کو مایوس کروں.چنانچہ میں نے کہا میں تو ایک فقیر آدمی ہوں، مذہبی امام ہوں مجھے ان باتوں سے کوئی تعلق نہیں ہے آپ کیوں تکلیف اُٹھاتے ہیں؟ اُس نے پھر یہی کہا کہ ٹھیک ہے آپ مذہبی آدمی ہیں لیکن میری یہ خواہش ہے آپ مجھے ممنون کریں اور ضرور جہاز دیکھیں.چنانچہ میں گیا.اُس نے بڑا انتظام کیا ہوا تھا اور سارے انجینئر جو اُس کے ماتحت تھے اپنی اپنی جگہوں پر کھڑے تھے.ایک ایک پرزہ اُس نے دکھایا اور بتایا کہ یوں جہاز چلتا ہے، اِس اِس طرح پاور پیدا ہوتی ہے اور اِس طرح وہ اُسے آگے کھینچتی ہے.غرض سارا جہاز اُس نے دکھایا.خیر ہم نے جہاز دیکھ لیا.میرے ساتھ بعض اور ساتھی بھی تھے جب ہم باہر نکلے تو میرے ساتھیوں میں سے ایک دوست نے مجھے کہا کہ انجینئر صاحب نے الگ ہو کر مجھے کہا ہے کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ آپ پرائیویٹ طور پر میرے کمرہ میں چل کر ذرا دو پیالی چائے میرے ساتھ پی لیں.میں نے پھر انکار کیا اور کہا ان کا میرے ساتھ تعلق ہے خواہ مخواہ کیوں ان کی مہمانی قبول کروں؟ مگر انہوں نے کہا بہت اصرار ذية

Page 56

انوار العلوم جلد 25 32 سیر روحانی (8) کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجھ پر بڑا احسان ہو گا آپ چائے پی لیں خیر وہ اکیلا ہی مجھے لے گیا اور باقی ساتھیوں کو ہم نے باہر چھوڑ دیا ہم کمرہ میں بیٹھے اور اُس نے چائے پلائی.چیف انجینئر کی غلط فہمی چائے پلانے کے بعد کہنے لگا میری ایک عرض بھی ہے.میں نے کہا فرمائیے.میں سمجھ گیا کہ اس کو کوئی کام ہی تھا.کہنے لگا میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ انگلینڈ کیوں گئے تھے ؟ میں نے کہا میں انگلینڈ یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی ترقی کے لئے وہاں کیا کیا مواقع ہیں اور ہمارا مشن تبلیغ میں کس حد تک کامیاب اور کن اسباب کے ساتھ کامیاب ہو سکتا ہے؟ ہنس کر کہنے لگا یہ تو ہو ئیں لوگوں سے کرنیوالی باتیں اصل وجہ مجھے بتائیے.میں نے کہا لوگوں سے اور تمہارے ساتھ باتیں کرنے میں کیا فرق ہے ؟ تم بھی لوگ ہو اور لوگ بھی لوگ ہیں اس میں میرے لئے فرق کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا نہیں نہیں.آپ مجھ پر اعتبار کریں میں کسی کو نہیں بتاتا.میں نے کہا میری بات ہی ایسی کوئی نہیں جو کسی کو بتانے والی نہ ہو تم نے بتانا کیا ہے؟ اس پر اُس نے پھر اصرار کیا کہ سچی بات مجھے بتا دیں.اس کے مقابل پر جب پھر میں نے اصرار کیا اور کہا کہ سوائے اِس بات کے اور کچھ بھی نہیں کہ میں تبلیغی میدان کے لئے راستہ کھولنے کے لئے گیا تھا اور یہ دیکھنے کے لئے گیا تھا کہ اسلام کی تبلیغ اِن ملکوں میں کس طرح ہو سکتی ہے تو پھر اُس نے بڑے افسوس سے کہا کہ میں کس طرح آپ کو یقین دلاؤں کہ میں کون آدمی ہوں.میکسیملین سے اپنے پھر کہنے لگا، سیکسیملیر 5 آپ نے (MAXIMILIAN) کا نام سنا ہوا ہے؟ رشتہ داری تعلقات کا اظہار میں نے کہاہاں میں نے سنا ہوا ہے وہ آسٹریلیا کا ایک شہزادہ تھا.میکسیکو میں فساد ہونے پر یورپ کی حکومتوں نے تجویز کی کہ اس ملک میں اگر ہم کسی کو بادشاہ مقرر کر دیں تو اس ملک کے فسادات دُور ہو جائیں گے.چنانچہ انہوں نے میلسیملین کے متعلق جو آسٹریلیا کے شاہی خاندان کا ایک شہزادہ تھا اور بڑا

Page 57

انوار العلوم جلد 25 33 سیر روحانی (8) سمجھدار اور عقلمند سمجھا جاتا تھا تجویز کیا کہ اس کو میکسیکو کا بادشاہ بنا دیا جائے.یہ جا کر انتظام کر لے گا.اُس وقت میکسیکو میں کوئی بادشاہ نہیں ہوتا تھا.اُس نے جاتے وقت اپنے اُن درباریوں میں سے جو شاہی درباری تھے ایک بڑا ہی قابلِ اعتبار آدمی ساتھ لے جانے کے لئے چنا اور کہا کہ یہ میر ا نا ئب ہو گا اور میری مدد کرے گا.غرض وہ میکسیکو میں گیا اور امریکہ، انگلینڈ اور فرانس وغیرہ کے دباؤ ڈالنے سے وہاں اس کی بادشاہت قائم کر دی گئی اور اُس نے کام شروع کر دیا لیکن امریکہ کے لوگ بادشاہوں کے عادی نہیں تھے.تھوڑے ہی دنوں میں وہاں بغاوت شروع ہو گئی اور بڑوں اور چھوٹوں سب نے مل کر کہا کہ ہم تو اس بادشاہ کو ماننے کے لئے تیار نہیں اور وہ سارے کے سارے مقابل میں اُٹھ کھڑے ہوئے آخر اُس کو ملک سے بھاگنا پڑا.جب وہ وہاں سے بھا گا تو سارے اُس کا ساتھ چھوڑ گئے.سوائے اُس درباری کے جس کو اُس نے اپنے ساتھ رکھا تھا.تاریخ گواہی دیتی ہے کہ اُس نے ایسے ایسے مصائب جھیلے اور ایسی ایسی مصیبتیں اُٹھائیں کہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن بڑی بڑی سخت تکلیفوں اور جان جوکھوں میں بھی اُس نے اُس کا ساتھ نہ چھوڑا.کہنے لگا آپ نے اُس کا حال پڑھا ہے ؟ میں نے کہا میں نام تو نہیں جانتا پر یہ میں نے پڑھا ہے کہ اُس کا ایک ساتھی اُس کے ساتھ گیا تھا اور وہ بڑ اوفادار تھا.کہنے لگائیں اُس کا پوتا ہوں.اب آپ سمجھ لیجئے کہ آپ مجھ پر کتنا اعتبار کر سکتے ہیں.میں نے کہا اعتبار تو جتنا چاہو کر الو پر بات ہی کوئی نہیں میں کیا کروں.چیف انجینئر کی مضحکہ خیز پیشکش کہنے لگا خیر پھر آپ نہیں کرتے تو میں تو کم از کم اپنی طرف سے پیشکش کر دیتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ گئے تو تھے انگریزوں کے خلاف منصوبہ کرنے کے لئے لیکن مشکل آپ کو یہ پیش آئے گی کہ آپ اپنے مبلغوں کو ہدایات کس طرح بھیجیں کیونکہ خط تو سنسر ہو جاتے ہیں اور اگر وہ پکڑے جائیں تو آپ کی ساری سکیم فیل ہو جاتی ہے اس لئے میں آپ کو یہ تجویز بتاتا ہوں کہ جب آپ نے ہدایتیں لکھ کر اپنے مبلغ کو بھیجنی ہوں تو میر اجہاز ہمیشہ فرانس جاتا رہتا ہے.میرے ذریعہ آپ اُسے ہدایت بھیجیں اُدھر

Page 58

انوار العلوم جلد 25 34 سیر روحانی (8) اپنے مبلغ کو لکھ دیں کہ جہاز پر آکر مجھ سے وہ لفافہ لے جائے.اسی طرح اُس نے آپ کو جو مخفی پیغام بھیجنا ہو وہ مجھے دے دے میں آپ کو پہنچا دیا کروں گا.پھر کہنے لگا آپ کو خیال پیدا ہو گا کہ وہ مجھ تک کس طرح پہنچے اور میں اُس کو کس طرح دوں ؟ اس پر کس طرح اعتبار کیا جا سکتا ہے ؟ اس کے لئے میں آپ کو ایک تجویز بتاتا ہوں.چنانچہ اُس نے اپنا ایک کارڈ نکالا.یہ وزٹنگ کارڈ کہلاتے ہیں جو یورپین لوگ ملتے وقت ایک دوسرے کو دکھاتے ہیں.اس پر اُس شخص کا نام لکھا ہوا ہو تا ہے اور اُس کا عہدہ وغیرہ درج ہوتا ہے جب کسی کو ملنا ہوتا ہے تو وہ کارڈ اندر بھجوا دیتے ہیں کہ فلاں افسر ملنے آیا ہے.غرض اُس نے اپنا وزٹنگ کارڈ نکالا اور اُس کو بیچ میں سے پکڑ کر دو ٹکڑے کر دیا.جب کارڈ کو دو ٹکڑے کیا جائے تو ہر کارڈ الگ شکل اختیار کر لیتا ہے.کوئی 1/1000 اینچ ادھر سے پھٹتا ہے کوئی 1/1000 اینچ اُدھر سے پھٹتا ہے.کوئی ذرا ادھر سے نیچا ہو جاتا ہے کوئی اُدھر سے نیچا ہو جاتا ہے اس طرح تھوڑا بہت فرق ضرور ہو جاتا ہے اور دونوں حصوں کو ملانے سے فوراً پتہ لگ جاتا ہے کہ یہ کار ڈاسی کا حصہ ہے کسی دوسرے کارڈ کے ساتھ وہ نہیں لگ سکتا.غرض اس کارڈ کو پھاڑ کر وہ کہنے لگا میں آپ کو اطلاع دونگا کہ میں فلاں تاریخ کو بمبئی پہنچ جاؤں گا آپ کا آدمی آئیگا اور وہ میرا نام لے کر کہے گا کہ فلاں چیف انجینئر صاحب ہیں؟ میں کہوں گا ہاں میں ہوں.پھر وہ میرے پاس آئے گا اور آکر مجھے کہے گا آپ کو امام جماعت احمدیہ نے خط بھیجا ہے.میں کہوں گا میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں.وہ کون ہیں میں تو بالکل اُن کا واقف نہیں.وہ کہے گا نہیں آپ اُن کے واقف ہیں.چنانچہ ایک کارڈ جو آپ نے براہ راست میرے پاس بھیجا ہو گا اس کا دوسرا ٹکڑا وہ اپنی جیب سے نکال کر کہے گا.یہ لیجئے میں اپنی جیب میں سے کارڈ نکال کر ملاؤ نگا جب وہ مل جائیں گے تو میں کہوں گا.ہاں ہاں میں جانتا ہوں کیا لائے ہو میرے لئے ؟ پھر وہ لفافہ مجھے دے دیگا.ادھر آپ ایک دوسر اکارڈ کاٹ کر میرے پاس بھیجدیں گے اور ایک اپنے انگلستان کے مبلغ کو بھیج دیں گے.جب میں فرانس یا اٹلی پہنچوں گا تو اُس کو خبر دونگا کہ ہمارا جہاز پہنچ گیا ہے یا فلاں تاریخ کو پہنچ جائے گا.

Page 59

انوار العلوم جلد 25 35 سیر روحانی (8) اور اُس کو آپ کی طرف سے ہدایت ہو گی کہ فلاں جہاز پر پہنچ جانا.وہ وہاں آئیگا اور آکر کہے گا کہ اس جہاز کا جو چیف انجینئر ہے وہ ہے؟ لوگ بتائیں گے کہ ہے.اس کے بعد میں جاؤں گا اور پوچھوں گا کون صاحب ہیں ؟ وہ کہیں گے میں جماعت احمدیہ کا مبلغ ہوں اور انگلینڈ سے آیا ہوں.میں کہوں گا میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں نہ کسی مبلغ کو جانتا ہوں.تم میرے پاس کیوں آئے ہو ؟ وہ کہے گا مجھے امام جماعت احمدیہ نے بھیجا ہے میں کہوں گا میں امام جماعت احمدیہ کو جانتا ہی نہیں.اس کے بعد وہ اپنی جیب میں سے کارڈ نکالے گا اور کہے گا کہ یہ کارڈ لیں.میں اپنی جیب سے کارڈ نکالوں گا اور دونوں کو ملاؤں گا.اگر وہ مل گئے تو میں کہوں گا ہاں ہاں یہ لفافہ تمہارے لئے ہے.اس طرح آپ کی خط و کتابت بڑی آسانی سے ہو جائے گی.میں نے کہا میں آپ کی اس پیشکش کا شکریہ ادا کر تاہوں اور آپ کی اس خیر خواہی کا ممنون ہوں.مگر افسوس ہے کہ میں یہ کام ہی نہیں کرتا تو اس سے کس طرح فائدہ اُٹھاؤں.کہنے لگا پھر سوچ لیجیے.جب آپ کو ضرورت ہو میں حاضر ہوں.پولیس والوں کی قیاسی رپورٹیں اس واقعہ سے مجھے خیال آیا کہ شاید وہی سوویٹ یونین کا نمائندہ ہو اور انہوں نے سمجھا ہو کہ شاید یہ جماعت بھی اِس قسم کے کام کرتی ہے ہم اسے اپنے ساتھ ملالیں.بہر حال یہ ایک چٹھی تھی جو آئی.اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ ڈائری نویں اپنی ڈائریاں کس طرح مرتب کیا کرتے ہیں.یہ لکھنے والے بد دیانت نہیں تھے، جھوٹے نہیں تھے ہمارے ساتھ ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی.بھلا انگلستان کے لوگوں کو یا فرانس کے لوگوں کو ہمارے ساتھ کیا دشمنی ہو سکتی ہے.انہوں نے محض قیاس کیا اور ایک شخص جس کے متعلق وہ جانتے تھے کہ وہ سوویٹ یونین کا بڑا آدمی ہے لیکن ہمیں پتہ نہیں تھا.وہ ہمیں ملنے آیا ہم نے سمجھا کہ ایک عام آدمی ہم سے مل رہا ہے اور انہوں نے فوراً نوٹ کیا کہ سوویٹ یونین کا کوئی نمائندہ ان سے ملا ہے اور اس کے اوپر انہوں نے قیاس کر لیا کہ اُن کے ساتھ ان کے تعلقات قائم ہیں.

Page 60

انوار العلوم جلد 25 36 سیر روحانی (8) اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ ڈائریوں میں کس طرح غلط فہمیاں ہو جاتی ہیں.لیکن قرآنی دفتر کے ڈائری نویس کسی سے سن کر ڈائری نہیں لکھتے بلکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے اُس کی حقیقت سے آپ واقف ہو کر لکھتے ہیں.ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی پھر ڈائری نویسوں میں سے بعض ایجنٹ پروو کیٹیئر (AGENT PROVOCATEUR) ہوتے ہیں یعنی اُن کو خدمت کا اور اپنی حکومت میں مشہور ہونے کا اور صلہ پانے کا شوق ہو تا ہے اور وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتے ہیں تاکہ اگلے کے منہ سے کچھ نکل جائے اور وہ اسے بالا افسروں تک پہنچا سکیں.مثلاً مجلس لگی ہوئی ہے اور لوگ بالکل ناتجربہ کار اور سیدھے سادے بیٹھے ہیں.ایک آدمی نے درمیان میں جان بوجھ کر بات شروع کر دی کہ گور نمنٹ بڑے ظلم کر رہی ہے.اب ایک ناواقف شخص نے بھی کسی پر سختی کا ذکر سنا ہوا تھا تو اس نے بھی کہہ دیا کہ ہاں جی میں نے بھی فلاں واقعہ سنا ہے.اُس نے جھٹ ڈائری لکھ لی کہ فلاں شخص کہہ رہا تھا کہ گورنمنٹ بڑا ظلم کر رہی ہے حالانکہ اس کا محترک وہ بنا تھا.ایسے لوگوں کو انگریزی میں ایجنٹ پروو کیٹیئر ( AGENT PROVOCATEUR) کہتے ہیں.یعنی دوسروں کو اُکسا کر وہ ان کے منہ سے ایسی باتیں نکلوادیتے ہیں جو قابل گرفت ہوتی ہیں.جب میر ٹھ کیس ہوا جس میں وائسرائے کے مارنے کی تجویز کی گئی تھی تو اس میں ایک پولیس افسر نے سارا کیس بنایا کہ فلاں کانگرسی کی سازش تھی، فلاں کانگرسی کی سازش تھی لیکن اتفاقا جب ساری مسل بالکل تیار ہو گئی تو کسی اور مجرم میں ایک آدمی پکڑا گیا اور اُس نے اقرار کر لیا.اُس وقت پتہ لگا کہ وہ سارے ہی اور لوگ تھے اور یہ سب کی سب جھوٹی کہانی بنائی گئی تھی.تب جا کر یہ حقیقت کھلی اور پھر اُس شخص کو سزا بھی ملی.سفر حج کا ایک واقعہ میں جب 1912ء میں حج کے لئے گیا تو وہاں بھی ہمارے ساتھ ایسا ہی واقعہ پیش آیا.میرے ساتھ پانچ آدمی اور بھی ہم سفر تھے.ان میں سے تین بڑی عمر کے تھے اور وہ تینوں ہی بیر سٹری کر رہے تھے.

Page 61

انوار العلوم جلد 25 37 سیر روحانی (8) ان میں سے ایک ہندو تھا جو اب ہندوستان چلا گیا ہے دو مسلمان تھے جن میں سے ایک فوت ہو چکا ہے اور ایک ملتان میں بیرسٹری کر رہا ہے.یہ تینوں روزانہ میرے ساتھ مذہبی اور سیاسی گفتگو کرتے تھے اور کہتے تھے کہ کانگرس کے ساتھ ملنا چاہئے مسلمانوں کی بہتری اور بھلائی اسی میں ہے.غرض خوب بخشیں ہوتی رہتی تھیں.جب ہمارا جہاز عدن پہنچا تو ہم اُتر کے عدن کی سیر کے لئے چلے گئے.میں بھی تھا اور وہ تینوں بیرسٹر بھی تھے اور وہ دو لڑکے بھی تھے جن میں سے ایک اس وقت ایجو کیشن کا ڈائر یکٹر ہے اُس وقت وہ بچہ تھا.بہر حال ہم سارے وہاں گئے.جس وقت ہم شہر میں داخل ہونے لگے تو ایک آدمی بالکل سادہ لباس میں ہمارے پاس آیا.اُس وقت ہم پنجابی میں باتیں کر رہے تھے اُس نے دیکھ لیا کہ پنجابی ہیں.چنانچہ آتے ہی کہنے لگا " آگئے ساڈے لالہ لاجپت رائے جی دے وطن دے خوش قسمت لوگ آگئے " اُس نے اتنا فقرہ ہی کہا تھا کہ انہوں نے اُس کو نہایت غلیظ گالیاں دینی شروع کر دیں.مجھے بڑی بد تہذ یہی معلوم ہوئی کہ اس بیچارے نے کہا ہے کہ تم وہاں سے آئے ہو اور انہوں نے گالیاں دینی شروع کر دی ہیں.خیر اس وقت تو میں چپ رہا جب ہم واپس آئے تو میں نے کہا کہ آپ لوگوں نے کوئی اچھے اخلاق نہیں دکھائے.کوئی مسافر آدمی تھا، پنجابی دیکھ کر اُسے شوق آیا کہ وہ بھی پنجابی میں باتیں کرے اور اُس نے آپ کو کہہ دیا کہ لالہ لاجپت رائے کے وطن کے لوگ آئے ہیں تو اس میں حرج کیا ہوا؟ وہ کہنے لگے آپ نہیں جانتے یہ پولیس مین تھا اور اُس کی غرض یہ تھی کہ ہم لالہ لاجپت رائے کی کچھ تعریف کریں اور یہ ہمارے خلاف ڈائری دے.اب پتہ نہیں یہ سچ تھا یا جھوٹ یا ان کے دل پر ایک وہم سوار تھا اور اس کی وجہ سے انہوں نے یہ کہا.بہر حال دنیا میں یہ کارروائیاں ہوتی ہیں.دیانتدار ڈائری نویسوں کو اپنی پھر میں نے یہ بھی سوچا کہ ان بادشاہوں کے دربار میں سچی ڈائریاں بھی جاتی تھیں.ڈائری کی تصدیق میں مشکلات آخر سارے پولیس مین تو جھوٹے نہیں ہوتے.بیچ میں جھوٹے بھی ہوتے ہیں اور سچے بھی ہوتے ہیں.بلکہ دنیا کی ہر قوم میں

Page 62

انوار العلوم جلد 25 38 سیر روحانی (8).جھوٹے اور سچے ہوتے ہیں تو بعض بیچارے بڑی دیانت داری سے ڈائری لکھتے تھے لیکن ان کی تصدیق مشکل ہو جاتی تھی.مثلاً وہ کہتا تھا کہ میں نے فلاں جگہ پر کان رکھ کے سنا تو اندر فلاں فلاں آدمی یہ باتیں کر رہے تھے.یا میں ریل کے ڈبہ میں بیٹھا تھا تو فلاں فلاں یہ باتیں کر رہے تھے.اب ہم کس طرح یقین لائیں کہ اُس نے سچ لکھا ہے.چاہے ایک ایک لفظ اُس نے سچ لکھا ہو.عام طور پر ڈائری نولیس کو یہ رعایت ہوتی ہے کہ کہتے ہیں یہ آفیشل ورشن ہے.آفیشل ورشن غلط نہیں ہو سکتا.مگر یہ دھینگا مشتی ہے پبلک ہر آفیشل ورشن کو غلط کہتی ہے.جب تنقید بڑھ جاتی ہے اور حکومت کے خلاف اعتراضات ملک میں زیادہ ہو جاتے ہیں تو پھر حکومت قرآن ہاتھ میں لے کر بھی کوئی بات کرے تو ملک والے کہتے ہیں ہم نہیں مانیں گے یہ غلط اور جھوٹ ہے.بیچارہ پولیس والا وضو کر کے اور نماز پڑھ کے ڈائری لکھے اور خدا کی قسم کھائے کہ ایک لفظ بھی میں جھوٹ نہیں بولوں گا تو پھر بھی جب لوگ اس ڈائری کو پڑھیں گے تو کہیں گے جھوٹ ہے اور ملک میں اس کے خلاف زبر دست پروپیگنڈا شروع ہو جاتا ہے اور پھر جمہوری حکومتوں میں چونکہ حکومتیں بدلتی رہتی ہیں پولیس بیچاری یہ بھی ڈرتی ہے کہ کل کو یہی آگے آگئے تو ہمارے لئے مصیبت ہو جائے گی.مگر فرماتا ہے کہ یہ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ڈائری نویس مقرر ہوتے ہیں ان کے لئے یہ خطرہ نہیں ہو تا.مجرموں کے انکار پر پولیس کا جھوٹے گواہ تیار کرنا سیدھی بات ہے کہ ، ڈائری عام طور پر مُجرموں کی لکھی جاتی ہے اور مجرم جو مجرم کرتا ہے وہ لوگوں کو دکھا کر تو کرتا نہیں، چوری چھپے کرتا ہے اور چوری میں اتفاقا ہی کوئی شخص دیکھ سکتا ہے، یہ تو نہیں کہ سارا ملک دیکھے گا یا سارا گاؤں دیکھے گا.اب فرض کر و اتفاقا کوئی پولیس مین وہاں آگیا اور اُس نے وہ بات دیکھ لی اور اُس نے رپورٹ کی کہ ایسا واقعہ ہوا ہے تو اب لا ز یا جب وہ شخص پکڑا جائے گا تو کہے گا بالکل جھوٹ ہے اس کو تو میرے ساتھ فلاں دشمنی تھی اس لئے میرے

Page 63

انوار العلوم جلد 25 39 سیر روحانی (8) ساتھ اس نے یہ سلوک کیا ہے میں نے تو یہ کام کیا ہی نہیں.اب اس کے لئے سوائے اِس کے کہ کوئی اور ایسے گواہ پیش کر دیئے جائیں یا بنالئے جائیں جن سے یہ واقعہ ثابت ہو اور کوئی صورت ہی نہیں.چنانچہ دنیا میں یہی ہوتا ہے واقعہ سچا ہوتا ہے اور اس کے لئے گواہ جھوٹے بنائے جاتے ہیں تا کہ اُس واقعہ کو ثابت کیا جائے.اتفاقاً ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں جن میں گواہ بھی سچے مل جاتے ہیں اور واقعات بھی سچے مل جاتے ہیں اور ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ واقعہ بھی جھوٹا ہوتا ہے اور گواہ بھی جھوٹے ہوتے ہیں بہر حال دونوں قسم کے کیس ہوتے رہتے ہیں.کبھی گواہ بھی جھوٹے اور واقعہ بھی جھوٹا، کبھی واقعہ سچا اور گواہ جھوٹے، کبھی واقعہ بھی سچا اور گواہ بھی سچے.مگر الہی سلسلہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہمارے جو ڈائری نویں ہیں ان میں یہ بات بالکل نہیں پائی جاتی.عالم روحانی میں مجرم کے لئے تا ہم نے گواہ پیش کئے جائیں گے اور کہا سامنے انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی جائے گا کہ انہوں نے تمہارا واقعہ لکھا یہ درست ہے کہ جس وقت اس کے ہے تو مُجرم لازما یہ کہے گا کہ صاحب! یہ غلط ہے.جیسے اس دنیا میں مجسٹریٹ کے سامنے جب پولیس ایک کیس پیش کرتی ہے تو مجرم کہتا ہے حضور ! یہ بالکل غلط ہے ، پولیس والے میرے دشمن ہیں اور انہوں نے خواہ مخواہ مجھ پر کیس چلا دیا ہے میں نے تو کوئی فعل کیا ہی نہیں.اس کے نتیجہ میں حج بھی شبہ میں پڑ جاتا ہے اور وہ بھی یہ دیکھتا ہے کہ آیا پولیس سچی ہے یا یہ سچا ہے.اور ادھر پبلک بھی شبہ میں پڑ جاتی ہے بلکہ پبلک کو عام ہمدردی لوگوں کے ساتھ ہوتی ہے، پولیس کے ساتھ نہیں ہوتی.چنانچہ پبلک بھی اور اخبار والے بھی طنز شروع کر دیتے ہیں کہ یو نہی آدمی کو دھر گھسیٹا ہے ، نہ اس نے مجرم کیا نہ کچھ کیا یو نہی اس کو دھر لیا گیا ہے.فرماتا ہے یہ امکان ہمارے ڈائری نویسوں کے خلاف بھی ہے.چنانچہ فرماتا ہے يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِيْنَ اَشْرَكُوا أَيْنَ شُرَكَا وَكُمُ الَّذِينَ كُنْتُهُ تَزْعُمُونَ - ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا وَاللهِ رَبَّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ.جب قیامت کے دن ہمارے سامنے وہ لوگ پیش ہونگے تو ہم مشرکوں سے کہیں گے کہ وہ کہاں ہیں :

Page 64

انوار العلوم جلد 25 40 سیر روحانی (8) جن کو تم میرا شریک قرار دیا کرتے تھے ؟ تو فرماتا ہے وہ ایک ہی جواب دیں گے، جیسے ہمیشہ مجرم جواب دیتے آئے ہیں کہ وَاللهِ رَبَّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ.اے ہمارے رب! تیرے سامنے ہم نے جھوٹ بولنا ہے؟ تو ہمارا خدا ہم تیرے بندے، تیرے سامنے تو ہم جھوٹ نہیں بول سکتے.مُجرم ہمیشہ ایسا ہی کیا کرتے ہیں کہ حضور کے سامنے جھوٹ بولنا ہے ؟ آپ کے سامنے تو ہم نے جھوٹ نہیں بولنا.سچی بات یہ ہے کہ ہم کبھی شرک کے قریب بھی نہیں گئے ، ہم نے کبھی شرک کیا ہی نہیں، یہ سب جھوٹ ہے اور یہ ڈائریاں یو نہی جھوٹی لکھتے رہے ہیں.اب یہ سمجھ لو کہ جس طرح یہاں پولیس سچی ڈائری دے اور مجسٹریٹ کے سامنے یہ سوال آجائے کہ پولیس جھوٹی ہے تو وہ بیچارے گھبر اجاتے ہیں کہ اب ہم کس طرح ثابت کریں.اسی طرح وہ ڈائری نویس بھی لازماً گھبر ائیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے تو اتنی محنت کر کے سچے سچے واقعات لکھے تھے اب انہوں نے اللہ میاں کے سامنے آکر کہہ دیا کہ صاحب! ہم نے آپ کے سامنے تو جھوٹ نہیں بولنا واقعہ یہ ہے کہ ہم نے کوئی شرک نہیں کیا.اور ملزم یہ سمجھ لے گا کہ بس میرے اِس حربہ کے ساتھ شکار ہو گیا.یا تو اللہ تعالیٰ اِس عذر کو قبول کرلے گا اور اگر سزاد یگا تو باقی سارے لوگ یہی کہیں گے کہ اس بے چارے کو یونہی جھوٹی سزا صرف ڈائری نویسوں کے کہنے پر مل گئی ہے ورنہ یہ مجرم کوئی نہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمارے ہاں کیا انتظام ہے.مجرموں کے خلاف ان کے ہمارے ہاں یہ انتظام ہے کہ حَتَّی اِذَا 99991 مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَبْعُهُمْ وَ کانوں، آنکھوں اور جلد کی شہادت اَبْصَارُهُمْ وَجُلُودُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 7 دنیا میں آج سے پہلے ڈائری نویس کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.ڈائری نویس ڈائری لکھتا تھا اور مجرم جا کر کہہ دیتے تھے کہ جھوٹی ہے.موجودہ زمانہ میں ریکارڈر کی ایجاد اب اس زمانہ میں ہزاروں سال یا جیالوجی (GEOLOGY) والوں کے بیان کے مطابق کروڑوں اربوں سال کے بعد وہ آلہ ایجاد ہوا ہے جس کو ریکارڈر

Page 65

انوار العلوم جلد 25 41 سیر روحانی (8) کہتے ہیں.طریق یہ ہے کہ اس کو کمرے میں چھپا کر کہیں رکھ دیا جاتا ہے اور پولیس کا کوئی نما ئنده یا پولیس کا افسر بھیس بدلے ہوئے اُس مُجرم سے باتیں شروع کر دیتا ہے اور وہ اس ریکارڈر میں سب لکھی جاتی ہیں.مثلاً اُس گفتگو میں وہ اُس کا ساتھی بن جاتا ہے اور کہتا ہے ارے میاں! تم چوری کرتے ہو تو مجھے بھی کچھ دو.میں بھی غریب آدمی ہوں، میرا بھی کوئی حصہ رکھو اور مجھے بھی کچھ دلاؤ.اِس پر وہ فخر کرناشروع کرتا ہے کہ ہاں ہاں میں نے فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا.فلاں جگہ چوری کی اور اس میں یہ مال لیا.آؤ تم ہماری پارٹی میں شامل ہو جاؤ بڑی دولت آتی ہے اور خوب آسانی سے مال کمائے جاتے ہیں.اب ہمارا ارادہ فلاں جگہ ڈا کہ مارنے کا ہے وہاں سے ہمیں اُمید ہے کہ دس لاکھ پونڈ ملے گا، تمہیں بھی دو چار سو پونڈ حصہ مل جائے گا.اب یہ ساری باتیں وہاں ریکارڈ ہو جاتی ہیں.اس کے بعد انہوں نے جاکر رپورٹ کی اور وہ پکڑے گئے.جب عدالت میں پہنچے تو اس نے حسب عادت یہ کہہ دیا کہ صاحب! یہ جھوٹ ہے.اس کے ساتھ میری دشمنی ہے.یہ مجھ سے دس پونڈر شوت مانگ رہا تھا میں نے نہیں دی اس لئے اس نے میرے خلاف یہ جھوٹی رپورٹ کر دی.مجسٹریٹ نے کہا لاؤ ثبوت.اُس نے کہا یہ ریکار ڈر ہے.چنانچہ ریکار ڈر پیش کیا گیا، اس میں مجرم کی آواز بند ہے، اُس کا لہجہ پہچانا جاتا ہے، اُس کی آواز پہچانی جاتی ہے، اُس میں یہ سارا ذکر آتا ہے کہ میں نے فلاں جگہ چوری کی، میں نے فلاں جگہ چوری کی، اب فلاں جگہ چوری کرونگا.غرض جو اُس نے ڈائری لکھی تھی وہ ساری کی ساری اس میں ریکارڈ ہوتی ہے.ریکارڈر کے استعمال میں کئی قسم کی دقتیں لیکن یہ ریکارڈر بہت شاد استعمال ہوتا ہے کیونکہ ایک تو اس کے لئے جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے اور اسے دوسروں سے چھپانا پڑتا ہے.پھر اس جگہ پر جانے کے لئے ملزم کو راضی کرنا پڑتا ہے.جو چور واقف کار ہوتے ہیں وہ جانے سے انکار کر دیتے ہیں.کہتے ہیں کہ ہم تو ہوٹل کے کمرہ میں جا کر نہیں بیٹھتے جو بات کرنی ہے میدان میں کرو اور میدان میں ریکار ڈر رکھا نہیں جا سکتا.پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ جو

Page 66

انوار العلوم جلد 25 42 سیر روحانی (8) زیادہ واقف ہوتے ہیں وہ ایسی مفلڈ وائس (MUFFLED VOICE) سے یعنی آواز کو اس طرح دبا کر بولتے ہیں کہ ریکار ڈ ہی نہ ہو.وہ سمجھ جاتے ہیں کہ یہ شخص کمرہ میں ریکارڈر لایا ہے اس لئے وہ آہستگی سے اس طرح باتیں کریں گے کہ ریکارڈ نہ ہوں اور پھر جیسا کہ ان کی تاریخ سے پتہ لگتا ہے کہ کبھی وہ ایسا کرتے ہیں کہ جس کمرہ میں وہ ملاقات مقرر کرتے ہیں اس میں وہ پہلے اپنا ساتھی بھیج دیتے ہیں کہ ذرا تلاشی لے آنا اس میں کہیں ریکارڈر تو نہیں رکھا ہوا.اگر ریکارڈر ہوتا ہے تو عین موقع پر وہ بہانہ بنا کر کھسک جاتے ہیں.کہہ دیا کہ اوہو! مجھے ضروری کام پیش آگیا ہے پھر بات کریں گے اور ان کی ساری محنت برباد ہو جاتی ہے.خدائی ڈکٹو فون پس اول تو ہر جگہ ریکارڈر رکھا نہیں جاسکتا پھر ریکارڈر رکھا بھی جائے تو اس سے بچنے کی صورت ہو جاتی ہے مگر یہاں فرماتا ہے کہ تمہارا ڈکٹو فون (DICTAPHONE) تو دنیا میں کئی لاکھ سال کے بعد کہیں ایجاد ہو گا اور ہمارا شروع سے ہی ڈکٹو فون موجود ہے.چنانچہ جس وقت فرشتے ڈائری پیش کریں گے اللہ تعالیٰ مجرم سے کہے گا دیکھو! تم نے یہ یہ گناہ کیا ہے.وہ کہے گا حضور ! بالکل جھوٹ.یہ ڈائری نویس تو بڑے کذاب ہوتے ہیں انہوں نے سارا جھوٹ لکھا ہے.نہ میں نے کبھی چوری کی نہ میں نے کبھی جھوٹ بولا.حضور ساری عمر سچ بولتے گزر گئی، ساری عمر لوگوں کا مال ان کو پہنچاتے ہوئے گزر گئی، شرک کے قریب نہیں گئے، میں تو لعنت ڈالتا ہوں سارے بتوں پر ، میں نے کب شرک کیا یہ تو جھوٹ بولتے ہیں.کفار پر اتمام حجت اللہ تعالیٰ کہے گا اچھالا ؤریکارڈر.ہم نے اپنے پاس ریکارڈر بھی رکھا ہوا ہے.چنانچہ فرماتا ہے حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَبْعُهُمْ.فرمائے گا، ٹھہر و! دوزخ میں داخل کرنے سے پہلے ہم اتمام محبت کر دیں.اے کا نو! بتاؤ تم کیا گواہی دیتے ہو ؟ اس پر فرشتوں نے الزام لگایا ہے کہ اس نے غیبت سنی تھی، تم کیا کہتے ہو ؟

Page 67

انوار العلوم جلد 25 43 سیر روحانی (8) کانوں کی گواہی اس پر یکدم وہ الہی روحانی شوئی کان کے پردوں پر رکھی گئی اور کان میں سے آواز آنی شروع ہوئی کہ فلاں دن فلاں شخص کی اس نے غیبت کی تھی اور کہا تھا کہ وہ بڑا بے ایمان ہے، بدمعاش ہے ، جھوٹا ہے، فریبی ہے.فلاں وقت ، فلاں گھڑی ، فلاں دن اور فلاں سال اس کے سامنے فلاں شخص نے آکر یہ کہا تھا کہ خدا ایک نہیں ہے خدا کے شریک بھی ہیں.اور اس نے کہا تھا کہ آپ ٹھیک فرماتے ہیں اور یہ بات ہم نے سنی.اسی طرح یہ ساری باتیں کہ فلاں کو گالیاں دی گئیں اور اس نے سنیں، فلاں کی چغلی کی گئی اور اس نے سنی، فلاں پر جھوٹا اتہام لگایا گیا اور اس نے سنا، فلاں شرک کیا گیا اور اس نے سنا، نبیوں کو گالی دی گئی اور اس نے سنی.غرض جتنار یکارڈ روزانہ کا تھاوہ سارے کا سارا اس کے کان سنا دیں گے.آنکھوں کی گواہی پھر فرمایا، و ابصارھم.پھر ہم اُن کی آنکھوں پر ریکارڈ کی سوئی رکھ دیں گے اور کہیں گے.بولو.وہ کہیں گی حضور ! فلاں دن فلاں عورت جارہی تھی اس نے اُس کو تاکا، فلاں دن فلاں شخص کو اس نے بڑے غصے سے دیکھا اور کہا میں اِس کو مار کے چھوڑوں گا.فلاں دن فلاں کام اِس نے کیا.غرض تمام کا تمام آنکھوں کاریکارڈ پیش ہو نا شروع ہو جائے گا.جلد کی گواہی پھر فرمایا اچھا بعض اور بھی لذت کے ذرائع ہیں.وَجُلُودُهُمْ ذرا اس کے چمڑے سے گواہی مانگو.چنانچہ چمڑے پر ریکارڈ رکھا گیا.اب چھڑا بولا کہ فلاں دن فلاں اچھی اور خوبصورت چیز تھی یا ملائم جسم والی عورت تھی اس نے اُسے چھوا.فلاں دن فلاں کا ایک بڑا نرم کوٹ تھا اس نے اُسے چھوا اور کہا میں یہ چراؤں گا.غرض چھونے کے ساتھ جتنے جرائم وابستہ تھے وہ سارے کے سارے اُس نے گنانے شروع کر دیئے اور بتایا کہ اِس اِس طرح اس نے کیا ہے.عمر بھر کا کچا چٹھا سامنے آجائے گا غرض وہ سارے نظارے جو نا جائز تھے تصویروں کی صورت میں سامنے آنے لگ گئے.وہ ساری باتیں جو نا جائز تھیں بیان کر دی گئیں کہ اس نے سنی تھیں

Page 68

انوار العلوم جلد 25 44 سیر روحانی (8) اور وہ لذت لمس جس کا حاصل کرنا اس کے لئے ناجائز تھاوہ بھی اس کے سامنے بیان کر دیا گیا.غرض عمر بھر کا کچا چٹھا سامنے آگیا.اسی طرح فرماتا ہے يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمُ الْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ 2 اُس دن ہم کچھ اور بھی گواہیاں لیں گے.زبانوں کی گواہی يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمُ الْسِنَتُهُمْ.اس دن ان کی زبانیں بھی گواہی دیں گی.زبان پر ریکارڈ کی سوئی رکھ دی جائیگی اور زبان بولنا شروع کرے گی کہ فلاں دن اس نے خدا کو گالی دی، فلاں دن نبیوں کو گالی دی، فلاں دن اپنے ہمسائے کو گالی دی.فلاں دن بیوی کو گالی دی، فلاں دن بیٹے کو گالی دی، فلاں دن فلاں کو گالی دی.فلاں دن حرام کا مال چکھا اور فلاں دن اس نے فلاں کام کیا یہ سارے کا سارا ریکار ڈ زبان بیان کرنا شروع کر دیگی.ہاتھوں کی گواہی وایدیھم.پھر ہاتھوں پر سُوئی رکھی جا ئیگی اور ہاتھ بولنا شروع کریں گے کہ فلاں دن فلاں کو مارا، فلاں دن فلاں کو مارا.فلاں دن اُن کا یوں مال اُٹھا یا غرض یہ سارے کام ہاتھ بیان کریں گے.یاؤں کی گواہی وَ اَرْجُلُهُمْ.پھر پیر بیان کرنے شروع کر دیں گے کہ فلاں دن رات کے وقت فلاں کے گھر سیندھ لگانے کے لئے یا فلاں مال اُٹھانے کے لئے یا اُس کو قتل کرنے کے لئے یا اور کوئی نقصان پہنچانے کے لئے گیا.غرض کانوں آنکھوں اور چمڑوں کے علاوہ زبانیں اور ہاتھ اور پاؤں بھی اپنے اپنے حصہ کے ریکار ڈسنا ئیں گے.ظاہر ہے کہ اس کے بعد کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے کہتے ہیں "گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے" جب اپنے ہاتھ گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنے پیر گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ یہ کچھ کیا تھا، اپنی آنکھیں گواہی دے رہی ہیں کہ ہم نے یہ کچھ کیا تھا، اپنے کان گواہی دے رہے ہیں کہ ہم نے یہ کچھ سنا تھا، اپنی زبان گواہی دے رہی ہے کہ ہم نے یہ کچھ کہا تھا اور یہ کچھ چکھا تھا تو اب وہ بیچارے پولیس مین

Page 69

انوار العلوم جلد 25 45 سیر روحانی (8) کو کس طرح کہیں گے کہ یہ جھوٹ بول رہا ہے.جو کچھ پولیس مین نے کہا تھا جب آنکھوں نے بھی اُس کے ساتھ گواہی دی، جب کانوں اور ہاتھوں وغیرہ نے بھی اس کے ساتھ گواہی دی تو ڈائری نویس کی جان میں جان آگئی اور اُس نے کہا کہ کروڑوں آدمیوں کے سامنے مجھے مجھوٹا بنایا گیا تھا اب میری براءت ہو گئی کہ اپنے ہاتھوں اور اپنے کانوں اور اپنی آنکھوں نے بھی اس کی گواہی دے دی اور میں شرمندہ اور ذلیل ہونے سے بچ گیا.دیکھو یہ ڈائری کتنی مکمل ڈائری ہے اس کے مقابل میں دنیا کی ڈائری کے جو انتظامات ہیں وہ کتنے ناقص ہیں.قرآن کی ڈائری سُبْحَانَ الله ! ایسی ڈائری پر تو کوئی شبہ کیا ہی نہیں جاسکتا.گواہی میں دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا؟ یہاں کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ دماغ کو کیوں شامل نہیں کیا گیا حالانکہ بہت سے گناہ تو دماغ سے ہوتے ہیں، ہاتھ پاؤں وغیر ہ ثانوی حیثیت رکھتے ہیں اور پھر بسا اوقات دماغی گناہ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے کرنے کا ہاتھ پاؤں کو موقع نہیں ملتا.تو اس کے متعلق یہ امر یا درکھنا چاہئے کہ اسلامی حکومت میں یہ قانون ہے کہ جو چیز دماغ میں آتی ہے لیکن اُس پر عمل نہیں کیا جاتا وہ بدی نہیں گئی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی بدی کا خیال کرتا ہے لیکن اس پر عمل نہیں کرتا تو اس کے نامہ اعمال میں وہ ایک نیکی کی صورت میں لکھی جاتی ہے.10 پس دماغ کو اس لئے شامل نہیں کیا کہ اگر تو ہاتھ دماغ کے مطابق عمل کر چکے ہیں تو ہاتھ کی بات بیان ہو چکی، اگر زبان دماغ کے مطابق عمل کر چکی ہے تو زبان کی بات بیان ہو چکی، اگر دماغ نے یہ کہا تھا کہ بدی کی بات سنو تو کان بیان کر چکے کہ اس نے فلاں بات سنی تھی، اگر دماغ نے کہا تھا کہ چوری کرو تو پیروں نے بتادیا کہ وہ فلاں کے گھر میں چوری کے لئے گئے تھے لیکن اگر دماغ میں ایک بات آئی اور ہاتھ پاؤں سے اُس نے عمل نہیں کروایا تو پھر اسلامی اصول کے ماتحت اس کے نام ایک نیکی لکھی جائے گی کہ اس کے دل

Page 70

انوار العلوم جلد 25 46 سیر روحانی (8) میں بُر اخیال بھی آیا لیکن پھر بھی اس نے اُس پر عمل نہیں کیا.تو چونکہ وہ ایک نیکی لکھی گئی اس لئے اس کو اس کی شرمندگی والی باتوں میں بیان نہیں کیا جائے گا کیونکہ ایک طرف خدا کا اس کو نیکی قرار دینا اور دوسری طرف اس کو باعث فضیحت بنانا یہ خدا کے انصاف کے خلاف ہے.اگر تو وہ اس کو بدی قرار دیتا تو پھر بیشک اس کو فضیحت کی جگہ پر استعمال کر سکتا تھا لیکن اس نے تو خود فیصلہ کر دیا کہ دماغ کے خیال کو نیکی تصور کیا جائے گا اور جب نیکی تصور ہو گی تو اب اُس کو فضیحت کا ذریعہ نہیں بنایا جاسکتا تھا.پس معلوم ہوا کہ ہماری روحانی ڈائری میں بڑے سے بڑے مجرم کو بھی کچھ پردہ پوشی کا حق دے کر اُس کی عزت کی حفاظت کی جائیگی.ریکارڈ کی غرض محض مجرموں پر اتمام محبت یہ دفتر کتنا مکمل اور کتنا شاندار ہے مگر اسی ہو گی ورنہ عالم الغیب خدا سب کچھ جانتا ہے پر بس نہیں.اس طرح تمام قسم کی محبت پوری کرنے کے بعد فرمایا کہ دیکھو میاں یہ خیال نہ کر لینا کہ ڈائری نویس کی ڈائری کے مطابق تمہیں مجرم بنا دیا جاتا ہے، یہ نہ سمجھ لینا کہ اس ریکارڈ کے مطابق تمہیں مجرم قرار دیا جاتا ہے، ہم تو تمہیں مذہب کے ذریعہ یہ کہا کرتے تھے کہ ہم عالم الغیب ہیں پھر ہم کو عالم الغیب ہونے کے لحاظ سے اس ڈائری کی کیا ضرورت تھی اور اس ریکارڈ کی کیا حاجت تھی ہم تو سب کچھ جانتے تھے.اس کی ضرورت محض اس لئے تھی کہ تم پر محبت ہو جائے ورنہ ہمیں فرشتوں کو ڈائری لکھنے پر مقرر کر نیکی ضرورت نہیں تھی، ہمیں کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں تھی.ہمیں یہ ضرورت تھی کہ یہ تمہارے سامنے پیش ہوں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ ہم بلا وجہ سزا نہیں دیتے بلکہ پوری طرح حجت قائم کر کے دیتے ہیں چنانچہ فرماتا ہے.اِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَمَا يَخْفَى 11 اللہ تعالیٰ تمام باتیں جو ظاہر ہیں اور مخفی ہیں ان کو جانتا ہے.اس کو نہ کسی فرشتہ کے ریکارڈ کی ضرورت ہے نہ کر اما کاتبین کی ضرورت ہے نہ ہاتھ پاؤں کی گواہی کی ضرورت ہے اس کے علم میں ساری باتیں ہیں.

Page 71

انوار العلوم جلد 25 47 سیر روحانی (8) b پھر فرماتا ہے اَلَا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ صُدُورَهُمْ لِيَسْتَخْفُوا مِنْهُ أَلَا حِيْنَ يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمْ يَعْلَمُ مَا يُسِرُونَ وَمَا يُعْلِنُونَ 12 اے لوگو! سُن لو کہ مشرک اور اللہ تعالیٰ کے مخالف لوگ اپنے سینوں کو مروڑتے ہیں تاکہ اُس سے مخفی ہو جائیں.یہاں محاورہ کے طور پر سینہ مروڑنا استعمال ہوا ہے.کیونکہ جب کسی چیز کو چکر دیتے ہیں تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ اس کے پیچھے کچھ چھپ جائے.لیکن جو دل کی بات ہو اس کے لئے ظاہری سینہ نہیں مروڑا جاتا.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسے طریق اختیار کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں اُن کے دلوں کے راز ظاہر نہ ہو جائیں.اَلَا حِيْنَ يَسْتَخْشُونَ ثِيَابَهُم يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ.سنو! جب یہ اپنے اوپر کپڑا اوڑھتے ہیں (عربی زبان میں اِسْتَغْشَى ثَوْبَهُ یا اِسْتَغْشَى بِشَوْبِه دونوں استعمال ہوتے ہیں.اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ ایسی طرز پر کپڑا لیا جس سے آواز دب جائے.یہ لفظ عام کپڑا اوڑھنے کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ آواز کے دبانے کے لئے بولا جاتا ہے.پس يَسْتَغْشُونَ ثِيَابَهُمُ کے معنے یہ ہیں کہ جس وقت وہ اپنے کپڑے اس طرح اوڑھتے ہیں کہ آواز دب کے باہر نہ نکلے ) تو وہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے.مفسروں کی ایک غلط فہمی اس محاورہ کی وجہ سے مفسرین کو غلطی لگی ہے اور انہوں نے اس آیت کے ماتحت بعض ایسی روایتیں درج کر دی ہیں جنہیں پڑھ کر ہنسی آجاتی ہے.بیشک منافق بڑا گندہ ہوتا ہے اور منافق بے وقوف بھی ہوتا ہے لیکن وہ حرکت جو مفسرین ان کی طرف منسوب کرتے ہیں وہ تو بہت ہی چھوٹے بچوں والی ہے.کہتے ہیں منافق لوگ اللہ تعالیٰ سے چھپانے کے لئے لحاف اوڑھ کر اس کے اندر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کیا کرتے تھے.حالانکہ اگر اس کے یہ معنے کئے جائیں تو یہ بچوں کا کھیل بن جاتا ہے.در حقیقت یہ محاورہ ہے اور " کپڑے اوڑھتے ہیں " کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی تدبیریں کرتے ہیں کہ کسی طرح ان کے دل کی بے ایمانی لوگوں پر ظاہر نہ ہو جائے.

Page 72

انوار العلوم جلد 25 48 سیر روحانی (8) مجرم اپنے اعمال بھول جائیں گے مگر بہر حال فرماتا ہے کہ ہمیں کسی ڈائری نویس کی ضرورت نہیں، خدا تعالیٰ کے علم میں سب کچھ ہو گا کسی ریکارڈ کی ضرورت نہیں ہم b تو آپ سب کچھ جانتے ہیں.چنانچہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس دلیل کو بھی لے گا.فرماتا ہے يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللهُ جَمِيعًا فَيُنَتِتُهُمْ بِمَا عَمِلُوا احْصُهُ اللَّهُ وَ نَسُوهُ ۚ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شهید 13 جب قیامت کے دن ان سب کو اکٹھا کیا جائے گا تو اللہ تعالی علاوہ ان ڈائریوں کے اور علاوہ اس ریکارڈ کے فَيُنَيَّتُهُم بِمَا عَمِلُوا فرمائے گا ہمیں آپ بھی پتہ تھا، لواب سن لو ہم تمہیں سناتے ہیں.چنانچہ وہ اُن کے سارے اعمالنامے انہیں سنانے شروع کر دیگا.احضه اللهُ وَ نَسُوه اور جب وہ بیان کرے گا تو پتہ لگے گا کہ اُن کے اعمال خدا کو تو یاد تھے مگر وہ آپ بھول گئے تھے کہ ہمارے یہ یہ اعمال ہیں.گویا سب کچھ کرنے کے باوجود اُن کو پتہ نہیں تھا کہ ہم نے کیا کام کئے ہیں.جب خدا نے سنائے تو انہیں پتہ لگ گیا کہ تفصیل کیا ہے.وَاللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ اور اللہ تعالیٰ تو ہر چیز کا نگران اور گواہ ہے.فرشتوں کی اُس کو ضرورت نہیں صرف لوگوں پر حجت قائم کرنے کے لئے اُن کی ضرورت ہے.ملائکہ کی ضرورت کے متعلق ایک لطیف نکتہ اس جگہ اس سوال کا جواب بھی آگیا جو بعض لوگ کیا کرتے ہیں کہ جب خدا عالم الغیب ہے تو فرشتوں کی کیا ضرورت ہے؟ فرماتا ہے فرشتوں کی تمہارے لئے ضرورت ہے اس کے لئے ضرورت نہیں.چنانچہ جب وہ قاضی القضاۃ ان مجرموں کو کچا چٹھا سنانا شروع کرے گا تو ان پر یہ راز کھلے گا کہ وہ اپنے ہزاروں اعمال بھول گئے تھے اب اس بیان سے بُھولی ہوئی باتیں انہیں پھر یاد آنی شروع ہو نگی.خدا تعالیٰ کے علم ازلی کی شہادت اس کے بعد فرماتا ہے کہ ان ڈائریوں کے علاوہ جو فرشتوں نے لکھ رکھی ہیں اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ ہم نے جو کچھ تم کو بتایا ہے اس کے علاوہ بھی ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں

Page 73

انوار العلوم جلد 25 49 سیر روحانی (8) کہ ہمارا کیسا علم ہے.اب تک تو ہم نے یہ بتایا ہے کہ تم نے جب کام کئے تھے تو ہم دیکھ رہے تھے اور ہم کو سب کچھ پتہ تھا فرشتوں کی ہمیں ضرورت نہیں تھی.مگر اب ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ جب تم نے یہ کام کئے بھی نہیں تھے تب بھی ہم نے ازل سے ہی تمہارے یہ کام لکھے ہوئے تھے اس لئے ہمیں تمہارے فعل کی بھی ضرورت نہیں تھی.ہمارا علم ازلی بتا رہا تھا کہ تم نے گل کو یہ فعل کرنا ہے.چنانچہ فرماتا ہے وَوُضِعَ الْكِتَبُ فَتَرَى الْمُجْرِمِينَ مُشْفِقِينَ مِنَا فِيهِ وَيَقُولُونَ يُوَيْلَتَنَا مَالِ هَذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصُهَا وَوَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور جس دن خدا کے ازلی علم کی کتاب پیش کی جائیگی اور کہا جائے گا کہ دیکھو! تم تو آب پید اہوئے اور تم سے اب عمل سر زد ہوئے اور خدا کے علم میں آئے لیکن خدا کو از لی طور پر بھی ہمیشہ سے اس کا علم تھا.اور اس نے پہلے سے تمہارا یہ حساب لکھا ہوا تھا کہ فلاں پیدا ہو گا، فلاں چوری کرے گا اور فلاں نیک ہو گا.یہ علم ازلی خدا ان کے سامنے رکھے گا اور اُن سے کہے گا کہ دیکھ لو یہ ہمارا آج کا علم نہیں بلکہ ہمیں ہمیشہ سے یہ علم تھا پس ہمیں کسی فرشتہ کی ضرورت نہیں.فرشتے نے تو اُس دن معلوم کیا جس دن تم نے وہ فعل کیا اور ہمارے حاضر علم میں یہ اُس دن بات آئی جس دن تم نے وہ فعل کیا مگر ہمارے ازلی علم میں یہ اربوں ارب سال پہلے سے موجود تھی اور ہمیں پتہ تھا کہ تم نے یہ کام کرنا ہے.اُس وقت مُجرم اُس کو دیکھ کر ڈر رہے ہونگے اور وہ کہیں گے يَا وَيْلَتَنَا مَالِ هُذَا الْكِتب.ارے ! ہم تو مر گئے.يَا وَيُلَتَنا ایسا ہی ہے جیسے کہتے ہیں.میری ماں مرے.ہماری زبان کے اس محاورہ کے مقابلہ میں عربی زبان کا محاورہ ہے یا ویکتنا.ارے ہلاکت میرے اوپر آکر پڑ گئى مَالِ هُذَا الكِتب لا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصھا.یہ قسمت اور اعمالنامہ کی کیسی کتاب ہے کہ نہ کوئی چھوٹی بات چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے.ساری کی ساری اس میں موجود ہیں.وَ وَجَدُوا مَا عَمِلُوا حَاضِرًا.اور جس طرح وہ قدیم سے موجود تھا اسی طرح وہ حال میں بھی اُسے دیکھیں گے.وہ خدا کے سامنے لاکھوں سال کے بعد یا سینکڑوں اور ہزاروں سال کے بعد پیش ہونگے مگر وہ دیکھیں گے کہ اُس میں.ب کچھ

Page 74

انوار العلوم جلد 25 50 سیر روحانی (8) پہلے سے لکھا ہوا موجود ہے.وَلَا يَظْلِمُ رَبُّكَ أَحَدًا اور خدا تعالیٰ اپنے پاس سے کوئی سزا نہیں دیگا بلکہ اُن کے مجرموں کے مطابق انہیں سزا دیگا.عالم روحانی میں ہر مجرم کے لئے گویا اس دفتر میں چار گواہیاں ہو گئیں.ایک تو فرشتوں کی ڈائری پیش کی گئی.دس گواہ پیش کئے جائیں گے ایک ہاتھ ، پاؤں، آنکھ ، کان ، زبان اور جلد کا ریکارڈ پیش ہوا.تیسرے خدا نے کہا میں خود بھی دیکھ رہا تھا مجھے فرشتوں کی کوئی ضرورت نہیں تھی.چوتھے پرانا ازل کا چٹھا پیش ہوا اور انہیں کہا گیا کہ یہ تو ہمیشہ سے علم الہی میں موجود تھا چنانچہ دیکھ لو یہ لکھا ہوا ہے.ہماری شریعت نے اس دنیا میں بڑے سے بڑے گناہ کی چار گواہیاں مقرر کی ہیں مثلاً زنا ہے اس کے لئے لکھا ہے کہ چار گواہ ہوں.باقی گواہیوں میں سے بعض دو دو سے ہو جاتی ہیں اور بعض جگہ ایک گواہ سے بھی گواہی ہو جاتی ہے.مگر خدا کے سامنے اتنا انصاف کیا جائے گا کہ وہ چار گواہ ایسے پیش کئے جائیں گے جو نہایت معتبر ہونگے.اوّل فرشتوں کی گواہی جو ایک نہیں بلکہ دو ہونگے گویا اس ایک گواہی میں دو گواہیاں آگئیں، پھر ریکارڈ آ گیا اس ریکارڈ میں بھی چھ گواہ ہیں آنکھ ، کان، زبان، جلد ، ہاتھ اور پاؤں یہ چھ گواہ ہونگے جن کی گواہی ہو گی.گویا آٹھ گواہ ہو گئے.پھر خدا نواں گواہ اور دسواں علم ازلی.غرض دس گواہوں کے ساتھ وہاں چھوٹے سے چھوٹے مجرم کی سزادی جائیگی حالانکہ اس دنیا میں دو دو گواہ اور وہ بھی جو آٹھ آٹھ آنے لے کر قرآن اُٹھا لیتے ہیں، اُن کی گواہیوں پر فیصلہ ہو جاتا ہے.دُنیا میں آٹھ آنہ کے گواہوں پر مقدمات کا فیصلہ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب جو بعد میں احمد کی ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو تو اُن کا نوکری کرنا پسند نہیں تھا لیکن ان کو نوکری کا شوق تھا.چنانچہ وہ نوکر ہوئے اور آخر ڈپٹی کمشنر ہو کر ریٹائر ہوئے.اُن دِنوں نارتھ ویسٹرن پراونس اور پنجاب یہ دونوں

Page 75

انوار العلوم جلد 25 51 سیر روحانی (8) صوبے اکٹھے ہوتے تھے.اور وہ کیمبل پوریا میانوالی کے علاقہ میں یا شاید ڈیرہ غازیخان میں ای.اے.سی تھے.وہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا دوست اور مجھ سے بہت ملنے والا تھا اُس کا میرے پاس کوئی مقدمہ تھا.میں نے اُس کی دورے میں پیشی رکھی اور جہاں ہم تھے اُس سے وہ جگہ کوئی پچاس ساٹھ میل پر جاکے آئی.چونکہ وہ میرا بے تکلف دوست تھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا مرزا صاحب! مجھے آپ پر بڑا اعتبار تھا کیونکہ آپ دوست تھے لیکن خیر یوں تو آپ نے انصاف ہی کرنا ہے مگر کم سے کم میں آپ سے یہ تو امید کرتا تھا کہ آپ مجھے خراب تو نہ کریں گے.اب آپ نے پچاس میل پر جاکے گواہی رکھی ہے میں یہاں سے گواہ کس طرح لے کے جاؤنگا.میر اخرچ الگ ہو گا اور پھر ممکن ہے گواہ انکار کر دیں اور کہیں کہ ہم نہیں جاتے پھر میرے پاس کیا چارہ ہے؟ کہنے لگے میں نے اُس کو کہا کہ میں تو تمہیں عقلمند سمجھ کے تمہارے ساتھ دوستی کرتا تھا تم تو بڑے بیوقوف نکلے.کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا تم بھی مسلمان اور گواہ بھی مسلمان.تم کو پتہ نہیں کہ آٹھ آٹھ آنے میں گواہ مل سکتا ہے.پھر یہاں سے گواہ لے جانے کا کیا سوال ہے؟ خیر وہ اُٹھ کر چلا گیا.کہنے لگے جب ہم وہاں پہنچے تو پچاس میل پر جہاں کوئی شخص نہ اُس کی شکل جاننے والا اور نہ اس واقعہ کا علم رکھنے والا تھا وہاں گواہ آگئے جنہوں نے قرآن اُٹھایا ہوا تھا اور انہوں نے آکر کہا.خدا کی قسم ! ہمارے ہاتھ میں قرآن ہے اور ہم سچ بولتے ہیں کہ یہ واقعہ ہوا ہے.کہنے لگے واقعہ کے متعلق تو مجھے پتہ ہی تھا کہ سچا ہے پر یہ بھی پتہ تھا کہ یہ گواہ سارے کے سارے جھوٹے ہیں بہر حال میں نے اُس کے حق میں ڈگری دے دی اور پھر میں نے اُس کو کہا کہ میاں! اس میں تجھ کو گھبر اہٹ کس بات کی تھی.آٹھ آٹھ آنے لے کر تو مسلمان گواہی دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.تو دیکھو اسلامی سزا کتنی کامل تحقیقات کے بعد ہوتی ہے کہ جس میں کوئی شائبہ بھی کسی قسم کے شبہ کا پیدا نہیں ہو تا.مسئلہ تقدیر اور قسمت شاید کسی کے دل میں خیال آئے کہ میں نے جو کتاب ازلی کا ذکر کیا ہے تو اس سے معلوم ہوا کہ تقدیر اور قسمت

Page 76

انوار العلوم جلد 25 52 سیر روحانی (8) کا مسئلہ اُسی شکل میں ٹھیک ہے جس طرح عوام الناس سمجھتے ہیں مگر یہ غلط ہے.قرآن تقدیر اور قسمت کا مسئلہ اُس طرح بیان نہیں کرتا جس طرح کہ عام مسلمان اپنی ناواقفیت سے سمجھتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے نزدیک تقدیر اور قسمت کے محض یہ معنے ہیں کہ ہر انسان کے لئے ایک قانون مقرر کر دیا گیا ہے کہ اگر وہ ایسا کام کرے گا تو اس کا یہ نتیجہ نکلے گا.مثلاً اگر مرچیں کھائے گا تو زبان جلے گی، اگر ترشی کھائے گا تو نزلہ ہو جائے گا اور گلا خراب ہو جائے گا، اگر کوئی سخت چیز کھالے گا تو پیٹ میں درد ہو جائے گا یہ تقدیر اور قسمت ہے.یہ تقدیر اور قسمت نہیں کہ فلاں شخص ضرور ایک دن سخت چیز کھائے گا اور پیٹ میں درد ہو جائے گا.یہ جھوٹ ہے.خدا ایسا نہیں کرتا.قرآن اس سے بھرا پڑا ہے کہ یہ باتیں غلط ہیں.پس یہ جو ہمیشہ سے لکھا ہوا ہونا ہے اس کا تقدیر اور قسمت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے کہ تقدیر اور قسمت تب بنتی ہے جب خدا کے لکھے ہوئے کے ماتحت انسان کام کرے.اگر یہ ضروری ہو کہ جو کچھ خدا نے لکھا ہے اُسی کے مطابق اس کو کام کرنا چاہئے تو پھر یہ جبر ہو گیا اور تقدیر اور قسمت ٹھیک ہو گئی لیکن جو قرآن سے تقدیر ثابت ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا اس بات میں بندے کے تابع ہوتا ہے اور جو اس بندے نے کام کرنا ہوتا ہے خدا اسے لکھ لیتا ہے.تقدیر اور قسمت تو تب ہوتی جب خدا مجبور کرتا اور یہ بندہ خدا کے جبر سے وہ کام کرتا.لیکن واقعہ یہ ہے کہ بندہ وہ کام کرتا ہے اور خدا اس کے جبر کے ماتحت وہی بات لکھتا ہے جو اُس نے کرنی ہے.اس لئے یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ لکھنے کے بارہ میں خدا پر وہ تقدیر حاوی ہے جو انسانوں پر قیاس کی جاتی ہے.یہ تم نہیں کہہ سکتے کہ بندوں کی قسمت میں خدا نے جبر کر کے کوئی اعمال لکھے ہوئے ہیں.عالم روحانی میں مُجرموں کے فیصلہ کی نقول پھر اس دنیا میں قاعدہ ہے کہ لوگ ریکارڈ کی کانی مانگتے ہیں.انہیں خیال ہوتا ہے کہ ہم لوگوں کو دکھائیں گے اور غور کریں گے کہ یہ سزا ٹھیک ملی ہے یا نہیں ؟ اس غرض کے لئے لوگ ریکارڈ اور فیصلہ کی کاپی مانگتے ہیں اور اس کے بڑے فائدے ہوتے ہیں مگر اس دنیا کی گورنمنٹوں نے یہ طریق رکھا ہوا ہے کہ

Page 77

انوار العلوم جلد 25 53 سیر روحانی (8) وہ پیسے لے کر ریکارڈ دیتی ہیں.جب کوئی نقل لینے آتا ہے تو کہتے ہیں پیسے داخل کر او مثلاً پندرہ روپے یا میں روپے یا پچیس روپے.نقل نویسوں نے حرف گنے اور کہہ دیا کہ اتنے روپے داخل کرو تو ریکارڈ مل جائے گا.پھر کہا کہ اگر جلدی نقل لینی ہے تو ڈبل یا تین گنا فیس دو.میں نے دیکھا کہ آیا وہاں بھی کوئی نقل ملتی ہے یا نہیں ؟ اور آیا اُن کو تسلی ہو گی کہ گھر جا کر آرام سے بیٹھ کر دیکھیں گے کہ سزا ٹھیک ملی ہے ؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں بھی نقلیں ملیں گی چنانچہ فرماتا ہے وَ أَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِشِمَالِهِ فَيَقُولُ يكيْتَنِي لَمْ أَوْتَ كِتَبِيَهُ وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِيَهُ لِلَيْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَةَ - 1 یہاں تو کچھ دنوں کے بعد نقل ملتی ہے یا اگر جلدی لینی ہو تو وہ بھی تین چار دن میں ملتی ہے اور اس کے لئے کئی گنے زیادہ قیمت دینی پڑتی ہے مگر وہاں ادھر فیصلہ ہو گا اور اُدھر اگر وہ مُجرم ہے تو اس کے بائیں ہاتھ میں مفت نقل پکڑا دی جائے گی اور کہا جائے گا کہ یہ تمہارے اعمالنامہ اور فیصلہ کی نقل ہے اور یہ نقل مفت ملے گی کوئی پیسہ نہیں دینا پڑے گا.فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس ریکارڈ کی نقل دینے کا زائد فائدہ کیا ہے ؟ سو یا درکھنا چاہئے کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ سزا ملنے پر انسان کم سے کم اپنی کا نشنس کو تسلی دیتا ہے کہ میر انجرم اتنا نہیں جتنا مجھے مجرم بنایا گیا ہے لیکن جب وہ ریکارڈ پڑھے گا تو اُسے معلوم ہو گا کہ جُرم سے کم ہی سزا ملی ہے زیادہ نہیں.اُس وقت وہ کہے گا لَيْتَنِي لَم أَوتَ كِتَبِيَهْ - کاش ! یہ کتاب مجھے نہ دی جاتی تاکہ کم سے کم میری کانشنس تو تسلی پاتی کہ شاید میرے گناہ کچھ زیادہ سمجھ لئے گئے ہیں ورنہ میں اتنا مجرم نہیں مگر اس سے تو پتہ لگتا ہے کہ گناہ زیادہ ہیں اور سزا کم ہے.وَلَمْ اَدْرِ مَا حِسَابِیہ اور مجھے یہ نہ پتہ لگتا کہ میرا حساب کیا ہے کیونکہ حساب زیادہ بنتا ہے.حساب بنتا ہے دو سو سال کی قید اور سزا دی ہے ایک سو پچاس کی.میری کانشنس (CONSCIENCE) اُلٹا مجھے مجرم بناتی ہے کہ میں نے مُجرم بھی کئے، غداریاں بھی کیں، فریب بھی کئے پھر بھی سزا مجھے کم ملی.مجھے پتہ نہ ہو تا کہ میر احساب کیا ہے تو میری کانشنس کو کچھ تسلی رہتی.

Page 78

انوار العلوم جلد 25 54 سیر روحانی (8) نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی نقلیں دی جائیں گی اسی طرح فرماتا ہے کہ جو نیک کام کرنے والے ہیں اُن کو بھی ڈائریوں اور اُن کے فیصلہ کی نقل دی جائے گی چنانچہ فرماتا ہے فَاما مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَبِيْنِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَبِيَهُ إِنِّي ظَنَنْتُ أَنِّي مُلقِ حِسَابِيَة - 1 یعنی جو نیک لوگ ہونگے اُن کو بھی فوراً کاپی دیدی جائیگی لیکن اُن کے دائیں ہاتھوں میں کاپی دی جائے گی اور جب وہ اُس کو پڑھیں گے تو اُس میں اُن کے اعمالنامہ کو ایسا خو بصورت کر کے دکھایا ہو گا اور وہ ایسے اچھے ٹائپ پر لکھا ہو گا کہ کہیں گے هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتْبِيَهُ.ارے بھائی! ادھر آنا ذرا پڑھو تو سہی یہ کیا لکھا ہوا ہے.جب کسی شخص کو کوئی انعام ملتا ہے تو وہ لازمی طور پر دوسرے لوگوں کو بھی اُس میں شامل کرنا چاہتا ہے.پس هَاؤُمُ اقْرَووا کتبیة میں نقشہ کھینچ دیا گیا ہے کہ وہ فخر کر کے لوگوں کو بلائے گا اور کہے گا آؤ میاں! آؤ! ذرا دیکھو میرے اعمال کیا ہیں.اِنِّی ظَنَنْتُ أَنِّي مُلقِ حِسَابِيَة - مجھے تو پہلے سے ہی یہ امید تھی کہ اللہ تعالیٰ کسی کا حق نہیں مارتا.میں نے جو نیک کام کئے ہیں مجھے ان کا ضرور بدلہ ملے گا، سو اُمیدوں سے بڑھ کر ملا.دنیوی حکومتوں کے نظام میں مختلف نقائص دیکھو دفاتر اور ڈائریوں کا ایسا مکمل اور بے اعتراض نظام دنیا کی مہذب سے مہذب حکومت میں بھی نہیں ہو تا.دُنیوی حکومتوں نے تو حال میں یہ ڈائری نویسی کے انتظام شروع کئے ہیں.چنانچہ ڈائری نویسی کے انتظام کا کوئی ہزار پندرہ سو سال سے پتہ لگتا ہے اس سے پہلے نہیں بلکہ صرف ہزار سال کے قریب ہی عرصہ ہوا ہے.لیکن قرآنی حکومت نے تیرہ سو سال پہلے اس کا مکمل نقشہ کھینچا ہے کہ ڈائری ہونی چاہئے ، ڈائری نویس کی صداقت کا ثبوت ہونا چاہئے اور مجسٹریٹ کو پتہ ہونا چاہئے کہ سچائی کیا ہے؟ یہ تین چیزیں جمع ہوں تب سزا کے متعلق یہ تسلی ہو سکتی ہے کہ سز ا ٹھیک ہے.ہمارے ہاں اول تو ڈائری نویس جھوٹا بھی ہوتا ہے اور سچا بھی ہوتا ہے.پھر اس کی تصدیق کرنے والے کوئی نہیں ہوتے بلکہ بنائے جاتے ہیں.تیسرے مجسٹریٹ

Page 79

انوار العلوم جلد 25 55 سیر روحانی (8) بیچارے کو کچھ بھی پتہ نہیں ہوتا.حضرت امام ابو حنیفہ کا حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کو بادشاہ نے قاضی القضاة مقرر کیا تو انہوں نے اس عہدہ قاضی القضاۃ بننے سے انکار کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور کہا میں قاضی القضاۃ نہیں بنتا.بادشاہ خفا ہو گیا اور اس نے کہا میں اس کو سزا دونگا کیونکہ انہوں نے ہتک کی ہے.مگر چونکہ لوگوں میں خبر مشہور ہو چکی تھی اس لئے ان کے دوست دُور ڈور سے انہیں مبارک باد دینے کے لئے پہنچے کہ آپ قاضی القضاۃ مقرر ہو گئے ہیں.لیکن جب شہر میں پہنچے تو پتہ لگا کہ آپ نے تو انکار کر دیا ہے.بہر حال وہ آپ کے پاس آئے اور کہا ہم تو مبارکباد دینے کے لئے آئے تھے.انہوں نے کہا تم کس بات کی مبارک باد دینے کے لئے آئے تھے ؟ وہ کہنے لگے اتنی بڑی حکومت کا آپ کو قاضی القضاۃ مقرر کیا گیا ہے کیا ہم مبارکباد نہ دیں؟ انہوں نے کہا تم بڑے بیوقوف ہو ، میں کیا کرونگا؟ میں عدالت میں جاکر بیٹھوں گا اور دو آدمی میرے سامنے پیش ہونگے.ایک کہے گا اِس نے میر اسو روپیہ دینا ہے دوسرا کہے گا میں نے کوئی نہیں دینا.اب وہ دونوں آپس میں جھگڑ رہے ہونگے، یہ کہے گا دینا ہے وہ کہے گا نہیں دینا اور میں بیچ میں بیٹھا ہو نگا کیونکہ مجھے حکومت نے مقرر کیا ہے کہ فیصلہ کرو اس نے دینا ہے یا نہیں دینا.وہ جو کہتا ہے اس نے سو روپیہ دینا ہے اُس کو پتہ ہے کہ اُس نے دینا ہے یا نہیں دینا.اور جو کہتا ہے میں نے نہیں دینا اُس کو بھی پتہ ہے کہ میں نے دینا ہے یا نہیں دینا.اور میں جو جج بن کر بیٹھا ہو نگا مجھے پتہ ہی نہیں ہو گا کہ اس نے دینا ہے یا نہیں دینا.پس سب سے زیادہ قابلِ رحم حالت تو میری ہو گی کہ مدعی کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور مدعا علیہ کو بھی سچائی کا پتہ ہے اور میں جو قاضی بن کے بیٹھا ہوں جس کے سپر دسب سے اہم کام ہے اُس کو نہیں پتہ کہ حقیقت کیا ہے ؟ تو میں کس طرح یہ بوجھ اُٹھا سکتا ہوں.تو یہ بھی ایک بڑا مشکل سوال ہوتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی قضاء میں دیکھو کتنا زبر دست نظام رکھا گیا ہے کہ ہم ڈائری بھی پیش کریں گے، لکھنے والے عینی گواہ بھی لائیں گے اور پھر عینی گواہوں کے علاوہ اپنی زبان اور اپنے کانوں

Page 80

انوار العلوم جلد 25 56 سیر روحانی (8) اور اپنے ہاتھ پاؤں کا ریکارڈلائیں گے تا کہ وہ انکار نہ کر سکیں اور اس کے بعد ہم جو فیصلہ کرنے والے ہیں انہیں بتائیں گے کہ ہم بھی وہاں بیٹھے دیکھ رہے تھے اس لئے اس فیصلہ کو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا.حکومتیں روحانی نظام کی اب تک نقل بھی نہیں کر سکیں مگر اتنے بڑے زبر دست نظام کو دیکھ کر بھی حکومتیں اسکی نقل نہیں کر سکیں.حکومتوں نے ڈائریاں بھی بنائی ہیں، اب ریکارڈر بھی نکال لئے ہیں مگر وہ ریکارڈر کروڑوں مقدموں میں سے کسی ایک میں استعمال ہوتا ہے ہر جگہ نہیں ہو سکتا.غرض اتنے نظام کو دیکھنے کے بعد بھی دنیا ایسا نظام نہیں بنا سکی اور ابھی دنیا کہہ رہی ہے کہ قرآن کی ہم کو ضرورت نہیں ہے.تیرہ سو سال سے یہ اعلیٰ درجہ کا نظام حکومت قرآن بیان کرتا ہے اور تیرہ سو سال سے اس کو تفصیل کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے، تیرہ سو سال سے مہذب دنیا کی حکومتیں اس کو دیکھتی ہیں اور اس کی نقل کرنیکی کوشش کرتی ہیں مگر تیرہ سو سال کے عرصہ میں اس کی مکمل نقل نہیں کر سکیں.اگر وہ ڈائریاں لکھنی شروع کرتی ہیں تو ان کو بچے ڈائری نویں نہیں ملتے.اگر ڈائری نویس کی تصدیق کا ثبوت ملتا ہے تو پہلے تو اُن کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا اب ریکارڈر نکالا تو وہ ریکارڈر کو ہر جگہ استعمال نہیں کر سکتے.اور اگر ریکارڈر ہو بھی تو پھر بھی حج کو صحیح پتہ نہیں لگ سکتا اور کوئی ایسا مج اُن کو نہیں مل سکتا جس کو پتہ ہو کہ واقعہ کیا ہے.وہ محض قیاسی باتیں کرتا ہے.چنانچہ ہزاروں دفعہ ایسا ہوا ہے کہ حج نے ایک فیصلہ کیا ہے اور بعد میں معلوم ہوا ہے کہ وہ فیصلہ غلط تھا.ہم نے انگلستان کے بعض فیصلے پڑھے ہیں جن میں یہ ذکر آتا ہے کہ بعض حج پاگل ہو گئے کیونکہ پندرہ بیس سال کے بعد ان کو بعض ایسے واقعات معلوم ہوئے کہ جس شخص کو انہوں نے پھانسی دی تھی وہ بالکل مجرم نہیں تھا اور وہ اس صدمہ کے مارے کہ ہم نے اتنا ظلم کیا ہے پاگل ہو گئے.لیکن قرآن کا حج دیکھو اُس کے پاس ڈائریوں کا کتنا بڑا نظام ہے اور پھر کس یقین کے ساتھ وہ کہتا ہے کہ نہیں اصل حقیقت یہ ہے.

Page 81

انوار العلوم جلد 25 57 سیر روحانی (8) مخلص اور پار سا اور توبتہ النصوح ایک اور بات بھی یہاں قابل غور ہے اور وہ یہ کہ اس نظام کا ذکر سُن کر (جیسے تم کرنے والوں کو ایک خدشہ میں سے بھی جو ہو شیار آدمی ہو گئے اُن کے دل میں بھی خیال آیا ہو گا) مخلص اور پار سا اور توبۃ النصوح کرنے والوں کے دل بھی ڈر جائیں گے اور وہ کہیں گے کہ آٹے کے ساتھ گھن بھی پیسنے لگا ہے.مجرم تو خیر مجرم تھے ہی لیکن میں جو تو بہ کرنے والا ہوں یا میں جس نے ساری عمر کوشش کر کے نیکیاں کی ہیں میرے اعمال کا بھی تو کوئی نہ کوئی حصہ ایسا ہے جس کے متعلق میں نہیں چاہتا کہ لوگوں کے سامنے ظاہر ہو.اگر یہی ذلت اور فضیحت ہونی ہے تو میں تو صاف مر گیا.ابو جہل تو ڈوبے گا ساتھ اس کے کئی صحابہ کے اعمال جو نچھپانے والے ہونگے وہ بھی ظاہر ہو جائیں گے.اس طرح دوسرے نیک لوگوں کے بھی ظاہر ہو جائیں گے.ہمارے ہاں مشہور ہے کہ سید عبد القادر صاحب جیلانی کا قریب ترین جو شاگر د تھا وہ پہلے ڈاکو اور چور ہو تا تھا.اب وہ بزرگ صاحب پیش ہوئے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین اور اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں اور ریکارڈ شروع ہوا کہ انہوں نے فلاں جگہ چوری کی، فلاں جگہ ڈا کہ مارا تو ذلت تو ہو گی.اب ایسا شخص ملنا سوائے چند افراد کے ہت مشکل ہے کہ جس کی زندگی کا کوئی حصہ بھی ایسا نہ ہو جس کو ریکارڈ پر نہ لایا جاسکے.اگر اس دفتر میں ایک ایک عمل اور ایک ایک خیال چار چار ریکارڈوں میں موجود ہے تو کافر تو ذلیل ہونگے ہی مؤمن کو بھی جنت ہزار رُسوائی کے بعد ہی ملے گی.پھر اس کا مزہ کیا آئیگا؟ تائب کہے گا کہ تو بہ تو منظور ہو گئی.اَلْحَمْدُ لِلهِ مگر کلنک کا ٹیکا تو ماتھے کو لگ ہی گیا.ریکارڈر آپ ہی نہیں بجتا بلکہ مگر اس دفتر ریکارڈ میں جب ہم نے قاعدے دیکھے اور غور کیا کہ اچھا اس کے مالک جب بجاتا ہے تب بجتا ہے لئے کیا سامان موجود ہے ؟ تو معلوم ہوا کہ اُس نے اس خدشہ کا بھی علاج کیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ ایسی کوئی بات پیش ہی نہ ہو کیونکہ ہم نے جب ریکارڈ دیکھا تو قانون یہ نکلا کہ وَقَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدْتُمْ عَلَيْنَا قَالُوا

Page 82

انوار العلوم جلد 25 58 سیر روحانی (8) انْطَقَنَا اللَّهُ الَّذِي انْطَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ خَلَقَكُمُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ 17 جب اُن کے ہاتھوں نے اور پیروں نے گواہیاں دینی شروع کیں تو انہوں نے کہا ارے کمبختو! تم تو ہمارا حصہ تھے.اے کان ! تو میر اتھا، اے آنکھ تو میری تھی، اے زبان ! تو میری تھی، اے جلد !تُو میری تھی، اے ہاتھ ! تم میرے تھے ، اے پاؤں! تم میرے تھے کمبختو! تمہی نے میرا بیڑا غرق کرنا تھا کہ یہ باتیں کرنی شروع کر دیں.صرف جلد کا انتخاب اُس کے نمائندہ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ان اعضاء کے صرف ایک نمائندہ یعنی جلد ہونے کی حیثیت سے کیا گیا ہے کو لے لیا ہے کیونکہ جلد ان سب چیزوں کو ڈھانپتی ہے.جلد کان پر بھی ہوتی ہے، جلد زبان پر بھی ہوتی ہے، جلد آنکھوں پر بھی ہوتی ہے، جلد پیروں پر بھی ہوتی ہے ، جلد ہاتھوں پر بھی ہوتی ہے.پس چونکہ جلد نمائندہ ہے تمام اعضاء کا اس لئے یہاں صرف جلد کا لفظ رکھا گیا ہے.بہر حال جب وہ یہ کہیں گے تو ان اعضاء کا نمائندہ آگے سے یہ جواب دیا کہ بھئی! ہم کوئی اپنے اختیار سے بولے ہیں؟ یہ ریکارڈر آپ ہی نہیں بجا کرتے بلکہ مالک جب سوئی رکھتا ہے اور اس کو بچانا چاہتا ہے تب بجتے ہیں.اُس نے جب شوئی رکھ دی تو ہم کیا کریں پھر تو ہم نے بجنا تھا.عالم روحانی کا ایک اور خوشکن قانون اس سے ایک شخص کے دل کو کم از کم اتنی تسلی ہو گئی کہ ریکارڈر نے آپ ہی نہیں بجنا، بجانے والا بھجوائے گا تو بجے گا.اب دیکھئے بجوانے والا بجواتا ہے یا نہیں اور کوئی عزت رہ جاتی ہے کہ نہیں ؟ سو اس کے متعلق قاعدہ دیکھا تو یہ قاعدہ نکلا کہ یوم يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْع ذَلِكَ يَوْمُ التَّغَابُنِ وَ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَ يَعْمَلُ صَالِحًا يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيَاتِهِ وَيُدْخِلْهُ جَنْتِ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ 18 جس دن ہم ان سب لوگوں کو جمع کریں گے اور وہ دن ایسا ہو گا جب ایک دوسرے پر اُس کی غلطیوں کا الزام لگایا جائے گا (تغابن کے معنے ہیں وہ کہے گا اس نے فساد کئے ہیں یہ کہے گا

Page 83

انوار العلوم جلد 25 59 سیر روحانی (8) اُس نے کئے ہیں) تو اُس دن اچھی طرح جانچ پڑتال ہو گی.پھر کیا ہو گا؟ وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا جو ایمان لانیوالا ہو گا اور عمل نیک کرنے والا ہو گا اُس نے کچھ بدیاں تو کی ہونگی ، کچھ غلطیاں اُس سے بھی صادر ہوئی ہونگی، کچھ کمزوریاں اُس سے بھی ہوئی ہونگی مگر يُكَفِّرْ عَنْهُ سَيّاتِہ ہم کہیں گے اس تمام جگہ پر جہاں بُرے کام درج ہیں چسپیاں لگا دو تا کہ انہیں کوئی نہ دیکھے.لغت میں لکھا ہے کہ التَّكْفِيرُ سَتْرُهُ وَ تَنْتِيْتُهُ حَتَّى يَصِيْرَ بِمَنْزِلَةِ مَالَمْ يُعْمَلْ 12 کہ تکفیر کے معنے ہوتے ہیں ڈھانپ دینا اور اُس پر پردہ ڈال دینا ایسی صورت میں کہ یہ پتہ لگانا نا ممکن ہو جائے کہ اس نے فلاں کام کیا تھا.تو يُكَفِّرْ عَنْهُ سياته اللہ تعالیٰ فوراً حکم دیگا کہ یہاں چیپیاں لگادی جائیں تا کہ یہ یہ جگہ سامنے آئے تو پتہ ہی نہ لگے کہ اس نے یہ کام کیا تھا.اس طرح بتایا گیا کہ صرف امکان ہی نہیں ہے بلکہ وقوعہ بھی یہی ہو گا کہ مؤمن اور نیک عمل کرنے والے اور تائب کی غلطیوں پر چیپیاں لگا کر انہیں چھپا دیا جائے گا اور کسی کو پتہ نہیں لگے گا کہ اس نے کوئی گناہ کیا ہے.اگر چیپیاں نہ لگی ہو تیں تو اگر مؤمن کی غلطیوں پر پردہ نہ ڈالا جاتا تو مؤمن کیوں کہتا کہ هَاؤُمُ وہ اپنے اعمالنامہ پر فخر کس طرح کر سکتا اقري والشيبة آؤ ذرا میرا اقْرَءُوا اعمالنامہ پڑھو.اگر پڑھاتا تو ساتھ بدیاں بھی نکل آتیں اور اگر اعمالنامہ میں بدیاں بھی لکھی ہوئی ہو تیں تو چاہے اُسے جنت ہی ملی ہوتی وہ اُسے اپنی بغل میں دبا لیتا اور کہتا مجھے جنت ملی ہے مجھے انعام ملا ہے.اگر کوئی کہتا ذرا کتاب دکھانا تو جواب دیتا نہیں نہیں ! میں پھر دکھاؤنگا.کیونکہ وہ ڈرتا کہ دیکھے گا تو بیچ میں بدیاں بھی نکل آئیں گی.مگر چونکہ بدیوں چیبیاں لگی ہوئی ہونگی اس لئے وہ کہے گا هَاؤُمُ اقْرَءُوا كِتَبِيَةُ ارے میاں ! آؤ اور میری کتاب دیکھو میرے اندر کوئی عیب نہیں ہے.اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاں کچھ لوگوں کی غلطیوں کو بھی نیکیوں میں بدل دی جائیں گی پچھیا دیا جائے گا وہاں کچھ ایسے بھی

Page 84

انوار العلوم جلد 25 60 سیر روحانی (8) اعلیٰ درجہ کے لوگ ہونگے کہ اُن کی محبت اور قربانی اور تو بہ کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ صرف اُن کی بدیوں کو چھپائے گا ہی نہیں بلکہ اُنکی بدی کی جگہ نیکی لکھ دیگا.چنانچہ فرماتا ہے يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنت 20 کچھ ایسے مؤمن ہونگے کہ اُن کے اعلیٰ درجہ کو دیکھ کر ، اُن کے تقویٰ کو دیکھ کر ، اُن کی تو بہ کو دیکھ کر ، اُن کی دیانت کو دیکھ کر گو غلطیاں بھی انہوں نے کیں، گناہ بھی اُن سے سرزد ہوئے، کمزوریاں بھی اُن سے ہوئیں مگر اللہ تعالیٰ فرشتوں سے کہے گا یہ میرا بندہ ہے ہم نے اس کی سزا معاف کر دی ہے اور اس کو معاف کر کے اس کے قرب کا فیصلہ کیا ہے اس لئے یہاں نیکی لکھ دو.چنانچہ جب وہ کتاب پڑھے گا تو جو ادنی درجہ کا مؤمن ہو گا اُس کے اعمالنامہ پر تو چیپیاں لگی ہوئی ہو نگی اور اُس کے گناہ کو چھپایا ہوا ہو گا.اور جو اعلیٰ درجہ کا مؤمن ہو گا اُس کے اعمالنامہ میں وہاں اُس کا کوئی کارنامہ لکھا ہوا ہو گا.مثلاً وہی کام جو پہلا تھا اُس کو بڑھا کر اپنے انعام کے ساتھ اس میں شامل کیا ہو گا.گویا اُس کا اعمال نامہ ایک نئی شکل میں ہو گا.اس کی مثال سمجھنے کے لئے یاد رکھنا چاہئے کہ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا جھوٹ کے ساتھ کام لیا جائے گالیکن یہ جھوٹ نہیں ہو گا.میں اس کی ایک مثال دے دیتا ہوں جس سے معلوم ہو گا کہ کس طرز پر کام لیا جائے گا.حضرت معاویہ کی ایک آثار میں پرانے زمانہ کا ایک واقعہ لکھا ہے آجکل تو یہ ہوتا ہے کہ کوئی بڑا آدمی مسجد میں نماز پڑھنے چلا نماز ضائع ہونے کا واقعہ جائے تو سارے شہر میں دھوم پڑ جاتی ہے کہ آج فلاں صاحب جمعہ کی نماز کے لئے آئے تھے لیکن پرانے زمانہ میں اِس کے الٹ ہو تا تھا.پرانے زمانہ میں امراء خود نماز پڑھاتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھاتے تھے.آپ کے بعد آپ کے خلفاء پڑھاتے تھے اور اس کے بعد جو دنیوی خلفاء آئے وہ بھی خود نماز پڑھاتے تھے.حضرت معاویہ کے زمانہ میں خود حضرت معاویہ مسجد میں جا کر نماز پڑھاتے تھے.ایک دن ایسا ہوا

Page 85

انوار العلوم جلد 25 61 سیر روحانی (8) کہ کوئی کام کرتے کرتے زیادہ دیر ہو گئی یا کچھ طبیعت خراب تھی نماز کے وقت آواز دینے والے نے آواز دی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے ( یہ پرانی سنت ہے کہ امام کو گھر پر جاکے مؤذن اطلاع دیتا ہے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے) مگر اُن کی آنکھ نہ کھلی.نتیجہ یہ ہوا کہ لوگوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت جارہا ہے نماز پڑھا دی.جب اُن کی آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ نماز ہو چکی ہے.اِس پر اُن کو اتنا صدمہ ہوا کہ سارا دن روتے رہے اور استغفار کرتے رہے اور دعائیں کرتے رہے کہ یا اللہ ! میں نے کیا خطا کی تھی اور کیا گناہ کیا تھا کہ اس کے نتیجہ میں آج نماز با جماعت رہ گئی اور میں مسلمانوں کی امامت نہیں کر اسکا.دوسرے دن انہوں نے صبح کے قریب ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ گویا شیطان آیا ہے اور وہ آکر اُن کو ہلاتا ہے کہ میاں ! اُٹھ نماز پڑھ ، میاں ! اُٹھ نماز پڑھ.وہ پہلے تو گھبر ائے اور سمجھا کہ کوئی کمرہ کے اندر آگیا ہے کیونکہ خواب میں بھی انسان ایسی چیزوں سے گھبراتا ہے جن سے اُسے گھبرانے کی عادت ہوتی ہے مگر جب انہوں نے پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ میں شیطان ہوں.انہوں نے کہا تم شیطان ہو اور مجھے نماز کے لئے جگار ہے ہو ؟ کہنے لگا ہاں! میں نماز کے لئے جگا رہا ہوں.گل میں نے تمہاری نماز ضائع کرادی تھی اور ایسے حالات پیدا کر دیئے تھے کہ تم سوتے رہو اور آنکھ نہ کھلے مگر اس پر تم اتنا روئے اور تم نے اتنی توبہ کی کہ خدا تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کی نماز جو رہ گئی ہے اس کے بدلہ میں دس نیکیوں کا ثواب لکھ دو کیونکہ یہ بہت رویا ہے.میں نے کہا میں تو ایک نیکی سے محروم کر رہا تھا اور اس کو دس نیکیاں مل گئیں آج اسے جگا دو کہ 9 نیکیاں تو بچیں.یہ طریقہ ہے بدیوں کی جگہ نیکیاں لکھنے کا.یعنی انسان کے دل میں جو ندامت اور توبہ اور انابت پیدا ہوتی ہے اُس کا ثواب اتنا مقرر کر دیا جاتا ہے کہ وہ ان بدیوں کی جگہ کو ڈھانپ لیتا ہے اور اس کی جگہ نیکی بن جاتا ہے.بدیوں کو نیکیوں میں بدلنے کی ایک اور مثال اسی طرح ایک دوسری مثال حدیث میں آتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ لوگوں سے معاملہ

Page 86

انوار العلوم جلد 25 62 سیر روحانی (8) کریگا تو ایک وقت ایک مجرم کو نکالا جائے گا.اُس کے بڑے مجرم ہونگے مگر اُس کے دل میں کوئی ایسی نیکی ہو گی کہ جس کی وجہ سے خدا تعالیٰ کہے گا کہ میں نے اس کو ضرور بخشنا ہے.چنانچہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا وہ ڈر رہا ہو گا کہ مجھے سزا ملے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے دل میں فیصلہ کر چکا ہو گا کہ اس کی فلاں نیکی کی وجہ سے میں نے اسے بخشا ہے.مثلاً ممکن ہے اُس کے دل میں محبتِ رسول بڑی ہو یا اللہ تعالیٰ کی بڑی محبت ہو لیکن اعمال میں کمزور ہو.یا غریبوں کی اُس نے بڑی خبر گیری کی ہو یا اور کوئی ایسی نیکی ہو جو اتنی نمایاں ہو گئی ہو کہ اللہ تعالیٰ سمجھتا ہو چاہے اس نے کتنے گناہ کئے ہوں میں نے اس کو بخش دینا ہے.تو جب وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہو گا اللہ تعالیٰ کہے گا دیکھو میاں !تم نے فلاں بدی کی.وہ کہے گا ہاں حضور مجھ سے ایسا ہو گیا.فرمائے گا اچھا فرشتو! اس کے بدلہ میں اس کے دس ثواب لکھ دو.پھر پوچھے گا تم نے فلاں بدی کی تھی؟ وہ کہے گا جی حضور کی تھی.فرمائے گا اچھا اس کے دس ثواب لکھ دو.تو چونکہ اُس کے لئے بخشش کسی ایسی نیکی کی وجہ سے جو اپنی انتہاء کو پہنچی ہوئی تھی مقدر تھی خدا تعالیٰ اُس کے گناہ گنانے شروع کر دیگا اور فرمائے گا کہ ان کے بدلہ میں نیکیاں لکھتے چلے جاؤ.لیکن اس کے بڑے بڑے گناہ نہیں گنائے گا تا کہ وہ شرمندہ نہ ہو.جب اللہ تعالیٰ ختم کر بیٹھے گا تو وہ اپنے دل میں سوچے گا کہ میرے فلاں فلاں گناہ بھی موجود تھے اگر چھوٹے چھوٹے گناہوں کی دس دس نیکیاں ملی ہیں تو ان کی تو سو سو ملنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ تو اس کی پردہ پوشی کے لئے ایسا کر یگا لیکن جب وہ خاموش ہو گا تو بندہ کہے گا حضور ! آپ تو بھول ہی گئے میں نے فلاں گناہ بھی کیا تھا اور فلاں میں نے قتل کیا تھا اُس کو تو آپ نے بیان ہی نہیں کیا.اسی طرح فلاں ڈا کہ آپ نے بیان نہیں کیا یہ تو چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کی ہیں.اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا کہ دیکھو میر ابندہ میرے عفو پر اتنا دلیر ہو گیا ہے کہ اب یہ اپنے گناہ آپ گناتا ہے 21 تو یہ جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يُبَدِّلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنت اس کے معنے اسی طرز کے ہیں کہ کوئی نہ کوئی نیکی اس کے دل میں ہوتی ہے اور وہ اتنے مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ اس نیکی کے مقام کی وجہ سے بدی کو نیکی کے طور پر قبول کر لیا جاتا ہے.یہی اس کے معنے ہیں.اور اصل مقصود رویہ

Page 87

انوار العلوم جلد 25 63 سیر روحانی (8) بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کی اعلیٰ توبہ کی وجہ سے اُن کی دلداری کے لئے اور ان کے دلوں کو تسکین دینے کے لئے اُن کے گناہوں کو بھی نیکی کے ثواب میں بدل دیتا ہے.روحانی انعامات کو کوئی شخص پھر اس سے اوپر میں نے دیکھا کہ اس دفتر میں جن لوگوں کے لئے انعام مقرر ہوئے تھے چھیننے کی طاقت نہیں رکھتا انہیں کوئی چھین نہیں سکتا تھا.بر خلاف دنیوی انعاموں کے کہ یہاں ایک بادشاہ دیتا ہے اور دوسر ا چھین لیتا ہے بلکہ بعض دفعہ وہ بادشاہ آپ ہی چھین لیتا ہے.ایک جرنیل کی معزولی دیکھ کر حضرت شبلی تاریخ میں قصہ آتا ہے کہ حضرت شبلی علیہ الرحمۃ جو کا رونا اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنا حضرت جنید بغدادی" کے شاگر د تھے پہلے وہ بڑے ظالم ہوتے تھے.امیر آدمی تھے اور ایک صوبہ کے گورنر تھے انہوں نے اپنی گورنری کے زمانہ میں بڑے بڑے ظلم کئے تھے.اُس زمانہ میں عباسی بادشاہ کے خلاف ایران میں کوئی بغاوت ہوئی کئی جرنیل بھجوائے گئے مگر انہوں نے شکست کھائی اور وہ دشمن کو مغلوب نہ کر سکے.آخر بادشاہ نے ایک جرنیل کو چنا جو بہت دلیر تھا اور اُس کو کہا کہ تم جاؤ اور جاکر دشمن کو شکست دو یہ کام تم سے ہو گا.وہ گیا اور چھ مہینے سال اُس نے بڑی بڑی مصیبتیں اُٹھائیں، تکلیفیں جھیلیں اور آخر ہمت کر کے اُس نے دشمن کو شکست دی اور وہ علاقہ بادشاہ کے لئے فتح کیا.واپس آیا تو بادشاہ نے ایک بڑا در بار اُس کے اعزاز میں منعقد کیا اور کہا کہ اس کو خلعت دیا جائے.چنانچہ وہ دربار میں آیا اور اُس کو خلعت پہنایا گیا.پرانے زمانہ میں یہی طریق رائج تھا جیسے آجکل خطاب وغیرہ دیتے ہیں تو دربار لگتے ہیں اسی طرح دربار لگایا گیا.اتفاقا شبلی بھی اُن دنوں اپنے کام کی کوئی رپورٹ دینے آئے ہوئے تھے چنانچہ وہ بھی دربار میں بُلائے گئے.سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور اوپر وہ جرنیل بیٹھا ہوا تھا کہ بادشاہ نے پہلے اس کی تعریف میں کچھ کلمات کہے ، اس کے بعد کہا کہ اس کو خلعت پہنایا جائے.چنانچہ اسے ایک طرف کمرہ میں

Page 88

انوار العلوم جلد 25 64 سیر روحانی (8) لے گئے اور اُس کو خلعت پہنایا گیا.بد قسمتی سے وہ اُسی دن سفر سے آیا تھا کہیں سفر میں اُسے ہوا لگی یا کچھ اور ہوا جس کی وجہ سے اُس کو شدید نزلہ ہو گیا اور گھر سے چلتے وقت وہ رومال لا نا بھول گیا.جب بادشاہ کے سامنے آیا تو یکدم اُسے چھینک آئی اور چھینک سے رینٹھ نکل کے ہونٹوں پر آگئی.اب اگر وہ رینٹھ کے ساتھ بادشاہ کے سامنے کھڑا رہتا ہے تو بادشاہ خفا ہوتا ہے اور اگر پونچھتا ہے تو رومال نہیں.اُس نے اِدھر اُدھر نظر بچا کے اُسی خلعت کا ایک پہلو لیا اور ناک پونچھ لیا.بادشاہ نے دیکھ لیا اُسے سخت غصہ چڑھا اور کہنے لگا.ہم نے تمہارا اتنا اعزاز کیا، تمہیں خلعت دی اور تمہیں اتنا نوازا اور تم نے اتنی تحقیر کی ہے کہ اس کے ساتھ ناک پونچھتے ہو.فوراً یہ خلعت اُتار لیا جائے اور اس کو جرنیلی سے موقوف کیا جائے.خیر وہ بیچارہ تو کیا کر سکتا تھا خلعت اُتارنے لگے تو شبلی نے دربار میں چیخیں مارنی شروع کر دیں کہ ہائے میں مر گیا.بادشاہ حیران ہوا کہ یہ خواہ مخواہ کیوں شور مچارہا ہے.چنانچہ بادشاہ نے کہا تم کو کیا ہوا؟ ہم اس پر خفا ہوئے ہیں تم کیوں خواہ مخواہ رو رہے ہو ؟ اُس نے کہا بادشاہ سلامت! میں نہیں روؤ نگا تو کون روئے گا.اس شخص نے سال بھر ہر صبح سے شام تک اپنی بیوی کو بیوہ کیا، سال بھر میں ہر صبح سے شام تک اس نے اپنے بچوں کو یتیم کیا، محض آپ کی خوشنودی کے لئے.اور بارہ مہینے اس نے اپنے آپ کو قتل و غارت اور خون کے آگے ہدف بنایا صرف اس لئے کہ آپ کی رضا حاصل ہو جائے.اور جب اتنی قربانی کے بعد یہ آیا اور آپ نے اس کو دس ہزار یا بیس ہزار کا خلعت بھی دے دیا اور اس قربانی کے مقابلہ میں بلکہ اس کی ایک دن کی قربانی کے مقابلہ میں بھی تو یہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا مگر آپ نے اس پر اتنے غصے کا اظہار کیا کہ اس نے میرے خلعت کی ہتک کی ہے اور اس سے ناک پونچھ لیا ہے اور اس قدر ناراض ہو گئے کہ کہا اس کو نکال دو، یہ بڑا خبیث اور بے ایمان ہے.تو حضور ! یہ کان، ناک، آنکھ یہ جسم کی خلعت جو خدا نے مجھے پہنائی ہے میں روز آپ کی خاطر اس کو گندہ اور ناپاک کرتا ہوں.مجھے قیامت کے دن خدا کیا کہے گا کہ کمبخت! تو نے یہ خلعت کیوں گندہ کیا تھا.پس میں نہ روؤں تو اور کون روئے ؟ وہ اُسی وقت اُٹھے استعفے پیش کیا اور چلے گئے.22

Page 89

انوار العلوم جلد 25 65 سیر روحانی (8) بیعت کے لئے حضرت جنید کی شرط پھر انہوں نے علماء کی مجلس میں جانا شروع کیا اور کہا میرے لئے دُعا کریں کہ مجھے تو بہ نصیب ہو.اُن کے ظلم بڑے مشہور تھے اور بڑی غارت اور تباہی انہوں نے مچائی ہوئی تھی.جس عالم کے پاس بھی جائیں وہ کہے میاں! تمہاری توبہ قبول نہیں ہو سکتی.تمہاری تو بہ بھلا خدا کب قبول کر سکتا ہے.تم نے تو اتنے ظلم کئے ہیں کہ جنگی کوئی حد ہی نہیں.وہ مایوس ہوتے ہوئے بیسیوں علماء کے پاس گئے مگر ہر ایک نے یہی جواب دیا.آخر کسی نے کہا کہ جنید بغدادی بڑے صوفی ہیں اور بڑے خدا پرست اور بڑے رحم دل ہیں اُن کے پاس جاؤ تو شاید وہ تمہاری توبہ قبول کر لیں.چنانچہ وہ اُن کے پاس گئے اور جاکر کہا کہ میں شبلی ہوں.میں اس طرح علماء کے پاس گیا تھا مگر انکار کیا.اب میں آپ کے پاس آیا ہوں آپ میرے لئے دُعا کریں اور توبہ قبول کریں.حضرت جنید نے کہا کہ ہاں خدا تعالیٰ سب کے گناہوں کو معاف کرتا ہے پر کچھ تمہیں بھی اپنی تو بہ کے آثار دکھانے چاہئیں.انہوں نے کہا میں دکھانے کے لئے تیار ہوں.آپ جو محکم دینا چاہیں دیں.فرمایا جاؤ اس صوبہ میں جہاں تم گورنر مقرر تھے اور پھر جس شہر میں تم مقرر تھے اور جہاں روز تم سزائیں دیا کرتے تھے ، کوڑے لگوایا کرتے تھے ، نالشیں کیا کرتے تھے ، گھروں پر قبضہ کیا کرتے تھے ، مردوں کو قید کیا کرتے تھے ، عورتوں کو بے عزت کیا کرتے تھے.اُس شہر میں جاؤ اور ہر گھر پر دستک دو اور ہر گھر کے آدمیوں کو باہر بلا کے کہو کہ میں مجرم کی حیثیت میں تمہارے سامنے پیش ہوں جو چاہو مجھے سزا دے دو مگر خدا کے لئے مجھے معاف کر دو.ایک ایک گھر میں جاؤ اور معافی لو.جب تم سارا شہر پھر لو گے تو پھر میرے پاس آنا میں تمہاری بیعت لے لونگا.شبلی نے کہا مجھے منظور ہے.شبلی کا گھر گھر جا کر لوگوں چنانچہ وہ وہاں گئے اور ایک سرے سے لے کر دستک دینی شروع کی.لوگوں نے پوچھا کون سے معافی حاصل کرنا ہے ؟ انہوں نے کہا میں شیلی ہوں.پہلے تو وہ سمجھیں کہ کوئی فقیر ہو گا یو نہی بات کرتا ہے مگر باہر نکل کے دیکھنا تو انہیں معلوم ہونا کہ

Page 90

انوار العلوم جلد 25 66 سیر روحانی (8) گور نر صاحب کھڑے ہیں.انہوں نے فوراً کہنا کہ حضور ! کس طرح تشریف لائے ہیں ؟ وہ کہتے حضور حضور کچھ نہیں میں معافی مانگنے آیا ہوں.میں نے تم لوگوں پر بڑے ظلم کئے ہیں مجھے خدا کے لئے معاف کر دو.پہلے تو لو گوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ مذاق ہو رہا ہے.چنانچہ انہوں نے کہنا نہیں صاحب! آپ تو ہمارے بڑے آدمی ہیں.وہ کہتے بڑے کوئی نہیں میں نے استعفیٰ دے دیا ہے اب میں معافی مانگنے آیا ہوں کیونکہ میری نجات تمہاری معافی کے بغیر نہیں ہو سکتی.بڑے اصرار کے بعد آخر ان لوگوں کو یقین آجانا کہ یہ بات ٹھیک ہے اور انہوں نے کہہ دینا اچھا ہم نے معاف کر دیا.لیکن انسانی دل کو خد اتعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ جب اس کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ اب نیکی آچکی ہے تو پھر وہ برداشت نہیں کر سکتا.ابھی پانچ سات گھر ہی شبلی گزرے تھے کہ شہر میں خبر مشہور ہو گئی کہ گورنر آج اس طرح پھر رہا ہے.اب بجائے اس کے کہ شبلی جاکے دستک دیتے ادھر وہ گھر پر پہنچتے اور اُدھر گھر والے روتے ہوئے باہر آجاتے اور کہتے ہمیں آپ شرمندہ نہ کریں، ہم نے معاف کیا اور ہم نے اپنے دل سے بات بالکل نکال دی.شام تک سارے شہر میں معافیاں ہو گئیں اور بجائے اِس کے کہ وہ مجرم کے طور پر جاتے اُن کا اعزاز ہونا شروع ہو گیا.اس کے بعد واپس گئے.حضرت جنید نے اُن کی بیعت لی، اُن کی توبہ قبول کی اور پھر وہ خود بھی ایک بڑے بزرگ بن گئے.23 دنیوی خلعتوں اور جاگیروں کی ناپائیداری تو دیکھو خلعت ہوتے ہیں لیکن دنیوی بادشاہوں کے خلعت کبھی آپ ہی چھن جاتے ہیں اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ اولادوں سے چھن جاتے ہیں.مثلاً پٹھانوں کے وقت کی جاگیریں مغلوں نے چھین لیں.مغلوں کے وقت کی جاگیریں جن کے پاس تھیں اُس وقت وہ بڑے اکڑ اکڑ کر پھرتے تھے مگر انگریز آئے تو انگریزوں نے چھین لیں.پھر انگریزوں نے جاگیریں دیں تو اب پاکستان اور ہندوستان والے چھین رہے ہیں.تو کچھ مدت کے لئے وہ انعام رہتے ہیں اور اس کے بعد وہ جاگیر چھن جاتی ہے مگر یہ وہ حکومت تھی اور یہ وہ دفتر تھے کہ میں نے دیکھا کہ اس میں جو جاگیریں ملتی تھیں

Page 91

انوار العلوم جلد 25 67 سیر روحانی (8) اُن کے ساتھ بتا دیا جاتا تھا کہ یہ کتنے عرصہ کے لئے جاگیر ہے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کے لئے ہے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ یہ ہمیشہ کیلئے ہے پر یہ یہ وقفے پڑ جائیں گے، کسی کو کہا جاتا تھا کہ عارضی ہے جب تک ٹھیک رہو گے ملے گی.گویا یہ خدمت کی جاگیر ہے جب تک خدمت کروگے ملے گی جب خدمت نہ کرو گے چھین لی جائے گی.روحانی جاگیر داروں کے چنانچہ میں نے دیکھا کہ اس میں جاگیر داروں کے متعلق یہ قانون تھا کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ متعلق عالم روحانی کا قانون عَبِدُوا الظَّلِحَتِ لَهُمْ أَجْرٌ غَيْرُ مَمْنُونٍ 24 ہم جو جاگیر دیگے اگر تو وہ شخص جس کو جاگیر دی گئی ہو گی اپنی زندگی بھر وفاداری کو قائم رکھے گا تو وہ جاگیر ابد الآباد تک اُس کے نام لکھی جائیگی اور اس سے چھینی نہیں جائیگی.مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی یہ تو اخروی انعام ہے.اس دنیا کے انعام میں بھی میں نے یہی قانون دیکھا.اُخروی انعام عطا کردہ ایک مقدس جاگیر کے متعلق تو مجھے غیر مسلم لوگ کہیں گے کہ میاں! یہ تو منہ کی باتیں ہیں اگلا جہان کس نے دیکھا ہے.تم یہ بتاؤ اور اس بات کا ثبوت دو کہ یہاں بھی مل جاتی ہے ؟ تم اپنے دربار کی یہاں کوئی ایسی جائداد بتاؤ جو مستقل طور پر مل گئی ہو اور پھر کسی نے چھینی نہ ہو.تو میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں قرآن کریم سے یہ ثبوت نکلا کہ اِن اَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَةَ مُبْرَكًا وَهُدًى لِلْعَلَمِينَ فِيْهِ ايْنَ بَيِّنْتُ مَّقَامُ إِبْرَاهِيمَ وَ مَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَلَمِيْنَ _ 25 اس جاگیر کے ساتھ تعلق فرماتا ہے ایک جاگیر ہم نے دنیا کے کچھ لوگوں کو بخشی اور ہم نے کہا ہمارے نام پر.رکھنے والی سات اور جاگیریں ایک گھر جو اس کے ساتھ ہم تم کو جاگیر دینگے.تو سب سے پہلے جو گھر خدا تعالیٰ کے نام پر لوگوں کے فائدہ کے لئے بنایا گیا وہ مکہ میں بنا.

Page 92

انوار العلوم جلد 25 68 سیر روحانی (8) مُبَارَ گا ہم نے کہا اس گھر کو ہمیشہ برکت دی جائے گی.وَ هُدًى لِلْعَلَمِینَ اور یہ گھر ہمیشہ ہی دنیا کے لئے دین اور تقویٰ اور طہارت میں راہنمائی کا موجب رہیگا.یہ دو جاگیریں ہو گئیں.فِیهِ ایت بینت تیسری جاگیر یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے نشاناتِ الہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے.مَقَامُ ابرھیم چوتھی جاگیر یہ ہے کہ جو لوگ اس جگہ آئیں گے وہ ابراہیمی درجے پاتے رہیں گے.وَمَنْ دَخَلَهُ كَانَ آمِنًا اور پانچویں جاگیر یہ ہو گی کہ اُس کے اندر امن لکھ دیا جائے گا یعنی جو شخص اس جاگیر میں آئے گا اُس کو امن مل جائیگا.وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِج البیت چھٹی جاگیر یہ ہوگی کہ لوگوں کے دلوں میں ہم تحریک کرتے رہیں گے کہ وہ اس کا ادب کریں اور آکر اس کی زیارت کرتے رہیں.وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ العلمينَ اور ساتویں جاگیر یہ ہو گی کہ جو شخص اس سے منہ موڑے گا ہم اس سے تعلق نہیں رکھیں گے.دیکھو! یہ سات جاگیریں ملتی ہیں کہ :- (1) اس مقام کو ہمیشہ کے لئے برکت والا بنایا جاتا ہے.(2) یہ مقام دین اور تقویٰ میں لوگوں کی راہنمائی کا موجب ہو گا.(3) اس مقام سے نشانات الہیہ ظاہر ہوتے رہیں گے.(4) جو لوگ اس سے تعلق رکھیں گے وہ ابراہیمی در جے حاصل کریں گے.(5) جو شخص اس کے اندر داخل ہو گا اُسے امن حاصل ہو جائے گا.(6) اور پھر یہ کہ اس کی طرف لوگوں کو ڈور ڈور سے کھینچ کر لایا جائے گا تا کہ وہ اس کی زیارت کریں.(7) اور جو اس سے منہ موڑے گا خدا تعالیٰ اُس سے منہ موڑلے گا.یعنی اس کے مخالف بھی ہمیشہ رہیں گے لیکن اُن کا تعلق اللہ تعالیٰ سے نہیں ہو گا.ہر زمانہ میں یہ مقدس جاگیر اب دیکھو کس طرح ہر زمانہ میں یہ نشان پورا ہو تا رہا.دنیا کی جاگیروں کے لینے دشمن کے حملہ سے محفوظ رہی والے تو بڑے بڑے جتھے رکھتے تھے مگر پھر.

Page 93

انوار العلوم جلد 25 69 سیر روحانی (8) بھی وہ ناکام رہے اور ان کی جاگیریں ضبط ہو گئیں لیکن یہاں کوئی پوچھنے والا ہی نہیں تھا معمولی حیثیت تھی.کوئی طاقت نہیں ، کوئی قوت نہیں ، کوئی سامان نہیں صرف یہ اعلان ہے کہ یہ شاہی جاگیر ہے لیکن پھر بھی وہ جاگیر محفوظ رہی.یمن کے گورنر کا بیت اللہ پر حملہ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ آج سے چودہ سو سال پہلے یمن میں ایک گورنر تھا.اُس نے ایک گر جابنایا اور کہا کہ میں اس کو عرب کے سارے لوگوں کے لئے عزت کی جگہ بناؤں گا مگر وہ آباد نہ ہوا.آخر اُس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ گر جا آباد کیوں نہیں ہوتا ؟ انہوں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ عرب میں ایک پرانا مکان ہے بیت اللہ یا خانہ کعبہ اُس کو کہتے ہیں اُس کی سارے عرب عزت کرتے ہیں جب تک وہ نہیں ٹوٹے گا لوگوں نے اس کی طرف توجہ نہیں کرنی.پہلے اُس کو توڑ لو پھر کوئی تجویز ہوگی.اُس نے کہا بہت اچھا.چنانچہ اُس نے لشکر لیا اور چل پڑا.چلتے چلتے طائف کے مقام پر پہنچے.وہاں کے لوگوں کی مکہ والوں سے مخالفت تھی کیونکہ وہ مکہ کے مقابلہ میں طائف کا جو بڑا بت تھا اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اس کو زیادہ عزت دینی چاہئے.اُس نے اُن کو رشوت وغیرہ دی اور اس طرح اُن کے دلوں میں جو اپنی قوم کا ڈر تھا وہ اُتارا اور انہیں کہا کہ ہم کو مکہ پہنچاؤ.وہ تیار ہو گئے.جب لشکر مکہ کے قریب پہنچا تو جیسا کہ پرانے زمانہ میں قاعدہ تھا ایک منزل پر پہنچ کر وہاں سے انہوں نے مکہ والوں کو نوٹس دیا کہ ہتھیار پھینک و تم پر حملہ کر دیا جائے گا.اُس وقت جو مہذب حکومتیں تھیں وہ اسی طرح کیا کرتی تھیں.چنانچہ اسلام میں بھی یہی طریق رائج ہے.جب یہ علم پہنچا تو مکہ کے لوگ گھبر اگئے.انہوں نے کہا اتنا بڑا لشکر آیا ہے جو دس یا بیس یا پچاس ہزار کا ہے اور مکہ میں سپاہی پانچ سات سو ہیں ان کا ہم کہاں مقابلہ کر سکتے ہیں.پھر ان کے ساتھ ہاتھی اور دوسری قسم کے سامان تھے ، اسی طرح منجنیقیں وغیرہ تھیں.انہوں نے بہت منتیں سماجتیں کیں ، بادشاہ کے آگے ہاتھ جوڑے مگر اُس نے کہا میں نہیں مانتا، تم اپنا کوئی وفد بھیجو.میں یہ تو فیصلہ کر چکا ہوں کہ اِس گھر کو گرا دونگا لیکن تمہارے لئے کوئی گزارہ

Page 94

70 سیر روحانی (8) انوار العلوم جلد 25 مقرر کر دونگا کیونکہ تمہیں اِس کے چڑھاووں سے آمدن ہوتی تھی یا اس کی زیارت کرنے کے لئے جو لوگ آتے تھے اُن سے آمدن ہوتی تھی.پس میں تمہارے لئے کوئی جائداد مقرر کر دونگا اور تمہارا اس پر گزارہ ہو جائے گا مگر میں یہ نہیں مان سکتا کہ اس گھر کو نہ گراؤں یہ گھر تو میں نے گرا کر رہنا ہے.چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے جاکے کہا کہ بادشاہ تو اس بات پر مُصر ہے کہ اِس گھر کو میں ضرور گراؤں گا اب کوئی وفد بھیجا جائے.چنانچہ انہوں نے ایک وفد بھیجا جس کا سردار حضرت عبد المطلب کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا تھے چنا گیا.لوگوں نے اُن سے کہا کہ آپ جائیے اور کوشش کیجیئے کہ کسی طرح یہ گھر بچ جائے.حضرت عبد المطلب اور ابرہہ کی ملاقات یہ وہاں پہنچے تو بادشاہ نے ان کو بلایا اور ان سے پہلے ادھر اُدھر کی باتیں کیں.ملک کی سیاست کے متعلق باتیں کیں، ملک کی اقتصادی حالت کے متعلق باتیں کیں، قومیت کے متعلق باتیں کیں.حضرت عبد المطلب بڑے سمجھدار اور دانا تھے انہوں نے جو جواب دیئے بادشاہ اُن سے بہت متاثر ہوا اور اُس نے کہا یہ تو بڑا سمجھدار آدمی ہے.خوش ہو کے اُس نے کہا کہ میں تو آپ سے مل کر بہت ہی خوش ہو ا ہوں مجھے توقع نہیں تھی کہ مکہ میں ایسے عقلمند بھی موجود ہیں.آپ کوئی انعام مجھ سے مانگیں میں دینے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا میرے دو سو اونٹ آپ کے سپاہی پکڑ لائے ہیں وہ مجھے واپس کر دیں.بادشاہ کو غصہ چڑھ گیا اور اُس نے کہا دوسو اونٹ کی حیثیت کیا ہے میں تمہارا مذ ہبی مکان گرانے کے لئے آیا ہوں.میں مانتا یا نہ مانتا تمہاری عقل سے میں یہ امید کرتا تھا کہ تم کہو گے یہ میرا مذ ہبی مقدس مقام ہے اِس کو چھوڑ دو.مگر بجائے اس کے کہ تم مکہ کی سفارش کرتے ، خانہ کعبہ کی سفارش کرتے کہ اس کو چھوڑ دو تم نے اپنے دو سو اونٹوں کو یاد رکھا، میرے دل میں سے تو تمہاری ساری عزت جاتی رہی ہے.حضرت عبد المطلب نے جواب دیا کہ بادشاہ تم جو چاہو نتیجہ نکال لو.باقی میں تو سمجھتا ہوں اور یہی میں نے آپ کو بتایا ہے کہ دو سو اونٹ

Page 95

انوار العلوم جلد 25 71 سیر روحانی (8) میرے ہیں.بھلا کیا حیثیت ہے دو سو اونٹ کی؟ مگر مجھے ان کی فکر ہے کہ کسی طرح مجھے مل جائیں اور میں اُن کی حفاظت چاہتا ہوں.تو اگر یہ اللہ کا گھر ہے تو کیا اللہ تعالیٰ کو اس کی اتنی فکر نہیں ہو گی جتنی مجھے دو سو اونٹ کی ہے ؟ اس جواب سے وہ ایسا متاثر ہوا کہ اُس نے اُن کے اونٹوں کی واپسی کا حکم دے دیا مگر بیت اللہ پر حملہ کرنے کا ارادہ اُس نے ترک نہ کیا.خیر وہ واپس آگئے اور انہوں نے ساری قوم کو کہدیا کہ پہاڑ پر چڑھ جاؤ اور ملکہ کو خالی کر دو.لوگوں نے کہا.مکہ ہمارا مقدس مقام ہے.کیا اس مقدس مقام کو ہم خالی کر دیں ؟ انہوں نے کہا میاں ! تمہارا امکان نہیں خدا کا مکان ہے.تمہیں اس کا درد ہے تو خدا کو اِس کا درد کیوں نہیں ہو گا.جس کا یہ گھر ہے وہ آپ اس کی حفاظت کریگا.تم چھوڑو اس کو اور باہر چلو، اللہ تعالیٰ اس کی آپ حفاظت کریگا.اگر ہماری طاقت ہوتی تو ہم لڑتے لیکن ہم میں طاقت نہیں ہے.اب یہ خدا ہی کی طاقت ہے کہ وہ اس حملہ کو روکے.چنانچہ انہوں نے سب کو شہر سے نکالا اور پہاڑ پر چڑھ گئے 26 ابرہہ کے لشکر کی تباہی مگر وہاں ایک دن انتظار کیا، دودن انتظار کیا، تین دن انتظار کیا جو اُس نے نوٹس دیا تھا کہ تین دن کے اندر میں حملہ کرونگاوہ تین دن گزر گئے اور کوئی بھی نہ آیا.پھر چوتھا دن گزرا، پانچواں دن گزرا.حیران ہو گئے کہ کیا بات ہے.آیا اُس نے معاف کر دیا ہے یا کوئی اور بات ہوئی ہے.آخر آدمی بھیجے گئے وہاں جو گئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ میدانوں میں لاشیں ہی لاشیں پڑی ہوئی ہیں اور کوئی لشکر نظر نہیں آتا.پستہ لیا تو طائف والوں نے بتایا کہ اُن میں بے تحاشا چیچک پھیلی.وہ حبشی فوجیں تھیں اور حبشیوں میں چیچک پھیلتی ہے تو بالکل سیلاب کی طرح آتی ہے.خصوصاً اُس زمانہ میں تو بیماریوں کے علاج ہی کوئی نہیں ہوتے تھے.دیکھا کہ تمام میدان لاشوں سے اٹا پڑا ہے.انہوں نے کہا کہ بادشاہ کو بھی چیچک ہوئی اور لوگ اُس کو ڈولی میں ڈال کر یمن کی طرف لے گئے.غرض اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کی حفاظت کی اور وہ جائداد پھر محفوظ کی محفوظ رہ گئی.

Page 96

انوار العلوم جلد 25 72 سیر روحانی (8) اس مقدس جاگیر کو چھیننے کی یہ وہ جائداد ہے جسکے مقابلہ میں دنیا کی کوئی اور جائداد پیش نہیں کی جاسکتی.وہ حکومتیں کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا بدل گئیں جن کے سپر د جائداد کی گئی تھی، ابراہیم" چلا گیا، اسمعیل چلا گیا، وہ جن کو یہ جائداد دی گئی تھی ختم ہو گئے نئی حکومتیں اور نئی بادشاہتیں آگئیں.یمن کا عیسائی بادشاہ اس ملک پر قابض ہو کے آگیا لیکن اس جائداد کے متعلق اُس نے فرمایا کہ خبردار! اگر اُس کو چھیڑا تو ہم فور اسیدھا کر دیں گے اور جب وہ باز نہ آیا تو اُس کو سیدھا کر دیا.چنانچہ اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اَلَمْ تَرَ كَيْفَ فَعَلَ رَبُّكَ بِأَصْحُبِ الْفِيلِ اَلَمْ يَجْعَلْ كَيْدَهُمْ فِي تَضْلِيلٍ - 27 ہے اُن لوگوں کے ساتھ ہم نے کیا کیا؟ اُن کے بڑے بڑے بُرے ارادے تھے نے اُن کے ارادوں کو کچل کر رکھ دیا اور اپنی جاگیر کو محفوظ رکھا کیونکہ ہم نے کہا میں خدا اس جاگیر کا دینے والا ہوں کوئی انسان اس کو چھین نہیں سکتا.گزشتہ جنگ عظیم میں اٹلی کا پھر اس کے بعد اسلام کی حکومت رہی.خانہ کعبہ کی حفاظت کرنے والے لوگ ناپاک ارادہ اور اُس کی ناکامی موجود رہے لیکن جب پچھلی جنگ آئی تو پھر ایسی حکومتیں پیدا ہوئیں جنہوں نے یہ بد ارادہ کیا کہ ترکوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک کہ مکہ کونہ لیا جائے.چنانچہ اٹلی نے یہ ارادہ ظاہر کیا مگر یزوں اور دوسری قوموں نے اُس کو کہا کہ اس کی ہم ہرگز اجازت نہیں دینگے کیونکہ اگر تم نے ایسا کیا تو ساری اسلامی دنیا ہمارے خلاف ہو جائیگی اور یہ جنگ جیتنی ہمارے لئے مشکل ہو جائیگی چنانچہ خدا تعالیٰ نے پھر ایسے سامان کر دیئے کہ مکہ محفوظ کا محفوظ رہا.بیت اللہ کی تقدیس اور اُس کی یہ جاگیر اتنی پرانی ہے کہ یونان کے مؤرخ حضرت مسیح کی پیدائش سے پہلے عظمت کا زمانہ قدیم سے اعتراف لکھتے ہیں کہ تاریخ کا جب سے پتہ لگتا ہے یہ مقام عرب میں مقدس چلا آرہا ہے اور لوگ اِس کی زیارت کو جاتے ہیں.تاریخ کہیں

Page 97

انوار العلوم جلد 25 73 سیر روحانی (8) نہیں بتاتی کہ یہ کب سے بنا ہے؟ اتنی پرانی جاگیر تو دنیا میں الگ رہی اس کا سواں حصہ بھی پر انی جاگیر دنیا میں کوئی نہیں جو محفوظ ہو.ساری کی ساری جائدادیں ضبط کر لی گئیں، تباہ ہو گئیں مگر یہ جاگیر اُسی طرح کھڑی ہے.ایک اور روحانی جاگیر جو خدا تعالیٰ پھر اسی دفتر سے ایک جاگیر جاری ہوئی.فرماتا ہے وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ کے نیک بندوں کو دی گئی مِنْ بَعْدِ البِاثْرِ أَنَّ الْأَرْضَ يَرِيُّهَا عِبَادِيَ الصّلِحُونَ.28 ہم نے زبور میں اپنا کلام اور اپنی حکمتیں اور اپنی نصائح لکھنے کے بعد یہ لکھا کہ فلسطین کی زمین کے ہمیشہ میرے نیک بندے وارث ہوتے رہیں گے.یہ کتنا شاندار وعدہ تھا اور کس شان سے پورا ہوا.اس وعدے کی تفصیل یہ ہے سورہ بنی اسرائیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أَوْلَهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِللَ الرِّيَارِ وَكَانَ وَعْدًا مَفْعُولًا - ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَ آمد دلكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا - 29 پھر تھوڑی دیر کے بعد فرماتا ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوا وُجُوهَكُمْ وَ لِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيَتَبِرُوا مَا عَلَوْا تَثْبِيرًا عَسَى رَبِّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُمْ وَإِن عُدْتُمْ عُدْنَا وَجَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ حَصِيرًا - 30 ارض مقدس کے متعلق فرمایا ہم نے ایک اور بھی جاگیر دی تھی اور اس کے ساتھ کچھ شرطیں لگائی تھیں اور وہ یہ کہ بعض شرائط اور قیود کا ذکر فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا.چونکہ پہلے یہود کو اِس کا ذمہ دار قرار دیا گیا تھا، اس لئے ان کو یہ جاگیر ملے گی لیکن یہ شرطیں ہیں کہ :- 1- کچھ عرصہ کے بعد ہم یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أَولَهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ ہم اپنے حکم کے ساتھ ایک قوم کو مقرر کریں گے جو بڑی فوجی طاقت رکھتی ہوگی.فَجَاسُوا خِلل وہ فلسطین کے تمام شہروں میں گھس ج

Page 98

انوار العلوم جلد 25 74 سیر روحانی (8) جائیگی اور تمہاری حکومت کو توڑ دیگی.گویا یہ جاگیر تمہارے پاس سے کچھ دنوں کے لئے ہم چھین لیں گے.پس یہ شرطی بات ہے.ثم رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ مگر کچھ مدت کے بعد ہم پھر یہ جاگیر تم کو واپس دے دینگے اور تمہاری طاقت اور قوت قائم کر دینگے وَامدَ دُنكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا اور ہم تم کو مال دینگے اور بیٹے دینگے اور تمہیں بہت زیادہ تعداد میں بڑھا دینگے اور طاقتور بنا دینگے اور پھر یہ جائداد تمہارے پاس واپس آجائے گی.فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَ بِرُوا مَا عَلَوْا تَثْبِيرً ا لیکن پھر ایک وقت کے بعد ہم دوبارہ یہ جاگیر تم سے چھین لیں گے.جب وہ دوسرا وعدہ آئے گا یعنی وَعُدُ الْآخِرَةِ آئے گا لِيَسُوا وُجُوهَكُمْ تا کہ وہ لوگ جن کو عارضی طور پر ہم یہ جاگیر دینے والے ہیں وہ تمہارے منہ خوب کالے کریں.وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ پہلی دفعہ بھی جب ہم نے جاگیر تم سے چھینی تھی تو اس وقت بھی تمہاری عبادت گاہ کو اور تمہارے خانہ کعبہ کو دشمن نے برباد کیا تھا اس دفعہ بھی یہ دشمن گھسے گا اور تمہارے خانہ کعبہ کو برباد کریگا.وَلِيْتَ بِرُوا مَا عَلَوا تثبيرا اور جس جس علاقہ میں جائے گا اُسے تباہ کرتا چلا جائے گا.گویا دوبارہ ہم پھر یہ جاگیر لے لیں گے.عَلى رَبِّكُمْ أَنْ يَرْحَمَكُم مگر پھر ہم یہ فیصلہ کریں گے کہ یہ جاگیر واپس آئے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ تمہاری طرف آئے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے گا یعنی اس بد نامی کو دور کر دیگا، یہ نہیں کہ پھر وہ یہودیوں کے ہاتھ میں آجائے.وان عدتم عدنا اور اگر تم اپنی شرارتوں سے باز نہ آئے تو پھر ہم یہ جائداد تم سے چھین لیں گے اور یہ پھر ایک اور قوم کے پاس جائے گی.وَ جَعَلْنَا جَهَنَّمَ لِلْكَفِرِينَ حَصِيرًا اور جہنم کو ہم تمہارے لئے قید خانہ بنا دیں گے یعنی پھر تم اس ملک میں واپس نہیں آؤ گے.اب دیکھو اس جگہ اتنے وعدے کئے گئے ہیں.بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ اول یہ جاگیر کچھ عرصہ تمہارے پاس رہے گی مگر اس کے بعد بابلیوں کی معرفت یہ جاگیر چھینی جائے گی.چنانچہ بابلی فوجیں آئیں اور انہوں نے عبادت گاہیں بھی تباہ کیں، شہر بھی تباہ کئے اور

Page 99

انوار العلوم جلد 25 75 سیر روحانی (8) ملک پر قبضہ کیا اور قریباً ایک سو سال حکومت کی.اس کے بعد وہ حکومت بدل گئی اور پھر یہو دی اپنے ملک پر قابض ہو گئے.رومیوں کا فلسطین پر قبضہ پھر مسیح کے بعد رومی لوگوں نے پھر اس ملک پر حملہ کیا اور اس کو تباہ اور برباد کیا.اسی طرح مسجد کو تباہ کیا اور اُس کے اندر سور کی قربانی کی اور اس پر ان کا قبضہ رہا لیکن آخر رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا.اس لئے یہاں یہ نہیں فرمایا کہ یہودیوں کو یہ جاگیر واپس کی جائیگی.پہلی جگہ تو فرمایا ہے کہ واپس کی جائیگی یعنی وہاں سے واپس ہو کر یہودیوں کو ملے گی.مگر دوسری جگہ یہ نہیں فرمایا کہ واپس کی جائیگی بلکہ یہ فرمایا ہے کہ پھر ہم تم پر رحم کریں گے یعنی تمہاری وہ بے عزتی دُور ہو جائے گی.چنانچہ جب رومی بادشاہ عیسائی ہو گیا تو پھر وہ موسیٰ کو بھی ماننے لگ گیا، داؤد کو بھی ماننے لگ گیا، اسی طرح باقی انبیاء جس قدر تھے اُن کو بھی ماننے لگ گیا.تھا وہ عیسی کو ماننے والا لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چونکہ موسوی سلسلہ میں سے تھے ، عیسائی بادشاہت یہودی نبیوں کا بھی ادب کرتی تھی، تو رات کا بھی ادب کرتی تھی بلکہ تو رات کو اپنی مقدس کتاب سمجھتی تھی گویا خدا کا رحم ہو گیا گو یہودیوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئی بلکہ عیسائیوں کے ہاتھ میں چلی گئی.مسلمانوں کے فلسطین پر قبضہ کی پیشگوئی مگر فرماتا ہے کہ اس کے بعد وَإِن عُدتم عدنا اگر تم لوگ پھر بگڑے تو ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے.اب تم میں عیسائی بھی شامل ہو گئے کیونکہ وہ بھی یہودیوں کا ایک گروہ تھے اور بتایا کہ اگر تم نے پھر کوئی شرارت کی تو پھر ہم تمہارے ہاتھ سے یہ بادشاہت نکال لیں گے.پھر مسلمان آجائیں گے اور اُن کے قبضہ میں یہ جاگیر چلی جائیگی اور وہ عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ بنیں گے اور تمہارے لئے پھر جہنم بن جائے گا یعنی تم ہمیشہ گڑھتے ہی رہنا.غرض اس جاگیر کے ساتھ یہ شرطیں لگائی گئیں کہ :- (1) یہ جاگیر چھین کر ایک اور قوم کو دے دی جائینگی.

Page 100

انوار العلوم جلد 25 76 سیر روحانی (8) (2) کچھ عرصہ کے بعد پھر یہ جاگیر تم کو واپس مل جائیگی.(3) کچھ عرصہ کے بعد پھر تم سے چھین لی جائیگی.(4) پھر یہ جاگیر تمہاری قوم کے پاس واپس آجائیگی مگر تمہارے اپنے ہاتھ میں نہیں آئے گی موسوی سلسلہ کے ماننے والوں یعنی عیسائیوں کے ہاتھ میں آجائیگی.(5) مگر تم پھر شرارت کرو گے تو پھر اُن سے بھی چھین لی جائیگی اور ایک اور قوم کو دے دی جائے گی یعنی مسلمانوں کو.مگر اس جگہ یہ نہیں مسلمانوں کی نگاہ میں عبادت گاہوں کا احترام فرمایا کہ وہ مسجد میں داخل ہو کر اُس کی ہتک کریں گے.دیکھو! پہلے دو مقامات پر فرمایا کہ وہ مسجد میں جاکر اُس کی ہتک کریں گے مگر یہ تیسری دفعہ جو عذاب آنا ہے اور جس میں اُن کے ہاتھ سے یہ جاگیر لی جانی ہے اس کے متعلق یہ نہیں فرماتا کہ وہ مسجد کی ہتک کریں گے اس لئے کہ مسلمانوں کے نزدیک بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کے تمام ماتحت انبیاء مقدس تھے ، ان کی جگہیں بھی مقدس تھیں اس لئے مسلمان اُن کی مسجدوں میں بھی وہ خرابی نہیں کر سکتے تھے جو بابلیوں اور رومیوں نے کی.یورپین مؤرخین کی تعصب آلود ذہنیت یہ مجیب لطیفہ اور قوموں کی ناشکری کی مثال ہے کہ بابلیوں نے یہودیوں کے ملک کو تباہ کیا اور ان کی مسجد کو ذلیل کیا.یورپین مصنف کتابیں لکھتے ہیں تو بابلیوں کو کوئی گالی نہیں دیتا، کوئی ان کو بُرا نہیں کہتا، کوئی ان پر الزام نہیں لگاتا.رومیوں نے اس ملک کو لیا اور اس مسجد میں خنزیر کی قربانیاں کیں.عیسائی رومی تاریخ پر کتابیں لکھتے ہیں.مثلاً گبن نے ”دی ڈیکلائن اینڈ فال آف دی رومن ایمپائر (The Decline and Fall of the Roman Empire) لکھی ہے مگر جتنی کتابوں کو دیکھ لو وہ کہتے ہیں رومن ایمپائر جیسی اچھی ایمپائر کوئی نہیں حالانکہ انہوں نے اُن کی مسجد کو گندہ کیا مگر وہ قوم جس نے اُن کی مسجد کو گندہ نہیں کیا اُس کو

Page 101

انوار العلوم جلد 25 گالیاں دی جاتی ہیں.77 سیر روحانی (8) حضرت عمرؓ کے روادارانہ سلوک حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں فلسطین فتح ہوا اور جس وقت آپ کا ایک ایمان افروز نمونہ یروشلم گئے تویر و ظلم کے پادریوں نے یروشلم باہر نکل کر شہر کی کنجیاں آپ کے حوالے کیں اور کہا کہ آپ اب ہمارے بادشاہ ہیں آپ مسجد میں آکے دو نفل پڑھ لیں تاکہ آپ کو تسلی ہو جائے کہ آپ نے ہماری مقدس جگہ میں جو آپ کی بھی مقدس جگہ ہے نماز پڑھ لی ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا میں تمہاری مسجد میں داخل ہو کر اس لئے نماز نہیں پڑھتا کہ میں ان کا خلیفہ ہوں، گل کو یہ مسلمان اس مسجد کو چھین لیں گے اور کہیں گے یہ ہماری مقدس جگہ ہے اس لئے میں باہر ہی نماز پڑھوں گا تاکہ تمہاری مسجد نہ چھینی جائے.پس ایک تو وہ تھے جنہوں نے وہاں خنزیر کی قربانی کی اور یورپ کا منہ اُن کی تعریفیں کرتے ہوئے خشک ہو تا ہے اور ایک وہ تھا جس نے مسجد میں دو نفل پڑھنے سے بھی انکار کیا کہ کہیں مسلمان کسی وقت یہ مسجد نہ چھین لیں اور اس کو رات دن گالیاں دی جاتی ہیں.کتنی ناشکر گزار اور بے حیا قوم ہے.یہودیوں کی بجائے مسلمانوں اب مسلمانوں کے پاس فلسطین آجانے کے بعد سوال ہو سکتا ہے کہ وہ یہودیوں کے کو فلسطین کیوں دیا گیا ؟ پاس تو نہ رہا، موسوی سلسلہ کے پاس بھی نہ رہا، یہ کیا معمہ ہے ؟ لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ اعتراض اصل میں نہیں پڑتا اس لئے کہ بعض دفعہ جھگڑا ہوتا ہے وارث آجاتے ہیں تو سچے وارث کہتے ہیں ہم ان کے وارث ہیں.یہی صورت اس جگہ واقع ہوئی ہے.اصل بات یہ ہے کہ خدا جاگیر دینے والا تھا.خدا تعالیٰ کے سامنے مقدمہ پیش ہوا کہ موسیٰ اور داؤد کے وارث یہ مسلمان ہیں یا موسی اور داؤد کے وارث یہودی اور عیسائی ہیں ؟ تو کورٹ نے ڈگری دی کہ اب موسیٰ اور داؤد کے وارث مسلمان ہیں چنانچہ ڈگری سے ان کو ورثہ مل گیا.جاگیر قائم ہے مگر جو اس کے

Page 102

انوار العلوم جلد 25 وارث قرار دیئے گئے تھے ان کو مل گئی.78 سیر روحانی (8) یہود کی فلسطین میں دوبارہ واپسی کی پیشگوئی پھر آگے چل کر فرماتا ہے فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جِئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا - 21 پھر اس کے بعد ایک اور وقت آئیگا کہ یہودیوں کو دنیا سے اکٹھا لر کے فلسطین میں لا کر بسا دیا جائیگا.وہ اب وقت آیا ہے جبکہ یہودی اس جگہ پر آئے ہوئے ہیں.لوگ ڈرتے ہیں اور مسلمان بھی اعتراض کرتے ہیں، چنانچہ کراچی اور لاہور میں مختلف جگہوں پر مجھ پر مسلمانوں نے اعتراض کیا کہ یہ تو وعدہ تھا کہ یہ سر زمین مسلمانوں کے ہاتھ میں رہے گی.میں نے کہا کہاں وعدہ تھا؟ قرآن میں تو لکھا ہے کہ پھر یہودی بسائے جائیں گے.کہنے لگے اچھا جی! یہ تو ہم نے کبھی نہیں سنا.میں نے کہا تمہیں قرآن پڑھانے والا کوئی ہے ہی نہیں تم نے سُننا کہاں سے ہے.میری تفسیر پڑھو اُس میں لکھا ہو ا موجود ہے.تو یہ جو وعدہ تھا کہ پھر یہودی آجائیں گے قرآن میں لکھا ہوا موجود ہے.سورۃ بنی اسرائیل میں یہ موجود ہے کہ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ جئْنَا بِكُمْ لَفِيفًا.جب آخری زمانہ کا وعدہ آئیگا تو پھر ہم تم کو اکٹھا کر کے اس جگہ پر لے آئیں گے.بہائیوں کا لغو اعتراض بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہود کے آنے کی وجہ سے اسلام منسوخ ہو گیا.گویا اُن کے نزدیک اسلام کے منسوخ ہونے کی یہ علامت ہے کیونکہ عِبَادِی الصّالِحُونَ نے اس پر قبضہ کرنا تھا.جب مسلمان وہاں سے نکال دیئے گئے تو معلوم ہوا کہ مسلمان عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ نہیں رہے.یہ اعتراض زیادہ تر بہائی قوم کرتی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ یہی پیشگوئی تورات میں موجود ہے، یہی پیشگوئی قرآن میں موجود ہے اور اسی پیشگوئی کے ہوتے ہوئے اس جاگیر کو بابلیوں نے سو سال رکھا تو اُس وقت یہودی مذہب بہائیوں کے نزدیک منسوخ نہیں ہوا.ٹائیٹس کے زمانہ سے لیکر سو دو سو سال تک بلکہ تین سو سال تک فلسطین روم کے مشرکوں کے ماتحت رہا.وہ عیسائیوں کے قبضہ میں نہیں تھا، یہودیوں

Page 103

انوار العلوم جلد 25 79 سیر روحانی (8) کے قبضہ میں نہیں تھا، مسجد میں سور کی قربانی کی جاتی تھی تب بھی وہ پیشگوئی غلط نہیں ہوئی لیکن یہودیوں کے آنے پر پانچ سال کے اندر اسلام منسوخ ہو گیا کیسی پاگل پن والی اور دشمنی کی بات ہے.یہودیت اور عیسائیت کو بہائی اگر واقع میں کسی غیر قوم کے اندر آجانے سے کوئی پیشگوئی غلط ہو جاتی ہے اور عارضی کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے؟ قبضہ بھی مستقل قبضہ کہلا تا ہے تو تم نے سو سال پیچھے ایک دفعہ قبضہ دیکھا ہے.تین سو سال دوسری دفعہ کا فروں کا قبضہ دیکھا ہے، اُس وقت کی یہودیت کو تم منسوخ نہیں کہتے اُس وقت کی عیسائیت کو تم منسوخ نہیں کہتے لیکن اسلام کے ساتھ تمہاری عداوت اتنی ہے کہ پانچ سال کے بعد ہی تم اس کو اسلام کی منسوخی کی علامت قرار دیتے ہو.جب اتنا قبضہ ہو جائے جتنا کہ عیسائیت کے زمانہ میں یہ اُن کے ہاتھ سے نکلی رہی تھی اور فلسطین غیر عیسائیوں کے قبضہ میں رہا تھایا غیر یہودیوں کے قبضہ میں رہا تھا تب تو کسی کا حق بھی ہو سکتا ہے کہ کہے لو جی! اسلام کے ہاتھ سے یہ جاگیر نکل گئی لیکن جب تک اتنا قبضہ چھوڑ اِس کا سواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، ساٹھواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا، پچاسواں حصہ بھی قبضہ نہیں ہوا تو اس پر یہ اعتراض کرنا محض عداوت نہیں تو اور کیا ظاہر کرتا ہے.بہائیوں کی اپنی لا مرکزیت پھر عجیب بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والے بہائی ہیں جن کا اپنا وہی حال ہے جیسے ہمارے ہاں مثل مشہور ہے کہ نہ آگا نہ پیچھا.وہ اسلام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مکہ اس کے پاس ہے مدینہ اس کے پاس ہے.ہم ان سے کہتے ہیں، "چھاج بولے تو بولے چھلنی کیا بولے جس میں سو سوراخ ".تمہارا کیا حق ہے کہ تم اسلام پر اعتراض کرو.تمہارے پاس تو ایک چپہ زمین بھی نہیں جس کو تم اپنا مرکز قرار دے سکو.اسلام کا تومکہ بھی موجو د ہے اور مدینہ بھی موجود ہے.وہ تو ایک زائد جاگیر تھی، وہ جاگیر اگر عارضی طور پر چلی گئی تو پھر کیا ہوا.اس کے مقابلہ میں 1870 ء سے بہائیت کا آغاز ہوا اور اب 1954ء ہو گیا ہے.

Page 104

انوار العلوم جلد 25 80 سیر روحانی (8) اس کے معنے یہ ہیں کہ اُن کے مذہب کو قائم ہوئے چوراسی سال ہو گئے اور چوراسی سال میں ایک گاؤں بھی تو انہوں نے مقدس نہیں بنایا.وہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں حکومت حاصل نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس بھی تو حکومت نہیں، ہم نے تو چند سال میں ربوہ بنا لیا.پہلے قادیان بنا ہوا تھا اب ربوہ بنا ہوا ہے.یہاں ہم آتے ہیں، نمازیں پڑھتے ہیں، اکٹھے رہتے ہیں، یہ بھی تو بتائیں کہ دنیا میں ان کا کوئی مرکز ہے یا دنیا میں کسی جگہ پر وہ اکٹھے ہوتے ہیں؟ لیکن اسلام پر صرف پانچ سال کے قبضہ کی وجہ سے اُن کے بغض نکلتے ہیں اور کہتے ہیں اسلام ختم ہو گیا اور اپنی یہ حالت ہے کہ عکہ کو مرکز قرار دیا ہوا ہے اور کہتے ہیں کہ حدیثوں میں بھی پیشگوئیاں تھیں کہ عکہ اُن کے پاس ہو گا اور تورات میں بھی پیشگوئیاں تھیں مگر اب عکہ میں بہائیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہے.پھر اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں اور کئی بیوقوف ہیں جو ان کے اعتراضوں سے مرعوب ہو جاتے ہیں مگر اس کا موقع کسی دوسرے لیکچر میں آئیگا، آج میں اس کو بیان نہیں کر سکتا.فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ غرض بابلیوں کے آنے اور رومیوں کے عارضی طور پر وہاں آجانے سے جس کا عرصہ اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے ایک دفعہ ایک سو سال اور دوسری دفعہ قریباً تین سو سال کا تھا اگر اس کو موسیٰ اور داؤد کے پیغام کے منسوخ ہونے کی علامت قرار نہیں دیا گیا تو اس وقت یہود کا عارضی طور پر قبضہ جس پر صرف پانچ سال گزرے ہیں اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت کس طرح قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ یہ تو اس کے صادق ہونے کی علامت ہے.کیونکہ جب اس نے خود یہ پیشگوئی کی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ مسلمانوں کو نکالا جائے گا اور یہودی واپس آئیں گے تو یہودیوں کا واپس آنا اسلام کے منسوخ ہونے کی علامت نہیں اسلام کے سچا ہونے کی علامت ہے.کیونکہ جو کچھ قرآن نے کہا تھا وہ پورا ہو گیا.باقی رہا یہ کہ پھر عِبَادِيَ الصُّلِحُونَ کے ہاتھ میں کس طرح رہا؟ یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے سو اس کا جواب یہ ہے کہ عارضی طور پر قبضہ پہلے بھی دو دفعہ نکل چکا ہے

Page 105

انوار العلوم جلد 25 81 سیر روحانی (8) اور عارضی طور پر اب بھی نکلا ہے.اور جب ہم کہتے ہیں " عارضی طور پر " تو لازماً اس کے معنے یہ ہیں کہ پھر مسلمان فلسطین میں جائیں گے اور بادشاہ ہونگے.لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ پھر یہودی وہاں سے نکالے جائیں گے اور لازماً اس کے یہ معنے ہیں کہ یہ سارا نظام جس کو یو.این.او کی مدد سے اور امریکہ کی مدد سے قائم کیا جارہا ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو توفیق دے گا کہ وہ اس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں اور پھر اس جگہ پر لا کر مسلمانوں کو بسائیں.احادیث میں یہود کی تباہی کی پیشگوئی دیکھو حدیوں میں بھی یہ پینگوئی آتی ہے ، حدیثوں میں یہ ذکر ہے کہ فلسطین کے علاقہ میں اسلامی لشکر آئیگا اور یہودی اس سے بھاگ کر پتھروں کے پیچھے چھپ جائیں گے.اور جب ایک مسلمان سپاہی پتھر کے پاس سے گزرے گا تو وہ پتھر کہے گا اے مسلمان خدا کے سپاہی! میرے پیچھے ایک یہودی کافر چھپا ہوا ہے اس کو مار.22 جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی تھی اُس وقت کسی یہودی کا فلسطین میں نام ونشان بھی نہیں تھا.پس اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ایک زمانہ میں یہودی اس ملک پر قابض ہو نگے مگر پھر خدا مسلمانوں کو غلبہ دیگا اور اسلامی لشکر اس ملک میں داخل ہونگے اور یہودیوں کو چن چن کر چٹانوں کے پیچھے ماریں گے.فلسطین مستقل طور پر خدا تعالیٰ کے پس عارضی میں اس لئے کہتا ہوں که أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُهَا عِبَادِيَ صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا الصلِحُونَ کا حکم موجود ہے.مستقل طور پر تو فلسطین عِبَادِيَ الصّلِحُونَ کے ہاتھ میں رہنی ہے.سو خدا تعالیٰ کے عِبَادِيَ الصّلِحُونَ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لوگ لازماً اس ملک میں جائیں گے.نہ امریکہ کے ایٹم بم کچھ کر سکتے ہیں، نہ ایچ ہم کچھ کر سکتے ہیں، نہ روس کی مدد کچھ کر سکتی ہے.یہ خدا کی تقدیر ہے یہ تو ہو کر رہنی ہے چاہے دنیا کتنازور لگا لے.

Page 106

انوار العلوم جلد 25 82 سیر روحانی (8) وَعْدُ الْآخِرَةِ کے متعلق ایک اعتراض کا جواب اس جگہ پر ایک اعتراض کیا جا سکتا ہے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ یہاں وعد الأخرق فرمایا ہے اور تم یہ کہتے ہو کہ وَعْدُ الْآخِرَةِ سے مراد آخری زمانہ ہے مگر سورۃ بنی اسرائیل کی وہ پہلی آیتیں جو تم نے پڑھی تھیں وہاں بھی تو ایک وَعْدُ الْآخِرَةِ کا ذکر ہے جس میں رومیوں کے حملہ کا ذکر ہے تو کیوں نہ یہ سمجھا جائے کہ یہ جِئْنَا بِكُمْ لَفِیفا رومیوں کے حملہ کے متعلق ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وہ وَعْدُ الآخِرَةِ نہیں ہو سکتا اس لئے کہ اس صورت میں وَعْدُ الْآخِرَةِ کو عذاب کا قائم مقام قرار دیا ہے اور اس صورت میں وَعُدُ الْآخِرَةِ کو انعام کا قائم مقام قرار دیا ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ عذاب کی پیشگوئی کو انعام سمجھ لیا جائے.اُس جگہ تو فرمایا ہے کہ جب آخرت کا وہ وعدہ آئیگا تو تم کو تباہ کر دیا جائے گا اور اس آیت میں یہ ذکر ہے کہ جب آخرت کا وعدہ آئے گا تو پھر تم کو اس ملک میں لا کر بسا دیا جائے گا.اِس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ یہ وَعْدُ الْآخِرَةِ اَور ہے اور وہ وَعْدُ الْآخِرَةِ اَور ہے.وہاں وَعْدُ الْآخِرَةِ سے مراد ہے موسوی سلسلہ کی پیشگوئی کی آخری کڑی.اور یہاں وعد الأخرق سے مراد ہے آخری زمانہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی پیشگوئی.پس یہ الفاظ کو ملتے ہیں لیکن دونوں کی عبارت صاف بتارہی ہے کہ یہ اور وعدہ ہے اور وہ اور وعدہ ہے.وہ وعدہ عذاب کا ہے اور یہ وعدہ انعام کا ہے اور انعام کا قائم مقام عذاب کا وعدہ نہیں ہو سکتا.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ " تمہاری موت آئیگی" اور دوسری دفعہ کہے " تمہارے ہاں بیٹا پیدا ہو گا" تو اب کوئی شخص یہ کہے کہ "تمہاری موت آئیگی" کے یہی معنے ہیں کہ "بیٹا پیدا ہو گا تو یہ حماقت کی بات ہو گی کیونکہ اس میں انعام کا وعدہ کیا ہے اور وہاں عذاب کا وعدہ ہے." ( الناشر الشركة الاسلامیہ لمیٹڈ.مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ) "" "اب میں دعا کر کے جلسہ کو ختم کروں گا.کچھ تاریں ہیں، وہ میں دعا سے پہلے سنا دیتا ہوں."

Page 107

انوار العلوم جلد 25 تاریں سنانے کے بعد فرمایا: - 83 سیر روحانی (8) پہلے بھی میں دعا کے لئے کہہ چکا ہوں اب احباب سب مل کر دعا کر لیں.میں بوجہ کمزوری صحت کے زیادہ نہیں بول سکتا.یوں بھی اب میرا اگلا کچھ بیٹھ رہا ہے بہر حال اب جلسہ ختم ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے پھر ایک سال ہم کو اکٹھا ہونے کا موقع دے دیا.اب سب دوست مل کر دعا کر لیں.اس کے بعد اپنے اپنے گھروں کو رخصت ہونے کی اجازت ہو گی.مگر یہ اب کہ فیصلہ کریں کہ ہر شخص کچھ نہ کچھ اخلاقی حالت میں تغیر پیدا کرنا اپنے ذمہ لگالے اور یہ عہد کرلے کہ میں نے یہ ضرور قربانی کرنی ہے.کوئی سچ پر ہی قائم ہو جائے، کوئی پر دے پر ہی قائم ہو جائے، کوئی تعلیم پر ہی قائم ہو جائے.غرض کوئی نہ کوئی چیز عملی طور پر لے لے جس سے کہ ہم دنیا کے سامنے نمونہ پیش کر سکیں اور کہہ سکیں کہ ہماری جماعت اس چیز کو قائم کرنے کے لئے کوشش کر رہی ہے.یہ کوئی ضروری نہیں کہ ساری نیکیاں کسی میں موجود ہوں.چاہے ایک ہی نیکی نمونہ کے طور پر ہو.چاہے سچ ہی کسی میں پورے طور پر آجائے تو وہی بڑا اثر پیدا کر لیتا ہے بعد میں دوسری نیکیوں کی باری باری توفیق مل جائے گی..ہمارے ایک احمدی ہیں میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ ان کا خاندان چور تھا اب تو وہ پنشن لے کر بھی آگئے ہیں.چنیوٹ کے پاس ہی رہنے والے ہیں.جب احمدی ہوئے تو انہوں نے بُری باتوں کو چھوڑ دیا اور سچ بولنے لگ گئے.جب ان کے بھائیوں نے یا باپ نے بھینس وغیرہ پچر ا کر لائی یا جانور لائے تو لوگوں نے آکر کہنا کہ تم لائے ہو کیونکہ وہ مشہور چور تھے.انہوں نے کہا کہ ہم تو نہیں لائے.قسمیں کھانی، قرآن کھانا اور یہ ان کے نزدیک بالکل آسان بات تھی.آخر انہوں نے کہنا ہم نہیں مانتے ہاں یہ لڑکا گواہی دے دیوے تو پھر ہم مان لیں گے.وہ جانتے تھے کہ یہ احمدی ہو گیا ہے جھوٹ نہیں بولتا.انہوں نے کہنا کہ اس کا فر کی گواہی کیا لینی ہے یہ تو کافر ہے اس کی کیا گواہی ہے.انہوں نے کہنا نہیں اسی کا فر کی گواہی مانی ہے.ہے تو یہ کافر پر بولتا سچ ہے.جو کچھ یہ کہہ دے گاوہ مانیں گے.اب اس کو انہوں نے الگ لے جانا اور جا کر کہنا کہ دیکھو! تم نے کہنا ہے !

Page 108

انوار العلوم جلد 25 84 سیر روحانی (8) "نہیں لائے بھینس " اُس نے کہنا لائے تو ہو ، وہاں کھڑی ہے بھینس.وہ کہتے کمبخت ! تجھے م کہہ رہے ہیں ہم نہیں لائے یہ تم نے کہنا ہے.وہ کہتا کہ میں کس طرح کہوں جب بھینس وہاں کھڑی ہے.انہوں نے کہنا ہم بھائیوں کی خاطر تم جھوٹ نہیں بولو گے ؟ اس نے کہنا کہ جھوٹ تو میں نہیں بولوں گا بولوں گا تو سچ ہی.انہوں نے خوب کوٹنا اور کوٹ کاٹ کے سمجھنا کہ اب اس کو اچھا سبق آ گیا ہے چنانچہ اسے پکڑ کر اُن کے سامنے لے جانا.انہوں نے بھی دیکھ لینا کہ خوب کوٹا ہوا ہے.انہوں نے پوچھنا کہ کیوں بھئی بھینس لائے ہیں ؟ وہ کہتا جی ہاں لائے ہیں وہاں کھڑی ہوئی ہے.پھر انہوں نے کہنا تجھے اتنا مارا تھا مگر پھر بھی تجھے سبق نہیں آیا.وہ کہتا جب وہ کھڑی ہوئی ہے تو میں کیا کرتا.اب دیکھو وہ اسے کافر کہتے تھے لیکن ساتھ ہی اُسے سچ بولنے میں ایک نمونہ بھی سمجھتے تھے.اس طرح کسی ایک خُلق کو لے لو اور اس میں اپنے آپ کو اتنا نمایاں ثابت کرو کہ سارا محله، سارا دفتر، سارا علاقہ کہے کہ یہ اس بات میں سچا ہے.ہمارے کئی بزرگ گزرے ہیں ان کا تاریخی طور پر واقعہ آتا ہے کہ باپ مثلاً بزاز تھا اور وہ کپڑا جو بیچنے لگا تو بیٹا کہنے لگا ابا کیا کر رہے ہیں ؟ اس میں تو فلاں جگہ پر داغ پڑا ہوا ہے.اب وہ گھور گھور کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا کہہ رہا ہے لیکن اس نے پھر یہی کہنا کہ نہیں نہیں داغ میں نے آپ دیکھا تھا.اس کا اثر یہ تھا کہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ یہ بیٹا جو بات کرے گاوہ ٹھیک ہو گی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ اسی طرح ہے.ان کے اندر فطرتِ صحیحہ پائی جاتی تھی.باپ تو ان کے فوت ہو چکے تھے.چچا تھے جو اُن کو پالتے تھے.وہ بت خانہ کے افسر بھی تھے اور بت بھی بنا بنا کر بیچا کرتے تھے اور لوگ ان سے بت لینے آتے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی انہوں نے دکان پر بٹھا دیا کہ یہ لڑکا ذرا تجارت کا واقف ہو جائے.وہ اپنے پچیرے بھائیوں کے ساتھ دکان پر بیٹھنے لگ گئے.ایک دن کوئی بڑھا آیا اور اس نے آکر کہا کہ میں نے ایک بت لینا ہے.کوئی ستر اسی سال کا بڑھا تھا لڑکوں نے جو دکان پر بیٹھے ہوئے تھے کہا کہ آپ چن لیجئے کون سا پسند ہے.اُس نے اِدھر اُدھر دیکھ کے اوپر ایک بت رکھا ہوا تھا اُس کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا مجھے یہ پسند.

Page 109

انوار العلوم جلد 25 85 سیر روحانی (8) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک قہقہہ مارا.اس نے کہا تم کیوں ہنسے ؟ وہ کہنے لگے کل میرے سامنے ایک آدمی بت بنا کے لایا تھا جو کل کا بنا ہوا ہے.تم اتنے بڑے بڑھے اس کے آگے سجدہ کرو گے ؟ اُس نے جھٹ بُت پھینک دیا اور چل پڑا.بھائیوں نے خوب گوٹا اور کہا کہ تم نے خواہ مخواہ ہمارا گاہک خراب کر دیا ہے.تو ایک نیکی بھی اگر انسان کے اندر آجائے تو وہ اُس کو نمایاں کر کے لے جاتی ہے.پس یہ سننے کی عادت اب چھوڑو.کسی ایک چیز کو لے لو.میں یہ نہیں کہتا کہ کیا لے لو کسی ایک چیز کو لو اور پھر اس میں تم مشہور ہو جاؤ.جیسے بمبئی کے لوگ کہتے ہیں فلاں باٹلی والا ہے اسی طرح تمہارا ایک نام ہو جائے کہ فلاں بیچ والا ہے ، فلاں دیانت والا ہے، فلاں ہمدردی والا ہے.بس تمہارا ایک نام پڑ جائے پھر دیکھو کہ لوگوں پر اس کا کیسا اثر ہوتا ہے اور خود تمہیں کتنی دلیری پیدا ہو جاتی ہے کہ چلو میں ہمدردی والا بن گیا، دیانت والا بھی بن جاؤں.سچ والا بن گیا ہوں ، انصاف والا بھی بن جاؤں.تو کوئی نہ کوئی چیز اپنے اندر پیدا کر لو تا کہ لوگوں کے لئے یہ نمونہ ہو جائے اور ہمارے اندر ایسی اخلاقی طاقت پیدا ہو جائے کہ دنیا پر ہماری اخلاقی برتری اور ہماری نیکی کی فوقیت ثابت ہو جائے.پھر دعا کرو جیسا کہ میں نے کہا تھا اِس وقت سارے ہی اسلامی ممالک إِلَّا مَا شَاءَ اللہ بہت خطرے کی حالت میں ہیں.کہیں اندرونی خطرے ہیں کہیں بیرونی خطرے ہیں، کہیں دباؤ ہیں کہیں لالچیں ہیں، کہیں حر میں ہیں، کہیں ڈراوا ہے، کہیں دھمکیاں ہیں.تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ اتنی مدت کی غلامی کے بعد اب اس نے جو مسلمانوں کو آزاد کیا ہے تو اب بخشنے پر آیا ہے تو پھر پوری ہی بخشش دے بجائے اس کے کہ ادھوری چیز دے.خصوصاً پاکستان کی طاقت اور آزادی کے لئے دعا کرو اور اپنی وفا کا کامل نمونہ دکھاؤ تا تمہاری وفا کو دیکھ کر دوسرے بھی باوفا ہو جائیں.پھر سب سے بڑا غلام اور سب سے زیادہ مصیبت زدہ تو اسلام ہے.اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ اس غلام کو بھی آزادی بخشے اور اس کی بھی وہی عزت قائم کر دے جو پہلے زمانہ میں تھی.یہ جو شاہی تخت کا مستحق تھا آج وہ آفتابہ اٹھائے ہوئے امیروں

Page 110

انوار العلوم جلد 25 86 سیر روحانی (8) کے ہاتھ دھلوا رہا ہے.خدا تعالیٰ اس کو بھی اس غلامی سے آزاد کرے اور پھر تخت شاہی پر بٹھائے تاکہ ہم لوگ بھی سر خرو ہوں اور ہماری بھی عزت دنیا میں قائم ہو.ہماری عزت تو اسلام سے ہی ہے.اگر اسلام کی عزت نہیں تو ہماری کوئی عزت نہیں.ایسی عزت سے لعنت بہتر ہے جو اسلام کے نقصان کے بعد ہم کو حاصل ہو.پھر جو تمہارے باہر کے بھائی ہیں اور مبلغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو، ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے بھی دعائیں کرو.ہندوستان کے مسلمان بھی بڑی مشکلات میں ہیں.بے شک وہ ایک دنیوی حکومت کہلاتی ہے لیکن پھر بھی اکثریت مسلمانوں کے ساتھ پوری طرح انصاف نہیں کر رہی.ان کے لئے بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے اور ان میں سے بھی کشمیر کے مسلمانوں کے لئے خاص طور پر دعا کرو کہ وہ ان کا حامی اور ان کا محافظ ہو.پھر جو اپنے مبلغ ہیں ان کے لئے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے کام میں برکت دے.اپنے لئے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں دین کی خدمت کے لئے اعلیٰ سے اعلیٰ وعدے کرنے کی توفیق دے اور اچھے سے اچھے طور پر پورا کرنے کی توفیق دے تا کہ ہمارے تمام کام خوش اسلوبی سے طے ہوں اور ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے سر خرو ہو کر جائیں.جن لوگوں نے اس وقت خدمت کی ہے حفاظت کے کام کی یا لنگر کے کام کی یا کھانا پہنچانے کے کام کی.یہ سارے کے سارے جو خدمت کرنے والے ہیں در حقیقت اللہ کے لئے انہوں نے کام کیا ہے اس لئے وہ مستحق ہیں کہ ہم ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی قربانی کو قبول کرے اور اعلیٰ سے اعلیٰ انعام ان کو دے.اور پھر یہ بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے بڑھانے کے سامان پیدا کرے، لوگوں کے دلوں سے بغض اور نفرت دور کرے اور ہمیں وہ طریقے بتائے کہ جن کے ذریعہ سے ہم زیادہ سے زیادہ تعداد میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف کھینچ کر لائیں تا کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت کرنے والی جماعت بڑھتی چلی جائے اور اس کے لئے قربانی کرنے والے ترقی کرتے چلے جائیں اور ہمارے ملک کے لوگوں میں ہماری نسبت جو بدظنیاں ہیں وہ دور ہوں اور جو ہماری نیکیاں ہیں وہ ان کے سامنے آئیں.اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں کھولے ، اللہ تعالیٰ

Page 111

انوار العلوم جلد 25 87 سیر روحانی (8) ہم کو نیک کام کرنے کی توفیق دے اور اُن کو نیک کاموں کو نیک دیکھنے کی توفیق دے.پس آؤ ہم دعا کریں.دعا کے بعد ہم رخصت ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جب چاہے گا پھر الفضل 25 جنوری 1955ء) ملیں گے." 1 نچلی: پچلی نہ بیٹھنا: ایک حالت پر قائم نہ رہنا.کچھ نہ کچھ کیسے رکھنا 2 بھرے بھرا: ترغیب.تحریک.تحریص.دھوکا.فریب 3 الانفطار: 11 تا 13 4 کنسوئیاں : چھپ کر کسی کی باتیں سننا میکسی میلین (MAXIMILIAN) (1832ء- 1867ء) FERDINAND MAXIMILIAN JOSEPH آسٹریا کے صدر مقام ویانا میں آسٹریا کے شہزادہ FRANZ KARL کے گھر پیدا ہوا.22 سال کی عمر میں آسٹرین نیوی کو کمانڈ کیا.1857ء میں میکسی میلین کو وائس کنگ (VICE KING) کے طور پر مقرر کیا گیا.1863ء میں فرانس کے نپولین III اور میکسیکو کی شاہی حکومت کے بعض ممبران کی مدد سے میکسیکو کا حکمران بنا.جہاں اسے بہت مزاحمت اور مخالفت کا سامنا کرنا پڑا.چنانچہ اسے گرفتار کر لیا گیا اور 1867ء میں قتل کر دیا گیا.Wikipedia, the free) Encyclopedia) 6 الانعام: 24،23 7 حم السجدة: 21 8 کچا چٹھا : صحیح صحیح حال.کل کیفیت 2 النور : 25 10 بخاری کتاب الرقاق باب مَنْ هَمَّ بِحَسَنَةٍ أَوْ بِسَيِّئَةِ 11 الاعلى : 8 12 هود : 6 13 المجادلة : 7 16 الحاقة: 21،20 14 الكهف : 50 15 الحاقة: 26 تا 28 16 17 حم السجدة: 22 18 التغابن : 10 19 المفردات فی غریب القرآن لامام راغب اصفہانی صفحہ 454 مطبوعہ بیروت 2002ء

Page 112

انوار العلوم جلد 25 20 الفرقان : 71 88 سیر روحانی (8) 21 مسلم کتاب الایمان باب ادنى اهل الجنة منزلةً فيها 23،22 تذکرۃ الاولیاء صفحہ 343 تا 345- از فرید الدین عطار.مطبوعہ 1990 ءلاہور 24 حم السجدة : 9 25 أل عمران : 98،97 26 سیرت ابن هشام جلد اصفحہ 81 مطبوعہ مصر 1295ء 27 الفيل : 3،2 28 الانبياء : 106 29 بنی اسراءیل : 7،6 30 بنی اسراءیل : 98 31 بنی اسراءیل: 105 32 مسلم کتاب الفتن باب لا تقوم السَّاعَةُ حَتَّى يمر الرجل بقَبْرِ الرَّجل (الخ)

Page 113

انوار العلوم جلد 25 89 احباب جماعت کے نام پیغامات احباب جماعت کے نام پیغامات (29-7-195511-3-1955) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 114

Page 115

انوار العلوم جلد 25 91 احباب جماعت کے نام پیغامات بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ احباب جماعت کے نام پیغامات (29-7-195511-3-1955) پیغام مؤرخہ 1955ء-3-11 "برادران! السّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے گزشتہ ہفتہ 26 فروری کو مغرب کے قریب مجھ پر بائیں طرف فالج کا حملہ ہوا اور تھوڑے سے وقت کے لئے میں ہاتھ پاؤں چلانے سے معذور ہو گیا.پہلے ڈاکٹروں کا خیال ہوا کہ شاید CEREBERAL THROMBOSIS کا حملہ ہوا ہے یعنی بعض شریانوں میں خون منجمد ہو گیا اور جو خون دماغ کو غذا پہنچاتا ہے اور جس سے فکر انسانی اور عقل انسانی پیدا ہوتے ہیں اس کی کمی کی وجہ سے دماغ کا عمل معطل ہو گیا اور دماغ نے کام کرنا چھوڑ دیا.مگر بعد میں دوسرے ماہرین ڈاکٹر جو لاہور سے بلوائے گئے انہوں نے رائے ظاہر کی کہ یہ حملہ اتنی جلد گزر گیا ہے کہ یہی سمجھنا چاہئے کہ دماغ کی رگ پھٹی نہیں اور نہ ہی دماغ یا دل کے THROMBOSIS کا حملہ ہوا ہے بلکہ صرف بعض خون کی رگیں سکڑ گئیں (VASOSPASM) اور ان کی وجہ سے دماغ کو خوراک پہنچنی بند ہو گئی ہے.ان ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ چند ہفتوں میں دماغی حالت اپنے معمول پر آجائے گی لیکن اب تک جو ترقی ہوئی ہے اس کی رفتار اتنی تیز نہیں.پہلے دن تو میں کسی چیز کو اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑ نہیں سکتا تھا.ہاتھ ڈالتا کہیں تھا اور پڑتا کہیں تھا.اب ہاتھ کی جس میں یہ تبدیلی پیدا ہو گئی ہے کہ جس چیز کو پکڑنے کا ارادہ کرتا ہوں اُس تک ہاتھ پہنچ جاتا ہے یعنی فاصلہ اور جہت کا اندازہ ٹھیک ہونے لگ گیا ہے مگر اس بیماری میں لیٹے رہنے کی وجہ سے پاؤں میں کمزوری محسوس ہوتی ہے.آدمیوں کے

Page 116

انوار العلوم جلد 25 92 احباب جماعت کے نام پیغامات سہارے سے ایک دو قدم چل سکتا ہوں مگر وہ بھی مشکل سے.اور چلنے سے پیر لڑکھڑا جاتے ہیں اور گھٹنوں میں درد معلوم ہوتی ہے.دماغ اور زبان کی کیفیت ایسی ہے کہ میں تھوڑی دیر کے لئے بھی خطبہ نہیں دے سکتا اور ڈاکٹروں نے دماغی کاموں سے قطعی طور پر منع کر دیا ہے.حتی کہ معمولی ملاقاتوں سے بھی.اُن کے خیال میں مجھے کسی چیز کے متعلق سوچنا نہیں چاہئے اور ابھی میرے سامنے تفسیر قرآن کا بہت بڑا کام پڑا ہے.ان حالات میں ڈاکٹری مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ میں اہل و عیال اور دفتری عملہ کو لے کر کچھ عرصہ کے لئے یورپ چلا جاؤں تا کہ جلد ہی اس مرض کی روک تھام ہو جائے.پہلے امریکہ کا خیال تھا مگر چونکہ امریکہ کا ایکسچینج نہیں ملتا اس لئے اس ارادہ کو چھوڑنا پڑا لیکن یورپین علاقہ میں انگریزی سکہ چل جاتا ہے اور برطانوی کامن ویلتھ کے مختلف علاقوں میں ہماری جماعت خدا کے فضل سے کافی تعداد میں موجود ہے مثلاً افریقہ کے کئی علاقے وغیرہ وغیرہ.اس لئے یورپ جانے میں مشکلات بہت کم ہیں.میں نے عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو مشورہ کے لئے تار دی تو انہوں نے تار میں جواب دیا ہے کہ خدا کے فضل سے یورپ کے بعض ممالک میں علاج کی بہت سی سہولتیں پیدا ہو گئی ہیں اور کامل سامان مل سکتا ہے.اس لئے پیشتر اس کے کہ تکلیف بڑھ جائے میں یورپ چلا جاؤں اور وہاں کے ڈاکٹروں سے علاج کرواؤں تاکہ میں اچھا ہو کر خطبہ بھی دے سکوں، تفسیر بھی مکمل کر سکوں اور جماعتی ترقی کے لئے جس غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے وہ قائم رہے.چونکہ سکہ کی دقتیں یورپ کے سفر میں ہمارے راستے میں اس قدر روک نہیں ہوں گی جس قدر امریکہ کے سفر میں ہو سکتی ہیں اس لئے اس سفر کے لئے ممکن ہے کہ اگر سلسلہ کے پاس روپیہ ہو تو گورنمنٹ کی طرف سے غیر ملکی سکہ مل جائے.یا اگر ہماری افریقہ کی جماعتیں اخلاص کا ثبوت دیں تو غیر ملکی سکہ کی بہت سی مشکلات اُن کے ذریعہ سے پوری ہو جائیں گی کیونکہ اُن کے پاس وہی سکہ ہے جو یورپ میں چلتا ہے.جب میں 1924ء میں انگلینڈ گیا تھا تو ہندوستان کی مالی حالت بہت خراب تھی

Page 117

انوار العلوم جلد 25 93 احباب جماعت کے نام پیغامات اور ہندوستانی جماعت اخراجات سفر برداشت نہیں کر سکتی تھی.اُس وقت زیادہ ایسٹ افریقہ ، عراق اور چند اور غیر ممالک کے احمدیوں نے اکثر حصہ بوجھ کا اٹھایا تھا.قادیان کی انجمن ہمارے کھانے کے بھی خرچ نہیں بھجوا سکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے افریقہ اور عرب کی جماعتوں کے اندر اس قدر اخلاص اور ایمان پیدا کر دیا کہ سارے قافلہ کے کھانے اور تبلیغ کا خرچ میں ادا کر تا تھا.یا یوں کہو کہ اللہ تعالیٰ میرے ذریعہ سے ادا کر تا تھا.واقعہ اس طرح ہوا کہ میں نے مالی مشکلات کو دیکھتے ہوئے ایسٹ افریقہ کے چند دوستوں کو لکھا کہ مجھے سفر کی ضرورتوں اور جماعت کے وفد کے اخراجات کے لئے کچھ انگریزی سکہ قرض کے طور پر دے دیں.وہ آدمی تو تھوڑے سے تھے.مجھے یاد ہے کہ اس وقت تک ایسی حیثیت کے آدمی چند تھے.جہاں تک مجھے یاد ہے میاں اکبر علی صاحب، سید معراج الدین صاحب اور بابو محمد عالم صاحب ممباسوی ایسی حالت میں تھے کہ کچھ قرض دے سکیں لیکن ایمان دنیا کے خزانوں سے بڑا ہوتا ہے، ایمان نے ان کی تمام مالی کمزوریوں کو دُور کر دیا.مجھے یاد ہے کہ بابو اکبر علی صاحب نے اپنی تمام تجارت کا ایک حصہ نیلام کر دیا اور روپیہ مجھے قرض بھجوا دیا.چونکہ یہ جماعتی حساب میں تھا جماعت نے ادا کر دیا مگر اُس وقت ایک عجیب لطیفہ ہوا جو خدا کی قدرت کا نمونہ تھا.عراق میں ہمارے صرف ایک احمدی دوست تھے اور ان کی مالی حالت کچھ اچھی نہیں تھی.میں نے ان کو بھی خط لکھا.انہوں نے اپنے کسی اور دوست سے ذکر کر دیا.ایک دن لندن کے ایک بینک نے مجھے اطلاع دی کہ تمہارے نام اتنے سو پونڈ آیا ہے.میں نے سمجھا کہ قادیان نے مبلغین کے قافلہ کا خرچ بھجوایا ہے لیکن دریافت پر بینک نے بتایا کہ قادیان یا ہندوستان سے وہ روپیہ نہیں آیا بلکہ عراق سے آیا ہے.میں نے بیت المال قادیان کو اطلاع دی کہ آپ لوگوں نے قرض کی تحریک کی تھی اور میں نے بھی اس کی تصدیق کی تھی.اس سلسلہ میں روپیہ آنا شروع ہوا ہے آپ نوٹ کر لیں اور چونکہ بعد میں ادا کرنا ہے عراق کا پتہ ان کو بتادیا کہ یہاں سے اتنے سو پونڈ آیا.جب میں ہندوستان واپس آیا تو میں نے اُس وقت کے

Page 118

انوار العلوم جلد 25 94 احباب جماعت کے نام پیغامات ناظر صاحب بیت المال سے کہا کہ کیا اس روپیہ کا پتہ لیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہم رجسٹریاں لکھ لکھ کر تھک گئے ہیں، سارے احمدی انکاری ہیں کہ ہم نے روپیہ نہیں بھیجا.میں نے اُس سعید غیر احمدی کو خط لکھنے شروع کئے کہ اتنا روپیہ آپ کی طرف سے ملا ہے یہ غالباً اس قرضہ کی تحریک کے نتیجہ میں ہے جو بیت المال کی طرف سے کی گئی تھی آپ اطلاع دیں تاکہ سلسلہ اس کو اپنے حساب میں درج کر لے لیکن کئی ماہ مسلسل رجسٹری خطوط بھجوانے کے بعد ایک جواب آیا اور وہ جواب یہ آیا کہ آپ کو غلطی لگی ہے کہ میں نے سلسلہ احمدیہ کو کوئی قرض دیا ہے.چھ سو یا آٹھ سو پونڈ انہوں نے لکھے کہ میں نے لندن بینک کے ذریعہ آپ کو بھجوائے تھے مگر وہ بیت المال کو قرض نہیں بھجوائے تھے بلکہ وہ آپ کو نذرانہ تھے.اس خط کے وصول ہونے پر میری حیرت کی حد نہ رہی کہ اس غیر احمدی کو اللہ تعالیٰ نے وہ توفیق دی جو کئی احمدیوں کو بھی نہ ملی تھی.ممکن ہے غیر احمدیوں میں کوئی مالدار ہو مگر میرے علم میں تو غیر احمدیوں میں بھی کوئی اتنا مالدار نہیں تھا جو اس بشاشت سے چھ سو یا آٹھ سو پونڈ نذرانہ بھجوا دے مگر بہر حال چونکہ وہ سلسلہ کے لئے مد نظر تھا اور وہ بھیجنے والا غیر احمدی تھا اس لئے میں نے نوٹ کر لیا کہ یہ روپیہ سلسلہ کا ہے اور مسجد لندن کے حساب میں میں نے وہ رقم بینک میں جمع کرا دی.اور حساب کر کے گزشتہ سال تحریک جدید کو مسجد لندن کے حساب میں 731 یا 750 پونڈ ادا کر دیئے جس سے مسجد لندن کی مرمت وغیرہ ہوئی.بہر حال اس طرح میں بھی اپنے فرض سے سبکدوش ہوا اور مسجد کی مرمت بھی ہو گئی اور خدا تعالیٰ نے خانہ خدا خانہ کفر میں بنوانے کی توفیق بخشی.اُسی نے وہ نذرانہ بھیج کر مجھ پر احسان کیا.اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ میں اُس کے احسان کی قدر اس صورت میں ظاہر کروں کہ وہ روپیہ خانہ خدا کے بنانے پر خرچ ہو جائے.اس وقت ہماری جماعت اُس وقت سے کئی گنے زیادہ ہے بلکہ شاید میں گنے زیادہ ہے اور اگر مرکز احمدیت کی تحریک پر وہ لوگ بھی انگریزی سکہ سے ہماری مدد کریں خواہ قرض کے طور پر ہی ہو تو یہ سفر ہمارا آسانی سے گزر جاتا ہے.چونکہ میں بیماری کی وجہ

Page 119

انوار العلوم جلد 25 95 احباب جماعت کے نام پیغامات سے جارہا ہوں اس لئے امید ہے کہ گورنمنٹ کی طرف سے بہت سا انگریزی سکہ خریدنے کی اجازت مل جائے گی.لیکن وہ لوگ جن پر پاکستانی قانون نہیں چلتا اگر انگریزی سکہ ہمیں مہیا کر دیں تو انٹر نیشنل قانون کے ماتحت یہ مجرم نہیں.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو یہ توفیق دے کہ وہ اپنے فرض کو سمجھ سکیں، ادا کر سکیں تا کہ اگر وحی جلی ان پر نازل نہیں ہوئی تو وحی خفی تو ان پر نازل ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہے يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ 1 عنقریب تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن پر ہم وحی کریں گے.گویا جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد کر تا تھاوہ وحی کے ماتحت کرتا تھا.یہی معاملہ خدا کا میرے ساتھ رہا ہے.میں نے تو ہمیشہ خدا تعالیٰ کا ہاتھ پکڑا ہے اور اس سے کہا ہے کہ اپنے نوکر کو دوسروں کی ڈیوڑھی سے مانگ کر گزارہ کرنے پر مجبور مت کر.اس میں نوکر کی ہتک نہیں آقا کی ہتک ہے.اگر میرا نو کر دوسرے کے گھر سے روٹی مانگے تو وہ میری عزت برباد کرتا ہے.اس لئے کبھی انسان کے مال پر نہ میں نے نظر رکھی ہے نہ آئندہ کبھی رکھوں گا.اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ میری خود ہی مدد کی ہے اور آئندہ بھی وہی مدد کرے گا.کسی نے میری مدد نہیں کی کہ خدا تعالیٰ نے اُس سے بیبیوں گنے اُس کی مدد نہ کی ہو.در جنوں مثالیں اس کی موجود ہیں جو چاہے میں اس کا ثبوت دے سکتا ہوں تاکہ کوئی یہ نہ شبہ کرے کہ میں لوگوں پر اثر ڈالنے کے لئے یہ بات کر رہا ہوں.آخر وہ اس کا کیا جواب دے گا کہ ایک شخص جو بالکل غریب حالت میں تھا اُس نے میری مدد کی تو اللہ تعالیٰ نے اُس کو دولت دے دی یا اُس کی اولاد کو اتنی تعلیم دلا دی کہ وہ صاحب اثر ورسوخ بن گیا.خیال ہے خدا توفیق دے تو اپریل میں ہوائی جہاز کے ذریعہ سے جاؤں.احباب دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کے لئے راستہ کھول دے اور اگر یہ سفر اللہ تعالیٰ کی منشاء کے بموجب ہے تو اس کو صحت کا موجب بنائے.دوستوں نے سفر امریکہ کے لئے گزشتہ شوری پر ایک چندہ کی تحریک کی تھی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ حفاظت خاص یعنی جماعت احمدیہ کے امام کی حفاظت کے لئے جور قوم تجویز کی گئی تھیں گو کافی روپیہ

Page 120

انوار العلوم جلد 25 96 احباب جماعت کے نام پیغامات اس میں آیا ہے مگر جتنی ضرورت ہے اتنا نہیں آیا.اس لئے میں اپنے محبوں اور مخلصوں سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ فیصلہ جو خود اُن کا ہے کم سے کم اُسے پورا کرنے کی کوشش کریں تاکہ غیروں کے سامنے شرم اور ذلت محسوس نہ ہو.اس موقع پر میں یہ کہنے میں بھی فخر محسوس کرتا ہوں کہ مجھے جو شکوہ پیدا ہوا تھا کہ اس سال تحریک کے وعدے پورے نہیں آرہے خدا تعالیٰ نے جماعت کو اس شکوہ کے دُور کرنے کی توفیق بخش دی ہے اور اب خدا تعالیٰ کے فضل سے آج کی تاریخ تک قریباً چھ ہزار کے وعدے زائد آچکے ہیں اور موجودہ رفتار پر قیاس رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ میعاد کے آخر تک اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے چالیس پچاس ہزار روپے کے وعدے بڑھ جائیں گے.دنیا کی نظروں میں یہ بات عجیب ہے مگر خدائے عجیب کی نظر میں یہ بات عجیب نہیں کیونکہ اُس کے مخلص بندوں کے ہاتھوں سے ایسے معجزے ہمیشہ ہی ظاہر ہوتے چلے آئے ہیں اور قیامت تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گے.پہلے بھی خدا تعالیٰ ایسے ہی بندوں کے چہروں سے نظر آتارہا ہے اور اب ہمارے زمانہ میں بھی ایسے ہی انسانوں کے چہروں سے خدا نظر آئے گا اور ان کے دلوں اور ایمانوں سے ایسے معجزے ظاہر نہیں ہوں گے بلکہ برسیں گے.منکر انکار کرتے چلے جائیں گے، جبرائیل کا قافلہ بڑھتا چلا جائے گا اور آخر عرش تک پہنچ کر دم لے گا.عرش کا راستہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات اپنی اُمت کے لئے کھول دیا ہوا ہے.اب کوئی ماں ایسا بیٹا نہیں جنے گی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھولا ہوا راستہ بند کر سکے.شیطان حسد سے مر جائے گا مگر خدا تعالیٰ کی مدد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطانی حسد کی آگ سے بچالے گی.دوزخ چاہے گندھک کی آگ کی بنی ہوئی ہو یا حسد کی آگ سے ، صاحب الفلق رسول اس سے محفوظ کیا گیا ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا.دوزخ کے شرارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے لئے ہیں.اس کے دوستوں کے لئے کوثر کا خوشگوار پانی اور جنت کے ٹھنڈے سائے ہیں.صرف اتنی ضرورت ہے کہ وہ ہمت کر کے ان سایوں کے نیچے جا بیٹھیں اور آگے

Page 121

انوار العلوم جلد 25 97 احباب جماعت کے نام پیغامات بڑھ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے کوثر کا پانی لے لیں.لوگ اپنے باپ کی زمینوں اور مکانوں کو نہیں چھوڑتے اور ملک کی اعلیٰ عدالتوں تک جاتے ہیں کہ ہمارا ورثہ ہمیں دلوایا جائے.اگر مسلمانوں میں سے کوئی بد بخت اپنے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ورثہ کو نظر انداز کرتا ہے تو اس پر افسوس ہے.اُس کو تو فیڈرل کورٹ تک نہیں بلکہ عرش کی عدالت تک اپنے مقدمہ کو لے جانا چاہئے اور اپنا ورثہ لے کر چھوڑنا چاہئے.اگر وہ ہمت نہ ہارے گا، اگر وہ دل نہ چھوڑے گا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اس کو ملے گا اور ضرور ملے گا.صاحب العرش کی عدالت کسی کو اُس کے حق سے محروم نہیں کرتی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی باپ دنیا کے ظالم دادوں کی طرح اپنے پوتوں کو طبعی حق سے محروم نہیں کرتا بلکہ جب وہ اُس سے اپیل کرتے ہیں وہ اُن کے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ورثہ اُن کو دیتا ہے.بلکہ ورثہ کے حصہ سے بھی بڑھ کر دیتا ہے کیونکہ وہ رحیم کریم ہے اور وہ رحیم کریم یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان کی روحانی اولاد اپنے ورثہ سے محروم ہو جائے.سو دوستو! بڑھو کہ تمہیں ترقی دی جائے گی.قربانی کرو کہ تمہیں دائمی زندگی عطا کی جائے گی.اپنے فرض کو پہچانو کہ خدا تعالیٰ اس سے بڑھ کر اپنے فرض کو پہچانے گا.اور جب وہ وقت آئے گا تو نہ صرف تمہارے گھر برکتوں سے بھر جائیں کے بلکہ ہر وہ گوشت کا لوتھڑا جو تمہارے جسم سے نکلے گا اس کو بھی برکتوں کی چادر میں لپیٹ کر بھیجا جائے گا.اور جو تمہارے ہمسائے میں رہے گا اس پر بھی برکتیں نازل ہوں گی.جو تم سے محبت کرے گا اس سے خدا تعالیٰ محبت کرے گا اور جو تم سے دشمنی کرے گا اس سے خدا تعالیٰ دُشمنی کرے گا.میں نے آپ کو کبھی نہیں کہا تھا کہ آپ میرے باہر جانے کی کوئی سکیم بنائیں.یہ سکیم آپ لوگوں کی طرف سے پیش ہوئی، آپ نے ہی اسے منظور کیا.میں نے ایک لفظ بھی اس کے حق میں نہیں کہا.اب آپ کا فرض ہے کہ تکلیف اُٹھا کر بھی جو ریزولیوشن آپ نے پاس کیا تھا اُس کو پورا کریں.

Page 122

انوار العلوم جلد 25 98 احباب جماعت کے نام پیغامات دوستوں کو میں اِس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ قادیان میں ایک امانت فنڈ کی میں نے تجویز کی تھی اور وہ یہ تھی کہ قادیان کی ترقی کے لئے احباب کثرت سے امانتیں قادیان میں جمع کروائیں.خاص خاص وقت پر اپنی اغراض کے لئے خلیفہ وقت اور جماعت بوقتِ ضرورت کچھ قرض لے لیا کریں گے.اس سے احباب کا روپیہ بھی محفوظ رہے گا اور بغیر ایک پیسہ چندہ لئے جماعت کے کام ترقی کرتے رہیں گے.قادیان میں اسی تحریک کے مطابق ترقی کرتے کرتے ستائیس لاکھ روپیہ اس امانت میں پہنچ گیا تھا اور بغیر ایک پیسہ کی مدد کے احبابِ کرام سلسلہ کی خدمت کرنے کی توفیق پاجاتے تھے.چنانچہ اس تحریک کا نتیجہ تھا کہ پارٹیشن کے بعد جب سارا پنجاب لٹ گیا تو جماعت احمدیہ کے افراد محفوظ رہے اور ان کو اس امانت کے ذریعے دوبارہ پاکستان میں پاؤں جمانے کا موقع مل گیا.اس کی تفصیل کہ کس کس طرح اس روپیہ کو نکالا اور خرچ کیا اور پھر احباب کو واپس کیا.یہ تو جب اُس زمانہ کی تاریخ لکھی جائے گی تو اُس میں تفصیلاً آئے گا مگر بہر حال جس طرح جماعت کے افراد اپنے پاؤں پر کھڑے رہے وہ ظاہر ہے.اگر اب بھی دوست میری بات کو مانیں گے تو انشاء اللہ بڑی بڑی برکتیں حاصل کریں گے.انہیں اغراض کے ماتحت روپیہ جمع کرانا ہو گا جو میں نے اُوپر بیان کی ہیں.تحریک، صدر انجمن احمدیہ اور میں انشاء اللہ ذاتی طور پر ان امانتوں کے واپس کرنے کے ذمہ دار ہوں گے جس طرح پہلے دور میں ذمہ دار تھے اور ایک ایک پیسہ احباب کو ادا کر دیا تھا.روپیہ کا گھر میں پڑارہنا یا سونے کی صورت میں عورتوں کے پاس رہنا قومی ترقی کے لئے روک ہے اس لئے اپنی اولادوں کی ترقی کی خاطر ان کی تعلیم اور پیشوں کی ترقی کی خاطر اپنی آمدن میں سے تھوڑی ہو یا بہت پس انداز کرنے کی عادت ڈالیں اور امانت کے طور پر تحریک جدید یا صدر انجمن کے خزانہ میں جمع کراتے رہیں اور اس کا نام امانت خاص رکھیں.یہ امانت اُوپر کے بیان کردہ اغراض کے لئے ہو گی.صرف اتنا فرق ہو گا کہ جو شخص اپنی امانت میں سے دس ہزار روپے یا اس سے زائد لینا چاہے اُسے عام طور پر سات دن کا نوٹس دینا ہو گا.مگر یہ ضروری نہیں امانت داروں کی ضرورت کے مطابق فوری روپیہ بھی ادا کر دیا

Page 123

انوار العلوم جلد 25 99 احباب جماعت کے نام پیغامات جائے گا.مگر جو لوگ چند سو یا ہزار لینا چاہیں گے اُن کو بغیر کسی نوٹس کے فوری طور پر روپیہ ادا ہو جائے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ سلسلہ کی تمام خواتین اور مرد میری اِس تحریک پر لبیک کہیں گے اور بغیر پیسہ خرچ کرنے کے دین و دنیا کے لئے ثواب عظیم کمائیں گے.اور انشاء اللہ یہ امانت ان کی مالی ترقی کا بھی موجب بنے گی اور اس کے لئے سکیم آئندہ بنائی جائے گی.چونکہ یہ ایک موقت امانت ہو گی جس کے لئے آٹھ دن کے نوٹس کی شرط ہو گی.یہ قرضہ بن جائے گا اور زکوۃ سے آزاد ہو جائے گا اور اُن کے کام میں کوئی نقص نہیں ہو گا.اگر جماعت کے مرد اور عورتیں اِس طرف توجہ کریں تو پندرہ ہیں لاکھ روپیہ چند روز میں جمع ہونا مشکل نہیں.اور یورپ کا سفر اور سلسلہ کے کام بسہولت جاری رہ سکیں گے اور مالی اعتبار سے بھی مجھے بے فکری رہے گی.میں اس وقت بالکل بیکار ہوں اور ایک منٹ نہیں سوچ سکتا اس لئے اپنے پرانے حق کی بناء پر جو پچاس سال سے زیادہ عرصہ کا ہے تمام بہنوں اور بھائیوں سے درخواست کرتا ہوں کہ دُعا کریں کہ خدا تعالیٰ مجھے بے عملی کی زندگی سے بچائے کیونکہ اگر یہ زندگی خدانخواستہ لمبی ہونی ہے تو مجھے اپنی زندگی سے موت زیادہ بھلی معلوم ہو گی.سو میں خدا سے دُعا کرتا ہوں کہ اے میرے خدا! جب میر اوجود اس دُنیا کے لئے بیکار ہے تو تو مجھے اپنے پاس جگہ دے جہاں میں کام کر سکوں.سو اگر چاہتے ہو کہ میری نگرانی میں اسلام کی فتح کا دن دیکھو تو دعاؤں اور قربانیوں میں لگ جاؤ تا کہ خدا تمہاری مدد کرے اور جو کام ہم نے مل کر شروع کیا تھا وہ ہم اپنی آنکھوں سے کامیاب طور پر پورا ہوتا دیکھیں.میں امید کرتا ہوں کہ اس امانت کی تحریک کے متعلق مجھے بار بار تحریک کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ احباب جماعت اور خواتین خود ہی یہ تحریک اپنے دوستوں میں کرتے رہیں گے اور اس کو زندہ رکھیں گے.جب 1924ء میں میں نے لندن کا سفر کیا تھا تو اِس قدر مالی تنگی ہو گئی تھی کہ تبلیغ کے لئے جو وفد گیا تھا اُس کا خرچ بھی مجھے کو ہی دینا پڑا تھا مگر اب ڈاکٹروں کی ہدایت ہے کہ فکر بالکل نہ کریں.اگر یہ تجویز کامیاب ہو جائے تو میری فکر بھی دُور ہو جائے اور

Page 124

انوار العلوم جلد 25 100 احباب جماعت کے نام پیغامات اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اس نیکی میں حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے.وَالسَّلَام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی "11-3-41955 (الفضل 15 مارچ 1955ء) پیغام از لاہور مورخہ 1955ء-3-15 بوقت شب ترجمه از انگریزی: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اب رو بصحت ہوں.اگر چہ کل شام بہت پریشانی رہی گاہے گاہے دل کا حملہ ہو تا رہا.لیکن ڈاکٹروں کی متفقہ رائے یہ تھی کہ یہ صرف دل کے ظاہری فعل سے تعلق رکھنے والے معمولی حملے تھے کسی قسم کی دل کی عضوی اور اندرونی خرابی سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا.بلکہ ان کی وجہ صرف معدے اور ہاضمے کی خرابی تھی.ان حملوں کے باوجود انہوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ مجھے لارنس گارڈن میں سیر کے لئے جانا چاہیئے.چنانچہ میں سیر کے لئے گیا اور اس کا میری صحت پر بہت خوشگوار اثر پڑا.جب ہم سیر سے واپس آئے تو عام حالت بہت اچھی تھی.لیکن سابقہ حملے کی وجہ سے دماغ میں ایک قسم کا خوف سا بیٹھ گیا تھا.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کئی گھنٹے تک میرے پاس رہے اور نبض دیکھتے رہے.اس سے دل میں اعتماد بحال ہو گیا اور میں کئی گھنٹے گہری نیند سویا.صبح حالت نسبتا بہتر تھی.میں اپنے کمرے میں ٹہلتا رہا.دن میں بہت سے ڈاکٹروں کو مشورے کے لئے بلایا گیا.ان میں ایک جرمن ڈاکٹر بھی شامل تھا.جرمن ڈاکٹر نے برقی مشین کے ذریعہ دل کے فعل کا عکس (CARDIOGRAM) اتارا.وہ بھی حتمی طور پر ڈاکٹر کرنل الہی بخش کی اس رائے سے متفق تھا کہ حملے کی شدت خواہ کسی بھی نوعیت کی تھی وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب دور ہو چکی ہے اور اس کے کسی قسم کے برے اثرات باقی نہیں ہیں کہ جن سے بیماری کا نشان ملتا ہو.اور یہ کہ اب

Page 125

انوار العلوم جلد 25 101 احباب جماعت کے نام پیغامات میرے لئے صرف یہ علاج ہے کہ میں تبدیلی آب و ہوا کے لئے ملک سے باہر چلا جاؤں اور اپنی بیماری کے متعلق سب کچھ بھلا دوں.مکمل آرام اور ہر قسم کے تفکرات کو بھلا دینے کے بعد میرا جسم اور دماغ معمول کے مطابق کام شروع کر دے گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں پوری طرح صحت مند ہو جاؤں گا.میں نے اس سے کہا کہ تفکرات کو بھلا دینے کی تلقین تو آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہے.لیکن اس نے اصرار کیا کہ ایسا کرناہی پڑے گا اور اس کے آغاز کے طور پر مجھے تمام ملاقاتیں وغیرہ بند کر دینی چاہئیں اور اپنے دوستوں اور احباب سے دور کہیں باہر چلا جانا چاہیئے.میں نے اُس سے وعدہ کیا ہے کہ میں اس کی ہدایت کے مطابق ایسا کرنے کی پوری کوشش کروں گا.لیکن اپنے اس وعدے کو پورا کرنے کے لئے احباب کی دعاؤں اور ان کی مدد کی ضرورت ہے.خدا ہمارا حامی و ناصر ہو جس طرح کہ وہ پہلے بھی ہماری نصرت فرما تارہا ہے.بلکہ اُس سے بھی کہیں بڑھ کر اس کی مدد ہمارے شامل حال رہے.آمین خلیفة المسيح" • ایک مکتوب (الفضل 17مارچ1955ء) بر اور عزیز سیٹھ صاحب ! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مجھے جس دن فالج کا حملہ ہوا تھا اس سے ایک یا دوروز قبل آپ کو خط لکھ چکا ہوں امید ہے کہ مل گیا ہو گا.اس دوران میں آپ نے اخباروں میں پڑھ لیا ہو گا کہ مجھ پر فالج کا حملہ ہوا.اور اب میں پاخانہ پیشاب کے لئے بھی امداد کا محتاج ہو تا ہوں.دو قدم بھی چل نہیں سکتا.گزشتہ سال دوستوں نے مشورہ کیا تھا کہ امریکہ علاج کے لئے جانا چاہیئے.اور انہوں نے مل کر شوری میں بھی ایک چندہ کی سکیم بنائی تھی جو زمیندارہ کے مخالف حالات کی وجہ سے پورا تو نہیں ہو سکا مگر بہر حال نصف کے قریب ہو گیا.

Page 126

انوار العلوم جلد 25 102 احباب جماعت کے نام پیغامات اس عرصہ میں ہم نے امریکہ کی ایچینج کی دقتوں کی وجہ سے امریکہ کا ارادہ چھوڑ دیا.یہ بھی معلوم ہوا کہ یورپ میں علاج بہت اعلیٰ ہو گیا ہے.خصوصاً سوئٹزر لینڈ کے ڈاکٹر امریکہ جا جا کر سیکھ کر آرہے ہیں.اور یو.این.او کی مدد سے یورپ کے ہسپتال بھی اپ ٹو ڈیٹ (UP-TO-DATE) ہو گئے ہیں.بیماری کے اس حملہ کے بعد زندگی کا تو سوال ہی نہیں رہا.کیونکہ زندگی کوئی اہم چیز نہیں ہے.سوال یہ پیدا ہو گیا کہ میرا دماغ بیکار ہو گیا ہے.نہ میں سوچ سکتا ہوں نہ میں تفصیلی طور پر کوئی سکیم اسلام کی فتح کی بنا سکتا ہوں.نہ تفسیر لکھ سکتا ہوں.اس لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں یورپ ہو آؤں تا کہ میں کام کے قابل ہو جاؤں.ایسی حالت میں میں بیوی بچوں کو پیچھے نہیں چھوڑ سکتا.اس لئے سب کو ساتھ ہی لئے جارہا ہوں انشاء اللہ.لوگوں کی نگاہ میں اتنے بڑے قافلہ کو لے جانا عجیب معلوم ہوتا ہے.مگر میرا یقین ہے کہ وہ عجیب خدا ان حالات میں بھی میرے لئے عجائب ہی دکھائے گی.انشاء اللہ مشکلات رائی کائی جمہو جائیں گی.آسمان گرائے گا اور زمین اُگائے گی.اور خدا کے فرشتے ہر جگہ پر انتظام کرتے پھریں گے کیونکہ آخر وہ میرے دوست اور ساتھی ہیں.خدا تعالیٰ نے ہمارے درمیان دوستی اور بھائی چارہ پیدا کیا ہے.پس آسمان پر جبرائیل اور زمین پر جبرائیل کے مظہر میرے کام میں لگیں گے.پھر مجھے فکر کس بات کی ہو.فکریں عارضی آتی ہیں مگر خد اتعالیٰ ان فکروں کو بھی نرم کر دے گا.ولایت میں ہمارا پتہ وہی ہو گا جو ہمارا مشن کا پتہ ہے.آپ سہولت سے وہاں خط بھجوا سکتے ہیں.اگر کوئی تبدیلی ہوئی تو آپ کو اطلاع دے دوں گا.ان دنوں آپ کا خاندان بھی بہت دعاؤں کا محتاج ہے.انشاء اللہ میں اس سفر میں آپ کے خاندان کو دعاؤں میں یاد رکھوں گا.آپ میری زندگی کے سفر کے ساتھی ہیں پھر میں آپ کو کس طرح بھول سکتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس اللہ تعالیٰ نے سیٹھ عبد الرحمن، اللہ ر کھا مدراسی کی شکل میں اپنے فرشتے بھجوائے تھے، میرے پاس اللہ تعالیٰ نے آپ کی شکل میں فرشتے بھجوائے ہیں.اس لئے لازماً جب بھی کوئی فرشتہ آئے گا تو

Page 127

انوار العلوم جلد 25 103 احباب جماعت کے نام پیغامات آپ کو یاد کرا جائے گا.کیونکہ بھائی بھائی اور دوست دوستوں کو یا درکھتے ہیں.جن کو خدا ملائے اُن کا رشتہ کوئی نہیں توڑ سکتا.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی اولاد میں بھی آپ جیسا اخلاص پیدا کرے.بلکہ آپ سے بھی بڑھ کر اور جو دنیوی برکات آپ کو اور آپ کے بھائیوں کو نصیب ہوئی تھیں وہ اب آپ کی اولاد کی طرف منتقل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ احمد بھائی مرحوم کی اہلیہ مکرمہ کو بھی صبر جمیل عطا فرمائے اور ان کی اولاد پر بھی بڑے فضل کرے.اور ان کو اپنی ماں بہنوں کی خدمت کی توفیق بخشے تا ان کے باپ کی روح خوش رہے.والسلام دستخط مرزا محمود احمد ہندوستان کی جماعت کا خیال رکھیں.آپ کی طبیعت میں جو شرم و حیا ہے اُس کی وجہ سے میں آپ پر کام کی بڑی ذمہ داری نہیں ڈالتا.مگر وقت آگیا ہے کہ آپ آگے آکر جماعت کو مضبوط کریں اور مرکز قادیان کو مضبوط کرنے کی سعی فرمائیں.میں نے اپنا ایک بیٹا اس وادی غیر ذی زرع میں بسا دیا ہے.اللہ تعالیٰ اُس کو کام کی توفیق دے اور آپ دونوں مل کر اس وسیع ملک کے باوا آدم ثابت ہوں.ایک دن آنے والا ہے کہ ان ملکوں میں آپ لوگوں ہی کی روحانی اور جسمانی نسل ہو گی.آپ نے ہمیشہ میرے ساتھ وفاداری کا سلوک کیا حالانکہ آپ انسان اور کمزور تھے.خدا تعالیٰ جو طاقتور اور مالک ساز و سامان ہے وہ کس طرح آپ سے بے وفائی کر سکتا ہے.اگر وہ آپ سے بے وفائی کرے گا تو گویا مجھ سے بے وفائی کرے گا، مگر مجھ سے بے وفائی نہ پہلے اُس نے کی نہ آئندہ کرے گا.وہ میرے دائیں بھی ، بائیں بھی، آگے بھی، پیچھے بھی، سر کے اوپر بھی اور دل کے اندر بھی ہے.ہر ایک شخص جو میری طرف ہاتھ بڑھاتا ہے خدا کی طرف ہاتھ بڑھاتا ہے.اور جو مجھ پر زبان چلاتا ہے خدا کی طرف چلاتا ہے.اُس کی ماں اُسے نہ جنتی تو اچھا تھا.اُس کی دردناک حالت پر فرشتے رحم کریں.دستخط مرزا محمود احمد " (الفضل 17مارچ1955ء)

Page 128

انوار العلوم جلد 25 104 احباب جماعت کے نام پیغامات پیغام مؤرخہ 1955ء3-21 " احباب جماعت ! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کو یہ اطلاع ہو چکی ہے کہ ڈاکٹروں نے مجھے علاج کے لئے یورپ جانے کا مشورہ دیا ہے.میرے پہلے اعلان سے ایک غلط فہمی ہوئی ہے.پہلے اعلان میں یہ لکھا گیا تھا کہ ڈاکٹروں نے مجھے اپنے خاندان سمیت جانے کا مشورہ دیا ہے.اس پر ایک احمدی ڈاکٹر صاحب مجھے ملے اور انہوں نے کہا کہ مشورہ کے وقت میں موجود تھا انہوں نے خاندان کا لفظ نہیں بولا تھا صرف آپ کے لئے کہا تھا.یہ بات اُن کی ٹھیک تھی.اصل بات یہ ہے کہ ان کا مشورہ یہ تھا کہ میں علاج کے لئے یورپ جاؤں اور ہر قسم کے تفکرات سے بچنے کی کوشش کروں.میں اپنی طبیعت کی بناء پر جانتا تھا کہ اس حالت میں میں اگر باہر گیا تو میری بیویوں اور بچوں کے دل میں شدید اضطراب ہو گا کہ نہ معلوم اتنی دور کیا واقعہ گزر جائے.اور اپنی طبیعت کے لحاظ سے میں یہ بھی جانتا تھا کہ بیوی بچوں کے ان تفکرات کو میں برداشت نہیں کر سکوں گا اس لئے مشورہ کے آخری حصہ کی بناء پر میں یہی سمجھتا تھا کہ مجھے اپنے بیوی بچوں کو ساتھ لے جانا چاہیئے تاکہ سفر میں مجھے ان کی تکلیف لاحق نہ ہو.چنانچہ اس کے بعد مجھے ایک اور ڈاکٹر ملے.وہ احمدی تو نہیں ہیں لیکن بہت ہی محبت رکھتے ہیں، انہوں نے میری رائے سن کر اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ آپ میر ا نام لے کر بے شک ڈاکٹروں کو بتا دیں کہ اگر آپ ان کے بغیر گئے تو تفکرات بڑھ جائیں گے کم نہیں ہوں گے.بہر حال میں کچھ انجمن اور تحریک کے عملہ کو ساتھ لے کر جو وہاں تعلیم کے لئے جا رہے ہیں یا مبلغ ہو کر جارہے ہیں اور اپنی بیویوں اور بعض بچوں کو لے کر جارہا ہوں.میرے پہلے اعلان کے بعد مجھے پے در پے دل کی تکلیف کے حملے ہوئے جن میں سے بعض اتنے شدید تھے کہ بعض وقتوں میں میں سمجھتا تھا کہ میں ایک منٹ یا ڈیڑھ منٹ سے زیادہ کسی صورت میں زندہ نہیں رہ سکتا.جب ڈاکٹروں کو بلا کے دکھایا گیا تو انہوں نے آلے لگا کر اور نبض دیکھ کر یہی رائے قائم کی کہ بیماری دل کی نہیں ہے بلکہ اعصاب اور

Page 129

انوار العلوم جلد 25 105 احباب جماعت کے نام پیغامات معدہ کی ہے لیکن تکلیف اور احساس کے لحاظ سے دونوں بیماریوں میں فرق نہیں.اگر اس خیال سے بیماری کو دیکھا جائے کہ بیمار کیا محسوس کر رہا ہے تو پھر ویسی ہی یہ خطر ناک ہے جیسی وہ خطر ناک ہے.چنانچہ ایک اور ڈاکٹر نے جب یہی بات کہی تو میں نے ان سے کہا کہ بتائیے میں فکر کس طرح نہ کروں جبکہ میرا دل محسوس کر رہا ہے کہ میری حالت خطرے میں ہے.تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب تک آپ سے زیادہ دماغی طاقت والا ڈاکٹر آپ کو ماننے پر مجبور نہ کر دے آپ معذور ہیں میں کیا کہہ سکتا ہوں، آپ کو یہ یقین دلا دینا کہ اس وقت آپ خطرے سے باہر ہیں یہ کسی ایسے ڈاکٹر کے اختیار میں نہیں جو اپنی دماغی قوت کے لحاظ سے آپ سے زیادہ نہ ہو.بہر حال اس مشورہ کے بعد بعض ربوہ کے ہمارے احمدی ڈاکٹر جو تھے انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ابھی نہیں جانا چاہیے ابھی سردی ہے اور یہ مرض سردی سے ہی متاثر ہوتی ہے.میں نے اس پر سوئٹزر لینڈ اور اٹلی اور ہالینڈ اور انگلینڈ تاریں دیں جن کے جوابات بذریعہ تار آئے کہ ہم نے یہاں کے ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ آپ کی بیماری کا علاج یہاں بڑی حد تک ہو سکتا ہے اور یہاں کا موسم ہرگز آپ کی بیماری کے خلاف نہیں.آپ فوراً آجائیں یہاں ہر قسم کا انتظام ہسپتال وغیرہ کا موجود ہے.یورپ کے ملکوں کے رہنے والے ڈاکٹروں کی ان تاروں سے ربوہ کے ڈاکٹروں کے منہ بند ہو گئے کیونکہ سردی میں تو وہ رہ رہے ہیں.ربوہ والے تو نہیں رہ رہے.ربوہ والے تو اپنے موسم پر قیاس کرتے ہیں.پھر وہ لوگ ان بیماریوں کے ماہر بھی ہیں.عزیزم شیخ ناصر احمد نے سوئٹزر لینڈ سے تار دی ہے کہ میں نے معین صورت میں یہاں کے ڈاکٹروں سے مشورہ کر لیا ہے اور وہ یہی کہتے ہیں کہ وہ یہاں آجائیں ہم علاج کر سکتے ہیں اور یہاں ہر قسم کی سہولتیں مہیا ہیں.قریباً اسی مفہوم کی تار انگلینڈ سے بھی آئی ہے اس لئے میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے.ہر انسان جو پیدا ہوا ہے اُس نے مرنا ہے.اُن گھڑیوں میں جب میں محسوس کرتا تھا کہ میر ادل ڈوبا کہ ڈوبا مجھے یہ غم نہیں تھا کہ میں اس دنیا کو چھوڑ رہا ہوں.مجھے یہ غم تھا کہ میں آپ لوگوں کو چھوڑ رہا ہوں.اور مجھے یہ نظر آرہا تھا کہ ابھی ہماری جماعت

Page 130

انوار العلوم جلد 25 106 احباب جماعت کے نام پیغامات میں وہ آدمی نہیں پیدا ہو ا جو آپ کی نگرانی ایک باپ کی شکل میں کرے.میر ادماغ بوجھ نہیں برداشت کر سکتا تھا مگر اُس وقت میں برابر یہ دعا کر تا رہا کہ اے میرے خدا! جو میرا حقیقی باپ اور آسمانی باپ ہے مجھے اپنے بچوں کی فکر نہیں کہ وہ یتیم رہ جائیں گے مجھے اس کی فکر ہے کہ وہ جماعت جو سینکڑوں سال کے بعد تیرے مامور نے بنائی تھی وہ یتیم رہ جائے گی.اگر تو مجھے یہ تسلی دلا دے کہ ان کے ٹیتم کا میں انتظام کر دوں گا تو پھر میری یہ تکلیف کی گھڑیاں سہل ہو جائیں گی.مگر تو مجھ سے یہ کس طرح امید کر سکتا ہے کہ یہ لاکھوں روحانی بچے جو تو نے مجھے دیئے ہیں، جن کے دشمن چپے چپے پر دنیا میں موجود ہیں اور جن کو ختم کرنے کے لئے ہر وقت شیطانی نیزے اٹھ رہے ہیں، جب میرے بعد ان نیزوں کو اپنی چھاتی پر کھانے والا کوئی نہیں رہے گا تو تو ہی بتا کہ میں اس بات کو کس طرح برداشت کرلوں.مجھے موت کا ڈر نہیں مجھے ان لوگوں کے یتیم ہو جانے کا ڈر ہے جنہوں نے تیرے نام کو روشن کرنے کے لئے پچاس سال متواتر قربانیاں کیں.ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، دنیا نے ان کو کمائی سے محروم کر دیا تھا پھر بھی وہ ہر اُس آواز پر آگے بڑھے جو تیرے نام کے روشن کرنے کے لئے میں نے اٹھائی تھی.اب اے میرے وفادار آقا! میں تجھے تیری ہی وفاداری کی قسم دیتا ہوں ان کمزوروں نے اپنی کمزوریوں کے باوجو د تجھ سے وفاداری کی.تو طاقتور ہوتے ہوئے ان سے بے وفائی نہ کیجو کہ یہ بات تیری شان کے شایاں نہیں اور تیری پاکیزہ صفات کے مطابق نہیں.میں ان لوگوں کو تیری امانت میں دیتا ہوں.اے سب امینوں سے بڑے امین ! اس امانت میں خیانت نہ کیجئو اور اس امانت کو پوری وفاداری کے ساتھ سنبھال کر رکھیو.ڈاکٹر مجھے کہتے ہیں فکر مت کرو.لیکن میں اس امانت کا فکر کس طرح نہ کروں جسے میں نے پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک اپنے سینہ میں چھپائے رکھا اور ہر عزیز ترین شے سے زیادہ عزیز سمجھا.اے میرے عزیزو! تم سے کو تاہیاں بھی صادر ہوئیں، تم سے قصور بھی ہوئے مگر میں نے یہ دیکھا کہ ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کی آواز پر تم نے لبیک کہا.تم موت کی وادیوں میں سے گزر کر بھی خدا تعالیٰ کی طرف دوڑتے رہے ہو.مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ

Page 131

انوار العلوم جلد 25 107 احباب جماعت کے نام پیغامات تمہیں نہیں چھوڑے گا.خدا تمہیں بے کسی اور بے بسی کی موت نہیں دے گا.ڈاکٹروں کی رائے تو یہی ہے کہ میری بیماری صرف عوارض کی بیماری ہے حقیقت کی بیماری نہیں لیکن جو کچھ بھی ہو ہمارا خدا اسچا خدا ہے، زندہ خدا ہے، وفادار خدا ہے.تم ہمیشہ اُس پر توکل رکھو اور اپنی اولاد کو بھی اس پر تو گل رکھنے کی تلقین کرو.اور اس دعا کے طریقہ کو یاد رکھو جو میں نے اوپر بیان کیا ہے.میں نے ساری عمر جب بھی اِس رنگ میں اخلاص کے ساتھ دعا کی ہے میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اس دعا کے قبول ہونے میں دیر ہوئی ہو.اگر تم اس رنگ میں اپنے رب سے محبت کرو گے اور اُس کی طرف جھکو گے تو وہ ہمیشہ تمہاری مدد کے لئے آسمان سے اتر تا رہے گا.ایک دولت میں تمہیں دیتا ہوں ایسی دولت جو کبھی ختم نہیں ہو گی.ایک علاج میں تمہیں عطا کرتا ہوں وہ علاج جو کسی بیماری میں خطا نہیں کرے گا.ایک عصا میں تمہارے حوالے کرتا ہوں ایسا عصا جو تمہاری عمر کی انتہائی کمزوری میں بھی تمہیں سہارا دے گا.اور تمہاری کمر کو سیدھا کرے گا.اے خدا ! تو اپنے ان بندوں کے ساتھ ہو.جب انہوں نے میری آواز پر لبیک کہی تو انہوں نے میری آواز پر لبیک نہیں کہی بلکہ تیری آواز پر لبیک کہی.اے وفادار اور صادق الوعد خدا! اے وفادار اور سچے وعدوں والے خدا ! تو ہمیشہ ان کے اور ان کی ا اولادوں کے ساتھ رہیو اور ان کو کبھی نہ چھوڑیو.دشمن ان پر کبھی غالب نہ آئے اور یہ کبھی ایسی مایوسی کا دن نہ دیکھیں جس میں انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں سب سہاروں سے محروم ہو گیا ہوں.یہ ہمیشہ محسوس کریں کہ تُو ان کے دل میں بیٹھا ہے، ان کے دماغ میں بیٹھا ہے اور ان کے پہلو میں کھڑا ہے اللهُمَّ امین.بعض ڈاکٹر جو زیادہ ماہر نہیں ہیں وہ تو میرے جانے پر گھبراتے ہیں مگر ماہر ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ جلدی جاؤ اور جلدی آؤ.بہر حال ہر شخص کے رتبہ کے مطابق اس کی بات پر یقین کیا جاتا ہے.میں ان ماہرین کی رائے پر اعتبار کرتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جاتا ہوں.خدا کرے میرا یہ سفر صرف میرے لئے نہ ہو.بلکہ اسلام کے لئے ہو اور خدا کے دین کے لئے ہو اور خدا کرے کہ میری عدم موجودگی میں تم غم

Page 132

انوار العلوم جلد 25 108 احباب جماعت کے نام پیغامات نہ دیکھو اور جب میں لوٹوں تو خدا تعالیٰ کی مدد اور نصرت میرے بھی ساتھ ہو اور تمہارے بھی ساتھ ہو.ہم سب خدا کی گود میں ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے پاس کھڑے ہوں.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "21/3/55 (الفضل 22 مارچ 1955ء) پیغام مؤرخہ 1955ء-3-22 " احباب جماعت احمدیہ ! السّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ کئی دن کی تاروں کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اب مجھے روانہ ہو جانا چاہیئے.میں انشاء اللہ کل 23 مارچ کو بدھ کے دن لاہور جارہا ہوں تا کہ وہاں سے کراچی جاؤں.احباب کو چاہیے کہ دعاؤں میں لگے رہیں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کا حافظ و ناصر ہو.میں بھی انشاء اللہ جس حد تک مجھے توفیق ملی دعائیں کرتا جاؤں گا.مجھے ایک حد تک تشویش تو ہے لیکن مایوسی نہیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ میری دعاؤں کے جواب میں اپنی مدد ضرور بھیجے گا اور معجزانہ رنگ میں مدد بھیجے گا.اگر میری دعاؤں کی تائید میں جماعت کی دعائیں بھی شامل رہیں تو انشاء اللہ تاخیر بڑھ جائے گی.احباب کو خوب یاد رکھنا چاہیئے کہ جب کبھی ذمہ دار افسر ادھر اُدھر ہوتا ہے تو شریر لوگ فتنہ پیدا کرتے ہیں.ہماری جماعت بھی ایسے شریروں سے خالی نہیں، بعض لوگ اپنے لئے درجہ چاہتے ہیں، بعض لوگ اپنے لئے شہرت چاہتے ہیں.ایسا کوئی شخص بھی پیدا ہو یا کوئی بھی آواز اٹھائے خواہ کسی گاؤں میں یا شہر یا علاقہ میں تو اُس کی بات کو کبھی برداشت نہ کریں.کبھی یہ نہ سمجھیں کہ یہ معمولی بات ہے.فساد کوئی بھی معمولی نہیں ہو تا.حدیثیں اس پر شاہد ہیں.جب کوئی شخص اختلافی آواز اٹھائے فوراً لا حول ! اور

Page 133

انوار العلوم جلد 25 109 احباب جماعت کے نام پیغامات استغفار پڑھیں.اور خواہ آپ عمر میں سب سے چھوٹے ہوں اور درجے میں سب سے چھوٹے ہوں اور خواہ آپ کے بزرگ اُس فتنہ انداز کی بات کی تائید کر رہے ہوں فوراً مجلس میں کھڑے ہو جائیں اور لاحول پڑھ کر کہہ دیں کہ ہم نے احمدیت کو خدا کے لئے اختیار کیا تھا، ہمارا آسمانی باپ خدا ہے اور ہمارے روحانی باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں.جماعت میں فتنہ پھیلانے والی بات اگر ہمارے عزیز ترین وجو د سے بھی ظاہر ہوئی تو ہم اُس کا مقابلہ کریں گے.عبد اللہ بن ابی بن سلول کتنا بڑا منافق تھا.قرآن کریم میں متعدد آیات اس کی منافقت کے لئے بیان کی گئی ہیں.ایک جنگ میں جب اس نے بعض صحابہ کی کمزوری دیکھی اور کہا کہ مدینہ چل لو وہاں پہنچتے ہی جو مدینہ کا سب سے بڑا معزز آدمی ہے یعنی نعوذ باللہ عبد اللہ بن ابی بن سلول وہ مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا.تو عبد اللہ بن ابی بن سلول کا بیٹا بھی اُس جگہ موجود تھا.وہ دوڑ تا ہؤا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا یارسول اللہ ! میں آپ کو بتاتا ہوں میرے باپ نے آج کیسی خباثت کی ہے.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں سمجھتا ہوں میرے باپ کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں.اگر آپ یہ واجب فیصلہ کریں تو اس کے پورا کرنے کا مجھے حکم دیں تا ایسا نہ ہو کہ کوئی اور مسلمان ایسا کر بیٹھے تو میرے دل میں منافقت پیدا ہو.اور اس کا بغض میرے دل میں پیدا ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہمارا ارادہ یہ نہیں ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس ہوئے تو چونکہ عبد اللہ بن ابی بن سلول نے یہ کہا تھا کہ مدینہ پہنچنے دو، مدینہ کا سب سے معزز آدمی یعنی عبد اللہ بن ابی بن سلول مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دے گا.عبد اللہ بن ابی بن سلول کے لڑکے نے تلوار نکال لی اور مدینہ کے دروازے کے آگے کھڑا ہو گیا اور اپنے باپ کو مخاطب کر کے کہا.اے باپ !تُو نے یہ فقرہ کہا تھا.خدا کی قسم ! میں وہ وقت ہی نہیں آنے دوں گا کہ تو اس بات کو پورا کرنے کا ارادہ کرے.تُو

Page 134

انوار العلوم جلد 25 110 احباب جماعت کے نام پیغامات ایک قدم آگے بڑھنے کی کوشش کر میں اپنی تلوار سے تیر اسر کاٹ دوں گا.صرف ایک صورت تیرے مدینہ میں داخل ہونے کی ہے.اپنی سواری سے اتر آاور زمین پر کھڑے ہو کر کہہ کہ مدینہ کا سب سے معزز آدمی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم ہے اور سب سے ذلیل وجود میں ہوں.اگر تو یہ کہے گا تو میں تجھے مدینہ میں داخل ہونے دوں گا ور نہ تجھے قتل کر دوں گا.عبد اللہ بن ابی بن سلول اپنے بیٹے کے ایمان کو دیکھ کر ایسا مرعوب ہوا کہ فوراً اپنے اونٹ سے اتر آیا اور اُس نے وہی فقرے کہے جو اُس کے بیٹے نے کہے تھے.تب اُس کے بیٹے نے اسے مدینہ میں داخل ہونے دیا.سو دین کے معاملہ میں باپ، دادا، استاد اور پیر کی بھی کوئی حیثیت نہیں.جو کہتا ہے دین کی حقارت کرو تم اُس کا مقابلہ کرو.اگر تمہارے ٹکڑے ٹکڑے بھی ہو جائیں تو خوشی سے اس موت کو قبول کرو.کیونکہ وہ موت تمہاری نہیں تمہارے دشمن کی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں دجال ایک مومن کو قتل کرے گا پھر اُس کو زندہ کرے گا.پھر اس کو دوبارہ قتل کرنا چاہے گا لیکن خدا اس کو توفیق نہیں دے گا.سو یا د رکھو کہ وہ موت جو تم خدا کے لئے قبول کرو گے وہ موت آخری نہیں ہو گی.اس کے بعد خدا تمہیں پھر زندہ کرے گا اور تمہیں دین کی خدمت کرنے کی توفیق دے دیگا.پس اے نوجوانو! اے خدام الاحمدیہ کے ممبر و! میری اس نصیحت کو یاد رکھو، عبد اللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے کے واقعہ کو یا در کھو، حدیث دنبال کو یا در کھو.اگر تم خدا کے لئے موت قبول کرو گے تو خُدا تم کو ایسی زندگی دے گا جس کو کوئی ختم نہیں کر سکے گا.اللہ تعالیٰ تم کو سچامو من اور سچا بندہ بننے کی توفیق دے.اللهم امين خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "22/3/55 ( الفضل 23 مارچ 1955ء)

Page 135

انوار العلوم جلد 25 111 احباب جماعت کے نام پیغامات پیغام بنام مرزا بشیر احمد صاحب امیر مقامی ربوہ بذریعہ تار از لاہور مورخہ 1955ء-3-24 " آپ کی تار پہنچی.میں خدا کے فضل سے پہلے سے بہتر ہوں.احباب کا شکریہ ادا کریں اور انہیں میر اسلام پہنچا دیں.میں نے یہاں لاہور میں ڈاکٹروں سے مشورہ کیا ہے.اور ان کے مشورے اور بعض دوستوں کی خواہش پر دو دن کے لئے کراچی کی طرف روانگی ملتوی کر دی ہے.(خلیفہ المسیح) " (الفضل 25 مارچ 1955ء) پیغام از کراچی مؤرخہ 1955ء-4-6 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ احباب جماعت احمدیہ ! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پہلی بات تو میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ شوریٰ میری غیر حاضری میں آرہی ہے.پہلے سال میں بوجہ زخم کے میں شوریٰ میں پورا حصہ نہیں لے سکا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشق کروادی.مگر میں محسوس کرتا ہوں کہ ابھی آپ لوگوں میں اتنی طاقت نہیں پیدا ہوئی کہ میری غیر موجودگی میں اپنی ذمہ داری پر پورا کام کر سکیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ایسی طاقت بھی پیدا کر دے اور مجھے بھی ایسی صحت بخشے کہ آپ سے مل کر اسلام کی فتح کی بنیادیں رکھ سکوں.جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے پچھلے چند دنوں سے میری طبیعت زیادہ خراب ہونے لگ گئی تھی مگر دو دن سے پھر بحالی کی طرف قدم جلدی جلدی اُٹھ رہا ہے چنانچہ اس وقت بھی کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میں کمرہ میں ٹہل رہا ہوں اور میرے قدم آسانی کے ساتھ چل رہے ہیں.پہلے جو بیماری کے حملہ کے بعد دماغ خالی خالی معلوم ہو تا تھا کل سے وقفہ وقفہ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں بھی نیک تغیر

Page 136

انوار العلوم جلد 25 112 احباب جماعت کے نام پیغامات پیدا ہو رہا ہے اور میں بعض اوقات محسوس کرتا ہوں کہ میں سوچ سکتا ہوں اور پچھلے واقعات کا تسلسل میرے دماغ میں شروع ہو جاتا ہے.بلکہ کراچی آتی دفعہ ریل میں ایک سورۃ میرے دماغ میں آئی جس کے بعض حصے لوگوں سے اب تک حل نہیں ہو سکے تھے اور باوجو د بیماری کے اس سورۃ کی شرح اور بسط میں نے کرنی شروع کی اور وہ تفسیر عمدگی کے ساتھ حل ہونی شروع ہو گئی.تب میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اے خدا! ابھی دنیا تک تیرا قرآن صحیح طور پر نہیں پہنچا اور قرآن کے بغیر نہ اسلام ہے نہ مسلمانوں کی زندگی، تو مجھے پھر سے توفیق بخش کہ میں قرآن کے بقیہ حصہ کی تفسیر کر دوں اور دنیا پھر ایک لمبے عرصے کے لئے قرآن شریف سے واقف ہو جائے.اور اس پر عامل ہو جائے اور اس کی عاشق ہو جائے.بہر حال آج میری طبیعت پچھلے چند دن سے بہت اچھی معلوم ہوتی ہے.کچھ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ سفر کی پریشانیاں جو پیدا ہو رہی تھیں وہ دُور ہو رہی ہیں.پچھلے دنوں اختر صاحب اور مشتاق احمد صاحب باجوہ جو کام کے لئے جاتے تھے تو اپنی ناتجربہ کاری کی وجہ سے یہ نہیں سمجھتے تھے کہ فورار پورٹ نہ پہنچی تو مجھے صدمہ ہو گا.دو چار دن کے تجربہ کے بعد میں نے خود اس بات کو محسوس کر لیا اور انہیں ہدایت کر دی کہ جب وہ باہر جایا کریں تو ایک زائد آدمی لے کر جایا کریں اور اسے اُس وقت کی رپورٹ دے کر میرے پاس بھجوا دیا کریں تا کہ مجھے پتہ لگتار ہے.جب سے اس پر عمل ہوا میری گھبراہٹ اور پریشانی دور ہونی شروع ہو گئی.اور اب خدا تعالیٰ کے فضل.طبیعت میں سکون ہے.خدا نے یہ بھی فضل کیا کہ جہاز کے ٹکٹوں کے ملنے کے غیر معمولی سامان ہو گئے اور اپھینچ کے ملنے کے سامان بھی پیدا ہو گئے.اس موقع پر اسلامی ملک کے بعض نمائندوں نے غیر معمولی شرافت کا ثبوت دیا.اللہ تعالیٰ اُن کو جزائے خیر دے، اُن کے ملکوں کو عزت اور ترقی بخشے.اس واقعہ سے طبیعت میں اور بھی زیادہ سکون پیدا ہوا اور پریشانی دور ہوئی.خدا کرے کہ مسلمانوں میں پھر سے اتحاد پید اہو جائے اور پھر سے وہ گزشتہ عروج کو حاصل کرنے لگ جائیں اور اسلام کے نام میں وہی رعب پیدا ہو جائے جو آج سے ہزار بارہ سو سال پہلے تھا.میں اُس دن کے دیکھنے کا متمنی ہوں اور ہر وقت

Page 137

انوار العلوم جلد 25 113 احباب جماعت کے نام پیغامات اللہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں.جب سعودی، عراقی، شامی اور لبنانی ، ترک، مصری اور یمنی سو رہے ہوتے ہیں میں ان کے لئے دعا کر رہا ہوتا ہوں.اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعائیں قبول ہونگی.خدا تعالیٰ ان کو پھر ضائع شدہ عروج بخشے گا.اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم ہمارے لئے فخر و مباہات کا موجب بن جائے گی.خدا کرے جلد ایسا ہو.میں شوریٰ میں آنے والے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سنجیدگی سے بجٹ اور دوسری باتوں پر غور کریں.اس سال دس بارہ دن لگا کر میں نے خود بجٹ کو حل کیا ہے اس لئے بجٹ میں دوستوں کو زیادہ تبدیلی نہیں کرنی چاہیئے.میراخیال ہے کہ میری بیماری کا موجب وہ محنت بھی تھی جو تحریک اور انجمن کے بجٹوں کو ٹھیک کرنے کے لئے مجھے کرنی پڑی.میں تو بیمار ہو گیا.مگر میری وہ محنت کئی سال تک آمد و خرچ کے توازن کو ٹھیک کر دیگی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو اور آپ کو ان فرائض کے پورا کرنے کی توفیق دے جن کا آپ وعدہ کر چکے ہیں اور جن کے بغیر جماعت کی قریب کی ترقی ناممکن ہے.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "6/4/1955 (الفضل 10 / اپریل 1955ء) • پیغام بذریعہ تار مورخہ 1955ء-4-12 بوقت 7 بجے صبح ترجمہ: " مجھے مشورہ دیا گیا ہے کہ مجھے ہوائی جہاز کے ذریعہ سفر کرنا چاہیئے سو ہم انشاء اللہ کراچی سے 30/ اپریل کو نصف شب کے قریب روانہ ہو کر یکم مئی کو دمشق پہنچیں گے.اس سے قبل ہمارے قافلے کا ایک حصہ کراچی سے براہ راست لندن جائے گا اور انشاء اللہ 27 / اپریل کو وہاں پہنچ جائے گا.

Page 138

انوار العلوم جلد 25 114 احباب جماعت کے نام پیغامات احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس سفر کو بابرکت کرے اور میری صحت بہتر ہو جائے اور میں تفسیر القر آن کا کام مکمل کر سکوں.(خلیفة المسیح) " (الفضل 16/ اپریل 1955ء) پیغام بذریعہ تار مورخہ 1955ء -4-13 بوقت پونے 12 بجے رات ترجمہ: " برادران! میں چند روز میں ہوائی جہاز کے ذریعے سفر یورپ پر جا رہا ہوں.چونکہ کچھ دن پیشتر ایک ہوائی جہاز جس میں ایک درجن کے قریب چینی وزراء سفر کر ہے تھے گر کر تباہ ہو گیا ہے اس لئے قدرتی طور پر میرا بیمار ذہن کسی قدر گھبراہٹ محسوس کرتا ہے.لیکن سفر اس موسم میں بہتر خیال کیا جاتا ہے.اس لئے میں اپنے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے ہوائی سفر کو ہی ترجیح دیتا ہوں.وہ جو کچھ ہمارے ساتھ کرتا ہے اچھا ہی کرتا ہے.اور اگر ہم کسی وقت مایوس ہوتے ہیں تو یہ ہماری اپنی ہی غلطی اور کم نگاہی کی وجہ سے ہوتا ہے.خدا اب بھی اور آئندہ بھی ہر حال میں آپ کے ساتھ ہو.میں آپ کو اپنے خدا کے سپر د کر تا ہوں کہ جس نے آج تک کبھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا ہے.(مرزا محمود احمد ) " پیغام از کراچی مورخه 1955-4-15 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (الفضل 16/ اپریل 1955ء) اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ "برادران! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آج پندرہ تاریخ ہے اور اگر خدا تعالیٰ نے خیریت رکھی تو ہم انشاء اللہ پندرہ دن

Page 139

انوار العلوم جلد 25 115 احباب جماعت کے نام پیغامات بعد یعنی 30 اور یکم کی درمیانی رات کو ہوائی جہاز سے روانہ ہوں گے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کل میں نے ظہر اور عصر کی نماز جمع کر کے جماعت کے ساتھ پڑھائی.گو میں سجدے اور رکوع کے درمیان بھول جاتا تھا مگر میں نے اپنے ساتھ دوستوں کو بٹھا دیا تھا کہ مجھے یاد کرواتے جائیں.بہر حال چار رکعتیں کھڑے ہو کر میں پڑھا سکا آج جمعہ ہے اور انشاء اللہ ارادہ ہے کہ میں جمعہ کی نماز پڑھاؤں.یہ بات میں بد پر ہیزی سے نہیں کر رہا بلکہ ڈاکٹر نے مجھے حکم دیا ہے کہ جمعہ کی نماز پڑھاؤں.اور یہ ڈاکٹر بھی غیر احمدی ڈاکٹر ہے احمدی نہیں.گو اس نے تاکید کر دی ہے خطبہ اونچی آواز سے نہ ہو لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ سے ہو اور پانچ منٹ سے زیادہ نہ ہو.آدمی پاس بیٹھے رہیں جو پانچ منٹ کے بعد روک دیں.پچھلے چند دنوں سے خدا کے فضل سے طبیعت اچھی ہوتی چلی گئی.گو دل کی کمزوری کے دورے بعض دنوں میں ہوتے رہے.آج پہلی دفعہ ایک خواب چھوٹی سی آئی اور مجھے یا درہ گئی.میں نے دیکھا کہ دو نوجوان مجھے ملنے آئے ہیں اور میں نے ان کو ملاقات کا وقت دیا ہے اور ان کے ساتھ کوئی ان کے پروفیسر بھی ہیں.کچھ دیر کے بعد نیم خوابی کی حالت ہوئی.اور میں نے محسوس کیا کہ ابھی وہ طالب علم اور ان کے پروفیسر ملنے نہیں آئے اور میں نے اپنی بیوی کو کہا اور وقت پوچھا.انہوں نے کہا گیارہ بجے ہیں.پھر میں نے ان سے پوچھا کہ دو طالب علم جنہوں نے وقت مقرر کیا تھاوہ نہیں آئے.انہوں نے کہا نہیں آئے.پھر میں نیند کے زور سے دوبارہ سو گیا.بہر حال اُس وقت دماغ پر بوجھ کسی قدر کم معلوم ہو تا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ خیالات کے معطل ہونے کی جو کیفیت پیدا ہو گئی تھی اُس میں کمی آگئی ہے.یہ بہر حال اللہ تعالیٰ کا فضل ہے گو بہت آہستہ مگر پھر بھی طبیعت بحالی کی طرف مائل ہے.اگر انجمن اور تحریک کے افسروں نے مجھے دق نہ کیا تو شاید صحت اور جلدی ٹھیک ہو جائے گی.وہ ضروری ہدایت پر عمل کرنے اور ضروری رپورٹیں بھیجنے میں کو تاہی کرتے ہیں اور بہانہ یہ بناتے ہیں کہ آپ کی صحت کے پیش نظر ایسا کرتے ہیں.حالانکہ رپورٹ وقت پر آئے تو اس سے طبیعت میں سکون پیدا ہو تا ہے.بہر حال احباب دعا کرتے رہیں.یورپین ڈاکٹروں کی رائے کا علم تو وہاں جا کر ہی ہو گا.

Page 140

انوار العلوم جلد 25 116 احباب جماعت کے نام پیغامات فی الحال ہوائی سفر کا طبیعت پر بوجھ ہے کیونکہ مجھے اس کی عادت نہیں.تندرست آدمی بھی اس کا بوجھ محسوس کرتا ہے تو اعصابی بیمار تو اور بھی زیادہ کمزور ہوتا ہے.لیکن دوسرا کوئی راستہ اس وقت ممکن نہیں تھا.اللہ تعالیٰ خیریت سے پہنچائے اور خیریت سے واپس لائے.تو علاج اور دوستوں کی ملاقات طبیعت میں اچھی تبدیلی پیدا کر دے گی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.اور آپ کو اپنے فرائض کے صحیح طور پر ادا کرنے کی توفیق دے اور اسلام سے ایسی وابستگی پیدا ہو کہ دنیا کا کوئی ظلم اور تشدد آپ کو اپنے عہد سے پھرا نہ سکے.اور اللہ تعالیٰ ایسی عقل آپ کو عطا فرمائے کہ آپ کو وہ صحیح راستہ ہمیشہ روشن نظر آتا ر ہے جو خدا تعالیٰ کے کاموں کو چلانے اور اسلام کے قائم کرنے میں ممد ہو سکتا ہے.وَالسّلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی " 15-4-1955 الفضل 20 / اپریل 1955ء) پیغام از کراچی بنام جماعت احمدیہ مشرقی بنگال ترجمه از انگریزی "" بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ هُوَ النَّاصِرُ میرے بنگال کے احمدی بھائیو! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جب کسی قوم کے افراد اختلافات کو ہوا دینا شروع کر دیتے ہیں تو وہ انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان کا کردار پست ہو کر رہ جاتا ہے.چنانچہ دیکھ لو جب مسلمانوں کے دل متحد نہ رہے تو دنیا بھر میں ان کا وقار زائل ہو گیا.بالآخر 1300 سال کے ادبار کے بعد

Page 141

انوار العلوم جلد 25 117 احباب جماعت کے نام پیغامات خدا نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا اور چاہا کہ مسلمان پھر ان کے ذریعہ متحد ہو سو جائیں.مجھے حال ہی میں ایک رپورٹ ملی ہے کہ برہمن بڑیہ کے دولت احمد خاں صاحب اور ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب چند دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر اس خیال کو ہوا دے رہے ہیں کہ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اس کی اطاعت لازمی حکم کا درجہ نہیں رکھتی.اگر یہ صحیح ہے تو پھر یہ بھی صحیح ہے کہ صوبائی امیر محمد صاحب ڈھاکہ کے شاہجہان صاحب اور برہمن بڑیہ کے دولت احمد صاحب بھی غلطی کر سکتے ہیں.برادران! جب صورت یہ ہے کہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے، صوبائی امیر غلطی کر سکتا ہے، شاہجہان صاحب غلطی کر سکتے ہیں، دولت احمد صاحب غلطی کر سکتے ہیں تو پھر اس صورت میں خلیفہ کی آواز کو لازمی طور پر فوقیت دینی پڑے گی.کیونکہ وہی ایک ایسا شخص ہے کہ جسے ساری جماعت منتخب کرتی ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ یہ مذکورہ بالا حضرات ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ چونکہ خلیفہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے وہ جماعت کے افراد سے یہ توقع نہیں رکھ سکتا کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں.لیکن دوسری طرف وہ یہ سمجھتے ہیں ہر چند کہ وہ خود بھی غلطی کر سکتے ہیں تاہم اُن کی رائے خلیفہ اور اُس کے مشیروں پر فائق سمجھی جانی چاہیئے.اس لئے ان کے اپنے خیال میں انہیں اس بات کا پورا حق حاصل ہے کہ وہ خلیفہ کے سامنے کھڑے ہو کر کہیں کہ چونکہ وہ غلطی کر سکتا ہے اس لئے اسے جماعت سے اطاعت کی توقع رکھنے کا حق حاصل نہیں.اور یہ کہ جہاں تک اطاعت کی توقع رکھنے کا سوال ہے یہ صرف بنگال کے صوبائی امیر کا حق ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے.یاد رکھو! کہ یہ لوگ تمہارے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں اور تمہیں صدیوں تک کے لئے اُسی طرح تباہ کرنا چاہتے ہیں جس طرح کہ ماضی میں مسلمان تباہی سے دوچار ہوئے.مذکورہ بالا خیال اگر چہ بظاہر معمولی نظر آتا ہے لیکن یہی خیال تھا جو گزشتہ زمانہ میں بالآخر مسلمانوں کی تباہی کا باعث بنا.بظاہر سادہ نظر آنے والے یہی اصول تمہاری

Page 142

انوار العلوم جلد 25 118 احباب جماعت کے نام پیغامات جماعت کو بھی تباہ کرنے کا موجب بن سکتے ہیں.پس ان حالات میں سوائے اس کے اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ میں یہ اعلان کروں کہ میں ہر سچے احمدی سے توقع رکھتا ہوں کہ وہ ان لوگوں کو میرا پیرو نہ سمجھے بلکہ انہیں آزاد اور میرے منصب کا باغی تصور کرے.اگر یہ لوگ حق پر ہیں تو انہیں اس اعلان پر خوش ہونا چاہیے.اور جو غلطی میں نے کی ہے اور جس چیز کو میں نے تباہ کیا ہے انہیں اس کی اصلاح اور اس کی تعمیر کے لئے کمر بستہ ہو جانا چاہیئے.اور اپنے ایمان اور اپنے عمل کی فوقیت ظاہر کرنی چاہیئے.جب میں نے اپنے ہاتھ میں کام سنبھالا تھا تو اُس وقت ہمارے خزانے میں صرف چند آنے ہی تھے.یا بہر حال اُس وقت ہماری گل پونجھی بمشکل ایک روپے سے زائد ہو گی.ہماری اُس وقت کی حالت کے مقابلہ میں اس وقت کا بنگال یقیناً کہیں زیادہ امیر ہے.اگر دولت احمد صاحب، ڈپٹی خلیل الرحمن صاحب اور ان کے ساتھی حق پر ہیں تو انہیں اتنی کامیابی تو ضرور حاصل کر لینی چاہیے جتنی کہ ہم نے متحدہ طور پر حاصل کی ہے.بالخصوص اس حال میں کہ ان کے موجودہ وسائل ہمارے اُس وقت کے وسائل سے بہت زیادہ ہیں ان کے لئے اتنی کامیابی حاصل کر لینا مشکل نہیں ہونا چاہیئے.بلکہ ایسی صورت میں تو انہیں اس قابل ہونا چاہیئے کہ وہ احمدیت کو ساری دنیا میں پھیلا کر دکھا دیں.قادیان میں ہمارے اُس وقت کے وسائل پر نگاہ ڈالو کہ جب جماعت احمدیہ میں اختلاف رونما ہوا تھا.اگر آج سے پچاس سال پہلے کا کمزور مرکز دنیا کو ہلا سکتا تھا تو پھر مشرقی بنگال کے احمدی آج دولت احمد صاحب اور ڈپٹی خلیل الرحمن صاحب کی قیادت میں عالمی پیمانے پر اس قسم کا تہلکہ کیوں نہیں مچاسکتے ؟ میں انہیں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ مقابلۂ تبلیغ کے میدان میں ایسا کارنامہ کر کے دکھائیں؟ لیکن میں ساتھ ہی یہ اعلان بھی کرتا ہوں کہ وہ اس میدان میں کچھ بھی نہیں کر سکیں گے.بر خلاف اس کے زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ ان کے رشتہ دار اور ساتھی احمدیت کو ترک کر بیٹھیں گے.آنے والے چند مہینے اور چند سال اس لعنت کو ظاہر کر دیں گے جو یہ لوگ خود اپنے ہی ہاتھوں اپنے اوپر لا رہے ہیں.

Page 143

انوار العلوم جلد 25 119 احباب جماعت کے نام پیغامات پس میں اس امید کے ساتھ جماعت احمد یہ بنگال کے نام یہ خط ارسال کر رہا ہوں کہ اگر وہ اپنے مرکز اور اپنے خلیفہ سے محبت رکھتے ہیں تو وہ کسی قسم کا شک کئے بغیر حتمی طور پر ان سے اپنا تعلق منقطع کر لیں گے ، ان سے کسی قسم کا کوئی واسطہ نہ رکھیں گے اور پورے وثوق کے ساتھ ان کے خیالات کی تردید کریں گے.اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے صحت عطا کر دی تو میں انشاء اللہ بنگال سے اس بدی کو مٹانے کی پوری کوشش کرونگا.لیکن اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء کچھ اور ہے تو پھر بھی وہ تم سے ایسا ہی سلوک کرے گا جیسا سلوک کہ تم میرے ساتھ روا رکھو گے.یہ میرا کام نہیں ہے کہ میں اپنی عزت کا بدلہ لوں.یہ خدا کا کام ہے.اگر میں جھوٹا ہوں تو پھر تمہیں ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں.اور اگر میں اس دنیا میں خدا کا بر حق نمائندہ ہوں تو پھر اُس لعنت سے ڈرو جو تمہارا پیچھا کرتی چلی آرہی ہے.اپنے قدموں پر نگاہ رکھو.ایسا نہ ہو کہ احمدیت سے تمہارا لفظی ایمان بھی جاتا ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً احمدیت کی حفاظت کرے گا.وہ قادر و توانا ایسے لوگوں کو آگے لائے گا جو ہوں گے تو تم ہی میں سے لیکن وہ قربانیوں میں تم سے بہت آگے ہوں گے.اور اس طرح ان کی قربانیوں کے ذریعہ بنگال میں احمدیت اور زیادہ مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گی.احمدیت کی ترقی کا انحصار نہ مجسٹریٹوں پر ہے اور نہ سب رجسٹراروں پر.اور ان میں سے کوئی بھی نہیں جو اللہ تعالیٰ کی گرفت سے باہر ہو.نہ وہ جو ڈ پٹی کے عہدے پر فائز ہوں اور نہ وہ جو سب رجسٹرار ہوں.میں نہیں کہتا کہ تم خدائی سزا کا انتظار کرو.میں جانتا ہوں کہ وہ آرہی ہے.آسمانوں والا خدا میرے ساتھ ہے.اس لئے مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ خدائی فیصلے کا انتظار کرو.اور پھر حق کو پہچانو.میں تم سے صرف یہ کہتا ہوں کہ خدا میرے ساتھ ہے اور جو کوئی بھی میرے خلاف اٹھتا ہے وہ یقیناً خدا کی طرف سے سزا پائے گا.اور اُس کا اور اُس کی پارٹی کا اثر ورسوخ اسے خدا کے غضب سے نہیں بچا سکے گا.تمہارے لئے ابھی غور و فکر سے کام لینے اور خدائی منشاء کو جو قرآن میں مذکور ہے سمجھنے کا موقع ہے.اگر تم وقت پر ایسا نہیں کرو گے تو پھر تمہاری تباہی تمہارے سروں پر منڈلا رہی ہے.

Page 144

انوار العلوم جلد 25 مالیر کراچی 120 احباب جماعت کے نام پیغامات مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی و مصلح موعود " پیغام از کراچی مؤرخہ 1955ء-4-19 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ (الفضل 21/ اپریل 1955ء) اعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ "برادران! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ اب انشاء اللہ چند دن میں ہم یورپ روانہ ہونے والے ہیں.اور ممکن ہے کہ جب یہ مضمون شائع ہو تو روانہ ہو چکے ہوں یا روانہ ہونے والے ہوں.مجھے معلوم ہوا ہے بعض مفسد اور شر پسند لوگ یہ مشہور کر رہے ہیں کہ گویا میرا بیوی بچوں کو ساتھ لے کر جانا یہ مفہوم رکھتا ہے کہ گویا میرے نزدیک ربوہ خدانخواستہ اب تباہ ہونے والا ہے.جو احمدی یا غیر احمدی یہ خیال رکھتا ہے وہ خود تباہ ہونے والا ہے.ربوہ تباہ ہونے والا نہیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایسے شرارتی لوگوں کو ذلیل اور رسوا کر دے گا.اور وہ اس تباہی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے جس تباہی کی انہوں نے ربوہ اور اس کے رہنے والوں کے متعلق خبر دی تھی.اس نظارہ کو دیکھنے کے بعد کہ قادیان کی تمام آبادی کو میں بحفاظت نکال کر لے آیا.اور کئی سال تک بے سامانی میں ان کے کھانے پینے کا سامان کیا.اور سینکڑوں احمدیوں کی لاکھوں روپے کی امانتیں بحفاظت ان کے گھروں تک پہنچا دیں.اور یہ دیکھتے ہوئے کہ باوجود ہر قسم کی مخالفت کے اور کلی بے سامانی کے میں نے ہزاروں آدمیوں کو ربوہ میں بسا دیا.اور کالج اور سکول بھی بنوا دیئے.اور زنانہ کالج بھی بنوا دیا جو قادیان میں نہیں تھا.اور پختہ دفتر بھی بنوا دیئے جو قادیان میں نہیں تھے.اور خدا کے فضل سے پختہ جامعۃ المبشرین بھی بن رہا ہے.ان تمام باتوں کے دیکھنے کے بعد

Page 145

121 احباب جماعت کے نام پیغامات انوار العلوم جلد 25 اگر کوئی احمدی یہ خیال کرتا ہے کہ میں ربوہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہوں اور ربوہ تباہ ہونے والا ہے تو اُس بد بخت کو کوئی زمینی طاقت نہیں بچا سکتی.کیونکہ جس نے خدا تعالیٰ کو دیکھ کر انکار کیا اُس کے دل میں ایمان اور دماغ میں عقل کوئی شخص نہیں پیدا کر سکتا.میں جب انسان ہوں تو بیماری سے بالا نہیں.اور جب میں ایسی بیماری میں مبتلا ہوں جس کے متعلق چھ سات چوٹی کے ڈاکٹروں نے کہا ہے جو احمدی نہیں تھے کہ یہ محنت شاقہ کا نتیجہ ہے بلکہ ایک ڈاکٹر نے تو یہ بھی کہا کہ اگر میرا بس چلتا تو میں دو سال پہلے ان کو پکڑ کر نکال دیتا کہ کیوں انہوں نے جبراً آپ کو کام سے نہیں روکا.پس ان نافقین کے اعتراضوں کا یہ مطلب ہے کہ اگر کوئی خلیفہ محنت کرتے کرتے بیمار ہو جائے تو اُس کو یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ علاج کے لئے باہر جائے.اور اگر وہ باہر جائے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ جماعت کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.اگر ان خبیثوں کے اعتراض میں کوئی صداقت ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ خلافت ایک لعنت ہے.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ میرے باہر علاج کرانے سے مجھے کوئی فائدہ ہو گا یا نہیں مگر مجھے اس بات کا یقینی علم ہے کہ جن منافق احمدیوں کے دل میں ایسا خیال گزرا ہے اُن کے گھروں کو خداتعالی برباد کر کے چھوڑے گا اور وہ ربوہ کی موجودگی اور ترقی میں اپنے گھروں کو برباد ہوتے دیکھیں گے.میں نے کبھی خدائی کا دعویٰ نہیں کیا کہ میں خواہ کتنی محنت تم لوگوں کے لئے کروں نہ میں بیمار ہوں گا، نہ مجھے علاج کی ضرورت ہو گی.مجھے پہلے تو بیماری کے حملہ کی شدت کی وجہ سے یہ بھی یاد نہیں رہا تھا کہ بیماری کا حملہ کس طرح ہوا اور کس دن ہوا.بعد میں لوگوں سے باتیں کرنے سے مجھے پتہ لگا کہ یہ حملہ ہفتہ کے دن ہوا تھا.اور عورتوں میں درس قرآن دینے کے بعد ہوا تھا.پس میرا قصور صرف یہ ہے کہ میں نے باوجود کمزور اور بیمار ہونے کے تمہاری بیویوں اور لڑکیوں کو خدا کا کلام سنایا.اگر میر اقصور یہی ہے کہ جیسا کہ ظاہر ہے تو سمجھ لو کہ اس اعتراض کے بدلہ میں خدا تعالیٰ کی بے حد نصرت مجھے ملے گی اور خدا تعالیٰ کا بے حد غضب ایسے معترضین پر نازل ہو گا.بعض لوگ کہتے ہیں کہ میں سارے کارکن نکال کر اپنے ساتھ لے جارہا ہوں.

Page 146

انوار العلوم جلد 25 122 احباب جماعت کے نام پیغامات اس میں کوئی شک نہیں کہ دوڈاکٹر میرے ساتھ جارہے ہیں.لیکن ایک مزید ڈاکٹر کو ربوہ کے کام کے لئے میں نے خدمات وقف کرنے کے لئے آمادہ کیا ہے اور وہ اِس وقت ربوہ میں کام کر رہا ہے.جو دو ڈاکٹر میں اپنے ساتھ لے جارہا ہوں ان میں سے ایک میرا بیٹا ہے جس کو میں نے اپنے خرچ سے پڑھوا کر احمد یہ جماعت کے لئے وقف کیا.جبکہ سینکڑوں دوسرے ڈاکٹر اس خرچ پر دو مہینہ کے لئے بھی آنے کو تیار نہیں تھے.اگر ان معترضین کے دل میں دیانت ہے تو آٹھ سال کے لئے نہیں صرف چھ چھ مہینے کے لئے اپنے رشتہ داروں کو خدمت جماعت کے لئے لے آئیں اور منور احمد سے دگنا گزارہ لے لیں.اب بھی میں اسے اپنے خرچ پر لے جارہا ہوں تاکہ وہاں وہ بڑے بڑے ہسپتالوں میں نئی دریافتیں سیکھ کر آئے اور ربوہ پہنچ کر جماعت کی خدمت کرے.پس اس کالے جانا بھی آپ لوگوں پر احسان ہے کیونکہ اس کا خرچ میں خود دے رہا ہوں.اور اس کے علم کا فائدہ آپ کو پہنچے گا.جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا ہے دنیا کے آخر میں جنت بھی قریب آجائے گی اور دوزخ بھی قریب آجائے گی.میں نے ساری عمر کوشش کی کہ قریب آئی ہوئی جنت میں تم داخل ہو جاؤ.اگر تم میں سے بعض پھر بھی دوزخ ہی میں گھنے کی کوشش کریں تو میں تو حسرت بھرے دل سے اِنَّا لِله ہی پڑھ سکتا ہوں اور کیا کر سکتا ہوں.خدا تعالیٰ تمہاری آنکھیں کھولے اور ان دشمنوں کی بھی آنکھیں کھولے جو احمدیت پر جھوٹے اعتراض کرتے ہیں.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 19/4/1955 از کراچی" الفضل 23 اپریل 1955ء)

Page 147

انوار العلوم جلد 25 123 احباب جماعت کے نام پیغامات پیغام از کراچی مورخه 1955ء-4-19 بوقت نو بجے صبح " یوں طبیعت بہتر ہو رہی ہے مگر عارضی طور پر طبیعت گرتی ہے.کل سے رض کے بعض حصوں کی زیادتی معلوم ہوتی ہے یعنی بائیں بازو کی حرکت میں جو آسانی پیدا ہو گئی تھی اس میں کمی آگئی ہے.مٹھی بناتے وقت انگلیاں سیدھی ہونے لگ گئی تھیں اب پھر مڑنے لگ گئی ہیں لیکن یہ فرق بھی ہے کہ پہلے میں بائیں ہاتھ کی مدد سے ازار بند باندھ نہیں سکتا تھا اب میں باندھنے پر قادر ہو گیا ہوں.کسی قدر عجیب سا معلوم ہوتا ہے مگر باندھ لیتا ہوں.اسی طرح پہلے بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں پوری جس نہیں تھی.جب انگلیاں میں ملاتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ کچھ جس میں فرق ہے.دائیں ہاتھ کی تشہد کی انگلی اور انگوٹھے سے چھوٹی چیزیں نہیں پکڑی جاتی تھیں، پھسل جاتی تھیں.اب تشہد کی انگلی اور انگوٹھے سے موتی پکڑ بھی لیتا ہوں اور اٹھا کر دوسری جگہ رکھ بھی دیتا ہوں.مگر انگلیوں کے بند کرنے میں بد نمائی ابھی تک قائم ہے.احباب دعا کرتے رہیں اب ہمارے یورپ کی طرف سفر کرنے کا وقت قریب آ گیا ہے.آج یہ مشورہ کر رہے ہیں کہ وہاں کی سردی مضر تو نہیں ہو گی.اس وقت تک ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ جنوبی یورپ کی سردی مضر نہیں ہو گی.بلکہ اگر گرمی کا خیال رکھا جائے تو مفید ہو گی.کچھ دنوں سے بائیں کندھے میں بھی درد ہے جس کو ڈاکٹر محض تھکان قرار دیتے ہیں.کہتے ہیں کہ بیماری کی وجہ سے خون کا دورہ پورا نہیں ہوتا اس لئے جس بازو پر آپ زیادہ لیٹے رہتے ہیں اُس میں درد ہونے لگتا ہے.ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ جب وہ حملہ ہوا جسے فالج سمجھا گیا تھا تو اس کے بعد میں بائیں ہاتھ میں قینچی نہیں پکڑ سکتا تھا.اور انگلیوں میں اتنا ضعف تھا کہ میں قینچی کے سوراخوں میں انگلیاں اور انگوٹھا ڈال کر کھول نہیں سکتا نہ بند کر سکتا تھا.اس کے نتیجہ میں میں ناخن نہیں کاٹ سکتا تھا.مگر اِس وقت کہ میں حال لکھوا رہا ہوں میں نے قینچی کے سوراخوں میں ہاتھ ڈالا ہوا ہے اِس کو کھول بھی رہا ہوں بند بھی کر رہا ہوں اور بعض دفعہ ناخن کاٹنے میں کامیاب بھی

Page 148

انوار العلوم جلد 25 ہو جاتا ہوں.124 احباب جماعت کے نام پیغامات بوقت نو بجے صبح مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی از کراچی "19-4-1955 پیغام از کراچی مؤرخہ 1955ء-4-20 (الفضل24 / اپریل 1955ء) "برادران! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آج 20 تاریخ ہے اور انشاء اللہ 30 کو ہم جا رہے ہیں.گرمی ان دنوں کراچی میں بڑی شدید پڑ رہی ہے اور اس وجہ سے طبیعت میں کمزوری محسوس ہوتی ہے مگر باوجود اس کے یہ محسوس ہو رہا ہے کہ بیماری کے بعض حصوں میں کمی ہے.آج ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بڑے اصرار سے اپنا خیال ظاہر کرتے تھے کہ فالج حقیقی نہیں ہے بلکہ محض عرضی 3 ہے.چونکہ ہوائی سفر قریب آ رہا تھا اس لئے خیال کیا گیا کہ ایک دفعہ دل کے ماہر ڈاکٹروں سے پھر مشورہ کر لیا جائے.چنانچہ کراچی کے سب سے بڑے ماہر قلب ڈاکٹر ایم شاہ صاحب جو اس فن کے سب سے بڑے ماہر سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ سے خاص طور پر اس کا مطالعہ کر کے آئے ہیں سے خواہش کی گئی کہ وہ ایک دفعہ جانے سے پہلے آلہ تحقیق قلب سے دل کا پھر مطالعہ کر لیں.چونکہ اُس آلہ کا گھر پر لانانا ممکن تھا اس لئے ہسپتال میں دکھانے کا فیصلہ ہوا.چنانچہ میں آج صبح دس بجے وہاں گیا.ڈاکٹر شاہ صاحب نے نہایت محبت اور توجہ سے آلہ تحقیق قلب لگا کر دل کی حرکات کا مطالعہ کیا اور آلہ کھولنے کے بعد میری طرف دیکھ کر فرمایا کہ مبارک ہو دل سو فیصدی ٹھیک ہے.پھر فرمایا کہ ہوائی سفر کا فیصلہ نہایت مبارک ہے.میں آپ کو یہی مشورہ دینا چاہتا تھا مگر ڈرتا تھا

Page 149

انوار العلوم جلد 25 125 احباب جماعت کے نام پیغامات کہ آپ کسی وجہ سے اس سفر سے گھبراتے نہ ہوں مگر دل یہی چاہتا تھا کہ آپ ہوائی سفر کریں تا کہ سفر کی کوفت نہ ہو اور علاج جلدی ہو جائے.بہر حال ماہر ڈاکٹروں کے مشورہ سے ہوائی سفر کا فیصلہ ہوا ہے.انشاء اللہ چند روز میں چل پڑیں گے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت نمازوں اور دعاؤں میں لگی رہے گی.اور ہر فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار رہے گی.اور خد اتعالیٰ سے اتنی محبت کرے گی کہ خدا اس کا ہو جائے گا.جہاں تک احساس کا سوال ہے میری طبیعت محسوس کرتی ہے کہ اگر گرمی کچھ کم ہو جائے تو انشاء اللہ طبیعت بہت جلد بحال ہونے لگ جائے گی.آج میں نے خدا تعالیٰ کے فضل سے پھر ظہر عصر کی نماز پڑھائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلی بار تھی کہ ساری نماز ٹھیک پڑھائی اور کوئی غلطی نہ ہوئی.آج میں نے یورپ کی تبلیغ پر بھی غور کیا اور مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقین ہے کہ میں خیریت سے وہاں پہنچا تو یورپ کی تبلیغ میں نمایاں تبدیلی ہو جائے گی.1924ء میں جب میں نے سفر کیا تو گو میں نوجوان تھا اور مضبوط تھا مگر اتنا تجربہ کار نہیں تھا.لیکن اب گو کمزور اور ناتواں ہوں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک وسیع تجربہ میری پشت پر ہے اور میر ا دماغ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے تھوڑا بہت کام کرنے لگ گیا ہے.خدا تعالیٰ مدد فرمائے تو انشاء اللہ برکت اور رحمت اور فضل کے دروازے کھلیں گے اور اسلام ترقی کی طرف قدم بڑھائے گا.اِنْشَاءَ الله، إِنْشَاءَ الله انشاء اللہ.اے خدا ایسا ہی ہو.تیرا دین پھر اپنی جگہ حاصل کر لے اور کفر پھر غار میں اپنا سر چھپالے.میرا ارادہ ہے کہ میں یورپ اور امریکہ کے تمام مبلغین کو اکٹھا کر کے قضیہ زمین کو بر سر زمین طے کرنے کی کوشش کروں.مگر ابھی منزل مقصود کے درمیان ایک بہت بڑا سمندر حائل ہے جس کو پار کروانا محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر مبنی ہے.کیا تعجب ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھنا نصیب کر دے اور ہماری موتیں ہماری پیدا کشوں سے زیادہ مبارک ہوں.اور کامیابی ہمارے قدم چومے اور ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فاتح جرنیل بن جائیں.اور قیامت کے دن تمام دنیا کی حکومت کی کنجیاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں رکھنے کا فخر 6

Page 150

انوار العلوم جلد 25 126 احباب جماعت کے نام پیغامات حاصل کریں.اپنے فرض کو سمجھو اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وفادار سپاہیوں کی طرح کفر کے مقابلہ کے لئے طیار ہو جاؤ خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہارے خاندانوں کی زندگیوں کو بابرکت بنائے.امِيْنَ اللَّهُمَّ أَمِينَ مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) از کراچی "20-4-1955 پیغام از کراچی مورخه 1955-4-27 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّجِيْمِ الفضل 26 / اپریل 1955ء) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ "برادران! السّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ ہمارا پہلا قافلہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہوائی جہاز کے ذریعہ قاہرہ پہنچ چکا ہے.29 کو میں انشاء اللہ تعالیٰ رات کے ساڑھے بارہ بجے بقیہ قافلہ کے ساتھ دمشق روانہ ہوں گا.وہاں سے انشاء اللہ تعالیٰ دوسری تار دی جائے گی.احباب جماعت نے خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے فکر سے بچانے کی کوشش کی ہے.اِلَّا مَا شَاءَ الله بعض اشخاص کے جنہوں نے باوجو د سفر اور بیماری کے نیش زنی سے پر ہیز نہیں کیا.لیکن تھوڑے بہت تو ساری قوم میں ہی مجرم ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے مخلص گروہ ہی جیتے گا.اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ میری بیماری کی وجہ سے انہیں سر اٹھانے کا موقع مل گیا ہے ناکام و نامراد ہوں گے.اور خدا تعالیٰ مخلص حصہ کا ساتھ دے گا اور دن اور رات کے کسی حصہ

Page 151

127 احباب جماعت کے نام پیغامات انوار العلوم جلد 25 میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا.خدا تعالیٰ کے فضل سے کراچی آنا بہت مفید ثابت ہوا ہے اور یہاں یورپ کے علاج کے متعلق نہایت مفید مشورے حاصل ہوئے ہیں.اور ڈاکٹروں نے نہایت محبت سے علاج کے مثبت اور منفی پہلو سمجھا دیئے ہیں.اب صرف ایک تشخیص باقی ہے.ڈاکٹروں کی رائے یہ ہے کہ وہ تشخیص یورپ میں ہی ہو سکتی ہے.اور یہ کہ اگر وہ بھی تسلی دلانے والی ہو تو انشاء اللہ تعالیٰ بیماری کا کوئی حصہ بھی تشویشناک باقی نہیں رہے گا.بلکہ جب کل میں نے ایک مشہور اعصابی بیماریوں کے ماہر سے مشورہ لیا کہ اگر تشخیص کے بعد ڈاکٹر وہاں علاج تجویز کر دیں اور میں واپس آنا مفید سمجھوں تو کیا ان کے نزدیک باقی علاج کراچی میں ہو سکے گا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب مکمل تشخیص کے بعد نسخہ بھی وہ تجویز کر دیں تو اُن کی اجازت اور حالات کے مطابق اگر میں کراچی آ جاؤں تو بقیہ علاج وہ امید کرتے ہیں یہاں ہو سکے گا.مگر اس میں انحصار وہاں کے ڈاکٹروں کی رائے پر کرنا چاہیے.اگر جماعت کے احباب کی دعائیں اللہ تعالیٰ سُن لے تو کوئی تعجب نہیں ایسی صورت نکل آئے کہ میں چند دن یا چند ہفتے اس وقت کے قیاس سے پہلے آسکوں.وَ الْعِلْمُ عِنْدَ الله.گو زور اُن کا یہی ہے کہ وہاں کی آب و ہوا سے فائدہ اٹھانا چاہیئے جو اس مرض کے لئے بہت فائدہ مند ہے.بعض علاجوں کے متعلق اُنہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ سخت تکلیف دہ ہیں.اگر وہاں کے ڈاکٹر وہ علاج تشخیص کریں تو اس سے انکار کر دیا جائے اور کہا کہ ہم یہ علاج کراچی میں کروالیں گے جہاں یہ سب سامان موجود ہے.مگر ان کی رائے یہی ہے کہ ایسے سخت علاج کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.انْشَاء الله مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "" ' 27-4-1955 (الفضل یکم مئی 1955ء)

Page 152

انوار العلوم جلد 25 128 احباب جماعت کے نام پیغامات پیغام از کراچی مؤرخہ 1955ء-4-28 " میں نے آج بروز جمعرات 28/ اپریل کو خواب میں دیکھا کہ میں ایک مکان میں ہوں.میرے ساتھ ایک اور شخص بھی ہے جس کو میں جاگنے کی حالت میں پہچانتا نہیں.میں نے دیکھا کہ اس مکان کے ایک کمرہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال مرحوم اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی بیٹھے ہیں.اور ایک دوسرے کو کچھ فارسی کے شعر سنا رہے ہیں.اور قرآن شریف کی تلاوت بھی کر رہے ہیں.مجھے ایسا معلوم ہوا کہ قرآن شریف کی تلاوت شیخ یعقوب علی صاحب کر رہے ہیں.میں اوپر کی منزل سے اتر کر نیچے آیا اور ایک اور شخص جو ان لوگوں کے پاس تھا اُس سے پوچھا کہ یہاں کیا ہو رہا تھا؟ اس نے کہا کہ ڈاکٹر سر اقبال مرحوم فارسی کے کچھ شعر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو سناتے تھے.اور شیخ یعقوب علی صاحب پرانے شعراء کے کچھ شعر سر اقبال کو سناتے تھے.جن کو سر اقبال نے بہت پسند کیا اور شیخ صاحب کے پڑھنے کو بھی بہت پسند کیا.پھر شیخ یعقوب علی صاحب نے کچھ قرآن شریف پڑھ کر سر اقبال کو سنایا.میں نے کہا قرآن شریف پڑھنا سر اقبال کو کیسا پسند آیا؟ اس شخص نے جواب دیا کہ شیخ صاحب کی آواز میں کچھ زیادہ خوبصورتی نہیں تھی اور سر اقبال کو ان کی آواز کچھ زیادہ پسند نہیں آئی.اِس کے بعد آنکھ کھل گئی.رویا میں میں نے سر محمد اقبال صاحب مرحوم کو دیکھا بھی جیسا کہ آج سے چوبیس پچیس سال پہلے ان کی شکل ہوتی تھی.ویسی ہی ان کی شکل رویا میں دیکھی.رؤیا میں جب میں ابھی اوپر کے کمروں میں تھا میں نے دیکھا کہ سر محمد اقبال مرحوم نے ایک رقعہ میری طرف بھیجا.اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم اس وقت فارسی کے شعر ایک دوسرے کو سنارہے ہیں اور میں آپ کو یہ رقعہ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ کسی زمانہ میں آپ کے خاندان کی زبان فارسی تھی (جیسا کہ فی الواقع تھی.عورتیں بھی گھر میں فارسی بولتی تھیں اور مرد خط و کتابت فارسی میں کرتے تھے.میں نے سمجھا کہ سر اقبال مجھ سے چاہتے ہیں کہ میرا بھی کوئی فارسی کلام ہو تو اُن کو بھجواؤں.میں اس رقعہ کو پڑھ کر سخت

Page 153

انوار العلوم جلد 25 129 احباب جماعت کے نام پیغامات شر مندہ ہوا اور میں نے کہا ہم لوگوں نے اپنی زبان کس طرح بھلا دی ہے.میں نے تو فارسی میں شعر نہیں کہے ہوئے.اب میں ان کو کیا بھجواؤں.حقیقت یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اول فارسی کے سخت مخالف تھے.گو مثنوی مولاناروم انہوں نے مجھے سبقا پڑھائی.فرماتے تھے کہ میاں! مجھے فارسی سے بغض ہے.کیونکہ فارسی نے عربی کی جگہ لے لی اور عربی دنیا سے مٹ گئی.اس وجہ سے ہم لوگوں کو بھی فارسی پڑھنے کی طرف توجہ نہیں رہی.حالانکہ اردو عربی جاننے والے کے لئے فارسی کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتی.چند مہینے میں اچھی فارسی سیکھ سکتا ہے.اگر میں اُن کے اِس قول سے اتنا متاثر نہ ہوتا تو کم از کم فارسی دان دنیا سے قریب ترین تعلق پیدا کر سکتا.ابھی تک کبھی کبھی یہ خواہش پیدا ہوتی ہے.فارسی کتاب پڑھ لیتا ہوں.مگر خود لکھنے بولنے کی مہارت نہیں.پیغام از دمشق مورخہ 1955ء-5-3 " دمشق 1955ء-5-3 عزیزم مرزا بشیر احمد صاحب مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "28-4-1955 (الفضل 3 مئی 1955ء) السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ آج دمشق آئے تیسرا دن ہے.ہوائی جہاز میں تو اس حادثہ کے سوا کہ اس کے کمبل گلو بند کی طرح چھوٹے عرض کے تھے اور کسی طرح بدن کو نہیں ڈھانک سکتے تھے خیریت رہی.سردی کے مارے میں ساری رات جاگا اور پھر وہم ہونے لگا کہ شاید مجھے دوبارہ حملہ ہوا ہے.چودھری ظفر اللہ خاں ساری رات مجھے کمبلوں سے ڈھانکتے رہے مگر یہ اُن کے بس کی بات نہ تھی.آخر جب میں بہت نڈھال ہو گیا تو میں نے چودھری صاحب

Page 154

انوار العلوم جلد 25 130 احباب جماعت کے نام پیغامات کی طرف دیکھا جو ساتھ کی کرسی پر تھے.تو اُن کا چہرہ مجھے بہت نڈھال نظر آیا اور مجھے یہ و ہم ہو گیا کہ چودھری صاحب بھی بیمار ہو گئے ہیں اب یہ دوو ہم جمع ہو گئے.ایک یہ کہ مجھ پر دوبارہ فالج کا حملہ ہو گیا اور ایک یہ کہ چودھری صاحب بھی بیمار ہو گئے.اس سے تکلیف بہت بڑھ گئی.آخر میں نے منور احمد سے کہہ کر نیند کی دوائی منگوائی.چودھری صاحب نے قہوہ منگوا کر دیا.وہ گرم گرم پیا.ایک ایسپرین کی پڑیا کھائی تو پھر جا کر نیند آئی اور ایسی گہری نیند آئی کہ جب چودھری صاحب صبح کی نماز پڑھ چکے تو میں جا گا.چودھری صاحب نے عذر کیا کہ آپ کی بیماری اور بے چینی کی وجہ سے میں نے آپ کو نماز کے لئے نہیں جگایا.بہر حال قضائے حاجات کے بعد کرسی پر نماز ادا کی اور پھر ناشتہ کیا.اتنے میں روشنی ہو چکی تھی.دور دور سے عرب اور شام کی زمینیں نظر آرہی تھیں.بہر حال بقیہ سفر نہایت عمدگی سے کٹا اور ہم سات بجے دمشق پہنچ گئے.ایروڈروم پر دمشق کی جماعت کے احباب تشریف لائے ہوئے تھے جو سب بہت اخلاص سے ملے.برادرم منیرا بھی جماعت کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے.ایروڈ روم کے ہال میں جا کر بیٹھ گئے جہاں پاکستان کے منسٹر بھی چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کے ملنے کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے.مستورات کے لئے برادرم سید بدرالدین حصنی جو منیر الحصنی صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں کی مستورات تشریف لائی ہوئی تھیں وہ مستورات کو گھر لے گئیں پیچھے پیچھے ہم بھی پہنچ گئے.محبت اور اخلاص کی وجہ سے بدرالدین صاحب حصنی نے سارا گھر ہمارے لئے خالی کر دیا ہے.اس وقت بھی ہم اس میں ہیں.جس محبت سے یہ سارا خاندان ہماری خدمت کر رہا ہے اس کی مثال پاکستان میں مشکل سے ملتی ہے.برادرم سید بدرالدین حصنی شام کے بڑے تاجر ہیں.لیکن خدمت میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ اپنے اخلاص کی وجہ سے وہ خادم زیادہ نظر آتے ہیں رئیس کم نظر آتے ہیں.یہاں چونکہ سردی بہت ہے اور یورپ کی طرح Heating system نہیں ہے.مجھے سردی کی وجہ سے تکلیف زیادہ ہو گئی ہے.یہاں کے قابل ڈاکٹر کو بلایا گیا.جس کے معائنہ کو دیکھ کر معلوم ہوا کہ وہ واقعی قابل ہے.فرانس کا پڑھا ہوا ہے.بعض امور جو تجربہ سے بیماری

Page 155

انوار العلوم جلد 25 131 احباب جماعت کے نام پیغامات کو بڑھانے والے معلوم ہوتے تھے اُن کو اُس نے بڑی جلدی اخذ کر لیا.منور احمد نے بتایا کہ جب ہم ڈاکٹر کو فیس دینے لگے تو سید منیر الحصنی صاحب نے بڑے زور سے روکا.یہ ہمارا خاندان کا ڈاکٹر ہے ہم اس کو سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اس کو فیس نہ دیں.اِس سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی بڑے خاندان یورپ کی طرح ڈاکٹروں کا ماہانہ یا سالانہ فیس ادا کرتے ہیں اور ہر دفعہ آنے پر الگ فیس نہیں دی جاتی.اب یہ پروگرام ہے کہ انشاء اللہ سات تاریخ کو ہم بیروت جائیں گے اور آٹھ کو اٹلی روانہ ہوں گے.چودھری صاحب انشاء اللہ ساتھ ہی ہوں گے.ان کی ہمراہی بہت تسلی اور آسائش کا موجب رہی ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.دلوں میں ایسی محبت کا پیدا کرنا محض اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے انسان کی طاقت نہیں.اس لئے ہم اللہ تعالی کے ہی شاکر ہیں کہ اس نے ہمارے لئے وہ کچھ پیدا کر دیا جو دوسرے انسانوں کو باوجود ہم سے ہزاروں گنے طاقت رکھنے کے حاصل نہیں.ایک دن یہاں بھی شدید دورہ ہو ا تھا.مگر خدا کے فضل سے کم ہو گیا.اب معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ملک میں پہنچ کر جہاں Heating system ہو تا ہے بیماری کے ایک حصہ کو کافی فائدہ ہو گا.جو حملہ یہاں آکر ہو اوہ زیادہ تر دماغی تھا یعنی جسم پر حملہ ہونے کی بجائے دماغ پر لگتا تھا.بڑی سخت گھبراہٹ تھی.اُس وقت یہ دل چاہتا تھا کہ اُڑ کر اپنے وطن چلا جاؤں.مگر مجبوری اور معذوری تھی.ادھر علاج کا مقام بھی بہت قریب آگیا تھا اس لئے عقل کہتی تھی اب سفر کی غرض کو پورا کرو.شاید اللہ تعالیٰ کلی صحت ہی عطا فرما دے اور جسم آئندہ کام کے قابل ہو جائے.انشاء اللہ اب ہم آٹھ یا نو تاریخ کو تار یا خط کے ذریعہ سوئٹزر لینڈ سے اپنے حالات لکھیں گے.احباب دعاؤں میں مشغول رہیں.کیونکہ علاج کا مرحلہ تو اب قریب آ رہا ہے.اس سے پہلے تو سفر ہی سفر تھا.سب احباب جماعت احمدیہ اور عزیزوں اور رشتہ داروں کو سَلَامٌ عَلَيْكُمْ مرزا محمود احمد "" (الفضل 10 مئی 1955ء)

Page 156

انوار العلوم جلد 25 132 احباب جماعت کے نام پیغامات پیغام بذریعہ تار از زیورچ سوئٹزر لینڈ مورخہ 1955ء-5-19 بر موقع عید الفطر ترجمہ: دو پاکستان ، ہند وستان اور دنیا کے تمام احمدی بھائیوں کو عید مبارک ہو.میں ان سب کی مشکلات اور تکالیف کے دور ہونے اور روحانی ترقی کے لئے دعا کرتا ہوں.خلیفة المسیح (از زیورچ مورخہ 19 مئی) (الفضل 22 مئ 1955ء) پیغام بذریعہ تار از زیورچ سوئٹزرلینڈ مؤرخہ 1955ء-5-20 بوقت 11 بجے شب "خدا کا شکر ہے کہ تمام طبی ٹیسٹ مکمل ہو گئے ہیں اور بیماری متعین کر لی گئی ہے.مشہور معالج ڈاکٹر بوسیو (Dr.Bosio) نے رپورٹوں کا مطالعہ کرنے کے بعد آج اپنی تشخیص سے مطلع کر دیا ہے.ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خون اور شریانیں اور باقی ہر چیز معمول کے مطابق پائی گئی ہے.لیکن یہ کہ مجھے بہت زیادہ آرام کرنا چاہیئے.اور اگر ممکن ہو سکے تو مجھے یہاں کچھ زیادہ عرصہ قیام کرنا چاہیئے.پھر یہ کہ میری تقریریں زیادہ مختصر ہونی چاہئیں.انہوں نے مزید کہا ہے کہ گزشتہ سال حملے کے نتیجے میں جو زخم لگا تھا وہ خطرناک تھا اور یہ کہ سرجن کی رائے درست نہیں تھی.ایکسرے فوٹو سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چاقو کی نوک گردن میں ٹوٹ گئی تھی جو آب بھی اندر ہی موجود ہے.اور ریڑھ کی ہڈی (SPINAL CORD) کے قریب ہے.خدا کا شکر ہے کہ جن خطر ناک معائنوں سے بچنے کی کوشش کی جارہی تھی اب ان کی

Page 157

انوار العلوم جلد 25 133 احباب جماعت کے نام پیغامات ضرورت باقی نہیں رہی.میرا مکمل آرام دوستوں کے ہاتھ میں ہے.اگر دوست میری پوری طرح مدد کریں تو ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق میں کچھ مزید کام کر سکتا ہوں.لیکن اگر دوستوں نے تعاون نہ کیا تو خطرہ موجود ہے.خلیفة المسیح " (الفضل 24 مئی 1955ء) پیغام از زیورچ سوئٹزرلینڈ مورخہ 1955ء-5-22 "" بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ زیورچ 22 مئی 1955ء برادران! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ سالہا سال کی بات ہے میں نے خواب دیکھی تھی اور وہ اخبار میں کئی دفعہ چھپ بھی چکی ہے.میں نے دیکھا کہ میں کرسی پر بیٹھا ہوں اور سامنے ایک بڑا قالین ہے اور اُس قالین پر عزیزم چودھری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، عزیزم چودھری عبد اللہ خاں صاحب اور عزیزم چودھری اسد اللہ خاں صاحب لیٹے ہوئے ہیں.سر اُن کے میری طرف ہیں اور پاؤں دوسری طرف ہیں اور سینہ کے بل لیٹے ہوئے ہیں اور میں دل میں کہتا ہوں کہ یہ تینوں میرے بیٹے ہیں.عزیزم چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے ساری عمر دین کی خدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا.میری بیماری کے موقع پر تو اللہ تعالیٰ نے صرف ان کو اپنے بیٹا ہونے کو ثابت کرنے کا موقع دیابلکہ میرے لئے فرشتہ رحمت بنا دیا.وہ میری محبت میں یورپ سے چل کر کراچی آئے اور میرے ساتھ چلنے اور میری صحت کا خیال رکھنے کے ارادہ سے آئے.چنانچہ ان کی وجہ سے سفر بہت اچھی طرح کٹا اور بہت سی باتوں میں آرام رہا.آخر کوئی انسان پندرہ بیس سال پہلے

Page 158

انوار العلوم جلد 25 134 احباب جماعت کے نام پیغامات ر تین نوجوانوں کے متعلق اپنے پاس سے کس طرح ایسی خبر دے سکتا تھا.دنیا کا کون سا ایسا مذہبی انسان ہے جس کے ساتھ محض مذہبی تعلق کی وجہ سے کسی شخص نے جو اتنی بڑی پوزیشن رکھتا ہو جو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب رکھتے ہیں اس اخلاص کا ثبوت دیا ہو.کیا یہ نشان نہیں؟ مخالف مولوی اور پیر گالیاں تو مجھے دیتے ہیں مگر کیا وہ اس قسم کے نشان کی مثال بھی پیش کر سکتے ہیں؟ کیا کسی مخالف اور پیر نے 20 سال پہلے کسی نوجوان کے متعلق ایسی خبر دی اور میں سال تک وہ خبر پوری ہوتی رہی؟ اور کیا کسی ایسے مولوی اور پیر کی خدمت کا موقع خدا تعالیٰ نے کسی ایسے شخص کو دیا جو چو دھری ظفر اللہ خانصاحب کی پوزیشن رکھتا تھا؟ اللہ تعالیٰ ان کی خدمت کو بغیر معاوضہ کے نہیں چھوڑے گا.اور ان کی محبت کو قبول کرے گا اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں اس کا ایسا معاوضہ دے گا کہ پچھلے ہزار سال کے بڑے آدمی اس پر رشک کریں گے.کیونکہ وہ خدا شکور ہے اور کسی کا احسان نہیں اٹھاتا.اس نے ایک عاجز بندہ کی محبت کا اظہار کیا اور اس کا بوجھ خود اٹھانے کا وعدہ کیا.اب یقیناً جو اس کی خدمت کرے گا خدا تعالیٰ اس کی خدمت کو قبول کرے گا.اور دین و دنیا میں اُس کو ترقی دے گا.وہ صادق الوعد ہے اور رحمان و رحیم ہے.اب دو اڑھائی مہینے میں ہماری واپسی کا وقت قریب آ جائے گا.احباب دعا کریں کہ خیریت سے ہم پاکستان واپس آئیں اور وہاں بھی اللہ تعالیٰ ہر طرح خیریت کے سامان پیدا کرے.اس وقت جب کہ میں یہ پیغام لکھوا رہا ہوں میری طبیعت بہت اچھی معلوم ہو رہی ہے.گو یہاں بارش بہت ہے مگر یہاں کی آب و ہوا نے بہت اچھا اثر میری طبیعت پر ڈالا ہے.اگر South میں جگہ مل جاتی تو شاید اس سے بھی اچھا اثر پڑتا.ممکن ہے آئندہ مختصر قافلہ کے ساتھ دس بارہ دن کے لئے پھر ڈاکٹری کے مشورہ کے لئے آنا پڑے.کیونکہ ڈاکٹر نے کہا ہے مجھے وقتا فوقتا د کھاتے رہو.(مرزا محمود احمد ) " (الفضل 29 مئی 1955ء)

Page 159

انوار العلوم جلد 25 135 احباب جماعت کے نام پیغامات.ہالینڈ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب پر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کا ایک مکتوب مولوی غلام احمد صاحب بشیر مبلغ انچارج ہالینڈ مشن نے ہالینڈ میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھنے کے متعلق 20 مئی 1955ء کو تفصیلی اطلاع حضور کی خدمت میں لکھی.اس کے جواب میں حضور نے درج ذیل مکتوب تحریر فرمایا:."" جَزَاكَ الله.مبارک ہو.آپ کو بھی اور سب احمدی نو مسلموں کو بھی.اللہ تعالیٰ چودھری صاحب کے لئے یہ خدمت عظیم بہت بہت مبارک کرے اور ثواب کا موجب بنائے.بیچ وہی ہے جو سر عبد القادر نے مسجد لندن کا افتتاح کرتے ہوئے کہا تھا.ایں سعادت بزور بازو نیست تا نه بخشد خدائے بخشنده اللہ تعالیٰ نے چودھری صاحب کو مجھے آرام سے یہاں پہنچانے کی سعادت بخشی.اور اس کے بدلہ میں ان کو مسجد ہالینڈ کا سنگ بنیاد رکھنے کی عزت بخشی.یہ وہ عزت ہے جو بہت بڑے بڑے لوگوں کو بھی نصیب نہ ہوئی ہو گی.ہم نئے سرے سے اسلام کا سنگ بنیاد رکھ رہے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہونا کوئی معمولی عہدہ نہیں.آج دنیا اس کی قدر کو نہیں جانتی.ایک وقت آئے گا جب ساری دنیا کے بادشاہ رشک کی نظر سے ان خدمات کو دیکھیں گے.پاکستان کے گورنر جنرل بھی کل سے آئے ہوئے ہیں.اور آج معلوم ہوا ہے کہ اُن کی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہے.اور ڈاکٹر امید کرتے ہیں کہ جلد اچھے ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ اُن کو شفا دے کہ وہ بھی ایک کامیاب مرد میدان ہیں.کروڑوں مسلمانوں کو ان کے ذریعہ فائدہ پہنچا ہے اور پہنچے گا.إِنْشَاءَ اللهُ تَعَالیٰ اللہ تعالیٰ ان کو خیریت سے رکھے اور اُس کام کی تکمیل کا موقع بہم پہنچائے جو انہوں نے شروع کیا ہے.

Page 160

انوار العلوم جلد 25 136 احباب جماعت کے نام پیغامات آپ کا فون پہنچا کہ ایک ڈرائیور ہے جو انگریزی، فرانسیسی اور جرمن جانتا ہے.ہمیں ڈرائیور کی سخت ضرورت ہے.اسے بھیجوا دیں.اس دوست کا آنا ہمارے لیئے آرام کا موجب ہو گا.خدا تعالیٰ اس کے لئے بھی زیادتی ایمان کا موجب بنائے.اگر یہ شخص مل گیا اور ہمارے کام آتا رہا تو آپ کے لئے بھی بہت سے ثواب کا موجب ہو گا.اگر مکان جلد بن جائے تو آپ کی بیوی کو بھی اب اصرار ہے کہ مجھے جلد بھجوا دو.میں کوشش کروں گا کہ خدا تعالیٰ خیریت سے لے جائے تو میں اُن کو بھجوا دوں.اللہ تعالیٰ جلد ہالینڈ کے اکثر لوگوں کو احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشے.امین " (الفضل 23 جون 1955ء).ہیمبرگ جرمنی میں خطاب 27 جون 1955ء) لوکل جماعت کی طرف سے دعوت چائے کا انتظام کیا گیا، اس موقع پر ایڈریس کے جواب میں حضور نے ایک خاص ولولہ اور روحانی کیفیت کے ساتھ نصف گھنٹہ تک تقریر انگریزی میں فرمائی.جس میں احمدی احباب کا شکریہ ادا کرنے کے بعد ربوہ مرکز احمدیت کی تعمیر کی تفاصیل بیان فرمائیں کہ کس طرح ایک بنجر علاقہ جس میں صرف تین Tent ابتدا میں تھے خدا تعالیٰ نے ایک پر رونق شہر بسا دیا.حضور نے فرمایا ابتدا میں اُس جگہ پینے کا پانی نام کو نہ تھا اور وہاں کے پانی کو جب معائنہ کے لئے لاہور بھجوایا گیا تو ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ پانی انسانوں کے لئے مضر ہے.حضور نے فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اُس وقت الہاماً بتایا کہ یہاں میٹھا پینے کا پانی ضرور مہیا ہو گا.اوراب وہاں خدائی وعدہ کے مطابق پینے کے پانی کی کمی نہیں.اور یہ خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے اور احمدیت کی صداقت کا بین نشان ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ جرمن قوم کا کریکٹر بلند ہے اور انہوں نے ہمبرگ شہر کو اتنی جلدی تعمیر کر لیا ہے.حضور نے فرمایا کہ جر من قوم اس زندہ روح کے ساتھ ضرور جلد از جلد اسلام کو جو خود اسی روح کو بلند کرنے کے لئے تعلیم دیتا ہے قبول کرے گی.حضور نے فرمایا کہ میں اُس نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کا

Page 161

137 احباب جماعت کے نام پیغامات انوار العلوم جلد 25 پیروکار ہوں جس نے دنیا میں امن اور رواداری کو قائم کرنے کی پوری کوشش کی اور اپنے مخالفین جنہوں نے مسلمانوں کو تہہ تیغ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا کو فاتح ہونے کی حیثیت میں کس طرح معاف کر دیا.حضور نے فرمایا کہ اسلام اس رواداری کی تعلیم کا حامل ہے اور اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی.اسلام قومیت اور رنگ ونسل کی تمیز سے بالا ہے.اور دنیا میں عالمگیر برادری اور اخوت کو قائم کرنے کے لئے زریں اصول پیش کرتا ہے.“ (الفضل 15 جولائی 1955ء) جماعت ہیمبرگ جرمنی کی Guest Book پر نوٹ السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ "Dear Abdul Latif Your success in Germany is wonderful and miraculous.You have won the hearts of German people and this could not be done by your efforts.It is surely God's work.Some converts are wonderfully zealous in Islam and pure hearted.May God give you more and more converts and open the hearts of German people for Islam on your hands and help you to erect a fitting mosque in Hamburg and make it a centre for German people and specially German muslims Amen! Europe is certainly going to be muslim as is

Page 162

احباب جماعت کے نام پیغامات 138 انوار العلوم جلد 25 foretold by promised messiah.As this prophecy is going to be fulfilled through you, it will be a great blessing for you and your family.May God bless the German muslims and increase their number to million to million and millions until they become majority in Germany.Mirza.B.Mahmud Ahmad "1955ء June 28 ترجمه عزیزم عبد اللطيف السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جرمنی میں تمہاری کامیابی حیرت انگیز ہے اور معجزانہ رنگ رکھتی ہے.تم نے جرمنی کے رہنے والوں کے دلوں کو فتح کیا ہے.اور یہ کام صرف تمہاری کو ششوں سے نہیں ہو سکتا تھا.یہ یقینی طور پر خدا کا کام ہے.بعض نو مسلم نہایت جو شیلے اور مخلص ہیں.خدا تعالیٰ تمہیں زیادہ سے زیادہ نو مسلم عطا فرمائے.اور تمہارے ذریعہ جرمنی کے لوگوں کے دل اسلام کے لئے کھول دے.اور خدا تعالیٰ تمہیں ہیمبرگ میں ایک موزوں مسجد تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اور اس کو جرمنی کے تمام لوگوں کے لئے اور خاص طور پر یہاں کے نو مسلموں کے لئے ایک مرکز بنائے.امین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق یورپ یقینی طور پر اسلام کی طرف رجوع کر رہا ہے.چونکہ یہ پیشگوئی تمہارے ذریعہ سے پوری ہو رہی ہے اس لئے یہ تمہارے لئے اور تمہارے خاندان کے لئے بہت بڑی برکت کا موجب ہو گی.خدا تعالیٰ جرمنی کے نو مسلموں کو اپنی برکات میں سے حصہ عطا فرمائے اور ان کو لاکھوں لاکھ کی تعداد میں بڑھاتا چلا جائے.یہاں تک کہ جرمنی میں ان کی کثرت ہو جائے.امین

Page 163

انوار العلوم جلد 25 139 احباب جماعت کے نام پیغامات (دستخط) مرزا بشیر الدین محمود احمد 28 جون 1955ء 66 (الفضل 15 جولائی 1955ء) لندن سے مکتوب بنام ایڈیٹر الفضل ربوہ مورخہ 1955ء -147 "مکر می ایڈیٹر صاحب الفضل ! السّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ انگلستان آکر پہلے طبیعت خراب ہو گئی تھی مگر آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہی ہے.مگر شدید نزلہ اور کھانسی جو شروع ہوئے تھے ابھی تک جاری ہیں.گو کچھ کمی کی طرف مائل ہیں.شکر ہے کہ کچھ دیسی دوائیں جن سے مجھے فائدہ ہو تا تھا، لندن میں مجھے مل گئیں اور کچھ نزلہ اور کھانسی کے جوشاندے ” خدمتِ خلق“ سے لے کر اختر صاحب نے لندن بھیجوا دیئے ہیں.ابھی ملے نہیں.ملیں گے تو اُن کا استعمال کریں گے.آج تیرہ اور چودہ جولائی کے درمیان میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک کمرہ گرم کرنے کی انگیٹھی ہے جیسی کہ ہندوستان میں مکانوں میں ہوتی ہے.صاف ہے.دیر سے اس میں آگ نہیں جلی اور اس کو صاف کر لیا گیا ہے.شاید یہ مطلب ہے کہ ہندوستان کر لیا میں آج کل سخت گرمی ہے اور چھ مہینے سے وہاں انگیٹھیوں میں آگ نہیں جلتی.اس انگیٹھی پر میرا کوئی پوتا یا نواسہ پیٹ کے بل لیٹا ہوا ہے.میں نے اپنے کسی بچہ کا بچہ اسے سمجھا اور اسے آواز دی کہ ادھر آؤ.پھر مجھے خیال آیا کہ یہ بچہ تو ابھی بہت چھوٹا ہے یہ جواب کس طرح دے گا اور آئے گا کس طرح.پھر معا خیال آیا کہ یہ میرے لڑکے انور احمد کا بچہ احسن احمد ہے.میری آواز سن کر اُس نے اپنی ٹانگیں ٹیڑھی کر کے زمین پر رکھ لیں اور پھر میرے پاس آگیا اور میں نے اسے اپنے ساتھ چمٹا لیا.شاید اس خواب کی یہ تعبیر ہو کہ میرے کسی اور بچہ کے ہاں لڑکا ہو.یا احسن کے لفظ سے یہ تعبیر ہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کامل صحت بخشے اور یہ اس کے فضل سے بعید نہیں ہے.وَالسَّلَامُ

Page 164

انوار العلوم جلد 25 140 مرزا محمود احمد احباب جماعت کے نام پیغامات خلیفة المسیح الثانی حال لندن " 14-7-1955 (الفضل 21 جولائی 1955ء) پیغام از لندن بذریعہ تار مورخہ 1955ء-7-21 " ( پٹنی.لندن 21 جولائی) حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانہ کے بعد کل پہلی مرتبہ دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی تجاویز پر غور کرنے کے لئے لندن میں ایک نہایت اہم اور عظیم الشان کا نفرنس شروع ہو رہی ہے.کانفرنس میں امریکہ ، غرب الہند ، افریقہ اور یورپ کے قریباً تمام اہم ممالک میں متعین احمدی مبلغین شامل ہوں گے.22 جولائی سے چودھری محمد ظفر اللہ خان بھی اس کا نفرنس میں شامل ہو رہے دوست کا نفرنس کی نمایاں کامیابی اور اس کے وسیع ترین کامیاب نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دردِ دل سے دعا کریں.(خلیفة المسیح) " (الفضل 24 جولائی 1955ء) پیغام از لندن بذریعہ تار مورخہ 1955ء-7-25 "چکر آتے ہیں، کام کی وجہ سے طبیعت پر اثر ہے.ایک دو دن آرام کرنے.انشاء اللہ طبیعت ٹھیک ہو جائے گی.کھانسی نزلہ میں کمی ہے گو پوری طرح آرام نہیں." (الفضل 3 اگست 1955ء)

Page 165

انوار العلوم جلد 25 141 احباب جماعت کے نام پیغامات پیغام از لندن بذریعہ تار مورخہ 1955ء-7-29 بر موقع عید الاضحیہ " تمام بھائیوں کو عید الاضحیہ مبارک ہو.میری صحت بفضلہ ترقی کر رہی ہے.لیکن قدرے بیماری ابھی باقی ہے.احباب دردِ دل کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہ حقیقی عید کا دن بھی دکھائے جب کہ تمام مذاہب پر اسلام کو فتح نصیب (الفضل 3 / اگست 1955ء) ہو گی." 1 : تذکرہ صفحہ 50 ایڈیشن چہارم 2 رائی کائی : ریزہ ریزہ.چورا چورا.3 عرضی : وہ بیماری جو کسی دوسرے مرض کے سبب سے ہو.جیسے دردِ سر جو بخار کی وجہ سے ہو.

Page 166

Page 167

انوار العلوم جلد 25 143 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں...خطا سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں نمائندگان جماعت سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 168

Page 169

انوار العلوم جلد 25 145 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں....خطار بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں نمائندگان جماعت سے خطاب (فرموده 7 ستمبر 1955ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”چونکہ اس وقت یہاں تمام جماعتوں کے نمائندے موجود ہیں اس لئے میں کچھ ضروری باتیں کہنا چاہتا ہوں جو اُن ڈاکٹروں کی آراء کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں جنہوں نے ولایت میں مجھے دیکھا.یوں تو یورپ کے کئی ڈاکٹروں نے مجھے دیکھا ہے چنانچہ جرمن ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے اور انگریز ڈاکٹروں نے بھی دیکھا ہے لیکن اصل علاج ڈاکٹر روسیو کا تھا جو زیورک کے یونیورسٹی ہاسپٹل کے میڈیکل ڈائریکٹر ہیں.پہلے بھی انہوں نے مجھے کہا تھا مگر چلتے وقت انہوں نے خصوصیت سے کہا کہ یہ بات میں ایک بار پھر آپ سے کہنا چاہتا ہوں کہ انسان کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک معین طاقت رکھی ہے اور اُسی کے مطابق اُسے کام کرنا چاہیئے.آپ نے اپنی گزشتہ عمر میں نارمل کنڈیشن سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کیا ہے اب میں آپ کی بیماری کی آخری حالت کو دیکھ کر یہ تو نہیں کہتا کہ آئندہ آپ بالکل کام نہ کریں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ایک حد تک کام کریں اس سے زیادہ نہیں.اگر پہلے آپ نارمل کنڈیشن سے ڈیڑھ سو فیصدی زیادہ کام کر چکے ہیں تو اب ایک نارمل آدمی کے نارمل کام کا زیادہ سے زیادہ سو فیصدی کر لیں اس سے زیادہ کام ایک تندرست آدمی بھی برداشت نہیں کر سکتا اور آپ پر تو بیماری کا ایک خطر ناک حملہ ہو چکا ہے.

Page 170

انوار العلوم جلد 25 146 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں....خطار یوں جہاں تک بیماری کے ظاہری حالات اور علامات کا تعلق ہے اس نے کہا کہ میری اب پوری تسلی ہے کہ وہ علامات دور ہو چکی ہیں اور آپ کو بھی اطمینان رکھنا چاہیئے اور اس بارہ میں کسی قسم کی تشویش یا اضطراب آپ کو نہیں ہونا چاہئے.بیماری کے ظاہری حالات جو ہر شخص کو دکھائی دیتے ہیں یہی ہوتے ہیں کہ ہاتھوں کی طاقت میں نقص آ جاتا ہے ، پاؤں کی طاقت میں نقص آ جاتا ہے اور انسان بے کار ہو کر رہ جاتا ہے.ان علامات کے لحاظ سے اس نے کہا کہ جو ترقی کا پہلا دور تھاوہ کامیابی کے ساتھ گزر گیا ہے اور اب ان شکایات میں سے کوئی شکایت آپ کے اندر نہیں پائی جاتی.چنانچہ اس نے کہا کہ آپ جس ڈاکٹر کو چاہیں دکھالیں مگر اسے بتائیں نہیں کہ آپ پر بیماری کا کوئی حملہ ہو چکا ہے تو وہ آپ کو دیکھ کر یہی کہے گا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں.لیکن پھر بھی اس نے کہا کہ آپ اس امر کو نہ بھولیں کہ ایک تندرست چیز جتنا بوجھ اٹھا سکتی ہے ایک دفعہ ٹوٹنے کے بعد وہ اتنا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.آپ کو اب زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی ضرورت ہے.آپ آرام کریں، طبیعت کو خوش رکھیں اور اس پر کسی قسم کا بوجھ نہ ڈالیں اور نہ ہو سکتا ہے کہ آپ کی صحت میں جو ترقی ہو رہی ہے اُس کی رفتار کم ہو جائے.اُس نے یہ بھی کہا کہ میں ڈاکٹری طور پر آپ کے متعلق کہہ سکتا ہوں کہ آپ اس بیماری کے بعد بھی بڑا کام کر سکتے ہیں.چنانچہ اس نے کہا میں اس کا ایک متوازی کیس آپ کو بتاتا ہوں اس سے آپ سمجھ لیں کہ نارمل کنڈیشن میں اگر آپ عمر بھر بھی کام کرتے رہیں تو آپ کو کسی تشویش کی ضرورت نہیں.اس کے بعد اس نے ایک مشہور ڈاکٹر سائنسدان پیسٹیور (PASTEUR) کا ذکر کیا.اس نے کہا کہ جرم (GERM) تھیوری اس نے نکالی تھی اور اس کے علاوہ بھی اس نے کئی ایجادات کیں.اُس پر قریباً آپ ہی کی عمر میں فالج کا حملہ ہوا اور اُس کا بایاں پہلو سارے کا سارا مارا گیا تھا.اُس کا پوتا میر ا دوست تھا اور وہ خود بھی ڈاکٹر تھا اس نے بتایا کہ اس حملہ کے بعد وہ تیس سال تک زندہ رہا اور اس نے جتنی ایجادیں کی ہیں وہ سب کی سب اسی تیس سالہ زندگی میں کی ہیں.اس لئے آپ کو یہ وہم نہیں کرنا چاہئے کہ آپ کسی قسم کا کام نہیں کر سکتے.ہاں یہ ضروری بات ہے کہ آپ مناسب حد تک کام کریں

Page 171

انوار العلوم جلد 25 147 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطار اور زیادہ بوجھ اپنے آپ پر نہ ڈالیں.میں جب زیورک سے لندن گیا تو وہاں میں نے اپنے ماموں زاد بھائی سید محمود احمد سے کہا کہ تم میوزیم میں جاؤ اور کتابیں دیکھ کر معلوم کرو کہ ڈاکٹر پیسٹیور (PASTEUR) کب پیدا ہوا تھا اور کب فوت ہوا اور کس عمر میں اُس پر فالج کا حملہ ہوا تھا؟ اُس نے کتابیں دیکھیں تو معلوم ہوا کہ 1812ء میں وہ پیدا ہوا تھا اور 1895ء میں 83 سال کی عمر میں فوت ہوا اور 56 سال کی عمر میں اس پر فالج کا حملہ ہوا تھا.گویا فالج کے حملہ کے بعد وہ 27 سال زندہ رہا.واپسی پر زیورک میں ڈاکٹر روسیو سے میں نے اس کا ذکر کیا تو وہ کہنے لگا کہ اس کا پوتا میرا دوست تھا اور اس نے مجھے کہا تھا کہ بیماری کے بعد وہ تیس سال زندہ رہا.ممکن ہے اس بارہ میں میری یاد داشت کی غلطی ہو اور اُس نے ستائیس سال کہا ہو اور مجھے تیس سال یا درہا ہو.بہر حال وہ بیماری کے بعد ایک لمبے عرصے تک زندہ رہا اور اُس نے جتنی ایجادات کیں وہ سب کی سب اسی عمر میں کی ہیں.پھر میں نے انسائیکلو پیڈیا دیکھی تو اُس میں سے بھی یہ نکل آیا کہ اس نے جتنی ایجادیں کی ہیں سب فالج کے حملہ کے بعد ہی کی ہیں.پس اس نے کہا کہ آپ بے شک کام کریں لیکن فکر اور تشویش کو اپنے قریب نہ آنے دیں.اس کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ کمزوری بھی جاتی رہے گی اور جسم میں پوری طرح طاقت آجائے گی.چلتے وقت بھی اس نے یہی کہا کہ جہاں تک بیماری کا حملہ تھا وہ جاتا رہا اب صرف کمزوری پائی جاتی ہے جو آہستہ آہستہ دور ہو جائے گی.مگر اصل چیز جس پر میں زور دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آپ کام بے شک کریں لیکن ایک نارمل آدمی کے نارمل کام کا زیادہ سے زیادہ سو فیصدی کر لیں اس سے زیادہ نہیں.ایک اور ڈاکٹر کر ائین بل (KRAYEN BULL) جو زیورک کے بڑے ہسپتال کے ماہر نیورولجسٹ (NEUROLOGIST) ہیں اور بوسٹن امریکہ میں لیکچر دینے جایا کرتے ہیں انہوں نے میرا معائنہ کیا تو انہوں نے بھی کہا کہ آپ کو کوئی بیماری نہیں.بلکہ انہوں نے ایک فقرہ ایسا کہہ دیا جو مجھ پر گراں گزرا اور میں نے سمجھا کہ یہ تو خدائی کا دعویٰ کرنے والی بات ہے.انہوں نے میرا معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ میں تو

Page 172

انوار العلوم جلد 25 148 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطار کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ آپ نارمل حالت میں اور چالیس سال کیوں کام نہیں کر سکتے.اُن کی یہ بات مجھے اچھی نہ لگی اور میں نے سمجھا کہ یہ خدائی میں دخل دینے والی بات ہے.اب واپسی پر پھر ایک دفعہ میں اُن کے پاس گیا تو وہ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور کہنے لگے I want to tell you something be optimistic, be optimistic.ایک انگریز ڈاکٹر سر چارلس سائمنڈ تھا اسے لندن میں دکھایا گیا تو اس نے کہہ دیا کہ یہ دراصل معدی آرٹری (ARETRY) کا تھر مبوسس (THROMBOSIS) تھا.اس سے بڑی گھبراہٹ پیدا ہوئی اور ڈاکٹر روسیو کو فون کیا گیا اس نے سن کر بڑے جوش سے کہا کہ میں حیران ہوں ڈاکٹر سائمنڈ نے یہ رائے کس طرح دے دی ہے.میں نے خود اس آرٹری کا معائنہ کیا تھا اور وہ بالکل ٹھیک چل رہی تھی.چنانچہ آتی دفعہ میں پھر ڈاکٹر روسیو کے پاس گیا تو اس نے اپنی کاپی نکالی اور اس کے صفحات الٹ کر دکھایا کہ دیکھئے میں نے اُس وقت اپنی کاپی میں نوٹ کر لیا تھا کہ یہ آرٹری میں نے دیکھی ہے اور بالکل ٹھیک ہے اس میں کسی قسم کا نقص نہیں.بلکہ اس نے کہا کہ سب سے پہلے ہم اس آرٹری کا معائنہ کیا کرتے ہیں اس لئے ڈاکٹر چارلس سائمنڈ نے جو رائے دی ہے وہ قطعاً غلط ہے.اس طرح لندن میں ڈاکٹر رسل برین کو دکھایا گیا جو شاہی خاندان کا بھی ڈاکٹر ہے.لاہور کے ڈاکٹروں نے مجھے کہا تھا کہ آپ اُسے ضرور دکھائیں.گو اُس کے پاس خطابات نہیں ہیں مگر بہت ہوشیار ڈاکٹر ہے.اسے ہم نے بتایا نہیں کہ چارلس سائمنڈ نے کیا رائے دی تھی مگر اس نے بھی یہی کہا کہ یہ آرٹری بالکل ٹھیک چل رہی ہے.پھر زیورک میں واپسی پر ڈاکٹر کرائین بل (KRAYEN BULL) نے بھی میرا معائنہ کیا.اُس نے پشت کی طرف کھڑے ہو کر جب آرٹری کی حرکت کو محسوس کیا تو مرزا منور احمد نے مجھے بتایا کہ یورپین طریق کے مطابق وہ کندھا مار کر مسکرایا اور کہنے لگا سر چارلس سائمنڈ نہایت قابل آدمی ہیں مگر میں حیران ہوں کہ انہوں نے یہ رائے کس طرح دی ہے.اس بیماری کی صرف یہی ایک علامت نہیں بلکہ اور بھی بہت سی علامات ہوتی ہیں جو ان میں نہیں پائی جاتیں.ڈاکٹر روسیو نے بھی یہی کہا کہ ایسے مریض میں

Page 173

انوار العلوم جلد 25 149 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطاب بعض اور بھی علامتیں پائی جاتی ہیں جو آپ میں موجود نہیں.بہر حال اُن کی رائے یہ تھی کہ عام حالات میں اب یہ بیماری زندگی کے لئے خطرناک نہیں ہے مگر اس کے لئے سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ پورا آرام کیا جائے اور فکر اور تشویش کو اپنے قریب نہ آنے دیا جائے.ڈاکٹر چارلس سائمنڈ نے تو یہ کہا تھا کہ آپ چلیں پھریں بھی کم اور اگر کچھ دیر چلیں تو فوراً دو گھنٹہ کے لئے لیٹ جائیں مگر اور سب ڈاکٹروں نے کہا کہ آپ بے شک چلیں پھریں اور کام بھی کریں لیکن ایک حد تک، اور یہ مد نظر رہے کہ تھکان نہ ہو.پس ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت چلنا پھر نامیر اعلاج ہے مگر ہمارے ملک میں عام طور پر جب لوگ کسی کو چلتا پھرتا دیکھتے ہیں تو خیال کر لیتے ہیں کہ اب وہ پوری طرح تندرست ہو گیا ہے اب ہمیں اس سے کام لینا چاہیئے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہ بیماری کا علاج کیا جا رہا ہے اور اگر چلیں پھریں گے نہیں تو بیماری بڑھے گی.بلکہ وہ چلتے پھرتے دیکھ کر فوراً ملاقات کے لئے آجائیں گے.ایسے موقع پر اگر انکار کر دیا جائے تو دوستوں کو تکلیف ہوتی ہے اور میری طبیعت بھی ایسی ہے کہ دوسروں کے خیال سے میں بسا اوقات اپنے نفس پر بوجھ برداشت کر لیتا ہوں جو بعد میں میرے لئے تکلیف کا موجب ہو جاتا ہے.پس آپ لوگوں کو چاہئے کہ دوستوں کو یہ بات اچھی طرح سمجھا دیں کہ ہمارے ملک میں بعض چیزیں تندرستی کی علامت سمجھی جاتی ہیں حالانکہ وہ تندرستی کی علامت نہیں بلکہ مرض کو کم کرنے کا ذریعہ ہوتی ہیں اس لئے چلتے پھرتے دیکھ کر انہیں مجھ پر زیادہ بوجھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.میں نے ڈاکٹروں سے یہ بھی پوچھا کہ میرے لئے کیسی آب و ہوا مفید ہے ؟ انہوں نے کہا کہ آپ کے لئے ایسی جگہ مفید ہے جہاں نہ زیادہ ٹھنڈک ہو اور نہ زیادہ گرمی گویا معتدل آب و ہوا ہو.میں جب قادیان میں تھا تو صحت کی بحالی کے لئے عموماً ڈلہوزی چلا جایا کرتا تھا.اُس وقت بھی بعض لوگ اعتراض کر دیا کرتے تھے اور میرے کانوں میں اس قسم کی آوازیں آیا کرتی تھیں کہ سیر کے لئے وہاں چلے جاتے ہیں.وہ یہ نہیں دیکھتے تھے کہ انہیں نہ تو اتنا کام کرنا پڑتا ہے جتنا مجھے کام کرنا پڑتا ہے اور نہ ان کی صحت اتنی کمزور ہے جتنی میری کمزور ہے.وہ بجائے

Page 174

انوار العلوم جلد 25 150 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطار ----- میرے کام اور میری صحت پر قیاس کرنے کے اپنے کام اور اپنی صحت پر قیاس کر کے مجھے پر اعتراض کر دیا کرتے تھے.ربوہ آنے کے بعد بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ مری چلے جایا کریں مگر چونکہ اُس وقت ایک نئے مرکز کی تعمیر ضروری تھی اس لئے میں باہر نہیں جاتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ میری صحت کمزور ہوتی چلی گئی.میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ ان پڑھ آدمی کے منہ سے بھی بڑے پتہ کی بات نکل جاتی ہے.بیماری کے حملہ سے آٹھ دس دن پہلے مجھے ایک زمیندار دوست نے لکھا کہ آپ کو پتہ ہے پہلے آپ جلسہ سالانہ کے معا بعد اپنے گھر کے افراد کو ساتھ لے کر دریا پر چلے جایا کرتے تھے اور چند دن وہاں گزار آتے تھے اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ آپ سارا سال اچھے رہتے.اب آپ جلسہ سالانہ کے بعد گھر پر ہی رہتے ہیں اور میں ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ آپ جلسہ کے بعد ہی بیمار ہوتے ہیں اس لئے آپ کو اپنی صحت کی بحالی کے لئے ضرور کہیں جانا چاہیئے.میں نے سمجھا کہ یہ آدمی اگر چہ ان پڑھ ہے مگر خدا تعالیٰ نے اسے عقل دی ہے اور اس نے بڑے پتہ کی بات کہی ہے.چنانچہ چند دن کے بعد ہی مجھ پر بیماری کا حملہ ہو گیا.بہر حال وہ وقت تو گزر گیا بیماری آئی اور چلی گئی لیکن آئندہ کے لئے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینے کی ضرورت ہے.ورنہ ہماری مثال ایسی ہی ہو گی جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مرغی سونے کا انڈہ دیا کرتی تھی.اس کے مالک نے اسے دوگنی خوراک دینی شروع کر دی تا کہ ایک کی بجائے دو انڈے وہ روزانہ دیا کرے مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مرغی مر گئی اور وہ ایک انڈہ بھی جاتا رہا.اگر واقع میں جماعت نے مجھ سے کوئی کام لینا ہے تو آئندہ اسے بہت زیادہ احتیاط سے کام لینا پڑے گا تا کہ مجھ پر زیادہ بار نہ پڑے.اب بھی بیماری کے حملہ کے بعد سب ڈاکٹروں نے ہمارے ڈاکٹروں کو ملامت کی کہ کیوں انہوں نے وقت پر مجھے کام کرنے سے نہ روکا.اس غفلت اور کو تاہی کی وجہ سے انہوں نے اپنے فرض کو بھی ادا نہ کیا اور دوسروں کو بھی تکلیف میں ڈالا.کرنل الہی بخش صاحب جب مجھے دیکھنے آئے تو انہوں نے کہا کہ مجھے آپ کے ڈاکٹروں پر سخت غصہ آتا ہے کہ کیوں انہوں نے آج سے سولہ سال پہلے آپ کو کام کرنے سے نہیں روک دیا.اگر وہ روک دیتے تو اس بیماری کا حملہ نہ ہوتا.

Page 175

انوار العلوم جلد 25 151 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطار ----- پھر انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی چالیس سالہ پریکٹس میں جتنی اچھی آرٹریز آپ کی دیکھی ہیں اتنی اچھی آرٹریز آپ سے سولہ سال کم عمر والوں کی بھی میں نے نہیں دیکھیں.پس یہ بیماری آپ کو ہلا ہی نہیں سکتی تھی اگر ذرا بھی احتیاط سے کام لیا جاتا.بیماری کے حملہ کے وقت میری عمر چھیاسٹھ سال تھی.انہوں نے کہا کہ پچاس سالہ عمر والے آدمیوں کی آرٹریز بھی میں نے اپنی چالیس سالہ پریکٹس میں اتنی اچھی نہیں دیکھیں جتنی آرٹریز آپ کی اچھی ہیں.اس لئے اگر احتیاط سے کام لیا جاتا تو یہ ناممکن تھا کہ آپ پر اس بیماری کا حملہ ہو جاتا.اس بیماری کا دوسرا اثر میری بینائی پر پڑا ہے کیونکہ اس بیماری کا حملہ میری دائیں آنکھ کے بائیں کونے پر ہوا تھا مگر اوپر کے کونہ پر نہیں بلکہ نچلے کو نہ پر.ڈاکٹر روسیو نے پہلے بھی میری آنکھ کا معائنہ کیا تھا اور اب پھر آتی دفعہ میں نے معائنہ کروایا ہے.دوسرے معائنہ پر اس نے کہا ہے کہ آپ کی نظر پہلے سے کافی ترقی کر چکی ہے.پہلے تو میں ایک دو سطر بھی نہیں پڑھ سکتا تھا مگر اب خطوط پڑھ لیتا ہوں اور اخبار پڑھنے کی بھی میں کوشش کرتا ہوں.مگر دو تین صفحوں سے زیادہ نہیں پڑھ سکتا کیونکہ پڑھتے پڑھتے نگاہ گھبرانے لگتی ہے اور بعض جگہ نظر اُچٹ کر دوسرے مقام پر جا پڑتی ہے.......مجھے اس بارہ میں وضاحت کی اس لئے ضرورت پیش آئی ہے کہ دوستوں کو ابھی احتیاط سے کام لینا چاہیئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے صحت ہے مگر ہمارے ملک میں تعلیم اتنی کم ہے کہ جب کسی کے متعلق وہ یہ سنیں کہ اسے صحت ہو گئی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اب وہ عام آدمی سے پانچ سو گنا زیادہ کام کر سکتا ہے حالانکہ اس کے صرف اتنے معنی ہوتے ہیں کہ وہ عام آدمی سے دو سو حصہ کم کام کر سکتا ہے.اسی طرح اگر یہ کہا جائے کہ ابھی صحت اچھی نہیں تو اس سے دوستوں کو صدمہ پہنچنے کا ڈر ہوتا ہے اور یہ بھی خیال آتا ہے کہ دشمنوں کے لئے خوشی کا موقع پیدا ہو جائے گا.گو یا دونوں پہلوؤں کے لحاظ سے ہمارے لئے دقت ہوتی ہے.اگر چپ رہیں تب مشکل اور اگر بولیں ہ مسودہ میں اِس جگہ چند الفاظ واضح نہیں.

Page 176

انوار العلوم جلد 25 152 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطار تب مشکل.اگر یہ کہا جائے کہ بالکل اچھے ہیں تو یہ جھوٹ بن جاتا ہے اور اگر کہا جائے کہ طبیعت اچھی نہیں تو اس سے دوستوں کو صدمہ پہنچنے کا ڈر ہوتا ہے.اور پھر بعض لوگ پوچھتے بھی ایسے وقت ہیں جب طبیعت خراب ہوتی ہے.اس وقت مجبوراً یہی کہنا پڑتا ہے کہ طبیعت اچھی نہیں اور یہ سن کر انہیں تکلیف ہوتی ہے.اور اگر دوسرے وقت یہ کہا جائے کہ طبیعت اچھی ہے تو وہ سمجھتے ہیں کہ اب یہ کام کے بالکل قابل ہیں ان پر جس قدر بوجھ ڈالا جا سکتا ہے ڈال دینا چاہئے.جیسے بیمار بیل اگر ذرا بھی منہ ہلا دے تو زمیندار اُس پر ہل رکھ دیتا ہے.بہر حال ڈاکٹری مشورہ یہی ہے کہ میں آرام کروں اور کسی قسم کا فکر اپنے قریب نہ آنے دوں.دوستوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو یہ باتیں اچھی طرح سمجھا دیں.ہماری جماعت کو اللہ تعالیٰ نے دنیا کا فاتح بنایا ہے اور فاتح بننے والی جماعت کے افراد کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ فاتحین والا علم بھی ان میں دیا جائے.حضرت خلیفہ اول مجھے طب پڑھایا کرتے تھے.مجھے خوب یاد ہے آپ بار ہا فرمایا کرتے تھے کہ جماعت کے امام کے لئے طب پڑھنا بھی نہایت ضروری ہے.آپ کی عادت تھی کہ آپ ایسی طرز پر بات کرتے تھے کہ کسی کو معیوب بھی نہ لگتی اور بات بھی ہو جاتی.آپ بجائے یہ کہنے کے کہ تمہارے لئے یہ مقدر ہے کہ تم ایک دن جماعت کے امام بنو یوں فرمایا کرتے تھے کہ جماعت کے امام کے لئے طب پڑھنا ضروری ہوتا ہے.ور نہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے ایسے کام لے جو اُن کی طاقت سے باہر ہوں اور اس طرح انہیں نقصان پہنچا دے.ہماری جماعت نے بھی جب دنیا کو فتح کرنا ہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ دوسرے پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالے.چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے مجھے اس دفعہ کہا کہ آپ ایک احسان یہ کریں کہ ربوہ پہنچ کر ناظروں کیلئے یہ بات لازمی کر دیں کہ وہ دس پندرہ دن چھٹی لے کر کسی پہاڑی مقام پر گزارا کریں.اور یہ بات اُن کیلئے اختیاری نہ ہو بلکہ انہیں مجبور کر کے بھیجا جائے ورنہ ان کی صحبتیں بالکل تباہ ہو جائیں گی.میاں بشیر احمد صاحب بھی بیمار رہتے ہیں اور اس طرح دوسروں کی صحتیں بھی گر رہی ہیں اس کا علاج یہی ہے کہ ہر ناظر کو

Page 177

انوار العلوم جلد 25 153 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں خطار پندرہ بیس دن کی لازمی طور پر چھٹی دی جائے اور اُس کا فرض قرار دیا جائے کہ وہ ان ایام میں کوئی کام نہ کرے اور تبدیلی آب و ہوا کے لئے کسی صحت افزا مقام پر چلا جائے.امریکہ میں یہ حالت ہے کہ خطرناک موقعوں پر بھی جب سارے ملک میں شور پڑا ہوا ہوتا ہے امریکہ کا پریذیڈنٹ جہاز میں بیٹھ کر سیر کے لئے نکل جاتا ہے اور وہ اس بات کی ذرا بھی پروا نہیں کرتا کہ ملک کا کیا بنے گا.پچھلی دفعہ بھی جب جنگ کے خطرات تھے وہ جہاز میں بیٹھ کر سیر کے لئے نکل گیا.اس پر ملک میں بڑا شور اٹھا مگر بڑے طبقہ نے پریذیڈنٹ کی تائید کی اور کہا کہ اگر وہ اپنے دماغ کو سکون نہیں پہنچائیں گے تو ملک کا کام کس طرح کر سکیں گے.پس سیر بھی اپنی ذات میں بیماری کے علاج کا ایک اہم حصہ ہے.میں نے بتایا ہے کہ میرا اصل علاج ڈاکٹر روسیو نے کیا.اس نے ہمیں دن مسلسل میر امعائنہ کیا اور میرے لئے علاج تجویز کیا.مگر ہیں دن معائنہ کرنے کے بعد اس نے ہم سے صرف ساڑھے آٹھ سو فرانک لئے جو بہت کم فیس تھی.ہم نے بہت کوشش کی کہ وہ کچھ اور فیس لے لے مگر اس نے انکار کر دیا اور کہا کہ میں اس سے زیادہ نہیں لے سکتا.اب بھی جب میں واپسی پر زیورک پہنچا تو وہ چھٹی پر تھا مگر جب میر اپیغام پہنچاتو وہ کہنے لگا کہ وہ بے شک آجائیں میں نے انہیں بہر حال دیکھنا ہے.چنانچہ چھٹی کے باوجو د وہ دیکھنے کے لئے آگیا حالانکہ اُس کی سیکرٹری اُس وقت رخصت پر تھی اور وہ نہیں آئی.میں جب نیورمبرگ (NUREMBERG) میں گیا تو چونکہ ڈاکٹر روسیو نے کہا تھا کہ کبھی کبھی اپنا معائنہ ڈاکٹروں سے کراتے رہا کریں اس لئے مجھے خیال آیا کہ یہاں بھی کسی کو دکھا لینا چاہئے.وہاں آرلنگن یونیورسٹی کے اعصابی بیماریوں کے ایک بہت بڑے ماہر ڈاکٹر فلو گل ہیں ہم نے انہیں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ آپ بارہ بجے آجائیں میں اس سے پہلے ایک اور بیمار کو دیکھنے کے لئے جارہا ہوں.ہم بارہ بجنے سے کچھ دیر پہلے وہاں پہنچ گئے.ڈاکٹر فلو گل اس وقت 135 میل دور کسی مقام پر گئے ہوئے تھے.ہم نے دیکھا کہ بمبارڈ منٹ سے وہ یونیورسٹی اِس طرح تباہ ہو چکی تھی کہ اُس میں کمرہ کمرہ کے برابر گڑھے پڑے ہوئے تھے اور دیواروں میں بھی بڑے بڑے خلا تھے.جب ہم اندر گئے

Page 178

انوار العلوم جلد 25 154 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں...خطاب تو کمرہ کے اندر ایک دو ٹوٹی ہوئی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں اور ایک رڈی سی چارپائی بچھی تھی مگر اُس پر جو ڈا کٹر بیٹھے کام کر رہے تھے وہ اس طرح ہنس ہنس کر باتیں کر رہے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا گویا اُن کا کوئی عید کا دن ہے.مجھے بھی ایک ادنی سی کرسی پر بٹھا دیا.تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر فلوگل بڑی تیزی سے اپنا موٹر دوڑاتے ہوئے 135 کلومیٹر سے وہاں پہنچا اور آتے ہی بغیر سانس لیے اس نے مجھے اشارہ کیا اور چار پائی پر لٹا کر اس نے میر امعائنہ شروع کر دیا.معائنہ کرنے کے بعد ہم نے اسے فیس پیش کی تو اس نے فیس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ یہ مذہبی لیڈر ہیں اس لئے میں ان سے کوئی فیس نہیں لوں گا.منور نے ان سے کہا کہ آپ نے ہماری خاطر بڑی تکلیف اٹھائی ہے آپ کچھ نہ کچھ فیس ضرور قبول کر لیں مگر اس نے پھر بھی فیس نہیں لی.پھر میں نے اس کے سیکرٹری سے کہا اور اس نے فیس کے لئے کہا تو ڈاکٹر فلوگل نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ میں نے ایک دفعہ جو کہہ دیا ہے کہ میں فیس نہیں لوں گا.پھر ہم نے اپنے مبلغ کے ذریعے انہیں کہلوایا کہ ہم پاکستان سے صرف علاج کرانے کے لئے یہاں آئے ہیں اور روپے خرچ کر رہے ہیں آپ بھی فیس لے لیں.مگر اُس نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ مذہبی لیڈر ہیں میں نے ان سے کچھ نہیں لینا.غرض پندرہ بیس منٹ تک کوشش کی گئی مگر اس نے فیس نہیں لی.وہاں سے ہم ہیمبرگ پہنچے تو وہاں ڈاکٹر ٹینکر کو دکھایا گیا.یہ اتنا مشہور ڈاکٹر ہے کہ امریکہ سے بھی لوگ اس کے پاس علاج کرانے کے لئے آتے ہیں مگر اس نے بھی فیس نہیں لی.اُسے بہتیر ا کہا گیا کہ فیس لے لیں مگر اُس نے بھی فیس لینے سے انکار کر دیا.چاقو کی نوک جو اندر رہ گئی تھی اُس کے متعلق اس نے کہا کہ بے شک نوک اندر موجود ہے مگر نیچر نے اسے گور (COVER) کر دیا ہے اس لئے اب اسے نکالنا مناسب نہیں.اگر اسے نکالا گیا تو ساری ریڑھ کی ہڈی کاٹنی پڑے گی اور یہ خطر ناک چیز ہے.اس لئے نوک کے بارہ میں کوئی فکر نہ کریں قدرت نے خود بخود اس پر جھلی بنادی ہے اس لئے اب وہ جسم کے لئے خطرناک نہیں رہی.پھر یہ خیال کر کے کہ کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ میں ٹلا رہا ہوں کہنے لگا کہ میں ٹلا نہیں رہا.اگر میرے باپ کے جسم کے اندر بھی یہ نوک ہوتی

Page 179

انوار العلوم جلد 25 155 سفر یورپ سے واپسی پر کراچی میں...خطار تو میں اُس کا آپریشن کرنے کے لئے تیار نہ ہوتا کیونکہ قدرت نے خود اس کو گور (COVER) کر دیا ہے.اس نوک کو نکالنے کے یہ معنے ہیں کہ ساری پیٹھ کاٹ دی جائے اور یہ میں نہیں کر سکتا.بہر حال اس نے بھی میرے مذہبی لیڈر ہونے کی وجہ سے ہم سے فیس نہیں لی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے اندر مذہب کی طرف رجحان پایا جاتا ہے اور وہ مذہبی لوگوں کو عزت اور احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.“ غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ)

Page 180

Page 181

انوار العلوم جلد 25 157 افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 182

Page 183

انوار العلوم جلد 25 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 159 افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام حضور نے قیامِ پاکستان کے بعد براہِ راست افریقن احمدیوں کے نام بھی ایک نہایت اُمید افزا پیغام دیا جو رسالہ ”The Review of Religions“ کے ستمبر 1955ء کے ایشوع میں چھپا.یہ پیغام MR.J.C.AL-HASN ATTA پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ اشانٹی ریجن (کماسی.غانا) کے توسط سے ارضِ بلال تک پہنچا اور اُس نے افریقن احمدیوں میں زبر دست بیداری پیدا کر دی.اس انقلاب آفرین پیغام کے الفاظ یہ تھے:."I am reading the writing on the wall that there is a great future for your race.God does not forsake a race for all the times to come.Sometime, He gives opportunity to one nation and one continent and then He offers the same opportunity to another nation and another continent.Now is your time.You have been oppressed and ruled by others for a very long time.Rest assured that your glorious time is fast approaching.People were made to think that yours is an inferior race.I can say about myself that in my young age, when I used to read books, in English I used to think about your race as inferior one.But when I grew up and read the traditions and the Holy Quran, I came to

Page 184

افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام 160 انوار العلوم جلد 25 know that it was all wrong.God has not made an exception of your people.God mentions all races and nations as equals.When He sends any prophet in the world, He gives sufficient intelligence also to the men, who are addressed, to accept that prophet.If you have not sufficient intelligence, or in other words, are an inferior race, then God forbid, it is His fault who sent a prophet to a people who have no intelligence to accept him.But this is not the case.Islam says that Europeans, Americans, Asiatics, Africans and people in far off islands are equal.All of them have the same power of understanding, learning, memorising and inventing.Americans consider themselves as supper men.They even hate Europeans.The Europeans hate Asiatics.As far as Ahmadiyyat goes, I assure you that we, (and when I say we, I mean myself and all the Ahmadies who follow me), consider all the people on earth as equal.All of us are equal and have the same powers.I assure you that during my life time I am not going to allow any Ahmadi to adopt the aforesaid mistaken ideas as prevalent in the world.Just as the Holy Prophet said that he would crush such ideas under his heels, so I assure you that I will also crush such ideas under my heels.

Page 185

افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام 66 161 انوار العلوم جلد 25 So, go and prove yourselves true Ahmadies.Tell your brothers that you went to Pakistan and Rabwah and found that in Pakistan also there are brothers who feel for you and consider all Ahmadies as equal, and that you did not see Pakistanees rather Africans in different colours.They are looking towards their African brothers as their own kith and kin.I am expecting the same sacrifice from Africans and ask you to preach and convey the message of Islam to every corner of your country.66 Rabwah will always look forward to you to bring every body in the Gold Coast into the fold of Ahmadiyyat, or the true Islam, the religion of God." (The Review of Religions, September, 1955, page: 532,533) ترجمہ ” یعنی میں یہ نوشتہ دیوار پڑھ رہا ہوں کہ آپ کی (افریقن) نسل کے لئے ایک عظیم مستقبل مقدر ہے.اُس کا شاندار زمانہ قریب تر آرہا ہے، خدا نے ماضی میں بھی کسی قوم کو نہیں چھوڑا نہ آئندہ نظر انداز کرے گا.وہ بعض اوقات کسی ایک قوم اور بڑاعظم کو موقع دیتا ہے اور پھر ایک دوسری قوم اور دوسرے بڑ اعظم کو منتخب فرماتا ہے.ایک لمبے عرصے تک آپ لوگوں پر ظلم کیا گیا اور دوسروں کے محکوم رہے.آب آپ کا وقت ہے.لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا کہ افریقن ایک کمتر قوم ہیں خود میں اپنے متعلق بھی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے اُس عہد شباب میں جبکہ میں انگریزی کتابیں پڑھا کرتا تھا تو میرا بھی یہ خیال تھا.لیکن بڑے ہو کر جب میں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ کچھ غلط تھا.خدا تعالیٰ نے آپ کی قوم سے کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا.خدا تعالیٰ فرماتا

Page 186

انوار العلوم جلد 25 162 افریقن احمدیوں کے نام انقلاب آفرین پیغام ہے کہ تمام نسلیں اور قومیں برابر ہیں.جب وہ کوئی اپنا فرستادہ دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ کافی ذہانت اُن لوگوں کو بھی عطا فرماتا ہے جن کو مخاطب کیا جاتا ہے کہ وہ اس رسول کو قبول کریں.اگر آپ کے پاس یہ ذہانت نہیں یا دوسرے الفاظ میں آپ ایک مکمتر نسل ہیں تو مَعَاذَ اللہ یہ خدا کا ہے کہ اُس نے ایک ایسی قوم کی طرف اپنا مامور بھیجا جو ذہانت سے خالی تھی کہ اُس کو قبول کر سکے.لیکن معاملہ یہ نہیں ہے.اسلام کہتا ہے کہ یورپ ، امریکہ ، ایشیا، افریقہ اور دور دراز جزیروں کے سب باشندے برابر ہیں.تمام کو قوت عقل اور قوتِ علم و ایجاد عطا کی گئی ہے.گوامریکن اپنے تئیں ایک فوق البشر مخلق سمجھتے ہیں اور یورپین سے بھی نفرت کرتے ہیں اور یورپ کے لوگ ایشیائیوں کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں مگر جہاں تک تحریک احمدیت کا تعلق ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ( اور جب میں یہ کہتا ہوں تو میری مراد اُن تمام احمدیوں سے ہے جو میرے متبع ہیں) ہم سمجھتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے تمام لوگ برابر ہیں.ہم تمام برابر ہیں اور ایک جیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں کبھی کسی احمدی کو یہ اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گا کہ وہ مذکورہ بالا خیالات کو جو دُنیا میں رائج ہیں اختیار کرے.بالکل اسی طرح جس طرح آنحضرت علی ایم نے اشاد فرمایا کہ وہ ایسے خیالات کو اپنی ایڑیوں کے نیچے کچل دیں گے.پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں بھی ایسے نظریات کو اپنے پاؤں تلے مسل دوں گا.پس جائیں اور اپنے آپ کو سچا احمد ی ثابت کریں اور اپنے بھائیوں کو بتائیں کہ آپ پاکستان گئے تھے اور ربوہ میں بھی آپ نے بچشم خود دیکھا کہ پاکستان میں بھی آپ کے بھائی ہیں جو آپ کے جذبات کا احساس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تمام احمدی برابر ہیں اور یہ کہ آپ نے پاکستانیوں اور افریقنوں میں کوئی الگ رنگ نہیں دیکھا.پاکستانی اپنے افریقن بھائیوں کو اپنے عزیز و اقارب کی طرح دیکھتے ہیں.میں افریقنوں سے بھی اسی قربانی کی توقع کرتا ہوں اور آپ سے کہتا ہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور پیغام اسلام افریقہ کے کونے کونے تک پہنچادیں.ربوہ ہمیشہ آپ کا انتظار کرے گا کہ آپ گولڈ کوسٹ کے ہر فرد کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں جو حقیقی اسلام اور خدا کا دین ہے.66

Page 187

انوار العلوم جلد 25 163 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ءمیں خطابات مجلس انصار اللہ وخدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 188

Page 189

انوار العلوم جلد 25 165 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مجلس انصار الله وخدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں خطابات افتتاحی خطاب (فرمودہ 18 نومبر 1955ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج انصار اللہ کی پہلی میٹنگ ہے.انصار کس جذبہ اور قربانی سے کام کرتے ہیں یہ تو آئندہ سال ہی بتائیں گے مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصار اللہ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں.جب کسی قوم کے دماغ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے.پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں.اس لئے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے.ان کو تہجد ، ذکر الہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہئے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں.اصل میں تو جوانی کی عمر ہی وہ زمانہ ہے جس میں تہجد ، دعا اور ذکر الہی کی طاقت بھی ہوتی ہے اور مزہ بھی ہوتا ہے لیکن عام طور پر جوانی کے زمانہ میں موت اور عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے اس وجہ سے نوجوان غافل ہو جاتے ہیں.لیکن اگر نوجوانی میں کسی کو یہ توفیق مل جائے تو وہ بہت ہی مبارک وجود ہوتا ہے.پس ایک طرف تو میں انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں.اور دوسری طرف میں خدام الاحمدیہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اتنا اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں کہ نسلاً بعد نسل اسلام کی روح زندہ رہے.اسلام اپنی ذات میں تو کامل مذہب ہے لیکن اعلیٰ سے اعلیٰ www.

Page 190

انوار العلوم جلد 25 شربت کے لئے بھی کسی گلاس کی ضرورت ہوتی ہے.اسی طرح اسلام کی روح کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے کسی گلاس کی ضرورت ہے اور ہمارے خدام الاحمدیہ وہ گلاس ہیں جن میں اسلام کی روح کو قائم رکھا جائے گا اور ان کے ذریعہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے گا.دیکھو آخر ہم بھی انسان ہیں اور یہودی بھی انسان ہیں.ہمارا دین ان کے دین سے بہتر ہے اور ہمارار سول ان کے رسول سے افضل ہے مگر یہودیوں کو فلسطین سے نکال دیا گیا تو وہ اسے دو ہزار سال تک نہیں بھولے.بلکہ اتنے لمبے عرصہ تک انہیں یہ یاد رہا کہ انہوں نے فلسطین میں دوبارہ یہودی اثر کو قائم کرنا ہے اور آخر وہ دن آگیا.اب وہ فلسطین پر قابض ہیں.ہمیں اس بات پر غصہ تو آتا ہے اور ہم حکومتوں کو اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں اور خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو انہیں توجہ دلاتے رہیں گے کہ اب یہ اسلامی علاقہ ہے یہودیوں کا نہیں اس لئے یہ مسلمانوں کو ملنا چاہیئے مگر ہم اس بات کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ یہودیوں نے دو ہزار سال تک اس بات کو یاد رکھا جو دوسری قو میں بعض دفعہ ہیں سال یا سو سال تک بھی یاد نہیں رکھ سکتیں.پس یادر کھو کہ اشاعت دین کوئی معمولی چیز نہیں.یہ بعض دفعہ جلدی بھی ہو جاتی ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں 23 سال میں ہو گئی اور پھر مزید اشاعت کوئی 50 سال میں ہو گئی.مگر کبھی کبھی یہ سینکڑوں سال بھی لے لیتی ہے جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں اس نے ایک سو سال کا عرصہ لیا.اور کبھی یہ ہزاروں سال کا عرصہ بھی لے لیتی ہے.چنانچہ دیکھ لو یہودیوں کا دنیوی نفوذ تو بہت کم عرصہ میں ہو گیا تھا لیکن دوسری قوموں کی ہمدردی انہیں دو ہزار سال بعد جا کر حاصل ہوئی.جب لوگوں کو یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ کوئی قوم اپنے آثار اور اپنی تعلیمات کو قائم رکھنے کے لئے ہر وقت تیار ہے اور آئندہ بھی تیار رہے گی تو اُس قوم کے دشمن بھی اُس کے ہمدرد ہو جاتے ہیں.کیا یہ لطیفہ نہیں کہ عیسائیوں نے ہی یہودیوں کو فلسطین سے باہر نکالا تھا اور اب عیسائی ہی انہیں فلسطین میں واپس لائے ہیں.دیکھو یہ کیسی عجیب بات ہے آج سب سے زیادہ یہودیوں کے خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ ہیں اور یہ دونوں ملک عیسائیوں کے گڑھ ہیں.فلسطین سے یہودیوں کو 166 مجلس انصار الله وخدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات

Page 191

انوار العلوم جلد 25 167 مجلس انصار الله و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ءمیں خطابات نکالا بھی عیسائیوں نے ہی تھا مگر وہی آج ان کے زیادہ ہمدرد ہیں گویا ایک لمبی قربانی کے بعد ان کے دل بھی پسیج گئے.پس ہمیشہ ہی اسلام کی روح کو قائم رکھو، اس کی تعلیم کو قائم رکھو اور یاد رکھو کہ تو میں نوجوانوں کی دینی زندگی کے ساتھ ہی قائم رہتی ہیں.اگر آنے والے کمزور ہو جائیں تو وہ قوم گر جاتی ہے.مگر کوئی انسان یہ کام نہیں کر سکتا صرف اللہ ہی یہ کام کر سکتا ہے.انسان کی عمر تو زیادہ سے زیادہ 60، 70، 80 سال تک چلی جائے گی مگر قوموں کی زندگی کا عرصہ تو سینکڑوں ہزاروں سال تک جاتا ہے.دیکھو! مسیح علیہ السلام کی قوم بھی دو ہزار سال سے زندہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم 1300 سال سے زندہ ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جب تک دنیا قائم رہے گی یہ بڑھتی چلی جائے گی.تم بھی ایک عظیم الشان کام کے لئے کھڑے ہوئے ہو پس اس روح کو قائم رکھنا، اسے زندہ رکھنا اور ایسے نوجوان جو پہلوں سے زیادہ جو شیلے ہوں پیدا کرنا تمہارا کام ہے.ایک بہت بڑا کام تمہارے سپر د ہے.عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا اس سے بھی زیادہ مشکل کام ہے جتنا عیسائی دنیا کو یہودیوں کا ہمدرد بنانا.کیونکہ عیسائی دنیا کو ہمدرد بنانے میں تو صرف دماغ کو فتح کیا جاتا ہے لیکن عیسائیوں کو مسلمان بنانے میں دل اور دماغ دونوں کو فتح کرنا پڑے گا اور یہ کام بہت زیادہ مشکل پس دعاؤں میں لگے رہو اور اپنے کام کو تا قیامت زندہ رکھو.محاورہ کے مطابق میرے منہ سے " تا قیامت" کے الفاظ نکلتے ہیں لیکن میں کہتا ہوں " تا قیامت" بھی درست نہیں.قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.پس میں تو کہوں گا کہ تم اسے ابدی زمانہ تک قائم رکھو کیونکہ تم ازلی اور ابدی خدا کے بندے ہو.اس لئے ابد تک اس نور کو جو تمہارے سپر د کیا گیا ہے قائم رکھو.اور محمدی نور کو دنیا میں پھیلاتے چلے جاؤ یہاں تک کہ ساری دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھنے لگ جائے اور یہ دنیا بدل جائے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر بھی آجائے.میں بیمار ہوں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اس لئے میں مختصر سی دعا کر کے رخصت ہو جاؤں گا.میں نے اپنی مختصر تقریر میں خدام کو بھی نصیحت کر دی ہے اور

Page 192

انوار العلوم جلد 25 168 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ء میں خطابات انصار اللہ کو بھی.مجھے امید ہے کہ دونوں میری ان مختصر باتوں کو یاد رکھیں گے، اپنے اپنے فرائض کو ادا کریں گے اور اپنے اپنے علاقوں میں ایسے اعلیٰ نمونے پیش کریں گے کہ لوگ ان کے نمونے دیکھ کر ہی احمدیت میں داخل ہونے لگ جائیں.مجھے تو یہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی ہے کہ تحریک جدید کا چندہ دو تین لاکھ روپے سالانہ ہوتا ہے اور وہ بھی بڑا زور لگالگا کر حالانکہ کام کے لحاظ سے دو تین کروڑ بھی تھوڑا ہے.صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ چندہ دس گیارہ لاکھ روپیہ ہوتا ہے حالانکہ کام کے پھیلاؤ کو تو جانے دو جو صدرانجمن احمدیہ کے ادارے ہیں اُن کو بھی صحیح طور پر چلانے کے لئے 30 ، 40لاکھ روپے چندہ ہونا چاہیئے.مگر 40،30لاکھ چندہ تو تبھی ہو گا جب جماعت چار پانچ گنے زیادہ بڑھ جائے.مگر اب تو ہمارے مبلغ ایسے پست ہمت ہیں کہ جب کسی مبلغ سے پوچھا جائے کہ تبلیغ کا کیا حال ہے؟ تو وہ کہتا ہے جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ترقی کر رہی ہے اس سال جماعت میں دو آدمی اور شامل ہو گئے ہیں.اگر تبلیغ کی یہی حالت رہی تو کسی ایک ملک میں دو لاکھ احمدی بنانے کے لئے ایک لاکھ سال چاہئیں.پس دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ کے حضور میں اتنا گڑ گڑاؤ اور اتنی کوششیں کرو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے تمہاری مدد کے لئے اتر آئیں.انسانی زندگیاں محدود ہیں مگر ہمارا خدا ازلی ابدی خدا ہے.اس لئے اگر وہ یہ بوجھ جو ہم نہیں اٹھا سکتے آپ اٹھالے تو فکر کی کوئی بات نہیں.جب تک ہم یہ کام انسان کے ذمہ سمجھتے ہیں تب تک فکر رہے گا کیونکہ انسان تو کچھ مدت تک زندہ رہے گا پھر فوت ہو جائے گا مگر خدا تعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھالے تو فکر کی کوئی بات نہیں.یہ اُسی کا کام ہے اور اُسی کو سجتا ہے اور جب خد اتعالیٰ خود اس بوجھ کو اٹھالے گا تو پھر اس کے لئے زمانہ کا کوئی سوال نہیں رہے گا.کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ صدیاں تعلق نہیں رکھتیں ان کا تعلق تو ہمارے ساتھ ہے ورنہ خدا تعالیٰ تو از لی ابدی خدا ہے.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو بھی اور مجھے بھی توفیق دے کہ ہم ثواب حاصل کریں.لیکن جو اصل چیز ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ یہ بوجھ خود اٹھالے تا کہ آئندہ ہمارے لئے کوئی فکر کی بات نہ رہے." ( الفضل 15 دسمبر 1955ء)

Page 193

انوار العلوم جلد 25 169 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ءمیں خطابات تیسرے دن کا خطاب فرمودہ 20 نومبر 1955ء) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- کل چونکہ پہلی دفعہ انصار اور خدام کا اکٹھا جلسہ ہوا تھا اس لئے ملاقات کے وقت میں کچھ گڑ بڑ ہو گئی تھی.صحیح طور پر نہ انصار میں انتظام ہو سکا اور نہ خدام میں ہوا.اس لئے میں نے چاہا کہ آج میں پھر خدام میں آؤں اور یہ بھی مناسب سمجھا کہ کچھ الفاظ بھی کہہ دوں.احباب کو علم ہے کہ اس سال کے شروع میں مجھ پر ایک نہایت ہی خطرناک بیماری کا حملہ ہوا تھا اور اب تک اس بیماری کے آثار چلے جاتے ہیں.جس کی وجہ سے دماغ کو اتنا صدمہ پہنچا ہوا ہے کہ میں بڑی جلدی تھک جاتا ہوں.دومنٹ بھی بات کروں تو دماغ میں کوفت محسوس ہوتی ہے.یوں تو عقید تا دعا پر ہمارا ایمان ہے ہی مگر واقعاتی طور پر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ جب بھی جماعت کے بعض دوستوں نے خاص طور پر دعائیں کی ہیں اُس دن میری طبیعت اچھی ہو گئی ہے.اس جلسہ کے ایام میں انصار خصوصیت کے ساتھ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کل کی کوفت کے باوجود آج صبح میں نے اپنی طبیعت بہت ہی خوش محسوس کی اور میری آواز بھی اونچی نکلتی رہی.ملاقاتیں بھی میں نے کیں اور کام کی ایسی طاقت مجھے اپنے اندر معلوم ہوتی تھی کہ میں عام دستور سے زیادہ کام کرنے کی توفیق پاتا تھا.اصل بات یہ ہے کہ جب بھی بیماری کے صدمہ کا اثر دماغ سے زائل ہوتا ہے طبیعت میں سکون پیدا ہو جاتا ہے اور یہی ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ دماغ سے اس اثر کو زائل کرنے کی کوشش کریں لیکن دماغ سے اثر کا زائل کرنا انسان کے اختیار میں نہیں ہوتا.مگر بہر حال جب دعاؤں کے ذریعہ سے دماغ سے وہ اثر زائل ہوتا ہے تو گو ایسی تندرستی تو نہیں ہوتی جیسے بیماری کے حملہ سے پہلے تھی

Page 194

انوار العلوم جلد 25 170 مجلس انصار الله و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ءمیں خطابات مگر اُس وقت یہ ضرور محسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماری کا ایسا تصرف جسم پر نہیں ہے جیسا کہ وہ بعض وقت محسوس ہوتا ہے.آج جو انصار اللہ کی رپورٹ میرے پاس آئی.اُس میں لکھا تھا کہ کسی دوست نے ایک سوال کیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ سب سے اعلیٰ مقام تو کل کا مقام ہے.وہاں جواب تو دیئے گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ کچھ میں بھی اس بارہ میں کہوں.تو کل کے معنے ہوتے ہیں انسان اپنی بات خدا کے سپر د کر دے.مگر مسلمانوں میں اس لفظ کا بڑا غلط استعمال ہوا ہے.خدا تعالیٰ کے سپرد کرنے کے تو یہ معنی تھے کہ انسان خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قاعدہ کے مطابق چلے.اللہ تعالیٰ نے ہم کو ہاتھ پیر بھی دیئے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ہمیں دماغ بھی دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں بعض دنیوی سامان بھی دیئے ہیں.ایسی صورت میں خدا کے سپرد کرنے کے یہی معنی ہیں کہ جو کچھ خدا نے جس کام کے لئے دیا ہے اس کو ہم استعمال کریں.پس تو گل کا پہلا مقام یہ ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے ہم کو دیا ہے جسمانی ہو یا مالی ہو یا اخلاقی ہو اس کو ہم زیادہ سے زیادہ استعمال کریں.اس کے بعد جو کمی رہ جائے وہ خدا کے سپر د کر دیں اور یقین رکھیں کہ خدا اس کمی کو ضرور پورا کر دے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دستور تھا.آپ نے بدر کے موقع پر صحابہ کی ایک ترتیب قائم کی.ان کو اپنی اپنی جگہوں پر کھڑا کیا.انہیں نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اور اس کے بعد ایک عرشہ پر بیٹھ کر دعائیں کرنے لگ گئے.یہ نہیں کیا کہ صحابہ کو مدینہ میں چھوڑ جاتے اور بیٹھ دعائیں کرنے لگ جاتے.بلکہ پہلے صحابہ کو لے کر مقام جنگ پر پہنچے پھر ان کو ترتیب دی اور ان کو نصیحتیں کیں کہ یوں لڑنا ہے اس کے بعد عرشہ پر بیٹھ گئے اور دعائیں کرنی شروع کر دیں.یہ تو گل ہے.ہر وہ شخص جو اُن سامانوں سے کام نہیں لیتا جو خدا تعالیٰ نے اس کو بخشے ہیں اور کہتا ہے کہ میں خدا پر چھوڑتا ہوں وہ جھوٹا ہے ، وہ خدا سے تمسخر کرتا ہے.اور ہر وہ شخص جو سامانوں سے کام لیتا ہے اور کہتا ہے اب یہ کام میں کروں گا وہ بھی جھوٹا ہے وہ خدا پر اعتبار نہیں کرتا.کام آسان ہوں یا مشکل آخر ان کی کنجی خدا کے اختیار میں.ٹھ کر

Page 195

انوار العلوم جلد 25 171 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ءمیں خطابات میں سارے یورپ میں پھرا.ہر جگہ میں ڈاکٹروں سے یہی پوچھتا تھا کہ بتاؤ مجھے یہ دورہ کیوں ہوا؟ مگر کوئی جواب نہیں دے سکا.ڈاکٹر یہی کہتے تھے کہ آخر کچھ قدرت کے بھی تو سامان ہوتے ہیں.ہم ڈاکٹری طور پر آپ کو نہیں بتا سکتے کہ یہ بیماری آپ کو کیوں ہوئی.ہم یہ سمجھتے ہیں کہ قدرت نے بھی کچھ باتیں اپنے ہاتھ میں رکھی ہوئی ہیں.کوئی چیز ایسی آگئی کہ اس کی وجہ سے آپ کو یہ دورہ ہو گیا.تو تو گل کا مفہوم یہ ہے کہ جہاں تک خدا نے تم کو طاقتیں دی ہیں اُن کو پورا استعمال کرو بلکہ ایک دنیا دار سے بھی زیادہ استعمال کرو.اور اس کے بعد صوفی سے زیادہ خدا پر اعتبار کرو اور یہ کہو کہ جو کمی رہ گئی وہ خدا پوری کرے گا.اور چاہے انتہائی مایوسی کا عالم ہو پھر بھی ڈٹ کے بیٹھ جاؤ کہ نہیں میرا اخدا مجھے نہیں چھوڑے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غارِ ثور میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ہمارا کام یہ تھا کہ دشمن کو دھوکا دے کر وہاں سے نکل آتے سو نکل آئے.اب دشمن ہمارے سر پر آپہنچا ہے.اب یہ خدا کا کام ہے کہ وہ ہمیں بچائے.سو لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا ڈرنے کی کوئی بات نہیں خد ا ہمارے ساتھ ہے.یہ ہے تو گل.پورے سامان استعمال کرو اور اس کے بعد خدا پر پورا یقین رکھو اور چاہے کچھ بھی ہو جائے یہ سمجھ لو کہ خدا ہمیں نہیں چھوڑے گا.جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم احتیاطیں کرتے تھے صحابہ بھی آپ کے پہرے دیتے تھے.ایک دن ایک دشمن چُھپ کر آپ کے سر پر آکھڑا ہوا.آپ کی ہی تلوار کہیں لٹکی ہوئی تھی اس نے وہ اٹھالی اور اٹھا کر کہنے لگا اب بتاؤ کون آپ کو مجھ سے بچا سکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ.2 ایسے تو گل کے ساتھ آپ نے یہ بات کہی کہ اُس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار گر گئی.سو یہ ہے تو گل.اگر تم اس تو گل پر قائم رہو اور ہمیشہ اپنے دوستوں کو اور اپنی نسلوں کو اس پر قائم رکھتے جاؤ تو قیامت تک کوئی شخص تم پر انشاء اللہ تعالیٰ غالب نہیں آئے گا.بلکہ ہمیشہ تم ہی دشمن پر غالب آجاؤ گے کیونکہ خدا تمہارے ساتھ ہو گا.پھر میں ایک اور بات کہنی چاہتا ہوں.کل میں نے تم کو بھی دیکھا اور انصار کو بھی دیکھا.شاید کچھ اس بات کا بھی اثر ہو گا کہ فالج کی وجہ سے میری نظر کمزور ہو گئی ہے

Page 196

انوار العلوم جلد 25 172 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ءمیں خطابات اور میں پوری طرح دیکھ نہیں سکا ہوں گا لیکن بہر حال مجھے نظر یہ آیا کہ جیسے چہرے افسردہ افسردہ ہیں اور جھلسے جھلسے سے ہیں.میں نے سمجھا شاید میری بیماری کے خیال سے ایسا ہے.چنانچہ میں نے بعض دوستوں سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا طوفان کی وجہ سے لوگوں کی مالی حالت خراب ہو گئی ہے اِس وجہ سے ان کے چہرے افسردہ ہیں.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ یہ دونوں باتیں غلط ہیں.اگر میری بیماری اس کی وجہ ہو تو میں تو ایک انسان ہوں.آخر انسان کب تک تمہارے اندر رہے گا.اس کے بعد آخر خدا ہی سے واسطہ پڑنا ہے.کیوں نہ خدا ہی سے شروع سے واسطہ رکھو.دیکھو حضرت ابو بکڑ نے کیا سچائی بیان کی تھی کہ مَنْ كَانَ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَمَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللهَ فَإِنَّ اللهَ حَقٌّ لَا يَمُوتُ اگر خدا پر توکل کرو گے تو معلوم نہیں تمہارا اس دنیا کے ساتھ ہزار سال واسطہ پڑنا ہے یا دو ہزار سال واسطہ پڑنا ہے.بہر حال ہزار دو ہزار سال کا عرصہ خدا کے لئے تو کچھ بھی نہیں مگر اس تو گل کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گا.اس بیماری میں مجھے خیال آیا کرتا ہے کہ کچھ خیر خواہ دوستوں کی بیوقوفیوں کی سزا بھی مجھے ملی ہے.وہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ "خدا آپ کو عمر نوح دے " عمر نوح تو ہزار سال کہتے ہیں.میں تو ستاسٹھ سال میں اپنے جسم کو ایسا کمزور محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے میری روح گویا قید کی ہوئی ہے.اگر بجائے عمر نوح کی دعا کرنے کے وہ یہ دعا کرتے کہ یا اللہ تو ہمارے خلیفہ کو اتنی عمر دے جس میں وہ بشاشت کے ساتھ کام کر سکے اور تیری مدد اس کے ساتھ ہو تو مجھے کتنا فائدہ ہوتا.اگر وہ مجھے عمر نوح ہی دے تو ہزار سال کی تو قوم نہیں ہوا کرتی.قومیں تو دو دو ہزار سال چلتی ہیں پھر بھی تو ہزار سال کے بعد میں تم سے جدا ہو جاتا.تو ایسی غلط دعامانگنے سے کیا فائدہ تھا.دعایہ مانگی تھی کہ یا اللہ تو ان کو ایسی عمر دے جس میں ان کا جسم اس کام کا بوجھ اٹھا سکے اور بشاشت سے یہ تیرے دین کی خدمت کر سکیں.اور ہمارے اندر وہ طاقت پیدا کر کہ جو کام تو ان سے لے رہا ہے وہ ہم سے بھی لیتا چلا جا.یہ دعا میرے لئے بھی ہوتی اور تمہارے لئے بھی ہوتی

Page 197

انوار العلوم جلد 25 اور اسلام کے لئے بھی ہوتی.173 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات سو میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خوش رہو.آج ہی جب میں نے یہ واقعہ اپنے گھر میں سنایا تو انہوں نے بتایا کہ ریڈرز ڈائجسٹ میں ایک امریکن کا مضمون شائع ہوا ہے.ریڈرز ڈائجسٹ امریکہ کا ایک بڑا مشہور رسالہ ہے جو دو کروڑ کے قریب شائع ہوتا ہے جس میں اس نے لکھا کہ میں نیوزی لینڈ گیا وہاں میں افسردہ رہنے لگ گیا.ایک دن میں بیٹھا تھا کہ ایک نیا شادی شدہ جوڑا جو ہنستا ہوا آرہا تھا وہ میرے آگے کھڑا ہو کر کہنے لگا ہماری خاطر ایک دفعہ مسکرا دو.کہنے لگا کہ میں جو مسکرایا تو پھر یوں مسکرانے لگا کہ مجھے اپنا وطن بھول ہی گیا اور میں مسکراتا ہی رہا.تم بھی خدا اور اس کے رسول کی خاطر مسکراؤ، اپنے چہرے پر رونے کو کبھی نہ آنے دو اور مسکراتے چلے جاؤ تا کہ ساری دنیا تمہاری وجہ سے مسکراتی چلی جائے.مگر ایسا مسکراؤ کہ اس کے ساتھ شیطان نہ مسکرائے.خدا مسکرائے.ایک مسکراہٹ ایسی ہوتی ہے جو خدا سے غافل کر دیتی ہے اس کے ساتھ شیطان مسکراتا ہے.اور ایک مسکراہٹ وہ ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ خدا بھی مسکراتا ہے.پھر جس شخص نے یہ کہا کہ غربت آگئی ہے طوفان آئے ہیں.اس نے بھی غلطی کی.صحابہ میں دیکھو ایک صحابی عمرہ کے موقع پر اکڑ اکڑ کر طواف کر رہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو اس کو بلایا اور فرمایا.اکڑ نا خدا کو بڑانا پسند ہے لیکن تمہارے اکڑنے پر خدا خوش ہوا ہے.تم کیوں اکڑے تھے ؟ کہنے لگا یار سول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم میں اس لئے اکڑا تھا کہ ملیریا کی وجہ سے سب کی کمریں ٹیڑھی ہو گئی تھیں.میں نے کہا کافر ہمارا طواف دیکھ رہے ہیں، کہیں وہ ہماری ٹیڑھی کمریں دیکھ کر خوش نہ ہو جائیں کہ مسلمانوں کی کمریں ٹوٹ گئیں ہیں اس لئے میں اکڑا کٹر کر چلتا تھا کہ اُن کو بتاؤں کہ ہم خدا کے فضل سے بیماریوں سے ڈرنے والے نہیں ہم اکٹڑ کر چلیں گے.آپ نے فرمایا خدا کو تمہاری یہ ادا بڑی پسند آئی ہے..اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ملک پر آفت آئے تو مومن سے زیادہ اور کون غمگین ہو گا مگر اپنے غم کا تحفہ رات کے وقت خدا کے آگے نذر کے طور پر پیش کرو اور

Page 198

174 مجلس انصار الله وخدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات انوار العلوم جلد 25 اپنی مسکراہٹیں دن کے وقت خدا اور اس کے رسول کے آگے پیش کرو تا کہ دشمن یہ نہ سمجھے کہ ان طوفانوں نے تمہاری کمریں توڑ ڈالی ہیں.یاد رکھو خدا نے اس زمین میں کمائی کی بڑی قابلیت رکھی ہیں.میں نے بارہا زمینداروں کو کہا ہے کہ ہمارا ایک وفد جاپان گیا تھا انہوں نے بتایا کہ چھ ہزار روپیہ فی ایکڑ جاپانی کمار ہے ہیں.میں نے اٹلی سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ چودہ سو روپیہ فی ایکڑ اٹلی والے کما رہے ہیں.میں نے ہالینڈ سے دریافت کیا تو انہوں نے بتایا کہ تین ہزار روپیہ فی ایکٹر ہالینڈ والے کما رہے ہیں.ہمارے ملک کی اوسط زمین دو تین ایکڑ فی شخص بنتی ہے.تین ہزار فی ایکڑ کے لحاظ سے چھ ہزار کی آمدن یعنی پانچ سو روپیہ ایک مہینے کی آمد بنتی ہے.گویا اس کی ای.اے.سی کے برابر تنخواہ ہو جاتی ہے.ضرورت یہ ہے کہ ہمارے آدمی محنت کریں تا کہ اللہ تعالیٰ ان کی زمینوں میں سے سونا اگلوائے.تاجر ایسی دیانت سے کام کریں کہ دنیا میں ہیں میں سے ان سے سودا لینے آئے، نوکر ایسی دیانت سے کام کریں کہ افسر کہے کہ میں نے رکھنا ہے تو احمدی رکھنا ہے، یہ بڑے دیانتدار ہوتے ہیں.غرض اچھے سے اچھا کام کرو، زیادہ سے زیادہ محنت کرو اور خواہ زمیندارہ ہو ، تجارت ہو ، ملازمت ہو اپنے اعلیٰ نمونے پیش کرو.اور جب خدمت خلق کا وقت آئے تو سب سے بڑھ کر خدمتِ خلق کرو.دیکھو عذاب تو عذاب ہی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ہمارے ملک کو عذابوں سے بچائے.لیکن اس عذاب کے وقت میں تم کو جو خدمت کی توفیق ملی ہے تو یہ تو مسکرانے والی بات ہے.بہر حال خدمت کی توفیق ملنے کے لئے ہمیشہ دعائیں کرتے رہو.اور جب کسی شکل میں بھی ملک پر کوئی مصیبت آئے تو سب سے آگے اپنی جان کو خطرہ میں پیش کرو تا کہ دنیا محسوس کرے کہ تم دنیا کے لئے ایک ستون ہو اور تمہارے ذریعہ سے ملک کی چھت قائم ہے.اگر تم اپنے اندر یہ تغیر پیدا کر لو گے تو اللہ تعالیٰ بھی خوش ہو گا، تمہارے اہل ملک بھی خوش ہوں گے اور ملک بھی ترقی کرے گا اور لوگوں کے دلوں سے تمہاری دشمنیاں نکل جائیں گی اور تمہاری محبتیں

Page 199

انوار العلوم جلد 25 175 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955ء میں خطابات لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جائیں گی.پس خدمت کرو اور کرتے چلے جاؤ تمہارا نام خدام احمد یہ ہے.خدام احمدیہ کے یہ معنی نہیں کہ تم احمدیت کے خادم ہو.خدام احمدیہ کے معنی ہیں تم احمدی خادم ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سَیدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ قوم کا سردار ان کا خادم ہوتا ہے.اگر تم واقع میں بچے احمدی بنو گے اور بچے خادم بھی بنو گے تو تھوڑے دنوں میں ہی خدا تم کو سید بنادے گا.ہر شخص تمہارا ادب اور احترام کرے گا.اور لوگ سمجھیں گے کہ ملک کی نجات ان کے ساتھ وابستہ ہے.دیکھو یہ کس طرح اپنی جانوں کو خطرہ میں ڈال کر ملک کی خدمت کرتے ہیں.سو اپنے اس مقام کو ہمیشہ یاد رکھو اور ہمیشہ یہ کوشش کرتے رہو کہ تمہارے ذریعہ سے دنیا کا ہر غریب اور امیر فائدہ اٹھائے.نہ امیر سمجھے کہ تم اُس کے دشمن ہو نہ غریب سمجھے کہ تم اُس کے دشمن ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ کے غریب بھی بندے ہیں اور امیر بھی بندے ہیں.ہزاروں باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان میں امیر بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں اور ہزاروں مواقع ایسے آتے ہیں کہ غریب بھی خدمت کے محتاج ہوتے ہیں.تم دونوں کی خدمت کرو کیونکہ احمدیت غریب اور امیر میں کوئی فرق نہیں کرتی.بالشویک غریبوں کی خدمت کرتے ہیں اور کیپیٹلسٹ (CAPITALIST) امیروں کی خدمت کرتے ہیں.تم خدام احمد یہ ہو تمہارا کام یہ ہے کہ امیر مصیبت میں ہو تو اس کی خدمت کرو اور غریب مصیبت میں ہو تو اُس کی خدمت کرو یہاں تک کہ ہر فرد بشر یہ سمجھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو اُس کی نجات کا ذریعہ بنا دیا ہے.پھر اللہ تعالیٰ کے فضل ہر قسم کی قومی ترقیات تم حاصل کرو گے اور اللہ تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی.اور یاد رکھو کہ جہاں جہاں جاؤ خدام کی تعداد بڑھانے کی کوشش کرو.میرا اندازہ یہ ہے کہ تمام احمدیوں کا چالیس فیصدی خدام ہونے چاہیں.سو اپنی جماعت کو جمعہ کے دن اور عید کے دن دیکھو کہ کتنی تھی اور پھر دیکھو کہ کیا اس کا چالیس فیصدی خدام ہیں؟ اگر نہیں ہیں تو ہر ایک کے پاس جاؤ اور اُس کو تحریک کرو کہ وہ بھی آئے اور خدام میں شامل ہو.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ تم کو بچے طور پر خدام احمد یہ بننے کی توفیق دے.

Page 200

انوار العلوم جلد 25 176 مجلس انصار اللہ و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ءمیں خطابات کیونکہ ملک کو خدام احمدیہ کی ضرورت ہے.جیسے میں نے بتایا ہے خدام احمد یہ جب ہم نے نام رکھا تھا تو اس کے یہ معنی نہیں تھے کہ تم احمدیوں کے خادم ہو.اگر تم یہ معنی کرو گے تو بڑی غلطی کرو گے اور ہم پر ظلم کرو گے.خدام احمدیہ سے مراد تھا احمدیوں میں سے خدمت کرنے والا گروہ.تم خادم تو دنیا کے ہر انسان کے ہو لیکن ہو احمدیوں میں سے خادم.اس لئے اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ تم احمدیوں کی خدمت کرو بلکہ مطلب یہ تھا کہ احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق خدمت کرو.چنانچہ دیکھ لو لاہور میں طوفان آیا، مکان گرے تو اس موقع پر جو احمدی معمار ہم نے بھیجے.ان کے متعلق پولیس نے اور محلے والوں نے اقرار کیا کہ یہ آدمی نہیں یہ تو جن ہیں.یہ تو منٹوں میں مکان تعمیر کر دیتے ہیں.تو یہ احمدی سٹینڈرڈ تھا.سو اپنا احمدی سٹینڈرڈ قائم کرو اور اسے بڑھاتے جاؤ.دیکھو آج تو تم خدمت کرتے ہو کل دوسروں کو بھی تحریک ہو گی.لیکن اگر احمدی سٹینڈرڈ کے مطابق تم خدمت کرنے والے ہو گے تو دوسرے تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتے.وہ ہزار ہوں گے اور تم پچاس ہو گے لیکن تم پچاس اُن ہزار سے زیادہ کام کر جاؤ گے کیونکہ تمہار اسٹینڈرڈ احمدی سٹینڈرڈ ہو گا اور اُن کا سٹینڈرڈ اول تو احمدی سٹینڈرڈ نہیں ہو گا دوسرے وہ فرق کریں گے کہ یہ ہمارا دشمن ہے اور یہ ہمارا دوست ہے.تم نے کہنا ہے کہ ہم نے تو خدمت کرنی ہے.چاہے مخالف ہو یا دوست.اس طرح آپ ہی آپ تمہارا کام دوسروں سے بلند ہو تا چلا جائے گا اور تم ملک کے لئے ایک ضروری وجود بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے تم پر فضل نازل ہوں گے.جیسا کہ شروع میں میں نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرو، دعاؤں پر خاص زور دو اور اپنی اصلاح کی فکر کرو.جوانی میں تہجد پڑھنے والے اور جوانی میں دعائیں کرنے والے اور جوانی میں سچی خوابیں دیکھنے والے بڑے نادر وجو د ہوتے ہیں.تم نے ابدال کا ذکر سنا ہو گا.ابدال در حقیقت وہی ہوتے ہیں جو جوانی میں اپنے اندر تغیر پیدا کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کر لیتے ہیں کہ بڑھے بڑھے بھی آکر کہتے ہیں کہ حضور ہمارے لئے دعا کیجئے.تمہارے احمدیوں کے بڑھے تو اقطاب ہونے چاہئیں اور

Page 201

انوار العلوم جلد 25 177 مجلس انصار الله و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ءمیں خطابات احمدیوں کے جو ان ابدال ہونے چاہئیں.وہ خوب دعائیں مانگیں اور اللہ تعالیٰ سے ایسی محبت کریں کہ وہ اپنے فضل سے ان سے بولنے لگ جائے اور وہ جوانی میں ہی صاحب کشف و کرامات ہو جائیں.اور محلہ کے لوگوں کو جب مصیبت پیش آئے وہ دوڑے دوڑے ایک خادم احمدیت کے پاس آئیں اور آکر کہیں کہ دعا کرو ہماری یہ مصیبت ٹل جائے.جب تم جذبہ اخلاص سے ان کے لئے دعا کرو گے تو پھر خدا تمہاری دعائیں بھی زیادہ قبول کرنے لگ جائے گا اور لوگوں کو ماننا پڑے گا کہ تمہاری دعا ایک بڑی قیمتی چیز ہے.بہر حال ان نصیحتوں کے بعد میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.مصافحہ تو میں کر چکا ہوں.اب آپ لوگوں کے لئے دعا کر کے آپ لوگوں کو رخصت کرتا ہوں.باقی کام آپ کے متضمین سر انجام دیں گے.میں آپ کو السّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ کر آپ سے رخصت ہو تا ہوں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو اور قیامت تک آپ لوگ اور کی نسلیں دین کی خادم رہیں، خدا کی محب رہیں، خدا سے تم محبت کرنے والے ہو اور خدا تم سے محبت کرنے والا ہو.کبھی تمہارا دشمن تم پر غالب نہ آئے بلکہ تم خدا کی مدد اور اس کی نصرت سے نیکی اور تقویٰ کے ساتھ لوگوں پر غالب آؤ.شرارت اور فساد کے ساتھ نہیں بلکہ نیکی اور تقویٰ کے ساتھ تاکہ اسلام تمہاری ترقی سے فائدہ اٹھائے اور کسی کو تمہاری ترقی سے نقصان نہ پہنچے اللهُمَّ آمِينَ ، دیکھو! میں نے کہا تھا تو گل کرو.سو تو گل کے معنی ہیں احمدیت کا صحیح مقام.اس کے لحاظ سے میں کہتا ہوں کہ کہو احمدیت زندہ باد.اور میں نے کہا تھا کہ خدمت احمدیت کے سٹینڈرڈ پر کرو جس کے معنی یہ ہیں کہ انسانیت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرو.سواس کے مطابق میں کہتا ہوں کہ تمہارا نعرہ یہ ہونا چاہیئے.انسانیت زندہ باد.اللہ تعالیٰ تم کو وہ سٹینڈرڈ قائم رکھنے کی توفیق دے جس سے وہ اعلیٰ جذبات انسان کے اندر خدا تعالیٰ نے فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا 7 کے مطابق پیدا کی ہیں وہ قائم رہیں اور انسان کی وہ شکل دنیا کو نظر آئے جس کے متعلق قرآن میں خدا کہتا ہے کہ میں نے بنائی ہے.

Page 202

انوار العلوم جلد 25 178 مجلس انصار الله و خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1955 ءمیں خطابات وہ شکل نظر نہ آئے جو شیطان نے بنائی ہے بلکہ تمہارے ذریعہ سے وہ شکل انسانیت کی دنیا کو نظر آئے جو خدا تعالیٰ نے پیدا کی ہے اور جس کے متعلق وہ فرماتا ہے کہ فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي (الفضل 4 مارچ 1956ء) فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا " 1 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 279،278 مطبوعہ مصر 1936ء 2 بخاری کتاب المناقب باب مناقب المهاجرين وَفَضْلِهِمْ 3 مسلم کتاب الفضائل باب توَكُلِهِ عَلَى اللهِ تعالى (الخ) 4 بخاری کتاب المناقب باب قول النبی صلی الله عليه وسلم لَوْ كُنْتُ مُتَخِذَا خَلِيْلًا 5 صحیح مسلم کتاب الحج باب استحباب الرمل في الطواف (مفہوم) 6 کنز العمال جلد 6 صفحہ 710 مطبوعہ بیروت 1979ء 7 الروم:31

Page 203

انوار العلوم جلد 25 179 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء از مید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 204

Page 205

انوار العلوم جلد 25 181 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء (فرمودہ26دسمبر 1955ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) ہے تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ”اب میں اس سال کے جلسہ کا افتتاح کرتا ہوں.کتنا عظیم الشان فرق بارہ مہینے میں پڑا ہے.بارہ مہینے پہلے میں بالکل تندرست تھا مگر اس کے بعد میں ایک سخت بیماری میں مبتلا ہوا جس کے اثرات اب تک باقی ہیں.اس بیماری کا جو ظاہری جسمانی حصہ پر اثر تھا اس میں تو کمی ہے.ہاتھ پیر ہلا تا ہوں، چل لیتا ہوں لیکن ابھی کئی قسم کے اثرات باقی ہیں.مثلاً نظر بہت کم کام کرتی ہے گو ڈاکٹر کہتے ہیں کہ موتیا بند نہیں.لیکن کوئی اعصابی مرض ہے.تھوڑا سا بھی پڑھوں تو سر چکرا جاتا ہے جس کی وجہ سے سارا دن گھبراہٹ میں گزرتا ہے.جب تک میری بیوی مجھے ڈاک وغیرہ سناتی رہے یا قرآن شریف کے نوٹ لکھتی رہے طبیعت ٹھیک رہتی ہے.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ کئی ڈاکٹروں نے حتی کہ یورپین ڈاکٹروں نے بھی جو دین کے اتنے قائل نہیں کہا کہ آپ کی صحت معجزانہ ہے حالانکہ وہ دین کے قائل نہیں ہیں مگر ان کے منہ سے بھی ایسا فقرہ نکل گیا.چنانچہ مجھے یاد ہے جرمنی میں ایک ڈاکٹر مجھے دیکھ کر کہنے لگا کہ Your care was miraculous اِسی طرح یہاں کے بھی کئی ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ایک معجزانہ بات تھی.اب اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس معجزہ کو کامل کر دے اور وہ جو اب تک میرے دماغ پر بوجھ ہے اُس کو دور کر دے.بعض دفعہ خدا تعالیٰ کا فضل ایسا ہوتا ہے کہ یہ بوجھ بالکل دور ہو جاتا ہے.کل ہی کی بات ہے نماز مغرب اور

Page 206

182 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء انوار العلوم جلد 25 عشاء میں نے گھر میں جمع کر کے پڑھی اس سے پہلے میری طبیعت میں بڑی تشویش سی تھی اور سر چکراتا تھا مگر سلام پھیر کر میں کھڑا ہوا تو مجھے یوں معلوم ہوا کہ میں بالکل تندرست ہوں اور ساری تکلیف اور کوفت دور ہو گئی.تو اللہ تعالیٰ چاہے تو ایک اشارہ کے ساتھ اس کو ٹھیک کر سکتا ہے اور پھر مجھے خدمت دین کی توفیق دے سکتا ہے.بہر حال جہاں تک سلسلہ کی ضرورتوں کا سوال ہے یہ تو اگر خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی تو کل تقریر میں بیان کروں گا.اس وقت دوستوں کو اتنا ہی کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ میں پہلے بھی ایک خطبے میں بیان کر چکا ہوں میری بیماری زیادہ تر اعصابی رہ گئی ہے.جہاں تک اصل بیماری کا سوال تھا ڈاکٹروں کا یہی خیال ہے کہ وہ جا چکی ہے صرف اعصابی تکلیف باقی ہے.چنانچہ سوئٹزر لینڈ کا ایک مشہور ڈاکٹر جسے بوسٹن میڈیکل کالج امریکہ والے بھی جو وہاں کا بڑا بھاری کالج ہے تقریر کے لئے بلایا کرتے ہیں اور جس کے متعلق ہمارے دوستوں نے بھی وہاں سے مشورہ کر کے تار کے ذریعہ ہمیں لکھا تھا کہ اسے ضرور دکھاؤ.اُس کا یہ فقرہ تھا کہ اب یہ بیماری آپ کے اختیار میں ہے آپ زور لگائیں اور بھول جائیں.میں نے کہا میں بھولوں کس طرح؟ اِس کا بھی علاج بتاؤ.کہنے لگا اصل بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی صحت بیماری کے حملہ سے پہلے بہت اچھی تھی اب یکدم اس چیز میں جو کمی آئی ہے وہ آپ کو بہت محسوس ہوتی ہے اور آپ اس کو بھلا نہیں سکتے.پھر جب میں اٹھا تو یورپین لوگوں کے طریق کے مطابق میرے سینہ کی طرف اپنا ہاتھ کر کے اور انگلی ہلا کر کہنے لگا کہ میری نصیحت آپ کو یہ ہے کہ Be optimistic Be optimistic اپنی امید مضبوط کرو پھر یہ بیماری جاتی رہے گی.وہ کہنے لگا جہاں تک طبی سوال ہے میرے نزدیک بیماری چلی گئی ہے لیکن آپ اپنے نفس پر قابو کر کے اسے بھلا دیں گو آپ کے لئے یہ مشکل ہے.معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی صحت پہلے بہت اچھی تھی یکدم جو آپ آکے ناکارہ ہو گئے تو جو صدمہ آپ کے دماغ کو پہنچا ہے اس کی وجہ سے آپ بیماری کو بھلا نہیں سکتے مگر کوشش کریں کیونکہ علاج یہی ہے.جس دن آپ اپنی طبیعت پر غالب آجائیں گے جہاں تک جسمانی مرض کا سوال ہے وہ ختم ہو جائے گی.

Page 207

انوار العلوم جلد 25 183 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء یہ بہت بڑا فرق ہے جو میری صحت میں واقع ہوا.کجا بارہ مہینے پہلے کی حالت اور کجا آج کی حالت.سوائے اِس کے کہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے بعض دفعہ ایسا وقت بھی آتا ہے کہ میں اپنے آپ کو بالکل تندرست محسوس کرتا ہوں.پچھلے مہینہ میں نومبر کے آخر میں یا دسمبر کے شروع میں پندرہ دن ایسے رہے کہ میں کمرہ میں ٹہلتا تھا.آخر ٹہلنا پڑتا ہے کیونکہ گھبراہٹ ہوتی ہے اور یہ بھی غالباً اس بیماری کے نتیجہ میں ہے.چونکہ پہلے چلنا پھرنا بند ہو گیا تھا طبیعت اندرونی طور پر محسوس کرتی ہے کہ میں چل کے دیکھوں کہ چل سکتا ہوں یا نہیں.تو ٹہلتا ہوں اور ٹہلتا چلا جاتا ہوں یہاں تک کہ پیر تھک جاتے ہیں.غرض پندرہ دن ایسے رہے کہ میر ادماغ بالکل یوں محسوس کرتا تھا کہ اس پر کوئی بوجھ نہیں اور نماز میں مجھے بھولنا بھی بند ہو گیا تھا.شروع شروع میں جب میں کراچی گیا ہوں تب تو یہ حال تھا کہ پاس آدمی بیٹھتے تھے جو بتاتے جاتے تھے کہ اب سجدہ کریں، اب سجدہ سے اٹھیں.یہاں بھی آکر کچھ بھولا مگر پھر ٹھیک ہو گیا.مگر اس کے بعد پھر یہی کیفیت ہو گئی جس پر میں نے اپنے ساتھ ایک آدمی کھڑارکھنا شروع کیا کہ تم کھڑے ہو جاؤ گے تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ کھڑا ہونا ہے، بیٹھ جاؤ گے تو مجھے پتہ لگ جائے گا کہ مجھے بیٹھنا ہے.مگر آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ نے طبیعت پر ایسا قابو دے دیا کہ بغیر اُس کے بیٹھنے یا قطع نظر اس کے کھڑا ہونے کے میں آپ ہی آپ کھڑا ہو جاتا تھا اور رکوع کرتا تھا اور تشہد پڑھتا تھا.اسی طرح گھر میں نماز پڑھتا ہوں تو بیوی کو بٹھا لیتا ہوں کہ دیکھتے جانا میں غلطی تو نہیں کرتا.مگر کئی دفعہ ایسے وقت بھی آتے ہیں کہ نماز بالکل ٹھیک پڑھتا ہوں اور کوئی بات نہیں بھولتی.میں سمجھتا ہوں کہ یہ محض دعاؤں کا نتیجہ ہے اور دعاؤں کے ساتھ ہی اس کا تعلق ہے.مجھے خدا تعالیٰ نے خواب میں بھی یہی بتایا ہے.سو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس جلسہ کو مبارک کرے اور آئندہ سینکڑوں جلسوں کے لئے اس سے برکت کا سلسلہ قائم کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھ سے خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ تین سو سال تک تمہاری جماعت بڑی طاقتور اور مضبوط ہو جائے گی.1 تین سو سال

Page 208

انوار العلوم جلد 25 184 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء کا عرصہ بڑا لمبا عرصہ ہے.یوں تو مومن کو قیامت تک کے لئے عزم کرنا چاہئے لیکن کم سے کم تین سو سال تک تو ہماری آئندہ نسلوں کو یہ عزم کرنا چاہئے کہ یکے بعد دیگرے ہم سلسلہ کا بوجھ اٹھاتے چلے جائیں گے اور اسلام کی اشاعت میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے.اِس وقت میں دیکھتا ہوں کہ نئے خاندانوں میں سے تو لوگ وقف کی طرف آرہے ہیں مگر پرانے خاندانوں میں سے کم آرہے ہیں.پس سلسلہ کے لئے بھی دعا کرو اور ان لوگوں کے لئے بھی کرو جن کو خدا تعالیٰ نے پہلے احمدیت کی خدمت کی توفیق دی تھی کہ اللہ تعالیٰ ان کے خاندانوں کو بھی اس کی توفیق دیتار ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعد میں آنے والے مومن ہمیشہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ یا اللہ ! ہمیں بھی بخش اور اُن کو بھی بخش جو ہم سے پہلے ایمان لا چکے ہیں 2 تو ان لوگوں کا بھی ایک حق ہے کیونکہ ان کے ذریعہ سے ہی ایمان آپ تک پہنچا ہے.اس طرح آپ لوگ کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ آپ میں ایمان قائم رکھے اور ایسا ایمان قائم رکھے کہ وقف کے ذریعہ سے جماعت کی ترقی کے لئے آپ لوگ ہمیشہ کوشاں رہیں.بے شک خدمات کے کئی ذرائع ہیں.قومی طور پر تو یہی ذریعہ ہے کہ اپنے ایمانوں کو مضبوط رکھا جائے.جیسے قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ سارے لوگ وقف نہیں کر سکتے کچھ لوگ کر سکتے ہیں.سارے لوگوں کا وقف یہی ہے کہ تمام لوگ اپنے ایمانوں کو پختہ رکھیں اور اپنی قربانی کو بڑھاتے چلے جائیں.اگر سارے لوگ اپنے ایمانوں کو پختہ نہ رکھیں اور قربانی کو نہ بڑھاتے چلے جائیں تو وقف کرنے والے کھائیں گے کہاں سے؟ ان کے کھانے پینے کا تبھی سامان ہو سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ جماعت کو توفیق دیتا چلا جائے اور ان کے چندے بڑھتے چلے جائیں.آخر یہ سلسلہ بڑھے تو ہمیں دس پندرہ ہزار واقفین چاہئیں.ملک کا معیار زندگی اتنا بڑھتا چلا جاتا ہے کہ جو اچھی دینی یا دنیوی تعلیم والے ہوں گے اُن کو اپنے ہمسایوں کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کم سے کم چار پانچ سو روپیہ ماہوار کی ضرورت ہو گی.اس کے معنی یہ بنتے ہیں کہ اگر دس ہزار واقتھین ہوں تو چالیس پچاس لاکھ روپیہ ماہوار کی آمدنی ہونی چاہئے.یعنی چھ کروڑ روپیہ سالانہ.ما

Page 209

انوار العلوم جلد 25 185 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء تب جاکے اتنے واقفین مل سکتے ہیں جو سلسلہ کی ساری ضرورتوں کو پورا کر سکیں.اگر آپ لوگ اپنی نسلوں میں یہ احساس پیدا کریں کہ تم میں سے جو وقف کرے دوسرے لوگ اس کی خدمت کیا کریں تو یہ کام بڑی آسانی سے ہو سکتا ہے.اس کے علاوہ اپنے چندے بڑھاؤ اور صرف اپنے ہی نہ بڑھاؤ اپنے دوستوں کے بھی بڑھواؤ.اور جو غیر احمدی دوست ہیں اُن سے بھی چندے لو.ان میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے اندر دین کا درد ہے.مجھے یاد ہے میر محمد اسحق صاحب مرحوم جب بچے تھے.حضرت خلیفہ اوّل نے میر ناصر نواب صاحب مرحوم کو جو ہمارے نانا تھے فرمایا کہ اسحق کو میرے پاس بھیجا کریں میں اس کو قرآن حدیث پڑھاؤں گا.وہ تھے تو اہلحدیث مگر طبیعت بڑی جو شیلی تھی کہنے لگے اسماعیل ڈاکٹری میں پڑھتا ہے اسحاق اگر آپ کے پاس قرآن حدیث پڑھے گا تو اس کا یہ مطلب ہے کہ ہمیشہ میرا ایک بیٹا میرے دوسرے بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گا کہ میرے لئے کچھ کھانے کا سامان کرو.حضرت خلیفہ اوّل فرمانے لگے کہ میر صاحب! آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ میرا ایک بیٹا دوسرے بیٹے کے آگے ہاتھ پھیلائے گا؟ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ میرے اس بیٹے کے طفیل خدا دوسرے بیٹے کو رزق دے گا.تو اپنی اولاد کو آپ لوگ یہ احساس پیدا کرائیں کہ جو تم میں سے واقف زندگی ہو تمہارا فرض ہے کہ اپنی آمدنوں میں سے ایک معقول حصہ اُس کی خدمت کے لئے دیا کرو تا کہ اُس کی فکر معیشت دور ہو جائے.سو ایک طرف جو دنیوی تعلیم حاصل کرنے والے لڑکے ہیں اُن کو یہ تعلیم دیں اور جو دوسرے ہیں اُن کو دینی تعلیم دلائیں.اور اصل چیز تو یہ ہے کہ قرآن شریف اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پڑھ پڑھ کے آپ لوگ خود اپنی تعلیم اتنی مکمل کریں کہ اپنے گھروں میں ہی ہر شخص واقف ہو جائے.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو صحابہ تھے وہ کون سے شاہد پاس تھے.بس ایک آگ اُن کے دلوں میں لگی ہوئی تھی.وہ آگ لگ جائے تو سب کام آپ ہی آپ ہو جاتے ہیں.میں نے دیکھا ہے جو لوگ

Page 210

انوار العلوم جلد 25 186 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابوں کو غور سے پڑھتے ہیں، سلسلہ کا لٹریچر غور سے پڑھتے ہیں قرآن شریف اور حدیث غور سے پڑھتے ہیں بغیر اس کے کہ اُن کو کوئی بڑا علم آتا ہو وہ دنیا کے بڑے سے بڑے عالم پر غالب آ جاتے ہیں اور کوئی شخص ان کے سامنے کھڑا نہیں ہو سکتا.مجھے یاد ہے لندن میں ہمارے ایک مبلغ ہوتے تھے چودھری ظہور احمد باجوہ.وہ آجکل ناظر رشد و اصلاح ہیں اُن کے ساتھ بعض دفعہ لوگوں کی گفتگو ہوتی تھی.بعض دفعہ انگریزوں کی اور بعض دفعہ جو بڑے بڑے ہوشیار اور جہاندیدہ پیغامی مبلغ ہیں اُن کی.جب وہ سوال و جواب آتا تو ہمیشہ ان کا خط پڑھ کر میر ادل کا نپتا تھا کہ یہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں مگر ہمیشہ ہی میں نے دیکھا کہ جب میں ان کا جواب پڑھتا تھا تو دل خوش ہو جاتا تھا.وہ ایسا مکمل اور اعلیٰ جواب ہو تا تھا کہ میر ادل مانتا تھا کہ اس شخص کی اللہ تعالیٰ نے مدد کی ہے.تو سلسلہ کا لٹریچر پڑھو.عام طور پر سلسلہ کا لٹریچر چھاپنے والوں کو شکایتیں ہیں کہ لوگ ہم سے کتابیں نہیں لیتے حالانکہ یاد رکھو روٹی نہ لو تو کوئی حرج نہیں لیکن سلسلہ کی کتابیں لینا اور ان کو پڑھنا بڑی اہم چیز ہے.پس ان کتابوں کو پڑھو تا کہ اپنی زندگی میں خود بھی فائدہ اٹھاؤ اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو بھی فائدہ پہنچاؤ.اب میں دعا کروں گا کہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ کو برکت والا کرے اور جو باتیں اس میں کہی جائیں.وہ سب نیک اور مفید ہوں جو تقریر کرنے والے ہیں ان کو خدا تعالیٰ توفیق دے کہ نیک اور صحیح اور اچھی باتیں کہیں.اور سننے والے ان تمام نیک اور صحیح اور اچھی باتوں کو اپنے دل میں اس طرح داخل کر لیں کہ پھر وہ وہاں سے نہ نکلیں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کے اور ان کی نسلوں کے کام آتی رہیں.اور ہمارے نوجوان خصوصاً جو بچے وغیرہ آئے ہیں اُن کو خدا تعالیٰ ایسی توفیق دے کہ جب وہ جلسہ سے اٹھیں تو وہ عمر میں تو بچے ہوں لیکن عقل اور ایمان میں بڑھے ہو چکے ہوں تاکہ ان کے ذریعہ ایک نئی ابراہیمی نسل چلے.تم میں سے ہر بچہ اگر اپنے دل میں یہ عہد کر لے کہ میں نے ابراہیم بننا ہے ، میں نے علی بننا ہے ، میں نے بیچی بننا ہے تو پھر وہی کچھ وہ بن جائے گا.

Page 211

انوار العلوم جلد 25 187 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء حضرت ابراہیمؑ کوئی نو دس سال کے تھے ایک عجیب واقعہ پیش آیا.ان کے والد فوت ہو گئے تھے اور چچا بت بیچا کرتے تھے.چانے ان کو کمائی کے لئے جو بتوں کی دکان تھی اُس میں اپنے بیٹوں کے ساتھ لگا دیا.ایک دن بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بڑھا آدمی جو کوئی اسی نوے سال کا تھا آیا اور آکے کہنے لگا کہ مجھے ایک بُت چاہئے.وہ سب بت پرست لوگ تھے انہوں نے کہا کہ پسند کر لو.اس نے ایک بت جو نیا بن کے آیا تھا اور جو ذرا خو بصورت بنا ہوا تھا اور جسے انہوں نے بتوں کے اوپر رکھا ہوا تھا پسند کیا.چچازاد بھائیوں نے ابراہیم کو کہا کہ تم ذرا اٹھ کے اُتار دو.انہوں نے وہ بُت اس کو اتار کر دیا تو ان کو سارا واقعہ یاد آگیا کہ یہ کب بنا ہے.وہ دراصل ایک دن پہلے ہی بن کے آیا تھا.جب اس بڑھے نے وہ بُت لینا چاہا تو وہ اس کو دیکھ کر ہنس پڑے.وہ کہنے لگا بچے ! تم کیوں ہنستے ہو ؟ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ تم نوے سال کے ہو اور یہ بت ابھی چند گھنٹے ہوئے بنا ہے تمہیں اس کے آگے سر جھکائے اور اس کے آگے بیٹھے ہوئے شرم نہیں آئے گی ؟ اُس کو اتنا غصہ آیا کہ اُس نے وہ بت وہیں پھینکا اور کہنے لگا کہ یہ لڑکا بڑا شرارتی ہے.اس نے تو مجھے ڈانواں ڈول کر دیا ہے.یہ کہہ کر وہ واپس چلا گیا.بھائیوں نے اپنے باپ کے پاس آکر جو ان کے چچا تھے شکایت کی اور اس نے انہیں خوب مارا کہ تُو میری دکان کو نقصان پہنچاتا ہے.اِس طرح تو دکان تباہ ہو جائے گی.مگر دیکھو وہ ابراہیم کتنی بر کتوں کا موجب ہوا کہ آج بھی ہم کہتے ہیں کہ اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ و عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ تو تم میں سے ہر بچہ ابراہیمی نمونہ کی نقل کر سکتا ہے.آخر وہ اُس وقت دس سال کے قریب کے ہی بچے ہوں گے.گویا ابراہیم کے دین کی بنیاد اور ابراہیمی برکتوں کی بنیاد نو دس سال کی عمر میں ہی پڑی.پس خدا تمہیں بھی ان باتوں کے سننے کے بعد ابراہیمی ایمان بخشے.اسی طرح حضرت علی کا واقعہ ہے.وہ بھی گیارہ سال کے تھے جب وہ دین کی تائید کے لئے کھڑے ہوئے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی ہوئی تو آپ نے ایک دعوت کی جس میں مکہ کے تمام بڑے بڑے امراء کو بلایا اور انہیں کھانا کھلایا پھر آپ

Page 212

انوار العلوم جلد 25 188 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں کچھ اپنے دعویٰ کی باتیں کرنا چاہتا ہوں.اس پر سارے اٹھ کر بھاگ گئے.یہ دیکھ کر حضرت علی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے اے بھائی! آپ نے یہ کیا کیا؟ آپ جانتے ہیں کہ یہ بڑے دنیا دار لوگ ہیں.ان کو پہلے سنانا تھا اور پھر کھانا کھلانا تھا یہ بے ایمان تو کھانا کھا کر بھاگ گئے کیونکہ یہ کھانے کے بھوکے ہیں.اگر آپ پہلے باتیں سناتے تو چاہے دو گھنٹہ سناتے وہ ضرور بیٹھے رہتے پھر ان کو کھانا کھلاتے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس طرح کیا پھر دوبارہ ان کو بلایا اور ان کی دعوت کی لیکن پہلے کچھ باتیں سنا لیں اور پھر کھانا کھلایا.اس کے بعد آپ کھڑے ہوئے اور آپ نے فرمایا اے لوگو! میں نے تمہیں خدا کی باتیں سنائی ہیں کیا کوئی تم میں سے ہے جو میری مدد کرے اور اس کام میں میرا ہاتھ بٹائے ؟ مکہ کے سارے بڑے بڑے آدمی بیٹھے رہے.صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے اے میرے چچا کے بیٹے ! میں ہوں.میں آپ کی مدد کروں گا.آپ نے سمجھا کہ یہ تو بچہ ہے چنانچہ پھر آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! کیا تم میں سے کوئی ہے جو میری مدد کرے؟ پھر سارے بڑھے بڑھے بیٹھے رہے اور وہ گیارہ سال کا بچہ کھڑا ہو گیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا کے بیٹے ! میں جو ہوں میں تیری مدد کروں گا.3 پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھا کہ خدا کے نزدیک جوان یہی گیارہ سالہ بچہ ہے باقی بڑھے سب بچے ہیں.چنانچہ آپ نے ان کو اپنے ساتھ ملا لیا اور پھر وہی علی آخر تک آپ کے ساتھ رہے اور پھر آپ کے بعد خلیفہ بھی ہوئے اور انہوں نے دین کی بنیاد ڈالی.اسی طرح آپ کی نسل کو بھی اللہ تعالیٰ نے نیک بنایا اور بارہ نسلوں تک برابر ان میں بارہ امام پید اہوئے.یہ بھی ابراہیمی ایمان تھا.ابراہیم کی نسل میں بھی ان کے ایک بیٹے سے بارہ امام بنے تھے.اسی طرح حضرت علی سے بھی بارہ امام پید اہوئے.مگر کتنا افسوس ہے کہ بعض مخلص لوگ فوت ہوتے ہیں تو ان کے بیٹے ہی خراب ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات پوتا خراب ہو جاتا ہے.مگر علی کے اندر کیسا ابراہیمی ایمان تھا اور ابراہیمؑ کے اندر کیسا

Page 213

انوار العلوم جلد 25 189 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء ایمان تھا کہ بارہ نسلوں تک برابر ان میں یہ ذمہ داری کا احساس چلتا چلا گیا کہ ہم نے دین کی خدمت کرنی ہے.اگر تمہارے بچے بھی یہ ارادہ کر لیں تو پھر کوئی فکر نہیں.بڑھوں نے تو آخر مرنا ہے.خدا تعالیٰ نے آدم کے زمانہ سے لے کر آج تک ہر ایک کے لئے موت مقرر کی ہوئی ہے مگر جب یہی بچے بڑھے بن جائیں گے تو پھر کوئی فکر نہیں ہو گی کہ دین کا کیا بنے گا.یہی نو دس سال کے بچے ایسے طاقتور پہاڑ بنیں گے کہ اگر دنیا ان سے ٹکرائے گی تو دنیا کا سر پاش پاش ہو جائے گا مگر یہ اپنے مقام سے نہیں ہٹیں گے اور احمدیت کو دنیا کے کناروں تک پہنچا کے رہیں گے.لیکن یہ سارے کام دعاؤں سے ہو سکتے ہیں.ہمارے اختیار میں تو خود اپنا دل بھی نہیں ہو تا.لیکن خدا کے اختیار میں ہمارا بھی دل ہے ، ہماری اولادوں کا بھی دل ہے اور اولادوں کی اولادوں کا بھی دل ہے.ہمیں تو دس بارہ نسلیں کہتے ہوئے بھی شرم آتی ہے کیونکہ نظر تو یہ آتا ہے کہ بارہ تک پہنچنا بھی ہمارے اختیار میں نہیں.اگر یہ دریا کی نہر ہمارے دہانے میں سے گزرے تو خبر نہیں بارہ نسلوں تک پہنچے گی بھی کہ نہیں.مگر خدا کی یہ طاقت ہے کہ وہ بارہ ہزار نسلوں تک پہنچا دے.اس لئے آؤ ہم خدا سے دعا کریں کہ وہ اس جلسہ کو بابرکت کرے اور اللہ تعالیٰ ہماری اولادوں کو ہزاروں پشتوں تک دین کا بوجھ اٹھانے کی توفیق دے اور ہمیشہ ان میں ایسے کامل انسان پیدا ہوں جو اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق رکھنے والے ہوں اور اس کے دین کی اشاعت کرنے والے ہوں تا کہ احمدیت اور اسلام کا پیغام دنیا میں پھیل جائے اور ہم خدا تعالیٰ کے سامنے سر خرو ہو جائیں.اپنی طاقت سے نہیں، اپنی قوت سے نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے کیونکہ یہ طاقت خدا میں ہے ہم میں نہیں.ہمارا دعویٰ کرنا باطل ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد میں سے کسی کو خدمت دین کی توفیق ملتی ہے تو ہماری وجہ سے نہیں ملتی خدا کی وجہ سے ملتی ہے.ہم میں اس کی توفیق نہیں ہے.اگر ہم میں توفیق ہوتی تو ہم اپنی ساری اولادوں کو کیوں نہ ٹھیک کر لیتے.اب میں دعا کروں گا مگر اس سے پہلے مختلف مقامات سے دوستوں کی جو تاریں دعا کے لئے آئی ہوں وہ اختر صاحب پڑھ کر سنا دیں گے.“

Page 214

انوار العلوم جلد 25 190 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء اس کے بعد مکرم اختر صاحب نے تاریں پڑھ کر سنائیں.تاروں کے سنائے جانے کے بعد حضور پھر کھڑے ہوئے اور فرمایا.اب میں دعا کروں گا.میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ خصوصیت سے قادیان کے لئے ، قادیان والوں کے لئے اور ہندوستان کی جماعتوں کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کا حافظ و ناصر ہو.آپ جانتے ہیں کہ چندہ دینے والے لوگ ادھر آگئے ہیں اور وہاں صرف کھانے والے رہ گئے ہیں.اُن لوگوں کو گزارہ کی بڑی دقتیں ہیں.اللہ تعالیٰ ان کے لئے اپنے فضل سے سامان پیدا کرے.جس کی یہی صورت ہے کہ وہاں خدا تعالیٰ ہماری جماعت کو بڑھا دے اور پھر ہمارے جو دوست قادیان میں ہیں ان کے حوصلے بڑھائے اور وہ تبلیغ کی طرف توجہ کریں.اسی طرح سے قادیان کے باہر ہندوستان میں جو جماعتیں ہیں وہ بھی بڑی مشکلات میں ہیں یعنی ان کو کاروباری دقتیں ہیں کیونکہ مسلمان کم ہو گئے ہیں اور مسلمانوں کا رسوخ بھی کم ہو گیا ہے.اسی طرح بعضوں کی تجارت کو نقصان پہنچا ہے اور بعضوں کے کار خانوں کو نقصان پہنچا ہے.پس دوست ان سب کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ سب کی مشکلات کو دور کرے اور سب کو اتنی برکتیں بخشے کہ وہ آپ بھی خوش رہیں اور قادیان والوں کی بھی امداد کر سکیں.ہندوستان میں چالیس کروڑ کی آبادی ہے.اگر اللہ تعالیٰ فضل کرے اور ہمیں ایک کروڑ بھی ان میں سے مل جائے تو قادیان کی آبادی کے لئے یہ بڑا کافی ہو جاتا ہے.مگر ہم تو اپنی کمزوری کی وجہ سے ایک کروڑ کہتے ہیں ورنہ اصل میں چالیس میں سے اکتالیس ملنے چاہئیں.چالیس تو وہ جو اب ہیں اور ایک وہ جو اُس وقت تک پیدا ہو جائے گا.سو اللہ تعالیٰ فضل کرے کہ اگر اب احمدیت اور اسلام کو ایک ملک میں پھیلا دے تو یہ جو سیاسی رو کیں ہیں یہ آپ ہی آپ دور ہو جاتی ہیں.اگر سارے دل اکٹھے ہو جائیں، سارا ہندوستان مسلمان ہو جائے تو پاکستان اور ہندوستان کا دل ایک ہو جائے گا.آج تو لوگ کہتے ہیں ہندوستان میں یہ تقریر پاکستان کے خلاف ہوئی اور ہندوستان والے کہتے ہیں کہ پاکستان میں یہ تقریر ہندوستان کے خلاف ہوئی لیکن اگر دونوں کے دلوں میں

Page 215

انوار العلوم جلد 25 191 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء ایمان پیدا ہو جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئیں تو ایک دوسرے کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.پس دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اس طرح دلوں کو آپس میں صاف کر دے کہ ایک دوسرے کے حق بھی مل جائیں اور پھر ایمان میں بھی متحد ہو جائیں اور سارے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہو جائیں اور سب ہی ہم کو پیارے ہو جائیں کیونکہ اصل حکومت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ہندوستان میں قائم ہو جائے تو پاکستان اور ہندوستان کے اختلاف آپ ہی ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں کوئی باڈر نہیں وہ ساری ایک ہے.ہم تو کسی زمانہ میں ایک وطنی تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ میرے مذہب میں کالے گورے کی کوئی تمیز نہیں.ایرانی اور رومی اور عرب میں کوئی تمیز نہیں.پس اگر خدا تعالیٰ ان سب کو مسلمان بنادے اور خدا تعالیٰ سے یہ کوئی بعید بات نہیں تو یہ سارے جھگڑے ختم ہو جاتے ہیں اور ہمارے دونوں ملک اتحاد اور اتفاق کے ساتھ بہت سی ترقیات حاصل کر سکتے ہیں جو اس اختلاف کے ذریعے حاصل نہیں کر سکتے.“ اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کروائی.دعا سے فارغ ہونے پر حضور نے پہلے تو یہ اعلان فرمایا کہ میں نماز مسجد مبارک میں پڑھوں گا اور اس کے بعد فرمایا: - اس دفعہ ملاقاتیں مختصر کی گئی ہیں امید ہے کہ دوست اس کی پروا نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں تو ملاقاتیں ہوا ہی نہیں کرتی تھیں.آپ سیر کو جاتے تھے دوست دیکھ لیتے تھے.اور اگر بعض کو موقع ملتا تو مصافحہ بھی کر لیتے تھے.تقریریں بھی مختصر ہوتی تھیں.حضرت خلیفہ اول کی تقریر تو پندرہ ہیں پچیس منٹ ہوتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آخری جلسہ کی تقریر مجھے یاد ہے کہ پچاس یا پچپن منٹ کی ہوئی تھی اور ہم بڑی باتیں کرتے تھے کہ آج بڑی لمبی تقریر ہوئی ہے اور جماعت میں بڑا شور پڑا کہ آج حضور نے بڑی لمبی تقریر کی ہے.آپ لوگوں کو چھ چھ گھنٹے سننے کی عادت پڑی ہوئی ہے اب ہمیں چھپیں یا تیس منٹ کی تقریر ہو

Page 216

انوار العلوم جلد 25 192 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء تو بڑے مایوس ہو جاتے ہیں کہ بہت چھوٹی تقریر ہوئی ہے.لیکن اصل تقریر تو وہی ہے جس کو آپ اپنے دل میں رکھ لیں.جو میرے منہ سے نکل کر ہوا میں اُڑ جائے وہ کوئی تقریر نہیں چاہے وہ آٹھ گھنٹے کی ہو یا نہیں گھنٹے کی ہو.اور جو آپ اپنے دل میں رکھ لیں وہ پانچ منٹ کی بھی بڑی ہے.سو دعائیں کرتے رہو ، جلسہ کے ایام میں ذکر الہی کرو اور یہ.بھی دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ جو مجھے بولنے کی توفیق دے وہ صحت کے ساتھ دے.میں نے خدام کے جلسہ میں کہا تھا کہ اب تو مجھے کوئی "زندہ باد" کہتا ہے تو میرا دل گھٹنے لگ جاتا ہے.میں کہتا ہوں کہ بیماری میں "زندہ باد" کا کیا فائدہ ہے.دوست یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ صحت دے اور صحت کے ساتھ اپنی خوشنودی کے مطابق کام کرنے کی توفیق دے.اور صحت کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کی خوشنودی کے ساتھ کام کرنے کی توفیق ملے تو تھوڑے سال بھی بڑے کافی ہوتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں صرف آٹھ سال ملے.مگر آٹھ سال میں آپ نے سارا عرب فتح کر لیا.ہمارا کام بے شک اس لحاظ سے مشکل ہے کہ ہم نے دل فتح کرنے ہیں اور دلوں کو فتح کرنے میں ذرا دیر لگتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی دل فتح کرنے میں دیر لگی تھی.چنانچہ دیکھ لو جو مکہ والے مسلمان ہوئے وہ تیرہ سالہ تبلیغ کے بعد ہوئے تھے اور وہ بھی تھوڑے سے تھے.لیکن فتح مکہ کے بعد لوگ بڑی کثرت سے اسلام میں داخل ہو گئے مگر وہ دس یا پندرہ یا پندرہ ہزار جتنے بھی داخل ہوئے اُن ساروں کا ایمان اتنی بھی قیمت نہیں رکھتا تھا جتنا ابو بکر کے ایمان کا ہزارواں حصہ رکھتا تھا.سو ہمارا کام مشکل ہے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں کو کھول دے.اس وقت یورپ اور امریکہ کے دل اسلام کی طرف مائل ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ یورپ اور امریکہ کے لوگوں کے دل جلد سے جلد اسلام کی طرف مائل کرے اور ہم اپنی آنکھوں سے یہ دیکھ لیں کہ وہ ملک جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تردید میں لگے ہوئے ہیں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج رہے ہیں.یہ اگر ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہمارے ہاتھوں سے ہو جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہماری.

Page 217

انوار العلوم جلد 25 193 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء زندگیوں میں ہو جائے تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری زندگیاں بڑی خوش ہو جاتی ہیں، پھر دنیا کی کوئی تکلیف باقی نہیں رہتی.کیونکہ پھر ہمیں نظر آجائے گا خدا ہم سے خوش ہو گیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فعل سے بتا دیا ہے کہ وہ غَفُورُ الرَّحِیم ہمیں معاف بھی کر رہا ہے اور اپنی رحمت کے سامان بھی کر رہا ہے.پس ان دعاؤں میں لگے رہو.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.“ دو تقریر کے آخر میں حضور نے اعلان فرمایا کہ :- چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اپنی لڑکی کے نکاح کی تقریب پر کچھ دوستوں کو چائے کے لئے بلایا ہے.میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ میرا یہ فتویٰ جماعت میں مشہور ہے کہ رخصتانہ کے موقع پر لڑکی والوں کی طرف سے لوگوں کو کھانے کی دعوت نہ دی جایا کرے پس اس لئے کہ لوگوں کو یہ شبہ پیدا نہ ہو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ جو فتویٰ ہے وہ بارات کے آنے کے متعلق ہے اور آج بارات وغیرہ کا کوئی سوال نہیں.آج تو صرف نکاح ہوا ہے بارات نہیں آئی.دوسرے چودھری صاحب خود باہر رہتے ہیں اور وہ اس وقت باہر سے ہی آئے ہیں.وہ فتویٰ مقامی لوگوں کے متعلق ہے.پس کوئی یہ نہ سمجھے کہ چودھری صاحب نے اس حکم کی خلاف ورزی کی ہے.یہ خلاف ورزی نہیں بلکہ یہ صورت بالکل اور ہے.اوّل تو یہ نکاح ہے.دوسرے چونکہ وہ باہر سے آئے ہیں جو دوست ان کے ملنے والے اور ان سے تعلق رکھنے والے ہیں اُن کے متعلق بہر حال دل میں خواہش ہوتی ہے کہ انہیں ایسی تقریب میں خاص طور پر شامل کیا جائے اس لئے ان کا یہ فعل اس فتویٰ کے خلاف نہیں بلکہ یہ استثنائی صورت رکھتا ہے اور اس پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا.جو فتویٰ ہے وہ یہ ہے کہ بارات آئے تو اُس کی دعوت کر کے کھانا کھلانا ایک رسم ہے مگر یہ شادی نہیں نکاح ہے.ہمارے ملک میں تو یہ قاعدہ ہے کہ عام طور پر ایسی تقریبوں میں اُسی وقت نکاح اور اُسی وقت رخصتانہ کرتے ہیں.لیکن ہمارے ہاں احمدیوں میں یہ دستور ہے کہ نکاح الگ ہو جاتا ہے اس لئے یہ چیز ہی الگ ہے جو رسم کے نیچے نہیں آتی.کیونکہ جو لوگ رسمیں بناتے ہیں اُن کا یہ قاعدہ ہی نہیں کہ وہ نکاح

Page 218

انوار العلوم جلد 25 194 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1955ء الگ پڑھائیں.وہ نکاح اور شادی اکٹھی کرتے ہیں اور پھر شادی کے ساتھ ہی باراتیوں کو کھانا کھلانے کا ایک بڑا خرچ انہوں نے نکالا ہوا ہے جس سے ہم نے اپنی جماعت کو منع کیا ہوا ہے.پس چودھری صاحب کا جو فعل ہے یہ اس اعتراض کے نیچے نہیں آتا اور نہ اس رسم سے جو خرابی پیدا ہوتی ہے اس کے نیچے آتا ہے.“ روزنامه الفضل ربوہ 10 فروری 1956ء) 1 تذکرۃ الشہاد تین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67 مفہوماً 2 وَالَّذِينَ جَاءُوا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالإِيمَانِ (الحشر :11) 1 تفسیر طبری سورۃ الشعراء زیر آیت ” وَ انْذِرُ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ "

Page 219

انوار العلوم جلد 25 195 متفرق امور (27دسمبر 1955ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 220

Page 221

انوار العلوم جلد 25 197 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ متفرق امور (فرمودہ 27 دسمبر 1955ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آج صبح تو میری طبیعت بہت زیادہ خراب ہو گئی تھی اور مجھے یہ و ہم پیدا ہونے لگا تھا کہ آیا میں دوستوں کے سامنے چند منٹ بھی بول سکوں گا یا نہیں لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد میں افاقہ ہو نا شروع ہوا.گو اب بھی ڈاکٹروں کا اور جو دوست مرض میں میرے ساتھ رہے ہیں اُن کا زور اس بات پر ہے کہ میں چند منٹ سے زیادہ تقریر نہ کروں.گو ڈاکٹروں کی رائے کا یہ اختلاف میری سمجھ میں نہیں آتا.لندن میں ڈاکٹر نے مجھے یہ پیغام بھیجا تھا کہ جتنی چاہو لمبی تقریر کرو کچھ پروا نہیں.صرف اپنی تھکان کو دیکھا کرو.اگر تھکان محسوس ہو تو چھوڑ دوور نہ ڈاکٹری لحاظ سے کوئی روک نہیں ہے.کراچی میں بھی میں نے ایک گھنٹہ سے زیادہ کی تقریر کی اور ایک دفعہ زیورک میں بھی ایک گھنٹہ سے زیادہ کی تقریر کی اور اس کی ایک خصوصیت بھی تھی.اُس وقت طبیعت پر ایک بوجھ بھی تھا کیونکہ ان لوگوں نے اصرار کیا کہ آپ انگریزی میں تقریر کریں اور انگریزی میں تقریر کرنے کا میں عادی نہیں.انہوں نے کہا کہ ہم نے ترجمان مقرر کئے ہوئے ہیں جو فوراً مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ کر کے اس کو ساری بلڈنگ میں پھیلا دیں گے اور ہر زبان والا آدمی ہیڈ فون لگا کے وہ تقریر سن لے گا.اور ایک ایسی زبان میں تقریر کرنا جس کی عادت نہ ہو اور بھی بوجھ ہوتا ہے مگر پھر بھی کوئی ایک گھنٹہ سولہ منٹ تک وہ تقریر اور سوال وجواب جاری رہا.لیکن یہاں آکر میں سمجھتا ہوں کہ میری طبیعت پر وہی

Page 222

انوار العلوم جلد 25 198 متفرق امور اثر ہے جس کے متعلق ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ آپ کی بیماری زیادہ تر اعصابی رہ گئی ہے.چنانچہ یہی مجلس ہوا کرتی تھی اور اس جگہ پر بڑے بڑے مجمع کے سامنے بغیر تھکان کے میں چھ چھ سات سات گھنٹے تقریر کر جاتا تھا.اب وہ بات یاد آتی ہے تو طبیعت پر اثر ہوتا ہے کہ اب مجھے کہا جاتا ہے کہ چند منٹ سے زیادہ تقریر نہ کرنا.اس وجہ سے طبیعت میں قدر تا گھبر اہٹ پیدا ہوتی ہے ورنہ پر سوں شام کو اور کل صبح ایسے وقت بھی آئے جب طبیعت میں بالکل ایسا اطمینان پیدا تھا کہ جیسے مجھے کوئی بیماری ہے ہی نہیں.مگر بعد میں تھکان کی وجہ سے یا پھر اس مجمع میں آنے کی گھبراہٹ کی وجہ سے طبیعت شام سے خراب ہو گئی.صبح پھر کچھ دیر خراب رہنے کے بعد اچھی ہونی شروع ہوئی.بہر حال میں کوشش کروں گا کہ دوستوں تک اپنے خیالات کو پہنچا سکوں.کل بھی میں نے کہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں لمبی تقریریں نہیں ہوا کرتی تھیں.لوگ عمل زیادہ کرتے تھے اور باتیں سننے کے کم عادی تھے.حضرت خلیفہ اول کی تقریر عام طور پر پندرہ بیس منٹ ہوتی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آخری تقریر جو 1907ء میں ہوئی وہ 45 یا 50 منٹ کے قریب ہوئی تھی اور بڑا شور پڑ گیا تھا کہ آج تو بڑی لمبی تقریر تھی.آجکل زبان کا چسکا پڑ گیا ہے اب آپ لوگ زبان کے چسکا کو چھوڑ دیں اور عمل کی طرف توجہ کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کی برکت سے آپ جلدی جلدی اس کام کو طے کر لیں جو کہ آپ کے ذمہ لگایا گیا ہے.بڑی مشکل یہ ہے کہ سب سے زیادہ اثر اس بیماری کا میری آنکھوں پر پڑا ہے.شروع میں تو اس کا پتہ بھی نہیں لگا لیکن آہستہ آہستہ پتہ لگا اب میں پڑھ نہیں سکتا.یہ مطلب نہیں کہ حرف نظر نہیں آتے.حرف تو نظر آتے ہیں بلکہ اب بھی اگر پڑھنے والی عینک لگالوں تو مجھے تکلیف ہوتی ہے.بغیر عینک کے مجھے زیادہ آرام رہتا ہے لیکن طبیعت میں پریشانی شروع ہو جاتی ہے.لائل پور میں ایک بڑے لائق ڈاکٹر ہیں.میں نے اُن کو یہاں بلوایا اور میں نے کہا کہ دیکھئے میں نے قرآن شریف کا ایک سیپارہ ہی پڑھا تھا کہ میری طبیعت گھبراگئی.اُس بیچارے کو تو قرآن شریف پڑھنے کی عادت نہیں تھی.کہنے لگا ایک سیپارہ

Page 223

انوار العلوم جلد 25 199 متفرق امور بھی تو بڑی چیز ہے.میں نے کہا آپ میر ا حال تو نہیں جانتے.میں نے تو تندرستی میں بعض دفعہ رمضان شریف میں پندرہ پندرہ سولہ سولہ سیپارے ایک سانس پڑھے ہیں.پس میری تو ایک سیپارہ پر گھبراہٹ سے جان نکلتی ہے کہ مجھے ہو کیا گیا ہے کہ یا تو پندرہ سولہ سیپارے پڑھنے اور ساتھ ہی زبان سے بھی پڑھتے جانا اور آنکھوں سے بھی دیکھتے جانا اور کجا یہ کہ ایک سیپارے کے ساتھ ہی گھبر اہٹ شروع ہو جاتی ہے.وہ بیچارہ اس پر کہنے لگا کہ یہ تو بہت بڑا کام ہے.غرض لکھے ہوئے نوٹ پڑھنے مجھے مشکل نظر آتے ہیں یوں تو میں انشاء اللہ تعالیٰ پڑھ لوں گا لیکن یہ ڈر آتا ہے کہ نظر پر بوجھ پڑنے کی وجہ سے گھبر اہٹ نہ شروع ہو جائے.پہلا مضمون تو میں جماعت کے سامنے یہ لیتا ہوں کہ خدمتِ خلق مومن کا ایک خاصہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ اسلام کا خلاصہ ہے تعلق باللہ اور شفقت علی خلق اللہ.یعنی انسان خدا سے محبت کرے اور اس کے بندوں کے ساتھ مہربانی کا سلوک کرے.پچھلے سیلابوں کے وقت میں پاکستان کے خدام نے نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ہے.اسی طرح قادیان کے خدام نے بھی اچھا نمونہ دکھایا ہے اور اس کا لوگوں کی طبیعتوں پر بڑا اثر ہوا ہے.یاد رکھو کہ اس وقت تک یورپ کے لوگ مسلمانوں کو یہی طعنہ دیتے چلے آئے ہیں کہ یہ منہ سے تو بڑی اچھی تعلیمیں بیان کرتے ہیں لیکن عملاً ان لوگوں کا یہ حال ہے کہ یہ کبھی بھی بنی نوع انسان کے لئے کوئی قربانی نہیں کرتے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی تعلیم محض زبانی ہے عملی نہیں.وہ تو حکومت کے متعلق کہتے ہیں کہ کہنے کو تو حکومت کے متعلق بہت اچھے قانون ہیں مگر کون سی اسلامی حکومت ہے جس نے اسلام پر عمل کیا ہے.مگر وہ تو ہمارے بس کی بات نہیں نہ ہمارے پاس حکومت ہے اور نہ ہم وہ نمونہ دکھا سکتے ہیں.اگر کسی ملک میں اللہ تعالیٰ نے حکومت دی اور وہاں کے احمدیوں کے اندر اخلاص قائم رہا اور انہوں نے نمونہ دکھایا تو پھر ان کا منہ بند ہو گا.مگر کم سے کم جو ہمارے اندر خدمت خلق کی طاقت ہے اُس کا تو ہم نمونہ دکھائیں.

Page 224

انوار العلوم جلد 25 200 متفرق امور پس ہمیں ہر موقع پر خدمتِ خلق کو پیش کرنا چاہئے.مگر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ انتظار کرنا کہ کوئی طوفان آئیں تو پھر خدمتِ خلق کریں یہ بُری بات ہے.یہ دعا کرنی چاہئے کہ خدا طوفان نہ لائے.خدمت کے ہر وقت مواقع ہوتے ہیں.مثلاً بیوائیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں، یتامی ہوتے ہی رہتے ہیں.ان کے لئے بیماریوں میں نسخے لا دینا، دوائیاں لا دینی، گھر کا سامان خرید کے لا دینا یہ چیز ہر وقت ہو سکتی ہے.پس خدام الاحمدیہ کو طوفانوں کا انتظار نہیں کرنا چاہئے بلکہ دوسرے دنوں کے لئے بھی کام نکالنے چاہئیں جن میں خدمتِ خلق ہو سکے اور لوگوں کی تکلیف کو وہ دور کر سکیں.پس اس کو ہمیشہ یادرکھو جیسا کہ میں نے بتایا ہے آج تک یورپ اور امریکہ اس خدمتِ خلق کی روح کو اسلام کے خلاف اپنی عظمت میں پیش کرتے ہیں.کہتے ہیں عیسائی بڑی خدمت کرتے ہیں مسلمان نہیں کرتے.اور شرم کی بات ہے کہ ہم ان کا جواب نہیں دے سکتے.اگر ہماری جماعت کے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ خدمت خلق کا اعلیٰ درجہ کا نمونہ پیش کریں تو ہم یورپ اور امریکہ کے منہ بند کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ جو تم خدمت کرتے ہو اُس سے بڑھ کر خدمت کرنے والے ہم ہیں.یہ مت خیال کرو کہ لوگ قدر نہیں کرتے.قدر کرنے والے لوگ بھی موجود ہوتے ہیں.مثلاً ڈاکٹر خان صاحب جو ہمارے وزیر اعلیٰ ہیں.وہ سیالکوٹ گئے تو خدام نے ان کی طرف ایک رقعہ لکھا کہ ہم اس طرح کام کر رہے ہیں.انہوں نے جیسا کہ افسروں کا قاعدہ ہوتا ہے وہ رقعہ ڈپٹی کمشنر کو دے دیا.ڈپٹی کمشنر نے کہا ہاں واقع میں یہ بہت خدمت کر رہے ہیں.اس پر ڈاکٹر خان صاحب نے کہا کہ افسوس ہے کہ یہ لوگ خدمت خلق کرتے ہیں لیکن لوگ اِن کو آگے نہیں آنے دیتے.تو دیکھو وزیر اعلیٰ کو تسلیم کرنا پڑا کہ تم خدمت خلق کر رہے ہو.ہمارے پاکستان میں تو مولویوں کے ڈر سے افسر بڑے ڈرتے ہیں اور وہ ہماری تعریف نہیں کر سکتے.ڈرتے ہیں کہ مولوی پیچھے پڑ جائیں گے.لیکن ہندوستان میں یہ بات نہیں وہاں ہندو سمجھتا ہے کہ میری حکومت ہے مجھے مولویوں کا کیا ڈر ہے.یہاں ہم نے سیلاب کے موقع پر پچاس ساٹھ ہزار سے

Page 225

انوار العلوم جلد 25 201 متفرق امور زیادہ روپیہ خرچ کیا اور سینکڑوں آدمی دو مہینے کام پر لگے رہے مگر صرف ڈاکٹر خان صاحب کو توفیق ملی کہ انہوں نے پبلک میں ( پبلک سے مراد تقریر نہیں بلکہ یہ کہ وہاں لوگ موجود تھے ) یہ کہا کہ یہ جماعت خدمتِ خلق کرنا چاہتی ہے پر معلوم نہیں لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ ان کو آگے نہیں آنے دیتے.لیکن وہاں قادیان میں ہمارے گل تین سو آدمی ہیں.یہاں ایک ضلع میں ہمارا آٹھ آٹھ سو آدمی گیا ہے مگر وہاں ہے ہی ساری آبادی تین سو.تین سو میں سے پچاس ساٹھ آدمی طوفان کے موقع پر باہر گئے تھے لیکن دو وزراء نے تحریر آشکریہ کے خطوط بھیجوائے کہ آپ لوگوں نے بڑی خدمت کی ہے.اسی طرح انسپکٹر جنرل پولیس نے شکریہ ادا کیا اور بعض اخبارات نے اس پر نوٹ لکھے.اخبارات نے تو یہاں بھی شرافت سے کام لیا اور وہ جماعت کی خدمت کو پیش کرتے رہے گوڈرتے بھی رہے.وہ ساتھ ساتھ دوسری جماعتوں کا نام بھی لکھ دیتے تھے جن کے بعض دفعہ کچھ بھی آدمی نہیں ہوتے تھے.پس خدمت کی اس روح کو قیامت تک جاری رکھو.یاد رکھو کہ زندگی کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ سے محبت کی جائے اور بنی نوع انسان کے ساتھ نیک سلوک کیا جائے.اگر اس روح کو قائم رکھو گے تو تمہاری کامیابی اور تمہاری ترقی میں کوئی شبہ نہیں.لوگ تو عمل کو دیکھتے ہیں.بے شک نماز بھی بڑی قیمتی چیز ہے، روزہ بھی بڑی قیمتی چیز ہے لیکن تمہاری نماز تمہارے گھر میں دیکھنے کے لئے کون آتا ہے.مسجد میں بھی نماز پڑھو گے تو تمہارے ساتھی اور ہمسائے ہی دیکھیں گے دوسری قوموں کے لوگ تو تمہیں دیکھنے کے لئے مسجد میں نہیں آنے کے.ان کو تبھی پتہ لگے گا جب تم بیواؤں اور مسکینوں کی خدمت کرو گے ، بیماروں کی تیمارداری کروگے اور طوفانوں اور مصیبتوں کے وقت میں باہر نکل کر کام کرو گے پھر ان کو پتہ لگے گا کہ یہ لوگ کام کر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے نماز اور دعائیں بھی بڑی اہم چیز ہیں اور مومن کی تو جان ہیں ان پر بھی زور دیتے رہو اور کبھی ان سے غفلت نہ کرو.یاد رکھو کہ علاوہ اس

Page 226

انوار العلوم جلد 25 202 متفرق امور کے کہ نماز اور دعا سے خدا سے تعلق بڑھتا ہے یہ مومن کی حفاظت کا بھی موجب ہوتا ہے.جب کبھی کوئی نئی جماعت شروع ہوتی ہے تو لوگ اس کی مخالفت کرتے ہیں.اس وقت اس بات کی بڑی ضرورت ہوتی ہے کہ خدا ہر وقت اُس کے ساتھ رہے اور ہر وقت اُس کی مدد کرے.اس کے بعد میں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ ایک بڑی بھاری ذمہ داری ہماری جماعت پر ہے جس سے ہم بڑی غفلت کر رہے ہیں.اور وہ ذمہ داری حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہم پر یہ لگائی تھی کہ ریویو آف ریلیجنز کی دس ہزار اشاعت کی جائے لیکن اب تک وہ ایک ہزار چھپتا ہے.اور ایک ہزار پرچہ کی بھی آدھی قیمت تحریک دیتی ہے اور آدھی صدر انجمن احمدیہ دیتی ہے.یہ بڑے افسوس کی بات ہے اب ہماری لاکھوں کی جماعت ہے اور لاکھوں کی جماعت میں دس ہزار ریویو آف ریجنز چھپنا کون سی بڑی بات ہے.دس روپیہ اس کی قیمت ہے.اگر آہستہ آہستہ با قاعدہ کوشش رہے تو خریداری بڑھ سکتی ہے.مگر ہوتا یہ ہے کہ ایک دفعہ میں نے تحریک کی اور پھر خاموشی ہو گئی.اگر یہ تحریک جاری رہے تو ایک دو سال میں دس ہزار خریدار ہو جانا کوئی بڑی بات نہیں.بہر حال میں پھر اپنی ذمہ داری کو ادا کرتا ہوں اور یہ اعلان کرتا ہوں کہ انشاء اللہ پچاس سے سو پرچہ تک مفت جاری کرنے کے لئے میں بھی رقم دینے کی کوشش کروں گا.یورپ اور امریکہ میں تبلیغ کا ذریعہ اب ہمارے پاس صرف انگریزی لٹریچر ہی ہے.باہر سے جو خبریں آرہی ہیں باوجود اس کے کہ ابھی تک ہم اُس کو پورا منظم نہیں کر سکے وہ بڑی خوش کن ہیں.یورپ میں تو ایک ایک ماہوار علمی رسالہ پر چھ چھ سات سات ایڈیٹر ہوتے ہیں.ہم صرف ایک ایڈیٹر مقرر کرتے ہیں اور اُسی کو کہتے ہیں کہ پروف بھی تو ہی پڑھ اور مضمون بھی مہیا کر اور لکھ بھی.غرض سارا کام تو کر.پھر وہ بیچارہ جو کچھ لکھے گا وہ آخر اس کی حیثیت کے مطابق ہو گا.پرانے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ریویو میں مضمون دیتے ہیں اور ان مضامین کے ترجمے ہو جاتے تھے.اب وہ بات تو نہیں ہے مگر باہر سے جو رپورٹیں آئیں ہیں اُن سے

Page 227

انوار العلوم جلد 25 203 متفرق امور معلوم ہوتا ہے کہ اِس حالت میں بھی یہ بڑا اچھا کام کر رہا ہے.مثلاً انڈونیشیا کے ایک مبلغ نے لکھا ہے کہ وہ وہاں کی مذہبی اور پولیٹیکل پارٹیوں کے ایک بہت بڑے لیڈر سے ملنے کے لئے گیا ( میں اُس کا نام نہیں لیتا کہ اِس طرح شور پڑ جائے گا اور شاید بعض غیر احمدی اس کو تاریں دینے لگ جائیں کہ تم یہ کیا غضب کرتے ہو کہ ریویو پڑھتے ہو) تو اس کے سیکرٹری نے بتایا کہ وہ باقاعدہ ریویو کی جلدیں بند ھوا کے اپنی لائبریری میں رکھتا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ جولائی سے اس کو پرچہ نہیں ملا اس کا اس کو بڑا افسوس ہے.وہ تو میں نے ہدایت دے دی ہے کہ پرچے با قاعدہ جایا کریں لیکن تم اتنا تو کرو کہ ایک ہزار پرچہ انجمن اور تحریک چھپواتی ہے اور ایک ہزار پر دس ہزار روپیہ خرچ آتا ہے تم دو ہزار سے ہی ابتدا کر دو اور پھر اگلے سال اس کو چار پانچ ہزار بنانے کی کوشش کرو.اس طرح سارا سال لگے رہو تو انشاء اللہ آہستہ آہستہ دس ہزار تک پہنچ جائے گا.اسی طرح ایک اور پاکستانی علاقہ سے اطلاع آئی ہے کہ یہاں کے جو بڑے بڑے علماء اور امراء ہیں ان کی لائبریریوں میں ہم گئے تو انہوں نے ریویو ر کھے ہوئے تھے اور انہوں نے کہا کہ ہم اسے با قاعدہ پڑھتے ہیں.لیکن افسوس کہ انہوں نے بھی یہ شکایت کی ہمیں کچھ مہینے سے یہ رسالہ نہیں مل رہا.اب میں نے پھر تاکید کر دی ہے کہ کسی معقول طریق پر کام کرو.یہ نہیں کہ ایک غیر احمدی کو رسالہ بھیجتے رہے اور ایک دن آکر اس کو کہہ دیا کہ قیمت بھیج ، نہ بھیجے تو بند کر دیا.بلکہ اپنے دوستوں میں اس کی خریداری بڑھانے کی کوشش کرو.کوئی نہ کوئی خدا کا بندہ ایسا نکل آئے گا جو قیمت دے دے گا.یورپ میں بھی کئی لوگوں نے مجھے بتایا کہ ہم با قاعدہ ریویو کو پڑھنے والے ہیں.ایک اور بات کی طرف بھی میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.اور وہ یہ ہے کہ قرآن شریف کے انگریزی ترجمہ اور تفسیر کی بڑی جلد ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے.انگریزی کی مثل ہے کہ مصیبت اکیلی نہیں آتی.گو ہمارے ہاں بڑی اچھی مثل بھی ہے.ہمارے ہاں یہ مثل ہے کہ "جب خدا دیتا ہے تو چھپر پھاڑ کے دیتا ہے" خدا کرے ہماری مثل ہی ہم پر صادق آئے.وہ انگریزی مثل ہم پر صادق نہ آئے.اُدھر

Page 228

انوار العلوم جلد 25 204 متفرق امور در د صاحب فوت ہوئے، صوفی مطیع الرحمن صاحب فوت ہوئے جو ریویو کے ایڈیٹر تھے اور ادھر اطلاع ملی ہے کہ ملک غلام فرید صاحب جو قرآنِ شریف کے نوٹوں کا ترجمہ کر رہے ہیں اُن کی صحت سخت خراب ہے اور ڈاکٹروں نے کہا ہے کہ آپ کے دل پر بڑا سخت حملہ ہوا ہے.غرض قرآن شریف کی انگریزی تفسیر کی بڑی ضرورت ہے.یورپ میں میں جہاں بھی گیا سب جگہ پر لوگوں نے اس کے متعلق سوال کیا اور کہا کہ جلدی بھیجو.غیر ملکوں سے بھی مطالبہ آیا ہے کہ اس کو مکمل کرو.اس نام کے لینے میں کوئی حرج نہیں کیونکہ جس شخص کا میں نام لوں گا وہ مولویوں سے ڈرنے والا نہیں وہ نیشنلسٹ ہے.میری مراد پریذیڈنٹ سکارنو (SUKARNO) سے ہے جو انڈونیشیا کے پریذیڈنٹ ہیں.ہماری جماعت کے مبلغ کو انہوں نے بلا کر کہا کہ اپنے امام کو لکھو کہ انگریزی ترجمہ قرآن کے ساتھ انڈیکس ہونا ضروری ہے ورنہ اس میں سے مضمون نکالنے کی کون محنت کرتا ہے.پہلے انڈیکس ہو تا تھا مگر اب نہیں.مجھے پہلے تو یہ پڑھ کر بڑی گھبر اہٹ ہوئی کہ کہاں انڈیکس تھا.مگر پھر پتہ لگا کہ وہ انڈیکس مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے تھا.وہ کہیں انہوں نے دیکھا تھا.انہوں نے سمجھا کہ شاید ہمارے ہی قرآن شریف میں پہلے انڈیکس ہو تا تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ اب بھی انڈیکس لگوائیں.انڈیکس کی کوشش تو ہم کر رہے ہیں مگر بہر حال قرآن شریف کی اب تیسری جلد کی بڑی ضرورت ہے.چوتھی جلد سے یہ انشاء اللہ مکمل ہو جائے گا.اِس بیماری کے باوجود میرے دل میں اس کے متعلق گھبر اہٹ ہوتی ہے اور میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ اسی گھبراہٹ کا نتیجہ ہے کہ دسمبر میں ادھر جلسہ قریب آرہا تھا اور اُدھر میں نے تفسیر لکھوائی شروع کر دی.اور بعض دفعہ گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے تفسیر لکھاتا چلا گیا.ممکن ہے اس کا بھی میرے دماغ پر اثر پڑا ہو.بس اسی گھبراہٹ میں کہ خبر نہیں زندگی کتنی ہے کسی طرح تفسیر مکمل ہو جائے میں نے کام شروع کر دیا.پس ملک صاحب کے لئے ی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کو شفا دے.میرے لئے بھی دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ مجھے نوٹ مکمل کرنے کی توفیق دے اور ان کو اس کا ترجمہ مکمل کرنے کی توفیق دے تا کہ یہ بڑی

Page 229

انوار العلوم جلد 25 205 بھاری ذمہ داری ہم سے ادا ہو جائے.پھر میں جماعت کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ بہت بڑے کام ہمارے ذمہ ہیں.اس وقت یورپ میں ہماری طرف سے پانچ مشن ہیں، انگلینڈ میں مشن ہے ، سپین میں مشن ہے جس کو ہم کوئی خرچ نہیں دیتے.جرمنی میں مشن ہے، سوئٹزر لینڈ میں مشن ہے ، ہالینڈ میں مشن ہے.اب ہم سکنڈے نیویا میں مشن کھول رہے ہیں جس کے لئے مختلف جماعتوں سے چندے مانگے گئے ہیں.دوستوں کی طرف سے وعدے تو آگئے ہیں لیکن نقدر قم بہت کم وصول ہوئی ہے حالانکہ میں نے کہا تھا کہ وہ وعدہ نہ کرو جو فوراً پورا نہ کر سکو.چنانچہ وعدے تو چھپیں ستائیس ہزار کے ہیں لیکن نقد ر تم اس وقت تک صرف سات ہزار وصول ہوئی ہے اور یہ بڑے افسوس کی بات ہے.میں نے کہا تھا کہ جو وعدہ کرے وہ اُتنا ہی کرے جو فوراً دے سکے.اور ابھی تو اور بہت سے ملک ہیں جن میں ہم نے اپنے مشن قائم کرنے ہیں.مثلاً پیجیئم ہے ، فن لینڈ ہے ، سویڈن ہے اس میں ہم ایک مشن تو سکنڈے نیویا کے نام سے قائم کر رہے ہیں مگر بہر حال یہ اتنا بڑا ملک ہے کہ اس میں تین مشن ہونے چاہئیں.اسی طرح ڈنمارک ہے ، پھر اٹلی ہے جو بڑا اہم ملک ہے کیونکہ عیسائیت نے وہیں ترقی کی ہے اور وہ عیسائیت کا گہوارہ ہے.غرض یہ ممالک ابھی پڑے ہوئے ہیں جن میں ہم نے مشن کھولنے ہیں.اور ایک ایک مشن کم سے کم دو چار ہزار روپیہ ماہوار کا خرچ چاہتا ہے.پھر مساجد ہیں.ہالینڈ کی مسجد تو عورتوں کی ہمت سے بن گئی مگر ابھی ان کی ہمت نامکمل ہے کیونکہ ابھی بہت سی رقم اس کی دینی ہے.اس لئے میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنا باقی چندہ دیں.کوئی تیس چونیتیس ہزار روپیہ وہ اور دے دیں تو انشاء اللہ ہالینڈ کی مسجد مکمل ہو جائے گی.مگر ابھی تو اور بھی کئی مسجدیں بنی ہیں.مثلاً ہیمبرگ میں گورنمنٹ نے مسجد کے لئے ہمارے پاس زمین بیچی ہے.وہاں بھی انشاء اللہ جلد مسجد بنانے کا ارادہ ہے.جس پر ستر ہزار روپیہ کے خرچ کا اندازہ ہے.زیورک میں بھی میں آتی دفعہ کہہ آیا تھا کہ وہاں زمین خرید لو وہاں بھی مسجد بنائیں گے.پھر فرانس بھی

Page 230

انوار العلوم جلد 25 206 متفرق امور ہے.اسی طرح واشنگٹن میں دیر سے زمین خریدی ہوئی ہے وہاں بھی مسجد بنانی ہے.وہاں تو کوئی دولاکھ کے قریب رقم لگے گی.بہر حال یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے لئے جماعت کو اپنی آمد نہیں بڑھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے.اور اپنے چندے بڑھانے کی بھی کوشش کرنی چاہیے.میرا اندازہ یہ ہے کہ اب ہماری صدر انجمن احمدیہ کا چندہ اور تحریک جدید کا چندہ پچیس پچیس لاکھ تک پہنچ جانا چاہئے.اگر پچیس پچیس لاکھ تک یہ چندے پہنچ جائیں تو امید ہے کہ ادھر ہم مرکزی اداروں کو مضبوط کر سکیں گے اور ریویو کی اشاعت بھی بڑھا سکیں گے اور دوسرے یورپین ممالک میں جہاں جہاں ضرورت ہے وہاں تحریک جدید نئے مشن بھی قائم کر سکے گی.میرے نزدیک سب سے بڑی ذمہ داری زمینداروں پر عائد ہوتی ہے کیونکہ زمیندار ہی ہماری جماعت میں سب سے زیادہ ہیں.اسی فیصدی بلکہ اس سے بھی زیادہ ہماری جماعت میں زمیندار ہے لیکن اللہ تعالیٰ ہمارے ملک پر رحم کرے اور ہماری جماعت پر رحم کرے کہ نہایت نکما اور ست ہے.میں چونکہ خود بھی زمیندار ہوں میں یورپ میں ہر جگہ پوچھتا پھرتا تھا کہ یہاں زمیندار کی کیا آمد ہے؟ مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکڑ چودہ سو روپیہ پیدا کیا جاتا ہے اور ہالینڈ والوں نے بتایا کہ ہمارے ہاں تو تین ہزار گلڈرز یعنے تین ہزار روپیہ فی ایکڑ پیدا کیا جاتا ہے.ہمارے بعض وزراء جاپان گئے تھے تو انہوں نے آکر بیان کیا کہ وہاں چھ ہزار روپیہ فی ایکڑ پیدا کیا جاتا ہے اور ہمارے ملک میں چھ یا سات سو روپے فی ایکڑ پیدا کیا جاتا ہے.گویا جاپان سے ہزارواں حصہ کم ، اٹلی سے دو سواں حصہ کم اور ہالینڈ سے پانچ سواں حصہ کم آمد پیدا کی جاتی ہے.ہمارے زمیندار نہ تو وقت پر ہل چلاتے ہیں، نہ اچھا بیچ لیتے ہیں.وہ کہتے ہیں " چلو بی ہی سٹنا ہے کتھوں لبھ پیاسہی".میں نے ایک دفعہ ایک رسالہ میں پڑھا کہ مکئی کی فصل امریکہ میں بڑی کامیاب ہوئی ہے اور ایک بیج انہوں نے ایسا نکالا ہے جس کی پیداوار اچھی زمین میں قریباً 175 من فی ایکڑ ہوتی ہے.اب دیکھ لو 175 من مکئی اگر چھ روپیہ فی من بھی ہے.اوّل تو اس سے

Page 231

انوار العلوم جلد 25 207 متفرق امور زیادہ ہی بکتی ہے لیکن اگر چھ روپیہ پر بھی ہکے تو گویا گیارہ سو روپیہ فی ایکڑ آمد ہو جاتی لیہ ہے.پھر اور فصلیں بھی ہوتی ہیں.میں نے بھی وہ بیچ منگوایا مجھے تو یقین نہیں آتا تھا مگر میں نے اپنے مبلغ کو لکھا انہوں نے لکھا.وہ بیج دینے کو تو تیار ہیں مگر اس بیچ میں نقص یہ ہے کہ پہلے زمین کا کیمیاوی ٹیسٹ کیا جاتا ہے.کیمیاوی ٹیسٹ کے بعد جب وہ بویا جاتا ہے تو پھر اس سے اتنی پیداوار ہوتی ہے.آپ اپنی زمین کی مٹی بھجوا دیں تو وہ ٹیسٹ کر دیں گے.میں نے کہا اتنا بکھیڑ ا کون کرے تم بھیج دو ہم تجربہ کر لیں گے.انہوں نے چند پاؤنڈ بیج بھجوا دیا جو اُن لوگوں نے مفت دیا.وہ اِس وقت پاکستان کی بہت مدد کر رہے ہیں.میں نے وہ بیج سندھ میں اپنی زمینوں میں ہونے کے لئے بھیج دیا.اس پر مجھے جو رپورٹ آئی وہ یہ تھی کہ یا تو ہمارے ہاں بارہ تیرہ من مکئی ہوتی تھی یا چوالیس من فی ایکڑ ہوئی ہے.گویا اس کی پیداوار اتنی تو نہ ہوئی جتنی اُن کی ہوتی ہے مگر بہر حال پہلے سے قریباً چار گنا ہوئی.مگر اس بیچ میں نقص یہ ہے کہ ہر دفعہ نیا منگوانا پڑتا ہے.دوبارہ اس میں سے صرف بھوسہ ہی نکلتا ہے.چنانچہ دوسری دفعہ ہم نے یہاں ربوہ کے پاس وہ بیج بو دیا تو جو مکئی نکلی یوں معلوم ہو تا تھا کہ اس کے اندر کوئی پھیکا سا چھونا پڑا ہوا ہے اور پھر اتنی پیداوار بھی نہ ہوئی لیکن پہلی دفعہ اس سے چوالیس من مکئی پیدا ہو گئی.پس اگر ہمارے ملک میں بھی کوشش کی جائے تو آمد نہیں زیادہ ہو سکتی ہیں.باہر تو لوگ بڑی بڑی پیداوار کرتے ہیں.ہمارے ایک دوست اٹلی میں مبلغ تھے، ان کی شادی بھی وہیں ہوئی ہے ان کا خسر زمیندار تھا.میں نے ان سے پوچھا کہ گزارہ کس طرح ہوتا ہے ؟ دراصل ہم نے ان کو فارغ کر دیا تھا.وہ کہنے لگے میر اخسر میری امداد کرتا ہے.میں نے سمجھا ان کا خسر بڑا مالدار ہو گا.مگر وہ کہنے لگے کہ میرے خسر کا باپ قنصل تھا.اس نے کچھ زمین خریدی تھی جو وہ اپنی بیٹی کو دے گیا اور بیٹے کو محروم کر گیا کیونکہ وہ اپنے بیٹے پر خوش نہیں تھا.بیٹی نے آگے وہ زمین اپنے بھائی کے سپر د کر دی کیونکہ وہ مالدار ہے اور اُسے کہا کہ تُو اس سے گزارہ چلا.میں نے کہا کتنی زمین ہے ؟ کہنے لگے چودہ ایکٹڑ.میں نے کہا جس رنگ میں

Page 232

انوار العلوم جلد 25 208 متفرق امور وہاں گزارے ہوتے ہیں اُس کے لحاظ سے تو ہمارے ہاں چودہ ایکٹر سے اُن کے نوکر کی تنخواہ بھی نہیں نکلتی.وہ کہنے لگے چودہ ایکٹر زمین سے میرا اور میرے بیوی بچوں کا گزارہ بھی ہوتا ہے.وہ اپنا بھی گزارہ کرتا ہے اور گو بہن نے اُس کو زمین دے دی ہے مگر وہ اس کو بھی کچھ روپیہ بھیجتا ہے.اور پھر اس چودہ ایکٹر پر چھ یا سات مزارعے ہیں.ان کا بھی یورپین سٹینڈرڈ کے مطابق گزارہ ہوتا ہے.میں نے کہا اتنی آمد کس طرح ہوتی ہے؟ وہ کہنے لگے وہاں ہر زمیندار ایک فارم بنالیتا ہے اور اس کے ارد گرد پھل دار درختوں کی باڑ بناتا ہے جس سے ایک باغ بن جاتا ہے اور وہ اس کے پھل بیچتا ہے.پھر ہمارے ہاں تو بھیڑیں پالتے ہیں اُن کے ہاں سور پالتے ہیں.وہ بھی سور پالتا ہے اور سال میں سوروں کی ایک خاصی تعداد ہو جاتی ہے جس سے اس کو ہزار بارہ سو یا پندرہ سو روپیہ مل جاتا ہے.پھر وہ شہد کی مکھیاں پالتا ہے اور ان کا شہر بیچتا ہے.پھر پھول لگاتا ہے اور ان پھولوں کو بیچتا ہے.اسی طرح اُس نے گائیں رکھی ہوئی ہوتی ہیں جن کا دودھ اور گھی بیچتا ہے.اس طرح اس کی آمد زیادہ ہوتی ہے؟ میں نے کہا فی ایکڑ کیا آمد ہوتی ہے.وہ کہنے لگے چودہ سو روپیہ.گویا اچھی زمین کی وہاں عام اوسط آمدن چودہ سو روپیہ فی ایکٹر سمجھی جاتی ہے.اس لحاظ سے اُنیس ہزار روپیہ اُس کی آمد ہو گی.اس میں سے تین چار ہزار روپیہ اُس نے اپنے داماد کو دے دیا، چار پانچ ہزار روپیہ آپ خرچ کیا، چار پانچ ہزار اپنی بہن کو دے دیا.تو چودہ ایکٹر میں سب کا گزارہ ہو گیا.ہمارے ملک میں چودہ ایکٹر والے زمیندار سے پوچھو تو کہے گا: بس بجھتے ہی مردے ہاں.ساگ مکئی دی روٹی تے پاکے کھالیندے ہاں.بس لون سلوناہی ملدا ہے کوئی ہور تے کھان نو چیز نہیں ملدی“.ہمارے کہتے ہیں کہ اوسط چھ ایکڑ ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ اٹلی کے حساب سے 8400 روپیہ سالانہ کی آمد ہونی چاہئے.گویا 700 روپیہ مہینہ.ہمارا ز میندار خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ سے زیادہ ہے سات سو روپیہ مہینہ کے حساب سے سات کروڑ روپیہ آمد بنتی ہے.سات کروڑ کا اگر عام چندہ ہی رکھو ( گو بیچ میں وصیت کرنے

Page 233

انوار العلوم جلد 25 209 متفرق امور والے بھی ہوتے ہیں) تب بھی بیالیس لاکھ بنتا ہے.گویا بیالیس لاکھ روپیہ چندہ صرف زمیندار دے سکتے ہیں.اسی طرح وہاں کا تاجر ہے بالکل معمولی حیثیت سے کام شروع کرتا ہے اور کہیں کا کہیں پہنچ جاتا ہے.بعض لوگ تو معمولی حیثیت سے ترقی کر کے کروڑ پتی بن جاتے ہیں.میں نے راک فیلر وغیرہ کی ہسٹریاں پڑھی ہیں.شروع میں ان کے بہت چھوٹے چھوٹے کام تھے اور اب انہوں نے اربوں ارب روپیہ صدقات میں دیا ہوا ہے.پس ایک تو زمیندار کو کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے اور انہیں ہمیشہ اچھا پیچ تلاش کرنا چاہیئے.بیچ پر بڑی بنیاد ہوتی ہے.اسی طرح کھاد بڑی ضروری چیز ہے.ہمارے ہاں زمین خراب ہو رہی ہے کیونکہ زمیندار کھاد نہیں دیتے.میری سندھ میں کچھ زمینداری ہے.وہاں یہی تماشا بنارہتا ہے.ہم انہیں زمین کا ایک حصہ ہمیشہ برسیم کے لئے دیتے ہیں کیونکہ برسیم کے بعد کپاس کئی گنے زیادہ ہو جاتی ہے.اس طرح گندم و غیر ہ بہت زیادہ تی ہے.مصر میں میں گیا تو وہاں میں نے دیکھا کہ برسیم کے کھیت اتنے اونچے تھے کہ بر سیم قد آدم تک نکلی ہوئی تھی.اور ریل کی کھڑکیوں میں سے برسیم کے پودے اندر آ جاتے تھے.میں نے اُن سے پوچھا کہ یہ تم کب سے لگاتے ہو ؟ انہوں نے کہا سینکڑوں سال سے.گویا سینکڑوں سال سے وہاں بر سیم بوئی جارہی ہے اور سینکڑوں سال سے اُسی میں کپاس بوئی جارہی ہے اور پھر وہاں سارے ملک کی اوسط پچیس من ہے.جس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں چھوٹے چھوٹے زمیندار بھی چالیس چالیس پچاس پچاس من فی ایکڑ پیدا کرتے ہیں اور اس کپاس کی قیمت ہمارے ملک سے بہت زیادہ ہے.یہ سمجھ لو وہ قریباً سولہ سو، اٹھارہ سو یا دو ہزار روپیہ صرف کپاس سے پیدا کر لیتے ہیں علاوہ دوسری فر کے اُس کو دیکھتے ہوئے ہم نے بھی برسیم لگوائی ہے.میں نے سمجھا کہ اس سے فصل کو فائدہ پہنچے گا.مگر مینجر کہنے لگا ہم بہتیر اشور مچاتے رہتے ہیں مگر یہ لوگ زمین میں کھاد کے طور پر اسے دفن ہی نہیں کرتے کاٹ کے جانوروں کو کھلا دیتے ہیں اور پھر فصل ویسی کی ویسی رہ جاتی ہے.غرض برابر دس بارہ سال سے ہم وہاں زور لگا رہے ہیں مگر ابھی تک فصلوں

Page 234

انوار العلوم جلد 25 210 متفرق امور ہمارے احمدی زمیندار اِس طرف متوجہ نہیں ہوئے حالانکہ اس میں زمیندار کا اپنا فائدہ ہے اگر اس جگہ پر چھپیں من کپاس پید اہو گی تو ساڑھے بارہ من تو ز میندار کی ہو گی.گویا قریباً چار سو روپیہ فی ایکڑ اس کو ملیں گے.لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ اپنی فصل کو ضائع کرتا ہے اور اس میں گرین مینورینگ (GREEN MANURING) نہیں کرتا جس کی وجہ سے بجائے فائدہ کے اسے نقصان ہو جاتا ہے.بلکہ بعض دفعہ تو ہم نے دیکھا ہے کہ ایک روپیہ فی ایکڑ بھی آمدن نہیں ہوتی حالانکہ یورپ کے لحاظ سے ڈیڑھ ہزار روپیہ فی ایکڑ ہمیں ملنا چاہئے اور ڈیڑھ ہزار روپیہ فی ایکڑ اس کو ملنا چاہئے.اٹلی کا حساب بھی لگالیا جائے تو سات سو روپیہ فی ایکڑ مجھے ملنا چاہئے یا انجمن کو ملنا چاہئے جس کی زمین ہے اور سات سو روپیہ فی ایکڑ ہر احمدی زمیندار کو ملنا چاہئے.اگر اس طرح آمد ہونے لگے تو صرف سندھ کے جو احمدی مزارع ہیں اُن سے ہی دس لاکھ روپیہ سالانہ چندہ آسکتا ہے بشر طیکہ وہ فصل یورپین طرز پر بوئیں.پس جماعت کے زمینداروں کو توجہ کرنی چاہئے.اس طرح ملازموں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے فرائض کو ایسی تندہی سے ادا کریں کہ اُن کو ترقی ملے.طالبعلموں کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایسا اچھا پڑھیں کہ اچھے سے اچھے عہدے ان کو ملیں.ایک دفعہ میں لاہور میں تھا کہ ایک مخالف اخبار کا ایڈیٹر آیا اور کہنے لگا کہ احمدیوں کو نوکریاں مل جاتی ہیں کیونکہ احمدی افسران کو نوکریاں دلا دیتے ہیں.میں نے کہا یہ غلط بات ہے کون سا احمد کی اس عہدہ پر ہے جس میں نوکریاں ملتی ہیں ایک ظفر اللہ خان ہی بڑے تھے.میں نے کہا کہ ان کے دفتر میں تو کوئی نوکری ہے ہی نہیں.وہ تو گورنمنٹ نے ایک کمیٹی بنائی ہوئی ہے جو نوکریاں دیتی ہے.ظفر اللہ خان بیچارے کا تو نام بدنام ہے.دراصل ان کو نوکری اس لئے ملتی ہے کہ میں نے ان کو سینما سے روکا ہوا ہے، میں نے ان کو لغو باتوں سے روکا ہوا ہے.وہ پڑھتے ہیں اور تمہارے لڑکے سینما دیکھتے ہیں.تمہارے لڑکوں کو سینما مل جاتا ہے اور ان کو نوکریاں مل جاتی ہیں.اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے.اگر ہمارے نوجوان تعلیم کی طرف توجہ کریں تو آہستہ آہستہ اعلیٰ نوکریاں ان کو ملیں گی اور پھر وہ زیادہ چندے بھی دے سکیں گے.پس

Page 235

انوار العلوم جلد 25 211 متفرق امور ماں باپ کو چاہئے وہ اپنے بچوں کو سمجھائیں کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کیا کریں.آخر ماں باپ نے ان کو پالا ہے.وہ کہیں بیٹا ! تمہارا فرض ہے کہ بڑھاپے میں ہماری خدمت کرو لیکن یہ جو ہم تمہیں کہہ رہے ہیں یہ اپنے لئے نہیں کہہ رہے بلکہ خدا کے لئے بھی کہہ رہے ہیں.اگر تمہاری آمد زیادہ ہو گی تو ہم پر بھی خرچ کرو گے اور خدا کے دین پر بھی خرچ کرو گے.پس اپنے بچوں کے اندر زیادہ چندے دینے کی عادت پیدا کریں.محنت کرنے کی عادت ڈالیں.خصوصاً ہر باپ اپنے بچہ کو تحریک جدید کے چندے کی عادت ڈالے.ہر یک جدید کا چندہ دینے والا فیصلہ کر لے کہ میں اپنے دو تین اور احمدی بھائیوں کو یا اگر مجھ سے غیر احمدی دلچسپی رکھتے ہیں تو اُن کو بھی تحریک کروں گا کہ اس ذریعہ سے خدا کا نام بلند کیا جا رہا ہے تم بھی چندے دو.اور لوگ دیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے طبیعت پر ذرا بھی اثر ہو تو لوگ دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.کراچی میں میرا ریسپشن (RECEPTION) ہوا تو اس کے بعد ایک ڈیپارٹمنٹ کے انڈر سیکرٹری نے اپنے ایک احمدی کلرک کو بلایا اور اُس کو پچاس روپے دیئے کہ یہ اپنے حضرت صاحب کو بھجوا دو کہ میری طرف سے کہیں دے دیں.میں نے کہا غیر احمدی کا چندہ ہے کہیں دینے کا کیا مطلب ہے اشاعت اسلام میں ہی جانا چاہئے اور یہی اُس کا حق ہے چنانچہ میں نے وہ روپیہ اشاعت اسلام کے لئے تحریک جدید میں بھجوا دیا.اُسے بھی اطلاع دی گئی.وہ بڑا خوش ہوا اور کہنے لگا کہ بڑی اچھی جگہ چندہ بھجوایا ہے.اسی طرح میں نے سیکنڈے نیوین مشن کی تحریک کی اور اس کے بعد میں لاہور گیا تو چو دھری اسد اللہ خان صاحب نے اڑھائی ہزار یا نا معلوم کتنی رقم میرے ہاتھ میں دی اور کہنے لگے کہ اس میں سے ساڑھے پانچ سو روپیہ چندہ ایک غیر احمدی کا ہے.وہ کہنے لگے کہ جب اُس کو پتہ لگا کہ یہ تحریک اشاعت اسلام کے لئے ہے تو اس نے خود آکر چندہ دیا اور کہا کہ یہ میری طرف سے بھی دے دیں.تو اگر ان لوگوں کو تحریک کی جائے تو وہ تو کروڑوں کروڑ ہیں.ان کروڑوں کروڑ میں سے اگر صرف ایک کروڑ سے تمہیں پچاس پچاس بھی ملیں تو پچاس کروڑ تو تمہارا مانگا ہوا چندہ ہو سکتا ہے.خواجہ کمال الدین صاحب

Page 236

انوار العلوم جلد 25 212 متفرق امور کو میں نے دیکھا ہے وہ غیر احمدیوں سے چندہ لیتے تھے اور دو دولاکھ روپیہ سال کا چندہ ہو جاتا تھا.اُن کے ساتھی تو بہت کم تھے ہمارے ساتھی تو خدا تعالیٰ کے فضل سے سارے پاکستان اور ہندوستان میں پھیلے ہوئے ہیں.اگر ہر احمدی یہ عادت ڈال لے کہ اپنے دوست کو کہے کہ یہ اشاعت اسلام کا کام ہے اگر اسلام تمہارا بھی ہے اور تم کو اس سے محبت ہے تو تمہیں کون روکتا ہے تم بھی یہ عزت حاصل کرو اور اس ثواب میں شامل ہو جاؤ تو میں سمجھتا ہوں کہ تھوڑی سی تحریک سے بھی چندہ آسکتا ہے.اور پھر جو ایک دفعہ دے گا اس کو چاٹ پڑ جائے گی اور پھر وہ ہر سال دے گا.پہلی دفعہ تو آپ کو پندرہ منٹ اُس سے بحث کرنی پڑے گی کہ دیکھو! یہ خدا اور رسول کا کام ہے ، دین کی اشاعت کا کام ہے اس میں حصہ لو.لیکن اگلے سال وہ خود تمہاری تلاش کرے گا اور تمہیں آکے ڈھونڈے گا اور کہے گا کہ میر اچندہ لو.پس اگر احمدی اپنی ذمہ داری سمجھیں تو پیچیں چھیں لاکھ یعنی پچاس لاکھ روپیہ سالانہ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کا چندہ جمع ہو جانا خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئی بعید بات نہیں.غرض زمیندار اپنا فرض سمجھیں اور محنت کر کے کام کریں تو ان کی آمد نیں موجودہ آمد سے سو گنے زیادہ ہو سکتی ہیں اور ان کا چندہ بھی سو گنے بڑھ سکتا ہے.لیکن اگر یہی ہونا ہے کہ میں نے بیماری میں بات کی اور ا کوفت اٹھائی اور تم نے گھر میں جا کر آرام سے اپنا حقہ پکڑ لیا تو پھر یہ سب بیکار ہے.میں نے کئی دفعہ پہلے بھی سنایا ہے کہ ایک دفعہ قادیان میں میں سیر کرنے نکلا تو مجھے ایک کھیت بڑا اچھا نظر آیا.اُس کی فصل بڑی عمدہ تھی.جو دوست میرے ساتھ تھے اُن سے میں نے کہا کہ یہ کسی سکھ کا ہے.کہنے لگے آپ کو کس طرح پتہ ہے؟ میں نے کہا سکھ کا ہی ہے.بلاؤ کسی ایسے آدمی کو جو اس کا واقف ہو.انہوں نے بلایا.میں نے پوچھا کس کی زمین ہے ؟ وہ کہنے لگا فلاں سکھ کی ہے.وہ بہت حیران ہوئے کہ آپ کو کس طرح پتہ لگا؟ میں نے کہا مجھے فصل نظر آرہی تھی کہ یہ کسی سکھ کی ہی ہو سکتی ہے.مسلمان تو تہجد کے وقت حقہ پکڑ کر آگ سلگانے بیٹھ جاتا ہے اس کی فصل کیا ہونی ہے سکھ ہے جس نے محقہ چھوڑا ہوا ہے.اس کی برکت خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ مل رہی

Page 237

انوار العلوم جلد 25 213 متفرق امور ہے کہ اس کی فصل اچھی ہوتی ہے.مسلمان محقہ کے لئے آگ جلا رہا ہوتا ہے اور یہ اُس وقت ہل چلا رہا ہوتا ہے.حالانکہ جانتے ہو سکھ بیچارہ بڑا سیدھا سادہ ہوتا ہے.ایک دفعہ ریل میں ایک سکھ تحصیلدار میرے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہنے لگا آپ کا عقیدہ ہے کہ اسلام عالمگیر مذہب ہے ؟ میں نے کہا ہاں.کہنے لگا پھر ایک بات مجھے سمجھائیں.میں نے کہا وہ کیا؟ کہنے لگا اسلام عالمگیر مذہب جو ہوا تو مر د عورت سب کے لئے ہوا.میں نے کہا ہاں.کہنے لگا تو پھر مرد تو ختنہ کرتے ہیں عورت کیا کرے ؟ میں نے کہا سر دار صاحب! آپ کا مذہب بھی عالمگیر ہے یا نہیں؟ ( وہ ہے تو نہیں مگر لوگ تو اپنے مذہب کو عالمگیر کہنے سے نہیں رکتے بلکہ وہ اس پر فخر کرتے ہیں) کہنے لگا.نہیں جی ہمارا مذہب بھی عالمگیر ہے.میں نے کہا سر دار صاحب! آپ کے ہاں داڑھی مونچھ رکھنے کا حکم ہے تو مرد نے تو رکھ لی عورت کیا کرے؟ کہنے لگا " جی اوہدی ہوندی ہی نہیں" میں نے کہا آپ اس سے ہی سمجھ جائیں.کہنے لگا اچھا "ہن سمجھ آئی".میں نے کہا شکر ہے جلدی سمجھ آگئی.مگر دیکھو باوجود اس کے وہ سادہ ہے اپنے کام میں بڑا ہوشیار ہے.وہ زمینداری میں اور پیشہ میں آگے بڑھا ہوا ہے.چنانچہ سارے لوہار اور ترکھان سکھ ہیں اور ایسی تجارت کرتے ہیں کہ دور دور تک ان کے بنے ہوئے مال جاتے ہیں اور پھر اب تو انہوں نے یہ بھی ثابت کر دیا ہے کہ عقل بھی ان کی ایسی کمزور نہیں.مثلاً افریقہ سے ہمیں خط آ رہے ہیں کہ سب سے زیادہ سکھ ہم سے تعلق رکھتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے پارٹیشن کے موقع پر آپ کی نصیحت نہیں مانی.ہم سے یہ بڑی بیوقوفی ہوئی ہے.انہوں نے لکھا کہ بعض سکھ تو چندے بھی دیتے ہیں اور اپنی محبت اور اپنا تعلق بھی ظاہر کرتے ہیں.میں نے کہا اس سے فائدہ اٹھاؤ.خدا تعالیٰ نے ایک موقع پیدا کیا ہے.بہر حال یہ کام یہاں کا سکھ کر رہا ہے ، اٹلی کا زمیندار کر رہا ہے ، جاپان کا زمیندار کر رہا ہے، امریکہ کاز میندار کر رہا ہے، ہالینڈ کا زمیندار کر رہا ہے تم کیوں نہ کرو.وہ اپنے پیٹ کے لئے کرتے ہیں تم خدا کے لئے کرو.اچھی محنت کر ووقت پر پانی دو.

Page 238

انوار العلوم جلد 25 214 متفرق امور میں جب سندھ جاتا ہوں تو چونکہ مجھے گاؤٹ 2 (GOUT) کا دورہ ہوتا رہتا ہے.مجھے زمینوں میں پھرنے کے لئے موٹر میں جانا پڑتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ چلتے چلتے موٹر کھڑا ہو جاتا ہے.پوچھتا ہوں کیوں کھڑے ہو گئے ؟ کہتے ہیں آگے سڑک ٹوٹی ہوئی ہے.میں پھر پوچھتا ہوں سڑک کیوں ٹوٹی ہوئی ہے ؟ وہ کہتے ہیں پانی ٹوٹ گیا ہے.میں کہتا ہوں پانی کیوں ٹوٹ گیا؟ وہ کہتے ہیں فلاں زمیندار کی رات کو باری تھی مگر وہ گھر سے نہیں نکلا کہ ہن رات نوں کون ھیچل کرے".کون دیکھ بھال کرے.نتیجہ یہ ہوا کہ پانی ٹوٹ گیا اور ساری سڑکیں خراب ہو گئیں.غرض ہمارا از میندار نہ رات کو پانی دینے کے لئے نکلتا ہے نہ وقت پر ہل چلانے کے لئے نکلتا ہے نہ اچھے بیج کی تلاش کرتا ہے.اگر گرین مینورینگ GREEN) (MANURING کرتا ہے تو غلط طریق پر.اوّل تو جانور کی مینو رینگ بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے مگر جانور کا جتنا گو بر نکلتا ہے یہ اُس کو پاتھ کر اُس کی آگ جلاتا ہے اور بڑا خوش ہوتا ہے کہ بالن مل گیا.حالانکہ یہ نہیں سمجھتا کہ "بالن تے مل گیا پر سٹھ من غلہ برباد ہو گیا.غرض سب کام اندھا دھند کرتا ہے.تم کو خدا نے احمدی بنایا ہے ، دین کا وارث بنایا ہے تم عقل کرو.خدا کے لئے کمائی کرو اور دین میں دو.اگر پچیس لاکھ تمہاری صدر انجمن احمدیہ کا چندہ ہو تو ابھی دو تین کالج اور بن جائیں.پچیس لاکھ تحریک جدید کی آمد ہو جائے تو ہم خدا کے فضل سے پچاس مشن اور کھول دیں گے اور اسلام جلدی جلدی ترقی کرنے لگ جائے گا.پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے ابھی کہا ہے درد صاحب بیچارے فوت ہو گئے ، ملک صاحب بیمار ہیں، صوفی مطیع الرحمن صاحب فوت ہو گئے ، صحابہ فوت ہو رہے ہیں.پچھلے لوگوں کو دیکھو باوجود یہ کہ اُن لوگوں میں اتنا علم نہیں تھا اُنہوں نے اس چیز کی بڑی قدر کی اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے حالات پر بڑی بڑی ضخیم کتابیں دس دس جلدوں میں لکھیں.ہمارے ہاں بھی صحابہ کے حالات محفوظ ہونے چاہئیں.ملک صلاح الدین صاحب لکھ رہے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں سینکڑوں روپے کا مقروض ہو

Page 239

215 انوار العلوم جلد 25 گیا ہوں.وہ کتابیں کوئی نہیں خرید تا.اوّل تو میں سمجھتا ہوں ان کی غلطی ہے.اگر وہ لکھ کے انجمن کو دے دیتے یہ لالچ نہ کرتے کہ شاید پانچ سو خرچ کیا تو آٹھ سو آ جائے گا تو قرض نہ ہو تا مگر اب پانچ سو بھی نہ آیا اور وہ بھی ضائع چلا گیا.لیکن کم سے کم احمدیوں کو چاہئے تھا کہ اپنے آباء کے نام یاد رکھتے.آپ لوگ تو قدر نہیں کرتے.جس وقت یورپ اور امریکہ احمدی ہو تو انہوں نے آپ کو بُرا بھلا کہنا ہے کہ حضرت صاحب کے صحابہ اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے حالات بھی ہمیں معلوم نہیں.وہ بڑی بڑی کتابیں لکھیں گے جیسے یورپ میں بعض کتابوں کی ہیں ہیں چالیس چالیس پاؤنڈ قیمت ہوتی ہے اور بڑی بڑی قیمتوں پر لوگ ان کو خریدیں گے.مگر ان کا مصالحہ ان کو نہیں ملے گا اور وہ غصہ میں آکے تم کو بددعائیں دیں گے کہ ایسے قریبی لوگوں نے کتنی قیمتی چیز ضائع کر دی.ہم نے تو اب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت بھی مکمل نہیں کی.بہر حال صحابہ کے سوانح محفوظ رکھنے ضروری ہیں.جس جس کو کوئی روایت پتہ لگے اُس کو چاہئے کہ لکھ کر اخباروں میں چھپوائے، کتابوں میں چھپوائے اور جن کو شوق ہے اُن کو دے تا کہ وہ جمع کریں اور پھر وہ جو کتابیں چھاپیں.ان کو ضرور خریدیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں.صحابہ میں جو رنگ تھا اور اُن لوگوں میں جو قربانی تھی وہ ہمارے اندر نہیں ہے.مگر ہمارے اندر بھی وہ طبقہ جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت پائی تھی بڑا مخلص تھا اور ان میں بڑی قربانی تھی.اگر وہی اخلاص آجکل نوجوانوں میں پیدا ہو جائے تو جماعت ایک سال میں کہیں سے کہیں نکل جائے.ایک درجن کے قریب تو وہ آدمی تھے جو قادیان سے کوئی سو میل پر رہتے تھے ، سڑک کوئی نہیں تھی، ریل کوئی نہیں تھی مگر وہ ہر اتوار کو چھٹی پر قادیان آپہنچتے تھے.اب یہاں پاس گوجرانوالہ ہے، شیخو پورہ ہے اور ربوہ مین سڑک پر ہے ڈیڑھ دو گھنٹے میں لوگ پہنچ سکتے ہیں لیکن نوجوانوں کو چھٹی ملتی ہے تو جھٹ اپنے گھر گھس جاتے ہیں یہاں کوئی نہیں آتا، ہم سے آکر کوئی نہیں ملتا.میں بیماری کی وجہ سے درس تو نہیں دے سکتا لیکن دین کی کوئی بات اگر مجھ سے پوچھنا چاہیں تو پوچھ سکتے ہیں.مثلاً چودھری ظفر اللہ خان صاحب ہیں ان کو دین کی خدمت کا ایک

Page 240

انوار العلوم جلد 25 216 متفرق امور عشق ہے.یورپ کے سفر میں وہ میرے ساتھ تھے اور میر ادل بہلانے کے لئے اپنا کام چھوڑ کر آگئے تھے.میں نے دیکھا موٹر میں کہیں جارہے ہوتے تو انہوں نے ذرا پیچھے منہ موڑنا اور کہنا کہ فلاں مضمون کے متعلق کوئی آیت ہو یا کوئی نکتہ ہو تو مجھے بتایا جائے.میں مضمون کی تیاری کر رہا ہوں.اس طریق پر تم بھی اتنا علم حاصل کر سکتے ہو کہ میں کتابوں میں بھی تم کو نہیں مل سکتا.مثلاً میں نماز پڑھنے نکلا تو جب نماز کے بعد میں مسجد میں بیٹھ جاؤں تم پیش کرو کہ یہ سوال ہے یہ حل نہیں ہو تا.اس طرح تم اپنا علم بڑھاتے چلے جاؤ.میر اتو اس بیماری کی وجہ سے حافظہ بڑا خراب ہو گیا ہے لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ کا فضل ہے ابھی بہت کچھ یاد ہے.تم آکر پوچھتے رہو اس سے علم تازہ ہو جاتا ہے.اور اگر کوئی بات بھولی ہوئی ہو تو پاس علماء بیٹھے ہوتے ہیں اُن سے کہہ دیا کہ فلاں بات حدیث سے نکال دو.اِس سے میرا بھی علم تازہ ہو جائے گا اور تمہارا بھی علم بڑھے گا.میں سمجھتا ہوں کہ ربوہ سے سو سو دو دو سو میل کے اندر جتنے لوگ ہیں ان کو تو یہ اقرار کرنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی طرح ہم نے تین چار دفعہ مہینہ میں ضرور پہنچنا ہے.وہ ہر اتوار کو آپہنچتے تھے.مفتی محمد صادق صاحب کو تو تم نے دیکھا ہے.ان کی صحت کتنی کمزور ہے مگر وہ کمزور شخص ہر اتوار کو بٹالہ سے بارہ میل پیدل چل کر قادیان آ پہنچتا تھا.اسی طرح منشی اروڑے خاں صاحب مرحوم کپور تھلہ سے چلتے تھے اور قادیان آتے تھے.اُس وقت ان کی تنخواہ صرف پانچ چھ روپے ہوتی تھی.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہوئے تو وہ آئے اور آکر مجھے پیغام بھیجا کہ ملنا ہے.میں باہر آیا تو انہوں نے مصافحہ کیا اور تین یا چار اشرفیاں میرے ہاتھ میں دے دیں اور پھر رونے لگے.میں نے سمجھا کہ شاید حضرت صاحب کی وفات کی وجہ سے رو رہے ہیں مگر ان کی چیچنیں نکلتی چلی گئیں اور ہچکی بندھ گئی.میں نے سمجھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور بات بھی ہے اور انہیں کوئی اور واقعہ یاد آیا ہے.میں اُن کو تسلی دیتا چلا جاؤں کہ صبر کیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی یہی مشیت تھی.آخر بڑی مشکل سے چپ ہوئے.مگر چپ کر کے دوبارہ ہچکی لی اور رونے لگ گئے.میری طبیعت بھی کچھ گھبرائی مگر میں نے صبر کیا.آخر کہنے لگے میری

Page 241

انوار العلوم جلد 25 217 متفرق امور ہمیشہ خواہش ہوتی تھی کہ میں حضرت صاحب کو سونا نذرانہ کے طور پر پیش کروں.میں سارا مہینہ پیسے جمع کرتا رہتا تھا اور کہتا تھا کہ میں نے قادیان بھی ضرور جانا ہے مگر پیدل جاؤں گا تو پیسے جمع کروں گا اس لئے کہ حضرت صاحب خدا تعالیٰ کے بڑے مقرب اور مسیح موعود ہیں اُن کو نذرانہ دینا ہے تو سونا دینا ہے مگر سونا کبھی نہیں ہو تا تھا.باوجود یکہ میں پیدل آتا تھا پھر بھی روپے بنتے تھے سونا نہیں بنتا تھا ( اس وقت وہ تحصیلدار ہو گئے تھے مگر ریاستوں میں تحصیلداروں کی تنخواہ بھی کم ہوتی ہے.بہر حال اُن کی تنخواہ اُس وقت اتنی تھی کہ وہ قربانی کر کے سونا بنا سکتے تھے ) انہوں نے یہ کہا اور پھر چکی لی اور پھر چیچنیں مار کر رونے لگ گئے.پھر کہنے لگے "ساری عمر جوڑ جوڑ کے اس انتظار وچ رہے کہ حضرت صاحب نوں ملاں گے تو سونا نذرانہ دیاں گے.جب تک حضرت صاحب رہے سونا نہیں لبھیا.جدوں سونا لبھیا تے حضرت صاحب نہیں رہے" پھر مجھے پتا لگا کہ اس شخص کے دل میں کتنا اخلاص اور کتنی محبت تھی.تو چاہئے کہ تم بھی صحابہ والا رنگ اختیار کرو، زیادہ سے زیادہ ربوہ آؤ اور زیادہ سے زیادہ مجھ سے مل کر اور دوسرے دوستوں سے مل کر کوشش کرو کہ تمہارا علم بڑھے.اور پھر سلسلہ کی کتابیں خرید و اور ان کو پڑھو.ہمارے سلسلہ کی کتابوں میں علم کا بڑا ذخیرہ موجود ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے جو شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں اور سلسلہ کی دوسری کتابیں پڑھ لے اس کے مقابلہ میں دنیا میں کوئی آدمی نہیں ٹھہر سکتا.آجکل بہائی لوگ بڑا جھوٹ بولتے ہیں.وہ جہاں دیکھتے ہیں کہ کسی کو کوئی چیز پسند ہے وہیں کہہ دیتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے.آجکل انڈونیشیا پر انہوں نے زور دیا ہوا ہے.وہاں ان کے کچھ پروفیسر چلے گئے ہیں.میر الٹر کار فیع احمد بھی وہاں تبلیغ کے لئے گیا ہوا ہے.اس نے مجھے لکھا کہ میں نے ان کو یوں جواب دیا تو انہوں نے کہا یہ جھوٹ ہے ہماری کتاب میں یہ نہیں ہے.میں نے لکھا یہ جھوٹ بات ہے ان کی کتابوں میں یہ بات موجود ہے.پھر میں نے مولوی ابو العطاء صاحب کو وہ خط بھیج دیا کہ آپ حوالے نکال دیں.میں نے تو لکھ دیا ہے کہ جھوٹ ہے لیکن آپ حوالے نکال کر بھجوا دیں.

Page 242

انوار العلوم جلد 25 218 متفرق امور انہوں نے حوالے دیئے.جس پر اس نے ایک رسالہ لکھا اور اسے شائع کیا.مولوی عبد الواحد صاحب انڈو نیشین مبلغ عربی پڑھنے کے لئے دمشق گئے تھے وہاں سے آتے ہوئے وہ تہران میں ٹھہرے تو انہوں نے بتایا کہ میں تہران میں انڈو نیشین ایمبیسیڈر سے ملنے گیا.وہ مرزار فیع احمد کی بڑی تعریف کرتا تھا کہ میں نے بہائیوں کے متعلق ان کا مضمون پڑھا ہے نہایت عمدہ رڈ کیا ہے.اور کہتا تھا کہ چونکہ میں یہاں ایسے علاقہ میں ہوں جہاں بہائیوں کا زور ہے اِس لئے اِس مضمون کو پڑھ کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ بس بہائیوں کا منہ بند ہو گیا.تو ہمارے بچے بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ کی کتابیں پڑھ کے ایسا علم حاصل کر لیتے ہیں کہ ان کو بڑے سے بڑے دشمن کے مقابلہ کی توفیق مل جاتی ہے.پس یہاں آنے کی عادت ڈالو.یہ باتیں چھوڑ دو کہ جلسہ پر آئے ایک دو دن رہے اور چلے گئے.جو دور ہیں وہ تو مجبور ہیں.مثلاً ہندوستان سے آنے والے خواہش رکھتے ہیں تو بعضوں کو پاسپورٹ ہی نہیں ملتا.یا بہت دور دور کے علاقہ کے لوگ ہیں.مثلاً اب ماریشس سے بعض ایسے دوست آئے ہیں جو میری جوانی میں احمدی ہوئے تھے.بڑی خواہش کے بعد اب ان کو یہاں آنے کی توفیق ملی ہے مگر پھر کچھ ایسے حادثات ہو گئے کہ وہ جلدی واپس جارہے ہیں.ان میں سے ایک نوجوان احمد ید اللہ ہیں.وہاں جماعت میں کچھ فتنہ ہے.دوست ان کے لئے بھی دعا کریں.انہوں نے اپنی زمین میں سے کچھ زمین شہر کے پاس مسجد کے لئے دے دی ہے جہاں اب مسجد بنائی جائے گی.دوست دعا کریں کہ جس طرح انہوں نے خدا کا گھر بنانے کے لئے قربانی کی ہے اللہ تعالیٰ ان کا بھی گھر بنائے.آمین ایک طریق چندہ بڑھانے کا یہ بھی ہے کہ تحریک جدید کی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی طرف سے کچھ چیزیں بنائی جاتی ہیں.ہمارے احمدی دوست ان کو خریدیں اور دوسرے دکانداروں کو تحریک کریں کہ وہ بھی خریدیں.اس طریق سے بھی بہت سا نفع آ جائے گا.مثلاً تحریک نے ایک بوٹ پالش ایجاد کی ہے جس کا نام "شائینو بوٹ پالش " ہے.وہ

Page 243

انوار العلوم جلد 25 219 متفرق امور خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی کامیاب ہے اور اس کی بہت تعریفیں آرہی ہیں.وہ فوج میں بھی دی گئی تھی.فوج کی لیبارٹری نے اس کو ٹیسٹ کر کے کہا ہے کہ یہ سو فیصدی ٹھیک ہے اور آرڈر دیئے ہیں.اِس طرح بعض احمدیوں کو اللہ تعالیٰ اخلاص دے دیتا ہے حالانکہ میں کہہ تو سارے احمدیوں کو رہا ہوں لیکن ایک احمدی راولپنڈی میں دکاندار کے پاس گیا اور اس نے ان کو تحریک کی اور پچاس گرس2 (GROSS) کا آرڈر لا کر دیا.اور اس نے کہا کہ اور بھی میں کوشش کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کافی آرڈر آجائیں گے.اگر فوج نے آرڈر دینے شروع کر دیئے جیسے انہوں نے منظوری دے دی ہے تو ، انشاء اللہ اور ترقی ہو جائے گی.اسی طرح انہوں نے ایک نائیٹ لیمپ ایجاد کیا ہے.یہ لیمپ قادیان میں میاں محمد احمد نے بنایا تھا اور اس کا نام میک لائیٹ رکھا ہوا تھا.وہ ساری رات بھی جلتا رہے تو مہینہ بھر میں کوئی آٹھ آنے کی بجلی جلتی تھی.یہ کتنے بڑے نفع کی چیز تھی.اس کا اتنا اثر تھا کہ کراچی میں مجھے بعض مسلمان افسر ملے، بعض ہندو بھی ملے جنہوں نے وہ استعمال کیا ہوا تھا اور انہوں نے مجھے کہا کہ قادیان کی میک لائٹ بڑی عمدہ چیز ہوتی تھی وہ اب نہیں ملتی حالانکہ ہم نے بڑی تلاش کی ہے.بمبئی میں ایک بڑا افسر رہا ہے وہ کہنے لگا کہ مجھے میک لائٹ کی بڑی تلاش ہے.میں نے کہا ان بیچاروں کا تو کار خانہ ہی تباہ ہو گیا ہے.لیکن اب وہ لیمپ تحریک نے نکال لیا ہے اور اس کا نام انہوں نے نائیٹ لائٹ رکھا ہے.وہ چھوٹا سا بلب ہے اور وہ اتنی تھوڑی بجلی خرچ کرتا ہے کہ ساری رات جلاتے رہو تو پھر بھی کوئی آٹھ آنے خرچ ہوتے ہیں.روشنی کی روشنی رہتی ہے اور رات کو اندھیرے کی گھبراہٹ نہیں ہوتی.پس اگر تم تحریک کا مال خرید و یا اور مصنوعات جو ربوہ کی ہیں وہ خرید و تو لازماً اس سے چندہ بڑھے گا.ربوہ کی انڈسٹری کو بھی چاہئے کہ وہ اپنے نفع میں تحریک کا اور سلسلہ کا حصہ رکھے تاکہ میری تحریک دنیوی نہ بنے بلکہ دینی بنے.یہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی چیزیں ایسی بننے لگ گئی ہیں جن میں سے بعض ہندوستان میں بھی نہیں بنتیں.

Page 244

انوار العلوم جلد 25 220 متفرق امور لاہور میں ہمارے ایک دوست ہیں انہوں نے سگریٹ دیا سلائی ایجاد کی ہے.یورپ میں اس کا بہت رواج ہے اور سگریٹ والے اسے عام طور پر استعمال کرتے ہیں کیونکہ سگریٹ والوں میں اتنی سخاوت ہوتی ہے کہ کوئی دیا سلائی مانگے تو انکار نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ ڈبیا پوری دینی پڑتی ہے اور یہ سستی چیز ہے.یہ دے دی تو کوئی حرج نہیں.دوسرے جیب میں کھڑ کھڑاتی نہیں.غرض انہوں نے بہت محنت کر کے وہ بنائی ہے.کہتے ہیں کہ بعض لوگوں نے مجھے بڑے بڑے آرڈر دیئے ہیں کہ ہم سے دس دس ہزار ہیں بیس ہزار پیشگی لے لو اور ہمارے لئے ریزرور کھو.تو دوستوں کو چاہئے کہ وہ یہاں کے مال خریدنے کی کوشش کریں.اور یہاں کے کارخانہ داروں کو چاہئے کہ وہ علاوہ چندہ کے اپنے نفع میں بھی سلسلہ کا حصہ رکھیں تا کہ ہم بھی دوستوں کو کہتے ہوئے شرمندگی محسوس نہ کریں.ہم کہیں کہ دیکھو! تم جو کچھ خریدو گے اُس کا نفع سلسلہ کو جائے گا.غرض اگر اس طرح جماعت محنت کر کے کام کرے، طالبعلم اچھی طرح تعلیم حاصل کریں تاکہ بڑے عہدوں پر پہنچیں.جو عہدوں پر ہیں وہ اچھی وفاداری کے ساتھ گورنمنٹ کی خدمت کریں تا کہ اُن کو اور زیادہ ترقیاں ملیں، زمیندار محنت کر کے اچھی زمینداری کریں، تاجر محنت کر کے دیانتداری سے اپنے آپ کو پاپولر (PAPULAR) بنائیں تو پچیس تیں بلکہ چالیس پچاس لاکھ روپیہ سالانہ جمع ہونا بھی کوئی بڑی بات نہیں.میں صدر انجمن احمدیہ اور تحریک کے کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.ایسا نہ ہو کہ ان کی غفلت کی وجہ سے اسلام کو نقصان پہنچے.وہ بے شک لوگوں میں تحریک کرتے رہیں اور انہیں یاد دلاتے رہیں مگر یہ طریق مجھے پسند نہیں کہ تحریک والے لکھ دیتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو خلیفہ المسیح کے سامنے لسٹ پیش کی جائے گی.مجھے یہ ناپسند لگتا ہے.جو خدا کے لئے دیتا ہے وہ خدا کے لئے دے خلیفہ کب تک زندہ رہ سکتا ہے.اگر تم نے چندے خلیفہ کے نام سے لئے تو ایک دن محروم ہو جاؤ گے.خدا کے نام پر لوجو ہمیشہ زندہ رہتا ہے.لوگوں میں یہ عادت

Page 245

انوار العلوم جلد 25 221 ڈالو کہ وہ خدا کے لئے دیں.پس چندے بڑھاؤ اور کوشش کرو کہ کم سے کم پچھیں تیں لاکھ روپیہ سالانہ دونوں صیغوں کا ہو جائے بلکہ اس سے بھی بڑھے.کیونکہ ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کرتی ہے.خدا تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے لئے بھی رستہ کھول رہا ہے.مثلاً مجھے بڑی خواہش تھی کہ امریکہ میں گورے بھی اسلام قبول کریں.خدا کے بندے تو سارے ہیں کالے بھی اور گورے بھی مگر میری خواہش ہوتی تھی کہ امریکہ میں گورے بھی اسلام قبول کرنا شروع کر دیں.اب کے خلیل ناصر صاحب آئے تو میں نے اُن کو تحریک کی.اس کے معاً بعد وہاں سے گوروں کی بیعتوں کے خط آنے شروع ہو گئے.ایک گورے کے خط کا تو اقتباس بھی چھپا ہے جو بڑے جوش سے بھرا ہوا ہے.قرآن شریف سے پہلے جو میر ا دیباچہ لکھا ہوا ہے وہ اس نے پڑھا اور اس کے پڑھنے کے بعد اُس نے لکھا کہ "After reading most of the book I felt that I would be not only a fool but an idiot if I do not accept completely the teachings of Islam, as revealed by the Holly Prophet." یعنی اس کتاب کو پڑھنے کے بعد میں محسوس کرتا ہوں کہ اگر میں اسلام کی صداقت پر ایمان نہ لایا تو یہ میری بیوقوفی اور حماقت ہو گی.اسی طرح سینٹ لوئی میں دو بیعتیں پہلے ہو چکی تھیں آج تیسری بیعت کی اطلاع آئی ہے.واشنگٹن میں اس ایک ہفتہ کے اندر تین نئے آدمیوں نے بیعت کی ہے جن کی آمدن اڑھائی ہزار روپیہ ماہوار ہے اسی طرح انہوں نے لکھا ہے کہ اور لوگ بھی توجہ کر رہے ہیں اور ان کی طرف سے اطلاعیں آرہی ہیں.بڑی مدت سے لبنان میں کوئی تعلیم یافتہ آدمی احمدی نہیں ہوا تھا وہاں ہمارا جو مبلغ ہے آج ہی اُس کا خط آیا ہے جس میں اُس نے ایک بیر سٹر کی بیعت کی اطلاع بھجوائی ہے.وہ ہے بھی ذرا بڑی حیثیت کا آدمی.ڈرتا ہے کہ لوگوں میں میری بدنامی نہ ہو اِس لئے اُس نے کہا ہے کہ میر انام ظاہر نہ کیا جائے.لیکن بہر حال اس نے بیعت کی ہے اور سلسلہ کا لٹریچر اس نے پڑھا ہے.

Page 246

222 انوار العلوم جلد 25 جرمنی میں میں نے بتایا تھا کہ جب میں بیماری کی حالت میں پہنچا تو ایک شخص تین سو میل سے میری خبر سن کے وہاں پہنچا اور آکے کہنے لگا کہ میں نے الگ بات کرنی ہے.میں نے کہا بہت اچھا.میں کمرہ میں لے گیا.کہنے لگا باقی سب کو یہاں سے نکال دیں.میں نے سب دوستوں سے کہہ دیا کہ چلے جائیں.وہ چلے گئے.اس نے کچھ باتیں پوچھیں اور اس کے بعد کہنے لگا میں نے بیعت بھی کرنی ہے مگر ابھی مخفی رکھی جائے.میں نے کہا کوئی حرج نہیں مخفی رکھیں گے.وہ انٹر نیشنل فیم 4 (INTERNATIONAL FAME) کا آدمی ہے اور مشہور اور کنٹیلسٹ ہے ؟ اس کے مضامین جرمنی میں کثرت سے شائع ہوتے ہیں اور امریکہ میں بھی نقل کئے جاتے ہیں اور یورنیورسٹی نے اس کو اسلام پر کتاب لکھنے کے لئے مقرر کیا ہوا ہے.غرض اس نے بیعت کر لی.پھر نماز کے وقت مقام نماز میں نماز کے لئے آیا.جب نماز سے میں نے سلام پھیر اتو دیکھا کہ وہ جماعت میں بیٹھا ہوا تھا.میں نے اپنے مبلغ سے کہا کہ اس سے جرمنی میں پوچھو کہ تو تو کہتا تھا کہ بیعت مخفی رکھو اور یہاں تو نماز پڑھ رہا ہے ؟ بیعت مخفی کس طرح رہے گی؟ انہوں نے کہا میں نے پہلے بھی اس سے پوچھا تھا اور کہا تھا کہ تم نماز پڑھنے آگئے ہو یہ ٹھیک نہیں.اس طرح تمہاری بیعت کا سب لوگوں کو پتہ لگ جائے گا.تو کہنے لگا ان خلیفتہ المسیح نے کب بار بار جرمنی میں آنا ہے اس لئے یہ موقع جو ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا مجھے ملا ہے میں ضائع نہیں کرنا چاہتا.اب اس نے جرمنی میں مضمون لکھ کے ہمارے سوئس (SUIS) رسالہ میں بھی بھیجا اور اطلاع آئی ہے کہ چھپ رہا.اسی طرح لگانو سے ایک شخص آیا جو کہ یو.این.او کی طرف سے کوریا میں ہائی کمشنر تھا وہاں جماعت نے ایک ریسپشن (RECEPTION) دیا تھا جس میں وہ میرے بائیں طرف بیٹھا ہوا تھا.پاس ہی خلیل ناصر صاحب تھے.بعد میں میرا ایک رسالہ اس نے اپنی جیب سے نکالا جس کا نام "Why I Believe in Islam" ہے اور کہنے لگا یہ آپ کا رسالہ ہے جو مجھے بڑا پیارا ہے.اس کو پڑھ کر اسلام کے متعلق میری بڑی غلط فہمیاں دور ہوئی ہیں اور میں نے سینکڑوں لوگوں میں یہ تقسیم کیا ہے.میں کوریا میں

Page 247

انوار العلوم جلد 25 223 یو.این.او کی طرف سے مقرر تھا.وہاں بھی میں نے جاپانیوں میں بڑا تقسیم کیا ہے.اس رسالہ کا جر من ترجمہ کرنے کی مجھے اجازت دی جائے.میں نے کہا کر لو.یہ ہے ہی اسی لئے.کہنے لگا میں کر تو لوں مگر میں ابھی مسلمان نہیں، بدھ ہوں.ایسانہ ہو کہ میں غلطی کر جاؤں اور پوری طرح اسلام کو سمجھوں نہیں.میں نے کہا ہمارا یہاں مبلغ بیٹھا ہے اِس سے مشورہ کر لینا ( بعد میں پتہ لگا کہ اس کا جرمن ترجمہ ہو چکا تھا) پھر وہ واپس گیا اور دوسرے دن ہی اُس کا خط آیا.حالانکہ میرے خیال میں وہ مکان زیورک سے کوئی دوسو میل دور ہو گا.ایک خط خلیل ناصر صاحب کو آیا اور ایک شیخ ناصر صاحب مبلغ کو آیا.شیخ ناصر صاحب کے خط میں اُس نے لکھا کہ میں اب تک مسلمان نہیں لیکن میری فطرت یہ ہے کہ جب میں یہ دیکھوں کہ کسی پر ظلم ہو رہا ہے تو میں اُس کی تائید میں اپنی جان لڑا دیتا ہوں.اس رسالہ کو پڑھ کر مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ اسلام پر بڑا ظلم ہو رہا ہے اس لئے میں نے اسلام کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا ہے.آپ یہاں آئیں اور تقریر کریں.میں کوشش کروں گا اور ہزاروں آدمی آپ کی تقریر کے سننے کے لئے جلسہ میں آئیں گے.اب خط آیا ہے کہ اُس نے جلسہ کا انتظام کر لیا ہے اور ہمارے مبلغ کو بلایا ہے کہ آکر تقریر کرو.اسی طرح اور ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ خود بخود سامان کر رہا ہے مثلاً ابھی انڈونیشیا سے ایک احمدی کا خط آیا کہ میں بازار میں جارہا تھا کہ جمعیۃ العلماء کا ایک چوٹی کا لیڈر مجھے ملا.(جس طرح یہاں علماء کی ایک انجمن ہے اسی طرح وہاں بھی جمعیۃ العلماء ہے) میں پہلے اسے سلام کیا کرتا تھا تو وہ منہ پھیر لیتا تھا مگر اُس روز اُس نے رستہ چھوڑ کر مجھ سے آکر مصافحہ کیا اور بڑی محبت سے ملا.اُس نے دیکھا میر ارنگ متغیر ہو گیا ہے.کہنے لگا کیوں بات کیا ہے ؟ میں نے کہا میں تو سلام کیا کرتا تھا اور آپ منہ پھیر لیا کرتے تھے.اب آپ نے خود مصافحہ کیا اور بڑے شوق سے ملے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ کہنے لگا بھائی ! وہ پرانی باتیں بھول جاؤ.اب اسلام ایسے نازک دور میں ہے کہ اگر ہم نے صلح نہ کی تو اسلام تباہ ہو جائے گا.اس لئے اب آئندہ وہ باتیں نہیں ہوں گی.اب ہم تم سے محبت کرتے ہیں.حالانکہ وہ شدید دشمن تھا اور جمعیۃ العلماء کا ممبر تھا.

Page 248

انوار العلوم جلد 25 224 متفرق امور اسی طرح میں نے ایک مبلغ کو بورنیو بھیجا ( بورنیو کو انڈو نیشین زبان میں کالی منتن KALIMANTAN کہتے ہیں) وہ مبلغ لکھتا ہے کہ جب میں یہاں پہنچا تو ایک دوست کا انٹروڈکشن کا خط ایک گورنر کے سیکرٹری کے نام لے گیا.اُس کو ملا تو وہ کہنے لگا کہ کل آنا میں تمہیں گورنر سے ملا دوں گا.دوسرے دن گیا تو اتفاقاً وہ گور نر اُس روز دورہ پر تھا اس سے تو ملاقات نہ ہو سکی لیکن اس سیکر ٹری سے بڑی لمبی ملاقات ہوئی.وہ سیکر ٹری کہنے لگا میں آپ کو گورنر سے ملوانا چاہتا ہوں اور خود بھی میں نے آپ سے باتیں کی ہیں.اصل بات یہ ہے کہ میرا سارا خاندان احمدی ہے لیکن میں ہی بد قسمت ہوں جو احمدی نہیں.اور میں سمجھتا ہوں کہ میں اپنی بد عملی کی وجہ سے ابھی تک احمدی نہیں ہوا ور نہ میر ا سارا خاندان احمدی ہے اور میرا باپ اور بھائی وغیرہ سب آپ کی جماعت میں شامل ہیں.پھر انہوں نے لکھا کہ دوسرے دن ہی وہاں کی ایک بہت بڑی مجلس اسلامی جو کبھی احمدیوں کو قریب نہیں آنے دیتی تھی اُس نے ایک جلسہ کیا جس میں ہزاروں آدمی آئے تھے اور انہوں نے مجھے کہا کہ آپ تقریر کریں.اسی طرح نارتھ بور نیو جو انگریزوں کے ماتحت ہے وہاں سے چٹھی آئی ہے کہ وہاں کا ایک رئیس احمدی ہو گیا ہے اور وہ اپنی زمین میں مسجد بنوا رہا ہے.مگر وہ کہتے ہیں کہ انگریز اپنی عادت کے خلاف ( جو دوسری جگہ پر ہے) سختی سے مخالفت کر رہے ہیں.چنانچہ انہوں نے بڑے بڑے لیڈروں کی ایک میٹنگ بلوائی اور اُن سے ایسے قوانین پاس کروانے چاہے کہ جن کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ رُک جائے.لیکن وہ شخص ابھی تک خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پر قائم ہے اور تبلیغ ہو رہی ہے بلکہ آخری اطلاع یہ تھی کہ وہاں اور بھی احمدی ہوئے ہیں.ان کا خیال ہے کہ اگر گور نمنٹ دخل نہ دے تو شاید سارے کا سارا علاقہ اور قبیلہ احمدی ہو جائے گا.احباب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ وہاں کے انگریز حکام کو عقل دے اور وہ خواہ مخواہ دین کے راستہ میں روکیں نہ ڈالیں.اور اللہ تعالیٰ ہمارے نو مسلموں کے دلوں کو مضبوط کرے اور وہ عیسائیوں اور حکومت کے دباؤ سے مرعوب نہ ہوں.

Page 249

متفرق امور انوار العلوم جلد 25 225 تمبر ویسٹ افریقہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت مضبوط ہو رہی ہے.عجیب بات یہ ہے کہ وہاں بھی انگریز مخالفت کر رہا ہے.گیمبیا کے علاقہ میں ہمارے مبلغ نے جانا تھا وہاں ایک بڑا معزز خاندان ہے.اس خاندان کا ایک آدمی جو احمدی نہیں ہے گورنمنٹ کا سیکرٹری ہے.انہوں نے ہم سے مبلغ مانگا ہے.جب مبلغ نے درخواست دی تو وہاں کے گورنر نے ایک میٹنگ بلائی جس میں تمام علماء بلوائے اور ان سے کہا کہ کیا احمدیت کی تبلیغ کی اجازت ہے ؟ تو انہوں نے کہا نہیں.پھر کہہ دیا کہ چونکہ علماء کہتے ہیں کہ اجازت نہیں اس لئے میں اجازت نہیں دیتا.ویسٹ افریقہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت تک چار پانچ احمدی اسمبلی کے ممبر ہو چکے ہیں اور ایک صوبہ کا وزیر تو احمدی ہے.اب ہم نے وہاں اور قابل اور عربی دان مبلغ بھجوانے ہیں کیونکہ گورنمنٹ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر ہم وہاں عربی کالج قائم کریں تو وہ آرڈر دے دیں گے کہ کسی سکول میں اس کالج کے پڑھے ہوئے طلباء کے علاوہ کوئی اُستاد نہ لیا جائے.جماعت کو میں نصیحت کرتا ہوں (چودھری ظفر اللہ خان صاحب بھی یہاں بیٹھے ہیں ان کو بھی توجہ دلاتا ہوں) کہ ہمارے نظام میں ابھی کچھ کمزوریاں ہیں.یورپین نظام ایسا ہے کہ خرابی ہوتی ہے تو پبلک دباؤ کے ساتھ حکومت ٹھیک ہو جاتی ہے.ہمارے ہاں اب تک پبلک دباؤ کی کوئی صورت نہیں نکالی گئی.پس ایسی کوئی تجویز سوچیں کہ آئندہ جماعت کے اندر بیداری پیدا ہو اور وہ زور ڈال کے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کو ٹھیک کیا کرے، فتنہ و فساد بھی نہ ہو ، خلافت کا مقام بھی قائم رہے اور جماعت کو ایسا موقع بھی ملے کہ وہ اپنی رائے کے ساتھ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک کو مجبور کر سکیں کہ صحیح کام کرو اور وقت پر کام کیا کرو.اس طرح دوستوں کو وقف کی طرف توجہ کرنی چاہیئے.اب کام اتنا بڑھ چکا ہے کہ بغیر اس کے سر انجام نہیں دیا جا سکتا.میری بیماری میں بڑا خطرہ تھا مگر اللہ تعالیٰ نے فضل کیا.اُس نے ناصر احمد میرے لڑکے کو توفیق دے دی اور اختر صاحب کو وقف کی توفیق دی کہ وہ نوکری سے فارغ ہو کر آگئے اور ان لوگوں نے میرے پیچھے کام سنبھال لیا.اب خدا کے فضل سے انجمن کا کام بڑی

Page 250

انوار العلوم جلد 25 226 خوش اسلوبی سے چل رہا ہے.دوسرے نوجوانوں کو بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے.میں نوجوان کہہ رہا ہوں.پینشن والے تو نوجوان نہیں رہتے مگر بہر حال روح نوجوانوں کی ہی ہوتی ہے جو کام آتی ہے.پس ان کو بھی چاہئے کہ اپنی زندگیاں دین کی خدمت کے لئے وقف کریں.کم سے کم پینشن کے قریب PREPARATORY RETIREMENT رخصت لے کر ہی آجائیں.ایک راما صاحب آئے ہیں جنہوں نے بیت المال کا کام سنبھالا ہے.اور ایک چودھری احمد جان صاحب آئے ہیں.وہ بھی ملٹری میں اچھے عہدہ پر تھے.اور لوگ بھی آئیں، اور نوجوان بھی وقف کریں.کیونکہ اب وقت ایسا آگیا ہے کہ اعلیٰ قابلیتوں کے لوگ کثرت کے ساتھ ہمارے عہدوں پر قائم ہونے چاہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ جماعت منظم ہو.میرے نزدیک اب یہ بھی وقت آگیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے "الوصیت" میں جو رستہ کھولا تھا اُس کو بھی جاری کر کے دیکھا جائے.یعنی چالیس مومن جس کے ہاتھ پر اکٹھے ہو جائیں اس کو بیعت کی اجازت دی جائے.خلافت کا نظام قائم رکھنے کے لئے یہ رکھا جائے کہ خلیفہ کی منظوری سے ایسا ہو.اِس طرح خلافت کا نظام بھی پکا رہے گا اور لوگوں میں بھی ایک نیا جوش پیدا ہو جائے گا.میں سمجھتا ہوں اگر امریکہ اور افریقہ میں اس قسم کے آدمی مقرر کر دیئے جائیں جن کو بیعت کا اختیار مقامی لوگوں کے انتخاب کے ساتھ دیا جائے تو ان میں اخلاص اور زیادہ ترقی کر جائے گا.گو یا خلافت ایک رنگ میں وہاں بھی پیدا ہو جائے گی.آخر جماعتوں میں امیر اور نائب امیر ہوتے ہیں.اِس طرح اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ خلیفہ دور ہے اگر ایسے لوگ بیعت لینے پر مقرر کر دیئے جائیں تو جماعتی لحاظ سے بہت مفید ہو سکتا ہے.لوگوں کو بڑا شوق ہوتا ہے کہ ہم نے ہاتھ پر بیعت کرنی ہے.اگر یہ اجازتیں دی جائیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس کا بڑا فائدہ ہو گا.میں نے خلیل احمد صاحب ناصر سے مشورہ کیا تھا.کہنے لگے کہ امریکہ میں تو یقیناً اثر ہو گا کیونکہ نیگر وز2 میں اس کا بڑا احساس ہوتا ہے.اگر ان کو پتہ لگے کہ یہیں ایک آدمی ہمارے انتخاب کے بعد سلسلہ کی طرف

Page 251

انوار العلوم جلد 25 227 سے مقرر کیا گیا ہے تاکہ وہ بیعت لے تو ان میں جوش بہت بڑھ جائے گا.اِس طرح میر اخیال ہے کہ اب وقت آگیا ہے.کہ "الوصیت " کا وہ حکم بھی پورا کیا جائے کہ بیرونی ملکوں میں لوگ وصیتیں کریں تو اس مقبرہ بہشتی کے قائمقام وہاں بھی مقبرے بنائے جائیں.اگر ایسا ہو جائے تو امریکہ میں لوگ اس کے خواہش مند ہیں بلکہ مجھے وہاں سے اس کے متعلق درخواست بھی آچکی ہے.افریقہ کے لوگ بھی اِس معاملہ میں بڑے جو شیلے ہوتے ہیں.میرے نزدیک وہاں لوگ بڑی بڑی جائدادیں وقف کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے اور اس طرح سلسلہ کے فنڈز بہت مضبوط ہو جائیں گے.پس مختلف ملکوں میں جہاں جماعتوں کی تعداد کافی ہو جائے مقبرہ بہشتی کی نیابت میں اور اس کے قائم مقام مقبرہ بہشتی قائم کرنے چاہئیں اور وہاں کے لوگوں کی وصیت میں یہ رکھا جائے کہ وہ اس جگہ دفن کئے جایا کریں.اور یہ بھی رکھا جائے کہ جو اس جگہ وصیت کرے گا اُس کا حق ہو گا کہ جب کبھی اس کے ورثاء مالدار ہوں.(ابھی تو ہمارے آدمی غریب ہیں لیکن کروڑ پتیوں کا زمانہ بھی تو آنے والا ہے) تو وہاں سے اُس کی لاش لا کر ہمارے یہاں مقبرہ میں دفن کی جائے.اس طرح ان میں اور بھی جوش پیدا ہو جائے گا.اِس طرح وہ قادیان میں بھی دفن ہو سکیں گے.اِس طرح ممکن ہے امریکہ سے لوگ اپنی لاشوں کو لے کر قادیان میں کثرت سے جانے لگ جائیں اور اس طرح قادیان والوں کی مضبوطی کا بھی سامان ہو جائے اور ربوہ کی مضبوطی کا بھی سامان ہو جائے.ایک بات میں جماعت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے مسجد فنڈ کی تحریک کی تھی ابھی کہ مسجدوں کی بہت ضرورت ہے مگر جماعت کی طرف سے مسجد فنڈ میں بڑی سستی ہوئی ہے.پس میں جماعت کو پھر کہتا ہوں کہ اس طرف توجہ کریں.بہت تھوڑی تھوڑی رقم ان کے ذمہ ڈالی گئی تھی جس کے ساتھ لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ آسکتا تھا اور مسجدیں بن سکتی تھیں مگر جماعت نے اس طرف توجہ نہیں کی.میں دوستوں کو مسودہ میں اس جگہ چند الفاظ واضح نہ ہیں.

Page 252

انوار العلوم جلد 25 228 متفرق امور پھر اس تحریک میں حصہ لینے کی نصیحت کرتا ہوں تا کہ جلد سے جلد بیرونی ممالک میں مساجد قائم کی جاسکیں.پھر میں نصیحت کرتا ہوں کہ ربوہ میں انڈسٹریاں قائم کی جائیں.اب تک سارا ربوہ انجمن کی آمد پر آباد ہے اور یہ بڑی خطرناک چیز ہے.شہر اچھی طرح تبھی بنتے ہیں جب اُن کے اندر انڈسٹری ہو.پس یہاں انڈسٹریاں قائم کرنی چاہیں اور جن کو کوئی فن آتا ہو وہ یہاں آکر کام کریں.ایک اہم کام یہ ہے کہ روسی ترجمہ قرآن جلد شائع کیا جائے.روس میں آٹھ کروڑ مسلمان ہیں مگر وہ لوگ اسلام سے دور جاچکے ہیں.ہمارے ایک دوست تھے جو امریکہ کی طرف سے کسی عہدہ پر مقرر تھے انہیں ایک روسی کر نیل ملا.انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے نام سے تو پتہ لگتا ہے کہ تم مسلمان ہو.کیا تم قرآن پڑھا کرتے ہو ؟ کہنے لگا میری دادی تو پڑھا کرتی تھی لیکن مجھے کچھ نہیں پتہ کیونکہ ہمیں اب یہ زبان نہیں آتی.اس لئے ہم اب قرآن نہیں پڑھتے.ابھی کچھ لوگ امریکہ اور مصر سے وہاں گئے تھے انہوں نے بھی بتایا کہ وہاں نوجوانوں کو قرآن کا بالکل پتہ ہی نہیں.صرف بڑھے پڑھتے ہیں اور مسجدوں میں نمازوں کے لئے آتے ہیں.اب وہاں عربی کا رواج نہیں رہا.اب اگر قرآن کا روسی ترجمہ وہاں چلا جائے تو یہ آٹھ کروڑ مسلمان بچ سکتا ہے.پس آٹھ کروڑ مسلمانوں کے بچانے کے لئے روسی ترجمہ قرآن بڑی جلدی شائع ہونا چاہئے.میں نے اس کے لئے ہدایتیں دے دی ہیں اور چودھری صاحب کو بھی کہا ہے.وہ امریکہ جاتے رہتے ہیں.وہ کوشش کریں کہ کوئی اچھا لائق آدمی روسی زبان کا ماہر مل جائے.مبلغوں کو بھی میں نے لکھوایا ہے.یہ خرچ بہت بڑا ہے.میرا خیال ہے کہ شاید آٹھ دس لاکھ روپیہ میں یہ ترجمہ چھپے گا مگر بہر حال اپنی اپنی جگہ پر اس کے متعلق تحریک کرو.اگر ترجمہ قرآن کرنے والے احتیاط سے ترجمہ کریں اور خواہ مخواہ رستہ چھوڑ کر روسی نظام پر حملہ نہ کریں صرف اس اخلاقی اور روحانی تعلیم پر زور دیں جو قرآن کریم میں ہے تو اس اخلاقی اور روحانی تعلیم میں وہ لوگ خود بخو د سموئے جائیں گے

Page 253

انوار العلوم جلد 25 229 اور دنیا کو فائدہ پہنچ جائے گا.خواہ مخواہ اٹیک (ATTACK) سے ایک قسم کا بغض پیدا ہو جاتا ہے.اگر اس طرح کام کیا جائے تو میرے نزدیک بہت مفید ہو سکتا ہے اور بلاواسطہ اس سے یورپین لوگ بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں کیونکہ اُن کو دشمنی روسیوں سے کم ہو جائے گی.اور روس بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے کیونکہ اس سے دوسرے ملکوں میں محبت پیدا ہو جائے گی.پس روسی ترجمہ قرآن کی طرف بہت جلد توجہ چاہئے.مولوی عبد المنان صاحب اور مینٹل ریلیجس کمپنی کے چیئر مین ہیں.اُن کو خاص طور پر اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور مجھے بار بار رپورٹیں بھیجتے رہنا چاہئے.ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ربوہ کی تعمیر میں بڑی دیر ہو رہی ہے.میں نے چودھری صاحب کو تحریک کی تو انہوں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی فکر میں تھا.اب انہوں نے ارادہ کیا ہے کہ اگلے سال کے شروع میں ان کا مکان بننا شروع ہو جائے.باقی دوستوں کو بھی جلد جلد مکان بنانے چاہیں.زمینیں بھی اب محکمہ والوں نے سستی کر دی ، جلد ہیں.جن لوگوں کے پاس زمینیں نہیں ہیں اُن کو زمینیں لینی چاہیں تاکہ جلد سے ربوہ کی تعمیر ہو جائے.مرکز اگر مضبوط ہو جائے تو اس کے کئی فوائد ہوتے ہیں.چندے کی نگرانی بھی اچھی طرح ہو سکتی ہے اور کالج اور سکولوں کی آبادی بھی ہو جاتی ہیں.پس دوستوں کو ربوہ میں جلد سے جلد زمینیں خریدنی چاہئیں.اب زمینیں سستی ہو گئی ہیں اور قسطیں بھی مقرر ہو گئی ہیں.اسی طرح جنہوں نے زمینیں خریدی ہوئی ہیں وہ تعمیر کا انتظام کریں.اور جن کو کوئی انڈسٹری آتی ہے وہ یہاں انڈسٹریاں کھولیں.اور جو پہلے سے ربوہ میں انڈسٹریاں جاری ہیں خصوصاً تحریک کی اُن کا مال خرید نے اور دوسروں کو خریدنے کی تحریک کرنے کو بھی ایک دینی خدمت سمجھیں تا کہ ان کے ذریعہ سے جماعت کے اموال بڑھیں اور اسلام کی تبلیغ ترقی کرے.اب میں سمجھتا ہوں کہ میں نے ڈاکٹری مشورہ سے بہت زیادہ تقریر کر لی.پس میں اسی پر آج کی تقریر کو ختم کرتا ہوں.دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے کل بھی کچھ بولنے کی توفیق دے دے اور جلسہ خیر وعافیت سے ختم ہو جائے.اب آخر میں آکر میر اسر

Page 254

انوار العلوم جلد 25 230 کچھ چکرانے لگا ہے ورنہ شروع میں تو میں اچھی طرح برداشت کرتا رہا ہوں.آئندہ بھی اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس سے کچھ بعید نہیں." الفضل 14 تا 22 فروری 1956ء) 1 گرین مینورینگ (GREEN MANURING) سبز کھاد.سبز پودوں کے کھیت میں ہل چلا کر انہیں کھاد کے طور پر زمین میں دبا دیا جاتا ہے تاکہ زرخیزی میں اضافہ ہو.2 گاؤٹ: (GOUT) گھٹیا.جوڑوں کی بیماری جس میں وافر یورک ایسڈ خون میں 34 شامل ہو جاتا ہے اور جوڑ متورم ہو جاتے ہیں.نقرس.وجع المفاصل گرس (GROSS) 12 در جن،144 عدد (فیروز اللغات) انٹر نیشنل نیم (INTERNATIONAL FAME) بین الا قوامی شہرت / مقبولیت لگانو (LUGANO) سوئٹزر لینڈ کا ایک شہر 6 نیگروز: (NEGRO) سیاہ فارم.حبشی نژاد

Page 255

انوار العلوم جلد 25 231 سیر روحانی (9) (28دسمبر 1955ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی نمبر (9)

Page 256

Page 257

انوار العلوم جلد 25 233 سیر روحانی نمبر (9) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (9) (فرمودہ 28دسمبر 1955ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل مضمون "سیر روحانی" شروع کرنے سے قبل متفرق امور کی طرف احباب جماعت کو توجہ دلاتے ہوئے حضور نے فرمایا:- کل مجھے ضعف تو ہوا لیکن خدا تعالیٰ کے فضل سے طبیعت بعد میں ٹھیک ہو گئی.ضعف کے ساتھ مجھے گھبراہٹ بھی رہی کیونکہ مجھے پتہ نہیں لگتا تھا کہ میرا دماغ تھک گیا ہے یا نہیں تھکا.کچھ بے حسی سی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے کمزوری ہوئی.آج صبح طبیعت اچھی تھی بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کل کی نسبت بہت اچھی رہی.عورتوں کے جلسہ گاہ کے متعلق ہدایت مگر میں جلسہ کے منتظمین کو توجہ دلاتا ہوں کہ جس جگہ پر میں رہتا ہوں وہ عورتوں کے جلسہ گاہ کے بالکل سامنے ہے.مردوں کے جلسہ گاہ کی آواز تو مجھے نہیں آتی تھی مگر عورتوں کی تقریریں مجھے یوں معلوم ہو تا تھا کہ ہتھوڑے مار رہی ہیں.بے تحاشادہ آواز اُس بر آمدہ میں گھستی تھی جو میرے کمرہ کے سامنے ہے اور متواتر بڑے زور و شور سے سنائی دیتی تھی.ہمارے ملک میں ایک مثل مشہور ہے اس پر عورتیں بے چاری عمل کرتی ہیں.کہتے ہیں: " بھکے جٹ کٹورا لبھا پانی پی پی آپھر یا عور توں کو کوئی بولنے نہیں دیا کرتا تھا.ہمارے ملک میں رواج تھا.کہتے تھے کہ عورت کی آواز نہ نکلے اس کا پر دہ ہے.حقیقت میں تو آواز کا کوئی پردہ نہیں لیکن ہمارے ملک کے لوگوں نے ایک مسئلہ بنایا ہوا تھا

Page 258

انوار العلوم جلد 25 234 سیر روحانی نمبر (9) کہ عورت کی آواز نہ نکلے اس کو اندر بند کر دو.ذرا کہیں عورت بولتی تھی تو جھٹ دروازے کے آگے کھڑے ہو کر مرد کہتے ہولی بولو ہولی بولو باہر آدمی ہن" گویا عور تیں آدمی ہی نہیں جنات ہیں.صرف اپنے آپ کو وہ آدمی سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ "باہر آدمی بہن ہولی بولو" ہم نے ان کو موقع دیا کہ ہولی نہ بولو تقریریں کرو اور پھر تقریریں ہی نہ کر ولاؤڈ سپیکر پر تقریریں کرو.تو وہ پانی پی پی آپھرنے لگ گئیں".پھر وہ اتنا گلا پھاڑتی ہیں کہ مرد بیچارے شرمندہ ہو جاتے ہیں اور وہ ان کے سامنے بالکل پیچ ہو جاتے ہیں.چنانچہ مردوں کی تقریریں ہوتی رہیں لیکن کوئی لفظ کان میں نہیں پڑا لیکن عورتوں کا جلسہ گاہ سامنے ہے.آئندہ منتظم جلسہ گاہ عورتوں کے لاؤڈ سپیکر کا منہ دوسری طرف کریں ہمارے مکان کی طرف نہ کریں تا کہ اپنے کان پھڑوانے کا کچھ حصہ دوسرے محلہ والے بھی لے لیں سارا میرے حصہ میں نہ آئے.میں نے اس سال کافی حصہ لے لیا ہے.اگر خدا تعالیٰ مجھے پھر کوئی جلسہ دیکھنے کی توفیق دے تو یہ کان پھاڑنے والا حصہ اس محلہ والوں کو ملے میرے حصہ میں نہ آئے کیونکہ اس بیماری کی وجہ سے میرے کان بھی کمزور ہو گئے ہیں جیسے آنکھ کمزور ہوئی ہے.پس بار بار اور متواتر آواز پڑنے کی وجہ سے بھی سخت صدمہ پہنچتا ہے اور تشویش سی پیدا ہو جاتی ہے.چیزیں ٹھیک نظر نہیں آتیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں.تو آئندہ کے لئے بجائے لاؤڈ سپیکروں کے منہ ادھر کو ٹھی کی طرف کرنے کے دوسری طرف کریں تا کہ وہ آواز پرے کی طرف جائے.اسی طرح کسی دوست نے شکایت کی ہے کہ عور تیں کہتی ہیں کہ ہم کو تو کوئی زیارت کا موقع نہیں ملا.اب تو میں بیمار ہوں جب تندرست تھا تب بھی میں کہتا تھا کہ مجھے عورتوں میں تقریر کرنے دو مگر کرنے نہیں دیتے تھے کہ کوئی شرارتی شرارت نہ کرے.مگر اتناڈرنا بھی اچھا نہیں ہوتا.اصل میں تو کوئی بے احتیاطی ہوئی ہے ورنہ بیعت تین دفعہ ہو چکی ہے.میں بر آمدہ میں جاکر کھڑا ہو جاتا ہوں اور بیعت کے الفاظ بولتا چلا جاتا ہوں.میری بیوی اُن الفاظ کو دُہراتی جاتی ہیں.نیچے ایک اور خاتون اونچی آواز سے دُہراتی جاتی ہیں

Page 259

انوار العلوم جلد 25 235 سیر روحانی نمبر (9) اور عور تیں بیعت کر لیتی ہیں.عورتوں کی بیعت آخر یہی ہوتی ہے.عورتوں نے ہاتھ میں ہاتھ تو دینا نہیں ہو تا بلکہ آج تو مردوں نے بھی پگڑیوں پر ہی بیعت کی ہے.ہاتھوں پر نہیں کی.تو موقع تو ان کو زیارت کا مل چکا ہے سوائے بعض عورتوں کے.یعنی بعض ایسی عور تیں ہیں جن کے متعلق مجھے شکایت پہنچی ہے کہ اُن کی نظر بہت کمزور تھی.مجھے باوجود عینک کے وہ جگہ تک نظر نہیں آتی تھی جہاں عورتیں بیٹھی تھیں.تو جن کی نظر بڑھاپے کی وجہ سے کمزور ہو اُن کو تو واقعی میری شباہت نظر نہیں آسکتی.لیکن یہ تو مجبوری ہے مگر پھر بھی میں ان کو کہہ دیتا ہوں کہ ان کو موقع دینا میں ان کا حق سمجھتا ہوں.جس طرح مردوں کا حق سمجھتا ہوں.مردوں میں بھی میں نے تاکید کی تھی کہ چونکہ انہیں خواہش ہوتی ہے کہ میر اچہرہ دیکھیں اس لئے سائبان ذرا اونچالگانا تا کہ لوگ شکل دیکھ سکیں.ایسا نہ ہو کہ لوگ اتنی دور سے آکے محروم رہ جائیں.سو عورتوں کے متعلق بھی میں پھر اپنی بیویوں وغیرہ کو ہدایت کرتا ہوں.اسی طرح دوسری منتظمات کو ہدایت کرتا ہوں کہ جو عورتیں رہ گئی ہیں بے شک اُن کو کہیں وہ وقت مقرر کرا دیں گی.وہ ہمارے گھروں میں نیچے صحن میں بیٹھ جائیں گی میں اوپر بر آمدہ میں کھڑے ہو کر ان کو سلام کروں گا اور دل میں ان کے لئے دعا کر دوں گا.اس طرح ان کی غرض پوری ہو جائے گی.میں نہیں چاہتا کہ وہ محروم رہیں.لیکن اس کا علاج یہی ہے کہ وہ بجائے مردوں کو کہنے کے مستورات سے کہیں.اور اب تو انہوں نے خود بھی سن لیا ہے وہ میرا حوالہ دے دیں کہ دیکھو جی انہوں نے کہا ہے کہ ہمارے لئے انتظام کیا جائے.وہ نیچے صحن میں جا کر بیٹھ جائیں اوپر بر آمدہ میں کھڑے ہو کر میں اُن کو السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہہ دوں گا.وہ وَعَلَيْكُمُ السّلام کہہ دیں گی.بیعت کرنے والی عورتوں نے بیعت بھی اِس طرح کی ہے.پھر سلام خود ہی دعا ہے.مزید دعا کی ضرورت نہیں السّلامُ عَلَيْكُمْ سے بڑی دعا اور کیا ہو گی.بہر حال اس طرح ان کی خواہش پوری ہو جائے گی.میں نے بتایا ہے کہ عورتوں کے جلسہ نے برابر ڈیڑھ دو بجے تک دم نہیں لینے دیا.تقریر پر تقریر ہوتی تھی اور یوں معلوم ہو تا تھا کہ ساری دنیا میں سب سے زیادہ میں ہی

Page 260

انوار العلوم جلد 25 236 سیر روحانی نمبر (9) اس بات کا محتاج ہوں کہ عورتوں کی نصیحت سنوں اور کوئی محتاج نہیں.نصیحت پر نصیحت میرے کان میں آتی تھی گو بوجہ دوری کے اور لاؤڈ سپیکر کے شور کے اور میرے کانوں کی خرابی کے میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ وہ مجھے کیا نصیحت کر رہی ہیں.مگر ان کی آواز لہجہ اور شدت اور سختی سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ وہ آج مجھے پوری طرح قائل کرنا چاہتی ہیں.پس اول تو انہوں نے کوئی موقع ہی نہیں دیا کہ میں کام کر سکتا.اس شور کی وجہ سے میرا دماغ بالکل پراگندہ تھا بلکہ اس کا یہ بھی نتیجہ ہوا کہ میری بھوک بالکل بند ہو گئی.شاید ایک لقمہ بمشکل میں کھا سکا.اس کے بعد جلسے کا وقت قریب آیا تو میں نے اُس تقریر کے نوٹ نکالے جس کو ہم علمی تقریر کہا کرتے ہیں.اس کا خدا تعالیٰ نے یہ سامان کر دیا کہ پچھلے سال میری تقریر لمبی ہو گئی اور میں تھک گیا جس کی وجہ سے ایک حصہ جو میں نے بیان کیا تھا گو وہ بھی پوری طرح بیان نہیں کر سکا تھا مگر دوسرا حصہ پڑارہ گیا اس لئے وہ آج کام آگیا ہے.بہر حال میں نے وہ نوٹ نکال کر انہیں پڑھنا چاہا کیونکہ اس میں بہت سی آیتیں آتی ہیں اس لئے ضروری تھا کہ میں ایک دفعہ پھر ان کو پڑھ جاؤں اور ترتیب کے لحاظ سے بھی ضروری تھا کہ میں پڑھوں تا کہ مجھے ترتیب یاد ہو جائے مگر جیسا کہ کل میں نے بتایا تھا آنکھ لگانے سے میری طبیعت تھک جاتی ہے اور بڑی جلدی دماغ کمزور ہو جاتا ہے.پس اس وجہ سے بھی طبیعت میں تھکان پیدا ہوئی اور دماغ میں ایک تشویش سی پیدا ہوئی.ڈاکٹروں نے میری آنکھ کے متعلق کہا ہے کہ اس میں ذاتی طور پر کوئی نقص نہیں یہ اعصابی کمزوری ہے.جب آپ کو پریشانی ہوتی ہے تو آنکھ میں بھی کمزوری آجاتی ہے.چنانچہ جب میں نے وہ نوٹ پڑھے تو دماغی پریشانی پیدا ہوئی اور ساتھ ہی کانوں اور آنکھوں میں بھی نقص پیدا ہو گیا اور اس وجہ سے بھی تشویش ہوئی.اب اللہ بہتر جانتا ہے کہ آیا میں ترتیب کو نبھا سکوں گا یا نہیں.لیکن بہر حال میں اپنی طرف سے کوشش کروں گا.سیر روحانی کا ایک سلسلہ مضامین میں نے پچھلے چند سالوں سے سیر روحانی کا ایک سلسلہ مضامین جاری کر رکھا ہوا ہے جو زیادہ لمبا ہو گیا ہے مگر بہر حال آپ لوگوں کو ہر سال ایک

Page 261

انوار العلوم جلد 25 237 سیر روحانی نمبر (9) نیا مضمون سننے کا موقع مل جاتا تھا.گو افسوس ہے کہ وہ لیکچر جلدی دیکھے نہ گئے.اگر جلدی دیکھے جاتے تو اب تک کتابیں چھپ جاتیں.میرا آج کا مضمون بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.میر اخیال تھا کہ یہ سارے مضامین مکمل ہو چکے ہیں لیکن جب میں نے اس کے متعلق پوچھا تو مجھے مولوی محمد یعقوب صاحب نے بتایا کہ ابھی تین مضمون باقی ہیں.اگر اللہ تعالیٰ کا منشاء ہو ا تو اگلے سال یا دورانِ سال میں کسی وقت ان کو بیان کر دیا جائے گا.انہوں نے بتایا ہے کہ آپ نے جو مضامین بیان کئے تھے ان میں سے لنگر ، کتب خانے اور باغات رہ گئے ہیں.پچھلے سال جو میں نے نوٹ لکھے تھے ان میں سے ایک نہروں کا مضمون تھا جو رہ گیا تھا.وہ نہروں کے نوٹ لکھے ہوئے میرے پاس تھے.وہ بھی میں نے ٹھیک کروائے اور آیتیں بتا دیں جو انہوں نے خوشخط لکھوادیں.گو بہر حال جب دوسرا شخص لکھتا ہے تو چونکہ اُس کے ذہن میں مضمون نہیں ہوتا وہ آگے پیچھے کر دیتا ہے.چنانچہ انہوں نے بھی ایسا ہی کیا کہ مضمون کے اندر مضمون خلط کر دیا.میں نے اس کو ٹھیک کرنے کی تو کوشش کی ہے لیکن بیمار آدمی کتنا ٹھیک کر سکتا ہے.پھر بھی کچھ خلط باقی رہ گیا تھا جس کے متعلق میں نے آج کوشش کی کہ اسے دور کروں.بہر حال میں کوشش کروں گا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے آج اس مضمون کو بیان کروں.اللہ تعالیٰ کی صفات لیکن اس سے پہلے میں ایک اور مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں جو در حقیقت اس مضمون کا ایک حصہ ہے کیونکہ یہ مضمون بھی اللہ تعالیٰ کی صفات اور قرآن کریم کے کمالات کے متعلق ہے اور وہ بات بھی اللہ تعالیٰ کی صفات اور قرآن کریم کے کمالات کے ساتھ ہی تعلق رکھتی ہے.ہماری نجات کا یہی ذریعہ ہے آج جس وقت ایک نوجوان قرآن کریم کی تلاوت کر رہا تھا اور اس نے یہ آیت پڑھی کہ اللہ تعالیٰ ہمارے عیوب کہ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ! کہ جو کچھ تم اور کمزوریوں کو بھلا دے کرتے ہو اللہ تعالیٰ اس کے ذرہ ذرہ کا واقف ہے

Page 262

انوار العلوم جلد 25 238 سیر روحانی نمبر (9) تو میرے دل نے کہا کہ نیک بخت! یہ آیت ثابت کرتی ہے کہ اللہ تعالی کامل ہے.پر اگر الله خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہے تو ہمارا بیڑا غرق ہو گیا.ہم سے تو ہزاروں کو تا ہیاں ہوتی ہیں.اگر اللہ کو ذرے ذرے کا علم ہے تو پھر ہم تو گئے.قرآن شریف بھی دوسری جگہ فرماتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے گرفت کرنے لگے تو دنیا پر کوئی جاندار باقی نہ رہے.2 پس میرا دل کانپ گیا اور میں نے کہا کہ الہی! خبیر ہونا تو تیری صفت ہے اگر تو خبیر نہ ہوتا تو تو ناقص ہوتا.ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ خدایا !تو خبیر نہ ہو.پس تیر اخبیر ہونا تو ضروری ہے.لیکن اگر تو خبیر ہے تو تیرے بندوں کا بیڑا غرق ہو گیا.کیونکہ ان میں تو کمزوریاں ہیں.تُو نے کوئی بات چھوڑنی نہیں.ساری کی ساری تجھے پتہ لگ جانی ہیں اگر اُن کے دل میں کوئی بُرا خیال آگیا، کوئی عمل بُرا ہو گیا، کوئی زبان سے بُری بات نکل گئی تو وہ بیچارے تو مارے گئے.تو نے تو قرآن میں کہا ہے کہ میں نے ہر چیز کا علاج رکھا ہے تو کیا اس کا بھی کوئی علاج ہے؟ تیری کوئی ایسی بھی صفت ہونی چاہئے جو تیری صفت خبیر پر بھی پردہ ڈال دے ورنہ تیرے بندوں کی خیر نہیں.اس پر معاً (حالانکہ میں بیمار ہوں مگر موقع پر اللہ تعالیٰ مجھے اب بھی آیتیں سمجھا دیتا ہے) مجھے ایک آیت یاد آگئی جو ہے تو اور مطلب کے لئے قرآن میں استعمال ہوئی لیکن یہاں بھی وہ استعمال ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ میرے بعض بندوں نے مجھے بھلا دیا سو میں نے بھی ان کو بھلا دیا.23 میں نے کہا خدا کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ اس میں قدرت ہے کہ وہ جو چیز چاہے بھلا دے.اس پر لوگ اعتراض کیا کرتے تھے خصوصاً عیسائی اور ہند و اعتراض کرتے تھے کہ یہ اچھا خدا ہے کہ بھولنا بھی اس کی صفت ہے.میں نے سمجھا کہ بھولنے سے زیادہ اچھی صفت اور کون سی ہو گی.ہماری بد اعمالیاں اگر اس میں بھولنے کی طاقت ہے تو ہم بچ گئے اور اگر اس میں بھولنے کی صفت نہیں ہے تو پھر ہم مارے گئے.خبیر تو وہ ہے مگر اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اپنی خبیر ہستی پر پردہ ڈال دے جس طرح انسان کپڑے پہن کے اپنے جسم کو ڈھانپ لیتا ہے تو اس وقت جسم تو اس کا کامل ہوتا ہے لیکن کپڑے پہن کے اس کو ڈھانک لیتا ہے.پس إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ

Page 263

انوار العلوم جلد 25 239 سیر روحانی نمبر (9) سے میرا دل لرز گیا کہ یا اللہ ! تیرے اتنے بندے بیٹھے ہیں جو تیرے دین کی خاطر یہاں آئے ہیں.ان غریبوں کا اگر قیامت کے دن تو نے اپنے خبیر ہونے کے لحاظ سے حساب لینا شروع کیا تو یہ تو سارے مارے گئے.نہ روزے ان کے کام آئیں گے ، نہ زکو تیں کام آئیں گی ، نہ حج کام آئیں گے ، نہ اور کوئی چیز کام آئے گی کیونکہ انسان کے ساتھ کمزوری لگی ہوئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ شیطان اس طرح انسان کے ساتھ ہے جس طرح کہ اس کے جسم میں خون چلتا ہے.تو یہ بیچارے غریب تو مارے گئے.تیرے ساتھ محبت بھی کرتے ہیں، پیار بھی کرتے ہیں، تیرے دین سے محبت کرتے ہیں، تیرے رسول سے بھی محبت کرتے ہیں، تیری کتاب سے بھی محبت کرتے ہیں پر آخر تُو نے ان کو کمزور بندہ پیدا کیا ہے.وہ بیچارے اپنی کمزوریاں کہاں لے جائیں.ان کمزوریوں کے ساتھ تو ان کا بیڑا غرق ہو جائے گا کیونکہ تو خبیر ہے.تو جھٹ مجھے اللہ تعالیٰ نے سمجھایا کہ قرآن کریم میں یہ بھی تو آتا ہے کہ فَنَسِيَهُم خدا ان کو بھول گیا.جس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خدا میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ اپنی علم والی طاقتوں پر بھی پردہ ڈال دے اور کہے چلو ہم نے اس بات کو بھلا دیا.ایک حدیث میں آتا ہے (گو خدا کی طرف سے نہیں آتا بندے کی طرف سے آتا ہے پر اس کا ہے اسی مضمون کے ساتھ تعلق) کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ایک بندے کے متعلق اس کی کسی نیکی کی وجہ سے فیصلہ کرے گا کہ اس کو بخشنا ہے لیکن اس کے اعمال ایسے ہوں گے کہ وہ دوزخ میں جائے.اللہ تعالیٰ اُس کو بلائے گا اور کہے گا اے میرے بندے! تو نے فلاں جگہ پر یہ بدی کی تھی انکار کرنے کی تو گنجائش نہیں ہو گی.کہے گا حضور ! یہ ٹھیک ہے میں نے کی تھی.فرمائے گا جا اس بدی کے بدلہ میں میں نے تیرے لئے دو نیکیاں لکھ دیں.وہ کہے گا الْحَمْدُ لِلهِ تیری یہی شان ہے.پھر اللہ تعالیٰ ایک اور گناہ گنائے گا اور فرمائے گا تو نے یہ بھی بدی کی تھی.کہے گا ہاں حضور کی تھی.اللہ تعالیٰ فرمائے گا چل اِس بدی کے بدلہ میں بھی میں نے تیرے لئے پانچ نیکیاں لکھ دیں.پھر ایک اور بدی گنائے گا اور کہے گا چلو اس کے بدلہ میں میں نے تیرے لئے

Page 264

انوار العلوم جلد 25 240 سیر روحانی نمبر (9) دس نیکیاں لکھ دیں.اسی طرح گنا تا چلا جائے گا.جب کئی دفعہ گنا چکے گا اور بات ختم کرے گا تو بندہ دلیر ہو جائے گا اور آگے بڑھ کر کہے گا.حضور ! آپ تو بھولا نہیں کرتے میری تو بہت سی بدیاں باقی ہیں اور میرے تو اس سے بہت بڑے بڑے گناہ باقی ہیں.ان چھوٹی چھوٹی بدیوں کے بدلہ میں آپ نے پانچ پانچ دس دس نیکیاں دی ہیں تو اس طرح تو میری ہزاروں نیکیاں ابھی باقی ہیں.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.میرا بندہ میرے عفو کو دیکھ کر کتنا دلیر ہو گیا ہے اب آپ ہی اپنے گناہ گنانے لگ گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرشتوں کو فرمائے گا میرے اس بندے کو جنت کے دروازوں پر لے جاؤ (جنت کے کئی دروازے مختلف درجوں کے لوگوں کے لئے ہوں گے) اور اس بندے کو اختیار دینا کہ جس دروازہ میں چاہے جنت میں داخل ہو جائے.تو دیکھو! خدا تعالیٰ کے بھلانے کی صفت بھی کتنی کمال کی ہے.جس طرح یاد رکھنے کی صفت ایسی ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو سکتا اسی طرح بھلانے کی طاقت بھی اس میں کمال درجے کی ہے.ہم بھلانا چاہیں تو نہیں بھلا سکتے.فکر لگتی ہے تو لگتی ہی چلی جاتی ہے.جیسے مجھے بیماری میں ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ بھلا دو اور میں ان سے کہتا ہوں بھلاؤں کس طرح؟ کوئی اس کی دوائی بھی ہے؟ وہ کہتے ہیں اس کی دوائی تو کوئی نہیں آپ زور لگائیں.لیکن اللہ تعالیٰ میں یہ طاقت ہے وہ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم بعض چیزوں کو بھلا دیں گے کیونکہ ہم نہیں چاہیں گے کہ وہ ہمارے سامنے آئیں.گو وہ آیت ہے تو دشمنانِ دین کے متعلق اور کفار کے متعلق مگر اس سے اتنا تو پتا لگ گیا کہ خدا میں بھلانے کی صفت ہے.وہ صفت جو کافروں کے لئے ہے وہ ہمارے بھی کام آسکتی ہے.تو اللہ تعالیٰ خبیر ہے لیکن اُس میں یہ بھی طاقت ہے کہ وہ جس چیز کو چاہے بھلا دے.سو میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات مومن بندے کے لئے بڑی خوشی کا موجب ہو جاتی ہے.جب وہ یہ سوچتا ہے کہ میں بڑا گناہ گار ہوں، بڑا کمزور ہوں پر میر امالک اور میرا آقا جہاں خبیر اور علیم ہے.وہاں ناسی بھی ہے بھول بھی جاتا ہے.یو نہی تو نہیں بھولتا.رضی ہوتی ہے تو بھلا دیتا ہے.

Page 265

انوار العلوم جلد 25 241 سیر روحانی نمبر (9) اللہ تعالیٰ پر تو یہ مثال چسپاں نہیں ہوتی.بظاہر گستاخی لگتی ہے مگر ہمارے ملک والوں نے ایک مثال بنائی ہے کہتے ہیں." ایہہ ہے.یملا جٹ " یعنی جٹ بعض دفعہ اپنے آپ کو ایسا سادہ بناتا ہے کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے کہ کیا واقع میں یہ نہیں جانتا.تو " یملا جٹ" ہمارے ملک میں اس کو کہتے ہیں جو جانتا تو ہے پر انجان بن جاتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی سب کچھ جانتا ہے مگر وہ بعض دفعہ انجان بھی بن سکتا ہے.ایک قصہ مجھے ایک دفعہ کسی دوست نے سنایا کہ ایک تھانیدار نے کسی زمیندار کی بے عزتی کی اور وہ بہت ذلیل ہوا.وہ پاگل بن گیا اور کئی سال پاگل بن کر پھر تا رہا.جب اُس نے دیکھا کہ سارے ملک کو پتہ لگ گیا ہے کہ میں پاگل ہوں تو ایک دن ڈپٹی کمشنر کے ہاں چلا گیا اور جا کے کہا کہ میں نے ملنا ہے.وہ ڈپٹی کمشنر کچھ مذاقی طبیعت کا تھا کہنے لگا.ملالو.یہ گیا تو ڈپٹی کمشنر نے گر سی دی اور یہ اس پر بیٹھ گیا.پھر کہنے لگا صاحب! تیرا جیہڑا تھانیدار ہے اس دی کی تنخواہ ہوندی ہے “؟ اُس وقت تھانیدار کی بہت تھوڑی تنخواہ ہوا کرتی تھی اُس نے مثلاً کہا پچاس روپے.وہ کہنے لگا کہ ”اے جیہڑا تحصیلدار ہے اُس دی کی تنخواہ ہے؟ اُس نے مثلاً کہہ دیا سو روپیہ ہے.پھر کہنے لگا "ڈپٹی دی کی تنخواہ ہے؟" اس نے کہا اس کی اڑھائی سو تنخواہ ہے.آخر میں کہنے لگا " تیری کی تنخواہ ہے ؟" اس نے کہا میری پندرہ سو تنخواہ ہے.کہنے لگا کہ ”ایڈا جھوٹ ! میں بیوقوف ہی سہی مینوں سودائی کہندے ہو میں سودائی ہی سہی.پر اپنی گل بھی نہیں سمجھدا.ڈپٹی کمشنر کہنے لگا نہیں نہیں ہماری پندرہ سو روپیہ تنخواہ ہے.کہنے لگا ” اوہدی پنجاہ کہندا ایں تے اوہدے گھر تے چھ مہیاں بنھیاں پیاں ہن تے بیوی دے کن ٹنڈے ہن سونے دے زیوراں نال تے گلے دے وچ سونے دے ہار پائے ہوئے.تے گھوڑیاں اپنی رکھیاں ہوئیاں، نوکر اپنے رکھے ہوئے، تے ایناں سامان ہے.تیرے گھر تے کچھ وی نظر نہیں آندا.میں کس طرح من لواں کہ پندرہ سو تنخواہ ہے“.غرض ایسی سیدھی بات کہی کہ ڈپٹی کمشنر کے دل میں شک پیدا ہو گیا.اُس نے اُسی وقت ایک دیانتدار ڈپٹی کو بلا کر بھیجا کہ جا کے دیکھو یہ ٹھیک ہے؟ اور اس کے گھر میں دیکھو کہ گھوڑیاں ہیں؟ بھینسیں ہیں ؟

Page 266

انوار العلوم جلد 25 242 سیر روحانی نمبر (9) نوکر ہیں ؟ اندر عورت بھیجو جو دیکھے کہ بیوی کے پاس زیور ہے؟ اُس نے آکے کہا کہ ٹھیک ہے.اُس نے اُسی دن اُس تھانیدار کو ڈسمس کر دیا اور نکال دیا.اب دیکھو وہ پاگل بنا اور اُس نے اپنا بدلہ لے لیا مگر یہ تو جٹ کے متعلق کہتے ہیں.اللہ تو ہمارا کامل ہے وہ تو نہ سید ہے نہ پٹھان ہے نہ مغل ہے ، نہ جٹ ہے.مگر قرآن کہتا ہے اُس میں یہ بھی صفت ہے کہ وہ جب چاہے بات کو بھلا دیتا ہے.اور پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ رَحمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ میری رحمت ساری چیزوں پر حاوی ہے اگر اللہ تعالیٰ کافروں کے متعلق بھلا دے گا تو مومنوں کے متعلق کیوں نہ بھلائے گا.اُس کی تو رحمت ہر چیز پر حاوی ہے.پس ہماری نجات کا ذریعہ یہی ہے کہ خدا ہمارے خیالات کو بھلا دے، ہماری کمزوریوں کو بُھلا دے، ہمارے نقصوں کو بھلا دے اور اس وقت ایسا بن جائے کہ وہ کہہ دے مجھے نہیں پتہ میرے بندے نے کیا کیا ہے.جیسے احادیث میں آتا ہے کہ اعْمَلُوا مَا شِئْتُم 7 جاؤ جاؤ جو مرضی ہے کرو میں دیکھتا ہی نہیں، میں نے آنکھیں وام بند کر لی ہیں.تو مجھے اس تلاوت سے یہ نقطہ سو جھا.پہلے طبیعت گھبر ائی پھر دل نے کہا کہ تیرا واسطہ اسی خدا سے نہیں جو کہ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ ہے.بلکہ اُس خدا سے بھی ہے جو اپنے متعلق کہتا ہے کہ فَنَسِيَهُم وہ ان کفار کو بھول گیا اگر وہ ان کفار کو بھول گیا تو مومن پر رحمت کرنے کے لئے جب کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُل شَيْءٍ آیا ہے وہ کیوں نہ اس کے گناہ بھول جائے گا.وہ بھی کہہ دے گا کہ جاؤ ہم نے آنکھیں بند کر لیں.مجھے پتہ تو ہے پر آج ہم ایسے انجان بن جاتے ہیں کہ گویا ہمیں کچھ پتہ نہیں.کل کی تقریر میں میں نے اخبارات و رسائل خریدنے کی تحریک الفضل کے متعلق تحریک کرنی تھی کہ الفضل ہمارے سلسلہ کا بڑا اہم آرگن ہے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے لیکن میں بھول گیا.میں تو اس لئے بھول گیا کہ بیماری میں مجھے بھولنے کی مرض ہو گئی ہے.ہمارا خدا سب کچھ جانتا ہے.وہ بھی کبھی کبھی مصلحتنا بندوں کے فائدہ کے لئے بھول جاتا ہے یا اپنے

Page 267

243 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 غناء کو ظاہر کرنے کے لئے بھول جاتا ہے اور میں تو کمزور انسان ہوں.دوستوں کو چاہئے کہ الفضل کی اشاعت کی طرف توجہ کریں کیونکہ مرکز کا آرگن اگر پہنچتا رہے تو مرکز ، تعلق قائم رہتا ہے.میں نے بتایا تھا کہ آپ لوگوں کو بار بار ربوہ آنا چاہئے.آپ یہ تو نہیں کرتے کم سے کم الفضل پڑھ کے ہی آیا کریں اس سے بھی کچھ تعلق ہو جائے گا مگر الفضل کافی نہیں.بیشک الفضل خریدیں بھی اور لوگوں کو پڑھوائیں بھی لیکن اس کے علاوہ خو د عادت ڈال لیں کہ چاہے کچھ تنگی اٹھانی پڑے، کام کو کچھ تھوڑا بہت نقصان پہنچے پھر بھی بار بار یہاں آتے رہیں اور بغیر میری طبیعت پر بوجھ ڈالنے کے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں.وہ طریق یہی ہے کہ نماز کے لئے میں گیا تو وہاں بات کر لی اور کوئی مسئلہ پوچھ لیا.اسی طرح عورتوں نے لکھا ہے کہ مصباح کے متعلق تحریک کریں.عورتیں خدا کے فضل سے ہماری جماعت میں اب پچاس ساٹھ ہزار ایسی ہیں جو کہ مصباح خرید سکتی ہیں.کم سے کم پندرہ ہیں ہزار بلکہ تیس چالیس ہزار تو پڑھی ہوئی ہوں گی.اگر وہ باوجو د پڑھے ہوئے ہونے کے اور مقدرت رکھنے کے مصباح کو نہیں خرید تیں جو ان کا اپنار سالہ ہے تو میری نصیحت ان پر کیا اثر کر سکتی ہے.سنا ہے اس کی چھ سات سو اشاعت ہے گویا سو عورتیں جو خرید سکتی ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں خریدتی.اسی طرح فرقان والوں نے کہا ہے کہ ہمارار سالہ انصار اللہ کا رسالہ ہے اس کے متعلق بھی تحریک کریں.اب میں نہیں سمجھتا کہ اگر انصار اللہ جو اللہ کے مدد گار بنتے ہیں وہ اپنی بھی مدد نہیں کر سکتے تو انہوں نے خدا کی کیا مدد کرنی ہے.گو انصار اللہ کے حقیقی وہ معنی یہ نہیں ہیں کہ "خدا کے مدد گار ".بلکہ اس کے معنی یہ ہوتے ہیں.انصار لِلهِ خدا کی خاطر دین کی مدد کرتے ہیں.مگر جو خدا کی خاطر دین کی مدد نہیں کرنا چاہتا وہ میری خاطر کیوں کرے گا.انصار اللہ کے پرچہ فرقان کی تھوڑی سی قیمت ہے وہ تو میرے خیال میں چھپیں تیس چالیس پچاس ہزار بلکہ لاکھ چھپنا چاہئے.اگر نہیں چھپتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ لوگوں میں اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں.اور جس میں ذمہ داری کا احساس نہیں اُسے میرے کہنے سے کیا بنتا ہے.

Page 268

انوار العلوم جلد 25 244 سیر روحانی نمبر (9) آخری پارہ کی تفسیر اور اسی طرح اب قرآن شریف کے آخری پارہ کی سیر روحانی جلد 2 تفسیر چھپ رہی ہے.اب کے میں نے آتے ہی اس خیال سے کہ کسی طرح یہ آخری پارہ تو ختم ہو مولوی نور الحق صاحب کو اپنے نوٹ لکھوانے شروع کر دیئے تھے اور اُن سے کہا تھا کہ تم ذرا کھول کے ان کو لمبا کر کے لکھ دو.انہوں نے لکھ دیا ہے اور اب وہ تفسیر چھپنے والی ہے.اسی طرح سیر روحانی کی دوسری جلد بھی چھپ رہی ہے.ایک جلد تو پہلے چھپ چکی ہے.دوسری جلد جس میں تین لیکچر آگئے ہیں وہ بھی لکھی جارہی ہے اور میں نے سن کر اس کی درستی کر دی ہے.اگر اللہ تعالیٰ نے آج مضمون بیان کرنے کی توفیق دے دی تو پھر شاید تیسری جلد بھی مکمل ہو کر شائع ہو جائے گی.پس دوستوں کو قرآن کریم کی تفسیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ”سیر روحانی“ کی طرف کہ اس کے اندر بہت سے مضامین خدا تعالیٰ کے فضل سے آگئے ہیں.درمیان میں خدام الاحمدیہ نے بھی اپنا رقعہ دے دیا ہے اس لئے میں تقریر کو روک کر اس کو بیان کرتا ہوں.وہ کہتے ہیں کہ کام کے لحاظ سے مجلس خدام الاحمدیہ کراچی اول آئی ہے.اس کو جھنڈ ا ملے گا.اسی طرح دیہاتی مجالس میں سے نصرت آباد سندھ کی مجلس اول آئی ہے.اس کو سرٹیفکیٹ ملے گا جس پر کل مجھ سے دستخط کر وائے گئے ہیں.سو میں یہ اعلان کر دیتا ہوں.باقی جھنڈا جہاں سے ملتا ہے وہاں جا کر لے لیں.میں یہ کہہ رہا تھا کہ قرآن شریف کی تفسیر چھپ رہی ہے.اس کے متعلق مجھے بعض غیر احمدیوں کے بھی خط آئے ہیں.چنانچہ سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک کی جو تفسیر ہے اس کے متعلق ایک غیر احمدی کا مجھے خط آیا کہ ایک احمدی نے مجھے یہ جلد دی تھی جسے وہ واپس مانگ رہا ہے.میں سو روپیہ دیتا ہوں مگر وہ تفسیر نہیں دیتا.آپ مجھے سو روپیہ پر لے دیں.میں نے پوچھا تو مجھے بتایا گیا کہ ابھی اس کی ایک جلد ایک سو پچیس روپے میں پکی ہے.میں نے کہا تم سو سمجھ کے کہتے ہو گے کہ تم بڑی قربانی کر رہے ہو وہ تو 125 روپے کی ابھی پکی ہے حالانکہ پہلے چار چار روپیہ میں یہ کتاب کی تھی مگر اُس وقت

Page 269

انوار العلوم جلد 25 245 سیر روحانی نمبر (9) لوگوں نے نہیں لی اب ایک سو پچیں ایک سو پچھیں اور سوسو کو غیر احمدی بھی لے رہے.اب یہ آخری پارہ کی چوتھی جلد چھپے گی گویا یہ سورتیں آخری سورتیں ہیں.پس دوستوں کو چاہئے کہ وقت پر اس کتاب کو خریدیں.ایسا نہ ہو کہ بعد میں ان کی نسلیں محروم رہ جائیں یا ان کو چار پانچ روپیہ کی جگہ سورو پہ لگانا پڑے.قرآن مجید کا گورمکھی اسی طرح ایک ضروری بات یہ تھی کہ اس وقت ہندوستان اور پاکستان کے الگ ہو جانے کی وجہ سے اور ہندی میں ترجمہ گور مکھی اور ہندی زبان کی زیادہ اہمیت ہو گئی ہے اور اس ملک میں تبلیغ اسلام کا کام بڑا ضروری ہے.اگر آپ لوگ قادیان کی عزت کو قائم رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اس ملک میں تبلیغ وسیع کرنی پڑے گی.پس فوراً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی کتابوں کا گور مکھی اور ہندی میں ترجمہ ہو جانا چاہئے اور قرآن شریف کا گور مکھی اور ہندی میں ترجمہ ہو جانا چاہئے.میں ” اور مینٹل ریلیجس بک سوسائٹی کو توجہ دلاتا ہوں کہ گور مکھی ترجمہ ہوا ہی ہے غالباً ہندی بھی ہو چکا ہے اِن دونوں کو وہ فوراً شائع کریں.مجھے افسوس ہے کہ باوجود اس کے کہ اس کمپنی میں زیادہ حصہ تحریک جدید کا ہے اور انجمن کے اور میرے حصے ملا کر قریبا نوے فیصدی ہمارے حصے ہیں.اس لئے اگر نفع بھی آئے گا تو توے فیصدی انجمن کو جائے گا یا تحریک کو جائے گا یا کچھ مجھے مل جائے گا ان پر تجارت کا اتنا غلبہ ہے کہ وہ کہتے ہیں اگر وہ مجھے یقین دلائیں کہ وہ دونوں تراجم کی ہزار ہزار کاپی خرید لیں گے تو پھر میں ان کو چھاپتا ہوں.حالانکہ ہم نے جو یہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ لگایا ہے تو اشاعت اسلام کے لئے لگایا ہے پیسوں کے لئے نہیں لگایا.گو پیسے بھی اگر یہ پک جائے گا تو آجائیں گے نہ بکے گا تو نہ آئیں.آخر ہمیں کیا شوق تھا خواہ مخواہ کی کمپنی بنانے کا.ہم نے تو اسے پیسوں کے لئے نہیں بنایا اشاعت اسلام کے لئے بنایا ہے.اس لئے اور مینٹل ریلیجس تک سوسائٹی کو میں کہتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے چیئر مین سے زیادہ اُن نمائندوں پر بھی ذمہ داری ہے جو انجمن کی طرف سے اور تحریک کی طرف سے اور میری طرف سے اس کمپنی میں ہیں.وہ OVER RULE

Page 270

انوار العلوم جلد 25 246 سیر روحانی نمبر (9) کر دیں چیئر مین کی رائے کو.وہ کہدیں ہم نہیں جانتے تجارت کیا ہوتی ہے فوراً چھاپو.بک جائے گا تو الْحَمدُ ِللهِ خدا کا فضل ہے.نہ بکے گا تو جس ثواب کے لئے ہم نے کمپنی بنائی تھی وہ حاصل ہو جائے گا.پس قرآن شریف کا گورمکھی اور ہندی ترجمہ فوراً شائع ہونا چاہئے.ورنہ یہ سمجھو کہ قادیان کی خیر کوئی نہیں.تم جب آنکھوں میں جھوٹے آنسو لا کے مجھے آکر کہتے ہو کہ قادیان کب ملے گی تو یہ محض جھوٹ ہوتا ہے.کیونکہ قادیان ملے نہ ملے قادیان کے بچنے کی صورت یہی ہے کہ وہاں کے ہندو اور سکھ مسلمان ہو جائیں.اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں.میرا ایک بچہ وہاں رہتا ہے.ایک بچے کو انڈونیشا میں تبلیغ کے لئے بھیجا ہوا ہے.بعض دفعہ بیماری میں دل میں گھبر اہٹ پیدا ہوتی ہے کہ وہ بچہ تو وہیں رہ جائے گا.اُس کی شکل بھی نہیں دیکھوں گا.پھر میں نے تذکرہ پڑھا تو اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام لکھا تھا کہ میں تیری نسل کو دور دور ملکوں میں پھیلا دوں گا.8 میں نے سمجھا اب میرا ایک بچہ انڈونیشیا میں بیٹھا ہے، ایک انڈیا میں بیٹھا ہے.وہ دور دور ملکوں میں پھیل گئے.قادیان بظاہر میلوں کے لحاظ سے دور نہیں مگر جو پاسپورٹ کی دقتیں دونوں گورنمنٹوں کے جھگڑے کی وجہ سے پیدا ہو گئی ہیں اُس کی وجہ سے انڈیا یورپ سے بھی زیادہ دور ہے.جنیوا کا ڈاکٹر شمٹ جو قادیان کے پاس بھی رہ گیا ہے (وہ سری گوبند پور میں آکر دو سال ٹھہر کر گیا ہے) اور جس کے پاس میں علاج کے لئے گیا تھا اُس نے مجھے کہا ڈاکٹر جے چند کا لڑکا میر اشا گر د ہے (ڈاکٹر جے چند لاہور کا بڑا مشہور ڈاکٹر تھا) اور اُس پر میں ایسا ہی اعتبار کرتا ہوں جیسے اپنے آپ پر.اس لئے آپ کو ضرورت ہو تو آپ اس سے مشورہ لے لیں.میں نے کہا دتی جانا ہم لوگوں کے لئے زیادہ مشکل ہے اور جنیوا آنا آسان ہے.تو انڈیا بھی اب دور کا ملک بن گیا ہے لیکن انڈو نیشیا تو ہے ہی دور.پس جب میں نے پڑھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور پیشگوئی ہے تو میں نے سمجھا کہ یہ تو ہمارے لئے معجزہ ہو گیا کہ پیشگوئی پوری ہو گئی اور میں نے اپنے دل کو کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نشان ہے اور خدا تعالیٰ کے نشانوں پر گھبرانے کی بات نہیں.اس کے کئی نشان ہیں جو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے.تو اس ملک کی اور

Page 271

انوار العلوم جلد 25 247 سیر روحانی نمبر (9) احمدیت کی نجات اس میں ہے کہ وہاں احمدیت پھیلے.اس کے لئے گور مکھی او ہندی ترجمہ شائع کرنا ضروری ہے.جب یہ ترجمہ چھپے گا خدا آپ اس کے پکنے کا سامان کر دے گا.یہ نادانی ہے اور اس سلسلہ کے روپیہ کا غلط استعمال ہے جس نے ڈیڑھ لاکھ روپیہ اس کمپنی میں لگایا ہے.میں نے بھی شاید پانچ ہزار کے حصے خریدے ہوئے ہیں لیکن میں نے تو کسی پیسے کے لئے نہیں خریدے.فرض کرو اگر سو پر دس روپے بھی آجائیں تو پانچ ہزار پر مجھے پانچ سو آ جائے گا.گویا چالیس روپیہ مہینہ ہوئے.میرے گھر کے افراد سو سے زیادہ ہیں.چالیس روپیہ مہینہ مجھے آگیا تو تین تین آنے فی آدمی آئے گا.تین تین آنے سے میرا کیا بنتا ہے.میں نے وہ پانچ ہزار اس لئے دیا تھا کہ اشاعت اسلام ہو گی، اپنے فائدہ کے لئے نہیں دیا تھا کیونکہ وہ کتنا بھی نفع لائے تب بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں.یعنی اس پیسے سے کچا آٹا بھی پھانکنے کے لئے میرے گھر کے افراد کو نہیں مل سکتا.تو گور مکھی اور ہندی ترجمہ فوراً چھپنا چاہئے اور جماعت کو چاہئے کہ وہ کمپنی والوں کے پیچھے پڑ جائے.تحریک کا روپیه تحریک کا روپیہ آخر آپ لوگوں نے ہی دیا ہے.تحریک نے کوئی جھوٹے نوٹ تو نہیں بنائے.تو آپ کہئے تحریک والا روپیہ ہمارا روپیہ ہے، انجمن کا روپیہ جو انجمن نے لگایا ہے وہ ہمارا ہے.کیوں تم گورمکھی اور ہندی ترجمہ نہیں چھاپتے؟ نہیں پکتا تو بے شک پڑا رہے لیکن ہندوستان میں تبلیغ ہونی چاہئے تاکہ قادیان بچ جائے.اگر قادیان کو کوئی خطرہ ہوا تو اے اور مینٹل ریلیجس تک سوسائٹی ! تمہاری گردنیں ہم پکڑیں گے اور تم ذمہ دار ہو گے اس چیز کے.تو جماعت سانس نہ لے.ہر ہفتہ ایک خط لکھ دیں کہ چھپا ہے کہ نہیں چھپا؟ نہیں تو ان کے خلاف الفضل میں مضمون لکھنے شروع کریں کہ کتنے سلسلہ سے غداری کرنے والے لوگ ہیں کہ ایسے اہم کام کو بھی نہیں کرتے.اور الفضل کا فرض ہے کہ ایسے مضمونوں کو چھاپے.میں نے کل ہی کہا تھا کہ جماعت کو موقع ملنا چاہئے کہ وہ انجمن اور تحریک پر زور ڈال سکے.

Page 272

انوار العلوم جلد 25 248 سیر روحانی نمبر (9) زمینداروں کی اصلاح اور ان کی ترقی اسی طرح ایک اور ضروری بات تھی جو کل میں بھول گیا.میں کے متعلق صدر انجمن احمدیہ کو ہدایات نے کہا تھا کہ ہمارے زمینداروں کو اپنی پیداوار بڑھانی چاہئے مگر زمیندار بیچارہ کچھ ایسا دماغ رکھتا ہے کہ بات سمجھنی اس کے لئے بڑی مشکل ہوتی ہے.اس کو یہ بتانا کہ کون سا موسم اچھا ہوتا ہے اور کس طرح فصل کی جاتی ہے نہایت ضروری بات ہے.جب تک کوئی اسے بار بار یہ باتیں نہ بتائے وہ سمجھ نہیں سکتا.میرے خیال میں صدر انجمن احمد یہ جس کی زیادہ تر ذمہ داری ہے اس کو چاہئے کہ اپنی ایک نظارت زراعت بنائے اور وہ زراعت کے ماہرین کا دورہ مقرر کرے.پہلے جماعتوں میں سیکرٹری زراعت مقرر کر ائے اور وہ تمام احمدیوں سے اقرار لیں کہ ہم کو جو ہدایات دی جائیں گی ہم اس کے مطابق فصلیں کریں گے.پھر یہ نظارت زراعت کا کوئی ماہر مقرر کربے جو دورہ کرے اور جا کر دیکھے کہ کس کس علاقہ میں کون کون سی فصل ہو سکتی ہے اور اس فصل کے بڑھانے کی کیا صورت ہو سکتی ہے.پھر اس کے اوپر ایک افسر ہو جو اُس کی نگرانی کرے اور دیکھے کہ اس پر عمل ہو رہا ہے یا نہیں.گویا جیسے کو آپریٹو سوسائٹیاں ہوتی ہیں اسی طرح ایگریکلچرل سوسائٹیاں بنائی جائیں اور سارے احمدی ممبر وعدہ کریں کہ ہمیں جو ہدایتیں دی جائیں گی ہم ان کی تعمیل کریں گے.انہیں بتایا جائے کہ اتنے ہل دینے ضروری ہیں.فلاں فلاں موقع پر اتنے ہل دینے ہیں، فلاں موقع پر پانی دینا ہے، اتنے پانی دینے ہیں، فلاں بیج بونا ہے اور فلاں فلاں فصل بونی ہے.پھر جس طرح چندے کی وصولی ہوتی ہے اسی طرح باقاعدگی سے یہ کام کروائیں.ہمارے سب سے زیادہ احمدی سیالکوٹ میں ہیں اور اس وقت تو جو وکیل الزراعت ہیں وہ بھی سیالکوٹ کے ہی رہنے والے ہیں.یعنی چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ.اور اسی طرح سید عبد الرزاق شاہ صاحب جو نائب وکیل ہیں نہایت ذہین اور ہوشیار نوجوان ہیں.وہ سیالکوٹ کے باشندے تو نہیں لیکن ان کے والد ساری عمر سیالکوٹ میں نو کر رہے ہیں.وہ بدوملہی کے پاس رعیہ میں ہوتے تھے.وہیں یہ پیدا ہوئے تھے.اگر سید عبد الرزاق شاہ صاحب اور چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ کے

Page 273

انوار العلوم جلد 25 249 سیر روحانی نمبر (9) ہوتے ہوئے سیالکوٹ کے زمینداروں کی طرف توجہ نہ کی جائے تو کتنی افسوس کی بات ہے.لیکن اس کے بعد پھر لائلپور اور سر گو دھا وغیرہ میں کوشش کی جائے.میں نے بتایا ہے کہ دوسرے ملکوں میں چودہ چودہ سو، پندرہ پندرہ سو روپے فی ایکٹر کم سے کم پیداوار کی جارہی ہے.یہ تو خود ایک احمدی نے مجھے بتایا لیکن اس کے علاوہ ایک وفد جاپان گیا تھا جس میں دولتانہ صاحب بھی تھے.وہاں سے واپس آ کے اس وفد کے ایک ممبر نے کہا کہ جاپان کی دو ہزار روپیہ فی ایکڑ آمد ہے لیکن دولتانہ صاحب نے کہا نہیں چھ ہزار آمد ہے وہاں تین تین سو من چاول پیدا ہو جاتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہاں فصل میں کھاد اچھی ڈالی جاتی ہے.حیوانی کھاد بھی یعنی گوبر بھی اور نباتاتی کھاد بھی.مگر ہمارے ملک میں گوبر کی کھاد نہیں ڈالی جاتی گوبر کا گند ڈالا جاتا ہے.گوبر کی کھاد کا اصول یہ ہے کہ ایک بڑا سا گڑھا کھودا جائے جو کم سے کم چھ فٹ گہر ا ہو.اصل میں تو پندرہ بیس فٹ گہرا ہونا چاہئے.اس کے نیچے شاخوں کی یا پتوں کی یا لکڑی کی راکھ ڈالی جائے.اس کے اوپر گوبر ڈالا جائے.اس گوبر پر پھر ایک تہہ آدھ انچ راکھ کی ڈالی جائے جو درختوں کی لکڑی کی راکھ ہو یا پتوں کی راکھ ہو.اس پر پھر دو فٹ تک گوبر ڈالا جائے اور پھر ایک آدھ انچ کی یا ایک انچ کی راکھ کی تہہ دی جائے.پھر گوبر ڈالا جائے.اور پھر اس کے اوپر ایک راکھ کی تہہ دی جائے.پھر گوبر ڈالا جائے.اس طرح تین چار لیئرز (LAYERS) میں (ایک لیئر تین تین چار چار فٹ کی ہو) اسے سطح زمین تک لائیں.اُس کے بعد اس کو پانی دے دیں اور اُسے بند کر دیں اور پندرہ ہیں دن پڑا رہنے دیں.پندرہ بیس دن کے بعد کھول کر پھر پانی دے دیں پھر کچھ مدت تک پڑا رہنے دیں پھر کھول کر پانی دے دیں.اس طرح تین مہینے تک اس کو زمین میں دفن رہنے دیں مگر اوپر مٹی پڑی ہوئی ہو تا کہ اس میں سے ایمو نیا ضائع نہ ہو.کھاد کا جو سب سے اچھا حصہ ہوتا ہے وہ ایمونیا ہوتا ہے.یہ جو مصنوعی کھاد آتی ہے یہ بھی ایمونیم سلفیٹ ہی ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے جانور کے پیٹ میں کچھ ایسے مادے رکھے ہیں کہ وہ گھاس کھا کے جو گوہر پھینکتا ہے اس سے ایمونیا کافی مقدار میں بنتا ہے.غرض دو تین مہینے کے بعد جب بالکل گل جائے تو پھر وہ

Page 274

انوار العلوم جلد 25 250 سیر روحانی نمبر (9) کھیت میں ڈالی جائے.اسی طرح جو نباتاتی کھا د ہے اس کا بھی یہ طریق ہے کہ بونے کے بعد جس وقت وہ اتنی بڑی ہو جائے کہ ابھی اس کو پھلی نہ لگے تو اس میں گہر ا ہل چلا دیا جائے.مثلاً گوارہ ہے، جنتر ہے یا سن ہے.یہ اچھی کھاد والی فصلیں ہیں.جس وقت یہ کچھ اونچی ہو جائیں، بالکل کچھی نہ رہیں، بس نیم پختہ ہو جائیں تو ان میں گہر اہل چلایا جائے اور اِس کو گرادیا جائے.پھر اس کے اوپر خوب مٹی ڈالی جائے تاکہ وہ دفن ہو جائے.پھر اس کو پانی دیا جائے یہاں تک کہ وہ اندر ہی گل جائے.اس طرح پانچ چھ مہینے کے بعد وہ اعلیٰ درجہ کی کھاد ہو جاتی ہے بشر طیکہ اس کے اندر کچھ تھوڑی سی جانور کی کھاد بھی ملالی جائے.پھر تو وہ بہت زیادہ قیمتی ہو جاتی ہے.سائنس دانوں کا تجربہ ہے کہ جانور کی کھاد چھ سال تک اثر کرتی ہے اور نباتاتی کھاد کوئی تین فصلوں تک اثر کرتی ہے اس کے بعد بے کار ہو جاتی ہے.اس کھاد میں جو پیداوار ہوتی ہے وہ بڑی اعلیٰ درجہ کی ہوتی ہے.پس وہ افسر جائیں اور جا کر ان کو طریق بتائیں اور پھر ان کی نگرانی کریں.جس طرح چندے کی وصولی کے لئے انسپکٹر جاتے ہیں اسی طرح زراعت دیکھنے کے لئے بھی انسپکٹر جانے چاہئیں.جو دیکھیں کہ احمدی زمیندار جس نے وعدہ کیا تھا اس نے اپنے وعدہ کے مطابق عمل کیا ہے یا نہیں.یا ہمارے سندھ کے احمدی زمینداروں کی طرح جب موقع آتا ہے تو برسیم کاٹ کے جانوروں کو ڈال دیتے ہیں اور اس کا جو مڈھ ہوتا ہے یعنی بے کار لکڑی اُس پر ہل چلا دیتے ہیں اور کہتے ہیں ہاں جی ! ہم نے برسیم کی تھی حالانکہ " برسیم کی" کے صرف اتنے معنی ہوتے ہیں کہ برسیم ہوئی تھی پھر ہم اس کو لے گئے تھے اور اپنے جانوروں کو کھلا دیا تھا.تو اگر ایک نظارت زراعت ہو تو میں سمجھتاہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے زمینداروں کی اخلاقی حالت بھی اچھی ہو جائے گی، ان کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے گی اور سلسلہ کی مالی حالت بھی اچھی ہو جائے گی.آخر ہماری جماعت میں سب سے زیادہ زمیندار ہیں جو توے فیصدی کے قریب ہیں.اگر توے فیصدی کی مالی حالت کمزور ہوگی تو ہمیں روپیہ کہاں سے ملنا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت جو ہمارے مزارعوں

Page 275

انوار العلوم جلد 25 251 سیر روحانی نمبر (9) میں سے تھی میرے پاس آئی.وہ یوں مزارع نہیں تھی موروثی تھے اور ان کا زمین پر قریباً مالک جیسا اختیار ہوتا ہے.صرف وہ اسے مکانوں کے لئے بیچ نہیں سکتے.جلسہ کے دن تھے وہ آئی اور دروازہ کے آگے بیٹھ گئی اور کہنے لگی.جی! میں نے ایک گل کہنی ہے“.میں نے کہا سناؤ.کہنے لگی " پھر تسیں ذرا صبر نال سنو" میں نے کہا اچھا.پھر کہنے لگی " میں ایس وقت بڑی مصیبت وچ ہاں.میں کچھ امداد منگن آئی ہاں".میں نے کہا اچھا بی بی سناؤ.غرض بڑی تمہیدیں باندھ کے اور سانس لے لے کے اُس نے بات کی.میں اپنے دل میں یہ سمجھا کہ خبر نہیں یہ کتنے روپے مانگے گی.اور اتنے روپے دینے کی مجھے توفیق بھی ہو گی کہ نہیں.اپنے ذہن میں میں نے اندازہ لگایا کہ اتنی لمبی تمہید بتاتی ہے کہ یہ چار پانچ سو سے کم نہیں مانگے گی.پر خیر مجھے خدا جو کچھ تو فیق دے گا میں اس کو دے دونگا.بہر حال میں اس کو شہر دیتا گیا کہ بی بی ڈرو نہیں بیان کرتی جاؤ.مگر وہ بیچاری کانپتی ہانپتی اور آہیں بھرتی چلتی چلی گئی اور آخر کہنے لگی " ایس وقت اک آٹھ آنے دی ضرورت پیش آگئی ہے".میرا تو دل ہی بیٹھ گیا.میں نے کہا یا اللہ ! ہمارا ملک کتنا غریب ہو گیا ہے کہ اس عورت کو آٹھ آنے منہ سے نکالتے ہوئے ڈر آتا ہے کہ شاید میں دھتکار کر اس کو نکال دوں گا.خیر میں نے اُسے ایک دو روپے دے دیئے اور وہ بیچاری دعائیں دیتی ہوئی چلی گئی مگر میرے دل میں اس کا بڑاز خم لگا اور وہ آج تک نہیں بھولتا.آٹھ آنے مانگنے کے لئے اس نے ڈرتے ڈرتے تمہیدیں باندھیں.پندرہ بیس منٹ صرف کئے اور کہا " جی ! صبر نال سنو " گویا مجھے آٹھ آنے کا اتنا صدمہ پہنچے گا کہ میں سمجھوں گا اس نے گویا قارون کا خزانہ مانگا ہے.تو جس بیچاری نے آٹھ آنے نہ ہونے کو مصیبت سمجھا اور جس نے آٹھ آنے مانگنے میں یہ سمجھا کہ خبر نہیں میں اس سے کتنا خفا ہو جاؤں گا کہ تو اتنی رقم مجھ سے لینے آگئی.اُس غریب نے چندہ کیا دینا ہے.زمینداروں کی حالت سدھارنے غرض زمینداروں کی حالت کو سدھار نا انجمن کا کام ہے.ان کا فرض کے لئے نظارت زراعت کا قیام ہے کہ وہ فوراً ایک نظارت زراعت

Page 276

252 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 بنائیں اور تحریک والے بھی انجمن کے ساتھ ہی جائیں.بے شک وہ وکیل الزراعت ہیں لیکن اگر بعض صیغوں کو ملا دیا جائے تو اس سے فائدہ ہو سکتا ہے.اور وہ بڑا اچھا کام کرنا جانتے ہیں.خود اچھے بڑے زمیندار ہیں ، نواب محمد دین صاحب کے بھیجے ہیں اور ان کے لائلپور میں مربعے ہیں اور ولایت میں بھی رہے ہیں.میرے نزدیک وہ ان باتوں کو سمجھتے ہیں.اور سید عبد الرزاق شاہ صاحب کو بھی میں نے دیکھا ہے ان معاملات میں بہت ہی سمجھدار ہیں.ان کو میں نے سندھ میں زراعت پر لگایا ہوا تھا.وہ ان باتوں کو خوب سمجھتے ہیں.پھر وکالت کے پاس زراعت کا ایک گریجوایٹ بھی ہے اس نے لائلپور کالج میں زراعت کی تعلیم حاصل کی ہے اور اس نے زندگی وقف کی ہوئی ہے.بے شک ابھی وہ ناتجربہ کار بچہ ہے لیکن شروع میں بچے ایسے کام کر لیتے ہیں.آہستہ آہستہ تجربہ کار ہو جاتے ہیں.تو سکیم بنائی جائے کہ کس کس علاقہ میں کیا کیا فصل ہو سکتی ہے اور اس فصل کے اعلیٰ پھل پیدا کرنے کا کیا طریقہ ہے.پھر ہر زمین والوں کو کہہ دیا جائے کہ تم نے یہی فصل یہاں بونی ہے جو اچھی ہو سکتی ہے.دیکھو ! روس نے اس طریق سے اپنے ملک میں سو گنازیادہ پیداوار کر لی ہے.وہ ڈنڈے کے زور سے کرتے ہیں تم ایمان کے زور سے کر لو گے.انہوں نے اپنے سارے علاقے تقسیم کر لئے ہیں کہ یہاں گندم اچھی ہوتی ہے ، یہاں چاول اچھا ہوتا ہے، یہاں گنا اچھا ہوتا ہے، یہاں کپاس اچھی ہوتی ہے اور گندم بونے والے علاقہ میں سب کو قانوناً حکم دے دیتے ہیں کہ گندم کے سوا تم نے کپاس ہوئی تو ہم تمہیں قید کر دیں گے ، اگر تم نے چاول بویا تو تمہیں قید کر دیں گے ، اگر کوئی اور چیز بوئی تو قید کر دیں گے.کپاس والوں کو کہتے ہیں کہ اگر تم نے گندم ہوئی تو قید کر دیں گے.چنانچہ جس علاقہ میں کپاس اچھی ہوتی ہے اُس علاقہ میں سب کپاس کاشت کرتے ہیں.جس میں گندم اچھی ہوتی ہے اس میں سارے گندم ہوتے ہیں.لیکن ہمارے ملک کا یہ طریق ہے کہ چودھری صاحب کے پاس تین گھماؤں زمین ہے.اس میں سے وہ دو کنال گندم بوئے گا، ایک کنال کماد، ایک کنال چارہ ، کوئی ایک کنال یا دس مرلے چاول، کوئی دو چار مرلے ساگ.بس ایسی چیزیں بو کے

Page 277

انوار العلوم جلد 25 253 سیر روحانی نمبر (9) وہ ایک گھماؤں میں سے ساری دنیا کی ضرورتیں پوری کرنا چاہتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ فائدہ نہیں اٹھاتے.اگر وہ کام کو تقسیم کریں تو وہ کہیں کہ میری گندم اگر بجائے پانچ من کے سو من ہو گی تو میں تین میل سے سبزیاں اور ترکاریاں خرید کر لے آؤں گا.کیونکہ میرے پاس روپیہ ہو گا میں اپنی زمین کیوں ضائع کروں.تو یہ بڑا اہم معاملہ ہے جو جماعت کو بڑھنے اور اس کو ترقی دینے کے لئے نہایت ضروری ہے.نظارت تعلیم کو ضروری ہدایت اسی طرح نظارت تعلیم کو چاہئے کہ وہ جو انسپکٹر بھیجتے ہیں اُن پر اور کاموں کے علاوہ ایک یہ ذمہ داری بھی ڈالیں کہ وہ دیکھیں کہ جماعت کا ہر لڑکا پڑھ رہا ہے.اب وہ بھیجتے ہیں تو اس لئے کہ فلاں جگہ پر پرائمری سکول کھول آئے حالانکہ ہر ضلع میں دو ہزار گاؤں ہو تا ہے اور صرف پنجاب کے سولہ اضلاع تھے.بتیس ہزار گاؤں میں سے کسی ایک گاؤں میں پرائمری سکول کھول کر ہم کون سا تیر مار لیں گے.لیکن اگر ہمارا آدمی جاکر ہر احمدی کو مجبور کرے کہ اپنے بیٹے کو پڑھا تو کوئی نہ کوئی سرکاری سکول یا قومی سکول، پرائمری یا مڈل پاس ہو گا.اس میں وہ اسے تعلیم کے لئے بھجوا سکتا ہے.پس بجائے اس کے کہ وہ کوئی پرائمری سکول کھولیں لوگوں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے لڑکوں کو قریب کے سکول بھیجا کریں یا جو لڑ کے پڑھ رہے ہوں ان کو کتابیں لے دیا کریں، کسی کو فیس دے دیا ہیں.یہ پرائمری سکول کھولنے سے زیادہ اچھا طریق ہے.اسی طرح ایک مولوی علاقہ میں مقرر کریں جو پھر پھر کے لوگوں کو وعظ اور تبلیغ کیا کرے اور بچوں کی تربیت کرے، ان کو قرآن پڑھائے ، اسی طرح عورتوں کو بھی قرآن پڑھائے.اگر اس طریق پر عمل کیا جائے تو پھر بے شک نظارت تعلیم کا فائدہ ہو سکتا ہے.لیکن ہمارے زمیندار میں چودھر ایت کا شوق ہوتا ہے.وہ آجاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے پرائمری سکول کھولنا ہے.وہ صرف یہ فخر حاصل کرنا چاہتے ہیں کہ لوگ کہیں کہ چودھری صاحب نے اپنے علاقہ میں پرائمری سکول کھولا ہے.یہ نہیں دیکھیں گے کہ قوم نے کتنا فائدہ اٹھایا ہے صرف یہ دیکھیں گے کہ اس طرح ہمارا نام روشن ہوتا ہے.حالانکہ نام روشن کرنے کی

Page 278

254 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 بجائے اگر کتا بیں دی جائیں، فیسیں دی جائیں تو اس سے بہت زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے.پس انجمن نظارت تعلیم کے طریق کار کو بھی بدلے اور نظارت زراعت قائم کرے اور سارے زمینداروں کو منظم کرے.سارے علاقوں کے متعلق گورنمنٹ کے گزٹ ھے ، گورنمنٹ کی رپورٹیں پڑھے اور دیکھے کہ کس علاقہ میں کپاس ہوتی ہے اور پھر کس قسم کی ہوتی ہے.کیونکہ زمیندارہ میں ایک ایک چیز آگے قسم در قسم چلتی ہے.مثلاً بعض علاقے ایسے ہیں جن میں دیسی کپاس اچھی ہوتی ہے، بعض میں امریکن کپاس اچھی ہوتی ہے.جس زمین میں امریکن کپاس اچھی ہوتی ہے اس میں دیسی کپاس بونا ظلم ہے اور جس میں دیسی کپاس اچھی ہوتی ہے اُس میں امریکن کپاس بونا ظلم ہے.ہماراز میندار سیہ خیال کر لیتا ہے کہ چونکہ امریکن کپاس مثلاً تیس روپے من بکتی ہے اور دیسی کپاس ہیں روپے من بکتی ہے.اس لئے ضرور امریکن کپاس بونی ہے.وہ یہ نہیں سوچتا کہ اس علاقہ میں امریکن کپاس تو تین من ہوتی ہے اور دیسی کپاس اٹھارہ من ہوتی ہے.اگر دیسی کپاس ہیں روپے من بھی ہوئی تب بھی تین سو ساٹھ روپے کی ہوئی.اور امریکن کپاس اگر تیس روپے من ہوئی تب بھی نوے روپے کی ہوئی.وہ صرف یہ دیکھ لیتا ہے کہ منڈی میں کس کی قیمت زیادہ ہے.پس ان کو بتایا جائے کہ تم وہ چیز بوؤ جو تمہارے علاقہ میں زیادہ اچھی ہوتی ہے.اور یہ کام ہمارے دفتروں کا ہے کہ وہ گزٹ پڑھیں، زمیندارہ کے متعلق گونمنٹ کی رپورٹیں پڑھیں اور جو چیز جس جگہ زیادہ ہو سکتی ہو وہاں اس کے متعلق جاکر کہیں کہ یہ چیز بود.پھر دیکھو خدا تعالیٰ کے فضل سے اُس علاقہ کی کایا پلٹ جائے گی.میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ پر تل نہیں ہوتے.اگر وہ بوئے جائیں تو دس پندرہ سیر نکلیں گے.لیکن زمیندار اس لئے کہ گھر دی تل شکر ہی کھاواں گے".ضرور ایک کنال تل بو دیتا ہے چاہے اندر سے کچھ بھی نہ نکلے.وہ کہتا ہے."گھر دے تل ہون گے وچ شکر پاکے اوہ کھاواں گے".وہ یہ نہیں سمجھتا کہ اگر میرے ہاں اچھی گندم پیدا ہوتی ہے اور وہ پچاس من آجائے گی تو میں اس سے دس گنے تل خرید لوں گا.یہ خیال اُس کو نہیں آتا.پس یہ محکمہ بنا ہوا ہو جو تمام علاقوں کی پیداوار کے لحاظ سے تقسیم کرے اور مجھے

Page 279

255 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 آکے بتائے کہ کس کس علاقہ میں کیا کیا فصل اچھی ہوتی ہے.پھر ان کے آدمی جائیں جو لوگوں کو تحریک کریں کہ وہ وہی فصلیں ہوئیں جو ان علاقوں میں اچھی ہوتی ہے.جیسے روس نے انتظام کیا ہوا ہے.اس کا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب روس کی پیداوار پہلے سے کئی گنے بڑھ گئی ہے.مجھے ایک دفعہ امریکہ کا ایک قونصل جنرل ملنے آیا وہ ایک قسم کا سفیر ہی ہوتا ہے بڑا عہدہ دار ہوتا ہے.میں نے اسے کہا کہ تمہارے ملک میں لوگ اتنے امیر ہوتے ہیں کہ زمیندار کا جو نوکر ہوتا ہے وہ اس کو ہزار ہزار روپیہ مہینہ کی تنخواہ دیتے ہیں.لیکن ہم تو پندرہ روپے دیتے ہیں تو پھر بھی ہمیں گھانا پڑتا ہے آخر تم کیا کرتے ہو ؟ یا تو یہ ہوتا ہے کہ تمہارے ملک میں پچاس روپے من گندم بک رہی ہوتی پھر بے شک ہم کہتے کہ تمہیں قیمت زیادہ ملتی ہے.تمہیں قیمت تو ہم سے بھی کم ملتی ہے پھر اس کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگا ہماری پیداوار زیادہ ہوتی ہے.ہمارا آدمی اتنی محنت کرتا ہے کہ آپ کے دس پندرہ مزدور کے برابر وہ محنت کرتا ہے.اور پھر ہم وہی چیزیں بوتے ہیں جو وہاں زیادہ اچھی ہو سکتی ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چاہے قیمت ہمیں آپ کے برابر ملتی ہے مگر پید اوار کی مالی حیثیت کے لحاظ سے وہ آپ سے سو گنے زیادہ ہو جاتی ہے.اس لئے ہم ہزار روپیہ دے کر بھی کماتے ہیں اور آپ پندرہ روپے دے کر بھی دکھ اٹھاتے ہیں.پس زراعت کی طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.گور مکھی اور ہندی ترجمے جلد سے جلد شائع ہونے چاہئیں.روسی ترجمہ کی طرف جلد توجہ ہونی چاہئے.چودھری صاحب نے کل کہا تھا کہ وہاں آٹھ کروڑ کے قریب مسلمان ہیں.بائیس کروڑ ساری آبادی ہے.مجھے تو یاد پڑتا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی تعداد اس سے زیادہ ہے لیکن ممکن ہے وہ غلط ہو.لیکن اگر وہ آٹھ کروڑ بھی نہیں صرف ایک لاکھ ہوں تو کیا ایک لاکھ مسلمان تھوڑا ہوتا ہے کتنی مدت میں لا کھ آدمی ملتا ہے." ( الفضل 17،15،14،8 اپریل 1956ء) اس کے بعد حضور نے اصل مضمون "سیر روحانی" پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے فرمایا:-

Page 280

انوار العلوم جلد 25 256 عالم روحانی کی نہریں سیر روحانی نمبر (9) " آج میں دوستوں کے سامنے اُسی مضمون کی ایک کڑی بیان کرنا چاہتا ہوں جو 1938 ء سے جاری ہے اور جس کا تعلق میرے حیدر آباد اور دہلی کے سفر کے ساتھ ہے.میں بتا چکا ہوں کہ اس سفر میں میں نے سولہ چیزیں دیکھی تھیں جن کا میری طبیعت پر گہرا اثر ہوا.آج میں انہی میں سے ایک اور چیز کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.میں نے اِس سفر میں جو نظارے دیکھے اور جن عجائبات نے مجھے اپنی طرف متوجہ کیا اُن میں بڑے بڑے بادشاہوں کے تیار کردہ قلعوں اور مسجدوں اور میناروں وغیرہ کے علاوہ کچھ نہریں بھی تھیں جو ایک علاقہ سے دوسرے علاقہ میں پانی پہنچاتی تھیں اور جو پیاسی فصلوں اور درختوں کے لئے ایک نئی زندگی کا موجب ہوتی تھیں.میں نے ان نہروں کو دیکھا اور غور کیا کہ کیا پیاسی دنیا کی سیرابی کا انتظام ان دنیوی نہروں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے عالم روحانی میں بھی پیاسی دنیا کی سیرابی کے لئے کوئی نہریں بنائی ہیں یا نہیں ؟ اور اگر بنائی ہیں تو وہ دنیا کو کس طرح سیراب کر رہی ہیں.دنیوی نہروں کے فوائد اس نقطہ نگاہ کے مطابق جب میں نے سوچا تو میرے دل میں سوال پیدا ہوا کہ نہروں کا کیا کام ہوتا ہے؟ اور پھر میرے دل نے خود ہی اِس سوال کا یہ جواب دیا کہ نہروں کا کام لوگوں کے لئے پانی مہیا کرنا ہوتا ہے جس سے کھیتوں کو بھی پانی ملتا ہے، پینے کے لئے بھی پانی مہیا ہوتا ہے اور پھر پانی کا ذخیرہ بھی جمع رہتا ہے اور یہی فوائد روحانی دنیا میں دینی علوم اور معارف سے حاصل ہوتے ہیں.اسی وجہ سے قرآن کریم میں دینی علوم اور معارف کا نام بھی نہریں رکھا گیا ہے.چنانچہ اللہ تعہ چنانچہ اللہ تعالیٰ سورہ بقرہ میں فرماتا ہے ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةٌ وَ إِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْأَنْهرُ یعنی مخالفین اسلام

Page 281

انوار العلوم جلد 25 257 سیر روحانی نمبر (9) کے دل پتھر بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہو گئے ہیں کیونکہ پتھروں میں سے تو بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ اُن کے نیچے سے پانی بھی نکل آتا ہے لیکن ان کے دلوں میں سے کوئی ایمان کا قطرہ نہیں نکلتا.اس آیت کے یہ معنے نہیں کہ پانی ان پتھروں میں سے نکلتا ہے بلکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اُن کے پیچھے پانی ہوتا ہے جو اُن پتھروں کو پھاڑ دیتا ہے اور پھر اُن میں سے نہر بہنے لگ جاتی ہے.مگر یہ کفار ایسے سخت دل ہیں کہ ان کے دلوں کے پیچھے جو روحانی پانی ہے وہ اُن میں سے بہنے کا کوئی راستہ نہیں پاتا.جسمانی اور روحانی علوم بھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دلوں کے پیچھے بھی پانی ہو تا ہے اور سخت دل انسان بھی نہروں سے مشابہت رکھتے ہیں بعض دفعہ اس کا مقابلہ نہ کرکے اس کے آگے جھک جاتے ہیں اور اُن میں سے پانی نکلنے لگ جاتا ہے.پس پانی کے معنے گویا روحانی اور جسمانی علوم کے ہیں.ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ اِسی حقیقت کا اِن الفاظ میں ذکر فرماتا ہے کہ إِنَّمَا مَثَلُ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا كَمَاء انْزَلْنَهُ مِنَ السَّمَاءِ فَاخْتَلَطَ بِهِ نَبَاتُ الْأَرْضِ مِمَّا يَأْكُلُ النَّاسُ وَالْأَنْعَامُ ، حَتَّى إِذَا اَخَذَتِ الْأَرْضُ زُخْرُفَهَا وَازَيَّنَتْ وَ ظَنَّ أَهْلُهَا أَنَّهُمْ قَدِرُونَ عَلَيْهَا اتهَا أَمْرُنَا لَيْلًا أَوْ نَهَارًا فَجَعَلْنَهَا حَصِيدًا كَانْ لَّمْ تَغْنَ بِالْاَمْسِ كَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَتِ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.10 یعنی دنیا کی زندگی کی مثال ایک پانی کی طرح ہے کہ ہم آسمان سے اُتارتے ہیں.پھر اُس سے زمین کا سبزہ مل جاتا ہے جس کو لوگ بھی کھاتے ہیں اور جانور بھی کھاتے ہیں اور زمین بڑی سر سبز ہو جاتی ہے.اور لوگ سمجھتے ہیں کہ آب وہ اُس کھیتی پر قبضہ کر لیں گے مگر اچانک دن کو یا رات کو خدا تعالیٰ کا کوئی عذاب نازل ہو جاتا ہے اور وہ اِس طرح تباہ ہو جاتی ہے کہ گویا گل یہاں کچھ تھا ہی نہیں.اور جو لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہیں اُن کے لئے ہم اِسی طرح اپنی آیات کھول کر بیان کرتے ہیں.اس سے معلوم ہوا کہ دینی یا دنیوی علوم تو پانی کی طرح صاف ہوتے ہیں لیکن لوگوں کے وہ بد خیالات جو زمین کی نباتات کی طرح ہوتے ہیں اور جو ان کے دماغوں میں اُٹھتے رہتے ہیں جو دین یا دنیا کو تباہ کر دیتے ہیں اور وہ علوم بجائے فائدہ بخش ہونے کے

Page 282

انوار العلوم جلد 25 258 سیر روحانی نمبر (9) لوگوں کے لئے حسرت کا موجب ہو جاتے ہیں.ورود اسی طرح فرماتا ہے هُوَ الَّذِى خَلَقَ السَّمواتِ وَالْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا - 11 وہ خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ اوقات میں پیدا کیا ہے اور خدا تعالیٰ کا عرش یعنی اُس کی حکومت اس سے پہلے پانی پر تھی.اگر اس آیت کے دُنیوی معنے لو تو اس کے معنے وہی ہیں جو وَ جَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَى 12 میں بیان کئے گئے ہیں.یعنی اللہ تعالیٰ نے اپنی صفت خالقیت پانی کے ذریعہ سے ظاہر کی ہے.اور اگر دینی معنے لو تو ماء کے معنے وحی الہی کے ہیں اور اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان پر حکومت اپنی وحی کے ذریعہ سے ظاہر کی ہے.لیبلوکم أيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا تا کہ وہ تمہاری آزمائش کرے اور یہ ظاہر کر دے کہ تم میں سے کون زیادہ اچھے کام کرتا ہے.پس پانی سے مراد علوم ہوتے ہیں دینی بھی اور دنیوی بھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ مَثَلُ ایک زبردست بارش سے مشابہت مَا بَعَثَنِي اللَّهُ بِهِ مِنَ الْهُدَى وَالْعِلْمِ كَمَثَلِ الْغَيْثِ الكَثِيرِ أَصَابَ أَرْضاً فَكَانَ مِنْهَا نَقِيَّةً قَبِلَتِ الْمَاءَ فَأَنْبَتَتِ الْكَلَاءَ وَالْعُشْبَ الكَثِيرَ وَ كَانَتْ مِنْهَا أَجَادِبَ أَمْسَكَتِ الْمَاءَ فَنَفَعَ اللَّهُ بِهَا النَّاسَ فَشَرِبُوا وَسَقَوْا.12 یعنی اللہ تعالیٰ نے جو مجھے ہدایت اور علم دیکر بھیجا ہے اُس کی مثال ایک بادل کی طرح ہے جس سے بڑی بارش ہوتی ہے مگر جب وہ کسی زمین پر پڑتی ہے تو کچھ تو اچھی زمین ہوتی ہے وہ پانی کو قبول کر لیتی ہے اور بڑا سبزہ نکالتی ہے.اور کچھ ایسی زمینیں ہوتی ہیں کہ وہ پانی تو نے لیتی ہیں لیکن ان کا کام صرف اتنا ہو تا ہے کہ وہ اس پانی کو جمع رکھتی ہیں.چنانچہ لوگ اس ذخیر ہ سے پانی پیتے اور آگے کھیتوں کو بھی پانی دیتے ہیں.انجیل میں روحانی خوراک اور پھر یہ محاورہ صرف قرآن کریم میں ہی نہیں بلکہ انجیل میں بھی بیان ہوا ہے.روحانی پانی کے محاورہ کا استعمال انجیل میں لکھا ہے کہ :

Page 283

انوار العلوم جلد 25 259 سبھوں نے ایک ہی روحانی خوراک کھائی اور سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیو نکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا اور وہ چٹان مسیح تھی." ! سیر روحانی نمبر (9) ان آیات قرآنیہ ، رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی حدیث اور انجیل کے حوالہ سے یہ بات ثابت ہے کہ روحانی کتابوں میں پانی سے مراد علم روحانی ہوتا ہے اور اس کی مشابہت میں کبھی دُنیوی علوم بھی مراد ہوتے ہیں.مگر دیکھو کہ قرآن کریم کے علم اور مسیح کے حواریوں کے علم میں کتنا عظیم الشان فرق ہے.قرآن تو کہتا ہے کہ چٹان کے پیچھے پانی ہوتا ہے جو چٹان کو پھاڑ کر نکل آتا ہے اور مسیح کے حواری کہتے ہیں کہ :- سبھوں نے ایک ہی روحانی پانی پیا کیو نکہ انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی پانی پیا." یہ ایک خیالی مثال ہے جس کی کوئی تصدیق نہیں ملتی.لیکن چٹانوں کے پیچھے سے پانی کے چشمے نکلنے کی تو ہر پہاڑ پر مثالیں موجود ہیں.پس یہ ایک سچی اور طبعی مثال ہے.مگر انجیل کی مثال نہایت مضحکہ خیز ہے.انجیل کہتی ہے کہ :.پانی پیا." انہوں نے اُس روحانی چٹان میں سے جو اُن کے ساتھ چلی اب بتاؤ وہ کونسی چٹان ہے جو ساتھ ساتھ چلتی ہے اور لوگ اُس سے پانی پیتے ہیں؟ کوئی بھی نہیں.لیکن جن چٹانوں کا قرآن کریم ذکر کرتا ہے ایسی ہزاروں چٹانیں موجود ہیں اور ہر شخص جانتا ہے کہ وہ چٹانیں پھٹتی ہیں تو ان کے پیچھے سے پانی نکل پڑتا ہے.پھر مسیحیوں نے بڑا زور مارا تو کہا کہ وہ چٹان مسیح تھی."جو اُن کے ساتھ ساتھ چلی اور جس کے پیچھے سے انہوں نے پانی پیا.مگر قرآن کریم کہتا ہے کہ ہر مؤمن خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا ایک چٹان ہوتا ہے جس کے پیچھے پانی ہوتا ہے اور جس سے لوگ فائدہ حاصل کرتے ہیں.گویا قرآن کریم اس پانی کو ہر انسان کے دل تک پہنچاتا ہے اور انجیل

Page 284

انوار العلوم جلد 25 260 سیر روحانی نمبر (9) والے اس کو صرف مسیح پر پہنچ کر ختم کر دیتے ہیں.قرآن کریم کے ذریعہ ہزار ہا علمی نہروں کا اجراء مگر جیسا کہ میں نے بتایا یہ نہریں کبھی خالص روحانی ہوتی ہیں اور کبھی دُنیوی علوم پر مشتمل ہوتی ہیں.چنانچہ جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ علاوہ دینی علوم بخشنے کے قرآن کریم نے سابق علوم کو بھی زندہ رکھنے کا سامان کیا ہے اور وہ علمی نہریں چلا دی ہیں جو پہلے کسی زمانہ میں چلتی تھیں یا کبھی بھی نہیں چلتی تھیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے وہ کچھ سکھایا ہے جو پہلوں کو نہیں ملا تھا..پس قرآن کریم کے ذریعہ جو عظیم الشان نہریں جاری ہوئی ہیں اُن کی مثال سابق مذاہب میں بھی نہیں دکھائی علم کائنات کی شہر چنانچہ پہلی دنیوی نہر جو اس نے چلائی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے قانونِ قدرت کی طرف توجہ دلائی اور اس سے ایک علم کی نہر بہہ گئی.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لايت لأولي الألباب - 10 یعنی آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عقلمندوں کے لئے بہت بڑے نشان ہیں.یعنی اگر وہ پیدائش سماوی اور ارضی پر غور کریں تو انہیں اس سے ایک بہت بڑا علم میسر آسکتا ہے.وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ اِسی طرح رات دن کے باقاعدہ آگے پیچھے آنے میں بھی انہیں کئی نشان ملیں گے.کیونکہ اگر کوئی قانون نہیں تو کیا وجہ ہے کہ روزانہ سورج ایک وقت میں چڑھتا ہے اور ایک وقت میں ڈوبتا ہے اور ہر موسم کے مطابق اُسکے طلوع و غروب کا وقت بدلتا چلا جاتا ہے یہ چیز بتاتی ہے کہ کوئی قانونِ قدرت موجود ہے جس کے ماتحت یہ سلسلہ جاری ہے.پھر فرماتا ہے وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُومُ مُسَخَّرت

Page 285

انوار العلوم جلد 25 261 سیر روحانی نمبر (9) بِأَمْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لايت لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ _ 17 یعنی اللہ تعالیٰ نے رات اور دن کو تمہارے فائدے کے لئے لگایا ہوا ہے اور سورج اور چاند کو بھی اُس نے تمہاری خدمت پر مقرر کیا ہوا ہے.اگر تم ان امور پر غور کرو تو تم اس سے بڑا علم حاصل کر سکتے ہو.غرض اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ دُنیوی علوم بھی پھیلائے ہیں.یعنی بنی نوع انسان کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ فلاں فلاں علم ہے اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.مثلاً پہلے تو اُس نے قانونِ قدرت کی طرف توجہ دلائی.اس ایک علم کی طرف توجہ دلانے سے ہی اُس نے تمام جادؤوں اور ٹونے ٹوٹکوں کو باطل کر کے رکھ دیا.کیونکہ اگر اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ والی آیت ٹھیک ہے تو جتنے جادو ٹونے اور ٹوٹکے ہیں یہ سب باطل ہو جاتے ہیں.کیونکہ جادو اور ٹونے ٹو ٹکے کے معنے یہ ہیں کہ قانون کوئی نہیں چھو منتر کیا اور بات ہو گئی.حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک قانون علم ہے تم اس کی تلاش کرو اور اس سے فائدہ اُٹھاؤ.جغرافیہ کی نہر اسی طرح قرآن کریم نے جن علوم کی طرف توجہ دلائی ہے اُن میں سے ایک علم جغرافیہ بھی ہے.اللہ تعالیٰ قوم لوط کی ہلاکت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.اِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَتٍ لِلْمُتَوَسِمِينَ وَ إِنَّهَا لَبِسَبِيلِ مُّقِيمِ ـ اِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ 14 کہ ان بستیوں میں سمجھداروں اور عقلمندوں کیلئے بڑے نشانات ہیں.پھر فرماتا ہے کہ یہ بستیاں جن کا ہم ذکر کر رہے ہیں عرب میں سے گزرنے والے ایک ایسے راستہ پر ہیں جو ہمیشہ جاری رہتا ہے.چنانچہ تاریخ سے ثابت ہے کہ اگر انطاکیہ کی طرف عرب قافلے جائیں تو قوم لوط کی بستیاں اُن کے راستہ پر آتی ہیں اور پھر وہ راستہ ایسا ہے جو ہمیشہ آباد رہتا ہے.بعض رستے ایسے ہوتے ہیں جو کچھ وقتوں میں متروک ہو جاتے ہیں لیکن وہ ایک ایسا راستہ ہے جو ہمیشہ آبادرہتا ہے.گویا اس آیت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے جغرافیہ کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ تمام شہروں اور وادیوں پر نشان لگاؤ اور پتہ لگاؤ کہ وہ کہاں کہاں واقع ہیں.اسی طرح فرماتا ہے وَعَادًا وَ ثَمُودَاً وَقَد تَبَيَّنَ لَكُم مِّنْ مَّسْكِنِهِمْ - 12 یعنی عاد 19

Page 286

انوار العلوم جلد 25 262 سیر روحانی نمبر (9) اور خمود میں بھی بڑے بھاری نشانات ہیں.انہوں نے جو شہر بسائے تھے اُن کا تمہیں ہے.لیکن ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ وَ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ بَطِرَتْ مَعِيشَتَهَا فَتِلْكَ مَسْكِنْهُمْ لَمْ تُسْكَنُ مِنْ بَعْدِهِمْ إِلَّا قَلِيلًا وَ كُنَّا نَحْنُ الْوِرِثِينَ 20 یعنی کتنی ہی بستیاں ہیں جو اپنی معیشت پر اتر رہی تھیں مگر ہم نے انکو ہلاک کر دیا.سو یہ اُن کے ویران مکانات پڑے ہیں جو اُن کے بعد آباد ہی نہیں ہوئے اور اُن کے بعد ہم ہی اُن کے وارث ہوئے.گویا دونوں قسم کے نشانات موجود ہیں.کچھ بستیاں اور قلعے ایسے ہیں جو شہری آبادیوں کے درمیان ہیں تم اُن کو تلاش کرو.لیکن کچھ ایسی بھی بستیاں نکلیں گی جو بالکل ویران جگہوں پر ہیں.عاد اور ثمود کے متعلق قرآنی معلومات یہ عجیب بات ہے کہ عاد اور محمود کے متعلق قرآن کریم میں جو کا ایک عیسائی محقق کو اعتراف ذکر آتا ہے اس کے متعلق بعض متعصب عیسائی تک تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ ہمیں اُنکی کوئی حقیقت معلوم نہیں.چنانچہ حجرجی زیدان جیسے سخت متعصب عیسائی نے جغرافیہ عرب پر ایک کتاب لکھی ہے اُس میں وہ لکھتا ہے کہ عاد اور ثمود کے متعلق یونانیوں نے بھی کتابیں لکھی ہیں اور رومیوں نے بھی ان کا بعض جگہ پر ذکر کیا ہے.اسی طرح جغرافیہ کے دوسرے ماہرین کا کچھ لٹریچر بھی موجود ہے مگر سارے لٹریچر پڑھنے کے بعد میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ عاد اور ثمود کے متعلق جو کچھ قرآن کریم میں لکھا ہے اُس سے ایک لفظ بھی زیادہ ہمیں معلوم نہیں.باقی جو کچھ لکھا گیا ہے سب جھوٹ ہے.عاد اور ثمود کی صحیح تاریخ صرف قرآن کریم سے ملتی ہے.21 ان آیات میں صراحتاً جغرافیہ کا ذکر ہے اور اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ عاد کی بستیاں بعض ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جو ویران ہو چکی ہیں اور بعض ایسی جگہوں پر پائی جاتی ہیں جہاں ابھی ویرانی نہیں آئی.

Page 287

انوار العلوم جلد 25 263 سیر روحانی نمبر (9) علم جہازرانی کی نہر پھر علیم جہاز رانی کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَ سَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهر - 22 یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کشتیاں مسخر کی ہیں تاکہ وہ خدا کے حکم سے سمندروں میں چلیں.اسی طرح اُس نے نہریں مسخر کی ہیں.یعنی یہ بھی ایک علم ہے جو تمہارے لئے فائدہ بخش ہے.تم نہروں کے متعلق دیکھو کہ وہ کس طرح چکر کھاتے ہوئے گزرتی ہیں.اور پھر کوئی نہر کسی ایسے سمندر میں جا کر گرتی ہے جہاں سے منزلِ مقصود بہت دُور ہو جاتی ہے اور کوئی ایسی جگہ سے گزرتی ہے جو منزل کے قریب ہوتی ہے.مثلاً یورپ میں بعض نہریں ایسی ہیں جو بحیرہ روم میں آکر گر جاتی ہیں اور بعض بحر شمالی میں جاگرتی ہیں.اگر کوئی بے وقوفی کرے تو اُس نے جہاں جانا ہے اُس سے ہزاروں میل پرے چلا جائیگا.پس فرماتا ہے اُس کی رفتار اور رخ و غیرہ کو یاد رکھنا چاہئے اور دیکھتے رہنا چاہئے کہ نہر جاتی کدھر ہے.کیونکہ بالکل ممکن ہے کہ وہ نہر تمہیں کہیں کا کہیں پہنچا دے.اسی طرح سمندروں کو دیکھو کہ سمندر تمہارے کام آنے والی چیز ہیں لیکن اُن پر بھی ایک قانون حاوی ہے اور خاص ہوائیں چلتی رہتی ہیں.اگر ان ہواؤں کو مد نظر نہ رکھو گے تو وہی سمندر تمہارے لئے تباہی کا موجب ہو جائیں گے.یا مثلاً اس کے اندر چٹانیں بھی ہیں اگر ان چٹانوں کو مدنظر نہ رکھو گے تو تمہارے جہاز تباہ ہو جائیں گے.چنانچہ فرماتا ہے.وَمِنْ آيَتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ - إِنْ يَشَأْ يُسْكِنَ الرِّيحَ فَيَظْلَدْنَ رَوَاكِدَ عَلَى ظَهْرِهِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٍ لِكُلِّ صَبَّارٍ شَکور - 23 یعنی سمندر میں ہم ہو ا ئیں چلاتے ہیں.اگر وہ چلتی رہیں تو جہاز چلتے رہیں گے لیکن اگر ہوائیں ٹھہر جائیں تو پھر جہاز نہیں چل سکتے.تم کو یا د رکھنا چاہئے کہ اگر تم نے سمندروں میں کامیاب ہونا ہے تو تمہیں ہمیشہ یہ معلومات حاصل کرتے رہنا چاہیئے کہ ہوائیں کیس کیس وقت چلتی ہیں اور کیسی کیس رُخ چلتی ہیں.اگر تم یہ علم ایجاد کر لو گے تو تمہارے جہاز ٹھیک چلیں گے اور اگر اس علم سے واقفیت پیدا نہیں کرو گے تو تمہارے جہاز یا تو تم کو منزلِ مقصود تک نہیں پہنچائیں گے یا دیر سے پہنچائیں گے.

Page 288

انوار العلوم جلد 25 264 سیر روحانی نمبر (9) علیم طب کی نہر چو تھا علم طب ہے جس کی طرف قرآن کریم میں توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءُ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.24 یعنی شہد کی مکھیوں کے پیٹ میں سے مختلف قسم کے شہر نکلتے ہیں اور اُن کے کئی رنگ ہوتے ہیں اور ہر قسم کا شہد کسی خاص بیماری کے لئے مفید ہو تا ہے.مگر فر ما یا اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.یہ نہیں فرمایا کہ جو ہماری اس بات کو مان کر کسی کو شہد پلا دے اُس کو فائدہ پہنچ جاتا ہے بلکہ فرمایا کہ ہم نے صرف ایک اشارہ کیا ہے آگے تمہیں خود غور کرنا پڑے گا.چنانچہ اب اس کی تحقیقات ہوئی ہے اور پتہ لگا ہے کہ شہد کی مکھی جس قسم کے درختوں سے شہد لیتی ہے اُسی قسم کا فائدہ اُس شہد سے پہنچتا ہے.مثلاً بعض جگہ شہد کی مکھی ایسے درختوں سے شہد لیتی ہے جن میں جلاب کا مادہ ہو تا ہے.وہ شہد کھا ؤ تو جلاب لگ جاتے ہیں.بعض ایسی بوٹیوں سے لیتی ہیں جو ملیریا کو دُور کرنے والی ہوتی ہیں وہ شہد کھاؤ تو ملیریا کو فائدہ پہنچتا ہے.غرض مختلف قسم کے شہد مختلف قسم کی بیماریوں کا علاج ہیں.اسی لئے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ شہد میں فائدہ ہے بلکہ فرمایا ہے اِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ.ہم نے تو اشارہ کر دیا ہے اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم تحقیقات میں لگو.اگر تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ مختلف رنگ کے شہد مختلف امراض کا علاج ہیں.چنانچہ جب میں علاج کے سلسلہ میں لندن گیا تو ایک بڑے خاندان کی ایک اُستانی تھیں، لارڈارون جو ہندوستان کے وائسرائے رہ چکے ہیں اُن کی ماں سے اُس کی ماں کی بڑی دوستی تھی.کہتی تھی کہ اُس کے کئی خط میرے پاس اب تک پڑے ہیں.ایک دن وہ شہد لے کر آئی جو خاص بُوٹیوں میں سے نکلا ہوا تھا اور کہنے لگی یہ شہد آپ استعمال کریں یہ آپ کے لئے بہت مفید ہے.میں نے کہا.مجھے تو شہد موافق نہیں.کہنے لگی آسٹریلین شہر تو معلوم نہیں کیس کیس چیز کا ہو تا ہے مگر یہ تو ہمارے ہاں بعض لوگ خاص طور پر اُن بوٹیوں سے بناتے ہیں جو امراض کے علاج میں خاص طور پر مفید ہیں.

Page 289

انوار العلوم جلد 25 265 سیر روحانی نمبر (9) اسی طرح ہمارے پرانے اطباء لکھتے ہیں کہ آم اور پھر خاص قسم کے آموں کا شہد لیا جائے تو وہ دل کی تقویت کا موجب ہوتا ہے.اسی طرح بعض اور امراض میں بھی مفید ہو تا ہے.تو شہد بے شک مفید ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ شہد کے فوائد کا صرف اُسی کو پتہ لگے گا جو تفکر کر نیوالا ہے.مطلب یہ ہے کہ مختلف شہد مختلف بیماریوں کو فائدہ پہنچاتے ہیں.یہ علم طب کا کتنا عظیم الشان باب ہے جو قرآن کریم کی ایک چھوٹی سی آیت کے ذریعہ کھول دیا گیا ہے.علیم ہندسہ کی نہر پھر علیم ہندسہ کو بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءَ وَ الْقَمَرَ نُورًا وَ قَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوا عَدَدَ السّنِينَ وَالْحِسَابَ - 25- یعنی خدا تعالیٰ نے سورج کو ذاتی روشنی والا اور قمر کو نور والا بنایا ہے اور اُن کی کئی منازل مقرر کی ہیں.وہ اپنے اپنے منازل میں چلتے ہیں تا کہ تم کو سالوں اور حساب کا علم ہو.گویا اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے علم حساب کی طرف بھی توجہ دلائی ہے.پھر فرماتا ہے الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ بِحُسْبَانِ وَ النَّجْمُ وَ الشَّجَرُ يَسْجُدُنِ _ 26 یعنی سورج اور چاند ایک مقررہ قاعدہ اور قانون اور حساب کے ماتحت چل رہے ہیں اور جڑی بوٹیاں اور درخت بھی خدا تعالیٰ کے آگے سر نگوں ہیں.ادب کی نہر اسی طرح علم ادب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے وَ لَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌّ لِسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْهِ أَعْجَيِيٌّ وَهُذَا لِسَانُ عَرَبِى مين 27 یعنی ہم خوب جانتے ہیں کہ یہ کفار کہتے ہیں کہ یہ ایک ایسا انسان ہے جسے کسی اور شخص نے سکھایا ہے قرآن اِس کا اپنا نہیں.فرماتا ہے جس شخص کی طرف وہ یہ بات منسوب کرتے ہیں وہ تو عجمی ہے وهذا لِسَانُ عَرَبِي مُبِین اور یہ کلام عربی زبان میں ہے اور اس میں جو بات بھی کہی گئی ہے اس کی دلیل دی گئی ہے.اگر یہ جھوٹ ہے تو جھوٹ کی تائید میں تو دلیل نہیں ہوا کرتی.اور اگر کہو کہ عجمی نے سکھایا ہے تو محمد رسول اللہ تو عربی کے سوا کچھ جانتا نہیں.اور اگر کہو کہ عربی نے سکھایا ہے تو قرآن کریم کی صرف عربی معجزہ نہیں بلکہ قرآن کا عربی مُّبِينٌ

Page 290

انوار العلوم جلد 25 266 سیر روحانی نمبر (9) ہونے میں معجزہ ہے.یعنی اس کی زبان ایسی ہے کہ اس کے اندر دلائل بھی بیان کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ ہم کیوں حکم دیتے ہیں ، خدا کو کیوں منواتے ہیں، فرشتوں کو کیوں منواتے ہیں، رسولوں کو کیوں منواتے ہیں، جھوٹ سے کیوں منع کرتے ہیں، سچ کی کیوں تائید کرتے ہیں، ظلم سے کیوں روکتے ہیں، انصاف کی کیوں تائید کرتے ہیں.غرض یہ عَرَبِيٌّ مُّبِین میں ہے اور اپنے احکام کی دلیلیں بھی دیتا ہے.جھوٹا آدمی دلیلیں کہاں سے لے آئے گا.پس تمہاری دونوں باتیں غلط ہیں.تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عجمی نے سکھایا ہے کیونکہ محمد رسول اللہ تو مجھی نہیں یہ تو عربی ہے اس کو تو کسی اور زبان کا پتہ ہی نہیں.اور تم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اسے کسی عربی نے سکھایا ہو کیونکہ اگر کسی عربی نے سکھایا ہو تو بہر حال قرآن جھوٹ تو ہوا.اور اگر قرآن جھوٹا ہو گا تو اس میں دلیلیں کہاں سے آجائیں گی حالانکہ تم جانتے ہو کہ یہ کلام مبین ہے.مبین کے معنے ہوتے ہیں ظاہر کرنے والی.یعنی جو بات بھی کہتی ہے اُسکو کھول کر رکھ دیتی ہے اور اُس کی معقولیت کے دلائل دیتی ہے.علیم معانی کی نہر پھر علیم معانی کی طرف بھی اُس نے توجہ دلائی ہے.معانی کے معنے ہوتے ہیں موقع کے مطابق کلام بیان کرنا.جو کتاب موقع کے مطابق ہر بات بیان کرے اور کسی مرحلہ پر بھی کسی بے موقع بات کا اُس میں ذکر نہ ہو اُس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ علم معانی کے مطابق ہے.قرآن کریم بھی کہتا ہے کہ اس کتاب میں علم معانی موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَلْنَا عَلَى عَبْدِنَا.28 اگر تم کو ہماری اس تعلیم پر جو ہم نے قرآن میں نازل کی ہے کچھ شبہ ہے تو فَاتُوا بِسُورَةٍ مِنْ مِثْلِهِ 22 تم اِس قسم کی کوئی اور سورۃ پیش کرو.وَادْعُوا شُهَدَاكُمْ مِنْ دُونِ الله إن كُنتُم صدِقِينَ.30 اور اپنے غیر اللہ مدد گاروں کو بھی اپنی مدد کے لئے بلالو اگر تم سچے ہو.مگر وہ ایسا کبھی نہیں کر سکتے اسلئے کہ وہ جو بات بھی کریں گے چونکہ جھوٹ کی تائید میں ہو گی اس لئے کبھی موقع کے مطابق نہیں ہو گی محض اوٹ پٹانگ بات کریں گے مگر قرآن جو بات بھی کرے گا موقع کے مطابق ہو گی.

Page 291

انوار العلوم جلد 25 علیم 267 سیر روحانی نمبر (9) بیان کی نہر اسی طرح قرآن کریم نے علیم بیان کا بھی ذکر کیا ہے فرماتا ہے.وَنَزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَبَ تِبْيَانًا لِكُلِّ شَيْءٍ وَهُدًى وَرَحْمَةً وَبُشْرَى لِلمُسلِمِينَ 31 یعنی ہم نے تجھ پر ایک ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں تمام ضروری مطالب اور مضامین بیان کر دیئے گئے ہیں.بیان کے معنے ہوتے ہیں ایک مطلب کو مختلف رنگوں میں بیان کرنا.اور قرآن کریم یہی فرماتا ہے کہ وَ كُلَّ شَيْءٍ فَضَلْنَهُ تفصيلا - 32 یعنی ہم نے اس کتاب میں تمام باتوں کو اس طرح کھول کھول کر اور مختلف پیرایوں میں بیان کیا ہے کہ ہر بات دل میں گڑ جاتی ہے اور انسان سمجھتا ہے کہ جو دلیل چاہیے تھی وہ ٹھیک طور پر بیان کر دی گئی ہے.علم النفس کی نہر پھر قرآن کریم میں علم النفس کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ان حِسَابُهُمْ اِلَّا عَلَى رَبِّي لَوْ تَشْعُرُونَ - 3 33 کہ اگر تم اپنے دلی جذبات کو سمجھو تو تمہیں معلوم ہو کہ ان کا حساب لینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.علم النفس کے معنے ہوتے ہیں دلی جذبات کو سمجھنا.اور شعور بھی اُسی جذبہ کو کہتے ہیں جو اندر سے پیدا ہوتا ہے.گویا قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ اگر انسان اپنے دلی جذبات کو سمجھے تو پھر اُسے قرآن کا علم سمجھ میں آتا ہے.اور اس طرح بنی نوع انسان کو نصیحت کی ہے کہ اگر تم نے قرآنی باتوں کو سمجھنا ہو تو تمہیں اپنے دل کے جذبات پر غور کرنا چاہئے.تمہیں سمجھ آجائے گی کہ قرآن کریم کی تمام باتیں سچی ہیں.ورنہ اگر تم اپنے نفس پر غور نہیں کرو گے تو قرآن بھی سمجھ نہیں آئے گا.علیم کیمیا کی نہر پھر قرآن کریم میں علم کیمیا کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے فرماتا ہے مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ انبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ وَاسِعُ عَلِيمٌ - 24 یعنی جو لوگ اپنے مالوں کو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کرتے ہیں اُن کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک دانہ ہو جس میں سے سات بالیں نکلیں اور ہر بالی میں سو سو دانہ ہو.اور خدا چاہے تو وہ اِس سے بھی بڑھا دے.اس آیت میں اُن کیمیاوی تغیرات کی طرف

Page 292

انوار العلوم جلد 25 268 سیر روحانی نمبر (9) اشارہ کیا گیا ہے جو دانے پر اثر انداز ہوتے ہیں.زمیندار تو اتنا ہی سمجھتا ہے کہ میں نے دانہ بویا تھا جو اگ آیا.مگر سائنس دان سمجھتا ہے کہ خالی دانہ نہیں اگا بلکہ دانہ کے اُگانے کے لئے اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہیں جن سے دانہ اگتا ہے تب تو وہ اُگے گا ور نہ نہیں.آخر وجہ کیا ہے کہ کسی زمین میں تل اگتا ہے اور کسی میں نہیں اگتا، کسی میں گنا اگتا ہے اور کسی میں نہیں اگتا، کسی میں کپاس اچھی اگتی ہے اور کسی میں نہیں اگتی، کسی میں گندم اچھی آگتی ہے اور کسی میں نہیں اگتی.اس کی وجہ یہی ہے کہ گندم بعض خاص کیمیاوی چیزوں سے بنتی ہے اگر وہ کیمیاوی چیزیں زمین میں موجود ہوں تب تو گندم اُگے گی ورنہ نہیں.اسی طرح کپاس بعض خاص چیزوں سے بنتی ہے.اگر وہ کیمیاوی اجزاء زمین میں موجود ہونگے تب تو اچھی کپاس نکلے گی ورنہ نہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک دانہ سے سات سو دانہ تک پید اہو سکتا ہے.پنجاب یو نیو رسٹی پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے ملاقات کا ایک پروفیسر تھا جس کا نام مسٹر پوری تھا.وہ ایک دفعہ قادیان آیا.وہ گو رنمنٹ کی طرف سے اسی تحقیقات پر مقرر کیا گیا تھا کہ اپنے ملک کے زمینی اجزاء دیکھ کر معلوم کرے کہ اُن میں کیمیاوی اجزاء کتنے ہیں اور وہ کس حد تک گندم یا دوسری چیزیں پیدا کر سکتے ہیں.وہ مجھے ملا اور کہنے لگا کہ میر اعلم اسبارہ میں بڑا وسیع ہے اور آپ کو مجھ جیسا کوئی اور آدمی نہیں ملا ہو گا.مجھے گورنمنٹ نے خاص طور پر اس کام کے لئے مقرر کیا ہے.اور میری تحقیقات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اڑھائی سو من تک فی ایکڑ گندم پیدا ہو سکتی ہے اور مجھے اپنی اس تحقیق پر بڑا ناز ہے.اُس نے لاہور کے پاس ایک بہت بڑی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بنائی تھی وہی جگہ بعد میں ہمیں بھی الاٹ ہوئی تھی اور کچھ عرصہ تک ہماری ریسرچ انسٹی ٹیوٹ بھی وہیں رہی.جب اُس نے یہ بات کہی تو میں نے کہا اڑھائی سو من ؟ قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ سات سو من تک پیداوار ہو سکتی ہے.وہ یہ سُن کر بالکل گھبر ا گیا اور کہنے لگا قرآن کریم میں یہ لکھا ہے ؟ میں نے کہا ہاں! قرآن میں ذکر ہے.کہنے لگا پھر مجھے

Page 293

انوار العلوم جلد 25 269 سیر روحانی نمبر (9) وہ آیت لکھوا دیں.چنانچہ میں نے اپنے سیکرٹری کو بلا کر کہا کہ یہ آیت اسے لکھ کر دیدیں.وہ کہنے لگا مجھے اس کا بالکل علم نہیں تھا یہ تو بالکل نیا علم ہے اور ابھی ہندوستان میں شروع بھی نہیں ہوا.میں پہلا آدمی ہوں جس نے اس کی تحقیقات شروع کی ہے اور یورپ کی سٹڈی (STUDY) کر کے مجھے اس کام پر مقرر کیا گیا ہے.میں نے کہا.سات سو من ہی نہیں قرآن کریم کہتا ہے کہ وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ اللہ تعالیٰ چاہے تو سات سو سے بھی بڑھا دے.کہنے لگا میری تحقیقات اسوقت تک صرف اتنی ہی ہے کہ ہمارے ملک میں اتنے کیمیاوی اجزاء موجود ہیں کہ فی ایکڑ اڑھائی سو من تک گندم پیدا ہو سکتی ہے.مگر جو باہر کی کتابیں میں نے پڑھی ہیں اُن سے چار سو من تک پتہ چلتا ہے.میں نے کہا.پھر اُن کتابوں سے بھی بڑھ کر قرآن کریم میں علم موجود ہے قرآن کہتا ہے کہ فی ایکڑ سات سو من تک گندم ہو سکتی ہے.اب دیکھو اس میں علم کیمیا کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ ہم زمین کو دیکھیں کہ وہ اجزاء جن سے گندم پیدا ہوتی ہے یا کپاس پید اہوتی ہے زمین میں کسقدر موجود ہیں.اور گندم کا دانہ یا کپاس کا بیج اُن اجزاء سے آگے کتنے زیادہ بیج پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.اسی طرح فرماتا ہے وَقَالُوا وَإِذَا كُنَّا عِظَامًا وَ رُفَاتًا وَإِنَّا لَمَبْعُوثُونَ خَلْقًا جَدِيدًا - قُلْ كُونُوا حِجَارَةً أَوْ حَدِيدًا اَوْ خَلْقًا مِّمَّا يَكْبُرُ فِي صُدُورِكُمْ فَسَيَقُولُونَ مَنْ يُعِيدُنَا قُلِ الَّذِي فَطَرَكُمْ أَوَّلَ مَزَةٍ - 33 یعنی کفار کہتے ہیں کہ جب ہم ہڈیاں ہو جا ئینگے اور چورا ہو جائینگے تو کیا پھر ہم کو ایک نئی پیدائش میں اُٹھایا جائے گا؟ تُو اُن کو کہہ دے کہ ہڈیاں اور چورا ہونا تو الگ بات ہے اگر پتھر بھی بن جاؤ یا لوہا بھی بن جاؤ تب بھی خدا تعالیٰ تمہیں پیدا کرنے کی طاقت رکھتا ہے.مرور زمانہ سے انسانی جسم کا پتھر بن جانا اب بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ نَعُوذُ بِاللہ ایک ڈھکوسلا ہے کہ پتھر بن جاؤ یالو ہا بن جاؤ پھر بھی خدا تعالیٰ تمہیں زندہ کرے گا.ایک کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ آدمی نے پتھر کس طرح بننا ہے یو نہی قرآن نے ایک ڈھکوسلا مار دیا ہے.لیکن ابھی

Page 294

انوار العلوم جلد 25 270 سیر روحانی نمبر (9) کوئی دو ہفتے ہوئے روس کی ایک خبر اخبارات میں چھپی ہے کہ روس میں آدمیوں کے بعض پرانے ڈھانچے ملے ہیں جو کہتے ہیں کہ کئی لاکھ سال کے ہیں اور اُن کی ہڈیاں پتھر بن چکی ہیں.اِس سے معلوم ہوا کہ انسان کے لئے مرورِ زمانہ سے پتھر بننا ممکن تھا.یوں تو پہلے کہتے تھے کہ پتھر کا کوئلہ بھی در حقیقت درختوں سے ہی بنا ہے مگر انسانوں کے متعلق اس وقت تک کوئی تحقیق نہیں ہوئی تھی.اب یہ تازہ علم نکلا ہے کہ انسانوں کے بعض پرانے ڈھانچے ملے ہیں جن کی ہڈیاں پتھر بن چکی ہیں.اور یہ بھی قرآن کہتا ہے کہ ارے میاں! اس میں تعجب کی کیا بات ہے ہڈیاں تو الگ رہیں وہ تو اِسی انسانی جسم کا حصہ ہیں تم پتھر بھی بن جاؤتب بھی خدا تمہیں پیدا کر سکتا ہے.علم فلسفہ کی نہر 36 پھر علم فلسفہ ہے.فلسفہ کے معنے ہوتے ہیں کسی چیز کی حکمت بیان کرنا.اللہ تعالیٰ علیم فلسفہ کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے وَ اَنْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَ عَلَيْكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ وَكَانَ فَضْلُ اللَّهِ عَلَيْكَ عَظِيمًا - 30 اللہ تعالیٰ نے تجھ پر کتاب اور حکمت نازل کی ہے اور تجھے وہ کچھ علم سکھایا ہے جو پہلے تو نہیں جانتا تھا.اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر چیز کی حکمت ہوا کرتی ہے وہ حکمت سیکھنے کی کوشش کرو.اسی حکمت کو فلسفہ کہتے ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہے.مثلاً تاریخ تو یہ ہے کہ اور نگ زیب کوئی بادشاہ تھا، اکبر کوئی بادشاہ تھا اور یہ بحث کہ اکبر ترک تھا یا مغل ؟ وہ ہندوستان میں کیوں آیا؟ اس کے ملک میں کیا حالات پید اہوئے تھے جن کی وجہ سے وہ اپنا ملک چھوڑ کر ہندوستان آیا؟ اور کونسے حالات پیدا ہوئے کہ جن کی وجہ سے اس نے تھوڑی سی فوج سے جو صرف چند ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی چالیس کروڑ کے ملک کو فتح کر لیا؟ (گو اُسوقت تو چالیس کروڑ نہیں تھے صرف دو کروڑ کی آبادی تھی) یہ چیز ہے جو فلسفہ کہلاتی ہے.اسی طرح یہ مواد کہ اُن کے ملک میں اچھی غذا نہیں ہوتی تھی، اچھی زمینیں نہیں تھیں اور ادھر ہندوستان میں لڑائیاں تھیں، فساد تھے، جھگڑے تھے جنکی وجہ سے اُس کی فوج تھوڑی دیر میں ہی غالب آگئی یہ فلسفہ ہے.غرض فلسفہ تاریخ اور چیز ہے اور تاریخ اور چیز ہے.دیباچہ ابن خلدون جو ہماری ایک مشہور کتاب ہے

Page 295

انوار العلوم جلد 25 271 سیر روحانی نمبر (9) اُس میں فلسفہ تاریخ پر ہی بحث ہے.ایک انگریز پروفیسر ایک دفعہ مجھے قادیان میں ملنے آیا تو میں نے اُس سے کہا کہ فلسفہ تاریخ پر اگر کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ کتاب تم کو معلوم ہے تو بتاؤ.وہ کہنے لگا کہ دیباچہ ابن خلدون سے بڑھ کر یورپ اور امریکہ میں کوئی کتاب نہیں.جو کچھ فلسفہ اس نے بیان کیا ہے اس سے بڑھ کر ہم بیان نہیں کر سکتے وہ سب سے اعلیٰ کتاب ہے.مگر ابن خلدون نے فلسفہ تاریخ کو کیوں بیان کیا؟ اسی لئے کہ قرآن کریم میں اس نے پڑھا تھا کہ ہر چیز کا فلسفہ معلوم کرو.جب تم معلوم کرو گے تو تمہیں اصل راز کا پتہ لگ جائے گا.اُس نے سوچا کہ اسلامی حکومتیں کیوں تباہ ہوئیں؟ دوسرے ملک کیوں تباہ ہوئے ؟ اور اُس نے فلسفہ سیاست پر غور کیا تو یہ دیباچہ لکھا.مگر اُسے اس علم کا قرآن کریم سے ہی پتہ لگا کیونکہ قرآن کریم نے ہی اس علم کی طرف توجہ دلائی ہے.علیم منطق کی نہر پھر علم منطق کو لو وہ بھی قرآن کریم بیان کرتا ہے.فرماتا ہے وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا انْزَلَ اللَّهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ اباءَنَا - اَو لَو كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ.37 یعنی جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اُس کی فرمانبرداری کرو.تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو اس کی فرمانبرداری کرینگے جس پر ہمارے باپ دادا چلتے تھے.فرماتا ہے تمہارے باپ دادا چاہے بیوقوف ہی ہوں تب بھی اُن کے پیچھے چلو گے ؟ یہ تو تم کہہ سکتے ہو کہ ہمارے باپ دادا عقلمند تھے اس لئے ہم اُن کی بات مانیں گے مگر یہ کہنا کہ چاہے وہ بیوقوف تھے یا عقلمند ہم نے چلنا اُن کے پیچھے ہے یہ عقل کے خلاف بات ہے.اور منطق اسی کو کہتے ہیں کہ دلیل کے ساتھ ثابت کیا جائے کہ کونسی بات زیادہ معقول ہے اور کونسی غیر معقول.یہاں منطقی دلیل سے قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے کہ جو بات معقول ہو اُس کو ماننا چاہئے اور جو غیر معقول بات ہو اس کو نہیں مانا چاہئے.عظیم موازنہ مذاہب کی نہر اسی طرح عظیم موازنہ، مذاہب کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے

Page 296

272 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 ياهل الكتب لِمَ تُحَاجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَ مَا أُنْزِلَتِ التَّورايةُ وَالإِنْجِيلُ اِلَّا مِنْ بَعْدِهِ أَفَلَا تَعْقِلُونَ.38 یعنی بعض لوگ اپنے آباء کی عزت کرنے کے لئے یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ہوئے کب ہیں.محض جوش میں آکر کہہ دیتے ہیں کہ وہ بھی ہمارے مذہب پر تھے.مثلاً کہہ دیتے ہیں کہ ابراہیم بھی یہودی تھا یا ابراہیم بھی عیسائی تھا.فرماتا ہے تم اتنا نہیں سوچتے کہ تورات اور انجیل تو بعد میں آئی ہیں پھر وہ یہودی یا عیسائی کس طرح ہو گیا.ایک عیسائی پادری سے گفتگو میں بچہ تھا کہ ایک دفعہ ایک عیسائی پادری سے میری بحث ہوئی.میں نے کہا تم جو کہتے و کہ مسیح کے کفارہ پر ایمان لائے بغیر کسی کی نجات نہیں تو ابراہیم کی نجات کس طرح ہوئی؟ کہنے لگا ابراہیم بھی کفارہ پر ایمان رکھتا تھا.میں نے کہا مسیحی کفارہ تو اُس کے دو ہزار سال بعد ہو اوہ پہلے کس طرح ایمان لے آیا تھا؟ مگر اِس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکا.بس ایک گپ بانک دی کہ ابراہیم کفارہ پر ایمان رکھتا تھا.ایک مخلص نوجوان کا لطیفہ ایک مخلص نوجوان جو سید تھا اور علی گڑھ میں پڑھا کرتا تھا بچپن میں میر ادوست تھا.اب تو وہ فوت ہو چکا ہے.بہت سیدھا سادہ آدمی تھا.ایک دفعہ وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا آپ سے ایک بات پوچھنی ہے.ایک شبہ ہے جو میرے دل میں پیدا ہوا ہے.میں نے کہا کیا ؟ کہنے لگا شیعہ سنی کا بڑا جھگڑا ہے یہ تو فرمائیے حضرت ابو بکر اور عمر شیعہ تھے کہ سنی؟ میں نے کہا اُن کے شیعہ سنی ہونے کا کیا سوال ہے شیعیت اور سُنیت تو بعد میں پیدا ہوئی ہیں.اصل بحث تو یہ ہے کہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ خلیفہ تھے یا نہیں ؟ کیونکہ اسی کی وجہ سے شیعیت اور سُنیت پیدا ہوئی ہیں.کہنے لگا اچھا! مجھے یہ خیال نہیں آیا تھا.تو وہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کو بھی جو پہلے گزر چکے تھے شیعہ سنی بنانا چاہتا تھا.علیم نباتات کی شہر پھر علم نباتات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ _ 39 یعنی زمین میں جسقدر نباتات ہیں اُن میں جو ڑا جوڑا ہو تا ہے.کچھ نر ہوتے ہیں اور کچھ

Page 297

انوار العلوم جلد 25 273 سیر روحانی نمبر (9) مادہ ہوتے ہیں.جب نر اور مادہ کو ٹھیک طرح ملایا جائے تو فصل بڑی اعلیٰ ہوتی ہے.اسی لئے ماہرین زراعت نے کہا ہے کہ باغوں میں شہد کی مکھیاں رکھنی چاہیئں.وہ نر درخت پر بیٹھ کر اور اُس نر درخت کا نطفہ لے کر مادہ درخت پر رکھ دیتی ہیں تو پھل زیادہ لگتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ایک واقعہ عرب لوگ ہمیشہ نر اور مادہ درختوں کو آپس میں ملایا کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ کچھ لوگ کھجوروں کے نروں کو کھجور کے مادہ سے ملا رہے ہیں.آپ کو اس کا علم نہیں تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام نباتات کو جوڑا جوڑا بنایا ہے.یہ بھی قرآن کریم کی سچائی کا ایک ثبوت ہے.اگر آپ کے علم میں یہ بات ہوتی تو مخالف کہتے کہ قرآن کریم میں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے خود یہ بات لکھ دی ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا کوئی علم نہیں تھا.جب آپ نے انہیں نر اور مادہ کو آپس میں ملاتے دیکھا تو فرمایا کیا کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا یا رسُول اللہ ! ہم نر کو مادہ پر ڈالتے ہیں تا کہ فصل اچھی رہے.آپ نے فرمایا یہ لغو بات ہے جو پھل پیدا ہونا ہے اُس نے تو پیدا ہونا ہی ہے اس سے کیا بنتا ہے.انہوں نے چھوڑ دیا.اگلے سال وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے يَارَسُولَ اللہ ! ہماری تو فصل ماری گئی ہے اب کے کھجور اچھی نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا کیوں ؟ انہوں نے کہا آپ نے جو منع فرمایا تھا کہ نر کا مادہ مادینہ کھجور پر نہ ڈالو.آپ نے فرمایا میں تو تمہاری طرح کا ایک انسان ہوں یہ علم تم جانتے ہو میں نہیں جانتا تمہیں میری بات نہیں ماننی چاہئے تھی 40 تو دیکھو خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارہ میں کوئی ذاتی علم نہیں تھا.مگر قرآن کریم فرماتا ہے وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.یعنی زیادہ صرف انسانوں میں ہی نہیں بلکہ ہر چیز میں ہیں.نباتات میں بھی ہیں بلکہ جمادات میں بھی ہیں.کچھ مدت ہوئی میں نے پڑھا کہ ٹین 41 کے متعلق تحقیقات ہوئی ہے کہ ٹین کی بعض قسمیں نر ہیں اور بعض مادہ ہیں.

Page 298

انوار العلوم جلد 25 274 غرض علیم نباتات کی طرف بھی قرآن نے توجہ دلائی ہے.سیر روحانی نمبر (9) علیم توافق بین المخلوقات کی نہر اسی طرح علم توافق بین المخلوقات کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.یعنی مختلف مخلوقات کی مختلف ضرور تیں ہوتی ہیں فرماتا ہے وَالْأَرْضَ مَدَدْنَهَا وَ الْقَيْنَا فِيهَا رَوَاسِيَ وَأَنبَتْنَا فِيهَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَوزُون - 42- یعنی ہم نے زمین کو پھیلایا ہے اور اُس میں پہاڑ بنائے ہیں اور اس میں مختلف چیزیں اگائی ہیں جو ضرورت کے مطابق ہیں.یعنی انسان کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جاتی ہے اور جانوروں کی ضرورت بھی اُن سے پوری ہو جاتی ہے.کئی چیزیں ایسی ہیں جن کے متعلق لوگ کہا کرتے تھے کہ بے غرض پیدا ہو گئی ہیں.اگر کوئی خدا ہوتا تو بے ضرورت چیزیں کیوں پیدا کرتا.لیکن اب تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بعض قسم کے کیڑے جو بعض وبائی کیڑوں کو مارتے ہیں وہ ان غذاؤں کو کھاتے ہیں.تو كُلِّ شَيْءٍ مَوزُونٍ میں اللہ تعالیٰ نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اُس نے ہر ایسی چیز پیدا کر دی ہے جس کی کسی انسان یا جانور کو ضرورت ہے.اُن میں سے بعض کی ایسے خورد بینی کیڑوں کو ضرورت ہوتی ہے جو آنکھوں سے بھی نظر نہیں آتے.اگر وہ چیز نہ ہوتی جس کو ہم لغو سمجھتے ہیں تو وہ کیڑے بھی پیدا نہ ہوتے.اور اگر وہ کیڑے نہ پیدا ہوتے تو وہ وبائیں بھی نہ جائیں جو اُن کیڑوں کی وجہ سے دُور ہوتی ہیں.علیم حیوانات کی نہر پھر عظیم حیوانات کی طرف بھی اُس نے توجہ دلائی ہے.فرماتا ہے.وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُ مِنْ دَابَّةٍ أَيتَ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ 43 یعنی تمہاری پیدائش میں بھی اور خدا تعالیٰ نے جو اور جانور زمین میں پھیلائے ہیں اُن میں بھی ایک یقین رکھنے والی قوم کے لئے بڑے نشان ہیں.پھر فرماتا ہے وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا طَبِرٍ يَطِيرُ بِجَنَاحَيْهِ إِلَّا أُمَمٌ أَمْثَالُكُمْ - 44 یعنی یہ جو زمین میں چلتے پھرتے جانور تمہیں نظر آتے ہیں اور ہواؤں میں اُڑتے ہوئے پرندے دکھائی دیتے ہیں یہ بھی تمہاری طرح کے گروہ ہیں.اُمڈ سے یہ مراد نہیں کہ نبیوں کی اُمت ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ اُن کے اندر بھی کوئی قانون جاری ہے.چنانچہ ایسے

Page 299

275 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 ایسے قانون اُن کے اندر جاری ہیں کہ حیرت آجاتی ہے.دیکھو! مگھ اور مرغابی وغیرہ ایک خاص موسم میں ایک خاص ملک سے جو کئی ہزار میل پر ہے اُڑتی ہے اور یہاں آکر بیٹھ جاتی ہے.اور پھر ایک خاص وقت میں جبکہ ابھی موسمیات کے ماہروں کو بھی پتہ نہیں لگتا مرغابی اُڑنے لگ جاتی ہے اور اس سے پتہ لگ جاتا ہے کہ اب فلاں قسم کی ہوائیں چلیں گی یا بارشیں ہونگی.تو فرماتا ہے تمہاری طرح ان میں بھی کچھ قوانین چل رہے ہیں.تم سمجھتے ہو کہ یہ بے عقل پرندے ہیں حالانکہ اگر تم ان پرندوں پر غور کرو تو اس سے بھی بڑے بڑے علوم نکل آئیں گے اور تم کو پتہ لگے گا کہ خدا تعالیٰ نے ان کے اندر کتنی حکمتیں رکھی ہیں.چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں میں نظام خلا میں نے چیونٹیوں اور مکھیوں کے متعلق کتابیں پڑھی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شہد کی مکھیوں اور چیونٹیوں میں اتنا نظام ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں.امریکہ کے ایک رسالہ میں میں نے پڑھا کہ اور بلاؤ 45 جو ایک جانور ہے اور پانی میں رہتا ہے اور دریا کے کنارے پر مٹی کے گھر بناتا ہے.اتفاقاً ایک جگہ پر اس کے کچھ بچے بہہ کر آگئے.اُن کو چونکہ گھر بنانے کا علم نہیں تھا اس لئے وہاں سے ایک بچہ بہہ کر اُس جگہ گیا جہاں پرانے اور بلاؤ رہتے تھے اور وہاں سے اُس نے ایک بڑھے اور بلاؤ کو بلایا اور اُس اور بلاؤ نے آکر ان کو مکان بنانے سکھائے اور پھر وہ واپس چلا گیا.اسی طرح یہ ثابت ہوا کہ بعض جانور ایسے ہیں جن کے گھونسلے پہلے اور شکل کے ہوتے تھے مگر اب اور شکلیں بننے لگ گئی ہیں.جس سے معلوم ہو تا ہے کہ انسان کی طرح وہ بھی ترقی کر رہے ہیں.ایک الصلواۃ عجیب تجربہ میرا اپنا ایک عجیب تجربہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام جس سفر میں لاہور میں فوت ہوئے ہیں اس سفر میں میرے پاس ایک ہوائی بندوق تھی.میں نے اُس سے ایک فاختہ ماری.جب میں نے اسے ذبح کرنے کے لئے اُٹھایا تو میں نے دیکھا کہ اُس کے پیٹ کے پاس درخت کی ایک

Page 300

انوار العلوم جلد 25 276 سیر روحانی نمبر (9) شاخ سے گرہ بندھی ہوئی تھی.میں نے وہ گرہ کھولی تو معلوم ہوا کہ اُس کو کبھی زخم لگا تھا.جسے اُس نے ڈاکٹر کی طرح کیا.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اُس نے اپنی چونچ سے یا کسی دوسری فاختہ کی چونچ سے وہ زخم سلوایا.جب میں نے اُس کا شکار کیا تو وہ زخم بالکل مندمل ہو چکا تھا.چنانچہ جب میں نے گرہ کھولی تو میں نے دیکھا کہ وہ زخم بالکل ٹھیک ہو چکا تھا اور نیچے سے خشک چمڑا نکل آیا تھا.اسی طرح علم حیوانات کے متعلق فرماتا ہے اَو لَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا انْعَامًا فَهُمْ لَهَا مُلِكُونَ - وَذَلَّلْنَهَا لَهُمْ فَمِنْهَا رَكُوبُهُمْ وَمِنْهَا يَأْكُلُونَ - وَ لَهُمْ فِيهَا مَنَافِعُ وَ مَشَارِبُ أَفَلَا يَشْكُرُونَ - 46 یعنی کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہم نے جو چیزیں پیدا کی ہیں وہ کئی قسم کی ہیں.بعض پر وہ سواریاں کرتے ہیں، بعض کو وہ کھاتے ہیں اور بعض سے وہ اور فوائد حاصل کرتے ہیں.مثلاً ان کے چمڑے وغیرہ کئی کام آتے ہیں اور بعض جانوروں کے دودھ پیتے ہیں.کیا وہ ان نعمتوں پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے ؟ یعنی جانور کو بھی صرف دیکھنا نہیں چاہئے بلکہ غور کرنا چاہئے کہ اس کے گوشت میں کوئی زہر تو نہیں ہے.بچپن کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے بچپن میں مجھے ہوائی بندوق کے شکار کا شوق ہوا کرتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شکار 1 پسند تھا کیونکہ یہ طاقت قائم رکھتا ہے.میں آپ کے لئے فاختائیں مار کر لایا کرتا تھا.ایک دفعہ فاختہ نہ ملی تو طوطا مار کر لے آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رکھ تو لیا مگر تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز دی کہ محمود! ادھر آؤ.میں گیا تو آپ نے طوطا اُٹھایا اور فرمایا دیکھو محمود! اللہ تعالیٰ نے سارے جانور کھانے کے لئے نہیں بنائے، کچھ دیکھنے کے لئے بھی بنائے ہیں.طوطا ایک خوبصورت جانور ہے یہ خدا نے دیکھنے کے لئے بنایا ہے.تم نے سمجھا کہ ہر ایک جانور کھانے کے لئے ہے.یہی قرآن کریم فرماتا ہے کہ جانوروں پر بھی غور کرو.اُن کی خاصیتیں الگ الگ ہیں.کچھ کھانے کے لئے اچھے ہیں، کچھ دیکھنے کے لئے اچھے ہیں، کچھ بولنے کے لحاظ سے ނ

Page 301

انوار العلوم جلد 25 277 سیر روحانی نمبر (9) اچھے ہیں جیسے مینا اور طوطا بولتے ہیں یا بے 47 ہیں وہ بھی بولتے ہیں.تو مختلف قسم کے فائدے ہیں جو اُن سے پہنچتے ہیں.اسی طرح کوئی سواری کے کام آتا ہے، کسی کا چمڑا اچھا ہوتا ہے، کوئی کھانے کے کام آتا ہے، کسی سے پوستینیں، جوتے اور بوٹ بنتے ہیں.علم معیشت کی نہر پھر علم معیشت کی طرف بھی قرآن کریم نے توجہ دلائی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ حج کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.کیس عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمُ - 48- یعنی تمہارے لئے یہ کوئی گناہ کی بات نہیں کہ تم حج کے ایام میں تجارت کے ذریعہ اپنے رب سے اس کا کوئی اور فضل بھی مانگ لو.اسی طرح فرماتا ہے.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ.19 جب جمعہ کی نماز پڑھ لو تو زمین میں پھیل جاؤ اور اللہ تعالیٰ کا فضل تلاش کرو.ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ تمہارا سارا وقت حج اور نماز کے لئے نہیں ہو تا بلکہ تمہیں علیم معیشت بھی سیکھنا چاہئے.اور اپنے اوقات کو اس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ وقت نمازوں میں لگاؤ اور کچھ دنیا کے کاموں میں لگاؤ تا کہ تمہارے خاندان اور تمہارے ملک کی حالت اچھی ہو جائے.علم الاقتصاد کی نہر پھر علم الاقتصاد کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے فرماتا ہے ولا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطُهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا - 50 کہ تو اپنے ہاتھ کو بالکل روک نہ لے اور گردن کے ساتھ نہ باندھ لے اور نہ اتنا پھیلا کہ سارا مال ضائع ہو جائے.گویانہ تو بخل سے کام لے اور نہ اسراف سے کام لے.کیونکہ کئی مواقع انسان پر ایسے بھی آتے ہیں جب اس کو پھر مال کی ضرورت پیش آجاتی ہے.اگر کوئی شخص جوانی میں کمائی کرتا اور اُسے عیاشی میں اُڑا دیتا ہے تو بعد میں اگر وہ خود بیمار ہوتا ہے یا اس کے بیوی بچے بیمار ہوتے ہیں تو اُسے علاج کے لئے کوئی پیسہ نہیں ملتا.پس فرمایا کہ اپنے اموال کو ہمیشہ اس طرح تقسیم کرنا چاہئے کہ کچھ بچاؤ اور کچھ خرچ کرو.اسی طرح فرماتا ہے يَسْتَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُونَ قُلِ الْعَفْو.اے لوگ تجھ سے پوچھتے ہیں

Page 302

انوار العلوم جلد 25 278 سیر روحانی نمبر (9) کہ وہ کیا خرچ کریں؟ حالانکہ خود حکم دیتا ہے کہ خرچ کر و.مگر فرماتا ہے تم وہ خرچ کرو جو ضرورت سے زیادہ ہو.جس کی تمہیں گل کو ضرورت پیش آتی ہے اُسے خرچ نہ کرو.حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے وصیت کرنی چاہی اور کہا کہ میں اپنا سارا مال غریبوں کو دیتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سارا مال غریبوں کو دے دینا اچھا نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ تیرے بچے تیرے بعد لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے پھریں.کچھ ان کے لئے بھی رکھو اور کچھ اپنے وارثوں کے لئے بھی رکھو تا کہ وہ بھی عزت سے گزارہ کریں.52 علم شہریت کی نہر پھر علم شہریت کی طرف بھی قرآن کریم میں توجہ دلائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى التي بُرَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرُنَا فِيهَا السَّيْرَ - 33 یعنی ہم نے قوم سبا کی بستیوں اور بنی اسرائیل کی بستیوں کے درمیان بڑے بڑے شہر بسائے تھے جس کی وجہ سے لوگ تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر آبادیوں میں چلے جاتے تھے اور انہیں کھانا پینامل جاتا تھا.گویا بتایا کہ مدنیت یعنی شہر بسانا ملک کی ترقی کا موجب ہوتا ہے کیونکہ اس سے ملک کے لوگوں کے باہمی تعلقات بڑے آسان ہو جاتے ہیں.اگر کسی ملک میں صرف گاؤں ہوں تو ان کے تعلقات وسیع نہیں ہوتے اور انکی تعلیم اور تجارت وغیرہ بھی کمزور ہو جاتی ہے.تاریخ کی نہر پھر عظیم تاریخ کی طرف بھی قرآن کریم توجہ دلا تا ہے.فرماتا ہے ذلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرَى نَقُصُّهُ عَلَيْكَ مِنْهَا قَابِمْ وَحَصِيدٌ - 54 یعنی ہم نے اس قرآن میں تیرے پاس پچھلی قوموں کے جو حالات بیان کئے ہیں اُن میں سے بعض کے نشانات اب تک موجود ہیں اور بعض کے نشانات بالکل مٹ چکے ہیں.علمائے تاریخ نے لکھا ہے کہ تاریخیں دو قسم کی ہیں.ایک تاریخ ہسٹارک (HISTORIC کہلاتی ہے اور ایک پر کی ہسٹارک (PRE-HISTORIC) یعنی زمانہ تاریخ سے قبل کے حالات.یہی بات قرآن کریم نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے

Page 303

انوار العلوم جلد 25 279 سیر روحانی نمبر (9) کہ پچھلی قوموں کے جو حالات بیان کئے گئے ہیں اُن میں سے بعض کے نشانات تو اب تک موجود ہیں یعنی وہ ہسٹارک ہیں.اور بعض پری ہسٹارک ہیں اُن کے نشانات مٹ چکے ہیں اور کوئی تاریخ اُن پر روشنی نہیں ڈالتی.علیم بدء عالم کی نہر پھر علم بدو عالم بھی قرآن کریم بیان فرماتا ہے.جسے اصطلاحاً ایتھنالوجی (ETHNOLOGY) کہتے ہیں.یعنی زمین کس طرح بنی ہے ، آسمان کس طرح بنے ہیں اور پیدائش عالم کس طرح ہوئی ہے.فرماتا ہے.قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ بَدَا الخَلْقَ - 55 یعنی تم زمین میں ذرا پھر کر تو دیکھو.پھر تمہیں پتہ لگے گا کہ پیدائش عالم کس طرح ہوئی تھی.اسی کو ایتھالوجی کہتے ہیں یعنی مختلف قوموں کے جو آثار ہیں اُن سے نتیجہ نکال کر تاریخ کا پتہ لگانا.فرماتا ہے اگر تم نے دنیا کی تاریخ کا پتہ لگانا ہے تو یہ تمہیں کسی ایک ملک سے نہیں لگے گا، مختلف ملکوں میں مختلف تہذیبیں مختلف قوموں نے اختیار کی ہیں.پس اگر تم پچھلی قوموں کی تاریخ معلوم کرنا چاہتے ہو تو ساری دنیا میں پھر و.کسی ایک ملک سے تمہیں دنیا کی تاریخ کا پتہ نہیں لگے گا.بلکہ مختلف ملکوں میں جا کر تمہیں پتہ لگے گا کہ کسی صدی میں ہندوستان میں تہذیب پھیلی ، کسی صدی میں ایران میں پھیلی، کسی صدی میں روم میں پھیلی، کسی صدی میں عرب میں پھیلی، کسی صدی میں شام میں پھیلی، کسی صدی میں مصر میں پھیلی، کسی صدی میں کسی اور ملک میں پھیلی.تو ایتھنالوجی کے علم کے لئے ضروری ہے کہ دنیا کے مختلف ملکوں کی سیر کرو.اسی طرح بدء عالم یعنی ساری دنیا کی پیدائش کے متعلق فرماتا ہے.اَو لَمْ يَد الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَى أَفَلَا يُؤْمِنُونَ 5 یعنی کیا کافر یہ نہیں دیکھتے کہ آسمان اور زمین پہلے ایک گچھا سا بنے ہوئے تھے.پھر ہم نے ان کو کھولا.مولوی نذیر احمد صاحب دہلوی نے اس کا یہ ترجمہ کیا ہے کہ :- "کیا جو لوگ منکر ہیں اُنہوں نے اس بات پر نظر نہیں کی کہ

Page 304

انوار العلوم جلد 25 280 سیر روحانی نمبر (9) آسمان اور زمین دونوں کا ایک بھنڈ ا سا تھا تو ہم نے (اُسکو توڑ کر) زمین و آسمان کو الگ الگ کیا."57 یعنی جیسے ایک گول ساڈھیر یا خشک ڈلا ہوتا ہے اسی طرح وہ بنے ہوئے تھے.پھر ہم نے اس کو کھولا.چنانچہ علم ہیئت سے یہی پتہ لگتا ہے کہ دنیا میں پہلے ذرات پیدا ہوتے ہیں پھر وہ ذرات سمٹنے شروع ہوتے ہیں اور مرکز میں ذرات کا ایک ہجوم جمع ہو جاتا ہے.پھر وہ چکر کھانے لگتا ہے اور اس چکر سے جو ار دیگر د کے ذرات ہوتے ہیں اُن کو دھکا لگتا ہے اور وہ دُور جا پڑتے ہیں.اور ہوا میں دُور جانے کی وجہ سے اُن میں گرمی پیدا ہوتی ہے اور ابخرے پیدا ہوتے ہیں.پھر بارش آتی ہے جو اُن کو ٹھنڈا کرتی ہے اور اس طرح ایک کرہ بن جاتا ہے.وہی نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے کہ اگر تم نے بدء عالم کا پتہ لگانا ہے تو اس بات پر غور کرو جو ہم تمہارے سامنے بیان کر رہے ہیں.علیم موسمیات کی نہر پھر عظم موسمیات کو دیکھ تو وہ بھی قرآن کریم نے بیان کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے.وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّجُعِ وَالْأَرْضِ ذَاتِ الصَّدْعِ إِنَّهُ لَقَوْلُ فَضْلُ وَمَا هُوَ بِالْهَزْلِ _ 58 یعنی تم بادل کو دیکھو جو بار بار برستا ہے اور زمین کو دیکھو جو پھٹتی ہے تو اس میں سے پھل وغیرہ نکلتا ہے.اگر تم ان باتوں پر غور کر و تو تمہیں معلوم ہو گا کہ ہر چیز کے لئے خدا نے ایک موسم مقرر کیا ہے.کسی میں پانی اُترتا ہے، کسی میں کوئی خاص تر کاری اگتی ہے.اگر تم اس طرح غور کرو گے تو تمہیں اس سے بھی بڑے بڑے علوم حاصل ہو جائیں گے.غرض قرآن کریم نے ان تمام علوم کی طرف جو دنیا میں جاری ہیں اشارہ کیا ہے اور اُن کے سیکھنے کی طرف توجہ دلائی ہے اور اُن کا منبع بتایا ہے کہ فلاں فلاں جگہ سے تم ان علوم کو نکال سکتے ہو.پس جس قدر دنیوی علوم ہیں اُن کا ماخذ قرآن کریم ہے اور ان کی طرف اس نے بار بار توجہ دلائی ہے.علومِ دینیہ کی نہ مگر اس کے علاوہ اُس نے دینی علوم کی نہریں بھی جاری کی ہیں اور در حقیقت یہی نہریں روحانی نقطہ ء نگاہ سے زیادہ اہمیت.

Page 305

انوار العلوم جلد 25 281 سیر روحانی نمبر (9) رکھتی ہیں کیونکہ قرآن کریم کا زیادہ تر دین سے ہی تعلق ہے.عالم روحانی کے سب سے بڑے سمندر تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر اُن سے آگے دنیا میں کئی قسم کی روحانی نہریں جاری ہوئیں.چنانچہ دیکھ لو ایک نہر شریعت کی چلی.پھر اسی نہر میں سے ایک حنفی نہر نکلی ، ایک شافعی نہر نکلی ، ایک مالکی نہر نکلی، ایک حنبلی نہر نکلی.یہ مختلف قسم کی نہریں ہیں جو شریعت کی نہر میں سے جاری ہوئیں.پھر ایک شیعوں کی نہر جاری ہوئی، ایک سنیوں کی نہر جاری ہوئی، ایک خارجیوں کی نہر جاری ہوئی اور ان کے ذریعہ سے شریعت کے مختلف پہلو زیر بحث آتے رہے.پھر ایک تصوف کی نہر چلی، ایک فلسفہء شریعت کی نہر چلی جس کے بہت بڑے بانی ہمارے شاہ ولی اللہ صاحب اور امام ابن تیمیہ تھے.اور آخر میں سب سے زیادہ اہم کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا.پھر سیاست کی ایک نہر چلی جو حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ حضرت عثمانؓ اور حضرت علی سے شروع ہوئی اور پھر وہ آگے نکلتی چلی گئی.اور اس طرح یہ روحانی سلسلہ جو سیاست مذہبی اور فلسفہ ء مذہبی اور احکام شریعت کی حکمتوں اور ان کی ضرورتوں کے ساتھ تعلق رکھتا تھا دنیا میں وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا.پھر اخلاق فاضلہ کی ایک نہر جاری ہوئی جسے امام غزالی نے اور بھی لمبا کیا اور اس سے زمین کو سیراب کیا.اسی طرح تصوف میں جنید شبلی حضرت معین الدین صاحب چشتی بہاؤالدین صاحب نقشبندی.شہاب الدین صاحب سہر وردی وغیرہ جیسے عظیم الشان لوگ گزرے.اور پھر یہ ساری نہریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں آکر مدغم ہو گئیں.اور پھر ایک نئی نہر دُنیا میں چل پڑی اور آپ کے ذریعہ سے پرانی روحانی نہریں بھی جاری رہیں.پرانے زمانہ کے بادشاہوں نے جتنی نہریں بنائی تھیں وہ سب کی سب ختم ہو گئیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر اب تک چلی جارہی ہے.دنیوی اور روحانی نہروں میں بعض نمایاں فرق اب دیکھو دنیا کی ย نہریں تو خشک ہو جاتی ہیں مگر یہ نہریں وہ ہیں جو خشک نہیں ہوتیں.دنیوی نہروں سے جسمانی غلہ پکتا ہے

Page 306

انوار العلوم جلد 25 282 سیر روحانی نمبر (9) مگر ان سے تقویٰ کا دانہ پکتا ہے.دنیوی نہروں کا تیار کردہ غلہ ایک وقت کام آتا ہے اور پھر سڑ جاتا ہے مگر یہ وہ نہر ہے جس کا غلہ ابد الآباد تک کام آتا ہے.فرماتا ہے الْمَالُ وَ الْبَنُونَ زِينَةُ الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَالْبقِيتُ الصَّلِحْتُ خَيْرُ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَخَيْرُ أَمَلًا - 59 یعنی دنیا کی نہروں کے مال اور اس سے پیدا کئے ہوئے غلے اور نسل انسانی کے افراد صرف دنیا میں کام آتے ہیں آخرت میں کام نہیں آتے.مگر جو قرآنی نہر سے پکا ہوا غلہ ہے وہ قیامت تک کام آتا چلا جائیگا.حضرت مسیح ناصری نے بھی کہا ہے کہ اس دنیا کے خزانہ کو کیڑا کھا جاتا ہے مگر آسمان کا خزانہ محفوظ ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- اپنے واسطے زمین پر مال جمع نہ کرو جہاں کیڑا اور زنگ خراب کرتا ہے اور جہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں بلکہ اپنے لئے آسمان پر مال جمع کرو جہاں نہ کیڑا خراب کرتا ہے نہ زنگ اور نہ وہاں چور نقب لگاتے اور چراتے ہیں." غرض وہ مال جو اس پانی سے پیدا ہو تا ہے اور وہ بیٹے جو اس مال کو کھا کر بڑھتے ہیں اسی دُنیا میں ختم ہو جاتے ہیں.لیکن وہ چیزیں (الْبَا قِيَاتُ الصَّالِحَاتُ) جو قرآنی نہر سے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چلائی ہوئی نہر سے پلتے ہیں وہ قیامت تک زندہ رہتے ہیں اور ابدی زندگی پاتے ہیں.کیونکہ مومن رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پھل ہے اور مومن کو ابدی زندگی کا وعدہ ہے.اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر کا پیدا کیا ہوا پھل قیامت تک چلے گا اور وہ کبھی خراب نہیں ہو گا.دیکھو! ابو جہل کے مال نے جو مادی پانی سے حاصل ہوا تھا جو کچھ پیدا کیا وہ ختم ہو گیا مگر جو محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کے پانی سے پیدا ہو اوہ ابدی زندگی پا گیا.عمرؓ کا واقعہ دیکھو کیسی سنگلاخ زمین تھی مگر پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تاثیر سے اُس میں سے کیسی نہر چلی بلکہ اُس سے پہلے ابو بکری نہر چلی، پھر عمر کی نہر چلی، پھر عثمانی نہر چلی، پھر علوی نہر چلی.پھر اُس سے آگے قادری ، چشتی، نقشبندی اور سہر وردی نہریں جاری ہوئیں.سید عبد القادر صاحب جیلانی، مولانا روم،

Page 307

انوار العلوم جلد 25 283 سیر روحانی نمبر (9) قسطنطنیہ ابراہیم ادھم ، امام غزالی، حضرت معین الدین صاحب چشتی، حضرت حضرت داتا گنج بخش حضرت بختیار کاکی، حضرت فرید الدین صاحب شکر گنج حضرت نظام الدین صاحب اولیاء، حضرت خواجہ سلیم چشتی، حضرت سید احمد صاحب سر ہندیؒ، حضرت ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت خواجہ میر درد صاحب، حضرت سید احمد صاحب بریلوی اور آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نہر بھی اسی نہر میں سے نکلی ہوئی نہریں تھیں.بتاؤ وہ اور کونسی نہر ہے جو اتنے زمانہ تک اور اتنے ملکوں میں پھیلی ہو.کوئی نہر دوسو میل چلتی ہے، کوئی چار سو ، کوئی سو سال چلتی ہے، کوئی ڈیرھ سو سال مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نہر عرب سے نکلی اور شمال میں بڑھتے ہوئے ہوتے ہوئے پولینڈ تک چلی گئی.دوسری طرف یورپ میں سے ہوتے ہوئے سلی تک جا پہنچی.مغرب میں مصر سے ہوتے ہوئے تیونس، مراکش، الجیریا اور سپین تک چلی گئی.پھر سیر الیون، گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا تک چلی گئی.مشرق میں ایران، بخارا، چین، ہندوستان اور برما تک چلی گئی.جنوب میں انڈونیشیا اور فلپائن تک چلی گئی.دوسری نہریں خشکی تک چلتی ہیں اور آگے بند ہو جاتی ہیں سمندر آیا اور نہر ختم.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہر سمندر بھی پار کر گئی اور پھر اگلی خشکی میں جاری ہو گئی.یہ نہر عرب سے آئی مگر عرب پر ختم نہیں ہو گئی بلکہ بحیرہ عرب کو بھی گود کر گزرگئی اور ہندوستان میں آگئی، ہندوستان سے چلی اور ہمالیہ پہاڑ پر جا کر ختم نہیں ہو گئی جیسا کہ دنیوی نہریں پہاڑ سے نکلتی ہیں اور خشکی میں جا کر ختم ہو جاتی ہیں.مگر یہ نہر آئی اور ہمالیہ پہاڑ کو بھی پھاند کر پرے چلی گئی اور اوپر جا کر سنکیانگ وغیرہ کے علاقوں تک میں اسلام کو پھیلا دیا.یہاں سوال پید ا ہو تا ہے کہ کیا مسیحیت نہیں پھیلی؟ اسکا ایک سوال کا جواب جواب یہ ہے کہ نہیں، کیونکہ نہر سے سبزی پیدا ہوتی ہے اور میسحیت سے سبزی پیدا نہیں ہوئی بلکہ اُجاڑ پیدا ہوا اور مسیحیت نے سارے ملکوں کو تباہ کر دیا.

Page 308

انوار العلوم جلد 25 284 سیر روحانی نمبر (9) مادی اور روحانی نہروں میں بعض اور فرق پھر مادی نہروں میں کشتیاں ڈوبتی ہیں مگر یہ نہر کشتیاں تیراتی ہے.مادی نہریں سڑنے والی مچھلیاں کھلاتی ہیں مگر یہ نہر کبد حوت کے جنتی کباب کھلاتی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ اوّلُ طَعَامٍ يَأْكُلُهُ أَهْلُ الْجَنَّةِ زِيَادَةُ كَبِدِ حُوْتٍ 11 یعنی پہلا کھانا جو جنتیوں کو ملے گاوہ مچھلی کے جگر کا زائد حصہ ہو گا جو نہایت اعلیٰ حصہ ہوتا ہے.روحانی نہریں کبھی کا فوری اور کبھی زنجبیلی پھر دوسری نہریں اس دنیا اور میں ختم ہو جاتی ہیں مگر یہ نہر کبھی دودھ اور کبھی شہد کی شکل میں سمندر پاری نہیں جاتی بلکہ 62 موت پار بھی جاتی ہے.اور کبھی کا فوری شکل میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے.يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ كَانَ مِزَاجُهَا كَافُورًا - 12 خدا تعالیٰ کے نیک بندے ایسے پیالے پئیں گے جن میں کا فور کی ملونی ہو گی.اور کبھی زنجبیلی شکل میں ظاہر ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا وَيُسْقَوْنَ فِيهَا كَأْسًا كَانَ مِزَاجُهَا زَنْجَبِيلًا - 3 مؤمنوں کو جنتوں میں ایسے گلاسوں سے پانی پلایا جائے گا جن میں زنجبیل ملی ہوئی ہو گی.64 پھر کبھی دودھ کی شکل میں یہ نہر چل پڑتی ہے جیسا کہ فرماتا ہے مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ فِيهَا اَنْهُرُ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ اسِ ۚ وَ انْهُرُ مِنْ لَّبَنٍ لَّمْ يَتَغَيَّرُ طعمة - 24 یعنی یہ جو قرآنی تعلیم کی نہر ہے.یہ ایک دن جنت میں نہروں کی شکل میں ظاہر ہو گی.مگر وہاں کئی نہریں ہونگی کسی میں پانی ہو گا مگر وہ پانی سڑنے والا نہیں ہو گا.اور کچھ نہروں میں دودھ ہو گا مگر دودھ کا مزہ تو بگڑ جاتا ہے اُن کا مزہ کبھی خراب نہیں ہو گا.پھر کبھی یہ نہر شہد کی شکل میں چل پڑتی ہے.جیسے فرمایا.وَ اَنْهُرُ مِنْ عَسَلٍ مُصَفّى - یعنی وہاں خالص اور مصفی شہد کی بھی نہریں ہونگی.محمدی نہر کو ثر کی شکل میں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کبھی محمدسی نہر قیامت میں کوثر کی شکل میں ظاہر ہو جاتی ہے جیسا کہ وہ

Page 309

انوار العلوم جلد 25 285 سیر روحانی نمبر (9) 66 فرماتا ہے.اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ - فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ اِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ - 6 اے محمد رسول اللہ ! یقینا ہم نے تجھے کو ثر عطا کیا ہے سو تو اس کے شکریہ میں اپنے رب کی کثرت کے ساتھ عبادت کر اور اُسی کی خاطر قربانیاں کر.اور یقین رکھ کہ تیر امخالف ہی نرینہ اولاد سے محروم ثابت ہو گا.ہے، حدیث میں بھی آتا ہے.سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْكَوْثَرِ فَقَالَ هُوَ نَهْرُ أَعْطَانِيْهِ اللهُ فِي الْجَنَّةِ 67 یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوثر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا.وہ ایک نہر ہے جو خدا نے مجھے جنت میں بخشی ہے.غرض دیکھو یہ نہر کیا کیا شکلیں بدلتی چلی جاتی ہے.کبھی یہ کا فوری نہر کہلاتی ، کبھی زنجبیلی نہر کہلاتی ہے ، کبھی دودھ کی نہر ہوتی ہے ، کبھی شہد کی نہر ہوتی ہے، کبھی کو ثر کی نہر ہوتی ہے.پھر کبھی وہ اس دنیا میں چلتی ہے، کبھی اگلے جہان میں چلتی ہے، کبھی عرب میں چلتی ہے ، کبھی سمندر گود کے ہندوستان میں آجاتی ہے، پھر ہندوستان کے پہاڑ کودتی ہے اور چین وغیرہ ملکوں میں چلی جاتی ہے.اسی طرح پہاڑی علاقوں میں چلی جاتی ہے.غرض دنیا کی ہر خشکی اور ہر تری پر سے کودتی پھاندتی چلی جاتی ہے.اس دنیا کو کودتی ہے ، موت کو گودتی ہے، کہیں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی.اب بتاؤ ! اِس نہر اور دنیا کی نہروں کا کیا مقابلہ ہے.پس کہاں دنیوی بادشاہوں کی بنائی ہوئی نہریں اور کہاں قرآن کی نہر.اسلام اور کفر کی نہریں متوازی چلتی چلی جائینگی یہ نہریں جوش میں آکر ایک دوسرے کو کاٹ دیتی ہیں اور اگر ایک کا پانی گندہ ہو تو وہ دوسرے کے پانی کو بھی گندہ کر دیتی ہے.مگر قرآنی نہر کا یہ حال ہے کہ اس پر ایک زمانہ تو وہ آتا ہے کہ دوسری نہریں خواہ کتنا زور 68 لگائیں اُس کے ساتھ نہیں مل سکتیں.جیسا کہ فرماتا ہے.بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ.13 ہم نے دوسری نہروں اور اس نہر کے درمیان ایک روک بنادی ہے.وہ اس کے اندر داخل ہو کر اس کے پانی کو گندہ نہیں کر سکتی.یعنی دوسرے مذاہب کو شش کرینگے

Page 310

انوار العلوم جلد 25 286 سیر روحانی نمبر (9) کہ اسلام کو خراب کریں مگر آخر اسلام ہی جیتے گا.اور اللہ تعالیٰ ایسے مجدد مبعوث فرمائے گاجو اسلام کی تعلیم کو پاک کر کے پھر اسلام کے پانی کو صاف کر دینگے.اور باقی دنیا کے مذاہب سارا زور لگانے کے باوجو د اسلام کو خراب نہیں کر سکیں گے.کفر اور ایمان کی آخری فگر میں غرض اِدھر اسلام کی نہر ہو گی اور اُدھر کفر کی نہر اور دونوں ایک وقت تک آخر اسلام ہی دنیا پر غالب آئیگا متوازی چلتی چلی جائیں گی.اور ایک دوسرے میں داخل نہیں ہونگی.مگر آخر ایک وقت آئے گا کہ مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِينِ - 69 یہ دونوں سمندر یعنی اسلامی سمندر اور کفر کا سمندر آپس میں مل جائیں گے.یعنی یہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو جائیں گے اور اسلام اور کفر کی آخری ٹکر ہو جائیگی.لیکن اس آخری ٹکر میں بھی کفر کی نہر اسلام کی نہر کو گندہ نہ کر سکے گی بلکہ آخر یہ نتیجہ نکلے گا که فباي الاء رَبِّكُمَا تُكَذِ بنِ.20 یعنی آخر اسلام کی نہر ہی جیتے گی.پس اے مسلمانو ! بتاؤ یہ ہمارا کتنا بڑا احسان ہے کہ آخری فتح تمہاری ہو گی.آخری فتح عیسائیت کی نہیں ہو گی بلکہ آخری فتح اسلام کی ہو گی.پس اے کالی اور گوری نسلوں کے لوگو! اسلام کی نہر آخر غالب آجائے گی اور کفر کی نہر اس میں مدغم ہو کر اپنا نام کھو بیٹھے گی.اب بولو کہ تم خدا تعالیٰ کی کس کس نعمت کا انکار کرو گے.فَسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ وَ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ " سیر روحانی جلد سوم ناشر الشرکة الاسلامیہ لمیٹیڈ مطبوعہ ضیاء الاسلام پر یس ربوہ) "سیر روحانی" پر تقریر مکمل کرنے کے بعد آخر پر دُعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:- "باہر کے مبلغین کے لئے بھی دوست دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو طاقت دے اور ان کے ذریعہ سے اسلام جلد جلد پھیلے.اور یہ بھی دعائیں کریں کہ اللہ تعالی اسلام کو ہندوستان میں بھی پھیلائے اور وہاں پھر اسلام کی تعلیم غالب آ جائے اور ہندو اور سکھ اور عیسائی اسلام قبول کریں اور اس ملک میں پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ

Page 311

انوار العلوم جلد 25 287 سیر روحانی نمبر (9) غالب آئے.اور اللہ تعالٰی ہمارے ملک کے مسلمانوں کو بھی اسلام پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے وہ صرف منہ سے ہی اسلامی حکومت نہ مانگیں بلکہ دل سے بھی مانگیں اور صرف ظاہر میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش نہ رکھیں بلکہ اپنے دلوں پر اسلامی حکومت قائم کریں.اور یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھ کو صحت عطا فرمائے تا کہ جو بھی میرے دن باقی ہیں ان میں اسلام کی خدمت کر سکوں.گو میری عمر بھی زیادہ ہے اور بیماری خطرناک ہے مگر اُس میں یہ طاقت ہے کہ میں اپنی زندگی میں اسلام کو دوسرے مذہبوں پر غالب ہوتا دیکھوں.اور میں دیکھوں کہ یورپ اور امریکہ بجائے اسلام کی مخالفت کرنے کے اُس کی غلامی میں فخر محسوس کرتے ہیں.سو دوست رستہ میں بھی دعائیں کرتے جائیں کیونکہ مسافر کی دعائیں قبول ہوتی ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ جن دنوں میں بھی دوست دعائیں کریں میری صحت اچھی ہونے لگ جاتی ہے اور ڈاکٹر یہی کہتے ہیں کہ آپ کی بیماری اعصابی رہ گئی ہے جسمانی بیماری کوئی نہیں.پس دعائیں ہی اِس کا علاج ہیں ڈاکٹروں کے پاس کوئی دوائیں نہیں ہیں.پھر میں دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ کثرت سے ربوہ آنے کی کوشش کیا کریں.میں نے چودھری ظفر اللہ خان صاحب سے بھی کہا ہے وہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگلے سال سے میں اپنا پروگرام ایسا بناؤں گا کہ ایک دو مہینے آکر ربوہ میں رہ سکوں.مکان تو انہوں نے بنوانا شروع کرنا ہے کیونکہ ربوہ مرکز ہے اور اگر مرکز میں خرابی پیدا ہو تو باہر بھی خرابی پھیل جاتی ہے.اس لئے ہر مؤمن کو ربوہ آنے کی کوشش کرنی چاہیے تا کہ مرکز کے ذریعہ سے باقی ساری دنیا میں ایمان اور اخلاص کو قائم رکھا جاسکے.یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے اس میں کوئی کوتاہی نہ کرے.جو شخص اس میں کو تاہی کرے گاوہ خدا اور اس کے رسول کے سامنے جوابدہ ہو گا.اب تم میں سے ہر شخص کو دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ تم کو اخلاص اور ایمان کے ساتھ خدمت کا موقع دے تاکہ تمہارے ذریعہ سے اسلام پھیلے.اور یاد رکھو کہ اسلام آدمیوں کا محتاج نہیں.جب وہ آدمی کا محتاج ہو گا خدا خود آدمی پیدا کر دے گا.تم میں سے ہر شخص اپنے آپ کو سچا مسلمان بنائے تا کہ

Page 312

انوار العلوم جلد 25 288 سیر روحانی نمبر (9) تمہارے ذریعہ سے اسلام کی اشاعت ہمیشہ ہمیش ہوتی رہے.دین کے لئے زیادہ سے زیادہ کماؤ اور زیادہ سے زیادہ خرچ کرو اور پھر دیکھو کہ تمہارا روپیہ دین کی اشاعت میں حیح طور پر خرچ ہوتا ہے.مگر لڑائی اور فساد مت کرو.قادیان کی حفاظت کا خیال ہمیشہ رکھو.قادیان میں اور ہندوستان میں جماعت بہت تھوڑی رہ گئی ہے.پس ہمیشہ ان کے لئے دعا کرو تا کہ وہ آرام اور اطمینان کے ساتھ تبلیغ اسلام کر سکیں اور قادیان جانے کے لئے ہمیشہ کوشش کیا کرو.اب کے قافلہ میں بہت تھوڑے لوگ گئے ہیں.یہ بڑی بُری بات تھی.سارا سال پاسپورٹ بنوانے میں لگے رہو تا کہ اُس وقت سو، دو سو تین سو آدمی جائیں اور وہاں لوگوں کے دل مطمئن ہوں.میرا ارادہ ہے کہ اگلے سال اُن کے جلسہ کی تاریخیں الگ کر دوں.ربوہ میں چونکہ زیادہ جماعت ہوتی ہے اس لئے دوستوں کی خواہش ہوتی ہے کہ جلسہ کے دنوں میں یہاں آئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ تاریخیں بے شک متبرک ہیں لیکن کام چلانا اس سے بھی زیادہ متبرک ہے.پس میر اخیال یہ ہے کہ بجائے 28،27،26 کے اگر مناسب ہو تو وہاں جلسہ کے لئے 24، 25، 26 کی تاریخیں رکھ دی جائیں یا دو دن کر دیئے جائیں تا کہ قافلے میں جانے والے پھر یہاں آ کے وقت پر جلسہ میں شامل ہو پس دعائیں کرو، دعائیں کرو، دعائیں کرو.ہمارے ہاتھ میں کچھ نہیں.سب کچھ خدا کے اختیار میں ہے.وہ جو چاہے کر سکتا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ اپنے محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اسلام کے لئے اور ہمارے لئے بہتر ہی کرے گا.یہ کام اُس کا ہے ہمارا نہیں ہے.ہم یہ کام نہیں کر سکتے وہی کر سکتا ہے.پس جس نے یہ کام چلایا ہے اس کے ذمہ ہے.بے شک ہمارا کام بھی ہے کہ ہم اپنے ٹوٹے ہوئے ہاتھ پاؤں ہلاتے چلے جائیں مگر وہ طاقتور خدا جو ہے اصل ذمہ داری اس کی ہے کیونکہ یہ سلسلہ اور اسلام اُسی نے قائم کیا ہے.کجا خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کا سردار اور کُجا یہ کہ مسیح ناصری علیہ السلام جو اس کے غلاموں سے بھی

Page 313

289 سیر روحانی نمبر (9) انوار العلوم جلد 25 کم ہے اُس کی بادشاہت دنیا میں قائم ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سر دار ہے آج دنیا کی نگاہ میں غلاموں کی بھی حیثیت نہیں رکھتا.سو دعائیں کرو کہ خدا کو غیرت آ جائے.دعائیں کرو کہ اے خدا!! کیا تو نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لئے بھیجا تھا کہ وہ دشمنوں کی گالیاں کھائے ؟ تو نے تو یہ کہا تھا کہ وَ لَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الأولى 11 تیرا آخری زمانہ پہلے سے اچھا ہو گا.مگر اے خدا ! پہلے زمانہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کم سے کم عرب کا بادشاہ تسلیم کیا گیا تھا مگر اس زمانہ میں تو ایک چھوٹی ریاست بھی حقیقی طور پر اس کے پاس نہیں اور ساری دنیا کی حکومتیں مسیح علیہ السلام کے پاس ہیں.اے غیرت مند خدا! اپنی غیرت کو بھڑ کا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اتر کہ آج دنیا میں سب سے مظلوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے.اس پر اپنا فضل کر اور اپنا مقام بخش اور اپنا عہدہ پھر اس کو واپس کر دے.جس کام کے لئے تُو نے اس کو بھیجا تھا اس کے مناسب حال اور اس کے مناسب شان عہدہ اس کو عطا کر.اور اگر تیر افضل ہو جائے اور کرم ہو جائے تو ہم غریب جنہوں نے بے بسی کی حالت میں اُس کے دین کی خدمت کرنی چاہی ہے ہمارے ہاتھوں سے یہ کام کروا دے تا کہ ہمارے بھی گناہ بخشے جائیں، ہماری کمزوریاں معاف ہو جائیں اور قیامت کے دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری شفاعت کے لئے آگے بڑھیں.اور تجھ سے کہیں کہ اے میرے رب ! یہ لوگ بے شک گنہگار ہیں اور کمزور ہیں مگر میرے دین کی خدمت کے لئے انہوں نے کمزوری کے باوجود کوشش کی.اگر تجھے میرا پاس ہے تو میری عزت کے لئے ان کو بخش دے اور ان کو اپنے انعامات کا وارث کر دے کیونکہ ان کو اگر سزا ملے تو اس میں میری ذلّت ہے کہ جن لوگوں نے میری عزت بچائی اُن کو آج دنیا کے سامنے ذلیل ہونا پڑا ہے.آمین اب السَّلَامُ عَلَيْكُمْ خدا آپ لوگوں کا حافظ و ناصر ہو." 1 الحشر :12 الفضل 9 فروری 1961ء) | 2 وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ (فاطر : 46)

Page 314

انوار العلوم جلد 25 290 سیر روحانی نمبر (9) نَسُوا اللهَ فَنَسِيَهُمْ (التوبة: 67) 4 بخاری کتاب الاعتكاف باب زِيَارَةالمرأة زَوْجَهَا (الخ) صحیح مسلم کتاب الایمان باب ادنى اهل الجنة منزلة فِيهَا 6 الاعراف :156 1 بخاری کتاب المغازی باب فَضْلِ مَنْ شَهِدَ بَدْرًا تذکرہ صفحہ 140 ایڈیشن چہارم میں ” تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.“ کے الفاظ ہیں و البقره : 75 10 يونس : 25 11 هود : 8 12 الانبياء : 31 13 بخاری کتاب العلم باب فَضْلٍ مَنْ عَلِمَ وَ عَلَّمَ 14 1.کر نتھیوں باب 10 آیت 4،3.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور 1870ء 15 وَعَلِمْتُم مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُم (الانعام:92) 16 آل عمران : 191 17 النحل: 13 19 العنكبوت:39 20 القصص:59 21 العرب قبل الاسلام مؤلفه جرجی زیدان 18 الحجر : 76 تا 78 22 ابراهيم:33 23 الشورى: 34،33 24 النحل: 70 26 الرحمن : 76 27 النحل: 104 25 يونس: 6 28 تا 30 البقره:24 31 النحل: 90 32 بنی اسرائیل: 13 33 الشعراء:114 34 البقره: 262 35 بنی اسرائیل: 50 تا52 36 النساء:114 37 البقره:171 38 أل عمران : 66 39 الذريت:50 40 مسلم کتاب الفضائل باب وجوب امتثال ما قاله شرعًا 41 ٹین (Tin).ایک سفید نرم دھات (فیروز اللغات اردو جامع فیروز سنز لاہور )

Page 315

انوار العلوم جلد 25 291 سیر روحانی نمبر (9) 42 الحجر: 20 43 الجاثية: 5 44 الانعام: 39 45 اور بلاؤ : پانی کا ایک جانور جو مچھلیاں کھاتا ہے (علمی اردو لغت) یہ نیولے کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے.سوائے آسٹریلیا کے تمام بر اعظموں میں پایا جاتا ہے.(اردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد 1 صفحہ 154 مطبوعہ لاہور 1987ء) 46 يس: 72 تا74 47 بیٹے : مفرد بیا: چڑیا کی طرح کا ایک پرندہ.اس کا گھر بنانا بڑا مشہور ہے.48 البقره:199 49 الجمعه:11 51 البقره: 220 52 بخاری کتاب الفرائض باب ميراث البنات 53 سبا:19 56 الانبياء:31 54 هود: 101 50 بنی اسرائیل: 30 55 العنكبوت : 21 57 ترجمه قرآن مولوی نذیر احمد صاحب صفحہ 391 مطبوعہ کراچی 1961ء 58 الطارق: 12 تا 15 59 الكهف:47 60 متی باب 6 آیت 19 ،20 پاکستان بائبل سوسائٹی مطبوعہ 1994 ءلاہور.61 بخاری کتاب الرقاق باب صفةالجنة والنار 62 الدهر : 6 66 الكوثر:2تا4 63 الدهر : 18 65،64 محمد:16 67 ترمذی کتاب تفسیر القرآن.باب وَ مِنْ سُورة الكوثر (مفهوماً) 68 الرحمن: 21 69 الرحمن: 20 70 الرحمن: 22 71 الضحى: 5

Page 316

Page 317

انوار العلوم جلد 25 293 یاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احب ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب کے نام پیغام از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 318

Page 319

انوار العلوم جلد 25 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 295 است ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب...نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ریاستہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب کے نام پیغام ( تحریر کردہ جنوری 1956ء) ”میرے امریکہ کے عزیز بھائیو! جیسا کہ آپ سب لوگوں کو معلوم ہو گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دو سال قبل وصیت کے طور پر ضروری ہدایات اس دستاویز کی شکل میں شائع فرما دی تھیں جو " الوصیت" کے نام سے موسوم ہے.یہ دستاویز بہت اہم ہے ہر احمدی کو چاہیئے کہ وہ اس کا ضرور مطالعہ کرے.میں سمجھتا ہوں کہ آپ سب نے اس کا انگریزی ترجمہ بغور مطالعہ کر لیا ہو گا.اگر اس کا انگریزی ترجمہ آپ لوگوں کو بآسانی دستیاب نہ ہو سکتا ہو تو میں برادرم خلیل احمد ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ساتھیوں کی مدد سے "الوصیت " کا جلد از جلد ترجمہ کر کے آپ سب میں اسے تقسیم کرا دیں.مجھے یقین ہے کہ اس دستاویز کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ میں سے ہر ایک میں یہ شدید خواہش پیدا ہو گی کہ وہ بھی اس عظیم الشان تحریک میں جو اس میں بیان کی گئی ہے اور جو اسلام اور ، احمدیت کی ترقی کے لئے نہایت درجہ اہمیت کی حامل ہے شامل ہونے کی سعادت حاصل اس دستاویز کا مطالعہ کرنے پر آپ لوگوں کو معلوم ہو گا کہ اس میں جو سکیم بیان کی گئی ہے اس کے مطابق جماعت کے ہر اُس فرد سے جو اِس میں حصہ لینا چاہتا ہے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی جائداد کے دسویں حصہ یا جائداد کی قیمت کے دسویں.

Page 320

انوار العلوم جلد 25 296 ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب کے برابر نقد رقم بحق صدر انجمن احمد یہ وصیت کرے.یا اگر اُس کی کوئی قابل ذکر جائداد نہ ہو تو وہ اپنی زندگی میں اپنی ہفتہ وار یاماہوار آمد کا دسواں حصہ اشاعتِ اسلام اور انسانی فلاح و بہبود کی خاطر صدر انجمن احمدیہ کو ادا کر تار ہے.یہ ضروری ہے کہ اس تحریر میں جو جائداد کی وصیت کے طور پر لکھی جائے یا جس کے ذریعہ چندہ وصیت کی ادائیگی کا وعدہ کیا جائے یہ امر بالصراحت مذکور ہو کہ جائداد کی وصیت یا چندہ وصیت کی ادائیگی اِن میں سے جو بھی صورت ہو ہر قسم کی شرائط اور پابندیوں سے آزاد ہو گی اور موصی یا اُس کے وارث یا اُس کے مقرر کردہ منصرم وصیت کردہ جائداد یا آمدنی کے مصرف یا خرچ پر کوئی اعتراض نہ کر سکیں گے.صدر انجمن احمدیہ یا کوئی اور با اختیار ادارہ جو اِس سلسلہ میں قائم کیا جائے اِس تحریک کے اغراض و مقاصد کے تحت جائداد یا وصول شدہ چندہ جات کو خرچ کرنے کا پوری طرح مجاز ہو گا.بہ تمام و کمال اور بغور مطالعہ کرنے کے بعد اس دستاویز کا عظیم الشان مقصد اور اس کی اغراض آپ لوگوں کو معلوم ہو جائیں گی.تاہم میں برادرم خلیل احمد ناصر کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا انتظام کریں کہ آپ کے مختلف مراکز میں سلسلہ کے نمائندے "الوصیت " کا مقصد اور اس کی اغراض تفصیل کے ساتھ آپ لوگوں کو سمجھا دیں."الوصیت" کے منشاء کے مطابق ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی جماعت احمدیہ جتنی جلدی ممکن ہو سکا کسی مرکزی علاقے میں ایک موزوں قطعہ زمین خریدنے کا انتظام کرے گی.یہ قطعہ زمین قبرستان کے طور پر اُن لوگوں کے لئے مخصوص ہو گا جو "الوصیت" میں بیان کردہ شرائط اور ان قواعد کے مطابق جو امام جماعت احمدیہ اور صدرانجمن اور تحریک جدید کی طرف سے نافذ ہوں وصیت کریں گے.مجھے یقین ہے کہ ریاست ہائے متحدہ میں ایک دفعہ جاری ہونے کے بعد یہ سکیم انشاء الله تقویت حاصل کرے گی اور رفتہ رفتہ تمہارے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہم وطن اس میں شامل ہو جائیں گے.اور اس طرح اُن لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا جو اپنی مساعی اور اپنی

Page 321

297 ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب انوار العلوم جلد 25 آمد نیوں اور جائدادوں کا ایک معقول حصہ "الوصیت" کے اغراض و مقاصد کے لئے وقف کریں گے.جوں جوں ایسے مخلص اور فدائی احمدیوں کی تعداد بڑھے گی اس امر کی ضرورت محسوس ہو گی کہ ملک کے مختلف حصوں میں ایسے ہی قبرستان قائم کئے جائیں.چنانچہ حسب ضرورت مختلف اوقات میں ایسے قبرستانوں کا قیام عمل میں آتارہے گا.ایسی وصیت کردہ جائداد سے اس کی فروخت یا چندہ جات سے جو آمدنی ہو گی اُس کو حسب ذیل طریق پر خرچ کیا جائے گا.(الف) اس آمدنی کا نصف حصہ مرکزی اداروں کو چلانے اور دنیا بھر میں اشاعت اسلام کا کام کرنے کے لئے صدر انجمن احمدیہ کو ارسال کیا جائے گا.اس میں امریکہ بھی شامل ہو گا.کیونکہ امریکہ میں ابھی لمبے عرصہ تک اسلام کے ایسے خادموں کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی جو خاص طور پر مرکز کے تربیت یافتہ ہوں.وہ مرکزی ادارے جن کے ذمہ اشاعت اسلام کا کام ہے صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید ہیں.دنیا کے مختلف حصوں میں تبلیغ اسلام کی غرض سے مذکورہ بالا آمدنی کا جو حصہ مرکز میں ارسال کیا جائے گا اُسے امام جماعت احمدیہ کی اُن ہدایات کے مطابق جو وہ وقتاً فوقتاً جاری کریں گے.ان دونوں اداروں میں تقسیم کیا جائے گا.(ب) آمدنی کے باقی نصف حصے میں سے تین چوتھائی رقم ریاست ہائے متحدہ میں تبلیغ اسلام پر خرچ کی جائے گی.باقی کی چوتھائی ر تم ہمارے غریب اور پسماندہ بھائیوں کی فلاح و بہبود کے لئے وقف ہو گی.جہاں کہیں بھی ایسے بھائی ہوں گے اُن پر یہ رقم خرچ کی جائے گی اور اس ضمن میں اُن کی تعلیم و تربیت کے انتظام کو مقدم رکھا جائے گا.جو نہی جماعت کے نمائندوں کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملے گی کہ آپ لوگوں میں سے ایک خاصی تعداد ایسے احباب کی ہے جو "الوصیت" کی بیان کردہ تحریک میں شامل ہونا چاہتے ہیں میں ایک کمیٹی قائم کرنے کا انتظام کروں گا.اس کے قیام کا مقصد یہ ہو گا کہ اس سکیم کے تحت اولین قبرستان کے لئے جگہ منتخب کی جائے.اور اس سکیم پر عمل درآمد کے لئے ضروری اور ابتدائی انتظامات کئے جائیں.اور اس امر کا اہتمام کیا

Page 322

298 ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احباب.انوار العلوم جلد 25 جائے کہ اس سکیم اور اس کے مقاصد کو مؤثر طریق پر ہمیشہ کے لئے جاری رکھا جا سکے.ہر وہ شخص جو وصیت کرے گا یا اس سکیم کے قواعد کے بموجب کم سے کم شرح کے مطابق چندہ دینے کا وعدہ کرے گاوہ اس شرط پر کہ اُس کی وصیت پوری ہو جائے یا حسبِ قواعد چندہ جات کی ادائیگی عمل میں آجائے، ان دونوں صورتوں میں اِس بات کا حقدار ہو گا کہ اسے ایسے قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان میں دفن کیا جائے جو ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں اس غرض کے لئے قائم کئے جائیں گے.اور اس صورت میں کہ اُس کی وفات ہندوستان میں واقع ہو تو وہ قادیان کے قبرستان میں یا اگر پاکستان میں ہو تو ربوہ کے قبرستان میں دفن ہو سکے گا.لیکن یہ ضروری ہو گا کہ اُس کی نعش اِن قبرستانوں میں سے کسی ایک قبرستان تک پہنچانے کے اخراجات اُس کے اپنے ترکہ یا جائداد میں سے پورے کئے جائیں اور اس کی راہ میں کوئی قانونی یا کوئی اور رکاوٹ حائل نہ ہو.وصیت یا چندہ جات کے وعدے کے ضمن میں جو تحریر لکھی جائے گی اُس میں یہ صراحت کی جائے گی کہ اس شرط کے پورا نہ ہو سکنے کا یہ مطلب نہ ہو گا کہ وصیت کو ناجائز یا خلاف قاعدہ قرار دیا جا سکے گا یا اس کی جائز یا قانونی حیثیت پر کوئی حرف آسکے گا یا ادا کر دہ چندوں کے بارے میں کسی مطالبہ یا دعوے کا جواز پیدا ہو سکے گا.صدر انجمن ایسے تمام اشخاص کے نام جنہوں نے اس سکیم میں شامل ہونے کے بعد اس کی تمام شرائط کو پورا کر دیا ہو گا قادیان یار بوہ کے قبرستانوں میں مناسب جگہ پر کندہ کرانے کا انتظام کرے گی.نیز ان کے نام ایک ریکارڈ کی شکل میں محفوظ رکھے جائیں گے.جن کی نقول بڑے بڑے احمد یہ مراکز میں بھی رکھی جائیں گی تاکہ احمدیوں کی آنے والی نسلوں کو اپنے ان وفات یافتہ بھائیوں کی روحوں کے واسطے دعا کی تحریک ہوتی رہے جنہوں نے اپنے آپ کو اور اپنے اموال کو اسلام اور انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کیا.یہ امر بہت ضروری ہے اور اس بارے میں پوری احتیاط لازم ہے کہ اس تمام سکیم پر عملدرآمد کے وقت ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے رائج الوقت قوانین کو پوری طرح ملحوظ رکھا جائے تا اِس بناء پر کسی وقت بھی کوئی اعتراض پیدا ہو کر اس سکیم یا اِس

Page 323

انوار العلوم جلد 25 299 ست ہائے متحدہ امریکہ کے احمدی احس کے مقاصد کو ناکام نہ بنا سکے.جیسا کہ "الوصیت" میں بیان کیا گیا ہے وصیت کی اس سکیم کے فوائد اور رنگ میں بھی ظاہر ہوں گے اور بالآخر یہ انسانیت کے کمزور طبقوں کو اٹھانے اور انسانی فلاح و بہبود اور خوشحالی کو ترقی دینے کا ذریعہ ثابت ہو گی.کوئی نظام بھی جس کی بنیاد جبر و اکراہ پر ہو اس مقصد میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا.الوصیت میں جو سکیم پیش کی گئی ہے خالصتاً طوعی اور رضا کارانہ ہے اور خدمتِ اسلام کے ایک اجر کا درجہ رکھتی ہے.اس لحاظ سے جو اخلاقی اور روحانی فوائد اِس تحریک کے ساتھ وابستہ ہوں گے تمام دوسرے نظام ان سے محروم ہیں.رفتہ رفتہ ایک ملک کے بعد دوسر املک اس تحریک کو اپنانے کے لئے آگے آتا رہے گا.اور اس طرح ان لوگوں کی طرف سے جو اس سکیم کے ذریعہ روحانی، اخلاقی اور مادی فوائد سے متمتع ہوں گے دنیا میں خدا کا نام بلند ہو تا رہے گا.اس تحریک پر پاکستان اور ہندوستان میں پہلے سے عمل ہو رہا ہے.میری خواہش ہے اور میں اس کے لئے دعا بھی کرتا ہوں کہ تحریک کو اپنانے والے ممالک میں سے امریکہ تیسرا ملک ثابت ہو.اور اِس طرح وہ وسیع سے وسیع تر پیمانے پر انسانیت کی فلاح و بہبود اور اس کی ترقی کی بنیادیں استوار کرنے میں حصہ لے.آمین برادران! ہم کمزور اور ناتواں ہیں لیکن ہمارا خدا طاقتور اور ہمہ قوت ہے ہمارے بس میں کچھ نہیں ہے لیکن وہ سب کچھ کر سکتا ہے.یقین رکھو کہ اس کی مدد تمہاری طرف دوڑی آرہی ہے.بلا شبہ وہ خود تمہارے دروازے پر کھڑا ہے اور اندر داخل ہونا چاہتا ہے.پس اٹھو اور اپنے دروازے کھول دو تا کہ وہ اندر آ جائے.جب وہ تمہارے گھروں میں داخل ہو جائے گا اور تمہارے دلوں میں سما جائے گا تو زندگی تمہارے لئے منور ہو جائے گی اور دنیا میں تم اُسی طرح عزت دیئے جاؤ گے جس طرح آسمانوں میں اس کو عزت اور عظمت حاصل ہے.خدا تمہارے ساتھ ہو.آمین“ روزنامه الفضل 9 فروری 1956ء)

Page 324

Page 325

انوار العلوم جلد 25 301 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 326

Page 327

انوار العلوم جلد 25 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 303 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (27-11-195623-7-1956) حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی خدمت میں مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی سلسلہ راولپنڈی کی طرف سے ایک رپورٹ موصول ہوئی.وہ رپورٹ اور اُس پر حضور نے جو پیغام احباب جماعت کے نام ارسال فرمایاوہ درج ذیل ہے: (1) مولوی محمد صدیق صاحب شاہد کا خط بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ سید نا واما منا حضر نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خلیفة المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ مکرم چیمہ صاحب افسر حفاظت نے مجھے کہا ہے کہ حضور اقدس کی خدمت میں لکھوں کہ راولپنڈی میں اللہ رکھا کو تم نے کس کے کہنے پر رکھا تھا؟ عرض ہے کہ گزشتہ رمضان کے مہینہ کی بات ہے کہ انجمن احمد یہ راولپنڈی میں اللہ رکھا آیا اور مہمان خانہ میں رہنے کے لئے کہا.میں نے جواب دیا کہ تم کو قادیان سے نکالا گیا تھا اس لئے اس جگہ نہیں رہ سکتے.اس پر کہنے لگا کہ مجھے معافی مل چکی ہے.(1) خصوصیت سے حضرت میاں بشیر احمد صاحب کا نام لیا کہ انہوں نے بھی مجھے ایک چٹھی امراء کے نام لکھ کر دی تھی لیکن اس وقت میرے پاس نہیں ہے.(2) علاوہ اس کے اور بھی خاندان کے افراد کی چٹھیاں میرے پاس ہیں.ایک خط

Page 328

انوار العلوم جلد 25 304 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات میاں عبد الوہاب صاحب عمر کا مجھے دکھایا جس میں محبت بھرے الفاظ میں اللہ رکھا سے تعلقات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہم تو بھائیوں کی طرح ہیں اور امی جان تم کو بیٹوں کی طرح سمجھتی تھیں.یہ خط میں نے خود پڑھا تھا اور اس سے میری تسلی ہو گئی اور میں نے اس کو احمدی خیال کر کے مہمان خانے میں رہنے کی اجازت دے دی.(3) راولپنڈی میں میرے پاس تین دن رہنے کے بعد کہنے لگا کہ مولوی علی محمد صاحب اجمیری (سیکرٹری رُشد و اصلاح) میرے اپنے آدمی ہیں اس لئے میں وہاں جاتا ہوں.وہاں کئی دن رہا اور اس دوران میں ملتا رہا اور مختلف احمدیوں خصوصاً کرنل محمود صاحب کے گھر سے کھانا بھی کھاتا رہا.(4) چند دنوں کے بعد اپنا تھوڑا سا سامان میرے پاس چھوڑ کر کہنے لگا کہ میں اگلی جماعتوں کا دورہ کرنا چاہتا ہوں.یہ کہہ کر کیمبل پور، پشاور ، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور بالا کوٹ تک قریباً ڈیڑھ مہینہ پھرتا رہا اور اب راولپنڈی اپنا سامان لینے کے لئے واپس آیا.چونکہ خاکسار مری تھا اس لئے اس جگہ آ گیا اور آج ہی راولپنڈی واپس گیا ہے اور جاتے ہوئے مندرجہ ذیل پتہ دے گیا ہے.نسبت روڈ نمبر 44 بر مکان غلام رسول 35 لاہور.اور کہہ گیا کہ راولپنڈی سے ہو کر ربوہ جاؤں گا اور وہاں چند دن رہنے کے بعد لاہور جاؤں گا.خدا بہتر جانتا ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے سچ اور صحیح لکھا ہے اور میں نے کسی چیز کو چھپایا نہیں ہے اور میں نے اللہ رکھا سے یہ سلوک محض اس لئے کیا کہ وہ احمدی ہے اور باقی افراد جماعت بلکہ مکرم امیر صاحب راولپنڈی کو بھی ملتا رہا ہے.ان میں سے کسی نے بھی مجھے یہ نہیں کہا تھا کہ اس کو اپنے پاس مت رکھو.نوٹ: لاہور میں وہ اکثر جو دھامل بلڈنگ میں مکرم عبد الوہاب صاحب عمر اور حافظ اعظم صاحب کے پاس رہتا ہے.اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ میرے تعلقات حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد منیر مربی لاہور اور قاضی محمد یوسف صاحب پراونشل امیر سرحد کے ساتھ گہرے ہیں.

Page 329

انوار العلوم جلد 25 305 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات والسلام حضور کا ادنی غلام دستخط محمد صدیق شاہد مربی.مری "23-7-1956 (الفضل 25 جولائی 1956ء) حضرت مصلح موعود کا انقلاب آفریں پیغام مورخہ 1956ء-7-23 "اللہ رکھا وہ شخص ہے جس نے قادیان کی جماعت کے بیان کے مطابق قادیان میں فساد مچایا تھا اور بقول ان کے قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش شروع کر دی تھی.اور جب قادیان کی انجمن نے اس کو وہاں سے نکالا تو ان کے بیان کے مطابق اس نے بھارتی پولیس اور سکھوں اور ہندوؤں سے جوڑ ملایا اور قادیان کے درویشوں کو تباہ کرنے کی کوشش کی.جتناوہ اس کو قادیان سے نکالنے کی کوشش کرتے رہے اتنا ہی یہ بھارتی پولیس کی مدد سے قادیان میں رہنے کی کوشش کرتا رہا.کوہاٹ کی جماعت کے نمائندوں نے ابھی دو دن ہوئے مجھے بتایا کہ یہ شخص کو ہاٹ آیا تھا اور وہاں اس نے ہم سے کہا تھا کہ جب خلیفتہ المسیح الثانی مر جائیں گے تو اگر جماعت نے مرزا ناصر احمد کو خلیفہ بنایا تو میں ان کی بیعت نہیں کروں گا.ہم نے جوابا کہا کہ مرزا ناصر احمد کی خلافت کا سوال نہیں تو ہمارے زندہ خلیفہ کی موت کا متمنی ہے اس لئے تو ہمارے نزدیک خبیث آدمی ہے، یہاں سے چلا جا.ہم تجھ سے کوئی تعلق نہیں رکھنا چاہتے.مولوی محمد صدیق صاحب نے جو اس کا بتایا ہوا پتہ لکھا ہے کو ہاٹ کی جماعت نے دفتر کو بتایا کہ اسی جگہ کے رہنے والے چند نام نہاد احمدیوں کا اس نے نام لیا اور کہا کہ انہوں نے مجھے کرایہ دے کر جماعتوں کے دورے کے لئے بھجوایا ہے.مولوی محمد صدیق صاحب کے بیان سے ظاہر ہے کہ وہ مزید دوروں کے لئے پھر رہا ہے.چودھری فضل احمد صاحب جو نواب محمد دین صاحب مرحوم کے رشتہ کے بھائی ہیں اور نہایت مخلص اور نیک آدمی ہیں اُنہوں نے مجھے بتایا کہ مجھے بھی ایک دن روک کر کھڑا ہو گیا تھا اور کہتا تھا میں ملک بھر میں پھر رہا ہوں.

Page 330

306 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات انوار العلوم جلد 25 مربی راولپنڈی کے بیان کے مطابق میاں عبد الوہاب صاحب نے اس کو ایک خط دیا تھا جس میں لکھا تھا کہ تم ہمارے بھائیوں کی طرح ہو اور ہماری والدہ بھی تم سے بہت محبت کرتی تھیں.اگر ایسا کوئی خط تھا تو یہ بیان بالکل جھوٹ اور افترا ہے کیونکہ میاں عبد الوہاب کی والدہ اس شخص کو جانتی بھی نہ تھیں کیونکہ وہ ربوہ میں رہتی تھیں اور یہ شخص قادیان میں تھا اور جماعت کی پریشانی کا موجب بن رہا تھا.نیز وہ تو وفات سے قبل ذیا بیطس کے شدید حملہ کی وجہ سے نیم بے ہوشی کی حالت میں پڑی رہتی تھیں اور ان کی اولاد ان کو پوچھتی تک نہ تھی اور میں ان کو ماہوار رقم محاسب کے ذریعہ سے علاوہ انجمن کے حضرت خلیفہ اول کی محبت اور ادب کی وجہ سے دیا کرتا تھا.بلکہ جب میں بیمار ہوا اور یورپ گیا تو ان کی نواسیوں کو تاکید کر گیا تھا کہ ان کی خدمت کے لئے نوکر رکھو جو خرچ ہو گا میں ادا کروں گا.بہر حال ایک طرف تو جماعت مجھے یہ خط لکھتی ہے کہ ہم آپ کی زندگی کے لئے رات دن دعائیں کرتے ہیں.چنانچہ ایک شخص کا خط مجھے آج ملا کہ میں تیس سال سے آپ کی زندگی کے لئے دعا کر رہا ہوں.دوسری طرف جماعت اس شخص کو سر آنکھوں پر بٹھاتی ہے جو میری موت کا متمنی ہے.آخر یہ منافقت کیوں ہے ؟ کیا میاں عبد الوہاب کا بھائی ہونا محض اس وجہ سے ہے کہ وہ شخص میری موت کا متمنی ہے ؟ کوئی تعجب نہیں کہ وہ مری میں صرف اس نیت سے آیا ہو کہ مجھ پر حملہ کرے.جماعت کے دوستوں نے مجھے بتایا ہے کہ جب ہم نے اس کو گھر سے نکالا کہ یہ پرائیویٹ گھر ہے تمہیں اس میں آنے کا کوئی حق نہیں تو اس نے باہر سڑک پر کھڑے ہو کر شور مچانا شروع کر دیا تا کہ ارد گرد کے غیر احمدیوں کی ہمدردی حاصل کرے.اب جماعت خود ہی فیصلہ کرے کہ میری موت کا متمنی آپ کا بھائی ہے یا آپ کا دشمن.آپ کو دوٹوک فیصلہ کرنا ہو گا اور یہ بھی فیصلہ کرنا ہو گا کہ جو اس کے دوست ہیں وہ بھی آپ کے دوست ہیں یا دشمن.اگر آپ نے فوراً دوٹوک فیصلہ نہ کیا تو مجھے آپ کی بیعت کے متعلق دو ٹوک فیصلہ کرنا پڑے گا.اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد جس جماعت اور جماعت کے افراد کی طرف سے اس دشمن احمدیت اور اس کے ساتھیوں کے متعلق براءت کی چٹھیاں مجھے نہ ملیں تو میں ان کے خط پھاڑ کر پھینک دیا کروں گا اور ان کی درخواست دعا پر توجہ نہ کروں گا.یہ کتنی بے شرمی ہے کہ ایک طرف

Page 331

انوار العلوم جلد 25 307 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات میری موت کے متمنی اور اس کے ساتھیوں کو اپنا دوست سمجھنا اور دوسری طرف مجھ سے دعاؤں کی درخواست کرنا.مہربانی کر کے یہ لوگ جن کا نام مولوی صدیق صاحب کے بیان میں ہے یعنی قاضی محمد یوسف صاحب امیر سرحد، حافظ مختار احمد صاحب اور مولوی خورشید احمد صاحب منیر مربی لاہو ر وہ بھی بتائیں کہ ان کا اس شخص کے ساتھ کیا تعلق ہے یا اس نے اپنے ساتھیوں کی عادت کے مطابق افتر ا سے کام لیا ہے.جن لوگوں کا نام اس شہادت میں آیا ہے ان کے متعلق میرے پاس مزید شہادتیں پہنچ چکی ہیں.عنقریب میں ان کو مکمل کر کے شائع کروں گا اور اگر ان لوگوں کی طرف سے چھیڑ خانی جاری رہی تو میں غور کروں گا کہ ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے.اور میں جماعت کی بھی نگرانی کروں گا کہ وہ اللہ رکھا اور اس کی قماش کے لوگوں کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے.جماعت کو اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ تذکرہ میں پسر موعود کے متعلق جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات شائع ہوئے ہیں ان الہامات کے خاص خاص حصے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پرائیویٹ طور پر حضرت خلیفہ اول کو کیوں لکھے ؟ آخر مستقبل سے کچھ تو اس کا تعلق تھا.کیوں نہ حضرت صاحب نے سب باتیں سبز اشتہار میں لکھ دیں اور کیا وجہ ہے کہ پیر منظور محمد صاحب موجد قاعدہ یشر نا القرآن نے جو حضرت خلیفہ اوّل کے سالے بھی تھے جب حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں پسر موعود پر ایک رسالہ لکھا تو اس پر حضرت خلیفہ اول نے یوں ریویو کیا کہ میں اس مضمون سے متفق ہوں.کیا آپ نہیں دیکھتے کہ میں مرزا محمود احمد کا بچپن سے کتنا ادب کرتا ہوں.اس تبصرہ کی بھی کوئی حکمت تھی.اس کی کاپیاں اب تک موجود ہیں اور غالباً حضرت خلیفہ اول کے اپنے ہاتھ کے لکھے ہوئے ریویو کا چربہ بھی اب تک موجود ہے".مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) "23-7-1956 (الفضل 25 جولائی 1956ء)

Page 332

انوار العلوم جلد 25 308 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (2) مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے پہلے سالانہ اجتماع کے لئے پیغام مؤرخہ 1956ء-7-24 "خیبر لاج مری (1956ء-7-24) خدام الاحمدیہ کراچی عزیزان! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کے افسران نے مجھ سے خدام الاحمدیہ کراچی کے جلسہ کے لئے پیغام مانگا ہے.میں اس کے سوا پیغام کیا دے سکتا ہوں کہ 1914ء میں جب میں خلیفہ ہوا اور جب میری صرف 26 سال عمر تھی خدام الاحمدیہ کی بنیاد بھی نہیں پڑی تھی مگر ہر احمدی نوجوان اپنے آپ کو خادم احمدیت سمجھتا تھا.مجھے یاد ہے کہ جس دن انتخاب خلافت ہونا تھا مولوی محمد علی صاحب کی طرف سے ایک ٹریکٹ شائع ہوا کہ خلیفہ نہیں ہونا چاہئے صدر انجمن احمد یہ ہی حاکم ہونی چاہئے.اُس وقت چند نوجوان نے مل کر ایک مضمون لکھا اور اُس کی دستی کا پیاں کیں.اُس کا مضمون یہ تھا کہ ہم سب احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت فیصلہ کر چکے ہیں کہ جماعت کا ایک خلیفہ ہونا چاہئے ، اس فیصلہ پر ہم قائم ہیں اور تاز اور تازندگی قائم رہیں گے اور خلیفہ کا انتخاب ضرور کرا کے چھوڑیں گے.سکول کے درجنوں طالبعلم پیدل اور سائیکلوں پر چڑھ کے بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے اور ہر نو وارد مہمان کو دکھا کر اُس سے درخواست کی کہ اگر آپ اس سے متفق ہیں تو اس پر دستخط کر دیں.جماعت احمدیہ میں خلافت کی بنیاد کا وہ پہلا دن تھا اور اس بنیاد کی اینٹیں رکھنے والے سکول کے لڑکے تھے.مولوی صدر الدین صاحب اُس وقت ہیڈ ماسٹر تھے اُن کو پتہ لگا تو وہ بھی بٹالہ کی سڑک پر چلے گئے.وہاں انہوں نے دیکھا کہ سکول کا ایک لڑکا نو وارد مہمانوں کو وہ مضمون پڑھوا کر دستخط کروا رہا ہے.انہوں نے وہ کاغذ اس سے چھین کر پھاڑ دیا اور کہا چلے جاؤ.وہ لڑکا مومن تھا اُس نے کہا مولوی صاحب! آپ ہیڈ ماسٹر ہیں اور مجھے مار بھی سکتے ہیں مگر یہ مذہبی سوال ہے میں اپنے عقیدہ کو آپ کی خاطر نہیں چھوڑ سکتا.

Page 333

انوار العلوم جلد 25 309 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات فوراً جھک کر وہ کاغذ اٹھایا اور اُسی وقت پنسل سے اُس کی نقل کرنی شروع کر دی اور مولوی صاحب کے سامنے ہی دوسرے مہمانوں سے اُس پر دستخط کروانے شروع کر دیئے.اس پر بیالیس سال گزر گئے میں اُس وقت جو ان تھا اور اب 68 سال کی عمر کا ہوں اور فالج کی بیماری کا شکار ہوں.اُس وقت آپ لوگوں کی گردنیں پیغامیوں کے ہاتھ میں تھیں اور خزانے میں صرف اٹھارہ آنے کے پیسے تھے.میں نے خالی خزانہ کو لے کر احمدیت کی خاطر اُن لوگوں سے لڑائی کی جو کہ اُس وقت جماعت کے حاکم تھے اور جن کے پاس روپیہ تھا لیکن خدا تعالیٰ نے میری مدد کی اور جماعت کے نوجوانوں کو خدمت کرنے کی توفیق دی.ہم کمزور جیت گئے اور طاقتور دشمن ہار گیا.آج ہم ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں.اور جن لوگوں کو ایک تفسیر پر ناز تھا اُن کے مقابلہ میں اتنی بڑی تفسیر ہمارے پاس ہے کہ اُن کی تفسیر اس کا تیسر ا حصہ بھی نہیں.جو ایک انگریزی ترجمہ پیش کرتے تھے اُس کے مقابلہ میں ہم چھ زبانوں کا ترجمہ پیش کر رہے ہیں.لیکن ناشکری کا بُرا حال ہو کہ وہی شخص جس کو پیغامی سٹرا بہتر اقرار دے کر معزول کرنے کا فتویٰ دیتے تھے اور جس کے آگے اور دائیں اور بائیں لڑ کر میں نے اُس کی خلافت کو مضبوط کیا اُس سے تعلق رکھنے والے چند بے دین نوجوان جماعتوں میں آدمی بھجوا رہے ہیں کہ خلیفہ بڑھا ہو گیا ہے اسے معزول کرنا چاہئے.اگر واقع میں میں کام کے قابل نہیں ہوں تو آپ لوگ آسانی کے ساتھ ایک دوسرے قابل آدمی کو خلیفہ مقرر کر سکتے ہیں اور اُس سے تفسیر قرآن لکھو اسکتے ہیں.میری تفسیریں مجھے واپس کر دیجئے اور اپنے روپے لے لیجئے.اور مولوی محمد علی صاحب کی تفسیر یا اور جس تفسیر کو آپ پسند کریں اُسے پڑھا کریں.اور جو نئی تفسیر میری چھپ رہی ہے اُس کو بھی نہ چھوئیں.یہ اول درجہ کی بے حیائی ہے کہ ایک شخص کی تفسیروں اور قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کر کے تعریفیں اور شہرت حاصل کرنی اور اُسی کو نکما اور ناکارہ قرار دینا.مجھے آج ہی اللہ تعالیٰ نے الہام سے سمجھایا کہ "آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں".یعنی جماعت سے پھر کہو کہ یا تم مجھے چھوڑ دو

Page 334

انوار العلوم جلد 25 310 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اور میری تصنیفات سے فائدہ نہ اٹھاؤ.نہیں تو میرے ساتھ وفاداری کا ویسا ہی معاہدہ کرو جیسا کہ مدینہ کے لوگوں نے مکہ کی عقبی جگہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کیا تھا اور پھر بدر کی جنگ میں کہا تھا یار سُول اللہ ! یہ نہ سمجھیں کہ خطرہ کے وقت میں ہم موسیٰ کی قوم کی طرح آپ سے کہیں گے کہ جاتو اور تیر اخدا لڑتے پھر وہم یہیں بیٹھے ہیں.يَا رَسُول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے پیچھے بھی لڑیں گے اور دشمن اُس وقت تک آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا آگے نہ آئے سو گو میرا حافظ خدا ہے اور اُس کے دیئے ہوئے علم سے آج بھی میں ساری دنیا پر غالب ہوں لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنی جماعت کا امتحان لے اور اس سے کہہ دے کہ "آؤ ہم مدینہ والا معاہدہ کریں" سو تم میں سے جو شخص خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر قسم کھا کر معاہدہ کرتا ہے کہ وہ اپنے آخری سانس تک وفاداری دکھائے گا.وہ آگے بڑھے.وہ میرے ساتھ ہے اور میں اور میر اخدا اُس کے ساتھ ہے.لیکن جو شخص دنیوی خیالات کی وجہ سے اور مخالفوں کے پروپیگنڈا کی وجہ سے بزدلی دکھانا چاہتا ہے اُس کو میرا آخری سلام.میں کمزور اور بوڑھا ہوں لیکن میرا خدا کمزور اور بوڑھا نہیں.وہ اپنی قہری تلوار سے ان لوگوں کو تباہ کر دے گا جو کہ اِس منافقانہ پروپیگنڈا کا شکار ہوں گے.اس پروپیگنڈا کا کچھ ذکر الفضل میں چھاپ دیا گیا ہے چاہئے کہ قائد خدام اس مضمون کو بھی پڑھ کر سنا دیں.اللہ تعالیٰ جماعت کا حافظ و ناصر ہو.پہلے بھی اس کی مدد مجھے حاصل تھی اب بھی اس کی مدد مجھے حاصل رہے گی.میں یہ پیغام صرف اس لئے آپ کو بھجوا رہا ہوں تا کہ آپ لوگ تباہی سے بچ جائیں.ورنہ حقیقتاً میں آپ کی مدد کا محتاج نہیں.ایک ایک مرتد کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ ہزاروں آدمی مجھے دے گا اور مجھے توفیق بخشے گا کہ میرے ذریعہ سے پھر سے جماعت جواں سال ہو جائے.آپ میں سے ہر مخلص کے لئے دعا اور کمزور کے لئے رخصتی سلام.خاکسار

Page 335

انوار العلوم جلد 25 311 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "24-7-1956 (الفضل4/ اگست 1956ء) (3) خلیفہ خدا تعالی بنایا کرتا ہے پیغام مؤرخہ 1956ء-7-25 یک اور شہادت جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منافق پیغامیوں کے ایجنٹ ہیں.ذیل میں ایک اور شہادت ظہور القمر صاحب ولد ہری داس کی جو ہندوؤں سے مسلمان ہوئے ہیں شائع کی جاتی ہے جس سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ منافق پارٹی پیغامیوں کی ایجنٹ ہے.ظہور القمر صاحب تحریر فرماتے ہیں." میں مسمی ظہور القمر ولد ہری داس متعلم جامعتہ المبشرين ربوہ حال مسجد احمد یہ گلڈ نہ مری حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ تقریباً دس روز ہوئے ایک شخص جس نے اپنا نام اللہ رکھا سابق درویش قادیان بتایا مسجد احمد یہ گلڑ نہ میں آیا اور کہا کہ میں مولوی محمد صدیق مربی راولپنڈی کو ملنے آیا ہوں.میر اسامان راولپنڈی میں ان کے مکان پر ہے اور میں نے ان سے مکان کی چابی لینی ہے.اس کے بعد وہ مولوی محمد صدیق صاحب کو ملا اور انہوں نے اسے مسجد احمد یہ گلڈ نہ میں ٹھہرایا اور بستر وغیرہ بھی دیا.اور اس کے پاس کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا مولوی محمد صدیق صاحب اسے اپنے ساتھ کھانا بھی کھلاتے رہے (مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنے بیان میں بتایا ہے کہ چونکہ اس شخص نے ان سے کہا تھا کہ بڑے بڑے احمدی مجھ سے بڑی محبت کرتے ہیں اور میاں عبد الوہاب صاحب کا خط دکھایا تھا کہ آپ ہمیں بھائیوں کی طرح عزیز ہیں اور یہ بھی کہا تھا کہ میاں بشیر احمد صاحب کا خط بھی میرے پاس ہے.گو انہوں نے امرائے جماعت کو لکھا ہے کہ اس شخص کو معافی مل چکی ہے اب جماعت اس کے ساتھ تعاون کرے اور اس کی مدد کرے مگر یہ بھی کہا تھا کہ وہ خط اس وقت میرے ساتھ نہیں ہے.پس میں نے اس شخص پر حسن ظنی کی اور اس کو مخلص احمدی سمجھا اور

Page 336

انوار العلوم جلد 25 312 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات یقین کیا کہ اس کو معافی مل چکی ہے) پھر ظہور القمر لکھتے ہیں کہ " میں عید الاضحی سے ایک روز قبل خیبر لاج میں آیا اور منشی فتح دین صاحب سے دریافت کیا کہ عید کی نماز کب ہو گی اور کون پڑھائے گا؟ منشی صاحب نے بتایا کہ ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پڑھائیں گے ، باہر صحن میں درخت کے ساتھ اعلان بھی لگا ہوا ہے لہذا میں نے واپس جا کر سب دوستوں کو جو مسجد میں تھے نماز کے وقت کی اطلاع دی.اسی ضمن میں اللہ رکھا مذکور کو بھی بتایا کہ کل نماز ساڑھے آٹھ بجے ہو گی اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نماز پڑھائیں گے تو اس نے جواب دیا کہ " میں ایسوں کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا" دوسرے روز مولوی محمد صدیق صاحب اسے زبر دستی خیبر لاج لائے اور اسے اپنے ہمراہ نماز کی ادائیگی کے لئے کہا.اللہ رکھا کہتا تھا کہ میں پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا.نیز وہ جتنے روز یہاں رہا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا.اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی خط و کتابت مولوی صدر دین صاحب سے ہے اور ہر روز وہ کہا کرتا تھا کہ میں نے انہیں آج خط لکھا ہے.اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ ابتدائی دنوں میں پیغامیوں کی مسجد میں رہتا رہا ہے اور میاں محمد صاحب لائلپوری جو کچھ عرصہ پیغامیوں کے امیر رہے ہیں اور گزشتہ دنوں مری میں تھے ان کے گھر جا کر کھانا کھاتا رہا ہے.اور اس نے مجھے کہا کہ انہوں نے مجھے اجازت دے رکھی ہے کہ جب چاہو میرے گھر آجایا کرو.میں رات کے گیارہ بجے تک مکان کا دروازہ کھلا رکھا کروں گا.جس روز محمد شریف صاحب اشرف سے اللہ رکھا کا جھگڑا ہوا تھا اُس دن رات کو جب وہ مسجد میں آیا تو اس نے کہا یہ میری پیشگوئی ہے کہ جس طرح پہلے خلافت کا جھگڑا ہوا تھا اب پھر ہونے والا ہے آپ ایک ڈیڑھ سال میں دیکھ لیں گے".دستخط ظهور القمر 1956ء-7-25) اس شہادت کو پڑھ کر دوستوں کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ سب سازش پیغامیوں کی ہے اور اللہ رکھا انہی کا آدمی ہے.وہ مولوی صدر دین غیر مبائع منکر نبوت مسیح موعود کے پیچھے نماز جائز سمجھتا ہے لیکن مرزا ناصر احمد جو حضرت مسیح موعود کا پوتا ہے اور ان کی

Page 337

انوار العلوم جلد 25 313 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات نبوت کا قائل ہے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں سمجھتا.اور پیشگوئی کرتا ہے کہ ایک دو سال میں پھر خلافت کا جھگڑا شروع ہو جائے گا.موت تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے مگر یہ فقرہ بتاتا ہے کہ یہ جماعت ایک دو سال میں مجھے قتل کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.تبھی اسے یقین ہے کہ ایک دو سال میں تیسری خلافت کا سوال پیدا ہو جائے گا اور ہم لوگ خلافت کے مٹانے کو کھڑے ہو جائیں گے اور جماعت کو خلافت قائم کرنے سے روک دیں گے.خلافت نہ خلیفہ اول کی تھی نہ پیغامیوں کی.نہ وہ پہلی دفعہ خلافت کے مٹانے میں کامیاب ہو سکے نہ اب کامیاب ہوں گے.اُس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان کے چند افراد پیغامیوں کے ساتھ مل کر خلافت کو مٹانے کے لئے کوشاں تھے.مجھے خود ایک دفعہ میاں عبد الوہاب کی والدہ نے کہا تھا ہمیں قادیان میں رہنے سے کیا فائدہ.میرے پاس لاہور سے وفد آیا تھا اور وہ کہتے تھے کہ اگر حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبدالحی کو خلیفہ بنادیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کر لیتے مگر یہ مرزا محمود احمد کہاں سے آ گیا ہم اس کی بیعت نہیں کر سکتے.وہی جوش پھر پیدا ہوا.عبدالحی تو فوت ہو چکا اب شاید کوئی اور لڑکا ذہن میں ہو گا جس کو خلیفہ بنانے کی تجویز ہو گی.خلیفہ خدا تعالیٰ بنایا کرتا ہے.اگر ساری دنیا مل کر خلافت کو توڑنا چاہے اور کسی ایسے شخص کو خلیفہ بنانا چاہے جس پر خدا راضی نہیں تو وہ ہزار خلیفہ اول کی اولاد ہو اُس سے نوح کے بیٹوں کا سا سلوک ہو گا.اور اللہ تعالیٰ اس کو اور اسکے سارے خاندان کو اس طرح پیس ڈالے گا جس طرح چگی میں دانے پیس ڈالے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے نوح جیسے نبی کی اولاد کی پروا نہیں کی نہ معلوم یہ لوگ خلیفہ اوّل کو کیا سمجھے بیٹھے ہیں.آخر وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے اور ان کے طفیل خلیفہ اول بنے تھے.ان کی عزت قیامت تک محض مسیح موعود کی غلامی میں ہے.بے شک وہ بہت بڑے آدمی تھے مگر مسیح موعود کے غلام ہو کر نہ کہ ان کے مقابل میں کھڑے ہو کر.قیامت تک اگر ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غلام قرار دیا جائے گا تو ان کا نام روشن رہے گا.لیکن اگر اس کے خلاف کسی نے کرنے کی جرات کی تو وہ

Page 338

314 انوار العلوم جلد 25 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ کا غضب اس پر بھڑ کے گا اور اس کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا.یہ خدا کی بات ہے جو پوری ہو کر رہے گی.یہ لوگ تو سال ڈیڑھ سال میں مجھے مارنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آسمانوں کا خدا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتا ہے ”سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا......جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الہی کے ظہور کا موجب ہو گا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح (یعنی کلام ) ڈالیں گے“ 2 میرے الہاموں کا زبر دست طور پر پورا ہونا جماعت پچاس سال سے دیکھ رہی ہے اور جس کو شبہ ہو اب بھی اس کے سامنے مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.اخباروں میں چھپی ہوئی کشوف و رؤیا کے ذریعہ سے بھی اور چودھری ظفر اللہ خان صاحب جیسے آدمیوں کی شہادت سے بھی.پھر خدا نے آپ سے فرمایا:- وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا.( یہ شہرت کس نے پائی؟) اور قومیں اس سے برکت پائیں گی 4 ( قوموں نے برکت کس سے پائی؟) پھر فرمایا:.تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گاوَكَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا پس میری موت کو خدا نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور فرماتا ہے کہ جب وہ اپنا کام کرلے گا اور اسلام کو دنیا کے کناروں تک پہنچالے گا تب میں اُس کو موت دوں گا.پس اس قسم کے چوہے محض لاف زنی کر رہے ہیں.ایک شخص نے مجھ پر چاقو سے حملہ کیا تھا مگر اُس وقت بھی خدا نے مجھے بچایا.پھر جماعت کی خدمت کرتے مجھے پر فالج کا حملہ ہوا اور یورپ کے سب ڈاکٹروں نے یک زبان کہا کہ آپ کا اس طرح جلدی سے اچھا ہو جانا معجزہ تھا.پھر فرمایا تیری نسل بہت ہو گی (جس پیشگوئی کے مطابق ناصر احمد پیدا ہوا) پھر فرمایا اور میں تیری ذریت کو بہت بڑھاؤں گا اور برکت دوں گا.مگر عبد الوہاب کے اس پیارے بھائی کے نزدیک اس پیشگوئی کے مصداق ناصر احمد کے پیچھے نماز پڑھنی ناجائز ہے مگر مولوی صدر دین کے پیچھے پڑھنی جائز ہے.پس خود ہی سمجھ لو کہ اس فتنہ کے پیچھے

Page 339

انوار العلوم جلد 25 315 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات کون لوگ ہیں؟ اور آیا یہ فتنہ میرے خلاف ہے یا مسیح موعود کے خلاف.مسیح موعود فوت ہو چکے ہیں.جب وہ زندہ تھے تب بھی ان کو تم پر کوئی اختیار نہیں تھا.قرآن مجید میں خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے کہ تو داروغہ نہیں.اب بھی تم آزاد ہو چاہو تو لاکھوں کی تعداد میں مرتد ہو جاؤ.خدا تعالیٰ مٹی کے نیچے دبے ہوئے مسیح موعود کی پھر بھی مدد کرے گا اور ان لوگوں کو جو آپ کے خادموں کی طرف منسوب ہو کر آپ کے مشن کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ذلیل وخوار کرے گا.تمہارا اختیار ہے خواہ مسیح موعود اور ان کی وحی کو قبول کر دیا مرتدوں کو اور منافقوں کو قبول کرو.میں اس اختیار کو تم سے نہیں چھین سکتا.مگر خدا کی تلوار کو بھی اس کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا.والسلام (4) ضروری اعلان خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "25-7-1956 (الفضل 28 جولائی 1956ء) جن کے خط فتنہ منافقت کے بارہ میں پہنچ رہے ہیں وہ محفوظ رکھے جارہے ہیں.میں سب دوستوں کو اجمالی طور پر جَزَاكَ الله کہتا ہوں.اور دُعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اور ان کی نسلوں کو ایمان پر قائم رکھے اور احمدیت کا خادم بنائے رکھے.إنشاء الله تعالی ربوہ پہنچ کر ایک عام اعلان کے ذریعہ سب دوستوں کا ذکر کر دیا جائے گا.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "26-7-1956 الفضل 29 جولائی 1956ء)

Page 340

انوار العلوم جلد 25 (5) احباب کے نام پیغام 316 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات برادران! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ جو نئے بیانات منافقت کا بھانڈا پھوٹنے کے سلسلہ میں احباب او پر پڑھ چکے ہیں اب میں اسی سلسلہ میں کچھ باتیں کہنا چاہتا ہوں.ان بیانات کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ساری جماعت میں سے مومنانہ دلیری صرف حاجی نصیر الحق صاحب نے دکھائی ہے.ان کے بعد کسی قدر دلیری چودھری اسد اللہ خاں صاحب نے دکھائی ہے.گو ان سے یہ غلطی ہوئی ہے کہ میں نے تو اپنے بعد صدر انجمن احمدیہ کا پریذیڈنٹ اور شخص کو بنایا تھا انہوں نے مندرجہ بالا بیانات امیر جماعت ربوہ کو بھجوا دیئے حالانکہ یا وہ میرے پاس آنا چاہیئے تھے یا پریذیڈنٹ صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے پاس جانے چاہیئے تھے.میاں بشیر احمد صاحب کا رویہ بھی نہایت بزدلانہ ہے.انہوں نے ایک لمبے عرصہ تک واقعات کو دبائے رکھا اور ایسے لوگوں کے کام سپر د کیا جو خود ملوث تھے.شاید میاں بشیر احمد صاحب اس بات سے ڈر گئے کہ عبد الوہاب صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ خلیفۃ المسیح الثانی کو معزول کر کے میاں بشیر احمد صاحب یا چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو خلیفہ بنادینا چاہئے وہ زیادہ موزوں ہیں.انہوں نے سمجھا ہو گا کہ اگر یہ رپورٹیں میں نے بھجوا دیں تو سمجھا جائے گا کہ میں بھی عبد الوہاب صاحب کی سازش میں شریک ہوں تبھی انہوں نے مجھے خلیفہ بنانے کی تجویز پیش کی ہے.واقعات کو دبانے کی یہ کوئی وجہ نہیں تھی.کسی فارسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے آن را که حساب پاک است از محاسبه چه باک است بھائی تو اپنا معاملہ صاف رکھ پھر تجھے کسی کے محاسبہ کا کیا ڈر ہو سکتا ہے.پس اپنا معاملہ صاف ہوتے ہوئے انہیں یہ کیوں ڈر پیدا ہوا کہ مجھے عبد الوہاب کے ساتھ سازش میں شریک سمجھا جائے گا.

Page 341

انوار العلوم جلد 25 317 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات ان بیانات میں جو چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کا ذکر آتا ہے اس کو دل مانتا نہیں کیونکہ ان کی ساری زندگی بڑے اخلاص سے گزری ہے لیکن ممکن ہے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی محبت کا جوش عارضی طور پر ان کے دل پر غالب آگیا ہو اور انہوں نے یہ غیر مومنانہ طریق اختیار کیا ہو کہ جس شخص نے مومنانہ دلیری سے صحیح حالات لکھ دیئے اس پر خفاء ہوئے ہوں.بہر حال ایک لمبے تجربہ کے بعد جو میں نے ان کے متعلق رائے قائم کی ہے میں اس کو بدل نہیں سکتا اور اس وقت کا انتظار کرتاہوں جب کہ وہ اپنے فعل کی تشریح لکھ کر مجھے بھیجیں.اسی سلسلہ میں میں جماعت کو یہ بھی اطلاع دیتا ہوں کہ امیر جماعت احمدیہ لاہور کی تحقیقاتوں کے نتیجہ میں دشمنوں کے کیمپوں میں کھلبلی مچ گئی ہے اور انہوں نے چاروں طرف دوڑ دھوپ شروع کر دی ہے چنانچہ آج صبح ہی مری میں حافظ محمد اعظم کو دیکھا گیا جو جو دھامل بلڈنگ میں رہتا ہے اور جس کا نام مختلف رپورٹوں میں آچکا ہے.جب اس سے بعض احباب نے پوچھا کہ آپ یہاں کہاں؟ تو اس نے کہا سید بہاول شاہ صاحب قائد انصار لاہور نے میرے خلاف بغاوت کی رپورٹ کر دی ہے اس لئے میں مرزا ناصر احمد صاحب سے مدد لینے کے لئے آیا ہوں لیکن بجائے مرزا ناصر احمد کی طرف جانے کے وہ سیدھا اس طرف گیا جہاں ہمارے غیر ملکی طالبعلم رہتے ہیں.کچھ دن پہلے مولوی صدر دین صاحب امیر پیغامیان بھی یہاں آئے ہوئے تھے.1948ء میں جب چینی طالبعلم آئے تھے تو ان کو پیغامی ایجنٹوں نے ورغلایا تھا اور اپنے گھر لے گئے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ حافظ اعظم کے ساتھیوں نے جو در حقیقت پیغامیوں کے دیرینہ ایجنٹ ہیں ان کو غیر ملکی طالبعلموں کو بہکانے کے لئے بھیجا تھا.مربی مقامی نے اس کو مقامی مسجد اور مقامی مہمان خانہ سے فوراً نکال دیا اور اکثر غیر ملکی طالبعلموں نے اس سے بات کرنے سے انکار کر دیا.پس جماعت سمجھ لے کہ مفسدوں نے اپنا کام شروع کر دیا ہے.اب مومنوں کو بھی اپنے دفاع اور فتنہ کے مٹانے کی طرف کوشش کرنی چاہئے تا کہ وہ عمارت جو پچاس سال میں اپنا خون بہا کر ہم نے کھڑی کی تھی

Page 342

انوار العلوم جلد 25 اس میں کوئی رخنہ پیدا نہ ہو.“ 318 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (الفضل 28 جولائی 1956ء) (6) حضرت عثمان کے وقت میں ذرا سی غفلت نے اتحاد اسلام کو برباد کر دیا تھا بعض کمزور طبع احمدی کہتے ہیں کہ کیا چھوٹی سی بات کو بڑھادیا گیا ہے.لاہور کا ہر شخص جانتا ہے کہ عبد الوہاب فاتر العقل ہے پھر ایسے شخص کی بات پر اتنے مضامین اور اتنے شور کی ضرورت کیا تھی.حضرت عثمان کے وقت میں جن لوگوں نے شور کیا تھا ان کے متعلق بھی صحابہ یہی کہتے تھے کہ ایسے زئیل آدمیوں کی بات کی پروا کیوں کی جاتی ہے.حال ہی میں مری پر عیسائیوں نے حملہ کیا تھا اور ایک یہ اعتراض کیا تھا کہ تبوک کے موقع پر تمہارے رسول ہزاروں آدمیوں کو لے کر جلتی دھوپ میں اور بغیر سامان کے سینکڑوں میل چلے گئے جب وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ معاملہ کچھ بھی نہیں.کوئی رومی لشکر وہاں جمع نہیں تھے اگر وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو اتنی بڑی غلطی انہوں نے کیوں کی.کیوں نہ خدا تعالیٰ نے ان کو بتایا کہ یہ خبر جو رومی لشکر جمع ہونے کی آئی ہے غلط ہے تبوک کا واقعہ یوں ہے کہ پہلے ایک عیسائی پادری مکہ میں آیا اور مکہ سے اس نے مدینہ کے منافقوں سے ساز باز کیا اور ان کو تجویز بتائی کہ اس کے رہنے اور تبلیغ کرنے کے لئے وہاں ایک نئی مسجد بنائیں چنانچہ انہوں نے قبانامی گاؤں میں ایک نئی مسجد بنادی.وہ شخص چھپ کر وہاں آیا اور ان کو یہ کہہ کے روم کی طرف چلا گیا کہ میں رومی حکومت کو اکساتا ہوں تم ادھر یہ مشہور کر دو کہ رومی لشکر سر حدوں پر جمع ہو گیا ہے.جب محمد رسول اللہ اسلامی لشکر سمیت اس طرف جائیں گے اور وہاں کسی کو نہ پائیں گے اور سخت مایوس ہو کر لوٹیں گے تو تم مدینہ میں مشہور کر دینا کہ یہ دیکھو مسلمانوں کا رسول.بات کھ بھی نہ تھی مگر اس نے اس کو اتنی اہمیت دے دی مگر اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کی تائید کی اور صرف تین آدمی جو سینکڑوں کے لشکر میں سے پیچھے

Page 343

انوار العلوم جلد 25 319 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات رہ گئے تھے ان کو سخت ملامت کی اور ان میں سے ایک کا بائیکاٹ کر دیا حالانکہ جب رومی لشکر تھا ہی نہیں تو تین چھوڑ کر تین ہزار آدمی بھی نہ جاتا تو اسلام کا کیا نقصان تھا.قرآن کو تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ یہ پیچھے رہنے والے بڑے عقلمند تھے اور جو لوگ اپنی فصلیں تباہ کر کے گرمی میں محمد رسول اللہ کے ساتھ گئے وہ بڑے احمق تھے.اس واقعہ میں ہم کو یہ بتایا گیا ہے کہ واقعہ خواہ کچھ بھی نہ ہو اگر مسلمان کو پتہ لگ جائے کہ منافق دین کے لئے کوئی خطرہ ظاہر کر رہے ہیں تو ساری امت مسلمہ کو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑ ا ہو جانا چاہئے اور جو کوئی اس میں سستی کرے گا وہ مسلمانوں میں سے نہیں سمجھا جائے گا اور مسلمانوں کو اس سے مقاطعہ کرنا ہو گا.اب تبوک کے واقعہ کو دیکھو جو قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ بیان ہے اور دیکھو کہ احمدیوں میں سے جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اتنی چھوٹی سی بات کو اتنا کیوں بڑھایا جا رہا ہے اور کیا ان کے ساتھ بولنا چالنا احمدیوں کے لئے جائز ہے.اگر وہ احمدی کہلا سکتے ہیں اور ان کے ساتھ بولنا چالنا جائز ہے تو پھر قرآن اور محمد رسول اللہ نے تبوک کے موقع پر غلطی کی ہے جس وقت کہ معاملہ چھوٹا ہی نہیں تھا بلکہ تھا ہی نہیں اور پھر وہ لوگ بتائیں کہ حضرت عثمان کے وقت میں شرارت کرنے والے لوگوں کو حقیر قرار دینے والے لوگ کیا بعد میں اسلام کو جوڑ سکے.اگر وہ اس وقت منافقوں کا مقابلہ کرتے تو نہ ان کا کوئی نقصان تھانہ اسلام کا کوئی نقصان تھا مگر اس وقت کی غفلت نے اسلام کو بھی تباہ کر دیا اور اتحادِ اسلام کو بھی برباد کر دیا.والسلام خاکسار مرزا محمود احمد " 28-7-1956 (7) ضروری اعلان تحریر ہے:.(الفضل 30 جولائی 1956ء) سید نا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہدایت کے مطابق

Page 344

انوار العلوم جلد 25 320 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات کرنل محمود صاحب کا بھی رپورٹوں میں نام آیا ہے.ان کا کوئی تعلق اللہ رکھا سے نہیں.حسب عادت دھوکا دے کر ان کے گھر رہا.مگر ان کے اخلاص کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ایک قادیان کا درویش ان کے گھر بھجوادیا.اور اس نے ان کو سارا حال اس کا بتا دیا.جس پر انہوں نے اس کو نکال دیا.کوئی دوست کرنل صاحب پر بدظنی نہ کریں.(الفضل 30 جولائی 1956ء) (8) منافقین کے حالیہ فتنہ کے متعلق تازہ پیغام احباب جماعت کے نام.مطبوعہ 1956ء-7-29 احباب کرام! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پہلے چار قسطیں اس فتنہ کے متعلق جس کا مرکز لا ہو رہے لکھی جاچکی ہیں.اب اسی سلسلہ میں پانچویں قسط جماعت کی اطلاع کے لئے لکھی جاتی ہے.اس میں بعض نہایت ضروری امور ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ اس فتنہ کے پیچھے پیغامی ہیں.مولوی محمد صدیق صاحب شاہد مربی راولپنڈی لکھتے ہیں کہ :." پہلے میں نے اس لئے مختصر بیان دیا تھا کہ چیمہ صاحب نے مجھ سے صرف یہ کہا تھا کہ راولپنڈی میں اللہ رکھا آپ سے کس ذریعہ سے ملا تھا اس لئے میں نے سمجھا کہ غالباً صرف راولپنڈی کے متعلق جواب لکھنا ہے مری کے متعلق نہیں.اب میں اس کی مری کے متعلق کارروائیاں بھی لکھتا ہوں کیونکہ آپ کی باتوں سے مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ سارے حالات چاہئیں صرف راولپنڈی کے نہیں.اب میں نے اللہ رکھا کی مری میں مکمل کارروائیوں کی تحقیق کر لی ہے اور تمام امور کو حضرت اقدس کی اطلاع کے لئے تحریر کر رہا ہوں.1.وہ منحوس شخص مری میں قریباً دس دن رہا.جن میں سے چار دن مسجد احمد یہ گلڈ نہ میں رہا.اور تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ باقی ایام میں وہ پیغامیوں کی مسجد میں رہا ہے.

Page 345

انوار العلوم جلد 25 321 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات ان کے مسجد کے خادم، امام اور مبلغ کے ساتھ اس کی دوستی تھی اور یہ بات بھی پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ وہ خبیث اپنے آپ کو احمدی کہتا ہوا پیغامیوں کا لٹریچر تقسیم کرتا رہا ہے.ایک بات ایسی بھی معلوم ہوئی ہے جس سے اس پارٹی کے سرغنہ کا پتہ لگتا ہے.وہ یہ کہ جتنے دن وہ مری میں رہا ہے مولوی صدر دین سے لڑتا جھگڑ تا رہا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو منافق، بے عمل اور جاسوس کہتے رہے ہیں.اس سلسلہ میں ایک رقعہ بھی ملا ہے جس میں اللہ رکھانے مولوی صدر دین سے ان کا مشن اور گزشتہ زندگی کا حال پوچھا ہے.اس ساری کارروائی سے اتنا ضرور معلوم ہو جاتا ہے کہ منافق اللہ رکھا، میاں محمد صاحب ( لائلپوری سابق پریذیڈنٹ انجمن پیغامیاں) کی پارٹی کا آدمی ہے اور اُس کے اشارہ پر ناچ رہا ہے.حضور کے ربوہ جانے کے بعد خیبر لاج میں عید الاضحیٰ کے متعلق ایک واقعہ بھی ہوا ہے جس سے اللہ رکھا کی منافقت کا پتہ لگتا ہے.وہ یہ کہ مسجد احمد یہ میں ہم سب کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ مرزا ناصر احمد صاحب عید کی نماز پڑھائیں گے.اس پر اللہ رکھانے کہا میں میاں ناصر کے پیچھے نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ رتن باغ میں ایک دفعہ میں اُن سے لڑ چکا ہوں.اس لئے میں تو پیغامیوں کی مسجد میں نماز پڑھوں گا.اس پر میں نے کہا اگر تم نے میاں صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی تو ابھی ہماری مسجد سے نکلو اور آج سے ہمارا تمہارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو گا.اس پر وہ منافق نماز عید پڑھنے کے لئے تیار ہو گیا جس پر اس کی منافقت پر پھر پردہ پڑ گیا.اس واقعہ کے متعلق پنڈت ظہور القمر صاحب کی شہادت شائع ہو چکی ہے.ایک بات جو سب سے زیادہ اہم معلوم ہوئی ہے اور جس سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ اس منافق کے پیچھے پیغامی گروہ کا ضرور ہاتھ ہے.اور وہ یہ ہے کہ کوہاٹ کی طرح اس منافق نے مری میں بھی چند احمدیوں کے سامنے مری سے جاتے ہوئے یہ کہا ہے کہ اب تو لاہوریوں کی نظر خلیفہ اول کی اولاد پر زیادہ پڑتی ہے اور وہ میاں عبد المنان صاحب کی زیادہ تعریف کر رہے ہیں اور ان کے نزدیک وہ زیادہ قابل ہیں.ہمارے خلیفہ کی زندگی میں پیغامی گروہ کا اس قسم کا پرو پیگنڈا ان کی سازشوں کا پتہ دیتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ وہ ابھی سے لوگوں کے

Page 346

انوار العلوم جلد 25 322 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات ذہنوں کو زہر آلود کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ اس فتنہ پرداز شخص کے گروہ سے ہماری جماعت کو محفوظ رکھے.آخری دن اللہ رکھا منافق نے ایک مجلس میں خیبر لاج سے نکالے جانے پر یہ الفاظ بھی کہے کہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں مجھے دھتکارنے والوں پر عذاب اور تباہی آجائے گی.جس طرح 1953ء میں ہوا تھا اُسی طرح ہو گا اور مجھے کوئی بھی حضرت صاحب کی ملاقات سے نہ روک سکے گا.ظہور القمر صاحب نے بتایا ہے کہ اُس نے میرے سامنے ڈیڑھ سال کے اندر اندر آنے والی تباہی کو خلافت کے متعلق قرار دیا تھا.آخر میں میں حضور سے دوبارہ عرض کروں گا کہ چونکہ منافق اللہ رکھا کئی جماعتوں مثلاً لاہور، سیالکوٹ، جہلم، گجرات، کیمبل پور، کوہاٹ، پشاور، مردان، ایبٹ آباد، مانسہرہ، چنار اور بالاکوٹ تک دورہ کرتا رہا ہے.اس لیے ہر جماعت سے اس منافق کے متعلق دریافت کر لیا جائے کہ ممکن ہے اس طریق سے اس فتنہ کا سراغ اور زیادہ واضح طور پر ہمارے سامنے آجائے.(محمد صدیق شاہد ) افسوس ہے کہ سوائے کوہاٹ اور لاہور کے کسی جماعت نے اس شخص کے متعلق رپورٹ نہیں دی.نہ سیالکوٹ نے ، نہ جہلم نے ، نہ گجرات نے ، نہ کیمبل پور نے، نہ پشاور نے ، نہ مردان نے ، نہ ایبٹ آباد نے ، نہ مانسہرہ نے ، نہ بالا کوٹ نے.اس سے شبہ پڑتا ہے کہ ان جماعتوں میں بعض منافق لوگ موجود ہیں جن تک یہ شخص پہنچا ہے اور جنہوں نے اس کی کارروائیوں کو مرکز سے چھپایا ہے.گجرات کے امیر عبد الرحمن صاحب خادم کو یقیناً اس کا علم ہونا چاہئے تھا کیونکہ اس شخص کو کوہاٹ کرایہ دے کر بھیجوانے والوں میں دو ان کے اپنے بھائی شامل تھے اور تیسرا ان کے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کا لڑکا تھا.سیالکوٹ کی جماعت کو اس سے یہی ہمدردی ہو سکتی تھی کہ یہ شخص سیالکوٹ کا رہنے والا ہے.پس امیر جماعت سیالکوٹ کی خاموشی افسوسناک ہے.(اب سیالکوٹ سے خلیفہ عبد الرحیم صاحب کا خط باوجود بیماری کے آگیا ہے) اس کا ہزارہ کا دورہ کرنا بالکل واضح ہے کیونکہ اس کے دوستوں میں سے ایک شخص کے پاس ہزارہ کا ایک منافق احمدی

Page 347

انوار العلوم جلد 25 323 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات نو کر ہے اور غالباً وہ خط دے کر اس کو ہزارہ بجھوا رہا ہے مگر جماعت کو تو چاہئے تھا وہ ہوشیار رہتی.اللہ رکھانے جو مولوی صدر دین صاحب کے نام رقعہ لکھا تھا اس کی نقل ذیل میں درج ہے اور وہ اصل ہمارے پاس ہے.مکرمی و محترمی مولوی صدر دین صاحب مرزا محمود احمد السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ گزارش ہے کہ آپ سے جو ملاقات ہوئی وہ ابد ابد تک یاد رہے گی (یعنی یہ پیغامی جماعت کے ایجنٹ اُس وقت تک قائم رہیں گے جب تک خدا قائم رہے گا.گو یا خدا تعالیٰ کا وجود اور ان کا وجود ایک ہے چاہیئے تو یہ تھا کہ میں پہل کرتا مگر میں آپ کی بندہ نوازی کا مشکور ہوں.آنحضور نے دریافت فرمایا تھا کہ بندہ کا مشن کیا ہے ؟ سو مؤدبانہ عرض ہے کہ بندہ تو مری میں سِيرُوا فِي الْأَرْضِ 7 کے ماتحت رسول اللہ کے اسوہ حسنہ کے مطابق تبلیغ اسلام کی خاطر آیا ہے.گویا جماعت احمدیہ میں انتشار پھیلانا اور پیغامیوں کی ایجنٹی کرنا ہی اس شخص کے نزدیک تبلیغ اسلام ہے) آپ کی کرم نوازی ہو گی اگر آپ اس بارہ میں ید طولیٰ رکھتے ہوں تو رہنمائی فرمائیں.اللہ ! دھڑے بندی کو چھوڑ کر کچھ ایمان کی تو کہیے.ویسے آپ خوب جانتے ہیں.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ( یعنی انبیاء کی طرح اس کی زندگی بھی دنیا کے سامنے کھلے ورق کی طرح ہے.اور تمام پاکستان یا ساری جماعت احمد یہ اس کے ہر فعل کو جانتی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ کی طرح یہ شخص صادق اور امین ہے) القصہ مختصر کیا یہ مناسب نہ ہو گا کہ آپ اپنے مشن کی وضاحت کریں تو بندہ معلوم کرلے کہ آپ کتنے پانی میں ہیں.(یعنی میاں محمد لائل پوری کی پالیسی سے آپ کو کتنا اتفاق ہے یا جماعت احمدیہ میں فتنہ ڈلوانے کے لئے آپ کتنی رقم مجھے یا میرے ساتھیوں کو دے سکتے ہیں).

Page 348

انوار العلوم جلد 25 324 (9) منافقوں کی مزید پر وہ دری احباب جماعت احمدیہ ! منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات خادم دین اللہ رکھا درویش حال مری الفضل 29 جولائی 1956ء) السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آج ایک خط میری بیوی اُمّم متین کے نام آیا جس کا لکھنے والا اپنے آپ کو عورت ظاہر کرتا ہے.لیکن ربوہ کے لوگوں سے واقف ضرور ہے.کیونکہ اس نے پتہ پر آپا مریم صدیقہ و مہر آپ “ لکھا ہے.اس اپنے آپ کو عورت ظاہر کرنے والے مرد نے جولائی 1929ء کے ”مباہلہ“ کے پرچہ کا ایک کٹنگ بھی بھیجا ہے.خط لکھنے والے کا خط اتنا خراب ہے.اور اس نے بگاڑ کر پنسل سے اس طرح لکھا ہے کہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے.مباہلہ اخبار وہی ہے جو کسی زمانہ میں جھوٹے خط بنا کر اپنے اخبار میں شائع کرتا رہتا تھا.اور ان خطوں پر لکھا ہوتا تھا ایک معصوم عورت کا خط.لیکن ہر خط گمنام ہو تا تھا اور اوپر لکھا ہو تا تھا نقل مطابق اصل اور اندر اکثر خطوں میں یہ ہو تا تھا کہ میں مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں.ہر عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ گمنام شخص سے مباہلہ کون کر سکتا ہے.یہ فقرہ اس لئے بڑھایا جاتا تھا کہ احمق لوگ اس سے متاثر ہو جائیں.اس بات کو بھی ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ دُنیا کی وہ کونسی عورت ہے جو 27 سالہ پہلے مباہلہ کے کٹنگ کو محفوظ رکھے گی.صاف ظاہر ہے کہ وہ بد بخت جو مباہلہ والوں کی پارٹی میں شامل تھے.یا تو انہوں نے یہ کٹنگ چھپارکھے تھے کہ کسی وقت ان کو شائع کریں گے ، یا آج پھر مباہلہ والوں کے دوست مباہلہ والوں سے ان کے پرانے اخباروں کے کٹنگ لے کر جماعت میں پھیلا رہے ہیں.اس سے جماعت سمجھ سکتی ہے کہ موجودہ فتنہ کے پیچھے وہی پرانے سانپ ہیں جنہوں نے ایک وقت احمدیت پر

Page 349

325 انوار العلوم جلد 25 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات حملہ کیا تھا.ہمارے ایک دوست نے عراق سے لکھا تھا کہ مباہلہ کے پرچے پیغام بلڈنگ سے اشاعت کے لئے عراق بھیجے جاتے ہیں.پس یہ ایک مزید ثبوت پیغامیوں کی شراکت کا ہے.ہمارے ایک دوست جو اُس وقت آیادان کمپنی میں نوکر تھے اور بھیرہ کے رہنے والے ہیں.ان کا ایک لڑکا ایسٹ پاکستان میں نو کر ہو تا تھا.ان سے یہ اطلاع ہم کو ملی تھی.ان کے نام میں گل کا لفظ بھی آتا تھا.اس وقت مجھے نام بھول گیا.اگر ان کو یہ واقعہ یاد ہو تو ایک دفعہ مجھے پھر لکھیں جب ایک پیغامی لیڈر نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہم نے کوئی ایسا پروپیگینڈا عراق میں نہیں کیا.تو ان کے ایک رشتہ دار نے یہ کہا تھا کہ یہ جھوٹ ہے.میرے پاس اس پیغامی لیڈر نے ان الزامات کی تصدیق لکھ کر بھیجی ہے.یہ صاحب کسی وقت کراچی میں رہتے تھے.مرزا محمود احمد "29-7-56 (الفضل 31 جولائی 1956ء) (10) منافقین کی سازش کے متعلق تازہ پیغامات تم میں سے ہر ایک کو ہوشیار ہونا چاہئے " تحقیق سے ثابت ہو گیا ہے کہ اللہ ر کھانے میاں بشیر احمد صاحب پر جھوٹ بولا وہ چٹھی جو یہ میاں بشیر احمد صاحب کی بتاتا ہے وہ ہمیں مل گئی ہے اور اس میں اپنے کسی ماتحت کو یہ حکم دیا گیا کہ سفارشی خط دینا بالکل غلط ہے یہ تمہارا اپنا کام ہے کہ تم احمدیوں پر اپنا اچھا اثر پیدا کر و خلیفتہ المسیح کو اس بارہ میں تنگ کرنا درست نہیں.اس سے ثابت ہے حسب دستور اس کذاب نے ہر معاملہ میں جھوٹ بولا ہے اسی طرح اس معاملہ میں بھی جھوٹ بولا ہے.نہ میاں بشیر احمد صاحب کو یہ اختیار تھا کہ بغیر میرے پوچھے پوری معافی دیتے نہ انہوں نے ایسا کیا بلکہ اس شخص نے ایسے ہی دجل سے کام لیا جیسا کہ حضرت عثمان کے قتل کے مرتکب مسلمانوں کو دھوکا دیا کرتے تھے.کبھی کہتے تھے کہ

Page 350

326 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات انوار العلوم جلد 25 علی ہمارے ساتھ ہیں کبھی دوسرے صحابہ کا نام لیتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ ہیں کم از کم اتنا ثابت ہو گیا کہ اس فتنہ کے بانی اچھی طرح حضرت عثمان کے قاتلوں کی سکیم کا مطالعہ کر رہے ہیں اور ان کی سکیم پر چلنا چاہتے ہیں.اس کے بعد بھی اگر کوئی احمدی ان لوگوں سے دھوکا کھاتا ہے تو وہ یقیناً احمدی نہیں اگر شیطان جبرائیل کے بھیس میں بھی آئے تو مومن اس سے دھوکا نہیں کھا سکتا.پس تم میں سے ہر شخص کو ایسا ہی ہوشیار ہونا چاہئے کہ کوئی شخص اپنی نسل کے سلسلہ کو خواہ کہیں تک پہنچا تا ہو اور کوئی شخص خواہ کتنے ہی بڑے آدمی کو اپنا مؤید قرار دیتا ہو.آپ اس پر لعنت ڈالیں.اور اپنے گھر سے نکال دیں.اور ساری جماعت کو اس سے ہوشیار کر دیں.ایک دفعہ جماعت پیغامی فتنہ کا مقابلہ کر چکی ہے کوئی وجہ نہیں کہ اب اس سے دو سو گنے زیادہ ہو کر پیغامی فتنہ کا مقابلہ نہ کیا جاسکے.مرزا محمود احمد “ میاں عبد الوہاب صاحب کا خط میرے نام اور اس کا جواب نقل خط میاں عبد الوہاب صاحب ” نہایت ہی پیارے آقا ! السّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ الفضل میں اللہ رکھا کے متعلق ایک مضمون پڑھا.اس سلسلہ میں بد قسمتی سے میرا نام بھی آگیا ہے اور حضور نے عاجز پر اظہارِ ناراضگی بھی فرمایا ہے جس سے صدمہ ہوا.إِنَّا لِلَّهِ وَاِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.اس سلسلہ میں ایک چٹھی بذریعہ عام ڈاک خدمت عالی میں بھیج چکا ہوں، معاملہ کی نزاکت کے پیش نظر اس کی نقل بذریعہ رجسٹری بھیج رہا ہوں.اس سلسلہ میں ایک صورت یہ بھی ہو سکتی تھی کہ میں خاموش ہو جاتا اور اس معاملہ کو خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیتا مگر چونکہ آپ میرے پیارے امام اور آقا ہیں اور مجھے آپ سے بچپن سے دلی اُنس رہا ہے یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اس تعلق کو جانتے ہیں اس لئے اللہ رکھا کے نام اس خط کی حقیقت خدمت عالی میں لکھتا ہوں.اللہ رکھا کے نام یہ خط غالباً حضرت اماں جی کی تعزیت کے جواب میں لکھا گیا ہے.

Page 351

انوار العلوم جلد 25 327 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اللہ رکھا حضرت میر محمد اسحق صاحب کی زندگی میں قادیان آیا تھا اور دار الشیوخ میں ملازم تھا.بعض دفعہ اماں جی کے گھر کا کام بھی کرتا اور اماں جی اس کو روٹی بھی دیا کرتی تھیں.ر جس طرح سب احمدیوں کے ساتھ ان کا بیٹوں جیسا سلوک تھا اللہ رکھا کے ساتھ بھی تھا.یہ کبھی بیمار ہوتا تو میں اس کا علاج بھی کرتا.اگر آپ الفضل میں مضمون لکھنے سے پہلے اور میر اذکر کرنے سے پہلے مجھ سے دریافت کر لیتے تو شاید اس قدر غلط فہمی پیدا نہ ہوتی.میرے علم میں اللہ رکھا کو قادیان میں حماقتوں کی معافی مل چکی تھی اس لئے تعزیت کے خط کا جواب دیتے وقت قطعا میرے ذہن میں نہیں آسکتا تھا کہ اس کو خط کا جواب نہ لکھنا چاہیئے.حَاشَاوَكَلا میرے ذہن کے کسی گوشے میں بھی یہ نہیں آیا کہ میں کسی ایسے شخص کو خط رہا ہوں جو حضور کا بدخواہ ہے.اللہ رکھا کے متعلق کو ہاٹ کی جماعت نے جو بات کہی ہے وہ تو بہت بعد کی ہے.نہ میں نے یہ بات اس سے سنی نہ مجھے علم تھا کہ آپ کے خیالات اس کے متعلق یہ ہیں.میں سمجھتا ہوں اللہ رکھانے میرے خط کا ناجائز استعمال کیا ہے.ہمارا تو فرض ہے کہ آپ کو خوش رکھیں خصوصاً ایسے وقت میں جب کہ آپ بیمار بھی ہیں.ایسے حالات میں نادانستہ میرا ایک خط آپ کے لئے تکلیف کا باعث بنا جس سے طبعاً مجھے بھی اذیت پہنچی.میں نے بچپن میں فیصلہ کیا تھا کہ اپنی قسمت آپ کے ساتھ وابستہ رکھوں گا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علاوہ حضرت خلیفہ اول کا منشاء بھی یہ تھا کہ اُن کے بعد آپ جماعت کے امام ہوں.میں ان سے زیادہ عالم ہوں نہ عارف دینی نہ دنیوی نقطہ نگاہ سے کوئی بات میرے ذہن میں آہی نہیں سکتی.آپ کے ہاتھ سے ساری عمر میٹھی کا شیں کھائیں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ ایک کڑوی کاش کھانے سے انکار کروں.آپ کی پہلی مہربانیوں کو بھی انعام ہی سمجھتا رہا ہوں اور آپ کی اس تحریر کو بھی انعام ہی سمجھوں گا.شاید اس سے نفس کے گناہوں کی تلافی ہو جائے.شکر گزار ہوں گا اگر حضور میری یہ تحریر شائع کر دیں.دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ مجھے تا موت خلافت کے دامن سے وابستہ رہنے کی توفیق دے.آپ کا عبد الوہاب “

Page 352

انوار العلوم جلد 25 328 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات ”میاں عبد الوہاب صاحب! جواب آپ کا خط ملا ساری بحثیں الفضل میں آ رہی ہیں.مجھے آپ سے پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی.بیسیوں احمدیوں کی حلفیہ شہادتیں جو عنقریب شائع ہو جائیں گی ان کے بعد پوچھنے کا سوال نہیں رہتا.خصوصاً جبکہ 1926ء 1927ء میں مدرسہ احمدیہ کے لڑکوں نے آپ کا اور آپ کے ایک مولوی دوست کا خط پکڑ کر مجھے بھجوا دیا تھا جو زاہد کے نام تھا اور جس میں لکھا ہوا تھا کہ تمہاری مخالفت مرزا محمود سے ہے.ان کے متعلق جو چاہو مقابلہ میں لکھو مگر ہمارے اور ہمارے دوستوں کے متعلق کچھ نہ لکھو.اور اُس خط کے ساتھ ایک اور شخص کا خط بھی تھا جو آپ کے ایک دوست نے ایک عورت کے نام لکھا تھا اور جس کے واپس لینے کے لئے آپ اور وہ مولوی صاحب مقبرہ بہشتی جانے والی سڑک پر پیپل کے درخت کے نیچے کھڑے ہوئے ایک لڑکے کے ذریعہ سے زاہد سے خط و کتابت کر رہے تھے اور یہ نہیں جانتے تھے کہ یہ لڑکا مخلص احمد ی ہے.وہ لڑکا وہ خط لے کر سیدھا میرے پاس پہنچا جس میں آپ دونوں اور تیسرے دوست کے خطوط بھی تھے اور زاہد کا وعدہ بھی تھا کہ اس دوست کو ہم بد نام نہیں کریں گے.اب ان واقعات کے بعد جب کہ میں نے حضرت خلیفہ اول کی محبت کی وجہ سے اتنی مدت چھپائے رکھا مجھے تحقیقات کی کیا ضرورت تھی.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے ثبوت ہیں جو منصہ ظہور پر آجائیں گے.قادیان کی باتیں قادیان کے ساتھ ختم نہیں ہو گئیں.کچھ ادھر آپہنچی ہیں، کچھ پہنچ جائیں گی.لاہور کی باتیں تو مزید بر آں ہیں.آپ جو کام کر رہے ہیں اگر خلیفہ اول زندہ ہوتے تو اس سے بھی بڑھ کر آپ سے سلوک کرتے جو میں کر رہا ہوں.اُن کی تو یہ کہتے ہوئے زبان خشک ہوتی تھی کہ "میاں! میں تمہارا عاشق ہوں اور میں مرزا صاحب کا ادنیٰ خادم ہوں".جب وہ آپ لوگوں کی یہ کارروائیاں دیکھتے تو اس کے سوا کیا کر سکتے تھے کہ آپ پر ابدی لعنت ڈالتے.آخر وہ نیک انسان تھے.کیا ان کو نظر نہیں آتا تھا اور اب پرانے ریکارڈ دیکھ کر جماعت کو

Page 353

انوار العلوم جلد 25 329 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات نظر نہیں آئے گا کہ جب ان کے لئے غیرت دکھانے والے اپنی ماؤں کے گھٹنے کے ساتھ لگے ہوئے ایس ایس کر رہے تھے اُس وقت میں ہی تھا جو تن من دھن کے ساتھ غیر مبائعین کے ساتھ اُن کی خاطر لڑ رہا تھا جنہوں نے اُن کی زندگی میں ہی ظاہر اور پوشیدہ ان کی مخالفت شروع کر دی تھی.اور جیسا کہ حوالوں سے ثابت ہے کہ کہتے تھے کہ مولوی صاحب سترے بہترے ہو گئے ہیں، اب ان کی عقل ماری گئی ہے اب ان کو معزول کر دینا چاہئے.یہ سب باتیں نیز صاحب مرحوم نے سنیں جبکہ پیغامی مقبرہ بہشتی میں گئے ہوئے تھے.نیر صاحب فوت ہو چکے ہیں لیکن اور کئی لوگ زندہ ہیں اور اُس زمانے کے لڑیچر میں بھی کہیں کہیں یہ حوالے مل جاتے ہیں.مجھے تو خدا تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا جیسا کہ الفضل میں وہ خواب چھپ چکی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حفاظت کے لئے میرے بچوں کو اپنی جانیں دینی پڑیں گی.میرے لئے اس سے بڑھ کر کوئی سعادت نہیں ہو سکتی خواہ یہ جانیں دینا لفظی ہو یا معنوی.مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام نے اسماعیل قرار دیا ہے اور بائیبل میں لکھا ہے کہ اُس کے بھائیوں کی تلوار اُس کے مقابلہ میں کھنچی رہے گی 10.پہلے اسماعیل کا تو مجھے معلوم نہیں لیکن میں اپنے متعلق جانتا ہوں کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عزت کا سوال پیدا ہوا جیسا کہ لاہوریوں کے کیس میں ہوا تھا تو میری تلوار بھی تمام دنیا کے مقابلہ میں کھینچی رہے گی اور عزیز ترین وجو دوں کو بھی معنوی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کرنے سے میں دریغ نہیں کروں گا.کیونکہ ظاہری تلوار چلانے سے ہم کو اور حضرت مسیح موعود کو روکا گیا ہے اور ہمیں بشدت تعلیم دی گئی ہے خواہ تمہیں کتنی ہی تکلیف دی جائے کسی دشمن کا جسمانی مقابلہ نہ کرنا.ہاں دعاؤں اور تدبیروں سے اُن کے گند ظاہر کرنے کی جتنی کوشش کر سکتے ہو کرو.مجھے تو خوشی ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے یہ کارروائیاں کروائیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا جس کو حضرت (اماں جان) نہیں سمجھی تھیں اور گھبر اگئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھ کر اُن کے ہاتھ حضرت خلیفہ اوّل

Page 354

انوار العلوم جلد 25 330 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات کے پاس بھجوایا تھا اور حضرت خلیفہ اول نے ان کو تسلی دی تھی کہ یہ الہام آپ کے لئے بُرا نہیں ہے.اُس الہام کا مضمون یہ تھا کہ جب تک حضرت خلیفہ اول اور اُن کی بیوی زندہ رہیں گے اُن کی اولاد سے نیک سلوک کیا جاتا رہے گا لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ ان کو ایسا پکڑے گا کہ ان سے پہلے کسی کو نہیں پکڑا ہو گا.کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ پچھلے 42 سال میں ہزاروں موقعے آپ کو مخالفت کے ملے لیکن اماں جی کی وفات تک کبھی بھی ننگے ہو کر آپ کو مقابلہ کرنے کا موقع نہیں ملا.لیکن جو نہی وہ فوت ہوئیں خدائی الہام پورا ہونے لگ گیا.اور اگر خدا کی مشیت ہوئی تو اور بھی پورا ہو گا.آپ نے لکھا ہے کہ آپ کے ہاتھوں سے ساری عمر میٹھی میٹھی قاشیں کھائی ہیں ایک کڑوی بھی سہی.میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ آپ کے ہاتھ سے گزشتہ تیس سال میں بہت سی خنجریں اپنے سینہ میں کھائی ہیں مگر اب چونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے کلام اور سلسلہ احمدیہ کی حفاظت اور وقار کا سوال تھا مجھے بھی جواب دینا پڑا.اگر وہ کڑوا لگتا ہے تو اپنے آر ملامت کریں یا موت کے بعد حضرت خلیفہ اول کی زبان سے ملامت سن لیں.عبد الوہاب صاحب کا خط اللہ رکھا کے نام ہے.میاں عبد الوہاب صاحب کا خط جو انہوں نے اللہ رکھا کے نام لکھا تھا شائع کیا جاتا برادرم! وَ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ گرامی نامه مشتمل بر تعزیت ملا.جَزَاكُمُ اللهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ.آپ کے ساتھ تو ہم لوگوں کا بھائیوں کا تعلق ہے.اس لئے آپ کو صدمہ لازمی تھا.اس قسم کے حادثات زندگی کی بنیادوں کو ہلا دینے والے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ اپنی خاص مدد کرے.آپ کا خط بہت تسلی آمیز ہے.آپ بعافیت ہوں گے.کوہ مری ضرور دیکھئے.آپ کا بھائی عبد الوہاب عمر "13-4-1956

Page 355

انوار العلوم جلد 25 331 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اس خط کی عبارت سے ظاہر ہے کہ اصل غرض کو چھپانے کی کوشش کی گئی ہے کیونکہ یہ خط 13 / اپریل 1956ء کا ہے اور اماں جی جولائی کے آخر یا اگست کے شروع میں فوت ہوئیں.اس بات کو کون مان سکتا ہے کہ اللہ رکھا جیساز ٹیل 11 آدمی جس کے سپر د کوئی اہم کام نہیں.سوائے اس کے کہ بعض گھرانوں میں چپڑاسی یا باورچی کا کام کرتا ہے.اس نے باوجود اس عشق و محبت کے جو اُسے حضرت خلیفہ اول کے خاندان سے تھی اماں جی جو جولائی یا اگست میں فوت ہوئی تھیں اُن کی تعزیت کا خط مولوی عبد الوہاب کو مارچ کے آخر یا اپریل کے شروع میں لکھا اور مولوی عبد الوہاب صاحب نے اُس کا جواب 13 / اپریل کو دیا اور تعزیت کے مضمون سے بالکل بے تعلق خط کے آخر میں یہ بھی لکھ گئے کہ ”کوہ مری ضرور دیکھئے“.احباب کو معلوم ہے کہ 24 / اپریل کو میں مری آیا تھا لیکن اس سے پہلے دس یا گیارہ اپریل کو میں نے عبد الرحیم احمد اپنے نام نہاد داماد کو کو ٹھی تلاش کرنے کے لئے مری بھیجا تھا اور اُس نے 12/ اپریل کے قریب ربوہ پہنچ کر کو ٹھی کی اطلاع دی تھی جسے ہم نے پسند کر لیا تھا اور عبد الرحیم احمد میاں عبد المنان کا یارِ غار ہے.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اس سے سن کر اپنے بھائی کو اطلاع دے دی کہ خلیفتہ المسیح مری جانے والے ہیں اور عبد الوہاب کو فوراً یاد آگیا کہ 9 مہینے پہلے آئے ہوئے تعزیت کے خط کا جواب اللہ رکھا کو فوراً دینا چاہیے.اور یہ بات بھی اُن کے دماغ میں آگئی کہ یہ بھی لکھ دیا جائے کہ کوہ مری ضرور دیکھئے کیونکہ اُس وقت میرے مری آنے کا فیصلہ ہو گیا تھا اور پہاڑوں پر چونکہ عام طور صحت کے لئے لوگ باہر جاتے ہیں اور پہرہ کا انتظام پورا نہیں ہو سکتا اس لئے اللہ رکھا کو تعزیت کے خط کے جواب میں تاکید کر دی کہ کوہ مری ضرور دیکھئے“.اتنے مہینوں کے بعد تعزیت کا جواب دینا اور اُس وقت دینا جبکہ میرے مری جانے کا فیصلہ ہو چکا تھا.خط کے آخر میں یہ بے جوڑ فقرہ لکھ دینا ایک عجیب اتفاق ہے جس کے معنی ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے.اول تو تعزیت کے جواب میں مری دیکھنے کا ذکر ہی عجیب ہے پھر "ضرور " اور بھی عجیب ہے.اور پھر اُس وقت یہ تحریک جب میں مری آ رہا تھا اور بھی زیادہ عجیب ہے.مرزا محمود احمد “

Page 356

انوار العلوم جلد 25 332 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات منافقت کی سکیم کے متعلق مزید شہادتیں بیان چودھری بشارت احمد صاحب ولد چودھری محمد شریف صاحب چک 98 شمالی سرگودھا حال اے جی آفس لاہور میں مندرجہ ذیل بیان خدا تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر لکھوا رہا ہوں اور اس کے متعلق پوری ذمہ داری لیتا ہوں.غلام رسول 35 میر ا واقف ہے اور میرے ساتھ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں ( قادیان سے آنے کے بعد کچھ عرصہ تعلیم الاسلام ہائی سکول چنیوٹ میں بھی رہا ہے ) اور سر گو دھا گورنمٹ کالج میں پڑھتارہا ہے میرے لاہور آنے کے بعد آج سے تقریباً دو ہفتے پہلے مجھے کرایہ پر سائیکل لینے کی ضرورت پیش آئی چونکہ لاہور میں میرا کوئی واقف نہیں تھا.اسلئے غلام رسول 35 کے پاس گیا.اُس وقت اس مکان یعنی 43 نسبت روڈ میں مندرجہ ذیل لوگ موجود تھے.1.مرزا محمد حیات تاثیر سابق لائبیریرین حضور اقدس ( یہ شخص گجرات کا رہنے والا ہے اور پچھلے کئی سال میں کئی بار گجرات کے احمدیوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ شخص جھوٹے طور پر اپنے آپ کو مرزا لکھتا ہے ورنہ اس کا خاندان قبروں کا مجاور ہے مجھے اس امر کی تحقیقات کرنے کا موقع نہیں ملاور نہ حقیقت کھل جاتی).2.غلام رسول نمبر 35 اللہ رکھا غلام رسول نمبر 35 نے اللہ رکھا سے پوچھا کہ وہ اتنے عرصہ میں کہاں کہاں گیا اور یہاں سے جا کر تم نے کوئی خط نہیں لکھا.اللہ رکھانے جواب میں کہا کہ میں نے تو تمہیں بھی اور حمید ڈاڈھے کو بھی خطوط لکھے ہیں لیکن تم نے جواب ہی کوئی نہیں دیا.اس کے بعد اس نے بتایا کہ وہ سرحد کی تمام جماعتوں میں پھر ا.اس کے پاس ایک نوٹ بک پاکٹ سائز کی تھی جس میں ان افراد اور جماعتوں کے پتہ جات لکھے ہوئے تھے جن سے وہ مل کر آیا تھا.مجھے اس وقت وہ پتہ جات یاد نہیں آرہے (ہمیں ایک اور آدمی کے

Page 357

انوار العلوم جلد 25 333 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات ذریعہ وہ معلوم ہو گئے ہیں) اس کے بعد غلام رسول 35 نے اللہ رکھا سے سوال کیا کہ کیا وجہ ہے کہ حضرت صاحب کی بیماری دور نہیں ہو رہی اور ان کے بعد کس شخص کی بیعت کی جائے.اللہ ر کھانے جواب میں کہا کہ میں نے متعد دبار میاں بشیر احمد صاحب کو خطوط لکھے ہیں کہ تم تینوں بھائی مل کر کچھ صدقہ دو تب تم صحت یاب ہو سکتے ہو.رقم غالباً 3500 کہی گئی تھی (غالباً مراد یہ ہے کہ 3500 اللہ رکھا کو دو ورنہ انہی دنوں میں میں قریباً سات سو ایکڑ نہری زمین انجمن کو دے چکا ہوں.جس کی کم سے کم قیمت بھی ایک لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے) اور میاں بشیر احمد کو یہ بھی لکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات ہو گئی تو ہم آپ کی بیعت کریں گے میاں ناصر احمد صاحب کی بیعت کرنے کے لئے ہم ہر گز تیار نہیں اور اب تک مجھے اس کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا.ناصر احمد کے خلیفہ ہونے کا کوئی سوال نہیں.خلیفے خدا بنایا کرتا ہے.جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تھا تو جماعت کے بڑے بڑے آدمیوں کی گرد نہیں پکڑوا کر میری بیعت کروا دی تھی.جن میں ایک میرے نانا دوسرے میرے ماموں ایک میری والدہ ایک میری نانی ایک میری تائی اور ایک میرے بڑے بھائی بھی شامل تھے.اگر خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ ناصر احمد خلیفہ ہو تو ایک میاں بشیر کیا ہزار میاں بشیر کو بھی اس کی بیعت کرنی پڑے گی اور غلام رسول جیسے ہزاروں آدمیوں کے سروں پر جو تیاں مار کر خدا ان سے بیعت کروائے گا لیکن ایک خلیفہ کی زندگی میں کسی دوسرے خلیفہ کا خواہ وہ پسندیدہ ہو یا نا پسندیدہ نام لینا خلاف اسلام یا بے شرمی ہے.صرف خلیفہ ہی اپنی زندگی میں دوسرے خلیفہ کو خلافت کے لئے نامزد کر سکتا ہے.جیسا کہ حضرت خلیفہ اول نے 1910ء میں مجھے نامزد کیا تھا مگر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور وہ بیماری سے بچ گئے اور خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے فیصلہ سے مجھے خلیفہ بنوایا.اگر خدانخواستہ اُس وقت حضرت خلیفہ اول فوت ہو جاتے تو ان کی اولا د بڑھارتی کہ یہ خلافت ہمارے باپ کی دی ہوئی ہے مگر اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لعنت سے بچا لیا اور سورۃ نور کے حکم کے مطابق مجھے خود خلیفہ چنا اور بعد کے واقعات نے ثابت کر دیا کہ میں خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا خلیفہ ہوں کیونکہ

Page 358

انوار العلوم جلد 25 334 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا.میں ایک دفعہ نہیں دو دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں دمشق گیا ہوں اور اب میں دلیری سے کہہ سکتا ہوں کہ میں کسی انسان کی دی ہوئی خلافت پر خواہ وہ کتنا بڑا انسان کیوں نہ ہو لعنت بھیجتا ہوں.یا تو محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی تردید کرنی ہو گی جنہوں نے کہا کہ مسیح دمشق جائے گا یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تردید کرنی ہو گی.جنہوں نے یہ لکھا ہے کہ اس حدیث کے یہ معنی ہیں کہ میرے خلیفوں میں سے کوئی خلیفہ دمشق جائے گا.اللہ رکھا کی اس بات کو سن کر کہ میں نے میاں بشیر احمد صاحب کو لکھا ہے کہ ہم تو موجودہ خلیفہ کے مرنے پر آپ کی بیعت کریں گے.غلام رسول 35 نے کہا نہیں ہم تو میاں عبد المنان صاحب عمر کی بیعت کریں گے.(اگر عبد المنان بھی اس سازش میں شریک ہے تو تم یا درکھو کہ عبد المنان اور اس کی اولاد قیامت تک خلافت کو حاصل نہیں کرے گی خواہ کروڑوں غلام رسول ان کے لئے کوشش کرتے ہوئے اور ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے مر جائیں اور اپنے پیر گھسا دیں اور اپنی ناک رگڑ دیں) پھر غلام رسول نے کہا کہ وہ دو سال کے بعد اتنی طاقت پکڑ جائے گا کہ ربوہ آکر ناصر احمد کو بازو سے پکڑ کر ربوہ سے نکال دے گا.(دو سال کے بعد کی بات تو خدا ہی جانتا ہے یہی بڑ عبد اللہ ابن ابی ابن سلول نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ماری تھی اور جب اس کا ہی بیٹا اس کے سامنے تلوار لے کر کھڑا ہو گیا تو اس نے کہا میں مدینہ کا سب سے ا ذلیل انسان ہوں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کے سب سے معزز انسان ہیں 12 اس کا دعویٰ کرنا تو گذاب ہونے کی علامت ہے وہ اب ربوہ آکر دکھا دے بلکہ اپنے گاؤں جا کر دکھا دے مگر ایسی باتیں تو حیا دار لوگوں سے کہی جاتی ہیں بے حیالوگوں پر ایسی باتوں کا کیا اثر ہوتا ہے.وہ پھر یہی کہہ دے گا کہ یہ طاقت تو مجھے دو سال کے بعد حاصل ہو گی جیسا کہ مسیلمہ نے کہا تھا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے بعد وارث نہ بنایا تو میری فوج حملہ کر کے مدینہ کو تباہ کر دے گی.13 اب وہ مسیلمہ خبیث

Page 359

انوار العلوم جلد 25 335 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات کہاں ہے کہ ہم اس سے پوچھیں اور یا دو سال بعد غلام رسول بے دین کہا ہو گا جو ہم اس سے پوچھیں گے).چودھری بشارت احمد صاحب کہتے ہیں کہ اس کے بعد حیات تاثیر نے جو اپنے آپ کو مرزا کہتا ہے یہ بھی کہا کہ اگر حمید ڈاڈھے سے خطوط کا جواب چاہتے ہو تو اس کو اس قسم کے خطوط لکھا کرو کہ میاں ناصر احمد کو مارنے اور میاں بشیر احمد کے متعلق جو سکیم تھی وہ کہاں تک کامیاب ہے.اس پر وہ فوراً تڑپ کر جواب دے گا ( دیکھئے ان خبیثوں کو جو ایک طرف تو اپنے خیال میں اپنی طاقت کے بڑھانے کے لئے میاں بشیر احمد کو خلافت کا لالچ دے رہے ہیں.دوسری طرف ان کے قتل کرنے کے منصوبے بھی کر رہے ہیں.کیا ایسے لوگ ایماندار یا انسان کہلا سکتے ہیں؟ یہ خبیث اور ان کے ساتھی منافقوں کی طرح تمنائیں کرتے رہیں گے لیکن سوائے ناکامی اور نامرادی کے ان کو کچھ نصیب نہیں ہو گا.آسمان پر خدا تعالیٰ کی تلوار کھیچ چکی ہے.اب ان لوگوں سے دوستی کا اظہار کرنے والے لوگ خواہ کسی خاندان سے تعلق رکھتے ہوں اپنے آپ کو بچا کر دیکھیں.خدا تعالیٰ ان کو دنیا کے ہر گوشہ میں پکڑے گا اور ان کو ان کی بے ایمانی کی سزا دے گا) ڈاکٹر شاہ نواز خانصاحب کا خط مرزا محمود احمد “ سیدی و مطاعی میرے پیارے آقا (آبی وَأُمِّن فِدَاكَ) سَلَّمَكُمُ الله - السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ الفضل مورخہ 25 جولائی میں آج حضور کا پیغام جماعت کے نام پڑھا.جس سے دل کو سخت رنج و غم ہوا.خصوصاً اس بات کے تصور سے کہ حضور کی بیماری کی حالت میں بھی منافقین حضور کو دکھ دینے والی باتیں اور حرکتیں کر رہے ہیں.اس کے متعلق حضور نے جماعت اور افراد سے دو ٹوک فیصلہ طلب فرمایا ہے.سو عاجز اس کا جواب اولین فرصت میں دے رہا ہے (کہ دیر لگانا نفاق کی علامت ہو گی) (2) پس عرض ہے کہ میں بمع اپنی بیوی اور بچوں کے ایسے شخص کو جو (نعوذبالله)

Page 360

انوار العلوم جلد 25 336 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات حضور کی موت کا متمنی ہے.خدا اور رسول اور سلسلہ احمدیہ کا دشمن جانتا ہوں (کیونکہ حضور کی زندگی سے ہی اسلام کی نشاۃ ثانیہ وابستہ ہے) اور ایسے بد بخت پر لعنت کرتا ہوں اور اس سے براءت کا اظہار کرتا ہوں.کاش ایسے ملعون کو اس کی ماں نہ جنتی تو اس کے لئے بہتر تھا.اس کے ساتھ ہی میں ان تمام لوگوں کو بھی (جن کے متعلق شہادت مل چکی ہے کہ وہ اس دشمن سلسلہ کے بھائی یا معاون ہیں) جماعت کا دشمن بدخواہ اور بد بخت جانتا ہوں.خواہ اس گروہ میں کوئی بظاہر بزرگ ہو.معزز عہدہ دار جماعت ہو یا کسی ولی اللہ یا خلیفہ کا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.اللہ تعالیٰ ان کو توبہ کی توفیق دے تا عاقبت خراب نہ ہو.(3) خلفاء راشدین کے زمانہ کے حالات کا علم رکھنے والے خوب جانتے ہیں کہ فتنوں کا ظہور حضرت عثمانؓ کے وقت میں نمایاں طور پر ہوا تھا گو اس کا آغاز حضرت عمر کے وقت میں ہو چکا تھا مگر وہ دبا ہوا تھا اور اس وقت بھی حضرت خلیفہ اول کے بیٹے عبد الرحمن بن ابی بکر نے ہی حضرت عثمان کی شہادت میں نمایاں حصہ لیا تھا اور اس کی بہن بھی بانی اسلام کے نکاح میں تھی.اسی طرح اب بھی ہو رہا ہے جیسا کہ عاجز نے تین سال ہوئے عرض کیا تھا کہ حضور کا زمانہ خلافت چونکہ بفضل خدا بہت لمبا ہو گا اس لئے حضرت عمر، عثمان اور علی تینوں کے زمانہ کے واقعات حضور کے وجو د باجود میں دہرائے جائیں گے جن کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں.حضور کی خلافت کا عمری زمانہ حضور پر قاتلانہ حملہ کے ساتھ ختم ہو گیا مگر دشمن کا بیٹا نا کام رہا.اب عثمانی دور شروع ہے جس میں اب اندرونی حملہ کی کوشش ہو گی اور اس میں بھی کسی خلیفہ کا بیٹا نمایاں حصہ لے گا ( والله اَعْلَمُ بس ہمارا یہ فرض ہے کہ جماعت کو ان فتنوں کے اسباب اور ان کے ازالہ کی طرف توجہ دلاتے رہیں جس کے لئے ہر دوست کو حضور کا لیکچر "اسلام میں اختلافات کا آغاز " زیر مطالعہ رکھنا ہو گا.(تا وہ دھوکا نہ کھا سکے ) اور ہر طرح چوکس رہنا ہو گا.واللہ الْمُوَفِّق (4).حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو بعض امور مصلح موعود کے متعلق حضرت خلیفہ اول کو الگ لکھے تھے اس میں بھی حکمت یہی تھی کہ ان کی اولاد :

Page 361

انوار العلوم جلد 25 337 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات حجت تمام ہو.ان کو غالباً تاریخ خلفاء کی روشنی میں یا کشفی طور پر معلوم ہو گیا ہو گا کہ کسی زمانہ میں ان کا کوئی بیٹا (یا پوتا) مصلح موعود کی خلافت کو ختم کرنے کا متمنی ہو گا.پس تبصرہ کی حکمت تدبر کرنے والوں پر واضح ہے.(5).عاجز کو معلوم ہے کہ اگر یہ خط شائع ہوا تو دشمنِ احمدیت اور ان کے دوست ضرور ہمارے مخالف ہو جائیں گے مگر مجھے اس کی پروا نہیں.زیادہ سے زیادہ یہی ہو گا کہ وہ مجھے اور میری اولاد کو مارنے کی کوشش کریں گے مگر یہ تو ہماری بہت سعادت ہو گی یعنی شہادت جس کی تمنا ہر مسلمان کو ہونی چاہئے.(6).آخر میں میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ میرا اور میری اولاد کا خاتمہ ایمان بالخلافت اور اہل بیعت کی محبت، خدمت اور حفاظت پر کرے جو دعا عاجز پندرہ سال سے کر رہا ہے آمین.والسلام خاکسار خادم ڈاکٹر شاہ نواز خاں جناح کالونی لائلپور خط پر تبصرہ ย 66 ' 25-7-1956 یہ بالکل درست ہے کہ حضرت عثمان پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں میں حضرت ابو بکر خلیفہ اول کا بیٹا بھی شامل تھا مگر اس کا نام عبد الرحمن نہیں تھا جیسا کہ ڈاکٹر صاحب نے لکھا ہے.عبد الرحمن ایک نہایت نیک صحابی تھے.وہ دیر سے اسلام لایا تھا.بدر کے وقت تک مسلمان نہیں ہوا تھا مگر بعد میں جب اسلام لا یا تو نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ اس نے دکھایا.حضرت ابو بکر کے جس بیٹے نے حضرت عثمان کے قاتلوں کے ساتھ تعاون کیا وہ اور ماں سے تھا اور حضرت عثمان پر جب اس نے حملہ کیا تو حضرت عثمان نے اس سے کہا کہ اگر اس جگہ پر تیرا باپ (یعنی ابو بکر) ہو تا تو یہ جرأت کبھی نہ کرتا.تب اس کی ایمانی رگ پھڑک اٹھی اور وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گیا.تاریخ اسلام نے کبھی اس کے ابو بکر کا بیٹا

Page 362

انوار العلوم جلد 25 338 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات ہونے کا لحاظ نہیں کیا مگر ڈاکٹر صاحب کو یہ غلطی لگی ہے کہ ایسے ہی واقعات اب ظہور میں آئیں گے.میں صرف خلیفہ ہی نہیں بلکہ پسر موعود بھی ہوں.میرے ساتھ معاملات الہام کے مطابق ہوں گے نہ کہ تاریخ کے مطابق.گو ممکن ہے آپس میں تھوڑی بہت مشابہت باقی رہے.میرے دل میں بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا رہا ہے کہ میری خلافت کے لمبا ہونے کی وجہ سے بعض بے دین نوجوان یہ خیال کریں کہ ہمیں اور ہمارے خاندانوں کو اس شخص کی عمر کی لمبائی نے اس عہدہ سے محروم کر دیا مگر میں جانتا ہوں کہ ان لوگوں کو آسمانی لعنت تو ملے گی لیکن خدائی عزت نہیں ملے گی.مرزا محمود احمد 66 (الفضل 30 جولائی 1956ء) (11) مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں ” منافقوں کے متعلق بعض نہایت ہی اہم راز اور ظاہر ہوئے ہیں جن میں سے بعض راولپنڈی کی جماعت نے مہیا کئے ہیں، بعض ربوہ کی جماعت نے ، بعض لاہور کی جماعت نے جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرًا تھوڑے دنوں میں ترتیب دے کر شائع کئے جائیں گے.پیغامیوں کے متعلق نہایت معتبر رپورٹ ملی ہے کہ مقابلہ کی تیاریاں کر رہے ہیں جس کا نام وہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی محبت رکھیں گے مگر ہمارے پاس ان کا پرانا لٹریچر موجود ہے.وہ اس طرح صرف ہمیں یہ موقع مہیا کر کے دیں گے کہ حضرت خلیفہ اول کو گالیاں دینے والے ان کی اولاد کے دوست ہیں.پس وہ حملہ کریں ہم خوشی سے اس کا خوش آمدید کریں گے.وہ صرف اپنا گند ظاہر کرنے کا ایک اور موقع ہم کو دیں گے اور کچھ نہیں.آخر دنیا اس بات سے ناواقف نہیں کہ مولوی محمد علی صاحب مرحوم نے جن کے ذریعہ سے یہ جماعت بنی ہے یہ وصیت کی تھی کہ ایک خاص شخص ان کے جنازہ میں شامل نہ ہو.پس وہ بے شک آئیں اور حملہ کریں اور سو د فعہ حملہ کریں.ہمارے پاس بھی وہ سامان موجود ہے جس سے انشاء اللہ ان کے پول کھل جائیں گے.اس عرصہ میں مختلف جماعتوں کے پاس جو معلومات ہوں وہ ہمیں مہیا کر دیں.والسلام

Page 363

انوار العلوم جلد 25 339 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات خاکسار مرزا محمد احمد 30-7-1956 (الفضل یکم اگست 1956ء) (12) منافقین کی کذب بیانی کا ایک مزید ثبوت برقی پیغام از مری مؤرخہ 1956ء-7-30 " مرزا بشیر احمد صاحب تار دیتے ہیں کہ اللہ رکھا یا اس کے ساتھیوں کی طرف سے ان کو کوئی خط موصول نہیں ہوا تھا کہ جس میں ان لوگوں نے ان کو خلافت کی پیشکش کی ہو.ان لوگوں نے سر اسر افتر ا سے کام لیا ہے.یہ ان لوگوں کی کذب بیانی کا ایک مزید ثبوت ہے.“ (13) میاں عبد الواسع عمر صاحب کے نام (خلیفة المسیح) (الفضل یکم اگست 1956ء) ”میاں عبد الواسع عمر صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب سے رخصت ہو کر دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں آئے اور حضرت مصلح موعود کی خدمت میں عریضہ بھیجا جس کا خلاصہ یہ تھا کہ میرے علم کے مطابق خاندان حضرت خلیفہ اول کا کوئی فرد موجودہ فتنہ و سازش میں شریک نہیں.حضرت مصلح موعود کی طرف سے اس کے جواب میں انہیں حسب ذیل مکتوب موصول ہوا.عزیزم عبد الواسع صاحب! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ آپ کا خط ملا.کوئی فیصلہ آپ کے بیان پر نہیں کیا گیا.اس لیے یہ کہنا کہ ہم نے کوئی ایسی بات نہیں سنی اس سے کوئی فائدہ نہیں.آپ کی گواہی NEGATIVE.ا ہے اور NEGATIVE گواہی کوئی گواہی نہیں ہوتی.میرے پاس حلفیہ گواہیاں چند لوگوں کی موجود ہیں جن کو عنقریب شائع کیا جائے گا.جن میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ

Page 364

انوار العلوم جلد 25 340 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات مولوی عبد المنان صاحب نے اُن کو کہا کہ خلافت کا ڈنڈا میرے ہاتھ میں آنے دو پھر میں اس خاندان کو سیدھا کر دوں گا.پھر میں خود حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ آپ کی دادی نے مجھ سے کہا تھا کہ پیغامی وفد میرے پاس آیا تھا اور انہوں نے کہا تھا کہ اگر عبد الحی کو خلیفہ بنا دیا جاتا تو ہم مان لیتے یہ محمود کہاں سے آیا ہے.میں نے اُن سے کہا کہ اگر آپ کو کوئی عزت ملتی ہے تو شوق سے لے لیں میں نے آپ کو یہاں قید کر کے تو نہیں رکھا ہوا.آپ کے نانا نے مجھے چٹھی لکھی اور آپ کی والدہ کی بنگالی چٹھی اس میں ڈال کر مجھے بھیجی جس کا خلاصہ انہوں نے یہ لکھا کہ آپ نے تو اپنی طرف سے میرے ساتھ نیکی کی تھی مگر آپ نے میرا بیڑا غرق کر دیا ہے.اس گھر میں ہر وقت خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برائیاں اور خلافت سے بغاوت کی باتیں ہوتی ہیں.خاندان بہادر ابو الہاشم خان نے لکھا کہ میں نے تو دین میں ترقی کے لئے یہ رشتہ کیا تھا مگر افسوس کہ اس کا نتیجہ یہ نکلا.میری اور دوسرے دوستوں کی گواہیاں POSITIVE ہیں اور آپ کی گواہی NEGATIVE.اب بتائیے کہ میں آپ کی دادی کی گواہی کو مانوں، آپ کے نانا کی گواہی کو مانوں جو POSITIVE تھیں یا NEGATIVE گواہی مانوں؟ آپ تعلیم یافتہ ہیں اور سمجھ سکتے ہیں کہ POSITIVE کے مقابلہ میں NEGATIVE مانی نہیں جاتی.کل ہی ایک پروفیسر کی گواہی ملی ہے کہ چند لوگوں کی مجلس میں مجھے جانے کا موقع ملا.وہ یہ باتیں کرتے تھے کہ مسیح موعود کا تو ذکر الفضل میں بار بار ہوتا ہے خلیفہ اول کا نہیں ہو تا اور خلیفہ ثانی کا فوٹو چھپا اور خلیفہ اول کا فوٹو نہیں چھپا.حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کے مامور تھے اور حضرت خلیفہ اول ان کے ادنیٰ خادم تھے دونوں میں مقابلہ کا کوئی سوال ہی نہیں.سارے یورپ اور امریکہ میں یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی یا ان کی تعلیم کا ذکر ہوتا ہے نہ کسی جگہ پر خلیفہ اول کے دعویٰ کا ذکر ہوتا ہے نہ ان کی تعلیم کا.پس الفضل جو کچھ کر رہا ہے وہی کر رہا ہے جس کا خد اتعالیٰ نے فیصلہ کیا ہے اور مخالف دنیا بھی جس طرف متوجہ ہے.باقی رہی میری تصویر تو اس کی دلیل موجود تھی.میں خطر ناک بیماری کے بعد یورپ سے واپس آیا تھا.اگر حضرت خلیفہ اول بھی

Page 365

انوار العلوم جلد 25 341 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات دوبارہ زندہ ہو کر آجاتے تو اُن کی تصویر مجھ سے اونچی شائع کی جاتی.دوسرے یہ کہ الفضل میرے ذاتی روپے سے جاری ہوا اور 1920ء تک میں نے اس کو چلا کے اس کی خریداری بڑھائی.جب چل گیا اور ایک بڑا اخبار بن گیا تو میں نے مفت بغیر معاوضہ کے وہ انجمن کو تحفہ دے دیا.پس چونکہ وہ میری ملکیت تھا لازما یورپ سے واپسی پر اس کے عملہ کو میری تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا ہوا اور حضرت خلیفہ اول کی تصویر شائع کرنے کا خیال پیدا نہ ہوا.کیونکہ حضرت خلیفہ اول نے اس پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا تھا.آپ سے ملنے میں مجھے کوئی عذر نہیں.آپ کے دادا اور نانا دونوں سے میرے تعلقات تھے لیکن اس جواب کو پڑھ کر اگر آپ سمجھیں کہ آپ کا ملنا مفید ہو سکتا ہے تو بے شک ملیں.مرزا محمود احمد "3-8-1956 اس مکتوب پر انہوں نے حضور کی خدمت میں نہایت ادب و عقیدت کے ساتھ شکریہ کا خط لکھا اور عرض کیا.” اس وقت میں خود ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا ہوں اور ایک کرب اور اضطرار میں ہوں اور میں نہیں جانتا کہ آپ سے مل کر میں آپ کو کیا کہوں.میں گھبراہٹ اور بے چینی میں ربوہ آیا تھا اور اسی اضطرار میں واپس جارہا ہوں.“ تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 67 تا 69) (14) عبد الوہاب صاحب کے متعلق ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی ایک شہادت " برادران: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ حضرت خلیفہ اوّل کی ناخلف اولا د اب حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بڑائی دینے کے لئے سازش پکڑ رہی ہے چنانچہ ڈاکٹر عبد القدوس صاحب

Page 366

انوار العلوم جلد 25 342 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات نواب شاہ سندھ جو میاں عبد السلام صاحب مرحوم کے ساتھ زمین کے ٹھیکہ میں شریک رہے ہیں لکھتے ہیں کہ 1954ء میں جو قافلہ قادیان گیا میں بھی اس میں شامل ہونے کے لئے لاہور آیا.وہاں صبح کی نماز کے بعد جس میں میاں عبد الوہاب شریک نہیں ہوئے وہ مختلف جگہوں سے آئے ہوئے لوگوں کی طرف مخاطب ہوتے ہوئے اس طرح بولے جیسے درس دیتے ہیں اور کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیا ملنے کی دعا کی تھی جس سے سکون قلب حاصل نہیں ہو تا لیکن حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کو خدا کے سپرد کیا ( لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک الہامی دعا ہے جو وفات کے قریب ہوئی جس میں خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا سپردم بتو ماید خویش را تو دانی حساب کم و بیش را 14 یعنی اے خدا! میں اپنی ساری پونچی تیرے سپر د کر تا ہوں تو آگے اس میں کمی بیشی کرنے کا اختیار رکھتا ہے.حضرت خلیفہ اول کے متعلق کہیں ثابت نہیں کہ انہوں نے اپنی اولاد کو خدا کے سپر د کیا تھا ان کی وصیت میں تو یہ لکھا ہے کہ میری اولاد کی تعلیم کا انتظام جماعت کرے اور میری لائبریری بیچ کر ان کا خرچ پورا کیا جائے.اس کے مقابل حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد پر ایک پیسہ خرچ کرنے کی جماعت کو نصیحت نہیں کی اور عملاً بھی حضرت خلیفہ اول کے خاندان پر اس سے بہت زیادہ خرچ کرنا پڑا ہے جتنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد پر کرنا پڑا.علاوہ ازیں میں ایک لاکھ چالیس ہزار کی زمین صدر انجمن احمدیہ کو اس وقت تک دے چکا ہوں اور اس کے علاوہ میں تیس ہزار پچھلے سالوں میں چندہ کے طور پر دیا ہے اور ایک لاکھ تیس ہزار چندہ تحریک جدید میں دے چکا ہوں.ان رقموں کو ملا لیا جائے تو جماعت نے جور قم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان پر خرچ کی ہے یہ رقم اس سے چالیس پچاس گنے زیادہ ہے اور پھر حضرت خلیفہ اول کی اولاد جبکہ دنیوی کاموں میں مشغول تھی اُس وقت میں

Page 367

انوار العلوم جلد 25 343 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات قرآن کریم کی تفسیریں لکھ لکھ کر جماعت کو دے رہا تھا اور اکثر حصوں کی طباعت کا خرچ بھی اپنے پاس سے دے رہا تھا.یہ وہ (دنیا) ہے جو اس ناخلف بیٹے کے قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بیٹوں کے لئے مانگی تھی اور اولاد کو خدا کے سپر د کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت خلیفہ اول کا خاندان جماعت کے روپے پر پلتا رہا اور دنیا کے کاموں میں مشغول رہا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا بڑا بیٹا جماعت سے ایک پیسہ لئے بغیر اس کے اندر قرآنِ کریم کے خزانے لٹاتا رہا.یہ فرق ہے آقا کی دعا کا اور غلام کی دعا کا.جس کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ دنیا میں بہت سے تخت اترے پر تیر ا تخت سب سے اونچا رہا اور جس کو خدا تعالیٰ نے کہا کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بر وز اور آپ کا شاگرد ہے 12 اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا جَرِيُّ اللَّهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ 17 اللہ کا بہادر تمام نبیوں کے لباس میں اور جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے کہا " دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا مگر خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا18 اور جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آدم سے لے کر آخر تک تمام انبیاء اس کی خبر دیتے آئے ہیں.اس کی نظر تو اتنی کوتاہ تھی کہ اس نے اپنی اولاد کے لئے صرف دنیا کی دعا کی.جس سے تسکین قلب حاصل نہیں ہوتی لیکن اس کا شاگرد جس کا منہ غلامی کا دعویٰ کرتے کرتے خشک ہو تا تھا اس بلند پایہ کا تھا اور خدا تعالیٰ کا ایسا مقرب تھا کہ اس نے اپنی اولاد کو خدا کے سپر د کیا.یہی وہ سازش ہے جو حضرت خلیفہ اول کی وفات سے پیغامیوں نے شروع کی تھی چنانچہ مرزا خدا بخش نے اپنی کتاب عسل مصفی میں لکھا تھا کہ " بے مثل تھا وہ شاگر د (یعنی خلیفہ اوّل) جو تقویٰ اور طہارت میں اپنے استاد ( یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام) سے بھی بڑھ گیا لَعْنَت اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ) چنانچہ اس کے انعام میں پیغامیوں نے اس کو نو کر رکھ لیا اور اس کی کتاب عسل مصفی خوب بکوائی اور گو اس نے عبد الوہاب کی طرح فوراً معافی مانگنی شروع کر دی مگر نفاق کا معاف کرنا ایک خطرناک غلطی ہوتی ہے چنانچہ باوجو د اس کے کہ اس نے کتاب میں کچھ اصلاح کی.میں نے اس کو معاف نہیں کیا اور جماعت نے بھی

Page 368

انوار العلوم جلد 25 344 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اس کی کتاب کو ہاتھ نہیں لگایا.باقی رہا یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق کہا " دے اس کو عمر و دولت کر دور ہر اندھیرا" 19 اس حضرت خلیفہ اول کے جاہل بیٹے کی سمجھ میں یہ بھی نہیں آیا کہ کر دور ہر اندھیرا ایک بڑی دینی دعا ہے اور سورۃ الناس کا خلاصہ ہے اور چاہئے تھا کہ اس دعا کی وجہ سے میاں عبد الوہاب اور ان کے ساتھی اپنے انجام سے ڈر جاتے جس کی خبر اس دعا میں دی گئی تھی.ذیل میں کچھ اور دعائیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شائع کی جاتی ہیں ان کو پڑھ کر دوست دیکھ لیں کہ آیا حضرت مسیح موعود نے اپنی اولاد کے لئے دنیا مانگی ہے یا دین مانگا ہے اور میاں عبد الوہاب صاحب اپنے دعویٰ میں راست باز ہیں یا کذاب.کر ان کو نیک قسمت دے ان کو دین و دولت کر ان کی خود حفاظت ہو ان پہ تیری رحمت دے رشد اور ہدایت اور عمر اور عزت یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي ہے ہمارا رہبر تیرا نہیں ہے ہم سر روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي تو شیطان سے رکھیو دور اپنے حضور رکھیو جان پرز نور رکھیو دل پر سرور رکھیو ان پہ میں تیرے قربان رحمت ضرور رکھیو روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي فضل سب پر یکسر رحمت سے کر معطر یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي تینوں تیرے بندے رکھیو نہ ان کو گندے کر دور ان سے یارب دنیا کے سارے پھندے چنگے رہیں ہمیشہ کریو نہ ان کو مندے

Page 369

انوار العلوم جلد 25 یہ 345 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي فضل کر کے ہویں نیکو گہر یہ سارے یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي اے میرے جاں کے جانی اے شاہِ دو جہانی کر ایسی مہربانی ان کا نہ ہوے ثانی دے بخت جاودانی اور فیض آسمانی روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَرَانِي واحد یگانہ اے خالق زمانہ میری دعائیں سن لے اور عرض چاکرانہ تیرے سپرد تینوں دیں کے قمر بنانا یہ روز کر مبارک سُبْحَانَ مَنْ يَّرَانِي 20 اے میاں عبد الوہاب صاحب کے نزدیک یہ دنیا کی دعا ہے اور حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کے متعلق اس سے بالا دعامانگی تھی) اب ذیل میں ڈاکٹر عبد القدوس صاحب کی گواہی لفظ بلفظ شائع کی جارہی ہے اس سلسلہ میں اور بھی گواہیاں ملی ہیں جو بعد میں شائع کی جائیں گی.والسلام نقل خط ڈاکٹر عبد القدوس صاحب خاکسار مرزا محمود احمد "5-8-1956 " بحضور سید ناول امنا حضرت خليفة المسيح لمصلح الموعود ايد كم الله تعالى بنصر العزيز السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ سیدی حسب ارشاد پریذیڈنٹ صاحب جماعت احمدیہ نواب شاہ مولوی عبد الوہاب صاحب کے متعلق ایک شہادت ارسال خدمت ہے جو کہ عاجز نے ان کے

Page 370

انوار العلوم جلد 25 سامنے زبانی بیان کی تھی.346 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات سیدی عرض ہے کہ عاجز دسمبر 1954ء کے قافلہ کے ساتھ جو کہ جلسہ سالانہ قادیان جانے والا تھا بندہ لاہور جو دھامل بلڈ نگ گیا.رات جو دھامل بلڈنگ میں گزاری.صبح نماز فجر باجماعت پڑھنے کے بعد بیٹھے تھے کہ مولوی عبد الوہاب صاحب آگئے اور پوچھا کہ جماعت ہو گئی ہے.بتانے پر کہ جماعت ہو چکی ہے.انہوں نے خود اکیلے ہی نماز پڑھ لی.اور وہیں بیٹھ گئے.اس جگہ مختلف علاقہ جات سے آئے ہوئے دوسرے احمدی احباب بھی بیٹھے تھے مولوی عبد الوہاب صاحب کہنے لگے (جیسے کہ درس دیا جاتا ہے) کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لئے دنیاوی ترقیات کے لئے دعا فرمائی.جیسے ”دے ان کو عمر و دولت“ لیکن حضرت خلیفہ اول نے اپنی اولاد کے لئے دنیا کے لئے دعا نہیں فرمائی بلکہ خدا کے سپر د کر دیا.اب دیکھیں کہ حضور کی اولاد دنیا کے پیچھے لگ کر پریشانیوں تکلیفوں میں مبتلا ہے.کیونکہ دنیا کے پیچھے لگ کر انسان سکون قلب حاصل نہیں کر سکتا ( اغلباً اس میں حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کا بھی نام لیا تھا) اسی قسم کی اور باتیں بھی انہوں نے کہی تھیں.جو کہ مشکوک ہونے کی وجہ سے درج کرنے سے قاصر ہوں.لیکن تمام گفتگو کا جو مفہوم تھاوہ وہی تھا جو کہ خاکسار نے اوپر درج کر دیا.مندرجہ بالا مفہوم کے متعلق میں اپنے پالنے والے خدا کو حاضر و ناظر جان کر حلف اٹھاتا ہوں کہ وہ بالکل وہی نکلتا ہے جو عاجز نے اوپر تحریر کر دیا ہے.والسلام حضور کا تازیست فرمانبر دار رہنے والا خادم عاجز عبد القدوس احمدی نواب شاہ (سابق) سندھ 1956ء-7-30 " (الفضل 8 اگست 1956ء)

Page 371

انوار العلوم جلد 25 347 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (15) عبد المنان صاحب پسر مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم کا ایک خط اور اسکے متعلق حضور کا اظہار ناپسندیدگی عبد المنان صاحب کا خط "بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ بحضور آقائی حضرت اقدس...خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز.........السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ گزارش خدمت ہے کہ حضور ( ایدہ اللہ تعالیٰ) کا پیغام 25 جولائی 1956ء کے الفضل کے شمارے میں پڑھ کر از حد رنج و صدمہ ہوا کہ ایک شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھانے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے اور حضور (ایدہ اللہ ) کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی اور کوشش کی.اور حضور کے بیماری کے ایام میں جبکہ حضور کو مکمل آرام کی ضرورت ہے پریشانی اور بے آرامی میں ڈال کر دکھ اور تکلیف پہنچائی ہے.حضور کا یہ پیغام پڑھ کر میرے گھر کے تمام افراد میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور سبھی اس کمینے شخص پر لعنتیں بھیجنے لگے جس نے ہمارے پیارے آقا کے متعلق اتنے خطرناک منصوبے تیار کر رکھے تھے.خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور پر مکمل اعتماد و ایمان رکھتے ہیں اور اپنی ہر لحظہ وفاداری کا یقین دلاتے ہیں.مزید برآں اگر چہ وہ خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا لیکن ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لیے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہ کریں گے.(انشاء الله تعالى) خاکسار خدا تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہے کہ اس خبیث اور شریر النفس اور فتنہ پرداز شخص اللہ رکھا سے اور اس کے تمام ساتھیوں سے جن کا ذکر آچکا ہے یا جو پوشیدہ ہیں خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچوں کا ان لوگوں سے کوئی تعلق نہیں.اور ہم ان لوگوں سے شدید نفرت کرتے ہیں، ان کی حرکات کی مذمت کرتے اور

Page 372

348 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات انوار العلوم جلد 25 ان کو لعنتی سمجھتے ہیں.خاکسار اور خاکسار کے بیوی بچے اس امر پر مکمل یقین و ایمان رکھتے ہیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ خلیفہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی لوئیوں کو پورا کرنے والے مصلح موعود ہیں.آپ کے عہد خلافت میں جماعت نے ایک عظیم الشان ترقی کی ہے.اور یہ حقیقت ہے کہ حضور ایدہ اللہ نے نہ صرف احمدیت کے پیغام کو ہی دنیا کے کناروں تک پہنچایا ہے بلکہ دنیا کے گوشہ گوشہ میں اس پیغام کو شاندار کامیابی کے ساتھ ہمیشہ قائم رہنے والے وجود میں قائم کر دیا ہے.اور اس پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ احمدیت کی آخری اور مکمل فتح دنیا پر آپ کے مبارک وجود سے ہی کرائے گا.اور اس کے علاوہ یہ اظہار کئے بغیر بھی طبیعت نہیں رکتی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بر حق و سچے نبی کے پوتے اور ایک ایسے مصلح موعود کے فرزند ہیں جس کی ذہانت فراست کی دنیا میں مثال نہیں ملتی.اور یہ کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو یہی ذہانت و فراست خاندانی ورثہ میں قدرتی طور پر ملنے کے علاوہ آپ خود بھی زندگی کے ہر پہلو میں بہت تجربہ کار اور دینی و دنیوی علوم سے خوب بہرہ ور ہیں.اگر حضور انہیں ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں تو ہمارے لئے اس سے بڑھ کر زیادہ فخر و خوشی کی کونسی بات ہو سکتی ہے.حضرت صاحبزادہ میاں ناصر احمد صاحب تو خدا کے فضل و کرم سے ایک بڑی ہستی و شخصیت ہیں.اگر حضور جماعت میں سے کسی معمولی سے معمولی شخص کو بھی ہماری قیادت کے لئے مقرر فرمائیں گے تو ہمارے سر ایسے شخص کی وفاداری میں ہمیشہ جھکے رہیں گے.حضور خاکسار کے یہ دلی جذبات ہیں جو حضور تک پہنچا کر فخر محسوس کر رہا ہوں.فضاوں خاکسار اور خاکسار کے اہل و عیال حضور کی صحت و درازی عمر کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور ہر وقت دست بدعا ہیں کہ حضور کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ ہمیش رہے اور اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام خاندان پر ہمیشہ اپنے اور رحمتوں کی بارشیں برسا تار ہے امین.

Page 373

انوار العلوم جلد 25 349 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات طالب دعا حضور کے ادنی ترین خادموں کا خادم عبد المنان عفی عنہ پسر حضرت مولوی محمد اسمعیل صاحب مرحوم و مغفور چمبر بر استہ ٹنڈوالہ یار ضلع حیدر آباد (سابق سندھ) مورخہ 3 اگست 1956ء“ نقل ارشاد حضور ایدہ اللہ تعالی نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مكرم عبد المنان صاحب! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کی چٹھی سیدنا حضرت......ایدہ اللہ تعالیٰ کے ملاحظہ اقدس میں آئی.حضور نے فرمایا مجھے ایسی باتیں پسند نہیں.آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناً مخلص ہے.لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں.میرے پاس متواتر خطوط پہنچے کہ آپ 43 نمبر والے مکان میں رہنے والوں کے فتنہ میں شامل ہیں بلکہ غالباً اُن کی تجارت میں بھی شامل ہیں.آپ کا یہ فقرہ لکھنا کہ میاں ناصر کو قیادت کے لئے مقرر کر دیں یہ ہی نفاق کی علامت ہے.خلیفہ کے لئے تو جائز ہے کہ خلیفہ مقرر کر دے مگر کسی اور کے لئے جائز نہیں.اگر ناصر احمد بھی ایسا خیال کرے تو وہ بے ایمان ہو جائے گا.آپ نے جو کچھ لکھا ہے وہ اللہ رکھا کے مشابہہ ہے.پس آپ نے اپنے خط سے ظاہر کر دیا کہ آپ کے خیالات اللہ رکھا سے ملتے ہیں.دستخط پرائیویٹ سیکرٹری خط کے جواب کی مزید تشریح "برادران! "7/8/.1956 (الفضل 10 اگست 1956ء) السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ عبد المنان پسر محمد اسمعیل صاحب مرحوم نے اپنے اُس خط میں جو میرے نام

Page 374

انوار العلوم جلد 25 350 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات لکھا ہے اور جس کا جواب الفضل میں شائع ہو چکا ہے اپنے خط میں یہ فقرہ لکھا ہے مزید بر آں اگر چہ وہ ( یعنی اللہ رکھا) خدا تعالیٰ کے عذاب کی گرفت سے بچ نہیں سکتا.مگر ہم بھی حضور کے خفیف سے خفیف اشارے پر ایسے لوگوں کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی زندگیوں کی قربانی دینے سے ذرہ بھر دریغ نہیں کریں گے.“ یہ الفاظ ظاہر کرتے ہیں کہ عبد المنان نے دیدہ دانستہ اپنے ساتھیوں کی امداد کے لئے یہ گھناؤنا اور خبیثانہ فقرہ لکھا ہے.ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں جنہوں نے ہمیں امن کی تعلیم دی ہے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا ہے.مگر یہ شخص معلوم ہوتا ہے کہ ابو جہل کے چیلوں میں سے ہے تبھی آمادگی ظاہر کرتا ہے کہ آپ ادنی سا اشارہ کریں تو میں خون ریزی کرنے کے لئے تیار ہوں.یہ شخص ربوہ میں ناپسندیدہ حرکات کرتا رہا ہے.اُن حرکات کو تو اس نے سلسلہ کے کارکنوں کے احکام کے مطابق نہ چھوڑا لیکن حرام کام کرنے کے لئے یہ صرف ایک اشارہ کا محتاج ہے.اس کا باپ اس سے زیادہ مخلص تھا.یہ بتائے کہ سلسلہ کے اشاروں پر اس کے باپ نے کتنے خون کئے تھے ؟ اگر اس کا باپ اس نیکی سے محروم مر گیا تو کیا یہ شخص اپنے باپ سے زیادہ نیکی کا مدعی ہے؟ میری طرف منسوب کر کے پرائیویٹ سیکر ٹری کا جو جواب چھپا ہے وہ اپنی ذات میں واضح تھا اس میں صاف لکھا ہے کہ ” مجھے ایسی باتیں پسند نہیں.آپ کی بہن اور بڑا بھائی تو یقیناً مخلص ہیں.لیکن آپ اپنے باپ کو بے عزت کر رہے ہیں.“ میرا یہ لکھنا کہ مجھے ایسی باتیں پسند نہیں ہر عقلمند کے لئے کافی تھا.لیکن چونکہ بعض لوگ سادہ بھی ہو سکتے ہیں.اور ممکن ہے کہ عبد المنان کی شرارت آمیز تحریر کو نہ سمجھ سکیں اس لئے الفضل کا وہ جواب پڑھ کر جو پرائیویٹ سیکرٹری نے دیا ہے میں نے اوپر کی مزید تشریح لکھ دی ہے تاکہ لوگوں کو پتہ لگ جائے کہ عبد المنان در حقیقت منافقوں کا آلہ کار ہے اور سلسلہ احمدیہ کو جس کا خادم ساری عمر اس کا باپ رہا بد نام کرنا چاہتا ہے.اگر وہ زندہ ہو تا تو یقیناً اپنے اس بیٹے پر لعنت بھیجتا جو خوں ریز وحشیوں کے قدم بقدم چلنے کا مدعی ہے.“ کے قدم قدم چلنے کا د ی ہے.“ (الفضل 12 اگست 1956ء)

Page 375

انوار العلوم جلد 25 351 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (16) احباب جماعت کے نام ” برادران! السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ پچھلے دنوں الفضل میں حاجی نصیر الحق صاحب کی گواہیوں کے سلسلہ میں یہ شائع ہوا تھا کہ گویا اُن کی گواہیاں چودھری اسد اللہ خان صاحب کو تو مل گئی تھیں لیکن انہوں نے میاں بشیر احمد صاحب کے پاس بھجوادی تھیں جنہوں نے اُن کو یہ جواب دیا کہ میں نے عبد الوہاب کو سمجھانے کے لئے میاں عبد المنان کو بھجوایا ہے.ان بیانات سے یہ اثر پڑا تھا کہ گویا میاں بشیر احمد صاحب انکار کرتے ہیں کہ مجھے چودھری اسد اللہ خاں صاحب کی تحریر نہیں ملی.میاں بشیر احمد صاحب کا خط نکال کر دیکھا گیا ہے اس میں یہ درج نہیں کہ چودھری سد اللہ خان نے وہ گواہیاں مجھے نہیں بھجوائیں.بلکہ یہ درج ہے کہ میں نے چودھری اسد اللہ خاں کو ہر گز یہ نہیں کہا کہ میں نے مولوی عبد المنان کو میاں عبد الوہاب کے سمجھانے کے لئے بھیجا.وہ کہتے ہیں کہ میں ایسا کہہ ہی کس طرح سکتا تھا جبکہ میں مولوی عبد المنان کی اندرونی حالت جانتا تھا.چنانچہ ان کا اصل فقرہ درج ذیل ہے اور حالات معلومہ کے ہوتے ہوئے میں یہ الفاظ کہہ بھی نہیں سکتا تھا.“ ”جو کچھ مجھے یاد ہے میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ مولوی عبد الوہاب کو بیہودہ بکو اس کی عادت ہے مگر میں تو صرف ربوہ کا امیر ہوں اور شاید میں نے یہ بھی کہا تھا کہ حضرت صاحب کے ارشاد کے ماتحت یہ معاملہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے یا پھر اس کا تعلق آپ سے ہے جو لاہور کے امیر ہیں.“ مرزا عبد الحق صاحب امیر جماعت ہائے ویسٹ پاکستان فرماتے ہیں کہ انہیں بھی یہ مسودہ میاں بشیر احمد صاحب نے پڑھنے کو دیا تھا.پس جہاں تک مسودہ پہنچنے کا سوال ہے یہ بات گواہیوں سے ثابت ہے.ہاں یہ بات مابه النزاع رہ جاتی ہے کہ میاں بشیر احمد صاحب نے چودھری اسد اللہ خان صاحب سے کیا کہا تھا جو کچھ بھی کہا ہو خدا تعالیٰ پردہ دری پر آ گیا تھا اور میری بیماری کے بڑھنے کے ڈر سے جو بات مجھ سے چھپائی گئی تھی خدا تعالیٰ نے جیسا کہ اُس کی عادت ہے ساری جماعت کے سامنے اسے کھول کر رکھ دیا.

Page 376

انوار العلوم جلد 25 (17) تازه پیغام برادران 352 "بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات خاکسار 66 مرزا محمود احمد “ (الفضل 22 اگست 1956ء) السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ فتنہ پرداز لوگ عزیزم چودھری ظفر اللہ خان صاحب پر اور ان کے خاندان پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کر رہے ہیں.مگر چودھری صاحب کی خصوصاً اور ان کے خاندان کی عموماً خدمات ایسی شاندار ہیں کہ مجھے یا کسی اور کو اس بارے میں لکھنے کی ضرورت نہ تھی.لیکن ہر احمدی چونکہ نہ چودھری صاحب سے پوری طرح واقف ہے نہ ان کے خاندان سے اور چونکہ ایک مخلص دوست نے کراچی سے لکھا ہے کہ چودھری صاحب کے بارے میں جلدی اعلان ہو جانا چاہیئے تھا دیر ہو جانے کی وجہ سے بعض لوگوں کے دلوں میں شبہات پیدا ہو رہے ہیں.اس لئے میں عزیزم چودھری صاحب کا خط بادل نخواستہ الفضل میں شائع کرتا ہوں.بادلِ نخواستہ اس لئے کہ چودھری صاحب اور ان کے والد صاحب مرحوم کی قربانیاں خلافت کے بارے میں ایسی ہیں کہ ان کی براءت کا اعلان خواہ اُنہی کی قلم سے ہی ہو مجھ پر گراں گزرتا تھا لیکن دشمن چونکہ اوچھے ہتھیاروں پر اتر آیا ہے اور جھوٹ اور سچ میں تمیز کرنے کے لئے بالکل تیار نہیں اس لئے میں چودھری صاحب کا خط الفضل میں شائع کرواتا ہوں.جن لوگوں کے دل میں منافقوں کے جھوٹے پروپیگنڈے کی وجہ سے چودھری صاحب کے بارے میں کوئی شک یاتر ڈر پیدا ہوا تھا وہ استغفار کریں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگیں.چودھری صاحب کا یہ شکوہ بجا ہے کہ کیوں نہ میں نے عہد وفاداری کے طلب کرتے ہی خود اپنی طرف سے لکھ دیا کہ چودھری صاحب کے پوچھے بغیر ہی اُن کی وفاداری کا اعلان کرتا ہوں.بے شک اُن کا حق یہی تھا کہ میں اُن کی طرف سے ایسا اعلان کر دیتا.لیکن منافق دشمن اس پر

Page 377

انوار العلوم جلد 25 353 افقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات پروپیگنڈا کر تا کہ دیکھو چو دھری صاحب اتنی دور بیٹھے ہیں پھر بھی یہ شخص جھوٹ بول کر اُن کے منہ میں الفاظ ڈال رہا ہے اور ہم لوگ اس جھوٹ کا جواب دینے کی مشکل میں مبتلا ہو جاتے.چودھری صاحب دور بیٹھے ہیں ان کو معلوم نہیں کہ اس وقت جس دشمن سے ہمار اواسطہ پڑا ہے وہ کتنا جھوٹا ہے.ہزاروں ہزار آدمیوں کی طرف سے وفاداری کا اعلان ہو رہا ہے مگر نوائے وقت پاکستان یہی لکھے جارہا ہے کہ ہمیں معتبر ذرائع سے خبر ملی ہے کہ مرزا محمود کی جماعت زیادہ سے زیادہ متحد ہوتی جارہی ہے کہ ان کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ پیش کرے.پس چودھری صاحب کا اپنا خط چھپنا ہی مناسب تھا.اس خط سے جتنے دشمن کے دانت کھٹے ہوں گے میرے اعلان سے اُتنے کھٹے نہ ہوتے.بلکہ وہ یہ شور مچاتا کہ اپنے پاس سے بنا کر جھوٹے اعلان کر رہے ہیں.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "22-8-41956 (الفضل 26 اگست 1956ء) نقل خط چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب وو بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ہیگ 11/ اگست 1956ء سید نا و امامنا السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ یہاں الفضل کے پرچے ہوائی ڈاک سے ہفتہ میں ایک بار پہنچتے ہیں.ابھی ابھی 31 جولائی لغائت 5/ اگست کے پرچے ملے.14 اگست کے پرچہ میں حضور کا اعلان پڑھا.اُس کے پڑھنے پر یہ خاکسار گزارش کرتا ہے.وو اندریں دیں آمده از مادریم واندریس از دار دنیا بگزریم“ انشاء الله باون سال ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک چہرہ پر نظر پڑنے کی

Page 378

انوار العلوم جلد 25 354 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات خوش نصیبی کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل ور حم اور ذرہ نوازی سے یہ حقیقت ایک بچے کے دل میں راسخ کر دی کہ یہ چہرہ راستباز پہلوان کا چہرہ ہے.پھر جذبات کے ساتھ دلائل ، براہین ، بینات کا سلسلہ شامل ہو گیا اور جاری ہے.حضور کا وجو د یوم پیدائش بلکہ اُس سے بھی قبل سے اِس سلسلہ کا ایک اہم جزو ہے.خاکسار کو یاد ہے کہ 1914ء میں لندن میں جس دن وہ ڈاک ملی جس میں اختلاف کے متعلق مواد آیا تھا تو وہی دن ڈاک کے واپس جانے کا تھا.پس اتنا معلوم ہونے پر کہ اختلاف کیا ہے خاکسار نے بیعت کا خط لکھ کر ڈاک میں ڈال دیا اور باقی حصہ ڈاک بعد میں پڑھا جاتا رہا.اُس دن سے آج تک پھر محض اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم اور ذرہ نوازی سے باوجود اپنی کو تاہیوں، کمزوریوں اور غفلتوں کے وہ عہد جو اُس دن باندھا تھا مضبوط سے مضبوط تر ہو تا گیا آیات اور بینات، انعامات اور نوازشات نے اس تعلق کو وہ رنگ دے دیا ہے کہ خود دل جو اس کی لذات سے تو متواتر بہرہ ور ہوتا ہے اس کی حقیقت کی تہہ کو نہیں پہنچ پاتا چہ جائیکہ قلم اُسے احاطہ تحریر میں لا سکے.اب جو عہد حضور نے طلب فرمایا ہے دل و جان اُس کے مصدق ہیں.جو کچھ پہلے حوالہ کر چکے ہیں وہ اب بھی حوالہ ہے.ظاہری فاصلہ ہونے کی وجہ سے خاکسار یہ التجا کرنے پر مجبور ہے کہ ایسے اعلان کے ساتھ حضور یہ اعلان بھی فرما دیا کریں کہ ہم اپنے فلاں دور اُفتادہ غلام کی طرف سے اس پر لبیک کا اعلان کرتے ہیں تا یہ خاکسار کسی موقع پر ثواب میں پیچھے نہ رہ جائے.حضور کو اِس درجہ حُسنِ ظن رہے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اپنی کمال ستاری اور ذرہ نوازی سے خاتمہ بالخیر کی ہوس کو جو ہر مومن کی آخری ہوس ہوتی ہے پورا کرتے ہوئے فَادْخُلی فی عبدی کی بشارت کے ساتھ اپنے ہاں طلب فرمائے گا.يَا أَبِي أَنْتَ وَ أُمِّي طالب دعا خاکسار حضور کا غلام دستخط ظفر اللہ خاں“ (الفضل 26 اگست 1956ء)

Page 379

انوار العلوم جلد 25 355 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (18) مکرم چودھری محمد عبد اللہ خان صاحب امیر کراچی اور مکرم محمد اقبال شاہ صاحب آف نیروبی مشرقی افریقہ کے اخلاص بھرے خطوط ملنے پر جواب جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان و اخلاص میں برکت بخشے.ایمان کا مقام یہی ہے.میں نے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے سنا ہے کہ ہماری جماعت میں تین قسم کے لوگ ہیں.ایک وہ جو مولوی صاحب یعنی حضرت خلیفہ اول کی وجہ سے داخل ہوئے ہیں، ایک وہ طبقہ جو تعلیم یافتہ ہے اور اس لئے ہماری جماعت میں داخل ہوا ہے کہ یہ منظم جماعت ہے.ان کی وجہ سے سکول اور کالج کھولے جائیں.ایک وہ جو میرے الہام اور میری صداقتوں کو دیکھ کر ایمان لائے ہیں.میں پہلی دو قسموں پر اعتبار نہیں کرتا، یہ ہر وقت مرتد ہو سکتے ہیں.میں صرف اُن کو احمدی سمجھتا ہوں جو تیسرے گروہ میں شامل ہیں.“ (19) ایک تازہ رویا (الفضل 26 اگست 1956ء) یہ خواب 31 / اگست اور یکم ستمبر کی درمیانی رات کو دیکھی گئی.میں نے دیکھا کہ اماں جی بھی اس دنیا میں آئی ہوئی ہیں اور فرشتے سارے جو میں وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے.یہ دونوں جھوٹے وعدے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر

Page 380

انوار العلوم جلد 25 356 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات آمادہ کرنے کے لئے ہیں.اس آخری حصہ پر فرشتے زیادہ زور دیتے ہیں.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 66 "1-9-41956 " (20) ایک تازہ رؤیا وو (الفضل 7 ستمبر 1956ء) یہ رویا کیم اور 2 ستمبر 1956ء کی درمیانی رات کی ہے.میں نے خواب میں دیکھا جیسے کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے (اغلبا فرشتہ ہی ہو گا کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اُس کی یہ غرض ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے.یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو وہ کس سرعت سے آپ کے ساتھ مڑتی ہے.یا جب آپ اپنی منزلِ مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزلِ مقصود کو اختیار کر لیتی ہے.جب وہ فرشتہ یہ کہہ رہا تھا تو میری آنکھوں کے سامنے جلا ہوں کی ایک لمبی تانی آئی جو بالکل سیدھی تھی اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ صراطِ مستقیم کی مثال ہے جس کی طرف آپ کو خدا لے جارہا ہے اور ہر فتنہ کے موقع پر وہ دیکھتا ہے کہ کیا جماعت بھی اسی صراطِ مستقیم کی طرف جارہی ہے یا نہیں.تانی دکھانے سے یہ بھی مراد ہے کہ کس طرح نازک تاگے آپس میں باندھے جا کر مضبوط کپڑے کی صورت اختیار کر لیتے ہیں یہی حالت جماعت کی ہوتی ہے.جب تک ایک امام کا رشتہ اُسے باندھے رکھتا ہے وہ مضبوط رہتی ہے اور قوم کے ننگ ڈھانکتی رہتی ہے لیکن امام کا رشتہ اس میں سے نکال لیا جائے تو ایک چھوٹا بچہ بھی اُسے توڑ سکتا ہے اور وہ تباہ ہو کر دنیا کی یاد سے مٹادی جاتی ہے.فَتَدَبَّرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ نوٹ: کچھ عرصہ سے میں نے اپنی خواہیں چھپوانی بند کر دی تھیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ میرا اخیال ادھر پھر گیا تھا کہ رؤیا کو با قاعدہ چھپوانا ماموروں کا کام ہے لیکن اب

Page 381

انوار العلوم جلد 25 357 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اس فتنے میں بہت سی پرانی رؤیا نکلیں جو آب شائع کی جائیں گی جن میں تفصیل کے ساتھ موجودہ فتنہ کو بیان کیا گیا ہے.ممکن ہے درمیانی عرصہ کی خواہیں بھی شائع ہو جاتیں تو اور کئی رؤیا جماعت کے جماعت کے ایمان کے بڑھانے کا موجب ثابت ہو تیں.پس میں نے مناسب سمجھا کہ مامور کی نقل کے طور پر نہیں بلکہ جماعت کے ایمان کو زیادہ کرنے اور ان میں بھی تعلق باللہ پیدا کرنے کی خواہش کی غرض سے بعض اہم خواہیں یا کشوف شائع ہوتے رہنے چاہئیں.دوسرے دوستوں کو بھی چاہیئے کہ اگر اللہ تعالیٰ ان کو خواب دکھائے یا الہام سے نوازے تو وہ بھی اطلاع دیتے رہا کریں تا کہ جن کو خواب یا الہام نہیں وتے وہ بھی دعاؤں اور درود کے ذریعہ سے اس انعام کو حاصل کرنے کی کوشش کریں.جن خوابوں کو میں تعبیر کے لحاظ سے اہم سمجھوں گا الفضل میں شائع کرنے کے لئے دے دوں گا.مگر دوستوں کو اصرار نہیں ہونا چاہیئے کہ اُن کی خواب ضرور شائع ہو.کیونکہ خواب اور الہام کے ضرور شائع کرنے کا حکم صرف مامور کو ہو تا ہے بلکہ مامور کو بھی بعض خوابوں اور الہاموں کے شائع کرنے سے روک دیا جاتا ہے.وہ وحی جس کو ہر صورت میں شائع کرنے کا حکم ہوتا ہے وحی متلو ہوتی ہے اور ایسی وحی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی.اب ہمارے ایمان اور علم کے مطابق قیامت تک کسی انسان پر ایسی وحی نازل نہیں ہو گی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر ایسی وحی نازل نہیں ہوئی اور اسی وجہ سے آپ سے پہلے نبیوں کی وحی کے محفوظ رکھنے کا خدا تعالیٰ نے وعدہ نہیں کیا.یہ کمال صرف قرآن کو حاصل ہے اور اسی کو قیامت تک حاصل رہے گا.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "3-9-41956 (الفضل 5 ستمبر 1956ء)

Page 382

انوار العلوم جلد 25 358 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (21) روزنامہ سفینہ کی ایک افترا کا جواب وو ” سفینہ لاہور مورخہ 5 ستمبر نے لکھا ہے مرزا صاحب نے اپنے خطبہ میں فتنہ میں حصہ لینے والوں کو گھٹیا قسم کے لوگ کہا ہے.نیز کہا ہے کہ ان میں کوئی عالم اور صاحب رویا نہیں.اس کے بعد پوچھا ہے کہ مرزا صاحب بتائیں کہ مندرجہ ذیل عالم نہیں ہیں؟ عبد المنان عمر ایم.اے مولوی فاضل، علی محمد اجمیری مولوی فاضل، ملک عبد الرحمن خادم بی.اے.ایل.ایل.بی، محمد صالح نور مولوی فاضل، محمد حیات تاثیر مولوی فاضل نیز مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی عالم اور صاحب کشف نہیں تھے ؟ جس خطبہ کا حوالہ دیا گیا ہے اُس میں لکھا ہے کہ جو شخص کسی خواب کے ذریعہ سے یا آسمانی دلائل کے ذریعہ سے مجھ پر ایمان لایا ہے اگر وہ اس فتنہ میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ خود اپنے آپ کو کذاب کہتا ہے.اُسے ہر شخص کہے گا کہ اے بیوقوف ! اگر صداقت وہی ہے جس کا ثواب اظہار کر رہا ہے تو تُو نے اپنی خواب کیوں شائع کرائی تھی؟ اس کے بعد فتنہ کرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت تک جن لوگوں نے اس فتنہ میں حصہ لیا ہے وہ نہایت ذلیل اور گھٹیا قسم کے ہیں ایک بھی ایسی مثال نہیں پائی جاتی کہ جماعت کے صاحب علم اور تقویٰ اور صاحب کشوف لوگوں میں سے کوئی شخص فتنہ میں مبتلا ہوا ہو.سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے پاؤں پر کہ ہیں.صرف بعض ادنیٰ قسم کے لوگ تھے جنہوں نے کہا کہ حضرت خلیفہ اول کی اولاد ایسا کہہ رہی ہے ہم کیا کریں.میں ایسے لوگوں سے کہتا ہوں کہ 42 سال تک جو تم نے میری بیعت کئے رکھی تھی تو کیا تم نے مجھے حضرت خلیفہ اول کی اولاد کی وجہ سے مانا تھا؟ اس مضمون کو پڑھ کر ہر عظمند سمجھ سکتا ہے کہ ایڈیٹر ”سفینہ“ نے جو اپنی لسٹ میں مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کا نام شامل کیا ہے وہ ہوش و حواس میں نہیں کیا.خطبہ میں ذکر تو موجودہ فتنہ کا تھا جو حضرت خلیہ اول کی اولاد کی وجہ سے ہو رہا ہے اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے ایل ایل بی اس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے ہیں.چار سال پہلے فوت ہونے والے شخص کا ذکر اس فتنہ کے سلسلہ میں ایڈیٹر سفینہ کے سوا کون کر سکتا ہے.

Page 383

انوار العلوم جلد 25 359 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات 31 اگست والے خطبہ میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے کہ جن لوگوں کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ وہ ہیں جو علم روحانی اور تقویٰ رکھتے ہیں اور صاحب کشوف ہیں اور پھر بھی اس فتنہ میں شامل ہیں.اور کہا گیا ہے کہ ایسا کوئی شخص نہیں.ایڈیٹر ”سفینہ“ نے جو مولوی عبد المنان عمر ایم اے کا نام لکھا ہے تو کس وجہ سے ؟ کیا وہ ان کی کوئی کشف بتا سکتا ہے جو انہوں نے کسی کتاب یا اخبار میں شائع کی ہو.اور کچھ عرصہ کے بعد وہ پوری ہو گئی ہو.ایم اے اور مولوی فاضل ہونا تو اس بات کی علامت نہیں کہ اُن کو علم روحانی اور تقویٰ حاصل ہے اور وہ صاحب کشف ہیں.اگر ایم اے اور مولوی فاضل ہونا اس بات کی دلیل ہو تا تو حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ، اور حضرت علی کو تو جواب مل جاتا.بلکہ عیسائی لوگ تو یہ بھی کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( نعوذ باللہ ) صاحب کشف اور الہام نہیں تھے کیونکہ سفینہ کے ایڈیٹر کے بتائے ہوئے معیار کے مطابق نہ وہ ایم اے تھے نہ مولوی فاضل.یہی جواب علی محمد اجمیری کے متعلق ہے اور یہی جواب محمد صالح نور اور محمد حیات تاثیر کے متعلق ہے.محمد صالح نور اور محمد حیات بے شک مولوی فاضل ہیں لیکن وہ دونوں مبایعین احمدیوں کے خرچ سے مولوی فاضل ہوئے ہیں اور پھر دونوں میں سے کسی کو صاحب کشف ہونے کا دعویٰ نہیں.اگر ہے تو سفینہ کا ایڈیٹر ان کے کشف اور خواب شائع کرے جو انہوں نے دو تین سال پہلے اخبار یا کتابوں میں چھپوائے ہوں اور پھر پورے ہوئے ہوں.اسی طرح مولوی علی محمد اجمیری کے بھی کشف شائع کریں.باقی رہے ملک عبد الرحمن صاحب خادم تو وہ ان لوگوں کے مخالف ہیں ان کا نام میرے مخالفوں میں لکھنا محض شرارت ہے.غرض مولوی محمد علی صاحب کا نام لکھنا جو اس فتنہ سے چار سال پہلے فوت ہو چکے تھے اور ملک عبد الرحمن صاحب خادم کا نام لکھنا جو میرے وفادار مرید ہیں اوّل درجہ کی بد دیانتی اور خباثت ہے.اگر سفینہ کے ایڈیٹر کو سچائی کا کوئی بھی احساس ہے تو وہ یہ ثابت کرے کہ مولوی محمد علی صاحب اس فتنہ کے وقت زندہ تھے اور ملک عبد الرحمن صاحب خادم کا بیان شائع کرے کہ وہ میرے مخالف تھے.اور مولوی عبد المنان اور مولوی اجمیری اور صالح نور اور محمد حیات تاثیر کی وہ کشوف

Page 384

انوار العلوم جلد 25 360 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات شائع کرے جو انہوں نے آج سے چند مہینے یا چند سال پہلے شائع کئے ہوں اور وہ پورے ہو گئے ہوں.اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو ہمارا جواب اس کو یہ ہے کہ لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.اس مضمون کے لکھنے کے بعد ملک عبد الرحمن صاحب خادم کا اپنا خط بھی ملاجو شائع کیا جارہا ہے اور جو ایڈیٹر سفینہ کے جھوٹ کا ایک بین ثبوت ہے.مرزا محمود احمد "8-9-1956 (الفضل 11 ستمبر 1956ء) (22) مولوی علی محمد صاحب اجمیری کے خط کا جواب مولوی علی محمد صاحب اجمیری آپ کا خط ملا.آپ نے میری اس بات کی تردید کی ہے کہ مرزا بشیر احمد صاحب کے متعلق اللہ تعالیٰ کے الہام ہیں وہ ان کو بچالیں گے.اور لکھا ہے.میاں منان کے متعلق آپ نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں.حالانکہ یہ صریحاً جھوٹ ہے.میں نے جو الفاظ عبد المنان کے متعلق استعمال کئے ہیں وہی عبد الوہاب کے متعلق کئے ہیں.اور لکھا ہے کہ میاں عبد الوہاب اور عبد المنان پارٹی ناکام و نامراد رہے گی، خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا.اور یہ خلیفہ گر دونوں جہاں کی ناراضگی خدا تعالیٰ کی طرف سے حاصل کریں گے.کیا یہ سخت لفظ ہیں کہ عبد الوہاب اور عبد المنان پارٹی ناکام و نامرادر ہے گی اور خدا جس کو چاہے گا خلیفہ بنائے گا؟ آپ نے لکھا ہے یہ دونوں کسی کی زبان نہیں پکڑ سکتے.گویا آپ کے نزدیک پارٹی ۷ مگر یہ اس میں شامل نہیں.میں نے بھی تو یہی لکھا تھا کہ عبد الوہاب اور عبد المنان پارٹی ناکام رہے گی.گویا آپ کے نزدیک اگر پارٹی عبد المنان کا نام لے تو خدا کی نصرت اسے حاصل ہو گی، شاید کسی اور کا نام لے تو تباہ ہو جائے گی.گویا آپ کے نزدیک خدا کا الہام اور آپ کا علم برابر ہیں.آپ نے دونوں باتوں کا ایک نتیجہ نکالا ہے.میں نے تو یہ لکھا تھا کہ چونکہ میاں بشیر احمد صاحب کے متعلق حضرت صاحب کے الہامات ہیں تو ہے

Page 385

انوار العلوم جلد 25 361 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اس لئے وہ بچ جائیں گے جس سے معلوم ہوا کہ خدا تعالیٰ کو علم تھا کہ میاں بشیر ایسی حرکت نہیں کریں گے.ورنہ ان کے متعلق بشارتوں کے الہام ہی کیوں بھیجتا.مگر آپ عالم الغیب نہیں.آپ منان کے متعلق جو کچھ کہتے ہیں وہ اپنے علم کی بناء پر کہتے ہیں اور اپنے علم اور خدا کے علم کو برابر قرار دیتے ہیں.خدا تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی فرماتا ہے کہ ان کا علم بھی خدا تعالیٰ کے علم کے برابر نہیں.پس خدا تعالیٰ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو بھی اپنے علم کے مقابلہ میں کم قرار دیتا ہے مگر آپ اپنے علم کو خدا تعالیٰ کے علم کے برابر سمجھتے ہیں اور یہ دہریت کی علامت ہے.اگر یہ حالت جاری رہی تو آپ ایک دن دہریت پر پہنچ کر رہیں گے.میں آپ کو جانتا ہوں لیکن باوجود اس کے میں آپ کی باتوں کو تسلیم نہیں کر سکتا.کیونکہ آپ نے اُس شخص کا نام نہیں لکھا جس نے آپ کو یہ کہا تھا کہ پیپل کے نیچے کھڑے ہونے والے آدمیوں میں سے ایک آپ تھے جب تک آپ اس شخص کا نام نہ بتائیں اور میں اُس سے پوچھ نہ لوں میں آپ کو کذاب سمجھتا ہوں.قرآن کریم فرماتا ہے إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا 21 یہ ٹھیک ہے کہ یہ 27، 28 سال کا پر انا واقعہ ہے مگر آپ کا حافظہ مجھ سے زیادہ کمزور ہے.آپ نے لکھا ہے کہ عبد الوہاب اس میں شامل نہیں تھے لیکن میرے پاس خود میاں زاہد سے سننے والے ایک شخص کی شہادت موجود ہے کہ مجھ سے انہوں نے کہا کہ عبد الوہاب ہماری سازش میں شامل تھا.مگر وہ اس لئے بچ گیا کہ وہ خلیفہ اول کا بیٹا تھا اور ہم غریب مارے گئے.ایک شہادت میرے پاس آچکی ہے اور ایک دوسری شہادت کے متعلق خبر ہے کہ وہ بھی انشاء اللہ آجائے گی.آپ تو یہ سمجھتے تھے کہ آپ کا اور وہاب کا خط میاں زاہد کے پاس گیا ہے لیکن وہ خدا تعالیٰ نے میرے پاس پہنچا دیا تھا.میاں زاہد نے اُس پر جو جواب لکھا تھا وہ خط لے جانے والے نے مجھے دے دیا تھا.خد اتعالیٰ نے وہ گواہ بھی مہیا کر دیئے ہیں جنہوں نے یہ گواہی دی ہے کہ 1915ء میں یا اس کے قریب میاں عبد السلام اور میاں عبد المنان شملہ آئے.چونکہ ہم لوگ

Page 386

انوار العلوم جلد 25 362 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات خلافت اور نبوت کے جھگڑے کی وجہ سے ہی احمدی ہوئے تھے ، تازہ تازہ جوش تھا، آنکھیں کھلی رکھتے تھے مولوی عبد السلام بھی مولوی محمد علی سے ملے اور میاں منان عید کے دن اُن کی گود میں بیٹھے اور اُن سے نذرانہ وصول کیا.مولوی عمر دین شملوی نے جب مولوی عبد السلام کو طعنہ دیا کہ آپ کا بھائی نذرانہ لے کر آیا ہے اور آپ ملاقات کر کے آئے ہیں تو انہوں نے کہا کہ آپ کو ہمارے ذاتی تعلقات میں دخل دینے کا کیا حق ہے؟ یعنی جو لوگ اس ناخلف اولاد کے باپ کی مخالفت کرتے تھے اور اس کو مرتد اور ظالم قرار دیتے تھے اُن سے دوستی اور محبت رکھنے پر کیوں اعتراض کیا.آخر میں آپ نے مصری صاحب کو اپنی براءت میں پیش کیا ہے.مصری صاحب تو خود پیغامیوں میں بیٹھے ہیں میں اُن کی گواہی کس طرح مان سکتا ہوں.نہ میں نے اُن کو کمیشن مقرر کیا اور نہ اُن کے بری کرنے سے آپ بری ہو جاتے ہیں.یہ جو آپ نے لکھا ہے کہ اُس وقت آپ کی غلط فہمی دور ہو گئی تھی یہ بھی جھوٹ ہے.میری غلط فہمی کبھی دور نہیں ہوئی.میں آپ کو اس عرصہ میں ایمان کا کمزور ہی سمجھتارہا ہوں.اس معاملہ کا دوبارہ ذکر نہ کرنا میری حیاء کی علامت ہے آپ کے ایمان کی علامت نہیں.میں نے تو عبد المنان ، عبد الوہاب اور عبد السلام کی باتوں کا بھی دوبارہ ذکر نہیں کیا.نہ اتاں جی کی باتوں کا دوبارہ ذکر کیا.چنانچہ اسی وجہ سے بعض لوگوں نے پچھلے دنوں مجھ سے کہا(غالباً شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور نے) کہ آپ 25 سال سے ان لو گوں کو معاف کرتے آئے ہیں، اب بھی خاموشی اختیار کر لیں.تو میں نے کہا یہ جو کچھ ہو رہا ہے 25 سال کی معافی کا تو نتیجہ ہے، اگر میں آج سے 25 سال پہلے ان لوگوں کی شرارتوں کو ظاہر کر دیتا تو آج یہ جماعت سے الگ ہو چکے ہوتے اور پیغامیوں کی گود میں بیٹھے ہوتے.اللہ تعالیٰ نے تو ایسے گواہ بھی بھجوائے ہیں جو اپنے اپنے علاقہ میں راستباز اور ثقہ مانے جاتے ہیں اور جو بتاتے ہیں کہ ہم سے خود مولوی حبیب الرحمن احراری کے باپ نے شملہ میں ذکر کیا کہ مولوی عبد الوہاب ہمارے ایجنٹ ہیں اور ہم نے ان کو مرزائیوں کی خبریں لانے پر مقرر کیا ہوا ہے وہ چودھری افضل حق پریذیڈنٹ جماعت احرار سے بھی لمبی لمبی ملاقاتیں کرتے ہیں.

Page 387

انوار العلوم جلد 25 363 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات مجھے کسی اور سے پوچھنے کی ضرورت نہیں.میرے لئے میاں زاہد کی گواہی اور اپنا حافظہ کافی ہے.آپ نے جو کچھ سید مسعود احمد کی گواہی کی تردید میں لکھا ہے اس بارہ میں آپ کچھ واقعات بھول گئے.میں نے جو کچھ کہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت الہی کے بارہ میں کہا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے ذکر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے سب سے مقدم ہے.عیسائی تو خدا پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن میں حیض اور لواطت کا ذکر ہے.ایسی علمی کتاب جس کے پڑھنے کا عورتوں اور لڑکیوں کو بھی حکم ہے اس میں ایسا ذکر آنا بہت نامناسب ہے.لیکن خدا تعالیٰ نے ان معترضین کی بات نہیں مانی.میں بھی آپ کی بات کو کوئی وقعت نہیں دیتا.سید مسعود آپ کے روحانی باپ کا بیٹا ہے آپ اعلان کر دیں کہ وہ جھوٹا اور کذاب ہے وہ خود جواب دے لے گا.مجھے اس جھگڑے میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے.فرق صرف اتنا ہے کہ میر محمد اسحق فوت ہو چکے ہیں اور منان زندہ ہے.میر محمد اسحق کی زندگی میں آپ اُن کی جوتیاں چاٹا کرتے تھے.میاں عطاء اللہ صاحب کے متعلق جو آپ نے لکھا ہے وہ جھوٹ ہے.آپ کی غرض ہے کہ میں ان کو بھی منافق سمجھوں.یہی کوشش آپ کے برادر مخلص اللہ رکھا نے بھی کوہستان میں کی ہے.انگریزی کی ایک مثل ہے ”Cat is out of bag“ یعنی بلی تھیلے سے باہر آگئی.اسی پر آپ نے عمل کیا ہے اور اپنے خط سے ظاہر کر دیا ہے کہ اخباروں میں ایسی باتیں لکھنے والے کے پیچھے کون ہے.آپ نے لکھا ہے کہ ان باتوں کی جانچ کے لئے ایک کمیشن مقرر کر دیں.میں خلیفہ ہوں آپ خلیفہ نہیں ہیں.جو احمدی کمیشن کے حق میں ہیں آپ اُن کو اور منان کو لے کر الگ ہو جائیں اور اپنی الگ خلافت قائم کر لیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.منافقوں کے خلاف کیا کیا اعلان کئے ہیں ؟ مگر بتائیں کہ انہوں نے کتنے کمیشن مقرر کئے تھے ؟ موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام نے کتنے کمیشن مقرر کئے تھے ؟ کم سے کم

Page 388

انوار العلوم جلد 25 364 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات عبد المنان کے والد کو تو آپ مانتے ہیں ؟ انہوں نے کتنے کمیشن مقرر کئے تھے.پیغامی اُن کے خلاف یہی شور مچاتے تھے کہ آپ یو نہی سنی سنائی باتیں ہمارے متعلق مان لیتے ہیں، تحقیقات نہیں کرتے.کچھ عرصہ سے غیر احمدی اخباروں میں بھی کمیشن کا سوال شروع ہے مگر جن لوگوں کے کہنے پر وہ یہ بات لکھتے ہیں اُن کے نام نہیں لکھتے.معلوم ہوتا ہے کہ ان اخباروں کی تاریں بھی کسی ایسے ہی خیالات والے ہاتھ میں ہیں.آپ خواہ کتنا ہی شور مچائیں جماعت کبھی کمیشن کے معاملہ میں آپ سے متفق نہیں ہو گی.آپ کو معلوم ہو گا کہ خوارج نے بھی حضرت علی کے سامنے کمیشن کا سوال پیش کیا تھا.اور بعد میں اسی بناء پر حضرت علیؓ سے بغاوت کی تھی.اگر آپ یہ باتیں بھول گئے ہوں تو اسلامی تاریخ کے بہ اوراق پھر پڑھ لیں.اس کمیشن کے مقرر کرنے پر جو اُن کی اپنی درخواست پر مقرر ہوا تھا انہوں نے حضرت علی پر نعوذ باللہ کفر کا فتویٰ لگایا تھا.اگر آپ کبھی اپنے دوست پیغامیوں کے پاس لاہور جائیں تو اُن کی لائبریری میں تاریخ طبری اور تاریخ ابن زبیر مل جائیں گی اُس سے آپ کا حافظہ تیز ہو جائے گا.جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھ پر کامل اعتماد رکھتی ہے.نہ وہ کسی حکومت کے حکم سے میری بیعت میں داخل ہوئی اور نہ اسے میری بیعت سے نکلنے سے میں روک سکتا ہوں.جب تک اُس کا ایمان قائم ہے وہ میرے ساتھ رہے گی اور کسی مولوی یا اخبار کے کہنے پر کمیشن کا مطالبہ نہیں کرے گی.وہ جانتی ہے کہ اگر ہمیں خلیفہ پر اعتبار نہ رہا تو ہم اِسے چھوڑ دیں گے.پھر کمیشن کے مطالبہ کے معنے کیا ہوئے.مرزا محمود احمد 66 8-9-1956 (الفضل 13 ستمبر 1956ء) (23) چاہیئے کہ خلیفہ اپنے بیٹے کو خلافت کے لئے نامزد نہ کرے ” خاکسار نے حضرت.......خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی 1914ء کی تقریر ” برکات خلافت“ کے مندرجہ ذیل فقرات بغرض تشریح پیش کئے تھے:.وو

Page 389

انوار العلوم جلد 25 365 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات وہ نادان جو کہتا ہے کہ گدی بن گئی ہے اُس کو میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں تو یہ جائز ہی نہیں سمجھتا کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ ہو.ہاں اگر خدا تعالیٰ چاہے مامور کر دے تو یہ الگ بات ہے اور حضرت عمر کی طرح میرا بھی یہی عقیدہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا خلیفہ نہیں ہونا چاہیئے“.(صفحہ 22) حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کے جواب میں مندرجہ ذیل کلمات تحریر فرمائے ہیں (خاکسار ابو العطاء جالندھری) " یعنی باپ کو بیٹے کو اپنا خلیفہ نامزد نہیں کرنا چاہئے جس طرح حضرت عمرؓ نے منع فرمایا 22 کیونکہ جو پانچ آدمی انہوں نے خود نامز دکئے تھے نہ کہ جماعت نے اُن میں اُن کا بیٹا بھی تھا.اس لئے آپ نے فرمایا اسے مشورہ میں شامل کرو خلیفہ مت بنانا.پس معلوم ہوا کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک باپ اپنے بعد بیٹے کو خلیفہ نامزد نہیں کر سکتا.مگر حضرت علی نے اس کے خلاف کیا اور اپنے بعد حضرت حسن کو خلیفہ نامزد کیا 23.میرا رجحان حضرت علیؓ کی بجائے حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی طرف ہے خود حضرت حسن بھی مجھ سے متفق نظر آتے ہیں کیونکہ انہوں نے بعد میں حضرت معاویہ کے حق میں دست بر داری دے دی.اگر وہ یہ سمجھتے کہ باپ، بیٹے کو اپنے بعد خلیفہ بنا سکتا ہے تو کبھی دسہ بردار نہ ہوتے کیونکہ خلافت حقہ کا چھوڑنا ارشادِ نبوی کے مطابق منع ہے.مگر حضرت علی نے بھی غلطی نہیں کی.اُس وقت حالات نہایت نازک تھے.کیونکہ خوارج نے بغاوت کی ہوئی تھی اور دوسری طرف معاویہ اپنے لشکروں سمیت کھڑے تھے.انہوں نے ایک چھوٹی سی تبدیلی کو بڑے فساد پر ترجیح دی کیونکہ حضرت حسن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیشگوئیاں موجود تھیں.ممکن ہے حضرت علی نے اور احتیاطیں بھی کی ہوں جن سے جمہور مسلمانوں کے حق کو محفوظ کر دیا ہو.گو وہ مجھے اس وقت یاد نہیں.مرزا محمود احمد "8-9-1956 (الفضل 15 ستمبر 1956ء)

Page 390

انوار العلوم جلد 25 366 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات وو (24) ہفت روزہ ” چٹان“ کا ایک ادارتی نوٹ ” اتفاقاً ایک پرچہ چٹان کا دفتر نے بھجوایا ہے.ممکن ہے انہوں نے خریدا ہویا کسی دوست نے بھجوایا ہو.اس کے صفحہ 5 پر ایک مضمون ہے جس کا عنوان ہے "الفضل کی خدمت میں اس میں لکھا ہے کہ بعض قادیانی حضرات نے گمنام خطوط لکھنے شروع کئے ہیں جن میں دشنام دہی کا ایسا اسلوب اختیار کیا گیا ہے جو خلیفتہ المسیح اپنے لئے سننے کو تیار نہ ہوں گے.گمنام خط خواہ قادیانی بھیجے یا حنفی یا وہابی یا مودودی یا شیعه یا نیچری یا اہل قرآن بر ا ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ جب تمہیں کوئی خبر آئے تو خبر لانے والے شخص کے حالات کو دریافت کر لیا کر و 24 اور گمنام خط لکھنے والے کے حالات دریافت نہیں کئے جاسکتے.پس ایسا شخص چاہتا ہے کہ مکتوب الیہ قرآن کریم کے حکم کی نافرمانی کرے اور گویا اباحت پھیلاتا ہے.پس مجھے چٹان“ کے ایڈیٹر صاحب سے اس بات میں پوری ہمدردی ہے کہ ان کے نام بعض لوگ بغیر اپنا نام ظاہر کرنے کے ایسے خط بھیجتے ہیں جن میں گالیاں ہوتی ہیں.حقیقتا تو اگر اُن خطوں میں ایڈیٹر صاحب چٹان کی تعریف بھی ہو تو بوجہ ان خطوں کے گمنام ہونے کے اُن کے لکھنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے مجرم ہے اور اسے اپنے گناہ سے تو بہ کرنی چاہیئے ورنہ وہ خدا تعالیٰ سے سزا پائے گا.مگر مجھے ایک بات پر تعجب ضرور ہے کہ باوجود ان خطوں کے گمنام ہونے کے ایڈیٹر صاحب چٹان کو یہ کیونکر معلوم ہو گیا کہ و قادیانیوں کے لکھے ہوئے ہیں.ممکن ہے کہ بعض ”قادیانیت“ کے دشمن لوگوں نے ایڈیٹر صاحب چٹان کو غصہ دلانے کے لئے ایسے گمنام خط لکھے ہوں.جب یہ بات ممکن ہے اور جب وہ خط گمنام بھی ہیں تو تقویٰ کا طریق یہی تھا کہ ایڈیٹر صاحب چٹان اُن خطوں کو تو پھاڑ کر ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے کہ اے خدا! مسلمانوں پر رحم کر خواہ وہ کسی فرقہ کے ہوں کہ وہ ایسی گندی باتوں سے بچا کریں.ایک بات ایڈیٹر صاحب چٹان نے ایسی لکھی ہے کہ مجھے اس کی تائید کرنی پڑتی ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ الفضل نے معاصر نوائے وقت کے ساتھ ہم پر بھی یہ الزام چسپاں کیا ہے کہ ہم کسی کے روپے سے احمدی منافقین کی مدد کر رہے ہیں.یہ لکھ کر وہ لکھتے ہیں

Page 391

انوار العلوم جلد 25 367 25.منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِینَ.میرے نزدیک جب تک کوئی معتین ثبوت نہ ہو کسی مقابل کے متعلق ایسی بات لکھنا تقویٰ کے خلاف ہے.ہمارے متعلق ہمیشہ غیر احمدی کہتے رہے ہیں کہ انگریزوں سے روپیہ لے کر انہوں نے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا ہے اور ہم ہمیشہ اسے بُرا مناتے رہے ہیں.وہی طریقہ اپنے مخالف کے متعلق استعمال کرنانہایت معیوب اور بُرا ہے.یا تو ایڈیٹر الفضل کے پاس ایسا ثبوت موجود ہو جس کی بناء پر وہ اپنے بیوی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھ کر لَعْنَةُ الله عَلَى الْكَاذِبِينَ کے حکم کے مطابق قسم کھا کر چٹان پر یہ الزام لگا سکے کہ اُس نے کسی سے روپے کھائے ہیں اور اس کی وجہ سے وہ ہمارا مخالف ہے یا پھر اسے چٹان کے دعویٰ کو قبول کرنا چاہیئے اور مومنوں کی طرح معذرت کرنی چاہیئے کہ ہم نے بعض افواہوں یا قیاسوں کی بناء پر الزام لگا یا ورنہ ہم اس الزام پر لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ نہیں کہہ سکتے.قرآن کو اونچا کرنے کے لئے اپنا سر نیچا کر لینا بڑی عزت کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ سچا احمدی وہ ہے جو سچا ہو کر جھوٹا بنے تھے.اِس کے یہ معنے نہیں کہ وہ سچ بولے اور کہے کہ میں نے جھوٹ بولا تھا.بلکہ یہ معنے ہیں کہ اگر وہ کوئی ایسی بات کہے جسے وہ سچا سمجھتا تھا مگر قرآن کریم اُسے ایسا کہنے کی اجازت نہ دیتا ہو تو فوراً معذرت کرے اور اپنے مخاصم کی بات کو تسلیم کرلے.ایڈیٹر صاحب الفضل اس بات سے نہ ڈریں کہ بعض دوسرے لوگ اِس سے اُن کے سر چڑھ جائیں گے کیونکہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ اگر تو ہمارے حکم کے مطابق فروتنی دکھائے گا تو ہم خود تیری طرف سے ہو کر لڑیں گے.اور یہ ظاہر ہے کہ ایڈیٹر صاحب الفضل کی لڑائی سے خدا تعالیٰ کی لڑائی زیادہ سخت ہے.26 آخر میں میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جہاں ایڈیٹر صاحب الفضل کو نصیحت کی ہے وہاں میرے متعلق بھی لکھا ہے کہ جو باتیں آپ اپنے لئے پسند نہیں کرتے وہ دوسروں کے متعلق مت لکھیے یا لکھوائیے حالانکہ ایڈیٹر صاحب چٹان نے جس دلیری سے الفضل کے الزام کے مقابلہ میں لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ کہا ہے اس فقرہ کے متعلق وہ لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ نہیں کہہ سکتے اور نہ میں ان سے اس کا مطالبہ

Page 392

انوار العلوم جلد 25 368 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات کرتا ہوں کیونکہ اس نوٹ کے لکھتے وقت ان کا دل دُکھا ہوا تھا اور ایسی حالت میں بعض دفعہ انسان پورا موازنہ نہیں کر سکتا.مرزا محمود احمد 66 "19-9-1956 (الفضل 22 ستمبر 1956ء) (25) جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے ایک ریزولیوشن پر ارشاد دو ایسا ہی ایک ریزولیوشن جماعت ربوہ نے بھی پاس کر کے بھیجا ہے وہ میں بعد میں بھجوادوں گا.اُس میں اور ناموں کا ذکر ہے.چونکہ ہر جگہ کی جماعت مبایعین کو یہ حق ہے کہ اگر اپنے علاقہ میں رہنے والے کسی احمدی کی نسبت یہ شک کریں کہ وہ جماعت مبایعین جیسے خیالات نہیں رکھتا تو اس کے متعلق یہ ریزولیوشن پاس کر دیں کہ وہ ہماری جماعت کا ممبر نہیں سمجھا جائے گا تا کہ آئندہ اس کے ذریعہ سے اٹھایا ہوا فتنہ اس جماعت کی طرف منسوب نہ ہو اور وہ اُس جماعت کا ممبر ہونے کی حیثیت سے احمد یہ جماعت کے کسی عہدہ کے حصول کے لئے کوشش کرنے کا راستہ تلاش نہ کرے.پس میں جماعت احمدیہ لاہور اور ربوہ کو ان کے ریزولیوشنوں کے حق ہونے کی وجہ سے اُن کے ریزولیوشنوں کی تصدیق کرتا ہوں.“ (الفضل2 اکتوبر 1956ء) (26) محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا خط اور اس پر تبصرہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا ایک ضروری خط ذیل میں درج کیا جاتا ہے اس خط سے دو اہم امور کا فیصلہ ہو جاتا ہے.ایک امر وہ پروپیگینڈا ہے جو مولوی عبد المنان صاحب کے ساتھی جماعت میں کر رہے ہیں کہ گویا مولوی عبد المنان کی علمی تحقیقاتوں اور کارروائیوں کا شہرہ امریکہ تک پہنچا جس پر امریکہ نے اُن کو اپنے ملک میں تقریر کی

Page 393

انوار العلوم جلد 25 369 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات دعوت دی اور پتالگ جاتا ہے کہ یہ دعوت چودھری ظفر اللہ خان صاحب کی سفارش پر ہوئی تھی نہ کہ ان کی عالمی شہرت کی وجہ سے.جیسا کہ تھوڑے دنوں میں تحقیقی طور پر ثابت ہو جائے گا مولوی عبد المنان صاحب کی مسند احمد کی تبویب نہ کوئی نیا کارنامہ ہے نہ کوئی علمی تحقیق ہے.یہ کام کوئی چالیس سال سے مسلمانوں میں ہو رہا ہے اور مصر اور ہندوستان کے علماء اس میں لگے ہوئے ہیں.بلکہ بعض کتابوں سے پتا لگتا ہے کہ بعض لوگ اس کو مکمل بھی کر چکے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ محنت کا کام ہے جیسے ڈکشنری میں سے لفظ نکالنے کا کام محنت کا کام ہو تا ہے.مگر علمی وسعت وسعتِ نظر کا کام نہیں.مدرسہ احمدیہ کے بعض پرانے اساتذہ کہتے ہیں کہ جب مولوی عبد المنان صاحب سکول میں انجمن کے تنخواہ دار ملازم تھے تو خود بھی اپنا وقت اس کام پر صرف کرتے تھے اور بعض طلباء سے بھی مدد لیتے تھے وَاللهُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.بہر حال کوئی نہ کوئی دوست کچھ دنوں تک اس مسئلہ پر تفصیلی اور مکمل روشنی ڈال دیں گے.مصر کے ایک عالم نے اس کتاب کی تبویب کی چودہ جلدیں شائع کی ہیں جو کہتے ہیں کراچی اور لاہور میں مل سکتی ہیں گوشبہ ہے کہ ابھی کچھ جلدیں شائع ہونی باقی ہیں.ان جلدوں میں سے بہت سی ہمارے جامعتہ المبشرین کی لائبریری میں موجود ہیں.اور کچھ جلدیں قادیان کے زمانہ سے میری لائبریری میں موجود تھیں جو اب یہاں آگئی ہیں.بے شک حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں ایسی کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی تھی.یہ جلدیں غالباً مر زا ناصر احمد کی ولایت سے واپسی پر میں نے اُس کے ذریعہ سے مصر سے منگوائی تھیں.اس خط سے اس شبہ کا بھی ازالہ ہو جاتا ہے جو بعض دوستوں نے اپنے خطوں میں ظاہر کیا ہے جو یہ ہے کہ مولوی عبد المنان کو امریکہ بھجوا کر چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے فتنہ کا دروازہ کھولا اور اُن کے دوستوں کو جھوٹے پروپیگنڈا کا موقع دیا.مگر جیسا کہ چودھری ظفر اللہ خان صاحب کے خط سے ظاہر ہے انہوں نے موجودہ حالات کے علم سے پہلے یہ کوشش کی تھی اور اس خیال سے کی تھی کہ حضرت خلیفہ اول کے بیٹوں میں سے ایک ہی بیٹے کو کچھ علمی شغف ہے وہ علمی مجالس میں آجائے تو اس طرح

Page 394

انوار العلوم جلد 25 370 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات شاید سلسلہ کو بھی کچھ فائدہ پہنچ جائے گا.چونکہ مولوی عبد المنان تحریک جدید کے ایک عہدے پر مقرر تھے اس لئے چودھری صاحب کا یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ یا ان کے گہرے دوست کوئی بات سلسلہ کے خلاف کریں گے.انہیں کیا معلوم تھا کہ چودھری غلام رسول نمبر 35 کی قسم کے لوگ اخباروں میں ان کو حضرت مولانا عبد المنان کر کے لکھیں گے.چودھری صاحب نے مولوی عبد المنان وکیل التصنیف کی سفارش کی تھی.انہوں نے حضرت مولانا عبد المنان کی سفارش نہیں کی تھی.اس لئے ان پر الزام لگانا درست نہیں.اور جیسا کہ انہوں نے لکھا ہے الا عمَالُ بِالنِّيَّاتِ اُن کی نیت کو دیکھنا چاہیے جو ظاہر ہے عمل کو نہیں دیکھنا چاہیئے.ہاں جو لوگ واقعات کے ظاہر ہو جانے کے بعد بھی ایسے لوگوں میں کھتے ہیں وہ اپنے عمل سے اس بات کا ثبوت دے دیتے ہیں کہ اُن کا ہم سے کوئی تعلق نہیں.وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنَّى مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ 27 وَ أَخِرُ دَعْوَانَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ محترم چودھری ظفر اللہ خان صاحب کا خط وو ہیگ 7 ستمبر 1956ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ سید ناو امامنا السّلامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ حضور کے ارشاد کے ماتحت پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے خاکسار کو محترمہ عائشہ صاحبہ (جنہیں خاکسار تو ذاتی طور پر نہیں جانتا) کے خط کی نقل ارسال کی ہے جو محترمہ مذکورہ نے حضور کی خدمت اقدس میں لکھا ہے.ان بچوں نے اگر ایسی کوئی بھی بات کہی ہے تو بہت دکھ دینے والی بات ہے انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.خاکسار نے مکرمی مولوی عبد المنان عمر صاحب کے امریکہ جانے کے متعلق جو کوشش کی اس میں خاکسار کی نیت اپنے علم کے مطابق سلسلہ کے ایک عالم اور مخلص خادم کے لئے ایک موقع بہم پہنچانا تھا جس سے وہ خود بھی فائدہ اٹھا سکیں اور سلسلہ کی خدمت کا اس کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ موقع فراہم کر سکیں.خاکسار کا ان کے متعلق بوجہ ان کے سلسلہ میں

Page 395

انوار العلوم جلد 25 371 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات وکیل کے عہدہ پر فائز ہونے، بوجہ حضرت خلیۃ المسیح الاوّل کا فرزند ہونے اور بوجہ اس کے کہ اپنے بھائیوں میں صرف اکیلے وہی علمی مذاق رکھتے ہیں اور علم کا اکتساب کر سکتے ہیں یہی اندازہ اور یہی حُسن ظن تھا جو خاکسار نے لکھا ہے.اُن امور کا جو ان کے چھوٹے بھائی کے متعلق بعد میں ظاہر ہوئے ہیں یا جن کا ذکر محترمہ عائشہ صاحبہ کے خط میں ہے خاکسار کو نہ علم تھانہ اندازہ.ممکن ہے مگر می مولوی عبد المنان عمر صاحب بھی ان امور میں ملوث ہوں.خاکسار کو اس کا بھی کوئی علم اس سے زائد نہیں جو ارشاد حضور نے کوہ مری سے ارسال کردہ اپنے والا نامے میں فرمایا تھا بوجہ مرکز سے باہر ہونے کے موجودہ فتنہ کے متعلق خاکسار کا علم انہی امور تک محدود ہے جو الفضل میں شائع ہوئے ہیں.ان امور کی تفتیش حضور کے ہاتھ میں اور حضور کے ارشاد کے ماتحت اور حضور کی ہدایات کے مطابق حضور کے خدام کے ہاتھوں میں ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل ورحم سے حضور کی ذات مبارک اور سلسلہ عالیہ کو ہر قسم کے خطرہ، پریشانی اور ابتلاء سے محفوظ رکھے.امین.جو امر حضور کے نزدیک پایہ ثبوت کو پہنچ جائے اُس کے مطابق حضور کے خدام کا عمل پیرا ہونا بھی عین سعادت اور تقاضائے عہد اطاعت و فرمانبر داری ہے.لیکن جب تک کسی امر کا انکشاف نہیں ہوا تھا اور کوئی ایسی بات ظہور میں نہ آئی تھی اُس وقت تک جن خدام کا عمل حسن ظن کے مطابق رہا وہ اَلاَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ کے حکم کے تابع تھا.وَالا صدق و اخلاص اور اطاعت و وفا کا عہد وہیں ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے اور اسی کی عطا کردہ توفیق سے انشاء اللہ پورا ہوتا جائے گا.وَمَا تَوْفِيقِي إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيُّ الْعَظِيْمُ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے حضور کو جلد صحت کاملہ عطا فرمائے اور اپنے مبارک ارادوں کی تکمیل کی توفیق عطا فرماتا جائے.اور ہم سب خدام کو اُن برکات سے زیادہ سے زیادہ متمتع ہونے کی توفیق عطا فرمائے جن کے نزول کا حضور کا وجو د باجود ذریعہ ہے اور جو حضور کی ذات مبارک کے ساتھ وابستہ ہیں اور حضور کو ہر پریشانی اور حزن سے محفوظ رکھے.آمین.

Page 396

انوار العلوم جلد 25 372 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات والسلام طالب دعا خاکسار ظفر اللہ خان“ (الفضل 3 1 اکتوبر 1956ء) (27) ضروری اعلان ” مجھے فتنہ کے ایام میں کئی احمدی خرید ارانِ الفضل کی طرف سے چٹھیاں آئی ہیں کہ جس الفضل میں کوئی خاص مضمون فتنہ کے متعلق ہوتا ہے وہ ہم کو نہیں ملتا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی آدمی منافقوں میں سے الفضل کے عملہ میں ہے.آج ایک یقینی ثبوت مل گیا ہے.ایک احمدی دوست نے خط کے ذریعہ توجہ دلائی ہے کہ میرے پاس میاں محمد صاحب کا ٹریکٹ پہنچا ہے جس پر وہ پتہ تھا جو معروف نہیں اور صرف الفضل کو میں نے دیا ہوا تھا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خریدارانِ الفضل کے پتوں پر میاں محمد صاحب کے ایجنٹوں کا دخل ہے.بعض باتیں میں نے بیچ میں چھوڑ دی ہیں کیونکہ ان سے اُس شخص کا بھی پتہ لگ سکتا تھا جس کا یہ کام ہے.مجھے افسوس ہے کہ اُس شخص کے دفتر میں لانے میں ایڈیٹر صاحب الفضل تنویر کا دخل ہے اور ان کی اپنی حیثیت بھی مشکوک ہو جاتی ہے.گو ابھی میں ان پر شبہ نہیں کرتا کیونکہ فی الحال اس شخص کا یقینی پتہ لگ گیا ہے جو یہ کام کر رہا ہے.مہربانی کر کے وہ دوست جو الفضل کے خریدار ہیں اور جن کا کبھی کوئی تعلق پیغامیوں سے نہیں رہا لیکن اُن کو میاں محمد صاحب کی چٹھی پہنچی ہے یا جن کو منافقوں کے متعلق مضامین نہیں ملے یا دیر سے ملے ہیں وہ تفصیل سے سارے حالات مجھے لکھیں تا کہ اصل مجرم کے پکڑنے میں اور زیادہ آسانی ہو جائے.مرزا محمود احمد “ (الفضل 10 اکتوبر 1956ء)

Page 397

انوار العلوم جلد 25 373 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات (28) ضروری اعلان وو راجہ علی محمد صاحب نے ایک دفعہ مجھے لکھا تھا کہ میرے پسر رازی میں کوئی سلسلہ سے انحراف کی بو نہیں پائی جاتی.مگر میں ان کی اطلاع کے لئے شائع کرتا ہوں کہ بشیر رازی کی اپنی تحریر کی رو سے جو میرے پاس موجود ہے بشیر رازی اب احمد یہ جماعت میں نہیں ہے.اس نے مجھے لکھا:.میں آپ کی خلافت سے بتمام انشراح صدر عدم وابستگی کا اعلان کرتا ہوں.“ ڈسکہ اور لاہور کی جماعتیں جہاں وہ رہتا ہے اور گجرات کی جماعت جہاں کا وہ باشندہ ہے اور راجہ علی محمد صاحب جن کا وہ بیٹا ہے اور ملک عبد الرحمن صاحب خادم جن کا وہ رشتہ دار ہے مطلع رہیں کہ بشیر رازی اپنے بیان کے مطابق احمد یہ جماعت کے افراد میں سے آئندہ نہیں ہے.ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے کہ ایسے آدمی کو نکالنے کی ہمیں ضرورت پیش نہیں آئی وہ خود ہی نکل گیا.آئندہ رازی اور اُس کے دوستوں کو غلام رسول نمبر 35 یا منان کی جماعت میں داخل ہو نا مبارک ہو یا خدا کی تقدیر کے مطابق نامبارک ہو.“ (الفضل 18 اکتوبر 1956ء) (29) ایک اہم مکتوب بنام شیخ بشیر احمد صاحب ایڈووکیٹ لاہور مگر می شیخ صاحب! السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ آپ کو میرا خط مل گیا ہو گا کہ آپ کو منان سے ملنے کی اجازت ہے.اب میں ایک غلط فہمی دور کر دینا چاہتا ہوں.چونکہ منان صاحب ایک مہینہ سے زائد ہوا کہ امریکہ سے واپس آچکے ہیں اور اس عرصہ میں میاں بشیر احمد صاحب کیونکہ اُن کو لکھ چکے ہیں کہ کون کونسے امور کی صفائی اُن کے ذمہ ہے مگر باوجود اس کے انہوں نے صفائی نہیں کی اور انجمن کے رجسٹرات اس پر گواہ ہیں کہ وہ سلسلہ کے جس جس کام پر مقرر ہوئے ہیں اُس کی بہت سی رقوم ابھی تک قابل تشریح ہیں اور بہت سی رقوم پر میاں عبد المنان کے دستخط اب تک موجود ہیں اور میاں غلام غوث صاحب جمونی اور چودھری انور حسین صاحب

Page 398

انوار العلوم جلد 25 374 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات شیخو پورہ کی معین گواہیاں موجود ہیں کہ انہوں نے خلافت کی امیدواری کا اظہار کر دیا اور یہ کہا کہ خلیفہ ثانی، ناصر احمد کو اپنا ولی عہد بنا رہے ہیں.ان حالات کے بعد وہ تو بہ بھی ہیں اور ہمیں اُن کی توبہ کے الفاظ سے اتفاق بھی ہو تو بھی انہیں اس طرح ہر گز نہیں معاف کیا جاسکتا کہ آئندہ وہ کسی جماعت کے ممبر ہو سکیں یا جماعت کے کسی عہدہ پر فائز ہو سکیں.اس وقت کہ عشاء کے بعد کا وقت ہے میجر عارف الزمان لاہور سے آئے ہیں اور وہ بتاتے ہیں کہ میاں منان با قاعدہ مولوی صدر دین سے مل رہے ہیں اور ایک دن تو ملاقات رات کے دو بجے تک رہی اور لاہور کے کسی وکیل فضل علی غنی اور امیر احمد قدوائی سے قانونی مشورے لے رہے ہیں.غالباً یہ امیر احمد قدوائی وہی ہے جس کی آپ نے ایک دفعہ میرے ساتھ دعوت کی تھی کیونکہ وہ بھی وکیل اور قدوائی کہلاتا تھا.یہ حالات میری اوپر کی رائے کو اور بھی پکا کرتے ہیں.رجسٹرات اور میاں عبد المنان کے دستخط ہمارے پاس موجود ہیں.شیخ محمداحمد صاحب گو آپ کے پائے کے وکیل تو نہیں مگر بڑے پائے کے وکیل ہیں انہوں نے سب کاغذات دیکھے ہیں اور یہ قطعی رائے دی ہے کہ گو بعض معاملات میں انجمن کے بعض افسروں کی سہل انگاری کی وجہ سے وہ فوجداری مقدمہ سے تو بچ گئے ہیں مگر رجسٹرات میں اُن کے اپنے دستخطوں سے اتنا مواد موجود ہے کہ دنیا کے سامنے اُن کی امانت کو مخدوش کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ہے.بعض واقعات میں کل کے خط میں لکھ چکا ہوں.بہر حال میں نے آپ کو اس لیے وقت پر اطلاع دے دی ہے تا کہ آپ غلطی سے کوئی PROPOSAL بنا کر نہ بھجوا دیں اور پھر اس کے رڈ کرنے کی وجہ سے آپ کی دل شکنی نہ ہو.بہر حال سلسلہ کے مفاد اور امانت اور دیانت کو حضرت خلیفہ اول کی اولاد پر مقدم رکھا جائے گا اور صرف اتنی رعایت اُن کے ساتھ ہو سکتی ہے کہ وہ دلیری کے ساتھ پیغام صلح کے افتراء کو ظاہر کریں اور اسی طرح اپنے دوستوں اور غیر احمدی اخباروں کے افترا کو.تو جماعت سے اخراج میں نرمی کر دی جائے.منان میں تو اتنا بھی ایمان نہیں پایا جاتا کہ وہ اجمیری کے اس جھوٹ کی تردید کرتا کہ میں نے کبھی وکلاء کے کمیشن مقرر کرنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ اس نے اس بات کا

Page 399

انوار العلوم جلد 25 375 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اظہار کیا کہ غلام رسول 35 جو میری خلافت کا پروپیگنڈا کر رہا ہے اس کو میں نے 1950ء،1951ء میں سلسلہ کے روپے میں سے پچاس روپے دیئے تھے اور اس طرح کچھ رقم اجمیری کو دی تھی اور اس کے لیے ناصر احمد کی دشمنی کی یہ وجہ ہے کہ ناصر احمد نے یہ ساری بے ضابطگیاں انجمن کے سامنے رکھی تھیں.مرزا محمود احمد 19-10-1956 تاریخ احمدیت جلد 19 صفحہ 120،119) (30) فیض الرحمن صاحب فیضی کے متعلق مشروط معافی کا اعلان ” ملک فیض الرحمن صاحب فیضی نے اپنے بھائی ملک عبد الرحمن صاحب خادم اور اپنے بہنوئی راجہ علی محمد صاحب کی موجودگی میں اپنے لئے معافی طلب کی اور خادم صاحب نے کہا کہ اِس دفعہ آپ معاف کر دیں، آئندہ ان کے خلاف کوئی شکایت نہیں پیدا ہو گی.اس پر میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں انہیں مشروط معافی دے دوں گا اور وہ شرطیں یہ ہیں.1.وہ الفضل میں اپنے اُن رشتہ داروں سے براءت کا اظہار کریں جو مخالفت کر رہے ہیں جیسے ملک عزیز الرحمن اور بشیر رازی.2.اسی طرح اُن دوسرے لوگوں سے جو فتنہ پیدا کر رہے ہیں مگر معافی صرف اِس بات کی ہو گی کہ میں اپنے دل میں ان سے خفگی دور کر دوں گا اور آئندہ ان کو خادم صاحب اپنی والدہ صاحبہ، اپنی بڑی ہمشیرہ صاحبہ اور راجہ علی محمد صاحب سے نیز اپنے خسر اور ساس سے ملنے کی اجازت ہو گی.لیکن معافی کے یہ معنی نہیں ہوں گے کہ ان ریزولیوشنوں کو منسوخ کر دیا گیا ہے جو صدر انجمن احمد یہ لاہور، انجمن ربوہ اور دیگر جماعتوں نے پاس کئے ہیں.وہ سعد بن عبادہ کی طرح اگر ان کو توفیق ملے احمد یہ مسجد میں نماز پڑھ سکتے ہیں لیکن اپنے مذکورہ بالا رشتے داروں کے سوا عام احمدیوں سے ان کو میل جول کی اجازت نہیں ہو گی.سوائے اس کے کہ ایک لمبے تجربہ کے بعد ریزولیوشنوں کا کوئی اور حصہ بھی ان کے متعلق منسوخ کر دیا جائے.خادم صاحب نے مجھے کہا کہ شاید

Page 400

انوار العلوم جلد 25 376 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات فیضی صاحب کے بھائیوں نے کوئی بات کہی ہو گی جس کے متعلق مر زا منظور احمد صاحب سمجھے کہ فیضی صاحب نے کہی ہو گی.میں یہ واضح کر دینا چاہتاہوں کہ میں مرزا منظور احمد صاحب اور طاہر احمد کے بیان کو سچا سمجھتا ہوں.اگر خادم صاحب کی اِس بات کو تسلیم کہ جائے کہ اُن کو غلط فہمی ہوئی ہے تو یہ اصول بھی آئندہ کے لئے تسلیم کرنا پڑے گا کہ اگر کوئی شہادت ایسی ملے جس میں شہادت دہندہ کسی ایک شخص کے متعلق خیال کرتا ہو کہ اُس نے سلسلہ کی ہتک کی ہے تو خادم صاحب کے اوپر کے استدلال کے مطابق خاندان کے دوسرے افراد کے متعلق بھی جو اس مجلس میں شامل ہوں یہ فیصلہ کیا جائے کہ وہ بھی اِس فتنہ میں شامل ہیں کیونکہ غلط فہمی دونوں طرف لگ سکتی ہے.کیونکہ جس طرح مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں کے متعلق یہ غلط فہمی ہو سکتی ہے کہ فلاں نہیں فلاں نے بات کی ہو گی.اسی طرح یہ غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے کہ جس کے متعلق شبہ ہو کہ اُس نے بات کی ہے اُس نے نہیں باقیوں نے کی ہوگی.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی 66 "29-10-1956 (الفضل 31 /اکتوبر 1956ء) (31) چودھری عبد اللطیف صاحب کے متعلق مشروط معافی کا اعلان " آج مؤرخہ 20 نومبر 1956ء برادرم خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب اپنے لڑکے چودھری عبد اللطیف صاحب کے ساتھ ملنے کے لئے آئے اور فرمایا کہ وہ لڑکا پوری طرح تو بہ کرنا چاہتا ہے اسے ملنے کا موقع دیا جائے.چنانچہ میں نے اُن کے سامنے اُن کے بیٹے چودھری عبد اللطیف صاحب کو بلا لیا اور خان بہادر صاحب سے کہہ دیا کہ جہاں تک میری دلی رنجش دُور ہونے کا سوال ہے میں چودھری عبد اللطیف کو اس شرط پر معاف کرنے کو تیار ہوں کہ آئندہ اس کے مکان واقع نسبت روڈ پر وہ فتنہ پرداز لوگ

Page 401

انوار العلوم جلد 25 377 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات نہ آئیں جن کا نام اخبار میں چھپ چکا ہے.خان بہادر صاحب نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا اور چودھری عبد اللطیف نے بھی یقین دلایا کہ میں ذمہ لیتا ہوں کہ وہ آئندہ اس جگہ پر نہیں آئیں گے.اور میں نے اس کو کہہ دیا کہ جماعت لاہور اس کی نگرانی کرے گی اور اگر پھر اس نے ان لوگوں سے تعلق رکھا یا اپنے مکان پر آنے دیا جو در حقیقت خان بہادر چودھری نعمت خان صاحب کا مکان ہے تو پھر اس کی معافی کو منسوخ کر دیا جائے گا.اُس نے اسے تسلیم کیا.میں نے یہ بھی کہہ دیا کہ جماعت لاہور کا ریزولیوشن اس کے متعلق اُسی طرح قائم رہے گا جیسا کہ فیض الرحمن صاحب فیضی کے متعلق ہے.ان سب باتوں کے بعد اُس نے مجھے یقین دلایا کہ آئندہ وہ نیک چلنی اور صحیح طریقہ اختیار کرے گا.نہ سلسلہ کے دشمنوں سے کسی قسم کے تعلقات رکھے گا اور نہ اپنے مکان پر جو کہ در حقیقت اُن کے والد کا مکان ہے اُن کو آنے دے گا.اس لئے یہ بات الفضل میں شائع کی جاتی ہے کہ میں نے چودھری عبد اللطیف صاحب کو مندرجہ بالا شرائط کے ساتھ معاف کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس کو اپنی توبہ پر قائم رہنے کی توفیق دے کہ اس کے والد نہایت مخلص ہیں اور نہایت تندہی سے سلسلہ کے کاموں میں اپنی پینشن سے پہلے بھی اور بعد میں بھی حصہ لیتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی آنکھیں اپنی اولاد کی طرف سے ٹھنڈی کرے اور اولاد کو مخلص احمدی بننے کی توفیق دے.خاکسار مرزا محمود احمد (خلیفة المسیح الثانی) "20-11-1956 (الفضل 22 نومبر 1956ء) (32) مولوی مصباح الدین صاحب کے متعلق معافی کا اعلان وو مولوی مصباح الدین صاحب سابق مبلغ انگلینڈ سے چند سال ہوئے ایک غلطی ہوئی تھی اور انہوں نے ایک خط میں چند نا مناسب الفاظ لکھ دیئے تھے.لیکن چونکہ

Page 402

انوار العلوم جلد 25 378 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات اللہ تعالیٰ سب گناہوں کو معاف کرتا ہے اور اب وہ اپنی غلطی پر پشیمانی ظاہر کرتے ہیں اس لئے میں نے ان کو معاف کر دیا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ان کے اور ان کی اولادوں کے ایمانوں کو مضبوط کرے.چونکہ نظام سلسلہ کے خلاف موجودہ شرارت میں وہ شامل نہیں، گو ایک دفعہ جھوٹے طور پر ایک معاند اخبار نے ان کا نام لکھ دیا تھا اس لئے میں کوئی وجہ نہیں دیکھتا کہ ان کو معاف نہ کر دوں.آئندہ کا معاملہ خدا تعالیٰ کے سپرد ہے.ان کا ایک بیٹا سخت بیمار ہے اور موجودہ فتنہ کے موقع پر اس نے ایک دفعہ بہت مومنانہ غیرت کا اظہار کیا تھا.دوست اس کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسے شفا مرزا محمود احمد 66 "22-11-1956 (الفضل 24 نومبر 1956ء) (33) مولوی عبد المنان کے متعلق اخراج از جماعت احمدیہ کا اعلان مولوی عبد المنان جب امریکہ میں تھے تو اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ کہا تھا کہ خلیفہ ثانی کی وفات کے بعد وہ خلیفہ ہوں گے.اور پھر ”پیغام صلح“ نے ان کی اور ان کے ساتھیوں کی تائید شروع کر دی تھی.جس سے پتا لگتا تھا کہ پیغامیوں کے ساتھ ان کی پارٹی کا جوڑ ہے.اور ”پیغام صلح“ نے یہ پروپیگینڈا شروع کر دیا تھا کہ گویا میں نے نَعُوذُ بِاللهِ حضرت خلیفہ اول کی ہتک کی ہے.میں نے مولوی عبد المنان کے متعلق کوئی قدم اس لئے نہ اٹھایا کہ وہ باہر ہیں.جب وہ واپس آئیں اور ان کو ان باتوں کی تردید کا موقع ملے.تو پھر ان کے خلاف کارروائی کی جاسکتی ہے.چنانچہ جب وہ واپس آئے تو انہوں نے ایک مبہم سا معافی نامہ لکھ کر بھجوادیا.میں نے وہ میاں بشیر احمد صاحب کو دیا کہ وہ اس پر جرح کریں.مگر میاں بشیر احمد صاحب کے خطوں کے جواب سے انہوں نے گریز کرنا شروع کیا.اس کے بعد ایک مضمون جو ظاہر معافی نامہ تھا لیکن اس میں ”پیغام صلح“ کے اس الزام کی کوئی تردید نہیں تھی کہ خلیفہ ثانی یا جماعت احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول کی

Page 403

انوار العلوم جلد 25 379 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات گستاخی کی ہے.انہوں نے ”پیغام صلح میں شائع کرایا.یہ بیان ایسا تھا کہ جماعت کے بہت سے آدمیوں نے لکھا کہ اس بیان کا ہر فقرہ وہ ہے جس کے نیچے ہر پیغامی دستخط کر سکتا ہے.اس لئے اس بیان کو جماعت نے قبول نہ کیا." اس دوران میں چودھری محمد حسین چیمہ ایڈووکیٹ نے ایک مضمون ”پیغام صلح میں لکھا جس میں یہ بھی لکھا گیا کہ مرزا محمود کی خلافت کی مخالفت کرنے والوں کو دلیری اور استقلال سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیئے اور ڈرنا نہیں چاہیئے.ہمارا روپیہ اور ہماری تنظیم اور ہماری سٹیج ان کی تائید میں ہے.مولوی عبد المنان اور مولوی عبد الوہاب نے اس مضمون کی بھی جو جماعت احمدیہ کی سخت ہتک کرنے والا تھا کوئی تردید نہ کی.اس کے بعد مولوی عبد المنان نے بجائے اس کے کہ تمام ضروری تر دیدوں کے ساتھ معافی نامہ میرے پاس بھیجتے ایک بظاہر معافی نامہ لیکن در حقیقت اقرار مجرم سلسلہ احمدیہ کے شدید مخالف روزنامہ ”کوہستان“ میں چھپوا دیا.جس کا ہیڈنگ یہ تھا کہ ”قادیانی خلافت سے دستبرداری“ یہ دوسرے لفظوں میں اقرار تھا اس بات کا کہ عبد المنان صاحب ” قادیانی خلافت کے امیدوار ہیں کیونکہ جو شخص امیدوار نہیں وہ دستبردار کس طرح ہو سکتا ہے.مگر بہر حال یہ مضمون جیسا بھی تھا میرے پاس نہیں بھیجا گیا بلکہ ”کوہستان“ میں چھپوایا گیا.اور ایک دفعہ نہیں دو دفعہ.جس کا مطلب یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کو بدنام کرنے کے لئے ایک تدبیر نکالی جارہی ہے.پس میں مولوی عبد المنان کو اس وجہ سے کہ پر شکوہ مجھے پیدا ہوئی تھی لیکن انہوں نے اس کے جواب میں ایک ملمع سازی کا مضمون ”کوہستان میں چھپوا دیا جو احمدیت کا دشمن ہے اور میرے پاس صحیح طور پر کوئی معافی نامہ نہیں بھجوایا، پس میں مولوی عبد المنان کو جو یا تو اپنا مضمون ”پیغام صلح “ میں چھپواتے ہیں جو جماعت مبائعین کا سخت دشمن اخبار ہے یا کوہستان“ میں چھپواتے ہیں جو سلسلہ احمدیہ کا شدید دشمن ہے.اور پھر چودھری محمد حسین چیمہ کے شدید دل آزار مضمون کی تردید نہیں کرتے اور اپنی خاموشی سے اُس کی اِس دعوت کو منظور کرتے ہیں کہ شاباش ! خلافت ثانیہ کی مخالفت کرتے رہو ، ہمارا روپیہ اور ہمارا پلیٹ فارم اور ہماری تنظیم تمہارے ساتھ.

Page 404

انوار العلوم جلد 25 380 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات تم خلافت محمودیہ کی مخالفت کرتے رہو اور اس کے پر دے چاک کر دو.جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں.اسی طرح مذکورہ بالا الزامات کی بناء پر میاں عبد الوہاب کو بھی.پس آج سے وہ جماعت احمدیہ کا حصہ نہیں ہیں اور اس سے خارج ہیں.مجھے کچھ عرصہ سے برابر جماعت کے خطوط موصول ہو رہے تھے کہ یہ لوگ جب جماعت سے عملاً خارج ہو رہے ہیں تو ان کو جماعت سے خارج کرنے کا اعلان کیوں نہیں کیا جاتا؟ مگر میں پہلے اس لئے رُکا رہا کہ شاید وہ صحیح طور پر معافی مانگ لیں اور الزاموں کا ازالہ کر دیں.مگر ان لوگوں نے نہ مجھ سے معافی مانگی نہ ان الزامات کا ازالہ کیا جو ان پر لگائے گئے تھے.پس اب میں زیادہ انتظار کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا اور مولوی عبد المنان اور میاں عبد الوہاب دونوں کو جماعت احمدیہ سے خارج کرتا ہوں.تمام جماعتیں اس بات کو نوٹ کر لیں.اگر وہ صحیح طور پر براہ راست مجھ سے رجسٹری باخد رسید معافی طلب کریں گے نہ کہ کسی پیغامی یا غیر احمدی اخبار میں مضمون چھپوا کر ، تو اس پر غور کیا جائے گا.سر دست ان کو جماعت سے خارج کیا جاتا ہے.بعض اور لوگ بھی ان کے ہمنوا ہیں مگر ان کے متعلق مجھے اعلان کرنے کی ضرورت نہیں.امور عامہ ان کے متعلق ساری باتوں پر غور کر رہا ہے.وہ جب کسی نتیجہ پر پہنچے گا خود اعلان کر دے گا.خاکسار مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی "27-11-1956 الفضل 29 نومبر 1956ء) 1 سیرت ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 675 بقية الطريق الى بدر.دمشق 2005ء(مفہوم) 2 تذکرہ صفحہ 109 تا 111 ایڈیشن چہارم 2004 ء 3 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004 ء

Page 405

انوار العلوم جلد 25 4 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004 ء 5 تذکرہ صفحہ 111 ایڈیشن چہارم 2004 ء لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَيْطِرِ (الغاشية: 23) 7 الانعام : 12 8 یونس:17 381 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات و تذکرہ صفحہ 507 ایڈیشن چہارم 2004ء (دَوْحَةً اِسْمَاعِيْل) 10 پیدائش باب 12 آیت 16 11 زئیل: نکما، جو کسی کے کام نہ آسکے ، گھٹیا (اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 11 صفحہ 56 کراچی 1990ء) 12 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 306.مصر 1935 ء زیر عنوان غزوۃ بنی المصطلق.13 صحيح البخاری کتاب المناقب باب علامات النبوۃ فی الاسلام.(مفہوماً) 14 تذکرہ صفحہ 673 ایڈیشن چہارم 2004 ء 15 تذکرہ صفحہ 282 ایڈیشن چہارم 2004ء میں آسمان سے کئی تخت اترے مگر سب.اونچا تیر تخت بچھایا گیا.“ کے الفاظ ہیں.16 هُوَ الَّذِى بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُولًا مِنْهُم...(الجمعة: 4،3) وو 17 تذکرہ صفحہ 63 ایڈیشن چہارم 2004 ء 18 تذکرہ صفحہ 80 ایڈیشن چہارم 2004ء میں ” سچائی ظاہر کر دے گا“ کے الفاظ ہیں.19 در ثمین اُردو صفحہ 37.زیر عنوان ” محمود کی آمین“.20 در ثمین اُردو صفحہ 37،36.زیر عنوان ” محمود کی آمین“.21 الحجرات :7 22 تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 165.مطبوعہ بیروت 1987ء 23 تاریخ الطبری جلد 3 صفحہ 157.بیروت لبنان 2012ء (مفہوماً) 24 إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَا فَتَبَيَّنُوا ( الحجرات: 7)

Page 406

انوار العلوم جلد 25 382 منافقین کے تازہ فتنہ کے متعلق پیغامات و اعلانات 25 کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12.کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن 2008ء 26 حضور کی ہدایت کی تعمیل میں ایڈیٹر الفضل کی طرف سے الفضل 22 ستمبر 1956ء صفحہ 8 پر معذرت شائع کی گئی کہ "ہم تمام متعلقہ اخبارات سے اظہار افسوس کرتے ہیں اور خلوص دل سے معذرت خواہ ہیں“.27 الشعراء:228

Page 407

انوار العلوم جلد 25 383 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 408

Page 409

انوار العلوم جلد 25 385 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے.تمہیں اس کی حفاظت کے لئے اپنے اندر ایمانی غیرت پیدا کرنی چاہیئے فرمائی:- افتتاحی خطاب فرموده 19/اکتوبر 1956ء بمقام ربوہ) سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَا لَكُمْ الْأَيْتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ - 1 اس کے بعد فرمایا:- " قرآن کریم کی یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اس دور کے متعلق جو آجکل ہم پر گزر رہا ہے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی تعلیم دی ہے جو ہماری جماعت کو ہر وقت مد نظر رکھنی چاہئے.بے شک ہماری جماعت کے دوستوں نے موجودہ فتنہ کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے عہد وفاداری کو تازہ کیا ہے اور ہر جگہ کی جماعت نے وفاداری کا عہد مجھے بھجوایا ہے مگر قرآن کریم کی اس آیت میں وفاداری کے عہد کے علاوہ کچھ اور باتیں بھی بیان کی گئی ہیں یا یوں کہو کہ وفاداری کی صحیح تعریف بیان کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کافی نہیں بلکہ اس مثبت کے مقابلہ میں ایک منفی کی بھی ضرورت ہے اور وہ یہ ہے کہ پايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ www

Page 410

انوار العلوم جلد 25 386 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات اے مومنو! اگر تمہاری وفاداری کا عہد سچا ہے تو تمہیں جس طرح وفاداری کرنی ہو گی اسی طرح ایک بات نہیں بھی کرنی ہو گی.جب تک یہ کرنا اور نہ کرنا دونوں جمع نہ ہو جائیں تم مومن نہیں ہو سکتے.کرنا تو یہ ہے کہ تم نے وفادار رہنا ہے لیکن اس کی علامت ایک نہ کرنے والا کام ہے.خالی منہ سے کہہ دینا کہ میں وفادار ہوں کوئی چیز نہیں.اگر تم واقع میں وفادار ہو تو تمہیں ایک اور کام بھی کرنا ہو گا یا یوں کہو کہ تمہیں ایک کام سے بچنا پڑے گا اور وہ یہ ہے کہ جو لوگ تمہارے ہم خیال نہیں وہ تم سے الگ ہیں ان سے تمہیں مخفی تعلق اور دوستی ترک کرنی پڑے گی.لَا يَأْلُونَكُم خَبَالًا اگر تم ہماری یہ بات نہیں مانو گے تو وہ تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے اور تمہارے وفاداری کے عہد خاک میں مل جائیں گے.تمہارا عزم اور تمہارا د عوامی مٹی میں مل جائے گا اور وہ کچھ بھی نہیں رہے گا جب تک کہ تم ہماری اس ہدایت کو نہیں مانو گے.یعنی وہ لوگ جو تم سے الگ ہیں اور تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرتے ہیں تم ان سے قطعی طور پر کسی قسم کی دوستی اور تعلق نہ رکھو.ایک شخص جو میرا نام نہاد رشتہ دار کہلاتا ہے وہ یہاں آیا اور ایک منافق کو ملنے گیا.جب اس کو ایک افسر سلسلہ نے توجہ دلائی کہ وہ ایک منافق سے ملنے گیا تھا تو اس نے کہا کہ صدرانجمن احمدیہ نے کب حکم دیا تھا کہ اس شخص سے نہ ملا جائے.اس افسر نے کہا کہ تم یہ بتاؤ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو کس نے حکم دیا تھا کہ پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دیا جائے؟ اگر تمہارے لئے کسی حکم کی ضرورت تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پنڈت لیکھرام کے سلام کا جواب نہ دینے اور اپنا منہ پرے کر لینے کا کس نے حکم دیا تھا؟ جو محرک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دماغ میں پیدا ہو اتھاوہ تمہارے اندر کیوں نہ پیدا ہوا.چونکہ اس شخص کے اندر منافقت گھسی ہوئی تھی اس لئے اس نے جواب میں کہا کہ یہ کس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص لیکھرام کے مقام تک پہنچ گیا ہے.حالانکہ قرآن کریم نے صرف اتنا کہا ہے کہ لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ یہ نہیں کہا کہ لا تَتَّخِذُوا بِطَانَةٌ مِنْ ليكهرام وَ مِثْلِهِ کہ تم لیکھرام

Page 411

انوار العلوم جلد 25 387 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات اور اس جیسے لوگوں سے نہ ملو بلکہ فرمایا ہے کہ جو لوگ اپنے عمل سے یہ ثابت کر چکے ہیں کہ وہ تمہارے ساتھ نہیں چاہے وہ لیکھرام کے مقام تک پہنچے ہوں یا نہ پہنچے ہوں تم ان سے بِطانَہ یعنی دوستی اور مخفی تعلق نہ رکھو.وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ میں نے تو اس شخص کے ساتھ دوستی نہیں کی مگر بطانة کے معنے صرف دوستی کے نہیں بلکہ مخفی تعلق کے بھی ہیں اور وہ شخص اس منافق سے چوری چھپے ملا تھا.اب اس کے قول کے مطابق اس کی اس منافق سے دوستی ہو یا نہ ہو یہ بات تو ظاہر ہو گئی کہ اس نے اس سے مخفی تعلق رکھا.پھر جب اسے سمجھایا گیا تو اس نے بہانہ بنایا اور کہا کہ اس منافق کو لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے.اسے یہ خیال نہ آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پنڈت لیکھرام کو سلام کا جواب نہ دیتے وقت جس آیت پر عمل کیا تھا وہ یہی آیت تھی جو میں نے تلاوت کی ہے.اس میں لیکھرام یا اس جیسے لوگوں کا ذکر نہیں بلکہ صرف یہ ذکر ہے کہ ایسے لوگ جو تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے کوئی تعلق نہ رکھو.پس یا تو اسے یہ ثابت کرنا چاہئے کہ جس شخص سے وہ ملا تھا وہ جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کرنے والا نہیں.اور اگر اس شخص نے واقع میں جماعت کے اندر اختلاف اور فساد پیدا کیا ہے تو اس کا یہ کہنا کہ اسے لیکھرام کا درجہ کس نے دیا ہے اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود احمدیت پر ایسا ایمان نہیں رکھتا.بہر حال قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے وفاداری کے عہد کی ایک علامت بتائی ہے اور اس علامت کے پورا کئے بغیر وفاداری کے عہد کی کوئی قیمت نہیں.تم ان جماعتوں سے آئے ہو جنہوں نے وفاداری کے عہد بھجوائے ہیں لیکن اگر تم اس عہد کے باوجود کسی منافق سے تعلق رکھتے ہو اور اس سے علیحدگی میں ملتے ہو تو وہ ”بطان کے پنجے میں آجاتا ہے کیونکہ وہ منافق اور اس کی پارٹی کے لوگ جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرتے ہیں.اگر تم ان سے مخفی طور پر تعلق رکھتے ہو تو تمہارا عہد وفاداری اتنی حیثیت بھی نہیں رکھتا جتنی حیثیت گدھے کا پاخانہ رکھتا ہے.گدھے کے پاخانہ کی تو کوئی قیمت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ روڑی کے طور پر کام آ سکتا ہے لیکن تمہارا عہد وفاداری خدا تعالیٰ کے نزدیک روڑی کے برابر بھی حیثیت نہیں وو

Page 412

انوار العلوم جلد 25 388 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات رکھتا اور وہ اسے قبول نہیں کرے گا.پس یاد رکھو کہ ایمان شیشہ سے بھی زیادہ نازک چیز ہے اور اس کی حفاظت کے لئے غیرت کی ضرورت ہے.جس شخص کے اندر ایمانی غیرت نہیں وہ منہ سے بے شک کہتا رہے کہ میں وفادار ہوں لیکن اس کے اس عہد وفاداری کی کوئی قیمت نہیں.مثلاً اس وقت تمہارے اندر ایک شخص بیٹھا ہوا ہے وہ سمجھتا ہے کہ ہمیں اس کی منافقت کا پتہ نہیں.وہ ہمیشہ مجھے لکھا کرتا ہے کہ آپ مجھ سے کیوں خفا ہیں.میں نے تو کوئی قابل اعتراض فعل نہیں کیا.حالانکہ ہم نے اس کا ایک خط پکڑا ہے جس میں اس نے لکھا ہے کہ خلیفہ جماعت کا لاکھوں روپیہ کھا گیا ہے اور لاکھوں روپیہ اس نے اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کو کھلایا ہے....اس نے سمجھا کہ میرے خط کو کون پہچانے گا.اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ آجکل ایسی ایجادیں نکل آئی ہیں کہ بغیر نام کے خطوط بھی پہچانے جاسکتے ہیں.چنانچہ ایک ماہر جو یورپ سے تحریر پہچاننے کی بڑی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حاصل کر کے آیا ہے ہم نے وہ خط اسے بھیج دیا اور چونکہ ہمیں شبہ تھا کہ اس تحریر کا لکھنے والا وہی شخص ہے اس لئے ایک تحریر اسے بغیر بتائے اس سے لکھوالی اور وہ بھی اس خط کے ساتھ بھیج دی.اس نے علوم جدیدہ کے مطابق خط پہچانے کی پینتیس جگہیں بتائی ہیں جو ماہرین نے بڑا غور کرنے کے بعد نکالی ہیں اور انہوں نے بتایا ہے کہ لکھنے والا خواہ کتنی کوشش کرے کہ اس کا خط بدل جائے یہ پینتیس جگہیں نہیں بدلتیں.چنانچہ اس نے دونوں تحریروں کو ملا کر دیکھا اور کہا کہ لکھنے والے کی تحریر میں پینتیس کی پینتیس دلیلیں موجود ہیں اس لئے یہ دونوں تحریریں سو فیصدی ایک ہی شخص کی لکھی ہوئی ہیں اور وہ شخص بار بار مجھے لکھتا ہے کہ آپ خواہ مخواہ مجھ سے ناراض ہیں.میں نے کیا قصور کیا ہے ؟ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا.اس بے وقوف کو کیا پتہ ہے کہ اس کی دونوں تحریریں ہم نے ایک ماہر فن کو دکھائی ہیں اور ماہر فن نے بڑے غور کے بعد جن پینتیس جگہوں کے متعلق لکھا ہے کہ وہ کبھی نہیں بدلتیں وہ اس کی تحریر میں نہیں بدلیں وہ شخص غالباً اب بھی یہاں بیٹھا ہو گا اور غالباً کل یا پرسوں مجھے پھر لکھے گا کہ میں تو بڑا وفادار ہوں آپ خواہ مخواہ مجھ پر بد ظنی

Page 413

انوار العلوم جلد 25 کر رہے ہیں میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا حالانکہ اس نے ایک بے نام خط لکھا اور وہ خط جب ماہر فن کو دکھایا گیا اور اس کی ایک اور تحریر اس کے ساتھ بھیجی گئی جو اس سے لکھوائی گئی تھی تو اس ماہر فن نے کہا کہ یہ دونوں تحریریں اسی شخص کی ہیں.پس خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا جب تک کہ اس کے ساتھ انسان ان باتوں کو بھی مد نظر نہ رکھے جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ وہ نہ کی جائیں.389 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات عبد المنان کو ہی دیکھ لو جب وہ امریکہ سے واپس آیا تو میں نے مری میں خطبہ پڑھا اور اس میں میں نے وضاحت کر دی کہ اتنے امور ہیں وہ ان کی صفائی کر دے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا.وہ یہاں تین ہفتے بیٹھارہا لیکن اس کو اپنی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی.صرف اتنا لکھ دیا کہ میں تو آپ کا وفادار ہوں.ہم نے کہا ہم نے تجھ سے وفاداری کا عہد کرنے کا مطالبہ نہیں کیا.ہمیں معلوم ہے کہ پیغامی تمہارے باپ کو غاصب کا خطاب دیتے تھے.وہ انہیں جماعت کا مال کھانے والا اور حرام خور قرار دیتے تھے تم یہ کیوں نہیں کہتے کہ میں ان پیغامیوں کو جانتا ہوں یہ میرے باپ کو گالیاں دیتے تھے یہ آپ کو غاصب اور منافق کہتے تھے.میں ان کو قطعی اور یقینی طور پر باطل پر سمجھتا ہوں.مگر اس بات کا اعلان کرنے کی اسے توفیق نہ ملی.پھر اس نے لکھا کہ میں تو خلافتِ حقہ کا قائل ہوں.اسے یہ جواب دیا گیا کہ اس کے تو پیغامی بھی قائل ہیں.وہ بھی کہتے ہیں کہ ہم خلافتِ حقہ کے قائل ہیں لیکن ان کے نزدیک خلافت حقہ اُس نبی کے بعد ہوتی ہے جو بادشاہ بھی ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ بادشاہ بھی تھے اس لئے ان کے نزدیک آپ کے بعد خلافت حقہ جاری ہوئی اور حضرت ابو بکر حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علی خلیفہ ہوئے لیکن مرزا صاحب چونکہ بادشاہ نہیں تھے اس لئے آپ کے بعد وہ خلافت تسلیم نہیں کرتے.پس یہ بات تو پیغامی بھی کہتے ہیں کہ وہ خلافت حقہ کے قائل ہیں.تم اگر واقعی جماعت احمدیہ میں خلافتِ حقہ کے قائل ہو تو پھر یہ کیوں نہیں لکھتے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد خلافت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو آپ کے بعد خلافت کے قائل نہیں انہیں لعنتی سمجھتا ہوں.پھر تم یہ کیوں نہیں لکھتے

Page 414

انوار العلوم جلد 25 390 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات کہ خلافتِ حقہ صرف اسی نبی کے بعد نہیں ہے جسے نبوت کے ساتھ بادشاہت بھی مل جائے بلکہ اگر کوئی نبی غیر بادشاہ ہو تب بھی اس کے بعد خلافت حقہ قائم ہوتی ہے.تمہارا صرف یہ لکھنا کہ میں خلافت حقہ کا قائل ہوں ہمارے مطالبہ کو پورا نہیں کرتا ممکن ہے.تمہاری مراد خلافت حقہ سے یہ ہو کہ جب میں خلیفہ بنوں گا تو میری خلافت خلافت حقہ ہو گی.یا خلافت حقہ سے تمہاری یہ مراد ہو کہ میں تو اپنے باپ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی خلافت کا قائل ہوں.یا تمہاری یہ مراد ہو کہ میں حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا قائل ہوں.بہر حال عبد المنان کو امریکہ سے واپس آنے کے بعد تین ہفتہ تک ان امور کی صفائی پیش کرنے کی توفیق نہ ملی اس کی وجہ یہی تھی کہ اگر وہ لکھ دیتا کہ پیغامی لوگ میرے باپ کو غاصب، منافق اور جماعت کا مال کھانے والے کہتے رہے ہیں، میں انہیں اچھی طرح جانتا ہوں تو پیغامی اس سے ناراض ہو جاتے.اور اس نے یہ امیدیں لگائی ہوئی تھیں کہ وہ ان کی مدد سے خلیفہ بن جائے گا.اور اگر وہ لکھ دیتا کہ جن لوگوں نے خلافت ثانیہ کا انکار کیا ہے میں انہیں لعنتی سمجھتا ہوں تو اس کے وہ دوست جو اس کی خلافت کا پروپیگنڈا کرتے رہے ہیں اس سے قطع تعلق کر جاتے.اور وہ ان سے قطع تعلقی پسند نہیں کرتا تھا اس لئے اس نے ایسا جواب دیا جسے پیغام صلح نے بڑے شوق سے شائع کر دیا.اگر وہ بیان خلافت ثانیہ کی تائید میں ہوتا تو پیغام صلح اسے کیوں شائع کرتا.اس نے بھلا گزشتہ 42 سال میں کبھی میری تائید کی ہے؟ انہوں نے سمجھا کہ اس نے جو مضمون لکھا ہے وہ ہمارے ہی خیالات کا آئینہ دار ہے اس لئے اسے شائع کرنے میں کیا حرج ہے.چنانچہ جماعت کے بڑے لوگ جو سمجھدار ہیں وہ تو الگ رہے مجھے کالج کے ایک سٹوڈنٹ نے لکھا کہ پہلے تو ہم سمجھتے تھے کہ شاید کوئی غلط فہمی ہو گئی ہے لیکن ایک دن میں مسجد میں بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے پتہ لگا کہ پیغام صلح میں میاں عبد المنان کا کوئی پیغام چھپا ہے تو میں نے ایک دوست سے کہا.میاں ! ذرا ایک پرچہ لانا.چنانچہ وہ ایک پرچہ لے آیا.میں نے وہ بیان پڑھا اور اسے پڑھتے ہی کہا کہ کوئی پیغامی ایسا نہیں جو یہ بات نہ کہدے.یہ تردید تو نہیں اور نہ ہی میاں عبد المنان نے یہ بیان شائع کر کے اپنی بریت کی ہے.

Page 415

انوار العلوم جلد 25 391 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات اس پر ہر ایک پیغامی دستخط کر سکتا ہے کیونکہ اس کا ہر فقرہ پیچ دار طور پر لکھا ہوا ہے اور اسے پڑھ کر ہر پیغامی اور خلافت کا مخالف یہ کہے گا کہ میرا بھی یہی خیال ہے.غرض قرآن کریم نے واضح کر دیا ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا بِطَانَةً مِنْ دُونِكُمْ لَا يَأْلُونَكُمْ خَبَالًا.اے مومنو! جو لوگ تمہارے اندر اختلاف پیدا کرنا چاہتے ہیں تم ان سے خفیہ میل جول نہ رکھو.اب دیکھو یہاں دوستی کا ذکر نہیں بلکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم ان سے بِطَانَة نہ رکھو اور بِطَانَة کے معنے محض تعلق ہوتے ہیں.اب اگر کوئی ان لوگوں کو گھر میں چھپ کر مل لے اور بعد میں کہدے کہ آپ نے یا صد را مجمن احمدیہ نے کب منع کیا تھا کہ انہیں نہیں ملنا تو یہ درست نہیں ہو گا.ہم کہیں گے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے اندر بھی تو غیرت رکھی ہے پھر ہمارے منع کرنے کی کیا ضرورت ہے.تمہیں خود اپنی غیرت کا اظہار کرنا چاہیئے.اگر تم ہمارے منع کرنے کا انتظار کرتے ہو تو اس کے یہ معنے ہیں کہ تمہیں خود قرآن کریم پر عمل کرنے کا احساس نہیں.دیکھ لو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب لیکھرام نے سلام کیا تو آپ نے یہ نہیں کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سلام کا جواب دینے سے کب منع فرمایا ہے بلکہ آپ نے سمجھا کہ بے شک اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن خدا تعالیٰ نے لا يَا دُونَكُم خَبَالاً تو فرما دیا ہے کہ تم ایسے لوگوں سے تعلق نہ رکھو جو تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.پس گو اس آیت میں لیکھرام کا ذکر نہیں لیکن اس کی صفات تو بیان کر دی گئی ہیں.انہی صفات سے میں نے اسے پہچان لیا ہے.جیسے کسی شاعر نے کہا ہے کہ بہر رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش من انداز قدت را می شناسم2 کہ اے شخص اتو چاہے کس رنگ کا کپڑا پہن کر آجائے میں کسی دھوکا میں نہیں آؤں گا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اے لیکھرام !تو چاہے کوئی شکل بنا کر آجائے.قرآن کریم نے تیری صفت بیان کر دی ہے

Page 416

انوار العلوم جلد 25 اس لئے میں تجھے تیری صفت سے پہچانتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر فرما دیا ہے لا يَأْلُونَكُم خَبَالًا کہ تمہارے دشمن وہ ہیں جو قوم میں فتنہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اس لیے قرآن کریم کی ہدایت کے مطابق میں نے تم سے کوئی تعلق نہیں رکھنا.میں بھی تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ تم نوجوان ہو اور آئندہ سلسلہ کا بوجھ تم پر پڑنے والا ہے تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ ہر چیز کی بعض علامتیں ہوتی ہیں اسلئے خالی منہ سے ایک لفظ دُہرا دینا کافی نہیں بلکہ ان علامات کو دیکھنا بھی ضروری ہوتا ہے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ہی عجیب نکتہ بیان فرما دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک شخص ساری رات بیوی سے محبت کا اظہار کرتا ہے مگر دن چڑھے تو اس سے لڑنے لگ جاتا ہے.2.اس حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی بیان فرمایا ہے کہ اگر میاں کو اپنی بیوی سے واقعی محبت ہے تو وہ دن کے وقت اس سے کیوں محبت نہیں کرتا.اسی طرح جو شخص کسی جلسہ میں وفاداری کا اعلان کر دیتا ہے اور مخفی طور پر ان لوگوں سے ملتا ہے جو جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا چاہتے ہیں تو یہ کوئی وفاداری نہیں.کیونکہ قرآن کریم نے یہ نہیں کہا کہ جو لوگ تمہارے ہم مذہب نہیں ان سے 392 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات کوئی تعلق نہ رکھو غیر مذاہب والوں سے تعلق رکھنا منع نہیں.حضرت ابن عباس کے متعلق آتا ہے کہ آپ جب بازار سے گزرتے تو یہودیوں کو بھی سلام کرتے.اس لئے یہاں مِن دُونِکھ کی یہ تشریح کی گئی ہے کہ تم ان لوگوں سے الگ رہو جو لا یا لُونَكُم خَبَالًا کے مصداق ہیں یعنی وہ تمہارے اندر فساد اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.اگر کوئی غیر مذاہب والا تمہارے اندر فتنہ اور فساد پیدا نہیں کرنا چاہتا تو وہ شخص مِّن دُونِکھ میں شامل نہیں.اگر تم اس سے مل لیتے ہو یا دوستانہ تعلق رکھتے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں.لیکن ایسا شخص جو تمہاری جماعت میں فتنہ اور فساد پیدا کرنا چاہتا ہے اس سے تعلق رکھنا خد اتعالیٰ نے ممنوع قرار دیا ہے.پھر آگے فرماتا ہے تم کہہ سکتے ہو کہ اس کی کیا دلیل ہے.اس کی دلیل یہ ہے کہ قَد بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ کچھ باتیں ان کے منہ سے نکل چکی ہیں.وَمَا تُخْفى

Page 417

انوار العلوم جلد 25 393 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات صُدُورُهُمْ أكبر ان پر قیاس کر کے دیکھ لو کہ جو کچھ ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ کیا ہے.کہتے ہیں ایک چاول دیکھ کر ساری دیگ پہچانی جاسکتی ہے اسی طرح یہاں بھی دیکھا جا سکتا ہے.مثلاً ایک منافق نے بقول اپنے بھائی کے کہا کہ خلیفہ اب بڑھا اور پاگل ہو گیا ہے اب انہیں دو تین معاون دے دینے چاہئیں.اور ہمیں جو شہادت ملی ہے اس کے مطابق اس نے کہا کہ اب خلیفہ کو معزول کر دینا چاہئے.اس فقرہ سے ہر عظمند سمجھ سکتا ہے کہ اس کے پیچھے بغض کا ایک سمندر موجزن تھا.جس شخص کا اپنا باپ جب اُس نے بیعت کی تھی اس عمر سے زیادہ تھا جس عمر کو میں 42 سال کی خدمت کے بعد پہنچا ہوں.وہ اگر کہتا ہے کہ خلیفہ بڑھا ہو گیا ہے اسے اب معزول کر دینا چاہئے تو یہ شدید بغض کی وجہ سے ہی ہو سکتا ہے ورنہ اس کے منہ سے یہ فقرہ نہ نکلتا.شدید بغض انسان کی عقل پر پردہ ڈال دیتا ہے.اگر اس میں ذرا بھی عقل ہوتی تو وہ سمجھ سکتا تھا کہ میں یہ فقرہ منہ سے نکال کر اپنے باپ کو گالی دے رہا ہوں.جیسے انسان بعض اوقات غصہ میں آکر یا پاگل پن کی وجہ سے اپنے بیٹے کو حرام زادہ کہہ دیتا ہے اور وہ یہ نہیں سمجھتا کہ وہ یہ لفظ کہہ کر اپنی بیوی کو اور اپنے آپ کو گالی دے رہا ہے.اسی طرح اس نوجوان کی عقل ماری گئی اور اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر حملہ ہو تا تھا.دنیا میں کوئی شخص جان بوجھ کر اپنے باپ کو گالی نہیں دیتا.ہاں بغض اور غصہ کی وجہ سے ایسا کر لیتا ہے اور یہ خیال نہیں کرتا کہ وہ اپنے باپ کو گالی دے رہا ہے.اس نوجوان کی مجھ سے کوئی لڑائی نہیں تھی اور نہ ہی میں اس کے سامنے موجود تھا کہ وہ غصہ میں آکر یہ بات کہہ دیتا.ہاں اس کے دل میں بغض اتنا بڑھ گیا تھا کہ اس کی وجہ سے اس نے وہ بات کہی جس کی وجہ سے اس کے باپ پر بھی حملہ ہوتا تھا.قرآن بھی یہی کہتا ہے کہ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ کہ ان کے منہ سے بغض کی بعض باتیں نکلی ہیں ان سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ وَمَا تُخْفِی صدورهم اكبر جو کچھ ان کے سینوں میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے.کیونکہ ہر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس کے دل کے بغض کا علم کسی اور کو نہ ہو.اس لئے جو کچھ اس کے دل میں ہے وہ اس سے بہت بڑا ہے جو ظاہر ہو چکا ہے.

Page 418

انوار العلوم جلد 25 394 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات غرض خدا تعالیٰ نے اس آیت میں جماعتی نظام کی مضبوطی کے لئے ایک اہم نصیحت بیان فرمائی ہے تمہیں یہ نصیحت ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے اور اس کے مطابق اپنے طریق کو بدلنا چاہئے ورنہ احمدیت آئندہ تمہارے ہاتھوں میں محفوظ نہیں ہو سکتی.تم ایک بہادر سپاہی کی طرح بنو.ایسا سپاہی جو اپنی جان ، اپنا مال، اپنی عزت اور اپنے خون کا ہر قطرہ احمدیت اور خلافت کی خاطر قربان کر دے اور کبھی بھی خلافتِ احمد یہ ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے دے جو پیغامیوں یا احراریوں وغیرہ کے زیر اثر ہوں.جس طرح خدا تعالیٰ نے بائیبل میں کہا تھا کہ سانپ کا سر ہمیشہ کچلا جائے گا اسی طرح تمہیں بھی اپنی ساری عمر فتنہ وفساد کے سانپ کے سر پر ایڑی رکھنی ہو گی اور دنیا کے کسی گوشہ میں بھی اسے پینے کی اجازت نہیں دینی ہو گی.اگر تم ایسا کرو گے تو قرآن کریم کہتا ہے خدا تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا اور خدا تعالیٰ سے زیادہ سچا اور کوئی نہیں.دیکھو اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد جماعت کو کس قدر مدد دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالانہ ہوا اس میں چھ سات سو آدمی تھے اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے عہد خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر گیارہ بارہ سو احمدی آئے تھے.لیکن اب ہمارے معمولی جلسوں پر بھی دو، اڑھائی ہزار احمدی آ جاتے ہیں اور جلسہ سالانہ پر تو ساٹھ ستر ہزار لوگ آتے ہیں.اس سے تم اندازہ کر لو کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کتنی طاقت دی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں لنگر خانہ پر پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ آجاتا تو آپ کو فکر پڑ جاتی اور فرماتے.لنگر خانہ کا خرچ اس قدر بڑھ گیا ہے اب اتنارو پیہ کہاں سے آئے گا.گویا جس شخص نے جماعت کی بنیادر کھی تھی وہ کسی زمانہ میں پندرہ سوماہوار کے اخراجات پر گھبراتا تھا.لیکن اب تمہارا صدر انجمن احمدیہ کا بجٹ بارہ تیرہ لاکھ کا ہوتا ہے اور صرف ضیافت پر پینتیس چھتیس ہزار روپیہ سالانہ خرچ ہو جاتا ہے.پندرہ سو روپیہ ماہوار خرچ کے معنے یہ ہیں کہ سال میں صرف اٹھارہ ہزار روپیہ خرچ ہو تا تھا لیکن اب صرف جامعتہ المبشرین اور طلباء کے وظائف وغیرہ کے سالانہ

Page 419

انوار العلوم جلد 25 395 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات اخراجات چھیاسٹھ ہزار روپے ہوتے ہیں.گویا ساڑھے پانچ ہزار روپیہ ماہوار.ہم حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلہ میں حیثیت ہی کیا رکھتے ہیں.وہ مامور من اللہ تھے اور اس لئے آئے تھے کہ دنیا کو ہدایت کی طرف لائیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا کے کونہ کونہ میں قائم کریں اور مسلمانوں کی غفلتوں اور مستیوں کو دور کر کے انہیں اسلامی رنگ میں رنگین کریں.لیکن ان کی زندگی میں جماعتی اخراجات پندرہ سو روپیہ پر پہنچتے ہیں تو گھبر ا جاتے ہیں اور خیال فرماتے ہیں کہ یہ اخراجات کہاں سے مہیا ہوں گے.لیکن اس وقت ہم جو آپکی جوتیاں جھاڑنے میں بھی فخر محسوس کرتے ہیں صرف ایک درسگاہ یعنی جامعتہ المبشرین پر ساڑھے پانچ ہزار روپے ماہوار خرچ کر رہے ہیں.اسی طرح مرکزی دفاتر اور بیرونی مشنوں کو ملا لیا جائے تو ماہوار خرچ ستر اسی ہزار روپیہ بن جاتا ہے.گویا آپ کے زمانہ میں جو خرچ پانچ سات سال میں ہو تا تھاوہ ہم ایک سال میں کرتے ہیں اور پھر بڑی آسانی سے کرتے ہیں.اسی طرح یہ خلافت کی ہی برکت ہے کہ تبلیغ اسلام کا وہ کام جو اس وقت دنیا میں اور کوئی جماعت نہیں کر رہی صرف جماعت احمد یہ کر رہی ہے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے.وہ ہماری جماعت کا سخت مخالف ہے مگر اس نے ایک دفعہ لکھا کہ جماعت احمدیہ کو بے شک ہم اسلام کا دشمن خیال کرتے ہیں لیکن اس وقت وہ تبلیغ اسلام کا جو کام کر رہی ہے گزشتہ تیرہ سو سال میں وہ کام بڑے بڑے اسلامی بادشاہوں کو بھی کرنے کی توفیق نہیں ملی.جماعت کا یہ کارنامہ محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل اور تمہارے ایمانوں کی وجہ سے ہے.آپ کی پیشگوئیاں تھیں اور تمہارا ایمان تھا.جب یہ دونوں مل گئے تو خدا تعالیٰ کی برکتیں نازل ہونی شروع ہوئیں اور جماعت نے وہ کام کیا جس کی توفیق مخالف ترین اخبار الفتح کے قول کے مطابق کسی بڑے سے بڑے اسلامی بادشاہ کو بھی آج تک نہیں مل سکی.اب تم روزانہ پڑھتے ہو کہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے روز بروز بڑھ رہی ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تم اور بھی ترقی کرو گے اور اُس وقت تمہارا چندہ ہیں پچیس لاکھ سالانہ نہیں ہو گا بلکہ کروڑ، دو کروڑ،

Page 420

انوار العلوم جلد 25 396 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات پانچ کروڑ ، دس کروڑ ، ہیں کروڑ ، پچاس کروڑ ، ارب، کھرب، پدم بلکہ اس سے بھی بڑھ جائے گا.اور پھر تم دنیا کے چپہ چپہ میں اپنے مبلغ رکھ سکو گے.انفرادی لحاظ سے تم اُس وقت بھی غریب ہو گے لیکن اپنے فرض کے ادا کرنے کی وجہ سے ایک قوم ہونے کے لحاظ سے تم امریکہ سے بھی زیادہ مالدار ہو گے.دنیا میں ہر جگہ تمہارے مبلغ ہوں گے.اور جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اتنے افسر دنیا کی کسی بڑی سے بڑی قوم کے بھی نہیں ہونگے.امریکہ کی فوج کے بھی اتنے افسر نہیں ہوں گے جتنے تمہارے مبلغ ہوں گے اور یہ محض تمہارے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ہو گا.اگر تم اپنے ایمان کو قائم رکھو گے تو تم اُس دن کو دیکھ لو گے.تمہارے باپ دادوں نے وہ دن دیکھا جب 1914ء میں پیغامیوں نے ہماری مخالفت کی.جب میں خلیفہ ہوا تو خزانہ میں صرف 17 روپے تھے.انہوں نے خیال کیا کہ اب قادیان تباہ ہو جائے گا لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسی برکت دی کہ اب ہم اپنے کسی طالب علم کو سترہ روپے ماہوار وظیفہ بھی دیتے ہیں تو وہ وظیفہ کم ہونے کی شکایت کرتا ہے.پیغامیوں کے خلاف پہلا اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس روپیہ نہیں تھا.میر ناصر نواب صاحب جو ہمارے نانا تھے انہیں پتہ لگا.وہ دارالضعفاء کے لئے چندہ جمع کیا کرتے تھے.ان کے پاس اس چندہ کا کچھ روپیہ تھا.وہ دو اڑھائی سو روپیہ میرے پاس لے آئے اور کہنے لگے اس سے اشتہار چھاپ لیں پھر خدا دے گا تو یہ رقم واپس کر دیں.پھر خدا تعالیٰ نے فضل کیا اور آمد آنی شروع ہوئی.اور اب یہ حالت ہے کہ پچھلے ہیں سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستر ہزار روپیہ چندہ میں نے دیا ہے.کجا یہ کہ ایک اشتہار شائع کرنے کے لئے میرے پاس دو اڑھائی سو روپیہ بھی نہیں تھا اور کجا یہ کہ خدا تعالیٰ نے میری اِس قسم کی امداد کی اور زمیندارہ میں اس قدر برکت دی کہ میں نے لاکھوں روپیہ بطور چندہ جماعت کو دیا.پھر مجھے یاد ہے کہ جب ہم نے پہلا پارہ شائع کرنا چاہا تو میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہمارے خاندان کے افراد اپنے روپیہ سے اسے شائع کر دیں لیکن روپیہ پاس نہیں تھا.

Page 421

انوار العلوم جلد 25 اُس وقت تک ہماری زمینداری کا کوئی انتظام نہیں تھا.میں نے اپنے مختار کو بلایا اور کہا ہم قرآن کریم چھپوانا چاہتے ہیں لیکن روپیہ پاس نہیں.وہ کہنے لگا آپ کو کس قدر روپے کی ضرورت ہے؟ میں نے کہا کہتے ہیں کہ پہلی جلد تین ہزار روپے میں چھپے گی.اس نے کہا میں روپیہ لا دیتا ہوں آپ صرف اس قدر اجازت دے دیں کہ میں کچھ زمین مکانوں کے لئے فروخت کر دوں.میں نے کہا اجازت ہے.ظہر کی نماز کے بعد میں نے اس سے بات کی اور عصر کی اذان ہوئی تو اس نے ایک پوٹلی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور کہا یہ لیں روپیہ.میں نے کہا.ہیں! قادیان والوں کے ہاں اتنا روپیہ ہے.وہ کہنے لگا اگر آپ تیس ہزار روپیہ بھی چاہیں تو میں آپ کو لا دیتا ہوں.لوگ مکانات بنانا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس زمین نہیں اگر انہیں زمین دے دی جائے تو روپیہ حاصل کرنا مشکل نہیں.میں نے کہا خیر اس وقت ہمیں اسی قدر روپیہ کی ضرورت ہے.چنانچہ اُس وقت ہم نے قرآن کریم کا پہلا پارہ شائع کر دیا.پھر میں نے الفضل جاری کیا تو اس وقت بھی میرے پاس روپیہ نہیں تھا.حکیم محمد عمر صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے میں آپ کو کچھ خریدار لا کر دیتا ہوں.اور تھوڑی دیر میں وہ ایک پوٹلی روپوں کی میرے پاس لے آئے.غرض ہم نے پیسوں سے کام شروع کیا اور آج ہمار ا لا کھوں کا بجٹ ہے اور ہماری انجمن کی جائیداد کروڑوں کی ہے.اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ میں خود گزشتہ بیس سال کی تحریک جدید میں تین لاکھ ستر ہزار روپیہ چندہ دے چکا ہوں.اسی طرح ایک لاکھ پچاس ہزار روپیہ میں نے صدرانجمن احمدیہ کو دیا ہے اور اتنی ہی جائیداد اسے دی ہے.گویا تین لاکھ روپیہ صدرانجمن احمد یہ کو دیا ہے اور تین لاکھ ستر ہزار روپیہ تحریک جدید کو دیا ہے اس لئے جب کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ میں نے جماعت کا روپیہ کھالیا ہے تو مجھے غصہ نہیں آتا کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ حسابی بات ہے جب انجمن کے رجسٹر سامنے آجائیں گے تو یہ شخص آپ ہی ذلیل ہو جائے گا.بہر حال اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آپ سب کو اپنی ذمہ داریوں کی 397 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات

Page 422

انوار العلوم جلد 25 398 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات طرف توجہ دلاتا ہوں.ان کو یاد رکھو اور اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنے بھائیوں اور دوستوں کو بھی سمجھاؤ کہ زبانی طور پر وفاداری کا عہد کرنے کے کوئی معنی نہیں.اگر تم واقعی وفادار ہو تو تمہیں منافقوں کا مقابلہ کرنا چاہئے اور ان کے ساتھ کسی قسم کا تعلق نہیں رکھنا چاہئے.کیونکہ انہوں نے لا يَأْلُونَكُم خَبَالا والی بات پوری کر دی ہے اور وہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں.قرآن کریم کی ہدایت یہی ہے کہ ان سے مخفی طور پر اور الگ ہو کر بات نہ کی جائے اور اس پر تمہیں عمل کرنا چاہئے تا کہ تم شیطانی حملوں سے محفوظ ہو جاؤ.ورنہ تم جانتے ہو کہ شیطان حضرت حوا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا اور جو شیطان حضرت حوا کی معرفت جنت میں گھس گیا تھا وہ جماعت احمد یہ میں کیوں نہیں گھس سکتا.ہاں اگر تم کو حضرت آدم والا قصہ یادر ہے تو تم اس سے بچ سکتے ہو.بائبل کھول کر پڑھو تمہیں معلوم ہو گا کہ شیطان نے دوست اور خیر خواہ بن کر ہی حضرت آدم اور حوا کو ورغلایا تھا.اسی طرح یہ لوگ بھی دوست اور ظاہر میں خیر خواہ بن کر تمہیں خراب کر سکتے ہیں لیکن اگر تم قرآنی ہدایت پر عمل کرو تو تم محفوظ ہو جاؤ گے اور شیطان خواہ کسی بھیس میں بھی آئے تم اس کے قبضہ میں نہیں آؤ گے.میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تم کو ہمیشہ خلافت کا خدمت گزار رکھے اور تمہارے ذریعہ احمد یہ خلافت قیامت تک محفوظ چلی جائے.اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت ہوتی رہے.اور تم اور تمہاری نسلیں قیامت تک اس کا جھنڈا اونچار کھیں.اور کبھی بھی وہ وقت نہ آئے کہ اسلام اور احمدیت کی اشاعت میں تمہارا یا تمہاری نسلوں کا حصہ نہ ہو.بلکہ ہمیشہ ہمیش کے لئے تمہارا اور تمہاری نسلوں کا اس میں حصہ ہو.اور جس طرح پہلے زمانہ میں خلافت کے دشمن ناکام ہوتے چلے آئے ہیں تم بھی جلد ہی سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں ان کو نا کام ہوتا دیکھ لو.“ اس کے بعد حضور نے عہد دہرایا اور دعا کروائی.دعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے ارشار فرمایا کہ:.وو واپس جانے سے پہلے میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ اس وقت موجودہ زمانہ

Page 423

انوار العلوم جلد 25 399 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات کے حالات کے لحاظ سے میں نے جماعت کے فتنہ پردازوں کا ذکر کیا ہے لیکن اس موقع کے زیادہ مناسب حال آج کا خطبہ جمعہ تھا جس میں میں نے خدمتِ خلق پر زور دیا ہے.خدام الاحمدیہ نے پچھلے دنوں ایسا شاندار کام کیا تھا کہ بڑے بڑے مخالفوں نے یہ تسلیم کیا کہ ان کی یہ خدمت بے نظیر ہے.تم اس خدمت کو جاری رکھو اور اپنی نیک شہرت کو مد ہم نہ ہونے دو.جب بھی ملک اور قوم پر کوئی مصیبت آئے سب سے آگے خدمت کرنے والے خدام الاحمدیہ کو ہونا چاہئے.یہاں تک کہ سلسلہ کا شدید سے شدید دشمن بھی یہ مان لے کہ در حقیقت یہی لوگ ملک کے بچے خادم ہیں، یہی لوگ غریبوں کے ہمدرد ہیں، یہی لوگ مسکینوں اور بیواؤں کے کام آنے والے ہیں.یہی لوگ مصیبت زدوں کی مصیبت کو دور کرنے والے ہیں.تم اتنی خدمت کرو کہ شدید سے شدید دشمن بھی تمہارا گہر ا دوست بن جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم ایسا سلوک کرو کہ تمہارا دشمن بھی دوست بن جائے.یہی خدام الاحمدیہ کو کرنا چاہئے.اگر تمہارے کاموں کی وجہ سے تمہارے علاقہ کے لوگ تمہارے بھی اور تمہارے احمدی بھائیوں کے بھی دوست بن گئے ہیں، تمہارے کاموں کی قدر کرنے لگ گئے ہیں اور تم کو اپنا سچا خادم سمجھتے ہیں اور اپنا مددگار سمجھتے ہیں تو تم سچے خادم ہو.اور اگر تم یہ روح پیدا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو تمہیں ہمیشہ استغفار کرنا چاہئے کہ تمہارے کاموں میں کوئی کمی رہ گئی ہے جس کی وجہ سے تم لوگوں کے دلوں میں اثر پیدا نہیں کر سکے.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور آپ کی مدد کرے.“ (الفضل 24 اپریل 1957ء)

Page 424

انوار العلوم جلد 25 400 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات خدا تعالیٰ نے ہر میدان میں جماعت احمدیہ کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے اختتامی خطاب (فرموده 21 / اکتوبر 1956ء بر موقع سالانہ اجتماع مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ مقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- "اس دفعہ مختلف وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ کی مختلف مرکزی انجمنوں نے قریب قریب عرصہ میں اپنے سالانہ اجتماع منعقد کئے ہیں جس کی وجہ سے مجھ پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بتایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے تین چار سال پہلے جلسہ سالانہ پر میں آپ کی تقاریر سنتا رہا ہوں آپ کی وفات کے وقت میری عمر 19 سال کی تھی اور اس سے چار پانچ سال قبل میری عمر قریباً 14 سال کی تھی اس لئے میں آپ کی مجالس میں جاتا اور تقاریر سنتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تقریر عام طور پر پچاس منٹ یا ایک گھنٹہ کی ہوتی تھی اور وفات سے پانچ سال پہلے آپ کی عمر قریباً اتنی ہی تھی جتنی اس وقت میری ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی کسی مشیت کے ماتحت مجھ پر ایک خطر ناک بیماری کا حملہ ہوا جس کی وجہ سے میں اب لمبی تقاریر نہیں کر سکتا.پہلے میں جلسہ سالانہ کے موقع پر پانچ پانچ چھ چھ گھنٹہ کی تقاریر کر لیتا تھا مگر اس بیماری کے اثر کی وجہ سے مجھے جلدی ضعف محسوس ہونے لگتا ہے.آج لجنہ اماء اللہ کا اجتماع بھی تھا وہاں بھی میں نے تقریر کی.انہوں نے مجھ سے کہا کہ کئی سال سے آپ کی عورتوں میں کوئی تقریر نہیں ہوئی اس لئے آپ اس موقع پر عورتوں میں بھی تقریر کریں.چنانچہ میں نے تقریر کرنی منظور کرلی اور صبح وہاں میری تقریر تھی.اس وقت تمہاری باری آگئی ہے.چار پانچ دن کے بعد انصار اللہ کی باری آجائے گی پھر جلسہ سالانہ

Page 425

انوار العلوم جلد 25 401 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات آجائے گا.اس موقع پر بھی مجھے تقاریر کرنی ہوں گی.پھر ان کاموں کے علاوہ تفسیر کا اہم کام بھی ہے جو میں کر رہا ہوں.اس کی وجہ سے نہ صرف مجھے کوفت محسوس ہو رہی ہے بلکہ طبیعت پر بڑا بوجھ محسوس ہو رہا ہے.اس لئے اگرچہ میری خواہش تھی کہ اس موقع پر میں لمبی تقریر کروں مگر میں زیادہ لمبی تقریر نہیں کر سکتا.اب پیشتر اس کے کہ میں اپنی تقریر شروع کروں آپ سب کھڑے ہو جائیں تاکہ عہد دہرایا جائے.“ حضور کے اس ارشاد پر تمام خدام کھڑے ہو گئے اور حضور نے عہد دُہرایا.عہد دہرانے کے بعد حضور نے فرمایا: " آج میں قرآن کریم کی ایک آیت کے متعلق کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا چاہتا تھا مگر اس وقت میں محسوس کرتا ہو کہ میں اس تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کر سکتا کیونکہ کل میں نے خطبہ جمعہ بھی پڑھا اور پھر آپ کے اجتماع میں بھی تقریر کی.اسی طرح آج صبح لجنہ اماء اللہ کے اجتماع میں بھی مجھے تقریر کرنی پڑی جس کی وجہ سے مجھے اس وقت کوفت محسوس ہو رہی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِى ارتَضى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنًا يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۖ وَمَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ 4 یعنی ہم تم میں سے مومن اور ایمان بالخلافت رکھنے والوں اور اس کے مطابق عمل کرنے والوں سے وعدہ کرتے ہیں کہ ان کو ہم ضرور اُسی طرح خلیفہ بنائیں گے جس طرح کہ پہلی قوموں یعنی یہود و نصاریٰ میں سے بنائے ہیں.اس آیت سے پتہ لگتا ہے کہ خلافت ایک عہد ہے پیشگوئی نہیں، اور عہد مشروط ہوتا ہے لیکن پیشگوئی کے لئے ضروری نہیں کہ وہ مشروط ہو.پیشگوئی مشروط ہو تو وہ مشروط رہتی ہے اور اگر مشروط نہ ہو لیکن اس میں کسی انعام کا وعدہ ہو تو وہ ضرور پوری ہو جاتی ہے.یہاں وعدہ کا لفظ بھی موجود ہے اور اس کے ساتھ شرط بھی مذکور ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ قرآن کریم نے خود اس وعدہ کی تشریح کر دی ہے کہ ہمارا یہ وعدہ کہ ہم تم میں سے مومنوں اور اعمالِ صالحہ بجالانے والوں کو اسی طرح خلیفہ بنائیں گے جیسے.

Page 426

انوار العلوم جلد 25 ہم نے ان سے پہلے یہود و نصاریٰ میں خلیفہ بنائے ضروری نہیں کہ پورا ہو.ہاں اگر تم بعض باتوں پر عمل کرو گے تو ہمارا یہ وعدہ ضرور پورا ہو گا.پہلی شرط اس کی یہ بیان فرماتا ہے کہ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ تمہیں خلافت پر ایمان رکھنا ہو گا.چونکہ آگے خلافت کا ذکر آتا ہے اس لئے یہاں ایمان کا تعلق اس سے سمجھا جائے گا.وَعَمِلُوا الصلحتِ پھر تمہیں نیک اعمال بجالانے ہوں گے.اب کسی چیز پر ایمان لانے کے یہ معنے ہوتے ہیں کہ اسے پورا کرنے کی کوشش کی جائے.مثلاً کسی شخص کو اس بات پر ایمان ہو کہ میں بادشاہ بننے والا ہوں یا اسے ایمان ہو کہ میں کسی بڑے عہدہ پر پہنچنے والا ہوں تو وہ اس کے لئے مناسب کوشش بھی کرتا ہے.اگر ایک طالب علم یہ سمجھے کہ وہ ایم.اے کا امتحان پاس کرے تو اس کے لئے موقع ہے کہ وہ سی.پی.ایس پاس کرے یا پراونشل سروس میں ای.اے.سی بن جائے یا اسسٹنٹ کمشنر بن جائے تو پھر وہ اسکے مطابق محنت بھی کرتا ہے.لیکن اگر اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان عہدوں کے حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا تو وہ ان کے لئے کوشش اور محنت بھی نہیں کرتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن کو اس بات پر یقین ہو کہ وہ خلافت کے ذریعہ ہی ترقی کر سکتے ہیں اور پھر وہ اس کی شان کے مطابق کام بھی کریں تو ہمار اوعدہ ہے کہ ہم انہیں خلیفہ بنائیں گے.لیکن اگر انہیں یقین نہ ہو کہ ان کی ترقی خلافت کے ساتھ وابستہ ہے اور وہ اس کے مطابق عمل بھی نہ کرتے ہوں تو ہمارا ان سے کوئی وعدہ نہیں.چنانچہ دیکھ لو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلافت ہوئی اور پھر کیسی شاندار ہوئی.آپ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے.اُس وقت انصار نے چاہا کہ ایک خلیفہ ہم میں سے ہو اور ایک خلیفہ مہاجرین میں سے ہو.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ اور بعض اور صحابہ فوراً اُس جگہ تشریف لے گئے جہاں انصار جمع تھے اور آپ نے انہیں بتایا کہ دیکھو! دو خلیفوں والی بات غلط ہے، تفرقہ سے اسلام ترقی نہیں کرے گا.خلیفہ بہر حال ایک ہی ہو گا.اگر تم تفرقہ کرو گے تو تمہارا شیرازہ بکھر جائے گا، تمہاری عزتیں ختم ہو جائیں گی اور عرب تمہیں تنکا بوٹی کر ڈالیں گے تم یہ بات نہ کرو.بعض انصار نے آپ کے مقابل پر دلائل 402 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات

Page 427

انوار العلوم جلد 25 403 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات پیش کرنے شروع کئے.حضرت عمررؓ فرماتے ہیں میں نے خیال کیا کہ حضرت ابو بکر کو تو بولنا نہیں آتا میں انصار کے سامنے تقریر کرو گا.لیکن جب حضرت ابو بکر نے تقریر کی تو آپ نے وہ سارے دلائل بیان کر دیئے جو میرے ذہن میں تھے اور پھر اس سے بھی زیادہ دلائل بیان کئے.میں نے یہ دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ آج یہ بڑھا مجھے سے بڑھ گیا ہے آخر اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ خود انصار میں سے بعض لوگ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا حضرت ابو بکر جو کچھ فرمارہے ہیں وہ ٹھیک ہے مکہ والوں کے سوا عرب کسی اور کی اطاعت نہیں کریں گے.پھر ایک انصاری نے جذباتی طور پر کہا اے میری قوم ! اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں اپنا ایک رسول مبعوث فرمایا، اس کے اپنے رشتہ داروں نے اسے شہر سے نکال دیا تو ہم نے اُسے اپنے گھروں میں جگہ دی اور خد اتعالیٰ نے اس کے طفیل ہمیں عزت دی.ہم مدینہ والے گمنام تھے، ذلیل تھے مگر اس رسول کی وجہ سے ہم معزز اور مشہور ہو گئے.اب تم اس چیز کو جس نے ہمیں معزز بنایا کافی سمجھو اور زیادہ لالچ نہ کرو ایسا نہ ہو کہ ہمیں اس کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے.اُس وقت حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ دیکھو ! خلافت کو قائم کرنا ضروری ہے باقی تم جس کو چاہو خلیفہ بنالو مجھے خلیفہ بننے کی کوئی خواہش نہیں.آپ نے فرمایا یہ ابو عبیدہ نہیں ان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امین الامت کا خطاب عطا فرمایا ہے تم ان کی بیعت کر لو.پھر عمر نہیں یہ اسلام کے لئے ایک ننگی تلوار ہیں تم ان کی بیعت کر لو.حضرت عمرؓ نے فرمایا ابو بکر ! اب باتیں ختم کیجئے ہاتھ بڑھائیے اور ہماری بیت لیجئے.حضرت ابو بکڑ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ نے جرات پیدا کر دی اور آپ نے بیعت لے لی.بعینہ یہی واقعہ حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد میرے ساتھ پیش آیا.جب میں نے کہا میں اس قابل نہیں کہ خلیفہ بنوں نہ میری تعلیم ایسی ہے اور نہ تجربہ تو اُس وقت بارہ چودہ سو احمدی جو جمع تھے انہوں نے شور مچادیا کہ ہم آپ کے سوا اور کسی کی بیعت کرنا نہیں چاہتے.مجھے اس وقت بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں تھے.میں نے کہا مجھے تو بیعت کے الفاظ بھی یاد نہیں میں بیعت کیسے لوں.اس پر ایک دوست کھڑے

Page 428

انوار العلوم جلد 25 404 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات ہو گئے اور انہوں نے کہا کہ مجھے بیعت کے الفاظ یاد ہیں میں بیعت کے الفاظ بولتا جاتا ہوں اور آپ دُہراتے جائیں.چنانچہ وہ دوست بیعت کے الفاظ بولتے گئے اور میں انہیں ڈ ہر ا تا گیا اور اس طرح میں نے بیعت لی گویا پہلے دن کی بیعت دراصل کسی اور کی تھی میں تو صرف بیعت کے الفاظ دُہراتا جاتا تھا بعد میں میں نے بیعت کے الفاظ یاد کئے.غرض اِس وقت وہی حال ہوا جو اُس وقت ہوا تھا جب حضرت ابو بکر خلیفہ منتخب ہوئے تھے.میں نے دیکھا کہ لوگ بیعت کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے.مولوی محمد علی صاحب ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کہا دوستو! غور کر لو اور میری ایک بات سن لو.مجھے معلوم نہ ہوا کہ لوگوں نے انہیں کیا جواب دیا ہے کیونکہ اُس وقت بہت شور تھا بعد میں پتہ لگا کہ لوگوں نے انہیں کہا.ہم آپ کی بات نہیں سنتے.چنانچہ وہ مجلس سے اٹھ کر باہر چلے گئے.اس کے بعد لوگ ہجوم کر کے بیعت کے لئے بڑھے اور ایک گھنٹہ کے اندر اندر جماعت کا شیر ازہ قائم ہو گیا.اُس وقت جس طرح میرے ذہن میں خلافت کا کوئی خیال نہیں تھا.اسی طرح یہ بھی خیال نہیں تھا کہ خلافت کے ساتھ ساتھ کونسی مشکلات مجھ پر ٹوٹ پڑیں گی.بعد میں پتہ لگا کہ پانچ چھ سو روپے ماہوار تو سکول کے اساتذہ کی تنخواہ ہے اور پھر کئی سو کا قرضہ ہے لیکن خزانہ میں صرف 17 روپے ہیں.گویا اُس مجلس سے نکلنے کے بعد محسوس ہوا کہ ایک بڑی مشکل ہمارے سامنے ہے.جماعت کے سارے مالدار تو دوسری پارٹی کے ساتھ چلے گئے ہیں اور جماعت کی کوئی آمدنی نہیں پھر یہ کام کیسے چلیں گے.لیکن بعد میں خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش ہوئی تو بگڑی سنور گئی.1914ء میں تو میرا یہ خیال تھا کہ خزانہ میں صرف 17 روپے ہیں اور اساتذہ کی تنخواہوں کے علاوہ کئی سو روپیہ کا قرضہ ہے جو دینا ہے.لیکن 1920ء میں جماعت کی یہ حالت تھی کہ جب میں نے اعلان کیا کہ ہم برلن میں مسجد بنائیں گے اس کیلئے ایک لاکھ روپیہ کی ضرورت ہے تو جماعتوں کی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر یہ روپیہ اکٹھا کر دیا.انہوں نے اپنے زیور اتار اتار کر دے دیئے کہ انہیں بیچ کر روپیہ اکٹھا کر لیا جائے.آج میں نے عورتوں کے اجتماع میں اس واقعہ کا ذکر

Page 429

انوار العلوم جلد 25 405 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات کیا تو میری بیوی نے بتایا کہ مجھے تو اسوقت پورا ہوش نہیں تھا میں ابھی بچی تھی اور مجھے سلسلہ کی ضرورتوں کا احساس نہیں تھا لیکن میری اماں کہا کرتی ہیں کہ جب حضور نے چندہ کی تحریک کی تو میری ساس نے (جو سید ولی اللہ شاہ صاحب کی والدہ تھیں اور میری بھی ساس تھیں) اپنی تمام بیٹیوں اور بہوؤں کو اکٹھا کیا اور کہا تم سب اپنے زیور اِس جگہ رکھ دو.پھر انہوں نے ان زیورات کو بیچ کر مسجد برلن کے لئے چندہ دے دیا.اس قسم کا جماعت میں ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ سینکڑوں گھروں میں ایسا ہوا کہ عورتوں نے اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کے زیورات اتروالئے اور انہیں فروخت کر کے مسجد برلن کے لئے دے دیا.غرض ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع ہو گیا.اب دو سال ہوئے میں نے ہالینڈ میں مسجد بنانے کی تحریک کی لیکن اب تک اس فنڈ میں صرف اتنی ہزار روپے جمع ہوئے ہیں حالانکہ اِس وقت جماعت کی عورتوں کی تعداد اُس وقت کی عورتوں سے بیسیوں گنا زیادہ ہے.اُس وقت عورتوں میں اتنا جوش تھا کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کر دیا.تو در حقیقت یہ جماعت کا ایمان ہی تھا جس کا اللہ تعالیٰ نے نمونہ دکھایا اور اُس نے بتایا کہ میں سلسلہ کو مدد دینے والا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ الہاما فرما یا تھا کہ اگر ساری دنیا بھی تجھ سے منہ موڑے تو میں آسمان سے اُتار ہو سکتا ہوں اور زمین سے نکال سکتا ہوں.تو حقیقت یہ ہے کہ ہم نے خلافت حقہ کی برکات اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کی ہیں.ہم ایک پیسہ کے بھی مالک نہیں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت دی، جس نے چندے دئے اور سلسلہ کے کام اب تک چلتے گئے اور چل رہے ہیں اور اب تو جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے کئی گناہ زیادہ ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں نے دینی ضرورتوں کے لئے خدا تعالیٰ سے کہا کہ اے اللہ ! تو مجھے ایک لاکھ روپیہ دے دے تو سلسلے کے کاموں کو چلاؤں.لیکن اب کل ہی میں حساب کر رہا تھا کہ میں نے خود چھ لاکھ ستر ہزار روپیہ سلسلہ کو بطور چندہ دیا ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ میں کتنا بیوقوف تھا کہ خدا تعالیٰ سے سلسلہ کی ضرورتوں کے لئے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا.مجھے تو اُس سے

Page 430

انوار العلوم جلد 25 406 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات ایک ارب روپیہ مانگنا چاہئے تھا.مانگنے والا خدا تعالیٰ کا خلیفہ ہو اور جس سے مانگا جائے وہ خود خدا کی ذات ہو تو پھر ایک لاکھ روپیہ مانگنے کے کیا معنے ہیں.مجھے تو یہ دعا کرنی چاہئے تھی کہ اے خدا ! تو مجھے ایک ارب روپیہ دے، ایک کھرب روپیہ دے یا ایک پدم روپیہ دے.میں نے بتایا ہے کہ اگرچہ میں نے خدا تعالیٰ سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے اتنا فضل کیا کہ صرف میں نے پچھلے سالوں میں چھ لاکھ ستر ہزار روپیہ سلسلہ کو چندہ کے طور پر دیا ہے.بے شک وہ روپیہ سارا نقدی کی صورت میں نہ تھا کچھ زمین تھی جو میں نے سلسلہ کو دی مگر وہ زمین بھی خدا تعالیٰ نے ہی دی تھی.میرے پاس تو زمین نہیں تھی ہم تو اپنی ساری زمین قادیان چھوڑ آئے تھے.اپنے باغات اور مکانات بھی قادیان چھوڑ آئے تھے.قادیان میں میری جائیداد کافی تھی مگر اس کے باوجو د میں نے سلسلہ کو اتنا روپیہ نہیں دیا تھا جتنا قادیان سے نکلنے کے بعد دیا.1947ء میں ہم قادیان سے آئے ہیں اور تحریک جدید 1934ء میں شروع ہوئی تھی.گویا اُس وقت تحریک جدید کو جاری ہوئے بارہ سال کا عرصہ گزر چکا تھا اور اس بارہ سال کے عرصہ میں میر ا تحریک جدید کا چندہ قریباً چھ ہزار روپیہ تھا لیکن بعد کے دس سال ملا کر چندہ تحریک جدید دو لاکھ بیس ہزار روپیہ بن جاتا ہے.اس کے علاوہ ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی زمین میں نے تحریک جدید کو دی ہے.یہ زمین مجھے چودھری ظفر اللہ خان صاحب نے بطور نذرانہ دی تھی.میں نے خیال کیا کہ اتنا بڑا نذرانہ اپنے پاس رکھنا درست نہیں چنانچہ میں نے وہ ساری زمین سلسلہ کو دے دی.اس طرح تین لاکھ ستر ہزار روپیہ میں نے صرف تحریک جدید کو ادا کیا.اسی طرح خلافت جوبلی کے موقع پر چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کی تحریک پر جب جماعت نے مجھے روپیہ پیش کیا تو میر محمد اسحاق صاحب کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے متعلق جو دعائیں کی ہیں ان میں یہ دعا بھی ہے کہ : دے اس کو عمر و دولت کر دُور ہر اندھیرا پس اس روپیہ کے ذریعہ آپ کی یہ دعا پوری ہو گی.اس طرح یہ پیشگوئی بھی

Page 431

انوار العلوم جلد 25 407 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات پوری ہو گی کہ : وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہو گا " 5 اس پر میں نے کہا کہ میں یہ روپیہ تو لے لیتا ہوں لیکن اس شرط پر کہ میں یہ روپیہ سلسلہ کے کاموں پر ہی صرف کروں گا.چنانچہ میں نے وہ رو پیپر تو لے لیا لیکن میں نے اسے اپنی ذات پر نہیں بلکہ سلسلہ کے کاموں پر خرچ کیا اور صد را مجمن احمدیہ کو دے دیا.اب میں نے ہیمبرگ کی مسجد کے لئے تحریک کی ہے کہ جماعت کے دوست اس کے لئے ڈیڑھ ڈیڑھ سو روپیہ دیں لیکن اگر اللہ تعالیٰ ہمیں مال دے تو ہمارے سلسلہ میں تو یہ ہونا چاہیے کہ ہمارا ایک ایک آدمی ایک ایک مسجد بنادے.خود مجھے خیال آتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ مجھے کشائش عطا فرمائے تو میں بھی اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں اور کوئی تعجب نہیں کہ خدا تعالیٰ مجھے اپنی زندگی میں ہی اس بات کی توفیق دے دے اور میں کسی نہ کسی یورپین ملک میں اپنی طرف سے ایک مسجد بنادوں.یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے دینے پر منحصر ہے.انسان کی اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہو سکتا.ہم لوگ زمیندار ہیں اور ہمارے ملک میں زمیندارہ کی بہت ناقدری ہے یعنی یہاں لائلپور اور سر گودھا کے اضلاع کی زمینوں میں بڑی سے بڑی آمدن ایک سو روپیہ فی ایکڑ ہے حالانکہ یورپین ممالک میں فی ایکٹر آمد اس سے کئی گنا زیادہ ہے.میں جب یورپ گیا تو میں وہاں زمینوں کی آمد نیں پو چھنی شروع کیں مجھے معلوم ہوا کہ اٹلی میں فی ایکٹر آمد چار سو روپیہ ہے اور ہالینڈ میں ایکٹر آمد تین ہزار روپیہ ہے.پھر میں نے میاں محمد ممتاز صاحب دولتانہ کا بیان پڑھا.وہ جاپان گئے تھے اور وہاں انہوں نے زمین کی آمدنوں کا جائزہ لیا تھا.انہوں نے بیان کیا تھا کہ جاپان میں فی ایکڑ آمد چھ ہزار روپے ہے.اس کے یہ معنے ہوئے کہ اگر میری ایک سو ایکٹر زمین بھی ہو.حالانکہ وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور اس سے ہالینڈ والی آمد ہو تو تین لاکھ روپیہ سالانہ کی آمد ہو جاتی ہے اور اگر جاپان والی آمد ہو تو بڑی آسانی کے ساتھ ایک نہیں کئی مساجد میں اکیلا تعمیر کر اسکتا ہوں.میرا یہ طریق ہے کہ میں اپنی ذات پر زیادہ روپیہ خرچ نہیں کرتا اور نہ اپنے

Page 432

انوار العلوم جلد 25 408 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات خاندان پر خرچ کرتا ہوں بلکہ جو کچھ میرے پاس آتا ہے اس میں سے کچھ رقم اپنے معمولی اخراجات کے لئے رکھنے کے بعد سلسلہ کے لئے دے دیتا ہوں.خرچ کرنے کو تو لوگ دس دس کروڑ روپیہ بھی کر لیتے ہیں لیکن مجھے جب بھی خدا تعالیٰ نے دیا ہے میں نے وہ خدا تعالیٰ کے رستے میں ہی دیدیا ہے.بیشک میرے بیوی بچے مانگتے رہیں میں انہیں نہیں دیتا.میں انہیں کہتا ہوں کہ تمہیں وہی گزارے دوں گا جن سے تمہارے معمولی اخراجات چل سکیں.زمانہ کے حالات کے مطابق میں بعض اوقات انہیں زیادہ بھی دے دیتا ہوں مثلاً اگر وہ ثابت کر دیں کہ اس وقت گھی مہنگا ہو گیا ہے، ایندھن کی قیمت چڑھ گئی ہے یا دھوبی وغیرہ کا خرچ بڑھ گیا ہے تو میں اس کے لحاظ سے زیادہ بھی دے دیتا ہوں لیکن اس طرح نہیں کہ ساری کی ساری آمدن ان کے حوالہ کر دوں کہ جہاں جی چاہیں خرچ کر لیں.غرض میں گھر کے معمولی گزارہ کے لئے اخراجات رکھنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے وہ سلسلہ کو دے دیتا ہوں.اگر اللہ تعالے افضل کرے اور کسی وقت وہ ہمارے ملک والوں کو عقل اور سمجھ دے دے اور ہماری آمد نیں بڑھ جائیں تو سال میں ایک مسجد چھوڑ دو دو مساجد بھی ہم بنو اسکتے ہیں اور یہ سب خلافت ہی کی برکت ہے.میں جب نیا نیا خلیفہ ہو ا تو مجھے الہام ہوا کہ "مبارک ہو قادیان کی غریب جماعت تم پر خلافت کی رحمتیں یا برکتیں نازل ہوتی ہیں." اس دفعہ میں نے یہ الہام لکھ کر قادیان والوں کو بھجوایا اور ان کو توجہ دلائی کہ تم اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرو اور دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ وہ برکتیں تم پر ہمیشہ نازل کرتا رہے.اب خلافت کی برکات سے اس علاقہ والوں کو بھی حصہ ملنا شروع ہو گیا ہے چنانچہ اس علاقہ میں کسی زمانہ میں صرف چند احمدی تھے مگر اب ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے.اور ہمیں امید ہے کہ اگر خد اتعالیٰ چاہے تو وہ ایک دوسال میں پندرہ بیس ہزار ہو جائیں گے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک دفعہ میں نے خدا تعالیٰ سے ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا لیکن اب میں خدا تعالیٰ سے اربوں مانگا کرتا ہوں.میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ مانگ کر غلطی کی.اس وقت اگر یورپین اور دوسرے اہم ممالک کا شمار کیا جائے اور ان مقامات کا جائزہ لیا جائے جہاں

Page 433

انوار العلوم جلد 25 409 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات مسجدوں کی ضرورت ہے تو ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے قریب بن جاتی ہے.اور اگر ان ڈیڑھ سو مقامات پر ایک ایک مسجد بھی بنائی جائے اور ہر ایک مسجد پر ایک ایک لاکھ روپیہ خرچ کیا جائے تو ان پر ڈیڑھ کروڑ روپیہ خرچ ہو جائے گا اور پھر بھی صرف مشہور ممالک میں ایک ایک مسجد بنے گی.پھر ایک ایک لاکھ روپیہ سے ہمارا کیا بنتا ہے.ہمارا صرف مبلغوں کا سالانہ خرچ سوالاکھ روپیہ کے قریب بنتا ہے.اور اگر اس خرچ کو بھی شامل کیا جائے جو بیرونی جماعتیں کرتی ہیں تو یہ خرچ ڈیڑھ دو لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.غرض میں نے اُس سے صرف ایک لاکھ روپیہ مانگا تھا مگر اُس نے مجھے اس سے بہت زیادہ دیا.اب ہماری صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ بجٹ تیرہ لاکھ روپیہ کا ہے اور اگر تحریک جدید کے سالانہ بجٹ کو بھی ملا لیا جائے تو ہمار ا سالانہ بجٹ بائیس تیئیس لاکھ روپیہ سالانہ بن جاتا ہے.پس اگر خدا تعالیٰ میری اس بیوقوفی کی دعا کو قبول کر لیتا تو ہمارا سارا کام ختم ہو جاتا مگر اللہ تعالیٰ نے کہا ہم تیری اس دعا کو قبول نہیں کرتے جس میں تو نے ایک لاکھ روپیہ مانگا ہے.ہم تجھے اس سے بہت زیادہ دیں گے تاکہ سلسلہ کے کام چل سکیں.اب اللہ تعالیٰ کے اس انعام کو دیکھ کر کہ میں نے ایک لاکھ مانگا تھا مگر اس نے بائیس لاکھ سالانہ دیا.میں سمجھتا ہوں کہ اگر میں ایک کروڑ مانگتا تو بائیس کروڑ سالانہ ملتا.ایک ارب مانگتا تو بائیں ارب سالانہ ملتا.ایک کھرب مانگتا تو بائیں کھرب سالانہ ملتا اور اگر ایک پدم مانگتا تو بائیں پدم سالانہ ملتا.اور اس طرح ہماری جماعت کی آمد امریکہ اور انگلینڈ دونوں کی مجموعی آمد سے بھی بڑھ جاتی.پس خلافت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بہت سی برکات وابستہ کی ہوئی ہیں.تم ابھی بچے ہو تم اپنے باپ دادوں سے پوچھو کہ قادیان کی حیثیت جو شروع زمانہ خلافت میں تھی وہ کیا تھی اور پھر قادیان کو اللہ تعالے نے کس قدر ترقی بخشی تھی.جب میں خلیفہ ہوا تو پیغامیوں نے اس خیال سے کہ جماعت کے لوگ خلافت کو کسی طرح چھوڑ نہیں سکتے یہ تجویز کی کہ کوئی اور خلیفہ بنالیا جائے.اُن دنوں ضلع سیالکوٹ کے ایک دوست میر عابد علی صاحب تھے.وہ صوفی منش آدمی تھے لیکن بعد میں پاگل ہو گئے تھے.ایک دفعہ انہیں خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو

Page 434

انوار العلوم جلد 25 410 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات خدا تعالیٰ نے وعدے کئے تھے وہ میرے ساتھ بھی ہیں اور چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ نے فرمایا تھا کہ قادیان میں طاعون نہیں آئے گی.اس لئے میں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے برابر ہوں تو خدا تعالیٰ کا یہی وعدہ میرے ساتھ بھی ہے.میرے گاؤں میں بھی طاعون نہیں آئے گی.چنانچہ جب طاعون کی وبا پھوٹی تو انہوں نے اپنے اس خیال کے مطابق اپنے مریدوں سے جو تعداد میں پانچ سات سے زیادہ نہیں تھے کہا کہ وہ اپنے گھر چھوڑ کر اُن کے پاس آجائیں.چنانچہ وہ اُن کے پاس آگئے.لیکن بعد میں انہیں خود طاعون ہو گئی.اُن کے مریدوں نے کہا کہ چلو اب جنگل میں چلیں.لیکن اُنہوں نے کہا جنگل میں جانے کی ضرورت نہیں طاعون مجھ پر اثر نہیں کریگی.آخر جب مریدوں نے دیکھا کہ وہ پاگل ہو گئے ہیں تو وہ انہیں ہسپتال میں لے گئے اور وہ اسی جگہ طاعون سے فوت ہو گئے.بہر حال جب بیعت خلافت ہوئی تو پیغامیوں نے سمجھا میر عابد علی صاحب چونکہ صوفی منش آدمی ہیں اور عبادت گزار ہیں اس لئے الوصیت کے مطابق چالیس آدمیوں کا ان کی بیعت میں آجانا کوئی مشکل امر نہیں.چنانچہ مولوی صدر دین صاحب اور بعض دوسرے لوگ رات کو ان کے پاس گئے اور کہا آپ اس بات کے لئے تیار ہو جائیں چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہو گئے.اُس وقت مولوی محمد علی صاحب نے دیانتداری سے کام لیا.وہ جب اس مجلس سے واپس آگئے جس میں جماعت نے مجھے خلیفہ منتخب کیا تھا تو ان لوگوں نے ان سے کہا کہ آپ نے بڑی بیوقوفی کی.آپ اگر مجلس میں اعلان کر دیتے کہ میری بیعت کر لو تو چونکہ مرزا محمود احمد صاحب یہ کہہ چکے تھے کہ میں خلیفہ بننا نہیں چاہتا لوگوں نے آپ کی بیعت کر لینی تھی اور ان کی وجہ سے دوسرے لوگ بھی آپ کی بیعت کر لیتے.انہوں نے کہا میں یہ کام کیسے کر سکتا تھا.میں تو پہلے ہی کہہ چکا تھا کہ خلافت کی کوئی ضرورت نہیں.بہر حال جب ان لوگوں نے دیکھا کہ مولوی محمد علی صاحب خلیفہ بننے کے لئے تیار نہیں تو انہوں نے جیسا کہ میں نے بتایا ہے میر عابد علی صاحب کو بیعت لینے کے لئے آمادہ کیا اور اس کے بعد وہ ہری کین لے کر ساری رات قادیان میں دو ہزار احمدیوں کے ڈیروں پر پھرتے رہے.لیکن انہیں

Page 435

انوار العلوم جلد 25 411 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات چالیس آدمی بھی سید عابد علی شاہ صاحب کی بیعت کرنے والے نہ ملے.اُس وقت کے احمدیوں کا ایمان اس قدر پختہ تھا کہ غریب سے غریب احمدی بھی کروڑوں روپیہ پر تھوکنے کے لئے تیار نہیں تھا.وہ نہیں چاہتا تھا کہ جماعت میں فتنہ اور تفرقہ پھیلے.جب انہیں میر عابد علی صاحب کی بیعت کے لئے چالیس آدمی بھی نہ ملے تو وہ مایوس ہو کر واپس چلے گئے.غرض اللہ تعالیٰ نے ہمیں خلافتِ حقہ کی وجہ سے کئی معجزات دکھائے ہیں.تم دیکھ لو 1934ء میں مجلس احرار نے جماعت پر کس طرح حملہ کیا تھا لیکن وہ اس حملہ میں کس طرح ناکام ہوئے.انہوں نے منہ کی کھائی.پھر 1947ء میں قادیان میں کیسا خطرناک وقت آیا لیکن ہم نہ صرف احمدیوں کو بحفاظت نکال لائے بلکہ انہیں لاریوں میں سوار کر کے پاکستان لے آئے.دوسرے لوگ جو پیدل آئے تھے اُن میں سے اکثر مارے گئے لیکن قادیان کے رہنے والوں کا بال تک بیکا نہیں ہوا.اب بھی کچھ دن ہوئے مجھے ایک آدمی ملا.اُس نے مجھے بتایا کہ آپ نے ہمیں حکم دیا تھا کہ میری اجازت کے بغیر کوئی شخص قادیان سے نہ نکلے.چنانچہ ہم نے تو آپ کے حکم کی تعمیل کی اور وہاں ٹھہرے رہے لیکن میرے ایک رشتہ دار گھبر اکر ایک قافلہ کے ساتھ پیدل آگئے اور راستہ میں ہی مارے گئے.ہم جو وہاں بیٹھے رہے لاریوں میں سوار ہو کر حفاظت سے پاکستان آگئے.اُس وقت اکثر ایسا ہوا کہ پیدل قافلے پاکستان کی طرف آئے اور جب وہ بارڈر کر اس کرنے لگے تو سکھوں نے اُنہیں آلیا اور وہ مارے گئے.بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ پیدل قافلہ قادیان سے نکلتے ہی سکھوں کے ہاتھوں مارا گیا اور اگر وہاں سے محفوظ نکل آیا تو بٹالہ آکر یا فتح گڑھ چوڑیاں کے پاس مارا گیا.لیکن وہ میری ہدایت کے مطابق قادیان میں بیٹھے رہے اور میری اجازت کا انتظار کرتے رہے.وہ سلامتی کے ساتھ لاریوں میں سوار ہو کر لاہور آئے.غرض ہر میدان میں خدا تعالیٰ نے جماعت کو خلافت کی برکات سے نوازا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ جماعت انہیں یاد رکھے.مگر بڑی مصیبت یہ ہے کہ لوگ انہیں یاد نہیں رکھتے.

Page 436

انوار العلوم جلد 25 412 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات پچھلے مہینہ میں ہی میں نے ایک رؤیا دیکھا تھا کہ کوئی غیر مرئی وجود مجھے کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو وقفہ وقفہ کے بعد جماعت میں فتنہ پیدا ہونے دیتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ ہے کہ وہ ظاہر کرے کہ جماعت کس طرح آپ کے پیچھے پیچھے چلتی ہے.یا جب آپ کسی خاص طرف مڑیں تو کس سرعت کے ساتھ آپ کے ساتھ مڑتی ہے.یا جب آپ اپنی منزل مقصود کی طرف جائیں تو وہ کس طرح اسی منزل مقصود کو اختیار کر لیتی اب دیکھو یہ فتنہ بھی جماعت کے لئے ایک آزمائش تھی لیکن بعض لوگ یہ دیکھ کر ڈر گئے کہ اس میں حصہ لینے والے حضرت خلیفہ اول کے لڑکے ہیں.اُنہوں نے اس بات پر غور نہ کیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی آپ کا انکار کیا تھا اور اس انکار کی وجہ سے وہ عذاب الہی سے بچ نہیں سکا.پھر حضرت خلیفہ المسیح الاول کی اولاد کے اس فتنہ میں ملوث ہونے کی وجہ سے ہمیں کس بات کا خوف ہے.اگر وہ فتنہ میں ملوث ہیں تو خدا تعالیٰ ان کی کوئی پروا نہیں کرے گا.شروع شروع میں جب فتنہ اٹھا تو چند دنوں تک بعض دوستوں کے گھبراہٹ کے خطوط آئے اور انہوں نے لکھا کہ ایک چھوٹی سی بات کو بڑا بنادیا گیا ہے.اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا ہے.لیکن تھوڑے ہی دنوں کے بعد ساری جماعت اپنے ایمان اور اخلاص کی وجہ سے ان لوگوں سے نفرت کرنے لگ گئی اور مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کے اور بھی بہت سے کارنامے ہیں مگر اس بڑھاپے کی عمر میں اور ضعف کی حالت میں جو یہ کارنامہ آپ نے سر انجام دیا ہے یہ اپنی شان میں دوسرے کارناموں سے بڑھ گیا ہے.آپ نے بڑی جرات اور ہمت کے ساتھ ان لوگوں کو ننگا کر دیا ہے جو بڑے بڑے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے اور سلسلہ کو نقصان پہنچانے کے درپے تھے.اس طرح آپ نے جماعت کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچالیا ہے.مری میں مجھے ایک غیر احمدی کرنیل ملے انہوں نے کہا کہ جو واقعات 1953ء میں احمدیوں پر گزرے تھے وہ اب پھر ان پر گزرنے والے ہیں.اس لئے آپ ابھی سے

Page 437

انوار العلوم جلد 25 413 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات تیاری کر لیں.اور میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ 1953ء میں تو پولیس اور ملٹری نے آپ کی حفاظت کی تھی لیکن اب وہ آپ کی حفاظت نہیں کرے گی کیونکہ اُس وقت جو واقعات پیش آئے تھے ان کی وجہ سے وہ ڈر گئی ہے.جب وہ خاموش ہوئے تو میں نے کہا.کرنل صاحب! پچھلی دفعہ میں نے کون سا تیر مارا تھا جو آب ماروں گا.پچھلی دفعہ بھی خد اتعالیٰ نے ہی جماعت کی حفاظت کے سامان کئے تھے اور اب بھی وہی اس کی حفاظت کرے گا.جب میر ا خدا زندہ ہے تو مجھے فکر کرنے کی کیا ضرورت ہے.میری اس بات کا کرنل صاحب پر گہرا اثر ہوا اچنانچہ جب میں ان کے پاس سے اُٹھا اور دہلیز سے باہر نکلنے لگا تو وہ کہنے لگے فیتھ از بلائنڈ (Faith is blind) یعنی یقین اور ایمان اندھا ہو تا ہے.وہ خطرات کی پروا نہیں کرتا.جب کسی شخص میں ایمان پایا جاتا ہو تو اُسے آگے آنے والے مصائب کا کوئی فکر نہیں ہوتا.جب منافقین کا فتنہ اٹھا تو انہی کرنل صاحب نے ایک احمدی افسر کو جو اُن کے قریب ہی رہتے تھے بلایا اور کہا کہ میری طرف سے مرزا صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے یہ کیا کیا ہے اللہ رکھا کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی.اس مضمون سے اُسے بلا ضرورت شہرت مل جائے گی.میں نے اس احمدی دوست کو خط لکھا کہ میری طرف سے کرنل صاحب کو کہہ دینا کہ آپ نے خود ہی تو کہا تھا کہ جماعت پر 1953ء والے واقعات دوبارہ آنے والے ہیں، آپ ابھی سے تیاری کر لیں.اب جبکہ میں نے اس بارہ میں کارروائی کی ہے تو آپ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ آپ خواہ مخواہ فتنہ کو ہوا دے رہے ہیں.جب میں دوبارہ مری گیا تو میں نے اس احمدی دوست سے پوچھا کہ کیا میر اخط آپ کو مل گیا تھا اور آپ نے کرنل صاحب کو میر ا پیغام پہنچا دیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں میں نے پیغام دے دیا تھا اور انہوں نے بتایا تھا کہ اب میری تسلی ہو گئی ہے.شروع میں میں یہی سمجھتا تھا کہ یہ معمولی بات ہے لیکن اب جبکہ پیغامی اور غیر احمدی عقلمندی دونوں فتنہ پردازوں کے ساتھ مل گئے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ اس سے زیادہ اور کوئی نہیں تھی کہ آپ نے وقت پر اس فتنہ کو بھانپ لیا اور شرارت کو بے نقاب کر دیا.غرض خدا تعالیٰ ہر فتنہ اور مصیبت کے وقت جماعت کی خود حفاظت فرماتا ہے

Page 438

انوار العلوم جلد 25 414 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات چنانچہ فتنہ تو اب کھڑا کیا گیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے 1950ء میں ہی کو ئٹہ کے مقام پر مجھے بتا دیا تھا کہ بعض ایسے لوگوں کی طرف سے فتنہ اٹھایا جانے والا ہے جن کی رشتہ داری میری بیویوں کی طرف سے ہے.چنانچہ دیکھ لو عبد الوہاب میری ایک بیوی کی طرف سے رشتہ دار ہے.میری اس سے جدی رشتہ داری نہیں.پھر میری ایک خواب جنوری 1935ء میں الفضل میں شائع ہو چکی ہے اس میں بتایا گیا تھا کہ میں کسی پہاڑ پر ہوں کہ خلافت کے خلاف جماعت میں ایک فتنہ پیدا ہوا ہے چنانچہ جب موجودہ فتنہ ظاہر ہوا اُس وقت میں مری میں ہی تھا.پھر اس خواب میں میں نے سیالکوٹ کے لوگوں کو دیکھا جو موقع کی نزاکت سمجھ کر جمع ہو گئے تھے اور ان کے ساتھ کچھ اُن لوگوں کو بھی دیکھا جو باغی تھے.یہ خواب بڑے شاندار طور پر پوری ہوئی.چنانچہ اللہ رکھا سیالکوٹ کا ہی رہنے والا ہے.جب میں نے اس کے متعلق الفضل میں مضمون لکھا تو خود اس کے حقیقی بھائیوں نے مجھے لکھا کہ پہلے تو ہمارا یہ خیال تھا کہ شاید اس پر ظلم ہو رہا ہے.لیکن اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہ پیغامی ہے.اس نے ہمیں جو خطوط لکھے ہیں وہ پیغامیوں کے پستہ سے لکھے ہیں.پس ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں.ہم خلافت سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں.اب دیکھ لو 1934ء میں مجھے اس فتنہ کا خیال کیسے آسکتا تھا.پھر 1950ء والی خواب بھی مجھے یاد نہیں تھی.1950ء میں میں جب سندھ سے کوئٹہ گیا تو اپنی ایک لڑکی کو جو بیمار تھی ساتھ لے گیا.اُس نے اب مجھے یاد کرایا کہ 1950ء میں آپ نے ایک خواب دیکھی تھی جس میں یہ ذکر تھا کہ آپ کے رشتہ داروں میں سے کسی نے خلافت کے خلاف فتنہ اٹھایا ہے.میں نے مولوی محمد یعقوب صاحب کو وہ خواب تلاش کرنے پر مقرر کیا.چنانچہ وہ الفضل سے خواب تلاش کر کے لے آئے.اب دیکھو خدا تعالیٰ نے کتنی دیر پہلے مجھے اس فتنہ سے آگاہ کر دیا تھا اور پھر کس طرح یہ خواب حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.ہماری جماعت کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئیے کہ منافقت کی جڑ کو کاٹنا نہایت ضروری ہوتا ہے.اگر اس کی جڑ کو نہ کاٹا جائے تو وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ

Page 439

انوار العلوم جلد 25 عَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کی جماعت سے جو وعدہ فرمایا ہے اس کے پورا ہونے میں شیطان کئی قسم کی رکاوٹیں حائل کر سکتا ہے.دیکھو خدا تعالیٰ کا یہ کتنا شاندار وعدہ تھا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پورا ہوا.حضرت ابو بکر کی خلافت صرف اڑھائی سال کی تھی لیکن اس عرصہ میں خدا تعالیٰ نے جو تائید و نصرت کے نظارے دکھائے وہ کتنے ایمان افزا تھے.حضرت ابو بکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ادنی غلام تھے لیکن انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں رومی فوجوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر رکھ دیا.آخر اڑھائی سال کے عرصہ میں لاکھوں مسلمان تو نہیں ہو گئے تھے.اُس وقت قریباً قریباً وہی مسلمان تھے جو رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کرتے رہے تھے.لیکن خلافت کی برکات کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں میں وہ شان اور اُمنگ اور جرات پیدا کی کہ انہوں نے اپنے مقابل پر بعض اوقات دو دو ہزار گنا زیادہ تعداد کے لشکر کو بُری طرح شکست کھانے پر مجبور کر دیا.اس کے بعد حضرت عمر کا زمانہ آیا تو آپ نے ایک طرف رومی سلطنت کو شکست دی تو دوسری طرف ایمان کی طاقت کو ہمیشہ کے لئے ختم کر کے رکھ دیا.پھر حضرت عثمان کی خلافت کا دور آیا.اس دور میں اسلامی فوج نے آذربائیجان تک کا علاقہ فتح کر لیا اور پھر بعض مسلمان افغانستان اور ہندوستان آئے اور بعض افریقہ چلے گئے اور ان ممالک میں انہوں نے اسلام کی اشاعت کی.یہ سب خلافت کی ہی برکات تھیں.یہ برکات کیسے ختم ہوئیں ؟ یہ اسی لئے ختم ہوئیں کہ حضرت عثمان کے آخری زمانہ خلافت میں مسلمانوں کا ایمان بالخلافت کمزور ہو گیا اور انہوں نے خلافت کو قائم رکھنے کے لئے صحیح کوشش اور جد وجہد کو ترک کر دیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے بھی وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم في الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ کا وعدہ واپس لے لیا.لیکن عیسائیوں میں دیکھ لو 1900 سال سے برابر خلافت چلی آرہی ہے اور آئندہ بھی اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں پائے جاتے.آخر یہ تفاوت کیوں ہے؟ اور کیوں محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم 415 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات

Page 440

انوار العلوم جلد 25 416 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات کی خلافت 30 سال کے عرصہ میں ختم ہو گئی؟ اس کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں نے خلافت کی قدر نہ کی اور اس کی خاطر قربانی کرنے سے انہوں نے دریغ کیا.جب باغیوں نے حضرت عثمان پر حملہ کیا تو آپ نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اے لوگو! میں وہی کرتا ہوں جو مجھ سے پہلے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کیا کرتے تھے میں نے کوئی نئی بات نہیں کی.لیکن تم فتنہ پرداز لوگوں کو اپنے گھروں میں آنے دیتے ہو اور ان سے باتیں کرتے ہو.اس سے یہ لوگ دلیر ہو گئے ہیں.لیکن تمہاری اس غفلت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خلافت کی برکات ختم ہو جائیں گی اور مسلمانوں کا شیرازہ بکھر کر رہ جائے گا.اب دیکھ لو وہی ہوا جو حضرت عثمان نے فرمایا تھا.حضرت عثمان کا شہید ہونا تھا کہ مسلمان بکھر گئے اور آج تک وہ جمع نہیں ہوئے.ایک زمانہ وہ تھا کہ جب روم کے بادشاہ نے حضرت علی اور حضرت معاویہ میں اختلاف دیکھا تو اس نے چاہا کہ وہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے ایک لشکر بھیجے.اُس وقت رومی سلطنت کی ایسی ہی طاقت تھی جیسی اس وقت امریکہ کی ہے.اُس کی لشکر کشی کا ارادہ دیکھ کر ایک پادری نے جو بڑا ہو شیار تھا کہا بادشاہ سلامت! آپ میری بات سن لیں اور لشکر کشی کرنے سے اجتناب کریں.یہ لوگ اگر چہ آپس میں اختلاف رکھتے ہیں لیکن آپ کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں گے اور باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے.پھر اس نے کہا آپ دو کتے منگوائیں اور انہیں ایک عرصہ تک بھوکا رکھیں پھر ان کے آگے گوشت ڈال دیں.وہ آپس میں لڑنے لگ جائیں گے.اگر آپ انہی کتوں پر شیر چھوڑ دیں تو وہ دونوں اپنے اختلافات کو بھول کر شیر پر جھپٹ پڑیں گے.اس مثال سے اس نے یہ بتایا کہ تُو چاہتا ہے کہ اس وقت حضرت علی اور معاویہؓ کے اختلاف سے فائدہ اٹھالے لیکن میں یہ بتادیتا ہوں کہ جب بھی کسی بیرونی دشمن سے لڑنے کا سوال پیدا ہو گا یہ دونوں اپنے باہمی اختلافات کو بھول جائیں گے اور دشمن کے مقابلہ میں متحد ہو جائیں گے.اور ہوا بھی یہی.جب حضرت معاویہ کو روم کے بادشاہ کے ارادہ کا علم ہوا تو آپ نے اسے پیغام بھیجا کہ تو چاہتا ہے کہ ہمارے اختلاف سے فائدہ اٹھا کر مسلمانوں پر حملہ کرے.

Page 441

انوار العلوم جلد 25 417 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات لیکن میں تمہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ میری حضرت علی کے ساتھ بے شک لڑائی ہے لیکن اگر تمہارالشکر حملہ آور ہوا تو حضرت علیؓ کی طرف سے اس لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے جو سب سے پہلا جرنیل نکلے گا وہ میں ہوں گا.اب دیکھ لو حضرت معاویہؓ حضرت علی سے اختلاف رکھتے تھے لیکن اس اختلاف کے باوجود انہوں نے رومی بادشاہ کو ایسا جواب دیا جو اس کی امیدوں پر پانی پھیر نے والا تھا.لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کا یہ حال ہے کہ انہیں اتنی بھی توفیق نہ ملی کہ پیغامیوں سے کہتے کہ تم تو ساری عمر ہمارے باپ کو گالیاں دیتے رہے ہو.پھر ہمارا تم سے کیا تعلق ہے.انہیں وہ گالیاں بھول گئیں جو ان کے باپ کو دی گئی تھیں اور چپ کر کے بیٹھے رہے.انہوں نے ان کی تردید نہ کی اور تردید بھی انہوں نے اسلئے نہ کی کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو شاید پیغامی ہماری تائید نہ کریں.حالانکہ اگر ان کے اندر ایمان ہوتا تو یہ لوگ کہتے ہمارالوگوں سے کیا تعلق ہے.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وہ تقاریر موجود ہیں جن میں آپ نے بیان فرمایا ہے کہ یہ لوگ مجھے خلافت سے دستبردار کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ کون ہیں مجھے دستبر دار کرنے والے! مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اس لئے وہی خلافت کی حفاظت کرے گا.اگر یہ لوگ میری بات نہیں سنتے تو اپنے باپ کی بات تو سن لیتے.وہ کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے اب کسی شخص یا جماعت کی طاقت نہیں کہ وہ مجھے معزول کر سکے.اسی طرح میں بھی کہتا ہوں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے خلیفہ بنایا ہے پھر یہ لوگ مجھے معزول کیسے کر سکتے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک جماعت کو پکڑ کر میرے ہاتھ پر جمع کر دیا تھا اور اُس وقت جمع کر دیا تھا جب تمام بڑے بڑے احمدی میرے مخالف ہو گئے تھے اور کہتے تھے کہ اب خلافت ایک بچے کے ہاتھ میں آگئی ہے.اس لئے جماعت آج نہیں تو کل تباہ ہو جائے گی.لیکن اُسی بچہ نے 42 سال تک پیغامیوں کا مقابلہ کر کے جماعت کو جس مقام تک پہنچایا وہ تمہارے سامنے ہے.شروع میں ان لوگوں نے کہا تھا کہ 98 فیصدی احمدی ہمارے ساتھ ہیں.لیکن اب وہ دکھائیں کہ جماعت کا 98 فیصدی جو اُن کے ساتھ تھا کہاں ہے ؟ کیا وہ 98 فیصدی احمدی

Page 442

انوار العلوم جلد 25 418 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات ملتان میں ہیں ؟ لاہور میں ہیں؟ پشاور میں ہیں؟ کراچی میں ہیں ؟ آخر وہ کہاں ہیں ؟ کہیں بھی دیکھ لیا جائے.ان کے ساتھ جماعت کے دو فیصدی بھی نہیں نکلیں گے.مولوی نورالحق صاحب انور مبلغ امریکہ کی الفضل میں چٹھی چھپی ہے کہ عبد المنان نے ان سے ذکر کیا کہ پشاور سے بہت سے پیغامی انہیں ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ ان کا بہت ادب اور احترام کرتے ہیں.لیکن کچھ دن ہوئے امیر جماعت احمدیہ پشاور یہاں آئے.میں نے انہیں کہا کہ میاں محمد صاحب کی کھلی چٹھی کا جواب چھپا ہے آپ وہ کیوں نہیں خریدتے ؟ تو انہوں نے کہا پشاور میں دو سے زیادہ پیغامی نہیں ہیں.لیکن ان کے مقابل پر وہاں ہماری دو مساجد بن چکی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت وہاں کثرت سے پھیل رہی ہے.پیغامیوں کا وہاں یہ حال ہے کہ شروع شروع میں وہاں احمدیت کے لیڈر پیغامی ہی تھے.لیکن اب بقول امیر صاحب جماعت احمدیہ پیشاور وہاں دو پیغامی ہیں.پس میری سمجھ میں نہیں آتا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد کس لالچ میں آگئی ہے.کیا صرف ایک مضمون کا پیغام صلح میں چھپ جانا ان کے لئے لالچ کا موجب ہو گیا؟ اگر یہی ہوا ہے تو یہ کتنی ذلیل بات ہے.اگر پاکستان کی حکومت یہ کہہ دیتی کہ ہم حضرت خلیفہ اول کی اولاد کو مشرقی پاکستان کا صوبہ دے دیتے ہیں یا وہ کہتے کہ انہیں مغربی پاکستان دے دیتے ہیں تب تو ہم سمجھ لیتے کہ انہوں نے اس لالچ کی وجہ سے جماعت میں تفرقہ اور فساد پیدا کرنا منظور کر لیا ہے.لیکن یہاں تو یہ لالچ بھی نہیں.حضرت خلیفہ اول ایک مولوی کا قصہ سنایا کرتے تھے کہ اس نے ایک شادی شدہ لڑکی کا نکاح کسی دوسرے مرد سے پڑھ دیا.لوگ حضرت خلیفہ المسیح الاول کے پاس آئے اور کہنے لگے فلاں مولوی جو آپ سے ملنے آیا کرتا ہے اس نے فلاں شادی شدہ لڑکی کا نکاح فلاں مرد سے پڑھ دیا ہے.مجھے اس سے بڑی حیرت ہوئی اور میں نے کہا کہ اگر وہ مولوی صاحب مجھے ملنے آئے تو میں ان سے ضرور دریافت کروں گا کہ کیا بات ہے.چنانچہ ؟ مولوی صاحب مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے ان سے ذکر کیا کہ آپ کے متعلق میں

Page 443

انوار العلوم جلد 25 419 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات نے فلاں بات سنی ہے.میر اول تو نہیں مانتا لیکن چونکہ یہ بات ایک معتبر شخص نے بیان کی ہے اس لئے میں اس کا ذکر آپ سے کر رہا ہوں.کیا یہ بات درست ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا ایک اور مرد سے نکاح کر دیا ہے ؟ وہ کہنے لگا مولوی صاحب! تحقیقات سے پہلے بات کرنی درست نہیں ہوتی.آپ پہلے مجھ سے پوچھ تو لیں کہ کیا بات ہوئی.میں نے کہا اسی لئے تو میں نے اس بات کا آپ سے ذکر کیا ہے.اس پر وہ کہنے لگا بے شک یہ درست ہے کہ میں نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ نکاح پڑھ دیا ہے لیکن مولوی صاحب! جب انہوں نے میرے ہاتھ پر چڑیا جتناروپیہ رکھ دیا تو پھر میں کیا کرتا.پس اگر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی اولاد کو حکومت پاکستان یہ لالچ دے دیتی کہ مشرقی پاکستان یا مغربی پاکستان تمہیں دے دیا جائے گا تو ہم سمجھ لیتے کہ یہ مثال ان پر صادق آجاتی ہے.جس طرح اس مولوی نے روپیہ دیکھ کر خلافِ شریعت نکاح پر نکاح پڑھ دیا تھا انہوں نے بھی لالچ کی وجہ سے جماعت میں فتنہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.مگر یہاں تو چڑیا چھوڑ انہیں کسی نے مُردہ مچھر بھی نہیں دیا.حالانکہ یہ اولاد اس عظیم الشان باپ کی ہے جو اس قدر حوصلہ کا مالک تھا کہ ایک دفعہ جب آپ قادیان آئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا مجھے آپ کے متعلق الہام ہوا ہے کہ اگر آپ اپنے وطن گئے تو اپنی عزت کھو بیٹھیں گے.اس پر آپ نے وطن واپس جانے کا نام تک نہ لیا.اُس وقت آپ اپنے وطن بھیرہ میں ایک شاندار مکان بنارہے تھے.جب میں بھیرہ گیا تو میں نے بھی یہ مکان دیکھا تھا.اس میں آپ ایک شاندار ہال بنوار ہے تھے تاکہ اس میں بیٹھ کر درس دیں اور مطلب بھی کیا کریں.موجودہ زمانہ کے لحاظ سے تو وہ مکان زیادہ حیثیت کا نہ تھا لیکن جس زمانہ میں حضرت خلیفہ المسیح الاول نے یہ قربانی کی تھی اُس وقت جماعت کے پاس زیادہ مال نہیں تھا.اُس وقت اس جیسا مکان بنانا بھی ہر شخص کا کام نہیں تھا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے بعد آپ نے واپس جا کر اس مکان کو دیکھا تک نہیں.بعض دوستوں نے کہا بھی کہ آپ ایک دفعہ جاکر مکان تو دیکھ آئیں لیکن آپ نے فرمایا کہ میں نے اسے خدا تعالیٰ کے لئے چھوڑ دیا ہے.اب اسے

Page 444

انوار العلوم جلد 25 420 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں.ایسے عظیم الشان باپ کی اولاد ایک مُردہ مچھر سے بھی حقیر چیز پر آگری.پھر دیکھو حضرت خلیفتہ المسیح الاول تو اس شان کے انسان تھے کہ وہ اپنا عظیم الشان مکان چھوڑ کر قادیان آگئے لیکن آپ کے پوتے کہتے ہیں کہ قادیان میں ہمارے دادا کی بڑی جائیداد تھی جو ساری کی ساری مرزا صاحب کی اولاد نے سنبھال لی ہے.حالانکہ جماعت کے لاکھوں آدمی قادیان میں جاتے رہے ہیں اور ہزاروں وہاں رہے ہیں.آب بھی کئی لوگ قادیان گئے ہیں انہیں پتہ ہے کہ وہاں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کا صرف ایک کچا مکان تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی جائیداد تھی مگر وہ جائیداد مادی نہیں بلکہ روحانی تھی جو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور ہر احمدی کے دل میں آپ کا ادب واحترام پایا جاتا ہے.لیکن اس کے باوجود اگر آپ کی اولا د خلافت کے مقابلہ میں کھڑی ہو گی تو ہر مخلص احمدی انہیں نفرت سے پرے پھینک دے گا اور ان کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں کرے گا.آخر میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ خلافت کی برکات کو یاد رکھیں.اور کسی چیز کو یاد رکھنے کے لئے پرانی قوموں کا یہ دستور ہے کہ وہ سال میں اس کے لئے خاص طور پر ایک دن مناتی ہیں.مثلاً شیعوں کو دیکھ لو وہ سال میں ایک دفعہ تعزیہ نکالتے ہیں تا قوم کو شہادتِ حسین کا واقعہ یادر ہے.اسی طرح میں بھی خدام کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ سال میں ایک دن خلافت ڈے کے طور پر منایا کریں.اس میں وہ خلافت کے قیام پر خدا تعالیٰ کا شکریہ ادا کیا کریں اور اپنی پرانی تاریخ کو دہرایا کریں.پرانے اخبارات کا ملنا تو مشکل ہے لیکن الفضل نے پچھلے دنوں ساری تاریخ کو از سر نو بیان کر دیا ہے.اس میں وہ گالیاں بھی آگئی ہیں جو پیغامی لوگ حضرت خلیفۃ المسیح الاول کو دیا کرتے تھے.اور خلافت کی تائید میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے جو دعوے کئے ہیں وہ بھی نقل کر دیئے گئے ہیں.تم اس موقع پر اخبارات سے یہ حوالے پڑھ کر سناؤ.اگر سال میں ایک دفعہ خلافت ڈے منالیا جایا کرے تو ہر سال چھوٹی عمر کے بچوں کو پرانے واقعات یاد

Page 445

انوار العلوم جلد 25 421 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات ہو جایا کریں گے.پھر تم یہ جلسے قیامت تک کرتے چلے جاؤ تا جماعت میں خلافت کا ادب اور اس کی اہمیت قائم رہے.حضرت مسیح علیہ السلام کی خلافت 1900 سال سے برابر قائم ہے.حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو درجہ میں ان سے بڑے ہیں خدا کرے ان کی خلافت دس ہزار سال تک قائم رہے.مگر یہ اسی طرح ہو سکتا ہے کہ تم سال میں ایک دن اس غرض کے لئے خاص طور پر منانے کی کوشش کرو.میں مرکز کو بھی ہدایت کرتا ہوں کہ وہ بھی ہر سال سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسوں کی طرح خلافت ڈے منایا کرے اور ہر سال یہ بتایا کرے کہ جلسہ میں ان مضامین پر تقاریر کی جائیں.الفضل.مضامین پڑھ کر نوجوانوں کو بتایا جائے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے خلافت احمدیہ کی تائید میں کیا کچھ فرمایا ہے اور پیغامیوں نے اس کے رد میں کیا کچھ لکھا ہے.اسی طرح وہ رو یاد کشوف بیان کئے جایا کریں جو وقت سے پہلے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھائے اور جن کو پورا کر کے خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ اس کی برکات آب بھی خلافت سے وابستہ ہیں.پھر جیسا کہ میں نے مری میں ایک خطبہ جمعہ میں بیان کیا تھا تم درود کثرت سے پڑھا کرو، تسبیح کثرت سے کیا کرو، دعائیں کثرت سے کیا کرو تا خدا تمہیں رویا اور کشوف دکھائے.پرانے احمدی جنہیں رویا کشوف ہوتے تھے اب کم ہو رہے ہیں.میں نے دیکھا تھا کہ خطبہ کے تھوڑے ہی دن بعد مجھے خطوط آنے شروع ہوئے کہ آپ کی ہدایت کے مطابق ہم نے درود پڑھنا شروع کیا، تسبیح پڑھنی شروع کی اور دعاؤں پر زور دیا تو ہمیں خد اتعالیٰ نے رویا و کشوف سے نوازا.اُن دنوں ڈاک میں اکثر چٹھیاں اس مضمون کی آیا کرتی تھیں اور انہیں پڑھ کر لطف آیا کرتا تھا.اب ان چٹھیوں کا سلسلہ کم ہو گیا ہے.معلوم ہوتا ہے کہ درود پڑھنے، تسبیح کرنے اور دعائیں کرنے کی عادت پھر کم ہو گئی ہے.یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ سے بات کرنا معمولی آمر نہیں.خدا تعالیٰ سے بات کرنا بڑے ایمان کی بات ہے اگر کہیں صدر پاکستان سکندر مرزا آجائیں اور تمہیں پتہ لگ جائے کہ تم میں سے ہر ایک کو ان سے ملاقات کا موقع مل جائے گا تو تمہیں کتنی خوشی ہو

Page 446

انوار العلوم جلد 25 422 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات اور تم کتنے شوق سے ان کی ملاقات کے لئے جاؤ.پھر اللہ تعالیٰ جو کائنات عالم کا مالک ہے.محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم کا بھیجنے والا ہے.اس کے متعلق اگر تمہیں معلوم ہو کہ وہ ہر ایک سے مل سکتا ہے تو کتنی بد قسمتی ہو گی کہ اس سے ملنے کی کوشش نہ کی جائے.پس تم خدا تعالیٰ سے عاجزانہ دعائیں کرو اور کہو اے خدا! ہم تیرے کمزور بندے ہیں تو ہمیں طاقت دے ، تو ہمیں سچ دکھا اور تو ہم سے کلام کرتا کہ ہمارے دلوں کو اطمینان میسر ہو.پھر جب کہ میں نے بار ہا بتایا ہے میری بیماری دعاؤں سے تعلق رکھتی ہے.اس لئے تم یہ بھی دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے کام والی زندگی عطا فرمائے اور مجھے دنیا میں اسلام اور احمدیت کی اشاعت کرنے کی توفیق دے.دیکھو میرا ہر کام تمہاری طرف ہی منسوب ہوتا ہے.اگر دنیا میں اسلام کی اشاعت ہو تو تم ہی فخر کرو گے کہ ہم امریکہ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں، سوئٹزر لینڈ میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں، جرمنی میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں، انگلستان میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں ، ہندوستان میں اسلام کی اشاعت کر رہے ہیں گویا جو میرا کام ہو گا وہ تمہارا کام ہو گا.اور تم ہر مجلس میں یہ کہہ سکو گے کہ ہم نے فلاں کام کیا ہے.پس تم دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں کام کو اچھی طرح نبھا سکوں اور پھر وہ اس میں برکت دے اور اسلام کے دشمنوں کے دلوں کو کھولے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم در حقیقت اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہیں.پس دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ آپ کی شان کو بلند کرے اور اندھوں کی آنکھیں کھولے تا کہ وہ آپ کی شان اور عظمت کو پہچانیں.اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.دنیا میں ایک ہی خدا اور ایک ہی رسول رہ جائے اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہوں.“ 1 آل عمران: 119 2 النور: 56 23 سنن ابن ماجه ابواب النکاح باب ضرب النِّساءِ (الفضل یکم مئی 1957ء)

Page 447

انوار العلوم جلد 25 4 النور: 56 تذکرہ صفحہ 139.ایڈیشن چہارم 423 مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات 6 البداية والنهاية جلد 8 صفحه 126.مطبوعہ بیروت 2001ء

Page 448

Page 449

انوار العلوم جلد 25 425 قرون اولیٰ کی مسلمان خو قرونِ اولیٰ کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 450

Page 451

انوار العلوم جلد 25 427 قرون اولیٰ کی مسلمان خا بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ قرونِ اولی کی مسلمان خواتین کا نمونہ اپنے سامنے رکھو (فرموده 21/ اکتوبر 1956ء بر موقع سالانہ اجتماع لجنہ اماء اللہ بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اسلامی تعلیم پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے اسلام میں عورت کا مقام کہ اسلام میں دیگر مذاہب کی نسبت عورت کے درجہ کو بہت بلند کیا گیا ہے.گو موجودہ زمانہ میں مغربیت کے اثر کے ماتحت خود مسلمانوں نے عورت کے درجہ کو کم کرنے کی پوری کوشش کی ہے.اور بعض باتوں میں انہوں نے غلط اندازے بھی لگائے ہیں مثلاً کہا جاتا ہے کہ پردہ میں عورت کو صحیح تعلیم نہیں دی جاسکتی حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ کے اندر ہی دین سیکھا تھا اور پردہ کے اندر ہی رہ کر وہ دین کی اتنی ماہر ہو گئی تھیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم آدھا دین عائشہ سے سیکھولے.گویا سارے مرد مل کر آدھا دین سکھا سکتے ہیں اور حضرت عائشہ اکیلی آدھا دین سکھا سکتی ہیں حالانکہ حضرت عائشہ پر وہ کیا کرتی تھیں اور آپ نے جو دین سیکھا تھا وہ پردہ کے اندر رہ کر ہی سیکھا تھا.پھر عورتوں نے اسلامی جنگوں میں وہ وہ کام کئے ہیں جو بے پر دہ یورپین عورتیں آج بھی نہیں کر رہیں.حضرت ابو بکر کے زمانہ میں حضرت ضرار جو ایک بہادر صحابی تھے ، غفلت کی وجہ سے رومیوں کی قید میں آگئے اور رومی انہیں پکڑ کر کئی میل تک ساتھ لے گئے.ان کی بہن خولہ کو اس کا پتہ لگا تو وہ اپنے بھائی کی زرہ اور سامانِ جنگ لے کر ے پر سوار ہو کر اُن کے پیچھے گئیں اور دشمن سے اپنے بھائی کو چھڑا لانے میں کامیاب ہو گئیں 2 اُس وقت رُومی سلطنت طاقت و قوت کے لحاظ سے ایسی ہی تھی جیسی

Page 452

انوار العلوم جلد 25 428 قرون اولیٰ کی مسلمان خو آجکل انگریزوں کی حکومت ہے مگر اس کی فوج ایک صحابی کو قید کر کے لے گئی تو اُن کی بہن اکیلی ہی باہر نکلی اور کئی میل تک رومی سپاہیوں کے پیچھے چلی گئی اور پھر بڑی کامیابی سے اپنے بھائی کو اُن کی قید سے چھڑالائی اور مسلمانوں کو اِس بات کا اس وقت پتہ لگا جب وہ اپنے بھائی کو واپس لے آئی.پھر ایک اور واقعہ بھی ہے جس سے عورتوں کی بہادری کا پتہ چلتا ہے.حضرت سعد بن ابی وقاص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص صحابہ میں سے تھے.حضرت عمرؓ نے انہیں اپنے زمانہ خلافت میں ایرانی فوج کے مقابلہ میں اسلامی فوج کا کمانڈر بنایا تھا.اتفاقاً اُنہیں ران پر ایک پھوڑا نکل آیا جسے ہمارے ہاں گھمبیر کہتے ہیں اور وہ لمبے عرصہ تک چلتا چلا گیا.بہتیر اعلاج کیا گیا مگر کوئی فائدہ نہ ہوا.آخر انہوں نے خیال کیا کہ اگر میں چارپائی پر پڑا رہا اور فوج نے دیکھا کہ میں جو اس کا کمانڈر ہوں، ساتھ نہیں، تو وہ بد دل ہو جائے گی چنانچہ انہوں نے ایک درخت پر عرشہ بنوایا جیسے ہمارے ہاں لوگ باغات کی حفاظت کے لئے بنالیتے ہیں.آپ اس عرشہ میں آدمیوں کی مدد سے بیٹھ جاتے تا مسلمان فوج انہیں دیکھتی رہے اور اسے خیال رہے کہ اس کا کمانڈر ان کے ساتھ ہے.انہی دنوں آپ کو اطلاع ملی کہ ایک عرب سردار نے شراب پی ہے.شراب اگرچہ اسلام میں حرام حرام تھی مگر عرب لوگ اس کے بہت عادی تھے اور اگر اس کی عادت پڑ جائے تو جلدی چھٹتی نہیں.ابھی اُن کے اسلام لانے پر دو تین سال کا ہی عرصہ گزرا تھا اور دو تین سال کے عرصہ میں اس کی عادت نہیں جاتی.بہر حال حضرت سعد بن ابی وقاص کو جب اس مسلمان عرب سردار کے متعلق اطلاع ملی کہ اس نے شراب پی ہے تو آپ نے اُسے قید کر دیا.ان دنوں با قاعدہ قید خانے نہیں ہوتے تھے.جس شخص کو قید کرنا مقصود ہوتا اُسے کسی کمرہ میں بند کر دیا جاتا اور اس پر پہرہ مقرر کر دیا جاتا.چنانچہ اس مسلمان عرب سردار کو بھی ایک کمرہ میں بند کر دیا گیا اور دروازہ پر پہرہ لگا دیا گیا.وہ سال تاریخ اسلام میں مصیبت کا سال کہلاتا ہے کیونکہ مسلمانوں کا جنگ میں بہت نقصان ہوا تھا.ایک جگہ پر اسلامی لشکر کے گھوڑے دشمن کے ہاتھیوں سے

Page 453

انوار العلوم جلد 25 429 قرون اولیٰ کی مسلمان خو بھاگے.پاس ہی ایک چھوٹا سا دریا تھا، گھوڑے اُس میں کودے اور عرب چونکہ تیرنا نہیں جانتے تھے اس لئے سینکڑوں مسلمان ڈوب کر مر گئے.اس لئے اُس سال کو مصیبت کا سال کہتے ہیں.بہر حال وہ مسلمان عرب سردار کمرہ میں قید تھا.جب مسلمان سپاہی جنگ سے واپس آتے اور اس کے کمرہ کے قریب بیٹھ کر یہ ذکر کرتے کہ جنگ میں مسلمانوں کا بڑا نقصان ہوا ہے تو وہ کڑھتا اور اس بات پر اظہار افسوس کرتا کہ وہ اس موقع پر جنگ میں حصہ نہیں لے سکا.بے شک اس میں یہ کمزوری تھی کہ اُس نے شراب پی لی لیکن وہ تھا بڑا بہادر ، اس کے اندر جوش پایا جاتا تھا.جنگ میں مسلمانوں کے نقصانات کا ذکر سُن کر وہ کمرہ میں اس طرح ٹہلنے لگ جاتا جیسے پنجرہ میں شیر ٹہلتا ہے.ٹہلتے ٹہلتے وہ شعر پڑھتا جن کا مطلب یہ تھا کہ آج ہی موقع تھا کہ تو اسلام کو بچاتا اور اپنی بہادری کے جو ہر دکھاتا مگر تُو قید ہے.حضرت سعد کی بیوی بڑی بہادر عورت تھیں وہ ایک دن اس کے کمرہ کے پاس سے گزریں تو انہوں نے یہ شعر سُن لئے.انہوں نے دیکھا کہ وہاں پہرہ نہیں ہے وہ دروازہ کے پاس گئیں اور اُس قیدی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.تجھے پتہ ہے کہ سعد نے تجھے قید کیا ہوا ہے، اگر اُسے پتہ لگ گیا کہ میں نے تجھے قید سے آزاد کر دیا ہے تو مجھے چھوڑے گا نہیں.لیکن میرا جی چاہتا ہے کہ میں تجھے قید سے آزاد کر دوں تاکہ تو اپنی خواہش کے مطابق اسلام کے کام آسکے.اُس نے کہا آپ جب لڑائی ہو مجھے چھوڑ دیا کریں میں وعدہ کرتا ہوں کہ لڑائی کے بعد میں فوراً واپس آکر اس کمرہ میں داخل ہو جایا کروں گا.اُس عورت کے دل میں بھی اسلام کا درد تھا اور اس کی حفاظت کے لئے جوش پایا جاتا تھا.اس لئے اُس نے اس شخص کو قید سے نکال دیا.چنانچہ وہ لڑائی میں شامل ہوا اور ایسی بے جگری سے لڑا کہ اس کی بہادری کی وجہ سے اسلامی لشکر بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھ گیا.سعد نے اُسے پہچان لیا اور بعد میں کہا کہ آج کی لڑائی میں وہ شخص موجود تھا جسے میں نے شراب پینے کی وجہ سے قید کیا ہوا تھا گو اُس نے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی تھی مگر میں اس کے حملہ کے اند از اور قد کو پہچانتا ہوں میں اُس شخص کو تلاش کروں گا

Page 454

انوار العلوم جلد 25 430 قرون اولیٰ کی مسلمان خو ย جس نے اُسے قید سے نکالا ہے اور اُسے سخت سزا دوں گا.جب حضرت سعد نے یہ الفاظ کہے تو اُن کی بیوی کو غصہ آگیا اور اُس نے کہا، تجھے شرم نہیں آتی کہ آپ تو درخت پر عرشہ بنا کر اس پر بیٹھا ہوا ہے اور اس شخص کو تُونے قید کیا ہوا ہے جو دشمن کی فوج میں بے دریغ گھس جاتا ہے اور اپنی جان کی پروا نہیں کرتا.میں نے اُس شخص کو قید سے چھڑایا تھا تم جو چاہو کر لو.3 غرض عورتوں نے اسلام میں بڑے بڑے کام کئے ہیں.لیکن یہ صرف اسلام کی ہی بات نہیں اسلام سے پہلے مذاہب کی تاریخ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ گوان مذاہب نے عورتوں کو اُن کے حقوق نہیں دیئے مگر انہوں نے اپنے مذہبوں کے لئے بڑے بڑے کام کئے ہیں.مثلاً سب سے پرانا نبی ہندوستان کا کرشن ہے.تم نے شاید سنا ہو گا کہ کرشن کی گوپیاں ہوتی تھیں جو اُن کے ارد گرد رہتی تھیں.ہند و تصویریں بناتے ہیں تو کرشن جی کو ایک بچے کی شکل میں دکھاتے ہیں اور پرانے قصوں کے متعلق یہ قاعدہ ہے کہ وہ قصّہ کو مزید ار بنانے کے لئے شکلیں بدلتے رہتے ہیں.بہر حال کرشن جی کے متعلق جو تصویر میں عام طور پر ملتی ہیں اُن میں یہ دکھایا جاتا ہے کہ کرشن جی درخت پر چڑھے ہوئے ہیں اور اس درخت کے ارد گرد عورتیں کھڑی ہوئی ہیں.انہوں نے ہاتھ میں مکھن اٹھایا ہوا ہے.کرشن جی درخت سے نیچے اترتے ہیں اور اُن سے مکھن چھین کر لے جاتے ہیں.در حقیقت تصویری زبان میں اس میں ایک بھاری حکمت بیان کی گئی تھی اور وہ حکمت یہ ہے کہ کسی مذہبی قوم کا مکھن اس کے نو مسلم ہوتے ہیں.جس طرح دودھ کو بلونے سے مکھن بنتا ہے اسی طرح جب انسانی دماغ کو بلوایا جائے اور سچ اس کے اندر ڈالا جائے تو اس کے نتیجہ میں وہ صداقت کو قبول کر لیتا ہے اور پھر یہ مکھن نبی کے ہاتھ میں جاتا ہے اور وہ اسے اپنی جماعت میں داخل کر لیتا ہے.پس ان تصویروں میں بتایا گیا ہے کہ کرشن جی کے وقت میں عور تیں تبلیغ کیا کرتی تھیں اور پھر جو لوگ صداقت کو قبول کر لیتے تھے انہیں ساتھ لے کر وہ کرشن جی کے پاس آتیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کر لیتے.گو ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ عورتوں کو کرشن جی کا مرید بناتی تھیں یا مر دوں و

Page 455

انوار العلوم جلد 25 431 قرون اولیٰ کی مسلمان خو کو بناتی تھیں.مگر ان تصویروں سے پتہ لگتا ہے کہ اس زمانہ کی عورتیں اتنی قربانی کرنے والی تھیں کہ وہ رات دن کرشن جی کا پیغام دنیا کو پہنچاتی رہتی تھیں اور اسکے نتیجہ میں جو لوگ ایمان لے آتے تھے انہیں ساتھ لیکر کرشن جی کے پاس آتی تھیں اور وہ انہیں اپنی جماعت میں داخل کر لیتے تھے.غرض حضرت کرشن کے زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کے لئے بڑی قربانیاں کی ہیں.پھر ہم اُن نبیوں کی طرف آتے ہیں جن کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے.اسلام کا مرکز مکہ مکرمہ ہے اور مسلمانوں کی واحد مسجد جو سب سے پرانی ہے وہ خانہ کعبہ ہے جو مکہ مکرمہ میں ہے.اس کے بننے کا جو ذکر آتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی حضرت ہاجرہ کا بڑا حصہ ہے.حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دوسری بیوی تھیں سارہ پہلی بیوی تھیں.سارہ ، ہاجرہ سے کسی بات پر جھگڑ پڑیں تو انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اگر ہاجرہ اس گھر میں رہیں تو میرا اُن سے نباہ نہیں ہو سکے گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ جھگڑا دیکھ کر سخت صدمہ ہوا اور آپ نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی کہ یا اللہ ! میرے گھر کا امن برباد ہو رہا ہے، میری پہلی بیوی دوسری بیوی کی موجودگی میں میرے گھر میں رہنے سے انکار کر رہی ہے اور تُو نے اس کی اولا د سے بڑے وعدے کئے ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے کہا جیسے تیری پہلی بیوی سارہ کہتی ہے اُس میں تیرے خاندان کی بھلائی ہے.تو ہاجرہ اور اس کے بیٹے اسماعیل کو جنگل میں چھوڑ آ 1 چنانچہ آپ حضرت ہاجرہ اور اُس کے بیٹے اسمعیل علیہ السلام کو لے کر (اسلامی روایات کے مطابق) مکہ کی طرف گئے.وہاں پہنچ کر آپ نے ایک تھیلی کھجوروں کی اور ایک مشکیزہ پانی کا اُن کے پاس رکھا اور خود واپس آگئے.ابھی وہاں زمزم کا چشمہ نہیں نکلا تھا اور اس بے آب و گیاہ وادی میں پانی کا نام و نشان تک نہ تھا.قافلے بھی پیاس کی وجہ سے وہاں سخت تکلیف اُٹھاتے تھے.حضرت ہاجرہ نے جب دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس بیابان میں اُنہیں اور ان کے اکلوتے بیٹے کو چھوڑ کر واپس جارہے ہیں تو وہ آپ کے پیچھے پیچھے آئیں اور کہنے لگیں ابراہیم ! تو مجھے اور میرے بچے کو یہاں

Page 456

انوار العلوم جلد 25 432 قرون اولیٰ کی مسلمان خو کس لئے چھوڑ چلے ہو جہاں نہ کھانے کو کچھ ملتا ہے اور نہ پینے کے لئے پانی ہے.تم ایک مشکیزہ پانی اور ایک تھیلی کھجوریں ہمیں دے چلے ہو یہ بھلا کتنے دن جائیں گی اس کے بعد ہم کیا کرینگے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس نظارہ کی وجہ سے کہ آپ اپنا بڑا اور اکلوتا بیٹا جو بڑھاپے میں پیدا ہوا تھا جبکہ آپ کی عمر سو سال کی تھی بیابان میں چھوڑ کر جارہے ہیں، رقت آگئی.آپ نے سمجھا کہ اگر میں نے ہاجرہ کو زبان سے جواب دیا تو میری آواز بھر جائے گی اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں گے اس لئے آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھا دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ ہاجرہ ! میں تجھے اور تیرے بیٹے کو کسی سگندلی کی وجہ سے یہاں نہیں چھوڑ رہا بلکہ مجھے ایسا کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے.حضرت ہاجرہ نے آپ کی بات کو سمجھ لیا اور کہا إِذًا لَّا يُضَيعُنَا.اگر آپ ہمیں خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت یہاں چھوڑ چلے ہیں تو ہمیں کوئی فکر نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں کبھی ضائع نہیں کرے گا.یہ کہہ کر حضرت ہاجرہ اس جگہ واپس آگئیں جہاں حضرت اسمعیل علیہ السلام کو لٹایا ہوا تھا اور ایک دفعہ بھی پیچھے مڑ کر اپنے خاوند کا منہ نہیں دیکھا.لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام درد اور غم کی وجہ سے بار بار مُڑ مُڑ کر دیکھتے جاتے تھے.گویا حضرت ہاجرہ نے جو صبر کا نمونہ دکھا یا وہ حضرت ابراہیم کے نمونہ سے بڑھ کر تھا.آپ تو بار بار مڑ مڑ کر دیکھتے تھے لیکن حضرت ہاجرہ نے ایک دفعہ بھی مڑ کر نہ دیکھا اور کہا اگر خدا تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ہمیں یہاں چھوڑ دیا جائے تو وہ خود ہماری حفاظت کرے گا ہمیں کیا پروا ہے.چنانچہ آپ وہاں رہیں اور پھر اسی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کا چشمہ جاری کر دیا.پانی کا چشمہ نکل آنے کی وجہ سے قافلے آپ کی اجازت سے وہاں ٹھہرتے اور چشمہ کا پانی استعمال کرتے.بعد میں ایک قبیلہ وہاں آباد ہو گیا اور اس نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اپنا سر دار بنالیا.پھر حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا عظیم الشان نبی پیدا ہوا.تو دیکھو حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے مسلمان عورتوں کی قربانیاں زمانہ میں بھی عورتوں نے مذہب کی

Page 457

انوار العلوم جلد 25 433 قرون اولیٰ کی مسلمان خا خاطر بڑی قربانیا کی ہیں.کرشن کے زمانہ میں بھی تبلیغ کا اہم کام کیا ہے اور اسلام کے ابتدائی دور میں بھی عورتوں نے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دیئے ہیں اور بعد میں بھی عورت کا حصہ بڑھتا چلا گیا.دیکھو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ کی سب سے پہلے امداد جس نے کی وہ ایک عورت ہی تھی.اسلام کی تبلیغ کے لئے سب سے پہلے روپے کی ضرورت تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی پیسہ ہ تھا.اُس وقت حضرت خدیجہ نے اپنی تمام دولت آپ کے سپر د کر دی اور کہا آپ جس طرح چاہیں اُسے استعمال کریں.آج ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی نوجوان دین کے لئے زندگی وقف کرتا ہے تو اُسے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہو تا.ماں باپ کہتے ہیں ہم اپنی لڑکی اُسے نہیں دیں گے ، ہماری لڑکی کھائے گی کہاں سے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بچپن ہی سے واقف زندگی تھے اور آپ کے پاس کوئی روپیہ بھی نہیں تھا.حضرت خدیجہ جو ایک بڑی مالدار خاتون تھیں، بیوہ تھیں، ان سے کسی سہیلی نے کہا، تم شادی کیوں نہیں کر لیتیں.انہوں نے کہا، کس سے کروں ؟ اگر کوئی دیانتدار آدمی مل جائے تو شادی کرلوں.اس نے کہا، محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر دیانتدار اور کون ہے.تم نے خود اس کی دیانت کو دیکھ لیا ہے.حضرت خدیجہ نے آپ کو شام کی طرف تجارتی مال دے کر بھیجا تھا اور اس سفر میں آپ کو بڑی کامیابی حاصل ہوئی تھی.حضرت خدیجہ نے محسوس کیا تھا کہ یہ نفع منڈیوں کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے.آپ کے غلام میسرہ نے بھی آپ کے اس خیال کی تائید کی تھی.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ کی دیانتداری کا حضرت خدیجہ پر بڑا اثر تھا.جب اُس نے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کرنے کی تحریک کی تو آپ نے فرمایا اگر وہ راضی ہو جائیں تو میں اُن سے شادی کرلوں گی.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 25 سال کی تھی اور حضرت خدیجہ کی عمر 40 سال کی تھی گویا آپ حضرت خدیجہ سے 15 سال چھوٹے تھے.حضرت خدیجہ کی اس سہیلی نے جس نے شادی کی تحریک کی تھی کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس بارہ میں کسی سے بات کروں.

Page 458

انوار العلوم جلد 25 434 قرون اولیٰ کی مسلمان خو حضرت خدیجہ نے کہا میں راضی ہوں اور میری طرف سے تمہیں اس بارہ میں بات کرنے کی اجازت ہے.چنانچہ وہ عورت حضرت خدیجہ کے رشتہ داروں کے پاس گئی.انہوں نے کہا اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) راضی ہو جائے تو ہمیں اس بات پر کوئی اعتراض نہیں.پھر وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اُس نے دریافت کیا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے فرمایا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس سے میں شادی کروں.اُس نے کہا اگر یہ مشکل دور ہو جائے تو پھر.آپ نے فرمایا وہ کون عورت ہے ؟ اس نے کہا خدیجہ.آپؐ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں ؟ اس نے کہا یہ میرے ذمہ رہا.آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے.تب حضرت خدیجہ نے آپ کے چچا کی معرفت شادی کا پختہ فیصلہ کر لیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہو گئی.شادی کے بعد جب حضرت خدیجہ نے محسوس کیا کہ آپ کا حسّاس دل ایسی زندگی میں کوئی خاص لطف نہیں پائے گا کہ آپ کی بیوی مالدار ہو اور آپ اس کے محتاج ہوں تو انہوں نے ارادہ کر لیا کہ وہ اپنی تمام دولت آپ کی خدمت میں پیش کر دیں گی تا کہ جب اور جیسے آپ چاہیں اُسے خرچ کر سکیں.چنانچہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا.میرے چچا کے بیٹے ! (اُس وقت آپ ابھی رسالت کے منصب پر فائز نہیں ہوئے تھے اور عرب میں قاعدہ ہے جب بیویاں اپنے خاوند کو مخاطب کرتی ہیں تو چچا کا بیٹا کہا کرتی ہیں) میں اپنا سارا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں.آپ میری دلجوئی کریں اور میری اس پیشکش کو قبول فرمالیں.آپ نے فرمایا خدیجہ امنہ سے بات کہہ دینا آسان ہوتا ہے مگر بعد میں اس پر قائم رہنا مشکل ہوتا ہے.تمہیں پتہ ہے میں غلامی کا سخت مخالف ہوں اور تمہارے غلام ہیں اگر تم نے وہ سارے غلام میرے سپر د کر دیئے تو میں اُنہیں فوراً آزاد کر دوں گا.اُس زمانہ میں بڑی جائیداد غلام ہی ہوتی تھی.آپ نے فرمایا خدیجہ ! اگر میں نے تمہارے سب غلاموں کو آزاد کر دیا تو تم خفا تو نہیں ہو گی اور اپنے عہد پر قائم رہو گی؟ حضرت خدیجہ نے فرمایا آپ جس طرح چاہیں کریں مجھے کوئی اعتراض نہیں میں آپ کی خوشی میں ہی اپنی خوشی

Page 459

انوار العلوم جلد 25 435 قرون اولیٰ کی مسلمان خو محسوس کرتی ہوں.چنانچہ آپ نے خانہ کعبہ میں لوگوں کو جمع کیا اور اعلان کیا کہ اے لوگو! گواہ رہو آج خدیجہ نے اپنا سارا مال مجھے دے دیا ہے اور مجھے اختیار دیا ہے کہ میں جیسے چاہوں استعمال کروں.سو آج میں نے اس کے سب غلام آزاد کر دیئے ہیں اب وہ جہاں چاہیں جاسکتے ہیں.گویا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے مشن کے لئے روپیہ کی ضرورت تھی تو اس وقت وہ روپیہ ایک عورت نے ہی آپ کو مہیا کیا.پھر آپ کو عبادت کا شوق ہوا تو آپ شہر سے تین چار میل دور ایک پہاڑی کی چوٹی پر پتھروں کی بنی ہوئی ایک چھوٹی سے غار میں جسے حرا کہتے ہیں عبادت کے لئے تشریف لے جاتے.حضرت خدیجہ آپ کو تین چار دن کے لئے کھانا دے دیتیں جو ستوؤں اور بھجوروں پر مشتمل ہوتا تھا.جب وہ ختم ہو جاتا تو آپ واپس آتے اور حضرت خدیجہ پھر تین چار دن تک کی خوراک دے دیتیں اور آپ حرا میں واپس تشریف لے جاتے.پھر جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپ بہت گھبر ائے.آپ نے خیال کیا کہ انسان چاہے کتنی بھی کوشش کرے خدا تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر سکتا.کہیں ایسا نہ ہو کہ میں بھی خدا تعالیٰ کے حق کو ادا نہ کر سکوں او راس طرح اس کی ناراضگی کا مورد بنوں.آپ حضرت خدیجہ کے پاس آگئے اور فرمایا.خدیجہ ! آج جبریل آیا ہے اور اُس نے مجھے خدا تعالیٰ کا یہ حکم دیا ہے کہ جاؤ اور ساری دُنیا کو خُدائے واحد کی تبلیغ کرو لیکن میں ڈرتا ہوں کہ کہیں مجھ سے اس فرض کی ادائیگی میں کو تاہی نہ ہو جائے.اس بات کو سنتے ہی فوراً حضرت خدیجہ نے کہا میرے چا کے بیٹے ! آپ گھبراتے کیوں ہیں.گلا والله لا يُخْزِيْكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَ تَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَ تَقْرِى الضَّيْفَ وَ تُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ خدا کی قسم ! یہ کلام خدا تعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ ناکام و نامراد ہوں اور خدا تعالیٰ آپ کو رُسوا کر دے خدا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے.آپ تو وہ ہیں کہ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بے یارو مدد گار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں اور وہ اخلاق جو ملک سے میٹ چکے ہیں وہ آپ کی ذات کے ذریعہ دُنیا میں دوبارہ قائم ہو رہے ہیں.مہمانوں کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور

Page 460

انوار العلوم جلد 25 436 قرون اولیٰ کی مسلمان خو سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں.کیا ایسے انسان کو خدا تعالیٰ کسی ابتلاء میں ڈال سکتا ہے ؟ اس نے اگر آپ پر کلام نازل کیا ہے تو اس لئے نہیں کہ آپ کو کسی دُکھ میں ڈالے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ وہ آپ کی عزت بڑھائے.پھر سب سے پہلے جو آپ کے دعویٰ پر ایمان لائیں وہ حضرت خدیجہ ہی تھیں.گویا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے والی بھی ایک عورت ہی تھی.مؤرخین نے اس بات پر بڑی بحث کی ہے کہ سب سے پہلے کون مسلمان ہوا.بعض کہا ہے کہ سب سے پہلے ایمان لانے والی حضرت خدیجہ تھیں بعض نے حضرت ابو بکر کو پہلا مسلمان قرار دیا ہے اور شیعہ حضرت علیؓ کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے ایمان لائے.محققین نے لکھا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ عورتوں میں سب سے پہلے حضرت خدیجہ ایمان لائیں.جواں سال مردوں میں سے حضرت ابو بکر سب سے پہلے ایمان لائے.بچوں میں سے حضرت علی کو سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی اور غلاموں میں سے حضرت زید پہلے ایمان لائے.بہر حال اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں پہلا مالی بوجھ اُٹھانے والی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر خدمت کی کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.ان کی خدمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اُن کی محبت وفات کے بعد بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جوش مارتی رہی.جب بھی کوئی بات ہوتی آپ فرماتے خدیجہ نے یوں کہا تھا، خدیجہ یوں کیا کرتی تھی.اور اس کی وجہ سے آپ کی نوجوان بیویاں چڑ جایا کرتی تھیں مثلاً حضرت عائشہ جوان تھیں اور پھر آپ کی خدمت بھی کرتی تھیں.جب بات بات پر آپ حضرت خدیجہ کا ذکر فرماتے تو وہ بعض دفعہ چڑ جایا کرتیں.ایک دفعہ حضرت عائشہ نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کو کیا ہو گیا ہے ! خدیجہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو جوان اور خدمت کرنے والی بیویاں دی ہیں مگر پھر بھی آپ ہر وقت اُسی بُڑھیا کا ذکر کرتے رہتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما ی عائشہ الجھے معلوم نہیں خدیجہ نے میرا ساتھ کس وفاداری کے ساتھ دیا تھا.ہر مصیبت میں اس نے میر اساتھ دیا اور ہر مشکل

Page 461

انوار العلوم جلد 25 437 قرون اولیٰ کی مسلمان خو کے وقت اس نے میرے لئے قربانی کی، کیا میں اُسے بھول سکتا ہوں ؟ تمہارا مقام اپنی جگہ ہے اور خدیجہ کا مقام اپنی جگہ ہے.اس نے میری اُس وقت خدمت کی جب ساری دنیا مجھے چھوڑ چکی تھی.وہ میرے دشمنوں کے مقابلہ میں میرے ساتھ پہاڑ بن کر کھڑی رہی.ย پھر حضرت خدیجہ کی خدمات کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اس قدر اثر تھا کہ ایک دفعہ ان کی بہن ملنے کے لئے آئیں.اُن کی آواز حضرت خدیجہ کی آواز سے ملتی تھی.ان کی آواز جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کان میں پڑی تو آپ کو یوں معلوم ہوا کہ گویا حضرت خدیجہ آگئی ہیں.تاریخ میں آتا ہے کہ آپ اس کی آواز سُن کر بے قرار ہو گئے اور اس بے کلی کی حالت میں فرمانے لگے.ہائے میری خدیجہ ہائے میری خدیجہ ا یعنی میری خدیجہ کہاں سے آگئی ! لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! خدیجہ کو تو فوت ہوئے کئی سال گزر چکے ہیں یہ اُن کی بہن ہے.10 اب دیکھ لو! حضرت خدیجہ کی وفات کے پندرہ سولہ سال بعد بھی ان کی آواز کے ساتھ ملتی جلتی آواز سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بے تاب ہو کر ہائے میری خدیجہ ! کہہ اُٹھنا اس بات کی کتنی واضح دلیل ہے کہ ان کی خدمات کا آپ کے دل پر گہرا اثر تھا اور وہ لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجو د بھی آپ کے دل سے محو نہیں ہو ا تھا.تو اسلام کی ابتداء میں بھی عورتوں نے ہی زیادہ خدمات کی ہیں.جب آپ نے دعویٰ نبوت کیا تو سارے مکہ والے آپ کے مخالف ہو گئے.اس وقت اگر آپ کو نہیں پناہ ملتی تھی تو آپ کی پھوپھی کی لڑکی اہم بانی کے گھر میں ملتی تھی.پرانے صحابہ کہا کرتے تھے کہ ہم اہم پانی کے گھر جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دین سیکھا کرتے تھے.غرض پہلی ہستی جس نے آپ کی مالی خدمت کی اور غار حرا میں عبادت کے زمانہ میں آپ کو کھانا وغیرہ با قاعدگی سے پہنچایا وہ ایک عورت ہی تھی اور دعوی نبوت کے بعد جب سارا مکہ آپ کا مخالف ہو گیا تھا تو جس نے آپ کو پناہ دی وہ عورت ہی تھی.

Page 462

انوار العلوم جلد 25 438 قرون اولیٰ کی مسلمان خا پھر تیسرا نازک ترین وقت آپ کی زندگی میں وہ آیا جب عرب کے تمام قبائل نے متحد ہو کر ایک بڑا لشکر مدینہ پر چڑھائی کے لئے بھیجا.اس وقت مدینہ کے بعض یہودی قبائل بھی جو بظاہر مسلمانوں کے حلیف تھے دشمن کے ساتھ مل گئے تھے اس وقت بھی ایک عورت ہی تھی جس نے ہمت سے کام لیا اور دشمن کے حملہ کو ناکام کر دیا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اس موقع پر مدینہ کے یہودی بھی مشرکین مکہ کے ساتھ مل گئے تھے اور باہر سے بیس سے چوبیس ہزار کے در میان تعداد میں دشمن کا لشکر حملہ آور ہو رہا تھا.اس کے مقابلہ میں جو مسلمان تھے اُن کی تعداد صرف بارہ سو تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی غداری کا علم ہوا تو چونکہ مستورات ان یہودیوں کے اعتبار پر اُس علاقہ کی طرف رکھی گئی تھیں جدھر یہودی قبائل کے قلعے تھے اور اب وہ بغیر حفاظت کے تھیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی حفاظت ضروری سمجھی اور بارہ سو کے قریب لشکر میں سے پانچ سو سپاہیوں کو عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر فرما دیا لیکن اس سے پہلے تمام عور تیں غیر محفوظ تھیں.ایک دن دشمن نے شدید حملہ کیا جس کی وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اطمینان سے نماز بھی نہ پڑھ سکے.دشمن سامنے سے حملہ کر رہا تھا اور یہودی اس بات کی تاڑ میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر مسلمان عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں.چنانچہ ایک دن یہودیوں نے ایک جاسوس بھیجا تا کہ وہ معلوم کرے کہ عور تیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا خاصی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے.جس خاص احاطہ میں خاص خاص خاندانوں کو جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیا گیا تھا اس کے پاس اس جاسوس نے منڈلانا شروع کر دیا اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ آیا مسلمان سپاہی ارد گرد کہیں پوشیدہ تو نہیں.وہ اس تاڑ میں ہی تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ نے اُسے دیکھ لیا.اتفاقاً اُس وقت ایک ہی مسلمان وہاں تھا جو بیمار اور کمزور دل تھا.حضرت صفیہ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں

Page 463

انوار العلوم جلد 25 439 قرون اولیٰ کی مسلمان خو پھر رہا ہے اور چاروں طرف دیکھتا پھرتا ہے یہ یقیناً جاسوس ہے ، تم اس کا مقابلہ کرو.لیکن اس کمزور دل اور بیمار صحابی نے مقابلہ کرنے سے انکار کر دیا اور کہا مجھے ڈر آتا ہے.تب حضرت صفیہ نے خود ایک چوب اتاری اور اس جاسوس کی نظر بچا کر اس زور سے اُسے ماری کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا.جب وہ یہودی بیہوش ہو کر گرا تو وہ ننگا ہو گیا.حضرت صفیہ نے اس صحابی سے کہا اب ذرا اس پر کپڑا تو ڈال دو لیکن اس صحابی کا دل بہت کمزور تھاوہ پھر بھی کہنے لگا مجھے ڈر آتا ہے کہ کہیں یہ شخص زندہ ہی نہ ہو اور مجھے مار نہ دے.آخر کار حضرت صفیہ نے ہی مجرآت کی.آپ اپنی آنکھوں پر کپڑا ڈال کر ایک طرف سے گئیں اور اُس یہودی پر کپڑ ڈالا اور اس کے بعد اس کی مشکیں کس دیں.11 پھر جب جنگ اُحد کے موقع پر دشمن کا ایک ریلا آیا اور مسلمان لشکر کے پاؤں اُکھڑ گئے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے دُور تک دھکیل دیئے گئے اور صرف چند مسلمان آپ کے پاس رہ گئے اُس وقت دشمن کی طرف سے کچھ پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خود پر لگے جس کی وجہ سے خود کا کیل آپ کی پیشانی میں کھس گیا اور آپ بیہوش ہو کر مسلمانوں کی لاشوں پر گر پڑے.اس کے بعد بعض اور مسلمانوں کی لاشیں آپ کے جسم مبارک پر گریں اور مسلمانوں نے سمجھا کہ آپؐ شہید ہو گئے ہیں.12 اُس وقت بھی مسلمان عورتیں ہی تھیں جنہوں نے اپنی وفاداری کا ایسا ثبوت پیش کیا کہ جس کی مثال دنیا میں ملنی مشکل ہے.اُحد کا میدان مدینہ سے آٹھ نو میل کے فاصلہ پر تھا.جب مدینہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت کی خبر پہنچی تو عورتیں بے تحاشاروتی اور بلبلاتی ہوئی شہر سے باہر نکل آئیں اور میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑیں.اکثر عورتوں کو رستہ میں آپ کی سلامتی کی خبر مل گئی اور وہ وہیں ٹھہر گئیں مگر ایک عورت دیوانہ وار اُحد تک جا پہنچی.اس عورت کا خاوند ، بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا.جب وہ مسلمان لشکر کے قریب پہنچی تو اس نے ایک صحابی سے دریافت کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ چونکہ خبر دینے والا

Page 464

انوار العلوم جلد 25 440 قرون اولیٰ کی مسلمان خو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھا اس لئے اس نے اُس عورت سے کہا.بی بی! افسوس ہے کہ تمہارا باپ اس جنگ میں مارا گیا ہے.اس پر اُس عورت نے کہا تم عجیب ہو.میں تو پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ اور تم یہ خبر دیتے ہو کہ تیر اباپ مارا گیا ہے.اس پر اُس صحابی نے کہا بی بی ! مجھے افسوس ہے کہ تیر اخاوند بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے.اس پر عورت نے پھر کہا میں نے تم سے اپنے خاوند کے متعلق دریافت نہیں کیا میں تو یہ پوچھتی ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ اس پر اُس صحابی نے اُسے پھر کہا.بی بی ! مجھے افسوس ہے کہ تیرا بھائی بھی اس جنگ میں مارا گیا ہے.اُس عورت نے بڑے جوش سے کہا میں نے تم سے اپنے بھائی کے متعلق دریافت نہیں کیا.میں تو تم سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھ رہی ہوں تم یہ بتاؤ کہ آپ کا کیا حال ہے ؟ جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی موت کی کوئی پروا نہیں، وہ صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت دریافت کرنا چاہتی ہے تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور انہوں نے کہا.بی بی !رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خیریت سے ہیں.اس پر اُس نے کہا.مجھے بتاؤ وہ کہاں ہیں؟ اور پھر دوڑتی ہوئی اُس طرف گئی جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے اور وہاں پہنچ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر آپ کا دامن پکڑ کر کہنے لگی.یارسول اللہ !میری ماں اور باپ آپ پر قربان ہوں جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کیا پروا ہے مجھے تو صرف آپ کی زندگی کی ضرورت تھی اگر آپ زندہ ہیں تو مجھے کسی اور کی وفات کا فکر نہیں.13 اب دیکھو اس عورت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر عشق تھا.لوگ اُسے یکے بعد دیگرے باپ، بھائی اور خاوند کی وفات کی خبر دیتے چلے گئے لیکن وہ جواب میں ہر دفعہ یہی کہتی چلی گئی کہ مجھے بتاؤر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے ؟ غرض یہ بھی ایک عورت ہی تھی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر عشق کا مظاہرہ کیا.

Page 465

انوار العلوم جلد 25 441 قرون اولیٰ کی مسلمان خو پھر اسی قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُحد کے میدان سے واپس تشریف لائے تو مدینہ کی عور تیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کے لئے نکل آئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ ایک پرانے اور بہادر انصاری صحابی سعد بن معاذ نے پکڑی ہوئی تھی اور وہ فخر سے آگے آگے چلے آرہے تھے.شہر کے پاس انہیں اپنی بُڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی.اُحد میں اس کا ایک بیٹا بھی مارا گیا تھا.اس بُڑھیا کی آنکھوں میں موتیا بند اُتر رہا تھا اور اس کی نظر کمزور ہو چکی تھی.وہ عورتوں کے آگے کھڑی ہو گئی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگی اور معلوم کرنے لگی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہاں ہیں؟ سعد بن معاذ نے سمجھا کہ میری ماں کو اپنے بیٹے کے شہید ہونے کی خبر ملے گی تو اُسے صدمہ ہو گا.اس لئے انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے حوصلہ دلائیں اور تسلی دیں.اس لئے جو نہی اُن کی نظر اپنی والدہ پر پڑی انہوں نے کہا، یارسول اللہ میری ماں ! یار سول اللہ میری ماں ! آپؐ نے فرمایا.بی بی! بڑا افسوس ہے کہ تیرا ایک لڑکا اس جنگ میں شہید ہو گیا ہے.بڑھیا کی نظر کمزور تھی اس لئے وہ آپ کے چہرہ کو نہ دیکھ سکی.وہ ادھر اُدھر دیکھتی رہی آخر کار اس کی نظر آپ کے چہرہ پر ٹک گئی.وہ آپ کے قریب آئی اور کہنے لگی یارسول اللہ ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا ہے تو آپ سمجھیں کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھالیا.14 اب دیکھو وہ عورت جس کے بڑھایے میں عصائے پیری ٹوٹ گیا تھا.کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو بھون کر کھا جاؤں گی.میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہو گی بلکہ یہ خیال کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں اور آپ کی حفاظت کے سلسلہ میں میرے بیٹے نے اپنی جان دی ہے میری قوت کو بڑھانے کا موجب ہو گا.تو دیکھو عورتوں کی یہ عظیم الشان قربانی تھی جس سے اسلام دنیا میں پھیلا.اس زمانہ میں بھی دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ عورتوں کی قربانیاں دین کی خاطر

Page 466

انوار العلوم جلد 25 442 قرون اولیٰ کی مسلمان خو کم نہیں ہیں.1920ء میں میں نے جب مسجد برلن کے لئے چندہ کی تحریک کی تو جماعت کی عورتوں نے جو اُس وقت تعداد میں اتنی بھی نہیں تھیں جتنی تم یہاں بیٹھی ہو.اپنے زیور اتار اتار کر رکھ دیئے اور کہا انہیں بیچ کر رقم حاصل کر لیں اور مسجد فنڈ میں دے دیں.ہم غرض اُس وقت کی عورتوں نے اس قدر قربانی کی تھی کہ انہوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ مسجد کے لئے جمع کر دیا او راس چیز کا غیروں پر گہرا اثر ہوا.وہ جب بھی احمدیوں سے ملتے تو اس چیز کا ذکر کرتے اور کہتے کہ ہم پر اس چیز کا بہت اثر ہے.اب تم اُن سے بہت زیادہ ہو.اگر تم میں وہی ایمان پیدا ہو جائے جو 1920ء کی عورتوں کے اندر تھا تو تم ایک لاکھ نہیں پانچ لاکھ روپیہ ایک ماہ میں جمع کر سکتی ہو لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان پیدا کیا جائے.جب تقسیم ملک ہوئی اور ہم ہجرت کر کے پاکستان آئے تو جالندھر کی ایک احمدی عورت مجھے ملنے کے لئے آئی.رتن باغ میں ہم مقیم تھے وہیں وہ آکر ملی اور اپنا زیور نکال کر کہنے لگی کہ حضور ! میرا یہ زیور چندہ میں دے دیں.میں نے کہا بی بی ! عورتوں کو زیور کا بہت خیال ہوتا ہے تمہارے سارے زیور سکھوں نے لوٹ لئے ہیں یہی ایک زیور تمہارے پاس بچا ہے تم اسے اپنے پاس رکھو.اِس پر اُس نے کہا حضور ! جب میں ہندوستان سے چلی تھی تو میں نے عہد کیا تھا کہ اگر میں امن سے لاہور پہنچ گئی تو میں اپنا یہ زیور چندہ میں دے دوں گی.اگر سکھ باقی زیورات کے ساتھ یہ زیور بھی چھین کر لے جاتے تو میں کیا کر سکتی تھی.اب میں بہر حال یہ زیور چندہ میں دُوں گی.آپ مجھے اسے اپنے پاس رکھنے پر مجبور نہ کریں.چنانچہ اس عورت نے اپنا زیور چندہ میں دے دیا.اس تقریر کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ جب میں نے یہ تحریک کی تھی تو اُمم طاہر کی والدہ زندہ تھی.انہوں نے اُسی وقت اپنی بیٹیوں اور بہوؤں کو بلایا اور کہا کہ سب زیور اُتار کر رکھ دو میں یہ سب زیور مسجد برلن میں چندہ کے طور پر دُوں گی چنانچہ و کر مسجد برلن کے چندہ میں دے دیا گیا.

Page 467

انوار العلوم جلد 25 443 قرون اولیٰ کی مسلمان خو اب بھی وہ عورت زندہ ہے.مشرقی پنجاب سے جو عورتیں پاکستان آئی تھیں ان میں سے ہزاروں ایسی ملیں گی جو لٹی لٹائی پاکستان پہنچی ہیں.کئی جگہوں پر تو سکھوں نے اُن سے زیور اور دوسری چیزیں چھین لیں اور بعض جگہوں پر خود انہوں نے ڈر کے مارے اپنے زیور اور نقدی پھینک دی تاکہ اُن کے لالچ سے سکھ ان پر حملہ آور نہ ہوں اور وہ امن سے پاکستان پہنچ جائیں.مگر اس عورت کا صرف ایک ہی زیور بچا اور وہ بھی اس نے اسلام کی خدمت کے لئے پیش کر دیا.غرض اسلام میں عورتوں نے ہمیشہ سے قربانیاں کی ہیں اور اب بھی کرتی چلی جاتی ہیں اور اگلے جہان میں بھی اسلام نے عورتوں کے درجہ کو بلند کیا ہے.چنانچہ اسلام کہتا ہے کہ جو عورت مومن ہو، نمازوں کی پابند ہو ، زکوۃ دیتی ہو ، ہم اُسے جنت میں اونچے مقام پر رکھیں گے.عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام میں عورت کی رُوح کو تسلیم نہیں کیا گیا.میں جب یورپ گیا تو مجھ پر بھی ایک عیسائی نے یہی اعتراض کیا میں نے اُسے جواب دیا کہ یہ الزام بالکل غلط ہے اسلام عورت کے حقوق کو کلی طور پر تسلیم کرتا ہے بلکہ اُس نے روحانی اور اُخروی انعامات میں بھی عورت کو برابر کا شریک قرار دیا ہے.اس پر اُس نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس بات کو تسلیم کیا کہ حقیقت یہی ہے کہ اسلام پر جو الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عورت میں رُوح کا قائل نہیں ، غلط ہے.پس اسلام کی تاریخ ہی نہیں دوسرے مذاہب کی تاریخ سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ عورتوں نے مذہب کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور عور تیں وہ تمام کام کر سکتی ہیں جو مر د کر سکتے ہیں.وہ تبلیغ بھی کر سکتی ہیں اور تاریخ بتاتی ہے کہ جب لڑائی کا موقع آیا تو وہ لڑائی بھی کرتی رہی ہیں.جب قادیان میں ہندوؤں اور سکھوں نے حملہ کیا تو شہر کے باہر کے ایک محلہ میں ایک جگہ پر عورتوں کو اکٹھا کیا گیا اور ان کی سردار بھی ایک عورت ہی بنائی گئی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی.اس عورت نے مردوں سے بھی زیادہ بہادری کا نمونہ دکھایا.ان عورتوں کے متعلق یہ خبریں آئی تھیں کہ جب سکھ اور ہند و حملہ کرتے تو وہ عورتیں ان

Page 468

انوار العلوم جلد 25 444 قرون اولیٰ کی مسلمان خو سکھوں اور ہندوؤں دیواروں پر چڑھ جاتیں جو حفاظت کی غرض سے بنائی گئی تھیں اور ان کو جو تلواروں اور بندوقوں سے اُن پر حملہ آور ہوتے تھے بھگا دیتی تھیں.اور سب سے آگے وہ عورت ہوتی تھی جو بھیرہ کی رہنے والی تھی اور اُن کی سردار بنائی گئی تھی.اب بھی وہ عورت زندہ ہے لیکن اب وہ بُڑھیا اور ضعیف ہو چکی ہے وہ عورتوں کو سکھاتی تھی کہ اِس اِس طرح لڑنا چاہئیے اور لڑائی میں ان کی کمان کرتی تھی.غرض کوئی کام بھی ایسا نہیں جو عورت نہیں کر سکتی.وہ تبلیغ بھی کر سکتی ہے ، وہ پڑھا بھی سکتی ہے ، وہ لڑائی میں بھی شامل ہو سکتی ہے اور اگر مال اور جان کی قربانی کا سوال ہو تو وہ ان کی قربانی بھی کر سکتی ہے اور بعض کام وہ مردوں سے بھی لے سکتی ہے.مرد بعض دفعہ کمزوری دکھا جاتے ہیں اُس وقت جو غیرت عورت دکھاتی ہے وہ کوئی اور نہیں دکھا سکتا.چند دن ہوئے میرے پاس ایک لڑکا آیا.وہ جالند ھر کا رہنے والا تھا اور اس کا نانا وہاں پیر تھا اور احمدیت کا سخت مخالف تھا.وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں فلاں کا نواسہ ہوں.میں نے کہا میں تمہارے نانا کو جانتا ہوں اور مجھے یاد ہے کہ تمہاری ماں قادیان میں مجھے ملنے آیا کرتی تھی.اُس نے کہا یہ بات درست ہے.اب وہ فوت ہو چکی ہیں اور قادیان میں بہشتی مقبرہ میں دفن ہیں.میں نے کہا اب تم کس طرح یہاں آئے ہو ؟ اس نے کہا میں ابھی بچہ ہی تھا کہ میری ماں میرے کان میں ہمیشہ یہ بات ڈالتی تھی کہ بیٹا! میں نے دین کی خدمت کے لئے تمہیں وقف کرنا ہے.چنانچہ امریکن وفد جو پاکستان آیا تھا اس کے ذریعہ میں نے سل کے ٹیکے کا کام سیکھا اور اب میں ایک اچھے سرکاری عہدہ پر ہوں مگر میرے دل میں ہمیشہ یہ خیال رہتا ہے کہ میری والدہ کی یہ خواہش تھی کہ میں اپنی زندگی خدمت دین کے لئے وقف کر دوں.میں نے اس بات کا اپنے باپ سے بھی ذکر کیا تو انہوں نے کہا میں تمہاری والدہ کی خواہش میں روک نہیں بننا چاہتا تم بڑی خوشی سے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرو.اب میں یہاں آیا ہوں کہ حضور میرا وقف قبول فرمائیں اور مجھے کسی دینی خدمت پر لگائیں.اب دیکھو وہ عورت قادیان میں بہشتی مقبرہ

Page 469

انوار العلوم جلد 25 445 قرون اولیٰ کی مسلمان خ میں دفن ہوئی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ 1946ء میں یا اس سے پہلے فوت ہوئی ہو گی اور اب اس کی وفات پر دس بارہ سال کا عرصہ گزر چکا ہے.لیکن اس نے بچپن سے ہی اپنے بیٹے کے کان میں جو بات ڈالی تھی وہ اب بھی اس کے دل و دماغ سے نہیں نکلی.وہ چھوٹا سا تھا جب اس نے اپنے بیٹے کے کان میں یہ بات ڈالنی شروع کی کہ میں نے تمہیں دین کی خاطر وقف کرنا ہے.بعد میں وہ جوان ہوا، گریجوایٹ بنا اور پھر اس نے سل کا امریکن ڈاکٹروں سے علاج سیکھا اور اس کے بعد ایک اعلیٰ سرکاری عہدہ پر فائز ہوا.لیکن اس کے ذہن سے یہ بات نہ نکلی کہ اس کی ماں کی یہ خواہش تھی کہ اس نے دین کی خاطر اپنی زندگی وقف کرنی ہے.غرض عورت نہ صرف خود قربانی کر سکتی ہے بلکہ مر دوں کو بھی دین کی خدمت کے لئے تیار کر سکتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی بات ہے ایک دفعہ اسلامی لشکر کا مقابلہ عیسائی لشکر سے ہوا.عیسائی لشکر زیادہ طاقتور تھا اور اسلامی لشکر کمزور تھا.اس لئے وہ مقابلہ کی تاب نہ لا سکا.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان سپاہیوں کی سواریاں پیچھے کی طرف بھا گیں.اس اسلامی لشکر کے کمانڈر یزید بن ابو سفیان تھے.اور اُن کے باپ ابوسفیان بھی ان کے ساتھ تھے وہ بھی پیچھے کی طرف بھاگے.فوج کے پیچھے عور تیں تھیں اور اُن عورتوں میں ابو سفیان کی بیوی ہندہ بھی تھی جو اسلام لانے سے پہلے اسلام کی اتنی دشمن تھی کہ ایک دفعہ جب جنگ میں حضرت حمزہ شہید ہوئے تو اُس نے اُن کا کلیجہ نکالنے والے کے لئے انعام مقرر کیا.ہندہ نے جب دیکھا کہ اسلامی لشکر کے پاؤں اکھڑ چکے ہیں اور مسلمان سپاہی پیچھے کی طرف بھاگے آرہے ہیں تو اس نے عورتوں کو جمع کیا اور کہا تمہارے مردوں نے اسلام سے غداری کی ہے او روہ دشمن کے آگے بھاگ کھڑے ہوئے ہیں.اب تمہارا کام ہے کہ تم انہیں روکو.عورتوں نے کہا ہمارے پاس تو کوئی ہتھیار نہیں ہم انہیں کیسے روک سکتی ہیں.ہندہ نے کہا خیمے توڑ دو اور بانس نکال لو اور جو سپاہی پیچھے آئے اس کی اونٹنی یا گھوڑے کو بانس مار مار کر پیچھے موڑ دو.اور کہو بے حیاؤ واپس جاؤ دشمن سے لڑو.اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو ہم عور تیں دشمن کا مقابلہ کریں گی.

Page 470

انوار العلوم جلد 25 446 قرون اولیٰ کی مسلمان خو چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب اسلامی لشکر عورتوں کے قریب پہنچا تو انہوں نے خیموں کے بانس نکال لئے اور اُن کی سواریوں کے مونہوں پر مارنے لگیں.ہندہ نے بھی ایک بانس ہاتھ میں لیا اور ابو سفیان کی سواری کو مارا اور کہا بے حیا !جب مشرکین مکہ اسلام کے مقابلہ کے لئے جاتے تھے تو اُن کے لشکر کا کمانڈر ہوا کرتا تھا.اب مسلمان ہونے کے بعد تجھے اسلام کی خاطر لڑنا پڑا ہے تو پیچھے بھاگ آیا ہے.اسی طرح اس نے اپنے بیٹے کی سواری کو بھی بانس مارا اور اُسے بھی پیٹھ دکھانے پر ملامت کی.ابو سفیان کی غیرت نے بھی جوش مارا اور اس نے اپنے بیٹے یزید سے کہا بیٹا ! واپس چلو ! عیسائیوں کا لشکر ہم سے بہت طاقتور ہے مگر اُن کے ہاتھوں مارا جانا بر داشت کیا جاسکتا ہے لیکن ان عورتوں کے ڈنڈے نہیں کھائے جاسکتے.چنانچہ اسلامی لشکر واپس گیا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اُسے فتح دے دی.مردوں کو قربانی پر آمادہ کرو میں میں پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے مردوں سے کام لینا بھی عورتوں کو آتا ہے.وہ انہیں تحریک کر کے قربانی کے لئے آمادہ کر سکتی ہیں اور اس کی ہمارے ہاں بھی بہت سی مثالیں موجود ہیں.عورتوں نے اپنے مردوں کو تحریک کی اور انہوں نے قربانیاں کیں.آخر دیکھ لو ہمارے کئی مبلغ ایسے ہیں جو دس دس پندرہ پندرہ سال تک بیرونی ممالک میں فریضہ تبلیغ ادا کرتے رہے اور وہ اپنی نئی بیاہی ہوئی بیویوں کو پیچھے چھوڑ گئے.ان عورتوں کے اب بال سفید ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے اپنے خاوندوں کو کبھی یہ طعنہ نہیں دیا کہ وہ انہیں شادی کے معابعد چھوڑ کر لمبے عرصہ کے لئے باہر چلے گئے تھے.ہمارے ایک مبلغ مولوی جلال الدین صاحب شمس ہیں.وہ شادی کے تھوڑا عرصہ بعد ہی یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے تھے.اُن کے واقعات سُن کر بھی انسان کو رقت آجاتی ہے.ایک دن اُن کا بیٹا گھر آیا اور اپنی والدہ سے کہنے لگا.اناں ! ابا کسے کہتے ہیں ؟ سکول میں سارے بچے آتا انبا ہمیں پتہ نہیں کہ ہمارا اتنا کہاں گیا ہے ؟ کیونکہ وہ بچے ابھی تین تین چار چار سال کے ہی تھے کہ شمس صاحب یورپ تبلیغ کے لئے چلے گئے اور جب وہ واپس آئے تو وہ بچے 18،18،17،17 سال کے ہو چکے تھے.اب دیکھ لو یہ اُن کی بیوی کی ہمت کا ہی نتیجہ تھا

Page 471

انوار العلوم جلد 25 447 قرون اولیٰ کی مسلمان خو کہ وہ ایک لمبے عرصہ تک تبلیغ کا کام کرتے رہے.اگر وہ انہیں اپنی درد بھری کہانیاں لکھتی رہتی تو وہ یا تو خود بھاگ آتے یا سلسلہ کو مجبور کرتے کہ انہیں بلا لیا جائے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض عورتوں نے اس بارہ میں کمزوری بھی دکھائی ہے.ان کے خاوندوں کو باہر گئے ابھی دو سال ہی ہوئے تھے کہ انہوں نے دفتر کو لکھنا شروع کیا کہ یا تو ہمارے خاوندوں کو واپس بلا دو یا ہم انہیں لکھیں گی کہ وہ کام چھوڑ کر آجائیں.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ساری عورتیں کمزور ہوتی ہیں.اگر بعض عورتیں کمزور ہوتی ہیں تو بعض مرد بھی کمزور ہوتے ہیں.کمزوری دکھانے میں عورتیں منفرد نہیں بلکہ مردوں میں سے بھی ایک حصہ کمزوری دکھا جاتا ہے.غرض کمزوری کو دیکھو تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں اور اگر قوت کو دیکھو تو مرد اور عورت دونوں برابر ہیں.عشق اور قربانی کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں.غیرت کو دیکھو تو دونوں برابر ہیں.غرض کسی کام کو دیکھو جس ہمت سے اُسے مرد کر سکتے ہیں اُسی ہمت سے اُسے عورتیں بھی کر سکتی ہیں.اس لئے عورت اپنے فرض کو پہچانے اور وہ مضبوطی سے اپنے ایمان پر قائم رہے تو کسی کی طاقت نہیں کہ وہ احمدیت کو کوئی نقصان پہنچا سکے.یہی بات دیکھ لو کہ اگر موجودہ منافقوں کی بیویاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی عورتوں جیسا نمونہ دکھاتیں تو کیا اُن کو منافقت دکھانے کی جرات ہو سکتی تھی؟ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک جنگ کے لئے باہر تشریف لے گئے ایک صحابی اُس وقت موجود نہیں تھے انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لئے باہر بھیجا ہوا تھا.وہ مدینہ آئے تو انہیں معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو ساتھ لے کر لڑائی کے باہر جاچکے ہیں.وہ ایک لمبا عرصہ باہر رہے تھے انہیں اپنی بیوی سے جو نوجوان اور خوبصورت تھی بہت محبت تھی.انہوں نے چاہا کہ گھر جاکر اس سے پیار کر لیں چنانچہ وہ گھر آئے.ان کی بیوی کوئی کام کر رہی تھی.وہ آگے بڑھے اور اُسے پیار کرنا چاہا اس نے انہیں دیکھتے ہی دھکا دے کر پیچھے پھینک دیا اور کہنے لگی تجھے شرم نہیں آتی خدا تعالیٰ کا رسول تو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر رومی حکومت سے لڑنے کے لئے گیا

Page 472

انوار العلوم جلد 25 448 قرون اولیٰ کی مسلمان خو ہوا ہے اور تجھے اپنی بیوی سے پیار سوجھ رہا ہے.اس صحابی کو بیوی کے اس فقرہ سے سخت چوٹ لگی وہ اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہو گئے اور جدھر اسلامی لشکر گیا تھا اُدھر روانہ ہو گئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے.اگر ان منافقوں کی بیویاں بھی اسی قسم کا اخلاص دکھاتیں تو ان کے مردوں کو منافقت دکھانے کی جرات ہی نہیں ہو سکتی تھی.ایک منافق کا سالا یہاں آیا تھا.میں نے اُسے کہا تھا تم میاں بشیر احمد صاحب کے پاس جاؤ اور اُن سے پوچھ لو کہ ہم نے ان لوگوں کو کیس کیس طرح سمجھانے کی کوشش کی ہے.چنانچہ وہ میاں بشیر احمد صاحب کے پاس گیا اور انہوں نے اُسے تفصیل کے ساتھ تمام باتیں سمجھائیں.بعد میں اس نے بتایا کہ میں اپنی بہن کے پاس گیا تھا.میں اُسے کہہ آیا ہوں کہ ہمارا باپ مر گیا تو ہم نے اُسے کونسا بچا لیا تھا اسی طرح اگر تیرے خاوند نے توبہ نہ کی اور اس نے معافی نہ مانگی تو ہم تجھے بھی مردہ سمجھ لیں گے.لیکن اگر تو اپنے خاوند سے قطع تعلق کرلے تو میر اگھر تیر اگھر ہے.تو میرے پاس آجائے تو میں تیر اسارا بوجھ اُٹھا لوں گا.لیکن اگر تو اپنے خاوند سے قطع تعلق نہ کرے اور اس کے ساتھ ہی رہے تو پھر میں تیرا منہ بھی نہیں دیکھوں گا.غرض ایسے رشتہ دار بھی موجود ہیں جنہوں نے دین کی خاطر اپنے رشتہ داروں سے بے تعلقی کا اظہار کیا مگر وہ عورتیں بھی ہیں جو منافقت میں اپنے خاوندوں کے ساتھ ہیں بلکہ وہ خیال کرتی ہیں کہ اگر اُن کے خاوند منافقت میں کچھ اور ترقی کر لیں تو شاید انہیں فائدہ پہنچ جائے.غرض اسلام کا کوئی پہلو لے لو اس میں عورت مرد سے پیچھے نہیں.تم اپنے دلوں سے اس خیال کو دُور کر دو جو بعض بیوقوف مردوں نے ڈالا ہے کہ عورت بڑی مظلوم ہے.تم مظلوم نہیں ہو بلکہ خدا تعالیٰ نے تمہیں وہ حکومت بخشی ہے جس کے مقابلہ میں دُنیا کی کوئی حکومت نہیں ٹھہر سکتی.پاکستان کی حکومت کو دیکھ لو کئی لوگ ایسے ہیں جو اُسے گالیاں دیتے ہیں مگر بیوی کی حکومت کو کوئی گالی نہیں دیتا.اگر کوئی شخص کسی ہے کہ تو اپنی بیوی سے محبت اور پیار نہ کر تو وہ کہے گا تو بڑا خبیث ہے ، تو میرے گھر میں فتنہ ڈالنا چاہتا ہے میں تیری بات نہیں مان سکتا.لیکن اگر اس شخص کے سامنے کوئی

Page 473

انوار العلوم جلد 25 449 قرون اولیٰ کی مسلمان خو پاکستان کے کسی عہدیدار کے متعلق کہے کہ وہ بڑا گندہ ہے تو شاید وہ اسکی تصدیق کرنے لگ جائے.غرض کوئی شخص اپنی بیوی کی حکومت کے خلافت کوئی بات نہیں سن سکتا.پس تمہیں خدا تعالیٰ نے بڑا اچھا موقع دیا ہے آج تم ویسی ہی خدمات کر سکتی ہو جیسی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات نے کیں.تم ویسی ہی خدمات کر سکتی ہو جیسی حضرت ہاجرہ نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کر سکتی ہو جیسی کرشن علیہ السلام کی گوپیوں نے کیں، تم ویسی ہی خدمات کر سکتی ہو جیسی حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم نے کیں.حضرت عیسی علیہ السلام کے حالات سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اُن کی زیادہ تر خدمت عورتوں نے ہی کی ہے.جب حضرت عیسی علیہ السلام کی مخالفت بڑھ گئی تو انجیل میں آتا ہے کہ ایک عورت آپ کے پاس آئی اور اُس نے بڑا قیمتی عطر آپ کے پیروں پر ڈالا اور پھر اُس نے اپنے بال کھولے اور ان بالوں سے آپ کے پاؤں پونچھنے شروع کئے 15 لوگوں نے کہا یہ کتنی بے وقوف عورت ہے اس نے عطر ضائع کیا ہے.اس عطر کی قیمت سے کئی غریب پل سکتے تھے.حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا تم اس عورت کو کیوں دق کرتے ہو.اس نے تو میرے ساتھ بھلائی کی ہے کیونکہ غرباء تو ہمیشہ تمہارے پاس رہیں گے لیکن میں تمہارے پاس ہمیشہ نہیں رہوں گا 10 پھر جب آپ کو صلیب پر چڑھایا گیا تو آپ کے پاس آپ کی والدہ حضرت مریم کے علاوہ تین چار اور عور تیں بھی تھیں 17 عیسائی کتب میں اس واقعہ کی جو تصاویر دی گئی ہیں اُن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم نے تو بہت ضبط سے کام لیا ہے اور اُن کی آنکھ میں آنسو نہیں لیکن دوسری عورتوں کی آنکھوں سے آنسو ڈھلک رہے ہیں.پھر انجیل میں آتا ہے کہ جب تین دن کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام قبر سے نکالے گئے تو سب سے پہلے عور تیں ہی ان کے پاس آئیں، مرد نہیں آئے 13 پھر جب آپ پھانسی کی سزا سے بچ کر ادھر اُدھر چھپتے پھرتے تھے تو تاریخ میں آتا ہے کہ ہر جگہ جہاں آپ پہنچتے عور تیں وہاں پہنچ جاتیں اور آپ سے دین کی باتیں سیکھتیں.مرد ڈر کے مارے آپ کے قریب نہیں آتے تھے 12 گویا انجیل سے بھی پتہ لگتا ہے کہ ابتدائے عیسائیت میں

Page 474

انوار العلوم جلد 25 450 قرون اولیٰ کی مسلمان خو عورتوں کی قربانی مردوں سے زیادہ تھی.جب مرد حکومت کی گرفت سے ڈر گئے تو عور تیں نہیں ڈریں وہ ہر جگہ پولیس اور فوج کے پہرہ کو چیرتی ہوئی حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس پہنچ جاتیں اور آپ کے قدموں میں بیٹھ کر دین کی تعلیم حاصل کر تیں.غرض ہر مذہب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عورتوں نے بڑا کام کیا ہے.میں نے بتایا ہے کہ برلن کی مسجد کی تحریک ہوئی تو اُس وقت کی احمدی عورتوں نے ایک ماہ کے اندر اندر ایک لاکھ روپیہ جمع کر دیا.اب تم ہیگ کی مسجد کے لئے کوشش کر رہی ہو مگر افسوس کہ تم اتنی کوشش نہیں کر رہیں جتنی 1920ء میں برلن کی مسجد کے لئے عورتوں نے کی تھی.حالانکہ اس وقت تم اُن سے پندرہ بیس گنا زیادہ ہو.انہوں نے اُس وقت ایک لاکھ روپیہ دے دیا تھا مگر تم نے ابھی ستر ہزار روپیہ جمع کیا ہے اور پھر اُن کے جمع کر دہ چندہ سے برلن میں جو زمین خریدی گئی تھی وہ جب بیچی گئی تو پچاس ہزار روپیہ اصل قیمت سے زیادہ ملا اور اس روپیہ سے لنڈن کی مسجد بن گئی.گویا لنڈن کی مسجد بھی انہیں عورتوں کے روپیہ سے بنی ہے.برلن میں مسجد تعمیر نہیں کی جاسکی تھی کیونکہ جرمن حکومت نے بعض ایسی شرائط لگادی تھیں جن کی وجہ سے مسجد کی تعمیر پر بہت زیادہ روپیہ خرچ آتا تھا.اس لئے ہم نے وہاں مسجد کے لئے جو جگہ خرید کی تھی اُسے بیچ دیا اور جو روپیہ بچا اس سے لنڈن کی مسجد بنائی گئی.گویا برلن کی مسجد کے لئے بھی عورتوں نے چندہ دیا، لنڈن کی مسجد بھی انہی کے روپیہ سے بنی اور ہیگ کی مسجد کے لئے بھی عورتیں ہی روپیہ جمع کر رہی ہیں.مرد بھی تک ہیمبرگ کی مسجد کے لئے بھی روپیہ جمع نہیں کر سکے.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عورت گو بظاہر کمزور نظر آتی ہے مگر جب وہ قربانی پر آجائے تو مرد سے زیادہ قربانی کرتی ہے.دیکھ لوماں جتنی قربانی اپنے بچے کے لئے کرتی ہے اس قدر قربانی مرد نہیں کر سکتا.میں نے بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی کہ ایک عورت کے بچہ کو عقاب اُٹھا کر لے گیا اور عقاب نے اس بچہ کو ایک پہاڑی کی چوٹی پر رکھ دیا.وہ پہاڑی ایسی سیدھی تھی کہ اُس پر کوئی چڑھ نہیں سکتا تھا لیکن ماں نے جب دیکھا کہ عقاب نے اس کا بچہ اس پہاڑی کی چوٹی پر رکھ دیا ہے تو وہ پاگلوں کی طرح اس پہاڑی پر چڑھ گئی اور اُسے پتہ بھی نہ لگا کہ وہ

Page 475

انوار العلوم جلد 25 451 قرون اولیٰ کی مسلمان خو پہاڑی اُونچی اور سیدھی تھی اور اس پر چڑھنا مشکل ہے.پہاڑی پر جا کر اُس نے بچہ کو پیار کیا اور اُسے دودھ پلایا.پھر جب نیچے اُترنے لگی تو ڈری اور شور مچانے لگی.اس پر ارد گرد کے لوگ آئے انہوں نے رستے ڈال ڈال کر اور کیلے گاڑ گاڑ کر بڑی مشکل سے اُسے پہاڑی سے نیچے اُتارا.لیکن جس وقت اس کا بچہ خطرہ میں تھا اُسے کوئی ہوش نہیں تھی اور وہ بڑی آسانی کے ساتھ اس پہاڑی پر چڑھ گئی.تو اگر عورت کی محبت واقع میں جوش میں آجائے تو وہ بڑی قربانی کر لیتی ہے.بچہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر ایک ایسا مادہ پیدا کیا ہے جو مرد کے اندر نہیں پایا جاتا جب وہ ماڈہ جوش میں آجائے تو عورت بڑی سے بڑی قربانی کر لیتی ہے.اصل چیز تو وہ ماڈہ ہے.اگر ماڈہ موجود ہو تو پھر قربانی کرنا مشکل نہیں ہو تا.مثلاً ایک شخص کی جیب میں پانچ روپے ہوں تو وہ ان پانچ روپوں سے تمبا کو بھی خرید سکتا ہے، اور انہیں خدا تعالیٰ کے رستہ میں بھی دے سکتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت کو قربانی کا جو مادہ دیا ہے اس کو وہ بچہ کے لئے بھی استعمال کر سکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بھی استعمال کر سکتی ہے.جس طرح وہ شخص جس کی جیب میں روپے موجود ہوں وہ اس سے ضروریات زندگی بھی خرید سکتا ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں بھی خرچ کر سکتا ہے.اسی طرح عورت کے اندر قربانی کا مادہ موجود ہے وہ اُسے بچہ کے لئے بھی خرچ کر سکتی ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر بھی خرچ کر سکتی ہے.جب وہ جوش میں آجائے تو دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اسے قربانی کرنے سے روک سکے.وہ بچوں کی اعلیٰ پرورش کرتی ہیں، ان کی تربیت کرتی ہیں اور ضرورت پڑے تو مردوں کو غیرت دلاتی اور انہیں قربانی کے لئے تیار کرتی ہیں.مجھے یاد ہے کہ 1917ء میں ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری قادیان آئے اور وہاں ایک بڑا جلسہ ہوا.پانچ چھ ہزار غیر احمدی وہاں جمع ہوا.اُس وقت قادیان میں احمدی بہت تھوڑے تھے اور شہر کی آبادی بہت کم تھی.1947ء میں جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں سترہ اٹھارہ ہزار احمدی تھے لیکن اُس وقت ہزار بارہ سو کے قریب تھے اور ان کے مقابلے میں چھ سات ہزار غیر احمدی جمع ہو گئے تھے.انہوں نے رستے روک لئے تھے اور چلنا پھرنا مشکل ہو گیا تھا.اس لئے مولوی ثناء اللہ صاحب

Page 476

انوار العلوم جلد 25 452 قرون اولیٰ کی مسلمان خو نے خیال کیا کہ انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا اور انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سخت بُرا بھلا کہا.قادیان کے قریب کے ایک گاؤں بھینی ہے وہاں کی ایک احمدی عورت ان کے جلسہ گاہ کے قریب کھڑی تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب نے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیں اور تمام احمدی مرد بیٹھے رہے تو اس نے مولوی صاحب کو پہنچابی میں گالی دے کر کہا.”تیرے دادے داڑھی ہگیا توں حضرت صاحب نوں گالیاں دینا ایں“.اس پر غیر احمدی جوش میں آگئے اور اس عورت کو مارنے کے لئے اُٹھے.بعض احمدی اسے بچانے لگے تو دوسرے احمدیوں نے کہا.ایسانہ کرو، حضرت صاحب نے احمدیوں کو فساد سے منع کیا ہوا ہے.مجھے پتہ لگا تو میں اُن پر خفا ہوا اور میں نے کہا یہاں تو ایک عورت کی عزت کا سوال تھا.اس سے تمہیں کس نے روکا تھا.تمہیں شرم نہ آئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی گئیں تو تم مردوں میں سے کسی کو بھی غیرت نہ آئی لیکن اس عورت کو غیرت آئی اور اس نے اس بات کی ذرہ بھی پروا نہ کی کہ غیر احمدی کتنی تعداد میں جمع ہیں اور وہ اسے ماریں گے.اس نے اُسی وقت کھڑے ہو کر مولوی ثناء اللہ صاحب کو کہا ”تیرے دادے داڑھی ہگیا توں حضرت صاحب نوں گالیاں دینا ایں“.تمہیں تو اس عورت کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قربان کر دینی چاہیں تھیں.اور اگر تم ایسا کرتے تو میں بہت خوش ہو تا.اب دیکھو وہ بھی ایک عورت تھی جس نے اس موقع پر بہادری دکھائی.اُس وقت ہزار بارہ سو آدمی بھی ڈرتے تھے کہ اگر انہیں کچھ کہا تو غیر احمدی انہیں ماریں گے.لیکن وہ کھڑی ہو گئی اور اس نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو روک دیا.اُس نے اس بات کی پروا نہ کی کہ سارے کا سارا مجمع اس پر ٹوٹ پڑے گا اور اس کی جان ضائع ہو جائے گی.اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ غرض اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو ہر قسم کی قربانی کی توفیق دی ہوئی ہے.ضرورت اس بات کی ہے میں استعمال کرو کہ تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرو.اگر تم اپنی طاقتوں کو سمجھو اور انہیں استعمال کرنا

Page 477

انوار العلوم جلد 25 453 قرون اولیٰ کی مسلمان خو سیکھ لو تو تمہارے مقابلہ پر بڑی سے بڑی طاقت بھی نہیں ٹھہر سکتی.بلکہ مرد بھی تم سے طاقت حاصل کریں گے.گویا تمہاری مثال دیا سلائی کی سی ہو گی اور مرد کی مثال تیل کے پیسے کی سی.جب تم دیا سلائی سے آگ لگاؤ گی تو وہی مرد جو بزدلی کی وجہ سے کونہ میں کھڑا.ہو گا جوش میں آجائے گا اور جس طرح آگ کی وجہ سے تیل بھڑک اُٹھتا ہے تمہارے غیرت دلانے سے وہ بھی بھڑک اٹھے گا اور پھر کسی روک اور مصیبت کی پروا نہیں کرے گا اور قربانی کرتا چلا جائے گا.میں جب بچہ تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجھے ایک ہوائی بندوق خرید کر دی تھی اور ہم اس سے جانوروں کا شکار کیا کرتے تھے.ایک دن ہم شکار کرنے کے لئے باہر گئے تو ایک سکھ لڑکا میرے پاس آیا.اُن دنوں ارد گرد کے دیہات میں بڑی مخالفت تھی اور وہاں شکار کے لئے جانا مناسب نہیں تھا لیکن اس لڑکے کو بھی شکار کا شوق تھا.وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا ہمارے گاؤں چلیں وہاں بہت فاختائیں ہیں.ہم ان کا شکار کریں گے.چنانچہ میں اس کے ساتھ اس کے گاؤں چلا گیا.وہاں وہ سکھ لڑکا میرے آگے آگے چلتا تھا اور مجھے بتاتا تھا کہ وہ فاختہ بیٹھی ہے اس کو مارو.اتنے میں ایک عورت باہر نکلی اور اس لڑکے کو مخاطب کر کے کہنے لگی.تینوں شرم نہیں آندی“ کہ و مسلیاں کولوں جیو ہتیا کراندا ایں“ یعنی تمہیں شرم نہیں آئی کہ مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے کر جانور مرواتے ہو.اس عورت کا یہ کہنا تھا کہ وہ سکھ لڑکا کھڑا ہو گیا اور بڑے غصے سے کہنے لگا، تم کون ہوتے ہو یوں شکار کرنے والے ! حالا نکہ وہ خود ہمیں وہاں لے گیا تھا.اب دیکھو وہ لڑکا صرف اس عورت کی بات کی وجہ سے ہمارے مقابلہ پر کھڑا ہو گیا اور سکھ اس نے اس بات کی ذرہ پر وا نہ کی کہ وہ خود ہمیں ساتھ لے گیا ہے.پس عورت کی آواز میں ایک جوش ہوتا ہے اور مرد میں اُس کے لئے جذبہ احترام اور ادب ہوتا ہے، چاہے کوئی مرد کتنا برا ہو، بجوں ہی اس کے کان میں عورت کی آواز پڑتی ہے وہ کھڑا ہو جاتا ہے.جب بغداد میں خلافت بہت کمزور ہو گئی اور مسلمانوں کی طاقت ٹوٹ گئی تو اُس

Page 478

انوار العلوم جلد 25 454 قرون اولیٰ کی مسلمان خو وقت عیسائیوں نے فلسطین میں اپنی حکومت قائم کر لی تھی.وہاں ایک عورت باہر نکلی تو عیسائیوں نے اس کی بے عزتی کی.اسے علم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی بادشاہت تباہ ہو چکی ہے.اس نے اونچی آواز سے کہا یا امیر المومنین! اے امیر المومنین! میری مدد کو پہنچو.اُس وقت امیر المومنین کی یہ حالت تھی کہ وہ دوسری طاقت کا ایک قیدی تھا اور سوائے دربار کے اس کی کہیں حکومت نہیں تھی.لیکن اس عورت کو اس بات کا کوئی علم نہیں تھا.اُس نے سنا ہوا تھا کہ امیر المومنین کی ہی حکومت ہوتی ہے.اتفاقاً اس کے پاس سے ایک قافلہ گزر رہا تھا جو تجارت کے لئے اس طرف گیا تھا.انہوں نے اس عورت کی آواز کو سنا.جب وہ قافلہ بغداد پہنچا تو لوگ جمع ہو گئے او رانہوں نے قافلہ والوں سے کہا کہ کوئی تازہ خبر سناؤ.اس پر انہوں نے کہا کہ ہم فلسطین میں سے آرہے تھے کہ عیسائیوں نے ایک مسلمان عورت کو قید کر لیا اور اس کی بے عزتی کی تو اس نے بلند آواز میں کہا یا امیرالمؤمنین! میں امیر المومنین کو اپنی مدد کے لئے پکارتی ہوں.وہ بیچاری اتنا بھی نہیں جانتی تھی کہ امیر المومنین کی کوئی حیثیت نہیں وہ خود ایک قیدی ہے اور سوائے دربار کے اس کی کہیں بھی حکومت نہیں.اس مجمع میں خلیفہ کا ایک درباری بھی کھڑا تھا.اس نے یہ واقعہ دربار میں بیان کیا اور کہا اس اس طرح ایک قافلہ فلسطین سے آیا ہے اور اس نے بتایا ہے کہ راستہ میں انہوں نے دیکھا کہ ایک مسلمان عورت کو عیسائیوں نے قید کر لیا ہے اور اس کی بے عزتی کی ہے اور اس عورت نے اپنی مدد کے لئے امیر المومنین کو پکارا ہے.فلسطین بغداد سے تقریباً ایک ہزار میل کے فاصلے پر ہے مگر اس عورت کی آواز خلیفہ کے کان میں پڑی جو خود ایک قیدی کی حیثیت میں تھا تو وہ ننگے پاؤں باہر نکل کھڑا ہوا اور کہنے لگا.خدا کی قسم ! جب تک میں اس عورت کو عیسائیوں کے قبضہ سے چھڑاؤں گا نہیں میں جوتا نہیں پہنوں گا اور باہر نکل کر اس نے فوج کو جمع کر ناشروع کیا.وہ نواب جو خلافت سے بغاوت کر رہے تھے جب انہیں پتہ لگا تو وہ بھی اپنی فوج لے کر آگئے اور خلیفہ کے جھنڈے تلے جمع ہو گئے.اس طرح ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا جس نے فلسطین کی عیسائی حکومت کو شکست دی اور اس عورت کو آزاد کر وایا گیا.

Page 479

انوار العلوم جلد 25 455 قرون اولیٰ کی مسلمان خو پس عورت کو کمزور ہے مگر مردوں کے اندر اس کے لئے ادب اور احترام پایا جاتا ہے کیونکہ ہر مرد عورت کا ہی بچہ ہے اور اپنی ماں کے ادب اور احترام کی وجہ سے ہر عورت کو اپنی ماں کی جگہ سمجھتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ اسے اس کی ماں پکار رہی ہے تو وہ فوراً بھاگ پڑتا ہے.پس اگر احمدی عورتیں قربانی کریں اور اپنے اندر دین کی خدمت کا جذبہ پیدا کریں تو چونکہ تمہاری آواز میں ایک درد ہے ، ایک سوز اور گداز ہے تم دنیا کے گوشہ گوشہ میں آگ لگا دو گی اور گو بظاہر اشاعت دین کا کام مرد کر رہے ہوں گے لیکن حقیقت میں تم ہی یہ کام کر وار ہی ہو گی.پس اگر تم کمر ہمت باندھ لو اور دین کی خاطر ہر قربانی کرنے کے لئے آمادہ ہو جاؤ تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ ابھی تم میں سے بہت سی عورتیں زندہ ہوں گی کہ اسلام غالب آجائے گا اور تم اس دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرو گی اور آخرت میں بھی اس کے انعامات کی وارث ہو گی اور تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو گی کہ عیسائیت شکست کھا گئی اور اسلام فتح پا گیا ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کی خدائی ٹوٹ چکی ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہی قائم ہو چکی ہے.پس یہ کام تمہارے اپنے اختیار میں ہے اور اگر تم چاہو تو تم یہ کام بڑی آسانی سے کر سکتی ہو.میں دعا کرتا ہوں کہ تم سچے طور پر اسلام کی خدمت کی توفیق پاؤ اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کو حاصل کرنے والی بنو.(مصباح" بابت ماہ جنوری 1957ء) 1 النهايه في غريب الاثر.لابن اثیر.جلد 1 صفحہ 330.مطبوعہ بیروت 2001ء 2 فتوح الشام جلد اوّل صفحہ 28،27 تاریخ ابن اثیر جلد 2 صفحہ 475 476 مطبوعہ بیروت 1965ء 4 پیدائش باب 21 آیت 9 تا 12 5 بخاری کتاب احادیث الانبياء باب يزفون 6 السيرة الحلبية الجزء الاول صفحہ 163 مطبوعہ مصر 1932ء بخاری کتاب بدء الوحى باب كَيْفَ كَانَ بَدء الوحى إِلَى رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم

Page 480

456 قرون اولیٰ کی مسلمان خا انوار العلوم جلد 25 بخاری کتاب بدء الوحى باب كَيْفَ كَانَ بَدء الوحى إِلَى رَسُولِ الله (الخ) 9 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تذويج النبي صلى الله عليه وسلم خديجة (الخ) 10 بخاری کتاب مناقب الانصار باب تخويج النبي صلى الله عليه وسلم خديجة (الخ) 11 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 239 مطبوعہ مصر 1936ء 12 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 84 تا 88 مطبوعہ مصر 1936ء 13 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 105 مطبوعہ مصر 1936ء 14 السيرة الحلبية جلد 2 صفحہ 267 268 مطبوعہ مصر 1935ء 15 متی باب 26 آیت 6 تا 13 16 متی باب 26 آیت 6 تا 13 17 مرقس باب 15 آیت 40 18 مرقس باب 16.آیت 1 تا 6 کا خلاصہ 19 یوحنا باب 20 آیت 1 تا 18 کا مفہوم

Page 481

انوار العلوم جلد 25 457 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع 1956ء میں خطابات از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 482

Page 483

انوار العلوم جلد 25 459 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خد اتعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی رہے گی.افتاحی خطاب (فرموده 26/اکتوبر 1956ء بر موقع دوسر اسالانہ اجتماع انصار اللہ بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنیہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ انْصَارِى إِلَى اللهِ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ اس کے بعد فرمایا: آپ لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے یہ نام قرآنی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے اور احمدیت کی تاریخ میں بھی دو دفعہ آیا ہے.قرآنی تاریخ میں ایک دفعہ تو حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق یہ الفاظ آتے ہیں.چنانچہ جب آپ نے فرما یامن انْصارِی اِلَى اللهِ تو آپ کے حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ کہ ہم اللہ تعالٰی کے انصار ہیں.دوسری جگہ اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ مہاجرین کا تھا اور ایک گروہ انصار کا تھا.گویا یہ نام قرآنی تاریخ میں دو دفعہ آیا ہے.ایک جگہ پر حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کے متعلق آیا ہے اور ایک جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے ایک حصہ کو انصار کہا گیا ہے.جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی انصار اللہ کا دو جگہ ذکر آتا ہے.ایک دفعہ

Page 484

انوار العلوم جلد 25 460 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات جب حضرت خلیفہ اول کی پیغامیوں نے مخالفت کی تو میں نے انصار اللہ کی ایک جماعت قائم کی اور دوسری دفعہ جب جماعت کے بچوں، نوجوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کی تنظیم کی گئی تو چالیس سال سے اوپر کے مردوں کی جماعت کا نام انصار اللہ رکھا گیا.گویا جس طرح قرآن کریم میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا ہے اسی طرح جماعت احمدیہ میں بھی دو زمانوں میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.پہلے جن لوگوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اُن میں سے اکثر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ تھے کیونکہ یہ جماعت 1913 1914ء میں بنائی گئی تھی اور اُس وقت اکثر صحابہ زندہ تھے اور اس جماعت میں بھی اکثر وہی شامل تھے.اسی طرح قرآن کریم میں بھی جن انصار کا ذکر آتا ہے ان میں زیادہ تر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ شامل تھے.دوسری دفعہ جماعت احمدیہ میں آپ لوگوں کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا ہے جس طرح قرآن کریم میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک ادنی نبی حضرت مسیح ناصری کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.آپ لوگوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ کم ہیں اور زیادہ حصہ اُن لوگوں کا ہے جنہوں نے میری بیعت کی ہے.اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام والی بات بھی پوری ہو گئی.یعنی جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.گویا قرآنی تاریخ میں بھی دو زمانوں میں دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی دو گروہوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ اب بھی زندہ ہیں مگر آب اُن کی تعداد بہت تھوڑی رہ گئی ہے.صحابی اُس شخص کو بھی کہتے ہیں جو نبی کی زندگی میں اس کے سامنے آگیا ہو.گویا زیادہ تر یہ لفظ انہی لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جنہوں نے نبی کی صحبت سے فائدہ اٹھایا ہو اور اس کی باتیں سنی ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام 1908ء میں فوت ہوئے ہیں.اس لئے وہ شخص بھی آپ کا صحابی کہلا سکتا ہے جس نے خواہ آپ کی صحبت سے فائدہ نہ اٹھایا ہو لیکن آپ کے زمانہ میں پیدا ہوا ہو اور اس کا باپ اسے اٹھا کر

Page 485

انوار العلوم جلد 25 461 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے لے گیا ہو.لیکن یہ ادنی درجہ کا صحابی ہو گا.اعلیٰ درجہ کا صحابی وہی ہے جس نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں اور جن لوگوں نے آپ کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں.ان کی تعداد اب بہت کم رہ گئی ہے.اب صرف تین چار آدمی ہی ایسے رہ گئے ہیں جن کے متعلق مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنی ہیں.ممکن ہے اگر زیادہ تلاش کیا جائے تو ان کی تعداد تیس چالیس تک پہنچ جائے.اب ہماری جماعت لاکھوں کی ہے اور لاکھوں کی جماعت میں اگر ایسے تیس چالیس صحابہ بھی ہوں تب بھی یہ تعداد بہت کم ہے.اس وقت جماعت میں زیادہ تر وہی لوگ ہیں جنہوں نے ایسے شخص کی بیعت کی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا متبع تھا اور ان کا نام اسی طرح انصار اللہ رکھا گیا تھا جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے حواریوں کا نام انصار اللہ رکھا گیا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيْسَى حَيَّيْنِ لَمَا وَسِعَهُمَا إِلَّا اتباعِنی 2 اگر موسیٰ اور عیسیٰ علیہ السلام میرے زمانہ میں زندہ ہوتے تو وہ میرے متبع ہوتے.غرض اس وقت جماعت کے انصار اللہ میں دو باتیں پائی جاتی ہیں.ان میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک متبع اور مشیل کے ذریعہ اسلام کی خدمت کا موقع ملا اور وہ آپ لوگ ہیں.گویا حضرت عیسی علیہ السلام کی مثال آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے.جس طرح ان کے حواریوں کو انصار اللہ کہا گیا تھا اُسی طرح مثیل مسیح موعود کے ساتھیوں کو انصار اللہ کہا گیا ہے.پھر آپ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے انصار کی بات بھی پائی جاتی ہے.یعنی جس طرح انصار اللہ میں وہی لوگ شامل تھے جو آپ کے صحابہ تھے اسی طرح آپ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ شامل ہیں.گویا آپ لوگوں میں دونوں مثالیں پائی جاتی ہیں.آپ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ کے صحابہ بھی ہیں جنہیں انصار اللہ کہا جاتا ہے جیسے محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو انصار کہا گیا.پھر جس طرح محمد رض

Page 486

462 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات انوار العلوم جلد 25 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عیسی علیہ السلام کو اپنا متبع قرار دیا ہے اور ان کے صحابہ کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک متبع کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کو بھی انصار اللہ کہا گیا ہے.شاید بعض لوگ یہ سمجھیں کہ یہ درجہ کم ہے لیکن اگر چالیس سال اور گزر گئے تو اُس زمانہ کے لوگ تمھارے زمانہ کے لوگوں کو بھی تلاش کریں گئے اور اگر چالیس سال اور گزر گئے تو اس زمانہ کے لوگ تمھارے ملنے والوں کو تلاش کریں گے.اسلامی تاریخ میں صحابہ کے ملنے والوں کو تابعی کہا گیا ہے کیونکہ وہ صحابہ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گئے تھے.اور ایک تبع تابعی کا درجہ ہے یعنی وہ لوگ جو تابعین کے ذریعہ صحابہ کے قریب ہوئے اور آگے صحابہ کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوئے.اس طرح تین درجے بن گئے ایک صحابی دوسرے تابعی اور تیسرے تبع تابعی.صحابی وہ جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فائدہ اٹھایا اور آپ کی باتیں سنیں.تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کو دیکھا اور تبع تابعی وہ جنہوں نے آپ سے باتیں سننے والوں کے دیکھنے والوں کو دیکھا.دنیوی عاشق تو بہت کم حوصلہ ہوتے ہیں کسی شاعر نے کہا ہے : تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا مگر مسلمانوں کی محبتِ رسول دیکھو.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ فوت ہوئے تو انہوں نے آپ سے قریب ہونے کے لئے تابعی کا درجہ نکال لیا اور جب تابعی ختم ہو گئے تو انہوں نے تبع تابعین کا درجہ نکال لیا.اس شاعر نے تو کہا تھا کہ :.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا.مگر یہاں یہ صورت ہو گئی کہ تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر ان کے چاہنے والوں کو بھی چاہوں اور پھر تیرہ سو سال تک برابر چاہتا چلا جاؤں.انہوں نے یہ نہیں کہا کہ :.

Page 487

انوار العلوم جلد 25 463 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا بلکہ انہوں کہا یا رسول اللہ ! ہم آپ کے چاہنے والوں کو چاہتے ہیں.چاہے وہ صحابی ہوں، تابعی ہوں، تبع تابعی ہوں یا تبع تبع تابعی.اور ان کے بعد یہ سلسلہ خواہ کہاں تک چلا جائے ہم کو وہ سب لوگ پیارے لگتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ ہم کسی نہ کسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو جاتے ہیں.محدثین کو اس بات پر بڑا فخر ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی سی سندات سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ گئے ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الاول فرمایا کرتے تھے کہ میں گیارہ بارہ راویوں کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جا پہنچتا ہوں.آپ کو بعض ایسے اساتذہ مل گئے تھے جو آپ کو گیارہ بارہ راویوں کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچادیتے تھے اور آپ اس بات پر بڑا فخر کیا کرتے تھے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع نے آپ کی صحابیت کو بارہ تیرہ درجوں تک پہنچا دیا ہے اور اس پر فخر کیا ہے تو آپ لوگ یا صحابی ہیں یا تابعی ہیں.ابھی تبع تابعین کا وقت نہیں آیا.اِن دونوں درجوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت بخشی ہے.اس عزت میں کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انصار کا ذکر فرمایا ہے اور پھر ان کی قربانیاں بھی اللہ تعالیٰ کو بہت پسند تھیں.چنانچہ جب ہم انصار کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں نے ایسی قربانیاں کی ہیں کہ اگر آپ لوگ جو انصار اللہ ہیں ان کے نقش قدم پر چلیں تو یقیناً اسلام اور احمدیت دور دور تک پھیل جائے اور اتنی طاقت پکڑ لے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کے مقابلہ پر ٹھہر نہ سکے.تاریخ میں لکھا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو شہر کی تمام عور تیں اور بچے باہر نکل آئے.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے جاتے ہوئے خوشی سے گاتے چلے جاتے تھے کہ : طَلَعَ البَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوِدَاع

Page 488

انوار العلوم جلد 25 464 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے وہ وہی ت تھی جہاں سے قافلے اپنے رشتہ داروں سے رخصت ہوا کرتے تھے.اس لئے انہوں نے اس موڑ کا نام ثنیۃ الوداع رکھا ہوا تھا یعنی وہ موڑ جہاں سے قافلے رخصت ہوتے ہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس موڑ سے مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینہ کی عورتوں اور بچوں نے یہ گاتے ہوئے آپ کا استقبال کیا کہ طَلَعَ الْبَحْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّةِ الْوِدَاعِ یعنی ہم لوگ کتنے خوش قسمت ہیں کہ جس موڑ سے مدینہ کے رہنے والے اپنے رشتہ داروں کو رخصت کیا کرتے تھے اس موڑ سے اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے بدر یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظاہر کر دیا ہے.پس ہمیں دوسرے لوگوں پر فضیلت حاصل ہے اس لئے کہ وہ تو اس جگہ جا کر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو رخصت کرتے ہیں لیکن ہم نے وہاں جا کر سب سے زیادہ محبوب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وصول کیا ہے.پھر ان لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد گھیرا ڈال لیا اور ان میں سے ہر شخص کی خواہش تھی کہ آپ اس کے گھر میں ٹھہریں.جس جس گلی میں سے آپ کی اونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے يَا رَسُولَ اللہ ! یہ ہمارا گھر ہے جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے یا رَسُولَ اللَّهِ آپ ہمارے پاس ہی ٹھہریں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اتروالیں مگر آپ ہر شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو.یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے یہ وہیں کھڑی ہو گی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا آخر وہ ایک جگہ پر کھڑی ہو گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سب - قریب گھر کیس کا ہے ؟ حضرت ابو ایوب انصاری نے فرمایا یا رسول اللہ ! میراگھر قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے.حضرت ابو ایوب کا مکان دو منزلہ تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی مگر آپ نے اس

Page 489

انوار العلوم جلد 25 465 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہو گی نچلی منزل کو پسند فرمایا.حضرت ابو ایوب انصاری رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر مان تو گئے کہ آپ نچلی منزل میں ٹھہریں لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مر تکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.اتفاقا اُسی رات ان سے پانی کا ایک برتن گر گیا.حضرت ایوب انصاری نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا تا کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے.صبح کے وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اوپر کی منزل پر رہنے میں راضی ہو گئے.اب دیکھو یہ اس عشق کی ایک ادنی سی مثال ہے جو صحابہ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا.پھر یہ واقعہ کتنا شاندار ہے کہ جب جنگ اُحد ختم ہوئی اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدانِ جنگ میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں.ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے دیکھا کہ ان کی حالت نازک ہے اور وہ جان توڑ رہے ہیں.اس نے زخمی انصاری سے ہمدردی کا اظہار کرناشروع کیا.انہوں نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے آگے بڑھایا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی بھائی مجھے مل جائے.انہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت خطر ناک معلوم ہوتی ہے اور بچنے کی امید نہیں کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ داروں کو دینا چاہتے ہیں؟ اس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ہاں ! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ میں تو مر رہا ہوں مگر میں اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوڑے جارہا ہوں.میں جب تک زندہ رہا اس نعمت کی اپنی جان کو خطرہ میں ڈال کر بھی حفاظت کر تا رہا لیکن اب اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! میں آب مر رہا ہوں اور خدا تعالیٰ کی یہ مقدس

Page 490

انوار العلوم جلد 25 466 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات امانت تم میں چھوڑ رہا ہوں.میں آپ سب کو اس کی حفاظت کی نصیحت کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اگر آپ سب کو اس کی حفاظت کے سلسلہ میں اپنی جانیں بھی دینی پڑیں تو آپ اس سے دریغ نہیں کریں گے اور میری اس آخری وصیت کو یا درکھیں گے مجھے یقین ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے اندر ایمان موجود ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ سب کو محبت ہے اس لئے تم ضرور آپ کے وجود کی حفاظت کے لئے ہر ممکن قربانی کرو گے اور اس کے لئے اپنی جانوں کی بھی پروا نہیں کرو گے.اب دیکھو ایک شخص مر رہا ہے اسے اپنی زندگی کے متعلق یقین نہیں.وہ مرتے وقت اپنے بیوی بچوں کو سلام نہیں بھیجتا انہیں کوئی نصیحت نہیں کرتا بلکہ وہ اگر کوئی پیغام بھیجتا ہے تو یہی کہ اے میری قوم کے لو گو ! تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت میں کو تاہی نہ کرنا.ہم جب تک زندہ رہے اس فرض کو نبھاتے رہے اب آپ کی حفاظت آپ لوگوں کے ذمہ ہے.آپ کو اس کے رستہ میں اپنی جانوں کی قربانی بھی پیش کرنی پڑے تو اس سے دریغ نہ کریں.میری تم سے یہی آخری خواہش ہے اور مرتے وقت میں تمہیں اس کی نصیحت کرتا ہوں.یہ تھا وہ عشق و محبت جو صحابہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا.پھر جب آپ بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے صحابہ سمیت باہر نکلے تو آپ نے نہ چاہا کہ کسی شخص کو اس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ وہ اس بارہ میں آپ کو مشورہ دیں کہ فوج کا مقابلہ کیا جائے یا نہ کیا جائے.ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اس نے کہا یارسول اللہ ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں آپ ہر ایک کا جواب سن کر یہی فرماتے چلے جاتے کہ مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کے رشتہ دار تھی وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ ان کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری ย

Page 491

انوار العلوم جلد 25 467 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم انصار سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں.اس سردار نے جواب میں کہا یار سول اللہ ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرمارہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے مدینہ سے باہر نکل کر ہم دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے.لیکن اس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں یہ درست ہے.اس نے کہا یارسول اللہ ! جس وقت وہ معاہدہ ہو ا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب ہم پر آپ کا مر تبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے اس لئے یار سول اللہ ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال ہی نہیں ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گے اذْهَبُ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إنَّا هُنَا فَعِدُونَ 7 کہ تُو اور تیر ارب جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھر وہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یار سول اللہ ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.پھر اس نے کہا یا رسول اللہ ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلے پر سمندر ہے ( بدر سے چند منزلوں کے فاصلہ پر سمندر تھا اور عرب تیر نا نہیں جانتے تھے اس لئے پانی سے بہت ڈرتے تھے ) آپ ہمیں سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دینے کا حکم دیجئے.ہم ہلا چون و چرا اس میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کسی سابق نبی کے ماننے والوں میں نہیں ملتی.اس مشورہ کے بعد آپ نے دشمن سے لڑائی کرنے کا حکم دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس میں آپ کو نمایاں فتح عطا فرمائی.حضرت مسیح ناصری کے انصار کی وہ شان نہیں تھی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے انصار کی تھی.لیکن پھر بھی وہ اِس وقت تک آپ کی خلافت کو قائم رکھے

Page 492

انوار العلوم جلد 25 468 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ہوئے ہیں اور یہ ان کی ایک بہت بڑی خوبی ہے.مگر تم میں سے بعض لوگ پیغامیوں کی مدد کے لالچ میں آگئے اور انہوں نے خلافت کو مٹانے کی کوششیں شروع کر دیں.اور زیادہ تر افسوس یہ ہے کہ ان لوگوں میں اس عظیم الشان باپ کی اولاد بھی شامل ہے جس کو ہم بڑی قدر اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے مگر میں ہر قربانی کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا ہوں.تحریک جدید 1934ء سے شروع ہے اور اب 1956ء ہے.گویا اس پر 22 سال کا عرصہ گزر گیا ہے.شاید حضرت خلیفہ المسیح الاول کی اولاد خود بھی اس میں حصہ نہ لیتی ہو لیکن میں ہر سال آپ کی طرف سے اس میں چندہ دیتا ہوں تا کہ آپ کی روح کو بھی اس کا ثواب پہنچے.پھر جب میں حج پر گیا تو اُس وقت بھی میں نے آپ کی طرف سے قربانی کی تھی اور اب تک ہر عید کے موقع پر آپ کی طرف سے قربانی کرتا چلا آیا ہوں.غرض ہمارے دل میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی بڑی قدر اور عظمت ہے لیکن آپ کی اولا د نے جو نمونہ دکھا یا وہ تمہارے سامنے ہے.اس کے مقابلہ میں تم حضرت مسیح علیہ السلام کے ماننے والوں کو دیکھو کہ وہ آج تک آپ کی خلافت کو سنبھالے چلے آتے ہیں.ہم تو اس مسیح کے صحابہ اور انصار ہیں جس کو مسیح ناصری پر فضیلت دی گئی ہے.مگر ہم جو افضل باپ کے روحانی بیٹے ہیں ہم میں سے بعض لوگ چند روپوں کے لالچ میں آگئے.شاید اس طرح حضرت مسیح علیہ السلام سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ مماثلت بھی پوری ہوئی تھی کہ جیسے آپ کے ایک حواری یہودا اسکر یوطی نے رومیوں سے تیس روپے لے کر آپ کو بیچ دیا تھا اُسی طرح اس مسیح کی جماعت میں بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہونے تھے جنہوں نے پیغامیوں سے مدد لے کر جماعت میں فتنہ کھڑا کرنا تھا.لیکن ہمیں عیسائیوں کے صرف عیب ہی نہیں دیکھنے چاہئیں بلکہ ان کی خوبیاں بھی دیکھنی چاہئیں.جہاں اُن میں ہمیں یہ عیب نظر آتا ہے کہ ان میں سے ایک نے تیس روپے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام کو بیچ دیا وہاں ان میں یہ خوبی بھی پائی جاتی ہے کہ آج تک جب کہ حضرت مسیح علیہ السلام پر دو ہزار سال کے قریب عرصہ گزر چکا ہے وہ آپ کی

Page 493

انوار العلوم جلد 25 469 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات خلافت کو قائم رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ آج جب میں نے اس بات پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اس چیز کا وعدہ بھی حواریوں نے کیا تھا.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جب كها من أنْصارِی اِلَى الله کہ خدا تعالیٰ کے رستہ میں میری کون مدد کرے گا؟ تو حواریوں نے کہا نَحْنُ اَنْصَارُ الله ہم خدا تعالیٰ کے رستہ میں آپ کی مدد کریں گے.انہوں نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا ہے اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے.پس اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم وہ انصار ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی طرف نسبت دی گئی ہے.اس لئے جب تک خدا تعالیٰ زندہ ہے اُس وقت تک ہم بھی اس کی مدد کرتے رہیں گے.چنانچہ دیکھ لو حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات پر قریباً دو ہزار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن عیسائی لوگ برابر عیسائیت کی تبلیغ کرتے چلے جارہے ہیں اور اب تک ان میں خلافت قائم چلی آتی ہے.اب بھی ہماری زیادہ تر ٹکر عیسائیوں سے ہی ہو رہی ہے جو مسیح علیہ السلام کے متبع اور ان کے ماننے والے ہیں اور جن کا نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال رکھتے ہوئے فرمایا کہ خدا تعالیٰ کے سارے نبی اس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں.غرض وہ مسیح ناصری جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ان پر فضیلت عطا فرمائی ہے ان کے انصار نے اتنا جذبہ اخلاص دکھایا کہ انہوں نے دو ہزار سال تک آپ کی خلافت کو مٹنے نہیں دیا.کیونکہ انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ اگر مسیح علیہ السلام کی خلافت مٹی تو مسیح علیہ السلام کا خود اپنا نام بھی دنیا سے مٹ جائے گا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شروع عیسائیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کے ایک حواری نے آپ کو تیس روپے کے بدلہ میں دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا تھا لیکن اب عیسائیت میں وہ لوگ پائے جاتے ہیں جو مسیحیت کی اشاعت اور حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا منوانے کے لئے کروڑوں کروڑ روپیہ دیتے ہیں.اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ نے اپنے زمانہ میں بڑی قربانی کی ہے لیکن آپ کی وفات پر ابھی صرف 48 سال ہی ہوئے ہیں کہ جماعت میں سے بعض

Page 494

انوار العلوم جلد 25 470 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ڈانواں ڈول ہونے لگے ہیں اور پیغامیوں سے چند روپے لے کر ایمان کو بیچنے لگے ہیں حالانکہ ان میں سے بعض پر سلسلہ نے ہزار ہا روپے خرچ کئے ہیں.میں پچھلے حسابات نکلوارہا ہوں اور میں نے دفتر والوں سے کہا ہے کہ وہ بتائیں کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے اور حضرت خلیفة المسیح الاول کے خاندان کی کتنی خدمت کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو فوت ہوئے 48 سال ہو چکے ہیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی وفات پر 42 سال کا عرصہ گزر چکا ہے.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فاصلہ زیادہ ہے اور پھر آپ کی اولاد بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجو د میں نے حسابات نکلوائے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے خاندان کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان پر کم خرچ کیا ہے.لیکن پھر بھی حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد میں یہ لالچ پیدا ہوئی کہ خلافت بھی سنبھالو یہ ہمارے باپ کا حق تھا جو ہمیں ملنا چاہیے تھا.چنانچہ سندھ سے ایک آدمی نے مجھے لکھا کہ یہاں میاں عبد المنان کے بھانجے مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی کا ایک پر وردہ شخص بشیر احمد آیا اور اس نے کہا کہ خلافت تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کا مال تھا اور ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد کو ملنا چاہیے تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد نے اسے غصب کر لیا.اب ہم سب نے مل کر یہ کوشش کرنی ہے کہ اس حق کو دوبارہ حاصل کریں.پھر میں نے میاں عبد السلام صاحب کی پہلی بیوی کے سوتیلے بھائی کا ایک خط پڑھا جس میں اس نے اپنے سوتیلے ماموں کو لکھا کہ مجھے افسوس ہے کہ مشرقی بنگال کی جماعت نے ایک ریزولیوشن پاس کر کے اس فتنہ سے نفرت کا اظہار کیا ہے.ہمیں تو اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے تھا.ہمارے لئے تو موقع تھا کہ ہم کوشش کر کے اپنے خاندان کی وجاہت کو دوبارہ قائم کرتے.یہ ویسی ہی نا معقول حرکت ہے جیسی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر لاہور کے بعض مخالفین نے کی تھی.انہوں نے آپ کے نقلی جنازے نکالے اور آپ کی وفات پر خوشی کے شادیانے بجائے.وہ تو دشمن تھے لیکن یہ لوگ احمدی

Page 495

انوار العلوم جلد 25 471 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات کہلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور اپنے خاندان کی وجاہت کو قائم کرنا چاہیے.حالانکہ حضرت خلیفہ اول کو جو عزت اور درجہ ملا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملا ہے.اب جو چیز آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملی تھی وہ ان لوگوں کے نزدیک ان کے خاندان کی جائیداد بن گئی.یہ وہی فقرہ ہے جو پرانے زمانہ میں ان لڑکوں کی والدہ نے مجھے کہا کہ پیغامی میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خلافت تو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی تھی.اگر آپ کی وفات کے بعد آپ کے کسی بیٹے کو خلیفہ بنالیا جاتا تو ہم اس کی بیعت کر لیتے مگر مرزا صاحب کا خلافت سے کیا تعلق تھا کہ آپ کے بیٹے کو خلیفہ بنالیا گیا.اس وقت میری بھی جوانی تھی.میں نے انہیں کہا کہ آپ کے لیے رستہ کھلا ہے، تانگے چلتے ہیں (اُن دنوں قادیان میں ریل نہیں آئی تھی ) آپ چاہیں تو لاہور چلی جائیں میں آپ کو نہیں روکتا.وہاں جا کر آپ کو پتہ لگ جائے گا کہ وہ آپ کی کیا امداد کرتے ہیں.وہاں تو مولوی محمد علی صاحب کو بھی خلافت نہیں ملی.انہیں صرف امارت ملی تھی اور امارت بھی ایسی کہ اپنی زندگی کے آخری ایام میں انہیں وصیت کرنی پڑی کہ فلاں فلاں شخص ان کے جنازے پر نہ آئے.ان کی اپنی تحریر موجود ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ مولوی صدرالدین صاحب، شیخ عبدالرحمن صاحب مصری اور ڈاکٹر غلام محمد صاحب میرے خلاف پروپیگنڈا میں اپنی پوری قوت خرچ کر رہے ہیں اور انہوں نے تنکے کو پہاڑ بنا کر جماعت میں فتنہ پیدا کرنا شروع کیا ہوا ہے.اور ان لوگوں نے مولوی محمد علی صاحب پر طرح طرح کے الزامات لگائے.یہاں تک کہ آپ نے احمدیت سے انکار کر دیا ہے اور انجمن کا مال غصب کر لیا ہے.اب بتاؤ جب وہ شخص جو اس جماعت کا بانی تھا اسے یہ کہنا پڑا کہ جماعت کے بڑے بڑے آدمی مجھ پر الزام لگاتے ہیں اور مجھے مرتد اور جماعت کا مال غصب کرنے والا قرار دیتے ہیں تو اگر وہاں دودھ پینے والے چھو کرے چلے جاتے تو انہیں کیا ملتا.زیادہ سے زیادہ یہی ہو سکتا تھا کہ انہیں پانچ پانچ روپے کے وظیفے دے کر کسی سکول میں داخل کر دیا جاتا.مگر ہم نے تو ان کی تعلیم پر بڑا روپیہ خرچ کیا اور اس قابل

Page 496

انوار العلوم جلد 25 472 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات بنایا کہ یہ بڑے آدمی کہلا سکیں.لیکن انہوں نے یہ کیا کہ جس جماعت نے انہیں پڑھایا تھا اُسی کو تباہ کرنے کے لئے حملہ کر دیا.اس سے بڑھ کر اور کیا قساوت قلبی ہو گی کہ جن غریبوں نے انہیں پیسے دے کر اس مقام پر پہنچایا یہ لوگ انہی کو تباہ کرنے کی کوشش میں لگ جائیں.جماعت میں ایسے ایسے غریب ہیں کہ جن کی غربت کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتا مگر وہ لوگ چندہ دیتے ہیں.ایک دفعہ قادیان میں ایک غریب احمدی میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ امراء کے ہاں دعوتیں کھاتے ہیں.ایک دفعہ آپ میرے گھر بھی تشریف لائیں اور میری دعوت کو قبول فرمائیں.میں نے کہا تم بہت غریب ہو میں نہیں چاہتا کہ دعوت کی وجہ سے تم پر کوئی بوجھ پڑے.اُس نے کہا میں غریب ہوں تو کیا ہوا آپ میری دعوت ضرور قبول کریں.میں نے پھر بھی انکار کیا مگر وہ میرے پیچھے پڑ گیا.چنانچہ ایک دن میں اس کے گھر گیا تا کہ اس کی دلجوئی ہو جائے.مجھے یاد نہیں اس نے چائے کی دعوت کی تھی یا کھانا کھلایا تھا.مگر جب میں اس کے گھر سے نکلا تو گلی میں ایک احمدی دوست عبد العزیز صاحب کھڑے تھے وہ پسر ور ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے اور مخلص احمدی تھے.لیکن انہیں اعتراض کرنے کی عادت تھی.میں نے انہیں دیکھا تو میر ادل بیٹھ گیا اور میں نے خیال کیا کہ اب یہ دوست مجھ پر ضرور اعتراض کریں گے چنانچہ ایسا ہی ہوا.جب میں ان کے پاس پہنچا تو انہوں نے کہا.حضور ! آپ ایسے غریبوں کی دعوت بھی قبول کر لیتے ہیں؟ میں نے کہا عبد العزیز صاحب میرے لئے دونوں طرح مصیبت ہے.اگر میں انکار کروں تو غریب کہتا ہے.میں غریب ہوں اس لئے میری دعوت نہیں کھاتے.اور اگر میں اس کی دعوت منظور کرلوں تو آپ لوگ کہتے ہیں کہ غریب کی دعوت کیوں مان لی.اب دیکھو اس شخص نے مجھے خود دعوت پر بلایا تھا.میں نے بار ہا انکار کیا لیکن وہ میرے پیچھے اس طرح پڑا کہ میں مجبور ہو گیا کہ اس کی دعوت مان لوں لیکن دوسرے دوست کو اس پر اعتراض پیدا ہوا.غرض جماعت میں ایسے ایسے غریب بھی ہیں کہ ان کے ہاں کھانا کھانے پر بھی دوسروں کو اعتراض پیدا ہوتا ہے.ایسی غریب جماعت نے ان لڑکوں

Page 497

انوار العلوم جلد 25 473 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات کی خدمت کرنے اور انہیں پڑھانے پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ خرچ کیا.میاں عبد السلام کو وکیل بنایا، عبد المنان کو ایم اے کروایا، عبد الوہاب کو بھی تعلیم دلائی، اسے وظیفہ دیا، لاہور بھیجا اور ہوسٹل میں داخل کروایا.مگر اسے خود تعلیم کا شوق نہیں تھا اس لئے وہ زیادہ تعلیم حاصل نہ کر سکا.لیکن پھر بھی جماعت نے اسے پڑھانے میں کوئی کو تا ہی نہ کی، بعد میں میں نے معقول گزارہ دے کر اسے دہلی بھجوایا اور کہا کہ تمہارے باپ کا پیشہ طب تھا تم بھی طب پڑھ لو.چنانچہ اُسے حکیم اجمل خاں صاحب کے کالج میں طب پڑھائی گئی.گو اس نے وہاں بھی وہی حرکت کی کہ پڑھائی کی طرف توجہ نہ کی اور فیل ہوا.لیکن اس نے اتنی عقلمندی کی کہ اپنی بیوی کو بھی ساتھ لے گیا چنانچہ بیوی پاس ہو گئی اور امتحان میں اول آئی.اب سلسلہ کے اس روپیہ کی وجہ سے جو اس پر خرچ کیا گیا وہ اپنا گزارہ کر رہا ہے اور اس نے اپنے دواخانہ کا نام دواخانہ نورالدین رکھا ہوا ہے.حالانکہ دراصل وہ دواخانہ سلسلہ احمدیہ ہے، کیونکہ سلسلہ احمدیہ کے روپیہ سے ہی وہ اس حد تک پہنچا ہے کہ دواخانہ کو جاری رکھ سکے.اب وہ لکھتا ہے کہ میری بیوی جو گولڈ میڈلسٹ ہے وہ علاج کرتی ہے.وہ یہ کیوں نہیں لکھتا کہ میری بیوی جس کو سلسلہ احمدیہ نے خرچ دے کر پڑھایا ہے علاج کرتی ہے.غرض چاہے تعلیم کو لیا جائے، طب کو لیا جائے، یا کسی اور پیشہ کو لیا جائے یہ لوگ سلسلہ کی مدد کے بغیر اپنے پاؤں پر کھڑے ہی نہیں ہو سکتے تھے.مگر اس ساری کوشش کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب یہ لوگ سلسلہ احمدیہ کو ہی تباہ کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں.مگر سلسلہ احمد یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے جسے کوئی تباہ نہیں کر سکتا.یہ سلسلہ ایک چٹان ہے جو اس پر گرے گا وہ پاش پاش ہو جائے گا اور جو اس کو مٹانا چاہے گا وہ خود مٹ جائے گا.اور کوئی شخص بھی خواہ اس کی پشت پناہ احراری ہوں یا پیغامی ہوں اس کو نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہو گا.اس کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کرنے والے ذلیل اور خوار ہوں گے اور قیامت تک ذلت اور رسوائی میں مبتلا ر ہیں گے.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عزت اور رفعت دیتا چلا جائے گا اور تمام دنیا میں آپ کا نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 498

انوار العلوم جلد 25 474 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات نام کے ساتھ پھیلتا چلا جائے گا.اور جب آپ کے ذریعہ ہی اسلام بڑھے گا تو لازمی طور پر جو لوگ آپ کے ذریعہ اسلام قبول کریں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں گے وہ آپ پر بھی ایمان لائیں گے.لیکن اس سلسلہ کی تباہی کا ارادہ کرنے والے ابھی زندہ ہی ہوں گے کہ ان کی عزتیں ان کی آنکھوں کے سامنے خاک میں مل جائیں گی.اور پیغامیوں نے جو ان سے مدد کا وعدہ کیا ہے وہ وعدہ بھی خاک میں مل جائے گا.مولوی محمد علی صاحب سے ان لوگوں نے جو وعدہ کیا تھا کیا وہ پورا ہوا ؟ ان کا انجام آپ لوگوں کے سامنے ہے.اب ان لوگوں کا انجام مولوی محمد علی صاحب سے بھی بد تر ہو گا.اس لئے کہ جب انہوں نے سلسلہ سے علیحدگی اختیار کی تھی اور انجمن اشاعت اسلام کی بنیا د ر کھی تھی تو انہوں نے سلسلہ احمدیہ کی ایک عرصہ کی خدمت کے بعد ایسا کیا تھا.انہیں دنیا کی خدمت کا موقع ملا تھا.رسالہ ریویو آف ریلیجنز دنیا میں بہت مقبول ہوا اور وہ اس کے ایڈیٹر تھے.پھر انہوں نے اپنے خرچ سے پڑھائی کی تھی.لیکن ان لوگوں نے اپنے یا اپنے باپ کے پیسے سے پڑھائی نہیں کی بلکہ غریب لوگوں کے پیسے سے کی جو بعض دفعہ رات کو فاقہ سے سوتے ہیں اور اس سارے احسان کے بعد انہوں نے یہ کیا کہ وہ سلسلہ احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے کھڑے ہو گئے.یاد رکھو! تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مدد گار.گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے.اور اللہ تعالی ازلی اور ابدی ہے اس لئے تم کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ ابدیت کے مظہر ہو جاؤ.تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لئے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے.اور اس کے دو ذریعے ہو سکتے ہیں.ایک ذریعہ تو یہ کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے.اس لئے میں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لا یا گیا تھا.یہ اطفال اور خدام آپ وگوں کے ہی بچے ہیں.اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی.اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہو گی تو اگلی نسل انصار اللہ کی اعلیٰ ہو گی.

Page 499

انوار العلوم جلد 25 475 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات میں نے سیڑھیاں بنادی ہیں آگے کام کرنا تمہارا کام ہے.پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے.دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے، تیسری سیڑھی انصاراللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے.اب تم اپنی اولاد کی صحیح تربیت کرو اور دوسری طرف خدا تعالیٰ سے دعائیں مانگو تو یہ چاروں سیڑھیاں مکمل ہو جائیں گی.اگر تمہارے اطفال اور خدام ٹھیک ہو جائیں اور پھر تم بھی دعائیں کرو اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو پھر تمہارے لئے عرش سے نیچے کوئی جگہ نہیں.اور جو عرش پر چلا جائے وہ بالکل محفوظ ہو جاتا ہے.دنیا حملہ کرنے کی کوشش کرے تو وہ زیادہ سے زیادہ سو دو سو فٹ پر حملہ کر سکتی ہے، وہ عرش پر حملہ نہیں کر سکتی.پس اگر تم اپنی اصلاح کر لو گے اور خدا تعالیٰ سے دعائیں کرو گے تو تمہارا اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہو جائے گا.اور اگر تم حقیقی انصار اللہ بن جاؤ اور خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کر لو تو تمہارے اندر خلافت بھی دائمی طور پر رہے گی اور وہ عیسائیت کی خلافت سے بھی لمبی چلے گی.عیسائیوں کی تعداد تو تمام کوششوں کے بعد مسلمانوں سے قریباً ڈ گنی ہوئی ہے مگر تمہارے متعلق تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ پیشگوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری تعداد کو اتنا بڑھا دے گا کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ دوسرے تمام مذاہب ہندو ازم ، بدھ مت، عیسائیت اور شنٹو ازم وغیرہ کے پیر و تمہارے مقابلہ میں بالکل ادنی اقوام کی طرح رہ جائیں گے یعنی ان کی تعداد تمہارے مقابلہ میں ویسی ہی بے حقیقت ہو گی جیسے آج کل ادنی اقوام کی دوسرے لوگوں کے مقابلہ میں ہے.وہ دن جس کا تمہیں وعدہ دیا گیا ہے یقینا آئے گا.لیکن جب آئے گا تو اسی ذریعہ سے آئے گا کہ خلافت کو قائم رکھا جائے، تبلیغ اسلام کو قائم رکھا جائے، تحریک جدید کو مضبوط کیا جائے، اشاعت اسلام کے لئے جماعت میں شغف زیادہ ہو اور دنیا کے کسی کو نہ کو بھی بغیر مبلغ کے نہ چھوڑا جائے.مجھے بیرونی ممالک سے کثرت سے چٹھیاں آرہی ہیں کہ مبلغ بھیجے جائیں.اس لئے ہمیں تبلیغ کے کام کو بہر حال وسیع کرنا پڑے گا اور اتنا وسیع کرنا پڑے گا کہ موجودہ کام اس کے مقابلہ میں لاکھواں حصہ بھی نہ رہے.میں نے بتایا ہے کہ خلافت کی وجہ سے

Page 500

476 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات انوار العلوم جلد 25 رومن کیتھولک اس قدر مضبوط ہو گئے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے پڑھا کہ ان کے 54لاکھ مبلغ ہیں.ان سے اپنا مقابلہ کرو اور خیال کرو کہ تم سو ڈیڑھ سو مبلغوں کے اخراجات پر ہی گھبرانے لگ جاتے ہو.اگر تم ان سے تین چار گنے زیادہ طاقت ور بنا چاہتے ہو تو ضروری ہے کہ تمہارا دو کروڑ مبلغ ہو.لیکن اب یہ حالت ہے کہ ہمارے سب مبلغ ملالئے جائیں تو ان کی تعداد دو سو کے قریب بنتی ہے.اگر ہم چاہتے ہیں کہ عیسائیوں کو مسلمان کرلیں، بدھوں کو مسلمان کرلیں، شنٹو ازم والوں کو مسلمان کر لیں، کنفیوشس ازم کے پیروؤں کو مسلمان کر لیں تو اس کے لئے دو کروڑ مبلغوں کی ضرورت ہے.اور ان مبلغوں کو پیدا کرنا اور پھر ان سے کام لینا بغیر خلافت کے نہیں ہو سکتا.ہمارے ملک میں ایک کہانی مشہور ہے کہ ایک بادشاہ جب مرنے لگا تو اس نے اپنے تمام بیٹوں کو بلایا اور انہیں کہا ایک جھاڑو لاؤ.وہ ایک جھاڑو لے آئے.اس نے اس کا ایک ایک تنکا انہیں دیا اور کہا اسے توڑو اور انہوں نے اسے فوراً توڑ دیا.پھر اس نے سارا جھاڑو انہیں دیا کہ اب اسے توڑو.انہوں نے باری باری پورا ضرور لگایا مگر وہ جھاڑو اُن سے نہ ٹوٹا.اس پر اُس نے کہا میرے بیٹو! دیکھو میں نے تمہیں ایک ایک تنکا دیا تو تم نے اسے بڑی آسانی سے توڑ دیا لیکن جب سارا جھاڑو تمہیں دیا تو باوجود اس کے تم نے پورا زور تمہیں تباہ لگایا وہ تم سے نہ ٹوٹا.اسی طرح اگر تم میرے مرنے کے بعد بکھر گئے تو ہر شخص کر سکے گا.لیکن اگر تم متحد رہے تو تم ایک مضبوط سوٹے کی طرح بن جاؤ گے.جسے دنیا کی کوئی طاقت توڑ نہیں سکے گی.اسی طرح اگر تم نے خلافت کے نظام کو توڑ دیا تو تمہاری کوئی حیثیت باقی نہیں رہے گی اور تمہیں دشمن کھا جائے گا.لیکن اگر تم نے خلافت کو قائم رکھا تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں تباہ نہیں کر سکے گی.تم دیکھ لو ہماری جماعت کتنی غریب ہے لیکن خلافت کی وجہ سے اسے بڑی حیثیت حاصل ہے اور اس نے وہ کام کیا ہے جو دنیا کے دوسرے مسلمان نہیں کر سکے.مصر کا ایک اخبار الفتح ہے جو سلسلہ کا شدید مخالف ہے اس میں ایک دفعہ کسی نے مضمون لکھا کہ گزشتہ 1300 سال میں مسلمانوں میں بڑے بڑے بادشاہ گزرے ہیں مگر انہوں

Page 501

انوار العلوم جلد 25 477 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات نے اسلام کی وہ خدمت نہیں کی جو اس غریب جماعت نے کی ہے اور یہ چیز ہر جگہ نظر آتی ہے.یورپ والے بھی اسے مانتے ہیں اور ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں اور انہیں اپنی دعوتوں اور دوسری تقریبوں میں بلاتے ہیں.اسرائیلیوں کو ہم سے شدید مخالفت ہے مگر پچھلے دنوں جب ہمارا مبلغ واپس آیا تو اسے وہاں کے صدر کی چٹھی ملی کہ جب آپ واپس جائیں تو مجھے مل کر جائیں.اور جب وہ اسے ملنے کے لئے گئے تو ان کا بڑا اعزاز کیا گیا اور اس موقع پر ان کے فوٹو لیے گئے اور پھر ان فوٹوؤں کو حکومت اسرائیل نے تمام مسلمان ممالک میں چھپوایا.انہوں نے ان فوٹوؤں کو مصر میں بھی چھپوایا، عرب ممالک میں بھی چھپوایا ، افریقہ میں بھی چھپوایا اور ہندوستان میں بھی ان کی اشاعت کی.جب چودھری ظفر اللہ خاں صاحب شام گئے تو وہاں کے صدر نے انہیں کہا کہ کیا آپ کی اسرائیل سے صلح ہو گئی ہے ؟ انہوں نے اسے بتایا کہ ہماری اسرائیل سے کوئی صلح نہیں ہوئی بلکہ ہم اس کے شدید مخالف ہیں.غرض وہ اسرائیل جو عرب ممالک سے صلح نہیں کرتا اُس نے دیکھا کہ احمدیوں کی طاقت ہے اس لئے ان سے صلح رکھنی ہمارے لئے مفید ہو گی.وہ سمجھتا ہے کہ ان لوگوں سے خواہ مخواہ ٹکر نہیں لینی چاہیے.گو اس کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہو گی کیونکہ احمدی اسرائیل کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ میں خنجر سمجھتے ہیں.کیونکہ اسرائیل مدینہ کے بہت قریب ہے.وہ اگر ہمارے مبلغ کو اپنے ملک کا بادشاہ بھی بنا لیں تب بھی ہماری دلی خواہش یہی ہوگی کہ ہمارا بس چلے تو اسرئیل کو سمندر میں ڈبو دیں اور فلسطین کو ان سے پاک کر کے مسلمانوں کے حوالہ کر دیں.بہر حال ان کی یہ خواہش تو کبھی پوری نہیں ہوگی لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ جماعت اگرچہ چھوٹی ہے لیکن متحد ہونے کی وجہ سے اسے ایک طاقت حاصل ہے.اس طاقت سے نہیں خواہ مخواہ فکر نہیں لینی چاہیے.چنانچہ وہ ہم سے ڈرتے ہیں.پاکستان میں ہمارے متعلق کہا جاتا ہے کہ ان لوگوں کی کوئی طاقت نہیں، انہیں اقلیت قرار دے دینا چاہیے حالانکہ یہاں ہماری تعد اد لاکھوں کی ہے لیکن اسرائیل میں ہماری تعداد چند سو کی ہے.پھر بھی وہ چاہتے ہیں کہ ہماری دلجوئی کی جائے اور یہ محض خلافت کی ہی برکت.

Page 502

انوار العلوم جلد 25 478 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات وہ جانتے ہیں کہ چاہے ہمارے ملک میں چند سو احمدی ہیں اگر وہ ایک ہاتھ پر جمع ہیں اگر انہوں نے آواز اٹھائی تو ان کی آواز صرف فلسطین میں ہی نہیں رہے گی بلکہ ان کی آواز شام میں بھی اٹھے گی، عراق میں بھی اٹھے گی ، مصر میں بھی اٹھے گی ، ہالینڈ میں بھی اٹھے گی، فرانس میں بھی اٹھے گی، سپین میں بھی اٹھے گی ، انگلستان میں بھی اٹھے گی، سکنڈے نیویا میں بھی اٹھے گی، سوئٹزر لینڈ میں بھی اٹھے گی، امریکہ میں بھی اٹھے گی، انڈو نیشیا میں بھی اٹھے گی.یہ لوگ تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں اگر ان سے بُرا لوک کیا گیا تو تمام ممالک میں اسرائیل بدنام ہو جائے گا اس لئے ان سے بگاڑ مفید نہیں ہو گا.یہی وجہ ہے جس کی وجہ سے وہ ہمارے مبلغ کا اعزاز کرتے ہیں.اسی طرح جب تقسیم ملک ہوئی تو ہمارے مبلغوں نے تمام ممالک میں ہندوستان کے خلاف پراپیگنڈا کیا.اُس وقت لنڈن میں چودھری مشتاق احمد صاحب باجوہ امام تھے انہیں پنڈت نہرو نے لکھا کہ آپ لوگوں نے تمام دنیا میں ہمیں اس قدر بد نام کر دیا ہے کہ ہم کسی ملک کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے.اب دیکھ لو پنڈت نہرو باقی تمام مسلمانوں سے نہیں ڈرے انہیں ڈر محسوس ہو ا تو صرف احمدیوں سے اور اس کی وجہ محض ایک مقصد پر جمع ہونا تھی.اور یہ طاقت اور قوت جماعت کو کس طرح نصیب ہوئی؟ یہ صرف خلافت ہی کی برکت تھی جس نے احمدیوں کو ایک نظام میں پرو دیا اور اس کے نتیجہ میں انہیں طاقت حاصل ہو گئی.میرے سامنے اس وقت چودھری غلام حسین صاحب ے ہیں جو مخلص احمدی ہیں اور صحابی ہیں یہ اپنی آواز کو امریکہ کس طرح پہنچا سکتے ہیں، یہ اپنی آواز کو انگلینڈ کیسے پہنچاسکتے ہیں، یہ اپنی آواز کو فرانس، جرمنی اور سپین کیسے پہنچا سکتے ہیں، یہ بے شک جو شیلے احمدی ہیں مگر یہ اپنی آواز دوسرے ملک میں اپنے دوسرے احمدی بھائیوں کے ساتھ مل کر ہی پہنچا سکتے ہیں ورنہ نہیں.اسی مل کر کام کرنے سے اسرائیل کو ڈر پید اہوا اور اسی مل کر کام کرنے سے ہی پاکستان کے مولوی ڈرے اور انہوں نے ملک کے ہر کونہ میں یہ جھوٹا پراپیگنڈ اشروع کر دیا کہ احمدیوں نے ملک کے سب کلیدی عہدے سنبھال لئے ہیں انہیں اقلیت قرار دیا جائے اور ان عہدوں سے انہیں ہٹا دیا جائے.

Page 503

انوار العلوم جلد 25 479 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات حالانکہ کلیدی عہدے انہی کے پاس ہیں ہمارے پاس نہیں.یہ سب طاقت خلافت کی وجہ سے ہے.خلافت کی وجہ سے ہی ہم اکٹھے رہے ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کی ہے.اب اس فتنہ کو دیکھو جو 1953ء کے بعد جماعت میں اٹھا.اس میں سارے احراری فتنہ پردازوں کے ساتھ ہیں.تمہیں یاد ہے کہ 1934ء میں بھی احراری اپنا سارا زور لگا چکے ہیں اور بری طرح ناکام ہوئے ہیں اور اس دفعہ بھی وہ ضرور ناکام ہوں گے.اس دفعہ اگر انہوں نے یہ خیال کیا ہے کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی اولاد ان کے ساتھ ہے اس لئے وہ جیت جائیں گے تو انہیں جان لینا چاہیے کہ جماعت کے اندر اتنا ایمان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کے مقابلہ میں خواہ کوئی اٹھے جماعت احمد یہ اس کا کبھی ساتھ نہیں دے گی.کیونکہ انہوں نے دلائل اور معجزات کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مانا ہے.ان میں سے ہر شخص نے اپنے اپنے طور پر تحقیقات کی ہے.کوئی گوجر انوالہ میں تھا، کوئی گجرات میں تھا، کوئی شیخوپورہ میں تھا، وہاں جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابیں پہنچیں اور آپ کے دلائل نقل کر کے بھجوائے گئے تو وہ لوگ ایمان لے آئے.پھر ایک دھاگا میں پروئے جانے کی وجہ سے انہیں طاقت حاصل ہو گئی.اب دیکھ لو یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہی طاقت تھی کہ آپ نے اعلان فرما دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.بس حضرت مسیح علیہ السلام کی موت سے ساری عیسائیت مر گئی.اب یہ کتنا صاف مسئلہ تھا مگر کسی اور مولوی کو نظر نہ آیا.سارے علماء کتابیں پڑھتے رہے لیکن ان میں سے کسی کو یہ مسئلہ نہ سُوجھا اور وہ حیران تھے کہ عیسائیت کا مقابلہ کیسے کریں.حضرت مرزا صاحب نے آکر عیسائیت کے زور کو توڑ دیا اور وفات مسیح کا ایسا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف مولویوں کا زور ٹوٹ گیا تو دوسری طرف عیسائی ختم ہو گئے.بھیرہ میں ایک غیر احمدی حکیم الہ دین صاحب ہوتے تھے.وہ اپنے آپ کو حضرت خلیفہ المسیح الاول سے بھی بڑا حکیم سمجھتے تھے.ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی حکیم فضل دین صاحب انہیں ملنے کے لئے گئے اور انہوں

Page 504

480 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات انوار العلوم جلد 25 نے چاہا کہ وہ انہیں احمدیت کی تبلیغ کریں.حکیم الہ دین صاحب بڑے رُعب والے تھے وہ جوش میں آگئے اور کہنے لگے تو کل کا بچہ ہے اور مجھے تبلیغ کرنے آیا ہے ؟ تو احمدیت کو کیا سمجھتا ہے ؟ میں اسے خوب سمجھتا ہوں.حضرت مرزا صاحب نے اپنی مشہور کتاب براہین احمدیہ یہ لکھی جس سے اسلام تمام مذاہب پر غالب ثابت ہو تا تھا مگر مولویوں نے آپ پر کفر کا فتویٰ لگا دیا.حضرت مرزا صاحب کو غصہ آیا اور انہوں نے کہا اچھا تم بڑے عالم بنے پھرتے ہو، میں حضرت عیسی علیہ السلام کو قرآن کریم سے فوت شدہ ثابت کر دیتا ہوں تم اسے زندہ ثابت کر کے دکھاؤ.گویا آپ نے یہ مسئلہ ان مولویوں کو ذلیل کرنے کے لئے بیان کیا تھا ورنہ در حقیقت آپ کا یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ آسمان پر موجود ہیں.پھر حکیم صاحب نے ایک گندی گالی دے کر کہا کہ مولوی لوگ پور ازور لگا چکے ہیں مگر حضرت مرزا صاحب کے مقابلہ میں ناکام رہے ہیں.اس کا اب ایک ہی علاج ہے اور وہ یہ ہے کہ سب مل کر حضرت مرزا صاحب کے پاس جائیں اور کہیں ہم آپ کو سب سے بڑا عالم تسلیم کرتے ہیں.ہم ہارے اور آپ جیتے.اور اپنی پگڑیاں ان کے پاؤں پر رکھ دیں اور درخواست کریں کہ اب آپ ہی قرآن کریم سے حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی ثابت کر دیں.ہم تو پھنس گئے ہیں.اب معافی چاہتے ہیں اور آپ کو اپنا استاد تسلیم کرتے ہیں.اگر مولوی لوگ ایسا کریں تو دیکھ لینا حضرت مرزا صاحب نے قرآن کریم میں سے ہی حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ثابت کر دینا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو وہ عظمت دی ہے کہ آپ کے مقابلہ میں اور کوئی نہیں ٹھہر سکتا.چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو کیونکہ اگر وہ جماعت میں بڑا ہے تو آپ کی غلامی کی وجہ سے بڑا ہے.آپ کی غلامی سے باہر نکل کر اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی.مجھے یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتاب چشمہ معرفت لکھی تو کسی مسئلہ کے متعلق آپ کو خیال پیدا ہوا کہ آپ حضرت خلیفہ المسیح الاول کی بھی کوئی کتاب پڑھ لیں اور دیکھیں کہ انہوں نے اس کے متعلق کیا لکھا ہے.آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا محمود ! ذرا مولوی صاحب کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ لاؤ اور مجھے سناؤ.

Page 505

انوار العلوم جلد 25 481 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات چنانچہ میں وہ کتاب لایا اور آپ نے نصف گھنٹہ تک کتاب سنی اس کے بعد فرمایا اس کو واپس رکھ آؤ اس کی ضرورت نہیں.اب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب چشمہ معرفت کو بھی پڑھو اور حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی کتاب تصدیق براہین احمدیہ کو بھی دیکھو اور پھر سوچو کہ کیا ان دونوں میں کوئی نسبت ہے اور کیا آپ نے کوئی نکتہ بھی اس کتاب سے اخذ کیا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اس کتاب میں پیدائش عالم اور حضرت آدم علیہ السلام کے متعلق ایسے مسائل بیان فرمائے ہیں کہ ساری دنیا سر دھنتی ہے اور تسلیم کرتی ہے لا ینحل عقدے تھے جنہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حل کر دیا ہے.یہ سب برکت جو ہمیں ملی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل ملی ہے.اب آپ لوگوں کا کام ہے کہ اپنی ساری زندگی آپ کے لائے ہوئے پیغام کی خدمت میں لگا دیں اور کوشش کریں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد پھر اس کی اولاد اور پھر اس کی اولاد بلکہ آپ کی آئندہ ہزاروں سال تک کی نسلیں اس کی خدمت میں لگی رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خلافت کو قائم رکھیں.مجھ پر یہ بہتان لگایا گیا ہے کہ گویا میں اپنے بعد اپنے کسی بیٹے کو خلیفہ بنانا چاہتا ہوں.یہ بالکل غلط ہے.اگر میرا کوئی بیٹا ایسا خیال بھی دل میں لائے گا تو وہ اُسی وقت احمدیت سے نکل جائے گا.بلکہ میں جماعت سے کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کرے کہ خدا تعالیٰ میری اولاد کو اس قسم کے وسوسوں سے پاک رکھے.ایسا نہ ہو کہ اس پروپیگینڈا کی وجہ سے میرے کسی کمزور بچے کے دل میں خلافت کا خیال پیدا ہو جائے.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام تھے.میں سمجھتا ہوں کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آقا تھے اگر ان کی اولاد میں بھی کسی وقت یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ خلافت کو حاصل کریں تو وہ بھی تباہ ہو جائے گی کیونکہ یہ چیز خدا تعالیٰ نے اپنے قبضے میں رکھی ہوئی ہے.اور جو خدا تعالیٰ کے مال کو اپنے قبضہ میں لینا چاہتا ہے وہ چاہے کسی نبی کی اولاد ہو یا کسی خلیفہ کی وہ تباہ وبرباد ہو جائے گا کیونکہ خدا تعالیٰ کے گھر میں چوری نہیں ہو سکتی.چوری تو ادنیٰ لوگوں کے گھروں میں ہوتی ہے.

Page 506

انوار العلوم جلد 25 482 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات اور قرآن کریم کہتا ہے وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ 10 مومنوں سے خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ انہیں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جیسے اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا.گو یا خلافت خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھی ہے اور اُس نے خود دینی ہے.جو اسے لینا چاہتا ہے چاہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا ہو یا حضرت مسیح اول کا ، وہ یقینا سزا پائے گا.پس یہ مت سمجھو کہ یہ فتنہ جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکتا ہے لیکن پھر بھی تمہارا یہ فرض ہے کہ تم اس کا مقابلہ کرو اور سلسلہ احمدیہ کو اس سے بچاؤ.دیکھو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ کیا تھا کہ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ 1 وہ آپ کو لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ سے زیادہ سچا اور کس کا وعدہ ہو سکتا ہے مگر کیا صحابہ نے کبھی آپ کی حفاظت کا خیال چھوڑا؟ بلکہ صحابہ نے ہر موقع پر آپ کی حفاظت کی.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر سے باہر ہتھیاروں کی آواز سنی تو آپ باہر نکلے اور دریافت کیا کہ یہ کیسی آواز ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم انصار ہیں چونکہ ارد گرد دشمن جمع ہیں اس لئے ہم ہتھیار لگا کر آپ کا پہرہ دینے آئے ہیں.اسی طرح جنگ احزاب میں جب دشمن حملہ کرتا تھا تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کی طرف جاتا تھا.آپ کے ساتھ اُس وقت صرف سات سو صحابہ تھے کیونکہ پانچ سو صحابہ کو آپ نے عورتوں کی حفاظت کے لئے مقرر کر دیا تھا اور دشمن کی تعداد اُس وقت سولہ ہزار سے زیادہ تھی لیکن اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور دشمن ناکام و نامراد رہا.میور جیسا دشمن اسلام لکھتا ہے کہ اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح اور کفار کے شکست کھانے کی یہ وجہ تھی کہ کفار نے مسلمانوں کی اس محبت کا، جو انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھی غلط اندازہ لگایا تھا.وہ خندق سے گزر کر سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رخ کرتے تھے.جس کی وجہ سے مسلمان مرد عورتیں اور بچے سب مل کر اُن پر حملہ کرتے اور ایسا دیوانہ وار مقابلہ کرتے کہ کفار کو بھاگ جانے پر مجبور کر دیتے.وہ کہتا ہے کہ اگر کفار یہ غلطی نہ کرتے

Page 507

انوار العلوم جلد 25 483 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کی بجائے کسی اور جہت میں حملہ کرتے تو وہ کامیاب ہوتے.لیکن وہ سیدھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمے کا رُخ کرتے تھے اور مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی.وہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ دشمن آپ کی ذات پر حملہ آور ہو اس لئے وہ بے جگری سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے.ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہو جاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے.یہ وہ سچی محبت تھی جو صحابہ کور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی.آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں.جب آپ نے انصار کا نام قبول کیا ہے تو ان جیسی محبت بھی پیدا کریں.آپ کے نام کی نسبت خدا تعالیٰ سے ہے اور خدا تعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے.اس لئے تمہیں بھی چاہیئے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھیں اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو.کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اس کو انصار کی بھی ضرورت ہو گی خدام کی بھی ضرورت ہو گی اور اطفال کی بھی ضرورت ہو گی ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کر سکتا، اکیلا نبی بھی کوئی کام نہیں کر سکتا.دیکھو حضرت مسیح علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حواری دیئے ہوئے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ نے صحابہ کی جماعت دی.اسی طرح اگر خلافت قائم رہے گی تو ضروری ہے کہ اطفال الاحمدیہ ، خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی قائم رہیں.اور جب یہ ساری تنظیمیں قائم رہیں گی تو خلافت بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے قائم رہے گی.کیونکہ جب دنیا دیکھے گی کہ جماعت کے لاکھوں لاکھ آدمی خلافت کے لئے جان دینے پر تیار ہیں تو جیسا کہ میور کے قول کے مطابق جنگ احزاب کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ پر حملہ کرنے کی وجہ سے حملہ آور بھاگ جانے پر مجبور ہو جاتے تھے اُسی طرح دشمن اِدھر رخ کرنے کی جرات نہیں کرے گا.وہ سمجھے گا کہ اس کے لئے لاکھوں اطفال، خدام اور انصار جانیں دینے کے لئے تیار ہیں اس لئے اگر اس نے حملہ کیا تو وہ تباہ و برباد ہو جائے گا.غرض دشمن کسی رنگ میں بھی آئے جماعت اس سے دھوکا نہیں کھائے گی.کسی شاعر نے کہا ہے.

Page 508

انوار العلوم جلد 25 484 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات بہر رنگے کہ خواہی جامه می پوش من انداز قدت را می شناسم کہ تو کسی رنگ کا کپڑا پہن کر آجائے، تو کوئی بھیس بدل لے میں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیرا قد پہچانتا ہوں.اسی طرح چاہے خلافت کا دشمن حضرت خلیفة المسیح الاوّل کی اولاد کی شکل میں آئے اور چاہے وہ کسی بڑے اور مقرب صحابی کی اولاد کی شکل میں آئے ایک مخلص آدمی اُسے دیکھ کر یہی کہے گا کہ رنگے کہ خواہی جامہ مے پوش بہر من انداز قدت را می شناسم یعنی تو کسی رنگ میں بھی آ اور کسی بھیس میں آمیں تیرے دھوکا میں نہیں آسکتا کیونکہ میں تیری چال اور قد کو پہچانتا ہوں.تو چاہے مولوی محمد علی صاحب کا تختہ پہین لے، چاہے احمدیہ انجمن اشاعت اسلام کا جبہ پہن لے یا حضرت خلیفہ اول کی اولاد کا جبہ پہن لے میں تمہیں پہچان لوں گا اور تیرے دھوکا میں نہیں آؤنگا.مجھے راولپنڈی کے ایک خادم نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ شروع شروع میں اللہ رکھا میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ مری کے امیر کے نام مجھے ایک تعارفی خط لکھ دو.میں نے کہا میں کیوں لکھوں ؟ مری جاکر پوچھ لو کہ وہاں کی جماعت کا کون امیر ہے.مجھے اُس وقت فوراً خیال آیا کہ یہ کوئی منافق ہے.چنانچہ میں نے لا حول پڑھنا شروع کر دیا اور آدھ گھنٹے تک پڑھتارہا اور سمجھا کہ شاید مجھ میں بھی کوئی نقص ہے جس کی وجہ سے یہ منافق میرے پاس آیا ہے.تو احمدی عقل مند ہوتے ہیں.وہ منافقوں کے فریب میں نہیں آتے.کوئی کمزور احمدی ان کے فریب میں آجائے تو اور بات ہے ورنہ اکثر احمدی انہیں خوب جانتے ہیں.آب انہوں نے لاہور میں اشتہارات چھاپنے شروع کئے ہیں.جب مجھے بعض لوگوں نے یہ اطلاع دی تو میں نے کہا گھبراؤ نہیں پیسے ختم ہو جائیں گے تو خود بخود اشتہارات بند ہو جائیں گے.مجھے لاہور سے ایک دوست نے لکھا کہ اب ان لوگوں نے یہ

Page 509

انوار العلوم جلد 25 485 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات سکیم بنائی ہے کہ وہ اخباروں میں شور مچائیں اور اشتہارات شائع کریں.وہ دوست نہایت مخلص ہیں اور منافقین کا بڑے جوش سے مقابلہ کر رہے ہیں مگر منافق اُسے کذاب کا خطاب دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ شخص یو نبی ہمارے متعلق خبریں اڑا تار ہتا ہے.لیکن ہم اسے جھوٹا کیونکر کہیں.ادھر ہمارے پاس یہ خبر پہنچی کہ ان لوگوں نے یہ سکیم بنائی ہے کہ اشتہارات شائع کئے جائیں اور اُدھر لاہور کی جماعت نے ہمیں ایک اشتہار بھیج دیا جو ان منافقین نے شائع کیا تھا اور جب بات پوری ہو گئی تو ہم نے سمجھ لیا کہ اس دوست نے جو خبر بھیجی تھی وہ سچی ہے.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو حقیقی انصار بنائے چونکہ تمھاری نسبت اس کے نام سے ہے اس لئے جس طرح وہ ہمیشہ زندہ رہے گا اسی طرح وہ آپ لوگوں کی تنظیم کو بھی تاقیامت زندہ رکھے اور جماعت میں خلافت بھی قائم رہے اور خلافت کی سپاہ بھی قائم رہے.لیکن ہماری فوج تلواروں والی نہیں.اِن انصار میں سے تو بعض ایسے ضعیف ہیں کہ ان سے ایک ڈنڈا بھی نہیں اٹھایا جا سکتا لیکن پھر بھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی فوج ہیں اور ان کی وجہ سے احمدیت پھیلی ہے اور امید ہے کہ آئندہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ اور زیادہ پھیلے گی.اور اگر جماعت زیادہ مضبوط ہو جائے تو اس کا بوجھ بھی انشاء اللہ ہلکا ہو جائے گاور نہ انفرادی طور پر کچھ دیر کے بعد آدمی تھک جاتا ہے.پس تم اپنے دوستوں اور رشتہ داروں میں احمدیت کی اشاعت کی کوشش کرو اور انہیں تبلیغ کرو تا کہ اگلے سال ہماری جماعت موجودہ تعداد سے دُگنی ہو جائے اور تحریک جدید میں حصہ لینے والے ڈگنا چندہ دیں.اور پھر اپنی دعاؤں اور نیکی اور تقویٰ کے ساتھ نوجوانوں پر اثر ڈالو تا کہ وہ بھی دعائیں کرنے لگ جائیں اور صاحب کشوف و رؤیا ہو جائیں.جس جماعت میں صاحب کشوف و رویا زیادہ ہو جاتے ہیں وہ جماعت مضبوط ہو جاتی ہے کیونکہ انسان کی دلیل سے اتنی تسلی نہیں ہوتی جتنی تسلی کشف اور رویا سے ہوتی ہے اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو.“ الفضل 24،21 مارچ1957ء)

Page 510

انوار العلوم جلد 25 486 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ احمدیت کی اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے انصار اللہ کو اپنا عہد ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے اختتامی خطاب (فرمودہ 27 / اکتوبر 1956ء بر موقع سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکز یہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- " میں تقریر شروع کرنے سے پہلے انصار اللہ کا عہد دُہراتا ہوں سب دوست کھڑے ہو جائیں اور میرے ساتھ ساتھ عہد دُہراتے جائیں.“ حضور کے اس ارشاد پر سب دوست کھڑے ہو گئے اور حضور نے مندرجہ ذیل عہد دہرایا.اشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ أَشْهَدُاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُوْلُہ میں اقرار کرتاہوں کہ اسلام اور احمدیت کی مضبوطی اور اشاعت اور نظام خلافت کی حفاظت کے لئے انشاء اللہ آخر دم تک جد و جہد کر تار ہوں گا اور اس کے لئے بڑی سے بڑی قربانی پیش کرنے کے لئے ہمیشہ تیار رہوں گا.نیز میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا." اسکے بعد فرمایا:.کل کی تقریر کے بعد کھانے میں کچھ بد پرہیزی ہو گئی جس کی وجہ سے اسہال آنے شروع ہو گئے اور پھر رات بھر اسہال آتے رہے جس کی وجہ سے میں اس وقت

Page 511

487 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات انوار العلوم جلد 25 بہت زیادہ کمزوری محسوس کر رہا ہوں لیکن چونکہ احباب باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ یہاں آکر جو کچھ بھی کہہ سکوں بیان کر دوں.میں نے کل اپنی تقریر میں کہا تھا کہ آپ کا نام انصار اللہ ہے یعنی نہ صرف آپ انصار ہیں بلکہ آپ انصار اللہ ہیں یعنی اللہ تعالیٰ کے مدد گار.اللہ تعالیٰ کو تو کسی کی مدد کی ضرورت نہیں لیکن اس کی نسبت کی وضاحت سے یہ بتایا گیا ہے کہ آپ ہمیشہ اس عہد پر قائم رہیں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ قائم رہنے والا ہے اس پر موت نہیں آتی اس لئے آپ کے عہد پر کبھی موت نہیں آنی چاہیے.چونکہ موت سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا اس لئے انصار اللہ کے معنے یہ ہوں گے کہ جب تک آپ زندہ رہیں گے اس عہد پر قائم رہیں گے اور اگر آپ مر گئے تو آپ کی اولاد اس عہد کو قائم رکھے گی.یہی وجہ ہے کہ اس عہد میں یہ بات رکھی گئی ہے کہ " میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا اور اگر اللہ تعالیٰ ہماری نسلوں کو اس بات کی توفیق دے دے تو پھر کوئی بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں یہ توفیق مل جائے کہ ہم عیسائیوں سے بھی زیادہ عرصہ تک خلافت کو قائم رکھ سکیں.خلافت کو زیادہ عرصہ تک قائم رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ تنظیم سلسلہ ایسی مضبوط رہے کہ تبلیغ احمدیت اور تبلیغ اسلام دنیا کے گوشہ گوشہ میں ہوتی رہے جو بغیر خلافت کے نہیں ہو سکتی.کیونکہ کوئی ایک آدمی اس بات کی توفیق نہیں رکھتا کہ وہ ہالینڈ ، انگلینڈ ، جرمنی، سپین، فرانس، سکنڈے نیویا، سوئٹزر لینڈ اور دوسرے ممالک میں مشنری بھیج سکے.یہ کام تبھی ہو سکتا ہے جب ایک تنظیم ہو اور کوئی ایسا شخص ہو جس کے ہاتھ پر ساری جماعت جمع ہو اور وہ آنہ آنہ، دو دو آنہ، چار چار آنه، روپیہ دو روپیہ ، جماعت کے ہر فرد سے وصول کرتا رہے.اور اس دو دوآنہ ، چار چار آنہ اور روپیہ، دو دو روپیہ سے اتنی رقم جمع ہو جائے کہ ساری دنیا میں تبلیغ ہو سکے.دیکھو عیسائیوں کی تعداد ہم سے زیادہ ہے.وہ اس وقت ساٹھ کروڑ کے قریب ہیں.پوپ جو عیسائی خلیفہ ہے اُس نے اس وقت یہ انتظام کیا ہوا ہے کہ ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ بطور چندہ دیتا ہے اور اس کو عیسائی پوپ کا آنہ (Pope's Penny) کہتے ہیں اور

Page 512

انوار العلوم جلد 25 488 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات اس طرح وہ پونے چار کروڑ روپیہ جمع کر لیتے ہیں.لیکن آپ لوگ باوجود اس کے کہ اتنا بوجھ اٹھاتے ہیں کہ کوئی اپنی ماہوار تنخواہ کا چھ فیصدی چندہ دیتا ہے اور کوئی دس فیصدی چندہ دیتا ہے اور پھر بارہ ماہ متواتر دیتا ہے آپ کا چندہ پندرہ بیس لاکھ بنتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری تعداد عیسائیوں سے بہت تھوڑی ہے.اگر ہمارے پاس پونے چار کروڑ روپیہ ہو جائے تو شاید ہم دو سال میں عیسائیت کی دھجیاں بکھیر دیں.اس تھوڑے سے چندہ سے بھی ہم وہ کام کرتے ہیں کہ دنیا دنگ رہ گئی ہے.چنانچہ عیسائیوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے جن کے اقتباسات الفضل میں بھی چھپتے رہتے ہیں کہ احمدیوں نے ہمارا ناطقہ بند کر دیا ہے.جہاں بھی ہم جاتے ہیں احمدیت کی تعلیم کی وجہ سے لوگ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے.اور نہ صرف نئے لوگ عیسائیت میں داخل نہیں ہوتے بلکہ ہم سے نکل نکل کر لوگ مسلمان ہو رہے ہیں.نائیجریا اور گولڈ کوسٹ کے متعلق تو یہ رپورٹ آئی ہے کہ وہاں جو لوگ احمدی ہوئے ہیں ان میں سے زیادہ تر تعداد عیسائیوں سے آئی ہے.سیر الیون اور لائبیریا سے بھی رپورٹ آئی ہے کہ عیسائی لوگ کثرت سے احمدیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور سلسلہ میں داخل ہو رہے ہیں.پاکستان اور ہندوستان میں لوگ زیادہ تر مسلمانوں سے آئے ہیں کیونکہ یہاں مسلمان زیادہ ہیں اور عیسائی کم ہیں لیکن وہاں چونکہ عیسائی زیادہ ہیں اس لئے زیادہ تر احمدی عیسائیوں سے ہی ہوئے ہیں.چنانچہ مغربی افریقہ میں احمدیت کی ترقی کے متعلق گولڈ کوسٹ یونیورسٹی کالج کے پروفیسر جے سی ولیم سن نے اپنی ایک کتاب " مسیح یا محمد" میں لکھا ہے کہ "اشانٹی گولڈ کوسٹ کے جنوبی حصوں میں عیسائیت آجکل ترقی کر رہی ہے لیکن جنوب کے بعض حصوں میں خصوصاً ساحل کے ساتھ ساتھ احمد یہ جماعت کو عظیم فتوحات حاصل ہو رہی ہیں.یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی بن جائے گا اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں زیادہ عظیم ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی خاصی تعد اد احمدیت کی طرف کھنچی چلی جارہی ہے اور یقیناً( یہ صورت) عیسائیت کے لئے ایک کھلا چیلنج ہے."

Page 513

انوار العلوم جلد 25 489 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات پھر جو لوگ احمدیت میں داخل ہوئے ہیں ان کے اخلاص کی یہ حالت ہے کہ سیر الیون کے مشن نے لکھا کہ یہاں ایک عیسائی سردار تھا جس کو یہاں چیف کے نام سے پکارا جاتا ہے در حقیقت ان کی حیثیت ہمارے ملک کے ذیلداروں کی سی ہوتی ہے مگر وہاں کی گورنمنٹ نے ان چیفس کو بہت زیادہ اختیارات دے رکھے ہیں.ان کے پاس مقدمات جاتے ہیں اور گورنمنٹ نے ایک خاص حد تک ان کو سزا دینے کا بھی اختیار دیا ہوا ہے.وہاں ملک کے رواج کے مطابق چیف کو خدا تعالیٰ کا قائم مقام سمجھا جاتا ہے اس لئے ان کے ہاں ہماری طرح خدا تعالیٰ کی قسم کھانے کا رواج نہیں بلکہ وہاں یہ رواج ہے کہ جب کسی سے قسم لینی ہو تو چیف کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا سٹول جس پر وہ بیٹھتا ہے سامنے رکھ دیتا ہے اور مدعی یا اس کا نمائندہ اُس پر ہاتھ رکھ کر قسم کھاتا ہے.اور کہتا ہے کہ مجھے چیف کے اس سٹول کی قسم کہ میں نے فلاں بات کی ہے یا نہیں کی اور اس کی بات مان لی جاتی ہے.ہمارے احمدیوں نے چیف کے سٹول پر ہاتھ رکھ کر اس کی قسم کھانے سے انکار کرناشروع کر دیا اور کہا یہ شرک ہے ہم تو خدا تعالیٰ کی قسم کھائیں گے لیکن چیف نے کہا میں تو خدا تعالیٰ کی قسم نہیں مانتا.ہمارے باپ دادا سے یہ رواج چلا آرہا ہے کہ اس سٹول کی قسم کھائی جاتی ہے اس لئے میں اس سٹول کی قسم لوں گا.لیکن احمدیوں نے ایسی قسم کھانے سے انکار کر دیا.چنانچہ وہاں ایک کے بعد دوسرے احمدی کو سزاملنی شروع ہوئی لیکن احمدی سٹول کی قسم کھانے سے برابر انکار کرتے گئے.آخر گور نمنٹ ڈر گئی اور اس نے کہا آخر تم کتنے احمدیوں کو جیل میں بند کرو گے ،احمدیت تو اس علاقہ میں پھیل رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کی تعداد روز بروز زیادہ ہو رہی ہے.چنانچہ تنگ آکر گورنمنٹ نے چیفس کو حکم دے دیا کہ اگر کسی مقدمہ میں کسی احمدی سے قسم لینے کی ضرورت پڑے تو اسے چیف کے سٹول کی قسم نہ دی جائے بلکہ اسے خدا تعالیٰ کی قسم دی جائے کیونکہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور کی قسم نہیں کھا سکتے.تو دیکھو وہاں احمدیت نے کا یا پلٹ دی ہے.سیر الیون میں ہمارا ایک اخبار چھپتا ہے اس کے متعلق ہمارے مبلغ نے لکھا کہ

Page 514

انوار العلوم جلد 25 490 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات چونکہ ہمارے پاس کوئی پریس نہیں تھا اس لئے عیسائیوں کے پر لیس میں وہ اخبار چھپنا شروع ہوا.دو چار پر چوں تک تو وہ برداشت کرتے چلے گئے لیکن جب یہ سلسلہ آگے بڑھا تو پادریوں کا ایک وفد اُس پریس کے مالک کے پاس گیا اور انہوں نے کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم اپنے پریس میں ایک احمدی اخبار شائع کر رہے ہو جس نے عیسائیوں کی جڑوں پر تبر رکھا ہوا ہے.چنانچہ اسے غیرت آئی اور اس نے کہہ دیا کہ آئندہ میں تمہارا اخبار اپنے پریس میں نہیں چھاپوں گا کیونکہ پادری بُرا مناتے ہیں.چنانچہ اخبار چھپنا بند ہو گیا.تو عیسائیوں کو اس سے بڑی خوشی ہوئی اور انہوں نے ہمیں جواب دینے کے علاوہ اپنے اخبار میں بھی ایک نوٹ لکھا کہ ہم نے تو احمدیوں کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے.اب ہم دیکھیں گے کہ اسلام کا خدا ان کے لئے کیا سامان پیدا کرتا ہے.یعنی پہلے ان کا اخبار ہمارے پریس میں چھپ جایا کرتا تھا اب چونکہ ہم نے انکار کر دیا ہے اور ان کے پاس اپنا کوئی پریس نہیں اس لئے ہم دیکھیں گے کہ یہ جو مسیح کے مقابلہ میں اپنا خدا پیش کیا کرتے ہیں، اس کی کیا طاقت ہے.اگر اس میں کوئی قدرت ہے تو وہ ان کے لئے خود سامان پیدا کرے.وہ مبلغ لکھتے ہیں کہ جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو سخت تکلیف محسوس ہوئی.میں نے اپنی جماعت کو تحریک کی کہ وہ چندہ کر کے اتنی رقم جمع کر دیں کہ ہم اپنا پر لیس خرید سکیں.اس سلسلہ میں میں نے لاری کا ٹکٹ لیا اور پونے تین سو میل پر ایک احمدی کے پاس گیا تا کہ اسے تحریک کروں کہ وہ اس کام میں حصہ لے.میں اُس کی طرف جارہا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ ابھی اس کا گاؤں آٹھ میل پڑے تھا کہ وہ مجھے ایک دوسری لاری میں بیٹھا ہوا نظر آگیا اور اس نے بھی مجھے دیکھ لیا.وہ مجھے دیکھتے ہی لاری سے اُتر پڑا اور کہنے لگا آپ کس طرح تشریف لائے ہیں؟ میں نے کہا اس طرح ایک عیسائی اخبار نے لکھا ہے کہ ہم نے تو ان کا اخبار چھاپنا بند کر دیا ہے اگر مسیح کے مقابلہ میں ان کے خدا میں بھی کوئی طاقت ہے تو وہ کوئی معجزہ دکھا دے.وہ کہنے لگا آپ یہیں بیٹھیں میں ابھی گاؤں سے ہو کر آتا ہوں.چنانچہ وہ گیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہی اس نے پانچ سو پونڈ لا کر مجھے دے دیئے.پانچ سو پونڈ وہ اس سے پہلے دے چکا تھا گویا تیرہ ہزار روپیہ

Page 515

انوار العلوم جلد 25 491 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات کے قریب اس نے رقم دے دی اور کہا میری خواہش ہے کہ آپ پریس کا جلدی انتظام کریں تاکہ ہم عیسائیوں کو جواب دے سکیں کہ اگر تم نے ہمارا اخبار چھاپنے سے انکار کر دیا تھا تو اب ہمارے خدا نے بھی ہمیں اپنا پر میں دے دیا ہے.جماعت کے دوسرے دوستوں نے بھی اس تحریک میں حصہ لیا ہے اور اس وقت تک 1800 پونڈ سے زیادہ رقم جمع ہو چکی ہے اور انگلینڈ میں ایک احمدی دوست کے ذریعہ پریس کے لئے آرڈر دے دیا گیا ہے.یہ شخص جس کے پاس ہمارا مبلغ گیا کسی زمانہ میں احمدیت کا شدید مخالف ہوا کرتا تھا.اتنا سخت مخالف کہ ایک دفعہ کوئی احمدی اس کے ساتھ دریا کے کنارے جارہا تھا کہ اس احمدی نے اسے تبلیغ شروع کر دی.وہ دریا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگا کہ دیکھو یہ دریا ادھر سے اُدھر بہہ رہا ہے اگر یہ دریا یک دم اپنا رُخ بدل لے اور نیچے سے اوپر کی طرف اُلٹا بہنا شروع کر دے تو یہ ممکن ہے لیکن میرا احمدی ہو نانا ممکن ہے.مگر کچھ دنوں کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ کوئی بڑا عالم فاضل نہیں بلکہ ایک لوکل افریقین احمدی اس سے ملا اور چند دن اس سے باتیں کیں تو وہ احمدی ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس کی مدد کی اور اس کی مالی حالت پہلے سے بہت اچھی ہو گئی.اب دیکھ لو ان لوگوں کے اندر جو اسلام اور احمدیت کے لئے غیرت پیدا ہوئی ہے وہ محض احمدیت کی برکت کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.دنیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگاتی تھی کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں مگر خدا تعالیٰ نے ثابت کر دیا کہ آپ عیسائیت کے ایجنٹ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ایجنٹ ہیں.اگر آپ مخالفوں کے قول کے مطابق عیسائیت کے ایجنٹ تھے تو عیسائیوں کو مسلمان بنانے کے کیا معنی؟ اگر آپ عیسائیوں کے ایجنٹ ہوتے تو آپ مسلمانوں کو عیسائی بناتے نہ کہ عیسائیوں کو مسلمان.کیونکہ کوئی شخص اپنے دشمن کی تائید کے لئے تیار نہیں ہو تا.جو شخص عیسائیت کی جڑوں پر شبر رکھتا ہے عیسائی لوگ اس کی مدد کیوں کریں گے.حضرت مسیح ناصری سے بھی بالکل اسی طرح کا واقعہ ہوا تھا.آپ پر یہودیوں

Page 516

انوار العلوم جلد 25 492 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات نے الزام لگایا کہ انہیں بعل بُت سکھاتا ہے.اس پر حضرت مسیح علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تو بعل بت کے خلاف تعلیم دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ ایک خدا کی پرستش کرو پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ بعل مجھے سکھاتا ہے اور میری تائید کرتا ہے.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کتنا بڑا نشان ہے کہ آپ کی زندگی میں تو مخالف کہتے رہے کہ آپ تعیسائیت کے ایجنٹ ہیں لیکن آپ کی وفات کے بعد آپ کے ماننے والی غریب جماعت کو اس نے یہ توفیق دی کہ وہ عیسائیت کو شکست دے.اُس نے چندے دیئے اور تبلیغ کا جال پھیلا دیا گیا.اگر وہ چندے نہ دیتے اور ہمارے مبلغ دنیا کے مختلف ممالک میں نہ جاتے تو یہ لوگ جو احمدیت میں داخل ہوئے ہیں کہاں سے آتے اور عیسائیت کا ناطقہ کیسے بند ہوتا.جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ہے انہی چندوں کی وجہ سے یہ حالت ہو گئی کہ اب عیسائیوں کو ایک ملک کے متعلق یہ کہنا پڑا ہے کہ یہ خوش کن امید کہ یہ ملک عیسائی ہو جائیگا پوری نہیں ہو سکتی.اب غالباً اسلام جیتے گا اور عیسائیت شکست کھائے گی کیونکہ اب عیسائیت کی جگہ اس ملک میں اسلام ترقی کر رہا ہے.احمدی جماعت کی طرف سے سکول جاری ہو رہے ہیں، کالج قائم کئے جارہے ہیں، مساجد تعمیر ہو رہی ہیں چنانچہ گولڈ کوسٹ کے علاقہ میں کماسی مقام پر ہمارا سیکنڈری سکول قائم ہے.کہتے تو اسے کالج ہیں لیکن وہاں صرف ایف اے تک تعلیم دی جاتی ہے.کئی کئی میل سے لوگ اپنے بچے اس کالج میں بھیجتے ہیں.ان لوگوں کو دین پڑھنے کا اتنا شوق ہے کہ پچھلے سال ایک لڑکا یہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آیا.اس کے متعلق وہاں کے مبلغ نے لکھا کہ اس کی والدہ میرے پاس آئی اور اس نے مجھے دو سو پونڈ کی رقم دی اور کہا میرے اس بچے کو ربوہ بھیجنے کا انتظام کریں تاکہ یہ وہاں تعلیم حاصل کرے.مبلغ نے کہا بی بی اتو بیوہ عورت ہے اتنا بوجھ کیوں اٹھاتی ہے ، یہ رقم تیرے کام آئے گی.شاید تو خیال کرتی ہو کہ ربوہ میں تیر الڑکا بی اے یا ایم اے ہو جائے گا وہاں تو لوگ دینیات پڑھاتے ہیں.اس پر وہ عورت کہنے لگی میں تو اپنے لڑکے کو ربوہ بھیجتی ہی اس لئے ہوں کہ وہ وہاں جاکر دین کی تعلیم

Page 517

493 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات انوار العلوم جلد 25 حاصل کرے، آپ اسے وہاں بھیجئے خرچ میں دوں گی.چنانچہ وہ لڑکا یہاں تعلیم حاصل کر رہا ہے.تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد واپس اپنے ملک جائے گا تو وہاں کا مبلغ بن جائے گا.اسی طرح ایسٹ افریقہ سے امری عبیدی آئے تھے.وہ عیسائیوں میں سے احمدی ہوئے ہیں.حبشیوں کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ کم عقل ہوتے ہیں لیکن وہ شخص اتنا ذہین ہے کہ اس نے اس بات کو غلط ثابت کر دیا ہے.کراچی میں پچھلے دنوں نوجوانوں کی ایک انجمن کی کانفرنس ہوئی تھی.اس میں انہوں نے ہمیں نہیں بلایا تھا لیکن ہم نے خود بعض لڑکے وہاں بھیج دیئے تھے ان میں سے ایک امری عبیدی بھی تھے.بعد میں وہاں سے رپورٹ آئی کہ وہ ہر بات میں امری عبیدی سے مشورہ لیتے تھے اور اس کو آگے کرتے تھے.گویاوہ تو ہمیں بلاتے بھی نہیں تھے لیکن جب ہمارے نوجوان وہاں گئے تو وہ ہر بات میں ہمارے اس نوجوان سے مشورہ کرتے تھے اور اسے آگے کرتے تھے.اب وہ واپس پہنچ گئے ہیں اور ان کی طرف سے چٹھی آئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے تبلیغ کا کام شروع کر دیا ہے.خدا تعالیٰ وہ دن جلد لائے کہ جب یہ ساری قوم احمدیت کو قبول کرلے.تو یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض نظام کی برکت کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس نظام کا ہی دوسرا نام خلافت ہے.خلافت کوئی علیحدہ چیز نہیں بلکہ خلافت نام ہے نظام کا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی کتاب الوصیت میں فرماتے ہیں کہ : "اے عزیزو! جب کہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خداتعالی دو قدر تیں دکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سو اب ممکن نہیں ہے کہ خد اتعالیٰ اپنی سنت کو ترک کر دیوے.اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا بھی ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور وہ دوسری قدرت آنہیں سکتی جب تک میں نہ

Page 518

انوار العلوم جلد 25 494 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات جاؤں.لیکن جب میں جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا." 12 اب دیکھو قدرت ثانیہ کسی انجمن کا نام نہیں.قدرتِ ثانیہ خلافت اور نظام کا نام ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں تو کچھ مدت تک تمہارے اندر رہ سکتا ہوں.مگر یہ قدرتِ ثانیہ دائمی ہو گی اور اس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا.اور قیامت تک نہ کوئی نبی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی خلیفہ رہ سکتا ہے.ہاں خلافت قیامت تک رہ سکتی ہے ، نظام قیامت تک رہ سکتا ہے.پس یہاں قدرتِ ثانیہ سے خلافت ہی مراد ہے کیونکہ خلیفہ تو فوت ہو جاتا ہے لیکن خلافت قیامت تک جاسکتی ہے.اگر جماعت ایک خلیفہ کے بعد دوسرا خلیفہ مانتی چلی جائے اور قیامت تک مانتی چلی جائے تو ایک عیسائیت کیا ہزاروں عیسائیتیں بھی احمدیوں کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتیں.کیونکہ ہمارے پاس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دیا ہوا دلائل و براہین کا وہ ذخیرہ ہے جو کسی اور قوم کے پاس نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود عليه الصلوة والسلام کے سپرد یہ کام کیا ہے کہ آپ اسلام کو ساری دنیا پر غالب کر دیں.اب وہ زمانہ جب اسلام تمام دنیا پر غالب ہو گا کسی ایک آدمی کی کوشش سے نہیں آسکتا بلکہ اس کے لئے ایک لمبے زمانہ تک لاکھوں آدمیوں کی جدوجہد کی ضرورت ہے.پس یہ کام صرف خلافت کے ذریعہ ہی پورا ہو سکتا ہے لیکن اس کا سارا کریڈٹ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام کو ملے گا جن کے دیئے ہوئے ہتھیار ہم استعمال کرتے ہیں.باقی باتیں محض خوشہ چینی ہیں جیسے کوئی شخص کسی باغ میں چلا جائے اور اس کے پھل کھالے تو وہ پھلوں کا مزہ تو اٹھا لے گا لیکن اصل مزہ اٹھانا اس کا ہے جس نے وہ باغ لگایا.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی شخص سل کے عارضہ سے بیمار ہو گیا.اس نے بہتیرا علاج کرایا مگر اسے کوئی فائدہ نہ ہوا.جب ڈاکٹروں نے اسے لا علاج قرار دے دیا تو وہ اپنے وطن واپس آگیا.وہ شخص وزیر آباد کے قریب سڑک پر جارہا تھا کہ اُسے ایک

Page 519

انوار العلوم جلد 25 495 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات پہلوان ملا جو متکبرانہ طور پر سڑک پر چل رہا تھا.اس نے اس عام دستور کے مطابق کہ پہلوان اپنا سر منڈا لیتے ہیں تا کہ کشتی میں ان کا مد مقابل ان کے بال نہ پکڑے اپنے بال منڈ ائے ہوئے تھے.اس بیمار شخص کی حالت بہت کمزور تھی لیکن اس پہلوان کو دیکھ کر اسے شرارت سوجھی اور اس نے آہستہ سے جاکر اس کے سر پر ٹھینگا مارا.اس پر اُس پہلوان کو غصہ آگیا اور اس نے سمجھا کہ اس شخص نے میری ہتک کی ہے.چنانچہ اس نے اسے ٹھڈوں سے خوب مارا.جب وہ اسے ٹھڈے مارہا تھا تو وہ کہتا جاتا تھا کہ تو جتنے ٹھڈے چاہے مارے جتنا مزہ مجھے اس ٹھینگا مارنے میں آیا ہے تجھے ٹھڈوں سے نہیں آسکتا.اسی طرح جو مزہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دلائل میں آیا ہے وہ عیسائیت کو اپنی طاقت کے زمانہ میں بھی نہیں آیا.دیکھ لو عیسائی ہم پر حاکم تھے اور ہم کمزور اور ماتحت رعا یا تھے.ہمارے پاس نہ تلوار تھی اور نہ کوئی مادی طاقت.لیکن خدا تعالیٰ کا ایک پہلوان آیا اور اس نے ہمیں وہ دلائل دیئے کہ جن سے اب ہم پر امریکہ انگلینڈ اور دوسرے سب ممالک کو شکست دے رہے ہیں.یہ جو ٹھینگے کا مزہ ہے وہ ان کے ٹھڈوں میں نہیں تو یہ برکت جو خدا تعالیٰ نے ہمیں دی ہے محض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے طفیل دی ہے.اور جوں جوں ہمارے مبلغ کام کریں گے اور احمدیت ترقی کرے گی ہمیں اور زیادہ برکت ملے گی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں تیرے ذریعہ اسلام کو دنیا پر غالب کروں گا.اب جو شخص بھی اسلام کی تبلیغ کے لئے باہر نکلتا ہے اور جو شخص بھی تبلیغ کے لئے ایک پیسہ بھی دیتا ہے در حقیقت اپنے دائرہ میں وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب ہے اور جو وعدے خدا تعالیٰ کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ تھے وہ اپنے درجہ اور مقام کے لحاظ سے اس کے ساتھ بھی ہوں گے.کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فوت ہو گئے اور قرآن کریم ایک کتاب ہے جو بولتی نہیں.اب جو مبلغ ہیں وہی بولیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 520

انوار العلوم جلد 25 496 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات کے بعد ایک رنگ میں آپ کے نائب ہوں گے.پس جوں جوں وہ امریکہ ، انگلستان اور دوسرے ممالک میں تبلیغ کریں گے اور اسلام بڑھے گا خلافت محمد یہ ظلی طور پر خد اتعالیٰ انہیں دیتا چلا جائے گا.لیکن ان کی وہاں خلافت قائم رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہاں مرکز میں بھی خلافت قائم ہو جو تمام احمدیوں کو اکٹھارکھے اور انہیں خرچ بھجوائے تاکہ وہ اپنی اپنی جگہ کام کر سکیں.پھر جوں جوں چندے بڑھتے جائیں تبلیغ کے نظام کو وسیع کرتے چلے جائیں.میں نے کل بتایا تھا عیسائی خلافت نے 52 لاکھ مبلغ تبلیغ کے لئے تیار کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں ہماری طرف سے صرف سو ڈیڑھ سو مبلغ ہے.جس دن مسیح محمدی کو 52 لاکھ مبلغ مل گئے اُس دن بھاگتے ہوئے عیسائیت کو رستہ نہیں ملے گا کیونکہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ دلائل اور براہین دئے ہیں جو عیسائیت کے پاس نہیں.مثلاً لنڈن میں ایک جلسہ ہوا.اس میں ہمارے مبلغوں نے تقاریر کیں اور بتایا کہ مسیح ناصری فوت ہو گئے ہیں.انہوں نے بتایا کہ مسیح ناصری صلیب سے بیچ کر کشمیر کی طرف چلے گئے تھے اور وہیں انہوں نے وفات پائی ہے اور اب تک ان کی قبر سری نگر میں پائی جاتی ہے.اس پر ایک پادری کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ اگر مسیح فوت ہو گئے ہیں تو ہماری عیسائیت مر گئی.آگے وہ کشمیر چلے گئے یا کسی اور جگہ اس کا کوئی سوال نہیں.یہ تو ایک علمی سوال ہے جو اُٹھایا گیا ہے ان کا وفات پا جانا ہی عیسائیت کے ختم ہو جانے کے لئے کافی ہے.کیونکہ ہم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور اگر وہ مر گئے ہیں تو وہ خدانہ رہے اور اس طرح عیسائیت بھی باقی نہ رہی.غرض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کو ایسے ایسے معرفت کے نکتے دیئے ہیں جن کا مقابلہ عیسائیت کے بس کی بات نہیں.1300 سال سے مسلمان اس دھوکا میں مبتلا چلے آتے تھے کہ مسیح علیہ السلام زندہ آسمان پر ہیں اور اس کی وجہ سے عیسائیت کو مدد مل رہی تھی.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کی وفات ثابت کر کے عیسائیت کو ختم کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں

Page 521

انوار العلوم جلد 25 مسلمانوں 497 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ادبار آیا رسول حق کو مسیحا کو فلک قرآن کو بھلایا مٹی میں سلایا ہے بٹھایا 13 عیسائی ہمیشہ کہتا تھا کہ میرا مسیح آسمان پر اللہ تعالیٰ کے ساتھ بیٹھا ہے اور تمہارا رسول محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) زمین میں دفن ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک ہی جھٹکا سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آسمان پر چڑھا دیا اور مسیح ناصری کو زمین میں دفن کر دیا.یہی چیز تھی جس نے احمدیت کو عیسائیت پر غلبہ دیا ہے.جس وقت تک یہ تعلیم موجود ہے اور انشاء اللہ یہ قیامت تک رہے گی دنیا میں عیسائیت پنپ نہم سکتی.عیسائیت کو یہی فخر تھا کہ مسلمان کہتے ہیں کہ مسیح علیہ السلام زندہ ہیں اور اس سے ان کے دعوی کی تائید ہوتی تھی لیکن اب تو انہیں بھی سمجھ آگئی ہے اور وہ اس عقیدہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں.میں جب مری گیا تو وہاں عیسائی مشن میں ہمارا مبلغ اور میرا ایک بیٹا عیسائیوں کو تبلیغ کرنے کے لئے جاتے تھے.جب ہمارے مقابلہ میں ان کا پہلو کمزور ہو گیا تو انہوں نے لاہور سے کچھ دیسی مشنری بلائے اور مشنریوں نے آکر چالاکیاں شروع کر دیں اور مسلمانوں کو یہ کہہ کر بھڑ کا نا شروع کیا کہ مرزا صاحب تو مسیح علیہ السلام سے بڑا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.اس طرح انہوں نے غیر از جماعت مسلمانوں کو ہمارے خلاف جوش دلانا چاہا مگر وہ روزانہ تبلیغ کے بعد سمجھ چکے تھے کہ احمدی جو کچھ کر رہے ہیں وہ ٹھیک ہے ، اس سے اسلام کی فضیلت عیسائیت پر ثابت کی جاسکتی ہے.اس لئے جب عیسائیوں نے احمدیت کے خلاف شور مچانا شروع کیا تو انہوں نے کہا تمہیں اس سے کیا واسطہ مرزا صاحب اپنے آپ کو حضرت مسیح علیہ السلام سے افضل سمجھتے ہیں یا نہیں.یہ تو ہمارے گھر کا جھگڑا ہے تم ان اعتراضات کا جواب دو جو عیسائیت پر ہوتے ہیں اور اپنے عقائد کی حقانیت کو ثابت کرو.یہ لوگ ہماری طرف سے نمائندے ہیں جو تمہارے ساتھ بحث کر رہے ہیں.جو

Page 522

انوار العلوم جلد 25 498 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات بات کریں گے وہ ہماری طرف سے ہی سمجھی جائے گی.غرض مسلمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش کردہ دلائل اور براہین کو سمجھ چکے ہیں اور جوں جوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم پھیلتی جائے گی عیسائیت مغلوب ہوتی جائے گی.دوسرا پہلو روحانیت کا ہے.عیسائیوں کی سیاست کا پہلو تو حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات کے مسئلہ سے ختم ہو گیا.مذہبی پہلو میں یہ نقص تھا کہ علماء نے یہ تسلیم کر لیا تھا کہ قرآن کریم کی بعض آیات منسوخ ہیں اس کی وجہ سے مسلمانوں کا قرآن کریم پر ایمان کامل نہیں رہا تھا.ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ جس قرآن میں ایک آیت بھی منسوخ ہے مجھے اس کا کیا اعتبار ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مشکل کو بھی دور کر دیا اور فیصلہ کر دیا کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابل عمل ہے.بِسمِ اللہ کی ”ب“ سے لے کر والناس کے س تک کوئی حصہ بھی ایسا نہیں جو قابل عمل نہ ہو.یہی وجہ ہے کہ جب میں نے تفسیر کبیر لکھی تو لوگ اسے پڑھ کر حیران ہو گئے اور کہنے لگے کہ پہلے علماء نے تو وہ باتیں نہیں لکھیں جو آپ نے لکھی ہیں.مجھے کئی غیر احمدیوں کی چٹھیاں آئیں کہ ہم نے تفسیر کبیر کو پڑھا ہے اس میں قرآن کریم کے اتنے معارف لکھے گئے ہیں کہ حد نہیں رہی.ضلع ملتان کے ایک غیر احمدی دوست ایک احمدی سے تفسیر کبیر پڑھنے کے لئے لے گئے اور اُسے پڑھنے کے بعد انہوں نے کہا ہمیں وہ سمندر دیکھنا چاہیے جہاں سے یہ تفسیر نکلی ہے.مگر سوال یہ ہے کہ یہ سمندر کہاں سے آ گیا.یہ محض اس نکتہ کی وجہ سے آیا ہے کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابل عمل ہے.مفسرین کو جس آیت کی سمجھ نہ آئی اسے انہوں نے منسوخ قرار دے دیا لیکن ہم چونکہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کی ہر آیت قابلِ عمل ہے اس لئے ہم ہر آیت پر فکر کرتے ہیں.اور غور و فکر کے بعد اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ نور اور برکت کی وجہ سے اس کو حل کر لیتے ہیں اور اس کی ایسی لطیف تفسیر کرتے ہیں جو 1300 سال میں کسی عالم نے نہیں کی.گزشتہ علماء نے اگر بعض آیتوں کی تفسیر نہیں لکھی تو اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ عقیدہ رکھتے تھے کہ قرآن کریم میں بعض آیات منسوخ بھی ہیں.اس لئے جب کوئی

Page 523

انوار العلوم جلد 25 499 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات مشکل آیت آجاتی وہ اس پر غور نہیں کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اگر بعد میں پتہ لگ گیا کہ یہ آیت منسوخ ہے تو ساری محنت اکارت چلی جائے گی.لیکن ہمارا عقیدہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی آیت بھی منسوخ نہیں اس لئے ہم ہر آیت پر غور کرتے ہیں اور اس کی صحیح تشریح تلاش کرنے میں ہمت نہیں ہارتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارا ایمان بالقرآن روز بروز ترقی کرتا جاتا ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کسی پرانے بزرگ کا ذکر سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس بزرگ سے کسی نے درخواست کی کہ قرآن کریم کی تفسیر سنائیے.تو وہ کہنے لگے یہ قرآن تو سارا ابو جہل کے لئے نازل ہوا ہے.ابو بکڑ کے لئے نازل ہو تا تو اس کی ”ب“ ہی کافی تھی کیونکہ ب کے معنے ساتھ کے ہیں اور ابو بکر کے لئے یہ کافی تھا کہ انہیں کہہ دیا جاتا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھی بن جائیں.باقی ابو جہل نہیں مانتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے یہ سارا قرآن اس کے لئے نازل کیا ہے ورنہ ابو بکر کے لئے اتنے بڑے قرآن کی ضرورت نہیں تھی.تو حقیقت یہی ہے کہ قرآن کریم کے معارف اور حقائق سکھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے اندر ایک نئی روح پھونک دی ہے.آپ نے بتایا کہ قرآن کریم میں کوئی آیت منسوخ نہیں اور تم قرآن کے جتنے حصے پر عمل کرو گے اُتنے ہی تم خدا تعالیٰ کے قریب ہو جاؤ گے اور عملی طور پر دیکھا جائے تو قرآن کریم کسی فلسفہ کی کتاب نہیں بلکہ یہ ایک آسمانی کتاب ہے.اس کی ایک ایک آیت پر عمل کرو گے تو تم ولی اللہ بن جاؤ گے اور خد اتعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی اور جب خدا تعالیٰ کی برکتیں تم پر نازل ہوں گی تو تمام آفات اور مصائب اپنی نظروں میں بیچ نظر آنے لگ جائیں گے.گزشتہ تیرہ سو سال کے عرصہ میں جس نے بھی قرآن کریم پر سچے دل سے عمل کیا ہے اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ اس کے شامل حال رہی ہے اور مصائب اور مشکلات کے ہجوم میں وہ اس کی تائیدات کا مشاہدہ کر تا رہا ہے.ایک بزرگ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے تھے.ان کی بیوی

Page 524

انوار العلوم جلد 25 500 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ان کے ایک دوست کے پاس گئی جو خود بھی بڑے بزرگ اور عالم تھے اور کہنے لگی آپ اپنے دوست کو سمجھائیں وہ کوئی کام نہیں کرتے.اس بزرگ نے کہا بہت اچھا میں ان کے پاس جاؤں گا اور انہیں سمجھاؤں گا کہ وہ کوئی کام کریں.چنانچہ وہ وہاں گئے اور کہنے لگے دیکھو بھائی! مجھے پتہ لگا ہے کہ آپ کوئی کام نہیں کرتے حالانکہ آپ عالم ہیں اور دوسرے لوگوں کو پڑھا کر بھی آپ اپنی روزی کما سکتے ہیں.انہوں نے جواب میں کہا بھائی! میرے دل میں آپ کی بڑی قدر ہے لیکن مجھے افسوس ہوا کہ آپ نے ایسا مشورہ کیوں دیا ہے.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ تم کسی کی مہمان نوازی کورد نہ کرو اور میں تو خدا تعالیٰ کا مہمان ہوں پھر میں خدا تعالیٰ کی مہمان نوازی کو کیوں کر رڈ کروں.اگر میں اس کی مہمان نوازی کو ر ڈ کروں تو وہ خفا ہو جائے گا.دوسرے بزرگ بھی ہوشیار تھے انہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مہمان نوازی صرف تین دن کی ہوتی ہے.اس کے بعد صدقہ ہوتا ہے.14 آپ کو خدا تعالیٰ کے مہمان بنے ہیں سال ہو گئے ہیں پھر کیا ابھی مہمان نوازی ختم نہیں ہوئی ؟ وہ بھی ہوشیار تھے کہنے لگے کیا قرآن کریم نے نہیں فرمایا کہ خدا تعالیٰ کا ایک دن ہزار سال کے برابر ہوتا ہے 12 گویا قرآن کریم کی رو سے تو میں تین ہزار سال تک خدا تعالیٰ کا مہمان رہوں گا اور اُسی کا دیا کھاؤں گا.15 تو حقیقت یہی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے وہ اس کے لئے روزی کے مختلف رستے کھول دیتا ہے.ہاں یہ ضرور ہے کہ اس نے انسان کے اندر روحانیت پیدا کرنے کے لئے فرمایا ہے کہ تم میرے حضور دعائیں کیا کرو کیونکہ جب کوئی انسان عجز اور انکسار کے ساتھ دعائیں کرتا ہے تو اس کے دل میں محبت الہی بڑھتی ہے.بیشک ظاہری گسب بھی ایک ضروری چیز ہے لیکن دعائیں بھی روحانیت پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں.مومن گسب تو کرتا ہے لیکن وہ سمجھتا ہے کہ در حقیقت مجھے دیتا خدا تعالیٰ ہی ہے.یہ کبھی نہیں سمجھتا کہ جو کچھ مجھے ملا ہے وہ میری محنت کا نتیجہ ملا ہے.لیکن ایک مالدار کافر یہ سمجھتا ہے کہ مجھے جو کچھ ملا ہے میرے ذاتی علم اور ذہانت اور محنت کی وجہ سے ملا ہے.چنانچہ

Page 525

انوار العلوم جلد 25 501 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ جب قارون سے کہا گیا یہ دولت تمہیں خدا تعالیٰ نے دی ہے تو اس نے کہا کہ اِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ عِنْدِی 16 کہ میری یہ دولت مجھے میرے علم کی وجہ سے ملی ہے.تو اسلام کمائی سے منع نہیں کرتا لیکن وہ کہتا ہے تم خواہ کتنی ؟ کرو یہ یقین رکھو کہ اس کا نتیجہ خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے.مثلاً کوئی لوہار ہے تو وہ جتنی چاہے محنت کرے لیکن جو بھی کمائے اس کے متعلق یہ خیال نہ کرے کہ وہ اسے لوہارے کی وجہ سے ملا ہے بلکہ سمجھے کہ یہ سب کچھ اسے خدا نے دیا ہے.آخر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک شخص سارا سال لوہارے کا کام سیکھتا ہے لیکن وہ سیکھ نہیں سکتا.پھر ایسا بھی تو ہوتا ہے کہ ایک کاریگر ہوتا ہے لیکن اسے کوئی کام نہیں ملتا.پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ روپیہ مل جائے تو رستہ میں کوئی ڈاکو اس کا سارا روپیہ چھین لے.پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ گھر کما کر روپیہ لے آئے لیکن گھر میں آتے ہی پیٹ میں درد اٹھے اور وہ جانبر ہی نہ ہو سکے.پھر یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ اسے ایسی جلدی بیماری پیدا ہو جائے کہ وہ کپڑا نہ پہن سکے.تو جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.اگر کوئی انسان اپنی محنت سے بھی روزی کمائے تب بھی اسے جو کچھ ملتا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی ملتا ہے.یہ چیز ایسی ہے کہ اگر انسان اس پر غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ اسے جو کچھ ملا ہے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کی وجہ سے ملا ہے.اور خدا تعالیٰ سے تعلق قرآن کریم سے پیدا ہوتا ہے.یہ ہمیں حضرت مرزا صاحب نے بتایا ہے.اصل سبق تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا لیکن اسے مسلمان بھول گئے تھے.حضرت مرزا صاحب نے آکر اسے دوبارہ تازہ کیا اور کہا کہ قرآن پر عمل کرو اور دعائیں کرو اور تقویٰ اختیار کرو.اور سمجھو کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ تمہیں خدا تعالیٰ نے ہی دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک شعر ہے کہ ہر اک نیکی کی جڑ اتقا ہے کچھ رہا اگر یہ جڑ رہی سب 17 یعنی تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا ہوتی ہیں.اگر تقویٰ باقی رہے تو ایسے انسان کو

Page 526

انوار العلوم جلد 25 502 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات کوئی چیز ضائع نہیں کر سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور دوسرے بزرگوں کی مثالیں موجود ہیں کہ کبھی مومن خدا تعالیٰ کے فضل سے مصائب اور آفات سے نہیں ڈرتے.مثلاً حضرت نظام الدین صاحب اولیاء کے متعلق مشہور ہے کہ آپ کے معاصرین نے آپ کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے اور وہ آپ سے بدظن ہو گیا اور آپ کو سزا دینے پر تیار ہو گیا.لیکن اس نے کہا میں ابھی جنگ کے لئے باہر جارہا ہوں واپس آؤں گا تو انہیں سزا دوں گا.جب وہ واپس آرہا تھا تو حضرت نظام الدین اولیاء کے مرید آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے بادشاہ واپس آرہا ہے، آپ کوئی سفارش اس کے پاس پہنچائیں تاکہ وہ آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچائے.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے فرمایا ”ہنوز دلی دور است“ ابھی دلی بہت دور ہے.جب وہ دتی کے اور قریب آگیا تو مریدوں نے پھر کہا حضور ! اب تو بادشاہ بالکل قریب آگیا ہے اس نے فیصلہ کیا ہے کہ دہ صبح دتی میں داخل ہو جائے گا.حضرت نظام الدین صاحب اولیاء نے پھر فرمایا کہ ہنوز دلی دور است“ ابھی دِتی بہت دور ہے.چنانچہ مرید خاموش ہو کر واپس چلے گئے.رات کو بادشاہ کے بیٹے نے شہر کے باہر والے محل پر ایک بہت بڑا جشن کیا.ہزاروں لوگ اس جشن میں شرکت کے لئے آئے اور وہ محل کی چھتوں پر چڑھ گئے.چھت کا کچھ حصہ بوسیدہ تھا اس لئے وہ اس بوجھ کو بر داشت نہ کر سکا اور گر پڑا.بادشاہ اور اس کے ساتھی چھت کے نیچے بیٹھے تھے اس لئے وہ اس کے نیچے ہی دب گئے اور مر گئے.چنانچہ صبح بجائے اس کے کہ بادشاہ شہر میں داخل ہو تا اُس کی لاش شہر میں لائی گئی.حضرت نظام الدین صاحب نے مریدوں سے فرمایا دیکھو! میں نے نہیں کہا تھا کہ ہنوز دلی دور است کہ ابھی دتی بہت دور ہے.وہ ข پھر تین سال ہوئے اس قسم کا ایک واقعہ آپ لوگوں نے بھی دیکھا ہے.اُس وقت احمدیوں کو لاریوں اور گاڑیوں سے کھینچ کھینچ کر اُتارا جاتا تھا اور انہیں مارا پیٹا جاتا تھا.اُس وقت میں نے اعلان کیا کہ گھبراؤ نہیں میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا

Page 527

انوار العلوم جلد 25 503 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ہے.چنانچہ تم نے دیکھا کہ تین دن کے اندر اندر نقشہ بدل گیا.لوگ اُس وقت کہہ رہے تھے کہ اب احمدیوں کا پاکستان میں کوئی ٹھکانہ نہیں، ہر طرف ان میں جوش بھر ہوا تھا اور نعرے لگ رہے تھے کہ احمدیوں کو قتل کر دو.اُس وقت میں نے کہا کہ میرا خدا میری مدد کے لئے دوڑا آرہا ہے ، وہ مجھ میں ہے وہ میرے پاس ہے.پھر دیکھو میر اخدا میری مدد کے لئے دوڑ کر آیا یا نہیں ؟ آب سارے مولوی تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ اپنے مطالبات کے تسلیم کرانے میں ناکام رہے ہیں..آب بھی جماعت میں منافقین نے فتنہ پیدا کیا تو گجرات کے ایک آدمی نے مجھے کہا کہ مجھ سے ایک منافق نے ذکر کیا کہ ہم سے غلطی ہو گئی کہ ہم نے خلافت کا سوال بہت پہلے اُٹھا دیا.اب ہمیں احمدیوں کے پاس جانے کا کوئی موقع نہیں ملتا.جہاں ہم جاتے ہیں دُھتکار دیئے جاتے ہیں.اگر ہم چپ رہتے اور خاموشی سے کام کرتے تو ہم ہر ایک احمدی کے پاس جاسکتے تھے اور اسے اپنی بات سنا سکتے تھے.لیکن اب ہمیں یہ کرنے کی جرات نہیں جس کی وجہ سے ہماری ساری سکیم فیل ہو گئی ہے.پھر دیکھو میں بیماری کی وجہ سے لمبا عرصہ باہر رہا تھا اور ان منافقین کے لئے موقع تھا کہ وہ میری غیر حاضری میں شور مچاتے لیکن خدا تعالیٰ نے انہیں دبائے رکھا.اور جب میں واپس آیا تو اس نے ایک بیوقوف کے منہ سے یہ بات نکلوادی کہ ہم دو سال کے اندر اندر خلافت کو ختم کر دیں گے.میں نے اس کے بیان کو شائع کرایا.اس پر کئی لوگوں نے اعتراض کیا کہ یونہی ایک بے وقوف کی بات کو بڑھا دیا گیا ہے اِس سے اُسے شہرت اور اہمیت حاصل ہو جائیگی لیکن اس کا یہ نتیجہ نکلا کہ یہ لوگ ننگے ہو گئے.چنانچہ ایک دوست نے مجھے خط لکھا کہ آپ نے اپنی بیالیس سالہ خلافت میں بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے کئے ہیں لیکن اب جو آپ نے کام کیا ہے اور جماعت کو وقت پر فتنے سے آگاہ کر دیا ہے اور اسے بیدار کر دیا ہے مجھے یقین ہے کہ اس سے بڑا آپ کا اور کوئی کارنامہ نہیں.آج ہمیں سب منافقوں کا پتہ لگ گیا ہے اور آج ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے شیطان کو مار دیا ہے اور اسے نئے نئے طریقوں سے جماعت کے اندر فتنہ پیدا کرنے سے روک دیا

Page 528

انوار العلوم جلد 25 504 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ہے.آپ کے اس بات کو شائع کر دینے سے جماعت کے اندر ایک نئی روح اور نئی امنگ پیدا ہو گئی ہے اور اب ہر احمدی خلافت کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے.اگر آپ وقت پر اعلان نہ کرتے ، آپ لحاظ کر جاتے اور چپ کر جاتے تو یہ فتنہ بہت بڑھ جاتا.آپ نے بہت بڑے بڑے کام کئے ہیں، تبلیغ اسلام کا کام کیا ہے، غیر ممالک میں مساجد بنائی ہیں مگر مجھے یقین ہے کہ آپ کا موجودہ فتنہ کو دبالینا سب سے بڑا کارنامہ ہے.کیونکہ اس کے ذریعہ سے آپ نے جماعت کو محفوظ کر دیا ہے اور جماعت کے اندر ایک نئی بیداری اور جوش پیدا ہو گیا ہے.پہلے یہ بات نہیں تھی.پہلے جماعت کے اندر ستی پائی جاتی تھی اور ہم سمجھتے تھے کہ ہم بالکل محفوظ ہیں.اگر یہ فتنہ یکدم پھیل جاتا تو جماعت غفلت میں بیٹھی رہتی اور فتنہ پرداز اُسے نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جاتے لیکن آپ نے اُدھر فتنہ پیدا ہوا اور ادھر اعلان شائع کر کے جماعت کو وقت پر بیدار کر دیا چنانچہ اب وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر طرح تیار ہے.اگر آپ وقت پر جماعت کو بیدار نہ کر دیتے تو ان لوگوں نے جماعت کو پیغامیوں کی جھولی میں ڈال دینا تھا اور وہ ساری کوشش جو آپ کی نبوت اور ماموریت کی سچائی کے لئے 42 سال تک کی گئی تھی ضائع ہو جانی تھی.مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر ہوشیار کر دیا اور باوجود اس کے کہ وہ بات جو بظاہر چھوٹی نظر آتی تھی اور بعض احمدی بھی خیال کرتے تھے کہ یہ معمولی بات ہے آپ نے اُس کے ضرر کو نمایاں کر کے دکھایا اور اس طرح تمام احمدی دنیا سمجھ گئی کہ کیا بات ہے اور وہ اس فتنہ کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئی.چنانچہ دنیا کے سب ممالک سے جہاں جہاں ہماری جماعتیں قائم ہیں مثلاً امریکہ سے، افریقہ سے، دمشق سے، انڈونیشیا سے اور دوسرے تمام ممالک سے مجھے چٹھیاں آرہی ہیں کہ ہم خلافت سے سچے دل کے ساتھ وابستہ ہیں اور جن لوگوں نے اس فتنہ کو اٹھایا ہے اُنہیں منافق خیال کرتے ہیں.اب وہ ہم میں شامل ہو کر کوئی رُتبہ اور فضیلت حاصل نہیں کر سکتے.آب دیکھو یہ ساری چیزیں خدا تعالیٰ کے نشان کے طور پر ہیں.اگر اس فتنہ کا مجھے وقت پر علم نہ ہو تا تو شاید وہ شان پیدا نہ ہوتی جو اب ہے.مگر آب جماعت کے اندر وہی بیداری پیدا ہو گئی

Page 529

انوار العلوم جلد 25 505 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات ہے جو 1914ء میں پیدا ہوئی تھی.آپ لوگ اُس وقت جوان تھے اور آب بُڑھے ہو چکے ہیں لیکن اِس وقت نوجوانوں والا عزم آپ کے اندر دوبارہ پید اہو گیا ہے.اور پھر جوانوں کے اندر بھی عزم پیدا ہو چکا ہے اور جماعت کا ہر فرد اس بات کے لئے تیار ہے کہ وہ خلافت کے لئے اپنی جان دے دے گا لیکن اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا.اور جب کوئی شخص خدا تعالیٰ کے دین کی تائید اور نصرت کے لئے عزم کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کی مدد کرتے ہیں.میں نے پچھلے ماہ خواب میں دیکھا تھا کہ وہ آیتیں پڑھ پڑھ کر سنا رہے ہیں جو قرآن شریف میں یہودیوں اور منافقوں کے لئے آئی ہیں اور جن میں یہ ذکر ہے کہ اگر تم کو مدینہ سے نکالا گیا تو ہم بھی تمہارے ساتھ ہی مدینہ سے نکل جائیں گے اور اگر تم سے لڑائی کی گئی تو ہم بھی تمہارے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑائی کریں گے.لیکن قرآن کریم منافقوں سے فرماتا ہے کہ نہ تم یہودیوں کے ساتھ مل کر مدینہ سے نکلو گے اور نہ ان کے ساتھ مل کر مسلمانوں سے لڑو گے.یہ دونوں جھوٹے دعوے ہیں اور صرف یہودیوں کو انگیخت کرنے کے لئے اور فساد پر آمادہ کرنے کے لئے ہیں.آب دیکھو ! وہی کچھ ہو رہا ہے جو خدا تعالیٰ نے مجھے رویا میں بتایا تھا.ایک طرف یہ منافق معافی مانگتے ہیں اور پھر اخبار میں شائع کرا دیتے ہیں کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی تھی.اگر انہوں نے واقع میں کوئی معافی نہیں مانگی تھی تو غیر احمدی اخبارات نے یہ کیوں لکھا تھا کہ دیکھو کتنا ظلم ہو رہا ہے ان لوگوں کی معافی مانگتے مانگتے ناکیں بھی رگڑی گئی ہیں لیکن انہیں معافی نہیں ملتی.اگر وہ بعد میں معافی کا انکار نہ کرتے تو جماعت کے کئی کمزور لوگ کہتے کہ جب یہ معافی مانگتے ہیں تو انہیں معاف کر دیا جائے.لیکن انہوں نے پہلے خود معافی مانگی پھر ڈر گئے اور سمجھا کہ کہیں غیر احمدی یہ نہ سمجھ لیں کہ یہ اب ڈر گئے ہیں اور اس طرح ان کی مدد سے محروم نہ ہو جائیں اس لئے انہوں نے پھر لکھ دیا کہ ہم نے تو معافی نہیں مانگی.مگر اس جھوٹ کے نتیجہ میں وہی مثال ان پر صادق آئے گی جو کسی لڑکے کے متعلق مشہور ہے کہ وہ بھیڑیں چرایا کرتا تھا.ایک دن اُسے گاؤں والوں سے

Page 530

انوار العلوم جلد 25 506 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات مذاق سُوجھا تو اس نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچادیا کہ شیر آیا شیر آیا.گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کر اُس کی مدد کے لئے آئے لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو وہاں شیر وغیرہ کوئی نہیں تھا.لڑکے نے انہیں بتایا کہ اُس نے ان سے یو نہی مذاق کیا تھا.دوسرے دن وہ بھیڑیں چرا رہا تھا تو واقع میں شیر آگیا اور لڑکے نے پہاڑی پر چڑھ کر شور مچایا کہ شیر آیا، شیر آیا.لیکن گاؤں سے اس کی مدد کے لئے کوئی نہ آیا.انہوں نے سمجھا کہ لڑکا کل کی طرح آج بھی مذاق کر رہا ہو گا.چنانچہ شیر نے اسے پھاڑ کر کھالیا.اسی طرح جب غیر احمدیوں کو محسوس ہوا کہ یہ لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں تو وہ ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے اور یہ لوگ اپنی آنکھوں سے اپنی ناکامی کا مشاہدہ کریں گے.آج ہی مجھے میرے نائی نے ایک لطیفہ سنایا.اس نے بتایا کہ میں میاں عبد المنان صاحب کی حجامت بنانے گیا تو انہوں نے کہا کیا تم ڈر گئے تھے کہ حجامت بنانے نہ آئے یا تمہیں کسی نے روکا تھا؟ میں نے کہا مجھے تو کوئی ڈر نہیں اور نہ کسی نے مجھے روکا ہے.حجامت بنانا تو انسانی حق ہے.اس سے مجھے کوئی نہیں روکتا.اس لئے میں آگیا ہوں.پھر میں نے کہا میاں صاحب! میں آپ کو ایک قصہ سناتا ہوں کہ پشاور سے ایک احمدی قادیان میں آیا اور وہ میاں شریف احمد صاحب سے ملنے کے لئے ان کے مکان پر گیا.اتفاقا میں بھی اُس وقت حجامت بنانے کے لئے ان کے دروازہ پر کھڑ ا تھا.ہمیں معلوم ہوا کہ میاں صاحب اُس وقت سو رہے ہیں.اِس پر میں نے کہا کہ میں تو حجامت بنانے کے لئے آیا ہوں انہیں اطلاع دے دی جائے لیکن وہ دوست مجھے بڑے اصرار سے کہنے لگے کہ ان کی نیند خراب نہ کریں.لیکن میں نے نہ مانا اور میاں صاحب کو اطلاع بھجوا دی.جس پر انہوں نے مجھے بھی اور اس دوست کو بھی اندر بلا لیا.وہاں ایک چار پائی پڑی ہوئی تھی میں نے انہیں کہا کہ اس پر بیٹھ جائے.کہنے لگے میں نہیں بیٹھتا.میں نے سمجھا کہ ماید یہ چارپائی پر بیٹھنا پسند نہیں کرتے اس لئے میں ان کے لئے کرسی اٹھا لایا لیکن وہ کرسی پر بھی نہ بیٹھے اور دروزہ کے سامنے جہاں جو تیاں رکھی جاتی ہیں وہاں پائیدان پر جا کر بیٹھ گئے.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے یہ کیا کیا؟ میں نے چار پائی دی لیکن آپ نہ بیٹھے

Page 531

انوار العلوم جلد 25 507 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات پھر کر سی دی تب بھی آپ نہ بیٹھے اور ایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں بوٹ وغیرہ رکھے جاتے ہیں.کہنے لگے میں تمہیں ایک قصہ سناؤں.میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صحابی ہوں.میں ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے کے لئے آیا.آپ مسجد مبارک میں بیٹھے تھے اور دروازہ کے پاس جو تیاں پڑی تھیں.ایک آدمی سیدھے سادے کپڑوں والا آ گیا اور آکر جوتیوں میں بیٹھ گیا.میں نے سمجھا یہ کوئی جوتی چور ہے.چنانچہ میں نے اپنی جوتیوں کی نگرانی شروع کر دی کہ کہیں وہ لے کر بھاگ نہ جائے.کہنے لگے اس کے کچھ عرصہ بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو گئے اور میں نے سنا کہ آپ کی جگہ اور شخص خلیفہ بن گیا ہے.اس پر میں بیعت کرنے کے لئے آیا.جب میں نے بیعت کے لئے اپنا ہاتھ بڑھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ وہی شخص تھا جس کو میں نے اپنی بیوقوفی سے بھوتی چور سمجھا تھا یعنی حضرت خلیفہ اول.اور میں اپنے دل میں سخت شرمندہ ہوا.آپ کی عادت تھی کہ آپ جو تیوں میں آکر بیٹھ جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام آواز دیتے تو آپ ذرا آگے آجاتے.پھر جب کہتے مولوی نور الدین صاحب نہیں آئے ؟ تو پھر کچھ اور آگے آجاتے.اس طرح بار بار کہنے کے بعد کہیں وہ آگے آتے تھے.یہ قصہ سنا کر میں نے انہیں کہا میاں! آپ کے باپ نے جوتیوں میں بیٹھ بیٹھ کے خلافت لی تھی لیکن تم زور سے لینا چاہتے ہو.اس طرح کام نہیں بنے گا.تم اپنے باپ کی طرح جو تیوں میں بیٹھو اور اللہ تعالیٰ سے اس کا فضل طلب کرو.اس پر وہ چپ کر گیا اور میری اس بات کا اس نے کوئی جواب نہ دیا.ہم نے خود حضرت خلیفہ اول کو دیکھا ہے.آپ مجلس میں بڑی مسکنت سے بیٹھا کرتے تھے.ایک دفعہ مجلس میں شادیوں کا ذکر ہو رہا تھا، ڈپٹی محمد شریف صاحب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں سناتے ہیں کہ حضرت خلیفہ اول اکڑوں بیٹھے ہوئے تھے یعنی آپ نے اپنے گھٹنے اٹھائے ہوئے تھے اور سر جھکا کر گھٹنوں میں رکھا ہوا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مولوی صاحب! جماعت کے بڑھنے کا ایک ذریعہ کثرتِ اولاد بھی ہے اس لئے میرا خیال ہے کہ اگر جماعت کے

Page 532

انوار العلوم جلد 25 508 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات دوست ایک سے زیادہ شادیاں کریں تو اس سے بھی جماعت بڑھ سکتی ہے.حضرت خلیفہ اول نے گھٹنوں پر سے سر اٹھایا اور فرمایا حضور! میں تو آپ کا حکم ماننے کے لئے تیار ہوں لیکن اس عمر میں مجھے کوئی شخص اپنی لڑکی دینے کے لئے تیار نہیں ہو گا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہنس پڑے.تو دیکھو یہ انکسار اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا ادب تھا جس کی وجہ سے انہیں یہ رتبہ ملا.آب باوجود اس کے کہ آپ کی اولاد نے جماعت میں فتنہ پیدا کیا ہے لیکن اب بھی جماعت آپ کا احترام کرنے پر مجبور ہے اور آپ کے لئے دعائیں کرتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہمارے دلوں میں اس انکسار اور محبت کی جو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تھی وہ عظمت ڈالی ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ کے بیٹوں نے مخالفت کی ہے پھر بھی ان کے باپ کی محبت ہمارے دلوں سے نہیں جاتی، پھر بھی ہم انہیں اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرے کیونکہ انہوں نے اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ، حضرت می موز کو ماناجب ساری دنیا آپ کی مخالف تھی.اسی طرح آج کل ضلع جھنگ کے بعض نئے احمدی ہوئے ہیں.اُن میں ایک مولوی عزیز الرحمن صاحب ہیں جو عربی کے بڑے عالم ہیں اور ان کا ایک عربی قصیدہ الفضل میں بھی چھپ چکا ہے.ان کے والد جو اپنے بیٹے کی طرح عالم نہیں وہ یہاں آئے.وہ کہیں جارہے تھے تو کسی نے میاں عبد المنان کو آتاد یکھ کر انہیں بتایا کہ وہ میاں عبد المنان ہیں.اس پر وہ دوڑتے ہوئے اس کے پاس پہنچے اور کہنے لگے میاں تیرے باپ کواس در سے خلافت ملی تھی.اب تجھے کیا ہو گیا ہے کہ تو بھاگ رہا ہے پھر پنجابی میں کہا کہ جا اور جاکر معافی مانگ.عبد المنان نے کہا بابا جی ! میں نے تو معافی مانگی تھی.وہ کہنے لگے اس طرح نہیں تو جا کر ان کی دہلیز پر بیٹھ جا اور وہاں سے ہل نہیں.تجھے دھکے مار کر بھی وہاں سے نکالنا چاہیں تو اُس وقت تک نہ اُٹھ جب تک تجھے معافی نہ مل جائے مگر عبد المنان نے اس نو احمدی کی بات بھی نہ مانی.پھر میں نے بھی مری میں خطبہ دیا اور معافی کا طریق بتایا لیکن اُس نے نہ تو اس طریق پر عمل کیا جو میں نے خطبہ میں بیان کیا تھا

Page 533

انوار العلوم جلد 25 509 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات اور نہ اس طریق پر عمل کیا جو اس نئے احمدی نے اسے بتایا تھا.اور اخباروں میں شور مچایا جارہا ہے.بے شک وہ اور اس کے ساتھی اخباروں میں جتنا چاہیں شور مچالیں وہ اتنا شور تو نہیں مچاسکتے جتنا1953ء میں جماعت کے خلاف مچایا گیا تھا.مگر جو خدا 1953ء میں میری مدد کے لئے دوڑا ہوا آیا تھا وہ خدا آب بڑھا نہیں ہو گیا کہ وہ 1953ء میں دوڑ سکتا تھا اور اب نہیں دوڑ سکتا.بلکہ وہ اُس وقت بھی دوڑ سکتا تھا اور اب بھی دوڑ سکتا ہے اور قیامت تک دوڑ سکے گا.جب بھی کوئی شخص احمدیت کو کچلنے کے لئے آگے آئے گا میرا خدا دوڑتا ہوا آجائے گا.اور جو شخص احمدیت کو مٹانے کے لئے نیزہ مارنے کی کوشش کرے گامیر اخدا اپنی چھاتی اس کے سامنے کر دے گا.اور تم یہ جانتے ہی ہو کہ میرے خدا کو نیزہ نہیں لگتا.جو شخص میرے خدا کے سینہ میں نیزہ مارنے کی کوشش کرے گا وہ نیزہ الٹ کر خود اس کے اپنے سینہ میں جاگے گا اور جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی وجہ سے محفوظ رہتی چلی جائے گی.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ آپ لوگ اپنے ایمان کو قائم رکھیں.حضرت خلیفۃ المسیح الاول سنایا کرتے تھے جب میں بھوپال میں پڑھا کرتا تھا تو وہاں ایک بزرگ تھے جنہیں میں اکثر ملنے جایا کرتا تھا.نیک آدمی تھے اور مجھے پر انہیں اعتماد تھا.ایک دن کچھ وقفہ کے بعد میں انہیں ملنے کے لئے گیا تو کہنے لگے میاں! تم سے محبت کرتے ہیں.جانتے ہو کیوں محبت کرتے ہیں ؟ ہم اس لئے تم سے محبت کرتے ہیں کہ کبھی کبھی تم آجاتے ہو تو خد اتعالیٰ کی باتیں کر لیتے ہیں.اس کے بعد پھر دنیا کی باتیں شروع ہو جاتی ہیں لیکن تم بھی کچھ عرصہ سے میرے پاس نہیں آئے.تم نے کبھی قصاب کی دُکان دیکھی ہے ؟ میں نے کہا ہاں دیکھی ہے.اُس بزرگ نے کہا تم نے دیکھا نہیں کہ قصاب کچھ دیر گوشت کاٹنے کے بعد دو چھریوں کو آپس میں رگڑ لیتا ہے.پتہ ہے وہ کیوں اس طرح کرتا ہے ؟ وہ اس لئے ایسا کرتا ہے کہ گوشت کاٹتے کاٹتے چُھری پر چربی جم جاتی ہے.اور وہ کند ہو جاتی ہے جب وہ اسے دوسری چُھری سے رگڑتا ہے تو چربی صاف ہو جاتی ہے.اسی طرح جب تم یہاں آتے ہو تو میں تم سے خدا تعالیٰ کی باتیں کرتا ہوں

Page 534

انوار العلوم جلد 25 510 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات اور تم بھی مجھ سے خدا تعالیٰ کی باتیں کرتے ہو.اس طرح وہ چربی جو دنیوی باتوں کی وجہ سے جم جاتی ہے دور ہو جاتی ہے اس لئے ناغہ نہ کیا کرو.یہاں آتے رہا کرو.آپ لوگ بھی اپنے بیوی بچوں کو خدا تعالیٰ کی باتیں سناتے رہا کریں اور اللہ تعالیٰ کی یاد دلاتے رہا کریں تاکہ خدا تعالیٰ ہمارے دلوں میں ہمیشہ ہمیش رہے.اور اس کی محبت ہمارے دل میں اتنی تیز ہو جائے کہ نہ صرف ہم اس کے عاشق ہوں بلکہ وہ بھی ہمارا عاشق ہو.اور یاد رکھو کہ کوئی شخص اپنے محبوب کو تکلیف میں نہیں دیکھ سکتا.اگر تم خد اتعالیٰ کے محبوب ہو جاؤ گے تو خدا تعالیٰ بھی تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.بلکہ ابھی دشمن اپنے گھر سے نہیں نکلا ہو گا کہ تم دیکھو گے کہ خدا تعالیٰ عرش سے بھی نیچے اتر آیا ہے اور وہ خود تمہارے گھروں کا پہرہ دے گا.دیکھو! رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت کی بعض دشمن منصوبہ کر کے ننگی تلواریں لئے کھڑے تھے مگر آپ سامنے سے نکل گئے.بعد میں لوگوں نے ان سے کہا کہ تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو مگر تمہارے سامنے سے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) گزر گئے اور تم سے کچھ نہ ہو سکا.وہ کہنے لگے خدا کی قسم ! وہ ہمیں نظر ہی نہیں آیا.پس اگر خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو گا تو دشمن تمہارے گھر پر آئے گا تو تم اُن کو نظر نہیں آؤ گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو بہت بڑے انسان تھے ہم نے اپنی جماعت میں بھی اس قسم کے نظارے دیکھے ہیں.مولوی عبد الرحمن صاحب کشمیر کے ایک مخلص احمدی تھے.میں نے انہیں مبلغ بنا کر وہاں رکھا ہوا تھا.وہ مسلمانوں میں اثر رکھتے تھے اور ان کی تنظیم کرتے تھے.اس لئے ان پر ریاست جموں کی گورنمنٹ نے بعض الزامات عاید کر دیئے اور کہا کہ فلاں موقع پر جو چوری ہوئی ہے وہ انہی کی وجہ سے ہوئی ہے اور ان کے متعلق وارنٹ فوجداری جاری کر دیئے.ایک دن وہ کشمیر میں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ کسی نے ان کے کان میں کہا کہ باہر پولیس کھڑی ہے.وہ اٹھے اور رومال ڈال کر پولیس کے سامنے سے گزر گئے.میں نے بعد میں کسی سے پوچھا کہ مولوی صاحب کا کیا بنا ہے؟ تو

Page 535

انوار العلوم جلد 25 511 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات دوستوں نے مجھے بتایا کہ وہ پولیس کے سامنے سے گزر گئے اور کسی کو نظر نہیں آئے.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی شان تھی.مولوی عبد الرحمن صاحب صحابی بھی نہیں تھے تابعی تھے ان کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہوا کہ پولیس وارنٹ لے کر کھڑی تھی لیکن وہ سامنے سے گزر گئے اور جب پولیس سے پوچھا گیا کہ تم نے انہیں پکڑا کیوں نہیں؟ تو کہنے لگے ہم نے انہیں دیکھا ہی نہیں.تو جب تک خدا تعالیٰ کے ساتھ ہمارا تعلق رہے گا.خدا تعالیٰ کا تعلق بھی ہمارے ساتھ رہے گا اور اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی غیرت ہمارے لئے دکھاتا رہے گا اور کسی کی مجال نہیں ہوگی کہ ہماری طرف ترچھی آنکھوں سے دیکھے.کیونکہ خدا تعالیٰ کے فرشتے فوراً آگے بڑھیں گے اور ہمارے اور اُس کے درمیان حائل ہو جائیں گے.اور وہ مدد ہمیں حاصل ہو گی جس کو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہ بھی ترستے ہیں.اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور تمہاری مدد کرے.“ الفضل 26، 27 مارچ 1957ء) 1 الصف: 15 2 اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 342 مطبوعہ بیروت لبنان 1997ء السيرة الحلبيه جلد 2 صفحہ 74 مطبوعہ بیروت لبنان 2002ء 4 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 140 مطبوعہ مصر 1936ء 5 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 144 مطبوعہ مصر 1936ء (مفہوم) 6 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 101،100 مطبوعہ مصر 1936ء 7 المائده: 25 8 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 267 مطبوعہ مصر 1936ء ومتی باب 26 آیت 14 تا 16 و آیت 47 تا50 10 النور : 56 11 المائده: 68 12 رسالہ الوصیت روحانی خزائن جلد 20 صفحه 305

Page 536

انوار العلوم جلد 25 512 مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے دوسرے سالانہ اجتماع میں خطابات 13 در ثمین اُردو صفحه 51 مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی مطبوعہ 1962ء 14 بخاری کتاب الادب باب إِكْرَامُ الضَّيْفِ وَ خِدْمَتِهِ (الخ) 15 إِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ (الحج:48) 16 القصص: 79 وو 17 در ثمین اردو صفحہ 42 زیر عنوان ” بشیر احمد ، شریف احمد اور مبارکہ کی آمین“.مرتبہ شیخ محمد اسماعیل پانی پتی.1962ء

Page 537

1- مضامین 2 آیات قرآنیہ -3- احادیث 4 اسماء 5 مقامات 6.کتابیات انڈیکس 3 16 19 20 30 36

Page 538

3 مضامین 176 ابدال ابدال وہی ہیں جو جوانی میں تغیر پیدا کریں احمدی ایک احمدی کی سچائی 84،83 احمدی عقل مند ہوتے ہیں 484 احمدیت کوئی آگے آئے گا میر اخدا اسلام عورت کے حقوق کو دوڑتا ہوا آئے گا 509 تسلیم کرتا ہے احراری ادارے 443 احراری آئندہ بھی ناکام ہونگے مرکزی ادارے جن کے ذمہ 479 | اشاعت اسلام کا کام ہے 297 اخبارات اعتراض ایک اعتراض کا جواب سلسلہ کے اخبارات میں سے ہر ایک ایک خصوصیت رکھتا ہے اللہ تعالیٰ 6 اللہ تعالیٰ کی صفات احمدیت کی حفاظت اللہ کرے گا اخبارات ورسائل خرید نے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ انجان بن 82 237 119 کی تحریک 243.242 جاتا ہے 241 احمدیت غریب اور امیر میں اختلاف اللہ تعالیٰ جماعت کی حفاظت کوئی فرق نہیں کرتی 175 اختلاف پیدا کرنے والوں سے فرماتا ہے 413 احمدیت عیسائیت کیلئے کھلا چیلنج 391 خفیہ میل جول نہ رکھو جو کچھ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے 488 فضل سے ہوتا ہے 501 اسلام احمدیت میں ایک متعصب من اللہ تعالیٰ کی باتیں بیوی بچوں کا داخل ہونا 491 اسلام کا خلاصہ اسلام کا خلاصہ تعلق باللہ اور کو سناتے رہیں 510 احمدیت کی مخالفت اور نصرت شفقت على خلق الله 199 الہی 503،502 اسلام دنیا پر غالب آئے گا 286 احمدیت کو جب بھی کچلنے کیلئے اسلام آدمیوں کا محتاج نہیں 287 امانت فنڈ میں روپیہ جمع کرنے کی تحریک امانت 98

Page 539

4 آن پڑھ بعض دفعہ ان پڑھ کے منہ اور احمدیت کی تاریخ میں ترقی کر رہا ہے دو دفعہ دہرایا گیا 459 پیغامیوں کی مخالفت کے جواب سے بھی بڑے پستہ کی بات نکل جاتی ہے انڈیکس 150 میں انصار اللہ بنی 460 بالشویک قرآن میں دو گروہوں کا نام بالشویک غریبوں کی خدمت انصار الله مولوی محمد علی کی طرف سے جماعت احمدیہ میں دو زمانوں 204 میں دو جماعتوں کا نام انصار اللہ انڈیکس بنانا انصار رکھا گیا انصار کی قربانیاں خدا کو پسند 463 انعامات 460 کرتے ہیں 460 499 175 بچے بچے اپنا وقت ضائع نہ کریں 211 بعض انصار کی تقریریں 467،403 روحانی انعامات کو کوئی شخص بغض انسان کی عقل پر پردہ انصار الله چھینے کی طاقت نہیں رکھتا 63 ڈال دیتا ہے انصار اللہ جماعت کی نمائندگی ایمان بہائی کرتے ہیں 165 ایمان دنیا کے خزانوں سے بڑا بہائیوں کا لغو اعتراض انصار اللہ کا کام جماعت میں ہوتا ہے 93 | بہائیوں کی لامرکزیت 393 78 79 نمازوں، دعاؤں، تعلق باللہ کو ایمان کی حفاظت کیلئے غیرت بہائی یہودیت اور عیسائیت کو قائم رکھنا 165 کی ضرورت 388 کیوں منسوخ قرار نہیں دیتے 79 انصار اجتماع کے ایام میں راتوں ایمان شیشہ سے زیادہ نازک بیت اللہ 388 بیت اللہ کی تقدیس اور اُس کی 169 ایمان خطرات کی پروا نہیں عظمت کا اعتراف کو اُٹھ اُٹھ کر دعا کرتے رہے چیز ہے انصار اللہ کی تاریخ 460،459 کرتا یہ نام قرآنی تاریخ میں دو دفعہ ہمارا ایمان بالقر آن ہر روز 413 یچ 73.72

Page 540

5 بیچ پر بڑی بنیاد ہوتی ہے 209 بیعت تابعی تقویٰ تمام نیکیاں تقویٰ سے پیدا چالیس مومن جس کے ہاتھ صحابہ کے ملنے والے تابعی ہوتی ہیں پر اکٹھے ہوں اس کی بیعت کی کہلائے اجازت 226 تاجر 462 توکل توکل کے معنی 501 پادری ایک پادری کاروم کے بادشاہ کو مشورہ پانی روحانی کتابوں میں پانی سے تاجر معمولی حیثیت سے کام تو کل کا پہلا مقام شروع کرتا ہے 209 توکل کا مفہوم، خدا نے جو تجویز طاقتیں دیں تم دنیا دار سے 416 مقبرہ بہشتی کے قائمقام بیرونی زیادہ استعمال کرو ملکوں میں بنانے کی تجویز 227 تاریخ مراد علم روحانی 259 تاریخ کی دو اقسام پتھر 278 170 170 171 تقدير مسئلہ تقدیر اور قسمت 52،51 تقریر تحریک جدید اصل تقریر وہ ہے جسے آپ انسانی جسم کا پتھر بن جانا ہر باپ بچہ کو تحریک جدید دل میں رکھ لیں 269 270 کی عادت ڈالے 211 پیغامی تحریک جدید میں غیر احمدیوں پیغامیوں کے خلاف اشتہار کا چندہ 212.211 ج جاگیر 192 خدا کی ایک مقدس جاگیر 67 شائع کرنے کیلئے مشکلات 396 تحریک جدید کی لسٹ خلیفہ کو جاگیر دار پیشگوئی پیش کرنے پر ناپسندیدگی 220 لوگوں میں عادت ڈالو کہ خدا روحانی جاگیر داروں کے متعلق سلسلہ احمدیہ کے بارہ میں کے نام پر چندہ دیں 220 221 عالم روحانی کا قانون پیشگوئی 474.473 67

Page 541

6 جامعتہ المبشرین گایا ہوا ہوتا 473 چندہ کا ٹارگٹ 395.394 جماعت میں فتنہ منافقین سے غیر احمدیوں کو چندہ کی تحریک جامعتہ المبشرین اور طلباء کے نئی بیداری سالانہ وظائف جانور 505.504 206 212-211 چندہ بڑھانے کا ایک طریق 218 جمعیت العلماء جانوروں کی الگ الگ خصوصیات جمعیت العلماء انڈونیشیا کے 276 چیفس متعصب لیڈر میں تبدیلی 223 چیفس کے اختیارات جماعت احمدیہ جنگ عظیم جماعت احمدیہ کو خدا نے دنیا کا جنگ عظیم میں اٹلی کا ناپاک ارادہ فاتح بنایا ہے جماعت کی دعاؤں سے امام کی طبیعت اچھی ہو گئی 152 جوانی 169 جوانی کی عمر میں تہجد ، دعا، جماعت اور پینٹیل کمپنی کے ذکر الہی کی طاقت اور مزہ ہوتا پیچھے پڑ جائے 247 ہے جماعت کو موقع ملنا چاہیئے کہ جوانی کے زمانہ میں موت اور て حکومت 489 72 | مختلف حکومتوں کا طریق کار 27 165 وہ انجمن اور تحریک پر زور ڈال عاقبت کا خیال کم ہوتا ہے 165 سکے جماعت احمدیہ لاہور کی طرف سے ایک ریزولیوشن پر ارشاد جماعت احمدیہ کی مشکلات اور نصرت الہی 247 368 397.396 جھوٹ دنیوی حکومتوں کے نظام میں نقائص خ خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ کے سالانہ معائنہ کے نتائج خدام الاحمدیہ لاہور کے کام ایک لڑکے کے جھوٹ کا قصہ کی تعریف چ چنده 505، 506 خدام الاحمدیہ اعلیٰ درجہ کا نمونہ قائم کریں سلسلہ احمدیہ خدا کے ہاتھ کا صدر انجمن اور تحریک جدید کو 54 3 4 165 خدام الاحمدیہ جماعت کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی کرتے ہیں 165

Page 542

7 خدام الاحمدیہ کے معنی خلافت احمدی خادم 175 خلافت کی حفاظت کیلئے خدام خدام الاحمدیہ کی تعریف طوفان کو نصائح 394 خلافت کی وجہ سے رومن کیتھولک کی مضبوطی 476،475 خلافت کی ایک برکت یہودیوں اور سیلاب کے موقع پر 199.176 خلافت کی ایک برکت تبلیغ 395 خلافت ایک مشروط عہد ہے 401 اسلام کا کام خدام الاحمدیہ دنیا کے ہر انسان کے خادم خدام الاحمدیہ کا مطلب، احمدی 176 خلافت ثانیہ کی مشکلات اور سٹینڈرڈ کے مطابق خدمت 176 تائید و نصرت 417،404،403 پر جماعت کار عب خلافت کی برکت ، پنڈت نہرو 477 کا احمدیوں سے ڈرنا 478 خلافت کی وجہ سے ہم اکٹھے رہے 479 خلافت خدا نے اپنے ہاتھ خلافت نام ہے نظام کا 482 493 خلیفہ خلیفہ خدا بناتا ہے 333،313 خدام کو تعلق باللہ میں اعلیٰ برکات خلافت کی گواہی 405 میں رکھی 177 خلافت کی برکات سے اہل مقام کی تلقین قادیان کو حصہ خدام الاحمدیہ نے شاندار 409.408 خدمت خلق کا کام کیا 399 خلافت کی وجہ سے خدا نے خدمت کئی معجزات دکھائے 411 خلافت کی برکات سے ہزاروں خدمت کے ہر وقت مواقع گنالشکر کو شکست 415 ہوتے ہیں 200 خلیفہ زندگی میں آئندہ خلیفہ نامزد کر سکتا ہے ایک خلیفہ کی موجودگی میں 333 خدمت خلق خلافت کی قدر مسلمانوں نے نہ کی خدمت خلق مومن کا ایک خاصہ ہے خط 199 خلافت ڈے منانے کا ارشاد 416 421 <420 دوسرے کا نام لینا خلافِ اسلام ہے خلافت کے قیام کا ذریعہ گمنام خط لکھنے والا مجرم ہے 366 تعلق باللہ 475 دعاؤں کی تلقین دعا 333 87085

Page 543

8 دعا مومن کی حفاظت کا موجب ہے 202 دعائیں مومن کی جان ہیں 201 دعائیں روحانیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہیں دفاتر 500 رخصت زراعت کی طرف خاص توجہ کرنی چاہیئے 255 ماہرین زراعت کا ایک نکتہ 273 بوڑھے ناظر وں کیلئے رخصت بالجبر اور سیر کی اہمیت 153،152 زمیندار رزق زمیندار نکما اور سست ہے 206 جو خدا تعالیٰ کا ہو جاتا ہے احمدی زمینداروں کو نصائح دفاتر کا نظام اور اس کی وہ اسکی روزی کیلئے راستے 2140206 غرض و غایت 23 کھول دیتا ہے دین 500 اٹلی کے ایک زمیندار کا پیداوار رؤیاد کشوف بڑھانے کا طریق 207 208 اشاعت دین کوئی معمولی چیز رویا و کشوف کیسے ہوتے ہیں 209 209 209 زمیندار کو اچھا پیچ تلاش کرنا 421 چاہیئے ریکارڈر مصر کے زمینداروں کی غیر معمولی پیداوار 41.40 زمیندار کو کام کرنے کی عادت ڈالنی چاہیئے 166 } نہیں ڈائری ریکارڈر کی ایجاد دنیا میں ڈائریاں لکھنے کا ایکارڈر کے استعمال میں دقتیں غلط طریق 26 دنیوی اور روحانی ڈائری نویسوں میں امتیاز 26 ڈائری نویسوں کی دھوکا دہی 36 ڈاکٹر یور پین ڈاکٹروں کا حضرت ز زراعت 42.41 زراعت دیکھنے کیلئے بھی انسپکٹر دورہ کریں 250 زمیندار کھاد نہیں ڈالتے 209 زمینداروں کی اصلاح اور ترقی کیلئے صدر انجمن احمدیہ 2510248 کو ہدایات زمینداروں کی مالی حالت اچھی ہو گی تو سلسلہ کی مصلح موعود سے فیس لینے سے سکیم بنائی جائے کہ کس علاقہ انکار 154 میں کیا کیا فصل ہو سکتی ہے 252 مالی حالت اچھی ہو گی 250

Page 544

9 جماعت میں سب سے زیادہ زمیندار ہیں 250 زمینداروں کی حالت سدھارنا انجمن کا کام ہے سفر 251 ہوتا ہے شعور اُس جذبہ کو کہتے ہیں جو صدر انجمن احمدیہ کے اداروں 168 267 کو چلانے کیلئے 40،30 لاکھ اندر سے پیدا ہوتا ہے مختلف قسم کے شہد مختلف جو قوم سفر زیادہ کرتی ہے بیماریوں کا علاج ہیں 264 روپے چندہ ہونا چاہیئے صدر انجمن سارے زمینداروں 168 کو منظم کرے ضرور کامیاب ہوتی ہے 7 آموں کا شہد.دل کی تقویت طریق کار کو بدلے سکہ کا موجب ہے افریقہ کی جماعتوں کے پاس 265 صدر انجمن نظارت تعلیم کے صدر انجمن نظارت زراعت قائم کرے 254 254 254 وہی سکہ ہے جو یورپ میں شہر بسانا ملک کی ترقی کا موجب صدر انجمن گورنمنٹ کے 92 278 گزٹ اور رپورٹیں پڑھے 254 چلتا ہے سکھ سکھ زمینداروں کی تعریف ہے ص صحابی، صحابہ b طاقتیں 212 213 صحابہ کے حالات محفوظ اپنی طاقتوں کو صحیح رنگ میں بعض سکھ چندے دیتے ہیں 213 ہونے چاہئیں 215،214 | استعمال کرو سارے لوہار اور ترکھان سکھ ہیں صحابی کی تعریف 213 صحابی کا حضور سے عشق سیر 460 483.482.4670465 عالم روحانی عالم روحانی کے دفاتر 452 23 ایتھنالوجی کے علم کیلئے دنیا کی صدر انجمن احمدیہ عالم روحانی کے ڈائری نویس 25 سیر کی ضرورت 279 صدر انجمن احمدیہ کا سالانہ عالم روحانی میں ہر مجرم کے ش چندہ دس گیارہ لاکھ روپیہ دس گواه 50

Page 545

عالم روحانی میں مجرموں کے بڑے کام کئے 10 431،430 ایک عورت کا درد انگیز واقعہ فیصلہ کی نقول عالم روحانی کا ایک خوشکن 53،52 عورتوں کا زیور بیچ کر چندہ دینا 251.250 442،405 ایک بہادر عورت کا واقعہ قانون 59،58 عورتوں کا اسلامی جنگوں میں کام 430.429 عالم روحانی کی نہریں 256 427 عورتوں کے جنگ احد میں عالم روحانی کے سب سے اسلام میں عورت کا مقام 427 اخلاص کے واقعات 439 تا441 الله سة بڑے سمندر حضور علی تیم 281 عورتوں کی بہادری 428،427 عبادت گاہ مسلمان عورتوں کی قربانیاں 76 4460432 444.443 بھیرہ کی عورت کی بہادری ایک عورت کی حُسن تربیت کا واقعہ 445.444 عرائض نویس حضور کی امداد پہلے عورت نے کی ایک عورت کی غیرت ایمانی عبادت گاہوں کا احترام ایک عرائض نویس کا لطیفہ 28 علم معیشت قربانی 434.433 مسجد برلن میں عورتوں کی 450.442 علم معیشت سیکھنا چاہیے 277 عورتوں نے ہمیشہ قربانیاں عورت.عورتیں کیں 443 عورتوں نے مذہب کی عورتوں کو مسجد ہالینڈ کے چندہ کی تحریک عورتوں کے جلسہ گاہ کے 205 خدمت کی عورتوں کا مردوں کو قربانی 443 448.447 ایک عورت کی بچے سے پیار کی کہانی 451.450 452 قادیان کی ایک عورت کی غیرت ایمانی سکھ عورت کی مذہب کیلئے غیرت 453 قیدی عورت کا واقعہ 454،453 عہد متعلق ہدایت 2360233 عور تیں اتنا گلا پھاڑتی ہیں کہ مرد شر مندہ ہوتے ہیں 234 پر آمادہ کرنا 4480446 عورتوں کے چندہ سے تین مساجد تعمیر 450 بچوں کو ایک عہد کی تلقین 186 عورتوں کے واقعات خالی عہد کوئی حقیقت نہیں رکھتا عورتوں نے اسلام سے قبل 389

Page 546

11 عہدے اعلیٰ قابلیتوں کے لوگ عہدوں غ غریب روسی ترجمه قرآن جلد شائع کیا جائے قرآن کے آخری پارہ کی پر قائم ہونے چاہئیں 226 جماعت کے انتہائی غریب تفسیر چھپ رہی ہے چندہ دیتے ہیں 472 قرآن مجید کا گورمکھی اور ہندی عیسائی عیسائیوں نے یہودیوں کو فلسطین سے نکالا.اب وہی ف میں ترجمہ 228 244 2470245 قرآن کریم کے ذریعہ ہزا رہا علمی نہروں کا اجراء 260 356 قرآن کریم نے دنیوی علوم فتنہ منافقین 1914ء کی تاریخ بھی پھیلائے انہیں واپس لائے 167،166 فتنہ کی حکمت عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا مشکل کام ہے 167 ایک عیسائی محقق کا قرآنی معلومات کا اعتراف ایک عیسائی کا اعتراض 262 443 عیسائیوں نے مسیح کی خلافت کو دو ہزار سال سے قائم رکھا 469.468 ہر عیسائی سال میں ایک ایک آنہ چندہ دیتا ہے عیسائی خلافت نے 52 لاکھ مبلغ تیار کیا ہوا ہے عیسائیت 487 496 308 309 قرآن کی چھوٹی سی آیت 261 فتنہ منافقین کے بارہ میں خواہیں علم طب کا عظیم الشان باب 265 فیصلہ 414 قرآن میں علم معانی ہے 266 قرآن سمجھنے کا ایک طریق فیصلہ کی نقل دینے کا فائدہ 53 اپنے نفس پر غور نیک لوگوں کو بھی فیصلہ کی قرآن میں تمام ضروری نقلیں دی جائیں گی 54 مطالب اور مضامین بیان ق کر دیے گئے قرآن کی رو سے سات سومن قدرت ثانیہ فی ایکٹر پیداوار 267 267 269 قدرت ثانیہ خلافت اور نظام قرآن میں فلسفہ بھی ہے 270 کا نام ہے 494 علم توافق بین المخلوقات کی مسیح علیہ السلام کی موت قدرت ثانیہ دائمی ہو گی 94 طرف بھی قرآن نے توجہ سے ساری عیسائیت مرگئی 479 قرآن کریم دلائی 274

Page 547

12 علم نباتات کی طرف بھی کسب بھی ایک ضروری چیز ہے لٹریچر سلسلہ کی کتابیں خرید و 274 500 اور ان کو پڑھو قرآن نے توجہ دلائی جس قدر دنیوی علوم ہیں اُن کا کھاو ماخذ قرآن ہے 280 کھاد ڈالنے کا اصول 217 249 قرآن کریم نے ان تمام علوم سائنسدانوں کا تجربہ ہے کہ کی طرف اشارہ کیا جو دنیا جانور کی کھاد چھ سال تک میں جاری ہیں 280 اثر کرتی ہے جس نے قرآن پر عمل کیا 250 250 مبلغ دو کروڑ مبلغوں کی ضرورت 476 یورپ والے ہمارے مبلغوں کا بڑا اعزاز کرتے ہیں ہمارے مبلغوں نے تمام ممالک میں ہندوستان کے 477 نباتاتی کھاد کا طریق اللہ کی مدداُس کے شامل حال نباتاتی کھاد تین فصلوں تک رہی قربانی 499 اثر کرتی ہے کہانی قربانی کی برکات 97 ایک بادشاہ کی کہانی قوم کیپیٹلسٹ 250 476 خلاف پروپیگنڈہ کیا 478 دنیا میں ہر جگہ مبلغ ہونگے 396 مجرم مجرموں کے خلاف ان کے قوم کی ترقی کیلئے دو چیزوں کیپٹلسٹ امیروں کی خدمت کانوں اور آنکھوں اور جلد کی ضرورت 7 کرتے ہیں قوموں کی زندگی کا عرصہ ل ہزاروں سال تک جاتا ہے 167 قیامتیں لٹریچر 175 قیامتیں کئی قسم کی ہوتی ہیں 167 سلسلہ کا لٹریچر پڑھنے کی تلقین 186 کی شہادت محبت الہی دعائیں کرنے سے محبت الہی بڑھتی ہے مخلص لٹریچر یورپ اور امریکہ میں مخلص اور پار سا لو گوں کو 40 500 تبلیغ کا ذریعہ ہے 202 ایک خدشہ 57 52

Page 548

13 مرکز مضبوط مرکز کے فوائد مصائب 229 منافقین کی سازش کے متعلق تازه پیغامات 325 مورخین یورپین مؤرخین کی تعصب آلود منافقین کی سکیم اور شہادتیں 3380332 مصائب میں تائیدات کا نسخہ 499 منافقین کا میاں بشیر احمد کو معجزات معجزات قیامت تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گے مفسد 96 ذہنیت مومن 76 قتل کرنے کی کوشش 335 مومن تسابق اختیار کرتے ہیں 4 منافقوں کے بارہ میں اہم راز اعلیٰ درجہ کے مومنوں کی بدیاں ظاہر ہوئے 338 نیکیوں میں بدل جائیں گی 59 | منافقوں میں سے کوئی آدمی ہر مومن ایک چٹان ہو تا ہے الفضل کے عملہ میں ہے 372 مفسدوں نے کام شروع کر دیا منافقوں سے علیحدگی میں مومن رسول کریم کی نہر کا 317 ملنے کی ممانعت 387 پھل ہے مقبرہ پیشتی ایک منافق کا خلیفہ کوفتہ پر مومن کو ربوہ آنے کی مقبرہ بہشتی کے قائمقام الزام بیرونی ملکوں میں بنانے کی تجویز 227 ملائکہ منافقت کی جڑ کو کاٹناضروری ہے منافقین نے جماعت میں فتنہ ملائکہ کی ضرورت 48 پیدا کیا منافق 414 388 کوشش کرنی چاہیئے مومن مصائب اور آفات سے نہیں ڈرتے ن نجات 503 منافقین کی سکیم فیل ہو گئی 503 منافق پیغامیوں کے ایجنٹ ہیں منطق 311 منطق اس کو کہتے ہیں کہ منافقوں کی مزید پردہ دری دلیل کے ساتھ ثابت کیا جائے 324 325 کہ کونسی بات معقول ہے 271 259 282 287 502 نجات کا ایک ذریعہ 237 تا 242 جامع نصائح نصائح 289287.175.174

Page 549

14 نظارت اعلیٰ اور تحریک جدید کے نظام کو جسمانی اور روحانی علوم نہروں نظارت اعلیٰ کا فرض نظار توں ٹھیک کرنے کی تجویز 225 سے مشابہت رکھتے ہیں 258،257 کو چیک کرنا چیونٹیوں اور شہد کی مکھیوں علم کائنات کی شہر 260 20 نظارت تعلیم میں بھی نظام 275 علم جغرافیہ کی نہر 262،261 جبر کا نظام کامیابی حاصل نہیں علم جہاز رانی کی نہر نظارت تعلیم کو ضروری کر سکتا ہدایات 2550253 نوجوان 299 علم طب کی نہر علم ہندسہ کی نہر نظارت تعلیم کا انسپکٹر چیک علم ادب کی شہر قومیں نوجوانوں کی دینی زندگی کرے کہ جماعت کا ہر لڑکا علم معانی کی نہر پڑھ رہا ہے نظارت تعلیم طلباء کو کتب 253 کے ساتھ قائم رہتی ہیں 167 علم النفس کی نہر پہلوں سے زیادہ جوشیلے نوجوان علم بیان کی نہر اور فیس دے 253 254 پیدا کر نا تمہارا کام ہے اکرنا نور 167 علم کیمیا کی نہر علم فلسفہ کی نہر محمدی نور کو دنیا میں پھیلاتے علم منطق کی نہر نظارت زراعت نظارت زراعت کو ہدایات 248 جاؤ نظارت زراعت بنانے کی تلقین 248 نوکریاں 263 265.264 265 265 266 267 267 267 270 270 167 موازنہ مذاہب کی نہر 271 علم نباتات کی نہر 272 273 علم حیوانات کی شہر 274 نظارت زراعت کا قیام احمدیوں کو نوکریاں ملنے کی وجہ علم توافق بین المخلوقات کی نہر 2530251 210 نظام نہریں علم معیشت کی نہر 274 277 ہمارے نظام میں کچھ کمزوریاں دنیوی نہروں کے فوائد 256 علم الاقتصاد کی نہر 277 278 278،277 ہیں 225 دینی علوم اور معارف پبلک دباؤ کے ذریعہ انجمن روحانی نہریں ہیں علم شہریت کی شہر علم تاریخ کی نہر 278 278 256

Page 550

166 166 166 15 علم بدء عالم کی نہر 279 280 والدین کی ذمہ داریاں 211 ہمدردی دو ہزار سال بعد علم موسمیات کی شہر 280 | دوستوں کو وقف کی طرف ہوئی علم دینیہ کی شہر 280 توجہ کرنی چاہیئے 225 226 یہود کا دنیوی نفوذ بہت کم دنیوی اور روحانی نہروں میں فرق 2840281 محمدی نہر کوثر کی شکل میں 285-284 اسلام اور کفر کی نہریں متوازی واپسی کی پیشگوئی 78 عرصہ میں ہو گیا یہود کے سب سے زیادہ خیر خواہ امریکہ اور انگلینڈ یہود یہود کی فلسطین میں دوبارہ ہیں چلتی چلی جائیں گی 286،285 یہود فلسطین سے نکالے جائیں گے والدین یہود کی تباہی کی پیشگوئی 81.80 81 یہود کو دوسری قوموں کی

Page 551

323 257 16 البقرة النساء آیات قرآنیہ اِنْ كُنْتُمْ فِي رَيْبٍ (24) وَانْزَلَ اللهُ عَلَيْكَ الْكِتب إِنَّمَا مَثَلُ الْحَياةِ الدُّنْيَا (25) 270 (114) 266 ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُمْ (75) المائدة وَإِذا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا (171) (25) 256 فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ الَّا إِنَّهُمْ يَثْنُونَ (6) 47 467 هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوت 271 وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (8) 258 لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ (199) (68) 482 | ذُلِكَ مِنْ أَنْبَاءِ الْقُرِى 277 | الانعام (101) 278 263 274 261 يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنْفِقُون (220) سِيرُوا فِي الْأَرْضِ (12) 277 مَثَلُ الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ (262) يَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعاً آل عمران يَأْهْلَ الْكِتَبِ لِمَ تُحَاجُّونَ (24.23) 267 ابره 323 وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ (33) 39 | الحجر وَ مَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَ الْأَرْضَ مَدَدْنُهَا (20) (39) 274 اِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَتٍ (78-76) (66) 272 | الاعراف اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 242 | النحل وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ 260 (13) (156) 67 (98.97) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا یونس (119) 385 هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَ ضيا (6) الْأَرْض (191) 260 | فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ (17) 265 يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ 264 (70)

Page 552

17 نَزَّلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَاب وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزُّبُور فِطْرَةَ اللهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسِ 177 (31) 73 سبا (106) 267 النور (90) وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّهُمْ (104) بنی اسرائیل 265 يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ (19) 278 (25) 44 | يسين فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أَوْلَهُمَا (6،7) وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُمْ 276 (7472) 482 <401 (56) 73 حم السجدة 73 - يُبَدِّلُ اللهُ سَيِّاتِهِمْ (71) اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ (98) الفرقان وَ كُلَّ شَيْءٍ فَصَّلْنَهُ (13) 267 | الشعراء وَقَالُوا ءَ إِذَا كُنَّا عِظَامًا (52 t 50) 60 الصلحت (9) حَتَّى إِذَا مَا جَاءُوهَا شَهِدَ ان حِسَابُهُمْ (114) 267 - عَلَيْهِمْ (21) 269 وَسَيَعْلَمُ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا و قَالُوا لِجُلُودِهِمْ لِمَ شَهِدتُّمْ فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَة (105) | (228) الكهف الْمَالُ وَالْبَنُونَ زِينَة 78 القصص (22) 370 الشورى وَ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَرْيَةٍ وَمِنْ أَيْتِهِ الْجَوَار (34،33) (59) الْحَياةِ الدُّنْيَا (47) 282 إِنَّمَا أُوتِيتُهُ عَلَى عِلْمٍ وَوُضِعَ الكتب (50) 49 (79) الانبياء العنكبوت 262 الجاثية 501 وَ فِي خَلْقِكُمْ (5) 67 40 57 263 274 أوَلَمْ يَرَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا (31) قُلْ سِيْرُوا فِي الْأَرْضِ مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي (16) (21) 279 279 وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ عَادًا وَ ثَمُودا (39) 261 | الحجرات حي (31) 258 | الروم 284 إن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ (7) 361

Page 553

18 الخريت الجمعة وَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوة وَاِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَفِظِيْن (50) الرحمن (11) 272 التغابن (11 تا 13) 277 | الطارق وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الرَّج الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ (76) 265 يَوْمَ يَجْمَعُكُمْ لِيَوْمِ الْجَمْعِ (12 تا 15) 25 280 مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ (20) 286 (10) 58 الأعلى بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ (21) 285 الحاقة إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ (8) 46 فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ وَ أَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَمِيْنِهِ الضُّحى (22) 286 (21.20) 54 للْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ (5) المجادله وَ أَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِشَمَالِهِ 289 يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّهُ جَمِيعاً (26 تا 28) 53 | الفيل (7) 48 الدهر أَلَمْ تَرَ كَيْفَ (23) 72 الحشر إِنَّ اللَّهَ خَبِرٌ بِمَا تَعْمَلُون (12) 237 يَشْرَبُونَ مِنْ كَأْسٍ (6) يُسْقُوْنَ فِيْهَا كَأْسًا (18) (2 تا 4) الكوثر 284 إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الكوثر 285 الصف يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا انصار الله (15) 459 الانفطار 284

Page 554

19 احادیث 45 ایک شخص بیوی سے محبت خدا کو تمہاری ادا پسند آئی 173 میرے مذہب میں کالے عائشہ تجھے معلوم نہیں 436 میری اونٹنی وہاں کھڑی ہو گی اَوَّلُ طَعَامِ يَأكله 284 س کرتا ہے اللہ تعالیٰ ہنس پڑے گا 62 رکھتا ہے 392 آدھا دین عائشہ سے سیکھو 427 سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ 175 گورے کی تمیز نہیں 191 ل اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فیصلہ کرے گا 239 لَوْ كَانَ مُوسَى وَعِيسَى 461 شیطان اس طرح انسان کے ساتھ ہے 239 آئے مَثَلُ مَا بَعَثَنِي الله 258 میں تمہاری طرح کا انسان ہوں هُوَ نَّهْرٌ D 285 مجھے مشورہ دو سارے نبی فتنہ کی خبر دیتے 464 466 469 273 مہمان نوازی تین دن 500 سارا مال غریبوں کو دینا اچھا نہیں مہمان نوازی ردمت کرو 500 احادیث بالمعنی آدم سے لے کر آخر تک اگر کوئی کسی بدی کا خیال مہدی کی خبر 278 343

Page 555

20 20 اسماء 337،281،272،192، اروڑے خان، حضرت منشی آدم علیہ السلام، حضرت 402،389،359 تا 404 ، اُنکا ایمان افروز واقعہ 217،216 481.398.343.189 436،427،416،415، ارون ، لارڈ 264 ابرهه 499 اسحق شاہ 316،211،133، اس کے لشکر کی تباہی 71 آپ کی خلافت اڑھائی سال 351 ابراہیم علیہ السلام، حضرت 415 اسد اللہ خان، چودھری 431.272.186.72 ابو جہل 350،282،57، 5 آپ کی بتوں سے نفرت 499 اسمعیل علیہ السلام، حضرت 72 187،85،84 | ابو حنیفہ، حضرت امام 432.431 حضرت اسماعیل کو جنگل میں آپ کا قاضی القضاۃ بننے سے اسمعیل، شهید چھوڑنا اور واپسی پر رقت 432 انکار 55 اعظم حافظ 5 307.304 ابراهیم ادهم 283 ابوسفیان،حضرت 446،445 | افضل حق چودھری ابن تیمیہ، حضرت امام 281 ابو عبیدہ، حضرت 403 صدر جماعت احرار ابن عباس، حضرت 392 ابو العطا، حضرت مولانا احسن احمد ، مرزا 365.217 اجمل خاں حکیم 473 اکبر ، بادشاہ (ابن مرزا محمد انور ) 139 اللہ رکھا 305،304،303، اکبر علی میاں بابو 362 270 93 ابوالکلام آزاد ان کی الفضل سے محبت 10 احمد بھائی ابوالہاشم خان ابو ایوب انصاری، حضرت 465.464 ابو بکر، حضرت 172،171، احمد جان چودھری 340 احمد ید اللہ اختر صاحب 112،21،20، 225.190.189.139 320.312.311.307 103 324-323-322-321 226 331-327-326-325 218 339.334.333.332 363.350.349.347

Page 556

21 484.414.413.412 اللہ رکھا مدراسی 102 361،360،351،339، آتی ہے 447.446 448،378،373 جنید بغدادی، حضرت 65،63، الہ دین حکیم 480،479 بشیر احمد شیخ، حضرت ایڈووکیٹ الہی بخش، کرنل 150،100 امری عبیدی 362، 373 بجے چند ، ڈاکٹر.اُس پر ایسا 493 بشیر احمد.فتنہ منافقین میں اعتبار کرتا ہوں جیسے اپنے 470 آپ پر 281 246 ام طاہر ، حضرت سیدہ 442 ملوث ایک شخص ام ہانی، حضرت.مخالفت کے بشیر رازی وقت حضور کو پناہ دینا 437 بہاؤالدین نقشبندی امیر احمد قدوائی بہاول شاہ امیر محمد 374 117 پوری مسٹر انور احمد ، صاحبزادہ مرزا 139 پیسٹیور انور حسین چودھری اور تنگ زیب ایم شاہ صاحب 373 270 124 375.373 281 317 حبیب الرحمن، احراری مولوی حسن، حضرت امام حسین، حضرت امام 362 365 420 268 147.146 حشمت اللہ ، ڈاکٹر 124،100 حمزہ، حضرت تنویر ، روشن دین.ایڈیٹر الفضل حمید ڈاڈھا حوا، حضرت 445 335.332 398 370 خ بختیار کاکی، حضرت خواجہ 283 ٹائٹس 78 بدالدین حصنی.ان کے خان، ڈاکٹر.وزیر اعلیٰ جماعتی خدمات کا اعتراف 200 201 اخلاص کی تعریف 130 بشارت احمد چودھری 335،332 ثناء اللہ امرتسری 452،451 بشیر احمد ، حضرت مرزا 111 مجرجی زیدان で 262 311،303،152،129، جلال الدین شمس، حضرت مولانا 333،325،316تا335، اُن کے واقعات سن کر رقت خدا بخش مرزا 343 خدیجہ، حضرت ام المؤمنین.آپ کا ساری دولت حضور کو دینا 4350433 سب سے پہلے ایمان لانا 436

Page 557

22 153،151،148 | شریف احمد ، حضرت مرزا 346 ، بعثت کے وقت حضور کو تسلی 435 436 روم، مولانا خلیل احمد ناصر، مبلغ سلسلہ 221 ز 4296-295-226-223 خلیل الرحمٰن ڈپٹی 118 282.129 506 شہاب الدین سہروردی 281 363،361،328 شاہ نواز ، ڈاکٹر.اُن کا زید، حضرت س 436 ایک خط 337-335 246 خورشید احمد منیر مولوی 307،304 خولہ، حضرت.ان کی بہادری سارہ، حضرت داتا گنج بخش، حضرت 427 سائمنڈ، چارلس 431 شمٹ ، ڈاکٹر 148 صدر الدین، مولوی 308 سعد بن ابی وقاص.حضرت.283 ان کی ران میں پھوڑا 428 | 323.321.317.312 471.410.374 داؤد علیہ السلام، حضرت 75 ، سعد بن عبادہ، حضرت 375 صفیہ، حضرت.آپ 77، 80 سعد بن معاذ، حضرت 441 کی بہادری درود صاحب، حضرت مولانا سکار نو، صدر انڈونیشیا.صلاح الدین ملک 204، 214 ان کی انڈیکس والے قرآن عبد الرحیم) 439.438 214 درد، حضرت خواجہ میر 283 کی خواہش دولت احمد خاں 118،117 سکندر مرزا دولتانہ راک فیلر راما صاحب رسل برین، ڈاکٹر 204 | ضرار، حضرت 421 249 سلطان احمد ، حضرت مرزا 50 طاہر احمد سلیم چشتی، حضرت خواجہ 283 427 b 376 b 209 سید احمد بریلوی ، حضرت 5 ، 283 | ظہور احمد باجوہ، چودھری.226 سید احمد سرہندی، حضرت 283 حضرت مصلح موعود کے 148 ش ریمارکس ان کے بارہ میں 186 رفیع احمد ، مرزا.بہائیوں کے شاہ جہاں ، ڈھاکہ کا ایک ظہور القمر 321،312،311، رڈ میں ان کا رسالہ 217 218 احمدی روسیوڈاکٹر 147،145، شبلی 117 281.66*63 ع 322

Page 558

23 عائشہ ، حضرت ام المؤمنین.نہایت ذہین اور ہوشیار نوجوان محمد اسمعیل 252،248 | عبد الواحد، مولوی 427 عبد السلام میاں 361،342، انڈونیشین مبلغ آپ نے پردہ میں رہ کر دین سیکھا حضور کی حضرت خدیجہ سے محبت سے چڑنا 436 | عبد العزيز 473.470.362 472.21 411409 عبد القادر جیلانی، حضرت سید عابد علی میر 3500347 218 عبد الواسع عمر 339 تا 341 عبد الوہاب عمر 306،304 عارف الزمان میجر 374 عبدالحق، حضرت مرزا 351 عبد القادر سر عبد الحی ابن حضرت خلیفہ اول عبد الرحمن ٹین ابی بکر ، ایک عبد القدوس،ڈاکٹر عبد اللطيف 318.316.313.311 282.57 341.331.330*326 135 +362 360.351.346 341 473.414.380.379 138 340.313 عبد اللطیف چودھری 376، 377 عثمان، حضرت خلیفہ چہارم مخلص صحابی عبد اللہ بن ابی سلول 109، 337.336 334.110 326.325.319.281 415.389.337.336 عبد الرحمن خادم ملک 322 375-373-360+358 عبد الرحمٰن، سیٹھ 376 102 عبد اللہ خان چودھری 133 آپ کے وقت میں ذرا سی غفلت عبد المطلب 71،70 نے اتحاد اسلام برباد کیا 318 عبد المنان عمر میاں 229، 321، آپ کا باغیوں کو سمجھانا 416 351،340،334،331، عزیز الرحمٰن ملک عبد الرحمن، مولوی 511،510 368،3647358 تا 371، عزیز الرحمن مولوی، عبد الرحمن مصری، شیخ 471 390،389،374،373 ، ان کا واقعہ عبدالرحیم خلیفہ عبد الرحیم احمد میاں 322 508،506،473،470 عطاء اللہ میاں 375 508 363 331 عبد المنان مولوی کے متعلق علی، حضرت 281،186، عبد الرحیم نیر ، حضرت مولوی اخراج از جماعت احمدیہ عبد الرزاق شاہ صاحب 329 کا اعلان 3800378 عبد المنان پسر مولوی 364.359.336.326 417.416.389.365 436

Page 559

24 آپ کا حضور کی مدد کا عہد 187، غزالی، امام 283،281 مختصر ملاقاتیں نہیں ہوتی تھیں 188 غلام احمد قادیانی، حضرت مرزا، آپ سے بارہ امام پیدا ہوئے 188 مسیح موعود علیہ السلام 50،11، آپ کی خواہش، ریویو کی | 191 202 علی محمد اجمیری 322،304، 138،117،108،102، اشاعت دس ہزار 186،185،183،170، اولاد کیلئے آپ کی دعائیں 344، 373.360.359.358 375 216.215.199.198 406.345 226،217، 245، 246 ، مسیح ناصری پر فضیلت 469 عمره حضرت 336،281،272، 390.389.365.359 416.415.403.402 428 275، 283،281،276، آپ کی عظمت کا اعتراف 480 308،307،295،288، آپ کا مشن غلبہ اسلام 494 327،315،314،313، آپ نے دنیا کو معرفت کے 340،336،330،329 تا | نکات دیئے 343، 353،348،346، قرآن کے بارہ میں آپ کا آپ کے روادارانہ سلوک کا نمونہ عمر دین سم شملوی 77 362 عیسیٰ علیہ السلام، حضرت 72،19، 355، 387،386،367، ایک نکتہ 395،394،391،389، قرآنی حقائق سیکھانے کیلئے 419،410،405،400 تا آپ نے ہمارے اندر نئی 460،452،422 تا462، روح پھونکی 496 498 499 479،475،473،471، آپ کے نزدیک کوئی آیت 491،485،481تا495، منسوخ نہیں 507،501،498،497، غلام احمد بشیر مولوی 499 135 508 غلام حسین چوہدری 478 259.167.166.75 $289.288.282.272.455.450.449.363 469*467.462*459 490.483.480.479 498496،492،491 آپ کے الہامات و پیشگوئیاں غلام رسول 35 332،304 375-373-370-335 غلام فرید، حضرت ملک 204 334.329.314.246 407.343 آپ کے زمانہ میں تقریریں 421 آپ کی خلافت 1900 سال سے قائم ہے

Page 560

25 غلام غوث جمونی 373 لیکھرام 391،387،386 اشاعت دین 23 سال کے | غلام محمد ڈاکٹر ف 471 عرصہ میں ہو گئی 166 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضور کے تو کل کا طریق 170 فتح دین منشی 312 حضرت خاتم الانبیاء 8، 45، 47، آپ کا عرشہ پر بیٹھ کر دعا کرنا 170 171 171 171 فرید الدین شکر گنج فضل احمد چودھری فضل دین حکیم فضل علی غنی فلوگل، ڈاکٹر 154،153 فیض الرحمن فیضی 375 تا 377 ق قارون ک 96.82.81.70.60.57 283 305.135.126.125.113 479 175.173.167.140 374 239.192.191.185 $266.265.260.259 289.288.286 282 319.318.315.310 109،108،97، 110، صحابہ آپ کے لئے پیرہ دیتے تھے ایک دشمن کا حضور کو قتل کرنے کا ارادہ غارِ ثور میں حضرت ابو بکر کو تسلی دینا 501.251 357،343،334،323، نبوت کے بعد آپ کی 367،363،361،359، دعوت 188.187 کرائن بل ، ڈاکٹر 148،147 395،392،391،389، آپ نے آٹھ سال میں سارا 422،415،403،402، عرب فتح کر لیا کرشن علیہ السلام، حضرت 449.433.431.430 کمال الدین، خواجہ.اُن کا 192 427 428، 441،440، آپ کی مشابہت بارش سے 258 273 278 281 غیر احمدیوں سے چندہ لینا 455،449447،445، آپ کا ایک مشورہ <463.462.461.459.469.467.465.464 212.211.482.477.474.473.501.500.497.495 76 511.510 مال خرچ کرنے کے بارہ میں ہدایت عالم روحانی کے سب سے بڑے سمندر آپ کی نہر کا پھل قیامت تک 282 حضور کے زمانہ میں 37 حين لاجیت لالہ

Page 561

320 483 26 آپ نے قانون کو اپنے ہاتھوں جماعت دی میں لینے سے روکا 350 محمد احمد مظہر.شیخ 374 محمد ظفر اللہ خان سر حضرت 92 135133.131129 219 225 210.193.140 317.316.314.287 آپ کا اسوہ سب سے محمد احمد ، میاں 363 محمد اسحق، حضرت میر 185 مقدم ہے آپ دنیا میں سب سے زیادہ 406.363.327 مظلوم ہیں 422 محمد اسماعیل، حضرت میر 185 352 353 368،354 آپ کا اسمعیل کی نسل سے محمد اسمعیل، مولوی ہونا 349 477.406.372 432 محمد اسمعیل ( غزنوی) 470 چودھری صاحب کی خدمات آپ کی خدیجہ سے شادی 433، محمد اقبال.سر ڈاکٹر 128 کو خدا بغیر معاوضہ کے نہ غار حراء میں عبادت 434 محمد اقبال شاہ 355 چھوڑے گا352،134،133 435 محمد حسین چیمہ ایڈووکیٹ 379 ناظروں کیلئے آپ کی تجویز 152 حضرت خدیجہ کی بعثت کے محمد حیات تاثیر ، مرزا 332، آپ کو دین کی خدمت کا وقت آپ کو تسلی 435 آپ پر ایمان لانے والے 436 محمد خان 359،358،335 | عشق ہے 216.215 22 آپ کی شاندار خدمات 352 آپ کا حضرت خدیجہ کو محمد دین نواب 305،252 محمد عالم بابو وفات کے بعد یاد کرنا 437،436 محمد سعید 93 4 محمد عبد اللہ خان چودھری 355 جنگ احزاب میں عورتوں محمد شریف اشرف 312 محمد علی مولوی 309،308 کا خیال 438 محمد شریف چودھری 332 جنگ احد میں زخمی ہونا 439 محمد شریف ڈپٹی +362.359.358.338.474.471.410.404 507 484 مدینہ میں استقبال 463 464 محمد صادق مفتی حضرت 216 397 407 414 محمد عمر حکیم محمد ممتاز دولتانه محمد یعقوب مولوی محمد صالح نور صحابہ نے آپ کی ہر موقع پر 359.358 حفاظت کی 482 محمد صدیق شاہد ، مولوی 303 تا آپ کو خدا نے صحابہ کی 312.311.307.305

Page 562

27 محمد یوسف قاضی 307،304 روایات آپ کا غرباء کی ہمدردی کا میاں محمد لائل پوری 312، حضرت مسیح موعود علیہ السلام جذبہ 418،372،323،321 کے بارہ میں آپ کی روایات آپ کا مطالعہ 251.250 محمود، کرنل 320.304 400،355،276،191، غلبہ اسلام کی تڑپ 275 287 محمود احمد حضرت مرزا بشیر الدین 499.481.480 آپ کی میاں عبد الوہاب سے مصلح موعود 264.31 اسفار سفر انگلستان سفر یورپ سفر حج کا ایک واقعہ 37،36 503.502 مصر کا سفر 209 مرکز احمدیت قادیان کی پیغامات مضبوطی کا فکر عمومی پیغامات 91 تا 141 فتنہ منافقین کے بارہ میں میں روایت 185 حضرت خلیفہ اول کے بارہ چشم پوشی سیرت چالیس ہزار کی زمین دینا 342 443 بیماری میں تو کل اور یقین 162 328 آپ کا صدرانجمن کو ایک لاکھ تحریک جدید میں آپ کا چنده سلسلہ کو چندہ 396 405 103 بیوی بچوں سے تعلق 104 آپ کی مصروفیات 401،400 جماعت سے محبت اور تعریف آپ کا اپنی ذات پر کم خرچ کرنا آپ کے پیغامات 303 تا 380 خواہیں، الہامات، کشوف 115، 309.139.133.128 412.408.357*355 107*105 407 مسلمانوں کیلئے جذبات گھر میں خرچ کا طریق 408 113،112 ہر عید پر خلیفہ اول کی طرف 414، 505 رمضان میں پندرہ سولہ سے قربانی آپ کی دعائیں 112 113 ، پارے قرآن کی تلاوت 199 ایک غریب کی دعوت قبول 186،177، 398،189 آپ کی فراست 212 213 کرنا ایک آیت کی تلاوت سے دورہ جات سندھ کے دورہ جات 214 آپ کا دل کانپ گیا 238 گفتگو ایک یہودی سے گفتگو 468 472 8.7

Page 563

28 ایک پادری سے گفتگو 272 آپ کی سندھ میں زمینیں 209 مریم علیہ السلام، حضرت 449 ایک کرنل سے گفتگو 413،412 آپ کا ایک تجربہ 275 276 | مریم صدیقہ حضرت سیدہ 324 مسعود احمد سید حضرت خلیفہ اول کا آپ کو مقام 119 جو بھی میرے خلاف اُٹھتا ہے وہ سزا پائے گا میں خلیفہ ہی نہیں پسر موعود بھی ہوں ملاقاتیں 338 خلیفہ نامز د کرنا 33 مسیلمہ کذاب 363 334 مشتاق احمد باجوہ، چودھری آپ کا مسیح موعود کی مجالس میں جانا 400 خلافت کی ابتداء 404،403 478.248.112 مصباح الدین، مولوی 378.377 قادیان سے ہجرت 406 | مطیع الرحمن، صوفی 214،204 کارنامے آپ کی چیف انجینئر سے ذیلی تنظیمیں آپ کا کارنامہ ملاقات 31تا34 معاویہ، حضرت 416،365، 474 475 آپ کی نماز ضائع ہونے کا 1956 میں فتنہ منافقین کا پنجاب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر سے ملاقات 269.268 واقعہ مقابلہ سب سے بڑا کارنامہ 503 معراج الدین، سید واقعات 417 61.60 93 معین الدین چشتی 283،281 منظور احمد مرزا 376 انگریز پروفیسر سے ملاقات 271 تائید و نصرت کے واقعات منظور محمد، حضرت پیر 307 متفرقات 93 تا 95 منور احمد ، مرزا ڈاکٹر 122 آپ پر فالج کا حملہ 91 بچپن کے واقعات 453،276 ڈاکٹر فلوگل نے آپ سے بیان کردہ واقعات، قصے ، منير الحصنى فیس نہ لی اہل قادیان کے لئے 154.148.131.130 131.130 154 لطائف 502،241، 506 | موسیٰ علیہ السلام، حضرت محمود احمد ،سید ( حضرت مصلح موعود دعا کی تحریک 190 کے ماموں زاد بھائی) 147 جامع دعاؤں کی تحریک 286 تا مختار احمد حافظ، حضرت 289 307.304 310.80.77.76.75 461.363 433 32 میکسیلین

Page 564

میلکم هیلی سر 30 483.482 29 313،307،306،198، آپ کا جوتیوں میں بیٹھنا 329.327.321.317 507.506 ن 338،336،331،330، نہرو، پنڈت ناصر احمد، مرزا، حضرت خلیفہ 343،341،340 تا 346 ، ان کا احمدیوں سے (ثالث) 312،305،225، 333.317.321.314 369.349.348.335 375.374 105 ناصر احمد ، شیخ ناصر نواب، حضرت میر 369،361،358،355، مرعوب ہونا 478 390،378،374،371، وسیم احمد ، حضرت مرزا 246 420،412،403،394، (مفہومأذکر) 470،468 471، 479 تا ولی اللہ شاہ سید 405،281،5 484،481 ولیم جے سی من 185، 396 آپ فارسی کے مخالف تھے 129 نذیر احمد دہلوی مولوی 279 آپ کی میاں محمود سے محبت ہاجرہ، حضرت نصیر الحق حاجی 351 اُن کی مومنانہ دلیری 316 آپ کی وصیت D 328 خانہ کعبہ کی بنیاد میں 342 حضرت ہاجرہ اور 488 449 نظام الدین اولیاء 283 خلافت کے بارہ میں آپ کی حضرت ابراہیم کادخل 432:431 ان کا ایمان افروز واقعہ 502 376 22 نعمت خان نواب خان چودھری وضاحتیں آپ کا بیان کردہ قصہ 417 ہری داس 419.418 ہندہ ی 311 446.445 حضرت مسیح موعود کے نوح علیہ السلام، حضرت یحی علیہ السلام، حضرت 186 412،313،172 | ایک ارشاد کی تعمیل 420،419 یزید 446.445 آپ کا راویوں کے ذریعہ یعقوب علی شیخ عرفانی حضرت 128 نور الحق انور ، مولوی 244، 418 حضور تک پہنچنا 463 ٹینکر ، ڈاکٹر نور الدین، حضرت مولوی آپ کی اولاد کا سلسلہ نے یہودا اسکریوطی 154 468 خلیفہ اول 185،152، 191، خیال رکھا 474 470

Page 565

30 مقامات آذربائیجان آسٹریلیا 182.173.154.153 206.202.200.192 415.222.221.215.213 32.12 271.255.228226 299*295.287.275 بالا کوٹ بخارا بٹالہ.207.206.205.174 407.213.210 477 بدوملی 370،369،368،340، برلن.396.389.378.373 برما اٹلی 131،105،72،34، 422،418،416،409، برہمن بڑ یہ 322.304 283 411.308.216 248 404 283 117 454.453 504،496،495،478 | بغداد اسرائیل اشانی 488.159 افریقہ 92، 213،140،93، <477.415.227.226 493.488 کے گڑھ ہیں امریکہ اور انگلینڈ عیسائیوں بمبئی 219،85،34،31،30 166 بنگال انڈونیشیا 223،217،203، بورنیو 470.119 116 504،478،283،246 بورنیو میں احمدیت کے ویسٹ افریقہ میں جماعت مضبوط ہو رہی ہے 225 انطاکیہ 261 حق میں تبدیلی ویسٹ افریقہ میں چار پانچ انگلستان 27،12،11،8، بوسٹن احمدی اسمبلی کے ممبر بن 32،30تا105،92،35، بھوپال چکے ہیں افغانستان الجيريا 377،205،166،139 ، بھیر 225 487.478.422.409 415 496.495.491 283 بیروت امریکہ 33،27،12،11، ایبٹ آباد 322،304 سيلجيم 224 147 509 443.419.325 452 131 205 102،101،95،92،81، | ایران 147،140،125،124، ایشیا 283.279.63 27

Page 566

31 پاکستان 98،85،66،12،9، ج جاپان.206.174.12 135.134.132.130.191.190.159.154 $245.212.207.199 325.323.299.298 418.411.353.351 <443.442.421.419.478.477.449.448 503.488 140 472 چینی پسرور پشاور 418،322،304،5، پنجاب پولینڈ 506.98.50.30.14 443-253 283 حیدر آباد 349،256،23،13 خ 407،213 | خانیوال 4.3 جاپان میں فصل میں کھاد اچھی ڈالی جاتی ہے 249 و مشق 129،126،113، جاپان کی دو ہزار روپیہ 504.334.218.130 فی ایکڑ آمد ہے 249 | دہلی 256،246،23،5، جالندھر 502.473 جرمنی 444.442.138.136.11 <422.222.205.181 487.478 510 508 246 جموں جھنگ جنیوا چمبر تهران 218 | چنار تھر پار کر 22 چنیوٹ تیونس 283 چین ٹنڈوالہ یار 349 | حجاز 349 322 332 285.283 ڈسکہ ڈلہوزی ڈنمارک ڈھاکہ ڈیرہ غازی خان 373 149 205 117 51 راولپنڈی ،303،219،4،3، 320.311.306.304 484.338 ربوه 111،105،80،3،.150.136.122.121.197.181.165.152 8

Page 567

32 217،216،215،207، مسلمان ہیں 298،288،287،227، روس نے اپنے ملک میں 228 سویٹ یونین سویڈن 35.30 205 315،311،306،304، سو گنا پیداوار کر لی ہے 252 | سیالکوٹ 200،6، 249، 331-324.321.316 350.341.338.334 385.375.368.351 492.427.400 روم 472.414.409.322 416.318.279 سب سے زیادہ احمدی ز سیالکوٹ میں ہیں 248 زیورک 147،145،133، سرالیون 489،488،283 ربوہ تباہ ہونے والا نہیں 120 ربوہ کی انڈسٹری نفع میں 205.197.153.148 223 سرالیون میں احمدیہ پر لیں کا اجراء تحریک کا حصہ رکھے 219 سینٹ لوئی 491*489 221 سارا ربوہ انجمن کی آمد پر سپین 487،478،283،205 آباد ہے ربوہ میں انڈسٹریاں قائم کی جائیں ربوہ کی تعمیر میں دیر ہو رہی ہے ربوہ میں جلد زمین خریدنی چاہیے ربوہ میں جلد مکان بنائے جائیں 228 سرگودھا 407،332،249 شام 130، 478477،279 سری گوبند پور 228 سری نگر سلی 246 496 283 شمله 362.361 شیخوپوره 479.374.215 229 سکنڈے نیویا 487،478،205 طائف b 71.69 سندھ 210،209،207،13، 229 229.252.250.244.214 470.414.349.342 283 عدن عراق سوئٹزر لینڈ 105،102،12، عرب سنکیانگ ربوہ میں لوگ بار بار آئیں 243 رعیہ 448 روس 270،255،229،81 روس میں آٹھ کروڑ 205.182.133-131 487.478.422 37 478.325.93.93.72.69.8 285.283.279.130 <434.429.428.289

Page 568

33 477،438 فلسطین پر یہود کا عارضی قبضہ 80 اسلام کی صداقت کا ثبوت ہے 80 272 فلسطین مستقل طور صالح بندوں کے ہاتھ میں رہے گا 81 علی گڑھ غ فن لینڈ غانا ( گولڈ کوسٹ) 492.488.283.159 ق 205 قاہرہ قطنطنیہ کپور تھلہ 126 283 216 کراچی 78،13،6،4،3، 120.113111.108 126.124.123.122 غانا کی ایک عورت کا بچے قادیان 98،93،80،10،8،.197.183.133.128.149.120.118.103 493.492 308.244.219.211 212.201.199.190 140 369.355.352.325 227.219.217*215 493.418.268.247.246.245 510.496.86 492.159 414.13 222 کشمیر الماسی کوئٹہ 397،396،369،346، کوریا 411 کو ربوہ بھجوانا غرب الہند ف فتح گڑھ 305.303-298-271 فرانس 130،35،34،33 320.313.311.306 487.478.205.342.332.328.327 283.11 فلپائن فلسطين 166،79،73،7، 478.477.454 فلسطین خدا کے نیک بندوں کو ملے گا 73 327-322-321-305411.410.408.406 444،443،420،419، کیمبل پور 322،304،51،5 506.452.451 قادیان کے احمدیوں کی بابلیوں کا فلسطین پر قبضہ 75،74 رومیوں کا فلسطین پر قبضہ 75 فلسطین پر مسلمانوں کے فا قبضہ کی پیشگوئی 75 خدمات کا اخباروں میں چرچا 201 لجرات 373،332،322 قادیان کی حفاظت کا خیال رکھو 288 گلڈن 503.479 311

Page 569

209 34 گوجرانوالہ 479،215،6 | لگانو 222 | مصر میں بر سیم کے درخت 28 لنڈن 113،99،94،93 ، بہت اونچے تھے 187.79.72*69.67.147.141139.135 4.3 318.310.192.188 438.437.431.403 446 $264.197.186.148 225 496.478.450.354 ملتان 498،418،37،13 22 51 36 33.32 488.283 244 345.342 153 173.12 221.206 494 منصور آباد میانوالی 488 گورداسپور گو کھووال گیمبیا لائبیریا لائل پور (فیصل آباد) 198، ماریشس 407.337.252.249 مانسہرہ لاہور 3، 91،78،14،6،4، مدینہ 218 322.304.110.109.79 318.310.192.170 438-403-355.334 <464.463.447.439 505.477.467.466.136.111.108.100 211.210.176.148 <275.268.246.220 317.313.307.304 328-322.320.318 346-342.338.332 364-362-358.351 375.374.373.369 442.418.411.377.484.473.471.470 497.485 221 لبنان نائجیریا مراکش 283 نصرت آباد مردان 322.304 نواب شاہ مری 306،304،150، نیورمبرگ 320،318،317،312، نیوزی لینڈ 371.331.323.321 414.413.412.389 508.497.484.421 <283.279.228 مصر DO 478 476.395.369 وا شنگٹن وزیر آباد

Page 570

133.131.130.127 171.145.140.138 190 35 136،135،105، ہندوستان کی آبادی ہالینڈ 205،174، 206، 213، چالیس کروڑ 487،478،407،405 | بیگ 450.370 ہزارہ 323.322 ہمبرگ 205،154،136، ہندوستان 66،37،108،.132.103.93.92.86 200.191.190.139 $245.219.218.212.269.264.247.246 285-283-279-270.299.298.288.286 442.430.415.369 488.478.477 ی یروشلم یمن 202-200-199.192 ‹216-215-210-206 <271.269.246.220 450.407 314.306.287.283 407.388.341.340 77 477.446 72.71 یورپ میں ماہوار رسالے یمن کے گورنر کا بیت اللہ کے چھ سات ایڈیٹر پر حملہ یورپ 69.92.77.32.27.105.104.102.99.125.123.120.114 یونان 202 72

Page 571

36 کتابیات الفضل ہمارے سلسلہ کا بڑا براہین احمدیہ اسلام میں اختلاف کا آغاز 336 الفتح اہم آرگن الفضل کی اشاعت کی طرف 242 بركات خلافت 480 364 395 توجہ دیں 243 پیغام صلح 378،374، 379، الفتح میں جماعتی خدمات کا الفضل کا ایک فرض 247 418.390 اعتراف 477.476 الفضل کی ابتدائی مشکلات 397 الفضل 247،13،11،10، المصلح 13، 295 تاریخ ابن زبیر 328.327.326.310 341.340.335.329 353 350.347.346 الوصیت 227،226، 295، تاریخ طبری 493، تذکره ہر احمد کی الوصیت کا مطالعہ 371،367،366،357، کرے تسنیم 295 تصدیق براہین احمدیہ 418،414،375،372، انجیل 449.272 364 364 246 13 481.480 508،488،421،420 انجیل میں روحانی خوراک اور تفسیر کبیر.غیر احمدیوں میں الفضل کے ذریعہ ساری روحانی پانی کا محاورہ 258 259 اس کی مقبولیت جماعتوں تک آواز پہنچتی ہے 6 انسائیکلو پیڈیا الفضل کو پھیلانے کی کوشش انصار الله (رساله) کریں 8 147 243 498 تورات 272،80،78،75 چ چٹان.ہفت روزہ چٹان کا الفضل سے ایک غیر احمدی بائبل 398،394،329 | ادارتی نوٹ 366 تا368 کی محبت 10،9 | بدر الفضل سے ابوالکلام آزاد کی بدر کی خریداری بڑھانے کا 10 طریق محبت 1008 9 چشمه معرفت 481،480 خالد خ 12

Page 572

37 س دیباچہ تفسیر القرآن 221 سبز اشتہار دیباچہ ابن خلدون 270 271 سفینہ.روزنامہ سفینہ کے 307 کوہستان (اخبار) 379،363 ایک افتراء کا جواب 358 تا 360 لاہور (رساله) 13 ل سول ریڈرز ڈائجسٹ 173 سیر روحانی ریویو آف ریلیجنز 202،12، 14.13 233.22 b 474.206.204.203 مباہلہ (اخبار) 325،324 مثنوی 129 ریویو کی اشاعت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی خواہش طلوع اسلام ع اعسل مصفیٰ 12،11 مسند احمد بن حنبل.اس کی تبویب کا کام چالیس سال 343 سے مسلمان کر رہے ہیں 369 ، 10 ف سیح یا محمد ریویو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد گار ہے 10 فرقان ریویو کی طرف جماعت کو نئی مذہبی تحریکوں کے جواب ملت (اخبار) 243 | مصباح (رساله) 488 243 14.13 366.353 کیلئے یہ رسالہ وقف ہے 11 ن ق نوائے وقت (اخبار) قاعدہ یسر نا القرآن 307 انگریزی کتب 11 73 (1) THE DECLINE AND FALL OF THE ROMAN EMPIRE اسکی مقبولیت: WHY I BELIEVE IN ISLAM (2) توجہ دینی چاہیئے ز زبور 76 223.222

Page 572