Anwarul-Uloom Volume 24

Anwarul-Uloom Volume 24

انوارالعلوم (جلد 24)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

انوار العلوم تصانیف نین حضرت مرزا بشیر الدین محمود سی اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 24

Page 2

ANWARUL 'ULUM by HADRAT MIRZĀ BASHĪR-UD-DĪN MAḤMŪD AḤMAD KHALIFATUL MASĪḤ II

Page 3

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيمِ پیش لفظ عمر ا اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُسی کی دی ہوئی توفیق سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسح الثاني المصلح الموعود کی حقائق و معارف سے پر سلسلہ تصانیف الموسوم ”انوار العلوم“ کی چوبیسویں جلد احباب جماعت کے استفادہ کے لئے پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ انوار العلوم“ جلد 24 سید نا حضرت مصلح موعود کی 13 مختلف کتب اور تحریرات و فرمودات پر مشتمل ہے جو کہ نومبر 1953ء تا 27 دسمبر 1954ء کے عرصہ پر مشتمل ہیں.تا27دسمبر الہی نوشتوں اور سرور کونین حضرت محمد مصطفی صلی ال نیم کی پیش خبریوں کے مطابق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پسر موعود کی عظیم الشان پیشگوئی عطا فرمائی گئی.اس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ایک پسر عطا ہونے کی خبر سے نوازا جس کے ذریعہ کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہونا تھا، قوموں نے برکت پانی تھی اور جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کے ظہور کا موجب ہونا تھا.66 اس مبارک اور موعود پسر کی علامات میں سے ایک یہ بھی علامت تھی کہ وہ " علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا “ اس پیشگوئی کا شاندار ظہور سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ المسیح الثانی کے بابرکت وجود میں ہوا.آپ 12 جنوری 1889ء کو پیدا ہوئے اور صرف 25 سال کی عمر میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی وفات کے بعد جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ چنے گئے ، اور خدا تعالیٰ کے فضل سے 52 سال تک اپنی قائدانہ صلاحیتوں سے نہ صرف جماعت احمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت و راہنمائی فرمائی بلکہ آپ کے وجود باجود سے

Page 4

دوسری قوموں نے بھی برکت پائی.انوار العلوم کی جلد نمبر 24 حضرت مصلح موعود کے تجر علمی کی آئینہ دار بھی ہے اور آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی غمازی بھی کرتی ہے اور اُس پر آشوب دور میں حضور کی تحریرات و خطابات جہاں جماعت کے دوستوں کی ڈھارس اور ان کی ہمتوں کو بڑھانے والے تھے وہاں حضور کا اپنے خدائے واحد و یگانہ پر نہ صرف غیر متزلزل ایمان اور یقین کو بھی ظاہر کرتا ہے بلکہ آپ کے غیر معمولی تعلق باللہ کا بھی اظہار ہوتا ہے.1953ء،1954ء کا دور جس کے مواد پر یہ جلد مبنی ہے یہ جماعت احمدیہ کے لئے بہت ابتلاؤں اور مشکلات کا دور تھا.پاکستان کے ایک مذہبی گروہ کی طرف سے جنہیں بعض سرکاری حلقوں کی سرپرستی حاصل تھی جماعت احمدیہ کے خلاف ایک گھناؤنی سازش کی جارہی تھی، مختلف مقامات پر جماعت کے خلاف اشتعال انگیز مواد اور جلسے جلوسوں کے ذریعہ عامۃ المسلمین کے جذبات انگیخت کیے جارہے تھے.ایسے حالات میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے ہر محاذ پر جماعت احمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت فرمائی، سازشوں سے پردہ اُٹھایا اور مخالفوں کے وو بے بنیاد الزامات کا مدلل اور مسکت جواب دیا.یہ تمام مواد اس جلد کی زینت ہے.قادیانی مسئلہ “ مولاناسید ابو الاعلیٰ مودودی کا ایک مضمون تھا جو انہوں نے 1953ء میں فسادات پنجاب کے دوران ایک رسالہ کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کیا اور احمدیوں کے بارہ میں ناجائز مطالبات کئے.یہ کتابچہ جماعت کے خلاف نفرت و حقارت میں اضافہ کا موجب ہوا تو حضرت مصلح موعود نے اس کا نہایت مدلل اور مسکت جواب قلمبند فرمایا.اور یہ تحریر فرمایا کہ کلمہ گو فرقوں کو غیر مسلم قرار دینے کا دروازہ نہ کھولیں ورنہ پھر یہ سلسلہ بند نہیں ہو گا.اس حقیقت کو اگر تسلیم کر لیا جاتا تو آج پاکستان اور بعض دیگر اسلامی ممالک میں جس طرح فرقہ واریت کا آسیب ان کی وحدت ملی کو پارہ پارہ کر رہا ہے وہ یوں نہ ہوتا، کافر قرار دینے والے فتوای فروشوں کی دکانیں نہ چمکتیں اور عالم اسلام میں ہر فرقہ دوسرے کو کافر اور واجب القتل قرار نہ دے رہا ہوتا.حضور کا یہ عارفانہ اور مدلل جواب اِس کتاب کی زینت ہے.

Page 5

جلسہ سالانہ 1953ء جو کہ پُر آشوب ماحول میں ہو رہا تھا ایسے میں احمدیوں کے ایمانوں کو گرمانے والے تین خطابات حضرت مصلح موعود نے فرمائے.یہ تینوں ولولہ انگیز خطابات انوار العلوم جلد 24 میں شامل اشاعت ہیں.حضرت مصلح موعود کے تینوں خطابات جلسہ سالانہ ہی حقائق و معارف سے پر اور وجد آفرین تھے تاہم اختتامی خطاب ”سیر روحانی“ کے سلسلہ تقاریر کا ساتواں خطاب تھا جس کو سن کر روح وجد میں آجاتی ہے.اس تقریر میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے قائم ہونے والی آسمانی بادشاہت پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور قرآنی علوم کے گویا دریا بہادیئے.یہ ساری تقریر ہی مسحور کن ہے لیکن اس کے آخری کلمات تو مُردہ روحوں کو حیات نو بخشنے والے ہیں.آپ نے فرمایا:.”اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو ! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں.محمد رسول اللہ صلی الم کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ صلی اللہ ہم کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ صلی ا ہم نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے“.حضرت مصلح موعود کی یہ ولولہ انگیز ، روح پرور اور وجد آفرین تقریر جلد ھذا کی زینت ہے.1953ء کے فسادات پنجاب کی تحقیقات کے لئے حکومت نے یک تحقیقاتی عدالتی کمیشن تشکیل دیا جو چیف جسٹس ہائیکورٹ مسٹر محمد منیر اور جسٹس کیانی پر مشتمل تھا.اس نے بطور گواہ حضرت مصلح موعود کو بھی بلایا.حضور نے جنوری 1954ء میں شہادت ریکارڈ کروائی.یہ بیان بھی اس جلد میں شامل ہے.اسی طرح کمیشن کی طرف سے تین سوالوں کے جواب بھی آپ نے قلمبند کر وائے وہ بھی اس جلد کی زینت ہیں.خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1954ء کے موقع پر حضور نے افتتاحی اور اختتامی خطاب فرمایا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کے اعزاز میں خدام الاحمدیہ نے

Page 6

الوادعی تقریب منعقد کی.اس موقع پر حضور نے خطاب سے نوازا.تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کا افتتاح 1954ء میں ہوا.اس سے بھی حضور نے خطاب فرمایا.اور پھر جلسہ سالانہ 1954ء کے موقع پر حضور نے جو خطابات فرمائے وہ سب اس جلد کی زینت ہیں.الغرض انوارالعلوم جلد 24 میں شامل تحریرات و خطابات جہاں حضرت مصلح موعود کے تنجر علمی کے آئینہ دار ہیں وہاں یہ اس عرصہ کے حالات و واقعات اور تاریخ احمدیت سے بھی آگاہ کرتے ہیں.یہ پر شوکت تحریرات اور ولولہ انگیز خطابات یقینا احباب جماعت کے ازدیاد ایمان کا موج ہوں گے.انشاء اللہ اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسب سابق بہت سے بزرگان اور مربیان سلسلہ نے اس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے.مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ ، حوالہ جات کی تلاش ، مسوادات کی ترتیب و نظر ثانی ، اعراب کی درستگی ،Recheking اور متعدد متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو یا یہ تکمیل تک پہنچایا ہے.تعارف کتب کا تحریر کردہ ہے.فَجَزَا هُمُ الله احسَنَ الجزاء خاکسار ان سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے ، اپنی بے انتہاء رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.والسلام خاکسار

Page 7

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی

Page 8

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيهِ پیشگوئی صلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجیدسے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا علیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه - فرزند دلبند گرامی ارجمند مظهر الأولِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ و العلاء كمان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال التي کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ بل عید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مقضيا داشتهار ۲۰ فروری شسته

Page 9

صفحہ 1 113 123 223 343 351 397 ترتیب نمبر شمار 1 2 3 + 5 6 7 8 عنوانات مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء متفرق امور سیر روحانی (7) مولانا شوکت علی کی یاد میں تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب اپنے اندر یک جہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھنا ہے تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب 417 431 451 461 0 10 10

Page 10

نمبر شمار 12 13 عنوانات افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء سال 1954ء کے اہم واقعات صفحہ 495 505

Page 11

انوار لعلوم جلد 24 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب انوار العلوم جلد 24 سید نا حضرت مصلح موعود کی 13 کتب و تحریرات پر مشتمل ہے جو نومبر 1953ء تا 27 دسمبر 1954ء کے دور پر مشتمل ہے.ان کتب و تحریرات کا مختصر تعارف ذیل میں دیا جارہا ہے.(1) مولانا مودودی کے رسالہ " قادیانی مسئلہ " کا جواب دو قادیانی مسئلہ “ مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودی کا ایک مضمون ہے جو انہوں نے عین فسادات پنجاب کے دوران مارچ 1953ء کو ایک رسالہ کی شکل میں لاکھوں کی تعداد میں شائع کر کے تقسیم کیا.اس رسالہ میں مولانا نے احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کے علاوہ 15 کے قریب ناجائز مطالبات کئے.تحقیقاتی عدالت میں یہ رسالہ بھی زیر بحث آیا اور مودودی صاحب اور ان کے ساتھیوں نے اس کی بنیاد پر تحریری و تقریری بیانات عدالت میں داخل کروائے.یہ کتا بچہ احمدیت کے خلاف نفرت و حقارت میں اضافہ کا موجب ہوا تو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے نومبر 1953ء میں اِس کا جواب دینے کے لئے قلم اٹھایا اور بڑے ہی جلالی مگر عارفانہ انداز میں مودودی صاحب کے بیان کردہ 15 اعتراضات کا ایک ایک کر کے مُسکت و مدلل جواب دیا.جن میں مسئلہ ختم نبوت، مسئله کفر و اسلام، مسئله جنازه ، مسئلہ جہاد کے علاوہ اور کئی اہم مذہبی اور سیاسی مسائل پر جامع و سیر حاصل بحث فرمائی اور بڑے دوٹوک الفاظ میں مودودی صاحب، ان کی جماعت اور دیگر علماء کو سمجھایا کہ کسی مسلمان فرقہ کو غیر مسلم یا اقلیت قرار دینے کا دروازہ نہ کھولیں.یہ آپریشن احمدیت پر ہی ختم نہیں ہو گا بلکہ احمدیت پر تجربہ کر لینے والا ڈاکٹر بعد میں دوسرے فرقوں پر اس نسخہ کو آزمائے گا.اگر حضرت مصلح موعود کی اس اہم تجویز پر عمل ہو گیا ہوتا تو آج پاکستان جن گوناگوں مشکلات کا شکار ہے اور فرقوں کو کافر قرار دینے کی فیکٹریاں لگ گئی ہیں ایسا ہر گز

Page 12

انوار العلوم جلد 24 ii نہ ہوتا اور ہم اسلام کی پر امن تعلیم کے مطابق پر امن ماحول میں زندگی بسر کر رہے ہوتے.حضور نے مودودی صاحب کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے آخر میں نہایت درد میں ڈوبے ہوئے الفاظ میں مسلمانوں کو توجہ دلاتے ہوئے اِس مسئلہ کا درج ذیل علاج بیان فرمایا.”مولانا مودودی صاحب نے قادیانی مسئلہ لکھ کر ملک میں خطر ناک تفرقہ اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے.جہاں تک مولانا مودودی صاحب کے اپنے مفاد کا سوال ہے اس کے مطابق تو یہ کوشش بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں صاف لکھ چکے ہیں کہ صالح جماعت کا یہ فرض ہے کہ ہر ذریعہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ حکومت پر قبضہ کیے بغیر کوئی پروگرام ملک میں جاری نہیں ہو سکتا.لیکن جہاں تک مسلمانوں کے مفاد اور امتِ مسلمہ کے مفاد کا سوال ہے یقینا یہ کوشش نہایت نا پسندیدہ اور خلاف عقل ہے.مسلمان جن خطرناک حالات میں سے اس وقت گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اِس وقت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متحد کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی ضرورتوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے.بغیر اتحاد کے اس وقت مسلمان سیاسی دنیا میں سر نہیں اٹھا سکتا.اس وقت بیسیوں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی آبادی مسلمان ہے.جو سیاسی طور پر آزاد ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ آزاد نہیں.وہ غیر مسلموں کے قبضہ میں ہیں.اور بیسیوں ایسے ممالک اور علاقے موجود ہیں جہاں کے مسلمان موجودہ حالات میں علیحدہ سیاسی وجود بننے کے قابل نہیں ہیں.لیکن انہیں ایسی آزادی بھی حاصل نہیں جو کسی ملک کے اچھے شہری کو حاصل ہو سکتی ہے اور ہونی چاہیے بلکہ ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں معزز شہریوں کی حیثیت حاصل نہیں ہے.اور جو علاقے مسلمانوں کے آزاد ہیں انہوں نے بھی ابھی پوری طاقت

Page 13

انوار العلوم جلد 24 iii حاصل نہیں کی بلکہ وہ تیسرے درجے کی طاقتیں کہلا سکتے ہیں.دنیا کی زبر دست طاقتوں کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل نہیں.حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا جب مسلمان ساری دنیا پر حاکم تھا، جب مسلمان پر ظلم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.مسلمان پر پر ظلم کرنے کے نتیجہ میں ساری دنیا میں شور پڑ جاتا تھا.لیکن آج عیسائی پر ظلم کرنے سے تو ساری دنیا میں شور پڑ سکتا ہے مسلمان پر ظلم کرنے سے ساری دنیا میں شور نہیں پڑ سکتا.عیسائی کسی ملک میں بھی رہتا ہو اگر اُس پر ظلم کیا جائے تو عیسائی حکومتیں اس میں دخل دینا اپنا سیاسی حق قرار دیتی ہیں.لیکن اگر کسی مسلمان پر غیر مسلم حکومت ظلم کرتی ہے اور مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ غیر ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا جا سکتا.گویا عیسائیت کی طاقت کی وجہ سے عیسائیوں کے لئے اور سیاسی اصول کار فرما ہیں لیکن مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے سیاسی دنیا ان کے لئے اور اصول تجویز کرتی ہے.ایسے زمانہ میں مسلمانوں کا متفق اور متحد ہونا نہایت ضروری ہے اور چھوٹی اور بڑی جماعت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہیے.الیکشن میں ممبر کو اپنے جیتنے کی سچی خواہش ہوتی ہے اور وہ ادنی سے ادنی انسان کے پاس بھی جاتا ہے اور اُس کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.مسلمان حکومتوں کا معاملہ الیکشن جیتنے کی خواہش سے کم نہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم کو اس معاملہ میں چھوٹی جماعتوں کی ضرورت نہیں وہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو اسلامی حکومتوں کے طاقتور بنانے کی اتنی بھی خواہش نہیں جتنی ایک الیکشن لڑنے والے کو اپنے جیتنے کی خواہش ہوتی ہے.پس وہ سچی خیر خواہی کا نہ مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اس کو مسلمانوں سے سچی خیر خواہی ہے.پس مودودی صاحب نے " قادیانی مسئلہ " لکھ کر قادیانی جماعت کا بھانڈا نہیں پھوڑا اپنی اسلامی محبت کا بھانڈا پھوڑا ہے اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا پردہ فاش کیا ہے.

Page 14

www.iv انوار العلوم جلد 24 ---------- ------------------------- --------- کاش ! وہ اسلام کی گزشتہ ہزار سال کی تاریخ دیکھتے اور انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کس طرح مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر اسلام کو تباہ کیا گیا.اور پھاڑنے کے یہ معنی نہیں تھے کہ ان میں اختلاف عقیدہ پیدا کیا گیا تھا.کیونکہ اختلاف عقیدہ بھی بھی فتنہ پردازوں نے پیدا نہیں کیا بلکہ اختلاف عقیدہ علماء وفقہاء کی دیدہ ریزیوں کا نتیجہ تھا.پھاڑنے کے معنے یہ تھے کہ اختلاف عقیدہ کی بناء پر بعض جماعتوں کو الگ کر کے اسلام کو نقصان پہنچایا گیا تھا.تاریخ موجود ہے ہر آدمی اس کی ورق گردانی کر کے اس نتیجہ کی صحت کو سمجھ سکتا ہے.پس حقیقت یہ ہے که قادیانی مسئلہ کا حل اس طرح نہیں کیا جا سکتا جو مولانا مودودی صاحب نے تجویز کیا ہے.یعنی پہلے تو احمدیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلیت قرار دے دیا جائے اور پھر وہ سلسلہ شروع ہو جائے جو ایک ہزار سال سے اسلام میں چلا آیا ہے یعنی پھر آغا خانیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر بوہروں کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر شیعوں کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر اہلحدیث کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر بریلویوں کو اسلام سے خارج کیا جائے.پھر دیوبندیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے اور پھر مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت قائم کی جائے.مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقینا نہیں بنے گی.لیکن پھر ایک دفعہ دنیا میں وہی تباہی کا دور شروع ہو جائے گا جو گزشتہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں میں جاری رہا اور وہ طاقت جو پچھلے پچیس سال میں مسلمانوں نے حاصل کی ہے بالکل جاتی رہے گی اور مسلمان پھر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگ جائیں گے.اور جماعت اسلامی کے پیرو اپنے دل میں خوش ہوں گے کہ ہماری حکومت قائم ہو رہی ہے.لیکن ایسا تو نہ ہو گا، ہاں اسلامی حکومتیں کمزور ہو کر پھر ایک تر لقمہ کی صورت میں یا تو روس کے حلق میں جا پڑیں گی یا مغربی حکومتوں کے گلے میں

Page 15

انوار لعلوم جلد 24 V جا پڑیں گی.خدا اسلام کے بد خواہوں کا منہ کالا کرے اور اسلام کو اس روز بد لے دیکھنے سے محفوظ رکھے.مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کے بجائے صحیح طریقہ ملک میں امن قائم کرنے کا یہ ہے کہ:.(1) اسلام کی طرف منسوب ہونے والے مختلف فرقے خواہ اپنے اپنے مخصوص نظریات کے ماتحت دوسرے فرقوں کے متعلق مذہبی لحاظ سے کچھ ہی خیال رکھتے ہوں یعنی خواہ انہیں سچا مسلمان سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں مسلمانوں کے ملی اتحاد کی خاطر اور اسلام کو فرقہ وارانہ انتشار سے بچانے کی غرض سے ان سب کو کلمہ طیبہ کی ظاہری حد بندی کے ماتحت بلا استثناء مسلمان تسلیم کیا جائے اور اس میں شیعہ، سنی، اہلحدیث، اہل قرآن،اہل ظاہر ، اہل باطن، حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی ، احمدی اور غیر احمدی میں کوئی فرق نہ کیا جائے.(2) اگر اس ایک ہی صحیح طریق کو استعمال نہیں کرنا جس کے بغیر مسلمانوں کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی تو پھر احمدیوں کو اقلیت قرار دینے سے کچھ نہیں بنتا.کیونکہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن ہو رہا ہے اور اسلام کی خیر خواہی دلوں میں نہیں ہے.صرف اپنے فرقوں کی خیر خواہی دلوں میں ہے.اس لئے یہ آپریشن صرف احمدیت پر ختم نہیں ہو جائے گا.احمدیت پر تجربہ کر لینے والا ڈاکٹر بعد میں دوسرے فرقوں پر اس نسخہ کو آزمائے گا.پس ایک ہی دفعہ یہ فیصلہ کر دینا چاہیے کہ اس اسلامی حکومت میں فلاں فرقہ کے لوگ رہ سکتے ہیں دوسروں کے لئے گنجائش نہیں تا کہ باقی سب فرقے ابھی سے اپنے مستقبل کے متعلق غور کر لیں اور دنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ علماء پاکستان کس قسم کی حکومت یہاں قائم کرنا چاہتے ہیں.

Page 16

انوار العلوم جلد 24 vi ( 3 ) اور اگر یہ نہیں کرنا اور واقع میں یہ ایک خطر ناک بات ہے تو پھر ہم تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کریں گے کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے مولوی صاحبان کے دل میں تقویٰ اور خشیت اللہ کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں.اور ان کو یہ سبق سکھائیں کہ عدل اور انصاف اور رواداری کا طریق سب سے بہتر طریق ہے اور اسلام کی خدمت کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے“ ( صفحہ 100 تا104) (2) افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء 1953ء کا جلسہ سالانہ ایک پُر آشوب دور کے بعد منعقد ہو رہا تھا جس میں 1953ء کی شدید مخالفت کا جماعت احمد یہ اور احباب جماعت کو سامنا کرنا پڑا.اس مخالفت کی وجہ سے احمدیوں کے دل پہلے سے زیادہ جوان تھے.اسلام اور احمدیت کو غالب کرنے کا ایک نیا ولولہ اور نیا جوش احباب جماعت میں پیدا ہو چکا تھا اور شمع احمدیت کے پروانے پہلے سے زیادہ جوش و خروش اور ذوق وولولہ کے ساتھ اس جلسہ میں شامل ہونے کے لئے جمع تھے.اُدھر جماعت احمدیہ کے خلیفہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے اپنے مریدوں اور پیاروں کے دلوں میں پہلے سے بڑھ کر خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے خون کو گرما دینے والے خطابات تھے.ان میں سے ایک معرکۃ الآراء خطاب جلسہ سالانہ کے پہلے روز 26 / دسمبر 1953ء کا خطاب تھا.حضور نے اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا کہ یہ عظیم الشان موقع جو اس وقت ہمیں حاصل ہے اجتماعی رنگ میں دنیا میں کسی اور کو میسر نہیں.انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے اور اس کے ذکر کو بلند کرنے کی مثالیں تو ہر جگہ مل جاتی ہیں مگر اتنی کثرت کے ساتھ جماعتی رنگ میں محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اور اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لئے جمع ہونے کی مثال اور کہیں نہیں مل سکتی پس اس خصوصیت کو قائم رکھو اور اپنے وجودوں کو دنیا سے قطع تعلق کر کے اتناہل کا بنالو کہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے تمہیں آسانی کے ساتھ بلند سے بلند تر مقام تک لے جاسکیں اس موقع سے فائدہ اُٹھاؤ.اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف

Page 17

انوار العلوم جلد 24 vii راغب کرنے اور اپنے قلوب کو اس کے ذکر کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرو تا اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہو.نیز فرمایا کہ اسلام کے لئے یہ ایک نازک موقع ہے.چاروں طرف سے اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچے پر سوائے چند احمدی مبلغین کے اور کوئی بھی نہیں ہے.آپ لوگ جو یہاں جمع ہیں آپ کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے فوج کے لئے اسلحہ کے کارخانے کی ہوتی ہے.جس طرح اگر فوج کے لئے اسلحہ مہیا نہ کیا جائے تو وہ بے کار ہو کر رہ جاتی ہے اسی طرح اگر آپ اپنے مبلغین کی مدد نہ کریں گے تو ان کی زندگیاں بے کار ہو جائیں گی.ان میں سے ایک ایک لاکھوں آدمیوں کا کام کر رہا ہے.سامان جو ہم نے ان کے لئے باہم پہنچایا ہے وہ پہلے ہی نہایت قلیل ہے.(3) متفرق امور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا یہ بصیرت افروز خطاب جلسہ سالانہ 1953ء کے دوسرے روز مورخہ 27 دسمبر کا ہے جس کے آغاز پر حضور نے فرمایا کہ " آج متفرق امور کے متعلق ہی بعض باتیں کہوں گا." حضور نے اس خطاب میں احمدی مردوں اور عورتوں دونوں کو مخاطب فرمایا.آغاز میں عورتوں سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تین سال سے عورتوں میں میری تقریر نہیں ہو رہی.اس دفعہ میں عورتوں میں تقریر کرنا چاہتا تھا مگر لجنہ نے کہلا بھیجا ہے کہ ابھی ایسے خطرات کے دنوں میں ہم اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتیں کہ حفاظت کا سامان کر سکیں.اس لئے میں اس تقریر کا ایک حصہ عورتوں کے لئے وقف کر کے انہیں بعض نصائح کروں گا.حضور نے مردوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ہر شخص اپنے کاروبار ملازمت اور روز گار کے کام کے علاوہ اپنے ہاتھ سے کام کر کے کچھ زائد آمد پیدا کرنے کی کوشش کرے اور یہ زائد آمدنی اگر غریب ہو تو اس کا ایک حصہ اور امیر ہونے کی صورت میں ساری کی ساری سلسلہ کو بطور چندہ پیش کر دے.“

Page 18

--------- انوار لعلوم جلد 24 viii ازاں بعد حضور نے بعض ہدایات دینے کے بعد عالم اسلام کی درد ناک صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا:.اس وقت عالم اسلام نہایت نازک دور سے گزر رہا ہے.گزشتہ تین سو سالوں میں مسلمان بڑی تیزی کے ساتھ نیچے گر رہے تھے لیکن انہیں اپنے اس تنزل کا احساس زیادہ نہیں تھا بلکہ وہ ایک دوسرے کو گرانے میں بھی لذت محسوس کرتے تھے.اس کے بعد یہ دور آیا کہ مسلمانوں کو اپنے تنزل اور خستہ حالی کا احساس ہوا اور ترقی کرنے کا جذبہ پیدا ہوا اس جذبے کے تحت انہوں نے جدوجہد شروع بھی کی کچھ دشمن طاقتوں کے اختلاف اور کچھ اپنے اس جذبہ کی وجہ سے مختلف ممالک میں وہ آزاد تو ہو گئے لیکن آزاد ہو جانے کے باوجو د اب تک ان کے باہمی اختلافات دور نہیں ہوئے اور یہ نہایت خطر ناک امر ہے.اس لحاظ سے یہ دور پہلے دور سے بھی زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ پہلے تو انہیں اپنی حالت کا علم نہ تھا اس لئے وہ اصلاح سے غافل تھے لیکن اب اپنی حالت کو محسوس کرنے کے باوجود وہ اپنی اصلاح پر قادر نہیں ہو رہے.پھر ان کی مشکلات کچھ اس نوعیت کی ہیں کہ ان کو حل کرنے کی جو راہ بھی تجویز کی جائے وہ خطرات سے خالی نہیں." حضور نے ان ممالک کے نام گنوائے جن میں مسلمانوں میں اختلافات پنپ رہے ہیں.جیسے مصر میں نہر سویز کا جھگڑا ہے.ارض مقدس میں فلسطین کا جھگڑا ہے جس کی بدبخت حکومت کسی وقت بھی اپنی بدنیتی سے اس ارض پاک کے لئے خطرہ پیدا کر سکتی ہے کیونکہ یہود مسلمانوں کا بہت بڑا خطرہ ہے.اسلامی ممالک میں ان کے مقابلہ کے لئے کوئی یک جہتی موجود حضور نے لیبیا، عراق اور انڈونیشیا جیسی طاقتور اسلامی مملکتوں کی مثال دیگر پاکستان کے اقتصادی مسئلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جب تک ہم ملکی مصنوعات کو یا نیم ملکی مصنوعات

Page 19

www.ix انوار العلوم جلد 24 کو تکلیف اٹھا کر رائج نہ کریں گے اُس وقت تک ہماری اقتصادی حالت سدھر نہیں سکتی.حضور نے آج سے 60 سال قبل قوم کی نبض پر ہاتھ رکھ کر علاج تشخیص کر دیا تھا مگر ہماری قوم کا غیر قوموں کی مصنوعات پر انحصار بڑھتا چلا گیا اور ہم اپنی ملکی مصنوعات کو کمتر سمجھنے لگے اور آج ہماری اقتصادی حالت بد حالی کا شکار ہے.کمزوری کا ایک اور سبب بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.”سب سے بڑا سبب کمزوری کا وسیع پیمانے پر بری باتوں کی اشاعت اور ہر نقص اور کمزوری کا الزام حکومت کو دینے کی عادت ہے.اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اگر زید چوری کرے تو کہو کہ زید نے چوری کی بلکہ سرعام ایسا کہنے پر بھی اسلام پابندیاں لگاتا ہے.مگر ہماری یہ حالت ہے کہ اگر ایک شخص رشوت لیتا ہے تو بد نام پورے ملک کو کیا جاتا ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب نوجوانوں کے کانوں میں بار بار یہ پڑتا ہے کہ فلاں وزیر بھی بے ایمان ہے ، فلاں افسر بھی بے ایمان ہے تو وہ کہتا ہے کہ اگر باقی سب ایسا کرتے ہیں تو میں کیوں نہ ایسا کروں چنانچہ وہ بھی انہی عیوب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور اس طرح قومی اخلاق تباہ ہو رہے ہیں." حضور نے یہ تلخ حقائق بیان کرنے کے بعد جماعت احمدیہ کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلائی.چنانچہ فرمایا:.یہ تمام امور بتاتے ہیں کہ مسلمان اس وقت ایک نہایت خطرناک دور میں سے گزر رہے ہیں ایسا خطر ناک کہ اس کا احساس کر کے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن ان امور کو حل کرنا بظاہر ہمارے اختیار میں نہیں جن امور کو ہم حل نہیں کر سکتے ان کے لئے دعا کا خانہ موجود ہے.اس لئے ہر احمدی سے میں یہ امید کرتا ہوں کہ وہ اسلامی ممالک کے ان پیچیدہ مسائل کے لئے بالعموم اور پاکستان کی مشکلات کے لئے بالخصوص دعائیں کرے تا اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان مشکلات کو دور فرمادے.66

Page 20

انوار العلوم جلد 24 X ” دعا کے علاوہ ان امور کے متعلق ایک اور چیز بھی ہمارے اختیار میں ہے اور وہ ہے لوگوں کو صحیح مشورہ دینا تا قوم میں ان مسائل کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے کی صحیح سپرٹ پیدا ہو.تم جہاں کہیں بھی جاؤ اپنے حلقہ اثر میں لوگوں کو صحیح مشورہ دیا کرو اور انہیں بتایا کرو کہ یہ دن آپس میں لڑنے کے نہیں ہیں بلکہ باہمی اختلافات کو فراموش کر کے متحد ہونے اور ملک کے مفاد کے لئے قربانی کرنے کے ہیں.یاد رکھو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اسلام کی حفاظت اور خدمت کے لئے مامور کیا ہے اس لئے تمہارے قلوب اسلام کی محبت اور درد سے معمور ہونے چاہیں خواہ تم کن حالات میں سے گزرو.اس محبت کا ہمیشہ لحاظ رکھا کرو اور مسلمان کی ہمدردی تمہارا طرہ امتیاز ہونا چاہئے.اس ہمدردی کا عملی ثبوت تم اس طرح دے سکتے ہو کہ ایک طرف تو تم دعاؤں سے کام لو اور دوسری طرف لوگوں کو صحیح مشورہ دیا کرو......دوسرا ذریعہ جو تم ان مشکلات کے ازالہ کے لئے اختیار کر سکتے ہو.یہ ہے کہ ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تم کو تیار رہنا چاہئے.ہر احمدی کا یہ عزم ہونا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ ہمارے ملک پر کوئی مصیبت آئی تو اس کا مقابلہ کرنے کے لئے وہ اپنے مال ، اپنی جائیداد ، اپنی زمین غرض اپنی کسی چیز کی پرواہ نہ کرے گا.اور ملک کی حفاظت و بقا کو مقدم رکھے گا.یاد رکھو ارادہ اور عزم کو معمولی چیز نہ سمجھو یہ بہت بڑی چیز ہے یہی وہ چیز ہے جو وقت آنے پر تمہیں عمل کے لئے تیار کرے گی.“ حضرت مصلح موعود نے اس بصیرت افروز لیکچر میں جو پانچویں نمبر پر نصیحت فرمائی وہ جماعت کے اخبار و رسائل کی اشاعت بڑھانے کے متعلق ہے جن میں حضور نے الفضل، ریویو آف ریلیجنز ، فرقان ، مصباح اور خالد وغیرہ کے نام لئے.اس ضمن میں حضور نے احباب جماعت کو ان اخبارات و رسائل کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کی نصیحت فرمائی.بڑے اچھوتے رنگ میں مضامین لکھنے کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 21

انوار العلوم جلد 24 xi تعار نے اسلوبِ تحریر کو ایک نیا رنگ دیا ہے اس لئے مضامین میں جدت آنی چاہیے.مضامین علمی اور تحقیقی ہوں.مجھے افسوس ہے کہ خالص جماعتی مسائل کے علاوہ دیگر اسلامی علوم کی تحقیق و تدوین کے سلسلہ میں ہماری جماعت ابھی بہت پیچھے ہے.اس طرف توجہ کرنے کی خاص ضرورت ہے.اس اہم ہدایت کے بعد حضور نے چودہ زبانوں میں تراجم قرآن کی سکیم کا ذکر کر کے مخلصین جماعت کو تحریک جدید کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:.دنیا کے پاس جو کچھ ہے بے شک وہ بعض جگہ پر امن بھی ہے لیکن اس امن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دنیا اندھیرے میں ہے.جب تک اسلام کا نور ان لوگوں تک نہیں پہنچے گا اُس وقت تک دنیا کا اندھیرا دور نہیں ہو سکتا.سورج صرف اسلام ہے جو شخص اس سورج کو چڑھانے میں مدد نہیں کرتا وہ دنیا کو ہمیشہ کے لئے تاریکی میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا انسان کبھی دنیا کا خیر خواہ یا اپنی نسل کا خیر خواہ نہیں کہلا سکتا.اس وقت تک تحریک جدید کے ذریعہ سے جو تبلیغ ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں تیس چالیس ہزار آدمی عیسائیوں سے مسلمان ہو چکا ہے.یہ طاقت روز بڑھ رہی ہے اور اسے مضبوط کرنا ہر احمدی کا فرض ہے بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ احمدی نہ ہو اُس کا بھی فرض ہے کہ اس کام میں مدد دے.“ مضمون کے آخر پر حضور نے زندگیاں وقف کرنے والوں کی عظمت و اہمیت بیان کرتے ہوئے نوجوانوں کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی اور جماعت کو واقفین کو خاص عظمت دینے کی نصیحت فرمائی.(4) سیر روحانی نمبر 7 128 دسمبر 1953ء کی یہ پُر شوکت اور پر جلال تقریر ”سیر روحانی“ کے اُس علمی سلسلہ کا تسلسل ہے جس کا آغاز حضرت مصلح موعود نے 1938ء کے جلسہ سالانہ پر کیا تھا اور

Page 22

xii انوار العلوم جلد 24 1958ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا جس میں حضور نے عالم روحانی کے نوبت خانہ کا نقشہ کھینچا تھا.حضور نے 1938ء میں ایک رؤیا کی بنیاد پر قادیان سے حیدر آباد دکن کا سفر اختیار فرمایا.جس کی غرض سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد مسلمانوں کے تہذیب و تمدن اور علم و فن کے سب سے بڑے مر کز ریاست حیدر آباد کے حالات و واقعات کا جائزہ لینا تھا.اس سفر میں حضور نے مختلف تاریخی مقامات اور نظارے مشاہدہ فرمائے جن کی تعداد 16 تھی.حضور نے ان 16 مادی اشیاء کے مقابل عالم روحانی میں ان کے مشابہ اور مماثل امور کو نہایت وجد آفرین و اثر انگیز پیرائے میں بیان فرمایا.1938ء،1940ء، 1941ء،1948ء،1950ء،اور 1951ء کے وہ بعد یہ اس سلسلہ کی ساتویں تقریر ہے.یہ سلسلہ تقاریر پیشگوئی مصلح موعود کے الفاظ " و علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا " کی عظیم الشان صداقت کا بین ثبوت ہے.ان پر کیف تقاریر کو پڑھ کر روح وجد میں آجاتی ہے.اس تقریر میں حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک وجود سے قائم ہونے والی آسمانی بادشاہت پر سیر حاصل روشنی ڈالی اور قرآنی علوم کے گویا دریا بہا دیئے اور سیرت نبوی ، تاریخ سلف ، آئمہ سلف اور حضرت مسیح موعود کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے.اگر چہ پوری تقریر مسحور کن تھی مگر اس کے آخری مبارک کلمات تو صور اسرافیل کا سارنگ رکھتے تھے جنہوں نے پژمردہ روحوں کو حیات نو بخشی اور جماعت کے ہر طبقہ کو علم و عرفان کا وو تازہ ولولہ عطا کیا اور ان کے جوش عمل میں بے پناہ اضافہ کر دیا.حضور نے فرمایا : اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بجی یہ کیا شاندار نوبت ہے پھر کیسی معقول نوبت ہے وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں اور یہ کہتا ہے اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اَكْبَرُ - اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ - اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ - حَيَّ عَلَى الصَّلُوةِ - حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ کیا معقول باتیں ہیں، کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں ، بچہ بھی سنے تو وجد کرنے لگ جائے اور ان کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جائے ، بھلا یہ کیا

Page 23

xiii انوار لعلوم جلد 24 بات ہوئی کہ ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں مگر افسوس کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا، یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور ان میں سے بھی نانوے فیصدی صرف رسماً اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جاتے ہیں.تب اس نوبت خانہ کی آواز کا رُعب جاتارہا، اسلام کا سایہ کھینچنے لگ گیا، خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی.اب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو ! ہاں تم کو ! ہاں تم کو! خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے.اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو!اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو ! ایک دفعہ پھر اس نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو، ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آواز میں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادت توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کے لئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کے لئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں.سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہونی ہے.پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ

Page 24

انوار العلوم جلد 24 xiv خدا کہہ رہا ہے.میری آواز نہیں ہے میں خدا کی آواز تم کو پہنچارہا ہوں، تم میری مانو! خدا تمہارے ساتھ ہو ، خدا تمہارے ساتھ ہو ، خدا تمہارے ساتھ ہو.اور تم دنیا میں بھی عزت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ.“ (انوار العلوم جلد 24 صفحہ 338 ،339) یہ پر معارف تقریر قریباً 5 گھنٹے تک جاری رہی جسے ٹیپ ریکارڈر پر ریکارڈ کرنے کا شرف حضرت ڈاکٹر بدرالدین احمد صاحب آف بورنیو کو حاصل ہوا.اس کی اثر انگیزی اور انقلاب آفرینی کا یہ عالم ہے کہ بار بار سننے کے باوجود اس کی روحانی تاثیرات و برکات میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ اب بھی حضرت مصلح موعود کی پر شوکت آواز کانوں میں پڑتے ہی ایک خاص وجدانی کیفیت قلوب و اذہان پر طاری ہو جاتی ہے.(5) مولانا شوکت علی کی یاد میں مولانا شوکت علی مرحوم اور آپ کے دو بھائیوں نے اسلام اور مسلمانوں کی سیاسی، دینی اور اخلاقی خدمات میں بہت نام پیدا کیا ہے.سب سے بڑے بھائی حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر کو اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی توفیق بخشی.چھوٹے بھائی مولانا محمد علی صاحب جو ہر تھے اور مولانا شوکت علی صاحب منجھلے تھے.ان کی ملکی اور اسلامی خدمات کو سراہنے کے لئے حضرت مصلح موعود نے جنوری 1954ء میں ایک مضمون بعنوان " مولانا شوکت علی کی یاد میں " ماہنامہ ریاض کراچی کے لئے تحریر فرمایا جس کے مدیر سید رئیس احمد جعفری تھے.یہ مضمون شوکت علی نمبر شمارہ جنوری 1954ء میں صفحہ 23 تا 25 میں پہلی بار منظر عام پر آیا.حضور نے ان کی خدمات کا ذکر کرنے کے بعد اس مضمون کی تحریر کا مقصد مسلمانوں کو اس طرف توجہ دلانا قرار دیا کہ وہ ان کے طریق عمل سے سبق حاصل کریں اور وہ سچی اور بے لوث خدمت پاکستان ، عالم اسلام اور مسلمانوں کی کر سکیں.

Page 25

انوار لعلوم جلد 24 XV (6) تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جماعت احمدیہ کے خلاف 1953 ء کے فسادات کی چھان بین کے لئے حکومت پاکستان نے ایک تحقیقاتی عدالت قائم کی جو چیف جسٹس ہائی کورٹ مسٹر جسٹس محمد منیر اور مسٹر جسٹس کیانی مشتمل تھی.اس عدالت نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کو بھی بطور گواہ بلایا اور 15،14،13 جنوری 1954 ء کو لاہور ہائی کورٹ میں آپ کی شہادت قلمبند کی.یہ پر معارف تاریخی بیان جو تین دن جاری رہا عدالت عالیہ نے انگریزی زبان میں املاء کر ایا.جس کا اردو ترجمہ اولا سندھ ساگر اکادمی کراچی نمبر 3 نے سعید آرٹ پر لیس حیدر آباد (سندھ) سے چھپوا کر شائع کیا اور پھر اس بیان کا اردو ترجمہ صیغہ نشر و اشاعت ربوہ نے انہی دنوں ٹریکٹ کی شکل میں شائع کر دیا تا جماعت احمدیہ کے متعلق مسلمان بھائیوں کے دلوں سے غلط فہمی دور ہو ، ملکی فضا میں بہتری کی صورت پیدا ہو اور پاکستان کے سب شہری امن و عافیت اور صلح و آشتی کے ساتھ زندگی بسر کر کے ملک کی ترقی میں حصہ لے سکیں.اس بیان کے دوران پہلے ہر دو فاضل جوں نے حضرت مصلح موعود سے مختلف سوال چھے ازاں بعد چودھری نذیر احمد ایڈووکیٹ نمائندہ جماعت اسلامی اور نمائندہ مجلس عمل مولوی مرتضیٰ احمد خاں نے آپ پر جرح کی.حضور کا یہ معرکۃ الآراء بیان مع سوال و جواب انوار العلوم جلد 24 کا حصہ ہے.دوسرے روز حضور کی طرف سے دو ضروری تحریری وضاحتیں بھی داخل عدالت کی گئیں.عدالت اور فریق مخالف کے ہر دوو کیلوں نے بڑے مشکل سوالات بھی کئے مگر حضرت مصلح موعود نے بغیر کسی پریشانی کے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھتے ہوئے ایسے برجستہ جواب دیئے کہ اپنے تو اپنے غیر بھی حیران رہ گئے اور داد دیئے بغیر نہ رہ سکے.حضور کے اس بصیرت افروز بیان کا پبلک میں جب چرچہ ہوا تو بہت سے غیر از جماعت معززین نے بھی اس پر شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.

Page 26

انوار العلوم جلد 24 www.Xvi میر قیوم نے کہا " مرزا صاحب کا عدالت میں آنا پاکستان کے تمام علماء کو کھلا چیلنج تھا کہ آؤ مجھ پر جس طرح چاہو سوال کر لو.ان مولویوں کی زبر دست شکست ہے کہ کچھ بھی اپنے مطلب کی بات پوچھ نہ سکے " ایک نے کہا یہ تو ثابت ہو گیا ہے کہ مرزا صاحب پاکستان میں واحد عالم ہیں.بیان میں تناقض قطعا نہیں " کسی نے کہا یہ بیان تو مذ ہبی Terminology کی ڈکشنری ہے.تاریخ احمدیت جلد 16 صفحہ 409) (7) تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کا جواب مختصر سا بیان حضرت مصلح موعود نے مورخہ 28 جنوری 1954 ء کو مولانا محمد یعقوب صاحب طاہر انچارج شعبہ زود نویسی کو املاء کر وایا تھا جس پر حضرت مصلح موعود نے اپنے قلم مبارک سے اصلاح فرمائی اور یہ کمیشن کے درج ذیل تین سوالوں کے جواب پر من مشتمل ہے.ا.وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.ii.صوبہ جاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے ، آیاوہ کافی تھے یا نہیں؟ iii.صوبہ جاتی حکومت نے (جب یہ فسادات ظاہر ہو گئے ) ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں، آیادہ کافی تھیں یا نہیں؟ حضرت مصلح موعود نے ان تینوں سوالوں کے کافی و شافی جواب دیئے جس میں حکومت پنجاب کے اقدام کو فسادات روکنے کے لئے ناکافی قرار دیا.جب حکومت ان فسادات کو دبانے میں ناکام ہوئی تو مارشل لاء لگانا پڑا.حضور نے ان فسادات کے اصل ذمہ دار جماعتِ اسلامی، جماعتِ احرار اور مجلس عمل کو قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کے کارکنوں نے متواتر لوگوں میں یہ جوش پیدا کیا کہ احمدی اسلام کو تباہ کر رہے ہیں، پاکستان کے غدار ہیں، غیر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں.مندرجہ بالا قیمتی مضمون کی روشنی میں صدرانجمن احمد یہ ربوہ نے اپنا بیان انگریزی میں ترجمہ کرا کر تحقیقاتی عدالت میں داخل کرایا.

Page 27

انوار العلوم جلد 24 xvii (8) اپنے اندر یک جہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے چودھویں سالانہ اجتماع منعقدہ 17،6،5 نومبر 1954ء بمقام ربوہ کے افتتاح کے موقع پر یہ ایمان پرور خطاب فرمایا.یہ اجتماع چونکہ ایسے ماحول میں انعقاد پذیر ہوا جبکہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان اپنے ملک میں ایک منفر د خادم خلق تحریک کی حیثیت سے ابھر رہی تھی اور اس نے ملک کے صحافتی ، سماجی اور سرکاری حلقوں میں اپنی خادمانہ سرگرمیوں کے باعث ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا تھا.اس لئے حضرت مصلح موعود نے بھی اپنی تقاریر میں مجلس خدام الاحمدیہ کے کاموں کو سراہا اور سب سے زیادہ زور خدمت خلق ہی کی اہمیت و ضرورت پر دیا جو اس بین الا قوامی تنظیم کے قیام کی بنیادی غرض وغایت ہے.چنانچہ حضور نے 5 / نومبر 1954ء کو اپنے افتتاحی خطاب میں فرمایا:.” اس دفعہ خدام نے طوفان وغیرہ کے موقع پر نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے.اب انہیں اپنے اجلاس میں اس امر پر غور کرنا چاہیے کہ اس جذبہ کو جو نہایت مبارک جذبہ ہے اور زیادہ کس طرح اُبھارا جائے ؟ کوئی ایسی خدمت جو صرف رسمی طور پر کی جائے حقیقی خدمت نہیں کہلا سکتی.مثلاً بعض لوگ اپنی رپورٹوں میں لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے کسی کا بوجھ اٹھایا.اب اگر تو کسی مجلس کے تمام نوجوان یا بارہ پندرہ خدام سارا دن لوگوں کے بوجھ اٹھاتے پھرتے ہوں یا کسی ایک وقت مثلاً عصر کے بعد روزانہ ایسا کرتے ہوں یا گھنٹہ دو گھنٹہ ہر روز اس کام پر خرچ کرتے ہوں تب تو یہ خدمت کہلا سکتی ہے لیکن اس قسم کی رپورٹ کو میں کبھی نہیں سمجھا کہ اس مہینہ میں ہمارے نوجوانوں نے کسی کا بوجھ اٹھایا.یہ وہ خدمت نہیں جس کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت تم سے تقاضا کیا جاتا ہے، بلکہ یہ وہ خدمت ہے جس کا بجالانا ہر انسان کے لئے اس کی انسانیت کے لحاظ سے ضروری ہے.

Page 28

--------- انوار لعلوم جلد 24 xviii در حقیقت مختلف خدمات مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے ہوتی ہیں.مثلاً جو شخص پاکستان میں رہتا ہے اُس پر کچھ فرائض پاکستانی ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں کچھ فرائض ایک انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی سرکاری ملازم ہے تو کچھ فرائض اُس پر سرکاری ملازم ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں.اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو کچھ فرائض اُس پر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں.اگر کوئی پولیس مین ہے تو کچھ فرائض اُس پر پولیس مین ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں.ایک حیثیت کے کام کو اپنی دوسری حیثیت کے ثبوت میں پیش کرنا محض تمسخر ہوتا ہے.مثلاً ایک ڈاکٹر کا یہ لکھنا کہ میں نے ہیں مریضوں کا علاج کیا تمسخر ہے.کیونکہ اُس نے جو کام کیا ہے اپنے ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کیا ہے.خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے نہیں کیا.پس اپنے پروگراموں پر ایسے رنگ میں عمل کرو جیسے اس دفعہ لاہور کے خدام نے خصوصیت سے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے.اسی طرح ربوہ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے.سیالکوٹ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے.ملتان کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے اور کراچی کے خدام نے بھی بعض اچھے کام کئے ہیں گو وہ نمایاں نظر آنے والے نہیں.پس متواتر اپنے جلسوں اور مجلسوں میں اس امر کو لاؤ کہ تم نے زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کرنی ہے اور ایک پروگرام کے ماتحت کرنی ہے تاکہ ہر شخص کو تمہاری خدمت محسوس ہو.انوار العلوم جلد 24 صفحہ 425،424) حضور نے اپنے اس بصیرت افروز خطاب کے آخر میں خدام کو مخاطب ہو کر فرمایا.”ہمیشہ ہی ہم مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے ہیں مگر ہمیشہ ہم ان خدمات کو چھپاتے رہے ہیں.اور کہتے رہے ہیں کہ ان خدمات کے اظہار کا کیا فائدہ؟ ہم

Page 29

انوار العلوم جلد 24 xix نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے، انسانوں کے لئے نہیں کیا.مگر آج کہا جارہا ہے کہ احمدی مسلمانوں کے دشمن ہیں.یہ مسلمانوں کی کبھی خدمت نہیں کرتے.غرض اتنے بڑے جھوٹ اور افتراء سے کام لیا جاتا ہے کہ اب ہم اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جماعت کے دوستوں سے کہیں کہ اچھا تم بھی اپنی خدمات کو ظاہر کرو.....اور دنیا کو بتا دو کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں مگر چونکہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی خدمات کو ظاہر کریں اس لئے ہم ان کو ظاہر کرتے ہیں.ورنہ ہمارے دل اس اظہار پر شرماتے ہیں.پس اپنے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ ایسے امور پر غور کرو اور ایسی تجاویز سوچو جن کے نتیجہ میں تم ملک اور قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت (انوار العلوم جلد 24 صفحہ 428 تا430) (9) مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات سے متصف ہونا بجالاؤ.“ ضروری ہے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع 1954 ء کے آخری روز مورخہ 17 نومبر 1954ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اختتامی خطاب فرمایا جو 9 / فروری 1955ء کے روز نامہ الفضل میں پہلی بار شائع ہوا.حضور نے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے اپنے 5 / نومبر 1954ء کے خطاب میں دی گئی ہدایت کہ " یک جہتی پیدا کرنے کے لئے خدام کے کھڑے ہونے کی پوزیشن مقرر کریں اور فیصلہ کریں کہ آئندہ خدام جب بھی کسی موقع پر کھڑے ہوں تو ان کی پوزیشن ایک ہی ہو" کا حوالہ دے کر عہدیداروں سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے خدام کے کھڑے ہونے کی کون سی پوزیشن مقرر کی ہے.اس پر حضور نے نہایت لطیف انداز میں عہد کے دوران کھڑے ہونے کے طریق کو بیان فرمایا اور ٹوپی پہنے کی نصیحت فرمائی.اس کے بعد حضور نے بعض انتظامی امور کی طرف توجہ دلائی اور محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب اور مکرم سید داؤد احمد صاحب

Page 30

انوار العلوم جلد 24 XX تعار بالترتیب نائب صدر نمبر 1 اور نائب صدر نمبر 2 مقرر فرمایا اور نائب صدر کی صفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ صاحب تجربہ ، صائب الرائے اور صاحب الدین ہو.حضور نے اس خطاب میں بھی خدام کو پہلے سے منظم رنگ میں خدمتِ خلق کے وسیع انتظامات کرنے کی ضرورت پر توجہ دلائی.اور اپنے بجٹ کا ایک حصہ اس کام کے لئے مقرر کرتے ہوئے فرمایا:- تم خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرو اور اپنے بجٹ کو ایسے طور پر بناؤ کہ وقت آنے پر کچھ حصہ اس کا خدمتِ خلق کے کاموں میں صرف کیا جا سکے".(انوار العلوم جلد 24 صفحہ 448،447) (10) خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھنا ہے 17 نومبر 1954 ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے اجتماع کے آخری روز حضرت مصلح موعود نے اعلان فرمایا تھا کہ محترم صاحبزادہ مرزاناصر احمد صاحب چونکہ انصار اللہ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں اس لئے نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ سے فارغ کر کے انہیں میں مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا صدر مقرر کرتا ہوں.اس پر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمات کے اعتراف کے طور پر مورخہ 2 /دسمبر 1954ء کو ایک دعوت عصرانہ کی شکل میں اپنے جذبات امتنان کا اظہار کرنے کا پروگرام بنایا.جس میں از راہ شفقت حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے بھی شرکت فرمائی.تلاوت کے بعد معتمد مجلس مکرم مولوی محمد صدیق صاحب نے اپنے ایڈریس میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی 15 سالہ خدمات پر نظر ڈال کر انہیں سراہا اور ان کی آئندہ کامیابیوں کے لئے دعا کی.محترم صاحبزادہ صاحب کے جواب کے بعد حضور نے خدام کو ان کے فرائض کے بارہ میں نہایت لطیف پیرایہ میں توجہ دلائی.اور انہیں باغ کا مالی قرار دے کر جماعت احمدیہ کے پھلوں کی حفاظت و نگہداشت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

Page 31

xxi انوار لعلوم جلد 24 " پھل تو سب باغوں میں آتے ہیں.باغبان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ ان کی حفاظت کرے.خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی لئے کیا گیا ہے کہ بچپن اور نوجوانی میں بعض لوگ بیرونی اثرات کے ماتحت کمزور ہو جاتے ہیں اور ان میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.بعض لوگ دوسری سوسائٹیوں سے بُرا اثر قبول کر لیتے ہیں اور بعض تربیت کے نقائص کی وجہ سے آوارگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اس بیرونی تغیر کو جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے دیں.اور اس مقصد کو ہمیشہ نوجوانوں کے سامنے رکھیں جس کے پورا کرنے کے لئے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے.اگر نوجوانوں میں یہ روح پیدا کر دی جائے تو پھر بے شک شرارت کرنے والے شرارت کرتے رہیں.خواہ اپنے ہوں یا غیر سب کے سب ناکام رہیں گے.“ (انوار العلوم جلد 24 صفحہ 456) (11) تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے 16 دسمبر 1954ء کو ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج کا افتتاح فرمایا.کالج کے پرنسپل مکرم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے آکسن نے حضور کی خدمت میں ایڈریس پیش کیا جس میں اُن تمام مراحل کی تفصیل تھی جن سے گزر کر ایک عظیم الشان عمارت پایۂ تکمیل کو پہنچی.اس کے بعد حضور نے ایک پر معارف خطاب فرمایا جس میں حضور نے اساتذہ ، طلبہ اور اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کو بہت ہی قیمتی نصائح سے نوازا.اپنے خطاب کے آغاز پر حضور نے اس کالج کے نام کے حوالہ سے فرمایا کہ :.”جیسا کہ اس کالج کے نام سے ظاہر ہے اس کے بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ اس کا لج میں طلباء اسلام کی تعلیم سیکھیں.یعنی وہ یہاں آکر جہاں دنیوی علوم حاصل کریں وہاں وہ قرآن کریم کے پیش کردہ علوم کو بھی حاصل کریں".) انوار العلوم جلد 24 صفحہ 463)

Page 32

انوار العلوم جلد 24 پھر آگے چل کر فرمایا: xxii ”جب بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ہائی اسکول کا قیام فرمایا تو اس کا نام تعلیم الاسلام ہائی اسکول رکھا.آپ کی نقل میں ہم نے بھی اس کالج کا نام تعلیم الاسلام کالج رکھا ہے.آپ نے جب اسکول بنایا تو آپ کی غرض یہ تھی کہ اس میں صرف قرآن کریم اور حدیث ہی نہیں بلکہ دوسرے دنیوی علوم بھی پڑھائے جائیں".(انوار العلوم جلد 24 صفحہ 476) پھر حضور نے غیر احمدی طلباء کو دینی علوم کے حصول کی طرف زیادہ توجہ دینے کی نصیحت کی کہ دنیوی علوم تو اس کالج سے باہر بھی مل سکتے ہیں اور تمام اساتذہ اور طلبہ کو یہ نصیحت فرمائی کہ اپنے کریکٹر وہ بناؤ جو اسلامی ہوں.ایک اہم امر یا غرض اس کالج کے بنانے کی یہ بیان فرمائی کہ اسلام اور اس کی تعلیم کے خلاف جو اعتراضات ہیں.مختلف اہم شخصیات پر جو الزام تراشیاں کی جاتی ہیں، تہمتیں لگائی جاتی ہیں، اسلامی تعلیم کو بدنام کرنے کے لئے اس کے سیاق و سباق کو چھوڑ کر کچھ اور ہی پیش کر دیا جاتا ہے.اس کے لئے بھی کالج کے طلبہ کو کام کرنا چاہیے اور یورپین مصنفین کی کتابیں بھی اسلام کے خلاف پڑھنی چاہئیں.اس غرض کے لئے دنیا کے علوم سیکھیں اور اپنے کردار کو اسلامی تعلیم کے مطابق کریں.(12) افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء 1954ء کا جلسہ سالانہ 27،26، 28 دسمبر کو ربوہ میں منعقد ہوا.جس میں علماء احمدیت کی ٹھوس تقاریر کے علاوہ امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب خلیفة المسیح الثانی نے تینوں دن خطاب فرمائے.افتتاحی خطاب مورخہ 26 دسمبر کو تھا جس میں حضور نے نہایت دلنشیں اور اثر انگیز پیرایہ میں احبابِ جماعت کو اُن کی اہم اور عظیم ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور جلسہ کے بابرکت ایام کو خشوع و خضوع اور ذکر الہی کے ساتھ گزارنے اور اپنے لئے اور اسلامی ممالک کے لئے خصوصی دعا کی تحریک کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:.

Page 33

xxiii انوار العلوم جلد 24 یہ وقت اسلام کے لئے نہایت نازک ہے اور مختلف اسلامی ممالک اس وقت خطرہ میں ہیں.انڈونیشیا ہے، خود پاکستان بھی ہے، شام ہے، مصر ہے، ایران ہے.یہ ممالک اس وقت ایک خطرہ کے دور میں سے گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کی حفاظت کرے.چار پانچ سو سال کی غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزادی کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.خدا کرے کہ یہ آزادی ان کے لئے اور دینِ اسلام کے لئے مبارک ہو اور ان کی مشکلات دور ہوں اور وہ پھر دنیا میں اُس عزت کے مقام کو حاصل کریں جس عزت کے مقام کو کسی زمانہ میں انہوں نے حاصل کیا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.پس اپنے لئے اور سارے مسلمانوں کے لئے اور ساری جماعت کے لئے اور سلسلہ کے لئے اور اس کے مرکز کے لئے اور سلسلہ کے کاموں کے لئے اور دین اسلام کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور ان کے مقام کی بلندی کے لئے اور آپ کی شان کے ظہور کے لئے.ان سارے امور کے لئے دعا کرو.“ انوار العلوم جلد 24 صفحہ 504،503) (13) سال 1954ء کے اہم واقعات 1954ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے روز 127 دسمبر کو حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے اپنی ایمان افروز تقریر میں حسب دستور سال کے اہم واقعات پر جامع تبصرہ فرمایا.امسال ہونے والی ترقیات و فتوحات کا ذکر فرما کر بعض اہم مالی، اخلاقی اور علمی تحریکات بھی فرمائیں.یہ معركة الآراء تقریر بعض انتظامی امور کی اصلاح اور تربیتی نقائص کو دور کرنے کی نصیحت کے ساتھ ساتھ کئی بلند پایہ علمی مضامین پر بھی مشتمل ہے.اس اہم تقریر میں حضور نے خواتین کو مخاطب ہو کر مسجد ہالینڈ کے چندہ اور اسلامی پر وہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.عور توں کو چاہیے کہ اپنی روایات کو قائم رکھتے ہوئے اس رقم (80 ہزار کے قریب) کو جلد پورا کریں.“

Page 34

انوار لعلوم جلد 24 یہ ہیں : xxiv اس کے علاوہ حضور نے جن امور کی طرف مرد حضرات کو توجہ دلائی ان میں چند ایک i.عورتوں سے ملاطفت اور نرمی سے پیش آئیں.ان کے حقوق کی ادائیگی میں بہتر نمونہ دکھلائیں..نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیں کہ آج کی نسل پہلی نسل سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے.iii.کوئی شہر ، قصبہ اور گاؤں ایسا نہ ہو جس میں ہماری مسجد نہ ہو.iv.27 مقامات پر لائبریریاں قائم کی جائیں.۷.ناخواندگی کو دور کرنے اور علمی معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے.vi.ہر تعلیم یافتہ کم از کم اس سال ایک ناخواندہ احمدی کو پڑھائے.vii.اشاعت لٹریچر اور چندہ مساجد کی تحریک.viii.جماعت احمدیہ کو مؤثر رنگ میں تلقین کی کہ وہ اپنے علمی اور اخلاقی معیار کو بلند سے بلند تر کرے اور محنت، قربانی اور دیانت کو اپنا شعار بنائے نیز تمام قومی اخلاق کو درست کئے بغیر دنیا میں کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی.حضور نے اپنے پر ہونے والے قاتلانہ حملہ کی تفصیلات اور پھر معجزانہ شفاء کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کل کا بچہ آج بوڑھا ہو رہا ہے مگر احمدیت اپنی جوانی کی طرف بڑھ رہی ہے یہ زمین و آسمان کے خدا کا لگایا ہوا پودا ہے جو بڑھے گا اور ترقی کرتا ہوا آسمان تک پہنچے گا.اِس ضمن میں حضور نے تحریک جدید کے ذریعہ فتوحات کا بھی ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ :- " تم تھوڑے سے تھے جب تم دنیا میں نکلے اور تم نے نکل کر دنیا سے یہ منوالیا کہ اگر اسلام کی عزت رکھنے والی کوئی قوم ہے تو صرف احمدی ہیں.تم نے دنیا سے منوالیا کہ اگر عیسائیت کا جھنڈا زیر کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہی دلیلیں ہیں جو مرزا صاحب نے پیش کی ہیں.جب عیسائیت کا نپنے لگی ،جب وہ

Page 35

XXV انوار العلوم جلد 24 تھر تھرانے لگی، جب اس نے سمجھا کہ میرا مذہبی تخت مجھ سے چھینا جا رہا ہے اور یہ تخت چھین کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جارہا ہے تو تم نے کہا ہم اپنی مونچھیں نیچی کرتے ہیں.کیسی افسوس کی بات ہے.یہی تو وقت ہے تمہارے لئے قربانیوں کا.یہی تو وقت ہے تمہارے لئے آگے بڑھنے کا.اب جبکہ میدان تمہارے ہاتھ میں آرہا ہے تم میں سے کئی ہیں جو پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں.لیکن یاد رکھو! اس قسم کی عزت کا موقع اور اس قسم کی برکت کا موقع اور اس قسم کی رحمت کا موقع اور اس قسم کے خدا تعالیٰ کے قرب کے موقعے ہمیشہ نہیں ملا کرتے.سینکڑوں سال میں کبھی یہ موقعے آتے ہیں اور خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کو یہ موقعے مل جائیں.اور وہ اس میں برکتیں حاصل کرلیں.نوجوانوں کو میں خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ خدام کے ذریعہ سے تم نے بڑے بڑے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں.خدمت خلق کا تم نے ایسا عمدہ لاہور میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس کے اوپر غیر بھی عش عش کرتا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ تم روزانہ اپنی زندگیوں کو اس طرح سنوارتے چلے جاؤ گے کہ تمہارا خدمت خلق کا کام بڑھتا چلا جائے.لیکن یہ کام سب سے مقدم ہے کیونکہ اسلام کی خدمت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اور اسلام کی تبلیغ کادنیا میں پھیلانا یہ ناممکن کام اگر تم کر دو گے تو دیکھو کہ آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری اس خدمت کو دیکھ کر کس طرح تم پر اپنی جانیں نچھاور کریں گی." انوار العلوم جلد 24 صفحہ 557 ، 558)

Page 36

انوار العلوم جلد 24 1 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م مولانامودودی صاحب کے رسالہ " قادیانی مسئلہ " کا جواب سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 37

انوار العلوم جلد 24 2 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م

Page 38

انوار العلوم جلد 24 3 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی وو ” اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب ( تحریر کردہ نومبر 1953ء) مولانا مودودی صاحب نے ایک رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ مارچ 1953ء میں شائع کیا تھا.کہا جاتا ہے کہ یہ کتاب اس وقت تک ایک لاکھ کے قریب مختلف زبانوں میں شائع ہو چکی ہے.چونکہ ملک کے حالات ایسے تھے کہ لوگوں کی طبائع میں بہت کچھ جوش تھا اور مودودی صاحب نے ظلم سے کام لیتے ہوئے ایسے رنگ میں احمدیوں کے خلاف مضمون شائع کیا تھا کہ جس سے طبائع میں اشتعال پیدا ہو جائے اس لئے جماعت احمدیہ نے خیال کیا کہ کچھ عرصہ تک اس مضمون کا جواب نہ دیا جائے اور دیکھا جائے کہ اس خاموشی کا کیا اثر پڑتا ہے لیکن چونکہ اس خاموشی کا کوئی خوشگوار اثر نہیں پڑا اور چونکہ اب تک جماعت احمدیہ کی نظارت دعوۃ و تبلیغ کی طرف سے کوئی جواب اس رسالہ کا شائع و نہیں ہوا اس لئے ہم مزید انتظار نہ کرتے ہوئے اس کتاب کا جواب شائع کرتے ہیں.قادیانیوں کو اقلیت قرار دینے کے لئے (۱) سب سے اول مودودی صاحب نے کہا ہے کہ 31 علماء ( یا 33 علماء) نے فیصلہ کیا قادیانیوں کو جُدا گانہ اقلیت قرار دینے کا مطالبہ 33 سر بر آوردہ علماء نے کیا.مودودی صاحب یہ بھول گئے ہیں کہ علماء

Page 39

انوار العلوم جلد 24 4 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب کی جو مجلس 16 جنوری 1953ء کو کراچی میں ہوئی تھی اس میں 31 علماء تھے اور کراچی کے بعض دوسرے علماء نے شور مچایا تھا کہ اور علماء کو بھی اس کمیٹی میں شامل کیا جائے لیکن ان 1 3 علماء نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ گزشتہ اجتماع میں جو علماء شریک ہوئے تھے وہی شریک کئے جائیں زیادہ نہیں اور اس خبر کا ہیڈ نگ یہ دیا گیا کہ:- 31 علماء کے اجتماع میں مزید علماء کو شریک نہیں کیا جائے 1" وو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ 31 علماء کا ایک بورڈ بنا تھا 3 3 کا نہیں اور جب بعض دوسرے علماء نے اس بورڈ میں شمولیت کا مطالبہ کیا تو انہیں جواب دیا گیا کہ 31 سے زائد کوئی شخص شامل نہیں کیا جاسکتا لیکن لطیفہ یہ ہے کہ اسلامی جماعت کے تسنیم “اخبار نے وو 17 جنوری کی اشاعت میں تو یہ بات شائع کی اور اسی جماعت کے دوسرے اخبار ”کوثر “ نے 25 جنوری کو یہ خبر شائع کی کہ :- ”دستوری سفارشات پر غور کرنے کے لئے پاکستان بھر کے 33 علماء کا جو اجتماع کراچی میں 10 جنوری سے ہو رہا تھا اس نے مسلسل آٹھ روز غور کے بعد دستوری سفارشات کے متعلق اپنی مفصل رائے پیش کر دی ہے “.اور آخر میں لکھا کہ 22 دسمبر 1952ء کو جب دوبارہ اس مجلس کا اجلاس بلائے جانے کا فیصلہ ہوا تھا تو یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ انہی احباب کو دعوت دی جائے جو جنوری 1951ء کے اجتماع میں شریک ہوئے تھے.2 ترجمان القرآن جلد 35 عدد 4,3 1951ء میں بھی جنوری 1951ء میں منعقد ہونے والے اجلاس کی تشریح شائع ہو چکی ہے اور اس میں بھی 31 علماء کے اجتماع کا ذکر ہے.گویا ترجمان القرآن جنوری، فروری 1951ء 31 علماء کے اجتماع کا دعویٰ کرتا ہے اور جماعت اسلامی کا اخبار تسنیم “ بھی اپنی 17 جنوری 1953ء کی اشاعت میں یہ دعویٰ کرتا ہے کہ 31 علماء ہی اس اجتماع میں شریک تھے اور انہی کو آئندہ شامل کرنے کا فیصلہ دد

Page 40

انوار العلوم جلد 24 5 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب کیا گیا ہے اور کوثر “ ( 25 جنوری 1953ء) بھی یہی تسلیم کرتا ہے کہ جنوری 1951ء میں جو علماء بلوائے گئے تھے انہی کو آئندہ بلوانے کا فیصلہ کیا گیا تھا لیکن باوجود اس کے ”کوثر “ یہ لکھتا ہے کہ بلوائے جانے والے علماء 33 تھے.قطع نظر اس کے کہ 31 یا 33 جو تعداد بھی تھی آیا سارے پاکستان میں اتنے ہی علماء ہیں اور اگر اس سے زائد تعداد علماء کی ہے تو صرف ان 31 یا 33 کو کس بنیاد پر منتخب کیا گیا تھا.ہم یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ جب جنوری 1951ء میں 31 علماء کا اجتماع ہوا تھا اور جب جنوری 1953ء میں یہ فیصلہ کر دیا گیا تھا کہ ان 31 علماء سے زائد کوئی آدمی نہیں لیا جائے گا تو پھر یہ 31 کا عدد 33 کس طرح ہو گیا؟ آیا علماء اس چودھویں صدی میں بھی حساب سے اتنے ناواقف ہیں کہ وہ 31 اور 33 میں فرق نہیں سمجھ سکتے یا اس اجتماع میں شامل ہونے والوں کی اکثریت تقویٰ سے اتنی عاری تھی کہ جن علماء نے اس میں شمولیت کا مطالبہ کیا تھا ان کو تو اس نے یہ جواب دے دیا کہ 31 علماء سے زائد کسی اور کو نہیں بلایا جائے گا اس لئے آپ کو نہیں بلایا جاسکتا اور بعد میں اپنی کسی ذاتی غرض کے ماتحت دو اور علماء بیچ میں شامل کر لئے لیکن یہ بھی ہو تب بھی یہ اعتراض باقی رہ جاتا ہے کہ وہ علماء جو انتخاب کی باریکیوں پر اپنی رپورٹ میں اتنا زور دیتے ہیں اُنہوں نے علماء کے بورڈ کے انتخاب کے وقت کیوں کسی قاعدہ کو ملحوظ نہیں رکھا اور کیوں آپ ہی آپ ایک جماعت نے اپنے آپ کو لیڈر بنا کر گور نمنٹ کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں.مطالبہ اکثر تعلیم یافتہ لوگوں کی (2) دوسری بات مولانا مودودی صاحب نے یہ لکھی ہے کہ رائے اور پاکستان کے اکثر صوبوں با وجود اس کے کہ یہ مطالبہ کے عوام کی رائے کے خلاف تھا.قادیانی مسئلہ کا بہترین حل ہے.و تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد بھی تک اس کی صحت و معقولیت کی قائل نہیں ہو سکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصاً بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری

Page 41

انوار العلوم جلد 24 6 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے “.3 جب یہ بات ہے تو یہ عوام الناس کا مطالبہ کس طرح ہو گیا؟ کیا یہ ظلم اور خلاف حقیقت بات نہیں کہ ایک طرف تو مودودی صاحب خود لکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ گروہ کا کثیر حصہ اس مطالبہ کی حقیقت کو نہیں سمجھتا اور سندھ ، بنگال، بلوچستان، صوبہ سرحد، کراچی اور خیر پور کے عوام الناس کا اکثر حصہ بھی اس کی اہمیت سے واقف نہیں مگر باوجود اس کے وہ وزارت کو دھمکیاں دیتے ہیں کہ :- ا نہیں دیکھنا یہ چاہئے کہ مطالبہ معقول ہے یا نہیں اور اس کی پشت پر رائے عام کی طاقت ہے یا نہیں ؟ اگر یہ دونوں باتیں ثابت ہیں تو پھر جمہوری نظام میں کسی منطق سے ان کو رد نہیں کیا جا سکتا “ 4 مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ اور کسی منطق سے یہ مطالبہ رڈ ہو سکے یا نہ ہو سکے خود مودودی صاحب کی منطق سے وہ رڈ ہو جاتا ہے کیونکہ حکومت کی طرف سے ان کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ یہ مطالبہ ایسا ہے کہ:- تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ابھی تک اس کی صحت و معقولیت کی قائل نہیں ہو سکی ہے اور پنجاب و بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصاً بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے“.اور یہ بات خود مودودی صاحب کو تسلیم ہے اس لئے ہم اس مطالبہ کو قبول نہیں کر سکتے.اب بتائیے کہ حکومت کے اس جواب کا آپ کے پاس کیا منطقی رڈ ہو گا.کیا یہ جواب جمہوریت کے اصول کے عین مطابق ہو گا یا نہیں اور کیا یہ جو اب سچا ہو گا یا نہیں اور اگر یہ جواب جھوٹا ہے تو آپ نے یہ جھوٹ اپنی کتاب میں کیوں درج کیا؟ قادیانیوں نے ختم نبوت کی نئی تفسیر (3) مولانا مودودی صاحب کر کے سواد اعظم سے قطع تعلق کر لیا اس کے بعد یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ قادیانیوں کو اقلیت قرار دینا

Page 42

انوار العلوم جلد 24 7 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اس پوزیشن کا لازمی نتیجہ ہے جو خود احمدیوں نے اختیار کر رکھی ہے اور وہ پوزیشن یہ ہے کہ:- (3-الف) ختم نبوت کی اُنہوں نے نئی تفسیر کی ہے جو مسلمانوں کی متفق علیہ تفسیر سے علیحدہ ہے اور اس مسلمانوں کی تفسیر سے صحابہ کرام بھی متفق تھے اور اسی وجہ سے انہوں نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد دعوی نبوت کیا اور بعد کے مسلمان بھی یہی تعریف سمجھتے آئے ہیں لیکن احمدیوں نے اس آیت کی تفسیر یہ کی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کی مہر ہیں اور آئندہ جو نبی آئے گا وہ آپ کی تصدیق سے آئے گا.(3-ب) اس تفسیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد متعدد نبی آسکتے ہیں.(3- ج) اور یہ کہ شریعتِ اسلامی نے نبی کی جو تعریف کی ہے ان معنوں کے رُو سے حضرت مرزا صاحب مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں اور (4) (5) اس کے بعد انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ مرزا صاحب کو جو نبی نہیں مانتا وہ کافر ہے.اور پھر انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ ان کا اسلام اور ہے اور مسلمانوں کا اسلام اور ہے.ان کا خدا اور ہے اور مسلمانوں کا خدا اور ہے.ان کا قرآن اور ہے اور مسلمانوں کا قرآن اور ہے.ان کا حج اور ہے اور مسلمانوں کا حج اور ہے.اور اس اختلاف کو مزید کھینچ کر (6- الف) انہوں نے غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنانا جائز قرار دے دیا.(6) (6-ب) ان کا جنازہ پڑھنا ناجائز قرار دے دیا.(6-ج) ان کو لڑکی دینا نا جائز قرار دے دیا.(7) اور عملاً بھی وہ مسلمانوں سے کٹ گئے اور یہ کام اُنہوں نے ترک کر

Page 43

انوار العلوم جلد 24 8 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب دیئے.پس جبکہ خود اپنے فعل کی وجہ سے وہ اقلیت بن گئے ہیں تو ان کو اقلیت قرار دے دینا چاہئے.اب ہم ان اعتراضات کا نمبر وار جواب دیتے ہیں.بہ کرام اور ائمہ سلف نے (3.الف) مولانامودودی صاحب نے جو یہ لکھا ہے کہ ختم نبوت کی احمدیوں نے نئی صحاجب خاتم النسین کے کیا معنی سمجھے! تغیر کی ہے جو صحابہ کرام کی تفسیر اور بعد کے مسلمانوں کی تفسیر کے خلاف ہے یہ ایک بے دلیل دعوی ہی نہیں بلکہ خلافِ حقیقت دعویٰ بھی ہے.صحابہ کرام میں سے ایک مقتدر ہستی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہیں.آپ فرماتی ہیں: - قُولُوا خَاتَمَ النَّبِيِّينَ وَلَا تَقُولُوا لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ = یعنی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین تو ضرور کہو مگر یہ نہ کہا کرو کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں.ان الفاظ سے صاف ثابت ہے کہ : (الف) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا خاتم النبیین کے معنی اور سمجھتی تھیں اور لا نبيع بَعْدَہ کے معنی اور سمجھتی تھیں.(ب) وه لا نَبِع بَغدَہ کے الفاظ کو ذو المعانی خیال فرماتی تھیں کیونکہ باوجود اس کے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ لا نَبِيَّ بَعْدِي وہ فرماتی ہیں کہ لَا نَبِيَّ بَعْدَةُ نہ کہا کرو.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ تو اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلمانوں کو یہ نصیحت فرماتی ہوں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا ہے وہ نہ کہا کرو.پس ان کا مطلب یہی ہو سکتا تھا کہ اس فقرہ کے کئی معنے ہیں ایک معنوں سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے.اس لئے اس فقرہ کو استعمال نہ کیا کرو.وہ غلط فہمی یہی ہو سکتی تھی کہ کلیۂ بغیر کسی شرط کے ہر قسم کی نبوت کا انکار بھی اس فقرہ سے نکل سکتا تھا مگر وہ اس خیال کو درست نہیں سمجھتی تھیں اس لئے وہ اس فقرہ کے استعمال سے منع فرماتی تھیں.یہ ایسی ہی بات تھی جیسے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ہریرہ سے فرمایا کہ جاؤ اور اعلان کر دو کہ جس نے لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہا وہ داخل جنت ہو گیا.جب

Page 44

انوار العلوم جلد 24 9 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب رض حضرت ابو ہریرہ یہ اعلان لے کر باہر نکلے تو سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان سے ملے.حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کی بات سُن کر زور سے تھپڑ مارا اور وہ زمین پر گر گئے.زمین سے اُٹھ کر وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف شکایت کرنے کے لئے بھاگے.حضرت عمررؓ بھی ان کے پیچھے پیچھے آئے اور اُنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! کیا آپ نے یہ پیغام ابو ہریرہ کو دیا تھا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہاں.حضرت عمرؓ نے فرمایا.یارسول اللہ ! ایسا نہ کیجئے ورنہ لوگوں کو غلط فہمی ہو گی اور وہ عمل ترک کر بیٹھیں گے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بہت اچھا.اس حدیث سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو حضرت عمر رد نہیں کرتے بلکہ یہ ڈرتے ہیں کہ اس بات کے غلط معنی لے لئے جائیں گے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے شبہ کا اظہار فرماتے ہیں اور آپ اس شبہ کو کرتے ہیں.یہی موقف حضرت عائشہ اور احمدیوں کا ہے.وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان حدیثوں کو مانتے ہیں جن میں آپ نے فرمایا ہے کہ لا نَبِيَّ بَعْدِی لیکن وہ ان معنوں کو نہیں مانتے جو اس ذومعانی فقرہ سے لوگ نکال لیتے ہیں اور اس غلط مفہوم کولوگوں میں پھیلانے سے منع کرتے ہیں.نہ حضرت عائشہ کا منشاء تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ غلط بیان فرمایا ہے نہ حضرت عمر کا یہ منشاء تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غلط ہے.اگر وہ ایسا سمجھتے تو ان کا ایمان کہاں باقی رہتا اور پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی تصدیق کیوں فرما دیتے اور انہی کے طریق کو احمدیوں نے اختیار کیا ہے.دُنیا میں یہ بات عام ہے کہ بعض فقرے سیاق و سباق سے مل کر صحیح معنے دیتے ہیں.سیاق و سباق سے علیحدہ ہو کر صحیح معنے نہیں دیتے.مثلاً یہی لَا نَبِیَ بَعْدِی کا فقرہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور موقع پر حضرت علی کے متعلق استعمال فرمایا ہے.اس سیاق وسباق کو دیکھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ اس فقرہ کا وہ مفہوم نہیں ہے

Page 45

انوار العلوم جلد 24 10 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب جو اس کو وسیع کرنے والے لیتے ہیں.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انتَ مِنّى بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُّوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي 7 یعنی اے علی میں تجھے اس غزوہ پر جاتے ہوئے ( آپ اس وقت غزوہ تبوک پر جا رہے تھے) اپنے پیچھے خلیفہ مقرر کر چلا ہوں اور تیری حیثیت میرے پیچھے ایسے ہی ہو گی جیسے ہارون علیہ السلام کی موسی کے پیچھے تھی لیکن اے لوگو! یہ امر یاد رکھو کہ علی میرے بعد نبی نہ ہو گا یعنی ہارون موسی کی غیبت میں نبی تھے مگر علی رضی اللہ عنہ آپ کے عرصہ مغیبت میں نبی نہیں ہوں گے.( قرآن کریم میں بھی انتشار ضمائر کا اصول استعمال ہوا ہے اس لئے یہ اعتراض کی بات نہیں) پھر پرانے بزرگوں نے بھی لا نَبِيَّ بَعْدِی کے وہی معنی سمجھے ہیں جو احمدی بیان کرتے ہیں.حضرت شیخ اکبر محی الدین صاحب ابن عربی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں وو وہ نبوت جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ منقطع ہوئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے مقام نبوت نہیں.پس اب کوئی ایسی شریعت نہیں آئے گی جو آپ کی شریعت کی ناسخ ہو یا آپ کے احکام میں کوئی نیا حکم زائد کرے اور آپ کا یہ فرمان کہ رسالت اور نبوت ختم ہو گئی.پس اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہو گا نہ نبی.اس کے بھی یہی معنی ہیں“.8 پس مودودی صاحب احمدیوں پر فتویٰ لگانے سے پہلے حضرت عائشہ اور امام اکبر حضرت محی الدین صاحب ابن عربی پر بھی تو فتویٰ لگادیکھیں.حضرت مغیرہ بن شعبہ کہ وہ بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے ان کے متعلق بھی ابن ابی شیبہ نے روایت کی ہے (جسے در منثور نے نقل کیا ہے) کہ کسی شخص نے ان کے سامنے کہا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں جن کے بعد کوئی نبی نہیں.اس پر مغیرہ نے کہا تیرے لئے یہ کافی ہے کہ تو یہ کہے کہ آپ خاتم الانبیاء ہیں

Page 46

انوار العلوم جلد 24 11 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کاجوا (یعنی لا نَبِي بَعْدَۀ کہنے کی ضرورت نہیں) کیونکہ ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام ظاہر ہوں گے.اگر وہ ظاہر ہوئے تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نبی تھے اور آپ کے بعد بھی نبی ہوں گے.یہ روایت بتاتی ہے کہ خاتم النبیین کے جو معنی ہم کرتے ہیں وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک بھی اور حضرت مغیرہ بن شعبہ کے نزدیک بھی درست تھے اور وہ اس بات کے قائل تھے کہ بغیر شرط اور قید کے ہر قسم کی نبوت کے انقطاع کا عقیدہ رکھنا اسلام کی رو سے جائز نہیں.باقی رہا یہ کہ پھر کس قسم کا نبی آسکتا ہے.تو پرانے بزرگوں نے یہ کہا ہے کہ ایسا نبی آسکتا ہے جو کوئی نئی شریعت نہ لائے اور کوئی نیا محکم نہ لائے مگر بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ نہ صرف یہ دو شر طیں ضروری ہیں بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو اور تمام فیض اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا ہو اور اسے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی خدمت کے لئے اور قرآن کریم اور شریعت اسلامیہ کے احیاء کے لئے مقرر کیا گیا ہو.گویا آپ نے اس دروازہ کو کھولا نہیں بلکہ پہلے بزرگوں کی نسبت اور زیادہ تنگ کر دیا ہے.اب ایسا آدمی اُمت محمدیہ کو توڑنے والا کس طرح کہلا سکتا ہے.وہ تو جوڑنے والا ہے.مکان کی مرمت کرنے والا اُسے توڑتا نہیں جوڑتا ہے.مسیلمہ کذاب اور اسود عنسی وغیرہ سے ہمارے اس بیان سے ظاہر ان کی بغاوت کی وجہ سے جنگ کی گئی تھی ہے کہ جس قسم کے نبی کے آنے کو احمدی جائز سمجھتے ہیں اس کے خلاف صحابہ جنگ نہیں کرتے تھے بلکہ ایسے عقیدہ کی تائید کرتے تھے.پس مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہؓ نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا صحابہ کے اقوال کے خلاف ہے.مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد

Page 47

انوار العلوم جلد 24 12 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب جن لوگوں نے دعویٰ نبوت کیا اور جن سے صحابہ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا.مولانا کو اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا بہت دعویٰ ہے.کاش وہ اس امر کے متعلق رائے ظاہر کرنے سے پہلے اسلامی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور طلیحہ بن خویلد اسدی یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مدینہ کی حکومت کی اتباع سے انکار کر دیا تھا اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا.مولانا اگر تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 65 کو کھول کر پڑھنے کی تکلیف گوارا فرمائیں تو انہیں وہاں یہ عبارت نظر آئے گی کہ :- تمام عرب خواہ وہ عام ہوں یا خاص ہوں ان کے ارتداد کی خبریں مدینہ میں پہنچیں صرف قریش اور ثقیف دو قبیلے تھے جو ارتداد سے بچے اور مسیلمہ کا معاملہ بہت قوت پکڑ گیا اور کلے اور اسد قوم نے طلیحہ بن خویلد کی اطاعت قبول کر لی اور غلفان نے بھی ارتداد قبول کر لیا اور ہوازن نے بھی زکوۃ روک لی اور بنی سلیم کے امراء بھی مرتد ہو گئے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امراء یمن اور یمامہ اور بنی اسد اور دوسرے ہر علاقہ اور شہر سے واپس لوٹے اور اُنہوں نے کہا کہ عرب کے بڑوں نے بھی اور چھوٹوں نے بھی سب کے سب نے اطاعت سے انکار کر دیا ہے.حضرت ابو بکر نے انتظار کیا کہ اسامہ واپس آئے تو پھر اُن کے ساتھ جنگ کی جائے لیکن عیں اور ذبیان کے قبیلوں نے جلدی کی اور مدینہ کے پاس ابرق مقام پر آکر ڈیرے ڈال دیئے اور کچھ اور لوگوں نے ذوالقصہ میں آکر ڈیرے ڈال دیئے ان کے ساتھ بنی اسد کے معاہد بھی تھے اور بنی کنانہ میں سے بھی کچھ لوگ ان سے مل گئے تھے ان سب نے ابو بکر کی طرف وفد بھیجا اور مطالبہ کیا کہ نماز تک تو ہم آپ کی بات ماننے کے لئے تیار ہیں لیکن

Page 48

انوار العلوم جلد 24 13 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی زکوۃ ادا کرنے کے لئے ہم تیار نہیں لیکن حضرت ابو بکر نے ان کی اس بات کو رد کر دیا.10 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ صحابہ نے جن لوگوں سے لڑائی کی تھی وہ حکومت کے باغی تھے.انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا.مسیلمہ نے تو خو درسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آپ کو لکھا تھا کہ :- ” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لئے ہے 11 اور آدھا ملک قریش کے لئے ہے“.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اس نے حجر اور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی تمامہ بن اثال کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیا.12 اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا.اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حبیب بن زید اور عبد اللہ بن وہب کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی.عبد اللہ بن وہب نے تو ڈر کر اس کی بات مان لی مگر حبیب بن زید نے اس کی بات ماننے سے انکار کر دیا.اس پر مسیلمہ نے اس کا عضو عضو کاٹ کر آگ میں جلا دیا.13 اسی طرح یمن میں بھی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افسر مقرر تھے ان میں سے بعض کو قید کر لیا اور بعض کو سخت سزائیں دی گئیں.اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اسود عنسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوۃ چھین لینے کا حکم دیا تھا.14 پھر اس نے صنعاء میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ حاکم شہر بن باذان پر حملہ کر دیا.بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لوٹ مار کی ، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبر انکاح کر لیا.15 بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عنسی کے ساتھ مل گئے اور اُنہوں نے دو صحابہ عمر و بن حزم اور خالد بن سعید کو علاقہ سے نکال دیا.16

Page 49

انوار العلوم جلد 24 14 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیان نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے نبی ہونے کے دعویدار تھے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لئے جنگ کی تھی کہ وہ شریعت اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے اپنے علاقہ کی حکومت کے دعویدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعویدار ہی نہیں تھے بلکہ اُنہوں نے صحابہ کو قتل کیا.اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا.ان واقعات کے ہوتے ہوئے مولانا مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ نے مدعیانِ نبوت کا مقابلہ کیا.یہ جھوٹ نہیں تو اور کیا ہے ؟ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ کرام انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے تو کیا یہ محض اس وجہ سے ٹھیک ہو جائے گا کہ مسیلمہ کذاب بھی انسان تھا اور اسود عنسی بھی انسان تھا.ہم مولانا مودودی اور جماعتِ اسلامی سے بادب درخواست کرتے ہیں کہ اگر ان کے مد نظر اسلام کی خدمت ہے تو وہ سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کلی طور پر احتراز کیا کریں.اللہ تعالیٰ ان کو اس بات کی توفیق دے تاکہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبعین میں شامل ہونے کا موقع پاسکیں.اکابرین امت کی شہادت کہ باقی رہا یہ کہ احمدیوں نے خاتم النیسین میں "خاتم“ کے معنی مہر کے ہیں "خاتم“ کے معنی مہر کے کر دیئے ہیں حالا نکہ پہلے لوگ یہ معنے کرتے تھے.یہ ایک اتنی بڑی جہالت کا فقرہ ہے کہ مولانا مودودی جیسے آدمی سے اس کی امید نہیں تھی.علامہ الوسی اپنی تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں کہ لفظ ” خاتم “ (جو خاتم النبین میں استعمال ہوا ہے) اس چیز کو کہتے ہیں جس سے مُہر لگائی جاتی ہے.پس خاتم النبیین کے معنے ہیں جس سے نبیوں پر مہر لگائی گئی اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آپ آخری نبی تھے.17 علامہ الوسی کی تفسیر مسلمانوں کی مشہور ترین تفسیروں میں سے ہے اور وہ

Page 50

انوار العلوم جلد 24 15 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جوار مفسرین اور علماء میں پڑے پایہ کے آدمی سمجھے جاتے ہیں ایسا شخص اپنی کتاب میں صدیوں پہلے لکھ چکا ہے کہ خاتم النبیین میں ”خاتم “ کے معنے مہر کے ہیں.اسی طرح تفسیر فتح البیان جو در حقیقت علامہ شوکانی کی تفسیر فتح القدیر ہے لیکن نواب صدیق حسن خان صاحب نے اپنے نام سے شائع کروائی ہے اس میں لکھا ہے کہ ”خاتم میں ت کے نیچے زیر بھی بعض قراء توں میں آئی ہے اور بعض قراء توں میں زبر بھی آئی ہے.زیر کی صورت میں اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کے آخر میں آئے ہیں اور زبر کی صورت میں اس کے یہ معنی ہیں کہ آپ نبیوں کی مہر بن گئے جس سے وہ مُہریں لگاتے تھے اور فخر کرتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہم میں سے ہیں.مولانا محمود الحسن صاحب دیوبندی پر نسپل جامعہ دیوبند فرماتے ہیں:.محمد باپ نہیں کسی کا تمہارے مردوں میں سے لیکن رسول ہے اللہ کا اور مہر سب نبیوں کی اور ہے اللہ سب چیزوں کو جاننے والا “ 18 مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی مدرسہ دیوبند فرماتے ہیں کہ :- جیسے خاتم بفتح التاء کا اثر اور نقش مختوم علیہ میں ہوتا ہے ایسے ہی موصوف بالذات کا اثر موصوف بالعرض میں ہوتا ہے.حاصل مطلب آیت کریمہ اس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلعم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں.یہ ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت بھی حاصل ہے “.19 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولانا محمد قاسم صاحب کے نزدیک خاتم کا لفظ بمعنی مُہر استعمال ہوا ہے.علامہ ابن خلدون بھی فرماتے ہیں کہ صوفیاء ولایت کو اپنے مراتب کے فرق کے لحاظ سے نبوت سے مشابہت دیتے ہیں اور جس کو ولایت میں کمال حاصل ہو اُسے

Page 51

انوار العلوم جلد 24 16 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب ”خَاتَمُ الولایة کہتے ہیں.یعنی وہ اس مقام کو پا گیا جس میں ولایت کے سارے کمالات آجاتے ہیں جس طرح خاتم الانبیاء اس مقام کو پاگئے تھے جس میں نبوت کے تمام کمالات آجاتے ہیں “.20 ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ خاتم النین بمعنے نبیوں کی مہر احمدیوں کے کئے ہوئے معنے نہیں بلکہ شروع زمانہ سے علماء اسلام یہ معنے کرتے آئے ہیں اور اگر یہ معنے گفر ہیں.اگر ان معنوں کے رُو سے انسان اُمّتِ محمدیہ سے نکل جاتا ہے اگر وہ اسلامی حکومت کے شہری حقوق سے محروم ہو جاتا ہے تو پھر علامہ الوسی، علامہ شوکانی، مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی، مولانا محمود الحسن صاحب استاذ علماء دیو بند ان سب کو اُمت محمدیہ سے نکلا ہوا اور حکومت اسلامی کے شہری حقوق سے محروم قرار دیا جائے گا.اُمت محمدیہ کے روحانی علماء کا بلند ترین مقام (3-ب) پھر مولانا مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ اس تفسیر کا نتیجہ یہ نکلا کہ احمدیوں نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد متعد د نبی آسکتے ہیں.مولانا مودودی صاحب اور ان کے اتباع کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ بات ہم ہی نہیں کہتے.یہ بات بہت سے گزشتہ صلحاء بھی کہہ چکے ہیں بلکہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرما چکے ہیں.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْعُلَمَاءُ مَصَابِيحُ الْأَرْضِ خُلَفَاءُ الْأَنْبِيَاءِ وَ وَرَثَتِی وَوَرَثَةُ الْأَنْبِيَاءِ 21 یعنی علماء زمین کے چراغ ہیں نبیوں کے خلفاء ہیں، میرے وارث ہیں اور سب انبیاء کے وارث ہیں.اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بعض صوفیاء نے یہ حدیث منسوب کی ہے کہ ” عُلَمَاءُ أُمَّتِي كَأَنْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ“ 22 یعنی میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں.ایک دوسری جگہ مجدد الف ثانی صاحب یوں فرماتے ہیں کہ :- کمل تابعان انبیاء علیہم الصلوات والتسليمات بہت

Page 52

انوار العلوم جلد 24 17 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ قادیانی کمال متابعت و فرط محبت بلکه بمحض عنایت و موهبت جمیع کمالات انبیاء متبوعه خود را جذب مے نمائند و بکلیت برنگ ایشاں منصبع می گردند حتی که فرق نمی ماند در میان متبوعان و تابعان الا بالاصالة و التبعية " والا ولیة والآخرية 23 یعنی انبیاء کے جو کامل متبعین ہوتے ہیں وہ ان کی انتہائی متابعت اور محبت کی وجہ سے بلکہ محض اللہ تعالیٰ کی عنایت اور موہبت سے انبیاء کے تمام کمالات اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں اور انہیں کے رنگ میں کامل طور پر رنگین ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ تابع اور متبوع میں سوائے اصالت اور متابعت اور اول اور آخر ہونے کے اور کوئی فرق باقی نہیں رہ جاتا.، ختم نبوت کی تشریح بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں ان علماء اور کہ صلحاء نے جو مفہوم ختم نبوت کا بیان کیا ہے بالکل وہی مفہوم بلکہ اس سے زیادہ پابندیوں کے ساتھ بانی سلسلہ احمدیہ نے ختم نبوت کی تشریح کرتے ہوئے بیان کیا ہے.چنانچہ ہم آپ کے چند حوالہ جات ذیل میں درج کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.وہ خاتم الانبیاء ہے مگر ان معنوں سے نہیں کہ آئندہ اس سے کوئی روحانی فیض نہیں ملے گا بلکہ ان معنوں سے کہ وہ صاحب خاتم ہے بجز اس کی مہر کے کوئی فیض کسی کو نہیں پہنچ سکتا اور اس کی اُمت کے لئے قیامت تک مکالمہ اور مخاطبہ الہیہ کا دروازہ کبھی بند نہ ہو گا اور بجز اس کے کوئی نبی صاحب خاتم نہیں.ایک وہی ہے جس کی مہر سے 66 ایسی نبوت بھی مل سکتی ہے جس کے لئے امتی ہونالازمی ہے “.24 ” خاتم النبیین کا مفہوم تقاضا کرتا ہے کہ جب تک کوئی پردہ مغائرت کا باقی ہے اس وقت تک اگر کوئی نبی کہلائے گا تو گویا اس مہر کو توڑنے والا ہو گا جو خاتم النبیین پر ہے لیکن اگر کوئی شخص اس

Page 53

انوار العلوم جلد 24 18 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی خاتم اسبیین میں ایسا کم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور لفی غیریت کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آئینہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہو گیا ہو تو وہ بغیر مُہر توڑنے کے نبی کہلائے گا کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر.پس باوجو د اس شخص کے دعویٰ نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا گیا پھر بھی سیدنا محمد خاتم النبیین ہی رہا کیونکہ یہ محمد ثانی اسی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے“.25 ”عقیدہ کی رو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے.اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں مگر وہی جس کو بروزی طور پر محمدیت کی چادر پہنائی گئی کیونکہ خادم اپنے مخدوم سے جُدا نہیں اور نہ شاخ اپنے بیج سے جدا ہے “.26 ”اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں یہ شرف مکالمہ و مخاطبہ ہر گز نہ پاتا کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبو تیں بند ہیں شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا 66 اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو.27 ”خدا تعالیٰ نے جس جگہ یہ وعدہ فرمایا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اسی جگہ یہ اشارہ بھی فرما دیا ہے کہ آنجناب اپنی روحانیت کی رُو سے ان صلحاء کے حق میں باپ کے حکم میں ہیں جن کی بذریعہ متابعت تکمیل نفوس کی جاتی ہے اور وحی الہی اور شرف مکالمات کا ان کو بخشا جاتا ہے.....اب کمالِ نبوت صرف اسی ں کو ملے گا جو اپنے اعمال پر اتباع نبی کی مہر رکھتا ہو گا اور اس طرح پر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا اور آپ کا وارث ہو گا“.28

Page 54

انوار العلوم جلد 24 19 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی ”اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتم بنایا یعنی آپ کو افاضہ کمال کے لئے مُہر دی جو کسی اور نبی کو ہر گز نہیں دی گئی اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النسبیتین ٹھہرا.یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی.یہی معنے اس حدیث کے ہیں کہ عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيلَ.یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر ان کی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں.حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرہ کچھ دخل نہ تھا.اسی وجہ سے میری طرح ان کا یہ نام نہ ہوا کہ ایک پہلو سے نبی اور ایک پہلو سے امتی بلکہ وہ انبیاء مستقل نبی کہلائے اور براہ راست ان کو منصب نبوت ملا“.29 مذکورہ بالا تشریح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے ختم نبوت کی کی ہے اور ہر دیانتدار آدمی کو مانا ہو گا کہ اس تشریح میں آپ کلی طور پر صحابہ اور اولیاء و فقہاء اُمت سے متفق ہیں اور آپ پر حملہ کرنا صحابہ اور اولیاء امت پر حملہ کرنا ہے لیکن ہم اپنا آخری نوٹ اس بارہ میں لکھنے سے پہلے یہ بھی بتانا چاہتے ہیں کہ اجمالاً بانی سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ ختم نبوت کے بارہ میں تمام مسلمانوں کے مطابق تھا.آپ لکھتے ہیں :- ” دوسرے الزامات جو مجھ پر لگائے جاتے ہیں کہ یہ شخص لیلتہ القدر کا منکر ہے اور معجزات کا انکاری اور معراج کا منکر اور نیز نبوت کا مدعی اور ختم نبوت سے انکاری ہے یہ سارے الزامات باطل اور دروغ محض ہیں.ان تمام امور میں میر ا وہی مذہب ہے جو دیگر اہل سنت و جماعت کا مذہب ہے.....اب میں مفصلہ ذیل امور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا میں کرتا ہوں

Page 55

انوار العلوم جلد 24 20 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں اور ایسا ہی ملائکہ اور معجزات اور لیلتہ القدر وغیرہ کا قائل ہوں.30" امت محمدیہ میں ہزاروں انسان کمالات بانی سلسلہ احمدیہ کا عقیدہ نبوت حاصل کرنے والے آسکتے ہیں اور اولیاء سابق کا عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں بیان کرنے کے بعد اور یہ بتانے کے بعد کہ خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُمت محمدیہ کے باصفا علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء کا وارث اور اپنا وارث قرار دیا ہے ہم مودودی صاحب سے پوچھتے ہیں کہ اصل سوال حقیقت کا ہوتا ہے یا ناموں کا؟ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے باصفا علماء کو بنی اسرائیل کے انبیاء کا جانشین قرار دیتے ہیں.جب ایسے علماء اسلام میں ہوتے رہے ہیں جو اس منصب کے دعویدار رہے ہیں اور آئندہ بھی ایسے لوگ ہوتے رہیں گے جو نبیوں کے قائم مقام ہوں گے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وارث ہوں گے اور بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہوں گے تو اور کیا چیز باقی رہ گئی.یہ سچ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث میں مولانا مودودی اور ان کی طرح کے علماء مراد نہیں جن کی نظریں ہمیشہ زمین اور حکومت کی طرف رہتی ہیں آسمان اور عرش کی طرف کبھی نہیں اُٹھتیں وہ یہی سمجھتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے یہی فضل نازل ہو سکتا ہے کہ انہیں کسی ملک کی گورنری یا بادشاہت مل جائے مگر وہ علماء جو خلفاء انبیاء ہوتے ہیں اور وارث انبیاء ہوتے ہیں وہ ان چیزوں کو بالکل حقیر سمجھتے ہیں ان کی نظر دُنیا کی اصلاح اور اپنے نفس کی اصلاح اور اسلام کی اشاعت پر ہوتی ہے وہ زمین کی بادشاہتوں کو نہیں دیکھتے وہ آسمان کی بادشاہتوں کو دیکھتے ہیں.کراچی کا گورنر جنرل ہاؤس ان کی نظروں میں نہیں ہوتا.نہ قاہرہ کا شاہی قلعہ ان کے ذہنوں میں ہوتا ہے.وہ حضرت محی الدین صاحب

Page 56

انوار العلوم جلد 24 21 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب ابن عربی، حضرت شیخ عبد القادر صاحب جیلانی، حضرت جنید بغدادی، حضرت خواجہ معین الدین صاحب ،چشتی، شیخ شہاب الدین صاحب سہر وردی، شیخ بہاؤ الدین صاحب نقشبندی، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت امام مالک، حضرت امام ابو حنیفہ ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی، حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی مجد دالف ثانی کی طرح خدا اور اس کے عرش کی طرف دیکھتے ہیں اور اس اُمید میں بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ انہیں اُٹھائے اور اپنے تخت پر دائیں اور بائیں انہیں بٹھا دے.یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جن کی زبانوں سے جھوٹ نہیں نکلتا اور جو دنیوی لالچوں سے بالکل آزاد ہوتے ہیں جو تنگ نظری سے محفوظ ہوتے ہیں جو خدا کی مخلوق کو کچلنے اور مسلنے کی نیتیں نہیں کرتے بلکہ ان کو سنوارنے اور سدھارنے کے ارادے رکھتے ہیں وہ اسلام کو ایسی بھیانک شکل میں پیش نہیں کرتے کہ دُنیا اس کو دیکھ کر منہ پھیر لے بلکہ وہ اسلام کو ایسی خوش شکل میں پیش کرتے ہیں کہ شدید سے شدید مخالف بھی رغبت اور محبت سے اس کی طرف مائل ہو اور ایک مسلمان بچے طور پر یہ کہہ سکے کہ میرا دین وہ ہے کہ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ 31 اسلام کے احکام کو دیکھ کر اور اس کے محسن سلوک اور اس کی تعلیم کے جمال کو دیکھ کر کافر بھی بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ کاش وہ بھی مسلمان ہو تا اور اسلامی تعلیم اس کو حاصل ہوتی تاکہ وہ بھی اپنے ہم مجلسوں میں فخر کے ساتھ اپنی گردن اُٹھا سکتا اور کسی دُشمن کے سامنے اسے شر مند ہ نہ ہونا پڑتا.کیا مودودی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی نے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ بنی اسرائیل کے چھوٹے چھوٹے نبیوں سے بھی کم تھا جو بعض دفعہ دس دس گاؤں یا ہیں میں گاؤں کی طرف مبعوث ہوتے تھے.کیا ابو بکر، عمر، عثمان اور علی کے اخلاق فاضلہ ، معرفتِ تامہ یقین ما بعد ، توکل علی اللہ اور خدا کی راہ میں قربانی اور ایثار کے مقابلہ میں بنی اسرائیل کے ان سینکڑوں نبیوں کے بھی جن کے نام تک آج محفوظ نہیں ہیں ویسے ہی کارنامے پیش کئے جاسکتے ہیں ؟ اُمت محمدیہ میں جس قسم کے روشن ستارے پیدا ہوئے ہیں

Page 57

انوار العلوم جلد 24 22 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اور جس قسم کے شاندار وجود پیدا ہوئے ہیں ہم تو دیکھتے ہیں کہ موسوی اُمت اور دوسری بہت سی اُمتوں میں وہ لوگ جو کہ انبیاء کے نام سے پکارے جاتے ہیں ان سے ان کی شان کم نہیں تھی بلکہ بعض لحاظ سے بڑی تھی.مولانا مودودی صاحب کو احمدیوں کا غم کھائے جارہا ہے لیکن اسلام کا غم ان کے پاس تک نہیں پھٹکتا.اپنی عظمت کے حصول کی تمنا انہیں جلائے جارہی ہے لیکن عظمائے اسلام کی عظمت کے قیام کا خیال تک ان کے پاس نہیں پھٹکتا.ان کے نزدیک وہ سب کے سب نہایت گھٹیا قسم کے لوگ تھے اور نبوت کے کمالات سے محروم تھے جبکہ نہایت چھوٹے چھوٹے آدمی بنی اسرائیل کے اس مقام کو گئے.جب احمدی یہ کہتے ہیں کہ ہزاروں آدمی اس اُمت میں کمالاتِ نبوت حاصل کرنے والے آسکتے ہیں تو وہ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے عُلَمَاءُ أُمَّتِى كَانْبِيَاءِ بَنِي إِسْرَائِيل.باقی رہا یہ کہ خدا کی حکمت بعض مصلحتوں کی بناء پر اور بعض فتنوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی وقت کسی کو نبی کا نام نہیں دیتی تو یہ کوئی بات نہیں.اصل بات تو حقیقت کا پایا جانا ہے.جب حقیقت کسی میں پائی جاتی ہے تو خواہ ہم اس کا نام وہ نہ رکھیں یہ تو ہم ضرور کہیں گے کہ اس مقام کے لوگ اُمتِ محمدیہ میں پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے چلے جائیں گے کوئی حسد سے جل جائے کوئی بغض سے مر جائے ہمیں اس کی پرواہ نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سب نبیوں سے بالا ہے.آپ کی شان سب نبیوں سے ارفع ہے.آپ کے شاگ پہلے نبیوں کے شاگردوں سے ارفع ہیں.جو جلتا ہے جلے.اس صداقت کے اعلان سے ہم باز نہیں رہ سکتے.(3-ج) اس کے بعد مودودی صاحب تعریف نبوت اور بانی سلسلہ احمدیہ لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے موجودہ خلیفہ نے لکھا ہے کہ شریعت اسلامی جو معنے کرتی ہے ان معنوں کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب ہر گز مجازی نبی نہیں بلکہ حقیقی نبی ہیں.یہ سخت غضب ہو گیا ہے.نہ معلوم مولانا کو اس پر کیوں غصہ آیا.جماعت احمدیہ کے موجودہ خلیفہ تو یہ بھی کہتے ہیں

Page 58

انوار العلوم جلد 24 23 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کہ آجکل کے مسلمان جو تعریف نبی کی سمجھتے ہیں اس کے لحاظ سے حضرت مرزا صاحب ہرگز نبی نہیں اُن کو اسلام کی تعریف سے کیا غرض ہے اُن کی اپنی تعریف کی رُو سے حضرت مرزا صاحب نبی نہیں ہیں اور اس میں احمدی بھی ان سے متفق ہیں اور اسلام کی بیان کردہ اقسامِ نبوت میں سے ایک قسم جس کے کھلا رہنے کا ثبوت قرآن و حدیث سے ملتا ہے اگر اس کے کھلا رہنے کا احمدی دعوی کریں تو ان پر کیا اعتراض ہے ؟ کیا اسلام یہ نہیں کہتا کہ خدا تعالیٰ بعض لوگوں کو نبی کے نام سے پکار لیتا ہے؟ (رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے کہ اگر میرابیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور نبی ہو تا.32 ) اور کیا اسلام یہ نہیں کہتا کہ اولیاء امت پر خدا تعالیٰ کا الہام ہمیشہ اتر تارہے گا.(إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ أَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ التي كُنتُم تُوعَدُونَ (33) اور کیا حدیث یہ نہیں کہتی کہ کوئی شخص اپنے نفس کو اس بات سے محروم نہ سمجھے کہ کسی دن اللہ تعالیٰ کے محکم کو وہ اپنے نفس میں محسوس کرے لیکن اس کے بعد وہ اس محکم کو لوگوں کے سامنے بیان نہ کرے.اللہ تعالیٰ اس سے ایک دن پوچھے گا کہ کیوں تُو نے میری بات لوگوں کو نہیں بتائی ؟ اس پر وہ شخص کہے گا کہ اے خدا! میں لوگوں سے ڈرتا تھا کہ وہ مجھے جھٹلا دیں گے.اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں زیادہ حقدار تھا کہ تو مجھ سے ڈرتا.34 اسی طرح کیا اولیاء اسلام میں سے مولانا روم یہ نہیں فرماتے کہ چوں بدادی دست خود در دست پیر بہر حکمت کو علیم است و خبیر کو نبی وقت خویش است اے مرید زانکه او نور نبی آمد پدید! 35 یعنی جب تو اپنا ہاتھ اپنے پیر کے ہاتھ میں دیتا ہے اس غرض سے کہ وہ دین اسلام کو خوب جاننے والا اور واقف ہے اور اس لئے کہ اے مرید ! وہ اپنے وقت کا نبی ہے.اس لئے نبی ہے کہ نبی کا نور اس کے ذریعہ سے ظاہر ہو گیا.

Page 59

انوار العلوم جلد 24 24 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب (مولانا روم وہ ہیں جن کی شاگردی اور نقل کا دعوی ڈاکٹر اقبال کو ہے اور اقبال وہ ہیں جن کو آجکل کے علماء کا طبقہ قائد اعظم سے بڑھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے.مولانا مودودی صاحب فرمائیں کہ یہ مولانا روم بھی اسلام سے خارج اور کشتنی اور گردن زدنی تھے یا ان کا یہ دعویٰ صحیح تھا؟) مسئله لہ کفر و اسلام کی حقیقت (4) آگے چل کر مولانا مودودی فرماتے ہیں کہ نبوت کا یہ لازمی نتیجہ تھا کہ احمدیوں نے یہ اعلان کر دیا کہ جو مرزا صاحب کو نہیں مانتا وہ کافر ہے.مولانا مودودی صاحب اور ان کے اتباع کو یاد رکھنا چاہئے کہ مرزا صاحب تو خدا کی طرف سے مامور تھے.حدیثوں میں تو یہ بھی آتا ہے کہ مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا فَقَدْ كَفَرَ جِهَارًا.30 یعنی جو شخص جانتے بوجھتے ہوئے نماز کو چھوڑتا ہے وہ اپنے کفر کا خود اعلان کر دیتا ہے.اب مولانا مودودی صاحب فرمائیں کہ کتنے مسلمان آجکل نماز پڑھتے ہیں؟ ہم اوپر بتا آئے ہیں کہ مولانا مودودی صاحب پوری طرح صحیح واقعہ بیان کرنے کے عادی نہیں ہیں لیکن یہ اتنی کھلی بات ہے کہ ہم اس میں مولانا مودودی صاحب کی گواہی ہی ماننے کے لئے تیار ہیں.وہ بتادیں کہ سو میں سے ایک نماز پڑھتا ہے یا ہزار میں سے ایک نماز پڑھتا ہے یا کتنے پڑھتے ہیں اور آیا وہ جان بوجھ کر نماز کے تارک ہیں یا نماز کے وقت کوئی شخص انہیں پکڑ لیتا ہے.مولانا مودودی صاحب اس گواہی کے دینے سے پہلے مہربانی فرما کر اپنا یہ بیان ضرور پڑھ لیں:.میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو وہ بالکل جھوٹ کہتا ہے.کافر قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے.یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے.کافر نہیں جانتا کہ

Page 60

انوار العلوم جلد 24 وہ 25 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تعلیم ہے اور آپ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے.اگر مسلمان بھی اسی طرح ناواقف ہو تو ہ مسلمان کیسے ہوا.کافر خدا کی مرضی پر چلنے کی بجائے اپنی مرضی پر چلتا ہے.مسلمان بھی اگر اسی طرح خود سر اور آزاد ہو ، اسی کی طرح اپنے ذاتی خیالات اور اپنی رائے پر چلنے والا ہو ، اسی کی طرح خدا سے بے پر واہ اور اپنی خواہش کا بندہ ہو تو اسے اپنے آپ کو مسلمان (خدا کا فرمانبردار) کہنے کا کیا حق ہے.کافر حلال و حرام کی تمیز نہیں کرتا اور جس کام میں اپنے نزدیک فائدہ بالذات دیکھتا ہے اس کو اختیار کر لیتا ہے چاہے خدا کے نزدیک وہ حلال ہو یا حرام.یہی رویہ اگر مسلمان کا ہو تو اس میں اور کافر میں کیا فرق ہوا؟ غرض یہ کہ جب مسلمان بھی اسلام کے علم سے اتنا ہی کو راہے جتنا کا فر ہو تا ہے اور جب مسلمان بھی وہی سب کچھ کرے جو کافر کرتا ہے تو اس کو کافر کے مقابلہ میں کیوں فضیلت حاصل ہو اور اس کا حشر بھی کافر جیسا کیوں نہ ہو “.37 اب مولانا صاحب فرمائیں کہ وہ کون سے مسلمان ہیں جن کو احمدیوں نے کافر قرار دیا ہے.وہ اوپر کے حوالہ میں اشار تا فیصلہ کر چکے ہیں کہ سوائے ان کی جماعت کے اور کوئی مسلمان ہی نہیں اور جب یہ بات ہے تو پھر ان کا غصہ صرف اسی بات پر ہے نہ کہ ان کے اتباع کو کیوں کافر قرار دے دیا گیا.باقی مسلمانوں کو تو وہ خود بھی کافر کہہ چکے ہیں.66 لیکن ہم یہاں یہ کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ احمدیوں کے نزدیک کافر کی بھی تعریف اور ہے جس طرح نبی کی تعریف اور ہے.کفر کے جو معنے آجکل کے علماء کرتے ہیں احمدیوں کے نزدیک مسلمان تو خیر مسلمان ہیں ہی، یہودی اور عیسائی اور ہندو بھی اس تعریف کی رو سے کافر نہیں کہلا سکتے کیونکہ کفر کی وہ تعریف نہایت ظالمانہ ہے.

Page 61

انوار العلوم جلد 24 26 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب احمدی تمام مسلمان کہلانے والوں کو پھر مولانامودودی صاحب کو یہ بھی امت محمدیہ میں ہی سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہے ہیں یادر ہے کہ احمدی تمام مسلمان کہلانے والے لوگوں کو اُمتِ محمدیہ میں سمجھتے ہیں اور اگر انہوں نے کسی جگہ پر کافر کا لفظ استعمال بھی کیا ہے تو اس کے صرف یہ معنے ہیں کہ وہ مرزا صاحب کی صداقت کے منکر ہیں یہ معنے نہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں نہیں یا اصولِ اسلام کو نہیں مانتے.کافر کے معنے عربی زبان میں منکر کے ہیں.جب کوئی شخص مرزا صاحب کو نہیں مانتا تو عربی زبان اس کے لئے کافر کا لفظ ہی استعمال کیا جائے گا لیکن اگر کوئی یہ لفظ بولے تو اس کے معنے کھینچ تان کر یہ کر لیں کہ وہ اسے خدا اور رسول کا منکر کہتا ہے یہ سخت ظلم کی بات ہے.کبھی احمدیوں نے مسلمانوں کو امت محمدیہ سے خارج نہیں سمجھا.کبھی احمدیوں نے مسلمان کہلانے والوں کو کلمہ کا منکر قرار نہیں دیا، کبھی احمدیوں نے مسلمانوں کو خدا اور قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حشر و نشر اور تقدیر کا منکر قرار نہیں دیا.جب بھی کہا یہی کہا ہے کہ ان سے غلطی ہوئی ہے کہ انہوں نے ایک بڑی بھاری صداقت کا انکار کیا ہے.یعنی حضرت مرزا صاحب کو جو خدمت دین اور اشاعت کے لئے آئے تھے نہیں مانا اور اس طرح اسلام کی ترقی میں روک بنے.مرزا صاحب کے الہامات میں یہ صاف طور پر واضح ہے کہ تمام مسلمان کہلانے والے امت محمدیہ میں شامل ہیں.آپ کا ایک الہام ہے رَبِّ أَصْلِحْ أُمَّةً مُحَمَّدٍ 38 یعنی اے میرے خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی اصلاح فرما.اسی طرح آپ کا الہام ہے کہ ”سب مسلمانوں کو جو روئے زمین پر ہیں جمع کرد عَلَى دِينِ وَاحِدٍ مودودی صاحب اس بات کو بھی تو نہ بھولیں کہ مرزا صاحب نے کسی شخص کو کافر کہنے میں ابتد ا نہیں کی.آپ صاف فرماتے ہیں:.” اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ 39

Page 62

انوار العلوم جلد 24 27 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان کلمہ گو کو کافر ٹھہرایا.حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی.خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور تمام پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان کے فتوؤں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک ایک گناہ ہو گیا.کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا“.40 اسی طرح فرماتے ہیں:.”اس معاملہ میں ہمیشہ سے سبقت میرے مخالفوں کی طرف سے ہے کہ اُنہوں نے مجھ کو کافر کہا.میرے لئے فتویٰ تیار کیا میں نے سبقت کر کے ان کے لئے کوئی فتویٰ تیار نہیں کیا “.41 بانی سلسلہ کے متعلق علماء کا فتوی گفر مولانا یہ بھول گئے ہیں کہ بارہ سال تک بانی سلسلہ احمدیہ مسلمانوں کی منت سماجت کرتے رہے کہ یہ تعدی نہ کرو اور مجھے غیر مسلم نہ کہو اور بارہ سال تک ان کی مسجدوں میں احمدی نمازیں پڑھتے رہے بلکہ بانی سلسلہ احمدیہ نے بھی بعض دفعہ ان کی مسجدوں میں جاکر نماز پڑھی لیکن علماء اسلام کا دل نہ پھیجنا تھانہ پیجا.وہ برابر آپ کے متعلق یہی لکھتے چلے گئے کہ :- ”مرزا (کادیانی) کافر ہے ، چھپا مرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ہے، ملحد ہے، دجال ہے، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا.لَا شَكٍّ أَنَّ مِرْزًا كَافِرٌ مُرْتَةٌ زِنْدِيْقٌ ضَالٌ مُضِلُّ مُلْحِدٌ دَجَّالٌ وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ“ 42 ”مرزا قادیانی اہل اسلام سے خارج ہے اور سخت ملحد اور ایک دجال دجالون مخبر عنہا سے ہے اور پیر واس کے گمراہ ہیں“.43

Page 63

انوار العلوم جلد 24 28 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی ”حقیقت میں ایسا شخص منجملہ ان دجالوں کے ایک دنبال مگر بڑا بھاری دجال بلکہ اس کا عم وخال ہے “.44 ”میرے نزدیک اس کے کفر میں کوئی شک نہیں ہے.وہ کا فر ہے ، بد ہے اور شریعت محمدیہ کا مخالف.اس کو باطل کرنا چاہتا ہے.خدا اُس کا منہ کالا کرے“.45 وو ” وہ خود گمراہ ہے اور وں کو گمراہ کرنے والا کذاب ہے.دنیا میں فساد ڈالنے والا.اس کے چھپے مرتد ہونے اور کُفر میں کوئی گفتگو نہیں.خدا اس کو ہلاک کرے وو 46 << وہ بے شک دائرہ اسلام سے خارج ہے اور ملحد و زندیق ہے.نَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُوْرِهِ - 47 ”مرزا قادیانی پابندی اسلام خصوصاً مذہب اہلِ سنت سے خارج ہے.....اس کا دعویٰ کنبوت اور اشاعت اکاذیب اور اس ملحدانہ طریق کی نظر سے اس کو ان تیس دجالوں میں سے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے ایک دجال کہہ سکتے ہیں اور اس کے پیروان اور ہم مشربوں کو ذریات دجال “.48 غلام احمد قادیانی کج رو و پلید جس کا عقیدہ فاسد ہے اور رائے کھوئی گمراہ ہے لوگوں کو گمراہ کرنے والا چھپا مرتد ہے بلکہ وہ اپنے شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے “.49 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے آپ کے متعلق لکھا:.”اسلام کا چھپا دشمن، مسیلمہ ثانی، دجال زمانی، نجومی، رملی، جو تشی، اٹکل باز، جفری ، بھنگڑ ، ارڈ پوپو ، مکار ، جھوٹا، فریبی، ملعون، شوخ، گستاخ، مثیل الدجال، اعور الد جال، غدار، کاذب، کذاب ذلیل و خوار، مردود، بے ایمان ،روسیاہ، رہبر ملاحده، عبد الدراهم والدينار،

Page 64

انوار العلوم جلد 24 29 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی تمغات لعنت کا مستحق، مورد ہزار لعنت، ظلام، افاک، مفتری علی اللہ، بے حیا، دھوکا باز، حیلہ باز، بھنگیوں اور بازاری شہروں کا سر گروہ، دہریہ ، جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق، جس کا خدا شیطان، یہودی، ڈاکو، خونریز، بے شرم، مگار، طرار ، جس کی جماعت بدمعاش، بد کردار، زانی، شرابی ، حرام خور ، اس کے پیر و خرانِ بے تمیز “ 50 مولوی عبدالحق صاحب غزنوی عم بزرگوار مولانا داؤد غزنوی نے اشتہار ضَرْبُ النِّعَالِ عَلَى وَجْهِ الدَّجَال میں جو 1896ء میں شائع ہوا آپ کے متعلق لکھا:- دنبال ملحد ، کافر، روسیاه، بدکار، شیطان، لعنتی، بے ایمان، ذلیل و خوار، خسته ، خراب، کاذب، شقی سرمدی، لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا، اللہ کی لعنت ہو، اس کی سب باتیں بکواس ہیں“.بارہ سال تک برابر ان فتوؤں کو سننے کے بعد اگر بانی سلسلہ احمدیہ نے ان لوگوں کے خلاف جنہوں نے یہ فتوے دیئے تھے یا ان لوگوں کے خلاف جو ان فتوؤں متفق تھے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے مطابق کہ إذَا الْفَرَا الرَّجُلُ أَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا اَحَدُهُمَا یعنی اگر کوئی اپنے بھائی کو کافر کہے تو دونوں فریق میں سے ایک ضرور کافر ہو گا.کوئی فتویٰ دیا تو کیا غضب کیا اور کس طرح اس فتویٰ کی وجہ سے آپ امت محمدیہ سے الگ ہو گئے.مولانامودودی اور ان کے ہمنوا بزرگ تو بارہ سال تک مرزا صاحب پر فتویٰ لگانے کے بعد اُمتِ محمدیہ میں افتراق پیدا کرنے والے نہ بنے لیکن بارہ سال کے بعد مرزا صاحب ان فتوؤں کا جواب دینے کی وجہ سے اشتقاق اور افتراق پیدا کرنے کا موجب بن گئے.کیوں؟ کیا اس لئے کہ مرزا صاحب کی حمایت تھوڑی تھی اور ان علماء کی باتوں کی تصدیق کرنے والے بہت تھے.پھر ہم پوچھتے ہیں مودودی صاحب کو جانے دیجئے باقی علماء اسلام نے ایک دوسرے کے متعلق کیا کہا ہے.مودودی صاحب نے اپنی جماعت کے سوا

Page 65

انوار العلوم جلد 24 30 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب جو باقی سب کو کافر کہا ہے اس کا حوالہ ہم اوپر لکھ آئے ہیں.اب سُنیے باقی لوگ مو دودی صاحب کی جماعت کے متعلق کیا کہتے ہیں.جماعت اسلامی کے کفر کے مولانا اعزاز علی صاحب امر وہی جماعت اسلامی متعلق دوسرے علماء کا فتویٰ کے متعلق لکھتے ہیں :.کی ہے.”میرے نزدیک یہ جماعت اپنے اسلاف ( یعنی مرزائی) سے بھی مسلمانوں کے دین کے لئے زیادہ ضرر رساں ہے “.52 (سنا آپ نے.آپ کے ایک ہم مشرب احمدیوں کو آپ کا بزرگ قرار دیتے ہیں) مولانا فخر الحسن صاحب مدرس دارالعلوم دیو بند نے بھی اس فتویٰ کی تائید سید سیدی حسن صاحب صدر مفتی دارالعلوم دیو بند لکھتے ہیں:.مسلمانوں کو اس تحریک میں ہر گز شریک نہیں ہونا چاہئے ان کے لئے زہر قاتل ہے.لوگوں کو اس میں شریک ہونے سے روکنا چاہئے.ورنہ گمراہ ہوں گے بجائے فائدہ کے نقصان ہو گا.شرعاً اس تحریک میں حصہ لینا ہر گز جائز نہیں“.53 مولانا حسین احمد صاحب مدنی شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند لکھتے ہیں:.”مودودی صاحب اور ان کے اتباع کے اصول دین حنیف کی جڑوں پر کاری ضرب لگانے والے ہیں اور ان کے ہوتے ہوئے دین اسلام کا مستقبل نہایت تاریک نظر آتا ہے “.54 مولوی ابو المظفر صاحب اپنے ٹریکٹ مودودیت اور مرزائیت میں لکھتے ہیں:.بلاریب و شک یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ مرزائیت کی طرح مودودیت بھی ایک نہایت خطرناک عظیم فتنہ ہے جس کا فرو کرنا ہر بہی خواہ اسلام کا اہم ترین فریضہ ہے “.55

Page 66

انوار العلوم جلد 24 31 مولا نا راغب احسن ایم.اے لکھتے ہیں:.مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م جماعت مودودیت دراصل اسلام کے نام پر ایک بالکل جدید تخلیق اور جدید مذہب کی تعمیر کر رہی ہے.6 66 56 مولوی حامد علی خان صاحب مفسر مدرسہ عالیہ رامپور لکھتے ہیں کہ :- وہ ایک بالکل نیا بدعتی فرقہ ہے اس کا اندازِ تبلیغ غلط اور وو گمراہ کن ہے اور تفریق بین المسلمین کا باعث ہے“.57 پھر جماعت اسلامی پر ہی بس نہیں آپس میں بھی یہ علماء ایک دوسرے کو ایسا ہی سمجھتے ہیں.چنانچہ سنی علماء کا فتویٰ شیعوں کے متعلق ذیل میں درج ہے:.عنی علماء کا فتویٰ شیعوں کے متعلق (1): "شیعہ اثنا عشریہ قطعاً خارج از اسلام ہیں شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کا ذبیحہ حرام ، ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے.ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے “.58 (نوٹ: اس پر علماء دیو بند کے علاوہ دیگر علماء کے اسماء گرامی بھی درج ہیں) (2) : "روافض صرف مرتد اور کافر اور خارج از اسلام ہی نہیں بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے دشمن بھی“.59 (3): مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی لکھتے ہیں :- ان رافضیوں، تیرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں “.60 (4) حضرت شاہ عبد العزیز صاحب دہلوی فتاوی عزیزی میں تحریر فرماتے ہیں کہ :- فرقہ امامیہ منکر خلافت حضرت صدیق اند و در کتب فقه مسطور است کہ ہر کہ انکار خلافت حضرت صدیق اکبر کند منکر اجماع

Page 67

انوار العلوم جلد 24 32 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی قطعی شده و کافر گشت.یعنی شیعہ حضرت صدیق اکبر کی خلافت کے منکر ہیں اور فقہ کی کتب میں لکھا ہے کہ جو شخص حضرت صدیق کی خلافت کا انکار کرے اس نے اجماع کا انکار کیا اور کافر ہو گیا“.11 (5) فتاوی عالمگیریہ میں لکھا ہے کہ " مَنْ أَنْكَرَامَامَةَ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ فَهُوَ كَافِرُ وَ كَذَالِكَ مَنْ اَنْكَرَ خِلَافَةَ عُمَرَ“ 62 یعنی جو لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی امامت اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے منکر ہیں وہ سب کا فر ہیں.شیعہ علماء کا فتویٰ سنیوں کے متعلق شیعہ صاحبان کا فتویٰ سنیوں کے (1) حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں:.متعلق ذیل میں درج ہے:.مَنْ عَرَفَنَا كَانَ مُؤْمِناً وَ مَنْ أَنْكَرَنَا كَانَ كَافِراً وَ مَنْ لَّمْ 66 يَعْرِفْنَا وَ مَنْ لَّمْ يُنْكِرْ نَا كَانَ ضَالَّا 63 یعنی جس نے ہم ائمہ کو شناخت کر لیا وہ مؤمن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ مانتا ہے اور نہ انکار کر تا ہے وہ ضال ہے.(2) حدیقہ شہداء میں یہ فتویٰ درج ہے کہ :- ” سوائے فرقہ اثنا عشریہ امامیہ کے ناجی نیست کشته شود خواہ بموت بمیرد “.یعنی سوائے شیعوں کے اور کوئی بھی ناجی نہیں خواہ وہ مارا جائے یا اپنی آپ موت مرے.یعنی سنی شہید بھی کافر ہے “.64 (3) حضرت امام جعفر صادق فرماتے ہیں کہ :- اگر کسی شیعہ کو سٹی کی نماز جنازہ میں شریک ہونا پڑے تو وہ یہ دعا کرے.اللّهُمَّ اِمْلَأُ جَوْفَهُ نَاراً وَ قَبْرَهُ نَاراً وَ سَلَّطَ عَلَيْهِ الْحَيَّاتِ وَ الْعَقَارِب 15 یعنی اے خدا تو اس کے پیٹ میں آگ بھر 65

Page 68

انوار العلوم جلد 24 33 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی دے اور اس کی قبر میں بھی آگ بھر دے اور اس پر عذاب کے لئے سانپ اور بچھو مسلّط فرما.دیوبندی علماء کا فتویٰ بریلویوں کے متعلق دیوبندیوں کا فتوی بریلویوں ہے:- کے متعلق ذیل میں درج ”مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی مع از ناب و اتباع کے کافر اور جو انہیں کافر نہ کہے اور ان کو کافر کہنے میں کسی وجہ سے بھی شک و شبہ کرے وہ بھی بلا شبہ قطعی کا فر ہے.66 6 بریلوی علماء کا فتویٰ دیوبندیوں کے متعلق بریلویوں کا فتوی دیو بندیوں کے متعلق ذیل میں درج ہے:.(1) ”مولوی احمد رضا خان صاحب اپنی کتاب ”حسام الحرمین “ میں لکھتے ہیں کہ :- ”هُؤُلاءِ الطَّوَائِفُ كُلُّهُمْ كَفَّارٌ مُرْتَدُّونَ خَارِجُوْنَ خارج ہیں.عَنِ الْإِسْلَامِ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِيْنَ“.67 یعنی یہ سب کے سب اسلام کے اجماعی فتوی کی رو سے کافر، مرتد اور اسلام سے (2) اسی طرح تین سو علماء نے دیوبندیوں کے متعلق یہ متفقہ فتوی دیا کہ:- وو وہابیہ دیوبند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتی کہ حضرت سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خاص ذات باری تعالیٰ جل شانہ کی اہانت و ہتک کی وجہ سے قطعا مر تد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و گفر سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے.ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و گفر میں ذرا بھی شک کرے

Page 69

انوار العلوم جلد 24 34 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے اور اس شک کرنے والے کے گفر ، میں شک کرے وہ بھی مرتد و کافر ہے “.68 مقلد علماء کا فتویٰ اہلحدیث کے متعلق (1) مقلدین کا فتویٰ اہل حدیث وو کے متعلق ذیل میں درج ہے:.مرتد ہیں باجماع امت اسلام سے خارج ہیں جو ان کے اقوال کا معتقد ہو گا کافر اور گمراہ ہو گا.ان کے پیچھے نماز پڑھنے ، ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے اور تمام معاملات میں ان کا حکم بجنسہ وہی ہے جو مرتد کا ہے“.69 (نوٹ: اس فتویٰ پر 77 علماء کے دستخط ہیں.) (2) ” فرقہ غیر مقلدین جن کی علامت ظاہری اس ملک میں آمین بالجہر اور رفع یدین اور نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنا اور امام کے پیچھے الحمد پڑھنا ہے اہل سنت سے خارج ہیں اور مثل دیگر فرق ضالہ 66 رافضی خارجی وَغَيْرَهُمَا کے ہیں “.70 (نوٹ: اس فتویٰ کے نیچے قریباً 70 علماء کی مہریں ثبت ہیں.) اہلحدیث علماء کا فتویٰ مقلدین کے متعلق اہلحدیث کا فتوی مقلدین ہے:- کے متعلق ذیل میں درج جامع الشواہد صفحہ 2 پر بحوالہ کتاب اعتصام السنہ مطبوعہ کا نپور یہ فتویٰ درج ہے چاروں اماموں کے پیرو اور چاروں طریقوں کے متبع یعنی حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور چشتیہ اور قادریہ و نقشبندیہ و مجددیہ لوگ مشرک اور کافر ہیں“.71 مولانا مودودی صاحب ان فتوؤں کو پڑھیں اور دیکھیں کہ یہ رسم آج کی نہیں

Page 70

انوار العلوم جلد 24 بلکہ بہت دیر سے چلی آرہی ہے ، 35 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی ایس گناہیست که در شهر شما نیز کنند صحابہ کے زمانہ میں خوارج نے یہ اعلان کیا تھا کہ جو شخص کبیرہ گناہ کا مرتکہ ہوتا ہے وہ کافر ہو جاتا ہے اور یہ کہ نَعُوذُ باللہ حضرت عثمان اور حضرت علی نے کبیرہ گناہ کا ارتکاب کیا اور وہ اس فتویٰ کو اس حد تک پہنچاتے تھے کہ لوگوں سے پوچھتے تھے بولو تمہاری رائے علی کی خلافت کے متعلق کیا ہے؟ اور اگر کوئی تصدیق کرتا تھا تو اسے قتل کر دیتے تھے “.12 کیا جماعت احمدیہ کا اسلام اور ہے (5) مولانا مودودی صاحب نے آگے چل کر لکھا ہے کہ احمدی اور دوسرے مسلمانوں کا اسلام اور ؟ لوگ خود بیان کرتے ہیں کہ ان.کا اسلام اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا اسلام اور ہے.ان کا قرآن اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا قرآن اور ہے، ان کا خدا اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا خدا اور ہے ، ان کا حج اور ہے اور دوسرے مسلمانوں کا حج اور ہے اور اسی طرح ہر بات میں وہ ان سے مختلف ہیں.73 جہاں تک الفاظ کا تعلق ہے مولانا مودودی صاحب کا یہ دعویٰ درست ہے.بیشک موجوده امام جماعت احمدیہ نے ایک دو جگہ پر یہ لکھا ہے کہ دوسرے مسلمانوں کا اسلام اور ہے اور ہمارا اسلام اور ہے، دوسرے مسلمانوں کا قرآن اور ہے اور ہمارا قرآن اور ہے ، دوسرے مسلمانوں کا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے لیکن معنوں کے لحاظ سے اُنہوں نے ہر گز وہ مفہوم نہیں لیا جو مولانا مودودی صاحب دُنیا پر ظاہر کرنا چاہتے ہیں.خدا تعالیٰ کی ذات تو نظر نہیں آتی لیکن قرآن نظر آتا ہے.کیا دُنیا کا کوئی شخص ہے جو خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہہ سکے کہ احمدی مروجہ قرآن کے سوا کوئی اور قرآن پڑھتے ہیں یا مسلمانوں میں جو اس وقت قرآن محفوظ سمجھا جاتا ہے اس میں وہ ایک زیر یا زبر کی تبدیلی بھی جائز سمجھتے ہیں؟ یا کوئی شخص قسم کھا کر کہہ سکتا ہے کہ احمدی خانہ کعبہ کے حج

Page 71

انوار العلوم جلد 24 ہے 36 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کے لئے نہیں جاتے بلکہ ہر دوار یا کسی اور جگہ پر حج کے لئے جاتے ہیں.کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ احمدی کلمہ اسلامی نہیں پڑھتے بلکہ کوئی اور کلمہ پڑھتے ہیں.اگر احمدی بھی وہی کلمہ پڑھتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھایا ہے ، وہی قرآن پڑھتے ہیں جو حنفیوں اور اہلحدیثوں کے مطبعوں میں چھپا ہوتا ہے، اسی خانہ کعبہ کا حج کرتے ہیں جو مکہ مکرمہ میں ہے اور مجدی حکومت کے ماتحت ہے تو کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ اس جگہ پر تمثیلی زبان میں کلام کیا گیا ہے نہ کہ زبان کے اصلی مفہوم کے مطابق.اگر تو احمدیوں کے پاس واقعی کوئی اور قرآن ہوتا، اگر احمدی واقع میں مکہ مکرمہ میں حج کے لئے نہ جاتے (جماعت احمدیہ کے خلیفہ اول بھی مکہ مکرمہ میں حج کر کے آئے تھے اور خلیفہ ثانی بھی مکہ مکرمہ میں حج کر کے آئے ہیں) تب تو مودودی صاحب کو اس عبارت سے استدلال کرنے اور جوش دلانے کا کوئی موقع تھا لیکن جب واقعہ یہ نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ ”اسلام اور ہے“ سے صرف اتناہی مراد ہے کہ دوسرے لوگ اسلام کی پوری پابندی نہیں کرتے اور ”قرآن اور ہے“ سے صرف یہ مراد ہے کہ دوسرے لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے اور ”خدا اور ہے“ سے صرف یہ مراد ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور ”حج اور “ سے صرف یہ مراد ہے کہ حج کی شرائط کو وہ پورا نہیں کرتے اور کیا یہ واقعہ نہیں.یہ واقعہ نہیں تو اس شخص کے متعلق کیا فتویٰ ہے جس نے یہ لکھا کہ :- میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ مسلمان اور کافر میں علم اور عمل کے سوا کوئی فرق نہیں ہے.اگر کسی شخص کا علم اور عمل ویسا ہی ہے جیسا کافر کا ہے اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو بالکل جھوٹ کہتا ہے.کافر قرآن کو نہیں پڑھتا اور نہیں جانتا کہ اس میں کیا لکھا ہے.یہی حال اگر مسلمان کا بھی ہو تو وہ مسلمان کیوں کہلائے.کافر نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا تعلیم ہے اور آپ نے خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ کیا بتایا ہے.اگر مسلمان بھی اسی طرح

Page 72

انوار العلوم جلد 24 37 ناواقف ہو تو وہ مسلمان کیسے ہوا؟“ 74 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی مولانا غور کریں کہ کیا اس جگہ انہوں نے اپنا اسلام اور دوسرے لوگوں کا اسلام اور نہیں قرار دیا؟ ہے کہ :.اسی طرح مولانا مودودی کیا کہتے ہیں اس شخص کے متعلق جس نے یہ تحریر کیا اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی جو مختلف جماعتیں اسلام کے نام سے کام کر رہی ہیں.اگر فی الواقع اسلام کے معیار پر ان کے نظریات، مقاصد اور کارناموں کو پر کھا جائے تو سب کی سب جنس کا سد نکلیں گی خواہ مغربی تعلیم و تربیت پائے ہوئے سیاسی لیڈر ہوں یا علماء دین و مفتیان شرع متین“ 75 مولانا مودودی صاحب بتائیں کہ اس عبارت کا لکھنے والا شخص ” علماء دین و مفتیانِ شرع متین تک کے اسلام کو اور اور اپنے اسلام کو اور قرار دے رہا ہے یا نہیں ؟ اور کیا وہ شخص بھی اسی سلوک کا مستحق ہے جس سلوک کا مطالبہ مولانا مودودی صاحب احمدیوں کے متعلق کر رہے ہیں ؟ (6) پھر مولانا مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ اس اختلاف کو احمدیوں نے اور زیادہ کھینچا اور کہا کہ:- (6-الف) غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں.(6-ب) ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں.(6-ج) ان کو لڑکی دینا جائز نہیں.(7) اور یہ قطع تعلق صرف تحریر و تقریر تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عملاً بھی احمدی مسلمانوں سے کٹ گئے ہیں.نہ نماز میں شریک نہ جنازہ میں شریک نہ شادی بیاہ میں شریک.پس کوئی وجہ نہیں کہ ان کو زبر دستی مسلمانوں کے ساتھ ایک اُمت میں شامل کیا جائے.76

Page 73

انوار العلوم جلد 24 38 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی غیر احمدی علماء کے فتوے کہ (6-الف) یہ درست ہے کہ احمدیوں احمدیوں کے پیچھے نماز جائز نہیں نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں لیکن احمدیوں 77 نے یہ فتویٰ 1900ء میں دیا ہے.17 اس سے پہلے غیر احمدیوں نے 1892ء میں یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنی جائز نہیں.مولانا مودودی صاحب فرمائیں افتراق کس نے پیدا کیا؟ اس نے جس نے 1892ء میں احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا تھا یا اُس نے جس نے آٹھ سال صبر کرنے کے بعد یہ اعلان کیا کہ بہت اچھا، غیر احمدی علماء نے جو فتویٰ دیا ہے اُس کو مان لو اور اب ان کے پیچھے نماز نہ پڑھو کیونکہ ان کے نزدیک تمہارے مسجدوں میں جانے سے ان کی مساجد ناپاک ہو جاتی ہیں.غیر احمدی علماء نے اس بارہ میں جو فتوے دیئے ہیں ان میں سے صرف چند فتوے ذیل میں درج کئے جاتے ہیں :- (1) مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی سلسلہ اور ان کے اتباع کے متعلق لکھا ہے:- نہ اس کو ابتداء سلام کریں اور نہ اس کو دعوتِ مسنون میں بلائیں اور نہ اس کی دعوت قبول کریں اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں“.78 (2) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتویٰ دیا:- قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں باہم ضدیں ہیں یہ جمع نہیں ہو سکتیں “.79 (3) مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا:- حرام ہے جس کے یہ عقائد ہیں اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا 80 "

Page 74

انوار العلوم جلد 24 39 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی (4) مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری نے فتویٰ دیا:- ”مرزا قادیانی جو کچھ کرتا ہے سب دُنیا سازی کے لئے کرتا ہے.پس اس کے خلف نماز جائز نہیں“.81 (5) مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ :- اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہر گز درست نہیں ہے “.82 (6) مولوی عبد الرحمن صاحب بہاری نے فتویٰ دیا:- ”مرزا قادیانی کافر مرتد ہے.اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و مردود ہے.فرض سر پر ویساہی رہے گا اور سخت گناہ عظیم اس کے علاوہ.ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی امامت “.83 (7) خلیل احمد صاحب سہارنپوری نے فتویٰ دیا:- وہ کتاب اللہ کا مکذب دائرہ اسلام سے خارج ہے اس کی اور اس کے اتباع کی امامت اور بیعت و محبت ناجائز اور حرام ہے“.84 (8) محمد کفایت اللہ صاحب شاہجہانپوری نے فتویٰ دیا:- ان کے کافر ہونے میں شک و شبہ نہیں اور ان کی بیعت حرام ہے اور امامت ہر گز جائز نہیں“.85 (9) محمد حفیظ اللہ صاحب مدرس مدرسہ دارالعلوم لکھنو نے فتویٰ دیا:- ” بیعت اور امامت ایسے شخص کی درست نہیں“.86 (10) محمد امانت اللہ صاحب علی گڑھی نے فتویٰ دیا:- ”ایسے شخص کے پیچھے نماز نہ پڑھیں“.87 (11) عبد الجبار صاحب عمر پوری نے فتویٰ دیا:- ”مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے اس کی اتباع کرنے والا بھی اسلام سے خارج.ہر گز امامت کے لائق نہیں“.88

Page 75

انوار العلوم جلد 24 40 (12) مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا:- مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م ”مرزا اور اس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعت اسلام سے جُدا ہے اور اس کو امام بنانانا جائز ہے“.89 (13) محمد علی صاحب واعظ نے فتویٰ دیا:- ”جو مرزا کے مرید ہیں سب قرآن و حدیث کے مخالف ہیں ایسے خبیث کی امامت جائز نہیں“.90 (14) مولوی عزیز الرحمن صاحب دیوبندی نے فتویٰ دیا:- ہے“.91 جس شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام بنانا حرام (15) اسلام الدین صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا:- ”ایسے شخص کے خلف اقتداء درست نہیں“ 92 (16) مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے حسام الحرمین میں بانی سلسلہ احمدیہ پر ایمان لانے والے کو کافر اور مرتد قرار دے کر لکھا کہ :- اس کے پیچھے نماز پڑھنی اور اس کے جنازہ کی نماز پڑھنی اور اس کے ساتھ شادی بیاہ کرنے اور اس کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانے اور اس 93 کے پاس بیٹھنے اور اس سے بات چیت کرنے اور تمام معاملات میں اس کا نظم بعینہ وہی ہے جو مرتدوں کا علم ہے “.23 ان فتوؤں کی دس سالہ اشاعت کے بعد علماء کے اس فتویٰ کی کہ احمدیوں کو امام نہیں بنانا چاہیئے اگر بانی سلسلہ احمدیہ نے تصدیق کر دی تو ان پر کیا الزام؟ کیا ان کے گفر اور فتنہ پردازی کی وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے علماء اسلام کا فتویٰ کیوں تسلیم کر لیا؟ * حمد فتوی شریعت غرا ”اور شرعی فیصلہ “ یہ دو ٹریکٹ ہیں جن میں غیر احمدی علماء کے جماعت احمدیہ کے متعلق فتاوی درج ہیں مگر کسی فتویٰ پر تاریخ درج نہیں.

Page 76

انوار العلوم جلد 24 41 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی غیر احمدی علماء کے فتوے کہ (6-ب) اب رہا یہ سوال کہ احمدیوں احمدیوں کے جنازے جائز نہیں نے ان کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں سمجھا.سو یہ فتویٰ بھی پہلے غیر احمدی علماء نے دیا وو تھا کہ احمدیوں کا جنازہ پڑھنانا جائز ہے بلکہ ان کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت دینا بھی ناجائز ہے.جب دس سال تک متواتر منت سماجت کرنے کے بعد بھی باصطلاح مودودی صاحب علماء دین و مفتیانِ شرع متین“ نے اپنے ان فتوؤں میں اصلاح نہ کی تو مجبوراً احمدیوں کو بھی یہ اعلان کرنا پڑا کہ احمدی جماعت کے لوگ ایسے شدید معاندین اور مخالفین کا جنازہ نہ پڑھیں جو جماعت احمد یہ اور اس کے بانی کو کافر کہتے ہیں، ملحد کہتے ہیں، دجال کہتے ہیں اور جو اپنے مقبروں میں ان کے دفن ہونے کی اجازت نہیں دیتے.مولانا فرمائیں افتراق کا دروازہ ان کے اسلاف ”مفتیانِ دین اور علماء شرع متین نے کھولا یا احمدیوں نے کھولا.کیا 1892ء میں ایسا فتویٰ دینے والوں نے اختلاف اور افتراق پیدا کیا یا 1902ء میں مجبور ہو کر ان کا جواب دینے والے نے اختلاف اور افتراق کا دروازہ کھولا؟ اگر مولانا کو اپنے علماء دین اور مفتیانِ شرع متین“ کے فتوے وو دیکھنے کا موقع نہ ملا ہو تو وہ ذیل کے فتوؤں کو مد نظر رکھ لیں:.(1) مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا :- مسلمانوں کو چاہئے ایسے دجال، کذاب سے احتراز اختیار کریں.....نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں“.94 (2) مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا:- جائے“.95 ” یہ شخص اسی اعتقاد پر مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی (3) قاضی عبید اللہ بن صبغۃ اللہ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا:- جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے.....اور مر تد بغیر تو بہ کے مر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا“.26

Page 77

انوار العلوم جلد 24 42 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی مہ (4) مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ :- جس نے دیدہ دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اس کو اعلانیہ تو بہ کرنی چاہیئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدید نکاح کرے اور حسب طاقت کھانا کھلائے.اگر وہ ایسانہ کرے گا تو اہل سنت و الجماعت کو اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنی چاہئے.ایسے منافق کے پیچھے نماز درست نہیں ہوتی.97 اس فتویٰ پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی بھی مہر تصدیق ثبت ہے اور یہی فتوى الاعلام مِنَ الْعُلَمَاءِ الرَّبَّانِيِّينَ فِى عَدَمِ جَوَازِ صَلوةِ الْجَنَازَةِ الْقَادِيَانِيِّينَ “ شائع کردہ مولوی محمد شمس الدین صاحب جالندھری کے صفحہ 4 پر بھی درج کیا گیا ہے.(5) مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے بھی حسام الحرمین صفحہ 95 پر احمدیوں کے جنازہ کی نماز پڑھنی ممنوع قرار دی ہے.پھر یہیں تک بس نہیں انہوں نے یہ فتویٰ بھی دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ ہونے دیا جائے چنانچہ (1) مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی نے لکھا:.وو ” یہ شخص اسی اعتقاد پر مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ یہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے تاکہ وہ اہل قبور 986 اس سے ایذاء نہ پائیں “.8 (2) قاضی عبید اللہ بن صبغۃ اللہ صاحب مدراسی نے ۱۸۹۳ء میں فتویٰ دیا کہ جب کوئی احمدی مر جائے تو :- اس کو مقابر اہل اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے کتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا.اشباہ و النظائر میں ہے وَاذَا مَاتَ أَوْ قُتِلَ عَلَى رَدَّتِهِ لَمْ يُدْفَنَ فِي مَقَابِرِ الْمُسْلِمِينَ وَلَا أَهْلِ مِلَّةِ فَإِنَّمَا يُلْقَى فِي حُفْرَةٍ كَالْكَلْبِ اور بحر الرائق میں ہے.

Page 78

انوار العلوم جلد 24 43 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی 99 ❝ أَمَّا الْمُرْتَدَّ فَلَا يُغْسَلُ وَلَا يُكَفَّنُ وَاِنَّمَا يُلْقَى فِي حُفْرَةٍ كَالْكَلْبِ“ (3) مجموعه کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفہ سید محمد غلام صاحب احمد پور شرقیہ مطبوعہ مطبع صادق الانوار بہاولپور میں لکھا ہے:.”ایسے شخص کو بعد موت کے غسل دینا یا اس کا جنازہ پڑھنا اور کفن دینا اور مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرنا جائز نہیں بلکہ ایک کپڑے کے پارچہ میں لپیٹ کر کسی اور جگہ گڑھے میں گاڑ دینا چاہئیے.100 (4) فتوی در باب تکفیر مرزا غلام احمد قادیانی شائع کردہ مولوی محمد ریاست علی صاحب شاہجہانپوری میں بھی یہی فتویٰ درج کیا گیا ہے اور لکھا گیا ہے کہ :- دو یہ جو مر جائیں تو ان کو مسلمان لوگ اپنے قبرستان میں نہ دفن ہونے دیں _ 101 غیر از جماعت افراد کے جنازوں اب اس کے جواب میں کے متعلق بانی سلسلہ احمدیہ کا فتوی ہائی سلسلہ احمدیہ کا بھی فتوی پڑھ لیں.ایک احمدی دوست چودھری مولا بخش صاحب سیالکوٹ کے استفسار کے جواب میں بانی سلسلہ احمدیہ نے ”جو فروری 1902ء میں تحریر فرمایا کہ: و شخص صریح گالیاں دینے والا، کافر کہنے والا اور سخت مکذب ہے اس کا جنازہ تو کسی طرح درست نہیں مگر جس شخص کا حال مشتبہ ہے.گویا منافقوں کے رنگ میں ہے اس کے لئے کچھ بظاہر حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دُعا ہے اور انقطاع بہر حال بہتر ہے“.اس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے ہرگز جنازہ کے روکنے میں پہل نہیں کی بلکہ مولانا مودودی صاحب کے بزرگوں اور بزرگوں کے فتوی نمبر 3 اور 4 پر کوئی تاریخ درج نہیں اور نہ ٹریکٹوں پر سن اشاعت درج ہے

Page 79

انوار العلوم جلد 24 44 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اسلاف نے یہ فتویٰ دیا کہ احمدیوں کی نماز جنازہ جائز نہیں بلکہ انہیں اپنے مقبروں میں دفن ہونے کی اجازت دینا بھی ناجائز ہے.تب بانی سلسلہ احمدیہ مجبور ہو گئے کہ فتنے سے بچنے کے لئے ایسے جنازوں میں شرکت سے اپنی جماعت کو روک دیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت احمدیہ نے کچھ عرصہ سے یہ طریق اختیار کیا ہوا ہے کہ وہ کسی غیر احمدی کا بھی جنازہ نہیں پڑھتے لیکن اب بھی ان کا یہ مذہب نہیں ہے کہ غیر احمدیوں کے ساتھ دفن ہونے سے ان کے مُردے خراب ہو جاتے ہیں یا اگر کوئی غیر احمدی مُردہ ان کے عام قبرستان میں دفن ہو جائے تو اس کی لاش کو نکال کر باہر پھینک دینا چاہئے.قادیان میں بھی غیر احمدی مُردے بانی سلسلہ احمدیہ کے باپ دادا کے دیئے ہوئے قبرستان میں دفن ہوتے تھے اور ربوہ میں بھی احمدیوں نے غیر احمدیوں کے قبرستان کے لئے کچھ جگہ دی ہے.حالانکہ یہاں کوئی آبادی غیر احمدیوں کی نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ربوہ کی زمین میں پرانے زمانہ سے ارد گرد کے گاؤں کے کچھ لوگ اپنے مردوں کو لا کر دفن کر دیتے تھے.یہ زمین چونکہ کم ہو گئی جماعت احمدیہ نے ان لوگوں کی خاطر دو کنال زمین اپنا مقبرہ وسیع کرنے کے لئے دے دی.اسی کے ساتھ ملحق احمدیوں کا اپنا مقبرہ بھی ہے.مولانا مودودی صاحب بتائیں کہ فساد کس نے کیا؟ جنہوں نے ساتھ دفن ہونے سے بھی انکار کیا یا جنہوں نے دفن ہونے کے لئے اپنی زمینیں دیں اور جو عملاً ان کے ساتھ پرانے مقبروں میں دفن ہو رہے ہیں اور وہیں دفن ہونا چاہتے ہیں.یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا مذکورہ بالا فتویٰ حال ہی میں ملا ہے اور امام جماعت احمدیہ نے اس کے بارہ میں علم حاصل کر کے آج سے سالہا سال پہلے یہ اعلان کر دیا تھا کہ اگر اس فتویٰ کی مصدقہ تحریر مل گئی تو پھر احمد یہ جماعت کے موجودہ طریق عمل پر دوبارہ غور کیا جائے گا.چنانچہ اب جبکہ وہ تحریر مل گئی ہے احمدی جماعت کے علماء بیٹھیں گے اور جہاں تک قیاس کیا جاتا ہے اس بارہ میں جو پہلا طریق عمل ہے اس میں ایک حد تک تبدیلی کی جائے گی.

Page 80

انوار العلوم جلد 24 45 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی غیر احمدیوں کا احمدیوں کی لاشوں اور ان کی مولانا مودودی صاحب دفن کی ہوئی میتوں سے شرمناک سلوک کے بزرگوں اور 66 چودھویں صدی کے علماء دین و مفتیانِ شرع متین نے تو یہاں تک بھی عمل کیا ہے کہ عملاً اُنہوں نے احمدیوں کی لاشوں کو اپنے قبرستانوں میں دفن نہیں ہونے دیا بلکہ احمدیوں کی دفن کی ہوئی لاشوں کو نکال کر باہر پھینک دیا.اس دعویٰ کی تائید میں مندرجہ ذیل واقعات پیش کئے جاتے ہیں :- (1) 20 اگست 1915ء کو کنانور (مالا بار) کے ایک احمدی کے.ایں.حسن کا چھوٹا بچہ فوت ہو گیا.ریاست کے راجہ صاحب نے حکم دے دیا کہ چونکہ قاضی صاحب نے احمدیوں کے متعلق گفر کا فتویٰ دے دیا ہے اس لئے ان کی نعش مسلمانوں کے کسی قبرستان میں دفن نہیں ہو سکتی.چنانچہ وہ بچہ اس دن دفن نہ ہوا.دوسرے دن شام کے قریب مسلمانوں کے قبرستان سے دو میل دور اس کی نعش کو دفن کیا گیا.102 (2) دسمبر 1918ء میں کٹک (صوبہ بہار) کے ایک احمدی دوست کی اہلیہ فوت ہو گئیں اُنہوں نے اسے قبرستان میں دفن کر دیا.جب مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ ایک احمدی خاتون کی لاش ان کے قبرستان میں دفن کی گئی ہے تو انہوں نے قبر اکھیڑ کر اس لاش کو نکالا اور اس احمدی دوست کے دروازہ پر جا کر پھینک دیا.103 یہ تو ایک مخالف اخبار ”اہلحدیث کی خبر ہے.ہماری اطلاعات یہ تھیں کہ لاش غیر احمدیوں نے قبر سے نکال کر کتوں کے آگے ڈال دیا اور احمدیوں کے دروازوں کے سامنے کھڑے ہو گئے کہ کوئی نکلے تو سہی کس طرح نکلتا ہے اور لاش کو دفن کرتا ہے.قریب تھا کہ کتے لاش کو پھاڑ ڈالیں کہ پولیس کو کسی بھلے مانس نے اطلاع دی اور پولیس نے آکر لاش دفن کروائی.مقدمہ ہوا تو کسی شخص نے گواہی نہ دی اور صاف کہہ دیا کہ 104 ہم موجود نہ تھے.کٹک میں اس سے پہلے بھی احمدیوں کے ساتھ جو ظالمانہ سلوک ہو تا رہا ہے

Page 81

انوار العلوم جلد 24 46 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اس کے لئے اخبار اہلحدیث کی ہی ایک گواہی پیش کی جاتی ہے.یکم فروری 1918ء کے اخبار اہلحدیث میں کٹک میں قادیانیوں کی خاطر “ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں لکھا گیا کہ :- دو وہ جو کہاوت ہے کہ موئے پر سو ڈرے.سو وہ بھی یہاں واجب التعمیل ہو رہی ہے.مرزائیوں کی میت کا پوچھئے مت.شہر میں اگر کسی میت کی خبر پہنچ جاتی ہے تو تمام قبرستانوں میں پہرہ بیٹھ جاتا ہے.کسی کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے ، کسی کے ہاتھ میں چھڑی ہے.میت کی مٹی پلید ہو رہی ہے کہ کھوجتے تابوت نہیں ملتی، بیلداروں کی طلب ہوتی ہے تو وہ ٹکا سا جواب دے دیتے ہیں، بانس اور لکڑی بالکل عنقائیت ہو جاتی ہے.دفن کے واسطے جگہ تلاش کرتے کرتے پھول کا زمانہ بھی گزر جاتا ہے.ہر صورت سے ناامید ہو کر جب یہ ٹھان بیٹھتے ہیں کہ چلو چپکے سے مکان کے اندر قبر کھود کر گاڑ دیں تو ہاتف غیبی افسران میونسپلٹی کو آگاہ کر دیتے ہیں اور وہ غڑپ سے آموجود ہو کر خر من امید پر کڑکتی بجلی گرا دیتے ہیں“.105 مودودی صاحب الْحَمْدُ لله کہیں کہ اسلامی تعلیم کا کیسا شاندار نمونہ ان کے 106 ہمنوا دکھاتے رہے ہیں.افسوس خود مودودی صاحب کو اس جہاد کی توفیق نہیں ملی.(3) اپریل 1928ء میں کٹک میں ایک چھوٹے بچے کی لاش کو مخالفین نے اُس قبرستان میں بھی دفن ہونے سے روک دیا جو گورنمنٹ سے احمدیوں نے اپنے لئے حاصل کیا ہوا تھا اور مقامی حکام نے بھی اس میں احمدیوں کی کوئی مدد نہ کی.16 (4) 16 مارچ 1928ء کو بھدرک (اڑیسہ) میں ایک احمدی شیخ شیر محمد صاحب کی لڑکی فوت ہو گئی.غیر احمدیوں نے اس کی لاش قبرستان میں دفن نہ ہونے دی اور بڑے بھاری جتھہ سے مارنے پیٹنے پر آمادہ ہو گئے.آخر انہوں نے میت کو صندوق میں بند کر کے اپنے گھر کے احاطہ کے اندر دفن کر دیا.107

Page 82

انوار العلوم جلد 24 47 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب (5) 29 جنوری 1934ء کی شام کو کالی کٹ (مالا بار) میں ایک احمدی دوست فوت ہو گئے.مخالفین نے سارے شہر میں پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ اسے مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہیں ہونے دینا چاہئے.چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں لوگ فوت شدہ احمدی کے مکان کے ارد گرد جمع ہو گئے اور وہاں اُنہوں نے گالیوں، دھمکیوں اور شور و شر سے ایسا طوفان برپا کیا کہ احمدیوں کے لئے مکان کے اندر باہر جانا مشکل ہو گیا.رات کے آٹھ بجے کے قریب ایک شخص کو بڑی مشکل سے قبرستان میں بھیجا گیا مگر اس نے دیکھا کہ وہاں بھی ہزاروں کی تعداد میں لوگ لاٹھیاں وغیرہ لے کر جمع ہیں اور اُنہوں نے یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ فوت شدہ احمدی کو کسی صورت میں بھی اس قبرستان میں دفن نہ ہونے دیں گے.ذمہ دار حکام کو توجہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے بھی اپنی بے بسی ظاہر کی.آخر دوسرے دن رات کے ساڑھے دس بجے ایک ایسی جگہ جو شہر سے بہت دور تھی اور جو موسم برسات میں بالکل زیر آب رہتی تھی احمدیوں نے اپنی لاش دفن کی.108 (6) 12 مارچ 1936ء کو بمبئی کے ایک احمدی دوست کا خورد سال بچہ فوت ہو گیا.جب اسے دفن کرنے کے لئے قبرستان لے گئے تو مخالفین نے جھگڑا شروع کر دیا اور کہا کہ قبرستان سنی مسلمانوں کا ہے قادیانیوں کا نہیں ہے.یہاں قادیانی دفن نہیں ہو سکتے“.احمدیوں نے انہیں یقین دلایا کہ ہم بھی مسلمان ہیں اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہیں مگر اُنہوں نے پھر کہا کہ ”ہم اس لاش کو یہاں دفن ہونے نہیں دیں گے کیونکہ قادیانی کافر ہیں.پولیس کے ذمہ دار حکام نے جھگڑا بڑھتے دیکھا تو اُنہوں نے بمبئی میونسپلٹی کے توسط سے ایک الگ قطعہ زمین میں اسے دفن کرا دیا مگر میت کو دفن کرنے کے لئے جو جگہ دی گئی وہ شہر سے بہت دور اور اچھوت اقوام کا مرگھٹ تھی.روزنامہ ”ہلال“ بمبئی نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ جب مسلمانوں نے یہ خبر سنی کہ احمدی میت اس قبرستان میں دفن نہیں کی جائے گی تو اس اطلاع کے سنتے ہی مسلمانوں نے اسلام زندہ باد کے نعرے لگائے.ہر شخص مسرت سے شادماں نظر آتا تھا“.109

Page 83

انوار العلوم جلد 24 48 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جوار مولانا مودودی صاحب کو بھی یہ واقعہ پڑھ کر اپنے ساتھیوں اسلام زندہ باد کا نعرہ لگانا چاہئے.اسی طرح اس نے لکھا کہ :- ”ہم مسلمان ہیں اسلام کی عظمت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر مٹ جانا ہمارا فرض ہے.ہم صاف الفاظ میں کہہ دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں اس وقت تک کوئی طاقت مسلمانوں کے قبرستان میں قادیانی میت کو دفن نہیں کر سکتی 2 110 (7) 29/ اپریل 1939ء کو بٹالہ میں ایک احمدی لڑکی وفات پاگئی اس پر احرار نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ اس کی نعش کو اس خاندانی قبرستان میں بھی دفن کرنے سے انکار کر دیا جہاں کئی احمدی مدفون تھے اور چند احمدیوں کو ساری رات محاصرہ میں رکھا.حکام کو تو جہ دلائی گئی مگر اُنہوں نے کوئی کارروائی نہ کی.آخر نعش کو ایک اور قبرستان میں جو میونسپل کمیٹی کا تھا لے گئے مگر وہاں بھی ہزاروں لوگ جمع ہو کر مزاحم ہوئے.آخر متواتر چوبیس گھنٹہ کی جد وجہد کے بعد ایک بیرونی نشیب جگہ میں اس نعش کو دفن کیا لیا.111 (8) 1942ء میں شیموگہ (ریاست میسور میں ایک احمدی عبد الرزاق صاحب کی اہلیہ فوت ہو گئیں اور مسلمانوں نے میت کو قبرستان میں دفن کرنے سے روک دیا.چنانچہ تین دن تک میت پڑی رہی آخر حکومت کی طرف سے ایک علیحدہ جگہ میں لاش کو دفن کرنے کا انتظام کیا گیا.112 (9) اگست 1943ء میں ڈلہوزی میں ایک احمدی دوست خان صاحب عبد المجید صاحب کی لڑکی کی وفات ہو گئی اس موقع پر بھی غیر احمدیوں نے اسے اپنے مقبرہ میں دفن کرنے سے روکا اور مقابلہ کیا.113 حمایہ واقعہ الفضل جلد 23 نمبر 220 و نمبر 221 مورخہ 25،24 مارچ 1936ء صفحہ 3 و صفحہ 1 نیز الفضل 10 / اپریل 1936ءصفحہ 3 سے ماخوذ ہے.

Page 84

انوار العلوم جلد 24 49 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب (10) صوفی محمد رفیع صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس سندھ کی بہو 20 جولائی 1944ء کو جلال پور جٹاں ضلع گجرات میں وفات پاگئی.مخالفین نے اس کی تدفین میں مزاحمت شروع کر دی.43 گھنٹوں کی مزاحمت کے بعد پولیس نے اپنی حفاظت میں نعش کو قبرستان میں دفن کر وایا مگر چند دنوں کے بعد 4،3 اگست کی درمیانی رات مسلمانوں نے قبر کو اکھاڑ ڈالا.نعش جس صندوق میں بند تھی اس کے اوپر کے تختوں کو توڑ ڈالا اور تابوت میں خشک ٹہنیاں اور کھجور کی ایک بوسیدہ چٹائی ڈال کر آگ لگادی جس کے نتیجہ میں کفن اور میت کے بعض اعضاء جل گئے.صبح کو جب مرحومہ کے شوہر کو اس بات کا علم ہوا تو پھر پولیس کو اطلاع دی گئی اور 5 اگست کو میت دوبارہ دفن کی گئی.114 (11) 1946ء میں جماعت احمدیہ کے ایک معزز فرد مکرم قاسم علی خان صاحب قادیانی اپنے وطن رام پور میں وفات پاگئے.ان کے اعزہ نے انہیں قبرستان میں دفن کر دیا مگر غیر احمدیوں نے ان کی نعش قبر سے نکال کر باہر پھینک دی اور کفن اُتار کر جسم کو عریاں کر دیا.پھر پولیس نے انہیں دوسری جگہ دفن کرنے کا انتظام کیا تو وہاں بھی یہی سلوک کیا گیا.اس واقعہ کے متعلق اخبار ”زمیندار“ میں جو حلفیہ رپورٹ شائع ہوئی وہ ذیل میں ملاحظہ ہو : محمد مظہر علی خان صاحب رامپوری اپنا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:- ”میرے مکان کے پیچھے جو کہ شاہ آباد گیٹ میں واقع ہے محلہ کا قبرستان تھا.صبح کو مجھے اطلاع ملی کہ قبرستان میں لا تعداد مخلوق جمع ہے اور قاسم علی کی لاش جو اس کے اعزہ رات کے وقت چپکے سے مسلمانوں کے اس قبرستان میں دفن کر گئے تھے لوگوں نے باہر نکال پھینکی ہے.میں فوراً اس ہجوم میں جاداخل ہوا اور بخداجو کچھ میں نے دیکھ وہ نا قابل بیان ہے.لاش اوندھی پڑی تھی، منہ کعبہ سے پھر کر مشرق کی طرف ہو گیا تھا، کفن اُتار پھینکنے کے باعث متوفی کے جسم کا

Page 85

انوار العلوم جلد 24 50 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی ہر عضو عریاں تھا اور لوگ شور مچا رہے تھے کہ اس نجس لاش کو ہمارے قبرستان سے باہر پھینک دو.جائے وقوعہ پر مرحوم کے پسماندگان میں سے کوئی بھی پرسانِ حال نہ تھا.لفٹیننٹ کرنل محمد ضمیر کی خوشامدانہ التجا پر نواب صاحب نے فوج اور پولیس کو صورت حال پر قابو پانے کے لئے موقع پر بھیجا.کو توال شہر خان عبد الرحمن خان اور سپرنٹنڈنٹ پولیس خان بہادر اکرام حسین نے لوگوں کو ڈرا دھمکا کر لاش دوبارہ دفن کرانے پر مجبور کیا لیکن اس جابرانہ حکم کی خبر شہر کے ہر کونہ میں بجلی کی طرح پہنچ گئی اور غازیانِ اسلام مسلح ہو کر مذہب و دین کی حفاظت کے لئے جائے وقوعہ پر آگئے.حکومت چونکہ ایک مقتدر آدمی کی ذاتی عزت کی حفاظت کے لئے عوام کا قتل وغارت گوارا نہیں کر سکتی تھی اس لئے پولیس نے لاش کو کفن میں لپیٹ کر خفیہ طور پر شہر سے باہر بھنگیوں کے قبرستان میں دفنا دیا.چونکہ مسلمان بہت مشتعل اور مضطرب تھے اس لئے اُنہوں نے بھنگیوں کو اس بات کی اطلاع کر دی اور بھنگیوں نے بھی اس متعفن لاش کا وہی حشر کیا جو پہلے ہو چکا تھا.پولیس نے یہاں بھی دست درازی کرنی چاہی لیکن بھنگیوں نے شہر بھر میں ہڑتال کر دینے کی دھمکی دی.بالآخر سپرنٹنڈنٹ پولیس اور کوتوال شہر کی بروقت مداخلت سے لاش کو دریائے کوسی کے ویران میدان میں دفن کر دینے کی ہدایات کی گئیں.سپاہی جو لاش کے تعفن اور بوجھ سے پریشان ہو چکے تھے کچھ دور تک لاش کو اُٹھا کر لے جاسکے اور شام ہو جانے کے باعث اسے دریائے کوسی کے کنارے صرف ریت کے نیچے چھپا کر واپس آگئے.دوسرے دن صبح کو شہر میں یہ خبر اُڑ گئی کہ قاسم علی کی لاش کو گیدڑوں نے باہر نکال کر گوشت کھالیا ہے اور ڈھانچ باہر پڑا ہے.یہ سُن کر شہر کے ہزاروں لوگ اس منظر کو دیکھنے کے

Page 86

انوار العلوم جلد 24 51 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی لئے جوق در جوق وہاں جمع ہو گئے.میں بھی موقع پر جا پہنچا لیکن میری آنکھیں اس آخری منظر کی تاب نہ لا سکیں اور میں ایک پھریری لے کر ایک شخص کی آڑ میں کھڑا ہو گیا.قاسم علی کی لاش کھلے میدان میں ریت پر پڑی تھی.اسے گیدڑوں نے باہر نکال لیا تھا اور وہ جسم کا گوشت مکمل طور پر نہیں کھا سکے تھے.....منہ اور گھٹنوں پر گوشت ہنوز موجود تھا.باقی جسم سفید ہڈیوں کا ڈھانچ تھا.آنکھوں کی بجائے دھنسے ہوئے غار اور منہ پر ڈاڑھی کے اکثر بال ایک دردناک منظر پیش کر رہے تھے.آخر کار پولیس نے لاش کو مزدوروں سے اُٹھوا کر دریائے کوسی کے سپرد کر دیا اور اس طرح ایک امیر جماعت مرزائیہ کا انجام ہوا“.115 احمدی ان افعال کو نا جائز سمجھتے ہیں اور کبھی بھی اس بات پر مصر نہیں ہیں کہ کسی ایک مقبرہ میں غیر احمدیوں کے ساتھ دفن نہ ہوں یہ ”اتحاد اور اتفاق کی روح “صرف دورِ حاضر کے غیر احمدی علماء دین اور مفتیانِ شرع متین “ میں ہی پائی جاتی ہے.ہمارے نزدیک عامۃ المسلمین بھی اس روح سے خدا تعالیٰ کے فضل سے بچے ہوئے ہیں اور جہاں کہیں بھی اس قسم کے مظاہرے ہوئے ہیں مسلمانوں کی اکثریت نے اپنی شرافت کا ثبوت دیا ہے اور اس قسم کے کاموں پر لعنت اور نفرین کا اظہار کیا ہے.غیر احمدیوں کو لڑکی دینے کی ممانعت (6-ج) یہ کہ احمدیوں نے غیر احمدیوں کو لڑکی دینا نا جائز قرار دے دیا ہے.یہ بات ٹھیک ہے لیکن یہ بات ضروری بھی ہے کیونکہ لڑکی اپنے خاوند کے تابع ہوتی ہے اور اکثر لوگ اپنا مذہب عورت پر زبر دستی ٹھونسنا چاہتے ہیں.قرآن کریم نے بھی اگر بعض جگہ لڑکی دینے سے روکا ہے تو اسی حکمت سے روکا ہے.ورنہ یہ وجہ نہیں ہے کہ بعض عقائد میں اختلاف کی وجہ سے انسان پلید ہو جاتا ہے.اگر پلید اور گندگی اس کی وجہ ہوتی تو اسلام یہ کیوں اجازت دیتا کہ اہل کتاب کی لڑکیاں لے لینا

Page 87

انوار العلوم جلد 24 52 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب جائز ہے.اہل کتاب کی لڑکیاں لینے کی اجازت دینا اور لڑکیاں دینے سے روکنا صاف بتاتا ہے کہ یہاں مذہبی یا روحانی پلیدی اور گندگی باعث نہیں بلکہ صرف یہ باعث ہے کہ لڑکیاں چونکہ کمزور ہوتی ہیں ان پر ظلم نہ ہو اور یہ مثالیں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ احمدی لڑکیاں جب دوسرے گھروں میں گئی ہیں تو بعض جگہ وہ اتنے جاہل نکلے ہیں کہ اُنہوں نے لڑکیوں کو نماز اور قرآن پڑھنے سے بھی روکا ہے اور یہ کہا ہے کہ یہ ہم پر جادو کرتی اور ٹونے کرتی ہیں.ایسی صورت میں لڑکی کو ان کے ساتھ بیاہ دینا اسے تباہ کرنا نہیں تو اور کیا ہے؟ پھر لڑکیاں دینے کا اختلاف مذہب کے ساتھ ہی تعلق نہیں رکھتا.کیا خوجہ برادری کے لوگ غیروں کو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں؟ کیا بوہرہ برادری کے لوگ غیروں کو اپنی لڑکیاں دے دیتے ہیں ؟ ہمیں معلوم ہوا ہے کہ حال ہی میں کراچی کی ایک نہایت واجب التکریم خاتون نے ایک مجلس میں کہا کہ ہماری قوم میں تو اتنی سختی ہے کہ اگر ہماری قوم کا کوئی فرد اپنی لڑکی دوسری قوم کے فرد کو دے دے تولوگ مرنے مارنے پر تیار ہو جاتے ہیں اور یہ کسی ایک قوم کے ساتھ مخصوص نہیں.قومی جتھہ بندیوں میں یہ باتیں عام ہو رہی ہیں.اگر عورتوں کی جان بچانے کے لئے اور ان کی آزادی کو خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے ایسے حکم دیئے جائیں تو یہ اختلاف اور افتراق کا موجب کس طرح ہو گئے ؟ اس وقت نانوے فیصدی جاٹ اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، ننانوے فیصدی ارائیں اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، ننانوے فیصدی راجپوت بلکہ شاید سو فیصدی راجپوت ہی اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، اسی طرح سو فیصدی خوجہ اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا، سو فیصدی بوہرہ اپنی لڑکی غیر قوم کو نہیں دیتا اور ننانوے فیصدی میمن اپنی لڑکی قوم کو نہیں دیتا.تو کیا یہ سب اختلاف اور افتراق پیدا کرتے ہیں اور کیا وہ اسی فتویٰ کے مستحق ہیں جو احمد یوں پر لگائے جاتے ہیں؟ مولانا نے آگے چل کر اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ زبانی فتوے تو الگ رہے احمدیوں نے اس پر عمل بھی شروع کر دیا ہے.گویا ان کے نزدیک عمل کا مقام فتوے سے

Page 88

انوار العلوم جلد 24 53 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اونچا ہوتا ہے لیکن جب مسلمانوں کی ہر قوم اور ہر قبیلہ عملاً ایسا کر رہا ہے تو پھر اگر احمدیوں نے ایسا کر لیا تو اس پر کیا اعتراض ہے ؟ احمدیوں کو رشتے نہ دینے کا فتویٰ پھر کیا مولانا یہ بھول گئے ہیں کہ اس میں بھی ابتداء باصطلاح مودودی صاحب سلے خود غیر احمدی علماء نے دیا " علماء دین ومفتیان شرع متین" نے کی ہے.اگر مولانا مودودی صاحب کو دوسروں کا لٹریچر پڑھنے کا موقع نہیں ملا تو ہم ان کے علم کی زیادتی کے لئے ذیل میں چند حوالہ جات درج کرتے ہیں:.(1) مولوی عبد اللہ صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب مشہور مفتیانِ لدھیانہ نے اپنے اشتہار مورخہ 29 رمضان 91-1890ء میں یہ فتویٰ شائع کیا کہ :- وو یہ شخص (یعنی بانی سلسلہ احمدیہ) مرتد ہے اور اہل اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے.اسی طرح جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں اور ان کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے ان کی عورتوں سے نکاح کرلے“ 116 یعنی احمدیوں کی بیویوں کو جبر ادوسری جگہ بیاہ دینا بھی عین ثواب ہے.(2) قاضی عبید اللہ ابن صبغۃ اللہ صاحب نے 1893ء میں فتویٰ دیا کہ :- جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے اور شرعاً مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو.اولاد کہ پیدا ہوتے ہیں وہ ولد الزنا ہوں گے “.117 (3) مجموعه کفریات مرزا غلام احمد قادیانی میں لکھا گیا کہ :- اگر ایسے شخص کے نکاح میں مسلمان عورت ہو تو اس کا نکاح فسخ ہے اور اُس کی اولاد ولد الزنا ہے.اس کی عورت مسلمہ کا دوسرے شخص کے ساتھ بلا عدت نکاح کرنا جائز ہے“.18

Page 89

انوار العلوم جلد 24 54 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی (4) مولوی احمد اللہ صاحب امرتسری نے فتویٰ دیا کہ :- ”جو شخص ثابت ہو کہ واقعی وہ قادیانی کا مرید ہے اس سے 119 رشتہ مناکحت کارکھنانا جائز ہے“.9 اسی قسم کے بیبیوں فتوے بعد میں استنکاف المسلمين عن مخالطة المرزائیین، سیف الرحمن على رأس الشيطان، القول الصحيح في مكائد المسیح، مہر صداقت مصنفہ حاجی محمد اسمعیل صاحب لکھنوی، فتوی شرعیہ شائع کردہ دفتر الاسلام لاہور، صاعقہ ربانی بر فتنه قادیانی مصنفہ مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی، واقعات بھد روا شاہی جاگیر مصنفہ قاضی فضل احمد صاحب لدھیانوی اور متفقہ فتاوی علماء دیوبند بابت فرقہ قادیانی و غیره میں بار بار شائع کئے گئے ہیں.انہی فتوؤں کا یہ نتیجہ تھا کہ جماعت احمدیہ کے افراد مسجدوں سے نکالے گئے، ان کی عورتیں چھینی گئیں اور ان کے مُردے تجہیز و تکفین اور جنازہ کے بغیر گڑھوں میں دبائے گئے.چنانچہ ہم اس کے ثبوت میں ایک غیر احمدی عالم مولوی عبد الواحد صاحب خانپوری کا بیان پیش کرتے ہیں جو اُنہوں نے 1901ء میں شائع کیا.وہ بانی سلسلہ احمدیہ کے اشتہار الصُّلْحُ خَیر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:.مخفی نہ رہے کہ باعث اس صلح نامہ کا یہ ہے کہ جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے.جمعہ و جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکما رو کے گئے تو نہایت تنگ ہو کر مرزا قادیانی سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو میں لوگوں سے صلح کرتا ہوں.اگر صلح ہو گئی تو مسجد بنانے کی کچھ حاجت نہیں اور نیز اور بہت قسم کی ذلتیں اُٹھائیں.معاملہ و برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا، عورتیں منکوحہ و مخطوبہ بوجہ مرزائیت کے.

Page 90

انوار العلوم جلد 24 55 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی چھینی گئیں، مردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے وغیرہ وغیرہ.تو کذاب قادیانی نے یہ اشتہار مصالحت کا دیا.120 اسی طرح لکھا:.وو معاملہ و بر تاؤ تم سے روکا گیا، عور تیں چھینی گئیں، مردے خراب و بے جنازہ پھینکے گئے، مال و آبرو کا نقصان، روپوؤں کی آمدنی میں خلل آگیا.....نہ مسجدوں میں جاسکو نہ مجلسوں میں.....تو اب آگے تم کیا کر سکتے ہو“.121 اب مولانا مودودی صاحب فرمائیں کہ ان فتوؤں اور ان پر متواتر تعامل کے بعد اگر احمدیوں نے بھی بالمقابل اپنی لڑکیوں کی جان اور عزت محفوظ کرنے کے لئے کوئی طریق اختیار کیا تو اس پر کیا اعتراض ہے؟ احمدیوں کا جو بھی فیصلہ اس بارہ میں ہے 1898ء اور اس کے بعد کا ہے اور مولانا مودودی صاحب کے علماء دین و مفتیانِ شرع متین کا فتویٰ 1892ء کا ہے.مولانا فرمائیں کہ الْبَادِى أَظْلَمُ (جو ابتدا کرے وہ زیادہ ظالم ہوتا ہے) کا کلمہ حکمت اپنے اندر کوئی معنے رکھتا ہے یا نہیں یا مولانا کے نزدیک کچھ جماعتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ وہ جو بد سلو کی بھی کریں جائز ہے اور کچھ جماعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ جواب میں بھی زبان کھولنے کا حق نہیں رکھتیں.اگر ان کے نزدیک اسلام کی یہ تعریف ہے تو دُنیا کے سامنے اس تعریف کا اعلان تو کر دیکھیں پھر دیکھیں کہ مسلمانوں میں سے ہی تعلیم یافتہ طبقہ ان کی اس رائے کے متعلق کیا خیال ظاہر کرتا ہے.کیا غیر احمدی علماء کے فتوے (7) اس کے بعد مولانا فرماتے ہیں کہ احمدیوں کا یہ فتویٰ صرف زبان صرف زبان تک محدود رہے تھے ؟ تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ عملاً بھی اُنہوں نے ایسا ہی کیا ہے.مولانا کی خدمت میں ہم عرض کرتے ہیں کہ احمدیوں کا ہی یہ فتوی زبان تک نہیں رہا بلکہ اس سے دس سال پہلے کے دیئے ہوئے فتوے

Page 91

انوار العلوم جلد 24 56 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب علماء دین و مفتیانِ شرع متین“ کے بھی زبان تک محدود نہیں رہے بلکہ عملاً احمدیوں کو مسجد میں داخل ہونے سے روکا گیا، ان کے جنازے پڑھنے سے روکا گیا، ان کو لڑکیاں دینے سے روکا گیا، ان کی لڑکیاں لینے سے روکا گیا، ان کو قبرستان میں دفن ہونے کی اجازت دینے سے روکا گیا.اب مولانا مودودی صاحب کے دلائل میں صرف ایک ہی طاقت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ ہم زیادہ ہیں ہمیں سب کچھ کرنے کا حق ہے، تم تھوڑے ہو تمہیں احتجاج کرنے کا بھی حق نہیں.اس دلیل کا جواب احمدی جماعت کے پاس کوئی نہیں سوائے اس کے کہ اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں میں سے اکثریت نے اس ظلم کو نا پسند کیا ہے اور اُنہوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی جلائی ہوئی چنگاری اب تک مسلمان کے دل میں کبھی کبھی شعلہ بار ہو جاتی ہے، کبھی کبھی وہ اپنا وجود ظاہر کر دیا کرتی ہے.اگر یہ نہ ہو تا تو نہ معلوم مولانامودودی صاحب کے ”علماء دین و مفتیانِ شرع متین احمدیوں کو زندہ دیواروں میں گاڑ کے مار دیتے اور اس پر احتجاج کرنے والوں کی زبان ان کی گڈی سے نکال کر پھینک دیتے.حفاظت دین تلوار کے ساتھ نہیں بلکہ (8) اس کے بعد مولانا لکھتے تعلیم و تربیت کے ساتھ ہوا کرتی ہے ہیں اگر مسلمانوں سے ان احمدیوں کو الگ کر دیا جائے تو پھر دوسروں کو یہ ہمت نہیں ہو گی کہ وہ نبوت کا دعوی کریں اور مسلمانوں میں افتراق پیدا کریں.22 مولانا! بازی بازی باریش بابا ہم بازی.آپ سمجھتے نہیں کہ آپ کی یہ بات کس طرح صحابہ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چوٹ کرتی ہے.اگر یہی دلیل مکہ کے لوگ دیتے بلکہ حق تو یہ ہے کہ وہ دیا کرتے تھے تو کیا ان کے وہ مظالم جن کو سُن کر اور جن کو پڑھ کر ایک شریف ہندو اور ایک شریف عیسائی کا دل بھی دہل جاتا ہے وہ جائز اور درست نہیں ہو جائیں گے ؟ مولانا دنیا میں حفاظت دین تلوار کے ساتھ نہیں ہوا کرتی.

Page 92

انوار العلوم جلد 24 57 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی حفاظت دین تعلیم اور تربیت کے ساتھ ہوا کرتی ہے.جب تک اسلام دلوں میں زندہ ہے دس ہزار نبوت کا جھوٹا مدعی بھی اس ایمان کو متزلزل نہیں کر سکتا اور جب تک سچائی کا اعلان کرنے والے لوگ دُنیا میں موجود ہیں کوئی تلوار، کوئی بندوق، کوئی خنجر اور کوئی شعلہ نار سچائی کا اظہار کرنے والوں کی زبان بندی نہیں کر سکتا.سچ ماریں کھا کر بھی اُٹھے گا اور سچائی کا اعلان کرنے والے قتل ہوتے ہوئے بھی اپنی بات کو دُہراتے چلے جائیں گے اور جھوٹے مدعیان نبوت خواہ کتنے بھی طاقتور ہوں اور خواہ ان کے مقابلہ میں کوئی تلوار بھی نہ اُٹھے اور کوئی مقابلہ بھی نہ ہو وہ ناکام رہیں گے اور نامراد مریں گے.مولانا غالباً اپنے لٹریچر کے علاوہ دوسری کتابوں کا مطالعہ کرنے سے بچتے رہتے ہیں.اگر وہ قرآن کریم کو پڑھتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ حضرت موسیٰ "جب فرعون کے پاس گئے اور فرعون نے ان پر ظلم کرنا چاہا تو فرعون کے ایک درباری نے اس کے سامنے یہ دلیل پیش کی کہ اِنْ تَكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُه وَ إِنْ يَكُ صَادِقًا يُصِبُكُمْ بَعْضُ الَّذِي يَعِدُكُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ كَذَابُ - 123 اے میری قوم! اگر موسیٰ جھوٹا ہے تو اس کا جھوٹ خود اسے تباہ کر دے گا اور اگر وہ سچا ہے تو اس کی پیشنگوئیوں کا ایک حصہ تمہارے حق میں پورا ہو کر رہے گا.اللہ تعالیٰ کبھی بھی حد سے بڑھنے والے اور جھوٹے کو کامیاب نہیں کرتا.پس تم موسیٰ کو کیوں قتل کرنے کی کوشش کرتے ہو.اس آیت میں کتنی زبر دست سچائی کو بیان کیا گیا ہے کہ دین خدا کی طرف سے آتا ہے.دین سیاست نہیں جس کے لئے خدا کی مدد کا سوال پیدا نہ ہو.دین خدا کا رستہ ہے جس کی حفاظت خدا تعالیٰ خود کرتا ہے.جھوٹے نبیوں کی طاقت کیا ہے کہ وہ سچ کو مٹا سکیں.خدا کی تلوار جھوٹے نبیوں کو مارتی ہے.کیا خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ نہیں کہا کہ کو تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ الأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ - 24 یعنی اگر یہ شخص ہم پر کوئی افتراء کرتا اور کوئی بات ہماری طرف منسوب کر دیتا جو ہم نے نہیں کہی تو ہم اس کا دایاں بازو پکڑ لیتے اور اس کی رگِ جان کاٹ دیتے.مولانا جھوٹے نبی کی رگِ جان کاٹنے کے لئے خدا آپ تیار رہتا ہے آپ کی تلوار

Page 93

انوار العلوم جلد 24 58 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جوار کی وہاں ضرورت نہیں ہوتی.آپ کی تلوار تو اسلام کی سچائیوں کو مشتبہ کر دیتی ہے اور وہ غیر مسلموں کو اسلام کی طرف لانے سے روکتی ہے کیونکہ وہ اسلام کو ایک خونریزی کا سمجھنے لگتے ہیں اور اس کی صلح اور آشتی کی تعلیم آپ کے تیار کردہ غلافوں میں چھپ جاتی ہے.کاش آپ حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کرتے اور اسلام کی صداقت اور اس کی خوبیوں کو روشن اور اُجاگر ہونے دیتے.مذہب غیر احمدی علماء کا باہم مل کر اسلامی دستور کے اصول مرتب کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہیں (9) پھر مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ بے شک دوسرے مسلمان بھی گفر بازی کے مرض میں مبتلا ہیں لیکن اس دلیل کی وجہ سے احمدیوں کو کافر قرار دینے سے رُکنا جائز نہیں کیونکہ اگر ذراذرا سے اختلاف پر تکفیر کر دینا غلط ہے تو دین کی بنیادی حقیقتوں سے کھلے کھلے انحراف پر تکفیر نہ کرنا بھی سخت غلطی ہے اور اس کی مزید دلیل وہ یہ دیتے ہیں کہ جب علماء اسلام نے بالا تفاق اسلامی دستور کے اصول مرتب کئے تو ظاہر ہے کہ اُنہوں نے ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہوئے ہی یہ کام کیا.125 مولانا مودودی صاحب کی یہ دلیل ہرگز معقول نہیں.یہ دلیل تبھی معقول ہو سکتی تھی جب یہ کہا جاتا کہ کفر کے فتوے دینے والے علماء اول درجہ کے جاہل، بے ایمان اور بد دیانت تھے.اس وجہ سے اب ان کی اولاد ان کی اتباع کرنے کے لئے تیار نہیں اور وہ ان کے فتوؤں کے باوجود آپس میں مل کر بیٹھنے کے لئے تیار رہے.جب دیو بندیوں کے بزرگوں نے بریلویوں پر کفر صریح کا فتویٰ دیا ہوا ہے، جب بریلویوں نے دیو بندیوں اور اہلحدیث پر گفر صریح کا فتویٰ دیا ہوا ہے ، جب اہلحدیث نے اہلسنت پر گفر صریح کا فتویٰ دیا ہوا ہے ، جب اہلسنت نے اہلحدیث پر کفر صریح کا فتویٰ دیا ہوا ہے ، جب شیعوں نے سنیوں پر اور سنیوں نے شیعوں پر گفر صریح کا فتویٰ دیا ہوا ہے اور جب اسلامی جماعت والوں نے دوسرے فرقوں پر اور دوسرے فرقوں نے اسلامی جماعت پر گفر صریح کا

Page 94

انوار العلوم جلد 24 59 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب فتویٰ دیا ہوا ہے تو ان فتووں کے بعد فتویٰ دینے والے لوگوں کا یا ان کے شاگردوں کامل بیٹھنا ان کی مداہنت اور بے ایمانی کی دلیل تو ہو سکتا ہے اس بات کی دلیل نہیں ہو سکتا کہ ان کے نزدیک دوسرے فریق مسلمان ہیں اور یا پھر اسلام کی کوئی ایسی تعریف کرنی پڑے گی جو باوجود گفر کے فتوؤں کے بھی ایک کافر کو دائرہ اسلام سے باہر نہیں نکالتی اور.آپ وہ تعریف کریں گے تو جس طرح سنی اور شیعہ اور خارجی اور اہلحدیث اور دیوبندی اور بریلوی اسلام میں شامل ہو جائے گا احمدی بھی اسلام میں شامل ہو جائے گا.جماعت احمدیہ کی تبلیغی مساعی (10) آگے چل کر مولانا لکھتے ہیں کہ کہا سے مولانا مودودی کو خوف جاتا ہے کہ احمدیوں کے علاوہ اور گروہ بھی مسلمانوں میں ایسے ہیں جو کا نفرنس والے مسلمانوں سے گہر ا اختلاف رکھتے ہیں.ان سے کیوں یہی معاملہ نہیں کیا جاتا؟ آپ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ بے شک ” مسلمانوں میں قادیانیوں کے علاوہ بعض اور گر وہ بھی ایسے موجود ہیں جو اسلام کی بنیادی حقیقوں میں مسلمانوں سے اختلاف رکھتے ہیں اور مذہبی و معاشرتی تعلقات منقطع کر کے اپنی جُداگانہ تنظیم کر چکے ہیں لیکن چند وجوہ ایسے ہیں جن کی بناء پر ان کا معاملہ قادیانیوں سے بالکل مختلف ہے.وہ مسلمانوں سے کٹ کر بس الگ تھلگ ہو بیٹھے ہیں ان کی مثال ایسی ہے جیسے چند چھوٹی چھوٹی چٹانیں ہوں جو سرحد پر پڑی ہوئی ہوں اس لئے ان کے وجود پر صبر کیا جاسکتا ہے لیکن قادیانی مسلمانوں کے اندر مسلمان بن کر گھتے ہیں، اسلام کے نام سے اپنے مسلک کی اشاعت کرتے ہیں، مناظرہ بازی اور جارحانہ تبلیغ کرتے پھرتے ہیں.....جس کی وجہ سے ان کے معاملہ میں ہمارے لئے وہ صبر ممکن نہیں ہے جو دوسرے گروہوں کے معاملہ میں کیا جاسکتا ہے.....اس پر مزید یہ کہ قادیانیوں کی جتھہ بندی، سرکاری دفتروں میں، تجارت میں، صنعت میں، زراعت میں غرض زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے خلاف نبردآزما ہے کہتے ہیں ” جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“.مولانا مانتے ہیں کہ جہاں تک خدا اور 126"

Page 95

انوار العلوم جلد 24 60 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب رسول اور قرآن کا سوال ہے احمدیوں کی طرح اور فرقے بھی ہیں جو مسلمانوں سے ان اصول میں مختلف عقائد رکھتے ہیں اور عملاً مسلمانوں سے منقطع ہو جانے کے معاملہ میں بھی وہ ایسے ہی ہیں جیسے احمدی لیکن پھر بھی ان کے ساتھ احمد یوں والا معاملہ کرنے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ وہ تبلیغ نہیں کرتے.یعنی جو مسلمان مودودی صاحب نے تیار کئے ہیں وہ اتنے کمزور ہیں کہ کوئی شخص ان میں تبلیغ کرے گا تو ان کا ایمان خراب ہو جائے گا.مودودی اسلام کو اس حملہ آور شیر کا درجہ حاصل نہیں ہے جو کہ دشمنوں کی صفوں میں سے چھین کر اپنا شکار لایا کرتا ہے بلکہ مودودی اسلام ایک محصور شدہ اور شکست یافتہ فوج ہے کہ جو چاہے اس کے ایمان کو بگاڑلے اور جو چاہے اس کے دین کو خراب کر لے.اس لئے ضرورت ہے کہ ایسے لوگوں کو اس کے پاس نہ آنے دیا جائے جو تبلیغ کرتے ہیں.مولانا مودودی کو اسلام پر کتنا پختہ ایمان حاصل ہے؟ مولانا مودودی کو مسلمان پر کتنی حُسنِ ظنی ہے! اور مسلمان اگر اس کی آنکھیں کھلی ہوں اگر وہ صداقت اسلام معلوم کرنے کے لئے تیار ہو جائے تو ان نیک خیالات کو سُن کر کتنا خوش ہو گا اور مولانامودودی کی خیر خواہی کی کتنی تعریف کرے گا اور باقی دنیا یہ سُن کر کہ سب ملکوں اور سب قوموں میں مسلمانوں کو تبلیغ کرنے کی اجازت ہے لیکن مسلمانوں میں کسی غیر قوم کو تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں کس قدر اسلام کے دلدادہ ہوں گے اور کس قدر اسلام کی محبت ان کے دلوں میں پیدا ہو جائے گی !!! مولانا ! مسلمان کہلانے میں تو احمدی بھی شریک ہیں اور آپ بھی شریک ہیں.اگر مسلمان کہلانے کی وجہ سے احمدیوں کی تبلیغ آپ کی جماعت پر مؤثر ہو جاتی ہے تو آپ کی تبلیغ احمدیوں پر کیوں مؤثر نہیں ہوتی.کبھی احمدیوں نے بھی شکایت کی ہے کہ آپ احمدیوں میں کیوں تبلیغ کرتے ہیں؟ آپ کا دعویٰ ہے کہ ایک ایک احمدی کے مقابلہ میں ہزار ہزار غیر احمدی ہیں.اگر ہزار ہزار غیر احمدی ایک ایک احمدی کو تبلیغ کرنے نکلے تو نتیجہ ظاہر ہے.اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ منٹوں میں اس کو خاموش کر لیں گے اور اسے حق کی طرح کھینچ لیں گے مگر باوجود اس کے کہ روپیہ آپ کے پاس ہے،

Page 96

انوار العلوم جلد 24 61 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی جتھہ آپ کے پاس ہے، طاقت آپ کے پاس ہے، علماء آپ کے پاس ہیں پھر بھی آپ لرزہ براندام ہیں اور اس بات سے ڈرتے ہیں کہ احمدی ہم میں تبلیغ کریں گے تو کیا ہو جائے گا.اگر آپ میں جرات ہوتی تو آپ کہتے آئیں اور احمدی ہمیں تبلیغ کریں.کبھی آپ نے وہ واقعہ نہیں سنا جو موجودہ امام جماعت احمدیہ کے ساتھ قادیان میں پیش آیا تھا.ایک دفعہ ہر دوار سے آریوں کے مذہبی کالج کے کچھ پروفیسر طالب علموں کے ساتھ قادیان آئے اور اُنہوں نے اسلام کے خلاف تقریریں کرنی شروع کر دیں.اُنہوں نے اپنے زعم میں امام جماعت احمدیہ کو شرمندہ کرنے کے لئے اپنے کچھ شاگردوں کو سوالات سکھا کر ان سے ملنے کے لئے بھیجا.اُنہوں نے آکر درخواست کی کہ ہم امام جماعت احمدیہ سے ملنا چاہتے ہیں.امام جماعت احمدیہ نے مسجد میں ان کو بلوالیا اور ان سے ملاقات کی.لڑکوں نے سکھلائے ہوئے سوالات پیش کرنے شروع کر دیئے.امام جماعت احمدیہ نے جواب دیا کہ تم دس گیارہ لڑکے ہو ہر ایک کے دل میں نہ معلوم کتنے کتنے سوالات اسلام کے خلاف بھرے ہوئے ہوں گے.آخر میں محدود وقت دے سکتا ہوں.تمہارا اصرار یہ ہے کہ میرے ہی منہ سے جواب سنو کسی دوسرے احمدی عالم کے منہ سے جواب سننے کے لئے تم تیار نہیں اور میں اول تو دنوں اور ہفتوں بیٹھ کر تمہارے ان سوالات کا جواب نہیں دے سکتا.دوسرے میں جو بھی جواب دوں گا اگر وہ حقیقی جواب ہو گا اور قرآن کریم میں سے ہو گا تو تمہارے دل میں شبہ ہو گا کہ معلوم نہیں قرآن میں یہ بات لکھی ہے یا نہیں لکھی کیونکہ تم عربی نہیں جانتے اور اگر میں الزامی جواب دوں گا اور وہ ویدوں سے ہو گا یا دوسری ہندو کتب سے ہو گا تو تم فوراً کہو گے کہ آپ تو سنسکرت جانتے ہی نہیں، آپ کیا جانتے ہیں کہ ہماری کتابوں میں کیا لکھا ہے ؟ پس کوئی ایسا ذریعہ ہمارے درمیان مشترک نہیں جس کے ساتھ اس جھگڑے کا تصفیہ کیا جاسکے.اس لئے میں تمہیں ایک آسان راہ بتاتا ہوں.تم اپنے اساتذہ سے جاکر کہو کہ وہ چار لڑکے جو میں انہیں دوں انہیں اپنے ساتھ لے جائیں اور دو تین سال رکھ کر انہیں وید پڑھائیں اور جو اعتراضات ان کے دل میں قرآن کے متعلق ہیں

Page 97

انوار العلوم جلد 24 62 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی وہ ان کے کانوں میں ڈالیں.ان لڑکوں کا خرچ زمانہ تعلیم سے آخر تک میں ادا کروں گا اگر اس عرصہ تعلیم میں سنسکرت پڑھ لینے اور ویدوں کا مطالعہ کر لینے کے بعد وہ لڑکے ہندو مذہب کی فوقیت اور اسلام کی کمزوری کے قائل ہو جائیں گے تو چار مبلغ ہندوؤں کو میرے خرچ سے تیار شدہ مل جائیں گے اور اگر وہ واپس میرے پاس آجائیں گے تو آئندہ مجھ سے کوئی سوال کرے گا تو میں ایسے لوگوں کو پیش کر سکوں گا جو ہندو لٹریچر خود پڑھ سکیں.اسی طرح چار لڑکے خود منتخب کر کے وہ پروفیسر میرے پاس بھیج دیں میں انہیں عربی زبان اور قرآن پڑھاؤں گا اور اسلام کی خوبیاں اُن کو بتاؤں گا اور ج دیر وہ یہاں تعلیم حاصل کریں گے ان کی تعلیم کا خرچ میں دوں گا اور کبھی ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ وہ مسلمان ہو جائیں.جب وہ تعلیم سے فارغ ہو جائیں اور خود محسوس کریں کہ اسلام سچا ہے تو بے شک اپنی مرضی سے مسلمان ہو جائیں اور اگر ان پر اسلام کی صداقت واضح نہ ہو تو میرے خرچ پر قرآن سے واقف ہو کر وہ ہندوؤں کے مبلغ بن جائیں گے اور اسلام کے خلاف محاذ قائم کریں گے.غرض دونوں طرف کا خرچ میں دوں گا اور کوئی بوجھ ہندو قوم پر نہیں پڑے گا.امام جماعت احمدیہ کی اس بات کو سُن کر وہ لڑکے کچھ جھجک سے گئے اور اُنہوں نے سوال کرنے بند کر دیئے اور تھوڑی دیر کے بعد اُٹھ کر چلے گئے.کوئی مہینہ دو مہینے گزرے تھے کہ ایک ہندو نوجوان قادیان میں آیا اور امام جماعت احمدیہ سے مل کر اُس نے کہا کہ آپ کو یاد ہے کہ کچھ لڑکے اس قسم کے آپ کے پاس آئے تھے اور آپ نے ان سے یہ یہ باتیں کی تھیں.آپ نے کہا ہاں مجھے خوب یاد ہے.اس نے کہا میں اُن لڑکوں میں سے ایک ہوں.ہمارے اساتذہ نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور میں سمجھتا ہوں کہ وہ ڈر گئے مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ بات معقول ہے.میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ مجھے اپنے خرچ پر قرآن اور عربی پڑھائیں مگر کبھی مجھے مسلمان ہونے کے لئے نہ کہیں.تعلیم کے بعد میں آپ فیصلہ کر لوں گا کہ مجھے مسلمان ہونا چاہئے یا نہیں.آپ نے اس شرط کو منظور کیا اور اس نوجوان کو اسلام کی تعلیم دلوائی.وہ گورو کل کانگڑی کا جو ہندوستان کا بہترین ہندو سنسکرت کالج ہے

Page 98

انوار العلوم جلد 24 63 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب طالب علم تھا.کچھ عرصہ کے بعد جب اُس نے قرآن کریم کو خود اپنی آنکھوں سے پڑھا اور خود اس کا مطلب سمجھنے کے قابل ہوا تو ایک دن خود آکر خواہش کی کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں اور مسلمان ہو گیا.اس کے بعد اس نے مولوی فاضل پاس کیا اور اب وہ اسلام کا ایک مبلغ ہے اور اسلام کی تائید میں کتابیں لکھتا ہے.مولانا! یہ سچ کی طاقت ہوتی ہے.راستبازوں کے یہ حوصلے ہوتے ہیں جس کا نمونه امام جماعت احمدیہ نے دکھایا.آپ اگر سمجھتے ہیں کہ جو کچھ آپ سمجھتے ہیں وہ سچ ہے تو دوسرے مسلمان فرقوں کو اس سے واقف کیجئے اور احمدیوں میں تبلیغ کیجئے.پھر اگر دوسرے مسلمان آپ کی باتوں کو سچا سمجھیں گے تو وہ اپنے فرقہ کو چھوڑ کر آپ میں آملیں گے.یہی طریق ہے جو سب نبیوں نے اختیار کیا اور اسی طریق سے دُنیا میں سچائی قائم ہوتی رہی ہے.ڈنڈوں اور تلواروں نے نہ کبھی پہلے سچ کی مدد کی ہے اور نہ آئندہ کر سکیں گے.مولانا! آپ نے تو اپنے اس بیان میں حقیقت کا بھانڈا ہی پھوڑ دیا.آپ کے اس بیان کا مطلب تو یہ ہے کہ خدا کے بارہ میں کوئی اختلاف کرے پروا نہیں، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارہ میں کوئی اختلاف کرے پروا نہیں، قرآن کے بارہ میں کوئی اختلاف کرے پروا نہیں.ایسے مسلمان فرقے بے شک موجود ہیں جو ان باتوں میں ہم سے احمدیوں کی طرح اختلاف کرتے ہیں.پھر معمولی اختلاف نہیں ”بنیادی حقیقتوں“ میں اختلاف کرتے ہیں اور معاشرتی تعلقات ہم سے منقطع کر رہے ہیں لیکن ہم کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، ہم کو قرآن سے کیا، ہم کو اسلام سے کیا.وہ خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اختلاف کرتے ہیں.ہماری جماعت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے کیونکہ وہ تبلیغ نہیں کرتے.پس جب مودودی جماعت ان کے فتنہ سے محفوظ ہے تو خدا اور اس کا رسول جائیں اور اپنی حفاظت آپ کریں ہم کو تو احمدیوں سے غرض ہے کہ وہ مودودی اور دیوبندی بھیڑوں میں سے کچھ نہ کچھ بھیڑیں اُٹھا کر ہر سال لے جاتے ہیں.

Page 99

انوار العلوم جلد 24 64 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب پھر مولانا فرماتے جماعت احمدیہ کے متعلق مخالفین کی کذب بیانیاں ہیں کہ قادیانیوں وجہ سے تو سرکاری دفاتر میں، تجارت میں، صنعت میں، زراعت میں غرض زندگی کے ہر میدان میں مسلمانوں کے ساتھ لڑائی ہو جاتی ہے.مولانا ! یہ لڑائی کون کرتا ہے؟ یہ جھوٹ کب تک بولا جائے گا کہ سرکاری دفاتر پر احمدی قابض ہیں.کسی ایک محکمہ کے اعدادو شمار تو پیش کیجئے کہ اس میں کل ملازم اتنے ہیں اور احمدی اتنے ہیں.کب تک یہ جھوٹ بولا جائے گا کہ فوج میں پچاس فیصدی احمدی ہیں، اعداد و شمار کے ساتھ ہی لوگوں کو پتہ لگ سکتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ اور پھر تجارت اور زراعت اور صنعت میں احمدی ہیں کتنے ؟ پچاس ہزار کے قریب پاکستان میں تاجر ہو گا مگر ان میں سے بمشکل ڈیڑھ دو سو احمدی ہو گا اور زراعت میں تو آدمی اپنے ماں باپ کا ورثہ لیتا ہے.اس میں کسی احمدی نے کسی کا بگاڑ کیا لینا ہے.کوئی احمدی اگر اپنے ماں باپ کی زمین لے لیتا ہے تو اس میں دوسرے مسلمانوں سے لڑائی کا کیا سوال ہے.غیر احمدی بھی تو اپنے ماں باپ کا ورثہ لیتے ہیں.صنعتی کار خانے شاید احمدیوں کے پاس ہزار میں سے ایک ہو گا.پھر اس سے کیا اختلاف پیدا ہو جاتا ہے.محض ایک غلط بات کو دہراتے جانے سے تو وہ سچی نہیں بن جاتی.اعدادو شمار پیش کیجئے.دنیا خود فیصلہ کرلے گی کہ حقیقت کیا ہے اور خدا گواہ ہے کہ آپ کبھی اپنے دعویٰ کی تائید میں اعداد و شمار پیش نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں اور قیامت تک اپنی بات کو ثابت نہیں کر سکیں گے خواہ فیصلہ کرنے والے آپ کے ہم مذہب بیج ہی کیوں نہ ہوں.آپ کے ساتھیوں کا تو یہ حال ہے کہ ائر کموڈور جنجوعہ کے متعلق بھی انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہوائی جہازوں کے یہ افسر اعلیٰ احمدی ہیں.127 حالانکہ جنجوعہ کبھی احمدیت کے قریب بھی نہیں گیا.اس طرح جہاں کوئی شخص احمدیت کی تائید میں کچھ کہہ بیٹھتا ہے آپ لوگ فوراً کہہ دیتے ہیں کہ اصل میں یہ احمدی ، ہے.حالانکہ احمدیت سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں ہو تا.اس کا قصور صرف اتنا ہوتا ہے

Page 100

انوار العلوم جلد 24 65 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب کہ وہ ظلم کے خلاف احتجاج کرتا ہے اور آپ کی طاقت صرف یہ ہوتی ہے کہ آپ جھوٹ بولنے سے ڈرتے نہیں.چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو پھر مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ نہ ہٹا کر ہمارے مدبرین عقلمندی کا چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو وزارتِ خارجہ سے نہ ہٹانے کی ثبوت دے رہے ہیں یا کور مغزی کا حکومت پاکستان یہ دلیل دیتی ہے کہ اس کے توسط سے ہی چونکہ ہم غیر ملکوں سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اس لئے ہم اس کو نہیں ہٹا سکتے اور مودودی صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکہ اور انگلستان کے مد برین ہمارے مدبرین کی طرح کوڑ مغز نہیں ہیں کہ وہ ایک شخص کے ہٹنے پر ملک بھر سے رُوٹھ جائیں.128 مولانا اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو ہٹانے کے لئے کیوں زور دیا جاتا ہے.مخالفت یا تو مذ ہی ہے یا عہدوں کے حصول کے لئے ہے لیکن کہا یہ جاتا ہے کہ چونکہ ظفر اللہ خاں احمدی ہے اور احمدی انگریزوں اور امریکنوں کی تائید کرتے ہیں اس لئے ان کو ہٹایا جائے.یہ اعتراض تو جھوٹا ہے اور مولانا مودودی اور ان کے ساتھیوں کی ایجاد ہے لیکن بہر حال امریکن اور انگریز نمائندے اس ملک میں موجود ہیں اور ہمارے اخباروں کے خلاصے ضرور ان کے سامنے پیش ہوتے رہتے ہوں گے اور وہ ان خلاصوں کو اپنی حکومتوں کی طرف بھجواتے بھی رہتے ہوں گے.مولانا سمجھ لیں کہ امریکہ اور انگلستان کے مدبرین بیشک کوڑ مغز نہیں ہیں کہ وہ ایک شخص کے ہٹنے پر ملک بھر سے روٹھ جائیں مگر وہ اتنے بیوقوف بھی نہیں ہیں کہ جب ایک حکومت کسی شخص کو اس لئے ہٹائے کہ وہ امریکہ اور انگلستان کے ساتھ نیک تعلقات کی خواہش رکھتا ہے تو پھر بھی وہ اس ملک کے ساتھ اپنے تعلقات قائم رکھیں.پس پاکستان کی حکومت اس بات سے خائف نہیں کہ ظفر اللہ خاں کے ہٹانے کی وجہ سے امریکہ اور انگلستان مخالف ہو جائیں گے.وہ اس بات سے خائف ہے کہ ظفر اللہ خاں کو جب

Page 101

انوار العلوم جلد 24 66 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اس وجہ سے ہٹایا جائے گا کہ وہ انگلستان اور امریکہ سے بلا وجہ الجھنے کا قائل نہیں اور غیر مسلموں سے بھی نیک سلوک قائم رکھنا چاہتا ہے تو اس کے ہٹانے سے لازماً انگلستان اور امریکہ کے لوگ اور وہاں کی حکومتیں یہ سمجھیں گی کہ پاکستان کے عوام الناس اور پاکستان کی حکومت کسی ایسے شخص کو بر سر اقتدار نہیں آنے دیں گے جو کہ انگلستان اور امریکہ سے صلح رکھنے کی تائید میں ہو یا غیر مذاہب والوں سے صلح رکھنا چاہتا ہو.مولانا! بتائیے یہ کوڑ مغزی ہوگی یا عقلمندی اور آپ کے اس شور وشر کے نتیجہ میں ظفر اللہ خاں کو نہ ہٹا کر ہمارے مدبرین عظمندی کا ثبوت دے رہے ہیں یا کوڑ مغزی کا ثبوت دے رہے ہیں.جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام (12) پھر مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ مولانا مودودی کی نگاہ میں بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدی تو تبلیغ اسلام کرتے ہیں ان کے ساتھ ایسا سلوک نہیں چاہئے.اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ان کی تبلیغ تبلیغ نہیں تھی بلکہ انگریزوں کو خوش کرنے کا ایک طریق تھا اور اس کی دلیل میں اُنہوں نے بانی سلسلہ احمدیہ کا یہ حوالہ تبلیغ رسالت سے پیش کیا ہے کہ :- جیسے جیسے میرے مُرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے“.129 دوسری دلیل اُنہوں نے ایک اٹیلین انجینئر کی کتاب سے پیش کی ہے کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اس لئے ان کو شہید کیا گیا.تیسری دلیل کے طور پر اُنہوں نے ”الفضل“ کا ایک حوالہ پیش کیا ہے جس میں ”امان افغان 3 مارچ 1925ء کی عبارت درج کی گئی ہے اور وہ بقول مودودی صاحب کے یہ ہے:- وو افغانستان گورنمنٹ کے وزیر داخلہ نے مندرجہ ذیل اعلان

Page 102

انوار العلوم جلد 24 67 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی شائع کیا ہے.کابل کے دو اشخاص ملا عبد الحلیم چهار آسیانی و ملانور علی دکاندار قادیانی عقائد کے گرویدہ ہو چکے تھے اور لوگوں کو اس عقیدہ کی تلقین کر کے انہیں اصلاح کی راہ سے بھٹکا رہے تھے.....ان کے خلاف مدت سے ایک اور دعویٰ دائر ہو چکا تھا اور مملکت افغانیہ کے مصالح کے خلاف غیر ملکی لوگوں کے سازشی خطوط ان کے قبضے سے پائے گئے جن سے پایا جاتا ہے کہ وہ افغانستان کے دشمنوں کے ہاتھ بک چکے تھے “.130 ہو تھی دلیل کے طور پر اُنہوں نے میاں محمد امین صاحب قادیانی مبلغ کا ایک حوالہ پیش کیا ہے کہ چونکہ سلسلہ احمدیہ اور برٹش حکومت کے باہمی مفاد ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اس لئے میں روس میں جہاں تبلیغ کرتا تھا وہاں گورنمنٹ انگریزی کی خدمت گزاری بھی مجھے کرنی پڑتی تھی.131 پانچویں دلیل کے طور پر اُنہوں نے ”الفضل“ کا ایک اور حوالہ دیا ہے جس میں یہ درج ہے کہ ایک جرمن وزیر نے جب احمد یہ عمارت کے افتتاح کی تقریب میں شمولیت کی تو وہاں کی گورنمنٹ نے اس سے باز پرس کی کہ احمدی تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تم ایسی جماعت کی کسی تقریب میں کیوں شامل ہوئے ہو.132 مسئلہ جہاد کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک (12- الف) مودودی صاحب کے پہلے حوالہ سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے یہ لکھا کہ :- ” جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے چلے جائیں گے “.مولانا مودودی صاحب کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس جگہ جہاد کے وہ معنے نہیں ہیں جو قرآن کریم کی آیات اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ملفوظات سے ثابت ہیں.اس جگہ پر جہاد سے مراد وہ غلط عقیدہ ہے جو کہ آجکل کے مسلمانوں میں پھیل گیا ہے.

Page 103

انوار العلوم جلد 24 68 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب ورنہ جہاد کا مسئلہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے اور حدیث سے بھی ثابت ہے اور کوئی احمدی اس کا منکر نہیں ہو سکتا اور نہ بانی سلسلہ احمدیہ اس کے منکر تھے.بانی سلسلہ احمدیہ نے ہمیشہ ہی جہاد کی اس تعریف کی تائید کی ہے جو قرآن اور حدیث سے ثابت ہے یعنی اگر کوئی قوم اسلام کے مٹانے کے لئے مسلمانوں پر حملے کرے تو سب مسلمانوں پر جو کسی ایک امام کے تابع ہوں فرض ہوتا ہے کہ وہ مل کر ان دشمنوں کا مقابلہ کریں اور اسلام کو اس مصیبت سے بچائیں.بانی سلسلہ احمدیہ صرف اس بات کے خلاف تھے کہ اکا دُکا مسلمان اُٹھ کر ایک ایسی حکومت کے افراد کو قتل کرنا شروع کر دے جس کے ملک میں مسلمان امن سے رہ رہے ہوں اور جن کے ساتھ ان کی کوئی لڑائی نہ ہو یا کسی ملک کے لوگ دوسری معاہد حکومت سے جنگ شروع کر دیں اور اس کا نام جہاد رکھیں.بانی سلسلہ احمدیہ کے ان عقائد سے خود مودودی صاحب کو بھی اتفاق ہے اور تمام علماء ہند وستان کو بھی اتفاق تھا اور اب بھی پاکستان کے علماء کو اتفاق ہے.اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے تو مودودی صاحب بتائیں کہ اُنہوں نے کتنے انگریز مارے تھے.کیا جہاد ان پر فرض نہیں تھا یا دوسرے علماء احراری یا دیو بندی یا بریلوی بتائیں کہ اُنہوں نے کتنے انگریز مارے تھے.کیا ان پر جہاد فرض نہیں تھا؟ پس حضرت مرزا صاحب نے اگر وہی بات کہی جو عملاً ہر مسلمان عالم کر رہا تھا تو ان پر کیا اعتراض ہے.خود مودودی صاحب اپنی کتاب حصہ اوّل کے صفحہ 78،77 پر لکھتے ہیں کہ :- ”ہندوستان اس وقت بلاشبہ دارالحرب تھا جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر رہی تھی.اس وقت مسلمانوں کا فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں ناکام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے ، انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دارالحرب نہیں رہا.اس لئے کہ یہاں اسلامی قوانین سور

Page 104

انوار العلوم جلد 24 69 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی منسوخ نہیں کئے گئے ہیں.نہ مسلمانوں کو سب احکام شریعت کے اتباع سے روکا جاتا ہے، نہ ان کو اپنی شخصی اور اجتماعی زندگی میں شریعت اسلامی کے خلاف عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے.ایسے ملک کو دارالحرب ٹھہر انا اور ان رخصتوں کو نافذ کرنا جو محض دارالحرب کی مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر دی گئی ہیں اصول قانون اسلامی کے قطعاً خلاف ہے اور نہایت خطرناک بھی“.یہی وہ بات تھی جو بانی سلسلہ احمدیہ کہتے تھے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ کوئی مسیح آسمان سے نازل ہو گا جو تمام نامسلموں کو مارنے کی مہم جاری کر دے گا اور جو شخص اسلام کی تسلیم نہ کرے گا اُسے قتل کر دے گا.ایک غلط عقیدہ ہے.ایسا جہاد اسلام میں جائز نہیں ہے.آنے والا مسیح صرف دلائل اور براہین سے لوگوں کو اسلام کی طرف لائے گا اور بلا وجہ لوگوں سے جنگ کا اعلان نہیں کرے گا.چنانچہ وہ حوالہ جس کی ایک سطر مودودی صاحب نے لکھ دی ہے مکمل یوں ہے :- میں کسی ایسے مہدی ہاشمی قریشی خونی کا قائل نہیں ہوں جو دوسرے مسلمانوں کے اعتقاد میں بنی فاطمہ میں سے ہو گا اور زمین کو کفار کے خون سے بھر دے گا.میں ایسی حدیثوں کو صحیح نہیں سمجھتا اور محض ذخیر ہ موضوعات جانتا ہوں.ہاں میں اپنے نفس کے لئے اُس مسیح موعود کا ادعا کرتا ہوں جو حضرت عیسی علیہ السلام کی طرح غربت کے ساتھ زندگی بسر کرے گا اور لڑائیوں اور جنگوں سے بیزار ہو گا اور نرمی اور صلح کاری اور امن کے ساتھ قوموں کو اس سچے ذوالجلال خدا کا چہرہ دکھائے گا جو اکثر قوموں سے چھپ گیا ہے.میرے اصولوں اور اعتقادوں اور ہدایتوں میں کوئی امر جنگجوئی اور فساد کا نہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور

Page 105

انوار العلوم جلد 24 70 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی مهدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار کرنا ہے “.133 مودودی صاحب کا بھی یہی عقیدہ ہے.چنانچہ گو اس مسئلہ کا اُنہوں نے غلط استعمال کیا ہے لیکن اسی مسئلہ کی بناء پر اُنہوں نے کشمیر کی لڑائی میں شمولیت کو ناجائز قرار دیا.134 ان کی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے یہ نہیں سمجھا کہ جہاد کئی ہیں.ایک جہاد وہ ہے کہ جب کوئی قوم دین مٹانے کے لئے حملہ کرے تو دین کی حفاظت کے لئے اس سے لڑا جائے.یہ جہاد کبیر ہے اور ایک جہاد یہ ہے کہ کوئی قوم اپنے ملک کی آزادی کے لئے لڑے یہ جہادِ صغیر ہے.ایسے جہاد کے متعلق بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مَنْ قُتِلَ كُوْنَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَ مَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَ مَنْ قُتِلَ دُوْنَ دِيْنِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَ مَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهَيْدُ 135 یعنی جو شخص اپنے مال یا اپنی جان یا اپنے د یا اپنے اہل کے بچانے کے لئے لڑتا ہوا مارا جائے، وہ شہید ہے.چونکہ شہید اسی کو کہتے ہیں جو جہاد میں مارا جائے اس لئے ماننا پڑے گا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی لڑائی کو بھی ایک قسم کا جہاد قرار دیا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ جہاد کبیر تو سارے مسلمانوں پر فرض ہو جاتا ہے اور جہاد صغیر صرف ان لوگوں پر فرض ہوتا ہے جن کے ملک کی آزادی خطرہ میں پڑے.مودودی صاحب نے یہ نہیں سوچا کہ کشمیر کے متعلق ہندوستان کے ساتھ پاکستان کا کوئی معاہدہ نہیں تھا.جب پارٹیشن ہوئی ہے اس وقت تینوں اقوام یعنی انگریزوں، ہندوؤں اور مسلمانوں کی مجلس میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ جن علاقوں میں کسی قوم کی اکثریت ہو اور وہ آزادی حاصل کرنے والے ہم مذہب علاقہ کے ساتھ لگتے ہوں تو وہ علاقے اپنے ہم مذہبوں کی حکومت میں شامل کئے جائیں گے اور کشمیر کے متعلق خاص طور پر فیصلہ ہوا تھا کہ یہ ملک ہندوستان اور پاکستان سے مشورہ کرنے کے بعد اپنا فیصلہ کرے گا لیکن کشمیر نے ایسا نہیں کیا اور اس عام قانون کے خلاف کہ ساتھ ملتی ہوئی مذہبی اکثریت کو اپنی مذہبی اکثریت والی حکومت میں شامل ہونے کا حق ہو گا توڑ دیا اور بغیر پاکستان سے مشورہ کرنے کے ہندوستان سے الحاق کا اعلان کر دیا اور

Page 106

انوار العلوم جلد 24 71 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی ہندوستان نے اس کو تسلیم کر لیا.پس کشمیر کے متعلق کوئی معاہدہ نہ تھا بلکہ جو اقوام ثلاثہ کا فیصلہ تھا اس کو ہندوستان نے توڑ دیا.پھر لڑائی کشمیر میں ہو رہی تھی ہندوستان میں نہیں ہو رہی تھی اور کشمیر کوئی معاہد حکومت نہیں تھی.یہی وجہ ہے کہ باوجود اس کے کہ ہندوستان کے بعض حصوں پر حملہ کر کے کشمیر کے مسئلہ کو حل کیا جاسکتا تھا.پاکستان نے اسلامی قانون اور بین الا قوامی قانون کو مد نظر رکھتے ہوئے ہندوستان پر حملہ نہیں کیا.پس بجائے اس کے کہ مولانا مودودی پاکستان کی تعریف کرتے کہ اس نے بہت حوصلہ سے کام لیا ہے اور قانونِ اسلام کی پابندی اور قانون بین الا قوامی کی پابندی میں اپنے فوائد کو نقصان پہنچایا ہے.انہوں نے اُلٹا پاکستان پر حملہ اور جنگ کشمیر کے خلاف اعلان کر دیا لیکن بہر حال جو مسئلہ انہوں نے جنگ کشمیر کے خلاف پیش کیا وہ وہی ہے جس کو بانی سلسلہ احمدیہ نے غیر مسلم اقوام سے لڑنے کے متعلق پیش کیا ہے اگر وہ مسئلہ غلط ہے تو مولانا مودودی نے اس کو کیوں استعمال کیا اور اگر وہ مسئلہ ٹھیک ہے تو مولانا مودودی نے بانی سلسلہ احمدیہ پر کیوں اعتراض کیا؟ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کی شہادت کی وجہ 12 - ب) باقی رہا یہ کہ ایک اٹیلین انجینئر نے لکھا ہے کہ صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب کو اس لئے شہید کیا گیا کہ وہ جہاد کے خلاف تعلیم دیتے تھے اس سے بھی مراد وہی جہاد کی غلط تعلیم ہے جس کی غلطی کا خود مولانا مودودی صاحب کو اقرار ہے.اگر وہ تعلیم ٹھیک ہے تو مولانا مودودی صاحب اعلان کر دیں کہ پاکستان میں ان کی اکثریت ہونے پر وہ روس پر اور امریکہ پر اور انگلستان پر اور ہندوستان پر حملہ کر دیں گے.اگر نہیں تو پھر یہ ثابت ہو جائے گا کہ وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ ہر کافر قوم سے ہر وقت لڑائی جائز نہیں بلکہ ان کا فرا قوام سے لڑائی جائز ہے جو اسلام کو مٹانے کے لئے اسلامی ممالک پر حملہ کریں یا سیاسی نفوذ کے لئے کسی اسلامی ملک پر حملہ کریں یا پھر ایسی قوموں کے ساتھ لڑائی جائز ہے کہ وہ خود تو ہم پر حملہ نہ کریں لیکن اُنہوں نے کسی وقت ہمارے بعض حقوق پر قبضہ کر لیا ہو اور اس کے بعد ہماری

Page 107

انوار العلوم جلد 24 72 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب ان سے صلح نہ ہو گئی ہو.اس سے ایک شوشہ کم یازیادہ بانی سلسلہ احمدیہ کبھی نہیں کہتے تھے.محض فتنه انگیزی کے لئے مولانا مودودی اور ان کے ساتھی اس مسئلہ کو غلط طور پر پھیلا رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ جہاد کے خلاف ہے اگر آج کوئی حکومت کسی ملک پر اسلام کے مٹانے کے لئے حملہ کرے گی تو جماعت احمد یہ یقینا اپنے ان بھائیوں کے ساتھ ہو گی جن پر حملہ کیا جائے گا اور یہ پرواہ نہیں کرے گی کہ اس ملک کے باشندے جس پر حملہ کیا گیا ہے سنی ہیں، شیعہ ہیں، خارجی ہیں، حنفی ہیں یا کون ہیں اور اگر کسی اسلامی ملک پر کوئی غیر اسلامی حکومت حملہ کرے گی تاکہ اس کی آزادی کو سلب کرے تو احمدی جماعت یقینا اس اسلامی ملک سے ہمدردی رکھے گی خواہ وہ کسی فرقہ کے قبضہ میں ہو.شہداء افغانستان کے متعلق ( 12-ج) ہمیں نہایت افسوس ہے کہ جو حوالہ ایک حوالہ میں بد دیانتی احمدی شہداء کے واقعہ کے متعلق لکھا ہے اور جس میں حکومت افغانستان نے ان پر یہ الزام لگایا ہے کہ بعض غیر ملکی لوگوں سے ان کی خط و کتابت تھی (اور غیر ملکی لوگوں سے خط و کتابت رکھنا مجرم نہیں.خود مودودی صاحب بھی غیر ملکی لوگوں سے خط و کتابت کرتے ہیں) اس حوالہ کا آخری فقرہ یہ ہے کہ :- اس واقعہ کی تفصیل مزید تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی“.لیکن مودودی صاحب نے اپنی کتاب میں اس فقرہ کو چھوڑ دیا ہے یہ فقرہ صاف بتاتا ہے کہ حکومت افغانستان اپنے اس الزام پر پختہ نہیں وہ ابھی مزید تفتیش کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جس کے بعد تفصیل شائع کی جائے گی مگر مولانا مودودی صاحب اس ٹکڑہ کو کاٹ کر صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ افغانستان کے چند احمدی چند غیر ملکیوں سے خط و کتابت کرتے تھے (جس سے اس طرف اشارہ ہے کہ دُشمنانِ افغانستان سے خط و کتابت کرتے تھے) کیا یہ دیانتداری ہے؟ کیا یہ تقویٰ ہے ؟ وہ حکومت جس نے احمدیوں کو سنگسار کیا وہ تو یہ کہتی ہے کہ ابھی اس واقعہ کی تفصیلات کی تفتیش نہیں ہوئی اور وہ بعد میں شائع کی جائے گی اور الفضل اس کے اس فقرہ کو لکھتا ہے اور پھر اس کی

Page 108

انوار العلوم جلد 24 73 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب تردید بھی کرتا ہے لیکن مودودی صاحب حکومت افغانستان کے بیان کے اس حصہ کو بھی ترک کر دیتے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے کہ ابھی یہ واقعہ زیر تحقیق ہے اور الفضل کی تردید کو بھی چھوڑ دیتے ہیں اور اس امر کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ جن لوگوں کو قتل کیا گیا تھا ان کو عدالت نے مذہبی اختلاف کی بناء پر قتل کرنے کا حکم دیا تھا.سیاسی سازش کی بناء پر قتل کرنے کا حکم نہ دیا تھا.اگر کوئی سیاسی سازش تھی تو حکومت نے کیوں اس کو عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا اور پھر اگر کوئی خطوط پکڑے گئے تھے اور حکومت نے اعلان کیا تھا کہ اس واقعہ کی تفصیل تفتیش کے بعد شائع کی جائے گی“ تو وہ تفصیل بعد میں کیوں شائع نہیں ہوئی.کیا حکومت کا فرض نہیں تھا کہ وہ اپنے اس بیان کے مطابق بعد میں تفتیش کے نتائج بھی شائع کرتی مگر حکومت افغانستان نے ایسا کبھی نہیں کیا.مولانا مودودی صاحب نے یہ ٹکڑا جو نقل کیا ہے الفضل سے نقل نہیں کیا برنی صاحب کی کتاب سے نقل کیا ہے بلکہ اُنہوں نے قریباً سب حوالے بغیر دیکھے برنی صاحب کی کتاب سے نقل کئے ہیں چنانچہ ہم نے ان کے حوالے برنی صاحب کی کتاب سے ملا کر دیکھے ہیں.پانچ حوالوں کا ہمیں اب تک ثبوت نہیں مل سکا مگر باقی سارے کے سارے حوالے برنی صاحب کی کتاب سے نقل کئے گئے ہیں جس کی دلیل یہ ہے کہ برنی صاحب نے جس جگہ پر حوالہ نقل کرنے میں غلطی کی ہے اسی جگہ پر مودودی صاحب نے بھی غلطی کی ہے مگر ہم یہ کہنے سے رُک نہیں سکتے کہ برنی صاحب نے اس حوالہ کو پورا نقل کیا ہے مگر مودودی صاحب نے وہ فقرہ جو بتاتا تھا کہ یہ الزام پختہ نہیں بلکہ شکی ہے اس کو حذف کر دیا ہے اور اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ صالحیت کا وہ معیار جس کو وہ پیش کر رہے ہیں وہ برنی صاحب کے معیار سے بھی نیچے ہی ہے کیونکہ برنی صاحب باوجود مذہبی لیڈر نہ ہونے کے اور کسی صالح جماعت کے قائم کرنے کے مدعی نہ ہونے کے اس فقرہ کو درج کرتے ہیں لیکن مودودی صاحب اس فقرہ کو حذف کر جاتے ہیں.

Page 109

انوار العلوم جلد 24 74 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کاجوار میاں محمد امین خان صاحب (12) میاں محمد امین صاحب قادیانی مبلغ مبلغ بخارا کا ایک خط کے خط کا جو حوالہ اُنہوں نے دیا ہے وہ روس اور برطانیہ کے باہمی تعلقات کے متعلق ہے اس پر مسلمانوں کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ وہ یہ لکھتے ہیں کہ روس اور انگریزوں کے تعلقات کے لحاظ سے میں انگریزی فوائد کو روسی فوائد پر ترجیح دیتا تھا.یہ بڑی اچھی بات ہے اس پر کیا اعتراض ہے؟ اور اس سے مسلمانوں کو کیا نقصان پہنچ سکتا تھا؟ وہ یہ ثابت کریں کہ کسی جنگ میں انگریزوں نے ابتدا کی ہو ؟ خود کسی اسلامی ملک پر حملہ کیا ہو ؟ اور پھر بھی بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تائید کی ہو یا احمد یہ جماعت نے انگریزوں کی تائید کی ہو.جب انگریزوں نے عرب میں رسوخ بڑھانا چاہا تو جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا.جب انگریزوں نے شریف حسین والی مکہ کے ساتھ معاہدہ کر کے اس معاہدہ کو توڑا اور عرب کے متحد کرنے میں اس کی مدد نہ کی تو اس کے خلاف امام جماعت احمدیہ نے آواز بلند کی جس سے صاف ثابت ہے کہ جب کبھی انگریز نے مسلمان کے ساتھ دھو کہ بازی کی اور اس کے حقوق میں دخل اندازی کی تو جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف احتجاج کیا لیکن جب کسی مسلمان حکومت نے آپ ہی آپ غیر قوموں سے لڑائی شروع کر دی جیسا کہ ترکی نے کیا تھا تو احمدی جماعت نے ہندوستان کی تمام دوسری اسلامی جماعتوں سمیت اس اسلامی حکومت کے اس فعل کو بُر امنایا.چنانچہ عراق کے فتح کرنے میں ہندوستانی فوجوں کا بہت کچھ دخل تھا اور اس میں ایک بڑی تعداد مسلمان فوجیوں کی تھی.ممکن ہے کہ احمدی چالیس پچاس یا سو ڈیڑھ سو ہوں لیکن ہزاروں ہزار دیو بندی تھے یا بریلوی تھے یا سنی تھے یا اہلحدیث تھے.اسی طرح اہلحدیث کے لیڈر سلطان ابن سعود انگریزوں کی پشت پر ریاض میں برسر حکومت تھے.انہوں نے ایک گولی بھی انگریز کے خلاف نہیں چلائی بلکہ فور ترکی کے علاقہ پر حملہ کر کے اس کو اپنے قبضہ میں کرنا شروع کر دیا.ادھر مکہ میں شریف حسین اور فلسطین اور شام اور لبنان کے مسلمانوں نے فوراہی ترکی سے بغاوت کا اعلان کر دیا اور انگریزوں سے مل کر ان کے ساتھ لڑائی کرنی شروع کر دی.

Page 110

انوار العلوم جلد 24 75 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب بتائیے ان سارے ملکوں میں کون سے احمدی بستے تھے.کیا سلطان ابن سعود احمدی تھے ؟ کیا شریف حسین والی مکہ احمدی تھے ؟ کیا رؤسائے شام و لبنان احمدی تھے یا احمدی ہیں؟ یہ سارے لوگ ترکی سے لڑے اور ان کی لڑائی کی بنیاد یہی تھی کہ ترکی نے خود اعلانِ جنگ کیا ہے اور ان لوگوں کو اپنے ملک کے آزاد کرانے کا موقع مل گیا ہے.اگر پانچ سات لاکھ غیر احمدیوں کے ترکی پر حملہ کرنے کی وجہ سے وہ اسلام سے خارج نہیں ہو گئے ، وہ جہاد کے منکر نہیں ہو گئے اور اگر یہ سب علماء جو ہم پر فتویٰ لگارہے ہیں اس وقت خاموش رہے بلکہ سلطان ابن سعود یا شریف حسین کی مدح کرنے کے باوجو د کافر نہیں ہو گئے اور کشتنی اور گردن زدنی نہیں ہو گئے تو چالیس پچاس یا سوڈیڑھ سو احمدیوں کے اس جنگ میں شامل ہونے کی وجہ سے احمدی کیوں کشتنی و گردن زدنی ہو گئے.وہ کیوں جہاد کے منکر ہو گئے ، وہ کیوں اسلام سے منحرف ہو گئے.کیا سو دو سو احمدی عراق سے ترکوں کو نکال سکتے تھے.کیا سو دو سو احمدی ابن سعود کو اس بات پر مجبور کر سکتے تھے کہ وہ ترکی کے علاقوں پر حملہ کر کے کچھ علاقے اس سے چھین لیں.کیا سو دو سو احمدی جو اس لڑائی میں شریک ہوئے وہ شریف حسین کو مجبور کر کے سارے حجاز کو ترکی کے خلاف کھڑا کر سکتے تھے.کیا ان سو دو سو احمدی سپاہیوں کا فلسطین اور شام اور لبنان کے مسلمانوں پر ایسا قبضہ تھا کہ وہ ان کو ترکی کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے پر مجبور کر سکتے تھے.اگر یہ نہیں ہے اور ہر گز نہیں ہے تو خدا را جھوٹ بول بول کر اسلام کو بدنام نہ کرو اور لوگوں کو یہ کہنے کا موقع نہ دو کہ اسلام کے علماء بھی اتنا سچ نہیں بول سکتے جتنا غیر قوموں کے عامی سچ بول سکتے ہیں.اگر سو دو سو کے اس فعل سے احمدی واجب القتل ہیں تو پہلے ان سارے علماء کو قتل کرو، ان سارے امراء کو قتل کرو، ان سارے رؤساء کو قتل کرو جنہوں نے خود لڑائی کی یا جن کی قوم غیر احمدیوں میں سے اس لڑائی میں ترکی کے خلاف لڑی.ہر موقع پر خود گھروں میں جا چھپنا اور اسلام کی تائید میں انگلی تک نہ اُٹھانا لیکن جب وہ طوفان ختم ہو جائے تو احمدیوں پر اعتراض کرنا کیا یہ شیوہ بہادری ہے یا یہ شیوہ حیا ہے؟

Page 111

انوار العلوم جلد 24 76 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب معاملات عرب کے متعلق اس موقع پر امام جماعت احمدیہ کا مندرجہ امام جماعت احمدیہ کی غیرت ذیل حوالہ پیش کرنا یقینا اس احمد یہ پالیسی کو واضح کر دیتا ہے جو مسلمانوں کے متعلق احمد یہ جماعت نے اختیار کر رکھی تھی.آپ ایک خطبہ میں فرماتے ہیں:." آج سے کئی سال پہلے جب لارڈ چیمسفورڈ ہندوستان کے وائسرائے تھے.مسلمانوں میں شور پیدا ہوا کہ انگریز بعض عرب رؤسا کو مالی مدد دے کر انہیں اپنے زیر اثر لانا چاہتے ہیں.یہ شور جب زیادہ بلند ہوا تو حکومت ہند کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم عرب رؤسا کو کوئی مالی مدد نہیں دیتے.مسلمان اس پر خوش ہو گئے کہ چلو خبر کی تردید ہو گئی لیکن میں نے واقعات کی تحقیقات کی تو مجھے معلوم ہوا کہ گو ہندوستان کی حکومت بعض عرب رؤساء کو مالی مدد نہیں دیتی مگر حکومت برطانیہ اس قسم کی مدد ضرور دیتی ہے.چنانچہ ساٹھ ہزار پونڈ ابن سعود کو ملا کرتے تھے اور کچھ رقم شریف حسین کو ملتی تھی.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے لارڈ چیمسفورڈ کو لکھا کہ گولفظی طور پر آپ کا اعلان صحیح ہو مگر حقیقی طور پر صحیح نہیں کیونکہ حکومت برطانیہ کی طرف سے ابنِ سعود اور شریف حسین کو اس اس قدر مالی مدد ملتی ہے اور اس میں ذرہ بھر بھی شبہ کی گنجائش نہیں کہ مسلمان عرب پر انگریزی حکومت کا تسلط کسی رنگ میں بھی پسند نہیں کر سکتے.اس کے جواب میں ان کا خط آیا.(وہ بہت ہی شریف طبیعت رکھتے تھے) کہ یہ واقعہ صحیح ہے مگر اس کا کیا فائدہ کہ اس قسم کا اعلان کر کے فساد پھیلایا جائے.ہاں ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ گورنمنٹ انگریزی کا یہ ہرگز منشاء نہیں کہ عرب کو اپنے زیر اثر لائے.پس ہم ہمیشہ عرب کے معاملات میں دلچسپی لیتے رہے.جب ترک عرب پر حاکم تھے تو اس

Page 112

انوار العلوم جلد 24 77 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی وقت ہم نے ترکوں کا ساتھ دیا.جب شریف حسین حاکم ہوئے تو گو لوگوں نے ان کی سخت مخالفت کی مگر ہم نے کہا اب فتنہ وفساد کو پھیلانا مناسب نہیں.جس شخص کو خدا نے حاکم بنا دیا ہے اس کی حکومت کو تسلیم کر لینا چاہئے تاکہ عرب میں نت نئے فسادات کا رونما ہونا بند ہو جائے.اس کے بعد نجدیوں نے حکومت لے لی تو باوجود اس کے کہ لوگوں نے بہت شور مچایا کہ انہوں نے قبے گرا دیئے اور شعائر کی ہتک کی ہے اور باوجود اس کے کہ ہمارے سب سے بڑے مخالف اہلحدیث ہی ہیں ہم نے سلطان ابن سعود کی تائید کی، صرف اس لئے کہ مکہ مکرمہ میں روز روز کی لڑائیاں پسندیدہ نہیں.حالانکہ وہاں ہمارے آدمیوں کو دُکھ دیا گیا.حج کے لئے احمدی گئے تو انہیں مارا پیٹا گیا مگر ہم نے اپنے حقوق کے لئے بھی اس لئے صدائے احتجاج کبھی بلند نہیں کی کہ ہم نہیں چاہتے کہ ان علاقوں میں فساد ہوں.مجھے یاد ہے مولانا محمد علی صاحب جو ہر جب مکہ مکرمہ کی موتمر سے واپس آئے تو وہ ابنِ سعود سے سخت نالاں تھے.شملہ میں ایک دعوت کے موقع پر ہم سب اکٹھے ہوئے تو انہوں نے تین گھنٹے اس امر پر بحث جاری کھی.وہ بار بار میری طرف متوجہ ہوتے اور میں انہیں کہتا مولانا آپ کتنے ہی ان کے ظلم بیان کریں جب ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے حجاز کا بادشاہ بنا دیا ہے تو میں یہی کہوں گا کہ ہماری کوششیں اب اس امر پر صرف ہونی چاہئیں کہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی گلیوں میں فساد اور لڑائی نہ ہو اور جو شورش اس وقت جاری ہے وہ دب جائے اور امن قائم ہو جائے تاکہ ان مقدس مقامات کے امن میں کوئی خلل واقع نہ ہو“ 136

Page 113

انوار العلوم جلد 24 78 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب غیر اسلامی ممالک میں جماعت مودودی صاحب کے اس اعتراض احمدیہ کے افراد کس جذبہ جہاد کو کو کہ احمدی جماعت انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے تبلیغ کرتی کم کرنے کے لئے تبلیغ کر رہے ہیں تھی.اس طرح پر حل کیا جا سکتا ہے کہ اگر احمدی جماعت جہاد کی تعلیم کو کمزور کرنے کے لئے اسلامی ممالک میں تبلیغ کرتی تھی تو مغربی اور مشرقی افریقہ اور امریکہ اور انگلستان اور جرمنی میں کس جذبہ جہاد کو کم کرنے کے لئے احمدی تبلیغ کر رہے تھے اور کر رہے ہیں.کیا وہاں بھی جہاد کی تعلیم رائج ہے جس کو کم کرنے کے لئے احمدی تبلیغ کر رہے ہیں یا وہ قومیں بھی انگریزوں کی تائید میں ہیں کہ ان کی مدد حاصل کرنے کے لئے احمدی وہاں تبلیغ کر رہے ہیں.جر من گورنمنٹ کی ایک وزیر سے جواب طلبی (12) اگر مولانا مودودی کی قسم کے علماء کی تحریک پر جر من گورنمنٹ کو غلطی لگی اور اس نے جرمن وزیر سے جواب طلبی کی کہ وہ احمدیوں کی مجلس میں کیوں شامل ہوا جو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو یہ جرمن گورنمنٹ کے علم کی کمی اور عقل کی کوتاہی تھی.اس کی غلطی سے احمدیوں کے خلاف کس طرح حجت پکڑی جاسکتی ہے.مولانا مودودی سے ہم عملاً ثابت کر چکے ہیں کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے مفاد پر انگریزوں نے اثر ڈالنے مؤكد بعذاب حلف کا مطالبہ کی کوشش کی ہے احمدیوں نے ان کی اس بات کو ناپسند کیا ہے اور احمدیوں نے ایسے ملکوں میں جاکر تبلیغ کی ہے اور لوگوں کو اسلام میں داخل کیا ہے جہاں جہاد کا کوئی سوال ہی نہیں تھا بلکہ ایسے علاقے موجود ہیں جہاں مسلمانوں کی تنظیم احمدیوں کے ہاتھ سے ہوئی یا ان کی تنظیم میں احمدیوں نے بڑا حصہ لیا اور ان کو عیسائی اثر سے بچانے میں بڑی مدد کی.ہمارے اس دعویٰ کے سچ یا جھوٹ کے پر کھنے کے دو ہی طریق ہیں.

Page 114

انوار العلوم جلد 24 ہے.79 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اول یہ کہ ایک کمیشن ان علاقوں میں جائے اور وہاں کے لوگوں سے گواہیاں دوم یہ کہ مولانا مودودی اور ان کے ساتھی مؤکد بعذاب قسم کھائیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ تھے اور انگریزوں کے اشارہ پر کام کر رہے تھے اور یہ کہ اگر مودودی صاحب اور ان کے ساتھی اس دعویٰ میں جھوٹے ہیں تو خدا ان پر اور ان کی اولا دوں پر اور ان کی بیویوں پر اپنا غضب نازل کرے اور اپنی لعنت نازل کرے.اس کے مقابل پر احمدی جماعت کے لیڈر یہ قسم کھائیں کہ احمدی جماعت ہمیشہ ہی اسلامی تعلیم کی معترف رہی ہے قرآن اور حدیث کے پیش کر دہ جہاد کو صحیح سمجھتی رہی ہے اور صحیح سمجھتی ہے اور اس کی تبلیغ اسلام نہ انگریزوں کو خوش کرنے کے لئے تھی، نہ ان کے اشارہ پر تھی بلکہ عیسائی مذہب کی طاقت کو توڑنے کے لئے تھی اور اسلام کو شوکت دینے کے لئے تھی اور اگر وہ اس بیان میں جھوٹے ہیں تو خدا کی لعنت ان پر اور ان کی اولادوں پر اور ان کی بیویوں پر ہو.کیا مولانا مودودی اپنے ساتھیوں اور دیگر فرقوں کے علماء کو اس قسم کے لئے آمادہ کر سکتے ہیں ؟ ہم جانتے ہیں کہ مولانا مودودی اور ان کی جماعت اور ان کے ساتھی علماء اس قسم کے لئے تیار نہیں ہوں گے اور اگر ہوئے تو خدا کا عذاب ان پر نازل ہو گا اور احمدی اس قسم کے لئے فوراً تیار ہو جائیں گے.(کیونکہ ان کے امام کی طرف سے ایسا اعلان ہو چکا ہے) اور اگر وہ ایسی قسم کھائیں گے تو خدا کی مددان کو حاصل ہو گی کیونکہ وہ سچی قسم کھائیں گے.کیا بائی سلسلہ احمدیہ یہ چاہتے تھے کہ آزاد (13) آخر میں مسلمان قومیں بھی انگریزوں کی غلام ہو جائیں ؟ مولانا مودودی صاحب بانی سلسلہ احمدیہ کے کچھ حوالے درج کرتے ہیں اور ان سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ وہ انگریزوں کے خیر خواہ تھے اور عیسائیوں کے مؤید تھے اور بانی سلسلہ احمدیہ کی غرض دعوی نبوت سے یہ تھی کہ مسلمانوں میں اختلاف پیدا کیا جائے اور چونکہ وہ جانتے تھے کہ اس اختلاف کے پیدا

Page 115

انوار العلوم جلد 24 80 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب کرنے کی وجہ سے مسلمانوں میں ان کو پناہ نہیں ملے گی اس لئے وہ کوشش کرتے رہے کہ آزاد مسلمان قومیں بھی انگریزوں کی غلام ہو جائیں.137 جماعت احمدیہ نے ہمیشہ مولانا کا یہ دعویٰ سراسر باطل ہے.ہم اوپر لکھ چکے ہیں کہ کبھی بھی احمدیہ مسلمان حکومتوں کا ساتھ دیا ہے جماعت نے یہ تعلیم نہیں دی کہ آزاد اسلامی حکومتیں انگریزوں کے تابع ہو جائیں بلکہ جب کبھی بھی انگریزی حکومت نے حملہ میں ابتدا کی اور مسلمان حکومتوں کو کمزور کرنے کی کوشش کی تو احمدی جماعت نے مسلمان حکومتوں کا ساتھ دیا اور ان کی تائید کی چنانچہ ترکی کے مغلوب ہو جانے کے بعد جب اس ملک میں ناواجب نفوذ پیدا کرنے کی انگریزوں نے کوشش کی تو اس وقت بھی احمد یہ جماعت نے مسلمانوں کا ساتھ دیا.چنانچہ امام جماعت احمدیہ کے ایک رسالہ کے چند فقرات درج ذیل ہیں.آپ نے ترکی کے مستقبل کے متعلق مسلمانوں کو مشورہ دیتے ہوئے تحریر فرمایا :- ”اس میں کوئی شک نہیں کہ تمام عالم اسلامی ترکوں کے مستقبل کی طرف افسوس اور شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ ان کی حکومت کا مٹادینا یا ان کے اختیارات کو محدود کر دینا ان کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچائے گا مگر اس کی یہ وجہ بیان کرنا کہ سلطان ترکی خلیفۃ المسلمین ہیں درست نہیں کیونکہ بہت سے لوگ ان کو خلیفتہ المسلمین نہیں مانتے مگر پھر بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں.علاوہ ازیں میرے نزدیک ایسے نازک وقت میں جبکہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرہ میں ہے اس مسئلہ کو ایسے طور پر پیش کرنا کہ صرف ایک ہی خیال اور ایک ہی مذاق کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں سیاسی اصول کے بھی خلاف ہے.ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک معتد بہ حصہ شیعہ مذہب کے لوگوں کا ہے اور ان میں سے سوائے

Page 116

انوار العلوم جلد 24 81 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی بعض نہایت متعصب لوگوں کے باقی سب تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ ترکوں سے ہمدردی رکھتا ہے مگر وہ کسی طرح بھی سلطان ترکی کو خلیفۃ المسلمین ماننے کے لئے تیار نہیں.اسی طرح اہل حدیث میں سے گو بعض خلافتِ عثمانیہ کے ماننے والے ہوں مگر اپنے اصول کے مطابق وہ لوگ بھی صحیح معنوں میں خلیفہ المسلمین سلطان کو نہیں مانتے (اس اعلان کے بعد اہلحدیث کی طرف سے اعلان ہوا کہ وہ ترکی کے بادشاہ کو خلیفۃ المسلمین نہیں مانتے.ناقل) ہماری احمد یہ جماعت تو کسی صورت میں بھی اس اصل کو قبول نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبل از وقت دی ہوئی اطلاعوں کے ماتحت آپ کی صداقت کے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو اس زمانہ کے لئے مسیح موعود اور مہدی معہود بنا کر مسلمانوں کی ترقی اور استحکام کے لئے مبعوث فرمایا تھا اور اس وقت وہی شخص خلافت کی مسند پر متمکن ہو سکتا ہے جو آپ کا متبع ہو.....ان تینوں فرقوں کے علاوہ اور فرقے بھی ہیں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں لیکن خلافت عثمانیہ کے قائل نہیں بلکہ خود اہلسنت و الجماعت کہلانے والے لوگوں میں سے بھی ایک فریق ایسا ہے جو خلافت عثمانیہ کو نہیں مانتاور نہ کیونکر ہو سکتا تھا کہ ایک شخص کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا صحیح جانشین تسلیم کر کے وہ اس کے خلاف تلوار اٹھاتے.پس اندریں حالات ایسے جلسہ کی بنیاد جس میں ترکوں کے مستقبل کے متعلق تمام عالم اسلامی کی رائے کا اظہار مد نظر ہو.ایسے اصول پر رکھنی جنہیں سب فرقے تسلیم نہیں کر سکتے درست نہیں.کیونکہ اس سے سوائے ضعف و اختلال کے کوئی نتیجہ نہیں نکل سکتا.-------------

Page 117

انوار العلوم جلد 24 82 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی میرے نزدیک اس جلسہ کی بنیاد صرف یہ ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو جس کے سلطان کو مسلمانوں کا ایک حصہ خلیفہ بھی تسلیم کرتا ہے مٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلاتا ہے نا پسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے اس صورت میں تمام فرقہ ہائے اسلام اس تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ خلافتِ عثمانیہ کے قائل نہ ہوں بلکہ باوجود اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے اور سمجھتے ہوں اس اصل پر متحد ہو کر یک زبان ہو کر اپنے خیالات کا اظہار کر سکتے ہیں کیونکہ گو ایک فریق دوسرے فریق کو کافر سمجھتا ہو مگر کیا اس میں کوئی شک ہے کہ دُنیا کی نظروں میں اسلام کے نام میں سب فرقے شریک ہیں اور اسلام کی ظاہری شان و شوکت کی ترقی یا اس کو صدمہ پہنچنا سب پر یکساں اثر ڈالتا ہے.ضروری بات یہ ہے کہ مناسب مشورہ کے بعد اس غرض کے لئے ایک کو نسل مقرر کی جائے جس کا کام ترکی حکومت کی ہمدردی کو عملی جامہ پہنانا ہو صرف جلسوں اور لیکچروں سے کام نہیں چل سکتا، نہ روپیہ جمع کر کے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے، نہ انگلستان کی کمیٹی کو روپیہ بھیجنے سے بلکہ ایک با قاعدہ جد وجہد سے جو دُنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کے لئے کی جائے“.اگر کسی کامیابی کی اُمید کی جاسکتی ہے تو اسی طرح کہ چند آدمی اسلام کے واقف فرانس میں رکھے جائیں.....کچھ لوگ امریکہ جائیں اور وہاں اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ اسلام سے وہاں کے لوگوں کو واقف کرنے کے علاوہ تمام ملک کے وسیع دورے کریں.....اور ساتھ اس امر کی طرف بھی توجہ دلائیں کہ ترکوں سے جو

Page 118

انوار العلوم جلد 24 83 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی سلوک ہو رہا ہے وہ درست نہیں.....اگر آپ لوگ اسلام کی عزت اور مسلمانوں کے بقاء کے لئے اس بات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں تو مجھے اس کام کے اہل لوگ مہیا کر دینے میں کوئی عذر نہیں.ان لوگوں میں سے کچھ امریکہ میں کام کریں اور کچھ فرانس میں اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے جب تک ترکوں سے معاہدہ طے ہو 138 ، پھر جب ترکوں سے انگریزوں کا معاہدہ ہو گیا تو شرائط صلح پر پھر امام جماعت احمدیہ نے تبصرہ کیا اور تحریر فرمایا کہ:- ترکوں کے متعلق شرائط صلح کا فیصلہ کرتے وقت ان اصول کی پابندی نہیں کی گئی جن کی پابندی یورپ کے مدبر انصاف کے لئے ضروری قرار دے چکے ہیں.عراق کی آبادی کو ایسے طور پر اپنی رائے کے اظہار کا موقع نہیں دیا گیا جیسا کہ جرمن کے بعض حصوں کو.ان سے با قاعدہ طور پر دریافت نہیں کیا گیا کہ وہ اپنے لئے کس حکومت یا کس طریق حکومت کو پسند کرتے ہیں.شام کی آبادی کو باوجود اس کے صاف صاف کہہ دینے کے کہ وہ آزاد رہنا چاہتی ہے ، فرانس کے زیر اقتدار کر دیا گیا ہے.فلسطین کو جس کی آبادی کا 2/3 حصہ مسلمان ہے ایک یہودی نو آبادی قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ یہود کی آبادی اس علاقہ میں 1/4 کے قریب ہے اور یہ آبادی بھی جیسا کہ انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں لکھا ہے 1878 ء سے ہوئی ہے.....یہی حال لبنان کا ہے اس کو فرانس کے زیر اقتدار کر دینا بالکل کوئی سبب نہیں رکھتا اور آرمینیا کا آزاد کرنا بھی بے سبب ہے.....اسی طرح سمرنا کو یونان کے حوالہ کرنا بھی خلاف انصاف ہے کیونکہ کسی ملک کے صرف ایک شہر میں کسی قوم کی کثرتِ آبادی

Page 119

انوار العلوم جلد 24 84 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی اسے اس شہر کی حکومت کا حقدار نہیں بنا دیتی.....تھر میں جو ترکوں سے لے کر یونان کو دیا گیا ہے.اس کا سبب بھی معلوم نہیں ہوتا.....غرض میرے نزدیک اس معاہدہ کی کئی شرائط میں حقوق کا اتلاف ہوا ہے اس لئے جس قدر جلد یورپ اس میں تبدیلی کرے اسی قدر یہ بات اس کی شہرت اور اس کے اچھے نام کے قیام کا موجب ہو گی“.139 حجاز کی آزادی کے متعلق اسی طرح جب انگریزوں نے حجاز کی آزادی میں روکیں ڈالنے کی کوشش کی تو اس وقت بھی امام جماعت احمدیہ کا مطالبہ جماعت احمدیہ نے اس کے خلاف آواز بلند کی چنانچہ 23 جون 1921ء کو شملہ میں جماعت احمدیہ کی طرف سے لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کو جو ایڈریس دیا گیا اس میں حجاز کی آزادی کا مسئلہ خاص طور پر پیش کیا گیا.اس ایڈریس کے بعض فقرات یہ ہیں:- ”ہمارے نزدیک اس سے بھی زیادہ یہ سوال اہم ہے کہ حجاز کی آزادی میں کسی قسم کا خلل نہیں آنا چاہیئے.جب حجاز کی آزادی کا سوال پیدا ہوا تو اس وقت یہی سوال ہر ایک شخص کے دل میں کھٹک رہا تھا کہ کیا ترکوں سے اس ملک کو آزاد کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ بوجہ بنجر علاقہ ہونے کے وہاں کی آمد کم ہو گی اور حکومت کے چلانے کے لئے ان کو غیر اقوام سے مدد لینی پڑے گی اور اس طرح کوئی یورپین حکومت اس کو مدد دے کر اس کو اپنے حلقہ اثر میں لے آئے گی.نئی خبریں اس شبہ کو بہت تقویت دینے لگی ہیں.ریوٹر 140 نے پچھلے دنوں مسٹر چرچل جو وزیر نو آبادی ہیں ان کی ایک سکیم کا ذکر کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر حجاز گور نمنٹ اپنے بیرونی تعلقات کو برٹش گورنمنٹ کی نگرانی میں دے دے اور

Page 120

انوار العلوم جلد 24 85 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی اندرون ملک کے امن کا ذمہ لے تو گور نمنٹ برطانیہ اس کو سالانہ مالی امداد دیا کرے گی.اس سے تین شبے پیدا ہوتے ہیں جن کے ازالہ کی طرف جناب کو فوراہوم گور نمنٹ کو توجہ دلانی چاہئے.اول.یہ سکیم وزیر نو آبادی نے تیار کی ہے جس کا آزاد ممالک سے کوئی تعلق نہیں.(2) فارن تعلقات کا کسی حکومت کے سپر د کر دینا آزادی کے صریح منافی ہے.(3) اندرونِ ملک میں امن کے قیام کی شرط آزادی کے مفہوم کو اور بھی باطل کر دیتی ہے.یہ تو گورنمنٹ کے اصلی کاموں میں سے ہے.اس شرط کے سوائے اس کے اور کوئی معنے نہیں ہو سکتے کہ اگر کسی وقت ملک میں فساد ہو گا تو برطانیہ کی حکومت کا حق ہو گا کہ وہاں کی حکومت کو بدل دے یا وہاں کے انتظام میں دخل دے یا فوجی دخل اندازی کرے اور یقینا اس قسم کی آزادی کوئی آزادی نہیں یہ پوری ماتحتی ہے اور فرق صرف یہ ہے کہ حکومت برطانیہ حجاز پر براہِ راست حکومت نہ کرے گی بلکہ ایک مسلمان سردار کی معرفت حکومت کرے گی اگر حجاز کی حکومت اپنی حفاظت خود نہیں کر سکتی تو اس کو ترکوں کو انہی شرائط پر واپس کر دینا چاہئے جن شرائط پر کہ مسٹر چرچل اسے انگریزی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ جناب اس غلط قدم کے اُٹھانے کے خطرناک نتائج پر ہوم گورنمنٹ کو فوراً توجہ دلائیں گے اور اس کے نتائج کو جلد شائع فرمائیں گے “.141 اسی طرح امام جماعت احمدیہ نے 1921ء میں اپنی ایک تقریر میں ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:- ”ہم نے باوجود بے تعلق اور علیحدہ ہونے کے پھر بھی معاہدہ ترکی کے بارہ میں اتحادیوں سے جو غلطیاں ہوئی تھیں ان کے

Page 121

انوار العلوم جلد 24 86 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی متعلق گورنمنٹ کو مشورہ دیا کہ ان کی اصلاح ہونی چاہئے.چنانچہ ان مشوروں کے مطابق ایک حد تک تھر میں اور سمرنا کے معاملہ میں پچھلے معاہدہ میں اصلاح بھی کی گئی ہے.ہم نے عربوں کے معاملہ میں لکھا کہ وہ غیر قوم اور غیر زبان رکھتے ہیں وہ آزاد رہنا چاہتے ہیں.نہ ان کو ترکوں کے ماتحت رکھا جائے نہ اتحادی ان کو اپنے ماتحت رکھیں.....پس ہم سے جس قدر ہو سکتا تھا ہم نے کیا.رسالے ہم نے لکھ کر شائع کئے، چٹھیاں میں نے گورنمنٹ کو لکھیں اور جو غلطیاں میں نے گورنمنٹ کو بتائیں گورنمنٹ نے فراخ حو صلگی سے ان میں سے بعض کو تسلیم کیا اور ان کی اصلاح کے متعلق کو شش کرنے کا وعدہ کیا.ہم نے ہز ایکسی لینسی گورنر پنجاب کو میموریل بھیجا.ہم نے گورنر جنرل کو بھی لکھا.ولایت میں اپنے مبلغین کو ترکوں سے ہمدردی اور انصاف کرنے کے متعلق تحریک کرنے کے لئے ہدایت کی، امریکہ میں اپنا مبلغ بھیجا کہ علاوہ تبلیغ اسلام کے ترکوں کے متعلق جو غلط فہمیاں ان لوگوں میں مشہور ہیں ان کو دُور کرے.چنانچہ وہ وہاں علاوہ تبلیغ اسلام کے یہ کام بھی کر رہا ہے اور کئی اخبارات میں ترکوں کی تائید میں آرٹیکل لکھے گئے ہیں.غرض ہماری طرف سے باوجو د ترکوں سے بے تعلق ہونے کے محض اسلام کے نام میں شرکت رکھنے کے باعث ان کے لئے اس قدر جد وجہد کی گئی ہے مگر ترکوں نے ہمارے لئے کیا کیا.جب ہمارے بعض آدمی ان کے علاقہ میں گئے تو ان کو گر فتار کر لیا گیا“.142 ہے پھر جب شریف مکہ پر ابن سعود نے حملہ کیا تو اس وقت بھی امام جماعت احمدیہ نے حج بیت اللہ اور فتنہ حجاز“ کے عنوان سے ایک سلسلہ مضامین شائع فرمایا اس مضمون کے چند فقرات یہ ہیں.آپ نے تحریر فرمایا :-

Page 122

انوار العلوم جلد 24 87 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی چونکہ ترکی حکومت کے دور جدید میں عربوں پر سخت ظلم کئے جاتے تھے ان کو اچھے عہدے نہیں دیئے جاتے تھے.عربی زبان کو مٹایا جاتا تھا اور عرب قبائل کو جو مد د سلطان عبد الحمید خان کی طرف سے ملتی تھی وہ بند کر دی گئی.اس لئے عرب بد دل تو پہلے ہی سے ہو رہے تھے بعض شامی امراء اور شریف مکہ کے نمائندوں کے ساتھ تبادلہ خیالات کے بعد عرب لوگ اس شرط پر اتحادیوں کے ساتھ ملنے کے لئے تیار ہو گئے کہ کُل عرب کی ایک حکومت بنا کر عربوں کو پھر متحد کر دیا جائے گا.چونکہ شریف مکہ ہی اس وقت کھلے طور پر لڑ سکتے تھے اس لئے انہی کو امید دلائی گئی اور انہی کو امید پیدا بھی ہوئی کہ وہ سب عرب کے بادشاہ مقرر کر دیئے جائیں گے.اس معاہدہ کے بعد شریف حسین شریف مکہ نے اپنے آپ کو اتحادیوں سے ملا دیا اور ترکوں کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا.یہ جون 1916ء میں ہوا.....عربوں کا اس وقت اتحادیوں کی مدد کے لئے کھڑا ہونا بتاتا ہے کہ وہ نہایت سنجیدگی سے اپنی آزادی حاصل کرنے کے درپے تھے اور ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ اتحادیوں کو ان کا مدد دینا انتہائی درجہ کی قربانی پر مشتمل تھا اور ان کا شکریہ اتحادیوں پر لازم......غرض کہ جون 1916ء میں شریف نے ترکوں کے خلاف جنگ شروع کی اور جنگ کے بعد شام کی حکومت امیر فیصل بن شریف حسین کو دے دی گئی.فلسطین اور عراق کے درمیان کا علاقہ عبد اللہ بن شریف حسین کو اور حجاز کی حکومت خود شریف کے ہاتھ میں آئی.اس عرصہ میں فرانس نے شام کا مطالبہ کیا اور انگریزوں نے وہ علاقہ اس کے سپر د کر دیا.چونکہ فرانس نہیں چاہتا تھا کہ شام آزادی حاصل کرے اور امیر فیصل کے ارادے اس وقت بہت بلند تھے.وہ ایک متحدہ عرب حکومت کے

Page 123

انوار العلوم جلد 24 88 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی خواب دیکھ رہے تھے.فرانس کے نمائندوں اور ان میں اختلاف ہوا اور امیر فیصل کو شام چھوڑنا پڑا.انگریزوں نے اس کے بدلہ میں ان کو عراق کا بادشاہ بنادیا.سیاسی طور پر عرب کی آئندہ امیدوں پر یہ ایک بہت بڑا حربہ تھا کیونکہ شام کی آزادی کا سوال بالکل پیچھے جا پڑا اور شام ا کی شمولیت کے بغیر عرب کبھی متحد نہیں ہو سکتا تھا.....اس عرصہ میں بعض نئے امور پیدا ہونے شروع ہوئے.انگریزی نمائندہ مصر نے شریف مکہ سے وعدہ کیا تھا کہ عرب کو آزاد ہونے کے بعد ایک حکومت بنا دیا جائے گا.وہ اس وعدہ کے پورا کرنے پر زور دیتے تھے.ادھر عرب تین طاقتوں کے اثر کے نیچے تقسیم ہو چکا تھا....شریف کو غصہ تھا کہ مجھ سے وعدہ خلافی کی گئی ہے.....شریف نے جب دیکھا کہ ادھر انگریز ان کی اس خواہش کو پورا کرنے سے گریز کر رہے ہیں کہ عرب کو ایک حکومت کر دیا جائے.....اور اُدھر عالم اسلام ان کے رویہ کے خلاف ہے تو چونکہ ان کی دیرینہ خواب پوری ہوتی نظر نہ آتی تھی انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ وہ انگریزوں کو ناراض کر لیں گے اور عالم اسلامی کو خوش.....یہ فیصلہ کر کے انہوں نے انگریزی معاہدہ پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ ان کو انگریزوں سے مدد ملنی بند ہو گئی.....امیر ابن سعود نے یہ دیکھ کر کہ اس سے عمدہ موقع کوئی نہ ملے گا حجاز سے ایک علاقہ کا مطالبہ کیا.شریف حسین نے اس علاقے کے دینے سے انکار کر دیا اور وہ جنگ شروع ہو گئی جو 66 اب شروع ہے.آخر میں آپ نے تحریر فرمایا کہ:- اگر شریف آئندہ کو اپنی اصلاح کر لیں، ترکوں سے اپنے تعلقات درست کر لیں، وہابیوں پر ظلم چھوڑ دیں بلکہ ان کو کامل

Page 124

انوار العلوم جلد 24 89 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی مذہبی آزادی دیں ، عالم اسلام کی ہمدردی کو حاصل کریں اور عالم اسلام بھی ان سے جاہلانہ مطالبات نہ کرے تو ان کے ہاتھ پر عرب کا جمع ہو جانا نسبتاً بہت آسان ہو گا“.143 ان حوالہ جات سے روز روشن کی طرح ظاہر ہے کہ جماعت احمدیہ ، جب کبھی بھی اسلامی حکومتوں اور اسلامی مفاد کا ٹکراؤ انگریزوں سے ہوا ہے، اسلامی ملکوں اور مسلمانوں کی تائید کرتی رہی ہے اور بہت سے کافر کہنے والے علماء اور ان کی جماعتوں سے بھی پیش پیش رہی ہے اس کے باوجود بھی احمدیوں کو مسلمانوں کا دشمن قرار دینا حد درجہ کا ظلم اور حد درجہ کی بے ایمانی اور حد درجہ کی ڈھٹائی ہے اور یہ کہنا کہ احمدی یہ چاہتے تھے کہ اسلامی ملک انگریزوں کے قبضے میں آجائیں ایک خطر ناک افتراء ہے.وَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِيْنَ بانی سلسلہ احمدیہ نے گو مذکورہ بالا تحریر سے جماعت احمدیہ کا انگریزوں کی کیوں تعریف کی؟ رویہ مسلمانوں کے متعلق عموما اور مسلم حکومتوں کے متعلق خصوصاً واضح ہو جاتا ہے اور در حقیقت کسی مزید تشریح کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن پھر بھی ہم ایک امر کو بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ مودودی صاحب کو یہ شکوہ ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تعریف بہت جگہ پر کی ہے.انگریز کی تعریف کرنا یا کسی اور کی تعریف کرنا اسلامی شریعت کے خلاف نہیں.اسلامی شریعت کے خلاف یہ ہے کہ انسان جھوٹ بولے.سو جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے جھوٹ بانی سلسلہ احمدیہ نے نہیں بولا بلکہ ان کے مخالفین نے بولا ہے.جس زمانہ میں بانی سلسلہ احمدیہ پیدا ہوئے اس زمانہ سے پہلے پنجاب میں سکھوں کی حکومت تھی.ان کے زمانہ میں انگریزوں کی حکومت تھی اور ان کی وفات کے چالیس سال بعد ہندوستان کے ایک حصہ میں پاکستان قائم ہوا اور ایک حصہ میں ہندوستانی حکومت قائم ہوئی.پس بانی سلسلہ احمدیہ نے جو کچھ انگریزی حکومت کے متعلق لکھا ہے اس کے متعلق یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ ان کے سامنے

Page 125

انوار العلوم جلد 24 90 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب کون سے حالات تھے جن پر انہوں نے اپنا نظریہ قائم کیا.سو ہم دیکھتے ہیں کہ ماضی تو ان کے سامنے یہ تھا کہ ان کے ملک میں سکھوں کی حکومت تھی جو اذانوں سے روکتے تھے ، نمازوں سے روکتے تھے، دینی تعلیم کے حصول سے روکتے تھے ، مسلمانوں کی جائدادوں پر زبر دستی قبضہ کر لیتے تھے ، ان کی حکومت میں سوائے اگا دُ کا مسلمانوں کے جن کو ضرور تا رکھا گیا تھا عام طور پر مسلمانوں کو ملازمتوں میں نہیں رکھا جاتا تھا اور مسلمانوں کی لڑکیاں بعض دفعہ زبر دستی چھین لی جاتی تھیں اور ان کے ساتھ حیا سوز سلوک کئے جاتے تھے.جب انگریزوں نے سکھوں کی جگہ لی تو اس وقت انگریزوں نے کسی مسلمانوں کی حکومت پر قبضہ نہیں کیا بلکہ سکھوں کی حکومت پر قبضہ کیا.پنجاب کے مسلمان کسی اسلامی حکومت کے ماتحت نہیں تھے بلکہ سکھوں کی حکومت کے ماتحت تھے جن کا سلوک اوپر گزر چکا ہے.اس کے مقابلہ میں انگریزوں نے جہاں تک پرسنل لاء کا سوال ہے مسلمانوں کو آزادی دی اور گو پوری طرح انصاف نہیں کیا لیکن پھر بھی ہزاروں مسجدیں جو سکھوں نے چھین لی تھیں واگزار کر دیں.ہزاروں ہزار مسلمانوں کے مکانات اُن کو واپس دلائے اور نوکریوں کے دروازے ان کے لئے کھول دیئے.مسجدوں میں اذانوں اور نمازوں کی آزادی حاصل ہوئی اور دینی تعلیم پر سے تمام بندشیں اُٹھالی گئیں.مودودی صاحب بتائیں کہ ان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے آیا بانی سلسلہ احمدیہ کو انگریزوں کی تعریف کرنی چاہئے تھی یا کہ مذمت کرنی چاہئے تھی؟ اگر وہ انگریزوں کی حکومت کی مذمت کرتے تو اس کے معنے یہ تھے کہ وہ سکھ راج کی تائید کرتے ہیں کیونکہ پنجاب میں سکھ راج تھا مسلمانوں کی حکومت نہیں تھی اور اس کے معنے یہ تھے کہ وہ اس بات کو پسند کرتے کہ اذانوں کو بند کر دیا جائے، مسجدوں کو توڑ دیا جائے یا ان میں اصطبل بنا دیے جائیں.مسلمانوں کی دینی تعلیم بند کر دی جائے، جہاں بس چلے ان کی لڑکیاں زبرستی چھین لی جائیں اور معمولی معمولی الزاموں پر ان کو قتل کر دیا جائے.کیا اگر بانی سلسلہ احمدیہ ایسا کرتے تو مولانا مودودی کے دل کو ٹھنڈک نصیب ہو جاتی.کیا ان کو اور ان کے ساتھیوں کو ایسے ہی واقعات سے ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے.اگر نہیں تو

Page 126

انوار العلوم جلد 24 91 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی مودودی صاحب اور ان کے ساتھی بتائیں کہ اگر بانی سلسلہ احمدیہ نے ایسے ماضی کو دیکھ کر انگریزوں کے زمانہ کی تعریف کی تو قصور کیا کیا؟ اب رہا مستقبل کا سوال.مستقبل بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں صرف یہ تھا کہ ہندو لوگ ہندوستان کو آزادی دلوانے کی جدوجہد کر رہے تھے اور کسی آئندہ حکومت میں مسلمانوں کے جدا گانہ انتخاب کے لئے بھی کوئی تحفظ موجود نہیں تھا.یا مسلمان سیاست سے بالکل الگ تھے اور یا پھر کانگریس کے ساتھ شامل تھے.اگر وہ حقیقت پوری ہو جاتی تو کیا سارے ہندوستان میں ایسی حکومت نہ قائم ہو جاتی جو موجودہ بھارت حکومت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتی کیونکہ موجودہ بھارت حکومت کے اوپر کئی پابندیاں ہیں.اوّل اس معاہدہ کی پابندی جو انہوں نے تقسیم ہندوستان کے وقت مسلمانوں سے کیا.دوم ان کے پہلو میں ایک آزاد مسلم حکومت کا وجود مگر باوجود ان پابندیوں کے بھارت میں مسلمانوں پر کئی سختیاں گزر جاتی ہیں.گو مولانا مودودی صاحب کی جماعت ان سختیوں کو کڑوا گھونٹ کر کے نہیں بلکہ شربت قرار دے کر پی رہی ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں کئی قسم کی سختیاں مسلمانوں پر ہو رہی ہیں اور مسلمان آج تک پوری طرح اپنے آپ کو آزاد محسوس نہیں کرتا.اگر با ہمی کوئی سمجھوتہ نہ ہو تا، اگر بھارت کے پہلو میں پاکستان نہ ہو تا تو مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ گزرنی تھی اس کا خیال کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.کیا مودودی صاحب یہ چاہتے ہیں کہ ایسے مستقبل کی تائید بانی سلسلہ احمدیہ کرتے.بانی سلسلہ احمدیہ 1908ء میں فوت ہوئے اور پاکستان کا خیال 1930ء،1931ء میں پیدا ہوا.1908ء میں فوت ہونے والے انسان پر یہ مُجرم لگانا کہ پاکستان کے ذریعہ سے مسلمانوں کا جو مستقبل ہونے والا تھا اس نے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے کیوں انگریزی حکومت کے زوال کی خواہش نہ کی کتنا مضحکہ خیز ہے اور پاکستان بنے کا فیصلہ چونکہ 1947ء کے شروع میں ہوا تھا اس لئے یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ پر مودودی صاحب یہ الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کے خیال کے محبتم ہونے سے پورے چالیس سال پہلے کیوں پاکستان کے وجود کا اندازہ لگاتے ہوئے

Page 127

انوار العلوم جلد 24 92 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اس کی تائید نہ کی اور انگریزوں کی مذمت نہ کی.حالانکہ خود مودودی صاحب کا یہ حال ہے کہ وہ 1947 ء تک پاکستان کے مخالف رہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ان کا ارادہ ہی پاکستان آنے کا نہیں تھا.وہ جانا چاہتے تھے کلکتہ مگر ایسے حادثات پیش آگئے کہ مجبوراً انہیں یہاں آنا پڑا اور اس وقت بھی ان کی جو جماعت ہندوستان میں ہے وہ ہندوستانی حکومت کی تعریف اور توصیف میں مشغول ہے مگر مودودی صاحب پاکستان میں آکر پاکستانی حکومت کی مذمت میں مشغول ہیں.ایسے حقائق کی موجودگی میں مودودی صاحب کو یہ جرات کس طرح ہوئی کہ وہ اس قسم کی باتوں کو پیش کر سکیں.کیا اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ مسلمانوں کو عقل سے بالکل کورا سمجھتے ہیں ؟ بلوچستان کے لوگوں کو (14) ایک اعتراض اُنہوں نے یہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلیفہ نے کہا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں احمدی بنانے کا ارادہ کو احمدی بنانے کی کوشش کی جائے کیونکہ BASE کے بغیر تبلیغ نہیں پھیلتی.144 نہ معلوم مولانا کو اس پر کیا اعتراض نظر آیا؟ احمدی جماعت ضرور یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہم نے تبلیغ کرنی ہے جس طرح آپ دعویٰ کرتے ہیں کہ آپ نے تبلیغ کرنی ہے.آپ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ آپ کی نیت ہے یا نہیں کہ سارے مسلمانوں کو جماعت اسلامی کا فرد اور صالح بنالیا جائے.اگر آپ کی نیت یہ نہیں تو آپ کا ایمان ظاہر ہے اور اگر آپ کی یہ نیت ہے تو پھر وہی بات اگر احمدی چاہتے ہیں تو آپ کو کیا اعتراض ہے ؟ احمدیوں کو اقلیت بنوانے کا (15) پھر وہ لکھتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ مطالبہ کو نسی سیاسی انجیل کا ہے احمدی تو اپنے آپ کو اقلیت نہیں بنوانا ا چاہتے.پھر ان کو اقلیت بنوانے کا مطالبہ کیوں کیا جاتا ہے اور اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ کون سی سیاسی انجیل کا ہے جب یہ مطالبہ معقول ہے تو پھر اس پر اعتراض کیا.145 مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہئے کہ معقولیت ہی کا نام سیاسی انجیل ہے

Page 128

انوار العلوم جلد 24 ہے.93 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب جس معقولیت کی بناء پر وہ اپنا مطالبہ پیش کرتے ہیں وہی معقولیت ان کی بات کو رڈ کرتی مولانا مودودی صاحب اپنے اس رسالہ میں اور ان کے ساتھی بعض دوسری تحریروں میں یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ صرف پنجاب اور بہاولپور میں ہی مقبول ہے باقی علاقوں میں اس مطالبہ کی اہمیت عوام پر روشن نہیں ہے اور تعلیم یافتہ طبقہ کی اکثریت نہ پنجاب اور بہاولپور میں اور نہ دوسرے صوبوں میں اس کی ضرورت محسوس کرتی ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ یہ مطالبہ اکثریت کا نہیں اور اکثریت یہ نہیں چاہتی کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دیا جائے.کسی قوم کو اقلیت قرار دینے کی دوہی و جہیں ہو سکتی ہیں.یا تو یہ کہ اکثریت اقلیت سے خائف ہو یا اقلیت اکثریت سے خائف ہو.تیسری وجہ ایک ملک کے باشندوں کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی کوئی نہیں ہو سکتی.پس جب کہ خود مودودی صاحب کے نزدیک اکثریت احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی خواہش مند نہیں اور دوسری طرف احمدیوں کی طرف سے یہ مطالبہ پیش نہیں کہ ان کو اقلیت بنایا جائے کیونکہ ان کو مسلمانوں کی اکثریت سے خوف ہے بلکہ احمدی سمجھتے ہیں کہ اگر کو نسلوں میں ان کے نمائندے نہ بھی آئیں تو چونکہ حکومت نے سیاسی امور کا فیصلہ کرنا ہے اور سیاسی امور سارے ملک کے مشترک ہوتے ہیں اس لئے اگر باقی لوگوں سے مل کر وہ اپنے آپ کو منتخب نہیں کروا سکتے تو نہ سہی.کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنے لئے کونسل نشستوں کا علیحدہ مطالبہ کریں تو بتائیے کہ کونسی وجہ معقول احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی رہ جائے گی.پس مودودی صاحب کا حق نہیں کہ وہ یہ سوال کریں کہ احمدیوں کو اقلیت نہ قرار دینے کا مسئلہ کونسی سیاسی انجیل کا ہے بلکہ باشندگانِ پاکستان کا حق ہے کہ وہ مودودی صاحب سے مطالبہ کریں کہ احمدیوں کو اقلیت بنوانے کا مطالبہ کو نسی سیاسی انجیل کا ہے ؟ یہ بالکل غلط ہے کہ مسلمانوں کا حصہ قرار (16) آفر میں مودودی پانے کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلی صاحب لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا حصہ قراریانے

Page 129

انوار العلوم جلد 24 94 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلتی چلی گئی.146 یعنی چونکہ احمدی مسلمان کہلاتے تھے اس لئے ان کی تبلیغ پھیلتی گئی.یہ بھی سخت خلاف واقعہ امر ہے.ہندوستان میں چالیس لاکھ عیسائی ہیں جن میں سے چار پانچ لاکھ مسلمان سے عیسائی ہوا ہے.اسی طرح مصر، شام، فلپائن، انڈونیشیا، برٹش بورنیو اور افریقہ میں پچاس لاکھ کے قریب مسلمان عیسائی ہوا ہے.جماعت احمدیہ کی تو ساری تعداد چار پانچ لاکھ ہے.اگر احمدیوں کے مسلمانوں کا حصہ قرار پانے کی وجہ سے احمدیت کی تبلیغ پھیلتی چلی گئی تو یہ جو پونے کروڑ کے قریب مسلمان عیسائی ہو چکا ہے کیا وہ بھی عیسائیوں کے مسلمان کہلانے کی وجہ سے ہو ا تھا؟ مودودی صاحب مسلمانوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کہلا کر ان کے عقائد بگاڑے تو وہ بگڑ سکتے ہیں لیکن اگر اسی مبلغ کو زبر دستی غیر مسلم کہا جائے تو پھر مسلمان محفوظ ہو جاتے ہیں.اگر یہ بات سچ ہے تو بہائیوں کے دعویٰ کے مطابق پندرہ بیس لاکھ ایرانی اور عرب بہائی ہو چکا ہے.وہ کیوں بہائی ہو گئے تھے ؟ بہائیوں کو تو اسلام کا لیبل نہیں لگا ہوا.پھر افریقہ اور ایشیا کے مختلف ملکوں میں پونے کروڑ کے قریب مسلمان عیسائی ہو گیا ہے، وہ کیوں عیسائی ہو گیا ہے ؟ عیسائیت پر تو اسلام کا لیبل نہیں لگا ہو ا.صاف بات ہے کہ وہ لوگ اس لئے عیسائی ہو گئے اور اس لئے بہائی ہوئے کہ ان کی صحیح تربیت نہیں کی گئی تھی.ان کو اسلام کی صحیح تعلیم نہیں بتائی گئی تھی اور جب تک کسی قوم کی صحیح تربیت نہ ہو اور ان کو اپنے مذہب کی صحیح تعلیم نہ دی جائے.وہ دوسرے مذہب کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.حق تو یہ ہے کہ احمدیت کے یورپ میں پھیلنے میں بڑی روک یہی ہے کہ احمدی مسلمان کہلاتے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف عیسائیوں کے دلوں میں سخت جذبہ نفرت پیدا کیا گیا ہے.جماعت احمدیہ کو متواتر یورپین مستشرقین نے کہا ہے کہ تم اسلام کا نام چھوڑ دو پھر دیکھو کہ تمہاری تبلیغ عیسائیوں میں کثرت سے پھیلنے لگ جائے گی جس طرح بہائیوں کی تبلیغ ان میں پھیل رہی ہے مگر ہم نے کبھی اس کو برداشت نہیں کیا کیونکہ ہم مسلمان ہیں اور مسلمان رہنا چاہتے ہیں اور اسلام میں ہی.

Page 130

انوار العلوم جلد 24 95 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب اپنی نجات سمجھتے ہیں.پس یہ بالکل جھوٹ ہے کہ مسلمان کہلانے کی وجہ سے احمد یہ جماعت پھیلی.احمدیوں سے بیسیوں گنے زیادہ مسلمان غیر مسلم کہلانے والی قوموں میں شامل ہوئے اور غیر مسلم اقوام میں احمد یہ اشاعت کے راستہ میں یہی روک رہی کہ وہ احمدی مسلمان کہلاتے ہیں.فوج، پولیس اور عدالت میں (17) اس کے بعد مولانامودودی احمدیوں کی بھرتی کے متعلق غلط بیانی لکھتے ہیں کہ انگریزی حکومت کی منظور نظر بن کر جماعت احمدیہ فوج، پولیس اور عدالت میں اپنے آدمی دھڑا دھڑ بھرتی کراتی چلی گئی اور یہ سب کچھ اس نے مسلمان بن کر مسلمانوں کی ملازمت کے کوٹہ سے حاصل کیا.147 یہ سراسر غلط بیانی ہے.حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ ہی انگریزی حکومت کی طرف ، مسلمانوں کے پروپیگینڈا کی وجہ سے احمدیوں پر ظلم ہوا ہے.چنانچہ ہم اس کے ثبوت میں دو واقعات شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو امام جماعت احمد یہ اپنے بعض خطبات میں بھی بیان فرما چکے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.1917ء کا واقعہ ہے.میں نے شملہ یا دہلی میں چودھری سر ظفر اللہ خاں صاحب کو ایڈجوٹینٹ جنرل یا ایسے ہی کسی اور بڑے افسر کے پاس ایک کیس کے سلسلہ میں بھیجا.کیس یہ تھا کہ ایک احمدی پر فوج میں سختی کی گئی اور پھر باوجود یہ تسلیم کر لینے کے کہ قصور اس کا نہیں اسے فوج سے بلا وجہ نکال دیا گیا تھا.اس کیس کے متعلق بات کرنے کے لئے میں نے چوہدری صاحب کو اس افسر کے پاس بھیجا.چوہدری صاحب نے اس سے جاکر کہا کہ دیکھئے کتنے ظلم کی بات ہے کہ جس شخص کے متعلق یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ وہ حق پر ہے اور مظلوم ہے اس کو بلا وجہ فوج سے نکال دیا گیا ہے.حالانکہ ہماری جماعت ایسی ہے جو ملک کی خدمت کے لئے کام کرتی ہے ، روپیہ کی غرض سے

Page 131

انوار العلوم جلد 24 96 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی نہیں.وہ فوجی افسر ساری بات سُننے کے بعد کہنے لگا کہ میں تسلیم کرتا ہوں کہ آپ کی جماعت ملک کی خدمت کی خاطر فوج میں کام کرتی ہے اور میں جانتا ہوں کہ اس جماعت کے اندر حُب الوطنی کا جذبہ پایا جاتا ہے اور اسی جذبہ کے ماتحت یہ جماعت کام کرتی ہے ، روپیہ کی خاطر کام نہیں کرتی.....اور میں اس بات کو بھی سمجھتا ہوں کہ دوسروں پر اتنا اعتماد نہیں کیا جاسکتا جتنا کہ آپ کی جماعت پر ہمیں اعتماد ہے لیکن ایک بات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں آپ اس کا جواب دیں اور وہ بات یہ ہے کہ ہندوستان کی حفاظت کے لئے اس وقت اڑھائی تین لاکھ فوج کی ضرورت ہے.اگر ہم آپ کے ایک آدمی کی خاطر اور اس کے حق بجانب ہونے کی بناء پر دوسروں کو خفا کر لیں اور وہ ناراض ہو کر کہہ دیں کہ ہم فوج میں کام نہیں کرتے ہمیں فارغ کر دیں تو کیا آپ کی جماعت اڑھائی تین لاکھ فوج ملک کی حفاظت کے لئے مہیا کر کے دے سکتی ہے.اگر یہ ممکن ہے تو پھر آپ کی بات پر غور کیا جاسکتا ہے اور اگر یہ بات آپ کے نزدیک بھی نا ممکن ہے تو بتائیے ہم آپ کی جماعت کی دلداری کی خاطر سارے ہندوستان کی حفاظت کو کس طرح نظر انداز کر سکتے ہیں؟.....پس ہماری یہ حالت ہے کہ ہمارے اپنے ملک میں بھی ہماری بات کو کوئی وقعت نہیں دی جاتی.حکومت جو تمام رعایا سے یکساں سلوک کا دعویٰ کرتی ہے وہ بھی بعض دفعہ افسروں کی مخالفت کی وجہ سے اور بسا اوقات اس وجہ سے ہمارا ساتھ دینے سے انکار کر دیتی ہے کہ ہمارا ساتھ دینا حکومت کے لئے ضعف کا موجب ہو گا اور وہ نہیں چاہتی کہ جماعت کی بات کو مان کر ملک کی اکثریت کو ناراض کرے “ 148 اسی قسم کا ایک واقعہ 1947ء میں بھی ہوا.یہ واقعہ بھی حضرت امام جماعت احمدیہ

Page 132

انوار العلوم جلد 24 97 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م اپنی ایک تقریر میں بیان فرما چکے ہیں.آپ نے فرمایا:- ”ہمارا ایک احمدی دوست فوج میں ملازم ہے.باوجودیکہ اس کے خلاف ایک بھی ریمارک نہ تھا اور دوسری طرف ایک سکھ کے خلاف چار ریمارکس تھے.اس سکھ کو اوپر کر دیا گیا اور احمدی کو نیچے گرا دیا گیا.جب وہ احمدی انگریز کمانڈر کے پاس پہنچا اور اپنا واقعہ بیان کیا تو اُس نے کہا واقعی تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے تم درخواست لکھ کر میرے پاس لاؤ لیکن جب وہ احمدی درخواست لے کر انگریز افسر کے پاس پہنچا تو اس نے درخواست اپنے پاس رکھ لی اور اُسے اوپر نہ بھجوایا.کئی دن کے بعد جب دفتر سے پتہ لیا گیا کہ آخر وجہ کیا ہے کہ درخواست کو اوپر بھجوایا نہیں گیا تو دفتر والوں نے بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شملہ سے آرڈر آگیا ہے کہ کوئی اپیل اس کے خلاف اُوپر نہ بھجوائی جائے“.149 مولانا مودودی صاحب نے یہ دعویٰ کرتے ہوئے واقعات کو دیکھا تک نہیں کیونکہ شاید صالحین کے لئے واقعات کی جانچ پڑتال ضروری نہیں ہے.وہ بتائیں تو سہی کہ کتنے احمدی کس کس ملازمت میں ہیں اور وہ کس بناء پر ہیں یعنی آیا وہ انتخاب میں آئے ہیں.امتحان میں پاس ہوئے ہیں یا رعایت سے لئے گئے ہیں.اگر ثابت ہو جائے کہ احمدی باوجو د نالائق ہونے کے رعایتاً کسی ملازمت میں لے لئے گئے ہیں یا مسلمانوں کی ملازمتوں کے معتد بہ حصہ پر قابض ہیں تو پھر تو کوئی بات اعتراض کی بنتی ہے اور اگر یہ دونوں باتیں جھوٹی ہیں تو جھوٹ سے اسلام کی تائید نہیں ہو سکتی.اسلام بد نام ضرور ہو سکتا ہے.مولانا مودودی اور ان کے رفقاء کار علماء کو چیلنج ابھی گزشتہ دنوں مولانا مودودی کے ساتھی علماء نے شور مچایا تھا کہ احمدی پاکستان کی فوج پر قابض ہو گئے ہیں.ہم مولانا اور

Page 133

انوار العلوم جلد 24 98 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب ان کے رفقاء کار علماء کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ یہی ثابت کر دیں کہ احمدی پانچ فیصدی ملازمتوں پر قابض ہیں.چلو ہم اس سے اتر کر مولانا کو چیلنج کرتے ہیں کہ وہ ثابت کر دیں کہ احمدی ایک فیصدی ملازمتوں پر قابض ہیں کسی ادارے میں وہ کسی وجہ سے زیادہ آگئے ہیں اور کسی ادارے میں وہ بالکل نہیں ہیں یا نہ ہونے کے برابر ہیں.دیکھنا تو مجموعی تعداد کو چاہئے اور ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ مجموعی تعداد کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد ہر گز اتنی زیادہ نہیں جو قابلِ اعتراض ہو یا ہر گز احمدی قابلِ اعتراض ذرائع سے ملازمتوں میں نہیں آئے.مولانا مودودی کے مزعومہ مولانا کے مزعومہ مسلم اکابر اور علماء تو اتنا مسلم اکابر اور علماء کے جھوٹ جھوٹ بولتے رہے ہیں کہ فرقان فورس جو احمدیوں نے کشمیر کی لڑائی میں شامل ہونے کے لئے بنائی تھی اس کے متعلق پبلک میں اور اخباروں کے ذریعے سے وہ یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ وہ کروڑوں روپیہ کا سامانِ جنگ چرا کر لے گئی ہے چنانچہ اخبار ”آزاد“ (11 ستمبر 1952ء صفحہ 6) اور رسالہ ”نمک حراموں کے کارنامے میں لکھا گیا کہ مکمل فوجی وردیاں ادنیٰ سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسروں تک کی چھ سو، تھری ناٹ تھری کی رائفلیں 599، مشین گن 20، مارٹر بمبز 226، گولیاں (21110) اکیس ہزار ایک سو دس، چھتیں سائز کے بہتر گرنیڈ بمب اور اس کے علاوہ گولی بارود، دستی بمب، سنگینیں اور بہت سا دوسرا نہایت قیمتی اور اہم سامان مثلاً وائرلیس سیٹ بمعہ چارجنگ انجن چارجنگ سیٹ اور بیٹری وغیرہ نیز بے شمار وردیاں اور دیگر سامان جو کروڑوں روپے کی مالیت کا ہوتا ہے یہ ہضم کئے بیٹھے ہیں“.حالا نکہ جو سامانِ جنگ چرایا جانا بیان کیا جاتا ہے اس کا چوتھا حصہ بھی کبھی احمد یہ کمپنی (یعنی فرقان بٹالین) کو نہیں دیا گیا اور پھر احمدیوں کے پاس فوجی افسروں کی تحریر موجو د ہے کہ سارا سامانِ جنگ جو ہم نے ان کو دیا تھا واپس لے لیا ہے.چنانچہ اس رسید کے الفاظ یہ ہیں:-

Page 134

انوار العلوم جلد 24 99 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی تمام چیزیں جو آرڈی نینس سٹور سے دی گئی تھیں یعنی ہتھیار، بارود، خیمے ، سامان دیگر اور بستر وغیرہ وغیرہ سب کاسب 21.K.A بٹیلین یعنی فرقان سے واپس لے لیا گیا اور راولپنڈی سنٹرل ڈپو کو واپس کیا گیا.اب سر ٹیفکیٹ دیا جاتا ہے کہ گورنمنٹ کی کوئی چیز اب فرقان فورس سے قابل وصول نہیں.دستخط D.A.D.O.S.A.K میجر 1950 Co-ord Dated 20 june“.کیا مولانا اس رسید کو پڑھ کر لَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہہ کر جھوٹ بولنے والے کے لئے دُعا کریں گے؟ پھر مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری نے 11 مئی 1952ء کو لائل پور میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ :- ”مرزائیوں کے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے بھارت کی سرحد پر ریاست بہاولپور میں اسی ہزار مربع زمین حاصل کر رکھی ہے اور اسی طرح سر محمد ظفر اللہ نے اسی ہزار ایکڑ زمین بہاولپور کی ہندوستانی سرحد پر حاصل کر رکھی ہے جس سے ان کے عزائم کا پتہ چلتا 150" حالا نکہ یہ سراسر جھوٹ اور افتراء ہے.ایک فیصدی بھی اس میں سچ نہیں.کیا اس قسم کے جھوٹ بول کر اسلام کی تائید کرنامہ نظر ہے؟ کیا اسلام بغیر جھوٹ کے ترقی نہیں کر سکتا.مولانا مودودی اور ان کے ساتھی اگر سچے ہیں تو میدان میں آئیں اور اپنے الزامات ثابت کریں.مولانا مودودی نے بھی اس کتاب میں یہ لکھا ہے کہ قادیانیوں کی جتھہ بندی سرکاری دفاتر کے علاوہ تجارت، صنعت اور زراعت میں بھی مسلمانوں کے خلاف نبرد آزما ہے.151

Page 135

انوار العلوم جلد 24 100 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب زراعت اور تجارت و صنعت میں تفرقہ پیدا کرنا ایک معمہ ہے جسے مولانا ہی حل کر سکتے ہیں.صرف اس کے یہ معنے ہماری سمجھ میں آسکتے ہیں کہ دوسروں کے حصہ پر انہوں نے قبضہ کر لیا ہے.ہم مولانا کو قسم دیتے ہیں اس خدائے وحدہ لاشریک کی جس کے ہاتھ میں اُن کی جان ہے کہ اگر وہ اور اُن کے ساتھی ان الزاموں میں بچے ہیں تو وہ میدان میں آئیں اور اپنے ثبوت پیش کریں ورنہ کم سے کم لَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ کہتے ہوئے اعلان کریں کہ احمدیوں نے دوسرے فرقوں کی زمینوں، تجارتوں اور کار خانوں پر قبضہ کر لیا ہے اور ہم بھی اسی وحدہ لا شریک کی قسم کھا کر کہیں گے جس کے ہاتھ میں ہماری جان ہے کہ یہ الزامات بالکل جھوٹے ہیں اور اگر ہم ان میں جھوٹ بول رہے ہیں تو خدا کی لعنت ہم پر اور ہماری اولادوں پر ہو.اس کے سوا ہم کیا کہہ سکتے ہیں.اگر اس کے باوجود کوئی شخص ان الزامات سے باز نہیں آتا تو ہم اس کا معاملہ خدا پر چھوڑتے ہیں اور اس سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ حق اور انصاف کی تائید کرے اور جھوٹے اشتعال دلانے والوں اور غلط بیانیوں سے بد نام کرنے والوں کا خود ہی علاج ہو.آخری خطاب مولانا مودودی صاحب نے ”قادیانی مسئلہ “ لکھ کر ملک میں خطرناک تفرقہ اور انتشار پھیلانے کی کوشش کی ہے.جہاں تک مولانا مودودی صاحب کے اپنے مفاد کا سوال ہے اس کے مطابق تو یہ کوشش بالکل جائز اور درست ہے کیونکہ وہ اپنی کتابوں میں صاف لکھ چکے ہیں کہ صالح جماعت کا یہ فرض ہے کہ ہر ذریعہ سے حکومت پر قبضہ کرنے کی کوشش کرے کیونکہ حکومت پر قبضہ کئے بغیر کوئی پروگرام ملک میں جاری نہیں ہو سکتا لیکن جہاں تک مسلمانوں کے مفاد اور امت مسلمہ کے مفاد کا سوال ہے یقینا یہ کوشش نہایت ناپسندیدہ اور خلاف عقل ہے.مسلمان جن خطرناک حالات میں سے اس وقت گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے اس وقت ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ متحد کرنے اور مسلمانوں کی سیاسی ضرورتوں کے متعلق زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرے.بغیر اتحاد کے اس وقت مسلمان سیاسی دُنیا میں سر نہیں اُٹھا سکتا.اس وقت بیسیوں ایسے علاقے

Page 136

انوار العلوم جلد 24 101 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مسئلہ “ کا جواب جب موجود ہیں جن کی آبادی مسلمان ہے، جو سیاسی طور پر آزاد ہونے کی اہلیت رکھتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہ آزاد نہیں.وہ غیر مسلموں کے قبضہ میں ہیں اور بیسیوں ایسے ممالک اور علاقے موجود ہیں جہاں کے مسلمان موجودہ حالات میں علیحدہ سیاسی وجود بننے کے قابل نہیں ہیں لیکن انہیں ایسی آزادی بھی حاصل نہیں جو کسی ملک کے اچھے شہری کو حاصل ہو سکتی ہے اور ہونی چاہئے بلکہ ان کے ساتھ غلاموں کا سا سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں معزز شہریوں کی حیثیت حاصل نہیں ہے اور جو علاقے مسلمانوں کے آزاد ہیں اُنہوں نے بھی ابھی پوری طاقت حاصل نہیں کی بلکہ وہ تیسرے درجہ کی طاقتیں کہلا سکتے ہیں.دُنیا کی زبر دست طاقتوں کے مقابلہ میں ان کو کوئی حیثیت حاصل نہیں.حالانکہ ایک زمانہ وہ تھا مسلمان ساری دُنیا پر حاکم تھا.جب مسلمان پر ظلم کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا.مسلمان پر ظلم کرنے کے نتیجہ میں ساری دُنیا میں شور پڑ جاتا تھا لیکن آج عیسائی پر ظلم کرنے سے تو ساری دُنیا میں شور پڑسکتا ہے مسلمان پر بر ظلم کرنے سے ساری دُنیا میں شور نہیں پڑ سکتا.عیسائی کسی ملک میں بھی رہتا ہو اگر اس پر ظلم کیا جائے تو عیسائی حکومتیں اس میں دخل دینا اپنا سیاسی حق قرار دیتی ہیں لیکن اگر کسی مسلمان پر غیر مسلم حکومت ظلم کرتی ہے اور مسلمان احتجاج کرتے ہیں تو انہیں یہ جواب دیا جاتا ہے کہ غیر ملکوں کے اندرونی معاملات میں دخل نہیں دیا جا سکتا.گویا عیسائیت کی طاقت کی وجہ سے عیسائیوں کے لئے اور سیاسی اصول کار فرما ہیں لیکن مسلمانوں کی کمزوری کی وجہ سے سیاسی دُنیا ان کے لئے اور اصول تجویز کرتی ہے.ایسے زمانہ میں مسلمانوں کا متفق اور متحد ہونا نہایت ضروری ہے اور چھوٹی اور بڑی جماعت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہونا چاہئے.الیکشن میں ممبر کو اپنے جیتنے کی سچی خواہش ہوتی ہے اور وہ ادنیٰ سے ادنی انسان کے پاس بھی جاتا ہے اور اس کا ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.مسلمان حکومتوں کا معاملہ الیکشن جیتنے کی خواہش سے کم نہیں.جو شخص یہ کہتا ہے کہ ہم کو اس معاملہ میں چھوٹی جماعتوں کی ضرورت نہیں وہ صرف یہ ثابت کرتا ہے کہ اس کو اسلامی حکومتوں کے طاقتور بنانے کی اتنی بھی خواہش نہیں جتنی ایک الیکشن لڑنے والے کو اپنے جیتنے کی خواہش ہوتی ہے.پس

Page 137

انوار العلوم جلد 24 102 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی کا جواب وہ سچی خیر خواہی کا نہ مفہوم سمجھتا ہے اور نہ اس کو مسلمانوں سے سچی خیر خواہی ہے.پس مودودی صاحب نے ”قادیانی مسئلہ “ لکھ کر قادیانی جماعت کا بھانڈا نہیں پھوڑا.اپنی اسلامی محبت کا بھانڈا پھوڑا ہے اور اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کا پردہ فاش کیا ہے.کاش وہ اسلام کی گزشتہ ہزار سال کی تاریخ دیکھتے اور انہیں یہ معلوم ہوتا کہ کس طرح مسلمانوں کو پھاڑ پھاڑ کر اسلام کو تباہ کیا گیا ہے اور پھاڑنے کے یہ معنے نہیں تھے کہ ان میں اختلاف عقیدہ پیدا کیا گیا تھا کیونکہ اختلاف عقیدہ کبھی بھی فتنہ پردازوں نے پیدا نہیں کیا بلکہ اختلاف عقیدہ علماء و فقہاء کی دیدہ ریزیوں کا نتیجہ تھا.پھاڑنے کے معنے یہ تھے کہ اختلاف عقیدہ کی بناء پر بعض جماعتوں کو الگ کر کے اسلام کو نقصان پہنچایا گیا تھا.تاریخ موجود ہے ہر آدمی اس کی ورق گردانی کر کے اس نتیجہ کی صحت کو سمجھ سکتا ہے.پس حقیقت یہ ہے کہ قادیانی مسئلہ کا حل اس طرح نہیں کیا جاسکتا جو مولانا مودودی صاحب نے تجویز کیا ہے.یعنی پہلے تو احمدیوں کو اسلام سے خارج کر کے ایک علیحدہ اقلیت قرار دے دیا جائے اور پھر وہ سلسلہ شروع ہو جائے جو ایک ہزار سال سے اسلام میں چلا آیا ہے یعنی پھر آغا خانیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر بوہروں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر شیعوں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر اہلحدیث کو اسلام سے خارج کیا جائے ، پھر بریلویوں کو اسلام سے خارج کیا جائے، پھر دیوبندیوں کو اسلام سے خارج کیا جائے اور پھر مولا نامودودی کے اتباع کی حکومت قائم کی جائے.مولانا مودودی کے اتباع کی حکومت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یقینا نہیں بنے گی لیکن پھر ایک دفعہ دُنیا میں وہی تباہی کا دور شروع ہو جائے گا جو گزشتہ ایک ہزار سال تک مسلمانوں میں جاری رہا اور وہ طاقت جو پچھلے پچیس سال میں مسلمانوں نے حاصل کی ہے بالکل جاتی رہے گی اور مسلمان پھر ایک دوسرے کا گلا کاٹنے لگ جائیں گے اور جماعت اسلامی کے پیرو اپنے دل میں خوش ہوں گے کہ ہماری حکومت قائم ہو رہی ہے لیکن ایسا تو نہ ہو گا.ہاں اسلامی حکومتیں کمزور ہو کر پھر ایک ترلقمہ کی صورت میں یا تو روس کے حلق میں جا پڑیں گی یا مغربی حکومتوں کے گلے میں جا پڑیں گی.خدا اسلام کے بدخواہوں کا منہ کالا کرے اور اسلام کو اس روز بد کے

Page 138

انوار العلوم جلد 24 دیکھنے سے محفوظ رکھے.103 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م مولانا مودودی صاحب نے جو کچھ لکھا ہے اس کے بجائے صحیح طریقہ ملک میں امن قائم کرنے کا یہ ہے کہ :- (1) اسلام کی طرف منسوب ہونے والے مختلف فرقے خواہ اپنے اپنے مخصوص نظریات کے ماتحت دوسرے فرقوں کے متعلق مذہبی لحاظ سے کچھ ہی خیال رکھتے ہوں یعنی خواہ اُنہیں سچا مسلمان سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں مسلمانوں کے ملی اتحاد کی خاطر اور اسلام کو فرقہ وارانہ انتشار سے بچانے کی غرض سے ان سب کو کلمہ طیبہ کی ظاہری حد بندی کے ماتحت بلا استثناء مسلمان تسلیم کیا جائے اور اس میں شیعہ ، سنتی ، اہل حدیث، اہل قرآن ، اہل ظاہر ، اہل باطن، حنفی، مالکی، حنبلی، شافعی، احمدی اور غیر احمدی میں کوئی فرق نہ کیا جائے.(2) اگر اس ایک ہی صحیح طریق کو استعمال نہیں کرنا جس کے بغیر مسلمانوں کو ترقی حاصل نہیں ہو سکتی تو پھر احمدیوں کو اقلیت قرار دینے سے کچھ نہیں بنتا کیونکہ جیسا کہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا دشمن ہو رہا ہے اور اسلام کی خیر خواہی دلوں میں نہیں ہے.صرف اپنے فرقوں کی خیر خواہی دلوں میں ہے.اس لئے یہ آپریشن صرف احمدیت پر ختم نہیں ہو جائے گا.احمدیت پر تجربہ کر لینے والا ڈاکٹر بعد میں دوسرے فرقوں پر اس نسخہ کو آزمائے گا.پس ایک ہی دفعہ یہ فیصلہ کر دینا چاہئے کہ اس اسلامی حکومت میں فلاں فرقہ کے لوگ رہ سکتے ہیں دوسروں کے لئے گنجائش نہیں تا کہ باقی سب فرقے ابھی سے اپنے مستقبل کے متعلق غور کر لیں اور دُنیا کو بھی معلوم ہو جائے کہ علماء پاکستان کسی قسم کی حکومت یہاں قائم کر نا چاہتے ہیں.(3) اور اگر یہ نہیں کرنا اور واقع میں یہ ایک خطر ناک بات ہے تو پھر ہم تمام مسلمانوں سے اپیل کریں گے کہ وہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کی بجائے مولوی صاحبان کے دل میں تقویٰ اور خشیت اللہ کی روح پیدا کرنے کی کوشش کریں اور ان کو یہ سبق سکھائیں کہ عدل اور انصاف اور رواداری کا طریق سب سے بہتر طریق ہے اور اسلام کی خدمت ،

Page 139

انوار العلوم جلد 24 104 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مہ کرنے کا یہی ایک ذریعہ ہے.اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ جب ان کے استاد علماء کی حالت خراب ہو گئی ہے تو شاگر دہی استادی کی کرسی پر بیٹھیں اور اپنے سابق اساتذہ کو ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائیں کہ اسلام مزید ضعف اور تباہی سے بچ جائے اور اللہ تعالیٰ مسلمانوں کا ہاتھ پکڑلے اور ان کی اسی طرح مدد کرے جس طرح ابتدائی تین سوسال میں اس نے مسلمانوں کی مدد کی تھی.اللهم آمین.وَاخِرُدَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ شائع کردہ ”دار التجلید نمبر 14 ملکانی محل فریئروڈ پوسٹ بکس نمبر 7215 کراچی) 1 رپورٹ مطبوعہ 17 جنوری 1953 ء اخبار تسنیم متعلق جماعت اسلامی :2 : کوثر 25 جنوری 1953ء 3: قادیانی مسئلہ صفحہ 21 مطبوعہ 1992ء دار الاشاعت اسلامی لاہور 4: قادیانی مسئلہ صفحہ 54 مطبوعہ 1992ء مطبوعہ دارالاشاعت اسلامی لاہور 5 در منثور جلد 5 صفحہ 386 الطبعة الاولى 1990ء مطبع دار الكتب العلمیة بیروت لبنان 6 مسلم کتاب الايمان باب من مات لا يشرك بالله شيئًا دخل الجنة :7 مسلم کتاب فضائل الصحابه باب من فضائل على ابن ابي طالب 8: فتوحات مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 6 مطبوعہ بیروت 1998ء و الدر المنثور زیر آیت خاتم النسيين صفحہ 386 الطبعة الاولی 1990 ء مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان 10: تاریخ ابن خلدون الجزء الثانی صفحہ 65 زیر عنوان خَبْرُ التَّقِيْفَة 11: طبری جلد 4 صفحہ 1749.مطبوعہ بیروت 1965ء 12: تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 177 13 تاریخ تاریخ الخمیس جلد 2 صفحہ 217.مطبوعہ بیروت 1283ھ :14 طبری جلد 4 صفحہ 1854،1853.مطبوعہ بیروت 1965ء

Page 140

انوار العلوم جلد 24 105 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی :15 طبری جلد 4 صفحہ 1855،1854.مطبوعہ بیروت 1965ء 16 تاریخ الکامل جلد 2 صفحہ 140 :17 تفسیر روح المعانی زیر آیت خاتم انسیتین جلد 12 صفحہ 34 - مکتبہ امدادیہ ملتان DO 1267 18: قرآن مجید مترجم و محشی مطبوعہ مدینہ پر لیس بجنور صفحہ 549.1369ھ 19: تحذیر الناس صفحہ 10.مطبوعہ سہارنپور 1309ھ 20: مقدمه ابن خلدون صفحہ 272،271 مطبوعہ مصر 1930ء :21: الجامع الصغیر صفحہ 352 مطبوعہ بیروت 1423ھ 22: مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم صفحہ 138.مطبوعہ 1330ھ 23: مکتوبات امام ربانی دفتر اول حصہ چہارم مکتوب 248 صفحہ 49 مطبوعہ لاہور1330ھ 24 حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 30،29 25: ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 209 26 کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16،15 27: تجلیات الہیہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412،411 :28 ریویو بر مباحثہ بٹالوی و چکڑالوی، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 214،213 29 حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 100 حاشیہ 30: تقریر واجب الاعلان متعلق واقعات جلسه بحث منعقدہ جامع مسجد دہلی مورخہ 20 اکتوبر 1891ء 31: الحجر :3 32: ابن ماجه كتاب الجنائز باب ما جاء في الصلاة على ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم و ذکر وفاته 33: حم السجده : 31 34 ابن ماجه كتاب الفتن باب الْأَمْرِ بالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْي عَنِ الْمُنْكَرِ

Page 141

انوار العلوم جلد 24 106 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ” قادیانی مہ 35: مثنوی مولاناروم دفتر پنجم صفحه 67 36 مجمع الزوائد كتاب الصلوة باب فى تارك الصلوة حديث نمبر 1634 جز 2 صفحہ 26 مطبوعہ 1994ء 37 خطبات از مودودی صاحب صفحہ 32، 33 مطبوعہ مارچ 1935ء 38: تذکرہ صفحہ 47.ایڈیشن چہارم 39: تذکرہ صفحہ 577.ایڈیشن چہارم 40 حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 123 41 تریاق القلوب ، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 433 42: فتوی 1892ء از مولوی عبدالحق غزنوی منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 204 43: فتوی 1892ء از مسعود دہلوی سجادہ نشین رتہرڑ چھتر منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 189 44: فتوی 1892ء از مولوی عبد الحق مؤلّف تفسیر حقانی منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 89 45: فتوی 1892 ء از مولوی محمد ا معیل منہ از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 191 46 فتوی 1892ء از مولوی فقیر اللہ منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 187 :47 فتوی 1892ء از مولوی محمد لطیف الله منقول از اشاعۃ السنه جلد 13 نمبر 6 صفحہ 190 48 فتوی 1892ء از مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 5 49 فتوی 1892ء از مولوی عبد الصمد غزنوی منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 201 50: اشاعۃ السنہ 1893ء جلد 18 نمبر 1 تا6

Page 142

انوار العلوم جلد 24 107 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی :51 مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان من قال لأخيه المسلم 52: استفتائے ضروری صفحہ 37 53: استفتائے ضروری صفحہ 40 54 استفتائے ضروری صفحہ 9.....55: ٹریکٹ ”مودودیت اور مرزائیت صفحہ 2 56: نوائے وقت 28 ستمبر 1948ء 57: استفتائے ضروری صفحہ 23 58: فتویٰ شائع کردہ محمد عبد الشکور مدیر "النجم " ، لکھنو 59 محمد مرتضیٰ حسن ناظم شعبہ تعلیمات دارالعلوم دیوبند.منقول از فتویٰ شائع کردہ ، مدیر “النجم لکھنؤ 60 ردّ الرفضہ صفحہ 30 مطبوعہ ملتان 61: اردو ترجمہ فتاوی عزیزی صفحه 377 مطبوعہ کراچی 1969ء 62: فتاوی عالمگیر یہ جلد 2 صفحہ 283 مطبوعہ مطبع مجیدی کانپور 63 الصافى فى شرح الاصول الکافی جزو سوم باب فرض الطاعة الائمه صفحه 61 مطبوعہ نولکشور 64: حدیقہ شہداء صفحہ 65 65: فروع الكافى كتاب الجنائز جلد اوّل صفحہ 100.مطبوعہ 1302ھ 66: ردّ التلفر صفحہ 11 لکھنو :67 حسام الحرمین صفحہ 122.مطبوعہ نظامی پریس بدایوں 1371ھ 68: تین سو علماء کا متفقہ فتویٰ مطبوعه حسن برقی پریس اشتیاق منزل که فتویٰ علماء کرام مشتہرہ دراشتہار شیخ مہر محمد قادری لکھنؤ 70: جامع الشواهد فى اخراج الوهابيين عن المساجد صفحه 1 71: مجموعہ فتاوی صفحه 55،54

Page 143

انوار العلوم جلد 24 108 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م 72 تاریخ الخوارج تالیف الشیخ محمد شریف سلیم صفحہ 14 13: قادیانی مسئلہ صفحہ 27،26 74 خطبات از مودودی صاحب صفحہ 32 مطبوعہ مارچ 1965ء :75: مسلمان اور موجودہ سیاسی 76: قادیانی مسئلہ صفحہ 15 ی کشمکش حصہ سوم ایڈیشن سوم صفحہ 80 77 اربعین ، روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 417، حاشیہ 78 فتوی مطبوعہ 1892ء منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 185 80،79: شرعی فیصلہ صفحہ 31 81: فتوی شریعت غرا صفحہ 9 82 شرعی فیصلہ صفحہ 25 83: فتوی شریعت غرّا صفحہ 2 84: فتوی شریعت غر ا صفحه 5 85: فتوی شریعت غرا صفحہ 5،4 86: شرعی فیصلہ صفحہ 22 87: شریعت غرا صفحہ 3 88: شرعی فیصلہ صفحہ 20 89: شرعی فیصلہ صفحہ 24 91،90: شرعی فیصلہ صفحہ 31 92: شرعی فیصلہ صفحہ 24 93: حسام الحرمین صفحہ 95 94: فتوی 1892ء منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 185 95: فتوی 1892 ء از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201 96: فتوى 1893ء منقول از فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی علیہ السلام

Page 144

انوار العلوم جلد 24 109 مولانامودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی م 97 فتوی شریعت غرا صفحہ 12 98 فتویٰ مطبوعہ 1892 ء از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201 99 فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی علیہ السلام.شائع شدہ 1311ھ در مطبع محمدی واقعه مدراس 100 مجموعه کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفه سید محمد غلام صاحب احمد پور شرقیہ مطبوعہ مطبع صادق الانوار بہاولپور صفحہ 65 101 مجموعه کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفه سید محمد غلام صاحب احمد پور شرقیہ مطبوعہ مطبع صادق الانوار بہاولپور صفحہ 11 102: الفضل 19 اکتوبر 1915ء صفحہ 6 و تاریخ مالا بار صفحہ 35 103 اخبار اہلحدیث 6 دسمبر 1918ء زیر عنوان ” بڑی زبر دستی ہے“ بحوالہ الفضل 14 دسمبر 1918ء صفحہ نمبر 3.104: الفضل جلد 8 نمبر 77،76 مورخہ 14،11 اپریل 1921ء صفحہ 7 105: الفضل جلد 5 نمبر 64 مورخہ 9 فروری1918ءصفحہ 3 106: الفضل جلد 15 نمبر 81 مورخہ 13 اپریل 1928ء صفحہ 5 107: الفضل جلد 15 نمبر 85 مورخہ 27 اپریل 1928ء صفحہ 8 108: الفضل جلد 21 نمبر 102 مورخہ 25 فروری 1934ء صفحہ 6 109: ہلال بمبئی14 مارچ 1936ء 110: روزنامہ ہلال بمبئی 13 مارچ1936ء 111 الفضل جلد 27 نمبر 105 مورخہ 9 مئی 1939ء صفحہ 5 :112 الفضل جلد 31 نمبر 179 مورخہ یکم اگست 1943ء 113: الفضل جلد 31 نمبر 224 مورخہ 23 ستمبر 1943ء صفحہ 1 114: الفضل جلد 33 نمبر 189 مورخہ 13 اگست 1944ء صفحہ 2 115: زمیندار 21 جنوری 1951ء صفحہ 9

Page 145

انوار العلوم جلد 24 110 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی من 116 منقول از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 5 :117 فتوی در تکفیر عروج جسمی و نزول حضرت عیسی علیہ السلام مطبوعہ مدراس 1311ھ 118 مجموعه کفریات مرزا غلام احمد قادیانی مؤلفہ سید محمد غلام صاحب احمد پور شرقیہ صفحہ 5 119: شرعی فیصلہ صفحہ 31 120 اشتہار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحه 2 121 اشتہار مخادعت مسیلمہ قادیانی صفحه 14 122: قادیانی مسئلہ صفحہ 30.مطبوعہ مارچ 1992ء 123: المؤمن: 29 124: الحاقه : 45 تا 47 125: قادیانی مسئلہ صفحہ 34، مطبوعہ مارچ 1992ء 126: قادیانی مسئلہ صفحہ 35،34.مطبوعہ مارچ 1992ء 127: آزاد 11 مئی 1951 ءوز میندار 28 مئی 1951ء :128 قادیانی مسئلہ صفحہ 32 مطبوعہ 1992ء 129: تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 17 130 قادیانی مسئلہ صفحہ 124 مطبوعہ 1992ء :131 قادیانی مسئلہ صفحہ 49 مطبوعہ 1992ء 132 قادیانی مسئلہ صفحہ 49 مطبوعہ 1992ء 133: تبلیغ رسالت جلد 7 صفحه 17 134 ترجمان القرآن جون 1948ء صفحہ 119 135 ترمذی ابواب الديات باب ماجاء فيمن قتل دون ماله فهو شهید میں الفاظ کی ترتیب میں صرف فرق ہے.136: الفضل جلد 23 نمبر 55 مورخہ 3 ستمبر 1935ء صفحہ 10،9 137 قادیانی مسئلہ صفحہ 51 مطبوعہ 1992ء

Page 146

انوار العلوم جلد 24 111 مولانا مودودی صاحب کے رسالہ ”قادیانی 138: "ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض “ بحوالہ الفضل 27 ستمبر 1919ء صفحہ 3 تا11 139: "معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ بحوالہ الفضل 7 جون 1920ء صفحہ 5،4 140: ریوٹر ( Reuters 1851ء سے قائم شدہ انٹر نیشنل نیوز ایجنسی جس کا ہیڈ کوارٹر لندن میں ہے.(Wikipedia) 141: الفضل جلد 9 نمبر 1 مورخہ 4 جولائی 1921ء صفحہ 6 142: الفضل جلد 8 نمبر 77،76 مورخہ 14،11 اپریل 1921ء صفحہ 5 143 الفضل جلد 12 نمبر 140،135 مورخہ 9جون 1925ء و20 جون 1925ء :144: قادیانی مسئلہ صفحہ 40.مطبوعہ 1992ء :145 قادیانی مسئلہ صفحہ 42،41.مطبوعہ 1992ء :146 قادیانی مسئلہ صفحہ 52.مطبوعہ 1992ء :147 قادیانی مسئلہ صفحہ 52.مطبوعہ 1992ء 148 الفضل جلد 32 صفحہ 233 مورخہ 5 اکتوبر 1944ء صفحہ 3 149: الفضل جلد 35 نمبر 120 مورخہ 21 مئی 1947ءصفحہ 4 150: اخبار ”غریب و اخبار ”عوام “ لائل پور مورخہ 13 مئی 1952ء بحوالہ الفضل 24 مئی 1952ء صفحہ 6 151: قادیانی مسئلہ صفحہ 35 مطبوعہ 1992ء

Page 147

Page 148

انوار العلوم جلد 24 113 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء (26دسمبر 1953ء) نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 149

انوار العلوم جلد 24 114 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء

Page 150

انوار العلوم جلد 24 115 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَىٰ رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء (فرمودہ 26 دسمبر 1953ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اللہ تعالیٰ کا فضل اور احسان ہے کہ اس نے پھر ایک دفعہ ہم کو اپنے دین کی خدمت کے لئے جمع ہونے اور اپنا ذکر بلند کرنے کا موقع عطا فرمایا.بہت سے لوگ ہیں جو ان برکات سے ناواقف ہوتے ہیں جو ایسی مجالس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی ہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو ایسی جگہوں پر آکر بھی فائدہ اٹھانے سے محروم رہ جاتے ہیں.میرے نزدیک آٹھ دس دفعہ ایسا ہوا ہو گا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے جلسہ سے پہلے جلسہ سالانہ کا نظارہ دکھایا اور سوائے ایک دفعہ کے جہاں تک کہ مجھے یاد پڑتا ہے عام طور پر میں نے دیکھا کہ آدمی تھوڑے ہیں اور بعض دفعہ تو میں نے یوں دیکھا کہ کچھ آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور پھر غائب ہو گئے ہیں پھر کچھ آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ غائب ہو گئے ہیں.میرا خیال ہے کہ ایک دفعہ میں نے بہت بڑا ہجوم دیکھا.شروع میں جب مجھے ایسی رؤیا آتیں تو میں سمجھتا کہ اب کے لوگ تھوڑے آئیں گے مگر جب لوگ آتے تو پہلے سے زیادہ ہوتے تھے تب مجھ پر تعبیر کھلی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ دکھایا ہے کہ ظاہری طور پر آنے والے بہت ہوتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے رجسٹر میں کم دکھائے جاتے ہیں کیونکہ وہ آکر فائدہ نہیں اٹھاتے اور اُن برکات میں سے حصہ نہیں لیتے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے موقع پر نازل کی جاتی ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے اور بعض دفعہ تو میں نے ذکر بھی کیا ہے کہ جلسہ کے اوقات میں مجھے نظر آیا کہ جیسے آسمان پر سے فرشتے اتر رہے ہیں اور

Page 151

انوار العلوم جلد 24 116 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء نور نازل کر رہے ہیں اور کئی دفعہ میں نے تیز روشنیاں آسمان سے اترتی ہوئی دیکھیں لیکن عام نظروں میں وہ چیزیں نظر نہیں آتیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کے ذکر کے لئے جمع ہوتی ہے تو آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور دنیا میں ان کی تلاش کرتے پھرتے ہیں اور جب وہ اس گروہ کے پاس پہنچتے ہیں جو ذکر الہی کے لئے جمع ہوتا ہے تو وہ ایک دوسرے کو آواز میں دیتے ہیں کہ آجاؤ تمہاری جگہ یہ ہے.اور پھر وہ سارے کے سارے اُن کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں اور اُن سب کو آسمان کی طرف اٹھا نا شروع کر دیتے ہیں یہاں تک کہ وہ خدا تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں.1 اس میں یہی اشارہ ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرنے کے لئے اکٹھے ہوتے ہیں خدا بھی ان کے ذکر کو بلند کرتا ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک محدود طاقت کا انسان تو خدا تعالیٰ کے ذکر کو بلند کرے اور وہ جس کی طاقتیں غیر محدود ہیں وہ ان کو بدلہ نہ دے.لازمی بات ہے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کا ذکر بلند کرتے ہیں خدا بھی ان کے ذکر کو بلند کرتا ہے مگر بسا اوقات جیسا کہ ابھی ماسٹر فقیر اللہ صاحب نے تلاوت کرتے ہوئے جو آیتیں پڑھی ہیں ان میں سے ایک کا مضمون یہی ہے.الہی نصرت اور تائید بعض دفعہ اتنی مخفی آ رہی ہوتی ہے کہ خدائی جماعتیں بھی یہ سمجھتی ہیں کہ کثرت تو ہمیں جھوٹا سمجھے گی کیونکہ اتنا عرصہ گزر چکا ہے اور اب تک خدا تعالیٰ کی مدد نہیں آئی.جب یہ مایوسی کا مقام آجاتا ہے تب یکدم اللہ کی طرف سے مدد آ جاتی ہے اور ان کی مایوسی یقین اور امید سے بدل جاتی ہے.غرض اللہ تعالی نے آپ لوگوں کو وہ عظیم الشان موقع عطا فرمایا ہے جو شاید آج دنیا میں اور کسی کو حاصل نہیں.ممکن ہے منفرد طور پر اور بھی کسی کو یہ بات حاصل ہو کیونکہ سب اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں.ہم نہیں کہہ سکتے کہ کلی طور پر کوئی مذہب یا کوئی جماعت اللہ تعالیٰ کی محبت سے محروم ہے.اللہ تعالیٰ کی محبت رکھنے والے ان میں بھی پائے جاتے ہیں مگر ان میں اتنی کثرت نہیں ہوتی جتنی کثرت الہی جماعتوں میں پائی جاتی ہے.ہو سکتا ہے کہ ان میں دس ہزار میں سے ایک شخص ایسا ہو جس کے دل میں

Page 152

انوار العلوم جلد 24 117 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء اللہ تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہو لیکن تمہارے سو میں سے دس ایسے نکل آئیں گے اور یہ بڑا بھاری فرق ہے.اس کے معنی یہ ہیں کہ تمہاری طاقت ان کی نسبت ہزار گنازیادہ ہے اور اگر تمہارے سو میں سے ہیں ایسے نکل آئیں تو تم ان سے دو ہزار گنا زیادہ طاقتور ہو جاؤ گے اور اگر تیں نکل آئیں تو تین ہزار گنا طاقتور ہو جاؤ گے.بہر حال الہی جماعتوں اور غیر الہی جماعتوں میں کثرت اور قلت کا فرق ہی ہوتا ہے.لوگ بعض دفعہ نادانی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ الہی جماعت وہ ہوتی ہے جس کے سارے کے سارے افراد جنتی ہوں اور غیر الہی جماعتیں وہ ہوتی ہیں جن کے سارے کے سارے افراد جہنمی ہوں حالانکہ نہ غیر الہی جماعتیں ساری کی ساری خدائی انعامات سے محروم ہوتی ہیں اور نہ الہی جماعتیں ساری کی ساری ان انعامات کی مستحق ہوتی ہیں صرف قلت اور کثرت کا فرق ہوتا ہے.جب سے دنیا کا سلسلہ شروع ہے انبیاء کی جماعتوں میں کثرت سے خدائی فضلوں سے حصہ لینے والے لوگ موجود ہوتے ہیں اور باقی مذاہب اور جماعتوں میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں اور چونکہ اکثریت پر فیصلہ ہوتا ہے اس لئے سمجھا جاتا ہے کہ وہ لوگ خدائی محبت اور اس کے انعامات سے محروم ہیں جیسے ہندوستان میں بھی کروڑ پتی موجود ہیں لیکن اسے غریب ملک سمجھا جاتا ہے اس کے مقابلہ میں یورپ اور امریکہ میں بھی کروڑ پتی ہیں لیکن انہیں امیر ملک سمجھا جاتا ہے حالانکہ یہاں جو مالدار پائے جاتے ہیں ان میں سے بعض وہاں کے بڑے سے بڑے مالدار کی ٹکر کے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمارے ملک کو غریب سمجھا جاتا ہے اس لئے کہ یہاں پر اگاؤ کا امیر ہیں اور وہاں ہزاروں ہزار مالدار لوگ موجود ہیں.پس باوجود اس کے کہ کروڑ پتی یہاں بھی پائے جاتے ہیں یہ ملک غریب سمجھا جاتا ہے اور وہ امیر سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ان میں امیروں کی کثرت پائی جاتی ہے تو اصل ترقی اسی میں ہوا کرتی ہے کہ جماعتی طور پر اپنے اندر نیکی اور تقوی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے اور خد اتعالیٰ کے جو فرشتے نازل ہوتے ہیں ان سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جائے.جتنا جتنا کوئی شخص دنیا سے قطع تعلق کر کے اپنا ایک الگ حلقہ بنالے گا اسی قدر اس کے لئے خدائی قرب میں بڑھنا آسان

Page 153

انوار العلوم جلد 24 118 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء ہوتا جائے گا جیسے وہ شخص جس نے ہلکا بوجھ اٹھایا ہوا ہو وہ تیز تیز چلتا ہے اور جس نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہوا ہو وہ آہستہ آہستہ چلتا ہے اسی طرح جس کے دنیا سے زیادہ تعلقات ہوتے ہیں وہ بو جھل ہو جاتا ہے فرشتہ اسے تھوڑی دور تک تو اٹھا کر لے جاسکتا ہے لیکن زیادہ دور تک نہیں لے جاسکتا.پس اپنے دل کو اس طرح صاف کرو کہ تمہارے دنیا سے تعلقات بہت تھوڑے رہ جائیں کیونکہ جس کا وجود بہت ہلکا ہو فرشتے اسے بہت اونچالے جاتے ہیں غرض زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ کی رغبت اور محبت ان دنوں میں پیدا کرنی چاہئے اور اپنے دلوں کو اللہ تعالیٰ کے ذکر کی طرف مائل کرنا چاہئے تاکہ زیادہ سے زیادہ اس کی برکات حاصل ہوں.آج رات کو بارش کی وجہ سے کچھ تندوروں کو بھی نقصان پہنچا ہے اور کچھ مہمانوں کو بھی.بہر حال مقامی طور پر جو کچھ ہو سکا وہ کیا گیا.میں سمجھتا ہوں کہ در حقیقت یہ ساری باتیں مومن کے لئے ایک کھیل کے طور پر ہوتی ہیں.جیسے کرکٹ اور ہاکی کھیلتے وقت لڑکے گرتے ہیں اور انہیں چوٹ آتی ہے تو بجائے رونے کے وہ ہنستے ہیں اسی طرح دینی خدمات میں جو تکلیفیں ہوتی ہیں وہ بھی دینی خدمات کا ہی حصہ ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے موقع پر تشریف لے گئے تو چونکہ وہ جنگل تھا اس لئے صحابہ کو تکلیف ہوئی.ان کے پاس خیمے بھی نہیں تھے.پھر رات کو بارش ہو گئی جس سے صحابہ گھبرا گئے.صبح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا کتنا فضل ہے کہ اس نے آج رات ہم پر اپنی رحمت نازل کی.اس پر سب کے دل کھل گئے.چنانچہ جنگ کے موقع پر وہ بارش واقع میں رحمت ثابت ہوئی کیونکہ مسلمانوں کے قدم ریتلے میدان میں جم گئے اور کفار کے قدم چکنی مٹی پر پھسلنے لگ گئے.پس یہ تکلیفیں کوئی حقیقت نہیں رکھتیں بلکہ میں تو سمجھتا ہوں اس بارش کا اس لحاظ سے فائدہ ہو گیا کہ یہاں ربوہ میں مٹی بہت اڑا کرتی ہے جس کی وجہ سے میرا اگلا ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ خراب ہو جایا کرتا ہے.لاہور تک تو گلا ٹھیک رہا مگر یہاں یہ حال ہے کہ پچھلے ڈیڑھ مہینہ سے میرے گلے سے اتنا بلغم نکلا ہے کہ مجھے حیرت ہوتی تھی.

Page 154

انوار العلوم جلد 24 119 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء عجیب بات یہ ہے کہ مجھے کھانسی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود گلے سے بلغم نکلتا تھا اور وہ اتنا لمبا ہو تا تھا کہ بالشت بھر باہر لگا ہوا ہوتا تھا اور ابھی گلے میں اس کا تار باقی ہوتا تھا.پہلے طب کی کتابوں میں میں اس کا ذکر پڑھا کرتا تھا تو سمجھتا تھا کہ اس میں مبالغہ کیا گیا ہے لیکن اب میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تو میں نے سمجھا کہ انہوں نے ٹھیک لکھا تھا.انسان کا اندرونہ بھی مداری کا تھیلا معلوم ہوتا ہے چھوٹا سا گلا ہے مگر سارا سارا دن بلغم نکلتارہتا تھا اور وہ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا تھا.شاید اللہ تعالیٰ نے گردو غبار کو دور کرنے کے لئے ہی یہ بارش برسائی ہو.بیشک اس سے کچھ نقصان بھی ہوا اور مہمانوں کو تکلیف بھی ہوئی لیکن شاید اس گرد کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے بارش نازل کی ہو.اب کم از کم ایک دو دن اس بارش کا نتیجہ اچھا رہے گا اور گرد نہیں اُڑے گی.اس موقع پر باہر کے دوستوں کی طرف سے بھی کچھ تاریں آئی ہوئی ہیں.ایک تو جرمنی کی جماعت کی طرف سے تار آئی ہے.انہوں نے احباب جماعت کو السّلامُ عَلَيْكُمْ کہا ہے اور دعا کے لئے لکھا ہے.اسی طرح ملایا کی جماعت کی طرف سے تار آیا ہے.انہوں نے السّلامُ عَلَيْكُمْ کہا ہے اور ساتھ ہی خوشخبری دی ہے کہ ملائی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے.جاکرتا کی جماعت کی طرف سے بھی تار آیا ہے جو انڈونیشیا کا صدر مقام ہے انہوں نے بھی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے اسی طرح جوگ جا کر تا جو انڈونیشیا کا پہلا صدر مقام تھا وہاں کی جماعت کی طرف سے بھی تار آیا ہے انہوں نے بھی السّلامُ عَلَيْكُمْ کہا ہے اور دعا کی درخواست کی ہے.اسی طرح بو گر جو انڈونیشیا کا ایک شہر ہے وہاں ہمارے انڈو نیشین بھائیوں کا سالانہ اجلاس ہو رہا ہے ان کی طرف سے بھی تار آیا ہے کہ ہمارا اجلاس کامیابی سے ہو رہا ہے.دوستوں کو ہمارا بھی سلام پہنچا دیا جائے اور دعا کی درخواست کی جائے.اسی طرح بعض اور جماعتوں کی طرف سے بھی تاریں آئی ہیں اور افراد کی طرف سے بھی آئی ہیں.زیادہ تر لوگ آخری دعا سے پہلے تاریں دیتے ہیں اب بھی چونکہ افتتاحی دعا ہو گی اس لئے میں نے ان کا سلام پہنچا دیا ہے اور ان کے لئے دعا کی بھی تحریک کر دی ہے.

Page 155

انوار العلوم جلد 24 120 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء اس کے بعد میں دعا کروں گا.دوستوں کو سب سے پہلے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کے یہاں آنے کو ان کے اخلاص اور ایمان کی ترقی کا موجب بنائے اور وہ خدمت اسلام کے جن جذبات کو لے کر یہاں آئے ہیں وہ ڈھیلے نہ ہوں اور ان میں سستی اور غفلت پیدانہ ہو تا کہ وہ اس عظیم الشان موقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہ رہ جائیں جو سینکڑوں سال کے بعد خدا تعالیٰ نے اُن کی ترقی کے لئے پیدا کیا ہے.خصوصاً تبلیغ اسلام کے اس عظیم الشان کام کے لئے دعائیں کریں جو غیر ممالک میں ہو رہا ہے کیونکہ دنیا میں چاروں طرف اسلام پر یورش ہو رہی ہے اور اسلام کے مورچہ پر صرف چند احمدی مبلغ کھڑے ہیں.چاروں طرف سے اُن کی مخالفتیں ہو رہی ہیں.ان سے دشمنیاں کی جارہی ہیں اور ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی جارہی ہے.آپ لوگ ایسے ہی ہیں جیسے فوج کے لئے اسلحہ اور بارود تیار کرنے والا کار خانہ ہوتا ہے.ان کے لئے سامان خورونوش بھیجنا اور ان کے لئے لٹریچر مہیا کرنا آپ لوگوں کا فرض ہے اگر آپ لوگوں کی طرف سے اس میں کو تاہی ہو اور انہیں وہ سامان نہ پہنچے جس کی انہیں ضرورت ہے تو ان کی زندگیاں بالکل بیکار ہو کر رہ جائیں گی.مدت کی بات ہے جب لڑکی اور بلقان میں جنگ ہوئی اور یورپین لوگوں نے بلقان کی رہاستوں کو بھڑکا کر ترکی سے لڑوا دیا اور ترکی کو بہت بڑی شکست ہوئی اور کئی علاقے اس کے ہاتھ سے نکل گئے تو اس زمانہ میں میں ولایت سے ایک اخبار ”ڈیلی نیوز “ منگوایا کرتا تھا.”ڈیلی نیوز“ کے اپنے نمائندے جنگ میں تھے اور وہ اسے وہاں کے حالات با قاعدہ بھجواتے رہتے تھے.ڈیلی نیوز“ کے نگران اور ذمہ دار کارکن مسٹر لائڈ جارج تھے جو انگلستان کے وزیر اعظم تھے.اس اخبار میں جنگ کی تصویریں بھی چھپتی تھیں اور وہاں کے حالات بھی شائع ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ اس اخبار میں سالونیکا کی جنگ کے حالات شائع ہوئے جو ڈیلی نیوز“ کے اپنے نمائندہ نے بھجوائے تھے.وہ نمائندہ ان واقعات سے بڑا متاثر معلوم ہوتا تھا.اس نے لکھا کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد ناک نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا پھر اس نے لکھا کہ ترک سپاہی اپنے ملک کے لئے

Page 156

انوار العلوم جلد 24 121 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء جان دینے میں کسی سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہیں مگر ان سے اتنی بڑی غداری کی گئی ہے کہ جس کی انتہا کوئی نہیں.انہوں نے جب اپنی توپوں میں گولے ڈالے تو انہیں پتہ لگا کہ وہ گولے سب جھوٹے ہیں یعنی ان کے اوپر تو کور لیٹا ہوا تھا مگر اندر بارود نہیں تھا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی تو ہیں دشمن کی توپوں کے مقابلہ میں بالکل بے کار ہو گئیں اور وہ شکست کھا گئے.پھر اس نے ایک تصویر دی ہوئی تھی جس میں اس نے دکھایا کہ ترکی کمانڈر ایک پتھر پر بیٹھا سر پکڑ کر رو رہا ہے.اس نے لکھا کہ یہ ایک بہت بڑا بہادر جرنیل ہے جب اس کی قوم پیچھے ہٹی ہے تو اس کی حالت یہ تھی کہ وہ بچوں کی طرح رو رہا تھا اور بار بار کہہ رہا تھا کہ اگر میری قوم میرے ساتھ یہ غداری نہ کرتی تو میں دشمن کو دھکیل کر سمندر تک پہنچا دیتا.میری آنکھوں کے سامنے آج تک اس ترکی کمانڈر کی تصویر ہے کہ اس نے سر پکڑا ہوا ہے اور وہ رو رہا ہے.یہی تمہارے مبلغوں کا حال ہو گا اگر تم اپنے فرائض کو ادا نہیں کروگے اور انہیں پورا سامان بہم نہیں پہنچاؤ گے.ان میں سے ایک ایک آدمی ہزاروں ہزار اور لاکھوں لاکھ کا کام کر رہا ہے.کروڑوں کروڑ کی آبادی میں کسی جگہ ہمارا ایک آدمی کام کر رہا ہے اور کسی جگہ دو اور وہ سامان جو انہیں ہماری طرف سے مہیا کیا جارہا ہے اور جس سے وہ ارد گرد کے علاقوں میں سفر کر سکتے اور لٹریچر پھیلا سکتے ہیں بہت ہی کم ہے مگر اس میں اب اور بھی کو تاہی واقع ہو رہی ہے.اس دفعہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے کچھ دنوں کی ڈاک میں نے نہیں دیکھی.ممکن ہے کچھ وعدے اُس میں بھی ہوں مگر حقیقت یہی ہے کہ تحریک جدید کے وعدے پوری طرح نہیں پہنچ رہے.ہو سکتا ہے کہ میرے پاس جو ڈاک پڑی ہے اس میں بھی کچھ وعدے ہوں اور ممکن ہے ڈاک کی خرابی کی وجہ سے کچھ وعدے ابھی تک نہ پہنچے ہوں.اس لئے جہاں دوست اپنے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو خدمت دین میں آگے بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے وہاں دفتر تحریک جدید میں بھی جا کر اپنے وعدوں کو دیکھ لیں اور اگر آپ کے وعدوں کی اطلاع وہاں نہ پہنچی ہو تو دفتر میں اپنے وعدوں کا اندراج کروادیں تا کہ دفتر کو جو پریشانی ہو رہی ہے وہ دور ہو جائے اور تبلیغ اسلام کے کام کو کوئی نقصان نہ پہنچے.

Page 157

انوار العلوم جلد 24 122 افتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1953ء پھر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ جن کو اللہ تعالیٰ نے یہاں آنے کی توفیق دی ہے اللہ تعالیٰ اُن پر بھی رحم فرمائے اور جو بظاہر نہیں آسکے لیکن اُن کے دل ہمارے ساتھ ہیں اللہ تعالیٰ اُن پر بھی رحم کرے کیونکہ ہمارا نگران اور وارث سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کوئی نہیں.دنیا میں کوئی قوم اتنی لاوارث نہیں جتنی ہم ہیں اور کوئی قوم اتنی پشت پناہ بھی نہیں رکھتی جتنی ہم رکھتے ہیں.ہماری مثال اس بچہ کی سی ہے جو اپنے ماں باپ سے جدا ہو کر جنگل میں آپڑتا ہے جہاں اس کے ارد گرد کہیں بھیڑیئے ہوتے ہیں کہیں چیتے ہوتے ہیں کہیں سانپ اور بچھو وغیرہ ہوتے ہیں لیکن ساتھ ہی جیسے اس بچہ کے لئے اللہ تعالیٰ بعض دفعہ شیروں کے دلوں میں محبت پیدا کر دیتا ہے اور وہ اس کے گرد گھیرا ڈال لیتے ہیں یہی ہماری حالت ہے.خدا کے فرشتے آتے ہیں اور ہماری حفاظت کرتے ہیں پس اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ جو باہر ہمارے بھائی ہیں اللہ تعالیٰ ان کی بھی حفاظت کرے اور انہیں خدمت دین کی توفیق بخشے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جو یہاں نہیں آئے ان میں سے بعض کے اخلاص ہم سے زیادہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ اُن میں سے بعض کی آہیں اور دعائیں ہمارے لئے زیادہ کارآمد ہو رہی ہوں بہ نسبت اُن کے جو یہاں آئے ہوئے ہیں.پس وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ ہم جو مرکز میں جمع ہو کر اللہ تعالیٰ کی برکتیں حاصل کر رہے ہیں اُن کے لئے بھی دعائیں کریں تا کہ اُن کی دعائیں زیادہ سے زیادہ ہم کو حاصل ہوں.اس کے بعد میں دعا کر کے گھر چلا جاؤں گا اور جلسہ کی کارروائی شروع ہو گی.“ غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 1 مسلم کتاب الذكر باب فضل مجالس الذکر.

Page 158

انوار العلوم جلد 24 123 متفرق امور فرمودہ 27 دسمبر 1953ء) (غیر مطبوعہ) نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 159

124 انوار العلوم جلد 24

Page 160

انوار العلوم جلد 24 125 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ متفرق امور (فرمودہ 27 دسمبر 1953ء بمقام جلسہ سالانہ ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ”جیسا کہ میں دوستوں کو بتا چکا ہوں مجھے کئی مہینے سے گلے کی تکلیف چل رہی ہے اور آواز تدریجا بیٹھتی جارہی ہے لیکن کل سے کچھ ہلکا سا فرق نظر آتا ہے اللہ تعالیٰ نے یہی میرے دل میں ڈالا گو میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ مستقل فرق ہے یا عارضی بہر حال میرے دل میں یہ خیال آیا کہ یہ تکلیف نزلہ کی وجہ سے ہے اگر نزلہ ناک کی طرف سے ہے تو شاید زور کم ہو جائے.چنانچہ میں نے ایک سٹک پر کاسٹک لگا کر ناک میں دونوں طرف دور تک چھوا.اِس سے کچھ نزلہ بہا تو ایک خفیف سا فرق پیدا ہوا اور گلے کی طرف جو تکلیف کا زور تھا اُس میں کمی ہو گئی.آواز کے بھرانے میں تو فرق نہیں آیا لیکن ساتھ جو درد ہوتی تھی اُس میں کچھ فرق محسوس ہوا.احباب کی خواہش کا احساس بہر حال یہ تقریب ہمارے لئے سال میں ایک دفعہ آتی ہے اور کئی دوست ایسے ہیں جو اسی تقریب پر یہاں آتے ہیں اور بعض تو چھ چھ سات سات سال کے بعد آتے ہیں.ملاقات کے وقت کہتے ہیں کہ ہم تو سات سال کے بعد آئے، ہم چھ سال کے بعد آئے.اسی طرح مستورات بھی آتی ہیں تو وہ چھ چھ سات سات سال کا عرصہ بتاتی ہیں.تو جو لوگ چھ سات سال کے بعد آئیں اُن کو کچھ نہ کچھ سننے کا موقع نہ ملے تو یقیناً اُن کے

Page 161

126 انوار العلوم جلد 24 دلوں میں افسوس پیدا ہو گا اور اُن کے افسوس سے ہمیں بھی افسوس ہو گا.اس لئے بہر حال میں نے ارادہ کیا کہ باوجود اس کے کہ مجھے تکلیف ہے میں تقریر کروں.گو شش یہ ہو کہ مختصر تقریر ہو.چنانچہ اس دفعہ میں نے نوٹ لئے ہیں مختصر لکھے ہیں لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ مختصر لکھے ہوئے نوٹ لمبے ہو جاتے ہیں اور لمبا لکھا ہوا مضمون چھوٹا ہو جاتا ہے.اور میں نے خیال کیا کہ میرا تجربہ یہی ہے کہ بسا اوقات جب میں بولنے کے لئے کھڑا ہوں اور خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کوشش کروں تو خدائی نصرت میرے شامل حال ہو جاتی ہے اور وہ کام کامیابی سے ختم ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے مولوی ابوالفضل محمود صاحب جب غیر احمدی تھے تو تین چار سال پہلے غیر احمدیت میں قادیان آیا کرتے تھے.آدمی بے تکلف سے ہیں اور ایسی طرز کے ہیں کہ وہ بعض دفعہ ایسی باتیں بھی کر لیتے ہیں جن کو لوگ گستاخانہ سمجھتے ہیں.اُس وقت وہ تھے ہی غیر احمدی.اتفاق کی بات ہے کہ وہ جو احمدیت سے پہلے دو تین سال آئے تو ہر سال مجھے کچھ نزلہ کی شکایت اور کھانسی ہوتی تھی.نزلہ کی شکایت تو چھپی ہوئی ہوتی ہے مگر جو ہوشیار آدمی ہے وہ تو پہچانتا ہے کہ میری آواز بھرائی ہوئی ہے.عام آدمی کو خیال بھی نہیں آتا اور بھرائی ہوئی اور غیر بھرائی ہوئی میں وہ فرق بھی نہیں سمجھتا لیکن کھانسی ایسی تکلیف ہے جو سب کو پتہ لگ جاتی ہے.تو شدید کھانسی مجھے اُن دنوں میں ہو جاتی تھی دو سال تو وہ آتے ہی رہے تیسرے سال ملاقات ہورہی تھی کہ اس میں مجھے کہنے لگے کیوں صاحب! یہ کوئی معجزہ ہے یا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کھانسی اور پھر تقریر ہو جاتی ہے.میں نے کہا میں جھوٹ تو نہیں بولا کرتا.اس کو معجزہ کہہ لو، خدا کا فضل کہہ لو جو تمہاری مرضی ہے کہہ لو.خیر اس کے بعد وہ احمد کی ہو گئے.واقع میں اس قدر شدید اُن دنوں مجھے کھانسی ہوتی تھی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کے بعد پھر جلسہ کے ایام میں اتنی کھانسی مجھے نہیں ہوئی.برابر تین چار سال تک یہ تکلیف چلی.ملاقات کرتا تھا تو کھانستا رہتا تھا، باتیں کرتا تھا تو کھانستا تھا، تقریر کرتا تھا تو شروع میں کھانسی آتی تھی اس کے بعد گلا ایسا گرم ہو جاتا تھا کہ اس میں کھانسی بند ہو جاتی تھی اور دیکھنے والا یہی

Page 162

انوار العلوم جلد 24 127 سمجھتا تھا کہ خبر نہیں بناوٹ سے کھانس رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھتے ہوئے میں نے جرات کی کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ مدد کرتا آیا ہے شاید اُس کا فضل اب بھی جوش میں آجائے اور اب بھی اتنے دور سے آنے والے لوگ اور اتنی امیدوں کے ساتھ اور مایوسیوں کے بعد آنے والے لوگ اپنی اُمنگیں اور اپنے ارادے اور اپنی خواہشیں پورے ہوئے بغیر نہ چلے جائیں.“ اس کے بعد حضور نے بعض جماعتوں کی تاریں پڑھ کر سنائیں جن میں جلسہ سالانہ کی مبارکباد اور درخواست دعا تھی.پھر فرمایا:- متفرق امور ”اس کے بعد میں اپنی آج کی تقریر شروع کرتا ہوں.اگر اللہ تعالیٰ نے خیریت رکھی تو کل انشاء اللہ علمی تقریر جو میں کیا کرتا ہوں وہ کروں گا.آج متفرق امور کے متعلق میں بعض باتیں کہوں گا.تین سال سے عورتوں میں میری تقریر احمدی مستورات سے خطاب نہیں ہو رہی.یہ تیسر اسال جارہا ہے اور باہر سے آنے والی عورتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ میں اُن کے سامنے بھی کچھ باتیں کروں کیونکہ عورتوں کے سامنے جو تقریر ہوتی ہے اُس میں عورتوں کی ضرورتوں کو اور اُن کے حقوق کو زیادہ مد نظر رکھا جاتا ہے.مردوں کی تقریر میں زیادہ تر ایسی باتیں ہوتی ہیں جو اصولی ہوں یا مردوں سے تعلق رکھنے والی ہوں.پھر اُن کی خواہش ہوتی ہے کہ ایسی باتیں بھی کہی جائیں جو اُن سے خاص تعلق رکھتی ہیں اور اُن کی ضرورتوں کو مد نظر رکھا جائے.میری نیت اس دفعہ یہی تھی کہ میں دو سال کے وقفہ کے بعد اس دفعہ پھر عورتوں میں تقریر کروں لیکن لجنہ اماءاللہ مرکزیہ نے بڑے اصرار سے یہ خواہش کی کہ ہم سمجھتی ہیں ابھی ایسے خطرات کے دن ہیں کہ ہم اس ذمہ داری کو نہیں اٹھا سکتیں کہ حفاظت کا سامان کر سکیں.کیونکہ عورتیں برقعوں میں ہوتی ہیں اگر کوئی مسلح شخص برقع میں آجائے تو ہم اُس کی نگرانی نہیں کر سکتیں اِس لئے ہمارا مشورہ یہی ہے اور اصرار کے ساتھ مشورہ ہے کہ آپ اس دفعہ بھی جلسہ سالانہ پر مستورات میں تقریر نہ کریں.اُن کے

Page 163

انوار العلوم جلد 24 128 متفرق امور اس اصرار کی وجہ سے گو دو دن تو میں اڑا رہا.میں نے کہا کہ کئی سال ہو گئے ہیں لیکن اُن کے بار بار کے اصرار کی وجہ سے مجھے اُن کی بات ماننی پڑی اور میں نے ارادہ چھوڑ دیا لیکن میں نے کہا بہت اچھا میں مردوں کی تقریر کا ایک حصہ عورتوں کے لئے وقف کر دوں گا سو جبکہ عورتوں کی قربانی کی وجہ سے میرا اگلا آج کچھ اچھا ہے اگر میں عورتوں میں تقریر کر کے آتا تو میرا گلا کچھ اور بیٹھا ہوا ہوتا.بیٹھا ہوا تو اب بھی ہے لیکن شروع میں گلے کی جو کیفیت ہے یہ عورتوں کی قربانی کی وجہ سے ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ اِس حق کو تسلیم کریں گے کہ شروع کے کچھ منٹ میں عورتوں کے متعلق وقف کر دوں.جو باتیں مردوں میں کی جاتی ہیں وہ بھی بیشتر طور پر عورتوں سے ہی متعلق ہوتی ہیں کیونکہ اسلام کے احکام مردوں اور عورتوں کے لئے برابر ہیں اس لئے سوائے چند ایک باتوں کے جو کہ عورتوں میں کسی نیکی کی تحریک کرنے کے متعلق ہوں باقی جس قدر امور ہیں اُن میں مردوں کی تقریر سے عورتیں ویسا ہی فائدہ اٹھا سکتی ہیں جیسا کہ وہ اپنی مخصوص تقریر سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں.جو باتیں عورتوں سے مخصوص ہیں اور خصوصاً اس سال مخصوص ہیں اُن میں سے سب سے پہلی بات تو میں اُن کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان کی طرف سے ایک چندہ جرمنی میں مسجد بنانے کے لئے کیا گیا تھا.جرمنی کی مسجد میں کچھ ایسی روکیں پیدا ہو گئیں کہ وہ نہ بن سکی اس لئے اُن کے روپیہ سے لنڈن میں مسجد بنادی گئی.اب جو لنڈن میں مسجد ہے وہ در حقیقت عورتوں کے روپیہ سے بنی ہوئی ہے.اس کے بعد میں نے دوسری تحریک کی کہ جرمن زبان کا ترجمہ قرآن عورتوں کے روپیہ سے چھپے.تراجم کا ذکر میں بعد میں کروں گا لیکن میں اُن کو یہ خبر بتانی چاہتا ہوں جیسے تار بھی میں نے پڑھی ہے کہ جرمن زبان کا ترجمہ ریوائز ہو گیا ہے.دو اعلیٰ درجہ کے جرمن پروفیسر اُس کو دیکھ چکے ہیں اور ہمارے مبلغ بھی دیکھ چکے ہیں اور اب وہ پریس میں جاچکا ہے اور شائد تین چار مہینہ تک خدا تعالیٰ چاہے یا اس سے بھی پہلے وہ چھپ کر تیار ہو جائے گا.اس لئے عورتوں کا ترجمہ قرآن جو جرمن زبان کا ہے

Page 164

انوار العلوم جلد 24 129 انشاء اللہ تعالیٰ اس سال مکمل ہو جائے گا.چندہ تعمیر مسجد ہالینڈ تیسری تحریک میں نے عورتوں میں یہ کی تھی کہ ان کی طرف سے ہالینڈ میں مشن بنایا جائے اور مسجد بنائی جائے.چنانچہ انہوں نے اس کے لئے بڑے شوق سے چندہ دیا اور باوجود اس کے کہ عورتوں کی آمد بہت کم ہوتی ہے پھر بھی اُن کا چندہ پہلے سال مردوں سے بڑھا رہا.دوسرے سال جب مردوں کے چندوں کی ایک خاص نوعیت قرار دی گئی تو پھر عورتوں کا چندہ بہت گر گیا کیونکہ اُن کے لئے ایسی شرطیں کی گئیں کہ ملازم سالانہ ترقی دیویں.عورتوں کی تو ترقی ہوتی ہی نہیں.پھر یہ کہ تجارت والے پہلے دن کا نفع دیں.جو چھوٹے تاجر ہیں ہر ہفتہ کے پہلے دن کا نفع دیں یا مزدور پیشہ جو ہیں وہ مہینہ کے پہلے دن کی آمد دیں یا جو ڈاکٹر اور وکیل پریکٹس کرنے والے ہیں اُن کی سالانہ آمدن کا جو ڈفرنس (DIFFERENCE) اگلے سال بڑھ جائے اُس کا دسواں حصہ دیں اور اس طرح کچھ اور بھی شرائط تھیں.زمیندار کے متعلق اپنے کھیت پر دو آنے فی ایکڑ سالانہ چندہ مقرر کیا گیا تھا اور چونکہ ان چیزوں میں عورتیں شامل نہیں ہو سکتیں نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کا چندہ جاری رہا اور عورتوں کا چندہ باون ہزار پر آکر رُک گیا اور اس میں بھی ہزار بارہ سو کی میری مدد ہے.مجھے بعض دفعہ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ رقم آپ کو بھیج رہے ہیں جہاں چاہیں دے دیں تو میں نے پچھلے سال یہ طریق رکھا کہ جو عورتوں کی طرف سے آمد ہوتی تھی اُس کے متعلق میں کہتا تھا کہ مسجد ہالینڈ میں اس کو داخل کر دو.اس طرح بھی کچھ رقم آگئی.میں عورتوں کو اس میں حصہ لینے کے لئے پہلے اس لئے زور نہیں دیتا تھا کہ عورتوں نے ہمت کر کے سب سے پہلے اپنا ہال بنوایا ہے ابھی تک مرد بھی اس ہال سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور شوری کی مجلس بھی اسی ہال میں منعقد ہوتی ہے.مردوں کو ابھی توفیق نہیں ملی کہ وہ اپنا ہال بنوا سکیں.تو چونکہ اُس پر قریباً پچاس ہزار روپیہ خرچ ہوا اس لئے میں نے سمجھا کہ پہلے اُن کا یہ بوجھ اتر جائے.اب کوئی پانچ ہزار روپیہ کے قریب اس کا قرضہ رہ گیا ہے امید ہے وہ پانچ چھ مہینہ میں اُتار ڈالیں گی.پس اب وقت آگیا ہے کہ

Page 165

انوار العلوم جلد 24 130 متفرق امور میں مسجد کے لئے اُن میں تحریک کروں.اس وقت جیسا کہ میں نے بتایا ہے باون ہزار روپیہ کے قریب چندہ آیا ہے اور اندازہ یہ ہے کہ ایک لاکھ پندرہ ہزار روپیہ زمین اور مسجد اور مکان پر خرچ ہو گا.اس وقت تک تیس ہزار روپیہ پر زمین خریدی گئی ہے باقی کوئی پچاسی ہزار مکان اور کچھ فرنشنگ پر خرچ ہو گا.جو ہمارے پاس اندازہ آیا ہے وہ ستر ہزار ہے.لیکن ساتھ ہی یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ گورنمنٹ اس کی اجازت نہیں دے رہی.وہ کہتے ہیں یہ مکان اُس شان کا نہیں ہے جس شان کا علاقہ ہے اس سے ہم بڑا بنوانا چاہتے ہیں.بہر حال وہ بحث شروع ہے.اِسی طرح جب مکان بن جائے گا تو اس کے لئے کچھ سامان وغیرہ بھی چاہئے.اگر گورنمنٹ کی زیادتی کے بعد ستر کی بجائے اسی سمجھ لیا جائے اور پانچ ہزار روپیہ فرنیچر کے لئے سمجھ لیا جائے تو پچاسی ہزار ہو گیا.تیس ہزار مل کر ایک لاکھ پندرہ ہزار ہو جائے گا.اس میں سے باون ہزار آچکا ہے اور تریسٹھ ہزار باقی ہے.اس تریسٹھ ہزار کے لئے اب میں عورتوں میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ ہمت کر کے جلد سے جلد اس تریسٹھ ہزار کو پورا کرنے کی کوشش کریں.اُن سے امید تو یہی ہے کہ سال ڈیڑھ سال میں وہ انشاء اللہ اس کو پورا کر لیں گی.آخر انہوں نے لجنہ کا چندہ بھی ڈیڑھ سال کے قریب کیا اور ساتھ اس کے مسجد کو بھی دیا.اور جب عورت کوئی ارادہ کر لیتی ہے تو بسا اوقات میں نے دیکھا ہے کہ عورت کا عزم جو ہے وہ مرد سے بڑھ جایا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کو ایسے ہی کاموں کے لئے بنایا ہے کہ وہ قربانی کرتی ہے اور قربانی کر کے مردوں کے لئے نمونہ دکھاتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یعنی اُن کو جدا کر کے مکہ میں چھوڑ دیا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ابراہیم کو حکم ملا تھا اور انہوں نے اپنی مرضی سے یہ کیا لیکن ہاجرہ کو جو اس وقت قربانی کرنی پڑی میں سمجھتا ہوں وہ ابراہیم سے بعض لحاظ سے زیادہ تھی.کیونکہ حضرت ابراہیم اس بچے کی تکلیف نہ دیکھنے کے خیال سے وہاں سے چلے گئے.لیکن ہاجرہ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے اکلوتے بیٹے کو تڑپتے دیکھا اور پھر بھی خدا تعالیٰ کی مشیت پر صبر کیا اور ہاجرہ ہی کی دعا تھی جس پر

Page 166

131 انوار العلوم جلد 24 اللہ تعالیٰ نے فرشتہ بھیجا.اور فرشتہ نے ہاجرہ کو آواز دی اور کہا کہ جاؤ تمہارے بیٹے کے لئے خدا تعالیٰ نے پانی نکال دیا ہے.تو عورت کو جہاں شریعت نے ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ کئی باتوں میں وہ کمزور ہوتی ہے، اُسکی طاقت بوجھ اٹھانے کی یا لڑائیوں میں کوئی بڑا کام کرنے کی اتنی نہیں جتنی مرد کی ہوتی ہے لیکن جس رنگ میں وہ متواتر اور مستقل طور پر بوجھ اٹھا سکتی ہے وہ مرد میں کم ہوتی ہے اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ وہ اپنی اِس مسجد کو مکمل کرنے کے لئے جلد سے جلد چندہ پورا کریں گی اور اس عرصہ میں ہم کوشش کریں گے کہ روپیہ کہیں سے قرض لے کر مسجد بنوا دیں.جیسے لجنہ کے لئے میں نے قرض کا انتظام کرادیا تھا لجنہ نے اپنا ہال بنایا پھر سال ڈیڑھ سال میں اتار دیا.کوئی پانچ ہزار روپیہ باقی ہے اس لئے میر اخیال ہے کہ جب گورنمنٹ سے نقشہ منظور ہو جائے (شاید تین چار مہینے اس پر لگیں گے ) اتنے عرصہ میں پچھلے روپیہ میں سے کوئی بائیس چوبیس ہزار روپیہ کے قریب باقی ہے.کوئی پانچ سات ہزار یا آٹھ دس ہزار روپیہ اور آجائے گا اور ہم باقی رقم قرضہ لے کے اُن کو دے دیں گے پچاس ہزار کے قریب.اور ان کو کہیں گے کہ مکان شروع کر دیں بن گیا تو پھر آہستہ آہستہ عورتیں اتار دیں گی.ا مردوں میں میں نے یہ کمزوری دیکھی ہے (مردوں میں جو تحریک ہوئی ہے اگر انہوں نے پہلے پوری کر دی تو ) آج تک انہوں نے کبھی اس رقم کو پورا نہیں کیا.مثلاً جلسہ سالانہ کا چندہ ہوتا ہے جلسہ سالانہ سے پہلے جو جماعتیں دے دیں پیچھے وہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ قرضہ ہی چلا جاتا ہے لیکن یہ عورتوں کی ہی مثال ہے کہ میں نے قرض لے کے اُن کا ہال بنوادیا اور وہ رقم اس وقت تک باقاعدہ ادا کرتی رہیں اب صرف پانچ ہزار روپیہ باقی ہے اور مجھے یقین ہے کہ جیسا کہ اُن کی پچھلی سنت اور طریقہ ہے وہ مردوں سے زیادہ ہمت کے ساتھ کام لیں گی اور اپنے قرضہ کو ادا کر دینگی.کم از کم ایک یا دو عورتوں دوسری بات جس کی طرف میں توجہ دلانا کو تعلیم دینے کا عہد کرو چاہتا ہوں یہ ہے کہ قادیان میں اور ربوہ میں عورتوں کی تعلیم مردوں سے ہمیشہ زیادہ رہی ہے.

Page 167

انوار العلوم جلد 24 132 قادیان میں کئی دفعہ میں نے عورتوں کی تعلیم کو سو فیصدی تک پہنچا دیا تھا یعنی سو کی سو عورت پڑھی ہوئی تھی لیکن مرد کبھی بھی اسی فیصدی سے اوپر نہیں جاسکے.زیادہ سے زیادہ وہ اسی تک گئے ہیں پھر گر گئے ہیں.اور عور تیں کئی دفعہ سو تک پہنچیں پھر اس میں گر گئیں کہ باہر سے اور عور تیں آگئیں.وہاں تو ہجرت ہوتی تھی یہاں بھی ہے تو باہر سے اور عور تیں آگئیں پھر سو نہ رہا.پھر کوشش کی پھر سو کر لیا پھر نیچے گریں.بہر حال مر دوں سے ہیں فیصدی وہ زیادہ تعلیم یافتہ رہی تھیں حالانکہ پاکستان میں عورتوں کی تعلیم مردوں سے نصف سے بھی کم ہے یعنی اگر مرد پندرہ فیصدی تعلیم یافتہ ہیں تو عورت ساڑھے سات فیصدی تک تعلیم یافتہ ہے.تور بوہ میں بھی یہی خدا تعالیٰ کے فضل سے حال ہے یہاں بھی عورتیں تعلیم کی طرف نمایاں راغب ہیں یعنی ایک بھی لڑکی ربوہ میں ایسی نہیں ملتی جو پڑھ نہ رہی ہو لیکن بیسیوں لڑکے ایسے مل جاتے ہیں جو نہیں پڑھ رہے اور اگر انہیں تعلیم کی طرف توجہ دلائی جائے تو ماں باپ لڑتے ہیں کہ ہمارے لڑکے کام کریں یا پڑھیں.ان کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک ملک کے کسی شخص سے متعلق مشہور ہے کہ وہ دھوپ میں بیٹھا ہوا تھا کہ پاس سے ایک شخص گزرا اور اُس نے کہا میاں! دھوپ میں کیوں بیٹھے ہو ؟ پاس ہی سایہ ہے وہاں بیٹھ رہو.وہ کہنے لگا اگر میں سایہ میں بیٹھ جاؤں تو مجھے کیا دو گے ؟ یہی ان لوگوں کا حال ہے.ہم کہتے ہیں پڑھو آخر تمہارے لئے ہی میں نے سکول جاری کئے ہیں ، استاد مقرر کئے ہیں اور ہر قسم کی سہولتیں ہمیں حاصل ہیں اور ماں باپ کہتے ہیں کہ یہ لڑکے ہمیں پڑھ کر کیا دیں گے ہم ان سے کام نہ لیں.چنانچہ ربوہ میں بیسیوں ایسے لڑکے مل جائیں گے جو ان پڑھ ہوں گے مگر کوئی لڑکی ایسی نہیں ملے گی جو پڑھتی نہ ہو بلکہ اب یہ ایک معمہ بن گیا ہے کہ جن گھروں میں عام طور پر کام کاج کے لئے لڑکیاں رکھی جاتی ہیں انہیں اب کام کروانے کے لئے کوئی لڑکی نہیں ملتی کیونکہ غریب سے غریب لڑکیاں بھی پڑھتی ہیں اور پھر وہ معمولی پڑھائی پر خوش نہیں ہوتیں بلکہ اُن کا اصرار ہوتا ہے کہ ہم نے انٹرنس تک پڑھنا ہے اور پھر کالج میں داخل ہونا ہے.

Page 168

انوار العلوم جلد 24 133 پس وہ پڑھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے خوب ترقی کر رہی ہیں.لیکن باہر کی جماعتوں میں یہ حال نہیں.اور سب سے بڑی خرابی یہ جو کالج کے کھلنے کے بعد ہم کو معلوم ہوئی کہ بعض نہایت مخلص گھرانے جن کی تیسری پشت احمدیت میں جارہی ہے اُن کی بیٹیاں یہاں پڑھنے کے لئے آئیں اور سورہ فاتحہ بھی نہیں پڑھ سکیں.نہ اُن کو نماز آتی تھی نہ اُن کو قرآن آتا تھا نہ عربی کا کوئی تلفظ آتا تھا.حیرت ہو گئی کہ خالی ربوہ نے کیا کر لینا ہے یا خالی قادیان نے کیا کر لینا ہے.جماعت میں جب تک ہر جگہ پر تعلیم نہیں پائی جاتی، جب تک ساری جماعت کی عورتیں جو ہیں وہ دین سے واقف نہیں ہوتیں تو ان قادیان یار بوہ کی تعلیم یافتہ عورتوں سے بن کیا سکتا ہے.تو میں نے اس حالت کو دیکھ کر یہ ارادہ کیا ہوا تھا کہ اس جلسہ پر بلکہ میرا ایک یہ بھی محرک تھا کہ میں عورتوں میں تحریک کروں.ایک چندہ اور ایک یہ کہ تم باہر کی بھی اصلاح کی کوشش کرو اور یہ کام بغیر ایک سکیم بنانے کے نہیں ہو سکتا.یہاں تو جو چیز ہمارے سامنے ہوتی ہے ہم اُسکی نگرانی کر لیتے ہیں کچھ یہ ہے کہ میرے وعظوں سے، خطبوں سے، ارد گرد کے محلہ کی دوسری لڑکیوں کو دیکھ کر وہ تعلیم پارہی ہیں.کچھ ہم اُن کی اس طرح بھی امداد کرتے ہیں کہ لڑکیاں جو ہیں اُن کی فیسیں معاف ہو رہی ہیں، اُن کو کتابیں مل رہی ہیں.اگر وہ درخواست امداد کی دیویں اپنی پڑھائی وغیرہ کے لئے.تو جہاں تک مجھ سے ہو سکے جو فنڈ میرے ہاتھ میں ہوتا ہے میں اُس سے کوشش کرتا ہوں کہ لڑکیوں کو امداد ملتی چلی جائے اور اُن کا اسطرف میلان زیادہ ہو تا چلا جاتا ہے اور رغبت زیادہ ہوتی جاتی ہے باہر یہ بات نہیں.تو باہر تعلیم کو رائج کرنے کے لئے تین چار ترکیبیں کرنی پڑیں گی.پہلے تو یہ کہ جو مرد ہیں پہلا قدم مردوں کے لئے اٹھانا ضروری ہوتا ہے وہ اس کام میں لجنہ کے ساتھ مل کر ایسا انتظام کریں کہ ہر لڑکی جو ہے وہ پڑھی ہوئی ہو.ہر جگہ کی جماعتیں اس کا انتظام کریں کہ لڑکیوں کی تعلیم کی طرف توجہ کی جائے.تعلیم سے کیا مراد ہے اور اس کے لئے یہ مد نظر رکھا جائے کہ تعلیم کے لئے یہ ضروری نہیں ہے کہ با قاعدہ مدرسی تعلیم اُن کو آتی ہو

Page 169

134 انوار العلوم جلد 24 بلکہ صرف اتنا ضروری ہے کہ اُن کو اردو پڑھنا اور اردو لکھنا اور قرآن شریف پڑھنا آجائے.یہ دو باتیں جو ہیں ان کے لئے کسی خاص سکول کی ضرورت نہیں.پرائیویٹ کلاسز بھی ایسی ہو سکتی ہیں.اور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ہر عورت اپنے دل میں یہ عہد کرلے کہ میں نے اپنے وطن میں جاکر ایک یا دو لڑکیوں کو ضرور پڑھا دینا ہے.میرا اندازہ ہے کہ ہمارے اس وقت جلسہ گاہ میں جیسا کہ عام سالوں میں ہوتا ہے سات آٹھ ہزار یا نو ہزار عورت ہو گی تو سات آٹھ ہزار یا نو ہزار عورتوں سے دو تین ہزار ربوہ کی ہو گی پانچ چھ ہزار عورت باہر کی آئی ہوئی ہے اگر ان میں سے ہر عورت یہ عہد کر لیوے کہ میں واپس جا کر اور باقی ارد گرد جو احمدی ہیں اُن کی مستورات یا لڑکیاں کوئی ہوں دونوں کی تعلیم ضروری ہے اُن کو اردو لکھنا اور پڑھنا سکھا دوں گی تو اگر وہ دو دو کو پڑھنا سکھائیں تو میں سمجھتا ہوں تین چار سال میں ہم سارے ملک میں عورتوں کی تعلیم پیدا کر سکتے ہیں.گورنمنٹ نے ووٹ کے لئے اب تو نہیں پتہ کیا شرط ہے مگر پہلے پری پارٹیشن (Prepartition) انگریزوں کے زمانہ میں تو یہ تھا کہ جو عورت اپنا نام لکھ لیوے اُس کو کہتے تھے تعلیم یافتہ ہے.تو اگر ایک عورت اردو پڑھ سکتی ہو اور نام بھی لکھنا جانتی ہو تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ پھر وہ دین سے بھی واقف ہو سکے گی اور سلسلہ کا اخبار بھی پڑھ سکے گی.میں نے دیکھا ہے کہ جن لڑکیوں کو پڑھنا آتا ہے وہ تو چھوٹی چھوٹی تعلیم والی ایسی اخباروں کے پیچھے پڑتی ہیں کہ حیرت آتی ہے.ہمارے گھر میں بعض لڑکیاں جو ملازمہ وغیرہ ہیں یا ملازمات کی لڑکیاں ہیں اُن سے ہمارے لئے اخبار چھپانا مشکل ہو جاتا ہے.ادھر ”المصلح» آیا اور اُدھر غائب.کیا ہوا کہ فلاں لڑکی اٹھا کر لے گئی ہے بس وہ بیٹھ کر پڑھتی رہتی ہیں اُن کو ایک عجوبہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیا چیز ہے اور ہمیں پتہ لگ رہا ہے اور مائیں جو ہیں وہ اُن کے اوپر لٹو ہوئی چلی جاتی ہیں.لڑکوں کی تعلیم پر جہال میں یہاں تک حالت ہے کہ سیالکوٹ کے ایک دوست مجھے ملنے کے لئے آئے.پچھلے سال کی بات ہے کہنے لگے سیالکوٹ سے آیا ہوں.میں نے کہا بہت اچھا.پھر کہنے لگے آپ نے مجھے پہچانا نہیں ؟ میں نے کہا میں نے نہیں پہچانا.کہنے لگے

Page 170

انوار العلوم جلد 24 135 متفرق امور میں عبد الکریم کا باپ ہوں.اگر مولوی عبد الکریم کے باپ ہوتے تو بات بھی تھی میں سمجھ جاتا پر کسی عبد الکریم کا باپ مجھے کیا پتہ ہے.کوئی سینکڑوں ہزاروں عبد الکریم کے باپ ہیں.پھر چہرہ دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ نے مجھے نہیں پہچانا؟ میں نے کہا نہیں.کہنے لگے میں عبد الکریم کا باپ ہوں جو ساتویں جماعت میں پڑھتا ہے خیر پھر تو پہچانا.میں نے کہا اب تو میں نے ایسا پہچانا ہے کہ ساری عمر یاد رکھوں گا جس کے ساتویں جماعت پڑھنے والے باپ کی بھی ایسی شان ہو گی کہ اب اس کو ہر ایک کو پہچاننا چاہئے تو بھلا مجال ہے ہماری کہ ہم بھول جائیں.تو لڑ کے بھی اگر ساتویں میں اتنی عزت دے دیتے ہیں تو سمجھو عور تیں ساتویں میں تو پھر کیا چار چاند لگا دیں گی.جس وقت قاعدہ ہی پکڑ کر ماں کے سامنے بیٹھتی ہیں.جو ماں نہیں پڑھی ہوئی تو وہ تو یہ سمجھتی ہے کہ میری بیٹی اتنی بڑی عالمہ فاضلہ ہو گئی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا.تو بہت تھوڑی سی کوشش کے ساتھ اس میں تغیر پیدا کیا جاسکتا ہے اور چونکہ اُن کے اندر نئی روح ہو گی، نئی تعلیم ہو گی اس لئے وہ خود بخود پیچھے پڑ کر کتابیں پڑھا کریں گی اور کتابیں پڑھ کے آپ ہی آپ اُن کے علم کی ترقی ہوتی چلی جائے گی.تو میں دوسری تحریک اُن میں یہ کرتا ہوں کہ وہ تعلیم کو رائج کریں اور ہر ایک پڑھی ہوئی عورت یہاں سے یہ عہد کر کے جائے کہ میں اگلے سال کم سے کم دو عورتوں یا لڑکیوں کو پڑھا دونگی.اور جو ہیں جماعت والے مردوہ یہ عہد کر کے جائیں کہ کسی نہ کسی تعلیم یافتہ عورت کو نیکی کی تحریک کر کے اس سکیم کو جاری کرنے کی کوشش کریں گے.جماعت والے مثلاً قاعدے خرید دیویں یا اس قسم کی مدد دیویں جو غرباء کے لئے تعلیمی سہولت پیدا کرنے والی ہو.اور پھر با قاعدہ سکول کی ضرورت نہیں صرف آدھا گھنٹہ اگر لڑکیاں اکٹھی ہو کر پڑھنا شروع کر دیں تو ایک سال میں وہ کہیں کی کہیں پہنچ جائیں گی.ہاتھ سے کام کر کے زائد آمدنی پیدا کرو تیسری بات میں عورتوں کہنی چا ہتا ہوں (مردوں کو تو میں یہ کہونگا لیکن اپنے وقت پر) عورتوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب وہ

Page 171

انوار العلوم جلد 24 136 ایک فیصلہ کر لیں.ایک نیا نظام میں کرنا چاہتا ہوں.جیسے تحریک جدید کا نظام تھا اور اب وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مستقل ہو جائے گا اس کا میں آئندہ ذکر کروں گا لیکن اِس طرح میں سمجھتا ہوں کہ ایک نئے نظام کی ہم کو ضرورت ہے.تحریک جدید کی اشاعت کے وقت میں میں نے جو شرطیں رکھی تھیں علاوہ چندہ کے ان میں وہ شامل تھا لیکن اُس وقت ہم نے خصوصیت کے ساتھ اس کو آگے نہیں کیا تھا اب میں اس کو آگے کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص اپنے ہاتھ سے کچھ کام کر کے علاوہ اس پیشہ کے جو اُس کا ہے کوئی رقم مہینہ میں پیدا کرے.اگر وہ غریب ہے تو اُس کا کچھ حصہ چندہ میں دے دیوے اگر امیر ہے تو اس کا سارا حصہ دے دے.مثلاً ایک شخص ڈاکٹر ہے وہ اپنی ڈاکٹری کی کمائی سے جو کچھ دیتا ہے یہ قاعدہ اس پر حاوی نہیں ہو گا بلکہ ڈاکٹری کے علاوہ کوئی ہاتھ کا پیشہ وہ اختیار کر کے اس کی آمدن پیدا کرے.جیسے گاندھی جی نے مثلاً یہ کیا تھا کہ چرخہ ایجاد کیا وہ آپ چرخہ کا تا کرتے تھے اور اس طرح انہوں نے سب کو تحریک کر دی کہ چرخہ کا تو.اور چرخہ کات کے جو میرے پاس لائے میں اصل کانگرس کا چندہ اُس شوت کو سمجھو نگا جو تم کات کے لاتے ہو.ابھی ہم چرخہ کاتنے کی شرط نہیں کرتے لیکن ہم کہتے ہیں کہ کوئی کام کر لو.مثلاً ایک لکھا پڑھا آدمی ہے وہ یہی کرلے کہ کسی دن جاکے محلے میں بیٹھ جائے اور کہے پیسہ پیسہ میں خط کسی نے لکھوانا ہے تو پیسہ پیسہ مجھے دیتے جاؤ اور خط لکھوالو وہی پیسے جمع کئے اور کہا جی ! علاوہ میرے چندہ کی آمدن کے یہ میرے ہاتھ کی کمائی کے ہیں.لیا اور نگزیب کے متعلق مشہور ہے اسی طرح اور کئی بادشاہوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ہاتھ سے قرآن لکھ کے بیچا کرتے تھے اور ہمارے اچھے اچھے پڑھے لکھے عالم فاضل جاہل جو ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اور نگ زیب اُسکی روٹی کھاتا تھا حالانکہ اس کی تصویریں دیکھتے ہیں کہ دو دو تین لاکھ کا ہار اُس نے پہنا ہوا ہے اگر وہ اسکی روٹی کھاتا تھا تو ہار کیوں یہ خزانے سے لیتا تھا.جو شخص روٹی کھانی حرام سمجھتا تھا خزانے کی وہ ہار اور کپڑے کہاں سے لیتا تھا.ریشمی کپڑے بھی پہنے ہوتے ہیں، اعلیٰ درجہ کے قیمتی گھوڑے بھی ہیں اور

Page 172

انوار العلوم جلد 24 137 متفرق امور سمجھ یہ رہے ہیں کہ قرآن بیچ کر وہ گزارہ کیا کرتا تھا.قرآن اُس نے ساری عمر مثلاً سات یا آٹھ ، دس یا میں لکھے تھے ان سے ساری عمر اس نے گزارہ بھی کیا اور ان میں گھوڑے بھی خریدے اور اس نے موتی بھی خریدے اور کھانا بھی کھایا اور خاندان کو بھی کھلایا.یہ پاگلوں والی بات ہے.لیکن اچھے معقول آدمی یہ کہتے ہیں.حالانکہ بات یہ ہے کہ ہمارے پرانے زمانہ میں یہ نصیحت کی جاتی تھی کہ انسان کو اپنے اس پیشہ کے علاوہ جو اُس کا پروفیشن ہے اپنے ہاتھ کی کچھ کمائی بھی پیدا کرنی چاہئے تاکہ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ اُس کا جوڑ رہے.تو اس لئے کرتے تھے یہ نہیں کہ وہ اس سے گزارہ کرتے تھے.پھر جو آیا اُس کی کوئی چیز لے کر کسی غریب کو دے دی.ہمارے بڑے بڑے بزرگ اور صوفیاء کے متعلق آتا ہے کہ کوئی رسی بٹتا تھا.کوئی دوسرے کام کر تا تھا یہ مطلب نہیں کہ وہ اسی سے گزارے کرتے تھے بلکہ اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی پیشہ اپنا ایسا رکھنا چاہتے تھے ہاتھ کا جس کی وجہ سے غریب اور امیر کا امتیاز مٹتا چلا جائے.تو عورتوں میں میں یہ تحریک کرتا ہوں اور لجنہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ اس پر غور کر کے سب سے پہلے تو وہ قادیان میں شروع کرے دوبارہ فرمایا ربوہ میں شروع کرے) قادیان میں کیوں نہیں؟ قادیان میں بھی جانا ہے.تو ربوہ میں کریں، قادیان میں کریں.اور اس کے بعد پھر اس کا انتظام کریں کہ ایک ایک گاؤں دو دو گاؤں تقسیم کر کے پھر وہاں جائیں اور وہاں جاکے وہاں کی عورتوں کو ٹرینڈ کر کے اُن کو کسی کام پر لگائیں.عورتوں کے لئے بڑے اچھے کام جو ہوتے ہیں جو بڑی آسانی سے کئے جاسکتے ہیں وہ یہی ہیں سوت کا تنا.پر اندے بنانا.ازار بند بنانا.چھوٹی دریاں بنانا.قالین بنانا.یہ ایسے کام ہیں.قالین تو ہمارے قادیان میں میرے پاس ہوا کرتی تھی اور اکثر ملاقاتیں دوست اس کے اوپر کیا کرتے تھے وہ ایک نابینا عورت نے مجھے اپنے ہاتھ سے بنا کر دی تھی.وہ نابینا تھی لیکن خوب خانے بھی بنے ہوئے تھے اور رنگ بھی دیئے ہوئے تھے.تو قالین ایک نابینا بنا سکتا ہے تو دوسرے لوگ کیوں نہیں بنا سکتے.ایسے ہی اور کئی کام نکل سکتے ہیں لیکن ہاتھ سے کر کے.اس سے کمائی بھی کی جاسکتی ہے.مثلاً یہی ہے جیسے

Page 173

انوار العلوم جلد 24 138 مر مرے بنانے ہیں.سٹو بنانے ہیں اس قسم کی چیزیں بنا کر بچوں کو دیں.پھر ہمسایہ میں کہہ دیا کہ بھئی! تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو ستو ہم سے خرید لینا اور وہ ہم نے خدا کے نام پر دینے ہیں تو اس طرز پر کام کی عادت ڈالی جائے.علاوہ اس چندہ کے جو اُن کو گھر کی آمد سے خاوند کی طرف سے ملتا ہے یا باپ کی طرف سے ملتا ہے کچھ نہ کچھ چندہ چاہے وہ کتنا ہی قلیل شروع میں ہو ، چاہے سال میں پیسے ہی دے لیکن اپنے ہاتھ کی محنت.کیا ہوا وہ دیں.چاہے وہ کسی نواب کی بیٹی ہو، چاہے وہ کسی رئیس کی بیٹی ہو چاہے وہ کسی ڈاکٹر کی بیٹی ہو ، چاہے کسی بیر سٹر کی بیٹی ہو چاہے، کسی بڑے سرکاری افسر کی بیٹی ہو ہاتھ کی محنت کی کمائی چاہے چکی پیس کے وہ کہے کہ جی! میں نے سیر چکی پیسی تھی اپنے ہمسایہ کی.لو میں یہ آنہ دیتی ہوں نتیجہ اِس کا یہ ہو گا کہ کام کی عادت بھی ان میں پیدا ہو جائے کی اور یہ جو غریب امیر کا امتیاز ہے یہ بھی کم ہو جائے گا.میری پہلی تقریر 1934ء میں جو ہوئی ہے اُس میں میں نے یہ مضمون رکھا ہوا تھا لیکن اب اس پہلے دور کے ختم ہونے کے اوپر میں آج پھر اس کو لیتا ہوں کہ اس چیز کو ہم انشاء اللہ تعالیٰ جماعت میں رائج کریں گے اور سب سے پہلا حق عورتوں کا ہے کہ وہ اس کو شروع کریں.ربوہ کی زمین اب میں مردوں کو مخاطب ہو کے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ربوہ میں 325 کنال کے قریب زمین باقی ہے.340 کنال انہوں نے لکھی ہے لیکن انجمن زور دے رہی ہے کہ کچھ زمین اس کو الگ کر دی جائے تا کہ یہ لنگر وغیرہ جو بنتے ہیں ان کے لئے مختلف محلوں میں وہ محفوظ رہے.اس جگہ پر وہ پکی بیر کیں بنالیں گے تاکہ آئندہ بارش وغیرہ میں وہ کام خراب نہ ہوا کرے.اس کے لئے پندرہ کنال.وہ تو چالیس مانگ رہے تھے لیکن میرے نزدیک یہ غلط ہے چالیس بہت زیادہ ہے.یہاں کی زمین کی قیمت کے متعلق پچھلے سال ہم نے تین ہزار روپیہ کنال کا اعلان کیا تھا اور بڑی کثرت سے لوگوں کی درخواستیں آگئی تھیں مگر پھر مجھے جب یہ پتہ لگا ( یعنی کیا تھا کمیٹی ربوہ نے.مجھے پتہ لگا تو میں نے کہا اتنی قیمتیں میں بڑھانے کی اجازت نہیں دے سکتا.

Page 174

انوار العلوم جلد 24 139 پھر جو اچھی سے اچھی جگہ تھی اُس کی قیمت دو ہزار کی گئی باقی پندرہ سو ہزار پر لائی گئی.اور ساتھ ہی اور بھی میں نے کہا کہ آئندہ یہ رکھو کہ کچھ عرصہ مدت مقرر کر کے تحریک کی تحریک بھی ہوتی ہے اور لوگوں کو رعائت بھی مل جاتی ہے یہ اعلان کر دو کہ مثلاً اتنے عرصہ میں جو قیمت دیدے اُس کو ہم مثلاً دس فیصدی کمیشن دے دیں گے.اب انہوں نے 340 کنال کے متعلق کیا ہے ہمارے پاس اتنی زمین باقی ہے میں نے کہا ہے کہ پندرہ کنال کے قریب ہم دوسری ضروریات کے لئے رکھ لیں گے.میری اپنی رائے میں تو آٹھ کنال زیادہ سے زیادہ کافی ہے لنگر خانہ وغیرہ کے لئے.چار کنال ایک جگہ پر.اور دو دو کنال دوسری جگہ پر لیکن باقی سکول و غیرہ کے لئے بھی ضرور تیں ہوتی ہیں 15کنال میرے نزدیک ہم کو فارغ رکھنی چاہئے باقی 325 رہ گئی قیمت اس وقت غالباً دو ہزار پندرہ سویا ہزار ہے.“ فرمایا:- اس موقع پر حضور نے دفتر والوں سے دریافت فرمایا تو ان کے جواب پر ارشاد پندرہ سو ہزار اور ساڑھے سات سو ہے یعنی پچھلے سال سے نصف کر دی گئی ہے اور اس کے لئے بھی وہ یہ لکھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص 31 مارچ تک رقم ادا کر دے تو ہم دس فیصدی اُس کو ری بیٹ 1 (REBATE) دے دیں گے مثلاً پندرہ سو روپیہ پر وہ خرید تا ہے اگر وہ اس مارچ تک دے دے گا تو اس کو ساڑھے تیرہ سو میں ہم دے دیں گے.اگر ہزار روپیہ میں ایک ٹکڑہ خریدتا ہے تو اُس کو 31 مارچ تک اگر وہ قیمت ادا کر دے تو ہم اُس کو 9سو میں دے دیں گے.اگر ساڑھے سات سو میں وہ خریدتا ہے تو اس کو ہم پونے سات سو میں دے دیں گے اگر وہ 31 کو دیدے.میں اس کے ساتھ ایک زائد بات بھی کر دیتا ہوں کہ وہ اسکے ساتھ یہ بھی رعایت کر دیں کہ 31 مارچ تک جتنی رقم وہ دیدے بھی وہ ری بیٹ دے دیں مثلاً پندرہ سو والے نے 31 مارچ تک ہزار دے دیا500 رہ گیا تو ہزار پر تو سو روپیہ ری بیٹ اُس کو دے دیں باقی پانچ سو اپنا پورا وصول کر لیں.اس طرح کر کے اُن کو زیادہ سے زیادہ ادا کرنے کی بھی ہمت ہو گی اور ساتھ اسکے اُس پر

Page 175

140 انوار العلوم جلد 24 وہ ادا کرنے میں جو قربانی کریں گے اس کا ان کو فائدہ بھی پہنچ جائے گا.اگر وہ500 ادا کریں گے تو پچاس روپے بچ جائیں اگر ہزار ادا کریں گے تو سو روپیہ بچ جائے گا.اگر دوسو ادا کریں گے تو ہمیں روپے بچ جائیں گے.تین سو ادا کریں گے تو تیس روپے بچ جائیں گے.تو 31 مارچ تک جور قم وصول ہو خواہ وہ ساری نہ ہو اتنے حصہ پر ری بیٹ پھر بھی وہ دے دیں تاکہ اُن کی اس قربانی اور محنت کا نتیجہ کچھ نکلے.تو جو دوست یہاں ربوہ میں مکان بنوانا چاہتے ہیں یا زمین لینا چاہتے ہیں اُن کو معلوم ہو جائے کہ اب ربوہ میں صرف 325 کنال زمین باقی ہے اور اس کی قیمت بھی پچھلے سال سے قریباً آدھی کر دی گئی ہے اور پھر اس کے ساتھ ری بیٹ بھی رکھ دیا گیا ہے اس لئے یہ سہولت ہے اگر وہ نہ لیں گے تو مجھے پتہ ہے کہ پیچھے لوگوں نے تین تین ہزار روپیہ کنال یہاں خریدی ہے اور میں نے سختی کر کے بیچ میں دخل دیا تو پھر دو دو ہزار تک تو ہمیں بھی ماننا پڑا کہ دو ہزار روپیہ تک زمین دے دو حالا نکہ انہوں نے ساڑھے سات سو کو زمین خریدی تھی بلکہ بعض تو ایسے تھے کہ انہوں نے سو کو خریدی اور دوہزار کو بیچی.کیونکہ ہم نے اجازت دے دی تھی کہ دوہزار تک آدمی بیچ سکتا ہے اس سے زیادہ لوگوں پر سختی ہو جائیگی اور ربوہ کی آبادی میں دقت ہو جائیگی.پس یہی قیمتیں جو آج دو گے کسی وقت میں بہت چڑھ جائیں گی.شہر نے آخر بڑھنا ہے اور پھر یہاں تو ساتھ اس کے تبرک بھی ہے، دین کی خدمت بھی ہے، دین کی باتیں سننے کے مواقع بھی ہیں اور دین کے لئے اکٹھے بیٹھنے کے مواقع بھی ہیں گویا شہر کا شہر بھی ہے اور امن بھی ہے باہر تو یہ باتیں نصیب نہیں.لیکن باہر جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو یہ تو لازمی بات ہے کہ یہاں بھی بڑھ جائے گی.قادیان گو شہر کے لحاظ سے چھوٹا سا تھا لیکن بیس بیس ہزار روپیہ کنال تو خود ہم نے خریدی ہے حالانکہ ہم مالک بھی تھے.بیچتے بھی تھے لیکن میں ہزار روپیہ کنال تک بھی بعض چھوٹے ٹکڑے ہم کو لینے پڑے اور ہمیں ہزار روپیہ کنال کے حساب سے ہمیں دینے پڑے حالانکہ بڑے بڑے شہروں میں بلکہ لاہور جیسے شہر میں بھی بڑی بڑی خاص جگہوں پر ہمیں ہزار روپیہ پر زمین بکتی ہے ورنہ وہاں بھی چار پانچ بلکہ دس ہزار روپیہ

Page 176

انوار العلوم جلد 24 141 پر زمین مل جاتی ہے.پس یہ قیمتیں پیچھے بڑھیں گی اور کرائے تو اب بھی اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ مجھے تو ظلم ہی نظر آتا ہے.تین چار کمرے کا مکان ہوتا ہے اور کہتے ہیں ساٹھ روپے، ستر روپے ، اسی روپے کرایہ ہے.اور پھر اور زیادہ ظلم یہ ہے کہ میرے پاس بعض لوگوں نے یہ شکایت کی ہے کہ ہم اپنے بچے یہاں رکھنا چاہتے ہیں.تیں پنتھیں مکان خالی پڑے ہیں ہم گئے ہیں اُن کی منتیں کی ہیں کہ ہم کو کسی کرایہ پر دے دو مگر کہتے ہیں دینا نہیں.اگر ہم کو کوئی مشکل پیش آئی اور ہمیں یہاں آنا پڑا تو کیا کریں گے مکان ہم نہیں دیتے.تو کرایہ کے لحاظ سے بھی یہ بڑی آمد والی چیز ہے اور اگر آئندہ فروخت ہو تو اس میں بھی بڑی آمدن ہے.کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے مثلاً دوسو یا تین سو کو ٹکڑہ خرید ا تھا اور پھر اُن کے اوپر کچھ چندے بڑھ گئے یا یہ کہ وصیت کی تھی تو اب انہوں نے تین تین ہزار روپیہ میں انجمن کی معرفت بیچ کر اپنا ستائیس سو روپیہ کا قرضہ اتار دیا ہے حالانکہ انہوں نے دو سویا تین سو دے کر وہ ٹکڑہ خریدا تھا.پس میرے نزدیک یہ بہترین سودا اور مفید سودا ہے.مکان بنانے کے متعلق بھی ربوہ کمیٹی جو سختی کر رہی ہے اس کے متعلق میرے پاس شکائتیں آتی ہیں.انفرادی طور پر تو میں جواب دیتا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اجتماعی طور پر مجھے جماعت کو ہو شیار کر دینا چاہیے کہ اس میں میرے پاس لکھنا در حقیقت بیکار ہوتا ہے اصل بات یہ ہے کہ حکومت سے جب یہ زمین لی گئی ہے تو ان کو یہ کہا گیا تھا کہ مہاجرین بہت سارے ایسے ہیں کہ جن کے پاس جگہ نہیں اور وہ اپنا ٹھکانہ بنانے کے لئے یہاں مکان بنانا چاہتے ہیں.یہ بھی کہہ دیا گیا تھا کہ چونکہ ہماری جماعت کا مرکز ہو گا.کالج ہونگے.سکول ہونگے کچھ دوسرے بھی آجائیں گے لیکن زیادہ تر مہاجرین مد نظر ہیں اور اُن کے لئے فوراًٹھکانے کی ضرورت ہے تو یہ اعتراض لوگ حکومت کے او پر کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے جھوٹ بولا تھا اگر فور اٹھکانے کی ضرورت تھی تو پھر یہ بناتے کیوں نہیں.چنانچہ کئی آنے بہانے سے بعض افسر رپورٹیں کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے وعدہ نہیں پورا کیا، زمین آباد نہیں ہوئی ان سے لے لی جائے تاکہ دوسرے

Page 177

142 انوار العلوم جلد 24 لوگ اِس میں آباد ہو سکیں.حالانکہ دوسروں نے اگر لینی تھی تو ہم سے پہلے کیوں نہ لے لی.اب تو اگر کوئی آباد ہوتا ہے تو ہمارے سکول کی وجہ سے ہوتا ہے ، ہمارے کالج کی وجہ سے ہوتا ہے ، ہمارے ہسپتال کی وجہ سے ہوتا ہے.لیکن بہر حال زبر دست کا ٹھینگا سر پر.جو طاقت والے ہوتے ہیں اُن کی بات زیادہ مؤثر ہو جاتی ہے اور ہمیشہ یہ مشکلات ہیں (خرید نے والی انجمن ہے صدرانجمن احمد یہ اور تحریک جدید.) اُن کے لئے پیش آتی رہتی ہیں اور حکام کی منتیں ترلے، اُن کی دھمکیاں سننی پڑتی ہیں.اس کے لئے وہ بھی مجبور ہو کے آپ کو نوٹس دیتے ہیں کہ جلدی مکان بنائیے تاکہ ہماری جان چھوٹے.جن دوستوں کو ان حالات کا علم نہیں وہ سمجھتے ہیں بیٹھے بیٹھے ربوہ میں ان کو جوش اٹھتا ہے ہماری حالت کو نہیں دیکھتے کہ ہمارے پاس روپیہ نہیں.ہم بنالیں گے ایک دو سال میں.وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کا سلسلہ کو بھی نقصان ہوتا ہے اور ان لوگوں کو الگ پریشانی ہوتی ہے.ہر افسر جو آتا ہے تو ان بیچاروں کو آگے پیچھے اُسکے دوڑنا پڑتا ہے کہ کسی طرح وہ رپورٹ خلاف نہ کر دے.تو ان حالات سے مجبور ہو کر وہ آپ کو کہہ رہے ہیں کہ مکان جلدی بنوائیے تاکہ اس میں آبادی ہو جائے اور لوگ جو خواہ مخواہ دق کرنے کے لئے اعتراض کرتے ہیں اور پھر افسروں کو بھی ستاتے ہیں، ہمیں بھی ستاتے ہیں اُن کا منہ بند ہو جائے.اور بھی کئی وجوہات ہیں مگر بڑی وجہ جو ہے وہ یہی ہے.اور پھر اقتصادی طور پر اگر شہر آباد نہیں ہو گا تو یہاں کے دوکاندار بھی نہیں بس سکتے، یہاں کے سکول بھی نہیں آباد ہو سکتے، کالج بھی نہیں آباد ہو سکتے.شہر کی آبادی کے ساتھ کالج اور سکول یہاں مضبوط ہو جائیں گے تو اداروں کی مضبوطی کے لئے بھی یہ ضروری ہے اور کالجوں کی مضبوطی کے لئے بھی ضروری ہے اور سلسلہ کے کام کے لئے بھی ضروری ہے اور پھر جس کام کے لئے میں نے زمین لی تھی اس شرط کے جلدی سے جلدی پورا کرنے کے لئے بھی ضروری ہے.گو ہم گورنمنٹ کو تو یہ جواب دیا کرتے ہیں کہ ہم ربوہ میں اکیلے بیٹھے ہوئے ہیں غریب آدمی، مہاجر.تم ہم پر یہ اعتراض کر رہے ہو.تو تم نے جو جو ہر آباد وغیرہ بنائے ہیں وہ تو اب تک اُجڑے پڑے ہیں کروڑ کر وڑ روپیہ سرکار نے اپنا خرچ کیا تو ان کو

Page 178

143 انوار العلوم جلد 24 بسا نہیں سکے تو ہم غریبوں نے تو تم سے تین گنے چار گنے زیادہ آباد کر لیا ہے لیکن منہ تو ہم بند کر دیتے ہیں ان کا مگر یہ کہ جب شور پڑے اور لوگ زور دینا شروع کریں تو پھر معقولیت بات کی نہیں رہا کرتی پھر تو یہی ہو جاتا ہے کہ جس کا ہاتھ زیادہ زور سے ہے وہی جیت جاتا ہے.چل سکتا جلسہ سالانہ پر ملاقاتوں کے ایک بات میں کہنا چاہتا ہوں ملاقاتوں کی نسبت.آج سے بیس پچیس سال پہلے میں نے سلسلہ میں ضروری ہدایات ملاقاتوں کے متعلق کچھ نصیحتیں کی تھیں.کچھ مدت تک اس پر خوب اچھا عمل ہوا اور ملاقاتیں بڑی اچھی ہو جاتی تھیں اور مفید ہوتی تھیں آہستہ آہستہ وہ اثر جانا شروع ہوا.کچھ تو یہ وجہ ہوئی کہ جن لوگوں کو نصیحت کی تھی اُن کے علاوہ بہت سارے لوگ آنے شروع ہوئے نئے احمدی.اُن کو یہ نصیحتیں معلوم نہیں تھیں.کچھ یہ ہوا کہ وہ جو ان جنہوں نے وہ نصیحتیں سنی تھیں اور اُن کے اندر جوش تھا اُن پر عمل کرنے کا، وہ اب ہو گئے بڑھے.اب بڑھاپے میں اُن کے اندر وہ جوش نہ رہا اُن پر عمل کرنے کا.کچھ یہ نقص ہوا کہ جو لوگ اُس وقت منتظم تھے وہ آج نہیں ہیں.آج دوسرے نوجوان ہیں انہوں نے وہ نصیحتیں نہیں سنی ہوئی.اور کچھ انسانی ضد اور ہٹ دھرمی ہوتی ہے کہ کئی باتیں تو سالہا سال سے میں منتظمین کو کہتا آتا ہوں پھر بھی وہ اِس کان سنتے ہیں اُس کان سے نکال دیتے ہیں اور پھر وہی کی وہی باتیں ہیں.پس میں پھر جماعت کے دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اس میں اُن کا بھی فائدہ ہے میرا بھی فائدہ ہے اور کئی رنگ کے روحانی فائدے ہیں.ایک تو میں نے یہ کہا تھا کہ جب جماعتیں ملنے آئیں تو اُن کا کوئی لیڈر ساتھ ہو جو ساروں کو پہچانتا ہو اور وہ ملاتے وقت اُن کا نام بھی بتاتا جائے.پہلے گاؤں کا نام بتائے پھر اس کے بعد اُس آدمی کا نام بتائے نتیجہ اِس کا یہ تھا کہ اُس زمانہ میں دو تین سال میں ہزاروں ہزار احمدی سے میں واقف ہو گیا تھا.وہ نام بتاتا تھا میں فوراً پہچان لیتا تھا کہ یہ وہ ہے.لیکن اب یہ ہوتا ہے کہ بیٹھنے والا صرف اس لئے بیٹھتا ہے کہ میں سامنے ذرا

Page 179

انوار العلوم جلد 24 144 وو دیر تک بیٹھار ہو نگا.اُس کا کوئی حق نہیں ہوتا نہ وہ جماعت کو جانتا ہے نہ کسی کا نام جانتا ہے اُس سے پوچھو تو کہتا ہے ” دسدے جان گے آپے ہی اس کی غرض صرف یہ ہوتی ہے کہ میں پاس بیٹھ جاؤں اور اس سے زیادہ کوئی کام کرنا اس کا مقصود نہیں ہو تا.اور جب نام پوچھو تو کہتا ہے یاد نہیں رہے.”آپے دسن گے “پھر وہ جو آتے ہیں تو اُن کو پیچھے سے ملاقات کرانے والا جیسے بیل کو مار مار کے ٹھکور کے آگے کرتے ہیں نا، وہ دھکے دے رہا ہوتا ہے اور وہ بیچارہ اسی میں غنیمت سمجھتا ہے کہ مصافحہ ہو گیا وہ بھاگتا ہے.اگر میں اُس کو پوچھ بھی لوں کہ تمہارا کیا نام ہے ؟ تو بیچارہ بعض دفعہ ایسا گھبرایا ہوا ہوتا ہے کہ میں کہتا ہوں آپ کا نام کیا ہے ؟ تو وہ کہتا ہے ” گوجر انوالہ“.کبھی میں کہتا ہوں آئے کہاں سے ہو ؟ تو کہتا ہے محمد دین.تو اس کی انہوں نے مت ماری ہوتی ہے.پیچھے سے دھکے دے رہے ہوتے ہیں نکل ، نکل، نکل.اگر وہ اِس صورت کے ساتھ ملنے کے لئے آویں اور وہ بیٹھنے والا ذمہ دار شخص اپنے فرض کو ادا کرے اور وہ بیٹھ کے کہے صاحب! یہ فلاں شخص ہیں.میری جماعت کے ہیں تو کتنا فائدہ ہو.آج صبح بھی اور شام کی ملاقات میں بھی میں نے دیکھا کہ اکثر بیٹھنے والے وہ تھے سوائے ایک جماعت کے یعنی سرحد کی جماعت کے اکثر پٹھانوں میں میں نے دیکھا ہے چونکہ سیاسی لوگ ہیں اس لئے وہ زیادہ ہوشیاری سے کام کرتے ہیں اُن کی جماعت کو ہمیشہ ہی میں نے دیکھا ہے یعنی کوئی تو بھول جاتا ہے آدمی.قاضی صاحب کی عمر میرے خیال میں شائد ستر سے بھی زیادہ ہو گی کیونکہ وہ مجھ سے بڑے ہوا کرتے تھے میری اب 65 کو پہنچ رہی ہے.میرے خیال میں ستر سے زیادہ ہی ہونگے.“ اس موقع پر بعض دوستوں نے بتایا کہ اُن کی عمر 75 سال کی ہے.فرمایا:- لیکن یہ کہ اب بھی اُن کا حافظہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑا اچھا چلتا ہے.میرے خیال میں کوئی نوے فیصدی آدمی کو وہ جانتے ہیں حالانکہ سارے صوبہ کی جماعت ہوتی ہے کہتے چلے جاتے ہیں اور پتہ لگتا چلا جاتا ہے.بعض میرے واقف ہوتے ہیں لیکن دفعہ شکل میں نہیں پہچانتا.اندھیرا ہوتا ہے.سایہ پڑتا ہے تو نام لیتے ہی میں پہچان

Page 180

انوار العلوم جلد 24 145 جاتا ہوں.اُس سے بات پوچھتا ہوں، کوئی حال پوچھتا ہوں اور واقفیت ہوتی جاتی ہے لیکن باقی ضلع جو ہیں میں نے دیکھا ہے اُن میں یہی چال چلتی ہے وہ آگے بیٹھ گئے اور اس کے بعد ملاقات کرنے والے چلنے شروع ہوئے.بیچارے کو کچھ دھکے پچھلے دے رہے ہیں کچھ اگلے دے رہے ہیں وہ اپنا بیٹھا ہے کہ میں تو بیٹھا دیکھ رہا ہوں اور باتیں کر رہا ہوں یہ جہنم میں جاتے ہیں تو جائیں.تو یہ بڑا غلط طریقہ ہے اس کے ساتھ ملاقات کا فائدہ کوئی نہیں ہوتا.اور یہ جو غرض ہے کہ وہ شخص واقف ہو جائے پوری نہیں ہو سکتی.مثلاً بعد میں اگر میر اواقف ہوتا ہے اور دعا کے لئے تحریک ہوتی ہے تو ناواقف کی نسبت واقف کے لئے دعا کی تحریک زیادہ ہوتی ہے.وہ جب کہہ جاتا ہے مجھے یاد آجاتا ہے مثلاً اس کی شکل یا مثلاً اُس نے کہا میرے اولاد نہیں ہوتی.میں نے اس سے حال بھی پوچھا کہ تمہاری شادی کب کی ہوئی ہوئی ہے ؟ تو اس نے کہا جی ہیں سال ہو گئے ہیں دوسری بھی شادی کی مگر اولاد نہیں ہوئی.اب یہ نقشہ میرے ذہن میں ہوتا ہے جب اُس کا نام میرے سامنے آتا ہے میں سمجھتا ہوں اس شخص کے بیس سال ہو گئے ہیں دو شادیاں بھی کیں پھر بھی اولاد نہیں ہوئی پس جو اس کے لئے درد پیدا ہوتا ہے دوسرے کے لئے نہیں.خالی یہ کہ وہ شخص آگیا جس کے میں حالات نہیں جانتا اس سے کیا فائدہ.میں بعض دفعہ سمجھتا ہوں خیر ہے دو سال ہوئے ہوں شادی پر اور گھبر ایا پھر رہا ہے تو کوئی تحریک بھی اس کے لئے دعا کی نہیں ہوتی یا سرسری دعا کی جاتی ہے.تو واقفیت حالات کے ساتھ دعا کی تحریک جو ہے وہ بہت زیادہ پیدا ہوتی ہے.تو اُس زمانہ میں یہ بڑا فائدہ اٹھایا جاتا تھا لیکن اب وہ بات بھول گئی ہے اور ایسا نہیں ہوتا.پس میں دوستوں کو اصرار کرتا ہوں کہ جب وہ آئیں تو اپنے لیڈر کو پہلے پکڑ لیویں کہ یا تو ہمارا نام بتاؤ نہیں تو ہم وہیں کہہ دیں گے کہ یہ ہمیں نہیں پہچانتا اس کو اٹھا دو تو ہم اس کو اٹھا دیں گے.مگر ہمارے لئے ذرا مشکل ہے کہ تم اس کو لیڈر بنا کے لاؤ، تم چپ کر رہو اور ہم کہیں کہ اٹھ جاؤ تو یہ ٹھیک نہیں لگتا.تم اپنے لیڈر کو پہلے کہہ کر لایا کرو کہ یاتو ہمیں پہچان اور ہمارا انٹر ڈیوس کروائیو.اگر نہیں پہچاننا اور نہیں انٹروڈیوس کرانا تو ہم نے وہاں کہہ دینا ہے کہ یہ آدمی ہمارا لیڈر

Page 181

انوار العلوم جلد 24 146 نہیں.پھر دیکھو کہ کس طرح سیدھے ہو جاتے ہیں.دوسرے یہ ہے کہ آتے وقت نوجوانوں کو بھی واقف کر دینا چاہئے.نئے نئے آدمی آتے ہیں کئی نئے احمدی آتے ہیں.بعض تو اُن میں سے بھی ایسے ذہین ہوتے ہیں کہ بغیر اس کے کہ پتہ ہو وہ خود اپنے آپ ہی ساری کیفیت بتادیتے ہیں کہ فلانی جگہ سے ہیں، نئے احمدی ہیں، ہماری یہ مشکلات ہیں، ہمارے بھائی بند مخالف ہیں.بعض عورتیں آج مجھے ملی ہیں بیعت کے وقت.انہوں نے مثلاً اپنا بتایا.ایک عورت نے مجھے کہا کہ میں وعدہ کر گئی تھی آپ سے کہ میں ایک آدمی کو بیعت کرواؤنگی.میں نے اپنی ماں کو بیعت کرایا ہے اور اپنے باقی سارے مبر کو کرایا ہے صرف میرا بھائی رہ گیا ہے میں وعدہ کرتی ہوں کہ اُس کو بھی بیعت کر اؤ نگی تو اُن میں بڑی بڑی ہوشیار اور ذہین ہوتی ہیں.کوئی وجہ نہیں ہے کہ مردوں میں وہ ذہانت نہ ہو لیکن صرف یہ ہے کہ قابل لیڈر نہیں بنائے جاتے.اسی طرح جو کام کرنے والے ہیں اُن کو میں نے بہت سمجھایا ہے لیکن وہ سنتے نہیں جب وہ ملواتے ہیں.عید کی ہمارے یہاں ملاقاتیں ہوتی تھیں تو اس میں بھی یہی غلطی کرتے تھے مگر وہ چونکہ بار بار میرے سامنے آتے ہیں.یہاں ربوہ کے رہنے والے ہوتے ہیں میں نے اُن کو سکھا لیا مگر یہ جو ملاقات والے ہیں یہ نہیں سیکھتے.ہر سال میں کہتا ہوں ملاقات کروانے والا میرے منہ کے آگے کھڑا ہوتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُس شخص کو جو اُس وقت میرے سامنے آتا ہے جس وقت اُس کی پیٹھ لیمپ کی طرف ہو چکتی ہے جب وہ اند ھیرے میں آجاتا ہے میں اُس کی شکل اچھی طرح نہیں دیکھ سکتا.اگر وہ ایک طرف کھڑا ہو کے ڈیڑھ گز پر ہٹ کے وہاں سے آوے تو اس گز کے اندر میں اس کی شکل بھی پہچان لوں گا اور اگر میں اس کو جانتا ہوں تب بھی پہچان لوں گا.تو بار بار سمجھانے کے باوجو د بس ایک فٹ پر آکے کھڑا ہو جائے گا آدمی اور آپ میرے منہ کے آگے کھڑ ا ہو جائے گا اور اُس کو یوں پکڑ کے سامنے کرے گا.جس وقت آگے کرے گا اندھیرا آجائے گا.اند ھیرا آ جائے گا تو مجھے نظر نہیں آئے گا.اور دوسرا آدمی پھر اُس کو دھکا دے کر باہر نکال دے گا.تو یہ بھی اُس فائدے اور غرض کو دور کر دیتا ہے.یہ تو

Page 182

انوار العلوم جلد 24 ہم سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی برکات ہیں.147 میں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تم دعا کے لئے اگر خط لکھو نہ بھی پہنچے مجھے تب بھی تمہارے لئے دعا ہو جائے گی کیونکہ دعا تو اللہ تعالیٰ سے میں نے کرنی ہے اللہ کو پتہ ہے کہ فلاں نے خط لکھا ہے.بیشک لوگ اسے غائب کر دیں.پچرانے والے پھر ایس تمہارے لئے دعا ہو جائے گی.اور پھر ہم یوں مجمل دعا ہی کرتے رہتے ہیں کہ الہی جو ہمیں دعا کے لیے لکھ رہا ہے یا لکھتا ہے یا جس نے لکھا ہے اُس کے اوپر تو فضل کر.تو وہ پھر اس کے اندر آہی جائے گا.تو اس طرح جو شخص ملتا ہے چاہے اُس کی شکل بھی ہم نہ پہچانیں.کچھ ہو دعا کا حصہ تو اسے مل جائے گا لیکن یہ کہ پورا حصہ لینا چاہئے اُس کو.وہ پورا نہیں دیا جاتا اُس کو.اس لئے ملنے والوں کو ہمیشہ ذرا فاصلے پر کھڑا ہونا چاہئے.حفاظت کے لئے ایسی احتیاط کی ضرورت نہیں ہوتی.ایسا کون آدمی ہے جس نے ہوا میں اڑ کے نقصان پہنچانا ہے ایک گز کا تو فاصلہ ہوتا ہے ایک گز میں انسان تیز قدم میں ایک گز سے آگے نکل جاتا ہے تو ملاقات کرانے والوں کو ذرا فاصلہ پر کھڑا ہونا چاہئے.ساتھ منہ کے نہیں کھڑا ہونا چاہئے اور ذرا پہلو سے ہٹ کے کھڑا ہونا چاہئے کوئی زیادہ دُور نہیں اگر ایک قدم بھی وہ ایک طرف ہٹ جائیں تو نتیجہ یہ ہو گا کہ تین گز سے وہ آدمی آتا ہوا مجھے نظر آجائے گا اِس لئے اُس کے منہ پر روشنی پڑ رہی ہو گی.اُس کی شکل میں پہچان لوں گا.اگر وہ پر انا واقف ہے تو میں اُس کو جان لوں گا لیکن یوں آتے ہی جس وقت میں اس کو بعض دفعہ پہچاننے لگتا ہوں تو اتنے میں وہ اُس کو گھسیٹتے ہوئے پر لے سرے پر پہنچادیتا ہے تو میرے ذہن میں جو بات ہوتی ہے وہ بیچ میں ہی رہ جاتی ہے اتنے میں دوسرا آدمی آچکا ہوتا ہے.اور بعض ا دفعہ تو ملاقات کرانے والے میں نے دیکھا ہے کہ نام جانتے بھی ہیں.مجھے بعض دفعہ ہنسی آجاتی ہے.آج بھی ایسا ہی ملاقات میں ہوا کہ ایک شخص کہنے لگا یہ فلاں صاحب ہیں اور وہ میں جانتا تھا وہ وہاں پہنچے ہوئے تھے.جس وقت انہوں نے بولنے کا ارادہ کیا اتنے میں ہمارے آدمیوں نے گھسیٹا اور تین گز پرے پھینک دیا.اس کے بعد اب دوسرا شخص کھڑا ہوا تھا اور اُس کو وہ کہہ رہے تھے یہ فلاں صاحب ہیں.میں چونکہ جانتا تھا اُس کو میں

Page 183

انوار العلوم جلد 24 148 مسکرا پڑا کہ فلاں صاحب تو وہ کھڑے ہوئے ہیں.لیکن بات یہی تھی کہ یہ لفظ زبان پر آتے آتے بیچارے کو بھینچ کر لے گئے اور وہ اس زور میں بول گئے یہ ساری باتیں دُور ہو جاتی ہیں اگر احتیاط کے ساتھ کام لیا جائے اور اس میں فوائد زیادہ ہوتے ہیں.جماعت سے جتنی واقفیت ہو جائے اتنا ہی انسان کام زیادہ اچھا کر سکتا ہے.باتوں باتوں میں ہم اُس کا کیریکٹر معلوم کر لیتے ہیں.ہم یہ جان لیتے ہیں کہ وہ کتنی قربانی کر سکتا ہے، کس قسم کی خدمت کر سکتا ہے.یہ چیزیں اگر ہم نا واقف ہوں تو ان سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.مسلمان ایک نہایت نازک چوتھی بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقت دور میں سے گزر رہے ہیں مسلمانوں کی حالت نہایت نازک ہے مسلمانوں پر یہ ایسا سخت دور گزر رہا ہے کہ در حقیقت اس شکل میں تین سو سال سے ایسا نازک دور نہیں آیا یعنی پہلے نزاکت یہ تھی کہ چوٹی سے وہ نیچے گر رہے تھے اور ہر دن وہ نیچے کی طرف گرتے چلے جاتے تھے.اُن کی حالت اس قسم کی تھی کہ وہ اپنے گرنے میں کچھ تکلیف نہیں محسوس کرتے تھے بلکہ وہ ایک دوسرے کے گرانے میں لذت محسوس کرتے تھے اور یہ خیال کرتے تھے کہ گویا اگر ہم نے اس کو مار دیا اور ہم مر گئے تو چلو پرائے شگون میں ناک کٹوالی کوئی حرج نہیں ہے اُس کو تو نقصان پہنچادیا ہے.اس لئے وہ دور تکلیف کا تو تھا مگر احساس کم تھا اس کے بعد اللہ تعالیٰ وہ دن لایا کہ جبکہ مسلمانوں کے اندر بیداری پیدا ہونی شروع ہوئی، احساس پیدا ہونا شروع ہوا اور اللہ تعالیٰ نے جو اسلام کی دشمن طاقتیں تھیں اُن کے اندر تفرقہ پیدا کر دیا.اُن کے اندر حسد پیدا کر دیا.اُن کے اندر اختلاف پیدا کر دیا جس کے نتیجہ میں مسلمان قوموں نے آزاد ہونا شروع کیا.پہلے ماتحت تھیں غلام تھیں ان کو کچھ نہ کچھ آزادی ملنی شروع ہوئی مثلاً ایران قریباً قریباً روس اور انگریزوں کے قبضہ میں تھا اُس نے کچھ آزادی حاصل کی.مصر پہلے فرانس کے قبضہ میں تھا پھر انگریزوں کے قبضہ میں رہا اُس نے آزادی حاصل کی.ہندوستان انگریزوں کے قبضہ میں تھا سارا تو نہیں ملا مسلمانوں کو پر خیر کچھ مغرب سے کچھ مشرق سے تھوڑا بہت مل کے فیملی سی مل گئی اُن کو.اسی طرح

Page 184

انوار العلوم جلد 24 149 انڈو نیشیا آزاد ہو گیا.لیبیا آزاد ہو گیا.شام، فلسطین، عراق آزاد ہو گئے.عراق جو تھا پہلے ٹرکی کے ماتحت تھا اس کو تو کوئی خاص آزادی نہیں ملی لیکن شام اور فلسطین فرانسیسیوں کے ماتحت تھے ان کو آہستہ آہستہ آزادی ملی.تو اس آزادی کے ملنے کی وجہ سے طبیعت میں ایک احساس پیدا ہو گیا جیسے بچہ ہوتا ہے پیٹ میں نو مہینے بغیر سانس کے گزار دیتا ہے پر پیدا ہوتے ہی وہ سانس لیتا ہے.سانس کے بعد پھر نہیں چھوڑ سکتا اُس کو.وہاں تو 9 مہینے بغیر سانس سے گزار لیتا ہے اور یہاں 9 منٹ بغیر سانس کے نہیں گزار سکتا.کیونکہ اب پھیپھڑے جو ہیں اُن میں ہلنے کی عادت پیدا ہو گئی ہے وہ نہیں ہلیں گے تو ساتھ ہی قلب بند ہو جائے گا.تو یہی حالت اُس قوم کی ہوتی ہے جو کہ عادی طور پر شست ہوتی ہے.گری ہوئی ہوتی ہے جب اُسے ذرا ہوا آزادی کی ملے ، جب ذرا طاقت کی روح پیدا ہو اُس وقت پھر اُس کو خطرہ پیدا ہو تو وہ زیادہ خطر ناک اور زیادہ مایوسی پیدا کرنے والا ہوتا ہے.اس وقت مختلف مسلمان ممالک جو ہیں وہ مختلف مصائب میں سے گزر رہے ہیں مثلاً مصر ہے اُس میں سویز کا جھگڑا پیدا ہے اور بعض جھگڑے ایسی الجھنوں کے ساتھ ہیں کہ سمجھ بھی نہیں آتی کہ اس کا بنے گا کیا.مثلا طبعی طور پر میں کمیونزم کا مخالف ہوں بہت سے مسلمان نہیں بھی مخالف.بہت سے مسلمان کمیونسٹ بھی ہیں لیکن میں کمیونزم کا مخالف ہوں.جب میں کسی جگہ پر ایسی حالت دیکھوں کہ کسی جگہ پر مسلمانوں کو ادھر آزادی ملتی ہے اُدھر کمیونسٹ کو بھی طاقت ملتی ہے تو میر ادل گھبر اجاتا ہے میں کہتا ہوں یہ بھی بلاء وہ بھی بلاء.یہی مثال ہو جاتی ہے کہ کہتے ہیں نہ بولوں تو باپ کتا کھائے بولوں تو ماں ماری جائے.اگر ہم مسلمان کی آزادی چاہتے ہیں تو کمیونسٹ کو طاقت ملتی ہے اگر ہم کمیونسٹ کو نقصان پہنچاتے ہیں تو مسلمان کی آزادی چلی جاتی ہے یہ دو بلائیں ایسی ہیں کہ ہم ان کو لے نہیں سکتے.کیا کریں.تو پھر طبیعت میں بڑی گھبراہٹ پیدا ہو جاتی ہے.یہی حال مصر کے متعلق پیدا ہے.مصر میں انگریزوں نے فوج مصر کی خاطر نہیں رکھی بلکہ انہوں نے اِس لئے رکھی ہوئی ہے کہ اُن کی معلومات یہ بتاتی ہیں اور مذہب کی جو خبریں اور پیشگوئیاں ہیں وہ بھی بتاتی ہیں کہ روس نے مڈل ایسٹ پر حملہ کرنا ہے.تو رات میں یہ

Page 185

150 انوار العلوم جلد 24 خبریں ہیں، حدیثوں میں یہ خبریں موجود ہیں.قرآن کریم میں یہ خبریں موجود ہیں، اِن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ مڈل ایسٹ پر کمیونزم نے حملہ کرنا ہے اور مڈل ایسٹ بچانے کے لئے وہ چاہتے ہیں کہ کہیں قریب میں ہماری فوجیں ہوں اس کے لئے انہوں نے اردن سے فیصلہ کیا اور مصر کے ساتھ انہوں نے سمجھوتہ کر لیا کہ اچھا ہم قاہرہ سے فوجیں نکال لیتے ہیں سویز پر رکھتے ہیں تا کہ ہم سویز کو بچا سکیں.سویز کے بچانے کا بہانہ در حقیقت معمولی ہے اصل چیز یہ ہے کہ وہ یہ چاہتے ہیں کہ ہماری فوجیں اتنی قریب ہوں کہ اگر روس کی فوجیں داخل ہوں تو جھٹ پٹ اُنہیں آگے سے روک سکیں اور یہی دلچپسی امریکہ کو بھی ہے اس کے ساتھ.لیکن ادھر اس کا بھی کوئی انکار نہیں ہو سکتا کہ کسی ملک میں اُس کی مرضی کے بغیر کوئی فوج رکھی ہوئی ہو تو اس کو ہم آزاد کہہ ہی نہیں سکتے.لازماً مصر والوں کا بھی دل چاہتا ہے اور ہمارا بھی دل چاہتا ہے کہ مصر آزاد ہو.کیا وجہ ہے کہ ایک مسلمان حکومت آزاد نہ ہو.لیکن یہ ہم جانتے ہیں کہ اگر انگریزی فوج سویز ں بیٹھی ہوئی ہے تو ہم مصر کو آزاد نہیں کہہ سکتے کیونکہ چاہے وہ روس کے لئے بیٹھی ہوئی ہو پر مصر کو بھی ہر وقت دھمکی کا خیال رہے گا کہ ہمارے ہاں ذراسی بات ہو گی تو فوج کی دھمکی دیں گے اور اپنی فوجیں اندر داخل کر لیں گے.چنانچہ پیچھے بعض جھگڑوں پر ایسا ہی ہوا ہے کہ انگریزی فوجیں آگے بڑھیں اور انہوں نے کئی مصری گاؤں تباہ کر دیئے تو ملک کی آزادی قائم نہیں رہ سکتی جب تک غیر فوج جو ہے وہ وہاں سے نکل نہ جائے.تو یہ ایک ایسی الجھن ہے جو ہمارے لئے مشکلات پیدا کر رہی ہے یعنی یوں تو ہم نہیں کچھ کر سکتے لیکن انسان کوئی نہ کوئی ارادہ تو پیدا کرتا ہے اپنے دل میں.وہ ارادہ بھی ہمارے لئے مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ادھر بھی مشکل اُدھر بھی مشکل.فلسطین اسی طرح فلسطین کا جھگڑا ہے.فلسطین کا جھگڑا سویز کے جھگڑے سے بھی زیادہ خطر ناک ہے.ایک تو یہ کہ وہ ملک ایسی جگہ پر ہے جہاں سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدفن مبارک قریب ہے.مدینہ منورہ فلسطین کی زد میں ہے.اگر کسی وقت فلسطین کی کمبخت حکومت کی بدنیتی ہو جائے تو اُس کی مسئلہ

Page 186

انوار العلوم جلد 24 151 متفرق امور ہوائی طاقت اور اس کی دوسری طاقت اتنی بڑی ہے کہ باوجود اس کے کہ ابن سعود کی طاقت اچھی خاصی ہے پھر بھی خوف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی فوجوں کو آگے لیتا چلا جائے تو اُن کو روکنا مشکل ہو جائے گا.اور فلسطین کا معاملہ کچھ ایسا پیچیدہ ہو گیا ہے یعنی اُن کے پاس روپیہ بہت تھا، انہوں نے اِس طرح کر کے قابو کیا ہوا ہے امریکن حکومت اور دوسری حکومتوں کو کہ وہ حکومتیں بالکل غلاموں کی طرح ان کی تائید کر رہی ہیں.جو معاہدہ انہوں نے کر کے (جس وقت فلسطین قائم کیا ہے ) تو جو علاقے انہوں نے عربوں کو دیئے تھے آج وہ عربوں کے قبضہ میں نہیں ہیں وہ فلسطین کے یہودیوں نے چھین لئے ہیں.اور جو علاقے ان کو دیئے تھے اُن میں سے قریباً سارے پر وہ قابض ہیں.جو عربوں کو دیئے گئے تھے اُن پر بھی قابض ہیں.عرب تو یہ چاہتے ہیں کہ اچھا اور نہ سہی.ہم تو مانتے نہیں ان کی حکومت.لیکن کم سے کم جو تم نے لیکر دیئے تھے وہ تو ہم کو دو لیکن اب امریکہ اور انگلستان کہتے ہیں کہ خیر اب جو ہو گیا سو ہو گیا اب چلو بس کرو.تو یہ ایک نا قابل برداشت صورت ہے کہ اول تو خود اپنا معاہدہ بھی نہیں پورا کر اسکتے.پھر غیر قوم کے ملک میں، غیر قوم کی حکومت میں لا کے ایک دوسرے لوگوں کو داخل کر دیا جو شدید ترین دشمن ہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ سب سے بڑا دشمن یہودی ہے مسلمانوں کا.اور یہودیوں کو ایسے مقام پر لے آنا یہ ایک بڑے بھاری ابتلاء کی بات ہے اور بڑی بھاری مصیبت یہ ہے کہ ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں میں چھہتی نہیں پید اہو رہی.مصر میں ابن سعود ہے، شام ہے ، لبنان ہے، اُردن ہے ، عراق ہے یہ چھ مسلمان حکومتیں ہیں لیکن کسی موقع پر بھی یہ اکٹھی ہو کر نہیں لڑ سکیں یہودیوں سے.ایک وفد مصر سے آیا اُس میں ایک تو ہائیکورٹ کا جج تھا اور ایک جو انجمن اخوان ہے اُس کا نائب صدر تھا یہ لاہور میں مجھے ملنے آئے تو باتیں ہوئیں.میں نے کہا قصور تو آپ لوگوں کا ہے.ہمارا بھی قصور ہے کہ ہم آپ کی مدد پوری نہیں کر سکے اور نہیں کرتے لیکن آپ کا بہت سا قصور ہے.کہنے لگے کیا؟ میں نے کہا آپ لوگ اُن کا مقابلہ کے لئے کیا کر رہے ہیں؟ کہنے لگے ہم سارے ملکوں نے تیاری کی ہوئی ہے.ہر ملک نے

Page 187

متفرق امور انوار العلوم جلد 24 152 اعلان کیا ہے جنگ کا.میں نے کہا یہ تو ٹھیک ہے لیکن مجھے ایک جنگ بتادیجئے کہ مصر پر یہودیوں نے حملہ کیا اور اُس وقت ابن سعود اور عراق کی حکومتوں نے ساتھ ہی حملہ کر دیا ہو یہودیوں پر.یا شرق اردن کی فوجوں پر یہودیوں نے حملہ کیا ہو اور اسی وقت سلطان ابن سعود نے اور شام نے اور مصریوں نے حملہ کر دیا ہو.میں نے کہا فوجی TACTICS تو یہ ہوا کرتی ہے کہ جو لشکر ایک سا تعلق رکھتے ہیں جب ایک مورچہ پر حملہ کریں تو وہ دوسرے پہلوؤں سے حملہ کر کے اُس کی طاقت کمزور کر دیتے ہیں.تو ایک مثال دے دو.اس پر وہ خاموش ہو گئے.کہنے لگے یہ سچی بات ہے ہم بھی محسوس کرتے ہیں کہ ہم نے آپس کی رقابت کی وجہ سے تعاون نہیں کیا.جب مصر پر حملہ ہوا تو منہ سے تو کہتے رہے عراق اور ابن سعود اور شامی کہ ہم آتے ہیں لیکن آئے نہیں.جب شام پر حملہ ہوا تو عراق اور مصر وغیرہ منہ سے تو کہتے رہے کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لیکن اس وقت حملہ نہیں کیا.ابھی مثلاً پیچھے مصر پر حملہ ہوا ہے تو ریزولیوشن پاس ہو رہے ہیں حملہ نہیں ہوا.اردن پر حملہ ہوا.ریزولیوشن پاس ہو رہے ہیں باقی ملکوں نے حملے نہیں کئے.شام پر پیچھے خطرناک حملہ ہوا ( پیچھے دو سال پہلے) لیکن شرق اردن اور عراق اور مصر اور ابن سعود یہ بیٹھے رہے.ہم سمجھتے ہیں ان کو مجبوریاں ہوں گی لیکن یہ کہ ان مجبوریوں کی وجہ سے نتیجہ تو خراب ہی نکلے گا.تو فلسطین کا معاملہ ایک قیامت تھی تکلیف دہ معاملہ ہے اسی طرح مثلاً لیبیا ہے انگریزوں نے لیبیا کے ساتھ سمجھوتہ کیا ہے کہ ہم اپنی فوجیں رکھیں گے اب مصر یہ سمجھتا ہے کہ یہ صرف سویز کی طاقت کو بڑھانے کے لئے انگریز یہاں فوجیں رکھ رہا ہے کیونکہ مصر کے پہلو میں ہے لیبیا.اُن کی منشاء یہ ہے کہ اگر ہم سویز پر حملہ کریں تو یہ پیٹھ پر سے ہم پر حملہ کر دیں تو وہ لیبیا سے معاہدہ کے خلاف ہیں.لیکن ادھر لیبیا کے لئے مصیبت یہ ہے کہ اُن کے پاس پیسہ نہیں وہ جنگل ہے جب تک دس پندرہ لاکھ روپیہ سالانہ انگلستان نہ دیوے وہ نہ تو وزیروں کو تنخواہ دے سکتے ہیں نہ تحصیلداروں کو دے سکتے ہیں نہ ڈپٹی کمشنروں کو دے سکتے ہیں اُن کے پاس پیسہ ہی نہیں ہے.فوج بھی نہیں رکھ سکتے.وہ مصر کے اعتراض کو سنتے ہیں اور اُس کو نظر انداز پر

Page 188

انوار العلوم جلد 24 153 کر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں ہم کیا کریں ہمارے پاس پیسہ ہی نہیں بغیر اس روپیہ کے ہمارا گزارہ ہی نہیں ہے.اب یہ بھی ایک مصیبت ہوئی کہ لیبیا کو اگر تباہ ہونے دیں تو تب مصیبت.مصر کو تباہ ہونے دیں تو تب مصیبت.یہ کوئی ایسے متضاد سوالات پیدا ہو گئے ہیں جن کی وجہ سے دونوں طرف سے آدمی اِدھر جائے تو وہ نگا ہو جاتا ہے اُدھر جاتے تو وہ ننگا ہو جاتا ہے.عراق کی بھی یہی حالت ہے.عراق کی بھی مالی حالت انگریزوں کے ساتھ استوار ہے.دوسرے عراق جو ہے روسی سرحد پر ہے.عراق جانتا ہے کہ اگر روس نے کسی وقت بھی مجھ پر حملہ کیا اور ضرور کرے گا تو میرے پاس تو طاقت روس کے مقابلہ کی نہیں ہے.اگر انگریزی فوجیں ہوں گی، انگریزی ہوائی جہاز ہوں گے، انگریزی اڈے ہوں گے تو یہ فوراً لڑنے لگ جائیں گے اس کے بغیر میر اچارہ نہیں.کچھ عراق میں ایسی طاقتیں پید اہو رہی ہیں اور ایسی پارٹیاں پیدا ہو رہی ہیں جو کہتی ہیں کہ انگریز چلے جائیں لیکن حکومت وقت اور اکثریت نہیں چاہتی کہ انگریز جائیں.یوں ہیں وہ مصر کے خیر خواہ لیکن اپنے حالات کی وجہ سے وہ انگریزوں سے بگاڑ پیدا نہیں کرنا چاہتے.ایران کے تیل کا سوال بڑا اہم ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.عراق بھی سمجھتا ہے کہ انگریز کی مدد سے ہی اُس کا تیل چل رہا ہے اور ابن سعود کی تو ساری آمد ہی اس پر ہے.اُس کی تین چوتھائی آمد تیل کی وجہ سے ہے اگر انگریزوں سے وہ اپنے تعلقات منقطع کر لیں تو اُن کی ساری آمد جاتی رہے.یہ خطرات ہیں جو مسلمانوں کو در پیش ہیں مگر ان خطرات کا کوئی علاج نظر نہیں آتا.اسی طرح انڈونیشیا ہے یہ ملک خدا تعالیٰ کے فضل سے مشرق میں مسلمانوں کی چھاؤنی ہے اس کی آبادی بھی آٹھ کروڑ ہے.ملک بھی بڑا وسیع ہے اور آدمی بھی اُن کے اِس قدر شریف ہیں کہ جس کی حد کوئی نہیں.مجھے بعض دفعہ یہ خیال آیا کرتا ہے کہ پاکستان میں جب کبھی سستی پیدا ہوتی ہے احمدیوں میں تو میں سمجھتا ہوں خبر نہیں انڈونیشیا والوں نے آگے نکل جانا ہے.وہاں کے لوگوں میں شرافت اور قربانی اور

Page 189

انوار العلوم جلد 24 154 ایثار اور وسعت حوصلہ دوسرے ملکوں سے کچھ زیادہ معلوم ہوتی ہے.اب بھی پیچھے چودھری صاحب کے خلاف جب بعض لوگوں نے باتیں کیں تو انڈونیشیا کی حکومت نے یہ پروٹیسٹ کیا پاکستان کے پاس کہ ہم اس کو نہایت ناپسند کرتے ہیں.تو ان لوگوں کے اندر مذہبی تعصب بہت کم ہے.ملانے ہیں اور میں نے شاہ محمد صاحب سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں چند ملانے ایسے ہی کٹر ہیں جیسے یہاں کے ہوتے ہیں لیکن عام نہیں.عام لوگوں میں وسعت حوصلہ زیادہ ہے ہمارے دوسرے ملکوں کی نسبت.لیکن آپس میں لڑرہے ہیں.یہ عجب بات ہے کہ ہماری برداشت کر لیتے ہیں گو ہم غیر ملکی ہیں لیکن آپس میں لڑائی ہو رہی ہے سب کی.اس کی وجہ سے انڈونیشیا کو طاقت نہیں مل رہی اور خونریزی ہوتی رہتی ہے.آئے دن خبریں آتی ہیں.ہمارے آدمی بھی بعض مارے جاتے ہیں.ہمارے دوست پڑھ کے سمجھتے ہیں کہ شاید احمدیوں کو مارا ہے.وہ احمدیوں کو نہیں مارا ہو تا آپس میں جو قبائل آکر حملہ کرتے ہیں ایک دوسرے پر تو بیچ میں جو احمدی ہوتے ہیں وہ بھی مارے جاتے ہیں.پچھلے چھ مہینے سال کے اندر شاید تین واقعات ہوئے ہیں اور شاید پندرہ ہیں احمدی مارے گئے ہیں اور شاید پچاس ساٹھ یا سو گھر لوٹا گیا ہے.پس جب انہوں نے آکر دو تین گاؤں لوٹے.بیچ میں جو احمدی تھے وہ بھی پکڑے گئے ، مارے گئے لیکن احمدیت کی دشمنی اصل غرض نہیں.اصل دشمنی اُن کی یہی ہوتی ہے پارٹی بازی.ایک پارٹی جو ہے وہ دوسری پارٹی کے خلاف ہے.تو یہ ایک بڑا بھاری مورچہ ہے جو محض اس اختلاف کی وجہ سے کمزور ہو رہا ہے.پاکستان کی نازک اقتصادی حالت پھر ہم قریب پہنچتے ہیں پاکستان میں تو یہاں بھی حالات ہم کو نہایت نازک نظر آتے ہیں.پاکستان کی اقتصادی حالت اول تو نہایت خراب ہے وہ اس قدر خراب ہو چکی ہے کہ بہت بڑی قربانی کی ضرورت ہے لیکن بڑی مصیبت ہمارے لئے یہ ہے کہ جہاں باقی دنیا میں جب کوئی ایسی مصیبت آتی ہے تو سارا ملک کہتا ہے کہ اس قربانی میں ہم لیں گے وہاں ہمارے ملک کا باوا آدم کچھ ایسا نرالا ہے کہ یہ بڑے آرام سے گھر میں

Page 190

155 انوار العلوم جلد 24 بیٹھ کے کہیں گے کہ وہی کچھ کھائیں گے ، وہی کچھ پہنیں گے.وہی کچھ لٹائیں گے اور حکومت کریں گے ہم.حالانکہ حکومت کے پاس کوئی جادو کی چھڑی تو ہے نہیں بہر حال انتظام اسی طرح کرے گی کہ کچھ ہمارا کھانا کم کرے گی، کچھ ہمارا لباس کم کرے گی، کچھ ہمارے اور کام کم کرے گی، کچھ ہم پر ٹیکس زیادہ کرے گی لیکن ہمارے ملک میں اس کو بڑا بُرا سمجھا جاتا ہے.حکومت کے خلاف اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ یہ کیوں کرتی ہے؟ اور ادھر ساتھ ہی اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ انتظام کیوں نہیں کرتی؟ تو اس کی وجہ سے اس مشکل کو دبانا مشکل ہو جاتا ہے اور وزارتیں ڈرتی ہیں کام کرنے سے کہ اگر ہم نے کوئی قدم اٹھا یا ملک میں ہمارے خلاف رائے پیدا کی جائے گی اور فوراًجو مخالف پارٹی ہوتی ہے وہ شور مچادیتی ہے کہ ہم ایسا کریں گے.ہم یہ سب کچھ دیں گے یہ غلط کر رہے ہیں حالانکہ کرتے سارے وہی ہیں.انگریزوں کے زمانہ میں کانگرس والے کہتے تھے یہ انگریز کی ساری شرارت اِس لئے چل رہی ہے کہ جوڈیشل اور ایگزیکٹو اختیارات الگ الگ نہیں کئے ہوئے اور یہی مسلم لیگ کہتی تھی.لیکن آٹھ سال ہو گئے ہندوستان کو آزاد ہوئے.آٹھ سال ہو گئے پاکستان کو آزاد ہوئے آج بھی ایگزیکٹو او رجوڈیشل وہی چلی آرہی ہے.جب اپنے پاس حکومت آئی تو کہتے ہیں نہیں انتظام خراب ہوتا ہے جب انگریز کا زمانہ تھا تو کہتے تھے یہ سارا ظلم اس وجہ سے ہو رہا ہے کہ جوڈیشل اور ایگزیکٹو اکٹھے ہیں ان کو الگ کریں.تو پارٹیاں دوسرے کو ذلیل کرنے کے لئے کہہ دیتی ہیں کہ ہم آئیں گے تو ٹیکس معاف کر دیں گے.اگر تم ٹیکس معاف کر دو گے تو ملک کی فوجوں کو تنخواہ کہاں سے دو گے ؟ تم افسروں کو تنخواہیں کہاں سے دو گے ؟ جھوٹ ہوتا ہے سارا مگر ہمارے عوام الناس تعلیم یافتہ نہیں وہ اس کو سن کر کہ ٹیکس معاف کر دیں گے کہتے ہیں آؤ چلو ہم ووٹ انہیں کو دیں گے انہوں نے ٹیکس معاف کر دینا ہے، ہم ووٹ انہیں کو دیں گے انہوں نے تو فلانی سہولت ہم کو دینی ہے حالانکہ سب بات غلط ہوتی ہے.وہ آئیں گے تو وہ بھی اسی طرح کریں گے.پہلے آئیں گے تو وہ بھی اسی طرح کریں گے ملک اس کے بغیر چل ہی نہیں سکتا تو اقتصادی حالت کا جب تک علاج نہ ہو اُس وقت تک کچھ نہیں بن سکتا.

Page 191

انوار العلوم جلد 24 156 اس طرح اقتصادی مشکلات کے دور ہونے کا سب سے بڑا ذریعہ یہ ہوتا ہے کہ ملک کی مصنوعات کو زیادہ استعمال کیا جائے لیکن جو ہندوستان سے ہمارے احمدی آتے ہیں میں ان سے ہمیشہ یہ بحث کرتا ہوں.وہ کہتے ہیں دتی میں، آگرہ میں الہ آباد میں، کلکتہ میں، بمبئی میں ہر جگہ پر ہم گئے ہیں اور جب وہ چیز جو ہم کو عادت تھی انگلستان اور امریکہ کی خرید نے کی.ہم بازار میں گئے ہیں تو انہوں نے کہا ہے وہ نہیں مل سکتی.ہندوستان کی ہے.اور انہوں نے کہا یہاں آکے پوچھو تو پاکستان کی بھی نہیں ملتی.اور انگلستان کی بھی نہیں ملتی اور میں نے یہاں تاجروں سے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں اگر اُس کو کہہ دیں کہ پاکستان کی بنی ہوئی ہے تو پھر وہ ناک چڑھا کر چلا جاتا ہے کہ یہ تو نہیں لینی اور پھر کہتے ہیں ملک ترقی کر جائے.جب تک ملی مصنوعات کو فروغ نہ دیا جائے گا.جب تک ملکی مصنوعات کو نقصان اٹھا کر بھی استعمال نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک نہ ہمارے کارخانے مضبوط ہوں گے نہ ہماری تجارتیں مضبوط ہوں گی، نہ ہماری صنعتیں مضبوط ہوں گی اور نہ ہماری اقتصادی حالت درست ہو گی.سال میں دوارب چار ارب ہم نے غیر ملکوں سے سودا منگوایا تو ہم اُن کے مقروض رہیں گے اُن کے برابر کس طرح جائیں گے.جو ہماری دولت ہے ، ہماری کپاس ہے ، ہماری جیوٹ ہے وہ تو ساری قرضوں کے ادا کرنے پر لگ جاتی ہے اُن عیاشیوں کے بدلہ میں جو باہر سے آتی ہیں لیکن جتنے آزاد ممالک ہیں اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ یا تو اپنی مصنوعات استعمال کریں گے یا نیم مصنوعات استعمال کریں گے.یہ ایک اقتصادی اصطلاح ہے یعنی بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو ملک پوری نہیں بنا سکتا تو اس کے لئے انہوں نے نیم مصنوعات کا طریقہ رکھا ہے کہ پھر ہم اُس کو ترجیح دیں گے جس کا کچھ نہ کچھ حصہ ہمارے پاس بنا ہوا ہو گا.مثلاً ایک ٹنکچر ہے.ٹنکچر بنتا ہے کچھ دوائی کو ایک خاص مقدار میں سپرٹ میں ڈال کے کچھ دن رکھنے سے.ہلانے سے جب وہ اُس کے اندر اتنارچ جاتا ہے جتنا کہ وہ سپرٹ برداشت کر سکتا ہے تو وہ ٹنکچر کہلاتا ہے.تو اب بنایا ہوا ٹنکچر وہاں سے آئے گا تو وہ بھی ایک مصنوعہ ہے اور یہاں ہم دوائی منگالیں اور سپرٹ اپنے ملک کا لے کر بنا لیں تو یہ اپنے ملک کی نیم مصنوعات

Page 192

انوار العلوم جلد 24 157 ہو گی.سپرٹ ہم نے اپنا لے لیا، کیمیکل وہاں سے لے لیا اور ان کو ہلایا.جو مزدوری ہوئی وہ ہماری ہوئی.اس کے نتیجے دو ہوں گے ایک تو یہ کہ دوائی کا نفع ہمارے ملک میں رہے گا.دوسرے دوائی بنانے میں اُن کو اکٹھا کرنے میں جو مز دوری تھی وہ ہمارے ملک کی ہو گی اس طرح آدھا نفع ہم لیں گے آدھا باہر کے لیں گے.تو جو نیم مصنوعات کہلاتی ہیں وہ بھی ہمارے ملک میں لوگ بنا لیں کہ یہ بھی ہمارے ملک کی نیم مصنوعات میں سے ہیں تو چھوڑ دیں گے فوراً اور پھر شکایت ہو گی کہ ہمارا ملک غریب ہو گیا، غریب ہو گیا.امیر کس طرح ہو جائے ؟ تم دولت دوسروں کو دینا چاہتے ہو، تم اپنے گھر کا مال باہر لٹادو تو تمہارا مال ختم کیوں نہ ہو گا.تو پاکستان کی کمزوری میں سب سے بڑا دخل اس کا ہے کہ ہمارے ملک کے لوگ پاکستان کی مصنوعات کو استعمال نہیں کرتے.اپنے بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہوتے.اپنی ضرورتوں کو اس طرح پھیلانا چاہتے ہیں جس طرح فراوانی دولت کے وقت میں پھیلائی جاتی ہیں اور پھر الزام حکومت پر لگانا چاہتے ہیں.یہ ساری باتیں جمع نہیں ہو سکتیں.جب تک یہ جمع رہیں گی پاکستان کمزور رہے گا، جب تک یہ جمع رہیں گی پاکستان کی حکومت ان سٹیبل (UN-STABLE) رہے گی، اُس میں طاقت نہیں آئے گی.اور جب یہ سب کچھ سہہ کے اُن کو گالیاں دیں گے تو وہ اور زیادہ گھبر اجائیں گے.جب ایک شخص یکھتا ہے کہ کام انہوں نے جو کرنا تھا کرتے نہیں ہمیں گالیاں دے رہے ہیں تو وہ اور زیادہ نروس ہو جاتا ہے اور گھبر اکے کام اور خراب کر دیتا ہے.بُری باتوں کی اشاعت کو روکو ایک مصیبت پاکستان پر یہ ہے کہ دوسرے مذاہب میں تو وہ تعلیم موجود نہیں لیکن پھر بھی وہ اس پر عمل کرتے ہیں.ہمارے اسلام میں وہ تعلیم موجود ہے لیکن مسلمانوں نے ں تعلیم کو بھلا دیا ہے.اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر زید کو تم چوری کرتے ہوئے دیکھو تو کہو زید نے چوری کی یہ نہ کہو اس قبیلہ نے چوری کی ہے.اُس قبیلہ نے نہیں کی زید نے کی ہے.تمہارا حق ہے کہہ دو زید نے چوری کی ہے.اوّل تو وہ اس کے لئے بھی شرطیں لگاتا ہے

Page 193

انوار العلوم جلد 24 158 کہ تم کو کہنے کا فلاں فلاں صورتوں میں حق ہے ورنہ اس کا بھی حق نہیں تم چوری کرتے ہوئے دیکھو پھر بھی نہیں کہہ سکتے لیکن ہمارے ملک میں یہ دستور ہے کہ اگر کسی شخص سے دو افسروں نے رشوت لے لی تو اب وہ جہاں بیٹھے گا کہے گا.پاکستان کا افسر کیا ہر آدمی رشوت لیتا ہے جی.وزیر اعظم چھوڑ، گورنر جنرل چھوڑ، دوسرے وزیر چھوڑ، ڈپٹی کمشنر ، کمشنر یہ سارے کے سارے ہی رشوت لیتے ہیں.اب اس سے پوچھو کہ کتنی دفعہ تیرا معاملہ گورنر جنرل سے پڑا تھا؟ کتنی دفعہ تیرا معاملہ وزیروں سے پڑا تھا؟ کتنی دفعہ گورنر کی صحبت میں تو گیا تھا؟ کتنی دفعہ فنانشل کمشنر کے ساتھ تیر اواسطہ پڑا تھا؟ کتنی دفعہ کمشنروں کے ساتھ تیر اواسطہ پڑا تھا؟ کتنی دفعہ انسپکٹر جنرل کے ساتھ پڑا تھا؟ تُو نے تو شکل بھی نہیں دیکھی اُن کی نہ اُن سے ملنے والوں کا تو واقف ہے تجھے کس طرح پتہ ہے کہ سارے رشوت لیتے ہیں.بس ہر مجلس میں بیٹھے ہوئے یہ کہا اور باقی ساری کی ساری مجلس کہے گی بس ٹھیک ٹھیک.تم نے ٹھیک کہا ہے.ٹھیک ہے ، یہی بات ہے.اب سارے کے سارے گالیاں دے رہے ہیں حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ 2 جو شخص یہ کہے کہ اس قوم میں یہ خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں تو قوم تو نہیں تباہ ہوئی اس نے اُن کو تباہ کیا ہے یعنی اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وہ تباہ ہو جائیں گی.تو باوجود اس علم کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم فرمایا ہے پھر اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ہر مجلس میں بیٹھے ہوئے ساروں کے ساروں کو بدنام کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ سب ایسا ہی کرتے ہیں.حالانکہ شریعت تو یہ بھی جائز نہیں قرار دیتی کہ جس سے تمہیں نقصان پہنچا ہے اُس کے متعلق بھی تم آزادانہ اور اونچی آواز سے بولو سوائے خاص حالات کے.اور نتیجہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ خرابیاں پید اہوتی ہیں ایک تو یہ کہ سب حکومت سے بدظن ہو جاتے ہیں.دوسری خرابی یہ پیدا ہوتی ہے کہ جو نوجوان یہ باتیں سنتے ہیں وہ کہتے ہیں جب ہمارے سارے ہی بزرگ بے ایمان ہیں تو ہم کیوں بے ایمان نہ رہیں ہم اُن سے بڑھ کر بے ایمان بنیں گے.تو ساری قوم کا کیریکٹر تباہ ہو جاتا ہے.جو بے ایمان نہیں اُن کے اوپر غلط الزام لگائے جاتے ہیں اور دوسروں کو

Page 194

انوار العلوم جلد 24 159 اُن سے بدظن کیا جاتا ہے اور جو ابھی اس بے ایمانی کے مقام پر نہیں پہنچے اُن کو اسی وقت سے سکھایا جاتا ہے کہ بے ایمانی اتنی عام ہے کہ اس میں تم بھی ہاتھ دھوؤ تو کوئی بڑی بات نہیں.مجھے یاد ہے میں جوان تھا جب میں ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں لاہور سے قادیان ریل میں جارہا تھا.بٹالہ تک ریل تھی.اُس وقت اتفاق کی بات ہے اُس کمرہ میں تین چار ریلوے کے افسر بیٹھے ہوئے تھے اور ایک میں تھا اور کوئی بھی نہیں تھا.ایک اُن میں سے رٹیائرڈ افسر تھا جس کو وہ سارے جانتے تھے باقی سارے سروس میں تھے وہ اس کو جانتے تھے تو کہنے لگے آپ کو بڑا موقع خدا نے دیا ہے.(ہندو تھے وہ).خدا نے بڑا اچھا موقع دیا ہے آپ سے ملاقات کا، آپ کے تجربہ سے ہم کو فائدہ اٹھانا چاہئے.آپ ہمیں کوئی مشورہ دیجئے کہ کس طرح ہمارے پیشہ میں اور ہمارے اِس کام میں ترقی ہو سکتی ہے؟ کہنے لگے جی بات تو اصل میں یہ ہے کہ زمانے زمانے کی بات ہوتی ہے ہمارے زمانہ کا افسر ہو تا تھا بڑا شریف.اب تو بڑے گندے لوگ ہو گئے ہیں اب تو وہ بات ہی نہیں رہی جو اُس وقت ترقی کے مواقع تھے وہ اب نہیں ملتے.کہنے لگے اچھا جی کیا فرق تھا؟ کہنے لگے دیکھو میں تمہیں بتاؤں فرق.تمہاری تنخواہیں شروع ہوتی ہیں اب پچاس ساٹھ سے.ہماری تنخواہیں شروع ہوتی تھیں پندرہ روپیہ سے.تو جب میں نو کر ہوا ہوں پندرہ روپے مجھے ملتے تھے.میری ماں بڑھیا تھی باپ میرا ہے نہیں تھا تو میں دس روپے ماں کو بھیج دیتا تھا اور پانچ روپے میں آپ گزارہ کر تا تھا تو تم سمجھ سکتے ہوستا تو سماں تھا پر پانچ روپے میں آخر کیا گزارہ ہوتا ہے.جو میں نے کوٹ پہنا ہوا تھا وہ پیچھے سے پھٹ گیا اور اُس میں سوراخ ہو گئے.تو سٹیشن ماسٹر انگریز ہو تا تھا امر تسر کا.(امر تسر میں میں تھا) وہ آیا اور مجھے دیکھ کے کہنے لگا ادھر آؤ لڑ کے تم نے یہ کوٹ پھٹا ہوا کیوں پہنا ہے ؟ میں نے کہا صاحب میرے پاس توفیق نہیں نئے کوٹ کی.پندرہ روپے تو مجھے تنخواہ ملتی ہے.میری ماں بیوہ ہے دس روپے میں اُس کو بھیجتا ہوں پانچ روپے میں گزارہ کرتا ہوں.روٹی بھی اس میں کھانی، کپڑے بھی.کوٹ کہاں سے بنواؤں؟ کہنے لگا وہ بڑی

Page 195

انوار العلوم جلد 24 160 متفرق امور حقارت سے مجھے دیکھ کر کہنے لگا میرے تمہارے متعلق بڑے اچھے خیالات تھے اور میں سمجھتا تھا تمہاری رپورٹ کروں ترقی کی.لیکن معلوم ہوا تم بڑے جاہل آدمی ہو، بڑے احمق ہو.میں نے کہا کیوں صاحب! میرا اس میں کیا قصور ہے ؟ کہنے لگا بولو یہاں امر تسر سے کتنا مال روزانہ گزرتا ہے ؟ میں نے کہا جی پچاس ساٹھ لاکھ کا گزر جاتا ہو گا.کہنے لگا نہیں اس سے بھی زیادہ گزرتا ہے.کہنے لگا تم نے بھی دیکھا ہے دریاؤں پر تم ہند و جاتے ہو جمنا اور گنگا میں جاکے اشنان کرتے ہو کہ پاپ جھڑتے ہیں اور برکتیں ملتی ہیں تو جب تم اس میں ہاتھ دھوتے ہو یا نہاتے ہو گنگا کا پانی کم ہو جاتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں جی.کہنے لگا اگر تمہارے نہانے سے گنگا کا پانی کم نہیں ہو تا تو یہ جو ایک کروڑ روپیہ کا روز مال گزرتا ہے اس میں سے اگر تم پچاس روپے نکال لو گے تو کوئی مال میں کمی آجائے گی.تو میں تو سمجھتا تھا تم عظمند ہو.معلوم ہوا تم بڑے جاہل آدمی ہو گنگا بہہ رہی ہے اور تم اپنا کوٹ پھٹا ہوا پہنے ہو.کہنے لگا جی بس.جب افسر نے یہ کہا تو پھر ہم نے ہاتھ رنگنے شروع کئے.تو اُس وقت کا افسر اتنا شریف ہوتا تھا پر اب تو ذرا ذرا سی بات پر پکڑ لیتے ہیں.یہی کچھ حالت آجکل کی بن گئی ہے یعنی شرافت جو ہے وہ نام ہو گیا ہے بے ایمانی کا.بیوقوفی نام ہو گئی ہے شرافت کا اور ایمانداری کا.تو اگر یہ طریقہ لوگ اختیار کریں کہ اپنے ملک کی مصنوعات لیں، اپنے حکام کے ساتھ تعاون کریں اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں.ہماری جماعت میں تو خیر غریبوں کی جماعت زیادہ ہے مگر ٹیکس دینے والا کوئی بھی دیکھو.احمدی بھی دیکھو دوسرا بھی دیکھو وہ یہی کوشش کرتا ہے کہ ٹیکس مجھ پر نہ لگے.حالانکہ یہ نہیں سمجھتے کہ اگر ہم نے ٹیکس نہ دیا تو حکومت چلے گی کہاں سے.بڑے بڑے آدمی ایسا کرتے ہیں.مجھے ایک شخص کے متعلق جس کا احمدیت سے تو کچھ تعلق تھا لیکن ہمارے ساتھ نہیں تھا ایک شخص نے بتایا کہ اس کے اوپر ٹیکس کے لگنے کا سوال ہوا تو اس نے کہا میں نہیں کتابیں دکھاتا.تو کہنے لگا افسر نے کہا مجھے پھر اختیار ہے کہ جو چاہوں ٹیکس لگالوں.میں نے کہا تمہاری مرضی.تو اُس نے اپنی طرف سے بڑا ٹیکس لگا دیا یعنی

Page 196

انوار العلوم جلد 24 161 ایک لاکھ روپیہ لگا دیا.وہ کہنے لگا تاجر سے میں ملا تو اُس نے کہا ہمیں پانچ لاکھ کا نفع ہوا ہے.اُس نے لاکھ لگایا پر فائدہ ہی رہا.تو اب بھلا جب ملک کی یہ منٹیلٹی (MENTALITY) ہو، یہ دماغ ہو اس کا کہ وہ ٹیکسوں سے بچنا چا ہے.ریل کے کرائے بچائیں گے اور قسما قسم کی کوششیں کریں گے.راشن کارڈ جھوٹے بنائیں گے غرض جس طرح بھی ہو سکے حکومت کو نقصان پہنچائیں گے اور پھر حکومت پر اعتراض کریں گے.یہ چیز ایسی ہے جس سے پاکستان کو بڑا سخت نقصان پہنچ رہا ہے ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہئے.پھر افغانستان نے بھی اپنا معاہدہ جو انگریزی زمانہ میں تھا سب توڑ ڈالا ہے اب خطرہ ہے کہ نئے سرے سے معاہدہ میں وہ نئی نئی شر طیں لگائیں گے کہ یہ ملک ہم کو دے دو، یہ علاقہ دے دو.انہوں نے دیکھا کہ ہندوستان کے ساتھ آجکل ان کا کچھ بگاڑ ہو رہا ہے تو انہوں نے سمجھا کہ ہمارا بیچ میں فائدہ ہے.چلتے چلتے ہم بھی اس جگہ سے فائدہ اٹھالیں.یہ ایک اور مصیبت ہمارے ملک کے لئے پیدا ہو گئی ہے.ادھر ہندوستان نے اس خبر سے جو پتہ نہیں ملے گا کہ کچھ نہیں ملے گا وہ پہلے ہی پہل ابھی ملا ہے نہیں اور ہندوستان میں مظاہرے شروع ہو گئے ہیں پاکستان کے خلاف کہ امریکہ سے انہوں نے مدد لینی ہے اور اعلان یہ ہو رہا ہے کہ تین کروڑ کی ابھی تازہ مدد انہوں نے اسی پندرہ دن کے اندر لی ہے.تو آپ تین کروڑ لے کے بھی ان کو کوئی حرج نہیں ہوا لیکن امریکہ کے وعدے پر کہ ان کو مدد ملتی ہے وہاں جلسے ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کے خلاف جوش پیدا کیا جارہا ہے.نتیجہ یہ ہو گا کہ یا تو جوش میں پاکستان سے لڑائی کر بیٹھیں گے اور یا پھر وہاں کے مسلمانوں کو لُوٹنا شروع کر دینگے.وہاں کے مسلمانوں کی حالت نہایت خطرناک ہے لوگ جوش میں آتے ہیں تو کوئی پوچھتا نہیں.ابھی وہاں کیس ہوا اللہ آباد میں.ایک ہندو اخبار نے نہایت گندی گالیاں رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کو دیں اور جب اس کے اوپر مسلمانوں نے مظاہرہ کیا اور جلوس نکالا تو اُن کو پکڑ کے جیل خانہ میں ڈال دیا گیا.وہ گالیاں دینے والے سب آزاد پھر رہے ہیں.تو اس قسم کے حالات جو مسلمانوں پر گزر رہے ہیں وہاں.ان کے لحاظ سے ڈر پیدا ہوتا ہے کہ یہ حالات جو ہیں یہ کسی وقت تصادم کا

Page 197

انوار العلوم جلد 24 162 موجب بن جائیں اور خرابیاں پید کر دیں.اسلامی ممالک بالخصوص اب سوال یہ ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہئے ؟ تو یا در کھنا پاکستان کیلئے دُعائیں کرو چاہئے کہ ان میں سے کچھ ایسی چیزیں ہیں جن کے متعلق ہم کچھ نہیں کر سکتے.جن کے متعلق ہم کچھ نہیں کر سکتے اُن کے متعلق ہماری دعا کا خانہ خالی ہے.ہمارے لوگوں کو یہ سمجھنا چاہئے کہ کم سے کم ہم دعا تو خدا تعالیٰ سے کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ دوسرے مسلمانوں کی مصیبت دور کرے.مثلاً ہماری یہ تو طاقت نہیں کہ سویز سے افواج اٹھا کے انگریزوں کو باہر پھینک دیں، ہماری یہ تو طاقت نہیں کہ عراق کو روس کے حملہ سے بچالیں لیکن ہماری یہ تو طاقت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے آگے فریاد کریں کہ خدایا ! یہ مسلمان ممالک ہیں تین سو سال کی غلامی کے بعد تو نے ان کو آزادی کا سانس دینا شروع کیا تھا اور ساتھ ہی ہمارا گلا گھونٹنا شروع ہو گیا ہے تو ہماری مدد کر اور ان ملکوں کو بچا.ہمیں نہیں ان چیزوں کا علاج نظر آتا لیکن خدا کو تو علاج نظر آتا ہے، وہ تو غیب کو جانتا ہے.اُس کو تو پتہ ہے کہ آگے کو کیا ہونے والا ہے.ہمیں چونکہ نہیں پتہ ہم اپنے موجودہ حالات سے قیاس کر کے کہتے ہیں یہ لا علاج چیز ہے مگر وہ آئندہ کے حالات کو جانتا ہے.وہ جانتا ہے بیسیوں قسم کے علاج پیدا ہو جانے والے ہیں وہ اُن کو کر سکتا ہے.تو ہماری جماعت کو اپنی دعاؤں میں اسلامی ممالک کی مصیبتیں اور جو پاکستان کی مصیبتیں ہیں اُن کو یادر کھنا چاہئے..مجھے یاد ہے 1948ء میں میں نے کشمیر کے لئے ایک سفر کیا.پشاور تک گیا.پشاور میں میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں ڈاکٹر خان اور غفار خان سے ملوں کیونکہ اُن کے تعلقات شیخ عبد اللہ شیر کشمیر سے بہت زیادہ ہیں.میرے بھی تعلقات تھے تو میں نے درد صاحب کو بھیجا عبد الغفار خان کے پاس کہ میں نے آپ سے ملنا ہے.تو اُس نے کہا کہ جس وقت مجھے کہیں میں آجاتا ہوں.اُس کی چونکہ پوزیشن زیادہ تھی چاہے وہ وزیر نہیں تھا لیکن پہلے میں نے اپنا آدمی اُس کے پاس بھیجا.جب درد صاحب آئے اور انہوں نے کہا کہ غفار نے کہا ہے کہ جہاں چاہیں اور جس وقت کہیں میں آجاتا ہوں تو پھر میں نے

Page 198

163 انوار العلوم جلد 24 ڈاکٹر خان کے پاس آدمی بھیجا.میں نے سمجھا یہ تو اُس سے چھوٹا ہے اس کو بعد میں کہنے میں کوئی حرج نہیں.اُس کو کہلا کے بھیجا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں اور غفار خاں نے بھی کہا ہے کہ جس وقت چاہیں میں آجاؤں گا تو آپ بتائیے آپ اگر آسکیں تو کوئی وقت مقرر کر دیں لیکن پتہ لگا کہ ڈاکٹر خان ذرا زیادہ ہو شیار آدمی ہے.وہ سن کے کہنے لگا میں سمجھتا تھا کہ اصل بات تو یہ ہے کہ اپنی وزارت کی وجہ سے وہ سمجھتا ہے میری ہتک ہے مگر عذر اس نے یہ کیا کہ کہا) دیکھئے درد صاحب! میں تو خود شائق ہوں، ملنے کا شوقین ہوں پر آپ جانتے ہیں پٹھانی روح جو ہوتی ہے ہمارے کچھ قواعد ہیں اُن کے خلاف ہو جائے تو قوم میں میری تو ناک کٹ جائے گی.اب میں اُن کے پاس جاؤں گا تو وہ میری مہمان نوازی میں کچھ قہوہ میرے آگے رکھ دینگے.میری ساری قوم کہے گی بے شرم ! مہمان وہ تیرے تھے تو قہوہ تم اُن کے گھر پی کے آئے اس لئے میرے لئے مجبوری ہے میری ذلت ہو جاتی ہے اور اگر وہ تکلیف اٹھا کے یہاں آجائیں اور میں قہوہ کی اُن کے آگے پیالی رکھوں تو پھر میں قوم سے آکے کہونگا میں نے مہمان کی عزت کی اور اُس کو قہوہ پلایا.خیر در دصاحب تو مایوس ہو گئے میں نے کہا کوئی حرج نہیں میں نے کام کرنا ہے کوئی بات نہیں میں چلا جاؤنگا چنانچہ میں نے کہا کہ اب غفار کی دقت ہے کہ وہ بھی آجائے گا کہ نہیں کیونکہ وہ تو اب اصل لیڈر اپنے آپ کو سمجھتا تھا مگر اس معاملہ میں وہ خان سے زیادہ اچھا ثابت ہوا.اُس نے کہا کوئی پروا نہیں.آجکل میری لڑائی ہے بھائی سے.مگر میں آجاؤں گا.چنانچہ موٹر ہم نے بھیجا وہ کوئی پندرہ میل پرے پر تھا وہاں سے وہ آگیا.میں ادھر سے چلا گیا.کوئی چھ سات میل پر ڈاکٹر خان کی کو ٹھی تھی وہاں پہنچے.دونوں بھائی اور میں بیٹھ گئے.میں نے اُن کے آگے یہ سوال رکھا کہ خان صاحب! آپ بتائیے.ڈاکٹر خان کو مخاطب کر کے میں نے کہا آپ یہ بتائیے کہ پاکستان پر جو یہ مصیبت آئی ہوئی ہے کشمیر کی وجہ سے ہے کیا اب کشمیر اگر مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل جائے تو پاکستان بیچ سکتا ہے ؟ کہنے لگے نہیں.میں نے کہا تو پھر ہمیں کچھ کرنا چاہئے.ڈاکٹر خان نے کہا ٹھیک ہے ہمیں کچھ کرنا چاہئے مگر وہ جو تھے عبد الغفار خان وہ چپ رہے.میں نے پھر سمجھا کہ اصل کنجی تو ان کے پاس ہے

Page 199

انوار العلوم جلد 24 164 متفرق امور اگر یہ نہیں بولتے تو کوئی ایسا فائدہ نہیں ہوتا.پھر میں اُن سے منہ پھیر کے عبد الغفار خان کی طرف مخاطب ہوا.میں نے کہا غفار خاں صاحب! آپ نہیں بولے! کہنے لگے آپ جو بات کر رہے ہیں ٹھیک ہے.میں نے کہا نہیں آپ کی رائے کے بغیر تو کچھ نہیں بن سکتا.یہاں اس ملک میں تو آپ کا رسوخ ہے.کہنے لگے تو پھر میری رائے تو یہی ہے کہ کشمیر نکل گیا تو مسلمان مارے گئے.باقی رہا کرنے کا سوال سو میں نے کیا کرنا ہے مجھے تو پاکستان گورنمنٹ اپنا باغی سمجھتی ہے تو باغی نے کیا کرنا ہے.میں نے کہا یہ تو بات نہیں اگر آپ واقع میں خدمت کریں گے تو اگر آپ کو وہ باغی سمجھتی ہے تو نہیں سمجھے گی پھر کہے گی مجھ سے غلطی ہو گئی ہے تو یہ تو اُس وقت تک کی بات ہے ناجب تک آپ کچھ کرتے نہیں.اگر آپ نیک کام کریں گے پاکستان کو اس سے فائدہ پہنچے گا تو سارے آپ کو سر پر اٹھائیں گے.کہنے لگے نہیں آپ کو نہیں پتہ جو میرے ساتھ انہوں نے کیا ہے.میں نے خود تجویز کی جس وقت یہ اختلاف ہوا تو میں نے کہا کہ میں عبد اللہ کو پکڑ کر لا سکتا ہوں اور اُس کو ٹھیک کر سکتا ہوں.میں کنگھم صاحب سے ملا اور کہا کہ قائد اعظم سے یہ بات کرو تو انہوں نے اس کے بعد مجھے یہ جواب دیا کہ ابھی کچھ ضرورت نہیں ہے جب ہو گا پھر دیکھا جائے گا اور پھر میرے پیچھے ہر وقت پولیس لگی ہوئی ہے اور مجھے ذلیل کیا جاتا ہے اور خراب کیا جاتا ہے مجھے کیا ضرورت ہے.میں نے کہا خان صاحب ! آپ نے یہ تو مانا ہے کہ اگر لڑائی ہو گئی اور کشمیر ہاتھ میں نہ ہوا تو پاکستان کے لئے مشکل ہے.میں نے کہا آپ کو پتہ ہے پاکستان بالکل چھوٹی گہرائی کا ملک ہے جو لمبا چلا گیا ہے اور حملہ ہمیشہ گہرائی پر ہوا کرتا ہے.ہماری گہرائی بعض جگہ پر صرف چالیس پچاس میل ہے.چالیس پچاس میل فوج ایک دن دو دن میں بھی نکل جاتی ہے.اگر ریتی کے پاس، روہڑی کے پاس ان علاقوں میں ہندوستانی فوجیں داخل ہوں تو پچاس ساٹھ میل میں وہ جا کے دریا کو اور ریل کو کاٹ دیتی ہیں پھر کراچی اِدھر رہ جاتا ہے پنجاب اُدھر رہ جاتا ہے دونوں طرف سے کٹ جاتے ہیں.سپاہی ایک طرف کھڑا ہوا ہے دماغ ایک طرف پڑا ہوا ہے، روپیہ ایک جگہ پر پڑا ہوا ہے، ہتھیار ایک جگہ پر پڑے ہوئے ہیں سب کام ختم ہو جاتے ہیں.کہنے لگے ہاں

Page 200

انوار العلوم جلد 24 165 ٹھیک.میں نے کہا تو پھر ایسی خطرناک حالت میں تو یہ بات تو نہیں کرنی چاہئے کہ فلاں میرا مخالف ہے فلاں مخالف ہے.میں نے کہا آپ یہ تو بتائیے کہ آپ جو یہ کہتے ہیں کہ میرے ساتھ لیگ مخالفت کرتی ہے یا دوسرے لوگ مخالفت کرتے ہیں آپ یہ بتائیں کہ اگر خدانخواستہ ہندوستانی فوج پاکستان میں داخل ہو جائے تو وہ لیگ کے آدمیوں کو مارے گی یا عوام الناس کو مارے گی؟ یا مارے گی کہ نہیں ؟ تو اس پر بے ساختہ ہو کر وہ کہنے لگے کہ اب کے وہ داخل ہوئی تو ایسا مارے گی کہ مشرقی پنجاب بھول جائے گا.میں نے کہا کس کو مارے گی؟ کہنے لگے یہ تو صاف بات ہے کہ عوام الناس کو مارے گی.بڑے آدمی تو بھاگ جائیں گے اِدھر اُدھر ، روپے والے لوگ ہیں کوئی ہوائی جہاز میں بھاگے گا کوئی کسی طرح بھاگ جائے گا.عوام الناس مارے جائیں گے.میں نے کہا اب آپ یہ بتائیے کہ پندرہ سال تک آپ کو مسلمان ہار پہناتے رہے ہیں، آپ کو بادشاہ کہتے رہے ہیں، آپ کو اپنا سر دار کہتے رہے ہیں وہ عوام الناس تھے یا یہ بڑے بڑے لوگ تھے جو آپ کے مخالف ہیں؟ کہنے لگے نہیں عوام الناس تھے.میں نے کہا تو پھر پندرہ سال انہوں نے آپ کو ہار پہنائے آج آپ اُن کے قصور کی وجہ سے نہیں لیگ کے کچھ لیڈروں کی وجہ سے کہتے ہیں ان کو مرنے دو اور اُن کی عورتوں کو مرنے دو اور اُن کے بچوں کو مرنے دو یہ انصاف ہے؟ کہنے لگے انصاف تو نہیں ہے مگر انہوں نے مجھے بڑا دق کیا ہے اس لئے میں نہیں کر سکتا.میں نے کہا ایک اور نقطہ نگاہ سے میں آپ کو سمجھاتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں ایسی جماعت کے ساتھ تعلق رکھتا ہوں جو کہ چالیس سال سے پتھر کھارہی ہے میں نے آپ کئی دفعہ پتھر کھائے، آپ ہی کے وطن میں پٹھانوں نے ہمارے آدمیوں کو شہید کیا.میں نے کہا مجھے تو پتھر پڑے اور آپ کو پھول پڑے.میں اِس نازک وقت میں اُن پتھروں کو بھی بھولنے کے لئے تیار ہوں اور آپ اس نازک وقت میں اپنے پھول بھی یاد کرنے کے لئے تیار نہیں !! بتائیے یہ انصاف ہے؟ پھر دومنٹ خاموش رہا اور اس کے بعد کہنے لگا میں اپنے دل میں اس وقت کوئی کام کرنے کی ہمت نہیں پاتا.میں نے کہا پھر آپ کا اور میرا اتنا اختلاف ہے کہ اب میں سمجھتا ہوں کہ ہم آگے بڑھ نہیں سکتے اور میں اٹھ کر چلا آیا.

Page 201

انوار العلوم جلد 24 166 متفرق امور تو حقیقت یہ ہے کہ اس نازک دور میں ہمارے لئے ایسے سخت حالات ہیں کہ اُن کا قیاس کر کے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ ہمارے پاس روپیہ کم ہے سامان کم ہے.ہمارے پاس آدمی کم ہیں اگر خدانخواستہ کوئی صورت اختلاف کی پید اہو جائے تو اس میں بڑے نقائص ہیں لیکن کم سے کم ہم دعائیں تو کر سکتے ہیں.یہ نہ سمجھو کہ کسی اور پر مصیبت آئے گی.جب اِدھر کوئی مصیبت پیدا ہو تو وہ بھی تم پر آئے گی اُدھر ہو وہ بھی تم پر آئے گی کیونکہ تم نگو ہو.وہ ہندوستانی بھی یہی سمجھتے ہیں کہ ساری خرابی انہی کی ہے.یہ پاکستان بنوایا تو احمدیوں نے بنوایا.اگر پاکستان کو مضبوط کرتے ہیں تو احمدی کرتے ہیں.اگر پاکستان کو طاقت دیتے ہیں تو یہی دیتے ہیں.ان کو بھی یہی خیال ہے.تم یہ نہ خیال کر لینا کہ تمہاری اِدھر کی مخالفت کی وجہ سے وہ تم کو بھول جائیں گے وہ سب سے پہلے تم پر ہی حملہ کریں گے اس لئے تمہارا فرض یہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہو کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو بچائے، ساتھ اس کے ہم کو بھی بچائے تاکہ شر سے مسلمان محفوظ رہ کے وہ جو خدا تعالیٰ نے عزت اور ترقی کی طرف مسلمانوں کا قدم اٹھایا ہے وہ آگے بڑھتا چلا جائے اور اس میں کوئی خلل نہ پید اہو.صحیح مشورہ دیا کرو دوسرا علاج صحیح مشورہ ہے اور یقینا اس کا اثر ہو جاتا ہے.ย دیکھو حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ میں لڑائی تھی کوئی معمولی لڑائی تو نہیں تھی.اسلام کے اتنے قرب کے باوجود دونوں لشکر لئے ہوئے ایک دوسرے کو مارنے کے لئے تیار پھرتے ہیں مگر جب روما کے بادشاہ نے یہ لڑائی دیکھ کر فیصلہ کیا کہ وہ آپ ان پر حملہ کرے تو اُس نے اپنے افسروں سے مشورہ کیا.سارے جرنیلوں نے کہا کہ بڑا عمدہ موقع ہے.ان میں لڑائی ہے حملہ کر دو.اُن کا جو بڑا بشپ (پادری) تھاوہ بڑا ہو شیار تھا.اُس نے کہا بادشاہ! میں تمہیں ایک سبق دیتا ہوں اس کو دیکھ لو اور پھر خیال کر لینا.کہنے لگا ذرا دو گتے منگوائیے بڑے تیز تیز اور شیر منگوائیے.گتے منگوا کر کہنے لگا ان کو ذرا فاقہ دیجئے اور کل میرے سامنے ان کو لایا جائے.کتے بلوائے، فاقے دے کر اُن کے آگے پھینکا گوشت.پس گوشت پھینکا تو دونوں کتے اس پر جھپٹے.ایک

Page 202

انوار العلوم جلد 24 ย 167 اُس کو مارے اور دوسر اس کو کاٹے اور بہت بُری طرح لہولہان کر دیا.اُس نے کہا اب شیر چھوڑ دو.شیر جو پنجرے میں سے اُس جگہ پر سے گزرا تو معاً آتے ہی اُن کی لڑائی چھٹ گئی اور دونوں کتے ایک دائیں ہو گیا اور ایک بائیں ہو گیا.وہ ادھر جھپٹے.جب وہ ادھر منہ کرے تو پیچھے سے وہ کاٹ لے.جب وہ اُدھر منہ کرے تو وہ کاٹ لے.بُرا حال شیر کا کر دیا.تو وہ تو خیر دشمن تھا اس نے مسلمانوں کی گندی مثال دینی تھی.کہنے لگا علی اور معاویہ والی یہی مثال ہے.یہ لڑ تو رہے ہیں پر آپ گئے نا تو انہوں نے اکٹھے ہو جانا ہے.وہ جانتا تھا کہ مسلمان کیریکٹر اُس وقت تک اتنا مضبوط تھا کہ وہ اسلام کی خاطر اپنے بڑے سے بڑے اختلاف کو بُھول سکتا تھا.لیکن بادشاہ نے اُس کے مشورہ کو قبول نہ کیا اور فوج کو موبے لائنز (MOBILIZE) کرنے کا حکم دے دیا.جب رومی فوج کے موبے لائنز (MOBILIZE) ہونے کی اطلاع اسلامی ملک میں پہنچی تو حضرت معاویہ نے اُس کو خط لکھا.انہوں نے لکھا میں نے سنا ہے کہ تم اسلامی ملک پر حملہ کرنا چاہتے ہو اور یہ جرآت تم کو اس وجہ سے ہوئی ہے کہ میں علی سے لڑ رہا ہوں لیکن میں تمہیں بتادینا چاہتا ہوں کہ اگر تمہاری فوجوں نے اسلامی ملک کا رُخ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو علی کی طرف سے تم سے لڑنے کے لئے نکلے گا وہ میں ہوں گا.3 اُسی وقت میں اختلاف چھوڑ کر علی کی اطاعت کرلوں گا اور اس کی طرف سے لڑنے کے لئے نکلوں گا.بادشاہ ڈر گیا اُس نے کہا بطریق 4 والی بات ٹھیک ہے.رض تو ہمارے لئے اس قسم کے مصائب اور مشکلات پیش آرہے ہیں اور اُس کی حفاظت جو ہے وہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ لگائی ہے.دردِ اسلام کی ہمارے دلوں میں اُس نے جگہ رکھی ہے.پس اسلام کا درد تمہیں پیدا کرنا چاہئے اور ہمیں اس کا ہمیشہ لحاظ کرنا چاہیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہم دیکھتے ہیں اُن کے دل میں ہمیشہ دردِ اسلام تھا.ایسی باتوں پر بڑی نرمی اور بڑی محبت سے کام لیتے تھے.یہاں ایک غیر احمدی صاحب کچھ تحقیقات کے لئے پٹھانوں کی طرف سے آئے.کوئی پانچ سات دن ہوئے مجھے ملے تو کہنے لگے مجھے یہاں بعض احمدی نوجوان ملے اور انہوں نے کہا کہ

Page 203

انوار العلوم جلد 24 168 افغانستان کے لوگ تو یہودی ہیں اس سے ہمارے دل کو بڑی تکلیف ہوئی ہے.میں نے کہا بات اصل میں یہ ہے کہ آپ بھی اپنے بھائی سے کبھی لڑتے ہیں تو اسے کہہ دیتے ہیں چل دیوث! چل یہودی! انہوں نے تو ہمارے پانچ آدمی مارے ہیں.اگر کسی نوجوان نے غصہ میں کہہ دیا تو آپ کو یہ بھی تو خیال رکھنا چاہئے کہ اس کے تو پانچ مرے ہوئے تھے تو اُس نے اگر کہہ دیا تھا تو تھا تو وہ بیوقوف ہی.آپ مہمان تھے آپ کا ادب چاہئے تھا.پھر اُس کو یہ خیال ہونا چاہئے تھا کہ اِس طرح یہودی کہنے سے کیا بنتا ہے ؟ کیا یہودی کہنے سے افغانستان تباہ ہو جائے گا ؟ صرف یہی ہو گا نا کہ جو افغانستان سے آیا ہوا ہے اُس کا دل دُکھے گا افغانستان کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا.صرف بیوقوف نوجوان تھا آپ کو اُس کی بات کی پروا نہیں کرنی چاہئے.دیکھنا آپ کو یہ چاہئے کہ جو ذمہ وار جماعت کے ہیں وہ تو ساروں سے ہمدردی رکھتے ہیں.کسی نوجوان نے اگر کوئی بیوقوفی کی بات کی تو پھر بیوقوف ہوا ہی کرتے ہیں قوم میں.کہنے لگا ہاں میں نے بھی یہی سمجھا تھا کہ یہ نوجوانوں نے کہا ہے.میں نے کہا تو بس پھر آپ کو اس کا ذکر کرنے کی بھی ضرورت نہیں مجھ سے آکر پوچھئے میں تو دیکھو سب سے ہمدردی رکھتا ہوں.جماعت کے لیڈروں سے ملئے وہ ہمد ردی رکھتے ہیں.وہ تو نہیں اِس طرح کے لفظ بولیں گے.تو ہمارے دل میں ہر ایک شخص کی ہمدردی ہونی چاہئے اور اس ہمدردی کا نتیجہ سب سے پہلے یہ ہے کہ ہم دعاؤں میں لگے رہیں اور خدا تعالیٰ سے اس کی امداد چاہیں اور جب موقع ہو تو صحیح مشورہ دیں اور صحیح مشورہ یقیناً اثر انداز ہوتا ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نصیحت کرنی ہمیشہ ہی فائدہ بخش ہوتی ہے فَذَكَرْ اِن نَفَعَتِ الذكرى ٤ نصیحت کر.یہاں ان کے معنے قد کے ہیں کیونکہ نصیحت سے ہمیشہ ہی فائدہ ہو تا رہا ہے.ملک کی حفاظت و بقاء کیلئے تیار ہو جاؤ دوسرا ذریعہ جو ہے وہ موقع کے لئے تیار رہنے کا ہے.ہمیں موقع کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.ہماری جماعت کو عزم کر لینا چاہئے کہ اگر خدانخواستہ پاکستان پر کوئی مصیبت آئی تو پھر ہم اس وقت یہ نہیں دیکھیں گے کہ ہماری زمینیں ہیں ، ہمارے

Page 204

انوار العلوم جلد 24 169 متفرق امور کھیت ہیں، ہمارے کام ہیں، کچھ بھی ہو ہر شخص خواہ بوڑھا ہے جوان ہے وہ سارے اپنے ملک کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہونگے.اس طرح بظاہر تو یہ ایک معمولی بات ہوتی ہے لیکن ہے یہ بڑی بات.کیونکہ جب انسان پہلے سے ارادہ کر کے بیٹھتا ہے تو پھر اس کو موقع پر کام کرنے کی توفیق مل جاتی ہے.لیکن اگر موقع پر ارادہ کرنا چاہے تو ارادے اور کام میں فاصلہ ہوتا ہے لازماً وہ اتنی دیر تک وقفہ کرتا ہے جتنی دیر میں کام خراب ہو چکا ہوتا ہے.مسلمان ارادے کر کے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے اسلام کی مدد کرنی ہے ذرا سا اشارہ ہوتا تھا تو فوراً کھڑے ہو جاتے تھے لیکن آج کا مسلمان جو ہے پندرہ سال اُن کے سامنے کھڑے ہو کر تقریریں کرنی پڑتی ہیں کہ اٹھو.شاباش.ہمت کرو تمہارے لئے مصیبت آئی ہے اِس کی وجہ یہی ہے کہ اُن کے اندر ارادہ پیدا نہیں ہوا.اگر ارادے ہوتے تو نہ کسی تقریر کی ضرورت ہوتی نہ جلسے کی ضرورت ہوتی ایک اعلان ہو تا سارے نکل کھڑے ہوتے.تو ارادہ رکھنا چاہئے اپنے دلوں میں کہ مصیبت کے وقت ہم اپنے ملک کی حفاظت کریں گے.اسی طرح کشمیر کے متعلق بھی جو حالات ہیں وہ ایسے سنجیدہ ہو چکے ہیں اور ایسے اہم ہو چکے ہیں کہ میرے نزدیک اُس کا زیادہ انتظار نہیں کیا جاسکتا.حکومت کی طرف سے تو بار بار یہ اعلان ہو رہا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ قریب آگیا ہے لیکن ابھی مجھے نہیں نظر آتا کہ وہ قریب آیا ہوا ہو.میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ علم النفس کے ماتحت عمل کر رہے ہیں اور ہم علم الاخلاق پر اپنی بنیاد رکھ رہے ہیں.علم الاخلاق کا اثر ایماندار پر ہوتا ہے اور علم النفس کا اثر ہر بے ایمان پر بھی ہوتا ہے.اگر کسی بات پر غصہ آتا ہے تو بے ایمان کو بھی آئے گا لیکن غصہ کو روکنا بے ایمان کے قبضہ میں نہیں وہ ایماندار ہی روکے گا.تو ہماری حکومت علم الاخلاق پر اپنی بات کی بنیاد رکھ رہی ہے.یہ کہتے ہیں ہم نے اتنی لمبی قربانی کی تو اس کا اثر نہیں ہو گا؟ کیا نہر و صاحب مانیں گے نہیں کہ ہم نے دیکھو ایسی شرافت دکھائی.اور وہ بنیاد علم النفس پر رکھ رہے ہیں.وہ یہ جانتے ہیں کہ ایک مظلوم قوم ہے، غریب قوم ہے، غریب قوم کو جب ایک لمبے عرصہ تک آزادی نہیں ملے گی تو آہستہ آہستہ مایوس

Page 205

انوار العلوم جلد 24 170 متفرق امور ہو جائے گی.پھر کہے گی چلو جو ان سے ملتا ہے وہ تو لے لو.تو وہ جو ترکیب اختیار کر رہے ہیں وہ کامیابی کے زیادہ قریب ہے.جو ہم طریق اختیار کر رہے ہیں وہ کامیابی سے بہت بعید ہے.ہم دوسرے کے ان اخلاق پر بھروسہ کر رہے ہیں جو اس کو حاصل نہیں.وہ اُن امیدوں اور اُن آرزؤوں پر بھروسہ کر رہا ہے جو اُس کو حاصل ہیں تو لازمی بات یہ ہے کہ جو چیز حاصل ہے وہ مل جائے گی اور جو نہیں حاصل وہ نہیں ملے گی.وہ تو جانے دو کشمیری تو بیچارہ ظلم میں ہے اس کی تو بات سب جانتے ہیں.میں بتاتا ہوں کہ اس ملک پر بھی اس کا بُرا اثر پڑ رہا ہے.میں کوئی تین سال کی بات ہے کوئٹہ گیا.مجھے کوئی تین چار فوجی افسر ملنے آئے.وہ سارے کر نیل تھے خیر رسمی باتیں انہوں نے کیں کچھ اِدھر اُدھر کی کچھ کشمیر کی بھی ہوئیں.میں نے کہاہاں کشمیر ضرور ملنا چاہئے مسلمانوں کو.اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا.چلے گئے.دوسرے دن پرائیویٹ سیکر ٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کر نیل صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے الگ بات کرنی ہے.میں نے اُن کو لکھا کہ کوئی غلطی تو نہیں آپ کو لگی.یہ کل مجھے مل کے گئے ہیں.مجھے تین چار آدمی ملے تھے اُن میں یہ بھی شامل تھے انہوں نے کہا یہ ہیں تو وہی لیکن وہ کہتے ہیں میں اُن کے سامنے ایک بات نہیں کر سکا میں نے پرائیویٹ بات کرنی ہے.میں نے کہا لے آؤ چنانچہ وہ آگئے.وہ ایک پاکستانی فوج کے اچھے ممتاز عہدیدار ہیں.بیٹھ گئے.میں نے کہا فرمائیے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی.کہنے لگے ہاں کل آپ کے لحاظ سے میں نے بات کی نہیں جب آپ نے کشمیر کے متعلق ہمیں توجہ دلائی لیکن میں چاہتا تھا کہ آپ سے الگ ہو کر بات کروں.میں نے کہا فرمائیے.انہوں نے کہا کہ آپ نے کہا تھا کشمیر ہم کو لینا چاہئے اور کشمیر کے لئے ہم کو قربانی کرنی چاہیئے اس کے لئے ہمیں ہمت کرنی چاہئے یہ آپ نے کس بناء پر کہا ہے ؟ کیا آپ یہ بات نہیں سمجھتے کہ فوج ہندوستان کے پاس زیادہ ہے ؟ میں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ ہندوستان کی فوج زیادہ ہے.کہنے لگے تو کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی بندوقیں اُن کے پاس ہیں.انگریز والی بندوق ہے وہی رائفل ہمارے پاس ہے.

Page 206

انوار العلوم جلد 24 171 متفرق امور - وہی اُن کے پاس ہے میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے کیا آپ کو معلوم ہے کہ نہیں کہ اُن کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے اتنی بڑی جو ہزاروں ہزار بندوق اُن کو ہر مہینے تیار کر کے دیتی ہے ہمارے پاس کوئی فیکٹری نہیں ؟ میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے کیا آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اُن کے پاس اتنا گولہ بارود ہے جو ہمارا تھا وہ بھی انہوں نے رکھا ہوا ہے آٹھ کروڑ کا گولہ بارود ہم کو نہیں دیا اور اُن کے پاس تو تھا ہی زائد نسبت سے ؟ میں نے کہا ٹھیک.کہنے لگے آپ کو پتہ ہے ان کے ہاں چھ سکوارڈن ہیں اور ہمارے ہاں دو سکوارڈن ہیں ہوائی جہازوں کے ؟ میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے اُن کی اتنی آمد ہے ہماری آمد اتنی ہے ؟ میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے جن کا لجوں میں وہ پڑھے ہیں انہی کالجوں میں ہم پڑھے ہیں.ہم کسی اور کالج میں نہیں پڑھے ؟ میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے پھر یہ بتائیے فوج ہماری کم اُن کی زیادہ، گولہ بارود اُن کا زیادہ ہمارا کم، تو ہیں اُن کی زیادہ ہماری کم ، ہوائی جہاز اُن کے زیادہ ہمارے کم، ہم بھی انہی کالجوں کے پڑھے ہوئے ہیں جن کے وہ، ہمارے پاس کوئی خاص لیاقت نہیں، روپیہ اُن کے پاس زیادہ ہے ہمارے پاس کم، تو کس بناء پر آپ ہم کو کہتے ہیں کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے ؟ میں نے کہا آپ سے تو مجھے یہ امید نہیں تھی آپ تو اُن لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے کشمیر کے معاملہ میں بڑا اچھا کام کیا ہے.مجھے پتہ ہے اس کے متعلق.آپ نے بڑا اعلیٰ کام کیا ہے اور ہمارے جو والنٹیر وہاں کام کرتے تھے اور جو آپ کے ماتحت رہے ہیں وہ تو بڑی آپ کی تعریفی کیا کرتے تھے تو یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ اتنے مایوس ہیں آپ؟ کہنے لگا ٹھیک ہے پر آپ سے پوچھتا ہوں نا کہ آپ نے کس معقولیت کی بناء پر یہ مشورہ ہمیں دیا تھا؟ حالات یہ ہیں تو کوئی معقولیت ہونی چاہئے نا کہ آپ نے کیوں حکم دیا؟ میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گم مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً باذن الله.آپ مسلمان ہیں اور قرآن کہتا ہے کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں.تو جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ کئی چھوٹی جماعتیں ہوتی ہیں جو بڑی جماعتوں پر غالب آتی ہیں تو اسی لئے کہا ہے نا کہ چھوٹے ہو کر ڈرا نہ کرو خدا کی

Page 207

انوار العلوم جلد 24 172 طاقت میں ہے کہ تمہیں بڑے پر غلبہ دے دے تو اس لئے آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیئے آپ تھوڑے ہیں خدا تعالیٰ آپ کو طاقت دے دے گا.تو مسکرا پڑا مسکرا کر کہنے لگا دینیات کی باتیں تو یہ ٹھیک ہوئیں پر دنیا میں اس کا کیا تعلق ہے.میں نے سمجھا یہ اس حد سے گزرا ہوا ہے.پھر میں نے اُس کو ایک اور جواب دیا مگر وہ میرے کل کے مضمون کے ساتھ غالباً تعلق رکھتا ہے وہ اُدھر آجائے گا.جب میں نے دیکھا یہ دین سے تو بالکل مایوس ہوا ہے تو میں نے کہا مجھے بڑا ہی تعجب ہے آپ پر.آپ کی تو اتنی تعریف میر الڑ کا کیا کرتا تھا اور دوسرے ہمارے احمدی افسر کیا کرتے تھے کہ آپ کے ساتھ ہم نے مل کر کام کیا ہے اس قدر آپ ہمت والے تھے کہ خطرے میں اِس طرح گرتے تھے جائے کہ جس کی حد کوئی نہیں تو آپ آج اتنے مایوس ہیں؟ کہنے لگا پھر واقعات سے مایوس ہو جاتا ہے انسان.تب میں نے یہ سمجھا کہ مذہب کی دلیل تو ان پر اثر نہیں کرتی اب ان کو کوئی دوسری دلیل دینی چاہئے.میں نے کہا اصل بات یہ ہے کہ کتنا ہی بہادر آدمی ہو اگر اُس پر دباؤ ڈال کر کچھ دیر اُس کا غصہ ٹھنڈار کھا جائے تو ٹھنڈ ا ہو جاتا ہے.چونکہ پاکستان گورنمنٹ لڑنا نہیں چاہتی وہ چاہتی ہے صلح کے ساتھ کام ہو جائے تو وہ اپنے افسروں کو ٹھنڈا کرتی رہتی ہے کہ دیکھنا ! جوش میں نہ آنا، جوش میں نہ آنا.تو آپ کی روح ماری گئی اِس وجہ سے آپ کمزور ہیں ورنہ جس وقت لڑائی شروع ہو گئی تو دو چار دن میں آپ کا خون اتنا گرم ہو گا کہ جوش میں آجائیں گے.میں نے کہا جب یہ پارینشن ہوا ہے ایک دن رات کے وقت ایک فوجی افسر چھاؤنی سے میرے پاس آپہنچا نو بجے کے قریب.مجھے بتایا گیا کہ ایک لیفٹینٹ ملنے آیا ہے.میں نیچے گیار تن باغ میں.میں نے کہا آپ کس طرح ملنے آرہے ہیں؟ آپ احمدی تو نہیں ہیں ؟ کہنے لگا ہاں میں احمدی نہیں ہوں.میں نے کہا تو یہ رات کے وقت آپ بھاگے ہوئے کہاں سے آئے ہیں؟ کہنے لگا جنرل نذیر یہاں آپ کا احمدی افسر ہے اُس کو کہیں کہ مجھے فارغ کر دے میں کشمیر میں لڑنا چاہتا ہوں.میں نے کہا جنرل نذیر پاکستان کا جرنیل ہے یا میں نے اُسے مقرر کیا ہے ؟ میں اُسے کس طرح کہہ دوں کہ فارغ کر دو ؟ کانپ رہا تھا اُس نے کہا اور کون سا موقع آئے گا ہمیں

Page 208

انوار العلوم جلد 24 173 اپنی جانیں دینے کا.وہاں جو ان لوگوں نے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کیا ہے ہم فوجی دیکھ کے آئے ہیں.اب یہی موقع ہے ہمارے لئے ہم فوجی ہیں کس لئے ؟ ہمیں جانیں دینے کے لئے رکھا گیا ہے تو جان دینی نہیں تو ہمیں رکھنے کا کیا مطلب.وہ بیشک فوجی افسر ہے پاکستان کا لیکن آپ اُسے کہیں وہ آپ کی بات مان لے گا آپ اُس کو کہیئے میں بھاگ جاؤں گا میرے خلاف کوئی کیس نہ چلائے پھر مر گیا تو میں مر گیا نہیں تو میں پھر آجاؤں گا مجھے صرف کشمیر جانے دیں.میں نے کہا یہ غلط بات ہے بے اصولا پن ہے میں سر کاری افسر کو کوئی مشورہ نہیں دے سکتا.بس وہ کانپتا تھا، آنکھوں میں اُس کے آنسو آگئے اور کہنے لگا میں تو بڑی امید سے رات کو بھاگ کے آپ کے پاس پہنچا تھا.میں نے کہا ٹھیک ہے بے اصولی بات میں نہیں کر سکتا.حکومت کے انتظام میں بھی یہ بات خلل ڈالتی ہے اور ہے بھی یہ عقل کے خلاف بات.میں نے کہا اِسی طرح میرے پاس ایک فوجی افسر آیا تھا، وہ نوجوان آدمی تھا آپ تو بڑے تجربہ کار ہیں.کرنیل ہیں.تو بات اصل میں یہ ہے کہ اُس وقت تو ابھی کئی کئی لڑائی ہو رہی تھی اس کے اوپر کوئی دباؤ نہیں تھا اس لئے اُس کا خون جوش میں آیا ہوا تھا آپ کو ایک لمبے عرصہ تک کہا گیا تھا کہ بیٹھو بھی، ٹھہرو بھی، صبر بھی کرو.تو ہوتے ہوتے صبر کراتے کراتے آپ کا پارہ حرارت زیر و پر جا پہنچا.میں نے اس کے بعد کہا میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں.میں نے کہا لاہور میں ایک دعوت تھی ایک بڑا فوجی افسر مجھے ملا اور مجھے اُس نے کہا کہ میں آپ سے ایک مشورہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا کیا؟ کہنے لگا کوئی ترکیب ایسی آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ بغیر اس کے کہ کوئی ایک سپاہی بھی مارا جائے میں کشمیر فتح کرلوں؟ میں ہنس پڑا کہ یہ کیا آپ عقل کے خلاف بات کر رہے ہیں.جب لڑائی ہو گی تو کچھ مریں گے بھی کچھ بچیں گے بھی.اس کا کیا مطلب کہ بغیر ایک سپاہی مرنے کے کشمیر فتح کرلیں؟ کہنے لگا میں اِس لئے کہتا ہوں کہ میں ایک مورچے پر مقرر ہوں وہاں ایک پہاڑی اونچی تھی جس پر کہ ہندوستانی فوج تھی.اُس وقت پاکستان اعلان کر چکا تھا کہ ہماری فوجیں آگے داخل ہو رہی ہیں تو مجھے حفاظت کے لئے حکم تھا کہ اس

Page 209

انوار العلوم جلد 24 174 سے آگے ان کو نہیں بڑھنے دینا.تو میں نے دیکھا کہ اونچی پہاڑی پر وہ قابض ہیں اور ہم ہیں نیچے اور ہر وقت اُن کے گولے پڑتے ہیں تو ہم نے فیصلہ یہ کیا کہ اس پہاڑی سے ان کو اُتارنا چاہئے ورنہ یہ آگے آجائیں گے اور ہم روک نہیں سکیں گے.چنانچہ میں نے اپنے فوجی افسروں کو بلا کر مشورہ کیا اور ایک ہوشیار کر نیل کے سپر د کمان کی اور اندازے لگائے کہ اُس پہاڑی کے سامنے اور اُس کے اوپر کتنی فوج ہو گی.ہوائی جہاز استعمال کرنے کی تو ہم کو اجازت نہیں تھی ہم دیکھ سکتے تھے یا فوجی سپاہیوں کو بھیج کر معلوم کر سکتے تھے.تو جب میں نے معلوم کیا تو جو اندازہ ہم نے لگایا تھا کہ اتنی فوج ہو گی اتنی تو ہیں ہوں گی اُس کے اوپر ہم نے فوج بھیج دی.وہ آدمی بڑا اچھا ہوشیار تھا اُس نے جاکر حملہ کیا لیکن جب حملہ کیا تو معلوم ہوا کہ اس کی پشت پر بہت زیادہ فوج پڑی ہوئی تھی اور بہت زیادہ سامان بندوق اور تو ہیں وغیرہ تھیں.بہر حال انہوں نے حملہ کر دیا چوٹی کے قریب پہنچے اور بہت بُری طرح اُن کو انہوں نے دبایا اور بڑی بہادری سے حملہ کرتے ہوئے نکلے اور فائدہ یہ ہوا کہ ہماری ایک فوج جو پھنسی ہوئی تھی وہ بیچ کے آگئی.تو کہنے لگے ہندوستانی ریڈیو نے بہت شور مچایا کہ سات سو آدمی مارا گیا ہے اور تین ہزار قید ہو گیا ہے اور یہ ہے اور وہ ہے.کہنے لگے ہماری تو صرف ایک بٹالین تھی ہزار آدمی کی اِس میں سے سات سو مارا گیا تو زخمی ہونے اور قیدی ہونے کا تو کوئی سوال ہی نہیں ہو تا.کہنے لگے آرڈر آگئے.کمانڈر انچیف نے مجھ سے جواب طلبی کی کہ تم نے سات سو آدمی مروا دیا ہے اور اتنا آدمی قید کر وا دیا ہے اور رپورٹ کوئی نہیں.میں نے جواب یہ دیا کہ صاحب ! یہ جھوٹ ہے وہ تو روز جھوٹ بولتے ہیں اُن کی تو غرض یہ ہے کہ اپنے آدمیوں کے حوصلے بڑھائیں اور ہمارے حوصلے گرائیں.اتنی فوج نے حملہ کیا ہے اور سات آدمی گل مرے ہیں اور قید خبر نہیں اُس نے تین چار بتائے یا کہا کوئی نہیں ہوا.اور ہمارا فائدہ یہ ہوا کہ ہماری ایک رجمنٹ جو پھنسی ہوئی تھی وہ بیچ کے آگئی اور دوسرے ہم نے اُن کا بڑا سخت نقصان کیا اور اُن پر رعب قائم کیا.چوٹی پر ہماری فوج پہنچ گئی.ہم نے تو بڑا اچھا کام کیا ہے.تو کہنے لگے پھر دوبارہ اس کے اوپر مجھ سے جواب طلبی ہوئی کہ یہ بتاؤ سات آدمی کیوں مرے ہیں ؟ تو

Page 210

175 انوار العلوم جلد 24 اس لئے میں پوچھتا ہوں کہ آپ وہ ترکیب بتائیے کہ کشمیر میں فتح کرلوں اور ایک آدمی بھی نہ مرے.میں نے کہا پھر یہ گورنمنٹ سے ہی پوچھو مجھ سے کیا پوچھتے ہو.تو جب میں نے یہ مثال سنائی اُس کرنیل کا چہرہ روشن ہو گیا کہنے لگا میری تسلی ہو گئی، میں سمجھ گیا.میں نے کہا اچھا.اب میں حیران کہ قرآن کی آیت سے تسلی نہیں ہوئی.تو اس بات سے تسلی ہو گئی ہے.میں نے کہا آپ کی تسلی کس طرح ہو گئی ہے ؟ کہنے لگا وہ کر نیل جس نے حملہ کیا تھا وہ میں ہی تھا اور اسی کا بُرا اثر میری طبیعت پر ہے.تو کہنے لگا میں ہی تھا وہ حملہ کرنے والا.اور جب افسر کو پوچھا گیا تو مجھے بہت زجر ہوئی اور میرا حوصلہ بالکل ہی مر گیا.میں نے کہا یہ چند دن کی بات ہے جب تک پاکستان نہیں لڑنا چاہتا وہ تم کو روکے گا.لازماً اُس نے روکنا ہے وہ روکے گا تو سپاہیوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے کہ لڑنے تو کوئی دیتا نہیں آہستہ آہستہ مایوسی پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.تو تیار رہنے اور ایمان کے ساتھ مضبوطی کے ساتھ تیار رہنے اور وقت پر جاکر ارادہ کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.تم کو اپنے نفسوں میں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ ہماری اور عالم اسلام کی حالت اس وقت ایسی ہے جیسے بہتیں دانتوں میں زبان ہوتی ہے.اگر اس وقت فلسطین پر کوئی مصیبت آجائے یا عراق پر آجائے یا ایران پر آجائے تو اب حالت ایسی ہے کہ یا مسلمان اکٹھے مریں گے یا اکٹھے بچیں گے.یہ وہ وقت نہیں کہ فلسطین اور ایران اور مصر کو الگ الگ دیکھا جائے یا پاکستان ہے اس کو الگ دیکھا جائے.اگر کوئی ملک بیوقوفی کرتا ہے تو اس کی پروا نہیں کرنی چاہئے.فرض کرو وہ کہہ دیتا ہے مجھے تمہاری ضرورت نہیں تو اس کو سکنے دو جو بکتا ہے تجھے ضرورت ہے ہماری اور ہمیں تیری ضرورت ہے بہر حال ہم نے اتحاد سے ہی کام کرنا ہے.اس ارادہ کے ساتھ جب دیکھو گے علاوہ نیک مشورہ او ردعاؤں کے تو پھر تمہارے اندر وہ صحیح عزم پیدا ہو جائے گا کہ موقع کے اوپر فوراً قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ گے.اسی طرح یہ جو لوگ افسروں کے خلاف باتیں کرتے ہیں تم یہ ذمہ داری اپنے

Page 211

انوار العلوم جلد 24 176 متفرق امور اوپر لے لو کہ جہاں لاری اور ریل میں کوئی شخص بولے فوراً اُسے پکڑو اور اس طرح اُس سے سوال کرو کہ تو بتا تو غلام محمد گورنر جنرل کو جانتا ہے ؟ تو محمد علی وزیر اعظم کو جانتا ہے؟ تو محمد علی فائنانس منسٹر کو جانتا ہے ؟ تو گورمانی وزیر داخلہ کو جانتا ہے ؟ تو اشتیاق قریشی کو جانتا ہے ؟ تو فیروز خان کو جانتا ہے ؟ تو مظفر خان کو جانتا ہے ؟ تو امین الدین صاحب گورنر کو جانتا ہے؟ یہ کیوں کہتا ہے کہ سارے کے سارے بے ایمان ہیں ؟ کتنوں سے تیرا واسطہ پڑا ہے؟ کسی ایک یا دو یا چار سے تیر اواسطہ پڑا ہے تو سارے ملک کے افسروں کو بدنام کرتا ہے ؟ دیکھو اتنے میں ہی یکدم پانچ سات نوجوان تمہاری تائید میں کھڑے ہو جائیں گے کہیں گے یہ بالکل ٹھیک بات ہے اور آہستہ آہستہ یہ رو بدل جائے گی اور کسی کو جرات نہیں ہو گی کہ ریلوں اور سڑکوں اور لاریوں میں گورنمنٹ کے خلاف اس قسم کا پروپیگنڈا کرے.اور جس وقت یہ رو بدلے گی ملک میں امن بھی پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور حکومت کے ساتھ تعاون کی روح بھی پید اہوتی چلی جائے گی.جماعت کے اخبار اور رسائل پانچویں بات میں احمد یہ لٹریچر کے متعلق کی اشاعت بڑھانے کی تحریک کہنا چاہتا ہوں.انسانی علم یا فیض صحبت سے بڑھتا ہے یا مطالعہ سے بڑھتا ہے.فیض صحبت کا زمانہ تو اب بہت ہی کم ہو گیا ہے.پرانے زمانہ میں تو دروازوں کے آگے بیٹھ جاتے تھے اور وہ ہلتے نہیں تھے.کہتے تھے چاہے ایک بات کان میں پڑ جائے چاہے دو پڑ جائیں علم بہر حال قیمتی چیز ہے ہم بیٹھے رہیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قریباً تین سال پہلے حضرت ابوہریرہؓ ایمان لائے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بڑی دیر میں ایمان لایا ہوں.میں بیس سال پہلے مجھ سے ایمان لائے ہوئے آدمی روز رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سنتے تھے تو مجھے یہ موقع نہیں ملا اب میں جلدی جلدی کچھ حاصل کروں.وہ کہتے ہیں میں نے قسم کھالی کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کو نہیں چھوڑونگا.چنانچہ میں رات اور دن بیٹھا رہتا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلتے تھے میں فوراً آپ کی بات سن لیتا تھا اس وجہ سے باقی سب صحابہ ย

Page 212

انوار العلوم جلد 24 177 متفرق امور نے مل کر بھی اتنی باتیں نہیں سنیں جتنی اکیلے میں نے سنی ہیں.تو ایک تو یہ رنگ اور شوق ہوتا ہے.مگر یہ رنگ اور شوق لوگوں میں کم ہے.دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ انسان صحیح مطالعہ کرے اور مطالعہ کر کے اپنے علوم کو بڑھائے یہ آجکل زیادہ آسان ہے کیونکہ مطبع نکل آئے ہیں.اخبار میں نکل آئی ہیں ، رسالے نکل آئے ہیں، علوم کثرت کے ساتھ باہر آتے ہیں اُن کے مطالعہ سے انسان فائدہ اٹھا سکتا ہے.آگے مطالعہ کے لئے دو قسم کا لٹریچر ہوتا ہے ایک مؤقت الشیوع او را یک انفرادی حیثیت میں شائع ہونے والا.مؤقت الشیوع رسالے جو ہمارے ہیں اُن میں ”الفضل ہے، ریویو آف ریلیجنز ہے، فرقان ہے، مصباح ہے، خالد ہے.یہ وہ مؤقت الشیوع رسالے ہیں جن سے جماعت کے لوگوں تک سلسلہ کی آواز پہنچتی رہتی ہے لیکن باوجو د میرے بار بار توجہ دلانے کے ابھی اِن اخباروں اور رسالوں کی وہ خریداری نہیں ہے اور اتنی اشاعت نہیں جتنی ہونی چاہئے.مثلاً جلسہ پر تیس ہزار کے قریب آدمی آجاتا ہے بعض دفعہ پینتیس یا چالیس ہزار تک بھی آگیا ہے.بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ ہو گیا ہے لیکن المصلح کی خریداری بائیس سو کے قریب ہے.اب یہ خریداری اُس تعداد سے جو جلسہ پر آجاتے ہیں کوئی نسبت ہی نہیں رکھتی اور پھر جو ہزاروں ہزار آدمی باہر بیٹھا ہے ، لاکھوں آدمی باہر بیٹھا ہوا ہے وہ تو اور زیادہ ہے.جو لوگ غیر ملکی ہیں اُن کی زبان اور ہے اُن کو جانے دو.جو ہمارے ملکی ہیں وہ بھی لاکھوں آدمی باہر رہ جاتا ہے تو یہ اُس نسبت سے کم ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ المصلح مثلا روزانہ اخبار ہے اسکی قیمت زیادہ ہے.یہ ٹھیک ہے لیکن اگر پانچ پانچ چھ چھ مل کر خرید لیں تو آپ ہی قیمت تھوڑی ہو جاتی ہے.فرض کرو چو بیس روپیہ قیمت رکھی ہے چھ آدمی مل گئے تو چار چار روپے ہو گیا.چار روپے تو آجکل ہفتہ واری اخبار کے نہیں ہوتے.پہلے بدر وغیرہ چھپتے تھے ہفتہ واری تھے اُن کی اس چار سے زیادہ قیمت ہوتی تھی تو جماعتیں مل کے لے لیں.چھوٹی جماعتیں آپس میں مل کے چندہ کریں اور مل کے خرید لیا کریں.مگر باوجود بار بار توجہ دلانے کے جماعت

Page 213

انوار العلوم جلد 24 178 کو پوری طرح آواز پہنچتی نہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی نیک تحریکیں رہ جاتی ہیں.بعض دفعہ تو میں نے یہ بھی چڑ کے کہا ہے کہ تم اخبار کسی کو دکھایا نہ کرو تا کہ وہ خریدے.مگر کئی دفعہ میں نے یہ بھی نصیحت کی ہے مایوس ہو کر کہ اچھا تم پکڑ پکڑ کے لوگوں کو اپنا اخبار پڑھایا کرو کیونکہ دونوں دور انسان پر آتے ہیں کبھی چڑتا ہے انسان کہ کہتا ہے خرید لو.نہیں خریدتے تو نہ دو اُن کو اخبار.پھر کبھی یہ خیال آتا ہے کہ نہ دو تو بالکل محروم رہ جاتے ہیں.پھر میں کہتا ہوں پکڑ کے پڑھاؤ.تو در حقیقت مختلف دور ہیں انسانی قلب کی کیفیت کے.بہر حال ان اخباروں کا پھیلنا اور ان کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے.ا ریویو آف ریلیجنز کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خواہش تھی جب جماعت صرف چند ہزار تھی کہ دس ہزار شائع ہو مگر افسوس ہے ہم اتنی بڑی جماعت ہو گئے ہیں اور اب بھی ہم دس ہزار نہیں شائع کر سکے.اگر دس ہزار وہ شائع ہو ( ریویو آف ریلیجنز ) تو اس کے اوپر ایک لاکھ روپیہ سالانہ خرچ ہوتا ہے.در حقیقت اتنی بڑی ہماری جماعت کے لئے ایک لاکھ کونسی مشکل ہے.میرے نزدیک تو سو آدمی جماعت میں یقیناً ایسا موجود ہے جو ہزار ہزار روپیہ سالانہ دے سکتا ہے حضرت صاحب کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے.لاکھ روپیہ بن جاتا ہے.دس ہزار رسالہ تمام دنیا کی لائبریریوں میں جانا شروع ہو تو ایک سال میں کتنا شور پڑ جاتا ہے.ابھی حضرت صاحب کی کتاب اسلامی اصول کی فلاسفی امریکہ میں شائع کی گئی ہے اور اس کا اثر اتنا گہرا پڑرہا ہے کہ کل ہی میرے پاس رپورٹ آئی ہے کہ کوئی اٹھارہ میں یونیورسٹیوں کی طرف سے اُس کے آرڈر آئے ہیں کہ ہماری لائبریریوں کے لئے بھیج دو.دس بارہ پبلشرز کی طرف سے اسکی کچھ کا پیاں منگوائی گئی ہیں کہ ہم آپ کے ایجنٹ بننا چاہتے ہیں اس کو شائع کرنا چاہتے ہیں.بعض بڑے بڑے پایہ کے آدمی مثلا یونیورسٹیوں کے چانسلروں نے لکھا ہے کہ اس قسم کی دیدہ زیب اور اعلیٰ مضمون والی کتاب ہمارے لئے حیرت انگیز ہے.ایک نے لکھا ہے کہ میں اپنی شیلف پر اس کو نمایاں جگہ پر رکھنے میں فخر

Page 214

179 انوار العلوم جلد 24 محسوس کروں گا.اگر ریویو آف ریلیجنز دس ہزار دنیا کی دس ہزار لائبریریوں میں جائے اور فرض کرو پانچ آدمی بھی اس کو پڑھ لیا کریں تو پچاس ہزار آدمیوں کو ہماری تبلیغ سارے عیسائیوں اور ہندوؤں وغیرہ کو مہینہ میں پہنچ جاتی ہے کہ نہیں ؟ تو لاکھ روپیہ میں ہے کیا رکھا ہوا.ہماری اس جماعت کے لئے اب لاکھ کچھ چیز نہیں ہے.دو تین ہزار دینے والا سو آدمی یقیناً ہمارے پاس موجود ہے اگر وہ ہمت کرے.اور اس کو اور بھی گر ادو ڈ گنے آدمی کر دو.چلو کچھ ہزار ہزار دینے والے رکھو مثلاً ڈیڑھ سو کر دو.پانچ پانچ سو دینے والے سو آدمی ہوں اور ہزار ہزار دینے والے پچاس آدمی ہوں.اسی طرح اور بھی گرایا جاسکتا ہے زیادہ سے زیادہ پانچ سو آدمیوں پر پھیلاؤ تب بھی ایک لاکھ روپیہ آسانی سے ہو جاتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ خواہش آج تک بھی تشنہ تکمیل رہی ہے.ہم نے اس خواہش کو ایک سال بھی تو پورا نہیں کیا کہ دس ہزار ریویو آف ریلیجنز دنیا میں شائع کیا جائے.بہر حال ان اخباروں کا مطالعہ رکھنا چاہئے اور اخباروں کو بھی اپنے آپ کو مفید بنانے کی کوشش کرنی چاہئے.اخبارات اور رسائل کو ہمارے اخباروں کو خواہ مخواہ دوسروں سے الجھنا نہیں چاہئے.میں دیکھتا ہوں بعض دفعہ بلاوجہ الجھ زیادہ سے زیادہ مفید بناؤ جاتے ہیں کوئی فائدہ نہیں اُس کا ہو تا.آخر ہر شخص کو اپنا مقام سمجھنا چاہئے.اپنا کام سمجھنا چاہئے.ہمیں کیا ضرورت ہے کہ دوسروں کی نقل کرتے پھریں.رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کا واقعہ آتا ہے نہایت دردناک.کسی مسئلہ کو سوچنے کے لئے آپ صفا میں باہر نکلے او رایک چٹان کے اوپر بیٹھ گئے اور سوچنے لگے.صبح کا وقت تھا ابو جہل نکلا.ابھی لوگ چلتے پھرتے کم تھے ادھر آپ کو اُس نے دیکھا کہ سر لٹکائے ہوئے بیٹھے ہیں اکیلے.تو اُس نے کہا یہ موقع اچھا ہے ان کو ذلیل کرنے کا.سیدھا آپ کی طرف آیا اور زور سے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا.جب آپ کے منہ پر اُس نے تھپڑ مارا تو آپ نے سر اوپر اٹھایا اور فرمایا اے لوگو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم بیٹھے بٹھائے بلاوجہ مجھے مارتے ہو ؟ اور پھر آپ نے اس طرح سر جھکا لیا.حضرت حمزہ

Page 215

انوار العلوم جلد 24 180 متفرق امور.اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے.چچا تھے آپ کے.بڑے بہادر تھے.سپاہی تھے.شکار کو جاتے تھے.سارا دن ادھر ادھر پھرتے تھے.مسلمان نہیں ہوئے : تھے.حمزہ کا گھر سامنے تھا ایک پرانی لونڈی جس کے ہاتھوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے اور اُس نے آپ کو بڑا اور جوان ہوتے ہوئے دیکھا تھا ( اور لونڈیوں کو بھی ماں جیسی محبت ہو جاتی ہے ) وہ کھڑی تھی دروازہ کے آگے.اُس نے یہ سارا نظارہ دیکھا.اُس کے دل کو بہت تکلیف پہنچی او ر وہ روئی.حمزہ تو تھے نہیں سارا دن کہتے ہیں کام کرتی جاتی اور یہ فقرہ دہراتی جاتی تھی کہ میری آمنہ کے بچے کو لوگ بلاوجہ مارتے ہیں.شام کے وقت حضرت حمزہ آئے ، ہتھیار لگائے ہوئے تھے، بڑی شان کے ساتھ ، اپنے فخر کے ساتھ کمان لٹکائی ہوئی گھر میں داخل ہوئے تو دیکھتے ہیں وہ لونڈی اُن کے پیچھے پڑگئی.کہنے لگی شرم نہیں آتی سپاہی بنا پھرتا ہے یہ کوئی سپاہی ہونا ہے کہ تم شکار مارتے پھرتے ہو.تم کو پتہ ہے کہ آج تمہارے بھیجے کے ساتھ کیا ہوا؟ حمزہ نے پوچھا کیا ہوا؟ کہنے لگی میں دروازہ کے آگے کھڑی تھی اور رسول اللہ کا نام لے کر کہا کہ وہ ایک پتھر پر بیٹھا ہوا تھا اور کچھ سوچ رہا تھا کہ اتنے میں ابوالحکم (ابو جہل کا نام ابوالحکم تھا) آیا اور بغیر اس کے کہ اس نے اُس کی طرف آنکھ بھی اٹھائی ہو جا کر بڑے زور سے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا اور خدا کی قسم اُس نے کچھ بھی نہیں کہا.اُس نے صرف یہی کہا کہ اے لوگو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ مجھے یونہی مارتے ہو ؟ تو اگر تم سپاہی ہو تو جاکے غیرت دکھاؤ اور بدلہ لو.یہ سپاہ گری تمہاری کون سی عزت ہے.لونڈی کے منہ سے بات سن کے حمزہ کو بھی غیرت آگئی.اُسی طرح کوئے.ابو جہل خانہ کعبہ میں بیٹھا ہوا تھا.ارد گرد رؤسا بیٹھے تھے لوگ بیٹھے تھے اور فخر میں وہ یہی واقعہ سنا رہا تھا کہ آج میں اِس طرح گزرا.محمد یوں بیٹھا ہو ا تھا.میں نے یوں مارا چانٹا زور سے.منہ ہلا دیا اُس کا.اتنے میں حضرت حمزہ پہنچے.ہاتھ میں کمان تھی.کمان اٹھا کے زور سے اُس کے منہ پر ماری اور کہا تو بہادر بنتا پھرتا ہے محمد تیرے آگے جواب نہیں دیتا اس لئے تو اُس کے آگے بہادر بنتا ہے.میں آیا ہوں میرے ساتھ لڑ اگر تیرے اندر طاقت ہے.وہ لوگ کھڑے ہو گئے

Page 216

انوار العلوم جلد 24 181 ار در گرد.اس کے جو ساتھی تھے، دوست تھے اور جھپٹے حضرت حمزہ پر.لیکن حضرت حمزہ کی بھی قوم بڑی تھی.ابو جہل سمجھ گیا کہ یہاں تو آج مکہ میں خون کی ندیاں بہہ جائیں گی.اُس نے کہا نہیں.خیر مجھ سے ہی غلطی ہو گئی تھی جانے دو.7 تو دوسروں سے الجھنے میں کوئی فائدہ نہیں ہو تا.حمزہ اِس بات کے اوپر سیدھے گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھا کرتے تھے وہاں گئے.دروازہ کھٹکھٹایا.آپ نے ایک صحابی سے کہا پوچھو کون ہیں؟ کہنے لگے حمزہ.آپ نے فرمایا حمزہ شکار چھوڑ کے کدھر کو آنکلے ؟ انہوں نے کہا شکار چھٹ گیا اب میں آپ کا شکار بن کے آ گیا ہوں اور اُسی وقت کلمہ پڑھ کے وہ مسلمان ہو گئے اور پھر کہا یا رسول اللہ ! کب تک آپ اِس گھر میں بیٹھیں گے اور ان سے ڈریں گے خدا کی قسم! میں خانہ کعبہ میں خون کی ندیاں بہا دونگا اگر کچھ کہیں.چلئے مسجد میں چل کر نماز پڑھیئے.آپ نے فرمایا نہیں ابھی وقت نہیں آیا.تو یہ چیز کتنا اخلاق پیدا کرتی ہے.حمزہ کا اسلام اور بعد میں عمرہ کا اسلام در حقیقت اُس قربانی کا نتیجہ تھا، اس صبر کا نتیجہ تھا جو مسلمانوں نے دکھایا.ہمارے اخباروں کو بھی چاہئے کہ ایسے موقع پر صبر سے کام لیں.اگر کوئی سختی کرتا ہے تو چپ کر رہیں.آخر گالی سے ہمارے خلاف تو کوئی نتیجہ نکلتا نہیں لیکن گالی کو برداشت کرنے سے ہماری تائید اُن میں ضرور پید اہو گی.تو بلاوجہ ہمارے اخباروں کو دوسروں سے الجھنا نہیں چاہئے.میں بعض دفعہ دیکھتا ہوں.ابھی میں نے اخبار ڈان کے خلاف “المصلح“ کا مضمون پڑھا تو مجھے معلوم ہوا یو نہی چڑایا گیا ہے.بھلا ہمیں ڈان کے جھگڑے میں الجھنے کی کیا ضرورت ہے.خواہ مخواہ اُس سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے.اور اگر ہم نے کچھ کہا ہی ہو تو نصیحت کے رنگ میں کہنا کافی ہے.دوسروں کے اوپر سختی کرنے کی کیا ضرورت ہے.ہماری سختی سے تو اس پر اثر نہیں ہوتا.وہ پچاس ہزار شائع ہونے والا اخبار اور ہر قسم کے فرقوں میں شائع ہونے والا اخبار.ہمارا اخبار اردو میں چھپنے والا.ایک محدود قوم کے پاس جانے والا.بھلا اس جواب کو پڑھتا ہی کون ہے اور سنتا ہی کون ہے.یہ چڑانے والی بات ہے اور کیا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَعْرِضْ عَنِ الْجهلِينَ 3 کوئی ہم پر سختی بھی

Page 217

انوار العلوم جلد 24 182 کر لے تو ہم کو اُس کے مقابلہ میں نرمی سے کام لینا چاہئے.علمی رنگ کے نئے نئے ہمیں چاہئے کہ ہمارے اخبار اور ہمارے رسالے مضامین لکھنے کی ضرورت لکھنے والے اور ہمارے جو تعلیم یافتہ لوگ ہیں وہ زیادہ سے زیادہ علمی مضامین کی طرف توجہ کریں اسلام کے بہت سے حصے تشنہ تحقیق ہیں.اُن پر صدیوں تک ابھی نئے مضمون لکھے جاسکتے ہیں اور اس عرصہ میں ہزاروں مسائل پیدا ہوتے جائیں گے.غرض صرف تحریص و ترغیب پر نہ رہا جائے یہ خلیفہ کا کام ہے.خطبے چھپتے رہتے ہیں اُن میں تحریص و ترغیب ہو جاتی ہے.زیادہ علمی امور کی طرف تحقیق کے ساتھ توجہ کی جائے اور نیا علم پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.ہر پرانے مسئلہ کے متعلق نئے نئے دلائل نکالے جاسکتے ہیں کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا جس کے متعلق نئی دلیلیں نہ لائیں اور نئے زاویہ نگاہ نہ پیدا کئے جائیں.جتنے مسئلے آج تک ہزاروں سال سے چلے آرہے ہیں اُن پر نئے نئے مضمون نکل رہے ہیں.آخر مسلمانوں نے عصمت انبیاء کے متعلق بہت کچھ لکھا تھا حضرت صاحب نے آ کے نیا ہی مضمون کھول دیا.مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں بڑے قصائد لکھے تھے مگر حضرت صاحب کے قصائد نے بالکل ہی مضمون بدل دیا.لوگوں نے رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم کے کیریکٹر کو بڑے بڑے عمدہ رنگ میں پیش کیا تھا پر حضرت صاحب نے آکے اُس کو ایسا رنگ دے دیا کہ معلوم ہوا دنیا نے ابھی توجہ ہی نہیں کی تھی.تو یہ خیال کر لیا کہ یہ پامال مضمون ہے ، یہ پرانے مضمون ہیں یہ غلط ہے.اگر تحقیق سے دیکھا جائے تو ہر مضمون میں ایک جدت پیدا کی جاسکتی ہے اور نئے نئے رنگ میں اُس مضمون کو سامنے لایا جاسکتا ہے.مثلاً مسیح کا واقعہ ہے مسیح کی وفات کے ہم قائل ہیں ہم نے قرآن سے اس پر بحث کی ہے اور ابھی قرآن کی بیسیوں آیتیں اور نکل آئیں گی جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے.ہم نے حدیث سے بحث کی ہے پر حدیثیں بیسیوں اور نکل آئیں گی جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے.ہم نے علماء کے اقوال پر غور کیا پر علماء تو لاکھوں گزرے ہیں اور لاکھوں کتابیں ہم تک نہیں

Page 218

انوار العلوم جلد 24.183 پہنچیں.لاکھوں میں سے سینکڑوں کتابیں اور نکل آئیں گی جن میں وفات مسیح پر لوگوں نے لکھا ہے مگر ان کے علاوہ غیر قوموں میں بھی اس کا علم موجود ہے مثلاً مسیح کی صلیب کا واقعہ رومی حکومت کے ماتحت گزرا ہے اور رومی حکومت کوئی قبیلہ نہیں تھا.رومی حکومت آدھی دنیا پر حاکم تھی.اس تاریخ میں اُس کے ہر چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو بڑی تفصیل سے لکھا ہوا ہے.مسیح کے واقعات بھی اُس کے جو مختلف گزٹ ہیں یا مختلف تاریخیں ہیں اُن میں وہ درج ہیں لیکن ہمارے ہاں کسی نے کبھی بھی توجہ نہیں کی کہ مسیح کے واقعات کو اُس زمانہ کی تاریخ میں سے نکال کر دیکھے.انہوں نے مسیح کی ولادت کو کس طرح ثابت کیا ہے اگر وہ نکالیں تو بیسیوں قسم کی روشنیاں اُس پر پڑ جائیں گی.مثلاً مسیح کے واقعہ میں یہ بھی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ یوسف کی حضرت مریم سے شادی ہوئی اور وہ یوسف کے ہی بیٹے تھے لیکن جب رومی تاریخوں میں ہم نے پڑھا تو وہاں یہ نکلا کہ مریم پر اعتراض کیا جاتا تھا کہ اُس کا یہ حرام کا بچہ ہے.اب اگر واقع میں خاوند ہوتا اور خاوند کا بچہ ہوتا تو لوگ خاوندوں والی بیوی کو کبھی کہا کرتے ہیں تیر احرام کا بچہ ہے ؟ یہ ایک تصدیق مل گئی حضرت صاحب کے خیال کی یا پرانے محققین کے خیال کی.اس میں حضرت صاحب بھی متفق ہیں پرانے محققین سے.اور پرانے محققین ہمارے ساتھ متفق ہیں.تو اگر ان حوالوں کو نکالا جائے تو بیسیوں چیزیں اس میں نکل آئیں گی.مثلاً وقت جو ہے صلیب کا وہ بھی نکل آئے گا.افسروں کا رویہ بھی نکل آئے گا.یہ بھی نکل آئے گا کہ صلیب پر کتنے وقت میں موت ہوتی ہے.ہم نے چند حوالے نکالے ہیں لیکن اس میں تفصیلاً ہزاروں ہزار واقعات پھانسی کے درج ہوں گے.اُس میں بعض شائد ایسے بھی واقعات مل جائیں کہ بعضوں کو جلدی اتارا تو وہ زندہ تھے.تو اگر رومی تاریخوں کو ہمارے آدمی پڑھنا شروع کریں اور اُن میں سے ایسے واقعات جمع کرنا شروع کریں تو ایک نیا مضمون پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور پھر یہ ہے کہ جب انسان ان تاریخوں کو پڑھتا ہے تو بیسیوں اور مضمون بھی نکل آتے ہیں.رومی حکومت ایک منظم حکومت تھی.آج تک یوروپین قانون جو بن رہا ہے تو وہ رومن لاء پر بنتا ہے بعض

Page 219

انوار العلوم جلد 24 184 اصولِ قانون وہ ہوتے ہیں جو روما میں قانون جاری تھا.اسی طرح جو گور کمنٹیں باہر کالونیز بناتی ہیں اور دوسرے ملکوں میں جاکر حکومتیں کرتی ہیں اس میں بھی رو من طریق کو اختیار کرتے ہیں کہ رومی اپنی کالونیز کے ساتھ کیا سلوک کرتے تھے اور کس طرح انہوں نے سینکڑوں سال تک کالونیز کو اپنے قبضہ میں رکھا.پھر یہ ڈیماکر سی جو کہلاتی ہے یہ بھی رومن طریقے پر ہے کیونکہ روما میں ہی یہ آزادی تھی کہ لوگ الیکشن کرتے تھے گو اس کی نوعیت اور قسم کی تھی.اور اپنا ایک بڑا افسر چنتے تھے اور وہ حکومت کر تا تھا تو سینکڑوں سبق ہم اُس سے حاصل کر سکتے ہیں.مثلاً اُس میں انتخاب کا جو طریقہ ہو تا تھا وہ خلافت سے بہت ملتا ہے.ہم اُس کا موازنہ خلافت سے کر کے ایک بڑا عمدہ مضمون پیدا کر سکتے ہیں.پھر اُس میں دنیا سے ایک نرالی بات ہے کہ بعض دفعہ ایک وقت میں دو دو بادشاہ مقرر ہوتے تھے.اب یہ ہماری عقل میں نہیں آتا.قرآن شریف کہتا ہے دو بادشاہ ہو جائیں تو فساد ہو جائے گا لیکن اُن کے بیسیوں واقعات ایسے ہیں.بیسیوں تو میں نہیں کہہ سکتا متعدد واقعات ایسے موجود ہیں کہ ایک وقت میں انہوں نے دو دو بادشاہ مقرر کئے ہیں.یہ بھی اب دیکھنے والی بات ہے کہ انہوں نے اُن دو کو ایک کس طرح بنا لیا تھا.آخر بہر حال قرآن تو کہتا ہے دو میں فساد ہوتا ہے اگر دو رہتے تھے اور فساد نہیں ہو تا تھا تو انہوں نے ضرور کوئی ایسے طریقے ایجاد کئے ہونگے کہ باوجود دو کے پھر ایک حکومت بن جائے.یہ بھی ایک بڑا لطیف مضمون ہے.ادھر قرآن کی آیت کو پیش کیا جائے کہ قرآن تو کہتا ہے دو سے فساد و ہوتا ہے.اگر خدا زیادہ ہوتے ایک سے تو فساد ہو جاتا.تو خدا زیادہ ہو جائیں تو فساد ہو جائے تو بادشاہ زیادہ ہو جائیں تو کیوں نہیں فساد ہو جائے گا.مگر وہاں نہیں ہوتا تھا.تو یا تو یہ تاریخ سے ثابت کریں آیا یہ ناکام ہوا تھا تجربہ اور فساد ہو جاتا تھایا یہ ثابت کریں کہ دو اصل میں دور ہتے ہی نہیں تھے انہوں نے ایسا قانون بنایا ہوا تھا کہ دو ایک بن جاتے تھے.تو پھر یہ ایک نیا نتیجہ نکل آئے گا کہ قرآن کی بات ٹھیک ہے کہ ایک سے زیادہ فساد پیدا کرتا ہے تو کئی قسم کے دلچسپ مضامین ان سے نکل سکتے ہیں.یہ جو نیابت کا طریقہ ہے اب یوروپین نیابت کا اور طریقہ ہے، اسلامی نیابت کا

Page 220

185 انوار العلوم جلد 24 اور طریقہ تھا، رومی نیابت کا اور طریقہ تھا.اس پر لمبی بحث کی جائے کہ کیا کیا طریقے تھے نیابت کے اور پھر اُن کے کیا فوائد حاصل ہوئے اور کیا نقصان پہنچے ؟ غرض غیر ملکوں پر حکومت کرنے کا اُن کا طریقہ تھا.قانون سازی کا اُن کا طریقہ تھا.آج تک دنیا اُن کے قانون کی اتباع کرتی ہے.ہم نے دیکھنا ہے کہ پرانی قانون سازی اور اُن کی اصول سازی میں کیا فرق ہے؟ کیوں اسلامی قانون کو ہم برتری دیویں رو من قانون پر ؟ اُس کے اندر فرق کیا ہے ؟ کیا انسانی حقوق یا انسانی امن کی حفاظت کے لئے اس میں کوئی بہترین تجویز کی گئی ہے ؟ پھر اُن کے قانون کے پس منظر کے متعلق باتیں نکل سکتی ہیں.اسی طرح اور بہت سارے مضامین نکل سکتے ہیں جن سے صرف رومی کتابیں پڑھنے والا آدمی ہمارے لٹریچر کو اتنا مالدار بنا سکتا ہے کہ ساری دنیا نقلیں کرے اور آکے کہے یہ بڑی مفید باتیں نکل رہی ہیں جو ہمارے ذہن میں نہیں تھیں.ہمارے اکثر دوست اس علمی رجحان سے محروم ہیں جس کی وجہ سے ہم مستقل علمی میدان میں پیچھے رہ گئے ہیں اپنے خالص دائرہ کے باہر.دوسرے علماء ہم سے آگے ہیں.مثلاً شبلی تاریخ کے معاملہ میں ہم سے آگے ہیں اور اسی طرح نانوتوی صاحب جو ہیں وہ بعض تحقیقاتوں میں یقیناً ہمارے علماء سے آگے ہیں.مولانا چراغ الدین صاحب چڑیا کوئی عیسائی اور یہودی لٹریچر کے معاملہ میں ہمارے آدمیوں سے آگے ہیں.مولوی خدا بخش کلکتوی جو ہیں وہ اسلامی تمدن کے متعلق تحقیقات میں ہمارے علماء سے آگے ہیں.مولوی عبدالحی فرنگی محلی جو ہیں فقہ کے متعلق بعض بحثیں انہوں نے اس طرز پر کی ہیں کہ وہ ہمارے علماء سے آگے ہیں.بلگرامی صاحب اسلامی تاریخ کے متعلق ہمارے علماء سے آگے ہیں حالانکہ یہ بعد میں آئے ہیں.ان کو بہت زیادہ فراغت حاصل ہے.ان کو بہت زیادہ لٹریچر پڑھنے کا موقع ہے.ان کو جماعت کی امداد زیادہ حاصل ہے.ان کے لئے وہ مشکلات نہیں ہیں جو اُن لوگوں کے لئے تھیں.سوال صرف یہ ہے کہ یہ لوگ کتاب پڑھتے ہیں کسی مقصد کو سامنے نہیں رکھتے.اگر مقصد مد نظر رکھیں کہ فلاں نقطہ نگاہ کی میں نے تحقیقات کر جانی ہے اور اس کے لئے اتنا لٹریچر میں نے ضرور پڑھ جانا ہے تو پھر اُن کا حوصلہ بڑھ جائے

Page 221

انوار العلوم جلد 24 186 متفرق امور گا.تو ہمارے انگریزی دان اور علماء بھی اس سے بہتر کام کر سکتے ہیں جو انہوں نے کیالیکن کرتے نہیں.اس کی وجہ اول مطالعہ کے شوق کی کمی ہے دوسرے مطالعہ کی لائن مقرر نہیں کرتے.حالانکہ ہر شخص اپنے لئے ایک طریق مقرر کر لیتا ہے کہ میں نے فلانی لائن پر چلنا ہے اور وہ اس میں تحقیقات کرتا رہتا ہے.میں نے دیکھا ہے بعض اسلامی مسائل ایسے ہیں کہ جن میں ہمارے علماء نے وہ بحث نہیں کی جو عیسائیوں کمبختوں نے کی ہے جو عربی نہیں جانتے.مثلاً ہمارے علماء قرآن کے متعلق تیرہ سو سال سے یہی کہتے چلے آئے ہیں قرآن میں کوئی ترتیب نہیں اور یوروپین اس کو نقل کر کے ہم پر اعتراض کرتے چلے آئے ہیں.لیکن بعض یوروپین محقق ایسے ہیں جنہوں نے لکھا ہے کہ ہم نے جب قرآن پر غور کیا تو ہمیں اس کی ترتیب نظر آگئی.تو دیکھو عیسائی ہو کے اُن کا ذہن ادھر چلا گیا اور مسلمان مفسرین میں ایک بھی نہیں ہے جو ترتیب کامل کا قائل ہو سوائے ابن حیان کے کہ وہ ترتیب کا قائل ہے مگر وہ ادھوری ترتیب کا قائل ہے.باقی سارے مفسرین جو ہیں وہ بے ترتیب ہی قرآن کو لئے چلے جاتے ہیں.لیکن یورپ کا دشمن عیسائی لکھتا ہے کہ پہلے میرا خیال تھا کہ قرآن کے اندر ترتیب نہیں مگر جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ اُس میں ترتیب ہے.اور پھر یہ بھی لکھتا ہے کہ ہمارا علم کامل نہیں اگر عربی علوم کا ذخیرہ جو ہے اُس کو پورے طور پر دیکھا جائے تو یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے.تو اب وجہ اس کی یہ ہے کہ ساری عمر وہ ایک بات میں لگا دیتے ہیں.اس بات میں لگانے کی وجہ سے وہ بار یک در بار یک بار یک در بار یک باتیں نکالتے چلے جاتے ہیں.مثلاً خدا بخش صاحب ہیں جو اُن کو کمال حاصل ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ وہ جرمن زبان جانتے تھے اور جرمنوں نے اس کے متعلق بڑی تحقیقات کی تھی.وہ جرمن زبان سے ان چیزوں کو اخذ کر کے ہمارے ملک کے سامنے پیش کر دیتے تھے اور ہمارے علماء کو ان باتوں کا پتہ نہیں تھا.ایسی تفصیل سے انہوں نے اسلامی جنگوں کے قواعد نکالے ہیں، اسلامی فوجوں کی تشکیل کا اندازہ لگایا ہے.اُن کے اندر جو ڈسپلن قائم تھا اُس کا اندازہ کیا ہے، جس رنگ میں وہ فوجی پریکٹس کرنے تھے اُس

Page 222

انوار العلوم جلد 24 187 کی تشریحیں لکھی ہیں کہ ہمیں حیرت آجاتی ہے کہ ہماری تاریخوں میں وہ نہیں پائی جاتیں.انہوں نے کوئی ٹکڑہ کہیں سے لیا، کوئی ٹکڑہ کہیں سے لیا ساری عمر لگا کر پھر ایک کتاب لکھ دی کہ اسلامی ابتدائی زمانہ میں اُن کا فوجی انتظام یوں تھا.اُن کے خزانہ کا انتظام یوں تھا اُن کے قانون کا انتظام یہ تھا.اسی طرح ہمارے لوگوں نے خاص موضوع کو منتخب کر کے اُس کے پیچھے پڑ جانے کی عادت نہیں ڈالی.حالانکہ مطالعہ کے وقت کسی خاص امر کو چن لینا یا کسی گتھی کو چن لینا تحقیق کا ذریعہ بن جاتا ہے.پس چاہئے کہ ہر تعلیم یافتہ آدمی ہماری بحث میں چاہے انگریزی دان ہو یا عربی دان ہو اپنے لئے ایک فیصلہ کرلے کہ میں نے فلاں مضمون کے متعلق تحقیقات کرنی ہے.پہلا کام وہ یہ کرے کہ جس کو اُس مضمون کا واقف سمجھے اُس سے ملے.مثلاً میرے پاس آجائے.ایک فوجی ہے وہ کہتا ہے میں نے فوجی امور تحقیقات کرنی ہے میرے پاس آجائے اور کہے جی مجھے یہ شوق پیدا ہوا ہے کوئی آپ کتاب بتا سکتے ہیں جس کے پڑھنے سے مجھے علم حاصل ہو سکے ؟ کوئی دو کتابیں میں نے بتادیں دو کسی اور نے بتا دیں دو کسی اور نے بتادیں اُن کو جمع کرنا شروع کیا.اُن کو پڑھنا شروع کیا.آگے پھر اُن میں سوالات پیدا ہوئے اُن کو لکھا.غرض تھوڑے سے مطالعہ کے بعد ایک مکمل مضمون پید اہو جائے گا جو دنیا کے لئے بالکل نرالا ہو گا.پس چاہئے کہ ہر تعلیم یافتہ کسی زبان اور کسی علم کی چند کتابیں اپنے لئے مقرر کرلے کہ سال میں اتنی کتب ضرور پڑھنی ہیں دوسرے اُن کو غور سے پڑھے اور حاشیہ پر تین قسم کے نوٹ کرے.ایک وہ باتیں جو نئی اور اچھی ہوں یا پرانی بات ہو لیکن اچھے پیرایہ میں بیان کی گئی ہو.دوسرے وہ غلط باتیں جو اُس کو غلط تو نظر آتی ہیں لیکن اس کو اُن کا جواب معلوم نہیں تحقیق طلب ہیں.تیسرے وہ باتیں جو غلط ہیں.مطالعہ کے لئے تین مفید باتیں ہمارے پرانے زمانہ کے علماء نے اس کے لئے ایک طریقہ اختیار کیا ہوا تھا وہ حاشیہ پر تین نوٹ لکھا کرتے تھے.کتاب پڑھی جب کوئی اچھی بات نکلی کہ جس سے

Page 223

انوار العلوم جلد 24 188 مفید سبق حاصل ہوتے ہیں یا وہ وعظ میں استعمال ہو سکتی ہے یا تصنیف میں ہو سکتی ہے تو اُس کے حاشیہ پر لکھتے تھے ”ف ف“ جس کے معنے ہوتے تھے یہ فائدہ بخش چیز ہے نفع رساں بات ہے.اور جب کوئی ایسی بات آتی تھی جس کو وہ سمجھتے تھے غلط ہے اور اس سے اسلام پر کوئی حملہ ہوتا ہے یا قرآن پر حملہ ہوتا ہے یا ہمارے تمدن پر حملہ ہوتا ہے یا ہماری حکومت پر حملہ ہوتا ہے یا ہماری تاریخ پر حملہ ہوتا ہے یا ہمارے اخلاق پر ہوتا ہے تو اُس کے حاشیہ پر لکھتے تھے ”قف “ یعنی یہاں ٹھہر جا یہ گندی بات ہے.“قف“ کے معنے ہیں ٹھہر ، یہ خراب ہے.اور جہاں کوئی ایسی بات ہوتی تھی جس کو وہ سمجھتے تھے کہ ٹھیکہ نہیں پر میرے پاس ابھی جواب نہیں اس کا.میں اس کو غلط نہیں کہہ سکتا تو اس کے اوپر ڈال دیتے تھے.تو یہ تین چیزیں اُن کو علم میں راہنمائی کرتی تھیں.وہ کتاب جب پڑھتے تھے تو اس کتاب پر حاشیہ لکھا جاتا تھا.کتاب کو پڑھ کے پھر دوبارہ دیکھتے تھے تو ”ف“ والی الگ نکال لیتے تھے ، ”قف “ والی الگ نکال لیتے تھے ؟“ (سوال) والی الگ نکال لیتے تھے.”ف“ والیوں کو اپنے وقت پر استعمال کر لیتے تھے ، ”قف “والیوں کا جواب اپنے شاگردوں کو یا اپنے دوستوں کو بتاتے تھے کہ یہ غلط باتیں اس میں لکھی ہوئی ہیں.اور ” ؟ ( سوالیہ ) والوں کے لئے اور کتابیں پڑھتے تھے تاکہ تحقیقات ہو جائے یہ مسئلہ اصل کیا ہے.تو اس رنگ میں اُن کے علم بڑھتے رہتے تھے.یہ تین چیزیں انہوں نے بنائی ہوئی تھیں ”ف_قف.؟“(سوال).”ف“ کے معنے ہیں مفید چیزیں.”قف “ کے معنے ہیں غلط چیزیں اور ”؟“ (سوال) کے معنے ہیں تحقیقات اور کرو.اس کے متعلق مزید روشنی کی ضرورت ہے.جن لوگوں کو مطالعہ کی عادت ہے وہ بعض دفعہ بڑی عجیب چیز نکال لیتے ہیں.تین دن ہی کا واقعہ ہے کہ المصلح اخبار آیا.یوں تو اخبار کو میرے لئے پڑھنا عام طور پر دستور نہیں ہے کیونکہ میں نظر مارتا ہوں اکثر مضمون ایسے ہوتے ہیں کہ مجھے پڑھنے کی ضرورت نہیں معلوم ہوتی لیکن ایک مضمون تھا میں نے اس کو پڑھا اور جب میں نے پڑھا تو میری حالت ایسی ہو گئی جیسے خواب کی ہوتی ہے یعنی اُس کے اندر ایک ایسا مضمون تھا کہ

Page 224

انوار العلوم جلد 24 189 اگر وہ واقعہ صحیح ہے میں اس کی تحقیقات کرنا چاہتا ہوں.اگر وہ واقعہ صحیح ہے تو احمدیت کی تاریخ میں گویا وہ ایک سنگ میل ثابت ہو گا.اتنا اہم حوالہ اس میں درج تھا اور لکھنے والا کوئی خاص ماہر آدمی نہیں تھا ایک کلرک ہے لائل پور کا شیخ عبد القادر ، اس کا تھا.وہ پہلے بھی اچھے مضمون لکھا کرتا ہے.اُس کو شوق ہے مضمون کا.بائیبل کے متعلق بھی اُس کی تحقیقاتیں بعض دفعہ اچھی اچھی ہوتی ہیں.لیکن خیر وہ معمولی باتیں تھیں لیکن یہ تو ایسا حوالہ اُس نے نکالا ہے، خدا تعالیٰ نے اُس کو دے دیا کہ حیرت ہو گئی.کیونکہ ہماری نظروں سے یہ بات کبھی نہیں گزری تھی اُس نے بالکل ہی آکے ہماری بحث کے زاویے ہی بدل ڈالے ہیں.دیکھنا صرف یہ ہے کہ اُس نے کہیں درج کرنے میں غلطی تو نہیں کر دی.تو اب ایک کلرک آدمی اگر اس قسم کے مطالعہ سے یہ باتیں نکال سکتا ہے تو ایک گریجویٹ، ایک مولوی فاضل، ایک وکیل یا ڈاکٹر اگر اس قسم کی اپنے اپنے شعبہ میں باتیں کریں تو کیوں نہیں نکال سکتے.یا کسی قدر ہمارے یہ ڈاکٹر شاہ نواز سامنے بیٹھے ہیں ان کو بھی شوق ہے وہ نکالتے ہیں علم النفس کے متعلق لیکن کوئی DETAILED EFFORT نہیں ہوتی ان کی.کبھی کبھی ان کو جوش آیا کرتا ہے.تو یہ حوالہ بتاتا ہے کہ در حقیقت ہمارے لئے اور مصالحہ ابھی پڑا ہے اور حیرت انگیز طور پر ہماری کتابوں میں چیزیں موجود ہیں جو احمدیت کی تائید میں حاصل ہو سکتی ہیں.میں نے لٹریچر کی اشاعت لٹریچر کی اشاعت کیلئے دو کمپنیوں کا قیام کے لئے دو کمپنیاں بنوائی تھیں ایک کا نام ہے دی اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن “اور ایک کا نام ہے ”الشركة الاسلامیہ“.الشركة الاسلامیہ زیادہ تر اردو کی کتابوں کے لئے ہے.اور یہ اورینٹل اینڈ ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن جو ہے یہ یوروپین زبانوں کی اشاعت یا عربی زبان کی اشاعت کے لئے ہے.پیچھے میں نے اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی دوست حصہ نہ خریدیں.اس کی وجہ یہ تھی کہ میرے پاس بعض احمدیوں کی شکایت آئی تھی کہ ہم نے روپے دیئے ہیں تو ہم کو رسید نہیں ملتی.دوسرے یہ شکایت آئی تھی کہ انہوں نے

Page 225

انوار العلوم جلد 24 190 متفرق امور جو ایجنٹ مقرر کیا اُس نے یہ کہا کہ مجھ سے یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ جو سلسلہ حصہ خرید چکا ہے وہ آدھی رقم یعنی اڑھائی لاکھ کے سلسلہ خرید چکا تھا) اس پر بھی اُسے کمیشن دیا جائے گا.تو یہ مجھے بڑا ظلم معلوم ہوا کہ ہم نے جو کمپنی بنائی ہے تو بنانے سے پہلے حصے دیئے ہیں وہ ایک دن میں آکے ہم سے چھ ہزار روپیہ لے جائے.تو اِس وجہ سے میں نے اس کو روک دیا تھا مگر بعد میں مجھے تسلی دلائی گئی ہے کہ وہ غلط فہمی تھی یہ کوئی وعدہ نہیں ہے کہ اُس کو اُن حصوں پر جو پہلے ہمارے فیصل شدہ تھے کوئی کمیشن دیا جائے گا لیکن جو کوشش سے وہ لائے یا کوشش کے دوران میں اگر کوئی نئے حصے آئیں تو بیشک یہ قاعدہ مقر ر ہے کہ اُن میں اسے کمیشن مل جائے.اور اس کے متعلق میں نے ہدایت دی ہے کہ جب کوئی شخص لے تو وہ روپیہ براہ راست بھجوائے اور یہاں سے فوراً رسید چلی جائے چاہے وہ بچی رسید ہو بعد میں پکی ہو جائے خزانہ میں ایساعام ہو تا ہے.تو یہ وعدہ لے لیا ہے اس لئے جو دوست ثواب میں حصہ لینا چاہیں وہ شامل ہو جائیں.یہ الشرکۃ الاسلامیہ جو ہے یہ ساڑھے تین لاکھ کی ہے جو اور میٹل ہے وہ پانچ لاکھ کی ہے.اس پانچ لاکھ میں سے اڑھائی لاکھ کی رقم سلسلہ خریدے گا اور اِس ساڑھے تین لاکھ میں سے ایک لاکھ ہزار کے حصے سلسلہ خریدے گا باقی ایک لاکھ پچھتر ہزار کے حصے لوگوں کے لئے ہوں گے اور اُدھر سے اڑھائی لاکھ کے حصے کُھلے ہوئے ہیں.کچھ کم.کیونکہ کچھ اور صدرانجمن احمدیہ نے حصے لینے ہیں.اُدھر تحریک نے کچھ لینے ہیں.بہر حال انہوں نے کچھ کتابیں شائع کی ہیں گو وہ بے اصولی ہیں اِس لئے کہ جب تک کمپنی نہیں بن جاتی اُس کی طرف سے کتاب شائع کرنی ٹھیک نہیں ہوتی.ممکن ہے اگلے حصہ دار آکے کہیں کہ ہم اس کو تجارتی رنگ میں مفید نہیں سمجھتے ان کو Wait کرنا چاہیے تھا مگر کچھ تو ایسی چیزیں ہیں کہ جو شائع ہونے کے بعد بھی چونکہ سلسلہ کے مال سے ہی چھپی ہیں اس لئے اس میں کوئی حرج نہیں.مثلاً:- (1) ڈچ کا ترجمہ قرآن شریف کا چھپا ہے، (2) Message of Ahmadiyyat چھپا ہے.

Page 226

انوار العلوم جلد 24 191 (3) Charactristics of Quranic teachings چھپا ہے.(4) Islam versus Communismچھپا ہے.(5) Existance of God چھپی ہے.(6) Why I believe in Islam چھپی ہے.Mohammad The Librator of Woman (7) ہے.(8) The Sillness Prophet چھپی ہے.(9) Jesus In Quran چھپی ہے.66 اس موقع پر حضور نے دریافت فرمایا کہ Jesus in Quran کس کی ہے؟ اِس پر وکالت تصنیف کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ شیخ ناصر احمد صاحب نے لکھی ہے.نے فرمایا:- میں کہہ سکتا ہوں کہ Jesus in Quran میں نے دیکھی نہیں پر میں جانتا ہوں نامکمل کتاب ہو گی اس لئے کہ میں نے سورۃ مریم کا درس دیا ہے اور اُس میں Jesus in Quran پر جو میں نے بحث کی ہے میں جانتا ہوں اُس کا دسواں بیسواں حصہ بھی کسی کتاب میں آج تک نہیں آیا.تو جتنی زیادہ تحقیقات کی جائے بڑے مفاد نکل آتے ہیں.وہ انگریزی ترجمہ کے لئے میں نے نوٹ لکھوائے ہیں.مثلاً میں مثال کے طور پر بتاتا ہوں کہ تم سارے قرآن پڑھتے ہو ، تمہارا ذہن کبھی ادھر نہیں گیا اس لئے کہ تم نے دوسر الٹریچر نہیں پڑھا.انجیل سے ثابت ہے کہ مسیح پیدا ہوئے دسمبر میں.اور یہ جو بڑا دن منایا جاتا ہے 23، 24، 25 دسمبر کو وہ اسی بڑے دن کی یاد سمجھی جاتی ہے کہ مسیح اس میں پیدا ہوا.ہمارے مفسرین کو قرآن پر بحث کرتے ہوئے کبھی خیال نہیں آیا کہ قرآن میں یہ ہے کہ جب بچہ پیدا ہونے والا تھا تو خدا نے کہا کھجور کا درخت ہلا اِس سے کھجوریں گریں گی اور کھجور دسمبر میں ہوتی نہیں.کھجور ہوتی ہے اگست ستمبر میں.سو قرآن کے رو سے مسیح پیدا ہوا اگست ستمبر میں اور انجیل کی رو سے پیدا ہوا 25 دسمبر کو.اب اِدھر تو یہ اختلاف

Page 227

انوار العلوم جلد 24 192 متفرق امور کسی کے ذہن میں نہیں آیا تھا.پھر یہ ثابت کرنا کہ قرآن سچا ہے اور انجیل جھوٹی ہے یہ بڑا مشکل کام ہے.تو میں نے انجیل کی شہادتوں کو لے کر پھر یہ ثابت کیا ہے کہ انجیل میں جو بعض مظالم کی طرف اشارہ ہے اُن کے لحاظ سے لازماً یہی ماننا پڑتا ہے کہ وہ اگست ستمبر میں پیدا ہوا تھا اور جھوٹ بول کے ایک اور مصلحت کے لئے اس کی پیدائش دسمبر میں بتائی گئی.اِس طرح اور کئی نئے مسائل اس بحث میں آئے ہیں.چونکہ سورۃ مریم میں حضرت مسیح کا واقعہ آتا ہے اس میں کئی نئے مطالب نکلے اور بیان کئے گئے ہیں.غرض ہمارے علماء کو چاہئے کہ کتب فقہ، حدیث، فلسفہ ، فلسفہ فقہ ، قضاء، فلسفہ قضاء، اسلامی معیشت ، پہلی صدی کی معیشت، مسلمانوں کے تنزیل کے اسباب وغیرہ ایسے مضامین پر کتابیں لکھیں اور اُن کو شائع کریں تاکہ لوگوں میں بھی اُن کی علمیت کی قدر ہو کہ یہ کام اچھا کر رہے ہیں اور جماعت کا بھی علم بڑھے.چودہ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم اسی سلسلہ میں ہم نے سمات تراجم کروائے ہیں.1944ء میں میں نے سات قرآن شریف کے ترجموں کے لئے جماعت میں تحریک کی تھی.جرمن کے لئے میں نے عورتوں کے کام سپرد کیا تھا کہ جرمن کا ترجمہ عورتوں کے خرچ سے چھپے.اٹھائیس اٹھائیس ہزار کی میں نے تحریک کی تھی جس کو بعد میں 33،33 ہزار میں بدل دیا گیا تھا.جرمن کا ترجمہ عورتوں کے سپر د کیا گیا تھا.اور ڈچ وغیرہ کا ترجمہ بنگال اور اس کے نواحی کے لئے مقرر کیا گیا تھا یعنی بہار وغیرہ کے لئے.اور فرانس کا ترجمہ جو تھا وہ دہلی اور یوپی وغیرہ کے لئے مقرر کیا گیا تھا.اور سپینش کا ترجمہ سرحد اور مغربی اور شمالی پنجاب کے ضلعوں کے لئے مقرر کیا گیا تھا.اور پرتگیزی ترجمہ حیدرآباد اور بمبئی اور مدراس کے سپرد کیا گیا تھا.اور روسی زبان کا ترجمہ لاہور، سیالکوٹ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ کے سپر د کیا گیا تھا.اور اٹالین زبان کا ترجمہ قادیان اور یوروپین ممالک کے جو تھوڑے بہت احمدی ہیں اُن کے سپرد کیا گیا تھا.تو یہ سات زبانوں کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک ہوئی اور جماعت نے بڑے اخلاص سے اور بڑے جوش سے چندہ دیا

Page 228

انوار العلوم جلد 24 193 حالانکہ آج سے بہت تھوڑی جماعت تھی.دولاکھ پینتالیس ہزار روپیہ کے قریب رقم اس میں جمع ہوئی گویا جو مانگی گئی تھی اُس سے بھی زیادہ.اٹھائیس اٹھائیس ہزار قرآن کریم کے لئے تھا اور پانچ پانچ ہزار اسلامی اصول کی فلاسفی “ اور ایسی کتابوں کی اشاعت کے لئے.تو سات کے حساب سے دولاکھ اکتیس ہزار بنتا ہے لیکن جمع غالباً دولاکھ پنتالیس یا چالیس ہزار ہو گیا تھا جو مانگے سے بھی زیادہ تھا.اب ان سات ترجموں میں سے دو شائع ہو رہے ہیں.ایک تو شائع ہو گیا ہے ڈچ زبان کا اور چونکہ ڈچ کی حکومت انڈونیشیا میں تھی اور انڈونیشیا میں خدا کے فضل سے ہماری بڑی معزز جماعت ہے اس لئے جب انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ میرے پاس ترجمہ بھیجیں گے تو میں نے کہا ایک ڈچ کا ترجمہ جو پریذیڈنٹ ہے انڈو نیشیا کا، بادشاہ کا قائم مقام اُس کو بھی تحفہ کے لئے بھیجو.اُن کے ملک کو اس زبان کے ساتھ انس ہے.انہوں نے انگلستان میں دو ترجمے کتاب کے بھیجے اور اُن کو کہا کہ آپ یہ آگے بھجوا دیں.انہوں نے ڈچ کے لحاظ سے جو ڈچ کی کمپنی ہوائی جہاز کی تھی اُس سے کر ذکر کیا کہ ہم اِس طرح قرآن بھجوانا چاہتے ہیں اور ساتھ قصہ بھی بتادیا کہ یہ چھپوایا ہے ہم نے.اور ایک ہم اپنے امام کے پاس بھجوانا چاہتے ہیں اور ایک پریذیڈنٹ سکار نو کو پیش کرنے کے لئے اپنی جماعت کو دینا چاہتے ہیں کہ وہ سکار نو کو پیش کرے.اُن پر تو اس کا ایسا اثر ہوا کہ انہوں کہا یہ تو ہمارے لئے ایک بڑا تاریخی واقعہ ہے اور عزت کی بات ہے اس میں کوئی سوال تجارت کا ہے ہی نہیں.ہم آپ کے امام کو بھی خود پہنچائیں گے اور وہاں بھی پہنچائیں گے.آپ ہمارے پاس لائیے ہم آپ اس کی پیکنگ کریں گے اور آپ اس کو پہنچائیں گے آپ صرف اُن کو اطلاع دے دیں کہ ان کے نمائندے کراچی میں آکے لے لیں اور اُن کے نمائندے آکے ہم سے انڈونیشیا میں لے لیں.چنانچہ انہوں نے کہا پیکینگ آپ نہ کریں ہم اپنے طریق پر خود کریں گے اُس کی شان کے مطابق.چنانچہ انہوں نے قرآن دے دیئے.پیکینگ اُنہوں نے کی.ہم نے کراچی کو تار دے دیا ہماری جماعت والے وہاں گئے.جس وقت ڈچ ہوائی جہاز آیا انہوں نے ان کے حوالے کر دیا اور وہ میرے پاس پہنچ گیا.میرا ارادہ ہے کہ اگر گورنر جنرل اس کو منظور کریں تو

Page 229

انوار العلوم جلد 24 194 چونکہ پاکستان سے روپیہ کا پرمٹ لیا تھا وہ جو میری کاپی آئی ہے وہ اُن کو پیش کر دی جائے.دوسری کاپی انڈو نیشیا پہنچی.چنانچہ پرسوں سید شاہ محمد صاحب جو امیر ہیں وہاں کے اور رئیس التبلیغ ہیں اور یہاں آئے ہوئے ہیں اُن کو وہاں سے اخبارات پہنچ گئے ہیں.اس کے اوپر انہوں نے بہت اعزاز کیا ہے فوراً انہوں نے وہاں کے پریذیڈنٹ کو دعوت دی کہ ہم پیش کرنا چاہتے ہیں اور اُس نے بھی فوراً منظور کیا.تصویریں بھی چھپی ہوئی آئی ہیں کہ پریذیڈنٹ بڑے ادب سے کھڑا ہوا ہے لینے کے لئے اور ہمارا آدمی اُن کو قرآن دے رہا ہے.اور پھر انہوں نے ریڈیو پر دو دفعہ اعلان کروایا.پھر تمام بڑے بڑے اخباروں نے اُس پر مضمون لکھے جن میں کہا گیا کہ یہ بڑا عظیم الشان اور اہم کام ہے.جرمن میں چھپ رہا ہے جو عورتوں کی طرف سے ہے.وہ چونکہ ریوائز ہو چکا ہے اور وہ چھاپتے بڑی جلدی ہیں کیونکہ ڈچ قرآن کے متعلق ابھی دو مہینے ہوئے اطلاع آئی تھی کہ پریس میں گیا ہے اور اب چھپ کے کا بیاں بھی پہنچ گئی ہیں.پریس کے معلوم ہوتا ہے کہ بہت بڑے انتظام ہیں وہ بھی امید ہے کہ اور تین مہینے میں شائع ہو جائیگا گویا اب ہمارے صرف پانچ ترجمے باقی ہیں.ہاں انگریزی کا ترجمہ بھی اب خالی چھپ رہا ہے یعنی پہلے تو ایک تفسیر چھپ رہی ہے.اس کے ساتھ صرف دیباچہ قرآن ہو گا اور انگریزی کا ترجمہ ہو گا.اس کے علاوہ اسی سال ہمارا سواحیلی کا ترجمہ (جو افریقن زبان ہے اُس میں) شائع ہوا ہے اور اس کی وہاں خدا کے فضل سے بہت شہرت ہورہی ہے.مولویوں نے فتوے دیئے کہ یہ کافروں کا ہے اس کو نہیں چھونا.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ سب سے زیادہ چندہ غیر احمدیوں نے دیا ہے اور کثرت کے ساتھ وہ خرید رہے ہیں اور لوگوں میں تقسیم کر رہے ہیں یعنی ایک خاندان نے ساڑھے بارہ ہزار روپیہ چندہ دیا ہے اس کے لئے.اور کوئی پچاس جلدیں خرید رہا ہے، کوئی 25 خرید رہا ہے کوئی 10 خرید رہا ہے ، کوئی 12 خرید رہا ہے.مولویوں کو انہوں نے جواب دے دیا کہ یہ تو خدمتِ اسلام ہے اس میں ہم اُن کے ساتھ ملنے کے لئے تیار نہیں.ملائی زبان کے متعلق میں شائد کل پر سوں کہہ چکا ہوں کہ تار پرسوں ہی

Page 230

انوار العلوم جلد 24 195 متفرق امور آئی ہے کہ خدا کے فضل سے ملائی زبان کا ترجمہ مکمل ہو گیا ہے اب اس کے چھپنے کا انتظام کیا جائے گا.بنگالی میں ہم ترجمہ کروارہے ہیں.انڈو نیشین زبان میں بھی ہم ترجمہ کروا رہے ہیں.گور مکھی اور ہندی میں بھی ترجمہ ہو رہا تھا شائد مکمل بھی ہو گیا ہے (گور مکھی مکمل ہو چکا ہے).اور پھر اردو میں بھی ترجمہ انشاء اللہ تعالیٰ جلدی ہو جائے گا کیونکہ میری بڑے عرصہ کے بعد یہ رائے قائم ہوئی ہے کہ اردو کے ترجمہ پر ہم کو خاص زور دینا چاہئے.کیونکہ تعلیم کا اثر دل پر نہیں ہوتا جب تک اپنی زبان میں نہ پڑھی جائے.میں اس پر مدتوں سے غور کر رہا تھا کہ عیسائیوں میں باوجود دہریت کے عیسائیت کے ساتھ محبت ہے اور مسلمانوں میں مومن ہو کے بھی اتنی محبت نہیں.تو میں آخر اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہم نے ایک ضروری چیز پر زور دیا اور ایک اور ضروری چیز کو ترک کر دیا.قرآن کا متن پڑھنا بیشک ایک ضروری چیز ہے اور اس کو چھوڑنا نہیں چاہئے ورنہ تحریف پید ا ہو جاتی ہے لیکن ساتھ یہ بھی زور دینا چاہئے تھا کہ اردو جاننے والے اردو میں ترجمہ پڑھا کریں.قرآن کی تلاوت کریں.ایک رکوع وہ پڑھ لیا پھر یہ ایک رکوع اردو میں پڑھ لیا.جب تک وہ اردو میں نہیں پڑھتے اُس وقت تک تھوڑی عربی جاننے والا اُس کے مضمون کو کہیں اخذ نہیں کرے گا.طوطے کی طرح رٹا دو اس کا وہ اثر نہیں ہو گا جتنا کہ اپنی زبان میں پڑھنے سے.جب بائبل کے پڑھنے سے عیسائی پر اثر پڑتا ہے کیونکہ وہ انگریزی میں یاجر من میں پڑھتا ہے اور وہ اس کے دل میں داخل ہوتی چلی جاتی ہے تو میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ با محاورہ اردو زبان میں ترجمہ جلد شائع کیا جائے اور پھر ساری جماعت سے اصرار کیا جائے کہ تم روزانہ اس اردو کی تلاوت کیا کرو علاوہ عربی کے.تاکہ یہ مضامین تمہارے دل میں داخل ہو جائیں.اس طرح گویا ہماری جماعت کے چودہ تراجم کی انشاء اللہ تعالیٰ تکمیل ہو جائے گی جن میں سے سات ہو چکے ہیں (انگریزی کا بھی ہو چکا ہے اس لئے آٹھ ہو چکے ہیں) اور باقی جو ہیں (چھپے ہوؤں کو میں نے نکال دیا تھا) وہ چھپ چکے ہیں اُن کو ملایا جائے تو یہ گیارہ ہو گئے.دو تین اور ہیں جو کہ ہونے والے ہیں.لیکن ضرورت یہ ہے کہ ہماری جماعت

Page 231

انوار العلوم جلد 24 196 پھر اُن کو پھیلائے.اگر وہ ترجمے پڑے رہیں تو پھر فائدہ کیا.قربانی کرنی چاہئے اور اپنے بجٹوں میں سے ایک حصہ ایسا ضرور رکھنا چاہئے کہ جس کے ذریعہ سے لٹریچر کو شائع کیا جائے.اب عیسائی ہے عیسائی کو ہماری تبلیغ وہ اثر نہیں کر سکتی جتنا کہ قرآن اثر کر سکتا ہے.ہم اس عیسائی کے سامنے آدھا گھنٹہ بات کریں گے تو ایسا ہی ہے جیسے کہ حسین عورت کا کان دکھا دیا.کسی وقت ہم نے حسین عورت کی بھوں دکھا دی.کسی وقت ایک حسین عورت کے ہم نے بال دکھا دیئے.کسی وقت ایک حسین عورت کی ایک ہم نے چھنگلیاد کھا دی.کسی وقت ہم نے ایک حسین عورت کی دوسری انگلی دکھا دی.کسی وقت ایک حسین عورت کا ہم نے انگوٹھا دکھا دیا.کسی وقت ذرا سا برقع اتار کے اُس کا رنگ دکھا دیا.اس سے تو کوئی عاشق نہیں ہوتا لیکن وہ سامنے آجاتی ہے جب ننگی ہو کر پھر ہر ایک فریفتہ ہو جاتا ہے.تو قرآن تو ایسا ہے جیسے اسلام کی ہم نے پوری شکل اُس کو دکھا دی اور ہماری تبلیغ ایسی ہے جیسے اس کو کوئی کان دکھا دیا، ناک دکھا دیا، آنکھ دکھا دی.تو عشق کے پیدا کرنے کے لئے اُس کی ساری صورت کا پیش کرنا ضروری ہے.پس قرآن جیسی تبلیغ دنیا میں اور کوئی نہیں.دوسری ساری باتیں اِس کی مُحمد ہیں اور وہ ایسی ہی ہیں جیسے ایک حسین عورت کے ساتھ ایک اچھا دوست مل جاتا ہے.کسی کی بیٹی ہے اُس کی شادی کرنی ہے تو اسلام نے جائز رکھا ہے شادی ہونی ہو تو دیکھ لے.2 ادھر وہ دکھاتا بھی ہے پھر ساتھ زبانی بھی تعریف شروع کر دیتا ہے کہ یہ ایسی اچھی ہے ، ایسی نیک ہے، ایسی بھلی مانس ہے تو ہماری تبلیغ تو ایسی ہی ہے جیسے کہ دیکھی ہوئی خوبصورت عورت کے آگے کوئی کہہ دے بڑی شریف ہے ، بڑی نیک عورت ہے ، تمہارے گھر میں برکت آجائیگی.تو اصل تو یہی چیز ہے جب ایک انسان عورت کو دیکھے گا، اُس کی عقل کو دیکھے گا، اُس کے علم کو دیکھے گا توہ فیصلہ خود کرے گا شریعت نے اُس کے اختیار میں رکھا ہے فیصلہ کرے.لوگوں کی باتوں پر تو نہیں رکھا.اس لئے اصل اسلام لانا جو ہے تو قرآن کے اوپر ہے.ہماری باتوں سے تو صرف ایک ضمنی تائید ہوتی ہے ورنہ اصل خوبصورتی اسلام کی قرآن سے ہی پتہ

Page 232

انوار العلوم جلد 24 197 ایسے اخبار اور رسائل خرید و جو ان کے علاوہ یہ بھی شریف اور تمہاری تائید کرنے والے ہوں جماعت کو چاہئے میں نے کئی دفعہ توجہ دلائی ہے کہ بعض اخبارات ہوتے ہیں شریر دشمن.اور بعض ہوتے ہیں جو شرافت کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں.میں نے جماعت کو بار بار توجہ دلائی ہے کہ اپنی زبان کے چسکہ کو نہ دیکھا کرو.جو شریف اخبار ہیں اُن کو خرید و تا کہ اُن کو مدد پہنچے لیکن مجھے افسوس ہے کہ باہر کی جماعت تو الگ رہی یہاں بھی جب میں پوچھتا ہوں ربوہ میں کون سے اخبار بکتے ہیں؟ تو اکثر جو ہمارے مخالف ہیں وہ بکتے ہیں اور جو تائید میں ہیں وہ نہیں سکتے.یہ تو گویا اپنی قوم کی آپ دشمنی ہے اور اپنی ناک کٹوانے والی بات ہے.اصل غرض تو ہماری خبروں کی ہوتی ہے.جب ہمیں خبریں کسی اخبار سے مل جاتی ہیں تو جسکے کی خاطر ہم اپنے دشمن کی گود کیوں بھریں.مثلاً پچھلے دنوں میں ڈان“ نے کراچی میں اچھی تائید ہماری زور سے کی ”سول اینڈ ملٹری“ نے لاہور میں کی.”ملت“ نے لاہور میں کی.”نوائے وقت“ نے بعض دفعہ تائید بھی کی.کم سے کم شر میں جب اس نے مخالف بھی لکھا تو اصولی بات پر لکھا جماعتی اختلاف پر نہیں لکھا.پھر لاہور اخبار ہے اس میں بھی احمدی نقطہ نگاہ جو ہے اُس کی تائید ہی ہوتی ہے خلاف تو نہیں ہو تا.ہمارے بعض اپنے آدمی اُس کے اخبار میں ایڈیٹر ہیں، تعلق والے ہیں.تو میں نے دیکھا ہے جب لیں گے تو زمیندار “ لیں گے.کیا ہے کہ ذرا گالیاں جسکے کی ہیں.یہ نہیں کبھی میں نے سنا کہ فلانا جوتی زیادہ اچھی مارتا ہے تو میں اپنی بیٹی یا بیوی کو لے جاؤں کہ ذرا سر پر جو تیاں لگادے.اس میں تو تم یہ کہتے ہو کہ میں کیوں اپنی ذلت کر اؤں اور یہ بڑا مشغلہ ہو رہا ہے کہ حضرت صاحب کو گالیاں دے رہا ہے ، مجھے گالیاں دے رہا ہے ، سلسلہ کو گالیاں دے رہا ہے اور تم لے کر خرید رہے ہو.اس کو پڑھ رہے ہو ، یہ بڑا اچھا اخبار ہے، بڑا مزا آتا ہے.میرے خیال میں تو یہ صفرا کی زیادتی ہے صفرا میں میٹھا بُرا لگنے لگ جاتا ہے.ہر چیز کڑوی لگنے لگ جاتی ہے

Page 233

انوار العلوم جلد 24 198 اور بعض دفعہ ایسے آنکھوں کے اندھے ہوتے ہیں کہ زر د کو سرخ دیکھتے ہیں اور سرخ کو سبتی دیکھ لیتے ہیں.ایسے ہی اُس شخص کی مرض ہے کہ اپنی مفید چیز کو تو پسند نہیں کرتا اور غیر مفید کو پسند کرتا ہے.تو یہ اپنے اندر احساس پیدا کرو کہ جو تمہاری مخالفت کرتا ہے بلاوجہ اور دشمنی کرتا ہے تم نے وہ اخبار نہیں خریدنا.جب دو اخبار ہیں اور دونوں غیر ہیں تو کیا وجہ ہے کہ تم اس غیر کے پاس نہیں جاتے جو شریف ہے تا کہ اُسکی حوصلہ افزائی ہو اور اس غیر کو نہیں چھوڑتے جو کہ شرارتی ہے اور تمہیں بدنام کرتا ہے.تو جب سلسلہ کے باہر اخبار لینا پڑے تو ہمیشہ ہی ایسے رسائل اور اخبار لو جو تمہاری مخالفت نہیں کرتے یا تمہاری تائید کرتے ہیں.دونوں قسم کے ہو سکتے ہیں.مثلاً ”نوائے وقت“ ہے اس نے خاص طور پر کبھی مخالفت نہیں کی.پہلے بھی میں اس کی تائید کر چکا ہوں کہ جب وہ اصولی بات لکھتا ہے احمدیت کی کچھ تائید ہی کر جاتا ہے.مثلاً ظفر اللہ خان کے خلاف اُس نے لکھا مگر بنیاد یہی رکھی کہ جب ساری قوم کہتی ہے ہٹ جائیں تو ظفر اللہ خان کیوں نہیں ہٹ جاتے.یہ نہیں کہا کہ ظفر اللہ خان چونکہ احمدی ہے ہٹ جاتے.یہ کہا کہ قوم میں خواہ مخواہ شور پڑا ہوا ہے ظفر اللہ خان کیوں نہیں چھوڑ دیتے وزارت.تو یہ بالکل اور مسلک ہے اس میں ا ہماری مخالفت نہیں ہے اس میں ایک کا من سنس کی بات ہے جو ہماری سمجھ میں نہ آوے اُس کی سمجھ میں آگئی.(غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) تحریک جدید اپنے اہم ترین ”اب میں اس ضروری امر کو لیتا ہوں کہ دور میں سے گزر رہی ہے تحریک جدید ایک اہم ترین دور میں سے گزر رہی ہے ہماری جماعت کا فرض ہے کہ وہ اسے اچھی طرح ذہن نشین کرلے اور اپنے آپ کو اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے تیار کرے.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ دور اول کے بدلنے کے ساتھ جو ایک قسم کا تغیر ہوا ہے اس کی وجہ سے جیسے گاڑی کا کانٹ بدلتا ہے تو انسان کو دھکا لگتا ہے اسی طرح اس تغیر کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس دفعہ چالیس فیصدی وعدے کم آئے ہیں.چالیس فیصدی جب زیادہ

Page 234

انوار العلوم جلد 24 199 آتے تھے تب بھی خرچ پورا نہیں ہوتا تھا لیکن چالیس فیصدی کم آنے کے تو یہ معنے ہیں کہ سب مشن بند کر دیئے جائیں اور مشنریوں کو خالی بٹھا رکھا جائے.یہ نتیجہ محض اس بات کا ہے کہ باوجود میرے کہنے کے کہ یہ تحریک صرف چند سالوں کے لئے نہیں لوگ اسے وقتی تحریک سمجھتے رہے.میر اتجربہ ہے کہ باوجود اس کے کہ لوگوں کو سمجھاتے چلے جاؤ کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن قادیان میں میں کہہ رہا تھا کہ دیکھو تم نے قادیان سے نکلنا ہے تو سارے ہنس کے کہتے تھے ہمیں یو نہی جوش دلا رہے ہیں مگر قادیان سے پھر نکل آئے.پھر میں نے کہنا شروع کیا دیکھو ابھی تم نے یہاں زیادہ دیر رہنا ہے لیکن یہیں ہمارے آدمی لوگوں کو کہتے پھرے کہ میاں کیا مکان بنانا ہے اب تو ہم قادیان جانے والے ہیں.یہاں بے چارے ایک دوست تھے جو فوت ہو گئے وہ جب کوئی مکان بنوانے لگتا تو اُسے جا کے کہتے کیا کر رہے ہو مارچ میں تو ہم نے وہاں جانا ہے اب کے گندم وہاں کاٹنی ہے.اس عرصہ میں وہ آپ فوت ہو گئے اور سات سال کے بعد یہیں دفن ہوئے.تو وقت پر سمجھاتے رہو دلوں پر کچھ ایسی گرہ پڑ جاتی ہے کہ سمجھنے میں ہی نہیں آتے.میں جماعت کے لوگوں کو بار بار کہتا رہا کہ تمہیں اسلام کے لئے دائمی طور پر قربانیاں کرنی پڑیں گی مگر اس کو سُنتے ہوئے بھی لوگ سمجھتے تھے کہ یہ تو ہو ا مذاق.حقیقت یہی ہے کہ یہ صرف چند سالوں کی بات ہے اور اب جبکہ میں نے کھول کر بتا دیا ہے کہ یہ تحریک ہمیشہ کے لئے ہے تو بس خاموش کھڑے ہیں وعدہ ان کے منہ سے نہیں نکلتا لیکن سوچ لو اس کا نتیجہ کیسا خطرناک ہے.اگر یہی حالت رہی تو ہمیں اپنے سارے مشن بند کرنے پڑیں گے اور کہنا پڑے گا کہ جماعت چندہ نہیں دیتی مگر کیا ایسی صورت میں ہم دنیا کو اپنا منہ دکھانے کے قابل رہیں گے ؟ پس اِس غفلت کو دُور کرو اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو ہمار افرض ہے کہ ہم اپنے اس کام کو بڑھاتے چلے جائیں اور اتنا بڑھائیں کہ دُنیا کے کونے کونے میں اسلام کی تبلیغ پہنچ جائے یہ چیز ہے جو ہم کو ساری را نیا پر ممتاز کرتی ہے.

Page 235

انوار العلوم جلد 24 200 تمہارا ایک ایسا فخر جسے کوئی چھین نہیں سکتا " الفتح " اخبار مصر کا ایک شدید مخالف اخبار ہے پچیس تیس سال سے وہ ہماری مخالفت کرتا آتا ہے لیکن تبلیغ کے سلسلہ میں اُسے لکھنا پڑا کہ احمدیوں کے مقابلہ میں ہماری شرم سے گردنیں جھک جاتی ہیں ہمارا روپیہ ان سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے ، ہمارے آدمی ان سے سینکڑوں گنے زیادہ ہیں، ہماری طاقت ان سے سینکڑوں گنے زیادہ ہے لیکن تبلیغ اسلام کے لئے غیر ملکوں میں جا کر جو یہ لوگ کام کر رہے ہیں اس کے مقابلہ میں ہمارے پاس صفر ہے.حالانکہ وہ شدید دشمن ہے لیکن کہتا ہے اس بات میں ہم کو ماننا پڑتا ہے سچائی کا ہم کس طرح انکار کر دیں.تو یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں خدا تعالیٰ نے تم کو ایسا فخر دیا ہے کہ سوائے اس کے کہ کوئی ڈھیٹھ بن کے انکار کر دے اس کے لئے اور کوئی صورت ہی نہیں ہے ؟ جیسا کہ روپیہ کسی کے ہاتھ پر رکھ دو تو وہ کہتا جائے کہ کچھ بھی نہیں ہے یا چھوٹے بچے بعض دفعہ کھیلتے ہیں تو یو نہی ماں یا باپ کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں کہ میں نے روپیہ دیا ہے مٹھی بند کر لو.وہی بات ہے اگر کوئی شخص ہماری تبلیغ دیکھ کر بھی کہتا ہے کہ کوئی تبلیغ نہیں تو ساری دُنیا اس پر ہنستی ہے کہ احمق آدمی ہے تبلیغ ہو رہی ہے ، لوگ مسلمان ہو رہے ہیں یہ کس طرح کہتا ہے کہ تبلیغ نہیں ہو رہی.غرض ایک ہی چیز ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا.اگر اس خوبی کو جس کا کوئی بھی دُنیا میں انکار نہیں کر سکتا، جس کو دشمن بھی مانتا ہے تم تلف کر دیتے ہو تو پھر مجھے نہیں سمجھ آتی کہ اور کونسی دلیل ہے جس سے میں تمہیں سمجھا سکوں.مسیحیت کو تم بر اکہتے ہو، کہتے ہو یہ دجال ہیں لیکن میسحیت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال پہلے کی آئی ہوئی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو تیرہ سو پچیس سال کے قریب اور مسیح کے زمانہ کو 1953 ء سال گزرے ہیں لیکن باوجود سوا چھ سو سال او پر ہونے کے اُن کی یہ حالت ہے کہ آج بھی ساری دُنیا میں عیسائی مبلغ پھر رہا ہے.اور مسلمانوں کو تبلیغ چھوڑے ہوئے بارہ سو سال گزر چکے ہیں بس پہلی صدی کے بعد مسلمانوں نے کہا بہت ہو گیا اب نہیں ضرورت.مگر خیر ان کی تو کچھ بات بھی تھی

Page 236

انوار العلوم جلد 24 201 متفرق امور وہ چند کروڑ ہو گئے تھے مگر تم تو نہ تین میں ہو نہ تیرہ میں.ابھی بہت ہوئے ہی نہیں.تم کس طرح تھکے بیٹھے جا رہے ہو.اگر تمہاری تعداد بھی کروڑوں کروڑ ہو چکی ہوتی ، اگر تم بھی دُنیا میں کوئی غلبہ حاصل کر چکے ہوتے ، اگر تم کو دُنیا میں تجارتیں مل جاتیں، تم کو حکومتیں مل جاتیں اور پھر تم سست ہو جاتے تو سمجھ میں آ سکتی تھی کہ تھک گئے.بے وقوفی سے اُنہوں نے سمجھ لیا کہ ہم نے بڑی ترقی کر لی ہے لیکن تم نے تو ابھی کچھ بھی حاصل نہیں کیا.ایک آدمی جس نے روٹی کھالی ہو، پیٹ بھرا ہوا ہو وہ اگر کہہ دے کہ شام کا کھانا نہیں کھائیں گے پیٹ بھرا ہوا ہے تو اُس کو بھی ہم بے وقوف ہی سمجھیں گے اور کہیں گے کہ شام کو پتہ لگے گا.لیکن ایک آدمی جو فاقے بیٹھا ہے وہ اگر کہے ہم نہیں پکاتے پیٹ بھرا ہوا ہے اُس کو سوائے پاگل کے ہم کیا کہہ سکتے ہیں.تو تمہارے سامنے تو ایسا کام پڑا ہوا ہے کہ جس میں سے کوئی حصہ تم نے کیا ہی نہیں.تم خدا کے سامنے بھی جوابدہ ہو ، تم انسانوں کے سامنے بھی جوابدہ ہو ، تم اپنے نفس کے سامنے بھی جوابدہ ہو ، تم اپنی اولادوں کے سامنے بھی جوابدہ ہو.تمہاری آنے والی اولادیں کہیں گی کہ میرا باپ کتنا بے وقوف تھا کہ اس نے میرے لئے کانٹے بوئے ، کتنا قریب کا زمانہ اس کو ملا، اسے وہ دلائل اسلام کی تائید میں ملے جن کو مسیح موعود نے پیش کیا تھا وہ دلائل ملے جو قرآن کریم کی نئی تفسیروں سے اس کے سامنے آگئے تھے.وہ ذرائع ملے کہ نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے آگے آرہے تھے لیکن پھر بھی اس بے وقوف نے اُس وقت قربانی نہ کی اور آج ہمارے لئے یہ امر تباہی اور ذلت کا موجب بنا ہوا ہے.پس تمہارا فرض ہے تمہاری اولادوں کے لئے ، تمہارا فرض ہے خدا کے سامنے ، تمہارا فرض ہے اپنے نفس کے سامنے ، تمہارا فرض ہے اپنی قوم کے سامنے ، تمہارا فرض ہے اسلام کے سامنے ، تمہارا فرض ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کہ تم اپنی اس ذمہ داری کو ادا کرو اور اسلام کے نام کو دُنیا کے کناروں تک پہنچاؤ.پس اس کام میں کسی قسم کی کوئی شستی اور اُنیس بیس کا سوال نہیں.زیادہ سے زیادہ تم یہ کہہ لو گے کہ یہ ہمارا پیر بنا بیٹھا ہے مگر اس کو نہیں پتہ لگا کہ یہ تحریک دائمی ہے.

Page 237

انوار العلوم جلد 24 202 تم بے شک کہہ لو کیا حرج ہے.میں تو اس کی حکمت سمجھتا ہوں کہ مجھے اگر اس وقت پتہ ا لگ جاتا تو تم نے اتنی دُور نہیں چلنا تھا.یہ تو خدا نے جیسا جانور کو گھاس دکھا دکھا کر آگے لے جاتے ہیں اسی طرح کیا ہے کہ گھاس دکھایا تھوڑا سا چلایا.پھر گھاس دکھایا پھر آگے چلایا.پھر گھاس دکھایا پھر آگے چلایا لیکن ایک وقت آگیا کہ اس نے کہا چھوڑو اس مخول کو سیدھی طرح ظاہر کرو کہ تمہیں قیامت تک یہ کام کرنا پڑے گا.دیکھو اسلام باوجود اپنے سارے دلائل کے اس وقت دنیا کی آبادی کا زیادہ سے زیادہ 1/4 حصہ ہے اور عیسائیت اپنی ساری نامعقولیوں کے تعداد کے لحاظ سے دنیا کے حصہ سے زیادہ ہے اور طاقت کے لحاظ سے تو ساری طاقت اس کے پاس ہے.نوے فیصدی طاقت اس کے پاس ہے دس فیصدی لوگوں کے پاس ہے.یہ نتیجہ ہے ان کے تبلیغ کرنے کا انہوں نے باطل کی تائید کی اور اس کو غالب کر دیا.مسلمانوں نے سچ کی تائید نہ کی اور سچ مغلوب ہو گیا.خدا نے یہ قانون بنایا ہے کہ جو شخص کسی مقصد کے حصول کے لئے کوشش ے گاوہ جیتے گا جو نہیں کرے گا وہ مغلوب ہو جائے گا.اور جو عیسائیت کالوگوں کے دماغ پر اثر ہے اس کو اگر دیکھیں تو وہ سو فیصدی ہے.یعنی اب جو مسلمان کہلانے والے ہیں اگر تم ان سے باتیں کرو تو ان کے خیالات، ان کا فلسفہ ، ان کی آراء، ان کے فیصلے سارے عیسائیت کے ماتحت ہیں.اسلام والی کونسی بات ہے.صرف یہ کہہ دیں گے اسلام زندہ باد “ اور اس کے بعد ساری عیسائیت کی باتیں شروع کریں گے.اسلام زندہ باد، اسلام میں ڈیمو کریسی ہے حالانکہ ڈیمو کریسی تو ہے ہی امریکہ اور انگلستان کا لفظ.یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ٹنا بھی نہیں تھا.ڈیمو کریسی کہاں سے آگئی.تم یہ کہو کہ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ اس کو اصل شکل میں پیش کرو پھر آپ دنیا فیصلہ کرے گی کہ یہ تعلیم ڈیمو کریسی سے کتنی ملتی ہے اور کتنی نہیں ملتی.یا کہہ دیں گے اسلام میں روٹی کپڑے کا انتظام مسلمانوں نے کیا تھا.جس سے معلوم ہو تا ہے کہ اسلام میں کمیونزم ہے.غرض وہ نام جس کو سو سال پہلے بھی ہمارا باپ نہیں جانتا تھا وہ

Page 238

انوار العلوم جلد 24 203 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیں گے حالانکہ کہنا یہ چاہئے کہ اسلام روٹی کپڑے کا انتظام کرتا ہے پھر آپ ہی آپ لوگ فیصلہ کر لیں گے کہ کمیونزم سے اس کا کتنا جوڑ ہے اور کتنا نہیں لیکن دماغ پر چونکہ عیسائیت کے خیالات غالب ہیں اس لئے نقل کرنی جانتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں اگر ہم کہیں گے کہ اسلام کمیونزم ہے تو پھر بہت سے لوگ کہیں گے واہ واہ بڑی اچھی بات ہے.حالانکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ اسلام کمیونزم نہیں لیکن ہم کو بے وقوف بنانے کے لئے کمیونسٹ بھی کہتے ہیں.ہاہا ٹھیک ہے ٹھیک ہے اسلام کمیونزم ہے.اور جب کوئی کہہ دیتا ہے کہ اسلام ڈیمو کریسی ہے تو خوب جانتے ہیں کہ اسلام وہ ڈیمو کریسی نہیں سکھاتا جو یورپ سکھاتا ہے لیکن وہ ہم کو اُلّو بنانے کے لئے کہتے ہیں ہاں ! بالکل ٹھیک ہے.قرآن کریم میں ڈیمو کریسی ہے تاکہ مسلمان ان کی تائید کرتے رہیں.غرض آدھے ایک عقیدہ کے غلام بنے ہوئے ہیں اور آدھے دوسرے کے.ہمارا دماغ ان کے ماتحت ہے ، ہمارے افکار ان کے ماتحت ہیں، ہمارے ذہن ان کے ماتحت ہیں اور سو فیصدی ہم ان کے ماتحت ہیں.مذہب کو لے لو حضرت عیسی خدا تعالیٰ کے ایک نبی ہیں اور ہم ان کی عزت کرتے ہیں مگر سچا ہونا اور چیز ہے اور کسی کو اپنالیڈ ر تسلیم کرنا اور بات ہے.ہمارے لیڈر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سب مانتے ہیں کہ آپ فوت ہو چکے ہیں لیکن یہ کہہ دو کہ عیسی مر گیا ہے تو دوسرے کے منہ میں جھاگ آنی شروع ہو جاتی ہے.یہ کیوں ہے؟ یہ محض عیسائیت کے اثر کی وجہ سے ہے.عیسائی کہتے ہیں مسلمان ایسے روادار ہیں کہ عیسیٰ جو اُن کا نبی نہیں تھا اس کو بھی وہ زندہ مانتے ہیں اور ہم نے کہا سبحان اللہ ! اب تو عیسائی بھی ہماری تعریف کر رہے ہیں اس لئے جتنا ہم اس کو آسمان پر چڑھائیں گے اتنا ہی عیسائی ہم پر خوش ہو جائیں گے.غرض تم کو ان سب کا مقابلہ کرنے کے لئے اور پھر دوسری رو جو کمیونزم کی ہے اس کا مقابلہ کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے گا.مسیحیت تم کو اخلاق اور تعلیم کے نام پر دھوکا دیتی ہے.

Page 239

204 انوار العلوم جلد 24 وہ کہتے ہیں کہ کرسچین سویلائزیشن (CHRISTIAN CIVILIZATION).اور مسلمان بھی اپنی تقریر میں کہتا ہے کہ کرسچین سویلائزیشن.حالانکہ کوئی کرسچین سویلائزیشن دُنیا میں نہیں ہے.اگر کوئی سویلزیشن ہے تو محض اسلام کی سویلزیشن ہے مگر مسلمان اسلامک سویلائزیشن کی موجودگی میں بولے گا تو کہے گا کر سچین سویلائزیشن کیونکہ یورپ کے لوگوں سے اُس نے یہ لفظ سیکھا ہوا ہے.عیسائیت کے ساتھ اخلاق کا کوئی تعلق نہیں بھلا یہ بھی کوئی تعلیم کہلا سکتی ہے کہ تیرے ایک گال پر اگر کوئی شخص تھپڑ مارے تو تُو دوسرا اُس کی طرف پھیر دے 10 یہ بد اخلاقی اور بزدلی ہے یا بے غیرتی کی تعلیم ہے اخلاقی تعلیم وہ ہے جو قرآن سکھاتا ہے کہ اگر مار کھانے میں فائدہ ہو تو مار کھا اور اگر مارنے میں فائدہ ہو تو مار.بہر حال جس سے دُنیا کو فائدہ پہنچتا ہو، جس سے لوگوں میں امن قائم ہو تا ہو، جس سے دوسرے لوگوں کی اصلاح ہوتی ہو وہ کام کر.نہ مار کھانا اچھا ہے اور نہ مارنا اچھا ہے.دونوں بڑے ہیں ہاں وہ چیز اچھی ہے جو اپنے موقع پر کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے.فرمایا کرتے تھے کہ کہیں شیر اور بھیڑیا میں بحث ہو گئی کہ سردی پوہ میں ہوتی ہے یا ماگھ میں.خوب لڑے.شیر کہے پوہ میں ہوتی ہے بھیڑیا کے ماگھ میں ہوتی ہے.آخر بڑی دیر بحث کرنے کے بعد اُنہوں نے کہا گیدڑ کو بلاؤ اور اُس سے فیصلہ چاہو.گیدڑ بے چارہ آیا اُس کے لئے وہ بھی مار کھنڈ تھا اور یہ بھی مار کھنڈ.اس کی بات کہے تو وہ مارے، اُس کی بات کہے تو یہ مارے.آخر کہنے لگا ٹھہر جاؤ ذرا سوچ لوں.سوچ سوچ کر کہنے لگا سنو سنگھ سردار بگھیاڑ راجی بگھیاڑراجی نہ پالا پونہ پالا مانگه پالاواجی یعنی ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو سر دی ہو جاتی ہے ورنہ سردی نہ پوہ میں ہے نہ ماگھ میں.ربوہ میں تو یہی ہوتا ہے کہ ہوا چلتی ہے تو ہم ٹھٹھر نے لگ جاتے ہیں اور ہوا بند ہوتی ہے تو رات کے وقت دروازے کھول دیتے ہیں.تو اصل چیز یہی ہے کوئی آدمی

Page 240

انوار العلوم جلد 24 205 ایسا ہوتا ہے کہ اس کے منہ پر جب تک تھپڑ نہ ماریں اُس کی اصلاح نہیں ہوتی اور کوئی آدمی ایسا ہوتا ہے کہ مار نا اس کے لئے مضر ہو جاتا ہے.میں نے کئی دفعہ قصہ سنایا ہے بچپن میں میرے پاس ایک کشتی تھی اس کو لڑکے چھیڑ ا کرتے تھے، لے جاتے تھے اور پھر اس پر کودتے تھے.اپنی طرف سے گویا کھیلتے تھے مگر در حقیقت توڑتے تھے.آٹھ اِدھر بیٹھ گئے آٹھ اُدھر بیٹھ گئے اور پانی میں غوطہ دے دیا.میں جاؤں تو ہر روز دیکھوں کہ کشتی خراب ہو گئی ہے.میرے جو دوست سکول میں پڑھتے تھے میں نے ان سے کہا کہ یہ کیا ہوتا ہے ؟ انہوں نے کہا آپ کو پتہ نہیں اسے تو دو پہر کے وقت لڑکے لے جاتے ہیں اور اسے خوب خراب کرتے ہیں.میں نے کہا تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا تم اب مجھے بتانا.اُنہوں نے کہا اچھا.دوسرے تیسرے دن عصر کے قریب بھاگا بھاگا ایک لڑکا آیا کہنے لگا چلو اب وہ کشتی لے گئے ہیں.میں گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ کشتی ڈھاب میں لے گئے ہیں، دس دس لڑکے اس پر سوار ہیں اور کچھ بیچ میں لٹکے ہوئے ہیں اور اس پر چھلانگیں لگاتے ہیں.کوئی مٹی ڈالتا ہے، کوئی پانی پھینکتا ہے غرض ایک کھیل مچائی ہوئی ہے جیسے فٹ بال ہوتا ہے.مجھے سخت غصہ آیا میں نے اُن کو آواز دی کہ ادھر آؤ چونکہ ان میں سے کوئی قصائی تھا، کوئی نائی اور گاؤں میں ہماری حکومت تھی وہ مجھ سے ڈر کر بھاگے حالانکہ وہ میرے قابو میں نہیں آسکتے تھے وہ مجھے سے دوسری طرف تھے لیکن میری اس آواز کا رُعب ایسا پڑا کہ وہ بے چارے چپکے سے کشتی لے آئے اور کچھ بھاگ گئے.جوں جوں وہ آتے چلے جائیں انہیں ڈر آتا جائے کہ اب ہمیں مار پڑے گی.آخر کود پڑے اور تیر کر نکل گئے.صرف ایک لڑکا رہ گیا اور وہی لیڈر تھا اُن کا.وہ جس وقت کنارے پر کشتی لایا تو میں غصے میں اس کی طرف گیاوہ زیادہ مضبوط تھا اور مجھے غرور تھا اپنے مالک ہونے کا.میں نے زور سے اُس کو مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا.اس پر اُس نے اپنا منہ بچانے کے لئے ہاتھ آگے رکھ دیا.جب اُس نے ہاتھ رکھا تو مجھے اور غصہ چڑھا اور میں اُسے مارنے کے لئے ہاتھ پیچھے لے گیا.جب میں تھوڑی دُور تک لے گیا تو اُس نے ہاتھ نیچے کر لیا اور کہنے لگا کہ مار لو.بس اُس کا یہ فقرہ کہنا تھا کہ

Page 241

انوار العلوم جلد 24 206 وہیں میر اہاتھ گر گیا اور اُس وقت یہ حالت ہوئی شرم کے مارے کہ مجھ سے واپس نہیں ہوا جاتا تھا.تو کوئی وقت مارنے کا ہو تا ہے اور کوئی معاف کرنے کا ہوتا ہے.کسی وقت انسان مار کے اصلاح کرتا ہے اور کسی وقت معاف کر کے اصلاح کرتا ہے.یہ بے وقوفی کی بات ہوتی ہے کہ ایک ہی چیز کو انسان لے لے اور کہے کہ اسی طرح کرنا ہے.اسلام نے ہم کو درمیانی تعلیم دی ہے.تو سویلائزیشن تو ہے ہی اسلام میں.سویلائزیشن اور کسی مذہب میں ہے کہاں کہ اس کا نام ہم کر سچن سویلائزیشن رکھیں سوائے اسلام کے کوئی سویلائزیشن نہیں مگر چونکہ عیسائیت غالب ہے اس لئے ہم اس کے پیچھے ناچتے ہیں.پس تم کو ان چیزوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرنا ہے اور اسلامی تہذیب کو دُنیا میں پھیلانا ہے.دُنیا کے پاس جو کچھ ہے بے شک وہ بعض جگہ پر امن بھی ہے لیکن اس امن کے ہوتے ہوئے بھی وہ دنیا اندھیرے میں ہے جب تک اسلام کا نور ان لوگوں تک نہیں پہنچے گا اس وقت تک دُنیا کا اندھیرا دُور نہیں ہو سکتا.سورج صرف اسلام ہے جو شخص اس سورج کے چڑھانے میں مدد نہیں کرتا وہ دنیا کو ہمیشہ کے لئے تاریکی میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا انسان کبھی دُنیا کا خیر خواہ یا اپنی نسل کا خیر خواہ نہیں کہلا سکتا.ہر احمدی نہیا کرلے کہ اُس نے اس وقت تک تحریک کے ذریعہ سے جو تبلیغ ہوئی ہے اس کے بہر حال تحریک جدید میں حصہ لیتا ہے نتیجہ میں تیں پالیس ہزار آدمی عیسائیوں سے مسلمان ہو چکا ہے اور یہ طاقت روز بروز بڑھ رہی ہے اور اسے مضبوط کرنا ہر احمدی کا فرض ہے بلکہ ہر مسلمان خواہ وہ احمدی نہ ہو اُس کا بھی فرض ہے کہ اس کام میں مدد دے.اب چھوٹا کام ہونے کی وجہ سے مرکزی خرج تبلیغ سے نسبتا زیادہ ہوتا ہے اگر کام پھیل جائے تو یہ نسبت کم ہو جائے گی.پس:.اوّل تو یہ ضرورت ہے کہ ہر مبلغ کو ادھر اُدھر چلنے اور لیکچر دینے کے لئے اور ہال لینے کے لئے اور لٹریچر تقسیم کرنے کے لئے زیادہ امداد یہاں سے پہنچے.

Page 242

انوار العلوم جلد 24 207 دوسرے یہ ضرورت ہے کہ باہر کے ملکوں سے مزید طالب علم یہاں بلوائے جائیں اور مرکز میں تیار کئے جائیں.تیسرے رے یہ ضروری لٹریچر وسیع پیمانہ پر تیار کیا جائے اور جماعت اسے خود پڑھے اور مستحق لوگوں میں تقسیم کر.چوتھے یہ کہ چندہ کو مضبوط کیا جائے اور کسی دور کے اختتام کو اختتام نہ سمجھا جائے بلکہ یوں سمجھا جائے کہ ہم نے ایک چورن کھایا ہے تاکہ ہمارا ہاضمہ دین کے ہضم کرنے کے لئے زیادہ مضبوط ہو جائے.اور یہ دور ہم کو اس لئے ملا تھا تا کہ ہم آئندہ قربانیاں زیادہ شوق سے کر سکیں.اب اس چندے کو لازمی کر دیا گیا ہے اب ہر مرد اور ہر عورت کا فرض ہے کہ وہ اس میں حصہ لے لیکن ہماری پانچ روپے کی شرط موجود ہے.جو پانچ روپے تک اکٹھا نہیں دے سکتا وہ دویل کے پانچ دے دیں، تین میل کے پانچ دے دیں، چار مل کے پانچ دے دیں، پانچ مل کے پانچ دے دیں، سارا خاندان مل کے پانچ دے دے لیکن حساب کی سہولت کے لئے وہ قائم ہے کہ کم سے کم پانچ کی رقم ہو چاہے وہ کئی آدمی مل کر دیں.میں جیسا کہ بتا چکا ہوں اِس وقت تک کے وعدے گزشتہ سالوں سے چالیس فیصدی کم ہیں اور یہ خطر ناک بات ہے.خرچ اِس وقت پچیس فیصدی زیادہ ہو چکا ہے اور اور بڑھتا چلا جائے گا اس کا علاج یہی ہو سکتا ہے کہ :- (1) ہر احمدی مرد اور عورت اس بوجھ کو اٹھانے کے لئے تیار ہو جائے اور 1/4 سے ایک ماہ کی پوری آمد تک حسب حال چندہ دے یعنی کم سے کم چندہ.ہر شخص کوشش کرے کہ اپنی ماہوار آمدن کا 1/4 ایک دفعہ دے دے یعنی اڑتالیسواں حصہ سال کی آمدن کا.یا دو فیصدی سمجھ لو اور آٹھ فیصدی تک جو زیادہ توفیق رکھتے ہیں.مثلاً تنخواہ زیادہ ہے، شادی نہیں ہوئی یا بیوی ہے بچے نہیں یا بچے ہیں لیکن خرچ ایسے مقام پر ہے جہاں خرچ کم ہوتا ہے یا تنخواہ اتنی زیادہ ہے کہ ان کے باوجود روپیہ بچ جاتا ہے تو ایسا آدمی

Page 243

انوار العلوم جلد 24 208 کوشش کرے کہ مہینہ کی ایک تنخواہ کے برابر دے دے لیکن چونکہ پہلے بعض لوگ اس سے بھی زیادہ دیتے رہے ہیں میں نے کہا ہے کہ وہ فی الحال دس فیصدی کم کرنا شروع کر دیں.جو لوگ ایسے ہیں وہ میرے خیال میں دس پندرہ فیصدی سے زیادہ نہیں ہوں گے وہ اس سال مثلاً دس فیصدی کم کر دیں لیکن دوسرے آدمی جو اپنا چندہ بڑھائیں گے تو اس سے یہ کمی انشاء اللہ پوری ہو جائے گی اور دو تین سال میں چندہ ADJUST ہو جائے گا.(2) دوسرے باہر کے مبلغ بیرونی مشنوں کو خود اپنا بوجھ اُٹھانے کے قابل بنائیں.(3) تیسرے مرکز، مرکزی خرچ کو بیرونی خرچ کے مقابل پر کم کرنے کی کوشش کرے اور ہر 19 سال کے بعد اس انیس سال میں حصہ لینے والوں کی فہرست شائع کی جائے جو ہر جماعت کے پاس جائے، ہر چندہ دینے والے کے پاس جائے اور جماعت کی ہر لائبریری میں رکھی جائے تاکہ آئندہ نسلوں کے لئے وہ نشان رہے کہ ہمارے دادا نے اتنے سال دین کی خدمت کے لئے اپنی آمد میں سے اتنا حصہ دیا تھا.جیسے لوگ یہ یاد رکھتے ہیں کہ ہمارا پڑدادا فلاں جگہ لڑا، فلاں لڑائی میں گیا اسی طرح یہ جو دینی لڑائی ہے اس کا اُن کے پاس ریکا رڈ رہے گا.کتابیں نکال نکال کے دوسروں کو دکھائیں گے کہ ہمارے باپ دادا نے یہ خدمتیں کی ہیں.پھر اس طرح جو نئے آنے والے احمدی ہیں ان میں بھی جوش پیدا ہو گا کہ ہم بھی اس ریکارڈ میں اپنا نام لکھوائیں.حومین کے متعلق ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ چاہے کوئی ایک دو سال چندہ دے کر فوت ہو گیا ہو اگر وہ اپنی زندگی میں با قاعدہ چندہ دیتا رہا ہے تو اُس کے انیس سال مکمل سمجھے جائیں گے.اور یہ جو میں نے کہا ہے کہ بعض لوگ اپنا چندہ دس فیصدی کم کر سکتے ہیں اس کمی کو پورا کرنے کے لئے دوسرے لوگ اپنا چندہ بڑھائیں اور اسے ایک مہینہ کی آمد تلک لے آئیں.اسی طرح وہ لوگ جو اب تک تحریک جدید میں شامل نہیں ہوئے اُن کو شامل کرنے کی کوشش کریں.ہمارے چندہ دینے والوں کی لسٹ صدر انجمن کے لحاظ سے کوئی 35 ہزار ہے لیکن تحریک جدید میں حصہ لینے والے صرف نو یا دس ہزار ہیں.گویا ابھی

Page 244

209 انوار العلوم جلد 24 اس سے ڈھائی گئے اور آدمی موجود ہیں جو اِس چندے میں شامل نہیں.اگر یہ سارے کے سارے شامل ہو جائیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ جو بعض پر بہت زیادہ بوجھ ہے وہ اگر ہم کم کریں گے تو اس کے نتیجہ میں کمی نہیں آئے گی بلکہ پھر بھی چندہ میں زیادتی ہوتی چلی جائے گی.اب آپ لوگوں میں سے ہر شخص کو یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ چاہے دو دو مل کر ، تین تین مل کر کم سے کم رقم جو چندہ تحریک جدید کی ہے اس کا دینا اپنے اوپر واجب کر لیویں اور کوئی جماعت ایسی نہ رہے جس کے تمام افراد شامل نہ ہو جائیں.مثلاً بچوں کی طرف سے بھی بے شک پیسہ پیسہ دو پر ہر بچے کا نام لکھاؤ ، ہر بیوی کا نام لکھاؤ اور پھر جو مل کے ٹوٹل ہو جائے اگر پانچ نہیں بنتا تو پھر کسی اور خاندان کو ساتھ شامل کر لو اور اُن کو ملا کے پانچ کر لو یا پانچ سے زیادہ کر لو.اسی طرح جو غیر ملکی جماعتیں ہیں اُن کو بھی کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر اپنے بوجھ اٹھانے کے لئے خود تیار ہوں تاکہ اُن کے روپیہ سے دوسری جگہ مشن کھولے جاسکیں“.(الفضل 4 مئی 1960ء) زمیندار احباب پیداوار ”جماعت پاکستان کو اپنی آمد بڑھانے کی بھی کوشش کرنی چاہئے ہمارے ملک کا زمیندار یقیناً بڑھانے کی کوشش کریں اپنی آمد تین چار گھنے بڑھا سکتا ہے.جاپان میں ہماری گورنمنٹ نے ایک وفد بھیجا تھا جس نے آکر یہ رپورٹ کی کہ جاپان کی اوسط زمین تین ایکڑ فی خاندان ہے.اور اُن کی اوسط آمدن چھ ہزار روپیہ ہے گویا دوہزار روپیہ فی ایکٹر جاپان میں آمد پیدا کی جاتی ہے.اس کے مقابلے میں ہماری دوہزار چھوڑ دو سو بھی نہیں ہے سو بھی نہیں ہے بلکہ عام طور پر تو پچیس تیس روپے فی ایکڑ نکلتی ہے.اگر اُس کی مز دوری اِس میں شامل بھی کر لی جائے تو ساٹھ ستر اسی روپے آجاتی ہے.مربع والوں کی بیشک سوسواسو بلکہ ڈیڑھ دوسو تک بھی بعض کی آمد ہو جاتی ہے لیکن گجا دو ہز ار اور کجا دوسو.اور کجا اوسط پیچیں تھیں ہونا اور کجا اوسط دو ہزار کی.دونوں میں بڑا فرق ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ابھی تک محنت کی عادت نہیں.ہمارا آدمی کم سے کم چیز پر جس سے اُس کی روٹی چل سکے خوش ہو جاتا ہے.حالانکہ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ

Page 245

انوار العلوم جلد 24 210 زیادہ آمد پیدا کریں کیونکہ ہم نے صرف روٹی نہیں کھانی بلکہ اولاد کو تعلیم بھی دلانی ہے اور اس نے دین کی خدمت بھی کرنی ہے.اگر ہمارا ہر زمیندار اس خیال سے محنت کرے کہ میں نے اپنی اولاد کو تعلیم دلانی ہے، اگر اس خیال سے محنت کرے کہ میں نے دین کی اشاعت کرنی ہے تو اُس کی زمینداری بھی ثواب بن جاتی ہے اور وہ بھی اُس کے لئے نماز ہو جائے گی.مگر اس کے لئے وہ پوری کوشش نہیں کرتا.پوری کوشش وہ تبھی کرے گا جبکہ اُس کو دل میں یقین ہو جائے کہ میری اس محنت کے نتیجہ میں دین اسلام پھیل جائے گا، میری اس محنت کے نتیجہ میں میرے بچے تعلیم پا جائیں گے اور پڑھ جائیں گے.اگر اس پر آئے تو دنیا کے باقی ملک جو ترقی کر رہے ہیں ہم کیوں نہ کریں.ہمارا مبلغ ایک اٹلی میں تھا وہ آیا.ہم نے اُسے بعد میں ہٹا دیا تھا بعض تخفیفیں ہوئی تھیں مبلغین کی.تو میں نے کہا تمہارا گزارہ کس طرح ہوتا ہے ؟ کہنے لگا میں نے انگریز عورت سے شادی کی تھی میر احسر دیتا ہے خرچ.میں نے کہاوہ کہاں سے لیتا ہے ؟ کہنے لگا اس کا باپ تھا قنصل انگریزی.چودہ ایکٹر اُس نے اٹلی میں زمین خرید لی تھی وہ اُس نے مرتے وقت چونکہ بے پر ناراض تھا اپنی بیٹی کو دے دی.بیٹی آگے کسی امیر خاندان میں بیاہی گئی اُس کو اس کی ضرورت نہیں تھی تو اس نے مینجر بنایا ہوا تھا اپنے بھائی کو.تو وہ میر اخسر ہے وہ مجھے خرچ دیتا ہے اور اُس میں ہمارا گزارہ ہوتا ہے.میں نے کہا کتنی زمین ہے ؟ کہنے لگا چودہ ایکر.میں نے کہا چودہ ایکٹر خود کاشت کرتا ہے ؟ کہنے لگا نہیں.وہ آگے اُس نے اپنے پانچ چھ مزارع بتائے کہ اُن کو اس نے دی ہوئی ہے.میں نے کہا تو پانچ چھ مزارع بھی اُس پر خرچ کرتے ہیں ؟ اُس نے کہا ہاں.پھر اس میں وہ بھی خرچ کرتا ہے ؟ کہنے لگا ہاں.میں نے کہا پھر تمہیں بھی خرچ دیتا ہے.کہنے لگا ہاں.میں نے کہا اس بہن کو بھی دیتا ہے؟ کہنے لگا ہاں.جو بچتا ہے اس کو بھی بھیج دیتا ہے میں نے کہا یہ چودہ ایکڑ ہے یا چودہ ہزار ایکڑ ہے آخر یہ کیا بات ہے؟ اُن کے گزارے ہم سے مہنگے ہیں، ہمار از میندار بیچارہ پندرہ ہیں میں گزارہ کر لیتا ہے وہ ڈیڑھ دو سو سے کم میں گزارہ نہیں کرتا ماہوار.تو چھ خاندان وہ پل رہے ہیں، ہزار روپیہ مہینہ تو وہ کھا رہے ہیں تیرا وہ انگریز بھی پانچ چھ سو خرچ کرتا ہو گا،

Page 246

انوار العلوم جلد 24 211 تیرے اوپر بھی تین چار سو خرچ ہوتا ہو گا، کوئی ڈیڑھ دو سو اپنی بہن کو بھی بھیجتا ہو گا یہ جو تم دو ہزار روپیہ مہینہ کمارہے ہو یہ کس طرح کمارہے ہو ؟ کہنے لگا اصل بات یہ ہے کہ وہاں کے زمیندارے اور یہاں کے زمیندارے میں فرق ہے.کہنے لگا وہاں کا زمیندار چھوٹے سے چھوٹا دنیا کی ہر چیز کر رہا ہوتا ہے.کہنے لگا چودہ کا کھیت ہے اس میں چھ مزارع بیٹھے ہیں ہر مزارع اس طرح کاشت کرتا ہے کہ اُس میں چارہ کافی پید اہو جائے جس میں دو تین بھینسیں وہ رکھے.اُن کا دودھ بیچتا ہے.ہر مزارع نے اپنے ٹکڑے میں درخت لگائے ہوئے ہیں اُن کے اندر اُس نے شہد کی مکھیاں رکھی ہوئی ہیں اُن سے وہ شہد بیچتا ہے.ہر مزارع نے باڑ کے ارد گرد پھول لگائے ہیں وہ مختلف وقتوں میں پھول ہوتے ہیں اُن کے پھول بیچتا ہے.ہر مزارع کے درخت پھل دار ہیں وہ اُن سے آپ بھی کھاتا ہے اور اپنے پھل بیچتا ہے.پھر اُن کے ہاں سور زیادہ پالتے ہیں ہر مزارع نے سور اور مرغیاں رکھی ہوئی ہوتی ہیں وہ اُن سے سور اور مرغیاں بیچتا ہے.غرض اتنے لمبے اُس نے کام گنے اور کہا کہ وہ تین چار ایکڑ اس طرح استعمال کرتا ہے اور رات دن اس طرح اُن میں محنت کرتا ہے کہ اُس میں وہ سینکڑوں روپے کماتا ہے ایک ایکڑ میں.تو آخر ہماری زمینیں اُن سے ادنیٰ نہیں ہیں ہماری مشکل یہی ہے کہ ہمار از میندار یہ کہتا ہے پیٹ کو روٹی مل جائے تو بس پھر اور کوئی بات نہیں ہے.آگے بیٹے پڑھیں نہ پڑھیں، دین کی مدد ہو یا نہ ہو.اگر چندہ ہم مانگتے ہیں تو اپنی زمین پر محنت کر کے وہ چندہ نہیں دیتا اپنی قربانی کرتا ہے کہ اچھا دس روپے میں کماتا ہوں چلو وصیت کر دی روپیہ اُس میں سے دے دونگا.اپنے آپ کو فاقہ مار کے چندہ دیتا ہے محنت کر کے گیارہ روپے کی آمد نہیں پیدا کر تا کہ ایک روپیہ ہم کو دیدے بلکہ اُسی دس روپے میں سے ایک روپیہ ہم کو دیتا ہے حالانکہ چاہئے یہ تھا کہ جب ہم اُس سے چندہ مانگنے جائیں تو وہ کہے اب میں زیادہ محنت کروں گا مجھ سے چندہ مانگ رہے ہیں اب میں دس کی آمد نہیں پیدا کروں گا اب میں بارہ روپے مہینہ کروں گا.ان کو ایک روپیہ دو آنے دو نگا تو میری آمد دس روپے چودہ آنے ہو جائے گی.ہم روز چندہ مانگیں تو کہے اچھا اب میں اور محنت کر کے پندرہ روپے

Page 247

انوار العلوم جلد 24 212 مہینہ کماؤں گا.میں ان کو دو روپے دے دوں گا تیرہ روپے آپ رکھوں گا.غرض جتنا اُس سے چندہ مانگیں اُتنا ہی وہ اپنی آمد کو بڑھائے تب جاکے اُس کے اندر بشاشت بھی رہ سکتی ہے.تب جا کے اُس کے بچوں کی تعلیم بھی ہو سکتی ہے اور تب جاکے اسلام کی عظمت اور طاقت بھی پیدا ہو سکتی ہے.تو ہمارے زمینداروں کو چاہئے کہ وہ اپنے اندر عزم کریں بلکہ میں تو ایک تجویز اور بتاتا ہوں کہ زمیندار تبلیغ کے لئے یہ اپنے اوپر فرض کریں اور اگر وہ مثلاً آٹھ کنال ہوتے ہیں یا فرض کر و آٹھ ایکڑ ہوتے ہیں تو وہ یہ کہیں کہ ہم محنت کر کے اب کی دفعہ 9ایکڑ بوئیں گے اور ایک ایکڑ کی آمدن ہم دین کی اشاعت میں دیں گے اس طرح اُن کے مال میں برکت ہو گی.اگر وہ واقع میں دیانت سے کام لیں گے تو اس آٹھ کی جو آمد اُن کو ہوتی تھی اُس کی جگہ بارہ کی پیدائش ہو گی اور وہ جو ایک زائد ہے وہ بغیر کسی اپنے پاس سے قربانی کرنے کے وہ دین میں دیں گے.تو ہر زمیندار اپنے اوپر یہ فرض کرلے کہ وہ پانچ فیصدی حصہ اپنی کاشت کا دے دیا کرے.چندہ کے لئے زائد کاشت کرے اپنی پہلی آمد میں سے نہ دے بلکہ زائد کاشت کرے اور وہ رقم چندہ تحریک میں دے دے.ہمارا اندازہ یہ ہے کہ دو لاکھ ایکڑ کے قریب ہماری جماعت کے پاس زمین ہے تو دولا کھ میں دس ہزار ایکڑ سالانہ بن جاتی ہے اگر صحیح محنت کے ساتھ اُس پر کاشت کی جائے.اور اگر فرض کرو دو تہائی بھی لیا جائے کاشت میں سے نسبت کاٹ کر تو پھر بھی اس کے معنے ہیں کہ چھ ہزار ایکڑ کاشت بنتی ہے.اگر 25 روپے رکھا جائے تو ڈیڑھ لاکھ روپیہ کی صرف زمینداروں کی آمدن تحریک کے چندہ میں ہو جاتی ہے لیکن اس سے تو زیادہ آمدن ہو جاتی ہے.میں مثال دینے لگا تھا کہ دیکھو غیر ملکوں نے اپنی پیداوار بڑھانے کے لئے کتنی کوششیں کی ہیں.ہمارے اس علاقہ میں مکئی دس بارہ من ہوتی ہے سر گو دھا.لائل پور وغیرہ سنا ہے اچھی مکئی 25-30 من ہو جاتی ہے اور عام طور پر 20-21 سندھ میں یا ادھر دوسرے علاقوں بہاولپور وغیرہ میں ہوتی ہے.لیکن میں نے امریکہ سے پتہ لگایا تو انہوں نے کہا

Page 248

انوار العلوم جلد 24 213 ہمارے ہاں پچاس سے سو من تک فی ایکٹر ملکی پید اہوتی ہے.اب تم اس سے انداز آیہ سمجھ لو کہ اگر چھ روپے پر بھی قیمت آجائے آجکل تو دس بارہ پر بکتی ہے لیکن اگر چھ روپیہ پر بھی قیمت آجائے تو چھ سو روپیہ کی فی ایکڑ مکئی نکل آئی.تو انہوں نے بیج نکال لئے ہیں ایسے جن بیجوں میں بہت زیادہ طاقت ہوتی ہے.میں نے ان بیجوں کے لئے خط و کتابت شروع کی کہ ہم یہاں تجربہ کریں تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے مختلف زمینوں کا حساب لگا کے کہ فلانی قسم کی زمین میں فلانا بیچ لگتا ہے فلانی قسم کا نہیں ہوتا ایک ہزار سے زیادہ قسم کا بیج نکالا ہے تم بتاؤ تمہاری زمینیں کون سی ہیں کہ ہم بیچ دیں.ہم تو اس پر حیران ہو گئے کہ ہم یہ ہزار واں حصہ کہاں سے نکالیں.ہم نے کہا یہ تو ہمارے لئے مجبوری ہے اس نے کہا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ تم اپنا کوئی آدمی بھیجو جس کو ہم یہاں طریقہ سکھا دیں وہ جائے پھر وہاں تمہاری زمینوں کو ٹیسٹ کرے تو پھر یہاں سے بیج بھیج دیا کریں گے.ہم نے کہا یہ بھی ہمارے ساتھ مشکل ہے.انہوں نے کہا پھر یہ طریقہ ہے کہ ہم اپنا آدمی تمہارے پاس بھیجتے ہیں وہ وہاں ٹیسٹ کرے گا اس کے لئے تم ہم کو چھ ہزار ڈالر دے دو ( 18 ہزار روپیہ ) ہم نے اس کی بھی معذرت کی کہ ابھی تو ہمیں پتہ نہیں کہ کیا ہو جائے گا یہ بھی مشکل ہے.آخر ایک فرم نے کہا تم دینی خدمت کرتے ہو ہم تم کو سوا من اندازہ لگا کے تمہارے ملک کی زمین کا بیج بھیج دیں گے چنانچہ اب وہ بیچ آ رہا ہے اگر وہ آگیا تو ہم اُس کا تجربہ کریں گے ممکن ہے وہ ہماری زمینوں کے ساتھ فٹ کرے یا نہ کرے.میں نے کہا دوسرا بیج ہم کو بھیج دو.انہوں نے کہا وہ تو اب ہم نے چھوڑ ہی دیا ہے پچاس من یا سو من جب پیدا ہوتی ہے تو ہم نے پندرہ بیس من کیوں پیدا کرنی ہے.ہماری عقل ماری ہوئی ہے تو ہم نے وہ بیج چھوڑ دیئے ہیں یہ نئے بیج شروع کر دئے ہیں.تو دیکھو اس طریقے پر کتنی آمد نہیں بڑھ جاتی ہیں.اسی طرح گتا ہے.گنا بہت زیادہ آمدن والی چیز ہے.ماریشس وغیرہ میں تین سو من فی ایکٹر گر نکلتا ہے.سرگودھا میں بعض نہایت اچھے ٹکڑوں میں ایک سو پچاس من تک گڑ بعضوں نے نکالا ہے لیکن ہماری عام اوسط جو ہے وہ تیس چالیس من تک ہے تو اب

Page 249

انوار العلوم جلد 24 214 تیس چالیس من والے اور تین سو من والے کی نسبت ہی کیا ہو سکتی ہے آپس میں.اگر فرض کرو آٹھ روپے کھانڈ ہے تو تم یہ سمجھو کہ تمہارا پا نچواں حصہ رہ جائیگی.یعنی چھ من رہ گئی.تمہاری قیمت بنے گی اڑتالیس روپے اور اُن کی قیمت بنے گی 480 روپے.اس سے تو 480 یعنی دس گنے قیمت لینے والا جو ہے.تمہارا کیا مقابلہ ہے.وہ دس ایکڑ پر کام کرے گا اور اُس کی پانچ سو روپیہ کی مہینہ کی آمدن ہو گی تم دس ایکڑ کروگے اور 35 روپے مہینہ کی آمدن ہو گی.دونوں کی کوئی نسبت نہیں.اسی طرح مثلاً تمبا کو ہے.مجھے ایک دفعہ چودھری ظفر اللہ خان کہنے لگے کہ اپنی اسٹیسٹوں پر تمباکو کا تجربہ کروائیں.میں نے کہا چودھری صاحب ! ہم نے تمبا کو تو پینا نہیں تو یہ تجربہ کس طرح آجائے گا؟ تو ہنس پڑے کہنے لگے ایک شخص ریل میں مجھے ملا اور اس نے مجھے کہا تمبا کو بوائیں.ہم نے مدراس میں اس کا تجربہ کیا ہے چار ہزار فی ایکٹر نفع آرہا ہے تو آپ کے پاس اتنی زمینیں ہیں اور زمینیں ایسے علاقہ کی ہیں جن میں تمباکو اچھا ہو سکتا ہے تو کہنے لگے میں نے بیساختہ وہی بات کہی جو آپ نے کہی ہے.میں نے کہا ہم نہیں تمباکو پیتے تو ہم نے تمبا کو کیا بونا ہے.تو کہنے لگا چودھری صاحب! آپ میری طرف دیکھئے.(وہ سکھ تھا) ہم پیتے ہیں ؟ کہنے لگا ہم نے آمدن لینی ہے.پینے والے پیتے ہیں چاہے ہم بوئیں یا وہ بوئیں.جب دوسرے لوگ پیتے ہیں تو پھر ہمارا کیا نقصان ہے.میں ہوتا ہوں میں نے تو پیسے لینے ہیں.کہنے لگا چار ہزار ایکڑ ہم کو نفع ہو رہا ہے مدراس میں انگریزوں کے ساتھ مل کر میں کر رہا ہوں تو اگر آپ بوئیں تو آپکی تو پچاس ساٹھ لاکھ کی آمدن ہو سکتی ہے بجائے اس کے کہ ڈیڑھ لاکھ کی ہو.پھر آلو ہیں یا ایسی اور کئی ترکاریاں ہیں، چیزیں ہیں جن کی بڑی بڑی قیمتیں آتی ہیں لیکن ہمارے لوگ کوشش اُن کے متعلق نہیں کرتے.اب مجھے تجربہ کا پتہ نہیں لیکن میں سندھ گیا تو اب کے ہمارا ایک نوجوان جس نے فرقان فورس میں کام کیا ہوا تھا وہ بھی تحریک کی زمینوں پر ایک حصے کا منیجر تھا اُس نے مجھے اپنا باغ لگایا ہو اد کھایا.اپنے شوق پر اُس نے لگایا ہوا تھا.تو اُس نے اُس میں جا کر ہلدی یا شائد اورک دکھایا.میں نے کہا

Page 250

انوار العلوم جلد 24 215 متفرق امور یہ تم نے کس طرح ہوئی؟ کہنے لگا میں نے اُدھر فوج میں دیکھا تھا اُدھر بوتے ہیں اور وہاں اُن کو ہزار ہزار روپے کی فی ایکٹر آمدن ہوتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ.تو میں نے یہاں تجربہ کے لئے لگائی ہے اور یہ درخت بڑے اچھے نکل رہے ہیں اب تین مہینے کو پتہ لگے گا کہ پھل کیسا نکلتا ہے.بہر حال وہ درخت بڑے اچھے شاندار تھے اگر پھل لگ گیا ہو گا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اس تجربہ میں بجائے پچاس یا سو کی آمدن کے ہزار یا ڈیڑھ ہزار کی فی ایکٹر نکل آئے گی جتنی وہ بولیں گے.تو اچھے بیج کو تلاش کرنا اور ایسی چیزوں کو تلاش کرنا جو زیادہ نفع لانے والی ہوں نہایت ضروری ہوتا ہے مثلاً کھیر ہے سارا یورپ اور امریکہ اپنے کھیتوں میں لکھیر لگاتا ہے مگر ہمارا ہندوستانی نہیں لگاتا حالانکہ کھیر سے پیداوار بڑھ جاتی ہے.بہتیرا ہم نے زمینداروں کو بتایا ہے کہ بھئی! یہ دیکھو خدا تعالیٰ نے قانون ایسا بنایا ہے، قرآن میں صاف لکھا ہوا موجود ہے تمہاری پھر بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ ہر چیز میں نر اور مادہ ہیں.گندم میں بھی نر مادہ ہیں.پھلوں میں بھی نرمادہ ہیں ان نر اور مادہ کا مادہ جو ہے اُس کو مکھی اُڑا کے جاکے دوسری جگہ پر ڈالتی ہے جیسے ہمارے ہاں شادی کر دیتے ہیں نا.اُن کی شادی مکھی کرتی ہے.مکھی ایک نر پر بیٹھتی ہے اور وہاں سے لے کر پیچ جا کے مادہ پر لگادیتی ہے اُس کی فصل دوگنی ہو جاتی ہے.اگر نر کا مادہ نہ ملے تو جیسے گڑی خاکی انڈے دیتی ہے نا.تو تھوڑے دیتی ہے.تو خاکی انڈے دیتی ہے فصل لیکن جس وقت نر اُس کو جاکے مل جائے تو وہ فصل زیادہ دیتی ہے اس لئے یورپ والے فصل کے بڑھانے کے لئے خصوصاً اُن فصلوں کے بڑھانے کے لئے جن میں نر اور مادہ کا زیادہ تعلق ہے مکھیر ضرور رکھتے ہیں.وہ کھیر جاکے بیچ دوسری جگہ پر لگاتا ہے اور اس کی وجہ سے فصلیں بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں.تو شہر کا شہر نکلتا ہے اور اس سے آمدن الگ بڑھتی ہے.لیکن ہمارے ملک میں گورنمنٹ کی طرف سے بھی اعلان ہو چکے ہیں ایک محکمہ بھی ایک دفعہ بنا تھا پری پارٹیشن (Pre Partition) کے زمانہ میں.لیکن پھر بھی لوگ ادھر توجہ نہیں کرتے حالانکہ اپنی قومی حالت کے درست کرنے کے لئے اور اپنے دین کی حالت کو

Page 251

216 انوار العلوم جلد 24 درست کرنے کے لئے ان چیزوں کے تجربے نہایت ضروری اور مفید ہیں.صناع اپنی صنعتوں کو ترقی دیں اسی طرح صناعوں کو میں کہتا ہوں کہ وہ بھی اپنی صنعتوں کو زیادہ سے زیادہ اچھا بنانے کی کوشش کریں.وہی ہماری چیزیں ہیں جن کو یورپ والوں نے کہیں کا کہیں پہنچادیا ہے.مختلف قسم کے وہ بناتے ہیں پرزے ایسے جنکی وجہ سے اُس کی بناوٹ میں بڑی زیادتی ہو جاتی ہے.مثلاً کوئی چیز ہم ہاتھ سے پکڑ کے بناتے ہیں اُس کی حرکت کی وجہ سے اُس کی لرزش کی وجہ سے وہ دیر میں بنتی ہے.انہوں نے اس کے لئے پرزہ ایسا بنالیا مثلاً پھنسا دیا.اُس میں پھنسا کے پھر وہ بڑی آسانی سے کام کرتے چلے جاتے ہیں.جس میں ہمارا آدمی ایک بناتا ہے وہ دس بناتے ہیں تو ہمارے صناعوں کو بھی چاہئے کہ وہ ایجاد کی طرف توجہ کریں.گاندھی جی نے جب چرخہ کی تحریک کی تو پانچ سو چرخہ اُن کے اتباع نے ایجاد کیا تھا اور ایسے ایسے اچھے چرخے تھے کہ جنہوں نے ہمارے ملک کے کھدر کی بناوٹ کو چار چاند لگا دیئے تھے اسی طرح اگر ہمارے آدمی اس بات میں لگیں کہ ترقی کرنی ہے.پرزے ایجاد کرنے ہیں.نئی نئی مشینیں ایجاد کرنی ہیں تو پھر ہمارے صناع جو ہیں ترقی کر جائیں گے.تاجر اپنی تجارت بڑھائیں اسی طرح تاجروں کو بھی اپنی تجارت کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس کا طریقہ یہی ہے دیکھو ہماری شریعت کا حکم ہے.چھوٹا چھوٹا حکم ہوتا ہے بڑی برکت والا ہوتا ہے.میں نے دیکھا ہے جتنے میرے پاس تاجر دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں مر گئے ، مر گئے.ایک ہی وجہ نکلتی ہے کہ مال لیا پھر روک لیا اب بیٹھے ہیں کہ قیمت بڑھ جائے گی قیمتیں.یہ کس طرح پتہ لگا کہ بڑھ جائیں گی؟ یہ کیوں نہیں پتہ لگا گھٹ جائیں گی.ہماری چونکہ سندھ میں کپاس بڑے پیمانہ پر ہوتی تھی اور وہاں ہیجنگ (HEDGING) کرتے ہیں یعنی پیشگی بیچ لیتے ہیں.اس پیشگی بیچنے میں بعض دفعہ تھوڑے سے روپیہ سے اپنی پیداوار سے زیادہ بھی بیچ سکتے ہیں اور اس میں بعض

Page 252

انوار العلوم جلد 24 217 متفرق امور بڑا نفع آجاتا ہے.مجھے ایک وقت خیال آیا.میں نے دیکھا کہ اس میں شریعت کی کوئی حرمت نہیں ہے جائز ہے بیع سلم ہے تو میں نے حکم دے دیا ایک انگریزی فرم کو کہ میری طرف سے اتنی خرید لو.میں نے کہا نقصان ہو گا تو ادھر اُدھر سے پُر کر لیں گے.مہینہ کے بعد ریٹ اتنے بڑھے کہ میں نے اس کو تار دی کہ اس کو بیچ ڈالو.اُس نے بیچ دی اور تیس ہزار روپیہ نفع آیا.پھر میں نے اس سے دُگنی اُس کو تار دے دی کہ اتنی خرید لو.پھر اُس نے خرید لی.مہینہ کے بعد وہ اتنی بڑھ گئی کہ میں نے اُس کو تار دی کہ پیچ ڈالو.اس میں مجھے کوئی ستر ہزار کا نفع آ گیا.پھر میں نے اُسے کہا کہ اور اتنی خرید لو تین مہینے کے اندر اندر دو لاکھ بیس ہزار کا نفع آیا.اس کے بعد میں نے سمجھا کہ یہ کام تو بڑا اچھا ہے یہ خیال نہ آیا کہ اس میں گھاٹا بھی ہے، نقصان بھی ہے.میں نے کہا اور خرید لو.پھر گرنی شروع ہو گئی.میں نے دو آدمی اپنے مقرر کئے وہاں.جب گرنی شروع ہوئی تو چالیس ہزار کا نقصان ہوا.میں نے کہا چلو ڈیڑھ لاکھ بچتا ہے لیکن میں نے کہا اب تم ختم کر دو.اب وہ جنہوں نے روپیہ دیا ہوا تھا وہ تو چاہتے تھے کہ ہم سے واپس لیں اس لئے میں کہوں ختم کر دو اور وہ کہیں اب بڑھنی ہے قیمت.اب اس وقت نقصان ہو جائے گا اس وقت روک لو پھر بڑھنی ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ اور چالیس ہزار کا گھاٹا پڑ گیا.مجھے اس کی اطلاع ملی تو میں نے کہا میں نے تو تمہیں کہا تھا بیچ ڈالو.کہنے لگے انہوں نے کہا تھا بڑھنی ہے قیمت.میں نے کہا اچھا اب تو پیچ دو.پھر وہ اُن کو کہیں کہ دیکھو جتنی گرنی تھی گر چکی ہے اب اس نے بڑھنا ہے اس طرح وہ لیتے چلے گئے دولاکھ آٹھ ہزار کا گھاٹا ہوا.مجھے تو اب مزا آیا میں نے کہا دیکھو اللہ تعالیٰ کا میرے ساتھ سلوک کہ پہلے میرے گھر میں روپیہ بھیجا پھر نقصان کیا.جو پہلے نقصان ہو تا تو میر ادیوالہ نکل جانا تھا.ہمارا ایک عزیز میرے پاس آیا اور کہنے لگا میں آپ کو کہنے آیا ہوں بات.میں نے حضرت صاحب کو خواب میں دیکھا ہے حضرت صاحب آئے او رکہنے لگے دیکھو ( اُسکی بھی زمینداری تھی) خواہ مخواہ کا غم اور مصیبت لینے کا کیا فائدہ ہے.آئندہ یہ مت کام کرو، تو بہ کرو.اور پھر انہوں نے آپ کا نام لیا کہ اُن کو بھی میرا یہ پیغام پہنچا دینا

Page 253

انوار العلوم جلد 24 218 متفرق امور اور پھر فلاں عزیز کا نام لیا کہ اُس کو بھی یہ پیغام پہنچا دینا.تو میں یہ خواب پوری کرنے آیا ہوں اور حضرت صاحب کا حکم آپ تک پہنچاتا ہوں.میں نے ہنس کر کہا میں تو پہلے ہی کانوں کو ہاتھ لگا چکا ہوں.میں نے بھی نہیں کرنی اور دوسرے آدمی نے بھی نہیں کرنی، پر تو یا در رکھ تُو نے ضرور کرنی ہے.چنانچہ کچھ دنوں کے بعد میں نے اُس سے پوچھا.کہنے لگا ہاں تھوڑی سی کیا کرتا ہوں.میں نے کہا وہی ہو گئی نا بات کہ ہم نے تو حضرت صاحب کا حکم مان لیا تم نے نہیں مانا.تو بہر حال روکنا مال کا شریعت میں منع ہے.یہ جو بھی لوگ کرتے ہیں کہ روکتے ہیں مال کہ قیمت بڑھ جائے گی تو بیچیں گے ہمیشہ نقصان اٹھاتے ہیں.جو آتا جائے بیچتے جاؤ.پھر نئے بھاؤ پر خرید لو پھر بیچ ڈالو تمہیں بہر حال فائدہ ہے.تو جتنے نقصان لوگ اٹھاتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کی خلاف ورزی سے اٹھاتے ہیں.تم اس بات کو مد نظر رکھو.بیع سلم کا طریقہ اختیار کرو کہ پیشگی دو زمینداروں کو اور اُن سے فصل کا بھاؤ اچھا مقرر کرو اور اُس کی وصولی زیادہ ہوشیاری کے ساتھ کرو.سارے خوجے جو ہیں کروڑوں کروڑ کی تجارت کرتے ہیں کبھی اُن کو نقصان نہیں ہو تا.وہ ایسا قبضہ رکھتے ہیں ان لوگوں کے ہاتھ پر کہ ان سے کوئی دھوکا نہیں کرتا.دوسرے ناواقف ہوتے ہیں اُن سے لوگ دھو کا کرتے ہیں.ہوشیاری کے ساتھ اگر کام کیا جائے.دیانتداروں سے مل کر کیا جائے تو لاکھوں لاکھ رستہ کھلا ہے تجارت کا جس میں ترقی کی جاسکتی ہے.زندگی وقف کرنے کی عظمت اور اہمیت پھر اس کام کے بڑھانے کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو وقف زندگی کی تحریک میں کرتا ہوں.وقف کے راستہ میں اس وقت بہت سی مشکلات ہیں.بعض ملک بالکل غافل ہیں.دوسرے جو وقف میں آرہے ہیں اُن کا استقلال اور عزم اس وقت کمزور پڑ رہا ہے.تیسرے کچھ لوگ غداری دکھا رہے ہیں.بھاگ کر یا مال چر اکر.یہ امور خطر ناک ہیں یہ تبھی دور ہو سکتے ہیں جبکہ :- اول مخلص واقفین وقف کی عظمت کا پھر تکرار سے اظہار کریں اور اپنے عمل سے اس

Page 254

انوار العلوم جلد 24 کی خوبی کا یقین دلائیں.219 (ب) جماعت واقفین کو خاص عظمت دے اور وقف سے بھاگنے والوں کو ذلیل اور نا قابل التفات سمجھے.اب میں نے دیکھا ہے کہ روپیہ کھا گئے سلسلہ کا.آجاتے ہیں کہ یہ وقف کیا ہے جی لڑکا.تو ہمارے اندر توفیق نہیں آپ اس کو بی اے ایم اے کرائیں اور اپنی خدمت پر لگائیں.اُس کے اوپر آٹھ دس ہزار روپیہ خرچ کر کے ہم تعلیم دلاتے ہیں پھر جس وقت ایم اے ہو گیا بھاگ جاتا ہے.کہتے ہیں جاؤ نالش کر کے وصول کرو.دس روپیہ مہینہ دے دیں گے.اس قسم کے ٹھگ اور پھر جماعت اُن کو سروں پر بٹھاتی ہے.جماعت کے پریڈیڈنٹ ہمارے پاس آتے ہیں سفارشیں لے لے کے امیر لکھتے ہیں ہو گئی غلطی اب جانے دیجئے.تو اگر یہ خزانے تمہارے پاس ہیں کہ لاکھوں لاکھ روپیہ تم لوگوں کو دو اور حرام مال کھلاؤ تو تب بھی حرام مال کھانے کی تو جماعت میں عادت پڑ جائے گی چاہے روپیہ تمہارا بچ جائے.نہ آوے وہ تو الگ رہا مگر حرام خوری کی جب کسی قوم میں عادت پڑی تو پھر اُس کا کوئی ازالہ نہیں ہو سکتا اس لئے جماعت کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ جب تم میں سے کوئی حرام خوری کرتا ہے تو تمہارے اندر غیرت ہونی چاہئے کہ تم نے پھر اُس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھنا.تعمیر مساجد کی تحریک پھر میں مساجد کی طرف توجہ دلاتا ہوں یہ نہایت اہم مسئلہ ہے.مساجد اور مراکز باہر کے ملکوں میں ہونے ضروری ہیں.ان کے بغیر تبلیغ عام نہیں ہو سکتی.افسوس ہے کہ اس طرف توجہ کم ہے.جو تجاویز مقرر کی گئی تھیں بہت ہی آسان تھیں مگر اُن پر ابھی تیس فیصدی بھی عمل نہیں ہوا.زمیندار، مکان بنانے والے، پیشہ ور ، تاجر ، ملازم سبھی کا اکثر حصہ غافل ہے حالانکہ یہ قربانی مشکل نہ تھی آسانی سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپیہ سالانہ چندہ ہو سکتا ہے اور کسی ایک ملک میں مسجد اور مکان بن سکتا ہے مگر اب تک مسجد امریکہ کی زمین جو خریدی گئی ہے اُس کا بھی قرضہ نہیں اترا.ہالینڈ میں عورتوں نے جو مسجد بنائی ہے اس کا کچھ روپیہ جمع ہے.مکان، زمین خریدی جاچکی ہے باقی کی میں آج اُن میں تحریک کر چکا ہوں.

Page 255

انوار العلوم جلد 24 220 مردوں کو سب سے پہلا کام یہ کرنا چاہئے کہ جو ہم نے چندہ مقرر کیا ہے اُس کی ادائیگی کی طرف وہ توجہ کریں.مثلاً ہفتے میں پہلے دن کی تجارت کا وہ نفع دے دیں یا جو بڑے تاجر ہیں وہ مہینے کے پہلے سودے کا دے دیں جو ملازم ہیں وہ جو سالانہ ترقی ملے وہ پہلی ترقی اُدھر دے دیا کریں جب کوئی بچہ ہو تو کچھ مسجد کے لئے دیویں.مکان بنادیں تو کچھ مسجد کے لئے دیویں.شادی کریں تو کچھ مسجد کے لئے دیویں زمیندار کے پاس جتنی زمین ہے اُس کی دو آنے فی ایکٹر شائد کاشت پر مقر ر ہے یا ساری زمین پر مجھے اس وقت یاد نہیں وہ چندہ دے دیا کریں.مسجد کے لئے.اور اسی طرح جو وکلاء اور ڈاکٹر ہیں اُن کے لئے بھی مجھے اس وقت پورا قاعدہ یاد نہیں مگر غالباً یہ ہے کہ جو اُن کی آمد پہلے سال کی تھی اُس کے بعد جو ترقی ہو اُس کا دسواں حصہ دے دیں اور اسی طرح مہینہ کی یا سال کا ایک دن مقرر ہے کہ اُس کی جو آمد پریکٹس کی ہو یا فیس کی ہو وہ دے دیا کریں.تو آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ اتنی معمولی بات ہے کہ اس قربانی کا کوئی پتہ بھی نہیں لگتا.اب جس کو آج ترقی ملی ہے پانچ وہ اُس کو.پندرہ سال کی ملازمت ہے تو اس کو پندرہ سال ملنی ہے.ساٹھ روپے ایک سال میں بنتے ہیں پندرہ سال میں نو سو اُس کو ترقی ملنی ہے اس نو سو میں سے اُس نے صرف پانچ دینے ہیں خدا کے رستہ میں.تو کتنی چھوٹی سی قربانی ہے.اسی طرح ایک شخص نے 360 دن کمائی کرنی ہے.ان 360 دنوں میں سے بارہ دن کی کمائی کا اُس نے صرف ایک سودے کا نفع دینا ہے.یہ کتنی چھوٹی سی بات ہے.زمیندار کا دو آنے فی ایکڑ اگر کاشت پر ہے تو اور بھی کم ہو گیا.قریباً 1 فی ایکڑ سمجھو.تو یہ کتنی چھوٹی سی قربانی ہے.اسی طرح شادی بیاہ وغیرہ پر لوگ خرچ کرتے ہیں پانچ سو، چار سو، د پچاس ہزار، دوہزار.اُس وقت اگر پانچ یا دس روپے سلسلہ کے نام پر بھی دے دیئے جائیں تو کون سی بات ہے.میں نے یہ کہا تھا کہ کم سے کم تم جو مجھ سے نکاح پڑھاتے ہو تو مسجد میں کچھ دے دیا کرو.آخر فائدہ اٹھاتے ہو.کچھ ان لوگوں نے دینا شروع کیا تھا اب تو میرے سامنے کسی نے نہیں دیا معلوم ہوتا ہے بھول گئے ہیں.اب کل نکاح ہونگے

Page 256

انوار العلوم جلد 24 221 متفرق امور تو کل سارے چاہے روپیہ دو، اکھٹی دو، دو روپے دو، پر دے دینا وہاں مسجد کے لئے.سچ ، محنت تعلیم اور نماز سب سے آخر میں میں یہ کہتا ہوں کہ چند اخلاق ہیں اُن کی طرف توجہ کرو.سیچ، محنت کی عادت یہ دو اخلاق ہیں اور فعل میں تعلیم اور نماز.قوموں کا وقار سیچ اور محنت سے بنتا ہے اور تعلیم اور نماز قوموں کو خدا تعالیٰ کے قریب کر دیتی ہے اور بنی نوع انسان کے لئے مفید بنادیتی ہے.تمام نوجوان نماز با جماعت اور تہجد کی عادت ڈالیں اور تمام عورتوں اور مردوں کو تعلیم دی جائے.جس طرح میں نے عورتوں میں کہا تھا اسی طرح میں مردوں کو کہتا ہوں کہ وہ بھی انتظام کریں کہ کوئی احمدی اَن پڑھ نہ رہ جائے اردو اُس کو پڑھائی جائے.دیکھو ساری دنیا کی قوموں میں لوگ اپنی زبان سیکھتے ہیں اور اردو زبان نا سکھاؤ اپنی زبانوں سے سارے علم حاصل کر لیتے ہیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہر علم اردو میں لے آئیں.تمہارا کام یہ ہے کہ ہر آدمی کو اردو سکھا دو بس وہ پھر سارے علم سیکھ جائے گا اور وہی اپنے گھر میں بیٹھا ہوئے افلاطون اور سقراط بن جائے گا.پس ہر پڑھا لکھا آدمی کم سے کم ایک یا دو آدمی کو سال میں پڑھانے کا وعدہ کرے.اب یہ سٹیج پر تو سارے پڑھے لکھے بیٹھے ہیں بولو ! سارے وعدہ کرتے ہو جاکر پڑھانے کا؟".سٹیج پر بیٹھنے والے سب دوستوں نے حضور کے اس ارشاد پر وعدہ کیا کہ وہ سال میں ایک یا دو آدمیوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں گے اس کے بعد حضور نے فرمایا:- ”اب سٹیج کے باہر والو! جو تمہارے امیر وغیرہ یہاں بیٹھے ہیں وہ وعدہ کرتے ہیں؟ اب باہر کے جلسہ گاہ والو! بولو! کہ جو پڑھنے والے ہو کوشش کرو گے کہ اپنے میں سے اپنے گاؤں اور آس پاس کے کسی ایک احمدی مرد یا عورت کسی کو پڑھانا لکھانا اور اردو سکھا دو گے“؟.اس پر بھی سب دوستوں نے وعدہ کیا.آخر میں حضور نے فرمایا:- ”اللہ تعالیٰ تم کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں اتنی دیر

Page 257

انوار العلوم جلد 24 222 بول گیا ہوں.اب کل میری علمی تقریر ہو گی اگر خدا نے میری صحت قائم رکھی اور مجھے بولنے کی توفیق ملی.وَأخِرُ دَعْوَنَا آنِ الْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنِ 1 رکی بیٹ : REBATE 66 غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 2: مسلم كتاب البر والصلة باب النَّهى عَنْ قَوْل هلك النَّاس میں یہ الفاظ ہیں اِذَا قَالَ الرَّجُلُ هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ 3 البداية وَالنّهَايَة جلد 8 صفحه 126 مطبوعہ بیروت 2001ء 4 بطريق: عیسائیوں کا مذہبی پیشوا ( اردو لغت تاریخی اصول پر جلد 2 صفحہ 1159 کراچی 1979ء) 5: الأعلى : 10 6 البقرة : 250 7: اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 50 بیروت لبنان 2001ء 8 الاعراف : 200 بخاری کتاب النکاح.بابِ النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةَ قَبْلَ التَّزْوِيْحِ 10 متی باب 5 آیت 39

Page 258

انوار العلوم جلد 24 223 سیر روحانی (7) (28دسمبر 1953ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی (7)

Page 259

انوار العلوم جلد 24 224 سیر روحانی (7)

Page 260

انوار العلوم جلد 24 225 سیر روحانی (7) بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (7) ( تقریر فرمودہ مورخہ 28 دسمبر 1953ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ) عالم روحانی کا نوبت خانہ تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- اللہ تعالیٰ نے سورۃ فاتحہ ایسے الفاظ میں اُتاری ہے کہ عسر ہو یا ئیسر ہو مؤمن کے لئے یہ سورۃ ہمیشہ ہی ایک مستقل صداقت ، ایک نہ مٹنے والی حقیقت اور ایک محبت کا گہرا راز بنی رہتی ہے.انسانوں پر توکل کرنے والے اور ظاہری طاقت وشان کو دیکھنے والے لوگ کبھی کبھی باوجود بڑی بڑی تیاریوں کے باوجود بڑے بڑے ارادوں کے ، باوجود بڑی بڑی امدادوں کے باوجود بڑے بڑے سامانوں کے ناکامی اور نامرادی کا منہ دیکھ لیتے ہیں.ہٹلر اپنی تمام شان کے باوجود مشرقی جرمنی کی جنگ میں بار جاتا ہے.نپولین اپنے عظیم الشان تجربہ اور عزم کے باوجو د واٹرلو میں شکست کھا جاتا ہے.لیکن خدا کے بندے اور خدا کے پرستار اور خدا کے موعود صبح بھی اور شام بھی اور رات بھی اور دن بھی سچے دل سے بغیر منافقت کے ، بغیر جھوٹ کے خدا کے حضور یہ کہتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العلمينَ.اُن کی ناکامیاں عارضی ہوتی ہیں، اُن کی تکلیفیں محض چند لمحات کی اور اُن کی مشکلات بالکل بے حقیقت ہوتی ہیں جن کے ساتھ خدا کھڑا ہوتا ہے اُن کو کسی دوسری چیز کا ڈر ہی کیا ہو سکتا ہے.

Page 261

انوار العلوم جلد 24 226 سیر روحانی (7) چند تمہیدی امور میں نے ذکر کیا تھا کہ کل انشاء اللہ تعالی میں حسب طریق سابق ایک علمی مضمون کے متعلق کچھ خیالات ظاہر کرونگا.اِس دفعہ میں نے اس مضمون کے لئے پھر "سیر روحانی" کو چنا ہے "سیر روحانی" کی تقریر 1938ء سے شروع ہوئی تھی اور اب 1953 ء آ گیا ہے اور ابھی تک وہ سارا مضمون ختم نہیں ہوا.سولہ چیزیں تھیں جو میں نے منتخب کی تھیں اور جن کے متعلق میں متشابہہ قرآنی دعوے اور قرآنی تعلیم پیش کرنا چاہتا تھا ان میں سے اس وقت تک دس کے متعلق تقریریں ہو چکی ہیں.1938ء میں جنتر منتر ،وسیع سمندر اور آثارِ قدیمہ کے متعلق تقریر ہوئی تھی.1940ء میں مساجد اور قلعوں کے متعلق تقریر ہوئی تھی.1941ء میں مُردہ بادشاہوں کے مقابر اور مینا بازار کے متعلق تقریر ہوئی تھی.پھر اس کے بعد 1942ء، 1943ء، 1945ء، 1946ء اور 1947ء میں اِس موضوع پر کوئی تقریر نہیں ہوئی.1948ء میں ایک وسیع اور بلند مینار کے متعلق تقریر ہوئی تھی.پھر 1950ء کے جلسہ میں دیوانِ عام کے متعلق تقریر ہوئی تھی اور 1951ء کے جلسہ میں دیوانِ خاص کے متعلق تقریر ہوئی.اس طرح گویا دس مضامین ان میں سے ہو گئے چونکہ اس مضمون کے بیان ہونے میں لمبا فاصلہ ہو گیا ہے اس لئے میر امنشاء تھا کہ میں مختصر کر کے باقی چھ مضامین اکٹھے بیان کر دوں اور کتاب مکمل ہو جائے لیکن جیسا کہ میں گل بتا چکا ہوں چند مہینوں سے جو مجھے گلے کی تکلیف شروع ہوئی تو اس کی وجہ سے میں نے محسوس کیا کہ میں لمبا مضمون بیان نہیں کر سکوں گا اور چھ مضامین بیان کرنے کے لئے غالباً پانچ چھ گھنٹے لگ جائیں گے اس لئے اور کچھ اس وجہ سے بھی کہ طبیعت کی خرابی کی وجہ سے میں رات کے وقت لیمپ سے کام نہیں کر سکتا اور بجلی ابھی یہاں آئی نہیں محکمہ دو سال سے ہم سے وعدے کر رہا ہے مگر اب تک اُسے ایفائے عہد کی توفیق نصیب نہیں ہوئی.جب وہ آجائے تو مجھے امید ہے کہ بیماری میں بھی کچھ نہ کچھ کام میں رات کو کر سکوں گا لیکن روشنی اگر کافی نہ ہو تو اب میری نظر رات کو زیادہ کام نہیں کر سکتی.دوسرے تیل کی بُو کی وجہ سے مجھے نزلہ بھی جلدی ہو جاتا ہے اور تیل کے لیمپ سے کام کرنا میرے لئے مشکل

Page 262

انوار العلوم جلد 24 227 سیر روحانی (7) ہو جاتا ہے اس لئے میں زیادہ وقت نوٹ لکھنے پر بھی نہیں لگا سکتا تھا اور کچھ میری بیماری کی وجہ سے لاہور کے ڈاکٹروں نے جو سنے تجویز کئے وہ ایسے مضعف 2 تھے کہ در حقیقت یہ پچھلا سارا مہینہ ایسا گزرا ہے کہ اکثر حصہ مجھے چار پائی پر لیٹ کر گزارنا پڑتا تھا اور بیٹھنا بھی میرے لئے مشکل ہوتا تھا اور دوائی بھی ایسی تھی جو کہ خواب آور تھی اسلئے اکثر وقت مجھے اونگھ ہی آتی رہتی تھی اور میں کام نہیں کر سکتا تھا.پس ان مجبوریوں کی وجہ سے میں نے صرف ایک مضمون پر ہی اکتفاء کیا اور آج اُسی مضمون کے متعلق میں کچھ باتیں کہوں گا.بعض دفعہ الہی تصرف ایسا ہوتا ہے کہ چھوٹی سی باتوں کو اللہ تعالیٰ لمبا کر دیتا ہے.اور بعض دفعہ طبیعت پر ایسا بوجھ پڑتا ہے کہ لمبی لمبی باتیں بھی مختصر ہو جاتی ہیں اس لئے میں ابھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ نوٹ جو در حقیقت ایک ہی مضمون کے متعلق ہیں اور اپنے خیال میں میں نے انہیں مختصر کیا ہے آیا تقریر کے وقت بھی وہ لمبے ہو جاتے ہیں یا چھوٹے ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کے فعل پر منحصر ہے مجھے بھی نہیں معلوم اور آپ کو بھی نہیں معلوم.نئے لوگوں کی واقفیت کیلئے بعض پرانی باتیں بعض لوگ جو نئے آئے ہیں اُن کی اطلاع کے لئے میں یہ بتاتا ہوں کہ 1938ء میں میں نے ایک سفر کیا تھا.اُس سفر میں مختلف جگہوں پر جب میں نے مختلف چیزیں پرانے آثار کی یا نیچر کی دیکھیں تو اُن کا میری طبیعت پر ایک گہرا اثر پڑا.انسانی مصنوعات اور انسانی شان و شوکت کو دیکھ کر اور اسلام کے نشانوں کو مٹا ہوا دیکھ کر اور اُس کی جگہ کفر اور ضلالت کو غالب دیکھ کر میری طبیعت سخت غمزدہ ہوئی اور مجھے بہت رنج پہنچا.اس سفر میں ہم پہلے بمبئی گئے تھے ، بمبئی سے حیدر آباد گئے، حیدر آباد سے پھر آگرہ آئے ، آگرے سے دِتی آئے اور دلّی میں ایک دن سیر کرتے ہوئے ہم غیاث الدین تغلق کے قلعہ پر چڑھے وہاں سے ہمیں دتی کے تمام مناظر نظر آرہے تھے.دلی کا پرانا شہر بھی نظر آتا تھا، نیا شہر بھی نظر آتا تھا، قطب صاحب کی لاٹ بھی

Page 263

انوار العلوم جلد 24 228 سیر روحانی (7) نظر آتی تھی، نظام الدین صاحب اولیاء کا مقبرہ بھی نظر آتا تھا، لوہے کی لاٹ بھی نظر آتی تھی اور لودھیوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ، سوریوں کے قلعے بھی نظر آرہے تھے، مغلوں کے قلعے بھی نظر آتے تھے ، باغات بھی نظر آتے تھے ، غرض عجیب قسم کا وہ نظارہ تھا جو نظر آرہا تھا.ایک طرف وہ شان و شوکت ایک ایک کر کے سامنے آرہی تھی کہ کس طرح مسلمان یہاں آئے ، کس طرح اُنکو غلبہ حاصل ہؤا ، کتنی کتنی بڑی انہوں نے عمارتیں بنائیں اور اس کے بعد وہ خاندان تباہ ہوا، پھر دوسرا آیا تو وہ تباہ ہوا، پھر تیسرا آیا اور وہ تباہ ہوا اور اب آخر میں یہ نشانات انگریزوں کی سیر گاہیں بنی ہوئی ہیں.اس نظارہ کو دیکھ کر میری طبیعت پر ایک غیر معمولی اثر پید ا ہوا اور میں نے کہا.کیا ہے یہ دنیا جس میں اتنی شاندار ترقی کے بعد بھی انسان اتنا گر جاتا اور تباہ ہو جاتا ہے.میرے ساتھ میری بڑی ہمشیرہ بھی تھیں یعنی ہمشیروں میں سے بڑی ورنہ یوں وہ مجھ سے چھوٹی ہیں.اسی طرح میری لڑ کی امتہ القیوم بیگم بھی تھی اور میری بیوی اُمِ متین بھی تھیں، میں وہاں کھڑا ہو گیا اور میں اس نظارہ میں محو ہو گیا.ایک ایک چیز کو میں دیکھتا تھا اور میرے دل میں خنجر چبھتا تھا کہ کسی وقت اسلام کی یہ شان تھی مگر آج مسلمان انگریز کا ٹکٹ لئے بغیر ان عمارتوں کے اندر جا بھی نہیں سکتے.یہ عمارتیں جو مسلمانوں نے بنائی تھیں آج یہاں سرکاری دفتر بنے ہوئے ہیں اور اس کو سیر گاہ بنا دیا گیا ہے.جن خاندانوں کے یہ مکان تھے اُن کی نسلیں چپڑاسی بنی ہوئی ہیں، کلرک بنی ہوئی ہیں، ادنی ادنی کام کر رہی ہیں اور یوروپین لوگوں کے ٹھڈے کھا رہی ہیں.غرض میں اس بات سے اتنا متاثر ہوا کہ میں کھڑے ہوئے انہی خیالات میں محو ہو گیا اور انہوں نے مجھے آوازیں دینی شروع کر دیں کہ بہت دیر ہو گئی ہے.مگر میں چوٹی پر کھڑا اس کو سوچ رہا تھا اور دنیاؤ مَا فِیھا سے غافل تھا.سوچتے سوچتے یکدم اللہ تعالیٰ نے میرے دل پر القاء کیا کہ ہم نے جو اسلام کو قائم کیا تھا تو قرآن کریم کے لئے قائم کیا تھا ان عمارتوں کے لئے قائم نہیں کیا تھا.ہم نے جو تم سے وعدے کئے تھے وہ قرآن کریم میں بیان ہیں، وہ یہ وعدے نہیں تھے جو تغلقوں اور شوریوں نے سمجھے تھے بلکہ وہ وعدے وہ ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے

Page 264

انوار العلوم جلد 24 229 سیر روحانی (7) کئے گئے تھے اور یہ چیزیں جو تم دیکھ رہے ہو ان کی مثالیں بھی قرآن کریم میں موجود ہیں اوران سے بہت زیادہ اعلیٰ اور شاندار ہیں اور قیامت تک موجود رہیں گی تم ان کو دیکھ کر کیا غم کرتے ہو جبکہ ان سے زیادہ شاندار چیزیں تمہارے پاس موجود ہیں.جس وقت تم چاہو قرآن اُٹھاؤ اُس میں سے تمہیں یہ ساری چیزیں نظر آجائیں گی.غرض بجلی کی طرح یہ مضمون میرے نفس میں گو ندا اور میں نے وہاں سے حرکت کی اور نیچے کی طرف اترنا شروع کیا اور میں نے کہا."میں نے پالیا.میں نے پالیا" جس طرح بُدھ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ خدا کے متعلق غور کر رہا تھا کہ سالہا سال غور کرنے کے بعد یہ انکشاف اُس پر ہوا اور بے اختیار ہو کر اُس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا: میں نے پا لیا.میں نے پالیا" اس طرح اُس وقت بے اختیار میری زبان پر بھی یہ الفاظ جاری ہو گئے کہ: "میں نے پالیا.میں نے پالیا" میری بیٹی امۃ القیوم بیگم نے مجھ سے کہا." ابا جان! آپ نے کیا پا لیا؟" میں اُس وقت اس دنیا میں واپس آچکا تھا.میں نے اُسے کہا.بیٹی ! میں نے پا تو لیا ہے لیکن اب میں وہ تم کو نہیں بتا سکتا بلکہ ساری جماعت کو اکٹھا بتاؤں گا.چنانچہ اس پر میں نے تقریر شروع کی جو ابھی تک جاری ہے اور جس کا ایک حصہ میں آج بیان کرنے والا ہوں.نوبت خانوں کی پہلی غرض جو چیز میں میں نے وہاں دیکھی تھیں اور جنہوں نے میرے قلب پر خاص اثر کیا تھا اُن میں سے ایک چیز یہ تھی کہ میں نے وہاں نوبت خانے دیکھے.یعنی ایسی عمارتیں دیکھیں جن میں وہ جگہیں بنی ہوئی تھیں جن میں بڑی بڑی نو بتیں رکھی جاتی تھیں اور وہ خاص خاص مواقع پر بجائی جاتی تھیں.میں نے تحقیقات کی کہ یہ نوبت خانے کیوں بنوائے گئے تھے

Page 265

انوار العلوم جلد 24 230 سیر روحانی (7) اور ان کی کیا غرض تھی؟ اس پر مجھے معلوم ہوا کہ کچھ نو بتیں تو اس طرح رکھی گئی تھیں کہ وہ سر حدوں سے چلتی تھیں اور دتی تک آتی تھیں.مثلاً جنوبی ہندوستان میں چند حکومتیں ایسی تھیں جو شروع زمانہ میں مغلوں کے ماتحت نہیں آئیں وہ ہمیشہ مغل بادشاہوں سے لڑتی رہتی تھیں اور جب بھی موقع پاتیں مغلیہ چھاؤنیوں پر حملہ کر دیتی تھیں.اس غرض کے لئے انہوں نے تین تین چار چار میل پر جہاں سے وہ سمجھتے تھے کہ اُن کی آواز جا سکتی ہے نوبت خانے بنائے ہوئے تھے جو چلتے ہوئے دلی تک آتے تھے.جس وقت سرحدات پر حملہ ہوتا تھا تو نوبت خانہ پر جو افسر مقرر ہوتے تھے وہ زور سے نوبت بجاتے تھے اُن کی آواز سُن کر اگلا نوبت خانہ نوبت بجانا شروع کر دیتا تھا، اس کی آواز تیسرے نوبت خانہ تک پہنچتی تو وہ نوبت بجانا شروع کر دیتا اس طرح دکن سے دتی تک چند گھنٹوں میں خبر پہنچ جاتی تھی.گویا یہ ایک تار کا طریق نکالا گیا تھا اور اس سے معلوم ہو جاتا تھا کہ ملک پر حملہ ہو گیا ہے تو جس جہت سے نوبت خانوں کی آواز آتی تھی اُس جہت کا بھی پتہ لگ جاتا تھا.بادشاہ فوراًلام بندی فی کا حکم دے دیتا تھا اور کسی جرنیل کو مقابلہ کے لئے مقرر کر دیتا تھا اور گھوڑ سوار فوراً چلے جاتے تھے جو جا کر خبر دیتے تھے کہ تم مقابلہ کرو.اگر بھاگنا پڑے تو فلاں جگہ تک آجاؤ پھر ہماری اور فوج آجائے گی.چنانچہ پھر فوج پہنچ جاتی تھی اور دشمن کا مقابلہ شروع ہو جاتا تھا.یہ نوبت خانے ادھر بنگال سے چلتے تھے اور دتی تک جاتے تھے اور اُدھر پشاور سے چلتے تھے اور دتی تک آتے تھے.جب کوئی حملہ آور ایران کی طرف سے آتا تھا تو پشاور کے پاس سے نوبت خانے بجنے شروع ہو جاتے تھے اور چند گھنٹوں میں دتی میں خبر پہنچ جاتی تھی کہ ادھر سے حملہ ہو گیا ہے.اُن دنوں ملتان میں بڑی چھاؤنی تھی، پھر لاہور میں بڑی چھاؤنی تھی اور دتی تو خود مرکز حکومت تھا.ان بڑی بڑی فوجی چھاؤنیوں کو حکم پہنچ جاتا تھا کہ اپنی فوجیں پشاور کی طرف بڑھانی شروع کر دو اور پھر دلّی سے دوسرے جرنیل بھی پہنچ جاتے تھے.غرض نوبت خانوں کی غرض ایک تو یہ ہوا کرتی تھی کہ مرکز میں یہ خبر پر جائے کہ دشمن حملہ آور ہوا ہے.یہ ظاہر ہے کہ جس زمانہ میں ابھی تار نہیں نکلی تھی

Page 266

انوار العلوم جلد 24 231 سیر روحانی (7) یہ طریق بڑا مفید تھا جو حکومت کی ہوشیاری اور اپنے فرض کے ادا کرنے پر تیار ہونے کی ایک علامت تھی.کجا حیدر آباد دکن کا علاقہ جو ہزار میل یا اُس سے بھی زیادہ فاصلہ پر ہے اور کُجا یہ کہ چند گھنٹوں میں خبریں پہنچ جاتی تھیں.اسی طرح پشاور سے دلی تک خبریں پہنچ جاتی تھیں اور بنگال سے دلی تک خبریں پہنچ جاتیں.نوبت خانوں کی دوسری غرض نوبت خانوں کی دوسری غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ جب بادشاہ کسی علاقہ پر حملہ کرنے کیلئے اپنے لشکر کو لیکر مرکز سے روانہ ہو تو اُس جہت میں رہنے والی تمام رعایا کو علم ہو جائے کہ شاہی لشکر آرہا ہے اور وہ بھی دشمن کے مقابلہ کے لئے تیار ہو جائے.چنانچہ جب بادشاہ کسی طرف حملہ کرتا تھا تو اُس طرف اُلٹی نوبت بجنی شروع ہو جاتی تھی.مثلاً دتی سے بادشاہی لشکر نے روانہ ہونا ہے اور فرض کرو کہ حملہ اتنی وسیع جگہ پر ہو گیا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ بادشاہی فوجوں کا وہاں فوری طور پر پہنچنا ضروری ہے تو دتی میں نوبت پڑتی تھی اور پھر جس طرف آگے جانا ہو تا تھا اُس طرف کے نوبت خانے بجنے شروع ہو جاتے تھے.غرض جس لائن پر نوبت خانے بجتے چلے جاتے تھے لوگوں کو معلوم ہو جاتا تھا کہ اس لائن پر لشکر نے جانا ہے.اگر حیدر آباد کی طرف بادشاہ کا لشکر جارہا ہے تو پہلے ایک پڑاؤ پر نوبت بجے گی، پھر دوسرے پر بجے گی، پھر تیسرے پر بجے گی اور پھر بجتی چلی جائے گی اور جہاں تک نوبت بجے گی لوگوں کو پتہ لگ جائے گا کہ بادشاہ نے کہاں تک آنا ہے.اگر بنگال کی طرف شاہی لشکر نے جانا ہے تو پہلے مرکز میں نوبت پڑے گی اور پھر آگے نوبت پڑے گی اور پھر آگے نوبت پڑے گی، پھر پڑتے پڑتے بنگال والوں کو اطلاع ہو جائے گی کہ دتی سے بادشاہ کا لشکر چل پڑا ہے.پشاور کی طرف حملہ ہوا ہو تو اُدھر خبر پہنچ جائے گی کہ دتی سے بادشاہ فوج لے کر چل پڑا ہے.یہ ظاہر ہے کہ جیسے تاریں آجاتی ہیں کہ ہوائی جہازوں پر ایک دستہ آرہا ہے، اتنی فوج چل پڑی ہے اور فلاں جرنیل مقرر کیا گیا ہے تو اس سے فوج کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں.اور اگر ایک فوج اپنے آپ کو کمزور بھی سمجھتی ہے اور وہ خیال کرتی ہے کہ وہ

Page 267

انوار العلوم جلد 24 232 سیر روحانی (7) دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتی تو جب اُسے یہ خبر پہنچ جائے کہ دو تین دن تک ہماری تازہ دم فوج اُس کی مدد کے لئے پہنچ جائے گی تو اُس کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں اور وہ لڑ کر مرنے کیلئے تیار ہو جاتی ہے اور سمجھتی ہے کہ ہم نے یہاں سے ہلنا نہیں.دو تین دن میں ہماری اور فوج آپہنچے گی ڈرنے کی کوئی بات نہیں.لیکن اگر یہ پستہ نہ ہو کہ ہماری فوجیں کب آئیں گی تو وہ کہتی ہیں یو نہی جان کیوں ضائع کرنی ہے چلولوٹ جائیں اس طرح ان نوبت خانوں کی وجہ سے فوج بڑی مضبوط رہتی ہے.نوبت خانوں کی تیسری غرض تیسری فرض نوبت خانوں کی یہ ہوا کرتی تھی کہ بادشاہ کبھی کبھی لوگوں کو اپنا چہرہ دکھانے کے لئے اور اپنی باتیں سنانے کے لئے جھروکوں میں بیٹھتے تھے اور اعلان کر دیا جاتا تھا کہ بادشاہ سلامت تشریف لے آئے ہیں جس نے آنا ہے آجائے یہ دربارِ عام ہو تا تھا.اس وقت بھی نوبت بجائی جاتی تھی اور نوبت کے بجنے سے لوگ سمجھ جاتے تھے کہ آج بادشاہ نے باہر آنا ہے.جو قریب ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں بات کرنے کا موقع مل جائے گا، جو اُن سے بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں دیکھنے کا موقع مل جائے گا، جو اُن سے بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں ایک جھلک دیکھنے کا موقع مل جائے گا اور جو اور بھی بعید ہوتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہم کوشش تو کریں گے نظر آ گیا تو آ گیا ور نہ ہجوم ہی دیکھ لیں گے اس طرح ہزاروں لوگ جمع ہو جاتے تھے.دتی کے بادشاہوں نے اپنے عہد حکومت میں ایسا طریق رکھا ہوا تھا کہ علاوہ جھروکوں کے وہ بعض دفعہ ایسی جگہ بیٹھتے تھے کہ دریا پار کے لوگ بھی جمع ہو جاتے تھے.بیچ میں جمنا آتی تھی اور جمنا کے کنارے پر لوگ آکر جمع ہو جاتے تھے اور سمجھتے تھے کہ اتنی دور سے بھی اگر ہم نے بادشاہ کو دیکھ لیا تو یہ بھی ہماری عزت افزائی ہے.1911ء میں جب جارج پنجم دتی میں آئے اور دربار لگا تو میلوں میل تک لوگ کھڑے ہوتے تھے اور سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ آخر وہ کھڑے کیوں ہیں.بعض دفعہ آدھ آدھ میل پر بادشاہ کی سواری گزرتی تھی مگر لوگ کھڑے ہوتے تھے صرف اتنا

Page 268

انوار العلوم جلد 24 233 سیر روحانی (7) دیکھنے کے لئے کہ تالیاں پٹی ہیں اور بادشاہ وہاں سے گزرا ہے.بس اتنی اطلاع آئی تو خوش خوش وہاں سے آگئے کہ ہم بادشاہ کا جلوس دیکھنے کیلئے گئے تھے.غرض یہ تین اغراض ان نوبت خانوں کی ہوا کرتی تھیں.اول : سرحدات کی طرف سے مرکز کو اطلاع دینا کہ دشمن حملہ آور ہے.دوم : مرکز کی طرف سے علاقہ کو اطلاع پہنچانا کہ بادشاہ یا اس کا ولی عہد بنفس نفیس اپنی فوج کے ساتھ کناروں کی فوجوں کی مدد کے لئے چل پڑا ہے.تیسرے: یہ اطلاع دینا کہ بادشاہ سلامت آج دربار عام منعقد کر رہے ہیں اور عام اجازت ہے کہ لوگ آئیں اور بادشاہ کی زیارت کر لیں اور اگر قریب پہنچ جائیں تو اپنی عرضیاں بھی پیش کر لیں بلکہ بعض جگہوں پر انہوں نے بکس لگائے ہوئے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور بعض جگہ چھینکے لٹکا دیتے تھے جن میں لوگ عرضیاں ڈال دیتے تھے اور پھر بادشاہ انہیں پڑھ لیتا تھا.گویا یہ تین باتیں تھیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے نوبت خانے بنائے جاتے تھے.اور واقع میں اس نظارہ کا خیال کر کے خصو صاً انگریزوں کی کارو نمیشن (CORONATION) دیکھ کر دیکھنے والوں کو خیال آتا تھا کہ کیس طرح ہمارے مسلمان بادشاہ نکلتے ہونگے.اور جس طرح ہمارے ہندوستانی دُور دُور دھکے کھاتے پھرتے ہیں اسی طرح اُس وقت انگریز سیاح آتے ہونگے تو دو دو میل پر بادشاہ کو دیکھنے کے لئے کھڑے ہوتے ہونگے اور کہتے ہونگے ہم نے بھی بادشاہ کو دیکھنا ہے.مگر آج یہ حالت ہے کہ انگریز تخت پر بیٹھتا ہے اور اُن پٹھان یا مغل بادشاہوں کی اولادیں دُور دُور تک دھکے کھاتی پھرتی ہیں بلکہ ہم نے دہلی میں دیکھا ہے کہ شہزادے پانی پلاتے پھر تے تھے اس طرح دل کو ایک شدید صدمہ ہوتا تھا.قرآنی نوبت خانہ کا کمال لیکن جب خدا تعالیٰ نے مجھے توجہ دلائی کہ ان چیزوں کو تم کیا دیکھ رہے ہو ہم تم کو اس سے بھی ایک بڑا نوبت خانہ دکھاتے ہیں جو قرآن کریم میں موجود ہے اور وہ اِس سے زیادہ شاندار ہے

Page 269

انوار العلوم جلد 24 234 سیر روحانی (7) تب میں نے سوچا کہ یہ جو نوبت خانہ بجا کر تا تھا اور جس سے وہ کناروں کو اطلاع دیا کرتے تھے کہ دشمن داخل ہو گیا ہے اس کے مقابلہ میں قرآن کا نوبت خانہ کیا کہتا ہے.اس پر میں نے ان نوبت خانوں کے متعلق تو یہ دیکھا کہ جب دشمن کی فوجیں ملکی سرحدوں میں گھس آتی تھیں یا کم سے کم سرحدات تک آپہنچتی تھیں تو اس وقت نو بتیوں کو پتہ لگتا تھا اب دشمن آرہا ہے اور وہ نو بتیں بجانی شروع کر دیتے تھے.مگر اس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ دشمن احتیاط سے اور اپنی فوجوں کو چھپا کر لاتا تو بعض دفعہ وہ سوسو میل اندر گھس آتا تھا پھر کہیں پتہ لگتا تھا کہ حملہ آور دشمن اندر گھس آیا ہے اور پھر اطلاع ہونی شروع ہوتی تھی.اس طرح عام طور پر حملہ آور کچھ نہ کچھ حصے پر قابض ہو جاتا تھا اور پتہ نہیں لگتا تھا کہ وہ کس وقت آیا ہے.داخل ہونے کے بعد معلوم ہو تا تھا کہ دشمن اندر گھس آیا ہے مگر اس نوبت خانہ کو میں نے دیکھا کہ اسلامی حکومت کا ایک نائب اور خدا کا خلیفہ مکّہ مکرمہ میں پھر رہا ہے ، معمولی سادہ لباس ہے ، اُس کے ساتھی نہایت غریب اور بے کس لوگ ہیں، حکومت کا کوئی واہمہ بھی اُن کے ذہن میں نہیں ہے، ماریں کھاتے ہیں ، پلٹتے ہیں، بائیکاٹ ہوتا ہے ، فاقے رہتے ہیں، جائیدادیں اور مکان چھینے جارہے ہیں، غلاموں کو پکڑ کر زمین پر لٹایا جاتا ہے اور اُن کے سینوں پر لوگ چڑھتے ہیں، کیلوں والے بوٹ پہن کر اُن کی چھاتی پر کودتے ہیں.اور نہ مکہ والوں کے ذہن میں خیال آتا ہے کہ یہ کبھی بادشاہ ہو جائیں گے ، نہ اُن کے ذہن میں کبھی خیال آتا ہے کہ ہم کبھی بادشاہ ہو جائیں گے.غرض ابھی بادشاہت کے قیام کا کوئی واہمہ بھی نہیں لیکن بادشاہت کے بننے سے بھی پہلے دشمن کے آنے کی خبر دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے تمہارے ملک پر حملہ ہونے والا ہے.فرماتا ہے وَلَقَدْ جَاءَ الَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ - كَذَّبُوا بِأَيْتِنَا كُتِهَا فَأَخَذْ نَهُمْ أَخْذَ عَزِيزِ مُقْتَدِدٍ - أَلْفَارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أُولَيكُمْ أَمْ لَكُمْ بَرَاءَةُ فِي الزُّبُرِ أَمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيعٌ ودرو ވ منتَصِرُ - سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ - بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ اذْهَى وَآمَةٌ - دہم نے موسی کے ذریعہ سے فرعون کو جو کہ مصر کا بادشاہ تھا اور بنی اسرائیل پر ظلم کیا کرتا تھا ڈرایا کہ دیکھو تم ہمارے بندے کے رُوحانی لشکر سے مقابلہ مت کرو ورنہ تمہیں نقصان پہنچے گا

Page 270

انوار العلوم جلد 24 235 سیر روحانی (7) لیکن اُس نے رسول کی پرواہ نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ اُس کی بے اعتنائی اور اُسکے انکار اور تکذیب کی وجہ سے ہم نے اس کو پکڑ لیا اور معمولی طور پر نہیں پکڑا بلکہ ایک غالب اور قادر کی حیثیت سے اُسکو پکڑا یعنی بعض گرفتیں ایسی ہوتی ہیں کہ انسان بہانے بنا کر اُس سے نکل جاتا ہے مگر ہماری گرفت ایسی تھی کہ ایک تو اُس گرفت سے کوئی نکل نہیں سکتا تھا دوسرے سزا ایسی تھی کہ اُس سے وہ بچ نہیں سکتا تھا.گور کمنٹیں بھی سزائیں دیتی ہیں لیکن بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ وہ پھانسی کی سزائیں دیتی ہیں تو لوگ جیل والوں سے مل جاتے ہیں ادھر رشتہ داروں کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں اور وقت سے پہلے پہلے وہ زہر کھا کر مر جاتے ہیں اور گورنمنٹ کے ججوں نے جو پھانسی کا حکم دیا ہو تا ہے وہ یو نہی رہ جاتا ہے.گزشتہ جنگ عظیم میں جو جر من لیڈر پکڑے گئے تھے اُن میں سے گو ئرنگ کے لئے امریکنوں نے بڑی تیاریاں کیں کہ اُس کو پھانسی پر لٹکائیں گے جس کا لوگوں پر بڑا اثر ہو گا کہ دیکھو گوئرنگ جیسے آدمیوں کو امریکنوں نے سزادی ہے اور جر من بڑے ذلیل ہوتے ہیں لیکن جس وقت پھانسی دینے کیلئے وہ اُس کے کمرہ میں گئے تو دیکھا کہ وہ مر ا پڑا تھا.معلوم ہوا کہ کسی نہ کسی طرح جرمنوں نے اندر زہر پہنچا دیا اور وہ کھا کر مر گیا.اب انہوں نے پکڑا تو سہی لیکن جو سزا دینے کا ارادہ تھا اس میں وہ کامیاب نہ ہوئے.گویا اَخَذَ عَزِيزِ تو تھا مگر اَخَذَ عَزِيزِ مُقْتَدِرٍ نہیں تھا یعنی پکڑ تو لیا وہ نکلا نہیں مگر جو چاہتے تھے کہ سزا دیں اُس میں وہ کامیاب نہ ہوئے.پھر بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ مجرم ان کی سزا سے بھی پہلے نکل جاتا ہے جیسے کئی مجرم جیل خانوں سے بھاگ جاتے ہیں، کئی مقدموں سے پہلے بھاگ جاتے ہیں، کئی پولیس کی ہتھکڑیوں سے نکل جاتے ہیں، بعض دفعہ اطلاع ملنے سے پہلے ہی بھاگ جاتے ہیں اور پھر ساری عمر نہیں پکڑے جاتے.بعض دفعہ پولیس اُن کے پیچھے تیس تیس سال تک ماری ماری پھرتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیوی حکومتوں میں تو یہ دو باتیں ہوا کرتی ہیں یعنی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ مجرم بھاگ جاتا ہے لیکن ہم ایسا پکڑیں گے کہ وہ بھاگ نہیں سکے گا.پھر کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت پکڑ تو لیتی ہے مگر جو سزا اس

Page 271

انوار العلوم جلد 24 236 سیر روحانی (7) کے لئے تجویز کرتی ہے وہ اس کو نہیں دے سکتی.پھانسی دینا چاہتی ہے تو اتفاقیہ طور پر مُجرم مر جاتا ہے ، ہارٹ فیل ہو کر مر جاتا ہے ، زہر کھا کر مر جاتا ہے، کسی نہ کسی طرح اُن کے قبضہ سے نکل جاتا ہے مگر ہم اَخَذَ عَزِيزِ مُقْتَدِر کی طرح انہیں پکڑیں گے، ہم اس طرح پکڑیں گے کہ وہ بھاگ بھی نہیں سکیں گے اور پھر جو سزا تجویز کریں گے وہی اُن کو ملے گی.پھر فرماتا ہے الْفَارُكُمْ خَيْرٌ مِنْ أوليكُمْ اَم لَكُمْ بَرَاعَةُ فِي الزُّبُرِ - اے مکہ والو ! تم بتاؤ تو سہی کہ وہ جو موسیٰ کے منکر تھے کیا تم اُن سے بہتر ہو ؟ اگر موسیٰ کے منکروں کو یہ سزائیں ملی تھیں تو تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو.آیا یہ کہ تمہیں وہ سزائیں نہیں مل سکتیں یا نہیں دی جاسکتیں جو موٹی کی قوم کو دی گئیں ؟ یا خدا تعالیٰ کی کتابوں میں تمہارے لئے کوئی ضمانت آئی ہوئی ہے کہ ہم نے مکہ والوں کو کچھ نہیں کہنا؟ مکہ والے کہتے تھے کہ خانہ کعبہ ہماری حفاظت کا سامان ہے.فرماتا ہے وہ تو خانہ کعبہ کی حفاظت کا وعدہ تھا تمھارے لئے تو کوئی وعدہ نہ تھا.خدا نے یہ تو وعدہ کیا کہ وہ خانہ کعبہ کی حفاظت کرے گا مگر یہ تو وعدہ نہیں کہ تم کو بھی سزا نہیں دے گا.آمْ يَقُولُونَ نَحْنُ جَمِيع مُنْتَصِرُ.کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ایک بڑا جتھہ رکھتے ہیں اور ہم ان مسلمانوں سے سخت بدلہ لینے والے ہیں ہم انکو تباہ کر کے چھوڑیں گے.سَيُهُزَمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُرَ.فرمایا ٹھیک ہے یہ حملے کریں گے اور قوموں کی قومیں اکٹھی ہو جائیں گی، سارا ملک جمع ہو جائے گا اور جمع ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ملک پر حملہ کریں گے لیکن سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَ يُولُونَ الدُّبُرَ - اُن کے لشکر جو اکٹھے ہو نگے اُنکو شکست دے دی جائے گی اور وہ پیٹھ دکھاتے ہوئے بھاگ جائیں گے.ودرو سی 91991 دشمن کے حملہ کی بارہ سال پہلے خبر گویا ابھی کوئی حملہ نہیں ہوا، کوئی حکومت نہیں بنی، کوئی فوج نہیں آئی اور بارہ سال پہلے سے خبر دے دی جاتی ہے کہ یہ لوگ حملہ کے لئے آئیں گے لیکن جب ادھر سے یہ جمع ہو رہے ہونگے اُدھر سے خدا اپنے گورنر کی مدد کے لئے دوڑا چلا آرہا ہو گا

Page 272

انوار العلوم جلد 24 237 سیر روحانی (7) او اور اُسے دیکھ کر دشمن کی فوج حواس باختہ ہو جائے گی اور اُسے بھاگنا پڑے گا.یہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے ضرورت اس بات کی ہوتی ہے کہ انسان خدا کا بن جائے.جب وہ خدا کا بن جاتا ہے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ کسی جگہ پر ہو اور خد اوہاں نہ ہو.جب بھی دنیا میں لوگ ایسے شخص کے پاس پہنچیں گے اُسے اکیلا نہیں پائیں گے بلکہ خدا کو اُس کے پاس کھڑا پائیں گے اور انسان کا لوگ مقابلہ کر سکتے ہیں خدا کا نہیں کر سکتے.بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ آدھی وَ اَمَر.فرماتا ہے وہ جو گھڑی ہو گی وہ فرعون کی گھڑی سے بھی زیادہ خطر ناک ہو گی.بظاہر یہ نظر آتا ہے کہ فرعون کی گھڑی زیادہ سخت تھی اس لئے کہ وہ ڈوب کر مر گیا اور اُس کی فوج تباہ ہو گئی لیکن واقع میں دیکھیں تو کفار کو جو سزاملی وہ فرعون کی سزا سے زیادہ سخت تھی.فرعون کا لشکر تباہ ہوا لیکن موسیٰ کو مصر کا قبضہ نہیں ملا.موسیٰ آگے چلے گئے اور کنعان پر جا کر قابض ہوئے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل میں جو دشمن آیا اُس کو صرف شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُس کے ملک پر بھی قبضہ ہو گیا.یہ بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُهُمْ وَالسَّاعَةُ آدھی وَ آمَرُّ تھا کہ موسی کے دشمن فرعون کو جو سزاملی اُس سے ان کی سزا زیادہ سخت تھی کیونکہ یہ قومی طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماتحت آگئے.مدینہ منورہ میں اسلام کی اشاعت آب جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ خبر ایسے وقت میں دی گئی تھی جبکہ اسلامی حکومت ابھی بنی بھی نہیں تھی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے نکلنا پڑا.پہلے تو یہ ہوا کہ مدینہ کے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہو گئے.کیسی کو کیا خبر ہو سکتی تھی کہ مدینہ کے لوگوں میں اسلام پھیل جائے گا.وہ تین چار سو میل کے فاصلہ پر ایک جگہ تھی جن کے مکہ والوں کے ساتھ کوئی ایسے تعلقات بھی نہیں تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ چونکہ مدینہ والوں کی نواسی تھیں اس لئے صرف اتنا تعلق تھا اس سے زیادہ نہیں تھا لیکن حج کے موقع پر مدینہ سے کچھ لوگ آئے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کے لئے

Page 273

انوار العلوم جلد 24 238 سیر روحانی (7) بھی آگئے.آپ نے فرمایا.اگر آپ لوگ مجھے اجازت دیں تو میں آپ لوگوں کو کچھ نصیحت کرنا چاہتا ہوں.مکہ کے لوگ آگے سے مارنے پیٹنے اور گالیاں دینے لگ جاتے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ پیچھے نہیں پڑتے تھے بلکہ پہلے آپ ان لوگوں سے اجازت مانگتے تھے اسی طریق کے مطابق آپ نے فرمایا کہ اگر اجازت ہو تو میں تمہیں کچھ کہنا چاہتا ہوں.چونکہ مدینہ کے لوگوں کو معلوم تھا کہ آپ ہمارے نواسے ہیں اس لئے انہوں نے کہا تم تو ہمارے نواسے ہو جو کچھ کہنا چاہتے ہو کہو مگر تمہاری قوم کے لوگ تو کہتے ہیں کہ تم پاگل ہو گئے ہو.آپ نے فرمایا تم میری باتیں ئن لو اور پھر بیٹھ کر انہیں اسلام کی تعلیم دی.انہوں نے کہا یہ باتیں تو بڑی معقول ہیں مگر تمہاری قوم کے لوگ تو یہی کہتے تھے کہ تم پاگل ہو لیکن بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں بڑی جتھہ بندی ہوتی ہے اس لئے اگر آپ اجازت دیں تو ہم اس وقت کوئی فیصلہ نہ کریں ہم واپس جاکر اپنی قوم کے لوگوں کو یہ باتیں سنائیں گے اگر قوم کو توجہ پیدا ہوئی تو ہم پھر دوبارہ آئیں گے چنانچہ وہ واپس گئے اور انہوں نے مدینہ میں اسلام کی تعلیم پھیلانی شروع کی.لوگوں نے سنا تو اُن میں سے درجنوں آدمی آپ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور انہوں نے کہا یہ باتیں سچی ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بڑا ذریعہ ان کے لئے یہ بن گیا کہ رسول کریم صلی اللہ متعلق اسرائیلی انبیاء و اولیاء کی پیشگوئیاں علیہ وسلم کے دعوی سے پہلے یہودی لوگ اپنے بزرگوں کی پیشگوئیاں سُنایا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہو گا اور ہمیں یقین ہے کہ چونکہ نبی ہم میں سے ہی ہو سکتا ہے اس لئے وہ ہماری قوم میں سے ہو گا بلکہ مدینہ کے جو یہودی تھے وہ اسی لئے ہجرت کر کے وہاں آبسے تھے کہ کسی نے کتابوں میں سے اُن کو یہ پیشگوئیاں سنائیں تو انہوں نے کہا وہ نبی ہم میں سے آجائے اس لئے ہم عرب میں چلے جاتے ہیں.غرض اُن میں یہ پیشگوئیاں تھیں کہ آنے والا نبی عرب میں ظاہر ہو گا اس لئے انہوں نے خیال کیا کہ

Page 274

انوار العلوم جلد 24 239 سیر روحانی (7) وہ نبی ان یہودیوں میں سے ہو گا جو مدینہ جاکر رہیں گے اسی وجہ سے وہ ہجرت کر کے مدینہ آگئے.انہوں نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے آپس میں کہا کہ وہ جو یہودی کہا کرتے تھے کہ نبی ہم میں سے آئے گاوہ تو جھوٹی بات ہے نبی ہم میں سے آنا تھا جو آگیا اس لئے بہتر ہے کہ ہم پہلے اس کو قبول کر لیں.وہ ڈرے کہ ایسانہ ہو یہودی پہلے اس کو قبول کر لیں.یہ تو انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہودی اس کی مخالفت کریں گے.چنانچہ انہوں نے ایک بڑ او فد بنایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور رات کو آپ سے ملے اور آپ کی باتیں سنیں اور کہا ہم اسلام قبول کرتے ہیں.رَسُولَ ! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر انہوں نے کہا یارسول اللہ! ہم تو یہ بھی چاہتے ہیں کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لانے کی دعوت ہمارے پاس آجائیں کیونکہ آپ کے شہر کے لوگ آپ سے اچھا سلوک نہیں کرتے.حضرت عباس آپ کے ساتھ تھے ، انہوں نے یہ باتیں سنیں تو ان سے ایک عہد لیا.انہوں نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آجائیں تو تمہارے لئے کچھ شرطیں ہوں گی.اُن میں سے ایک شرط بھی ہو گی کہ اگر مدینہ پر دشمن حملہ کرے تو تم لوگ اپنی جان اور مال کو قربان کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کرو گے.ہاں اگر مدینہ سے باہر جا کر لڑائی کرنی پڑے تو پھر مدینہ والوں کی ذمہ واری نہیں ہو گی.چنانچہ یہ عہد ہو گیا.اس کے کچھ عرصہ بعد حکم بھی ہو گیا کہ ہجرت کر جاؤ.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے گئے.مدینہ پہنچتے ہی کوئی ایسی رو چلی کہ وہاں عرب کے جو قبائل تھے وہ سب کے سب مسلمان ہو گئے اور وہاں یہودیوں کے ساتھ معاہدہ کر کے اسلامی حکومت قائم ہو گئی.قبائل عرب کی برافروختگی جب یہ خبر مشہور ہوئی تو عربوں نے یہ دیکھ کر بر کہ اب تو ان کے پاؤں جمنے لگے ہیں اُن قبائل

Page 275

انوار العلوم جلد 24 240 سیر روحانی (7) پر جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرنا چاہتے تھے اور دوستی رکھنا چاہتے تھے مکہ سے حملے کرنے شروع کر دیئے.اور وہ مسلمان جو اگاؤ کا سفر کر رہے ہوتے تھے اُن کو ٹوٹنا اور مارنا شروع کر دیا.اس کے بعد پھر بدر کے موقع پر ایک با قاعدہ حملہ کر دیا اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ شروع کر دی مگر اس واقعہ کی ہجرت سے چار سال قبل آپ کو خبر دی جارہی ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ تمہیں حکومت ملے گی، تمہارے شہر میں لشکر داخل ہو گا اور سارے عرب کی فوجیں اکٹھی ہو کر آئیں گی مگر باوجود اس کے کہ وہ اکٹھے ہونگے تمہارا مقابلہ اُن سے ہو گا اور وہ شکست کھائیں گے.آب دیکھو احزاب کی جنگ تو کہیں تو دس سال بعد ہوئی مگر کو دس سال پہلے بلکہ حکومت بننے سے بھی چار سال پہلے خبر دی گئی کہ اسطرح دشمن داخل ہو گا.آب کجا یہ نوبت خانہ اور کجا وہ نوبت خانہ کہ دشمن اندر داخل ہو جائے تو بادشاہ کو خبر ہوتی تھی اور اتنی دیر میں وہ سو دو سو میل تک ملک پر قابض بھی ہو جاتا تھا.کتنا بڑازمین و آسمان کا فرق ہے جو ان دونوں نوبت خانوں میں پایا جاتا ہے.چنانچہ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ احزاب کے موقع پر جب سارا عرب اکٹھا ہو گیا اور اُس نے مدینہ پر حملہ کیا تو بجائے اس کے کہ مسلمانوں کے دلوں میں تکلیف اور گھبر اہٹ پیدا ہوتی یا ڈر پیدا ہو تا اُن کے ایمان بڑھنے شروع ہوئے کہ خدا تعالیٰ نے تو یہ خبر پہلے سے دی ہوئی تھی.جب خدا نے پہلے سے خبر دی ہوئی ہے تو ان کے داخل ہونے سے ہمیں کیا ڈر ہے.خدا نے کہا تھا کہ لوگ اکٹھے ہو کر حملہ کے لئے آئیں گے اور ہمیں امید بھی تھی کہ آئیں گے اور جب وہ بات پوری ہو گئی تو اگلی کیوں نہ پوری ہو گی.یہ ایک بڑا بھاری نشان ہو تا ہے.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس زمانہ میں مسلمانوں کی تباہی اور اُن کی خرابیوں کے متعلق خبریں دیں اور پھر بتایا کہ اس کے بعد خدا تعالیٰ ایک ایسا زمانہ پیدا کرے گا کہ مسلمانوں کی تباہی دُور ہو جائے گی اور مسلمان پھر ترقی کرناشروع کر دیں گے.ایک دوست کی بیعت کا دلچسپ واقعہ چنانچہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سنایا ہے کہ میں دتی میں تھا، اِس

Page 276

انوار العلوم جلد 24 241 سیر روحانی (7) سفر میں نہیں بلکہ اس سے پہلے ایک سفر میں ہم قلعہ میں گئے تو وہاں جو شاہی مسجد ہے اس دیکھنے کے لئے چلے گئے میرے ساتھ سارہ بیگم مرحومہ اور میری لڑکی ناصرہ بیگم تھیں.میں نے کہا اس مسجد میں کوئی نماز نہیں پڑھتا چلو نماز پڑھ چلیں کبھی نہ کبھی کوئی نماز پڑھنے والا یہاں بھی آجانا چاہئے.چنانچہ میں نے اُنکو ساتھ لیا اور وہاں نماز پڑھنی شروع کی.چنانچہ ہماری نماز اور غیر احمدیوں کی نماز میں فرق ہوتا ہے وہ تو جیسے حضرت سیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے جس طرح مرغا دانے پھنتا ہے اسی طرح وہ کرتے ہیں اور ہمیں یہ حکم ہے کہ خشوع اور خضوع کے ساتھ نماز پڑھو.غرض ہم جو نماز پڑھنے لگے تو ہم نے نصف یا پون گھنٹہ نمازوں میں لگا دیا.میں ابھی نماز سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ میں نے دیکھا کہ جیسے کوئی جلدی جلدی جاتا ہے اس طرح میری بیوی اور میری بچی دونوں جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے پیچھے ہٹ گئیں.میں نے نماز سے سلام پھیرا اور باہر آیا تو ساره بیگم مرحومہ سے میں نے کہا کہ تم کیوں آگئی تھیں ؟ انہوں نے کہا یہاں کوئی اور مسافر عورتیں آئی ہوئی ہیں اور انہوں نے ہمیں اشارہ کر کے بلایا تھا جس پر ہم چلی گئیں.پھر انہوں نے بتایا کہ ایک انجینئر ہیں ، وہ اپنی بیوی اور بیٹی کو لے کر ولایت جارہے ہیں اور یہ جو بیٹی ہے یہ ایک احمدی سے بیاہی جانے والی ہے.منگنی اس کی ہو چکی ہے اور لڑکا احمدی ہے.ماں نے کہا کہ میری یہ بیٹی احمد یوں میں بیاہی جانے والی ہے اور ان کے امام یہاں آئے ہوئے ہیں اگر ان سے میرا خاوند مل لے تو ذرا تعلق پیدا ہو جائے گا کیونکہ آئندہ احمدیوں کے گھروں میں ہم نے جانا ہے اس لئے انہوں نے بلا یا تھا کہ اگر آپ اجازت دیں تو وہ آپ سے بات کر لیں.میں نے کہا آجائیں.اس کے بعد ہم ذرا آگے کوئی جگہ دیکھنے کے لئے چل پڑے تو پھر چلتے چلتے یکدم میں نے دیکھا کہ میری بیوی اور بیٹی دونوں غائب ہیں.میں نے مُڑ کر جو دیکھا تو معلوم ہوا کہ پھر وہ عورتیں انہیں اشارہ کر کے لے گئی ہیں اور دو مرد کچھ قدم آگے آگئے.میں نے سمجھا کہ یہ وہی شخص ہیں جنہوں نے ملنا ہے.پاس پہنچے تو انہوں نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا.میں نے وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ کہا.اور پوچھا کہ فرمایئے کیا بات ہے؟ اُن میں سے ایک نے کہا کہ اِس اِس طرح میری بیوی کو

Page 277

انوار العلوم جلد 24 242 سیر روحانی (7) پتہ لگا تو اس نے ہمیں اطلاع دی.میری لڑکی میرے بھائی کے بیٹے سے بیاہی جانے والی ہے اور میرا بھائی احمدی ہے تو چونکہ لڑکی احمدیوں میں جانی ہے اور میر ابھائی بھی احمدی ہے اس لئے میں نے خواہش کی کہ میں آپ سے مل لوں.میں نے کہا بڑی اچھی بات ہے.پھر میں نے کہا آپ کا کونسا بھائی احمدی ہے ؟ انہوں نے نام بتایا.میں نے کہا وہ تو ہماری جماعت کے وہاں امیر ہیں.کہنے لگا جی ہاں.ایک میرا وہ بھائی ہے وہ تو بیچارے بعد میں فوت ہو گئے لیکن دوسرے بھائی موجود ہیں غلام سرور اُن کا نام ہے اور چار سدہ کے رہنے والے ہیں تو کہنے لگے غلام سرور جو میر ابھائی ہے وہ احمدی ہے اور میں اور میر ایہ بھائی دونوں غیر احمدی ہیں.میں نے کہا آپ کیوں نہیں احمدی ہوئے کیا آپ نے ہمارا لٹریچر نہیں پڑھا؟ کہنے لگے نہیں میں نے نہیں پڑھا.پھر کہنے لگے دیکھئے ہم نے تو انصاف کر دیا ہے آپ کا اور ان کا جھگڑا ہے.ہم نے دو بھائی آپ کو دے دیئے ہیں اور دو بھائی ان کو دے دیتے ہیں اس طرح ان کو تقسیم کر دیا ہے گو یا اکھٹی آپ کو دے دی ہے اور اٹھنی اُن کو دے دی ہے.انہوں نے مذاق کے رنگ میں یہ بات کہی.میں نے بھی آگے مذاق کے رنگ میں کہا کہ آپ کو ہمارا پتہ نہیں ہم اس معاملہ میں بڑے حریص ہیں اور ہم سارا روپیہ لے کر راضی ہوا کرتے ہیں اٹھنی لے کر راضی نہیں ہوا کرتے.کہنے لگے لے لیجئے.میں نے کہا دیکھیں گے.پھر میں نے کہا آپ نے کبھی لٹریچر نہیں پڑھا؟ کہنے لگے میں نے کبھی نہیں پڑھا اور نہ مجھے فرصت ہے.آب جو میں ولایت جانے کے لئے چلنے لگا تو میرے بھائی نے جن سے مجھے بہت محبت ہے اور وہ مجھ سے بڑے بھی ہیں جب میں کپڑے وغیرہ بھر رہا تھا تو میری بیوی کو مجبور کر کے کچھ کتابیں لا کے ٹرنک میں ڈال دیں اور کہنے لگے یہ پڑھنا.میں نے کہا بھائی! پڑھنے کی کس کو فرصت ہے.کہنے لگے.جہاز پر اُن کو فرصت کے موقع پر پڑھتے رہنا.میں نے انہیں کہا کہ مجھے آپ کا لحاظ ہے اس لئے رکھ دیں ورنہ میں نے کہاں پڑھنی ہیں.تو بس اتنی بات ہے ورنہ میں نے پڑھا پڑھایا کچھ نہیں.میں نے کہا اچھا اٹھتی پر تو ہم راضی نہیں ہوا کرتے ہم تو پورا روپیہ ہی لیا کرتے ہیں.اس کے بعد وہ چلے گئے.تین چار مہینے ہوئے مجھے لندن سے

Page 278

انوار العلوم جلد 24 243 سیر روحانی (7) ایک خط ملا.اس خط کا مضمون ان الفاظ سے شروع ہوتا تھا کہ میں وہ شخص ہوں جو دہلی کے قلعہ میں آپ سے ملا تھا اور میں نے آپ سے مذاقاً کہا تھا کہ ہم نے احمدیوں اور غیر احمدیوں میں پورا انصاف کر دیا ہے.اٹھتی ہم نے آپ کو دیدی ہے اور اٹھتی ہم نے انکو دے دی ہے اور آپ نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ ہم تو اٹھنی پر راضی نہیں ہوا کرتے ہم تو پورا روپیہ لے کر راضی ہوا کرتے ہیں.آپ حیران ہونگے کہ میں لندن سے ایک چوٹی آپ کو بھیج رہا ہوں ، ایک چوٹی باقی رہ گئی ہے اور میری بیعت کا یہ خط ہے.آگے انہوں نے تفصیل لکھی اور اُس میں انہوں نے لکھا کہ میں جس وقت یہاں آیا تو آپ جانتے ہیں ہم پٹھان لوگ ہیں اور ہمیشہ نعروں پر ہماری زندگی ہوتی ہے کہ انگریز ہم کو یوں قتل کریں گے، انگریز ہم کو یوں ماریں گے ، یہ ہوتے کون ہیں.ہم پستول یا رائفل سے ڈر کریں گے اور وہ بھاگ نکلیں گے.یہ تو کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہمارے پاس کیا سامان ہیں اور ان کے پاس کیا سامان ہیں.صرف اتنا ہم جانتے تھے کہ ہم اپنی جانیں دے دیں گے اور ان کو مار ڈالیں گے.یہی خیالات میرے بھی تھے اور میر اخیال تھا کہ ان کی دنیوی ترقی اور کالج وغیرہ دیکھو نگا.مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ ان کے سامانِ جنگ ایسے ہیں کہ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جب میں یورپ میں آیا تو میں اٹلی میں گیا، فرانس میں گیا، جرمنی میں گیا، انگلینڈ میں آیا اور میں نے ان کی فوجیں دیکھیں.توپ خانے دیکھے ، ہوائی جہاز دیکھے، ان کے گولہ بارود کے کارخانے دیکھے تو میں نے کہا یہ تو ایسی بات ہے جیسے چڑیا کہے کہ میں باز کو مارلونگی ہمارے اندر اس کے لئے کوئی طاقت ہی نہیں اور اس کو دیکھ کر میں بالکل مایوس ہو گیا.پہلے تو ہم خیال کرتے تھے کہ ہم اتفاقاً انگریز کے ماتحت آگئے ہیں جس دن پٹھان نے رائفل سنبھالی سارے یورپ کو ختم کر دے گا مگر اب تو یہاں آکر معلوم ہوا کہ یوروپین لوگوں کو ختم کر نیکا کوئی سوال ہی نہیں یہ تو قیامت تک باقی رہیں گے ہم انہیں دُنیا سے نہیں مٹا سکتے.پھر میرے دل میں اسلام کے متعلق شبہات پیدا ہونے شروع ہو گئے کہ جب اسلام کا یہ انجام ہونا تھا اور عیسائیت نے اسے کچل کر رکھ دینا تھا تو پھر عیسائیت ٹھیک ہے.درمیان میں بے شک اسلام آیا اور اُس کو کچھ غلبہ ملا مگر

Page 279

انوار العلوم جلد 24 244 سیر روحانی (7) اب پھر عیسائیت غالب آگئی ہے.غرض اسقدر میرے دل میں مایوسی اور شبہات پیدا ہونے شروع ہوئے کہ آج شام کو میں نے کہا میرے بھائی نے ٹرنک میں کچھ کتابیں تھیں انہیں میں سے کوئی کتاب لاؤ تا کہ میں اُسے پڑھوں.شاید اُس میں کوئی بات بتائی گئی ہو.کہنے لگے میں نے آپ کی کتاب " رغوة الامير " نکالی اس کتاب میں یہی مضمون ہے کہ اسلام کی تباہی کی رسول کریم صلے اللہ علیہ وسلم نے یہ خبریں دی ہیں اور بتایا ہے کہ مسلمان اس طرح ذلیل ہو جائیں گے ، تجار تیں جاتی رہیں گی اور سب قسم کی ترقیاں مٹ جائیں گی.بھلا آج سے تیرہ سو سال پہلے کون کہہ سکتا تھا کہ مسلمان کی یہ حالت ہو گی اُس وقت تو یہ حالت تھی کہ سات سو مسلمان ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا مردم شماری کرو.مسلمانوں نے کہا یار سول اللہ ! آپ نے مردم شماری کرائی ہے اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں.کیا آپ ڈرتے ہیں کہ اب ہم تباہ ہو جائیں گے ؟ اب ہمیں کون مار سکتا ہے.اب یا تو اُن کی یہ شان تھی اور یا یہ کہ چالیس کروڑ یا ساٹھ کروڑ مسلمان ہیں اور اُن کی جانیں لرز رہی ہیں.تو یہ حالت آج سے تیرہ سو سال پہلے کون شخص بتا سکتا تھانا ممکن تھا کہ کوئی شخص کہے کہ مسلمان ایسا کمزور ہو جائے گا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بتایا تھا وہ بات پوری ہو گئی.پس اے مسلمانو ! جب تم نے یہ دیکھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ناممکن خبر پوری ہو گئی ہے تو تم کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ وہ دوسری خبر جو اب میں بتا تا ہوں وہ پوری ہو گی.پھر میں نے وہ پیشگوئیاں لکھی ہیں جو اسلام کی ترقی کے متعلق تھیں.اور میں نے کہا ان کو دیکھ لو اور سمجھ لو کہ اسلام پھر ترقی کرے گا.کہنے لگے.جب میں نے یہ پڑھا تو میرے دل کو تسلی ہو گئی کہ واقع میں میں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ وہی تھا جو آپ نے بتایا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس کی پہلے سے خبر دی ہوئی ہے اور جب یہ بات پوری ہو گئی جس کا خیال بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ پوری ہو گی تو آپ کی یہ دوسری بات بھی ضرور پوری ہو گی اور میں نے سمجھا کہ جس شخص نے دنیا میں آکر ہماری یہ راہنمائی کی ہے اُس سے علیحدہ رہنا بالکل غلط ہے چنانچہ انہوں نے بیعت کی اور احمدیت میں داخل ہو گئے.

Page 280

انوار العلوم جلد 24 245 سیر روحانی (7) مسلمانوں کی کمزوری پر منافقین کی طعنہ زنی غرض جب یہ باتیں پوری ہوئیں تو منافقوں کیلئے یہ بڑی تباہ کن چیز تھی.انہوں نے خیال کیا اب تو مارے گئے.ادھر سے یہودی چلے آرہے ہیں اُدھر سے عرب قبائل چلے آرہے ہیں ، اُدھر مکہ کے لشکر چلے آرہے ہیں.غرض دس بارہ ہزار کا لشکر آرہا ہے اور مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ اُن کے مقابلہ میں اتنا سپاہی تو کجا، ان کے پاس اس سے نصف بھی سپاہی نہیں وہ مقابلہ کہاں کریں گے.اور یہ حالت پہنچ گئی کہ وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ يَاهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا منافق جو ڈر کے مارے مسلمانوں کی ہاں میں ہاں ملایا کرتے تھے کہ ہم بھی مسلمان ہیں اُن کو بھی اتنی دلیری پیدا ہو گئی کہ انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ ارے میاں ! اب بھی یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آئی اب تو سارا عرب اکٹھا ہو کر تمہارے خلاف جمع ہو گیا ہے اسلئے اب چھوڑو محمد رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کو یہ آپ بھگتا پھرے گا اور جاؤ اپنے گھروں میں اب اس لڑائی میں مقابلہ کا کوئی فائدہ نہیں.مخالف لشکروں کو دیکھ کر صحابہ لیکن مسلمانوں نے اُسوقت وہی دیکھا جو خان فقیر محمد صاحب چار سدہ والوں نے کے ایمان اور بھی بڑھ گئے دیکھا تھا کہ خدا کی یہ بات پوری ہو گئی ہے اور وہ بات بھی پوری ہو گی.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اِس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے وَ لَمَّا ذَا الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَ رَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا - ویعنی جب مؤمنوں نے دیکھا کہ اُدھر سے شمالی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں اِدھر سے جنوبی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں، اُدھر سے مشرقی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں ادھر سے مغربی عرب کے لشکر چلے آرہے ہیں، اُدھر سے مکہ کا لشکر چلا آرہا ہے ادھر سے یہودی قبائل ارد گر د سے جمع ہو کر چلے آرہے ہیں ، اُدھر سے اندر کے یہودی مقابلہ کے لئے کھڑے ہو گئے ہیں اور ادھر منافقوں کی بات بھی سنی کہ اب تو تمہارا کچھ نہیں بن سکتا چھوڑو اس دین کو ، تو مسلمانوں

Page 281

انوار العلوم جلد 24 246 سیر روحانی (7) نے کہا تم تو کہتے ہو ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیں.ارے! مکہ میں کون کہہ سکتا تھا کہ یہ لشکر جمع ہونگے ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا طاقت تھی کہ اس کیلئے دس آدمی بھی جمع ہوتے.ایک ابو جہل کافی تھا جو کہتا تھا میں اسے مار دو نگا یہ اتنے بڑے لشکر اکٹھے ہو کر اس لئے آگئے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان اب اتنے طاقتور ہو گئے ہیں کہ سارا عرب ان کو مل کر ہی مار سکتا ہے اور یہ خبر جو دس سال پہلے دی گئی تھی کہ مسلمان اتنے طاقتور ہو جائیں گے کہ سارا عرب جمع ہو کر اُن کے مقابلہ کے لئے آئے گا یہ بڑا بھاری نشان ہے یا نہیں ؟ تو هذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ.دیکھو یہ وعدہ قرآن میں پہلے سے موجود تھا کہ عرب اکٹھے ہو کر آئیں گے.ہمارے تو ایمان تازہ ہو گئے کہ جس وقت یہ خبر دی گئی تھی کہ عرب اکٹھے ہو کر آئیں گے اُس وقت کوئی امکان ہی نہیں تھا، خیال بھی نہیں آسکتا تھا، وہم بھی نہیں ہو سکتا تھا مگر آج آگئے تو سُبحَانَ اللہ ! یہ تو وہی بات ہوئی جو خدا تعالیٰ نے کہی تھی اور خدا اور اس کار سول سچے ثابت ہو گئے.پس ہمیں کیا ڈر ہے اب تو ہم ان کے ساتھ اور چمٹیں گے.وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَ تَسليمًا.اور اس آواز کے آنے سے اُن کے ایمان اور بھی بڑھ گئے اور انہوں نے کہا کہ کتنی بڑی پیشگوئی تھی جو پوری ہو گئی.انہوں نے تو کہا تھا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دو وَ مَا زَادَهُمْ إِلَّا إيمَانًا وَ تَسليمًا.مگر مسلمانوں نے کہا کہ اب تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں ہی ہمیں اپنی نجات نظر آتی ہے.جس شخص کی یہ خبر سچی ہو گئی ہے اُس کے ساتھ مل کر ہم نے کام نہیں کرنا تو اور کیس کے ساتھ کرنا ہے.پس وہ اپنے عمل اور قربانی میں اور بھی زیادہ ترقی کر گئے.غرض یہ وہ جنگ تھی جو کہ پانچویں سال ہجرت میں ہوئی لیکن چار سال کے قریب ہجرت سے بھی پہلے مکہ میں اللہ تعالیٰ نے ان کو بتا دیا تھا کہ اس طرح تمام لشکر اکٹھے ہو کر آئیں گے اور حملہ کریں گے تم اُن کا مقابلہ کرو گے اور اُن کو شکست ہو جائے گی اور خد اتعالیٰ تمہاری مدد کیلئے آئے گا.

Page 282

انوار العلوم جلد 24 247 سیر روحانی (7) قرآنی نوبت خانہ کی ایک اور اسی طرح دوسری خبر جو اس نوبت خانہ سے دی گئی وہ یہ ہے کہ رسول کریم خبر جو بڑی شان سے پوری ہوئی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ مکہ گئے ہیں اور وہاں عمرہ کر رہے ہیں.آپ نے صحابہ کو دیکھا کہ کسی نے سر منڈایا ہوا ہے اور کسی نے بال تراشے ہوئے ہیں اور عمرہ ہو رہا ہے.آپ نے صحابہ سے کہا کہ چونکہ خواب آئی ہے، چلو ہم عمرہ کر آئیں.جب آپ حدیبیہ مقام پر پہنچے تو مکہ والوں کو پتہ لگ گیاوہ لشکر لے کر آگئے اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ تم کو یہاں آنے کی کیس نے اجازت دی ہے ؟ انہوں نے کہا ہم لڑنے کیلئے تو نہیں آئے صرف اس لئے آئے ہیں کہ عمرہ کر لیں یہ مقام تمہارے نزدیک بھی برکت والا ہے اور ہمارے نزدیک بھی.ہم اس کی زیارت کے لئے آئے ہیں لڑائی کے لئے نہیں آئے.انہوں نے کہا طواف کا سوال نہیں.ہماری تمہاری لڑائی ہے اگر تم مکہ آئے اور طواف کر گئے تو تمام عرب میں ہماری ناک کٹ جائے گی کہ تمہارا دشمن آکر تمہارے گھر میں طواف کر گیا ہے.ہم ساری دُنیائے عرب کو اجازت دے سکتے ہیں مگر تم کو نہیں دے سکتے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفد بھیجے ، روسائے عرب کی طرف توجہ کی، اُن کو سمجھایا مگر وہ سارے متفق ہو گئے کہ ہم عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے آخر یہ فیصلہ ہوا کہ صلح نامہ لکھا جائے.صلح نامہ حدیبیہ کی بعض شرائط اس معاہدہ میں انہوں نے کہا کہ آب کے تم واپس چلے جاؤ تا سارے عرب کو پتہ لگ جائے کہ تم پوچھے بغیر آئے تھے اس لئے ہم نے تم کو طواف نہیں کرنے دیا.پھر اگلے سال آجانا تو ہم تمہیں تین دن کے لئے طواف کرنے کی اجازت دے دیں گے.معاہدہ کرتے وقت جو بڑے بڑے سردار ان لڑائیوں کو نا پسند کرتے تھے وہ کہنے لگے کہ پھر آپس میں کچھ صلح کی شرطیں بھی ہو جائیں تاکہ لڑائیاں ختم ہو جائیں.آپ نے منظور فرمالیا.چنانچہ شرطیں یہ طے ہوئیں کہ اگلے سال مسلمان آکر طواف کر جائیں اور یہ معاہدہ ہو جائے کہ آئندہ دس سال کے لئے لڑائی بند کر دی جائے اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ

Page 283

انوار العلوم جلد 24 248 سیر روحانی (7) کوئی نشان ظاہر کر دے تو وہ جس کی تائید کرے گا اُس کو فائدہ پہنچ جائے گاور نہ ملک میں امن پیدا ہو جائے گا.پھر ایک شرط یہ بھی کی گئی کہ عرب قبائل میں سے جو چاہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کرلے اور جو چاہے مکہ والوں سے معاہدہ کرلے.ارد گرد کے جو قبائل تھے اُن کو یہ آفر ( OFFER) کیا گیا کہ تم جس سے چاہو معاہدہ کر لو چنانچہ بنو خزاعہ نے کہا ہم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معاہدہ کریں گے اُن کی مکہ والوں سے لڑائیاں تھیں اور بنو بکر جو ایک بڑا قبیلہ تھا اور مکہ والوں کا دوست تھا اُس نے کہا کہ ہم مکہ والوں سے معاہدہ کریں گے.غرض قبائل عرب بھی تقسیم ہو گئے.اُن میں سے بنو خزاعہ مسلمانوں کے حق میں ہو گئے اور بنو بکر مکہ والوں کے حق میں ہو گئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ آپس میں لڑنا نہیں سوائے اِس کے کہ کوئی معاہدہ توڑے.اگر کوئی معاہدہ توڑ کر اپنے مد مقابل سے یا اُس کے حلیف سے مقابلہ کرے تو پھر اُس سے لڑائی کی اجازت ہو گی اسی طرح کچھ اور شرطیں طے ہوئیں.10 دشمن کی معاہدہ شکنی کی خبر جب یہ شرطیں طے ہو گئیں تو اب گو یا آئندہ دس سال کیلئے جنگ بند ہو گئی.اب جنگ کی صرف ایک ہی صورت باقی تھی اور وہ یہ کہ مکہ والے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے حلیفوں پر حملہ کر دیں کیونکہ مسلمان کو تو حکم ہے کہ بہر حال تم نے اپنا عہد پورا لرنا ہے.اس معاہدہ کے بعد نا ممکن تھا کہ مسلمان لڑائی کر سکیں.صرف ایک ہی صورت باقی تھی کہ مکہ والے محمد رسول اللہ پر حملہ کر دیں یا آپ کے حلیفوں پر حملہ کر دیں اسکے بغیر لڑائی نہیں ہو سکتی تھی.گویا اب لڑائی کا اختیار دشمن کے ہاتھ میں چلا گیا مومنوں کے ہاتھ میں نہ رہا.ایسی صورت میں جب لڑائی کا اختیار دشمن کے ہاتھ میں تھا جب یہ پتہ لگنے کی کوئی صورت ہی نہیں تھی کہ دشمن کی فوجیں اسلامی نظام کے دائرہ میں داخل ہو جائیں گی کیونکہ فیصلہ تو اس نے کرنا تھا مسلمانوں نے نہیں کرنا تھا اُس وقت جب صلح حدیبیہ کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس آرہے تھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ دشمن معاہدہ توڑے گا اور ہم تم کو اُن پر قبضہ دیں گے.گویا پھر قریب ڈیڑھ سال

Page 284

انوار العلوم جلد 24 249 سیر روحانی (7) پہلے خبر مل گئی کہ دشمن کی فوجیں تمہارے ملک میں داخل ہو جائینگی چنانچہ آپ کو الہام لا ہوا ! إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا وَ يَنْصُرَكَ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا - 11 یعنی اے محمد رسول اللہ ! ہم تجھ کو ایک عظیم الشان فتح کی خبر دے رہے ہیں.وہ ایک ایسی فتح ہو گی جو اپنی ذات میں اس بات کی گواہ ہو گی کہ تو سچا ہے اور پھر وہ فتح مبین ہو گی.بعض نشانات تو ہوتے ہیں مگر اُن سے نتیجہ نکالنا اور استنباط کرنا پڑتا ہے لیکن وہ فتح ایسی ہو گی کہ استنباط کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ وہ خود اپنی ذات میں تیری صداقت کا ایک زندہ ثبوت ہو گی.لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّر اور یہ فتح ہم تجھے اس لئے دیں گے تا کہ تیری جنگ جو عربوں سے چلی آرہی ہے اُس میں بعض باتیں کرنے والی تھیں جو تو نے نہیں کیں اور بعض غلطیاں تم سے ایسی ہو ئیں جو نہیں ہونی چاہئے تھیں اور تم نے کر لیں.مثلاً بعض جگہ عفو نہیں کرنا چاہئے تھا مگر عفو کر دیا.بعض جگہ معاف کرنا چا ہئے تھا مگر صحابہ کو خیال نہیں آیا اور انہوں نے معاف نہیں کیا مثلاً محرم الحرام میں جا مسلمان لڑ پڑے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خفا ہوئے کہ اس مہینہ میں تو لڑنا جائز ہی نہیں.وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا اور وہ تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے اور تجھے وہ راستہ دکھائے جس کے ذریعہ سے تجھے کامیابی نصیب ہو جائے.وَ يَنْصُرَكَ اللهُ نَصْرًا عَزِيزًا اور اللہ تعالیٰ تیری مدد کرے گا اور مدد بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی غالب مدد.اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا کہ چونکہ مسلمان حملہ نہیں کر سکتے اس لئے تیرے ہاتھ سے تو لڑائی نکل گئی اب ہم ایسا طریق اختیار کریں گے جس سے لڑائی جائز ہو جائے اور وہ طریق یہی ہو سکتا تھا کہ کفار حملہ کر دیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم خود ایسے سامان کریں گے کہ کفار تجھ پر حملہ کر دیں گے اور پھر اس کے نتیجہ میں وہ تباہ ہو جائیں گے.يُتِمَّ نِعْمَتَه، سے بھی یہی مراد ہے کہ عرب شکست کھا جائیں گے اور اسلامی حکومت قائم ہو جائے گی.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يُقَومِ اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَعَلَ فِيكُمْ أَنْبِيَاءَ وَجَعَلَكُمْ مُلُوكًا - 12 یعنی

Page 285

انوار العلوم جلد 24 250 سیر روحانی (7) موسٰی نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم ! تم اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث فرمائے اور اُس نے تمہیں دنیوی بادشاہت کی نعمت سے بھی نوازا.اِس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نعمت کی تعریف بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ نعمت الہی اور اس کا اتمام الہی جماعتوں سے دو طرح ہوتا ہے.اگر ان کا سیاسی مقابلہ ہو تو حصولِ ملوکیت سے اور اگر خالص مذہبی ہو تو تکمیل نبوت سے.یعنی دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی نبی آتا ہے تو اگر اس سے صرف سیاسی لڑائی ہو تو اللہ تعالیٰ اُسے بادشاہ بنا دیتا ہے اور اگر مذہبی لڑائی ہو تو اس کے دین کو غالب کر دیتا ہے اور اگر سیاسی اور مذہبی دونوں قسم کا مقابلہ ہو تو دونوں قسم کے انعام عطا کئے جاتے ہیں.یعنی نبوت بھی قائم کی جاتی ہے اور بادشاہت بھی عطا کی جاتی ہے پس یہاں ہم يُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ سے یہی مراد لیں گے کہ اس حملہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ عرب کی حکومت ٹوٹ جائے گی اور مسلمانوں کی حکومت قائم کر دی جائے گی اور يَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُسْتَقِيماً میں بتایا کہ تم کو غداری نہیں کرنی پڑے گی.اللہ تعالیٰ خود ایسا راستہ نکالے گا جس کے نتیجہ میں لڑائی کرنا تمہارے لئے جائز ہو جائے گا اور ہر شخص تمہارے حملہ کو جائز اور معقول قرار دے گا.فَتْحًا مُبِينًا سے مُراد صلح حدیبیہ نہیں بلکہ فتح مکہ ہے اس آیت کے متعلق مفسّرین میں اختلاف پایا جاتا ہے بعض کہتے ہیں کہ فتح سے مراد صلح حدیبیہ ہے لیکن کچھ مفسرین اور صحابہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد فتح مکہ ہے اور اُن کے اِس خیال کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ابن مردویہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتی ہیں میں نے خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ إِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِينًا میں جس فتح کا ذکر ہے اس سے مراد فتح مکہ ہے.13 گویا خو د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا یہ فیصلہ ہے کہ اس جگہ فتح سے مراد فتح مکہ ہے لیکن اگر صلح حدیبیہ لو تب بھی فتح مکہ صلح حدیبیہ کے نتیجہ میں ہی ہوئی اگر صلح حدیبیہ نہ ہوتی تو فتح مکہ بھی نہ ہوتی.

Page 286

انوار العلوم جلد 24 251 سیر روحانی (7) خدائی نوبت خانہ کی ایک اور خبر اب یہ جو اطلاع ملی تھی کہ دشمن آئے گا اور حملہ کرے گا اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہو گی اس کے واقعات کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ کس طرح ہوئے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے تو قریباً ڈیڑھ سال پہلے نوبت خانہ نے اطلاع دی کہ دشمن آئے گا، اس کے بعد جب یہ وقت قریب آگیا تو خدائی نوبت خانہ نے پھر دشمن کے حملہ کی خبر دی.چنانچہ جب دشمن کے آنے کا وقت قریب آگیا تو حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میری باری میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں سورہے تھے.جب آپ تہجد کے لئے اُٹھے تو آپ وضو فرماتے ہوئے بولے اور مجھے آواز آئی کہ آپ فرما رہے ہیں.لہنگ.لَبَیگ.لبیگ.اس کے بعد آپ نے فرمایا.نَصِرْتَ نَصِرْتَ.نصِرْتَ.وہ کہتی ہیں.جب آپ باہر تشریف لائے تو میں نے کہا.يَارَ سُول اللہ ! کیا کوئی آدمی آیا تھا اور آپ اس سے باتیں کر رہے تھے ؟ آپ نے فرمایا.ہاں !میرے سامنے کشفی طور پر خزاعہ کا ایک وفد پیش ہوا اور وہ شور مچاتے چلے آرہے تھے کہ ہم محمد کو اس کے خدا کی قسم دے کر کہتے ہیں کہ تیرے ساتھ اور تیرے باپ دادوں کے ساتھ ہم نے معاہدے کئے تھے اور ہم تیری مدد کرتے چلے آئے ہیں مگر قریش نے ہمارے ساتھ بد عہدی کی اور رات کے وقت ہم پر حملہ کر کے جبکہ ہم میں سے کوئی سجدہ میں تھا اور کوئی رکوع میں ہم کو قتل کر دیا اب ہم تیری مدد حاصل کرنے کیلئے آئے ہیں.غرض میں نے دیکھا کہ خزاعہ کا آدمی کھڑا ہے.جب کشفی طور پر وہ آدمی مجھے نظر آیا تو میں نے کہا.لَبَیکَ لَبَیکَ.لبیگ.میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں، میں تمہاری مدد کے لئے حاضر ہوں، پھر میں نے کہا.نُصِرْتَ.نُصِرْتَ نُصِرت 14 تجھے مدد دی جائے گی، تجھے مدد دی جائے گی، تجھے مدد دی جائے گی.پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اُسی دن صبح کے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے اور آپ نے فرمایا.خزاعہ کے ساتھ ایک خطر ناک واقعہ پیش آیا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے سمجھ لیا کہ

Page 287

انوار العلوم جلد 24 252 سیر روحانی (7) خزاعہ کے ساتھ خطرناک واقعہ یہی ہو سکتا ہے کہ وہ مکہ کی سرحد پر ہیں اور مکہ والے جن کا خزاعہ کے ساتھ معاہدہ ہے وہ خزاعہ پر حملہ کر دیں.میں نے کہا.يَا رَسُولَ اللہ ! کیا یہ ممکن ہے کہ اتنی قسموں کے بعد قریش معاہدہ توڑ دیں اور وہ خزاعہ پر حملہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ کی ایک حکمت کے ماتحت وہ اس معاہدہ کو توڑ رہے ہیں اور وہ حکمت یہی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حملہ کی اجازت نہیں تھی.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! کیا اس کا نتیجہ اچھا نکلے گا؟ آپ نے فرمایا ہاں ! نتیجہ اچھا ہی نکلے گا.15 غرض اُس دن پھر نوبت خانہ بجتا ہے.اور اُدھر وہ واقعہ ہوتا ہے جو میں ابھی بیان کرونگا اور ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی اطلاع مل جاتی ہے.بنو خزاعہ اور بنو بکر کی لڑائی اب واقعہ یوں ہوا کہ خزاعہ اور بنو بکر میں آپس میں لڑائی تھی اور بنو بکر ہمیشہ مکہ والوں کی مدد کرتے تھے.خزاعہ نے عملی طور پر مسلمانوں کی کبھی مدد نہیں کی مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے اُن کے معاہدے تھے، اُن کی مدد کیا کرتے تھے.یوں مسلمانوں کو یہ ہمدردی تھی کہ اُن کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادوں پڑدادوں سے تعلقات تھے.جب یہ معاہدہ ہوا تو یوں تو وہ لڑائی کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے لیکن معاہدہ کے بعد بنو بکر نے سمجھا کہ اب تو یہ غافل رہیں گے اب موقع ہے ان کو مارنے کا.چنانچہ وہ مکہ کے لوگوں کے پاس گئے اور اُن سے کہا کہ یہ بڑا اچھا موقع ہے معاہدہ ہو گیا ہے، ان کو تو خیال بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم ان کو ماریں گے اگر اس وقت آپ ہماری مدد کریں تو ہم ان کو تباہ کر سکتے ہیں.مکہ والوں نے کہا بڑی اچھی بات ہے تم ہمیشہ ہماری مدد کرتے رہے ہو ہم تمہاری مدد کریں گے چنانچہ باہمی مشورہ کے بعد ایک اندھیری رات انہوں نے تجویز کی اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت حملہ کریں گے.مکہ کے لشکر ہمارے ساتھ آجائیں کسی نے کیا پہچاننا ہے کہ مکہ والے بیچ میں موجود ہیں یہی کہیں گے کہ بنو بکر کے لوگ ہیں اور پھر چوری چوری اُن کو مار کر آجائیں گے اُن کو وہم بھی نہیں ہو گا.

Page 288

انوار العلوم جلد 24 253 سیر روحانی (7) چنانچہ رات جو مقرر تھی اس رات وقتِ مقررہ پر بنو بکر کا لشکر اور قریش کا لشکر مل کر وہاں گیا اور انہوں نے خزاعہ پر حملہ کر دیا.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ہم سجدے کر رہے تھے اور رکوع میں گئے ہوئے تھے حالانکہ وہ سب مسلمان نہیں تھے صرف کچھ لوگ مسلمان تھے انہوں نے مبالغہ سے کہا کہ ہم کو سجدے اور رکوع کرتے ہوئے مار دیا ہے.وہ تو اس امید میں بیٹھے تھے کہ آپس میں دس سال کا معاہدہ ہو چکا ہے اب ہمیں حملہ کا کوئی خطرہ نہیں کوئی کسی کو نہیں چھیڑے گا مگر اچانک قریش اور بنو بکر مل کر ان پر ٹوٹ پڑے اور انہوں نے خزاعہ کو مارنا شروع کر دیا جو بھاگ سکے بھاگ گئے اور باقی جو اپنے ڈیروں پر رہے وہ مارے گئے لیکن رات کے وقت کسی کی آواز تو نکل جاتی ہے بعض لوگوں کے منہ سے آوازیں نکلیں تو بنو خزاعہ کو پتہ لگ گیا کہ قریش اُن کے ساتھ شامل ہیں.چنانچہ انہوں نے صبح شور مچادیا کہ قریش نے بنو بکر سے مل کر ہم پر حملہ کیا ہے.صرف بنو بکرنے نہیں کیا اور ارد گرد کے لوگوں کو بھی یقین ہو گیا کہ بنو بکر کبھی جرات نہیں کر سکتے تھے جب تک قریش کی مددان کو حاصل نہ ہوتی اس لئے ضرور قریش حملہ میں شامل ہیں.اس طرح سارے علاقہ میں باتیں شروع ہو گئیں کہ قریش نے معاہدہ توڑ دیا ہے.چنانچہ مکہ کے رؤساء اکٹھے ہوئے اورانہوں نے کہا یہ تو بڑے فکر کی بات ہے معاہدہ ٹوٹ گیا ہے اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو موقع مل گیا ہے کہ وہ ہم پر حملہ کر دیں اِس کو کسی طرح سنبھالنا چاہئے.بنو خزاعہ کا وفد رسول کریم صلی اللہ ادھر بنو خزاعہ نے فوراً چالیس آدمیوں کا ایک وفد تیار کیا انہیں علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں اونٹوں پر سوار کیا اور انہیں کہا کہ رات دن منزلیں طے کرتے ہوئے جاؤ اور مدینہ جاکر خبر دو.چنانچہ وہ تین دن میں مارا مار کر کے مدینہ پہنچے اور جس طرح آپ کو الہاماً بتایا گیا تھا اُسی طرح فریاد کرتے ہوئے داخل ہوئے کہ ہم رسول اللہ کو اُس کے خدا کی قسم دلاتے ہیں اور اُسی کا واسطہ دے کر کہتے ہیں کہ ہم نے تمہارے ساتھ اور تمہارے باپ دادوں کے ساتھ ہمیشہ معاہدے کئے اور

Page 289

انوار العلوم جلد 24 254 سیر روحانی (7) تمہارے ساتھ وفاداری کی لیکن قریش نے تمہاری دوستی کی وجہ سے رات کو حملہ کر کے ہمارے آدمیوں کو مارا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُسوقت مسجد میں بیٹھے تھے اور تین دن پہلے الہامی طور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اس کی خبر بھی مل چکی تھی.جب آپ نے سنا تو عمرو بن سالم جو اُن کا لیڈر تھا، آپ نے اُسے فرمایا گھبراؤ نہیں تمہاری مدد کی جائے گی.پھر آپ نے فرمایا اگر میں تمہاری مدد نہ کروں تو خدا میری کبھی مدد نہ پھر آپ نے فرمایا جس طرح میں اپنی جان اور اپنے بیوی بچوں کی جانوں کی حفاظت کرتاہوں.اسی طرح تمہاری جانوں اور تمہارے بیوی بچوں کی جانوں کی بھی حفاظت کرونگا.16 پھر آپ نے انہیں تسلی دی اور کہا کہ مکہ والوں کو پتہ لگے گا اور وہ تمہاری تلاش میں ہونگے تم جاؤ لیکن چالیس آدمیوں کا قافلہ چونکہ آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے اس لئے تم واپس جاتے وقت دو دو تین تین آدمی مل کر جاؤ.قافلہ کی صورت میں اکٹھے نہ جاؤ تا پتہ نہ لگے کہ تم میرے پاس پہنچے ہو.چنانچہ انہوں نے قافلہ کو دودو، تین تین، چار چار کی پارٹیوں میں تقسیم کر دیا اور واپس چلے گئے.17 ابوسفیان کا معاہدہ کی تجدید کیلئے مدینہ پہنچنا اودھر مکہ والوں کو جب فکر ہوئی کہ ہم نے معاہدہ توڑ دیا ہے اور اب مسلمانوں کے لئے راستہ کھل گیا ہے ہم الزام نہیں لگاسکتے اور وہ حملہ کر سکتے ہیں اور ادھر دیکھا کہ مکہ میں جو معاہدہ کیا جائے لوگ اُس کی بڑی عزت کرتے تھے حرم میں کئے ہوئے معاہدہ کی وجہ سے سارے لوگ کہیں گے کہ یہ بڑے بے ایمان ہیں اور وہ ہم سے نفرت کریں گے اور کہیں گے کہ انہوں نے مقدس مقام کی ہتک کی ہے ادھر انہوں نے معاہدہ کیا اور اُدھر اُسے توڑ ڈالا.پس جب انہوں نے دیکھا کہ غلطی بھی ہوئی ہے اور ارد گرد کے قبائل میں بھی ہماری بد نامی ہوئی ہے اور اب اس کے نتیجہ میں بالکل ممکن ہے کہ مسلمان ہم پر حملہ کر دیں تو انہوں نے چاہا کہ کسی طرح ہم سے

Page 290

انوار العلوم جلد 24 255 سیر روحانی (7) اِس لڑائی کو ٹلا دیا جائے.جس وقت حدیبیہ کی صلح ہوئی ہے اُس وقت ابو سفیان جو اُن کا لیڈر تھا مکہ میں موجود نہیں تھا وہ باہر تھا مگر اس واقعہ کے وقت ابو سفیان موجود تھا.مکہ کے رؤساء آخر پریشان ہو کر ابو سفیان کے پاس آئے اور اُس سے کہا کہ اِس اِس طرح واقعہ ہو گیا ہے.وہ کہنے لگا واقعہ کیا ہے ؟ میں نے تو سنا ہے کہ تم خود وہاں گئے تھے اور خزاعہ پر تم نے حملہ کیا.وہ کہنے لگے جو ہو گیا سو ہو گیا تم لیڈ ر ہو تمہارا کام ہے کہ اس کو سنبھالو.تم مدینہ جاؤ اور وہاں جاکر دوبارہ معاہدہ کرو اور یہ بہانہ بنالو کہ دس سال تھوڑی مدت ہے ہم پندرہ سال تک معاہدہ کرنا چاہتے ہیں اُن کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کیوں کر رہے ہیں.نیا معاہدہ ہو جائے گا اور ہم کہیں گے کہ اب پچھلی غلطی پر کوئی لڑائی نہیں ہو سکتی.ابوسفیان نے کہا بہت اچھا چنانچہ وہ چل پڑا.ابو سفیان کی بہانہ سازی جب وہ مدینہ پہنچا تو اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہا آپ جانتے ہیں میں مکہ کا سردار ہوں.فرمایا ٹھیک ہے.اُس نے کہا آپ کو معلوم ہے جب صلح حدیبیہ ہوئی تھی میں مکہ میں موجود نہیں تھا اُسوقت معاہدہ ہو گیا.آپ میری پناہ دیئے بغیر کسی کو کیوں پناہ دے سکتے ہیں.میں معاہدہ کروں تو معاہدہ مکہ کی طرف سے ہو سکتا ہے میں نہ کروں تو کیسے ہو سکتا ہے ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بات سُن کر خاموش رہے.پھر اُس نے کہا میری تجویز یہ ہے کہ معاہدہ نئے سرے سے کیا جائے اور میں اُس پر دستخط کروں اور دوسرے دس سال تھوڑے ہیں قوم لڑتے لڑتے تھک گئی ہے میرا خیال ہے اس مدت کو پندرہ یا بیس سال کر دیا جائے.اس طرح اُس نے بہانہ بنایا کہ گویا ایک معقول وجہ بھی موجود ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابو سفیان کیا کوئی معاہدہ توڑ بیٹھا ہے ؟ وہ کہنے لگا مَعَاذَا اللهِ مَعَاذَ الله یہ کس طرح ہو سکتا ہے معاہدہ ہم نے خدا سے کیا ہے اُسے کوئی توڑ سکتا ہے.ہم اپنے معاہدہ پر قائم ہیں ہم اُسے نہیں توڑ سکتے.آپ نے فرمایا اگر تم معاہدہ توڑنے والے نہیں تو ہم بھی توڑنے والے نہیں کسی نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے.اب گھبر اگیا کیونکہ بات تو بنی نہیں تھی.وہ کہنے لگا زیادہ مناسب یہی ہے

Page 291

انوار العلوم جلد 24 256 سیر روحانی (7) کہ میں بڑا آدمی ہوں معاہدہ پر میرے دستخط نہیں اگر میرے دستخط ہو جائیں تو معاہدہ محفوظ ہو جائے گا اس سے زیادہ کوئی بات نہیں.آپ نے فرمایا کوئی ضرورت نہیں.آب ابو سفیان کو فکر پڑی تو وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور جا کر کہنے لگا ابو بکر ! تم جانتے ہو میری کتنی بڑی پوزیشن ہے میرے دستخط معاہدہ پر نہ ہوں تو مکہ والوں پر وہ کیسے حجت ہو سکتا ہے میرے دستخط ہونے چاہئیں اور میں پھر کہتا ہوں کہ مدت بھی بڑھادی جائے.تم محمد رسول اللہ سے کہو وہ تمہاری بات بڑی مانتے ہیں تم ان سے کہو کہ معاہدہ پھر سے ہو جائے اور اُس پر میرے دستخط بھی ہو جائیں.آپ نے فرمایا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا؟ اُس نے کہا.ہاں میں نے کہا تو تھا مگر انہوں نے فرمایا کہ جب معاہدہ ہو چکا ہے تو پھر نئے معاہدہ کی کیا ضرورت ہے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے.ابو سفیان !رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پناہ میں میری پناہ بھی شامل ہے اِس لئے کسی نئی پناہ کی ضرورت نہیں.اس کے بعد وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ملا اور اُن بھی یہی کہا کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہیں کہ وہ ہمارے ساتھ نیا معاہدہ کریں.حضرت عمرؓ نے کہا.میں تو تمہارا سر پھوڑنے کے لئے بیٹھا ہوں کسی نئے معاہدہ کا سوال ہی کیا ہے.پھر وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ میاں کیا بیوقوفی کی باتیں کرتے ہو تمہارے ہونگے دو دو آدمی ہمارا تو ایک ہی آدمی ہے جسے اُس نے پناہ دی اُسے ہم نے بھی پناہ دی اور جس سے وہ لڑ پڑے اُس سے ہم بھی لڑ پڑے ہمارا بیچ میں کیا دخل ہے.پھر وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس گیا.انہوں نے بھی یہی جواب دیا.پھر وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور جاکر کہا مرد تو سمجھتے نہیں یہ لڑاکے ہوتے ہیں ان کو شکار کا شوق ہوتا ہے، عورتیں بڑی رقیق القلب ہوتی ہیں میں تمہارے پاس اس لئے آیا ہوں کہ قوم کے خون ہو جائیں گے، فساد ہو جائے گا اور اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا.تم جانتی ہو.میں سردار ہوں جب میرے دستخط نہیں ہوئے تو دوسرے اس کو کیسے مان لیں گے ؟ میں تکلیف اُٹھا کے آیا ہوں کہ کسی طرح معاہدہ ہو جائے اور میرے دستخط ہو جائیں.تم ذرا اپنے ابا سے چل کے کہو

Page 292

انوار العلوم جلد 24 257 سیر روحانی (7) کہ میں نے انہیں پناہ دے دی ہے.تمہارے ساتھ ان کو پیار ہے بات ہو جائے گی حضرت فاطمہ کہنے لگیں ہمارے ہاں عورتیں ایسے معاملات میں دخل نہیں دیا کرتیں میرا اس معاملہ سے کیا تعلق ہے مردوں سے جا کر کہو.کہنے لگا اچھا! عور تیں دخل نہیں دیتیں تو حسن اور حسین کو بھیجد و انکو سکھا دو کہ وہ جاکر یہ بات کہہ دیں کہ نانا! ہم نے پناہ دے دی ہے.حضرت فاطمہ نے کہا ہمارے ہاں دنیا کے تمام کاموں میں بلوغت کی شرط ہوتی ہے.یہ بچے ہیں ان کو کیا پتہ کہ پناہ کیا ہوتی ہے.پھر وہ مہاجرین کے پاس گیا انصار کے پاس گیا اور اس میں اس کے دو تین دن لگ گئے آخر اُسے گھبراہٹ پیدا ہونی شروع ہو گئی کہ ہو گا کیا؟ ابوسفیان کا مسجد نبوی میں اعلان آخر وہ سوچ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس دوبارہ گیا اور حضرت علی کو جا کر کہنے لگا میں ساری جگہوں پر گیا ہوں مگر میری کوئی نہیں سنتا.محمد رسول اللہ سے بات کی وہ کوئی جواب نہیں دیتے.اب تم مجھے بتاؤ کوئی ترکیب نکل سکتی ہے یا نہیں ؟ قوم کا درد تمہارے اندر بھی ہونا چاہئے.حضرت علی کہنے لگے یہی تجویز میری سمجھ میں آتی ہے کہ تم مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کر دو کہ میں چونکہ اپنی قوم کا سر دار ہوں اور میں نے دستخط نہیں کئے ہوئے اسلئے میں اپنی طرف سے اُسے اس رنگ میں پختہ کرنے آیا ہوں کہ آج نئے سرے سے معاہدہ کیا جاتا ہے اور اس کی اتنی مدت بھی بڑھاتا ہوں اُس نے کہا.اس کا کوئی فائدہ ہو گا؟ حضرت علی نے کہا.بظاہر تو نظر نہیں آتا مگر آخر تم کہتے ہو کہ مجھے کوئی تجویز بتاؤ میں نے تمہیں بتائی ہے تم کر کے دیکھ لو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں بیٹھے تھے کہ ابو سفیان وہاں پہنچا اور کھڑے ہو کر کہنے لگا کہ اے مدینہ کے لوگو!سنو ! معاہدہ تم نے ان لوگوں سے کر لیا جن کی ذمہ داری نہیں ہے ذمہ داری میری ہے اور میں اپنی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہتا ہوں.جو کچھ میں نے سنا ہے وہ اچھی بات ہے مگر میں چاہتا ہوں معاہدہ کی مدت بھی بڑھ جائے اور میرے دستخط بھی ہو جائیں.میں اعلان کرتا ہوں کہ معاہدہ آج سے شروع ہوتا ہے اور میری اس پر

Page 293

انوار العلوم جلد 24 258 سیر روحانی (7) تصدیق ہے اور اتنے سال بڑھا دیئے گئے ہیں.یہ ایسی احمقانہ بات تھی کہ سارے صحابہ سُن کر ہنس پڑے اور اُس کو سخت ذلت محسوس ہوئی کہ اتنے لوگوں میں میں اتو بن گیا ہوں کیونکہ معاہدہ دونوں فریق سے ہوتا ہے ایک فریق سے کیا ہوتا ہے.بڑے غصہ سے کہنے لگا اے ابنائے ہاشم ! تم لوگ ہمیشہ ہمارے دشمن رہے.پھر حضرت علی کو مخاطب کر کے کہنے لگا تم نے مجھے جان کے ذلیل کروایا ہے تم ہمیشہ ہماری دشمنی کرتے ہو اور یہ کہہ کر غصہ میں واپس آگیا.حضرت ام حبیبہ کی ایمانی غیرت اسی دوران میں اُس کو ایک اور بھی زک اللہ تعالیٰ نے پہنچائی.اُس کی بیٹی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی تھیں یعنی اُم المؤمنین حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا.جب وہ مدینہ آیا تو اس نے کہا میں بیٹی کو مل آؤں.جب بیٹی کے پاس گیا تو ان کے پاس ایک فراش 13 پڑا ہوا تھا انہوں نے جلدی سے اس کو لپیٹ کر رکھ لیا.اُس کی یہ حرکت اس کو عجیب معلوم ہوئی کہنے لگا بیٹی ! یہ فراش تم نے کس لئے تہہ کیا ہے ؟ کیا اس لئے کیا ہے کہ یہ فراش میرے لائق نہیں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے کہا اے باپ ! بات اصل میں یہ ہے کہ یہ وہ فراش ہے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھتے ہیں اور تُو مشرک نجس اور ناپاک ہے.میں کس طرح برداشت کر سکتی ہوں کہ خدا کے نبی کے فراش کو تو ہاتھ لگائے اِس لئے میں نے اس کو تہہ کیا ہے.اُس کو حیرت ہوئی کہ میری بیٹی نے یہ کیا کہا ہے.کہنے لگا.بیٹی ! معلوم ہوتا ہے جب سے تو مجھ سے جدا ہوئی ہے تیری طبیعت میں کچھ فرق پڑ گیا ہے.میرا ادب تیرے اندر اس قدر کم تو نہیں ہوا کرتا تھا.اُس نے کہا.باپ یہ فرق پڑ گیا ہے کہ جب میں تجھ سے جُدا ہوئی تھی میں کافر تھی اب مجھے خدا نے اسلام دیا ہے ، اب مجھے پتہ ہے کہ رسول اللہ کی کیا حیثیت ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ تو عرب کا سر دار بنا پھرتا ہے اور پتھروں کے آگے ناک رگڑتا پھرتا ہے تیری کیا حیثیت ہے اور اس شخص کی کیا حیثیت ہے جو خدا کا رسول ہے.غرض وہ مایوس ہو کر وہاں سے آیا.

Page 294

انوار العلوم جلد 24 259 سیر روحانی (7) جب مسجد میں بھی اُس کو ذلت پہنچی تو وہ قافلہ کولے ابوسفیان کی ناکام واپسی کے واپس چلا آیا.اُس کو راستہ میں خزاعہ کے بھی و تین آدمی جاتے ہوئے مل گئے تھے.اُس نے سمجھا اِدھر سے آئے ہیں تو ضرور یہ رسول اللہ سے مل کے آئے ہیں.کہنے لگا سناؤ مدینہ کا کیا حال ہے ؟ یہ نہ پوچھا کہ تم خبر دینے گئے تھے بلکہ پوچھا سناؤ مدینہ کا کیا حال ہے؟ وہ مسلمان تو تھے ہی نہیں نہ انکو دین اسلام سے کوئی واقفیت تھی اُنکو جھوٹ بولنے سے کیا پر ہیز تھا.کہنے لگے مدینہ کیسا.ہم کیا جانتے ہیں مدینہ کو.ہماری تو قوم کے بعض آدمیوں میں یہاں لڑائی ہو گئی تھی ہم صلح کرانے آئے تھے.لیکن ابوسفیان بڑا ہو شیار تھا.اُس نے سمجھا کہ یہ میرے ساتھ چالا کی کر رہے ہیں اپنے ساتھیوں کو کہنے لگا جس وقت یہ آگے جائیں ذرا اونٹوں کی لید دیکھو.مدینہ میں اونٹوں کو کھجور کی گٹھلیاں کھلایا کرتے ہیں اگر لید میں گٹھلیاں نکلیں تو جھوٹ بول رہے ہیں یہ مدینہ سے آئے ہیں.اگر لید سے گٹھلیاں نہ نکلیں تو یہ کہیں اور سے آرہے ہیں.جب وہ قافلہ گیا اور انہوں نے لید دیکھی تو گٹھلیاں نکلیں.کہنے لگے یہ وہاں ہو آئے ہیں.خیر اب یہ وہاں سے واپس مکہ پہنچے.مکہ پہنچنے پر سارے مکہ والے آئے اور پوچھا.سناؤ کچھ کر آئے ہو ؟ کہنے لگا صرف اتنا کیا ہے کہ میں نے مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کر دیا تھا کہ میرے بغیر معاہدہ نہیں ہو سکتا.اب میں نیا معاہدہ کرتا ہوں اور اس کی تصدیق کرتا ہوں اور اس کی مدت بھی بڑھاتا ہوں.کہنے لگے تم ہمارے سر دار ہو پھر تم نے ایسی احمقانہ بات کیوں کی ؟ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ نہ مانیں اور تم اعلان کر دو.پھر معاہدہ کیسے ہوا! کہنے لگا.کہتے تو وہ بھی یہی تھے.کہنے لگے پھر تم نے کیا کیا؟ کہنے لگا پھر اور میں کیا کرتا.تم ہی کوئی ترکیب بتاؤ.میں نے رسول اللہ کو بار بار کہا، صحابہ کے آگے ناک رگڑے کسی نے میری نہیں سنی پھر میں اور کیا کر سکتا تھا.کہنے لگے بھلا اس کا کوئی فائدہ بھی تھا ذلیل ہونے کی کیا ضرورت تھی.اُس نے کہا.میں تو بس یہی کر کے آیا ہوں.خیر ساری طرف سے اُس کی ملامت شروع ہوئی.19

Page 295

انوار العلوم جلد 24 260 سیر روحانی (7) مکہ والوں کی طرف سے لوگوں نے اُس کے متعلق کہا کہ یہ مسلمانوں ، مل گیا ہے.عربوں میں یہ دستور تھا کہ ابو سفیان پر غداری کا الزام جب کسی پر ایسا الزام لگے تو جا کر خانہ کعبہ کے سامنے قربانی کرتا تھا اور اُس قربانی کا خون اپنے ماتھے پر ملتا تھا اور پھر قوم کے آگے اعلان کرتا تھا کہ میں نے کوئی غداری نہیں کی.وہ اُس کے متعلق سمجھتے تھے کہ اب یہ جھوٹ نہیں بول سکتا اور وہ اس کو بڑا عذاب سمجھتے تھے.اسی دستور کے مطابق اس نے بھی خانہ کعبہ کے آگے قربانی کی.اُس کا خون لے کر اپنے ماتھے کو ملا اور پھر قوم کے آگے جا کر کہا کہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے جو کچھ ہو سکا کیا ہے.میں نے اُن کے ساتھ اور کوئی معاہدہ نہیں کیا.20 چنانچہ اس پر لوگوں کو تسلی ہو گئی.مگر اب اُن میں چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں کہ اگر مسلمانوں کی طرف سے حملہ ہو جائے تو کیا بنے گا؟ رؤسائے مکہ میں گھبراہٹ کچھ دنوں تک مدینہ سے خبریں نہ پہنچیں.جب کوئی خبر نہ پہنچی تو ان کی گھبراہٹ اور بھی زیادہ بڑھتی چلی گئی کہ اگر خزاعہ والے وہاں گئے ہیں تو محمد رسول اللہ نے کچھ نہ کچھ تو ضرور کہا ہو گا.یا تو یہ کہا ہو گا کہ ہم نہیں کر سکتے یا یہ کہا ہو گا ہم کرتے ہیں.کچھ تو پتہ لگتا یہ خاموشی کیسی ہے ؟ تین چار روز کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے کہا کہ تم روز جایا کرو اور جاکے چکر لگا کر دیکھا کرو کہ مسلمانوں کا کوئی لشکر تو نہیں آرہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہر حال ادھر ابوسفیان مکہ کی طرف روانہ ہوا اُدھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی فتح مکہ کے لئے تیاری اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میر اسامانِ سفر باندھنا شروع کرو.انہوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہ سے کہا.میرے لئے ستو وغیرہ یا دانے وغیرہ بھون کر تیار کرو.اسی قسم کی غذائیں اُن دنوں میں ہوتی تھیں.چنانچہ انہوں نے مٹی وغیرہ پھٹک کے دانوں سے نکالنی شروع کی.حضرت ابو بکر گھر میں بیٹی کے پاس آئے اور انہوں نے یہ تیاری دیکھی تو پوچھا عائشہ؟

Page 296

انوار العلوم جلد 24 261 سیر روحانی (7) یہ کیا ہو رہا ہے ؟ کیا رسول اللہ کے کسی سفر کی تیاری ہے ؟ کہنے لگیں سفر کی تیاری ہی معلوم ہوتی ہے آپ نے سفر کی تیاری کیلئے کہا ہے.کہنے لگے کوئی لڑائی کا ارادہ ہے.انہوں نے کہا.کچھ پتہ نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میرا سامانِ سفر تیار کرو اور ہم ایسا کر رہے ہیں.دو تین دن کے بعد آپ نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کو بلایا اور کہا دیکھو! تمہیں پتہ ہے خزاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور پھر بتایا کہ یہ واقعہ ہوا ہے اور مجھے خدا نے اس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے اور ہم نے اُن سے معاہدہ کیا ہوا ہے اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر اُن کے مقابلہ کے لئے تیار نہ ہو جائیں.تو ہم نے وہاں جانا ہے تمہاری کیا رائے ہے ؟ حضرت ابو بکر نے کہا.يَارَسُوْلَ اللهِ ! آپ نے تو اُن سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپ کی اپنی قوم ہے.مطلب یہ تھا کہ کیا آپ اپنی قوم کو ماریں گے ؟ فرمایا.ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے معاہدہ شکنوں کو ماریں گے پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا.تو انہوں نے کہا.بسم اللہ ! میں تو روز دُعائیں کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسول اللہ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابو بکر بڑا نرم طبیعت کا ہے مگر قولِ صادق عمر کی زبان سے زیادہ جاری ہو تا ہے.فرمایا کرو تیاری.21 پھر آپ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جائے.چنانچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیار ہو گیا اور آپ لڑنے کے لئے تشریف لے گئے.خدائی نوبت خانہ اور کفار کے اب دیکھو یہ نوبت خانہ کشتاز بر دست ہے کہ اُسوقت جب معاہدہ یہ ہوتا ہے نوبت خانہ میں ایک بہت بڑا فرق کہ لڑائی نہیں ہو گی، جب قسم کھا کھا کے کہا جاتا ہے کہ ہم اپنے دل سے یہ عہد کرتے ہیں اور خدا کی لعنتیں ہم پر ہوں اگر ہم اس عہد کو توڑیں.وہاں ابھی ایک رات ہی گزرتی ہے کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ لڑائی ہو گی.

Page 297

انوار العلوم جلد 24 262 سیر روحانی (7) گویا نو بت خانہ بج جاتا ہے اور خبر آتی ہے کہ لڑائی ہونے والی ہے.اُدھر کفار کے نوبت خانہ کا یہ حال ہے کہ ابو سفیان تین دن مدینہ میں رہ کر آتا ہے اور اُس کو پتہ نہیں لگتا کہ لڑائی ہو گی.واپس جا کر قوم کو کہتا ہے کہ میں یہ کر آیا ہوں.انہوں نے کہا لڑائی تو نہیں ہو گی ؟ اُس نے کہا لڑائی نہیں ہو گی.مگر ادھر وہ مکہ میں پہنچتا ہے اور اُدھر دس ہزار کا لشکر تیار ہوتا ہے.احزاب کی تاریخ کے سوا اتنا بڑا لشکر عرب کی تاریخ میں تیار نہیں ہوا.احزاب میں دس بارہ ہزار آدمی تھا.گویا عرب کی تاریخ میں اتنے بڑے لشکر کی یہ دوسری مثال تھی.لیکن مدینہ سے اتنا بڑا لشکر نکلتا ہے اور کسی کو اس کی خبر تک نہیں ہوتی اور پھر اللہ تعالیٰ معجزانہ طور پر یہ دکھاتا ہے کہ میں اس نوبت خانہ کو بجاتا ہوں جو میرا ہے اور اُس نوبت خانہ کو توڑ رہا ہوں جو اُن کا ہے.چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نکلے تو آپ نے فرمایا.اے میرے خدا! میں تجھ سے دُعا کرتا ہوں کہ تو مکہ والوں کے کانوں کو بہرہ کر دے اور اُن کے جاسوسوں کو اندھا کر دے.نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ اُن کے کانوں تک ہماری کوئی بات پہنچے.22 چنانچہ آپ نکلے.مدینہ میں سینکڑوں منافق موجود تھا لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتا ہے اور کوئی اطلاع مکہ میں نہیں پہنچتی.ایک صحابی کا کفارِ مکہ کی طرف خط اور اُس کا پکڑا جانا صرف ایک کمزور صحابی نے مکہ والوں کو خط لکھ دیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر نکلے ہیں.مجھے معلوم نہیں آپ کہاں جارہے ہیں لیکن میں قیاس کرتا ہوں کہ غالباً وہ مکہ کی طرف آرہے ہیں.میرے مکہ میں بعض عزیز اور رشتہ دار ہیں میں امید کرتا ہوں کہ تم اس مشکل گھڑی میں اُن کی مدد کرو گے اور انہیں کسی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنے دو گے.یہ خط ابھی مکہ نہیں پہنچا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کے وقت حضرت علی کو بلایا اور فرمایا تم فلاں جگہ جاؤ.اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ وہاں ایک عورت اونٹنی پر سوار تم کو ملے گی اُس کے پاس ایک خط ہو گا جو وہ مکہ والوں کی طرف لے جارہی ہے تم وہ خط اُس عورت سے لے لینا اور فوراًمیرے پاس آجانا.جب وہ جانے لگے تو آپ نے فرمایا.

Page 298

انوار العلوم جلد 24 263 سیر روحانی (7) دیکھنا وہ عورت ہے اُس پر سختی نہ کرنا، اصرار کرنا اور زور دینا کہ تمہارے پاس خط ہے لیکن اگر پھر بھی وہ نہ مانے اور منتیں سماجتیں بھی کام نہ آئیں تو پھر تم سختی بھی کر سکتے ہو اور اگر اُسے قتل کرنا پڑے تو قتل بھی کر سکتے ہو لیکن خط نہیں جانے دینا.23 چنانچہ حضرت علی وہاں پہنچ گئے.عورت موجود تھی وہ رونے لگ گئی اور قسمیں کھانے لگ گئی کہ کیا میں غدار ہوں ، دھو کے باز ہوں، آخر کیا ہے تم تلاشی لے لو چنانچہ انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھا اُس کی جیبیں ٹولیں، سامان دیکھا مگر خط نہ ملا.صحابہ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خط اس کے پاس نہیں.حضرت علی کو جوش آگیا آپ نے کہا تم چپ رہو اور بڑے جوش سے کہا کہ خدا کی قسم! رسول کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا.چنانچہ انہوں نے اُس عورت سے کہا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ تیرے پاس خط ہے اور خدا کی قسم! میں جھوٹ نہیں بول رہا.پھر آپ نے تلوار نکالی اور کہا.یا تو سیدھی طرح خط نکال کر دیدے ورنہ یاد رکھ اگر تجھے نگا کر کے بھی تلاشی لینی پڑی تو میں تجھے ننگا کرونگا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ بولا ہے اور تُو جھوٹ بول رہی ہے.چنانچہ وہ ڈر گئی اور جب اُسے نگا کرنے کی دھمکی دی گئی تو اُس نے جھٹ اپنی مینڈھیاں کھو لیں اُن مینڈھیوں میں اُس نے خط رکھا ہوا تھا جو اُس نے نکال کر دے دیا.یہ ایک صحابی حاطب کاخط تھا اور اُس میں لکھا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آرہے ہیں پتہ نہیں چلتا کہ کدھر جارہے ہیں لیکن اتنابڑ الشکر مکہ کے سوا اور کہیں جاتا معلوم نہیں ہو تا اِس لئے میں تم کو خبر دے رہا ہوں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خط پہنچا تو آپ نے حاطب کو بلوایا اور فرمایا.یہ خط تمہارا ہے ؟ انہوں نے کہا.ہاں میرا ہے.آپ نے فرمایا.تم نے یہ خط کیوں لکھا تھا.انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ! بات اصل میں یہ ہے کہ سارے مہاجر جو آپ کے ساتھ ہیں، یہ مکہ کے رہنے والے ہیں.میں مکہ میں باہر سے آکے بسا ہوں.میرا کوئی رشتہ دار نہیں، میر ابیٹا وہاں ہے ، میری بیوی وہاں ہے ، جس وقت اُن پر حملہ ہوا انہوں نے ہمارے جتنے رشتہ دار ہیں اُن کو مار ڈالنا ہے.سوائے اُن کے جن کے بچانے والے موجو د ہونگے.پس چونکہ میرے بیوی بچوں کو

Page 299

انوار العلوم جلد 24 264 سیر روحانی (7) کوئی بچانے والا نہیں اس لئے میں نے یہ خط لکھدیا.میں جانتا ہوں کہ خدا نے آپ کی مدد کرنی ہے.جب انہوں نے تباہ ہو جانا ہے اور خدا کہتا ہے کہ ہو جانا ہے تو وہ تباہ ہی ہو جائیں گے چاہے میں انکو ہز ار خط لکھوں مگر اِس طرح میرے بیوی بچے بچ جاتے تھے اور آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو تا تھا ورنہ میں بے ایمان نہیں.حضرت عمر کھڑے ہوئے تھے انہوں نے تلوار نکال لی کہ کمبخت! رات دن ہم چھپاتے چلے آرہے ہیں کہ بات کسی طرح نکلے نہیں اور تو اُن کو خط لکھتا ہے.يَارَسُولَ اللہ ! مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گر دن اُڑا دوں.آپ نے فرمایا کہ جو کچھ کہتا ہے سچ کہتا ہے یہ مؤمن ہے اس نے صرف ڈر کے مارے یہ بات کی ہے.24 بہر حال یہ رپورٹ کسی کو نہیں پہنچتی.نوبت خانہ بجتا بھی ہے تو اس کی آواز وہیں روک دی جاتی ہے.ادھر سے نوبت خانہ ڈیڑھ سال پہلے بجتا ہے کہ دشمن آگیا دشمن آ گیا.ابو سفیان کی سراسیمگی اب جس وقت وہاں مسلمان پہنچے تو جب تک مسلمان حرم میں نہیں پہنچ گئے مکہ والوں کو خبر نہیں پہنچی.جب وہاں پہنچے تو ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کا مکہ والوں کی طرف سے پہرہ مقرر تھا.گویا اب یہ صورت ہو گئی کہ جب وہاں پہنچے تو اُن کو خبر ہو گئی کہ اسلامی لشکر آگیا ہے مگر اب اللہ تعالیٰ اس کا بھی علاج کر لیتا ہے.آپ نے وہاں جا کر فرمایا کہ اب ہمیں ان پر ظاہر کر دینا چاہئے کہ ہم آگئے ہیں.چنانچہ آپ نے حکم دیا کہ ہر سپاہی روٹی کے لئے علیحدہ آگ جلائے تا کہ دس ہزار روشنی ہو جائے.چنانچہ سب خیموں کے آگے دس ہزار روشنی دکھائی دینے لگی.ابو سفیان اور اُس کے ساتھیوں نے آگ کو روشن دیکھا تو وہ گھبرا گئے.اتنا بڑا لشکر اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا تھا.اسی گھبراہٹ میں ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے کہا.کیا تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ یہ کس کا لشکر ہے ؟ پہلے تو اُن کا خزاعہ کی طرف خیال گیا اور انہوں نے کہا کہ شاید خزاعہ والے ہونگے جو اپنا بدلہ لینے آئے ہیں.ابوسفیان نے کہا خُدا کا خوف کرو خزاعہ تو اس کا دسواں حصہ بھی نہیں یہ اتنی بڑی روشنی ہے اور اتنا بڑا لشکر ہے کہ خزاعہ کی اس کے مقابلہ میں کوئی حیثیت ہی نہیں.

Page 300

انوار العلوم جلد 24 265 سیر روحانی (7) عام طور پر فی خیمہ ایک روشنی ہوا کرتی ہے.اس لحاظ سے دس ہزار خیمہ بن گیا مگر خزاعہ کی ساری تعداد دو چار سو ہے.پس وہ کس طرح ہو سکتا ہے اُنکی تعداد تو اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں.انہوں نے کہا فلاں قبیلہ ہو گا کہنے لگا آخر وہ کیوں آئے اور پھر یہ کہ اُن کی تعداد بھی اتنی نہیں.غرض اسی طرح پانچ سات قبائل کے نام لیتے گئے کہ فلاں ہو گا ، فلاں ہو گا اور ہر بار ابو سفیان نے کہا کہ یہ غلط ہے.آخر انہوں نے کہا.یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر ہو گا اور کیس کا ہو گا.کہنے لگا بالکل جھوٹ.میں تو انہیں مدینہ میں سوتا چھوڑ کر آیا ہوں اُن کو پتہ بھی نہیں وہ بڑے آرام سے بیٹھے تھے.ابوسفیان اور اُس کے ساتھی یہ باتیں ابھی ہو ہی رہی تھیں کہ اسلامی لشکر کے چند سپاہی جو پہرہ پر متعین تھے اسلامی پہرہ داروں کے نرغہ میں وہ پہرہ دیتے ہوئے قریب پہنچ گئے اور ابو سفیان کی آواز انہوں نے سُنی اُن میں حضرت عباس بھی تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا اور ابو سفیان کے بڑے گہرے دوست تھے.اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر پر سوار تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سفر میں خچر دی تھی کہ وہ اس کو استعمال کریں.انہوں نے آواز سنی تو کہنے لگے.ابوسفیان ! ابوسفیان نے کہا.عباس ! تم کہاں؟ حضرت عباس نے کہا او کمبخت ! تیرا بیڑا غرق ہو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا لشکر لے کر آگئے ہیں.اب شہر کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی.اَب تُو چل اور چڑھ جامیرے پیچھے اور خدا کے نام پر اُن کی منتیں کر اور اپنی قوم کی معافی کے لئے درخواست کر ورنہ تباہی آجائے گی.چڑھ جامیرے پیچھے.انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑا اور خچر کے پیچھے بٹھالیا اور دوڑائی خچر.اب لشکر میں جگہ پہرے ہوتے ہیں.جہاں بھی یہ پہنچے پہریدار فوراً آگے آکر روکنے لگے.جب انہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ کی فیچر ہے اور آگے حضرت عباس بیٹھے ہیں تو کہنے لگے چلو چھوڑو.خیر وہ پہروں میں سے نکل کر چلے گئے یہاں تک کہ حضرت عمر کے خیمہ کے پاس پہنچے.

Page 301

انوار العلوم جلد 24 266 سیر روحانی (7) حضرت عباس کی ابوسفیان کو بچانے کی کوشش حضرت عمرؓ نے دیکھا تو تلوار نکال کر بھاگے اور کہنے لگے خدا کا کتنا شکر ہے کہ بغیر عہد شکنی کئے مجھے آج اس کی جان نکالنے کی توفیق ملی اور آپ ہی آپ خدا نے دشمن میرے ہاتھ میں دے دیا ہے.حضرت عباس نے دیکھا تو وہ آگے بھاگے.حضرت عمر پیچھے پیچھے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ کے پاس پہنچے تو حضرت عباس نے ابو سفیان کو دھکا دیکر نیچے پھینکا اور کہا.انتر.پھر آپ کو دے اور گود کر اُس کا ہاتھ پکڑ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خیمہ میں پہنچے اور کہا یارسول الله ! ابو سفیان مسلمان ہونے کے لئے آیا ہے.اب ابوسفیان حیران کہ یہ کیا بن گیا.یا تو میں پہرہ دے رہا تھا اور یا اب مجھے مسلمان ہونے کیلئے کہا جا رہا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے کیونکہ اس کی شکل سے پتہ لگتا تھا کہ یہ مسلمان ہونے نہیں آیا.اتنے میں حضرت عمر بھی داخل ہوئے اور کہا.يَارَسُوْلَ اللہ ! یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس خبیث اور بے ایمان دشمن خدا اور رسول کو اُس نے بغیر اس کے کہ میں عہد شکنی کروں اور معاہدہ توڑوں آپ میرے حوالے کر دیا ہے.آپ مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے لیکن حضرت عباس کو غصہ آگیا کیو نکہ وہ ان کا بہت دوست تھا.انہوں نے عمرؓ سے کہا.عمر ! دیکھو یہ میرے خاندان کا آدمی ہے اس لئے تم اس کو مارنا چاہتے ہو.اگر تمہارے خاندان کا آدمی ہو تا تو تم کبھی اس کے مارنے کی خواہش نہ کرتے.حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہنے لگے.عباس! تم نے مجھ پر بڑی زیادتی کی ہے.خدا کی قسم! جب تم مسلمان ہوئے تھے تو مجھے اتنی خوشی ہوئی تھی کہ اگر میراباپ بھی مسلمان ہوتا تو مجھے کبھی اتنی خوشی نہ ہوتی.اور اس کی صرف یہ وجہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ تمہارے مسلمان ہونے سے رسول اللہ کو جو خوشی پہنچ سکتی ہے وہ میرے باپ کے اسلام لانے سے نہیں پہنچ سکتی تھی.یعنی ہم نے تو اپنے باپ دادوں کو بھی چھوڑ دیا اب رشتہ داری کا کیا سوال ہے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے.

Page 302

انوار العلوم جلد 24 267 سیر روحانی (7) تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا.عباس ! ابوسفیان کو اپنے خیمہ میں لے جاؤ اور رات کو اپنے پاس رکھو.صبح اسے میرے سامنے پیش کرو.حضرت عباس لے گئے اور رات اپنے پاس رکھا.مسلمانوں کی اجتماعی عبادت کا ابوسفیان پر گہرا اثر اب دیکھو ابو سفیان پہرہ دے رہے تھے اور انہوں نے واپس جا کر خبر دینی تھی لیکن وہ خود پکڑے گئے.اُدھر باقی مسلمان سپاہی دوسرے آدمیوں کو بھی پکڑ لائے.یہ چار پانچ رئیس تھے.پکڑے ہوئے وہاں پہنچے اور رات وہاں رہے.صبح نماز کے وقت حضرت عباس ابوسفیان کو پکڑ کر لے گئے.جب اذان ہوئی اور نماز کے لئے لوگ کھڑے ہوئے تو اُسے ایک عجیب نظارہ نظر آیا.یہیں جلسہ سالانہ پر دیکھ لو کہ جب ہمارے تیس چالیس ہزار آدمی نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو کیا شاندار نظارہ ہوتا ہے.وہاں بھی صفوں پر صفیں بننی شروع ہو گئیں اور ہر ایک آدمی نماز کے لئے کھڑا ہو گیا.ہمارے ہاں تو پھر کچھ آدمی نماز کے وقت پکوڑے کھا رہے ہوتے ہیں مگر وہ لوگ پیسے نمازی تھے.بہر حال ابوسفیان نے جو ان کو دیکھا تو لرز گیا.ابو سفیان بادشاہوں کے دربار میں آیا جایا کرتا تھا اور اُس کو پتہ تھا کہ جب بڑے آدمیوں کو مروانا ہو تا تھا تو فوجیں کھڑی کی جاتی تھیں اور اُن کے سامنے اُس کی گردن کاٹی جاتی اِس خیال کے ما تحت اُس نے پوچھا کہ عباس ! کیا رات کو میرے متعلق کوئی نیا حکم جاری ہوا ہے ؟ حضرت عباس نے کہا.تمہارے متعلق تو کوئی نیا حکم جاری نہیں ہوا.وہ کہنے لگا پھر یہ اتنے آدمی کھڑے کیوں ہیں ؟ حضرت عباس نے کہا یہ عبادت کے لئے کھڑے ہوئے ہیں اور ہمارے ہاں عبادت کا یہی طریق ہے.تھوڑی دیر کے بعد وہ رکوع میں گئے.کہنے لگا.یہ مجھکے کیوں ہیں؟ عباس نے کہا.یہ عبادت ہے.پھر سجدہ میں گئے تو کہنے لگا اب یہ کیا ہوا کہ سارے کے سارے زمین پر گر گئے ہیں؟ انہوں نے کہا دیکھتے نہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر رہے ہیں.بس جو کچھ وہ کرتے ہیں وہی کچھ مسلمان کرتے ہیں.کہنے لگا عجیب طریق ہے محمد رسول اللہ جھکتے

Page 303

انوار العلوم جلد 24 268 سیر روحانی (7) ہیں تو وہ جھک جاتے ہیں کھڑے ہوتے ہیں تو وہ کھڑے ہو جاتے ہیں.وہ کہنے لگے مسلمان اسی طرح کرتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر حرکت کی نقل کیا کرتے ہیں.ابو سفیان کہنے لگا میں تو قیصر کے پاس بھی گیا اور اور بادشاہوں کے پاس بھی گیا ہوں اُن کو تو میں نے اس طرح عبادت کرتے نہیں دیکھا.انہوں نے کہا قیصر کیا چیز ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیں کہ روٹی کو ہاتھ نہیں لگانا، پانی کو ہاتھ نہیں لگانا تو وہ بھو کے مر جائیں گے ، پیاسے مر جائیں گے مگر روٹی نہیں کھائیں گے اور پانی نہیں پیئیں گے.ابو سفیان کی رسول کریم صلی اللہ جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس رضی اللہ عنہ ابوسفیان کو لے کر علیہ وسلم سے درخواست رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کو دیکھا اور فرمایا.تیر ابرا حال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ خدا ایک ہے.ابوسفیان نے کہا یقین کیوں نہیں آیا.اگر کوئی دوسرا خدا ہو تا تو ہماری مدد نہ کرتا؟ آپ نے فرمایا.تیر ابر احال ہو کیا تجھے ابھی یقین نہیں آیا کہ محمد اللہ کار سول ہے.کہنے لگا.ابھی اس کے متعلق یقین نہیں ہوا.حضرت عباس نے کہا.کمبخت! کر لو بیعت.اس وقت تیری اور تیری قوم کی جان بچتی ہے.کہنے لگا اچھا! کر لیتا ہوں.وہاں تو اُس نے یو نہی بیعت کر لی لیکن بعد میں جاکر سچا مسلمان ہو گیا.خیر بیعت کر لی تو عباس کہنے لگے اب مانگ اپنی قوم کے لئے ورنہ تیری قوم ہمیشہ کیلئے تباہ ہو جائے گی.مہاجرین کا دل اُس وقت ڈر رہا تھا.وہ تو مکہ کے رہنے والے تھے اور سمجھتے تھے کہ ایک دفعہ مکہ کی عزت ختم ہوئی تو پھر مکہ کی عزت باقی نہیں رہے گی.وہ باوجود اس کے کہ انہوں نے بڑے بڑے مظالم بر داشت کئے تھے پھر بھی وہ دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح صلح ہو جائے.لیکن انصار اُن کے مقابلہ میں بڑے جوش میں تھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا.مانگو.کہنے لگا.يَا رَسُولَ اللہ ! کیا آپ اپنی قوم پر رحم نہیں کریں گے.آپ تو بڑے رحیم و کریم ہیں اور پھر میں آپکا رشتہ دار ہوں،

Page 304

انوار العلوم جلد 24 269 سیر روحانی (7) بھائی ہوں، میرا بھی کوئی اعزاز ہونا چاہئے میں مسلمان ہوا ہوں.آپ نے فرمایا.اچھا جاؤ اور مکہ میں اعلان کر دو کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں گھسے گا اُسے پناہ دی جائے گی.کہنے لگا یا رسول اللہ !میراگھر ہے کتنا اور اُس میں کتنے آدمی آسکتے ہیں.اتنا بڑا شہر ہے اس کا میرے گھر میں کہاں ٹھکانہ ہو سکتا ہے.آپ نے فرمایا.اچھا جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا اُسے امان دی جائے گی.ابو سفیان نے کہا یا رسول اللہ ! پھر بھی لوگ بچ رہیں گے آپ نے فرمایا.اچھا جو ہتھیار پھینک دے گا اُسے بھی کچھ نہیں کہا جائے گا.کہنے لگا يَارَسُوْلَ اللهِ ! پھر بھی لوگ رہ جائیں گے.آپ نے فرمایا.اچھا جو اپنے گھر کے دروازے بند کر لے گا.اُسے بھی پناہ دی جائے گی.اُس نے کہا.يَارَسُوْلَ اللهِ ! گلیوں والے تو ہیں وہ تو بیچارے مارے جائیں گے.آپ نے فرمایا.بہت اچھالا ؤ ایک جھنڈ ابلال کا تیار کرو.ابی رویحہ ایک صحابی تھے.آپ نے جب مدینہ میں مہاجرین اور انصار کو آپس میں بھائی بھائی بنایا تھا تو ابی رویحہ کو بلال کا بھائی بنایا تھا.شاید اس وقت بلال تھے نہیں یا کوئی اور مصلحت تھی بہر حال آپ نے بلال کا جھنڈا بنایا اور ابی رویحہ کو دیا اور فرمایا.یہ بلال کا جھنڈا ہے یہ اسے لیکر چوک میں کھڑا ہو جائے اور اعلان کر دے کہ جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا اُس کو نجات دی جائے گی.ابو سفیان کہنے لگا.بس اب کافی ہو گیا اب مکہ بچ جائے گا.کہنے لگا اب مجھے اجازت دیجیے کہ میں جاؤں.آپ نے فرمایا جا.25 ابوسفیان کا مکہ میں اعلان اب تو سردار خود ہی ہتھیار پھینک چکا تھا.خبر پہنچنے یا نہ پہنچنے کا سوال ہی نہیں تھا.گھبرایا ہوا مکہ میں داخل ہوا اور یہ کہتا جاتا تھا لو گو! اپنے اپنے گھروں کے دروازے بند کرلو.لوگو! اپنے اپنے ہتھیار پھینک دو.لوگو! خانہ کعبہ میں چلے جاؤ.بلال کا جھنڈا کھڑا ہوا ہے اُس کے نیچے کھڑے ہو جانا.اتنے میں لوگوں نے دروازے بند کرنے شروع کر دیئے اور بعض نے خانہ کعبہ میں گھسنا شروع کیا.لوگوں نے ہتھیار باہر لالا کر پھینکنے شروع کئے.اتنے میں اسلامی لشکر شہر میں داخل ہوا اور لوگ بلال کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے.26 ر

Page 305

انوار العلوم جلد 24 270 سیر روحانی (7) حضرت بلال کا جھنڈ ا کھڑا کرنے میں حکمت اس واقعہ میں جو سب سے زیادہ عظیم الشان بات ہے وہ بلال کا جھنڈا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلال کا جھنڈ ا بناتے ہیں اور فرماتے ہیں جو شخص بلال کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو جائے گا اُس کو پناہ دی جائے گی حالانکہ سردار تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، آپؐ کے بعد قربانی کرنے والے ابو بکر تھے مگر ابو بکر کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد مسلمان ہونے والے رئیس عمر تھے مگر عمری کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد عثمان مقبول تھے اور آپ کے داماد تھے مگر عثمان کا بھی کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، اُن کے بعد علی تھے جو آپ کے بھائی بھی تھے اور آپ کے داماد بھی تھے مگر علی کا کوئی جھنڈا نہیں کھڑا کیا جاتا، پھر عبد الرحمن بن عوف وہ شخص تھے جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آپ وہ شخص ہیں کہ جب تک آپ زندہ ہیں مسلمان قوم میں اختلاف نہیں ہو گا لیکن عبد الرحمن کا کوئی جھنڈا نہیں بنایا جاتا، پھر عباس آپ کے چچا تھے اور بعض دفعہ وہ گستاخی بھی کر لیتے تو آپ خفا نہ ہوتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کا بھی کوئی جھنڈا نہیں بنایا، پھر سارے رؤساء اور چوٹی کے آدمی موجود تھے ، خالد بن ولید جو ایک سردار کا بیٹا خود بڑا نامور انسان تھا موجود تھا، عمرو بن عاص ایک سردار کا بیٹا تھا اسی طرح اور بڑے بڑے سر داروں کے بیٹے تھے مگر ان میں سے کسی ایک کا بھی جھنڈا نہیں بنایا جاتا.جھنڈ ابنایا جاتا ہے تو بلال کا بنایا جاتا ہے کیوں؟ اسکی کیا وجہ تھی؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ خانہ کعبہ پر جب حملہ ہونے لگا تھا ابو بکر دیکھ رہا تھا کہ جن کو مارا جانے والا ہے وہ اُس کے بھائی بند ہیں اور اُس نے خود بھی کہہ دیا تھا کہ يَارَسُولَ اللہ ! کیا اپنے بھائیوں کو ماریں گے.وہ ظلموں کو بھول چکا تھا اور جانتا تھا کہ یہ میرے بھائی ہیں.عمر بھی کہتے تو یہی تھے کہ يَا رَسُولَ اللهِ ! ان کافروں کو ماریئے مگر پھر بھی جب آپ اُن کو معاف کرنے پر آئے تو وہ اپنے دل میں یہی کہتے ہو نگے کہ اچھا ہوا ہمارے بھائی بخشے گئے، عثمان اور علی بھی کہتے ہونگے کہ ย

Page 306

انوار العلوم جلد 24 271 سیر روحانی (7) ہمارے بھائی بخشے گئے انہوں نے ہمارے ساتھ سختیاں کر لیں تو کیا ہوا.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُن کو معاف کرتے وقت یہی سمجھتے ہونگے کہ اُن میں میرے چچا بھی تھے بھائی بھی تھے ، ان میں میرے داماد ، عزیز اور رشتہ دار بھی تھے اگر میں نے اِن کو معاف کر دیا تو اچھا ہی ہوا میرے اپنے رشتہ دار بچ گئے.صرف ایک شخص تھا جس کی مکہ میں کوئی رشتہ داری نہیں تھی، جس کی مکہ میں کوئی طاقت نہ تھی، جس کا مکہ میں کوئی ساتھی نہ تھا اور اُس کی بیکسی کی حالت میں اُس پر وہ ظلم کیا جاتا جو نہ ابو بکر پر ہوا، نہ علی پر ہوا، نہ عثمان پر ہوا، نہ عمر پر ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نہیں ہوا.جلتی اور تپتی ہوئی ریت پر بلال منگا لٹا دیا جاتا تھا.تم دیکھو! ننگے پاؤں بھی مئی اور جون میں نہیں چل سکتے.اُس کو ننگا کر کے تپتی ریت پر لٹا دیا جاتا تھا، پھر کیلوں والے جوتے پہن کر نوجوان اُس کے سینے پر ناچتے تھے اور کہتے تھے کہو خد اکے سوا اور معبود ہیں، کہو محمد رسول اللہ جھوٹا ہے اور بلال آگے سے اپنی حبشی زبان میں جب وہ بہت مارتے تھے کہتے اَسْهَدُ أن لا إلهَ إِلَّا اللهُ أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللہ.وہ شخص آگے سے یہی جواب دیتا تھا کہ تم مجھ پر کتنا بھی ظلم کرو میں نے جب دیکھ لیا ہے کہ خدا ایک ہے تو دو کس طرح کہہ دوں.اور جب مجھے پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ خدا کے سچے رسول ہیں تو میں انہیں جھوٹا کیس طرح کہہ دوں.اس پر وہ اور مارنا شروع کر دیتے تھے.مہینوں گرمیوں کے موسم میں اُس کے ساتھ یہی حال ہوتا تھا.اسی طرح سردیوں میں وہ یہ کرتے تھے کہ اُن کے پیروں میں رسی ڈال کر انہیں مکہ کی پتھروں والی گلیوں میں گھسیٹتے تھے.چمڑا اُن کا زخمی ہو جاتا تھا.وہ گھسیٹتے تھے اور کہتے تھے کہو جھوٹا ہے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کہو خدا کے سوا اور معبود ہیں.تو وہ کہتے اَسْهَدُ اَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ اسْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.اب جب کہ اسلامی لشکر دس ہزار کی تعداد میں داخل ہونے کیلئے آیا.بلال کے دل میں خیال آیا ہو گا کہ آج اُن بوٹوں کا بدلہ لیا جائے گا.آج اُن ماروں کا معاوضہ مجھے ملے گا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو گیاوہ معاف، جو خانہ کعبہ میں داخل ہو گیا وہ معاف، جس نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے وہ معاف،

Page 307

انوار العلوم جلد 24 272 سیر روحانی (7) جس نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لئے وہ معاف.تو بلال کے دل میں خیال آتا ہو گا کہ یہ تو اپنے سارے بھائیوں کو معاف کر رہے ہیں اور اچھا کر رہے ہیں لیکن میر ابدلہ تورہ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ آج صرف ایک شخص ہے جس کو میرے معاف کرنے سے تکلیف پہنچ سکتی ہے اور وہ بلال ہے کہ جن کو میں معاف کر رہا ہوں وہ اُس کے بھائی نہیں.جو اُس کو دکھ دیا گیا ہے وہ اور کسی کو نہیں دیا گیا.آپ نے فرمایا میں اس کا بدلہ لونگا اور اِس طرح لونگا کہ میری نبوت کی بھی شان باقی رہے اور بلال کا دل بھی خوش ہو جائے.آپؐ نے فرمایا بلال کا جھنڈا کھڑا کرو اوران مکہ کے سرداروں کو جو جو تیاں لے کر اُس کے سینہ پر ناچا کرتے تھے ، جو اُس کے پاؤں میں رسی ڈال کر گھسیٹا کرتے تھے ، جو اُسے تپتی ریتوں پر لٹایا کرتے تھے کہدو کہ اگر اپنی اور اپنے بیوی بچوں کی جان بچانی ہے تو بلال کے جھنڈے کے نیچے آجاؤ.میں سمجھتا ہوں جب سے دُنیا پید اہوئی ہے، جب سے انسان کو طاقت حاصل ہوئی ہے اور جب سے کوئی انسان دوسرے انسان سے اپنے خون کا بدلہ لینے پر تیار ہوا ہے اور اُس کو طاقت ملی ہے اِس قسم کا بدلہ کسی انسان نے نہیں لیا.جب بلال کا جھنڈا خانہ کعبہ کے سامنے میدان میں گاڑ ا گیا ہو گا، جب عرب کے وہ رؤساء جو اُسکو پیروں سے مسلا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے بولتا ہے کہ نہیں کہ محمد رسول اللہ جھوٹا ہے جب وہ دوڑ دوڑ کر اور اپنے بیوی بچوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر اور لالا کے بلال کے جھنڈے کے نیچے لاتے ہونگے کہ ہماری جان بچ جائے تو اُس وقت بلال کا دل اور اُس کی جان کس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور ہو رہی ہو گی.وہ کہتا ہو گا میں نے تو خبر نہیں اِن کفار سے بدلہ لینا تھایا نہیں یا لے سکتا تھا کہ نہیں اب وہ بدلہ لیا گیا ہے کہ ہر شخص جس کی جو تیاں میرے سینہ پر پڑتی تھیں اس کے سر کو میری جوتی پر جھکا دیا گیا ہے.حضرت یوسف کے بدلہ سے زیادہ شاندار بدلہ یہ وہ بدلہ تھا جو الشان یوسف کے بدلہ سے بھی زیادہ شاندار تھا اس لئے کہ یوسف نے اپنے باپ کی خاطر اپنے بھائیوں کو معاف کیا تھا.

Page 308

انوار العلوم جلد 24 273 سیر روحانی (7) جس کی خاطر کیا وہ اُس کا باپ تھا اور جن کو کیا وہ اُسکے بھائی تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چوں اور بھائیوں کو ایک غلام کی جوتیوں کے طفیل معاف کیا.بھلا یوسف کا بدلہ اس کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے.غرض یہ دوسری خبر تھی نوبت خانہ کی اور پھر کیسی عظیم الشان خبر دی کہ دو سال پہلے بتا دیا جاتا ہے کہ یہ یہ حالات پیدا ہونے والے ہیں.کفار کی طرف سے معاہدہ شکنی ہو گی.تم حملہ کیلئے جاؤ گے اور انہیں تباہ کر کے اسلامی حکومت کو قائم کر دو گے.قرآنی نوبت خانہ کی تیسری خبر اب تیسری خبر میں مثال کے طور پر پیش کرتا ہوں.عرب کا ملک ایسا ویران تھا اور ایسا بنجر اور ناقص تھا کہ اُس کی طرف کوئی نظر اُٹھا کے نہیں دیکھتا تھا.مؤرخین نے بحث کی ہے کہ سکندر نے ساری دنیا فتح کی لیکن عرب فتح نہیں کیا اِس کی کیا وجہ تھی ؟ وہ کہتے ہیں اُس نے اِسکو اس لئے نہیں چھوڑا کہ عرب کوئی طاقتور ملک تھا بلکہ اِس لئے چھوڑا تھا کہ یہ ہڈی کتے کے قابل تھی سکندر کے قابل نہیں تھی.اس میں کوئی چیز ہی نہیں تھی پھر سکندر نے وہاں کیوں جانا تھا، یہ ہڈی اُس کے کھانے کے قابل ہی نہیں تھی.پھر قیصر و کسری ادھر بھی لڑتے تھے اُدھر بھی لڑتے تھے مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے.یمن کو لے لیتے تھے کیونکہ وہ ذرا آباد ملک تھا مگر عرب کو چھوڑ دیتے تھے اور کہتے تھے ہم نے اس صحرا کو لے کر کیا کرنا ہے.غرض ہزاروں سال سے عرب کے قبائل آزاد چلے آتے تھے اس لئے نہیں کہ اُن میں دم خم تھا بلکہ اس لئے آزاد چلے آتے تھے کہ عرب کے اندر کچھ رکھا ہی نہیں تھا کہ کوئی وہاں جائے اور اُسے فتح کرے.ایسے زمانہ میں جبکہ عرب دنیا میں نہایت ذلیل ترین سمجھا جار ہا تھا، الہی نوبت خانہ میں نوبت بجتی ہے اور وہاں سے آواز آتی ہے قُلْ لِلْمُخَلَّفِينَ مِنَ الْأَعْرَابِ سَتَدْعَوْنَ إلى قَوْمٍ أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ تُقَاتِلُونَهُمْ اَوْ يُسْلِمُونَ 27 وَأَخْرَى لَمْ تَقْدِرُوا عَلَيْهَا قَدُ احَاطَ اللهُ بِهَا - 28

Page 309

انوار العلوم جلد 24 274 سیر روحانی (7) قیصر و کسری کی لڑائیوں میں غلبہ اُس وقت جبکہ مسلمان ناکام ہو کر اور کامیابی حاصل کرنے کی پیشگوئی بھی اجازت نہیں دیتے اس وقت آتے ہیں، جب مکہ والے عمرہ کی جبکہ وہ ایسا معاہدہ کر کے آتے ہیں کہ حضرت عمر بھی سمجھتے ہیں کہ ہماری ناک کٹ گئی اور کہتے ہیں یا رسول اللہ ! ہم تو کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اُسوقت اللہ تعالیٰ ایک تو یہ خبر دیتا ہے کہ یہ معاہدہ توڑیں گے اور تم انہیں فتح کرو گے.پھر یہ خبر دیتا ہے کہ دیکھو! کچھ لوگ آج ہمارے ساتھ شامل نہیں ہوئے اُن کو بتا دو کہ اب عرب کی جنگ تو ختم ہوئی، یہ ملک تو ہم نے فتح کر لیا مگر اس کے بعد باہر سے اور قومیں آئینگی جو ان سے بھی زیادہ لڑنے والی ہیں اُن سے تمہار ا مقابلہ ہو گا اور اُن کے مقابلہ میں بھی یہ نتیجہ نکلے گا کہ جب تم لڑو گے تو اُس وقت تک تمہاری لڑائی جاری رہے گی جب تک کہ وہ ہتھیار پھینکنے پر مجبور نہ ہو جائیں.یہ قیصر اور کسریٰ کی جنگوں کی خبر دی گئی ہے اور تمام صحابہ اور مسلمان مفسرین اس پر متفق ہیں کہ یہ خبر اس بات کے متعلق تھی کہ آئندہ ان سے لڑائی ہونے والی ہے.اب ان ملکوں کو اُسوقت تک عرب کا کبھی خیال بھی نہیں آیا تھاوہ تو سمجھتے تھے کہ اس قابل ہی نہیں کہ ہم اس کو فتح کریں.ارد گرد کے تمام سر سبز و شاداب علاقے پہلے سے اُن کے قبضہ میں تھے اور بیچ کا صحراء اُن کے لئے کوئی قیمت نہیں رکھتا تھا مگر فرماتا ہے ہم تم سے اُن کی جنگ کروائیں گے اور وہ ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہونگے.اسی طرح اس میں یہ بھی خبر دی گئی تھی کہ عرب مالی طور پر اتنا تر قی کر جائے گا کہ جو قومیں پہلے اُسے ذلیل سمجھتی تھیں وہ اُس کی اہمیت کو محسوس کرنے لگ جائیں گی.اب یہ عجیب خبر دیکھ لو کہ آٹھ سالہ جنگوں کے نتیجہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانہ میں قیصر نے حملہ کرنا شروع کیا اور حضرت ابو بکر کے زمانہ میں کسری نے حملہ کرنا شروع کیا اس کے بعد جنگیں اتنی بڑھیں کہ قیصر بھی تباہ ہو گیا اور کسری بھی تباہ ہو گیا اور وہ خبر پوری ہو گئی جو اللہ تعالیٰ نے اس کے آگے بیان فرمائی تھی کہ قَدْ أَحَاطَ اللهُ بِهَا یعنی اللہ تعالیٰ نے انہیں تباہ کرنے کی پہلے سے خبر دے رکھی ہے.

Page 310

انوار العلوم جلد 24 275 سیر روحانی (7) اسلامی نوبت خانہ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ عجیب بات ہے کہ اسلامی نوبت خانہ کا کمال اتنابڑھا ہوا تھا کہ آٹھ سالہ جنگوں میں چھ سات جنگوں میں کفار نے مکہ سے حملہ کیا اور بڑی بڑی احتیاطوں کے ساتھ حملہ کیا لیکن ایک بھی ایسا حملہ ثابت نہیں جس کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر نہ مل چکی تھی اور ہیں تیس حملے محمد رسول اللہ نے اُن کے علاقہ پر کئے اور اُن میں سے ایک بھی حملہ ایسا نہیں جسکی خبر انہیں پہلے سے ملی ہو.یہ کتنا بڑا شاندار نشان ہے.ان کا نوبت خانہ کتنا شاندار ہے کہ فورا خبر پہنچا دیتا ہے اور اُن کا نوبت خانہ کس طرح تباہ کر دیا جاتا ہے اور کمزور کر دیا جاتا ہے کہ ایک لڑائی کی خبر بھی تو مکہ والوں کو پہلے نہیں ملتی کہ حملہ ہو جائے گا.بلکہ اسلامی لشکر اُن کے سروں پر جا پہنچتا تھا اور بعض دفعہ وہ گھروں میں اِدھر اُدھر پھر رہے ہوتے تھے کہ پتہ لگتا اسلامی لشکر پہنچ گیا ہے پہلے پتہ ہی نہیں لگتا تھا.نوبت خانوں کی دوسری غرض دوسرا کام نوبت خانہ سے یہ لیا جاتا تھا کہ خبر دی جاتی تھی کہ شاہی فوج آرہی ہے.نوبت خانے اس لئے بجائے جاتے تھے کہ والنٹیئر اکٹھے ہو جائیں اور دوسرے نوبت خانے اسلئے بجائے جاتے تھے کہ دھم دھم کی آواز جوش پیدا کرتی ہے اور گھوڑے بھی ہنہنانے لگ جاتے ہیں.جیسے انگریزی فوجوں میں نوبت خانوں کی بجائے بینڈ بجایا جاتا ہے اور اُس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگوں کے اندر جوش پید اہو اور وہ قربانی کے لئے تیار ہو جائیں.بعض جگہ باجے بھی ہوتے ہیں یا نفیریاں 29 بھی ہوتی ہیں اور پرانے زمانہ میں تو ڈھول استعمال ہوتے تھے یا نفیریاں استعمال ہوتی تھیں اور اب بینڈ استعمال ہوتا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں یہ ایک بڑی شاندار کیفیت ہوتی ہو گی جب دتی کا لشکر حیدر آباد کی طرف چلتا ہو گا تو جب وہ بڑی بڑی دفیں بجتی ہو نگی اور آواز پہنچتی ہو گی تو تمام ملک میں ایک شور مچ جاتا ہو گا اور ہر شخص دیکھتا ہو گا کہ اُن کے گھوڑے پیر مارتے ہوئے اور آگ نکالتے ہوئے سڑکوں پر سے چلے آرہے ہیں اور انتظار کرتا ہو گا کہ اکبر یا

Page 311

انوار العلوم جلد 24 ظالمانہ خونریزی 276 سیر روحانی (7) شاہ جہان یا چنگیز کی فوجیں روانہ ہوتی ہوں گی اور پھر ہزاروں ہزار کار یلا چلتا ہو گا.لیکن جب میں نے غور کر کے دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ نوبت خانوں کی یہ بات بڑی مصنوعی چیز تھی.ایک تو میں نے دیکھا کہ لڑائی میں انسانوں کا خون بہنا معمولی چیز نہیں اس کے لئے انسان کوئی حکمت بتاتا ہے ، غرض بتاتا ہے، اس کے فوائد بتاتا ہے، اسکے جواز کی دلیلیں بتاتا ہے لیکن یہاں محض ڈھول پیٹ کر خونریزی کو جائز قرار دیا جاتا تھا حالانکہ محض ڈھول پیٹنے سے اور دھم دھم دھم سے کیا بنتا ہے.غلط پروپیگنڈا پھر میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ بڑے بینڈ بجتے تھے اور فوجیں بازاروں میں پریڈ کرتی تھیں اور لوگ نعرے لگاتے تھے کہ سپاہیو! شاباش ! ملک کی حفاظت کے لئے مر جاؤ.اور یہ سارا دھوکا ہوتا تھا کیونکہ جس کو مارنے کیلئے وہ جارہے ہوتے تھے وہ ایک معمولی سی حکومت ہوتی تھی اور ظاہر یہ کیا جاتا تھا کہ ہماری فوج نکلے گی اور قتل عام کرتی چلی جائے گی اور اُسے فتح کرے گی اور یوں اپنی بہادری اور دلیری کا سکہ بٹھا دے گی.مثلاً جرمنی میں اعلان ہو رہا ہے کہ اے جرمن والو ! تم نے اپنے ملک کی حفاظت کرنی ہے اور لڑنے چلے ہیں پولینڈ سے جو ایک تھپڑ کی مار ہے.انگلستان میں اعلان ہو رہا ہے کہ آجاؤ انگلستان والو ! تم بڑے بہا در ہو، تمہاری روایتیں بڑی مشہور ہیں اور جارہے ہیں شیر شاہ سے لڑنے کے لئے اور کہا جا رہا ہے کہ شاباش انگریز و اتم اتنے بہادر ہو حالانکہ مقابل میں چند ہزار آدمی ہیں اور جارہا ہے اتنے بڑے ملک کا لشکر.پھر اُس کے پاس ایک گولی ہوتی تھی تو ان کے پاس سو گولی ہوتی تھی لیکن ظاہر یہ کرتے تھے کہ ہماری قوم اور ملک خطرہ میں ہیں پس اے بہادر و! اپنے ملک کی عزت کو بچاؤ حالانکہ عزت بچانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں.جائیں گے تو یو نہی ختم کر دیں گے.جیسے میں نے بتایا ہے انگریزوں نے ٹرانسوال پر حملہ کیا یا جرمنوں نے زیکو سلوا کیا اور پولینڈ پر حملہ کیا اور ظاہر یہ کیا کہ ہماری عزت خطرہ میں ہے ہماری عزت برباد ہو گئی ہے حکومتیں ہمارے خلاف بڑے منصوبے کر رہی ہیں.یا روس نے فن لینڈ پر حملہ کیا

Page 312

انوار العلوم جلد 24 277 سیر روحانی (7) نقشہ پر بھی دیکھو تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے باز کے منہ میں پرہی.مگر فن لینڈ پر حملہ کیا گیا اور اعلان کیا گیا کہ فلاں جرنیل کو مارشل بنایا جاتا ہے اور وہ فن لینڈ کی لڑائی کے لئے جا رہا ہے.فلاں جرنیل کو بھیجا جارہا ہے اور وہ اتنا مشہور ہے.لاکھوں کی فوج بھجوائی جا رہی ہے حالانکہ فن لینڈ بیچارے کے سارے سپاہی دس ہزار سے زیادہ نہیں اور دس لاکھ کا لشکر بھجوایا جا رہا ہے اور سارے ملک میں اعلان ہو رہا ہے کہ اُٹھو! اُٹھو! مارو! مارو! وہ ہمیں مار چلا ہے اور ہم مجبور ہیں کہ اُس کا مقابلہ کریں.غرض اس قسم کے اعلانات میں کوئی عقل نظر نہیں آتی تھی.پس یہ نوبت خانہ کیا ہے یہ لوگوں سے ایک تمسخر ہے اور محض ایک کھیل بنائی گئی ہے یا ایک دھوکا ہے جو دیا جا رہا ہے.ناجائز حملے اور بعض دفعہ میں نے دیکھا کہ ظالمانہ حملے ہوتے تھے.لوگوں کا کوئی قصور ہی نہیں ہو تا تھا یو نہی حملہ کر دیا جاتا تھا لیکن کہا یہ جاتا تھا کہ ہم مظلوم ہیں اور ہوتا تھا دوسرا مظلوم.مثلاً انگریزوں نے ٹیپو سلطان پر حملہ کر دیا حالانکہ ٹیپو نے اُن کا کچھ بھی نہیں بگاڑا تھا انہوں نے میسور کو ہضم کرنا چاہا.گویا اُن کی بھیڑیا اور بکری والی مثال تھی.کہتے ہیں ایک نہر سے بکری اور بھیڑ یا پانی پی رہے تھے بکری نیچے کی طرف پی رہی تھی اور بھیڑیا اوپر کی طرف پی رہا تھا.اُس کا جو بکری کھانے کو دل چاہا تو بکری سے کہنے لگا دیکھو! میرا اپانی گدلا کرتی ہو شرم نہیں آتی اس قدر گستاخی کرتی ہو.بکری نے کہا جناب! میں پانی گدلا کیسے کر سکتی ہوں آپ او پر پانی پی رہے ہیں اور میں نیچے پی رہی ہوں آپ کا پیا ہوا میری طرف آرہا ہے میرا پیا ہوا آپ کی طرف نہیں جا رہا.اس پر جھٹ اُسے پنجہ مار کر کہنے لگا گستاخ ! بے ادب! آگے سے جواب دیتی ہے اور پھاڑ کر کھا لیا.وہی حالت یہاں تھی.انگریزوں نے بھی بہانہ بنا کر ٹیپو سلطان پر حملہ دیا.یا بنگال کا بادشاہ سراج الدولہ تھا اُس کا کوئی قصور نہیں تھا.انگریزی تاریخیں خود بھی مانتی ہیں کہ ایک ہندو سے جھوٹے خط لکھوائے گئے اور اُن خطوں کی بناء پر سراج الدولہ پر حملہ کر دیا گیا.نہ بیچارے کے پاس کوئی طاقت تھی نہ حکومت تھی.

Page 313

انوار العلوم جلد 24 278 سیر روحانی (7) انگریزوں کے پاس ہر قسم کے سامان تھے تو پیں بھی تھیں، گولہ بارود بھی تھا، منظم فوج بھی تھی یو نہی بہانہ بنا کے لے لیا.پھر غدر کی لڑائی کو دیکھ لو.مسلمان بادشاہ کی تو قلعہ سے باہر حکومت ہی نہیں اور یہ سارے ہندوستان کے بادشاہ اُس پر چڑھ کر گئے.بھلا اُس کے پاس کونسی حکومت تھی لیکن غدر کا حال پڑھو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ انگلستان روس کی لڑائی ہو رہی ہے اور اس کو اتنا شاندار دکھایا جاتا ہے کہ وہ مصائب انگریزوں پر پڑے اور ایسی ایسی مشکلات پیش آئیں اور انگریزوں نے وہ وہ قربانیاں کیں حالانکہ وہ بیچارہ ایک شطرنج کا بادشاہ تھا، دو چار دن اُس کا محاصرہ رکھا اور پھر اُسے پکڑ کر لے گئے اور اس کے بچوں کو پھانسیاں دے دیں.تو میں نے دیکھا کہ بہت کچھ اس میں مبالغہ آرائی کی جاتی تھی.خلاف امید ر شکست پھر میں نے دیکھا کہ باوجود اس کے کہ مد مقابل چھوٹا ہو تا تھا مظلوم ہو تا تھا پھر بھی بعض دفعہ نتائج اُن کے خلاف نکل آتے تھے.جیسے پولینڈ پر جرمن نے حملہ کیا اور اُن کی مدد کے لئے انگریز اور فرانس آگئے ، آخر جر من تباہ ہو گیا.فن لینڈ پر روس نے حملہ کیا اور انگلستان اور فرانس نے اس کو مدد دینی شروع کر دی چنانچہ باوجود اس کے کہ فوج اُس کے پاس تھوڑی تھی اُس کو اتنا سامان جنگ مل گیا کہ روس نے اُس سے صلح کر لی.تو کئی دفعہ میں نے دیکھا کہ نوبت خانوں کے نتائج کچھ اور نکلتے ہیں.ظاہر تو وہ یہ کرتے ہیں کہ ہم یوں کر دیں گے اور ڈوں کر دیں گے لیکن جب جاتے ہیں تو درمیان میں کوئی روک پید ا ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں باوجو د اس کے پڑی ہونے کے وہ بھی اُس کے ہاتھ سے نکل جاتی ہے.غرض ان حملوں میں: (1) بسا اوقات ظلم کا پہلو ہو تا تھا.(2) بعض اوقات محض نمائش ہوتی تھی، بالمقابل کوئی طاقت ہوتی ہی نہیں تھی.ایک کمزور سی ہستی کو چُن کر دنیا پر رعب ڈالنے کے لئے ظاہر کیا جاتا تھا کہ گویا ایک بہت بڑے دشمن کی سرکوبی کے لئے تیاری کی گئی ہے.

Page 314

انوار العلوم جلد 24 279 سیر روحانی (7) (3) لیکن پھر بھی نتیجہ قطعی نہ ہو تا تھا.بعض دفعہ باوجود اس کے کہ دوسرا فریق چھوٹا اور کمزور ہو تا تھا اس وجہ سے کہ وہ مظلوم ہو تا تھا دوسری زبر دست طاقتیں کمزور کی مدد کو آجاتیں اور ساری نمائش دھری کی دھری رہ جاتی.نوبت خانوں کی بعض اور خامیاں (4) چوتھی بات میں نے یہ دیکھی کہ یہ نوبت خانے صرف دنیوی کشمکش کیلئے بجائے جاتے تھے اخلاقی اور روحانی قدروں کے بچانے کی اُس میں کوئی صورت نہیں ہوتی تھی.لڑائیاں محض دنیوی فوائد اور دنیوی اغراض کے لئے ہوتی تھیں.(5) میں نے دیکھا کہ یہ نوبت خانے جو بجتے تھے ذاتی اغراض کے لئے بجائے جاتے تھے.دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کے حقوق کا بالکل لحاظ نہ ہو تا تھا اور نفسانیت کے علاوہ بنی نوع انسان کی ہمدردی کا اس سے کوئی تعلق نہ ہو تا تھا.(6) میں نے دیکھا کہ اگر واقع میں کوئی خرابی بھی ان حملوں کا باعث ہوتی تھی یعنی واقع میں اُس قوم نے کوئی ظلم کیا ہو تا تھا تو فتح کے بعد اس ظلم کی اصلاح نہیں ہوتی تھی صرف اُس کا رنگ بدل جاتا تھا.فرض کرو ہندوستان کی کسی ریاست نے انگریزوں پر ظلم بھی کیا ہوتا تھا اور اس جنگ کے بعد یہ نہیں ہو تا تھا کہ ظلم مٹ گیا بلکہ یہ ہو تا تھا کہ پہلے انگریزوں پر ظلم ہو تا تھا پھر ہندوستانیوں پر ظلم شروع ہو جاتا تھا.ظلم بہر حال قائم رہتا تھا.(7) ان نوبت خانوں سے بعض دفعہ اپنے لوگوں کو ہمت دلانے کیلئے یہ بھی اعلان کئے جاتے تھے کہ مثلاً فرانس لڑائی کا اعلان کرتا تو کہتا انگریز بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے فلاں ملک بھی میری مدد کے لئے آرہا ہے.ایران اعلان کرتا تو کہتا چین کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں.ہندوستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں.افغانستان کی فوجیں بھی میری مدد کے لئے آرہی ہیں.غرض دنیوی مدد اور تائید پر بڑا بھروسہ ظاہر کیا جاتا گویا اقرار کیا جاتا تھا کہ بغیر ان دُنیا کی تائیدوں کے ہم فتح نہیں پاسکتے.

Page 315

انوار العلوم جلد 24 280 سیر روحانی (7) دنیوی نوبت خانوں کے مقابلہ اب میں نے دیکھا کہ کیا اسلام نے بھی اسکے مقابلہ میں کوئی نوبت خانہ بجایا ہے میں اسلام کا شاندار نوبت خانہ جس نے بتایا ہو کہ آب اسلامی لشکر آگے بڑھتا ہے اپنے آدمیوں کو کہو کہ تیار ہو جاؤ.تو میں نے دیکھا کہ قرآن میں یہ نوبت خانہ بج رہا ہے اذنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ إِلَّا أَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْ لَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتَ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيراً.لَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ - الَّذِينَ إِنْ مَكَنْهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ - 30 یہ نوبت خانہ ڈھم ڈھم ڈھم سے نہیں بجایا جاتا یہ ایسے الفاظ کے ساتھ بجایا گیا ہے جن میں حقائق بیان کئے گئے ہیں.اسلام کا اعلانِ جنگ اور اُس کی اہم اغراض اس میں بتایا گیا ہے کہ:- اول یہ اعلان جنگ جو کیا جارہا ہے جارحانہ نہیں ہے بلکہ مدافعانہ ہے.ہم کسی قوم پر خود حملہ کرنا جائز نہیں سمجھتے ہمیں جب مجبور کیا جائے اور ہم پر حملہ کیا جائے تو ہم اپنی جان اور مال اور عزت اور دین کے بچانے کے لئے اُس سے لڑنا جائز سمجھتے ہیں اس لئے وہ لوگ جن پر حملہ کیا گیا، جن کو دُکھ دیئے گئے ، اُن کو اجازت دی جاتی ہے کہ وہ نکلیں اور دشمن کا مقابلہ کریں.دوم اِس میں یہ ثابت کیا گیا تھا کہ دشمن زبر دست ہے اُس نے ان لوگوں کو جن کے لئے طبل جنگ بجایا گیا ہے گھروں سے نکال کر ملک بدر کر دیا تھا اور یہ لوگ اُن کے خلاف ایک انگلی تک نہیں ہلا سکتے تھے چنانچہ ان کی کمزوری کی مثال دیکھ لو جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ مکہ میں مسلمانوں کو تکلیف پہنچ رہی ہے تو آپ نے صحابہ کو بلایا اور فرمایا تم لوگ یہ تکلیفیں برداشت نہیں کر سکتے مجھے تو اللہ تعالیٰ کی

Page 316

انوار العلوم جلد 24 281 سیر روحانی (7) طرف سے ہجرت کی اجازت نہیں تم ہجرت کر جاؤ.صحابہ نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! ہمیں کون ملک پناہ دے گا؟ آپ نے فرمایا سمندر پار حبشہ کا ایک ملک ہے اُس میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا بادشاہ مقرر کیا ہے جو انصاف پسند ہے اُس میں چلے جاؤ.چنانچہ بعض صحابہ نے فیصلہ کر لیا کہ اس ملک میں ہجرت کر کے چلے جائیں.اُن میں ایک صحابی اور اُن کی بیوی بھی تھیں.وہ جانتے تھے کہ انہوں نے ہمیں ہجرت بھی نہیں کرنے دینی جیسے پارٹیشن کے موقع پر ہوا تھا کہ جو لوگ ہجرت کر کے آنا چاہتے تھے اُن کو بھی ہندو اور سکھ نہیں آنے دیتے تھے.اسی طرح وہ لوگ جانتے تھے کہ مکہ والوں نے ہمیں ہجرت کر کے نہیں جانے دینا اس لئے رات کے وقت وہاں سے بھاگتے تھے تا کہ کسی طرح بچ کے نکل جائیں.ایک دن ایک مسلمان اور ان کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ ہم ہجرت کر جائیں اور فیصلہ کیا کہ رات کے وقت ہم دونوں اونٹ پر سوار ہو کر چلے جائیں گے.حضرت عمر اُس وقت مسلمان نہیں ہوئے تھے.وہ چونکہ حفاظت مکہ پر مقرر تھے وہ رات کو مکہ کا پہرہ دیا کرتے تھے کہ دیکھیں کیا حالت ہے شہر میں کوئی مخالفانہ رویہ تو نہیں.وہ گشت لگاتے لگاتے پہنچے تو یہ لوگ اونٹ پر اسباب لاد رہے تھے حضرت عمرؓ اس وقت تک اسلام کے سخت مخالف تھے انہیں شبہ ہوا کہ یہ بھاگنا چاہتے ہیں.چنانچہ اُس عورت کو مخاطب کر کے کہنے لگے کیوں بی بی! کیا نیتیں ہیں اور کدھر کے ارادے ہیں ؟ خاوند نے ٹلا کر کچھ اور بات کہنی چاہی مگر عورت کے دل کو زیادہ چوٹ لگی.وہ آگے سے غصہ سے کہنے لگی عمرا یہ بھی کوئی انصاف ہے کہ ہم تمہارے شہر میں تمہارا کچھ بگاڑتے نہیں، کوئی شرارت نہیں کرتے، تمہارے ساتھ لڑائی نہیں کرتے، دنگا نہیں کرتے صرف اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تم وہ بھی نہیں کرنے دیتے اور ہم یہاں سے جانا چاہتے ہیں تو کر اور تم ہمیں جانے بھی نہیں دیتے، ظلم کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.آدھی رات کو ایک عورت کو اونٹ پر سامان لادتے دیکھ کر حضرت عمرؓ کے دل کو چوٹ لگی آپ کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور منہ پھیر لیا.پھر پیٹھ پھیر کر اُن کا نام لیا اور کہنے لگے بی بی! اللہ تمہارے ساتھ ہو جاؤ.21 گویا یہ حالت تھی اُن لوگوں کی کہ اُن کو نکلنے بھی نہیں دیا جاتا تھا اور اُن کے لئے

Page 317

انوار العلوم جلد 24 282 سیر روحانی (7) ملک چھوڑنے کے لئے بھی کوئی آزادی نہیں تھی اور جب وہ اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں چلے گئے تو وہاں بھی حملہ کیا.حبشہ گئے تو وہاں اُن کو لینے کے لئے آدمی پہنچے.مدینہ گئے تو وہاں حملہ شروع کر دیا.سوم ان لوگوں کو جو گھر سے نکالا گیا تھا تو اُن کے کسی جرم کی وجہ سے نہیں بلکہ بلا سبب مگر پھر بھی یہ لوگ اُف نہیں کر سکے اور پھر اُن کو نکال کر بس نہیں کی گئی بلکہ جس غیر ملک میں انہوں نے پناہ لی وہاں بھی جاکر حملہ کر دیا گیا.چہارم یہ اعلان کیا گیا کہ ان پر جو ظلم کئے جارہے ہیں یہ کسی سیاسی وجہ سے نہیں کئے جارہے کسی ملک یا علاقہ کا یہ لوگ مطالبہ نہیں کر رہے بلکہ صرف اس لئے ان پر ظلم کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم اور حکومت کو کہہ دیا ہے کہ ہم سیاسی آدمی نہیں ہیں.آپ جو کچھ ہمیں حکم دیں گے ہم آپ کی مانیں گے مگر جن امور کا تعلق مَا بَعْدَ الْمَوْتِ سے ہے اُنکی تیاری کے لئے ہم کو آزاد چھوڑ دیا جائے کیونکہ جسموں کی بادشاہت حکومت کے پاس ہے مگر رُوح کی حکومت خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اس لئے حکومت ہمارے جسموں پر تو حکومت کرے مگر ہماری روحوں کو آزاد چھوڑ دے کہ ہم اپنے اللہ سے صلح کر لیں.مگر حکومت نے کہا نہیں ہم تمہارے جسموں پر بھی حکومت کریں گے اور تمہارے عقیدہ اور مذہب پر بھی حکومت کریں گے.پنجم اس اعلانِ جنگ میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ جنگ ہم صرف ضمیر کی آزادی کیلئے نہیں کر رہے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان کلمہ پڑھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان نماز پڑھ سکے ، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان روزے رکھ سکے، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان حج کر سکے ، صرف اس لئے نہیں کر رہے کہ مسلمان زکوۃ دے سکے بلکہ ہم اس لئے کر رہے ہیں کہ عیسائی، یہودی اور مجوسی سب کو ان کے مذہب کی آزادی حاصل ہو جائے کیونکہ حریت ضمیر سب کا حق ہے صرف مسلمانوں کا حق نہیں.کسی قوم کا حق نہیں کہ ضمیر کو وہ اپنے لئے مخصوص کرلے اور باقیوں کو حریت دینے سے انکار کر دے.

Page 318

انوار العلوم جلد 24 283 سیر روحانی (7) ششم اس اعلانِ جنگ میں یہ پہلے سے بتا دیا گیا تھا کہ گو دشمن طاقتور ہے اور مسلمان کمزور ہیں لیکن فتح مسلمانوں کو ہی نصیب ہو گی اور دشمن کو شکست ہو گی.مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی اِس سلسلہ میں اور اعلان بھی کئے گئے اور کہا گیا کہ الا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ 32 چلو تم لوگ خدا کی خاطر مرنے کیلئے تیار ہو گئے ہو اور خدا تعالیٰ اپنی خاطر مرنے والوں کو خالی نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ اُن کو مدد دے گا اور کامیاب کرے گا.پھر فرمایا فَانَ حِزْبَ اللهِ هُمُ الغَلِبُونَ 33 یقیناً خدا کا گروہ جو خدا کی خاطر لڑنے والا ہے وہی غالب آئے گا.مگر چونکہ اس طرح آپ نے اعلان کیا تھا کہ ہم کمزور ہیں.آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان میں کوئی طاقت نہیں اور آپ نے اعلان کیا تھا کہ ان کو ملکوں سے نکال دیا گیا ہے پھر بھی یہ نہیں بول سکے گویا ان کی ہمت گرادی گئی تھی کہ تم ہو تو بالکل ہی گھٹیا طرز کے غریب اور بے سامان لیکن ہم تم کو لڑائی کا حکم دیتے ہیں اسلئے اُن کے دلوں میں ایک مایوسی سی پیدا ہو سکتی تھی ہم تھوڑے بھی ہیں اور سامان بھی نہیں تو کیا بنے گا اس لئے فرمایا کہ بے شک جو باتیں ہم نے بتائی ہیں وہ تمہارے ظاہری حالات ہیں لیکن كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَة بِاِذْنِ اللهِ 34 یاد رکھو! بہت سی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آجاتی ہیں.مگر کب ؟ جب اللہ تعالیٰ کا اُن کو حکم ہو تا ہے.گویا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ کہہ کر اس طرف اشارہ کیا کہ تم یہ سمجھو کہ تم اپنی طرف سے لڑنے نہیں جار ہے بلکہ خدا تعالیٰ کے حکم سے لڑنے جارہے ہو اور جب خدا کسی لڑائی کا حکم دیتا ہے تو چھوٹی جماعت ہمیشہ بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہے.اب میں اس آیت کے ٹکڑے ٹکڑے لے کر بتاتا ہوں کہ اِس میں کیا مضمون بتایا گیا ہے.پہلے بتایا گیا ہے کہ أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا.وہ لوگ جن سے لوگ بلا وجہ لڑائی کرتے ہیں اُن کو حکم دیا جاتا ہے کہ چونکہ اُن پر حملہ کیا گیا ہے اس لئے وہ لڑائی کے لئے نکلیں.وَإِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِم لَقَدِيرُ اور ہم اُن کو بتا دیتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ اُن میں لڑائی کی طاقت نہیں ہے مگر خدا میں طاقت ہے اور وہ اُن کی مدد کر سکتا ہے.الَّذِيْنَ اُخْرِجُوا مِنْ 9

Page 319

انوار العلوم جلد 24 284 سیر روحانی (7) دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَق وہ لوگ جو اپنے گھروں سے بغیر کسی قصور کے نکالے گئے إِلَّا أَنْ يَقُولُوا ربنا الله.ہاں ان کا ایک ہی قصور تھا کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے.وہ اپنے زمانہ کے کامور کی بات کو مانتے تھے اور خدا کی بات کہتے تھے.صرف اس بات پر لوگ کہتے تھے ان کو مارو.وَلَوْلا دَفَعْ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِ مَنْ صَوَامِعُ اور اس لئے اُن کو اجازت دی جاتی ہے کہ یہ صرف اپنے خدا کو راضی کرنا چاہتے ہیں اور اس زمانہ کی حکومت اور لوگ کہتے ہیں کہ ہم خدا کو راضی نہیں کرنے دیں گے تم ہم کو راضی کرو.دوسرے اس لئے کہ اگر یہ طریق ظلم جاری ہو جائے تو پھر قوموں میں ہمیشہ ہی لڑائی رہے گی.عیسائی یہودی پر حملہ کرے گا اور کہے گا میں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا اور یہودی عیسائی کو کہے گا میں نہیں تم کو عبادت کرنے دیتا مسلمان کا فر کو کہے گا میں نہیں تم کو تیری عبادت کرنے دیتا کافر مسلمان کو کہے گا میں نہیں تم کو تیری عبادت کرنے دیتا پھر خدا کا نام دنیا میں کوئی بھی نہ لے گا اور خدا کا خانہ خالی ہو جائے گا.آخر خدا کا نام مختلف قوموں نے لینا ہے مسلمان نے اپنے طور پر لینا ہے ، یہودی نے اپنے طور پر لینا ہے ، مجوسی نے اپنے طور پر لینا ہے ، ہندو نے اپنے طور پر لینا ہے اور اگر دوسرے کو خدا کا نام نہیں لینے دیں گے تو بات ختم ہوئی، کوئی بھی اُسکا نام نہیں لے گا.تو فرماتا ہے اگر ہم یہ طریق اختیار نہ کریں کہ ایسے موقع پر لڑائی کی اجازت دے دیں تو لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ.صَوَامِعُ اُن جگہوں کو کہتے ہیں جہاں لوگ عبادت کے لئے بیٹھتے ہیں جیسے ہمارے ہاں تکیے ہوتے ہیں.بیع.بیع نصاریٰ کی عبادت گاہوں کو کہتے ہیں.وصَلَوت.صلوۃ یہودیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں.عبرانی میں اُسے صلوۃ کہتے ہیں.اور مسلمانوں کی مساجد جن میں خدا کا نام لیا جاتا ہے یہ سب توڑی جاتیں.وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ اور جو لوگ خدا کا نام لینے والے ہیں وہ گویا خدا کے نام کو دنیا میں زندہ رکھ رہے ہیں اور جو خدا کے نام کو زندہ رکھے گا اُس کی خدا بھی مدد کریگا.اِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ اور یقینا خدا بڑاز بر دست اور غالب ہے.یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ان کو دنیا میں حکومت دی جائے تو یہ نمازیں قائم کریں گے اور ز کو تیں دیں گے اور امر بالمعروف کریں گے اور بُری باتوں سے لوگوں کو روکیں گے.

Page 320

انوار العلوم جلد 24 285 سیر روحانی (7) وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ اور چونکہ یہ دنیا میں پھر خدا کی حکومت قائم کریں گے اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ان کو لڑائی کی اجازت دے دی جائے.اسلام آزادی ضمیر کو کچلنے کی اجازت نہیں دیتا یہ قرآن کریم نے ہمیں آئندہ کے لئے سبق دیا ہے صرف اُس زمانہ کی بات نہیں بلکہ قرآن شریف نے پیشگوئی بیان کی ہے اور اِس میں اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بتایا ہے کہ اگر مسلمان بچے طور پر مسلمان بنیں اور اس تعلیم پر عمل کریں جو خدا تعالیٰ نے بیان کی ہے اگر لوگوں کے ظلم برداشت کریں اور آپ ظالم نہ بنیں، حریت ضمیر دیں حریت ضمیر چھینیں نہیں، مسجدوں کو گرائیں نہیں، معبدوں کو بند نہ کریں بلکہ ہر ایک کو مذہب کی آزادی دیں دُنیا میں انصاف اور امن کو قائم رکھیں اور ہر ایک کو اس کا حق دیں تو كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللَّهِ الى کو اللہ تعالیٰ تھوڑے ہونے اور بے سامان ہونے کے باوجود زیادہ تعداد والوں اور سامان والوں پر غلبہ دے دیا کرتا ہے.گویا اگر پاکستانی اِس قسم کے مسلمان بن جائیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ چونکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ اِنْ تَكُن مِّنكُم عِشْرُونَ طَبِرُونَ يَغْلِبُوا مِائَتَيْنِ وَإِنْ يَكُن مِنْكُمْ مِائَةٌ يَغْلِبُوا الْفَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَفْقَهُونَ 35 یعنی اگر تم میں سے ہیں صابر ہوں تو وہ دو سو آدمی پر غالب آجائیں گے اور اگر تم میں سے ایک سو ایسا ہو تو وہ ایک ہزار پر غالب آجائے کیونکہ وہ سمجھتے نہیں تم سمجھتے ہو ( میں آگے چل کر بتاؤ نگا کہ سمجھنے اور نہ سمجھنے کا مطلب کیا ہے) اس جگہ اللہ تعالیٰ نے ایک عام قانون بتا دیا ہے.کہ دس گنا طاقت پر مسلمان غالب آسکتے ہیں.اب پاکستان کی آبادی کہتے ہیں سات کروڑ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اگر پاکستانی ایسے مسلمان بن جائیں تو ستر کروڑ کے ملک پر یہ غالب آسکتے ہیں اور دنیا میں ستر کروڑ کا کوئی ملک نہیں.بڑے سے بڑا ملک چین ہے اُسکی بھی پچاس کروڑ کی آبادی ہے.دوسرے نمبر پر ہندوستان ہے اُس کی تیس کروڑ کی آبادی ہے لیکن قرآن کریم کے حکم کے ماتحت اگر پاکستان کے مسلمان اس قسم کے مسلمان بن جائیں جیسے قرآن کہتا ہے کہ

Page 321

انوار العلوم جلد 24 286 سیر روحانی (7) بن جاؤ یعنی نہ وہ لوگوں پر ظلم کریں، نہ حریت ضمیر میں دخل دیں، نہ وہ غیر مذاہب کو اپنے مذہب پر جبر آلانے کی کوشش کریں اور نہ کسی کا حق ماریں بلکہ لوگوں کو اچھی باتوں کی تعلیم دیں، بُری باتوں سے روکیں اور لوگوں پر اس طرح روپیہ خرچ کریں کہ ملک ترقی کرے.زکوۃ کے معنے ترقی کے بھی ہوتے ہیں پس زکوۃ دینے کے یہ معنے ہیں کہ ملکی ترقی کے لئے کوشش کریں اور خدا تعالیٰ کیلئے اپنے آپکو بنا دیں تو فرماتا ہے تمہارے دس، سو پر غالب آسکتے ہیں گویا سات کروڑ پاکستانی مسلمان ستر کروڑ پر غالب آسکتے ہیں اور ستر کروڑ کی حکومت دنیا میں کوئی نہیں.بڑی سے بڑی حکومت پچاس کروڑ کی ہے تو گویا اس کے معنے یہ ہیں کہ اگر صرف پاکستان کے مسلمان ہی ایسے بن جائیں تو وہ دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت کو شکست دے سکتے ہیں اور ساری دنیا کے مسلمان، عیسائی کہتے ہیں کہ چالیس کروڑ ہیں اور مسلمان کہتے ہیں ساٹھ کروڑ ہیں.اس حساب سے اگر چالیس کروڑ بھی تسلیم کریں تو چار ارب پر یہ مسلمان غالب آسکتے ہیں بشر طیکہ وہ اس قسم کے مسلمان بن جائیں جس قسم کے مسلمان بننے کے لئے قرآن کہتا ہے.اور اگر وہ ساٹھ کروڑ ہوں جیسا کہ مسلمان کہتے ہیں تو اس صورت میں چھ ارب پر غالب آسکتے ہیں لیکن دنیا کی ساری آبادی سوا دو ارب ہے.گویا اگر مسلمان ساری دنیا سے بھی لڑیں تو قرآنی وعدہ کے مطابق دنیا کی آبادی اگر ڈگنی بھی ہو جائے تب بھی وہ اُن پر غالب آسکتے ہیں.یہ کتنی عظیم الشان بات ہے لیکن اس کے باوجود مسلمان کیوں کمزور ہیں ؟ اس لئے کہ وہ اُن شرطوں کو پورا نہیں کرتے.ان شرطوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہماری مدد تمہیں تب حاصل ہو گی جبکہ تم میرے لئے لوگوں کی دشمنی سہیڑو، میرے نام کو روکنے کے لئے لوگوں کی دشمنی نہ کرو بلکہ میری خاطر لوگوں کی دشمنی سہیڑو.لوگوں کے ظلم سہو اور دنیا میں جو لوگ میرا نام لینے والے ہیں چاہے وہ عیسائی ہو کے میرا نام لیں، چاہے وہ یہودی ہو کے میرا نام لیں یا مجوسی ہو کر میرا نام لیں جب بھی کوئی میرا نام لے تو کہو ہاں یہ تو ہمارے خدا کا نام لے رہا ہے.گویا نمایاں چیز بتادی ہے کہ کونسے اخلاق کے بعد خدا کی مدد آتی ہے اور فرماتا ہے تم اس لئے غالب آؤ گے کہ وہ نہیں سمجھتے یعنی جو تعلیم تمہیں دی گئی ہے اس کے

Page 322

انوار العلوم جلد 24 287 سیر روحانی (7) خلاف وہ غیر اسلامی تعلیم پر عامل ہیں.اسلام کہتا ہے کہ تم کسی پر ظلم نہ کرو لیکن غیر اسلام کہتا ہے کہ سب پر ظلم کرو اس میں تمہارا فائدہ ہے ، اسلام کہتا ہے کہ تم کسی کی حریت ضمیر میں دخل نہ دو اور غیر مذاہب یہ کہتے ہیں کہ بے شک حریت ضمیر میں دخل دو، اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص خدا کا نام لیتا ہے تو چاہے وہ ہندو ہو ، عیسائی ہو ، یہودی ہو کسی قوم کا ہو اسکو موقع دو اور کہو کہ تو بے شک نام لے لیکن غیر اسلامی کہتے ہیں کہ اگر ہمارے گرجے میں خدا کا نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ، اگر ہمارے صلوۃ میں نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ، اگر ہمارے مندر میں نام لیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ ہم نہیں لینے دیں گے.آج مسلمان بھی یہی کہتا ہے چنانچہ دیکھ لو کیا ان میں سے کوئی بات بھی ہے جو مسلمان نہیں کر رہا؟ کیا آج کا مسلمان یہ نہیں کہہ رہا کہ یا تو ہماری طرح کی نماز پڑھو ورنہ ہم نہیں پڑھنے دیں گے ، یا تو ہماری طرح فتوے دور نہ تمہیں فتویٰ نہیں دینے دیں گے، یا تو ہماری طرح کام کرو ورنہ ہم تمہیں سزا دیں گے.کیا آج ہماری فقہ میں نہیں لکھا ہوا کہ یہودیوں اور عیسائیوں کو نئے معبد بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی یا گرجے بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی لیکن یہ کہتا ہے کہ ہم اس لئے لڑتے ہیں تاکہ گرجوں کو بچائیں.قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ کو لڑنے کی اجازت اس لئے دی گئی ہے کہ یہودیوں کے عبادت خانوں کو گرنے سے بچایا جائے، قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لڑنے کی اِس لئے اجازت دی گئی ہے کہ مانک (MONK) یا راہب وغیرہ جو بیٹھے عبادت کر رہے ہیں اُن کو نقصان نہ پہنچے لیکن اب ہر ایک بات کے خلاف کرنے کے لئے مسلمان یہ کہتا ہے کہ دوسروں کے معبد توڑنے جائز ہیں، لوگوں سے لڑائی بھی جائز ہے، لوگوں کے مذاہب میں دخل دینا بھی جائز ہے، لوگوں سے جبراً اپنی ضی منوانا بھی جائز ہے لیکن قرآن کہتا ہے کہ تمہیں اس طرح فتح نصیب نہیں ہو گی.تمہیں فتح تب نصیب ہو گی جبکہ تم لوگوں کو آزادی دو گے ، جبکہ تم لوگوں کو حریت ضمیر دوگے، جبکہ تم لوگوں کے مذہب میں دخل نہیں دو گے اور کہو گے کہ بیشک یہ مذہب رکھو یہ خدا کا معاملہ ہے.اب یہ سیدھی بات ہے کہ دنیا کی رائے ہی آخر جیت کا موجب

Page 323

انوار العلوم جلد 24 288 سیر روحانی (7) بنتی ہے.ہٹلر نے لڑائی کی اور بڑی منتظم لڑائی لڑا مگر آخر وہ ہارا اسلئے کہ دنیا کی جو آزاد رائے تھی وہ ساری کی ساری امریکہ اور انگلستان کے ساتھ تھی.روس اور جاپان لڑے، روس کتنی بڑی طاقت ہے مگر وہ ہارا اس لئے کہ دنیا کی ساری کی ساری آزاد رائے جاپان کی ہمدرد تھی اس ہمدردی کی وجہ سے جہاں بھی کسی کا بس چلتا تھاوہ جاپان کی تائید میں تھوڑا بہت کام کرتا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ روس ہار گیا.تو جب کوئی قوم ایسا طریق اختیار کرتی ہے کہ ہر مذہب و ملت کے لئے وہ انصاف کرنے کے لئے تیار ہوتی ہے تو خود دوسروں کے گھروں میں اُن کے جاسوس پیدا ہو جاتے ہیں اور ہر جگہ اُسے مدد ملنی شروع ہو جاتی ہے اور وہ جیتنے شروع ہو جاتے ہیں.یروشلم کے عیسائیوں پر اسلامی جب یروشلم پر مسلمان گئے تو عیسائی لشکر حملہ آور ہوا اُس وقت مسلمانوں حکومت کا غیر معمولی اثر نے فیصلہ کیا کہ ہم مقابلہ کی طاقت نہیں رکھتے ہم پیچھے ہٹیں گے.جب پیچھے ہٹنے لگے تو یروشلم کے لوگ بلکہ پادری بھی روتے ہوئے آتے تھے اور ساتھ ساتھ کہتے جاتے تھے کہ خدا تم کو ہمارے ملک میں پھر لائے کیونکہ ہم نے امن تمہارے ذریعہ سے ہی دیکھا ہے.حالانکہ اُن کی اپنی عیسائی حکومت تھی اور قیصر کے متعلق سمجھا جاتا تھا کہ وہ گویا پوپ کا قائم مقام ہے اور بادشاہ ہونے کے علاوہ وہ مذہبی طور پر بھی لیڈر ہے مگر وہ اُس کی حکومت کو توڑنے والی حکومت کے لئے باہر نکلے تھے.اگر مسلمان مذہبی معاملات میں دخل دیتے، اگر وہ اُن کے گر جوں میں دخل دیتے اور اگر وہ اُن پر سختیاں کرتے جو ہماری فقہ کی کتابوں میں لکھی ہیں تو ان کی عقل ماری ہوئی تھی کہ وہ روتے ہوئے نکلتے کہ تم ہمارے گھروں میں آؤ، ہمارے گرجے گراؤ اور ہمارے مذہب میں دخل دو وہ لازماً اُن کی مخالفت کرتے اور رومن ایمپائر کی مدد کرتے لیکن حالت یہ تھی کہ وہ روتے تھے.پس جب مسلمان پیچھے ہٹ آئے تو وہ جانتے تھے کہ سے اسلامی لشکر کو تو نکال لائے ہیں لیکن یروشلم میں ہیں ہزار جاسوس چھوڑ آئے ہیں جو ہمیں رومیوں کی خبریں دیں گے اور اُن کے ذریعہ ہم پھر واپس آجائیں گے.پرو

Page 324

انوار العلوم جلد 24 289 سیر روحانی (7) تو یروشلم کا ہر عیسائی مسلمانوں کا جاسوس بن گیا تھا اور اُن کے ساتھ کام کرنے کے لئے تیار ہو چکا تھا.اگر یہی سلوک مسلمان قومیں دوسروں کے ساتھ کرنا شروع کر دیں تو دیکھو فوراً یہ صورت شروع ہو جائے گی کہ غیر ملکوں میں ہمارے ہمدرد پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے اور وہ ہماری مدد کرنی شروع کر دیں گے.یہاں اللہ تعالیٰ نے کامیابی کے لئے صابر ہونے کی شرط لگائی ہے اور صابر کے معنے (1) مصیبت کو برداشت کرنے (2) استقلال سے نیک کاموں میں لگے رہنے اور اختلافات کو نظر انداز کر دینے کے ہوتے ہیں.پس اگر مسلمان باہمی اختلاف چھوڑ کر موت یا نقصانِ مال اور نقصانِ آرام کا ڈر دُور کر دیں.حصولِ مدعا کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے اُن کے لئے استقلال کے ساتھ بغیر وقفہ اور شستی اور تزلزل کے لگ جائیں تو دنیا کی ہر طاقت پر وہ غالب آسکتے ہیں بشر طیکہ وہ مظلوم ہوں ، کسی کے حق پر دست اندازی نہ کریں اور حریت ضمیر کو قائم کرنے کے ذمہ دار ہوں نہ کہ ڈنڈے سے اپنا مذ ہب منوانے پر تل جائیں جس سے منافقت بڑھتی ہے اور صفوں میں خلا پیدا ہو جاتا ہے اور دشمن کے ایجنٹ اُن ممالک میں پیدا ہو جاتے ہیں.36 ہفتم دوسری حکومتوں کے نوبت خانوں سے تو یہ اعلان کئے جاتے ہیں کہ فلاں حکومت کی فوجیں ہمارے ساتھ ہیں لیکن اس نوبت خانہ سے تو یہ اطلاع دی جاتی تھی کہ سب دنیا کی حکومتیں ہمارے خلاف ہیں اور کسی کی حمایت ہم کو حاصل نہیں.چنانچہ فرمایا الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوهُمُ 30 مسلمانوں کے پاس لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ اب تو ساری دنیا تمہارے خلاف اکٹھی ہو گئی ہے مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی اعلان کیا گیا کہ گو ساری دنیا تمہارے خلاف ہو گی مگر چونکہ تم مظلومیت میں ہو اور مظلومیت کی وجہ سے تم اپنے دفاع کے لئے جنگ کرتے ہو اور چونکہ تم اخلاق اور حریت ضمیر کے لئے جنگ کرنے لگے ہو اس لئے گو تمام زمینی حکومتوں نے تمہارے خلاف اجتماع کر لیا ہے لیکن آسمانی حکومت نے تمہاری تائید کا فیصلہ کر دیا ہے.وَلَيَنْصُرَنَّ الله مَنْ يَنْصُرُہ اور خدا اُس کی تائید کرے گا جو اُس کی مدد

Page 325

انوار العلوم جلد 24 290 سیر روحانی (7) کرے گا.جو لوگ اس لئے جنگ کرتے ہیں کہ دین کے معاملہ میں انسان جبر نہ کریں بلکہ دین کا معاملہ صرف خدا اور بندے پر چھوڑ دیا جائے وہ در حقیقت خدا تعالیٰ کے لئے جنگ کرتے ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ اُن کے ساتھ ہو کر جنگ کرے گا.پھر فرمایا اِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِينَ الَنْ يَكْفِيَكُمْ أَنْ تُمِدَّكُمْ رَبُّكُم بِثَلَثَةِ الفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُنْزَلِينَ - بَلَى إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا وَ يَأْتُوكُمْ مِنْ فَوْرِهِمْ هُذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ الفِ مِنَ الْمَلَكَةِ مُسَوّمِيْنَ 37 مؤمنوں کو کہدو کہ تم تھوڑے بھی ہو دشمن کے پاس سامان بھی زیادہ ہے لیکن کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ خدا تمہاری مدد کے لئے تین ہزار فرشتے اُتار دے.بلکہ اگر تم صبر کرو اور تقویٰ سے کام لو اور دشمن تم پر فوری حملہ بھی کر دے تو خدا تم سے وعدہ کرتا ہے کہ وہ پانچ ہزار فرشتے بھیجے گا جو مُسَوّم ہونگے.یعنی نڈر ہو کر اپنے گھوڑے دشمن کی صفوں میں پھینک دیں گے اور اُسے غارت کر دیں گے.اس فقرہ میں تو دراصل الہی مدد کا ذکر تھا مگر کچھ لوگ رسمی مؤمن ہوتے ہیں وہ ہر چیز کے لئے جسمانی نسخہ تلاش کرتے ہیں پس ڈر ہو سکتا تھا کہ کچھ بیو قوف ایسے بھی ہوں کہ جو سچ سچ فرشتوں کو لائیں اور سچ سچ اُن کو دوڑائیں اور لڑائیاں کروائیں اِس لئے فرمایا وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلَّا بُشْرَى لَكُمْ وَلِتَطْمَينَ قُلُوبُكُم بِهِ ۖ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِ اللهِ الْعَزِيزِ الْحَکیم 38 یعنی ہم نے جو کہا ہے کہ فرشتے اُتارنے ہیں تو اس کے یہ معنے نہیں کہ فرشتے آدمی بن کر آئیں گے اور تلواریں لے کر لڑیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمہیں یہ خوشخبری دی گئی ہے کہ وہ تمہارے دلوں کو مضبوط کریں گے اور دشمنوں کے دلوں میں تمہارا رعب پیدا کر دیں گے اور اصل مدد خدا کی طرف سے آتی ہے فرشتے انسانی جسم میں نہیں آیا کرتے..دنیا میں خدائی حکومت قائم کئے جانے کا اعلان بہشتی دوسری حکومتیں جب حملہ کرتی ہیں تو بڑے زور سے اعلان کرتی ہیں کہ ہم آزادی دینے کے لئے آئے ہیں جیسے انگریزوں نے عربوں سے کیا.پچھلی جنگ میں انہوں نے عربوں سے کہا کہ ہم تمہیں

Page 326

انوار العلوم جلد 24 291 سیر روحانی (7) آزاد کرنے آئے ہیں اور کیا کیا؟ کیا یہ کہ شام اور لبنان فرانس کو دیدیا عراق پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا، اسی طرح اُردن بھی لے لیا، فلسطین پر بھی آپ قبضہ کر لیا اور اس طرح ملک کو بانٹ لیا.لیکن لڑائی ہوئی تو کہا.اُٹھو! اُٹھو! !شاباش!ہم تمہاری آزادی کے لئے آئے ہیں.یا جرمنی نے ہالینڈ اور بیجیئم میں اپنی فوج داخل کر دی بغیر اس کے کہ وہ لڑائی میں شامل ہوتے اور اعلان کر دیا کہ چونکہ ہالینڈ اور بیجیم کی آزادی انگریزوں اور فرانسیسیوں کی وجہ سے خطرہ میں ہے اور وہ ان ملکوں پر قبضہ کر لیں گے اس لئے ہم انہیں بچانے کے لئے آرہے ہیں.اسی طرح ڈنمارک پر قبضہ کر لیا اور کہا کہ ہم ڈنمارک کو بچانے کے لئے آئے ہیں.اب پیچھے ہندوستان نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ پولیس ایکشن ہے ان لوگوں میں امن قائم کرنے کے لئے ہماری فوجیں داخل ہوئی ہیں.یا روس نے لیتھونیا اور استھو نیا اور لٹویا پر حملہ کر دیا اور کہا ہم ان تینوں ملکوں کو آزاد کروانے کے لئے آئے ہیں.اس آزادی کے بعد یہ تینوں ممالک ضلع بن کر رہ گئے اور روس کے اندر شامل ہیں.صرف فرق یہ ہوتا تھا کہ فساد کا دھارا بدل جاتا تھا یعنی پہلے فساد اس طرف ہو تا تھا پھر اس کا رُخ اس طرف ہو جاتا تھا لیکن اسلامی نوبت خانہ میں جو وعدہ کیا گیا ہے وہاں یہ فرماتا ہے کہ ہم نے ان کو فتح ہی اس شرط سے دینی ہے کہ الَّذِینَ اِنْ مكتهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوا عَنِ الْمُنْكَرِ وَ لِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمورِ یہ نہیں ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم ایسا کریں گے بلکہ فرماتا ہے جب ہم ان کو حکومت بخشیں گے تو:.(1) وہ عبادت الہی کریں گے اور عبادت الہی کی آزادی دیں گے.(2) جب ہم ان کو حکومت دیں گے تو وہ غرباء کی مدد کریں گے اور گرے ہوؤں کو اُٹھائیں گے.(3) جب ہم ان کو حکومت دیں گے تو وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو حُسنِ سلوک اور اخلاق اور انصاف کی نصیحت کریں گے.(4) یہ کہ وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو تمام نا پسندیدہ امور سے خواہ دنیوی ہوں یا دینی،

Page 327

انوار العلوم جلد 24 292 سیر روحانی (7) اخلاقی ہوں یا معاشی یا اقتصادی یا علمی روکیں گے.(5) اور اُن کا رویہ ایسا منصفانہ ہو گا کہ یہ معلوم نہیں ہو گا کہ انسان حکومت کر رہا ہے بلکہ یوں معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ زمین پر اتر آیا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الأمور.اُس وقت یوں معلوم ہو گا کہ خدا آسمان سے اترا ہے.آب دیکھو جن لوگوں کے ساتھ یہ وعدہ تھا وہ ایسے ہی ثابت ہوئے کیونکہ ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ تھا کہ ہم تمہیں اس لئے حکومت دے رہے ہیں کہ تم نے یہ یہ کام کرنا ہے.مساواتِ اسلامی کی ایک شاندار مثال چنانچہ دیکھ لو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ کا واقعہ ہے آپ مکہ مکرمہ میں حج کے لئے گئے.اُن دِنوں عرب کا ایک عیسائی بادشاہ بھی مسلمان ہو چکا تھا وہ بھی مکہ میں حج کے لئے آیا تو کسی مجلس میں بیٹھا ہوا باتیں کر رہا تھا کہ ایک غریب آدمی جو بے چارہ کوئی مزدور تھا پاس سے گزرا اور اتفاقا اُس کا پیر اُس کے کپڑے پر پڑ گیا.وہ تو اپنے آپ کو بادشاہ سمجھتا تھا اور بادشاہ بھی وہ کہ کب برداشت کر سکتا تھا کہ کوئی شخص اتنی بے احتیاطی سے چلے کہ پاؤں اُس کے کوٹ پر پڑ جائے.اس نے زور سے اُسے تھپڑ مارا اور کہا بے شرم ! تیری کیا حیثیت ہے کہ تُو اِس طرح بے احتیاطی سے چلے کہ تیرا پیر میرے کوٹ پر پڑ جائے وہ بیچارہ صبر کر کے چلا گیا.اُسی مجلس میں کوئی صحابی بیٹھا تھا اس نے کہا تم نے بڑی غلطی کی ہے.اُس نے کہا کیوں؟ میں بادشاہ نہیں ہوں ؟ وہ کہنے لگا اسلام میں بادشاہت وغیرہ کچھ نہیں ہوتی تم کو تھپڑ مارنے کا کیا حق تھا.اگر اُس نے کوئی قصور کیا تھا تو تم قضاء میں جاتے اور اُس پر دعویٰ کرتے، تمہارا اس کو مارنے کا کوئی حق نہیں تھا.کہنے لگا تو کیا اسلام میں بادشاہ اور غیر بادشاہ کا کوئی فرق نہیں کیا جاتا؟ انہوں نے کہا کوئی فرق نہیں کیا جاتا.وہ کہنے لگا اچھا میں عمر کے پاس جاتا ہوں.اُٹھ کے عمرؓ کے پاس گیا دربار لگا ہوا تھا سارے لوگ بیٹھے ہوئے تھے جا کر حضرت عمر سے کہنے لگا کہ کیوں جی! کیا اسلام میں بد تہذیبی ہوتی ہے کہ اگر کوئی

Page 328

انوار العلوم جلد 24 293 سیر روحانی (7) کسی بادشاہ یا بڑے آدمی کی ہتک کر بیٹھے تو وہ اُس کو مار نہیں سکتا.حضرت عمرؓ نے اُس کی طرف دیکھا اور کہا.(جبلہ اُس کا نام تھا) جبلہ ! تم کسی مسلمان کو مار بیٹھے ہو ؟ خدا کی قسم ! اگر مجھے پتہ لگا تو میں تمہیں اُسی طرح مرواؤں گا.اُس نے اُس وقت تو بہانہ بنایا اور کہا.نہیں نہیں ! میں نے تو کچھ نہیں کیا.مگر یہ کہہ کر واپس گیا اور اُسی وقت گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے ملک کو واپس چلا گیا اور وہاں جا کر مرتد ہو گیا.39 غور کرو! کتنی بڑی طاقت تھی ایک مزدور کے لئے.ایک بادشاہ جاتا ہے اور کہتا ہے اس نے میری ہتک کی ہے تو حضرت عمر کہتے ہیں کہ تم نے اسے مارا ہے تو میں ضرور سزا دونگا.خلافت راشدہ کے عہد میں راشن سیسٹم کا اجراء یہ وہ چیز تھی جو مسلمانوں نے اپنی حکومت میں کی.راشن اور کپڑے کا سسٹم جاری ہوا، امیر اور غریب سب کے لئے حکم ہوا کہ اُن کو کپڑے ملا کریں گے اور کھا نا ملا کرے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا کہ جو راشن اور کپڑا ملا کرے گا اس میں مسلم اور غیر مسلم کا کوئی فرق نہ کیا جائے ہر مذہب و ملت کے آدمی کو اُس کا راشن دیا جائے.ایک بادشاہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسلمان ہوا تو اس نے کہلا بھیجا کہ میرے پاس ایسے لوگ ہیں جو غیر مذاہب کے ہیں میں اُن کے ساتھ کیا سلوک کروں ؟ آپ نے فرمایا اُن کے ساتھ انصاف کا سلوک کرو پیار کا سلوک کرو اور اگر تمہارے پاس ایسے لوگ ہوں چاہے ہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم کہ اُن کے پاس کافی زمین وغیرہ نہ ہو اور کافی غلہ نہ پیدا کر سکتے ہوں تو پھر سرکاری خزانہ سے انہیں غلہ مہیا کرو.اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک غلام کے معاہدہ کا احترام زمانہ میں ایک دشمن فوج گھر گئی اور اُس نے سمجھ لیا کہ اب ہماری نجات نہیں ہے اسلامی کمانڈر دباؤ سے ہمارا قلعہ فتح کر رہا ہے اگر اُس نے فتح کر لیا تو ہم سے مفتوح ملک والا معاملہ کیا جائے گا.ہر مسلمان مفتوح ہونے اور صلح کرنے میں فرق سمجھتا تھا.مفتوح کے لئے تو عام اسلامی قانون جاری ہوتا تھا اور

Page 329

انوار العلوم جلد 24 294 سیر روحانی (7) صلح میں جو بھی وہ لوگ شرط کر لیں یا جتنے زائد حقوق لے لیں لے سکتے تھے.انہوں نے سوچا کہ کوئی ایسا طریق اختیار کرنا چاہئے جس سے نرم شرائط پر صلح ہو جائے.چنانچہ ایک دن ایک حبشی مسلمان پانی بھر رہا تھا اس کے پاس جاکر انہوں نے کہا کیوں بھئی ! اگر صلح ہو جائے تو وہ لڑائی سے اچھی ہے یا نہیں ؟ اس نے کہاہاں ! اچھی ہے.وہ حبشی غیر تعلیم یافتہ تھا.انہوں نے کہا کہ پھر کیوں نہ اس شرط پر صلح ہو جائے کہ ہم اپنے ملک میں آزادی سے رہیں اور ہمیں کچھ نہ کہا جائے ہمارے مال ہمارے پاس رہیں اور تمہارے مال تمہارے پاس رہیں.وہ کہنے لگا بالکل ٹھیک ہے.انہوں نے قلعہ کے دروازے کھول دیئے.اب اسلامی لشکر آیا تو انہوں نے کہا ہمارا تو تم سے معاہدہ ہو گیا ہے.وہ کہنے لگے معاہدہ کہاں ہوا ہے اور کیس افسر نے کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہم نہیں جانتے ہمیں کیا پتہ ہے کہ تمہارے کون افسر ہیں اور کون نہیں.ایک آدمی یہاں پانی بھر رہا تھا اس سے ہم نے یہ بات کی اور اُس نے ہمیں یہ کہہ دیا تھا.مسلمانوں نے کہا دیکھو ایک غلام نکلا تھا اُس سے پوچھو کیا ہوا؟ اُس نے کہا ہاں! مجھ سے یہ بات ہوئی ہے.انہوں نے کہا وہ تو غلام تھا اُسے کس نے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا تھا انہوں نے کہا ہمیں کیا پتہ ہے کہ یہ تمہارا افسر ہے یا نہیں.ہم اجنبی لوگ ہیں ، ہم نے سمجھا یہی تمہاراجر نیل ہے.اس افسر نے کہا میں تو نہیں مان سکتا لیکن میں یہ واقعہ حضرت عمر کو لکھتا ہوں.حضرت عمرؓ کو جب یہ خط ملا تو آپ نے فرمایا کہ آئندہ کے لئے یہ اعلان کر دو کہ کمانڈر انچیف کے بغیر کوئی معاہدہ نہیں کر سکتا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک مسلمان زبان دے بیٹھے تو میں اُس کو جھوٹا کر دوں اب وہ حبشی جو معاہدہ کر چکا ہے وہ تمہیں ماننا پڑے گا.ہاں آئندہ کے لئے اعلان کر دو کہ سوائے کمانڈر انچیف کے اور کوئی کسی قوم سے معاہدہ نہیں کر سکتا.40 غیر مسلموں کے جذبات کا پاس پھر غیر مذاہب کے جذبات کا لحاظ اس حد تک کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی نے آکر شکایت کی کہ مجھے ابو بکر نے مارا ہے.آپ نے حضرت ابو بکر کو بلایا اور فرمایا تم نے اس کو مارا ہے؟ کہنے لگے ہاں ! يَا رَسُولَ اللَّهِ! اِس نے بڑی گستاخی کی

Page 330

انوار العلوم جلد 24 295 سیر روحانی (7) تھی.آپ نے فرمایا کیا گستاخی کی تھی؟ انہوں نے کہا اس نے کہا تھا مجھے اُس خدا کی قسم ہے جس نے موسی کو سارے رسولوں سے افضل بنایا ہے.تو اس نے آپ کی ہتک کی اور حضرت موسی کو سب رسولوں سے افضل قرار دیا.مجھے غصہ آگیا اور میں نے تھپڑ مارا.آپؐ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا.لَا تُفَضِلُونِي عَلَى مُؤسَى 11 تمہارا کیا حق ہے کہ لوگوں کے جذبات کو مجروح کرو.تم مجھے یہودیوں کے سامنے موسی پر فضیلت نہ دیا کرو.کتنا انصاف ہے.کیا دُنیا کا کوئی اور انسان ہے جس نے باوجود اس کے کہ وہ خود دعویدار ہو کہ میں بڑا ہوں کہا ہو کہ دوسروں کے سامنے تم نے مجھ کو موسی پر کیوں فضیلت دی اس کا یہی حق ہے کہ وہ کہے موسیٰ مجھ سے بڑا ہے.پھر فرمایا.وَلَا تَسُبُوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُوا اللهَ عَدُوا بِغَيْرِ عِلْمٍ 12 دیکھو جن بتوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں یا جن انسانوں کی لوگ پوجا کرتے ہیں، اُن کے متعلق کبھی کوئی بُر الفظ نہیں بولنا ورنہ پھر اُن کا بھی حق ہو جائے گا کہ وہ مقابل میں تمہارے خدا کو بھی گالیاں دیں اس طرح تم اپنے خدا کو گالیاں دینے کا موجب بنو گے.گویا قرآن اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ مسلمان اور عیسائی جذبات کے لحاظ سے برابر ہیں، سچے مذہب والا اور جھوٹے مذہب والا دونوں برابر ہیں اگر اس کو حق ہے کہ اُسکے جذبات کو تلف کرے تو اس کا بھی حق ہے کہ وہ ایسا کرے.اگر یہ چاہتا ہے کہ اسکے جذبات کی ہتک نہ کی جائے تو پھر اُس کا فرض ہے کہ وہ دوسرے کے جذبات کی بھی ہتک نہ کرے.جوشِ انتقام میں بھی عدل و انصاف پھر جوش اور غضب میں انتقام کی طرف منتقل نہ ہونے کے لئے فرمایا کو ملحوظ رکھنے کی تاکید يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الاَ تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى * وَ اتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ 13 یعنی اے مؤمنو ! تم اللہ تعالیٰ کے لئے کھڑے.ہو جاؤ.یعنی صرف خدا کی خاطر ہر کام کرو اور خدا تعالیٰ کے لئے تم گواہی دو کہ وہ منصف ہے.یعنی اپنے عمل سے ثابت کرو کہ اگر تم منصف ہو تو پتہ لگ جائے کہ خدا نے تم کو

Page 331

انوار العلوم جلد 24 296 سیر روحانی (7) انصاف کی تعلیم دی ہے اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم کسی سے بے انصافی کر بیٹھو.دشمن بھی ہو تو پھر بھی انصاف کرو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے.اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو جانتا ہے.تقویٰ اختیار نہ کرو گے تو سزا ملے گی گویا اس میں یہ نصیحت کی کہ :- اوّل ہر کام اللہ تعالیٰ کے لئے کرو کسی اور غرض کے لئے نہیں کہ اس غرض کو پورا نہ ہوتے دیکھ کر راستہ بدل لو.دوم خدا تعالیٰ نے جو معیارِ انصاف مقرر کیا ہے اُس کا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کرو اگر وہ نمونہ پیش نہ کرو گے تو لوگ کہیں گے ان کو خدا کی یہ تعلیم نہیں ہے جو یہ کہتے ہیں بلکہ اور تعلیم ہے.ایک ہندو سے حسن سلوک کا شاندار نمونہ سوم اگر کوئی ظلم بھی کرے تو جوش میں آکر ظلم نہیں کرنا بلکہ عدل کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا.مجھے اس پر اپنا ایک واقعہ یاد آگیا.رتن باغ (لاہور) میں ہم رہتے تھے اُس کا مالک چونکہ ایک بارسوخ شخص تھا اور اُس کا بھائی ڈپٹی کمشنر تھاوہ گورنمنٹ کی چٹھی لکھوا کے لایا کہ اُن کا سامان اُن کو دے دیا جائے.یہاں کے افسر اُسوقت بہت زیادہ لحاظ کرتے تھے انہوں نے فوراً لکھدیا کہ ان کو یہ سامان دے دو.ہم جب گئے ہیں تو اُس وقت تک وہ لُوٹا جا چکا تھا دروازے توڑے ہوئے تھے اور بہت سا سامان غائب تھا اور پولیس اُس زمانہ میں ایک لیسٹ بنالیا کرتی تھی کہ یہ یہ اس مکان میں پایا گیا ہے اور چونکہ اُن دنوں ایک دوسرے پر ظلم ہو رہے تھے وہ بہت رعایت کرتے تھے.کیسٹیں عام طور پر نا قص بناتے تھے مثلاً اگر پچاس چیزیں ہوئیں تو چالیس لکھ لیں اور دس رہنے دیں اور کہہ دیا تم لے لو یہ طریق یہاں عام تھا.جب ہم وہاں گئے تو میں نے حکم دیا کہ جتنی چیزیں لسٹ سے زائد ہیں وہ جمع کر کے ایک طرف رکھ دو.چنانچہ وہ سب چیزیں رکھ دی گئیں.جب وہ علم لا یا تو وہ چیزیں جو لکھی ہوئی تھیں وہ دے دی گئیں.پاس سرکاری افسر بھی تھے اور پولیس بھی تھی.اس کے بعد میں نے

Page 332

انوار العلوم جلد 24 297 سیر روحانی (7) اپنے لڑکوں کو بلا کر کہا کہ جو چیزیں میں نے الگ رکھوائی تھیں وہ بھی اس کو دیدو.وہ مسلمان تھانیدار جو اُن کے ساتھ آیا تھا وہ یہ دیکھ کر میرے ایک لڑکے سے لڑ پڑا اور کہنے لگا آپ لوگ یہ کیا غضب کر رہے ہیں ان لوگوں نے ہم پر کیا کیا ظلم کئے ہیں اور آپ ان کی ایک ایک چیز ان کو واپس کر رہے ہیں یہ تو بہت بُری بات ہے مگر اس کے روکنے کے باوجود ہم نے تمام چیزیں نکال کر اس کے سامنے رکھ دیں.انہی چیزوں میں کچھ زیورات بھی تھے وہ میں نے رومال میں باندھ کر ایک الماری میں رکھ چھوڑے جب میں نے دیکھا کہ یہ لوگ اُسے چیزیں دینے میں روک بنتے ہیں تو میں نے سمجھا کہ زیورات اِن لوگوں کے سامنے دینا درست نہیں ایسا نہ ہو کہ یہ اُس سے زیور چھین لیں.یہ لیسوں میں تو ہیں نہیں چنانچہ میں نے وہ رومال رکھ لیا اور اُسے کہلا بھیجا کہ جاتی دفعہ مجھ سے ملاقات کرتا جائے.میری غرض یہ تھی کہ جب وہ آئے گا تو میں علیحدگی میں اُس کے زیورات اُس کے حوالے کر دونگا.چنانچہ جب وہ آیا تو میں نے رومال نکالا اور کہا یہ تمہارے زیورات تھے جو اس مکان سے ہمیں ملے اب میں یہ زیورات تم کو واپس دیتا ہوں اور میں نے بلایا ہی اسی غرض کیلئے تھا کیونکہ میں سمجھتا تھا کہ اگر میں نے لوگوں کے سامنے زیورات واپس کئے تو ممکن ہے سپاہی اور تھانیدار وغیرہ تم سے زیور چھین لیں.وہ حیران ہو گیا اور کہنے لگا کہ جو ہماری اپنی لسٹیں ہیں اُن میں بھی ان زیوروں کا کہیں ذکر نہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے نہیں ہو گا مگر یہ زیور ہمیں تمہارے مکان سے ہی ملے ہیں اس لئے خواہ لسٹوں میں اِن کا ذکر نہ ہو بہر حال یہ تمہارے ہی ہیں.اُس پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ اُس نے وہاں جاکر اخباروں میں اعلان کرایا کہ ہماری لسٹوں سے بھی زائد سامان ہمیں دیا گیا.حکومت کی جو لسٹیں تھیں اس سے ہی زائد سامان نہیں دیا گیا بلکہ جو ہماری لسٹیں تھیں اُن سے بھی زائد سامان دیا گیا.دوسرے دن وہی تھانیدار جو علاقہ کا تھا پھر آیا اور کہنے لگا میں نے ملنا ہے.میں نے اُسے بلوالیا اور پوچھا کیا بات ہے ؟ کہنے لگا مجھے تورات نیند نہیں آئی، میرا خون کھولتا رہا ہے.میں نے کہا.کیوں ؟ کہنے لگا آپ کے آدمیوں نے بڑا بھاری ظلم کیا ہے.ان کم بختوں نے ہمیں لوٹ کر تباہ کر دیا ہے اور آپ ان سے یہ

Page 333

انوار العلوم جلد 24 298 سیر روحانی (7) سلوک کر رہے ہیں.کہنے لگا میں بھی گورداسپور کا ہی ہوں.ہمارے گھر انہوں نے کوٹ لئے ، تباہ کر دیئے وہ تو خیر سرکاری ظلم تھا کہ اس کو لیسٹوں کے مطابق مال دے رہے تھے آخر ساروں کو کب مل رہا ہے.مگر ان لوگوں نے تو جو مال لسٹوں میں نہیں لکھا وہ بھی انہیں لا کر دیا گیا ہے.میں نے کہا میں آپ کو ایک نئی بات بتاؤں ان لوگوں کا کچھ زیور میرے پاس پڑا تھا وہ بھی میں نے ان کو دیدیا ہے وہ اُن کی لسٹ میں بھی نہیں تھا.کہنے لگا یہ تو بڑا ظلم ہے.اتنے ظلم کے بعد آپ کا ان سے یہ معاملہ میری عقل میں نہیں آتا.میں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے آخر میں نے اِن کا مال کیوں رکھ لینا تھا؟ کہنے لگا انہوں نے ہمارا مال وہاں رکھا ہے.میں نے کہا اگر تم ثابت کر دو کہ میری کو ٹھی کا مال اس نے رکھا ہے تو مجھے بڑا افسوس ہو گا کہ میں نے اُس کو اُس کا مال واپس دے دیا ہے.لیکن اگر اُس نے نہیں رکھا کسی اور نے رکھا ہے تو یہ تو بتاؤ کہ کرے کوئی اور بھرے کوئی، مارے کوئی اور سزا کسی کو دی جائے.میں نے کہا تم عدالت میں یہی کیا کرتے ہو.وہ کہنے لگا ہم اس طرح تو نہیں کیا کرتے لیکن یہ تو بری بات ہے کہ یہ اپنا مال لے جائیں.میں نے کہا لے جائیں.یہ تو خدائی مصیبتیں ہیں جو آتی رہتی ہیں.انسان گر کے بھی مر جاتا ہے اور زلزلے آتے ہیں تو بھی تباہ ہو جاتے ہیں کسی انسان پر الزام نہیں آتا.بہر حال اِس نے میر امال نہیں لیا.جس نے لیا ہے اُس کا مال میرے پاس لاؤ پھر میں سوچوں گا کہ رکھ لینا چاہئے یا نہیں چونکہ اس نے ہما را مال نہیں رکھا اسلئے ہم نے بھی اس کا مال نہیں رکھا.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک مجسٹریٹ مجھ سے ملنے کیلئے آیا.اس نے کہا میرے دل میں سخت جلن تھی اور مجھے مسلمانوں کے افعال دیکھ کر سخت تکلیف محسوس ہوتی تھی.مگر میں نے لاہور میں آکر آپ کی تقریر سنی آپ نے یہ بات بتائی تھی کہ ان لوگوں پر ظلم نہیں کرنا چاہئے انہوں نے کیا قصور کیا ہے.اُس دن سے میرے دل کو تسلی ہو گئی.میں نے کہا.خیر کوئی معقول اور شرعی آدمی بھی میرے اس خیال کی تصدیق کر رہا ہے.

Page 334

انوار العلوم جلد 24 299 سیر روحانی (7) غرض اسلام جو ہمیں تعلیم دیتا ہے وہ ایسی ہے کہ اس کے ذریعہ سے دشمن سے دشمن انسان کی گردن بھی شرم سے جھک جاتی ہے لیکن ہمیں یہ کہا جاتا ہے کہ تم اس تعلیم پر عمل کرو کہ جس سے دوست بھی دوست کو ذلیل سمجھنے لگ جائے.ہاں اسلام میں یہ بات جائز ہے کہ اگر کوئی مجرم قبیلہ یا علاقہ میں ایسا ہو رہا ہو کہ ثابت ہو جائے کہ علاقہ کے لوگ اُس پر پردہ ڈال رہے ہیں تو سارے علاقہ پر مجرمانہ کر دیا جائے.ظلم انسان کو اُخروی سزا کا بھی مستحق بناتا ہے چہارم یہ حکم کو ڈینوی اور سیاسی معلوم ہوتا ཧྰུཾ་ ہے مگر فرماتا ہے یاد رکھو کہ تمام اعمال اخلاقی پہلو سے رُوح پر اثر ڈالتے ہیں.پس اگر غلطی کرو گے تو تقویٰ کو اور دین کو نقصان پہنچے گا.پس دشمن کی خاطر نہیں بلکہ اپنے دین کے بچانے کے لئے احتیاط بر تو اور کسی پر ظلم نہ کرو.اور چونکہ یہ امر تقویٰ پر بھی اثرانداز ہو تا ہے اس لئے فرمایا کہ اس غلطی کی سزا سیاسی نہیں بلکہ دینی بھی ملے گی اور خدا تعالیٰ اُخروی زندگی میں ان غلطیوں کو نظر انداز نہیں کرے گا.تم اگر کسی ہندو پر ظلم کرتے ہو یا کسی عیسائی پر ظلم کرتے ہو یا کسی اپنے عقیدہ سے اختلاف کرنے والے : کرتے ہو تو تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں نے اس دنیا میں ظلم کیا ہے مجھے اسی جگہ کوئی سز ایل جائے گی قیامت کے دن خدا نہیں کہے گا کہ تم ظلم کرنے والے مسلمان ہو اور جس پر ظلم کیا جاتا ہے وہ تمہارے نزدیک مسلمان نہیں وہ ہندو کہلاتا ہے یا عیسائی کہلاتا ہے بلکہ خدا کہے گا کہ چونکہ تم نے ضمیر کی حریت کو کھلا اس لئے میں تمہیں سزا دونگا.ہر اخلاقی کمزوری مذہب اور میں دیکھتا ہوں کہ لوگ اپنے اعمال کو اکثر اخلاق سے جُدا کر کے دیکھنے کے عادی روحانیت پر اثر انداز ہوتی ہے ہوتے ہیں ایک اچھا نمازی تجارت میں دھوکا کر لیتا ہے.بڑا نمازی ہوتا ہے خوب وظیفے کرتا ہے لیکن تجارت میں آکر پھٹا ہوا تھان اور تھانوں میں ملا کر دے دے گا کپڑا نا پے گا تو چند گرہ کم دے گا اور اُسکا ضمیر اُسے بالکل ملامت نہیں کرے گا.

Page 335

انوار العلوم جلد 24 300 سیر روحانی (7) حضرت خلیفہ اول فرمایا کرتے تھے کہ کوئی ڈپٹی صاحب تھے جو تہجد بڑی با قاعدگی کے ساتھ پڑھا کرتے تھے اور رشوت کے لئے انہوں نے نو کروں کو کہا ہؤا تھا کہ اگر کوئی رشوت لایا کرے تو تہجد کے وقت اُس کو لانے کے لئے کہا کرو دن کو لوگوں کو پتہ لگ جاتا ہے.غرض انہوں نے تہجد با قاعدہ پڑھنی اور نوکر نے بھی اُس کو با قاعدہ لا کر بٹھا دینا.جب انہوں نے سلام پھیر نا تو اُس نے کہنا جناب میر افلاں مقدمہ ہے.وہ بڑے غصے سے کہتے او خبیث بے ایمان! تو میرا ایمان خراب کرتا ہے.تجھے پتہ نہیں کہ یہ رشوت ہے جو حرام ہے اور اسلام میں منع ہے.وہ کہتا حضور ! آپ ہی میرے ماں باپ ہیں اگر میرے بچوں کو اور بھائی کو نہیں بچائیں گے تو اور کون بچائے گا.اس پر وہ کہتے تو بڑا بے ایمان ہے تو لوگوں کے ایمان خراب کرتا ہے.وہ کہتا جی میں آپ کے سوا کس کے پاس گیا ہوں.وہ کہتے او خبیث ! رکھ مصلی کے نیچے اور جادُور ہو جا میرے آگے سے.پس مصلی کے نیچے رشوت رکھ لینی اور سمجھ لینا کہ اب مصلی کی برکت سے یہ مال پاک ہو گیا ہے اور پھر اُٹھا کے رکھ لینا.تو اکثر لوگ اخلاق اور مذہب کو الگ الگ سمجھتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر اخلاقی کمزوریاں ہوں تو اس سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں.اگر نماز ہم نے پڑھ لی تو اس کے بعد اگر کسی کو تھپڑ مار لیا یا کسی کا روپیہ لوٹ لیا یا کسی سے رشوت لے لی یا کسی پر ظلم کر لیا، کسی پر سختی کرلی تو کیا ہے ہم نے نماز تو پڑھ لی ہے.اللہ تعالیٰ کو کافی رشوت دے دی ہے اللہ میاں اور ہم سے کیا چاہتا ہے.مگر اسلام اس پر زور دیتا ہے کہ خواہ سیاسی امور ہوں خواہ اقتصادی اپنے محرکات کے لحاظ سے سب کے سب دین کا ہی حصہ ہوتے ہیں اور دین کو بڑھاتے یا کم کرتے ہیں عبادت کو اچھا یا خراب بناتے ہیں اور قومی کام بھی اسی طرح اخلاق کی حکومت کے نیچے ہیں جس طرح انفرادی احکام.اخلاق کا دائرہ صرف افراد تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا اصل ہے قومیں اور حکومتیں بھی اس میں شامل ہیں! جس میں اسلام دوسری قوموں سے بالکل ممتاز ہے اور اسی امر پر عمل کرنے سے دُنیا میں صلح اور امان

Page 336

انوار العلوم جلد 24 301 سیر روحانی (7) پیدا ہوتی ہے.باوجود اس کے کہ یورپ انفرادی لحاظ سے انصاف اور آزادی میں ہمارے ملکوں سے بہت بڑھا ہوا ہے.انگلستان میں جو سلوک ایک چور سے کیا جاتا ہے ، جو نیک سلوک ایک بد معاش سے کیا جاتا ہے، جو نیک سلوک ایک ڈاکو سے کیا جاتا ہے ، ہم ایک راستباز اور نیک آدمی سے بھی حکومت میں نہیں کرتے.غرض انفرادی طور پر وہ لوگ امن اور چین دینے میں بہت بڑھے ہوئے ہیں لیکن جب حکومت کا معاملہ آتا ہے تو وہ کہہ دیتے ہیں یہ تو ڈپلومیسی تھی اس سے جھوٹ کا کیا تعلق ہے یہ تو اپنے ملک کی خاطر ایسا کیا گیا ہے.اُنکی تاریخوں میں صفحے کے صفحے ایسے نکلیں گے جن میں یہ ذکر ہو گا کہ میں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا ، میں نے فلاں وقت یہ جھوٹ بولا اور اس پر فخر کریں گے.غرض وہ سمجھتے ہیں کہ اخلاق صرف افراد کیلئے ہیں حکومت کیلئے نہیں لیکن قرآن کہتا ہے کہ قوموں کے لئے بھی اخلاق ہیں، حکومت کیلئے بھی اخلاق ہیں اور افراد کیلئے بھی اخلاق ہیں.اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُنکے اخلاق درست رہیں، اگر قوم چاہتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہو تو اُسے قومی اور سیاسی طور پر بھی سچ بولنا پڑے گا.اُسے قومی اور سیاسی طور پر بھی انصاف کرنا پڑے گا، اُسے قومی اور سیاسی طور پر بھی قوموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کرنا پڑے گا.اور اگر افراد چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک محفوظ رہیں اور اُن کی عزت قائم رہے تو انہیں انفرادی حقوق کے علاوہ قومی طور پر بھی حقوق ادا کرنے پڑیں گے.تو یہ نمایاں فرق ہے اسلام میں اور دوسرے مذاہب میں.دوسرے مذاہب میں یہ بات نہیں.ابھی حال میں ایک سیاسی لیڈر نے کسی جگہ پر بیان دیا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ یہ کہا جاتا ہے کہ سیاسی لیڈروں کو جھوٹ بولنے کا حق ہے اور جب یہ کہا جاتا ہے تو علماء کو بھی یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا.اسلام کے لڑائیوں کے بارہ میں تفصیلی احکام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تعلیم کی جو تشریح فرمائی ہے وہ اُن احکام سے ظاہر ہے جو آپ اُسوقت دیتے تھے جب آپ کسی کو کمانڈر بنا کر جنگ پر بھجواتے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 337

انوار العلوم جلد 24 302 سیر روحانی (7) جب کسی کو جنگ پر بھیجتے تھے تو آپ اُسے نصیحت فرماتے تھے کہ تقویٰ اللہ اختیار کرو اور مسلمانوں کے ساتھ نیک سلوک کرو اور فرماتے تھے اُغْزُوا بِاسْمِ اللهِ وَفِي سَبِيْلِ الله 14 اللہ کا نام لیکر اللہ کی خاطر جنگ کیلئے جاؤ قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ بِاللهِ 45 جو شخص اللہ کا کفر کرتا ہے اُس سے لڑو.اس کے یہ معنے نہیں جس طرح بعض علماء غلط طور پر لیتے ہیں کہ تم کا فروں سے لڑو بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے تم سے لڑائی کی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائے تو اُس سے لڑائی جائز نہیں.لڑائی کیلئے تو حکم ہے کہ اذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ یعنی جنگ کے لئے نکلنے کی تب اجازت دی گئی ہے جب تم سے پہلے لڑائی کی جائے.اس لئے کفر باللہ اس کے بعد جا کر لگے گا.اگر کسی شخص نے لڑائی شروع كَفَرَ کر دی مگر جب تمہارا لشکر پہنچا تو اس نے اسلام کا اعلان کر دیا تو وہ ظلم ختم ہو گیا اب تم کو اُس سے لڑنے کی اجازت نہیں.یہ مطلب نہیں کہ اگر وہ کا فر ہے اور اُس نے لڑائی نہیں کی تو اُس سے جا کر لڑ پڑو.وَلَا تَغُلُّوا 4 اور قطعی طور پر مالِ غنیمت میں خیانت یا سرقہ سے کام نہ لو.وَلَا تَغْدِرُوا 17 اور بد عہدی نہ کرو، کسی کو دھو کا مت دو.اوّل تو مال غنیمت میں کسی قسم کی ناجائز دست اندازی نہ کرو اور پھر جو سزا دویا اُن سے وعدے کرو اُن کو کسی بہانے سے توڑنا نہیں.انگریزی حکومت سب جگہ اسی طرح پھیلی ہے.پہلے چھوٹا سا معاہدہ کر لینا کہ چھاؤنی رہے گی اور ایک افسر رہے گا.پھر کہا کہ ہمارے فلاں سپاہی کو تمہارے آدمیوں نے چھیڑا ہے اس لئے ارد گرد بھی سات آٹھ گاؤں پر ہم اپنا قبضہ رکھیں گے تا تمہارے لوگ ہمارے آدمیوں کو کچھ کہیں نہیں.پھر اس کے بعد یہ کہہ دیا کہ ہمارے آدمی جو اِرد گر د ر کھے گئے تھے اُنکے ساتھ تمہارے آدمی لڑ پڑے ہیں اس لئے ہم مجبور ہیں کہ دارالخلافہ پر اپنا قبضہ رکھیں تا فسادنہ ہو.پھر کہہ دیا تم نے فلاں حکم دیدیا ہے اس سے ملک میں بغاوت پیدا ہوتی ہے اور بغاوت کا ہم پر بھی بُرا اثر پڑتا ہے اس لئے آئندہ جو حکم دیا کریں ہم سے پوچھ کر دیا کریں..

Page 338

انوار العلوم جلد 24 303 سیر روحانی (7) 48 وَلَا تُمَتِّلُوا اور مثلہ نہ کرو.مثلہ کے معنے ہوتے ہیں مرے ہوئے کے ، ناک کان کاٹ ڈالنا.فرماتا ہے کفار اپنی رسم کے مطابق اگر مسلمان مقتولین کے ناک کان بھی کاٹ دیں تو تم اُنکے مر دوں کے ساتھ یہ سلوک نہ کیا کرو.وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيَداً - 19 اور کسی نا بالغ بچے کو مت مارا کرو.یعنی صرف جنگی اور سیاسی سپاہی کو مارو جو لڑنے کے قابل نہیں ابھی نابالغ ہے اُسے نہیں مارنا کیو نکہ وہ بالبداہت جنگ میں شامل نہیں ہوا اور اسلامی تعلیم کے مطابق صرف اُسی کے ساتھ لڑائی کی جاسکتی ہے جو لڑائی میں شامل ہوا ہو.اب اس کے مقابل پر جو کچھ پارٹیشن میں ہو اوہ کیا ہوا، کس طرح سینکڑوں بلکہ ہزاروں بچہ مارا گیا.یہ ایک انتہاء درجہ کا ظلم تھا جو.کیا گیا.اِس طرف کم اور اُدھر زیادہ مگر ہوا دونوں طرف.مجھے یاد ہے لاہور میں ایک رات کو آوازیں آئیں میں نے اپنے دفتر کا ایک آدمی بلوایا اور کہا جاؤ پتہ کر و معلوم ہوتا ہے کسی پر ظلم ہو رہا ہے.وہ دوڑ کر گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا کہنے لگا ایک ہندو تھا جسے مسلمانوں نے گھیر لیا تھا اور اُس کو مارنے لگے تھے.میں نے کہا پھر تم نے اُس کو بچایا کیوں نہیں ؟ اس نے کہا میں آپ کو خبر دینے آیا ہوں میں نے کہا وہ تو اب تک اُسے مار چکے ہونگے جاؤ جلدی.چنانچہ جب وہ واپس گیا تو اُس نے کہا کہ وہ سڑک پر مر ا ہوا پڑا تھا مگر اُس طرف اِس سے کئی گنا زیادہ ظلم ہوا ہے.ہم جس زمانہ میں اُدھر تھے اور یہ لڑائیاں ہو رہی تھیں تو ہمیں پتہ لگتا رہتا تھا کہ کس طرح سے مسلمان مارے جارہے ہیں، لڑکے مارے جاتے تھے ، عور تیں ماری جاتی تھیں اور قسم قسم کے مظالم کئے جاتے تھے.پنڈت نہرو سے ملاقات کا واقعہ چنانچہ جب پارٹیشن ہوئی تو میں جو پہلے اس طرف آیا ہوں تو اسی غرض سے آیا تھا پنڈت نہرو صاحب یہاں آئے ہوئے تھے.میں نے سمجھا کہ اُس سے جا کر بات کروں کہ یہ کیا ظلم ہو رہا ہے.سردار شوکت حیات صاحب کے ہاں وہ ٹھہرے تھے میں نے انہیں ملنے کے لئے لکھا تو انہوں نے وقت دے دیا.میں نے اُن سے کہا ہم قادیان

Page 339

انوار العلوم جلد 24 304 سیر روحانی (7) میں ہیں گاندھی جی اور قائد اعظم کے درمیان یہ سمجھوتا ہوا ہے کہ جو ہندو ادھر رہے گا وہ پاکستانی ہے اور جو مسلمان اُدھر رہ جائے وہ ہندوستانی ہے اور اپنی اپنی حکومت اپنے اپنے افراد کو بچائے اور وہ لوگ حکومت کے وفادار رہیں.قائد اعظم اور گاندھی جی کے اس فیصلہ کے مطابق ہم چونکہ ہندوستان میں آرہے ہیں اس لئے ہم آپ کے ساتھ وفاداری کرنے کے لئے تیار ہیں بشر طیکہ آپ ہمیں ہندوستانی بنائیں اور رکھیں.وہ کہنے لگے ہم تو رکھ رہے ہیں.میں نے کہا کہ آپ کیا ر کھ رہے ہیں فسادات ہو رہے ہیں، لوگ ماررہے ہیں قادیان کے ارد گرد جمع ہو رہے ہیں مسلمانوں کو مارا جا رہا ہے.کہنے لگے آپ نہیں دیکھتے ادھر کیا ہو رہا ہے؟ میں نے کہا ادھر جو ہو رہا ہے وہ تو میں نہیں دیکھ رہا میں تو اُدھر سے آیا ہوں.لیکن فرض کیجیئے ادھر جو کچھ ہو رہا ہے ویساہی ہو رہا ہے تب بھی میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ یہاں کا جو ہندو ہے وہ تو پاکستانی ہے اور اس کی ہمدردی پاکستان گورنمنٹ کو کرنی چاہئے ہم ہیں ہندوستانی، آپ کو ہماری ہمدردی کرنی چاہیئے اِس کا کیا مطلب کہ یہاں کے ہندوؤں پر سختی ہو رہی ہے تو آپ وہاں کے مسلمانوں پر سختی کریں گے؟ کہنے لگے آپ جانتے نہیں لوگوں میں کتنا جوش پھیلا ہوا ہے.میں نے کہا آپ کا کام ہے کہ آپ اس جوش کو دبائیں.بہر حال اگر آپ مسلمانوں کو رکھنا چاہتے ہیں تو آپ کو اُنکی حفاظت کرنی پڑیگی.وہ کہنے لگے ہم کیا کر سکتے ہیں.لوگوں کو جوش اس لئے آتا ہے کہ آپ کے پاس ہتھیار ہیں آپ انہیں کہیں کہ جو ہتھیار ناجائز ہیں وہ چھوڑ دیں.میں نے کہا آپ یہ تو فرمائیے میں اُن کا لیڈر ہوں اور میں انہیں کہتا رہتا ہوں کہ مجرم نہ کرو، شرارتیں نہ کرو، فساد نہ کرو، اگر کسی نے ناجائز ہتھیار رکھا ہوا ہے تو کیا وہ مجھے بتا کر رکھے گا.میں تو انہیں کہتا ہوں مجرم نہ کرو پس وہ تو مجھ سے چھپائے گا اور جب اُس نے اپنا ہتھیار مجھ سے چھپایا ہوا ہے تو میں اُسے کیسے کہوں کہ ہتھیار نہ رکھے.کہنے لگے آپ اعلان کر دیں کہ کوئی احمدی اپنے پاس ہتھیار نہ رکھے.میں نے کہا اگر میں ایسا کہوں تو میری جماعت تو مجھے لیڈر اسی لئے مانتی ہے کہ میں معقول آدمی ہوں.وہ مجھے کہیں گے صاحب! ہم نے آپ کو معقول آدمی سمجھ کے اپنا لیڈر بنایا تھا یہ کیا بیوقوفی

Page 340

انوار العلوم جلد 24 305 سیر روحانی (7) کر رہے ہیں کہ چاروں طرف سے ہندو اور سکھ حملہ کر رہے ہیں اور مار رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ تم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہ رکھو آپ یہ بتائیں کہ ہم جان کیسے بچائیں گے ؟ کہنے لگے.کہیئے ہم بچائیں گے ، حکومت بچائے گی.جب انہوں نے کہا حکومت بچائے گی تو میں نے کہا بہت اچھا.میں اُسوقت اپنے ساتھ تمام علاقہ کا نقشہ لے کر گیا تھا.میں نے کہا قادیان کے گر د 80 گاؤں پر حملہ ہو چکا ہے جو ہندوؤں اور سکھوں نے جلا دیئے ہیں اور لوگ مار دیئے ہیں.میں یہ نقشہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جب میں اُن سے کہوں گا کہ دیکھو! اپنے پاس ہتھیار نہ رکھو کیونکہ حکومت تمہیں بچائے گی تو وہ کہیں گے کہ سب سے آخری گاؤں جو حد پر تھا جس پر حملہ ہوا تو کیا گور نمنٹ نے اُسے بچایا.میں کہوں گا ارے گورنمنٹ خدا تھوڑی ہی ہے.اُسے آخر آہستہ آہستہ پتہ لگتا ہے کچھ عقل کر و دوچار دن میں گورنمنٹ آجائے گی.پھر وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے تین دن ہوئے یہ گاؤں جلا تھا کیا گورنمنٹ نے مسلمانوں کو کوئی امداد دی ؟ میں کہوں گا خیر کچھ دیر تو لگ جاتی ہے تو وہ اگلے گاؤں پر ہاتھ رکھیں گے اچھا ہم مان لیتے ہیں کہ کچھ دیر لگنا ضروری ہے مگر اس گاؤں پر حملہ کے وقت حکومت نے حفاظت کا انتظام کیوں نہ کیا.میں نے کہا یہ 80 گاؤں ہیں.80 گاؤں پر پہنچ کر وہ مجھے فاتر العقل سمجھنے لگ جائیں گے یا نہیں کہ جتنے گاؤں ہم پیش کر رہے ہیں اُن میں سے کسی پر بھی حملہ ہوا تو حکومت نہیں آئی.شر مندہ ہو گئے اور کہنے لگے میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ امن قائم رکھوں گا.میں نے کہا کتنی دیر میں؟ کہنے لگے پندرہ دن میں.پندرہ دن میں ریلیں بھی چلا دیں گے تاریں بھی کھل جائیں گی، ڈاکخانے بھی کھل جائیں گے اور ٹیلیفون بھی جاری ہو جائے گا.آپ چند دن صبر کریں.میں نے کہا.بہت اچھا ہم صبر کر لیتے ہیں لیکن جب پندرہ دن ختم ہوئے تو آخری حملہ قادیان پر ہوا.جس میں سب لوگوں کو نکال دیا گیا.پھر ان حملوں میں بچے مارے گئے اور ایسے ایسے ظالمانہ طور پر قتل کئے گئے کہ بچوں کے پیٹوں میں نیزے مار مار کے انہیں قتل کیا گیا.ہم نے اُسوقت تصویریں لی تھیں جن سے ظاہر ہو تا تھا کہ بچوں کے ناک کاٹے ہوئے ہیں کان چرے ہوئے ہیں پیٹ چرا ہوا ہے

Page 341

انوار العلوم جلد 24 306 سیر روحانی (7) انتڑیاں باہر نکلی ہوئی ہیں اور وہ تڑپ رہے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے چھ چھ مہینہ کے اور سال سال کے تھے جن پر یہ ظلم کیا گیا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لا تَقْتُلُوا ولنگا اِن لوگوں نے تمہارے بچوں کو مارا ہے ان لوگوں نے تمہاری عورتوں کو مارا ہے، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ایک مسلمان عورت کا ایک پیر ایک اونٹ سے باندھ دیا اور دوسرا پاؤں دوسرے سے باندھ دیا اور پھر دونوں کو ایک دوسرے کے خلاف چلا دیا تھا اور پھر چیر کے مار ڈالا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمان عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار مار کر اُن کو مارا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی پر جب کہ وہ مدینہ جانے لگیں اور وہ حاملہ تھی حملہ کیا اور اونٹ کی رستی کاٹ دی جس سے وہ زمین پر گر گئیں اور ان کا حمل ساقط ہو گیا اور پھر وہ مدینہ میں فوت ہو گئیں، یہ وہ لوگ تھے جن سے بدلہ لینے کے لئے مسلمان نکلے تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں بیشک انہوں نے بچوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا، انہوں نے غیر لڑنے والوں کو مارا تھا لیکن تم نے نہیں مارنا.سيرة حلبیہ میں اس کے علاوہ یہ نصیحت بھی درج ہے کہ آپ نے فرمایا.لا تَقْتُلُوا امْرَاج 50 عورت کو بھی نہیں مارنا.پھر فرمایا وَلا كَبِيرًا فَانيا کسی بڑھے کو نہیں مارنا.پھر فرمایاؤلًا مُعْتَزِلاً بِصَوْمَعَةٍ 52 کوئی عبادت گزار ہو مسجدوں یا تکیوں میں بیٹھا ہوا ہو اُس کو بھی نہیں مارنا.اب دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ان کو نہ مارنے کا حکم دیا ہے مگر یہاں گیانی چن چن کر مارے گئے اور وہاں مولوی چن چن کر مارے گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ان کو نہیں چھیڑ نا یہ تو خدا کا نام لے رہے ہیں.کیا تم خدا کا نام مٹانا چاہتے ہو ؟ چاہے کسی طرح لیتے ہیں لیکن لیتے تو خدا کا نام ہیں اسلئے اِن کو نہیں چھیڑنا.پھر فرماتے ہیں.وَلَا تَقْرَبُوا نَخْلاً.53 کھجور کے درخت کے قریب بھی نہ جاؤ.یعنی اُنکو نہ کاٹ دینا کہ کیسی طرح دشمن کو تباہ کریں کیونکہ تم اُن کو تباہ کرنے نہیں جارہے صرف اُن کے ضرر کو دور کرنے کے لئے جارہے ہو تمہارا یہ کام نہیں کہ اُن کی روزی بند

Page 342

انوار العلوم جلد 24 307 سیر روحانی (7) کر دو.پھر فرمایاوَلَا تَقْطَعُوا شَجَرًا 54 بلکہ کوئی درخت بھی نہ کاٹو.کیونکہ مسافر بیچارہ اس کے نیچے پناہ لیتا ہے، غریب بے چارے اُس کے سایہ میں بیٹھتے ہیں اور تم لوگ لڑنے والوں سے لڑنے کے لئے جارہے ہو.اس لئے نہیں جار ہے کہ وہ قوم سایہ سے بھی محروم ہو جائے اِس لئے اُن کو نہیں کاٹنا.پھر فرمایا.وَلَا تَهْدِمُوا بِنَاءً 55 کوئی عمارت نہ گر انا کیونکہ ان کے گرانے سے لوگ بے گھر ہو جائیں گے اور ان کو تکلیف ہو گی.اب دیکھو پچھلے فسادات میں کتنے مکان جلائے گئے.لاہور میں ہزاروں مکان جلائے گئے ، امر تسر میں ہزاروں مکان مسلمانوں کے جلائے گئے ، بلکہ کوئی شہر بھی ایسا نہیں جس میں مسلمانوں کے مکانات دس ہیں یا تیس فیصدی نہ جلائے گئے ہوں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.لَا تَهْدِمُوا بِنَا.ایک مکان بھی تم کو گرانے کی اجازت نہیں کیونکہ تم اس لئے نہیں جارہے کہ لوگوں کو بے گھر کر دو بلکہ اسلئے.رہے ہو کہ ظلم کا ازالہ کرو اس سے آگے تم نے کوئی قدم نہیں اُٹھانا.اسی طرح آپ کی دوسری ہدایات میں ہے کہ ملک میں ڈر اور خوف پیدانہ کرنا.فوجیں جاتی ہیں تو ان کی یہی غرض ہوتی ہے کہ لوگوں کو وہ اتناڈرائیں کہ اُن کی جان نکل جائے.جنرل ڈائر کے ہندوستانیوں پر مظالم چنانچہ 20-1919ء میں امرتسر میں ایک جگہ پر کسی عیسائی عورت کو کسی ہندوستانی نے ذرا سا مذاق کر دیا.اُس وقت انگریزی حکومت نے جنرل ڈائر کو مقرر کیا اور اُس نے حکم دیا کہ ہر شریف سے شریف اور بڑے سے بڑا آدمی یہاں سے گزرے تو گھسٹتا ہوا جائے.بڑے بڑے لیڈروں کو سپاہی پکڑ کر گرا دیتے تھے اور اُسے کہتے تھے کہ یہاں سے گھستا ہوا چل.پھر مُجرم پیش ہوتے تھے تو انہیں بغیر کسی تحقیق کے بڑی بڑی سزائیں دی جاتیں تالو گوں میں خوف پید اہو.ایک انگریز مجسٹریٹ کا واقعہ ہمارے ساتھ ایک عجیب واقعہ گزرا.ایک شخص نے انگریز آفیسر سے لڑائی کی تھی.

Page 343

انوار العلوم جلد 24 308 سیر روحانی (7) مسٹر مانٹیگو جو پہلے وزیر ہند تھے انہوں نے خود ذکر کیا کہ یہاں ایک انگریز افسر تھا وہ کسی سے ذرا ترش کلامی سے بولا تھا تو ہم نے اُسے پہلی سزادی تھی.اس سے پہلے کسی افسر کو سزا نہیں دی تھی.وہی اُن دنوں بدل کے وزیر آباد میں لگا تھا.حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی شہر میں اچھا رسوخ رکھتے تھے اور لوگوں کے ساتھ اُن کا حُسن سلوک تھا.مسلمانوں میں سے اکثر اُن کے شاگر د تھے اور ہندو بھی اُن کا بڑا ادب کرتے تھے.وہ گلی میں سے گزر رہے تھے اور اُس دن رولٹ ایکٹ کے خلاف جلسہ ہو رہا تھا.ہند و مسلمان اکٹھے ہو کر کہہ رہے تھے کہ بائیکاٹ کرو، ہڑتالیں کرو، یہ کرو وہ کرو.پاس سے یہ گزرے تو لوگوں نے کہا.آئیے آئیے مولوی صاحب ! آپ نے نہیں تقریر کرنی.انہوں نے کہا میں نے تو تمہارے خلاف تقریر کرنی ہے اگر تم نے وہ تقریر من لینی ہے تو چلو.انہوں نے کہا.ہمیں یہ بھی منظور ہے آپ خدا کے لئے ضرور تشریف لے چلیں.وہاں کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا.تم ہڑتال کا وعظ کر رہے ہو لیکن تم نے سال سال کا غلہ گھر میں رکھا ہوا ہے، ہڑتال کر کے تمہارا کیا نقصان ؟ روٹی تمہارے گھر میں موجود ہے، ایندھن تمہارے گھر میں موجود ہے ، بھینسیں تمہارے گھروں میں ہیں، گھی گھر تو تمہارے گھر میں موجود ہے، مصالحہ تمہارے گھروں میں ہے، دالیں تمہارے پاس موجود ہیں تین دن بھی ہڑتال ہوئی تو تمہیں پتہ نہیں لگے گا.لیکن وہ بیوہ عورت جو چکی پیس کر شام کو کھانا کھاتی ہے اُس کا کیا بنے گا تمہاری اس ہڑتال سے وہ مرے گی تمہارا تو نقصان نہیں.یہ کہہ کے بیٹھ گئے.انہوں نے اِس کو برداشت کر لیا اور کہا اچھی بات ہے ہم ہڑتال نہیں کریں گے.جب رولٹ ایکٹ کے بعد ہر جگہ مجسٹریٹ مقرر کئے گئے اور مجرم پکڑے گئے تو اُن کا نام بھی پولیس نے ڈائریوں میں بھیجا کہ انہوں نے تقریر کی تھی لیکن آگے لکھا کہ انہوں نے تقریر یہ کی کہ ہڑتال نہیں کرنی چاہئے اس سے ملک کو نقصان پہنچے گا.حافظ صاحب بھی مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہوئے.اُس نے کہا.آپ نے تقریر کی.وہ سمجھتے تھے کہ ہم تو حکومت کی تائید میں ہیں حافظ صاحب نے کہا.میں نے تقریر کی تھی مگر....اس نے کہا ہم مگر وگر نہیں جانتے چھ مہینے قید.انہوں نے کہا.

Page 344

انوار العلوم جلد 24 309 سیر روحانی (7) میں تو.....کہنے لگا.میں میں کوئی نہیں.تم نے تقریر کی چھ مہینے قید.مجھے پتہ لگا تو میں نے گورنر کے پاس اپنا آدمی بھجوایا اور میں نے کہا.ایسے احمق تم لوگ ہو کہ وہ تو یہ تقریر کرتے ہیں کہ ہڑتال نہ کرو اور لوگوں کو سمجھاتے ہیں اور تم اُس کو بجائے انعام دینے کے سزا دیتے ہو.خیر یہ ایسی حیرت انگیز بات تھی کہ آدمی نے مجھے بتایا کہ چیف سیکرٹری نے اُسی وقت تار کے ذریعہ پولیس کی ڈائری منگوائی.مسل میں دیکھا تو لکھا تھا کہ تقریر یہ کی کہ تم کیوں ہڑتالیں کرتے ہو اس سے بیوائیں اور غریب مارے جاتے ہیں.اِس پر اُس نے تار کے ذریعہ احکام دیئے کہ مولوی صاحب کو چھوڑ دیا جائے اور سمتھ کو اُس نے ڈسمس کر دیا کہ تم انگلینڈ واپس چلے جاؤ.تو یہ حال تھا کہ یہ پوچھنا بھی پسند نہ کیا تقریر کی کیا؟ بس تقریر کرنا کافی ہے چھ مہینے قید.لیکن اسلام کہتا ہے کہ ڈرانا نہیں.ایام غدر میں انگریز افسروں کی بربریت غدر کے واقعات دیکھ لو وہاں کی بھی تخویف ہی نظر آتی ہے.ہماری نانی اماں سنایا کرتی تھیں کہ غدر کے وقت میں چھوٹی تھی.میرے والد بیمار ہو گئے فوج میں ملازم تھے لیکن اُن دنوں بیمار تھے اور ڈیڑھ ماہ سے چار پائی سے نہیں اُٹھے تھے میری پانچ چھ سال کی عمر تھی، ہلدی کی طرح اُن کی شکل ہو گئی تھی چارپائی پر پڑے تھے.جب انگریز فوج آئی یکدم سپاہی اور انگریز افسر اندر آئے اور وہ اسی طرح گھروں میں گھتے تھے ساتھ کچھ ہندوستانی جاسوس لئے ہوئے تھے افسر نے کہا یہاں کوئی ہے ؟ انہوں نے میرے باپ کی طرف اُنگلی اُٹھائی کہ یہ بھی لڑائی میں شامل تھا.انہوں نے کہا میں تو بیمار پڑا ہوں کہیں گیا ہی نہیں اس پر افسر نے پستول نکالا اور اُسی وقت انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لیکن وہاں یہ حکم ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عزیز اور آپ کا ایک کی ایک صحابی پر شدید ناراضگی مقرب صحابی ایک جنگ پر جاتا ہے اور جب وہ ایک شخص کو مارنے لگتا ہے تو وہ کہتا ہے صبوت میں صابی ہو گیا ہوں.وہ لوگ اسلام کا نام

Page 345

انوار العلوم جلد 24 310 سیر روحانی (7) نہیں جانتے تھے اور مسلمانوں کو صابی کہتے تھے.صَبَوتُ کا یہ مطلب تھا کہ میں مسلمان ہو تا ہوں.غرض وہ اسلام سے اتنانا واقف تھا کہ نام بھی نہیں جانتا تھا.کہنے لگاصَبَوْتُ.مگر انہوں نے اُس کو مار ڈالا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک یہ خبر پہنچی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلایا اور فرمایا.تم نے اُسے کیوں مارا.انہوں نے کہا.يَارَسُوْلَ اللہ ! اُسے تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ اسلام کیا ہوتا ہے.اُس نے تو صرف اتنا کہا تھا کہ صَبَوْتُ.آپ نے فرمایا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا اس کو نہیں پتہ تھا کہ اسلام کا نام کیا ہے لیکن اس کا مطلب تو یہی تھا کہ میں اسلام میں داخل ہو تا ہوں.تم نے اس کو کیوں مارا؟ انہوں نے کہا.يَا رَسُولَ اللهِ ! میں نے مارا اس لئے کہ وہ جھوٹ بول رہا تھا.آپ نے فرمایا.نہیں.پھر آپ نے فرمایا تو قیامت کے دن کیا کرے گا جب خدا تجھ سے کہے گا کہ اس شخص نے یہ کہا اور پھر بھی تو نے اُسے قتل کر دیا.اسامہ آپ کے نہایت ہی محبوب تھے.وہ کہتے ہیں میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اِس ناراضگی کو دیکھ کر اپنے دل میں کہا.اے کاش! میں اس سے پہلے کا فر ہو تا اور آج میں نے اسلام قبول کیا ہوتا تا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا مورد نہ بنتا.کے اب کجا یہ احتیاط کا حکم اور کجا یہ کہ یو نہی مارے چلے جاتے ہیں تاکہ سارے ملک میں خوف اور ڈر پیدا کر دیا جائے.اسلام کی طرف سے مفتوحہ ممالک اسی طرح فرماتے ہیں کہ جب مفتوحہ ممالک میں جاؤ تو ایسے احکام کے لئے سہولتیں مہیا کرنے کا حکم جاری کرو جن سے لوگوں کو آسانی ہو تکلیف نہ ہو.اور فرمایا جب لشکر سڑکوں پر چلے تو اس طرح چلے کہ عام مسافروں کا راستہ نہ رکے.ایک صحابی کہتے ہیں ایک دفعہ لشکر اس طرح نکلا کہ لوگوں کے لئے گھروں سے نکلنا اور راستہ پر چلنا مشکل ہو گیا.اس پر آپ نے منادی کروائی کہ جس نے مکانوں کو بند کیا یا راستہ کو روکا اُس کا جہاد جہاد ہی نہیں ہوا.57

Page 346

انوار العلوم جلد 24 311 سیر روحانی (7) دنیا کے نوبت خانے جنونِ جنگ دنیوی نوبت خانوں کے ذریعہ سپاہیوں پیدا کر نے کیلئے اور سپاہ میں جوش میں جنونِ جنگ پیدا کرنے کی کوشش پیدا کرنے کے لئے ہوتے ہیں.اس لئے کبھی دشمن کے مظالم سنائے جاتے ہیں کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ گویا اس سے ملک کو سخت خطرہ لاحق ہو گیا ہے.کہیں اپنی سپاہ کی تعریف کے پل باندھے جاتے ہیں کہ وہ یوں ملک کے ملک تسخیر کرے گی.کبھی فتح کے وقت سپاہیوں کو لوٹ مار کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ اُن کے حوصلے بڑھیں.کبھی اُن کے ظلم پر پردہ ڈالا جاتا ہے غرض ایک دیوانگی پیدا کی جاتی ہے.اسلام جنون اور وحشت کو دُور کرتا ہے مگر اسلامی نوبت خانہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے وہ ایسے اعلان کرتا ہے کہ جس سے جنون کم ہو اور وحشت دُور ہو.مگر باوجود اس کے وہ ایسے اخلاقی معیاروں پر انہیں لے جاتا ہے کہ اُن کے حوصلے شیر وں اور بازوں سے بڑھ جاتے تھے.چنانچہ اسلام کہتا ہے تم کو مکان روکنے کی اجازت نہیں، تم کو سڑکیں روکنے کی اجازت نہیں، تم کو سختی کی اجازت نہیں، تم کو عورتوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بچوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بڑھوں کے مارنے کی اجازت نہیں، تم کو عام شہریوں کو مارنے کی اجازت نہیں، تم کو بد عہدی کرنے کی اجازت نہیں، تم کو پادریوں اور پنڈتوں اور گیانیوں کو مارنے کی اجازت نہیں ، تم کو درخت کاٹنے کی اجازت نہیں.گویا اُس کو ہیجڑا بنا کے رکھ دیتا ہے اور پھر اُمید رکھتا ہے کہ جا اور دشمن کو فتح کر اور پھر اُسکا نقشہ کھینچتا ہے کہ چونکہ ہم نے اُس کو جن باتوں سے روکا ہے وہ سب غیر اخلاقی ہیں اور اُس کی ہنیت ہم نے اخلاقی بنادی ہے اس لئے باوجود اسے غیر اخلاقی باتوں سے روکنے کے اُسکی بہادری میں فرق نہیں پڑا.چنانچہ فرماتا ہے.فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ 58 اُن میں سے وہ لوگ بھی ہیں جنہوں نے شہید ہو کر اپنے گوہر مقصود کو پالیا اور وہ لوگ بھی ہیں جو ابھی اس انتظار میں بیٹھے ہیں کہ کب انہیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں

Page 347

انوار العلوم جلد 24 312 سیر روحانی (7) قربان ہونے کی سعادت حاصل ہوتی ہے.دیکھو ! تم کہتے ہو کہ شرابیں ہم اس لئے پلاتے ہیں تاہمار اسپاہی پاگل ہو جائے.تم کہتے ہو ہم اُسے ٹوٹنے کی اس لئے اجازت دیتے ہیں کہ اُس کے اندر جوش جنون پیدا ہو اور رغبت پیدا ہو ہم اس لئے جھوٹی خبریں مشہور کرتے ہیں تا دشمن بد نام ہو.جنگ عظیم میں جرمنوں کے خلاف مثلا انگلستان میں مشہور کیا گیا کہ جرمن میں جو صابن استعمال ہوتا انگریزوں کا جھوٹا پروپیگنڈا ہے وہب انگریز عمروں کی چربی سے تیار کیا گیا ہے.بعد میں میں نے انگریزوں کی کتابیں پڑھیں تو اُن میں لکھا تھا کہ جھوٹ ہم نے اِس لئے بولا کہ تا لوگوں میں جوش پیدا ہو.اسی طرح کہا گیا کہ جرمن والے جو جہاز ڈبوتے ہیں اُن میں ڈوبنے والے سپاہیوں پر بڑی سختیاں کرتے ہیں اور انہیں مارتے ہیں اور اس خبر کو بھی خوب پھیلا یا گیا.جب جنگ ختم ہو گئی تو انگریزی نیوی نے ایک ڈھال تحفہ کے طور پر جر من آبدوز کشتیوں کے افسر کو بھجوائی اور لکھا کہ ہم اس یاد گار میں یہ تحفہ تم کو بھجواتے ہیں کہ جنگ کے دنوں میں تم نے ہم سے نہایت شریفانہ سلوک کیا.تو یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے بعد میں انہوں نے خود مانا کہ ہم نے یہ جھوٹ اس لئے بولا تھا کہ قوم میں جرمنی کے خلاف غم و غصہ پیدا ہو.مگر اسلام سچائی کی تعلیم دیتا ہے.وہ فرماتا ہے لَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى.کوئی قوم کتنی ہی دشمنی کرے تم نے اُس پر جھوٹ نہیں بولنا، تم نے اُس پر افتراء نہیں کرنا، تم نے اُس پر الزام نہیں لگانا بلکہ سچ بولنا ہے.ہاں زیادہ سے زیادہ تم اتنا کر سکتے ہو کہ جتنا انہوں نے کیا ہے اتنا تم بھی کر لو ، اس سے زیادہ نہیں لیکن اس صورت میں بھی اگر وہ مثلاً تمہارے ناک کان کاٹتے ہیں ، تمہاری عزت پر حرف لاتے ہیں تو تم مارنے کے تو جنگ میں مجاز ہو لیکن تمہیں یہ اجازت نہیں کہ مردہ کی ناک کان کاٹو کیونکہ مردہ کی زندگی اب ختم ہو چکی ہے.تم زندہ سے اپنا بدلہ لے سکتے ہو مُردہ سے بدلہ لینے کی تم کو اجازت نہیں.

Page 348

انوار العلوم جلد 24 313 سیر روحانی (7) حضرت مالک کی غیر معمولی پھر فرماتا ہے چونکہ ہم نے اخلاقی بنیا دوں پر مسلمانوں کو قائم کر دیا ہے اس لئے شجاعت اور اُن کا واقعہ شہادت مسلمان سپاہی ایسا ہے کہ فَمِنْهُم مَّنْ قضى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ کوئی تو ایسا ہے کہ اس نے اپنے وعدے پورے کر دیئے ہیں اور کوئی ابھی انتظار میں ہے کہ جب بھی موقع ملے گامیں اپنا سب کچھ قربان کر کے پھینک دونگا.چنانچہ مشہور واقعہ ہے کہ بدر کی جنگ کے بعد جب صحابہ نے آکر بیان کیا کہ لڑائی ہوئی تو ہم یوں لڑے اور ہم نے یوں بہادری دکھائی تو ایک صحابی جن کا نام مالک تھا وہ اتفاقاً لڑائی میں نہیں گئے تھے کیونکہ بدر کی جنگ میں جانے کا سب کو حکم نہیں تھا.جب وہ یہ باتیں سنتے تھے تو انہیں غصہ آجاتا تھا اور وہ مجلس میں ٹہلنے لگ جاتے تھے اور کہتے تھے کیا ہے یہ لڑائی جس پر تم فخر کرتے پھرتے ہو موقع ملا تو ہم دکھائیں گے کہ کس طرح لڑا جاتا ہے.اب بظاہر غرور کرنے والا آدمی بُزدل ہوا کرتا ہے مگر وہ اخلاص سے کہتے تھے.جب اُحد کا موقع آیا تو اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھی لڑنے کا موقع دے دیا جب فتح ہو گئی تو چونکہ وہ بھوکے تھے کھانا انہوں نے نہیں کھایا تھا چند کھجوریں اُن کے پاس تھیں جنگ کے میدان سے پیچھے آکر انہوں نے ٹہلتے ٹہلتے کھجوریں کھانی شروع کیں.اتنے میں پیچھے سے خالد نے آکر حملہ کیا اور اسلامی لشکر اس اچانک حملہ سے تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خبر مشہور ہو گئی کہ آپ شہید ہو گئے ہیں.حضرت عمر پیچھے آ کے ایک پتھر پر بیٹھ کر رونے لگ گئے.مالک ٹہلتے ٹہلتے جو وہاں پہنچے تو کہنے لگے عمرہ تمہاری عقل ماری گئی ہے خدا نے اسلام کو فتح دی ، دشمنوں کو شکست دی اور آپ ابھی رو ر ہے ہیں.عمر کہنے لگے مالک ! تمہیں پتہ نہیں بعد میں کیا ہوا؟؟ انہوں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگے پہاڑ کے پیچھے سے یکدم دشمن نے حملہ کیا، مسلمان بالکل غافل تھے حملہ میں لشکر بالکل تتر بتر ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے.چند کھجوریں جو اُن کے پاس تھیں اُن میں سے ایک اُن کے ہاتھ میں باقی تھی وہ کھجور انہوں نے اُٹھائی اور اُٹھا کر زمین پر ماری اور مار کے کہنے لگے.میرے اور جنت کے درمیان

Page 349

انوار العلوم جلد 24 314 سیر روحانی (7) اس کھجور کے سوا اور کیا روک ہے.غرض وہ کھجور انہوں نے پھینک دی اور پھر کہنے لگے عمرا اگر یہ بات ہے تو پھر بھی اس میں رونے کی کونسی بات ہے جدھر ہمارا محبوب گیا اُدھر ہی ہم بھی جائیں گے.یہ کہا اور تلوار کھینچ کر دشمن پر حملہ کر دیا اور اس بے جگری سے لڑے جب ایک ہاتھ کاٹا گیا تو دوسرے ہاتھ سے تلوار پکڑ لی، دوسرا ہاتھ کاٹا گیا تو منہ میں تلوار پکڑ کر جنگ کرنی شروع کی.جب انہوں نے منہ بھی زخمی کر کے خود وغیرہ کاٹ دی تو لاتیں ہی مارنی شروع کر دیں، آخر انہوں نے ٹانگیں بھی کاٹ دیں.جنگ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی بہن سے پتہ لگا کہ وہ رہ گئے ہیں تو آپ نے فرمایا اُن کی تلاش کرو.صحابہ تلاش کرنے گئے تو انہوں نے کہا ہم نے کہیں اُن کی لاش نہیں دیکھی.بہن نے کہا وہ وہاں گئے ہیں اور اس نیت سے گئے ہیں کہ میں وہاں شہادت حاصل کرونگا اور کہیں وہ نہیں دیکھے گئے ضرور وہیں ہو نگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے ضرور ہونگے تم جاؤ اور تلاش کرو.چنانچہ وہ پھر گئے اور سب جگہ تلاش کرتے رہے کہنے لگے.يَارَسُوْلَ اللهِ ! اور تو کہیں پتہ نہیں لگتا ایک لاش کے ستر ٹکڑے ہم کو ملے ہیں وہ اگر ہو تو ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی بہن کو کہا کہ جاؤ اور دیکھو.اُن کی ایک انگلی پر نشان تھا.بہن نے اُسے پہچان کر کہا ہاں! یہ میرے بھائی کی لاش ہے.59 یہ کتنا عظیم الشان بہادری کا مقام ہے اور کتنی بڑی قربانی ہے.کیا دنیا کی کوئی تاریخ اس قسم کی مثال پیش کر سکتی ہے.لشکر شکست کھاتے ہیں تو بھاگتے ہوئے سانس بھی نہیں لیتے پھر ہارتے ہیں تو دل ٹوٹ جاتا ہے مگر عمر جیسا بہادر روتا ہے تو وہ کہتا ہے یہ کیا بیہودہ بات ہے.کیا تم اس لئے روتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں تو ہم نے اس دنیا میں رہ کر کیا لینا ہے.سورۃ العدیت کی لطیف تفسیر پھر نوبت بجا کر سوار تو سوار گھوڑوں میں بھی جوش پیدا کیا جاتا تھا.اسی طرح اس نوبت خانہ سے بھی کام لیا گیا ہے.فرماتا ہے وَ الْعَدِيتِ ضَبْحًا فَالْمُورِنِيتِ قَدْحًا

Page 350

انوار العلوم جلد 24 315 سیر روحانی (7) و 60 فَالْمُغِيرَاتِ صُبحا - فَاثَرْنَ بِهِ نَفْعًا فَوَسَطنَ بِهِ جَمْعًا - ان آیات میں اللہ تعالیٰ اسلامی لشکر کے متعلق یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ کس شکل اور شان سے مخالفین کے مقابل پر نکلے گا.فرماتا ہے.وَالْعَدِیتِ ضَبحًا.عادی کے معنے ہوتے ہیں دوڑنے والا اور ضبع گھوڑے کی دوڑوں میں سے ایک خاص دوڑ کا نام ہے جس میں گھوڑا سرپٹ دوڑ پڑتا ہے پس وَ الْعَدِیتِ ضَبحًا کے یہ معنے ہوئے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو دوڑتے وقت صبح چال اختیار کرتے ہیں.یعنی شرت جوش سے سرپٹ دوڑ پڑتے ہیں اور یہ طریق ہمیشہ فخر اور اظہارِ بہادری کے لئے اختیار کیا جاتا ہے.ضبع کے دوسرے معنے گھوڑے کا اگلے پاؤں لمبے کر کے مارنا ہو تا ہے جس سے اُس کے بازوؤں اور بغلوں میں فاصلہ ہو جائے.پس دوسرے معنے اس کے یہ ہونگے کہ ہم اُن گھوڑوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اگلے پاؤں لمبے کر کے مارتے اور اُچھل کر دوڑتے ہیں جس کے نتیجہ میں اُن کی بغلوں اور بازوؤں میں لمبا فاصلہ ہو جاتا ہے.یہ چیز شدتِ شوق پر دلالت کرتی ہے اور یہ ظاہر ہے کہ گھوڑے کے اندر تو کوئی شدّتِ شوق نہیں ہوتی گھوڑے میں شدّتِ شوق اپنے سوار کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.وہ جب دیکھتا ہے کہ میرے سوار کے اندر جوش پایا جاتا ہے تو گھوڑا بھی اس کے رنگ میں رنگین ہو جاتا ہے.تیسرے معنے دوڑتے وقت گھوڑے کے سینہ سے آواز نکلنے کے ہیں جو عزم مقبلانہ پر دلالت کرتی ہے.جب نہ سوار کو موت سے دریغ ہو تا ہے نہ گھوڑا اپنی جان کی پرواہ کرتا ہے.گو بظاہر اس جگہ گھوڑوں کا ذکر کیا گیا ہے لیکن مُراد سواروں کی حالت کا بتانا ہے کیونکہ گھوڑا اپنے سوار کی قلبی حالت سے متاثر ہوتا ہے اور یہ اُسی وقت ہو تا ہے جبکہ سوار کی دلی حالت اُس کے تمام جوارح سے ظاہر ہونے لگے.مثلاً دوڑتے ہوئے سوار شوق کی شدّت کی وجہ سے ایک ہی وقت میں ایڑیاں مارنے لگے منہ سے سیٹی بجانے لگے یا اُسے شاباش کہنے لگے.اسی طرح باگ کو کھینچ کھینچ کر چھوڑے آگے کو جھک جائے تو گھوڑا سمجھ جاتا ہے کہ میرے سوار کی حالت.

Page 351

انوار العلوم جلد 24 316 سیر روحانی (7) والہانہ ہو رہی ہے اور مجھے بھی ویسا ہی بننا چاہئے تب وہ خود بھی اُس کے دل کی کیفیت کے مطابق دوڑنا شروع کر دیتا ہے.پس اس آیت میں مسلمان سواروں کے دل کی کیفیت کی شدت گھوڑوں کی حالت سے بتائی ہے کہ ان کے جذبات اس قدر بھڑک رہے ہونگے کہ اُس کا اثر خود گھوڑوں پر بھی جا پڑے گا اور وہ اپنے سوار کی قلبی کیفیت کے مطابق قابو سے باہر ہو جائیں گے اور کو دیں گے اور لڑائی میں جاتے ہوئے گلے سے اُن کی آوازیں نکلیں گی اور لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے لڑائی کے میدان میں اس طرح جائیں گے کہ گویا کسی بڑی شادی میں شامل ہونے کے لئے جا رہے ہیں.جس کے یہ معنے ہیں کہ مسلمان مجاہد کثیر التعداد دشمن سے ڈرے گا نہیں بلکہ جنگ کو ایک نعمت غیر مترقبہ سمجھے گا اور یقین رکھے گا کہ اگر میں مارا گیا تو جنت میں جاؤنگا اور اگر زندہ رہا تو فتح حاصل کرونگا کیونکہ ان دو کے سوا اور کوئی تیسری صورت مسلمان کے لئے نہیں.جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار سے کہو کہ هَلْ تَرَبَّصُونَ بِنَا إِلَّا إِحْدَى الْحُسْنَيَيْنِ 62 یعنی تم جو ہم سے دشمنی کرتے ہو اور ہم پر حملے کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ تمہیں ہمارے متعلق کیا امید ہے؟ دو ہی چیزیں ہماری ہیں تیسری تو ہو نہیں سکتی.یا تو یہ کہ ہم زندہ رہیں تو جیت جائیں اور یا ہم مارے جائیں اور جنت میں چلے جائیں.ان دونوں میں سے کونسی چیز ہمارے لئے نقصان دہ ہے.آیا ہمارا جیت جانا ہمارے لئے نقصان دہ ہے یا ہمارا جنت میں چلے جانا، دونوں ہمارے لئے برابر ہیں.ہم زندہ رہے تو فتح حاصل کریں گے اور اگر مر گئے تو جنت میں جائیں گے.پس تم تو جو بھی ہمارے متعلق خواہش رکھتے ہو وہ ہمارے لئے اچھی ہے.تم کہتے ہو مر جاؤ حالانکہ اگر ہم مر گئے تو ہم جنت میں چلے جائیں گے.ایک صحابی کا بیان کہ اُسے اسلام چنانچہ ایک صحابی کے متعلق آتا ہے وہ کہتے ہیں کہ میں آخر میں مسلمان قبول کرنے کی کیسے تحریک ہوئی؟ ہوا تھا اور میرے مسلمان ہونے کی

Page 352

انوار العلوم جلد 24 317 سیر روحانی (7) جہ یہ تھی کہ میں ایک جگہ ایک قبیلہ میں مہمان تھا.انہوں نے کہا ہم نے کچھ مسلمان گھیرے ہیں چلو تم بھی لڑائی میں شامل ہو جاؤ.مجھے اس وقت مسلمانوں کا کچھ پتہ نہیں تھا.میں اپنے دوستوں کی خاطر چلا گیا.وہاں انہوں نے ایک صحابی کو نیچے اُتارا اور اُس کے سینہ میں نیزہ مارا.جب نیزہ مارا گیا تو اس نے کہا فُرتُ وَ رَبِّ الكَعْبَة - 13 مجھے کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا.کہنے لگا میں سخت حیران ہوا.مجھے مسلمانوں کے متعلق کچھ پتہ نہیں تھا.میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ یہ کوئی پاگل تھا کہ تم نے اس کو نیزہ مارا اور یہ گھر سے دُور بے وطنی میں اور اپنے رشتہ داروں سے الگ بجائے اس کے کہ روتا چلاتا یہ کہتا ہے کہ میں کامیاب ہو گیا.کامیابی اس نے کونسی دیکھی ہے ؟ انہوں نے کہا مسلمان پاگل ہی ہوتے ہیں.یہ سمجھتے ہیں کہ موت میں بڑی خوبی ہے.جب انہیں مارا جائے تو کہتے ہیں ہم کامیاب ہو گئے.وہ کہتا ہے میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ ایسی قوم کو تو دیکھنا چاہئے چنانچہ میں چوری چوری نکلا اور مدینہ گیا.وہاں دو تین دن رہنے کے بعد اسلام کی صداقت ثابت ہو گئی اور میں مسلمان ہو گیا.پھر انہوں نے گرتا اُٹھایا اور کہنے لگا دیکھو! میرے بال کھڑے ہیں میں جب بھی یہ واقعہ یاد کرتا ہوں تو بال کھڑے ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ ایسا نظارہ تھا کہ جنگل میں ایک شخص اپنے وطن سے ڈور فریب اور دھوکا بازی سے مارا گیا مگر بجائے اس کے کہ وہ غم کر تار و تا اور اپنے بیوی بچوں کو یاد کرتا وطن کو یاد کرتا وہ کہتا ہے فُزْتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَة- کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.اس کے مقابلہ میں کا فر کو کیا اُمید ہو سکتی ہے اس کے لئے بھا گنا تو جرم ہے ہی نہیں.ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ بھا گو گے تو جہنم میں جاؤ گے اس لئے مسلمان تو بھاگ سکتا ہی نہیں وہ آخر وقت تک کھڑا رہے گا.اس کے لئے صرف دو ہی صورتیں ہیں تیسری کوئی صورت نہیں.یا تو وہ مر جائے گا اور یا جیت جائے گا اور دونوں اُس کے لئے اچھی باتیں ہیں.جیتے گا تو جیت گیا اور مرے گا تو جنت میں جائے گا.اور کافر یا تو مر گیا اور دوزخ جائے گا اور یا بھاگے گا اور شکست کھائے گا.اور جسے ایک طرف اپنی شکست کا

Page 353

انوار العلوم جلد 24 318 سیر روحانی (7) خطرہ ہو اور دوسری طرف موت کا اُس سے بہادری کب ظاہر ہو سکتی ہے.کو ئٹہ میں ایک فوجی افسر سے ملاقات تین چار سال کی بات ہے میں کوئٹہ گیا تو وہاں مجھے کچھ فوجی افسر ملنے آئے.اِدھر اُدھر کی باتیں ہوتی رہیں اِسی دوران میں کشمیر کا بھی ذکر آگیا میں نے کہا کشمیر مسلمانوں کو ضرور ملنا چاہئے ورنہ اس کے بغیر پاکستان محفوظ نہیں رہ سکتا.دوسرے دن میرے پرائیویٹ سیکرٹری نے مجھے لکھا کہ فلاں کر نیل صاحب آپ سے ملنے کے لئے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ میں نے الگ بات کرنی ہے.میں نے اُن کو لکھا آپ کو کوئی غلطی تو نہیں لگی یہ تو گل مجھے مل کر گئے ہیں.انہوں نے کہا یہ بات تو درست ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک پرائیویٹ بات کرنی ہے.میں نے کہالے آؤ چنانچہ وہ آگئے.میں نے کہا فرمائیے آپ نے کوئی الگ بات کرنی تھی.کہنے لگے جی ہاں.میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگے آپ نے کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں قربانی کرنی چاہئے یہ بات آپ نے کس بناء پر کہی تھی؟ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ ہندوستان کے پاس فوج زیادہ ہے؟ میں نے کہا میں خوب جانتا ہوں کہ اُس کے پاس فوج زیادہ ہے.کہنے لگے تو کیا آپ یہ نہیں جانتے کہ جو بندوقیں ہمارے پاس ہیں وہی اُن کے پاس ہیں ؟ میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پاس ڈم ڈم کی فیکٹری ہے جو ہزاروں ہزار بندوق اُن کو ہر مہینے تیار کر کے دے دیتی ہے ؟ میں نے کہا.ٹھیک ہے.کہنے لگے کیا آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے پاس اتنا گولہ بارود ہے اور آٹھ کروڑ کا گولہ بارود جو ہمارا حصہ تھا وہ بھی انہوں نے ہم کو نہیں دیا.میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے آپ کو معلوم نہیں کہ اُن کے ہاں ہوائی جہازوں کے چھ سکوارڈن ہیں اور ہمارے ہاں صرف دو ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے.کہنے لگے اُن کی اتنی آمد ہے اور ہماری اتنی آمد ہے.میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے جن کالجوں میں وہ پڑھے ہیں انہی کالجوں میں ہم بھی پڑھتے ہیں ہمیں اُن پر علمی رنگ میں کوئی برتری حاصل نہیں.میں نے کہا یہ بھی ٹھیک ہے.کہنے لگے پھر جب ہماری فوج کم ہے اور اُنکی

Page 354

انوار العلوم جلد 24 319 سیر روحانی (7) زیادہ ہے، گولہ بارود اُن کے پاس زیادہ ہے، تو ہیں اُن کے پاس زیادہ ہیں، ہوائی جہاز اُن کے پاس زیادہ ہیں، آمد ان کی زیادہ ہے اور ہم بھی انہی کالجوں میں پڑھے ہوئے ہیں جن میں وہ پڑھے ہیں، ہمارے اندر کوئی خاص لیاقت نہیں تو پھر آپ نے کس بناء پر ہمیں کہا تھا کہ ہمیں کشمیر لینا چاہئے ؟ میں نے کہا دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةٌ كَثِيرَةٌ بِإِذْنِ اللهِ کہ کئی چھوٹی چھوٹی جماعتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جماعتوں پر غالب آجایا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے یہ بات اسی لئے بیان فرمائی ہے کہ تم تھوڑے اور کمزور ہو کر ڈرا نہ کرو.خدا تعالیٰ طاقت رکھتا ہے کہ تمہیں بڑوں پر غلبہ دے دے اسلئے آپ گھبراتے کیوں ہیں؟ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیئے.بے شک آپ تھوڑے ہیں لیکن خدا تعالیٰ آپ کو طاقت دے گا.پھر میں نے کہا.میں تم کو ایک موٹی بات بتاتا ہوں.تم مسلمان ہو کیا تمہیں معلوم ہے یا نہیں قرآن نے یہ کہا ہے کہ اگر تم مارے گئے تو جنت میں جاؤ گئے.کہنے لگا.جی ہاں! میں نے کہا اب دو ہی صورتیں ہیں کہ اگر تم میدان میں کھڑے رہو گے اور زندہ رہو گے تو جیت جاؤ گے اور اگر مارے جاؤ گے تو جنت میں چلے جاؤ گے اب بتاؤ کیا تمہارے اند ر مرنے کا کوئی ڈر ہو سکتا ہے؟ کیونکہ تم سمجھتے ہو کہ اگر میں لڑائی کے میدان میں کھڑارہا اور لڑتا رہا تو دوہی صورتیں ہیں یا جیت جاؤں گا یا جنت میں چلا جاؤنگا.پس تمہاری بہادری کا ہندو کس طرح مقابلہ کر سکتا ہے وہ تو یہ جانتا ہے کہ اگر میں مر گیا تو بندر بن جاؤ نگا یا سور بن جاؤ نگا یا کتا بن جاؤ نگا.یہ اُس کا تناسخ ہے.تم تو یہ جانتے ہو کہ مرکے جنت میں چلے جائیں گے اور وہ یہ جانتا ہے کہ مر کے کتا بن جاؤنگا، سور بن جاؤنگا، بندر بن جاؤ نگا.تو مسلمان اور ہندو کا کوئی مقابلہ ہی نہیں ہو سکتا.اُسے تو کتا یا سور بننے کا ڈر لگا ہوا ہے اور تم میں جنت جانے کا شوق ہے تمہارا اور اُس کا مقابلہ کیسے ہو سکتا ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ مسلمان کیلئے دلیری کے اتنے مواقع پیدا کر دیئے گئے ہیں کہ اُسکو کوئی گزند آہی نہیں سکتی.اس کے بعد فرماتا ہے.فَالْمُورِيتِ قَدْحًا.مُؤرِی کے معنے آگ نکالنے کے ہوتے ہیں اور قدعا کے معنے ہوتے ہیں مار کر.پس فالمُورِيتِ قَدْ حَا کے یہ معنے ہوئے کہ

Page 355

انوار العلوم جلد 24 320 سیر روحانی (7) وہ ایک چیز کو دوسری سے مار کر آگ جلاتے ہیں.جیسا کہ پہلے زمانہ میں لوگ چقماق سے آگ جلایا کرتے تھے.اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ گھوڑوں کے شموں سے تیز دوڑنے کی وجہ سے جو آگ پیدا ہو.لیکن اس جگہ پر شموں کے معنے اس لئے نہیں کئے جا سکتے کہ وَالْعدِیتِ ضَبحًا میں اِس کا ذکر آچکا ہے اور بتایا جا چکا ہے کہ گھوڑے دوڑتے ہیں اور انہیں سانس چڑھ جاتا ہے اور جس کو سانس چڑھے گا اُس کے شموں سے آپ ہی آگ نکلے گی.پس یہاں آگ جلانے کا ذکر ہے اور حدیثوں سے بھی پتہ لگتا ہے کہ اس جگہ مراد یہ ہے کہ وہ لوگ اترتے ہیں اور کھانے وغیرہ پکاتے ہیں اور آگ جلاتے ہیں.اس میں سواروں کی بہادری اور اطمینان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دشمنوں سے ڈریں گے نہیں، کھلے کیمپ لگائیں گے اور آگ روشن کریں گے.دشمن سے ڈر کر روشنیاں بجھائیں گے نہیں.جیسے فتح مکہ کے وقت ابو سفیان کا روشنیوں سے پریشان ہو جانا اسکی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے.جب لشکر اپنے دشمن سے ڈرتا ہے تو شبخون سے بچنے کے لئے اپنے پڑاؤ کا نشان نہیں دیتا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مسلمان خوب روشنی کر کے پڑاؤ کریں گے اور دشمن سے ڈریں گے نہیں کیونکہ کہیں گے کہ اُس نے ہمیں مارنا ہی ہے نا تو مر کر جنت میں چلے جائیں گے ہمیں ڈر کس بات کا ہو.حضرت ضرار کا واقعہ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک عیسائی جرنیل نے بہت سے سپاہی مار دیئے اسلامی کمانڈر انچیف نے ضرار بن ازور کو بلایا اور کہا.تم جاؤ تم بڑے بہادر آدمی ہو اور اُس سے جاکر لڑو.بہت سے مسلمان مارے گئے ہیں اور بد دلی پھیل رہی ہے.وہ لڑنے کے لئے گئے جب اُس کے سامنے کھڑے ہوئے تو یکدم واپس بھاگے.مسلمانوں میں بد دلی پید اہوئی اور انہوں نے بہت تعجب کیا کہ ایک صحابی ہے اور وہ اس طرح بھا گا ہے.کمانڈر نے ایک شخص سے کہا تم اس کے پیچھے پیچھے جاؤ اور دیکھو کیا بات ہے؟ جب وہ پہنچا تو ضر اڑ اپنے خیمہ سے نکل رہے تھے.انہوں نے کہا ضرار ! آج تم نے بڑی بد نامی کرائی ہے.تمہارے دوست افسوس کر رہے ہیں کہ تم نے اس طرح اسلام کو ذلیل کیا، تم کیوں بھاگے تھے ؟

Page 356

انوار العلوم جلد 24 321 سیر روحانی (7) انہوں نے کہا میں بھا گا نہیں.اصل بات یہ ہے کہ میں نے صبح اتفاقازِرہ پہنی تھی جب میں اس کے سامنے گیا تو میرے دل میں خیال آیا کہ اتنا بڑا بہادر ہے کہ اس نے کئی آدمی مارے ہیں میں نے زرہ پہنی ہوئی ہے.فرض کرو اگر اُس نے مجھے مار لیا تو اللہ مجھ سے پوچھے گا کہ ضرار کیا تم میرے ملنے سے اتنا گھبراتے تھے کہ زرہیں پہن پہن کر جاتے تھے.تو میں نے خیال کیا کہ اگر میں مر گیا تو ایمان پر نہیں مروں گا.چنانچہ میں بھاگا ہوا اندر گیا اور میں نے وہ زرہ اُتار دی.چنانچہ دیکھ لو اب میں صرف گر تہ پہن کر اس کے مقابلہ کیلئے جا رہا ہوں.تو اسقدر اُن کے اندر مرنے کا شوق ہو تا تھا کہ وہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرنا ایک بہت بڑی سعادت اور نعمت ہے.پھر فرماتا ہے فَالْمُغيراتِ صُبحا.یہ سپاہی باوجو د دیوانگی سے کلّی طور پر روکے جانے کے اور شراب کے حرام ہونے کے اور لوٹ مار اور قتل و غارت سے روکے جانے کے اتنے دلیر ہونگے کہ دشمن کے پاس پہنچ کر ڈیرے ڈال دیں گے اور رات کو حملہ نہیں کریں گے بلکہ صبح ہونے پر حملہ کریں گے تاکہ بے خبر اور سوتے ہوئے دشمن پر حملہ نہ ہو اور اُسے لڑنے کا موقع ملے.گویا چونکہ شہادت کے دلدادہ ہو نگے ، دشمن کو مقابلہ کا موقع دیں گے.دوسرے براءت اور توبہ کا موقع دیں گے کہ اگر وہ چاہے تو اسلام کا اظہار کرے.تیسرے غلط فہمی سے بچیں گے کہ غلطی سے کسی اور پر حملہ نہ ہو جائے.فَاثَرْنَ بِهِ نَفْعًا.اس میں یہ بتایا ہے کہ رات کو ڈیرے اس لئے نہیں ڈالیں گے کہ دشمن کے قریب آکر جوش ٹھنڈا ہو گیا ہے بلکہ مردانگی اور بہادری کے اظہار کے لئے ایسا کریں گے ورنہ صبح ہونے پر جب دشمن ہوشیار ہو جائے گا اُن کی روشنیوں کو رات کو دیکھے گا صبح اُنکی اذانیں سُنے گا اور لڑنے کے لئے آمادہ ہو جائے گا اور پھر یہ والہانہ طور پر اُس کی طرف گھوڑے دوڑائیں گے حتی کہ صبح کے وقت جب شبنم کی وجہ سے غبار دبا ہوا ہو تا ہے اُن کے تیز دوڑنے کی وجہ سے اس صبح کے وقت بھی زمین سے گر دو غبار اُٹھے گا.

Page 357

انوار العلوم جلد 24 322 سیر روحانی (7) پھر فرماتا ہے فَوَسَطنَ بِهِ جَمُعا.جس وقت وہ دوڑتے ہوئے اور گرد اُڑاتے ہوئے پہنچیں گے بغیر تھے دشمن کی صفوں میں گھس جائیں گے.یہ میں صبح کی طرف بھی ضمیر پھیری جا سکتی ہے.اگر صبح کی طرف ضمیر پھیر میں تو اس کے یہ معنے ہونگے کہ وہ بہادر رات کے اندھیرے میں نہیں بلکہ صبح کی روشنی میں دشمن کی آنکھوں کے سامنے اس کی صفوں میں گھس جائیں گے.اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ دشمن کے پراگندہ ہونے کی حالت میں خواہ دن ہو یا رات حملہ نہیں کریں گے بلکہ جب وہ صف آرا ہو جائے تب اس پر حملہ کریں گے.اس آیت میں اُن کی بہادری کی طرف دو اشارے ہیں.ایک تو یہ کہ وہ سامنے کھڑے ہو کر پہلو بچاتے ہوئے حملہ نہیں کریں گے بلکہ جوش کی فراوانی میں دشمن کی صفوں کے اندر گھس جائیں گے حالانکہ جب خطرہ بڑھ جاتا ہے دشمن نرغہ میں لینے کے قابل ہو جاتا ہے.دوسرا اشارہ یہ ہے کہ وہ صبح ہی صبح دشمن کی صفوں کو چیر دیں گے.یعنی اُن کا حملہ اتنا شدید ہو گا کہ سورج نکلنے کے بعد حملہ کرنے کے باوجو د دھوپ نہیں آنے پائے گی کہ دو پہر سے پہلے پہلے وہ دشمن کو کاٹ کر رکھ دیں گے اور اُس کے اوپر غالب آجائیں گے.رض دشمن کی صفوں کو چیرتے ہوئے دو فَوسَطْنَ بِهِ جَمْعًا کے نظارے نوجوان لڑکوں کا ابو جہل کو مار گرانا ہیں.بدر کی جنگ میں حضرت صحابہ میں نہایت شاندار ملتے عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں کھڑا تھا اور ابو جہل ہم سے تین گنا لشکر لے کر کھڑا تھا، پھر اُن کے پاس زِرہیں اور سامانِ جنگ بھی زیادہ تھا اور وہ خود پہنے ہوئے تھے.دل میں خیال پیدا ہوا کہ آج میں اچھی طرح لڑوں گا مگر پھر میں نے اپنے ادھر اُدھر جو دیکھا تو میں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو انصاری لڑکے کھڑے ہیں جن کی پندرہ پندرہ سال کی عمر تھی.دل میں خیال آیا کہ آج تو بڑی بڑی ہوئی آج تو لڑنے کا موقع تھا

Page 358

انوار العلوم جلد 24 323 سیر روحانی (7) اور ارد گرد لڑکے کھڑے ہیں انہوں نے کیا کرنا ہے؟ دل میں یہ خیال آرہا تھا کہ ایک لڑکے نے مجھے کہنی ماری.میں نے اس کی طرف دیکھا تو کہنے لگا.چچا نیچے ہو کر میری بات سنو.میں نے اپنا کان اس کی طرف کیا تو اس نے کہا چا! میں نے سنا ہے کہ ابو جہل خبیث، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی تکلیفیں دیا کرتا ہے میرے دل میں اُس کے متعلق غصہ ہے اور میں چاہتا ہوں کہ اُسے ماروں وہ کون ہے ؟ وہ کہتے ہیں میں حیرت زدہ ہو گیا کیونکہ باوجود اتنا تجربہ کار جرنیل ہونے کے میرے اندر بھی یہ خیال نہیں آتا تھا کہ میں ابو جہل کو مار سکتا ہوں کیونکہ سامنے دشمن کی ساری صفیں کھڑی تھیں، دو تجربہ کار جر نیل اُس کے سامنے پہرہ دے رہے تھے اور وہ بیچ میں گھرا ہوا تھا.لیکن میری حیرت ابھی دُور نہیں ہوئی تھی کہ دوسری طرف سے مجھے کہنی لگی.میں اُس طرف متوجہ ہوا تو دوسرا نوجوان مجھے کہنے لگا چچا! ذراکان نیچے کر کے میری بات سنیں تا دوسرا نہ سُنے کیونکہ رقابت تھی.کہنے لگے میں نے کان نیچے کیا تو اس نے بھی یہی کہا کہ چا! میں نے عنا ہے ابو جہل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑادُ کھ دیا کرتا ہے ، میرا دل چاہتا ہے کہ میں اُس کو ماروں مجھے بتاؤ وہ کون ہے ؟ وہ کہتے ہیں تب تو میری حیرت کی کوئی انتہاء نہ رہی.میں نے سمجھا بچے ہیں جوش میں کہہ رہے ہیں.میں نے اُنگلی اُٹھائی اور کہا یہ دیکھو دشمن کی صفیں کھڑی ہیں ان کے پیچھے وہ شخص جس کے آگے دو آدمی ننگی تلوار میں لئے کھڑے ہیں وہ ابو جہل ہے.وہ کہتے ہیں میری اُنگلی ابھی نیچے نہیں ہوئی تھی کہ وہ لڑکے باز کی طرح گودے اور صفوں کو چیرتے ہوئے اُس تک جا پہنچے.جاتے ہی ایک پر ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے وار کیا اور اُس کا ہاتھ کاٹ دیا لیکن اُس کا دوسر اسا تھی پہنچ گیا.جس کا ہاتھ کاٹا گیا تھا اس نے جلدی سے اپنے کٹے ہوئے ہاتھ پر پاؤں رکھا اور زور سے جھٹک کر اُسے جسم سے الگ کر دیا اور پھر دوسرے کے ساتھ شریک ہو کر ابو جہل پر حملہ کر دیا.نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے ابو جہل کو زخمی کر کے گر ادیا.غرض لڑائی ابھی شروع بھی نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے ابو جہل کو جا کر ختم کر دیا.یہ تھا مسلمانوں کا جوش کہ چھوٹے بچے بھی جانتے تھے اور وہ اپنے سے تین گنا لشکر کی صفوں میں گھس جاتے تھے

Page 359

انوار العلوم جلد 24 324 سیر روحانی (7) اور اپنی جانوں کی ذرا بھی پرواہ نہیں کرتے تھے اور منٹوں میں لڑائی ختم ہو جاتی تھی.یہ عجیب بات ہے کہ صحابہ نے جتنی جنگیں کی ہیں وہ صرف چند گھنٹوں میں ہی ختم ہو گئیں.در چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ، اُحد چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اور حسنین چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی ، مکہ کی لڑائی چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی.غرض ایک دو گھنٹہ کے اندر دشمن بھاگ جاتا تھا.سوائے تین لڑائیوں کے اور وہ تینوں قلعہ بند لڑائیاں تھیں.مثلاً احزاب کی لڑائی تھی اس میں صرف دفاع کا حکم تھا اور بیچ میں خندق بنائی ہوئی تھی اس میں دیر لگی یا بنو قریظہ کا محاصرہ ہوا تو قلعہ میں تھے اور قلعہ توڑنے میں دیر لگی یا خیبر پر جب حملہ ہوا تو اُس میں دیر لگی.کیونکہ خیبر میں بھی وہ قلعہ میں تھے لیکن ان کے علاوہ جب بھی کوئی لڑائی ہوئی چند گھنٹوں کے اندر ختم ہو گئی اور چند گھنٹوں میں دشمن تباہ ہو گیا.غرض ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ دُنیا میں جوش دلانے کے لئے جو تدابیر اختیار کی جاتی ہیں کبھی شراب پلائی جاتی ہے ، کبھی لوٹ مار کی اجازت دی جاتی ہے، کبھی شبخون مارنے کا مشورہ دیا جاتا ہے اِن سب کو منع کرنے کے باوجو د اسلامی جنگ کے لئے جب نوبت بجے گی تو اسلام کے سپاہی دیوانہ وار آگے بڑھیں گے اور گھنٹوں میں دشمن کی صفوں کو توڑ دیں گے اور قطعی طور پر اُن کو موت کا کوئی خوف نہیں ہو گا.ڈ نیوی نوبت خانوں کی تیسری غرض تغییری غرض قوبت خانہ کی یہ ہوتا کرتی ہے کہ خوشی کی تقریبات کے موقع پر مثلاً بادشاہ دربار کرے یا اُس کا جلوس نکلے تو نوبتیں بجا کرتی تھیں اور اسی طرح بادشاہ کی آمد یا کسی بڑی تقریب کی خبر لوگوں کو دی جاتی اور بادشاہی اعلان سے لوگوں کو واقف کیا جاتا تھا.میں نے دیکھا کہ اسلامی نوبت خانہ رات دن میں پانچ دفعہ بجتا ہے اسلام نے یہ بھی نوبت خانہ پیش کیا ہے اور اس کیلئے بھی ایک اسلامی نوبت مقرر کی ہے مگر اسلامی نوبت خانہ اور دنیوی نوبت خانوں میں ایک عظیم الشان فرق ہے.دوسری حکومتیں اور بادشاہ

Page 360

انوار العلوم جلد 24 325 سیر روحانی (7) جہاں نو بتیں بجاتے تھے اُن کی نوبت کبھی ساتویں دن بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہو تا تھا، کسی کی مہینہ میں بجتی تھی اور بادشاہ کا دیدار ہو تا تھا، کوئی اپنی تخت نشینی کے دنوں میں دو تین دن دربار لگایا کرتا تھا اور پھر جب اُن کی نوبت بجتی تھی تو لوگوں کو اپنے گھروں سے نکل کر بادشاہی قلعوں میں جانا پڑتا تھا یا بہت دُور دُور سینکڑوں میل سے چل کر وہاں جانا پڑتا تھا.لیکن اسلامی نوبت خانہ جو ہمارے بادشاہ کا دیدار کرانے کے لئے بجتا ہے وہ ہر شہر اور ہر گاؤں میں دن رات میں پانچ وقت بجتا ہے.پانچ دفعہ نوبت بجتی ہے کہ آؤ اور اپنے بادشاہ کی زیارت کر لو، آؤ اور خدا کا دیدار کرو.ابھی ملکہ الزبتھ کی تاجپوشی ہوئی ہے پاکستان تک سے لوگ وہاں دیکھنے کے لئے گئے حالانکہ ملکہ الزبتھ کیا، انگلستان آج ایک سیکنڈ گریڈ پاور بنا ہوا ہے.لیکن ملکہ الزبتھ کے دیکھنے کے لئے ہندوستان سے آدمی گئے، امریکہ سے گئے ، جرمنی سے گئے، انڈونیشیا سے گئے ، چین سے گئے اور ہمارے بادشاہ کی زیارت کے لئے کہ جس کے سامنے آنکھ اُٹھانے کی بھی ملکہ الزبتھ کو طاقت نہیں روزانہ پانچ وقت بلایا جاتا ہے کہ آؤ کر لو زیارت مگر لوگ ہیں کہ نہیں آتے.دو گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی وہ بادشاہ پانچ وقت آتا ہے ، پانچ گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی بادشاہ لوگوں کو اپنی زیارت کرانے کے لئے پانچ وقت آتا ہے، اگر سو گھر کا گاؤں ہو تو وہاں بھی وہ زیارت کرانے کے لئے آتا ہے، اگر لاکھ گھر کا شہر ہو تو ہر محلہ میں وہ آجاتا ہے کہ آؤ اور زیارت کر لو اور اگر دس لاکھ گھر کا شہر ہو تو اُس میں وہ دس ہزار جگہوں میں آجاتا ہے اور پانچ وقت آجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ اور میری زیارت کر لو.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے دنیوی نوبت خانوں اور اسلامی نوبت خانہ میں کہ پانچ وقت زیارت ہوتی ہے اور جہاں بیٹھیں وہیں ہو جاتی ہے اور بادشاہ آپ ہمارے گھروں میں آجاتا ہے.اب ذرا اس نو بت خانہ کا اعلان اسلامی نوبت خانہ کا پُر ہیبت اعلان بھی سُن لو.وہاں تو یہ ہوتا ہے کہ وهم وَھم دھم وھم ہو رہا ہے یا نہیں پہیں ہو رہا ہے اور جب پوچھا جاتا ہے کہ یہ دھم دھم

Page 361

انوار العلوم جلد 24 326 سیر روحانی (7) دھم اور پیں پیں پیں کیا ہے؟ تو کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ بادشاہ آرہا ہے حالانکہ وهم وهم دھم اور پیں پیں ہیں سے بادشاہ کا کیا تعلق ہے.تم بندر کا تماشہ کرو تو اُس کے لئے بھی ہیں ہیں کر سکتے ہو.کتے کا کھیل کھیلو تو اس کے لئے بھی ہیں ہیں کر سکتے ہو ، بادشاہ اور دھم وھم اور پیں پیں کا کیا جوڑ ہے.مگر یہاں جو نوبت خانہ بجتا ہے اُس میں با دشاہ کے دیدار کی بشارت دیتے ہوئے اُس کی حیثیت بھی پیش کی جاتی ہے اور ایک عجیب شاندار پیغام دنیا کو پہنچایا جاتا ہے.مؤمنوں کو الگ اور منکروں کو الگ.پھر اس نوبت خانہ کی چوٹ مُردہ چمڑہ پر نہیں پڑتی زندہ گوشت کے پر دوں پر پڑتی ہے.اور پانچ وقت اِس نوبت خانہ میں نوبت بجتی ہے کہ آجاؤ اپنے بادشاہ یعنی خدا کی زیارت کے لئے اور اعلان کرنے والا کھڑ ا ہو تا ہے اور کہتا ہے.الله اكبرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اے لوگو! اپنے بادشاہ کی زیارت کے لئے آجاؤ.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ دُنیا میں لوگ اپنے بادشاہوں اور حاکموں کی زیارت کے لئے جاتے ہیں مگر اُن میں سے کوئی پچاس گاؤں کا مالک ہوتا ہے، کوئی سو گاؤں کا مالک ہوتا ہے، کوئی ہزار گاؤں کا مالک ہوتا ہے، کوئی ایک صوبہ کا مالک ہوتا ہے، کوئی ایک ملک کا مالک ہو تا ہے ، کوئی پانچ ملک کا مالک ہو تا ہے، کوئی دس ملک کا مالک ہوتا ہے، پھر اُن میں سے کوئی ایسا ہو تا ہے کہ بڑے ملک کا مالک ہوتا ہے لیکن چھوٹے ملک کے بادشاہ اُس پر فاتح ہو جاتے ہیں.جیسے سکندر یونان کا مالک تھا مگر کسرای کو آکے اُس نے شکست دیدی.نادر شاہ ایک معمولی قبیلے کا بادشاہ تھا مگر اُس نے ہندوستان کی بادشاہت کو شکست دے دی.تو اول تو اس کی حکومتیں بہت چھوٹی ہوتی ہیں اور پھر حکومتوں کے مطابق اس کی طاقت بھی نہیں ہوتی.اُن کی زیارت عمر میں کبھی ایک دفعہ نصیب ہوتی ہے مثلاً تاجپوشی ہوتی ہے اور وہ باہر نکلتے ہیں تولوگ اُن کی زیارت کرتے ہیں.مگر ہم تمہیں جس بادشاہ کی زیارت کے لئے بلاتے ہیں وہ سب سے بڑا ہے اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کے مقابل میں بالکل بیچ ہو جاتا ہے کسی کی طاقت نہیں کہ اُس کے آگے بول سکے.

Page 362

انوار العلوم جلد 24 327 سیر روحانی (7) زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اُس زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس گرفتاری کیلئے کسری کا ظالمانہ حکم میں دنیا کی حکومت دو حصوں میں تقسیم تھی آدھی حکومت قیصر کے پاس تھی اور آدھی حکومت کسری کے پاس تھی.مغرب پر قیصر حاکم تھا اور مشرق پر کسرای حاکم تھا.یہودیوں نے ایک دفعہ کسری کے پاس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شکایت کی کہ عرب میں ایک نبی پیدا ہوا ہے اور وہ طاقت پکڑ رہا ہے کسی وقت وہ تمہارے خلاف جنگ کرے گا.وہ کچھ پاگل ساتھا.یمن اُس وقت کسرای کے ماتحت تھا اُس نے یمن کے گورنر کو حکم بھیجا کہ اس طرح عرب میں ایک مدعی پیدا ہوا ہے تم اُسے گرفتار کر کے میرے پاس بھجوا دو.چونکہ یمن کا گورنر عرب کے لوگوں سے واقف تھا اُس نے خیال کیا کہ ان لوگوں نے کیا بغاوت کرنی ہے بادشاہ کو دھوکا لگا ہے.اُس نے بادشاہ کے دو سفیروں کو بھیجا اور ساتھ وصیت کی کہ تم کوئی سختی نہ کرنا.بادشاہ کو کوئی دھوکا لگا ہے ورنہ عربوں میں کیا طاقت ہے کہ انہوں نے کسری کا مقابلہ کرنا ہے.تم جانا اور سمجھانا اور میری طرف سے پیغام دینا کہ آپ مقابلہ نہ کریں آجائیں.میں سفارش کرونگا تو کسری انہیں کچھ نہیں کہے گا.چنانچہ یہ لوگ مدینہ پہنچے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا کس طرح آنا ہوا؟ انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے بھجوایا ہے.اُس کے پاس کچھ شکایتیں آئی ہیں جن کی بناء پر اُس نے کہا ہے کہ آپ کو اُس کے سامنے پیش کیا جائے اور ہم گورنر میمن کی طرف سے آئے ہیں کیونکہ وہ یہاں کے حالات کا واقف ہے.اس نے ہم کو نصیحت کی تھی کہ ہم آپ کو تسلی دلائیں کہ کسی نے بادشاہ کے پاس غلط رپورٹ کی ہے ورنہ ہمیں تسلی ہے کہ آپ نے کوئی شرارت نہیں کی.میں بادشاہ کی طرف ساتھ چٹھی لکھد و نگا کہ یہ غلط رپورٹ ہے اس کو کچھ نہ کہا جائے اور واپس کر دیا جائے اس لئے آپ ہمارے ساتھ چلیں وہاں سے آپ کو گور نریمن کی سفارش مل جائے گی اور اُمید ہے کہ وہ در گزر سے کام لے گا.آپ نے فرمایا اچھا دو تین دن ٹھہر و پھر میں جواب دونگا.انہوں نے کہا یہ ٹھیک نہیں

Page 363

انوار العلوم جلد 24 328 سیر روحانی (7) ہے.گورنرنے کہا تھا کہ ایسا نہ ہو کہ آپ غلط فہمی میں رہیں اور جواب نہ دیں جس سے بادشاہ چڑ جائے اگر ایسا ہوا تو عرب کی خیر نہیں، وہ اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجادے گا آپ چلے چلئے.آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں تم دو تین دن ٹھہر و.پھر وہ دوسرے دن آئے.تیسرے دن آئے.لیکن آپ یہی کہتے رہے کہ ابھی ٹھہرو.ابھی ٹھہرو.تیسرے دن انہوں نے کہا کہ اب ہماری میعاد ختم ہو رہی ہے، بادشاہ ہم سے بھی خفا ہو گا آپ ہمارے ساتھ چلیں.آپ نے فرمایا سنو! آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار ڈالا ہے جاؤ یہاں سے چلے جاؤ اور گور نر کو اطلاع دے دو.اُن کو تو خدائی کلام کا کچھ پتہ ہی نہیں تھا.انہوں نے سمجھا کہ شاید یہ گپ ماری ہے.انہوں نے سمجھاناشروع کیا کہ یہ نہ کریں.دیکھیں آپ گورنر کی سفارش سے چھوٹ کر آجائیں گے ورنہ عرب تباہ ہو جائے گا آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا.میں نے تمہیں بتادیا ہے جاؤ اور اُسکو جواب دیدو.خیر وہ یمن میں آئے اور انہوں نے گورنر سے کہا کہ انہوں نے تو ہمیں ایسا جواب دیا ہے.یمن کا گورنر سمجھدار تھا.اُس نے کہا اگر اس شخص نے ایران کے بادشاہ کو یہ جواب دیا ہے تو کوئی بات ہو گی.اسلئے تم انتظار کرو چنانچہ وہ انتظار کرتے رہے.کسرای قتل کر دیا گیا دس بارہ دن گزرے تھے کہ ایک جہاز وہاں پہنچا.اس نے آدمی مقرر کئے ہوئے تھے کہ اگر کوئی خبر آئے تو جلدی اطلاع دو.انہوں نے اطلاع دی کہ ایک جہاز آیا ہے اور اُس پر جو جھنڈا ہے وہ نئے بادشاہ کا ہے.اُس نے کہا جلدی اُن سفیروں کو لے کر آؤ.جب وہ گورنر کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا ہمیں بادشاہ نے ایک خط آپ کو پہنچانے کے لئے دیا ہے.اس نے خط دیکھا تو اس پر مہر ایک اور بادشاہ کی تھی.اُس نے اپنے دستور کے مطابق خط کو سر پر رکھا، آنکھوں پر رکھا اور اُسے چوما اور پھر اُسکو کھولا تو وہ بادشاہ کی چٹھی تھی جس میں لکھا تھا کہ پہلے بادشاہ کے ظلم اور سختیوں کو دیکھ کر ہم نے سمجھا کہ ملک تباہ ہو رہا ہے اس لئے فلاں رات ہم نے اس کو قتل کر دیا ہے اور ہم اس کی جگہ تخت پر بیٹھ گئے ہیں.اور یہ وہی رات تھی

Page 364

انوار العلوم جلد 24 329 سیر روحانی (7) جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ آج میرے خدا نے تمہارے خدا کو مار دیا ہے.اس کے بعد اس نے لکھا کہ تم ہماری اطاعت کا سب سے وعدہ لو.اور یہ بھی یاد رکھو کہ اُس نے عرب کے ایک آدمی کو پکڑنے کیلئے جو حکم بھیجا تھا تم اس کو منسوخ کر دو.یہ وہ چیز تھی کہ جس کو دیکھ کر یمن کا گورنر اُس دن سے دل سے مسلمان ہو گیا اور بعد میں دوسرے لوگ بھی اسلام میں داخل ہو گئے.غرض الله اكبر الله اكبر الله اكبر الله اکبَرُ.میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ تم کس کے پیچھے چل رہے ہو.جن کو تم بڑے سے بڑا سمجھتے ہو حکومت امریکہ کو سمجھ لو، حکومت روس کو سمجھ لو خدا کے مقابلہ میں اُن کی کیا حیثیت ہے.جو خدا کا بندہ ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے، کچھ کرلو خدا میر ا محافظ ہے تم کیا کر لو گے.حکومتیں کچھ نہیں کر سکتیں، بادشاہتیں کچھ نہیں کر سکتیں، وہ اپنے رُعب جتائیں ، ڈرائیں جو کچھ مرضی ہے کر لیں، وہ خدا ہی کا بندہ ہے اور وہی جیتے گا.آخر جو سب سے بڑا بادشاہ ہے اُس کے ساتھ جو لگے گا اُس کو بڑائی ہی ملے گی چھوٹائی نہیں ملے گی.خدا کے شیر پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام پر ایک دفعہ شرارتاً مقدمہ کر دیا گیا.مقدمہ کے دوران میں خواجہ کمال الدین صاحب کو اطلاع ملی کہ آریوں نے مجسٹریٹ پر زور دیا ہے کہ ان کو ضرور سزا دے دو.گو مہینہ قید کرو مگر ایک دفعہ ذلیل کر دو تا کہ انہیں پتہ لگ جائے.مجسٹریٹ نے بھی اُن سے وعدہ کر لیا.خواجہ صاحب کو پتہ لگا تو گھبرائے ہوئے آئے مولوی محمد علی صاحب کو ساتھ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے تھے.کہنے لگے حضور ! بڑی بُری خبر لائے ہیں.اِس اِس طرح مجھے یقینی طور پر پتہ لگا ہے کہ آریہ سماج کا اجلاس ہوا ہے اور چونکہ وہ مجسٹریٹ آریہ ہے اُس سے انہوں نے وعدہ لیا ہے کہ وہ تھوڑی بہت سزا ضرور دے دے، پیچھے دیکھا جائے گا انہوں نے کہا ہے کہ اوّل تو چھوٹی بڑی سزا پر کوئی پکڑتا کیا ہے اور پھر اگر گرفت ہو گی بھی تو کیا ہے تم نے قوم کی خاطر یہ کام کرنا ہے اسلئے کوئی تدبیر

Page 365

انوار العلوم جلد 24 330 سیر روحانی (7) اسکی ہونی چاہئے اور پھر کہا کہ آپ کسی طرح قادیان چلے جائیں اور ایسی تجویز کی جائے کہ مجسٹریٹ کا تبادلہ ہو جائے.حضرت صاحب لیٹے ہوئے تھے آپ یہ سنتے ہی اُٹھے اور فرمایا خواجہ صاحب! آپ کیا باتیں کرتے ہیں.کیا خدا کے شیر پر بھی کوئی ہاتھ ڈال سکتا ہے تو الله اکبر اللهُ أَكْبَرُ اللهُ أَكْبَرُ اللهُ اکبر کہنا بڑا بھاری دعویٰ ہے.آج امریکہ کی کتنی بڑی طاقت ہے پھر بھی روس سے ڈر رہی ہے.روس کتنا طاقتور ہے پھر بھی امریکہ یہ کتنی بڑی طاقت ہے کہ اس نوبت خانہ میں پانچ وقت ہر گاؤں، ہر شہر، سے ڈر رہا ہے.یہ ہر قصبہ ، ہر پہاڑی اور ہر میدان سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہمارا بادشاہ سب سے بڑا ہے.گویا اس پیغام میں کافروں کو بھی اور مؤمنوں کو بھی مخاطب کیا گیا ہے.کفار کو کہا گیا ہے کہ تمہارے سرداروں، تمہارے بادشاہوں اور تمہارے افسروں کی کیا حیثیت ہے سب سے بڑھ کر اسلام کے خدا کا وجود ہے.تم اپنے غرور اور اپنے جتھے کے فخر میں یہ سمجھتے ہو کہ ہم حق کی آواز کو دبا دیں گے مگر ایسا نہیں ہو گا.ہمارے نام لیوا غریب اور بے کس ہیں مگر ہم اُن کے ساتھ ہیں اور ہم سب سے بڑے ہیں.پھر وہ مسلمانوں سے مخاطب ہوتا ہے اور فرماتا ہے اے مومنو! انتظام کے لئے ہم نے تمہارے لئے بادشاہ مقرر کئے ہیں.حاکم مقرر کئے ہیں مگر تمہارا اصل بادشاہ اللہ ہے.تم نے کسی انسان کے آگے گردن نہیں جھکانی.تمہارے دلوں پر رُعب اور حکومت صرف خدا کی ہونی چاہئے.65 اسلامی نوبت خانہ کی دوسری آواز پھر اس نوبت خانہ سے دوسری آواز اُٹھتی ہے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.أَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ.میں منادی کرنے والا اعلان کرتا ہوں اور کسی سے چھپاتا نہیں کہ میں صرف اللہ کی عبادت کرتا ہوں اور اُس کے سوا کسی کے آگے سر جھکانے کے لئے تیار نہیں خواہ وہ دُنیا کا بادشاہ ہو یاد نیا کا بڑا حاکم ہو، خواہ دنیا کا بڑا پیر ہو خواہ دنیا کا کوئی بڑا عالم ہو میرے لئے وہ سارے کے سارے خدا تعالیٰ کے مقابلہ میں بیچ ہیں اور اُن کی کوئی ہستی میرے نزدیک نہیں ہے.میں تو صرف ایک ہی ہے جس کے آگے سر جھکانا

Page 366

انوار العلوم جلد 24 331 سیر روحانی (7) جائز سمجھتا ہوں اور وہ خدا کی ذات ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی زبان ہیں پھر کہتا ہے أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللهِ - اَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللهِ.اور سُنو! کہ میں یہ بھی عَلَى الْإِعْلان کہتا ہوں کہ محمد کے سوا آج خدا تعالیٰ کے احکام دُنیا کو کوئی نہیں سنا سکتا.وہ خدا کی زبان ہے، وہ خدا کی نفیری ہے.میں اُس کی زبان پر کان دھر تا ہوں.میں اُس کی نفیری کی آواز پر رقص کرتا ہوں.تم خواہ کسی کے پیچھے چلو میں اللہ کے سوا کسی کے پیچھے نہیں چل سکتا اور اُس کے پیچھے چلنے کا رستہ صرف اور صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بتا سکتے ہیں.پھر کہتا ہے حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ خدائی دیدار کی دعوت عام عَلَى الصَّلوۃ.آؤ! آؤ ! خدا کے سامنے جھکنے میں میرے شریک بنو.آؤ ہم سب مل کر خدائے واحد کی عبادت کریں اور اپنے جسم کے ہر ذرہ کو اس کی اطاعت میں لگا دیں.دنیا کے لوگ نوبت خانے بجاتے ہیں اور بجا کے کہتے ہیں آؤ اور بادشاہ کی زیارت کر کے چلے جاؤ.جو انعام پانے والے ہوتے ہیں وہ تو چند ہی ہوتے ہیں.باقی تو صرف مٹی اور غبار کھا کے چلے جاتے ہیں.یہاں جو بادشاہ کی تاجپوشی ہوئی تھی یالنڈن میں تاجپوشی کی رسم ہوئی ہے تو بادشاہ کے پاس جانے والے یا اس سے کوئی بات کرنے والے زیادہ سے زیادہ پانچ سو یا ہزار ہونگے.حالانکہ یہ بھی کوئی خاص انعام نہیں ہے مگر جمع وہاں تیس لاکھ ہوئے تھے.باقی تیس لاکھ صرف گر دہی کھا کے آگئے اور کیا ہوا.پھر کچھ ایسے تھے جن کو سواری بھی نظر نہیں آئی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے سواری دیکھی اور شکل نہیں پہچانی اور کچھ ایسے تھے جنہوں نے دُور سے تیز گاڑی کو چلتے ہوئے دیکھا.مگر یہاں یہ کہا جاتا ہے کہ حَيَّ عَلَى الصَّلوةِ حَيَّ عَلَى الصَّلوۃ.دوڑ کے آؤ.دیکھو خدا کے سامنے تمہاری حاضری کرائی جائے گی.یہ دربار وہ نہیں کہ جہاں سے دُور دُور سے

Page 367

انوار العلوم جلد 24 332 سیر روحانی (7) جھانک کر جانا پڑے گا.یہ دربار وہ نہیں جہاں تم آؤ گے تو بعض دفعہ تم کو قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا جائے گا.یہاں تم کو سپاہی دھتکاریں گے نہیں.یہاں تم مسجد کے قریب آؤ گے تو فرشتے تم کو پکڑ کے خدا کے سامنے پیش کریں گے اور خدا کو تم زندہ دیکھ لو گے.اس سے زیادہ اچھا موقع تمہیں اور کہاں مل سکتا ہے.فلاح اور کامیابی کی بشارت پھر فرماتا ہے حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الفلاح آؤ! آؤ! کامیابی کی طرف آؤ! دوڑ کر کامیابی کی طرف آؤ کہ کامیابی تمہیں ملنے کے لئے تیار بیٹھی ہے.دیر نہ کر ووہ تڑپ رہی ہے تمہاری جیبوں میں پڑنے کے لئے.دنیا کے بادشاہوں کے حضور میں لوگ نذرانے گزار نے جاتے ہیں اور اعلان ہوتا ہے سواشر فیاں پیش کی گئی ہیں.بیشک پرانے زمانہ میں بادشاہ کہہ دیتے تھے کہ ان کو بھی دو لیکن بادشاہ کو بہر حال دینا پڑتا تھا.نظام حیدر آباد تو اس کو لے کے جیب میں ڈال لیتے تھے.انگلستان وغیرہ کے بادشاہوں کے سامنے بھی نذرانے پیش کئے جاتے ہیں اور جن کے ہاں نذرانوں کا رواج نہیں اُن کے ہاں دعوتیں اُڑائی جاتی ہیں مثلاً پریذیڈنٹ کہیں جائے گا تو بڑی دعوت کی جائے گی بڑے بڑے آدمیوں کو بلایا جائے گا اور لاکھوں روپیہ خرچ کیا جائے گا.مگر یہاں وہ یہ اعلان کرتا ہے کہ اے لوگو! تمہیں صرف زیارت ہی نہیں ہو گی بلکہ تم میں سے ہر فرد واحد امیر ہو یا غریب، کنگال ہو یا حیثیت والا سب کے سب کی گودیاں بھر دی جائیں گی اور یہاں سے تمہیں انعام دے کر واپس کیا جائے گا.غرض اِس دربار میں جانے والا حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ حَيَّ عَلَى الْفَلَاحِ چاہے وہ کتنا ذلیل اور کنگال ہو کہ اس کی شکل دیکھ کر لوگوں کو گھن آتی ہو جب اُس دربار میں چلا جاتا ہے تو وہاں وہ ایسا مقبول ہو جاتا ہے کہ بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اُس کے آگے سر جُھکانے پر مجبور ہو جاتا ہے.

Page 368

انوار العلوم جلد 24 333 سیر روحانی (7) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے بہت بدصورت، نہایت ایک کر یہہ المنظر صحابی سے پیار کر یہہ اور جسم پر بڑے بڑے بال جیسے بکری کے ہوتے ہیں اور آنکھیں بھی خراب.غرض اُن کے جسم کی حالت ایسی تھی جسے دیکھ کر کھین آتی تھی اور لوگ انہیں مزدوری پر لگانے سے بھی بھن کیا کرتے تھے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے اور اُسکو دیکھا.کسی نے اُن کو گندم کے ڈھیر کے پاس کھڑا کر دیا تھا کہ تم ذرا حساب کرو.اسے بیچنا ہے اور وہ کھڑے ہوئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ کسی نے گندم لینی ہو تو لے لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انکو دیکھا.اُسوقت اُن کی حالت ایسی تھی کہ پسینہ اُن کو آرہا تھا، دھوپ میں کھڑے تھے ، مزدوری بھی شاید اُن کو بہت تھوڑی ملنی تھی، غرض تکلیف کی بہت سی علامات تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو انہیں دیکھ کر احساس ہوا کہ دیکھو ان کو سخت تکلیف ہو رہی ہے.آپؐ پیچھے پیچھے آہستہ قدم چلتے گئے اور اُن کی آنکھوں پر جیسے بچے کھیلتے ہیں ہاتھ رکھ دیئے.اُس نے اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر دیکھا اور خیال کیا کہ میرے جیسے آدمی سے پیار کون کر سکتا ہے لوگ مجھ سے نفرت کرتے ہیں، کھن کھاتے ہیں لیکن یہ کون میرا دوست اور خیر خواہ آگیا جو مجھے پیار کرنے لگا ہے.اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے شروع کئے، آخر اُن کے ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلائی پر پڑے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم میں یہ خوبی تھی کہ آپ کے بال بہت کم تھے اور مشہور تھا کہ آپ کا جسم بہت ملائم ہے.اس نے ہاتھ ملے تو سمجھ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پیار کر رہے ہیں تو میں بھی نخرے کروں.اس کے جسم پر مٹی لگی ہوئی تھی، پسینہ آیا ہوا تھا اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوب میل ملنی شروع کر دی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے کہ پہچان گیا ہے.آپ نے فرمایا لو گو ! میں ایک غلام بیچتا ہوں کسی نے خریدنا ہے؟ جب آپ نے یہ فرمایا تو اس کو اپنی حالت پھر یاد آگئی اور اُس نے بڑی ہی افسردگی سے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میر اخریدار دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ ا

Page 369

انوار العلوم جلد 24 334 سیر روحانی (7) آپ نے فرمایا ایسا نہ کہو تمہارا خریدار تو خود خدا ہے.66 تو دیکھو وہ شخص جس کو دیکھ کر اس کے دوست اور رشتہ دار بھی گھن کھاتے تھے.اُس کے متعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں کہ یہ خدا کا پیارا ہے.یہی بات حى عَلَى الفلاح میں بیان کی گئی ہے کہ دنیا کی ساری کامیابی تمہیں یہاں آنے سے ہی حاصل ہو گی.تم سب جگہ دھتکارے جاسکتے ہو ، تم سب جگہ حقیر سمجھے جاسکتے ہو مگر میرے رب کی عبادت اور غلامی ہر مقصد و مدعا میں انسان کو کامیاب بنا دیتی ہے.جو اُس کے ہو جاتے ہیں اُن پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا.جو اُس کے غلاموں پر ہاتھ ڈالے خواہ ساری دنیا کا بادشاہ کیوں نہ ہو اُس کے ہاتھ شل کر دیئے جاتے ہیں، اس کی رگِ جان کاٹ دی جاتی ہے، اُسے ذلیل اور رسوا کر دیا جاتا ہے کیونکہ خدا کے غلام دنیا کے بادشاہوں سے زیادہ معزز ہیں اور اُن کے محافظ فرشتے ہوتے ہیں جو دنیوی سپاہیوں سے زیادہ طاقتور ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی بڑائی اور اُس کی یہاں پہنچ کر وہ نوبتی ایک بار پھر کہتا ہے الله اكبرُ اللهُ أَكْبَرُ یعنی اب تک جو کچھ وحدانیت کا ایک بار پھر اقرار میں نے کہا تھاوہ صرف میرے عقیدہ کا اظہار تھا مگر اب جب کہ میری گودی بھر گئی ہے اور مجھے وہ چیزیں ملی ہیں جو دنیا میں بڑے بڑے بادشاہوں کے پاس بھی نہیں ہیں اور میر اخیال حقیقت اور میر اعقیدہ واقعہ بن چکا ہے میں دوبارہ اس امر کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ واقع میں سب سے بڑا ہے کیونکہ میں نے بیکس اور بے بس ہونے کے باوجود فلاح پالی، میر اعقیدہ ٹھیک نکلا اور میرا ایمان حقیقت بن گیا اِس لئے اب میں یقین اور تجربہ کی بناء پر کہتا ہوں کہ اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.پھر وہ آخر میں کہتا ہے کہ لا الہ الا اللہ کہ خدا کی بڑائی کے اظہار سے تو صرف یہ ثابت ہو تا تھا کہ کئی طاقتوں میں سے خدا کی طاقت سب سے بڑی ہے مگر اُس کے نشان دیکھ کر اب تو میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں خدا کی حکومت کے سوا کسی کی حکومت ہی باقی نہیں رہے گی صرف وہی پو جا جائے گا اور اس کا حکم دنیا میں چلے گا.

Page 370

انوار العلوم جلد 24 335 سیر روحانی (7) مسجد نبوی میں بیٹھ کر تمام دیکھو!مسلمانوں نے سچے دل سے یہ نوبت بجائی تھی پھر کس طرح وہ مدینہ سے نکل کر ساری دنیا دنیا کو فتح کرنے کے عزائم میں پھیل گئے.دنیا میں اس وقت دو ہی حقیقی حکومتیں تھیں ایک قیصر کی حکومت تھی جو مغرب پر حاکم تھی اور ایک کسری کی حکومت تھی جو مشرق کی مالک تھی.مگر اس نوبت خانہ میں جو بظاہر اتنا حقیر تھا کہ کھجور کی ٹہنیوں سے اُس کی چھت بنائی گئی تھی، پانی برستا تھا تو زمین گیلی ہو جاتی تھی اور اُس کے نوبت بجانے والے جب اُس میں جا کر اپنے آقا کے سامنے جھکتے تھے تو ان کے گھٹے کیچڑ سے بھر جاتے تھے اور اُن کے ماتھے مٹی سے بھر جاتے تھے.یہ لوگ تھے جو قیصر اور سری کی حکومت کو تباہ کرنے کے لئے آئے تھے.یورپ کا ایک مصنف اپنے انصاف اور قلبی عدل کی وجہ سے لکھتا ہے کہ میں اسلام کو نہیں مانتا، میں عیسائی پادریوں کی باتوں سے سمجھتاہوں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں اسلام جھوٹا ہی ہو گا لیکن میں جب تاریخ پڑھتا ہوں تو تیرہ سو سال کا زمانہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.میں دیکھتا ہوں کہ ایک کچا مکان ہے، اس کے اوپر کھجور کی ٹہنیوں کی چھت پڑی ہوئی ہے، بارش ہوتی ہے تو اُس میں پانی آجاتا ہے (حدیثوں میں یہ واقعات آئے ہیں کہ بارش ہوتی تو پانی ٹپکنے لگ جاتا) اور جب وہ نمازوں کے لئے کھڑے ہوتے تو گھنٹوں تک کیچڑ لگا ہوا ہو تا تھا اور کوئی خشک جگہ اُن کو بیٹھنے کے لئے نہیں ملتی، جب عبادت کر کے پھر وہ اکٹھے ہو کر باتیں کر رہے ہوتے ہیں تو میں عالم خیال میں قریب سے اُن کی باتوں کو سنتا ہوں اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے پھٹے ہوئے کپڑے ہیں، کسی کے پاس گرتہ ہے تو تہہ بند نہیں ہے، کسی کے پاس تہہ بند ہے تو گر تہ نہیں ہے، کسی کے سر پر ٹوپی ہے تو جوتی نہیں ہے، کسی کے پاس نچھٹی ہوئی بھوتی ہے تو ٹوپی نہیں اور وہ سر گوشیاں کر رہے ہیں اور میں قریب ہو کر اُن کی باتیں سنتا ہوں کہ وہ کیا کہہ رہے تھے.جب میں قریب پہنچتا ہوں تو وہ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں دنیا کی بادشاہت عطا کر دی ہے.ہم مشرق پر بھی قابض ہو جائیں گے اور ہم مغرب پر بھی قابض ہو جائیں گے، ہم شمال پر بھی قابض ہو جائیں گے اور ہم

Page 371

انوار العلوم جلد 24 336 سیر روحانی (7) جنوب پر بھی قابض ہو جائیں گے.اور پھر عجیب بات یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایسا ہی ہو جاتا ہے.اب بتاؤ کہ میں اسلام کو کس طرح جھوٹا کہوں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد ایسی تھی کہ بعض غریب گاؤں کے لوگ جب میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے مسجد بنانی ہے تو میں کہتا ہوں کہ ایسی ہی بنالو.وہ کہتے ہیں نہیں جی! کچھ تو اچھی ہو.تو کسی گاؤں کے پانچ آدمی بھی اس مسجد کی طرح مسجد بنانے کو تیار نہیں ہوتے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی لیکن ان مسجدوں میں جو نماز پڑھنے والے ہوتے ہیں وہ اپنے ہمسائیوں سے ڈر رہے ہوتے ہیں مگر اُس کھجور کی ٹہنیوں کی چھت والی مسجد جس میں پانی ٹپکتا رہتا تھا نماز پڑھنے والے یوں بیٹھے ہوتے تھے کہ گویا انہوں نے دنیا کو فتح کرنا ہے اور وہ واقع میں دنیا کو فتح کر لیتے ہیں.ایک ایک گوشہ اُن کے قدموں کے نیچے آتا ہے اور اُن کے گھوڑوں کی ٹاپوں کے نیچے بڑے بڑے بادشاہوں کی کھوپڑیاں تڑپتی جاتی ہیں.اسلام کے ذریعہ دُنیا میں ایک غرض اِس نوبت خانہ میں اس اعلان کی دیر تھی کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ دنیا میں آب خدا کی بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا بادشاہت کے سوا ہم کسی کو نہیں چھوڑیں گے کہ ایک بہت بڑا انقلاب رونما ہو گیا.خدا کی بادشاہت آسمان سے زمین پر آگئی اور ظلم اور جور کی دُنیا عدل اور انصاف سے بھر گئی.اس سے چھ سو سال پہلے ایک اور شخص جو بر گزیدہ تھا، ایک اور شخص جس کو خدا کا بیٹا کہا جاتا ہے ، ایک اور شخص جس کی اطاعت کا آج دنیا کی اکثریت اقرار کر رہی ہے ، ایک اور شخص جس کی حکومت میں انگلستان کی حکومت، فرانس کی حکومت، سپین کی حکومت، جرمنی کی حکومت، پولینڈ کی حکومت، فلپائن کی حکومت، امریکہ کی ساری حکومتیں اور ریاستیں اُس کی خدائی کی اقراری ہیں اور اُس کے آگے سر جھکاتی ہیں.وہ بھی کہتا ہے کہ :- ”اے خدا! جس طرح آسمان پر تیری بادشاہت ہے اُسی طرح زمین پر بھی ہو.67

Page 372

انوار العلوم جلد 24 337 سیر روحانی (7) مگر آج اُنیس سو سال گزر گئے اُس کے ذریعہ سے خدا کی بادشاہت جو آسمان پر ہے زمین پر قائم نہیں ہوئی.لیکن یہ شخص جو ایک ایسے کچے مکان میں رہ کے اور اس نوبت خانہ میں آکے خدا تعالیٰ کا پیغام سناتا ہے ،وہ ابھی مرنے نہیں پاتا کہ خدا کی بادشاہت دنیا میں قائم ہو جاتی ہے.اور اُس کی وفات کے نو سال کے اندر اندر سارے عرب پر بادشاہت قائم ہو جاتی ہے.وہ کھڑا ہوتا ہے اور ایسے وقت میں جب دشمن کی فوجیں اُسے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے کھڑی ہیں ، مدینہ سے باہر نکل کر پاخانہ کوئی پھر نہیں سکتا ، خندق کھودی جاتی ہے تا دشمن کے حملہ سے بچائے.ایک پتھر نہیں ٹوٹتا.صحابہ کہتے ہیں يَارَسُولَ اللهِ ! پتھر نہیں ٹوٹتا.فرماتے ہیں لاؤ ہتھوڑا مجھے دو میں توڑتا ہوں.آخر پتھر پر ہتھوڑا مارتے ہیں.وہ پتھر بڑا سخت ہے.اُس پر ہتھوڑا مارتے ہیں تو اس میں سے شعلہ نکلتا ہے.پھر مارتے ہیں پھر شعلہ نکلتا ہے.آپ ہر دفعہ کہتے ہیں اللهُ أَكْبَرُ اللہ اکبر.پھر تیسری دفعہ مارتے ہیں.جب شُعلہ نکلتا ہے پھر اللہ اکبر کہتے ہیں.صحابہ بھی الله اكبر کہتے ہیں.آپ نے فرمایا تم نے کیوں اللهُ أَكْبَرُ کہا ؟ انہوں نے کہا يَارَسُوْلَ اللہ ! آپ نے کیوں کہا؟ آپ نے فرمایا.میں نے پہلی دفعہ پتھر پر ہتھوڑا مارا تو اس میں سے شُعلہ نکلا اور اُس شُعلہ میں سے خدا تعالیٰ نے مجھے دکھایا کہ قیصر کی حکومت توڑ دی گئی.اور میں نے کہا اللہ اکبر.جب میں نے دوسرا ہتھوڑا مارا تو پھر اُس میں دوسر اشعلہ نکلا اور مجھے یہ نظارہ دیکھایا گیا کہ کسرای کی حکومت توڑ دی گئی پھر میں نے اللهُ أَكْبَرُ کہا.جب میں نے تیسر اہتھوڑا مارا، مجھے دکھایا گیا کہ حمیر کی حکومت توڑ دی گئی.اس پر پھر میں نے اللہ اکبر کا نعرہ مارا.صحابہ نے کہا يَارَسُولَ اللہ ! ہمارے بھی نعرے اِسی طرح سمجھ لیجئے.68 قیصر و کسری کی حکومتوں کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کر دی گئی پھر آپ نے فرمایا اِذَا هَلَكَ كِسْرَى فَلاَ كِسْرَى بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ خدا قیصر کو میرے سپاہیوں کے مقابلہ میں شکست دے گا اور ایسی شکست دے گا کہ اس کے بعد دنیا میں کوئی قیصر نہیں ہو گا اور خدا تعالیٰ میرے آدمیوں کے ذریعہ سے کسرای کو شکست دے گا اور ایسی شکست دے گا کہ دنیا میں اس کے بعد کوئی کسری نہیں کہلائے گا.

Page 373

انوار العلوم جلد 24 338 سیر روحانی (7) جس وقت اِس نوبت خانہ سے نوبت بجی اُس وقت کہا گیا کہ دُنیا میں خدا کی حکومت قائم کی جائے گی.دیکھ لینا کہ اِذَا هَلَكَ قَيْصَرُ فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ دنیا میں ایک طرف مغرب میں قیصر حاکم ہے لیکن قیصر ہلاک کیا جائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہیں کھڑا ہو گا بس خدا کی حکومت وہاں ہو گی.دوسری طرف مشرق میں کسرای کی حکومت ہے کسرای کو تباہ کیا جائے گا اور اُس کے بعد کوئی کسری نہیں کھڑا ہو گا اُس کی جگہ بھی خُدا کی بادشاہت قائم ہو گی.اور مشرق و مغرب میں میرے ماننے والوں، میرے مریدوں اور میرے شاگردوں کے ذریعہ سے آسمانی بادشاہت زمین پر آکر قائم ہو گی.غرض اس نوبت خانہ سے جو یہ نوبت بجی ، یہ کیا شاندار نوبت ہے.پھر کیسی معقول نوبت ہے.وہاں ایک طرف بینڈ بج رہے ہیں.ٹوں،ٹوں، ٹوں.ٹیں ٹیں، ٹیں.اور یہ کہتا ہے اللہ اکبر اللهُ أَكْبَرُ أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللَّهِ - حَيَّ عَلَى الصَّلُو ةِ حَيَّ عَلَى الفلاح.کیا معقول باتیں ہیں.کیسی سمجھدار آدمیوں کی باتیں ہیں.بچہ بھی سنے تو وجد کرنے لگ جائے اور ان کے متعلق کوئی بڑا آدمی سوچے تو شرمانے لگ جائے بھلا یہ کیا بات ہوئی کہ ٹوں ٹوں ٹوں ٹیں ٹیں ٹیں.مگر افسوس! کہ اس نوبت خانہ کو آخر مسلمانوں نے خاموش کر دیا.یہ نوبت خانہ حکومت کی آواز کی جگہ چند مرثیہ خوانوں کی آواز بن کر رہ گیا اور اس نوبت کے بجنے پر جو سپاہی جمع ہوا کرتے تھے وہ کروڑوں سے دسیوں پر آگئے اور اُن میں سے بھی ننانوے فیصدی صرف رسماً اُٹھک بیٹھک کر کے چلے جاتے ہیں.تب اس نوبت خانہ کی آواز کارُ عب جاتا رہا، اسلام کا سایہ کھینچنے لگ گیا، خدا کی حکومت پھر آسمان پر چلی گئی اور دُنیا پھر شیطان کے قبضہ میں آگئی.آب خدا کی نوبت جوش میں آئی ہے اور تم کو !ہاں تم کو !ہاں تم کو ! خدا تعالیٰ نے پھر اس نوبت خانہ کی ضرب سپرد کی ہے.اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! اے آسمانی بادشاہت کے موسیقارو! ایک دفعہ پھر اس

Page 374

انوار العلوم جلد 24 339 سیر روحانی (7) نوبت کو اس زور سے بجاؤ کہ دُنیا کے کان پھٹ جائیں.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو.ایک دفعہ پھر اپنے دل کے خون اس قرنا میں بھر دو کہ عرش کے پائے بھی لرز جائیں اور فرشتے بھی کانپ اُٹھیں تاکہ تمہاری دردناک آواز وں اور تمہارے نعرہ ہائے تکبیر اور نعرہ ہائے شہادتِ توحید کی وجہ سے خدا تعالیٰ زمین پر آجائے اور پھر خدا تعالیٰ کی بادشاہت اس زمین پر قائم ہو جائے.اسی غرض کیلئے میں نے تحریک جدید کو جاری کیا ہے اور اسی غرض کیلئے میں تمہیں وقف کی تعلیم دیتا ہوں.سیدھے آؤ اور خدا کے سپاہیوں میں داخل ہو جاؤ.محمد رسول اللہ کا تخت آج مسیح نے چھینا ہوا ہے.تم نے مسیح سے چھین کر پھر وہ تخت محمد رسول اللہ کو دینا ہے اور محمد رسول اللہ نے وہ تخت خدا کے آگے پیش کرنا ہے اور خدا تعالیٰ کی بادشاہت دنیا میں قائم ہوتی ہے.پس میری سنو اور میری بات کے پیچھے چلو کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ خدا کہہ رہا ہے.میری آواز نہیں ہے، میں خدا کی آواز تم کو پہنچارہا ہوں.تم میری مانو ! خدا تمہارے ساتھ ہو، خدا تمہارے ساتھ ہو ، خدا تمہارے ساتھ ہو اور تم دُنیا میں بھی عززت پاؤ اور آخرت میں بھی عزت پاؤ.اللہ تعالیٰ سے دُعا کہ دنیا میں خدا اور اس کے بعد میں جلسہ کو دعا کے بعد ختم کرتا ہوں اور پھر آپ کو یاد اُس کے رسول کی بادشاہت قائم ہو والا چاہوں کہ مبلغین کی جو باہر سے تاریں آئی ہیں اُن کیلئے بھی دُعا کرو، اپنے لئے بھی دُعا کرو، اپنے گھر والوں کیلئے بھی دعا کرو جو احمدی پیچھے رہ گئے ہیں اُن کے لئے بھی اللہ سے دُعا کرو اور سب سے زیادہ تو یہ دُعامانگو کہ ہم میں سے ہر ایک کو خدا تعالیٰ سچا عبد اور اپنے دین کی خدمت کرنے والا بنائے اور ہم سے کوئی ایسی کمزوری ظاہر نہ ہو جس کی وجہ سے اسلام کو، قرآن کو ، رسول اللہ کے دین کو نقصان پہنچے بلکہ اللہ تعالیٰ ہم کو دین کی خدمت کی ایسی توفیق دے کہ ہمارے ذریعہ سے اسلام پھر طاقت پکڑے اور قوت پکڑے اور ہم اپنی آنکھوں سے خدا اور اُس کے رسول کی بادشاہت اس دُنیا میں دیکھ لیں.اور جس طرح ہماری پیدائشیں ایک افسرد ده

Page 375

انوار العلوم جلد 24 340 سیر روحانی (7) دنیا میں ہوتی ہیں ہماری موتیں خوش دنیا میں ہوں.اور ہم اپنے پیچھے اُس دنیا کو چھوڑ کر جائیں جس پر ہمارے خدائے واحد کا قبضہ ہو اور شیطان اُس میں سے نکال دیا گیا ہو.اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دے دی ورنہ جس قسم کی بیماریوں میں سے میں گزرا تھا اور اب تک بھی میں کمزوری محسوس کرتا تھا اُس کو دیکھتے ہوئے اب کی دفعہ مجھے پہلی دفعہ یہ احساس ہوا تھا کہ شاید آپ لوگوں میں یہ میرا آخری جلسہ ہو گا.کیونکہ اب میرا جسم میری طاقت کو زیادہ دیر برداشت نہیں کر سکتا.مجھے اُمید بھی نہیں تھی کہ خدا تعالیٰ مجھے اتنی دیر بولنے کی توفیق دے دے گا مگر اُس نے توفیق دے دی ہے.خدا تعالیٰ میں بڑی طاقتیں ہیں.جہاں اُس نے مجھے بولنے کی توفیق دی ہے وہاں وہ ہم سب کو عمل کرنے کی بھی توفیق دے دے اور ہمیں اسلام کو اُس کی اصلی شان و شوکت میں لانے کی توفیق بخشے.اللهم امينَ اللَّهُمَّ أَمِيْنَ اللَّهُمَّ أَمِينَ 66 سیر روحانی جلد سوم، الناشر الشركة الاسلامیۃ لمٹیڈ ر بوہ، مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس ربوہ) 1 الفاتحة : 2 2 مضعف: کمزور کرنے والا.لام بندی: لام باندھنا.چاروں طرف سے لشکر جمع کرنا.4 چھینکے : وہ جالی یا لٹکن جو کھانا وغیرہ رکھنے کیلئے چھت میں لٹکا دیتے ہیں.5 القمر : 4742 6 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 147 مطبوعہ مصر 1295ھ 1 سیرت ابن ہشام جلد 1 صفحہ 155 مطبوعہ مصر 1295ھ 8 الاحزاب : 14 9 الاحزاب:23 10 سیرت ابن ہشام جلد اصفحہ 180 مطبوعہ مصر 1295ھ 11 الفتح : 2 تا4 12 المائدة : 21 13 تفسیر در منثور للسیوطی جلد 6 صفحہ 69 مطبوعہ بیروت 1314ھ 14 تا 16 السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 83 مطبوعہ مصر 1935ء

Page 376

انوار العلوم جلد 24 341 17 السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 84 مطبوعہ مصر 1935ء 18 فراش : بچھونا 19 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 212،211 مطبوعہ مصر 1295ھ 20 السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 74،73 مطبوعہ بیروت 1320ھ 21 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 74 مطبوعہ بیروت 1320ھ 22 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 212 مطبوعہ مصر 1295ھ 24،23 سیرت ابن ہشام جلد 2 صفحہ 213 مطبوعہ مصر 1295ھ 25، 26 السيرة الحلبية جلد 3 صفحه 94،93 مطبوعہ مصر 1935ء 27 الفتح:17 28 الفتح : 22 29 نفیریاں : شہنائیاں 30 الحج : 40 تا42 31 السيرة الحلبية جلد 1 صفحه 361 مطبوعہ مصر 1932ء سیر روحانی (7) 32 المجادلة : 23 33 المائدة : 57 34 البقرة : 250 35 الانفال : 66 36 أل عمران : 174 37 آل عمران : 125 126 38 آل عمران: 127 39 فتوح البلدان صفحہ 142 مطبوعہ مصر 1319ھ 40 تارت تاریخ طبری جلد 5 صفحہ 72 مطبوعہ بیروت 1987ء 41 مسلم کتاب الفضائل باب من فَضَائِل مُوسى 42 الانعام : 109 44 المائدة : 9 43 تا 49 ابوداؤ د كتاب الجهاد باب في دُعَاءِ الْمُشْرِكِيْن، السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء 50 السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء(مفہوما) 51 السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء

Page 377

انوار العلوم جلد 24 342 سیر روحانی (7) 52 السيرة الحلبية الجزء الثالث صفحہ 172 مطبوعہ مصر 1935ء میں یہ الفاظ ہیں ” سَتَجِدُونَ فِيْهَارِجَالًا فِي الصَّوَامِعِ مُعْتَزِلِيْنَ فَلَا تَتَعَرَّضُوْا لَهُمْ“ 53 تا 55 موطا امام مالک کتاب الجهاد باب النهى عن قَتْلِ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ فِي ا میں اس سے مشابہ الفاظ حضرت ابو بکر کی طرف منسوب ہیں.56 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 207 57 ابوداؤد كتاب الجهاد باب مَا يُؤمَرُ من انضمام العسكر وسعته 58 الاحزاب : 24 59 سیرت ابن ہشام جلد اصفحہ 85 مطبوعہ مصر 1295ھ 60 الغديت : 2 تا6 61 ڈگ بھرنا: لمبے قدم اٹھانا.تیز چلنا 62 التوبة : 52 63 بخاری کتاب الجهاد والسير باب مَنْ يَنْكُبُ أَوْ يُطْعن فِي سَبِيْلِ الله - 64 تاريخ طبرى الجزء الثالث صفحہ 247 تا 249 بیروت 1987ء 65 الانعام : 5857 66 شمائل الترمذى باب ماجاء في صفة مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم 67 متی باب 6 آیت 10،9 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزاپور 1870ء(مفہوماً) 68 السيرة الحلبية الجزء الثانى صفحہ 334 مطبوعہ مصر 1935ء 69 بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام

Page 378

--__--_--_-_-_-_-_-_-_-_-_-_---------------------------------------------------------- انوار العلوم جلد 24 343 مولانا شوکت علی کی یاد میں نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی مولانا شوکت علی کی یاد میں

Page 379

انوار العلوم جلد 24 344 مولانا شوکت علی کی یاد میں

Page 380

انوار العلوم جلد 24 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وو 345 مولانا شوکت علی کی یاد میں نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مولانا شوکت علی کی یاد میں (تحریر کردہ جنوری 1954 ء).....مولانا شوکت علی صاحب مرحوم اپنی ذات میں بھی بڑے کارکن تھے لیکن ان کی عزت زیادہ تر اپنے چھوٹے بھائی مولانا محمد علی صاحب مرحوم کی وجہ سے ہے.حقیقت یہ ہے کہ مولانا محمد علی صاحب دماغ تھے اور مولانا شوکت علی ہاتھ تھے.کام کرنے کی جو طاقت اور ہمت مولانا شوکت علی مرحوم میں تھی وہ مولانا محمد علی مرحوم میں نہ تھی اور سوچنے اور قوم کی خاطر قربانی کی جو طاقت اور ہمت مولانا محمد علی میں تھی وہ مولانا شوکت علی میں نہ تھی.گو یہ نہیں کہا جاسکتا جو طاقتیں ایک میں تھیں وہ دوسرے میں نہیں تھیں میر امطلب صرف یہ ہے کہ دونوں بھائیوں میں ایک ایک قسم کی طاقتیں زیادہ نمایاں تھیں.میں دونوں بھائیوں سے روشناس 1920 ء کے بعد ہوا.نام ان کے دیر سے جانتا تھا کیونکہ دونوں مولانا صاحبان کے بڑے بھائی خان صاحب ذوالفقار علی خان صاحب ہماری جماعت میں 19 ویں صدی کی ابتدا میں شامل تھے.مولانا شوکت علی مرحوم کا جوش اتنا بڑھا ہوا تھا کہ میں نے دیکھا ہے مولانا محمد علی بھی ان کے جوش کی زیادتی کی وجہ سے ان سے خائف رہتے تھے لیکن شوکت علی صاحب کے اندر میں نے یہ خوبی محسوس کی کہ وہ مولانا محمد علی کی قابلیت کے ہمیشہ معترف رہتے تھے.جب سوچنے کا مسئلہ آتا تو ہمیشہ ہی اپنے چھوٹے بھائی کو آگے کرتے تھے اور خود ان کے پیچھے چلنے کی کوشش کرتے تھے.

Page 381

انوار العلوم جلد 24 346 مولانا شوکت علی کی یاد میں اسلام کی محبت اور درد اسلام کی محبت اور اسلام کا درد مولانا شوکت علی مرحوم میں بے انتہا تھا کوئی بات جو ان کے خلاف ہو وہ سننا برداشت کر لیتے تھے.وفاداری کا جذبہ ان میں کمال کا پایا جاتا تھا.جہاں تک مجھے یاد پڑتا تھا سب سے پہلی ملاقات میری دونوں بھائیوں سے بمبئی میں ہوئی.جب کہ مسٹر گاندھی نے میری ملاقات میں سہولت پیدا کرنے کے لئے کانگریس کا جلسہ دہلی سے ملتوی کر کے بمبئی میں بلوایا اور اس کی وجہ یہ ہوئی کہ میں یورپ کے تبلیغی دورے سے واپس آرہا تھا اور پروگرام کے مطابق میں نے مسٹر گاندھی سے دہلی میں ملاقات کرنی تھی جہاں کانگریس کا جلسہ ہو رہا تھا لیکن جہاز میں وائر لیس کے ذریعہ مجھے خبر ملی کہ میرے گھر میں بچہ پیدا ہوا ہے اور اس سلسلہ میں میری بیوی کی صحت خراب ہو گئی ہے اور زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے.میں نے وائرلیس کے ذریعے مسٹر گاندھی کو اطلاع دی کہ کیا یہ نہیں ہو سکتا کہ ہم بمبئی میں مل لیں.انہوں نے مہربانی فرما کر دہلی کے جلسہ کو ملتوی کر کے بمبئی میں مقرر کر دیا اور خود بمبئی آگئے.میں جب ان سے ملنے گیا تو کانگرس کا جلسہ ہو رہا تھا.وہ جلسے سے اٹھ کر ایک علیحدہ کمرے میں مجھے ملاقات کے لئے لے گئے اور انہوں نے مولانا شوکت علی اور مولانا محمد علی صاحبان کو بھی گفتگو کے لئے بلا لیا.گفتگو اس موضوع پر شروع ہوئی کہ کیوں جماعت احمد یہ کانگرس میں شامل نہیں ہوتی ؟ میں نے جواب دیا.مولانا شوکت علی صاحب مرحوم کی نظر میں وہ جواب مسٹر گاندھی کی پالیسی پر حملہ تھا اور وہ ایسی بات کا سنا بر داشت نہیں کر سکے.مولانا محمد علی صاحب کو میں نے دیکھا کہ وہ بالکل خاموش بیٹھے رہے لیکن مولانا شوکت علی صاحب بیچ میں بول پڑے اور انہوں نے میری تردید کرنی چاہی لیکن مسٹر گاندھی نے فوراً ان کو روک دیا اور کہا کہ شوکت علی صاحب آپ شاید بات نہیں سمجھے انہوں نے جو اعتراض کیا ہے وہ سوچنے کے قابل ضرور ہے.میں نے یہ بات کہی تھی کہ مسٹر جناح جیسا قومی خادم اور کانگرس کا پر اناور کر اگر مسٹر گاندھی کے بعض فیصلوں کو جبر اور زیادتی قرار دے کر کانگرس کی با قاعدہ ممبری سے

Page 382

انوار العلوم جلد 24 347 مولا ناشوکت علی کی یاد میں الگ ہو گیا ہے تو میرے جیسے لوگ جو مسلمانوں کے حقوق کی تائید میں پہلے ہی سے کانگرس سے اختلاف رکھتے ہیں اُس وقت تک کانگرس میں کس طرح آ سکتے ہیں جب تک ان کی برابری اور آزادی کے ساتھ کانگرس میں آنے کا موقع نہ دیا جائے.میں نے کھدر پوشی کی ہی مثال پیش کی اور کہا کہ مسٹر جناح نے اس جبری حکم کو ناجائز قرار دیا ہے کہ لوگوں کو کھدر پوشی پر مجبور کیا جائے (اُس وقت تک مسٹر جناح کانگرس کے ساتھ متفق تھے اور پاکستان کا خیال ابھی پیدا نہ ہوا تھا) یہ تھی غالباً ہماری پہلی ملاقات.اس کے بعد دہلی اور شملہ میں ہمیں متواتر ملنے کا موقع ملا اور ایک دن وہ آگیا کہ مولانا شوکت علی مرحوم اور مولانا محمد علی مرحوم کانگرس سے جدا ہو کر اسلامی تنظیم کے قیام میں مشغول ہو گئے اور اب مولانا شوکت علی کا رویہ بھی مختلف تھا وہ رات دن مسلمانوں کی تنظیم میں لگے رہتے تھے اور بسا اوقات شملہ میں ایسے مواقع پر بجائے مختلف کیمپوں میں ہونے کے ہم ایک رائے کے ہوتے تھے اور مل کر یہ تجویزیں سوچا کرتے تھے کہ کس طرح مسلمانوں کو متحد کیا جاسکتا ہے اور متحد رکھا جا سکتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہندوستان کی سیاسی تحریکوں میں اور خصوصاً مسلمانوں کے سیاسی حقوق کی مفاہمت کے متعلق مولانا شوکت علی مولانا محمد علی کا نام ہمیشہ عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.شملہ میٹنگ مجھے خوب یاد ہے کہ مولانا محمد علی صاحب جب کانگرس سے بے زار ہوئے تو سب سے پہلی میٹنگ انہوں نے شملہ میں بلوائی.میں بھی وہاں تھا اور اس میٹنگ میں شامل ہوا.یہ میٹنگ اسمبلی کے ایک کمرہ میں منعقد کی گئی.مولانا محمد علی نے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس میں واضح کیا کہ مسلمانوں کے حقوق ہندوؤں کے ہاتھوں محفوظ نہیں اور بڑے پر زور دلائل سے مسلمانوں کو اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے منظم ہونے کی تحریک کی.میٹنگ ہو رہی تھی کہ ایک نوجوان پشاور کا (جو علی گڑھ سے قانونی تعلیم حاصل کر کے نکلا تھا مجلس میں آکر شامل ہوا) مجھے اس کا نام یاد نہیں لیکن میرے دل میں شبہ ہے کہ وہ موجودہ

Page 383

انوار العلوم جلد 24 348 مولانا شوکت علی کی یاد میں پاکستانی لیڈروں میں سے ایک ہے.مولانا محمد علی کی تقریر کے بعد کھڑے ہو کر اس نے بڑے لطیف پیرائے میں یہ بات بیان کرنا شروع کی کہ کچھ سال پہلے ایک مسلم لیڈر نے علی گڑھ کالج میں تقریر کی تھی اور اس نے یہ بتایا تھا کہ بعض لوگ یہ دلائل مسلمانوں کو ہندوؤں سے بگاڑنے کے لئے دیتے ہیں مگر یہ غلط ہے.مجھے حیرت ہوئی کہ آج میں یہی دلائل مولانا محمد علی کے منہ سے سن رہا ہوں.مولانا محمد علی ان کی یہ تقریر سنتے رہے اور مسکراتے رہے کیونکہ جس بزرگ کی علی گڑھ والی تقریر کا اس نے ذکر کیا تھا وہ خود مولانا محمد علی تھے.مگر مولانا شوکت علی برداشت نہ کر سکے اور کھڑے ہو گئے بڑے زور سے اس کے خیالات کی تردید کی اور بتایا کہ انسان خیالات بدلتا رہتا ہے کیونکہ بعض دفعہ اس کو کئی راز ایسے معلوم ہو جاتے ہیں جو اس کو پہلے سے معلوم نہ تھے.اگر ایک وقت ہم نے قوم کا فائدہ کانگریس سے ملنے سے دیکھا تو ہم نے وہی بات کہہ دی کیونکہ ملک کے لئے وہی رائے مناسب تھی لیکن جب ہم نے دیکھا کہ ہندو قوم مسلمانوں کو حقوق دینے کو تیار نہیں ہے تو ہم نے اپنی قوم کی قربانی پیش کرنے سے انکار کر دیا اور کانگرس سے الگ ہو گئے.اس میں اعتراض کی کون سی بات ہے.مولانا محمد علی برابر مسکراتے رہے چونکہ اصل حالات کا علم نہیں تھا.میں کچھ حیران سا ہوا.بعض نے مولانا شوکت علی سے پوچھا کہ بات کیا تھی ؟ انہوں نے کہا یہ مولانا محمد علی کی تقریر تھی جس پر یہ اعتراض کر رہا تھا یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اندھا دھند ایک راستے کو اختیار کرتے جائیں اور یہ نہ دیکھیں کہ وہ راستہ کس طرف بند ہوتا ہے اور کس طرف کھلتا ہے.بہر حال میرے لئے وہ نہایت لطیف نظارہ تھا کہ خود وہ شخص جس پر اعتراض ہو رہا تھا مسکرا رہا تھا اور جس کا کوئی ذکر نہ تھا وہ جوش میں آرہا تھا مگر اس کے یہ معنی نہیں مولانا محمد علی مرحوم کو غصہ نہ آیا کرتا تھا.غصہ ان کو بھی آتا تھا لیکن ان باتوں کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں.اللہ تعالیٰ ان لوگوں کی مخلصانہ خدمات کو جو انہوں نے مسلمانوں کے لئے کی تھیں قبول فرمائے اور انہیں مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر دے اور مسلمانوں کو

Page 384

انوار العلوم جلد 24 349 مولا ناشوکت علی کی یاد میں اس بات کی توفیق دے کہ وہ ان کے طریق عمل سے سبق حاصل کریں اور وہ سچی اور بے لوث خدمت پاکستان، عالم اسلام اور مسلمانوں کی کر سکیں.آمین “ (ماہنامہ ”ریاض“ کراچی، جنوری 1954ء صفحہ 23 تا25، شوکت علی نمبر “ مدیر سید رئیس احمد جعفری)

Page 385

Page 386

انوار العلوم جلد 24 351 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 387

انوار العلوم جلد 24 352 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان

Page 388

انوار العلوم جلد 24 353 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان بیان فرمودہ 13 تا 15 جنوری 1954ء) ذیل میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ کا وہ بیان درج کیا جاتا ہے جو تحقیقاتی عدالت میں بتاریخ 15،14،13 جنوری 1954ء بصورت شہادت قلم بند ہوا.اصل بیان املا کر دہ عدالت عالیہ انگریزی میں ہے اور ذیل میں اس کا اُردو ترجمہ درج کیا جاتا ہے.بجواب سوالات عدالت بتاریخ 13 جنوری 1954ء سوال: کیا وہ تحریری بیان جو 22 جولائی 1953ء کو صدرانجمن احمدیہ کی طرف سے اِس عدالت میں پیش کیا گیا اور جس کی تصدیق مرزا عزیز احمد نے کی اور جس پر مسٹر بشیر احمد ، مسٹر اسد اللہ خاں اور مسٹر غلام مرتضیٰ کے دستخط ہیں وہ صحیح طور پر آپ کی جماعت کے خیالات کی ترجمانی کرتا ہے؟ جواب: جی ہاں.ایسی امکانی غلطی کو نظر انداز کرتے ہوئے جو سہوارہ گئی ہو.سوال: تحقیقاتی عدالت نے آپ کی انجمن سے کچھ سوالات پوچھے تھے جن کا جواب اگز بٹ نمبر 322 کی صورت میں موجود ہے.کیا یہ جواب بھی صحیح طور پر آپ کی جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے؟ جواب: جی ہاں.یہ جواب مجھے دکھایا گیا تھا اور یہ میری جماعت کے نظریات کی صحیح طور پر ترجمانی کرتا ہے لیکن اس دستاویز کے بارہ میں بھی کسی امکانی سہو نظر کے

Page 389

انوار العلوم جلد 24 354 متعلق وہی رعایت ملحوظ رکھی جانی چاہئے.تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کے بیان کے جواب میں بھی اس عدالت کے سامنے ایک بیان دستاویز 323 پیش کیا گیا تھا.کیا آپ نے اس بیان کو دیکھ لیا تھا؟ جواب: یہ بیان مجھ سے مشورہ لینے کے بعد تیار کیا گیا تھا اور غالباً میں نے اس کو پڑھا بھی تھا.اس کے متعلق بھی وہی رعایت مد نظر رکھتے ہوئے جن کا میں نے دوسری دو دستاویزات کے متعلق ذکر کیا ہے یہ سمجھا جانا چاہئے کہ یہ اس جماعت کے نظریات کی ترجمانی کرتا ہے جس کا میں امیر ہوں.سوال: رسول کون ہوتا ہے ؟ جواب: رسول اُسے کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے کسی خاص مقصد کیلئے انسانوں کی راہنمائی کی غرض سے مامور کیا ہو.سوال: کیا نبی اور رسول میں کوئی فرق ہے ؟ جواب: صفات کے لحاظ سے دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں.وہی شخص اس لحاظ سے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغام لاتا ہے رسول کہلائے گا لیکن اُن لوگوں کے لحاظ سے جن کی طرف وہ خدائی پیغام لاتا ہے وہ نبی کہلائے گا.اس طرح وہی ایک شخص رسول بھی ہو گا اور نبی بھی.سوال: آپ کے نزدیک آدم سے لے کر اب تک کتنے رسول یا نبی گزرے ہیں؟ جواب: غالباً اس بارہ میں کوئی بات قطعی طور پر نہیں کہی جاسکتی احادیث میں ان کی تعداد ایک لاکھ بیس ہزار بیان ہوئی ہے.1 سوال: کیا آدم ، نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسی رسول تھے ؟ جواب: آدم کے بارہ میں اختلاف پایا جاتا ہے.اُن کو بعض لوگ صرف نبی یقین کرتے ہیں اور رسول نہیں سمجھتے مگر میرے نزدیک یہ سب رسول بھی تھے اور نبی بھی.سوال: ولی کس کو کہتے ہیں؟ جواب: وہ جو اللہ تعالیٰ کو محبوب ہوتا ہے.

Page 390

انوار العلوم جلد 24 سوال: اور محدث کون ہوتا ہے؟ 355 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جواب: وہ جس سے اللہ کلام کرتا ہے.سوال: اور مجدد کس کو کہتے ہیں؟ جواب: وہ جو اصلاح اور تجدید کرتا ہے.محدث ہی کا دوسرا نام مجدد ہے.سوال کیاولی، محدث یا مجد د کو وحی ہو سکتی ہے؟ جواب: جی ہاں.سوال: اُن پر وحی کس طرح نازل ہوتی ہے؟ جواب: وحی کے معنے اللہ تعالیٰ کا کلام ہے جو وحی پانے والے پر مختلف طریق سے نازل ہو سکتا ہے.وحی کے نازل ہونے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ جس پر وحی نازل ہوتی ہے اس کے سامنے ایک فرشتہ ظاہر ہوتا ہے.دوسرا طریق یہ ہے کہ جس شخص پر وحی نازل ہوتی ہے وہ بعض الفاظ سنتا ہے لیکن کلام کرنے والے کو نہیں دیکھتا.وحی کا تیسر ا طریق مِنْ وَرَاءِ حِجَاب ہے ( پردے کے پیچھے سے) یعنی رؤیا کے ذریعہ سے.سوال: کیا فرشتوں کے سردار حضرت جبریل کسی ولی، محدث یا مجد د پر وحی لا سکتے ہیں ؟ جواب: جی ہاں.بلکہ متذکرہ بالا اشخاص کے علاوہ دیگر افراد پر بھی.سوال: ایک ولی، محدث یا مجدد پر نازل ہونے والی وحی کا کیا موضوع ہو سکتا ہے؟ جواب: جس پر وحی نازل ہوتی ہو اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار یا آئندہ آنے والے واقعات کی خبر یا کسی پہلی نازل شدہ کتاب کے متن کی وضاحت.سوال: کیا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر صرف جبریل کے ذریعہ ہی وحی نازل ہوتی تھی؟ جواب: یہ درست نہیں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہر وحی حضرت جبریل ہی لاتے تھے.ہاں یہ درست ہے کہ وحی خواہ ایک نبی یاولی یا محدث یا مجدد پر نازل ہو وہ حضرت جبریل کی نگرانی میں نازل ہوتی ہے.

Page 391

انوار العلوم جلد 24 356 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: وحی اور الہام میں کیا فرق ہے؟ جواب: کوئی فرق نہیں.سوال : کیا مرزا غلام احمد صاحب پر حضرت جبریل وحی لاتے تھے ؟ جواب: میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ ہر وحی حضرت جبریل کی نگرانی میں نازل ہوتی ہے.حضرت مرزا صاحب کے ایک الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبریل ایک دفعہ اُن پر نظر آنے والی صورت میں ظاہر ہوئے تھے.تخص سوال: کیا مرزا صاحب اصطلاحی (Dogmatic) معنوں میں نبی تھے ؟ جواب: میں نبی کی کوئی اصطلاحی (Dogmatic) تعریف نہیں جانتا.میں اُس صفحے کو نبی سمجھتا ہوں جس کو اللہ تعالیٰ نے نبی کہا ہو.سوال: کیا اللہ تعالیٰ نے مرزا صاحب کو نبی کہا ہے ؟ جواب: جی ہاں.سوال: مرزا صاحب نے پہلی مرتبہ کب کہا کہ وہ نبی ہیں؟ مہربانی فرما کر اس کی تاریخ بتلائیے اور اس بارہ میں اُن کی کسی تحریر کا حوالہ دیجئے.جواب: جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں نے 1891ء میں نبی ہونے کا دعویٰ کیا.سوال: کیا ایک نبی کے ظہور سے ایک نئی اُمت پیدا ہوتی ہے؟ جواب: جی نہیں.سوال: کیا اُس کے آنے سے ایک نئی جماعت پید اہوتی ہے؟ جواب: جی ہاں.سوال: کیا ایک نئے نبی پر ایمان لانا دوسرے لوگوں کے متعلق اس کے ماننے والوں کے رویہ پر اثر انداز نہیں ہوتا؟ جواب: اگر تو آنے والا نبی صاحب شریعت ہے تو اس سوال کا جواب اثبات میں ہے لیکن اگر وہ کوئی نئی شریعت نہیں لاتا تو دوسروں کے متعلق اس کے ماننے والوں کے رویہ کا انحصار اس سلوک پر ہو گا جو دوسرے لوگ اُن کے ساتھ کرتے ہیں.

Page 392

انوار العلوم جلد 24 357 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: کیا دوسرے مفہوم کے لحاظ سے احمدی ایک جداگانہ کلاس نہیں ہیں ؟ جواب: ہم کوئی نئی اُمت نہیں ہیں بلکہ مسلمانوں کا ہی ایک فرقہ ہیں.سوال: کیا ایک احمدی کی اوّلین وفاداری اپنی مملکت کے ساتھ ہوتی ہے یا کہ اپنی جماعت کے امیر کے ساتھ ؟ جواب: یہ بات ہمارے عقیدہ کا حصہ ہے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہوں اُس کی حکومت کی اطاعت کریں.سوال: کیا 1891ء سے پہلے مرزا غلام احمد صاحب نے بار بار نہیں کہا تھا کہ وہ نبی نہیں ہیں اور یہ کہ ان کی وحی وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت ہے؟ جواب: اُنہوں نے 1900ء میں لکھا تھا کہ اُس وقت تک اُن کا یہ خیال تھا کہ ایک شخص صرف اُس صورت میں ہی نبی ہو سکتا ہے کہ وہ کوئی نئی شریعت لائے لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ انہیں بتلایا کہ نبی ہونے کے لئے شریعت کا لانا ضروری شرط نہیں اور یہ کہ ایک شخص نئی شریعت لائے بغیر بھی نبی ہو سکتا ہے.سوال: کیا مر زا غلام احمد صاحب معصوم تھے ؟ جواب: اگر تو لفظ معصوم کے معنے یہ ہیں کہ نبی کبھی بھی کوئی غلطی نہیں کر سکتا تو ان معنوں کے لحاظ سے کوئی فرد بشر بھی معصوم نہیں حتی کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان معنوں کے لحاظ سے معصوم نہ تھے.جب معصوم کا لفظ نبی کے متعلق بولا جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ وہ اس شریعت کے کسی حکم کی جس کا وہ پابند ہو خلاف ورزی نہیں کر سکتا.دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی قسم کے گناہ کا خواہ وہ کبیر ہ ہو یا صغیرہ مر تکب نہیں ہو سکتا بلکہ وہ مکروہات کا بھی مر تکب نہیں ہو سکتا.کئی نبی ایسے گزرے ہیں جو کوئی نئی شریعت نہیں لائے تھے.وہ امور جو شریعت سے تعلق نہ رکھتے ہوں اُن کے بارہ میں نبی اپنے اجتہاد میں غلطی کر سکتا ہے مثلاً دو فریق مقدمہ کے درمیان تنازعہ کے بارہ میں اُس سے غلط فیصلہ کا صادر ہو نا نا ممکن نہیں ہے

Page 393

انوار العلوم جلد 24 358 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: آپ اس سوال کا جواب کس رنگ میں دے سکتے ہیں کہ آیا مرزا غلام احمد صاحب کسی مفہوم کے مطابق معصوم تھے ؟ جواب: وہ ان معنوں میں معصوم تھے کہ وہ کوئی صغیرہ یا کبیرہ گناہ نہیں کر سکتے تھے.سوال: کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ دوسرے انسانوں کی طرح مرزا صاحب بھی روز حساب اپنے اعمال کے لئے جواب دہ ہوں گے ؟ جواب: قیاس یہی ہے کہ انہیں اپنے اعمال کا حساب نہیں دینا پڑے گا.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ہے کہ آپ کی اُمت میں کثیر التعداد ایسے لوگ ہیں جو نبی نہیں ہیں مگر وہ یوم الحساب کو حساب سے مستثنیٰ ہوں گے.سوال: موت کے بعد انبیاء پر کیا گزرتی ہے؟ کیا وہ دوسرے انسانوں کی طرح یوم الحساب تک قبروں میں رہتے ہیں یا کہ سید ھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں ؟ جواب: میرے نزدیک یہ صحیح نہیں کہ انبیاء موت کے بعد سید ھے فردوس یا اعراف میں چلے جاتے ہیں لیکن یہ درست ہے کہ وہ اللہ کے قریب تر ایک خاص مقام پر پہنچائے جاتے ہیں.چونکہ مرزا غلام احمد صاحب نبی تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اُن سے بھی عام احمدیوں کی طرح نہیں بلکہ خاص سلوک کیا ہو گا.سوال: کیا آپ یہ مانتے ہیں کہ جب آدمی مر جاتا ہے تو منکر و نکیر قبر میں اُس کے پاس آتے ہیں؟ جواب: منکر و نکیر دو فرشتے ہیں لیکن میرا یہ عقیدہ نہیں کہ وہ قبر میں مردوں سے سوالات کرنے کے لئے جسمانی صورت میں ظاہر ہوں گے.سوال: منکر و نکیر قبر میں کیوں آتے ہیں؟ جواب: مرنے والے کو اُس کے گزشتہ اعمال کی خبر دینے کے لئے.سوال: کیا آپ کے خیال میں منکر و نکیر مرزا غلام احمد صاحب کی قبر میں بھی آئے تھے ؟ جواب: میرے پاس اس بات کے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں.سوال: کیا وہ نُور جو اللہ تعالیٰ نے آدم کو معاف کرنے کے بعد اُس میں داخل کیا تھا

Page 394

انوار العلوم جلد 24 359 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان مرزا صاحب کو بھی ورثہ میں ملا ہے ؟ جواب: مجھے کسی ایسی تھیوری کا علم نہیں.قرآن کریم یا کسی صحیح حدیث میں کسی ایسے واقعہ کا ذکر نہیں.سوال: کیا قرآن کریم میں مسیح یا مہدی کے متعلق کوئی واضح پیشگوئی موجود ہے؟ جواب: ان کا ذکر قرآن کریم میں نام لے کر موجود نہیں.سوال: کیا احادیث مسیح اور مہدی کے ظہور پر متفق ہیں؟ جواب: ایسی کوئی حدیث موجود نہیں جس میں یہ کہا گیا ہو کہ کوئی مسیح ظاہر نہیں ہو گا.جہاں تک مہدی کا تعلق ہے بعض حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اور مسیح ایک ہی ہیں.سوال: کیا تمام مسلمان متفقہ طور پر ان احادیث کو مانتے ہیں؟ جواب: جی نہیں.سوال: کیا ان احادیث سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مسیح اور مہدی دو علیحدہ علیحدہ شخص ہوں گے ؟ جواب: ہاں! بعض احادیث سے ایسا ظاہر ہوتا ہے.سوال: ان احادیث کے مطابق جن میں مسیح اور مہدی کے ظہور کی پیشگوئی کی گئی ہے دجال کے قتل اور یاجوج و ماجوج کی تباہی کے کتنا عرصہ بعد اسرافیل اپنا پہلا صور پھونکے گا؟ جواب: میں ان احادیث کو کوئی اہمیت نہیں دیتا.سوال: کیا آپ ان احادیث کو مانتے ہیں جن میں دجال اور یاجوج و ماجوج کا ذکر ہے ؟ جواب: اس سوال کا جواب دینے کے لئے مجھے ان احادیث کی پڑتال کرنا ہو گی، دجال، یا جوج ماجوج کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے.سوال: کیا مسیح یا مہدی کو نبی کارتبہ حاصل ہو گا؟ جواب: جی ہاں.

Page 395

انوار العلوم جلد 24 360 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: کیا وہ دنیوی بادشاہ ہوں گے؟ جواب: میرے نزدیک نہیں.سوال: کیا اس مفہوم کی کوئی حدیث ہے کہ مسیح جہاد یا جزیہ کے متعلق قانون منسوخ کر دے گا؟ جواب: ایک حدیث "جزیہ" کے متعلق ہے اور دوسری "حرب" کے متعلق.ہم جزیہ کے متعلق حدیث کو ترجیح دیتے ہیں اور دوسری کو اُس کی وضاحت سمجھتے ہیں.ہم نہیں سمجھتے کہ جو الفاظ یعنی يَضَع حدیث میں استعمال ہوئے ہیں ان کے معنے منسوخ کرنے کے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ اس لفظ کے معنے التواء کے ہیں.سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا؟ جواب: جی ہاں.سوال: کیا مسیح یا مہدی کے ظہور پر اس پر ایمان لانا مسلمانوں کے عقیدہ کا ضروری جزو ہے؟ جواب: جی ہاں.اگر کوئی شخص یہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ دعویٰ درست ہے تو اسے ماننا اس پر فرض ہو جاتا ہے.سوال کیا دین اسلام ایک سیاسی مذہبی نظام ہے ؟ جواب: یہ ایک مذہبی نظام ہے مگر اس میں کچھ سیاسی احکام بھی ہیں جو اس مذہبی نظام کا حصہ ہیں اور جن کا مانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا دوسرے احکام کا.سوال: اس نظام میں کفار کی کیا حیثیت ہے؟ جواب: کفار کو وہی حیثیت حاصل ہو گی جو مسلمانوں کو.سوال: کافر کسے کہتے ہیں؟ جواب: کافر اور مؤمن اور مسلم نسبتی الفاظ ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ معلق ہیں ان کا کوئی جداگانہ معین مفہوم نہیں.قرآن کریم میں کافر کا لفظ اللہ تعالیٰ کے تعلق میں بھی استعمال ہوا ہے اور طاغوت کے تعلق میں بھی.اسی طرح مؤمن کا لفظ طاغوت کے تعلق میں بھی استعمال ہوا ہے.

Page 396

انوار العلوم جلد 24 361 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: کیا اسلامی نظام میں کفار یعنی غیر مسلموں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ قانون سازی اور قانون کے نفاذ میں حصہ لیں اور کیا وہ اعلیٰ انتظامی ذمہ داری کے عہدوں پر فائز ہو سکتے ہیں؟ جواب: میرے نزدیک قرآن نے جس حکومت کو خالص اسلامی حکومت کہا ہے اُس کا قیام موجودہ حالات میں ناممکن ہے.اسلامی حکومت کی اس تعریف کے مطابق یہ ضروری ہے کہ دُنیا کے تمام مسلمان ایک سیاسی وحدت میں منسلک ہوں.مگر موجودہ حالات میں یہ صورت بالکل نا قابلِ عمل ہے.سوال: کیا کبھی اسلامی حکومت قائم رہی بھی ہے؟ جواب: جی ہاں.خلفائے راشدین کی اسلامی جمہوریت کے زمانہ میں.سوال: اس جمہوریہ میں کفار کی کیا حیثیت تھی؟ کیا وہ قانون سازی اور نفاذ قانون میں حصہ لے سکتے تھے اور کیا وہ انتظامیہ کی اعلیٰ ذمہ داریوں کے عہدوں پر متمکن ہو سکتے تھے؟ جواب یہ سوال اُس وقت پیدا ہی نہیں ہوا تھا کیونکہ اسلامی جمہوریہ کے دور میں مسلمانوں اور کفار میں مسلسل جنگ جاری رہی اور جو کفار مفتوح ہو جاتے تھے اسلامی مملکت میں اُنہیں وہی حقوق حاصل ہو جاتے تھے جو مسلمانوں کو حاصل ہوتے تھے.اُن دنوں آجکل جیسی منتخب شدہ اسمبلیاں موجود نہ تھیں.سوال: کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں عدلیہ علیحدہ ہوتی تھی؟ جواب: اُن دنوں سب سے بڑی عدلیہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے.سوال: کیا اسلامی طرز کی حکومت میں ایک کافر کو حق حاصل ہے کہ وہ کھلے طور پر اپنے مذہب کی تبلیغ کرے؟ جواب: جی ہاں.سوال: اسلامی مملکت میں اگر کوئی مسلمان مذاہب کے تقابلی مطالعہ کے بعد دیانتداری کے ساتھ اسلام کو ترک کر کے کوئی دوسر امذ ہب اختیار کر لیتا ہے مثلاً عیسائی یا

Page 397

انوار العلوم جلد 24 362 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان دہر یہ ہو جاتا ہے تو کیا وہ اُس مملکت کی رعایا کے حقوق سے محروم ہو جاتا ہے؟ جواب: میرے نزدیک تو ایسا نہیں لیکن اسلام میں دوسرے ایسے فرقے پائے جاتے ہیں جو ایسے شخص کو موت کی سزا دینے کا عقیدہ رکھتے ہیں.سوال: اگر کوئی شخص مرزا غلام احمد صاحب کے دعاوی پر واجبی غور کرنے کے بعد دیانتداری سے اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ آپ کا دعویٰ غلط تھا تو کیا پھر بھی وہ مسلمان رہے گا؟ جواب: جی ہاں.عام اصطلاح میں وہ پھر بھی مسلمان سمجھا جائے گا.سوال: کیا آپ کے نزدیک اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو سزا دے گا جو غلط مذہبی خیالات یا عقائد رکھتے ہوں لیکن دیانتداری سے ایسا کرتے ہوں؟ جواب: میرے نزدیک سزاء جزاء کا اصول دیانتداری اور نیک نیتی پر مبنی ہے نہ کہ عقیدہ کی صداقت پر.سوال: کیا ایک اسلامی حکومت کا یہ مذہبی فرض ہے کہ وہ تمام مسلمانوں سے قرآن اور سنت کے تمام احکام کی جن میں حقوق اللہ کے متعلق قوانین بھی شامل ہیں پابندی کرائے؟ جواب: اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ گناہ کی ذمہ داری انفرادی ہے اور ایک شخص صرف اُن ہی گناہوں کا ذمہ دار ہوتا ہے جن کا وہ خود مر تکب ہوتا ہے.اس لئے اگر اسلامی مملکت میں کوئی شخص قرآن و سنت کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اُس کا وہ خود ہی جواب دہ ہے.بجواب سوالات عدالت بتاریخ 14 جنوری 1954ء سوال: کل آپ نے کہا تھا کہ گناہ کی ذمہ داری انفرادی ہوتی ہے.فرض کیجئے کہ میں ایک مسلم حکومت کا مسلمان شہری ہوں اور میں ایک دوسرے شخص کو قرآن و سنت کی کوئی خلاف ورزی کرتے ہوئے دیکھتا ہوں.کیا میرا یہ مذہبی فرض ہے کہ

Page 398

انوار العلوم جلد 24 363 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان میں اُسے اِس خلاف ورزی سے روکوں ؟ مذہبی فرض کا مطلب یہ ہے کہ اگر میں اُسے ایسا کرنے سے نہ روکوں تو میں خود بھی گنہگار ہوں گا؟ جواب: آپ کا فرض صرف اس شخص کو نصیحت کرنا ہے.سوال: اگر میں صاحب امر ہوں تو کیا پھر بھی یہی صورت ہو گی ؟ جواب: پھر بھی آپ کا یہ مذہبی فرض نہیں کہ آپ اُس شخص کو ایسا کرنے سے جبراً رو کیں.سوال: اگر میں صاحب امر ہوں تو کیا میرا یہ فرض ہو گا کہ میں ایساد نیاوی قانون بناؤں جو اس قسم کی خلاف ورزیوں کو قابل سزا قرار دے؟ جواب: جی نہیں، ایسا کرنا آپ کا مذہبی فرض نہیں ہو گا لیکن ایسا قانون بنانے کا آپ کو اختیار حاصل ہو گا.سوال: کیا ایک سچے نبی کا انکار کفر نہیں؟ جواب: ہاں یہ کفر ہے لیکن کفر دو قسم کا ہوتا ہے ایک وہ جس سے کوئی شخص ملت سے خارج ہو جاتا ہے.دوسرا وہ جس سے وہ ملت سے خارج نہیں ہو تا.کلمہ طیبہ کا انکار پہلی قسم کا کفر ہے.دوسری قسم کا کفر اس سے کم درجے کی بد عقید گیوں سے پیدا ہوتا ہے.سوال: کیا ایسا شخص جو ایسے نبی کو نہیں مانتا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آیا ہو اگلے جہان میں سزا کا مستوجب ہو گا؟ جواب: ہم ایسے شخص کو گنہ گار تو سمجھتے ہیں مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو سزا دے گا یا نہیں اس کا فیصلہ کر ناخد ا کا کام ہے.سوال: کیا آپ خاتم النبیین میں خاتم کو "ت" کی فتح سے پڑھتے ہیں یا کسرہ سے؟ جواب: دونوں درست ہیں.سوال: اس اصطلاح کے صحیح معنے کیا ہیں؟ جواب: اگر اسے "ت" کی زبر سے پڑھا جائے تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ ہمارے

Page 399

انوار العلوم جلد 24 364 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نبیوں کی زینت ہیں جس طرح انگوٹھی انسان کے لئے زینت ہوتی ہے.اگر اسے کسرہ سے پڑھا جائے تو لغت کہتی ہے کہ اس صورت میں بھی اس کا یہی مفہوم ہو گا مگر اس سے وہ شخص بھی مراد ہو گا جو کسی چیز کو اختتام تک پہنچا دے.اس مفہوم کے مطابق اس کا یہ مطلب ہو گا کہ خاتم النبیین آخری نبی ہیں مگر اِس صورت میں لفظ النبیین سے مراد وہ نبی ہوں گے جن کے ساتھ شریعت نازل ہو یعنی تشریعی نبی.سوال: مرزا غلام احمد صاحب کن معنوں میں نبی تھے ؟ جواب: میں اس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں کہ وہ اِس لئے نبی تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی وحی میں ان کا نام نبی رکھا ہے.سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب کے روحانی درجہ کا کوئی اور شخص آئندہ آسکتا ہے؟ جواب: اس کا امکان ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آیا اللہ تعالیٰ آئندہ ایسے اشخاص مبعوث کرے گا یا نہیں.سوال: کیا عورت نبی ہو سکتی ہے؟ جواب: احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت نبی نہیں ہو سکتی.سوال: کیا آپ کی جماعت میں کسی عورت نے اس منصب پر ہونے کا دعویٰ کیا ؟ جواب: میرے علم کے مطابق نہیں.سوال: کیا جہنم ابدی ہے؟ جواب: نہیں.سوال: کیا جہنم کوئی جانور ہے یا متحرک شے یا کوئی مقررہ مقام ؟ جواب: جہنم صرف ایک روح سے تعلق رکھنے والی کیفیت ہے.سوال: امام غزالی نے جہنم کو ایک جانور سے تشبیہ دی ہے.کیا یہ درست ہے ؟ جواب: ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لفظ مجازاً استعمال کیا گیا ہے.سوال: اسلام کے بعض نکتہ چین کہتے ہیں کہ اسلام جیسا کہ ایک معمولی عالم دین است

Page 400

انوار العلوم جلد 24 365 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سمجھتا ہے ذہنی غلامی کو دائمی شکل دیتا ہے کیونکہ وہ دیانتداری سے مخالفت کرنے والوں کو چاہے وہ کتنے ہی دیانتدار ہوں ہمیشہ کے لئے جہنمی قرار دیتا ہے.جواب: میری رائے میں اسلام ہی صرف ایک ایسا مذہب ہے جو جہنم کو ابدی نہیں سمجھتا.سوال: کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اُن لوگوں تک بھی وسیع ہو گی جو مسلمان نہیں ہیں ؟ جواب: یقیناً سوال: کیا قوم کا موجودہ نظریہ کہ ایک ریاست کے مختلف مذاہب کے ماننے والے شہریوں کو مساوی سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں اسلام میں پایا جاتا ہے ؟ جواب: یقینا سوال: ایک غیر مسلم حکومت میں ایک مسلمان کا اس صورت میں کیا فرض ہے اگر یہ حکومت کوئی ایسا قانون بنائے جو قرآن وسنت کے خلاف ہو ؟ جواب: اگر حکومت قانون بناتے وقت وہ اختیارات استعمال کرے جو وہ بحیثیت حکومت استعمال کر سکتی ہے تو مسلمانوں کو اس قانون کی تعمیل کرنی چاہئے لیکن اگر یہ قانون پرسنل ہو مثلاً اگر یہ قانون مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکے تو چونکہ یہ ایک بہت اہم سوال ہے اس لئے مسلمانوں کو ایسا ملک چھوڑ دینا چاہئے.لیکن اگر سوال معمولی نوعیت کا ہو مثلاً وراثت، شادی وغیرہ کا معاملہ ہو تو مسلمان کو اس قانون کو تسلیم کر لینا چاہئے.سوال: کیا ایک مسلمان کسی غیر مسلم حکومت کا وفادار ہو سکتا ہے؟ جواب: یقیناً سوال: اگر وہ ایک غیر مسلم حکومت کی فوج میں ہو اور اُسے ایک مسلم حکومت کے ساتھ لڑنے کیلئے کہا جائے تو اس صورت میں اس کا کیا فرض ہو گا ؟ جواب: یہ اس کا کام ہے کہ وہ دیکھے کہ آیا مسلم مملکت حق پر ہے یا نہیں ؟ اگر وہ سمجھے کہ

Page 401

انوار العلوم جلد 24 366 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان مسلم حکومت حق پر ہے تب اس کا فرض ہے کہ وہ استعفیٰ دے دے یا جیسا کہ بعض دوسرے ممالک میں دستور ہے یہ اعلان کر دے کہ ایسی جنگ میں شمولیت میری ضمیر کے خلاف ہے.سوال: کیا آپ کا یہ ایمان ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب بھی انہی معنوں میں شفیع ہوں گے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شفیع سمجھا جاتا ہے؟ جواب: جی نہیں.چودھری نذیر احمد صاحب ایڈووکیٹ جماعت اسلامی کی جرح کے جواب میں سوال: آپ کی جماعت میں الفضل کو کیا حیثیت حاصل ہے؟ اور آپ کا اِس سے کیا کو کیا تعلق ہے؟ جواب: یہ صحیح ہے کہ اس اخبار کو میں نے جاری کیا تھا لیکن میں نے دو تین سال بعد اپنا تعلق اس سے منقطع کر لیا تھا.غالباً ایسا میں نے 1915 ء یا 1916ء میں کیا تھا.یہ اب صدرانجمن احمد یہ ربوہ کی ملکیت ہے.سوال: کیا 1916،1915ء کے بعد آپ کے اختیار میں یہ بات تھی کہ آپ اس کی اشاعت کو روک دیں؟ جواب: جی ہاں.اس اعتبار سے کہ جماعت میری وفادار ہے اور اگر میں انہیں کہوں کہ وہ اس پر چہ کو نہ خریدیں تو اس کی اشاعت خود بخود بند ہو جائے گی.عدالت کا سوال: کیا آپ انجمن کو مشورہ دے سکتے ہیں کہ وہ اس کی اشاعت کو بند کر دے؟ جواب: میں انجمن کو بھی مشورہ دے سکتا ہوں جو اس کی مالک ہے کہ وہ اس کی اشاعت کو روک دے.

Page 402

انوار العلوم جلد 24 367 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان وکیل کے سوال: کیا آپ مؤمن اور مسلم کی اس تعریف سے اتفاق رکھتے ہیں جو صد را انجمن احمد یہ ربوہ نے عدالت کے ایک سوال کے جواب میں دی تھی؟ جواب: ہاں.سوال: کیا آپ اپریل 1911ء میں تشحیذ الاذہان کے ایڈیٹر تھے ؟ جواب: ہاں.سوال: کیا آپ نے جن خیالات کا آج یا کل اظہار کیا ہے ان خیالات سے کسی رنگ میں مختلف ہیں جو آپ نے اپریل 1911ء میں تشخیز الاذہان کے دیباچہ میں ظاہر کئے تھے؟ جواب: نہیں.سوال: کیا آپ اب بھی یہ عقیدہ رکھتے ہیں جو آپ نے کتاب آئینہ صداقت کے پہلے باب میں صفحہ 35 پر ظاہر کیا تھا یعنی یہ کہ تمام وہ مسلمان جنہوں نے مرزا غلام احمد صاحب کی بیعت نہیں کی خواہ انہوں نے مرزا صاحب کا نام بھی نہ سنا ہو وہ کافر ہیں اور دائرہ اسلام سے خارج؟ جواب: یہ بات خود اس بیان سے ظاہر ہے کہ میں ان لوگوں کو جو میرے ذہن میں ہیں مسلمان سمجھتا ہوں.پس جب میں "کافر" کا لفظ استعمال کرتا ہوں تو میرے ذہن میں دوسری قسم کے کافر ہوتے ہیں جن کی میں پہلے ہی وضاحت کر چکا ہوں یعنی وہ جو ملت سے خارج نہیں.جب میں کہتا ہوں کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا اظہار کتاب مفردات راغب کے صفحہ 240 پر کیا گیا ہے.جہاں اسلام کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں.ایک دُونَ الایمان اور دوسرے فَوقَ الایمان.دُونَ الایمان میں وہ سلمان شامل ہیں جن کے اسلام کا درجہ ایمان سے کم ہے.فوق الایمان میں ایسے مسلمانوں کا ذکر ہے جو ایمان میں اس درجہ ممتاز ہوتے ہیں کہ وہ معمولی ایمان سے بلند تر ہوتے ہیں.اس لئے جب میں نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگ

Page 403

انوار العلوم جلد 24 368 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان دائرہ اسلام سے خارج ہیں تو میرے ذہن میں وہ مسلمان تھے جو فوق الایمان کی تعریف کے ماتحت آتے ہیں.مشکوۃ میں بھی ایک روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص کسی ظالم کی مدد کرتا اور اُس کی 2 حمایت کرتا ہے وہ اسلام سے خارج ہے.سوال: موجودہ ایجی ٹیشن کے شروع ہونے سے پہلے کیا آپ ان مسلمانوں کو جو مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں کہتے رہے؟ جواب: ہاں میں یہ کہتا رہا ہوں اور ساتھ ہی میں "کافر" اور " خارج از دائرہ اسلام" کی اصطلاحوں کے اس مفہوم کی بھی وضاحت کرتا رہا ہوں جس میں یہ اصطلاحیں استعمال کی گئیں.سوال: کیا یہ صحیح نہیں کہ موجودہ ایجی ٹیشن شروع ہونے سے قبل آپ اپنی جماعت کو یہ مشورہ دیتے رہے کہ وہ غیر احمدی امام کے پیچھے نماز نہ پڑھیں اور غیر احمدی کا جنازہ نہ پڑھیں اور غیر احمدیوں سے اپنی لڑکیوں کی شادی نہ کریں؟ جواب: میں یہ سب کچھ غیر احمدی علماء کے اسی قسم کے فتوؤں کے جواب میں کہتا رہا ہوں بلکہ میں نے اُن سے کم کہا ہے کیونکہ جَزَوْا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا - 3 سوال: آپ نے اب اپنی شہادت میں کہا ہے کہ جو شخص نیک نیتی کے ساتھ مرزا غلام احمد صاحب کو نہیں مانتاوہ پھر بھی مسلمان رہتا ہے.کیا شروع سے آپ کا یہی نظریہ رہا ہے؟ جواب: ہاں.سوال: کیا احمدیوں اور غیر احمدیوں کے درمیان اختلافات بنیادی ہیں؟ جواب: اگر لفظ بنیادی کا وہی مفہوم ہے جو ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لفظ کا لیا ہے تب یہ اختلافات بنیادی نہیں ہیں.سوال : اگر لفظ " بنیادی" عام معنوں میں لیا جائے تو پھر ؟

Page 404

انوار العلوم جلد 24 369 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جواب: عام معنوں میں اس کا مطلب "اہم " ہے لیکن اس مفہوم کے لحاظ سے بھی اختلافات بنیادی نہیں ہیں بلکہ فروعی ہیں.عدالت کا سوال: احمدیوں کی تعداد پاکستان میں کتنی ہے؟ جواب: دو اور تین لاکھ کے درمیان.وکیل کے سوال: کیا کتاب تحفہ گولڑویہ جو ستمبر 1902ء میں شائع ہوئی تھی مرزا غلام احمد صاحب کی تصنیف ہے ؟ جواب: جی ہاں.سوال: کیا آپ کو یہ معلوم ہے یا نہیں کہ جس عقیدہ کا ذیل کے پیرا میں ذکر ہے وہ عامۃ المسلمین کا عقیدہ ہے: ”جیسا کہ مؤمن کے لئے دوسرے احکام الہی پر ایمان لانا فرض ہے ایسا ہی اس بات پر ایمان فرض ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دو بعث ہیں.ایک بعث محمد کی جو جلالی رنگ میں ہے.دوسر ابعث احمدی جو کہ جمالی رنگ میں ہے.“ جواب: عامتہ المسلمین کے نزدیک اس کا اطلاق صرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے لیکن ہمارے نزدیک اس کا اطلاق اصلی طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ہوتا ہے لیکن ظلتی طور پر مرزا غلام احمد صاحب پر بھی ہوتا ہے.سوال: ازراہ کرم 21 /اگست 1917ء کے الفضل کے صفحہ نمبرے کے کالم نمبر 1 کو ملاحظہ فرمائیے جہاں آپ نے اپنی جماعت اور غیر احمدیوں میں فرق بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ : ور نہ حضرت مسیح موعود نے تو فرمایا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اور ، اُن کا خدا اور ہے اور ہمارا اور ، ہمارا حج اور ہے اور ان کا حج اور اسی طرح اُن سے ہر بات میں اختلاف ہے.کیا یہ صحیح ہے؟ 66

Page 405

انوار العلوم جلد 24 370 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جواب: اُس وقت جب یہ عبارت شائع ہوئی تھی میرا کوئی ڈائری نویس نہیں تھا اس لئے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میری بات کو صحیح طور پر رپورٹ کیا گیا ہے یا نہیں.تاہم اس کا مجازی رنگ میں مطلب لینا چاہئے.میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم زیادہ خلوص سے عمل کرتے ہیں.سوال: کیا آپ نے انوار خلافت کے صفحہ 93 پر کہا ہے کہ: اب ایک اور سوال رہ جاتا ہے کہ غیر احمدی تو حضرت مسیح موعود کے منکر ہوئے اِس لئے اُن کا جنازہ نہیں پڑھنا چاہئے لیکن اگر کسی غیر احمدی کا چھوٹا بچہ مر جائے تو اُس کا جنازہ کیوں نہ پڑھا جائے وہ تو مسیح موعود کا مُكَفِّر نہیں.میں یہ سوال کرنے والے سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہندوؤں اور عیسائیوں کے بچوں کا جنازہ کیوں نہیں پڑھا جاتا؟“ جواب: ہاں.لیکن یہ بات میں نے اس لئے کہی تھی کہ غیر احمدی علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ احمدیوں کے بچوں کو بھی مسلمانوں کے قبرستان میں دفن نہ ہونے دیا جائے.واقعہ یہ ہے کہ احمدی عورتوں اور بچوں کی نعشیں قبروں سے اکھاڑ کر باہر پھینکی گئیں.چونکہ اُن کا فتویٰ اب تک قائم ہے اس لئے میر افتویٰ بھی قائم ہے البتہ اب ہمیں بانی سلسلہ کا ایک فتویٰ ملا ہے جس کے مطابق ممکن ہے کہ غور و خوض کے بعد پہلے فتویٰ میں ترمیم کر دی جائے.سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ مرزا غلام احمد صاحب نے حقیقۃ الوحی کے صفحہ 163 پر لکھا ہے که مانتا.“ علاوہ اس کے جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا اور رسول کو بھی نہیں جواب: ہاں.یہ الفاظ اپنے عام معنوں میں استعمال ہوئے ہیں.سوال: 1944ء میں قیام پاکستان کے متعلق آپ کا طرز عمل کیا تھا؟ کیا یہ صحیح ہے کہ

Page 406

انوار العلوم جلد 24 371 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان 11 جون 1944ء کو آپ نے ملفوظات میں کہا تھا کہ : ”پاکستان اور آزاد حکومت کا مطالبہ ہندوستان کی غلامی کو مضبوط کرنے والی زنجیریں ہیں.“ جواب: ہاں.لیکن میں نے یہ اس لئے کہا تھا کہ میرے اور مولانا مودودی سمیت کئی سر کردہ مسلمانوں کی یہ رائے تھی کہ قیام پاکستان کا مطالبہ ہندوستان کی آزادی کو مشکل بنا دے گا.ان دنوں پاکستان کے قیام کو ناممکن سمجھا جاتا تھا کیونکہ انگریز ایسی مملکت کے قیام کے خلاف تھے.سوال: کیا جیسا کہ الفضل مورخہ 5.اپریل 1947ء میں شائع ہو اتھا آپ نے یہ کہا تھا کہ: (الف) اس لئے ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ ہندو مسلم سوال اُٹھ جائے اور ساری قومیں شیر وشکر ہو کر رہیں ملک کے حصے بخرے نہ ہوں.بیشک یہ کام بہت مشکل ہے مگر اس کے نتائج بھی بہت شاندار ہیں.“ (ب) ممکن ہے عارضی طور پر افتراق ہو اور کچھ وقت کے لئے دونوں قومیں جدا جدا رہیں مگر یہ حالت عارضی ہو گی اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ جلد ڈور ہو جائے“ (ج) بہر حال ہم چاہتے ہیں کہ اکھنڈ ہندوستان بنے اور ساری قومیں باہم شیر وشکر ہو کر رہیں.جواب: الفضل مورخہ 5 اپریل 1947ء میں میری تقریر صحیح طور پر رپورٹ نہیں ہوئی.صحیح رپورٹ 12 اپریل 1947ء میں شائع ہوئی ہے.سوال : کیا آپ کی جماعت میں کوئی ملا بھی ہے؟ جواب: "ملا " کا لفظ "مولوی" کا مترادف ہے اور یہ لفظ تحقیر کے لئے استعمال نہیں ہوتا.مُلا علی قاری، مُلا شور بازار اور مُلا باقر جو تمام معروف شخصیتیں ہیں ملا کہلاتے ہیں اور اس میں فخر محسوس کرتے ہیں یا کرتے رہے ہیں.سوال: کیا آپ نے سندھ سے واپسی پر کوئی پریس انٹر ویو دیا تھا جو 12 / اپریل 1947ء

Page 407

انوار العلوم جلد 24 372 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان کے الفضل میں شائع ہوا اور جس میں آپ سے ایک اخباری نمائندہ نے ایک سوال کیا اور آپ نے اُس کا جواب دیا؟ سوال یہ تھا کہ کیا پاکستان عملاً ممکن ہے؟ جس کا جواب یہ دیا گیا تھا کہ سیاسی اور اقتصادی لحاظ سے اس سوال کو دیکھا جائے تو پاکستان ممکن ہے لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ ملک کے حصے بخرے کرنے کی ضرورت نہیں.جواب: یہ صحیح ہے کہ ایک اخباری نمائندے نے مجھ سے ایک سوال کیا تھا مذ کورہ بالا الفاظ اس کا ایک اقتباس ہے جو کچھ اس میں کہا گیا وہ تقسیم کے سوال پر میری ذاتی رائے تھی.سوال: کیا آپ نے 14 مئی 1947ء کو نماز مغرب کے بعد اپنی مجلس علم و عرفان میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے جو 16 مئی 1947ء کے الفضل میں شائع ہوئے.میں قبل ازیں بتا چکاہوں کہ اللہ تعالیٰ کی مشیئت ہندوستان کو اکٹھا رکھنا چاہتی ہے لیکن اگر قوموں کی غیر معمولی منافرت کی وجہ سے عارضی طور پر الگ بھی ہونا پڑے تو یہ اور بات ہے.بسا اوقات عضو ماؤف کو ڈاکٹر کاٹ دینے کا بھی مشورہ دیتے ہیں لیکن یہ خوشی سے نہیں ہو تا بلکہ مجبوری اور معذوری کے عالم میں.اور صرف اُسی وقت جب اُس کے بغیر چارہ نہ ہو.اور اگر پھر یہ معلوم ہو جائے کہ اس ماؤف عضو کی جگہ نیا لگ سکتا ہے تو کونسا جاہل انسان اس کے لئے کوشش نہیں کرے گا.اسی طرح ہندوستان کی تقسیم پر اگر ہم رضامند ہوئے ہیں تو خوشی سے نہیں بلکہ مجبوری سے اور پھر یہ کوشش کریں گے کہ یہ کسی نہ کسی طرح جلد تر متحد ہو جائے.“ جواب: نہیں.میں نے بالکل انہی الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار نہیں کیا تھا.جو کچھ میں نے کہا اُسے بہت حد تک غلط طور پر پیش کیا گیا ہے.جس شخص نے میری تقریر

Page 408

انوار العلوم جلد 24 373 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان کی رپورٹ مرتب کی یعنی منیر احمد وہ کبھی میرا ڈائری نویس نہیں رہا.اس بارے میں میرے صحیح خیالات الفضل مورخہ 21 مئی 1947 ء میں شائع ہوئے تھے جو مندرجہ ذیل ہیں: " ان حالات کے پیش نظر ان (مسلمانوں) کا حق ہے کہ مطالبہ کریں اور ہر دیانتدار کا فرض ہے کہ خواہ اِس میں اُس کا نقصان ہو مسلمانوں کے اس مطالبہ کی تائید کرے.....بے شک ہمیں مسلمانوں کی طرف سے بھی بعض اوقات تکالیف پہنچ جاتی ہیں اور ہم تسلیم کر لیتے ہیں کہ شاید وہ ہمیں پھانسی پر چڑھا دیں گے لیکن میں ہندوؤں سے پوچھتا ہوں کہ تم لوگوں نے ہمیں کب سکھ دیا تھا؟ تم لوگوں نے ہمیں کب آرام پہنچایا تھا اور تم لوگوں نے کب ہمارے ساتھ ہمدردی کی تھی ؟“ سوال: کیا آپ نے جو کچھ 16 مئی 1947ء کے الفضل میں شائع ہوا اس کی تردید کی ؟ جواب: جو کچھ اس میں بیان ہوا تھا 21 مئی 1947ء کے الفضل میں عملاً اُس کی تردید کر دی گئی تھی.سوال: الفضل پر شائع شدہ الفاظ 14 ہجرت کا کیا مطلب ہے؟ جواب: اس سے 14 مئی مراد ہے.عدالت کا سوال: آپ اس مہینے کو ہجرت کیوں کہتے ہیں؟ جواب: کیونکہ تاریخ بتلاتی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت ماہ مئی میں ہوئی تھی.وکیل کے سوال: کیا آپ سن ہجری استعمال کرتے ہیں یا کہ عیسوی کیلنڈر ؟ جواب: ہم نے صرف یہ کیا ہے کہ شمسی مہینوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے مختلف واقعات کے اعتبار سے مختلف نام دے دیئے ہیں.سوال: کیا آپ نے جیسا کہ 12 نومبر 1946ء کے الفضل میں درج ہے اپنے آپ کو

Page 409

انوار العلوم جلد 24 374 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان اقلیت قرار دیا جانے کا مطالبہ کیا تھا؟ جواب: نہیں.اصل واقعات یہ ہیں کہ جب 1946ء میں ہندوؤں اور مسلمانوں میں اختلافات پیدا ہوئے تو حکومت نے مختلف فرقہ وارانہ پارٹیوں سے استفسارات کئے اور تمام مسلمانوں کو ایک جماعت قرار دیا.اس پر بعض مسلم لیگیوں کی طرف سے ہمیں کہا گیا کہ یہ انگریز کی ایک چال ہے جس نے اس طرح غیر مسلم جماعتوں کی تعداد بڑھادی ہے اور مسلمانوں کو صرف ایک پارٹی ہی تصور کیا ہے.اس پر ہم نے گورنمنٹ سے احتجاج کیا کہ کیوں احمدیوں سے بھی ایک پارٹی کی حیثیت میں استفسار نہیں کیا گیا؟ حکومت نے جواب دیا کہ ہم ایک سیاسی پارٹی نہیں بلکہ ایک مذہبی جماعت ہیں.سوال: کیا مارچ 1919ء کے سالانہ جلسہ کے موقع پر ایک اجلاس میں آپ نے وہ بیان دیا تھا جس کا ذکر رسالہ ” عرفان الہی“ کے صفحہ 93 پر ”انتقام لینے کا زمانہ “ کے زیر عنوان کیا گیا ہے اور جس میں کہا گیا ہے کہ : اب زمانہ بدل گیا ہے.دیکھو پہلے جو مسیح آیا تھا اسے دشمنوں نے صلیب پر چڑھایا مگر اب مسیح اس لئے آیا تا اپنے مخالفین کو موت کے گھاٹ اُتارے.؟“ جواب: ہاں.مگر اقتباس والے اس فقرے کی تشریح کتاب کے صفحہ 102،101 پر کی گئی ہے.جہاں میں نے کہا ہے کہ: لیکن کیا ہمیں اس کا کچھ جواب نہیں دینا چاہئے اور اس خون کا بدلہ نہیں لینا چاہئے ؟ لیکن اُسی طریق سے جو حضرت مسیح موعود نے ہمیں بتا دیا ہے اور جو یہ ہے کہ کابل کی سر زمین سے اگر احمدیت کا ایک پودا کاٹا گیا ہے تو اب خدا تعالیٰ اس کی بجائے ہزاروں پودے وہاں لگائے گا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ سید عبد اللطیف صاحب شہید کے قتل کا بدلہ یہ نہیں رکھا گیا کہ ہم ان کے قاتلوں کو قتل کریں اور

Page 410

انوار العلوم جلد 24 375 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان ان کے خون بہائیں کیونکہ قتل کرنا ہمارا کام نہیں.ہمیں خدا نے پرامن ذرائع سے کام کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے نہ کہ اپنے دشمنوں کو قتل کرنے کے لئے.پس ہمارا انتقام یہ ہے کہ ان کے اور ان کی نسلوں کے دلوں میں احمدیت کا بیج بوئیں اور انہیں احمدی بنائیں اور جس چیز کو وہ مٹانا چاہتے ہیں اس کو ہم قائم کر دیں.....مگر اب ہمارا یہ کام ہے کہ ان کے خون کا بدلہ لیں اور ان کے قاتل جس چیز کو مٹانا چاہتے ہیں اسے قائم کر دیں اور چونکہ خدا کی برگزیدہ جماعتوں میں شامل ہونے والے اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں کہ اپنے دشمنوں پر احسان کرتے ہیں اس لئے ہمارا بھی یہ کام نہیں ہے کہ سید عبد اللطیف صاحب کے قتل کرنے والوں کو دنیا سے مٹادیں اور قتل کر دیں بلکہ یہ ہے کہ انہیں ہمیشہ کے لئے قائم کر دیں اور ابدی زندگی کے مالک بنا دیں اور اس کا طریق یہ ہے کہ انہیں احمدی بنائیں.“ عدالت کا سوال: اس سیاق و سباق میں " احمدیت" سے کیا مراد ہے؟ جواب: احمدیت سے مراد اسلام کی وہ تشریح ہے جو احمد یہ جماعت کے بانی نے کی.وکیل کے سوال: کیا آپ نے الفضل کے 15 جولائی 1952ء کے شمارہ میں ایک مقالہ افتتاحیہ جو خونی مُلا کے آخری دن“ کے عنوان سے شائع ہوادیکھا ہے جس میں مندرجہ ذیل الفاظ آتے ہیں: ”ہاں آخری وقت آن پہنچا ہے ان تمام علماء حق کے خون کا بدلہ لینے کا جن کو شروع سے یہ خونی ملا قتل کرواتے آئے ہیں.ان سب کے خون کا بدلہ لیا جائے گا.(1) عطاء اللہ شاہ بخاری سے (2) ملا بدایونی سے (3) مُلا احتشام الحق سے (4) ملا محمد شفیع سے 66 (5) مُلّا مو دودی ( پانچویں سوار ).جواب : ہاں.اس تحریر کے متعلق منٹگمری کے ایک آدمی کی طرف سے ایک شکایت

Page 411

انوار العلوم جلد 24 376 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان میرے پاس پہنچی تھی اور میں نے اس کے متعلق متعلقہ ناظر سے جواب طلبی کی تھی اس نے مجھے بتلایا تھا کہ اس نے ایڈیٹر کو ہدایت کر دی ہے کہ وہ اس کی تردید کرے.سوال: کیا وہ تردید آپ کے علم میں آئی؟ جواب: نہیں.لیکن ابھی ابھی مجھے 7 اگست 1952ء کے الفضل کا ایک آرٹیکل جس کا عنوان "ایک غلطی کا ازالہ" ہے دکھایا گیا ہے جس میں مذکورہ بالا تحریر کی تشریح کر دی گئی تھی.عدالت کا سوال: اس ادارتی مقالہ میں جن مولویوں کو ملا کہا گیا ہے کیا انہوں نے یہ رائے ظاہر کی تھی کہ احمدی مرتد اور واجب القتل ہیں ؟ جواب: میں صرف یہ جانتا ہوں کہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے یہ رائے ظاہر کی تھی.وکیل کے سوال: کیا آپ نے جون 1919ء کے تشحیذ الاذہان کے صفحہ نمبر 38 پر مندرجہ ذیل عبارت کہی تھی ؟ ”خلیفہ ہو تو جو پہلا ہو اُس کی بیعت ہو.جو بعد میں دوسرا پہلے کے مقابل پر کھڑا ہو جائے جیسے لاہور میں ہے تو اُسے قتل کر دو.مگر یہ قتل کا حکم تب ہے کہ جب سلطنت اپنی ہو.اب اس حکومت میں ہم ایسا نہیں کر سکتے.“ جواب: جی نہیں.ڈائری نویس نو آموز تھا.میں نے جو کچھ کہا اُسے اُس نے غلط طور پر پیش کیا.در حقیقت جو کچھ میں نے کہا تھا میں نے اُس کی توضیح اُس وقت کر دی تھی جب احمدیوں کی لاہوری پارٹی نے حکومت سے شکایت کی تھی اور حکومت نے مجھ سے اس کی وضاحت چاہی تھی.سوال: کیا آپ کی جماعت خالص مذہبی جماعت ہے یا کہ سیاسی بھی؟ جواب: اصل میں تو یہ مذہبی جماعت ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے ایسا دماغ عطا کیا ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی مسئلہ اس کے سامنے پیش ہوتا ہے تو وہ بریکار نہیں رہ سکتا.سوال: کیا آپ نے کو ئٹہ میں اپنے خطبہ جمعہ میں وہ تقریر (اگز بٹ ڈی.ای.324) کی تھی

Page 412

انوار العلوم جلد 24 377 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جو الفضل کے 13 اگست 1948ء کے پرچہ میں شائع ہوئی ہے؟ جواب: جی ہاں.سوال: آپ نے جب اپنی تقریر میں ذیل کے الفاظ کہے تو اس سے آپ کی کیا مراد تھی؟ یاد رکھو تبلیغ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک ہماری base مضبوط نہ ہو.پہلے base مضبوط ہو تو تبلیغ ہو سکتی ہے.“ جواب: یہ الفاظ اپنی تشریح آپ کرتے ہیں.سوال: اور آپ نے جب یہ کہا تھا کہ بلوچستان کو احمدی بنایا جائے تاکہ ہم کم از کم ایک صوبہ کو تو اپنا کہہ سکیں.تو اس سے آپ کا کیا مطلب تھا؟ جواب: میرے ایسا کہنے کے دو سبب تھے (1) موجودہ نواب قلات کے دادا احمدی تھے اور (2) بلوچستان ایک چھوٹا سا صوبہ ہے.سوال: کیا آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے جو الفضل 22.اکتوبر 1948ء(دستاویز ڈی.ای210) میں شائع ہوئے ہیں ؟ میں یہ جانتا ہوں کہ اب یہ صوبہ ہمارے ہاتھوں سے نکل نہیں سکتا.یہ ہمارا ہی شکار ہو گا.دُنیا کی ساری قومیں مل کر بھی ہم سے یہ علاقہ چھین نہیں سکتیں.“ جواب: جی ہاں.لیکن اس عبارت کو اس کے لفظی معنوں میں نہیں لینا چاہئے.یہاں مستقبل کا ذکر ہے.میں صرف یہ کہنا چاہتا تھا کہ چونکہ اس صوبہ میں ایک احمدی فوجی افسر قتل ہوا ہے اس لئے یہ صوبہ لازماً احمدی ہو کر رہے گا.سوال: کیار بوہ ایک خالص احمدی نو آبادی ہے؟ جواب: یہ زمین صدر انجمن احمدیہ نے خریدی تھی اور اسی کی ملکیت ہے.انجمن کو یہ حق حاصل ہے کہ اس کے متعلق جو چاہے انتظام کرے لیکن بعض غیر احمدیوں نے بھی زمین خریدنے کے لئے درخواست دی تھی.اس پر انجمن نے کہا کہ اسے اچھے ہمسائیوں کی موجودگی پر کوئی اعتراض نہیں.

Page 413

انوار العلوم جلد 24 378 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: کیا کسی غیر احمدی نے زمین خریدی؟ جواب: مجھے بتایا گیا ہے کہ ایک غیر احمدی نے زمین خریدی ہے لیکن مجھے اس کا کوئی ذاتی علم نہیں.سوال: فسادات کے دوران میں آپ کہاں تھے؟ جواب: ربوہ میں.سوال: کیا جو واقعات لاہور میں پیش آئے ایسے کوئی واقعات ربوہ میں بھی ہوئے؟ جواب: نہیں.سوال: کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ بات متواتر کہتے رہے ہیں کہ ان کا اصل وطن قادیان ہے ؟ اور بالآخر انہوں نے وہاں ہی جانا ہے؟ جواب: ہر مسلمان کی یہ خواہش ہونی چاہئے کہ وہ اپنے وطن کو واپس حاصل کرے.سوال: کیا ہندوستان میں بھی احمد یہ جماعت ہے؟ جواب: ہاں.سوال: برطانوی حکومت کے متعلق احمد یہ جماعت کے بانی کا کیا رویہ تھا؟ جواب: میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی تعلیم کے مطابق انسان جس ملک میں رہے اُن شرائط کے ماتحت جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اس کی حکومت کا وفادار رہنا چاہئے.سوال: کیا یہ امر واقع ہے کہ بغداد پر انگریزوں کے قبضہ ہونے پر قادیان میں خوشیاں منائی گئیں؟ جواب: یہ قطعاً غلط ہے.سوال: کیا آپ کے نظریہ کے مطابق قائم شدہ اسلامی سلطنت میں کوئی غیر احمدی اس مملکت کار کیس ہو سکتا ہے؟ جواب: جی ہاں.پاکستان، مصر وغیرہ جیسی حکومت میں ہو سکتا ہے.سوال: فرض کیجئے کہ پاکستان ایک مذہبی مملکت نہیں تو کیا آپ کے نزدیک ایک غیر مسلم یہاں رئیس مملکت ہو سکتا ہے؟

Page 414

انوار العلوم جلد 24 379 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جواب: یہ تو قانون ساز اسمبلی کی اکثریت ہی فیصلہ کر سکتی ہے کہ رئیس مملکت مسلمان ہو یا غیر مسلم.سوال: کیا آپ اپنی جماعت کے لوگوں سے یہ کہتے رہے ہیں کہ ان کا معاشرہ دوسرے مسلمانوں سے مختلف ہونا چاہئے؟ جواب: جی نہیں.سوال: کیا آپ نے اپنی جماعت کے لوگوں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ پاکستان میں سر کاری عہدوں پر قبضہ کر لیں؟ جواب: جی نہیں.سوال: کیا جنگی لحاظ سے ربوہ کے جائے وقوع کو کوئی خاص اہمیت حاصل ہے؟ جواب: جی ہاں.حکومت پاکستان کے ہاتھوں میں یہ ایک جنگی اہمیت والا مقام ہو گا.سوال: کیا آپ نے جیسا کہ الفضل مورخہ 9 نومبر 1948ء صفحہ نمبر 2 پر چھپا ہے ربوہ میں ایک پر یس کا نفرنس میں یہ بیان دیا تھا کہ : گو یہ زمین موجودہ حالت میں واقعی مہنگی ہے اور اس میں کوئی جاذبیت نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم اسے ایک نہایت شاندار شہر کی صورت میں تبدیل کرنے کا تہیہ کر چکے ہیں جو دفاعی لحاظ سے بھی پاکستان میں محفوظ ترین مقام ہو گا.جواب: میں پانچ سال کے عرصہ کے بعد اس وقت بتا نہیں سکتا کہ کانفرنس میں میرے اصل الفاظ کیا تھے.عدالت کا سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ربوہ کو جنگی لحاظ سے کوئی اہمیت حاصل ہے ؟ جواب: ربوہ کے درمیان سے موٹر سڑک اور ریل دونوں گزرتی ہیں اس لئے اسے حکومت پاکستان کے خلاف جنگی اہمیت رکھنے والا مقام خیال نہیں کیا جا سکتا لیکن دوسرے لوگوں کے لحاظ سے اسے ہمارے لئے خاص اہمیت ضرور حاصل ہے کیونکہ چنیوٹ کی طرف سے جو دریا کے دوسری جانب واقع ہے اس پر حملہ نہیں ہو سکتا.

Page 415

انوار العلوم جلد 24 380 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان مولا نامر تضی احمد خاں میکنش نمائندہ مجلس عمل کی جرح کے جواب میں سوال: مسیلمہ بن الحبیب کے دعوی کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ جواب: اس کا دعویٰ جھوٹا تھا.سوال: کیا وہ کلمہ پڑھتا تھا؟ جواب: نہیں.سوال: کیا وہ مسلمان تھا؟ جواب: نہیں.سوال: حقیقۃ الوحی کے صفحہ نمبر 124 پر لکھا ہوا ہے کہ: پھر ماسوائے اس کے کیا کسی مرتد کے ارتداد سے یہ نتیجہ نکل سکتا ہے کہ وہ سلسلہ جس میں سے یہ مرتد خارج ہوا حق نہیں ہے.کیا ہمارے مخالف علماء کو خبر نہیں کہ کئی بد بخت حضرت موسیٰ کے زمانہ میں ان سے مرتد ہو گئے.پھر کئی لوگ حضرت عیسی سے مرتد ہوئے اور پھر کئی بد بخت اور بد قسمت ہمارے نبی صلعم کے عہد میں آپ سے مرتد ہو گئے.چنانچہ مسیلمہ کذاب بھی مرتدین میں سے ایک تھا.“ کیا آپ کی رائے میں مسیلمہ مرتد تھا؟ جواب: ہاں.جب میں نے کہا کہ وہ مسلمان نہیں تھا اس سے میری مراد یہ تھی کہ دعوی نبوت کے بعد وہ مسلمان نہیں رہا تھا.سوال: کیا آپ نے اسود عنسی، سجاح نبیہ کا ذبہ ، طلیحہ اسدی کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے؟

Page 416

انوار العلوم جلد 24 381 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جواب: ہاں.سوال: کیا ان تمام اشخاص نے جن میں ایک عورت بھی تھی نبوت کا دعویٰ کیا تھا جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے ان کے خلاف جنگ کا اعلان کیا؟ جواب: نہیں.صورت حال اس کے بالکل بر عکس ہے.ان اشخاص نے جن میں سے ہر ایک نے دعویٰ نبوت کیا مسلمانوں پر حملے کئے جس پر مسلمانوں نے اس کے جواب میں ان کو شکست دی.سوال: کیا حسب ذیل اشخاص نے وقتاً فوقتاً نبوت کا دعویٰ کیا تھا؟ (1) حارث دمشقی 685ء-705 ء نے خلیفہ عبد الملک کے زمانہ میں (2) مغیرہ بن سعید الا جلی 724ء -741ء (3) ابو منصور الا جلی 724ء -741ء (4) اسحاق الاخر اس المغربی 750ء -754ء (5) ابو عیسی اسحاق اصفہانی 754ء-775ء (6) علی محمد خارجی 869ء (7) حامين من الله ما عکاسی (8) محمود واحد گیلانی 1528ء-1586ء (9) محمد علی باب 1850ء جواب: محمد علی باب کے سوا دوسرے لوگوں کے متعلق وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا.محمد علی باب نے اپنے آپ کو نبی نہیں کہا تھا بلکہ مہدی موعود کہا تھا.سوال: آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق تو بیان فرما دیا.مہربانی کر کے ظلی نبی اور بروزی نبی کی بھی تعریف کر دیجئے.جواب: ان اصطلاحات سے مراد یہ ہے کہ ایسا شخص جس کے متعلق ان اصطلاحات کا استعمال کیا جاتا ہے وہ خود بعض مخصوص صفات نہیں رکھتا بلکہ یہ صفات اس میں منعکس رنگ میں ظاہر ہوتی ہیں.

Page 417

انوار العلوم جلد 24 382 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے تشریعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا؟ جواب: نہیں.سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے اربعین حصہ چہارم کے صفحہ 84،83 میں یہ نہیں لکھا کہ: "ماسوائے اس کے یہ بھی تو سمجھو کہ شریعت کیا چیز ہے.جس نے اپنی وحی کے ذریعہ سے چند اوامر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہو گیا.پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں کیونکہ میری وحی میں اوامر بھی ہیں نہی بھی.مثلاً یہ الہام قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ ابْصَارِهِمْ وَيَحفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذَلِكَ أَزْكَى لَهُمْ.یہ الہام براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی.اور اس پر تیئیس برس کی مدت بھی گزر گئی اور ایسا ہی ابتک میری وحی میں امر بھی ہوتے ہیں اور نہی بھی.اور اگر کہو کہ شریعت سے وہ شریعت مراد ہے جس میں نئے احکام ہوں تو یہ باطل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان هذَا لَفِي الصُّحُفِ الأولى - صُحُفِ ابْراهِيمَ وَمُوسى ٤ یعنی قرآنی تعلیم توریت میں بھی موجود ہے.اور اگر یہ کہو کہ شریعت وہ ہے جس میں باستیفاء امر اور نہی کا ذکر ہے تو یہ بھی باطل ہے کیونکہ اگر توریت یا قرآن شریف میں باستیفاء احکام شریعت کا ذکر ہوتا تو پھر اجتہاد کی گنجائش نہ رہتی.غرض یہ سب خیالات فضول اور کو تاہ اندیشیاں ہیں.ہمارا ایمان ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے.تاہم خدا تعالیٰ نے اپنے نفس پر حرام نہیں کیا کہ تجدید کے طور پر کسی اور مامور کے ذریعے سے یہ احکام صادر کرے کہ جھوٹ نہ بولو، جھوٹی گواہی نہ دو، زنانہ کرو، خون نہ کرو لا وو

Page 418

انوار العلوم جلد 24 383 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان اور ظاہر ہے کہ ایسا بیان کر ناشریعت ہے جو مسیح موعود کا بھی کام ہے.پھر وہ دلیل تمہاری کیسی گاؤ خورد ہو گئی کہ اگر کوئی شریعت لاوے اور مفتری ہو تو تیئیس برس تک زندہ نہیں رہ سکتا.چونکہ میری تعلیم میں امر بھی ہے اور نہی بھی اور شریعت کے ضروری احکام کی تجدید ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے میری تعلیم کو اور اس وحی کو جو میرے پر ہوتی ہے فلک یعنی کشتی کے نام سے موسوم کیا ہے جیسا کہ ایک الہام الہی کی یہ عبارت ہے کہ وَاصْنَع الفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَااِنَّ الَّذِيْنَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ یعنی اس تعلیم اور تجدید کی کشتی کو ہماری آنکھوں کے سامنے اور ہماری وحی سے بنا.جو لوگ تجھ سے بیعت کرتے ہیں وہ خدا سے بیعت کرتے ہیں.یہ خدا کا ہاتھ ہے جو اُن کے ہاتھوں پر ہے.اب دیکھو خدا نے میری وحی اور تعلیم اور میری بیعت کو نوح ر کی کشتی قرار دیا اور تمام انسانوں کے لئے مدارِ نجات ٹھہرایا.جس کی آنکھیں ہوں وہ دیکھے اور جس کے کان ہوں وہ سنے.“ جواب: ہاں.لیکن انہوں نے ایک بعد کی کتاب میں اس کی تشریح کی ہے (گواہ نے ایک کتاب سے پڑھ کر سنایا) سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے ان لوگوں کو مرتد کہا ہے جو احمدی بننے کے بعد اپنے عقیدے سے پھر گئے ؟ جواب: مرتد کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسا شخص جو واپس لوٹ جائے.مولانامودودی صاحب نے بھی یہ اصطلاح استعمال کی ہے.سوال: کیا آپ مرزا غلام احمد صاحب کو ان مامورین میں شمار کرتے ہیں جن کا ماننا مسلمان کہلانے کے لئے ضروری ہے؟ جواب: میں اس سوال کا جواب پہلے دے چکا ہوں.کوئی شخص جو مر زا غلام احمد صاحب پر

Page 419

انوار العلوم جلد 24 384 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان ایمان نہیں لاتا دائرہ اسلام سے خارج قرار نہیں دیا جاسکتا.سوال: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کتنے سچے نبی گزرے ہیں ؟ جواب: میں کسی کو نہیں جانتا مگر اس اعتبار سے کہ ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق آپ کی اُمت کے علماء تک میں آپ کی عظمت اور شان کا انعکاس ہوتا ہے سینکڑوں اور ہزاروں ہو چکے ہوں گے.سوال: کیا آپ اس حدیث کو سچا تسلیم کرتے ہیں؟ جواب: ہاں.سوال: کیا آپ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مرزا غلام احمد صاحب ہمارے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سواسب انبیاء سے افضل تھے ؟ جواب: ہم ان کے متعلق صرف حضرت مسیح ناصری سے افضل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں.مولانا میکش کی جرح بتاریخ 15 جنوری 1954ء سوال: یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ عیسی بن مریم ( مسیح ناصری) قیامت سے پہلے پھر دوبارہ ظاہر ہوں گے.اس کے متعلق آپ کا عقیدہ کیا ہے؟ جواب: یہ بات غلط ہے کہ یہ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے.مسلمانوں کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ناصری طبعی موت سے وفات پا گئے.ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت عیسی بن مریم خود دوبارہ مبعوث نہیں ہوں گے بلکہ ایک دوسرا شخص جو اُن سے مشابہت رکھتا ہو گا اور ان کی صفات کا حامل ہو گا آئے گا.عدالت کا سوال: کیا حضرت عیسی کے زمانے میں یہودی کسی مسیح کے منتظر تھے ؟ جواب: جی ہاں.وہ ایک مسیح کی آمد کے منتظر تھے مگر اس سے پہلے الیاس نے آنا تھا جس نے آسمان سے اسی خا کی جسم کے ساتھ نازل ہونا تھا.

Page 420

انوار العلوم جلد 24 385 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: کیا حضرت عیسی ہی یہ مسیح تھے ؟ جواب: ہمارے عقیدہ کے مطابق وہی مسیح تھے لیکن یہودیوں کے عقیدہ کے مطابق نہیں.سوال: کیا حضرت عیسی ناصری نے کبھی مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا؟ جواب: جی ہاں.سوال: یہودیوں نے خدا کو ایک تاجر کی شکل میں پیش کیا تھا اور یہ کہہ کر اس کے واحد اجارہ دار بن گئے تھے کہ خدا نے ابراہیم سے عہد کیا تھا کہ وہ کنعان کی زمین دوبارہ انہیں دے گا.اسی طرح پولوس کو ماننے والے عیسائیوں نے خدا پر اپنا پہلا حق رہن جتایا اور اس حق رہن کی وجہ گال گو تھا کی پہاڑی پر حضرت مسیح کا پھانسی پانا قرار دی.اب مولانا مر تضیٰ احمد میکش اور ان کے ساتھ دوسرے علمائے دین دعوی کرتے ہیں کہ خدا پر پہلا حق رہن ان کا ہے اور اس رہن کی قیمت یہ قرار دی گئی ہے کہ ذہنی غلامی اختیار کر لی جائے.کیا آپ بھی مرزا غلام احمد صاحب کی نبوت پر ایمان لانے کی وجہ سے خدا پر کسی مخصوص اور علیحدہ حق رہن کا دعویٰ رکھتے ہیں؟ جواب: ہم نہ تو کسی ایسے حق رہن کو مانتے ہیں اور نہ اس کے دعویدار ہیں.مولانا میکش کے سوال: آپ نے کل فرمایا تھا کہ مرزا غلام احمد صاحب نے صرف عیسی بن مریم پر اپنے آپ کو فضیلت دی ہے مگر 4و6.اپریل 1915ء کے الفضل (دستاویز ڈی.ای 325) میں مرزا صاحب کی 17 اپریل 1902ء کی ڈائری سے یہ عبارت نقل کی گئی ہے: کمالات متفرقہ جو تمام دیگر انبیاء میں پائے جاتے ہیں وہ سب حضرت رسول کریم میں ان سے بڑھ کر موجود تھے اور اب وہ سارے کمالات حضرت رسول کریم سے ظلی طور پر ہم کو عطا کئے گئے.اور اس لئے ہمارا نام آدم، ابراہیم، موسیٰ، نوح، داؤد، یوسف، سلیمان، یحی، عیسیٰ وغیرہ ہے.چنانچہ ابراہیم ہمارا نام اس واسطے ہے کہ

Page 421

انوار العلوم جلد 24 386 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان حضرت ابراہیم ایسے مقام میں پیدا ہوئے تھے کہ وہ بت خانہ تھا اور لوگ بت پرست تھے اور اب بھی لوگوں کا یہی حال ہے.....66 کیا اس عبارت سے ثابت نہیں ہو تا کہ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ آپ ان تمام انبیاء سے جن کا اس عبارت میں ذکر ہے افضل ہیں؟ جواب: اُن دنوں مرزا صاحب کوئی با قاعدہ ڈائری نہ رکھتے تھے.یہ اقتباس تو کسی رپورٹر کا لکھا ہوا ہے.لیکن یہ فرض کرتے ہوئے کہ یہ رپورٹ صحیح ہے اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مرزا صاحب نے اپنے آپ کو دوسرے انبیاء پر فضیلت دی ہے.اس کا مطلب تو صرف اُن صفات کو گنوانا ہے جو مر زا صاحب اور دوسرے انبیاء میں مشترک تھیں.سوال: عام مسلمان تو احمدیوں کا اس لئے جنازہ نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کو کافر سمجھتے ہیں.آپ بتائیے کہ احمدی جو غیر احمدیوں کی نماز جنازہ نہیں پڑھتے اس کی اس کے علاوہ اور کیا وجہ ہے جس کا آپ قبل ازیں اظہار کر چکے ہیں کہ آپ نے جوابی کارروائی کے طور پر یہ طریق اختیار کیا ہے؟ جواب: بڑا سبب تو جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں یہ ہے کہ ہم غیر احمدیوں کا جنازہ اس لئے نہیں پڑھتے کہ وہ احمدیوں کا جنازہ نہیں پڑھتے.اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اپنے دعوی کے دس سال بعد تک نہ صرف مرزا غلام احمد صاحب نے احمدیوں کو اجازت دے رکھی تھی کہ وہ غیر احمدیوں کے جنازے پڑھیں بلکہ خود بھی ایسی نماز جنازہ میں شریک ہوتے رہے.اور دوسر ا سبب جو اصل میں پہلے سے کا حصہ ہی ہے یہ ہے کہ ایک متفقہ اور مسلّمہ حدیث کے مطابق جو دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کافر ہو جاتا ہے.سوال: کیا غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے سے انکار کرنے پر بھی آپ کے سابقہ جواب کا اطلاق ہوتا ہے؟ جواب: ہاں.

Page 422

انوار العلوم جلد 24 387 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: ازراہ کرم القول الفصل کے صفحہ 45 کو ملاحظہ فرمائیے جس میں حسب ذیل عبارت ہے: اس کے بعد خدا تعالیٰ کا حکم آیا.جس کے بعد نماز غیروں کے پیچھے حرام کی گئی اور اب صرف منع نہ تھی بلکہ حرام تھی اور حقیقی حرمت صرف خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوتی ہے.“ کیا اس عبارت سے یہ ظاہر نہیں ہو تا کہ احمدیوں کو غیر احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کی ممانعت کی وجہ کچھ اور ہے؟ جواب: اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس وجہ سے احمدیوں کو غیر احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع کیا گیا اس کی بعد میں وحی کے ذریعہ بھی تصدیق کر دی گئی.سوال: آپ نے انوار خلافت کے صفحہ نمبر 90 پر اس ممانعت کی ایک مختلف وجہ بیان کی ہے.متعلقہ عبارت یہ ہے: ”ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں کیونکہ ہمارے نزدیک وہ خدا تعالیٰ کے ایک نبی کے منکر ہیں.یہ دین کا معاملہ ہے.اس میں کسی کا اپنا اختیار نہیں.“ جواب: میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ کفر کی ایک قسم ایسی بھی ہے جو ایک شخص کو ملت سے خارج نہیں کرتی.ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ہمیں ایسے شخص کو اپنا امام بنانا چاہئے جو دوسروں سے زیادہ نیک اور صالح ہو.ایک نبی کے انکار سے انسان کی نیکی کمزور ہو جاتی ہے.سوال: آپ نے فرمایا ہے کہ کفر اور اسلام اضافی الفاظ ہیں.کیا یہ صحیح نہیں کہ الفاظ کفر، کافر، کافروں ، کافرین، کفار ، الکفرۃ قرآن کریم میں ایک ہی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں.یعنی ایسے اشخاص کے متعلق جو اُمت سے باہر اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں؟ جواب: میں پہلے بتا چکا ہوں کہ یہ لفظ قرآن کریم میں ایک ہی معنوں میں استعمال نہیں ہوا.کل میں نے قرآن کریم سے ہی اس کی ایک مثال پیش کی تھی.

Page 423

انوار العلوم جلد 24 388 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال: از راہ کرم ذکر الہی کے صفحہ نمبر 22 کو دیکھئے جس میں حسب ذیل عبارت آتی ہے: میر اتو یہ عقیدہ ہے کہ دُنیا میں دو گروہ ہیں.ایک مؤمن.دوسرے کافر.پس جو حضرت مسیح موعود پر ایمان لانے والے ہیں وہ مؤمن ہیں اور جو ایمان نہیں لائے خواہ ان کے ایمان نہ لانے کی کوئی وجہ ہو وہ کا فر ہیں.“ کیا یہاں لفظ ” کا فر مؤمن کے مقابل پر استعمال نہیں ہوا؟ جواب: اس عبارت میں مؤمن سے مراد وہ شخص ہے جو مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لاتا ہے اور کافر سے مراد وہ شخص ہے جو آپ کا انکار کرتا ہے.عدالت کا سوال: تو کیا مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانا جزو ایمان ہے ؟ جواب: جی نہیں.یہاں پر لفظ مؤمن صرف مرزا غلام احمد صاحب پر ایمان لانے کے مفہوم کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے نہ کہ اسلام کے بنیادی عقیدوں پر ایمان لانے کے مفہوم میں.سوال: کیا جب ”کفر “ کے لفظ کے استعمال سے غلط فہمی اور تلخی پیدا ہونے کا احتمال ہے تو یہ بہتر نہیں ہو گا کہ یا تو اس کے استعمال کو قطعی طور پر ترک کر دیا جائے یا اس کے استعمال میں بہت احتیاط برتی جائے؟ جواب: ہم 1922ء سے اس سے اجتناب کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.مولانا میکش کے سوال: کیا آپ نے اپنی جماعت کے متعلق کبھی اُمت کا لفظ استعمال کیا ہے؟ جواب: میرا عقیدہ ہے کہ احمدی علیحدہ اُمت نہیں ہیں اور اگر کہیں اُمت کا لفظ احمدیوں کے متعلق استعمال ہوا ہے تو بے توجہی سے ہوا ہو گا اور اس سے اصل مراد جماعت ہے.سوال: 13 اگست 1948ء کا الفضل دیکھئے.اس میں حسب ذیل عبارت ہے: اللہ تعالیٰ نے جو کام ہمارے سپر د کیا وہ کسی اور اُمت کے

Page 424

انوار العلوم جلد 24 389 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سپرد نہیں کیا.پہلے انبیاء میں سے کوئی نبی ایک لاکھ کی طرف آیا، کوئی نبی دو لاکھ کی طرف آیا اور کوئی دس لاکھ کی طرف آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم سوالاکھ تھی یا ہو سکتا ہے کہ عرب کی آبادی آپ کے زمانہ میں دو تین لاکھ ہو.بس یہی آپ کے پہلے مخاطب تھے لیکن ہمارے چھٹتے ہی چالیس کروڑ مخاطب ہیں." یہاں کن معنوں میں آپ نے لفظ "امت" استعمال کیا ہے؟ جواب: یہاں میں نے لفظ اُمت "آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت" کے لئے استعمال کیا ہے.سوال: کیا آپ انگریزوں کے اس لئے ممنونِ احسان نہیں ہیں کہ ان کے عہد حکومت میں آپ کے مخصوص عقائد پھولے پھلے اور کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ آپ ان کے شکر گزار نہ رہیں؟ جواب: شکر گزاری ایک اخلاقی فرض ہے اور اس کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں.یہ صحیح ہے کہ ہم ان کے احسان مند ہیں اور یہ اس منصفانہ سلوک کی وجہ سے ہے جو انہوں نے ہر ایک کے ساتھ کیا.جن میں ہم بھی شامل ہیں.سوال: کیا مرزا غلام احمد صاحب نے انگریزوں کو ممنون کرنے کے لئے بلادِ اسلامیہ میں اشاعت کی غرض سے جہاد کے خلاف اتنی کتابیں نہیں لکھیں جن سے کم و بیش پچاس الماریاں بھر جائیں؟ جواب: مرزا صاحب نے جو کچھ لکھا اس غرض سے لکھا کہ اس سے ان غلط فہمیوں کو دور کیا جائے جو مسلمانوں کے خلاف دوسرے مذاہب میں پائی جاتی تھیں.یہ تصانیف کئی موضوعات و مضامین پر مشتمل ہیں جن کے متعلق غلط فہمیاں پائی جاتی تھیں.ضمناً ان میں مسئلہ جہاد بھی شامل تھا لیکن اس مخصوص مسئلہ پر انہوں نے صرف چند صفحات پر مشتمل ایک رسالہ لکھا تھا.سوال: کیا مندرجہ ذیل شعر میں مرزا غلام احمد صاحب نے اپنے آپ کو

Page 425

انوار العلوم جلد 24 390 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فضیلت نہیں دی؟ لَهُ خَسْفُ الْقَمَرِ الْمُنِيْرِ وَإِنَّ لِيْ خَسَا الْقَمَرَانِ الْمُشْرِقَانِ أَتُنْكِرُ یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صرف چاند کو گرہن لگا لیکن میرے لئے سورج اور چاند دونوں گہنا گئے.الخ جواب: اس شعر میں صرف اُس حدیث کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مہدی کے وقت میں ماہ رمضان میں چاند اور سورج دونوں کو گرہن لگے گا.سوال: کیا آپ نے کبھی عام مسلمانوں کو ابو جہل کہا اور اپنی جماعت کو اقلیت قرار دیا؟ جواب: یہ صحیح نہیں ہے کہ میں عام مسلمانوں کو ابو جہل کی پارٹی قرار دیتا ہوں لیکن یہ امر واقع ہے کہ ہماری جماعت تعداد کے لحاظ سے بہت تھوڑی ہے.عدالت کا سوال: پاکستان میں کتنے احمدی کلیدی آسامیوں پر فائز ہیں؟ جواب: میرے نزدیک تو چوہدری ظفر اللہ خاں کے علاوہ کوئی احمدی ایسی آسامی پر فائز نہیں جسے کلیدی کہا جاسکے.سوال: فضائیہ ، بحریہ ، بڑی فوج میں احمدی افسروں کی تعداد کیا ہے؟ جواب: بڑی فوج میں ڈیڑھ یا دو فیصدی ہوں گے ، ہوائی فوج میں کوئی پانچ فیصدی اور بحری فوج میں دس فیصدی.سوال: کیا مسٹر لال شاہ بخاری احمد ی ہیں؟ جواب: جی نہیں.سوال کیا جنرل حیاء الدین احمدی ہیں؟ جواب: وہ کبھی احمدی تھے لیکن میں وثوق سے نہیں کہہ سکتا کہ وہ اب بھی احمدی ہیں یا نہیں.سوال: کیا مسٹر غلام احمد پر نسپل گورنمنٹ کالج راولپنڈی احمدی ہیں؟ جواب: جی نہیں.سوال: کیا پاکستان میں موجودہ انڈو نیشین سفیر کے پیشر واحمدی تھے ؟

Page 426

انوار العلوم جلد 24 391 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان جواب: وہ احمدیوں کی قادیانی جماعت سے تو یقیناً تعلق نہ رکھتے تھے مگر میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ لاہوری جماعت سے تعلق رکھتے تھے یا نہیں.بہر حال 1953ء میں انڈونیشن سفیر یقیناً احمدی نہ تھے.مولانا میکش کے سوال: کیا آپ نے اپنے ایک خطبہ میں وہ الفاظ کہے جن کی رپورٹ الفضل مورخہ 3 جنوری 1952ء (دستاویز ڈی.ای326) میں شائع ہوئی ہے؟ جواب: میں رپورٹ کے الفاظ کے متعلق تو وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن یہ رپورٹ بہت حد تک اُن الفاظ کے مفہوم کی آئینہ دار ہے جو میں نے کہے.میں نے یہ سب کچھ آفاق مورخہ 6 دسمبر 1951ء کے ایک مقالہ کے جواب میں کہا تھا.سوال: اس رپورٹ میں آپ یا آپ کے کسی جانشین کے پاکستان کے فاتح ہونے کی طرف اشارہ ہے؟ جواب: آپ رپورٹ کو غلط طور پر پیش کر رہے ہیں اس میں ایسی کوئی بات نہیں.عدالت کا نوٹ: اس یقین دلانے کے باوجود کہ مرزا غلام احمد صاحب یا گواہ کی کہی ہوئی کوئی بات یا جماعت احمدیہ کے شائع کردہ لٹریچر کو عدالت ایک مستقل شہادت کی صورت میں تسلیم کرے گی.اس وقت تک جو بھی سوالات کئے گئے ہیں وہ تقریباً سب کے سب ایسی ہی تحریروں سے متعلق ہیں.یہ محض تضییع اوقات ہے اور ہم اس بارہ میں مزید سوالات کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں.مسٹر نذیر احمد خاں صاحب ایڈووکیٹ کے مزید سوالات عدالت کی اجازت سے سوال: سول و ملٹری گزٹ کے 23 فروری 1953ء کے پرچہ میں آپ کا ایک بیان شائع ہوا تھا.کیا خواجہ نذیر احمد ایڈووکیٹ اس بیان کے شائع ہونے سے قبل یا بعد

Page 427

انوار العلوم جلد 24 392 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان آپ سے ملے تھے ؟ جواب: ہاں.وہ اس بیان کی اشاعت سے ایک یا دو دن قبل مجھ سے ملے تھے.سوال: کیا خواجہ نذیر احمد نے دوبارہ کسی وقت مارچ کے مہینہ میں آپ سے ملاقات کی ؟ جواب: ہاں.وہ دوبارہ بھی مجھ سے ملے تھے لیکن مجھے تاریخ یاد نہیں وہ پہلی ملاقات کے ایک یا دو ماہ بعد ملے ہوں گے.سوال: کیا اُنہوں نے آپ کو خواجہ ناظم الدین کا کوئی پیغام دیا تھا؟ جواب: نہیں.انہوں نے خواجہ ناظم الدین کا کوئی ذکر نہیں کیا انہوں نے صرف یہ کہا تھا کہ کراچی میں ان کی گفتگو بعض اہم شخصیتوں سے ہوئی ہے.میرا اپنا خیال یہ تھا کہ وہ گورنر جنرل سے ملے تھے.سوال: کیا اُنہوں نے مولانا مودودی کا نام لیا تھا؟ جواب: نہیں.تحریری درخواست جو منجانب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب امام جماعت احمدیہ عدالت میں داخل کی گئی جناب عالی! مظہر کے بیان رو بر و عد الت مورخہ 14 جنوری 1954ء میں چند جوابات چونکہ ایسے اصطلاحی الفاظ پر مشتمل تھے جو عام استعمال میں نہیں آتے اس لئے ان کا ترجمہ شاید پورے طور پر مظہر کے مفہوم کا حامل نہ ہو.یا بصورت دیگر فریقین غلط تعبیر کی کوشش نہ کر سکیں یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ مظہر اپنے اصلی الفاظ کو دُہرادے اور اپنا منشاء واضح کر دے.اس لئے درخواست ہے کہ مندرجہ ذیل جوابات بعد تصدیق صحت شامل مثل فرمائے جاویں.

Page 428

انوار العلوم جلد 24 393 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان سوال بر صفحہ 13 یہ ہے: سوال: اگر لفظ بنیادی عام معنی میں استعمال ہو تو پھر ؟ جواب: عام مفہوم کے لحاظ سے اس لفظ کے معنی "ہم" کے ہیں.لیکن اس مفہوم کی رو سے بھی یہ اختلافات حقیقتا" بنیادی" نہیں اور انہیں فروعی کہا جاسکتا ہے.سوال بر صفحہ 32و33 یہ ہے: سوال: آپ نے تشریعی اور غیر تشریعی نبی کا فرق بیان کر دیا ہے.اب کیا آپ مہربانی کر کے ظلی اور بروزی نبی کی تشریح فرمائیں گے؟ جواب: ان اصطلاحات کا مطلب یہ ہے کہ ایسا شخص جس کی نسبت یہ اصطلاحات استعمال کی جائیں وہ بعض مخصوص صفات کا براہ راست حامل نہیں ہو تا بلکہ اپنے ممتبوع سے روحانی ورثہ پاتے ہوئے انعکاسی رنگ میں یہ صفات حاصل کرتا ہے.سوال بر صفحہ 31 یہ ہے: سوال: کیا آپ کے خیال میں مسیلمہ کذاب مرتد تھا؟ جواب: ہاں.جب میں نے یہ کہا ہے کہ وہ مسلمان نہیں تھا تو اس سے میری مراد یہی ہے کہ وہ تشریعی نبوت کے دعویٰ کے بعد مسلمان نہیں رہا تھا.دوسری تحریری درخواست مورخہ 14 جنوری 1954ء جو منجانب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب جناب عالی! امام جماعت احمد یہ عدالت میں داخل کی گئی میں نے کل جو بیان عصمت انبیاء کے متعلق دیا تھا میرے دل میں شک تھا کہ شاید میں پوری طرح اپنے مافی الضمیر کو واضح نہیں کر سکا.عدالت کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے وکلاء سے مشورہ کرنے پر انہوں نے بھی اس رائے کا اظہار کیا.اس لئے میں

Page 429

انوار العلوم جلد 24 394 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان آج اس سوال کے متعلق اپنا اور جماعت احمدیہ کا عقیدہ بیان کر کے درخواست کرتا ہوں کہ میرے بیان میں کل کے درج شدہ الفاظ کی جگہ ان الفاظ کو درج کیا جائے.”بانی سلسلہ احمدیہ نے متواتر اور شدت سے اپنی جماعت کو یہ تعلیم دی ہے کہ تمام انبیاء معصوم ہوتے ہیں اور صغیرہ اور کبیرہ کسی قسم کا گناہ بھی ان سے سرزد نہیں ہوتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بوجہ سردار انبیاء ہونے کے سب نبیوں سے زیادہ معصوم تھے اور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر دنیا کے آخری انسان تک کوئی شخص آپ کی معصومیت کے مقام کے قریب بھی نہیں پہنچانہ پہنچ سکے گا.قرآن کریم نے آپ عصومیت کی یہ ارفع شان بتائی ہے کہ آپ پر نازل شدہ کتاب قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے کہ لاَ يَمَسُّةَ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ) پاک لوگوں کے سوا اس کتاب کے مضامین تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ) یعنی قرآن کریم کے سمجھنے کے لئے بھی ایک درجہ معصومیت کی ضرورت ہے.پس کیا شان ہو گی اُس ذات والا کی جس کے دل پر ایسی عظیم القدر کتاب نازل ہوئی.اسی طرح فرماتا ہے کہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مبعوث ہی اس لئے فرمایا تھا کہ آپ اپنے ساتھ ملنے والوں کو پاک کریں.چنانچہ فرماتا ہے وَيُزَكِّيهِمْ (اور یہ رسول اپنے مخاطبوں کو پاک کرے گا) اور آپ کے اہل بیت و آل مطہرہ کے متعلق فرماتا ہے کہ ہم ان کی طرف برائی منسوب کرنے والوں کے الزامات سے ان کو پاک ثابت کریں گے اور ان کی پاکیزگی کو ظاہر کریں گے.اور وہ دو حدیثیں بخاری اور مسلم کی جو میں نے بیان کی تھیں (جن میں سے ایک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ آنْتُمْ أَعْلَمُ بِأَمُورِ دُنْيَا کُفر 2 یعنی تم لوگ اپنے دنیوی امور کو بہتر سمجھ سکتے ہو اور دوسری میں یہ ذکر ہے کہ آپ نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص مجھے دھوکا دے کر اپنے حق میں فیصلہ کر والے تو اگر وہ اس سے فائدہ اٹھا کر دوسرے کا حق لینا چاہے گا تو وہ آگ کھائے گا19) وہ اس بات کے اظہار کیلئے بیان کی گئی تھیں کہ جو غیر مسلم مصنفین اس قسم کی حدیثوں سے آپ کی معصومیت کے خلاف استدلال کرتے ہیں وہ حق پر نہیں.ان احادیث میں آپ نے صرف اپنی بشریت کا اظہار کیا ہے ان سے آپ کی معصومیت کے خلاف

Page 430

انوار العلوم جلد 24 395 تحقیقاتی عدالت میں حضرت امام جماعت احمدیہ کا بیان استدلال کرنا درست نہیں.اور جس شخص کے متعلق خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَمَى 11 (جب تُو نے پھینکا تو تو نے نہیں پھینکا بلکہ خود خداہی نے پھینکا) اس کا اپنی بشریت کا عَلَى الإعلان اقرار اس کے درجہ کے بلند ہونے اور اس کے اخلاق کے بے عیب ہونے پر دلالت کرتا ہے.کسی عیب یا نقص پر دلالت نہیں کرتا.“تمت ناشر سندھ ساگر اکادمی.کراچی نمبر 3.پرنٹر سعید آرٹ پر لیس حیدرآباد) 1 کنز العمال جلد 16 صفحہ 132.مطبوعہ حلب 1977ء 2 مشکوۃ مترجم جلد 3 صفحہ 44 مطبوعہ لاہور 1993ء 3 الشورى : 41 4 تذکرہ صفحہ 80 ایڈیشن چہارم الاعلى : 19، 20 6 تذکرہ صفحہ 168 ایڈیشن چہارم 1 الواقعه :80 8 الجمعه: 3 و مسلم كتاب الفضائل باب وجوب امتثال مَا قَالَهُ شَرْعًا 10 ابو داؤد کتاب القضاء باب فى قضاء القاضي إذا أخطأ 11 الانفال : 18

Page 431

Page 432

انوار العلوم جلد 24 397 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 433

انوار العلوم جلد 24 398 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب

Page 434

انوار العلوم جلد 24 399 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب تحریر کردہ 28 جنوری1954ء) أَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ سوالات: (1) وہ حالات جن کی وجہ سے مارشل لاء نافذ کرنا پڑا.(2) صوبہ جاتی گورنمنٹ نے جو ذرائع فسادات کے نہ ہونے دینے کے لئے اختیار کئے آیا وہ کافی تھے یا نہیں؟ (3)صوبہ جاتی حکومت نے (جب یہ فساد ظاہر ہو گئے تو) ان کے دبانے کے لئے جو تجاویز اختیار کیں آیا وہ کافی تھیں یا نہیں تھیں ؟ جوابات: وہ وہ مارشل لاء کے جاری کرنے کی ضرورت جن امور کی وجہ سے پیش آئی و واقعات تھے جو فروری کے آخر ہفتہ اور مارچ کے ابتدائی ہفتہ میں لاہور میں ظاہر ہوئے اور جنہیں صوبہ جاتی حکومت مؤثر طور پر دبانہ سکی.اگر یہ واقعات ظاہر نہ ہوتے یا اگر صوبہ جاتی حکومت ان کو دبانے میں کامیاب ہو جاتی تو مارشل لاء کے جاری کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی.اس سوال کا جواب دینے میں کچھ نہ کچھ ذکر حکومت کا بھی آجاتا ہے

Page 435

انوار العلوم جلد 24 400 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب کیونکہ ایسے بڑے پیمانہ پر فسادات جن کو پولیس نہ دبا سکے اور انتظامی عملہ ناکام ہو جائے دو ہی وجہ سے پیدا ہوا کرتے ہیں یا تو صیغہ خبر رسانی کی شدید غفلت اور نا قابلیت کیوجہ سے یا عملہ انتظام کی عدم توجہ سے.کیونکہ ایسے موقع پر جب کہ سول اور پولیس ناکام ہو جائے اور فوج کو دخل دینا پڑے یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ آبادی کی ایک کثیر تعداد اس میں شامل تھی یا آبادی کی ایک معقول تعداد ایسی منظم صورت میں فساد پر آمادہ تھی کہ فساد وسعت کی وجہ سے عام قانون کے ذریعہ سے اسے دبایا نہیں جاسکتا تھا اور یہ دونوں حالتیں یکدم نہیں پیدا ہو سکتیں.ایک لمبے عرصہ کی تیاری کے بعد پیدا ہو سکتی ہیں اور ایک لمبے عرصہ کی تنظیم کے بعد یا ایک لمبے عرصہ کے اشتعال کے بعد ہی رونما ہو سکتی ہیں.دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بھی سول معاملات میں فوج کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی جب تک کہ معاملہ ہاتھوں سے نہیں نکل جاتا اور یہ ہمیشہ ہی عرصہ دراز تک نفرت کے جذبات کے سلگتے رہنے اور ایک عرصہ تک مخفی تنظیم کے بعد ہی ہو تا ہے.تیسری صورت وہ ہوا کرتی ہے جبکہ کوئی ظالم شخص اپنے اشتعال سے مجبور ہو کر بلاضرورت فوج کو استعمال کرتا ہے تاریخ میں اس کی بھی مثالیں ملتی ہیں لیکن موجودہ مارشل لاء اس تیسری قسم میں شامل نہیں اس لئے لاء اینڈ آرڈر کی ذمہ دار پنجاب حکومت تھی اور پنجاب حکومت نے 5 اور 6 (مارچ ) کو یہ محسوس کر لیا تھا کہ اب ہم امن کو اپنے ذرائع سے قائم نہیں رکھ سکتے اور مرکز کو دخل دینے کی ضرورت ہے پس چونکہ اس فیصلہ کی بنیاد صوبائی حکومت کے ساتھ تعلق رکھتی تھی اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ مرکزی یا فوجی افسروں نے فوری اشتعال کے ماتحت ایک کام کر لیا حالا نکہ اس کی ضرورت نہیں تھی.پس لازما یہی ماننا پڑے گا کہ وہ حالات جو فروری کے آخر یا مارچ کے شروع میں ظاہر ہوئے ایک لمبی انگیخت کے نتیجہ میں تھے اور ایک باضابطہ تنظیم کے ماتحت تھے جس کی وجہ سے باوجود اس کے کہ ہزاروں کی تعداد میں پولیس موجود تھی، سینکڑوں کی تعداد میں انتظامی افسر موجود تھے پھر بھی وہ لاہور کے

Page 436

انوار العلوم جلد 24 401 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب فسادات کو روکنے کے قابل نہیں ہوئے.یہ بھی بات نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے لاہور میں فسادات میں حصہ لینے والے صرف لاہور کے باشندے نہیں تھے بلکہ زیادہ تر حملے کرنے والے لوگ وہ تھے جو کہ باہر سے منگوائے گئے تھے پس اس بات کو دیکھ کر لاہور کے مارشل لاء کے جاری کرنے کے موجبات کو صرف لاہور تک محدود نہیں کیا جائے گا بلکہ پنجاب کے دوسرے علاقوں پر بھی نظر ڈالنی پڑے گی.اگر بیر و نجات سے سینکڑوں کی تعداد میں جتھے نہ آتے تو پولیس کے لئے انتظام مشکل نہ ہوتا.پولیس کا انتظام زیادہ تر اس بات پر مبنی ہوتا ہے کہ وہ لوکل آدمیوں کی طبیعتوں اور اُن کے چال چلن کو جانتی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ کسی محلہ میں کون کون سے لوگ اس قسم کی شرارت کر سکتے ہیں اور پھیلا سکتے ہیں.پس وہ ان کو گرفتار کر لیتی ہے اور اس طرح شورش کی جڑ کو کچل دیتی ہے.لیکن گزشتہ فسادات میں پارٹیشن کے زمانہ کے فسادات سے سبق سیکھتے ہوئے ان فسادات کے بانیوں نے جہاں جہاں بھی فساد ہو ا وہاں باہر سے آدمی لا کر جمع کر دیئے تھے تاکہ پولیس ان سے معاملہ کرتے وقت صحیح اندازہ نہ کر سکے اور مقامی شورش پسند لوگ جن کو وہ جانتی ہے ان کی گرفتاری سے شورش کو دبانہ سکے.پنجاب کے دوسرے علاقوں میں بھی جہاں جہاں شورش کی گئی اسی رنگ میں کام کیا گیا کہ جس گاؤں میں شورش کرنی ہوتی تھی وہاں اِرد گرد کے گاؤں سے آدمی لائے جاتے تھے اور مقامی گاؤں والے بظاہر خاموش بیٹھے رہتے تھے پس جو کچھ لاہور میں ہو اوہ کبھی نہیں ہو سکتا تھا اگر اضلاع میں اس کی بنیاد نہ رکھی جاتی اور اگر حکومت اس فتنہ کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے تمام اضلاع میں تعاون پیدا کر دیتی تو یہ فسادات یا تو رو نما نہ ہوتے یا ظاہر ہوتے ہی دبا دیئے جاتے.ہم اس بات میں نہیں پڑنا چاہتے کہ زید یا بکر کس پر ان فسادات کی زیادہ ذمہ داری ہے کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ نہ اس طرح ہمارے مقتول واپس لائے جاسکتے ہیں، نہ ہمارے جلائے ہوئے مکان بنائے جا سکتے ہیں، نہ ہمارے لوٹے ہوئے مال ہم کو واپس

Page 437

انوار العلوم جلد 24 402 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب دیئے جاسکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ فساد کرنے والے دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ لوگ جن کا فساد میں فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر یہ ظاہر ہو جائے کہ وہ فساد میں شامل ہیں تو وہ اس فائدے سے محروم ہو جاتے ہیں.دوسرے وہ لوگ فساد کروانا چاہتے ہیں اور فساد کروانے کی عزت خود حاصل کرنا چاہتے ہیں ان لوگوں کا فائدہ اسی میں ہوتا ہے کہ ان کا نام آگے آئے اور لوگوں کو معلوم ہو کہ وہ اس کام میں حصہ لے رہے ہیں.اگر گورنمنٹ کا کوئی براہ راست دخل ان فسادات میں تھا تو گورنمنٹ پہلے گروہ میں آجاتی ہے.اگر کسی وقت بھی یہ ظاہر ہو جاتا کہ وہ ان فسادات کو انگیخت کر رہی ہے تو جس غرض سے وہ ان فسادات میں حصہ لے سکتی تھی وہ اس غرض سے فائدہ اٹھانے سے محروم ہو جاتی تھی.اس لئے لازماً اگر حکومت بحیثیت حکومت یا اسکے کچھ افسران فسادات میں حصہ لینا چاہتے تھے تو وہ یقیناً اسے مخفی رکھتے تھے اور جو بات مخفی رکھی جاتی ہے اس کا پتہ لگانا آسان نہیں ہوتا.فسادات کے دنوں میں ہماری جماعت کو مختلف قسم کی رپورٹیں ملتی تھیں کبھی ایک افسر کے متعلق کبھی دوسرے افسر کے متعلق، کبھی صوبہ جاتی حکومت کے متعلق کبھی مرکزی حکومت کے متعلق.کبھی ہمیں یہ خیال پیدا ہو تا تھا کہ فلاں افسر یا صوبہ جاتی حکومت اس کی ذمہ دار ہے کبھی ایک دوسری رپورٹ کی بناء پر ہم یہ سمجھتے تھے کہ کوئی دوسرا افسر اور مرکزی حکومت اس کی ذمہ دار ہے (چونکہ ہمارے آدمی حکومت کے ذمہ دار عہدوں پر فائز نہیں تھے اس لئے) ہمیں حقیقت حال کا صحیح اندازہ نہیں ہو سکتا تھا.اس لئے ہماری جماعت کا طریقہ یہی تھا کہ ہر قسم کے افسروں سے تعاون کرنا اور بعض دفعہ یہ خیال کرتے ہوئے بھی کہ وہ ان فسادات میں حصہ لیتے ہیں ان کے پاس اپنی شکایت لے جانا اور اگر کسی کے منہ سے کوئی بات انصاف کی نکل جائے تو اس کی تعریف کر دینا تا کہ شاید اسی تعریف کے ذریعہ سے آئندہ اس کے شر سے نجات مل جائے.ہماری مثال تو اُس جانور کی سی تھی جس کے پیچھے چارں طرف سے شکاری کتے لگ جاتے ہیں اور وہ مختلف طریقوں سے اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے.پس ہم معین صورت میں کسی شخص پر الزام نہیں لگا سکتے.مارشل لاء سے پہلے بھی ہم پر سختیاں

Page 438

انوار العلوم جلد 24 403 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب کی گئیں اور ہمارے لئے یہ نتیجہ نکالنا بالکل ممکن تھا کہ اس کا اصل موجب کون تھا.ہاں ہم شہادتوں کو دیکھ کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ صوبہ جاتی حکومت میں قطعی طور پر بے عملی پائی جاتی تھی.خیال تھا کہ : ہمیں یہ سن کر نہایت ہی تعجب ہوا ہے کہ اس وقت کے وزیر اعلیٰ کا صرف یہی (اول) ان کو اس امر کے متعلق وہی کارروائی کرنی چاہیے جس کے متعلق ان کے ماتحت رپورٹ کریں.(ب) جب کوئی معاملہ زیر بحث آئے تو ان کے لئے یہ کافی تھا کہ وہ اپنے افسروں کے ساتھ تبادلہ خیال کے بعد درست یا غلط کوئی حکم دے دیں ان کے نزدیک اس بات کی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ یہ بھی دیکھیں کہ وہ حکم نافذ بھی ہوا ہے یا نہیں.(ج) ان کے نزدیک انصاف کا تقاضا اس سے پورا ہو جاتا تھا کہ اگر ظالم اور مظلوم دونوں کو ایک کشتی میں سوار کر دیا جائے اور اس طرح دنیا پر ظاہر کیا جائے کہ وہ سب قسم کے لوگوں کو ایک آنکھ سے دیکھتے ہیں.اور یہی کیفیت ہم کو لاہور کے انتظامیہ حکام میں نظر آتی ہے اور یہیں فساد سب سے زیادہ ہوا ہے.گواہیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت لاہور میں جو ذمہ دار افسر تھا اُس کے نزدیک بھی اوپر کے ہی اصول قابل عمل تھے اور انہی پر وہ عمل کرتا رہا ہے.شاید جرمنی کے مشہور چانسلر پرنس بسمارک کا یہ قول ہے کہ "افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ دیکھتے رہیں کہ اُن کا ماتحت عملہ قواعد اور احکام کی پابندی کرتا ہے " مگر ان شہادتوں کے پڑھنے سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ افسر اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ ایک فیصلہ کریں اور پھر کبھی نہ دیکھیں کہ اس پر عمل ہوا ہے یا اس لئے مقرر کئے جاتے ہیں کہ وہ اس انتظار میں رہیں کہ ان کے ماتحت افسر کوئی کارروائی کرنا چاہتے ہیں یا نہیں.اگر وہ کارروائی کرنا چاہیں تو پھر مناسب طور پر وہ اس کارروائی کو بستہ میں لپیٹ دینے کی کوشش کریں اور اگر وہ کوئی کارروائی نہ کروانا چاہیں تو وہ اس انتظار میں رہیں کہ کبھی وہ عمل کی طرف متوجہ ہوں گے یا نہیں.جہاں تک ہماری عقل

Page 439

انوار العلوم جلد 24 404 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب کام دیتی ہے دنیا کی ادنیٰ سے ادنی حکومت بھی ان اصول کے ماتحت نہیں چل سکتی.پس ہمارے نزدیک حکومت کی بے حسی اور عدم توجہی اور عدم تنظیم ان فسادات کی ذمہ دار ہے لیکن اصل ذمہ داری ان لوگوں پر آتی ہے جو کہ اپنے ارادوں کو ظاہر کرتے تھے ، لوگوں کو فساد کے لئے اکساتے تھے اور اس بارہ میں تنظیم کر ر تھے.یہ کہہ دینا کہ کوئی شخص ایسے الفاظ نہیں بولتا تھا جن سے وہ قانون کی زد میں آئے درست نہیں کیونکہ اول تو اخباروں کے کٹنگز اور تقریروں کے بعض حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے الفاظ بولے جاتے تھے.دوسرے ایسے مواقع پر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ الفاظ کیا بولے جاتے تھے دیکھا یہ جاتا ہے کہ کس ماحول میں وہ بولے جاتے تھے اور کیا ذہنیت وہ لوگوں کے دلوں میں پیدا کرتے تھے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ ایک خاص ذہنیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک خاص سکیم کے ماتحت جو فتنہ وفساد کو پیدا کرنے میں محمد ہو سکتی ہے کچھ الفاظ بولے جاتے تھے جن میں رائج الوقت قانون سے بچنے کی بھی کوشش کی جاتی تھی تو یقیناً الفاظ خواہ کچھ ہی ہوں اس بات کو ماننا پڑے گا کہ فساد کے لئے لوگوں کو تیار کیا گیا اور متواتر تیار کیا گیا.اور پھر جب ہم دیکھتے ہیں کہ عین فساد کے دنوں میں جلسوں کی حد سے نکل کر ایک مقررہ تنظیم کے ماتحت سارا فساد آگیا تو ماننا پڑتا ہے کہ جو لوگ جلسوں میں محتاط الفاظ استعمال کرتے بھی تھے اپنی خلوت میں دوسرے کام کرتے تھے.اگر ایسا نہیں تھا تو اچانک شورش ایک انتظام کے ماتحت کس طرح آگئی اور اس کو باقاعدہ لیڈر کہاں سے مل گئے.آخر وہ کیا بات تھی کہ جلسوں میں تو محض لوگوں کو ختم نبوت کی اہمیت بتائی جاتی تھی لیکن فسادات کے شروع ہوتے ہی جتھے لاہور کی طرف بڑھنے شروع ہوئے.ایک شخص نے آکر مسجد وزیر خان میں راہنمائی اور راہبری سنبھال لی اور لوگ اس کا حکم ماننے لگ گئے اور دوسروں نے دوسرے علاقوں میں باگ ڈور سنبھال لی.جس دن شورش کرنی ہوتی تھی مختلف طرف سے جتھے نکلتے تھے لیکن شورش ایک یا دو مقامات پر کی جاتی تھی.جب گرفتاریاں ہوتی تھیں تو شورش پسند لیڈ روہاں سے بھاگتے تھے اور ان کو پناہ دینے کے لئے پہلے سے جگہیں موجود ہوتی تھیں.حکومت کو

Page 440

405 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب انوار العلوم جلد 24 بیکار بنانے کے لئے ریلیوں اور لاریوں پر خصوصیت کے ساتھ حملے کئے جاتے تھے.تمام بڑے شہروں میں گاؤں کی طرف سے جتھے آتے تھے جیسے لائلپور میں گوجرہ اور سمندری رہ سے اور سرگودہا میں میانوالی اور سکیسر کے علاقوں سے اور لاہور میں راولپنڈی، لائلپور اور دوسرے شہروں سے.گویا لاہور میں تو لائلپور، راولپنڈی، سرگودہا اور ملتان کے شہروں کو استعمال کیا جا رہا تھا اور لائلپور ، سرگودہا، راولپنڈی، ملتان وغیرہ میں ارد گرد کے دیہات کے لوگوں کو استعمال کیا جاتا تھا.کیا یہ بات بغیر کسی تنظیم کے ہو سکتی تھی اور کیا یہ تنظیم بغیر کسی منظم کے ہو سکتی تھی ؟ پس یہ حالات صاف بتاتے ہیں کہ تقریروں میں کچھ اور کہا جاتا تھا گو جوش کی حالت میں وہ بھی اصل حقیقت کی غمازی کر جاتی تھیں لیکن پرائیویٹ طور پر اور رنگ میں تیاری کی جارہی تھی.پس فسادات کی اصل ذمہ دار جماعت اسلامی، جماعت احرار اور مجلس عمل تھی، ان کے کارکنوں نے متواتر لوگوں میں جوش پیدا کیا کہ احمدی اسلام کو تباہ کر رہے ہیں، پاکستان کے غدار ہیں، غیر حکومتوں کے ایجنٹ ہیں، گویا وہ دوہی چیزیں جو پاکستانی مسلمانوں کو پیاری ہو سکتی ہیں یعنی اسلام اور پاکستان دونوں کی عزت اور دونوں کی ذات احمدیوں سے خطرہ میں ہے.ظاہر ہے کہ ان تقریروں کے نتیجہ میں عوام الناس میں اتنا اشتعال پیدا ہو جانا ضروری تھا کہ وہ اپنی دونوں پیاری چیزوں کے بچانے کے لئے اُس دشمن کو مٹادیتے جس کے ہاتھوں سے ان دونوں چیزوں کو خطرہ بتایا جاتا تھا.ضرورت صرف اس بات کی تھی کہ انڈر گراؤنڈ طور پر کچھ ایسے لوگ بھی مقرر کئے جاتے جو اس طوفان کو ایک خاص انتظام کے ماتحت اور ایک خاص لائن پر چلا دیتے.جب طبائع میں اشتعال پیدا ہو جائے تو وہ لیڈر کی اطاعت کے لئے پوری طرح آمادہ ہو جاتے ہیں.اس طرح تنظیم کے لئے رستہ کھول دیا گیا تھا.ان لوگوں کو یہ اتفاقی سہولت میسر آگئی کہ پنجاب کے صوبہ کی حکومت دانستہ یا نادانستہ ایسے طریق عمل کو اختیار کرنے لگی جو دنیا کی کسی مہذب حکومت میں بھی استعمال نہیں کیا جاتا اور جس کا ذکر ہم اوپر کر آئے ہیں.اس دوران میں بد قسمتی سے پاکستان کی مرکزی حکومت میں ایک ایسا وزیر اعظم آگیا جو مذہبی جوش رکھتا

Page 441

انوار العلوم جلد 24 406 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب تھا اور علماء کا حد سے زیادہ احترام اس کے دل میں تھا اور انتہاء درجہ کا سادہ اور طبیعت کا شریف تھا.اتفاقی طور پر کچھ علماء اس کے پاس پہنچے اور اس کے ادب اور احترام کو دیکھ کر انہوں نے محسوس کیا کہ کامیابی کا ایک اور راستہ بھی ان کے سامنے کھل سکتا ہے.ہمیں ان فسادات کے دنوں میں جو کچھ معلومات حاصل ہوئیں یا ہو سکتی تھیں خواہ مخالفوں کے کیمپ سے یا اپنے وفود سے جو کہ پاکستان کے وزیر اعظم سے ملے یہی معلوم ہو سکا ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم سادہ اور شریف آدمی تھے.ہمیں کبھی بھی ان کے متعلق یہ محسوس نہیں ہوا کہ وہ شرارت یا فساد کے لئے کوئی کام کرتے تھے مگر علماء کا ادب اور احترام اور ان کی سادگی اور دوسری طرف علماء کا فساد پر آمادہ ہو جانا ان کو دھکیل کر ایسے مقام پر لے گیا جبکہ وہ نادانستہ طور پر اس فساد کو آگ دینے والے بن گئے.پاکستان میں اس وزیر اعظم کے آنے سے پہلے علماء کے دل میں یہ طمع کبھی نہیں پیدا ہوا کہ آئندہ حکومت ان سے ڈر کر ان کی پالیسیاں چلائے گی لیکن اس وزیر اعظم کے زمانہ میں یہ طمع علماء کے دل میں پیدا ہو گیا.مولانا مودودی جو کہ پہلے کا نگر سی تھے پھر ہندو نواز تھے اور پاکستان بننے کے وقت پاکستان کے مخالف تھے آخری دن تک ان کی پاکستان میں آنے کی تجویز نہیں تھی.وہ پاکستان کو مسلمانوں کے مفاد کے خلاف سمجھتے تھے ان کی جماعت کی بنیاد سرے سے ہی سیاسی ہے اور ان کا نظریہ یہی ہے کہ جس طرح ہو حکومت پر قبضہ کیا جائے اور پھر ان کے سمجھے ہوئے اسلامی نظام کو چلایا جائے.ان کے اس نظریہ کی وجہ سے دوسری پارٹیوں سے مایوس شدہ سیاسی آدمی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ پارٹی جو جلد سے جلد حکومت پر قبضہ کرنا چاہتی ہے اس کے ذریعہ سے ہم کو بھی رسوخ حاصل ہو جائے گا اور چونکہ وہ یہ کہتے ہیں کہ بعد میں اسلامی نظام قائم کیا جائے گا اس لئے مذہب کی طرف مائل ہونے والے لوگ بھی ان کی طرف رجوع کرتے ہیں.ان کا انجمن اخوان المسلمین کے ساتھ تعلق بھی ظاہر کرتا ہے کہ در حقیقت ان کا مطلوب بھی سیاست ہے ان کا طریق عمل بھی بالکل اسی رنگ کا ہے.مثلاً اسی کمیشن کے سامنے مولانا مودودی صاحب تو یہ کہتے ہیں کہ فساد تو مذہبی تھا اور ان کی جماعت اسلامی یہ

Page 442

انوار العلوم جلد 24 407 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب کہتی ہے کہ اس فساد کے موجبات سیاسی تھے.یہ اختلاف دیانتداری کے ساتھ نہیں ہو سکتا.اگر تو جماعت اسلامی پہلے ہوتی اور مولانا مودودی بعد میں آکر اس کے پریذیڈنٹ بن جاتے تب تو نفسیاتی طور پر اس اختلاف کو حل کیا جاسکتا تھا مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی ہی نے جماعت اسلامی بنائی ہے اور اب بھی گو انہیں ایکس امیر (Ex-AMEER) کہا جاتا ہے لیکن جیل خانہ میں بھی انہی سے مشورے کئے جاتے ہیں کیونکہ ان کو "مزاج شناس رسول " کا درجہ دیا جاتا ہے (بیان امین احسن اصلاحی) اگر اتنا اہم اختلاف پیدا ہو گیا تھا تو یہ تعاون با ہمی کیسے جاری ہے.جماعت اخوان المسلمین نے بھی مصر میں یہی طریقہ اختیار کیا ہوا ہے.جنرل نجیب کے بر سر اقتدار آنے پر انہوں نے اعلان کر دیا کہ ان کی جماعت مذہبی جماعت ہے لیکن ایک حصہ اسے سیاسی قرار دیتا رہا اور اب ساری جماعت ہی سیاسیات میں اُلجھ کر مصر کی قائم شدہ حکومت جس کے ذریعہ سے اس کے لئے آزادی کا حصول ممکن ہو گیا ہے اس کے خلاف کھڑی ہو گئی اور جماعت اسلامی کے صدر صاحب جنرل نجیب کو تار دیتے ہیں کہ جو الزام تم اخوان المسلمین پر لگاتے ہو وہ غلط ہے.عجیب بات ہے کہ مصر کی حکومت مصر کے بعض لوگوں پر ایک الزام لگاتی ہے اور واقعات کی بناء پر الزام لگاتی ہے لیکن پاکستان کی جماعت اسلامی بغیر اس کے کہ ان لوگوں سے واقف ہو ، بغیر اس کے کہ کام سے واقف ہو ، صدرِ مصر کو تار دیتی ہے کہ تمہاری غلطی ہے یہ لوگ ایسے نہیں ہیں.یہ صاف بتاتا ہے کہ دونوں تحریکیں سیاسی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کا بازو ہیں.مذہب کا صرف نام رکھا گیا ہے اور اسی وجہ سے جب اس تحریک فسادات نے زور پکڑا اور جماعت اسلامی نے یہ محسوس کیا کہ اس ذریعہ سے وہ حکومت کے کچھ لوگوں کی نظر میں بھی پسندیدہ ہو جائیں گے اور عوام الناس میں بھی ان کو قبولیت حاصل کرنے کا موقع میسر آجائے گا تو وہ اس تحریک میں شامل ہو گئے.ہمیں تعجب ہے کہ مسٹر انور علی صاحب آئی جی پولیس، مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کے متعلق تو یہ کہتے ہیں کہ لائلپور کی تقریر میں ان کا یہ کہنا کہ اس اس رنگ میں

Page 443

انوار العلوم جلد 24 408 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب فساد ظاہر ہوں گے یہ بتاتا ہے کہ وہ ان فسادات کی سکیم میں شامل تھے.لیکن مولانا مودودی صاحب کی لاہور کی تقریر جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ اگر حکومت نے یہ باتیں نہ مانیں تو جس رنگ میں پارٹیشن کے وقت فسادات ہوئے تھے اُسی رنگ میں فسادات ہوں گے اس کے متعلق وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق مجھے یہ شبہ نہیں تھا کہ وہ کوئی سیاسی کام گورنمنٹ کے خلاف کرتے ہیں.تعجب ہے ایک ہی قسم کی تقریریں دو شخص کرتے ہیں اور ایک سے اور نتیجہ نکالا جاتا ہے اور دوسری سے اور.حالانکہ مولانا مودودی نے جس قسم کے فسادات کی طرف اشارہ کیا تھا فسادات تفصیلاً اُسی رنگ میں پیش آئے.یا تو وہ الہام کے مدعی ہوتے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایسا بتایا ہے تب ہم اس امر کی تحقیقات کرتے مگر وہ تو الہام کے منکر ہیں.آخر انہیں کیونکر پتہ لگا تھا کہ اُسی رنگ میں فسادات ہوں گے جس رنگ میں پارٹیشن کے زمانہ میں فسادات ہوئے تھے.فسادات کے مختلف پیٹرن(Pattern) ہوتے ہیں اور ہر وقت اور ہر ملک میں ایک قسم کے فسادات ظاہر نہیں ہوتے.گزشتہ پارٹیشن کے زمانہ میں فساد کا ایک معین طریق تھا جو ہندوؤں اور سکھوں نے مقرر کیا تھا.مغربی پنجاب میں بھی فسادات ہوئے مگر وہ اس رنگ میں نہیں ہوئے ان کا رنگ بالکل اور تھا مگر جو فسادات پچھلے دنوں میں ہوئے ان کا پیٹرن وہی تھا جو کہ مشرقی پنجاب میں استعمال کیا گیا تھا اور اس کی طرف مولانا مودودی صاحب نے اشارہ کیا تھا.غرض یہ ایک حقیقت ہے کہ باوجود 1950ء ، 1951ء اور 1952ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے متواتر پروٹسٹ کرنے کے حکومت نے کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا.اس نے روم کے بادشاہ نیرو کے نقش قدم پر چلنا پسند کیا جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ Rome burns but Nero plays with his fiddle آخر وجہ کیا ہے کہ جبکہ جماعت احمد یہ متواتر فسادات کے پید اہونے کے امکان کی طرف حکومت کو توجہ دلاتی رہی.حکومت انہیں یہ طفل تسلیاں دیتی رہی کہ فسادات کا

Page 444

انوار العلوم جلد 24 409 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہ کہ جب کوئی قانون کی خلاف ورزی کرے گا ہم اسے پکڑ لیں گے.لیکن جب فساد کی صریح انگیخت بعض لوگ کرتے تھے تو کبھی لوکل افسروں کے توجہ دلانے پر یہ کہہ دیا جاتا تھا کہ یہ آدمی اہم نہیں حالانکہ فسادات کے لئے ملکی اہمیت نہیں دیکھی جاتی علاقائی اہمیت دیکھی جاتی ہے.اور کبھی یہ کہہ دیا جاتا کہ اگر اس وقت کسی کو پکڑا گیا تو شورش بڑھ جائے گی حالانکہ شورش کے بڑھنے کا خطرہ تو زمانہ کی لمبائی کے ساتھ لمبا ہوتا ہے.اس وقت خاموش رہنے کے یہ معنی تھے کہ شورش کے بڑھنے کو اور موقع دیا جائے حالانکہ شہادتوں سے صاف ثابت ہے کہ مرکزی حکومت سے دو ٹوک فیصلہ چاہنے کی کبھی بھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی.اور کبھی یہ کہہ دیا جاتا کہ چونکہ مرکزی حکومت نے ابھی تک اصل مسئلہ کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا اس لئے ہمارا دخل دینا مناسب نہیں.کبھی انسپکٹر جنرل پولیس توجہ دلاتا تو خاموشی اختیار کی جاتی اور سمجھ لیا جاتا کہ ہم ایک دفعہ فیصلہ کر چکے ہیں اب مزید اظہار رائے کی ضرورت نہیں.کبھی مقامی حکام یا پولیس اگر بعض لوگوں کو پکڑ لیتی تو ہماری حکومت ان کو اس لئے رہا کرنے کا آرڈر دے دیتی کہ وہ لوگ اب پچھلے کام پر پشیمان ہیں.حالانکہ گزشتہ تاریخ احرار کی اس کے خلاف تھی جیسا کہ شہادتوں سے ثابت ہے اور مستقبل نے بھی اس خیال کو غلط ثابت کر دیا.یہ کہنا بھی درست نہیں کہ ان لوگوں نے اصلاح کی.شہادتیں اور لٹریچر اس کے خلاف ہے.گویا ایک لاکھ یا دو لاکھ پاکستانیوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں تھی، اس کے لئے حکومت کو کسی قدم کے اٹھانے کی ضرورت نہیں تھی.آخر اگر کسی نے ملک میں کوئی غیر آئینی تقریر نہیں کی تھی، اگر تمام لیڈ ر لوگوں کو امن سے رہنے اور احمدیوں کی جان کی حفاظت کرنے کا وعدہ کر رہے تھے اور حکومت کو ان کے وعدوں پر اعتبار تھا تو یہ کس طرح ہوا کہ احمدی قتل کئے گئے اور ان کی جائیدادیں تباہ کر دی گئیں، ان کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اور کئی جگہ پر انہیں مجبور کر کے ان سے احمدیت ترک کروائی گئی.ہم نہیں کہہ سکتے کہ کوئی احمدی اپنے عقیدہ کو ترک نہیں کر سکتا.دنیا میں ہمیشہ سے ہی لوگ اپنے عقائد چھوڑتے آئے ہیں اگر کوئی احمدی بھی اپنا عقیدہ چھوڑ دے تو یہ کوئی

Page 445

انوار العلوم جلد 24 410 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب عجیب بات نہیں ہے لیکن وجہ کیا ہے کہ احمدیت کو ترک کرنے کا خیال ان دنوں میں پیدا ہونا شروع ہوا جن دنوں میں چاروں طرف سے احمدیت کے خلاف قتل اور غارت کا بازار گرم تھا.ہم مثال کے طور پر راولپنڈی، سیالکوٹ، اوکاڑہ، ملتان، گوجر انوالہ، شاہدرہ، لاہور اور لائلپور کے واقعات کو پیش کرتے ہیں یہ عجیب بات ہے کہ انہی فسادات کے ایام میں جماعت اسلامی جو امن و امان کے قیام کی واحد ٹھیکیدار اپنے آپ کو ظاہر کرتی ہے اس کے سیکرٹری نے مندرجہ ذیل خط امام جماعت احمدیہ کو لکھا.امیر جماعت اسلامی تاریخ 9 مارچ 1953ء شمارہ نمبر 1039 مکر می.السّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ عَلَى الْهُدَى مندرجہ ذیل حضرات نے قادیانیت سے تائب ہو کر اسلام قبول کیا ہے انہوں نے تحریری طور پر دفتر ہذا کو اطلاع دی ہے کہ ان پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی کسی ڈر اور خوف سے انہوں نے توبہ کی ہے بلکہ برضاور غبت اور پوری طرح سمجھ کر اسلام قبول ہے.1 فضل الرحمن صاحب سپر وائزر H.O.مکان نمبر 6/543 کالج روڈ راولپنڈی 2 چودھری احمد علی خان حفظ الرحمن صاحب 4 عطاء الرحمن صاحب سمیع الرحمن صاحب 6 مطیع الرحمن صاحب 7 ساجده خانم بنت فضل الرحمن صاحب // || // || // // || // || 8 ممتاز بیگم زوجہ فضل الرحمن صاحب 9 سردار بیگم زوجہ احمد علی خانصاحب 10 غیاث بیگم بنت احمد علی خانصاحب ( دستخط) صدیق الحسن گیلانی قیم حلقہ راولپنڈی

Page 446

انوار العلوم جلد 24 411 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب اس خط سے ظاہر ہے کہ عین ان فسادات کے ایام میں یہ امر ان آدمیوں پر ظاہر ہوا کہ احمدی عقائد غلط ہیں اور جماعت اسلامی کے عقائد درست ہیں اور جماعت اسلامی کے راولپنڈی کے سیکرٹری صاحب نے غیر معمولی طور پر یہ ضرورت بھی محسوس کی کہ امام جماعت احمدیہ کو اطلاع دیں کہ بغیر جبر و اکراہ کے ایام میں اس قدر آدمی جماعت احمدیہ سے بیزار ہو کر اسلامی جماعت کے سیکرٹری کے پاس تو بہ کا اظہار کرتے ہیں.اس خط سے خوب واضح ہے کہ جبر و اکراہ بالکل استعمال نہیں کیا گیا اور جبر واکراہ کے ساتھ اسلامی جماعت کا کوئی بھی تعلق نہیں تھا.اتفاقی طور پر جبر واکر اہ کے دنوں میں بغیر جبر واکراہ کے بارہ آدمیوں پر راتوں رات احمدیت کی غلطی ثابت ہو گئی اور بغیر اس کے کہ جماعت اسلامی کا کوئی بھی ان فسادات سے تعلق ہو وہ لوگ دوڑ کر جماعت اسلامی کے سیکر ٹری کے پاس پہنچے اور ان کو ایک تحریر دے دی.جماعت احمدیہ کے اوپر صرف یہ الزام ہے کہ بعض موقعوں پر اس نے حملوں کا جواب کیوں دیا حالانکہ جواب دینا تو انسان کو اپنی جان بچانے کے لئے ضروری ہوتا ہے اگر جواب نہ دیں تو لوگوں پر حقیقت روشن کس طرح ہو.مثلاً اسی کمیشن کے سامنے مولانا مر تضی صاحب میکش نے امام جماعت احمدیہ سے سوال کیا کہ ہم تو آپ کو اس لئے کافر کہتے ہیں کہ آپ کا فر ہیں آپ ہمیں کس لئے کافر کہتے ہیں ؟ ان کی غرض یہ تھی کہ احمدی چونکہ دوسروں کو کافر کہتے ہیں اس لئے لوگوں کے دلوں میں اشتعال آتا ہے لیکن چونکہ ان کے ساتھ کفر کی ایک ایسی تشریح پیش کی گئی جس پر وہ اعتراض نہیں کر سکتے تھے اس لئے ان کو اپنا سوال اس رنگ میں ڈھالنا پڑا کہ ہم تو آپ کو کا فر سمجھ کر کافر کہتے ہیں آپ ہمیں کافر کیوں کہتے ہیں؟ گویا ان کے نزدیک علماء احرار و مجلس عمل و جماعت اسلامی بیشک احمدیوں کو کافر سمجھیں اور کہیں اس سے فساد کا کوئی احتمال نہیں لیکن اگر احمدی جماعت جوابی طور پر بھی انہیں کافر کہے تو اس سے فساد کا احتمال پیدا ہو جاتا ہے.ان فسادات کے سیاسی ہونے کا ایک اہم ثبوت یہ بھی ہے کہ جماعت احمدیہ

Page 447

انوار العلوم جلد 24 412 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب کے خلاف سراسر جھوٹ بولا جاتا تھا.اگر جماعت احمدیہ کے عقائد غلط تھے تو ان کو بیان کرنا کافی تھا جھوٹ بنانے کی کیا ضرورت تھی.مثلاً متواتر یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے حالانکہ یہ سراسر افتراء تھا.احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے تھے، اور مانتے ہیں اور قیامت تک مانتے رہیں گے.کیونکہ قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہا گیا ہے اور احمدی قرآن کریم کو مانتے تھے ، مانتے ہیں اور قیامت تک مانتے رہیں گے اور بیعت میں بھی ختم نبوت کا اقرار لیا جاتا ہے.اس جھوٹ کے بنانے کی وجہ یہی تھی کہ علماء جانتے تھے کہ اس کے بغیر لوگوں کو غصہ نہیں دلایا جا سکتا.اسی طرح لوگوں کے سامنے یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی غیر احمدی کو کافر کہتے ہیں اور یہ کبھی بھی نہیں کہا جاتا تھا کہ ہم نے دس سال تک ان کو کافر کہا ہے.اس کے بعد انہوں نے ہمیں کافر کہنا شروع کیا ہے.اور نہ کبھی یہ کہا جاتا تھا کہ کفر کے جو معنی ہم کرتے ہیں احمدی وہ معنے نہیں کرتے احمدی فلاں معنے کرتے ہیں (جو حضرت امام جماعت احمدیہ کے خطبہ مطبوعہ الفضل 3 مئی 1935ء میں بیان کیے گئے ہیں) جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ مذہب کا دفاع مقصود نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر ایک فتنہ پیدا کرنا مقصود تھا.ورنہ کیا خدا جھوٹ کا محتاج ہوتا ہے؟ کیا خدا دھوکا بازی کا محتاج ہوتا ہے ؟ اسی طرح یہ کہا جاتا تھا کہ احمدی جماعت مسلمانوں کی سیاست سے کٹ گئی ہے کیونکہ وہ ہمارے جنازے نہیں پڑھتی اور یہ کبھی بھی نہیں کہا گیا کہ ہم نے احمدیوں کو سیاست سے کاٹ دیا ہے کیونکہ ہم نے ان کے جنازے پڑھنے سے لوگوں کو روک دیا ہے.اگر وہ ان باتوں کو ظاہر کرتے تو لوگوں کو یہ معلوم ہو جاتا کہ علماء کا مقام یہ ہے کہ کثیر التعداد جماعت جو چاہے کرے اسے جائز ہے اور قلیل التعداد جماعت کو صحیح طور پر اپنے دفاع کرنے کی بھی اجازت نہیں اور عقل مند لوگ سمجھ جاتے کہ یہ مذہبی جھگڑا نہیں سیاسی جھگڑا ہے.ہم کورٹ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس فتنہ کو دور کرنے کا ایک آسان ذریعہ یہ ہے کہ وہ علماء کو بھی مجبور کرے اور ہمیں بھی مجبور کرے کہ جو فتاویٰ ان کے ہمارے بارے میں ہیں وہ بھی اکٹھے کر دیئے جائیں اور جو فتاویٰ

Page 448

انوار العلوم جلد 24 413 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب ہمارے ان کے بارہ میں ہیں وہ بھی اکٹھے کر دیئے جائیں اور ان کی وہ شائع شدہ تشریحات بھی شامل کی جائیں جو دونوں فریق آج سے پہلے کر چکے ہیں اور پھر ان فتووں کو جماعت احرار، مجلس عمل ، جماعت اسلامی اور جماعت احمدیہ کے خرچ پر شائع کیا جائے اور آئندہ یہ فیصلہ کر دیا جائے کہ سوائے اس مجموعی کتاب کے ان فتووں کے مضمون کے متعلق اور کوئی بات کسی کو کہنے یا لکھنے کی اجازت نہیں ہو گی.ہم خود اس پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ہم اس کتاب کا آدھا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں مگر ہمیں یقین ہے کہ یہ مولوی صاحبان جو جماعت احرار ، جماعت اسلامی اور جماعت عمل کے نمائندے ہیں بھی اس بات پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.غرض کلی طور پر ان فسادات کی ذمہ داری جماعت اسلامی، مجلس احرار اور مجلس عمل پر ہے.جماعت احرار نے ابتداء کی، مجلس عمل نے اس کو عالمگیر بنانے کی کوشش کی اور جماعت اسلامی نوٹ کی امید میں آگے آگے چلنے لگ گئی.حقیقت یہ ہے کہ ابتدائی ایام کی سستی اور غفلت نے حکومت کو ایک ایسے مقام پر کھڑا کر دیا کہ اگر وہ چاہتی بھی تو ان فسادات سے بچ نہیں سکتی تھی پہلے انہوں نے غفلت برتی پھر انہوں نے اس فساد کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کی اور آخر میں انہوں نے سمجھا کہ اگر علماء کو کچھ بھی کہا گیا تو عوامی لیگ وغیرہ مسلم لیگ کو کچل دیں گی اور طاقت ور ہو جائیں گی.یہ علماء قائد اعظم کے زمانہ میں بھی موجود تھے مگر انہوں نے ان کو منہ نہیں لگایا.بار بار عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری اپنی تقریروں میں بیان کرتے رہے ہیں کہ میں نے اپنی داڑھی قائد اعظم کے بُوٹ پر ملی مگر پھر بھی اس کا دل نہ پسیجا.وہی عطاء اللہ شاہ بخاری اب بھی تھے اور وہی قائد اعظم والی حکومت اب بھی تھی.صرف قائد اعظم فوت ہو گئے تھے اور ان کے نمائندے کام کر رہے تھے.آخر کیا وجہ ہے کہ وہ مردِ دلیر نہ ڈرا اور یہ علماء اس کے ڈر کے مارے اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے ر لیکن اس کے اس دنیا سے رخصت ہوتے ہی یہ اسی شخص کے کام کو تباہ کرنے کے لئے آگے نکل آئے جس کے بُوٹ پر یہ داڑھیاں رگڑا کرتے تھے.در حقیقت یہ جو کچھ کیا گیا

Page 449

انوار العلوم جلد 24 414 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب ہمارے نزدیک تو دانستہ تھا.لیکن اگر کوئی ہمارے ساتھ اتفاق نہ کرے تو اسے یہ ضرور ماننا پڑے گا کہ نادانستہ طور پر ہندو کے ہاتھ کو مضبوط کرنے کے لئے کیا گیا.اس کا ثبوت بیج کا حوالہ ہے.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اُس وقت غیر احمدی بھی احمدیت کی تائید کرنے لگے تھے اور اس کا علاج کرنے کے لئے ہندوؤں کو پکارا گیا تھا.اس کے معا بعد جماعت احرار پیدا ہوئی اور پھر چند سال میں جماعت اسلامی.تیج کے مضمون، اس کے وقت اور ان دونوں جماعتوں کے ظہور کے وقت اور ان کے طریق عمل سے ظاہر ہے کہ یہ ہندوؤں کا خود کاشتہ پودا ہے.نیز جس رنگ میں یہ کوشش پاکستان بننے کے بعد کی گئی اس سے بھی ظاہر ہے کہ متعصب ہندوؤں کا ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے ایسا کیا گیا کیونکہ تمام فساد کی جڑ یہ اصل ہے کہ ایک مینارٹی کو کیا حق ہے کہ وہ ایک میجارٹی کے مقابلہ میں اپنی رائے ظاہر کرے.( آفاق کی مثال (2) اور اسلام کو ایسی بھیانک صورت میں پیش کیا گیا کہ کوئی منصف مزاج آدمی اس کی معقولیت کا قائل نہیں ہو سکتا.اور ہندوستان اور پاکستان میں ایک ایسا مواد پیدا کر دیا گیا کہ اگر خدانخواستہ پاکستان اور ہندوستان میں جنگ چھڑ جائے تو ہندوستان کا مسلمان ہمارے خلاف ہو گا کیونکہ ہندو پر یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اسلامی عقیدہ کے مطابق وہ اس کا وفادار نہیں ہو سکتا اور اسے اس الزام کو دور کرنے کے لئے ضرورت سے بھی زیادہ وفاداری کا اظہار کرنا پڑے گا ورنہ وہ تباہ ہو جائے گا.ادھر پاکستان کا ہندو ان خیالات کے سُننے کے بعد جو ایک اسلامی حکومت کے متعلق ان علماء نے ظاہر کئے ہیں پاکستان کی وفاداری کے جذبات اپنے اندر پیدا نہیں کر سکے گا.در حقیقت پاکستان کو مضبوط کرنے والی اور پاکستان کے ہندو کو سچا پاکستانی بنانے والی اور ہندوستان کے مسلمان کو خونریزی سے بچانے والی اور بُزدل بنانے سے محفوظ رکھنے والی پالیسی وہی ہے جو کہ اسلام کی اس تشریح سے ثابت ہوتی ہے جو ہم بیان کرتے ہیں اور جس کو قائد اعظم بھی اپنی زندگی میں بیان کرتے رہے اور وہ یہ ہے کہ اسلامی حکومت میں کسی اقلیت یا غیر اقلیت کو کوئی خوف نہیں بلکہ تمام قوموں کے لئے یکساں آزادی اور یکساں کاروبار کے مواقع نصیب ہیں

Page 450

انوار العلوم جلد 24 415 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب اور غیر اسلامی حکومت میں رہنے والے مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی حکومت سے تعاون اور اس کی فرمانبرداری کریں.مودودی صاحب اپنے بیان میں یہ لکھتے ہیں کہ احمدیوں نے ملازمتوں پر قبضہ کر لیا ہے حالانکہ انہوں نے اس کا کوئی ثبوت بہم نہیں پہنچایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا أَنْ يُحَدِّثَ بِكُلِّ مَاسَمِعَ 3 جو شخص سُنی سنائی بات کو پیش کر دیتا ہے اس کے جھوٹا ہونے کے لئے یہی ثبوت کافی ہے.یہ بات سراسر غلط ہے سو فیصد غلط ہے لیکن اگر صحیح بھی ہو تو ملازمتیں بھی پبلک سروس کمیشن کے ذریعہ سے ملتی ہیں.اور پبلک سروس کمیشن میں آج تک ایک بھی احمدی ممبر نہیں ہوا.نہ صوبہ جاتی پبلک سروس کمیشن میں اور نہ مرکزی پبلک سروس کمیشن میں.اگر اسلام ساری قوموں کے حقوق کی حفاظت کا حکم دیتا ہے تو جبکہ پاکستانی حکومت امتحانوں اور انٹرویو کے ذریعہ سے ملازم رکھتی ہے تو فرض کرو اگر کسی محکمہ میں احمدی اپنی تعداد سے دس یا پندرہ یا ہمیں فیصدی یا پچاس فیصدی زائد بھی ہو جاتے ہیں تو یہ اعتراض کی کونسی بات ہے.خود پاکستان کی گورنمنٹ ایک قانون بناتی ہے اور اس قانون کے بنائے ہوئے رستہ سے اگر احمدی طلبہ سینما اور تماشوں اور تاش اور شطرنج سے اجتناب کرتے ہوئے محنت اور کوشش سے آگے نکل جاتے ہیں تو اس کو پولیٹیکل سٹنٹ بنانے اور شور مچانے کی کیا وجہ ہے؟ اور جھوٹ بول کر ایک کو سو بتا دینا صاف بتاتا ہے کہ مذہب اس کا باعث نہیں سیاست اس کا باعث ہے کیونکہ خدا کو جھوٹ کی ضرورت نہیں.پھر مولانا مودودی صاحب نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ تجارت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں، زراعت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں، صنعت و حرفت پر احمدی قابض ہو چکے ہیں یہ بات بھی سراسر جھوٹ ہے.ایک مذہبی جماعت کا لیڈر ہوتے ہوئے، اس قدر جھوٹ سے کام لینا ہماری عقل سے باہر ہے.لاہور ہمارے صوبہ کا مرکز ہے اگر پولیس کو حکم دیا جائے کہ بازاروں میں سے دکانوں کی اعداد شماری کرے اور دیکھے کہ ان میں سے احمدی کتنے ہیں تو کورٹ کو معلوم ہو جائے گا کہ اس جماعت اسلامی کے لیڈر نے

Page 451

انوار العلوم جلد 24 416 تحقیقاتی کمیشن کے تین سوالوں کے جواب شرمناک غیر اسلامی حرکت کی ہے.“ (مندرجہ بالا قیمتی مضمون کی روشنی میں صدر انجمن احمد یہ ربوہ نے اپنا بیان انگریزی میں ترجمہ کر اکر تحقیقاتی عدالت میں داخل کرایا.) 1 تیج 25 جولائی 1927ء 2 جماعت اسلامی اور احرار وغیرہ کا طرز عمل 3 صحیح مسلم مقدمة الكتاب باب النَّهْي عَنِ الحديث بِكُلِّ مَا سَمِعَ

Page 452

انوار العلوم جلد 24 417 اپنے اندر بیجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش اپنے اندر یک جہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 453

انوار العلوم جلد 24 418 اپنے اندر بیجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش

Page 454

انوار العلوم جلد 24 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 419 اپنے اندر یکجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اپنے اندر یک جہتی پیدا کرو اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو افتتاحی تقریر فرمودہ 5 نومبر 1954ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: غالباً پچھلے سال یا پچھلے سے پچھلے سال میں نے خدام کو نصیحت کی تھی کہ یک جہتی اور یک رنگی بھی طبائع پر نیک اثر ڈالتی ہے اور اسکی اہمیت کو اسلام نے اتنا نمایاں کیا ہے کہ نماز جو ایک عبادت ہے اس میں بھی یک رنگی اور یک جہتی کا حکم دیا ہے.سب کے سب نمازی ایک طرف منہ کر کے کھڑے ہوتے ہیں، سیدھی صفوں کا حکم ہوتا ہے اور تمام کے تمام نمازیوں کو ایک خاص شکل پر کھڑے ہونے کا ارشاد ہوتا ہے.میں نے توجہ دلائی تھی کہ خدام جو کھڑے ہوتے ہیں تو مختلف شکلوں میں کھڑے ہوتے ہیں اور میں نے کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ اس کی اصلاح کریں.اُس وقت تو تقریر کے بعد ایک دو دن تو اصلاح نظر آئی مگر پھر وہ اصلاح نظر نہیں آئی.چنانچہ اب میں دیکھتا ہوں کہ سارے کے سارے اس رنگ میں رنگے ہوئے ہیں، کچھ تم میں سے سامنے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں، کچھ تم میں سے پیچھے ہاتھ باندھ کر کھڑے ہیں، کچھ تم میں سے ہاتھ کھلے چھوڑ کر کھڑے ہیں.جس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے کوئی ایک طریقہ اپنے لئے پسند نہیں کیا اور تمہارے افسروں اور کارکنوں نے تمہیں ایک رنگ اختیار کرنے کی ہدایت نہیں دی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ باتیں معمولی ہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان باتوں کا

Page 455

انوار العلوم جلد 24 420 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے قلوب پر اثر پڑتا ہے.مثلاً صف میں کسی کا پیر اگر ذرا آگے ہو جائے یا پیچھے ہو جائے تو یہ ایک معمولی بات ہے اور جہاں تک عبادت سے تعلق ہے اس سے کوئی خرابی پیدا نہیں ہوتی.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس قوم کی صفیں ٹیڑھی ہو گئیں اس کے دل بھی ٹیڑھے کر دیئے جاتے ہیں.تو دیکھو ایک چھوٹی سی بات کا کتنا عظیم الشان نتیجہ پیدا ہو سکتا ہے.پھر دیکھنے والوں پر بھی اس کا اثر ہوتا ہے چنانچہ ہم فوجوں کو دیکھتے ہیں تو سب فوجی ایک ہی شکل میں نظر آتے ہیں.یورپ میں فوجوں کو مار چنگ کے وقت خاص طور پر ہدایت ہوتی ہے کہ سارے فوجی ایک طرح سے چلیں.پیروں کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح پیر مارنا ہے.سینہ کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح سینہ تاننا ہے.گردن کے متعلق ہدایت ہوتی ہے کہ اس طرح گردن رکھنی ہے اور اس کا دیکھنے والوں پر گہرا اثر پڑتا ہے.حضرت عمر کے زمانہ میں ایک مسلمان آیا تو اس نے اپنی گردن جھکائی ہوئی تھی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کی ٹھوڑی کے نیچے ہاتھ مارا اور فرمایا کہ اسلام اپنے جو بن پر ہے پھر تو اس طرح اپنی مُردہ شکل کیوں بنائے ہوئے ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ انسان کی ظاہری شکل اس کے باطن پر دلالت کرتی ہے اور اس کی باطنی حالت کا اس کے ہمسایہ پر اثر پڑتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمَ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ 2 جس شخص نے یہ کہا کہ قوم ہلاک ہو گئی وہی ہے جس نے قوم کو ہلاک کیا کیونکہ اس کی بات کا ہمسایہ پر اثر پڑتا ہے.جب ایک شخص کہتا ہے کہ سارے بے ایمان ہو گئے ، سارے بددیانت ہو گئے تو بیسیوں آدمی ایسے ہوتے ہیں جو صرف اس کی بات پر اعتبار کر لیتے ہیں حقیقت نہیں دیکھتے وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں نے کہا ہے کہ سب بے ایمان ہو گئے ہیں یا فلاں نے کہا ہے کہ سب بد دیانت ہو گئے ہیں اور چونکہ فلاں نے یہ بات کہہ دی ہے.اس لئے اب اس کے ماننے میں کیا روک ہے.ان کی مثال بالکل ویسی ہی ہوتی ہے جیسے مشہور ہے کہ ایک شخص اپنے گھر سے بہت دیر غائب رہا اس کے بیوی بچے اسے خط لکھتے کہ اگر ہمیں مل جاؤ مگر وہ نہ آتا وہ سمجھتا تھا کہ

Page 456

انوار العلوم جلد 24 421 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے اگر میں گیا تو میری تنخواہ کٹ جائے گی.وہ تھا بے وقوف آخر جب لمبا عرصہ گزر گیا تو لوگوں نے اس کے بیوی بچوں کو سمجھایا کہ یہ طریق درست نہیں ہم اسے بلواتے ہیں.چنانچہ پنچوں نے اسے خط لکھا کہ تمہاری بیوی بیوہ ہو گئی ہے اور تمہارے بچے یتیم ہو گئے ہیں اس لئے تم جلدی گھر پہنچو.وہ عدالت کا چپڑاسی تھا.خط ملتے ہی روتا ہو اعدالت میں گیا اور کہنے لگا حضور مجھے چھٹی دیں.انہوں نے کہا کیا ہوا؟ کہنے لگا کہ خط آیا ہے میری بیوی بیوہ ہو گئی ہے اور بچے یتیم ہو گئے ہیں.وہ کہنے لگے احمق ! تو تو زندہ موجود ہے پھر تیری بیوی کس طرح بیوہ ہو گئی اور تیرے بچے کس طرح یتیم ہو گئے ؟ وہ خط نکال کر کہنے لگا کہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے لیکن دیکھئے پانچ پہنچوں کے اس پر دستخط ہیں پھر یہ بات جھوٹی کس طرح ہو گئی.تو ایسے لوگ بھی دنیا میں ہوتے ہیں اور در حقیقت یہی قوم کو تباہ کرنے کا موجب ہوتے ہیں.کہتے ہیں دس نے یہ کہا اور یہ نہیں دیکھتے کہ حقیقت کیا ہے.اگر دس نے کہا کہ قوم بے ایمان ہو گئی ہے ، اگر دس نے کہا اپنی قوم دیانت کھو بیٹھی ہے تو وہ اس پر فور یقین کر لیں گے اور کہنا شروع کر دیں گے کہ واقع میں قوم بے ایمان ہو گئی ہے.ان کی آنکھوں کے سامنے چیز موجود ہو گی مگر وہ اسے دیکھیں گے نہیں.تو جب ایک شخ کی حالت بگڑتی ہے اس کے ہمسایہ کی بھی بگڑ جاتی ہے.اوّل تو جس کے دل کی حالت بگڑتی ہے اس کی زبان پر بھی کچھ نہ کچھ آجاتا ہے اور سننے والوں میں سے کمزور لوگ اس کی باتوں سے متاثر ہو جاتے ہیں.اور اگر ایسا نہ ہو تب بھی اللہ تعالیٰ نے یہ قانون بنایا ہے کہ انسان کے قلب سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں کہ جو ارد گرد بیٹھنے والوں پر اثر کرتی ہیں.اسی لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ 3 تم صادق اور راستباز لوگوں کی صحبت میں رہا کرو اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے نماز با جماعت مقرر کی ہے تا دلی اثرات ایک دوسرے پر پڑیں.یوں تو نیک کے بھی اثرات ہوتے ہیں اور بد کے بھی اثرات ہوتے ہیں مگر جب قوم میں نیکی ہوتی ہے تو نیک اثرات کا غلبہ ہو تا ہے اور جب قوم میں بدی ہوتی ہے تو بد اثرات کا غلبہ ہوتا ہے.گوبدی میں چونکہ اتناجوش نہیں ہوتا جتنا ایسی نیکی میں ہوتا ہے

Page 457

انوار العلوم جلد 24 422 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے جو زمانہ انبیاء و مامورین میں ہوتی ہے اس لئے جتناوہ نیکی اپنے اثر کو پھیلاتی ہے بدی اپنا اثر نہیں پھیلا سکتی لیکن پھر بھی اس کا اثر ضرور ہوتا ہے.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ میں ایک دفعہ جموں سے قادیان آرہا تھا کہ ایک سکھ لڑکا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہت اخلاص اور محبت رکھتا تھا لاہور میں مجھے ملا اور اس نے مجھے کہا کہ آپ قادیان چلے ہیں حضرت مرزا صاحب کو میرا یہ پیغام پہنچا دیں کہ میں نے جب سے آپ سے ملنا شروع کیا تھا میرے اندر خد اتعالیٰ کی محبت ، ذکر الہی کی عادت اور دعاؤں کی طرف رغبت پیدا ہو گئی تھی مگر اب کچھ عرصہ سے آپ ہی آپ دہریت کے خیالات میرے اندر پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں.میں نے بہتیر ازور لگایا کہ وہ خیالات نکلیں مگر نکلتے نہیں ان کے ازالہ کے لئے مجھے کوئی تدبیر بتائیں تاکہ میں ان خیالات کی خرابیوں سے بچ سکوں.آپ فرماتے تھے کہ میں نے قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا کہ مجھے اس طرح فلاں لڑکا ملا تھا.آپ نے فرمایا ہاں وہ ہم سے تعلق رکھتا ہے.پھر آپ نے کہا اس نے مجھے کہا تھا کہ حضور کو میری طرف سے یہ پیغام پہنچادیں کہ کچھ عرصہ سے میرے دل میں دہریت کے خیالات پید اہو رہے ہیں، معلوم نہیں کہ اس کی کیا وجہ ہے.آپ نے فرمایا جب اس کے اندر عقلی طور پر شبہات پیدا نہیں ہوئے تو یہ شبہات کسی اور کے اثر کا نتیجہ ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا میری طرف سے اُسے پیغام دے دیں کہ کالج میں جن لڑکوں کے در میان تمہاری سیٹ ہے معلوم ہوتا ہے وہ دہر یہ خیالات کے ہیں اور ان کا اثر تم پر پڑ رہا ہے اس لئے تم اپنی سیٹ بدل لو.چنانچہ آپ نے اسے یہ پیغام پہنچا دیا.کچھ عرصہ کے بعد حضرت خلیفہ اول دوسری دفعہ جموں سے قادیان تشریف لا رہے تھے کہ پھر وہی لڑکا آپ کو ملا.آپ نے فرمایا سناؤ اب کیا حال ہے؟ اس نے کہا اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اب میرے خیالات درست ہیں میں نے پیغام پہنچتے ہی سیٹ بدلوالی اور اُسی دن سے میرے خیالات بھی درست ہو گئے.تو یہ ایک مجرب حقیقت ہے جس کا انکار کوئی جاہل ہی کرے تو کرے ورنہ

Page 458

انوار العلوم جلد 24 423 اپنے اندر یکجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے اور کوئی نہیں کر سکتا.اس تجربہ کی صداقت میں مسمریزم کا علم جاری ہوا.اس کی تائید میں ہیپناٹزم نکلا، اسی کے ساتھ وضو کا مسئلہ تعلق رکھتا ہے غرض یہ سارے علوم اس امر کے گرد چکر لگا رہے ہیں کہ انسان کے دل سے ایسی شعاعیں نکلتی ہیں جو دوسرے کے دل پر اثر انداز ہوتی ہیں.پس اگر کھڑے ہونے میں تم احتیاط نہیں کرو گے اور یکجہتی اور اتحاد سے کام نہیں لو گے تو لازماً اس کا تمہارے قلوب پر اثر پڑے گا پس چاہئے کہ جن کو میں نے ماتحت عہدیدار مقرر کیا ہوا ہے وہ اس طرف توجہ کریں.آخر میں تو اتنا کام نہیں کر سکتا.میں اگر صدر بنا ہوں تو اس لئے کہ تم میں یہ جوش اور امنگ قائم رہے کہ تمہارا خلیفہ صدر ہے ورنہ کام سارا ماتحتوں نے کرنا ہے اور انہی کو کرنا چاہئے.میں یہ نہیں کہتا کہ جو سہارے کا محتاج ہے وہ سہارا نہ لے اگر کوئی کمزور یا بیمار ہو تو وہ لاٹھی کا سہارا لے سکتا ہے بلکہ اگر زیادہ تکلیف ہو تو وہ بیٹھ بھی سکتا ہے.جو طاقتور ہیں وہ سارے کے سارے ایک شکل میں کھڑے ہوں.اگر یہ مقرر ہو کہ ہاتھ کھول دیں تو سب ہاتھ کھول دیں اور اگر یہ مقرر ہو کہ ہاتھ باندھ لیں تو سب کا فرض ہے کہ ہاتھ باندھ لیں.اگر کوئی بیماریا کمزور ہے تو بے شک بیٹھ جائے.اگر نماز بیٹھ کر پڑھنی جائز ہے اور اس سے صف میں کوئی خلل نہیں آسکتا تو خدام کے اجتماع میں بھی اس سے کوئی نقص واقع نہیں ہو سکتا.صرف اس پیجہتی سے یہ پتہ لگ جائے گا کہ خدام میں کوئی نظام موجود ہے.اب موجودہ حالت میں کچھ پتہ نہیں لگتا کوئی ہاتھ باندھے کھڑا ہے اور کوئی ہاتھ لٹکائے.اگر سب ایک طرح کھڑے ہوں تو خواہ بیمار اور کمزور بیٹھے ہوئے ہوں تب بھی دیکھنے والا یہ نہیں سمجھے گا کہ ان کا نظام خراب ہے بلکہ وہ ان کے بیٹھنے کو ان کی معذوری پر محمول کرے گا.میں سمجھتا ہوں اگر کوئی فیصلہ ہو جائے تو بیٹھنے والا بھی وہی شکل اختیار کر سکتا ہے.مثلاً اگر یہ فیصلہ ہو جائے کہ ہاتھ لٹکانے ہیں تو وہ بھی ہاتھ لٹکا کر بیٹھ سکتا ہے.اگر ہاتھ پیچھے کرنے کا فیصلہ ہو جائے گو یہ نا معقول بات ہے تو بیٹھنے والا بھی ایسا کر سکتا ہے.پس اپنا ایک نظام مقرر کرو اور اسی جلسہ میں اس کا فیصلہ کرو اور سب کو سکھاؤ کہ جب بھی تم نے کھڑا ہونا ہو اس شکل میں کھڑے ہو اور پھر نوجوانوں کو آزادی دو اور انہیں بتا دو کہ اگر تم میں سے بعض

Page 459

انوار العلوم جلد 24 424 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے کھڑے نہیں ہو سکتے.تو وہ بیٹھ سکتے ہیں.اگر نماز میں بیٹھنے کی اجازت ہے تو خدام کا جلسہ نماز سے زیادہ اہم نہیں کہ اس میں بیٹھا نہیں جاسکتا.اگر کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اسے آرام آجائے تو وہ دوبارہ کھڑا ہو جائے.اور اگر کھڑا ہونے والا تکلیف محسوس کرے تو وہ بیٹھ جائے.اس طرح بیٹھنے والے دیکھنے والوں پر یہ اثر نہیں ڈالیں گے کہ ان کا کوئی نظام نہیں بلکہ صرف یہ اثر پید اہو گا کہ وہ بیمار اور کمزور ہیں.اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ خدام نے طوفان وغیرہ کے موقع پر نہایت اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے.اب انہیں اپنے اجلاس میں اس امر پر غور کرنا چاہئے کہ اس جذبہ کو جو نہایت مبارک جذبہ ہے اور زیادہ کس طرح ابھارا جائے.کوئی ایسی خدمت جو صرف رسمی طور پر کی جائے حقیقی خدمت نہیں کہلا سکتی مثلاً بعض لوگ اپنی رپورٹوں میں لکھ دیتے ہیں کہ ہم نے کسی کا بوجھ اٹھایا.اب اگر تو کسی مجلس کے تمام نوجوان یا بارہ پندرہ خدام سارا دن لوگوں کے بوجھ اٹھاتے پھرتے ہوں یا کسی ایک وقت مثلاً عصر کے بعد روزانہ ایسا کرتے ہوں یا گھنٹہ دو گھنٹہ ہر روز اس کام پر خرچ کرتے ہوں تب تو یہ خدمت کہلا سکتی ہے لیکن اس قسم کی رپورٹ کو میں کبھی نہیں سمجھا کہ اس مہینہ میں ہمارے نوجوانوں نے کسی کا بوجھ اٹھایا.یہ وہ خدمت نہیں جس کا خدام الاحمدیہ کے نظام کے ماتحت تم سے تقاضا کیا جاتا ہے بلکہ یہ وہ خدمت ہے جس کا بجالانا ہر انسان کے لئے اس کی انسانیت کے لحاظ سے ضروری ہے..در حقیقت مختلف خدمات مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے ہوتی ہیں مثلاً جو پاکستان میں رہتا ہے اس پر کچھ فرائض پاکستانی ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں، کچھ فرائض ایک انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں، اسی طرح اگر کوئی سرکاری ملازم ہے تو کچھ فرائض اس پر سرکاری ملازم ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتے ہیں، اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو کچھ فرائض اس پر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں، اگر کوئی پولیس مین ہے تو کچھ فرائض اس پر پولیس مین ہونے کی حیثیت سے عائد ہوتے ہیں.ایک حیثیت کے کام کو اپنی دوسری حیثیت کے ثبوت میں پیش کرنا محض تمسخر ہوتا ہے.مثلاً

Page 460

انوار العلوم جلد 24 425 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش ایک ڈاکٹر کا یہ لکھنا کہ میں نے ہیں مریضوں کا علاج کیا تمسخر ہے کیونکہ اس نے جو کام کیا ہے اپنے ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے کیا ہے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونے کی حیثیت سے نہیں کیا.یا پاکستان کی تائید میں اگر کوئی جلسہ ہوتا ہے یا جلوس نکلتا ہے اور تم اس میں حصہ لیتے ہو اور پھر اپنی رپورٹ میں اس کا ذکر کرتے ہو تو یہ تمسخر ہے کیونکہ یہ خدمت تم نے ایک پاکستانی ہونے کے لحاظ سے کی ہے.برکت تمہیں تبھی حاصل ہو گی جب تم اپنی ساری حیثیتوں کو نمایاں کر کے کام کرو گے.جب تمہیں ایک پاکستانی ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم پاکستانی حیثیت کو نمایاں کرو، جب تمہیں ایک انسان ہونے کی حیثیت سے کام کرنا پڑے تو تم اپنی انسانیت کو نمایاں کرو.مثلاً اگر کوئی چلتے ہوئے گر جاتا ہے تو یہ انسانیت کا حق ہے کہ اسے اٹھایا جاے اس میں خدام کا کیا سوال ہے.ایک ہندوستانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، ایک پنجابی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، ایک چینی اور ایک جاپانی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے، ایک سرحدی پر بھی یہ فرض عائد ہوتا ہے.پس اگر اتفاقی طور پر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے تو یہ خدام الاحمدیہ والی خدمتِ خلق نہیں کہلا سکتی بلکہ یہ وہ خدمت ہو گی جو ہر انسان پر انسان ہونے کے لحاظ سے عائد ہوتی ہے.اگر وہ ان فرائض کو ادا نہیں کرتا تو وہ انسانیت سے بھی گر جاتا ہے.پس اپنے پروگراموں پر ایسے رنگ میں عمل کرو جیسے اس دفعہ لاہور کے خدام نے خصوصیت سے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے.اسی طرح ربوہ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے، سیالکوٹ کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے، ملتان کے خدام نے بھی اچھا کام کیا ہے اور کراچی کے خدام نے بھی بعض اچھے کام کئے ہیں گو وہ نمایاں نظر آنے والے نہیں.پس متواترا اپنے جلسوں اور مجلسوں میں اس امر کو لاؤ کہ تم نے زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کرنی ہے اور ایک پروگرام کے ماتحت کرنی ہے تاکہ ہر شخص کو تمہاری خدمت محسوس ہو.تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوا ہے، تم میں سے کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ نمائش ہے مگر کبھی کبھی نمائش بھی کرنی پڑتی ہے.اگر تمہارے دل کی خوبی اور نیکی کا

Page 461

انوار العلوم جلد 24 426 اپنے اندر یکجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے اقرار دنیا نہیں کرتی تو تم مجبور ہو کہ تم لوگوں کو دکھا کر کام کرو تم نے بہت نیکی کی ہے مگر دنیا نے تمہاری نیکی کا کبھی اقرار نہیں کیا.پہلے بھی لوگوں کی مصیبت کے وقت ہم کام کرتے رہے ہیں مگر مخالف یہی کہتا چلا گیا کہ احمدی احمدی کا ہی کام کرتا ہے کسی دوسرے کا نہیں کرتا.یہ بالکل جھوٹ تھا جو مخالف بولتا تھا.ہم خدمت خلق کا کام کرتے تھے مگر ساتھ ہی یہ بھی کہتے تھے کہ ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے.ہمیں اس کے اظہار کی کیا ضرورت ہے.مگر جب تمہاری اس نیکی کا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا اور تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم مسلمانوں کے خیر خواہ نہیں، جب تم پر یہ الزام لگایا جانے لگا کہ تم اپنی قوم کی خدمت کے لئے تیار نہیں تو پھر وہی نیکی بدی بن جائے گی اگر ہم اس کو چھپائیں.پس اس نیکی کا ہم عَلَی الْإِعْلان اظہار کریں گے اس لئے نہیں کہ ہم بدلہ لیں بلکہ اس لئے کہ وہ کذاب اور مفتری جو ہم پر الزام لگاتے ہیں ان کا منہ بند ہو.پس مجرم کو مجرم ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ ہم اپنے کاموں کا اظہار کرتے ورنہ پہلے بھی ہمارے آدمی ہر مصیبت میں مسلمانوں کا ساتھ دیتے رہے ہیں اور ہر مشکل میں ہم نے ان کی مدد کی ہے یہ کوئی نیا کام نہیں جو ہم نے شروع کیا ہے.جب ہم قادیان میں تھے تو اس وقت بھی ہم خدمت خلق کرتے تھے.1918ء میں جب انفلوئنزا پھیلا ہے تو مجھے خلیفہ ہوئے ابھی چار سال ہی ہوئے تھے اور جماعت بہت تھوڑی تھی مگر اس وقت ہم نے قادیان کے ارد گر دسات سات میل کے حلقہ میں ہر گھر تک اپنے آدمی بھیجے اور دوائیاں پہنچائیں اور تمام علاقہ کے لوگوں نے تسلیم کیا کہ اس موقع پر نہ گورنمنٹ نے ان کی خبر لی ہے اور نہ ان کے ہم قوموں نے ان کی خدمت کی ہے اگر خدمت کی ہے تو صرف جماعت احمدیہ نے.میں نے اس وقت طبیبوں کو بھی بلوایا اور ڈاکٹروں کو بھی بلوالیا.دنیا میں عام طور پر ڈاکٹر بلواؤ تو طبیب اٹھ کر چلا جاتا ہے اور طبیب بلاؤ تو ڈاکٹر اٹھ کر چلا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں یہ بات نہیں ہوئی اور پھر اخلاص کی وجہ سے ہمارا ان پر رُعب بھی ہوتا ہے.غرض میں نے ڈاکٹر بھی بلوائے، حکیم بھی بلوائے اور ہو میو پیتھ بھی بلوائے، اس وقت مرض نئی نئی پیدا ہوئی تھی.

Page 462

انوار العلوم جلد 24 427 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے ڈاکٹروں نے کہا کہ ہم اس مرض کا علاج تو کریں گے مگر ہماری طب میں ابھی اس کی تشخیص نہیں ہوئی اور لٹریچر بہت ناقص ہے اطباء کے اصولِ علاج چونکہ کلیات پر مبنی ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بلغمی بخار ہے اور ہم اس کا علاج کر لیں گے میں نے ڈاکٹروں سے کہا کہ یہ جھوٹ بولیں یا سچ بولیں، غلط کہیں یا درست کہیں بہر حال یہ کہتے ہیں کہ ہماری طب میں اس کا علاج موجود ہے اس لئے انہیں بھی علاج کا موقع دینا چاہئے.چنانچہ میں نے ڈاکٹروں اور حکیموں کو ارد گرد کے دیہات میں بھجوادیا.ساتھ مدرسہ احمدیہ کے طالب علم کر دیئے وہ سات سات میل تک گئے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہزاروں آدمیوں کی جان بچ گئی.تو ہم خدمت خلق کرتے ہیں اور ہمیشہ سے کرتے چلے آئے ہیں مگر ہم ڈھنڈورا نہیں پیٹتے کہ ہم نے یہ کیا ہے ہم نے وہ کیا ہے.مثلاً ملکانوں کی جو ہم نے خدمت کی اس کے متعلق ہم نے کچھ نہیں کہا لیکن دوسرے لوگوں نے اقرار کیا کہ ہم نے غیر معمولی کام کیا ہے.مگر ہمارے ان سارے کاموں کے باوجو د دشمن نے پھر بھی یہی کہا کہ یہ شروع سے مسلمانوں کے دشمن ہیں بلکہ بعض عدالتوں نے بھی اس کو تسلیم کر لیا اور یہ خیال نہ کیا کہ تمام مصیبتوں کے وقت ہمیشہ احمدیوں نے ہی اپنی گردنیں آگے کی ہیں.میں جب دلی میں جایا کرتا تھا تو اکثر یو.پی کا کوئی نہ کوئی رئیس مجھے ملتا اور کہتا کہ میں تو آپ کا اُس دن سے مداح ہوں جس دن آپ کے لوگوں نے اپنے ہاتھ سے ایک مسلمان عورت کی کھیتی کاٹ کر اسلام کی لاج رکھ لی تھی اور مسلمانوں کی عظمت قائم کر دی تھی.واقعہ یہ ہے کہ الور یا بھرت پور کی ریاست میں ایک عورت تھی جس کے سارے بیٹے آر یہ ہو گئے مگر وہ اسلام پر قائم رہی مائی جمیا اس کا نام تھا.خان بہادر محمد حسین صاحب سیشن جج اس علاقہ میں تبلیغ کے لئے مقرر تھے ان کا بیٹا نہایت مخلص احمدی ہے وہ آجکل کچھ ابتلاؤں میں ہے اور مالی مشکلات اُس پر آئی ہوئی ہیں دوست دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اسکی مشکلات کو دور فرمائے.بہر حال جب فصل کٹنے کا وقت آیا تو چونکہ سب گاؤں جو بڑا بھاری تھا آریہ ہو چکا تھا اور اس کے اپنے بیٹے بھی اسلام چھوڑ چکے تھے اور وہ عورت اکیلی

Page 463

انوار العلوم جلد 24 428 اپنے اندر پجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے اسلام پر قائم تھی اس لئے کوئی شخص اسکی کھیتی کاٹنے کے لئے تیار نہیں تھا.انہوں نے اسے طعنہ دیا اور کہا کہ مائی! تیری کھیتی تو اب مولوی ہی کاٹیں گے.احمدیوں کو دیہات میں مولوی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن اور حدیث کی باتیں کرتے ہیں شروع میں ملکانہ میں بھی ہمارے آدمیوں کو مولوی کہا جاتا تھا.جس طرح یہاں ہمیں مرزائی کہتے ہیں اسی طرح وہاں مولوی کہا جاتا تھا.سرحد اور یو.پی میں عام طور پر قادیانی کہتے ہیں.جب یہ خط مجھے ملا تو میں نے کہا اب اسلام کی عزت تقاضا کرتی ہے کہ مولوی ہی اس کی کھیتی کاٹیں چنانچہ جتنے گریجوایٹ اور بیرسٹر اور وکیل اور ڈاکٹر وہاں تھے میں نے ان سے کہا کہ وہ سب کے سب جمع ہوں اور اس عورت کی کھیتی اپنے ہاتھ سے جاکر کاٹیں.چنانچہ در جن یا دو درجن کے قریب آدمی جمع ہوئے جن میں وکلاء بھی تھے ، ڈاکٹر بھی تھے ، گریجوایٹس بھی تھے ، علماء بھی تھے اور انہوں نے کھیتی کا ٹنی شروع کر دی.لوگ ان کو دیکھنے کے لئے ہو گئے اور تمام علاقہ میں ایک شور مچ گیا کہ یہ ڈاکٹر صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں، یہ حج صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں، یہ وکیل صاحب ہیں جو کھیتی کاٹ رہے ہیں.انہوں نے چونکہ یہ کام کبھی نہیں کیا تھا اس لئے ان کے ہاتھوں سے خون بہنے لگا مگر وہ اُس وقت تک نہیں ہے جب تک اس کی تمام کھیتی انہوں نے کاٹ نہ لی.یوپی کے اضلاع میں یہ بات خوب پھیلی اور کئی رئیس متواتر مجھے دلی میں ملے اور انہوں نے کہا کہ ہم تو اُس دن سے احمدیت کی قدر کرتے ہیں جب ہم نے یہ نظارہ دیکھا تھا اور ایک مسلمان عورت کے لئے آپ کی جماعت نے یہ غیرت دکھائی کہ جب لوگوں نے اسے کہا کہ اب مولوی ہی تیری کھیتی آکر کاٹیں گے تو آپ نے کہا کہ اب دکھاوے کا مولوی نہیں سچ سچ کا مولوی جائے گا اور اس کی کھیتی کاٹے گا.تو ہمیشہ ہی ہم مسلمانوں کی خدمت کرتے رہے ہیں مگر ہمیشہ ہم ان خدمات کو چھپاتے رہے ہیں اور کہتے رہے ہیں کہ ان خدمات کے اظہار کا کیا فائدہ.ہم نے جو کچھ کیا ہے خدا کے لئے کیا ہے انسانوں کے لئے نہیں کیا.مگر آج کہا جا رہا ہے کہ احمدی مسلمانوں کے دشمن ہیں یہ مسلمانوں کی کبھی خدمت نہیں کرتے.غرض اتنے بڑے

Page 464

انوار العلوم جلد 24 429 اپنے اندر یکجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش سے جھوٹ اور افتراء سے کام لیا جاتا ہے کہ اب ہم اس بات پر مجبور ہو گئے ہیں کہ جماعت کے دوستوں سے یہ کہیں کہ اچھا تم بھی اپنی خدمات کو ظاہر کرو.چنانچہ اب جبکہ ہم نے اپنی خدمات ظاہر کرنی شروع کیں مسلمانوں کی خدمت کا دعویٰ کرنے والے اپنے بلوں میں گھس گئے اور کو ٹھیوں میں بیٹھے رہے.چنانچہ بعض لوگوں نے جو اسلامی جماعت کے دفتر کے قریب ہی رہتے تھے اقرار کیا کہ اسلامی جماعت والوں نے تو ہماری خبر بھی نہیں لی اور یہ دو دو چار چار میل سے آئے اور انہوں نے ہماری مدد کی.لطیفہ یہ ہے کہ کراچی سے اطلاع ملی ہے کہ وہاں بڑے زور سے پروپیگنڈا کیا جارہا ہے کہ لاہور میں جماعت اسلامی نے سیلاب کے دنوں میں بڑی بھاری خدمت کی ہے اور وہاں اس قدر چر چاہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ لاہور کو بچایا ہی اسلامی جماعت والوں نے ہے اور لاہور کے لوگوں کو اس کی خبر بھی نہیں.اگر وہ جھوٹا پروپیگنڈا کر سکتے ہیں تو ہم سچا پر و پیگینڈ اکیوں نہیں کر سکتے.اسی طرح بنگال سے اطلاع آئی ہے کہ وہاں جماعت اسلامی والے گھر گھر جاتے ہیں اور کہتے ہیں یہ جماعت اسلامی نے آپ کے لئے چندہ بھجوایا ہے.وہ لنگی اور تہبند دیتے ہیں اور ساتھ ہی کہتے ہیں یہ جماعت اسلامی نے چندہ دیا ہے آپ ووٹ جماعت اسلامی کو ہی دیں.حالانکہ وہ یہاں کہیں سنیوں سے چندہ لیتے ہیں، کہیں شیعوں سے لیکر بھجواتے ہیں مگر نام جماعت اسلامی کا مشہور کرتے ہیں.غرض اِس زمانہ میں ایک طبقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو جھوٹ اور افتراء سے تم کو بدنام کرنا چاہتا ہے اب تمہارا بھی فرض ہے کہ تم اور زیادہ جوش سے ملک اور قوم کی خدمت کرو اور اس خدمت کو ظاہر بھی کرو اور دنیا کو بتا دو کہ ہم ملک اور قوم کی خدمت کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں.مگر چونکہ ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ ہم اپنی خدمات کو ظاہر کریں اس لئے ہم ان کو ظاہر کرتے ہیں اور نہ ہمارے دل اس اظہار پر شرماتے پس اپنے پروگراموں میں زیادہ سے زیادہ ایسے امور پر غور کرو اور ایسی تجاویز

Page 465

--_--_-_-_-__-_-_-_-_-_-_-_-__---------------------------------- انوار العلوم جلد 24 430 اپنے اندر یکجہتی پیدا کر و اور پہلے سے بھی زیادہ جوش - سوچو جن کے نتیجہ میں تم ملک اور قوم کی زیادہ سے زیادہ خدمت بجالاؤ“.روزنامه الفضل لاہور 7 دسمبر 1954ء) 1 بخاری کتاب الاذان باب تسوية الصُّفُوفِ عِنْدَ لا قَامَةِ وَبَعْدَهَا، مسلم كتاب الصَّلوة باب تسوية الصُّفُوف 2 مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن قول هلَكَ النَّاس میں یہ الفاظ ہیں: اِذَا قَالَ الرَّجُلُ هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ 3 التوبة: 199

Page 466

انوار العلوم جلد 24 431 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 467

انوار العلوم جلد 24 432 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار

Page 468

انوار العلوم جلد 24 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 433 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات سے متصف ہونا ضروری ہے بجٹ کا ایک حصہ ہمیشہ خدمت خلق کے لئے ریزرو رکھو فرموده 7 نومبر 1954ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”سب سے پہلے تو میں خدام الاحمدیہ کے عہدیداروں سے ہی پوچھتا ہوں کہ وہ بتائیں کہ انہوں نے خدام کے کھڑے ہونے کی کونسی پوزیشن مقرر کی ہے کیونکہ میں نے پرسوں انہیں ہدایت کی تھی کہ یک جہتی پیدا کرنے کے لئے خدام کے کھڑا ہونے کی پوزیشن مقرر کریں اور فیصلہ کریں کہ آئندہ خدام جب بھی کسی موقع پر کھڑے ہوں تو ان کی پوزیشن ایک ہی ہو“.اس پر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نے بتایا کہ شوریٰ نے اس بارہ میں کیا تجویز کی ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا:- ” مجھے بتایا گیا ہے کہ عہد دہراتے وقت خدام انشن (ATTENTION) کی پوزیشن میں کھڑے ہوں گے اور اس کے بعد ان کی پوزیشن سٹینڈ ایٹ ایز (STAND AT EASE) کی ہو گی لیکن ہاتھ بجائے پیچھے باندھنے کے سامنے اور ناف کے نیچے اس طرح باندھنے ہوں گے کہ دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے اوپر ہو اور ساتھ ہی یہ تجویز پاس کی گئی ہے کہ خدام ننگے سر نہ ہوں.ننگے سر کھڑا ہونا اسلامی طریق نہیں.یورپ میں احترام کے طور پر

Page 469

انوار العلوم جلد 24 434 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار ٹوپی اتارنے کا رواج ہے وہی رواج ان کی نقل میں مسلمانوں میں آگیا ہے حالانکہ اسلام میں بجائے ٹوپی اتارنے کے ٹوپی سر پر رکھنے کا رواج ہے.اسلام نے یہ پسند کیا ہے کہ نماز وغیرہ کے مواقع پر سر پر ٹوپی یا پگڑی رکھی جائے سر ننگا نہ ہو.عورتوں کے متعلق علماء میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ اگر ان کے سر کے اگلے بال ننگے ہوں تو آیا ان کی نماز ہو جاتی ہے یا نہیں اکثر کا یہی خیال ہے کہ اگر اگلے بال ننگے ہوں تو نماز نہیں ہوتی لیکن اس کے بر خلاف یورپ میں سر نگار کھنے کارواج ہے.ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ اس قسم کے مواقع پر ننگے سر کھڑے نہ ہوں اگر ان کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو تو وہ اپنے سر پر رومال یا کوئی کپڑا رکھ لیں.پرانے فقہاء کا خیال ہے کہ ننگے سر نماز نہیں ہوتی لیکن ہمارے ہاں مسائل کی بنیاد چونکہ احادیث پر ہے اور احادیث میں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ بعض صحابہ نے ننگے سر نماز پڑھی اس لئے ہم اس تشدد کے قائل نہیں کہ نگے سر نماز ہوتی ہی نہیں.ہمارے نزدیک اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو، اسی طرح سر ڈھانکنے کے لئے کوئی رومال وغیر ہ بھی اس کے پاس نہ ہو تو ننگے سر نماز پڑھی جاسکتی ہے لیکن ہر عالم چاہے وہ کتنا بڑا ہو بعض دفعہ مسائل میں دھوکا کھا جاتا ہے، بعض دفعہ ایجاد بندہ کہہ کر غلو تک بھی چلا جاتا ہے.حافظ روشن علی صاحب نے جب حدیث میں یہ پڑھا کہ بعض مواقع پر بعض صحابہ نے ننگے سر نماز پڑھی تو انہوں نے یہ پر چار کرنا شروع کر دیا کہ ننگے سر نماز پڑھنانہ صرف جائز ہی نہیں بلکہ مستحسن امر ہے.میں نے ان سے اس کے متعلق کئی دفعہ بحث کی.میں نے انہیں بتایا کہ جس زمانہ میں صحابہ ننگے سر نماز پڑھتے تھے اس زمانہ میں کپڑے نہیں ملتے تھے.چنانچہ احادیث میں آتا ہے کہ ایک جگہ کے مسلمانوں کو امام میسر نہ آیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکے کو جو 8، 9 سال کا تھا اور اسے بعض سورتیں یاد تھیں ان کا امام مقرر کر دیا وہ لڑکا غریب تھا اس کے پاس گر تا تھا پاجامہ نہیں تھا گر تا بھی کچھ اونچا تھا اس لئے جب وہ سجدہ میں جاتا تھا گر تا اونچا ہو جاتا تھا اور وہ نگا ہو جاتا تھا.عورتوں نے شور مچا دیا اور کہا ارے مسلمانو ! تم چندہ کر کے اپنے امام کا نگ تو ڈھانکو.اب اگر اس حدیث کو پڑھ کر کوئی شخص رض

Page 470

انوار العلوم جلد 24 435 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار یہ کہنا شروع کر دے کہ امام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پاجامہ نہ پہنے صرف گرتا پہنے اور گر تا بھی اتنا چھوٹا ہو کہ وہ سجدہ میں جائے تو ننگا ہو جائے تو یہ درست نہیں ہو گا.بہر حال یورپین اثر کے نتیجہ میں احتراما سر ننگا رکھنے کی بدعت پیدا ہوئی اور انگریزی حکومت کے دوران میں یہ مرض بڑھتی چلی گئی حالانکہ اسلامی لحاظ سے یہ غلط طریق ہے.یہ بات درست ہے کہ اسلام ایسی کوئی پابندی نہیں لگاتا جو انسانی طاقت سے بڑھ کر ہو لیکن جو بات انسانی طاقت میں ہو اُسے حقیقی عُذر کے بغیر نظر انداز کرنا بھی درست نہیں ہو سکتا.اسلامی طریق کار یہ ہے کہ ادب کے طور پر انسان اپنا سر ڈھانکے.حضرت خلیفة المسیح الاول درس و تدریس کے دوران میں بعض اوقات سر سے پگڑی اتار دیتے تھے لیکن اگر اس دوران میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف لے آتے تو آپ فوراً پگڑی اٹھا کر سر پر رکھ لیتے.پس ایسے کاموں کے موقع پر اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی نہ ہو تو وہ سر پر رومال ہی باندھ لے اور جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو اس کے لئے کوئی پابندی نہیں.اگر اس لڑکے کی طرح کسی کے پاس صرف گرتاہی ہو پاجامہ نہ ہو تو اسے بغیر پاجامہ کے نماز پڑھنا جائز ہے.اسی طرح اگر کسی کے پاس ٹوپی یا پگڑی یا رومال نہ ہو تو وہ ننگے سر کھڑا ہو سکتا ہے ساتھ والے یا تو اسے معذور سمجھیں گے اور یا چندہ کر کے ٹوپی یا پگڑی و غیرہ خرید دیں گے.جو کام انسانی طاقت سے بالا ہو اسلام اس کا حکم نہیں دیتا.لیکن جس کام کی انسان میں طاقت ہو یا جس کا ازالہ آسانی سے کیا جا سکتا ہو اس کا بعض دفعہ حکم دے دیتا ہے اور بعض دفعہ کہہ دیتا ہے کہ اس پر عمل کرنا عمل نہ کرنے سے زیادہ بہتر ہے.اگر تم اس کے خلاف کرو گے تو تمہارا فعل آداب کے خلاف ہو گا.باقی رہا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا میرے نزدیک ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونا اس سے زیادہ آسان ہے.میں اس پر بعد میں بھی غور کروں گا.اس لئے ابھی میں اس حصہ کو لازمی قرار نہیں دیتا گو جب تک مجوزہ طریق کو تبدیل نہ کیا جائے اس پر عمل کیا جائے گا.میں بعض فوجیوں سے بھی مشورہ کروں گا کہ سہولت کس صورت میں ہے ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے میں یا ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونے میں ؟ اگر ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے میں سہولت ہوئی تو

Page 471

انوار العلوم جلد 24 436 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار میں ہاتھ چھوڑ کر کھڑا ہونے کا فیصلہ کر دوں گا ورنہ مجوزہ طریق کو جاری رکھنے کا فیصلہ کر دونگا." ٹنشن " کی پوزیشن دو تین منٹ تک تو برقرار رکھی جاسکتی ہے اس سے زیادہ نہیں کیونکہ اس پوزیشن میں جسم کو زیادہ سخت رکھنا پڑتا ہے لیکن ”سٹینڈ ایٹ ایز کی پوزیشن میں یہ مد نظر رکھا جاتا ہے کہ انسان سیدھا کھڑا ہو اور اعصاب پر اس کا کوئی اثر نہ ہو.بہر حال میں اس کا فیصلہ بعد میں کروں گا.فوجی احباب اس بارہ میں مشورہ دیں.فوجی احباب سے مراد وہ احباب ہیں جو لڑنے والے فوجی ہیں ڈاکٹر وغیرہ نہیں.ایک بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ نائب صدر کے انتخاب کے سلسلہ میں جو لسٹ ووٹنگ کی مجھے پہنچی ہے اس سے پتہ لگتا ہے کہ گل 450 کے قریب ووٹ گزرے ہیں حالانکہ 184 نمائندے یہاں موجود تھے اور ان میں سے ہر ایک کو چھ چھ ووٹ دینے کا اختیار تھا.گویا 1104 ووٹ تھے لیکن گزرے صرف 450 ہیں یا یوں کہو کہ 1104 افراد میں سے صرف 450 افراد نے ووٹ دیئے ہیں دوسرے لفظوں میں اس کے یہ معنے ہیں کہ صرف چالیس فی صدی ووٹ گزرا ہے اور یہ نہایت غفلت اور شستی کی علامت ہے.صدر کا انتخاب ایسی چیز نہیں کہ یہ کہا جائے میں نے کوئی رائے قائم نہیں کی.کسی نہ کسی رائے پر پہنچنا ضروری امر ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.رائے نہ دینے کے یہ معنے ہیں کہ وہ شخص یا تو سوتا رہا ہے اور اس طرح اس نے اپنے فرض کو ادا نہیں کیا اور یا پھر اس نے اپنے درجہ اور رتبہ کو اتنا بلند سمجھا ہے کہ اس نے خیال کیا کہ وہ اتنے حقیر کام میں حصہ نہیں لے سکتا اور یہ دونوں باتیں افسوس ناک ہیں اور خدام کی مردنی پر دلالت کرتی ہیں اس لئے آئندہ کے لئے میں یہ قانون بناتا ہوں کہ نائب صدر کی ووٹنگ کے وقت ہر شخص کو ووٹ دینا ہو گا.کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ ابھی تک کوئی رائے قائم نہیں کی.وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ جب نام پیش ہوئے تو میں اس بات کو سمجھ نہیں سکا کہ ان میں سے کون زیادہ اہل ہے لیکن اسے یہ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا کہ ان میں سے کون شخص اس کی سمجھ کے زیادہ قریب ہے اس کی مثال تم یوں سمجھ لو کہ اگر کسی شخص کا کوئی رشتہ دار مر گیا ہو اور اس کے دفن کرنے کے لئے تین چار جگہیں بتائی گئی ہوں

Page 472

انوار العلوم جلد 24 437 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار لیکن وہ ساری جگہیں اسے نا پسند ہوں تو تم ہی بتاؤ کہ کیا وہ یہ فیصلہ کرے گا کہ لاش ان چاروں جگہوں میں سے کسی جگہ بھی دفن نہ کی جائے بلکہ اسے کتوں کے آگے پھینک دیا جائے یاوہ یہ فیصلہ کرے گا کہ لاش کو دفن کر دو چاہے کسی جگہ کر دو.پس اگر نائب صدر کے انتخاب کے وقت کسی فرد کو کسی پر سو فیصدی تسلی نہ ہو تب بھی اسے کچھ نہ کچھ فیصلہ ضرور کرنا پڑے گا مثلاً وہ کہہ سکتا ہے کہ ان امید واروں پر مجھے سو فیصدی تسلی نہیں.ہاں فلاں شخص پر مجھے سب سے زیادہ تسلی ہے یا وہ کہہ سکتا ہے کہ ان میں سے فلاں پر مجھے 60 فیصدی تسلی ہے باقی پر 60 فیصدی تسلی بھی نہیں اور اگر اس کی سمجھ میں کچھ بھی نہیں آتا تو وہ کوئی اور نام پیش کر دے اور کہے مجھے اس پر تسلی ہے چاہے اسے ایک ہی ووٹ ملے.آگے مرکزی دفتر کا یہ فرض ہے کہ وہ خدام کو یہ امر ذہن نشین کراتا رہے کہ انہیں کس قسم کے شخص پر تسلی ہونی چاہئے.مثلاً لوگ شادیاں کرتے ہیں تو کوئی یہ دیکھ کر شادی کرتا ہے کہ لڑکی خوش شکل ہے ، کوئی کہتا ہے اس عورت کا خاندان زیادہ معزز ہے، کوئی کہتا ہے سُبحَانَ الله فلاں عورت بہت پڑھی ہوئی ہے وہ پی.ایچ.ڈی ہے اور آجکل لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ فلاں عورت اپوا کی عہدیدار ہے یا لیگ میں کسی اچھے عہدہ پر ہے.کوئی کہتا ہے کہ اگر کوئی عورت لیگ میں کام کرتی ہے تو اسے ہم نے کیا کرنا ہے.اس کے پاس روپیہ پیسہ تو ہے ہی نہیں.کوئی کہتا ہے اس کے پاس روپیہ پیسہ نہیں تو کوئی حرج نہیں ہمیں تو عزت کی ضرورت ہے.کوئی کہتا ہے.اس کے پاس اتنی بڑی ڈگری ہے اس سے بہتر اور کون ہو سکتی ہے.کوئی کہتا ہے چھوڑو ان سب باتوں کو عورت نے ہر وقت نظر کے سامنے رہنا ہوتا ہے اگر اس کی شکل ہی پسند نہ آئی تو اسے کیا کرنا ہے.غرض مختلف وجوہ کو پیش نظر رکھ کر لوگ شادیاں کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم ان تمام وجوہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کوئی نسب کی وجہ سے شادی کرتا ہے یعنی وہ سمجھتا ہے کہ اس عورت کا خاندان بہت معزز ہے اس لئے میں اس سے شادی کروں گا.کوئی مال کی وجہ سے شادی کرتا ہے اور کوئی جمال کی وجہ سے شادی کرتا ہے پھر آپ

Page 473

انوار العلوم جلد 24 438 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار اپنا مشورہ دیتے ہیں عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّيْنِ تَرِبَتْ يَدَاكَ تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے تو جب شادی کا فیصلہ کرے تو دیندار عورت تلاش کر اگر تمہارے پیش نظر ایک سے زیادہ عور تیں ہوں اور ان میں سے ایک نیک ہو ، دیندار ہو اس کا ماحول ٹھیک ہو تو اسے دوسری سب عورتوں پر ترجیح دو.2 اسی طرح مرکز کو بھی چاہئے کہ وہ اپنا مشورہ دے دے کہ نائب صدر کے لئے کو نسی صفات کا حامل ہونا ضروری ہے مثلاً میرے نزدیک ضروری ہے کہ وہ صاحب تجربہ ہو ، صائب الرائے ، اور صاحب الدین ہو.صائب الرائے کے معنے یہ ہیں کہ وہ خود یہ طاقت رکھتا ہو کہ کسی بات کا صحیح اندازہ لگا سکے.وہ کسی دوسرے شخص کی بات سے متاثر نہ ہو یا کسی کی غلطی سے متاثر نہ ہو.وہ فیصلہ کرتے ہوئے یہ سمجھ لے کہ اس کا کسی سے بھی کوئی تعلق نہیں.مثلاً ایک شخص اس کا بہنوئی ہے ، وہ نمازی ہے، سلسلہ کے کاموں میں حصہ لیتا ہے اور ہر کام میں سمجھ سے کام لیتا ہے.اب اگر یہ اس کے خلاف صرف اس وجہ سے ووٹ دے کہ اس کی اپنی بیوی سے جو اس کی بہن ہے لڑائی ہے تو ہم کہیں گے کہ وہ صائب الرائے نہیں.اس نے فیصلہ کرتے ہوئے اپنے ذاتی تعلقات کو مد نظر رکھا ہے یا اس کی کسی سے دوستی تھی مگر وہ دیندار نہیں تھا، سمجھدار نہیں تھا، سلسلہ کے کاموں سے اس کا کوئی تعلق نہیں تھا.اب اگر یہ اسے محض دوستی کی وجہ سے ووٹ دے دیتا ہے تو ہم کہیں گے یہ صائب الرائے نہیں.صائب الرائے کے یہ معنی ہیں کہ وہ اپنے اندر قابلیت رکھتا ہو کہ غیر متعلق باتوں کو اپنے فیصلوں پر اثر انداز نہ ہونے دے مثلاً امامت کا سوال ہو تو یہ نہ دیکھے کہ کوئی اس کا بھائی ہے باپ ہے یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہے بلکہ فیصلہ کرتے ہوئے وہ صرف یہ دیکھے کہ وہ نمازی ہے ، دیندار ہے ، اسے قرآن کریم کا علم دوسروں سے زیادہ ہے.دیندار ہونا، نمازی ہونا اور قرآن کریم کا علم رکھنا یہ سب باتیں امامت سے تعلق رکھتی ہیں.عہد یداری یا رشتہ داری کا امامت سے کوئی تعلق نہیں بیرونی جماعتوں میں بھی ایسی غلطیاں ہوتی ہیں ہمارا کام ہے کہ ہم ان کی تربیت کریں.ایک جگہ سے مجھے لکھا گیا کہ فلاں شخص ہماری جماعت میں صاحب رسوخ ہے اس کے بغیر

Page 474

انوار العلوم جلد 24 439 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار ہمارا گزارہ نہیں ہو سکتا لیکن دقت یہ ہے کہ وہ ایک دفعہ جماعت سے خارج ہو چکا ہے اور اس کی دینی حالت بھی ٹھیک نہیں.اب کوئی بھلا مانس ان سے یہ پوچھے کہ کیا وہ روزویلٹ، ٹرومین، آئزن ہاور یا چیانگ کائی شیک سے بھی بڑا ہے اگر تم ان کے بغیر گزارہ کر رہے ہو تو اس کے بغیر کیوں نہیں کر سکتے.لیکن جماعتیں ہمیں چٹھیاں لکھتی رہتی ہیں اور بعض اوقات ہم بھی مجبور ہو جاتے ہیں کہ ان کی منظوری دے دیں.ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا تم جھک مارنا چاہتے ہو تو مارو تم اپنے لئے موت قبول کرتے ہو تو ہم کیا کریں.پس عہدیدار کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس کے اندر پابندی کرانے کا مادہ ہو ، وہ ڈرپوک نہ ہو.ایک دفعہ میں راولپنڈی گیا 1933ء کی بات ہے اس سال میری بیوی سارہ بیگم فوت ہوئی تھیں راولپنڈی میں میرے سالے ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب بھی تھے جو اس وقت فوج میں غالباً میجر تھے اور راجہ علی محمد صاحب بھی تھے جو اس وقت افسر مال تھے اور جماعت کا امیر ایک کلرک تھا.مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ اس امیر نے ایسا انتظام رکھا تھا کہ اگر وہ کہتا کھڑے ہو جاؤ تو یہ لوگ کھڑے ہو جاتے اگر کہتا کہ بیٹھ جاؤ تو بیٹھ جاتے گو اس کا انتخاب بطور امیر اتفاقاً ہو گیا تھا.وہ پہلے امیر منتخب ہو چکا تھا اور راجہ علی محمد صاحب اور ڈاکٹر تقی الدین احمد صاحب بعد میں راولپنڈی گئے بہر حال اس نے اپنے انتخاب کی عزت کو قائم رکھا اور اپنے سے بڑے درجہ کے لوگوں کو بھی پابند نظام بنا لیا.عموماً دیکھا گیا ہے کہ ہماری جماعت میں احمدیت صرف کر نیلی تک جاتی ہے.جب کوئی احمدی کر نیل ہو جاتا ہے تو اس کے خاندان کی عورتیں پر دہ چھوڑ دیتی ہیں اور مردوں سے میل جول شروع کر دیتی ہیں.بعض احمدی کر نیلی کا عہدہ حاصل کرنے کے بعد شراب بھی پی لیتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ کرنیلوں میں سے بہت کم تعداد ایسی ہے جن کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ احمدیت پر قائم ہے.اب اگر صرف یہ دیکھ کر کہ کوئی شخص فوج میں کرنیل ہے اسے امیر بنادیا جائے تو درست امر نہیں.اگر ایک چپڑاسی اس سے زیادہ دیندار ہو تو جماعت کی خوبی ہو گی کہ وہ کر نیل کی بجائے اس چیڑ اسی کو اپنا امیر بنائے لیکن شرط یہ ہے کہ وہ نظم کی طاقت اپنے اندر رکھتا ہو اگر وہ چپڑاسی ایسا ہو کہ

Page 475

انوار العلوم جلد 24 440 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار جب کوئی کر نیل آئے تو اسے سلیوٹ کرنے لگ جائے تو پھر وہ بھی اس عہدہ کے مناسب نہیں ہو گا کیونکہ خدام کے دفتر یا جلسہ میں کرنیل کو سلام کرنے کا سرکاری حکم نہیں ہے.ہونا یہ چاہئے کہ فوج اور چھاؤنی میں وہ سپاہی یا چپڑاسی سلیوٹ کرے اور خدام کے دفتر میں کر نیل آئے تو چپڑاسی کو سلام کرے جو دیندار چپڑاسی اپنے عہدہ کا وقار قائم رکھ سکے وہ کر نیل کی نسبت امیر بننے کا زیادہ مستحق ہے.یہ رنگ نظم کا تمہارے اندر آنا چاہئے.اپنا ووٹ ضائع نہیں کرنا چاہئے اور صحیح طور پر دینا چاہئے.سکتا ہوں جو انتخاب تم نے کیا ہے وہ میری سمجھ میں نہیں آیا اس لئے میں یہی کہہ کہ تم نے بغیر سوچے سمجھے اپنا ووٹ دے دیا ہے.سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ 31 اکتوبر کے بعد جو سال شروع ہوتا ہے اس میں مرزا ناصر احمد مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب صدر نہیں رہیں گے کیونکہ ان کی عمر زیادہ ہو چکی ہے اور وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہے میں نے انہیں دو سال کے لئے نائب صدر مقرر کیا تھا تا کہ ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے.باقی جو انتخاب کیا گیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہے: (1) مرزا منور احمد صاحب (2) مرزا طاہر احمد صاحب (3) مولوی غلام باری صاحب سیف (4) میر داؤد احمد صاحب (5) چودھری شبیر احمد صاحب (6) قریشی عبد الرشید صاحب 112 109 70 80 63 49 میری سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ ووٹنگ عقل اور سمجھ پر کس طرح مبنی ہے.اس میں یا تو جنبہ داری سے کام لیا گیا ہے اور یا بھیڑ چال اختیار کی گئی ہے.ہو سکتا ہے کہ تمہارے پاس اس کی کوئی دلیل ہو لیکن میرے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں.طاہر احمد شاگر د ہے اور مولوی غلام باری صاحب سیف استاد ہیں.استاد کو بہت کم ووٹ ملے ہیں اور شاگرد کو زیادہ.اور یہ استاد کی کنڈ منیشن (CONDEMNATION)ہے.

Page 476

انوار العلوم جلد 24 441 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات.اس کے یہ معنے ہیں کہ استاد نالائق ہے اور شاگر د اچھا ہے.ممکن ہے میرے ذہن میں بھی ان کے خلاف بعض باتیں ہوں لیکن تمہارے نقطہ نگاہ سے یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی کہ استاد کے مقابلہ میں شاگرد کو زیادہ ووٹ تم نے کس طرح دے دیئے.جب طاہر احمد کے مقابلہ میں اُس کا استاد موجود تھا تو اس کو کم ووٹ کیوں دیئے.پھر قریشی عبدالرشید صاحب ہیں.قریشی صاحب خدام الاحمدیہ کے پرانے ورکر ہیں ان کو بھی انتخاب میں دوسروں سے نیچے گرا دیا گیا ہے.میں گراتا تو اس کی کوئی وجہ ہوتی.جو وجوہات میرے پاس ہیں وہ تمہارے پاس نہیں.یہ لوگ میرے ساتھ کام کرتے ہیں اس لئے مجھے ان کے نقائص اور خوبیوں کا علم ہے لیکن تمہارے گرانے کی وجہ معلوم نہیں ہوتی.اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تم نے طاہر احمد کو محض صاحبزادہ سمجھ کر ووٹ دے دیئے ہیں اور اگر ایسے اہم معاملات میں محض صاحبزادگی کی بناء پر کسی کو ترجیح دے دی جائے تو قوم تو ختم ہو گئی.انتخاب کے لئے کام اور قابلیت دیکھی جاتی ہے صاحبزادگی نہیں دیکھی جاتی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صحیح طور پر وہی لوگ کام کر سکتے ہیں جو میرے قریب ہوں اور اگر تم نے یہ دیکھا ہے کہ کسی کو مجھ سے ملنے کا موقع زیادہ مل سکتا ہے تو یہ بات اچھی ہے لیکن اس بات کو نظر انداز کر دیا جائے تو ہر ایک کا حق ہے کہ وہ اس عہدہ پر کام کرے.اگر ایک شخص کو مجھ سے ملاقات کا موقع زیادہ ملتا ہے اور دوسرا اس سے زیادہ قابل ہو تو ترجیح اس شخص کو دی جائے گی جو قابل ہو گا.پس یہ انتخاب یا تو جنبہ داری کی وجہ سے ہوا ہے اور یا اس میں بھیڑ چال سے کام لیا گیا ہے.اگر تمہیں کسی سے محبت ہے تو اس سے محبت کرنے کے اور ذرائع استعمال کرو.اسے تحفے دو، اس سے باتیں کرو، اس سے تعلقات بڑھاؤ لیکن اسلام تمہیں یہ اجازت نہیں دیتا کہ تم محض محبت اور پیار کی وجہ سے کسی کا حق دوسرے کو دے دو.جو مال سلسلہ کا ہے وہ چاہے کوئی رشتہ دار ہو یا دوست تم محض دوستی یا رشتہ داری کی وجہ سے کسی کو نہیں دے سکتے.پچھلی دفعہ بھی تم نے ایسا ہی کیا.تم نے مرزا خلیل احمد کو منتخب کر لیا اور وہ آج تک امتحان میں فیل ہو رہا ہے.کلاس سے نہیں نکلا.اور تم نے اسے آج سے چار سال قبل اپنا صدر منتخب کر لیا تھا اور میں نے وہ انتخاب

Page 477

انوار العلوم جلد 24 442 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار رڈ کر دیا تھا.اس لئے کہ انتخاب میں جنبہ داری اور پارٹی بازی سے کام لیا گیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ آج سے مجلس خدام الاحمدیہ کا صدر میں خود ہوں گا.تا تمہیں اس بات کی تحریک ہو کہ تم صحیح اسلامی روح اپنے اندر پیدا کر و.اگر صحیح اسلامی روح کسی کے انتخاب کے خلاف جاتی ہے تو تم اُس کے خلاف جاؤ.میں مناسب نہیں سمجھتا کہ تم میں سے ہر ایک کو کھڑا کر کے دریافت کروں کہ اسے کسی اور نے کسی شخص کو ووٹ دینے کے لئے کہا تھا یا نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس قسم کے انتخابات عقل کے خلاف ہوتے ہیں.انتخاب کے وقت ہمیشہ قابلیت دیکھنی چاہئے.میں جانتا ہوں کہ مرزا ناصر احمد میں پہلے کئی نقائص تھے جو بعد میں دور ہو گئے لیکن منور احمد میں وہ قابلیت نہیں جو ناصر احمد میں تھی لیکن بہر حال چونکہ اس کو اس کام میں ایک حد تک تجربہ ہے اگر وہ اپنی اصلاح کر لے گا تو اس کام کو کر لے گا.اس لئے میں اس کا نام نائب صدر کے لئے منظور کرتاہوں مگر یاد رہے کہ کام کو لٹکایا نہ جائے.کام کو لٹکانا قوم کو ذلت کی طرف لے جاتا ہے.انگریزوں میں ایک اصطلاح مشہور ہے اور وہ ہے ریڈ ٹیپ ازم.جب کسی سوال کا جواب فوری طور پر نہ دینا ہو یا ایک چیز پہلے ایک شخص کے پاس جائے پھر دوسرے کے پاس جائے پھر تیسرے کے پاس جائے اور اس طرح اس کا جواب آنے میں پانچ چھ ماہ کا عرصہ لگ جائے تو اس کا نام انہوں نے ریڈ ٹیپ ازم رکھا ہے لیکن اس لعنت سے بھی بڑی لعنت ہمارے حصہ میں آئی ہے.ہمارے مقابلہ میں انگریز کی نسبت جوں کے مقابلہ میں گاڑی کی ہے.جو رفتار ایک جوں کی گاڑی کے مقابلہ میں ہوتی ہے وہی انگریز کے مقابلہ میں ہماری رفتار ہے.جس تیزی اور تندہی سے انگریز کام کرتے ہیں ہم نہیں کرتے اگر انگریزوں کا ریڈ ٹیپ ازم ہم میں آجائے تو پتہ نہیں ہم میں کس قدر تیزی آجائے ایک واقعہ مشہور ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ہم اپنے کاموں میں جس قدر سستی اور غفلت سے کام لیتے ہیں.راجپوتانہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہاں کسی گھر میں آگ لگ گئی.پانچ سات میل پر کوئی قصبہ تھا جہاں فائر بریگیڈ تھا.اس نے وہاں فون کیا کہ میرے گھر کو آگ لگ گئی ہے فائر بریگیڈ بھیجو اؤ تا آگ بجھائی جاسکے.اسے جواب ملا کہ فائر بریگیڈ کو روانگی کا حکم -

Page 478

انوار العلوم جلد 24 443 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار مل چکا ہے اور وہ تمہارے پاس بہت جلد پہنچ جائے گا لیکن یہ جو اب تب دیا گیا تھا جب اس کا مکان جل کر دوبارہ بھی تعمیر ہو چکا تھا.اس نے اس جواب کے جواب میں لکھا کہ آپ کا شکریہ مگر اب تو مکان جل کر دوبارہ بھی تعمیر ہو چکا ہے اب فائر بریگیڈ کی ضرورت نہیں.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ میں ایک دفعہ قادیان کے قریب ایک گاؤں پھیر و چیچی گیا.وہاں میں اکثر دفعہ جایا کرتا تھا وہاں میری کچھ زمین بھی تھی شروع میں ہم وہاں خیمے لگا کر رہتے تھے ایک دفعہ باورچی نے مجھے اطلاع دی کہ آٹا ختم ہو گیا ہے اس لئے مزید آٹا پسوانے کا انتظام کر دیا جائے صرف ایک وقت کا آٹا باقی ہے.مہمان کثرت سے آتے جاتے ہیں اس لئے اس کا انتظام جلد کر دیا جائے میں نے ایک دوست کو بلایا ان کا نام قدرت اللہ تھا اور وہ میری زمینوں پر ملازم رہ چکے تھے.میں نے انہیں کہا کہ آٹا ختم ہو چکا ہے صرف ایک وقت کا آٹا باقی ہے مہمان کثرت سے آتے ہیں اس لئے دو بوریاں آٹا پسوالاؤ.وہاں قریب ہی تیس کے قریب پن چکیاں تھیں اس لئے آٹا پسوانے میں کوئی دقت نہیں تھی.میں نے انہیں یہ ہدایت کی کہ اس بارہ میں سستی نہ کرنا.یہ نہ ہو کہ مہمانوں کو آٹانہ ہونے کی وجہ سے کوئی تکلیف ہو.گاؤں سے اتنا آٹا نہیں مل سکتا چنانچہ وہ اسی وقت چلے گئے تا آٹا پسوانے کا انتظام کریں.میں نے انہیں چلتے چلتے بھی تاکید کی کہ آٹا جلد پسوا کر لانا اس میں سستی نہ کرنا.دوسرے دن صبح کا وقت آیا.کھانا تیار ہو کر آگیا اور ہم نے کھا لیا.شام ہوئی تو کھانا آگیا میں نے خیال کیا کہ آٹا آگیا ہو گا لیکن بعد میں باورچی نے بتایا کہ اس وقت تو ہم نے گاؤں کے دوستوں سے تھوڑا تھوڑا آٹا مانگ کر گزارہ کر لیا ہے کل کے لئے آٹے کا انتظام کرنا مشکل ہے آپ آٹا پسوانے کا جلد انتظام کر دیں.اتنے چھوٹے سے گاؤں میں اس قدر آئے کا انتظام نہیں ہو سکتا میں نے سمجھا چلو اس وقت آٹا نہیں آیا تو صبح آجائے گا لیکن صبح کے وقت بھی آٹا نہ آیا.میں نے کہا چلو اس وقت گاؤں سے تھوڑا تھوڑا آٹا مانگ کر گزارہ کر لو امید ہے شام تک آٹا آجائے گا.ویسے تو گاؤں میں چار پانچ سواحمدی تھے لیکن کسی ایک گھر سے اس قدر آئے کا انتظام مشکل تھا چٹکی چٹکی آٹا مانگنا پڑتا تھا.اب 48 گھنٹے گزر چکے تھے لیکن میاں قدرت اللہ صاحب

Page 479

انوار العلوم جلد 24 444 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار واپس نہ آئے پھر اگلی شام بھی آگئی لیکن میاں قدرت اللہ صاحب واپس نہ آئے چنانچہ پھر گاؤں کے احمدیوں سے آٹا مانگ کر گزارہ کیا گیا.اس پر میں نے ایک آدمی کو میاں قدرت اللہ صاحب کے پاس بھیجا اور اسے ہدایت کی کہ وہ یہ معلوم کرے کہ آٹا پسوانے میں اتنی دیر کیوں ہو گئی ہے.وہاں یہ لطیفہ ہوا کہ اس دوست نے میاں قدرت اللہ صاحب کے دروازہ پر دستک دی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ آیا آخر اس نے بلند آواز سے کہا.حضور خفا ہو رہے ہیں، آٹا نہ ہونے کی وجہ سے سخت تکلیف ہو رہی ہے آخر تم بتاؤ تو سہی کہ آٹا پسوانے میں کیوں دیر واقع ہوئی ہے آخر میاں قدرت اللہ صاحب باہر نکلے اور کہا اسی غور پٹے کرنے آں کہ آٹا کیڑی چکی توں پسوائے " یعنی میں تین دن سے یہ غور کر رہا ہوں کہ آٹا کس چکی پر سے پسوایا جائے گویا آٹا پسوانے کا سوال ہی نہ تھا.ابھی تو یہ غور ہو رہا تھا کہ آٹا کہاں سے پسوا یا جائے تو یہ ہمارے ملک کی ریڈ ٹیپ ازم ہے.ہم ہر معاملہ کو اتنا لٹکاتے ہیں کہ دو منٹ کا کام ہو تو اس پر مہینوں لگ جاتے ہیں.میر اناظروں سے روزانہ یہی جھگڑا ہوتا ہے اور انہیں میں میاں قدرت اللہ صاحب کی ہی مثال دیتا ہوں مثلاً ناظر صاحب بیت المال نے شکایت کی کہ فلاں شخص کے ذمہ 16 ہزار روپیہ کا غبن نکلا ہے اور دو ہزار روپیہ کا جھگڑا اور ہے صدر انجمن احمد یہ کہتی ہے کہ جب تم پوری تحقیقات کر لو گے تو اس کے خلاف کارروائی کریں گے.میں نہیں سمجھتا کہ اس میں کونسی مصلحت ہے اس معاملہ میں اتنی دیر ہو گئی ہے کہ صدر انجمن احمدیہ کے لئے بعد میں مشکلات کا سامنا ہو گا یا تو ثبوت ضائع ہو جائیں گے یا فریق ثانی کو اس بات کا شکوہ ہو گا کہ وہ کوئی فیصلے نہیں کر رہے.معاملہ کو یو نہی لڑکا یا جارہا ہے (مشکلات کا سامنا ہو گیا کیونکہ جس شخص نے روپیہ کی ضمانت دی تھی وہ فوت ہو گیا ہے) اس سے پہلے بھی دو تین کیس ہو چکے ہیں اور اب ان کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ ہمیں تنخواہیں دی جائیں.گویا ایک طرف تو جماعت کا نقصان ہوا اور دوسری طرف یہ جرمانہ ہوا کہ جرم کرنے والوں کو تنخواہیں دی جائیں.میں نے ناظر صاحب اعلیٰ کو یہی لکھا ہے کہ تم ناظر صاحب بیت المال کو یہ جواب کیوں نہیں دیتے کہ کیا آپ کو ہمارا دستور معلوم نہیں کہ ہم ہر معاملہ کو ہمیشہ

Page 480

انوار العلوم جلد 24 445 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار لڑکا یا کرتے ہیں تا ثبوت ضائع ہو جائیں اور مجرم دو سال کی تنخواہ اور لے لے.غرض ریڈ ٹیپ ازم کی اتنی مصیبت ہے کہ باوجود کوشش کے احمدیوں سے بھی نہیں جاتی.خدام میں بھی اس قسم کی غفلت اور ستی پائی جاتی ہے.میرا ذاتی تجربہ ہے.میں نے منور احمد کو دیکھا ہے اسے کوئی کام بتاؤ چاہے وہ چند منٹ کا ہو وہ اسے دو تین ماہ تک لٹکائے جاتا ہے بہر حال چونکہ آپ لوگوں نے اس کے حق میں رائے دی ہے اس لئے میں اسے ایک چانس اور دیتا ہوں اسے اپنی عادت کی اصلاح کرنی چاہئے.چاہے رات کو بیٹھ کر کام کرنا پڑے.کسی چیز کو زیادہ دیر تک لٹکانا نہیں چاہئے.میری کئی راتیں ایسی گزری ہیں کہ میں نے رات کو عشاء کے بعد کام شروع کیا اور صبح کی اذان ہو گئی تم یہ کیوں نہیں کر سکتے.اب بھی میرا یہ حال ہے کہ میری اس قدر عمر ہو گئی ہے چلنے پھرنے سے میں محروم ہوں، نماز کے لئے مسجد میں بھی نہیں جاسکتا لیکن چارپائی پر لیٹ کر بھی میں گھنٹوں کام کرتا ہوں پچھلے دنوں جب فسادات ہوئے میں ان دنوں کمزور بھی تھا اور بیمار بھی لیکن پھر بھی رات کے دو دو تین تین بجے تک روزانہ کام کرتا تھا.6 ماہ کے قریب یہ کام رہا جو لوگ ان دنوں کام کر رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ کوئی رات ہی ایسی آتی تھی جب میں چند گھنٹے سوتا تھا اکثر رات جاگتے جاگتے کٹ جاتی تھی.نوجوانوں کے اندر تو کام کرنے کی اُمنگ ہونی چاہئے میاں قدرت اللہ صاحب والا غور انہیں چھوڑ دینا چاہئے.پس میں آپ سب کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے کاموں میں چستی پیدا کر و.تیسرے نمبر پر میر داؤد احمد صاحب کے ووٹ زیادہ ہیں.ان کی عمر طاہر احمد سے زیادہ ہے اور تجربہ بھی اس سے زیادہ ہے اس لئے دوسرے نمبر پر نائب صدر میں انہیں بناتا ہوں لیکن چونکہ میر داؤد احمد صاحب تبلیغ کے سلسلہ میں بیرون پاکستان جا رہے ہیں اس لئے ان کے چلے جانے کے بعد باقی عرصہ کے لئے مولوی غلام باری صاحب سیف نائب صدر نمبر 3 ہوں گے.میں نے بتایا ہے کہ ناصر احمد اب انصار اللہ میں چلے گئے ہیں.ان کے متعلق میں

Page 481

انوار العلوم جلد 24 446 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ انصار اللہ کے صدر ہوں گے اگرچہ میرا یہ حکم ڈکٹیٹر شپ“ کی طرز کا ہے لیکن اس ڈکٹیٹر شپ کی وجہ سے ہی تمہارا کام اس حد تک پہنچا ہے ورنہ تمہارا حال بھی صدر انجمن احمدیہ کی طرح ہی ہوتا.ایک دفعہ ایک جماعت کی طرف سے ایک چٹھی آئی جو سیکرٹری مال کی طرف سے تھی انہوں نے تحریر کیا کہ ہمارے بزرگ ایسے نیک اور دین کے خدمت گزار تھے کہ انہوں نے دین کی خاطر ہر ممکن قربانی کی لیکن اب ہم جو اُن کی اولاد ہیں ایسے نالائق نکلے ہیں کہ جماعت پر مالی بوجھ روز بروز زیادہ ہو رہا ہے لیکن ہم نے اپنا چندہ اتنے سالوں سے ادا نہیں کیا.آپ مہربانی کر کے اپنا آدمی یہاں بھجوائیں دوستوں کو ندامت محسوس ہو رہی ہے چنانچہ یہاں سے نما ئندہ بھیجا گیا اور چند دن کے بعد اس کی طرف سے ایک چٹھی آئی کہ ساری جماعت یہاں جمع ہوئی اور سب افراد اپنی سستی اور غفلت پر روئے اور انہوں نے درخواست کی کہ پچھلا چندہ ہمیں معاف کر دیا جائے آئندہ ہم باقاعدہ چندہ ادا کریں گے اور اس کام میں غفلت نہیں کریں گے.کچھ عرصہ کے بعد پھر بقایا ہو گیا تو ایک اور چٹھی آگئی کہ مرکز کی طرف سے کوئی آدمی بھیجا جائے احباب میں ندامت پیدا ہوئی ہے چنانچہ ایک آدمی گیا تمام لوگ اکٹھے ہوئے اور انہوں نے گریہ وزاری کی اور یہ درخواست کی کہ پہلا چندہ معاف کیا جائے آئندہ ہم با قاعده چندہ ادا کریں گے غرض ہر تیسرے سال یہ چکر چلتا دو تین آدمی ایسے تھے جو با قاعدہ طور پر چندہ ادا کرتے تھے باقی کا یہی حال تھا.اگر میں مجلس خدام الاحمدیہ کے بارہ میں ڈکٹیٹر شپ استعمال نہ کرتا تو تمہارا بھی یہی حال ہو تا.نوجوانوں کو میں نے پکڑ لیا اور انصار اللہ کو یہ سمجھ کر کہ وہ بزرگ ہیں ان میں سے بعض میرے اساتذہ بھی ہیں چھوڑ دیا لیکن اب تم دیکھتے ہو کہ خوردبین سے بھی کوئی انصار اللہ کا ممبر نظر نہیں آتا.پس ناصر احمد کو میں انصار اللہ کا صدر مقرر کرتا ہوں.وہ فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہدہ داروں کا انتخاب کر کے میرے سامنے پیش کریں اور پھر میر امشورہ لے کر انہیں از سر نو منظم کریں.پھر خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ جلسہ کیا کریں لیکن ان کا انتظام اور قسم کا ہو گا.اس اجتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ

Page 482

انوار العلوم جلد 24 447 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار کبڈی اور دوسری کھیلیں ہوتی ہیں.انصار اللہ کے اجتماع میں درس القر آن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صرف کیا جائے.خدام الاحمدیہ کی تنظیم اب روز بروز بڑھ رہی ہے اس لئے ان کے کاموں میں پہلے سے زیادہ چستی پیدا ہونی چاہئے.پچھلے دنوں لاہور والوں نے جو کام کیا ہے وہ نہایت قیمتی تھا لیکن اگر لاہور کی مجلس زیادہ منظم ہوتی تو یقیناً ان کاکام زیادہ مفید ہو سکتا تھا اور اگر لاہور والوں کو منظم ہونے کا احساس ہو تا تو اس کا قاعدہ یہ تھا کہ لاہور والے مرکز کو لکھتے کہ وہ اپنا ایک نمائندہ یہاں بھیج دیں پھر وہ نمائندہ دوسری مجالس کو تاریں دیتا کہ تم لوگ یہاں آکر کام کرو اس طرح لاہور میں خدمت خلق کا کام وسیع ہو سکتا تھا.جب میں نے ربوہ سے معمار بھجوائے تو لاہور میں اتنا کام نہیں ہو سکا جس کی ہمیں امید تھی اور اس کی زیادہ وجہ یہی تھی کہ سامان بہت کم تھا.معماروں کو وقت پر سامان میسر نہیں آیا اگر لاہور والے اس کے متعلق پہلے غور کر لیتے اور ہمیں سامان کا اندازہ لگا کر بھیج دیتے تو یہاں سے معمار کام کا اندازہ کر کے بھیجے جاتے.اب انہوں نے خدمت بھی کی لیکن کام زیادہ نہیں ہوا اگر سامان کم تھا تو ہم کچھ معمار اس وقت بھیج دیتے اور باقی معماروں سے کسی اور موقع پر کام لے لیتے انسان آنریری خدمت ہر وقت نہیں کر سکتا آخر اس نے اپنا اور بیوی بچوں کا پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے.بہر حال اس قسم کے تمام کام اُسی وقت عمدگی سے سر انجام دیئے جاسکتے ہیں جب مجالس ایک دوسری سے تعاون کریں.سیلاب کے دنوں میں باقی جماعتوں نے بھی کام کیا ہے لیکن لاہور کی جماعت نے جس قسم کا کام کیا ہے اس سے انہیں ایک خاص معیار حاصل ہو گیا ہے.موجودہ قائد خدام الاحمدیہ کے اندر وقت کا احساس ہے.میں جب لاہور گیا اور میں نے ربوہ کے معماروں کے بنائے ہوئے مکانوں کو خود دیکھا تو ایک جگہ پر ایک کمرہ تعمیر کرنے کے لئے میں نے انہیں اندازہ بھجوانے کی ہدایت کی.غور کرنے والے تو شاید اس پر کئی دن لگا دیتے لیکن انہوں نے اندازہ گھنٹوں میں پہنچا دیا اور پھر اس کی تفصیل بھی ساتھ تھی.پس تم خدمت خلق کے کام کو نمایاں کرو اور اپنے بجٹ کو ایسے طور پر بناؤ کہ

Page 483

انوار العلوم جلد 24 448 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات وقت آنے پر کچھ حصہ اس کا خدمت خلق کے کاموں میں صرف کیا جاسکے.قادیان میں یہ ہو تا تھا کہ زیادہ زور عمارتوں پر رہتا تھا.حالانکہ اگر کوئی عمارت بنانی ہی ہے تو پہلے اس کا ایک حصہ بنالیا جائے کچھ کچھے کمرے بنا لئے جائیں.جماعت بڑھتی جائے گی تو چندہ بھی زیادہ آئے گا اور اس سے عمارت آہستہ آہستہ مکمل کی جاسکے گی پس اپنے بجٹ کا ایک حصہ خدمت خلق کے لئے وقف رکھو.جیسے ہلال احمر اور ریڈ کر اس کی سوسائٹیاں کام کر رہی ہیں اگر تم آہستہ آہستہ ایسے فنڈز جمع کرتے رہو تو ہنگامی طور پر یہ رقوم کام آجائیں گی نہ مثلاً بنگال میں سیلاب آیا تو جماعت کی طرف سے نہایت اچھا کام کیا گیا لیکن چونکہ چندہ دیر سے جمع ہوا اس لئے کام ابھی تک جاری ہے.چندہ جب مانگا گیا تھا تو صرف مشرقی پاکستان کا نام لیا گیا تھا پنجاب کا نام نہیں لیا گیا تا کہ مزید چندہ مانگنے پر جماعت پر مالی بوجھ نہ پڑے.اگر اس قسم کی رقوم پہلے سے جمع ہو تیں تو جمع شدہ چندہ ہم مشرقی پاکستان پر خرچ کر دیتے اور ان رقوم میں سے ایک حصہ پنجاب میں خرچ کر دیا جاتا.پس ہر سال بجٹ میں اس کے لئے بھی کچھ مار جن رکھ لیا جائے اور تھوڑی بہت رقم ضرور الگ رکھی جائے وہ رقم ریز رو ہو گی جو قحط اور سیلاب وغیرہ مواقع پر صرف کی جائے گی تم اس کا کوئی نام رکھ لو ہماری غرض صرف یہ ہے کہ اس طرح ہر سال کچھ رقم جمع ہوتی رہے جو کسی حادثہ کے پیش آنے یا کسی بڑی آفت کے وقت خدمت خلق کے کاموں پر خرچ کی جاسکے.جاپان میں زلزلے کثرت سے آتے ہیں.فرض کرو وہاں کوئی ایساز لزلہ آ جائے جس قسم کا زلزلہ پچھلے دنوں آیا تھا اور اس کے نتیجہ میں دو تین ہزار آدمی مر گئے تھے تو ایسے مواقع پر اگر خدام الاحمدیہ کی طرف سے گورنمنٹ کے واسطہ سے کچھ رقم وہاں بھیج دی جائے تو خود بخود خدام الاحمدیہ کا نام لوگوں کے سامنے آجائے گا.اس قسم کی مدد سے بین الا قوامی شہرت حاصل ہو جاتی ہے اور طبائع کے اندر شکریہ کا جذبہ پیدا کر دیتی ہے اگر اس قسم کے مصائب کے وقت کچھ رقم تار کے ذریعہ بطور مدد بھیج دی جائے تو دوسرے دن ملک کی سب اخبارات میں مجلس کا نام چھپ جائے گا.پچھلے طوفان میں ہی اگر خدام کے مختلف وفود بنالئے جاتے اور تنظیم کے ذریعہ سے باہر کی مجالس سے

Page 484

انوار العلوم جلد 24 449 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفار آدمی منگوا لئے جاتے تو زیادہ سے زیادہ آدمی سیلاب زدہ لوگوں کی امداد کے لئے بھیجے جاسکتے تھے.مثلاً سیلاب کا زیادہ زور ملتان، سیالکوٹ اور لاہور کے اضلاع میں تھا اگر ان ضلعوں کی مجالس کو منظم کیا جاتا اور باقی مجالس سے مدد کے لئے مزید آدمی آجاتے اور انہیں بھی امدادی کاموں کے لئے مختلف جگہوں پر بھیجا جاتا تو پھر ان کا کام زیادہ نمایاں ہو جاتا پھر یہ بھی چاہئے کہ حالات کو دیکھ کر غور کیا جائے کہ کس رنگ میں کام کرنے کی ضرورت ہے.لاہور میں میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہ چھپر ڈال کر لوگوں کو پناہ دی جاسکتی تھی اگر شہر کے ارد گرد تالابوں سے تنکے اور گھاس کاٹ کر لایا جاتا تو اس سے بڑی آسانی سے چھپر بنا کر چھت کا کام لیا جا سکتا تھا اس طرح لکڑی کے مہیا کرنے کی ضرورت نہیں تھی.اسی طرح اس قسم کے مواقع پر پکے مکانات کی ضرورت نہیں ہوتی پھیکے کی عمارت کی ضرورت ہوتی ہے اور لکڑی کی بجائے بانس اور تنکوں کا چھت بنا دیا جاتا ہے.لاہور میں کئی ایسی جگہیں تھیں جہاں سردی سے بچاؤ کے لئے چھت کی ضرورت تھی یہ سب کام آرگنائزیشن سے ہو سکتے تھے.ہمارے محکمہ خدمت خلق کا یہ کام ہے کہ نہ صرف وہ مجالس کو آر گنائز کرے بلکہ اس قسم کا انتظام کرے کہ اگر کسی جگہ کوئی خرابی پیدا ہو جائے تو کس طرح ساری جماعت کا زور اس طرف ڈالا جاسکے.آئندہ میرے پاس رپورٹیں آتی رہنی چاہئیں کہ کس طرح خدمت خلق کے کام کو آر گنائز کیا گیا ہے.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض حلقے بنا دیئے جائیں اور ان کی آپس میں آرگنائزیشن کر دی جائے.جیسے زونل سسٹم ہوتا ہے اس طرح صوبہ کے مختلف زون مقرر کر دیئے جائیں مثلاً یہ کہا جاسکتا ہے کہ ملتان کے ارد گرد سوسو میل کا ایک زون بنا دیا جائے.اس علاقہ میں آبادی کم ہے اس لئے اس سے بڑا زون بھی بنایا جا سکتا ہے پھر ہر زون میں خدمت خلق کا ایک افسر مقرر کیا جائے جو مصیبت آنے پر دوسری مجالس کو تار دے دے کہ فلاں جگہ پر مصیبت آئی ہے.امدادی کاموں کے لئے خدام بھیج دیئے جائیں.اسی طرح یاد رکھو کہ ہمارا ملک ایسے حالات سے گزر رہا ہے کہ اس میں نہ صرف بڑے بڑے طوفان آسکتے ہیں بلکہ طوفان لائے بھی جاسکتے ہیں.ہم نچلے علاقہ میں ہیں اور

Page 485

وہ 450 مجلس خدام الاحمدیہ کے عہدیداران کا کن صفات انوار العلوم جلد 24 ہندوستان کی حکومت اوپر کے علاقوں پر قابض ہے اور وہ پانی چھوڑ کر طوفان لا سکتی ہے.پھر لاہور میں امدادی کاموں کے سلسلہ میں جو دقت پیش آئی تھی اس کے متعلق دریافت کرنے پر مجھے بتایا گیا کہ اس موقع پر بھٹہ والوں نے بد دیانتی کی ان لوگوں نے اس موقع پر اینٹ کو مہنگا کر دیا اگر اس قسم کی تحریک کی جاتی کہ جماعتیں مل کر ان کو توجہ دلائیں کہ ایسے مواقع پر آپ لوگوں کا بھی فرض ہے کہ مصیبت زدگان کی امداد کریں تو یقیناوہ کم قیمت پر اینٹ سپلائی کرتے.میرے نزدیک آئندہ کے لئے ابھی سے لاہور کے بھٹہ والوں سے مل کر انہیں اس بات پر تیار کیا جائے کہ اگر ملک کو آئندہ ایسا حادثہ پیش آیا تو اینٹ کم قیمت پر دیں گے اور دوسرے گاہکوں پر امدادی کاموں کو ترجیح دیں گے.بے شک اس میں دقت پیش آئے گی اور پہلے ایک آدمی بھی مشکل سے مانے گا.لیکن آہستہ آہستہ کئی لوگ مان لیں گے اور پھر جو لوگ آپ کی بات مان لیں ان کے نام محفوظ رکھ لئے جائیں اس طرح اس کام کو منظم کیا جائے.میں نے اس دفعہ اک شعبہ کو منسوخ کر دیا ہے اور وہ ایثار و استقلال کا شعبہ ہے کیونکہ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تربیت و اصلاح کے علاوہ ایثار و استقلال کا الگ شعبہ کس غرض کے لئے ہے.جب تک اس کے متعلق کوئی نئی سکیم پیش نہ کی جائے میں اسے بحال نہیں کر سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس عہدہ کو میں نے ہی قائم کیا تھا لیکن اب مجھے یاد نہیں رہا کہ اسے کس غرض سے قائم کیا گیا تھا پس جب تک مجھے یہ نہ بتایا جائے کہ تربیت و اصلاح کے علاوہ ایثار و استقلال نے کیا کام کرنا ہے یہ شعبہ تربیت و اصلاح میں مد غم رہے گا.ہاں اگر مجھے بتا دیا جائے کہ اس عہدہ نے پہلے کیا کام کیا ہے اور اب اسے کس طرح زندہ رکھا جاسکتا ہے تو میں اس کی دوبارہ منظوری دے دوں گا.“ روزنامه الفضل ربوہ 9 فروری 1955ء) لفة 1 صحیح بخاری کتاب المغازی باب مقامِ النبى بمكة زمن...افتح باب 54.2 بخاری کتاب النکاح باب الأكفاء في الدين

Page 486

انوار العلوم جلد 24 451 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھنا ہے (2 دسمبر 1954ء) از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد یدنا حضرت میرزای خلیفہ المسیح الثانی

Page 487

انوار العلوم جلد 24 452 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.

Page 488

انوار العلوم جلد 24 453 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھنا ہے (فرموده 2 دسمبر 1954ء بر موقع عصرانه به اعزاز صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ) ا تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- انگریزی کی ایک مثل ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ چلتا چلا جاتا ہے اور کتے بھونکتے جاتے ہیں.الفاظ اس مثل کے سخت ہیں لیکن مطلب صرف یہ ہے اور اسی مطلب کی طرف میرا اشارہ ہے کہ جب کسی خاص مقصد کو لے کر انسان کھڑا ہو تا ہے تو ہمیشہ ہی اچھے مقصد کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن جن لوگوں نے اپنا کوئی مقصد قرار دیا ہوتا ہے وہ اُس مخالفت کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنے کام میں لگے رہتے ہیں.اور جب تک وہ اپنے کام میں لگے رہتے ہیں دنیا اپنے منہ سے اقرار کرے یا نہ کرے دل میں یہ اقرار کرنے پر ضرور مجبور ہوتی ہے کہ ان لوگوں کے سامنے کوئی مقصد ہے کیونکہ بغیر مقصد کے کوئی شخص مخالفتوں کا مقابلہ نہیں کیا کرتا.جب بے مقصد لوگوں کی مخالفت ہو تو وہ فوراً کام چھوڑ دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں نقصان اٹھانے کی کیا ضرورت ہے.مثلاً اگر کوئی شخص ایک گلی میں سے گزر رہا ہو اور سوائے گزر جانے کے اس کی اور کوئی غرض نہ ہو اور راستہ میں اُسے ڈاکو مل جاتے ہیں یا وہ دیکھتا ہے کہ لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں تو بے مقصد انسان فوراً اُس گلی سے لوٹ کر دوسری گلی میں سے نکل جائے گا.لیکن اگر

Page 489

انوار العلوم جلد 24 454 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.کوئی کمزور عورت اُس گلی میں سے دوائی لے کر گزرتی ہے اور فرض کرو اس کا بچہ بستر مرگ پر پڑا ہوا ہے تو خواہ اُسے راستہ میں ڈا کو ملیں، فسادی نظر آئیں وہ نظر بچاتی اور دیواروں کے ساتھ ساتھ چمٹتی ہوئی وہاں سے گزر جائے گی کیونکہ وہ جانتی ہے کہ میرا یہاں سے گزرناضروری ہے اور دوسرا سمجھتا ہے کہ میرا یہاں سے گزرناضروری نہیں.گزشتہ ایام میں جو فسادات ہوئے اُن کے متعلق جہاں تک گورنمنٹ کا نکتہ نگاہ ہے وہ محسوس کرتے تھے کہ انتہا درجہ کے فسادات جو کسی ملک میں رونما ہو سکتے ہیں وہ یہاں پیدا ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجو د لاکھوں کی جماعت میں سے صرف پندرہ سولہ آدمی تھے جنہوں نے کمزوری دکھائی.اور جب انکوائری کمیٹی بیٹھی تو آئی جی یا چیف سیکرٹری کا بیان تھا کہ ہمارے علم میں صرف ایک شخص ایسا ہے جو ابھی تک واپس نہیں ہوا باقی سب جماعت احمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں اور اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اب سارے ہی واپس آچکے ہیں سوائے ایک دو کے جو پہلے ہی احمدیت سے منحرف تھے اور خواہ مخواہ ان کو اس لسٹ میں شامل کر لیا گیا تھا.اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ جانتے تھے کہ ہم صحیح مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں صرف ان کے دل کی کمزوری یا بز دلی تھی کہ جس کی وجہ سے عارضی طور پر اُن کا قدم لڑکھڑا گیا.بلکہ گوجر انوالہ میں تو ایک لطیفہ ہو گیا.ایک احمدی جو کمزور دل تھا اُس پر مخالفین نے دباؤ ڈالا تو اس نے کہہ دیا کہ میں مرزائیت سے توبہ کرتا ہوں.وہ بڈھا آدمی تھا اُس نے سمجھا کہ دل میں تو مانتا ہی ہوں اگر منہ سے میں نے کچھ کہہ دیا تو کیا ہوا؟ بہر حال لوگ اس خوشی میں لوٹ گئے اور انہوں نے نعرے مارنا شروع کر دیئے ہم نے فلاں مرزائی سے توبہ کر والی ہے.مسجد کے امام کو بھی اس کی خبر ہوئی وہ ہوشیار آدمی تھا اُس نے پوچھا تمہیں کس طرح پتہ لگا ہے کہ اُس نے مرزائیت سے توبہ کر لی ہے ؟ انہوں نے کہا کہ ہمارے سامنے اُس نے کہا ہے کہ میں مرزائیت سے توبہ کرتا ہوں.وہ کہنے لگا اُس نے تمہیں دھوکا دیا ہے اب وہ گھر میں بیٹھا استغفار کر رہا ہو گا.تم پھر اُس کے پاس جاؤ اور اُس سے کہو ہم تمہاری توبہ ماننے کے لئے تیار نہیں جب تک تم یہاں آکر ہمارے پیچھے نماز نہ پڑھو.چنانچہ پھر ہجوم اُس کے گھر پہنچا

Page 490

انوار العلوم جلد 24 455 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.اور کہا ہم اس طرح تمہاری تو بہ نہیں مانتے.تم چلو اور مسجد میں ہمارے ساتھ نماز پڑھو.وہ چونکہ دل میں ایمان رکھتا تھا اور صرف کمزوری کی وجہ سے اُس نے منہ سے توبہ کی تھی اس لئے جب دوبارہ ہجوم اُس کے پاس پہنچا تو خدا نے اُسے عقل دے دی اور وہ کہنے لگا دیکھو بھئی ! جب میں مرزائی تھا تو نمازیں پڑھا کرتا تھا، شراب سے بچتا تھا، کنچنیوں کے ناچ گانے میں نہیں جایا کرتا تھا جب تم آئے اور تم نے کہا تو بہ کرو تو میں بڑا خوش ہوا کہ چلو اچھا ہوا مجھے ان مصیبتوں سے نجات ملی.پس میں نے تو اس خیال سے توبہ کی تھی کہ مجھے اب نمازیں نہیں پڑھنی پڑیں گی ، شراب پیوں گا اور کنچنیوں کے ناچ گانے میں شامل ہوا کروں گا کیونکہ یہ پابندیاں مجھ پر مرزائی ہونے کی حالت میں تھیں.مرزائیت سے توبہ کر کے یہ سب مصیبتیں جاتی رہیں مگر تم ادھر مجھ سے تو بہ کرواتے ہو اور اُدھر وہی کام کرواتے ہو جو مرزائی کیا کرتے ہیں پھر یہ تو بہ کیسی ہوئی ؟ اس پر وہ شر مندہ ہو کر چلے گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ مولوی کی بات ٹھیک ہے اس نے دل سے توبہ نہیں آخر یہ کیا چیز تھی جس نے اتنے فتنہ کے زمانہ میں اگاؤ کا احمدی کو بھی اپنی جگہ قائم رکھا اور جان، مال اور عزت کے خطرہ کے باوجود اُن کا قدم نہیں ڈگمگایا.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ سمجھتے تھے کہ ہم ایک مقصد کے پیچھے چل رہے ہیں اور یہ بے مقصد لوگ ہیں ہم ان کی خاطر اپنے مقصد کو کس طرح چھوڑ دیں اور اگر ہم چھوڑتے ہیں تو خائب و خاسر ہو جاتے ہیں.خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی مقصد کے ماتحت کیا گیا ہے کہ نوجوانوں میں اسلام کی روح کو زندہ رکھا جائے اور انہیں گرنے سے بچایا جائے.باغوں میں پھل لگتے ہیں تو اس میں انسانوں کا اختیار نہیں ہوتا.پھل لگتے ہیں اور بے تحاشہ لگتے ہیں مگر خد الگاتا ہے.انسان کا اختیار اُس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ ان پھلوں کو گرنے سے بچاتا ہے یا اس امر کی نگہداشت کرتا ہے کہ اسے جانور نہ کھا جائیں یا بچے نہ توڑلیں یا کیڑے اس باغ کو خراب نہ کر دیں اور یہ حفاظت اور نگہداشت اس کی خوبی ہوتی ہے.جہاں تک پھلوں کا

Page 491

انوار العلوم جلد 24 456 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.سوال ہے اُس کا لگانا خدا کے اختیار میں ہے لیکن جہاں تک اُن پھلوں کی حفاظت کا سوال ہے وہ انسان کے اختیار میں ہے.لیکن بے وقوف اور نادان باغبان پھلوں کی حفاظت نہیں کرتا اور وہ ضائع ہو جاتے ہیں.یہاں پاکستان میں ہمیں بھی لائل پور میں ایک باغ الاٹ ہوا ہے.لاہور کے ایک تاجر نے اُس کا ٹھیکہ لیا تھا وہ مجھے ملے تو کہنے لگے بیشک ہم نے بھی نفع اٹھایا ہے لیکن آپ دیکھیں کہ کیا اس باغ میں اب کہیں بھی کوئی طوطا نظر آتا ہے.پہلے اس باغ میں ہزار ہا طوطے ہوا کرتے تھے مگر اب ایک طوطا بھی نظر نہیں آتا اور اگر کوئی غلطی سے ادھر کا رُخ کرے تو چکر کاٹ کر بھاگ جاتا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ پھل پیدا ہوا اور ہم نے بھی فائدہ اٹھایا اور آپ کو بھی زیادہ پیسے دیئے.تو پھل تو سب باغوں میں آتے ہیں.باغبان کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ اُن کی حفاظت کرے.خدام الاحمدیہ کا قیام بھی اسی لئے کیا گیا ہے کہ بچپن اور نوجوانی میں بعض لوگ بیرونی اثرات کے ماتحت کمزور ہو جاتے ہیں اور اُن میں کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں.بعض لوگ دوسری سوسائٹیوں سے بُرا اثر قبول لیتے ہیں اور بعض تربیت کے نقائص کی وجہ سے آوارگی میں مبتلا ہو جاتے ہیں.خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض یہ ہے کہ اس بیرونی تغیر کو جماعت احمدیہ میں داخل نہ ہونے دیں اور اس مقصد کو ہمیشہ نوجوانوں کے سامنے رکھیں جس کے پورا کرنے کے لئے جماعت احمد یہ قائم کی گئی ہے.اگر نوجوانوں میں یہ روح پیدا کر دی جائے تو پھر بیشک شرارت کرنے والے شرارت کرتے رہیں خواہ اپنے ہوں یا غیر سب کے سب ناکام رہیں گے.دنیا میں بسا اوقات اپنے دوست اور عزیز بھی مختلف غلط فہمیوں کی بناء پر مخالفت پر اتر آتے ہیں جیسے آجکل مسلمانوں کی حالت ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں، قرآن کو مانتے ہیں لیکن وہ اپنی نادانی سے سمجھتے ہیں کہ ہم اس راستہ سے ہٹ گئے ہیں حالانکہ وہ خود اس راستہ سے ہٹ چکے ہیں.اسی طرح ہندو اور عیسائی وغیرہ بھی مخالفت کرتے ہیں.پس خواہ اپنے لوگ مخالفت کریں یا غیر کریں وہ اپنا کام کئے چلا جاتا ہے

Page 492

انوار العلوم جلد 24 457 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد..اور سمجھتا ہے کہ میرے کام اعلیٰ ہیں.اگر میں اس راستہ سے ہٹ جاؤں گا تو ذلیل ہو جاؤں گا.گزشتہ زمانہ میں مسلمان کمزور ہوئے تو اسی وجہ سے کہ اسلام کے باغ میں جو ثمرات اور پھل لگے ان پھلوں کی انہوں نے حفاظت نہ کی اور وہ گرنے شروع ہو گئے.انہوں نے اسلام میں حاصل ہونے والی عزت پر دنیوی عزتوں کو ترجیح دینی شروع کر دی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کی شوکت آہستہ آہستہ مٹ گئی.اگر وہ سمجھتے یورپین سوسائٹی میں شامل ہونا یا ان سوسائٹیوں میں کسی عزت کے مقام کامل جانا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے مقابلہ میں بالکل حقیر اور ذلیل چیز ہے تو وہ ادھر کبھی نہ جاتے.پس خدام الاحمدیہ کو اس لئے قائم کیا گیا ہے کہ وہ اسلام کے مقصد کو اپنے سامنے رکھیں تا یورپ کے اثرات اور روس کے اثرات اور دوسرے ہزاروں اثرات ان کی نگاہ میں حقیر نظر آنے لگیں اور وہ سمجھیں کہ حقیقی عزت اُس کام میں ہے جو خدا نے اُن کے سپر د کیا ہے.اس کے بعد انصار اللہ مقرر ہیں تا کہ جو خدام میں سے نکل کر ان میں شامل ہو وہ اس کی حفاظت کریں.گویا تمہاری مثال ایسی ہے.جیسے کوئی مور کی حفاظت کرتا ہے اور انصار اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بڑے پھل کی نگہداشت کرتا ہے.جہاں تک خدام الاحمدیہ کا سوال ہے وہ بہت چھوٹی بنیاد سے اُٹھے اور بڑھ گئے.مگر مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے اپنی تنظیم نہیں کی.حالانکہ ان کی ترقی کے امکانات زیادہ اور ان کے خطرات کم تھے.لالچیں اور حرمیں زیادہ تر نوجوانی میں پیدا ہوتی ہیں.بڑھاپے میں انسانی کیریکٹر راسخ ہو جاتا ہے اور اس کا قدم آسانی سے ڈگمگا نہیں سکتا.بہر حال خدام نے خوش کن ترقی کی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ خدام الاحمدیہ کا دفتر اپنے پاس ایک چارٹ رکھے جس میں یہ دکھایا جائے کہ مجلس کی اس وقت تک کتنی انجمنیں ہیں، کس کس جگہ اس کی شاخیں قائم ہیں اور دوران سال میں ان انجمنوں نے کتنی ترقی کی ہے.اگر اس قسم کا ایک چارٹ موجود ہو تو اس کے دیکھتے ہی فوراً پتہ لگ سکتا ہے کہ خدام الاحمدیہ ترقی کر رہے ہیں یا گر رہے ہیں.

Page 493

انوار العلوم جلد 24 458 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد.میں نے دیکھا ہے صدر انجمن احمدیہ کی شاخیں ہمیشہ چھ اور سات سو کے در میان چکر کھاتی رہتی ہیں اور اس تعداد میں کبھی اضافہ نہیں ہوا.اس کی وجہ در حقیقت یہی تھی کہ کوئی ایسا محکمہ نہیں تھا جو اس امر کی نگرانی کرتا اور دیکھتا کہ انجمنیں کیوں ترقی نہیں کر رہیں.پس ہر سال ایک چارٹ تیار کیا جایا کرے اور پھر اس چارٹ پر شوری میں بحث ہو کہ فلاں جگہ کیوں کمی آگئی ہے.یا فلاں جگہ جو زیادتی ہوئی ہے وہ کافی نہیں اس سے زیادہ تعداد ہونی چاہئے تھی.یا اگر پچھلے سال خدام الاحمدیہ کے ایک ہزار ممبر تھے تو اس سال بارہ سو کیوں نہیں ہوئے؟ اِس وقت دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے اور احمدی بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑھ رہے ہیں.باہر سے آنے والوں کے ذریعہ سے بھی اور نسل کی ترقی کے ذریعہ سے بھی.پس خدام الاحمدیہ کی تعداد ہر سال پچھلے سال سے زیادہ ہونی چاہئے.اگر یہ چارٹ سالانہ اجتماع پر لگا ہوا ہو تو باہر سے آنے والے خدام کو بھی اس طرف توجہ ہو سکتی ہے.اس کے بعد جب بیرونی مجالس میں توجہ پیدا ہو تو اس قسم کا چارٹ چھپوا دیا جائے.اس چارٹ میں مختلف خانے بنے ہوئے ہوں جن میں مجالس کی ابتداء سے لے کر موجودہ وقت تک کے تمام سالوں کی درجہ بدرجہ ترقی یا تنزل کا ذکر ہو.اگر تم اس طرح کرو تو یقینا تم کسی جگہ ٹھہرو گے نہیں لیکن اس خانہ پری میں تمہاری وہ کیفیت نہیں ہونی چاہئے جو جلسہ سالانہ کے منتظمین کی ہوتی ہے کہ پہلے ان کی پر چی خوراک سے ظاہر ہوتا ہے کہ سولہ سترہ ہزار افراد آئے ہیں اور پھر جب لوگوں میگوئیاں شروع ہوتی ہیں کہ لوگ کم کیوں آئے ہیں تو یکدم ان کی تعداد 35 ہزار تک پہنچ جاتی ہے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ صحیح نگرانی نہیں ہو سکتی اور خرچ بے کار ہو جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جلسہ سالانہ پر خدا تعالیٰ کے فضل سے کافی لوگ آتے ہیں.مگر جب بھی چہ میگوئیاں شروع ہوں کہ زیادہ لوگ نہیں آئے تو یکدم تعداد میں تغیر آجاتا ہے.اسی طرح باہر سے ایک دوست کی چٹھی آئی کہ ہم جلسہ کے دنوں میں فلاں جگہ ٹھہرا کرتے ہیں.ہم نے دیکھا کہ وہاں دس دس بارہ بارہ آدمیوں کے لئے چاول اور

Page 494

انوار العلوم جلد 24 459 خدام الاحمدیہ کے قیام کا مقصد..پر ہیزی کھانا باقاعدگی سے آیا کرتا تھا.ہمارے ساتھ کچھ غیر احمدی دوست بھی تھے.انہوں نے پوچھا کہ یہ چاول ہمیں کیوں نہیں ملتے ؟ اس پر انہیں بتایا گیا کہ یہ بیماروں کے لئے آتے ہیں.وہ کہنے لگے کہ کیا اس گھر کے رہنے والے سب کے سب بیمار ہیں؟ یہ بھی ایک نقص ہے جس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یورپ اور امریکہ کے لوگ ان باتوں میں بڑے محتاط ہوتے ہیں اور وہ بڑی صحت کے ساتھ اعدادو شمار بیان کرتے ہیں لیکن ہمارے ہاں گڑ بڑ کر دیتے ہیں.اور بعض لوگ تو شاید گڑ بڑ کرنا ثواب کا موجب سمجھتے ہیں حالانکہ ان چیزوں کا نتیجہ الٹ ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجہ میں جھوٹ کی بھی عادت پیدا ہو جاتی ہے.اگر تم چارٹ بناؤ گے تو وہ تمہاری ترقی کے لئے بڑا محرک ہو گا اور پھر دوسرے لوگوں کو بھی تمہارے کاموں کے ساتھ دلچسپی پیدا ہو جائے گی اور انہیں بھی احساس ہو گا کہ تم ایک کام کرنے والی جماعت ہو.“ مور : آم کا پھول.بُور.شگوفہ.کلی (رساله خالد جنوری 1955ء)

Page 495

Page 496

انوار العلوم جلد 24 461 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد یدنا حضرت میرز خلیفة المسیح الثانی

Page 497

انوار العلوم جلد 24 462 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار

Page 498

انوار العلوم جلد 24 463 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب (فرمودہ 6 دسمبر 1954ء بر موقع افتتاح تعلیم الاسلام کا لج ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ”آج تعلیم الاسلام کالج کے افتتاح کی تقریب کے سلسلہ میں مجھے یہاں بلایا گیا ہے جیسا کہ اس کالج کے نام سے ظاہر ہے.اس کے بنانے والوں کی غرض یہ تھی کہ اس کالج میں طلباء اسلام کی تعلیم سیکھیں یعنی وہ یہاں آکر جہاں دنیوی علوم حاصل کریں.وہاں وہ قرآن کریم کے پیشکر دہ علوم کو بھی حاصل کریں.بعض لوگ نادانی اور جہالت کی وجہ سے یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید قرآن کریم دوسرے علوم کے سیکھنے سے روکتا ہے حالانکہ قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا پڑا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین قدرت کا زیادہ سے زیادہ علم اور تجربہ حاصل کرنا چاہیئے اور علم نام ہی اس چیز کا ہے جس کو حقیقت اور شواہد سے ثابت کیا جاسکے جس چیز کو قوانین قدرت کی مدد سے ثابت نہ کیا جاسکے وہ جہالت قیاسات اور وہم ہوتا ہے.اس کا نام علم نہیں رکھا جاسکتا.علم کے معنے ہوتے ہیں جاننا اور دوسری چیز کے لئے دلیل ہونا حضرت مسیح علیہ الاسلام کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.اِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ 4 کہ وہ قیامت کے لئے ایک علامت اور دلیل ہیں.پس علم کے معنے ہیں وہ چیز جس کے ذریعہ سے دوسری باتیں ثابت کی جا سکیں اور ثابت وہی چیز کی جاسکتی ہے.جس کے لئے ظاہری شواہد موجود ہوں پس جو چیز قانون قدرت کی تائید رکھتی ہے.وہ علم ہے اور جو چیز قانون قدرت کی تائید نہیں رکھتی وہ علم نہیں.

Page 499

انوار العلوم جلد 24 464 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خ خطا بعض لوگوں کے نزدیک شاید یہ تعریف بعض علوم پر چسپاں نہ ہو سکے مثلاً تاریخ ہے تاریخ کا علم بھی علم کہلاتا ہے لیکن بظاہر قانونِ قدرت اس کی تائید نہیں کرتا.علم جغرافیہ کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.حساب کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.علم النفس کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.ڈاکٹری کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے.لاء (LAW) کے ساتھ قانونِ قدرت کی دلیل موجود ہے اس کے شواہد اس زمانہ میں موجود ہیں.وہ حکومت موجود ہے جس نے قانون مقرر کیا ہے پھر عوام موجود ہیں جو اس کے نگران ہیں پھر حج موجود ہیں جن کا کام ملک میں قانون کو رائج کرنا ہے لیکن تاریخ اس بات کا نام ہے کہ فلاں وقت فلاں جگہ پر فلاں واقعہ ہوا.اب بظاہر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تاریخ شواہد قدرت کی محتاج نہیں لیکن اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ علم تاریخ بھی شواہد قدرت کا ویسے ہی محتاج ہے جیسے دوسرے علوم اسکے محتاج ہیں اگر ہم شواہد قدرت کو نکال دیں تو علم تاریخ محض جہالت اور قصوں کا مجموعہ رہ جاتا ہے مثلاً الف لیلیٰ ہے اس میں بعض واقعات موجود ہیں.کلیلہ و دمنہ ہے.اس میں بھی بعض قصے موجود ہیں لیکن ہم انہیں تاریخ نہیں کہتے ہاں ایڈورڈ گبن کی کتاب THE DECLINE AND FALL OF ROMAN EMPIRE کو تاریخ کہتے ہیں.ابن خلدون کی لکھی ہوئی کتاب کو تاریخ کہتے ہیں.ابن اثیر کی لکھی ہوئی کتاب کو تاریخ کہتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ کلیلہ دمنہ اور الف لیلی کی باتوں کے پیچھے حقیقت اور ظاہری شواہد موجود نہیں لیکن ان کتابوں میں جن واقعات کا ذکر کیا گیا ہے.ان کے پیچھے حقیقت اور ظاہری شواہد موجود ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تاریخ دان بھی بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں لیکن تاریخ دانوں کے غلطی کر جانے کی وجہ سے خو د علم پر کوئی حرف نہیں آتا.حساب دان بھی بعض اوقات غلطی کر جاتا ہے.انجینئر بھی روزانہ غلطیاں کرتے ہیں پھر کیا وجہ ہے کہ تاریخ دانوں کی غلطیوں کی وجہ سے علم تاریخ کو علم نہ کہا جائے

Page 500

انوار العلوم جلد 24 465 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار ہندوستان کا ایک مشہور واقعہ ہے گورنمنٹ نے بمبئی کی پورٹ کو گہرا کرنے کا منصوبہ تیار کیا اور اس کے لئے ایک نقشہ بنایا گیا اور کروڑوں کی مشینری اس غرض کے لئے درآمد کی گئی.لیکن کلکولیشنز (CALCULATIONS) میں غلطی ہو گئی.جس کی وجہ سے یہ کروڑوں کی مشینری بیکار ہوگئی اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھایا جا سکا.پس اندازہ غلط ا ہو جانے یاماہرین سے غلطی ہو جانیکی وجہ سے یہ کہنا کہ وہ علم نہیں غلط ہے مثلاً حساب کو اس لئے علم نہیں کہتے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں کر سکتا بلکہ اسے اس لئے علم کہا جاتا ہے کہ قواعد کے مطابق اگر عمل کیا جائے تو اس میں امکانِ صحت موجو د ہے اور جس علم میں امکان صحت موجود ہے.اسے ہم علم کہہ دیتے ہیں اور جس میں امکانِ صحت موجود نہ ہو.اسے ہم علم نہیں کہتے.تاریخ کو بھی ہم اس لئے علم کہتے ہیں کہ اس میں امکان صحت موجود ہے.تاریخ کے علم کو صحیح طور پر استعمال نہ کرنے کی وجہ سے مسلمانوں نے بہت نقصان اٹھایا ہے ایک وقت آیا جب مسلمانوں نے اپنے آباو اجداد کی باتوں کو بھلا دیا اور ان کی تاریخ یورپین مصنفین نے لکھی چونکہ ان کے سامنے یورپ کا بڑھتا ہوا اقتدار اور قومی ترقی تھی.اس لئے انہوں نے سمجھا کہ علم تاریخ کو بھی چاہئے کہ وہ ان کے اقتدار میں مدد کرے اور وہ مدد اسی طرح کر سکتا ہے کہ دشمن کا منہ اتنازیادہ سیاہ کر کے دکھایا جائے کہ قوم اس کی طرف رغبت نہ کرے اور اپنی قوم کے کردار کو شاندار کر کے دکھایا جائے تا نوجوانوں کی ہمت بڑھے.پس ان کے لئے یہ علم ، علم تھا.ان کی ترقی جھوٹ کے ذریعہ ہی ہو سکتی تھی اس لئے انہوں نے واقعات کو غلط طور پر پیش کیا اگر وہ جھوٹ نہ بولتے اور واقعات کو غلط طور پر پیش نہ کرتے تو وہ ترقی نہیں کر سکتے تھے پس یہ تاریخ ان کے لحاظ سے علم تھا کیونکہ ان کے مد نظر یہ تھا کہ اس کے پڑھنے سے مسلمانوں کی بد اخلاقی جہالت اور ذلت نظر آئے اور یورپ کی ترقی دوسری اقوام کو مسحور کر دے لیکن ہمارے نزدیک یہ جہالت تھی کیونکہ یہ محض جھوٹ تھا.اس کا اصل واقعات سے قریب کا تعلق بھی نہیں تھا اور باتیں تو جانے دو تم سب مسلمان ہو مسلمان ہونے کی وجہ سے تم نے

Page 501

انوار العلوم جلد 24 466 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار بعض باتیں سنی تو ہوں گی.جن لوگوں نے یورپین مصنفین کی کتابیں نہیں پڑھیں.ان کے لئے شاید یہ نئی بات ہو لیکن جو لوگ اور مینٹلسوں(ORIENTALIST) کی کتابیں پڑھنے کے عادی ہیں.انہوں نے یہ بات پہلے ہی پڑھی ہو گی.بہر حال جن لوگوں کو اس کا علم نہیں ان کے لئے یہ بات بالکل اچنبھا ہے کہ یورپین مصنفین اسلام کے متعلق اس قدر جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ محمد (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) کی نعش نعوذ باللہ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی ہے.اب کیا تم نے یہ بات کسی جاہل سے جاہل مسلمان سے بھی سنی ہے تم نے یہ تو سنا ہو گا کہ فلاں بزرگ نے مردہ پر پانی پھینکا اور وہ زندہ ہو گیا تم نے یہ بھی سنا ہو گا کہ فلاں بزرگ نے پھونک ماری تو مکان سونے کا بن گیا اگر تم میں سے کسی نے امام شعرانی کی کتاب پڑھی ہو گی تو اس نے اس قسم کے کئی واقعات اس میں پڑھے ہوں گے لیکن ان سب افتراؤں کے اندر تم نے یہ افتراء نہ پڑھا ہو گا نہ سنا ہو گا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی لعش نَعُوذُ بِاللهِ زمین اور آسمان کے درمیان لٹکی ہوئی ہے لیکن یورپین مصنفین یہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کا یہی عقیدہ ہے پھر تم میں سے بعض نے شاید قرآن کریم با ترجمہ نہ پڑھا ہو گا لیکن مسلمان ہونے کی وجہ سے تم سب نے بعض باتیں سنی ہوں گی تم نے سنا یا پڑھا ہو گا کہ قرآن کریم میں عورتوں اور مردوں دونوں کا ذکر ہے دونوں کی نمازوں اور استغفار کا ذکر ہے دونوں کے اچھے کاموں کی تعریف کی گئی ہے لیکن یورپین مصنفین اپنی کتابوں میں بلا استثناء لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی رو سے عورت میں روح نہیں پائی جاتی.مرنے کے بعد جس طرح کتابلی اور دوسرے جانوروں کی روحیں ضائع کر دی جائیں گی اسی طرح عورتوں کی روحیں بھی ضائع کر دی جائیں گی اور وہ جنت میں نہیں جائیں گی.اب آپ لوگوں کے نزدیک یہ بات الف لیلیٰ کے واقعات سے بھی زیادہ جھوٹی ہے کیونکہ الف لیلی نے پڑھنے والوں کے لئے دلچسپی کے سامان تو مہیا کئے ہیں لیکن اس بات نے تمہارے دلوں کو مجروح کیا ہے اور دکھ دیا ہے.پس یہ تاریخ یورپین اقوام کے لئے تو علم ہے کیونکہ ان کو عورتوں میں کافی نفوذ حاصل ہے اگر ان کے اندر یہ چیز پیدا کر دی جائے

Page 502

انوار العلوم جلد 24 467 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطا کہ اسلام ایک گندہ اور غیر معقول مذہب ہے.اس کے نزدیک عورتوں کے اندر روح نہیں پائی جاتی اور وہ موت کے بعد کتوں اور بلیوں کی طرح ضائع کر دی جائیں گی تو تم جانتے ہو سب عورتیں اپنے بچوں کو یہی تعلیم دیں گی کہ اس غیر معقول اور گندے مذہب کو مٹانا ضروری ہے پس ان کے لحاظ سے یہ تاریخ علم ہے لیکن ہمارے لحاظ سے وہ جہالت اور قیاسات کا مجموعہ ہے گویا ایک جہت سے مستشرقین کی یہ تاریخ علم ہے اور ایک جہت سے جہالت ہے.بہر حال تاریخ بھی دنیوی علوم میں سے ایک اہم علم ہے کیونکہ آج یہاں بیٹھے ہوئے ہم ہزاروں سال پہلے کے واقعات اور حالات کا اندازہ نہیں لگا سکتے لیکن تاریخ کے مطالعہ سے ہم ان سے واقفیت حاصل کر لیتے ہیں.ایک آدمی کسی سے کچھ واقعات سنتا ہے وہ انہیں دوسرے کے آگے بیان کرتا ہے اور اس طرح وہ واقعات ہم تک پہنچ جاتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ سننے والے آگے بیسیوں غلطیاں کر جاتے ہیں.ایک واقعہ آتا ہے کہ شہزادہ ویلیز یورپ کی پہلی جنگ میں ایک جگہ فوج کا معائنہ کرنے گئے.وہیں فوجیوں نے ایک قسم کا مظاہرہ کیا.وہاں یہ تجربہ کیا گیا کہ ایک سپاہی دوسرے سے ایک فقرہ کہے اور وہ اس سے اگلے سپاہی سے وہ فقرہ کہے اور وہ اگلے سپاہی سے کہے پھر دیکھا جائے کہ آخر پر جاکر وہ کیا بن جاتا ہے جو فقرہ پہلے سپاہی نے دوسرے سے کہا.وہ یہ تھا کہ ” پرنس آف ویلز ہیز کم “ (PRINCE OF WALES HAS COME) لیکن کئی میل تک کھڑی ہوئی فوج کے آخر تک جو پیغام پہنچا وہ یہ تھا.کہ ”گو می ٹو پینسز “ (GIVE ME TWO PENCES) اب دیکھ لو کہ سنتے سنتے فقرہ کیا سے کیا ہو گیا.کسی کی ٹون لہجہ یا ایکسنٹ (Accent) میں فرق پڑا تو اس نے کچھ اور سن لیا.اسی طرح آہستہ آہستہ اس میں فرق پڑتا گیا اور آخر میں اس کا مفہوم بالکل ہی بدل گیا.یہی حال تاریخ میں بھی ہو سکتا ہے.وہاں ایک سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے تک ایک واقعہ پہنچتا ہے اور لہجہ اور ٹون میں فرق پڑنے سے ان میں فرق پڑنا لازمی ہوتا ہے.پس اس میں شبہ نہیں کہ غلطی کا امکان اس میں بھی موجود ہے لیکن یورپ

Page 503

انوار العلوم جلد 24 468 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار والوں نے ہم پر سخت ظلم کیا ہے اگر واقعات ان سے تعلق رکھتے ہوں تو وہ انہیں صحیح اور درست سمجھتے ہیں لیکن اگر وہی بات مسلمانوں کے متعلق ہو تو کہتے ہیں یہ چیز سماعی ہے اس لئے اسے درست تسلیم نہیں کیا جاسکتا.مسلمانوں کا علم حدیث جس کو علم کی حد کے اندر رکھنے کے لئے بہت بڑی محنت اور کوشش کی گئی ہے.اس کے متعلق بہت سے قوانین مرتب کئے گئے ہیں.جن کے ذریعہ احادیث کو پر کھا جاتا ہے.اس کے متعلق یورپین مصنفین کہتے ہیں کہ یہ کوئی علم نہیں اس کی بنیاد سماع پر ہے اور جو چیز سماعی ہو وہ قابل اعتبار نہیں ہوتی لیکن انجیل جس کے راوی خود کہتے ہیں کہ یہ مسیح سے سینکڑوں سال بعد مرتب کی گئی ہے.اس کے متعلق کہتے ہیں کہ یہ مسیح کا قول ہے اب دیکھ لو جس کے متعلق کوئی احتیاط نہیں کی گئی.وہ تو ان کے نزدیک یقینی اور قطعی ہے اور جس چیز کے متعلق ہر طرح احتیاط برتی گئی وہ محض سماعی باتیں ہیں اسے علم نہیں کہا جا سکتا.لیکن ان کے اس تعصب کو نظر انداز کرتے ہوئے ہمیں یہ ماننے سے انکار نہیں کہ سماعی باتوں میں غلطی ہو سکتی ہے کہنے والے کا کوئی مطلب ہو تا ہے اور سننے والا کچھ سمجھ لیتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک جنگ میں کچھ آدمی مارے گئے.ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچیرے بھائی یعنی حضرت علی کے بڑے بھائی بھی شامل تھے مدینہ میں یہ رواج تھا کہ مرنے والوں کا ماتم کیا جاتا تھا اور اس کے متعلق ان کا یہ خیال تھا کہ ماتم کرنے سے مرنے والے کی روح خوش ہوتی ہے.مسلمان ابھی حدیث العہد تھے اور ان سے یہ احساس پورے طور پر مٹا نہیں تھا.جب عورتوں نے ان لوگوں کی موت کی خبر سنی تو انہوں نے سمجھا ہمیں ماتم کرنا چاہئے تاکہ دوسرے لوگ یہ سمجھیں کہ یہ لوگ اپنے مردوں کی قدر کرتے ہیں چنانچہ ئین شروع ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شور سنا تو دریافت فرمایا یہ کیا ہے صحابہ نے بتایا کہ عورتیں جنگ میں مرنے والوں پر رو رہی ہیں.آپ نے فرمایا یہ بہت بُری بات ہے اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ویسے بھی مر دوں پر رونا درست نہیں اس سے قوم میں سے بہادری اور جرات کا احساس جاتا رہتا ہے اور اس کی ہمت گرتی ہے.جاؤ

Page 504

انوار العلوم جلد 24 علیہ 469 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار انہیں منع کرو.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ ان لوگوں کے پاس گئے اور کہا رسول کریم صلی اللہ سلم فرماتے ہیں بین ختم کرو اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا.عورتوں کے اندر جوش پایا جاتا تھا وہ اپنے مردوں کو یاد کر رہی تھیں اور رو رہی تھیں.بین میں ایک دوسرے کو دیکھ کر بھی لوگ رونے لگ جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ جاؤ مرے ہمارے رشتہ دار ہیں.ہمارے دل دکھے ہوئے ہیں اور ہم رو رہی ہیں تم منع کرنے والے کون ہوتے ہو حضرت ابوہریرۃ واپس آگئے اور عرض کیا یا رسول اللہ ! میں نے ان عورتوں سے کہا تھا کہ وہ ماتم کرناختم کر دیں مگر وہ رکتیں نہیں.آپ نے فرمایا أُحْتُ التَّرَابَ عَلَى وُجُوهِهِنَّ 2 اُس فقرہ کا لفظی ترجمہ یہ ہے کہ تو ان کے منہ پر مٹی ڈال لیکن محاورہ میں اس کے یہ معنے ہیں کہ تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے.ہمارے ہاں بھی اس موقع پر کہتے ہیں ”سکھ پا اب اس کا یہ مطلب نہیں کہ عملی طور پر مٹی مونہوں پر ڈالی جائے بلکہ اس کا صرف یہ مطلب ہوتا ہے کہ اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو یہی محاورہ عربی زبان میں بھی پایا جاتا ہے.کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالو یعنی انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے.حضرت ابوہریرۃ نے اس کا مفہوم نہ سمجھا اور لفظی ترجمہ کی بناء پر اپنی جھولی میں مٹی بھرنی شروع کی حضرت عائشہ نے انہیں جھولی میں مٹی بھرتے دیکھ لیا اور فرمایا تم یہ کیا حماقت کر رہے ہو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ واقع میں عورتوں کے مونہوں پر مٹی ڈالی جائے مان لیا کہ وہ غلطی کا ارتکاب کر رہی ہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ نہیں تھا کہ ان کے مونہوں پر مٹی ڈالی جائے بلکہ آپ کا مطلب صرف یہ تھا کہ تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دے.اگر حضرت عائشہ حضرت ابوہریرہ کو جھولی میں مٹی ڈالتے ہوئے نہ دیکھتیں تو یہ روایت آگے چلی جاتی.پھر اگر حضرت ابوہریرہ لفظی روایت کر دیتے تو بعض لوگ اس کے معنی سمجھ لیتے اور بعض نہ سمجھتے لیکن اگر آپ معنوی روایت کر دیتے تو اس کا مفہوم سمجھنے میں کوئی اختلاف نہ ہوتا.بلکہ سب مسلمان یہی کہتے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب عورتیں بین کریں تو ان کے مونہوں پر خوب مٹی ڈالو اور حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے کہ میں نے آپ کے

Page 505

انوار العلوم جلد 24 470 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار ارشاد پر خود مٹی ڈالی ہے اور اس طرح مسلمانوں میں ایک ناپسندیدہ رواج پڑ جاتا اور دوسرے مذاہب کے لوگ ہنستے اور مذاق اڑاتے کہ یہ کیا اسلام ہے جس میں عورتوں کے مونہوں پر مٹی ڈالی جاتی ہے.پس تاریخ کے متعلق یہ مانی ہوئی بات ہے کہ اس میں اس قسم کی غلطی کا پایا جانا ممکن ہے لیکن ہمیں اس بات کا افسوس ہے کہ یورپین مصنفین اپنے متعلق اور قوانین وضع کرتے اور ہمارے متعلق اور قوانین بتاتے ہیں.یہ طریق غلط ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ سماعی باتوں میں فرق ضرور ہوتا ہے اور سننے والے کچھ کا کچھ سمجھ لیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ایک طریق ایسا بھی ہے کہ جس کے ذریعہ غلطی سے بچا جا سکتا ہے اور وہ طریق یہ ہے کہ روایت میں غلطی راوی کی وجہ سے پڑتی ہے لیکن ایک شخص کے متعلق جب ہم کئی واقعات سنتے ہیں تو اس کے متعلق ہم معلوم کر لیتے ہیں کہ اس کا کیریکٹر یہ ہے اور جب کسی کے کیریکٹر کا علم ہو جائے تو علم النفس کے ذریعہ ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ کونسا واقعہ سچا ہے اور کونسا غلط اگر کوئی واقعہ اس کے کیریکٹر کے مطابق ہے تو ہم کہیں گے یہ واقعہ سچا ہے اور اگر کوئی واقعہ اس کے کیریکٹر کے خلاف ہے کہیں گے یہ واقعہ غلط ہے مثلاً اگر ہمیں معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص دیانت دار ہے تو اب اگر کوئی شخص یہ کہے کہ وہ کسی کا روپیہ لے کر بھاگ گیا ہے تو ہم کہیں گے یہ بات یہ محض دشمنی کی وجہ سے کہا گیا ہے ورنہ یہ بات اس کے کیریکٹر کے خلاف ہے گویا جب ہم سائیکالوجی کے نیچے اسے لائیں گے تو یہ ایک علم بن جائے گا چنانچہ اسلامی تاریخ پر میرا ایک لیکچر چھپا ہوا موجود ہے.جس کا نام ”اسلام میں اختلافات کا آغاز “ ہے.میں نے اس ٹیچر میں اس بات پر بحث کی ہے کہ اسلام میں اختلافات کا آغاز کس طرح ہوا.اس لیکچر کے صدر پروفیسر سید عبد القادر صاحب تھے.میں نے ان کی صدارت میں مارٹن ہسٹاریکل سوسائٹی اسلامیہ کالج لاہور میں تقریر کی اور اپنے نقطہ نگاہ سے اسلامی تاریخ کے اس حصہ کو اس طرح بیان کیا کہ جس طرح مکھن سے بال نکال لیا جاتا ہے.اسی طرح صحابہ کو میں نے ان تمام الزامات سے بری ثابت کیا جو ان پر لگائے جاتے تھے.میرا وہ لیکچر اب بھی پروفیسروں کے زیر نظر رہتا ہے اور بعض کالجوں میں تو غلط ہے یہ -

Page 506

انوار العلوم جلد 24 471 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار یہ سفارش کی جاتی ہے کہ طلباء میرے اس لیکچر کا ضرور مطالعہ کریں.میں نے اس لیکچر میں یہ ثابت کیا ہے کہ یہ بات کہ اسلام میں فتنوں کا موجب حضرت عثمان اور بڑے بڑے صحابہ تھے بالکل جھوٹ ہے اس لیکچر کے سلسلہ میں میں نے زیادہ طبری کو مد نظر رکھا ہے.طبری نے یہ اصول رکھا ہے کہ وہ ایک ایک واقعہ کی پانچ پانچ سات سات روایات دے دیتا ہے.میں نے دیکھا کہ ان میں سے وہ کون سے واقعات ہیں جن کی ایک زنجیر بن سکتی ہے.ان واقعات کو میں نے لے لیا اور باقی کو چھوڑ دیا کیونکہ ایک طرح کی زندگی میں اختلاف نہیں ہو سکتا اگر ایک سال ایک کام معاویہ کر رہے ہوں.اگلے سال وہ کام عمرو بن عاص کر رہے ہوں اور اگلے سالوں میں وہی کام پھر معاویہ سے منسوب ہو تو درست بات یہی ہو گی کہ وہ کام دوسرے سال بھی معاویہ ہی کر رہے تھے.حضرت عمرو بن عاص کا نام غلطی سے آگیا ہے.اس اصول سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ صحابہ سے بعض غلطیاں ہوئیں یا حضرت علی کے متعلق بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں.وہ سب غلط ہیں گویا یہاں علم النفس میرے کام آیا یا اگر ایک شخص کے متعلق ایک سال بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں.دوسرے سال بھی بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں تیسرے سال بھی بعض واقعات بیان کئے جاتے ہیں تو ہمیں وہی واقعات درست ماننے پڑیں گے جو ایک کڑی اور زنجیر بنا دیں.رحم دل اور سنگدل یا پارسا یا عیاش آدمی جمع نہیں ہو سکتے.مثلاً ایک آدمی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ رحمدل ہے اور اکثر واقعات اس کی رحمدلی پر دلالت کرتے ہیں.اگر اس کے متعلق بعض ایسی روایات آجائیں کہ وہ ظالم تھا تو ہمیں ماننا پڑیگا کہ اسے ظالم بتانے والی روایات غلط ہیں کیونکہ رحم دلی اور ظلم جمع نہیں ہو سکتے.پس سائیکالوجی سے شواہد کو چیک کر لیا جائے تو تاریخ بھی علم بن جاتا ہے.سائیکالوجی کی مدد سے ہم دو سال بعد بھی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کونسا واقعہ درست ہے اور کونسا غلط میں اس کی مثال دیتا ہوں اور یہ مثال اَلفَضْلُ مَاشَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ کی

Page 507

انوار العلوم جلد 24 472 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب مصداق ہے.بائیبل میں لکھا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ کی تجلی دیکھنے طور پر گئے تو ان کے پیچھے ہارون علیہ السلام مشرکوں سے مل گئے اور بچھڑے کی پوجا شروع کر دی لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ ہارون علیہ السلام نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب بنی اسرائیل نے بچھڑے کی پوجا شروع کر دی تو آپ نے انہیں روکا اب دیکھو قرآن کریم 1900 سال بعد آیا ہے اور بائیبل خود اس کے ماننے والوں کے نزدیک حضرت موسیٰ علیہ السلام کے وقت میں لکھی گئی تھی.اب ایک روایت بائیبل میں موجود ہے اور ایک روایت قرآن کریم نے بیان کی ہے جو 1900 سال بعد میں آیا ہاں اس کا یہ دعویٰ تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے.اب اگر دیکھا جائے کہ ان روایات میں سے کونسی روایت درست ہے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایک صاحب الہام کو یہ شبہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہے بھی یا نہیں.مثلاً میں ایک شخص کے متعلق یہ جانتا ہوں کہ وہ یہاں بیٹھا ہے اب اسکے متعلق میں یہ بھلا کیوں کہوں گا کہ وہ چنیوٹ میں ہے.حضرت ہارون علیہ السلام تو ظلم میں اللہ تھے اگر ان کے متعلق ہمارا یہ دعویٰ درست ہے تو آپ بچھڑے کی پوجا کس طرح کر سکتے تھے.پس علم النفس ہمیں بتاتا ہے کہ ان پر بچھڑے کی پوجا کا الزام لگانا درست نہیں پھر مذہبی کتابوں اور تاریخ سے آپ کی جس قسم کی ذہانت کا پتہ لگتا ہے اس ذہانت والا شخص بھی یہ غلطی نہیں کر سکتا کہ وہ خدا تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی پوجاشروع کر دے.اس لئے عقلاً بھی قرآن کریم کی روایت ٹھیک ہے اور بائیبل کی روایت غلط ہے یہ چیز ایسی ہے کہ اسے جس سمجھدار انسان کے سامنے بھی ہم پیش کریں اسے قرآن کریم کی فضیلت ماننی پڑتی ہے.یہ تو ہمارا بیان ہے لیکن انسائیکلو پیڈیا میں بھی لکھا ہے کہ قرآن کریم کہتا ہے ہارون علیہ السلام نے شرک نہیں کیا بلکہ آپ نے بنی اسرائیل کو بچھڑے کی پوجا سے روکا اور اس روایت کو عقل سلیم بھی تسلیم کرتی ہے اسکے مقابلہ میں بائیبل کی روایت غلط ہے.غرض خود یورپین محققین نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ بائیبل کے مقابلہ میں قرآن کریم کی روایت زیادہ درست ہے پس جب تاریخ کے ساتھ علم النفس مل جاتا ہے تو وہ اسے قطعی اور یقینی بنا دیتا ہے.غلطیاں ہر علم والے سے

Page 508

انوار العلوم جلد 24 473 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار ہوتی ہیں حساب میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں.ڈاکٹری میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں انجینئرنگ میں بھی غلطیاں ہوتی ہیں.اسی طرح دوسرے علوم میں بھی غلطیوں کا امکان ہوتا ہے لیکن علم انہیں اس لئے کہا جاتا ہے کہ ان میں امکانِ صحت موجود ہوتا ہے تاریخ میں بھی امکانِ صحت موجود ہے اسلئے وہ علم ہے غرض اگر سائیکالوجی کے ذریعہ واقعات کو جانچا جائے تو تاریخ چاہے کتنی پرانی ہو ہم اسے پر کھ لیں گے.یہ کالج جن علوم کے لئے بنایا گیا ہے.ان کا سیکھنا تعلیم الاسلام میں شامل ہے تعلیم الاسلام کے متعلق غلط طور پر کہا جاتا ہے کہ اس کے معنے صرف نماز روزہ کے ہیں.قرآن کریم سب علوم سے بھرا پڑا ہے.خدا تعالیٰ نے شریعت اور قانون قدرت دونوں کو بنایا ہے.پھر یہ عجیب بات ہے کہ ہم ان میں سے ایک کو مانتے ہیں اور ایک کو نہیں مانتے قانون قدرت بھی مذہب ہے اور خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا ہے اور اسکے نتائج بھی یقینی ہیں قانون قدرت خدا تعالیٰ کا فعل ہے اور شریعت اس کا قول ہے اگر ہم خدا تعالیٰ کے قول سے استدلال کرتے ہیں تو اس کے فعل سے کیوں استدلال نہ کریں.خدا تعالیٰ کے قول کو لے لینا اور اس کے فعل کو ترک کر دینا ایک بے ڈھنگے اور بے اصولے آدمی کا کام ہے خدا تعالیٰ مومنوں کو نصیحت کرتا ہے کہ لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ 23 تم وہ کچھ کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں.گویا اس نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ ہم جو کہتے ہیں وہ کریں بھی پھر خدا تعالیٰ یہ کس طرح کر سکتا ہے کہ وہ کہے کچھ اور کرے کچھ.ہمارا خدا تعالیٰ کے متعلق اس قسم کا اعتقاد رکھنا درست نہیں ہو سکتا.اس نے دین کو بھی بنایا ہے اور زمین و آسمان کو بھی پیدا کیا ہے فرق صرف یہ ہے کہ ایک اس کا قول ہے اور دوسرا اس کا فعل اور یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی مؤید ہیں اور جب خدا تعالیٰ کا قول اور فعل ایک دوسرے کے مؤید ہیں تو دنیا میں جتنے مضامین پائے جاتے ہیں وہ قرآن کریم کے شاہد ہیں.جس طرح ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ نماز روزہ کے احکام پر عمل کریں.اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ حسب استطاعت دنیوی علوم بھی سیکھیں.آگے جس طرح کوئی زیادہ عبادت کرتا ہے اور کوئی کم عبادت کرتا ہے.اسی طرح کوئی زیادہ علوم سیکھ سکتا ہے اور کوئی کم علوم سیکھ سکتا ہے.

Page 509

انوار العلوم جلد 24 474 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار ہمارے ہاں کوئی علاج معالجہ کا کام کرے تو اسے حکیم کہا جاتا ہے.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے بعض نسخے معلوم کر لئے ہیں اور چونکہ اس کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں ہوتی.اس لئے وہ ان نسخوں کے ذریعہ روزی کما لیتا ہے حالانکہ حکیم کا لفظ یونانیوں نے ایجاد کیا تھا اور وہ اس شخص کے متعلق حکیم کا لفظ استعمال کرتے تھے.جو سارے علوم جانتا ہو اسے علم ہیئت بھی آتا ہو حساب بھی آتا ہو.علم کیمیا بھی آتا ہو علم سیمیا بھی آتا ہو جغرافیہ میں بھی اسے دسترس حاصل ہو.اسی طرح وہ فلسفہ منطق اور علم علاج میں بھی واقفیت رکھتا ہو.اسے موسیقی بھی آتی ہو کیونکہ موسیقی بھی ایک قسم کا علم ہے.ان سب علوم کے جاننے کے بعد کوئی شخص حکیم کہلاتا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الاول ایک ماہر طبیب تھے اور طبابت کے علاوہ آپ کو کئی اور علوم میں بھی دسترس حاصل تھی.جب لوگ آپکو حکیم کہتے تھے تو آپ فرماتے تھے.میں تو طبیب ہوں حکیم نہیں ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مجھے بعض اور علوم بھی آتے ہیں لیکن میں نے علم موسیقی نہیں سیکھا اس لئے میں بھی حکیم نہیں کہلا سکتا کیونکہ حکیم اس شخص کو کہتے ہیں جو سب علوم جانتا ہو.اب بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہیں.جن کی طائرانہ نظر ہر علم پر پڑ جاتی ہے.مثلاً برنارڈ شا کو ہر علم میں تھوڑی بہت دسترس حاصل تھی اور وہ ہر علم کو استعمال کرنا جانتا تھا.پس علوم کا سیکھنا اسلام کا ہی ایک حصہ ہے.آگے تم زیادہ علوم سیکھ لو یا کم.یہ تمہارا کام ہے پس تعلیم الاسلام کالج کے یہ معنے نہیں کہ یہاں صرف قرآن کریم اور حدیث کی تعلیم دی جاتی ہے یہ واقعات کے خلاف ہے یہاں دنیوی علوم بھی سکھائے جاتے ہیں.جب تم یہ سمجھ کر حساب سیکھتے ہو کہ قرآن کریم نے کہا ہے.حساب سیکھو تو یہ اسلام کا ہی ایک حصہ بن جاتا ہے.خدا تعالیٰ خود فرماتا ہے کہ میں قیامت کے روز ہر ایک سے حساب لوں گا اگر وہ حساب دان ہے تو ہم حساب کیوں نہ سیکھیں اگر جغرافیہ کا جاننا خدا تعالیٰ کے لئے کوئی عیب نہیں.تو یہ ہمارے لئے بھی عیب نہیں.اگر جغرافیہ اور حساب جاننے کے باوجود خدا تعالیٰ کی ذات پر کسی قسم کا اعتراض نہیں ہو سکتا تو ہمارا حساب اور جغرافیہ سیکھنا بھی ہمیں دین کے دائرہ سے خارج نہیں کرتا.بد قسمتی سے مسلمانوں نے گزشتہ زمانہ میں

Page 510

انوار العلوم جلد 24 475 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار یہ خیال کر لیا تھا کہ ان کا علوم کا پڑھنا جرم ہے چند دن ہوئے بنگال سے ایک وفد یہاں آیا اس کے بعض ممبروں نے بتایا کہ ابتداء میں مولویوں نے ہی کہا تھا کہ انگریزی پڑھنا جرم ہے.چنانچہ مسلمانوں نے اس زبان کا بائیکاٹ کر دیا اور ہندوؤں اور دوسری اقوام نے اس زبان کو سیکھا اس طرح ہندو مسلمانوں سے آگے ہیں گویا اسلام کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے.ان کا موجب ہمارے مولوی ہی ہیں اگر مولوی لوگ انگریزی زبان کی تعلیم کے خلاف فتویٰ نہ دیتے تو مسلمان بھی ابتداء میں ہی اس کی طرف متوجہ ہو جاتے او ر وہ بہت زیادہ ترقی کر جاتے لیکن انہوں نے اس قدر سختی کی کہ کیمیا سیمیا.جغرافیہ اور دوسرے تمام علوم انہوں نے ممنوع قرار دے دیئے.ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خدا تعالیٰ سے ملے اور آپ نے سوال کیا کہ اے خدا اگر آپ دنیا میں ہوتے تو کیا کرتے اور کونسی چیز خوراک کے طور پر استعمال کرتے.خدا تعالیٰ نے جواب دیا.میں خدا ہوں میں نے کیا کھانا تھا.مجھے خوراک کی احتیاج نہیں پھر مجھے انسان کی طرح دنیوی کام کر نیکی بھی ضرورت نہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دوبارہ سوال کیا کہ پھر بھی بتائیے کہ اگر آپ دنیا میں ہوتے تو کیا کام کرتے اور کیا چیز بطور خوراک استعمال کرتے.اس پر خدا تعالیٰ نے کہا اگر میں دنیا میں ہوتا تو دودھ چاول کھاتا اور ردی کاغذ چنتا.گویا ہمارے مولویوں کے نزدیک دنیوی علوم کا سیکھنا تو جرم ہے.اور چوہڑوں کا کام کرنا یعنی زمین پر پڑے ہوئے ردی کاغذ چننا ایسا کام ہے کہ اگر خدا تعالیٰ دنیا میں آتا تو نَعُوذُ بِاللہ وہ بھی یہی کام کرتا.یاد رکھو دنیوی علوم کا سیکھنا جرم نہیں بلکہ ان کا سیکھنا بہت ضروری ہے.قرآن کریم ان سب علوم کی تائید کرتا ہے.خدا تعالیٰ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ 4 کہہ کر تاریخ اور جغرافیہ کی طرف توجہ دلاتا ہے.اسی طرح کہتا ہے تم اسراف سے کام نہ لو بلکہ اقتصاد کو ملحوظ رکھو.یہ کام بغیر حساب کے کس طرح ہو سکتا ہے پھر قرآن کریم کہتا ہے کہ تم ستاروں سورج اور چاند کی گردش کی طرف دیکھو اور یہ کام علم ہیئت کے بغیر نہیں ہو سکتا.پھر قرآن کریم نے سائیکالوجی کو بار بار پیش کیا ہے کہتا ہے اَفَلَا تَعْقِلُونَ 5 اسی طرح نطق

Page 511

انوار العلوم جلد 24 476 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار کو بیان کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے مشرکین کہتے ہیں کہ ہم وہی کریں گے جو ہمارے باپ دادا کرتے آئے ہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے اگر تمہارے باپ دادا بیوقوف بھی ہوں تو کیا پھر بھی تم وہی کچھ کرو گے جو وہ کرتے چلے آئے ہیں.اب دیکھو یہ نطق ہے اس میں بتایا گیا ہے کہ تمہارے باپ دادا اپنی بیوقوفی کی وجہ سے تباہ ہوئے تھے کیا تم بھی ان کے نقشِ قدم پر چل کر تباہ ہو گے.غرض قرآن کریم ہر قسم کے علوم کو حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے.جب بائی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے ہائی سکول کا قیام فرمایا تو اس کا نام تعلیم الاسلام ہائی سکول رکھا آپ کی نقل میں ہم نے بھی اس کالج کا نام تعلیم الاسلام کالج رکھا ہے.آپ نے جب سکول بنایا تو آپ کی غرض یہ تھی کہ اس میں صرف قرآن کریم اور حدیث ہی نہیں بلکہ دوسرے دنیوی علوم بھی پڑھائے جائیں گے اور اس طرح آپ دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ دوسرے علماء نے جو بعض دنیوی علوم کو غیر اسلامی کہا ہے غلط ہے.سب چیز میں خدا تعالیٰ نے بنائی ہیں اس لئے جو چیز بھی دنیا میں پائی جاتی ہے اس سے فائدہ اٹھانا ضروری ہے.پھر اپنی ذات میں کوئی علم بُرا نہیں.ہر علم سے لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں گو سارے علوم میں دسترس رکھنے والے زیادہ نہیں ہوتے مثلاً مجھے ہی اللہ تعالیٰ نے بہت سے علوم عطا فرمائے ہیں مگر پھر بھی میں حکیم نہیں کہلا سکتا کیونکہ حکیم اس کو کہا جاتا ہے جو ہر فن اور ہر علم میں دسترس رکھتا ہو اور مجھے بعض علوم نہیں آتے مثلاً علم موسیقی بھی ایک علم ہے مگر میں اس سے واقف نہیں ہوں.ایکد فعہ ایک لطیفہ ہوا.کسی نے موسیقی سیکھی تو میں نے کہا میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ جب کوئی شخص کسی خاص سر میں گاتا ہے اور اس میں وہ کوئی مضمون بیان کرتا ہے تو یہی چیز موسیقی کہلاتی ہے اگر آواز اور لہجہ اچھا ہوا تو وہ کانوں کو بھی اچھا لگتا ہے لیکن یہ جو تم صرف تاروں پر گاتے ہو اور اسے پکاراگ کہتے ہو یہ کیا ہے ؟ ایک شخص کہتا ہے ”گاڈ سیو دی کنگ (God save the king)خدا تعالی بادشاہ کو سلامت رکھے.اب اگر تاروں پر اس فقرہ کو دہرایا جائے تو گاڑ سے کوئی دوسر الفظ بھی مراد لیا جا سکتا ہے اب ہم اس آواز سے کوئی دوسر ا لفظ کیوں مراد نہ لیں.صرف یہ کیوں سمجھیں

Page 512

انوار العلوم جلد 24 دو 477 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار کہ گانے والا گاڈ سیودی کنگ“ کہہ رہا ہے میں تو اتنا سمجھتا ہوں کہ یہ ایک سُر ہے.آگے یہ مر جس لفظ سے بھی مل جائے مل جائے آپ نے چونکہ اس سر کو ”گاڈ سیو دی کنگ“ کے لئے بنایا ہے.اسلئے آپ سمجھتے ہیں کہ گانے والا یہی گا رہا ہے.وہ کہنے لگے.آپ نہیں سمجھتے میں آپ کو سمجھاتا ہوں چنانچہ انہوں نے علم موسیقی کے متعلق آدھ گھنٹہ یا پون گھنٹہ گفتگو کی اور مجھے اس کے متعلق بعض باتیں سمجھانے کی کوشش کی اور پھر فخریہ طور پر کہا اب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے.میں نے کہا میں نے علم موسیقی کے متعلق پہلے جو کچھ سمجھا تھا.اب معلوم ہوا ہے کہ وہ بھی غلط ہے لیکن اب آپ نے جو کچھ بتایا ہے وہ بھی میں نہیں سمجھا کچھ عرصہ کے بعد میں لاہور گیا وہاں ایک معزز غیر احمدی دوست مجھے ملنے آئے مجلس میں موسیقی کا ذکر ہو رہا تھا.وہاں میں نے یہ لطیفہ سنایا.انہیں پینٹنگ (PAINTING) کا شوق تھا میں نے کہا آپ بتائیں یہ کیا علم ہے اگر ہم کوئی پہاڑی بنالیں یا کوئی گدھا یا گھوڑا بنا لیں تو یہ تصویر ہمیں اچھی لگے گی لیکن مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ ایک غیر انسانی چیز ہے اور اس کے سامنے ہزاروں تاریں ہیں.گویا وہ اس کی ٹانگیں ہیں.اب کیا دنیا میں کوئی اس قسم کی مخلوق ہے.جس کی ہزاروں ٹانگیں ہوں.انہوں نے کہا آپ نے پینٹنگ کو نہیں سمجھا یہ بھی ایک علم ہے.میں آپ کو سمجھاتا ہوں.میں نے کہا پہلے میری بات سن لیں اس کے بعد آپ جو چاہیں کہیں میں تو سمجھتا ہوں کہ جو جذبات انسانی فوٹو میں نہیں لائے جاسکتے ایک پینٹر اپنی تصویر میں انہیں بآسانی لا سکتا ہے پینٹنگ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ چاہے کوئی شخص ہنس رہا ہو وہ اسے تصویر میں روتا ہوا دکھا سکتا ہے یا چاہے کوئی کتنا شریف ہو وہ اسے تصویر میں بد معاش اور غنڈا دکھا سکتا ہے اس لئے اسلام نے ان تصویروں کی ممانعت کی ہے کیونکہ ان کے ذریعہ اچھے سے اچھے آدمی کو بُرا دکھایا جاسکتا ہے فوٹو میں یہ بات نہیں اگر کوئی آدمی ہنس رہا ہو تو فوٹو اسے ہنستا ہوا ہی دکھائے گا.اب یہ کہ اس میں کوئی فلسفہ ہوتا ہے یا بعض بار یک باتیں ہوتی ہیں جو ایک عام آدمی نہیں سمجھ سکتا.یہ غلط ہے.انہوں نے کہا بات آپ کی سمجھ میں نہیں آئی.میں آپ کو سمجھاتا ہوں.چنانچہ وہ سمجھاتے رہے اور آخر میں میں نے انہیں وہی جواب دیا

Page 513

انوار العلوم جلد 24 478 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار جو پہلے دوست کو موسیقی کے بارہ میں دیا تھا کہ نصف گھنٹہ یا پون گھنٹہ تک آپ سمجھاتے رہے لیکن میں جو کچھ سمجھا ہوں وہ یہ ہے کہ اس علم کے متعلق جو کچھ میں اب تک سمجھتا رہا ہوں وہ غلط ہے اور آپ نے جو کچھ سمجھانا چاہا ہے وہ میں نہیں سمجھا.اب دیکھو دو علم گئے جو مجھے نہیں آتے.پھر میں کہاں حکیم کہلا سکتا ہوں.نہ میں علم موسیقی جانتا ہوں اور نہ میں PAINTING جانتا ہوں.ورنہ مجھے ہر علم کا شوق ہے.ہاتھ دیکھنا، کمپیریٹو ریلیجن (COMPARATIVE RELIGION)، طب، جغرافیه، تاریخ حساب اور باقی اکثر علوم کے متعلق میں نے کتابیں پڑھی ہیں اور میں ان کے متعلق خاصی واقفیت رکھتا ہوں لیکن یہ علوم میں نے کالج میں نہیں پڑھے.پرائیویٹ طور پر ان کا مطالعہ کیا ہے.ایک چھوٹا سا نکتہ تھا جس نے مجھے اس کا شوق دلایا.میں ایک دفعہ دہلی جا رہا تھا.کہ سفر پر جانے سے پہلے حضرت خلیفہ اول نے مجھے کہا میاں تم نے کبھی کنچنی کا ناچ بھی دیکھا ہے مجھے بہت شرم آئی کہ آپ نے یہ کیا سوال کیا ہے اور میں کوئی جواب نہ دے سکا.آپ نے فرمایا میاں تم دین سیکھ رہے ہو اگر تمہیں کنچنی کے ناچ کا ہی علم نہیں تو تم اس کے متعلق کیا رائے قائم کر سکتے ہو تم اسے فن کے طور پر دیکھو اس چیز نے مجھے احساس دلایا کہ علم کے طور پر کوئی چیز بھی بُری نہیں.ہاں اگر وہی چیز تعیش کے طور پر کی جائے تو وہ علم نہیں بلکہ جہالت ہے مثلاً چوری بھی ایک علم ہے اگر یہ علم نہ سیکھا جائے تو جاسوس کیسے بنیں اس کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں لکھا ہے کہ چور کی ایک عادت ہوتی ہے اور وہ اسے بار بار دہراتا ہے مثلاً ایک چور کو کھڑ کی سے کودنے کی عادت ہے.دوسرے کو سیندھ لگانے کی عادت ہے جاسوسوں نے ان پر نشان لگایا ہوا ہوتا ہے جب بھی کوئی چوری ہوتی ہے.جاسوس اس نشان کا تبتع کرتے ہیں مثلاً کسی گھر میں چوری ہوتی ہے اور چور کھڑکی سے کو دا ہے تو انہیں معلوم ہو گا کہ کتنے چور ایسے ہیں جنہیں کھڑکی سے کودنے کی عادت ہے ان کے متعلق وہ یہ معلوم کریں گے کہ ان میں سے کونسا شخص فلاں تاریخ کو گھر سے غیر حاضر تھا.جو شخص گھر سے غیر حاضر ہو گا.وہ اسے پکڑ لیں گے غرض یہ بھی ایک علم ہے اور یہ اپنی ذات میں برا نہیں اس سے بہت

Page 514

انوار العلوم جلد 24 479 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے پس جو علم قانون قدرت کے مطابق ہیں وہ دین کا ایک حصہ ہیں.ان کے ساتھ خود بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے.تمہیں جو تعلیم الاسلام کالج میں داخل کیا گیا ہے تو اس مقصد کے ماتحت داخل کیا گیا ہے کہ تم دین کے ساتھ ساتھ دنیوی علوم بھی سیکھو میں جانتا ہوں کہ تم میں سے 40،30 فیصدی غیر احمدی ہیں لیکن تم بھی اس نیت سے یہاں آئے ہو کہ دینی تعلیم حاصل کرو.بے شک کچھ تم میں سے ایسے بھی ہوں گے جو دوسرے کالجوں کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے.اس کالج کا خرچ تھوڑا ہے اس لئے وہ یہاں آگئے یا ان کا گھر ربوہ سے قریب ہے اس لئے وہ اس کالج میں داخل ہو گئے.یا ممکن ہے ان کے بعض رشتہ دار احمدی ہوں اور وہ یہاں آباد ہوں اور انہیں ان کی وجہ سے یہاں بعض سہولتیں حاصل ہوں.لیکن تم میں سے ایک تعداد ایسی بھی ہو گی جو یہ سمجھتی ہو گی کہ اس کالج میں داخل ہو کر ہم اسلام سیکھ سکیں.تم میں سے جو طالب علم اس نیت سے یہاں نہیں آئے کہ وہ اسلام کی تعلیم سیکھ لیں میں ان سے بھی کہتا ہوں کہ تم اب یہ نیت کر لو کہ تم نے اسلام کی تعلیم سیکھنی ہے اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ تم اسلام کی تعلیم سیکھو تو میرا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ تم احمدیت کی تعلیم سیکھو.ہمارے نزدیک تو اسلام اور احمدیت میں کوئی فرق نہیں.احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے.لیکن اگر تمہیں ان دونوں میں کچھ فرق نظر آتا ہے تو تم وہی سیکھو جسے تم اسلام سمجھتے ہو.اگر انسان کر تا اور ہے اور کہتا اور ہے تو وہ غلطی کرتا ہے.دیوبندی بریلویوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے بریلوی دیو بندیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے.اور سُنی شیعوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے اور شیعہ سنیوں کے متعلق سمجھتے ہیں کہ ان کا اسلام اور ہے.اسی طرح آغاخانیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے.جماعت اسلامی کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے.احمدیوں کے متعلق خیال کیا جاتا ہے کہ ان کا اسلام اور ہے لیکن جب یہ سب فرقے اپنے آپ کو اسلام کا پیرو کہتے ہیں تو وہ اسلام کے متعلق کچھ نہ کچھ تو ایمان رکھتے ہوں گے.ورنہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کیوں کہتے.

Page 515

انوار العلوم جلد 24 480 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب بریلوی بھی مسلمان ہیں، دیوبندی بھی مسلمان ہیں، سنی بھی مسلمان ہیں، شیعہ بھی مسلمان ہیں، جماعت اسلامی والے بھی مسلمان ہیں، احمدی بھی مسلمان ہیں تم ان میں سے کسی فرقے کے ساتھ تعلق رکھو ہمیں کوئی اعتراض نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو کچھ تم مانتے ہو اس پر عمل کرو.قرآن کریم میں بار بار یہ کہا گیا ہے کہ اے عیسائیو! تم میں اُس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم عیسائیت پر عمل نہ کرو اور یہودیوں سے کہا گیا ہے کہ اے یہو دیو ! تم میں اُس وقت تک کوئی خوبی نہیں جب تک تم یہودیت پر عمل نہ کرو.اب دیکھ لو قرآن کریم ان سے یہ نہیں کہتا کہ تم اسلام پر عمل کرو بلکہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنے مذہب پر عمل کرو کیونکہ نیکی کا پہلا قدم یہی ہوتا ہے کہ انسان اپنے مذہب پر عمل کرے.پھر دیکھو اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ جائز رکھا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ہر مذہب نے کچھ اصول مقرر کئے ہیں اور اس کے ماننے والے ان اصول کی پیروی کرتے ہیں تم سمجھتے ہو کہ یہودی سور نہیں کھاتے اس لئے تم تسلی سے ان کا ذبیحہ کھالو گے.اسی طرح عیسائیوں سے تم کوئی معاملہ کرتے ہوئے نہیں گھبر اؤ گے کیونکہ ان کی مذہبی کتاب میں لکھا ہے کہ تم جھوٹ نہ بولو اور کسی سے فریب نہ کرو.انفرادی طور پر اگر کوئی شخص تم سے فریب کرے تو کرے لیکن اپنے مارل کو ڈ(MORAL CODE) کے ماتحت وہ تم سے فریب نہیں کرے گا.اہل کتاب کی لڑکیوں سے جو شادی کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی اسی حکمت کے ماتحت ہے کہ وہ تمہاری زوجیت میں آجانے کے بعد اپنے مارل کوڈ کے ماتحت چلیں گی.مثلاً یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم کے ماتحت کوئی عورت اپنے خاوند کو زہر نہیں دے گی.اس لئے تم اطمینان سے اپنی زندگی بسر کر سکو گے اور ایک دوسرے پر اعتماد کر سکو گے.گویا شریعت نے مذہب کو بہت عظمت دی ہے اور بتایا ہے کہ اپنے مخصوص عقیدہ پر چلنے میں بڑی سیفٹی ہے پس کم از کم اتنا تو کرو کہ اپنے عقائد کے مطابق عمل کرو.اگر کوئی پروفیسر تمہیں کسی احمدی امام کے پیچھے نماز پڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے تو تم اس کا مقابلہ کرو اور میرے پاس بھی شکایت کرو.میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا.لیکن اگر وہ

Page 516

انوار العلوم جلد 24 481 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب تمہیں کہتا ہے تم نماز پڑھو تو یہ تمہارے مارل کوڈ کے خلاف نہیں اور اس کا نماز پڑھنے کی تلقین کرنا ریلیجس انٹرفیرنس (Religious interference) نہیں.تم نماز پڑھو چاہے کسی طرح پڑھو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.تم اپنے میں سے کسی کو امام بنالو.کالج کے بعض پروفیسر غیر احمدی ہیں تم ان میں سے کسی کو امام بنالو لیکن نماز ضرور پڑھو.شیعہ اور بوہرہ لوگ نماز پڑھتے ہوئے ہاتھ چھوڑتے ہیں باندھتے نہیں.ہم اہل حدیث کی طرح سینہ پر ہاتھ باندھتے ہیں.حنفی لوگ ناف کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں اس کے خلاف اگر کوئی پروفیسر تمہیں مجبور کرتا ہے تو تم اس کی بات ماننے سے انکار کر دو.اگر وہ کہتا ہے کہ تم آمین بالجہر کہو تو یہ اہلحدیث کا مذہب ہے حنفیوں کا نہیں.اگر تم حنفی ہو تو تم اس کی بات نہ مانو اور میرے پاس شکایت کرو میں اس کے خلاف ایکشن لوں گا.مذہب میں دخل اندازی کا کسی کو حق نہیں.قرآن کریم کہتا ہے کہ مذہب میں مداخلت کرنا انسان کو منافق بناتا ہے مسلمان نہیں بناتا.لیکن تم میں سے ہر ایک کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ تعلیم الاسلام کالج کا طالب علم ہونے کی وجہ سے اسلام کی تعلیم پر چلے.اب اسلام کی تم کوئی تعریف کرو اسلام کی جو تعریف ہمارے باپ دادوں نے کی ہے تم اُسی کو مانو لیکن اگر تم اس تعلیم پر جسے تم خود درست سمجھتے ہو عمل نہیں کرتے تو یہ منافقت ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کالج میں اگر کوئی ہندو بھی داخل ہونا چاہے تو ہمارے کالج کے دروازے اس کے لئے کھلے ہیں لیکن وہ بھی اس بات کا پابند ہو گا کہ اپنے مذہب کے مطابق زندگی بسر کرے کیونکہ اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے.مسلمان اپنے مذہب کے مطابق عمل کرے، ہندو اپنے مذہب پر عمل کرے، عیسائی عیسائیت پر عمل کرے اور یہودی یہودیت پر عمل کرے.پس اس اسلامی حکم کی وجہ سے ہم اسے مجبور کریں گے کہ وہ اپنے مذہب پر عمل کرے.لیکن یہ کہ تم ایس کالج میں تعلیم حاصل کرو لیکن کسی مارل کوڈ کے ماتحت نہ چلو تو یہ درست نہیں ہو گا.تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی نہ کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہو گا اور پھر تمہارا فرض ہو گا کہ تم اس کے ماتحت چلو.

Page 517

انوار العلوم جلد 24 482 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار پس اگر تم میں سے کوئی کہتا ہے کہ میں مسلمان نہیں.تب بھی ہم تمہیں برداشت کر لیں گے لیکن اس شرط پر کہ تمہیں اس کالج میں داخل ہونے کے بعد اپنے آپ کو کسی مارل کوڈ کی طرف منسوب کرنا ہو گا.چاہے تم اسے تجربہ کے طور پر تسلیم کرو مثلاً تم تجربہ کے طور پر اپنے ماں باپ کے مذہب کو اختیار کر لو تب بھی ہم برداشت کر لیں گے لیکن اگر تم کسی مارل کوڈ کے ماتحت مستقل طور پر نہیں چلتے اور نہ کسی مارل کوڈ کو تجربہ کے طور پر اختیار کرتے ہو تو دیانتداری یہی ہے کہ تم اس کالج میں داخلہ نہ لو.اسلام کہتا ہے کہ تم جس مذہب کی تعلیم پر بھی عمل کرنا چاہو عمل کرو.ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.اگر کوئی ہندو اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے ، عیسائی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے، یہودی اپنی تعلیم پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.اگر کوئی حنفی المذہب ہے اور وہ حنفی مذہب پر عمل کرتا ہے تو وہ اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.اگر کوئی شیعہ ہے اور اپنے مذہب پر عمل کرتا ہے تو اس کالج میں داخلہ لینے کا مستحق ہے.کیونکہ یہ کالج تعلیم الاحمدیہ کالج نہیں تعلیم الاسلام کالج ہے اور اسلام ایک وسیع لفظ ہے کوئی کوڈ آف ماریٹی (CODE OF MORALITY) جس کو علمائے اسلام نے کسی وقت تسلیم کیا ہو یا اب اسے تسلیم کر لیں وہ اسلام میں شامل ہے.پس میں طلباء کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ تم کالج کی روایات کو قائم رکھو.یہ تعلیم الاسلام کالج ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ کالج تمہیں عملی مسلمان بنادے گا اور یہی اس کالج کے قائم کرنے کی غرض ہے.پھر ہر کالج کی کچھ نہ کچھ روایات ہوتی ہیں.مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی ہے اس نے آکسفورڈ میں تعلیم پانے والے تمام طلباء کے لئے ایک خاص قسم کا نشان مقرر کیا ہوا ہے.اب جو شخص اس نشان کو دیکھے گاوہ فوراً سمجھ جائے گا کہ اس نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی ہے.ہمارے ملک میں علیگڑھ کالج نے اس قسم کی روایات قائم کی تھیں.وہاں سے فارغ ہو نیوالے طلباء اپنے نام کے آگے ”علیگ “لکھ لیتے تھے اور جو شخص یہ لفظ پڑھتا اگر وہ بھی علیگڑھ میں ہی پڑھا ہوا ہوتا تو اس سے تعلقات قائم کرنے کی کوشش کرتا.اس قسم کی روایات اس کالج کے ساتھ بھی وابستہ

Page 518

انوار العلوم جلد 24 483 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب دو ہونی چاہیں چونکہ اس کالج کا نام ” تعلیم الاسلام “ کالج ہے اور تم میں سے ہر ایک اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے یہاں آیا ہے اسلئے تمہارا فرض ہے کہ تم یہاں رہ کر اسلام سیکھو آگے میں نے بتایا ہے کہ یہاں فرقہ بندی کی کوئی بات نہیں تم کسی فرقہ کے مخصوص عقائد پر عمل کرو اور دوسرے لوگوں کو بتاؤ کہ کالج والے ہمیں جرآت دلاتے ہیں کہ ہم اپنے اپنے فرقہ کے عقائد پر عمل کریں.اگر ہم حنفیت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس سے روکتے نہیں، اگر ہم شیعیت پر عمل کرتے ہیں تو وہ اس میں مخل نہیں ہوتے ، اگر ہم دیوبندی یا بریلوی ہیں تب بھی وہ ہمارے مذہبی عقائد میں دخل اندازی نہیں کرتے ، اس سے ملک کے لوگوں میں عمل کی سپرٹ پیدا ہو گی اور پاکستان سے سستی کی لعنت دور ہوگی.شیخو پورہ میں ایک عیسائی پادری تھا وہ اپنی مدت ملازمت پوری کر کے واپس جارہا تھا کہ ہمارے مبلغ اپنے سوشل تعلقات کی وجہ سے ان کے گھر گئے اس سے وہ بھی ممنون ہو گیا اور جب ہمارے مبلغ واپس آنے لگے تو وہ بھی انہیں چھوڑنے آیا.ہمارے مبلغ نے اُس سے سوال کیا کہ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ کسی دن پاکستان کی عظمت اور اس کا رعب بھی دنیا پر قائم ہو جائے گا؟ عیسائی پادری نے کہا جب تک اس ملک میں حقہ کا رواج ہے اور جب تک اس ملک میں سستی اور کاہلی پائی جاتی ہے پاکستان رُعب اور عظمت حاصل نہیں کر سکتا.اس کا مقصد یہ تھا کہ ویسٹ آف ٹائم اور ویسٹ آف انرجی دونوں انسان کو ترقی کی طرف قدم بڑھانے نہیں دیتیں.دیکھ لو یورپین لوگوں میں بیداری پائی جاتی ہے لیکن ان کے مقابلہ میں ہمارے ہاں ایک جمود پایا جاتا ہے گویا ہم افیونی ہیں.افیونی دو قسم کے ہوتے ہیں ایک طبعی افیونی ہوتے ہیں.اور دوسرے نفسیاتی افیونی ہوتے ہیں ہم نفسیاتی افیونی ہیں.میں جب انگلستان گیا میرے ساتھ سلسلہ کے ایک عالم بھی تھے ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا حضور ! کیا آپ نے یہاں کوئی آدمی چلتے بھی دیکھا ہے ؟ میں ان کا مطلب سمجھ گیا میں نے کہا نہیں میں نے یہاں ہر شخص کو دوڑتے دیکھا ہے اور یوں معلوم

Page 519

انوار العلوم جلد 24 484 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار ہوتا ہے کہ گویا کوئی آفت آرہی ہے.کئی لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یورپ والی مز دوری نہیں ملتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کا مزدور ہمارے مزدور سے پانچ گنا زیادہ کام کرتا ہے.اگر ہمارے ملک میں ایک مزدور ڈیڑھ روپیہ روزانہ کماتا ہے تو ایک یورپین مز دور دن میں ساڑھے سات روپیہ کا کام کر دیتا ہے.اب پاکستانی مزدور کے مقابلہ میں پانچ گنا زیادہ کام کرنے پر اگر اسے پانچ روپیہ روزانہ مزدوری دی جائے تو کیا حرج ہے وہاں ایک عمارت بن رہی تھی.ہمیں پہلی نظر میں یوں معلوم ہوا کہ گویا آگ لگی ہوئی ہے اور لوگ اسے بجھانے کے لئے جارہے ہیں لیکن ہمارا مز دور اس طرح چلتا ہے کہ گویا اسے دھکا دیکر موت کی طرف لے جایا جا رہا ہے جب وہ ٹوکری اٹھاتا ہے تو آہ بھرتا ہے پھر کمر پر ہاتھ رکھتا ہے پھر اینٹ پر پھونک مارنے لگتا ہے اس کے بعد وہ اسے اٹھا کر ٹوکری میں رکھتا ہے اور یہی عمل وہ دوسری اینٹوں پر کرتا ہے.آٹھ دس منٹ کے بعد وہ ٹوکری اٹھائے گا.پھر جب وہ ٹوکری اٹھاتا ہے تو اس کی عجیب حالت ہوتی ہے اس کے جسم میں میں خم پڑیں گے پھر جب وہ ٹوکری اٹھا کر قدم اٹھاتا ہے تو اس کی حالت دیکھنے والی ہوتی ہے اس طرح وہ ہیں پچیس منٹ میں معمار کے پاس پہنچتا ہے پھر معمار بھی اس قسم کی حرکات کرتا ہے کہ گویا کسی مریض کا آپریشن ہونے لگا ہے..پس جب تک تم لوگ قربانی محنت اور دیانتداری کی عادت نہیں ڈالتے ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پرانی عادات کا ترک کرنا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کوئی نئی عادت پیدا نہ ہونے دینا آسان ہوتا ہے مثلاً بڑی عمر میں جاکر سگریٹ وغیرہ کا استعمال ترک کرنا مشکل ہوتا ہے.لیکن اگر اس عمر میں ان باتوں کو چھوڑ دو تو زیادہ مشکل نہیں اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ قوم کی عمارت کو بنانا نوجوانوں کا کام ہوتا ہے.تم اس فقرہ کو روزانہ دہراتے ہو اور اپنی مجلسوں میں بیان کرتے ہو لیکن عملی طور پر اسے اپنی روز مرہ کی زندگی میں مد نظر نہیں رکھتے مثلاً سکولوں اور کالجوں کے لڑکے سٹرائیکہ کرتے ہیں اور اپنے جلسوں اور تقریروں میں یہ الفاظ دہراتے ہیں کہ ہم قوم کے معمار ہیں.قو میں ہمیشہ نوجوانوں سے بنا کرتی ہیں اور اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ لڑکے ہی قوم

Page 520

انوار العلوم جلد 24 485 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار کے معمار ہوتے ہیں.اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ اگر تم اپنی بری عادات چھوڑ دیتے ہو تو تم فی الواقع قوم کے معمار ہو لیکن اگر تم ایسی حرکات کرتے ہو جن سے قوم کو نقصان پہنچتا ہے تو تم قوم کے معمار کہلانے کے مستحق نہیں تم اپنی قوم کی سٹڈی کرو اگر تم دیکھتے ہو کہ ہمارے بڑوں میں سے بعض جھوٹ بولتے تھے تو تم جھوٹ نہ بولو اس طرح تم اپنی قوم سے جھوٹ جیسی لعنت کو دور کر سکو گے.میری ایک رشتہ کی ہمشیرہ احمدی نہیں ہیں.ویسے وہ احمدیت سے محبت کا اظہار کرتی ہیں.جب کبھی ان سے کہا جاتا ہے کہ تم احمدیت قبول کیوں نہیں کرتیں تو وہ یہی کہا کرتی ہیں کہ ہم تو پہلے ہی احمدی ہیں کون کہتا ہے کہ ہم غیر احمدی ہیں.ایک دفعہ اس قسم کی باتیں ہو رہی تھیں تو انہوں نے کہا فلاں مسجد میں ہم نے احمدیوں کے ساتھ نماز پڑھی تھی ان کا بچہ بھی پاس کھڑا تھا اس نے کہا اماں جانے بھی دو.احمدی تو فلاں جگہ نماز پڑھتے ہیں.اب ہمیں یہ مذاق ہاتھ آگیا ہے کہ جب کوئی ایسی بات ہو تو ہم اس لڑکے سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ بات درست ہے.اسی طرح مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر تھے جنہیں سر کا خطاب بھی ملا ہوا تھا.انہیں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گورنمنٹ نے باہر بھجوایا.ان کے ایک کالج فیلو احمدی تھے.انہوں نے اس احمدی دوست سے کہا کہ میں فلاں کا نفرنس میں شرکت کے لئے جا رہا ہوں.مجھے وائسرائے نے اختیار دیا ہے کہ میں جسے چاہوں اپنے ساتھ بطور سیکرٹری لے جاؤں میرا خیال ہے کہ تم میرے ساتھ سفر میں سیکرٹری کے طور پر رہو.چنانچہ انہوں نے اس احمدی دوست کو اپنا سیکرٹری بنالیا.چونکہ وہ مسلمانوں کے ایک بہت بڑے لیڈر تھے اس لئے لوگ ان کا لحاظ کرتے تھے اور وہ اس سے فائدہ اٹھاتے تھے.ایک دفعہ ایک جگہ مختلف جگہوں کے انگریز بیٹھے اپنے تجربات سنارہے تھے تو انہوں نے ان سے کہا آپ بھی اپنا کوئی تجربہ سنائیں.اس پر انہوں نے بھی اپنا ایک تجربہ سنایا.ان کے سیکرٹری نے بتایا کہ بد قسمتی سے اس موقع پر میں بھی ساتھ تھا اور میں جانتا تھا کہ واقعہ اس طرح نہیں جس طرح یہ اب بیان کر رہے ہیں.میں نے سمجھا کہ انہیں غلطی لگی ہے اس لئے جب وہ واقعہ بیان کر چکے تو میں نے کہا جناب ! یہ واقعہ اس

Page 521

انوار العلوم جلد 24 486 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطاب طرح نہیں ہوا جس طرح آپ نے بیان کیا ہے بلکہ یہ واقعہ اس طرح ہوا ہے اس موقع پر میں بھی آپ کے ساتھ تھا.اس پر وہ خاموش ہو گئے.اس کے بعد ایک دن دوبارہ انہوں نے ایک مجلس میں ایک واقعہ سنایا اس موقع پر بھی میں نے کہا آپ کو اس واقعہ کے بیان کرنے میں غلطی لگی ہے.میں بھی آپ کے ساتھ تھا واقعہ اس طرح نہیں ہے جس طرح آپ نے بیان کیا ہے.انہوں نے کہا تمہاری بات ٹھیک ہے لیکن ایسا کہنے میں وہ کچھ انقباض محسوس کر رہے تھے.کھانا کھانے کے بعد جب وہ کمرہ سے باہر نکلے تو انہوں نے میری گردن ہاتھ مار کر کہا کہ کیا جھوٹ بولنا تیرا اور تیرے باپ کا ہی حق ہے میرا حق نہیں ؟ تو اب دیکھو اگر چہ وہ ایک بڑے آدمی تھے لیکن انہیں جھوٹ بولنے کی عادت پڑی ہوئی تھی.دو دفعہ انہیں ٹوکا گیا تو انہوں نے برداشت کر لیا لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ جب میں مجلس کو گرمانے کے لئے مبالغہ آمیز بات کرتا ہوں تو تمہیں کیا حق ہے کہ مجھے ٹو کو.لیکن تم اگر چاہو تو اس قسم کی عادتوں کو ترک کر سکتے ہو اور اس طرح ہماری قوم ترقی کر سکتی ہے.تم دیکھتے ہو کہ ہمارے ملک میں بے اطمینانی پائی جاتی ہے اور اس بے اطمینانی کی یہی وجہ ہے کہ لوگوں کے قول اور فعل میں فرق ہے.مجھے یاد ہے جب میں یورپ گیا تو رستہ میں کچھ روز ہم دمشق میں بھی ٹھہرے.ہمارے خلاف کسی نے ایک اشتہار شائع کیا اس کے جواب میں ہم نے بھی ایک اشتہار شائع کیا.پولیس نے ہمیں اطلاع دی کہ آپ کا وہ اشتہار ضبط کر لیا گیا ہے.اُن دنوں وہاں دو گور نر ہوا کرتے تھے.ایک فرانسیسی اور دوسرے شامی.دوسرے دن میں فرانسیسی گورنر سے ملنے گیا تو میں نے ان سے اشتہار کا ذکر کر دیا کہ وہ دوسرے لوگوں کے ایک اشتہار کے جواب میں تھا لیکن پولیس نے چھاپہ مار کر اسے ضبط کر لیا ہے.اس پر وہ کہنے لگا یہ بُری بات ہے لیکن دراصل اس بات کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں مجھے افسوس ہے کہ یہ حکم شامی گور نر کا ہے.آپ کل اپنے کسی آدمی کو بھجوائیں تو میں ان سے کہوں گا کہ وہ اس بارہ میں مناسب غور کریں.چنانچہ دوسرے دن میرا سیکر ٹری وہاں چلا گیا تو شامی گورنر نے کہا یہ دراصل دوسرے گورنر کی شرارت ہے میں اس کی تحقیقات کروں گا.جب میرے سیکر ٹری باہر آئے تو گورنر کی

Page 522

انوار العلوم جلد 24 487 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار لڑکی بھی باہر آئی اور وہ ہنس کر کہنے لگی میر اباپ جھوٹ بولتا ہے میں نے خود سنا ہے کہ وہ اس قسم کا آرڈر دے رہا تھا.غرض بے اطمینانی اس قسم کی باتوں سے پھیلتی ہے.انگریز کتنا ہی برا ہو لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قوم کا ایک مخصوص کیریکٹر تھا.ہماری ایک زمین تھی جو صدر انجمن احمدیہ نے خرید کی ہوئی تھی.وہ افتادہ زمین تھی کسی کام نہیں آتی تھی.وہاں لوگ کھیلتے اور میلے کر لیتے تھے.چونکہ وہ جگہ خالی تھی اس لئے مخالفوں نے شور مچایا کہ یہ پبلک کی جگہ ہے اور اس پر انہوں نے قبضہ کر لیا.ہم نے بھی اس زمین کو واپس لینے کی کوشش کی.کاغذات مسٹر ایمرسن کے پاس تھے وہ مالیات کے ماہر تھے انہیں ہمارے ایک دوست ملے تو انہوں نے کہا میں نے یہ کاغذات چھ ماہ سے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں.میں نے اپنا پورا زور لگایا ہے کہ میرا ہاتھ پڑے تو میں آپ سے یہ زمین چھین لوں لیکن چھ ماہ تک غور کرنے کے باوجود میرا کہیں ہاتھ نہیں پڑا.اس لئے میں نے زمین آپ کو واپس دے دی ہے.اگر ہمارے ملک کے افراد میں بھی یہی روح پیدا ہو جائے کہ وہ کسی کا حق چھینے کے لئے تیار نہ ہوں تو قلوب کی بے اطمینانی بڑی حد تک دور ہو سکتی ہے.اس کالج میں جو غیر احمدی طالب علم آئے ہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ اگر تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئے ہو تو صرف اسلام سیکھنے کے لئے.ورنہ اگر دنیوی ملازمتوں کو دیکھا جائے تو ہماری جماعت کے لئے کئی قسم کی مشکلات ہیں.گو یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ مختلف قسم کی مشکلات کے باوجو داحمدی گورنمنٹ سروسز میں عام طور پر منتخب ہو جاتے ہیں اور یہ صرف ہمارے تعلیمی اداروں کی اخلاقی برتری کی وجہ سے ہے.دوسری جگہوں میں لڑکے سینما دیکھتے ہیں.بعض شراب بھی پیتے ہیں اور اس طرح اپنے وقت کو لغویات میں ضائع کر دیتے ہیں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک انگریز پادری نے یہ کہا تھا کہ جب تک اس ملک سے حقہ کی عادت نہیں جائے گی یہ ملک دنیا کی نظروں میں عظمت حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح میں یہ کہوں گا کہ جب تک سینما دیکھنے اور ریڈیو کے گانے سننے کی عادت نہیں جائے گی ہمارے ملک کو ترقی

Page 523

انوار العلوم جلد 24 488 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار حاصل نہیں ہو گی.لیکن جو نوجوان ان عادتوں سے بچائے جائیں گے وہ ترقی حاصل کر لیں گے.یورپین لوگوں نے تعلیمی اداروں کے متعلق کئی قسم کے قواعد بنائے ہوئے ہیں اور انہوں نے طلباء پر بعض خاص پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں.لیکن ہمارا ملک ابھی اس بارہ میں بہت پیچھے ہے جس کی وجہ سے طلباء اخلاقی لحاظ سے بلند معیار حاصل نہیں کر سکتے.اس کے مقابلہ میں جو تعلیم تمہیں یہاں حاصل ہو گی وہ تمہیں ہر سوسائٹی اور ہر مجلس میں ایک امتیازی مقام عطاء کریگی ار تمہارا سکہ دوسروں کے دلوں پر بٹھا دیگی.لوگ کہتے ہیں کہ احمدی جماعت کے لوگ سفارشوں کی وجہ سے ملازمتوں میں داخل ہو جاتے ہیں ان کی یہ بات بالکل غلط ہے.احمدیوں کے ملازمتوں میں لئے جانے کی وجہ صرف ان کے اخلاق ہیں سفارشات نہیں.پس اگر تم اپنے استادوں سے تعاون کرو گے تو آئندہ زندگی میں تمہاری ترقی میں کوئی روک پیدا نہیں ہو گی.اور اگر ایک افسر متعصب ہونے کی وجہ سے کسی وقت تمہیں رد بھی کر دے گا تو دوسرا افسر تمہارے اخلاق دیکھ کر تمہیں جگہ دیدے گا.ایک دفعہ ایک پوسٹ کے لئے ایک احمدی دوست نے درخواست دی لیکن جب وہ کمیشن کے سامنے پیش ہوا تو اس کے بعض ممبران نے کہا چونکہ یہ احمدی ہے اسلئے ہم اسے یہ جگہ نہیں دے سکتے.کمیشن کا ایک انگریز بھی ممبر تھا اس نے کہا تم اس کو موقع تو دو اور دیکھو کہ یہ اپنی قابلیت کی وجہ سے اس جگہ کا مستحق ہے یا نہیں.اس کے کہنے پر انہوں نے اس احمدی کو موقع دے دیا اور بعد میں کمیشن کے غیر احمدی ممبروں نے بھی کہا کہ واقع میں یہی شخص اس پوسٹ کا حقدار تھا.پس اگر تم ایک جگہ تعصب کی وجہ سے رد کر دیئے جاؤ گے تو دوسری جگہ تمہارے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے تمہیں لے لیا جائے گا.تم دیکھ لو چودھری ظفر اللہ خان صاحب کو سر میاں فضل حسین صاحب نے ہی آگے کیا تھا اور پھر بڑے زور سے آگے کیا تھا.گورنمنٹ نے کسی کام کے سلسلہ میں میاں فضل حسین صاحب کو افریقہ بھیجنا تھا انہوں نے کہا میں اس شرط پر افریقہ جانا منظور کرتا ہوں کہ تم میری جگہ چودھری ظفر اللہ خاں صاحب کو لگاؤ.پھر جب مستقل ممبری کا سوال آیا تو انہوں نے مجھے بتایا کہ میرے پاس کئی غیر احمدی آئے اور انہوں نے مجھے کہا کہ کیا آپ

Page 524

انوار العلوم جلد 24 489 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار اس کافر کو ممبر بنائیں گے ؟ میں نے کہا مجھے تو یہی کافر اس کام کے قابل نظر آتا ہے تمہاری نظر میں اس سے بڑھ کر کوئی موزوں آدمی ہو تو اس کا نام بتا دو.وہ کہنے لگے کہ یہی سوال تھا جو مجھے ان سے چھڑا لیتا تھا کیونکہ اس کے جواب میں ہر شخص اپنا نام ہی لیتا تھا.غرض کیریکٹر نہ ہونے کی وجہ سے قوم کئی قسم کی خوبیوں سے محروم ہو جاتی ہے.اگر تم اپنا کیریکٹر بنا لو گے تو وہی کیریکٹر تمہارے لئے نیک نامی کا لیبل ہو گا اور مستقبل میں تمہارا نام روشن کر دیگا.ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنے آپ کو تعلیم الاسلام کے لیبل کے مطابق بناؤ اور یہ کوئی مشکل بات نہیں کیونکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی اسلامی فرقہ جو اپنے اخلاق کی بنیاد قرآن کریم پر رکھتا ہے تم اس میں شامل ہو جاؤ.مخالفت محض چند عقائد کی بناء پر ہے لیکن جہاں تک اسلام کا سوال ہے سارے فرقے مسلمان ہیں.تمہیں یہ بحث کرنے والے تو نظر آئیں گے کہ خدا تعالیٰ جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں.چنانچہ دیو بندیوں اور اہلحدیث کی بہت سی کتابیں اس مضمون پر لکھی گئی ہیں لیکن تمہیں ایسا کوئی فرقہ نظر نہیں آئے گا جو یہ کہے کہ کوئی مسلمان جھوٹ بول سکتا ہے یا نہیں.پس اگر قرآن کریم پر بنیادر کھی جائے تو تمام فرقوں میں بہت تھوڑا فرق رہ جاتا ہے.اور اصل چیز قرآن ہی ہے جس پر عمل کرنا ہر مسلمان کا اولین فرض ہے.بہر حال جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ بِأَتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ 7 یعنی میرے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے کسی کی بھی پیروی کرو تم ہدایت پا جاؤ گے.اسی طرح تم کسی اسلامی فرقہ کے پیچھے چلو تم اصولی اور بنیادی امور میں غلطی نہیں کروگے.بے شک عقائد میں ہمارا دوسرے فرقوں سے کچھ نہ کچھ اختلاف ضرور ہو گا لیکن عمل میں آکر یعنی نماز، روزہ ، زکوۃ اور حج میں ہمارا ان سے کوئی اختلاف نہیں اور اپنی عملی زندگی میں ہم نے کوئی ایسا اصول نہیں بنایا جس پر اس سے پہلے کسی بزرگ نے عمل نہ کیا ہو.پس چند عقائد اور بعض مائنر ڈیٹیلز (MINOR DETAILS) کے علاوہ سب اسلامی فرقوں کا آپس میں اتحاد ہے.اس وقت جو اختلاف نظر آتا ہے وہ بالکل ویسا ہی ہے جیسے

Page 525

انوار العلوم جلد 24 490 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خ خطا ہمارے ہاں رواج تھا کہ لوگ شادی بیاہ پر نیو تا دیتے تھے اور بد قسمتی سے یہ رواج بھی تھا کہ جتنا کسی نے پہلے دیا ہو کم از کم اتنا ضرور دیا جائے.ایک شادی کے موقع پر کسی بخیل نے ہیں روپے نیو تا دینا تھا اور اس قدر رقم دینا اُسے دو بھر معلوم ہو رہا تھا.وہ باہر نکلا تو کوئی غریب آدمی بھی باہر کھڑا تھا جو اسی فکر میں تھا کہ نیو تا کس طرح ادا کرے.اس بخیل نے دوسرے شخص سے کہا.آؤ میں تمہیں نیو تانہ دینے کی ایک تجویز بتاؤں چنانچہ وہ دونوں چھت پر چڑھ گئے اور چھت کے اوپر پیر مارنے لگے.اس سے نیچے بیٹھے ہوئے لوگوں پر مٹی گری.گھر کے مالک نے آواز دی اور کہا تم چھت پر کون ہو ؟ اس پر اُس بخیل نے کہا اچھا اب ہم کون ہو گئے اور یہ کہتے ہوئے وہ دونوں وہاں سے ناراض ہو کر چلے گئے.اس وقت مختلف اسلامی فرقوں کے درمیان جو اختلافات ہیں وہ بھی اسی قسم کے ہیں.تھیوری ڈا لگا اور کریڈ (THEORYDOGMA OR CREED) آرام سے طے کرنے والی باتیں ہیں.یہ ایسی باتیں نہیں جن پر لڑا جائے.پس میں تم سب کو نصیحت کرتاہوں کہ تم تعلیم الاسلام پر عمل کرو.پھر چاہے تم کسی فرقہ کے عقائد کے مطابق چلو تمہارے اختلافات دور ہو جائیں گے.اس کے بعد میں اپنے بچوں سے کچھ کہنا چاہتا ہوں.جب میں نے دوسروں سے کہا ہے تو ان سے کیوں نہ کہوں.میں ان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ تم اپنے عمل سے یہ ثابت کر دو کہ تمہارا ایک قومی کیریکٹر ہے.اگر تم مثلاً کسی کے بہکانے سے سینما دیکھنے چلے جاتے ہو تو تمہارا کیا کیریکٹر ہے.اگر تمہارا اتناہی کیریکٹر ہے کہ ٹکٹ مفت مل گیا تو سینما دیکھ لیا تو جب ملک کی کسی دشمن سے لڑائی ہوئی اور تم کسی دستہ فوج کے کمانڈر ہوئے تو کیا تم دباؤ کے نیچے آکر ملک کے راز افشاء نہیں کرو گے ؟ اگر تم چھوٹی چھوٹی باتوں میں اپنے کیریکٹر کا خیال نہیں رکھتے تو تم بڑی باتوں میں اس کا خیال کیسے رکھو گے.تم دیال سنگھ کالج کو تو جانتے ہو گے لیکن تمہیں شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ اس کے بانی کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا.اس نے اسلام کا مطالعہ کیا.اس کا ایک مولوی سے دوستانہ تھا.اس نے جب اسلام کا مطالعہ کیا تو اس نے اسے قبول کرنے کا ارادہ کر لیا

Page 526

انوار العلوم جلد 24 491 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار آریوں کو پتہ لگا تو انہوں نے اسے سمجھانا شروع کیا.اس نے کہا مجھے اسلام کے مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس سے بہتر اور کوئی مذہب نہیں.انہوں نے کہا تم نے صرف کتابی علم حاصل کیا ہے تم نے ان لوگوں کے عمل کو نہیں دیکھا.تم اس مولوی کو جس سے تمہارا دوستانہ ہے ایک ہزار یا دو ہزار روپیہ دے دو تو یہ تمہارے ساتھ شراب بھی پی لے گا حالانکہ شراب اسلام نے حرام کی ہے.چنانچہ اس نے ایک دن اس مولوی سے کہا کہ میں آپ کی وجہ سے اسلام قبول کر رہا ہوں اور اپنا سب کچھ چھوڑ رہا ہوں تم دیکھتے ہو کہ میں شراب کا عادی ہوں.اسلام قبول کرنے کے بعد تو مجھے شراب پینا ترک کرنا ہو گا.اب آخری دفعہ مجلس لگ جائے تو کیا ہی اچھا ہو.اور پھر جب میں نے آپ کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ دینا ہے تو آپ میری خاطر ایک دفعہ تو شراب پی لیں.میں آپ کی خدمت میں دو ہزار روپیہ نذرانہ پیش کروں گا.چنانچہ مولوی صاحب نے دو ہزار روپیہ ہاتھ میں لیا اور شراب پی لی.اس سے اس نے معلوم کر لیا کہ آریہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں وہی درست.مسلمان کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں چنانچہ وہ بر ہمو سماج میں چلا گیا.پس تمہیں اپنے آپ کو ایسا بنانا چاہئے کہ جو کچھ تم منہ سے کہتے ہو اس پر عمل بھی کرو.تمہارا قول و فعل ایک ہو.آخر وجہ کیا ہے کہ یورپ والے تمہاری نقل نہیں کرتے لیکن تم یورپ والوں کی نقل کرتے ہو.در حقیقت جب تم ان کی نقل کرتے ہو تو اپنی ذلت پر آپ مہر لگاتے ہو.میں جب انگلستان گیا تو چونکہ وہاں سردی زیادہ تھی اس لئے میں کچھ علیگڑھی فیشن کے گرم پاجامے بھی بنوا کر ساتھ لے گیا اور میرا ارادہ تھا کہ وہاں جا کر انہیں استعمال کرونگا لیکن میں نے وہاں جاتے ہی پاجامے استعمال نہیں کر لینے تھے.میں نے ابھی شلوار ہی پہنی ہوئی تھی کہ ایک دو دن کے بعد امام صاحب مسجد لندن میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کے شلوار پہنے کی وجہ سے لوگوں کو ٹھو کر لگ رہی ہے وہ سمجھتے ہیں کہ امام جماعت احمد یہ ننگے پھر رہے ہیں.کیونکہ اگر کسی کی قمیص پتلون سے باہر ہو تو وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ننگا ہے.میں نے کہا اگر وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ چونکہ میں نے ان کے ہے.

Page 527

انوار العلوم جلد 24 492 تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار وطن کا لباس نہیں پہنا اس لئے میں ننگا ہوں تو یہ ان کی عقل کا فتور ہے.میں نے لباس پہنا ہوا ہے.انہوں نے کہا بہر حال ان کا لحاظ کرنا چاہئے آپ شلوار کی بجائے پتلون پہن لیا کریں.میں نے کہا میں آتی دفعہ چند پاجامے علیگڑھی فیشن کے سلوا کر لایا تھا اور میرا ارادہ تھا کہ میں یہاں آکر وہ پاجامے استعمال کروں گا لیکن اگر انہیں اعتراض ہے کہ میں نے یہاں آکر ان کا لباس کیوں نہیں پہنا تو میں اب وہ پاجامے بھی استعمال نہیں کروں گا شلوار ہی پہنوں گا.شام کو سر ڈینی سن راس مجھے ملنے آئے.وہ علیگڑھ میں کچھ عرصہ رہ گئے تھے.ان کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے.میں نے ان سے ذکر کیا کہ میں یہاں آکر اپنا ملکی لباس پہنتا ہوں اور آپ کے ملک کے لوگ اس پر اعتراض کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ میں نگا پھر رہا ہوں آخر وہ کیوں بر امناتے ہیں کیا یہ ہمارا ملکی لباس نہیں.سر ڈینی سن راس نے کہا وہ اس لئے بر امناتے ہیں کہ انہیں اس لباس کے دیکھنے کی عادت نہیں.میں نے کہا پھر مجھے بھی ان کا لباس دیکھنے کی عادت نہیں.میں اسے برا کیوں نہ سمجھوں.اگر کوئی روسی، جرمن یا فرانسیسی آپ کے ملک میں آتا ہے اور وہ اپنا ملکی لباس استعمال کرتا ہے تو آپ اسے بُرا نہیں سمجھتے لیکن اگر کوئی ہندوستانی یہاں آکر اپنا لباس استعمال کرتا ہے تو آپ اس پر بر امناتے ہیں.اس کے معنے یہ ہیں کہ آپ ہندوستانیوں کو ذلیل سمجھتے ہیں.سر ڈینی سن راس نے کہا.ہاں بات تو یہی ہے.اس پر میں نے کہا اگر یہی بات ہے تو ہر عظمند ہندوستانی کو چاہئے کہ وہ آپ کی کسی بات میں نقل نہ کرے.کم از کم میں اس بات کے لئے تیار نہیں کہ آپ کو بڑا سمجھوں اور اپنے آپ کو ذلیل سمجھوں.میں نے کہا سر ڈینی سن راس! مجھے سچ سچ بتائیں کیا آپ لوگ اپنے ذہن میں ہر اُس ہندوستانی کو ذلیل نہیں سمجھتے جو ہر بات میں آپ کی نقل کرتا ہے ؟ انہوں نے کہا بات تو یہی ہے.پس تم نے ہر جگہ پھرنا ہے اگر تم ہر بات میں دوسروں کی نقل کرو تو تمہارے ملک اور مذہب کی کیا عزت رہ جائے گی.ہم جب انگلستان گئے تو جس جہاز میں ہم سفر کر رہے تھے اس کا ڈاکٹر مجھے ملا.وہ اٹلی کا رہنے والا تھا وہ ابھی کنوارا تھا.میں نے اسے کہا تم شادی کیوں نہیں کرتے ؟ وہ

Page 528

انوار العلوم جلد 24 493 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار انگریزی نہیں جانتا تھا.اس نے اشاروں سے بات کو سمجھانے کی کوشش کی اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی میں کہنے لگا.اٹالین وائف ہسبنڈ کم ہوم.شی سٹنگ.اے فرینڈ کم ہوم، شی.....(اس کے ساتھ اس نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ منہ پر پوڈر لگاتی ہے) اٹالین نو وائف یعنی اٹالین بیوی بھی کوئی بیوی ہے.جب خاوند گھر آتا ہے تو وہ اس کی پر واہ بھی نہیں کرتی.لیکن جب کوئی دوست گھر آ جاتا ہے تو چہرہ پر پوڈر مل لیتی ہے.یہی حال ہمارا ہے.ہم غیر کو دیکھتے ہیں تو اس کی نقل کرنے لگ جاتے ہیں اور جب گھر میں ہوں تو دھوتی باندھ لیتے ہیں.گویا ہماری سادگی گھر والوں کے لئے ہے اور ہمارا فیشن دوسروں کے لئے ہے.اگر ہم خود ایسا کرتے ہیں تو دوسرا شخص ہمارے متعلق کیا خیال کرے گا.ہمارے ایک امریکن احمدی نو مسلم یہاں آئے تو شلوار پہننے لگے.میں نے انہیں کہا کہ تم نے اپنے وطن کا لباس چھوڑ کر شلوار کا استعمال کیوں شروع کر دیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اس میں آرام رہتا ہے.پس شلوار اگر چہ آرام دہ لباس ہے.لیکن ہم دوسروں کو دیکھ کر اسے چھوڑ دیتے ہیں.مگر جب یورپین لوگ ہمارے ہاں آتے ہیں تو اپنا لباس ترک نہیں کرتے اور یہ ایک قومی کیریکٹر ہے تم بھی اپنے اندر کیریکٹر پیدا کرو لیکن وہ کیریکٹر اسلامی ہو غیر اسلامی نہ ہو.جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلام میں کوئی خاص لباس نہیں اسی طرح پتلون کوئی انگریزی لباس نہیں.انگریز تو کچھ عرصہ قبل کھال کی دھوتی پہنتے تھے.پتلون ترکی لباس ہے.اس لئے اس کے پہننے میں کوئی عیب نہیں ہاں صرف نقل کرنے میں عیب ہے ورنہ یہ نہیں کہ کوٹ کلمہ پڑھتا ہے اور پتلون حضرت عیسی علیہ السلام کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے.میں اس وقت کیریکٹر پر بحث کر رہا ہوں اگر کوئی لباس آہستہ آہستہ ہماری قوم میں آجائے تو آجائے.اس میں کوئی حرج نہیں لیکن تم کسی کی نقل نہ کرو.آج سے چند سال قبل ہمارے باپ دادے موجودہ کاٹ کا کوٹ نہیں پہنتے تھے.کچھ کپڑا مہنگا ہو گیا ہے اور کچھ وقار کی وجہ سے لوگوں نے پہلا کاٹ بدل لیا.پس جس طرح کوئی اسلامی زبان یا غیر اسلامی زبان نہیں اسی طرح کوئی لباس اسلامی یا غیر اسلامی نہیں.جو لباس آہستہ آہستہ

Page 529

انوار العلوم جلد 24 494 تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے افتتاح کے موقع پر خطار ہم میں آجائے وہ ہمارے لباس کا حصہ ہے.اس کے پہنے میں کوئی حرج نہیں.لیکن تم اپنا کیریکٹر وہ بناؤ جو اسلامی ہو یعنی جس میں قومیت کا احترام ہو.اسلام نماز کی سہولت چاہتا ہے اور جس لباس میں یہ خوبی ہو وہی اسلامی لباس ہے.پس اس کالج میں رہتے ہوئے ہمیشہ اپنے ماٹو کو سامنے رکھو اس سے تمہاری عزت بڑھے گی اور لوگ تمہاری نقل کریں گے تم ان کی نقل نہیں کرو گے.آخر میں میں دعا کر دیتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اس کالج کو اس مقصد کے پورا کرنے والا بنائے جس کے لئے اسے قائم کیا گیا ہے اور اس کے طالب علم رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے شاگرد ہوں جو لوگوں کو آپ کا صحیح چہرہ دکھانے میں کامیاب ہوں.ہماری کو تاہیوں اور بد عملیوں کی وجہ سے آج رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گالیاں پڑ رہی ہیں.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ لوگوں کے قلوب کی اصلاح فرمائے اور انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلاموں میں شامل فرمائے.“ روزنامه الفضل ربوہ مورخہ یکم، 2، 6،3، 7 دسمبر 1955ء) 1: الزخرف : 62 2: بخاری کتاب المغازى باب غَزْوَة مُؤتَةَ (الخ) 3: الصف : 3 4: الانعام : 12 5 البقرة : 45 6: وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا أَوَ لَوْ كَانَ اباؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا ( البقرة:171) :7 مشكوة باب مناقب الصحابة الفَضلُ الثالث

Page 530

انوار العلوم جلد 24 495 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 531

انوار العلوم جلد 24 496 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء

Page 532

انوار العلوم جلد 24 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 497 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء (فرمودہ 26 دسمبر 1954ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ”جیسا کہ احباب کو پروگرام سے معلوم ہو گیا ہو گا اس سال جلسہ کے پروگرام میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ جلسہ کی ابتد ا پندرہ منٹ دیر سے کئے جانے کا فیصلہ کیا گیا ہے یعنی بجائے نو بجے کے سوا نو بجے جلسہ شروع ہوا کرے گا اور پہلے اجلاس کے ختم ہونے کا وقت جو کہ پہلے ساڑھے گیارہ اور عملاً ساڑھے بارہ بجے تک جاتا تھا یا اس سے بھی زیادہ ہو جاتا تھا اس کے متعلق فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ گیارہ سوا گیارہ سے آگے نہ جائے اور دو گھنٹے درمیان میں فاصلہ دیا جائے تا کہ جن لوگوں نے کھانا کھانا ہو وہ کھانا کھالیں، پیشاب پاخانہ کی ضرورت ہو تو وہ اس کو پورا کر لیں، جو کمزور لوگ تھک گئے ہوں وہ ذرا چل پھر کر اپنی لاتیں ٹھیک کر لیں تا کہ اگلے اجلاس میں وہ نماز پڑھنے کے بعد آرام اور سہولت کے ساتھ آسکیں.در حقیقت یہ تحریک باہر سے ہوئی تھی اور چونکہ پہلے بھی بعض لوگ اس کے متعلق کہتے رہتے تھے میں نے اس تحریک کو پسند کیا اور انجمن کو ہدایت کی تھی کہ وہ اس کے مطابق اپنے پروگرام کو تبدیل کرے.لیکن جب یہ بات شائع ہوئی تو بعض لوگوں نے اس کے خلاف بھی احتجاج کیا.ان لوگوں نے لکھا کہ جو تو شوق رکھتے ہیں وہ تو جلسہ کے بعد بھی بیٹھے رہتے ہیں اور ہر جماعت میں سے باری باری لوگ پیشاب پاخانہ سے فارغ ہو کر آجاتے ہیں اور وہیں نماز پڑھتے ہیں.اور جو لوگ شوق نہیں رکھتے ان کے لئے آپ دو گھنٹہ

Page 533

انوار العلوم جلد 24 498 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء چھوڑ چار گھنٹے بھی چھوڑیئے انہوں نے پھر نا ہی ہے.اس لئے ان کی وجہ سے ہم لوگوں کو جو کہ سلسلہ کی باتیں اور دین کی باتیں سننے کا شوق رکھتے ہیں محروم نہیں رکھنا چاہیئے.بہر حال دنیا میں ہر چیز کے لوگوں نے دو پہلو بنائے ہوئے ہیں بلکہ اگر ان کو موقع ملے تو چار چار پانچ پانچ دس دس پہلو بھی بنا لیتے ہیں.حتی کہ خدا تعالیٰ کے متعلق بھی لوگوں نے دو پہلو بنالئے ہیں حقیقتا تو کئی ہیں لیکن بہر حال کوئی کہتے ہیں کہ خدا ہے اور کوئی کہتے ہیں کہ خدا نہیں ہے.تو اس میں بھی اختلاف ہونا کوئی بعید بات نہیں لیکن چونکہ جلسہ اس غرض سے کیا جاتا ہے کہ احباب جماعت زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اس لئے ان کے مشورہ اور ان کی رائے کو بھی سننا اور اس پر غور کرنا ضروری امر ہے.پس اختلاف کو دیکھتے ہوئے میں نے انجمن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جماعت کی مجلس شوری کے سامنے اس مسئلہ کو رکھ دیں کہ ہمارا جلسہ کا پروگرام کس طرح ہوا کرے اور کتنے وقت کے لئے ہؤا کرے.جماعتوں کو اب چاہئے کہ جب شوری پر ان کے نمائندے منتخب ہو کر آئیں تو وہ ان کو اپنی مرضی بتا دیں کہ ہم یوں چاہتے ہیں.ہر جماعت غور کر کے اپنے نمائندے کو ہدایت دے دے.وہ نمائندہ شوریٰ میں آکر اپنی رائے پیش کر دے گا اور جماعت کی کثرت اس معاملہ میں جس امر پر متفق ہو گی اُس پر اُس وقت ہم عمل کر لیں گے.در حقیقت جلسہ کے اوقات تو ضرورت کے مطابق بدلتے رہے ہیں اور بدل سکتے ہیں.تاریخیں جلسہ کی ہم نے وہی رکھی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ابتدائی زمانہ سے چلی آرہی ہیں مگر جلسہ کا موجودہ روزانہ کا پروگرام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ثابت نہیں.اُس وقت پروگرام مختلف رنگ میں ہوتا تھا.بعض دفعہ ایسا ہو تا تھا کہ اصل تقریر تو حضرت صاحب کی مقرر ہو جاتی تھی اور بیچ میں کبھی لوگ حضرت مولوی نورالدین صاحب کے پاس چلے جاتے تھے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں کچھ سمجھائیں اور نصیحت کر دیں تو وہ کر دیتے تھے.کبھی حضرت صاحب کو کہتے تھے کہ وقت فارغ ہے تو آپ خود ہی فرما دیتے تھے کہ آج مولوی نور الدین صاحب کا لیکچر ہو گا، کبھی مولوی عبد الکریم صاحب لیکچر کر دیتے تھے ، کبھی کوئی اور دوست لیکچر کر دیتے تھے بہر حال وہ

Page 534

انوار العلوم جلد 24 499 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء زائد باتیں ہوا کرتی تھیں.اصل تقریر وہی ہوا کرتی تھی جو خصوصاً 27 تاریخ کو نماز ظہر و عصر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام فرمایا کرتے تھے.پس جو آپ لوگوں کا مشورہ ہو گا اس پر یہاں کا مرکز عمل کرے گا.آپ لوگ اپنی اپنی مجالس میں غور کر لیں غریب، کمزور اور مسکین جو بیمار ہیں اُن کا بھی خیال کر لیں، جو شائقین ہیں اُن کا بھی خیال کر لیں اور پھر جو دونوں طرف کے نقطہ نگاہ سننے کے بعد آپ کی درمیانی رائے بنے اس سے اپنے نمائندہ کو آگاہ کر دیں تا کہ وہ اس جگہ شوری کے موقع پر آپ لوگوں کے خیالات پہنچا دے.اس کے بعد میں آپ لوگوں کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ماتحت ایک سال کے بعد پھر ہمیں اس لئے جمع ہونے کا موقع ملا ہے کہ ہم خدا تعالیٰ کے حضور اپنی اطاعت اور فرمانبرداری کا اقرار کریں اور اس کے سامنے اپنی عقیدت کا تحفہ پیش کریں.کہتے ہیں " کیا پدی اور کیا پدی کا شور با" حقیقتا دنیا کی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے اور دنیا کے مذاہب کو مد نظر رکھتے ہوئے پدی کا شور با تو کسی کام آبھی سکتا ہے مگر آپ لوگوں کا شور با کسی کام نہیں آ سکتا.اعداد و شمار کے لحاظ سے آپ کی تعداد بہت کم ہے ، ظاہری سازوسامان کے لحاظ سے آپ کی طاقت بہت کم ہے، نفوذ اور اثر کے لحاظ سے آپ کا خانہ خالی ہے.ہمارا یہاں جمع ہونا در حقیقت ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو ایک یتیم کی صورت میں دیکھ کر ، ایک لاوارث کی صورت میں دیکھ کر اسے منڈی میں لے آیا اور اس نے کہا کہ کوئی اس کا خریدار ہو ، کوئی اس کا متوئی ہو جو اس کی حفاظت کرنے کا ذمہ دار ہو.دنیا کے لوگوں نے جو بڑے بڑے مالدار تھے اور بڑے بڑے رسوخ والے تھے اور بڑے بڑے اثر والے تھے انہوں نے اس چیز کو دیکھا اور اس کی قدر نہ کی اور انہوں نے اپنے منہ پھیر لئے اور کہا کہ یہ دردِ سر کون مول لیتا پھرے، کون اس یتیم اور غریب کی حفاظت اور پرورش کا ذمہ لے.مگر تم جب سب سے زیادہ حقیر اور ذلیل اور غریب تھے تم نے اپنے آپ کو پیش کیا کہ ہم اس یتیم کو اپنے گھر میں رکھیں گے اور پالیں گے اور اس کی حفاظت

Page 535

انوار العلوم جلد 24 500 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء کریں گے.جب تم نے یہ وعدہ کیا تھا تم ان ذمہ داریوں سے آگاہ نہیں تھے جو تم پر عائد کی جانے والی تھیں.تم کو نہیں پتہ تھا کہ کیا چیز تمہارے سپرد کی جارہی ہے.اسی طرح جس طرح مدینہ کے لوگوں کو پتہ نہیں تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں بلانے پر وہ کتنا بڑا بھڑوں کا چھٹا چھیڑ رہے ہیں.اس وقت تو مکہ کی رقابت میں مدینہ والوں نے کہہ دیا کہ چلئے صاحب ! مکہ والے آپ کی قدر نہیں کرتے تو ہمارے پاس چلئے.حضرت عباس جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاتھے اور آپ سے بہت محبت رکھتے تھے گو ظاہر میں اسلام نہیں لائے تھے وہ چونکہ ہوشیار آدمی تھے انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ دعوت تو انہوں نے دے دی ہے لیکن اس کا سنبھالنا ان کے لئے مشکل ہو جائے گا.انہوں نے اُس وقت کہا کہ آپ لوگ ان کو لے جاتے تو ہیں لیکن آپ مکہ والوں کو جانتے نہیں، عرب کو نہیں جانتے.سارا عرب اور سارے مکہ والے ان کے مخالف ہیں اور وہ ضرور آپ سے اس کام کا بدلہ لیں گے.پس میں تب ان کو لے جانے کی اجازت دیتا ہوں اگر آپ لوگ یہ عہد کریں کہ اپنی جان اور اپنے مال کو قربان کر کے اس کی حفاظت کریں گے.انہوں نے کہا کہ ہمارا تو چھوٹا سا قصبہ ہے سارے عرب کے ساتھ ہم کہاں لڑ سکتے ہیں.پر یہ وعدہ کرتے ہیں کہ اگر مدینہ پر کسی نے چڑھائی کر کے اسے نقصان پہنچانا چاہا تو ہم اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے.مدینہ سے باہر جانے کی ہم میں طاقت نہیں.حضرت عباس نے کہا مجھے منظور ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ان سے معاہدہ کر لیا.پھر جو نتائج ہوئے آپ لوگ جانتے ہیں.اس طرح جب دین اسلام کا یتیم آپ لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا اور آپ کو کہا گیا کہ اس کی نگرانی کریں اور اس کی حفاظت کریں تو آپ نے اسے قبول کیا لیکن آپ کو معلوم نہیں تھا کہ اس کی ذمہ داریاں کیا ہیں.اس وقت زیادہ سے زیادہ آپ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کوئی میولوی بُرابھلا کہہ لے گا، کوئی ہمسایہ گالی دے لے گا.آپ کی نگاہ اس طرف نہیں اٹھتی تھی کہ یہ کام کسی وقت اتنا بلند ہو جائے گا اور یہ ذمہ داری اتنی اہم ہو جائے گی کہ اس کا سنبھالنا ہمارے لئے دو بھر ہو جائے گا.لیکن آپ نے ہمت کی اور حامی بھر لی اور کہا

Page 536

انوار العلوم جلد 24 501 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء ہم اس یتیم کو اپنے گھر لے جائیں گے اور پالیں گے اور اس کی حفاظت کریں گے.دنیا کے لوگوں نے ایک قہقہہ لگایا اور انہوں نے کہا کہ کتنے بے وقوف ہیں یہ لوگ ! گھر میں کھانے کو نہیں دوسروں کو پالنے کے لئے آگے آتے ہیں.آسمان کے فرشتوں نے بھی ایک قہقہہ لگایا اور انہوں نے کہا کتنے نادان ہیں یہ لوگ ! ان کو پتہ نہیں کیا چیز اپنے گھر لے جارہے ہیں.کل کو یہ چیز ان کے لئے وبالِ جان ثابت ہو گی اور کل کو یہ ذمہ داری اتنی بو جھل ہو گی کہ یہ اپنی گردنیں چھڑانے کی کوشش کریں گے.لیکن عرش کے مالک خدا نے کہا کہ میری آواز پر جس نے پہلے لبیک کہا ہے خواہ وہ کتنا ہی نالائق سہی میں اب اس کی عزت کروں گا اور یہ امانت اس کے حوالے کر دوں گا.تم اس کو لے کر اپنے گھروں میں آگئے.تم خوش تھے کہ ہم نے ایک غریب اور یتیم کی پرورش کا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کی ہے.تمہارے واہمہ میں بھی اُس وقت نہیں تھا کہ ایک دن اس یتیم کے پالنے کی وجہ سے تم دنیا کے سردار کہلاؤ گے ، تم دنیا کے راہنما کہلاؤ گے، تم دنیا کے بادی کہلاؤ گے.لیکن اس سے پہلے تمہیں اپنی گردنیں تلواروں کے نیچے رکھنی ہوں گی تا کہ کند تلواروں سے تم کو ذبح کیا جائے اور تمہارے ایمانوں کا امتحان لیا جائے.جوں جوں وہ یتیم بڑھتا گیا تمہاری ذمہ داریاں بھی بڑھتی گئیں، تمہاری قربانیاں بھی بڑھتی گئیں تم پر مطالبات بھی بڑھتے گئے.کچھ نے خوشی سے ان مطالبات کو پورا کیا اور کچھ نے دل میں انقباض محسوس کرنا شروع کیا.کچھ آئے اور پیچھے ہٹ گئے ، کچھ آئے اور آگے نکل گئے.غرض کچھ پیچھے سے آکر سابق ہو گئے اور کچھ سابق کے آئے ہوئے پیچھے رہ گئے.مگر یہ ہوا ہی کرتا ہے یہ تمہارا نرالا تجربہ نہیں.بلکہ ہمیشہ ہی جب خدا تعالیٰ کوئی نئی تحریک قائم کرتا ہے تو ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے، ایسا ہی ہو تا چلا جائے گا.تو تم آئے ہو اپنی اس قربانی کی یاد تازہ کرنے کے لئے ، اپنے اس عہد کو دہرانے کے لئے ، اپنے اخلاص کا تحفہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کرنے کے لئے اور اس کو یہ بتانے کے لئے کہ اے ہمارے رب! جب ہم نے یہ بوجھ سنبھالا تھا تو ہم اس کی ذمہ داری سے واقف نہیں تھے مگر اب جبکہ ہماری آنکھیں کھلتی چلی جاتی ہیں اور ہماری ذمہ داریاں ہمارے لئے واضح ہوتی جاتی ہیں

Page 537

انوار العلوم جلد 24 502 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء دیکھ ہم آج بھی مستقل مزاج ہیں اور آج بھی اپنے عہد کو دہراتے ہیں.اور تم اس لئے آئے ہو کہ تمہارا خدا آسمان پر یہ کہے کہ اے میرے کمزور بندو! تم نے اُس وقت ایک عہد مجھ سے باندھا تھا جب تم اس کی حقیقت سے واقف نہیں تھے لیکن جب تم اس کی حقیقت سے واقف ہو گئے اور اس کی ذمہ داریوں سے آگاہ ہو گئے اور تم نے قسم قسم کی مشکلات اور دقتیں سامنے دیکھیں اور ان کو برداشت کیا تم پھر بھی اپنے عہد پر قائم رہے.اس لئے میں بھی اپنے عہد پر قائم ہوں اور تم کو وہی کچھ دوں گا جس کا میں نے تم سے اور تم سے پہلے تمہارے بزرگوں سے وعدہ کیا تھا.پس اپنے ان ایام کو جو کہ نہایت ہی اہم ایام ہیں خشوع اور خضوع اور ذکر الہی کے ساتھ گزار و اور اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرو کہ وہ تمہارے اس مقصد کو پورا کرے جس کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو.تم کوئی دنیوی جماعت نہیں ہو تم خدا کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ وہ تم کو زمین دے، تم خدا کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو کار خانے دے، تم خدا کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو اموال دے، تم خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو حکومت دے، تم خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے حاضر نہیں ہوئے کہ تم کو سیاست میں نفوذ دے.تم خدا تعالیٰ کے سامنے اس لئے حاضر ہوئے ہو کہ اے خدا تیری رضا ہم کو مل جائے.فقرہ چھوٹا لیکن اہمیت بہت بڑی ہے.بات تو زبان پر ہلکی ہے مگر میزان میں اس کا وزن بہت زیادہ ہے.سو خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہاری مدد کرے، خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ وہ تمہیں اپنی موت تک اپنے عہد کو پورا کرنے کی توفیق دے، خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ تمہاری موت تک ہی نہیں تمہاری اولادوں اور اولا دوں کی اولا دوں اور پھر لامتناہی سلسلہ تک تمہارے خاندان کو اس عہد کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے، خدا تعالیٰ سے دعا کرو کہ اگر اس کی حکمت کے خلاف نہ ہو تو وہ اسلام کی ترقی اور اس کا نفوذ اور اس کے ظہور کا زمانہ تم کو بھی اپنی آنکھوں سے دکھا دے.لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کو منظور نہیں ہے اور اس کی حکمت کا ملہ کے خلاف ہے تو پھر کم سے کم اس کے نمایاں آثار دیکھ لو اور تمہاری اولادیں اسلام کی فتح میں حصہ دار ہوں اور تمہارے حصہ

Page 538

انوار العلوم جلد 24 503 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء میں ندامت اور حسرت نہ آئے.پھر اس کے علاوہ وہ لوگ جو کہ باہر سے آئے ہیں ان کے لئے بھی جو تمہارے ساتھ آئے ہیں، ان کے لئے بھی جو تمہارے میزبان ہیں، ان کے لئے بھی جو آنا چاہتے تھے لیکن نہیں آسکے ، ان کے لئے بھی جو اپنی کمزوری کی وجہ سے آنے کی خواہش بھی نہیں رکھتے تھے دعائیں کرو کہ اللہ تعالیٰ ان کے بھی دل صاف کرے.باہر سے بہت سے لوگوں کی دعاؤں کی تاریں آئی تھیں.میں نے دفتر کو کہا تھا کہ مجھے اس وقت دے دینا لیکن انہوں نے نکلتے وقت صرف میرے سامنے کاغذ کر کے پھر اپنی جیب میں ڈال لیا.بہر حال ان میں زیادہ تر باہر کی جماعتوں کی تاریں ہیں.انڈونیشیا کی جماعت کی تارہے، جرمنی کی جماعت کی تارہے، امریکہ کی طرف سے تار ہے، شام کی طرف سے تار ہے ، اسی طرح گولڈ کوسٹ کی طرف سے تار ہے.غرض مختلف ممالک سے احباب کی تاریں آئی ہیں کہ جب افتتاح کے موقع پر دعا کی جائے تو ہمارے لئے بھی دعا کریں.بعض ایسے لوگوں کی بھی تاریں آئی ہیں جو جلسہ پر نہیں آسکے اور انہوں نے خواہش کی ہے کہ ہمارے لئے جلسہ کے موقع پر دعا کے لئے کہا جائے.یہ اتنا وقت تو ہے ہی نہیں کہ ان امور کو تفصیل سے بتایا جائے بلکہ میں دو چار منٹ اپنے وقت سے اوپر لے چکا ہوں.بہر حال ان کے لئے دوست دعا کریں.ایسے موقع پر تفصیلی دعا تو ہو نہیں سکتی اجمالی دعا ہی ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سارے دوستوں پر اپنا فضل نازل فرمائے اور جو نہیں آسکے ان کو بھی آئندہ آنے کی توفیق دے.اور اپنی دعاؤں میں اس بات کو بھی یاد رکھو کہ یہ وقت اسلام کے لئے نہایت نازک ہے اور مختلف اسلامی ممالک اس وقت خطرہ میں ہیں.انڈونیشیا ہے، خود پاکستان بھی ہے، شام ہے ، مصر ہے، ایران ہے.یہ ممالک اس وقت ایک خطرہ کے دور میں سے گزر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو ان کی حفاظت کرے.چار پانچ سو سال کی غلامی کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو آزادی کا سانس لینے کی توفیق عطا فرمائی ہے.خدا کرے کہ یہ آزادی ان کے لئے اور دین اسلام کے لئے مبارک ہو اور ان کی مشکلات دور ہوں اور وہ پھر دنیا میں اس عزت کے مقام کو حاصل کریں جس عزت کے مقام کو کسی زمانہ میں انہوں نے حاصل کیا تھا بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.

Page 539

انوار العلوم جلد 24 504 افتتاحی تقریر جلسہ سالانہ 1954ء پس اپنے لئے اور سارے مسلمانوں کے لئے اور ساری جماعت کے لئے اور سلسلہ کے لئے اور اس کے مرکز کے لئے اور سلسلہ کے کاموں کے لئے اور دین اسلام کے لئے اور اس کی اشاعت کے لئے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اور ان کے مقام کی بلندی کے لئے اور آپ کی شان کے ظہور کے لئے ان سارے امور کے لئے دعا کرو اور اس کے بعد خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اپنے جلسہ کی کارروائی کو شروع کرو تا خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوں اور وہ تمہاری مدد کریں.(الفضل 7 جنوری 1955ء)

Page 540

انوار العلوم جلد 24 505 سال 1954ء کے اہم واقعات سال 1954ء کے اہم واقعات فرمودہ 27 دسمبر 1954ء) نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 541

انوار العلوم جلد 24 506 سال 1954ء کے اہم واقعات

Page 542

انوار العلوم جلد 24 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 507 سال 1954ء کے اہم واقعات نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سال 1954ء کے اہم واقعات (فرمودہ 27 دسمبر 1954ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ”آج میں پہلے دن کی تقریر جو عام طور پر تربیتی اور اصلاحی تقریر ہوا کرتی ہے اس کے سلسلہ میں کچھ بیان کروں گا لیکن یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ کچھ میری کمزوری کی وجہ سے ، کچھ اس دفعہ کی شدید سردی کی وجہ سے (یا پھر مجھے معلوم ہوتی ہے ممکن ہے باقی لوگوں کو معلوم نہ ہوتی ہو) اور کچھ اس بیماری کی وجہ سے جو کمر درد کی صورت میں ظاہر ہوئی تھی میری حالت جسمانی اس وقت ایسی ہے کہ میں زیادہ دیر تک اور لمبا بول نہیں سکتا ملاقاتوں کی وجہ سے اور سردی میں بیٹھنے کی وجہ سے کمر کی درد بہت زیادہ تیز ہو گئی ہے.ذراسی بھی حرکت ہو جائے تو تکلیف زیادہ ہونے لگ جاتی ہے.اسی طرح آج آپ ہی آپ شاید گردو غبار کی وجہ سے میرا گلا بیٹھنا شروع ہو گیا ہے اور نزلہ اور سر درد بھی ہو گیا ہے اور بخار بھی محسوس ہو رہا ہے.میں اپنی طرف سے تو یہ علاج کر کے آیا ہوں کہ سر درد کے لئے دوا کھائی ہے، نزلہ کے لئے اے پی سی کی پڑیا کھائی ہے.اس طرح اپنی طرف سے کوشش کی ہے کہ میں ایک حد تک اپنے فرض کو ادا کر سکوں مگر پھر بھی میں معذرت کر دینا چاہتا ہوں کہ اگر میں اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہ کر سکوں تو دوست اس بات کو یاد رکھیں کہ میری صحت ان دنوں میں ایسی نہیں ہے کہ میں زیادہ بوجھ برداشت کر سکوں.جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ تقریر زیادہ تر تربیتی ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی اس میں

Page 543

انوار العلوم جلد 24 508 سال 1954ء کے اہم واقعات تربیتی مضمون کم ہو جاتے ہیں اور بعض علمی مضامین بھی میں ضمنی طور پر لے آتا ہوں اور بعض سالوں میں تو وہ اتنے اہم تھے کہ اگر ان کو محفوظ رکھا جاتا تو وہ بہت کچھ کارآمد ہو سکتے تھے مگر بوجہ اس کے کہ یہ تربیتی تقریر کہلاتی ہے اس کے لکھنے اور سنبھالنے کی پوری احتیاط نہیں کی جاتی.کئی تقریریں تو پڑی ہوئی ہیں میرے پاس ہی وہ لکھ کر بھجوا دیتے ہیں.اگر ہمارے زود نویسی کے محکمہ والے ذرا بھی توجہ کریں تو ان کو اخبار میں شائع کرایا جاسکتا ہے.بہر حال آج میں متفرق امور کے متعلق کچھ کہوں گا اور سب سے پہلے میں اس سلسلہ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آج اور کل کے تجربہ سے یہ معلوم ہو ا ہے کہ تربیتی تقریریں محض لذتِ گوش کے لئے سنی جاتی ہیں.ان کو مد نظر نہیں رکھا جاتا اور ان ہدایات سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی جاتی.سب سے پہلے میں ملاقاتوں کو لیتا ہوں.ملاقاتوں کی کئی غرضیں ہوتی ہیں.بعض غرضیں تو بغیر اس کے کہ کارکن کوئی خدمت کریں یا نہ کریں پوری ہو جاتی ہیں اور بعض غرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک کارکن اپنا فرض صحیح طور پر ادا نہ کریں پوری نہیں ہو تیں.اور بعض غرضیں ایسی ہوتی ہیں کہ جب تک پریذیڈنٹ اور سیکر ٹری اپنے فرض کو پوری طرح ادا نہ کریں وہ پوری نہیں ہو سکتیں.مثلاً جہاں تک رشتہ محبت کا تعلق ہے جو احباب آتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ ہم مصافحہ بھی کر لیں اور شکل بھی دیکھ لیں.کئی تو یہ کہہ کر رو پڑتے ہیں کہ خبر نہیں اگلے سال تک ہم زندہ بھی رہیں گے کہ نہیں رہیں گے.یہ ان کا ادب بھی ہوتا ہے، کچھ حجاب بھی ہوتا ہے ورنہ بسا اوقات ان کا مطلب یہ بھی ہوتا ہے کہ پتہ نہیں آپ اگلے سال تک زندہ بھی رہیں گے یا نہیں اور یہ ایک سچی بات ہے.کوئی انسان اس دنیا میں ہمیشہ تک زندہ رہا ہی نہیں آخر ہر شخص نے کسی نہ کسی وقت اس دنیا سے جانا ہے.اپنی مثال کو میں دیکھتا ہوں تو وہ ایک معجزانہ نظر آتی ہے کیونکہ مجھے بچپن میں ہی کئی قسم کی بیماریاں لگی ہوئی تھیں.میں چھوٹا ہی تھا جبکہ مجھے خسرہ نکلا پھر اس کے بعد کالی کھانسی ہو گئی اور یہ بیماری اتنی شدید ہوئی کہ اس سے خنازیر پیدا ہو گئیں.وہ خود اپنی ذات میں ایک مہلک مرض ہے.اس کے بعد جب قریب بہ بلوغت پہنچا تو

Page 544

انوار العلوم جلد 24 509 سال 1954ء کے اہم واقعات چھ مہینے سال تک متواتر بخار رہا اور اس کے ایک دو حملے ہوئے.حضرت خلیفہ اول کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بے انتہا محبت تھی اس لئے وہ اس بات کو اور نگاہ سے دیکھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام مجھے اپنا بیٹا سمجھتے ہوئے اور نگاہ سے دیکھتے تھے.ایک ہی واقعہ کو دونوں نے مختلف شکلوں سے دیکھا.مجھے تو یاد نہیں کہ اُن دنوں میں میں خاص طور پر بیمار تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی وفات سے دس پندرہ دن پہلے بغیر میرے کہنے کے یا بغیر میرے کسی قسم کی بیماری کی شکایت کرنے کے لاہور میں ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کو بلایا اور کہا محمود کی صحت بہت خراب رہتی ہے مجھے اس کی بڑی فکر ہے آپ اس کو اچھی طرح دیکھیں اور اس کے لئے کوئی علاج تجویز کریں.یہ بھی کہا کہ میری بھی صحت اچھی نہیں پر اس کی زیادہ خراب ہے اور اس کی مجھے بہت فکر ہے.مجھے نہیں یاد کہ اُن دنوں میں مجھے خاص طور پر کوئی بیماری تھی صرف چھ مہینے پہلے بخار رہا تھا لیکن اس حالت کو حضرت خلیفہ اول نے اور طرح بیان فرمایا.میں ایک دفعہ ان کے پاس گیا تو کہنے لگے میاں! تم بیمار ہو تمہاری صحت بڑی خراب ہے.پر مجھے مرزا صاحب کی فکر ہے.ان کی صحت تم سے بھی زیادہ خراب ہے.تو انہوں نے اپنی محبت میں بیماریوں کا توازن یہ کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیماری کو بڑھایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی محبت پدری کی وجہ سے میری بیماری کو بڑھایا.بہر حال وہ حالت اس قسم کی تھی کہ میں بھی اور جو واقف لوگ تھے وہ بھی سمجھتے تھے کہ میں کسی لمبی عمر کو نہیں پہنچ سکتا اور کوئی لمبا بوجھ اٹھانے والا کام نہیں کر سکتا.مجھے یاد ہے کہ شروع ایام خلافت میں جب مجھ پر جماعت نے اتفاق کیا تو میرے دل میں یہ خیال آتا تھا کہ میں یہ بوجھ کہاں اٹھا سکتا ہوں اور بعض دفعہ اس سے بڑی گھبراہٹ ہوتی تھی.مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں اپنے دل کو اس رنگ میں تسلی دیا کرتا تھا کہ میری صحت تو ایسی ہے ہی نہیں کہ میں زیادہ دیر تک زندہ رہوں اس لئے یہ بوجھ تھوڑے دنوں کا ہی ہے کوئی زیادہ فکر کی بات نہیں.لیکن ان حالات کے ہوتے ہوئے باوجود بیماریوں کے اور باوجود اس حملہ کے جو پچھلے سال مجھ پر ہوا اب میں اس عمر کو

Page 545

انوار العلوم جلد 24 510 سال 1954ء کے اہم واقعات پہنچ گیا ہوں کہ اس سال کے ختم ہونے پر جنوری میں میں چھیاسٹھ سال کا ہو جاؤں گا.گویا گورنمنٹ جس عمر میں جا کر پنشن دیتی ہے اس سے گیارہ سال بڑی عمر ہو جائے گی اور اب جو مالی تنگی کی وجہ سے گورنمنٹ نے پنشن کی عمریں بڑھادی ہیں اس کے لحاظ سے بھی چھ سال زیادہ ہو جائے گی.اور وہ جو تکلیفیں آتی ہیں اگر ان کو نظر انداز کر دیا جائے اور درمیانی طور پر جو جھٹکے لگتے ہیں ان کو بھلا دیا جائے تو ابھی تک خدا تعالیٰ کے فضل سے کام کے لحاظ سے میرے اندر طاقت ہوتی ہے.بوجھ پڑتے ہیں تو میں ان کو اٹھا لیتا ہوں.اگر محنت کرنی پڑتی ہے تو کسی نہ کسی رنگ میں، کسی نہ کسی وقت میں اس کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کر لیتا ہوں.بہر حال اس سال کی بیماری کی وجہ سے اور اس سال کے حملہ کی وجہ سے اس قسم کا ضعف مجھے اس سال پیدا ہوا کہ میں سمجھتا ہوں وہی وجہ ہے کہ میں آج اپنے آپ کو بیمار محسوس کرتا ہوں.سینہ میں درد ہو رہی ہے ، گلا بیٹھا ہوا ہے، نزلہ کی حالت ہے ، کمر میں درد ہے، جسم میں درد ہے ، بخار ہے واللهُ اَعْلَمُ کیا سبب ہے اور اس بیماری کے ساتھ اس کا کیا جوڑ ہے.لیکن میں عام طور پر رات کو کام کرنے کا عادی تھا.دن کو تو یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص آگیا اس نے کہا ملنا ہے.دوسرا آ گیا وہ بھی کہتا ہے ملنا ہے.تیسر ا آ گیاوہ بھی کہتا ہے ملنا ہے.پھر کاغذات آگئے ان کے دیکھنے بھالنے میں جو اصل کام مطالعہ کا اور فکر کا اور غور کا اور مسائل نکالنے کا اور لکھنے کا ہوتا تھا اس کے لئے دن کو فرصت نہیں ملتی تھی.چنانچہ جو پہلی ایک ہزار صفحہ کی تفسیر چھپی ہوئی ہے وہ ساری کی ساری میں نے رات کو لکھی ہے.یہ سمجھ لو کہ وہ ہزار صفحہ کی کتاب ہے اور اس کے ایک صفحہ میں کم سے کم پانچ کالم آتے ہیں گویا کالموں کے لحاظ سے اس تفسیر کا پانچ ہزار کالم بنتا ہے.اور ایک آدمی اگر تیزی سے لکھے ، حوالے دیکھنے کی ضرورت نہ ہو، سوچنے کی ضرورت نہ ہو تو میں نے دیکھا ہے گھنٹہ بھر میں سات ساڑھے سات کالم فل سکیپ سائز کے لکھتا ہے.اور اگر اس کو حوالے دیکھنے ہوں، آیتوں کا مقابلہ کرنا ہو ، لغت دیکھنی ہو ، بعض مشکل مضمونوں کو سوچنا ہو جیسا کہ قرآن شریف کی تفسیر ہوتی ہے تو شاید بعض لوگ دو تین کالم ہی لکھ سکیں

Page 546

انوار العلوم جلد 24 511 سال 1954ء کے اہم واقعات لیکن سردیوں کے موسم میں یہ قریباً ساری کی ساری تفسیر لکھی گئی.ساری تو نہیں یہ سمجھو کہ آدھی کیونکہ آدھی میرے درس قرآن کی وجہ سے پہلے لکھی ہوئی تھی صرف اس کی درستی کا کام تھا.بہر حال کم سے کم پانچ سو صفحہ ایسا تھا یا دوسرے لفظوں میں یہ کہ پچیس سو کالم ایسا تھا جو تین مہینے میں رات کو بیٹھ کر میں نے لکھا.کئی دفعہ ایسا ہو جاتا تھا کہ میں صرف کمر سیدھی کرنے کے لئے تھوڑی دیر کے لئے لیٹ جاتا تھاور نہ گھڑی بتاتی تھی کہ اب صبح کی اذان ہونے والی ہے.ایک بجے دو بجے تک بیٹھنا تو قریباً قاعدہ ہی بنا ہوا تھا اور پھر اس جوش میں یہ بھی احساس نہیں ہو تا تھا کہ کپڑے اوپر ہیں یا نہیں.ایک کرتے میں دالان میں جا کے بیٹھ رہنا اور لکھتے رہنا، بیوی نے دوسرے کمرے میں سوئے رہنا ایک معمول سا ہو گیا تھا.تو رات کو کام کرنے کا میں پر انا عادی ہوں.لیکن اس دفعہ میں نے دیکھا کہ بعض دفعہ تو آٹھ نو بجے ہی مجھے یوں معلوم ہوتا تھا کہ اب میں بالکل ایک منٹ بھی نہیں جاگ سکتا اور مجبوراً سونا پڑتا تھا.تو ان سردیوں میں میں رات کو بالکل کام نہیں کر سکا سوائے اس کے کہ عشاء تک کوئی کام کر لوں تو کر لوں.بلکہ گھر سے مجھ پر اعتراض ہونے شروع ہو گئے تھے کہ آپ تو اتنی جلدی کھانا کھانے لگ گئے ہیں کہ ارد گرد والے لوگ ہنستے ہیں کہ ہم تو نہیں کھاتے اور آپ شام کے وقت ہی کہتے ہیں کہ کھانا لاؤ.میں نے کہا میں اس لئے کہتا ہوں کہ آٹھ نو سے زیادہ میں جاگ ہی نہیں سکتا اور کھانے اور سونے میں کچھ فاصلہ ہونا چاہئے اس لئے میں پہلے کھا لیتا ہوں.تو یہ سال اس لحاظ سے میرے لئے نہایت ہی تکلیف دہ گزرا اور شاید یہی موجب میری بیماری کا ہوا ہو اور اس وجہ سے لازماً میرے لئے ضروری تھا کہ مجھے زیادہ تر آرام دیا جائے.مثلاً گر دنہ اُڑے، غبار نہ ہو کیونکہ یہ چیزیں گلے میں جاکر سوزش پیدا کرتی ہیں اور تکلیف ہو جاتی ہے لیکن یہ چیز میسر نہیں آسکی اور ملاقاتوں کے وقت میں گردو غبار بھی اُڑتا رہا.گو مرد اب پہلے سے بہت زیادہ احتیاط کرتے ہیں.پہلے تو بڑی گر د ہوا کرتی تھی لیکن اب میں نے دیکھا ہے کہ چند سالوں سے نصیحت کی وجہ سے بہت احتیاط ہوتی ہے لیکن پھر بھی غفلت ہو جاتی ہے.مستورات کی ملاقات میں بھی ایسا ہی ہو تا ہے.ان کی تعلیم چونکہ کم ہوتی ہے

Page 547

انوار العلوم جلد 24 512 سال 1954ء کے اہم واقعات اور ان کی تربیت بھی کم کی گئی ہے ان کی مجالس میں گردو غبار زیادہ ہوتا ہے.خصوصاً گاؤں والی عورتیں اور پھر خصوصاً ایسی عورتیں جنہوں نے ہمیں گودیوں میں پالا ہوا ہے اور ایسی عورتیں ابھی زندہ ہیں) ان میں سے کوئی عورت آجائے تو وہ تو ایک بچہ سمجھ کر مجھ پر آکر جھپٹتی ہے کیونکہ اس نے گودیوں میں کھلایا ہوا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ تو پھر وہ گرد اڑتی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آندھی ہی آرہی ہے.اس وجہ سے مجھے زیادہ کوفت ہوئی.لیکن زیادہ تر مجھے اس وجہ سے خیالی کوفت ہوئی کہ ہماری جماعت اتنی دیر سے قائم ہے اور ابھی تک مردوں اور عورتوں کی تربیت پوری طرح سے نہیں ہو سکی.یورپ میں میں نے دیکھا ہے ان کے ہاں ایسی تربیت ہے کہ خطر ناک سے خطر ناک وقت میں بھی وہ اپنے نظام کو نہیں بگڑنے دیتے.میں نے اخبار میں ایک دفعہ ایک واقعہ پڑھاؤ اللهُ اَعْلَمُ واقعہ تھا یا لطیفہ مگر اس نے واقعہ کے طور پر لکھا تھا کہ کسی سینما میں لوگ تماشہ دیکھ رہے تھے کہ آگ لگ گئی آگ کو دیکھ کر لوگ باہر کی طرف بھاگے.اب ڈر یہ پیدا ہوا کہ دروازہ رُک جائے گا لوگ اس میں پھنس جائیں گے اور جتنی دیر میں دس نکل سکتے ہیں اُتنی دیر میں شاید دو ہی نکلیں.ایک ہوشیار آدمی وہاں کھڑ ا ہوا تھا اس نے جب ان کی یہ حالت دیکھی تو اس نے سمجھا کہ ان کو فوراً نظم میں لانا چاہئے ورنہ پھر ان کا بچنا مشکل ہو جائے گا.ان کے ہاں ایک قاعدہ ہوتا ہے جسے کیو(QUEUE) کہتے ہیں.ہمارے ہاں تو یہ ہے کہ ایک دوسرے کو دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھتے جائیں گے.ان کے ہاں قاعدہ یہ ہے کہ ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں اور پھر اسی ترتیب سے جاتے ہیں جس ترتیب سے کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور یہ عادت ان میں اس قدر راسخ ہو گئی ہے کہ حیرت آتی ہے.میں نے ایک دفعہ لندن میں دیکھا.میں جارہا تھا چو دھری صاحب اور دوسرے دوست ساتھ تھے ایک گلی میں کوئی سو گز کی ایک لمبی قطار تھی اور اس کے پہلو میں اسی طرح کی ایک دوسری قطار تھی اور اسی طرح ایک تیسری قطار تھی.سب لوگوں نے ہاتھ میں چھوٹے چھوٹے جگ پکڑے ہوئے تھے.تینوں کے اگلے سرے کھڑکی کے پاس تھے

Page 548

انوار العلوم جلد 24 513 سال 1954ء کے اہم واقعات اور پچھلا سرا ایک کا بہت دور تھا اور دوسرے کا اس سے کم تیسری کا نصف میں ختم ہو جاتا تھا.میں نے چودھری صاحب سے کہا یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یہ شراب خانہ ہے اور یہ شراب خریدنے کے لئے آئے ہوئے ہیں اور یہ جو پہلی قطار ہے اس سے شراب تقسیم ہونی شروع ہو گی یہاں تک کہ آخری آدمی شراب خریدے گا اس کے بعد دوسری قطار کا اگلا آدمی آگے آئے گا اور پھر تیسری کا.اب شراب جیسی چیز جو نشہ میں انسان کی عقل ماردیتی ہے اس کے وہ خریدار تھے اور شاید کہیں نہ کہیں سے پی کر ہی آئے ہوں گے لیکن اب وہ اپنے گھروں کو شراب لے جارہے تھے.اُس دن ہفتہ کی شام تھی اور چونکہ ہفتہ کے دن اُن کو تنخواہیں ملتی ہیں، اُس دن بہت زیادہ ہجوم ہوتا ہے تو انہوں نے کہا یہ محض اس وجہ سے آرام سے کھڑے ہیں کہ تا ان کا مقررہ قومی نظام نہ ٹوٹے.خیر واقعہ میں یہ سنا رہا تھا کہ جب آگ لگی اور لوگ نکلنے لگے تو ان میں سے ایک نے دیکھا کہ اس طرح خطرہ بڑھ گیا ہے تب اُس نے وہی کیو (QUEUE) کی آواز دی.یہ لفظ اس نے زور سے بولا تو یکدم سارے ہٹ کے ایک دوسرے کے پیچھے کھڑے ہونے شروع ہو گئے.گویا ایسی عادت پڑی ہوئی تھی کہ وہ بھول ہی گئے کہ آگ لگی ہوئی ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ سارے کے سارے آرام سے باہر نکل گئے لیکن ہمارے ہاں یہ تنظیم اتنی کیوں نہیں.ابھی مجھ سے ایک عزیز نے سوال کیا اور کہا کہ میں ولایت سے آیا ہوں.میں ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں.اس کا رنگ کچھ متغیر سا ہوا ہوا تھا شاید اس خیال سے کہ کہیں مجھ سے خفا نہ ہو جائیں.خیر وہ مجھ سے کہنے لگا خبر نہیں کیا بات ہے کہ ان لوگوں کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں.میں ہنس پڑا اور میں نے کہا میرا اپنا خیال یہی ہے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں.وہ یہ سمجھتا تھا کہ شاید مولویوں کی طرح یہ بھی خفا ہو جائیں گے کہ تم نے اپنی قوم کے اخلاق کو بُرا کہا ہے حالانکہ جب کچی بات یہی ہے کہ ان کے اخلاق اچھے ہیں تو ہم اس کے سوا کہہ کیا سکتے ہیں.پس میں نے کہا ہاں ٹھیک ہے میرا اپنا بھی یہی خیال ہے.پھر اس نے جھجکتے ہوئے مجھ سے پوچھا ایسا کیوں ہے؟ پھر میں نے اس کو سچاسچا جواب دیا کہ یہ شراب کی وجہ سے ہے.اس نے حیرت سے کہا کیا شراب کی وجہ سے ان کے

Page 549

انوار العلوم جلد 24 514 سال 1954ء کے اہم واقعات اخلاق اچھے ہیں ؟ میں نے کہا ہاں.اب میں نے سمجھا کہ اب یہ دوسرا وسوسہ اس کے دل میں پیدا ہو گا کہ پھر شراب شروع کرنی چاہئے تاکہ ہمارے اخلاق بھی اچھے ہو جائیں.تو میں نے اُس کو بتایا کہ اصل بات یہ ہے کہ شراب میں ہزاروں خرابیاں بھی ہیں لیکن شراب میں ایک خوبی ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ اجتماع فکر کر دیتی ہے.جس چیز کو سنیں یا کہیں اُسی کو دہراتے چلے جائیں گے اور کسی دوسری چیز کا ان میں احساس ہی نہیں ہو گا.میں نے کئی دفعہ سنایا ہے ایک دفعہ میں گھر میں ٹہل رہا تھا اور ٹہلتے ٹہلتے کوئی کتاب یا کوئی مضمون لکھ رہا تھا.نیچے سے مجھے کسی شخص کی آواز آئی جو دوسرے کو پنجابی میں کہہ رہا تھا کہ "بھائی سورن سنگھ ! کیا پکوڑے کھانے ہیں ؟" مجھے یہ فقرہ کچھ عجیب سا معلوم ہوا.چھوٹی سی دیوار تھی پاس ایک سٹول پڑا ہوا تھا میں نے سٹول پر کھڑے ہو کر نیچے جھانکا کہ کیا بات ہے تو میں نے دیکھا کہ ایک شخص گھوڑے پر سوار جارہا تھا اور دوسرا آدمی جو پیدل تھا وہ اس جگہ موڑ پر جہاں صدر انجمن احمدیہ کا دفتر ہوا کرتا تھا اور اس کے او پر مکان کے دوسری طرف میر ا دفتر تھا گلی کے نیچے نکڑ میں بیٹھا ہوا تھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اکٹھے آئے ہیں مگر وہاں آکے وہ تھک کے بیٹھ گیا ہے اور گھوڑے والا جا رہا ہے اور وہ عجیب لچکدار طرز پر جیسے کوئی ناز کرتا ہے کہہ رہا تھا" سورن سنگھ ! پکوڑے کھانے ہیں ؟.اس آواز کو سنکر مجھے تعجب ہوا مگر پھر میرا تعجب اور بڑھا کہ سورن سنگھ صاحب گھوڑے پر چڑھے ہوئے کوئی پندرہ گز چلے گئے اور وہ وہیں بیٹھے ہوئے کہتا جاتا ہے."سورن سنگھا ! پکوڑے کھانے ہیں" پھر میں نے دیکھا کہ سورن سنگھ صاحب تو گلی کی دوسری نکڑ پر پہنچے ہوئے ہیں اور یہ ابھی پکوڑوں کی دعوت دے رہا ہے.اس کے بعد وہ اور آگے نکل گیا اور غالباً پھر وہ بہشتی مقبرہ تک بھی جا پہنچا اور وہ شخص بیٹھے ہوئے یہی کہہ رہا تھا."بھائی سورن سنگھ ! کیا پکوڑے کھانے ہیں ؟'' اب سورن سنگھ صاحب شاید گھر بھی جا پہنچے تھے اور یہ بیٹھا میرے گھر کے نیچے " پکوڑے کھانے ہیں" کا راگ الاپ رہا تھا.یہ چیز صرف شراب کی وجہ سے تھی.میں سمجھ گیا کہ اس نے شراب پی ہوئی ہے.تو شراب اجتماع فکر کرتی ہے اور اس کا لازمی نتیجہ علم النفس کے ذریعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے ا

Page 550

انوار العلوم جلد 24 515 سال 1954ء کے اہم واقعات کہ جس چیز پر متواتر انسانی ذہن لگ جائے وہ دل میں شیخ کی طرح گڑ جاتی ہے.تو دوسری خوش قسمتی ان کو یہ نصیب ہوئی (اصل میں تو بد قسمتی تھی مگر خوش قسمتی یہ نصیب ہوئی) کسی نہ کسی وجہ سے مسیحی قوم میں اخلاق اور رحم اور عفو پر خاص زور دیا گیا.جب وہ شرابیں پی کے اور سج سجا کے اتوار کی چھٹی میں گرجے میں جاتے ہیں ( کام ان کو بڑا کرنا پڑتا ہے) تو وہاں جاتے ہی پادری ان کو کہتا ہے کہ تم میں رحم ہونا چاہئے ، تم میں شفقت ہونی چاہئے ، تم میں صفائی ہونی چاہئے ، تم میں نظم ہونا چاہئے ، تم میں غریبوں کی ہمدردی ہونی چاہئے.یہ وہ سنتے ہیں اور پھر یہی خیال ان کے دماغ میں گھومتے چلے جاتے ہیں.لیکن ہمارے ملک میں یہ کیفیت ہے کہ ہم ہر چیز کے متعلق اس طرح کودتے ہیں جس طرح بندر درخت پر کودتا ہے.ابھی ایک خیال ہوتا ہے پھر دوسرا خیال ہوتا ہے پھر تیسر اخیال ہوتا ہے پھر چوتھا خیال ہوتا ہے ایک جگہ پر ہم نکتے ہی نہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ سے اعلیٰ قرآنی تعلیم اور حدیثی تعلیم ہمارے اندر جذب نہیں ہوتی کیونکہ ہم جھٹ اس سے کود کر آگے چلے جاتے ہیں.(رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس کا علاج مراقبہ بتایا ہے اور مختلف شکلوں میں صوفیائے کرام نے اس پر عمل کی تدابیر نکالی ہیں مگر اس مادی دور میں اس کو پوچھتا کون ہے ) تو میں نے کہا ایسا شراب کی وجہ سے ہے.اور میں نے اُن کو بتایا کہ ہمارے ہاں بھی خدا تعالیٰ نے اس کا علاج رکھا ہے مگر ہمارے علماء نے وہ علاج اختیار نہیں کیا.اور وہ یہ تھا کہ قرآن کی تعلیم اور حدیث کی تعلیم جوان امور کے متعلق ہے اُس کو بار بار ذہن میں لایا جائے جسے مراقبہ کہتے ہیں.اور پھر بار بار لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے.مگر ہمارے ہاں تو بجائے یہ کہنے کے کہ اخلاق کی درستی ہونی چاہئے بس یہی ہوتا ہے کہ نماز پڑھو، روزہ رکھو، یوں سجدہ کرو، یوں ڈھیلا استعمال کرو.کم سے کم سات دفعہ جب تک پتھر سے خاص خاص حرکات نہ کرو تمہارا ڈھیلے کا فعل رست ہی نہیں ہو سکتا.غرض یا قشر پر زور دیا جاتا ہے یا رسم پر زور دیا جاتا ہے اور جو اصل سبق ان احکام کے پیچھے ہے اسے بالکل نظر انداز کیا جاتا ہے.غرض اُدھر دماغوں کو اپنی طرف متوجہ رکھنے والا جو ایک جسمانی سامان اُن کو میسر ہے وہ ہمیں نہیں.ہمارے پاس

Page 551

انوار العلوم جلد 24 516 سال 1954ء کے اہم واقعات روحانی سامان تھے ، اخلاقی سامان تھے لیکن ان کو ہم استعمال نہیں کرتے.اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے ہاں یہ اخلاق پیدا ہو جاتے ہیں اور ہمارے ہاں نہیں ہوتے.تو بہر حال تربیت کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرتی اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم تربیت کریں لیکن بار بار جلسہ پر بھی میں نے کہا ہے، خطبے بھی کہے ہیں، زبانی بھی ہدایتیں دی ہیں لیکن " وہی ڈھاک کے تین پات" وہ بات اپنی جگہ سے ملتی نہیں.مثلاً ملاقات ہوتی ہے اس ملاقات کے لئے میں نے متواتر عیدوں پر ہدایتیں دی ہیں، جلسے پر ہدایتیں دی ہیں کہ جو لوگ آتے ہیں وہ اپنی محبت کے جذبہ میں آتے ہیں تمہاری طرح ڈیوٹی پر نہیں کھڑے ہوئے.اُن کا دل یہ چاہتا ہے کہ جہاں سے ہم داخل ہوں خلیفہ کے منہ پر ہماری نظر پڑنی شروع ہو جائے مگر بار بار سمجھانے کے باوجود پہریدار ہمیشہ میرے مُنہ کے آگے کھڑا ہوتا ہے اور ملاقاتی کو لا کر اور پھر اپنی پیٹھ کے پیچھے سے گزار کر سامنے کرتے ہیں تاکہ اُسے کچھ نظر نہ آئے.اور جس وقت وہ میرے پاس آتا ہے اُس وقت ایک دوسرے ملاقات کروانے والے صاحب اُس کا ہاتھ پکڑ کر جھٹکا دیتے ہیں اور اسے کہتے ہیں "چلو پیچھے کو " وہ نظارہ بالکل ایسا ہوتا ہے جیسے تین آنہ والی یا چھ آنہ والی مشین ہوتی ہے جس کے اندر کوئی تین آنے یا چھ آنے ڈالے تو اندر سے ایک پیکٹ نکل آتا ہے.اس غریب ملاقاتی کی ملاقات بھی اسی پیکٹ کے نکلنے کی طرح ہوتی ہے اور کچھ نتیجہ نہیں نکلتا.بار بار میں نے سمجھایا ہے کہ ایسا نہ کیا کرو.بعض کار کن ایسے ہیں کہ ان کے متعلق میں نے یہاں تک ہدایت دی کہ آئندہ ان کو کام پر نہ مقرر کیا کرو کیونکہ یہ ہمیشہ دخل دیتے ہیں لیکن باوجود اس کے وہی مقرر ہوتے ہیں اور اُن کا کام یہ ہو تا ہے کہ ہاتھ پکڑا اور نکالا.ہاتھ پکڑا اور نکالا.حالانکہ میں نے منع کیا ہوا ہے کہ اگر میں سمجھوں گا کہ اب روکنے کا وقت آیا ہے تو میں آپ کہہ دوں گا کہ ان کو رخصت کر دو.جب تک میں نہیں کہتا تمہارا کام نہیں کہ ان کو گھسیٹو.یا اگر خطرے والی بات ہو تو بے شک اُس وقت ہر انسان اپنی عقل کو استعمال کرتا ہے.اگر تم سمجھتے ہو کہ کوئی دشمن آ گیا ہے اور وہ کوئی حملہ کرنا چاہتا ہے تو پھر تمہیں میرا حکم لینے کی ضرورت نہیں.آپ ہی اپنی طرف سے انتظام

Page 552

انوار العلوم جلد 24 517 سال 1954ء کے اہم واقعات کر سکتے ہو مگر وہ تو لاکھوں میں سے کوئی شخص ہو گا.اگر فرض کرو مجھے نو ہزار آدمی ملتا ہے تو اس میں سے آٹھ ہزار نو سوننانوے تو نیک اور مخلص اور محبت کرنے والا ضرور ہوتا ہے اس کے لئے اس قسم کی حرکتیں کرنے کی ضرورت کیا ہوئی.لیکن کبھی باز نہیں آتے.پھر مردوں نے تو کچھ نہ کچھ تنظیمیں کرلی ہیں مگر عورتوں میں بھی یہی ہوتا ہے.مثلاً آج ہی میں نے یہاں آنا تھا تو میں نے ان سے کہا کہ مجھے کچھ تھوڑا سا وقت دے دینا تا کہ میں اس میں اپنے نوٹوں پر نظر ڈال لوں اور وہ پھر دماغ میں تازہ ہو جائیں تو مجھے کہا گیا کہ اچھا ایک گھنٹہ ملاقات ہو گی لیکن یہ نہیں سوچا کہ ایک گھنٹہ میں کتنی ملاقاتیں ہو سکتی ہیں.مردوں میں اتنا ہے کہ انہوں نے اندازے کر لئے ہیں کہ ایک گھنٹہ میں اتنے آدمیوں کی ملاقات ہوتی ہے.اگر وہ گھنٹہ کہیں گے تو ساتھ آدمی بھی بتا دیں گے کہ اتنا آدمی آئے گا مگر انہوں نے گھنٹہ کی ملاقات رکھ دی اور چھ گھنٹہ کی عور تیں جمع کر لیں.پھر عورتوں بیچاریوں کے لئے اور بھی مشکل ہوتی ہے.یعنی کچھ تو ایسی ہوتی ہیں کہ پردہ میں لپٹی لپٹائی آئیں اور یہ کہہ کے چلی گئیں کہ السّلامُ عَلَيْكُمْ ، دعا کے لئے آئی ہیں.اور کچھ جیسے میں نے کہا ہے ہمارے گھروں میں پرانی آنے والی ہوتی ہیں جن کی گودیوں میں ہم پہلے تھے یا جنہوں نے ہم کو کھلایا ہوا تھا.وہ تو کہتی ہیں کہ یہ ہماری جائیداد ہے ہم چھوڑیں گی نہیں.تم اُن کو پکڑ پکڑ کے گھسیٹو بھی، کچھ بھی کر ووہ یہی کہتی چلی جائیں گی کہ "ذرا ٹھہر جاؤ اک گل کرنی ہے." غرض وہ اپنی ہی کہی جاتی ہیں تو ان کو بھی چاہئے کہ ان ساری باتوں کو سوچ کر آدمیوں کی بھی تقسیم کر لیں اور وقت بھی مقرر کر لیا کریں کہ اتنا وقت ہے اور اس میں اتنے آدمی مل سکتے ہیں.پھر اتنے آدمیوں کو آنے دیں اور اس کے بعد والوں کے لئے دوسرا وقت مقرر کر دیں.مگر باوجود سمجھانے کے ان میں ابھی یہ بات پیدا نہیں ہوئی.پس میں پھر دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر تم نے تربیت نہیں حاصل کرنی تو پھر اس لیکچر کی غرض ہی بیکار ہے.اس میں تو یہی بتایا جائے گا اور بتایا جاتا ہے اور بڑی بات اور اہم بات اس میں یہی ہوتی ہے کہ ہماری جماعت کو اپنے اخلاق کس طرح زیادہ سے زیادہ ٹھیک کرنے چاہئیں اور کس طرح اپنی تنظیم کو زیادہ سے زیادہ درست کرنا چاہئے.

Page 553

انوار العلوم جلد 24 518 سال 1954ء کے اہم واقعات جلسہ کے انتظام کے متعلق بھی میں دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ کا انتظام بدلا گیا اور پھر مجھے کارکنوں نے بتایا کہ کسیر کم ہو گئی ہے.میرے نزدیک کھانے سے بھی زیادہ مکان اور کسیر کی اہمیت ہوتی ہے.لوگ گھر سے آئے تو چار پائیاں چھوڑ کر آئے.تو کم سے کم ان کے لئے زمین پر تو ایسی جگہ ہونی چاہئے کہ ان کی صحت ٹھیک رہ سکے اور لیٹ کے انہیں نیند آجائے.قیدیوں کے متعلق جو کتابیں میں نے پڑھی ہیں اُن سے پتہ لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں قیدی کو کوئی خاص چٹائی وغیرہ ایسی نہیں ملتی جس پر وہ آرام کر سکے.بس دو کمبل دے دیتے ہیں کہ ایک کو نیچے بچھا لو اور ایک کو اوپر اوڑھ لو.اس سے زیادہ اس کے آرام کا خیال نہیں رکھا جاتا.مگر ہم تو اسکے بھی خلاف ہیں اور حکومت سے یہی چاہتے ہیں کہ قیدیوں کو بھی اس سے اچھی جگہ دو کیونکہ بہر حال وہ انسان ہیں، انہوں نے زندگی بسر کرنی ہے، انہیں تم نے اپنے سارے رشتہ داروں سے محروم کر دیا.اس سے زیادہ اور کیا سزا ہو گی.تو کسیر کا وقت پر مہیا کرنا اور اتنی کثرت سے مہیا کرنا کہ لوگ اس سے آرام حاصل کر سکیں اور زمین کی سختی اور ٹھنڈک ان کو نقصان نہ پہنچائے یہ نہایت ضروری اور لازمی امر ہے.اسی طرح مکانوں کے متعلق بھی اس دفعہ بہت شکایت ہوئی کہ مکانوں میں دقت ہے.خصوصاً عورتوں میں تو بہت ہی دقت ہوئی.ان کے لئے کچھ خیمے لگائے گئے ہیں لیکن وہ خیمے بھی ان کی تعداد سے جو بڑھ گئی ہے کم ہیں.پس آئندہ ان امور کا وقت پر انتظام کیا جایا کرے اور اس کے متعلق اصولی طور پر تصفیہ کر کے انجمن کے پاس رپورٹ کی جائے.مجھ سے بھی مشورہ لے لیا جایا کرے تاکہ آئندہ اس قسم کی دقتیں پیش نہ آئیں.اسی طرح لاؤڈ سپیکر کے متعلق شکایت ہوئی ہے.کل عورتوں نے کہا کہ سارا دن ہمیں تقریریں ہی نہیں ملیں.انہوں نے کہا ہے بولنے والا بولتا تھا لیکن ہمارے پاس تو اس کی آواز اس طرح آتی تھی کہ ہم سمجھتے تھے آدمی نہیں جانور بول رہا ہے.حالانکہ لاؤڈ سپیکر کی غرض یہ ہے کہ بغیر اس کے کہ بولنے والے کے گلے پر بوجھ پڑے تمام حاضرین تک آواز پہنچ جائے.اگر یہ غرض پوری نہ ہو تو پھر لاؤڈ سپیکر اکثر اوقات

Page 554

انوار العلوم جلد 24 519 سال 1954ء کے اہم واقعات بجائے فائدہ کے نقصان کا موجب ہو جاتا ہے.اسی طرح کئی انتظام اس قسم کے ہیں جن کے متعلق میں دیکھتا ہوں کہ ہر سال نئے سرے سے سوچے جاتے ہیں.چنانچہ وہ ہر سال ہی بدلتے ہیں.مثلاً پولیس آتی ہے گورنمنٹ نے ان کا فرض مقرر کیا ہوا ہے کہ جو کچھ یہ کہتے ہیں وہ لکھ کے لاؤ.اب تمہیں تو اس پر خوش ہونا چاہئے بے شک جو شخص سیڈیشن (SEDITION) کی باتیں کرتا ہے، فساد کی باتیں کرتا ہے وہ تو ڈرے گا کہ یہ میری رپورٹ لکھیں گے اور اوپر پہنچے گی تو خبر نہیں کیا ہو گا.ان کو کسی طرح دق کر کے نکالو مگر تمہاری تو یہ کیفیت ہے کہ "بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا تمہیں کہتے ہیں تبلیغ نہ کرو اور آپ ہماری تبلیغ لے کر دوسروں تک پہنچاتے ہیں.رپورٹ پہلے سپر نٹنڈنٹ پولیس پڑھتا ہے پھر ڈپٹی کمشنر پڑھتا ہے پھر کمشنر پڑھتا ہے پھر چیف سیکرٹری پڑھتا ہے پھر گورنر صاحب پڑھتے ہیں وزیر پڑھتے ہیں.غرض ادھر کہتے ہیں تبلیغ نہ کرو اور اُدھر خود سامان کرتے ہیں کہ ہمیں تبلیغ کرو.اس سے زیادہ تمہارے لئے اور کونسا اچھا موقع ہو سکتا ہے.پس ہمیشہ ان کے لئے اچھی جگہ بنانی چاہئے اور انہیں ایسا موقع دینا چاہئے کہ وہ تمہارا ایک ایک لفظ لکھیں تا کہ اوپر کے سارے افسر وہ ایک ایک لفظ پڑھیں جو تم نے تبلیغ کے سلسلہ میں کہے ہیں.بہر حال اگر تور پورٹر جھوٹ بولنے والا ہے تو لکھنے سے جھوٹ کم ہو جاتا ہے کیونکہ اگر تم اس کو اچھی طرح لکھنے کا موقع نہیں دو گے تو وہ جا کے ساری تقریر اپنے پاس سے بنائے گا اور اس میں بہت زیادہ اس کے لئے جھوٹ کا موقع ہو گا.اور اگر وہ لکھے گا تو لکھنے کی وجہ سے اس کا جھوٹ کم ہو جائے گا اور اگر وہ شریف آدمی ہے تو پھر جو کچھ وہ لکھے گاوہ تمہاری اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہو گی.گویا لوگ تو تمہیں تبلیغ سے روکتے ہیں اور خدا تمہارے لئے دروازہ کھولتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس ذریعہ سے تمہاری تبلیغ کا ایک راستہ کھول دیا ہے.وہ آپ آتے ہیں اور لکھتے ہیں اور اوپر کے افسران تقریروں کو پڑھتے ہیں.اگر تم مثلاً یہاں کے جلسہ کی تقریروں کا ایک رسالہ لکھو اور ڈپٹی کمشنر کو جاکے کہو کہ پڑھ.تو شرم سے وہ لے تولے گا.کہے گا شکریہ ، بہت اچھا.لیکن گھر میں جا کر پھینک دے گا اور کہے گا مجھے کہاں

Page 555

انوار العلوم جلد 24 520 سال 1954ء کے اہم واقعات فرصت ان باتوں کی.سپر نٹنڈنٹ پولیس کو تم وہی رسالہ جا کے دے دو تو وہ منہ سے تو کہہ دے گا کہ بہت اچھا، شکریہ ، بڑی مہربانی کہ آپ یہ رسالہ لائے ہیں اور جاکے گھر میں پھینک دے گا بلکہ شاید اس کے گھر کی باور چن یا باورچی اس سے چولہا ہی جلائے.اسی طرح اوپر کمشنر کے پاس لے جاؤ تو وہ کبھی نہیں پڑھے گا.چیف سیکر ٹری کے پاس لے جاؤ تو وہ کبھی نہیں پڑھے گا لیکن یہ پولیس والے جو کچھ تمہاری تبلیغ کی باتیں لکھیں گے انہیں یہ سارے پڑھیں گے.وہ ایک ایک لفظ پڑھتے جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ شاید آگے وہ لفظ آئے گا جو ہمارے کام کا ہے.پھر اور آگے پڑھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ آگے آئے گا اتنے میں تمہاری ساری بات سنی جاتی ہے.تو یہ تو ایک اعلیٰ درجہ کا موقع خدا تمہارے لئے نکالتا ہے.تمہیں تو اگر ڈرانا جائز ہو تا تو تم کو چاہئے تھا کہ انہیں جا کے ڈراتے کہ اب کے خبر نہیں کیا کیا خطرناک تقریر ہو رہی ہے.بہت سا عملہ بھیجا جائے جو ایک ایک لفظ نوٹ کرے کیونکہ بڑی بھاری باتیں ہونیوالی ہیں.بہر حال جتنا تمہارا ریکارڈ اوپر بھیجیں گے اتنا ہی تمہارے لئے مفید ہو گا اور اتنی ہی تمہاری تبلیغ ہے.کیونکہ ایک ایک جگہ پر ہیں ہیں، پچاس پچاس افسر اس کو پڑھ لیتا ہے اور تمہاری تبلیغ ہو جاتی ہے.یہ چیزیں ہمیشہ ہوتی ہیں لیکن ہر دفعہ ہی میرے پاس شکایت آجاتی ہے کہ کرسیوں کا انتظام نہیں تھا یا میزوں کا انتظام نہیں تھا یا بعض اور اس قسم کی تکلیفیں تھیں جن سے ان کے کام میں مشکلات پیش آتی ہیں.بعض دفعہ وہ ہمارا فرض نہیں بھی ہو تا لیکن میں تو یہ بتاتا ہوں کہ فرض کا سوال نہیں تم کو تو خوشی ہونی چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے لئے تبلیغ کا ایک رستہ کھولا ہے.پھر بہر حال جو لوگ آتے ہیں وہ تو سنتے ہی ہیں.مثلاً مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ اس دفعہ پولیس کی قریباً چالیس پچاس کی نفری آئی ہے اب یہ کتنی اچھی بات ہے کہ تمہارے لئے چالیس پچاس آدمی آ گیا جو سننے پر مجبور ہے کیونکہ اس کی ڈیوٹی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ سُنے.اگر تمہاری باتیں سچی اور اچھی ہیں تو ان میں سے ہی ایسے لوگ پید اہو جائیں گے جن کے دلوں پر وہ باتیں اثر کریں گی اور وہ صداقت کو قبول کر لیں گے.اس کے بعد اور کسی دوسرے مضمون کے شروع کرنے سے پہلے میں

Page 556

انوار العلوم جلد 24 521 سال 1954ء کے اہم واقعات عورتوں سے خطاب کرتا ہوں.کیونکہ اس دفعہ پھر عورتوں کے لئے تقریر کا الگ انتظام نہیں ہو سکا.عورتوں کے لئے جو ان کا خصوصی فرض مقرر کیا گیا ہے میں اس کی طرف انہیں توجہ دلاتا ہوں اور وہ مسجد ہالینڈ ہے.ہالینڈ کی مسجد کا بنانا عورتوں کے ذمہ لگایا گیا ہے.مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس فرض کو عورتوں نے اُس تن دہی سے ادا نہیں کیا جس طرح کہ وہ پہلے ادا کیا کرتی تھیں.مسجد ہالینڈ کا سارا چندہ اِس وقت تک غالباً ساٹھ پینسٹھ ہزار کے قریب ہوا ہے.لیکن اس کے اوپر جو خرچ کا اندازہ ہے وہ جیسا کہ میں نے پچھلے سال بیان کیا تھا قریباً ایک لاکھ دس ہزار روپے کا ہے.بلکہ اب تو کچھ اور دقتیں پیدا ہو گئی ہیں.یعنی جو آرکیٹیکٹ (Architect) تھا اس نے اپنا نقشہ دیتے ہوئے لکھ دیا کہ ساٹھ ہزار میں مسجد بنے گی.جب دوسرے ماہرین سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ نوے ہزار لگے گا.اب اگر ان کا اندازہ صحیح ہو تو نوے ہزار یہ اور تیس ہزار کی زمین ہے ایک لاکھ میں ہزار ہوا.پھر جو نگرانی وغیرہ پر خرچ ہو گا پانچ چھ ہزار اس کا بھی اندازہ لگالو، پانچ چھ ہزار فرنیچر کا لگا لو تو ایک لاکھ تیس ہزار بن گیا.اس لحاظ سے بھی قریباً ستر ہزار کی رقم کی ضرورت ہے.مجھے ابھی چلتے وقت دفتر نے رپورٹ بھجوائی ہے کہ سارے سال میں عورتوں سے اکیس ہزار روپیہ مانگا گیا تھا اور انہوں نے نو ہزار جمع کر کے دیا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ تحریک کے منتظمین میں بھی کسی قدرستی پائی جاتی ہے.یا یہ کہو کہ ان کو کام کرنے کا طریقہ نہیں آتا.جو ان سے پہلے لوگ گزرے ہیں وہ کام کروا لیتے تھے لیکن موجودہ عہدہ دار جو پچھلے سال سے بدلے ہیں کام کروا نہیں سکتے.لیکن ہانپتے ضرور ہیں کہ ہم نے اتنا کام کیا اور یوں لوگوں میں شور مچایا.لیکن بہر حال شور مچانا وہی کارآمد ہو سکتا ہے جس کا نتیجہ نکلے.اگر نتیجہ نہیں نکلتا تو ہم یہ سمجھیں گے کہ کام کرنے والے کے طریق کار میں کوئی نقص ہے.مثلاً لجنہ ہے لجنہ نے اپنا ہال وغیرہ بنا لیا ہے اور اس پر انہوں نے پچاس ہزار کے قریب روپیہ لگایا ہے.وہ آخر جمع ہو گیا

Page 557

انوار العلوم جلد 24 522 سال 1954ء کے اہم واقعات کہ نہیں.اور وہ روپیہ انہوں نے اس صورت میں اکٹھا کیا ہے جبکہ ابھی مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتیں دے رہی تھیں.جب وہ ان سے ایک مقامی ہال کے لئے ایک دو سال میں اتنی رقم جمع کر سکتی تھیں تو وہ مسجد جو کہ نسلوں تک عورتوں کا نام بلند کرنے اور ان کے ثواب کو زیادہ کرنے کا موجب ہو سکتی تھی اس کے چندہ کے جمع کرنے میں وہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکتیں.یقینا کام کرنے میں کو تاہی ہوئی ہے.اور کم از کم مجھ پر یہی اثر ہے.بڑا ذریعہ ہمارے ہاں اشتہارات کا اور لوگوں کو توجہ دلانے کا اخبار الفضل“ ہو تا مگر میں نے تو ” الفضل“ میں کبھی ایسی شکل میں اس کے متعلق کوئی اعلان نہیں پڑھا کہ جس سے مجھ پر یہ اثر ہوا ہو کہ صحیح کوشش کی جارہی ہے.پس میں عورتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ ابھی ان کے ذمہ اتنی ہزار روپیہ پورا کرنا ہے.اور اب تو مسجد کے نقشے وغیرہ بن گئے ہیں اور کچھ مقدمہ بازی بھی شروع ہو گئی ہے کیونکہ آرکیٹیکٹ (Architect) نے کہا ہے کہ تم نے کئی نقشے بنوائے تھے سب کی قیمت دو اور ہمارے آدمی کہہ رہے ہیں کہ جو نقشے کام نہیں آئے ان کی قیمت کیوں دیں.اب اس نے نالش کر دی ہے اور اس نے وہاں کی عدالت کے سمن ربوہ میں بھجوائے ہیں حالانکہ اس سے معاہدہ تو مقامی امیر یا امام نے کیا تھا.اس کی غرض یہ معلوم ہوتی ہے کہ نہ تحریک وہاں پہنچے گی اور نہ عدالت میں اپنا جواب دے گی اور یکطرفہ ڈگری ہو جائے گی.اگر وہ مسجد جلدی سے بنی شروع ہو جائے تو پھر سوال حل ہو جاتا ہے.دراصل وہاں قاعدہ یہ ہے کہ آرکیٹیکٹ کا نقشہ اگر رد کر دیا جائے تو اُس کو اختیار ہوتا ہے کہ وہ اُس زمین کو جس پر مکان بنوایا جاتا ہے نیلام کروا کے اپنی قیمت وصول کر لے اور یہی اس کی غرض ہے.اگر اس پر مسجد کی بنیاد رکھی جاتی تو پھر کسی کو جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ اس کے نیلام کا سوال اٹھائے کیونکہ وہ تو خدا کا گھر ہو گیا.اور وہ بھی جانتے ہیں کہ اگر ہم نے ایسا کیا تو ساری دنیائے اسلام میں شور مچ جائے گا.پس اس جگہ پر مسجد کی تعمیر کا جلد ہونا نہایت ضروری ہے تا کہ وہ جگہ محفوظ ہو جائے اور آئندہ کسی کو شرارت کرنے کا موقع نہ ملے.

Page 558

انوار العلوم جلد 24 523 سال 1954ء کے اہم واقعات دوسری چیز جس کی طرف میں خواتین کو توجہ دلاتا ہوں وہ پر دہ ہے.پرانے زمانہ میں پردہ کو اتنی بھیانک صورت دے دی گئی تھی کہ وہ ایک اچھا خاصا قید خانہ تھا پر دہ نہیں تھا حالانکہ اسلامی تاریخ میں اس قسم کے پر دے کا کوئی ثبوت نہیں ملتا.نہ تو اسلامی تاریخ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں گھروں میں بیٹھی رہتی تھیں، نہ اسلامی تاریخ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ کسی مرد سے کسی صورت بھی کلام نہیں کرتی تھیں، نہ اسلامی تاریخ سے یہ ثبوت ملتا ہے کہ وہ اپنے منہ کو اس طرح بند کرتی تھیں کہ ان کے لئے سانس لینا مشکل ہو جاتا تھا لیکن پردہ پھر بھی تھا مگر آجکل اس کارد عمل ایسا ہوا ہے اور پر دہ کی شکل کو ایسا بدل دیا گیا ہے کہ پتا ہی نہیں لگتا کہ ہم پر وہ کس چیز کا نام رکھیں.مسلمان عورتیں پارٹیوں میں بھی شامل ہوتی ہیں، گانے بھی گاتی ہیں، مردوں کے ساتھ مصافحے بھی کرتی ہیں، ان کے ساتھ خوب باتیں بھی کرتی ہیں، ان کے سٹیجوں پر جاکر تقریریں بھی کرتی ہیں، ان کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور پھر کہا یہ جاتا ہے کہ یہ اسلامی پر دہ ہے.یہ اسلامی پر دہ ہے تو غیر اسلامی پردہ کون سا ہوتا ہے ؟ آیا غیر مسلم عورتیں ننگی پھر ا کرتی ہیں ؟ جس حد تک آجکل ہماری وہ عورتیں جو باہر جاتی ہیں لباس پہنتی ہیں، وہی یورپین عورتیں بھی پہنتی ہیں.جس حد تک یہ سوسائٹی میں شامل ہوتی ہیں اسی حد تک عیسائی عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں پھر پر وہ کون سا ہوا.آخر ایک لفظ کا تو قرآن سے پتا لگتا ہے اور اس کے کوئی معنی ہوں گے وہ کیا معنے ہیں ؟ جو بھی اس کے وہ معنے کرتے ہیں آیا اس پر وہ عمل کرتی ہیں.ہم کہتے ہیں کہ اگر اور نہیں تو چلو اتنا ہی عمل کرنا شروع کر دو پھر آگے چل پڑیں گے مثلاً یورپ میں جو عورتیں ہمارے ذریعہ سے مسلمان ہوتی ہیں یا امریکہ میں ہوتی ہیں یا انڈونیشیا میں ہوتی ہیں (انڈونیشیا والے گو مسلمان ہیں لیکن ان کے ہاں پر وہ ایسا ہی ہے جیسا یورپ اور امریکہ میں ) تو ان سے ہم یہ نہیں کہتے کہ تم فوراً پر دہ شروع کر دو.ہم جانتے ہیں کہ ان کو نسلاً بعد نسل بے پردگی کی عادت پڑی ہوئی ہے.ان کے مکان ایسے بنے ہوئے ہیں کہ اگر وہ ان میں پردہ کریں تو بیمار پڑ جائیں اور پھر ان کی سوسائٹی کی حالت اس قسم کی ہے کہ اگر وہ اس قسم کا پردہ کریں تو انہیں فاقے آنے

Page 559

انوار العلوم جلد 24 524 سال 1954ء کے اہم واقعات شروع ہو جائیں.جیسے ہمارا ز میندار ہوتا ہے اس کی بیوی جب تک کھیت میں جا کر کام نہیں کرتی اس کی زمینداری چلتی نہیں ہم اس کو کبھی نہیں کہتے کہ تو شہری عورتوں والا پردہ کر یا دوسری پڑھی لکھی عورتوں یا گھر کی کھاتی پیتی عور توں والا پر دہ کر.اسی طرح اگر وہ بھی اپنی ضرورتوں کے مطابق کرتی ہیں تو کر لیں لیکن ہم ان کو یہ سمجھاتے بھی رہتے ہیں کہ دیکھو اس اس حد تک تم پردہ کرنا شروع کرو لیکن یہ بھی یاد رکھو کہ پردہ اس سے زیادہ ہے مثلاً یورپ اور امریکہ میں ہم یہ کہتے ہیں کہ مسلمان عورت اپنا گلا ڈھانک لیا کرے اس طرح اپنا سر ڈھانک لیا کرے لیکن ساتھ ہی ہم انہیں یہ بھی کہہ دیتے ہیں کہ پر وہ اس سے زیادہ ہے لیکن تمہارے حالات میں سر دست اس سے زیادہ ہم نہیں چاہتے کہ جب آہستہ آہستہ تمہاری تعداد میں زیادتی ہوتی جائے گی اور عمرانی دباؤ تمہارے حق میں پیدا ہو نا شروع ہو جائے گا تو اس وقت ہم تم سے یہ خواہش کریں گے کہ اپنے پر دے کو بڑھاؤ اور آہستہ آہستہ اس پر دے تک پہنچ جاؤ جس کا اسلام تم سے تقاضا کرتا ہے.اس پر دے میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بد انتظامی ہو تو اور بات ہے.ہم نے عورتوں کو اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیمیں قادیان میں بھی دلوادی تھیں اور یہاں بھی دلوادی ہیں خود میری ایک بیوی ایم.اے ہے ، دوسری بی.اے کی تیاری کر رہی ہے ایک میری لڑکی سیکنڈ ایئر میں پڑھ رہی ہے عورتیں سکول اور کالج میں پڑھاتی ہیں اور اگر مر د پڑھانے کے لئے آتے ہیں تو پس پردہ بیٹھ کر پڑھا دیتے ہیں.مجھ سے کئی لوگوں نے جب بات کی اور ان کو بتایا گیا کہ ہمارے ہاں اس حد تک کی تعلیم ہے تو وہ حیران ہو جاتے ہیں.زیادہ تر اعتراض ان کا یہی ہوتا ہے کہ پردہ کرنے سے عورتوں کی صحتیں خراب ہو جاتی ہیں اور ان کی تعلیم اچھی نہیں ہوتی.جب ہم بتاتے ہیں کہ ہمارے ہاں عورتوں کی تعلیم بھی ہو رہی ہے اور صحتیں بھی ان کی خراب نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھی ہیں تو ان کے لئے یہ بات بڑی حیرت کا موجب ہوتی ہے بہر حال پر دہ ایک اسلامی حکم ہے اور اس کو تم نے پورا کرنا ہے.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ امریکہ اور انگلستان اور جرمنی اور فرانس والے لوگ خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کو پورا کریں گے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 560

انوار العلوم جلد 24 525 سال 1954ء کے اہم واقعات کی اطاعت عیسائیت نے نہیں کرنی، پوپ نے نہیں کرنی، آرچ بشپ آف کنٹر بری نے نہیں کرنی، مسلمان نے کرنی ہے.ہم یہ نہیں کہتے کہ تم ایک دن میں اس میں تغیر پیدا کر لو لیکن ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ تم نئی رسمیں نہ جاری کرو.جو پہلے بھی پر دہ نہیں کرتی تھیں.ان کو ہم آہستہ آہستہ ادھر لائیں گے مگر جو پردہ کرتی تھیں وجہ کیا ہے کہ وہ ایک دن میں پردہ سے باہر نکل آتی ہیں.ابھی دو مہینے کی بات ہوتی ہے کہ وہ عورت بڑا پردہ کرتی ہے اس کی صحت بھی ٹھیک ہوتی ہے، اس کا سانس بھی کبھی نہیں رکا، دم بھی نہیں گھٹا وہ دمہ کا دورہ بھی نہیں ہوا مگر دو مہینے کے بعد وہ وہی باتیں طوطے کی طرح دو ہر انا شروع کر دیتی ہے کہ اس سے صحت خراب ہوتی ہے اس میں یہ ہوتا ہے اس میں وہ ہوتا ہے.تیری ماں کی صحت خراب نہیں ہوئی، تیری بہن کی نہیں ہوئی تیری خالہ کی نہیں ہوئی، تیری پھوپھی کی نہیں ہوئی اب تک تیری نہیں ہوئی تھی آج یکدم کیوں خراب ہونے لگی ہے صرف اس لئے کہ اب تجھے ایسا آزاد خاوند مل گیا ہے جو چاہتا ہے کہ تو بھی آزاد پھرے.پس جو پہلے سے بے پر وہ پھر تی ہیں ان کو تو بے شک روکنے میں وقت چاہیے اور حکمت اور سہولت اور نرمی کے ساتھ ہر ایک کام ہونا چاہئے مگر جو اسلام اور قرآن کو مانتے ہوئے پر دہ چھوڑتی ہیں ان سے ہم پہلا مطالبہ یہ کرتے ہیں کہ قرآن شریف کی عزت رکھنا تمہارے اختیار میں ہے تمہیں پر دہ میں جو دقتیں اور مشکلات نظر آتی ہیں یا اسلامی اصول کے خلاف باتیں دکھائی دیتی ہیں ان کے متعلق گفتگو کرو بخشیں کرو اور ایک نتیجہ پر پہنچ کر جو شد تیں لوگوں نے پیدا کر لی ہیں ان کو دور کرو یہ بے شک تمہارا حق ہے اور تمہیں ان سے کوئی روک نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ایک دفعہ امرتسر یا لاہور کے اسٹیشن پر پھر رہے تھے اور حضرت اماں جان کو ساتھ لیا ہو ا تھا.مولوی عبد الکریم صاحب احمدیت سے پہلے وہابی تھے پھر نیچری خیال کے ہوئے سرسید کے بہت معتقد ہو گئے تھے اور پھر احمدی تو ہوئے مگر ان کی طبیعت پر پرانے خیالات کا اثر زیادہ تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو وہاں ٹہلتے ہوئے دیکھ کر انہیں خیال آیا کہ اب خبر نہیں کیا ہو جائے گا لوگ اعتراض کریں گے.اس زمانہ میں تو

Page 561

انوار العلوم جلد 24 526 سال 1954ء کے اہم واقعات عورت کا باہر برقعہ میں نکلنا بھی عیب سمجھا جاتا تھا کجا یہ کہ وہ اپنے خاوند کے ساتھ ٹہل رہی ہو چنانچہ وہ گھبرائے ہوئے حضرت خلیفہ اول کے پاس گئے مجھے حضرت خلیفہ اول نے یہ واقعہ خود سنایا تھا کہنے لگے مولوی عبد الکریم صاحب میرے پاس آئے اور آئے کہا کہ کتنا ظلم ہو گیا ہے اب کل دیکھئے سارے اخباروں میں شور پڑا ہوا ہو گا.میں نے کہا کیا ظلم ہو گیا ہے.کہنے لگے دیکھئے مرزا صاحب کو تو پتہ ہی نہیں وہ تو اپنے خیال میں محو رہتے ہیں کوئی مسئلہ ہی سوچ رہے ہوں گے یا کسی اور طرف متوجہ ہوں گے اور دیکھئے ساتھ ساتھ بیوی صاحبہ کو لے کر ٹہل رہے ہیں اب کیا ہو جائے گا.انہوں نے کہا کہ پھر آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں.کہنے لگے آپ جائے اور جا کر ان کو سمجھائیے کہ حضور کیا کر رہے ہیں کل کو تمام دنیا میں شور پڑ جائے گا.کہنے لگے میں نے کہا مولوی صاحب میں تو کہتا نہیں اور نہ مجھ میں جرات ہے اور اگر کہہ لیں گے تو آگے کون سی لوگوں نے ہماری عزت باقی رکھی ہوئی ہے اور پھر اس میں حرج کیا ہے.اس پر وہ بڑے جوش میں آگئے اور کہنے لگے آپ کو یہ خیال ہی نہیں ہے کہ کس طرح جماعت کی بدنامی ہو گی اور پھر آپ غصہ سے گئے اور جا کر حضرت صاحب سے کچھ کہا.آپ فرماتے تھے جب مولوی صاحب لوٹے تو میں نے شکل دیکھ کر سمجھا کہ کوئی اچھی بڑی جھاڑ پڑی ہے.سر جھکایا ہوا تھا اور خاموش چلے آرہے تھے.میں نے آگے بڑھ کر کہا کہ مولوی صاحب کہہ آئے کہنے لگے "ہاں کہہ آئے" میں نے کہا کہ پھر مرزا صاحب نے کیا جواب دیا ( آپ فرماتے تھے میں دیکھ رہا تھا کہ جب انہوں نے بات کی تو حضرت صاحب کھڑے ہو گئے حضرت صاحب کی عادت تھی کہ جس وقت کوئی بات قابلِ اعترض یا قابل تشریح ہوتی تھی تو کھڑے کھڑے زمین پر اپنی سوٹی رکھ کر رگڑتے تھے.میں نے آپ کو سوٹی رگڑتے ہوئے دیکھا تھا جس سے میں سمجھ گیا کہ حضرت صاحب نے جوش میں کوئی بات کی ہے.بہر حال جب میں نے پوچھا کہ کیا ہوا) کہنے لگے جب میں نے کہا تو مر زا صاحب نے میری طرف مڑ کے دیکھا اور کہا مولوی صاحب مخالف کیا لکھیں گے کیا یہ کہ مرزا صاحب اپنی بیوی کو جب کہ وہ برقعہ میں تھی لے کر ٹہل رہے تھے.بس یہ کہہ کر آگے چل دیئے.آپ نے

Page 562

انوار العلوم جلد 24 527 سال 1954ء کے اہم واقعات کہا یہی میں آپ کو کہہ رہا تھا کہ آخر ہوا کیا.خاوند اپنی بیوی کو جو پر دہ میں ہے لے کر ٹہل رہا ہے اس میں قابلِ اعتراض بات کون سی ہے.تو کئی چیزیں ایسی تھیں جن کو لوگوں نے تمسخر بنایا ہوا تھا.میں نے خود اپنی آنکھوں سے دلی میں دیکھا ہے کہ ارد گرد پردہ کر کے ڈولی آئی پھر ڈولی کے گرد پردہ کیا اور پھر عورت کو اندر بٹھایا.یہ ساری باتیں لغو ہیں لیکن اس کا رد عمل یہ تو نہیں ہونا چاہیئے کہ تم اپنے باپ دادا کی سزا خدا کو دینا شروع کر دو.تمہارے باپ دادوں نے تم پر ظلم کئے، تمہارے باپ دادوں نے تم کو قید کیا، تمہارے باپ دادوں نے تمہیں ایسی حالت میں رکھا جو جانوروں سے بھی بدتر تھی.تمہیں چڑیا خانوں میں رکھا لیکن کیا اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ تم خدا کے حکم کو رد کر دو گی.یہ تو بالکل وہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی نمبر دار کسی جلا ہے کا بر تن مانگ کر لے گیا اور پھر اس نے وقت پر اس کو واپس نہ کیا کچھ مدت انتظار کرنے کے بعد جلاہا نمبر دار کے گھر گیا تا کہ اپنا بر تن واپس لے.وہ گیا تو اتفاقاً اسی کے برتن میں (وہ کٹورا تھا جسے پنجابی میں چھنا کہتے ہیں) وہ سالن ڈال کر کھا رہا تھا یہ دیکھ کر اس کو اور آگ لگ گئی.پہلے تو اسے یہی غصہ تھا کہ اتنی دیر ہو گئی اس نے بر تن واپس نہیں کیا اب اس برتن میں اسے سالن کھاتے دیکھ کر اسے اور غصہ چڑھا اور کہنے لگا " اچھا نمبر دار یہی سہی تُو مجھ سے کٹورا مانگ کر لایا تھا اور واپس نہ کیا بلکہ اس میں سالن ڈال کر کھا رہا ہے اب میرا بھی نام بدل دینا اگر میں تم سے بر تن مانگ کر نہ لے جاؤں اور اس میں غلاظت ڈال کر نہ کھاؤں" اپنی طرف سے اس نے سمجھا کہ میں نے اس کو سزا دی ہے مگر اصل سزا خود اپنے نفس کو دی تھی اسی طرح اگر تم بھی کرتے ہو تو یہ حماقت کی بات ہے.تم نے اپنے باپ دادوں کو جو سزا دینی ہے دے لو.خدا تعالیٰ کو کیوں سزا دینا چاہتے ہو.اللہ تعالیٰ نے تمہیں جو حکم بھی دیا ہے خیر والا دیا ہے، بہتری والا دیا ہے اور اس کے نتائج یقینا بڑے بابرکت ہیں لیکن جو تمہیں تمہارے باپ دادا نے دکھ دیا تھا اس کی جگہ پر تم یہ کر رہی ہو کہ تم نے خدا تعالیٰ کے احکام کو توڑنا شروع کر دیا ہے.

Page 563

انوار العلوم جلد 24 528 سال 1954ء کے اہم واقعات مردوں کی ذمہ داریاں میں اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ ان مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں جو فوجی ہیں.فوجیوں میں سے پچاس فیصدی افسر ایسے ہیں جن کی بیویوں نے پردہ چھوڑ رکھا ہے اور جب ان کی بیویوں کو سمجھایا جائے تو کہتی ہیں کیا کریں ہمارے خاوند کہتے ہیں کہ اس کے بغیر ترقی نہیں ہوتی.جب تک تم مجلسوں میں نہیں آؤ گی دعوتوں میں نہیں آؤ گی ہمارے افسر ہمارے متعلق سمجھیں گے کہ یہ کوئی اچھا مہذب افسر نہیں ہے اور اس کی وجہ سے وہ ہم کو اعلیٰ ترقی نہیں دیں گے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک حد تک ایسا ہوتا بھی ہے گو یہ بہت زیادہ مبالغہ ہے میرے ایک عزیز جو فوت ہو گئے ہیں ریلوے کی تعلیم پا کر انگلینڈ سے آئے تو میں نے ان کے لئے کوشش کی کہ وہ کہیں ملازم ہو جائیں.اتفاق ایسا ہوا کہ ان کی نظر میں کچھ نقص نکلا جس کی وجہ سے گورنمنٹ ریلوے میں وہ نہیں آسکے.پھر ایک انگریز افسر جو بڑے عہدہ پر تھا اس نے یہ دیکھ کر کہ یہ ولایت سے پڑھ کر آیا ہے اس کو نقصان پہنچا ہے وعدہ کیا کہ میں بنگال ریلوے میں جو اُس وقت تک گور نمنٹ نے ابھی خریدی نہیں تھی اسے ملازم کروادوں گا چنانچہ انہوں نے سفارش لکھ کر بھیجی کہ اس کو وہاں نوکر رکھ لیا جائے.یہ وہاں گئے اور پھر واپس آگئے میں نے پوچھا کیا ملازم ہو گئے ؟ تو وہ کہنے لگے نہیں.میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے وہاں جو دوافسر انٹرویو کے لئے بیٹھے تھے انہوں نے جاتے ہی مجھ سے یہ سوال کیا کہ تمہاری بیوی پردہ کرتی ہے میں نے کہا کہ میری تو شادی ہی نہیں ہوئی اور اگر ہوتی بھی تو میں اس سے پردہ کر اتا.میں نے کہا کہ تمہیں یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی.اتنا کہہ دیتے کہ میری شادی نہیں ہوئی کہنے لگے اس کے بعد امر تسر کا ایک اور شخص پیش ہوا وہ ایک بڑا افسر ہو کے غالباً ابھی ریٹائر ہوا ہے) اور ہنستا ہو اوا پس آیا.کہنے لگا دیکھو تم نے یہ بیوقوفی کی تھی.میری بھی ابھی شادی نہیں ہوئی لیکن جب انہوں نے مجھ سے یہ سوال کیا تو میں نے کہا ہاں صاحب میری بیوی ہے اور وہ ٹینس کلب میں جاکر کھیلتی ہے اور ناچتی ہے چنانچہ انہوں نے اُس کو فورار کھ لیا اور ان کو رڈ کر دیا.میں نے کہا تمہاری تو بیوی ہی کوئی نہیں تم نے یہ کیا کیا ؟ وہ کہنے لگا نہیں ہے تو کیا ہوا مجھے یہ

Page 564

انوار العلوم جلد 24 529 سال 1954ء کے اہم واقعات تو حکم نہیں دے سکتے کہ نوکری کے بعد اپنی بیوی کو ضرور بلاؤ اور جب میری شادی ہو جائے گی تو میں نے اس سے پردہ کروانا ہی نہیں.یہ شکایات زیادہ تر فوجی افسروں کے متعلق ہیں.ایک دن ایک عورت آتی ہے یا اس کے رشتہ دار آتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ وہ خوب پردہ کرتی ہے اور پھر دو مہینے کے بعد وہی بے پر د ہو جاتی ہے اور بعض دفعہ تو ہم نے ایسا دیکھا ہے کہ شادی کے بعد دس دس پندرہ پندرہ سال فوج میں گزارے ہیں اور پر دہ ہوا ہے لیکن جب ترقی کا سوال آیا کہ شاید اب کر نیلی کے اوپر بریگیڈیئر ہو جائیں تو پر دہ چھوڑ دیا.گویاوہ بیوی کی بھیک سے بریگیڈیئر بننا چاہتے ہیں.اسی طرح اور کئی چیزیں ہیں میں مثال نہیں دیتاور نہ ان لوگوں کے نام ظاہر ہو جاتے ہیں اور وہ پکڑے جاتے ہیں.بہر حال ایسی ایسی باتیں دیکھی گئی ہیں جو حیرت انگیز ہیں اگر تو کوئی شخص یہی کہتا کہ چلو میں ان باتوں کو نہیں مانتا تو اس میں بھی کم سے کم کچھ وقار تو ہو تا ہے مگر بیوی کو ان کی جھولی میں ڈال کر یا اپنی بھیک کے ٹھیکرے میں بیوی ڈال کر اپنی ترقی لینی یا اپنی عزت لینی بہت ہی چھچھوری اور ذلیل بات ہے.یہ چیز ہے جس کی طرف میں خصوصیت کے ساتھ عورتوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں اور ساتھ ہی مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں تو وہ ذرا ہمت کریں.جن کو ترقیاں نہیں ملتیں ان کو پھر بھی نہیں ملتیں.آخر کیا سارے کرنیل جرنیل ہو گئے ہیں، کیا سارے میجر جنرل لیفٹینٹ جنرل ہو گئے ہیں، کیا سارے لیفٹینٹ جنرل فل جنرل ہو گئے ہیں.تم یہ کیوں خیال کرتے ہو کہ تمہاری بیوی کے پر دے کی وجہ سے تم فل جرنیل نہیں ہوئے.تم یہ کیوں خیال کرتے ہو کہ تمہاری بیوی کے پردے کی وجہ سے تم لیفٹینٹ جنرل نہیں ہوئے.تم یہ کیوں خیال کرتے ہو کہ تم بریگیڈیئر سے میجر جنرل صرف پردہ کی وجہ سے نہیں ہوئے.کہنے والے تمہیں دھوکا دینے کے لئے بیسیوں باتیں کہہ دیتے ہیں.اسی طرح کوئی یہ بھی کہہ دیتا ہو گا کہ جناب آپ کی بیوی چونکہ پردہ کرتی ہے اس لئے آپ کی طرف افسروں کی توجہ نہیں لیکن یہ یادر کھو کہ ایسے معاملات کے ساتھ کچھ وقار کی جس بھی وابستہ ہوتی ہے اگر تم کسی کے اندر یہ عید تو اس کو بڑی محبت اور ہوشیاری کے ساتھ سمجھاؤ بیوقوفی سے نہ سمجھاؤ کیونکہ یہ نقص تبھی.

Page 565

انوار العلوم جلد 24 530.سال 1954ء کے اہم واقعات پیدا ہو تا ہے جب وہ چاہتے ہیں کہ ہمیں کوئی بڑا عہدہ ملے اور اس وجہ سے انہوں نے پہلے سے ہی اپنا ایک بڑا مقام قائم کیا ہوا ہوتا ہے اور جس نے پہلے سے اپنا بڑا مقام کیا ہوا ہو اگر اس کو ذراسی ٹھیس لگے تو وہ یقینا گر جائے گا.حضرت خلیفہ اول اپنے ایک داماد کا جو اہل حدیث تھے.ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہنے لگے انہیں اس بات کا بڑا جوش رہتا تھا کہ ذرا کسی کی غلطی دیکھی تو کھڑے ہو گئے اور اسے کہنا شروع کر دیا کہ تم جہنمی ہو ، تم کافر ہو ، تم مرتد ہو.وہ ایک دفعہ مجلس میں آئے ہوئے تھے کہ ایک زمیندار رئیس جو ہمارا دوست تھا اور غیر احمدی تھا ہم سے ملنے کے لئے آگیا.حضرت خلیفہ اول سرگودھا کی طرف کے تھے اور یہاں جتنے بڑے زمیندار ہوتے ہیں وہ لمبی لمبی تہبندیں باندھتے ہیں جو زمین کے ساتھ لٹکتی چلی جاتی ہیں اور وہ اسے ایک فخر کی چیز سمجھتے ہیں جیسے انگریزوں میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ فلاں کی کریز بڑی صاف ہے ان کے ہاں یہ ہوتا ہے کہ تہبند زمین پر لٹکے اور وہ جھاڑو دیتا چلا جائے جیسے ملکہ الزبتھ اوّل کی گاؤن ہوا کرتی تھی.اگر ایسا ہو تو اس کو وہ بڑی عزت کی چیز سمجھتے ہیں.اسی طرح وہ اپنا رُ عب جمانے کے لئے مجلس میں آرہا تھا اور اس کی تہبند زمین پر لٹکی ہوئی تھی.ادھر یہ وہابی صاحب بیٹھے ہوئے تھے اور مسواک انہوں نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی انہوں نے مسواک لی اور اس کے پیر پر مار کر کہنے لگے "یہ جہنم میں جائے گا" کہنے لگے وہ اچھا بھلا مسلمان تھا لیکن چونکہ اور لوگ بھی بیٹھے ہوئے تھے اور وہ اپنے آپ کو علاقہ کار کیس سمجھتا تھا.جب اس نے کہا " جہنم میں جائے گا" تو بڑی گندی گالی دے کر کہنے لگا " تجھے کس نے بتایا ہے کہ میں مسلمان ہوں.میں کوئی مسلمان نہیں " گویا جھوٹ اس نے چھلانگ مار کر اسلام سے ہی انکار کر دیا.تو پیار اور محبت کے ساتھ ان باتوں کا ازالہ کرو سختی کے ساتھ نہ کرو کیونکہ اگر تم سختی کرو گے تو پھر اسلام کے ساتھ جو کچھ بھی ان کی وابستگی اس وقت باقی ہے وہ بھی جاتی رہے گی.حقیقت یہ ہے کہ یہ چیزیں اصل نہیں ہیں جڑ تو ہے محبت الہی، جڑ تو ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت.جب یہ چیزیں قائم ہو جائیں گی تو باقی چیزیں آہستہ آہستہ آپ ہی آجائیں گی مگر یہ ضرور ہے کہ کم سے کم نیکی ان کی یہ ہے کہ وہ کہیں کہ ہم پر دہ تو نہیں.

Page 566

انوار العلوم جلد 24 531 سال 1954ء کے اہم واقعات کرتے لیکن اسلام کا حکم یہی ہے کہ پردہ کیا جائے مثلاً ہم نے یورپ اور امریکہ کی نو مسلم عورتوں کو یہی تعلیم دینی شروع کی ہے کہ تم اتنا گلا ڈھانک لیا کرو، سر ڈھانک لیا کرو اور ایک تم ہم سے وعدہ کر لو کہ جب کہیں پر دے کا ذکر ہو تو تم یہ کہو کہ حکم تو وہی ہے پر میں کر نہیں سکتی.اس سے کم سے کم تمہاری اولاد میں احساس پیدا ہو گا کہ ہم اور زیادہ کر لیں.یہاں ہمارے انڈونیشیا کے دوست بیٹھے ہیں یہ وہاں کے وائس پریذیڈنٹ ہیں.ان میں پردہ بالکل نہیں اور یہ بات ہمارے لئے بعض دفعہ بڑی عجیب ہو جاتی ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شاید یہ نئی چیز ایجاد کی ہے حالانکہ ان میں نسلاً بعد نسل کبھی پردہ ی نہیں.کوئی شخص ہمارے مبلغ کا مخالف تھا اس نے کیا کیا ایک تصویر مجھے بھجوادی کہ آپ کے مبلغ یہ کام کرتے ہیں.اس میں ہمارے مبلغ صاحب بیٹھے ہوئے بالکل یوں معلوم ہوتے تھے جیسے کرشن جی بیٹھے ہیں ارد گرد ساری عورتیں بے پر د پھر رہی تھیں کوئی ادھر کوئی درخت پر چڑھی ہوئی تھی، کوئی دریا میں کو دی ہوئی ہے.میں اس بات کو جانتا تھا کہ وہاں تو پر وہ ہی نہیں چنانچہ میں نے اس کو لکھا کہ اس کا کیا قصور ہے.جب یہ مبلغ پیدا بھی نہیں ہوا تھا تب سے وہاں کی عورتیں یہ کام کر رہی ہیں اس میں اس مبلغ کا کیا تھاہی قصور ہے.واقعہ یہ ہے کہ ان میں بالکل یورپ کی طرح رواج ہے اور خواہ ہمارا مبلغ ہو یا کوئی ہو وہ ہر ایک کے سامنے اسی طرح کرتی ہیں.اب بعض عورتیں وہاں ایسی گئی ہیں جو پر دہ کرتی ہیں مثلاً میری بہو گئی ہے ، حافظ قدرت اللہ کی بیوی گئی ہے یہ دونوں پر دہ کرتی ہیں.پیچھے ان کے رئیس المبلغین یہاں آئے تھے اور ان کی بیوی بے پر د تھی.انہوں نے کہا وہاں کوئی پردہ کرتا ہی نہیں لیکن یہاں کی عورتوں کو دیکھ کر اب وہاں بُرقع شروع ہو گیا ہے اور چند عورتوں نے پہنا ہے لیکن یہ ان کی مرضی پر ہے ہم ان پر سختی نہیں کرتے.یہاں شاہ صاحب کی بیوی نے بُرقع بنو الیا تو کہنے لگی کہ میں برقع پہن کر جاؤں گی تو سہی پر وہاں مجھے بڑی شرم محسوس ہو گی یعنی جس طرح یہاں کی عورتوں کو بُرقع اتارنے میں شرم محسوس ہوتی ہے وہاں کی عورتوں کو پہنے میں محسوس ہوتی ہے.اس سے

Page 567

انوار العلوم جلد 24 532 سال 1954ء کے اہم واقعات بھی تم سمجھ لو کہ تمہارا ان کو سمجھانا کتنا مشکل کام ہے.جہاں عورتوں کو میں نے ان کے فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے.وہاں یہ بھی ضروری ہے کہ مردوں کو بھی عورتوں کے حقوق کی طرف توجہ دلائی جائے.مجھے افسوس ہے کہ ابھی تک ہماری جماعت عورتوں کے حقوق کے متعلق پوری طرح اسلامی ہدایات پر کار بند نہیں ہوئی.کثرت کے ساتھ یہ شکایتیں پیدا ہوتی ہیں کہ مرد جب دوسری شادی کر لیتے ہیں تو ان کی پہلی بیوی کے بچے آوارہ پھرتے ہیں وہ ان کی خبر گیری نہیں کرتے.ان کی معیشت کے سامان مہیا نہیں کرتے اور ان عورتوں کے ساتھ بھی کوئی تعلق نہیں رکھتے.آج بھی جو عورتیں ملنے آئیں ان میں ایک لڑکی بھی تھی وہ بُرقع میں لیٹی ہوئی آئی اور اس نے بغیر کچھ کہے سسکیاں لے کر رونا شروع کر دیا آخر ملاقات کر انے والی عورتوں نے یہ دیکھ کر کہ وقت ہو گیا ہے اسے اٹھالیا مگر پھر اس کی سسکیاں دیکھ کر کسی کو رحم آیا اور اس نے پھر اسے میرے پاس لا بٹھایا.میں نے کہا بیٹا بتاؤ تو سہی تمہیں کیا تکلیف ہے ؟ اس نے یہی تکلیف بتلائی کہ میرے خاوند نے مجھ سے بچے لے لئے ہیں وہ ان کے ساتھ بھی کوئی اچھا سلوک نہیں کرتا اور مجھ سے بھی بچے اس نے جدا کر لئے ہیں اور اب وہ میرے اخراجات وغیرہ کی بالکل پرواہ نہیں کرتا.میں نے دیکھا ہے یہ مرض اچھے اچھے مخلصوں میں بھی پایا جاتا ہے.کچھ عرصہ تک بڑا عمدہ سلوک ہوتا ہے اور اس کے بعد یکدم کسی دن رو آئی تو حالت بدل جاتی ہے بعض دفعہ ایسا قلب ماہیت دیکھا ہے کہ رات کو اچھے بھلے تعلقات تھے اور دوسرے دن سنا کہ آپس میں لڑائیاں ہو گئی ہیں.پس مردوں پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے.عورتوں کو اس وقت تک ان کے حقوق سے کچھ ہم نے محروم کر رکھا ہے اور کچھ شریعت نے ان کو بعض باتوں میں مجبور کیا ہوا ہے اور بہت سی باتیں ایسی ہیں جن میں رسم و رواج نے ان کو مجبور کیا ہوا ہے، شریعت نے ان کو آزادی دی ہے، حقوق دیئے ہیں رسم و رواج نہیں دیئے غرض وہ اس قسم کی مظلوم ہستی ہے بلکہ اس مظلوم ہستی کے ساتھ تو رحم کا معاملہ ہونا چاہیئے اور سوائے اس کے کہ ہم اس کے حقوق ادا نہ کریں.ہمارا فرض ہے کہ ہم اسے اپنے پاس

Page 568

انوار العلوم جلد 24 533 سال 1954ء کے اہم واقعات سے زائد حقوق دیں مگر ہمارے ہاں یہ طریق ہے جو ابھی تک بعض احمد یوں میں بھی جاری ہے کہ وہ اس کے حقوق کو تلف کر دیتے ہیں.آئندہ کے لئے یہ امر یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کی رضا اور خد اتعالیٰ کی محبت وابستہ ہے عورت سے حسن سلوک کے ساتھ اور حسن معیشت کے ساتھ.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ خَيْرُ كُمْ خَيْرُ كُمْ لِأَهْلِهِ 1 تم میں سے خدا کے نزدیک بہتر وہی ہے جس کا اپنی بیوی بچوں سے معاملہ بہتر ہے.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مولوی عبد الکریم صاحب نے ایک دفعہ اپنی بیوی سے کوئی سختی کی تو آپ کو الہام ہوا کہ " یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبد الکریم کو " 2 ان کو لیڈر کہہ کر ان کا دل بھی خوش کر دیا اور ان کو عزت کا مقام بھی دے دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ تمہارا یہ فعل ہمیں پسند نہیں.پس یہ چیز ایسی ہے جس کی طرف ہماری جماعت کو خصوصیت کے ساتھ توجہ کرنی چاہیے.خصوصاً یہ جو مسئلہ ہے کہ اگر کبھی اختلاف ہو جائے تو طلاق بھی دینی پڑتی ہے اور خلع بھی کرانا پڑتا ہے اس کے متعلق تو میں نے دیکھا ہے بعض احمدی ایسے گندے اخلاق دکھاتے ہیں کہ شرم آجاتی ہے حالانکہ انہیں شریعت نے خلع کا حق دیا ہے اگر تم اپنا حق استعمال کرتے ہو اور تمہارے پاس کوئی آتا ہے تو کہتے ہو کیوں مجھے نہیں حق طلاق کا؟ تو جب تم اپنا حق طلاق استعمال کرتے ہو تو عورت اگر خلع کا حق استعمال کرتی ہے تو تمہیں کیا اعتراض ہے.میری تو سمجھ میں یہ بات آج تک کبھی آئی نہیں کہ جو عورت اس طرح راضی نہیں اس کو گھر میں رکھنا تو سانپ پالنے والی بات ہے.میں تو کبھی سمجھ نہیں سکا کہ ایک عورت اگر ضلع چاہتی ہے تو مرد کو اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.وہ تو اگر ایک دفعہ مانگتی ہے تو یہ دو دفعہ دیوے اس کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے پھر جب وہ بے چاری خلع ما نگتی ہے تو وہ اپنا حق آپ چھوڑ دیتی ہے.مہر چھوڑ دیتی ہے اور کئی قسم کے حقوق جو شریعت نے اس کے لئے مقرر کئے ہیں سارے ترک کر دیتی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ اس کے راستہ میں روک پیدا کی جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو ایک عورت

Page 569

انوار العلوم جلد 24 534 سال 1954ء کے اہم واقعات نے ایک دفعہ ایسی ہی بات کہہ دی.پیچھے اس نے بتایا کہ مجھے سکھایا گیا تھا کہ ایسا کہنا اچھا ہوتا ہے ہے لیکن بہر حال وہ دھوکا میں آگئی اور اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں آپ کے پاس آنا پسند نہیں کرتی.اسی وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے گئے اور آپ نے فرمایا اس کو مہر وغیرہ اخراجات دے دو اور اس کو رخصت کر دو.3 اور کو دیکھو یہ چیز ہے جو اسلام سکھاتا ہے کہ اس کی درخواست کو اور اس کے اس فقرہ کو ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خلع سمجھا اور اسے خلع قرار دے دیا.پس اگر ایک عورت خلع ما نگتی ہے تو جس طرح تم کو طلاق دینے کا حق ہے عورت کے لئے شریعت نے خلع رکھا ہے تم کیوں خواہ مخواہ اس پر لڑا کرتے ہو.پھر طلاق دیتے ہیں تو مہر کے لئے ہزاروں بہانے بناتے ہیں کہ میں نے مہر نہیں دینا اگر مہر دینے کی طاقت نہیں تو اس کو طلاق ہی کیوں دیتے ہو.پس مردوں کو عورتوں کے متعلق اپنے رویہ میں اصلاح کرنی چاہیئے.ورنہ یہ دونوں گروہ اسلام کے لئے بشاشت محسوس نہیں کریں گے جو انہیں محسوس کرنی چاہیئے.اب میں جماعت کو اشاعت لٹریچر کی طرف توجہ دلاتا ہوں.اس سال کچھ نئی کتابیں اور لٹریچر شائع ہوا ہے جن میں سے ایک کتاب مسئلہ ختم نبوت پر قاضی محمد نذیر صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ نے لکھی ہے.میں نے اب تو یہ کتاب نہیں دیکھی لیکن جب انہوں نے یہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا تھا تو وہ اس کے ہیڈنگ بنا کر میرے پاس لائے تھے اور مجھ سے انہوں نے مشورہ کیا تھا.میرا اثر یہی ہے کہ یہ کتاب اچھی اور اس زمانہ کے لحاظ سے مفید ہو سکتی ہے.میں نے ان کو سمجھایا تھا کہ ہمارے ہاں پہلے جو طریق رہا ہے کہ بعض بے احتیاطیوں کی وجہ سے لوگوں کو خواہ مخواہ ٹھوکر لگی اُس سے آپ کو بچنا چاہئے.جب صداقت پہلے بھی آپ لوگ پیش کرتے تھے اور اب بھی پیش کرتے ہیں تو کیوں نہ ایسے الفاظ میں اس کو پیش کیا جائے جو دوسروں کے لئے تکلیف دہ نہ ہوں یا کم از کم ان کو پیچھے پھر انے والے نہ ہوں.دوسری کتاب حیات بقا پوری ہے اس میں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے

Page 570

انوار العلوم جلد 24 535 سال 1954ء کے اہم واقعات بعض فتاویٰ بھی جمع کئے ہیں.نہ معلوم وہ ہیں جن میں وہ بھی اُس وقت بیٹھے ہوئے تھے یا ان کو پسند تھے کہ انہوں نے لکھ لئے لیکن اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض خیالات اور آپ کے افکار بعض مسائل کے متعلق نہایت اعلیٰ درجہ کے لکھے گئے ہیں بلکہ ایک حوالہ تو ایسا ہے جس کی ہم کو تلاش رہی اور پہلے ہم کو نہیں ملا اس میں ہمیں مل گیا یہ بھی اچھی دلچسپ کتاب ہے.اسی طرح مرکز میں کتب کی اشاعت کے لئے دو کمپنیاں بنائی گئی ہیں.ایک غیر اردو کتب کی اشاعت کے لئے اور ایک اردو کتب کی اشاعت کے لئے.یا یہ کہہ لو کہ ایک پاکستانی اور ہندوستانی علاقوں کے لٹریچر کی اشاعت کے لئے اور ایک غیر پاکستانی اور غیر ہندوستانی لٹریچر کی اشاعت کے لئے.جو کمپنی انگریزی اور دوسری غیر زبانوں کا لٹریچر تیار کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے اس کی طرف سے مجھ سے خواہش کی گئی ہے کہ میں دوستوں کو توجہ دلاؤں کہ اس کے دولاکھ روپے کے حصے ابھی قابلِ فروخت ہیں.ہیں ہیں روپیہ کا حصہ ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ دس ہزار حصہ ابھی قابلِ فروخت ہے لیکن ایک وقت میں صرف پانچ روپے دینے پڑتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ دوستوں کو تحریک کی جائے کہ جن کو توفیق ہو وہ اس میں حصہ لیں تاکہ لٹریچر کی اشاعت زیادہ سے زیادہ کی جاسکے.اس وقت تک ان کی طرف سے ڈچ ترجمہ قرآن اور جرمن ترجمۃ القرآن شائع ہو چکا ہے اور انگریزی ترجمۃ القرآن کل مجھے ملا ہے.یہ ابھی مکمل نہیں ہے.انہوں نے اس کی جلد بندی صرف جلسہ کے لوگوں کو دکھانے کے لئے کر دی ہے ورنہ اس میں ابھی دیباچہ شامل ہونا ہے.پر لیس والوں نے کہا ہے کہ ان دنوں ہمیں کرسمس کا کام ہے ہم اس وقت نہیں چھاپ سکتے دو تین مہینہ کے بعد چھاپیں گے اس لئے انہوں نے یہ شکل آپ لوگوں کو دکھانے کے لئے بھیج دی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ کئی لوگ ساری جلدوں میں قرآن شریف نہیں خرید سکتے اور پڑھ بھی نہیں سکتے اس لئے یہ ترجمہ انشاء اللہ مفید ثابت ہو گا اور انگریزی جاننے والے ملکوں میں مثلاً انگلینڈ اور امریکہ اور آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ وغیرہ میں خدا تعالیٰ کے فضل سے

Page 571

انوار العلوم جلد 24 536 سال 1954ء کے اہم واقعات اس سے اعلیٰ درجہ کی تبلیغ ہو سکے گی.اس کے علاوہ وہ اور بھی لٹریچر شائع کرنا چاہتے ہیں مگر میں نے ان کو روکا ہوا ہے کہ جب تک سارے حصے فروخت نہیں ہو جاتے میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا اگر حصے پک جائیں تو وہ یہاں پر میں جاری کر سکتے ہیں.پریس انہوں نے خریدا ہوا ہے لیکن اس کے لگانے کے لئے بھی دس بارہ ہزار روپیہ کا سامان چاہئے اور پندرہ سولہ ہزار روپیہ مکان نے بھی لینا ہے.میں نے انہیں کہا ہے کہ میں قرض نہیں لینے دوں گا.حصے بیچو اور روپیہ لگاؤ.اس لئے انہوں نے مجھ سے ہی خواہش کی ہے کہ "جو بولے وہی کنڈا کھولے" آپ نے کہا ہے قرض نہیں لینا حصے بیچ کر رقم پوری کر لو تو اب حصے بکوایے بہر حال انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے کہ میں اس کی تحریک کروں.اسی طرح دوسری کمپنی جو اردو لٹریچر کے لئے قائم ہوئی ہے انہوں نے بھی اس سال بہت سی کتابیں شائع کی ہیں.ایک تو "نبیوں کا سردار" رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات ہیں دراصل میری کتاب "دیباچہ تفسیر القر آن انگریزی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو لائف تھی اُس کا یہ اردو ترجمہ ہے اور اس کا نام انہوں نے نبیوں کا سردار “ رکھا ہے یہ 320 صفحہ کی کتاب ہے."الشركة الاسلامیہ " والے کہتے ہیں کہ لگے ہاتھوں ہمارا بھی ذکر کر دیا جائے.80 ہزار کے حصے ہمارے بھی قابل فروخت ہیں جو دوست لے سکیں انہیں لینے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ ثواب کا ثواب ہے اور خدا تعالیٰ چاہے اور نفع آجائے تو اس طرح بھی فائدہ ہو سکتا ہے.اسی طرح "الشركة الاسلامیہ" نے اس سال "اسلامی اصول کی فلاسفی"، "سیر روحانی" "مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ " "رسالہ حج" اور "رسالہ معیار شناخت انبیاء" یہ چھ کتابیں شائع کی ہیں."اسلامی اصول کی فلاسفی" مدت سے نہیں مل رہی تھی یہ خوشی کی بات ہے کہ یہ کتاب بڑی مبارک ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کا لوگوں کے دلوں پر بڑا اچھا اثر ہوتا ہے.

Page 572

انوار العلوم جلد 24 537 سال 1954ء کے اہم واقعات "سیر روحانی" میری تقریروں کا مجموعہ ہے.ایک حصہ اس کا پہلے شائع ہوا تھا جس میں میری پہلی تقریر تھی.اب تک گیارہ عنوانات پر تقریریں ہو چکی ہیں بہر حال جو پہلی تقریر تھی وہ تو شائع ہو گئی تھی لیکن اب میں نے فیصلہ کیا کہ الگ الگ تقریریں کرنا ٹھیک نہیں.تین جلدوں میں سب مضمون شائع کر دیا جائے سو اس جلد میں میری پہلی تقریر کو شامل کر کے جو الگ شائع ہو چکی تھی دو سال کی تقریریں مزید برآں شامل کر دی گئی ہیں اور اب یہ جلد 327 صفحہ کی ہو گئی ہے.اگلے سال انشاء اللہ اس کی دوسری جلد شائع کر دی جائے گی.مصالحہ سب موجود ہے پھر جب یہ تقریریں ختم ہو جائیں گی تو تیسری جلد شائع ہو جائے گی."مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ " وہ بیان ہے جو انکوائری کمیشن کے سامنے پیش کیا گیا تھا اور ان کے کہنے پر سوالات کا جواب لکھا گیا تھا مگر عجیب بات ہے غلط فہمیاں ہوتی ہیں تو اس طرح ہوتی ہیں ہائیکورٹ نے جن سوالوں کا جواب مانگا تھا جب وہ ریویو میں چھپا تو گور نمنٹ کی طرف سے ان کو نوٹس آیا کہ تم نے ایسا مضمون چھاپ دیا ہے جس سے بڑے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں آئندہ اس سے احتیاط کرو.حالانکہ یہ نوٹس ہائیکورٹ کو جانا چاہئے تھا یا پھر فیڈرل کورٹ کو یہ نوٹس جانا چاہئے تھا جس میں آجکل وہ حج صاحب چیف جج ہیں جو انکوائری کمیشن کے بھی صدر تھے.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ عدالت سوال کرتی اور ہماری جماعت جواب نہ دیتی.پس یہ کتابیں ہیں جن کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلاتا ہوں.ان کے علاوہ کچھ کتابیں سید محمد سعید صاحب سلیم نے شائع کی ہیں.ان میں سے بھی بعض ایسی ہیں جو اصل میں سلسلہ کی طرف سے لکھوائی گئی ہیں.بہر حال وہ کتا ہیں یہ ہیں.قادیانی مسئلہ کا جواب“ مودودی صاحب کے بیان پر صدر انجمن احمدیہ کا تبصرہ یہ بھی ہائیکورٹ کے کہنے پر لکھا گیا) "محاسن کلام محمود" اور "مسلمان عورت کی بلند شان".وہ کہتے ہیں کہ ان کے متعلق بھی دوستوں کو تحریک کی جائے.یہ جو "محاسن کلام محمود " کتاب ہے اس پر مجھے اس لئے خوشی ہے کہ ہماری جماعت کے ایک نوجوان ادیب نے

Page 573

انوار العلوم جلد 24 538 سال 1954ء کے اہم واقعات اسے لکھا ہے لوگوں میں عادت ہوتی ہے کہ جب وہ ذرا آگے بڑھنا شروع کرتے ہیں تو ان کو خیال ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ کہیں جس سے اس حلقہ میں ہماری بد نامی ہو جائے مگر اس نوجوان کی ہمت ہے کہ اس نے شاعری کا شوق رکھتے ہوئے یہ کتاب لکھ دی اور وہ نہیں ڈرا کہ دوسرے شاعر جن کی مجلسوں میں میں جاتا ہوں وہ مجھے کیا کہیں گے.یوں میرے دل میں خود خیال آیا کرتا تھا کہ میرے اکثر شعر در حقیقت کسی آیت کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی حدیث کا ترجمہ ہوتے ہیں یا کسی فلسفیانہ اعتراض کا جواب ہوتے ہیں لیکن لوگ عام طور پر اگر صرف وزن میں ترنم پایا جاتا ہے اور موسیقی پائی جاتی ہے تو سن کر بابا کر لیتے ہیں.مجھے کئی دفعہ خیال آتا تھا کہ لوگ سمجھنے کی طرف کم توجہ کرتے ہیں.اگر کوئی شخص اس طرف توجہ کرے تو شاید یہ زیادہ مفید ہو سکے.چنانچہ اس نوجوان نے یہ پہلی کوشش کی ہے.میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ اور کوشش کرنے والے کوشش کریں گے یا انہی کو تو فیق مل جائے گی اور یا پھر اور لوگ پید اہو جائیں گے.در حقیقت اگر دیکھا جائے تو میرے اشعار میں سے ایک کافی حصہ بلکہ میں سمجھتا ہوں ایک چوتھائی یا ایک ثلث حصہ ایسا نکلے گا جو در حقیقت قرآن شریف کی آیتوں کی تفسیر ہے یا حدیثوں کی تفسیر ہے لیکن ان میں بھی لفظ پھر مختصر ہی استعمال ہوئے ہیں ورنہ شعر نہیں بنتا.شعر کے چند لفظوں میں ایک بڑے مضمون کو بیان کرنا آسان نہیں ہوتا.یا اسی طرح کئی تصوف کی باتیں ہیں جن کو ایک چھوٹے سے نکتہ میں حل کیا گیا ہے مثلاً اس نوجوان نے بھی ایک شعر اس میں درج کیا ہے اور اس کو اس شکل میں پیش کیا ہے کہ دیکھو یہ بڑا ادبی ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ تصوف کا یہ ایک پر انا سوال ہے کہ خلق عالم کس طرح ہوا.اس سوال کا جواب اس شعر میں دیا گیا ہے جو در حقیقت ایک فلسفیانہ بات کا جواب ہے کہ اصل میں ہمارے نزدیک خلق عالم کا ذریعہ یہ ہے اگر اس کو کوئی زیادہ غور کے ساتھ دیکھے تو اسے پتہ لگ سکتا ہے بے شک انسان جب محبت کی دھن میں ہوتا ہے تو اس میں کئی خیالات عام جذباتی بھی آجاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی خیالات ہوتے ہیں جن میں فلسفہ یا حکمت بیان کرنے کی کوشش ہوتی ہے.

Page 574

انوار العلوم جلد 24 539 سال 1954ء کے اہم واقعات میں نے عورتوں کے حصہ کی مسجد کے متعلق ابھی توجہ دلائی تھی کہ اس مسجد کے لئے اب تک رقم جمع نہیں ہوئی لیکن مردوں کے ذمہ جو مسجد لگائی گئی ہے یا بہت سی مساجد لگائی گئی ہیں ان کی حالت اس سے بھی بدتر ہے.عورتوں کی مسجد کے لئے زمین خریدی جا چکی ہے اور اس پر جو مسجد بنی ہے اس کی بھی قریباً ایک تہائی رقم جمع ہے لیکن مرد بیچارے ایسے کم ہمت ثابت ہوئے ہیں کہ ان کی طرف سے ابھی زمین کی قیمت بھی ادا نہیں ہوئی حالانکہ میں نے اس کے لئے نہایت آسان راہیں بتائی تھیں لیکن تعجب ہے کہ ان پر عمل نہیں ہوا.ان آسان راہوں کے متعلق ہمارا یہ اندازہ تھا کہ اتنی ہزار سے ایک لاکھ روپیہ تک سالانہ جمع ہو سکتا ہے لیکن مجھے رپورٹ یہ کی گئی ہے کہ کل چودہ ہزار روپیہ سال میں چندہ آیا ہے.میں نے بتایا تھا کہ جس کی مثلاً شادی ہو وہ اس خوشی میں کچھ نہ کچھ رقم مسجد فنڈ میں بھی دے دیا کرے.ہماری جماعت دو تین لاکھ کی ہے اور ہزار دو ہزار کی شادی ہوتی رہتی ہے پس وہ جو سو، دو سو، پانچ سو، ہزار، دو ہزار، پانچ ہزار روپیہ شادی پر خرچ کرتا ہے اگر پانچ دس ہیں پچاس روپیہ تک مساجد کے لئے بھی اس وقت دے دے تو کونسی بات ہے.فرض کرو اگر ہزار شادی ہو اور پانچ روپیہ اوسط لگالو کسی نے ایک روپیہ دیا کسی نے دو دیئے کسی نے ہیں یا پچاس بھی دیئے لیکن اوسط پانچ روپے رکھو تو پانچ ہز ار تو شادیوں کا آجاتا ہے.اسی طرح میں نے کہا تھا کہ جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو تم تھوڑا بہت تو خرچ کرتے ہو.اگر مسجد کے لئے کچھ دے دیا کرو تو یہ بھی خدا تعالیٰ کے حضور تمہاری اولاد کے لئے برکت کا موجب ہو جائے گا.فرض کرو اگر ہمارے ہاں سال میں دو ہزار یا تین ہزار بچہ پیدا ہوتا ہے اور دو روپے اوسط آتی ہے تو پانچ ہزار یہ بھی ہو جاتا ہے گویا دس ہزار تو صرف شادیوں اور بچوں سے ہو جاتا ہے.پھر میں نے یہ کہا تھا کہ جس کسی شخص کی ترقی ہو وہ پہلے مہینہ کی ترقی دے دیا کرے.ہماری جماعت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے دو تین ہزار ملازم ہیں اور ان کی اوسط تنخواہ میرے نزدیک تین چار سو روپیہ ہوتی ہے اور ہر سال انہیں ترقی ملتی ہے

Page 575

انوار العلوم جلد 24 540 سال 1954ء کے اہم واقعات اگر ان میں سے آدھوں کی ترقی بھی فرض کر لی جائے کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے فوجی ملازم ہیں کہ ان کی سالانہ ترقی نہیں ہوتی کچھ وقفے کے بعد ہوتی ہے بہر حال اگر ہزار آدمی بھی سمجھ لیا جائے تو بارہ چودہ پندرہ یا بیس روپیہ ان کی ترقی کی اوسط نکل آئے گی.اگر پندرہ روپیہ بھی ترقی کی اوسط رکھی جائے تو پندرہ ہزار تو یہ آجاتا ہے.پچیس ہزار ہو گئے.پھر میں نے یہ کہا تھا کہ ڈاکٹر اور وکیل ( بلکہ خود ڈاکٹروں اور وکیلوں کے مشورہ سے یہ فیصلہ کیا گیا تھا.اپنی سابق آمد کا تعین کر کے ہر سال اس میں جو زیادتی ہو اس زیادتی کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دیا کریں.اسی طرح بجٹ کے سال کے پہلے مہینہ یعنی ماہ مئی کی آمد کا پانچ فیصدی ہر سال ادا کیا کریں یہ بھی کوئی ایسا بوجھ نہیں جو لوگوں کے لئے مشکل ہو.میرے نزدیک کئی ہزار کی رقم اس طرح نکل سکتی ہے.اسی طرح ایک یہ تجویز تھی کہ جو چھوٹے تاجر ہیں وہ ہر ہفتہ کے پہلے دن کے پہلے سودے کا منافع مسجد فنڈ میں دے دیا کریں اور جو بڑے تاجر ہیں وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کے پہلے سودے کا منافع دے دیا کریں.پھر زمینداروں کے متعلق یہ تھا کہ جو دس ایکڑ سے کم زمین کے مالک ہیں وہ ایک آنہ فی ایکڑ کے حساب سے اور جو دس ایکڑ سے زیادہ زمین کے مالک ہیں.خواہ بارانی ہو یا نہری.وہ دو آنے فی ایکڑ کے حساب سے دے دیا کریں.یہ بھی کوئی ایسا چندہ نہیں ہے جو کسی زمیندار پر دو بھر ہو مثلاً اگر دو آنے مقرر ہیں اور 125 ایکٹر یعنی ایک مربع اسکے پاس ہے تو مربع والے کے لئے تین روپے مسجد کے لئے چندہ دینا کوئی بڑی بات نہیں.پھر پیشہ وروں کے لئے یہ قاعدہ تھا کہ وہ ہر مہینہ کی پہلی تاریخ کو یا مہینہ کا کوئی اور دن مقرر کر کے اس دن جو انہیں مزدوری مل جائے اس کا دسواں حصہ مسجد فنڈ میں دے دیا کریں.بہر حال یہ سارے کے سارے ذرائع آمدن ایسے تھے جو کسی پر بوجھ نہیں بنتے تھے اور آمدن اسی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے لیکن ہوتی چودہ ہزار ہے اور اس چودہ ہزار میں سے دو تین ہزار ایسے بھی نکلیں گے جنہوں نے اپنے اخلاص میں

Page 576

انوار العلوم جلد 24 541 سال 1954ء کے اہم واقعات ނ اپنی طاقت سے بہت زیادہ دے دیا ہے اصل چندہ جو قاعدہ کے مطابق دیکھا جائے گا وہ دس گیارہ ہزار نکلے گا یعنی متوقع آمد کا دسواں حصہ.گویا یہ چندہ ایسا ہے جو جماعت میں سے 10 / حصہ نے ادا کیا ہے 9/10 نے ادا نہیں کیا.نتیجہ یہ ہوا ہے کہ ابھی ہمیں امریکہ سے مشن ہاؤس والوں نے لکھا کہ ہمارے مشن ہاؤس کے ساتھ ایک زمین ہے جس میں اچھے پیمانہ پر مسجد بنائی جاسکتی ہے یہ زمین اگر اس وقت لے لی جائے تو سات ہزار ڈالر میں حاصل ہو سکتی ہے.کیونکہ مالک کو ضرورت ہے اور وہ ستا دینے کو تیار ہے لیکن ہم نے مجبوراً اُن کو یہی لکھا کہ ہمارے پاس تو روپیہ ہی نہیں ہم کہاں سے دیں.اب اس کے میں یا تو سابق جگہ میں بہت چھوٹا سا کمرہ مسجد کا بنے گا یا پھر ہمیں کوئی نئی زمین مسجد کے لئے خریدنی پڑے گی اور نئی جگہ پر انتظام کرنا پڑے گا.اب میں اس سال کا وہ واقعہ بیان کرتاہوں جس کی وجہ سے میری صحت پر بھی اثر پڑا ہے اور جس کی وجہ سے جماعت کے اندر بھی ایک گھبراہٹ اور تشویش پیدا ہوئی اور انہوں نے کہا کہ حفاظت کے انتظام کے لئے خاص چندہ مقرر کیا جائے تاکہ ساری جماعتیں اس میں شریک ہو سکیں.یہ چندہ بھی جیسا کہ عام چندے کی رقم یا وصیت کی رقوم آتی ہیں اور جیسا کہ سمجھا گیا تھا کہ آمدن ہو گی اس طرح اس کی وصولی نہیں ہو رہی بلکہ ہمارا جو اندازہ تھا اُس کا قریباً تیسر آیا چوتھا حصہ وصول ہو رہا ہے.یوں تو جماعت میں سے بعض کہنے والے ایسے موقعوں پر کہہ دیتے ہیں کہ ان کو ملامت ہے ان کو ملامت ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب تک سارے لوگ اپنے فرض کو ادا نہ کریں محض دوسروں کو ملامت کرنے سے کیا فائدہ ہو سکتا ہے.ربوہ والوں کو تو رات دن کچھ نہ کچھ کام ایسے موقعوں پر کرنا ہی پڑتا ہے وہ پہرے بھی دیتے ہیں اور پھر وہ دوسرے بھی کئی کام کرتے ہیں.باہر کی جماعتوں نے تو اس کو صرف اپنے چندہ سے ہی پورا کرنا ہوتا ہے.اور پھر ربوہ والے بھی اسی طرح چندہ دیتے ہیں.لیکن اگر جماعت کے اندر یہ ہو کہ ریزولیوشن تو یہ ہوں کہ مر جائیں گے اور یوں کر دیں گے لیکن عملاً آکر کمزوری دکھائیں تو یہ دشمن کے لئے ہنسی کا موجب بن جاتا ہے.یہ واقعہ جس طرح ہوا میں اسے آج دوستوں کے سامنے

Page 577

انوار العلوم جلد 24 542 سال 1954ء کے اہم واقعات بیان کرتا ہوں کیونکہ اس حملہ کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ آپ لوگ میرے سامنے آئے ہیں.دشمن نے تو اپنی طرف سے ختم کر دیا تھا لیکن کہتے ہیں " جس کو خدار کھے اس کو کون چکھے".مارچ 1954ء کی دس تاریخ کا واقعہ ہے کہ میں عصر کی نماز پڑھنے کے لئے گیا نماز پڑھ کے جس وقت میں باہر نکلنے لگا اور دروازہ کے پاس پہنچا یہ میں نے ں نہیں کہہ سکتا کہ میرا ایک پیر باہر آگیا تھا یا نہیں آیا تھا مگر بہر حال میں دروازہ کی دہلیز کے پاس کھڑا تھا کہ پیچھے سے کسی شخص نے مجھ پر حملہ کیا.وہ حملہ اس شدت سے تھا اور ایسا اچانک تھا اور پھر چونکہ وہ حملہ سر کے پاس کیا گیا تھا لیکدم میرے حواس پر اس کا اثر پڑا اور مجھے یہ نہیں محسوس ہوا کہ کیا ہوا ہے.مجھے یہ معلوم ہوا کہ جیسے کوئی بڑا پتھر یا دیوار آگری ہے اور اس پتھر یا دیوار کی وجہ سے میرے حواس مختل سے ہو گئے ہیں.اُس وقت میں اپنے ذہن میں یہ نہیں سمجھتا تھا کہ زلزلہ آگیا ہے یا کیا ہوا ہے بس مجھے یہ سمجھ آتی تھی کہ کوئی بڑی سل میری گردن پر آکے پڑی ہے لیکن ایک جس شعوری ہوتی ہے اور ایک غیر شعوری ہوتی ہے.غیر شعوری جس کے ماتحت میں نے اُس جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا جس جگہ پر چوٹ تھی پھر مجھے اتنا یاد ہے کہ مجھے یہ دھند لکا سا معلوم ہوا کہ میں گر رہا ہوں اور مجھے کوئی شخص سہارا دے رہا ہے.چنانچہ جو پہرہ دار تھا اس نے مجھے گرتے ہوئے دیکھ کر یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ اُس کو پتہ لگ گیا تھا کہ کسی نے حملہ کیا ہے یا اُس کو بھی نہیں پتہ تھا.بہر حال اُس نے یہ دیکھ کر کہ یہ گر رہے ہیں وہ میرے سامنے آکر کھڑ اہو گیا اور اس نے اپناسینہ لگا کے ہاتھ سے مجھے سنبھال لیا.اُس وقت مجھے یہ یاد ہے کہ مجھے یوں معلوم ہوا جیسے اُس کے کان پر کوئی زخم ہے اور میں یہ سمجھنے لگا کہ شاید وہی پتھر یاسل جو گری ہے وہ اس کو بھی لگی ہے اور اس کی وجہ سے اسے یہاں زخم آیا ہے.اس اثر کے بعد اس نے مجھے سہارا دے کر باہر کھینچا یا میں دھکے میں باہر آگیا بہر حال مجھے یہ معلوم ہو تا تھا کہ جو پتھر گرا ہے اُس کے دھلے کی رو میں میں نکل کے باہر آگیا ہوں.مسجد کے آگے جو دو تین سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں اُن کے اوپر دھکے کے زور میں یا اس کے کھینچنے سے (شاید اس نے مجھے بچانا چاہا میرا ایک پیر دیوار کے پرے چلا گیا اور ایک ادھر رہ گیا.وہ حالت ایسی تھی کہ

Page 578

انوار العلوم جلد 24 543 سال 1954ء کے اہم واقعات اگر اُس وقت وہ شخص دوبارہ حملہ کرتا تو میں وہاں سے ہل بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس دھتے میں ایک دیوار میری لاتوں کے درمیان تھی اور ایک ٹانگ نیچے اتری ہوئی تھی اور ایک ٹانگ سیڑھیوں کے اوپر تھی.خیر اتنے میں کچھ لوگ اندر سے باہر نکل آئے اور انہوں نے کھینچ کر مجھے باہر کیا مگر میں ابھی تک اس احساس کے نیچے تھا کہ شاید کوئی پتھر گرا ہے یا دیوار گری ہے یا خبر نہیں کیا ہوا ہے مگر یہ مجھے محسوس ہو تا تھا کہ ہاتھ میں نے چوٹ کی جگہ پر رکھا ہوا ہے یہ مجھے نہیں پتہ لگتا تھا کہ میں نے ہاتھ کیوں رکھا ہوا ہے.اتنے میں اندر سے دوسرے دروازے میں سے کچھ نمازی نکل کے باہر آگئے اور وہ میرے سامنے کھڑے ہو گئے.ابھی تک کوئی چیز مجھے پوری نظر نہیں آتی تھی ان کے چہرے بھی دھند لکے سے نظر آرہے تھے بہر حال مولوی ابو العطاء صاحب مجھے نظر آئے تو میں نے کہا مولوی صاحب ہوا کیا ؟ یعنی میں ابھی یہ سمجھ ہی نہیں رہا تھا کہ مجھ پر حملہ ہوا ہے بلکہ میں یہ سمجھتا تھا کہ کوئی پتھر گرا ہے یاز لزلہ آگیا ہے یا معلوم نہیں کیا بات ہوئی ہے اور میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ کیا ہوا ہے یہ دیوار اتفاقا گر گئی ہے یاز لزلہ آیا ہے یا کیا ہوا ہے.اس پر انہوں نے اور بعض دوسرے ساتھیوں نے کہا کہ آپ پر کسی شخص نے حملہ کیا ہے.میں نے کہا اچھا مجھ پر حملہ کیا گیا ہے ؟ اُس وقت مجھے یہ احساس ہوا کہ شاید میں نے اپنا ہاتھ زخم پر رکھا ہوا ہے چنانچہ میں نے جب ہاتھ دیکھا تو سارا ہاتھ خون سے بھرا ہوا تھا.میں نے کہا اوہو! اس میں سے تو خون نکل رہا ہے.انہوں نے کہا اپنے کپڑوں کو دیکھئے میں نے کپڑے دیکھے تو کوٹ اور صدری اور نیچے گرتا اور پاجامہ یہ سارے کے سارے خون سے بھرے ہوئے تھے اور زمین پر بھی اچھا خاصا تالاب بنا ہوا تھا جیسے خون بہا ہوتا ہے.جب مجھ پہ حقیقت کھلی تو میں نے کہا مجھے سہارا دے کر گھر پہنچاؤ چنانچہ وہ سہارا دے کر مجھے گھر لے آئے.میں نے کہا ڈاکٹر کی طرف آدمی بھیجو تا کہ وہ آئیں اور ٹانکہ وغیرہ لگائیں خون بہتا چلا جاتا ہے.انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر کی طرف آدمی دوڑ گیا ہے بہر حال میں وہاں آ کے بیٹھا رہا تھوڑی دیر میں ڈاکٹر پہنچ گئے.جن میں منور احمد میرا لڑکا بھی تھا.قدرتی طور پر اپنی مذہبی محبت بھی ہوتی ہے اور پھر وہ میرا بیٹا بھی تھا بہر حال

Page 579

انوار العلوم جلد 24 544 سال 1954ء کے اہم واقعات وہ گھبر ائے ہوئے مگر انہوں نے اتنی احتیاط کی کہ اوزاروں کو اچھی طرح سٹرلائز کر کے یعنی جراثیم کو پوری طرح مار کر کام شروع کیا لیکن میرے احساس کی خاطر اندر سے زخم کی صفائی نہیں کی اور باہر سے ٹانکے لگا دیئے اتفاقا کسی کو گھر میں خیال آیا اور اس نے لاہور میں میرے لڑکے مرزا ناصر احمد کو فون کر دیا کہ اس طرح حملہ ہوا ہے.مرزا ناصر احمد نے مرزا مظفر احمد کو بتایا جو میرا داماد بھی ہے اور بھتیجا بھی ہے.انہوں نے اپنے طور پر (ہم نے تو نہیں کہا تھا اور نہ ہمیں خیال تھا.) ایک ڈاکٹر کو کہا کہ تم وہاں چلو اور چل کر دیکھو.ڈاکٹر امیر الدین صاحب جو لاہور کے سر جن ہیں انہوں نے کہا کہ میڈیکل کالج کے یونیورسٹی کے امتحانات ہو رہے ہیں اور کل میں نے لڑکوں کا امتحان لینا ہے اس لئے میں نہیں جاسکتا.پھر انہوں نے ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب سے کہا اور وہ ان کو لے کر آگئے.ان کے ساتھ بعض دوسرے ڈاکٹر بھی آگئے مثلاً ڈاکٹر مسعود صاحب پہنچ گئے ، ڈاکٹر محمود اختر صاحب جو قاضی فیملی میں سے ہیں(مسعود احمد صاحب بھی قاضی فیملی میں سے ہی ہیں) وہ بھی پہنچ گئے.یہ میو ہسپتال میں کلوروفارم دینے پر افسر مقر ر ہیں.ڈاکٹر یعقوب صاحب غالباً ان سے پہلے آچکے تھے اور وہ گر بھی گئے تھے شیخ بشیر احمد صاحب ڈاکٹر صاحب اور چودھری اسد اللہ خاں صاحب لاہور سے آرہے تھے.گھبراہٹ میں انہوں نے شاید موٹر تیز چلوا دیا تو موٹر گر گیا جس کی وجہ سے یہ سارے زخمی ہوئے اور قریباً ہر ایک کی ہڈیوں کو ضرب پہنچی.کسی کی کہنی کی ہڈی ٹوٹی اور کسی کی سینے کی ہڈی ٹوٹ گئی.بہر حال ڈاکٹروں نے زخم کو دیکھا اور انہوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک تو اس کا پھر آپریشن کرنا پڑے گا.میں نے کہا مجھے اتنی کوفت ہو چکی ہے اور اب رات کے ایک بجے کا وقت قریب آگیا ہے اگر آپ صبح تک انتظار کر سکیں تو کیا حرج ہے.وہ گئے کہ اپنا مشورہ کر کے بتاتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد ڈاکٹر مسعود صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب کہتے ہیں کہ گردن پر ورم ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اندر خون جاری ہے اور کوئی رگ پھٹی ہوئی ہے اسلئے صبح تک انتظار کرنا خطر ناک ہے اگر اور انتظار کیا گیا تو خون میں زہر پیدا ہو جائے گا.اور انہیں اصرار ہے کہ ا

Page 580

انوار العلوم جلد 24 545 سال 1954ء کے اہم واقعات آپریشن ابھی ہونا چاہئے.چاہے رات کے وقت تکلیف بھی ہو گی لیکن آپریشن ضرور کرنا پڑے گا چنانچہ میں اس پر راضی ہو گیا.کہنے لگے بے ہوش کیا جائے ؟ میں نے کہا مجھے بے ہوش نہ کریں یونہی آپریشن کرو خداتعالی توفیق دے دے گا اور میں اس کو برداشت کروں گا.چنانچہ ڈاکٹر ریاض قدیر صاحب آئے اور خواب آور ٹیکا لگوا دیا.پھر ایک گھنٹہ بارہ منٹ تک انہوں نے آپریشن کیا، صفائی کی اور خون کے لوتھڑے نکالے انہوں نے بعد میں بتایا کہ حملہ سے ایک بڑا عصبہ کٹ گیا ہے.دو درمیانی سائز کی خون کی رگیں کٹ گئی ہیں اور سوا دو انچ گہرا اور سوا دو انچ لمبا حصہ عضلات کا کٹ گیا ہے بہر حال کوئی ایک گھنٹہ بارہ منٹ کام کرنے کے بعد وہ فارغ ہوئے اور صبح چلے گئے.دوسرے دن گردن و غیرہ کی درد کی تکلیف رہی.اور چونکہ میں گردن کو ہلا نہیں سکتا تھا اس لئے ایک تکیہ ایسا بنا دیا گیا جس کے بیچ میں شگاف کر دیا گیا تا کہ زخم کی جگہ تکیہ پر نہ لگے بہر حال آجکل حفظان صحت کے جو قوانین مقرر ہیں ان کے لحاظ سے ایک عرصہ مقررہ کے اندر اللہ تعالیٰ نے آرام دے دیا.پورا آرام تو کوئی بائیس تئیس دن میں آیا لیکن زخم کے ٹانکے شاید آٹھویں یا دسویں دن کھول دیئے گئے.خون کے متعلق بھی دوستوں نے بتایا کہ جہاں تک آپ آئے ہیں وہاں تمام جگہ پر جیسے خون کے چھپڑ بنے ہوئے ہوتے ہیں اسی طرح اچھے خاصے چھپڑ بنے ہوئے تھے.وہ لباس جس پر خون لگا ہوا ہے ہم نے اب تک رکھا ہوا ہے.وہ بھی خدا تعالیٰ کے نشانوں کی صداقت کا ایک ثبوت ہے.حکومت کی طرف سے ان دنوں بڑی ہمدردی کا اظہار ہوا.خود گورنر صاحب کی طرف سے بھی ہمدردی کی گئی، وزیر اعظم صاحب کی طرف سے ایک دفعہ دوسرے نے اور پھر انہوں نے خود بھی فون کر کے بات کی.اسی طرح کمشنر صاحب بھی آئے ، ڈی آئی جی بھی آئے ، ڈپٹی کمشنر بھی آئے ، سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی آئے لیکن حکومت ضلع کی مصلحت یہی معلوم ہوتی تھی کہ اس معاملہ کو رفع دفع کر دیا جائے چنانچہ ایک موقع پر ایک بالا افسر نے اس خیال کا اظہار بھی کیا.ایسے مقدمات میں پولیس کی طرف سے عموماً عدالت میں کپڑے بھی پیش کئے جاتے ہیں وہ بھی

Page 581

انوار العلوم جلد 24 546 سال 1954ء کے اہم واقعات ایک شہادت ہوتے ہیں کہ دیکھو یہ خون سے لتھڑے ہوئے ہیں اور ان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ زخم کس حد تک تھا مگر ہم سے پولیس نے پہلے خود کپڑے مانگے لیکن جب پیشی کا وقت آیا تو باوجود اُن کو کہلا کے بھیجنے کے کہ کپڑے منگوالیں اُنہوں نے نہیں منگوائے (گوانہوں نے اب یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ کپڑے اُس وقت پیش ہوتے ہیں جب ان کے اندر سے زخم لگے.میں تو قانون دان نہیں مگر سوال یہ ہے کہ اگر یہ ہے تو پہلے ان کا آدمی کپڑے مانگنے کیوں آیا تھا) اس طرح وہ چادر جس میں کہا جاتا ہے کہ ملزم چاقو چھپا کر بیٹھا تھا وہ بھی پولیس نے پیش نہیں کی.یہ قانون ہے (شاید بعض لوگ نہیں جانتے ہوں گے) کہ ایسے فوجداری مقدمات میں گورنمنٹ مدعی ہوتی ہے خود مضروب کا کوئی حق نہیں ہؤا کر تا کہ وہ بیچ میں بولے یا بلو ا سکے.بہر حال وہ چادر بھی نہیں پیش کی گئی جس کی وجہ سے مجسٹریٹ نے احمدی گواہوں پر شبہ کا اظہار کیا اور لکھا کہ اگر کوئی چادر تھی تو وہ پیش کیوں نہیں کی گئی حالانکہ چادر پیش کرنانہ کرنا پولیس کا کام تھا ہمارے اختیار میں یہ بات نہ اس دوران میں ڈاکٹر کئی دفعہ آتے رہے.انہی دنوں اس حملہ کے اثر سے یہ بھی ہوا کہ مجھے عارضی طور پر ذیا بیطیس کی شکایت ہو گئی.ڈاکٹر پیشاب ٹیسٹ کرتے رہتے تھے تا کہ کوئی خرابی ہو تو پتہ لگ جائے ایک دن جو پیشاب ٹیسٹ کرایا تو معلوم ہوا کہ اس کے اندر شکر آتی ہے.مگر ڈاکٹروں نے کہا ابھی آٹھ دس دن تک آپ نہ گھبر ائیں.اگر تو یہ تکلیف زخم کی وجہ سے ہوئی ہے اور ایسا ہو جاتا ہے تو آٹھ دس دن کے بعد ہٹ جائے گی اور اگر زخم کی وجہ سے نہ ہوئی تو ہم علاج کا فکر کریں گے اتنی دیر تک علاج کے فکر کی ضرورت نہیں.چنانچہ اس بارہ دن کے بعد یہ تکلیف خدا تعالیٰ کے فضل سے ہٹ گئی اور پتہ لگ گیا کہ یہ صرف زخم کی شدت کی وجہ سے تھی خود اصل بیماری نہیں تھی.اس کے بعد انہوں نے مجھے کہا کہ یہ زخم کی تکلیف آپ کو چھ مہینے تک چلے گی پہلے تین مہینوں میں تو آپ کو زخم کا آرام معلوم ہونا شروع ہو گا لیکن تین مہینے کے بعد یہ تکلیف بڑھنی شروع ہو جائے گی اور وہ نرو(NERVE) جو کٹ گیا ہے وہ اور کسی جگہ پر اپنی جگہ بنائے گا

Page 582

انوار العلوم جلد 24 547 سال 1954ء کے اہم واقعات اور کسی دوسرے نرو سے جڑنے کی کوشش کرے گا.جب وہ اس طرف کو چلے گا تو اس سے آپ کو گھبراہٹ ہو گی وہ یوں معلوم ہو گا کہ اندر کوئی چیز حرکت کرتی ہے.غرض مجھے انہوں نے پہلے سے کہہ دیا تھا مگر اتفاق کی بات ہے بعض دفعہ تشویش مقدر ہوتی ہے قریباً چھ مہینے تک جو انہوں نے وقفہ بتایا تھا اس میں مجھے کوئی خاص تکلیف نہیں ہوئی صرف چھوٹی چھوٹی حرکت ہوتی تھی لیکن چھٹے ماہ کے آخر میں اس قدر شدید تکلیف شروع ہوئی کہ بعض دفعہ یہ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی مینڈک اندر کود رہا ہے اور چھلانگیں مارتا ہوا آگے جارہا ہے.اور باوجود جاننے کے گھبراہٹ پید ا ہو جاتی.ڈاکٹروں سے پوچھا گیا کہ یہ کیا بات ہے تو کراچی کے سر جن نے کہا کہ یہ تکلیف اس سے پہلے ہونی چاہئے تھی اور اب تک آرام آجانا چاہئے تھا مگر ممکن ہے بڑی عمر کی وجہ سے اندمال کا وقت پیچھے ہو گیا ہو اس لئے ایک ماہ تک انتظار کریں.اگر طبعی عارضہ ہوا تو یہ تکلیف ہٹ جائے گی ور نہ پھر غور کیا جائے گا کہ اس نئی تکلیف کا نیا سبب کیا ہے.پھر لاہور آکر سر جن کو دکھایا گیا اور وہاں کے ڈاکٹروں نے بھی پہلی سی رائے ظاہر کی.بہر حال دو مہینے یہ تکلیف جاری رہی اس کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل سے دب گئی.اب مجھے سر کے اس حصہ میں نسبتا حس بھی محسوس ہوتی ہے اور گردن کو ٹیڑھا کرنے سے جو پہلے یکدم جھٹکا سا محسوس ہوتا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی نے سر میں ہتھوڑا مارا ہے وہ حالت بھی جاتی رہی ہے اور وہ جو اندر کوئی چیز زور سے حرکت کرتی معلوم ہوتی تھی جیسے کوئی جانور کود رہا ہے یا ناچ رہا ہے وہ بھی جاتی رہی ہے.بہر حال اب ایسی حالت ہے کہ اکثر اوقات میں سمجھتا ہوں کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے.گو کوئی کوئی وقت ایسا بھی آجاتا ہے جب مجھے احساس ہوتا ہے کہ شاید کوئی بیماری ہو.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ ایک بلا آئی، بڑی شکل میں آئی، بہت بُری شکل میں آئی اور پھر چلی گئی.اصل میں تمام امور انجام کے لحاظ سے دیکھے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے انجام اچھا کر دیا.مجھے کئی دفعہ خیال آیا ہے کہ یوں تو ہم فصد یں کرواتے نہیں ممکن ہے خدا تعالیٰ کے نزدیک خون نکالنا اچھا ہو اُس نے یہ ذریعہ پیدا کر دیا چلو ا نہوں نے

Page 583

انوار العلوم جلد 24 548 سال 1954ء کے اہم واقعات فصدیں نہیں نکلوانی ہم اس طرح ہی فاصد خون نکال دیتے ہیں.مگر میں یہ کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جو بھی واقعہ ہوا حملہ کرنے والے کی نیت بہر حال مجھے مارنے کی تھی.خود عدالت میں اس نے اقرار کیا ہے کہ میں اسی نیت سے آیا تھا کہ ان کو ماروں.مگر یہ سیدھی بات ہے کہ جس نے بھی مجھے مارنا چاہا تھا اس نے مجھے نہیں مار نا چاہا تھا بلکہ اپنے خیال میں احمدیت کو مارنا چاہا تھا اور یہ چیز ایسی ہے جس کے متعلق میرا مذہبی فرض ہے کہ میں دنیا کو بتادوں کہ احمدیت کا میری زندگی سے کوئی تعلق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو دنیا نے یہ سمجھا تھا کہ احمدیت ختم ہو گئی مگر پھر احمدیت اس سے بھی آگے نکل گئی.حضرت خلیفہ اول فوت ہوئے تو انہوں نے سمجھا بس یہ بڑھا ان میں ایک عقلمند تھا اب یہ ختم ہیں.پھر جب میں خلیفہ ہوا تو لو گوں نے کہا ایک بچے کے ہاتھ میں خلافت آگئی ہے.مگر وہ بچہ آج بوڑھا ہے اور احمدیت آج جوانی کی طرف جارہی ہے.نہ اس کے بچپن نے احمدیت کو نقصان پہنچایا اور نہ اس کا بڑھاپا احمدیت کو کوئی نقصان پہنچائے گا.دنیا کتنی بھی کوشش کر لے احمدیت کا پودا بڑھے گا، بڑھتا جائے گا ، ترقی کرتا جائے گا.آسمان تک جا پہنچے گا یہاں تک کہ زمین اور آسمان کو پھر اسی طرح ملا دے گا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہوا تھا.دیکھو ہمارے ہاں فارسی کی ایک ضرب المثل مشہور ہے کہ خد اشرے برانگیزد که خیر مادر آن باشد یعنی خداتعالی بعض دفعہ کوئی شر پیدا کرتا ہے لیکن اس میں ہمارے لئے خیر مقصود ہوتی ہے.اب دیکھو یہ واقعہ گذرا تو ظاہر میں اُس وقت ہم گھبر ائے.بیمار تو تکلیف پاتا ہی ہے اس کو آخر دکھ پہنچتا ہے باقی جماعت کو بھی ایک صدمہ پہنچا.لیکن یہ کتنا بڑا نشان ہے کہ جس وقت میں خلیفہ ہوا اور لوگوں نے حضرت صاحب کے الہام ٹٹولے تو ان میں سے ایک الہام ” فضل عمر “ بھی انہوں نے پیش کرنا شروع کیا کہ دیکھو! یہ دوسرے خلیفہ ہوئے ہیں اور ان کے لئے الہام ہے ” فضل عمر “.پیغامیوں نے اس پر خوب ہنسی اڑائی کہ لوجی یہ ” فضل عمر “ بن گئے ہیں.اب یہ جو تمہارا خلیفہ بننے کا سوال وو دو

Page 584

انوار العلوم جلد 24 549 سال 1954ء کے اہم واقعات تھا یہ تو تمہارے ہاتھ کا ایک فعل تھا.بے شک قرآن کریم یہی کہتا ہے کہ میں خلیفہ بناتا ہوں مگر بنواتا تو آدمیوں کے ہاتھ سے ہے.اور جو چیز آدمیوں کے ہاتھ سے بنوائی جاتی ہے وہ کوئی دلیل لوگوں کے سامنے نہیں ہوتی.تم یہ کہتے کہ دیکھو !حضرت صاحب نے کہا تھا ” فضل عمر “ اور یہ دوسرے خلیفہ بن گئے.تو بڑی کھینچ تان کے بعد دلیلیں نکالنی پڑتیں کہ اب تک زندہ رہنے کی کونسی صورت تھی اور کون اس پر یقین رکھ سکتا تھا.یہ ذرا پیچیدہ باتیں ہیں.دشمن کا سیدھا جواب یہ تھا کہ تم نے ان کو دوسرا خلیفہ بنادیا اب لگے ہو الہام چسپاں کرنے.تم نے آپ خلیفہ بنایا ہے.لیکن یہ چیز خدا تعالیٰ نے ایسی پیدا کی جو تمہارے ہاتھوں سے نہیں ہوئی تمہارے مخالف کے ہاتھوں سے ہوئی.(1) جس دن مجھ پر حملہ کیا گیا اسی دن حضرت عمر پر حملہ کیا گیا تھا یعنی بدھ کے دن (2) جس طرح ایک غیر عقیدہ شخص نے حضرت عمر پر حملہ کیا تھا اسی طرح ایک غیر عقیدہ شخص نے مجھ پر حملہ کیا.(3) جس طرح مسجد میں حضرت عمر پر حملہ کیا گیا تھا اسی طرح مسجد میں مجھ پر حملہ کیا گیا.(4) جس طرح نماز کے وقت حضرت عمر پر حملہ کیا گیا تھا اسی طرح نماز کے وقت مجھ پر حملہ کیا گیا.(5) جس طرح پیچھے سے آکر دشمن نے حضرت عمر پر حملہ کیا تھا اسی طرح پیچھے سے آکر مجھ پر حملہ کیا گیا.فرق صرف اتنا ہے کہ اُن پر صبح کے وقت حملہ ہوا اور مجھ پر عصر کے وقت حملہ ہوا.لیکن جو قرآن شریف کی تفسیریں پڑھنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ قرآن شریف میں جو صَلوةُ الوُسطیٰ کا لفظ آتا ہے اس کے متعلق مفسرین نے یہی لکھا ہے کہ اس سے یا عصر کی نماز مراد ہے یا صبح کی.گویا صبح اور عصر کو وہ ایک نام میں شریک قرار دیتے ہیں.پس وہ ساری مشابہتیں جو حضرت عمرؓ کے حملہ کے ساتھ تھیں وہ ساری کی ساری اللہ تعالیٰ نے اس جگہ ملا دیں.اور پھر ”فضل عمر “ کہہ کر یہ بھی بتا دیا کہ ہم اس کے ساتھ حضرت عمر سے بڑھ کر معاملہ کریں گے.یعنی حضرت عمرؓ اس حملہ کے نتیجہ میں شہید ہو گئے تھے لیکن یہ پیدا ہونے والا لڑکا اس حملہ کے باوجو د بیچ جائے گا اور زندہ رہے گا.اب دیکھو یہ تو ہمارے اور تمہارے اختیار کی بات نہیں تھی.تم یہ نہیں کر سکتے

Page 585

انوار العلوم جلد 24 550 سال 1954ء کے اہم واقعات تھے کہ کسی شخص کو کہو کہ تو جاکر حملہ کرتا کہ عمر کے ساتھ مشابہت پوری ہو جائے.یہ کام صرف دشمن کے ہاتھ سے ہو سکتا تھا.چنانچہ جو واقعات ہوئے اُن کو دیکھ کر سمجھ ہی نہیں آتا کہ ہمارے آدمیوں کو اُس وقت ہو کیا گیا تھا.مثلاً وہ آتا ہے تو ہمارے آدمی اُس کو پناہ بھی دیتے ہیں.اُس کو بٹھاتے بھی ہیں.اُس کی خاطریں بھی کرتے ہیں اور کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ ہم تحقیق تو کریں یہ ہے کون.قادیان میں یہ قاعدہ تھا کہ اجنبی آدمی کو نماز کے وقت پہلی دو صفوں میں نہیں بیٹھنے دیتے تھے اور جماعت کے مختلف محلوں کے دوست ہر روز آکے پہرہ دیتے تھے.یہاں آکر ان کو بڑا اطمینان ہو گیا کہ اب کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں.اور پھر وہ شخص اپنے اقرار کے مطابق آکے پہلی صف میں بیٹھا اور کسی نے نہیں پوچھا کہ میاں تم اجنبی آدمی ہو تم پہلی سطر میں کیوں بیٹھے ہو.بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ مجھ سے عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ نے اس لڑکے کو دیکھا تھا؟ میں نے کہا میں نے تو نہیں دیکھا تھا.بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا منشاء تھا کہ وہ نظروں پر پردہ ڈال دے ورنہ عموما انسان کی نظر اٹھ جاتی ہے اور وہ دیکھ لیتا ہے.مگر میں نے یہی کہا کہ میں نے تو دیکھا نہیں.یہ مانتا ہے اور دوسرے لوگ کہتے ہیں ورنہ میں نے اس کو نہیں دیکھا.تو یہ ساری چیزیں ایسی تھیں جو ہمارے اختیار کی نہیں تھیں.یہ کسی غیر کی تدبیر کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں.اور یا پھر خدائی تدبیر تھی.بہر حال ان ساری تدبیروں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عمرؓ سے میری مشابہت اس وقت ثابت کر دی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی بھی پوری ہو گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے میرے متعلق فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا محمود آیا ہے اور اس کے تمام کپڑوں پر ، گرتے پر اور صدری وغیرہ پر اور پاجامے پر خون پڑا ہوا ہے.یہ خواب کتنے عرصہ کی ہے.میں چھوٹا تھا اور میری گیارہ بارہ سال کی عمر تھی جب انہوں نے یہ خواب دیکھی.اور میری پینسٹھ سال کی عمر میں آکے یہ خواب پوری ہوئی.یہ کتنا بڑا بھاری نشان ہے.پھر انہی دنوں میں، میں نے رویا میں دیکھا کہ میں انکوائری کمیشن کی جگہ پر ہوں.

Page 586

انوار العلوم جلد 24 551 سال 1954ء کے اہم واقعات وہ جگہ اس لئے دکھائی گئی تھی کہ اس کے نتیجہ میں لوگوں کے جوش کی وجہ سے بعض باتیں پیدا ہوئیں بہر حال میں نے دیکھا کہ میں انکوائری کمیشن ہال میں ہوں اور میرے پیچھے سے کسی شخص نے آکر مجھ پر حملہ کیا ہے اور میں گر گیا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے ساتھ کوئی اور آدمی بھی ہے.کہتے ہیں واللهُ اَعْلَمُ کہاں تک ٹھیک ہے کہ کوئی شخص اُس وقت مسجد سے بھاگا تھا.جس کے معنے یہ ہیں کہ کوئی اور شخص بھی اس امید سے بیٹھا ہوا تھا.بہر حال وہ رویا میں نے دوستوں کو سنادی تھی اور پھر اسی طرح ہوا کہ پیچھے سے ایک شخص نے حملہ کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے حفاظت فرمائی.رض اس کے بعد میں تحریک جدید کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.بات یہ ہے کہ جوں جوں کام بڑھتا چلا جاتا ہے اس کے مطابق تدبیر بھی بڑھتی چلی جانی چاہئے تمہارے ذمہ جو کام ہیں وہ اتنے عظیم الشان ہیں کہ دنیا کے پر دہ پر اس زمانہ میں کسی کے ذمہ وہ کام نہیں.ایک زمانہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا.بڑا بوجھ تھا صحابہ پر.چند صحابہ تھے جن پر دنیا کی اصلاح فرض تھی پر اب تو وہ صحابہ زندہ نہیں.اگر آج وہ صحابہ زندہ ہوتے تو میں تمہیں کہتا کہ دیکھو یہ تم سے زیادہ بوجھ اٹھا ر ہے ہیں مگر وہ تو فوت ہو چکے.اب تمہارا زمانہ ہے تم یہ بتاؤ کیا اس وقت بھی دنیا میں کوئی جماعت ہے جس پر اتنا بوجھ ہو جتنا تم پر ہے ؟ آج تمہیں دنیا کے پردہ پر کوئی جماعت ایسی نظر نہیں آئے گی جس پر اتنا بوجھ ہو جتنا تم پر ہے اور تمہارا کام ایسا ہے جو روز بروز بڑھتا چلا جاتا ہے.جتنا تم چندہ دیتے ہو اتناہی تم اگلے چندہ کے لئے اپنے آپ کو مجبور کرتے ہو کیونکہ جب تم چندہ دیتے ہو ہم کہتے ہیں بھئی یہ روپیہ ضائع نہ ہو ایک مشن اور کھول دو.جب ہم وہ مشن کھولتے ہیں تو اب کسی اور مشن کو چلانے کے لئے پھر روپیہ کی ضرورت ہوتی ہے پھر تمہیں کہتے ہیں اور دو.ہم دو یا چار یا پانچ مشن کھول کر بند کر دیتے تو خرچ نہ بڑھتا مگر جوں جوں تم چندہ دیتے چلے جاتے ہو ہم کام بڑھاتے چلے جاتے ہیں اور ججوں جوں کام بڑھتا چلا جاتا ہے پھر ہم کو اور روپیہ مانگنا پڑتا ہے.گویا ہماری مثال بالکل اسی قسم کی ہو گئی ہے جیسے کہتے ہیں کسی چیتے نے کوئی سل پڑی ہوئی دیکھی تو وہ سل کو چاٹنے لگا.سل چونکہ گھر دری ہوتی

Page 587

انوار العلوم جلد 24 552 سال 1954ء کے اہم واقعات ہے اس سے خون بہا جسے کھا کر اسے مزہ آیا.پھر اس نے اور چائی.اس نے سمجھا شاید میں سل کھا رہا ہوں حالانکہ اصل میں وہ اپنی زبان ہی کھا رہا تھا.ہوتے ہوتے اُس کی ساری زبان کھس گئی.اسی طرح تم بھی گویا اپنی زبان کھا رہے ہو لیکن فرق یہ ہے کہ چیتے نے تو زبان کھائی تھی اپنے مزہ کے لئے اور تم زبان کھا رہے ہو خدا کے لئے.اُس کو تو اُس کی زبان کا بدلہ نہیں ملتا مگر تم جس کے لئے زبان گھسا رہے ہو وہ زبان پیدا کرنے ملتا والا ہے بلکہ سارا وجو د ہی پیدا کرنے والا ہے.اس لئے تمہارے لئے یہ خطرہ نہیں ہو سکتا کہ تمہاری زبان گھس جائے تو پھر کیا ہو گا.اس لئے کہ پھر دوسری زبان تم کو مل جائے گی پھر تیسری زبان مل جائے گی پھر چوتھی زبان مل جائے گی.مگر میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں سے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں اور بعض دفعہ تو کہہ بھی دیتے ہیں کہ یہ بوجھ زیادہ بڑھایا جا رہا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے تو میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ خلیفہ کوئی بات ایسی نہیں کر سکتا جس کو کہ بعد میں پورا نہ کیا جاسکے.کوئی اس کو مبالغہ کہہ لے، کوئی اس کو خود پسندی کہہ لے، کوئی کچھ کہہ لے مگر میرا یہ یقین ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ لازمی نتیجہ ہے اس بات کا کہ خلیفہ خدا بناتا ہے کہ جو بھی خلیفہ کام شروع کرے گا وہ اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہو گا اور جب وہ ضروری ہو گا تو جماعت کے اندر ضرور اُس کی طاقت ہو گی.وہ اپنی غفلت سے اُس کو پورا کر سکے یانہ کر سکے یہ اور بات ہے لیکن جہاں تک امکان کا تعلق ہے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نا ممکن تھا اس جماعت کے لئے.اور میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اب تبلیغ ایسے رنگ میں آچکی ہے اور مشن ایسی طرز پر قائم ہو چکے ہیں کہ شاید چند مشن اور قائم ہونے کے بعد ہم ساری دنیا میں شور مچا سکیں.اگر اس وقت صرف چھ سات مشن اور دنیا میں قائم ہو جائیں تو ایک وقت میں ساری دنیا میں آواز بلند ہو سکتی ہے اور ایسی طرز پر آواز اٹھ سکتی ہے کہ لوگوں کو اسلام کی طرف لازماً توجہ کرنی پڑے.اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ان موجودہ مشنوں کو قائم رکھا جائے اور چھ سات مشن اور قائم کر دیئے

Page 588

انوار العلوم جلد 24 553 سال 1954ء کے اہم واقعات جائیں اور مساجد بنائی جائیں اور لٹریچر شائع کیا جائے.یہ ساری چیزیں ہو جائیں تو دنیا کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام اب دنیا میں سنجیدگی کے ساتھ عیسائیت کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو گیا ہے.تم تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت زیادہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا مردم شماری کرو مدینہ میں کتنے مسلمان ہیں تو ان کے دلوں میں شبہ یہ پیدا ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں فرماتے ہیں بہر حال چونکہ آپ کا حکم تھا وہ گئے اور انہوں نے مردم شماری کی اور اُس وقت سات سو مسلمان نکلے.صحابہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آکر کہا یا رسول اللہ ! ہم سات سو نکلے ہیں مگر آپ نے کیوں مردم شماری کرائی تھی ؟ کیا آپ کو یہ وہم تھا کہ اب مسلمان تباہ نہ ہو جائیں ؟ وہ زمانہ جب ہم تباہ ہو سکتے تھے وہ گزر گیا.اب تو ہم دنیا میں سات سو ہیں اب ہمیں کون تباہ کر سکتا ہے.4 دیکھو کس قدر یقین اور ایمان ان کے اندر تھا.یہی حال تم اپنا سمجھ لو.ایک زمانہ وہ تھا جب اسلام کی آواز اٹھانے والا دنیا میں کوئی نہیں تھا.اب تمہارے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ برکت پیدا کی ہے اور تم کو اس برکت کا حاصل کرنے والا بنایا ہے.امریکہ میں تمہارے مشن ہیں، اسی طرح تمہارا مشن انگلینڈ میں ہے، ہالینڈ میں ہے ، جرمنی میں ہے، سوئٹزر لینڈ میں ہے.یورپ میں اہم ملکوں کے لحاظ سے اٹلی ، فرانس اور سپین میں اور مشن ہونے چاہئیں.ایشیا میں، جاپان میں اور آسٹریلیا میں اور ایک تھائی لینڈ وغیرہ کے علاقہ میں ہونا چاہئے جو چین وغیرہ میں تبلیغ کو وسیع کر سکے.امریکہ میں اگر ہمارے دو مشنری اور ہو جائیں یعنی ایک کینیڈا میں اور ایک جنوبی امریکہ کے کسی علاقہ میں تو پھر اس طرح تمہاری تنظیم ہو سکتی ہے کہ تم ایک دم ساری دنیا میں اسلام کی آواز کو بلند کر سکتے ہو.اگر اس کے ساتھ لٹریچر مہیا ہو جائے اور خد اتعالیٰ کے فضل سے قرآن شریف سے زیادہ اعلیٰ لٹریچر کیا ہو گا.قرآن شریف شائع ہو گیا ہے اور کئی کتابیں جو ضروری ہیں وہ ہمارے زیر نظر ہیں تو اور بھی آسانی ہو سکتی ہے.جوں جوں چھپوانے کی توفیق ہوگی وہ چھپنی شروع ہو جائیں گی.اگر جماعت کے مخلص لوگ حصہ لے کر

Page 589

انوار العلوم جلد 24 554 سال 1954ء کے اہم واقعات اور مینٹل (ORIENTAL) پبلشنگ کمپنی کو کھڑا کر دیں اور پر لیس جاری ہو جائے تو پھر انشاء اللہ جلدی جلدی اور لٹریچر بھی شائع ہونا شروع ہو جائے گا.میں نے ایسے لٹریچر نظر رکھ لئے ہیں جن کو فوراً ہی لکھوا کر وسیع کیا جاسکتا ہے.بہر حال میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ تنظیم ہو جائے تو یہ عیسائیت پر ایک ایسا حملہ ہو جائے گا جس کو رد کرنے کے لئے دشمن کے لئے مشکل پیش آئے گی.مثلاً دیکھو میرا قرآن شریف کا دیباچہ شائع ہوا ہے اس کے متعلق متواتر جور پورٹیں آرہی ہیں جرمنی سے، ہالینڈ سے اور دوسرے کئی ممالک سے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مصنفوں نے اس کے متعلق لکھا ہے.بعضوں نے گالیاں بھی دی ہیں اور بعضوں نے کہا ہے کہ عیسائیت کے ساتھ بڑی سختی کی گئی ہے مگر تمام کا خلاصہ یہ آجاتا ہے کہ یہ اسلام کا ایسا حملہ ہے جس کے رڈ کئے بغیر ہم چپ نہیں رہ سکتے.مگر یہ دیکھ لو کہ آج تو تم بہت زیادہ ہو ( میں نے وہ مثال اسی لئے مدینہ کی دی تھی کہ آج تو تم بہت زیادہ ہو ) جب تم ابھی تھوڑے تھے اور جب قرآن شریف سارا نہیں نکلا تھا صرف پہلا سپارہ شائع ہوا تھا اُس وقت فور من کر سچن کالج لاہور کا پرنسپل اور اس کے دو ساتھی جن میں سے ایک عالمگیر محکمہ ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن (Young Man Christian Association) کا اشاعت کتب کا سیکرٹری تھا اور ایک جنرل سیکرٹری تھا.یہ تینوں مجھے قادیان ملنے آئے.باتیں ہوئیں باتیں ہونے کے بعد (وہ لوگ اُس وقت امریکہ جا رہے تھے ) امریکہ چلے گئے.چند دنوں کے بعد سیلون سے وہاں جماعت نے مجھے ان کا ایک کٹنگ بھجوایا جس میں ذکر تھا کہ سیلون میں فور من کرسچن کالج کا جو پر نسپل تھا اس نے تقریر کی اور اُس نے کہا کہ عیسائیت کے لئے اب وہ زمانہ آگیا ہے کہ اس کو اسلام کے ساتھ آخری جنگ لڑنی پڑے گی اور اس نے کہا یہ احساس عیسائیوں میں عام ہے کہ اب عیسائیت کو ایک آخری جنگ اسلام کے ساتھ لڑنی پڑے گی.لیکن کسی کا تو یہ احساس ہے کہ یہ مصر میں لڑائی ہو گی، کسی کا یہ احساس ہے کہ کسی اور بڑے مرکز میں ہو گی، یورپ میں ہوگی یا امریکہ میں ہو گی.مگر میں ایک دورہ سے جو ابھی آیا ہوں میں نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اسلام اور عیسائیت کی یہ جنگ کسی اور

Page 590

انوار العلوم جلد 24 555 سال 1954ء کے اہم واقعات بڑے مقام پر نہیں لڑی جائیگی ایک چھوٹا سا قصبہ قادیان ہے وہاں لڑی جائے گی.دیکھو ! یہ 1917ء کی بات ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ سینتیس سال اس کے اوپر رگئے.سینتیس سال ہوئے جب ہماری طاقت بالکل کم تھی، جب ابھی تحریک جدید کا نام بھی نہیں تھا اُس وقت اس شخص کی ذہانت نے بھانپ لیا کہ آئندہ اسلام اور عیسائیت کی جنگ قادیان میں ہونی ہے.مگر اب تو تمہارے نام سے سارے کے سارے واقف ہیں.دیکھو ٹائن بی جو اس وقت سب سے بڑا مورخ مانا جاتا ہے اور قریباً گبن کی پوزیشن اس کو ملنے لگ گئی ہے بلکہ بعض تو اس سے بھی بڑھاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دنیا میں ایسا مؤرخ کبھی نہیں گزرا اس نے اپنی تاریخ میں کہا ہے کہ دنیا میں جو ر ڈو بدل ہوا کرتے ہیں اور تغیر آیا کرتے ہیں وہ اخلاقی اقدار سے آتے ہیں.جو لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ کوئی بڑی چیز ہو یا بڑی طاقت ہو تو اس سے تغیرات ہوتے ہیں یہ غلط بات ہے.پھر اس نے مثال دی ہے اور اس نے لکھا ہے کہ عیسائیت کے ساتھ اب اسلام کی ٹکر ہو گی جس کے سامان نظر آرہے ہیں.آگے اس کے مطالعہ کی غلطی ہے اس نے سمجھا ہے کہ شاید یہ جو بہائی ہیں یہ بھی مسلمان ہی ہیں حالانکہ وہ تو کہتے ہیں ہم مسلمان نہیں ہیں بہر حال وہ کہتا ہے یہ بہائی ازم اور احمدی ازم یہ دو چیزیں نظر آرہی ہیں جن میں مجھے آئندہ لڑائی والی جھلک نظر آرہی ہے.ان کے ساتھ ٹکر کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ آئندہ تہذیب کی بنیاد اگلی صدیوں میں اسلام پر قائم ہوگی یا عیسائیت پر قائم ہو گی.پھر اس نے ایک مثال دی ہے کہتا ہے ہم تو گھوڑ دوڑ کے شوقین ہیں ہمارے ہاں عام گھوڑ دوڑ ہوتی ہے ہم گھوڑ دوڑ والے جانتے ہیں کہ بسا اوقات جو گھوڑا سب سے پیچھے سمجھا جاتا ہے وہ آگے نکل جاتا ہے.تو وہ کہتا ہے یہ مت خیال کرو کہ احمدی اِس وقت کمزور ہیں کیونکہ بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ پچھلا گھوڑا آگے نکل جاتا ہے اسی طرح اب تم کو یہ کمزور نظر آتے ہیں لیکن مجھے ان میں وہ ترقی کا بیج نظر آرہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی وقت عیسائیت کے ساتھ ٹکر لیں گے اور شاید یہی جیت جائیں.دیکھو اتنا بڑا شخص جس کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں سب سے بڑا

Page 591

انوار العلوم جلد 24 556 سال 1954ء کے اہم واقعات مؤرخ ہے اس کو بھی ماننا پڑا کہ احمدیت کے اندر وہ بیج موجود ہے جس نے عیسائیت سے ٹکر لینی ہے اور پھر ممکن ہے یہی جیت جائیں.وہ تو آخر مخالف ہے اس نے ممکن ہی کہنا تھا یہ تو نہیں کہنا تھا کہ یقینی امر ہے کہ جیت جائیں.تو اتنے مقام پر پہنچنے کے بعد کتنی شرم کی بات ہے اگر تم اپنا قدم پیچھے ہٹا لو.تم وہ تو نہ کرو جیسے کہتے ہیں کہ کوئی مغرور شخص تھا.اس کو یہ خیال ہو گیا کہ میں بڑا بہادر ہوں اور بہادری کی علامت اس نے یہ مقرر کی ہوئی تھی کہ وہ خوب چربی لگا لگا کے اپنی مونچھیں موٹی کرتا رہتا تھا چنانچہ اس نے خوب مو مچھیں پال لیں.کوئی انچ بھر وہ موٹی ہو گئیں اور پھر اس نے ان کو مروڑ مروڑ کر آنکھوں تک پہنچا دیا.اور پھر اس نے یہ اصرار کرنا شروع کیا کہ چونکہ مونچھیں بہادری کی علامت ہیں اس لئے خبر دار اِس علاقہ میں میرے سوا کوئی مونچھ نہ رکھے.لوگوں میں مونچھیں رکھنے کا عام رواج تھا کیونکہ اس زمانہ میں جنگی کیریکٹر یہ سمجھا جاتا تھا کہ مونچھیں چڑھائی ہوئی ہوں مگر اُس نے جس کی مونچھ دیکھنی پکڑ لینی اور قینچی سے کاٹ ڈالنی اور کہنا خبر دار آئندہ جو یہ حرکت کی.میرے مقابلہ میں کوئی شخص مونچھیں نہیں رکھ سکتا.سارے علاقہ میں شور پڑ گیا آخر لوگوں نے کہا ذلیل کیوں ہونا ہے مونچھیں کٹو اڈالو ورنہ اس نے تو زبر دستی کاٹ ڈالنی ہیں.کئی بیچاروں نے گاؤں چھوڑ کر بھاگ جانا اور کسی نے چپ کر کے نائی سے کٹوا دینی.نہیں کٹوانی تو اس نے جاتے ہی بازار میں مونچھ پکڑ لینی اور قینچی مارنی اور کاٹ ڈالنی.اِس سے لوگوں کی بڑی ذلتیں ہوئیں.آخر ایک شخص کوئی عقلمند تھا یوں تھا غریب سا اس نے جو دیکھا کہ روز روز یہ مذاق ہو رہا ہے اور اس طرح لوگوں کی ذلت ہوتی ہے تو اس نے کیا کیا کہ وہ بھی گھر میں بیٹھ گیا اور اس نے مونچھیں بڑھانی شروع کر دیں.یہاں تک کہ اس نے اس سے بھی زیادہ بڑی مونچھیں بنالیں.جب مونچھیں خوب ہو گئیں تو آکر بازار میں ٹہلنے لگ گیا اور ایک تلوار لٹکالی حالا نکہ تلوار چلانی بیچارے کو آتی ہی نہیں تھی.اب اس پٹھان کو لوگوں نے اطلاع دی کہ خان صاحب! چلئے کوئی مونچھوں والا شخص آگیا ہے.کہنے لگا کہاں ہے ؟ لوگوں نے کہا فلاں بازار میں ہے.خیر دوڑے دوڑے وہاں آئے دیکھا تو بڑے جوش سے کہا تم کو پتہ نہیں مونچھیں

Page 592

انوار العلوم جلد 24 557 سال 1954ء کے اہم واقعات رکھنا صرف بہادر کا کام ہے اور میرے مقابل میں کوئی موچھیں نہیں رکھ سکتا.وہ کہنے لگا جاؤ جاؤ بہادر بنے پھرتے ہو تم سمجھتے ہو تم ہی بڑے بہادر ہو میں تم سے بھی زیادہ بہادر ہوں.اس نے کہا پھر یہ تو تلوار کے ساتھ فیصلہ ہو گا.وہ کہنے لگا اور کس کے ساتھ ہو گا بہادروں کا فیصلہ ہوتاہی تلوار کے ساتھ ہے.اس نے کہا پھر نکالو تلوار.چنانچہ اس نے بھی تلوار نکال لی اور اس نے بھی تلوار نکال لی حالانکہ اس بے چارے کو تلوار چلانی ہی نہیں آتی تھی.جب وہ تلوار نکال کر کھڑا ہو گیا تو یہ کہنے لگا دیکھو بھٹی خان صاحب! ایک بات ہے اور وہ یہ کہ میرا اور آپ کا فیصلہ ہونا ہے کہ ہم میں سے کون بہادر ہے لیکن ہمارے بیوی بچوں کا تو کوئی قصور نہیں.فرض کرو میں مارا جاؤں تو میری بیوی کا کیا قصور ہے کہ بیچاری بیوہ بنے اور میرے بچے یتیم بنیں اور تم مارے جاؤ تو تمہاری بیوی اور بچوں کا کیا قصور ہے خواہ مخواہ ظلم بن جاتا ہے.اس نے کہا پھر کیا علاج ہے؟ کہنے لگا علاج یہی ہے کہ میں جا کے اپنے بیوی بچوں کو مار آتا ہوں اور تم جاکے اپنے بیوی بچوں کو مار آؤ.پھر ہم آپس میں آکر لڑیں گے پھر تو ٹھیک ہوئی بات.اب خواہ مخواہ اپنی اس لڑائی کے ساتھ دوسروں کو کیوں تکلیف دینی ہے.یہ بات بیچارے خان صاحب کی سمجھ میں آگئی انہوں نے کہا ٹھیک ہے چنانچہ وہ گئے اور اپنے بیوی بچوں کو مار کر آگئے.اور یہ وہیں بیٹھا رہا جس وقت وہ واپس پہنچا کہنے لگا نکالو تلوار.اس نے کہا نہیں میری رائے بدل گئی ہے اور یہ کہہ کر اُس نے اپنی مونچھیں نیچی کر لیں.تو کیا اب تم وہی کرنا چاہتے ہو! تم تھوڑے سے تھے جب تم دنیا میں نکلے اور تم نے نکل کر دنیا سے یہ منوالیا کہ اگر اسلام کی عزت رکھنے والی کوئی قوم ہے تو صرف احمدی ہیں، تم نے دنیا سے منوالیا کہ اگر عیسائیت کا جھنڈ از یر کرنے والی کوئی چیز ہے تو وہی دلیلیں ہیں جو مرزا صاحب نے پیش کی ہیں.جب عیسائیت کا نپنے لگی، جب وہ تھر تھرانے لگی، جب اس نے سمجھا کہ میرا مذ ہی تخت مجھ سے چھینا جا رہا ہے اور یہ تخت چھین کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جا رہا ہے تو تم نے کہا ہم اپنی موچھیں نیچی کرتے ہیں.کیسی افسوس کی بات ہے.یہی تو وقت ہے تمہارے لئے قربانیوں کا ، یہی تو وقت ہے تمہارے لئے آگے بڑھنے کا.اب جبکہ میدان تمہارے ہاتھ میں آرہا ہے تم

Page 593

انوار العلوم جلد 24 558 سال 1954ء کے اہم واقعات میں سے کئی ہیں جو پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں.لیکن یاد رکھو اس قسم کی عزت کا موقع اور اس قسم کی برکت کا موقع اور اس قسم کی رحمت کا موقع اور اس قسم کے خدا تعالیٰ کے قرب کے موقعے ہمیشہ نہیں ملا کرتے.سینکڑوں سال میں کبھی یہ موقعے آتے ہیں اور خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کو یہ موقعے مل جائیں اور وہ اس میں برکتیں حاصل کر لیں.نوجوانوں کو میں خصوصاً توجہ دلاتا ہوں کہ خدام کے ذریعہ سے تم نے بڑے بڑے اچھے کام کرنے شروع کئے ہیں.خدمت خلق کا تم نے ایسا عمدہ لاہور میں مظاہرہ کیا ہے کہ اس کے اوپر غیر بھی عش عش کرتا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ تم روزانہ اپنی زندگیوں کو اس طرح سنوارتے چلے جاؤ گے کہ تمہارا خدمت خلق کا کام بڑھتا چلا جائے لیکن یہ کام سب سے مقدم ہے کیونکہ اسلام کی خدمت کے لئے تم کھڑے ہوئے ہو اور اسلام کی تبلیغ کا دنیا میں پھیلانا یہ ناممکن کام اگر تم کر دو گے تو دیکھو کہ آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری اس خدمت کو دیکھ کر کس طرح تم پر اپنی جانیں نچھاور کریں گی.کیا آج تم میں سے کوئی شخص خیال کر سکتا ہے ، کیا آج ایشیا میں سے کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج افریقہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج امریکہ کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے، کیا آج چین اور جاپان کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے یا شمالی علاقوں کا کوئی شخص خیال کر سکتا ہے کہ اسلام غالب آجائے گا اور عیسائیت شکست کھا جائے گی ؟ کیا کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ ربوہ جو ایک کوردہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، ایک شور زمین والا جس میں اچھی طرح فصل بھی نہیں ہوتی، جس میں پانی بھی کوئی نہیں اس ربوہ میں سے وہ لوگ نکلیں گے جو واشنگٹن اور نیو یارک اور لنڈن اور پیرس کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے؟ تو یہ تمہاری حیثیت ہے کہ کوئی شخص نہ دشمن نہ دوست یہ قیاس بھی نہیں کر سکتا کہ تم دنیا میں یہ کام کر سکتے ہو.مگر تمہارے اندر خدا تعالیٰ نے یہ قابلیت پیدا کر دی ہے، تمہارے لئے خدا تعالیٰ نے یہ وعدے کر دیئے ہیں بشر طیکہ تم استقلال کے ساتھ اور ہمت کے ساتھ اسلام کی خدمت کے لئے تیار رہو.اگر تم اپنے وعدوں پر پورے رہو، اگر تم اپنی بیعت پر قائم رہو تو خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 594

انوار العلوم جلد 24 559 سال 1954ء کے اہم واقعات کا تاج تم چھین کے لاؤ گے اور تم پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر رکھو گے.تم تو چند پیسوں کے اوپر ہچکچاتے ہو مگر خدا تعالیٰ کی قسم! اگر اپنے ہاتھوں سے اپنی اولا دوں اور اپنی بیویوں کو ذبح کرنا پڑے تو یہ کام پھر بھی سنتا ہے.پس نوجوانوں کو یہ سوچ لینا چاہئے کہ ان کے آباء نے قربانیاں کیں اور خدا کے فضل سے وہ اس مقام پر پہنچے کچھ ان میں سے فوت ہو گئے اور کچھ اپنا بوجھ اٹھائے چلے جا رہے ہیں.میں نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ اب وہ آگے بڑھیں اور اپنی قربانیوں سے یہ ثابت کر دیں کہ آج کی نسل پہلی نسل سے پیچھے نہیں بلکہ آگے ہے.جس قوم کا قدم آگے کی طرف بڑھتا ہے وہ قوم ہمیشہ آگے کی طرف بڑھتی ہے اور جس قوم کی اگلی نسل پیچھے ہٹتی ہے وہ قوم بھی پیچھے ہٹنی شروع ہو جاتی ہے.کچھ عرصہ تک تمہارے بوجھ بڑھتے چلے جائیں گے ، کچھ عرصہ تک تمہاری مصیبتیں بھیانک ہوتی چلی جائیں گی کچھ عرصہ تک تمہارے لئے ناکامیاں ہر قسم کی شکلیں بنا بنا کر تمہارے سامنے آئیں گی لیکن پھر وہ وقت آئے گا جب آسمان کے فرشتے اتریں گے اور وہ کہیں گے بس ہم نے ان کا دل جتنا دیکھنا تھا دیکھ لیا، جتنا امتحان لینا تھا لے لیا.خدا کی مرضی تو پہلے سے یہی تھی کہ ان کو فتح دے دی جائے.جاؤ ان کو فتح دے دو.اور تم فاتحانہ طور پر اسلام کی خدمت کرنے والے اور اس کے نشان کو پھر دنیا میں قائم کرنے والے قرار پاؤ گے.پس بڑوں کو چاہئے کہ اپنے بچوں کی تربیت کریں اور بچوں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور زیادہ سے زیادہ دین کی خدمت میں حصہ لیں اور وقف زندگی کریں تاکہ تمہاری قربانیوں کے ذریعہ سے پھر اسلام طاقت اور قوت پکڑے.میں نے اس سال یہ سکیم بھی تجویز کی ہے کہ آئندہ ہمیں لٹریچر کی اشاعت کے لئے لائبریریاں قائم کرنی چاہئیں میں جماعت کو اس امر کی طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ مختلف جگہوں پر جا کے جماعتیں مکان لیں اور لائبریریاں قائم کریں.مجھے دعوۃ و تبلیغ نے بتایا ہے کہ انہوں نے 27 جگہ پر لائبریریاں قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے.کتابیں بھی انہوں نے لیسٹیں بنا کر مجھے دکھا دی ہیں کہ یہ یہ کتابیں ہم دو دو، تین تین، چار چار جلدیں

Page 595

انوار العلوم جلد 24 560 سال 1954ء کے اہم واقعات وہاں رکھوادیں گے تاکہ لوگوں کو پڑھنے کے لئے دی جائیں.لیکن ہماری جماعتیں تو سینکڑوں جگہوں پر ہیں میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعتوں میں بیداری پیدا ہو گی اور وہ مکان لے کر کام شروع کریں گی تو انہیں بہت جلد اس کے فوائد محسوس ہونے شروع ہو جائیں گے.زیادہ ضرورت لائبریری کے لئے یہ ہوتی ہے کہ کوئی آدمی کچھ وقت کے لئے وہاں بیٹھے تاکہ وہ لوگوں کو کتابیں پڑھنے کے لئے دے یا اگر گھر پر پڑھنے والے ہوں تو ان کو کتاب اشو (ISSUE) کرنا اور پھر ان سے واپس لے کر لائبریری میں رکھنا یہ کام ہوتا ہے.دعوۃ و تبلیغ نے 27 جگہیں وہی چینی ہیں جہاں ان کے اچھے مبلغ ہیں.بڑے بڑے شہر انہوں نے لے لئے ہیں اسی طرح ضلعوں کے صدر مقام لے لئے ہیں اور یہ تجویز کی ہے کہ ان کا مبلغ روزانہ گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ بیٹھا کرے اور لوگوں کو کتابیں اشو (ISSUE) کیا کرے.مقامی جماعتوں کے سپر دیہ کام ہو گا کہ وہ کوئی ایسا مکان لیں جس میں لوگ آسکیں اور بیٹھ سکیں.ایک یا دو کمرے لے لیں جس میں وہ یہ کام جاری کر سکیں.بعض جماعتوں نے تو اپنے مکان بنالئے ہیں اور بعض جماعتوں نے کرایہ پر لئے ہوئے ہیں یا بعض جگہ پر بعض مخیر احمدی ہوتے ہیں گھر ان کا اچھا کھلا ہوتا ہے جس میں سے وہ ایک دو کمرے دے دیتے ہیں.ایک کمرہ میں لائبریری ہو گئی ایک میں بیٹھنے والے اور کتابیں پڑھنے والے بیٹھ گئے.لیکن ان 27 پر بس نہیں.میں تو سمجھتا ہوں جب ہم نے یہ چیز منظم کی تو جس طرح پہلے ہم نے ایک دو مبلغ بھیجے تھے تو اس ایک دو پر پھر ہم نے بس نہیں کی.اس طرح اس کام میں توسیع ہوتی چلی جائے گی.یہ تو کسی کو چلانے کے لئے ایک حکمت ہوتی ہے بچے کو جب چلاتے ہیں تو کہتے ہیں اچھا ایک قدم، ایک قدم.اور ایک قدم چلاتے چلاتے پھر اسے پہاڑوں پر چڑھاتے ہیں اور میدانوں میں دوڑاتے ہیں.اسی طرح یہ 27 لا ئبریریاں نہیں ہیں یہ در حقیقت تمہارے لئے ایسی ہی ہیں جیسے 27 بسکٹ تم کو دکھائے جارہے ہیں جس طرح بچوں کو دکھائے جاتے ہیں تاکہ وہ اپنا قدم اٹھائیں.یہ 27 لائبریریاں پیش خیمہ ہوں گی اور ہونی چاہئیں، 27 ہزار نہیں 27 لاکھ لائبریریوں کا جن کے ذریعہ سے احمدیت اور اسلام کی تعلیم لوگوں کو پہنچائی جاسکے.

Page 596

انوار العلوم جلد 24 561 سال 1954ء کے اہم واقعات لوگ اپنے گھروں میں جس طرح آرام سے کتاب پڑھ سکتے ہیں اس طرح مبلغ کے پاس نہیں آسکتے.مبلغ کے پاس تو کبھی مہینہ میں ایک دفعہ موقع مل گیا تو آگئے لیکن کتاب تو بعض ایسے اچھے پڑھنے والے ہوتے ہیں کہ ہر تیسرے چوتھے دن پڑھ کر ختم کر سکتے ہیں.پس جماعتوں کو چاہئے کہ جہاں جہاں بھی مرکزی جماعتیں ہیں وہ اپنی اپنی جگہوں پر کسی مکان کا انتظام کریں اور پھر دعوۃ و تبلیغ سے اصرار کریں کہ وہ ان کے لئے لٹریچر مہیا کرے.لیکن یہ لٹریچر وہیں مہیا کیا جائے گا جہاں ہمارا مبلغ ہو گا یا مبلغ کی جگہ پر کوئی اچھا کارکن ہو گا جس کی جماعت ضمانت دے کہ یہ کتابوں کو سنبھال کر رکھے گا ضائع نہیں کرے گا.لیکن جو ضلع وار جماعتیں نہیں اگر ان میں بھی جوش ہے اور اخلاص ہے اور وہ بھی اس قسم کے مکان کا انتظام کر سکتی ہیں اور آدمیوں کا انتظام کر سکتی ہیں تو ان کے اس یقین دلانے پر میں محکمہ کے پاس ان کی سفارش کروں گا کہ وہ ان کی جگہ پر بھی لائبریری قائم کر دے تا کہ وہ بھی اپنے علاقہ میں تربیت اور تعلیم کا کام جاری کر سکیں.ایک بات میں جماعت کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مساجد کا قیام ہمارے ہاں اکثر جگہوں پر نہیں ہے بڑی افسوس کی خبر آتی ہے جب کسی جماعت کی طرف سے یہ اطلاع آتی ہے کہ فلاں جگہ فلاں کے مکان پر نماز پڑھ رہے تھے کہ وہ کچھ خفا ہو گیا اور اس نے کہا نکالو اپنی چٹائیاں یہاں سے.تم اگر کبھی یہ سن لو کہ کسی کے گھر میں تمہارا بیٹا مہمان تھا اور اس نے اسے نکال دیا تو تمہارے لئے یہ بات نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.پھر تم یہ کس طرح سن لیتے ہو کہ تمہارے خدا کو کسی نے نکال دیا ہے.آخر مسجد خدا کا گھر ہے جب ایک جگہ پر کسی نے کمرہ دیا اور اس کے بعد کسی سیکرٹری سے یا پریذیڈنٹ سے یا اور کسی آدمی سے وہ خفا ہو گیا اور اس نے کہا اٹھاؤ چٹائیاں اور لے جاؤ میں نہیں دیتا اپنا مکان نماز کے لئے.تو یہ ذلت تو ایسی ہے کہ انسان کے دل میں خیال آنا چاہئے کہ اس سے تو مرنا بہتر ہے.خدا تعالیٰ کو اس کے گھر سے نکال دیا گیا تو ہماری زندگی کس کام کی.آخر اس میں دقت کیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو آپ سے بڑھ کر شان کس کی ہونی ہے.آپ نے معمولی زمین لی اور اس پر کچی دیواریں کھڑی کیں اور اوپر کھجور کی

Page 597

انوار العلوم جلد 24 562 سال 1954ء کے اہم واقعات شاخیں ڈال دیں اور چھت بنالی.بسا اوقات ایسا ہو تا تھا کہ بارش ہوتی تھی اور آپ سجدہ کرتے تھے اور آپ کے گھٹے بھی پانی سے تر ہو جاتے تھے ، ماتھا بھی تر ہو جاتا تھا، کیچڑ بھی لگا ہوا ہوتا تھا مگر اُسی جگہ سجدے کرتے تھے.ہماری جماعت میں یہ کیا آفت آئی ہوئی ہے کہ ہر شخص کہتا ہے کہ پکی مسجد ہونی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک پکی مسجد خانہ کعبہ بنی ہوئی تھی باقی لوگوں کے پاس اپنی سیدھی سادی مسجد میں تھیں.اب ایک مسجد تم نے مرکز میں بنالی ہے یہ پکی مسجد تمہارے لئے کافی ہے باقی توفیق ملے تو بے شک بناؤ.اگر اپنے گھروں سے خدا کا گھر اچھا بنے تو بڑی اچھی بات ہے لیکن یہ کہ خدا کا گھر ہی کوئی نہ ہو یہ بڑے افسوس کی بات ہے.میں نے دیکھا ہے کہ کئی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے پندرہ پندرہ ہیں بیس سال صرف اس لئے گزار دیئے ہیں کہ اچھی جگہ نہیں ملتی.مثال کے طور پر میں بتا دیتا ہوں امر تسر کی جماعت تھی ان کے سپرنٹنڈنٹ بڑے مخلص تھے ان کا سارا خاندان احمدی ہے اور بڑا مخلص ہے میرے پاس آئے اور آکر انہوں نے کہا مسجد کے لئے دعا کریں.میں نے کہا کیا دقت ہے جو ہم دعا کریں.خدا نے سامان دیا ہوا ہے، زمینیں بکتی ہیں اور روپیہ بھی خدا نے آپ کو دیا ہوا ہے.خدا سے دعا تو برکت کے لئے کریں گے مسجد لینے کے لئے کیا دعا کریں.کہنے لگے نہیں جی جگہیں تو ہیں لیکن جگہ ذرا سنٹر میں ہو جہاں اسلامیہ سکول ہے اگر وہاں جگہ ملے تو پھر اچھا ہے.میں نے کہا ہاں بازار کے باہر جگہ ہے، میں نے خود کئی جگہیں دیکھی ہیں وہاں لے لو.کہنے لگے نہیں جی وہ بہت دور ہے اس میں مزا نہیں مسجد یہاں بنی چاہئے.خیر میں ان کو سمجھا تا رہا، تین چار سال گزرے تو پھر وہ کہنے لگے مسجد کے لئے دعا کریں.میں نے کہا کیا کوئی جگہ نہیں ؟ کہنے لگے نہیں جی اب دعا کریں کہ ہال بازار کے باہر جگہ مل جائے.میں نے کہا.ہیں! آپ تو اسلامیہ سکول کے پاس لے رہے تھے اب کیا ہوا ہے؟ کہنے لگے وہ تو نہیں ملتی لیکن اب یہاں بھی دقت ہو گئی ہے اور مکان بننے لگے ہیں جس کی وجہ سے اب یہ سنٹرل جگہ ہو گئی ہے ہماری خواہش ہے کہ ہمیں یہاں جگہ مل جائے آپ دعا کریں.میں نے کہا تم نے پہلے اُس وقت کیوں نہ لی ؟ کہنے لگے اُس وقت اور

Page 598

انوار العلوم جلد 24 563 سال 1954ء کے اہم واقعات بات تھی اب تو یہ جگہ آباد ہو گئی ہے.میں نے کہا ہال بازار کا خیال جانے دو اگر یہاں جگہ نہیں ملتی تو شریف پورہ آباد ہو رہا ہے میں نے سنا ہے اب شریف پورہ میں جگہ ملتی ہے وہاں لے لو.کہنے لگے نہیں نہیں وہاں کون جاتا ہے، شریف پورہ بالکل باہر ہے.میں نے کہا اب موقع ہے پھر تمہیں وہاں بھی نہیں ملے گی.کہنے لگے نہیں بس ، ٹھیک ہے.دو چار سال کے بعد پھر آئے میں نے کہا سناؤ مسجد کے لئے زمین مل گئی؟ کہنے لگے دعا کریں کہ شریف پورہ میں جگہ مل جائے.میں نے کہا.ہیں ! شریف پورہ تو بڑی نامناسب جگہ تھی شریف پورہ میں ملنے کا کیا مطلب؟ کہنے لگے ہاں اب وہ بڑا آباد ہو گیا ہے اور اب وہاں بھی جگہ نہیں ملتی.پھر اس سے پرے ایک اور جگہ تھی، خبر نہیں کیا پورہ بنا تھا.میں نے کہا اُس میں جگہ لے لو.کہنے لگے نہیں نہیں اُس میں کون جاتا ہے شریف پورہ میں ملنی چاہئے.کچھ عرصہ کے بعد پھر میں نے کہا.سناؤ مسجد کا کیا حال ہے؟ اس پر پھر وہ جو میں نے نئی جگہ بتائی تھی اُس کا نام لے کر کہنے لگے دعا کریں وہاں مل جائے.میں نے کہا کیوں !! شریف پورہ میں کیوں نہیں لیتے؟ کہنے لگے وہاں تو اب نہیں ملتی اب اس میں بھی مشکل ہو گئی ہے آپ اس کے لئے دعا کریں.میں نے کہا میں ساری عمر اپنی دعا تمہاری مسجد کے پیچھے لئے پھرتا رہوں.پھر پیچھے خدا نے ان کو اندر بھی ایک چھوٹی سی جگہ دے دی لیکن جیسی میں چاہتا تھا کہ ان کو جگہ مل جائے اور اس میں لائبریری بھی بن جائے اور مسجد بھی بن جائے وہ تو باہر ہی مل سکتی تھی.جماعت اتنی تھی ہی نہیں کہ ان کے پاس اتنا روپیہ ہو کہ وہ اندر کوئی بڑی زمین خرید سکے.اتنار : دوسری کراچی کی جماعت تھی مگر وہ وقت پر سمجھ گئی بہر حال ان سے بھی یہی ہوا کہ 1935 ء سے میں نے وہاں جانا شروع کیا اور ان کو سمجھانا شروع کیا اور انہوں نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہاں جگہ مل جائے، فلاں جگہ مل جائے آخر یہ ہوا کہ بڑی مصیبتوں سے ان کو راضی کیا اور انہوں نے خدا کے فضل سے مسجد بنالی.بناتے بناتے کچھ ہند و وہاں سے بھاگے تو انہوں نے کچھ غنیمت کا مال بھی ٹوٹا اور اس طرح مسجد ان کی اور زیادہ وسیع ہو گئی.اس طرح اور کئی جماعتیں ہیں.میں نے دیکھا ہے سارے کے سارے اس فکر

Page 599

انوار العلوم جلد 24 564 سال 1954ء کے اہم واقعات میں رہتے ہیں کہ ان کو سرکٹ ہاؤس میں جگہ ملے.بھلا "کیا پدی اور کیا پدی کا شوربہ " تمہاری ابھی حیثیت ہی کیا ہے.نہ تمہارے پاس اتنا روپیہ ہے، نہ اتنی طاقت ہے، نہ شوکت ہے اور پھر بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں ایک اور سوال پیدا ہو جاتا ہے.جیسے ملتان والے ہیں وہ تو کہتے ہیں اب بھی امید ہے لیکن آٹھ دس سال سے یہی ہو تا چلا آیا ہے.وہ کہتے ہیں گورنمنٹ کی طرف سے زمین انعام مل جائے.راولپنڈی والے بھی اس کی بڑی خواہش رکھتے تھے.میں نے انہیں کہا تمہیں دیتا کون ہے.آخر تم اپنی حیثیت تو سمجھو.کہنے لگے بس اب مل رہی ہے اب وہ راضی ہو گئے ہیں مگر پھر تھوڑے دنوں کے بعد کہا لوگوں نے شور مچایا ہوا ہے.میں نے کہا لوگوں نے ہمیشہ شور مچانا ہے تمہیں اس طرح زمین مل ہی نہیں سکتی تم کیوں خواہ مخواہ اپنے آپ کو خراب کر رہے ہو.تم زمین خرید و، ہیں خرید و، باہر خرید و خدا تمہاری خاطر وہیں شہر لے جائے گا.غرض بہت سی جماعتیں ایسی ہیں جن میں یہی دقت پیدا ہوتی رہی ہے.لاہور والوں کو بھی بڑی مصیبت سے پیچھے پڑپڑ کے میں نے زمین خریدنے پر مجبور کیا.اس وقت میاں سراج الدین صاحب میرے سامنے ہی بیٹھے ہیں.میں نے ان کو کہا کہ میاں! تم خرید و ہم زبر دستی تمہارے پیچھے یہ کام لگا دیتے ہیں چنانچہ انہوں نے خرید لی اب وَاللهُ اَعلَمُ وہ کب تک محفوظ ہوتی ہے کیونکہ اس کے متعلق کچھ قانونی جھگڑے ہیں.بہر حال یہ خیال بالکل جانے دو کہ مسجد مرکز میں ہو.تم اپنے خدا پر اتنے بد ظن کیوں ہو.تم یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جہاں تمہاری مسجد ہو گی خدا اُسی جگہ شہر لے جائے گا.کیا تم نے دلی کو نہیں دیکھا ہوا کہتے ہیں ہر سو سال کے بعد وہ بگڑتی ہے اور دوسری جگہ بستی ہے.تو شہر اُجڑا کرتے ہیں اور دوسری جگہ بسا کرتے ہیں.سیالکوٹ والوں کو بھی اسی طرح مجبور کر کے میں نے زمین دلوائی تھی.اس وقت کہتے تھے کہ یہاں تو کوئی بھی نہیں جانے کا.مگر اب وہ کہتے ہیں کہ ارد گر دسب آبادی ہو گئی ہے اور بڑھتی چلی جاتی ہے کیونکہ اب لوگوں کا ادھر رُخ ہو گیا ہے.تو تم خدا پر حسن ظنی کرتے ہوئے جہاں بھی جگہ ملے لے لو اور پھر جیسی بھی کھڑی ہو سکتی ہو مسجد کھڑی کر لو.لیکن

Page 600

انوار العلوم جلد 24 565 سال 1954ء کے اہم واقعات جہاں میونسپل کمیٹیاں ہیں وہاں یہ امر یاد رکھو کہ تمہاری مسجد کی درخواست کبھی نہیں منظور ہونے کی." کبھی نہیں" سے مراد یہ ہے کہ 100 میں سے 98 دفعہ تمہاری درخواست رڈ ہو جائے گی.تم ایک وسیع کمرہ بنایا کرو اور اس کا نام لائبریری رکھو، سکول رکھو، مہمانخانہ رکھو جو مرضی ہے رکھو ہر جگہ خدا کی مسجد بن سکتی ہے اور پھر تم وہاں نماز پڑھنا شروع کر دو آہستہ آہستہ لوگ اسے خود ہی مسجد کہنا شروع کر دیں گے.لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ احمدی اگر مہمانخانہ بھی بناتے ہیں تو وہ کہتے ہیں " ایہہ احمدیاں دی مسجد ہے".غرض آہستہ آہستہ وہ آپ ہی مسجد بن جاتی ہے پھر کوئی سوال ہی نہیں رہتا.پس ہر جگہ پر مسجدیں بنانے کی کوشش کرو.کوئی شہر ، کوئی قصبہ اور کوئی گاؤں ایسا نہ رہے جس میں تمہاری اپنی مسجد نہ ہو.گاؤں والوں میں تو یہ بات ہے، شہر والوں میں عام طور پر یہ بات نہیں لیکن اگر تم مسجدیں بنانے لگو گے تو یاد رکھو میرا تجربہ یہ ہے کہ جہاں جہاں مسجد بنتی ہے وہاں فوراً احمدی بڑھنے شروع ہو جاتے ہیں.مثلاً جس وقت کراچی والا ہال بنا لوگ کہتے تھے یہ ہال تو بن گیا ہے اس میں نمازیں پڑھنے والے کہاں سے آئیں گے ؟ میں نے کہا تم بناؤ پھر دیکھو لوگ کس طرح آتے ہیں.چنانچہ ابھی وہ پورا تیار بھی نہیں ہوا تھا کہ پارٹیشن ہو گئی اور دتی کی ساری جماعت وہاں آپڑی.اب اس ہال میں وہاں کے سارے احمدی سما ہی نہیں سکتے.چنانچہ اب وہ اور جگہ پر انتظام کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اس سے زیادہ کھلی جگہ ملے تاکہ ہم سب سا سکیں.اور اگر وہ جگہ بھی خدا نے چاہا انہوں نے بنالی تو پھر دیکھیں گے کہ پھر خدا جماعت کے بڑھنے کا کوئی ذریعہ بنادے گا اور پھر وہ تنگ ہو جائے گی.ہمارے متعلق تو خدائی قانون ہے کہ دسّخ مكانك اپنے مکانوں کو بڑھاتے جاؤ بڑھاتے جاؤ.دیکھو اللہ تعالیٰ نے ہم پر کتنی حسن ظنی کی ہے فرماتا ہے وسّغ مكانك ـ اب تم سمجھ سکتے ہو کہ خدا کو میرے اور تمہارے مکان سے کیا واسطہ ہے.دنیا میں سارے مکان بنتے ہیں، پاخانے ہوتے ہیں، غسلخانے ہوتے ہیں، باورچی خانے ہوتے ہیں اور ہمیشہ بنتے ہیں.اس کو میرے اور تمہارے مکان سے کیا د چھپی ہے.در حقیقت اس الہام میں اُس نے تم پر حسن ظنی کی ہے اور وسغ مكانك کے

Page 601

انوار العلوم جلد 24 566 سال 1954ء کے اہم واقعات معنے یہ ہیں کہ اے احمدی، اے بانی سلسلہ اور اس کے اتباع ! تم جب مکان بناؤ گے تو میرے لئے بناؤ گے اس لئے میں تم پر اعتبار کرتے ہوئے کہتا ہوں اپنا مکان بڑھاؤ.مطلب یہ ہے کہ میرا بڑھاؤ.تو رسغ مكانك میں در حقیقت خدا تعالیٰ نے حسن ظنی سے کام لیا ہے اور یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے مکانوں کے ساتھ خدا کا مکان بھی بڑھے.پس خدا کا مکان بڑھاتے چلے جاؤ تمہیں خدا آپ بڑھا تا چلا جائے گا.میں نے پچھلے سال کہا تھا کہ ہر تعلیم یافتہ آدمی کسی ایک کو اور پڑھا دے.اس کے متعلق بعض لوگوں کے خطوط آئے تو بڑی خوشی ہوئی.بعض نے بتایا کہ ہم پڑھارہے ہیں، بعض عورتوں نے خصوصاً یہ بتایا کہ آٹھ آٹھ ، دس دس طالب علموں کو ہم نے پڑھانا شروع کیا ہے لیکن افسوس ہے کہ یہ تحریک ایک عرصہ تک گئی پھر جس طرح آگ بجھ جاتی ہے اسی طرح بجھ گئی حالانکہ تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی کر ہی نہیں سکتی.اس لئے میں پھر آپ لوگوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ تعلیم کی طرف توجہ کریں اور تعلیم کی طرف توجہ کر کے اپنی جماعت کے مردوں اور عورتوں کا معیار بڑھائیں.جن لوگوں کو یہ خیال ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مدرسے ہوں یا جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کوئی مدرسہ کھل جائے انہوں نے کبھی بھی غیر قوموں کے تعلیمی معیار نہیں دیکھے.دنیا میں جتنی قوموں نے ترقی کی ہے انہوں نے پکے مکانوں میں کبھی نہیں کی یورپ میں انگلستان تعلیم میں سب سے بڑھ کر ہے اگر تم میں سے کسی نے بھی ان کی تعلیمی ترقی کی رپورٹ پڑھی ہو تو تم کو پتہ لگ جائے گا کہ کوئی بڑی کو ٹھیاں نہیں تھیں، کوئی بڑے مدر سے نہیں تھے بہت معمولی معمولی جگہوں پر ان کے مدرسے تھے اور انہی میں انہوں نے ترقی کر کے یونیورسٹیاں بنالیں.نہ شروع میں ان کو یہ احساس تھا کہ کوئی بہت بڑے بڑے علوم انہوں نے سیکھنے ہیں.وہ ان کو اپنی زبان سکھاتے تھے اور اس کے بعد ساری چیزیں اس کے لئے آسان ہو جاتی تھیں.دیکھو اگر سارے کے سارے لوگ مثلاً انگریزی پڑھیں تو آٹھ کروڑ کو انگریزی پڑھانا کتنا مشکل کام ہے.لیکن اگر ہیں آدمی انگریزی پڑھے ہوئے مقرر کر دیئے جائیں کہ وہ ان علوم پر جن میں اردو میں لٹریچر نہیں ہے خود

Page 602

انوار العلوم جلد 24 567 سال 1954ء کے اہم واقعات لکھیں یا دوسری کتابوں کا ترجمہ کریں.تو ہمیں آدمیوں کے ذریعہ سے آٹھ کروڑ کی پڑھائی کا انتظام ہو جاتا ہے لیکن یوں اگر آٹھ کروڑ کو پڑھانے لگیں اور سوسو پر بھی ایک ٹیچر ہو تو آٹھ لاکھ ٹیچر چاہئے.آٹھ لاکھ ٹیچر تمہارے پاس کہاں سے آئے گا؟ لیکن اگر اپنی زبان میں تراجم کرائے جائیں، اگر اپنی زبان میں کتابیں لکھ دی جائیں تو آپ ہی آپ سارے پڑھتے ہیں.جتنے بڑے بڑے سائنٹسٹ ہیں یا بڑے بڑے فلاسفر ہیں ان کی زندگیوں کے حالات پڑھ لو تو ان میں سے بیشتر حصہ ایسے لوگوں کا نکلے گا جنہوں نے ابتدائی تعلیم بہت معمولی حاصل کی ہو گی.انگلستان کا سب سے بڑا ادیب ڈاکٹر جانسن ہے.اس کی زندگی کے حالات پڑھ کر ہنسی آتی ہے کہ وہ شاید مڈل تک پڑھا ہوا تھا اور اسی میں اس نے سلف سٹڈی (SELF STUDY) کے ساتھ اور مطالعہ کے ساتھ ترقی کی.یہاں تک کہ اب لغت انگریزی کاسب سے بڑا مدون وہی ہے ، سارے کے سارے اس کی خوبی کو مانتے ہیں.اسی طرح شیکسپیئر ہے اوّل تو اس کے حالات ہی بہت مبہم ہیں لیکن بہر حال جتنے ظاہر ہیں ان سے پتہ لگ جاتا ہے کہ بہت چھوٹی سی پڑھائی اس کی تھی مگر اس کے ساتھ اس نے ترقی کر کے بہت بڑا درجہ حاصل کر لیا.تو جب انسان اپنے ملک کی زبان میں لٹریچر پڑھے اور سیدھے سادے طور پر مطالعہ کرے (صرف مطالعہ کی عادت ہونی چاہئے ) تو پھر وہ آگے نکل جاتا ہے.پس تعلیم میں یہ کوشش کرو کہ ہر احمدی اردو لکھ پڑھ سکتا ہو اور لکھنا بھی بے شک ایسا ہی ہو کہ مشکل سے پڑھا جائے.تم دیکھ لور سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے جو کاتب تھے وہ کیسا لکھا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خط مقوقس کے نام کا آج تک محفوظ ہے.میں اس جگہ ایک غلطی کا بھی ازالہ کر دیتا ہوں.میری کسی کتاب میں یہ لکھا گیا ہے کہ قیصر کے نام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط لکھا تھاوہ محفوظ ہے حالانکہ وہ قیصر کے نام کاخط نہیں مقوقس کے نام کا خط ہے.بہر حال میاں بشیر احمد صاحب نے اس خط کی نقل منگوائی.جس سے منگوائی تھی و ایمبیسیڈر تھا اس نے یہ خیال کر کے کہ شاید ان پر بھی احسان ہو جائے اور یہ بھی کہیں کہ وہ

Page 603

انوار العلوم جلد 24 568 سال 1954ء کے اہم واقعات اس نے میر اخیال کیا ہے وہ خط میری معرفت بھیج دیا.انہوں نے ایک دفعہ نقل مانگی تو مجھے پہلے تو اس کا پتہ بھی نہیں تھا مگر پھر جو دیکھا تو وہ انہی کے نام کی تھی بہر حال ہم نے اس کو پڑھ کے دیکھا ہے.وہ تحریر پڑھی ہی نہیں جاتی.عربی کا ایک چھوٹا سا خط ہے مگر اُس زمانہ میں ہمارے لکھنے والے ایسے ہی ہوتے تھے.کچھ فرق بھی تھا یعنی اُس زمانہ میں زیر زبر نہیں ہوتی تھی، نقطہ نہیں ہوتا تھا لیکن یہ بھی ہے کہ وہ ایسی طرز پر لکھتے تھے جیسے ہمارے آجکل کے زمانہ میں زمیندار جو بہت تھوڑا سا پڑھا ہوا ہوتا ہے لکھتا ہے.مثلاً کسی جگہ اس نے سوٹی کا لفظ لکھنا ہو تو اس " الگ لکھ دیا."واو" الگ لکھ دی."ٹ" الگ لکھ دی اور ہی الگ لکھ دی.گویا یہ اپنی طرف سے سوئی ہو گئی.اس کو پتہ ہوتا ہے کہ میں نے سوئی لکھا ہے اور وہ پڑھتا ہے تو سوٹی پڑھتا ہے لیکن دوسرا پڑھتا ہے تو وہ کہتا ہے س وٹ کی.اسی طرز پر اس خط کی تحریر ہے کہ بیچ میں وقفے ہیں اور حروف کے در میان ان کے جوڑ بالکل نہیں ہیں یہی اُس زمانہ کی تحریر ہوتی تھی اور اس کو بھی بہت تھوڑے لوگ جانتے تھے.اور پھر نہ زبر ہوتی تھی ، نہ زیر ہوتی تھی، نہ نقطہ ہوتا تھا.تو اگر اتنا بھی کوئی شخص لکھ دیتا ہے تب بھی کم سے کم وہ اپنے خیالات کو ڈہر اتو سکتا ہے.مثلاً میں یہاں تقریر کر رہا ہوں اگر کسی کو اتناہی لکھنا آتا ہو اور وہ اس قسم کے حروف لکھ کر لے جائے تو بے شک تم پڑھو گے تو اس پر ہنسو گے.لیکن تم ہنسو گے اور وہ اپنے گھر میں جاکر سارے رشتہ داروں کو تقریر سنادے گا کہ یہ دیکھو میں نے لکھی ہے کیونکہ اپنا لکھا ہوا پڑھنا اس کو آتا ہے دوسرے لوگ اس کا لکھا ہوا نہیں پڑھ سکتے.مشہور ہے کہتے ہیں کسی شخص کو کسی نے کہا تھا کہ خط لکھ دے تو اس نے کہا میری لات میں درد ہے میں نہیں لکھ سکتا.اس نے کہا تم نے خط تو ہاتھ سے لکھنا ہے لات کے درد کا اس کے ساتھ کیا تعلق ہے.وہ کہنے لگالات کے درد کا سوال یہ ہے کہ جہاں خط جائے گا پڑھ تو کسی نے سکنا نہیں اس نے پڑھنے کے لئے مجھے ہی بلانا ہے.اب لات ٹھیک ہو تو میں جاؤں.تو بے شک ایسا ہی خط ہو ، حرج کیا ہے.بہر حال وہ تو اپنا خط جا کے پڑھے گا مگر ہمارے ہاں تو اس سے بھی بڑھ کر ہے.میرے ایک دو بچے ایسے ہیں دو لڑکیاں ہیں

Page 604

انوار العلوم جلد 24 569 سال 1954ء کے اہم واقعات اور ایک لڑکا وہ آپ بھی پھر بعد میں نہیں پڑھ سکتے.میر اوہ لڑکا ایک کالج میں پڑھتا تھا.یونیورسٹی کی کانووکیشن کا جلسہ تھا میں بھی اس میں شریک تھا.مجھ سے کسی نے اس کالج کے پرنسپل کو ملوایا.میں نے کہا میں انہیں جانتا ہوں یہ ناصر احمد صاحب کے دوست ہیں.وہ کہنے لگے ناصر احمد کی دوستی کا کیا تعلق ہے اپنے فلاں بچے کا نام کیوں نہیں لیتے وہ میرا شاگر د ہے.میں نے کہا میں نے تو جان کر نام نہیں لیا کہ آپ کو شرم نہ آجائے کہ ایسا شاگر د ہے آپ کا.کہنے لگا نہیں بات اصل میں یہ ہے کہ وہ جانتا خوب ہے لیکن اس کا لکھا ہوا کوئی بھی نہیں پڑھ سکتا.اس لئے لازما وہ فیل ہوتا ہے کہنے لگے ہم بعض دفعہ اس کو بلا کر کہتے ہیں کہ یہاں پرچہ پڑھ دو تو وہ کہتا ہے اب مجھ سے نہیں پڑھا جاتا.وہ کس طرح پاس ہو سکے.باقی پریکٹیکل خوب جانتا ہے ہم نے اس پر سوالات کر کے دیکھا ہے وہ خوب سمجھتا ہے.غرض اردو اگر تم سکھا دو تو لازم تمہار اسٹینڈرڈ اور معیار تعلیم بہت اونچا ہو جائے گا.یہ مت پروا کرو کہ تمہارا کوئی باقاعدہ مدرسہ ہو چاہے درخت کے نیچے رکھو بہر حال پڑھانا شروع کرو.ٹیگور نے اس نکتہ کو سمجھا تھا اور اس نے ایک درخت کے نیچے اپنا سکول کھول دیا تھا اور دنیا جہان سے اس کے پاس شاگر د آتے تھے تو سادگی کے ساتھ تعلیم وسیع ہو سکتی ہے.لیکن اگر تم وہ انتظام کر وجو حکومتیں کرتی ہیں تو تم یہ دیکھ لو کہ ایک اچھے سکول کے جو معیار گورنمنٹ نے رکھے ہوئے ہیں.ان کے لحاظ سے ایک کلاس میں حد سے حد پچاس طالب علم ہوتے ہیں اگر ہمارے ملک کے دس فیصدی طالبعلم پڑھنے والے ہوں تو چونکہ آٹھ کروڑ ہماری آبادی ہے وہ اسی لاکھ ہو گئے.پچاس لڑکے اگر ایک کلاس میں ہوں تو اسی لاکھ کے معنی یہ ہوئے کہ سوالا کھ مدرس چاہئے.گویا سوالا کھ مدرس کے ساتھ اتنے لڑکے پڑھ سکتے ہیں اور سوالا کھ مدرس ملنا بڑا مشکل ہوتا ہے.پھر سوالا کھ مدیرس کا ہی سوال نہیں سوال یہ ہے کہ ایک کلاس میں اگر پچاس لڑکے ہوں تو مڈل تک کی تعلیم سمجھ لو تو چار سو لڑکا ہو گیا.اور چونکہ اسی لاکھ طالبعلم ہوں گے اس لئے بیس ہزار سکول ہوں تو ان کی تعلیم کا انتظام ہو سکتا ہے اور آجکل کی عمارتوں کا جو

Page 605

انوار العلوم جلد 24 570 سال 1954ء کے اہم واقعات حساب گورنمنٹ نے بنایا ہوا ہے وہ اگر لگایا جائے تو مڈل سکول پر کم سے کم ہیں پچیس ہزار روپیہ لگے گا.پورے سکول یا کالج پر تو ڈیڑھ دو لاکھ لگتا ہے.اب بیس ہزار کو پچیس ہزار کے ساتھ ضرب دو تو پچاس کروڑ بن گیا گویا پچاس کروڑ کے ابتدائی خرچ کے ساتھ صرف مدر سے بنتے ہیں.پھر سکول کے سامان اور فرنیچر وغیرہ کے اخراجات ملائے جائیں تو یہ کوئی ارب ڈیڑھ ارب روپیہ بن جاتا ہے.اور پھر مرمت کے سامان الگ ہیں اتنا خرچ ایک غریب قوم کر ہی کہاں سکتی ہے.پس سیدھی سادی تعلیم تمہارا اصل مقصود ہونی چاہئے.عمارتیں اور پکی عمارتیں اور چونا مقصود نہیں ہونا چاہئے.پس تعلیم دو اور اپنی اپنی جگہوں پر راتوں کو مسجدوں میں بیٹھ کر دو.ہمارے ہاں کتنا سستا سامان تھا کہ ہمارے مدرسے ہماری مسجدیں ہوتے تھے.وہیں لوگ آجاتے تھے ، نماز پڑھتے تھے اور نماز کے بعد بیٹھ کر لوگوں کو پڑھانا شروع کر دیتے تھے.پس اگر تم سارے کے سارے یہ عہد کر لو کہ تمہارا امام یا تم میں سے کوئی بڑا شخص ہر نماز کے بعد پندرہ بیس منٹ یا آدھ گھنٹہ سب کو سبق دے دیا کرے گا اور جتنے مرد اور عور تیں ہیں ہر ایک کے ذمہ یہ لازمی طور پر لگا دو کہ تم نے اپنی زبان میں پڑھنا ہے تو تمہارے اندر اتنا تغیر ہو جائے گا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی تمہیں یہ نظر آئے گا کہ دنیا میں تمہارے برابر کوئی علمی قوم ہی.کوئی نہیں.ایک بات جس کو اب میں ختم تو نہیں کر سکتا لیکن اس کی ابتدائی چند باتیں بتا دیتا ہوں یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے شروع میں کہا تھا میں ہر دفعہ جلسہ کے موقع پر کچھ نہ کچھ بیان کر دیتا ہوں لیکن وہ سارے کا سارا کہا ہوا بے کار چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک گر بتایا تھا کہ جب رمضان آئے تو انسان یہ عہد کر لے کہ ایک بدی میں چھوڑ دوں گا اور ایک نیکی میں اختیار کرلوں گا.باقیوں کو جانے دے اگر وہ ایسا کرلے تو آپ فرماتے ہیں کہ تھوڑے دنوں میں ہی ایک بڑی طاقت اس کے اندر پیدا ہو جائے گی.دس بیس سال میں دس ہیں اہم بدیاں ایسی ہو جائیں گی جن کو وہ چھوڑنے والا ہو گا اور دس ہمیں اخلاق ایسے پیدا ہو جائیں گے جن کو وہ کرنے والا ہو گا.

Page 606

انوار العلوم جلد 24 571 سال 1954ء کے اہم واقعات میری خلافت پر ہی چالیس سال گزر چکے ہیں اگر چالیس سال میں ہی ہر سال تم ایک خُلق اختیار کر لیتے تو چالیس اخلاق تمہارے اندر پیدا ہو جاتے اور تم سمجھتے ہو کہ چالیس اخلاق کی کتنی بڑی طاقت ہوتی ہے در حقیقت اتنی بڑی طاقت کا مقابلہ کر ناد نیا کے لئے بڑانا ممکن ہوتا ہے.لیکن افسوس تو یہ ہے کہ لوگ آئے اور لوگوں نے سنا اور چلے گئے اور کسی نے عمل نہیں کیا، کسی نے پرواہ نہیں کی.کہہ دیا کہ بڑی اچھی تقریر ہو گئی ہے یا یہ کہہ دیا کہ آج تو بڑی لمبی تقریر ہو گئی مثانہ پھٹنے لگا تھا، کسی نے کہہ دیا کہ میری تو طبیعت خراب تھی میں تو اٹھ کر چلا گیا تھا.اس سے آگے بات ختم ہو جاتی ہے پھر فائدہ کیا ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ترقی کی اصل وجہ یہی تھی کہ لوگ جو بات سنتے تھے اُس کو پکڑ لیتے تھے اور پھر اس کو اتنی انتہا تک پہنچاتے تھے کہ ہر دیکھنے والا شخص سمجھتا تھا کہ یہ بات اس کے اند ر راسخ ہو گئی ہے.بہر حال یہ یادر کھو کہ سب سے مقدم چیز انسانی اعمال میں اخلاق قومی ہوتے ہیں.جب تک قوم میں اخلاق پیدا نہ ہو جائیں اُس وقت تک نہ دین درست ہوتا ہے نہ دنیا درست ہوتی ہے.میں کہتا ہوں جیسے ابھی میں نے ایک اور مسئلہ پر بھی کہا تھا کہ تم یہ تو سوچو کہ قرآن کریم نے اخلاق فاضلہ کے سیکھنے کی نصیحت کی ہے.تم یہ جانے دو کہ میں تمہیں اخلاق فاضلہ کی جو تعبیر بتاتا ہوں تم کہو وہ غلط ہے.تم یہ جانے دو کہ وہ اخلاق فاضلہ جن کو میں اخلاق فاضلہ قرار دیتا ہوں ان کے متعلق تم کہہ دو کہ یہ غلط ہیں یہ نہیں ہیں اخلاق فاضلہ.پر آخر یہ تو قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ تقویٰ ایک چیز کا نام رکھا گیا ہے اور بعض کاموں کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ اچھے ہیں.مثلاً بتایا گیا ہے کہ مومن سچ بولتے ہیں، بتایا گیا ہے کہ مومن متکبر نہیں ہوتے، بتایا گیا ہے کہ مومن مسرف نہیں ہوتے، یہ بتایا گیا ہے کہ متقی انصاف کرنے والے ہوتے ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ وہ سچی شہادت دینے والے ہوتے ہیں، یہ بتایا گیا ہے کہ چوری نہیں کرتے ، ڈا کہ نہیں مارتے، زنا نہیں کرتے.اسی طرح اور کئی باتیں نہیں کرتے اب تم مجھ سے کتنا بھی اختلاف کر لو، ساری دنیا سے اختلاف کر لو.کہو سچ کے معنے جو تم کرتے ہو غلط ہیں یہ نہیں سچ کے معنے.تم یہ کہہ سکتے

Page 607

انوار العلوم جلد 24 572 سال 1954ء کے اہم واقعات ہو کہ اخلاق فاضلہ کا کوئی لفظ ہی قرآن کریم میں نہیں ہے تم نے اپنے پاس سے بنایا ہے.پر کچھ نہ کچھ تو قرآن نے کہا ہے یا نہیں کہا.یہ تو تم مانو گے.صدق کے معنے یا سداد کے معنے جو میں کرتا ہوں یا کوئی اور کرتا ہے تم کہہ دو یہ غلط ہیں ہم تو اس کو نہیں مانتے پر آخر صدق کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے اور کوئی معنے اس کے کرنے پڑیں گے.یہ تو نہیں کہنا پڑے گا کہ یونہی بے معنے لفظ بول دیا گیا ہے سداد کا لفظ قرآن کریم میں آیا ہے کوئی تو اس کے معنے کرنے پڑیں گے.تو میں کہتا ہوں جو بھی معنے تم کرتے ہو تم یہ بتا دو کہ تم نے جو معنے کیے ہیں اس پر عمل شروع کر دیا ہے تو بس میری تسلی ہو جائے گی.میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کرو جو میں کہتا ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کر وجو غزالی کرتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کر وجو شاہ ولی اللہ کرتے ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ تم وہ معنے کر وجو محمد مکی کرتے ہیں.ان سب کو چھوڑ دو تم وہ معنے کرو جو تم کرتے ہو اور پھر تم بتا دو کہ اس میں سے اتنی پرسنٹیج (PERCENTAGE) اخلاق پر ہم قائم ہو گئے ہیں.جب تم یہ بتا دو گے تو میرے لئے اتنا ہی جواب کافی ہو گا میں پھر مزید بحث نہیں کرونگا.لیکن اگر تم نہ میرے معنے سنو، نہ اپنے معنے سنو، نہ غزالی کے معنے سنو، نہ شاہ ولی اللہ کے سنو، نہ محمد مکی کے سنو، ان میں سے کسی کے بھی نہ سنو اور اس کے بعد یہ بھی کہو کہ ہم قرآن پر عمل کرنا چاہتے ہیں یا کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں تو یہ فضول اور بے معنے بات ہے.حقیقت یہ ہے کہ اخلاق فاضلہ کے بغیر نہ دین درست ہو سکتا ہے اور نہ دنیا ن ہو سکتی ہے.یورپ اور امریکہ کی ترقی نہ تو سائنس کی وجہ سے ہوئی ہے، نہ گولہ درست ہو بارود کی وجہ سے ہوئی بلکہ اس کی ترقی محض اخلاق کی وجہ سے ہوئی ہے.میں نے ابھی ایک واقعہ سنایا تھا کہ ایک نوجوان ڈاکٹر یورپ سے آیا اور اس نے آ کے بڑے ڈرتے ڈرتے اور شرماتے شرماتے مجھ سے پوچھا کہ ایک بات میں نے وہاں عجیب دیکھی ہے.میں نے پوچھا کیا دیکھی ہے ؟ اس نے کہا یہ دیکھی ہے کہ ان کے اخلاق ہم سے اچھے ہیں.اُس کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں اسلام سکھایا جاتا ہے، مسلمان کہا جاتا ہے لیکن اخلاق تو اُن کے اچھے ہیں اور یہ واقع ہے.انگریزی عدالتوں میں چلے جاؤ

Page 608

انوار العلوم جلد 24 573 سال 1954ء کے اہم واقعات اور وہاں ان کے واقعات دیکھوج پوچھتا ہے تم نے یہ جرم کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے ہاں کیا ہے.پھر پوچھتا ہے تم فلاں جگہ پر تھے ؟ وہ کہتا ہے جی تھا.ہماری عدالت میں چلے جاؤ.چور کو پولیس والے عین سیندھ کے اوپر سے پکڑ کے لاتے ہیں اور حج پوچھتا ہے تم وہاں تھے ؟ وہ کہتا ہے جی میں تو اس محلہ میں تھا ہی نہیں.وہ پوچھتا ہے تم کہاں تھے ؟ وہ کہتا ہے میں تو فلاں شہر میں تھا.پھر وہ پوچھتا ہے ارے پولیس نے تم کو وہاں سے نہیں پکڑا؟ وہ کہتا ہے جھوٹ ہے ان کو مجھ سے فلاں پرانی عداوت تھی اس کی وجہ سے یہ مجھے پکڑ کر لے آئے ہیں.غرض شروع سے لے کر آخر تک تمام جھوٹ ہی جھوٹ چلتا چلا جاتا ہے.اور وہاں گو مجرم اپنے بچاؤ کی بھی کوشش کرتا ہے ٹرک بھی کرتا ہے لیکن غیر ضروری ٹرک نہیں کرتا.اور یہاں غیر ضروری جھوٹ بولا جاتا ہے مثلاً چوری کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں کہ اُس نے اُس وقت کالا کوٹ پہنا ہوا تھا یا لال لیکن وہ اگر کہیں گے کہ کالا کوٹ پہنا ہوا تھا تو یہ کہے گا نہیں میں نے تو لال پہنا ہوا تھا یا مثلاً وہ کہہ دیں گے تمہارے ہاتھ میں چھڑی تھی.اب اس کا چوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں بھلا چوری کا چھڑی سے کیا تعلق ہے لیکن یہ کہے گا نہیں میرے ہاتھ میں چھڑی نہیں تھی میرے ہاتھ میں قرآن شریف تھا.غرض وہ غیر ضروری جھوٹ جس کا مقدمہ کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا وہ بھی یہ بولتا ہے اور ہر بات میں ان کی تردید کرتا جائے گا اور کہے گا یہ نہیں تھا لیکن یورپ میں چلے جاؤ وہ سو میں سے ننانوے باتیں مان لے گا کوئی ایک اپنی جان بچانے کے لئے بیچ میں ٹرک بھی کر جائے گا.باقی سب باتوں کے متعلق کہے گا کہ ٹھیک ہیں.اسی طرح سو دوں کو دیکھ لو وہ اپنے کئے ہوئے سودوں کے متعلق جو بھی وعدہ کریں گے اسے پورا کریں گے لیکن ہمارے ملک میں سودے کر کے دیکھ لوسب باتوں میں جھوٹ شروع ہو جائے گا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ میں کشمیر گیا.وہاں ایک قسم کی قالین بنتی ہے جو اونی ٹکڑے کاٹ کاٹ کے اور پھر اُن کو سی کر بناتے ہیں اور اس کو گا بھا کہتے ہیں.اس میں وہ مختلف رنگ کے دُھنے رنگتے ہیں کوئی سبز رنگ لیا، کوئی زرد رنگ لیا، کوئی سرخ رنگ لیا،

Page 609

انوار العلوم جلد 24 574 سال 1954ء کے اہم واقعات کوئی نیلا رنگ لیا، کوئی سفید لے لیا اور پھر اس کے ٹکڑے کاٹ کے اور خوبصورت ڈیزائن بنا کے وہ قالین بنا دیتے ہیں جن کو گا بھا کہتے ہیں ہمیں یہ دیکھ کر پسند آیا.چنانچہ میں نے بھی چاہا کہ یہاں سے دو چار خرید کر لے جائیں اپنے گھروں میں تحفہ دیں گے.ایک شخص اسلام آباد میں اس کام کے لئے اچھا مشہور تھا.میں نے اس کو جاکے کہا کہ میں یہ قالین پنجاب میں تحفہ لے جانا چاہتا ہوں تم مجھے اچھے سے بنا دو.اس نے کہا اچھا کچھ پیشگی دے دیں چنانچہ ہم نے کچھ رقم اس کو پیشگی دے دی اور ہم آگے پہاڑ پر سیر کے لئے چلے گئے.میں نے اسے یہ بھی کہا کہ دیکھنا میں جو اس کا میئر (MEASURE) بتاؤں گا یعنی لمبائی چوڑائی بتاؤں گا وہ ٹھیک ہو کیونکہ میں کمروں کے لحاظ سے لے رہا ہوں.اس نے کہا بالکل ٹھیک ہو گا.جب وہ آئے تو مجھے دیکھتے ہی پتہ لگ گیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں اور پھر جو ماپ کر دیکھا تو ایک بالشت چوڑائی میں کمی تھی اور ایک بالشت لمبائی میں کمی تھی.اب بظاہر تو ایک بالشت معلوم ہوتی ہے لیکن ضرب دو تو بہت بڑا فرق پڑ جاتا ہے.میں نے اس کو کہا یہ تو تم نے بڑی دھوکا بازی کی ہے کہ " اس کو چھوٹا بنا دیا ہے.اس پر اس نے شور مچانا شروع کر دیا کہ " میں مسلمان ہوں ، میں مسلمان ہوں".میں نے کہا مسلمان تو تم ہوئے لیکن سوال یہ ہے کہ تمہاری عملی چیز موجود ہے ہمارے ساتھ تمہارا وعدہ تھا یا نہیں کہ اتنے لمبے چوڑے قالین بناؤں گا؟ اور پھر دو چار آدمیوں کے سامنے یہ بات ہوئی تھی میں نے ان آدمیوں سے کہا کہ بتاؤ تمہارے سامنے اس نے یہ وعدہ کیا تھا یا نہیں ؟ انہوں نے کہا ہمارے سامنے وعدہ کیا تھا.اس پر میں نے اسے کہا کہ دیکھو تم نے وعدہ کیا تھا وہ اپنے کشمیری لہجہ میں کہنے لگا میں مسلمان ہوندی " کشمیری مرد کو مؤنث بولا کرتے ہیں.چنانچہ وہ کہنے لگا."جی میں مسلمان ہوندی.میں مسلمان ہوندی".میری عمر اس وقت کوئی انیس میں سال کی تھی مجھے اس پر غصہ چڑھے کہ یہ اپنا فعل اسلام کی طرف کیوں منسوب کرتا ہے.یہ کہے میں نے ٹھگی کی ہے جانے دو یہ کیوں کہتا ہے کہ میرے مسلمان ہونے کے لحاظ سے میرا یہ حق تھا کہ میں یہ ٹھگی کرتا.غرض میں اصرار کروں کہ اسے پورا کر اؤ اور وہ یہی کہتا جائے کہ میں مسلمان ہوں میں مسلمان ہوں.گویا اسلام اتنا گر گیا

Page 610

انوار العلوم جلد 24 575 سال 1954ء کے اہم واقعات ہے کہ اب یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان اگر ٹھگی کرے تو وہ بھی گویا اس کا ایک قسم کا جائز حق ہے.پھر ایسے ایسے گند میں مبتلا ہوتے ہیں کہ حیرت آتی ہے.ایک دفعہ ہم پالم پور گئے وہاں کچھ دقت ہو گئی لیکن میری وہاں ٹھہرنے کی صلاح تھی میں نے کہا کہ کچھ چار پائیاں یہاں سے مستی مستی بنو الاؤ.پہاڑوں پر بہت سستی چار پائیاں تین تین چار چار روپیہ میں مل جاتی ہیں.میں نے کہا چند بنوالو لوگ نیچے سوتے ہیں.انہوں نے ایک دکاندار کو بنانے کے لئے کہہ دیا.اُس نے کچھ تو نہ دیں اور کچھ بالکل ہی اوٹ پٹانگ بنادیں جو سونے کے قابل ہی نہیں تھیں.ایک دفعہ ہم موٹر میں جارہے تھے کہ کسی نے کہا یہ دکاندار ہے یہ باقی چار پائیاں دیتا بھی نہیں اور جو اس نے بنائی ہیں وہ بھی خراب ہیں.میں نے اُس کو بلایا اور کہا دیکھو تم مسلمان ہو تمہیں دیانت سے کام لینا چاہئے.مگر اُس پر اس قدر جہالت غالب تھی کہ وہ کہنے لگا تم تو ہمارے خدا ہو ، خدا نے ہم کو نہیں پالنا تو کس نے پالنا ہے.میں نے کہا بے وقوف چار پائی کا سوال تھا اب تُو نے مجھے خدا بھی بنا دیا یہ کیا نالا لکھتی ہے؟ کیا تو مسلمان ہے؟ کہنے لگا جی ہاں میں مسلمان ہوں.مگر جتنا میں اس کو سمجھاؤں وہ کہے لو آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.اس نے چونکہ ہندوؤں سے سنا ہوا تھا کہ بت ہوتے ہیں اس نے یہی سمجھنا شروع کر دیا کہ مذہبی پیشوا اور لیڈر خدا ہی ہوتا ہے اور مذہبی لیڈر ہونے کے لحاظ سے گویا یہ اس کا کام ہے کہ وہ ان کی شرارت اور دھوکے بازی کو انکرج (ENCOURAGE) کرے بجائے اس کے کہ ان کو نصیحت کرے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان کی تجارت وغیرہ بالکل تباہ ہو گئی اور یورپ کی تجار تیں بڑھ گئیں.اب کہا یہ جاتا ہے کہ یورپ والوں نے سائنس کے ذریعہ سے ترقی کی ہے.حالانکہ سائنس تو آج نکلی ہے اور ہماری تجارتیں سائنس کے نکلنے سے بھی سالہا سال پہلے خراب ہو چکی تھیں.پہلے ہاتھوں سے ہی کپڑے بناتے تھے جیسے ہمارے ہاں کھڑیاں ہوتی ہیں.ان کے بھی کھڑیاں ہوتی تھیں لیکن ان کا کپڑا یہاں آکے بکتا تھا ہمارا نہیں سکتا تھا.اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ دیانت کے ساتھ کام کرتے تھے ہم نہیں کرتے تھے.باقی رہا گولہ و بارود.

Page 611

انوار العلوم جلد 24 576 سال 1954ء کے اہم واقعات سو گولہ و بارود اُن کے ترقی کر جانے کے بہت بعد نکلا ہے.انہوں نے تو ترقی آج سے سات سو سال پہلے کی ہوئی تھی.اُس وقت گولہ و بارود تھا ہی نہیں.گولہ و بارود پہلے مسلمانوں نے نکالا پھر ادھر منتقل ہو کر گیا ہے لیکن سمجھا یہی جاتا ہے کہ یورپ نے اپنی فوجوں اور گولہ و بارود کے ذریعہ سے ترقی کر لی ہے.حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں سے جب یورپ نے شکست کھائی تو انہوں نے غور کیا کہ مسلمان کیوں جیتا ہے.مسلمان کے پاس گھوڑا ہے ہمارے پاس بھی گھوڑا ہے ، اس کے پاس تلوار ہے ہمارے پاس بھی تلوار ہے، مسلمان کے پاس فوج ہے ہمارے پاس بھی فوج ہے.پھر جیتتا کیوں ہے؟ تو انہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمان کے اخلاق اعلیٰ ہیں انہوں نے کہا چلو ہم بھی وہی اخلاق اختیار کریں پھر جیتیں گے.ادھر مسلمان جوں جوں بڑھتے گئے انہوں نے سمجھا ہماری فوج دس ہزار ہے اُن کی فوج ایک ہزار ہے ہم اعلیٰ ہیں.فوج کی وجہ سے انہوں نے اخلاق کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا اور اُنہوں نے اخلاق کو پکڑنا شروع کر دیا.چنانچہ تاریخ میں آتا ہے کہ ایک دفعہ جب اسلامی لشکر نے حملہ کیا تو بادشاہ نے ایک آدمی بھیجا کہ ذرا ان کے لشکر کا حال دیکھو اور جا کے اندازہ لگاؤ کہ ان کی کتنی طاقت ہے.اس نے واپس آکر کہا کہ تم نہیں جیت سکتے کیونکہ یہ لوگ دن کو لڑتے ہیں اور رات کو کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہیں.یہ جو ان کا کیریکٹر ہے کہ اپنے آپ کو انہوں نے اسلام میں محو کر دیا ہے اور نماز اور روزے اور حج اور زکوۃ یہ سارے کے سارے کام لڑائیوں میں بھی جاری ہیں یہ بتارہے ہیں کہ ان کا کیریکٹر اعلیٰ ہے تم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے.چنانچہ یہی ہوا.تو یورپ کے لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ ان کے اخلاق بالا ہیں.انہوں نے اخلاق میں نقل کرنی شروع کر دی.ہمارے آدمیوں نے آہستہ آہستہ یہ سمجھ لیا کہ اپنی تعداد کی وجہ سے اور اپنے روپیہ کی وجہ سے اور اپنی فوجوں کی وجہ سے ہم جیتے ہیں.تو جب فوج کے پیچھے اخلاق نہ رہے تو اس نے لڑنا کیا تھا اور جب تجارت کے پیچھے اخلاق نہ رہے تو اس نے جیتنا کیا تھا.تجارتوں میں کھوٹ شروع ہوئے.جب کھوٹ شروع ہوئے تو غیر ملکوں سے جو روپیہ آتا تھا وہ وہاں سے آنارُک گیا.نتیجہ یہ ہوا کہ تجارت بند ہونی

Page 612

انوار العلوم جلد 24 577 سال 1954ء کے اہم واقعات شروع ہو گئی اور آہستہ آہستہ ان کے سامان بکنے لگ گئے اور ہمارے سامان بند ہونے شروع ہو گئے.ایک زمانہ وہ تھا اور وہ بھی کوئی بہت دور کا زمانہ نہیں الزبتھ کا زمانہ ہے.(جو 1558ء سے 1603ء تک تھا) میں سمجھتا ہوں شاید چار سو سال اس کو ہوئے ہیں میں جب انگلستان میں گیا تو میں نے خود برائٹن میں ایک عمارت بنی ہوئی دیکھی تھی.وہاں کی میونسپل کمیٹی نے ہمارے اعزاز میں ایک جلسہ کیا تھا اور چونکہ وہ عمارت میونسپل کمیٹی کے چارج میں ہے اس لئے انہوں نے وہ عمارت بھی ہمیں دکھائی.جب الزبتھ پر حملہ ہوا ہے تو اس نے ترکوں کے بادشاہ کو لکھا کہ میں ایک غریب عورت ہوں اور کمزور ہوں مجھ پر سپین والوں نے حملہ کیا ہے.مسلمان بڑے بہادر ہوتے ہیں اور عورتوں کی حفاظت کرتے ہیں.میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ آپ اپنی فوج بھیجیں اور میری مدد کریں چنانچہ ترک بادشاہ نے ایک جرنیل اور اس کے ساتھ کچھ اور بڑے افسر بھیجے کہ جا کر جائزہ لو کہ ہم اس کی کیا مدد کر سکتے ہیں.جب وہ وہاں پہنچے تو چونکہ وہ اس کے بلاوے پر آئے تھے اس نے ان کے لئے وہیں سے انجینئر بلوا کے مسجد تعمیر کروادی.مسجد کا خاص گنبد وغیرہ نہیں تھا کمرہ بنا ہوا تھا.جب انہوں نے یہ عمارت ہمیں دکھائی تو ہم نے فوراً پہچان لیا اس میں لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا تھا.وہ سمجھتے تھے کہ یہ پھول بنے ہوئے ہیں.چنانچہ وہ کہنے لگے دیکھئے کیسے اچھے پھول بنے ہیں.ہم نے کہا یہ پھول نہیں یہ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا ہوا ہے.غرض اس پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ لکھا ہوا تھا گویا اس وقت یہ حالت تھی کہ اسلامی شوکت اور اس کی طاقت کے مقابلہ میں یورپ کے لوگ بالکل زیر ہوتے تھے اور الزبتھ جو اتنی مشہور ہے اس نے ترکوں سے امداد کی درخواست کی تھی لیکن بعد میں وہ زمانہ آیا کہ کچھ بھی نہ رہا.انگریزوں نے اور امریکیوں نے اور دوسری قوموں نے ہر جگہ پر اس طرح مسلمانوں کے ملکوں پر قبضہ کیا کہ کسی جگہ بھی ان کی کوئی عزت اور رتبہ باقی نہ رہا.ساری وجہ اس کی یہی تھی کہ اخلاق نہ رہے.

Page 613

انوار العلوم جلد 24 578 سال 1954ء کے اہم واقعات اصل بات یہ ہے کہ دولت کی فراوانی ہمیشہ باہر سے آتی ہے یہ جو لوگ خیال کر لیتے ہیں کہ دولت اندر سے پیدا ہوتی ہے وہ غلطی کرتے ہیں.ایک حد تک قومی معیار دولت کا اندر سے پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد جو دولت کی فراوانی ہوتی ہے ہمیشہ باہر سے آتی ہے.دولت کے متعلق یہ نظر یہ بالکل غلط ہے جو آجکل کے کالجوں کے پڑھے ہوئے عام طور پر پیش کرتے ہیں.دولت کے متعلق کوشش کی جارہی ہے جیسا کہ یورپ والے اور اقتصادیات کے ماہر کر رہے ہیں کہ ساری دنیا ایک سٹینڈرڈ پر ہو جائے اور وہی ایک ہائر سٹینڈرڈ سب کو مل جائے.روس بھی یہی لوگوں کو دھوکا دے رہا ہے، امریکہ والے بھی یہی دھوکا دے رہے ہیں، انگریز بھی یہ دھوکا دے رہے ہیں.وہ کہتے ہیں ہم اپنی ڈیما کریسی سے ساری دنیا کو اونچا کر دیں گے اور ایک معیار پر لے آئیں گے.روس والا کہتا ہے ہم اپنے کمیونزم کے ساتھ سب کو اونچا کر دیں گے حالانکہ یہ بات بالکل غلط ہے.یہ ناممکن بات ہے کہ ساری دنیا کا وہ معیار ہو سکے جو امریکہ کا ہے.ساری دنیا کا اگر ایک معیار کرنا ہو گا تو امریکہ کو دس ڈگری نیچے گرانا ہو گا پھر جاکے دنیا کا معیار ایک ہو.سکتا ہے کیونکہ ترقہ 7 کی جو ترقی ہے اس کی اقتصادی لحاظ سے ایک حد ہوتی ہے.ایک دفعہ یہاں عالمگیر بنگ جو یو این او (U.N.O) نے بنایا ہے.ان کا ایک بنکوں کا وفد پاکستان اور ہندوؤں کا معائنہ کرنے کے لئے آیا.ان میں سے ایک بڑا افسر مجھے بھی ملنے کے لئے آیا اور مجھ سے اس کی باتیں ہوئیں اب غالباً وہ اور بھی بڑے عہدہ پر ہو گیا ہے.اخباروں میں بعض دفعہ اس کا نام چھپا کرتا ہے بہر حال جب اس کی باتیں ہوئیں تو میں نے اس سے کہا کہ آپ دورہ کیوں کر رہے ہیں ؟ اس نے کہا کہ ہم اس لئے دورہ کر رہے ہیں کہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ امریکہ کا اور یونائیٹڈ نیشنز کا یہ فیصلہ ہے کہ سارے غریب ملکوں کو اونچا کیا جائے اور ان کی مالی مدد کی جائے.میں نے کہا میں نے کتابوں میں پڑھا ہے کہ آپ لوگ یہ کرنا چاہتے ہیں کہ سارے ملکوں کا ایک معیار کر کے ہر ایک کی دولت کا معیار امریکہ اور انگلینڈ والا کر دیں لیکن مجھے تو یہ بات بالکل جھوٹی نظر آتی ہے.جہاں تک میں نے اقتصادیات کا مطالعہ کیا ہے یہ ناممکن ہے.بڑی بات تو یہی

Page 614

انوار العلوم جلد 24 579 سال 1954ء کے اہم واقعات ہے کہ خود یورپ کے جو مختلف ملک ہیں ان کا ایک سٹینڈرڈ نہیں اگر یہ سارے ایک سٹینڈرڈ پر آسکتے تو یورپ کے سارے کے سارے ملک انگلینڈ کے سٹینڈرڈ پر کیوں نہیں آئے.سپین کا وہ سٹینڈرڈ نہیں ہے جو انگلستان کا ہے.اٹلی کا وہ سٹینڈرڈ نہیں ہے جو انگلستان کا ہے.پولینڈ کا وہ سٹینڈرڈ نہیں ہے جو انگلستان کا ہے.اور رومانیہ اور بلغاریہ اور یونان کا وہ سٹینڈرڈ نہیں جو انگلستان کا ہے تو اگر یہ ممکن ہو تا تو تمہارے گھر میں کیوں نہ ہوتا.پھر اگر ساری قومیں ایک سٹینڈرڈ پر آسکتی ہیں تو افراد بھی آسکتے ہیں.کیا امریکہ کے سارے آدمی ایک سٹینڈرڈ پر آئے ہوئے ہیں؟ اگر امریکہ کے سارے آدمی اعلیٰ سٹینڈرڈ پر آجائیں تو پھر ہم مان سکتے ہیں کہ اوروں کو بھی تم اعلیٰ سٹینڈرڈ پر لے جاؤ گے.تم یہ تو کر سکتے ہو کہ امریکہ کو گرا کے کچھ نیچے لے آؤ.فرض کرو وہ معیارِ معیشت کے لحاظ سے سو نمبر پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم دو نمبر پر ہیں اور تم یہ کرو کہ امریکہ کو گراکر چالیس پر لے آؤ اور ہم کو اٹھا کر چالیس پر لے جاؤ تو یہ تو ممکن ہے لیکن یہ کہ امریکہ سوپر قائم رہے اور تم ہم کو دو سے سو پر پہنچا دو یہ ناممکن ہے.تم مجھے بتاؤ تو سہی تم یہ کس طرح کر سکتے ہو ؟ وہ کہنے لگا میرا اپنا بھی خیال یہی ہے.یہ اقتصادیات والے جو بات کرتے ہیں غلط ہے.میں نے کہا تو پھر تم کیا کوششیں کرتے پھرتے ہو تمہاری اس کوشش کے صرف یہ معنے ہیں کہ تم ہمارے ملک میں آکر ہمیں خوش کرو اور کہو کہ ہم تمہیں اونچا کرنا چاہتے ہیں اور اصل میں تم بھی جانتے ہو کہ تم اونچا نہیں کر سکتے.تم صرف اتنی مدد یہاں کر سکتے ہو کہ ہمارے کئی سامان ایسے ہیں جو ہمارے کام آسکتے تھے لیکن ہم نے وہ استعمال نہیں کئے.مثلاً ہماری زراعت زیادہ کپاس پیدا کر سکتی ہے، ہماری فصلیں زیادہ گندم پیدا کر سکتی ہیں.اسی طرح ہماری اور کئی چیزیں ہیں جو ہم کوشش کر کے زیادہ اچھی کر سکتے ہیں یا بعض چیزیں جو ہم باہر سے منگواتے ہیں ان کے منگوانے کی ضرورت نہیں ہم بغیر کسی زیادہ کوشش کے وہ یہیں پیدا کر سکتے ہیں.پس تم ان میں ہم کو اونچا کر دو اور ہمارا معیار دو کی بجائے دس یا آٹھ کر دو لیکن تم وہاں تو نہیں لے جاسکتے جہاں امریکہ کے لوگ کھڑے ہیں.اس نے کہا یہ ٹھیک ہے اور اُس کو بھی میرا نظریہ تسلیم

Page 615

انوار العلوم جلد 24 580 سال 1954ء کے اہم واقعات کرنا پڑا.میں نے اسے کہا تم امریکہ والے جو بڑھے ہو تو ہمارے طفیل بڑھے ہو.اگر ہم اونچے ہو گئے تو امریکہ کو نیچا ہونا پڑے گا.اگر چین اونچا ہو گیا تو امریکہ کو نیچا ہونا پڑے گا.اگر انڈونیشیا اونچا ہو گیا تو امریکہ کو نیچا ہونا پڑے گا.جب تک امریکہ اپنے مقام پر کھڑارہتا ہے ہم کبھی اس تک نہیں جاسکتے بہر حال نیچے ہی رہیں گے.اب یہ جو دولت باہر سے آتی ہے یہ کیوں آتی ہے ؟ یہ محض اخلاق کی وجہ سے آتی ہے.قومی تعصب لوگوں میں ہوتے ہیں لیکن وہ ایک حد تک چلتے ہیں آگے پھر رُک جاتے ہیں.جب قو میں یہ دیکھ لیتی ہیں کہ ہمارے آدمیوں کے اخلاق گرے ہوئے ہیں اور وہ چیزوں میں کھوٹ ملاتے ہیں لیکن جو باہر کے لوگ ہیں وہ بہت اچھی چیزیں بناتے ہیں تو ہمیشہ لوگ اُس سے خرید نے لگ جاتے ہیں.اب مجھے عام شکایت یہ معلوم ہوئی ہے کہ پاکستان میں لوگوں کی یہ حالت ہے کہ اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ یہ چیز پاکستان کی بنی ہوئی ہے تو کہتے ہیں بس ہم نہیں لیتے انگلستان کی بنی ہوئی چیز کے فور خریدار مل جاتے ہیں.گویا وہ اثر اب تک دلوں پر چلا جاتا ہے کہ انگلستان اور امریکہ کی چیز اچھی ہوتی ہے اور ان میں دیانتداری ہوتی ہے.اگر وہی دیانتداری تم کرنے لگ جاؤ اور وہ دیانتداری تم منوالو کچھ دیر اس میں بے شک لگے گی لیکن اگر تم لوگوں سے اپنی دیانتداری منوالو تو تمہاری وہی چیز ہکنے لگ جائیگی.مثلاً ہندوستان ہے اس نے یہ بات منوالی ہے چنانچہ اب ہندوستان میں سے جو آدمی آتے ہیں ان سے میں نے پوچھا ہے وہ کہتے ہیں یہ نام لے دو کہ امریکہ کی ہے تو وہ فوراً چھوڑ دیتے ہیں.کہیں گے نہیں ہندوستانی لاؤ.کیونکہ اچھی سے اچھی چیزیں وہاں بننے لگ گئی ہیں اور ان کے معیار اعلیٰ ہو گئے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے اندر کھوٹ نہیں ہے، فریب نہیں ہے اس وجہ سے ان کا کام خوب چل رہا ہے.تو اگر تم دنیا میں عزت حاصل کرنا چاہتے ہو تو اپنے اخلاقی معیار بلند کرو.اگر اخلاقی معیار تم بلند نہیں کرو گے تو دنیا میں تمہیں کوئی عزت نہیں ملے گی.ہمارے ہاں اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہم غریب ہیں.میرے پاس عام طور پر لوگ آتے ہیں، بیٹھتے ہیں اور کہتے ہیں بڑی مصیبت ہے دعا کریں حالانکہ اصل سوال تو یہ ہے

Page 616

انوار العلوم جلد 24 581 سال 1954ء کے اہم واقعات کہ وہ اپنا معیارِ اخلاق کیوں نہیں بلند کرتے.یہی زمین ہے جس کے متعلق جاپان میں گورنمنٹ پاکستان کے آدمی گئے تھے تو انہوں نے آکے رپورٹ کی کہ وہاں فی ایکڑ دو ہزار روپیہ اوسط آمدن ہے.ہمارے ہاں فی ایکڑ دس پندرہ میں پچاس حد سے حد آمد ہے.مربع والی زمینوں میں سو دو سو ہے اس سے زیادہ نہیں اور وہ سو دو سو انتہائی اعلیٰ درجہ کی زمینوں کا ہے لیکن وہاں انہوں نے بتایا کہ عام سٹینڈرڈ دو ہزار کا ہے اور تین ایکڑ فی خاندان ملا ہوا ہے چھ ہزار روپیہ کماتے ہیں جو پانچ سو روپیہ مہینہ بنتا ہے.اسی طرح اٹلی کے ہمارے ایک مبلغ تھے وہ آئے ہم نے مجبوری کی وجہ سے ان کو الگ کر دیا تھا کیونکہ ہمارے پاس خرچ نہیں تھا.ہم نے کہا تم نے دو سال کس طرح گزارے؟ انہوں نے کہا میر اخسر میری مدد کیا کرتا تھا.انہوں نے ایک انگریز لڑکی سے شادی کی ہوئی ہے.میں نے کہا تمہارے خسر کی کیا آمد ہے ؟ کہنے لگے اب تو کوئی آمدن ان کی نہیں ہے مگر ان کا جو باپ تھاوہ وہاں انگریزوں کا قنصل تھا اور پھر وہ وہیں رہ گیا تھا.اس نے وہاں چودہ ایکٹر زمین خرید لی تھی.بیٹے پر اس کو کچھ اعتبار نہیں تھا اُس نے وہ ساری زمین بیٹی کے نام کر دی.آگے بیٹی کے حالات کچھ ایسے اچھے ہو گئے کہ اس کو اس زمین کی آمدن کی چنداں ضرورت نہ رہی.اس نے اپنے بھائی کے ساتھ احسان کیا اور وہ چودہ ایکٹر زمین اس کو دے دی اور اب وہ اس کے ذریعہ آپ بھی کھاتا ہے اور مجھے بھی دیتا ہے.میں نے کہا وہ خود کاشت کرتا ہے ؟ کہنے لگا نہیں وہ زمین اس نے آگے تین مزارعوں کو دی ہوئی ہے.اب گواٹلی کا معیار انگلینڈ سے کم ہے لیکن ہم سے تو پھر بھی تین چار گنے زیادہ ہی ہے.میں نے کہا تو اس معیار پر وہ تین مزارع کماتے ہیں پھر وہ اس کو دیتے ہیں، وہ آگے تم کو دیتا ہے ؟ کہنے لگا نہیں جی وہ اپنی بہن کو بھی بھیجتا ہے.میں نے کہا پھر تو بات اور زیادہ مشکل ہو گئی تمہاری آمدن کہاں سے ہوتی ہے ؟ اس پر پھر میں نے لمبی جرح کی اور اس نے بتایا کہ اس اس طرح وہ محنت کرتے ہیں، پولٹری فارم بھی انہوں نے بنایا ہوا ہے ، ڈیری فارم بھی انہوں نے بنایا ہوا ہے اور شہد کی مکھیاں بھی رکھی ہوئی ہیں اور پھولوں کے پودے بھی رکھے ہوئے ہیں جن سے وہ پھول اگاتے ہیں اور پھل بھی

Page 617

انوار العلوم جلد 24 582 سال 1954ء کے اہم واقعات رکھے ہوئے ہیں.غرض عجیب نقشہ اُس نے بتایا کہ رات دن وہ لگے رہتے ہیں اور اس طرح ان کی آمدن ہوتی ہے.اس کے نتیجہ میں وہ اٹیلین معیار پر جو انگریزوں سے کم ہے لیکن ہم سے بہت زیادہ ہے آپ بھی گزارہ کرتا تھا، اس داماد کو بھی دیتا تھا، اپنی بہن کو بھی بھیجتا تھا اور تین مزارع بھی اس میں سے گزارہ کرتے تھے.کوئی وجہ نہیں ہے کہ اگر ہمارے ملک کے لوگ محنت کریں تو ان کو دولت نہ ملے لیکن یہاں تو یہ ہوتا ہے کہ سندھ میں ہماری کچھ زمینیں ہیں.پنجاب کی حالت تو پھر بھی اچھی ہے لیکن وہاں یہ حالت ہے کہ صبح کے وقت مالک کے نوکر زمینداروں کو کھینچ کھینچ کر اور ترلے کر کر کے اور منتیں کر کر کے اور بعض دفعہ دھمکیاں دے کر لاتے ہیں کہ چل کر ہل چلاؤ یا پانی دو.اور اگر کسی فصل سے گزر گئے ہیں اور پانی نظر آتا ہے اور ان سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ پانی کس طرح آگیا ہے ؟ تو زمیندار کہتا ہے کسی نوکر سے کروالیا کر دیا مجھ سے پیسے لے لیا کرو......مجھ سے رات کو نہیں جا گا جاتا.اب بتاؤ جنہوں نے اس قسم کی محنت کرنی ہے انہوں نے کمانا کیا ہے اور انہوں نے کھانا کیا اور انہوں نے کھلانا کیا ہے.اگر تم واقع میں صحیح محنت کرو تو دنیا میں ایک ایکڑ پر لوگ ہزار دو ہزار روپیہ کماتے ہیں اور تم بھی کماسکتے ہو.تم اگر ہزار میں سے دو سو بھی کمانے لگ جاؤ تو تمہاری حالت بدل جائے.یہاں ہماری ہولڈنگ چھ سات ایکٹر کی ہے مگر ان ملکوں میں دو تین ایکڑ کی ہے.اگر فرض کرو ہزار روپیہ نہیں دوسو روپیہ بھی فی ایکڑ آجائے تو بارہ سو ہو گیا.اس کے معنے یہ ہیں کہ سو روپیہ مہینہ زمیندار کی آمدن ہو گئی اور سو روپیہ مہینہ انٹرنس والے کو دس پندرہ سال کے بعد جاکر ملتا ہے.غرض تمہارے چندے بھی اس پر منحصر ہیں اور تمہاری اپنی حالت بھی اس پر منحصر ہے اور تمہاری اپنی خدمات بھی اور تمہاری قومی ترقی بھی اس پر منحصر ہے.اگر تم ان کاموں کو کرنے لگ جاؤ اور اپنی اخلاقی حالت درست کرو تو تم یقیناً دوسروں سے بڑھ جاتے ہو.اسی طرح پیشہ ور ہیں اگر پیشہ ور محنت کے ساتھ کام کریں تو میں سمجھتا ہوں کوئی وجہ نہیں کہ دوسرے سب ڈاکٹروں کو چھوڑ کر لوگ احمدی ڈاکٹر کے پاس نہ آئیں.اگر

Page 618

انوار العلوم جلد 24 583 سال 1954ء کے اہم واقعات اس کے اخلاق اچھے ہوں، اس کی قربانی زیادہ ہو، اس کی محنت زیادہ ہو تو لازمی طور پر لوگ دس رستے چھوڑ کر اس کے پاس پہنچیں گے.اسی طرح اگر ہمارا بیرسٹر اور ہمارا وکیل اچھا ہو گا تو لوگ لازمی طور پر اس کے پاس جائیں گے.مصیبت کے وقت لوگ ساری دشمنیاں بھول جاتے ہیں.ہمارے ایک وکیل دوست یہاں بیٹھے ہوئے ہیں.ایک مقدمہ میں ہمارا ایک چوٹی کا مخالف ان کے پاس مشورہ کرنے کے لئے آتا تھا اور وہ سمجھتا تھا کہ یہی اچھے وکیل ہیں.پہلے اس نے اپنے دوستوں کو کہا بھی کہ ان کے پاس کیوں جاتے ہو مجھے شرمندہ کرو گے لیکن انہوں نے کہا نہیں یہی وکیل اچھے ہیں چنانچہ وہ آپ بھی ان کے پاس آتا رہا اور مشورہ کر تا رہا.تو اگر تم اپنے اخلاق کی درستی کے لئے خاص طور پر توجہ کرو گے تو یقینا تمہاری دینی اور دنیوی حالت اچھی ہو جائے گی.لیکن اگر یہ نہیں کرو گے تو تم دنیا کے مقابلہ میں جیت نہیں سکتے.تم ایک نے چار چار ہزار کا مقابلہ کرنا ہے اور پھر مقابلہ بھی زبان سے کرنا ہے، دلیل سے کرنا ہے.اور زبان اور دلیل کا مقابلہ اور بھی زیادہ مشکل ہوتا ہے.لٹھ کا تو پھر بھی مقابلہ ہو جاتا ہے کیونکہ لٹھ والا کبھی بھاگ کے بھی جان بچالے گا لیکن دلیل والا تو بھاگ سکتا ہی نہیں.اس کو تو بہر حال ٹھہر ناہی پڑے گا.اب دنیا کی آبادی دو ارب سے زیادہ ہے اور دو ارب آبادی میں اگر تم دو لاکھ ہو تو اس کے معنے یہ ہوئے کہ دنیا کے قریباً بارہ ہزار آدمی کے مقابلہ میں تمہارا ایک آدمی ہے اور بارہ ہزار کے مقابلہ میں تم ایک نے کس طرح کام کرنا ہے اگر تم قربانی نہیں کرتے ، اگر تم جان نہیں مارتے.لیکن اگر تم جان مار کے کام کرناشروع کر دو تو یقیناً سمجھو کہ خدا تعالیٰ کے سامان جو اس نے دنیا میں پیدا کئے ہیں ان سے کام لے کر زیادہ سے زیادہ پیداوار ہو سکتی ہے.مثلاً قرآن شریف سے پتہ لگتا ہے کہ چار سو من گندم تک ایک ایکڑ میں پیدا ہو سکتی ہے.اگر فرض کرو تم قرآن کی اس تعلیم کو پورا کر لو اور چار سو من تمہاری گندم ہو جائے تو سارے ملک کے زمینداروں سے تم بڑے ہو جاتے ہو یا نہیں ہو جاتے ؟ اُن کی اوسط ہے دس من.کسی کی تھوڑی ہے اور کسی کی بہت.لیکن تمہاری اوسط

Page 619

انوار العلوم جلد 24 584 سال 1954ء کے اہم واقعات اگر چار سو من نکل آئے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ چالیس گنے تمہاری آمدن بڑھ جاتی ہے.اور چالیس گنے کے معنے یہ ہوئے کہ اگر تم دو لاکھ آدمی ہو تو اسی لاکھ ہو گئے.اسی لاکھ سے تمہاری پوزیشن کتنی بڑھ جاتی ہے.پھر اگر تمہارا ایک ایک آدمی بڑھے تو فوراً چالیس گنے بڑھ جاتا ہے اور سال میں اگر دو ہزار احمدی ہوتا ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ استی ہزار آدمی بڑھ گیا.غرض اپنی محنت اور اپنی کوشش اور اپنی عقلمندی سے اور اپنی دیانت داری سے (کیونکہ دیانتداری کے اندر یہ ساری چیزیں شامل ہیں) تم کہیں سے کہیں پہنچ سکتے ہو.لیکن اگر تم دیانتداری نہ کرو تو پھر وہ مقابلہ جو تمہارے سامنے ہے وہ لمبا وقت لے گا.آخر تمہارا غلبہ ہو گا تو سہی لیکن تم نے نہ دیکھا اور تمہاری اولا د نے نہ دیکھا تو فائدہ کیا ہے.وہ ہے تو لطیفہ ہی کئی دفعہ میں بیان کر چکا ہوں لیکن حقیقت یہی ہے کہ چاہے کسی کی اولاد بھی ہو اگر اس نے وہ چیز دیکھ لی اور ہم نے نہیں دیکھی تو کیا فائدہ.اگر موسیٰ کے باپ کے سامنے یہ رکھا جاتا کہ تمہارا بیٹا خدا کو دیکھے گا تو چاہے بیٹے کا خدا کو دیکھنا بڑی بھاری قیمتی چیز ہے مگر یہ تو اس کے دل کو ضرور ٹھیس لگتی کہ میں نے نہیں دیکھا بیٹے نے دیکھ لیا مجھے بھی دیکھنا چاہئے تھا.کہتے ہیں کوئی بامذاق عالم تھا.اُس کو کسی نے تحفہ بھیجا.روزوں کے دن تھے اُس نے شربت اور مٹھائیاں اور حلوے وغیرہ بنا کے دو طشت نوکروں کے سروں پر رکھے اور افطاری کے لئے بھیج دیئے.کوئی ہمسایہ آیا اور کہنے لگا شیخ صاحب! شیخ صاحب! آپ کو خوشخبری سناؤں؟ دو آدمی میں نے رستہ میں دیکھے ہیں ان کے سر پر بڑے بڑے طباق رکھے ہوئے ہیں اور ان میں قسم قسم کے شربت اور حلوے اور مٹھائیاں اور کباب و غیرہ ہیں.وہ کہنے لگا مجھے کیا؟ اُس نے کہا آپ کو کیا ہے ، وہ آپ ہی کے گھر کی طرف آرہے تھے.وہ کہنے لگا تمہیں کیا ؟ تو حقیقت یہ ہے کہ کامیابی تو تمہیں ضرور ملنی ہے یہ خدا نے کہا ہے لیکن پھر وہی بات ہو جائے گی کہ تم کہو گے مجھے کیا.تمہارے بیٹوں کو بھی اگر ملا تو تم کو تو نہیں ملا، اگر تمہارے پوتوں کو ملا تو تمہارے بیٹوں کو اور تم کو تو نہیں ملاء اگر تمہارے

Page 620

انوار العلوم جلد 24 585 سال 1954ء کے اہم واقعات پڑپوتوں کو ملا تو تم کو اور تمہارے بیٹوں کو اور تمہارے پوتوں کو تو نہیں ملا.تو چاہے تم کو ملے گا اور ضرور ملے گا لیکن اگر وہ اگلی نسلوں پر چلا جائے تو یقینا اس کامیابی کا اگلی نسلوں پر چلا جانا تمہارے لئے افسردگی کا ہی موجب ہو سکتا ہے تمہاری خوشی اتنی نہیں ہو سکتی جتنی کہ تمہارے ہاتھ سے ہوتی.موسیٰ کو بھی کنعان مل گیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مکہ مل گیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں موسیٰ کی حیثیت کیا ہے.کنعان موسیٰ کی اولادوں کو جاکے ملا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ مکہ میں داخل ہوئے.دونوں کی خوشی کبھی ایک جیسی ہو سکتی ہے ؟ اسی طرح تمہاری مثال ہو گی.اگر تم پوری طرح قربانیاں نہیں کروگے تو تمہاری اولادوں کو تو یہ چیز مل جائے گی لیکن یہ تمہیں نہیں ملے گی تم اپنی موت کے وقت یہ خواہش کرو گے کہ کاش ہم بھی وہ دن دیکھ لیتے جب اسلام دنیا پر غالب ہو تا.اور چاہے اگلے جہان میں تم کو خدا یہ دکھا ہی دے.موت کا جو افسوس ہے وہ بھی کوئی کم تکلیف دہ نہیں ہوتا وہ بھی ایک قسم کا ذبح ہونا ہی ہوتا ہے.جب انسان مرتے وقت یہ خیال کرے کہ میں نے اپنے زمانہ میں یہ چیز نہیں دیکھی.بے شک کامل مومن کو اللہ تعالیٰ غیبی نظارے دکھا دیتا ہے لیکن کامل مومن سارے تو نہیں ہوتے اسی لئے مومن بعض دفعہ مرتے وقت مسکراتے یا ہنستے ہیں اس کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو کامیابیوں کے نظارے دکھا دیتا ہے اور مرنے سے پہلے ان کو خوش کر دیتا ہے لیکن وہ تو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے.اگر ظاہر میں وہ چیز آئے گی تو تم میں سے کمزور کو بھی نظر آجائے گی، طاقتور کو بھی نظر آجائے گی، چھوٹے کو بھی نظر آجائے گی، بڑے کو بھی نظر آجائے گی، بوڑھے کو بھی نظر آجائے گی، جو ان کو بھی نظر آجائے گی، عورت کو بھی نظر آجائے گی، بچے کو بھی نظر آجائے گی.غرض تم اپنے اخلاق کی درستی اس طرح پر کرو اور اپنے آپ کو ایسا محنت کا عادی بناؤ کہ تمہاری قربانیاں بڑھ جائیں اور تمہاری ان چیزوں کو دیکھنے کے بعد آپ ہی آپ لوگ تمہاری طرف کھنچے چلے آئیں.اگر اس طرح اخلاق سے کچھ تو باہر سے کھنچے چلے آئیں گے اور کچھ تمہاری طاقت

Page 621

انوار العلوم جلد 24 586 سال 1954ء کے اہم واقعات قربانی بڑھتی چلی جائے تو تمہارے کاموں میں اتنی سرعت پیدا ہو جائے گی کہ تھوڑے دنوں میں ہی وہ چیز جو اب تمہیں نا ممکن نظر آتی ہے وہ ممکن نظر آنے لگ جائے گی.“ ( الفضل 11 تا 13، 25،15 فروری + 27،25، 28.اکتوبر + یکم تا 3 نومبر 1955ء) 1 ترمذی كتاب المناقب باب فضل ازواج النبي صلى الله عليه وسلم 2 تذکرہ صفحہ 396 ایڈیشن چہارم صحیح بخاری کتاب الطلاق باب مَنْ طَلَّقَ وَ هَلْ يُوَاجِهُ الرَّجُلُ امْرَأَ تَهُ بِالطَّلاقِ 4 مسلم کتاب الایمان باب ججَوَازُ الْإِسْتِسْرَارِ بِالْإِيْمَانِ لِلْخَائِفِ بخاری کتاب الصوم باب الْتِمَاسِ لَيْلَة الْقَدْرِ (الخ) 6 تذکرہ صفحہ 53 ایڈیشن چہارم 7 ترقہ :- خوشحالی.آسودگی

Page 622

3 17 19 21 32 38 40 انڈیکس 1- مضامین 2 آیات قرآنیہ -3- احادیث 4.اسماء 5 مقامات 6.کتابیات 7.انگریزی کتب

Page 623

1 3 مضامین احمدیوں پر مظالم 409 آبادی دنیا کی آبادی بڑھ رہی ہے 458 دنیا کی آبادی دو ارب سے ایک احمدی کا غیر احمد یوں کو لاجواب کرنا <454 455 اخلاق اہل یورپ کے اخلاق اچھے ہیں انسانی اعمال میں سب سے 513 زیادہ ہے احرار 583 احمدی گورنمنٹ سروس میں عام منتخب ہو جاتے ہیں مقدم اخلاق قومی ہیں 571 487 یورپ اور امریکہ کی ترقی احمدیوں کو ملازمتوں میں لئے احرار.جماعت اسلامی جانے کی وجہ انکے اخلاق ہیں 488 اخلاق کی وجہ سے ہوئی 572 ہندوؤں کا خود کاشتہ پودا.414 اخلاق فاضلہ احمدیت احمدی قرآن کریم نے اخلاق فاضلہ احمدیت حقیقی اسلام کا نام ہے احمدی تمام مسلمانوں کو سیکھنے کی نصیحت کی ہے 571 479 امت محمدیہ سمجھتے ہیں 26 اخلاق فاضلہ کے بغیر نہ دین احمدیت کا پودا ترقی کرتا جائے گا احمدیوں کی لاشوں سے درست ہو سکتا ہے نہ دنیا 572 548 شرمناک سلوک 45 اخلاقی تعلیم اخبارات احمدیوں کو اقلیت بنوانے کا مطالبہ اخبارات کا مطالعہ رکھنا چاہیے اخلاقی تعلیم وہ ہے جو 93.92 احمدیوں کی بھرتی کے متعلق 179 قرآن سکھاتا ہے 204 غلط بیانی اخبارات ورسائل کو زیادہ اُردو 95 سے زیادہ مفید بناؤ کوئی احمدی ان پڑھ نہ رہے 221 احمدیوں کی تعداد پاکستان میں، دو تین لاکھ کے درمیان 369 ایسے اخبارات ورسائل 179 ہر احمدی کو اُردو سکھا دو 221 خرید وجو شریف ہوں 197 کوشش کرو کہ ہر احمدی اردو پڑھ سکتا ہو 567

Page 624

اسلام میں ٹوپی سر پر رکھنے کا اسلام اسلام کے احکام مردوں اور عورتوں کیلئے برابر ہیں 128 اسلام دنیا کی آبادی کا 1/4 اسلام جہنم کو ابدی نہیں سمجھتا 365 خدا کے غلام دنیا کے اسلام کی دو قسمیں 367 | باشاہوں سے معزز امن 334 رواج ہے 435،434 قیام امن کا صحیح طریق 103 اسلام کے مصائب کا ہے 202 موجب مولوی 475 اسلام کی اشاعت مدینہ منورہ اسلام نے اہل کتاب کا ذبیحہ میں 238.237 انبیاء انبیاء معصوم ہوتے ہیں انتخاب 394 جائز رکھا 480 اغراض 2830280 اسلام کے لڑائیوں کے اسلام کے اعلان جنگ کی اسلام آزادی ضمیر کو کچلنے کی اجازت نہیں دیتا 285 تا288 بارہ میں احکام 301 تا 303 اعمال روح پر اثر انداز ہوتے ہیں انتخاب کیلئے کام اور قابلیت اسلام اور عیسائیت کی دیکھی جاتی ہے 442.441 جنگ قادیان سے لڑی جائے گی انجام 555-554 اعمال تمام امور انجام کے لحاظ سے 547 دیکھے جاتے ہیں انصار الله اسلام کی طرف سے 299 انصار اللہ کے اجتماع کیلئے مفتوحہ ممالک کو سہولتیں مہیا کرنے کا حکم اقتصادیات ہدایات 447.446 310 انصار اللہ نے اپنی تنظیم اقتصادی مشکلات دور کرنے کا اسلام جنون اور وحشت کو نہیں کی 457 بڑا ذریعہ.ملک کی مصنوعات دور کرتا ہے 312.311 انگریز کا زیادہ استعمال 156 اسلام کے ذریعہ بہت بڑا انقلاب 3390336 اللہ تعالیٰ ایک انگریز مجسٹریٹ کا واقعہ 3090307 اسلام کا بنیادی اصول که گناه اللہ تعالیٰ کی بڑائی کا ایک بار انگریز افسروں کی بربریت.کی ذمہ داری انفرادی ہے 362 پھر اقرار 334 ایام غدر میں 309

Page 625

5 جنگ عظیم میں انگریزوں کا بشارت جرمنوں کے خلاف پروپیگنڈا 12 3 فلاح اور کامیابی کی بشارت 332 انگریز جس تیزی سے کام کرتے ہیں ہم نہیں کرتے 442 بنو خزاعہ انگریز کا ایک مخصوص کریکٹر بنو خزاعہ اور بنو بکر کی لڑائی کیا حضرت بانی جماعت انگریز 487 253.252 پچاس فیصد فوجی افسروں کی بیویوں نے پر دہ چھوڑ رکھا ہے انڈو نیشیا میں پر دہ تھا ہی نہیں پیشگوئی قیصر و کسریٰ کی لڑائیوں میں 528 531 کے خیر خواہ تھے ؟ 79 تا 84 ایک دوست کی بیعت کا غلبہ حاصل کرنے کی پیشگوئی 274 حضرت بانی جماعت نے انگریزوں کی کیوں تعریف 92089 دلچسپ واقعہ 240 244 مسلمانوں کے غلبہ کی پیشگوئی پادری کی؟ بارش ایک پادری کا واقعہ 167،166 ربوہ میں بارش کے نزول 285283 تاجر تاجر اپنی تجارت بڑھائیں 216 پار نمیشن میں حکمت 118، 119 پار ٹمیشن میں انتہا درجہ کا ظلم باطن کیا گیا تاریخ 303 | تاریخ اسلام کا بھیانک نقشہ 102 انسان کی ظاہری شکل اس پار ٹیشن کے زمانہ میں فساد کا علم تاریخ بھی شواهد قدرت کے باطن پر دلالت کرتی ہے 420 ایک معتین طریق تھا برکت پرده برکت تب ملے گی جب پرانے زمانہ میں پر دہ کو 408 کا محتاج ہے تاریخ کے علم کو صحیح طور ر استعمال نہ کرنے کی وجہ 464 سے مسلمانوں نے بہت نقصان ساری حیثیتوں کو نمایاں کر کے بھیانک صورت دی گئی 523 کام کرو گے.425 پر دہ ایک اسلامی حکم ہے 524 اُٹھایا ہے 465

Page 626

6 تاریخ بھی دنیوی علوم میں سے ایک اہم علم ہے 467 تربیت تقاریر تربیت کے بغیر کوئی قوم ترقی تقاریر محض لذت کیلئے تاریخ کے مطالعہ سے ہم نہیں کرتی ہزاروں سال پہلے کے واقعات سے واقفیت حاصل کرتے ہیں 516 تاریخ اسلام کا ایک واقعہ 576 میں نے رات کو لکھی ہے 510 تعالیم تحریک جدید سُنی جاتی ہیں 508 117 تفسیر کبیر تقویٰ جماعتی طور پر اپنے اندر نیکی 467 ایک ہزار صفحہ کی تفسیر کبیر اور تقویٰ کی کوشش کی جائے توکل انسانوں پر تو کل کرنے والے نامرادی کا منہ دیکھ لیتے ہیں 225 ج 563 تحریک جدید اہم ترین دور تعلیم کے بغیر کوئی قوم میں سے گزر رہی ہے 198، 199 ترقی نہیں کر سکتی تحریک جدید کے ذریعہ سادگی کے ساتھ تعلیم تیس چالیس ہزار آدمی مسلمان وسیع ہو سکتی ہے 570،569 206 مسجد میں بیٹھ کر تعلیم دو 570 ہوا ہر احمدی تہیہ کرے کہ اس جلسه سالانه جلسہ سالانہ پر ملاقاتوں کے تعلیم الاسلام کالج نے تحریک جدید میں حصہ لینا ہے 207.206 تعلیم الاسلام کالج کے بنانے سلسلہ میں ہدایات 143 تا 148 جلسہ سالانہ کے پروگرام کی غرض.طلباء اسلام کی تعلیم تحریک جدید کے چندہ کے بارہ میں ہدایات 206 تا 209 سیکھیں 463 میں انتظامی تبدیلی 518،497 جلسہ سالانہ کا طریق کار تحریک جدید کے اجراء کی تعلیم الاسلام کالج کی روایات حضرت مسیح موعود کے دور غرض تحقیق 339.338 کو قائم رکھو 482 میں 499.498 تعلیم و تربیت جلسہ کے مہمانوں کو کسیر علمی تحقیق کے بارہ میں ہدایات حفاظت دین تعلیم و تربیت مہیا کرنا نہایت ضروری ہے 182تا187 کے ساتھ ہوا کرتی ہے 57،56 518

Page 627

98.97 7 جماعت جماعت احمدیہ کی تعداد جماعت سے جتنی واقفیت چار لاکھ ہو جائے اُتنا ہی انسان کام جماعت احمدیہ پر مظالم کا نقشہ زیادہ اچھا کر سکتا ہے 148 94 165 حرام خوری الہی جماعتوں اور غیر الہی جماعت احمدیہ کے پاس حرام خوری کی عادت جب جماعتوں میں فرق 116 117 دولاکھ ایکڑ زمین ہے 212 کسی قوم میں پڑ جائے تو اس جماعت احمدیہ کیا جماعت احمدیہ کا اسلام اور جماعت احمدیہ کے خلاف کا ازالہ نہیں ہو سکتا 219 جھوٹ 411 حریت ضمیر ہے 412.35 جماعت احمدیہ کی مساعی جماعت احمدیہ کی خدمت خلق محریت ضمیر سب کا حق ہے 282 حکومت 361 474 364.8 سے مودودی صاحب کو 427.426 خالص اسلامی حکومت خوف 59 جماعت اسلامی جماعت احمدیہ کے متعلق موجودہ حالات میں نا ممکن مخالفین کی کذب بیانیاں 65،64 جماعت اسلامی کے کفر کے ہے متعلق دوسرے علماء کا فتویٰ حکیم 31.30 جہنم جماعت احمدیہ کی تبلیغ اسلام مودودی کی نگاہ میں 67،66 جماعت احمدیہ کا مسلک جہاد کے متعلق 67 تا 71 | جہنم صرف ایک روح سے جماعت احمدیہ نے ہمیشہ تعلق رکھنے والی کیفیت ہے 364 مسلمان حکومتوں کا ساتھ دیا جماعت احمدیہ کی طرف سے 84080 چ حجاز کی آزادی کا مطالبہ 84 تا 89 مودودی اور اُنکے رفقاء کار حکیم اس شخص کو کہتے ہیں جو سب علوم جانتا ہو خ خاتم النبيين خاتم النبیین کے معنی صحابہ اور آئمہ سلف کے نزدیک

Page 628

8 ختم نبوت خدام الاحمدیہ کی تعداد ختم نبوت کی تشریح حضرت ہر سال زیادہ ہونی چاہئے 458 خلیفہ تحریص و ترغیب خلیفہ کا خدمت خلق بانی سلسلہ احمدیہ کے الفاظ میں متواتر جلسوں اور مجلسوں میں 17 تا20 خدام الاحمدیہ اس امر کولاؤ کہ خدمت خلق کرنی ہے خدام نے طوفان کے موقع پر 1918ء کے انفلوئنزا میں اعلیٰ درجہ کا کام کیا ہے 425 424 جماعت کی خدمت خلق 426 نائب صدر کی ووٹنگ کے وقت کام ہے خلیفہ خدا بناتا ہے خلیفہ کوئی ایسی بات نہیں کر سکتا جسے پورا نہ کیا جا سکے خلیفہ جو کام بھی شروع خدمت خلق کے کام کو کرے گا جماعت میں ضرور ہر شخص کو ووٹ دینا ہو گا 436 نمایاں کرو نائب صدر خدام الاحمدیہ بجٹ کا ایک حصہ خدمتِ خلق کی خصوصیات 438 کیلئے وقف رکھو 4500447 نوجوانوں نے لاہور میں 447 448 اسکی طاقت ہو گی دعا 182 552 552 552 خدمت خلق کا عمدہ مظاہرہ کیا دعا کی تحریک 339،122،120 558 واقفیت حالات کے ساتھ 145 خدام الاحمدیہ کو ہدایات خدام الاحمدیہ چھوٹی بنیاد سے اُٹھے اور بڑھ گئے 457 خدمات دعا کی تحریک بہت زیادہ خدام الاحمدیہ نے خوشکن ترقی کی ہے 457 دینی خدمات میں جو تکلیفیں ہوتی ہے خدام الاحمدیہ کو اس لئے ہوتی ہیں وہ دینی خدمات کا دعا کا خط نہ بھی پہنچے تب بھی دعا ہو جائے گی حصہ ہیں 118 قائم کیا گیا کہ وہ اسلام کے مقصد کو سامنے رکھیں 457 خدام الاحمدیہ کا دفتر اپنے خلافت راشدہ کے عہد میں پاس ایک چارٹ رکھے 458،457 راشن سسٹم کا اجراء 293 دعاؤں کی تلقین 502 تا504 دکھاوا دکھاوا کے بارہ میں ضروری وضاحت 426،425 خلافت راشده 147

Page 629

9 دنیا جس کے دنیا کے ساتھ رشتہ ناطہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینے کی ممانعت تعلقات ہوتے ہیں وہ بو جھل احمدیوں کو رشتے نہ دینے کا ہوتا ہے فتوی دیدار روح 118 خدائی دیدار کی دعوت عام 331 روح کی حکومت خدا تعالیٰ کے قبضہ میں ہے روحانیت شراب 51 تا 53 شراب اجتماع فکر کرتی ہے 55053 ہر اخلاقی کمزوری روحانیت 282 شریعت شریعت کیا ہے 514.513 382 شکر گزاری شکر گزاری ایک اخلاقی ڈیماکریسی فرض ہے 389 شهداء ڈیماکریسی رومن طریقے پر پر اثرانداز ہوتی ہے 300،299 شھداء کے متعلق ایک حوالہ 184 ہے ز میں بد دیانتی 73.72 زكوة ص ذکر الہی زکوۃ کے معنی ترقی جو لوگ خدا کے ذکر کو بلند زمیندار کرتے ہیں خدا اُنکے ذکر کو بلند زمیندار احباب پیداوار 116 | بڑھانے کی کوشش کریں 286 صابر کے معنی صابر 289 کامیابی کیلئے صابر کی شرط 289 216209 س صحابہ بدر کے موقع پر صحابہ کی سیلاب تکلیف سیلاب کا زیادہ تر زور مخالف لشکروں کو دیکھ کر کرتا ہے رسول رسول وہ ہے جسے اللہ نے مامور کیا 354 رسول اور نبی میں فرق نہیں 354 اضلاع میں ملتان، سیالکوٹ اور لاہور کے صحابہ کے ایمان اور بڑھ گئے 449 118 246.245

Page 630

10 ایک صحابی کا کفارِ مکہ کو خط عادی ایک صحابی کے مسلمان ہونے کا واقعہ صحابہ نے جتنی جنگیں کیں ضروری ہے حسب استطاعت 262 تا 264 عادی کے معنی دوڑنے والا 315 دنیوی علوم بھی سیکھیں عالم روحانی کانو 316 317 | عالم روحانی کا نوبت خانہ 225 عدل 473 علوم کا سیکھنا اسلام کا ایک حصہ ہے 475.474 علماء چند گھنٹوں میں ختم ہو گئیں 324 عدل و انصاف کو جوش میں علماء روحانی کا بلند مقام 17،16 صلح حدیبیه مسلم اکابر اور علماء کے جھوٹ 98 بعض اسلامی مسائل میں 296-295 صلح حدیبیہ کی شرائط 247، 248 صناع بھی ملحوظ رکھنے کی تاکید ہمارے علماء نے بحث نہیں کی علم.علوم صناع ایجاد کی طرف توجہ کریں علم الاخلاق کا اثر ایماندار 216 پر ہوتا ہے صناع اپنی صنعتوں کو ترقی دیں علم النفس کا اثر بے ایمان ظ 216 پر بھی ہوتا ہے علم فیض صحبت یا مطالعہ سے بڑھتا ہے 169 169 177.176 ظلم انسان کو اخروی سزا کا علم کے معنی ہوتے ہیں جاننا 463 مستحق بناتا ہے 299 | علم حدیث کے متعلق بہت سے قوانین مرتب کئے گئے 468 ع عادات کوئی علم برا نہیں 476 پرانے علماء کتاب کے حاشیہ پر تین نوٹ لکھتے تھے 186 187 علماء کو کتابیں لکھنے کی تلقین 192 عورت لنڈن مسجد عورتوں کے روپیہ سے بنی ہے عورتوں کو تین تحریکات بسا اوقات عورت کا عزم 128 129.128 پرانی عادات کا ترک کرنا جو علم قانون قدرت کے مرد سے بڑھ جایا کرتا ہے 130 مشکل ہوتا ہے 484 مطابق ہیں وہ دین کا حصہ ہیں عورت قربانی کر کے 479 مردوں کو نمونہ دکھاتی ہے 130

Page 631

11 132 مردوں سے نصف سے بھی کم ہے ایک یادو عورتوں کو تعلیم پاکستان میں عورتوں کی تعلیم دینے کا عہد کرو 131 تا135 132 | عہدیداروں کے انتخاب ربوہ میں عورتیں تعلیم کی طرف کیلئے ہدایات قادیان اور ربوہ میں عورتوں عورتوں کو پردہ کی تلقین 523 کی تعلیم مردوں سے زیادہ ہم نے عورتوں کو اعلیٰ سے رہی عورت کو شریعت نے ضعیف قرار دیا قادیان میں میں نے عورتوں کی تعلیم کو سو فیصد تک پہنچایا 131 اعلی تعلیم دلوائی 131 524 عورت کے ساتھ رحم کا معاملہ ہونا چاہئے 532 عہد فتویٰ حضرت بانی سلسلہ کے متعلق فتوی کفر جماعت اسلامی کے متعلق 30027 علماء کا فتویٰ 31.30 شیعوں کے متعلق سنی علماء کا فتویٰ 32.31 شیعہ علماء کا فتویٰ سنیوں کے عہدیدار متعلق 32 دیوبندی علماء کا فتویٰ 442 436 بریلویوں کے متعلق 33 نمایاں طور پر راغب ہیں 132 عیسائی بریلوی علماء کا فتویٰ دیو بندیوں ہر عورت عہد کرے کہ میں عیسائیوں میں باوجود دہریت 134 ایک یا دو لڑکیوں کو پڑھاؤں کے عیسائیت کے ساتھ محبت گی کے متعلق 34.33 اہل حدیث کا فتویٰ مقلدین 195 کے متعلق 35.34 عورتوں میں زائد آمدنی پیدا کرنے کی تحریک 138135 ہے عیسائیت عیسائیت تعداد کے لحاظ سے دنیا کے 1/3 فیصد سے عورتوں کو کسی کام پر لگائیں 137 ایک نابینا عورت کا قالین زیادہ ہے 202 مقلد علماء کا فتویٰ اہل حدیث کے متعلق غیر احمدی علماء کا فتویٰ احمدیوں 34 کے پیچھے نماز جائز نہیں 38 تا40 بنا کر حضور کو دینا 137 عورت نبی نہیں ہو سکتی 364 ف فاتحہ ہالینڈ کی مسجد کا بنانا عور توں فاتحہ مومن کیلئے ایک محبت کا 521 گہرا راز بنی رہتی ہے 225 کے ذمہ ہے غیر احمدی علماء کا فتوی که احمدیوں کے جنازے جائز نہیں 43041

Page 632

12 غیر از جماعت کے جنازے قرآن کریم قرآن کریم ہر قسم کے علوم کے متعلق حضرت بانی سلسلہ قرآن کے تراجم چودہ زبانوں حاصل کرنے کی تعلیم دیتا ہے کا فتویٰ 44،43 | میں فساد 196192 تلاوت قرآن کا طریق 195 مقرب الہی 476 فساد کرنے والے دو طرح قرآن جیسی تبلیغ دنیا میں اور تقرب الہی کا طریق 118،117 کے لوگ ہوتے ہیں 402 کوئی نہیں فسادات 196 | تعلیم اور نماز قوموں کو خد اتعالیٰ اسلام کی اصل خوبصورتی قرآن کے قریب کر دیتی ہے 221 فسادات 1953ء کی ذمہ دار سے ہی پتا لگتی ہے 197،196 قلب حکومت کی بے حسی اور قرآن ربانی کتابوں کا خاتم ہے انسان کے قلب سے ایسی عدم توجہی 404 فسادات 1953ء کی اصل قرآن کے سمجھنے کیلئے 382 ذمہ دار جماعت اسلامی، احرار، معصومیت کی ضرورت 394 اور مجلس عمل تھی 413،405 قرآن کریم اس تعلیم سے بھرا فسادات کے مختلف پیٹرن پڑا ہے کہ انسان کو زیادہ علم 408 اور تجربہ حاصل کرنا چاہیے 463 قرآن کریم سب علوم سے شعاعیں نکلتی ہیں جو اردگرد بیٹھنے والوں پر اثر کرتی ہیں 421 قواعد یورپین نے تعلیمی اداروں کے متعلق قواعد بنائے ہوئے ہیں 488 482 442 ہوتے ہیں فوج سول معاملات میں فوج کو بھرا پڑا ہے استعمال کرنے کی ضرورت قرآن کریم سائیکالوجی کو پیش نہیں آتی 400 بار بار پیش کرتا ہے ق قانونِ قدرت تائید کرتا ہے قانون قدرت خدا تعالیٰ کا فعل ہے 473 475 کالج ہر کالج کی کچھ نہ کچھ روایات ہوتی ہیں قرآن کریم سب علوم کی 475 کام قرآن تاریخ اور جغرافیہ کام کو لٹکانا قوم کو ذلت کی 473 کی طرف توجہ دلاتا ہے 475 طرف لے جاتا ہے

Page 633

13 تمہارے ذمہ عظیم الشان کام ہیں کشمیری کشمیری تو بے چارہ ظلم میں ہے کفر 551 170 گتا لجنه گنا بہت آمدن والی چیز ہے 213 لجنہ ہال پر پچاس ہزار خرچ ل لائبریری اشاعت لٹریچر کیلئے لائبریریاں مسئلہ کفر و اسلام کی حقیقت قائم کرنی چاہیں 24 تا 27 لائبریری کے قیام کے ہوا 129 لجنہ ہال قرض لیکر بنوایا گیا 131 مارشل لاء 559 مارشل لاء کے نفاذ کی ضرورت 400-399 کفر دو قسم کا ہوتا ہے 363 بارہ میں ہدایات 559 تا561 متقی کمانڈر لباس متقی انصاف کرنے والے کمیونزم کمیونزم نے مڈل ایسٹ پر حملہ کرنا ہے ایک ترک کمانڈر کا رونا 121 اسلام میں کوئی خاص لباس ہوتے ہیں نہیں 493 متقی زنا نہیں کرتے 571 571 لٹریچر متقی چوری نہیں کرتے، 150 لٹریچر کی اشاعت کیلئے دو ڈاکہ نہیں مارتے 571 گ کمپنیوں کا قیام متقی سچی شہادت دیتے ہیں 571 189 گورنمنٹ مجدد لڑکیاں جر من گورنمنٹ کی ایک مجدد: جو اصلاح اور تجدید لڑکیاں غریب سے غریب وزیر سے جواب طلبی گولہ بارود 78 کرتا ہے 355 بھی پڑھتی ہیں 132 محدث جن لڑکیوں کو پڑھنا آتا ہے، گولہ بارود پہلے مسلمانوں نے وہ اخباروں کے پیچھے پڑتی ہیں محدث وہ ہے جس سے اللہ نکالا 576 134 کلام کرتا ہے 355

Page 634

14 مخالفت ہمیشہ ہی اچھے مقصد کی مساوات مطالعہ مساوات اسلامی کی ایک مطالعہ کیلئے تین مفید باتیں مخالفت کی جاتی ہے 453 شاندار مثال مذہب 480 مسلمان 293.292 مظالم 189 187 مسلمان ایک نازک دور سے کفار مکہ کے مسلمانوں پر مظالم 148 تا154 گزر رہے ہیں مسلمان ممالک مختلف مصائب جنرل ڈائر کے ہندوستانیوں شریعت نے مذہب کو بہت عظمت دی ہے مذہب میں مداخلت کرنا انسان کو منافق بناتا ہے 481 مذہب میں دخل اندازی کا سے گزر رہے ہیں 149 پر مظالم کسی کو حق نہیں 481 ہندوستان کے مسلمانوں کی معاہدہ مساجد 306 307 حالت نہایت خطرناک ہے 161 دشمن کی معاہدہ شکنی کی خبر مساجد اور مراکز باہر کے ہم مسلمانوں کا ہی ایک ملکوں میں ہونے ضروری ہیں فرقہ ہیں 219 مسلمانوں کے سیاسی حقوق 357 2500248 ملاقات مسجد فنڈ کے چندہ کیلئے طریق کار کی مفاہمت کیلئے شوکت علی، خلیفہ وقت سے ملاقات کے 540،539 محمد علی کا نام عزت کے ساتھ بارہ میں ہدایات 517،516 مساجد بنانے کی تحریک یاد کیا جائے گا 566561 ہر جگہ مسجدیں بنانے کی کوشش کرو مسجد نبوی 565 مشوره 347 ممالک اسلامی ممالک ایک خطرہ صحیح مشورہ اثر انداز ہوتا ہے 168 میں سے گزر رہے ہیں 503 مضامین منافقین مسجد نبوی میں بیٹھ کر دنیا کو علمی مضامین کی طرف مسلمانوں کی کمزوری پر فتح کرنے کے عزائم 335 336 توجہ کریں 182 تا 187 | منافقین کی طعنہ زنی 245

Page 635

15 موسیقی موسیقی بھی ایک قسم کا علم موری موری کے معنی مومن مومن سچ بولتے ہیں ظلی یا بروزی نبی کی وضاحت 393 قرآنی نوبت خانوں کی ز خبریں 273.251.247 215 قرآنی نوبت خانہ کا کمال 474 ہر چیز میں نرومادہ ہیں نصائح 319 بُری باتوں کی اشاعت کو روکو 1610157 236233 قرآنی نوبت خانہ اور کفار کے نوبت خانہ میں ایک 571 اسلام کا درد تمہیں کرنا چاہئے فرق مومن متکبر نہیں ہوتے 571 مومن مسرف نہیں ہوتے 571 262.261 167 قرآنی نوبت خانہ کی ایک ملک کی حفاظت و بقا کیلئے تیار امتیازی خصوصیت ہو جاؤ کامل مومن کو اللہ غیبی نظارے دکھا دیتا ہے ن نبوت امت محمدیہ میں کمالاتِ 585 275 168 قرآنی نوبت خانہ رات دن نصیحت میں پانچ دفعہ بجتا ہے 325،324 نصیحت ہمیشہ فائدہ بخش ہوتی قرآنی نوبت خانہ کا پُر ہیبت 168 | اعلان 326-325 قرآنی نوبت خانہ کی آواز 330 نماز با جماعت نبوت والے آسکتے ہیں 20 تا 22 نماز با جماعت میں بیجہتی کا نوبت خانوں کی بعض خامیاں 419 بانی سلسله 22 تا 24 نماز با جماعت اس لئے رکھی دنیا کے نوبت خانے جنون تا دلی اثرات ایک دوسرے جنگ پیدا کرنے کیلئے ہوتے نبوت کی تعریف اور حضرت نبی نبی اجتہاد میں غلطی کر سکتا پریریس ہے 357 421 ہیں نوبت خانه دنیوی نوبت خانوں کے مقابلہ نبی ہونے کیلئے شریعت کا نوبت خانوں کی اغراض 229 تا میں اسلام کا شاندار نوبت خانہ 279 311 280 324.275.233 357 لاناضروری نہیں ہے

Page 636

354 ولی ولی وہ ہے جو اللہ کو محبوب ہوتا ہے 356 16 اسلامی نوبت خانہ اور ہر وحی جبرائیل کی نگرانی دنیاوی نوبت خانوں میں فرق میں نازل ہوتی ہے 324 وقار قوموں کا و قاریچ اور محنت نوجوان تمام نوجوان نماز با جماعت اور سے بنتا ہے تہجد کی عادت ڈالیں 221 وقف 221 DO ہمدردی ہمارے دل میں ہر ایک قوم کی عمارت کو بنانا نوجوانوں وقف کے راستہ میں اس کی ہمدردی ہونی چاہئے 168 484 وقت بہت سی مشکلات ہیں 218 419 کا کام ہوتا ہے نوجوانوں کو قربانی میں مخلص واقفین وقف کی آگے بڑھنے کی تلقین 559 | عظمت کا اظہار کریں وحی 218 ی یک جہتی وقف زندگی کی اہمیت کجہتی طبائع پر نیک اثر ڈالتی 218، 219 ہے وحی کے معنی اللہ کا کلام 355 جماعت واقعین کو خاص وحی کے نزول کے طریق 355 | عظمت دے 219

Page 637

245 245 311 57 23 368 463 249 الاحزاب وَإِذْ قَالَتْ طَائِفَةٌ مِّنْهُمْ 17 آیات قرآنیہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ 295 (14) الفاتحة الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (109) 225 الاعراف (2) البقرة أَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِيْنَ وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ (45) 475 (200) 181 كمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ (250) الأحزاب (23) فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ الانفال 283.171 (24) مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ (18) آل عمران 395 إِذْ تَقُولُ لِلْمُؤْمِنِيْنَ المومن اِنْ يَّكُ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ إِنْ يَكُن مِّنْكُمْ عِشْرُونَ (29) 285 290 (126.125) (66) وَمَا جَعَلَهُ اللهُ إِلَّا بُشْرُي لكُمْ (127) الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ حم السجدة التوبة 290 اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَا إِلَّا (52) (31) 316 (174) 289 المائدة كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ الشورى جَزْؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا وَاذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ (21) (199) (41) 421 الحجر 249 الزخرف فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا (3) إِنَّهُ لَعِلْمُ لِلسَّاعَةِ (62) 21 الْغُلِبُونَ (57) 283 الانعام الحج أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ (12) (42-40) 475 الفتح انَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا 280 | مُّبِينًا (2 تا 4)

Page 638

18 قُل لِّلْمُخَلَّفِينَ مِن المجادلة الْأَعْرَابِ (17) 273 الا ان حِزْبَ اللهِ هُمُ و أُخْرِي لَمْ تَقْدِرُوْا (22) الْمُفْلِحُونَ (23) القمر وَ لَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ (47ť 42) الواقعه 273 الصف لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (3) 234 الجمعة يُزَكِّيهِمْ (3) الحاقة الا على فَذَكَّرُانْ نَفَعَتِ الذِّكْري 283 (10) إِنَّ هَذَا لَفِي الصُّحُفِ (20.19) 473 394 الغديت وَ الْعَدِيتِ ضَبْحًا (2) تا (6) 168 382 315.314 57 لَّا يَمَسُّةٌ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ لَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا (4745) 394 (80)

Page 639

19 احادیث أُحْتُ التُّرَابَ 1 469 کوئی شخص اپنے نفس کو اس 302 بات سے محروم نہ سمجھے 23 لا تَغْدِرُوا 29 لا تَفَضْلُونِي عَلَى مُوسَى 295 اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا 23 إِذَا اكْفَرَ الرَّجُلُ 306 جب کوئی جماعت اللہ کے 303 ذکر کیلئے جمع ہوتی ہے 116 لا تَقْتُلُوا وَلِيْدًا إِذَا هَلَكَ كِسْرُى فَلَا کسری بَعْدَة لَا تَقْتُلُوا امْرَأَةٌ 337 أَصْحَابِي كَالنُّجُوْمِ 489 302 لَا تَقْرَبُوا نَخْلًا 306 خدا کا فضل ہے کہ اس نے لَا تَقْطَعُوا شَجَرًا اغْزُوا بِاسْمِ اللهِ لا تُمَتِّلُوا الْعُلَمَاءُ مَصَابِيحُ الْأَرْضِ 16 307 رحمت نازل کی 303 118 لوگو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا 179 أَنْتُمْ أَعْلَمُ بِأُمُوْرِ دُنْيَاكُمْ 394 307 میں آپ کو نصیحت کرتا ہوں 238 لَا تَهْدِمُوا بِنَاءً أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ 10 مَنْ تَرَكَ الصَّلوةَ مُتَعَمِّدًا 24 خ خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ 533 مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ مَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ 420.158 70 251 252 مردم شماری کرو 553،244 خزاعہ کے ساتھ ایک خطرناک واقعہ پیش آیا نتیجہ اچھا نکلے گا ھبراؤ نہیں تمہاری مدد کی جائے گی 254 میں تمہارے بیوی بچوں کی حفاظت کروں گا میر اسامان تیار کرو 254 261 261 ع وَلَا تَغْلُوا 302 عَلَيْكَ بِذَاتِ الدِّيْنِ 438 احادیث بالمعنی کرو تیاری 16 ( ترتیب بلحاظ صفحات) عُلَمَاءُ أُمَّتِي ک كَفَى بِالْمَرْءِ كَذِبًا 415 داخل جنت ہو گیا ہو جس نے لا اله الا اللہ کہا ابو بکر بڑا نرم طبیعت ہے 261 8 تم فلاں جگہ جاؤ 262

Page 640

20 عباس! ابوسفیان کو اپنے خیمہ جو شخص بلال کے جھنڈے تمہارا خریدار تو خود خدا ہے334 میں لے جاؤ 267 کے نیچے کھڑا ہو گا 269 وہ اسلام سے خارج ہے 368 کیا تجھے یقین نہیں کہ خدا جب تک عبد الر حمن زنده اگر کوئی اپنے حق میں ایک ہے 268 ہیں مسلمانوں میں اختلاف جو شخص ابوسفیان کے گھر میں نہ ہو گا گھسے گا اُسے پناہ دی جائے گی 269 تم ہجرت کر جاؤ جو گھر کے دروازے بند کرے گا فیصلہ کر والے 270 جس قوم کی صفیں ٹیڑھی 281 ہو گئیں انصاف کا سلوک کرو 293 بین ختم کرو 269 اُس کا جہاد، جہاد نہیں 310 اس کو مہر دے کر رخصت جو ہتھیار پھینکے گا 269 مسافروں کا راستہ نہ رکے 310 کر دو جو شخص خانہ کعبہ میں چلا جائے گا میرے خدا نے تمہارے 269 | خدا کو مار ڈالا 328 394 420 469 534

Page 641

21 اسماء ابو حنیفہ حضرت امام 21 ابو عیسی اسحاق اصفہانی 381 439 | ابورویچه 269 ابو منصور الاجلی 381 آئزن ہاور آدم علیہ السلام حضرت 354 ، ابو سفیان، حضرت 262 ، 320 | ابوہریرہ ، حضرت 469،9،8 394.385.358 180 آمنہ، حضرت ابو سفیان کا معاہدہ کی تجدید اُن کا حصول علم کا شوق کیلئے مدینہ پہنچنا 255،254 ابراہیم ، حضرت 385،354، ابوسفیان کی بہانہ سازی احتشام الحق ثلا 386 177.176 375 54 21 آپکا بیٹے کو مکہ میں چھوڑنا 130 255 تا 257 احمد اللہ امرتسری ابن ابی شیبہ 10 ابو سفیان کا مسجد نبوی میں احمد بن حنبل حضرت ابن اثیر 464 | اعلان ابن حیان 257 258 احمد رضا خان بریلوی 33،31، 186 | ابو سفیان کی ناکام واپسی 259 42.40 ابن خلدون علامه 464،15 ابو سفیان پر غداری کا الزام احمد شیخ سرہندی، حضرت 21 ابن مردویہ 250 260 احمد علی خان چودھری 410 ابو العطاء، حضرت مولانا 43 ابوسفیان کی سراسیمگی اسامہ بن زید، حضرت ابوالفضل محمود ابو المظفر، مولوی 126 30 ابو بکر، حضرت 21،13،12، <261.260.256.32.31 294.274.271.270 ابو جہل 246،180،179، 265.264 310.12 ابو سفیان اور اُس کے ساتھی اسحاق الاخر اس المغربي 381 پہرہ داروں کے نرغہ میں 265 | اسد اللہ خان 544.353 ابو سفیان پر اجتماعی عبادت کا اسلام الدین امرتسری 40 گہرا اثر 267 268 اسماعیل علیہ السلام، حضرت 390 | ابوسفیان کی حضور سے ابو جہل کا دولڑکوں کے ہاتھوں درخواست 130 268 269 | اسود عنسی 11 تا380،14 مارا جانا 322 323 ابو سفیان کا مکہ میں اعلان 269 اشتیاق قریشی | 176

Page 642

22 اعزاز علی امروہی 30 بدایونی، مثلاً افلاطون اکبر (بادشاہ) اکرام جبه حسین 375 ٹائن بی، اس کے نزدیک 221 بدھ علیہ السلام، حضرت 229 عیسائیت کی ٹکر بہائی ازم اور 275 برنارڈشا، اسے ہر علم میں احمدی ازم سے 556،555 | 50 دسترس حاصل تھی 474 ٹرومین امة القيوم، صاحبزادی بسمارک 229.228 اُم حبیبہ ، حضرت.ان کی غیرت ایمانی 258 403 ٹیپوسلطان بشیر احمد (حضرت مرزا) ٹیگور بشیر احمد مسٹر 569.567 439 277 566 355 ثناء اللہ امرتسری، مولوی 39 بشیر احمد شیخ 544 | ثمامہ بن آثال 13 ام متین، حرم حضرت مصلح موعود الزبتھ الوسی، علامہ الیاس، حضرت 228 577.530.325 16.14 384 الیاس برنی بلال، حضرت 269 ج حضرت بلال کا جھنڈا کھڑا جانسن ، انگلستان کا سب کرنے میں حکمت 270 تا 272 سے بڑا ادیب ہے 73 بن باذان 13 جبلہ 567 293 امیرالدین ڈاکٹر 544 بہاؤالدین (حضرت شیخ) 21 جعفر صادق، حضرت امام 32 | امین احسن اصلاحی امین الدین گورنر انور علی اور نگ زیب عالمگیر ایمرسن باقر، علا 407 176 407 137.136 487 371 428.427 21 جمبیا، مائی پولوس 385 جنید بغدادی، حضرت چ تقی الدین احمد ڈاکٹر 439 چراغ الدین، چڑیا کوٹی، مولانا ٹائن بی، اپنے وقت کا بڑا مؤرخ چرچل 555 چنگیز 185 85.84 276

Page 643

23 چیانگ کائی شیک 439 خلیل احمد ، ( مرزا صا حبزاده) ریڈنگ، لارڈ چیمسفورڈ حارث و مشقی 76 381 441 خلیل احمد (سہارنپوری) 39 , س ساجدہ خانم ساره بیگم، حرم حضرت حاطب، حضرت 263 داؤد علیہ السلام، حضرت 385 مصلح موعود 84 410 439.241 حامد علی خان، مولوی 31 داؤد غزنوی، مولانا 29 سجاح بنت حارث 380،12 حامين من الله ما عکاسی 381 داؤد احمد ، حضرت میر سراج الدولہ حبیب بن زید حضرت حسن، حضرت امام 13 257 440، 445 | سراج الدین میاں سردار بیگم حسین، حضرت امام 257 ڈائر، جنرل 307 | سرسید حسین احمد مدنی، مولانا 30 ڈاکٹر خان سقراط حفظ الرحمن 410 ڈینی سن راس 164162 492 سکار نو حمزہ ، حضرت.آپ کے سکندر 277 564 410 525 221 193 326.273 ز قبول اسلام کا واقعہ 179 تا 181 سلطان ابن سعود 74 تا 86،77، حیاء الدین جنرل ذوالفقار علی خان 345 390 خ سلطان عبد الحمید خان 153151.88 87 راغب احسن، ایم.اے 31 سلیمان علیہ السلام، حضرت خالد بن سعید، حضرت 13 خالد بن ولید ، حضرت رشید احمد گنگوہی روز ویلٹ 439 ا سمتھ 38 313.270 خدا بخش، مولوی روشن علی ، حضرت حافظ 434 سمیع الرحمن انکی تحقیق پر حیرت کا اظہار روم، مولانا 24 سورن سنگھ 385 309 410 514 187،186،185 ریاض قدیر 545،544 | سیدی حسن 30 30

Page 644

لله 24 ش شاہ جہاں 276 شاہ محمد ، مبلغ انڈونیشیا 154 189 185 شیر محمد شیخ ص صدیق الحسن گیلانی 46 عبد الحی مولوی فرنگی محل 185 عبد الرحمن بن عوف، حضرت 410 322.270 عبدالرحمن بہاری، مولوی 39 صدیق حسن خان نواب 15 عبد الرحمن خان شاہ نواز ، ڈاکٹر شیلی ض شبیر احمد، چودھری 440 ضرار بن ازور شریف حسین 74 تا 87،77، انکا واقعہ 88 321.320 b 50 163.162 عبد الرحیم درد، مولانا عبد الرزاق عبد الرشید قریشی 48 440 شعرانی، حضرت امام 466 طاہر احمد ، حضرت مرزا 440 یہ خدام الاحمدیہ کے شیکسپئر 567 445،441 پرانے ورکر ہیں شور بازار مثلا 371 طلیحہ بن خویلد اسدی 380،12 عبد الجبار عمر پوری شوکانی (علامه) 16.15 شوکت حیات سردار 303 عائشہ ، حضرت ع عبد السمیع بدایونی 9 تا 11، عبد الصمد غزنوی مولوی 441 39 54 شوکت علی مولانا 347،345 469.260.252 250 وفاداری کا جذبہ ان میں آپ کا قول: قُوْلُوْا خَاتَمَ کمال کا تھا 346 النَّبِيِّين 8 اسلام کی محبت اور درد مولانا عباس، حضرت 239 ،265 شوکت علی میں بے انتہا تھا 346 500.270.268 عبد العزیز شاہ دہلوی عبد العزیز، مولوی 42.41 31 53 عبد الغفار خان 162 تا 164 عبد القادر جیلانی، حضرت شیخ 21 عبد القادر جیلانی شیخ محقق 189 شہاب الدین، حضرت شیخ آپ کا ابوسفیان کو بچانے کی عبد القادر سید، پروفیسر 470 21 کوشش کرنا 266 267 عبد الکریم سیالکوٹی، حضرت سہر وردی شهر خان شیر شاہ 50 عبد الحق غزنوی 276 | عبد الحلیم چهار آسیانی 29 67 مولانا.525.498.135 533

Page 645

385.384.380.374 323 493.468.463 572 25 پردہ کے بارہ میں آپ کی عکرمہ، حضرت 526،525 علی، حضرت 35،21،10،9، 258*256.167.166 غ 270،263،262، 271 ، | غزالی امام شدت کا واقعہ آپکے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام عبد الکریم 533 135 26.24 22.1917.7 371 عبد اللطیف شہید، حضرت علی قاری ، ملا 471،468 غلام احمد قادیانی، حضرت مرزا 54.53.44.43.40.38 381 74.72.71.69*66 439 صاحبزادہ 374،66 375 علی محمد خارجی آپکی شہادت کی وجہ 72،71 علی محمد راجہ 178.91*89.81.79 عبد اللہ بن وہب 13 عمره حضرت 181،32،21،9، 201.197.182.179 53 <265.264.261.256 ‹241.218.217.204 48 364-362-360*356 274 271 270.266 عبد اللہ ، مولوی عبدالمجید 381 382.374.370*366 420.314.313.281 عبد الملک، خلیفہ 391.389.388.386 550.549 <498.435.422.394.535.534.526.525 عبد الواحد، مولوی خانپوری 54 عبید اللہ قاضی 53،42،41 آپ کے غرباء سے پیار کا واقعہ عثمان، حضرت 256،35 293.292 557.549.548 عزیز احمد، مرزا عزیز الرحمن دیوبندی مولوی عطاء الرحمن 40 410 471.271.270 353 ایک غلام کے معاہدہ کا احترم آپ پر فتوی کفر 27تا30 عمرو بن حزم 294.293 13 254 آپ کا درد اسلام 167 آپ کے تو کل کا ایک واقعہ عطاء اللہ شاہ بخاری 375،99، اسکا قائد اعظم کے بارہ میں بیان 407 413 عمر و بن سالم 330.329 عمر و بن عاص، حضرت آپ کے ذریعہ تعلیم الاسلام 471،270 ہائی سکول کا قیام عیسی علیہ السلام، حضرت 11، بدیاں چھوڑنے کیلئے آپ 191،183،182،69ء کا ایک گر 354.339.203.200 476 567

Page 646

26 227 410 الہامات غیاث الدین تغلق عربی غیاث بیگم ربِّ أَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ 26 ف کرشن علیہ السلام، حضرت 531 قُلْ لِلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوا مِنْ فاطمہ ، حضرت 256 257 ابْصَارِهِمْ کیسری 326،274،273، 338.337.335.327 382 فخر الحسن مولانا 30 کسری قتل کر دیا گیا 329،328 234،57، 237 کمال الدین خواجہ 329 164 45 وَاصْنَعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا فرعون وَسِعُ مَكَانَكَ 383 فضل احمد قاضی لدھیانوی 54 کننگھم 565 فضل الرحمن، سپروائزر 410 کے.الیں.حسن اُردو الہامات فضل حسین، سر میاں 488 سب مسلمانوں کو جمع کرو 26 فقیر اللہ ماسٹر فضل عمر 116 گاندھی 346،304،136 548 فقیر محمد خان، چارسده محمود کے کپڑوں پر خون دیکھنا اُنکی بیعت کا واقعہ 240 تا 245 گاندھی کے اتباع نے پانچ سو یہ طریق اچھا نہیں 550 فیروز خان 176 | چرخہ بنایا 88،87 گبن ایڈورڈ 533 فیصل، امیر غلام احمد ، پرنسپل کالج راولپنڈی 390 ق قاسم علی خان 51049 گورمانی، وزیر داخله گوئرنگ 216 555.464 176 235 440، 445 قدرت اللہ (ایک ملازم) 443 تا 445 لائڈ جارج 308 | قدرت اللہ حافظ 531 | لال شاہ بخاری 242 | قیصر 274،273،268، غلام باری سیف، مولانا غلام رسول، حافظ، وزیر آبادی غلام سرور غلام محمد ، گورنر جنرل 176 غلام مر تضیٰ 353 338.337.335.327 مالک، حضرت امام 120 390 21

Page 647

27 مالک (ایک صحابی) حضرت.530،524،515،500 ، آپ خدا کی زبان ہیں 331 314.313 انکی غیر معمولی شجاعت مانٹیگو مجددالف ثانی 548،533، 558،557، آپ کا ایک بدصورت 308 آپ کا بدر کے موقع پر صحابہ 16 کو تسلی دینا 334 585 | صحابی سے پیار 333 118 غزوہ خندق میں آپ کا محمد صلی اللہ علیہ و سلم، حضرت ابو جہل کا آپ کو تھپڑ مارنا 179 پتھر توڑنا خاتم الانبیاء 7 تا 16، 18، آپ کے متعلق اسرائیلی انبیاء و حضور کے دو بعث 337 369 382 19 تا 23، 25، 26، 29، اولیاء کی پیشگوئیاں 238 239 آپ کی ہجرت ماہ مئی میں 373 63،56،48،47،36،33، آپ کو مدینہ تشریف لانے کی آپ خاتم الانبیاء ہیں 239 آپ سب نبیوں سے زیادہ 150،116،81،70،67، | دعوت معصوم تھے 161،158ء176ء، 180، آپ کی طرف سے اسلام کے زوال و عروج کی خبر 244 | آپ سے اہل مدینہ کا ایک 247 معاہدہ 394 500 آپ کا ایک خواب آپ کی خدمت میں بنو خزاعہ کا آپ کا شادی کے بعد ایک کا وفد 253 254 عورت کو رخصت کرنا آپ کی فتح مکہ کیلئے تیاری 534.533 260 261 آپ کا مدینہ میں مردم شماری آپ کی ایک دعا 262 کرانا 553 غیر مسلموں کے جذبات کا آپ کی مسجد کا نقشہ 562،561 خیال 294 295 آپ کا مقوقس کے نام خط 567 571 54 24 203 200.182.181 238.237.236.228 254.252245.240 265.263.262.259t 275 270.268.266 301.293.287.280 314.313.307.306 357.355.339.329 366.363.361.358 385.384.380.368 412،394،389،387، آپ کی ایک صحابی پر شدید آپ کے زمانہ میں ترقی کی 437،434،420،415، ناراضگی 310،309 | وجہ 468،466،457،456، آپ کی گرفتاری کیلئے کسری محمد اسمعیل لکھنوی 327 328 محمد اقبال، ڈاکٹر.499.494.489.469

Page 648

241.240 381 28 محمد امانت اللہ 39 محمد علی باب محمد امین (میاں) 67 محمد علی جناح قائد اعظم 24، معاملات عرب کے متعلق 347،346،304،164، غیرت محمد امین خان، انکاخط 75،74 77.76 414 ایک ہندو سے حسن سلوک 299*296 کام 413 40 43 محمد حسین بٹالوی مولوی 42،38،28 وہ مرد دلیر نہ ڈرا محمد حسین خان بہادر 427 محمد علی واعظ محمد حفیظ الله 39 محمد غلام سید 49 محمد قاسم نانوتوی مولانا 16،15 میں رات کو کام کرنے کا محمد رفیع صوفی محمد ریاست علی مولوی 43 محمد کفایت اللہ 537 | محمد مظہر علی خان محمد سعید، سید سلیم 375 | محمد مکی محمد شفیع ملا 39 پر انا عادی ہوں 49 آخری عمر میں کام کی نوعیت 572 511 511 محمد شمس الدین مولوی 42 محمد نذیر قاضی، مولانالا تلپوری سلسلہ احمدیہ کیلئے آپ کی | محمد ضمیر، کرنل 50 انکی کتاب مسئلہ ختم نبوت محنت شاقہ 511،510،445 محمد ظفر اللہ خان، سر چودھری کے بارہ میں حضور کی راہنمائی 198.154.99.95.65 334 390،214، 488 | محمود احمد ، حضرت مرزا بشیر الدین 426.392.353.99.36 42.39 محمد عبد اللہ ٹونکی محمد عبد اللہ شیخ 164،162 بیماریاں ربوہ کی مٹی سے آپ کا گلا خراب ہونا 119.118 470 بیماریوں کی تفصیل 507 تا509 محمد علی (وزیر اعظم پاکستان) سیرت و سوانح آپ کی بیماری پر حضرت 176 آپ کے بچپن کا واقعہ 205 مسیح موعود کی فکر | محمد علی (فائنانس منسٹر ) 176 خلیفہ اول کا آپ کی تربیت محمد علی جو ہر مولانا 77 کرنا محمد علی مولوی 348345 329 علوم 478 مجھے اللہ نے بہت سے علوم آپ کا الفضل جاری کرنا 366 عطا فرمائے ہیں 509 476 شاہی مسجد دہلی میں نماز مجھے ہر علم کا شوق ہے 478

Page 649

29 اکثر علوم کے متعلق میں نے آپ کا کو ئٹہ کا سفر 171،170 471،470 آپ کا سفر انگلستان اور آپ کے رویا و کشوف مشاہدات 486،484،483، کتابیں پڑھی ہیں 478 | آپ کا راولپنڈی کا سفر 439 آپ کے لیکچر کی مقبولیت پھیر و چیچی کا سفر 443 *572.492.491.214.581.578.577.575 582 ملاقاتیں عبد الغفار خان اور ڈاکٹر خان 574،573،491 آپ اور نصرت البی 551.550.116.115 126 سے ملاقات 165 162 ایک پٹھان سے ملاقات گفتگو شملہ میٹنگ میں شمولیت 347 آپ پر قاتلانہ حملہ کی تفصیل حملہ میں حکومت کی آپ 168.167 آپ کا سفر پالم پور 572،571 آپ کی ایک کرنل سے اسفار کا جامع ذکر 227 تا 229 تحریکات ایک لیفٹیننٹ سے ملاقات 1.اسلامی ممالک اور پاکستان 173.172 پنڈت نہرو سے ملاقات 305t303 کوئٹہ میں فوجی افسر سے ملاقات 319.318 مولانا شوکت علی + محمد علی سے 346.345 کیلئے دعاؤں کی تحریکات 166162 175170 سے ہمدردی 2.جماعتی اخبارات ورسائل 551-541 کی اشاعت بڑھانے کی تحریک میں سب سے ہمدردی 176 تا 179 رکھتا ہوں 3- تعمیر مساجد کی تحریک آپ کی حضرت عمرؓ سے 219 تا 221 مشابہتیں 4.دوسروں کو پڑھانے کی میرے اکثر شعر کسی آیت یا 545 168 549 221 حدیث کا ترجمہ ہوتے ہیں 538 محمود اختر ، ڈاکٹر محمود الحسن مولانا دیوبندی ملاقات اسفار تحریک آپ کا لاہور سے قادیان سفر متفرقات آپ کا سفر کشمیر 570،162،.160.159.135.134 159 | آپ کے بیان فرمودہ واقعات 571 170 211،210،175، محمود واحد گیلانی 544 16.15 381

Page 650

30 محی الدین ابن عربی 21،20،10 58،55،53،48 تا60 ، ناصر احمد، حضرت مرزا، مر تضی احمد میکش 384،380 411.391.388.385 79.78.7365.63 100.99.97.94+89 375.371.103.102 خلیفہ ثالث 442،440،.544.453.446.445 مریم علیہا السلام، حضرت 183 مسعود احمد ، ڈاکٹر 544 مسیلمہ کذاب 12 تا380،14، مشتاق احمد دہلوی مظفر احمد مرزا مظفر خان ン 393 40 544 176 معاویه 471،167،166 21 381 407،392،383،376، ناصر احمد شیخ 415 569 191 ناصرہ بیگم صاحبزادی 241 مولانا مودودی سے مؤکد ناظم الدین خواجہ بعذ اب حلف کا مطالبہ 78 79 نپولین مودودی کے اتباع کی حکومت نجیب جنرل نہیں بنے گی 102 نذیر (احمدی جنرل) 392 225 407 172 ان کی جماعت کی بنیاد سیاسی نذیر احمد چودھری ایڈووکیٹ 406 366 انکا نظریہ یہ ہے کہ جس طرح نذیر احمد خان ایڈووکیٹ 391 ہو حکومت پر قبضہ کیا جائے 406 نذیر احمد خواجہ ایڈووکیٹ 408 392.391 نذیر حسین دہلوی مولوی معین الدین چشتی، حضرت ہے خواجه مغیرہ بن سعید الا جلی مغیرہ بن شعبہ ، حضرت 11،10 وہ الہام کے منکر ہیں مقوقس موسیٰ علیہ السلام، حضرت 10، ممتاز بیگم 567 236.234.57.19 410 354.295.250.237 41.38 نصرت جہاں، اماں جان 525 منور احمد، مرزا صاحبزاده 433، نظام الدین اولیاء 543.445.442-440 228 332 منیر احمد 373 مودودی، مولانا 8،6،5،3، میمونہ ، حضرت *20.16.14.11.10 30.29.2624.22 4643.41.38*34 475،472،385،380 نظام حیدر آباد 585 | نوح علیہ السلام، حضرت 354، 251 385.383 نور الدین حضرت مولانا خلیفہ اول 478،159،36، نادر شاه 326 548.526.498

Page 651

31 آپ کے بیان فرمودہ واقعات 530،422،300 | ولی اللہ شاہ آپ کا پگڑی اُتار نا 435 ویلز شہزادہ آپ کو علوم میں دسترس 474 و D 572.21 467 ہٹلر ی 288.225 بی علیہ السلام، حضرت 385 یعقوب، ڈاکٹر 544،509 آپ کی حضرت مسیح موعود ہاجرہ، حضرت.آپ کی دعا یوسف علیہ السلام، حضرت 385.273.272 183 یوسف نجار 131.130 509 67 حضرت ہاجرہ کی قربانی بعض سے محبت نور علی ملا نہرو پنڈت 169، 303 لحاظ سے ابراہیم سے زیادہ 130 نیرو(NERO) روم کا ہارون علیہ السلام، حضرت بادشاہ 408 472.10

Page 652

32 مقامات 150،117،86،83،82، انڈونیشیا میں ہماری 193 جماعت بڑی معزز ہے انگلستان 74،71،66،65، 178.161.156.151 83 <219.215.212.202 553.535 330.329.325.288 120.85.82.78.76 482.523.503.459.336.193.156.152.151 227.156 آرمینیا آسٹریلیا آکسفورڈ آگرہ.541.535.531.524 278-276-243.202.572.558.554.553 312.309.301.288 5800578 492.483.336.332 اٹلی 492،243،210، اُردن 150 تا152، 291 | انڈونیشیا 149،119،94، 581.578.553.553.535.528.524.523.503.325.194 580.579.578.567 580.531 581 410 اوکاڑہ اڑیسہ استھونیا اسلام آباد 574 یہ ملک مشرق میں مسلمانوں افریقہ 558،488،94،78 کی چھاؤنی ہے 153 ایران 175،153،148، افغانستان ،73،72،67،66، اس کی آبادی آٹھ کروڑ ہے 46 291 503.328.279.230 153 279.168.161 ابرق الور 12 انڈونیشیا کے لوگوں میں ایشیا 427 شرافت، قربانی، ایثار اور 161،156 وسعت حوصلہ دوسرے ملکوں الله آباد بٹالہ امرتسر 307،160،159،54، سے زیادہ ہے 153 154 برائٹن 562،528،525 انڈونیشیا میں پندرہ ہیں احمدی امریکہ 78،71،66،65، مارے گئے بغداد 154 | بلغاریہ 558.553.94 159.48 577 378 578

Page 653

33 443 558 304،286،209،194، پھیر و پیچی 349،347،325،318، پیرس 120 377.92.6 379.378.372*369.192.156.47 بلقان بلوچستان بمبئی.82080.75.74 149.87.85 405،391،390 تا407، ترکی 465.346.227.425.424.415.414.230.192.6.5 بنگال 580.578 503،483،456،448، ترکی کی شکست کی وجہ 94 پاکستان کی اقتصادی حالت تھائی لینڈ <448.429.277.231 528.475 بورنیو بوگر ( انڈونیشیا کا شہر) 119 | بہت خراب ہے 154 تھر میں 121.120 553 86.84 بہار 192،45 پاکستانی اپنے ملک کی مصنوعات بہاولپور 99،93،43،6،5، استعمال نہیں کرتے 157 212 پاکستان کی آبادی سات ٹرانسوال ج 276 بھدرک 46 کروڑ ہے بھرت پور 427 پالم پور 285 575 جاپان 448،288،209، بيلجيم 291 | پشاور 231،230،162، جا کرتا 581.558.553 119 جرمنی 225،119،83،78، 312.291.276.243 503.403.336.325 553.524 128 347.89.86.27.6.5.165.164.93.90 405.401.400.192 582.574.448.408 جرمنی میں روکوں کی پولینڈ 336،278،276، 579 وجہ سے مسجد نہ بنی پاکستان 64،5،4، 66،65، 93 91.89.71.70.68.155.153.132.103.97 166161.158.156.175.173.172.168

Page 654

34 <447.433.425.419 486 $507.497.479.463.192.156.95 جلال پور جٹاں 49 | دمشق 422 | دہلی 558.541.522 240.232 230.227 119 347،346،275،243، ربوہ کی زمین خریدنے اور 427 527،478،428، مکان کے بارہ میں ہدایات 142 143138 565.564 جموں جوگ جا کرتا جوہر آباد چ چار سده چنیوٹ چین 245.242 472.379 <325.285.279 دیوبند 15 ربوہ کو شاندار شہر میں تبدیل کرنے کا تہیہ 379 580،558،553 | ڈلہوزی 48 | روس 102،74،71،67، ڈنمارک 291 ز جبشه 282.281 حجاز 88،85،84،77،75 ذوالقصه 12 حجر 13 روم آج تک جو یورپین قانون.162.153.150*148 <291.288.278.276 578.457.330.329 408.166 حديدية 255،247 | راجپوتانہ 442 49 حیدر آباد 192، 231،227، رام پور خ خیر پور 291،275 | راولپنڈی 411،410،99، 564.439 بن رہا ہے وہ رومن لاء پر بنتا ہے روم میں انتخاب کا طریقہ 183 خلافت سے بہت ملتا ہے 184 ربوه 131،125،115،44 جو گور نمنٹیں دوسرے 6 دکن.146.142.137.134.366.225.204.197 230 416.379377.367 ملکوں میں حاکر حکومتیں کرتی ہیں رومن طریق کو اختیار کرتی ہیں 184

Page 655

رومی حکومت ایک منظم سیلون حکومت تھی 183 35 <262.258.247 245 554 328.327.274272 ڈیماکریسی رومن طریقے شام 88،87،83،75،74، 500.389.337 پر ہے 184 علیگڑھ 492،348،347 آج تک دنیا رومن لاء کی اتباع کرتی ہے 185 رومانیہ 579 شاہ آباد.152.151.149.94 503.291 49 علیگڑھ کالج کی روایات 482 غ روہڑی 164 شاہدرہ 410 غانا (گولڈ کوسٹ) 503 ریاض 74 شریف پوره 563 ف شملہ 347،97،95،84،77 فرانس 88،87،83،82، زیکو سلواکیا 276 خوپوره شیموگہ سالونیکا 120 483.192 278.243.192.148 48.524.336.291.279 553 336.94 13 فلپائن سپین 579،577،553،336 | صنعا سرحد 428.144.6 سرگودھا ،212 530،213 عراق سمرنا 86.83 سندھ 214،212،49،6،.88.83.75.74.162.152.151.291 175 فلسطين 87،83،75،74، 291.175.151.149 فلسطین کا جھگڑ اسویز کے جھگڑے سے زیادہ خطر ناک 582،371،216 عراق کی مالی حالت انگریزوں ہے سوئٹزرلینڈ 553 کے ساتھ استوار ہے سیالکوٹ 192،134،43، | عرب 153.77.76.74.12 فن لینڈ 150 2780276 ق 564.449.425.410 88،87، 238 ، 240 ، قادیان 126،62،61،44،

Page 656

425 553 لاہور کے خدام نے نہایت اعلیٰ کام کیا ہے 36 140،137،132،131، کینیڈا 303 199.192.159 ‹426.422.378.305.554.524.448.443 555 لجرات گوجرانوالہ قادیان پر ہندوؤں کے مظالم گوجرہ قاہرہ قلات 306.305 150.20 377 گورداسپور ل لبنان 291،151،83،75،74 49.192.144 454.410 405 298 الٹویا لدھیانہ 291 53 لنڈن 243،242،128، 558.512.491.331 153.152.149 291 ليبيا لیتھونیا لائل پور 212،189،99، 213 47.45 214.192.77.13.12 253.240237.150 265.262257.255 410.407.405.376 456 ماریشس مالا بار لاہور 118،54،42،39، مدراس مدینہ منورہ 374.67 47 46.45 کابل کالی کٹ کٹک 173.159.151.140 کراچی 193،52،20،6،4، 230.227.197.192 <429.425.392.197 307.303-298.296 565.563.547 400.399.378.376.162.98.71.70 317.306.282.269 408.404.403.401 173169.164.163 468.337.335.327 554.553.500 <429.422.415.410 573.319.318.175.456.450.449.447 156.92 153148.94.88525.509.477.470 45 237.234.200.175.558.554.547.544 554.503.407.378 564 585.385.237 376.318 کلکتہ کنانور کنعان

Page 657

308 من 327،273،13،12 یمن کے گورنر کا قبولِ اسلام 37 D بکہ 77،75،74،56،36، وزیر آباد 181.130.88 +86 329.328 428.427.192 240.238 236.234 ہالینڈ 291،219،129، یوپی 252.250.248 245 یورپ 117،94،84،83، 553.522.521 61.36.268.264 259.256t 215.204 203.186 ہر دوار ہندوستان (بھارت) 37،27 <274.272.271.269 346.335.243.216 292.281.280.275 76.74.71.70.68.62.459.457.433.420 585.500.324-320 96.94.92.91.89.80.491.484.467.465 119.155.148.117.99.553.531.524.523 ملایا ملتان 425،410،230، 230.170.161.156 573.572.566.554 564.449 <291.285.279.278 578.576.575 428 326.325.318.304 اہل یورپ خطر ناک وقت میں بھی نظام نہیں بگڑنے دیتے 513.512 یورپ میں سر ننگار کھنے کا 375 378.372.371.347 48 ملکانه منگری میسور 580.465.450.414 ی روشلم 289 رواج ہے 434.433 یرو مسلم کے عیسائیوں یورپ انفرادی لحاظ سے پر اسلامی حکومت کا اثر انصاف میں بڑھا ہوا ہے 301 | بیامه 289.288 13.12 یونان ،579،326،84،83 535 558 نیوزی لینڈ نیویارک 225 558 واٹرلو واشنگٹن

Page 658

38 کتابیات القول الفصل 387 | تورات 382.149 آئینہ صداقت 367 المصلح 188،181،177 تیج ( ایک ہندو اخبار ) 414 آزاد، (اخبار) 98 انجیل 192،191،93،92، آفاق اربعین 391 ج 468 جامع الشواهد حدیقه شهداء 382 | انسائیکلو پیڈیا برٹینکا 472،83 استنکاف المسلمين 54 انوار خلافت 387.370 اسلام میں اختلافات کا آغاز اہل حدیث 46،45 حسام الحرمین 470 حقیقة الوحی 34 32 42.40 380.370 536،193 بائبل 189، 472،195 حیات بقاپوری ، یہ اچھی 177 دلچسپ کتاب ہے اسلامی اصول کی فلاسفی اسلامی اصول کی فلاسفی کے بدر امریکہ میں اشاعت کے گہرے بحر الرائق اثرات 178 | بخاری 535.534 42 394 خ اعتصام السنة 34 | براہین احمدیہ 382 | خالد 177 الصلح خير الفتح 54 200 الفضل ،177،73،72،67،66ء تاریخ ابن خلدون 12 در منشور 10 تبلیغ رسالت 373 371.369.366 385.379.377-375 522.412.391.388 تحفہ گولڑویہ 66 369 دعوۃ الامیر ، اس کے اثرات 244 4 دیباچہ تفسیر القرآن 536،194 ترجمان القرآن تسنیم (اخبار) ڈ 4 القول الصحيح في مكائد المسيح 54 تشحیذ الاذہان 376،367 ڈان (اخبار) | 197.181

Page 659

39 ڈچ ترجمہ قرآن 190 ص محاسن کلام محمود ڈیلی نیوز (اخبار) 120 صاعقه ربانی بر فتنہ قادیانی 54 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق ز ذکر الہی 388 | طبری ع رساله حج 36 عرفان الہی رسالہ معیار شناخت انبیاء 536 ف روح المعانی 14 فتح البيان ( تفسير ) ریویو آف ریلیجنز 177، فتح القدير (تغير) 537 اسلامی نظریہ 537،536 471،13 مسلم (حدیث) 537،179 فتاوی عالمگیریہ فتوی در باب تکفیر ریویو آف ریلیجنز 374 15 15 32 مسلمان عورت کی بلندشان مشكلوة مصباح مفردات راغب ملت 394 537 368 177 367 197 فتوی شرعیه اشاعت دس ہزار ہو 178 مرزا غلام احمد قادیانی 43 مودودیت اور مرزائیت 30 حضور کی خواہش کہ اس کی 54 مہر صداقت 54 فرقان 177 ن ز ق زمیندار (اخبار) 197،49 نبیوں کا سردار 536 قادیانی مسئلہ 102،100،3 س نمک حراموں کے کارنامے 98 قادیانی مسئلہ کا جواب 537 سود (مولانا مودودی کی کتاب) نوائے وقت 198.197 68 کوثر (اخبار) 5.4 سول اینڈ ملٹری گزٹ 391،197 واقعات بھد روا شاہی جاگیر 54 سیرت حلبیہ 306 لاہور (اخبار) 197 DO سیر روحانی 537،536،226 سيف الرحمن على مجموعه کفریات مرزا غلام احمد رأس الشيطان 54 قادیانی 53.43 ہلال 47

Page 660

40 کتب انگریزی کنته (1) CHARACTERISTICS OF QURANIC TEACHINGS (2) EXISTANCE OF GOD (3) ISLAM VERSUS COMMUNISM (4) JESUS IN QURAN 191 191 191 191 (5) MUHAMMAD THE LIBRATOR OF WOMAN 191 (6) MESSAGE OF AHMADIYYAT 190 (7) THE SILLNESS PROPHET 191 (8) WHY I BELIEVE IN ISLAM 191

Page 660