Language: UR
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>
انوار العلوم سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد مصلح الموجود خلیفة المسیح الثانی 23
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمُ پیشگوئی مصلح موعود اُس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا.وہ کلمہ الہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائیگا.اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا اسکے معنی سمجھ میں نہیں آتے ، دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه- فرزند دلبند گرامی ارجمند مَظْهَرُ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ مَظْهَرُ الْحَقِّ والعلاء كمان الله نزل من السماء جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الهی کے ظہور کا موجب ہوگا.نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے مسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد صید بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا.وَكَانَ اَمْرًا مَقْضِيَّا داشتهار ۲۰ فروری شاه
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيْمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے ادارہ سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود کی حقائق و معارف سے پر سلسلہ تصانیف الموسوم ”انوار العلوم“ کی تئیسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللهِ الْعَزِيزِ انوار العلوم“ کی تئیسویں جلد حضرت مصلح موعود کی 15 اپریل 1952ء تا نومبر الشان 1953ء کی 22 مختلف تقاریر و تحریرات پر مشتمل ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پسر موعود کی عظیم ! پیشگوئی سے نوازا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مہتم بالشان پیش خبری کو اپنے ایک اشتہار 120 فروری 1886ء میں شائع فرمایا.اس پیشگوئی میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ایک پسر عطا ہونے کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی.اس موعود بیٹے کی علامات میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا، علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا، كلامُ اللہ کا مر تبہ اُس کے ذریعہ ظاہر ہو گا اور قومیں اُس سے برکت پائیں گی.پسر موعود و مصلح موعود کے بارہ میں پیشگوئی اور اُس میں بیان فرمودہ غیر معمولی علامات کا شاندار ظہور حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی کے بابرکت وجود میں ہوا جو صرف 25 سال کی عمر میں حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے.حضرت مصلح موعود تمام عمر علوم ظاہری و باطنی، اپنی ذہانت و فطانت اور اپنی خداداد
صلاحیتوں اور استعدادوں سے نہ صرف احباب جماعت کو مستفیض کرتے رہے بلکہ آپ کی قائدانہ صلاحیتوں اور فکری استعدادوں سے دوسروں نے بھی فائدہ اُٹھایا اور قومیں آپ سے برکت پاتی رہیں.قرآن کریم کے گہرے علوم و معارف آپ کو عطا کئے گئے.آپ نے ساری عمر خدمتِ قرآن میں صرف کر کے کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا اور یہ مر تبہ اس شان سے ظاہر ہوا کہ جماعت کے شدید معاند بھی آپ کے علم قرآن کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور اُنہوں نے بر ملا کہا کہ تم مرزا محمود کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے پاس قرآن ہے.انوار العلوم کی تئیسویں جلد میں شامل تقاریر و تحریرات جو کہ احباب جماعت کی بروقت راہنمائی اور تربیت کے لئے ارشاد فرمودہ اور تحریر کردہ ہیں یہ مواد ہمارے لئے مشعل راہ اور تاریخ احمدیت کا ایک قیمتی سرمایہ ہے.حضرت مصلح موعود کے قیمتی فرمودات میں مختلف مواقع کے خطابات بھی شامل ہیں.اس عرصہ میں خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے 1952ء اور 1953ء کے دو اجتماعات کا انعقاد ہوا.ان مواقع پر حضرت مصلح موعود نے خدام کو قیمتی نصائح اور ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی.یہ خطابات اس جلد میں شامل اشاعت ہیں.جلسہ سالانہ 1952ء کے موقع پر آپ نے افتتاحی، دوسرے روز اور تیسرے روز بھی خطابات ارشاد فرمائے.اختتامی خطاب کا معرکۃ الآراء موضوع ” تعلق باللہ“ تھا یہ بھی جلد ھذا کی زینت ہے.اس دور میں مختلف جماعتی دفاتر کے افتتاح ہوئے جن میں دفاتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ ، دفاتر صدر انجمن اور دفاتر تحریک جدید شامل ہیں.ان تاریخی مواقع پر حضور نے قیمتی خطاب فرمائے اور یہ غلط فہمی بھی دور کی جو بعض ذہنوں میں تھی کہ ربوہ دارالہجرت میں مستقل تعمیرات نہیں کرنی چاہئیں.1952ء کے رمضان میں اختتامی دعا میں آپ تشریف لائے تو غیر معمولی حاضری دیکھ کر آپ نے فرمایا کہ محض رسمی دعا میں شامل ہونا مقصد نہیں اصل مقصد تو درس القرآن میں مہینہ بھر حاضر ہونا اور اس سے مستفیض ہونا ہے.
1953ء میں جماعت کے خلاف شورش بپا کی گئی اور جماعتی اموال و نفوس کو نقصان پہنچانے کی سازش کی گئی.ان فسادات کے لئے حکومت نے ایک تحقیقاتی عدالت کا کمیشن قائم کیا جو کہ جسٹس منیر اور جسٹس کیانی پر مشتمل تھا.اس کمیشن نے وحی و نبوت کے حوالے سے دس سوالات کے جوابات طلب کیے.ان سوالات کے جوابات حضرت مصلح موعود نے بڑی شرح وبسط کے ساتھ دیے جو “ مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ” کے نام سے شائع بھی ہوئے.یہ قیمتی علمی خزانہ بھی اس کتاب کی زینت ہے.اسی طرح صدر انجمن سے عدالتی کمیشن نے سات سوالات مسلمان اور کافر کی تعریف اور حیثیت کے حوالہ سے بھجوائے انکا جواب بھی حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمایا یہ بھی اس جلد کا حصہ ہے.وو حضرت مصلح موعود 1953ء میں دورہ کراچی پر تشریف لے گئے.قیام کراچی کے دوران مختلف تقاریب سے حضور نے خطابات فرمائے یہ خطابات بھی جلد ھذا کی زینت ہیں.جلد ھذا میں شامل تقاریر و تحریرات حضرت مصلح موعود کی ولولہ انگیز قیادت اور آپ کے تجر علمی کی آئینہ دار ہیں.ان تحریرات کے مطالعہ سے جہاں ایمان ترقی کرتا ہے اور علم و معرفت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس کے مطالعہ سے تاریخ احمدیت اور تاریخ اقوام عالم سے بھی آگاہی ملتی ہے.یہ پر شوکت تقاریر اور ولولہ انگیز خطابات یقیناً احباب جماعت کے ازدیاد علم اور ازدیاد ایمان کا موجب ہوں گے.انشَاءَ اللهُ اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسب سابق بہت سے بزرگان اور مربیان سلسلہ نے اس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے.مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ، حوالہ جات کی تلاش و ترتیب، مسودات کی نظر ثانی، اعراب کی درستگی، RECHECKING اور متعدد متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.تعارف کتب مکرم حنیف احمد محمود صاحب نائب ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ کا تحریر کردہ ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاءِ
خاکسار ان سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے.نیز دُعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ فضلوں ان سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے، اپنی بے انتہاء رحمتوں اور سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
انوار العلوم جلد 23 1 خدام کو نصائح از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی خدام کو نصائح
انوار العلوم جلد 23 3 خدام کو نصائح بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدام کو نصائح (فرمودہ 5 اپریل 1952ء بر موقع افتتاح دفاتر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- جس وقت یہ زمین خریدی گئی تھی اس وقت میں نے تحریک جدید اور صد را مجمن احمدیہ سے جو اس زمین کے خریدار تھے یہ خواہش کی تھی کہ وہ انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لئے بھی ایک ایک ٹکڑا وقف کریں.چنانچہ بارہ بارہ کنال زمین دونوں کے لئے وقف کی گئی.بارہ کنال زمین کے یہ معنے ہیں کہ 65 ہزار مربع فٹ کا رقبہ ان کے پاس ہے اگر اسے صحیح طور پر استعمال کیا جائے تو یہ بہت بڑے کام آسکتا ہے.مثلاً اس کے ارد گرد چار دیواری بنالی جائے تو آئندہ سالانہ اجتماع بجائے اس کے کہ کسی اور میدان میں کیا جائے بڑی عمدگی کے ساتھ اس جگہ ہو سکتا ہے.65 ہزار مربع فٹ زمین میں سے اگر عمارتوں اور سڑکوں کو نکال لیا جائے مثلاً عمارتوں اور سڑکوں کے لئے 25 ہزار مربع فٹ زمین نکال لی جائے تو چالیس ہزار مربع فٹ زمین باقی بچتی ہے اور دس دس فٹ زمین ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے بلکہ 15، 15 فٹ زمین بھی ایک آدمی کے لئے رکھ لی جائے تو چالیس ہزار فٹ زمین میں اڑھائی تین ہزار آدمی سو سکتا ہے اور اتنے نمائندے ہی اجتماع میں ہوتے ہیں.پھر اگر زیادہ نمائندے آجائیں تو سٹرکوں وغیرہ کے لئے زمین کو محدود کیا جاسکتا ہے.پھر پاس ہی انصار اللہ کا دفتر ہو گا.اگر دونوں مجالس کے سالانہ اجتماع ایک ہی وقت میں نہ ہوں تو 24 کنال زمین استعمال میں لائی جاسکتی ہے.انہیں ضرورت ہو تو تم اپنی جگہ انہیں دے دو اور تمہیں ضرورت ہو تو وہ اپنی جگہ تمہیں
انوار العلوم جلد 23 4 خدام کو نصائح دے دیں اس طرح مقامی جگہ کی عظمت قائم ہو سکتی ہے.پس میرے نزدیک آپ لوگوں کو کوشش کرنی چاہئے کہ کسی نہ کسی قسم کی چار دیواری اس زمین کے ارد گرد ہو جائے.خواہ وہ چار دیواری لکڑیوں کی ہی کیوں نہ ہو.بارہ کنال کی چار دیواری پر اڑھائی تین ہزار روپیہ خرچ آئے گا بلکہ اس سے بھی کم اخراجات میں چار دیواری بن جائے گی.اس موقع پر محترم صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ نے عرض کیا کہ پتھروں کی چار دیواری بارہ سو روپیہ میں بن جاتی ہے.اس پر حضور نے فرمایا:- ”میرے مکان کی چار دیواری کو لیا جائے تو یہ اندازہ بہت کم ہے.اتنی رقم میں چار دیواری نہیں بن سکتی“.صاحبزادہ صاحب نے عرض کیا کہ حضور اس رقم میں صرف چار فٹ اونچی چار دیواری بنے گی.حضور نے فرمایا:- ”ہاں اگر چار فٹ اونچی چار دیواری بنائی جائے تو اتنی رقم میں کام ہو سکتا ہے لیکن چار فٹ اونچی چار دیواری سے پردہ نہیں ہوتا.بہر حال اگر چار دیواری بن جائے تو مرکز کا اثر بیرونی مجالس پر بڑھ جائے گا.عورتوں کے متعلق مجھے تجربہ ہے کہ جب وہ کوئی بنی ہوئی چیز دیکھتی ہیں تو پہلے سے بڑھ کر روپیہ خرچ کرتی ہیں اور نوجوانوں میں تو یہ سپرٹ (Spirit) زیادہ ہونی چاہئے.جب سالانہ اجتماع ہو گا.خدام باہر سے آئیں گے اور چار دیواری بنی ہوئی دیکھیں گے تو وہ سمجھیں گے کہ ان کا روپیہ نظر آنے والی صورت میں لگ رہا ہے اور ان کا جوش بڑھ جائے گا.دفاتر میں جو روپیہ لگتا ہے وہ انہیں نظر نہیں آتا.اگر تم کہو کہ دفتر میں کاغذ ، سیاہی، قلم، پنسل اور کارکنوں کی تنخواہوں پر روپیہ صرف ہوتا ہے تو چونکہ یہ خرچ انہیں نظر نہیں آتا وہ یہی سمجھتے ہیں کہ ان کا روپیہ صحیح طور پر خرچ نہیں کیا جاتا.تاریخ پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو روپیہ تنظیم پر خرچ ہوتا ہے وہ نظروں سے پوشیدہ ہوتا ہے اس لئے قوم کی طرف سے جب بھی کوئی اعتراض ہوتا ہے
انوار العلوم جلد 23 5 خدام کو نصائح تو وہ تنظیم سے متعلقہ اخراجات پر ہی ہوتا ہے اور کسی چیز پر نہیں.مثلاً وہ کہیں گے تعلیم پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے.ہسپتالوں پر کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے.غریبوں کی امداد کے لئے کس قدر روپیہ خرچ ہوا ہے، غرباء کے وظائف پر کس قدر رقم خرچ ہوئی ہے اور اگر انہیں یہ بتایا جائے کہ کام کو چلانے کے لئے اتنے سیکر ٹریوں کی ضرورت ہے، پھر دفتری اخراجات کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے، سفر خرچ کے لئے روپیہ کی ضرورت ہے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ ضائع ہو گیا.اگر چہ ایسا اعتراض کرنا حماقت ہوتا ہے کیونکہ سب سے اہم چیز مرکزیت ہوتی ہے لیکن واقعہ یہی ہے کہ ہمیشہ ان اخراجات پر اعتراض کیا جاتا ہے.تم انگلستان کی تاریخ کو لے لو، امریکہ کی تاریخ کو لے لو، فرانس کی تاریخ کو لے لو، جرمنی کی تاریخ کو لے لو، جاپان کی تاریخ کو لے لو، روس کی تاریخ کو لے لو جب کبھی بھی میزانیہ پر اعتراض ہوا ہے تو اس کے اسی حصہ پر ہوا ہے جو تنظیم کے لئے خرچ ہوا ہے کیونکہ یہ اخراجات نظر نہیں آتے.پس نظر آنے والا خرچ لوگوں میں مزید چندہ دینے کی تحریک پیدا کرتا ہے.اگر تم اس جگہ کو زیادہ سے زیادہ اعلیٰ بناتے جاؤ گے تو خدام میں چندہ کی تحریک ہوتی رہے گی مثلاً میدان کو چھوڑ کر دیواروں کے ساتھ ساتھ بھول لگائے جائیں.چونکہ اس جگہ پر تمہیں سالانہ اجتماع بھی کرنا ہو گا اس لئے تم چمن تو بنا نہیں سکتے لیکن دیواروں کے ساتھ ساتھ پھول لگائے جاسکتے ہیں.اس طرح نظارہ اور زیادہ خوبصورت بن جائے گا.پھر بیچ میں چند فٹ کی سڑک رکھ کر اس کے ارد گرد بھی پھول لگائے جاسکتے ہیں.جب خدام آئیں گے اور اس جگہ کو دیکھیں گے تو وہ کہیں گے ہمارا روپیہ صحیح طور پر استعمال ہوا ہے.اس کے بعد میں آپ لوگوں کے لئے دُعا کروں گا.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تمہیں جلد مرکز بنانے کی توفیق دے دی ہے.مجھے افسوس ہے کہ انصار اللہ نے ابھی مرکز بنانے کی کوشش نہیں کی.دُنیا میں تو یہ سمجھا جاتا ہے کہ بوڑھے تجربہ کار ہوتے ہیں لیکن ہماری جماعت یہ سمجھتی ہے کہ بڑھے بیکار ہوتے ہیں اور بیکار کا کوئی کام نہیں اس لئے انصار اللہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ کوئی کام نہیں کرتے تو وہ اپنے عہدے کے
انوار العلوم جلد 23 6 خدام کو نصائح مطابق کام کرتے ہیں.قادیان میں بھی انصار اللہ نے زیادہ کام نہیں کیا اور اب یہاں بھی انصار اللہ کام نہیں کرتے.شاید یہ چیز ہو کہ صدر انجمن احمدیہ کے بڑے بڑے افسر اس مجلس کے عہدیدار ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں صدر انجمن احمدیہ کے کاموں سے فرصت نہیں.بہر حال انصار اللہ کو بھی چاہیے تھا کہ وہ اپنا مر کز بناتے لیکن اُنہوں نے ابھی اس طرف توجہ نہیں کی.یہ غلط خیال ہے کہ چونکہ قادیان واپس ملنا ہے اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.ایک صاحب یہاں ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی ہیں ان سے جب بھی کوئی بات پوچھی جائے وہ یہی کہتے ہیں کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اس لئے یہاں مکان بنانے کی کیا ضرورت ہے.انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ قادیان کے لئے جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں لیکن کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ واپس گئے ؟ ہم تو یہ امید رکھتے ہیں کہ ہم قادیان واپس جائیں گے اور وہی ہمارا مر کز ہو گا لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ چلے گئے تو مکہ میں واپس نہیں آئے حالانکہ مکہ فتح ہو گیا تھا.آپ نے مدینہ کو چھوڑا نہیں.پھر بعد میں مدینہ ہی حکومت کا مرکز بنا اور وہیں سے اسلام ارد گرد پھیلنے لگا.مکہ صرف حج کے لئے رہ گیا مکہ صرف اعتکاف کی جگہ بن گئی یا جو لوگ اپنی زندگیاں وقف کر کے مکہ چلے جاتے تھے ان کی جگہ رہی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہی رہے اور وہیں آپ فوت ہوئے.خدا تعالیٰ کیا کرے گا؟ آیا اس کے نزدیک ہمارا یہاں رہنا بہتر ہے یا قادیان واپس جانا بہتر ہے ہمیں اس کا علم نہیں.پس یہ حماقت کی بات ہے کہ محض ان پیشگوئیوں کی وجہ سے جو کسی جگہ کے تقدس پر دلالت کرتی ہیں جبکہ ان پیشگوئیوں سے زیادہ پیشگوئیاں دوسری جگہ کے متعلق موجود تھیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں کسی اور شکل میں پورا کیا تھا.ہم یہ خیال کرلیں کہ ہمیں کسی اور جگہ کی ضرورت نہیں.اگر بڑی جگہ کے لئے جو پیشگوئیاں تھیں وہ ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو چھوٹی جگہ کے لئے یہ کیوں ضروری خیال کر لیا گیا ہے کہ اس کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں ہی پوری ہوں گی.
انوار العلوم جلد 23 7 خدام کو نصائح قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ وہی آیات ہیں جو مکہ کے متعلق نازل ہوئی تھیں.وہ آیات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دوبارہ نازل ہوئی ہیں اور جب وہ پیشگوئیاں مکہ کے لئے بھی ظاہری رنگ میں پوری نہیں ہوئیں تو ہم کیا لگتے ہیں کہ یہ کہیں کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس مکہ تشریف نہیں لے گئے بلکہ مدینہ میں ہی مرکز بنا کر کام کرتے رہے.صرف آپ حج کے لئے مکہ تشریف لے جاتے تھے اور حج کر کے واپس تشریف لے آتے تھے.پھر حضرت ابو بکر واپس مکہ نہیں گئے.حضرت عمر واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت عثمان واپس مکہ نہیں گئے ، حضرت علی واپس مکہ نہیں گئے.یہ سب حج کے لئے مکہ جاتے تھے اور واپس آجاتے تھے.حکومت کا مر کز مدینہ ہی رہا اور یہیں سے اسلام ارد گرد کے علاقوں میں پھیلا.پس جب پیشگوئیوں سے کسی جگہ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے تو یہ سمجھ لینا کہ یہ پیشگوئیاں ضرور ظاہری رنگ میں پوری ہوں گی حماقت ہے.چاہے بعد میں وہ پیشگوئیاں ظاہری رنگ میں ہی پوری ہو جائیں لیکن مومن کا یہ کام ہے کہ جس چیز میں خدا تعالیٰ نے اُسے اب رکھا ہے اُسی میں وہ راضی رہے.خدا تعالیٰ کا معاملہ جو ہمارے ساتھ ہے وہ کتنا عجیب ہے.ایک چور سیندھ لگاتا ہے اور پھر توبہ کر لیتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے.حالانکہ وہ جانتا ہے کہ وہ دوسرے دن پھر سیندھ لگائے گا.پھر وہ دوسرے دن سیندھ لگاتا ہے پھر تو بہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول کر لیتا ہے.حالانکہ وہ جانتا ہے وہ پھر سیندھ لگائے گا.پس خداتعالی باوجود اس کے کہ وہ علم غیب رکھتا ہے ہمارے ساتھ رحم کا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم لوگ باوجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ کے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ بھی ہمارے ساتھ مستقبل والا معاملہ کرے تو چونکہ اُسے علم ہے کہ مجرم دوبارہ مجرم کرے گا اسے علم غیب حاصل ہے اس لئے کسی کی توبہ قبول نہ ہو.اس طرح ہزاروں لوگ مارے جائیں گے.ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ گناہ کرتے ہیں تو پھر بعض اوقات بڑی سٹر گل (STRUGGLE) کے بعد اس گناہ سے نجات حاصل کرتے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 8 خدام کو نصائح اگر خدا تعالیٰ تو بہ قبول کرنے سے انکار کر دے تو کوئی شخص گناہ سے نجات حاصل نہ کرے.تو بہ ضمیر کو روشن کرتی ہے اور انسان کو گناہ سے روکتی ہے.باوجو د اس کے کہ خداتعالی دیکھ رہا ہوتا ہے کہ اس شخص نے تو بہ توڑ دینی ہے، باوجو د اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ یہ پھر فساد کرے گا، لڑائی کرے گا، گالیاں دے گا اور جھوٹ بولے گا وہ اس کی توبہ کو قبول کر لیتا ہے گویا خدا تعالیٰ باوجود علم غیب رکھنے اور جاننے کے کہ مجرم دوبارہ مجرم کرے گا وہ اس سے حاضر والا معاملہ کرتا ہے لیکن ہم باوجود علم غیب نہ ہونے کے خدا تعالیٰ سے مستقبل والا معاملہ کرتے ہیں.اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہو گی.ہمیں خدا تعالیٰ سے حاضر والا معاملہ کرنا چاہیے.اگر خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم جنگلوں میں رہیں تو ہمیں جنگلوں میں رہنا چاہیے اور اپنا کام کرتے چلے جانا چاہیے.ہم چوہوں اور چیونٹیوں کو باہر پھینک دیتے ہیں تو وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتے ہیں.شہد کی مکھیوں کو دیکھ لو انسان ان کا تیار کیا ہوا شہد حاصل کر لیتا ہے اور انہیں دور پھینک دیتا ہے لیکن وہ وہیں اپنا کام شروع کر دیتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے کام میں کامیاب رہتی ہیں.اگر وہ اس بات کا انتظار کرتی رہیں کہ انہیں پہلی جگہ ملے تو کام کریں تو ہزاروں چھتے مر جائیں.اسی طرح اگر تمہیں اپنا گھر نہیں ملتا تو جس گھر میں خدا تعالیٰ نے تمہیں رکھا ہے تمہیں اسی میں فوراً کام شروع کر دینا چاہئے.خدا تعالیٰ تمہیں واپس لے جائے تو وہاں جاکر کام شروع کر دو لیکن کسی منٹ میں بھی اپنے کام کو پیچھے نہ ڈالو.مومن ہر وقت کام میں لگارہتا ہے یہاں تک کہ اُسے موت آجاتی ہے.گویا مومن کے لئے کام ختم کرنے کا وقت موت ہے.آپ نے بہت اچھا کام کیا ہے کہ اپنا مرکز تعمیر کر لیا اور خدا کرے کہ انصار اللہ کو بھی اس طرف توجہ پیدا ہو اور وہ اس حماقت کو چھوڑ دیں کہ قادیان واپس جانے کے متعلق بہت سی پیشگوئیاں ہیں اس لئے قادیان ہمیں ضرور واپس ملے گی اور چونکہ قادیان ہمیں واپس ملے گی اس لئے ہمیں یہاں کوئی جگہ بنانے کی ضرورت نہیں.انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ قادیان کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں وہ مکہ کے متعلق جو پیشگوئیاں تھیں ان سے زیادہ نہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئیاں ظاہری معنوں کے لحاظ سے پوری نہیں ہوئیں
انوار العلوم جلد 23 9 خدام کو نصائح اس لئے ہمیں بھی پتہ نہیں کہ آئندہ ہمارے ساتھ کیا ہو گا.مکہ کے متعلق بھی بہت پیشگوئیاں موجود تھیں بلکہ ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے آپ کو مبعوث کیا گیا تھا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فتح کے بعد بھی مدینہ میں ہی رہے مکہ واپس نہیں گئے.قادیان مکہ سے بڑھ کر نہیں.جو لوگ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں اگر چہ ہم بھی اُمید رکھتے ہیں کہ قادیان ہمیں واپس ملے گا اور ایک مومن کو یہی امید رکھنی چاہئے کہ ہمیں واپس ملے گا اور وہیں ہمارا مر کز ہو گا لیکن انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ عملاً ہمارا مرکز وہی ہو گا جہاں ہمیں خدا تعالیٰ رکھنا چاہتا ہے.پس ہمیں اس نکتہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے کاموں کو وسیع کرنا چاہیئے اور اس بات کو نظر انداز کر کے کہ ہم نے قادیان واپس جانا ہے اپنا کام کرتے چلے جانا چاہئے.بلکہ میں تو کہوں گا کہ اگر ہمیں تار بھی آجائے کہ آؤ اور قادیان میں بس جاؤ تو بھی تمہیں شام تک کام کرتے چلے جانا چاہئے تا یہ پتہ لگے کہ ہمیں کام سے غرض ہے.ہمیں قادیان سے کوئی غرض نہیں، ہمیں ربوہ سے کوئی غرض نہیں.اگر ہمیں خدا تعالیٰ لے جائے ہم وہاں چلے جائیں گے ورنہ نہیں.ہم خدا تعالیٰ کے نوکر ہیں کسی جگہ کے نوکر نہیں.اگر ہم کسی جگہ سے محبت کرتے ہیں تو صرف اس لئے کہ خد اتعالیٰ نے اُسے عزت دی ہے.پس مومن کو اپنے کاموں میں شست نہیں ہونا چاہئے.پھر نوجوانوں کی عمر تو کام کی عمر ہے انہیں اپنے کاموں میں بہت چست رہنا چاہئے “.الفضل ربوہ.فضل عمر نمبر 1966ء)
انوار العلوم جلد 23 11 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 13 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں ( فرمودہ 23 جون 1952ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آپ لوگ جو اس وقت یہاں دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں تو کسی ایسی دُعا کے لئے جمع نہیں ہوئے جس کا ثبوت قرآن کریم سے ملتا ہو یا سنت سے ملتا ہو یا احادیث سے ملتا ہو بلکہ ایک ایسی دُعا کے لئے جمع ہوئے ہیں جو ہم میں صرف رسماً پیدا ہو گئی ہے یعنی قرآن کریم کے درس کے اختتام پر کی جانے والی دُعا.جس دُعا کا ہمیں قرآن کریم اور احادیث سے پتہ لگتا ہے وہ دُعا وہ ہے جو تہجد کے وقت کی جاتی ہے یا ایک روزہ دار سحری کھانے سے پہلے کرتا ہے.ہماری یہ دُعا بالکل ایسی ہی ہے جیسے پرانے مسلمانوں کی رسم تراویح تھی اُنہوں نے تراویح کو اختیار کر لیا اور تہجد کو چھوڑ دیا.تم نے بھی رمضان کے ایک دن جمع ہو کر دُعا کرنا اختیار کر لیا اور رمضان کی تیس دنوں کی دُعا کو چھوڑ دیا.گویا اُنہوں نے بھی جادو اور ٹونے کا راستہ نکال لیا اور تم بھی جادو اور ٹونہ کا رستہ نکال رہے ہو.اگر یہ دُعا زائد ہوتی تو پھر یہ ایک عمدہ چیز تھی جیسے فرض خدا تعالیٰ نے مقرر کئے ہیں، سنتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ملالیں، نفل ہر انسان جتنا دل چاہتا ہے پڑھ لیتا ہے.جب سنتیں فرض کے ساتھ ادا ہوتی ہیں تو وہ نیکی کو زیادہ کرتی ہیں.جب نفل سُنتوں کے ساتھ ادا کئے جاتے ہیں تو نیکی کو زیادہ کرتے ہیں لیکن فرض کو چھوڑ کر سُنتیں ادا کرنا یا سنتوں کو چھوڑ کر نفل ادا کرنا انسان کو گنہگار بناتا ہے.اس وقت جتنے لوگ یہاں جمع ہیں اگر اتنے ہی لوگ ہر روز درس کے لئے آیا کرتے تھے تو ان کا آج کا آنا ان کے
انوار العلوم جلد 23 14 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القر آن میں شامل ہوا کریں ثواب کو بڑھانے والا ہے لیکن اگر آج کا اجتماع روزانہ کے اجتماع کو جھوٹا ثابت کرتا ہے.اگر جتنے لوگ اب جمع ہوئے ہیں ان کا بیسواں حصہ بھی روزانہ درس میں جمع نہیں ہوتے تھے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ تم نے بھی ایک رسم کو اختیار کر لیا ہے جیسے دوسرے لوگوں نے تراویح کو تہجد کا قائمقام بنالیا.آخر کیا فائدہ ہے اس دُعا کا اور کیا نتیجہ ہے جو ایسی دُعا سے نکل سکتا ہے.آخر ہمارا خدا کوئی بھولا بھالا بچہ تو نہیں.تم ایک بچہ کو بعض دفعہ پیسہ دے کر کہتے ہو کہ یہ روپیہ ہے تو وہ خوش ہو جاتا ہے.تم بعض دفعہ اپنی خالی انگلیاں اس کے ہاتھ پر رکھ دیتے ہو اور کہتے ہو یہ مٹھائی ہے تو وہ ہنس دیتا ہے.کیا اسی طرح تم بھی یہ خیال کرتے ہو کہ خدا تعالیٰ تمہارے اس دھوکا میں آجائے گا تم اسے پیسہ دے کر کہو گے کہ یہ روپیہ ہے اور وہ دھو کا کھا جائے گا.تم اس کے ہاتھ میں خالی انگلیاں رکھ دو گے اور کہو گے یہ مٹھائی ہے تو وہ ہنس دے گا.آخر یہ قرآن کریم کے کس پارہ اور کس سورۃ میں آتا ہے کہ رمضان میں قرآن کریم کے ختم ہونے پر سب مل کر دُعا کرو تو وہ قبول ہو جاتی ہے.یا کونسی حدیث میں یہ ذکر آتا ہے کہ آخری روزہ کو عصر کے وقت دُعا کرو تو اللہ تعالیٰ اسے قبول کر لیتا ہے.صحاح ستہ تو کیا کسی کمزور سے کمزور روایت میں بھی اس دُعا کا ذکر نہیں.حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ جمعہ کے دن ایک ایسی گھڑی آتی ہے کہ اس میں جو دُعا کی جائے وہ قبول ہوتی ہے ، حدیثوں میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان میں لیلۃ القدر آتی ہے اس رات جو دُعا کی جائے وہ قبول کی جاتی ہے.2 اسی طرح قرآن کریم میں یہ تو آتا ہے کہ رمضان کی راتوں میں خصوصاً لیلۃ القدر میں دُعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن میں نے نہ قرآن میں، نہ حدیث میں اور نہ اسلام میں کسی اور جگہ یہ دیکھا ہے کہ رمضان کے آخری دن تم اکٹھے ہو جایا کرو تو اس دن تم جو دُعا کرو گے وہ قبول ہو جائے گی.میں خود درس دیا کرتا تھا تو آخر میں دُعا بھی کر لیا کرتا تھا کیونکہ اُس وقت میر ادعا کرنا رسم نہیں تھا لیکن اب جبکہ میں درس نہیں دیتا جب مجھے دُعا کے لئے بلایا جاتا ہے تو میری طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ دُعا محض ایک رسم کے اختیار کر لی گئی ہے.جو لوگ درس دیتے رہے ہیں یا جو روزانہ درس سنتے رہے ہیں وہ تو کچھ نہ کچھ
انوار العلوم جلد 23 15 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں حق بھی رکھتے تھے کہ دُعا میں حصہ لیں لیکن وہ لوگ جو آج سینکڑوں کی تعداد میں آئے ہوئے ہیں وہ یقیناً ایک رسم کے ماتحت آئے ہیں.جس شخص نے درس دیا ہے یا جن لوگوں نے روزانہ درس سنا ہے ان کے لئے تو دعا کا موقع ہے لیکن باقی لوگوں کے لئے یہ محض ایک رسم ہے دُعا کا کوئی موقع نہیں اور رسم پر چلنا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا.اگر چہ وقت کم ہے اور لوگوں نے روزہ افطار کرنا ہے اس لحاظ سے ضروری ہے کہ دس بارہ منٹ روزہ افطار ہونے سے قبل دعا کر دی جائے لیکن تاہم میں نے اس کے متعلق کچھ بیان کرنا مناسب سمجھا.میری طبیعت پر ہمیشہ گرانی سی رہتی ہے اور میں چٹی سمجھ کر دُعا کے لئے آتا رہا ہوں کیونکہ میں ابھی تک اس اجتماع کی حکمت کو نہیں سمجھ سکا.نہ قرآن کریم کی کوئی آیت مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے اور نہ کوئی حدیث مجھے اس کی تصدیق میں ملی ہے.ہاں جنہوں نے قرآن کریم پڑھایا ہے یا قرآن کریم کا درس منا ہے ان کی دُعا تبر کا قبول ہو سکتی ہے.یوں پڑھنے والے گھروں پر قرآن پڑھتے ہی ہیں مثلاً ہم نے بھی قرآن کریم ختم کئے ہیں.چنانچہ ہمیشہ میں نے دیکھا ہے کہ رمضان میں پانچ سات بلکہ آٹھ نو دفعہ قرآن کریم ختم ہو جاتا ہے.اس دفعہ بھی بیماری اور ضعف کے باوجو د میں نے پانچ دفعہ قرآن کریم ختم کیا ہے اور مجھے حق ہے کہ اس موقع پر میں دُعا کروں لیکن اس مجلس میں نہیں کیونکہ میں نے اس مجلس میں قرآن کریم نہیں سنا.میں نے گھر میں قرآن کریم پڑھا ہے اور گھر میں دُعائیں بھی کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ انہیں قبول بھی فرماتا ہے لیکن تم میں بہت سے ایسے لوگ بیٹھے ہیں جنہوں نے نہ تو روزہ رکھنے کی کوشش کی اور نہ یہاں آکر قرآن کریم سننے کی کوشش کی.خود تو ان میں یہ قابلیت نہیں تھی کہ وہ قرآن کریم سمجھ سکتے ان کے لئے موقع تھا کہ وہ یہاں آتے اور قرآن کریم سُنتے لیکن وہ یہاں نہیں آئے.جو میرے پاس رپورٹیں آتی رہی ہیں ان میں یہی لکھا ہوتا تھا کہ دو تین سو آدمی درس سننے کے لئے آتے ہیں لیکن اس وقت دو تین ہزار کا مجمع ہے.اب سوال یہ ہے کہ ہر دس میں سے نو آدمی یہاں کیوں آئے ہیں اور آخر اُنہوں نے کیا کام کیا ہے کہ آج خدا تعالیٰ اُن کی دُعائنے.ہاں جنہوں نے قرآن کریم سنا ہے
انوار العلوم جلد 23 16 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں وہ اگر کہیں کہ اے خدا! ہم نے تیرے نشانات دیکھے ، تیری آیات پڑھیں، تیرا کلام شنا.اب ہم قرآن کریم ختم کرنے لگے ہیں، اے خدا! تو ایک اور نشان ہمارے لئے دکھا جس سے ہمارے ایمان تازہ ہوں تو یہ معقول بات ہو گی.جس شخص نے قرآن سنایا ہے وہ اگر کہے کہ اے اللہ ! میں سُنی سنائی باتیں سناتا رہا ہوں تو اب ایک زندہ نشان میرے لئے بھی ظاہر فرما تو یہ معقول بات ہو گی لیکن جو درس میں آتا ہی نہیں رہا وہ کیا کہے گا؟ کیا وہ یہ کہے گا کہ اے خدا! سارا مہینہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نشانات عنائے جاتے رہے ، موسیٰ علیہ السلام اور عیسیٰ علیہ السلام کے نشانات سُنائے جاتے رہے لیکن میں نے اس کی پرواہ نہیں کی.آج اور لوگ آئے ہیں تو میں بھی آگیا ہوں تو میری دُعا بھی سُن لے.کیا تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسے شخص کی دُعا قبول ہو سکتی ہے؟ یہ تو ویسا ہی لطیفہ ہے جیسے کہتے ہیں کہ ایک زمیندار تھا جس نے ابھی شہر نہیں دیکھا تھا.اس کی بیوی اسے روز کہتی کہ مجھے بڑی شرمندگی محسوس ہوتی ہے جب لوگ مجھے طعنے دیتے ہیں کہ تیرے خاوند نے ابھی شہر بھی نہیں دیکھا.پانچ میل پر تو شہر ہے کسی دن جا اور جا کر شہر دیکھ آ.ایک دن اس نے اپنی بیوی سے کہا کہ تُو ہر روز مجھے طعنے دیتی رہتی ہے کہ تو نے ابھی تک شہر نہیں دیکھا تو مجھے آٹا گوندھ دے میں شہر دیکھ آتا ہوں.بیوی نے آٹا گوندھ کر دے دیا اور وہ شہر کو چل پڑا.چادر اس نے کندھے پر ڈال لی اور بازار میں پھرتا رہا.دیہات میں اگر کوئی آئے تو وہ کسی گھر میں چلا جاتا ہے اور گھر والوں سے کہتا ہے میری روٹی بھی پکا دو اور وہ اسے روٹی پکا دیتے ہیں بلکہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ کہہ ا دیتے ہیں آٹے کی کیا ضرورت ہے روٹی ہم نے پکائی ہی ہے تم یہاں آکر روٹی کھالینا لیکن شہروں میں یہ رواج نہیں ہو تا وہاں تو نفسا نفسی ہوتی ہے.وہ زمیندار کسی گھر میں گھسا اور کہا آٹا لے لو اور میری روٹی پکا دو.گھر والوں نے کہا نکلو باہر تم ہمارے مکان میں کیوں ٹھے ہو.وہ دوسرے گھر گیا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا، تیسرے گھر گیا تو وہاں بھی یہی سلوک ہوا، یہاں تک کہ وہ تھک گیا اور عصر کا وقت آگیا کسی نے اسے روٹی پکا کر نہ دی.وہ اب ایک جگہ حیران ہو کر کھڑا ہو گیا.پاس ہی ایک حلوائی پوریاں مل رہا تھا.اس نے
انوار العلوم جلد 23 17 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں حلوائی سے دریافت کیا کہ یہ تم کیا کر رہے ہو ؟ اس نے کہا میں لچیاں تل رہا ہوں.زمیندار نے دیکھا کہ وہ نہایت چھوٹے چھوٹے پیڑوں کی ٹکیاں بنا کر مل رہا ہے اور انہیں لچیاں کہتا ہے.اس نے آٹا کی گرہ کھولی جو چادر کے ایک طرف باندھا ہوا تھا اور آٹے کا ایک بڑا سا پیڑا بنا کر زور سے کڑاہی میں دے مارا اور کہا میرا بھی لچ تل دے.حلوائی کا ہاکڑاہی سے باہر جاپڑا اور وہ شور مچانے لگ گیا.تمہاری دُعا بھی ایسی ہی ہے.کچھ تو سارا ماہ لچیاں تلتے رہے یعنی درس دیتے رہے.کچھ لچیاں خریدتے رہے یعنی درس سنتے رہے لیکن جب آخری دن آیا تو تم نے بھی اپنا آٹا کڑاہی میں دے مارا کہ میرا بھی بچ تل دو.تم سمجھ سکتے ہو کہ ایسی حالت میں تمہارے ساتھ کیا سلوک ہو گا.یہی ہو گا کہ تمہیں جیل خانہ بھیج دیا جائے گا.غرض رسموں کا طریق مردہ قوموں کا طریق ہوتا ہے ہمارا طریق نہیں.اگر تمہارے اندر جرآت ہوتی تو جیسے تم پہلے نہیں آئے آج بھی نہ آتے.اگر تیس دن گناہ میں تم نے اپنے آپ کو منافق نہیں بنایا تو آج تم اپنے آپ کو کیوں منافق بناتے ہو.آج بھی تم میں جرات ہونی چاہئے تھی کہ اگر سارا ماہ تم نہیں آئے تو آج بھی تم یہاں نہ آتے.اگر تم ایسا کرتے تو یہ بات تمہارے لئے زیادہ نیکی کا موجب ہوتی.اگر تم ایسا کرتے تو اگلے سال تمہیں خیال آتا کہ میں بھی درس میں جاؤں تا دُعا میں شریک ہو سکوں.اگر تم چھ دن مسجد میں نہیں آتے لیکن جمعہ کے دن آجاتے ہو تو ہم کہیں گے تم نے ایک دن تو نیکی کر لی ہے کیونکہ اس کا حکم قرآن کریم میں ہے لیکن اس دُعا کا حکم قرآن کریم میں نہیں، اس دُعا کا حکم حدیث میں نہیں.یہ دُعا تبھی دُعا کہلا سکتی ہے جب تم تیں دن قرآن کریم سنتے ، پڑھتے اور پھر خدا تعالیٰ سے اپنے لئے رحم طلب کرتے.اگر تم ایسا کرتے تو تمہاری یہ بات طبعی ہوتی.اگر تم روٹی پکاتے ہو تو تمہارا حق ہے کہ تم روٹی کھاؤ لیکن یہ نہیں کہ تم روٹی تو نہ پکاؤ لیکن اپنے ہمسائے کی روٹی لے کر کھالو.اگر تم روٹی پکاتے تو تمہارا حق تھا کہ آج آتے اور روٹی کھاتے لیکن یہ نہیں کہ آٹا کسی نے گوندھا، روٹی تو کسی نے پکائی اور روٹی کھانے کے لئے تم آجاؤ یعنی درس کسی نے دیا، گلا کسی نے بٹھایا،
انوار العلوم جلد 23 18 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں عنا کسی نے لیکن آج جب قرآن کریم ختم کرنے کا وقت آیا تو تم بھی آگئے کہ ہماری دُعا قبول ہو جائے.آج ہر دس آدمیوں میں سے نو آدمی ایسے ہیں جو دوسرے کا مال کھانے کے لئے آگئے ہیں اُنہوں نے سارا ماہ دُعا نہیں کی لیکن آج یہاں آگئے ہیں تا دُعا میں شریک ہو جائیں لیکن ہمارا خدا دھوکا میں نہیں آتا ممکن ہے کوئی دل آج اپنے فعل پر افسردہ ہو، شر مندہ ہو اور پھر یہاں آگیا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی دُعائن لے کیونکہ ہمارا خُدار حیم وکریم ہے لیکن جو لوگ آج رسا یہاں آگئے ہیں خدا تعالیٰ ان کی دُعائیں نہیں سُنے گا کیونکہ یہ دُعا نہیں بلکہ محض ایک تمسخر ہے.باقی وہ جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا خوف تھا اور اُنہوں نے سارا ماہ قرآن کریم شنا، قرآن پڑھا اور روزے رکھے ان کے لئے بے شک یہ دُعا کا موقع ہے.وہ کہہ سکتے ہیں کہ اے خدا! رمضان جارہا ہے، برکت کی گھڑیاں جو تو نے ہمیں دی تھیں وہ اب جارہی ہیں.لگے ہاتھوں اب میری دُعا بھی سن لے.صرف ایسے ہی لوگوں کو میں کہتا ہوں کہ ہمارا خدانہ تو ہمارے آنسوؤں کا محتاج ہے نہ وہ ہمارے گڑ گڑانے کا محتاج ہے اور نہ وہ ہماری کسی اور حرکت کا محتاج ہے.وہ صرف ایک گداز دل کی آہ سننے کے لئے تیار ہوتا ہے.وہ مومن کا دل دیکھتا ہے اور اس کے دل کے درد کے مطابق اس سے سلوک کرتا ہے.بچہ جب سوتے سوتے رات کو درد کے ساتھ کراہتا ہے تو ماں اس کی طرف دوڑ پڑتی ہے.وہ یہ نہیں دیکھتی کہ بچہ چلاتا ہے یا نہیں وہ اس کے رونے کا انتظار نہیں کرتی.سو دُکھ کی نکلی ہوئی آواز خدا تعالیٰ سُنتا ہے.اگر ہمیں دُکھ ہے تو تمہاری دُعائیں اسی طرح سُنی جائیں گی جس طرح تم سے پہلی جماعتوں کی دُعائیں سنی گئیں اور خدا تعالیٰ تمہاری طرف اسی طرح دوڑے گا جس طرح وہ پہلے انبیاء کی جماعتوں کی طرف دوڑا.پس میں ایسے دلوں سے کہتا ہوں کہ تم دُعائیں کرو.کسی لمبی دُعا کی ضرورت نہیں.درد سے نکلا ہوا ایک فقرہ بھی خدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتا ہے.تم دُعائیں کرو اُن مبلغوں کے لئے جو دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور دین کا کام کر رہے ہیں.وہ صرف اپنا فرض ہی ادا نہیں کر رہے بلکہ تمہاری نمائندگی بھی کر رہے ہیں.دُعائیں کروان جماعتوں کے لئے جنہوں نے نہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
انوار العلوم جلد 23 19 سب کا فرض ہے کہ وہ درس القرآن میں شامل ہوا کریں کو دیکھا اور نہ آپ کے خلفاء کو دیکھا لیکن اسلام کی فتح کے لئے جو جنگ ہو رہی ہے اس میں وہ برابر کی شریک ہیں اور وہ ایمان بالغیب لے آئی ہیں.دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جو اس ملک کے رہنے والے ہیں کہ اُنہوں نے خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھے لیکن اُنہوں نے آنکھیں بند کر لیں خدا تعالیٰ انہیں آنکھیں دے اور ہدایت پانے کی توفیق دے.دُعائیں کرو ان فتنوں کے لئے جو احمدیت کے ارد گرد پھیلے ہوئے ہیں کہ وہ خدا جس کے "کن" کہنے سے ہر چیز پیدا ہوتی ہے اور فنا ہوتی ہے وہ ان فتنوں کو مٹادے اور اپنا خاص نشان دکھائے.دُعائیں کرو اپنے لئے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دُعا کی توفیق دے.دُعائیں کرو ان مُردہ دلوں کے لئے جو تمہارے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے ہیں لیکن ان کے دلوں میں ایمان نہیں وہ ایمان کا جبہ پہنے ہوئے ہیں لیکن در حقیقت وہ بھیڑیئے ہیں جنہوں نے بھیڑوں کی کھال پہنی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ ان کی اصلاح کرے اور انہیں صحیح ایمان بخشے.پھر دُعائیں کرو ان لوگوں کے لئے جنہوں نے پارٹیشن کے موقع پر اپنے ایمان کو کھو دیا اور وہ چوری، بے ایمانی، بد دیانتی ، جھوٹ، فریب اور دوسری ناجائز حرکات کے مرتکب ہوئے کہ خدا تعالیٰ ان کو سمجھ دے، ان کو توبہ کی توفیق دے اور ان کو اس ذلیل حالت سے بچائے جو اُن کو دوزخ سے ورے نہیں رکھ سکتی.پھر دُعائیں کرو اپنے بیوی بچوں کے لئے ، اپنے قریبیوں اور دوستوں کے لئے اور ان لوگوں کے لئے جو اس موقع پر یہاں حاضر نہیں ہو سکے لیکن اُنہوں نے دُعا کی تحریک کی ہے کہ اللہ تعالیٰ سب پر فضل کرے، سب کے کاموں میں برکت دے، ان کی مشکلات اور تنگیاں دُور کر کے ان کے لئے فراخی کے سامان پیدا کرے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمہاری زبانوں اور تحریروں میں برکت ڈالے اور لوگ زیادہ سے زیادہ احمدیت میں داخل ہوں مگر اس احمدیت میں نہیں جس کا نمونہ تم میں سے بعض پیش کر رہے ہیں بلکہ اُس احمدیت میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دُنیا میں قائم کرنا چاہتے تھے“.(الفضل ربوہ 23 مارچ 1960ء) 1 بخاری کتاب الجمعة باب السَّاعَةِ الَّتِي فِي يَوْمِ الْجُمُعَةِ
انوار العلوم جلد 23 21 پاکستان میں قانون کا مستقبل پاکستان میں قانون کا مستقیل از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 23 پاکستان میں قانون کا مستقبل بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ پاکستان میں قانون کا مستقبل (محررہ جولائی 1952ء) سندھ مسلم لاء کالج نے ایک سہ ماہی رسالہ " پاکستان لاء ریویو" کے نام سے کراچی سے جاری کیا جس کے اگست 1952ء کے شمارہ میں حضرت مصلح موعود کار قم فرمودہ حسب ذیل مقالہ سپر د اشاعت ہوا.” مجھے یہ معلوم کر کے از حد مسرت ہوئی ہے کہ سندھ مسلم لاء کالج عنقریب ایک سہ ماہی رسالہ اس مقصد کے لئے جاری کر رہا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو قانون کے سائنٹیفک طور پر مطالعہ کرنے کی طرف عموماً اور پاکستان میں قوانین کو بہتر بنانے کے متعلق امور پر بحث کرنے کی طرف خصوص را ہنمائی کر سکے تاکہ اس طرح عام لوگوں اور ماہرین علم قانون کے نظریات اور خیالات میں یگانگت اور ہم آہنگی پیدا کی جاسکے اور تا کہ ماہرین علم قانون اپنے اہم فرائض سے بہتر طریق پر زیادہ سہولت کے ساتھ عہدہ بر آ ہو وسکیں.اس میں شک نہیں کہ علم قانون دوسرے علوم کی طرح بلکہ ان میں سے اکثر سے کچھ زیادہ ہی اس بات کا محتاج ہے کہ اس کو انسانی عمل اور تجربہ کی روشنی میں منضبط اور مرتب کیا جائے تاکہ یہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کی صحیح راہنمائی کر سکے لیکن بد قسمتی سے ایشیا کے باشندے کئی صدیوں سے غیروں کی ماتحتی میں رہنے کی وجہ سے اس ضروری علم سے بالکل بے بہرہ ہو چکے ہیں.اب جبکہ کم از کم ایشیا پر مکمل آزادی کا سورج طلوع ہو چکا ہے اور اس کے باشندوں نے بھی دنیا کی آزاد اقوام کی طرح اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا
انوار العلوم جلد 23 24 پاکستان میں قانون کا مستقبل سیکھ لیا ہے یہ امر اور بھی ضروری ہو گیا ہے کہ وہ مغربی ممالک کے مقابلہ پر علم قانون کے مطالعہ کے لئے زیادہ توجہ اور زیادہ وقت صرف کریں.دنیا کی آزاد اقوام نے علم قانون کے لمبے مطالعہ اور تجربہ کے بعد آخر کار اپنے ممالک کے قوانین کے لئے ایک مخصوص راستہ اور پس منظر پیدا کر لیا ہے جو کامل طور پر ان کی شخصی اور اجتماعی ضروریات کو پورا کرتا ہے.علاوہ اس کے ان میں وسیع اور گہر اعلم رکھنے والے ماہرین قانون موجو د ہیں جو اپنے لوگوں کے پرانے اختیار کردہ راستہ کے مطابق نئے پیدا ہونے والے دُشوار اور دقیق قانونی مسائل کو حل کرنے میں مدد دیتے ہیں.ایشیائی لوگوں کے لئے بہر حال یہ مشکل ہے کہ ان میں جو لوگ قانون کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس کا علم بھی رکھتے ہیں وہ کوئی گزشتہ تجربہ اور قومی روایات نہیں رکھتے جن سے انہیں نئے قوانین بنانے میں مدد مل سکے.پس ان کے لئے سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ وہ اپنے لئے ایک نیا راستہ بنائیں اور پھر ان تمام مشکلات اور رکاوٹوں کا مقابلہ کر کے ان پر قابو پائیں جو مبتدیوں کو پیش آتی ہیں.میں سمجھتاہوں کہ پاکستان کے لوگوں کو اس راہ میں سب سے بڑی مشکل یہ پیش آئے گی کہ اس کے باشندوں میں ایک بڑی اکثریت مسلمانوں کی ہے اور پاکستان کی حکومت کسی فوجی یا ملکی فتح کے نتیجہ میں قائم نہیں ہوئی بلکہ وہ ایک معاہدہ کے ذریعہ سے معرض وجود میں آئی ہے اس لئے اپنے قوانین بناتے ہوئے پاکستان کو باوجود اپنی وسیع مسلمان اکثریت کے اس معاہدہ کا لحاظ رکھنا پڑے گاور نہ اس کو اس بات کا بجاطور پر ملزم گردانا جائے گا کہ اس نے ایک باہمی معاہدہ توڑ دیا.جوش اور ولولہ اگرچہ ایک قابل تعریف خصلت ہے لیکن اس کا حد سے بڑھ جانا بھی غلط اقدام کا باعث بن جاتا ہے.ترکی میں مذہب کا سیاست سے بالکل الگ کیا جانا دراصل اسی قسم کے غلط مذہبی جوش کا ردِ عمل تھا.اسلام سے محبت اور اپنے ملک میں اس کے قیام کی خواہش یقیناً بہت اعلیٰ جذبات ہیں لیکن اگر ان ہی جذبات کو مناسب حدود سے تجاوز کرنے دیا جائے تو یہی ہمیں اسلام سے دور لے جانے کا باعث بن جائیں گے.
انوار العلوم جلد 23 25 پاکستان میں قانون کا مستقبل ہمارے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مکہ والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا جو تاریخ میں صلح حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے.اس معاہدہ کی ایک شرط یہ تھی کہ اگر کوئی مسلمان کفر اختیار کر لے تو اسے مکہ جانے کا پورا اختیار ہو گا لیکن اس کے برعکس اگر کوئی کافر اسلام لے آئے تو اسے مدینہ کی اسلامی ریاست میں رہنے کی اجازت نہیں ہو گی بلکہ اسے اس کے وارثوں اور رشتہ داروں کے پاس واپس بھیج دیا جائے گا.یہ شرط مسلمانوں کے لئے بظاہر نقصان دہ اور ذلیل کن معلوم ہوتی تھی اور انہوں نے اس ہتک کو محسوس بھی کیا یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسے لیڈر بھی کچھ وقت کے لئے تذبذب میں پڑ گئے.ابھی اس معاہدہ پر دستخط ہوئے ہی تھے کہ ایک نوجوان جس کا نام ابو جندل تھا بیڑیوں میں جکڑا ہوا بمشکل تمام اس مجلس میں آپہنچا جہاں اس کے باپ سہیل نے ابھی ابھی مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ پر دستخط کئے تھے.سہیل نے فوراً مطالبہ کیا کہ معاہدہ کے مطابق ابو جندل کو مکہ واپس کیا جائے.مسلمانوں نے جب اس معاہدہ کا عملی پہلو دیکھا تو اسے نہایت خطرناک اور ذلیل کن خیال کیا اور ابو جندل کی حفاظت میں فوراً تلواریں کھینچ لیں لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سمجھایا اور فرمایا:- ”خدا کے رسول اپنا عہد کبھی تو ڑا نہیں کرتے“.1 اور مسلمانوں کی جذبات انگیز درخواستوں کو نظر انداز کرتے ہوئے ابو جندل کو اس کے باپ کے حوالے کر دیا.اس لئے ایک پاکستانی مسلمان خواہ کتنا ہی مخلص اور دینی جوش رکھنے والا ہو کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اسلام کی محبت اور خیر خواہی میں اتنا گداز ہے جتنا حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں ہمارے لئے خود ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے ہیں.اگر ایک مسلمان اللہ تعالیٰ کی نظر میں ویسا ہی اچھا مسلمان ثابت ہونا چاہتا ہے جیسا کہ وہ خود گمان کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ لفظی اور معنوی طور پر ان تمام معاہدات اور وعدوں کو پورا کرے جو پاکستان بننے کے وقت اقلیتوں اور دوسری قوموں سے کئے گئے تھے اگر وہ ان وعدوں کے ایفاء سے
انوار العلوم جلد 23 26 پاکستان میں قانون کا مستقبل ذرا بھی پہلو تہی کرتا ہے تو وہ در حقیقت اسلام سے دُور جاتا ہے.پاکستان کے قوانین بناتے ہوئے ہمیں خاص خیال رکھنا ہو گا کہ :- الف: تعلیم اسلام کی رُوح ہمیشہ ہمارے مد نظر رہے.ب: ہمارے قوانین فطرت انسانی کے ساتھ کامل مطابقت رکھتے ہوں.ج: ہم ان وعدوں کو ہر لحاظ سے پورا کریں جو اقلیتوں سے کئے گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد کے مطابق ہر بچہ فطرتِ اسلام پر پیدا ہوتا ہے.اب اگر حضور کا یہ ارشاد صحیح اور سچا ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سچا کون ہو سکتا ہے تو پھر اسلام کے قوانین بھی انسانی فطرت کے خلاف نہیں ہو سکتے اور نہ ہی انسانی فطرت قوانین اسلام کے خلاف ہو سکتی ہے.پس ہمارا یہ ایک مقدس فرض ہے کہ ہم مندرجہ بالا حدیث کو سامنے رکھیں اور اس حقیقت پر یقین رکھیں کہ اسلام نے جو کچھ سکھایا ہے فطرتِ انسانی کے عین مطابق ہے.اگر اسلام کی تعلیم کا وہ حصہ جسے ہم انسانی فطرت کے خلاف سمجھتے ہیں واقعی انسانی فطرت کے خلاف ہے تو ظاہر ہے کہ ہم نے اس حصہ تعلیم کی رُوح کو اخذ نہیں کیا لیکن اگر ہم نے اسلامی تعلیم کو صحیح سمجھا ہے تو فطرت انسانی کبھی بھی اس کے خلاف نہیں ہو سکتی اور یقینا کہیں پر ہماری ہی غلطی ہو گی.اس صورت میں ہمیں چاہئے کہ اس معاملہ پر زیادہ گہرے طور پر غور کریں اور مزید کوشش کر کے اصل حقیقت کو معلوم کریں.اگر ہم اس نہایت ہی مضبوط اصل کو سامنے رکھیں گے تو ہم یقیناً بہت جلد صداقت کو پالیں گے اور اپنے ملک کے لئے بہترین قوانین بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے.یہ صحیح ہے کہ ہم اپنے ملک کے ہر طبقہ یعنی مولویوں، مغربیت زدہ تعلیم یافتہ لوگوں، غریبوں اور امیروں کو پوری طرح مطمئن نہیں کر سکتے لیکن مندرجہ بالا دانشمندانہ اصول پر عمل کر کے ہم یقیناً انسانی فطرت کے تقاضوں کو پورا کر سکیں گے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے.میں دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے قوانین بنانے والوں اور ان پر عمل کرانے والوں کو ان کے وکیلوں کو اور قوانین کی کتابیں لکھنے والوں کو اور ان کے شارحین کو طور پر.
انوار العلوم جلد 23 اللہ 27 پاکستان میں قانون کا مستقبل تعالی اسلام کے بتائے ہوئے طریق کو اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور یہ مفید رسالہ جو کہ سندھ مسلم لاء کالج کی طرف سے جاری کیا جارہا ہے اس مقصد کے حصول کے لئے ایک مفید آلہ ثابت ہو“.(روز نامہ الفضل لاہور مورخہ 20 ستمبر 1952 صفحہ 5) 1 سیرت ابن ہشام جلد 3 صفحہ 333،332.مطبوعہ مصر 1936ء 2 بخاری کتاب الجنائز باب مَا قِيلَ فِي أَوْلَادِ الْمُشْرِكِيْن ------------------------------------
انوار العلوم جلد 23 29 احرار کو چیلنج از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی احرار کو چیلنج
---------- انوار العلوم جلد 23 31 اَعُوْذُبِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ احرار کو چیلنج بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ احرار کو چیلنج (محرره 3 اکتوبر 1952ء) ”آزاد“ مؤرخہ 19 ستمبر 1952ء میں ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ: ”مرزا بشیر الدین محمود نے ملک میں جاگیر داروں کے خلاف بڑھتی ہوئی مہم سے خوفزدہ ہو کر اپنی تمام زمین فروخت کرنا شروع کر دی ہے“.”معلوم ہوا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں“.” تازہ اطلاعات سے پتہ چلا ہے کہ مرزا محمود سندھ کی اراضی کو پہلے اس لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں کہ سندھ گور نمنٹ نے سندھ سے جاگیر داریاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے.مرزا محمود کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ اگر اُنہوں نے ایسے حالات سے پہلے اپنی زمین فروخت نہ کی تو وہ تمام اراضی ضبط کر لی جائے گی.“ پھر لکھا ہے:- یہ اراضی تحریک جدید کے نام پر جمع شدہ چندہ سے خریدی گئی تھی لیکن کاغذات میں مرزا محمود نے اسے اپنی ذاتی ملکیت بنالیا.
انوار العلوم جلد 23 32 احرار کو چیلنج ”مرزائی چندہ دہندگان نے آواز بلند کی کہ جماعتی اراضی کو فروخت کر کے اس کی رقم جماعتی خزانہ میں جمع کی جائے“.”مرزا محمود یہ رقم اپنے ذاتی خزانہ میں جمع کرنے کے لئے اس اراضی کو دجالانہ طریق پر فروخت کرنا چاہتے ہیں“.اس مضمون کے شائع ہونے کے چند دن بعد 26 ستمبر کے "آزاد" میں اس خط کا چربہ بھی شائع کیا گیا جو میری اراضیات کے دفتر کے کلرک نے "الفضل " کو لکھا تھا اور جس میں مذکورہ بالا اراضی کی فروخت کا اعلان کرنے کی درخواست کی گئی تھی.اس خط کے چر بہ کے اوپر ایک نوٹ بھی ادارہ آزاد کی طرف سے شائع ہوا ہے کہ ہمارے اعلان پر " بعض مرزائی سیخ پا ہوئے اور خبر کو بے بنیاد بتانے لگے".ย اس لئے ہم اس خط کا چربہ شائع کرتے ہیں.اگر احرار کی شہرہ آفاق غلط بیانیوں کا علم نہ ہوتا تو میرے لئے یہ مضمون اور اس چربہ کی اشاعت حیرت انگیز ہوتی کیونکہ اصل بنیاد اس مضمون کی یہ ہے کہ کوئی زمین میرے پاس ہے جسے میں فروخت کر رہا ہوں اور کسی کے پاس زمین کا ہونا کسی اسلامی حکم کے خلاف نہیں.صحابہ کے پاس زمینیں تھیں، خودر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کے پاس باغ فدک تھا اور پھر زمینوں کا فروخت کرنا بھی قابل تعجب نہیں.حدیثوں میں صحابہ اور تابعین کا اپنی زمینیں فروخت کرنے کا ذکر آتا ہے.پس یقینا کسی صحیح الدماغ انسان نے "آزاد" سے اس امر کا ثبوت نہیں مانگا ہو گا کہ کیا امام جماعت احمدیہ کے پاس کوئی زمین ہے یا یہ کہ کیا وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ اگر ثبوت مانگا ہو گا تو اس بات کا مانگا ہو گا کہ آیا جماعت احمدیہ کے روپیہ سے خریدی ہوئی کسی زمین کو وہ اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں؟ کیونکہ یہ بات یقیناً قابل اعتراض ہے اور اگر ایسا ثابت ہو جائے تو خلافت تو الگ رہی میں ایک شریف انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں رہتا لیکن یہ خیال کرنا کہ لوگوں نے "آزاد" سے اس بات کا مطالبہ شروع کر دیا کہ تم نے کیوں امام جماعت احمدیہ پر یہ اعتراض کیا کہ ان کے
انوار العلوم جلد 23 33 احرار کو چیلنج پاس کوئی زمین ہے اور وہ اس کو فروخت کرنا چاہتے ہیں.اس امر کو تو کوئی عظمند باور نہیں کر سکتا اور جو اعتراض معقول ہے اور جو میں نے اوپر لکھا ہے اگر وہ کسی نے کیا ہے تو اس خط کے چربہ سے اس کا جواب نہیں ملتا کیونکہ اعتراض تو صرف یہی ہو سکتا ہے کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین کو اپنی ذات کے لئے فروخت کرنا نا جائز ہے اور اس خط میں جس کا چربہ شائع کیا گیا ہے نہ تو یہ ذکر ہے کہ وہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے اور نہ یہ کہیں ذکر ہے کہ وہ روپیہ میں اپنی ذات کے لئے استعمال کرنے والا ہوں.پس اس چر بہ سے کیا نتیجہ نکلا ؟ کچھ بھی نہیں.جہاں تک اس خط کے شائع ہونے کا سوال ہے یہ تو میرے دفتر کے کلرک کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے یا " آزاد " اخبار کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کو حل کرے کہ آیا اس نے ٹرین پوسٹل سروس کی مدد سے خط پچر آیا ہے یا پولیس سنسر نے اسے یہ خط دیا ہے یا خود میرے کلرک سے مل کر یہ خط چرایا گیا ہے.جہاں تک میری عزت کا سوال ہے مجھے اس امر سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ نہ تو میں یہ کہتا ہوں کہ جس زمین کا اس خط میں ذکر ہے وہ میرے پاس نہیں ہے اور نہ میں اس بات کا انکار کرتا ہوں کہ میں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں.جہاں تک اس خط کے مضمون کی اشاعت کا تعلق ہے مجھے اس خط کے چھپنے سے نہ کوئی تکلیف ہوئی ہے نہ فکر کیونکہ زمین کا مالک ہونا یا اسے فروخت کرنے کی کوشش کرنا کوئی اخلاقی ، مذہبی یا سیاسی مجرم نہیں ہے.باقی رہا یہ امر کہ خواہ کتنا ہی بے ضرر مضمون ہو میرے دفتر کا ایک خط چرایا گیا ہے.خواہ ٹرین پوسٹل سروس کے ذریعہ سے یا سنسر کے ذریعہ سے یا میرے دفتر کے کسی غدار کے ذریعہ سے.مجھے اس خط کے شائع ہونے کے بارہ میں ضرور دلچسپی ہے اور میں اس کی ضرور تحقیقات کروں گا.مجھے بعض وجوہ سے غالب خیال ہے کہ یہ چوری ایک خاص ذریعہ سے ہوئی ہے لیکن چونکہ وہ صرف عقلی خیال ہے اس کے اوپر میں اپنے عمل کی بنیادرکھنے کو تیار نہیں.اب میں اس مضمون کی طرف آتا ہوں جو "آزاد" نے شائع کیا ہے."آزاد" نے لکھا ہے کہ :-
انوار العلوم جلد 23 34 اول کوئی زمین میرے قبضہ میں ہے جو کہ انجمن کے روپیہ سے خریدی گئی ہے.دوم یہ کہ میں اس زمین کو فروخت کر رہا ہوں.سوم یہ کہ جماعت کے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ہے.احرار کو چیلنج چہارم یہ کہ میری فروخت کا بڑا محرک جاگیر داری کے منسوخ ہونے کا قانون ہے.پنجم یہ کہ انجمن کی زمین کی قیمت کو میں اپنی ذات پر خرچ کرنا چاہتا ہوں.میں نمبر وار ان سوالوں کا جواب دیتا ہوں.نمبر اوّل کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بعض انجمن کی زمینیں میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں مگر ساتھ ہی یہ بات بھی ہے کہ بعض میری زمینیں انجمن کے نام پر خریدی ہوئی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ جو زمینیں انجمن کی میرے نام پر خریدی ہوئی ہیں ان کا رقبہ ان زمینوں کی نسبت جو میری ہیں اور انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں قریباً نصف یا ساٹھ فی صدی کے قریب ہے.پس اگر میں انجمن کی زمینیں فروخت کروں تو اس سے قریباً دو گنا رقبہ میرا انجمن کے پاس ہے اور وہ مجھے زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے.اس گڑ بڑ کی وجہ یہ ہے کہ در حقیقت سندھ میں جو زمینیں خریدی گئی ہیں وہ ایک احمد یہ کمپنی نے خریدی تھیں جس کا ذکر اُس زمانہ کے "الفضل" کے فائلوں میں ملتا ہے اور جس کا ذکر انجمن کے ریزولیوشنوں میں بھی آتا ہے.اس کمپنی کا ایک بڑا حصہ دار میں تھا اور مجھ سے بھی بڑی حصہ دار انجمن تھی.کچھ اور حصہ دار بھی تھے لیکن شروع میں چونکہ آمدن پیدا نہ ہوئی اور زمینوں کی قسط ادا کرنے کے لئے لوگوں کو اپنے پاس سے روپے دینے پڑے اس لئے سوائے تین حصہ داروں کے باقی سب حصہ داروں نے اپنی زمینیں دوسرے حصہ داروں کے پاس فروخت کر دیں اور اب اس کمپنی کی زمین صرف تین حصہ داروں کے پاس رہ گئی ہے اور وہ یہ ہیں.صدر انجمن احمد یہ ، میں اور میرے چھوٹے بھائی مرزا بشیر احمد صاحب.اسی دوران میں جبکہ ابھی زمینیں تقسیم نہیں ہوئی تھیں، کچھ اور زمینیں معلوم ہوئیں جو خریدی جاسکتی تھیں.چنانچہ تحریک جدید نے فیصلہ کیا کہ وہ بھی اپنے ریزرو فنڈ کو انہی زمینوں کی خرید میں لگالے لیکن تحریک -
انوار العلوم جلد 23 35 احرار کو چیلنج اُس وقت تک رجسٹر ڈ نہیں تھی اِس لئے اس کی ساری زمینیں صدر انجمن احمد یہ کے نام پر خریدی گئیں چونکہ وہ کمپنی جس نے زمین خریدی تھی وہ بھی رجسٹر ڈ نہیں تھی اس لئے اس کی تمام زمینیں بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدی گئیں.اس وجہ سے لازماً میراحصہ بھی اور میرے بھائی کا حصہ بھی صدر انجمن احمدیہ کے نام پر خریدا گیا کیونکہ ہماری خرید براہ راست نہ تھی بلکہ اس کمپنی کے حصہ دار کی حیثیت سے تھی.اسی دوران میں میں نے خود کچھ زمین براہ راست خریدی جس کے نتیجہ میں مجھے بھی اپنے آدمی وہاں رکھنے پڑے.جب کبھی کسی نئی زمین کا پتہ لگتا تھا کہ وہ خریدی جاسکتی ہے اور انتظام کے لحاظ سے مفید ہے تو اسے خرید لیا جاتا تھا لیکن کبھی ایسا ہو تا تھا کہ صدر انجمن احمد یہ کا مختار نامه یا مختار موجود نہ ہوتا تھا تو میرا مختار میرے مختار نامہ پر زمین خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی صدر انجمن احمدیہ کی اور کبھی ایسا ہو تا تھا کہ کوئی زمین میں نے خریدنی ہوتی تھی لیکن میر امختار نامہ یا میر امختار موجود نہیں ہوتا تھا تو انجمن کا مختار اس زمین کو انجمن کے نام خرید لیتا تھا لیکن وہ ہوتی تھی میری.اس کی موٹی علامت یہ ہوتی تھی کہ زمینوں کے حلقے تقسیم کر دیئے گئے تھے.نبی سر روڈ کے پاس کی زمینیں صدر انجمن احمدیہ کی تھیں اور ٹاہلی اسٹیشن سے پاس کی زمینیں تحریک جدید کی تھیں اور ٹنڈو الہ یار کے علاقہ کی زمینوں میں تھوڑا سا حصہ میرا تھا.باقی تحریک جدید کا تھا.اس کے مقابلہ میں گنری اسٹیشن کے پاس کی زمین ان حصہ داروں کو ملی جو کہ صدر انجمن احمدیہ کے ساتھ زمین خرید نے والی کمپنی کے ممبر تھے.جنہوں نے آگے جاکر اپنی زمینیں میرے اور میرے بھائی کے پاس فروخت کر دیں.پس وہاں جو زمین خریدی جاتی تھی وہ میرے لئے خریدی جاتی تھی.اسی طرح کنجے جی اسٹیشن کے پاس زمینیں سب سے پہلے میں نے ہی خریدی تھیں.اس لئے وہاں اگر کوئی زمین نکلتی تھی تو میں ہی خرید تا تھا اور جس کی زمین ہوتی تھی وہ اس کے مینجروں کے سپر د ہو جاتی تھی اور شروع دن سے وہی اس پر کام کرتے تھے اور ان کے بینک اکاؤنٹ اس پر شاہد ہوتے تھے مثلاً انجمن کے نام پر جو انجمن کی زمین خریدی گئی اس کی قیمت یا انجمن کے ریزولیوشنوں میں درج ہے یا انجمن کے
انوار العلوم جلد 23 36 احرار کو چیلنج بینک اکاؤنٹس سے ادا ہوئی اور آئندہ اس کی قسطیں بھی اسی طرح ادا ہوتی رہیں.ہر شخص فوراً دیکھ سکتا ہے کہ یہ زمین گو کسی اور کے نام سے خریدی گئی مگر اس کی ابتدائی رقمیں بھی انجمن نے دیں اور پھر اس کی قسطیں بھی شروع سے لے کر آخر تک انجمن نے ہی دیں.اسی طرح تحریک جدید کی جو زمین خریدی گئی گو وہ انجمن کے نام پر ہے لیکن بینکوں کے اکاؤنٹ شاہد ہیں کہ اس کی قیمت انجمن نے ادا نہیں کی.اس کی قیمت تحریک جدید نے ادا کی اور پندرہ سال کی متواتر بینکوں کی شہادتیں اس بات پر ہیں کہ وہ زمین تحریک جدید کی ہے.اسی طرح جو میری زمین ہے.زمین خرید نے والی کمپنی اور انجمن کا ریکارڈ شاہد ہیں کہ اس کی قیمتیں میں نے دی ہیں.اسی طرح بینک اکاؤنٹ گواہ ہے کہ اس کی قسطیں برابر میرے کھاتہ سے جاتی رہیں.انجمن یا تحریک نے وہ ادا نہیں کیں اور اس کا انتظام میرے مینجر کرتے چلے آئے.پس یہ ٹھیک ہے کہ انجمن کی بعض زمینیں میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ وہ زمینیں گو میرے نام پر خریدی گئی ہیں لیکن انجمن کی اسٹیٹ میں شامل ہیں * اور انجمن کے کارکن اس پر قابض ہیں.اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ تحریک جدید کی زمین انجمن کے نام پر خریدی گئی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شروع دن سے اس زمین پر تحریک جدید کے کارکن کام کر رہے ہیں اور وہ تحریک جدید کے قبضہ میں ہے.اسی طرح یہ بھی ٹھیک ہے کہ کچھ میری زمین انجمن کے یہاں یہ لطیفہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ ان سندھ کی زمینوں کو بعض دفعہ ہمارے اخبارات میں اسٹیٹس لکھا جاتا ہے جس کے معنے انگریزی میں زمینداری کے ہیں یا ایک کو ٹھی اور اس کے ارد گرد کی زمینداری کے لیکن احرار جہلاء ہمیشہ اسی لفظ پر شور مچاتے رہے ہیں کہ احمدیوں نے ریاستیں قائم کر لی ہیں.چنانچہ مذکورہ بالا مضمون میں بھی اسٹیٹ کا ترجمہ ریاست کیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ مرزا محمود سب سے پہلے سندھ میں اپنی ریاستوں کی زمین فروخت کرنا چاہتے ہیں.اس ملک کی کتنی بد قسمتی ہے جس کے علماء جہلاء ہوں یا دوسرے کو بد نام کرنے کے لئے جھوٹ بولنا جائز سمجھتے ہوں.مرزا محمود احمد
انوار العلوم جلد 23 37 احرار کو چیلنج نام پر خریدی گئی ہے لیکن شروع دن سے اس کے اوپر میرے کارکن کام کر رہے ہیں اور میرے بینک اکاؤنٹ اس بات کے شاہد ہیں کہ بینکوں کے ذریعہ سے میرے حساب سے اس کی قیمت ادا ہوئی ہے.پس یہ کوئی جھگڑے والا سوال ہی نہیں.پاکستان کے چار زبر دست بینک اس بات کے گواہ موجود ہیں.ان بینکوں میں میرے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، صدر انجمن احمدیہ کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں، تحریک جدید کے نام کے کھاتے الگ کھلے ہوئے ہیں اور ان کھاتوں سے وہ قیمتیں ادا ہوئی ہیں.بعض دفعہ ایسا ضرور ہوا ہے کہ ضرورت کے موقع پر ایک دوسرے کے کھاتے سے قرض لے لیا گیا ہے لیکن یہ ثبوت بھی بینکوں سے مل سکتا ہے کہ اگر ضرورت کے موقع پر میں نے دس روپے لئے ہیں تو اس کے مقابلہ میں ضرورت کے موقع پر تحریک جدید یا انجمن کو میں نے سو روپیہ دیا ہے.یعنی قرض کے معاملہ میں بھی میرا پہلو بھاری ہے اور تحریک جدید اور انجمن کا پہلو کمزور ہے.میں ان کا مقروض نہیں رہا وہ میرے مقروض رہے ہیں.یہ بات میں زمینوں کے متعلق لکھ رہا ہوں ورنہ یوں انجمن مجھے قرض کے طور پر پچھلے سال تک ماہوار رقم گزارہ کے لئے دیتی رہی ہے اور وہ رقم برابر جماعت کے بجٹ میں پڑتی رہی ہے اور حساب میں موجود ہے.(ڈیڑھ سال سے میں نے وہ رقم لینی بند کر دی ہے اور سابق قرض اُتارنے کی فکر میں ہوں) دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ جہاں تک فروخت کرنے کا سوال ہے یہ ٹھیک ہے کہ میں کچھ زمین فروخت کر رہا ہوں لیکن وہ زمین انجمن کی نہیں ہے.نہ وہ ان زمینوں میں سے ہے جو میری ہیں لیکن انجمن کے نام پر خریدی گئی ہیں.پس اس کے متعلق نہ کوئی حقیقی اعتراض پید اہو سکتا ہے نہ کوئی غلط نہیں.تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ یہ بات سراسر غلط ہے کہ کوئی انجمن کی زمین میرے قبضہ میں ہے.میں بتا چکا ہوں کہ انجمن کی کچھ زمین میرے نام پر خریدی ہوئی ضرور ہے لیکن میرے قبضہ میں وہ نہیں ہے.وہ انجمن ہی کے قبضہ میں ہے اور
انوار العلوم جلد 23 38 احرار کو چیلنج اس کے مینیجر اس پر کام کر رہے ہیں اس لئے کسی شخص کو اس پر اعتراض کی گنجائش نہ ہو سکتی ہے اور نہ کبھی ہوئی ہے.چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جاگیر داری کے قانون سے ڈر کر میں یہ زمین فروخت کر رہا ہوں.اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جاگیر داری کے قانون سے ڈر کر فروخت کرنانہ شرعاً جرم ہے نہ قانونا جرم ہے.جس دن تک وہ قانون پاس ہو.اس دن تک ہر جاگیر دار اپنی جاگیر فروخت کر سکتا ہے اور اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور نہ شریعت کا اس بات پر کوئی اعتراض ہے کہ کوئی شخص اپنی کوئی چیز مناہی سے پہلے فروخت کر سکے.باقی "آزاد" اور احرار کے دماغ تو ہیں بالکل کند کیونکہ جو شخص غلط بیانی پر اتر آتا ہے وہ سوچنے کا عادی نہیں رہتا.ورنہ ہر شخص جان سکتا ہے کہ سندھ میں میری کوئی جاگیر ہو ہی نہیں سکتی.میں پنجابی ہوں مجھے سندھ میں کیوں جاگیر ملنی تھی.جاگیر نام ہے اس زمین کا جو حکومتِ وقت کی طرف سے بطور عطیہ کے ملی ہو.خصوصاً وہ جس کا لینڈ ریونیو معاف ہو.لوگ محض فخر کے طور پر ایسی زمین کو بھی جاگیر کہہ دیتے ہیں جو اور نمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف نہ ہو لیکن اصل اصطلاح یہی ہے کہ جو زمین گورنمنٹ نے دی ہو اور اس کا لینڈ ریونیو معاف کر دیا ہو وہ جاگیر ہے.میں اپنی کتاب " اسلام اور ملکیت زمین " میں خود لکھ چکا ہوں کہ جاگیر داری اسلام میں ناجائز ہے کیونکہ لینڈ ریونیو، زکوۃ کا قائم مقام ہے اور زکوۃ حکومت معاف نہیں کر سکتی.نیز امراء کے لئے زکوۃ لینی جائز نہیں اور میں نے اس کتاب میں حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جاگیروں کو اُڑا دے اور جاگیر داروں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ خود اس حق کو چھوڑ دیں کیونکہ یہ آمد اسلام کے خلاف ہے اور امراء کو زکوۃ میں سے حصہ نہیں لینا چاہئے.پس یہ کیونکر خیال کیا جاسکتا ہے کہ میرے پاس کوئی جاگیر ہے.نہ میں سندھ کا باشندہ ہوں اور نہ میں سندھ کی حکومت کا کبھی ملازم رہا، نہ میں جاگیر کا قائل.میرے پاس جاگیر آہی کس طرح سکتی تھی اور جو چیز آنہیں سکتی تھی اس کی فروخت کا سوال ہی کس طرح پیدا ہو سکتا ہے.یا نچواں اعتراض یہ ہے کہ میں انجمن کی زمین کی قیمت کو اپنی ذات پر خرچ
انوار العلوم جلد 23 39 احرار کو چیلنج کرنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں اُو پر لکھ چکا ہوں انجمن کی کوئی زمین میرے قبضہ میں نہیں.انجمن کی جو زمین میرے نام پر خریدی گئی ہے وہ بھی انجمن کے قبضہ میں ہے اور اس پر نہ لسی نے اعتراض کیا ہے کہ میں انجمن کی خریدی ہوئی جائداد پر قبضہ کر رہا ہوں.نہ اس اعتراض میں کوئی وقعت ہے اور نہ میں اس اعتراض سے ڈرتا ہوں.انجمن کے ریکارڈ میں تمام وہ زمینیں درج ہیں جو اُس نے خریدیں ،انجمن کے خزانے میں وہ رقوم درج ہیں جو اس نے اس زمین پر خرچ کیں اور انجمن کے بینک اکاؤنٹ میں بھی وہ آمد نہیں درج ہیں جو ان زمینوں سے ہوئی ہیں اور وہ خرچ بھی درج ہیں جو ان زمینوں پر ہوئے.اسی طرح جو زمینیں میں نے خریدی ہیں اُن کی پہلی قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے.اُن کی دوسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے اور اُن کی تیسری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے.یہاں تک کہ آخری قسط ادا کرنا بھی میری طرف سے ثابت ہے.پس کوئی صحیح الدماغ آدمی اعتراض ہی کس طرح کر سکتا ہے اور اگر کوئی شخص جوش جنون میں اعتراض کرے تو مجھے اس سے گھبر اہٹ ہی کیا ہو سکتی ہے.ریکارڈ موجود ہے.میں جماعت کے سامنے رکھ دوں گا.ان حالات کے بیان کرنے کے بعد اب میں احرار کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر اُن کے اندر کوئی تخم دیانت ہے تو وہ مندرجہ ذیل طریقہ سے مجھ سے اس اعتراض کا تصفیہ کر لیں.اوّل یہ کہ ایک نمائندہ جو مستقل طور پر دیوانی کی حجی پر کام کر چکا ہو یا کام کر رہا ہو میں مقرر کر دوں گا اور ایک اسی قابلیت کا آدمی وہ مقرر کر دیں.یہ دونوں آدمی مل کر ایک تیسر ا ثالث اپنے ساتھ ملالیں جس میں یہی صفات پائی جائیں.یعنی وہ مستقل طور پر سب جی یا اس سے اوپر کے کسی عہدہ پر رہ چکا ہو یا اس وقت اس عہدہ پر ہو.میں تین کا پیاں ان تینوں ثالثوں کو دے دوں گا.جس میں یہ عبارت درج ہو گی کہ :- میں مرزا بشیر الدین محمود احمد اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ یہ زمین جس کی
انوار العلوم جلد 23 40 فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور جس کے لئے دو تین گاہک بھی آچکے ہیں اور وہ خط و کتابت میرے پاس محفوظ ہے یہ زمین انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی نہیں.انجمن نے کبھی اس زمین کو اپنی نہیں سمجھا اور کبھی کسی واقف حالات شخص نے اس زمین کو انجمن کی قرار نہیں دیا.اگر میں اس دعویٰ میں جھوٹا ہوں تو خدا کی لعنت مجھے پر ہو“.احرار کو چیلنج اسی قسم کی ایک تحریر جماعت احرار لکھ کر دے دے اور اس پر مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب اور مولوی محمد علی صاحب اور شیخ تاج الدین صاحب کے دستخط ہوں.کیونکہ وہی احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں کہ :- ہم جو جماعت احرار کے ذمہ دار کارکن ہیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں جس کی جھوٹی قسم کھانا لعنتیوں کا کام ہے کہ وہ زمین جو مرزا محمود احمد سابق قادیانی حال ربوہ فروخت کر رہے تھے اور جس کی فروخت کا اعلان الفضل کو بھجوایا گیا تھا اور آزاد نے جس کا چربہ شائع کیا ہے یہ انجمن کے روپیہ سے خریدی ہوئی زمین تھی اور وہ اس زمین کو اپنی ذاتی اغراض پر خرچ کرنے کے لئے فروخت کر رہے تھے.اگر ہم اس اعلان میں جھوٹے ہوں تو خدا کی ہم پر لعنت ہو.“ جب تینوں جوں کی طرف سے میرے پاس یہ تحریر آجائے گی کہ ہمارے پاس دونوں فریق کی تحریریں پہنچ گئی ہیں تو میں دس دس ہزار روپیہ بینک میں ان تینوں ثالثوں کے نام جمع کرادوں گا کہ اگر احرار کا دعویٰ ثابت ہو جائے تو علاوہ میری تحریر کے وہ دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں.اس طرح احرار کو کھالوں کی اٹھنیاں اور روپے جمع کرنے سے بھی بہت کچھ نجات ہو جائے گی.میں ان سے کسی روپیہ کا مطالبہ نہیں کرتا.میں صرف اس تحریر کا مطالبہ کرتا ہوں.اس کے بعد دونوں فریق اپنے اپنے دلائل لکھ کر مقرر کردہ ثالثوں کو دے دیں اور وہ لوگ کثرت رائے سے اپنا فیصلہ صادر
انوار العلوم جلد 23 41 احرار کو چیلنج کر دیں کہ آیا میر ادعولیٰ صحیح ہے یا احرار کا دعویٰ صحیح ہے.اگر وہ احرار کا دعویٰ صحیح قرار دیں تو دس ہزار روپیہ بھی احرار کو دے دیں اور اپنا فیصلہ جس کے ساتھ میری لعنت والی تحریر نتھی ہو وہ بھی ان کے حوالہ کر دیں.احرار کو اس طرح میرے خلاف پروپیگنڈے کا بھی ایک بڑا موقع مل جائے گا اور روپیہ بھی بہت کافی مل جائے گا لیکن اگر ثالثوں پر یہ ثابت ہو کہ میرا دعویٰ ٹھیک ہے اور احرار نے جھوٹ کی نجاست پر منہ مارا ہے تو وہ اپنا فیصلہ لکھ کر اس کے ساتھ احرار کی تحریر لگا کر مجھے بھجوا دیں اور میرا روپیہ مجھے واپس کر دیں.ہاں یہ ضروری ہو گا کہ ثالث اپنے فیصلوں میں دونوں فریق کی تحریرات شامل کریں اور فیصلہ با دلائل دیں کیونکہ اس نے بہر حال شائع ہونا ہے.اختلاف کی صورت میں کسی ثالث کا اختلافی نوٹ ساتھ شامل کرنا ضروری ہو گا.یہ امر بھی یادر ہے کہ جس طرح لعنتوں والی تحریر کی تین کا پیاں تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی اسی طرح دلائل والی کا پیاں بھی تینوں ثالثوں کو الگ الگ دینی ضروری ہوں گی جن پر میری طرف سے میرے دستخط ہوں گے اور اگر احرار اصرار کریں تو صدر انجمن احمدیہ کے پریذیڈنٹ کے بھی میں اُس پر دستخط کروادوں گا.اسی طرح تحریک جدید کے صدر کے بھی دستخط کروادوں گا.گو چونکہ یہ میر اذاتی معاملہ ہے اس لئے اس کی ضرورت معلوم نہیں ہوتی لیکن اگر وہ چاہیں تو میں اس کا بھی ذمہ لے لیتا ہوں.دوسری طرف احرار کی تنوں کا پیوں پر مولوی عطاء اللہ شاہ صاحب، مولوی محمد علی صاحب جالندھری اور شیخ تاج الدین صاحب لدھیانوی کے دستخط ہونے ضروری ہوں گے.میں تین کا پیوں کے تینوں ثالثوں کو الگ الگ دیئے جانے پر اس لئے زور دے رہا ہوں کہ اگر میرا نمائندہ شرارت کرے تو احرار کے پاس ریکارڈ محفوظ رہے اور اگر اُن کا نمائندہ شرارت کرے تو ہمارے پاس ریکارڈ محفوظ رہے.میں اُمید کرتا ہوں کہ جماعت احرار اس غیبی دس ہزار روپیہ کو لینے کے لئے بے تابی سے آگے بڑھے گی.لعنتیں کھانے کے تو وہ عادی ہیں اس میں گھبرانے کی کوئی بات نہیں اور اگر وہ بچے ہیں تو پھر تو بالکل گھبرانے کی کوئی بات نہیں.چنانچہ میں بالکل نہیں گھبر ایا بلکہ میں لعنتوں کی
انوار العلوم جلد 23 42 احرار کو چیلنج تحریر کے علاوہ دس ہزار روپیہ بھی دینے کے لئے تیار ہوں.یہ روپیہ بینک کے پاس تین ماہ کی میعاد تک کے لئے ثالثوں کے پاس جمع رہے گا.اگر اس عرصہ میں اُنہوں نے فیصلہ نہ کیا اور نہ مزید مہلت مجھ سے طلب کی تو مجھے واپس مل جائے گا اور سمجھا جائے گا کہ ثالث کسی وجہ سے فیصلہ دینے کے لئے تیار نہیں اور اس صورت میں دونوں فریق کو اجازت ہو گی کہ اپنے نمائندے سے فریقین کی تحریریں لے کر خود شائع کر دیں.خاکسار مرزا محمود احمد "03-10-1952 (الفضل 4 اکتوبر 1952ء)
انوار العلوم جلد 23 43 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبالعین نے اخبار "پیغام صلح" کے اس بیان کی تردید کہ مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 45 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبالعین نے اَعُوْذُ بِااللَّهُ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ اخبار ”پیغام صلح“ کے اس بیان کی تردید کہ مبائعین نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں (محرره 24 اکتوبر 1952ء) اخبار پیغام صلح مؤرخہ 15 اکتوبر 1952ء میں ایک مضمون میاں محمد صاحب پریذیڈنٹ احمد یہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کی طرف سے شائع ہوا ہے.اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ :- الْحَمْدُ لِله کہ قادیانی جماعت کے امام جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے آخر کار حضرت صاحب کی نبوت کے عقیدہ سے بہت کچھ رجوع کر لیا ہے اور اب وہ اپنی تحریرات کا وہی مفہوم لیتے ہیں جن کی طرف حضرت امیر مرحوم انہیں دعوت دیتے تھے“.مجھے اس عبارت کو پڑھ کر تعجب ہوا اور بے اختیار آنکھوں کے سامنے یہ فقرہ آگیا کہ سخن فہمی عالم بالا معلوم شُد انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.تعجب ہے کہ میاں محمد صاحب اخبار میں تو یہ شائع کرتے ہیں کہ میں نے اپنے عقیدے بدل لئے ہیں اور وہی عقائد اختیار کر لئے ہیں جو مولوی محمد علی صاحب رکھتے تھے مگر مجھے بار بار خط لکھتے ہیں کہ میں اپنے عقائد کی وضاحت کروں تاکہ دنیا میں جو غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ دور ہو جائے.اگر میں نے اپنے خیالات کی اصلاح کر لی ہے تو
انوار العلوم جلد 23 46 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبائعین نے.میں دنیا میں غلط فہمی کون سی رہ گئی ہے.باقی رہا یہ کہ میرے متعلق آپ کو یہ خیال پید اہو گیا ہے کہ میں نے اپنے عقائد بدل لئے ہیں تو اس وہم کا ازالہ میرے اختیار میں نہیں.جو نے نہیں لکھا آپ اپنے خطوں میں میری طرف منسوب کرتے ہیں اور اب اخبار میں بھی شائع کر رہے ہیں.اس مرض کا علاج میرے پاس نہیں ہے.میرے عقائد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق وہی ہیں جو آپ کی زندگی میں تھے ، جو آپ کے بعد آج تک رہے اور آئندہ انشاء اللہ رہیں گے.میں نے جو آخری خط میاں محمد صاحب کو لکھا تھا وہ میں ذیل میں درج کرتا ہوں.اس کو پڑھ کر ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ حقیقت کیا ہے.میرے خط کی عبارت یہ ہے:.مگر می میاں صاحب! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ آپ کا خط ملا.میری تحریر سے کچھ مترشح ہوتا ہے یا نہیں یہ تو آپ ہی سمجھ سکتے ہیں.میں نے تو جو کچھ لکھا تھا سادہ عبارت میں ایک مفہوم ادا کیا تھا.اصل میں ایسے مسائل خط و کتابت سے طے نہیں ہوتے.یا کتابوں سے یا ملاقاتوں سے یا پھر اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دینے سے طے ہوتے ہیں.یعنی جب انسان سمجھ لیتا ہے کہ اب ملاقات یا کتابوں کا مطالعہ بے فائدہ چیز ہے.آپ نے میرے ایک حوالہ کا ذکر کیا ہے مگر کتاب یا اخبار کا نام اور صفحہ وغیرہ درج نہیں کیا.آپ نے جو الفاظ لکھے ہیں وہ مجھے یاد نہیں.آپ کہتے ہیں کہ اخباروں میں اس حوالہ کا ذکر آچکا ہے.یہ درست ہو گا مگر وہ اخبار آپ نے پڑھے ہیں، میں نے نہیں پڑھے.اس لئے جب تک حوالہ آپ نہ لکھیں میرے لئے اسے دیکھنا مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے 1901 ء سے پہلے کے حوالوں کو اگر میں نے کسی جگہ منسوخ قرار دیا ہے تو اسی جگہ سے یہ بھی ظاہر ہے کہ میں نے کون سی چیز منسوخ قرار دی ہے ؟ جو چیز منسوخ ہوئی وہ صرف نبوت کی تعریف ہے.یہ فقرہ جو میں نے لکھا ہے بعینہ یہی مضمون حقیقتہ النبوۃ میں بھی بیان ہے.چنانچہ
انوار العلوم جلد 23 47 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبالعین نے.پس جو بات نبوت کی اس تعریف کے خلاف ہو گی، جو 1901ء کے بعد آپ نے فرمائی وہ منسوخ ہو گئی اور جو خلاف نہیں ہوگی وہ منسوخ نہیں ہو گی.حوالہ جات منسوخ نہیں صرف پہلی تعریف نبوت منسوخ ہے ورنہ ان حوالوں کا مضمون قائم ہے.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے.میں نے اپنا خط نکال کر پھر پڑھا ہے اس میں تو یہ کہیں نہیں لکھا کہ حضرت صاحب کا مقام مجددیت اور نبوت کے درمیان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بے شک لکھا ہے کہ امتی نبی کا نام ایک نیا نام ہے جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں ملا اور یہی ہم کہتے ہیں ، نہ اس سے کم نہ اس سے زیادہ.ہالینڈ میں مسجد ہم بنارہے ہیں اور نقشہ بن رہا ہے.کل ہی اس کا پلین (PLAN) ہالینڈ کے ایک آرمیچر (ARCHITECTURE) کی طرف سے آیا ہے.معلوم ہوتا ہے کسی نے آپ کو یہ غلط رپورٹ دی ہے کہ ہم مسجد نہیں بنار ہے.والسلام خداحافظ خاکسار.مرزا محمود احمد “ 66 اس خط سے ظاہر ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو امتی نبی تسلیم کرتے ہیں لیکن امتی نبی کوئی ایسا درجہ نہیں جو مجد دیت اور نبوت کے درمیان ہو بلکہ (بقیہ حاشیہ :-) اس کے بعض فقرات یہ ہیں: وو یہ تعریفوں کا اختلاف ہی تھا جس کی وجہ سے 1901ء سے پہلے آپ اپنی نبوت کو جزئی اور ناقص قرار دیتے رہے“ 1 ”خدا تعالیٰ نے کسی پہلے حکم کو بدلا نہیں اور آپ جزوی نبی سے پورے نبی نہیں بنائے گئے.“ 2 پس اس تعریف نے پہلی تعریف کو بدلا دیا اور 1901ء سے پہلے جس قدر تحریرات سے نبی ہونے کا انکار پایا جاتا تھا ان کے معنے بھی بدل دیئے اور اس کے صرف یہ معنے رہ گئے کہ آپ نے شریعتِ جدیدہ 66 لانے یا براہ راست نبوت پانے سے انکار کیا ہے “.3
انوار العلوم جلد 23 48 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبائعین نے.امتی نبوت بھی نبوت کی ایک قسم ہے.ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہمیشہ سے نبی مانتے آئے ہیں اور اب بھی مانتے ہیں لیکن ہم نے کبھی بھی یہ تسلیم نہیں کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی نئی شریعت لائے تھے یا انہوں نے کوئی نیا دین نکالا تھایا انہوں نے کوئی نیا کلمہ بنایا تھا یا انہوں نے کوئی نیا قبلہ تجویز کیا تھا.ہمارا ہمیشہ سے یہی عقیدہ رہا ہے کہ آپ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع تھے اور امتی تھے اور آپ کی طرح آپ کی سب جماعت بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت سے ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے لے کر قیامت تک ایک ہی امت چلے گی اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہو گی مسیح موعود یا اور کوئی جو مصلح آئے وہ کسی نئی امت کا بانی نہیں ہو گا بلکہ خود امتی ہو گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور تابع ہو گا نبی تلی کا صلی اللہ علیہ وسلم.پس جو کچھ آپ نے پایا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان سے پایا اور آپ کی تمام عزت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے خفیف سے خفیف سرتابی کو بھی آپ کفر سمجھتے تھے بلکہ حقیقتا یہی عقیدہ بناء تھا اس عقیدہ کی کہ عام مسلمانوں میں اب حقیقت اسلام باقی نہیں رہی کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں اور تعلیم سے وہ سر تابی کرتے ہیں.پس جو کچھ میں نے کہا ہے اور جو ہمیشہ میں کہتا چلا آیا ہوں وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عہدہ نبوت مستقلہ شرعیہ اور مجدد کے درمیان کا عہدہ لیکن ہے وہ نبوت ہی کی ایک قسم اور اب بھی ہمارا یہی عقیدہ ہے اور ہم نے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کی.ایک وقت تھا کہ جماعت غیر مبائعین اس قسم کی بحثوں میں پڑ کر یہ خوشی محسوس کیا کرتی تھی کہ اس قسم کی بحث میں جب مبائعین کو پھنسایا جائے گا تو غیر احمدیوں میں ان کی بدنامی ہو گی لیکن واقعات نے ان کی اس پالیسی کو غلط ثابت کر دیا ہے کیونکہ باوجود ان حیلوں کے بڑھی ہماری ہی جماعت.وہ اسی طرح کے اسی طرح رہے اور اب تو وہ زمانہ بھی ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس وقت غیر احمدی ہمارے حوالوں سے
انوار العلوم جلد 23 49 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبائعین.واقف نہیں تھے.جب وہ " پیغام صلح " میں وہ حوالے پڑھتے تھے تو بوجہ نیا علم ہونے کے ان کے دلوں میں مشبہ پیدا ہوتا تھا اور بعض کے دلوں میں غصہ پیدا ہو تا تھا.اب جماعت احرار نے خود مطالعہ کر کے غیر مبائعین سے بھی زیادہ ہمارے حوالے نکال لئے ہیں اور ایک ایک حوالہ کے ساتھ دس دس جھوٹ بھی ملالئے ہیں.اب پیغام صلح میں اس قسم کی بحث چھیڑنے سے کوئی فائدہ نہیں کیونکہ زیادہ سے زیادہ وہ یہ امید کر سکتے ہیں کہ ہم اس کی تردید کریں گے ، تو وہ اس کو اچھالیں گے لیکن وہ ہمارے جن حوالوں کو اچھالیں گے ایک ایک حوالے میں دس دس جھوٹ ملا کر احرار اس کو خوب پھیلا چکے ہیں اور ہمارے حوالے بگڑی ہوئی خطرناک صورت میں عوام الناس غیر احمدیوں کے سامنے آچکے ہیں اس لئے اب یہ کھیل پر انا ہو چکا ہے اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا.ہم ممنون ہیں عظمند غیر مبائعین کے کہ انہوں نے موجودہ جھگڑے میں اس بات کو خوب محسوس کیا کہ یہ تلوار صرف مبائعین پر ہی نہیں چل رہی غیر مبائعین پر بھی چل رہی ہے.غیر احمدی علماء نے صاف فتویٰ دے دیا ہے کہ اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں کہ مرزا صاحب مجدد تھے یا نہیں.سوال یہ ہے کہ مرزا صاحب مرتد تھے اور کافر تھے.چنانچہ مولوی عبد الحامد صاحب بدیوانی کا خط ناظر صاحب دعوت و تبلیغ کو اس مضمون کا آچکا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں کہ :- ”جناب مرزا کے دعاوی و بیانات پر نظر رکھنے والے افراد کی آپ حضرات کے بارے میں جو رائے ہے ، وہ ظاہر ہے جس شخص نے حضرات انبیاء کرام کی اہانت کی ہو حضرات اہل بیت اطہار سے اپنے مقام کو بڑھایا ہو ، صفاتِ احدیت کو خود اپنی ذات میں جمع کیا ہو ، ان کے مسجد دیا مسیح موعود ماننے والوں کو بھی ہم قادیانیوں جیسا ہی سمجھتے ہیں“.غرض سب عقلمند غیر مبائعین نے سمجھ لیا ہے کہ ان حالات میں تبر حضرت سیح موعود علیہ السلام پر پڑ رہا ہے کسی ایک جماعت پر نہیں پڑ رہا.اور مخالفت کسی ایک حصہ کی نہیں بلکہ ساری احمدیت کی ہے اور بقول زمیندار صرف دمشقی اور اندلسی کا
انوار العلوم جلد 23 فرق ہے، ورنہ بات ایک ہی ہے.50 اخبار ”پیغام صلح کے اس بیان کی تردید کہ مبالعین نے.ہم سمجھتے ہیں کہ یہ عظمند فرقہ آئندہ بھی اپنے رویہ پر قائم رہے گا، ورنہ بہر حال یہ ان کا اپنا کام ہے.اگر وہ عقل سے کام لیں گے تو فائدہ اٹھائیں گے نہ لیں گے تو خدا تعالیٰ کے قانون کی گرفت میں آئیں گے.میاں صاحب کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ ہم تو یہ خیال کرتے تھے کہ ان کے عقائد میں کچھ فرق آگیا ہے کیونکہ چودھری ظہور احمد صاحب باجوہ نے حال ہی میں انگلستان سے مجھے رپورٹ بھیجی ہے کہ اب وہ کنگ مشن کے ذریعہ سے انگریز احمدی بھی ہونے لگ گئے ہیں.گویا وہی تعلیم جس کو پہلے زہر قرار دیا جاتا تھا اب تریاق قرار دے دی گئی ہے.چنانچہ وہ کنگ مشن کے ذریعہ سے ایک احمدی ہونے والی عورت ہمارے مشن میں بھی آئی اور ہمارے مشنری سے اس نے باتیں کیں.پس ہم تو یہ امید رکھ رہے ہیں کہ جلد ہی احمدیت کی تبلیغ ایک ضروری چیز قرار دے دی جائے گی اور غیر مبائعین بھی انگلستان اور امریکہ میں کھلے بندوں احمدیت کی تبلیغ کرنے لگ جائیں گے اور خدا تعالیٰ دونوں فریق کو اس بات کی توفیق دے گا کہ وہ احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں.خاکسار.مرزا محمود احمد 24 اکتوبر 1952ء“ 1: حقيقة النبوۃ.انوار العلوم جلد 2 صفحہ 451 2: حقيقة النبوة- انوار العلوم جلد 2 صفحہ 379 3: حقيقة النبوة- انوار العلوم جلد 2 صفحہ 455 (الفضل 29 اکتوبر 1952ء)
انوار العلوم جلد 23 51 خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 53 خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتاحی خطاب (فرمودہ 30اکتوبر 1952ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- ” مجھے اس بات کا اعلان کرتے ہوئے خوشی ہے کہ خدام الاحمدیہ کا یہ بار ہواں سالانہ اجلاس ہو رہا ہے.بارہواں سال ایک بلوغت کا سال سمجھا جاتا ہے.بلوغت کے جو پانچ زمانے شمار کئے جاتے ہیں ان میں سے پہلا زمانہ بارہ سال کی عمر میں شروع ہوتا ہے اور دوسرا 15 سال کی عمر میں جبکہ جہاد میں شمولیت کی اجازت مل سکتی ہے.تیسر ا 18 سال کی عمر میں جبکہ جہاد واجب ہو جاتا ہے.چوتھا 21 برس کا ہونے پر جبکہ شریعت انسان کو پورے طور پر اپنے اموال کا مالک قرار دیتی ہے اور پانچواں دور بلوغت کا 40 برس کا ہونے پر شروع ہوتا ہے جو کہ عام مدت خدا تعالیٰ نے انبیاء کی بعثت کے لئے مقرر فرمائی ہوئی ہے.یہ سال جو تمہارے لئے بلوغت کا پہلا سال ہے جماعت کے لئے بہت سے فساد اور مشکلات لایا ہے.سلسلے پر جو نازک ترین زمانے گزرے ہیں.گیارہویں اور بارہویں سال کا یہ درمیانی عرصہ ان سے بھی زیادہ خطر ناک حالات تمہارے لئے لایا ہے.اِس سے پہلے بھی جماعت پر ظلم و تعدی کے کئی دور آئے ہیں لیکن کبھی بھی ایسا زمانہ نہیں آیا تھا جبکہ بعض لوگوں نے ظلم اور جبر سے ڈر کر کچھ کمزوری دکھائی.گو مخالفین نے تو
انوار العلوم جلد 23 54 خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب ایسے لوگوں کی تعداد بہت ظاہر کی ہے مگر میرے علم کے مطابق ان کی تعداد کسی صورت میں بھی پچاس ساٹھ سے زیادہ نہیں ہوئی اور ان میں سے بھی اکثر بعد میں جلد ہی سنبھل گئے اور شاید ہی کوئی ایسا رہا ہو گا جس نے ندامت کا اظہار نہ کیا ہو مگر بہر حال مومنوں کی جماعت کے لئے اتنی کمزوری بھی معمولی نہیں ہے.ان کی جماعت تو اتنی مضبوط ہونی چاہئے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسی کمزوری نہ دکھلائے.خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی غرض یہی تھی کہ اگر کسی موقع پر قربانی کا موقع آئے تو سو میں سے ننانوے نہیں بلکہ سو کے سو ہی اس قربانی پر پورے اتریں.یہ روح اگر تم میں پیدا ہو جائے تو پھر دنیا کی کوئی قوم تم پر ظلم نہیں کر سکتی.دنیا کی کوئی طاقت تمہاری راہ میں کھڑی نہیں ہو سکتی.یہ تو خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ تمہاری اکثریت ایسے ملک میں ہے جہاں کی حکومت جمہوریت کے اسلامی اصولوں کی پابندی کرتے ہوئے حتی الامکان ظلم و ستم ہونے نہیں دیتی لیکن تم نے صرف ایک ملک تک محدود نہیں رہنا تم نے ساری دُنیا میں اسلام کا جھنڈا گاڑنا ہے اور دنیا میں آج بھی ایسے ملک موجود ہیں جہاں پر مذہب کے نام پر ظلم ہوتا ہے.جہاں تلوار کے زور سے عقائد کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.پس تمہارا فرض ہے کہ تم ایسے ممالک کے حالات کے لئے بھی اپنے آپ کو تیار رکھو تا کہ وقت آنے پر تم کمزوری نہ دکھلا سکو.گو پاکستان کے حکام کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق دی ہے کہ وہ اسلامی تعلیم کے مطابق عدل و انصاف کو قائم رکھتے ہیں اور ظلم نہیں ہونے دیتے اور ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کو اس روز بد سے ہمیشہ ہی محفوظ رکھے جبکہ یہاں بھی ظلم ہو لیکن ایک حد تک یہاں بھی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں اور بعض دیگر ممالک میں تو یقیناً ہوں گی.پس تم میں سے ہر ایک کا فرض ہے کہ وہ ایسے حالات کے لئے اپنے آپ کو تیار رکھے جبکہ ایک طرف ایمان ہو اور دوسری طرف تلوار.ویسے تو اس وقت تم میں سے ہر ایک جذباتی طور پر کہہ دے گا کہ ہم جانیں دے دیں گے مگر اپنے ایمان پر قائم رہیں گے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہر چیز تیاری اور وقت چاہتی ہے.اس سال جو حالات پیدا
انوار العلوم جلد 23 55 خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب ہوئے ہیں ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہاری پہلی بلوغت کے ساتھ ہی تمہیں ہوشیار کر دیا ہے تا کہ تم آنے والے خطرات کے مقابلہ کے لئے تیاری کر سکو.خدام الاحمدیہ کے متعلق جو رپورٹیں مجھے ملی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ خطرات کے ایام میں احمدیوں کی مدد کرنے، عورتوں اور بچوں کو خطرات سے نکالنے اور اشتہارات وغیرہ کی اشاعت کے سلسلے میں انہیں خدا تعالیٰ نے اچھا کام کرنے کی توفیق دی ہے.یہ ایک خوشکن علامت ہے لیکن ایسی نہیں جس پر ہم مطمئن ہو کر بیٹھ جائیں گو جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ تمہاری بلوغت کا پہلا زمانہ ہے لیکن سب بالغ ایک ہی قسم کے نہیں ہوتے.بعض ہیں سال کی عمر میں بھی عادتوں کے لحاظ سے ابھی بچے ہی ہوتے ہیں اور بعض بہت چھوٹی عمر میں ہی بڑے بڑے کارنامے کر کے دکھاتے ہیں.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ بارہ سال کی اس بلوغت تک پہنچنے کے بعد کیا تمہاری عقلیں اتنی تیز ہو گئی ہیں کہ تم ہر طرح کے خطرات کا مقابلہ کر سکو.یوں تو مومن خدا کے حکم کے ماتحت اپنی حفاظت کرتا ہے لیکن اگر ایک طرف تمہاری جان ہو اور دوسری طرف ایمان تو کیا تم میں سے ہر ایک کی روح پلاتر قد، بلا تامل اور فوری طور پر اپنی جان کو خدا اور اپنے درمیان حائل سمجھتے ہوئے اسے قربان کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے.خدا تعالیٰ نے تمہیں ہوشیار کر دیا ہے اب تم اپنے دلوں کو مضبوط کرو اور آنے والے خطرات کے لئے تیاری کرو.وہ تیاری اسی طرح ہو سکتی ہے کہ تم اپنے اوقات کو صحیح رنگ میں گزارو، زیادہ سے زیادہ تبلیغ کرو، زیادہ سے زیادہ خدمتِ خلق کر و.خدمتِ خلق کے متعلق تمہارا کام ابھی نمایاں نہیں ہے.زلزلہ اور اسی طرح کی دیگر مصیبتوں کے پڑنے پر یا جلسوں اور جلوسوں کے مواقع پر تمہیں کم از کم بوائے سکاؤٹس یا ریڈ کر اس جتنا نمونہ تو دکھانا چاہئے حالانکہ اصل میں تو ان سے سینکڑوں گنا زیادہ اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے.واضح رہے کہ خدمت خلق سے میری مراد محض احمدیوں یا مسلمانوں کی خدمت نہیں بلکہ بلا امتیاز مذہب و ملت، خدا کی ساری ہی مخلوق کی خدمت مراد ہے.حتی کہ اگر دشمن بھی مصیبت میں ہو تو اس کی بھی مدد کرو.یہ ہے خدمتِ خلق کا صحیح جذر
انوار العلوم جلد 23 56 خدام الاحمدیہ کے بارہویں سالانہ اجتماع میں افتتاحی خطاب اپنے آپ کو ایسے مقام پر کھڑا کرو جس کے بعد تمہیں یقین ہو جائے کہ تم ہر گز بُزدلی نہیں دکھاؤ گے.اس کے لئے تیاری کرو مگر یہ تیاری اسلامی طریق کے مطابق ہونی چاہئے.ایسی تیاری کرنے کے دُنیا میں دو ہی طریق ہیں ایک یہ کہ جسموں کو مضبوط بنایا جائے.اس کی مثال نپولین، ہٹلر، چنگیز خان اور تیمور سے مل سکتی ہے اور ایک تیاری روح کی مضبوطی اور پاکیزگی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے.اس کی سب سے روشن اور اعلی و ارفع مثال دُنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس وجود میں دیکھ چکی ہے.پس تم ہٹلر ، نپولین یا چنگیز خاں اور تیمور کی بجائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کو سامنے رکھتے ہوئے تیاری کرو لیکن یہ نمونہ دنیوی خوشیوں سے سینکڑوں اور ہزاروں گنا بالا ہے بلکہ اتنابالا ہے کہ آج بھی فرشتے اس پر مرحبا کہہ رہے ہیں“.(الفضل لاہور یکم نومبر 1952ء)
انوار العلوم جلد 23 57 وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمربستہ ہو جاؤ وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمربستہ ہو جاؤ از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 59 59 وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمربستہ ہو جاؤ اختتامی خطاب فرموده یکم نومبر 1952ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- 1 - جو خادم انعام لینے آئے وہ پہلے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُم کہے.انعام دائیں ہاتھ سے لے اور پھر اسے بائیں ہاتھ میں تھام کر مصافحہ کرے.انعام لے کر جَزَاكُمُ اللَّهُ أَحْسَنَ الْجَزَاء کہے.اس موقع پر حاضرین مجلس کو بھی انعامات تقسیم کرنے والے کی اتباع میں بارگ اللہ لگ کہنا چاہئے.-2 میری تقریر کے وقت اطفال کو بھی یہاں لانا ضروری ہے تا کہ وہ اپنے شور سے تقریر میں مخل نہ ہوں اور ان کے کانوں میں بھی نیکی کی باتیں پڑتی رہیں.مرکزی کارکنوں کو چاہئے کہ وہ اپنے احکام کی تعمیل کرانے کے لئے مختلف مقامات پر والنٹیرز متعین کریں اور خدام کا فرض ہے کہ جو نہی وہ کوئی حکم سنیں فوراً اپنی عقل اور سمجھ کے مطابق اس کی تعمیل شروع کر دیں.اس روح کے بغیر کبھی بھی نظم وضبط کا حقیقی تقاضا پورا نہیں ہو سکتا.4- خذام کو اپنے اپنے مقامات پر اے آر پی کی ٹریننگ لینی چاہئے اور حکومت کی طرف سے مقرر کردہ لوکل انتظامات میں حصہ لینا چاہئے.ان ہدایات کے بعد فرمایا:- میں ایک اور نہایت ضروری بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہماری جماعت کو عموماً اور خدام کو خصوصاً یا د رہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم
انوار العلوم جلد 23 60 وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ نے فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ 1 اس ارشاد نبوی سے معلوم ہوتا ہے کہ حُبّ الوطنی بھی اسلام کا ایک حصہ ہے.ایمان بڑی اہم چیز ہے اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق وطن کی محبت بھی ایمان ہی کا ایک حصہ ہے اس لئے یہ بھی ایک اہم چیز ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.پس ہمارے نوجوانوں میں حُب الوطنی کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہونا چاہئے اور اس کے عملی ثبوت کے طور پر انہیں اپنی قومی حکومت کو مضبوط کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.قومی حکومت کو مضبوط کرنے کا ایک طریق یہ ہے کہ تم خواہ حکومت کے ملازم ہو یا کوئی اور کام کرتے ہو بہر حال دوسروں سے زیادہ محنت اور سنجیدگی سے اپنے فرائض کو سر انجام دو.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ چند مقررہ گھنٹے کام کر کے ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے حالانکہ یہ غلط ہے.اصل کام وہ ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ بھی نکلے.اگر نہیں نکلتا تو تم سمجھ لو کہ تمہارے کام میں نقص رہ گیا ہے.یہ ٹھیک ہے کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے مگر اس فقرہ کا جو مفہوم لیا جاتا ہے وہ غلط ہے.اللہ تعالیٰ کا تو یہ قانون ہے کہ وہ صحیح طور پر محنت کرنے کا ضرور صحیح نتیجہ نکالتا ہے.پس اگر صحیح نتیجہ نہیں نکلتا تو تم کیوں اسے خدا کی طرف منسوب کرتے ہو اور کیوں نہیں اسے اپنی کسی غلطی کا نتیجہ قرار دیتے.حقیقت یہ ہے کہ جب یہ وہم ہو جائے کہ میں تو کام ٹھیک کرتا ہوں مگر خدا غلط نتیجہ نکال دیتا ہے تو پھر انسان اپنی اصلاح سے غافل ہو جاتا ہے.اپنے ملک کی سچی خدمت کرنے کی راہ میں اس امر کو کبھی روک نہ بناؤ کہ ہماری مخالفت بہت ہوتی ہے جب ہم یہ جانتے ہیں کہ فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑ کا کر ہماری مخالفت کرنے والے ملک کے دشمن ہیں اور دوسری طرف ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہی ملک کے حقیقی خیر خواہ اور وفادار ہیں تو خود اندازہ لگاؤ کہ اس مخالفت کے نتیجہ میں ہمیں ملک کی خدمت میں کمزور ہو جانا چاہئے یا پہلے سے بھی بڑھ کر اس میں حصہ لینا چاہئے.جس چیز کے لئے سچی محبت اور ہمدردی ہوتی ہے اسے خطرے میں دیکھ کر تو قربانی کا جذبہ تیز ہوا کرتا ہے نہ کہ کم.پس اگر تم ملک کے بچے خیر خواہ ہو اور تمہاری مخالفت کرنے والے
انوار العلوم جلد 23 61 وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ ملک کے دُشمن ہیں تو تم پہلے سے بھی بڑھ کر ملک کی خدمت پر کمر بستہ ہو جاؤ.تا دشمن ہمارے ملک کو نقصان نہ پہنچا سکے.تم اگر حکومت کے ملازم ہو تو حکومت کا کام پوری محنت عقل اور دیانت داری سے کرو.اگر کوئی اور کاروبار کرتے ہو تو اسے محنت سے سر انجام دو.اگر سلسلے کا کام کرتے ہو تو اسے محنت اور دیانت داری سے کرو.غرض اگر تم واقع میں ملک کے وفادار اور خیر خواہ ہو تو ہر کام اس جذ بہ سے کرو اور اپنا یہ مطمح نظر بنا لو کہ تم نے کسی بھی شعبے اور کام میں دوسروں سے پیچھے نہیں رہنا بلکہ آگے ہی بڑھنا ہے کیونکہ اس میں ملک کا بھی فائدہ ہے اور دین کا بھی.جب تک ہر احمد ی ڈاکٹر ، وکیل، تاجر ، کلرک، زمیندار اور مزدور اپنے اپنے شعبہ میں اپنا یہ مطمح نظر نہیں بناتا اس وقت تک ہر گز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ اپنا قومی فرض ادا کر رہا ہے “.حضور نے خدمتِ خلق کی اہمیت واضح کرتے ہوئے اس کے مختلف طریق بیان فرمائے مثلاً سٹیشنوں پر مسافروں کی خدمت، جلسوں کے موقع پر انتظام، دیہات میں جاکر جہاں طبی امداد نہ ہونے کے برابر ہے چھوٹی چھوٹی اور معمولی بیماریوں کا علاج وغیرہ.اس کے بعد حضور نے فرمایا:- اس وقت تک خدام نے خدمتِ خلق کے شعبے میں کوئی قابل ذکر اور نمایاں کام نہیں کیا.حالانکہ تمہیں چاہئے کہ تم اپنے افادے کو خلق خدا کی سچی اور بے لوث خدمت کے لئے زیادہ سے زیادہ وسیع کرو“.آخر میں حضور نے نصیحت فرمائی کہ :- تمہیں ہر روز کچھ وقت خاموشی کے ساتھ ذکر الہی یا مراقبے کے لئے خرچ کرنے کی عادت بھی ڈالنی چاہئے.ذکر الہی کا مطلب یہ ہے کہ علاوہ نمازوں وغیرہ کے روزانہ تھوڑا سا وقت خواہ وہ ابتدا میں پانچ منٹ ہی ہو اپنے لئے مقرر کر لیا جائے جبکہ تنہائی میں خاموش بیٹھ کر تسبیح و تحمید کی جائے.مثلاً سُبحَانَ اللَّهِ ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اللَّهُ أَكْبَرُ اور اسی طرح دیگر صفات الہیہ کا ورد کیا جائے اور ان پر غور کیا جائے.مراقبے کے یہ معنے ہیں کہ روزانہ کچھ دیر خلوت میں بیٹھ کر انسان اپنے نفس کا
انوار العلوم جلد 23 62 وطن کی بے لوث خدمت کرنے پر کمر بستہ ہو جاؤ محاسبہ کرے کہ اس سے کون کونسی غلطیاں سرزد ہو گئی ہیں.آیاوہ انہیں دُور کر سکتا ہے یا نہیں.اگر کر سکتا ہے تو اب تک کیوں نہیں کیں.اگر دُور نہیں کر سکتا تو اس کی کیا وجوہ ہیں اور کیا علاج ہو سکتا ہے.پھر اس کے آگے وہ سوچ سکتا ہے کہ اس کے عزیزوں اور ہمسایوں کی اصلاح کی کیا صورت ہے.تبلیغ کے کیا مؤثر ذرائع ہیں.کیا رکاوٹیں ہیں اور انہیں کس طرح ڈور کیا جاسکتا ہے.اس قسم کے محاسبہ کا جو نتیجہ نکلے اسے ڈائری کے رنگ میں لکھ لیا جائے اور پھر اسی سلسلے کو وسیع کرنے کی کوشش کی جائے.اگر اس رنگ میں ذکرِ الہی اور مراقبہ کی عادت ڈالی جائے تو یقیناً اس سے روحانیت ترقی کرے گی، عقل تیز ہو گی اور امام وقت کی ہدایات و تقاریر پر زیادہ غور و تدبر کرنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق مل جائے گی.ایسا شخص آہستہ آہستہ ایک حد تک دنیا کے لئے ایک روحانی ڈاکٹر اور مصلح بن جائے گا.پس چاہئے کہ ہمارے چہروں پر رونق ہو.جسم اور ہماری روحیں دونوں مضبوط ہوں تا دیکھنے والا سمجھ لے کہ اس کا مقابلہ آسان نہیں.اس وقت گو تم دنیا کی نظر میں ذلیل ہو اور وہ تم کو مٹانا چاہتی ہے مگر خدا نے بہر حال تمہیں بہت بڑی طاقتیں عطا فرمائی ہیں.اس نے ایک نہ ایک دن تمہیں دنیا کا راہنما بنانا ہے.پس تم اپنی حقیقت کو سمجھو تم کیوں اپنے وقتوں کو رائیگاں کرتے ہو.اگلی نسلوں نے کام کیا اس کا نتیجہ تمہارے سامنے ہے.اب تمہیں چاہئے کہ مراقبہے ، ذکر الہی اور غور و فکر کے ذریعے اس کام کو ترقی دو.ایک بہت بڑا کام اور بہت بڑا نتیجہ تمہارے سامنے ہے اب تمہارا فرض ہے کہ اس نتیجہ کے پیدا کرنے میں حصہ دار بنو.یاد رکھو کہ خدا اپنے کمزور بندوں کا ہاتھ پکڑ کر ان سے کام لیا کرتا ہے.عزت بندے کی ہوتی ہے اور محنت خدا کی ہوتی ہے“.(الفضل لاہور 4 نومبر 1952ء) 1 موضوعات کبیر - مؤلفہ ملا علی قاری صفحہ 35.مطبوعہ دھلی 1315ھ
انوار العلوم جلد 23 63 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 65 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے افتتاحی تقریر جلسه سالانه فرموده 26 دسمبر 1952ء بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- پہلے میں اس جلسہ کے افتتاح کے لئے دُعا کر دیتا ہوں تاکہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس جلسہ کو ان اغراض کے مطابق بنائے جن اغراض کے لئے اس نے اس جلسہ کی بنیاد رکھی تھی اور تاکہ اللہ تعالیٰ اس جلسہ میں شامل ہونے والوں پر اپنے فضل اور رحمت سے ان دروازوں کو کھولے جن دروازوں کو کھولنا اِس جلسہ کے قیام کے ساتھ اس نے مقدر کیا تھا اور جس طرح اس نے اُن کو اس دُنیا کی باتیں سننے کے لئے کان عطا فرمائے ہیں اسی طرح وہ ان کو دین کی باتیں سُننے کے لئے روحانی اور دل کے کان بھی عطا فرمائے اور قوت عملیہ جس کے بغیر ایمان کسی کام کا نہیں وہ ان کو عطا ہو اور ان کی زندگیاں خد اتعالیٰ کے منشاء اور اسلام کی تعلیم کے مطابق ہوں.بعض جماعتوں کی طرف سے باہر سے تاریں آئی ہیں جن میں اُنہوں نے درخواست کی ہے کہ جلسہ سالانہ کی دُعا کے موقع پر ان کے لئے بھی دُعا کی جائے.چنانچہ بورنیو کے شہر جیلیٹن سے وہاں کی جماعت کی تار آئی ہے کہ یہاں نئی جماعت بن رہی ہے.دوست دُعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری امداد فرمائے.اسی طرح شیخ ناصر احمد صاحب کی سوئٹزر لینڈ سے تار آئی ہے، سید عبد الرحمن صاحب کی امریکہ سے تار آئی ہے، چوہدری عبد الرحمن صاحب کی لنڈن سے تار آئی ہے، حافظ بشیر الدین صاحب کی ماریشس سے تار آئی ہے، یہاں کی مقامی جماعتوں کی طرف سے بھی مختلف جگہوں سے ،
انوار العلوم جلد 23 66 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے تاریں آئی ہیں جن کے نام لینے کی ضرورت نہیں.احباب اجمالی طور پر ان سب کو اپنی دُعاؤں میں شامل کر لیں.دُعا کے بعد میں چند الفاظ کہہ کر اس جلسہ کا افتتاح کروں گا اور پھر باقی پروگرام شروع ہو گا.“ اس کے بعد حضور نے حاضرین سمیت لمبی دُعا کروائی.دُعا سے فارغ ہونے پر فرمایا:- میں صرف چند منٹ بعض باتیں کہہ کر چلا جاؤں گا.ایک تو میں احباب سے درخواست کرتا ہوں کہ پچھلے کچھ دنوں سے شدید سردی اور خشک سردی کی وجہ سے میری طبیعت زیادہ خراب ہو گئی ہے.دردیں پھر شروع ہو گئی ہیں اور اسی طرح نزلہ کی شکایت ہو گئی ہے.دردوں کی وجہ سے مجھے ملاقاتوں میں تکلیف ہوتی ہے کیونکہ میں بیٹھ نہیں سکتا اور نزلہ کی وجہ سے بولنے میں تکلیف ہوتی ہے اس لئے میں بول نہیں سکتا.پس ایک تو ملاقاتوں کے وقت احباب احتیاط سے چل کر آیا کریں تا کہ گرد نہ اُڑے.دوسرے دُعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ ان دنوں میں ایسی توفیق عطا فرمائے کہ میں اپنے خیالات آپ تک پہنچا سکوں.باقی دوائیں جو درد کی وجہ سے میں نے شروع کی ہیں ان سے کچھ افاقہ بھی ہے چنانچہ آج پون گھنٹہ میں نے ملاقات کی اور میں اس غرض کے لئے بیٹھ سکا لیکن بعض دفعہ لمبی ملاقاتیں بھی ہوتی ہیں.دوسرے یہ دوائیں جو دردوں کے لئے استعمال کی جاتی ہیں ان سے دل میں ضعف پیدا ہوتا ہے اور اس وجہ سے میں زیادہ دیر بیٹھ نہیں سکتا لیکن بہر حال درد کی شدت کی وجہ سے چونکہ نہ میں بول سکتا ہوں اور نہ بیٹھ سکتا ہوں اس لئے دوائیں استعمال کرنی ہی پڑتی ہیں.اس کے بعد دو تین باتیں میں جلسہ کے متعلق اور کچھ منتظمین کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.آپ سے تو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ اخبار میں میں نے اعلان کروا دیا تھا.آجکل خشک سردی پڑ رہی ہے اور اس سے نمونیہ وغیرہ زیادہ ہوتا ہے اس لئے اپنے اوقات کو اس طرح خرچ کریں اور یہاں اس طرح اپنے دن گزاریں کہ آپ کو بلا وجہ موسم کی شدت کا مقابلہ نہ کرنا پڑے.مومن کی جان بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے.آپ کو تو
انوار العلوم جلد 23 67 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے خود تجربہ ہے کہ ایک ایک احمدی بنانے میں کتنے مہینے لگ جاتے ہیں.پس ایک احمدی کا اپنی جان بچانا کوئی معمولی بات نہیں.کیونکہ وہ آسانی سے حاصل نہیں ہو تا بلکہ بڑی قربانی سے حاصل ہوتا ہے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس دفعہ جلسہ سالانہ میں بعض قیود بڑھائی گئی ہیں کیونکہ اخراجات کے متعلق ہمارا اندازہ تھا کہ جلسہ سالانہ پر خرچ زیادہ ہوتا ہے.پس میں نے منتظمین کو تاکید کی کہ چونکہ قحط کا موسم ہے اس لئے کھانے کو ضائع ہونے سے بچاؤ.ایسا نہ ہو کہ اخراجات اتنے زیادہ ہو جائیں کہ سلسلہ ان کو برداشت نہ کر سکے.بڑھنے والی جماعتوں کے متعلق ہمیشہ ترقی اور اصلاح کا خیال زیادہ رکھا جاتا ہے لیکن اس خیال میں بعض غلطیاں بھی ہوئیں.چونکہ نیا تجربہ ہے اس لئے دوستوں کو غلطیوں کی اصلاح کی تو کوشش کرنی چاہئے لیکن ان غلطیوں پر چڑنا نہیں چاہئے ورنہ جماعت کی تنظیم اور اس کی ترقی نہیں ہو سکتی.ترقی ہمیشہ اسی طرح ہوتی ہے کہ اصلاحات جاری کی جائیں اور پھر غلطیاں دیکھی جائیں اور ان غلطیوں کی اصلاح کر کے آئندہ کے لئے کوئی معین اور صحیح قدم اُٹھایا جائے.اگر ایسانہ کیا جائے تو لوگوں کے ڈر کے مارے کوئی نیا قدم نہیں اُٹھایا جاسکتا اور نظام کی مضبوطی کے لئے کوئی نیا طریق اختیار نہیں کیا جاسکتا.پس جماعتی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ جماعت میں ہمیشہ نئی نئی اصلاحات کی جائیں.بے شک ان اصلاحات میں غلطیاں بھی ہوں گی دوست ان غلطیوں کو پکڑیں لیکن ان غلطیوں پر گھبر انا نہیں چاہئے ورنہ کام کرنے والے نئے قدم اُٹھانے سے گھبر ائیں گے اور ترقی نہیں کر سکے گی.پس آپ جرح ضرور کریں اور جب کوئی غلطی دیکھیں تو منتظمین کو توجہ دلائیں تاکہ اس غلطی کی اصلاح کی جائے لیکن ساتھ ہی خوشی سے نئی قیود اور اصلاحات کو برداشت کریں کیونکہ ان قیود کا بڑھانا جماعت کی ترقی کی علامت ہے تنزل کی نہیں.اسی طرح کام کرنے والوں کو توجہ دلانا بھی ضروری ہے اگر چہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ توجہ دلانے کے باوجود بھی اصلاح نہیں کی جاتی.ابھی ایک دوست نے جو کراچی سے آئے ہوئے ہیں اور جنہوں نے صرف چند دن ہوئے بیعت کی ہے
انوار العلوم جلد 23 68 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے کھانے کے متعلق شکایت کی.میں نے اس شکایت اور بعض دوسری شکایتوں کے لئے ایک کمیٹی بنادی کہ وہ نگرانی کرے اور کارکن مہمانوں کی ہر ضرورت کو پورا کر دیا کریں.اس کمیٹی کی طرف سے مجھے رپورٹ آئی کہ انتظام ہو گیا ہے لیکن پھر دوبا دوبارہ اسی دوست کی طرف سے شکایت آئی کہ ابھی تک انتظام نہیں ہوا.اس پر پھر توجہ دلائی گئی تو انہوں نے پھر رپورٹ کی کہ انتظام ہو گیا ہے.مگر ابھی میں تقریر کے لئے آرہا تھا تو پھر ان کی طرف سے شکایت آئی کہ کوئی بھی انتظام نہیں ہوا.اسی طرح جلسہ گاہ کے متعلق خود میں نے اس نقشہ کو دیکھ کر کہا کہ یہ مجھے پسند نہیں.یہ احتیاط سے گزر کر غیر اسلامی طریق کا جلسہ گاہ بن گیا ہے اور اسے میں پسند نہیں کرتا.اسلام ہمیں بے شک احتیاط کا حکم دیتا ہے.قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خُذُوا حِذْرَكُمْ ا لیکن موجودہ جلسہ گاہ کی جو شکل ہے یہ تو ایسی ہی ہے جیسے بادشاہ اعلانوں کے لئے آتے ہیں تو لو گوں کو دُور دُور بٹھا دیا جاتا ہے.اتنا لمبا فاصلہ میرے نزدیک ہر گز اس حفاظت کے لئے ضروری نہیں جس حفاظت کا خدا تعالیٰ ہم سے تقاضا کرتا ہے.پہلوؤں کے متعلق میں نے کہا تھا کہ انہیں تنگ کرو اور یہاں لوگوں کو بیٹھنے کا موقع دو.اسی طرح سامنے والے حصہ کے متعلق میں نے کہا تھا کہ اسے بھی تنگ کرو.جیسا کہ آپ لوگوں کو یاد ہو گا گزشتہ سال بھی بعض احتیاطی تدابیر اختیار کی گئی تھیں لیکن اس وقت چاروں طرف لوگ بیٹھے ہوئے تھے.اچانک حملہ جس کی آجکل زیادہ احتیاط کی جاتی ہے پستول کا حملہ ہوتا ہے اور پستول کا حملہ ایسی چیز ہے کہ ایسے ہنگامہ میں اگر کوئی شخص فائر کرنا چاہے اور اس کے پاس بیٹھنے والے ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ اس کے حملہ کو فوراً بے کار کر سکتے ہیں.پستول کا حملہ پچاس فٹ سے زیادہ فاصلے سے نہیں ہو سکتا.إِلَّا مَا شَاء اللہ.لیکن ایساتو کبھی کبھی ہوتا ہے اور عزرائیل لوگوں کی جانیں نکالنے کے لئے ہر روز آتا ہے.پس جان نکالنا کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں کہ اس کے لئے غیر معمولی احتیاط کی جائے.اب جلسہ گاہ میں بیٹھنے والے اتنے دُور دُور بیٹھے ہیں کہ ان کا اس قدر ڈور بیٹھنا طبیعت پر سخت گراں گزرتا ہے اور زیادہ تو افسوس یہ ہے کہ باوجود میرے کہنے کے
انوار العلوم جلد 23 69 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے اصلاح نہیں کی گئی.پس میں منتظمین سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جب تک اس جلسہ گاہ کی اصلاح نہ کی گئی میں کل تقریر نہیں کروں گا.اگلی صف آگے آنی چاہئے اور پہلوؤں میں بھی لوگوں کے بیٹھنے کا انتظام ہونا چاہئے.اب تو ایسی شکل بنی ہوئی ہے جیسے بادشاہ اعلان کرنے کے لئے آتے ہیں تو لوگوں کو بٹھا دیا جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ احتیاط ضروری چیز ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ اسی بے احتیاطی کی وجہ سے شہید ہوئے.مصر میں ایک دفعہ مسلمان نماز پڑھ رہے تھے کہ ان پر اچانک حملہ کر دیا گیا.شاید انہوں نے پہرہ مقرر نہیں کیا تھا جیسے آجکل کے مولوی ہمارے پہرہ پر اعتراض کرتے ہیں اسی طرح اس زمانہ میں لوگ اعتراض کرتے ہوں گے.چونکہ نیا ملک فتح ہوا تھا اس لئے انہوں نے اس خیال سے کہ لوگ اعتراض نہ کریں کہ نماز کے وقت بھی یہ پہرہ رکھتے ہیں اپنے لئے پہرہ مقرر نہ کیا.نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن نے نماز کی حالت میں کئی صفیں قتل کر دیں اور پھر کہیں جاکر اگلی صف والوں کو پتہ لگا کہ دشمن نے حملہ کر دیا ہے.بیسیوں صحابہ مارے گئے اور سینکڑوں دوسرے مسلمان شہید ہوئے.پس پہرہ ایک ضروری چیز ہے لیکن اس کی ایسی شکل بنا دینا کہ پہرہ ہی رہ جائے اور کام ختم ہو جائے یہ بھی ایک لغو بات ہے.آخر ہر ایک نے مرنا ہے پس ایسی احتیاط جو خلافت کو بادشاہت کا رنگ دے دے یا تنظیم کو غیر معمولی شان و شوکت والی چیز بنادے یہ نہ تنظیم کہلا سکتی ہے اور نہ اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ کوئی پسندیدہ امر ہے.اصل حفاظت خدا تعالیٰ کرتا ہے بندے نہیں کرتے اور یہ چیز جو آج نظر آرہی ہے یہ احتیاط سے بالا ہو گئی ہے.لوگ اتنی دور بیٹھے ہوئے ہیں کہ وہ تو شاید مجھے دیکھ رہے ہوں لیکن میری نظر چونکہ کمزور ہے اس لئے مجھے شاذ و نادر ہی کسی کی شکل نظر آرہی ہے.پس ان کو بھی قریب آنے کا موقع دینا چاہئے.باقی نگرانوں کا کام ہوتا ہے کہ وہ ہوشیاری سے کام لیں.بھلا ایسے احمقوں نے حفاظت کیا کرنی ہے جن کے سامنے ایک شخص رائفل لے کر آجاتا ہے ، اسے اُٹھاتا ہے ، نشانہ باندھتا ہے اور فائر کرنے کی کوشش
انوار العلوم جلد 23 70 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے کرتا ہے.مگر نہ انہیں رائفل لاتے وقت وہ نظر آتا ہے ، نہ رائفل اٹھاتے وقت نظر آتا ہے ، نہ نشانہ باندھتے وقت نظر آتا ہے ، نہ ارد گرد بیٹھنے والوں کو پتہ لگتا ہے کہ فلاں شخص رائفل چلانے لگا ہے حالانکہ رائفل ایسی چیز ہے کہ ایک ہاتھ مارا جائے تو وہ دُور جا پڑے اور اس کا نشانہ آسمان کی طرف چلا جائے.پس رائفل کا سوال نہیں سوال پستول کا ہے مگر اس میں بھی تب کامیابی ہوتی ہے جب کوئی پچاس ساٹھ فٹ سے نشانہ لگائے اور ایک منٹ تو نشانہ لگانے میں ہی صرف ہو جاتا ہے.اگر پاس کے لوگ ذرا بھی ہوشیار ہوں تو وہ صرف ایک کہنی کی حرکت سے اس کے نشانہ کو ختم کر سکتے ہیں بلکہ کہنی تو الگ رہی سانس کی تیزی سے بھی نشانہ بگڑ جاتا ہے.اگر کسی کو پتہ لگے کہ کوئی شخص پستول چلانے لگا ہے اور وہ ذرا اپنی کہنی اسے مار دے تو اتنی معمولی سی بات سے ہی اس کا نشانہ خطا ہو جاتا ہے.پس یہ کھیل میں پسند نہیں کرتا اس کی فوراً اصلاح کی جائے.جلسہ کے وقت میں تو اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی.راتوں رات اس کی اصلاح ہو جانی چاہئے ورنہ کل میں تقریر کے لئے نہیں آؤں گا اور دوستوں کو خلافت کے لئے جو مکانات بنائے گئے ہیں ان میں ملاقات کا موقع دوں گا اور کہہ دوں گا کہ مجھ سے مصافحہ کر لو اور چلے جاؤ.ایسے ماحول میں تقریر کرنے کے لئے میں نہیں آسکتا.ہماری جماعت ایک مخلصین کی جماعت ہے اور دُور دُور سے لوگ جلسہ سالانہ کے لئے آتے ہیں.ان کو مجرم کے طور پر بٹھا دینا اور ڈربہ کے طور پر بند کر دینا ایسی چیز ہے جسے میری غیرت برداشت نہیں کرتی.وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں اور میں اُن سے محبت کرتا ہوں.پھر ہم میں اتنی دُوری کیوں ہو ؟ دوسری طرف پہرہ کا انتظام بہت ناقص ہے.پہلے بہت سے آدمی ہوا کرتے تھے مگر اس دفعہ اتنے آدمی نظر نہیں آتے.جلسہ گاہ کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگر لوگوں کے لئے سٹیج سے پندرہ میں فٹ پرے جگہ بنادی جائے تو غالبا کافی ہو گا.بے شک نگرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیکھتے رہیں کہ کوئی شریر آدمی تو اندر نہیں آگیا.مگر یہ بھی نامناسب امر ہے کہ کسی ایک شریر کی وجہ سے سارے محبوں کو دُور بٹھا دیا جائے.
انوار العلوم جلد 23 71 نئی قیود اور اصلاحات کو خوشی سے برداشت کرنا چاہئے اسی طرح میں کارکنوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ بے تحقیق رپورٹیں نہ کیا کریں.درست رپورٹیں کیا کریں.بے شک ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ سلسلہ کا روپیہ ضائع ہو.مگر ہم یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ مہمانوں کی ہتک ہو.اب میں جلسہ کا افتتاح کر کے جاتا ہوں.اس کے بعد دوسری کارروائی شروع ہو گی.“ 1: النساء :72 (الفضل 11 جنوری 1953ء)
انوار العلوم جلد 23 73 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور مخالفین از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 75 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور..بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حضرت اماں جان کے وجودِ گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور مخالفین (فرمودہ 27 دسمبر 1952ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- علالت طبع جلے سے کچھ ایام پہلے میری طبیعت پھر خراب ہونی شروع ہو گئی تھی.جسم کے مختلف حصوں میں دردیں ظاہر ہونے لگیں اور نزلہ کی طرف بھی طبیعت مائل ہو گئی جس کی وجہ سے گلا اتنا ماؤف ہو گیا کہ کل رات جب میں کھانا کھارہا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ لقمہ گلے کو چیرتا ہوا اندر جارہا ہے.کچھ تکلیف تو پہلے ہی تھی لیکن آج عورتوں کی بیعت کے موقع پر بد انتظامی اور شور کی وجہ سے اس میں اور اضافہ ہو گیا ہے.مگر چونکہ دوست بڑی تعداد میں آئے ہیں اس لئے میں تقریر کو چھوڑ بھی نہیں سکتا.مستورات سے خطاب عام تقریر شروع کرنے سے قبل میں مستورات کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمہارے ذمہ مسجد ہالینڈ کی تعمیر کا چندہ ہے، اسی طرح لجنہ کے دفاتر کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی قرضہ ابھی باقی ہے، تمہیں اس بوجھ کو اُتارنے کی کوشش کرنی چاہئے.تمہارے اندر قربانی کا جذبہ مردوں سے زیادہ ہوتا ہے کیونکہ تمہیں خدا نے قربانی ہی کی جنس بنایا ہے.ماں، بہن اور بیٹی کی حیثیت میں محنت اور قربانی کے جو نظارے عورتوں میں نظر آتے ہیں وہ ایک دفعہ تو انسانی دل کو
انوار العلوم جلد 23 76 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور.کپکپا دیتے ہیں.مرد بھی بے شک بڑی بڑی قربانی کرتے ہیں مگر جو روح فدائیت کی عورتوں میں نظر آتی ہے وہ مافوق الانسانیت معلوم ہوتی ہے.پس تمہیں اپنے اس امتیاز کو قائم رکھنا چاہئے اور اپنے ذمے جو چندے اور فرائض ہیں انہیں پورا کرنا چاہئے.اس کے علاوہ تمہیں اپنے اندر انتظام کی عادت بھی ڈالنی چاہئے.لجنہ کا فائدہ کیا ہوا اگر ہماری مستورات میں بھی بد نظمی جاری رہے.اصل میں تو انتظام کا شعبہ خدا نے تمہارے ہی سپر د کیا ہوا ہے.اگر تم اس کو نہ کرو تو اور کس نے کرنا ہے؟ جلسہ سالانہ کے انتظامات بے شک اگر انتظامات میں کوئی خامی دیکھو تو اس کی اصلاح کی خاطر اس کی رپورٹ کر و مگر اس قدر نہ بڑھ جاؤ کہ منتظمین کو انتظام قائم رکھنے میں ہی دقت ہو جائے.دراصل ایسے موقع پر ایک حد تک تکلیف ضرور ہوتی ہے اور اسی میں مزہ ہوتا ہے.خدا کی راہ میں جو لُطف تکلیف اُٹھانے میں ہوتا ہے وہ آرام میں نہیں ہوتا اور یہاں تو دراصل کوئی مہمان ہوتا ہی نہیں.ربوہ کی آبادی ابھی اتنی کم ہے کہ اس کے لئے اتنے مہمانوں کا انتظام کرنا نا ممکن ہے اس لئے تمہیں اپنے آپ کو خود ہی مہمان اور خود ہی میزبان سمجھنا چاہئے.دوسری طرف منتظمین کو بھی چاہئے کہ کمزور طبائع کے ساتھ نرمی اور در گزر کا سلوک کریں.الفضل اور ریویو کی اشاعت میں اصل تقریر سے قبل الفضل کی اشاعت بڑھانے کی تحریک کو بڑھانے کی بھی تحریک کرتا ہوں.اس سال الفضل کا خاتم النبیین نمبر شائع ہوا تھا اور وہ فتنے کے ایام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے باقی سارے لٹریچر سے زیادہ کامیاب رہا.اس کا مضمون ایک تھا مگر اس کے متعلق مختلف پہلوؤں کو جمع کر دیا گیا تھا.گویاوہ ایک باغیچہ تھا جس میں مختلف پھل اور پھول جمع کر دیئے گئے تھے مگر خوبی یہ تھی کہ وہ سب ایک ہی قسم کے تھے.چنانچہ ختم نبوت کے مسئلہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریریں، قرآن مجید کی آیات، احادیث نبویہ اور ائمہ سلف کے خیالات کو جمع کر دیا گیا تھا تا کہ ہر قسم کی طبائع کو اپنے اپنے مذاق کے مطابق مواد مل
انوار العلوم جلد 23 77 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....سکے.جماعتوں کی طرف سے جو اطلاعیں آئیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مخالفوں نے بھی مانگ مانگ کر یہ پرچہ پڑھا ہے.ان میں سے متعد د نے بعد میں اِس خیال کا اظہار کیا کہ پہلے ہم احمدیت کو ایک خلاف اسلام تحریک سمجھتے تھے مگر اس نمبر کو پڑھنے سے معلوم ہوا کہ احمدی اسلام کے یا قرآن کے منکر نہیں ہیں بلکہ دوسرے مسلمانوں سے ان کا اختلاف محض تاویل کا اختلاف ہے.متعدد جماعتوں نے خاتم النبیین نمبر کے متعلق لکھا کہ اس کی اشاعت کے بعد مخالفت کی رو بدل گئی.پس الفضل کی اشاعت کو بڑھانے کی کوشش کرو.سالہا سال سے اس کی اشاعت 20 اور 25 کے درمیان ہی گھوم رہی ہے حالانکہ جماعت پھیل رہی ہے.اس میں شک نہیں کہ روزانہ اخبار ہونے کی وجہ سے اس کا چندہ زیادہ ہے مگر کمزور جماعتیں مل کر خرید سکتی ہیں.اسی طرح اگر افراد بھی اکیلے خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے تو دو دو، تین تین، چار چار مل کر خرید سکتے ہیں.پس میں احباب کو تحریک کرتا ہوں کہ الفضل کی اشاعت کو بڑھانے اور ترقی دینے کی کوشش کرو.اسی طرح انگریزی کا رسالہ ریویو ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے زمانہ کی جماعت کے لحاظ سے اس کے کم از کم دس ہزار خریدار ہونے کی خواہش ظاہر فرمائی تھی اور موجودہ تعداد کے لحاظ سے تو اب اس کے لاکھوں تک خریدار ہونے چاہئیں لیکن اگر یہ نہ بھی ہو تو کم از کم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش کو تو پورا کرنے کی کوشش کرو.باہر سے جو خطوط آتے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ بیرونی ممالک میں لوگ اس سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور فائدہ اُٹھاتے ہیں.اسی طرح خدام اور لجنہ کے رسالوں کی اشاعت بڑھانے کی بھی میں تحریک کرتا ہوں.لجنہ کو شکایت ہے کہ اس کے رسالہ سے عور تیں پورا تعاون نہیں کرتیں.مگر مجھے اس پر تعجب ہے کہ عورتیں اپنے رسالہ کی پرورش نہ کریں کیونکہ اگر انہیں یقین ہو کہ یہ چیز اپنی ہے تو پھر ان سے یہ اُمید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اس کی پرورش اور نگرانی نہ کریں اور خدام کے رسالہ کے متعلق تو مجھے کچھ کہتے ہوئے شرم آتی ہے.ان کی جوانی کا زمانہ ہے ہمت اور طاقت کے
انوار العلوم جلد 23 78 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور..ایام میں ان کا تو یہ کام ہے کہ وہ بوڑھوں کی بھی مدد کریں اور الفضل کی اشاعت بھی بڑھائیں.کجا یہ کہ اپنے رسالہ کو نہ چلا سکیں.پاکستان کے بنیادی اصولوں تفصیلی طور پر تو ابھی مجھے اس کے مطالعہ کا کے متعلق سفارشات موقع نہیں ملا مگر دو باتوں کے متعلق عام طور پر اخبارات میں احتجاج کیا جا رہا ہے ایک تو اس امر پر کہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں برابری کا اصول کیوں رکھا گیا ہے اور دوسرا فیڈرل سسٹم پر.میرے نزدیک اصل پوائنٹ جو ملک کے لئے بہت مضر ہے یہ ہے کہ مولویوں کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ جس امر پر چاہیں اعتراض کریں اور قانون سازی میں رکاوٹ ڈالیں.یہ خیال غلط ہے کہ مولویوں کے صرف ایڈوائزری بورڈ بنائے گئے ہیں انہیں اختیارات نہیں دیئے گئے.میرے نزدیک ایسا سمجھنے والے مولویوں کی ذہنیت سے ناواقف ہیں.ترکی میں جب مولویوں کو حکومت میں اقتدار حاصل ہوا تو وہاں یہ حالت ہو گئی کہ انہوں نے بات بات پر فتوی بازی شروع کر دی اور قوم کو خانہ جنگی میں مبتلا کر دیا.اگر یہاں بھی ان لوگوں کو پنپنے کا موقع دیا گیا تو یہی حالت ہو جائے گی.مجھے تعجب ہے کہ یہ عالم اور مولوی کہلانے والے ایڈوائزری بورڈ کے راستہ کی بجائے انتخاب کے راستے سے کیوں حکومت میں اقتدار حاصل نہیں کرتے.اگر وہ واقعی قوم کے نمائندے ہیں جیسا کہ ان کا دعویٰ ہے تو پھر انہیں اسمبلی کا ممبر ہونا چاہئے نہ کہ ایڈوائزری بورڈ کا اور اگر وہ اسمبلی کے ذریعہ قوم کے نمائندے نہیں بنتے تو پھر دوباتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی.یا تو یہ کہ قوم ان کی مزعومہ "اسلامی حکومت " نہیں چاہتی اور یا یہ کہ وہ قوم کے نمائندے نہیں ہیں.ان دونوں صورتوں میں صاف ظاہر ہے کہ ان کے ایڈوائزری بورڈ کی کیا حیثیت ہو گی.مشرقی بنگال اور مغربی پاکستان میں برابری دوسرا اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ مشرقی بنگال کو مغربی پاکستان کے مساوی نمائندگی کیوں دی گئی ہے.یہ درست ہے کہ اسلام کی رو سے
انوار العلوم جلد 23 79 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....تمام مسلمان برابر ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ کیا مسلمان مسلمان ہو گئے ہیں؟ کیا مغربی پاکستان میں صوبائی عصبیت موجود نہیں ہے؟ کیا سرحد، بلوچستان اور سندھ میں یہ روح نہیں پائی جاتی ؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ بنگال مستحق مبارکباد ہے جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود برابری پر راضی ہو گیا.پس میرے نزدیک بے شک اس برابری پر اعتراض کیا جائے مگر اس وقت جب خود مغربی پاکستان کے صوبوں میں عصبیت کی روح نہ رہے اور جب مغربی پاکستان خود اپنے اندر اسلامی روح پیدا کر کے مشرقی بنگال کے دل کو موہ لے اور عملی قربانی کا نمونہ پیش کرے، جب دل صاف ہو جائیں گے تو پھر بے شک بنگال والوں کی بد گمانی کو نا مناسب قرار دینا مگر خود ایسا تعصب کرنا اور پھر اس برابری پر اعتراض کرنا ہمارے منہ سے زیب نہیں دیتا.میرے نزدیک ایک بڑی بھاری کو تاہی ان سفارشات میں یہ ہوئی ہے کہ کشمیر کے پاکستان میں داخل ہونے کے متعلق کوئی دفعہ نہیں رکھی گئی حالا نکہ سفارشات میں یہ ہونا چاہئے تھا کہ اگر کوئی نیا ملک یا رقبہ پاکستان میں شامل ہو تو اسے کن اصولوں کے ماتحت نمائندگی دی جائے گی.“ (الفضل 31 دسمبر 1952ء) ”یہ تو ابتدائی باتیں تھیں اب میں اصل تقریر کو لیتا ہوں.میرے نزدیک اس سال کا بلکہ ہماری جماعت کی وفات حضرت اماں جان تاریخ میں سے ایک خاص عرصہ کا اہم واقعہ وفات حضرت اماں جان ہے.حضرت اماں جان ایک زنجیر تھیں ہمارے درمیان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ نام اولاد کے ذریعہ چلتا ہے لیکن اولاد پھل تو ہے، درخت کا اپنا حصہ نہیں.ہاں ایسی بیوی جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حصہ ہو گی وہ بے شک حصہ حقیقی معنوں سے ہی ہو گی، گوہر بیوی میں یہ قابلیت نہیں ہوتی کہ وہ اپنے خاوند کا حصہ ہونے کا حق ادا کرے.تم آم کے درخت کے آدھے حصہ کو کہتے ہو کہ یہ درخت کا ایک حصہ ہے.یعنی تمہارے سامنے کیسے ہی عمدہ لنگڑے آم رکھ دیئے جائیں
انوار العلوم جلد 23 80 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....تم انہیں آم کے درخت کا حصہ نہیں کہہ سکتے.تو حضرت اتاں جان کی وفات کے ساتھ وہ مادی زنجیر جو ہم نے اپنے ہاتھوں میں پکڑی ہوئی تھی ٹوٹ گئی ہے.آپ کی وفات کے ساتھ وہ مادی واسطہ جو ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درمیان تھا جاتا رہا.حقیقت یہ ہے کہ عام حالات سے زیادہ جو ان کے متعلق بات تھی وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہامات میں آدم کا نام دیا گیا ہے اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ تمام انبیاء میں سے خصوصیت کے ساتھ جس نبی کے کاموں میں اس کی بیوی کو شریک کیا گیا ہے وہ حضرت آدم نہیں جو باقی انبیاء آتے رہے یہ نہیں کہ ان کی بیویاں ادنیٰ درجہ کی تھیں.بے شک وہ بھی بڑے اعلیٰ درجہ کی تھیں لیکن الہی حکمت کے ماتحت جس طرح حضرت آدم کی شریک حال حضرت حوا کو بنایا گیا اس طرح دوسرے انبیاء کی بیویوں کو نہیں بنایا گیا.پس حضرت مسیح موعود کا نام جو آدم رکھا گیا ہے اور آپ کی بعثت کو جو آدم کی بعثت ثانیہ قرار دیا گیا ہے.اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آپ کی بیوی کو آپ کے کاموں میں شریک کیا گیا ہے.مگر اس حد تک بات ہوتی تو یہ صرف ایک منطقی نتیجہ ہو تا لیکن میں اب بتاتا ہوں کہ اس کا ایک معین ثبوت ملتا ہے.احادیث میں آیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسیح موعود کے متعلق فرماتے ہیں يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُلَه کہ وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی.ظاہر ہے کہ شادی تو سارے انبیاء نے کی تھی سوائے حضرت مسیح علیہ السلام کے.جن کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ انہوں نے شادی نہیں کی لیکن قرآن کریم سے جو کچھ ثابت ہے یہی ہے کہ سب نبیوں کی بیویاں بھی تھیں اور بچے بھی تھے.کیونکہ فرماتا ہے.وَ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا مِنْ قَبْلِكَ وَ جَعَلْنَا لَهُمْ اَزْوَاجًا وَ ذُرِّيَّةً 2 یعنی ہم تجھ سے پہلے رسول بھیج چکے ہیں اور ہم نے ان سب کو بیویاں اور بچے عطا فرمائے تھے.اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ سب رسولوں کی بیویاں تھیں اور ان کے ہاں اولاد بھی تھی.پس حضرت مسیح ناصری اس گروہ سے الگ نہیں ہو سکتے.اس کے باوجو د جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق فرمایا که يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَهُ وہ شادی بھی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد بھی ہو گی تو اس کا.
انوار العلوم جلد 23 81 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور لیا مطلب تھا.یہ کوئی نئی بات نہیں.سب سابق مامورین ایسا ہی کر چکے ہیں.تو ظاہر ہے کہ ان الفاظ میں خصوصیت کے ساتھ ایک بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ کی بیوی آپ کی شریک حال بننے والی تھی اور چونکہ یہ ایک خصوصیت تھی جس میں ب سابق مامور شامل نہ تھے سوائے چند کے جن میں سے نمایاں مثال حضرت آدم کی تھی.پس يَتَزَوَّجُ وَيُولَدُ لَہ کے الفاظ سے آنے والے موعود کی بیوی کی اہمیت ظاہر کی گئی تھی.پھر ہم اس زمانہ سے نیچے آتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمتِ محمدیہ کے بعض اور بزرگوں نے بھی اپنی پیشگوئیوں میں یہ بات بیان کی ہے.حضرت اناں جان دہلی کی رہنے والی تھیں.آپ کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ خواجہ محمد ناصر تھے.آپ کے والد بادشاہ وقت کے خاص درباریوں میں سے تھے اور نواب کا خطاب رکھتے تھے اور خواجہ محمد ناصر بھی فوجی افسر تھے.آپ کے وقت کا بادشاہ محمد شاہ تھا.ایک دن الہی منشاء معلوم کر کے آپ نے محمد شاہ کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا.آپ کو اس نے بہت سمجھایا کہ استعفی واپس لے لو.آپ کا مستقبل بہت روشن ہے لیکن آپ نے کہا میری خدا تعالیٰ سے لو لگ گئی ہے.اب میں یہ خدمت سر انجام نہیں دے سکتا.چنانچہ آپ گھر آگئے اور عبادت میں لگ گئے.ایک دن آپ دروازے بند کر کے عبادت کر رہے تھے اور حجرہ میں بیٹھے بیٹھے کئی دن اور کئی راتیں گزر گئیں تھیں کہ آپ کو کشف میں امام حسن علیہ السلام نظر آئے.حضرت امام حسن نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.مجھے میرے نانا نے بھیجا ہے کہ میں تم کو آپ کی طرف سے روحانیت کی خلعت دے آؤں.آپ نے فرمایا کہ خواجہ محمد ناصر سے کہہ دینا کہ یہ تحفہ جو تمہیں ملتا ہے ایسا ہے جس میں تجھے مخصوص کیا گیا ہے اس لئے تم اپنے طریقہ کو طریقہ محمد یہ کہو اور فرمایا: وو یہ ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے مخصوص رکھی تھی اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موعود پر ہو گا.23 گویا خواجہ محمد ناصر جو خواجہ میر درد کے والد اور حضرت اتاں جان کے پڑ نانا تھے کو
انوار العلوم جلد 23 82 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....دو سو سال پہلے خدا تعالیٰ نے بتایا تھا کہ تمہارا سلسلہ مہدی موعود سے مل جائے گا.اب ملنے کے دو ہی معنے ہیں.یا تو خواجہ صاحب خود حضرت مہدی موعود کے مرید ہوتے لیکن مرید تو خواجہ صاحب ہوئے نہیں کیونکہ آپ مہدی موعود کے ظہور سے بیسیوں سال پہلے فوت ہو گئے اور یا پھر آپ کے خاندان کا رشتہ آنے والے مہدی کے خاندان کے ساتھ ہو جاتا اور خدا تعالیٰ نے یہی دوسرا طریق اختیار کیا.یعنی آپ کی نواسی کی شادی مہدی موعود سے ہوئی اور اس طرح خواجہ صاحب کا سلسلہ محمد یہ اور حضرت مہدی موعود کا سلسلہ دونوں مل گئے.بلکہ عجیب بات یہ ہے کہ میخانہ درد میں لکھا ہے کہ گڑی پر بیٹھنے کا کسی اور خاندان کا حق تھا لیکن الہی منشاء یہ تھا کہ وہ اس نسل کو بدل دے.سید محمد نصیر صاحب جو اپنے ماموں محمد بخش کے لاولد فوت ہو جانے کی وجہ سے ان کی گڈی پر بیٹھے تھے ان کی وفات پر خلافت کا جھگڑا اُٹھا تو خاندان کی ایک بڑھیا عورت سے مشورہ کیا گیا اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ جس کو وہ کہے اسے گڑی پر بٹھا دیا جائے.چنانچہ اس بڑھیا نے مشورہ دیا کہ اپنے بزرگوں کا ہم پلہ خاندان میں تو کوئی نظر نہیں آتا اس لئے میرے نزدیک میاں ناصر میر جو خواجہ محمد نصیر صاحب کے نواسہ ہیں انہیں گڑی پر بٹھا دیا جائے.میاں ناصر میر کے خلیفہ منتخب ہو جانے کے بعد سلسلہ محمدیہ منتقل ہو کر ایک دوسرے خاندان میں آ گیا.جو ماں کی طرف سے خواجہ میر درد کا خاندان تھا اور باپ کی طرف سے نواب خاند وران خان 4 کا خاندان تھا.یہ گویا دوسری پیشگوئی تھی کہ سلسلہ محمد یہ اب مہدی موعود کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا.پھر اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھا ہے: اور یہ نسبت محمد یہ الخالصہ حضرت امام موعود کی ذات پاک پر ختم ہو گی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہو گا اور اس نیر اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی".5 یعنی خصوصیت سے جو یہ سلسلہ بنایا جا رہا ہے یہ حضرت مہدی معہود پر ختم ہو جائے گا پھر ایک نیا سلسلہ قائم ہو گا.اس میں بھی پہلی پیشگوئی کی طرف اشارہ ہے.
انوار العلوم جلد 23 83 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور اس کے دو ہی معنے تھے کہ یا تو آپ کی اولاد میں سے مہدی ہو یا ان کی بیٹی مہدی موعود کے ساتھ بیاہی جائے.یہ دونوں اقتباسات میخانہ درد کے ہیں جو ناصر خلیق ابن ناصر نذیر فراق کی تصنیف ہے.پھر حضرت اماں جان کے وجود کی اہمیت کا پتہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ ابھی شادی نہیں ہوئی تھی.کسی کو یہ خیال بھی نہیں تھا کہ یہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ اس وقت حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا جو تذکرہ کے صفحہ 29 پر درج ہے.یہ الہام شادی ، تین سال قبل ہوا کہ أَشْكُرَ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِی تُو میری نعمت کا شکر کر کہ جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدد گار کے طور پر حضرت خدیجہ ہی میں اسی طرح تجھ کو بھی خدیجہ ملنے والی ہے.یہ الہام اس وقت ہوا جب ابھی شادی بھی نہیں ہوئی تھی.یعنی یہ بھی نہیں تھا کہ شادی ہو جانے کی وجہ سے حضرت اتاں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کوئی خدمت کی ہو جس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے آپ کی تعریف کی ہو بلکہ ابھی تک شادی کا نام بھی نہیں تھا.یہ الہام 1881ء میں ہوا اور شادی 1884ء میں ہوئی.یہ ہے.پھر اس الہام کے قریب ایک اور الہام ہوا جو تذکرہ صفحہ 36 پر درج ہے اور وہ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الصِّهْرَ وَالنَّسَبَ خدا تعالیٰ ہی کو سب تعریف حاصل ہے جس نے تمہارے لئے سسرال بھی بڑے اعلیٰ درجہ کے تجویز کئے اور تم کو بھی ایک اعلیٰ خاندان سے پیدا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام عام طور پر اس الہام کو بیان فرمایا کرتے تھے.یہ الہام بھی شادی سے تین سال پہلے کا ہے.یہ جو سسرال کی تعریف کی گئی ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس میں خواجہ محمد ناصر کی پیشگوئی کی طرف اشارہ تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان کا سلسلہ محمدیہ ، مہدی معہود کے سلسلہ سے مل جائے گا.مہدی معہود خواجہ محمد ناصر کی اولاد میں سے تو نہ ہوئے.ہاں آپ کی ایک نواسی ان سے بیاہی گئی اور اس طرح یہ سلسلہ محمد
انوار العلوم جلد 23 84 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور..مہدی معہود کے سلسلہ سے مل گیا اور وہ پیشگوئی ظاہری طور پر بھی پوری ہو گئی.پھر شادی سے ایک سال پہلے یہ الہام ہوا کہ يَا آدَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ کہ اے آدم تو اور تیری بیوی جنت میں اکٹھے رہو.یہ الہام تذکرہ صفحہ 69 پر 3 درج ہے اور 1883ء کا ہے.ابھی بیوی آئی نہیں کسی کو یہ پتہ نہیں کہ شادی ہو گی بھی یا نہیں کہ خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتاتا ہے کہ بیوی آرہی ہے تو اور تیری بیوی ایک جنت میں رہو.اب دیکھو ان پیشگوئیوں کا آپس میں کیسا گہرا تعلق پایا جاتا ہے.پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیشگوئی فرماتے ہیں کہ مہدی معہود شادی کرے گا اور اس کے ہاں اولاد ہو گی.پھر حضرت خواجہ میر ناصر پیشگوئی فرماتے ہیں کہ ان کا سلسلہ محمدیہ مہدی معہود کے سلسلہ کے ساتھ مل جائے گا.یعنی میر امہدی معہود سے ایسار شتہ ہو جائے گا کہ میر اسلسلہ اس کے سلسلہ میں مدغم ہو جائے گا.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے شادی سے تین سال قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا ہے کہ ایک عورت ایسی آنے والی ہے جو تیرے کاموں میں اسی طرح مددگار ہو گی جیسے حضرت خدیجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کاموں میں مددگار تھیں.پھر فرماتا ہے تو اور تیری بیوی دونوں اکٹھے جنت میں رہو گے.تمہاری زندگی خوشی کی زندگی ہو گی.تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہو گی.تمہاری مقام قرب میں وفات ہو گی اور تم دونوں کا جنت میں اکٹھا مقام ہو گا.یہ الہام 1883ء کا ہے جو تذکرہ صفحہ 69 پر درج ہے.پھر ساتھ ہی الہام ہوا يَا أَحْمَدُ اسْكُنْ اَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ ۚ اے احمد! تُو اور تیری بیوی جنت میں رہو.بعض متشكك طبائع ہوتی ہیں وہ کہہ سکتی ہیں کہ یہاں حضرت آدم کا ذکر ہے.حضرت مرزا صاحب کا نہیں اس لئے ایک طرف تو یہ الہام کیا ك يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اور دوسری طرف یہ الہام کیا کہ یا اَحَمُدُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ.گویا یہ بتایا کہ جب ہم نے آدم کا لفظ کہا ہے تو اس سے مراد تو ہے یعنی اس الہام میں نام لے کر بتا دیا کہ تو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو.اب لوگ کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے ہمیں یہ الہام سنا دیا ہمیں اس سے خوشی ہوئی
انوار العلوم جلد 23 85 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور..لیکن یہاں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے تو کہا تھا اے آدم اور اے احمد ! تُو اور تیری بیوی اکٹھے جنت میں رہو لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں دفن ہیں اور حضرت اتاں جان ربوہ میں دفن ہوئیں.یہ اکٹھے کیسے ہوئے.اس کا پہلا جواب تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے الہام میں یہ نہیں کہا کہ يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ فِي الْمَقْبَرَةِ الْجَنَّةِ.کہ اے آدم ! تُو اور تیری بیوی دونوں بہشتی مقبرہ میں رہو بلکہ یہ کہا ہے کہ تُو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو.اب جنت میں تو سب اکٹھے ہوتے ہیں اگر اس سے دنیوی زندگی مراد ہے تو آپ دونوں اکٹھے رہے اور اگر اس سے اُخروی زندگی مراد ہے تو جنت میں آپ دونوں اکٹھے ہو جائیں گے.جنت کے لئے یہ سوال نہیں ہو تا کہ کوئی شخص مکہ میں فوت ہو یا مدینہ میں، عرب میں فوت ہو یا جاپان میں فوت ہو ، یا امریکہ میں فوت ہو.جنت میں سب لوگ اکٹھے ہوں گے.دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ ایک پیشگوئی ہے اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت دی گئی ہے.اس الہام کے الفاظ ایسے ہیں کہ وہ اپنا مضمون بھی پورا کر جاتے ہیں اور مومنوں کے لئے اس میں ایک بشارت بھی ہے اور وہ بشارت یہ ہے کہ اگر یہاں جنت کے معنی مقبرہ بہشتی کے لئے جائیں تو یہ پیشگوئی بن جاتی ہے کہ اے احمد اتو اور تیری بیوی س مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گے.یعنی تمہارے لئے یہ مقدر تھا کہ قادیان سے ہجرت ہو گی تم قادیان سے نکالے جاؤ گے.تمہارے دل زخمی ہوں گے سو تم گھبرا کر کہو گے کہ یا الہی اب کیا کریں.ہم نے حضرت اماں جان کو قادیان سے باہر دفن کیا ہے لیکن تو نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی تو اس الہام میں یہ پیشگوئی کی گئی.میں انہیں قادیان پہنچاؤں گا.گویا مومنوں کو یہ امید دلائی گئی ہے اور یقین دلایا ہے کہ میں تمہیں قادیان ضرور دوں گا اور حضرت اماں جان مقبرہ بہشتی میں دفن ہوں گی.پس خدا تعالیٰ نے پہلے سے یہ پیشگوئی کر دی اور بتا دیا کہ حضرت اتاں جان کا یہاں آنا تمہارے لئے تسلی کا موجب ہے کہ تم ضرور قادیان واپس جاؤ گے.تیسرے خدا تعالیٰ نے تمام پیشگوئیوں میں مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی
انوار العلوم جلد 23 86 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور پیشگوئیوں کا متمم قرار دیا ہے.متعدد پیشگوئیاں پچھلے انبیاء کی بھی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں سے بھی اس کا پتہ لگتا ہے.جیسے مصلح موعود کی پیشگوئی میں بتایا گیا ہے اور پھر خدا تعالیٰ نے مجھے بھی کئی دفعہ اس کے متعلق اشارہ کیا ہے لیکن چونکہ میں مامور نہیں ہوں اس لئے میں ان باتوں پر زور نہیں دیتا.مامور اپنے الہامات کو دُہراتا رہتا ہے اور اس کے الہامات لوگوں کے کانوں میں بار بار پڑتے رہتے ہیں اس لئے وہ باتیں پکی ہو جاتی ہیں.میں اپنی رؤیا کا ذکر تو کر دیتا ہوں لیکن یہ ذکر برسبیل تذکرہ ہوتا ہے.میں یہ نہیں کہتا کہ ان کی ہر وقت تبلیغ ہوتی رہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جب تک بار بار لوگوں کے کانوں میں کوئی بات نہ ڈالی جائے متشكك طبائع کو شبہ رہتا ہے.ایسے لوگوں کا منہ بند کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے حضرت اناں جان کو زندگی دی اور آپ کو ربوہ میں میرے ساتھ لایا اس لئے کہ مسیح اول نے جب ہجرت کی تھی تو اُن کی والدہ اُن کے ساتھ آئی تھیں اور وہیں دفن ہوئی تھیں جہاں حضرت مسیح ہجرت کر کے گئے تھے.تو اللہ تعالیٰ حضرت اتاں جان کو میرے ساتھ لایا تا متشكك لوگ یہ نہ کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جو مشابہت مسیح اوّل سے تھی وہ آپ کے وجود پر پوری نہیں ہوئی آپ کے بیٹے پر پوری ہوئی.جماعت کے بعض منافق لوگ جن کا مجھے علم ہے اور جن کی باتیں مجھے پہنچتی رہتی ہیں ان میں سے بعض دلیری سے اپنی مجالس میں اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں.ربوہ کا بہشتی مقبرہ بنا تو ایسے لوگ اپنی مجالس میں اکثر کہتے رہتے ہیں کہ یہ بات تو عجیب ہے کہ جہاں چاہا مقبرہ بہشتی بنالیا.وہ احمق یہ نہیں سمجھتے کہ بعض لوگ ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں کہ ان کے مقبرہ بہشتی بنانے سے مقبرہ بہشتی بن جاتا ہے.تمہارا اس میں کیا اختیار ہے لیکن چونکہ میں مامور نہیں اس لئے یہ بات بار بار ڈہر انہیں سکتا لیکن منافق اپنی مجالس میں اس بات کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ یہاں بھی بہشتی مقبرہ بن گیا ہے.اب اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو یہاں دفن کروا دیا ہے.ایسا کیوں ہوا.اب یہ لوگ بتائیں کہ یا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ پیشگوئی غلط ہوئی جس میں یہ بتایا گیا تھا کہ یا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ
انوار العلوم جلد 23 87 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....کیونکہ آپ خود تو قادیان میں دفن ہوئے اور حضرت اماں جان یہاں ربوہ میں دفن ہوئیں اور یا اس الہام نے یہ بتادیا ہے کہ یہ مقبرہ بھی بہشتی مقبرہ ہے اور قادیان کے بہشتی مقبرہ کا ہی ایک حصہ ہے.گویا اس بہشتی مقبرہ کے بنانے میں جو مشکل میرے سامنے آئی تھی الہی فعل نے اسے حل کر دیا.میں مامور نہیں تھا، میری زبان بند تھی، میں ایسے مقام پر نہیں تھا کہ اس اعتراض کا جواب دے سکوں.سو خدا تعالیٰ نے حضرت اتاں جان کو یہاں دفن کر کے ان لوگوں کا منہ بند کر دیا.اب انہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نَعُوذُ بِاللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام که يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ اور يَا احْمُدُ اسْكُنْ أنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ جھوٹا تھا کیونکہ آدم وہاں دفن ہیں اور حوا یہاں.احمد وہاں دفن ہیں اور ان کی بیوی یہاں اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ یہ جگہ بھی بہشتی مقبرہ ہے.غرض اس الہام نے یہ واضح کر دیا کہ میر ا قدم خدا تعالیٰ کی منشاء کے عین مطابق تھا.اسی طرح وہ پہلی پیشگوئیوں کے بھی عین مطابق تھا.اس مقبرہ کو پلا کم و کاست وہی پوزیشن حاصل ہے جو مقبرہ بہشتی قادیان کو حاصل ہے.پورے سو فیصدی سو میں سے ایک حصہ بھی کم نہیں ورنہ یا آدَمُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ والی بات نَعُوذُ بِاللہ جھوٹی تھی.اُوپر کے الہامات کے علاوہ ایک اور الہام بھی تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہوا اور وہ یہ ہے إِنِّي مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ 10 یہ الہام 20 ستمبر 1907ء کو ہوا اور تذکرہ صفحہ 677 پر درج ہے یعنی میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں اور اہل میں سے سب سے مقدم بیوی ہوتی ہے.پھر یہی الہام 21 ستمبر 1907ء کو بھی ہوا.5 نومبر 1907ء کو بھی ہوا پھر 2 دسمبر 1907ء کو بھی یہ الہام ہوا.گویا ایک سال کی آخری چہار ماہی میں یہ الہام چار دفعہ ہوا.اب عجیب بات یہ ہے کہ ایک تو شادی سے پہلے یہ الہامات ہوئے جن میں حضرت اماں جان کا ذکر تھا، پھر شادی کے قریب الہام ہوا، پھر یہ سلسلہ ایک لمبے عرصہ تک بند رہا.پھر جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہونے والی تھی تو بیوی کا ذکر
انوار العلوم جلد 23 88 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....دوبارہ شروع ہو گیا.یہ کتنا بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ خدا تعالیٰ کا کلام ہے اس کو توارد کون کہہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے قادیان میں پیدا کیا جو ایک گمنام بستی تھی.آپ کو ایک ایسے خاندان میں پیدا کیا جو اس زمانہ کے اعلیٰ درجہ کے خاندانوں میں سے ایک تھا پھر ایک پیر خاندان میں رشتہ کیا جو یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہمیں وہ کمال ملا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور کسی کو نہیں ملا.پھر بڑی مشکل یہ تھی کہ حضرت اماں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب اہل حدیث تھے اور حضرت مسیح موعود اہل حدیث کے نام سے گھبراتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ ان لوگوں میں روحانیت نہیں ہوتی یہ لوگ متشکلک ہوتے ہیں اس خاندان میں آپ کی شادی ہوئی.شادی سے پہلے بیوی کا ذکر الہامات میں آتا ہے لیکن جب شادی ہو جاتی ہے تو یہ ذکر ختم ہو جاتا ہے.پھر عین تیس سال کے بعد جب حضرت مسیح موعود کی وفات کا وقت قریب آتا ہے تو پھر الہامات میں بیوی کا ذکر آجاتا ہے.یہ کون سے اتفاق کی بات ہے.یہ تو ایک بڑا ثبوت ہے اس بات کا کہ غیب کی طاقت نے یہ خبر دی.پہلے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی.اب واقعہ کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی ہے کہ اس کا کیا مطلب تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے عین قریب بیوی کا ذکر آتا ہے یعنی إِنِّىٰ مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِکَ.إِنِّي مَعَكَ وَمَعَ اَهْلِگ کے الہامات بار بار ہوتے ہیں.اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کی خبر دی جارہی تھی تو ساتھ ہی آپ کو یہ تسلی دی جارہی تھی کہ تمہارے بعد تمہاری بیوی کے ہم خود کفیل ہوں گے اور حضرت اناں جان کو بھی یہ تسلی دی کہ گو تم سے تمہارا خاوند جُدا ہو گا مگر ہم جُدا نہیں ہوں گے.ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے خود کفیل ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات سے پہلے تو آپ کا ذہن اس طرف نہیں جاسکتا تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد جو فقرہ حضرت اماں جان کی زبان پر بار بار آیا وہ یہی تھا کہ اے خدا! انہوں نے تو مجھے چھوڑ
انوار العلوم جلد 23 دیا ہے 89 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور تو مجھے نہ چھوڑنا.یہ وہی مفہوم تھا جو الہام إِنِّی مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِگ میں بیان کیا گیا تھا کہ ہم تیرے ساتھ ہوں گے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں گے اور پھر حضرت اتاں جان کی زبان سے بھی کہلوا دیا.پھر 19 جنوری 1908ء کو یہ الہام ہوتا ہے کہ إِنِّی مَعَكَ وَ مَعَ اَهْلِكَ هَذِهِ 11 بعض متشلکین جو ہمیشہ کریدتے رہتے ہیں کہہ سکتے ہیں کہ اس الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آدم کہا ہے.اب جس طرح اس سے مراد اصل آدم نہیں اسی طرح اہل سے مراد بھی اصل بیوی نہیں بلکہ یہاں جماعت مراد ہے.پس اس الہام کے ذریعہ ایسے لوگوں کی تسلی کر دی اور الہام میں بتادیا کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں جو یہ ہے یعنی اس بیوی کے ساتھ ہوں.جماعت تو ایک تھی دو نہیں تھیں.اس لئے ھذہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی.بیویاں دو تھیں اس لئے ھذہ کہہ کر یہ بات پکی کر دی کہ یہ وعدے خاص حضرت اتاں جان کے ساتھ ہیں.پھر 19 مارچ 1907ء کو خواب میں دیکھا حضرت اتاں جان آئی ہیں اور آپ کہتی ہیں کہ "میں نے خدا کی مرضی کے لئے اپنی مرضی چھوڑ دی ہے" یہ بھی اسی طرف اشارہ تھا کہ تم وفات پاؤ گے اور یہ صبر کا پورا نمونہ دکھا ئیں گی.آپ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو جواب میں کہا اس سے تو تم پر حسن چڑھا ہے " 12 یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارے اس فعل کو پسند کر کے تمہیں درجہ اور زینت عطا کی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا کہ " اسنی یا اس پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم "12 اس الہام پر بعض غیر احمدی ملنٹے اعتراض کرتے ہیں کہ یہ خدا کا کلام نہیں.خدا تعالیٰ کو تو شک نہیں پڑتا.کیا خدا تعالیٰ کو 85 یا 75 اور 76 کے ہند سے نہیں آتے.یہ کیا الہام ہے کہ "استی یا اتنی پر پانچ چار زیادہ یا پانچ چار کم " یہ خدا تعالیٰ کا کلام نہیں لیکن یہ مولوی بھول جاتے ہیں کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِکَ یہ غلطی خدا تعالٰی نے قرآن کریم میں بھی کی ہے کیونکہ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ حضرت یونس کی نسبت فرماتا ہے وَ اَرْسَلْنَهُ إِلى مِائَةِ الْفِ اَوْ يَزِيدُونَ 14 یونس کو ہم نے لاکھ یا شاید لاکھ سے کچھ زیادہ
انوار العلوم جلد 23 90 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور..کی طرف بھیجا.اب کیا خدا تعالیٰ کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا تھا.جس خدا کو لاکھ کا ہندسہ نہیں آتا اس کو اسی کا ہندسہ بھی بھول سکتا ہے.کوئی بات نہیں.اصل سوال تو بھول چوک ہے.جب بھول چوک ثابت ہو گئی تو اسی اور لاکھ کا کیا سوال ہے.دراصل یہ حماقت کی بات ہے.یہاں کلام میں تحسین پیدا کرنے کے لئے ایسا کیا گیا ہے.حسن کلام کے لئے ڈیفینیٹ (DEFINITE) بات پہلے بیان نہیں کی بلکہ الفاظ سے اس طرف اشارہ کر دیا ہے کہ تم اسے لاکھ کہہ لو یا لاکھ سے زیادہ کہہ لو.مطلب یہ ہے کہ ہیں زیادہ.تو ایسے موقع پر اعداد کو بیان نہیں کیا جاتا.اگر خدا تعالیٰ یہاں لاکھ کہہ دیتا تو لوگ کہتے اس کا ثبوت دو کہ وہ واقعی ایک لاکھ تھے.پس ایک طرف لاکھ یا کچھ زیادہ کہہ کر کلام میں حسن پیدا کر دیا اور دوسرے اس پر کوئی اعتراض بھی نہیں کر سکتا کیونکہ یہ اندازہ ہے اور اندازہ پر کوئی کیا اعتراض کرے گا.پس اس کا ایک جواب تو یہ ہے کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے حُسنِ کلام کے لئے قرآن کریم میں مِائَةِ أَلْفِ اَوْ يَزِيدُونَ لاکھ یا لاکھ سے کچھ زیادہ کہا ہے.اسی طرح یہاں بھی حُسنِ کلام کے لئے یہ طریق اختیار کیا گیا ہے لیکن اس کا ایک دوسر ا جواب بھی ہے جو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے یا أَحْمَدُ اسْكُنْ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ کہہ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اتاں جان کو ایک قبر میں دفن کیا ہے اور دونوں کو ایک جگہ رکھا ہے گویا دونوں وجو دوں کو ایک وجود قرار دیا ہے اور عمر کے الہام میں دونوں ہی کی عمر بتائی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے یعنی اسی سے پانچ سال کم اور حضرت اماں جان 85 سال کی عمر میں فوت ہو ئیں یعنی اتنی سے پانچ سال زیادہ.گو یا الہام میں جو وحدت وجود بتائی گئی تھی اس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اناں جان دونوں کے وجود ہیں.ایک اتنی سال سے پانچ سال پہلے فوت ہو جاتا ہے اور ایک اسی سے پانچ سال بعد فوت ہو تا ہے گو یا الہام میں جس وجود کو ” و “ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا تھا اس کا ایک حصہ اسی سے پانچ سال کم میں فوت ہو گیا اور ایک حصہ اسی سے پانچ سال زیادہ عمر پا کر فوت ہو گیا اب یہ کتنی زبر دست پیشگوئی
انوار العلوم جلد 23 91 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور....بن جاتی ہے اور کس طرح اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دراصل یہ دو پیشگوئیاں ہیں اور اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ جس وجود کو ہم نے ایک قرار دیا تھا اس کا ایک حصہ اسی سے پانچ سال کم عمر پا کر فوت ہو گیا اور ایک حصہ اسی سے پانچ سال زیادہ عمر میں فوت ہو گیا.اب یہ کسی کے اختیار کی بات نہیں تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام 75 سال کی عمر میں فوت ہوئے اور آپ کی بیوی جو مریض تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ کا لٹریچر آپ کی مرض سے بھرا پڑا ہے وہ تو 85 سال کی عمر میں فوت ہوں.اس الہام کے یقیناً یہی معنے ہیں کہ اس کے ایک حصہ میں ایک کی موت کی خبر دی گئی ہے اور دوسرے حصہ میں دوسرے کی موت کی خبر دی گئی ہے.حضرت اناں جان کو ایک پرانی خواب آئی تھی.جب حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد آپ کی طبیعت گھبرانے لگتی تو آپ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے عر چلی جاتیں.میر صاحب کو آپ نے نہایت محبت اور اخلاص سے پالا تھا اور میر صاحب کو بھی اپنی بہن کا بہت احترام تھا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے آپ جب گھبرا جاتیں تو میر صاحب کے ہاں چلی جاتیں.مجھے یہ بات بری لگتی لیکن میں آپ کے ادب کی وجہ سے بولتا نہیں تھا.میں سمجھتا تھا کہ آپ کو مرکز میں رہنا چاہئے.ایک دن آپ میر صاحب کے ہاں سے تشریف لائیں تو آپ نے بتایا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں صفر میں فوت ہوئی ہوں.میرا ذہن فوراً اس طرف گیا کہ چلو اب موقع ہے انہیں مرکز میں ہی مستقل طور پر ٹھہرنے کے لئے کہہ دوں.میں نے کہا.اتاں جان ! صفر ص سے کیوں، س سے کیوں نہیں.میرے نزدیک تو اس خواب میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ آپ سفر میں فوت ہوں گی اس لئے آپ سفروں سے پر ہیز کریں.چنانچہ اس کے بعد آپ نے کوئی سفر نہیں کیا.میرے ساتھ سفر میں جاتی تھیں.یوں نہیں جاتی تھیں.جب آپ بیمار ہو تیں تو میری یہ کوشش تھی کہ میں انہیں پکے مکانوں میں لے جاؤں تا سفر ہجرت کی حالت ختم ہو جائے.ابھی ہم کچے مکانوں میں ہی رہتے تھے.میں ڈاکٹروں سے کہتا اُن میں سے ایک حصہ مان جاتا اور کہتا اچھی بات ہے وہاں کھلی ہو ا ہو گی
انوار العلوم جلد 23 92 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور..لیکن جب میں پکے مکانوں میں جانے کی تیاری کر تا تو ڈاکٹروں کا دوسرا حصہ پہلے حصہ کو منالیتا کہ ابھی انہیں وہاں لے جانا اچھا نہیں اور ان کی رائے بدل جاتی.اس طرح آپ کی وہ خواب پوری ہو گئی.ہم قادیان سے نکلے اور پیشتر اس کے کہ ہم اپنے مستقل روں میں آئے.سفر ہجرت میں ہی مستقل مکانوں میں آنے سے پہلے آپ وفات میں نے ایک ماہ پہلے خواب میں دیکھا تھا کہ میرا ایک بڑا دانت جو دو دانت کے برابر تھا نکل گیا ہے.اس میں اس طرف اشارہ تھا کہ آپ میرے لئے ماں اور باپ دونوں کی جگہ تھیں.پس آپ کی وفات کے ساتھ میں نے ان دونوں کو کھویا.اللھم أجِرْنِي فِي مُصِيبَتِي ایک عرصہ پہلے میں نے ایک رؤیا د یکھی تھی جو الفضل میں شائع ہو گئی ہے وہ اس طرح تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیمار ہیں اور آپ نے بعض دیسی دواؤں کے نام لئے ہیں (یہ رؤیا الفضل 17اکتوبر 1951ء میں شائع ہو چکی ہے) شاید اس کا یہ مطلب تھا کہ طبیبوں کا علاج کیا جائے ڈاکٹروں کا علاج چھوڑ دیا جائے لیکن اُس وقت میرا ذہن اس طرف نہیں گیا.آپ کی وفات کی وجہ سے طبیعت پر ایسا اثر پڑا ہے کہ تین ماہ تو بخار چڑھتا رہا اور بائیں طرف نیم فالج کے دورے بھی ہوتے رہے ہیں اور ابھی تک میں کام میں محنت نہیں کر سکتا اور جب سردی کا موسم آیا تو میری صحت اچھی ہونے لگی.جلسہ سے ہیں دن پہلے میری طبیعت اچھی تھی.میں سمجھتا تھا کہ میں اچھا ہو گیا ہوں لیکن جب خشک سردی زیادہ ہو گئی تو میری طبیعت خراب ہو گئی اور جلسہ سے قبل دو دفعہ ضعف کے دورے بھی ہو گئے.اس کی وجہ سے تفسیر کے کام میں بھی دیر ہو گئی ہے لیکن اب میں نے تفسیر کا کام شروع کر دیا ہے.میری آنکھوں میں چونکہ بچپن سے ہی گرے ہیں اس لئے میں معمولی روشنی میں کام نہیں کر سکتا.بجلی آجائے گی تو میں راتوں کو زیادہ دیر تک بیٹھ کر کام کر سکوں گا.جلسہ کے دنوں میں دو دن رات کام کرنے بیٹھا تو آنکھوں میں خارش شروع ہو گئی.
انوار العلوم جلد 23 93 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور..ربوہ کی تعمیر دوسری بات میں تعمیر ربوہ کے متعلق لیتا ہوں.ربوہ کی تعمیر اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا احسان ہے یعنی یہ ایک مثال ہے جو پاکستان اور ہندوستان میں پائی جاتی ہے کہ اتنی جلدی ایک اُکھڑی ہوئی قوم نے اپنا مرکز بنالیا.جہاں تمہیں اور فضائل دوسرے لوگوں پر حاصل ہیں وہاں یہ کیا کم فضیلت ہے.یہ ایک زندہ اور نمایاں فضیلت ہے جو تمہیں حاصل ہے.لوگ شور مچاتے ہیں کہ گور نمنٹ نے انہیں لاکھوں کی زمین کوڑیوں میں دے دی.زمین کیا دے دی.حکومت نے ایک اعلان شائع کیا تھا اور گور نمنٹ گزٹ میں یہ بات شائع ہوئی تھی کہ ہم یہ زمین بیچنا چاہتے ہیں کیا کوئی گاہک ہے جو یہ زمین خریدے.ہم نے کہا چلو ہم یہ زمین لے لیتے ہیں.جب کوئی اور گاہک نہ آیا تو حکومت نے ہمیں یہ زمین دے دی.بعد میں اگر کسی کو حسد ہو جائے تو اس کا کون ذمہ دار ہے.دو سال کا عرصہ ہوا "زمیندار" نے یہ بات شائع کی کہ حکومت نے پچاس لاکھ کی زمین احمدیوں کو کوڑیوں میں دے دی.میں نے اسی وقت اسے ایک تار دیا کہ زمین حاضر ہے تم وہ گاہک لاؤ جو اس زمین کے بدلہ میں پچاس لاکھ روپیہ دے گا میں اسے زمین دے دوں گا اور پھر زائد رقم جو ملے گی وہ میں خود نہیں رکھوں گا بلکہ زائد رقم میں گورنمنٹ کے خزانہ میں جمع کروا دوں گا.میری تار کا اُس نے جواب نہ دیا اور وہ چپ ہو گیا.اگر واقعہ یہ تھا کہ کوئی شخص اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ روپیہ دیتا تھا تو چاہئے تھا کہ "زمیندار" کا ایڈیٹر اسے آگے لاتا، اس زمین کی قیمت پچاس لاکھ تو کیا ہمیں اب پچاس کروڑ ملے گا لیکن یہ پچاس کروڑ روپیہ ملے گا اس مدرسہ کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس کالج کی وجہ سے جو آئندہ یہاں بنے گا، یہ روپیہ ملے گا ہسپتال کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس زنانہ کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا اس دینیات کالج کی وجہ سے جو یہاں بنا ہے، یہ روپیہ ملے گا ان دینی تعلیموں کی وجہ سے جو اس جگہ دی جارہی ہیں.یہ روپیہ ربوہ کی زمین کی وجہ سے کسی کو نہیں ملے گا.اب اس زمین کو لے کر دیکھ لو.
انوار العلوم جلد 23 94 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....عمرو بن معدی کربے ایک مشہور سپاہی تھے.حضرت عمر ان کی بہادری اور شمشیر زنی کے واقعات سنتے رہتے تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت عمررؓ بھی بہت بہادر تھے اور دلیر تھے لیکن عمرو بن معدی کرب کی طرح شمشیر زن نہیں تھے.ایک دفعہ عمرو بن معدی کر بے حضرت عمرؓ کے پاس آئے تو آپ نے ان کی تلوار لے لی.آپ نے کو یہ شوق تھا کہ عمرو بن معدی کرب کی تلوار دیکھیں.آپ نے وہ تلوار ایک درخت پر ماری تو اس سے اس درخت کا بہت تھوڑا حصّہ کٹا.آپؐ نے فرمایا عمرو! میں تو سنا کرتا تھا کہ تو ایک تلوار مارتا ہے تو اونٹ کی چاروں ٹانگیں کاٹ دیتا ہے، تو تلوار مارتا ہے تو ایک ہی ضرب میں درخت کاٹ دیتا ہے مگر میں نے تلوار ماری ہے تو یہ درخت نہیں کٹا.یو نہی معمولی نشان پڑا ہے.کیا یہی تلوار ہے جس کی سارے عرب میں دھوم مچی ہوئی ہے.عمرو بن معدی کربے نے کہا یا امیر المؤمنین! تلوار کا کام اونٹ کی چاروں ٹانگیں نہیں کاٹنا بلکہ وہ ہاتھ کاٹنا ہے جس میں یہ تلوار ہوتی ہے.پس زمین اب بھی گورنمنٹ کے پاس ہے.یہاں سے سر گو دھا تک ربوہ کی زمین سے دس گنا زمین خالی پڑی ہے.اس زمین میں چار پانچ بڑے بڑے شہر بن سکتے ہیں.ایک جگہ تو قریباً سات ہزار ایکڑ زمین خالی پڑی ہے.جہاں سر گودھا کے لوگ اب چاند ماری کرتے ہیں.جب ہم اس زمین کو دیکھنے گئے تو میرے ساتھیوں نے کہا یہ زمین پسند کر لیں یہ کھلی ہے.میں نے کہا ہمیں کھلی زمین کون دیتا ہے.تنگ زمین ہی لے لو.اب ان کو یہ تنگ زمین بھی نہیں پہچتی.تو بہر حال گورنمنٹ کے پاس ابھی ایسی زمینیں موجود ہیں جس کو اس زمین پر اعتراض ہے وہ اب لے کر دیکھ لے.وہ ٹکڑا پسند کرے اور قیمت دے جائے اور شہر بنا لے مگر شرطیں وہی ہوں جو ہمارے ساتھ کی گئی ہیں کہ زمین صدر انجمن احمد یہ لے اور وہ آگے افراد کو دے پھر وہ وعدے کرے کہ اس میں سکول، کالج، ہسپتال اور دوسرے ضروری ادارے بنائے گی.پس جس طرح ہم نے گور نمنٹ کو لکھ کر دیا ہے وہ بھی لکھ کر دے دیں اور وہ سب کچھ بنائیں جو ہم بنا رہے ہیں پھر ہم دیکھیں گے کہ وہ شہر کتنی جلدی
انوار العلوم جلد 23 95 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور آباد ہوتا ہے.ہم نے حکومت سے زمین لے کر ربوہ آباد کر دیا ہے لیکن حکوم جو ہر آباد اور لیاقت آباد کے شہر آباد نہیں کر سکی.کیا ملک کی ساری طاقت اس کے پیچھے نہیں تھی، کیا ملک کا سارا روپیہ اس کے پیچھے نہیں تھا، پھر کیا حکومت نے وہ شہر آباد کر لئے ہیں؟ ربوہ روپے سے آباد نہیں ہوا.ربوہ اس وجہ سے آباد نہیں ہوا کہ حکومت نے ہمیں سستے داموں زمین دے دی تھی.ربوہ آباد ہوا ہے ان گدڑی پوشوں اور کھدر پہنے والے لوگوں کے ایمانوں سے.یہ ایمان جو ان پھٹے پرانے کپڑے پہنے والوں میں پایا جاتا ہے.یہ اگر دُنیا میں کہیں اور جگہ پایا جاتا ہو تو ایک ربوہ کیا ایک کروڑ ربوہ سال میں تیار ہو سکتا ہے لیکن اگر یہ ایمان نہ ہو تو چاہے ہزار سال تک بھی احراری شور مچاتے رہیں وہ ہزار سال کے بعد بھی ربوہ جیسا شہر آباد نہیں کر سکیں گے.ان کی مثال وہی ہو گی جیسے کہتے ہیں ہتھ پرانے کھو نسٹڑے بسنتے ہوری آئے..ایک اخبار نویس نے جو ہم سے اچھا تعلق رکھتے ہیں.اُنہوں نے ایک دفعہ کہیں لاہور کی نئی آبادی کی سیر کی.حکومت لاہور کے قریب نئی آبادی کر رہی ہے.میں اُس وقت کوئٹہ میں تھا.اس اخبار نویس نے یہ لکھا کہ میں نے ربوہ بھی دیکھا ہے.وہ بھی شش کر رہے ہیں اور ایک نیا شہر بنانا چاہتے ہیں اور میں نے لاہور کی آبادی کی نئی سکیمیں بھی دیکھی ہیں.لاہور افسر بھی نہایت مستعد معلوم ہوتے ہیں.وہ خوب زور سے اس کام میں لگے ہوئے ہیں اور ربوہ کے لوگوں کے بھی بڑے بڑے ارادے ہیں.اب دیکھیں کون پہلے شہر بنا لیتا ہے.لاہور کی نئی آبادی کی سکیم پہلے مکمل ہوتی ہے یار بوہ پہلے تیار ہوتا ہے.اس سفر میں درد صاحب بھی میرے ساتھ تھے.میں نے انہیں کہا.آپ اس اخبار نویس کو ایک چٹھی لکھیں اور اس پر صرف ربوہ کا لفظ بریکٹ میں ڈال کر بھیج دیں.اب دیکھ لو کون سا شہر پہلے آباد ہوا ہے.لاہور کی نئی آبادی کی جو سکیمیں بن رہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ وہاں کچھ مکان بن گئے ہیں لیکن وہ بات نہیں جو یہاں ہے.ہمیں تو سامان بھی نہیں ملتا تھا.ہمیں اینٹیں نہیں ملتی تھیں، لکڑی نہیں ملتی تھی، لوہا نہیں ملتا تھا.اینٹیں اب بنی ہیں لیکن وہ اتنی جلدی ختم ہوئی ہیں کہ دو بھٹوں کی اینٹیں ا
انوار العلوم جلد 23 96 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....ختم ہو گئی ہیں لیکن باوجود اس کو تاہ دامنی کے خدا تعالیٰ نے ہمیں ایسا سامان دیا کہ سڑک پر سے گزرنے والوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بہت بڑا شہر بن چکا ہے.تعالیٰ چاہے گا تو اگلے سال جب آپ جلسہ سالانہ پر آئیں گے تو ہمیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ جلسہ گاہ کہاں بنائیں کیونکہ یہ جگہ زنانہ سکول کی ہے.لڑکیوں کا سکول یہاں بنے گا.اگر اللہ تعالیٰ نے توفیق دی اور اگلے سال یہ سکول بن گیا تو یہاں تقریریں نہیں ہو سکیں گی.پس حقیقت یہ ہے کہ یہ جو کچھ ہوا ہے اللہ تعالیٰ کی برکتوں سے ہی ہوا ہے.ہم قادیان سے نکل کر آئے تو یہاں دینیات کالج بھی بن گیا، ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ ہائی سکول بھی بن گیا، زنانہ کالج بھی بن گیا، لڑکوں کا کالج ابھی نہیں بنا.اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو وہ بھی بن جائے گا.بھلا وہ کون سے مہاجر ہیں جن کے پاس مشرقی پنجاب میں کوئی زنانہ کالج نہیں تھا مگر اُنہوں نے یہاں آکر بنا لیا ہو.یہ سب اللہ تعالیٰ کی برکتیں ہیں.پھر یہاں آکر ہسپتال بنا لیا.پہلے چھپر بنے ہوئے تھے اور چھت پر بانس ڈالے ہوئے تھے.انہی چھپڑوں میں ہسپتال بھی تھا اور ڈاکٹر وہیں کام کرتے تھے.اُدھر گورنمنٹ اعلان کر رہی تھی کہ تم اتنی اتنی تنخواہیں لے لو لیکن کوئی ڈاکٹر کام کے لئے آگے نہیں آتا تھا.ادھر چھپتروں میں اور معمولی تنخواہوں پر ڈاکٹر کام کر رہے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے اگر دوسرے لوگوں نے بھی ربوہ جیسے شہر بنانے ہیں تو اس کا ایک ہی رستہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے حضور سجدوں میں گر جائیں.اُسی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں اور دو کہیں.اے اللہ ! تو ہی مدد فرما.تو دیکھیں کتنے ربوہ بنانے کی انہیں توفیق ملتی ہے.بہر حال یہاں بہت سے مکان بن چکے ہیں اور بہت سے مکانات ابھی بننے والے ہیں.کئی دوست تو ایسے ہیں جنہوں نے سنا کہ وہ زمین جو ہم نے سو میں خریدی تھی اب د ہزار روپیہ میں بک رہی ہے تو انہوں نے زمین پچنی شروع کر دی اور کئی لوگ جنہوں نے پہلے زمین نہیں خریدی تھی وہ اب دو دو ہزار میں زمین خرید رہے ہیں.ان لوگوں سے تو میں کہتا ہوں کہ تم نے ایک سو روپے میں زمین نہیں خریدی تھی اب دو ہزار میں خریدو.
انوار العلوم جلد 23 اللہ 97 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور تعالیٰ نے تم پر انہیں سو روپے جرمانہ کیا ہے.مگر جو لوگ بیچ رہے ہیں.اس میں کوئی نہیں کہ ان میں سے بعض معذور ہیں اور معذوری کی وجہ سے وہ زمین بیچ رہے ہیں لیکن کئی لوگ ایسے ہیں جو صرف دو ہزار روپیہ کے لالچ کی وجہ سے ایسا کر رہے ہیں.مجھے ایک قصہ یاد آ گیا.کوئی ماسٹر تھے وہ کہیں ملازم تھے دس بیس سال تک گھر نہ آئے اُن کی بیوی نے انہیں لکھا کہ تم اپنی ان بیٹیوں کا تو خیال کرو.میری زندگی تو بر باد ہوئی ان کی زندگی تو برباد نہ کرو.ان کے دوستوں نے بھی انہیں مشورہ دیا کہ وہ گاؤں ضرور جائیں.چنانچہ وہ گاؤں جانے کے لئے تیار ہو گئے.دس بیس میل پر ان کا گاؤں تھا.انہوں نے رتھ والے کو دس روپے دیئے اور اس میں بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوئے.جب وہ اپنی منزل پر پہنچے تو وہ رتھ والے سے پوچھنے لگے کہ اب تم خالی جاؤ گے.تمہیں بڑا نقصان ہو گا.رتھ والے نے کہا میں نے آپ سے اسی لئے دس روپے لئے تھے اب میں خالی بھی واپس چلا جاؤں تو مجھے کوئی نقصان نہیں.ماسٹر صاحب نے کہا اگر واپس جاتے ہوئے کوئی سواری مل جائے تو تم اس سے کیا لو گے.رتھ والے نے کہا میں نے دونوں طرف کا کرایہ آپ سے وصول کر لیا ہے.اب اگر کوئی مجھے ایک روپیہ بھی دے تو میں اُسے لے جاؤں گا.ماسٹر صاحب نے کہا تب ایک روپیہ مجھ سے لے لو اور مجھے واپس لے جاؤ.چنانچہ وہ اسی لالچ کی وجہ سے کہ رتھ والا انہیں اب ایک روپیہ میں واپس لے جارہا ہے وہیں سے واپس چلے گئے.پس میں جب اُن لوگوں کو دیکھتا ہوں جو دو ہزار روپے کی لالچ میں زمین بیچ رہے ہیں تو مجھے یہ قصہ یاد آجاتا ہے.تم نے سو روپے خرچ نہیں کئے تھے بلکہ اس کی زمین خریدی تھی.بہر حال یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کی علامت ہے.اعتراض کرنے والے اعتراض کرتے ہیں.پیغامی اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے جماعت پر قبضہ کر لیا ہے.احراری بھی سُبحَانَ اللہ کیا کیا باتیں بناتے ہیں لیکن آخر کیا وجہ ہے کہ ان کو یہ موقع نصیب نہیں ہوا کہ وہ ربوہ جیسا شہر آباد کر سکیں.گورنمنٹ کے گزٹ میں لکھا ہوا موجود ہے کہ پچھلے ہزار سال سے یہاں کوئی آبادی نہیں تھی بلکہ یہاں تک لکھا ہے
انوار العلوم جلد 23 98 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور..لہ یہ زمین ایری گیشن (IRRIGATION) کے ناقابل ہے اور نان کلٹی ایبل (NON CULTIABLE) ہے یعنی اس زمین کے متعلق ہے کہ یہاں آب پاشی اور زراعت نہیں ہو سکتی.یہ زمین دوسری زمین سے 23 فٹ بلند ہے.پانی چڑھے کہاں اور پھر پانی نمکین ہے.سوائے اس کے کہ جب خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ یہاں میٹھا پانی نکلے گا تو یہاں میٹھا پانی نکلنا شروع ہوا اور وہ بھی ابھی کچھ حصہ سے نکلنا شروع ہوا ہے.ایسے کور دیہہ میں دو سال کے بعد دو دو ہزار کو زمین بکنی شروع ہو گئی.آخر کسی کی عقل میں.بات نہیں آئی کہ اس شخص کے پاس کون سا جادو ہے کہ وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا ہے تو وہ سونا بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پیرانامی ایک نوکر تھا جو بالکل جاہل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ان لوگوں سے بھی بعض دفعہ بے تکلفی کا اظہار کر لیا کرتے تھے.ایک دن آپ نے پیرے سے کہا.کیا تمہیں بھی دین کا کچھ پتہ ہے ؟ پیرے نے جواب دیا کہ اور تو مجھے کچھ پتہ نہیں.ہاں میں نے ایک دن مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی.حضرت خلیفہ المسیح الاول نے فرمایا اچھا تم نے مولوی محمد حسین سے بحث کی تھی.پھر انہوں نے کیا کہا؟ پیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ملازم تھا.آپ اسے بلٹیاں دے دیتے تھے اور وہ اسے بٹالہ سے لانی پڑتی تھیں.اس نے کہا کہ میں جب بلٹیاں لینے جایا کرتا تھا تو روزانہ مولوی محمد حسین کو دیکھتا کہ وہ اسٹیشن پر آتے اور اگر کوئی آدمی قادیان آنے والا دیکھتے تو اسے کہتے میں مرزا صاحب کا پرانا دوست ہوں، میرے ان سے تعلقات ہیں، میں جانتا ہوں کہ اُنہوں نے دکان بنائی ہوئی ہے اور کچھ نہیں.ان کی ان باتوں سے متاثر ہو کر کوئی تو واپس چلا جاتا اور کوئی ان کی باتوں سے اثر لئے بغیر قادیان آجاتا.پیرا کہنے لگا میں اسی طرح مولوی محمد حسین کو روزانہ اسٹیشن پر دیکھتا.ایک دن اتفاقا مولوی صاحب کو قادیان جانے والا کوئی شخص نہ ملا.وہ میرے پاس آئے اور کہا پیر یا تو نے کیوں اپنا ایمان خراب کر لیا ہے ؟ کیا تو نے سوچا بھی ہے آخر میں اتنا بڑا عالم ہوں.مولوی صاحب کو یہ بڑا شوق تھا کہ لوگوں کو پتہ لگے کہ میں بڑا عالم ہوں
انوار العلوم جلد 23 99 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....اور اہل حدیث کا لیڈر ہوں.مولوی صاحب نے کہا میں اتنا بڑا عالم اور اہل حدیث کا لیڈر بھلا مرزا صاحب کو میرے مقابلہ میں کیا حیثیت حاصل ہے.کیا تو نے کبھی سوچا نہیں کہ اتنے بڑے عالم کو چھوڑ کر تو نے قادیان جاکر اپنا ایمان کیوں خراب کر لیا ہے ؟ پیرا جاہل مطلق تھا.اُسے دین کا کچھ بھی پتہ نہیں تھا.وہ کہنے لگا.مولوی صاحب میں جاہل ہوں، مجھے دین کا کچھ بھی علم نہیں.یہاں تک کہ مجھے نماز بھی نہیں آتی.میں صرف ایک بات جانتا ہوں.علم والی بات تو مجھے نہیں آتی.میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ میں اتنے سالوں سے مرزا صاحب کی بلٹیاں چھڑانے کے لئے بٹالہ آرہا ہوں اور جب بھی یہاں آتا ہوں آپ کو اسٹیشن کے قریب ٹہلتے دیکھتا ہوں.آپ روزانہ ایسے آدمی کی تلاش میں رہتے ہیں جو قادیان جانے کا ارادہ رکھتا ہو تا آپ اسے قادیان جانے سے باز رکھ سکیں.خبر نہیں آپ کی یہاں آتے آتے کتنی جوتیاں ٹھس گئی ہیں.اُدھر میں دیکھتا ہوں کہ مرزا صاحب کو ٹھری میں ٹھسے ہوئے ہیں.چھ چھ گھنٹے لوگ دروازے کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں کہ مرزا صاحب نکلیں تو وہ آپ کی زیارت کریں.لوگ یہاں سے یگوں میں جاتے ہیں، پیدل جاتے ہیں، راستہ میں دھکے کھاتے ہیں اور پھر وہاں گھنٹوں دروازہ کے آگے بیٹھے رہتے ہیں.تب کہیں مرزا صاحب کو ٹھری سے باہر نکلتے ہیں اور وہ لوگ آپ کی زیارت کرتے ہیں اور خوش خوش وہاں سے واپس آتے ہیں لیکن میں کئی سال سے دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی کئی جوتیاں بھی کھیں گئی ہوں گی لیکن آپ لوگوں کو قادیان جانے سے باز نہیں رکھ سکے.آخر کچھ تو ہے جس کی وجہ سے آپ کی کوشش بار آور نہیں ہوتی.آخر ان علماء کہلانے والوں کو کیا اتنی بھی سمجھ نہیں کہ ایک شخص گاؤں کا رہنے والا ہے اس نے نہ کوئی دینی تعلیم حاصل کی ہے اور نہ دنیوی تعلیم حاصل کی ہے.اس کی صحت خراب ہے.وہ کمزور ہے.جب وہ خلیفہ ہوا تو جماعت کے امیر اور بڑے بڑے لوگ اس سے بگڑ گئے اور لاہور جاکر اُنہوں نے ایک علیحدہ انجمن بنالی اور پھر بھی خدا تعالیٰ اُسے نہ صرف پاکستان میں کامیاب کرتا جارہا ہے بلکہ ساری دُنیا میں اُسے کامیابی حاصل ہو رہی ہے.اس کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے جھنڈے ساری دُنیا میں -
انوار العلوم جلد 23 100 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور..گاڑ دیئے ہیں.اس کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت قائم ہو رہی ہے.مگر پھر وہی زندیق اور کافر ہے.اگر زندیق اور کافر اسی کا نام ہے تو خد اتعالیٰ اس قسم کے زندیق اور کافر اسلام میں آئندہ بھی جاری رکھے تو اس میں اُمت کا کتنا بچاؤ ہے.یہ یاد رکھو کہ یہاں جو مکان تم بناؤ گے اور جتنی جلدی تم بناؤ گے تو تمہیں اور کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اگر تم یہاں اپنے بیوی بچوں کو رکھو گے تو وہ تعلیم حاصل کریں گے اور اگر تم خود نہیں آؤ گے اور بیوی بچوں کو یہاں نہیں رکھ سکو گے تو مکان کا کرایہ ہی تمہیں ملے گا اور اس طرح روپیہ محفوظ رہے گا.بہر حال مکان ایک ایسی چیز ہے جس کی قیمت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے.اگر کوئی آباد قصبہ ہو تو آج اگر دوہزار روپیہ کا مکان ہے تو کل وہ دس ہزار روپیہ کا ہو گا لیکن جو لوگ یہاں مکان نہیں بنا سکے اور اُنہوں نے یہاں زمین نہیں خریدی اور وہ اب یہاں خریدنے کے خواہش مند ہیں اُنہیں یہ یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے نام دفتر آبادی ربوہ میں نوٹ کرا دیں.ہمیں قوی امید ہے کہ پانچ چھ سو مکانات کی جگہ مل جائے گی.تین سو کے قریب دوستوں نے اپنے نام لکھوا دیئے ہیں.جنہوں نے ابھی تک اپنے نام نہیں لکھوائے وہ اب لکھوا دیں.انہیں پانچ چھ ماہ کے بعد زمین مل سکے گی.اس کے بعد انہیں ربوہ کی حدود میں زمین نہیں مل سکے گی.سوائے اس کے کہ وہ ان لوگوں سے جنہوں نے پہلے زمین خرید کر لی تھی پانچ پانچ سات سات ہزار روپیہ پر زمین خرید لیں مگر جو لوگ مکان نہیں بنا سکتے انہیں میں تحریک کرتا ہوں کہ قومی کاموں میں زندگی کے آثار ہونے چاہئیں.جب تم اور جگہوں پر جاتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ تم یہاں نہیں آتے.یورپ میں ایک مزدور کو بھی سال میں چودہ دن کی چھٹیاں ہوتی ہیں جن میں وہ دوسری جگہوں پر جاتے ہیں.تم بھی چودہ چودہ پندرہ پندرہ دن کے لئے یہاں آؤ اور اپنی خدمات سلسلہ کو پیش کرو.اگر اس طرح دس دس آدمی پندرہ پندرہ دن کے لئے سال بھر آتے رہیں تو سلسلہ دس آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا.اگر 24 آدمی آتے ہیں تو سلسلہ 24 آدمیوں کے خرچ سے آزاد ہو جائے گا.24 آدمی ایک افسر کا قائمقام ہو جاتے ہیں اور اگر 240 آدمی
انوار العلوم جلد 23 101 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور.....آجائیں تو وہ دس افسروں کے قائمقام ہو جاتے ہیں.دوسرے نئے آدمیوں کے آنے سے نئے ارادے اور نئے خیالات آتے رہتے ہیں.پھر ربوہ کی آبادی کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ پنشنر دوست یہاں آئیں.مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے پینشنر دوست پینشن لینے کے بعد بھی نوکری کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور کام کرتے چلے جاتے ہیں حالانکہ جب کسی کی اولاد جوان ہو گئی ہے اور کام کے قابل ہو گئی ہے تو اب انہیں آرام کرنا چاہئے اور جو دو چار سال زندگی کے باقی ہیں وہ خدا تعالیٰ کے ذکر اور اس کے کام میں لگانے چاہئیں لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ پنشن لینے کے بعد بھی نوکری کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور دوسو، چار سو روپیہ ماہوار حاصل کرنے کی فکر میں لگے رہتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں چلو نوکری تو ملتی ہے کر لو.میں پھر ایسے لوگوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ یہ تو اپنی زندگی کو ضائع کرنے والی بات ہے.آخر تم خد اتعالیٰ کو کیا جواب دو گے ؟ اللہ تعالیٰ کہے گا تم نے 55 سال نوکری کی اور جو زندگی کے دو چار سال باقی تھے وہ بھی تم نے دنیوی لالچ کے لئے خرچ کر دیئے.اگر تم نے مجھے پس خوردہ کھانا بھی نہیں دیا تو میں کیا سمجھوں کہ تمہارا مجھ سے کوئی تعلق ہے.یہ تو وہی بات ہو گی کہ کہتے ہیں کسی شخص کے دوست کی کتیا نے بیچے دیئے اُس نے اس سے کہا.مجھے کتیا کا ایک بچہ دینا.اس نے کہا چھ بچے تھے وہ سارے مر گئے لیکن اگر وہ زندہ بھی ہوتے تو تمہیں کوئی بچہ نہ دیتا.یہ بھی وہی بات ہے کہ ساری زندگی تو میں نے دی نہیں.نوکری میں 55 سال خرچ کر دیئے ہیں لیکن اب جو دو چار سال زندگی کے پنشن لینے کے بعد باقی ہیں وہ بھی تمہیں نہیں دیتے.تمہیں پنشن مل گئی ہے اولاد تمہاری جوان ہو گئی ہے وہ ملازم ہو گئی ہے اور انہیں تنخواہ ملنے لگ گئی ہے یا وہ اپنے کاموں میں لگ گئی ہے.اگر چار پانچ سو تمہاری تنخواہ تھی اور اب تمہارے پاس ایک دو بچے رہ گئے ہیں تو دو اڑھائی سو روپیہ پنشن میں گزارہ ہو سکتا ہے.اگر پنشن میں گزارہ نہیں ہو سکتا تو پچاس روپے اور لے لو.تمہیں بھی فائدہ ہو گا اور دین کو بھی مدد ملے گی.پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ پنشنر دوست یہاں آئیں اور اپنی خدمات سلسلہ کو
انوار العلوم جلد 23 102 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور پیش کر دیں.پنشنر کو تو دوبارہ ملازمت کرنا گناہ سمجھنا چاہئے.کیونکہ وہ اب اس قابل ہو چُکا ہے کہ دین کی خدمت میں لگا رہے.جن کو اس سے زیادہ توفیق ملتی ہے وہ اپنی زندگیاں سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کریں.پہلے یہ سلسلہ شروع ہوا تھا لیکن درمیان میں رُک گیا.اب پھر دیکھتا ہوں کہ کچھ دنوں سے ایک رو چلی ہے بعض خطوط آئے ہیں جن میں بعض لوگوں کی طرف سے لکھا گیا ہے کہ ہم اپنی زندگی دین کی خدمت کے لئے پیش کرتے ہیں.درمیان میں بھاگنے کی رو زیادہ تھی اور میں نے بھی ڈھیل دے دی تھی کہ اچھا بھا گنا ہے تو بھاگ جاؤ.حالانکہ دین کے لئے زندگی پیش کرنے کے یہی معنی ہوتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی ساری زندگی دین کو دے دیتا ہے اور اسے اس پر اختیار نہیں رہتا.تم یہی کہو گے کہ اس نے زندگی تباہ کر دی لیکن کیا دوسری قوموں نے ملک کی خاطر اور قوم کی خاطر اپنی زندگیاں پیش نہیں کیں.کیا پچھلی جنگ کے موقع پر لاکھوں جرمنوں، انگریزوں، امریکیوں اور فرانسیسیوں نے اپنی جانیں پیش نہیں کی تھیں.تم میں سے دس بیس نے اگر دین کی خاطر اپنی زندگیاں پیش کر دیں تو تمہیں ان پر کوئی زائد فضیلت حاصل نہیں ہو گی.یہی چیز ان میں بھی پائی جاتی ہے.انہوں نے بھی اپنی زندگیاں قوم اور ملک کو دیں اور تم نے بھی اپنی زندگیاں دین کی خاطر دیں.پس نوجوانوں کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کریں تاکہ ان کی خدمات دین کے لئے غیر مطبوعہ مواد از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) احرار کا فتنہ اس سال احراریوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف جو فتنہ برپا کیا حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ فتنہ گزشتہ دو سال سے مفید ہوں".جاری تھا مگر اس سال اس نے خاص شدت اختیار کر لی تھی کیونکہ ملک کے بعض عناصر نے اپنی اپنی سیاسی اور ذاتی اغراض کے ماتحت احراریوں سے جوڑ توڑ کرنے اور انہیں ملک میں نمایاں کرنے کی کوشش کی.احمدیت کی مخالفت اور اسی طرح چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کی مخالفت تو محض ایک آڑ تھی ورنہ اصل مقصد در پردہ اپنی سیاسی اغراض حاصل کرنا تھا.اس ایجی ٹیشن کی ابتدا تو انہی عناصر نے کی جو ہمیشہ پاکستان کے اور
انوار العلوم جلد 23 103 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور..مسلم لیگ کے مخالف رہے ہیں، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ اس طرح کام نہیں بنتا تو آہستہ آہستہ ایسے مولویوں کو بھی اپنے ساتھ ملانا شروع کیا جو بظاہر مسلم لیگ کے مخالف نہ تھے اور غیر جانبدار سمجھے جاتے تھے مگر اپنی اغراض کے ماتحت آگے آنا چاہتے تھے.چنانچہ مختلف گروہوں میں سے ایسے ہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اس کا نام مسلمانوں کا متفقہ فیصلہ رکھ دیا گیا اور تحفظ ختم نبوت کے نام سے ایجی ٹیشن شروع کر دی گئی.حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ بھلا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی ختم نبوت کی حفاظت کے لئے ان لوگوں کی مدد کی کیا ضرورت ہے.ان کی ختم نبوت کا محافظ تو خود اللہ تعالیٰ ہے اور ختم نبوت کا جو مفہوم جماعت احمد یہ بیان کرتی ہے وہی مفہوم صحابہ کرام اور اُمت کے بہت سے بزرگوں نے بیان کیا.پھر یہ مفہوم جماعت احمدیہ نے آج پیش نہیں کیا بلکہ ساٹھ سال سے پیش کر رہی ہے.پس آج کوئی بھی ایسی نئی بات اس مسئلہ کے متعلق پیدا نہ ہوئی تھی جسے اس ہنگامہ اور ایجی ٹیشن کی وجہ قرار دیا جا سکے.بہر حال یہ ایجی ٹیشن اشتعال انگیزی اور جھوٹے پروپیگنڈا کے ساتھ بڑھتی چلی گئی.حتی کہ حکومت کے بعض ذمہ دار افراد بھی ایک حد تک اس سے متاثر ہو گئے کیونکہ وہ اصل حالات سے ناواقف تھے.ذمہ دار افراد پر اظہار حقیقت جہاں اس فتنے نے ہماری جماعت کے لئے نئی نئی مشکلات پیدا کیں اور انفرادی طور بعض احمدیوں کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا وہاں اس کے بعض فوائد بھی ہمیں اللہ تعالیٰ کے ضل سے حاصل ہوئے.چنانچہ ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ ملک کے جن ذمہ دار افراد کو جھوٹے الزامات کے ذریعے جماعت احمدیہ سے بدظن کیا جارہا تھا ہمیں بھی انہیں سمجھانے کا اور اصل حقیقت واضح کرنے کا موقع ملا.چنانچہ ان میں سے بعض نے بعد میں بر ملا کہا کہ ہم تو یہ سمجھتے تھے احمدی اسلام کا اور قرآن مجید کا انکار کرتے ہیں لیکن اب ہمیں معلوم ہو گیا ہے کہ یہ غلط ہے.احمدی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور قرآن مجید پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کا دیگر مسلمانوں کے ساتھ جو اعتقادی اختلاف.
انوار العلوم جلد 23 104 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....اسے صرف تفسیر اور تاویل کا اختلاف کہا جا سکتا ہے.بیرونی ممالک کے نمائندوں پر اس کا اثر دوسرا اثر اس فتنے کا یہ ہوگا کہ کراچی میں جماعت احمدیہ کے جلسہ میں چودھری ظفر اللہ خاں صاحب نے "اسلام زندہ مذہب ہے" پر تقریر کی.یہ مولوی بھلا یہ کب برداشت کر سکتے تھے کہ اسلام کو زندہ مذہب ثابت کیا جائے.انہوں نے اسلام کو زندہ مذہب ثابت کرنے کو اپنے لئے ایک بہت بڑی اشتعال انگیزی قرار دیا اور ہنگامہ برپا کرنے کی کوشش کی.کراچی میں چونکہ بیرونی ممالک کے سفیر بھی موجو د ہوتے ہیں اس لئے جب انہوں نے یہ حالات دیکھے تو ان پر یہ اثر ہوا اور اسی اثر کے ماتحت انہوں نے اپنے اپنے ملک میں رپورٹیں بھیجیں کہ احمدی جماعت ایک فعال جماعت ہے اور مولویوں کا طبقہ محض اعتقادی اختلاف پر عوام کو مشتعل کر رہا ہے.وہ پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل ہو رہا ہے اور مذہبی تعصب کو ہوا دے کر اسے ایک تنگ نظر ملک بنانا چاہتا ہے.ان میں سے بعض نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ پاکستان ایک ترقی کرنے والا ملک ہے مگر اس ہنگامے کو دیکھ کر پاکستان کی ترقی کے متعلق ہمارے دل میں شبہات پیدا ہو گئے ہیں.گویا انہوں نے سمجھا کہ شاید یہی مولوی ملک کی آواز ہیں حالانکہ حقیقت یہ نہیں ہے.یہ لوگ پاکستان کا ایک چھوٹا سا جز و تو سمجھے جاسکتے ہیں مگر انہیں پاکستان کا دل قرار نہیں دیا جاسکتا.پاکستان کا دل اور ہے.بے شک لوگ وقتی اشتعال کے ماتحت ان کے جھانسے میں آجاتے ہیں مگر ملک کی حقیقی آواز ہر گز وہ نہیں ہے جو یہ لوگ بلند کرتے ہیں.پس اس فتنے کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ غیر ممالک میں ہمیں متعارف ہونے اور انہیں اسلام کی تبلیغ کرنے کا موقع مل گیا.اَلْحَمْدُ لِلَّهِ بنگالی نمائندوں کی رائے ایک اثر اس فتنے کا یہ ہوا کہ بنگالی نمائندوں نے اصل حقیقت کو بھانپ لیا اور انہیں علم ہو گیا کہ اہل غرض افراد مذہب کی آڑ میں سیاسی چالیں چل رہے ہیں.چنانچہ بنگال کے اخبارات میں سے سوائے ایک دو کے باقی سب نے یہی لکھا کہ ہم اس گند کو جو مغربی پاکستان میں
انوار العلوم جلد 23 105 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.....پھیلایا جارہا ہے ہر گز بنگال میں نہیں آنے دیں گے.حکومت کی دھمکیاں کراچی کے فساد کا ایک اور اثر یہ ہؤا کہ ملک کے شریف اور سنجیدہ لیڈروں نے ان لوگوں کو سمجھانا شروع کیا جو کسی نہ کسی رنگ میں اس فتنہ سے متأثر ہو رہے تھے اور انہیں اس کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا.پھر جب جماعت اسلامی نے جو حکومت کی کھلی مخالف اور ہے ہماری مخالفت میں آگے آنا شروع کیا تو سیاسی لیڈروں کی بھی آنکھیں کھلیں ! انہوں نے محسوس کیا جماعت احمدیہ کے مخالف دراصل اس آڑ میں حکومت کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں.چنانچہ جلد ہی اس کا ثبوت بھی مل گیا اور وہی لوگ جو شروع میں ہماری مخالفت کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ ہمیں سیاست سے یا حکومت کی مخالفت سے کوئی واسطہ ہی نہیں انہوں نے بر ملا حکومت کو دھمکیاں دینی شروع کر دیں".اس موقع پر حضور نے اخبار آزاد اور زمیندار میں سے متعدد ایسے حوالے پڑھ کر سنائے جن میں حکومت کے ذمہ دار راہنماؤں کے نام لے لے کر کھلے طور پر یہ دھمکی دی گئی تھی کہ اگر حکومت نے ہمارے مطالبے نہ مانے تو ہم حکومت سے ٹکرائیں گے، بدامنی پیدا کریں گے اور جنرل نجیب کی طرح حکومت کا تختہ الٹا دیں گے.اس طرح ان حوالوں میں عوام کو تلقین کی گئی تھی کہ وہ کسی لیڈر کا انتظار نہ کریں بلکہ خود آگے آکر ملک میں بدامنی پیدا کریں.فرمایا :- ”ہمارے خلاف ان فسادات کے ایام میں حکومت نے اکثر مقامات پر دیانتداری سے کام کرنے اور حالات کو سدھارنے کی کوشش کی.اس نے جو اعلانات کئے وہ بھی درست تھے.گو عملاً بعض مقامات پر حکومت حالات پر قابو رکھنے میں کامیاب نہ ہو سکی“.صوبائی مسلم لیگ کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- مجھے خوشی ہے کہ مسلم لیگ کا رویہ بہت اچھا رہا اس نے اپنے ہر اجلاس میں
انوار العلوم جلد 23 106 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....دلیری سے اصل حالات کا جائزہ لیا.پاکستان کے دوسرے صوبوں نے تو پنجاب سے بھی بہتر نمونہ دکھا یا بالخصوص سرحد کے وزیر اعظم نے تو بڑی دلیری سے اس فتنے کو بڑھنے سے روکا اور اسے دبایا.اسی طرح سندھ میں بھی شرارتیں محدود رہی ہیں اور اب تو پنجاب میں بھی حالات بہتر ہو رہے ہیں گو پوری طرح فتنہ دبا نہیں ہے.بعض صریحاً غلط الزامات جہاں مجھے خوشی ہے کہ اکثر مقامات پر حکومت نے دیانتداری سے کام کرنے کی کوشش کی ہے وہاں مجھے افسوس ہے کہ حکومت کے بعض افسروں نے ہمارے متعلق غلطیاں بھی کی ہیں مثلاً حکومت نے ایک اعلان میں یہ الزام لگایا ہے (گو نام نہیں لیا مگر اشارہ ہماری ہی طرف تھا) کہ احمدی افسر اپنے عہدے سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں اور اپنے ہم مذہبوں کو ملازمت میں بھرتی کرتے ہیں.اسی طرح ایک ذمہ دار افسر نے کہا که احمدی افسر اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھا کر احمدیوں کو ناجائز الاٹمنٹ کرتے ہیں.جو شخص اپنے عہدے سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ناجائز طور پر ایسے کام کرتا ہے اور اس طرح حق داروں کی حق تلفی کرتا ہے میرے نزدیک وہ نہ صرف حکومت کا مجرم ہے بلکہ قرآن کا بھی مجرم ہے کیونکہ وہ قرآن کے احکام کی خلاف ورزی کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایک فعل کا جرم ہونا کسی کو یہ حق دے دیتا ہے کہ وہ بغیر تحقیقات کے کسی پر اس جرم کے ارتکاب کا الزام لگا دے.کیا حکومت کا یہ فرض نہیں تھا کہ وہ یہ الزام لگانے سے پیشتر اس شکایت کی تحقیقات کرتی اور یوں بغیر تحقیقات کے ایک قوم پر الزام لگا کر اس کی ہتک کا مر تکب نہ ہوتی.کیا حکومت کے لئے یہ کوئی مشکل امر تھا کہ وہ ان الزامات کی با قاعده تحقیقات کراتی اور ان کے ثبوت بہم پہنچاتی؟ پھر اگر یہ الزام کسی احمدی افسر کے متعلق درست ثابت ہوتا تو بے شک اسے سزا دیتی کیونکہ وہ واقعی مجرم ہے نہ صرف حکومت کا بلکہ اسلام کا بھی لیکن اگر یہ الزام درست ثابت نہ ہو تو یقیناً یہ صریح بے انصافی ہے کہ ہم پر بغیر تحقیقات کے صرف اس لئے الزام لگا دیا جائے کہ ہم غریب ہیں اور کمزور ہیں.
انوار العلوم جلد 23 107 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت ، تعمیر ربوہ اور.اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ وہ ملک اسلامی حکومت کا تو یہ فرض کے ہر فرد کی عزت کی حفاظت کرے ہے کہ وہ اپنے ملک کے ایک ادنیٰ سے ادنی انسان کی عزت کی بھی حفاظت کرے اور اس پر کوئی جھوٹا الزام نہ آنے دے.کیا کوئی ثابت کر سکتا ہے کہ گزشتہ پانچ سال کے عرصہ میں ظفر اللہ خاں کے دفتر میں کسی چوہڑے نے بھی بیعت کی ہے اور احمدیت قبول کی ہے اگر یہ نہیں ثابت کیا جاسکتا تو یقیناً ایسا الزام لگانا ظفر اللہ خاں پر ظلم نہیں ہے بلکہ اس قوم پر ظلم ہے جس کے وہ ایک فرد ہیں.اس کے بالمقابل مودودی جماعت کے کئی آدمی اس جرم میں پکڑے بھی گئے مگر اس پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی.پھر الزام لگانے سے پہلے یہ بھی تو دیکھ لیا جاتا کہ کون کون سے احمدی افسر ایسے ہیں جو بھرتی کرنے کے قابل ہیں.کوئی فائنشل کمشنر احمدی نہیں ہے، کوئی ڈپٹی کمشنر احمدی نہیں ہے.مہاجرین کو زمین تقسیم کرنے والا کوئی اعلیٰ افسر احمدی نہیں ہے.پھر یہ ناجائز الا ٹمنٹ کرنے والا اور احمدیوں کو بھرتی کرنے والا ایسا احمدی افسر کون ہے ؟ پھر یہ بھی تو سوچنے والی بات ہے کہ اگر احمدی افسر ناجائز الاٹمنٹیں کرتے تو سب سے پہلے وہ مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے لیکن مجھے تو انہوں نے کچھ نہ لے کر دیا بلکہ میری جو زمین قادیان میں تھی اس کے کاغذات ابھی ادھر اُدھر ہی پھر رہے ہیں گواحراری تو کہہ رہے ہیں کہ مجھے دس ہزار مربعے ملے ہیں مگر مجھے دس ہزار مربعے چھوڑ دس مرتبان بھی نہیں ملے.انصاف کا طریق یہ سب باتیں بتاتی ہیں کہ حکومت نے بغیر تحقیقات کے الزام ہماری جماعت پر لگا دیا ہے اور انصاف کا طریق یہی ہے کہ حکومت اس کی پوری پوری تحقیقات کرے.اگر کسی احمدی افسر کے متعلق یہ الزام درست ثابت ہو تو بے شک اسے سخت سے سخت سزا دے لیکن اگر یہ غلط ثابت ہو تو پھر اس کی تردید کرے اور اعلان کرے کہ یہ الزام غلط ہے.
انوار العلوم جلد 23 108 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....گو الزام تو ہم پر لگایا جاتا ہے کہ احمدی افسر اپنے اختیارات سے ناجائز فائدہ اُٹھاتے ہوئے احمدیوں کی مدد کرتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے.حقیقت ہے کہ اس بارے میں احمدیوں سے تعصب برتا جاتا ہے اور ان کو ان کے جائز حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور اس طرح ان کی حق تلفی کی جاتی ہے اور اس حق تلفی پر پردہ ڈالنے کے لئے اُلٹا احمدیوں پر الزام لگایا جارہا ہے.ہم حکومت کے سامنے کئی ایک ایسی مثالیں پیش کر سکتے ہیں جب کہ مختلف محکموں میں احمدیوں کو ملازمت یا ترقی سے صرف اس لئے محروم کیا گیا کہ وہ احمدی ہیں حالانکہ ان کی تعلیم ، تجربہ ، قابلیت اور گزشتہ ریکارڈ ان کے حق میں تھے لیکن ہم نے ان حق تلفیوں پر کبھی شور نہیں مچایا کیونکہ ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ اس قسم کی حق تلفی اور تعصب کا بہترین علاج یہ ہے کہ ہم اپنی تعلیم ، قابلیت، محنت، دیانتداری اور اچھے اخلاق کے معیار کو اور بلند کر کے ان کا مقابلہ کریں نہ کہ شور مچائیں.اگر ہمارے نوجوان ہماری تعلیم پر عمل کریں گے تو اس قسم کی حق تلفی زیادہ عرصہ نہیں ہو سکتی اور نوکریاں اور ملازمتیں آپ ان کے پاس آئیں گی.ذمہ دار پر میں نے اپنے فرض کو ادا کیا مجھے بڑی خوشی ہے کہ اس فتنے کے دوران میں ہمارے ملک کے ذمہ دار پریس نے جو ملک کی رائے عامہ کی جان ہوتا ہے بڑی دلیری سے اپنے فرض کو ادا کیا ہے.سب سے پہلے "ڈان" نے بڑی جرات سے اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی.پھر بنگال کے پریس نے اس کی تائید کی.پنجاب میں سول اور بعض دیگر اخبارات نے بھی اپنا فرض ادا کیا.اُردو کے پریس کے ایک حصہ کا رویہ شروع میں ڈانواں ڈول تھا مگر بعد میں اس نے بھی دیانتداری کا ثبوت دیا.گو افسوس ہے کہ مسلم لیگی پریس کے ایک حصہ نے اس موقع پر بہت بُرانمونہ دکھایا.بہر حال جس قوم کے متعلق یہ مشہور ہو کہ وہ بہت جلد پروپیگینڈا سے متاثر ہو جاتی ہے اس قوم کے پر یس کا پروپیگنڈا کے مواد کو چھوڑ دینا ایک بہت امید افزا بات ہے.
انوار العلوم جلد 23 109 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور ہندوستان کے مسلم پر یس کا احتجاج دو پوری ہوتی ہے دوسری خوشی مجھے یہ ہوئی کہ اس موقع پر ہندوستان کے مسلم پر لیس نے بھی اس فتنہ کے خلاف آواز بلند کی.حتٰی کہ وہ اخبارات جو پہلے ہمارے دشمن تھے اُنہوں نے بھی بڑے زور سے ہماری تائید کی.ان میں سے ایک نے تو لکھا کہ اس فتنہ کو دیکھ کر ہمارے سر ندامت سے جھک جاتے ہیں اور ہم ہندوستان کے غیر مسلموں کے سامنے آنکھ اُٹھانے کے قابل نہیں رہے.یہ ایک بہت نیک تبدیلی ہے.ہم دُعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پھر ترقی کے مواقع پیدا کرے.انہیں ہر قسم کے ظلم سے بچائے.ان کے بڑھنے اور پھلنے پھولنے کا سامان پیدا کرے اور ہندوستان میں اسلام کو پھر وہی بلکہ اس سے بھی زیادہ عزت حاصل ہو جو اسے پہلے وہاں حاصل تھی.اب اس فتنے نے ایک اور پلٹا کھایا ہے اور وہ یہ کہ ہمارے خلاف منظم بائیکاٹ کی تحریک شروع کی گئی ہے لیکن اس قسم کی چیزیں عارضی ہوتی ہیں جو انشاء اللہ بہت جلد خود ہی ختم ہو جائیں گی.حقیقت یہ ہے کہ کام کا ارادہ کرنا اور چیز ہوتی ہے اور کام کر لینا اور چیز ہوتی ہے.سراسر جھوٹے الزامات اب آخری تدبیر کے طور پر ہمارے مخالفین نے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگانے کی مہم شروع کی ہے.مجھے افسوس ہے کہ ان لوگوں نے جھوٹ بولنے میں جتنا کمال حاصل کر لیا ہے ہماری جماعت نے ابھی سچ بولنے میں اتنا کمال حاصل نہیں کیا.اگر سچ بولنے میں ہماری جماعت کمال حاصل کرلے تو یہ جھوٹا پروپیگنڈا ہمارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتا.مثلاً (1) پہلا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ ہم نے فرقان فورس کے ذریعے پاکستان کو سخت نقصان پہنچایا.مکمل فوجی وردیاں اور بہت سے ہتھیار اور گولہ بارود وغیرہ حاصل کر کے ربوہ میں لے آئے.یہ الزام لگاتے ہوئے فوجی وردیوں اور گولہ بارود کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے.اوّل تو وہی اس الزام کی تردید کے لئے کافی ہے کیونکہ بیان کردہ مقدار کبھی ایک بٹالین کو مل ہی نہیں سکتی.دوسرے ہمارے پاس فوجی حکام کی با قاعدہ
انوار العلوم جلد 23 110 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....رسید موجود ہے کہ فرقان فورس نے جو ہتھیار اور در دیاں وغیرہ حاصل کیں وہ سب کی سب واپس دے دی گئیں اور کوئی چیز بھی ان کے پاس باقی نہیں رہی.ایسے الزام لگانے والوں کو علم ہی نہیں کہ فوج کا ایک خاص نظام ہوتا ہے.اس میں ہر چیز کا ریکارڈ اور حساب ہوتا ہے وہ کوئی احراریوں کا لیا ہوا چندہ نہیں ہوتا کہ جس کے پاس آیا اس کی جیب میں چلا گیا.(2) حکومت کا جو ملازم کسی الزام میں ملوث ہو اسے احمدی مشہور کر دیا جاتا ہے.حالانکہ اس کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.(3) کہا جاتا ہے کہ احمدی غیر احمدی لڑکوں کو بھگا کر ربوہ لے آتے ہیں.یہ الزام بھی صریحاً جھوٹ ہے.چنانچہ حال ہی میں جب ایک اسی قسم کا الزام لگایا گیا تو پولیس نے اس کی تحقیقات کی اور اس نے اسے بالکل بے بنیاد پایا.(4) احمدیت سے برگشتہ ہونے کی خبریں مشہور کر دی جاتی ہیں.حالانکہ ان میں سے اکثر غلط ہوتی ہیں چنانچہ جن لوگوں کے متعلق ایسی خبریں شائع کی گئیں ان میں سے اکثر کو تو میں اس وقت بھی اپنے سامنے بیٹھا ہوا دیکھ رہا ہوں.بھلا ظلم و تشدد اور جبر کے ساتھ بھی سچائی کسی کے دل سے نکلا کرتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ اس فتنے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ثابت قدم رہی ہے.چند ایک کمزور لوگوں نے اگر تشدد اور ظلم سے ڈر کر کمزوری دکھائی بھی تو بہت جلد اپنی حرکت پر وہ نادم ہوئے اور واپس آگئے اور اس قسم کے کمزور لوگ تو ہر جماعت میں ہوتے ہی ہیں.(5) کہا جاتا ہے کہ ہم نے چونکہ پرانی کتابوں میں سے ایسے حوالوں کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی ہے جن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور دیگر انبیاء کی ہتک کی گئی ہے.لہذا ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کی.حالانکہ اگر ہم نے صرف ان حوالوں کا ذکر کیا اور وہ قابل ضبط ہے تو وہ کتابیں کیوں نہیں قابل ضبط سمجھی جاتیں جن میں یہ ہتک کی گئی ہے.کیا صرف اس لئے کہ وہ باتیں لکھنے والے وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں میں چوٹی کے عالم اور بزرگ سمجھے جاتے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 111 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....کیا یہ حقیقت نہیں کہ آج بھی یہ کتابیں مسلمانوں کے دینی مدارس اور خود پنجاب یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہیں مگر کوئی انہیں ضبط کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا.ہم تو کہتے ہیں کہ بے شک الفضل کا وہ پرچہ ضبط کر لو جن میں ان کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے بشر طیکہ ان کتابوں کو بھی ضبط کرو تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت قائم ہو.سات روزے رکھنے کی تحریک احباب 1953ء کے شروع میں سات روزے رکھیں اور خاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ملک میں فتنہ پھیلانے والوں اور ہم پر ظلم کرنے والوں کو سمجھ دے.یا سزا دے اور ہمیں ان کے مظالم پر صبر کرنے کی توفیق دے اور اپنے مقاصد میں کامیاب کرے.یہ سات روزے جنوری سے شروع کئے جائیں اور ہر سوموار کو رکھے جائیں.جنوری میں یہ روزے 12،5، 19 اور 26 تاریخ کو آئیں گے اور فروری میں 2، 9 اور 16 تاریخ کو.اسلامی ممالک کو فلسطین کے متعلق مختلف ممالک میں مسلمانوں کے لئے بہت سی مشکلات پیدا ہو رہی کوئی عملی قدم اُٹھانا چاہئے ہیں مثلاً ایران، مصر، انڈونیشیا، عراق اور اُردن کے سیاسی حالات میں نئی نئی تبدیلیاں اور اُلجھنیں پیدا ہو رہی ہیں.تیونس اور مراکو کے مسلمان آزادی کی جدوجہد کر رہے ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ اسلامی ممالک کے مسلمانوں کی مدد ہم دُعا اور احتجاج سے تو کرتے ہی رہتے ہیں مگر ایک مسئلہ ایسا ہے جس کے متعلق ہماری حکومت کو بھی ضرور کوئی عملی کارروائی کرنی چاہئے اور وہ ہے فلسطین میں یہودیوں کے اقتدار کا مسئلہ.یہود مسلمانوں کے شدید دشمن ہیں اور اُنہوں نے ایک ایسے ملک میں اپنی حکومت قائم کرلی ہے جو ہمارے مقدس ترین مقامات یعنی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے بہت قریب ہے.ان کے ارادے یقیناً بہت خطرناک ہیں اس لئے ان کا مقابلہ کرنے کے لئے مسلمانوں کو ضرور مجموعی طور پر کوئی عملی قدم اٹھانا چاہئے.
انوار العلوم جلد 23 112 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور.میں سمجھتا ہوں اگر تمام اسلامی ملک اس خطرے کے ازالہ کے لئے اپنے اپنے بجٹ کا پانچ فیصدی بھی مخصوص کر دیں تو ایک اتنی بڑی رقم جمع ہو سکتی ہے جس سے ہم یہودیوں کی بڑھتی ہوئی شرارتوں کا عملاً سد باب کر سکتے ہیں.اس مسئلہ کی اہمیت کے متعلق میں نے پہلے بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر دلاتا ہوں.مگر افسوس کہ اب تک مسلمانوں نے اس خطرے کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا.اسی طرح کشمیر کے علاقہ کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.میں نہیں سمجھ سکتا کہ موجودہ طریق سے یہ مسئلہ کس طرح حل ہو گا؟ کشمیر کے متعلق پاکستان اور ہندوستان کی پوزیشن بالکل ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص کا روپیہ گر جائے اور دوسرا اُسے اُٹھا کر اپنے قبضہ میں کر لے.جس کا روپیہ گرا ہے اگر وہ محض صبر سے کام لیتا چلا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ اسے کبھی بھی روپیہ ملنے کی امید نہ کرنی چاہئے.بہر حال دُعا کرو کہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا بھی کوئی صحیح راستہ حکومت کو نظر آئے اور پھر اس راستے پر اسے عمل کرنے کی بھی توفیق ملے.کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان ہر گز محفوظ نہیں ہے.یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ کوئی صحیح طریق اختیار کرے مگر وہ جو بھی راستہ تجویز کرے تمہیں اس پر عمل کرنے کے لئے ابھی سے تیار رہنا چاہئے.بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت میں نے اس سال شوری کے : موقع پر بیرونی ممالک میں مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ کی تحریک کی تھی اور اس کے لئے ایسے طریق تجویز کئے تھے جن پر عمل کر کے ہر شخص بغیر کسی خاص بوجھ کے بڑی آسانی سے اس میں حصہ لے سکتا ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس تحریک پر پوری طرح عمل کیا جائے تو دولاکھ روپیہ سالانہ بڑی آسانی سے ہم جمع کر سکتے ہیں.یاد رکھو کہ بیرونی ممالک میں جب تک ہم مساجد تعمیر نہ کریں گے وہاں پر تبلیغ اسلام کرنے میں ہمیں کامیابی نہیں ہو گی کیونکہ مسجد ایک بہترین مبلغ کا کام دیتی ہے.لوگوں کے قلعے توپوں اور بندوقوں سے آراستہ ہوتے ہیں اور انہی سے وہ ملک فتح کرتے ہیں.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعے مساجد ہوتے ہیں.جہاں سے اللہ اکبر کی آواز سے دلوں کو فتح کیا جاتا ہے وہاں سے رات دن اذان کی گولہ باری
انوار العلوم جلد 23 113 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....ہوتی ہے جو کفر و ظلمت کی خندقوں کو پاٹ کر دلوں کو دلوں سے ملا دیتی ہے.دنیوی قلعوں سے لوگ خوف کھاتے ہیں.دُنیا کی بڑی سے بڑی حکومت بھی دوسری حکومت کو اپنے ملک میں قلعہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں دیتی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قلعہ ایسا ہے جو ہم ہر ملک اور ہر علاقہ میں آسانی سے تعمیر کر سکتے ہیں اور اس طرح اسلام کی اشاعت کا سامان پیدا کر سکتے ہیں.اگر ہم ایسانہ کریں تو یہ ہماری کو تاہی ہو گی.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ بیرونی ممالک میں تعمیر مساجد کی اہمیت کو سمجھے اور اس فنڈ میں مقررہ طریق کے مطابق بڑھ چڑھ کر حصہ لے تا کہ ہم جلد سے جلد دُنیا کے ہر ملک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قلعے تعمیر کر سکیں.چندہ تحریک جدید یہ ایک جہاد ہے اس لئے ہر احمدی کو اس میں حصہ لینا چاہئے تم کو شش کرو کہ کوئی احمدی ایسا نہ رہے جو اس میں حصہ نہ لے رہا ہو.اب یہ ضروری نہیں رہا کہ ہر سال اپنے چندہ میں اضافہ ہی کیا جائے اگر تمہاری آمدنی میں کمی واقع ہو گئی ہے تو بے شک چندے میں کمی کر دو لیکن حصہ لینے سے محروم نہ رہو.صدر انجمن احمدیہ کی مالی حالت آجکل اس حد تک کمزور ہے کہ ماہوار تنخواہیں کارکنوں کو قرض لے کر دی جارہی ہیں.گو اس میں انجمن کا اپنا بھی قصور ہے مگر بہر حال دوستوں کا فرض ہے کہ وہ اس کی مالی حالت کو بہتر بنانے کی کوشش کریں اور اس کا طریق یہ ہے کہ تمام دوست اپنا چندہ پوری با قاعدگی کے ساتھ ادا کریں اور جو لوگ چندہ نہیں دیتے ان سے وصول کریں.ابھی جماعتوں میں ایک خاصی تعداد ایسے افراد کی موجود ہے جو نادہند ہے.اگر ان کو توجہ دلائی جائے اور ان سے چندہ وصول کیا جائے تو یقیناً ہمارے چندے میں بہت اضافہ ہو سکتا ہے اور انجمن کی مالی حالت مضبوط ہو سکتی ہے.اقتصادی حالت کو بہتر بنانے کی ضرورت ملک کی اقتصادی حالیت کا بھی چندے سے گہرا تعلق ہے.اگر اقتصادی حالات بہتر ہوں تو یقیناً چندوں میں زیادتی ہو جاتی ہے.میں نے اس دفعہ
انوار العلوم جلد 23 114 حضرت اماں جان کے وجود گرامی کی اہمیت، تعمیر ربوہ اور....شوری پر یہ نصیحت کی تھی کہ اپنی اقتصادی حالت کو درست کرنے کے لئے احمدی تاجروں ، زمینداروں اور پیشہ وروں کی الگ الگ تنظیم ہونی چاہئے اور ان کے وقتاً فوقتاً اجلاس ہونے چاہئیں تا کہ وہ مل کر اپنی مُشکلات پر غور کر سکیں اور میں بھی انہیں ایسے طریق بتا سکوں جن سے وہ اپنی حالت کو بہتر بنا سکیں.اس وقت تک تو اس تجویز پر عمل نہیں ہو سکا مگر آئندہ سال ضرور اس پر عمل ہونا چاہئے.کیونکہ اقتصادی حالت کی مضبوطی کا ہمارے چندوں اور ہماری تبلیغ سے گہرا تعلق ہے.آپ لوگوں کا فرض ہے کہ جب یہ اجلاس بلائے جائیں تو اپنے اچھے سے اچھے نمائندے اس میں بھیجیں تا کہ آپ کی اقتصادی حالت درست ہو سکے".(الفضل یکم و دو جنوری 1952ء) 1: مشكوة المصابيح صفحہ 480 مطبوعہ کراچی 1368ھ 2: الرعد :39 3 میخانه درد صفحہ 26 مطبوعه 1344ھ 4 میخانه درد صفحہ 17 مطبوعہ 1344ھ میں ان کا مکمل نام "نواب خاند وران خان صمصام الدولہ " لکھا ہے.5 میخانه درد صفحه 128،127 مطبوعہ 1344ھ 6: تذکرہ صفحہ 37.ایڈیشن چہارم 1: تذکرہ صفحہ 37.ایڈیشن چہارم 8: تذکرہ صفحہ 70.ایڈیشن چہارم و: تذکرہ صفحہ 70.ایڈیشن چہارم 10: تذکرہ صفحہ 731.ایڈیشن چہارم :11: تذکرہ صفحہ 749.ایڈیشن چہارم 12: تذکرہ صفحہ 707.ایڈیشن چہارم 13 تذکرہ صفحہ 653.ایڈیشن چہارم 14: الصفت: 148
انوار العلوم جلد 23 115 تعلق باللہ از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی تعلق باللہ
انوار العلوم جلد 23 117 تعلق باللہ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تعلق باللہ (فرمودہ 28دسمبر 1952ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) 66 تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد اصل تقریر ”تعلق باللہ “ سے قبل بعض ضروری امور کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- نسی مجلس علم انعامی کی مستحق ہے ”خدام الاحمدیہ نے اس سال دس معیار مقرر کئے تھے یہ دیکھنے کے لئے کہ کونسی مجلس علم انعامی کی مستحق ہے اس ہدایت کے مطابق خدام الاحمدیہ نے انسپکٹر بھجوا کر تمام مجالس کا معائنہ کروایا اور انسپکٹر صاحب کی رپورٹ موصول ہونے پر مجلس عاملہ مرکزیہ نے ایک سب کمیٹی مقرر کی جس نے ہر شق پر تفصیلی غور کرنے کے بعد مجلس عاملہ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کر دی.مجلس عاملہ مرکزیہ نے سب کمیٹی کی رپورٹ پر بحث و تمحیص کے بعد فیصلہ کیا کہ امسال مقرر کردہ معیاروں کے مطابق مجلس خدام الاحمد یہ راولپنڈی تمام مجالس میں سے اول رہی ہے اس مجلس نے سو میں سے اڑسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ چک نمبر 121 گوکھو وال دوم رہی ہے اور اس نے 100 / 674 نمبر حاصل کئے ہیں.مجلس کراچی سوم رہی ہے اس مجلس نے سو میں سے چونسٹھ نمبر حاصل کئے ہیں.اوّل رہنے والی مجلس کو انعامی جھنڈا دیا جاتا ہے مگر اس دفعہ میں نے جلسہ میں جھنڈا دینا روک دیا ہے کیونکہ اس طرح تقریر میں حرج واقع ہوتا ہے.بہر حال جماعت کی ترغیب اور تحریص کے لئے میں نے اعلان کر دیا ہے کہ خدام الاحمدیہ کی تین جماعتوں کا کام بہت اچھا رہا ہے.اول جماعت راولپنڈی ، دوم مجلس چک نمبر 121
انوار العلوم جلد 23 118 تعلق باللہ گو کھو وال اور سوم نمبر پر کراچی.اس کے علاوہ تمام جماعتوں کی طرف سے خبریں پہنچتی رہی ہیں کہ ضرورت کے مواقع پر بالعموم خدام نے اچھا کام کیا ہے اور یہی نوجوانوں کا فرض ہوتا ہے.بوڑھے یہ کام نہیں کر سکتے جب یہ لوگ بوڑھے ہو جائیں گے تو اس وقت اگلی نسل آجائے گی اور پھر اس کے بوڑھا ہونے پر اس سے اگلی نسل آجائے گی.مجھے جو رپورٹیں پہنچتی رہی ہیں ان میں اکثر جماعتوں نے خدام کی تعریف کی ہے.بے شک بعض نے کمزوری بھی دکھائی ہے مگر یہ نہیں کہ سب نے ایسا کیا ہو.ہر جماعت میں کچھ کمزور لوگ بھی ہوتے ہیں اور ہماری جماعت میں بھی کچھ کمزور لوگ پائے جاتے ہیں.حرف تب آتا ہے جب کام کے وقت سارے خاموش رہیں.مقبرہ بہشتی ربوہ کا مقام میں اصل تقریر سے قبل یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ربوہ کے بہشتی مقبرہ کے متعلق ایک دوست نے سوال کیا ہے کہ جب حضرت اتاں جان کی نعش مبارک کو قادیان کے بہشتی مقبرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دفن کر دیا جائے گا تو اس وقت ربوہ کے بہشتی مقبرہ کی کیا حیثیت رہ جائے گی ؟ یہ سوال تو بالکل سادہ تھا اور اگر کوئی نئی چیز ہوتی تو انہیں پوچھنے کی ضرورت بھی ہوتی مگر پھر بھی میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسلام میں یہ طریق جاری ہے چنانچہ دیکھ لو مقام ابراہیم مکہ میں ہے مگر حضرت ابراہیم مکہ سے چلے گئے اور بیت المقدس میں دفن ہوئے مگر باوجود اس کے ہم اسے صرف خانہ کعبہ نہیں کہتے بلکہ مقامِ ابراہیم بھی کہتے ہیں کیونکہ نبی تو دنیا میں آتے اور فوت ہو جاتے ہیں مگر ان کے چلے جانے کی وجہ سے کسی مقام کی برکات نہیں جاتیں چنانچہ کل ہی میں نے بتایا تھا کہ کسی مقدس مقام کی برکت کبھی نہیں جاتی اور جس مقام پر ایک دفعہ اللہ تعالیٰ کا فضل نازل ہو جائے تو چونکہ اس مقام نے گناہ نہیں کرنا ہوتا اس لئے وہ فضل چلتا چلا جاتا ہے.باپ بڑا نیک ہو اور بیٹائر ہو تو برکت مٹ جائے گی.مگر جس مقام پر دُعائیں کی گئی ہوں اور جہاں خدا نے اپنے فضل کی بارشیں نازل کی ہوں اس مقام کی برکات کبھی مٹ ہی نہیں سکتیں.آپ لوگوں نے یہ کیوں سمجھا کہ خدا تعالیٰ کے پاس اتنی تھوڑی برکتیں ہیں
انوار العلوم جلد 23 119 تعلق باللہ کہ اگر وہاں برکتیں نازل کرے گا تو یہاں نہیں کرے گا.وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ا خدا تعالیٰ کے فضل تو اس قدر ہیں کہ اگر زمین کا چپہ چپہ بھی بہشتی مقبرہ بن جائے تو پھر بھی وہ فضل بچا ہی رہے گا.ہمیں تو یقین ہے کہ آپ کی نعش قادیان جائے گی.مگر وہ صرف اپنی برکتیں لے جائے گی اس مقام پر اسی طرح اس کی برکتیں نازل ہوتی رہیں گی جس طرح اب نازل ہو رہی ہیں.آخر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے مگر مدفون مدینہ میں ہیں.پس جو خدا مکہ سے اپنی برکتوں کو بچا کر مدینہ لے گیا اور اس نے مدینہ کو بھی بابرکت کر دیا اسی خدا نے اس زمانہ میں قادیان کو بھی بابرکت کیا اور پھر قادیان کی برکتوں سے بچا کر اس نے ربوہ کو بھی بابر کت کر دیا.اس قسم کے خیالات محض لوگوں کے اپنے اندازوں پر مبنی ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم غریب ہیں اسی طرح نعوذ باللہ خدا بھی غریب ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ مسلمانوں کی بادشاہی کے زمانہ میں ایک نائی جو امراء کی حجامتیں بنایا کرتا تھا اسے ایک دفعہ کسی امیر نے دوسو اشرفی انعام دے دی.چونکہ دو سو اشرفی کی تھیلی اسے یکدم ملی اس لئے وہ ہر وقت اسے اچھالتا رہتا اور جب بھی کوئی شخص ملتا اور پوچھتا کہ سنائیے شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ بغداد کا کوئی ہی بد قسمت ہو گا جس کے پاس دو سو اشرفی بھی نہ ہو.چونکہ وہ امراء کا نائی تھا اس لئے وہ تھیلی کے متعلق زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا.ایک دفعہ کسی امیر کو مذاق سوجھا اور اس نے چپکے سے وہ تھیلی کھسکالی.اب وہ کسی سے پوچھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ ڈرتا تھا کہ امراء اُسے کہیں گے کہ تو ہم پر چوری کا الزام لگاتا ہے مگر دوسری طرف اسے صدمہ بھی سخت تھا.آخر غم کے مارے وہ بیمار ہو گیا.جب لوگ اسے پوچھنے جاتے اور دریافت کرتے کہ بتلائیے اب شہر کا کیا حال ہے تو وہ کہتا کہ شہر کا کیا پوچھتے ہو وہ تو بھٹو کا مر رہا ہے.آخر اس امیر نے تھیلی نکال کر دے دی اور کہا شہر کو بھوکا نہ مارو اور اپنی تھیلی لے لو.پس اپنی کمزوریوں پر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا کیوں اندازہ لگاتے ہو.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ جگہ جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل اور خادم پیدا ہوں.خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم جگہ جگہ مقام ابراہیم پیدا کر دیں،
انوار العلوم جلد 23 120 تعلق باللہ خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دُنیا کے کونے کونے میں مدینے قائم کر دیں، خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے کونے کونے میں قادیان قائم کر دیں اور تم سمجھتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے پاس جتنی برکتیں تھیں وہ اس نے صرف ایک مقام پر ہی نازل کر دی ہیں.حالانکہ وہ خود کہتا ہے کہ آگے بڑھو اور میری برکتوں سے حصہ لو.روکیں تم نے خود کھڑی کر لی ہیں کہ تم کہتے ہو ہم مقام ابراہیم تک نہیں پہنچ سکتے.ہم ان برکتوں کے وارث نہیں ہو سکتے جن برکتوں سے پہلے لوگوں نے حصہ پایا.پس اگر تم خود ہی ان برکتوں کو نہ لو تو تمہاری مرضی.تم خود پیچھے ہٹتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ نہیں ہو سکتا اور وہ نہیں ہو سکتا.میں نے ایک دفعہ تقریر میں کہہ دیا کہ ہر مؤمن کو ایک چھوٹا محمد بننے کی کوشش کرنی چاہئے.اس پر مخالفین نے شور مچادیا کہ ہتک ہو گئی، ہتک ہو گئی.حالانکہ جب کسی کی اقتداء کرنے کے لئے کہا جائے گا تو ہمیشہ کسی نیک اور پاک آدمی کا نام ہی لیا جائے گا.شیطان کا نام تو نہیں لیا جائے گا.پس سوال یہ ہے کہ آخر ہم کیا کہیں ؟ اگر یہ کہیں کہ ابلیس بنو تب مصیبت ہے اور اگر کہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مثیل بنوتب مصیبت ہے.یہ تو ویسی ہی مثال ہے جیسے کہتے ہیں کہ کوئی امیر سفر کے لئے نکلا تو اس نے اپنے ساتھ ایک میراثی لے لیا.ایک جگہ پہنچے تو بارش آگئی اور چھت ٹپکنے لگ گئی.میراثی نے کہیں سے چار پائی کی، چوہدری صاحب کو اس پر بٹھایا اور آپ سرک کر اس کی پائنتی پر بیٹھ گیا.چوہدری صاحب نے اس کو دو چار تھپڑ لگائے اور کہا کم بخت تو ہمارا مقابلہ کرتا ہے اور ہمارے ساتھ ایک چارپائی پر بیٹھتا ہے.آگے چلے تو بیٹھنے کے لئے چار پائی بھی نہ ملی وہ کہیں سے ایک نسی لایا اور اس نے زمین کھودنی شروع کر دی.کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو ؟ اُس نے کہا بات یہ ہے کہ چوہدری صاحب کے برابر تو میں بیٹھ نہیں سکتا، اب یہ زمین پر بیٹھے ہیں تو میرے لئے یہی صورت رہ گئی ہے کہ میں زمین کھود کر ان سے بھی نیچے بیٹھوں.یہی حال ان لوگوں کا ہے.شیطان کہو تب غصہ آتا ہے، محمد رسول اللہ کہو تب غصہ آتا ہے.حالانکہ انسان یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مثیل بنے گا یا شیطان کا.پس انسان حیران ہوتا ہے کہ وہ کہے کیا.غرض اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ تم سارے
انوار العلوم جلد 23 121 تعلق باللہ نبیوں کی برکتیں لو لیکن انسان آپ کمزوری دکھاتا ہے اور کہتا ہے یہ نہیں ہو سکتا، وہ نہیں ہو سکتا.پس میں یہ تو نہیں کہتا کہ ان کی نعش قادیان نہیں جائے گی، جائے گی اور ضرور جائے گی مگر جو برکتیں یہاں نازل ہو رہی ہیں وہ نازل ہوتی چلی جائیں گی.دیکھو صحابہ اس نکتہ کو سمجھتے تھے چنانچہ نماز اور دُعا تو الگ رہی وہ اس مقام سے بھی برکت ڈھونڈتے تھے جہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پیشاب کیا ہو.حضرت عبد اللہ بن عمر جب بھی حج کے لئے جاتے تو ایک مقام پر وہ خاص طور پر تھوڑی دیر کے لئے قافلہ کو ٹھہراتے اور پیشاب کے لئے بیٹھ جاتے.اُنہوں نے دو تین حج کئے تھے.ایک صحابی کہتے ہیں میں نے ایک دفعہ دیکھا تو جہاں وہ پیشاب کے لئے بیٹھے تھے وہ جگہ بالکل خشک تھی.میں نے ان سے کہا کہ آپ نے ہمارا اتنا حرج کیا.اگر آپ کو پیشاب آیا نہیں تھا تو آپ نے قافلہ کو ٹھہرایا کیوں، آپ یہاں بیٹھے کس لئے ؟ وہ کہنے لگے یہ بات نہیں اصل بات یہ ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کیا تو میں نے دیکھا کہ اس مقام پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کیا تھا.پس میں جب بھی یہاں سے گزرتا ہوں میں کہتا ہوں کہ موقع جانے نہ پائے اور خواہ مجھے پیشاب آیا ہو یا نہ آیا ہو میں یہاں تھوڑی دیر کے لئے برکت حاصل کرنے کے لئے بیٹھ جاتا ہوں.2 تو صحابہ یہ سمجھتے تھے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر کام میں نقل ان کے لئے برکت کا موجب ہے اور در حقیقت یہ بات ہے بھی درست.جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے ، جہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے اور جہاں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کام کئے وہاں برکتیں ہی برکتیں ہیں.دیکھو، آپ لوگ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام پیش کیا کرتے ہیں کہ : " بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " 3 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جسم سے آپ کے کپڑے لگے اور وہ بابرکت ہو گئے.پھر اگر کسی زمین پر کوئی مقدس انسان رہے تو وہ کیوں بابرکت نہیں ہو گی.حقیقت یہ ہے کہ روحانی دنیا میں اس کی اتنی مثالیں موجود ہیں کہ یہ سوال ہر شخص کو
انوار العلوم جلد 23 122 تعلق باللہ خود ہی سمجھ لینا چاہئے تھا اور اس بارہ میں کسی سوال کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرنی چاہئے تھی.ایک افسوسناک واقعہ آپ رات کو ایک افسوس ناک واقعہ ہوا کہ عورتوں کی پانچ بیر کیں جل گئیں اور ہزاروں روپیہ کا نقصان ہوا.ہیں سے زیادہ بستر ہی جل گئے اور بہت سی عورتوں کے بُرقعے جل گئے اور بہت سی عورتوں کی جوتیاں جل گئیں یا غائب ہو گئیں.بعض کی ایک جل گئی اور ایک رہ گئی.اس طرح ہزار ہا کا نقصان ہو گیا.زیورات بھی بڑی مقدار میں ضائع ہوئے ہیں.کچھ تو مل رہے ہیں مگر کچھ ابھی تک نہیں ملے.ایک عورت کا کئی ہزار کا زیور گم ہو گیا ہے.یہ نقصان کچھ تو آگ لگنے کی وجہ سے ہوا اور کچھ آگ کو پھیلنے سے بچانے کے لئے بعض اور ہیر کیں ہمیں خود بھی گرانی پڑیں.بڑی وجہ اس نقصان کی یہ تھی کہ عورتوں کی بیر کیں الگ تھیں، ان کا رستہ بہت محدود تھا اور اس وجہ سے فوری طور پر زیادہ امداد نہیں پہنچ سکتی تھی" اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ:- "الحمد للہ ابھی اطلاع ملی ہے کہ اس عورت کا آٹھ تولہ کا ہار مل گیا ہے.بہر حال زیورات انشاء اللہ مل جائیں گے.اس عورت کے کڑے بھی تھے وہ بھی امید ہے مل جائیں گے".سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:- " میں اس موقع پر پہلی نصیحت مستورات کو یہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ صبر اور ہمت سے کام لیں.بعض عورتیں اس حادثہ کی وجہ سے سخت گھبراگئیں اور وہ صبح سے ہی بستر باندھ کر بیٹھ گئیں کہ ہم تو جاتی ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عورتیں چاہتی ہیں ان کے اچھے کپڑے ہوں اور اگر معمولی کپڑے بھی ہوں تو میلے نہ ہوں.کیونکہ بہر حال کچھ نہ کچھ زینت کا احساس عورت میں پایا جاتا ہے لیکن ایسے وقت میں اپنے جذبات اور احساسات کو دبالینا چاہئے.ایسے وقت میں غیرت کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ انسان کہہ دے
انوار العلوم جلد 23 123 تعلق باللہ کہ کر لو جو کچھ کرنا ہے میں اپنے مذہب اور عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا یہی تو غیرت دکھانے کا وقت ہوتا ہے.اور کونسا وقت ہے جس میں انسان اس قسم کی غیرت دکھا سکے.امور عامہ کی رپورٹ یہ ہے کہ جیسے مردوں کی بیرکوں میں اتفاقی طور پر آگ لگ گئی تھی اسی طرح عورتوں کی بیرکوں میں بھی اتفاقی طور پر آگ لگ گئی ہے لیکن میں ان کی اس رپورٹ کو تسلیم نہیں کرتا.مردوں کی بیرکوں کے متعلق ان کی رپورٹ میں نے تسلیم کرلی تھی مگر اس رپورٹ کو میں غلط سمجھتا ہوں اور اس کی میرے پاس وجوہ موجود ہیں.میں یہ تو نہیں کہتا کہ انہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر انسان کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ مجھ پر یا میرے محکمہ پر الزام نہ آئے.میرے نزدیک اسی اثر کے ماتحت ان کی یہ رپورٹ ہے مگر ہمارے پاس اس رپورٹ کے غلط ہونے کی وجہ موجود ہے.ہم نے دو ذرائع سے اس حادثہ کی تحقیقات کرائی ہے.ایک تحقیق تو ناظم جلسہ نے اسی وقت کی.میں نے انہیں حکم دیا کہ فوراً تحقیقات کرو اور مجھے اپنی تحقیق کے نتائج سے اطلاع دو.دراصل جلسہ سے جانے کے بعد مجھے کافی عرصہ تک نیند نہیں آئی.نمازوں اور ملاقاتوں کے بعد بھی میں دیر تک جاگتا رہا.اس کے بعد میں لیٹا ہی تھا کہ یکدم شور کی آواز آئی اور معلوم ہوا کہ عورتوں کی بیرکوں میں آگ لگ گئی ہے.میں نے فوراً آدمی دوڑائے اور کہا کہ مجھے اطلاع دو کہ کیسے آگ لگی ہے.چنانچہ ڈیڑھ بجے رات انہوں نے مجھے اطلاع دی جس میں انہوں نے نقشہ بھی دیا ہوا تھا.میں نے جو پہرے دار بھجوائے تھے اُنہوں نے بتایا کہ ایک عورت نے یہ کہا ہے کہ میں نے خود بعض آدمی جاتے ہوئے دیکھے ہیں جو کہتے تھے کہ رستہ نہیں ملتا، رستہ نہیں ملتا.اسی طرح انہوں نے کہا کہ ایک عورت کہتی ہے کہ یہ آگ باہر سے آتے ہوئے میں نے دیکھی ہے.اس کے بعد ناظم جلسہ کی رپورٹ بھی پہنچ گئی.اس میں وضاحت سے ذکر تھا کہ فلاں عورت سے میں نے بیان لئے ہیں وہ کہتی ہے کہ میں اپنی بیرک میں بیٹھی ہوئی تھی کہ مجھے چھت کے اوپر سے گرمی لگی اور پھر میں نے اوپر سے نیچے آگ آتی ہوئی دیکھی جو پھیل گئی اور پھر میں نے شور مچادیا کہ آگ لگ گئی ہے.اسی طرح ان کا بیان ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 124 تعلق باللہ دو تین اور عورتوں نے بھی یہی بیان کیا کہ ایک جگہ نہیں بلکہ دو تین جگہ باہر سے آگ آتی ہوئی دیکھی گئی ہے.اس کے بعد صبح لجنہ نے تحقیقات کی.لجنہ کی تحقیقات بھی قریباً اسی طرح ہے جس طرح یہاں ناظم جلسہ کی تحقیق تھی.وہ بھی کہتی ہیں کہ عورتوں کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ انہوں نے خود آگ لگتے دیکھی جو اوپر سے نیچے کی طرف آئی.پس امور عامہ کی رپورٹ میرے نزدیک درست نہیں.انہوں نے صرف اپنی بدنامی سے ڈر کر کہ ان کے محکمہ پر الزام آئے گا اس طرح کی رپورٹ کر دی ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ آگ باہر سے لگی ہے.بلکہ اب تو مجھے یہ بھی شبہ پیدا ہو گیا ہے کہ مردوں والی آگ بھی کسی نے دانستہ نہ لگائی ہو.بالکل ممکن ہے کہ کوئی دوست بن کر آگیا ہو اور اس نے لیمپ کی بتی اس طرح اونچی کر دی ہو کہ گھانس پھونس کو آگ لگ گئی ہو.یہ پرانا دستور ہے جو الہی جماعتوں کے مخالف ہمیشہ اختیار کیا کرتے ہیں لیکن ان باتوں کو دیکھ کر مؤمن کا ایمان اور بھی بڑھ جایا کرتا ہے.مؤمن کی مثال در حقیقت ربڑ کے گیند کی سی ہوتی ہے کہ اسے جتنا دباؤ اتنا ہی اچھلتا ہے.پس مؤمنوں کے ارادوں کو پست کرنے کی بجائے یہ چیزیں اُن کے ایمانوں کو اور بھی بڑھانے والی ہیں اور انہیں کہنا چاہئے کہ اچھا اگلی دفعہ ہم اور زیادہ آئیں گے.آخر جب مشرقی پنجاب سے لوگ آئے تو ان کا کتنا نقصان ہوا تھا.یہاں زیورات والی عور تیں تو صرف پانچ سات ہوں گی باقی اکثر غرباء تھیں لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے سامان پیدا کرتا ہے.ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے کہ عورتوں کے لئے بستروں کا کیا انتظام کریں.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ پرسوں ہی ایشین افریقن کمپنی جس میں سلسلہ کے بھی حصے ہیں اور میرے اور میری اولاد کے بھی حصّے ہیں.کبھی کبھی خدا تعالیٰ کے نام پر کچھ حصہ نکالا کرتی ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے مجھے اُن کی چٹھی آئی کہ ہم پچاس اطالین کمبل غرباء کے لئے بھجوا رہے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ وہ ایسے موقع پر پہنچے کہ ابھی کمبلوں کا بنڈل بند کا بند ہی پڑا تھا.جس وقت ناظم صاحب جلسہ میرے پاس آئے تو میں نے کہا وہ بنڈل ان کے حوالے کر دو.یوں بھی وہ ہم نے غریبوں اور حاجتمندوں میں ہی
انوار العلوم جلد 23 125 تعلق باللہ تووه کرنے تھے مگر میں سمجھتا ہوں کہ اس دفعہ کمپنی کو زیادہ ثواب اور اجر ملے گا.یوں پہلے بھی بھیجتے تھے مگر معلوم ہوتا ہے اس دفعہ انہوں نے زیادہ اخلاص سے بھیجے ہیں کیونکہ وہ ایسے موقع پر کام آئے جبکہ سلسلہ کو ان کی سخت ضرورت تھی".(الفضل 7 دسمبر 1960ء) اسکے بعد اصل موضوع تعلق باللہ پر تقریر کا آغاز کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:- "میری آج کی تقریر کا موضوع تعلق باللہ ہے میں نے پچھلے دنوں اپنے ایک خطبہ میں بھی بیان کیا تھا کہ بہت سے لوگ میرے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعا کریں بیٹا ہو جائے.کوئی کہتا ہے دعا کریں میری بیوی اچھی ہو جائے.کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے کوئی بیوی مل جائے.کوئی کہتا ہے دعا کریں میرا اپنی بیوی سے ایک جھگڑا چل رہا ہے اُس میں صلح کی کوئی صورت پیدا ہو جائے.کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے نوکری مل جائے.کوئی کہتا ہے دعا کریں میں امتحان میں کامیاب ہو جاؤں.کوئی کہتا ہے دعا کریں مجھے اپنی ملازمت میں ترقی مل جائے.کوئی کہتا ہے دعا کریں میری فلاں جگہ سے تبدیلی ہو جائے.اسی طرح عور تیں میرے پاس آتی ہیں تو کوئی کہتی ہے میرے ہاں صرف لڑکیاں ہیں دعا کریں کہ کوئی لڑکا ہو جائے.کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک میرے ساتھ اچھا نہیں دعا کریں کہ اُس کا سلوک اچھا ہو جائے.کوئی کہتی ہے میرے خاوند کا سلوک تو اچھا ہے لیکن دعا کریں کہ وہ اس سے بھی زیادہ اچھا سلوک کرے.کوئی کہتی ہے میرے ماں باپ اور خاوند کے درمیان کوئی جھگڑا ہے دعا کریں کہ اُن کی آپس میں صلح ہو جائے.غرض جتنی ضرورتیں بیان کی جاتی ہیں وہ ساری کی ساری ایسی ہوتی ہیں جو اس دنیا کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں حالانکہ سب سے مقدم دعا اگر کوئی ہو سکتی ہے تو یہی ہے کہ ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق پید اہو جائے اور سب سے مقدم سوال اگر کوئی شخص کر سکتا ہے تو یہی ہے کہ میری اس بارہ میں راہنمائی کی جائے کہ مجھے تعلق باللہ کس طرح حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ ہماری زندگی کا سب سے بڑا مقصد یہی ہے.اگر ہمارا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہو جائے تو باقی سب چیزیں اسی میں آجاتی ہیں جسے
انوار العلوم جلد 23 126 تعلق باللہ کہتے ہیں کہ "ہاتھی کے پاؤں میں سب کا پاؤں".تذکرۃ الاولیاء میں لکھا ہے کہ کوئی بزرگ تھے جن کے ہمسایہ میں کوئی امیر شخص رہتا تھا جو رات دن ناچ گانے کی مجالس گرم رکھتا تھا اور ہر وقت شور و غوغا ہو تا رہتا تھا چونکہ اس طرح اُن کی عبادت میں خلل واقع ہوتا تھا ایک دن اُنہوں نے اُسے سمجھایا اور کہا کہ تم رات کو باجے بجاتے اور اُونچا اونچا گاتے ہو اس طرح میری عبادت میں خلل آتا ہے مناسب یہ ہے کہ تم اس قسم کی مجلسوں کو بند کر دو.وہ امیر آدمی بادشاہ کا مصاحب تھا اُسے یہ بات بری لگی اور اُس نے بادشاہ کے پاس شکایت کر دی کہ اِس طرح بعض لوگ ہمارے گانے بجانے میں مزاحمت کرتے ہیں.بادشاہ نے فوج کا ایک دستہ اُس کے مکان پر بھجوا دیا.جب شاہی فوج آگئی تو اُس نے اُس بزرگ کو کہلا بھجوایا کہ میری حفاظت کے لئے فوج آگئی ہے اگر طاقت ہے تو مقابلہ کر لو.اُس بزرگ نے جواب دیا کہ ان سامانوں سے تو مقابلہ کی مجھ میں طاقت نہیں لیکن لڑائی ہم نے بھی نہیں چھوڑنی.اگر ہم تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں تو نہ معلوم ہمارا تیر نشانہ پر پڑے یانہ پڑے اس لئے ظاہری تیر اور تلوار کی بجائے ہم رات کے تیروں سے تمہارا مقابلہ کریں گے.جب یہ پیغام اُسے پہنچا تو معلوم ہوتا ہے اُس کے اندر تھوڑی بہت نیکی تھی پہلے تو وہ خاموش رہا لیکن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اُس کی چیخ نکل گئی اور اُس نے کہا مجھے معاف کیا جائے آج سے باجا گا ناسب بند ہو جائے گا کیونکہ رات کے تیروں کے مقابلہ کی نہ مجھ میں طاقت ہے اور نہ میرے بادشاہ میں طاقت ہے.تو حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کا ملنا اور اُس سے انسان کا تعلق پیدا ہو جانا یہ سب سے اہم اور ضروری چیز ہے اور اگر خدامل سکتا ہے تو پھر اس میں کوئی شبہ ہی نہیں رہتا کہ ہمارا سب سے بڑا فرض یہی رہ جاتا ہے کہ اُس کے ساتھ تعلق پیدا کریں اور اس طرح اپنی زندگی کے مقصد کو حاصل کر اس مضمون کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلا سوال انسان کے دل میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا ہے یا نہیں؟ اور پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا خدا مل سکتا ہے یا
انوار العلوم جلد 23 127 تعلق باللہ وہ نہیں ؟ اگر اس دنیا کا کوئی خدا ہے اور اگر وہ خدا ہمیں مل سکتا ہے تو اس میں شبہ ہی کیا ہے کہ پھر سب سے مقدم چیز وہی ہے.بعض لوگ مرغا کھانے کے بہت شوقین ہوتے ہیں.چودھری ظفر اللہ خان صاحب میرے بچپن کے دوست ہیں انہیں مرغے کی ٹانگ بڑی پسند ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بڑی پسند تھی ایک دوست جو فوت ہو گئے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر کسی کو ساری عمر مرنے کی ٹانگ ملتی رہے تو اُسے اور کیا چاہیے لیکن مجھے پسند نہیں کیونکہ اُس کی بوٹی میرے دانت میں پھنس جاتی ہے.بہر حال ض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو لوگوں کو بہت مرغوب ہوتی ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ اگر و چیزیں انہیں مل جائیں تو وہ بڑے خوش قسمت ہیں لیکن وہ چیزیں بہت ادنی اور معمولی ہوتی ہیں اور پھر اُن چیزوں کے حصول کے بعد بھی اور ہزاروں چیزوں کی احتیاج انسان کو باقی رہتی ہے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اگر خدا تعالیٰ پر ہمیں کامل یقین ہو اور اگر خدا ہمیں مل سکتا ہو تو پھر قطعی اور یقینی طور پر انسان کہہ سکتا ہے کہ اس کے بعد مجھے کسی اور چیز کی کیا ضرورت ہے.انبیاء بڑے قیمتی وجود ہیں اور اُن کی محبت انسان کے ایمان کا ایک ضروری جزو ہے لیکن یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ کسی کو خدا مل جائے اور اُسے انبیاء نہ ملیں.انبیاء تو اُسے شوق سے ملیں گے اور کہیں گے کہ جو تمہارا محبوب ہے وہ ہمارا بھی محبوب ہے اور جب وہ تم سے محبت کرتا ہے تو ہم بھی تم سے محبت رکھتے ہیں.مذاہب عالم پر نظر ڈالنے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے متعلق تمام مذاہب اس بات پر متفق ہیں کہ وہ مل سکتا ہے گو اس کے ملنے کی شکلیں اُن کے نزد یک الگ الگ ہیں.چنانچہ سب سے پہلے ہم یہودی مذہب کو دیکھتے ہیں.یہودی مذہب کے مطالعہ سے صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا مل سکتا ہے.حضرت نوح کے ایک دادا تھے جن کا نام حنوک تھا.اُن کے متعلق بائبل میں لکھا ہے کہ وہ تین سو برس تک خدا کے ساتھ ساتھ چلتا رہا.4 اور یہودی حدیثوں میں لکھا ہے کہ :-."لوگوں کے گناہوں کی وجہ سے خدا نے زمین کو چھوڑ دیا اور
انوار العلوم جلد 23 128 تعلق باللہ حنوک کو آسمان پر اُٹھا لیا اور آسمانی خزانوں کا اس کو نگران اور فرشتوں کا سردار مقرر کر دیا اور خدا کے تخت کے سامنے خاص مصاحب کے طور پر وہ مقرر کیا گیا.اُس کو سب راز معلوم ہیں اور فرشتے اُس کی پشت پر ہیں اور وہ خدا کا منہ ہے اور وہ خدا کے احکام کو دنیا میں جاری کرتا ہے".* پھر بائبل میں لکھا ہے کہ خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے ساتھ کشتی کی اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کو گر الیا یعنی خدا اہار بھی گیا.اور یہ کوئی عجیب بات نہیں.دراصل یہ ایک کشفی واقعہ ہے کوئی لغو اور بیہودہ قصہ نہیں.بچوں کے ساتھ گھروں میں روزانہ ایسا ہوتا ہے کہ ماں باپ ہنسی مذاق میں اُن کے ساتھ کشتی کرتے ہیں اور پھر کشتی کرتے کرتے خود گر جاتے ہیں اور بچہ اُن کے سینہ پر سوار ہو جاتا ہے اور وہ قہقہہ مار کر کہتا ہے کہ میں نے ان کو گرا لیا.اسی طرح اللہ میاں نے بھی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ضرور کشتی کی ہو گی اور پھر خدا تعالیٰ محبت اور پیار کے انداز میں خود ہی گر گیا ہو گا اور یعقوب علیہ السلام نے قہقہے مارے ہوں گے کہ میں نے خدا کو بھی گر الیا.پھر حضرت عیسی علیہ السلام آئے.اُن کی زندگی کی تاریخ جو انجیل میں ہے اُس سے بھی یہی پتہ لگتا ہے کہ وہ خدا سے ملے.چنانچہ اُن کا خدا کو باپ کہنا اور اپنے آپ کو اُس کا بیٹا کہنا صاف بتاتا ہے کہ اُن کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق تھا جیسے دنیا میں ماں باپ اور بیٹوں کے درمیان ہوتا ہے.ہندوؤں نے خدا تعالیٰ کو زیادہ تر ماتا کی شکل میں پیش کیا ہے مگر بہر حال ہندو مذہب بھی خدا تعالیٰ کے تعلق اور اُس کے پیار کا قائل ہے.اسلام نے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کو ماں اور باپ کی محبت سے مشابہت دی ہے اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ماں اور باپ کا بھی اپنے بچہ سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے.اسی طرح زرتشتی مذہب لے لو، بدھ مذہب لے لو، سب میں یہی نظر آئے گا
انوار العلوم جلد 23 129 تعلق باللہ کہ انسان روحانیت میں ترقی کرتے کرتے ایسے مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اُس کا خدا تعالیٰ سے براہِ راست تعلق ہو جاتا ہے.بدھ مذہب کی کتابوں میں تو یہاں تک لکھا ہے کہ حضرت بدھ ایک جگہ بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مشغول ہوگئے اور یہ عبادت اُنہوں نے اتنے انہماک سے کی کہ ایک بانس کا درخت اُن کے نیچے سے اُگا اور انہیں چیر کر اُن کے سر سے نکل گیا مگر اُن کو خبر تک نہ ہوئی اور پھر انہیں خدا مل گیا.اس قصہ کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ دنیا سے اتنے بیزار اور متنفر ہوئے کہ آخر انہیں خدا کا وصال حاصل ہو گیا.پس اللہ تعالیٰ کی ملاقات ہو سکنے کا جہاں تک امکان ہے دنیا میں کوئی بھی ایسا مذہب نہیں جو یہ کہتا ہو کہ خدا نہیں مل سکتا.جو لوگ خدا تعالیٰ کو مانتے ہیں اور اپنی عملی زندگی میں خدا تعالیٰ کی کتاب کو اپنار اہنما سمجھتے ہیں اور اُس کے مطابق چلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ تو یہی یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ مل سکتا ہے.لیکن وہ لوگ جو اپنی عملی زندگی اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق نہیں رکھتے وہ بے شک منکر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نہیں مل سکتا.مسلمانوں میں سے جو متکلمین یا فلسفی لوگ ہیں یعنی وہ لوگ جو خالص ظاہری علوم کے دلدادہ ہوتے ہیں یا جنہیں ہم زیادہ سے زیادہ کتابی کہہ سکتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات نہیں ہو سکتی.اُس سے تعلق پیدا کرنے کا صرف اتنا ہی مفہوم ہے کہ انسان کو اس امر کا یقین ہو جائے کہ وہ اُس کے حکم کے مطابق نماز ، روزہ اور ذکر الہی وغیرہ میں مشغول ہے.گویا عبادت و امتثال ہی اُس سے تعلق ہے اور اُس کا احسان وانعام ہی اُس تعلق کے اظہار کا ایک ثبوت ہے.ان متکلمین کو چھوڑ کر مسلمان، عیسائی، یہودی، زرتشتی اور اسی طرح ہندو اور بدھ مذہب کے پیر وسب یہی کہتے ہیں کہ خدا مل سکتا ہے اور یہی نہیں کہ وہ مل سکتا ہے بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اُن کے نبیوں اور دوسرے صلحاء وغیرہ کو ملا ہے اور اُس نے اُن کی تائید میں اپنے نشانات ظاہر کئے ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نہ صرف وہ انہیں ملا ہے بلکہ ہمارا بھی یہی دعویٰ ہے کہ وہ ہم کو بھی ملا ہے اور اُس نے ایسے ایسے رنگ میں ہم سے اپنے تعلقات کا اظہار کیا ہے کہ یہ ملنا اُس سے کم ملنا نہیں جس طرح کوئی اپنے ماں باپ یا کسی اور عزیز سے ملتا ہے.پس متکلمین کا یہ کہنا
انوار العلوم جلد 23 130 تعلق باللہ کہ خدا تعالیٰ انسان کو نہیں ملتا.اگر ہم نے اُس کی اطاعت کی تو یہ اُس کا ملنا ہو گیا اور اگر اُس نے ہم پر فضل اور احسان کیا تو یہ اُس کے تعلق کا ایک ثبوت ہو گیا.یہ محض فلسفیانہ رنگ کا ایک دعوی ہے جو خدا تعالیٰ سے دوری اور اُس کی محبت کے کرشموں کو نہ دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.اگر تو اتنا ہی ہوتا کہ مثلاً مجھے ایک ضرورت ہوتی اور وہ پوری ہو جاتی تو گو اس سے مجھے یہ تسلی ہو جاتی کہ میری ضرورت پوری ہو گئی ہے لیکن میرے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا نہ ہوتی لیکن میرا یہ احساس کہ میرے خدا نے میری فلاں ضرورت پوری کی ہے یہ ایک ایسی چیز ہے جو مجھے خدا تعالیٰ کی محبت میں گداز کر دیتی ہے.مجھے یاد ہے میری جوانی کا زمانہ تھا.ابھی میری خلافت پر دو تین سال ہی گزرے تھے کہ مجھے ایک مشکل پیش آگئی اور میں نے اُس کام کے لئے دعائیں شروع کر دیں مگر میرا وہ کام نہ ہوا.آخر میں نے فیصلہ کیا کہ جب تک میرا یہ کام نہیں ہو جائے گا میں چار پائی پر نہیں سوؤں گا.میرے اندر بھی اُس وقت گاندھی کی کوئی رگ تھی اور میں نے بھی ایک رنگ میں ستیہ گرہ کر دی اور زمین پر لیٹ گیا.امۃ الحی مرحومہ اُن دنوں زندہ تھیں اور انہی کے ہاں اُس دن باری تھی.ہم دونوں کے لئے ایک بڑی سی چار پائی ہوتی تھی اور اُس پر ہم سویا کرتے تھے مگر اُس رات میں نے امتہ الحی سے کہا کہ تم اپنا بستر اوپر کر لو.میرا بستر نیچے ہی رہے گا.کہنے لگیں کیوں؟ میں نے کہا کوئی بات ہے.چنانچہ میں فرش پر بستر کر کے لیٹ گیا.یہ معلوم نہیں کہ مجھے لیٹے ہوئے ابھی گھنٹہ گزرا تھا یا دو گھنٹے.بہر حال نصف رات سے کم وقت ہی تھا کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ میرے سامنے آیا ہے مگر وہ اُس وقت حضرت اماں جان کی شکل میں تھا (حضرت سیّد عبد القادر جیلانی کو بھی ایک دفعہ اللہ تعالیٰ اُن کی والدہ کی شکل میں ملا تھا.پس خشک ملا غصہ میں نہ آئے کہ وہ جو کچھ مجھے کہے گا وہی سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بھی کہنا پڑے گا) اُس کے ہاتھ میں ایک نہایت نرم اور نازک لمبی سی چھڑی تھی وہ تازہ شاخ کی معلوم ہوتی تھی اور چھڑی کے ساتھ کچھ سبز پتے بھی لگے
انوار العلوم جلد 23 131 تعلق باللہ ہوئے تھے.چھڑی بہت نازک اور ملکی اور باریک سی تھی اور قریباً سوا گز لمبی تھی.میں اُس وقت رؤیا میں یہ سمجھتا تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کا وجود ہے جو میرے سامنے ظاہر ہوا ہے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ حضرت اماں جان جو در حقیقت وجود باری کا ظہور تھا) میرے پاس آئیں اور جس طرح ماں بعض دفعہ بچہ پر بظاہر غصہ کا اظہار کر رہی ہوتی ہے یکن در حقیقت اُس غصہ کے پیچھے محبت ہوتی ہے اسی طرح انہوں نے بھی وہ چھڑی مجھے مارنے کے لئے اٹھائی اور کہا " محمود ! لیٹتا ہے کہ نہیں چارپائی پر " اور میں نے دیکھا کہ ان الفاظ کے ساتھ ہی انہوں نے وہ چھڑی نہایت نرمی سے میرے جسم کے ساتھ چُھو دی.ادھر میں نے یہ نظارہ دیکھا اور اُدھر میں نے سمجھا کہ گو اللہ تعالیٰ نے چار پائی پر لیٹنے کا ہی حکم دیا ہے لیکن اگر ذرا بھی اس حکم کے ماننے میں دیر ہوئی تو میرے ایمان میں خلل آ جائے گا.چنانچہ جو نہی اُن کا ہاتھ پیچھے ہٹا میں رویا کی حالت میں ہی چھلانگ لگا کر چار پائی پر آگیا اور جب آنکھ کھلی تو میں چار پائی پر لیٹا ہوا تھا.اب فرض کرو میر اوہ کام ہو جاتا تو مجھے اس میں کیا مزا آتا.مگر وہ لطف جو اُس رؤیا سے مجھے آیا اُس کا مزہ میرے دل میں آج تک باقی ہے اور اس کا خیال کر کے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں گد گدیاں پیدا کرنے لگتی ہے اور ایسا ایک دفعہ نہیں بیسیوں دفعہ ہوا ہے اور کئی کئی رنگ میں ہم نے خدا تعالیٰ کے فضل کے مشاہدات کئے ہیں اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ محبت اور پیار کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ ان چیزوں میں جو لطف ہے وہ باقی کیفیات میں کہاں ہے.بس ان دونوں کا ایسا ہی فرق سمجھ لو جیسے ایک ماں اپنے بچہ کو جب چھاتی سے دودھ پلا رہی ہوتی ہے تو جو اطمینان اُس بچہ کے چہرے پر دوڑتا ہوا نظر آتا ہے جس بے تکلفی اور محبت سے وہ اپنی آنکھیں کبھی بند کرتا ہے اور کبھی کھولتا ہے، کبھی منہ مچکا تا اور کبھی مسکراتا ہے اُس کی کیفیت بالکل اور ہوتی ہے.اُس وقت وہ یہ نہیں سمجھتا کہ یہ مجھے دودھ پلارہی ہے بلکہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ یہ مجھے اپنی محبت اور پیار سے حصہ دے رہی ہے.اس کے مقابلہ میں تم نے یہ بھی دیکھا ہو گا کہ دروازہ پر فقیر آیا تو عورت نے اُسے روٹی دے دی.اُس نے ایک مانگی تو
انوار العلوم جلد 23 132 تعلق باللہ عورت نے دو دے دیں.اُس نے خالی روٹی مانگی مگر عورت نے روٹی کے ساتھ سالن بھی دے دیا.مگر فقیر کو وہ مزا کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ایک بچہ کو اپنی ماں کا دودھ پیتے وقت حاصل ہوتا ہے کیونکہ ماں کا اپنے بچہ کو دودھ پلانا محبت کے جذبات سے تعلق رکھتا ہے اور فقیر کے مانگنے پر عورت کا اُسے روٹی یا سالن دے دینا محبت اور پیار کے جذبات کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا بلکہ ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.پس وہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے اور یہاں اور جذبہ کام کر رہا ہوتا ہے.اسی طرح بے شک فلسفی طبقہ کہتا ہے کہ عبادت و امتثال امر میں خدا تعالیٰ سے تعلق کا پید اہونا ہے اور اُس کا احسان اور انعام ہی اس کے تعلق کا اظہار ہے اور ہم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کی توفیق ملنا بھی اس کے فضل پر منحصر ہے اور اس کے احکام کی اطاعت بھی اللہ تعالیٰ کے احسان سے ہی تعلق رکھتی ہے.لیکن جو مز ا اُس شخص کو حاصل ہو سکتا ہے جسے پتہ ہو کہ میر اخدا مجھے ملا ہے.میرا اُس کے ساتھ تعلق ہے اور اُس نے اپنی محبت اور پیار کا اظہار فلاں فلاں نعمتوں کے علاوہ براہِ راست بھی کیا ہے تو وہ مزا اُس شخص کو کہاں حاصل ہو سکتا ہے جو ان نشانوں سے محروم ہو.ان دونوں کی تو آپس میں کوئی نسبت ہی نہیں ہو سکتی.تعلق باللہ کا مفہوم اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ جب سارے انبیاء و صلحاء یہ مانتے چلے آئے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا ہو سکتا ہے تو تعلق کے معنی کیا ہیں؟ سو یاد رکھنا چاہیے کہ تعلق کے معنی عربی زبان میں لٹکنے کے ہوتے ہیں.مثلاً کہتے ہیں تَعَلَّقَ الْمَرْأَةَ 7 فلاں شخص فلاں عورت کے ساتھ معلق ہو گیا.یا کبھی ب کے ساتھ بھی اس لفظ کا استعمال ہوتا ہے یعنی کہتے ہیں تَعَلَّقَ بِالْاِمْرَأَةِ ؟ فلاں عورت کے ساتھ فلاں شخص کا تعلق قائم ہو گیا اور اس کے معنی عربی زبان کے لحاظ سے یہ ہوتے ہیں کہ مَالَ قَلْبَهُ إِلَيْهَا اُس شخص کا دل شوق اور محبت کے ساتھ اُس عورت کی طرف جھکا.اِسی طرح کہتے ہیں تَعَلَّقَ الشَّوْكَ بِالثَّوْبِ.اور اس کے معنی ہوتے ہیں نَشَبَ فِيهِ وَ اسْتَمْسَکَ.10 کہیں راستہ میں سے گزرتے ہوئے اگر کانٹے پڑے ہوئے
انوار العلوم جلد 23 133 تعلق باللہ ہوں اور تمہارا کپڑا لمبا ہو تو کانٹے تمہارے کپڑوں کے ساتھ چمٹ جائیں گے اور وہ تمہارے ساتھ ساتھ گھسٹتے جائیں گے اس کو بھی عربی زبان میں تعلق کہتے ہیں.گویا جب کوئی چیز اس طرح لٹک جائے کہ کوشش کے ساتھ اُسے ہٹانا پڑے وہ آپ نہ ہٹے تو اُسے تعلق کہتے ہیں.اسی وجہ سے علق کے معنی محبت کے بھی ہوتے ہیں.چنانچہ کہتے ہیں عَلِقَهُ وَ بِهِ عُلُوْقًا هَوَاهُ وَ أَحَبَهُ يَعْنِي عَلِقَهُ 11 جس کے لفظی معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُس کے ساتھ لٹک گیا.اس کا مفہوم یہ بھی ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی.ہمارے ہاں بھی ایک اسی قسم کا محاورہ ہے.کہتے ہیں فلاں کے ساتھ دل اٹکا ہوا ہے.پس تعلق باللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ کے ساتھ لٹک جانا اور ایسا تعلق قائم کر لینا کہ کوئی دوسرا پرے کرے تو کرے آپ نہ ہے.مثلاً اس وقت میری سوئی میرے ساتھ پڑی ہے اگر میں علیحدہ ہوں گا تو یہ گر جائے گی لیکن اگر کانٹے لگ جائیں تو میں اُنہیں اُتاروں گا تو وہ اتریں گے یا کوئی اور شخص انہیں ہٹائے گا تو وہ ہٹیں گے خود بخود علیحدہ نہیں ہوں گے.پس تعلق ایسے گہرے ربط کو کہتے ہیں جو آپ ہی آپ نہیں ٹوٹ سکتا اور اسی کو محبت بھی کہتے ہیں.پس تعلق باللہ کے معنی ہوئے اللہ تعالیٰ سے لٹک جانا اور اُس سے نہ ٹوٹنے والا تعلق پیدا کر لینا.ا قرآن کریم میں بھی اس تعلق کا ذکر آتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے اور اس تعلق کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں اور بہت بڑی نعمتوں میں سے قرار دیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 12 خدا تعالیٰ نے انسان کو علق سے پیدا کیا ہے یا یہ کہ اُس نے انسان میں علق کا مادہ پیدا کیا ہے.خُلِقَ مِنْ فَلَانٍ 13 کے معنی عربی زبان میں یہ ہوتے ہیں کہ اُس کو اُس چیز سے پیدا کیا گیا ہے لیکن کبھی اس کے یہ معنی بھی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس کی فطرت میں ہی داخل ہے.مثلاً قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ انسان کے متعلق فرماتا ہے کہ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابِ 4 اُس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے یعنی مٹی منبع تھی انسان کی پیدائش کا.لیکن دوسری جگہ آتا ہے کہ خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ 15 اُس نے انسان کو جلدی سے پیدا کیا ہے.اس
انوار العلوم جلد 23 134 تعلق باللہ کے یہ معنی نہیں کہ جلدی کوئی مادہ ہے جس سے انسان کی پیدائش ہوئی ہے بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اُس کی طبیعت میں جلدی کا مادہ رکھا گیا ہے.اسی طرح خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ علق کے یہ معنی بھی ہیں کہ اُس نے انسان کی فطرت میں علق کا مادہ رکھا ہے اور یہ معنی بھی ہیں کہ عَلَق کی حالت سے ترقی دے کر اُسے پیدا کیا ہے کیونکہ علق کے معنی اُس خون کے بھی ہوتے ہیں جو ماں کے رحم میں نطفہ سے ترقی کر کے پیدا ہوتا ہے اور رحم سے چمٹا ہوا ہوتا ہے اور پھر بچہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے.پس ظاہری معنی اس کے ایک یہ بھی ہیں کہ اُس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ہے.یہاں یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے خَلَقَ الْإِنْسَان فرمایا ہے انسان کا لفظ استعمال کیا ہے جس میں عربی زبان کے لحاظ سے مرد اور عورت دونوں شامل ہوتے ہیں.ہمارے ملک کی زبان میں انسان کا ترجمہ آدمی کیا جاتا ہے اور جب آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اُس سے مراد صرف مرد لئے جاتے ہیں عورتیں مراد نہیں لی جاتیں.عورتوں کو بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ جب آدمی کا لفظ استعمال کریں گی تو اپنے آپ کو نکال لیں گی اور صرف مردوں کو آدمی قرار دیں گی.بعض عورتیں تو ایسی ہوتی ہیں کہ انہیں خواہ کتنا بھی سمجھاؤ آخر وہ یہی کہتی ہیں کہ " آخر مرد آدمی ہیں تو انہیں ہم آدمی ہی کہیں گی".پس یاد رکھو کہ یہاں پنجابی زبان کے لحاظ سے انسان یا آدمی کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا بلکہ یہ عربی انسان ہے اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل ہیں.بہر حال جب اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ہم نے مرد اور عورت دونوں کو علق سے پیدا کیا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہر انسان علق سے پیدا ہوا ہے ؟ ظاہر میں تو یہی نظر آتا ہے کہ مرد عورت ماں باپ سے پیدا ہوتے ہیں.وہ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور اُن کے ماں باپ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے اور آخر یہ سلسلہ آدم پر جا کر ختم ہو گیا جس کے ماں باپ کوئی نہ تھے مگر خدا تعالیٰ نے تو خَلَقَ الْإِنْسَانَ میں الإِنسَانَ کا لفظ استعمال کیا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ سارے انسان.اب جبکہ سارے انسان عَلَق سے پیدا ہوئے ہیں تو اگر ہم یہ سلسلہ آدم پر ختم کر دیتے ہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ آدم انسان تھے یا نہیں ؟ حوا انسان تھیں یا
انوار العلوم جلد 23 135 تعلق باللہ نہیں؟ اگر تمھیں تو پھر اُن کی مائیں اور اُن کے باپ بھی ماننے چاہئیں.ورنہ یہ آیت غلط ہو جاتی ہے اور اگر اُن کی مائیں تھیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں؟ اگر کہو کہ اپنی ماؤں سے.تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ کس طرح پیدا ہوئیں ؟ غرض اس طرح اس سلسلہ کو چاہے دس کروڑ سال تک لے جاؤ تمہیں یا تو یہ ماننا پڑے گا کہ نسل انسانی کا آغاز جس آدم و حوا سے ہو اوہ علق کے بغیر پیدا ہوئے تھے اور یا پھر تمہیں یہ ماننا پڑے گا کہ اس تسلسل میں عَلَق دو معنوں میں استعمال ہوا ہے.آدم تک اور معنی ہیں اور آدم و حوا کے متعلق یا جو بھی پہلا جوڑا تھا اس کے متعلق کچھ اور معنے ہیں اور یہ آخری بات ہی درست ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام غلط نہیں ہو سکتا اور جیسا کہ میں اوپر بتا چکا ہوں خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَق کے دو معنی ہیں.ایک یہ کہ رحم مادر میں جمے ہوئے خون سے انسان کو پیدا کیا اور دوسرے یہ کہ انسان کو اسی طرح پیدا کیا کہ اُس کی فطرت میں محبت الہی رکھی گئی.تمام انسانوں کیلئے اس آیت کا یہ مفہوم ہے کہ وہ جمے ہوئے خون سے پیدا ہوئے لیکن انسانِ اوّل یا پہلے جوڑے کے متعلق اس کے یہ معنی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں تعلق باللہ کے مادہ کے ساتھ پیدا کیا.پس یہ آیت اپنے ایک مفہوم کے لحاظ سے آدم کی تمام نسل پر چسپاں ہوتی ہے اور دوسرے مفہوم کی رو سے پہلے جوڑے اور اُس کی نسل سب پر چسپاں ہوتی ہے.اور نسل انسانی کا کوئی نکاح نہیں جس پر یہ آیت چسپاں نہ ہو سکتی ہو.گویا آدم اول کی ماں خدا تھا جس کی محبت اُس کے دل میں پیدا کی گئی تھی.ایک تیسرے معنی بھی اس آیت کے ہو سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ علق کا تعلق انسان سے نہیں خدا تعالیٰ سے قرار دیا جائے اور معنی یہ لئے جائیں کہ انسان کی پیدائش کی وجہ وہ علاقہ تھا جو اُلوہیت کو انسانیت سے تھا.یعنی الوہیت ایک ایسے وجود کو چاہتی تھی جو اس کی صفات کو ظاہر کرے.پس اُلوہیت کی یہ تڑپ انسان کے پیدا کرنے کا موجب ہوئی اور لو یا خدا تعالیٰ انسان کے لئے بمنزلہ ماں بن گیا اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ماں کو بچہ سے اور بچہ کو ماں سے شدید تعلق ہوتا ہے.قرآن اور احادیث سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا اپنے بندوں سے تعلق ماں سے زیادہ ہوتا ہے.پس آدم اول تک تو سب لوگ.
انوار العلوم جلد 23 136 تعلق باللہ اپنے ماں باپ سے پیدا ہوئے لیکن آگے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آدم و حوا خدا سے پیدا ہوئے.یہ نہیں کہ آدم خدا میں سے نکلا بلکہ یہ کہ اُس کے پیدا کرنے کے عام ذرائع ذاتِ باری میں مرکوز ہو گئے.اگر خدا اپنی تقدیر خاص سے آدم کو پیدانہ کرتا تو نسل انسانی کا سلسلہ اس دنیا میں جاری نہ ہوتا.پس بعد میں آنے والے انسان اپنی ماؤں سے پیدا ہوئے اور آدم و حواذات باری سے.یعنی كُن فَيَكُونُ 16 سے پیدا ہوئے.علق کے دوسرے معنی کُلُّ مَا عَلَقَ 17 کے ہیں یعنی جو چیز لٹکائی جائے اُسے علق کہتے ہیں اور عَلَق کے معنی الطَّيْنَ الَّذِي يُعَلَّقَ بِالْيَدِ 18 کے بھی ہیں یعنی وہ گندھی ہوئی مٹی جس میں اتنی چپک اور لزوجت پیدا ہو جائے کہ اگر اُسے ہاتھ لگاؤ تو وہ ہاتھوں سے چمٹ جائے.بعض میاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ ہاتھوں سے نہیں چمٹتیں لیکن جب ایسی مٹی ہو جو ہاتھوں سے چمٹ جائے تو اُسے علق کہیں گے.اور قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ طنین ہی سے انسان پیدا ہوا ہے.یوں تو ایسی طین بھی ہو سکتی ہے جس میں پانی زیادہ ہو اور وہ ہاتھوں سے نہ چھٹے یا ایسی طین بھی ہو سکتی ہے جو خمیر کی طرح اُبھری ہوئی ہو لیکن انسان ایسی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے جس میں چمٹنے کی خاصیت پائی جاتی ہے اور وہ گوندھنے والے یا بنانے والے کے ہاتھوں سے چپک جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر کسی صوفی کا یہ قول پنجابی میں بیان فرمایا کرتے تھے کہ یا تو کسی کے دامن سے چمٹ جایا کوئی دامن تجھے ڈھانپ لے.یعنی اس دنیا کی زندگی ایسی طرز پر ہے کہ اس میں سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ یا تو تم کسی کے بن جاؤ یا کوئی تمہارا بن جائے اور یہی طین سے پیدا کرنے کا مفہوم ہے.یعنی انسانی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ یا تو وہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے یا کسی کو اپنا بنا کر رکھنا چاہتا ہے.دیکھ لو بچہ ابھی پوری طرح ہوش بھی نہیں سنبھالتا کہ کسی کے ہو جانے کا شوق اس کے دل میں گد گدیاں پیدا کرنے لگتا ہے.بلوغت تو کئی سالوں کے بعد آتی ہے لیکن چھوٹی عمر میں ہی لڑکیوں کو دیکھ لو وہ کھیلتی ہیں تو کہتی ہیں یہ میراگڑا ہے اور وہ تیری گڑیا ہے.آؤ ہم گڑے گڑیا کا بیاہ رچائیں.میرے گڈے کے ساتھ تیری گڑیا کی شادی
انوار العلوم جلد 23 137 تعلق باللہ ہو گی اور فلاں کے گڑے کی شادی کرتی ہیں اور بڑی خوشی مناتی ہیں کہ ہمارے گڈے کی شادی ہو گئی یا ہماری گڑیا کا فلاں کے گڑے سے بیاہ ہو گیا.پھر وہ ماؤں کی نقلیں کر کے گڑیوں کو اپنی گود میں اُٹھائے پھرتی ہیں، انہیں پیار کرتی ہیں اور جس طرح مائیں اپنے بچوں کو دودھ پلاتی ہیں اسی طرح وہ اُن کو اپنے سینوں سے لگائے رکھتی ہیں کیونکہ ان کا دل چاہتا ہے کہ ہم کسی کی ہو جائیں یا کوئی ہمارا ہو جائے.اسی طرح لڑکوں کو دیکھ لوجب تک بیاہ نہیں ہوتا ہر وقت ماں کے ساتھ چھٹے رہتے ہیں لیکن جب بیاہ ہو جائے تو کہتے ہیں ماں تو جائے چولہے میں ہماری بیوی جو ہے وہ ایسی ہے اور ایسی ہے اور دن رات اُس کی تعریفوں میں گزر جاتے ہیں تو اللہ اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کی فطرت میں ہم نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ کسی نہ کسی کا ہو کر رہنا چاہتا ہے.اس کے بغیر اُس کے دل کو تسلی نہیں ہوتی.پھر علق کے معنی خصومت اور جھگڑے کے بھی ہوتے ہیں لیکن میرے مضمون کے ساتھ ان معنوں کا تعلق نہیں.اس لحاظ سے آیت کے یہ معنی ہوں گے کہ ہم نے انسان کے اندر جھگڑنے کا مادہ رکھا ہے.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْ ءٍ جَدَر 12 جھگڑا بھی انسان تبھی کرتا ہے جب وہ کسی چیز کو ضائع نہیں ہونے دیتا.اس لحاظ سے اس میں بھی تعلق کا مفہوم پایا جاتا ہے اور وہ تضاد جو بادی النظر میں دکھائی دیتا ہے دور ہو جاتا ہے.غرض جب خدا تعالیٰ نے یہ کہا کہ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ انسان کو اللہ تعالیٰ نے علق سے پیدا کیا ہے یعنی انسان کی فطرت میں اس نے اپنی محبت کا مادہ رکھ دیا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ نہ صرف انسان خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے بلکہ یہ کہ ہم نے خود انسان کے اندر محبت کا مادہ پیدا کیا ہے.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو کسی ہوتی ہیں اور بعض چیزیں کسی نہیں بلکہ فطرتی ہوتی ہیں.خدا تعالیٰ کی محبت بھی کوئی کسی چیز نہیں بلکہ وہ ایک فطرتی مادہ ہے جو ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے.جب تم ان ساری چیزوں پر غور کرو گے تو آخر تم اسی نتیجہ پر پہنچو گے کہ خدا تعالیٰ سے محبت ہو سکتی ہے.
انوار العلوم جلد 23 138 تعلق باللہ پس اسلام تعلق باللہ کو نہ صرف ممکن بلکہ انسان کی اغراض پیدائش میں سے قرار دیتا ہے.احادیث میں آتا ہے.عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلَّهِ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَةِ أَحَدِكُمْ مِنْ أَحَدِكُمْ بِضَالَّتِهِ إِذَا وَجَدَهَا 20 یعنی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے قسم ہے اللہ تعالیٰ کی کہ خدا اپنے بندہ کی تو بہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کی سواری سفر میں گم ہو جائے اور پھر وہ اُسے مل جائے.عرب جیسے ملک میں سفر کی حالت میں اگر کسی شخص کی سواری گم ہو جائے تو تم سمجھ سکتے ہو کہ یہ کتنی خطرناک بات ہے.میلوں میل پر ایسے شخص کو نہ پانی مل سکتا ہے نہ کھانے کیلئے کوئی چیز مل سکتی ہے اور نہ کوئی اور ایسا شخص مل سکتا ہے جو اُسے منزلِ مقصود پر پہنچنے میں مدد دے.ایسی حالت میں اگر اُس کی گمشدہ سواری اُسے مل جائے تو جو خوشی ایسے شخص کو ہو سکتی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اس سے بھی زیادہ خوشی اللہ تعالیٰ کو اُس وقت ہوتی ہے جب اُس کا کوئی بندہ اُس کے حضور توبہ کرتا ہے.دیکھو اس میں بھی نہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کا اظہار کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف رجوع ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے بلکہ ایک زائد بات بھی اس میں بتائی گئی ہے اور وہ زائد بات یہ ہے کہ صالة 21 گمشدہ سواری کو کہتے ہیں.اور بندے کے توبہ کی مثال گمشدہ سواری سے دینا اپنے اندر یہ حکمت رکھتا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی سواری ہے جس سے وہ سفر کرتا ہے یعنی اپنی صفات کو دنیا میں جاری کرتا ہے.اگر یہ حکمت مد نظر نہ ہوتی تو گمشدہ سواری کی مثال دینے کی بجائے یہ بھی کہا جا سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ کو اس سے بھی زیادہ خوشی ہوتی ہے جتنی کسی شخص کو اپنی کھوئی ہوئی دولت کے ملنے سے خوشی ہوتی ہے.مثال کے لئے سواری کو مخصوص کرنا بتاتا ہے کہ انسان بھی اللہ تعالیٰ کی ایک سواری ہے.سواری کے معنی اُس چیز کے ہوتے ہیں جس کے ذریعہ سے اُس کا سوار اپنی منزل مقصود تک پہنچتا ہے.پس جس طرح گدھے اور گھوڑے اور اونٹ کا انسان محتاج ہے اور وہ اُن پر سواری کرتا ہے تاکہ وہ جلد منزلِ مقصود پر پہنچ سکے.اسی طرح خدا بھی اپنے ظہور کے لئے کسی
انوار العلوم جلد 23 139 تعلق باللہ نیک بندے کا محتاج ہوتا ہے.وہ انسان اونٹنی بنتا ہے اور خدا اس پر سوار ہوتا ہے اور جس طرح اُسی سواری سے سفر اچھا ہوتا ہے جو سیدھی ہوئی ہو اسی طرح انسان بھی وہی کام کا ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ سے سیدھ جائے اور اُس کے اشاروں کو سمجھنے لگے.گویا خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والے کی مثال ایک سواری کی سی ہے جو خد اتعالیٰ کے کام آتی ہے.اگر وہ نہ ہو تو اس دنیا سے خدا تعالیٰ روشناس بھی نہ ہو.تمثیلی زبان میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خد اتعالیٰ نے اپنے آپ کو اس بات کا محتاج قرار دیا ہے کہ انسان اُس کی سواری بنے تاکہ دنیا میں اُس کا ظہور ہو اور اُس کی صفات اس عالم میں ظاہر ہوں.غرض قرآن کریم و حدیث سے ثابت ہے کہ انسان کی پیدائش تعلق باللہ کے لئے ہے اور یہ کہ تعلق باللہ دونوں طرح کا ہوتا ہے.بندے کا خدا سے اور خدا کا بندے سے.جیسا کہ حدیث بالا میں تو بہ پر خدا کی خوشی کا ذکر ہے اور انسان کو خدا تعالیٰ کی سواری قرار دیا گیا ہے.نیز اس حدیث میں بھی اس کا ذکر آتا ہے جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ خدا اس کے کان ہو جاتا ہے جن سے وہ سنتا ہے.اُس کی آنکھیں ہو جاتا ہے جن سے وہ دیکھتا ہے.اس کے ہاتھ ہو جاتا ہے جن سے وہ پکڑتا ہے اور اُس کے پاؤں ہو جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے 22 اور یہ مقام جس کا ذکر کیا گیا ہے یعنی خدا تعالیٰ سے انسان کا ایسا گہرا تعلق قائم ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خد اتعالیٰ کا اپنے بندے کو اس قدر قریب کرنا کہ اُس کے کان اور اُس کی آنکھیں اور اُس کے ہاتھ اور اُس کے پاؤں اُس کے نہ رہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بن جائیں.یہ خالی اطاعت و انتشال اور نہیں ہو سکتے کیونکہ اِن امور کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں.اطاعت ایک فلسفیانہ چیز ہے اور خدا تعالیٰ کا ملنا ایک حسّیاتی چیز ہے.اطاعت اور امتثال محض دماغی کیفیات سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور خدا تعالیٰ کا اس قدر قریب ہو جانا کہ انسان اُس کی سواری بن جائے اور خدا اُس کے ہاتھ پاؤں بن جائے یہ دل کے ساتھ تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں اور ظاہر ہے کہ حس و جذبات ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق دائمی ہوتا ہے اور انعام
انوار العلوم جلد 23 140 تعلق باللہ دماغ ایسی چیز ہے جس کا تعلق عارضی ہو تا ہے تم جاگ رہے ہو تو مکھی جب تمہارے جسم پر بیٹھنے کے لئے آتی ہے تو تم ہاتھ مارتے ہو تا کہ مکھی تم سے دور ہو جائے لیکن سوتے ہوئے اگر مکھی تمہارے قریب آتی ہے تو تمہیں رعشہ کا مرض ہو تو اور بات ہے ورنہ یہ نہیں ہو تا کہ سونے کی حالت میں اُس کے آنے سے پہلے ہی اُس کو ہٹانے کی کوشش کرو.یا دشمن آتا ہے اور تم پر حملہ کرتا ہے اور پھر تم سو جاتے ہو تو یہ کہ تم سوتے سوتے یہ سوچتے رہو کہ اگر پھر دشمن تم پر حملہ کر دے تو تم اس کا کس طرح مقابلہ کرو گے.بلکہ اگر تمہارے سوتے ہوئے گھر میں کوئی دشمن آجائے اور تمہاری بیوی یا بیٹا اُس کا مقابلہ کر کے اُسے بھگا دیں تو تم بعد میں شکوہ کرتے ہو اپنے بیٹے سے یا شکوہ کرتے ہو اپنی بیوی سے کہ تم نے مجھے جگایا کیوں نہیں ورنہ مجھے بھی پتہ لگ جاتا اور میں بھی تمہاری مدد کرتا.تو عقلی تعلق صرف جاگتے ہوئے چلتا ہے اور سونے کی حالت میں وہ اتنا کمزور ہو جاتا ہے کہ صرف تحت الشعور ہی میں اُس تعلق کا احساس رہتا ہے اور وہ بھی بہت محدود رنگ میں لیکن جذباتی اور قلبی تعلق ایسا نمایاں ہوتا ہے کہ جاگتے ہوئے بھی اُس کا خیال رہتا ہے اور سوتے ہوئے بھی اُسی کا خیال رہتا ہے.چنانچہ دیکھ لو ماں سوتے سوتے اپنے بچہ کو گلے سے چمٹائے رہتی ہے اور سونے کی حالت میں ہی کبھی وہ اسے پیار کرتی ہے کبھی پچکارتی ہے اور کبھی اُسے سینہ سے لگاتی ہے.اگر اُسی حالت میں کوئی چور اُس کا مال اُٹھا کر لے جائے تو اُسے خبر بھی نہیں ہوتی کیونکہ مال کا تعلق فکر سے ہے جذبات سے نہیں.لیکن بچہ کی محبت سونے کی حالت میں بھی قائم رہتی ہے.ادھر ماں بچہ کو پیار کر رہی ہوتی ہے اور بچہ اپنی ماں کی چھاتیاں منہ میں ڈالے چوس رہا ہوتا ہے اور وہ دونوں سو رہے ہوتے ہیں تو جذبات ہر وقت قائم رہتے ہیں.جب یہ پیدا ہو جائیں تو ان کے لئے جاگنا اور سونا برابر ہوتا ہے لیکن دماغی کیفیتیں جاگتے وقت نمایاں ہوتی ہیں اور سوتے وقت غائب ہو جاتی ہیں اور جب جگاؤ تو ان کیفیات کو دماغ میں مستحضر کرنے کے لئے ایک فاصلہ کی ضرورت ہوتی ہے.مثلاًماں کی آنکھ کھلے تو بچہ کی محبت آنکھ کھلنے کے ساتھ ہی آجائے گی لیکن گھر میں سانپ نکل آئے اور کسی سوئے ہوئے آدمی کو جگایا جائے تو آنکھ کھلنے پر فوری طور پر
انوار العلوم جلد 23 141 تعلق باللہ اُس کا ذہن خطرہ کی طرف منتقل نہیں ہو تا بلکہ اُسے درمیان کا فاصلہ طے کرنے کے لئے کچھ وقفہ کی ضرورت محسوس ہوتی ہے لیکن جذبات میں ایک تسلسل چلتا ہے جو سوتے جاگتے ہر وقت قائم رہتا ہے.اس تعلق کے اظہار کے لئے عربی زبان میں مختلف الفاظ پائے جاتے ہیں مثلاً رغبت شوق، انس ، وڈ، محبت، خُلۃ، عشق.ان کے سوا لبعض اور بھی الفاظ ہیں مگر یہ چند موٹے موٹے الفاظ ہیں جو میں نے چن لئے ہیں.شوق اور عشق شوق اور عشق کا لفظ قرآن کریم میں استعمال نہیں ہوا، نہ بندے کے خدا سے تعلق کے متعلق استعمال ہو ا ہے اور نہ خدا کے بندے سے تعلق کے متعلق استعمال ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عربی زبان کے لحاظ سے شوق میں وسعت کا مادہ نہیں پایا جاتا لیکن جو شوق کے معنی ہیں وہ رغبت کے معنوں میں بھی آجاتے ہیں اور پھر رغبت کے لفظ میں عربی زبان کے لحاظ سے وسعت بھی پائی جاتی ہے چونکہ جس شخص سے بھی خدا تعالیٰ کو محبت ہو گی لازمآوہ محبت انسانی محبت سے زیادہ ہوگی اور جس شخص کے دل میں بھی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا خیال پیدا ہو گا وہ یہی چاہے گا کہ میں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کروں.یہ نہیں کہ وہ کہے گا میں اتنی محبت کروں گا جتنی مجھے مثلاً اپنی بکری سے ہے یا جتنی محبت مجھے اپنے گھوڑے سے ہے اور شوق میں وسعت نہیں پاتی جاتی اس لئے نہ بندے کے اُس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا خد اتعالیٰ سے ہوتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ کے اس تعلق کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو اُس کا اپنے بندے سے ہوتا ہے.شوق کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ چیز ابھی ملی نہیں جس کی ہمارے دل میں خواہش پائی جاتی ہے اور ظاہر ہے کہ اس مفہوم کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے لئے یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا.ورنہ نَعُوذُ بِاللہ یہ کہنا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کو بھی بعض چیزوں کی خواہش ہوتی ہے مگر وہ اُسے ملتی نہیں.اسی طرح عشق کا لفظ بھی نہ قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور نہ جہاں تک مجھے علم ہے حدیثوں میں استعمال ہوا ہے.نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جو بندے کا خدا سے ہو تا ہے
انوار العلوم جلد 23 142 تعلق باللہ اور نہ اُس تعلق کے اظہار کے لئے جو خدا کا اپنے بندے سے ہوتا ہے.حالانکہ عشق بڑی شدید محبت کو کہتے ہیں مگر باوجود اس کے کہ نہایت شدید محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے پھر بھی خدا تعالیٰ یہ نہیں کہتا کہ تم مجھ سے عشق کرو اور نہ یہ کہتا ہے کہ فلاں بندے کو مجھ سے عشق تھا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنی لغت کی وضع کے لحاظ سے کچھ پسندیدہ معنے نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صوفیاء نے یہ لفظ استعمال کیا ہے اور میں جو تردید کر رہا ہوں خود میرے شعروں میں بھی کئی جگہ عشق کا لفظ آیا ہے مگر وہ استعمال اُردو شاعری کے لحاظ سے ہے بحیثیت عربی دان ہونے کے نہیں.عربی میں اس لفظ کا استعمال خدا تعالیٰ کے لئے پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ ایسی محبت ہو جو انسان کو ہلاکت تک پہنچا دے اور یہ بات ایسی ہے جو نہ اُس انسان کے متعلق کہی جاسکتی ہے جو خدا تعالیٰ سے محبت کر رہا ہو اور نہ خد اتعالیٰ کے متعلق کہی جاسکتی ہے جو اپنے کسی بندے سے محبت کر رہا ہو.خدا تعالیٰ جو منبع حیات ہے اس کے لئے اگر کوئی شخص شدید محبت رکھے گا تو اس کی محبت بڑھے گی اور ترقی کرے گی اور اُسے ایک نئی زندگی عطا ہو گی.یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کی محبت اُسے ہلاک کر دے.اسی طرح خدا تعالیٰ کی اُس محبت پر بھی یہ لفظ استعمال نہیں ہو سکتا جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے.کیونکہ وہ تو خود منبع حیات ہے اور جو فنا نہیں ہو سکتا اُس کے متعلق یہ کہنا کہ محبت اُسے ہلاکت تک پہنچا دے گی بالکل غلط ہو گا.پس چونکہ عشق کے معنوں میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جس سے عقل میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور رفتہ رفتہ ایسی محبت کرنے والا ہلاکت تک پہنچ جاتا ہے اور یہ چیزیں خد اتعالیٰ کی محبت میں انسان کے اندر پیدا نہیں ہو تیں اور نہ خدا تعالیٰ کی اُس محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں جو وہ اپنے بندوں سے رکھتا ہے.اس لئے نہ قرآن میں اور نہ کسی حدیث صحیح میں بندے اور خدا کی محبت کے لئے عشق کا لفظ استعمال ہوا ہے.میں نے یہ وضاحت اس لئے کی ہے کہ ہمارے ملک میں عشق کا لفظ انتہائی محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن قرآن اور حدیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اور اس کی وجہ میں نے بتا
انوار العلوم جلد 23 143 تعلق باللہ دی ہے کہ عربی لغت کے لحاظ سے عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جو ہلاکت اور بربادی تک پہنچا دے.پس گو عام محاورہ کے لحاظ سے ہم اپنی زبان میں کبھی کہہ بھی دیتے ہیں فلاں شخص خدا تعالیٰ سے عشق رکھتا ہے لیکن عربی زبان کے لحاظ سے اس لفظ کا استعمال صحیح نہیں ہوتا کیونکہ حقیقت یہی ہے کہ نہ کوئی انسان عقل صحیح سے کام لیتے ہوئے خدا تعالیٰ سے عشق کر سکتا ہے اور نہ کوئی انسان ایسا ہو سکتا ہے جو خد اتعالیٰ سے عشق کرے کیونکہ خدا تعالیٰ کی محبت انسان کو ہلاکت اور بربادی سے بچاتی ہے ہلاکت اور بربادی تک لے جاتی نہیں.اب باقی رہ گئے رغبت ، انس، ڈڈ، محبت اور خُلۃ کے الفاظ.یہ الفاظ کسی جگہ پر بندے کے خدا سے تعلق کی نسبت اور کسی جگہ پر خدا تعالیٰ کے بندے سے تعلق کی نسبت قرآن و حدیث میں استعمال کئے گئے ہیں.آگے چل کر میں بیان کروں گا کہ اِن مختلف الفاظ میں کیا حکمت ہے اور ہر لفظ محبت کے کس رنگ یا کس درجہ کو ظاہر کرتا ہے.غبت سب سے پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ رغبت کے عربی زبان میں کیا معنی ہیں رغبة کے معنی ہوتے ہیں اَرَادَةَ بِالْحِرْصِ عَلَيْهِ وَاَحَبَّه 23 اُس نے ارادہ کیا حرص کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور ایسی محبت کے ساتھ جس میں وسعت پائی جاتی ہے.گویا جب ہم کسی کے متعلق یہ کہیں کہ وہ کسی سے رغبت رکھتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ اُس سے محبت رکھتا ہے.اُس کا دل چاہتا ہے کہ اُس سے ملے.اُس کی چاہت اُس کے دل میں پائی جاتی ہے اور چاہت بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی وسیع ہے.اب اُردو کے لحاظ سے تو لوگ کہیں گے کہ خوب مضمون ہے جو اس چھوٹے سے لفظ کے اندر آگیا.لیکن عربی زبان کے لحاظ سے محبت کا یہ سب سے چھوٹا مضمون ہے جو اس لفظ کے ذریعہ ادا کیا جاتا ہے.غرض رغبت کے معنی ہیں ملاقات کا ارادہ کرنا اور ارادہ بھی کسی اور غرض کے لئے نہ ہو بلکہ محض پیار کے لئے ہو اور وہ ارادہ بھی معمولی نہ ہو بلکہ بہت تیز ہو.پھر رَغِبَ اِلَيْهِ کے یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ ابتهل 24 یعنی عجز کرنا اور بہت ہی
انوار العلوم جلد 23 144 تعلق باللہ منکسر انہ طور پر اخلاص اور تضرع سے دعا کرنا.گو یار غبت کے یہ معنی ہوئے کہ مومنوں کا اللہ تعالیٰ سے ایسا تعلق ہو جاتا ہے کہ وہ عجز و انکسار سے اُس کے حضور دعائیں کرتے ہیں.قرآن کریم میں بھی مومنوں کی نسبت یہ لفظ استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا 25 مومن بندے ہمیں عجز اور انکسار کے ساتھ پکارتے ہیں کیونکہ اُن کے دلوں میں ہماری شدید محبت ہوتی ہے.یہاں اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ نہ صرف یہ کہ انسان خدا تعالیٰ کا محب ہو سکتا ہے بلکہ دنیا میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے.اور وہ ایسے مقام پر کھڑے ہیں کہ عجز اور انکسار کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے ہوتے ہیں.اسی طرح مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ وہ یہ کہا کرتے ہیں کہ إِنَّا إِلَى اللهِ دُغِبُونَ 20 ہم اللہ تعالیٰ کی طرف راغب ہیں.پہلے تھی خدا کی گواہی کہ دنیا میں میرے ایسے بندے موجود ہیں جن کے دلوں میں میری محبت ہے اور محبت بھی تیز اور محبت بھی معرفت والی اور عجز اور انکسار والی.اب فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب انہیں کہا جائے کہ تم کون ہو ؟ تو وہ دھڑتے سے چیلنج کرتے ہیں لوگوں کو ، اور کہتے ہیں کہ ہم خدا سے محبت کرنے والے ہیں.جب لوگ اُن کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تمہیں دنیا میں مال دیں گے.بڑی بڑی نعمتیں دیں گے تو وہ جواب میں کہتے ہیں تم اپنی چیزوں کو اپنے پاس رکھو ہمارا محبوب تو وہ بیٹھا ہے.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کا دعویٰ کرنا گستاخی اور بے ادبی ہے.حالانکہ یہ خیال مذہب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص حافظ محمد صاحب پشاور کے رہنے والے تھے.قرآن کریم کے حافظ تھے اور سخت جو شیلے احمدی تھے.میرا خیال ہے وہ اہلحدیث رہ چکے تھے کیونکہ اُن کے خیالات میں بہت زیادہ سختی پائی جاتی تھی.وہ ایک دفعہ جلسہ پر آئے ہوئے تھے اور قادیان سے واپس جارہے تھے کہ راستہ میں خدا تعالیٰ کی خشیت کی باتیں شروع ہو گئیں.کسی شخص نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کی شان تو بہت بڑی ہے ہم لوگ تو بالکل ذلیل اور حقیر ہیں پتہ نہیں کہ خدا
انوار العلوم جلد 23 145 تعلق باللہ ہماری نماز بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہمارے روزے بھی قبول کرتا ہے یا نہیں، ہماری زکوۃ اور حج بھی قبول کرتا ہے یا نہیں.اس پر ایک دوسرا شخص بولا کہ اللہ تعالیٰ کی بڑی شان ہے میں تو کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میں مومن بھی ہوں یا نہیں.حافظ محمد صاحب ایک کونہ میں بیٹھے ہوئے تھے وہ یہ باتیں سنتے ہی اُس شخص سے مخاطب ہوئے اور کہنے لگے تم اپنے آپ کو کیا سمجھتے ہو ؟ کیا یہ سمجھتے ہو کہ تم مومن ہو یا نہیں ؟ اس نے کہا میں تو یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ میں مومن ہوں یا نہیں.حافظ محمد صاحب کہنے لگے اچھا اگر یہ بات ہے تو آج سے میں نے تمہارے پیچھے نماز نہیں پڑھنی.باقیوں نے کہا حافظ صاحب! اس کی بات ٹھیک ہے ایمان کا مقام تو بہت ہی بلند ہے.کہنے لگے اچھا پھر تم سب کے پیچھے نماز بند.جب تم اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے تو تمہارے پیچھے نماز کس طرح ہو سکتی ہے.غرض دوست پشاور پہنچے اور حافظ صاحب نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنی چھوڑ دی.جب پوچھا گیا تو اُنہوں نے کہا کہ تم تو اپنے آپ کو مومن ہی نہیں سمجھتے میں تمہارے پیچھے نماز کس طرح پڑھوں.آخر جب فساد بڑھا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.حافظ صاحب ٹھیک کہتے ہیں مگر یہ اُن کی غلطی تھی کہ اُنہوں نے اُن لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی ہی چھوڑ دی کیونکہ انہوں نے کفر نہیں کیا تھا لیکن بات ٹھیک ہے.ہماری جماعت کے دوستوں کا فرض تھا کہ وہ اپنے آپ پر حسن ظنی کرتے.جہاں تک کوشش کا سوال ہے انسان کا فرض ہے کہ وہ اپنی کوشش جاری رکھے اور نیکیوں میں بڑھنے کی کوشش کرے.مگر یہ کہ مومن ہونے سے ہی انکار کر دے یہ غلط طریق ہے.پس مسئلہ اُن کا ٹھیک ہے لیکن فعل اُن کا غلط ہے.انہیں اپنے دوستوں کے پیچھے نماز نہیں چھوڑنی چاہیے تھی.صوفیاء نے بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ جانتے بوجھتے ہوئے یہ کہتا ہے کہ میں اپنے نفس کو ٹولتا ہوں تو مجھے نظر نہیں آتا کہ اُس میں ایمان پایا جاتا ہے تو وہ کافر ہو جاتا ہے.یہی حقیقت اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ مومن کہتے ہیں إِنَّا إِلَى اللهِ دُغِبُونَ.ہم خدا تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہیں.پس مومنوں کو سب
انوار العلوم جلد 23 146 تعلق باللہ سے پہلے اپنے آپ پر اعتبار کرنا چاہئے.یہ اور بات ہے کہ وہ اپنے نفس میں کمزوریاں محسوس کریں اور سمجھیں کہ ابھی اُنہیں اور زیادہ ترقی کی ضرورت ہے مگر اس کا علاج یہ ہے کہ وہ اپنے نفس کو بدلیں.اُس کی اصلاح کریں اور کمزوریوں پر غالب آنے کی کوشش کریں.اسی طرح دوسروں سے بھی کہیں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں مزید ترقیات عطا فرمائے اور ہماری کمزوریوں پر پردہ ڈالے لیکن جب واقع میں اُن کی سمجھ میں آگیا کہ خدا تعالیٰ ہے اور اُس کے احکام پر عمل کرنا اُن کا فرض ہے تو اُن کے مؤمن ہونے میں کیا شبہ رہا.اسی طرح سورۃ قلم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مؤمن کہتے ہیں إِنَّا إِلى رَبَّنَا دغِبُونَ 27 ہم تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہی رغبت رکھتے ہیں.مفردات راغب میں جو قرآن کریم کی ایک پرانی لغت کی کتاب ہے علامہ اصفہانی لکھتے ہیں کہ أَصْلُ الرَّغْبَةِ السَّعَةُ فِي الشَّيْء.28 یعنی رغبت کے اصل معنی کسی چیز میں وسعت پیدا ہو جانے کے ہیں يُقَالُ رَغْبَ الشَّيْءُ اتَّسَعَ.29 عرب کہتے ہیں فلاں چیز رغیب ہو گئی یعنی فلاں چیز بہت وسیع ہو گئی 20 اور کہتے ہیں حوض رغیب 21 فلاں حوض بڑا وسیع ہے اور کہتے ہیں فَرَسَ رَغِیب الْعَدَدِ فلاں گھوڑا بڑے لمبے قدم مار کر چلتا ہے.گویا عربی میں رغبت کے اصل معنی وسعت کے ہیں.پھر کہتے ہیں اَلرَّغْبَةُ السَّعَةُ فِي الْإِرَادَةِ 32 ارادہ کی وسعت پر بھی رغبت کا لفظ بولا جاتا ہے اور رَغِبَ فِيْهِ وَإِلَيْهِ کے معنی ہیں يَقْتَضِي الْحِرْصَ عَلَيْهِ 33 وہ شدتِ حرص کے ساتھ اس چیز کو طلب کرتا ہے.گویا کسی چیز کی طلب کی وسعت اور اس کے حصول کے لئے خواہش کی شدت کو رغبت کہا جاتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی رغبت کے معنی یہ ہیں کہ اس کے ملنے کی زبر دست اور وسیع خواہش انسان کے دل میں پید ا ہو جائے.35 دوسر الفظ انس ہے.اَئِسَ يَأْنَسُ کے معنی ہوتے ہیں اَلفَه 34 اس چیز سے اُلفت ہو گئ وَ سَكَنَ قَلْبه به 25 اور اُس چیز کے ملنے سے دل کو تسکین ہو گئی گویا اُنس کے معنی ہیں وہ چیز جس کی جستجو تھی مل جائے اور اس کے ملنے سے دل کی گھبراہٹ دور ہو جائے.
انوار العلوم جلد 23 147 تعلق باللہ 36 وَلَمْ يَنْفَرُ مِنْهُ 2 اور جس کے پاس آنے سے وحشت پیدا نہ ہو.جیسے اگر کوئی غیر آکر بیٹھ جائے تو انسان چاہتا ہے کہ وہ جلدی اُٹھ جائے لیکن اگر کوئی بے تکلف دوست آبیٹھے یا بیوی کام کرتے ہوئے آجائے یا بچہ ملنے کے لئے آجائے اور تھوڑی دیر کے بعد جانے لگے تو انسان کہتا ہے کہ ابھی کچھ اور بیٹھو اتنی جلدی کیوں چلے ہو.یہ انس کی علامت ہوتی ہے لیکن جس سے وحشت ہوتی ہے انسان کا دل چاہتا ہے کہ وہ جلدی علیحدہ ہو جائے.اسی لئے لغت میں لکھا ہے.اَلْاُنْسُ ضِدُّ الْوَحْشَةِ 327 انس وحشت کی ضد کو کہتے ہیں.پھر لکھا ہے الْإِنْسَ خِلَافَ الْجِنِّ.28 انس جن کے خلاف اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے.وَالْأَنْسُ خِلَافَ النفور 2 اور انس، نفور کے خلاف چیز ہے.کہتے ہیں مجھے فلاں سے اُنس ہے یعنی مجھے اُس سے نفرت نہیں.وَالْإِنْسِيُّ مَنْسُوبٌ إِلَى الْأُنْسِ يُقَالُ ذُلِكَ لِمَنْ كثر انس اور انسیسٹی کے معنی ہوتے ہیں انسانوں سے تعلق رکھنے والی چیز خصوصاً جس چیز کا زیادہ انس ہو یا جو چیز زیادہ انس کرے اُسے انسی کہتے ہیں.وَلِكُلِّ مَا يُونَسُ بِهِ 41 اور جس کے ساتھ تعلق ہو اُسے بھی انسی کہتے ہیں.وَلِهَذَا قِيلَ انْسِيُّ الدَّابَةِ لِلْجَانِبِ الَّذِي يَلِى الرَّاکب 42 اسی لئے گھوڑے کی وہ جانب جو سوار کی طرف ہو اُسے اِنْسِئُ الدَّابَةِ کہیں گے.مثلاً اس وقت میرے سامنے لاؤڈ سپیکر پڑا ہے اس کا ایک حصہ میری طرف ہے اور دوسرا حصہ آپ لوگوں کی طرف.یہ حصہ میر انسیسی ہے اور وہ حصہ آپ لوگوں کا انسیسی ہے.گویا جو حصہ کسی کی طرف جھکتا ہو اور اس سے ملتا ہو اُسے انسی کہیں گے وَالْإِنْسِيُّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ مَايَلِی الْإِنْسَان 43 اور ہر وہ چیز جس کا انسان کی طرف منہ ہوتا ہے اُسےانسی کہتے ہیں.اس تشریح سے ظاہر ہے کہ جہاں رغبت کے معنی وسعت تعلق کے ہیں وہاں انس کے معنی صرف رغبت کے نہیں بلکہ اس کے یہ بھی معنی ہیں کہ وہ چیز قریب بھی آگئی ہے اور اُس نے اپنا منہ ادھر کر لیا ہے.پس اُنس دل کی تسلی اور قرب پر دلالت کرتا ہے.خالی شوق سے نہ دل کی تسلی ہوتی ہے اور نہ اپنے محبوب کا قرب حاصل ہوتا ہے.اسی طرح رغبت صرف یہ دلالت کرتی تھی کہ مجھے اُس کے ساتھ محبت ہے لیکن انس
انوار العلوم جلد 23 148 تعلق باللہ اور اس پر دلالت کرتا ہے کہ میری محبت نے اُس کا منہ بھی میری طرف پھیر دیا ہے اور چونکہ اُس کا منہ میری طرف ہو گیا ہے اس لئے میرے دل کو تسلی ہو گئی ہے او گھبراہٹ جاتی رہی ہے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جا رہے تھے کہ انہوں نے ایک آگ دیکھی اور اپنے اہل سے کہا کہ اِنِّی أَنَسْتُ نَارًا 44 ایک آگ کو دیکھ کر میرے دل نے تسلی پائی ہے.چونکہ آئس کے اصلی معنی قرب اور تسلی کے ہیں.ایناس دیکھنے اور سننے کے معنوں میں بھی آتا ہے کیونکہ دیکھی اور سنی وہی چیز جاتی ہے جو قریب ہو جاتی ہے.پس انسٹ نارا کے معنی یہ ہیں کہ مجھے آگ کی تلاش تھی اب ایک قسم کی آگ مجھے نظر آئی ہے اور میرے دل کو تسلی ہو گئی ہے کہ میری ضرورت پوری ہو گئی.تيسر الفظ وذ ہے.وڈ اُس محبت کو کہتے ہیں جس کے ساتھ تمنی بھی ہو یعنی صرف محبت ہی نہ ہو بلکہ اُس کے ساتھ تمنی اور خواہش بھی پائی جاتی ہو کہ وہ چیز مجھے مل جائے.گویا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ لو لگ جائے.یہ لفظ و ڈ کی شکل میں بھی استعمال ہوتا ہے ، وڈ کی شکل میں بھی اور وڈ کی شکل میں بھی.اور تینوں شکلوں میں محبت کے معنوں میں ہی آتا ہے.اِس کے معنی محبت کے بھی ہیں اور بہت محبت کے بھی ہیں.اس کے معنوں کی حقیقت اس طرح واضح ہوتی ہے کہ وَ دُ عربی زبان میں وَتَدَ 45 یعنی میخ کو بھی کہتے ہیں.اس وجہ سے کہ اُس کے ذریعہ سے جانور کو زمین کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے.گویاؤ ڈایسی محبت کا نام ہے جو محب اور محبوب دونوں کو اس طرح جوڑ دیتی ہے جیسے کیلا گاڑ کر جانور کو باندھ دیتے ہیں اور وہ زمین کے ساتھ متعلق ہو جاتا ہے.رغبت کے معنی یہ تھے کہ میرے دل میں شوق پیدا ہو گیا ہے اگلے کا پتہ نہیں کہ اُس کے دل میں بھی کوئی شوق پیدا ہوا ہے یا نہیں.انس کے یہ معنی تھے کہ میرے دل میں بھی شوق پیدا ہو گیا ہے اور اگلے کے دل پر بھی میری محبت کا اتنا اثر ہو چکا ہے کہ اُس نے اپنا منہ میری طرف کر لیا ہے اور ڈڈ کے یہ معنی ہیں کہ صرف اُس نے منہ ہی نہیں کیا بلکہ محبت نے ہماری آپس میں گرہ باندھ دی ہے.پس ؤ ذوہ محبت ہے جو گہرا اور مضبوط تعلق پیدا
انوار العلوم جلد 23 149 تعلق باللہ کر دے اور ایک کو دوسرے سے وابستہ کر دے.رغبت اور اُنس کے الفاظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت نہیں آتے.اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جب ملنے کی خواہش کرے گا تو وہ پوری بھی ہو جائے گی اور رغبت کا لفظ خواہش کے پورا ہونے پر دلالت نہیں کرتا.اسی طرح انس کا لفظ بھی اللہ تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہوتا کیونکہ انس کے یہ معنی ہیں کہ محبت ہے اور دیدار بھی ہو گیا لیکن اُسے قریب نہیں لا سکا اور اللہ تعالیٰ کی محبت ایسی ہوتی ہے کہ اس میں بندے کے الگ رہنے کا سوال ہی نہیں ہوتا.جب وہ کسی سے محبت کرتا ہے تو اُسے خود اپنے قرب میں کھینچ لیتا ہے جیسے مقناطیس لوہے کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے.پس چونکہ خدا اپنے مقربین کو خود اپنی طرف کھینچتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کے متعلق انس کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا.انس صرف بندے کے اندر ہوتا ہے.قرآن کریم میں جو کفار کے بتوں کے نام آئے ہیں اُن میں سے ایک بت کا نام و ذ 46 بھی آیا ہے.کیونکہ مشرکین کا خیال تھا کہ اس بُت کا خدا تعالیٰ سے ایسا ہی تعلق ہے جیسے کیلے کا زمین سے ہوتا ہے.اسی طرح مؤمنوں کے متعلق فرماتا ہے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ ودَّا 47 خدا اُن کے لئے و ڈ پیدا کر دے گا قرآن کریم کی یہ خوبی ہے کہ وہ بعض جگہ ایسے الفاظ استعمال کرتا ہے جن کو چکر دے کر کئی کئی مضامین آتے ہیں.یہاں بھی اسی قسم کا طریق اختیار کیا گیا ہے.اس جگہ لھم کا لفظ استعمال کیا گیا ہے جس کے معنی ہیں اُن کے فائدہ کے لئے کیونکہ لام فائدہ کے لئے آتا ہے مگر یہ کہ کس کس امر کے متعلق ڈڈ پیدا کرے گا اسے اللہ تعالیٰ نے مبہم رکھا ہے تا کہ جتنے معانی پیدا ہو سکتے ہوں وہ اس ایک لفظ سے ہی پیدا ہو جائیں.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے ایک تو یہ معنی بنتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے لئے اُن کے دلوں میں وڈ پیدا کرے گا یعنی بنی نوع انسان کی خیر خواہی کا جذبہ اُن کے دلوں میں پیداہو گا اور وہ مخلوق کی ہمدردی اور اُن کی بہتری اور ترقی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اُن کی خدمت میں مشغول ہو جائیں گے.پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی
انوار العلوم جلد 23 150 تعلق باللہ محبت ہو.اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کر دے گا.پھر انسان یہ چاہتا ہے کہ نہ صرف اُس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ہو بلکہ خدا بھی اپنی محبت کا اُسے مورد بنالے اور اُسے اپنے خاص فضلوں میں سے حصہ دے.اس لحاظ سے سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کے یہ معنی ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ اپنے نفس میں اُن کی محبت پیدا کر دے گا اور اُن کو اپنی محبت کا مورد بنالے گا.پھر انسان کو اس امر کی بھی ضرورت ہوتی ہے کہ اُس کے رشتہ داروں اور عزیزوں اور دوستوں میں اُس کی عزت ہو.اسی طرح وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ اپنے شہر اور ملک والوں میں اُسے نیک نامی حاصل ہو.انسان کی اس خواہش کو بھی سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمنُ وُڈا میں پورا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں بھی اُن کی محبت ڈالے گا.گویا ہر پہلو کے لحاظ سے اس محبت کو کامل کیا گیا ہے.انسان چاہتا ہے کہ خدا سے مجھ کو محبت ہو جائے.انسان چاہتا ہے کہ خدا کو اُس سے محبت ہو جائے.انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان اُس سے محبت کرنے لگیں اور انسان چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان کی محبت اُس کے دل میں پیدا ہو جائے اور یہ چاروں محبتیں سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا کی آیت کی رُو سے مومنوں کو حاصل ہوتی ہیں.اگر خدا تعالیٰ ان الفاظ کی بجائے صرف اتنا فرما تا کہ میں اُن سے محبت کروں گا تو ایک معنی تو آ جاتے مگر تین معنی رہ جاتے.اگر یہ فرماتا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کریں گے اور میں بھی اُن سے محبت کروں گا تو دو معنی آجاتے اور دورہ جاتے.اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت دوں گا تو ایک معنی آ جاتے اور تین رہ جاتے.اگر فرماتا کہ میں اُنہیں نیک شہرت بھی دوں گا، اُن کے دلوں میں اپنی محبت بھی پیدا کروں گا اور اپنی محبت کا بھی انہیں مور د بناؤں گا تب بھی تین معنی آجاتے اور چوتھے معنی جو شفقت علی الناس سے تعلق رکھتے ہیں وہ رہ جاتے.اب اللہ تعالیٰ نے آیت ایک رکھی ہے مگر معنی چاروں کے چاروں اس میں آگئے ہیں.یہ معنی بھی اس میں آگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کے دلوں میں اپنی محبت پیدا کرے گا.یہ معنی بھی اس میں
انوار العلوم جلد 23 151 تعلق باللہ آگئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اپنی محبت کا مورد بنائے گا.یہ معنی بھی اس میں آگئے ہیں کہ بنی نوع انسان کے دلوں میں اُن کی محبت پیدا کرے گا اور یہ معنی بھی اس میں آگئے ہیں کہ بنی نوع انسان کی محبت اُن کے دلوں میں پیدا کر دے گا یعنی شفقت علی الناس کے لحاظ سے بھی انہیں ایک نمونہ بنادے گا.گویا وہ دنیا میں بھی مقبول ہوں گے اور آخرت میں بھی مقبول ہوں گے.وہ محبوب ہوں گے بنی نوع انسان کی نگاہ میں اور محبوب ہوں گے خدا تعالیٰ کی نگاہ میں.یہ چار مطالب ایک چھوٹے سے فقرہ میں اللہ تعالیٰ نے ادا کر دیئے ہیں.48% اسی طرح اللہ تعالیٰ کی نسبت قرآن کریم میں آتا ہے اِنَّ رَبِّي رَحِيمٌ وَدُود 18 ميرا رب رحیم اور ودود ہے.یہ یاد رکھنا چاہیے خدا راغب نہیں ہوتا کیونکہ رغبت میں ناقص محبت ہوتی ہے.خدا انیس نہیں ہوتا کیونکہ انیس بھی محبت کے لحاظ سے ناقص ہوتا ہے.خد او دُور ہوتا ہے.ودود کے معنی ہیں بہت محبت کرنے والا.گویا خدا یہ بتاتا ہے کہ میں خالی وَادْ (وَادِدُ) نہیں بلکہ وَدُود ہوں.میں بہت محبت کرنے والا نہیں بلکہ بہت بہت محبت کرنے والا ہوں.پھر سورة بروج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُ 49 خدا بڑا غفور اور وَدُود ہے.جیسا کہ میں نے بتایا ہے راغب اور انیس کا لفظ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوا کیونکہ رغبت اور اُنس کمزور یا معمولی تعلق پر دلالت کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا تعلق کمزور یا معمولی نہیں ہوا کرتا.بندے کا تعلق تو کمزور ہو سکتا ہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا تعالیٰ کا تعلق کمزور ہو جیسے ماں کا تعلق اولاد سے ہمیشہ شدید ہوتا ہے لیکن اولاد ا کثر بے پرواہ ہوتی ہے اور کچھ ہی ہوتے ہیں جو اپنی ماں کا حق ادا کرتے ہیں.بہر حال خدا تعالیٰ کے متعلق رغبت اور انس کے لفظ استعمال نہیں ہوتے.صرف وُڈ کا لفظ استعمال ہوا ہے جو ان دو سے زیادہ طاقتور ہے اور ؤ ذ کا بھی صیغہ فاعل استعمال نہیں ہوا.صیغہ فعول استعمال ہوا ہے جو شدت اور وسعت پر دلالت کرتا ہے.ممکن ہے کوئی کہے کہ جب یہ لفظ ناقص ہیں تو انسان کی نسبت کیوں استعمال
انوار العلوم جلد 23 152 تعلق باللہ ہوتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ انسان خود ناقص ہے اور ناقص محبت کر سکتا ہے بلکہ عام طور پر اُس کے دل میں ناقص صورت میں ہی محبت پیدا ہوتی ہے اس لئے انسان کی نسبت یہ الفاظ استعمال ہو سکتے ہیں لیکن چونکہ خد اتعالیٰ کامل ہے اور وہ جب کرے گا کامل محبت ہی کرے گا اس لئے وہ الفاظ جو ناقص محبت پر دلالت کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی نسبت استعمال نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ سے محبت شروع کرے گا اُس کا پہلا درجہ و ڈ سے شروع ہو گا.یعنی اگر کسی میں خدا تعالیٰ کی طرف رغبت پائی جاتی ہے تو خد اتعالیٰ اُس کی محبت کا جواب رغبت کی شکل میں نہیں بلکہ وڈ کی شکل میں دے گا.اسی طرح اگر کسی شخص میں خدا تعالیٰ کی طرف اُنس پایا جائے گا تو خدا تعالیٰ انس کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب نہیں دے گا بلکہ وُڈ کی شکل میں اُس کی محبت کا جواب دے گا.جیسے ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو اپنی محبت کے اظہار کے طور پر ایک روپیہ دے اور وہ ایک روپیہ کی بجائے چار روپے دے دے.اسی طرح خدا تعالیٰ جب بھی اپنے کسی بندہ کی محبت کا جواب دے گا تو وذہ کی صورت میں دے گا.انسان محبت شروع کرے گا تو رغبت سے شروع کرے گا پھر انس کرے گا اور پھر ؤ ذ کرے گا.لیکن اللہ تعالیٰ جب بھی اپنی محبت کا اظہار شروع کرے گا تو ؤ ں سے شروع کرے گا اور ؤ ذ کی صورت میں واد ہو کر نہیں و دود کی صورت میں محبت کرے گا.انسان کی نسبت جو ؤ ڈکا لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس میں ایک رنگ کی تربیت پائی جاتی ہے یعنی و ذ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے ایسا گہرا تعلق ہو جائے کہ وہ اُس کی چیز کہلانے لگ جائے.جیسے کہتے ہیں کہ یہ فلاں طویلے 50 کی بکری ہے یہ فلاں طویلے کا گھوڑا ہے.ڈذ کا مقام بھی اُس وقت شروع ہوتا ہے جب انسان خدا تعالیٰ کی طرف منسوب ہونے لگے اور جب وہ اُس کی طرف منسوب ہونے لگے تو وہ اس کی تربیت شروع کر دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں تَزَوَجُوا الْوَلَوْ دَ الْوَدُودَ فَإِنِّي مَكَاثِرَ بِكُمْ ك تم ایسی عورتوں سے شادیاں کرو جو بہت بچے جننے والی اور ودُود ہوں.کیوں ایسا کرو؟ آپ فرماتے ہیں کہ اس لئے کہ قیامت کے دن میں دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کروں
انوار العلوم جلد 23 153 تعلق باللہ پیدا گا کہ میری اُمت سب سے زیادہ ہے اور وہ زیادہ تبھی ہو سکتے ہیں.جب عور تیں زیادہ بچے یدا کرنے والی ہوں اور فخر تبھی کر سکتا ہوں جب وہ بچے اعلیٰ اخلاق اور روحانیت والے ہوں.پس تم ولو د عورتوں سے شادیاں کرو جو زیادہ بچے جنیں اور و دو د عورتوں سے شادیاں کرو جو ہر وقت محبت اور پیار سے اولاد کی نگرانی کرنے والیاں ہوں تا کہ قیامت کے دن میں فخر کر سکوں کہ میری اُمت تم سب سے اچھی ہے بلحاظ تعداد افراد کے بھی اور بلحاظ تربیت افراد کے بھی.اس سے معلوم ہوا کہ ودود میں تربیت کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.اگر تربیت کے معنی اس میں نہ پائے جاتے ہوں تو قیامت کے دن دوسری اُمتوں کے مقابلہ میں فخر کی کوئی صورت ہی نہیں رہتی.فخر تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب امت محمدیہ کے افراد کی تعداد بھی زیادہ ہو اور اُن کی تربیت بھی اچھی ہو اور وہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے والے ہوں.غرض ودود کے معنی دائمی محبت سے پر اور گہرا تعلق رکھنے والے کے ہیں جس کا لازمی نتیجہ عمدہ تربیت ہوتی ہے.چو تھا لفظ حب ہے.اصل میں یہ حَبَبَ، يَحْبِبْ ہے جو مد غم ہو کر حَبَ يَحِبُّ ہو گیا.اس کے معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے کے یا اپنے اندر لے لینے کے ہیں.انہی معنوں میں اَحَبَّ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے چونکہ محبت کامل کی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ یہ اُس کے دل میں داخل ہو جائے اور وہ اس کے دل میں داخل ہو جائے.اس لئے اسی کیفیت کے لئے حَبَّ یا اَحَبَّ کا لفظ عربی میں استعمال کیا جانے لگا اور یہ لفظ ود سے زیادہ مضبوط ہے کیونکہ وذمیں صرف ایک وجود کے دوسرے کے اندر گھسنے کا مفہوم ہے جیسا کہ کیلا زمین میں گھس گیا لیکن حَبَ میں دونوں وجودوں کے ایک دوسرے کے اندر گھس جانے کا اشارہ پایا جاتا ہے.نیز اس کے معنوں میں پھولنے اور بڑھنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں گو عربی میں اس کیفیت کے لئے حَبَّ اور اَحَبَّ دونوں لفظ استعمال کرتے ہیں لیکن اسم فاعل کے لئے عام طور پر مُحِب کا لفظ ہی مستعمل ہے جو اَحَبَّ سے بنا ہے.
انوار العلوم جلد 23 154 تعلق باللہ چونکہ حُب کے اصل معنی کسی چیز کے اندر گھس جانے یا اُسے اپنے اندر لے لینے کے ہوتے ہیں اس لئے بلبلہ جو پانی میں اُٹھتا ہے اُسے بھی حباب کہتے ہیں کیونکہ اُس کے اندر ہوا بھری ہوئی ہوتی ہے.گویا پانی جب ہوا کو اپنے اندر لے لیتا ہے تو وہ خباب کہلانے لگتا ہے اور جب اُگنے والے مادہ کو کوئی چھلکا اپنے اندر لے لیتا ہے تو اُسے حب کہتے ہیں کیونکہ پودا اس میں چھپا ہوا ہوتا ہے.اسی طرح حب عربی زبان میں اُس گھڑے کو بھی کہتے ہیں جس میں چیزیں بھرتے ہیں.اب تو ہر جگہ ٹرنکوں وغیرہ کا رواج ہے لیکن پرانے زمانہ میں گھڑوں میں مختلف چیزیں رکھی جاتی تھیں کسی میں شکر ڈال دی جاتی.کسی میں گڑ ڈال دیا جاتا.کسی میں دانے ڈال دیئے جاتے.کسی میں دالیں وغیرہ رکھ لی جاتیں بلکہ بعض زمینداروں کے گھروں میں تو کپڑے بھی گھڑوں میں ہی رکھے ہوئے ہوتے تھے.ایسے گھڑوں کے لئے بھی عربی زبان میں حب کا لفظ استعمال ہوتا ہے یعنی وہ مٹی کے بر تن جن میں عورتیں اپنا سامان رکھتی ہیں.پس جب وہ جذبہ انسان کے اندر پیدا ہو جو دوسرے کو اپنے دل میں لے لے یا آپ اُس میں گھس جائے تو اُسے حُب کہتے ہیں.مشکل یہ ہے کہ اُردو زبان میں اس قسم کا کوئی فرق نہیں کیا گیا.ہماری زبان میں دو ہی لفظ ہیں یا محبت یا عشق.حالانکہ اگر ؤڈ کی جگہ محبت بولو تو غلط ہو گا اور اگر انس کی جگہ محبت کا لفظ بولو تب بھی غلط ہو گا اور اگر رغبت کو محبت کا مترادف قرار دو تب بھی غلط ہو گا کیونکہ عربی زبان کے لحاظ سے جب اُس جذبہ محبت کا نام ہے جس میں انسان کے اس جذبہ کو اتنی تقویت حاصل ہو جائے کہ جس وجود سے وہ محبت کرتا ہے وہ اس کے دل میں گھس جائے اور یہ اس کے دل میں گھس جائے.رغبت کے معنی صرف یہ تھے کہ یہ ادھر جانا چاہتا ہے لیکن ممکن ہے یہ اُدھر جانا چاہے اور وہ مطلوب وجو د اور آگے چلا جائے.انس کے معنی یہ تھے کہ اس نے ایک وجود کی طرف توجہ کی اور اُس پر بھی اثر ہوا اور وہ اس کی طرف مڑا.لیکن ابھی دونوں قریب نہیں آئے بلکہ جیسے ہم سورج کو دیکھ رہے ہوتے ہیں یا قطب کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اسی طرح وہ آمنے سامنے ہو گئے ہیں.پھر ؤڈ کا مقام آیا اس مقام میں یہ اُس کے اندر اور وہ اس کے اندر نہیں گھسا لیکن اس کا اُس کے ساتھ
انوار العلوم جلد 23 155 تعلق باللہ ایک واسطہ ہو گیا جیسے کیلا زمین میں گاڑ کر گھوڑے کو اُس کے ساتھ باندھ دیا جائے تو گھوڑا زمین میں نہیں گھستانہ زمین گھوڑے میں گھستی ہے لیکن کیلے کے واسطہ سے اُس کا زمین کے ساتھ تعلق ہو جاتا ہے.اِس کے بعد حُبّ کا مقام آتا ہے.وڈ میں ایک واسطہ ور تعلق تو ہو چکا تھا لیکن ابھی وہ دُور دُور تھے جب کے مقام پر پہنچ کر یہ اُس وجود میں گھس گیا اور وہ وجود اِس میں گھس گیا.دوسرے محبت اُس تعلق کو کہتے ہیں جو نتیجہ خیز ہو اور ایک کھیتی پیدا کر دے کیونکہ حب کے معنی اُس پیج کے ہوتے ہیں جس سے بڑے بڑے درخت اور کھیتیاں پیدا ہو جائیں گویا محبت حقیقی بھی وہی ہے جو دانے کی طرح ہو.جس طرح دانے سے درخت پید اہو جاتے ہیں اسی طرح محبت بھی اپنے پھل پیدا کئے بغیر نہیں رہتی.گویا یوں کہو کہ بندے اور خدا کا تعلق ایسا ہوتا ہے جیسے مرد اور عورت کا ہوتا ہے.جب انسان محبت کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اُس کی روحانی نسل دنیا میں پھیلنی شروع ہو جاتی ہے اور لوگ اُس پر ایمان لانا شروع کر دیتے ہیں.یہ لفظ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت بھی آتا ہے اور مومنوں کی نسبت بھی آتا ہے جس طرح وڈ کا لفظ بھی دونوں کے متعلق استعمال ہوا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَ 52 اے مومنو! تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے گا.فَسَوْفَ يَأْتِيَ اللهُ بِقَوْمٍ تو اس کے بعد اللہ تعالیٰ ضرور کسی دوسری قوم کے افراد کو آگے لے آئے گا.تُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةَ الله تعالیٰ اُن سے محبت کرے گا اور وہ خدا سے محبت کریں گے.پس یہ کہنا بھی درست ہے کہ فلاں شخص خدا سے محبت کرتا ہے اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ فلاں سے خدا محبت کرتا ہے کیونکہ مذکورہ بالا مومنوں کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ خدا سے محبت کریں گے اور خدا اُن سے محبت کرے گا.اسی طرح فرماتا ہے وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْدَادًا يُحِبُّونَهُم كَحُتِ اللهِ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلهِ - 53 یعنی دنیا میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بعض
انوار العلوم جلد 23 156 تعلق باللہ غیر از خد اوجو دوں کو اللہ تعالیٰ کے برابر مانتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کے ان شریکوں سے ویسی ہی محبت کرتے ہیں جیسی کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنی چاہیے لیکن مومنوں کی جماعت سب چیزوں سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتی ہے.اس آیت میں یہ بھی بتا دیا کہ ایسے مومن لوگ في الواقع موجود ہیں جو خدا تعالیٰ سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں.پہلی آیت میں یہ مضمون تھا کہ خدا تعالیٰ ایک ایسی قوم کو آگے لے آئے گا جو خدا تعالیٰ ، محبت کرنے والی ہو گی اور خدا تعالیٰ اُس سے محبت کرنے والا ہو گا اور ہو سکتا تھا کہ کوئی شخص یہ بات سُن کر کہہ دے کہ یہ تو ایک خیالی بات ہے مرتد ہونے والے مرتد ہو گئے اور اب اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے یہ کہا جا رہا ہے کہ اُن کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک قوم کو ہماری طرف لے آئے گا.پس چونکہ لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ یہ ایک خیالی بات ہے ہم اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں اس لئے اسی آیت میں موجودہ مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ کافر و مشرک تو خدا تعالیٰ کے شریک قرار دے کر اُن سے ایسی محبت کرتے ہیں جیسی خدا سے کرنی چاہیے لیکن ہمارے مؤمن بندے ایسے ہیں جو فی الواقع سب سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں.واقعات سے بھی ثابت ہے کہ صحابہ میں ایسے لوگ موجود تھے جو تمام دوسری چیزوں سے زیادہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے تھے.اسی طرح فرماتا ہے قُلْ اِن كَانَ أبوكُم وَابْنَاؤُكُم وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَونَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا اَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ ۖ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ 54 کہہ دے اگر تمہارے باپ دادے اور تمہارے بیٹے اور تمہاری بیٹیاں اور تمہارے بھائی اور تمہاری بہنیں اور تمہاری بیویاں یا تمہارے خاوند اور تمہارے قبیلہ کے لوگ اور تمہاری قوم کے لوگ اور تمہارے مال جو تم محنت سے کماتے ہو اور تمہاری تجارتیں جو خطرہ کی حالت میں ہوتی ہیں اور اگر تم ذرا بھی توجہ ہٹاؤ تو اُن تجارتوں کے تباہ ہونے کا خطرہ ہوتا ہے ( تاجر پر بعض دن ایسے آتے ہیں کہ اگر وہ سارا کام نوکروں پر چھوڑ کر کہیں باہر چلا جائے یا ذرا بھی غفلت سے کام لے تو ساری تجارت
انوار العلوم جلد 23 157 تعلق باللہ تباہ ہو جاتی ہے) اور وہ مکان جو تم کو بہت بھاتے ہیں تم کو خدا اور اُس کے رسول سے زیادہ پسند ہیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ آجائے اور یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ فاسق قوم کو کبھی کامیاب نہیں کرتا.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صحابہ کی جماعت عملاً خد اتعالیٰ سے محبت کرنے والی تھی اور محبت بھی ایسی کامل رکھتی تھی کہ اُس کے مقابلہ میں نہ ماں باپ کی محبت ٹھہرتی تھی اور نہ بیٹوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بھائیوں کی محبت ٹھہرتی تھی، نہ بیویوں کی محبت ٹھہر تی تھی، نہ قبیلہ اور قوم کی محبت ٹھہرتی تھی ، نہ مال اور تجارت کی محبت ٹھہر تی تھی اور نہ جائدادوں اور مکانوں کی محبت ٹھہرتی تھی.حدیثوں میں آتا ہے لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُوْلُهُ اَحَبَّ اِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا کوئی تم میں سے ایمان والا نہیں کہلا سکتا جب تک کہ اللہ اور اُس کار سول اُس کو باقی سب چیزوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے.اسی طرح بعض اور حدیثوں میں آتا ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! میں آپ سے بڑی محبت کرتا ہوں.آپ نے فرمایا کتنی؟ اس نے کہا جتنی مجھے اپنے بچوں سے محبت ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تم مومن نہیں ہو سکتے.ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے.اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آپ سے اپنی جان جتنی محبت رکھتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب بھی تم مومن نہیں ہو سکتے کیونکہ ایمان کے لئے اس سے زیادہ محبت کی ضرورت ہے.اُس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آپ سے اپنی جان اور اپنے مال اور اپنے بیوی بچوں سے بھی زیادہ محبت رکھتا ہوں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اب تم مومن ہو.حقیقت تو یہ ہے کہ اگر ایمان اور کفر کو جانے دو تو محبت خالص خود بھی اپنی ذات میں ایک مذہب ہے قطع نظر اس سے کہ وہ کس کی طرف منسوب ہو تا ہے اور کسے پسند کرتا ہے.اس وقت ساری دنیا میں ناول پڑھے جاتے ہیں اور ناولوں میں بالعموم یہی عشق و محبت کے ہی قصے ہوتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں یوسف زلیخا کا قصہ مشہور ہے اور بڑے مزے سے پڑھا جاتا ہے.لیلیٰ مجنوں کے قصے بڑے شوق سے سنے جاتے ہیں
انوار العلوم جلد 23 158 تعلق باللہ حالانکہ مجنوں کون تھا؟ عرب کا ایک بدو تھا اور لیلی عرب کی ایک عورت تھی جو ممکن ہے ہماری نوکرانیوں سے بھی گھٹیا قسم کی ہو لیکن اس لئے کہ مجنوں کو اُس سے عشق ہو گیا ساری دنیا لیلی مجنوں کے قصوں کو بڑے شوق سے پڑھتی ہے حالانکہ فلسفیانہ طور پر اگر غور کیا جائے تو اس میں کوئی عجوبہ نہیں پایا جاتا.چنانچہ ایک فلسفی نے عشق کی حقیقت اسی طرح ھیچی ہے کہ یوسف اور زلیخا کا قصہ کیا ہے بس یہی کہ ایک عورت مرد کے لئے لٹو ہو گئی لیکن واقعہ یہ ہے کہ خواہ فلسفیانہ رنگ میں کچھ کہا جائے عشقیہ کتابیں ہر جگہ پسند کی جاتی ہیں اور بڑے شوق کے ساتھ اُن کو خریدا جاتا ہے.ہمارے ملک میں ہی نہیں یورپ اور امریکہ میں بھی ان کتابوں کی بڑی قدر ہے.اسی طرح بڑے بڑے بادشاہوں کے حالات زندگی دیکھے جائیں تو وہ بھی ان چیزوں کے دلدادہ نظر آتے ہیں.نپولین کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو.روس کے بادشاہ پیٹر کے واقعات پڑھ کر دیکھ لو.اسی طرح بڑے بڑے جرنیلوں کے حالات پڑھ کر دیکھ لو تمہیں یہی معلوم ہو گا کہ وہ اسی قسم کی کتابوں کو بڑا پسند کرتے تھے بلکہ بعض جرنیل لڑائی کے لئے جاتے تو اپنے ساتھ ایسی کتابیں رکھ لیتے جو عشق و محبت کے افسانوں پر مشتمل ہوتی تھیں.تو عشق ایسی حسین چیز ہے کہ خواہ ادنی مخلوق سے ہو تب بھی وہ پیارا لگتا ہے.پھر اگر خدا سے عشق ہو تو تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ کتنا پیارا لگے گا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کماذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدَةً لَمْ يَضُرَّهُ ذَنْب 56 کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے سے محبت کرے (اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ نہ صرف بندہ خدا سے محبت کرتا ہے بلکہ خدا بھی بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے) تو کوئی گناہ اُسے ضرر نہیں پہنچاتا.اب اس کے یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ کوئی گناہ اُس سے سرزد نہیں ہو سکتا اور یہ معنی بھی ہو سکتے تھے کہ گناہ تو اُس سے سرزد ہوتا ہے لیکن وہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا.پہلے معنی اِس حدیث کے اس لئے نہیں ہو سکتے کہ یہاں ذنب کا لفظ ہے جس کا صدور ہر انسان کے لئے ممکن ہے.پس ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے محبت کرنے لگ جائے تو اُس سے ذنب سر زد ہی نہیں ہو سکتے.
انوار العلوم جلد 23 159 تعلق باللہ ہم اگر معنی کر سکتے ہیں تو یہی کہ ذنب تو اس سے صادر ہو سکتا ہے لیکن وہ اسے نقصان نہیں پہنچاتا.ذنب کا لفظ گناہ کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اور بشری کمزوری کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے.پس یہ مراد نہیں کہ ذنب اُس سے صادر ہی نہیں ہو سکتا.بلکہ مراد یہ ہے کہ اگر ذنب اُس سے صادر ہو جائے تو اُسے نقصان نہیں پہنچاتا.اگر گناہ کے معنی کئے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ ایسے انسان کو کھلی چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جو مرضی ہے کرے.خواہ ڈا کہ مارے، خواہ چوری کرے، خواہ بد کاری کرے، خواہ جھوٹ بولے لیکن یہ اسلام کی تعلیم کے خلاف ہے.دوسرے معنی اس کے یہ ہو سکتے ہیں کہ اگر وہ گناہ کرے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندہ کو جھٹ توبہ کی توفیق دے دیتا ہے اور اس طرح گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچا سکتا اور یہی اس کے حقیقی معنی ہیں.چنانچہ اس حدیث کے اگلے ٹکڑہ میں اس کی وضاحت آ جاتی ہے چنانچہ مذکورہ بالا عبارت کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اَلتَائِبُ مِنَ الذَّنْبِ كَمَنْ لا ذَنْبَ لَهُ 57 یعنی اُسے گناہ سے نقصان اس لئے نہیں ہوتا کہ وہ ضرور تو بہ کر لیتا ہے اور جو گناہ سے توبہ کرلے وہ ایسا ہی ہے کہ جیسے اُس نے گناہ کیا ہی نہیں.غرض اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ مومن کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جب خدا اُس سے پیار کرنے لگ جائے تو اُس کا کوئی گناہ اُسے نقصان نہیں پہنچاتا.یہ معنی نہیں کہ وہ کوئی ادنی غلطی بھی نہیں کرتا.یہ معنی بھی نہیں کہ وہ کوئی بڑی غلطی نہیں کرتا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اُس کو ایسی خشیت کے مقام پر لے جاتا ہے کہ ادھر وہ غلطی کرتا ہے اور اُدھر اللہ تعالیٰ اُسے توبہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے اور وہ گناہ اُسے معاف ہو جاتا ہے.یہی آدم کے قصہ کی حقیقت ہے کہ وہ بھول گیا تھا.جیسا کہ قرآن کریم میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نَسی 58 آدم بھول گیا اور اُس سے غلطی سرزد ہو گئی.اس کے بعد وہ گھبر ایا تو ہم نے کہا گھبراتے کیوں ہو دعا کرو ہم تمہیں معاف کر دیں گے.چنانچہ آپ ہی اُسے دعا سکھلائی اور پھر اُسی دعا کے کرنے پر انہیں معاف کر دیا.چنانچہ فرماتا ہے فَتَلَقَّى آدَمَ مِنْ رَبِّهِ كَلِمَتِ 59 اس پر آدم نے اپنے رب سے کچھ دعائیں سیکھیں فَتَابَ عَلَيْهِ 60 جن کے مانگنے پر اللہ تعالیٰ نے اُسے
انوار العلوم جلد 23 160 تعلق باللہ معاف کر دیا.غرض محبت کا تعلق بندہ اور اللہ تعالیٰ میں دونوں طرف سے ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی بندے سے محبت کرتا ہے اور بندہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہے.اس سے اُوپر خُلّة کا مقام ہے.خُلّة کا لفظ خلل سے نکلا ہے اور یہ لفظ ہمارے ملک میں عام طور پر استعمال ہوتا ہے.کہتے ہیں ہمارے دماغ میں خلل ہے.ہمارے ملک میں خلل ہے.ہماری جماعت میں خلل ہے لیکن لوگ سمجھتے نہیں کہ اس کے معنی کیا ہیں.لغت کے لحاظ سے اُس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے ہوتے ہیں اور یہ ضد کے طور پر استعمال ہوتا ہے.بعض لفظ عربی زبان میں ایسے ہیں جو ایک معنی ہی نہیں دیتے بلکہ اُس کے اُلٹ معنی بھی دے دیتے ہیں یعنی اُسی میں شر کے معنی شامل ہوں گے اور اُسی میں خیر کے معنی بھی شامل ہوں گے.اسی میں فاصلہ کے معنی شامل ہوں گے اور اسی میں قرب کے معنی شامل ہوں گے.اسی قسم کا یہ لفظ بھی ہے جس کے معنی سوراخ اور فاصلہ کے بھی ہیں اور ایسی محبت اور دوستی کے بھی ہیں جس میں کوئی خلل نہ ہو.گویا خُلة کے معنی اس محبت کے ہیں جو تمام اختلافات کو دور کر دے اور جذبات اور خیالات میں بیجہتی پیدا کر دے.یہ معنی تو اقرب الموارد والے نے کئے ہیں لیکن مفردات والا کہتا ہے کہ خلل کے معنی شگاف کے ہیں اور جسم کے شگاف اُس کے مسام اور سوراخ ہیں جن سے پسینہ نکلتا اور زہریلے مواد خارج ہوتے رہتے ہیں اور مساموں کے راستہ ہی باہر کی کئی چیزیں جسم میں داخل ہوتی رہتی ہیں.پس خُلة کے معنی یہ ہیں کہ ایسی محبت جو خلل کے اندر گھس جائے یعنی خالی دل ہی میں نہ گھسے بلکہ جسم کے سوراخ سوراخ میں داخل ہو جائے اور پھیل جائے.محبت اُس کو کہتے ہیں جو صرف ایک مقام یعنی دل میں داخل ہو جائے لیکن خُلة اُس دوستی کو کہتے ہیں جو جسم کے تمام مساموں میں داخل ہو جائے اور کوئی حصہ بدن بھی اُس سے خالی نہ ہو.نہ ہاتھ اُس سے خالی ہوں نہ پاؤں اُس سے خالی ہوں نہ کان اُس سے خالی ہوں نہ آنکھ اُس سے خالی ہو نہ دل اُس سے خالی ہو نہ دماغ اُس سے خالی ہو.گویا وہ انسانی جسم اور روح اور دل اور دماغ پر اتنی حاوی ہو جائے کہ ہاتھ ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں.پاؤں ہوں تو وہ محبوب کا وجود بنے ہوئے ہوں
انوار العلوم جلد 23 161 تعلق باللہ اور غیریت کا سوال ہی باقی نہ رہے.جب باہر سے حکم لاتی ہے لیکن خُلة باہر سے نہیں بلکہ نیچرل اور طبعی طور پر کام کرتی ہے.یہ معنی جو مفردات والوں نے کئے ہیں زیادہ اجتھے اور زیادہ صحیح ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَاتَّخَذَ اللَّهُ إِبْرَاهِيمَ خَلِيلًا ابراہیم کو اللہ تعالیٰ نے خلیل بنایا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی وفات کی خبر آئی تو آپ نے صحابہ کو جمع کیا اور اُن میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ خدا کا ایک بندہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے کہا کہ اے میرے بندے! اگر تو چاہے تو میں تجھے اپنے پاس بلالوں اور اگر تو دنیا میں اور رہنا چاہے تو میں تیری عمر کو اور لمبا کر دوں.اُس بندے نے کہا اے میرے خدا! میں دنیا میں نہیں رہنا چاہتا تو مجھے پاس ہی بلالے.صحابہ نے یہ بات سنی تو انہوں نے سمجھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال دی ہے اور وہ دل میں خوش ہوئے کہ آج ہمیں ایک بڑا اچھا نکتہ ملا ہے.مگر حضرت ابو بکر یہ سنتے ہی رونے لگ گئے اور اتنے روئے اتنے روئے کہ اُن کی ہچکیاں بندھ گئیں.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے لوگو! ابو بکر مجھے اتنا پیارا ہے کہ اگر خدا کے سوا میں کسی اور کو خلیل بنا سکتا تو ابو بکر کو بنالیتا.22 معلوم ہوا کہ اسلام میں کسی انسان سے محبت کرنا تو جائز ہے لیکن خلۃ صرف خد اتعالیٰ کے لئے جائز ہے.گو استعارہ کے طور پر انسانوں کیلئے بھی کبھی کبھی بول لیتے ہیں.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بہت بعد میں اسلام لائے تھے مگر انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننے کا بہت شوق تھا اور اسی وجہ سے انہوں نے ہزاروں حدیثیں بیان کی ہیں مگر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اُن کی درایت ایسی اعلیٰ نہیں تھی وہ ہمیشہ نئے آنے والوں پر جب اپنے فخر کا اظہار کیا کرتے تو کہا کرتے تھے کہ خلیلی نے یہ فرمایا ہے.خلیلی نے یہ فرمایا ہے اور مراد یہ ہوا کرتی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا ہے.گویا اپنا تعلق جتانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بعض دفعہ خلیل کا لفظ استعمال کر لیا کرتے تھے.
انوار العلوم جلد 23 162 تعلق باللہ حضرت ابن عباس ایک دفعہ کہیں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اِسی طرح کہنا شروع کیا خلیلی نے یوں کہا ہے.حضرت ابن عباس نے سنا تو انہیں برا معلوم ہوا اور اُنہوں نے ڈانٹا کہ تم یہ کیا کہہ رہے ہو کیا ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں نہیں تھے اور کیا ہم دیکھا نہیں کرتے تھے کہ تمہارار سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتنا تعلق تھا؟ معلوم ہوتا ہے جوش میں حضرت ابو ہریرہ اس طرح کہ لیتے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ صرف خدا اور بندے کے انتہائی تعلق پر ہی خُلۃ کا لفظ بولا جاسکتا ہے.اگر اس لفظ کو کسی اور مفہوم یا مقام پر استعمال کیا جائے گا تو وہ بہر حال استعارہ کہلائے گا.پس خُلہ کا لفظ مقامات محبت میں سب سے بلند ہے چونکہ عام لفظ محبت ہے ہم اُسی کو آسانی کے ساتھ استعمال کر لیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محبت کے مختلف درجے ہیں.(۱) رغبت (۲)انس (۳) وذ (۴) محبت (۵) خُلة.اور یہ پانچوں درجے وہ ہیں جن کا قرآن کریم سے ثبوت ملتا ہے.محبت کے اظہار کے لئے الفاظ تو بعض اور بھی ہیں مگر وہ لمبے فقروں میں استعمال ہوئے ہیں اس لئے میں نے اُن کو چھوڑ دیا ہے اور دو لفظ ایسے ہیں جن کو میں نے لیا ہی نہیں یعنی شوق اور عشق.ان پانچ الفاظ میں دو تو صرف بندوں کی محبت کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور تین ایسے ہیں جو بندے اور خدا دونوں میں شریک ہیں یعنی بندے کے خدا تعلق پر بھی استعمال ہوتے ہیں اور خدا کے بندے سے تعلق پر بھی استعمال ہوتے یہ جو میں نے کہا تھا کہ عشق کے معنی ہلاکت کے ہیں اور اسی لئے اللہ تعالیٰ کی محبت کے متعلق قرآن کریم یا احادیث میں یہ لفظ استعمال نہیں کیا گیا اس کا حدیثوں سے بھی ثبوت ملتا ہے.چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا مَنْ عَشِقَ فَعَفَ ثُمَّ مَاتَ مَاتَ شَھیدا 3 یعنی اگر کسی شخص کو عشق ہو جائے اور پھر وہ اپنا تقویٰ قائم رکھے اور مر جائے تو وہ شہید ہوتا ہے.اس سے پتہ لگا کہ عشق کا لفظ صرف شہوت یا ایسی مفرط محبت کے لئے استعمال ہوتا ہے جو صحت کو برباد کر
انوار العلوم جلد 23 163 تعلق باللہ دیتی اور دماغ کو ناکارہ بنا دیتی ہے.اگر خدا تعالیٰ کی محبت کو عشق کہا جا سکتا ہے تو پھر اس سے روکنے کے کیا معنی تھے.ایسی ہی روایت ابن عساکر نے بھی ابن عباس سے کی ہے.پس معلوم ہوا کہ محبت جسمانی جو انتہاء کو پہنچ جائے اور جب صبر بظاہر ناممکن ہو جائے تو اُس کے مفہوم میں عشق کا لفظ استعمال ہوتا ہے اور چونکہ یہ بُرے معنوں میں استعمال ہونے لگا ہے یعنی شہوت یا ایسی مفرط محبت کے معنوں میں جو دماغ کو خراب کر دیتی ہے اور اسلام ایسے کسی فعل کو پسند نہیں کرتا خواہ خدا تعالیٰ ہی کے متعلق ہو.اس لئے گو عشق بھی محبت کے معنی رکھتا ہے مگر یہ لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے کسی صحیح حدیث یا قرآن میں نہیں آیا.اللہ تعالیٰ اور مومنوں کے متعلق قرآن یا حدیث میں صرف (۱) رغبت (۲) انس (۳) وذ (۴) محبت اور (۵) خُلة کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.پہلے دو صرف ایسی محبت کی نسبت استعمال ہوتے ہیں جو انسان کو اللہ تعالیٰ سے ہوتی ہے اور دوسرے تین اُس محبت کے متعلق استعمال ہوئے ہیں جو دونوں طرف سے ممکن ہے اور ہوتی ہے.رغبت اور انس کے لفظ اللہ تعالیٰ کے لئے استعمال نہیں ہوئے کہ اوّل یہ ادنیٰ درجہ کی محبتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کی محبت ادنیٰ نہیں ہو سکتی.دوسرے اس لئے کہ دونوں میں دوری سے نزدیکی اور وحشت سے قرب کے معنی پائے جاتے ہیں اور یہ باتیں انسان میں تو ہوتی ہیں کہ وہ پہلے دور ہوتا ہے اور پھر نزدیک ہونے کی خواہش کرتا ہے یا پہلے وحشت رکھتا ہے اور پھر قرب کا کوئی موقع مل جائے تو اُسے سکون محسوس ہوتا ہے اور وہ بار بار اس کی خواہش کرتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ ایسا صرف انسان سے ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے شایانِ شان نہیں کیونکہ وہ انسان کی ہر حالت سے ہر وقت واقف ہے اور اُس کی طرف جانے کی خواہش یا اُس سے کسی وقت ملاقات کے نتیجہ میں اُس سے سکون کا حصول اُس کی شان اور درجہ کے منافی ہے.پس بندے کی محبت ، رغبت اور انس سے ترقی کرنا شروع کرتی ہے اور ڈڈ کے مقام پر خدا تعالیٰ کی محبت میں مدغم ہو جاتی ہے اور پھر دونوں محبتیں مل کر خلة کے مقام پر ختم ہو جاتی ہیں.فرق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر مقام پر بندے سے اونچا ہوتا ہے.ایک وقت ایسا ہوتا ہے کہ انسان راغب ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَ دُود.انسان
انوار العلوم جلد 23 ، 164 تعلق باللہ انیس ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ وَ دُود.پھر وہ وقت آتا ہے کہ یہ وادِڈ ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے لئے و دود ہو جاتا ہے جو وادِ ذ سے زیادہ شدید ہے.اِس کے بعد یہ محب ہو جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کی محبت پھر بھی اِس کی محبت پر فائق رہتی ہے.بظاہر چونکہ لفظ ایک ہے اس لئے بادی النظر میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ جس طرح بندہ محبت کرتا ہے اسی طرح شاید خدا تعالیٰ بھی اپنے بندے سے محبت کرتا ہو گا.حالانکہ یہ درست نہیں محبت کی بھی کئی قسمیں ہوتی ہیں جیسے ماں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، باپ کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے، بیوی بچوں کی محبت اور قسم کی ہوتی ہے.پس یہ غلط ہے کہ بندہ کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت ایک جیسی ہے.بندہ جب مقامات محبت میں ترقی کرتے کرتے مُحب ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے لئے اَحَبُّ مِنَ الأم ہو جاتا ہے یعنی ماں سے بھی زیادہ اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور اس کا ثبوت ہمیں ایک حدیث سے ملتا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ قَدِمَ عَلَى رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبِى فَإِذَا امْرَأَةً مِنَ السَّبِي تَبْتَغِي إِذَا وَجَدَتْ صَبِيَّا فِي السَّبِي أَخَذَتْهُ فَالْصَقَتْهُ بِبَطَنِهَا وَاَرْضَعَتْهُ فَقَالَ لَنَا رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَتَرَوْنَ هَذِهِ الْمَرْأَةَ طَارِحَةَ وَلَدَهَا فِى النَّارِ؟ قُلْنَا لَا وَاللَّهِ وَهِيَ تَقْدِرُ عَلَى اَلَا تَطْرَحْهُ فَقَالَ رَسُوْلُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّهُ أَرْحَمُ بِعِبَادِهِ مِنْ هَذِهِ بِوَلَدِهَا یعنی ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی لائے گئے جن میں ایک عورت بھی تھی جب وہ قیدیوں میں کسی بچہ کو دیکھتی تو اُسے اُٹھاتی، اپنے سینہ سے لگاتی اور پھر اُسے دودھ پلاتی.اس روایت میں تو ذکر نہیں آتا مگر دوسری روایتوں میں آتا ہے کہ وہ اسی طرح کرتی رہی یہاں تک کہ اُس کا اپنا بچہ اُسے مل گیا اور وہ اُسے گود میں لے کر اطمینان کے ساتھ بیٹھ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس عورت کو دیکھا اور پھر صحابہ سے فرمایا کہ تمہارا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص اس سے کہے کہ اپنے بچہ کو آگ میں پھینک دے تو کیا یہ اُسے پھینک دے گی؟ صحابہ نے عرض کیا خدا کی قسم ! اگر اس کا بس چلے تو وہ کبھی اپنے بچہ کو آگ میں نہیں پھینکے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
انوار العلوم جلد 23 165 تعلق باللہ تم نے جو اس عورت کی محبت کا نظارہ دیکھا ہے اللہ تعالیٰ اس سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت رکھتا ہے.ماں سے تو دس آدمی مل کر اُس کا بچہ چھین سکتے ہیں مگر وہ کون ماں کا بچہ ہے جو خدا کی گود سے کسی کو چھین سکے.اس لئے خدا کی محبت زیادہ شاندار اور زیادہ پائیدار اور زیادہ اثر رکھنے والی ہے.اس حدیث میں رحم کا لفظ محبت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے کیونکہ ماں بچہ پر رحم نہیں کرتی اُس سے محبت کرتی ہے.پس مثال نے اس کے معنی متعین کر دیئے ہیں.پھر اس سے اوپر ترقی کر کے بندہ خُلة کے مقام پر پہنچ جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اور انسان دونوں خلیل کہلاتے ہیں.لیکن جس طرح اللہ تعالیٰ محبت میں زیادہ ہوتا ہے اسی طرح خُلہ میں بھی زیادہ ہوتا ہے.لفظ ایک ہے مگر بندے کی خُلۃ اور خدا تعالیٰ کی خُلة میں بڑا بھاری فرق ہے کیونکہ گو جذبات محبت ہر وقت زندہ رہتے ہیں لیکن سونے اور جاگنے کی حالت میں اُن میں فرق ہو جاتا ہے.سوتے وقت جذبات زندہ تو ہوتے ہیں مگر وہ دب جاتے ہیں اور اُن پر ایک طرح کا پردہ پڑ جاتا ہے پس چونکہ انسان پر سنة اور نوم آتے ہیں اور اُس وقت خُلة تو ہوتی ہے مگر اُونگھ اور نیند کی وجہ سے اُس طرح کی نہیں ہوتی جس طرح جاگتے وقت کی ہوتی ہے.اس لئے خدا اور بندے کی خُلۃ میں بڑا بھاری فرق ہے.خدا تعالیٰ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوم 65 کا مصداق ہے.پس یہ جاگتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اِس سے اُسی طرح محبت کرتا ہے اور یہ سوتا ہے تب بھی اُس کی خُلّة اُسی طرح جاری رہتی ہے.یہی وہ مقام ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ایک تحریر میں بھی اشارہ کیا ہے جو میں تشخیز الاذہان اور بدر میں شائع کروا چکا ہوں.اُس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اللہ تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ : "دنیا کہتی ہے تو کافر ہے مگر کیا تجھ سے پیارا مجھے کوئی اور مل سکتا ہے اگر ہو تو اُس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں.لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں، جب میرے دوستوں اور
انوار العلوم جلد 23 166 تعلق باللہ دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں اُس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت اور پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا میں تیرے ساتھ ہوں تو پھر اے میرے مولیٰ! یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے ہوئے پھر میں تجھے چھوڑ دوں.ہر گز نہیں.ہر گز نہیں " 66 و دیکھو سوتے وقت جب انسان کا جسم اور روح بھی اُسے ایک طرح چھوڑ جاتے ہیں اُس وقت بھی خدا تعالیٰ اپنے بندے کو نہیں چھوڑتا.اس لئے خدا تعالیٰ کا مقامِ خُلة انسان کے مقام خلة سے بہت بالا ہے.نام دونوں محبتوں کا ایک ہے مگر دونوں کی کیفیت میں بہت فرق ہے.پس محبت کے تمام مقاموں میں سے جو ادنیٰ ہیں وہ صرف انسان سے مخصوص ہیں.خدا تعالیٰ اُن کے مقابل پر اُن سے اعلیٰ مقام کی محبت دکھاتا ہے اور جو اعلیٰ مقام ہیں اور بندہ اور خدا میں مشترک ہیں اُن میں بھی اللہ تعالیٰ ہمیشہ بندے سے آگے رہتا ہے.اسی نکتہ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث میں یوں بیان فرماتے ہیں : عَنْ آبی هُرَيْرَةَ عَنْ رَسُوْلِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنَا عِنْدَ ظَنِ عَبْدِىٰ بِي وَأَنَا مَعَهُ حَيْثُ يَذْكُرَنِي وَاللَّهِ لِلَّهِ أَفْرَحُ بِتَوْبَةِ عَبْدِهِ مِنْ أَحَدِكُمْ يَجِدُ ضَالَتَهُ بِالْفُلَاةِ وَمَنْ تَقَرَبَ إِلَى شِبْرً ا تَقَرَبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا وَمَنْ تَقَرَبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَإِذَا أَقْبَلَ إِلَى يَمْشِي أَقْبَلْتُ اِلَيْهِ أَهَزِوِلُ 7 حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.خدا نے مجھے الہام سے فرمایا ہے کہ میں اپنے بندے کے یقین کے مطابق اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہوں اور جب کبھی بندہ مجھے یاد کرتا ہے میں فوراً اُس کے پاس پہنچ جاتا ہوں.پھر اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا کی قسم ہے! کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کی توبہ پر اس شخص سے زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے جس نے سخت جنگل میں اپنی اونٹنی کھوئی اور پھر وہ اُسے مل گئی.اس کے بعد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ جو شخص میرے پاس ایک بالشت بھر چل کر آتا ہے میں اُس کے
انوار العلوم جلد 23 167 تعلق باللہ پاس ایک ہاتھ چل کر آتا ہوں.( ذراع اُنگلیوں سے لے کر کہنی تک کے حصہ کو کہتے ہیں) اور جو شخص ایک ہاتھ چل کر میرے پاس آتا ہے میں اُس کی طرف ایک باع ( یعنی دونوں بازوؤں کے پھیلاؤ کے برابر ) چل کر جاتا ہوں.اور جب بندہ میرے پاس چلتے ہوئے آتا ہے تو اقبلتُ اِلَيْهِ اهَرُ وِل میں اُس کی طرف دوڑنا شروع کر دیتا ہوں.غرض ہر مقام پر اللہ تعالیٰ بندے سے اونچے مقام پر رہتا ہے بندہ ایک بالشت چلتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک ہاتھ چلتا ہے.بندہ ایک ہاتھ چلتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک باع چل کر آتا ہے.بندہ اس کی طرف چل پڑتا ہے تو خدا تعالیٰ اپنی محبت کے جوش میں اُس کی طرف دوڑ پڑتا ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ جہاں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ بندہ جس جس حد تک کام کرے اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ کام کرتا ہے وہاں اُس نے محبت کے کچھ قانون بھی بنائے ہیں جب کوئی شخص محبت الہی کے میدان میں قدم رکھنا چاہے تو اُسے ان قانونوں کو مد نظر رکھنا چاہیے چنانچہ پہلا قانون یہ ہے کہ جب بندہ رغبت ، انس اور وڈ کے مقام سے ترقی کر کے حُب کے مقام پر پہنچ جاتا ہے تو اس مقام کے لئے یہ شرط ہے کہ قُل اِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَ ابْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنْ تَرْضَوْنَهَا اَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِنَ اللهِ وَ رَسُولِهِ وَجِهَادِ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِینَ یعنی رغبت کے مقام تک اگر انسان میں کمزوری ہو اور بیوی بچوں کی محبت اُس کے دل پر غالب ہو تو اللہ تعالیٰ اس کی پرواہ نہیں کرتا.سمجھتا ہے کہ یہ کمزور ہے.ایسا مضبوط نہیں کہ اس جذبہ پر غالب آسکے.جب انسان انس کے مقام پر آتا ہے تو وہ زیادہ قربانیاں چاہتا ہے مگر یہ نہیں چاہتا کہ وہ سب کچھ بھول جائے.جب انسان وڈ کے مقام پر آتا ہے تو وہ اپنے بندہ سے انس کے مقام سے بھی زیادہ قربانیوں کا تقاضا کرتا ہے مگر پھر بھی اُس کی کمزوریوں کا خیال رکھتا ہے لیکن جب وہ حُب کے مقام پر پہنچ جائے تو چونکہ اب ترقی کرتے کرتے محبت کے بہت سے اسرار اُس پر کھل چکے ہوتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ بھی چاہتا ہے کہ اب بندہ یہ فیصلہ ر رلے کہ میں نے خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی اور کو منہ نہیں لگانا.یہی وجہ ہے
انوار العلوم جلد 23 168 تعلق باللہ یہ قانون اللہ تعالیٰ نے جب کے متعلق رکھا ہے رغبت کے متعلق نہیں رکھا.اُنس کے متعلق نہیں رکھا.وڈ کے متعلق نہیں رکھا.رغبت جس میں کچھ خدا کی محبت ہو اور کچھ دنیا کی محبت، انسان کو خدا کا مقرب بنا سکتی ہے.اُنس جس میں خدا کی بھی محبت ہو اور دنیا کی بھی محبت ہو اللہ تعالیٰ کے قرب میں انسان کو کچھ نہ کچھ بڑھا دیتا ہے.اگر رغبت یا انس کے مقام پر انسان سے کچھ غلطی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کہے گا کہ جانے دو میرا یہ بندہ ابھی پورے طور پر ہوش میں نہیں آیا اس کی غلطیاں نظر انداز کرنے کے قابل ہیں پھر وہ وڈ کے مقام پر بھی پہنچ جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کی غلطیوں کی کچھ زیادہ پرواہ نہیں کرے گا کیونکہ نہ وہ خدا میں فنا ہو گیا ہو گا اور نہ خدا اُس کے دل میں جابسا ہو گا.اُس کی مثال ایسی ہو گی جیسے کوئی نابالغ بچہ لڑائی میں شامل ہوا اور اس نے کمزوری دکھائی اور وہ مید ان سے بھاگ گیا لیکن جب حب کے مقام پر انسان پہنچ جائے تو اُس وقت وہ اپنے باپ کو یا اپنے بیٹے کو یا اپنے بھائی کو یا اپنی بیوی کو یا اپنے قبیلہ کو یا اپنے خاندان کو یا اپنے مال کو یا اپنی شہرت کو یا اپنے علم کو یا اپنی نیک نامی کو یا اپنے مکانوں اور جائدادوں کو خدا تعالیٰ پر ترجیح دے تو وہ خدا تعالیٰ کے دربار سے دھتکار دیا جائے گا اور اُسے کہا جائے گا کہ تم نے ہمارے مقام محبت کی ہتک کی ہے.پس بے شک یہ مقام اعلیٰ ہے مگر اس مقام کی ذمہ داریاں بھی بڑی ہیں.جو پہلی رعائتیں تھیں وہ اس مقام پر آکر ختم ہو جاتی ہیں.مقام رغبت تک وہ مزے میں تھا اور ادھر اُدھر جا سکتا تھا.انس کے مقام تک بھی اگر اُس سے غلطی ہو جاتی اور فرشتے کہتے کہ ہم اسے سزا دیں تو اللہ تعالیٰ کہتا کہ سزا کیسی؟ ابھی اِس نے ہوش تھوڑی سنبھالی ہے.پھر وڈ کا مقام آیا تو اس مقام میں بھی یہ خطرے سے باہر تھا کیونکہ گووہ بلوغت کے قریب پہنچ چکا تھا لیکن ابھی بالغ کے احکام اُس پر جاری نہیں ہو سکتے تھے لیکن جب وہ جب کے مقام پر پہنچا تو بالغ ہو گیا اور اس پر تمام احکام جاری ہونے لگ گئے.جب تک یہ بالغ نہیں ہوا تھا اس کی گرفت کا کوئی سوال ہی نہیں تھا جیسے لڑائی ہو رہی ہو تو کوئی شخص بچوں کو نہیں پکڑتا کہ تم لڑائی پر کیوں نہیں جاتے بلکہ اگر کوئی نا بالغ بچوں کو پیش بھی کرے تو ذمہ دار افسر ہنس پڑتے ہیں کہ کس کو پیش کیا جارہا ہے چنانچہ تاریخوں
انوار العلوم جلد 23 169 تعلق باللہ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ بارہ بارہ برس کے لڑکے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور کہتے کہ یا رسول اللہ ہمیں بھی جہاد میں شامل ہونے کی اجازت دیجئے.مگر آپ فرماتے کہ جاؤا بھی تم پر جہاد فرض نہیں.تو رغبت کے مقام پر اور انس کے مقام پر اور وڈ کے مقام پر گناہوں سے معافی زیادہ ملتی ہے.مگر جب انسان حُبّ کے مقام پر پہنچ جائے تو گناہوں کی معافی کم ہو جاتی ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہمیشہ کے لئے جاری ہے اور توبہ کے ساتھ خواہ کیسے ہی گناہ ہوں معاف ہو جاتے ہیں لیکن بہر حال پہلے مقام وہ تھے جن میں معافی کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.جیسے چھوٹا بچہ دودھ پیتے پیتے بعض دفعہ اپنی ماں کا پستان کاٹ لیتا ہے مگر ماں اُسے کبھی نہیں کہتی کہ مجھ سے معافی مانگو.وہ سمجھتی ہے کہ یہ بچہ ہے اور اس سے نادانی میں یہ حرکت ہو گئی ہے.اسی طرح رغبت اور اُنس اور وڈ کے مقام پر معافی کا کوئی سوال نہیں ہوتا.وہ چاہے مانگے یا نہ مانگے.اللہ تعالیٰ اُسے بچے کی طرح سمجھتا ہے گویا نیکی تو اس میں موجود ہوتی ہے لیکن تو بہ کا مقام اُسے حاصل نہیں ہو تا.اس کے بعد جب وہ حب کے مقام پر پہنچتا ہے اور پھر کوئی غلطی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کہتا ہے اب یہ معافی مانگے گا تو ہم معاف کریں گے یوں ہم اسے معاف نہیں کر سکتے.جب یہ توازن قائم نہیں رہتا تو انسان ہلاک ہو جاتا ہے اور وہ رغبت اور انس کے مقام پر بعض دفعہ محبت الہی کا دعویٰ کرنے لگ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم محبوب خدا ہو گئے ہیں حالا نکہ جب تک وہ ایک بچہ کی حیثیت رکھتا ہے اُس کا فرض ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ان راہوں سے زیادہ واقف نہیں میری حیثیت ایک بچہ کی سی ہے اور جب وہ بالغ ہو جائے تو پھر بالغ کی ذمہ داریاں سمجھے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے مقابلہ میں کسی چیز کو ترجیح نہ دے.(2) دوسری شرط یہ ہے کہ جب انسان محبت کے مقام پر پہنچے تو پھر خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے.جو شخص اس مقام سے گرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے سخت سزا پاتا ہے.رغبت کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں.انس کے مقام پر اگر اُس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں.وڈ کے
انوار العلوم جلد 23 170 تعلق باللہ مقام پر اگر اس سے ذہول ہو جائے تو زیادہ حرج نہیں لیکن جب محبت کے مقام پر پہنچ جائے تو پھر اس مقام کو مضبوطی سے پکڑ لے اور اللہ تعالیٰ کو ایک آن کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے.قرآن کریم میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس اُن کے دشمن آئے اور اُنہوں نے کہا کہ کیا ستاروں کی پرستش کرنا جائز ہے؟ آپ نے فرمایا ذرا ٹھہر و.جب ستارے آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تو آپ نے فرمایا کہ لا أُحِبُّ الْأَفِلِينَ 8 وہ چیز جو آنکھوں سے اوجھل ہو جائے میں اُس سے محبت نہیں کر سکتا.اگر یہ خدا ہیں تو پھر او جھل کیوں ہو گئے.محبت تو اس سے ہو سکتی ہے جو آنکھوں سے اوجھل نہ ہو.پس کامل محبت تقاضا کرتی ہے کہ انسان اپنے محبوب کو اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دے.کیا تم نے کبھی کوئی ماں ایسی دیکھی ہے جسے یہ یاد کرانے کی ضرورت ہو کہ اپنے بچہ سے محبت کر.بچہ کہیں بیٹھا ہو اس کے دل میں محبت کی چنگاری سُلگ رہی ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے اُس کے منہ سے آہ نکل جاتی ہے.بیوی خاوند آپس میں محبت کرتے ہیں تو خواہ خاوند کتنی دور چلا جائے جب بھی اُس کا ذہن خالی ہو گا وہ اپنی بیوی کو ضرور یاد کرے گا.بعض دفعہ ایک سپاہی لڑائی میں شامل ہوتا ہے.میدانِ جنگ میں کام کر رہا ہوتا ہے.بندوقیں چل رہی ہوتی ہیں اور موت کا بازار گرم ہوتا ہے لیکن اُس وقت بھی اگر اُسے اپنی بیوی یاد آ جائے تو اُس کی آہ نکل جاتی ہے.بیوی بعض دفعہ پھلکے پکا رہی ہوتی ہے کہ اپنے میاں اُسے یاد آ جاتے ہیں اور پھلکے پکاتے پکاتے اُس کی آہ نکل جاتی ہے.تو فرماتا ہے لا أحِبُّ الأفلِينَ اگر تمہارا خدا تعالیٰ سے تعلق ہو اور کبھی اُس کی محبت تمہارے دل میں آجاتی ہو اور کبھی نہ آتی ہو تو تم مت کہو کہ ہمیں خدا تعالیٰ سے محبت ہے تم کہو کہ ہمیں اُس سے رغبت ہے، تم کہو کہ ہمیں اُس سے انس ہے تم کہو کہ ہمیں اس سے ڈڈ ہے مگر یہ مت کہو کہ ہمیں اس سے محبت ہے کیونکہ محبت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب محبوب کی یاد دل سے جدا نہ ہو.خیال تو دوسری طرف جا سکتا ہے جیسے کھیل کے وقت کھیل کا ہی خیال رہے گا لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ محبت کا جذبہ بالکل جاتا رہے.بلکہ جب بھی وہ اللہ تعالیٰ کا خیال کرے گا اُسی وقت اُس کی محبت بھی آجائے گی.
انوار العلوم جلد 23 171 تعلق باللہ جو شخص کبھی محبت کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا اُس کی محبت کبھی قبول نہیں ہوتی یایوں کہو کہ وہ محبت ہی نہیں ہوتی لیکن تو بہ واستغفار قبول ہو جاتا ہے حالانکہ توبہ و استغفار بھی انسان کبھی کرتا ہے اور کبھی نہیں کرتا.اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ محبت جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور توبہ و استغفار دماغ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.محبت ہمیشہ یکساں چلتی چلی جائے گی چاہے انسان خوشی میں ہو یار رنج میں.یہ تو ہو سکتا ہے کہ محبت کی لہر کبھی اونچی چلی جائے اور کبھی نیچے آجائے لیکن یہ کبھی نہیں ہو گا کہ وہ کبھی غائب ہی ہو جائے.اس کے مقابلہ میں توبہ و استغفار میں یہ ہو گا کہ کبھی ہم توبہ و استغفار کر رہے ہوں گے اور کبھی نہیں کر رہے ہوں گے.پس الہی محبت وہی ہو سکتی ہے جو سب سے ط و دو دو 69 زیادہ ہو اور اُس میں دوام پایا جائے.قرآن کریم کی رُو سے محبت کی دو اقسام ثابت ہوتی ہیں.اول محبت کسی جو انسان کسب سے حاصل کرتا ہے یعنی پہلے وہ رغبت کرتا ہے پھر انس کرتا ہے پھر وُڈ کرتا ہے اور پھر محبت کرتا ہے.یہ محبت بندے کی طرف سے آتی ہے.گویا کسی چیز وہ ہے جو بندہ کرتا ہے اور وہی وہ ہے جو خدا کی طرف سے آتی ہے چاہے وہ محبت سے ہی شروع ہو جائے.بہر حال کسی محبت میں کوشش بندے کو کرنی پڑتی ہے.اللہ تعالیٰ اس محبت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رحیم 69 یعنی اگر تمہارے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت پائی جاتی ہے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ مقابل میں بھی محبت کا پیدا ہونا ایک ضروری امر ہے کیونکہ سچی محبت دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا کر دیتی ہے.کہتے ہیں "دل را بہ دل رہسیت".جب کوئی شخص سچے دل سے کسی سے محبت کرتا ہے تو دوسرے کے دل میں بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.بہر حال خدا تعالیٰ سے کوئی ایسی محبت نہیں ہو سکتی جس میں دونوں طرف جوڑ اور اتصال نہ ہو.جیسے ماں اور بچہ اور خاوند اور بیوی میں محبت ہوتی ہے کہ ایک طرف ماں کے دل میں محبت ہوتی ہے اور دوسری طرف بچہ کے دل میں.ایک طرف خاوند اپنی بیوی سے محبت کرتا ہے تو دوسری طرف بیوی اپنے خاوند پر جان دیتی ہے.
انوار العلوم جلد 23 172 تعلق باللہ اسی طرح بندے اور خدا کی محبت میں بھی ایک جوڑ اور تعلق ہوتا ہے.فرماتا ہے اِن كُنتُم تُحِبُّونَ.اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہو تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ تمہاری یہ محبت تب ثابت ہو گی جب تم ہمارے بتائے ہوئے طریق کے مطابق محبت کرو گے اگر تم اُس طریق کے مطابق چلو گے تب ہم مانیں گے کہ تم ہم سے محبت کرتے ہو ورنہ نہیں.اب سوال پیدا ہو تا تھا کہ ہمارے دل کی تو یہی خواہش ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے محبت کریں مگر ہم کریں کس طرح اس کا جواب یہ دیا کہ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبع بن جاؤ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.یہ محبت کیسی ہے.بندہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرے مگر اُس کے راستہ میں روک پیدا ہو جاتی ہے.تب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ یوں محبت کرو.پس ایک محبت وہ ہے جو بندے کی طرف سے شروع ہوتی ہے اور بعض ذرائع اختیار کر کے حاصل ہوتی ہے اور آخر اللہ تعالیٰ بھی اُس بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.یہ محبت کسی کہلاتی ہے.یاد رہے کہ اس آیت میں فاتبعونی فرمایا ہے فَاحِبُونِی نہیں فرمایا کیونکہ محبت جذبات سے تعلق رکھتی ہے اور جذبات اپنی مرضی سے پیدا نہیں کئے جاسکتے.جبر اور زور سے اعمال کئے جاسکتے ہیں.اس لئے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کر وجو جبر سے کی جاسکتی ہے.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگے گا اور اس محبت کے بدلہ میں تمہاری محبت جو خدا تعالیٰ سے ہے بڑھنے لگے گی.دوسری محبت موہبت کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور بندہ کو گھیر لیتی ہے.اس محبت کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِيَ اللهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَةٌ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَفِرِينَ يُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ وَلَا يَخَافُونَ لَوْمَةَ لَابِمٍ ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ - 70 اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا ہے کہ اے مومنو! اگر تم میں سے کوئی شخص مرتد ہو جائے گا تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں ایک ایسی قوم کو لے آئے گا جس سے وہ محبت کرے گا اور جو اس سے محبت کرے گی
انوار العلوم جلد 23 173 تعلق باللہ یعنی پہلے اللہ تعالیٰ محبت کرے گا اور پھر وہ کریں گے گویا اُن کی محبت موہبت والی محبت ہو گی.یہاں سوال ہو سکتا ہے کہ جو مومن تھے اُن کی نسبت تو اللہ تعالیٰ نے یہ کہا کہ پہلے تم اتباع رسول کرو پھر تم خدا تعالیٰ کے محبوب ہوگے اور مرتدوں کے بدلہ میں جو کفار سے آنے والے تھے اُن کے متعلق یہ کہا کہ خدا ان سے پہلے محبت کرے گا اور پھر وہ اس سے محبت کریں گے.اِس فرق کی وجہ کیا ہے اور کیوں مومنوں کی محبت کو کسی اور مرتدوں کے بدلہ میں کفار میں سے آنے والوں کی محبت کو وہی قرار دیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ بعض دفعہ کسی کو شر مندہ کرنے کے لئے دوسرے کو حق سے زیادہ انعام دیا جاتا ہے یا بعض دفعہ دوست کی ناشکری پر غیر پر زیادہ احسان کر دیا جاتا ہے تا کہ روٹھنے والے کو شر مندہ کیا جائے اور اپنا استغناء ظاہر کیا جائے.بعض دفعہ ہم اپنے کسی بچے کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں آؤ ہم تمہیں مٹھائی دیں اگر وہ نہیں آتا تو پاس اگر غیر کا بچہ کھڑا ہو تو اُسے دو گنی مٹھائی دے دیتے ہیں تا کہ اپنا بچہ جو نہیں آیا وہ شرمندہ ہو.اسی طرح بعض دفعہ مومن مرتد ہوتا ہے اور چلا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں ہم خود کافروں میں سے چن چن کر بعض لوگوں کو لائیں گے اور پھر تمہیں دکھائیں گے کہ ہم اُن سے کیسا پیار کرتے ہیں.گویا اس میں اصل مضمون مومنوں کو غیرت دلانا ہے.ورنہ خود مومنوں کے لئے بھی یہ مقام ہوتا ہے اور رسول تو سب کے سب اس دوسرے گروہ میں شامل ہوتے ہیں اور خدا کی خاص تربیت کے نیچے ہوتے ہیں.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق یہ مشہور ہے کہ اُن کا کوئی استاد نہیں ہوتا.لوگوں نے حماقت سے یہ سمجھ لیا ہے کہ اُن کو الف.ب پڑھانے والا بھی کوئی نہیں ہو تا حالا نکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تعلق باللہ کے بنیادی اصول وہ کسی پیر اُستاد سے نہیں سیکھتے.اللہ تعالیٰ اُن کے دل میں یہ اصول خود ودیعت کرتا ہے اور خود انہیں روحانیت کے اسرار سے واقف کرتا ہے.پس نبی کا استاد نہ ہونے کا مفہوم صرف اتنا ہے کہ اُن کو روحانی علوم سکھانے والا کوئی استاد نہیں ہوتا.باقی لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو لوگ سکھاتے ہیں جیسے میں اس وقت لیکچر دے رہا ہوں
انوار العلوم جلد 23 174 تعلق باللہ اور آپ لوگ سن رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے سکھایا تھا.ولید وغیرہ تو سب مشرک تھے اُن سے آپ نے محبت الہی کا کیا سبق سیکھنا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ سیکھا براہ راست اللہ تعالیٰ سے سیکھا.کوئی دُنیوی اُستاد ایسا نہیں تھا جس نے آپ کو روحانیت کے ان رازوں سے آشنا کیا ہو.پس یہ درست ہے کہ نبی کا کوئی استاد نہیں ہوتا مگر اس کا مفہوم صرف یہ ہے کہ اُن کو محبت الہی کے راز سکھانے والا کوئی نہیں ہو تا.خدا خود اُن سے براہِ راست محبت کرتا اور براہ راست اپنے علوم سے سر فراز فرماتا ہے.یہی وجہ ہے کہ انبیاء کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ معصوم ہوتے ہیں اور معصوم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ بلوغت سے پہلے ہی وہ معصوم ہوں کیونکہ عصمت کا ملہ جو نبی کو حاصل ہوتی ہے وہ اُس وقت تک اُسے حاصل ہی نہیں ہو سکتی جب تک کہ تقویٰ اور محبت الہی اُس کے بلوغ بلکہ ہوش سے پہلے ہی موجود نہ ہو.جو اُسے بُرائیوں سے محفوظ رکھے اور یہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اَلصَّبِيُّ صَبِى وَلَوْ كَانَ نَبِيًّا 71 تو اس کے معنی صرف بچپن کے کھیل کود کے ہیں نہ کہ بغاوت و شرارت کے.اب میں قرآن کریم سے بتاتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کن لوگوں سے محبت نہیں کرتا تا کہ انسان کوشش کرے کہ میں ویسا نہ بنوں.جب خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں فلاں فلاں سے محبت نہیں کرتا تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ ایسے آدمی کے دل میں خدا تعالیٰ کی کبھی پیدا نہیں ہو سکتی.پس جن لوگوں میں یہ باتیں پائی جائیں گی وہ ان امور کی موجودگی میں خدا تعالیٰ سے کبھی محبت نہیں کر سکتے اور نہ اُن کا یہ دعویٰ تسلیم کیا جاسکتا ہے (اگر وہ کہیں) کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کریم کی آیات سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ فلاں فلاں شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا لیکن چونکہ یہ ثابت کیا جا چکا ہے کہ بندہ ایک قدم بڑھے تو خدا تعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے اس لئے اگر یہ ممکن ہو تا کہ وہ لوگ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتے تو یہ جواب غلط ہو جاتا کہ ایک قدم کے بدلہ میں خدا تعالیٰ دو قدم بڑھتا ہے.پس نتیجہ یہی نکلا کہ ت ہو.محبت
انوار العلوم جلد 23 175 تعلق باللہ یسے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کر ہی نہیں سکتے اور جیسا کہ میں آگے چل کر بتاؤں گا کہ عقل بھی اسی کی تائید کرتی ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دس قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ دس قسم کے لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر (1، 2) اوّل مختال سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور دوسرے فَخُورا سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا 72 جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اور جس شخص کے اندر فخر کی عادت پائی جاتی ہے اس سے خدا محبت نہیں کرتا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ جس شخص کے اندر تکبر پایا جاتا ہے یا جس شخص کے اندر فخر کامادہ پایا جاتا ہے وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا.مختال اُس شخص کو کہتے ہیں جو اپنی اتنی بڑی شان سمجھے کہ گویا سب مصائب سے محفوظ ہے اور فَخُورًا اُسے کہتے ہیں جسے یہ خیال ہو کہ میرے اندر ایسی خوبیاں پائی جاتی ہیں جو دوسروں میں نہیں اور انہیں طعنہ دے کہ میرے جیسی خوبیاں دوسروں میں کہاں ہیں.ظاہر ہے کہ یہ دونوں خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے بلکہ در حقیقت کسی انسان سے بھی محبت نہیں کر سکتے جس شخص کے اندر کبر پایا جاتا ہے اگر خد اتعالیٰ کی کبریائی کا اُسے کبھی خیال آتا تو کیا وہ تکبر کر سکتا ؟ جس کے سامنے بادشاہ کھڑا ہو کیا وہ اپنا سر اونچا کر سکتا ہے؟ معمولی سپر نٹنڈنٹ پولیس بھی سامنے کھڑا ہو تو سپاہی ایسا مؤدب اور شریف بن کر کھڑا ہوتا ہے کہ گویا اس کے منہ میں زبان ہی نہیں.پھر جو شخص خدا تعالیٰ کی کبریائی کا بھی خیال نہیں رکھتا اس نے خدا تعالیٰ سے محبت کیا کرنی ہے.محبت یا تو حسن سے پیدا ہوتی ہے یا احسان سے.جب یہ اپنے آپ کو اتنی بڑی شان کا مالک خیال کرتا ہے لہ سمجھتا ہے میں سب مصائب سے محفوظ ہوں تو ذاتِ باری کا حسن یا اُس کا احسان اسے کس طرح نظر آسکتا ہے.پس مختال سے خدا تعالیٰ محبت نہیں کرتا اور نہ ایسا شخص خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے.
انوار العلوم جلد 23 176 تعلق باللہ اسی طرح فخر بھی وہی کرتا ہے جو سمجھتا ہے کہ میرے اندر ایسی خوبیاں ہیں جو دوسروں میں نہیں اور وہ اُن خوبیوں کو اپنا ذاتی وصف قرار دیتا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار کہتے ہیں کہ ہمیں جس قدر نعمتیں حاصل ہیں یہ ہم نے اپنے زورِ بازو سے حاصل کی ہیں.پس فخر کے معنی یہ ہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کی نعمتوں کا انکار کرے اور کہے کہ ان نعمتوں کا حصول میر اذاتی وصف ہے اور جو شخص بھی ایسا کرتا ہے وہ خدا تعالیٰ کے حسن کا انکار کرتا ہے اور ایسے شخص سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.(3) جس شخص کو اپنے کاموں میں حد سے گزر جانے کی عادت ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ 73 حد سے گزر جانے والوں سے خدا محبت نہیں کرتا یا یوں کہو کہ جو لوگ حد سے گزر جانے والے ہوں وہ کبھی خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے.حقیقت یہ ہے کہ ایسا شخص بھی طبعی طور پر خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ اپنے حق کا مطالبہ کرنے میں حد سے بڑھا ہوا ہوتا ہے.مثلاً کسی کو غصہ آگیا اور اُس نے دوسرے کو تھپڑ مار دیا.اب یہ ایک غلطی ہے جس کی سزا اُسے ملنی چاہیے مگر یہ سزا اتنی ہی ہو سکتی ہے کہ ہم اسے بلائیں اور ڈانٹ دیں کہ تم نے فلاں کو تھپڑ کیوں مارا لیکن بعض طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ جس شخص سے قصور سر زد ہوا ہو جب تک وہ اُس کا قیمہ نہ کر لیں اُن کی تسلی ہی نہیں ہوتی.ہمارے پاس بھی مختلف کی رپورٹیں آتی رہتی ہیں اور ہم انہیں اُن کے قصور کے مطابق سزا دے دیتے ہیں.بعض دفعہ کسی سے غلطی ہو تو اُسے مثلاً ڈانٹ دیا جاتا ہے یا معمولی جرمانہ یا مسجد میں بیٹھ کر ذکر الہی کرنے کی سزا دے دی جاتی ہے.مگر جو اپنے کاموں میں حد کے اندر رہنے کے عادی نہ ہوں اُن کی اس سے تسلی ہی نہیں ہوتی وہ کہتے ہیں یہ بھی کیا سزا ہے کہ چار آنے جرمانہ کر دیا.اُن کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ ہم اُس کے سر پر آرہ رکھ کر چلائیں.پھر اُس کی ہڈیاں جلا کر اُنہیں سل پر پیسیں اور پھر کسی پاخانہ کے گڑھے میں اُس کی راکھ ڈال دیں اور پھر اُس پر ایک کتبہ لگا دیں جس میں اُس کو اور اُس کے باپ دادا کو گالیاں دی گئی ہوں اور پھر یہیں تک بس نہیں جب وہ اگلے جہان میں پہنچے تو وہاں بھی خدا اُس کو دوزخ میں
انوار العلوم جلد 23 177 تعلق باللہ ڈالے اور اُسے ایسا عذاب دے جو کسی اور کو نہ دیا گیا ہو حالانکہ خدا بڑا رحیم و کریم ہے.وہ حد سے زیادہ گزرنے والوں سے محبت نہیں کرتا اور نہ حد سے گزرنے والا خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے.(4) جو شخص خوان ہو یعنی طبیعت میں خیانت کا مادہ رکھتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَانًا اشيا 74 محبت کہتے ہیں معاملہ کی درستی کو اور خوان کے معنی ہیں بہت بڑا خائن.محبت کے معاملہ میں تو ایک چھوٹی سی خیانت بھی برداشت نہیں کی جاسکتی کجا یہ کہ کوئی شخص خوان ہو اور پھر اُس سے محبت کی جاسکے.جو شخص بڑا خائن ہے وہ کسی صورت میں بھی محبت نہیں کر سکتا کیونکہ وہ تعلقات کو نباہ نہیں سکتا.ایسے شخص کے متعلق یہ خیال کرنا کہ وہ خدا سے محبت کرے گا یا خد ا اُس سے محبت کرے گا بالکل عقل کے خلاف ہے.(5) اسی طرح جو شخص اثیم ہو یعنی گناہ کی طرف کمال رغبت رکھتا ہو اُس سے بھی خدا تعالیٰ محبت نہیں کرتا.اشیم کی حالت ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کوئی بڑا قانون شکن ہو اور جس شخص کو قانون شکنی کی عادت پڑی ہوئی ہو وہ جس طرح دنیا کے قانون توڑے گا اسی طرح خدا تعالیٰ کے قانون بھی توڑے گا.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله 75 جو شخص یہ سوچتا رہے گا کہ میں نے اس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے، اُس قانون کو توڑ لیا تو کیا حرج ہے وہ خدا تعالیٰ کے قانون بھی توڑتا چلا جائے گا اور اُن کی اطاعت سے ہمیشہ گریز کرے گا.ہماری جماعت میں ایک شخص ہوا کرتا تھا جسے لوگ فلاسفر فلاسفر کہا کرتے تھے اب وہ فوت ہو چکا ہے اللہ تعالیٰ اُس کی مغفرت فرمائے.اُسے بات بات میں لطیفے سوجھ جاتے تھے جن میں سے بعض بڑے اچھے ہوا کرتے تھے.فلاسفر اُسے اسی لئے کہتے تھے کہ وہ ہر بات میں ایک نیا نکتہ نکال لیتا تھا.ایک دفعہ روزوں کا ذکر چل پڑا.کہنے لگا مولویوں نے یہ محض ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ سحری ذرا دیر سے کھاؤ تو روزہ نہیں ہو تا.بھلا جس نے بارہ گھنٹے فاقہ کیا اُس نے پانچ منٹ بعد سحری کھالی تو کیا حرج ہوا.مولوی جھٹ
انوار العلوم جلد 23 178 تعلق باللہ سے فتویٰ دیتے ہیں کہ اُس کا روزہ ضائع ہو گیا.غرض اس نے اس پر خوب بحث کی.صبح وہ گھبرایا ہوا حضرت خلیفہ اول کے پاس آیا.زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا مگر چونکہ حضرت خلیفہ اول ہی درس و غیرہ دیا کرتے تھے اس لئے آپ کی مجلس میں بھی لوگ کثرت سے آیا جایا کرتے تھے.آتے ہی کہنے لگا کہ آج رات تو مجھے بڑی ڈانٹ پڑی ہے.آپ نے فرمایا کیا ہوا؟ کہنے لگا رات کو میں یہ بحث کرتا رہا کہ مولویوں نے ڈھونگ رچایا ہوا ہے کہ روزہ دار ذرا سحری دیر سے کھائے تو اُس کا روزہ نہیں ہوتا.میں کہتا تھا کہ جس شخص نے بارہ گھنٹے یا چودہ گھنٹے فاقہ کیا وہ اگر پانچ منٹ دیر سے سحری کھاتا ہے تو حرج ہی کیا ہے.اس بحث کے بعد میں سو گیا تو میں نے رویا میں دیکھا کہ میں نے تانی لگائی ہوئی ہے ( فلاسفر جولاہا تھا اس لئے خواب بھی اُسے اپنے پیشہ کے مطابق ہی آئی) دونوں طرف میں نے کیلیے گاڑ دیئے ہیں اور تانی کو پہلے ایک کیلے سے باندھا اور پھر میں اُسے دوسرے کیلے سے باندھنے کے لئے لے چلا.جب کیلے کے قریب پہنچا تو دو انگلی ورے سے تانی ختم ہو گئی.میں بار بار کھینچتا تھا کہ کسی طرح اسے کیلے سے باندھ لوں مگر کامیاب نہ ہو سکا اور میں نے سمجھا کہ میر اسارا سوت مٹی پر گر کر تباہ ہو جائے گا چنانچہ میں نے شور مچانا شروع کر دیا کہ میری مدد کے لئے آؤ.دو انگلیوں کی خاطر میری تانی چلی.دو اُنگلیوں کی خاطر میری تانی چلی.اور یہی شور مچاتے مچاتے میری آنکھ کھل گئی.جب میں جاگا تو میں نے سمجھا کہ اس رؤیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مسئلہ سمجھایا ہے کہ دو انگلیوں جتنا فاصلہ رہ جانے سے اگر تانی خراب ہو سکتی ہے تو روزہ میں تو پانچ منٹ کا فاصلہ کہہ رہے ہو اُس کے ہوتے ہوئے کسی کا روزہ کس طرح قائم رہ سکتا ہے.وہ تو فلاسفر کا لطیفہ تھا جس نے یہ کہا تھا کہ اگر پانچ منٹ بعد سحری کھائی جائے تو کیا حرج ہے.راولپنڈی کے ایک مولوی کا قصہ مشہور ہے کہ اُس کا ایک شاگرد اُس کے پاس آیا اور کہنے لگا حضور! میں ایک مسئلہ دریافت کرنے آیا ہوں.اگر نماز پڑھتے ہوئے تھوڑی سی ہوا خارج ہو جائے تو کیا وضو قائم رہتا ہے یا ٹوٹ جاتا ہے ؟ اس نے کہا وضو تو ٹوٹ جائے گا.کہنے لگا آپ میرا مطلب سمجھے نہیں.میرا مطلب یہ ہے کہ اگر بہت
انوار العلوم جلد 23 179 تعلق باللہ تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب نے کہا تھوڑی کیا اور بہت کیا، ہوا خارج ہو جائے تو وضو ٹوٹ جاتا ہے.اُس نے کہا مولوی صاحب آپ پھر بھی نہیں سمجھے اگر بہت ہی تھوڑی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جاتا ہے؟ مولوی صاحب نے کہا ایک دفعہ تو کہا ہے کہ وضو ٹوٹ جاتا ہے اور کیا کہوں.اِس پر اُس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے کہا کہ اگر اتنی سی ہوا خارج ہو تو کیا پھر بھی وضو ٹوٹ جائے گا؟ مولوی صاحب کو غصہ آگیا اور اُنہوں نے کہا کمبخت! تیرا تو پاخانہ بھی نکل جائے تو وضو نہیں ٹوٹ سکتا.تو خوان اور اشیم نے محبت کیا کرنی ہے وہ تو زیادہ سے زیادہ ایک فلسفی کہلا سکتا ہے اور کچھ نہیں.جہاں محبت ہوتی ہے وہاں انسان دلیلیں نہیں سوچتا بلکہ عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ تقریر فرمارہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ کناروں پر کچھ لوگ کھڑے ہیں آپ نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.بیٹھ جاؤ.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اُس وقت مسجد کی طرف آرہے تھے ابھی آپ گلی میں ہی تھے کہ آپ کے کانوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز پہنچی کہ بیٹھ جاؤ.آپ و ہیں گلی میں بیٹھ گئے اور بچوں کی طرح گھسٹ گھسٹ کر مسجد کی طرف بڑھنے لگے.کسی شخص نے آپ کو دیکھا تو کہا عبد اللہ بن مسعودؓ ! تم ایسے عقلمند ہو کر یہ کیا حرکت کر رہے ہو کہ گلی میں بچوں کی طرح گھسٹ رہے ہو.اُنہوں نے کہا بات یہ ہے کہ مجھے ابھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ آواز آئی تھی کہ بیٹھ جاؤ اس لئے میں بیٹھ گیا.اُس نے کہا آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم تو اُن لوگوں کے لئے تھا جو تقریر کے وقت کھڑے تھے.اُنہوں نے کہا مطلب تو میں بھی سمجھتا ہوں لیکن ڈرتا ہوں کہ ابھی میری جان نکل جائے تو میں خدا تعالیٰ کے حضور شر مندہ ہوں گا کہ ایک حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا بھی تھا جس پر میں نے عمل نہیں کیا.76 پس شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے حکم تو سنا ہے لیکن اس کا یہ مفہوم ہے وہ مفہوم ہے وہ فلسفی تو کہلا سکتا ہے لیکن محب نہیں.اسی طرح اشیم جو کھلے بندوں قانون شکنی کرتا ہے اور جو جو
انوار العلوم جلد 23 180 تعلق باللہ گناہ کی طرف میل رکھتا ہے وہ بھی اچھے دوست کے ساتھ اپنے تعلقات کو نباہ نہیں سکتا.اور بُرے دوست سے حقیقی محبت یوں بھی مشکل ہوتی ہے.پس خوان اور اشیم سے بھی خدا تعالیٰ محبت نہیں رکھتا یا یوں کہہ لو کہ خوان اور اثیم بھی خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے.(6) جو فرح ہو یعنی عارضی لذات پر کمال لذت محسوس کرتا ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِحِيْنَ 77 جو شخص چھوٹی چھوٹی چیزوں پر خوش ہو جائے اللہ تعالیٰ اُسے اپنی محبت کا مورد نہیں بنا سکتا.جو شخص کہتا ہے کہ میں نے خدا کی عبادت کی تھی میں تھانیدار بن گیا.میں نے فلاں تجارت کی اور اُس میں بڑا نفع ہوا اور اس خوشی میں اکڑا پھرتا ہے اور پتلون کے شکن ہر وقت درست کرتا رہتا ہے اُس نے خدا تعالیٰ کی محبت کیا حاصل کرنی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کا نتیجہ ہوتی ہیں اور یہ بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں ہر خوشی اور ہر نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر کرنے کی تعلیم دی گئی ہے لیکن انسان اتنا پست ہمت کیوں بنے کہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں پر قانع ہو جائے اور بڑی کامیابیوں کا خیال اُس کے دل سے اتر جائے.اُسے تو آسمان کے تارے توڑنے کی کوشش کرنی چاہیے اور اپنے عزم کو اتنا بلند رکھنا ہیے کہ ہر مطمح نظر اُسے نیچا دکھائی دے اور وہ سمجھے کہ ابھی میں نے اور اونچا اُڑنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب براہین احمدیہ لکھی اور مولوی بُرہان الدین صاحب کو پہنچی تو انہوں نے آپ سے ملنے کا ارادہ کیا.چنانچہ وہ جہلم سے قادیان آئے.اتفاقاً اُن دنوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہیں باہر تشریف لے گئے تھے شاید ہوشیار پور چلہ کرنے کے لئے یا کسی اور جگہ.مولوی بُرہان الدین صاحب چونکہ اسی ارادہ سے آئے تھے کہ آپ سے ملیں گے اس لئے وہ اُسی جگہ جاپہنچے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قیام تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منع کیا ہوا تھا کہ کوئی شخص مجھ سے ملنے کیلئے نہ آئے.وہ شیخ حامد علی صاحب کے پاس پہنچے جو حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پرانے خادم تھے اور سفروں میں آپ کے ساتھ رہتے تھے.مولوی صاحب بعد میں خود ہی سنایا کرتے تھے کہ میں نے شیخ حامد علی صاحب کی
انوار العلوم جلد 23 181 تعلق باللہ بڑی منتیں کیں کہ کسی طرح میری ملاقات کر ا دو مگر اُنہوں نے کہا میں کس طرح ملاقات کروا سکتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ملاقاتیں بند کی ہوئی ہیں.مگر میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میں اتنی دُور سے آیا ہوں اب میں بغیر آپ کو دیکھے کے واپس نہیں جاؤں گا چنانچہ میں وہیں بیٹھ گیا.تھوڑی دیر کے بعد شیخ حامد علی صاحب کسی کام کے لئے گئے تو میں دوڑ کر آپ کے کمرہ کی طرف چلا گیا اور دروازہ کے آگے جو پردہ لٹکا ہوا تھا اس کو ہٹا کر دیکھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی کہ آپ لکھتے ہوئے بھی شہلا کرتے تھے اُس وقت بھی آپ کوئی کتاب لکھ رہے تھے اور ادھر سے اُدھر تیزی کے ساتھ ٹہلتے جاتے اور ساتھ ساتھ لکھتے جاتے تھے.میں نے جو نہی آپ پر نظر ڈالی مجھے دیکھ کر اتنا ڈر آیا کہ پردہ میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا اور میں وہاں سے بھاگ نکلا.لوگوں نے مجھے دیکھا تو کہا ہمیں بھی کچھ بتائیے مرزا صاحب آپ سے ملے یا نہیں؟ میں نے کہا میں نے مرزا صاحب کو دیکھ لیا ہے بات تو میں نے آپ سے کوئی نہیں کی لیکن میں نے دیکھا کہ وہ کمرے کے اندر بھی اتنی جلدی جلدی ٹہل رہے تھے جیسے کسی نے بڑی دور جانا ہو اور وہ اپنے کام کو تیزی کے ساتھ ختم کرنا چاہتا ہو.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی منزل بہت دور ہے اور کوئی عظیم الشان مقصد ہے جو آپ کے سامنے ہے لیکن فَرِحَ یعنی تھوڑی تھوڑی چیز پر تسلی پا جانے والا دور کی کامیابیوں کو اپنا مقصد قرار ہی نہیں دے سکتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مومن پر اللہ تعالیٰ جب بھی کوئی احسان کرے گا وہ کہے گا.الحمدُ للهِ.مگر ساتھ ہی کہے گا اِس انعام پر تو الْحَمْدُ لِلهِ مگر میری منزل ابھی دور ہے پھر دوسرا انعام آئے گا تو کہے گا.اَلْحَمْدُ للهِ.خدایا تیر اشکر ہے کہ تو نے مجھے اِس انعام سے سرفراز فرمایا مگر میں نے تو آپ کو لینا ہے.یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں میرا مقصود نہیں ہیں.اس طرح وہ قدم بقدم آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور آخر وہ خد اتعالیٰ کو پالیتا ہے.(7) جو شخص مفسد ہو اللہ تعالیٰ اس سے بھی محبت نہیں کرتا.فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ 78 مفسد سے میں محبت نہیں کرتا.سیدھی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوق کا خالق اور اُس کا رب ہے.جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فساد برپا کرنے
انوار العلوم جلد 23 182 تعلق باللہ کی کوشش کرے گا تو اُس مخلوق کا خالق اور رب فساد کرنے والے سے کس طرح محبت کرے گا.اگر کسی بچہ سے انسان کو نفرت ہو تو اُس کی ماں کبھی نفرت کرنے والے سے پیار نہیں کر سکتی.جب تمام مخلوق اللہ تعالیٰ کی ہے تو صاف ظاہر ہے کہ جو شخص فساد ڈلواتا ہے اور لوگوں کی آپس میں لڑائیاں کرواتا رہتا ہے خدا تعالیٰ اُسے کبھی پسند نہیں سکتا.انگریزی میں ایک حکایت مشہور ہے کہ کسی شخص کو ایک عورت سے عشق ہو گیا.وہ عورت بیوہ تھی اور وہ اُس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر یوروپین طریق کے مطابق خالی پیغام سلام سے شادی نہیں ہو سکتی تھی ضروری تھا کہ پہلے اُسے اپنی طرف متوجہ کیا جائے کہ یورپ کے لوگوں میں مرد و عورت کی دوستی کے بعد شادی ہوتی ہے پہلے نہیں.پس وہ اُسے اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی کوشش کرتا مگر اُسے کامیابی حاصل نہ ہوئی.آخر اس نے اپنے کسی دوست سے ذکر کیا کہ مجھے اِس اِس طرح فلاں عورت سے عشق ہے اور میں اُس سے شادی کرنا چاہتا ہوں مگر وہ میری طرف توجہ ہی نہیں کرتی.اُس نے کہا عورت کا کوئی بچہ ہے یا نہیں ؟ اُس نے کہا کہ بچہ تو ہے.اس نے کہا تو پھر محبت میں کونسی مشکل ہے بچہ کو اُٹھا کر اُس سے چند دن پیار کر و عورت تم سے خود بخود بے تکلف ہو جائے گی.تو جس سے کسی کو محبت ہو اُس سے نفرت رکھنے سے کبھی اُس شخص کی محبت حاصل نہیں کی جاسکتی.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ خاکم نثار کو چہ آلِ محمد است اب آلِ محمد میں سے اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی.مگر اس وجہ سے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے حصول کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ انسان اُن سے محبت کرے.یہ خیال کرنا کہ آلِ محمد سے بے شک محبت نہ ہو لیکن محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت مجھے حاصل ہو جائے گی غلط ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ.اگر تم
انوار العلوم جلد 23 183 تعلق باللہ فساد کرو گے تو تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ خدا تم سے محبت نہیں کرے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے پیارے ہیں.جو اُن سے محبت نہ کرے اور اُن کا بدخواہ ہو ، نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے اور نہ وہ اللہ تعالیٰ سے.(8) جو شخص ناشکرا ہو وہ بھی اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا اور نہ اللہ تعالیٰ اُس سے محبت کر سکتا ہے کیونکہ محبت کا ایک ذریعہ احسان ہے.جو شخص شکر گزار نہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ احسان کو نہیں دیکھ سکتا اور جو احسان کو نہیں دیکھ سکتا وہ خدا تعالیٰ سے محبت بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس سے محبت کا پہلا دروازہ احسان ہی ہے.وہ فرماتا ہے اِنَّ اللهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَانِ كَفُورٍ 72 خوان کا ذکر پہلے آچکا ہے.كَفُور کے معنی ہیں ایسا انسان جو خدا تعالیٰ کے انعامات کو دیکھتا ہے اور پھر بھی اُس کے اندر شکر گزاری کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا.گو یا احسان شناسی کا مادہ اُس کے اندر ہوتا ہی نہیں.اور ظاہر ہے کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے احسانات کو دیکھتا ہی نہیں.کہتا ہے مجھے کچھ نہیں ملا اُسے اور کیا مل سکتا ہے.اس سے تو اللہ تعالیٰ اگر محبت بھی کرے گا تو وہ کہہ دے گا کہ مجھے کچھ نہیں ملا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے کہ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُم 80 تم جتنا جتنا شکر کروگے میں اُتنا ہی اپنے انعامات کو بڑھاتا چلا جاؤں گا اور جتنی جتنی ناشکری کرو گے اتنی ہی میں اپنے انعامات میں کمی کر دوں گا.(9) جو شخص مُسرف ہو اُس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.فرماتا ہے انکے لا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ 81 مسرف سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں رکھتا کیونکہ مسرف اپنے اور اپنے نفس کی لذات کو دوسرے کی تکلیف اور آرام پر ترجیح دیتا ہے اور جو شخص خدا تعالیٰ کے بندوں پر خرچ کرنا پسند نہیں کرتا اپنے نفس پر بلاوجہ خرچ کرتا چلا جاتا ہے اُسے کون پسند کر سکتا ہے.احادیث میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض لوگوں سے کہے گا کہ آؤ میں تم پر اپنے انعامات نازل کروں کیونکہ میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا.میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا.میں ننگا تھا تم نے مجھے کپڑا پہنایا.میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی.تب بندے اللہ تعالیٰ سے کہیں گے کہ خدایا! یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ تو بھوکا اور
انوار العلوم جلد 23 184 تعلق باللہ پیاسا اور نگا اور بیمار ہو.ہماری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آئی.اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گاجب دنیا میں میرے غریب بندوں میں سے کسی بھوکے کو تم نے کھانا کھلایا تو تم نے اُسے کھانا نہیں کھلایا، مجھے کھلایا.اور جب تم نے کسی پیاسے کو پانی پلایا تو تم نے اُسے پانی نہیں پلایا بلکہ مجھے پانی پلایا اور جب تم نے کسی ننگے کو کپڑے دیئے تو تم نے اُس کو کپڑے نہیں دیئے بلکہ مجھے کپڑے دیئے اور جب تم نے میرے بیمار بندوں کی عیادت کی تو تم نے اُن کی عیادت نہیں بلکہ میری عیادت کی.اس کے بعد وہ دوسری طرف کے لوگوں سے مخاطب ہو گا اور کہے گا میں بھو کا تھا مگر تم نے مجھے کھانا نہ کھلایا.میں پیاسا تھا مگر تم نے مجھے پانی نہ پلایا.میں ننگا تھا مگر تم نے مجھے کپڑا نہ دیا.میں بیمار تھا مگر تم نے میری عیادت نہ کی تب وہ بھی اسی طرح کہیں گے کہ خدایا! تو تو زمین و آسمان کا مالک اور سب کا خالق ہے تو بھلا کب بیمار ہو سکتا ہے، کب بھوکا اور پیاسا اور نگا ہو سکتا ہے.اُس وقت اللہ تعالیٰ اُن سے کہے گا کہ دنیا میں میرے کچھ ایسے بندے تھے جو بھوکے تھے ، کچھ ایسے بندے تھے جو پیاسے تھے، کچھ ایسے بندے تھے جو ننگے تھے ، کچھ ایسے بندے تھے جو بیمار تھے مگر تم نے اُن کی پرواہ نہ کی.نہ تم نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، نہ پیاسوں کو پانی پلایا، نہ نگوں کو کپڑا یا، نہ بیماروں کی عیادت کی.پس تم نے اُن بندوں کے ساتھ یہ سلوک نہیں کیا بلکہ میرے ساتھ یہ سلوک کیا ہے کیونکہ وہ میرے بندے تھے.82 تو اللہ تعالیٰ جن لوگوں کی مدد کے لئے ہمیں روپیہ دیتا ہے، ہمیں علم دیتا ہے، ہمیں عزت اور شہرت دیتا ہے اگر ہم اپنے روپیہ اور علم اور عزت اور شہرت سے اُن کی مدد نہیں کرتے بلکہ صرف اپنے نفس کی لذات میں ہی منہمک رہتے ہیں تو ہم کیا امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا خدا ہم سے محبت کرے گا اور جب وہ ہم سے محبت نہیں کرے گا تو ہم اُس سے کس طرح محبت کر سکتے ہیں.(10) جو شخص ظالم ہو اس سے بھی اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.فرماتا ہے واللہ لا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ 83 ظالموں سے اللہ تعالیٰ محبت نہیں کرتا.گویا ظلم اور محبت جمع نہیں ہو سکتے.جو شخص ظلم کرتا ہے اُسے در حقیقت اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہوتی ہے اور جسے اپنی ذات کی محبت سب سے زیادہ ہو وہ دوسرے سے محبت نہیں کر سکتا.
انوار العلوم جلد 23 185 تعلق باللہ علاوہ ازیں یہ قطعی طور پر ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے بندوں پر تو ظلم کرے اور اللہ تعالیٰ سے محبت کرے پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ محبت جذبہ ہے نرمی کا اور ظلم جذبہ ہے سختی کا.محبت کہتی ہے اپنی چیز قربان کر اور ظلم کہتا ہے دوسرے کی چیز قربان کر.پس یہ دو مخالف جذبات ہیں اس لئے جو شخص ظالم ہے نہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کر سکتا ہے اور نہ خدا تعالیٰ اس سے محبت کرتا ہے.یہ دس عد د اخلاق اور برائیاں جس شخص میں ہوں فرداً فردا یا مجتمع طور پر وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے ناقابل ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا.مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں وہ اللہ تعالیٰ سے ضرور محبت کرتا ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس میں یہ عیب نہ ہوں اُس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی قابلیت ہوتی ہے.پس ان باتوں کے یہ معنی نہیں کہ جن لوگوں میں یہ باتیں نہ ہوں وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں.بلکہ مراد صرف یہ ہے کہ جن لوگوں میں یہ باتیں ہوں وہ خدا تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتے اور نہ خدا تعالیٰ اُن سے محبت کرتا - لیکن اگر اُن میں یہ باتیں نہ ہوں تو اُن کے لئے امکان ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت رسکیں.یہ معنی نہیں کہ وہ ضرور اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں.مثلاً جو شخص ظالم ہے وہ اللہ تعالیٰ سے محبت نہیں کر سکتا.مگر جو ظالم نہیں ضروری نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتا ہو.ممکن ہے وہ سخت دل ہو یا پاگل ہو اور اُس کے اندر محبت پیدا ہی نہ ہو سکی ہو.پس نتیجہ صرف یہ نکلتا ہے کہ ظلم کے ہوتے ہوئے محبت نہیں ہو سکتی.یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ ظلم نہ ہو تو محبت ضرور ہو گی.ایک شخص جو مسرف نہیں اُس میں قابلیت ہے محبت کرنے کی مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے.اسی طرح وہ شخص جو خوان اور اخیم نہیں اُس میں قابلیت ہے کہ اگر وہ چاہے تو اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا کر لے مگر ضروری نہیں کہ وہ محبت کرے.جب تک وہ خوان اور اشیم تھا اس کے لئے محبت کرنا نا ممکن تھا جب وہ خوان اور اثیم نہ رہا تو محبت کرنا اس کے لئے ممکن ہو گیا.گویا ان صفات میں منفی کی طاقت ہے ان کے عدم میں مثبت طاقت نہیں.
انوار العلوم جلد 23 186 تعلق باللہ اب میں بتاتا ہوں کہ محبت الہی پیدا کرنے کے لئے کن ذرائع کو اختیار کیا جاسکتا ہے.سو یا درکھنا چاہیے کہ اوّل صفات الہی کا ورد کرنے سے، جسے ذکر کہتے ہیں محبت پیدا ہوتی ہے یعنی سُبْحَانَ اللهِ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اللهُ اَكْبَرُ اور اِسی طرح يَا حَيُّ يَا قَيَوْمَ يَا سَتَارُ يَا غَفَّارُ وغيره وغیرہ.ننانوے اسمائے الہیہ عام طور پر قرار دیئے جاتے ہیں.بعض نے سو یا ایک سو ایک نام بھی لکھے ہیں مگر ہیں وہ بہت زیادہ.بہر حال صفات الہیہ کے ذکر کرنے سے محبت الہیہ پیدا ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہیے کہ یہ سب سے پہلا درجہ ہے اس لئے کہ یہ تکلف کا درجہ ہے.ہم کہتے ہیں سُبْحَانَ اللهِ.ہم کہتے ہیں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ.ہم کہتے ہیں اللهُ أَكْبَرُ.اور اس طرح اللہ تعالیٰ کا نام لیتے اور اُس کی صفات کا بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن نام لینے سے یقین اور ایمان میں ترقی نہیں ہوتی.ہم ایک مضمون تو اپنے سامنے لاتے ہیں مگر یہ کہ ہمارا قلب بھی اس مضمون کو تسلیم کر لیتا ہے یا نہیں یہ دوسری بات ہے.ہم ایمان لے آئے خدا کی باتوں پر.ہم ایمان لے آئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں پر اور ہم نے کہا خدا بڑا غفار ہے.خدا بڑا ستار ہے یا خدا بڑی شان کا مالک ہے.یہ ہمارے دماغ کی تسلی کا تو ثبوت ہے لیکن ہمارے دل کی تسلی کا ثبوت نہیں.ہم جب سبحان اللہ کہتے ہیں یا الْحَمْدُ لِلهِ کہتے ہیں یا ستار اور غفار کہتے ہیں تو ایک عقلی چیز اپنے سامنے لاتے ہیں اور عقلی چیز کالازمی نتیجہ محبت نہیں ہوتی.مثلاً ہم شیر کو مانتے ہیں مگر شیر کے ماننے سے محبت پیدا نہیں ہو جاتی.اسی طرح ہم انگلینڈ اور امریکہ کا بار بار ذکر سنتے ہیں تو انگلینڈ اور امریکہ سے محبت نہیں کرنے لگ جاتے.اسی لئے اس کو ذکر کہتے ہیں یعنی یہ تکلف اور بناوٹ کی محبت ہے.جیسے اقلیدس والا کہتا ہے کہ فرض کرو یہ لکیر فلاں لکیر کے برابر ہے.اِس طرح وہ فرض سے شروع کرتا ہے اور سچائی کے قریب پہنچ جاتا ہے.ایک شخص مصنوعی طور پر رونا شروع کرتا ہے تو آہستہ آہستہ سچ مچ رونے لگ جاتا ہے.کئی مائیں اپنے بچوں کو ڈرانے لگتی ہیں تو بعد میں وہ خود بھی ڈرنے لگ جاتی ہیں.عربوں میں ایک قصہ مشہور ہے کہ کوئی لڑکا تھا جسے باقی لڑکے سخت تنگ کرتے
انوار العلوم جلد 23 187 تعلق باللہ اور اُسے مارتے رہتے تھے.جب وہ بہت ہی تنگ آجاتا تو اُن سے پیچھا چھڑانے کے لئے کہتا کہ تمہیں کچھ پتہ بھی ہے آج فلاں رئیس کے ہاں ولیمہ کی دعوت ہے.یہ سنتے ہی بچے اُس طرف دوڑ پڑتے اور اسے چھوڑ دیتے.اُن کے جانے کے بعد اس کے دل میں خیال آتا کہ شاید وہاں سچ مچ دعوت ہو اور یہ لڑکے کھا آئیں اور میں محروم رہ جاؤں.اس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف بھاگ پڑتا.ابھی وہ نصف راستہ میں ہی ہو تا کہ لڑکے ناکام واپس آرہے ہوتے اور وہ غصہ میں اُسے پھر پکڑ لیتے اور خوب مارتے.جب وہ بہت ہی تنگ آجاتا تو پھر اپنا پیچھا چھڑانے کے لئے چاہتا کہ انہیں کوئی دھوکا دے.چنانچہ وہ اُن سے کہتا کہ اصل میں میں نے تم سے جھوٹ بولا تھا.دعوت اُس رئیس کے ہاں نہیں تھی بلکہ فلاں رئیس کے ہاں تھی.یہ سن کر لڑکے اُس دوسرے رئیس کے مکان کی طرف دوڑ پڑتے.مگر اُن کے جانے کے بعد پھر اُس کے دل میں شبہ پیدا ہو تا کہ گو میں نے دھوکا دیا ہے مگر شاید اُس رئیس کے ہاں دعوت ہی ہو.اس خیال کے آنے پر وہ خود بھی اُسی طرف دوڑ پڑتا اور خود بھی دھوکا کھا جاتا.تو بسا اوقات بناوٹ سے بھی یقین پیدا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکثر فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی نماز میں رونے والی شکل بنائے تو آہستہ آہستہ اُسے رونا آجاتا ہے.پس ذکر الہی تصنع والی محبت کا مقام ہے.اصل میں اس کا دماغ خدا کو سُبحان مانتا ہے.اِس کا دماغ خدا کو ستار اور غفار مانتا ہے.اس کا اپنا جوڑ خدا تعالیٰ سے نہیں ہو تا لیکن جب یہ کہنا شروع کرتا ہے کہ یاستار یا غفار تو محبت الہی کا کوئی نہ کوئی چھینٹا اس پر بھی آپڑتا ہے.جیسے کیچڑ اچھالا جائے تو کچھ کیچڑ اپنے اوپر بھی آپڑتا ہے یا شکر کی بوری بھرتے ہیں تو شکر کے چند دانے بوری بھرنے والے کے منہ میں بھی چلے جاتے ہیں.غرض اسی طرح ہوتے ہوتے یہ مصنوعی محبت حقیقی محبت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ فَاذْكُرُونِي أَذْكُرُكُمْ 84 تم میر اذکر کیا کرو گے تو ہوتے ہوتے ایسا مقام تمہیں حاصل ہو جائے گا کہ میں تمہیں یاد کرنے لگ جاؤں گا.
انوار العلوم جلد 23 188 تعلق باللہ (2) دوسرا ذریعہ صفات الہیہ پر غور کرنا ہے جسے صوفیاء کی اصطلاح میں فکر کہا جاتا ہے.ایک ہے سُبْحَانَ اللَّهِ - اَلْحَمْدُ لِلَّهِ اور اللہ اکبر کہنا اور ایک ہے سوچنا اور غور کرنا کہ خدا سبحان کس طرح ہے.خدا اکبر کس طرح ہے، خدا تمام تعریفوں اور محامد کا مستحق کس طرح ہے.یہ جو دماغ میں صفات الہیہ کا دور کیا جاتا اور اُن کا ایک رنگ میں آپریشن کیا جاتا ہے اس کو فکر کہتے ہیں.خالی الله اکبر کہنا ذکر ہے لیکن اکبر پر بحث شروع کر دینی کہ اللہ کس طرح بڑا ہے یہ فکر ہے.جب انسان فکر کرے گا تو اس کے سامنے سوال آئے گا کہ اللہ کس طرح بڑا ہوا؟ آج تو امریکہ سب سے بڑا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی امریکہ کرتا ہے وہی ساری دنیا کرنے لگ جاتی ہے اور مسلمان اپنی حکومتوں کے باوجود اس کے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکتے.جب وہ سوچے گا تو اسے خود ہی یہ جواب سمجھ آئے گا کہ امریکہ کو جو بڑائی ملی ہے یہ اُسے کس نے دی ہے اور کیوں دی ہے.جب وہ غور کرے گا تو اُسے معلوم ہو گا کہ امریکہ کو خدا نے ہی بڑائی دی ہے اور اس لئے بڑائی دی ہے کہ اُس نے فلاں فلاں اعمال کئے اور مسلمان اس لئے گر گئے کہ اُنہوں نے اُن اعمال کو ترک کر دیا.غرض اس طرح جب وہ سوچے گا تو اس کا دل اس یقین اور ایمان سے لبریز ہو جائے گا کہ اکبر اللہ ہے امریکہ نہیں.اس غور اور تدبر کو فکر کہتے ہیں اور یہ مقام تفصیل کا مقام ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ هَمَّ قَوْمٌ أَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ فَكَفَ اَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ ۖ وَ عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ 85 اے مومنو! یاد کرو برے ناموں کو نہیں ، میری صفات کو نہیں بلکہ نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُم جو انعام میں نے تم پر اپنی کسی خاص صفت کے ماتحت کئے ہیں اُن کی تفصیلات پر غور کرو.یہ نہ سوچو کہ میں نے تمہیں کھانا دیا اور کپڑے دیئے بلکہ یہ سوچو کہ دنیا تمہارے لئے کیا کر رہی تھی اور میں نے تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا.اِذْهَمَّ قَوْم اَنْ يَبْسُطُوا إِلَيْكُمُ ايْدِيَهُمْ کس طرح ایک قوم تمہیں تباہ کرنے کے لئے اُٹھی اور اُس نے اپنی ساری قوتیں تمہارے خلاف جمع کر لیں.کیا کیا قدرتیں تھیں جو اُس کو حاصل تھیں فَكَفَ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ لیکن پھر ج
انوار العلوم جلد 23 189 تعلق باللہ اللہ تعالیٰ نے اُس کے سارے منصوبوں میں اُس کے ہاتھ روک دیئے اور تمہیں اُس کے حملوں سے محفوظ کر دیا.یہ فکر ہے جو اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرتا ہے یعنی خالی زبان سے رحمن یارحیم نہ کہا جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ تم بیماری سے مرنے لگے تھے ، سارے حالات تمہارے خلاف جمع تھے مگر پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچالیا اور تمہیں صحت عطا کر دی.فرض کرو کوئی شخص جنگل میں جارہا ہے اور وہ کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے جس میں آپریشن ضروری ہے تو ایسی حالت میں اگر اچانک گھوڑے پر سوار کوئی ڈاکٹر اُس کے پاس آجاتا ہے اور وہ اُس کا علاج کرتا ہے جس سے وہ اچھا ہو جاتا ہے تو ہر شخص سمجھے گا کہ یہ ڈاکٹر نہیں آیا بلکہ خدا اپنے بندہ کے پاس چل کر آیا ہے.ایسے ہی نشانات ہوتے ہیں جو انسان کو کھینچ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں لے جاتے ہیں اور اُسے فرش سے اُٹھا کر عرش تک پہنچادیتے ہیں اور انہی نشانات پر غور انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اوپر کی آیت میں اسی طرف توجہ دلائی ہے کہ تم غور کرو اور سوچو کہ آیا تمہارے ساتھ ، تمہارے دوستوں کے ساتھ یا تمہارے بزرگوں اور عزیزوں کے ساتھ ایسے واقعات گزرے ہیں یا نہیں جن میں اُس کی قدرت کا ہاتھ دکھائی دیتا تھا.جب تم ایسے واقعات پر غور کرو گے تو تمہارے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جائے گی.یہ پہلے مقام سے اونچا مقام ہے.ذکر میں تکلف پایا جاتا ہے لیکن فکر میں تکلف نہیں ہو تا بلکہ ایک حقیقت سامنے ہوتی ہے.(3) تیسرے مخلوق الہی کی خیر خواہی اور اُس سے محبت کرنے سے بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.یہ وہ طریق ہے جس میں انسان خد اتعالیٰ کو ایک رنگ میں مجبور کرتا ہے کہ میرے دل میں اپنی محبت ڈال.جیسے تم خدمت اور محبت سے دوسرے کے دل میں محبت پیدا کر دیتے ہو.تم ریل میں سفر کرتے ہو کمرہ میں سخت بھیٹر ہوتی ہے تمہارے لئے بیٹھنے کو کوئی جگہ نہیں ہوتی.ایک شخص گلا پھاڑ پھاڑ کر کہ رہا ہوتا ہے کہ کمبخت یہ ریل ہے یاڈر بہ.جو آتا ہے اسی ڈبہ میں آجاتا ہے.اُس وقت اگر تم ایک کیلا نکال کر اُس شخص کے بچہ کو دے دو تو اُسی وقت اُس کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ کہے گا
انوار العلوم جلد 23 190 تعلق باللہ تشریف رکھئے اور پھر وہ تم سے محبت کے ساتھ باتیں کرنے لگ جائے گا تو اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کے لئے مخلوقِ الہی سے اگر نیک سلوک کرو تو اللہ میاں تم سے آپ کہیں گے کہ آؤ میاں میرے پاس بیٹھو.اصلی صوفیاء نے اسی کا نام عشق مجازی رکھا تھا لیکن جھوٹے صوفیاء نے افراد کی محبت اور اُن سے عشق کا نام عشق مجازی رکھ لیا.حالانکہ جب صوفیاء نے یہ کہا تھا کہ عشق حقیقی پیدا کرنے کے لئے عشق مجازی ضروری ہے تو اُن کا مطلب صرف یہ تھا کہ بندوں کی حقیقی محبت کے بغیر اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل نہیں ہو سکتی.نہ یہ کہ کسی حسین لڑکے یا حسین عورت سے جب تک محبت نہ کی جائے اللہ تعالیٰ بھی انسان سے محبت نہیں کر سکتا.یہ ایک نہایت ہی اعلیٰ درجہ کا نکتہ تھا جسے گندی شکل دے کر جاہلوں اور اوباشوں نے دین کی ہتک کی اور اپنی ہوس رانی کی راہ نکال لی.رحقیقت یہ محبت بسیط ہے یعنی کسی خاص شخص کی محبت نہیں بلکہ بنی نوع انسان بلکہ مخلوقات کا تصور کر کے یہ خیال کرنا کہ یہ میرے خدا کے پیارے ہیں مجھے خدا تعالیٰ تو نہیں ملتا چلو میں اِن سے محبت کروں اس محبت کا سر چشمہ ہے.ایسی محبت کرتے کرتے یکدم محبت الہی شعلہ مار کر تیز ہو جاتی ہے.پس بے شک یہ درست ہے کہ عشق مجازی کے بغیر عشق حقیقی پیدا نہیں ہو سکتا لیکن عشق مجازی کے صرف اس قدر معنی ہیں کہ جب تک انسان بنی نوع انسان کی محبت اور اُن کے لئے قربانی اور ایثار کا مادہ اپنے اندر پیدا نہیں کرتا اُس وقت تک خدا تعالیٰ اُس سے محبت نہیں کر سکتا.اس لئے صوفیاء نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان خدا کے عیال ہیں جس طرح تمہیں اپنے بچوں سے محبت ہے اسی طرح خدا کو بھی اپنی مخلوق سے محبت ہے.پس مخلوق سے محبت کر کے خدا کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے اور خدا کی محبت سے مخلوق کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے.حدیثوں میں آتا ہے کہ جب بارش نازل ہوتی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحن میں تشریف لاتے اور اپنی زبان نکال کر اُس پر بارش کا قطرہ لیتے اور فرماتے یہ میرے رب کی طرف سے تازہ نعمت آئی ہے 26 ( اس موقع پر حضور نے اپنی زبان باہر نکالی اور فرمایا.اس طرح.پھر فرمایا) میرے زبان نکالنے پر ممکن ہے تم میں سے بعض
انوار العلوم جلد 23 191 تعلق باللہ یہ خیال کرتے ہوں کہ میں نے تہذیب کے خلاف حرکت کی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان نکالی تھی تو اُس وقت بھی بعض ایسے ہی خیالات رکھنے والے لوگ کہتے ہوں گے کہ یہ کیسی تہذیب کے خلاف بات ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کی اور فرمایا میرے رب کی طرف سے تازه نعمت آئی ہے میں کیوں نہ اسے اپنی زبان پر لے لوں.اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بارش کا قطرہ اپنی زبان پر نہیں لیا بلکہ در حقیقت خدا کی نعمت لی اور میں نے بھی اپنی زبان نکال کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشابہ ایک فعل کیا ہے تا کہ تمہیں یہ احساس ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی کس طرح قدر کیا کرتے تھے.اسی مفہوم پر وہ آیت دلالت کرتی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتی ہے کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ 27 اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا تو اپنے آپ کو اس غم میں ہلاک کرلے گا کہ میرے یہ بندے ایمان نہیں لائے؟ گویا خیال کر کے کہ یہ مجھ سے دور ہیں اور میرے لئے ناخوشی کا موجب ہیں تو آپ مرا جا رہا ہے.اس طرح سے بین السطور اِس آیت کا یہ ہے کہ جب تو میری مخلوق کے غم میں مرا جا رہا ہے تو میں تجھ سے پیار کیوں نہ کروں.دنیا میں اور لوگ بھی لوگوں کے مومن نہ ہونے پر غم کرتے ہیں مگر اُن کا غم اُن کے ہدایت نہ پانے نہیں ہو تا بلکہ اپنی بات کی ناکامی پر ہوتا ہے اور دونوں غموں میں بڑا بھاری فرق ہے.ایک میں غصہ ہوتا ہے اور ایک میں رنج.پھر جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں حدیث قدسی میں آتا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے کہے گا کہ جب میں بھوکا تھا تو تم نے مجھے کھانا کھلایا.جب میں پیاسا تھا تو تم نے مجھے پانی پلایا اور جب میں بیمار تھا تو تم نے میری عیادت کی.بندے کہیں گے کہ خدایا! تو کب بھوکا ہوا کہ ہم تجھے کھانا کھلاتے.تو کب پیاسا ہوا کہ ہم تجھے پانی پلاتے.تو کب نگا ہوا کہ ہم تجھے کپڑے پہناتے.تو کب بیمار ہوا کہ ہم تیری عیادت کرتے.تب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میرے کچھ بندے دنیا میں ایسے تھے جو بھوکے اور
انوار العلوم جلد 23 192 تعلق باللہ پیاسے اور ننگے اور بیمار تھے اور تم نے اُن کی خدمت کی.پس گو تم نے میرے بندوں کے ساتھ یہ سلوک کیا مگر یہ ایسا ہی تھا کہ گویا تم نے مجھ سے یہ سلوک کیا ہے.اِس مثال سے بھی ظاہر ہے کہ مخلوق کی محبت سے خالق کی محبت ملتی ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے کہ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ 88 جب کوئی شخص محسن ہو جاتا ہے اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک کرنے لگ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.جب تم کسی سے محبت کرنے لگو تو بتاؤ کہ کیا تمہارا دل چاہتا ہے کہ تم تو اس سے محبت کرو لیکن وہ تم سے محبت نہ کرے.جب تم کسی سے محبت کرو گے تو لازماً تمہارا دل چاہے گا کہ وہ بھی تم سے محبت کرے لیکن دنیا میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ تم زید سے محبت کرو اور زید تم سے محبت نہ کرے.تم ایک شخص کو چاہو اور وہ تمہیں نہ چاہے لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ خدا ایک بات چاہے اور وہ نہ ہو.جب خدا کہتا ہے کہ جو شخص محسن ہو جاتا ہے میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو یہ ناممکن ہے کہ تم محسن بنو اور خدا تم سے محبت نہ کرے اور اس کی محبت کے نتیجہ میں تمہارے دل میں بھی ضرور محبت پیدا ہو گی اور تم بھی اُس سے محبت کرنے لگ جاؤ گے.یہ تو عام قاعدہ بھی ہے مگر خدا تعالیٰ کی تو یہ شان ہے کہ اِذا اَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ 89 (4) گناہ پر ندامت کی عادت ڈالنا یعنی کوئی گناہ ایسانہ ہو جس کے بعد ندامت نہ ہو.اس سے بھی محبت الہی پیدا ہوتی ہے کیونکہ جو شخص گناہ پر نادم ہو اُس کے اندر آہستہ آہستہ حسن کے دیکھنے اور قدر کرنے کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.جو شخص گناہ کرتا ہے اور پھر اُس کے اندر ندامت پیدا نہیں ہوتی اس کے معنی یہ ہیں کہ اُس نے بُری تصویر دیکھی مگر اُس نے سمجھا ہی نہیں کہ یہ بڑی تصویر ہے اور جس میں ندامت پیدا ہوتی ہے اُس کے متعلق ماننا پڑے گا کہ اُس میں یہ احساس ہے کہ وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھتا ہے اور جب وہ بُری چیزوں کو بُری سمجھے گا تو لازماً اچھی چیز دیکھ کر اُسے اچھی سمجھے گا.جب یہ مادہ کسی شخص کے اندر پیدا ہو جائے اور وہ حسن کو دیکھنے لگے تو پھر خدا تعالیٰ کی محبت کا دروازہ آپ ہی کھل جاتا ہے کیونکہ وہ سب سے بڑا محسن اور سب سے بڑا حسین
انوار العلوم جلد 23 193 تعلق باللہ ہے.اسی لئے فرماتا ہے اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ 20 اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.(5) جو انسان اپنے دل میں یہ یقین پیدا کرنے کی کوشش کرتارہے کہ دعا کے بغیر میرے کام نہیں ہو سکتے.اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پید اہو جاتی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جو شخص اس خیال کو اپنے دل میں مرکوز کر لے گا وہ لازم دعاؤں کی طرف زیادہ توجہ کرے گا.کہے گا فلاں کا کام دعا سے ہوا ہے آؤ میں بھی اُس سے دعا کروں اور اس طرح خدا تعالیٰ کا احسان اُس کے زیادہ قریب آجائے گا.یوں تو خدا تعالیٰ نے ہی سورج اور چاند اور ستارے اور ہوا اور دوسری ہزاروں ہزار چیزیں پیدا کی ہیں اور انسان جانتا ہے کہ یہ سب خدا تعالیٰ کی عطا کردہ ہیں لیکن جب یہ بات نظر کے سامنے آئے کہ میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی.میں نے فلاں چیز مانگی اور خدا نے دے دی تو جو اثر یہ چیزیں پیدا کرتی ہیں وہ سورج اور چاند اور ستارے پیدا نہیں کرتے.پس دعا کی طرف توجہ کرنا بھی محبت الہی پیدا کرتا ہے.بے شک شروع میں تکلف والا حصہ آئے گا لیکن جب یہ بار بار دعائیں مانگے گا تو لازماً اس کی دعائیں قبول بھی ہوں گی اور بعض دفعہ معجزانہ رنگ میں قبول ہوں گی اور اس کی وجہ سے احسان جس سے محبت پیدا ہوتی ہے نگا ہو کر اس کے سامنے آجائے گا اور اس کے دل میں بھی محبت الہی پیدا ہو جائے گی.اس کی طرف بھی اوپر کی آیت اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ کے دوسرے معنوں نے اشارہ کیا ہے.تَوَّابِينَ کے دو معنی ہیں.ایک تو بہ کرنے والوں کے اور دوسرے تَوَّاب اُس شخص کو کہتے ہیں جو بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے.پس جو شخص بار بار اُس کی درگاہ میں جاتا ہے اُس کے دل میں بھی خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.پھر یہ بات بھی فطرتِ انسانی میں داخل ہے کہ جب انسان مانگتا ہے تو عجز کرتا ہے اور جب عجز کرتا ہے تو اُس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے.اِس طرح بھی تو اب خدا تعالیٰ کی محبت کا جاذب بن جاتا ہے.
انوار العلوم جلد 23 194 تعلق باللہ (6) جو شخص خدا تعالیٰ پر اپنے کاموں کو چھوڑ دے یعنی تدبیریں سب کرے لیکن یہ یقین کرے کہ نتیجہ اللہ تعالیٰ ہی نے نکالنا ہے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ جو شخص اپنے کام کو اُس پر چھوڑتا ہے وہ کم سے کم تکلف سے اُس کی طاقتوں اور اُس کے احسان کا اقرار کرتا ہے اور یہ تکلف آخر حقیقت بن جاتا ہے جیسا کہ اکثر دنیا کے کاموں میں ہوتا ہے.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے کہ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ 21 جو شخص خدا تعالیٰ پر اپنے کام چھوڑ دیتا ہے اور کہتا ہے یہ مجھے سے نہیں ہو سکتے آپ ہی یہ کام کیجئے اُس کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہو جاتی ہے.(7) جو شخص دنیا میں خدا تعالیٰ کے لئے انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کرتا ہے اُس کے دل میں بھی محبت الہی پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ انصاف کا ترک اپنے یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں اور عزیزوں کی وجہ سے ہوتا ہے.انسان اسی لئے انصاف چھوڑتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے اگر میں نے انصاف سے کام لیا تو میری ماں کو نقصان پہنچے گا یا میرے باپ کو نقصان پہنچے گا یا میرے رشتہ داروں کو نقصان پہنچے گا.پیس انصاف کے ترک کی ایک بڑی وجہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت ہوتی ہے اور یا پھر انصاف کا ترک دشمن کے بغض کی وجہ سے ہوتا ہے.یہی دو وجوہ نا انصافی کے ہوا کرتے ہیں یعنی دونوں فریق میں سے ایک کی دوستی یا ایک کا بغض.ظاہر ہے کہ جو نہ اپنی یا اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کی محبت کی پرواہ کرے گانہ دشمن کا بغض اُسے انصاف سے پھیرے گا کوئی اس محبت سے بڑی محبت یا اُس بغض سے بڑا خوف ضرور اُس کے دل میں ہو گا.جب وہ دیکھتا ہے کہ اگر فلاں مقدمہ کا میں یوں فیصلہ کر دوں تو میرے بچہ کو فائدہ ہو گا یا میرے دوست کو فائدہ ہو گا یا ماں باپ کو فائدہ ہو گا مگر اس کے باوجود وہ نہیں کرتا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی اور بڑی محبت اس کے پیچھے ہے اس لئے وہ انصاف کو ترک نہیں کرتا یا اگر کوئی بڑا دشمن اس کے قابو آ گیا ہے مگر باوجود اس کے کہ یہ اُس سے بدلہ لے سکتا ہے پھر بھی یہ انصاف سے کام لیتا ہے اور دشمنی کی پرواہ نہیں کرتا تو صاف ظاہر ہے
انوار العلوم جلد 23 195 تعلق باللہ کہ اُس بغض کا بدلہ لینے کے پیچھے کوئی ڈر اور خوف ہے جو اُسے ترک انصاف سے روکتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے بدلہ لیا تو میرے لئے اچھا نہیں ہو گا.یہ بڑی محبت یابڑا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے جو خواہ معین طور پر اللہ کے نام سے ہو یا غیر معین کسی بالا اور اعلیٰ طاقت کی وجہ سے ہو.بہر حال اُس کی فطرت میں محبت یا خوف پایا جاتا ہے.جس کی وجہ سے وہ انصاف سے کام لیتا ہے اور یہ محبت یا خوف اللہ تعالیٰ کا ہی ہو سکتا ہے.اور جس کے دل میں یہ بات نہیں لازماً اُس کا یہ فعل اس لئے ہو گا کہ گویا وہ کسی بڑی طاقت کو مانتا ہے یا اس کے قریب ہونا چاہتا ہے اور جب ایسا مقام کسی کو حاصل ہو جائے تو لازماًوہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائے گا اور جب وہ خد اتعالیٰ سے محبت کرے گا تو خدا بھی اُس سے محبت کرنا شروع کر دے گا.چنانچہ اس بارہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِن اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ 2 اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.(8) ایک طریقہ محبت الہی کے حصول کا یہ ہوتا ہے کہ انسان ہر امر میں خدا تعالیٰ کو ڈھال بنانے کی کوشش کرے.یعنی بدی کو خدا کے لئے چھوڑے بدی کو بدی کے لئے نہ چھوڑے.یہی وہ چیز ہے جسے تقویٰ کہتے ہیں.جب انسان کو کسی ہستی کی خاطر کام کرنے کی عادت ہو جاتی ہے تو آہستہ آہستہ اس سے محبت ہو جاتی ہے.چنانچہ بادشاہوں، نوابوں اور رؤساء سے پرانے خاندانی خدام اور رعایا کی محبت اِسی لئے ہوتی ہے کہ اُنہیں اُن کی خاطر کام کرنے کی عادت ہوتی ہے اور اس عادت کی وجہ سے اُن کی محبت ترقی کرتی رہتی ہے.اسی طرح انسان کو چاہیے کہ وہ جو کام بھی کرے خدا تعالیٰ کی رضا کے لئے کرے.مثلاً اگر وہ صدقہ دیتا ہے تو کہے کہ میں یہ صدقہ اس لئے نہیں دیتا کہ میری نیک نامی اور شہرت ہو بلکہ اس لئے دیتا ہوں کہ خدا نے صدقہ دینے کا حکم دیا ہے یا فلاں پر میں ظلم نہیں کروں گا کیونکہ میں خدا سے ڈر تاہوں.جب اس طرح اُسے ہر کام میں اللہ تعالیٰ کا نام لینے کی عادت پڑ جائے گی تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ اُس کی وابستگی ہو جائے گی.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اِس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ 23 جو بُرے کاموں سے میرے لئے بچتے ہیں اور جو نیکی کا کام میرے لئے کرتے ہیں اُن سے میں محبت 93
انوار العلوم جلد 23 196 تعلق باللہ کرتا ہوں اور اسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہدایت دیتے ہیں کہ تم میں سے جب کوئی شخص نیک کام کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ اِختِسَابًا کرے.24 اِختِسَابًا کے معنی ہیں خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور اُس کی جزاء کے لئے.لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ مقام ادنی ہے حالانکہ یہ بہت اعلیٰ مقام ہے اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے.(9) محبت کا ایک ذریعہ ہم جنس بننا ہے.جتنا جتنا کوئی ہم جنس بنے اس کی محبت اُسے اور اُس کی اِسے پیدا ہو جاتی ہے.انسانوں کو دیکھ لو سب ہم جنس سے محبت کرنے کے عادی ہیں.ملکی ملکیوں سے اور ایک زبان والے اپنی زبان والوں سے اسی وجہ سے محبت کرتے ہیں کہ وہ اُن کے ہم جنس ہوتے ہیں بلکہ انسان تو الگ رہے جانوروں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.کوے سب اکٹھے رہیں گے ، قاز 5 سب اکٹھے رہیں گے ، مرغ، گھوڑے اور گدھے اپنی اپنی جنس میں رہیں گے.ایک طرف آدمی ہوں اور دوسری طرف گھوڑے اور تم کسی گھوڑے کو کھلا چھوڑ دو تو وہ فوراگھوڑوں کی طرف چلا جائے گا.اسی کی طرف خدا تعالیٰ قرآن شریف میں ان الفاظ میں اشارہ فرماتا ہے کہ يُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ خدا تعالیٰ اُن لوگوں سے محبت کرتا ہے جو اس کے ہم جنس بننے کی کوشش کرتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی جو صفات قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں تم اُن کی نقل کرنے کی کوشش کرو.تم حي نہیں بن سکتے لیکن تم بیمار کا علاج کر کے یا بیمار کی خدمت کر کے حی کی نقل تو کر سکتے ہو.تم ہمیت نہیں بن سکتے لیکن تم بدی کا خاتمہ کر کے ممیت کی نقل تو کر سکتے ہو.تم خالق نہیں بن سکتے لیکن تم اچھی اولاد پیدا کر کے خالق کی نقل تو کر سکتے ہو.مُتَطَہر کے معنی ہیں تکلف کے ساتھ پاکیزگی اختیار کرنا.پس اِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِينَ میں اللہ تعالیٰ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ اگر تم میری نقلیں کرنی شروع کر دو تو میں تم سے محبت کرنے لگ جاؤں گا.پس صفاتِ الہیہ کو جو شخص اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس جس قدر اللہ تعالیٰ سے اُسے مشابہت ہوتی جاتی ہے اُس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ
انوار العلوم جلد 23 197 تعلق باللہ کو اُس کی محبت پیدا ہوتی جاتی ہے.دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اپنے اپنے دائرہ میں چھوٹے خدا بننے کی کوشش کرو.جب تم چھوٹے خدا بن جاؤ گے تو بڑا خدا تم سے آپ ہی محبت کرنے لگ جائے گا.(10) ایک ذریعہ محبت کا فطرت کا مطالعہ اور محبت کے طریقوں پر غور کرنا اور اُن پر عمل کرنا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر کچھ جذبات رکھتے ہیں جو خود اس نے پیدا کئے ہیں.ان میں صفات الہیہ کی جھلک رکھی گئی ہے یعنی انسان کے اندر اس نے ایسے مادے رکھ پر دئے ہیں جن سے خدا اور بندے میں ہم جنسیت ہو جاتی ہے.اب ہم قانونِ قدرت سے وہ امور تلاش کرتے ہیں جو محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں تا کہ ان پر غور کر کے ایک طالب صادق محبت الہی پیدا کر سکے.(1) سب سے پہلی محبت ہم دیکھتے ہیں کہ ماں باپ اور اولاد کی ہوتی ہے اِس محبت میں حسن اور احسان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.کسی ماں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میں اپنے بچہ سے اس لئے محبت نہیں کرتی کہ وہ خوبصورت نہیں.نہ کوئی ماں یہ کہتی ہے کہ میں اپنے بچوں سے اس لئے محبت کرتی ہوں کہ انہوں نے ہم پر احسان کئے ہوئے ہیں.نہ بچے نے ماں باپ پر احسان کئے ہوتے ہیں اور نہ وہ اُس کی شکل دیکھتے ہیں بلکہ باوجود بدصورت ہونے کے انہیں اپنا بچہ ہی سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے.آج ہی ایک عورت مجھ سے ملنے کے لئے آئی اُس نے گود میں اپنا بچہ اٹھایا ہوا تھا.اُس بچہ کو دیکھ کر گھن آتی تھی.ناک بہہ رہا تھا اور بہتے ہوئے اُس کے ہونٹوں پر گر رہا تھا مگر ماں کو اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور وہ اُس کی رینٹھ کو غالباً مشک اور عنبر سے بھی زیادہ اچھا بجھتی تھی.تو ماں باپ کی محبت کسی ظاہری دلیل کی وجہ سے نہیں ہوتی.کتابوں میں قصہ لکھا ہے کہ ایک بادشاہ اپنے دربار میں بیٹھا ہوا تھا کہ اُس نے ایک حبشی کو بلایا اور اُسے ایک خوبصورت ٹوپی دے کر کہا کہ تمہیں اِس دربار میں جو سب سے زیادہ خوبصورت بچہ دکھائی دے اُس کے سر پر جا کر یہ ٹوپی رکھ دو.وہ سیدھا
انوار العلوم جلد 23 198 تعلق باللہ اپنے بیٹے کی طرف گیا جو نہایت کالا کلوٹا اور بھدی شکل کا تھا اور جس کے موٹے موٹے ہونٹ تھے ناک بیٹھا ہوا تھا اور ٹوپی اُس کے سر پر رکھ دی.یہ دیکھ کر سارا در بار ہنس پڑا.بادشاہ نے اُس سے کہا کہ میں نے تو تمہیں کہا تھا کہ سب سے خوبصورت بچہ کے سر پر یہ ٹوپی جا کر رکھ دو اور تم نے اس بچہ کے سر پر رکھ دی.اُس نے کہا بادشاہ سلامت مجھے تو یہی بچہ سب سے زیادہ خوبصورت نظر آتا ہے.تو ماں باپ کی اپنے بچوں سے محبت اُن کی اچھی شکل وصورت کی وجہ سے نہیں ہوتی بلکہ بعض اور چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے جن کو میں آگے چل کر بیان کروں گا اور جن کو ماں باپ بھی نہیں جانتے.چنانچہ کسی ماں سے پوچھ کر دیکھ لو کہ تم اپنے بچے سے کیوں محبت کرتی ہو تو بجائے جواب دینے کے وہ ہنس کے کہہ دے گی کہ سودائی کہیں کا یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے حالانکہ بچہ ماں باپ کے لئے موجب تکلیف اور خرچ ہوتا ہے.بچہ پیدا ہوتے ہی اُس کی رات دن نگرانی کرنی پڑتی ہے.دایہ کے اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں.سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے کپڑے تیار کرنے پڑتے ہیں.پھر اگر بچہ کو رات کے وقت پیٹ میں کوئی تکلیف ہو جائے تو ماں ساری ساری رات اُسے لے کر پھرتی رہتی ہے اور جب وہ درد کی وجہ سے روتا اور چلاتا ہے تو وہ کہتی ہے "میں مر جاؤں"، "میں مر جاؤں".پس ماں باپ سے پوچھنے کی بجائے ہمیں فلسفیانہ طور پر غور کرنا چاہیے کہ آخر بچہ سے ماں باپ کیوں محبت کرتے ہیں.اس نقطہ نگاہ سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اس محبت کی پانچ وجوہ معلوم ہوتی ہیں.پہلی وجہ اس محبت کی مقام خالقیت ہے.یعنی ماں باپ اپنے بچوں سے اس لئے محبت کرتے ہیں کہ وہ ایک رنگ میں اُن کے خالق ہوتے ہیں اور وہ دنیا میں ایک نیا وجود پیدا کرتے ہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس لئے بنائی ہے کہ یہ ترقی کرے اور پھیلے اور چونکہ پیدائش عالم کی ایک بڑی غرض یہ تھی جیسا کہ وہ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء 27 سے ظاہر ہے اور پتہ لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دنیا اس لئے نہیں بنائی تھی کہ صرف آدم و حوا پیدا ہو جائیں بلکہ وہ چاہتا تھا کہ اُن کی نسل کو پھیلائے
انوار العلوم جلد 23 199 تعلق باللہ اور ترقی دے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے بہر حال اِس سلسلہ کو جاری رکھنا تھا اس لئے اُس نے ماں باپ کے دل میں اپنے بچوں کی محبت پیدا کر دی.پس ماں باپ کی محبت کی ایک بڑی وجہ خالقیت ہے اور جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا تو اس کے ساتھ ہی ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ جب خدا کہتا ہے کہ میں سب سے زیادہ محبت رکھتا ہوں تو ہمیں یہ بات مان چاہیے.جب انسان خالقیت کے ایک ادنیٰ پر تو کی وجہ سے اپنے بچوں سے اتنی محبت رکھتا ہے تو اصل خالق کو اپنی مخلوق سے جس قدر محبت ہو سکتی ہے اُس کا تو اندازہ لگانا بھی انسانی طاقت اور قوت سے باہر ہے.(2) ماں باپ کی محبت کی دوسری وجہ وحدت جسمانی ہے.انسان کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ وہ بغیر سوچے سمجھے اپنے جسم کو بچانے کی کوشش کرتا ہے تم اچانک اپنے کسی دوست کی آنکھ کی طرف زور سے انگلی لے جاؤ تو وہ فوراً اپنی آنکھ جھپک لے گا کیونکہ یہ فطرتی چیز ہے اور اس میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہوتی.پچھلے دنوں میری ایک نواسی جو ابھی چھوٹی بچی ہی ہے اور اُس کا والد سید ہے میرے پاس آئی اور میں نے مذاق کے طور پر اپنی سوٹی اُس کی طرف اس انداز میں کی کہ گویا ابھی میں اُسے مارنے لگا ہوں.میری سوٹی کے آگے نوکدار پھل بھی لگا ہوا ہے چونکہ میں نے اچانک ایسا کیا تھا اس لئے اُس نے ڈر کر چیخ ماری.تھوڑی دیر کے بعد جب وہ ٹھیک ہو گئی تو میں نے اُسے ہنس کر کہا سید بزدل ہوتے ہیں، مغل بہادر ہوتے ہیں.کہنے لگی نہیں نہیں سید بہادر ہوتے ہیں.تھوڑی دیر کے بعد جب اُس کے ذہن سے یہ بات اتر گئی تو میں نے پھر اُسے ڈرانے کے لئے اسی طرح کیا اور وہ پھر ڈر کر پیچھے ہٹ گئی.میں نے کہا دیکھا سید ڈر جاتے ہیں.خیر وہ چلی گئی اور چند دن مشق کرتی رہی.اس کے بعد وہ پھر میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ اب دیکھیں میں ڈرتی ہوں یا نہیں ؟ چنانچہ میں نے اُسے ڈرایا تو وہ نہیں ڈری لیکن دو چار دن کے بعد جب وہ پھر میرے پاس آئی تو غیر متوقع طور پر میں نے پھر اُسے ڈرا دیا اور میں نے دیکھا کہ اس دفعہ بھی وہ ڈر گئی کیونکہ وہ اس کے لئے تیار نہیں تھی تو فطرت کے اندر خدا تعالیٰ نے اپنے جسم کی حفاظت کا مادہ رکھا ہے چونکہ بچہ ماں باپ
انوار العلوم جلد 23 200 تعلق باللہ کے جسم کا ایک حصہ ہوتا ہے.اس لئے اپنے جسم کو بچانے کا جو مادہ فطرت میں ہو تا ہے وہ ادھر منتقل ہو جاتا ہے اور ماں باپ اپنے بچہ سے محبت کرنے لگتے ہیں.(3) ماں باپ کی محبت کی تیسری وجہ اپنائیت ہوتی ہے جس طرح وحدت جسمانی ایک طبعی محبت پیدا کرتی ہے اسی طرح تعلق کے لحاظ سے سے بھی ایک ہو جانے کا خیال محبت پیدا کر دیتا ہے.تمہارا کوٹ پھٹ جائے تو تمہیں کوئی پرواہ نہیں ہوتی کیونکہ کوٹ کے ساتھ اپنایت کا تعلق نہیں ہوتا.تم سمجھتے ہو کہ ایک کوٹ پھٹا تو دوسرا لے لیں گے لیکن جہاں تمہارا تعلق ہوتا ہے وہاں اس چیز کے ضائع ہونے سے تمہیں درد ہوتا ہے.پس وحدت جسمانی کی طرح اپنائیت بھی محبت پیدا کرتی ہے.خدا تعالیٰ نے اس دنیا کا سلسلہ ایسا بنایا ہے کہ ہر بچہ اپنے ماں باپ کے پاس رہتا ہے اور ماں باپ اُس بچہ کو کوئی غیر چیز نہیں بلکہ اپنی چیز سمجھتے ہیں اس لئے اُس سے محبت رکھتے ہیں.گورنمنٹ لوگوں پر ٹیکس لگا سکتی ہے لیکن اگر گور نمنٹ یہ چاہے کہ وہ کسی کا بچہ لے لے تو وہ بچہ نہیں لے سکتی.پس اپنایت کی انتہاء بھی محبت پیدا کرتی ہے.98 (4) بقائے ذات کی خواہش بھی محبت پیدا کرتی ہے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان چاہتا ہے میں ہزار سال زندہ رہوں مگر ظاہر ہے کہ انسان اس دنیا میں ہمیشہ کے لئے زندہ نہیں رہ سکتا.28 لیکن دوسری طرف بقائے ذات کی خواہش بھی ہر انسان میں پائی جاتی ہے جس کا ایک ہی ذریعہ ہوتا ہے کہ اُس کی اولاد اُس کے نام کو زندہ رکھتی ہے اور اس طرح بقائے ذات کی خواہش ایک رنگ میں پوری ہو جاتی ہے.پس چونکہ انسان یہ سمجھتا ہے کہ میں دنیا میں اگر زندہ رہ سکتا ہوں تو بچہ کی طرف سے، اس لئے اُسے اپنے بچہ سے محبت ہوتی ہے.(5) ماں باپ کی محبت کی پانچویں وجہ مظہریت ہوتی ہے.بقائے ذات کی خواہش تو یہ تھی کہ انسان چاہتا ہے میں خود زندہ رہوں اور مظہریت کے معنی یہ ہیں کہ انسان چاہتا ہے کہ جو چیزیں اُس سے ظاہر ہوتی ہیں وہ بھی ہمیشہ قائم رہیں.ایک جوانی میں خوب چل پھر سکتا ہے ، گھوڑے پر سواری کرتا ہے اور میلوں میل تک سفر
تعلق باللہ انوار العلوم جلد 23 201 کرتا چلا جاتا ہے اب جہاں طبعی طور پر اُس کے اندر یہ خواہش پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ زندہ رہوں وہاں اس کے اندر یہ خواہش بھی پائی جاتی ہے کہ میں ہمیشہ جوان رہوں.یہ نہیں چاہتا کہ میں بڑھا ہو جاؤں اور لوگ میرے منہ میں لقمے ڈالا کریں.گویا اُس کی خواہش ہوتی ہے کہ میری مظہریت دنیا میں قائم رہے اور چونکہ انسان کی مظہریت اُس کی اولاد کے ذریعہ ہی قائم رہ سکتی ہے اس لئے فطرتی طور پر ہر شخص اپنے بچوں سے محبت رکھتا ہے.یہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی دلیل کے ماں باپ اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں اور یہ ایسے گہرے موجبات ہیں کہ انسان کی فطرت میں مرکوز ہیں حتی کہ اُسے اِن کے بارہ میں سوچنے کی بھی ضرورت نہیں جس طرح انسان کا اپنا جسم دماغ پر خود بخود اثر کرتا ہے یہ موجبات بھی اُس کے دماغ پر تصرف کرتے ہیں حتی کہ وہ بغیر موجبات کو سوچنے کے مُوجَب کو محسوس کرتے لگتا ہے.شاید کوئی کہے کہ پہلی محبت تو بچہ کو ماں باپ کی ہوتی ہے آپ نے یہ کیوں کہا کہ پہلی محبت ماں باپ کو بچہ کی ہوتی ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انسانی نسل کو اگر اس اصول پر مانا جائے کہ آدم و حوا سے نسل انسانی چلنی شروع ہوئی تو اننا پڑے گا کہ پہلی محسوس محبت آدم و حوا کو ہوئی کیونکہ آدم اول خواہ یکدم پیدا ہوا خواہ غیر محسوس دور سے گزر کر محسوس دور میں داخل ہوا.اُس نے ماں باپ کی محبت کو نہیں دیکھایا نہیں سمجھا لیکن اُس نے اپنی اولاد کی محبت کو پہلی دفعہ دیکھا اور سمجھا اور یہی حق ہے.پس آدم و حوا کی پیدائش تھیوری کو دیکھا جائے تو ماننا پڑے گا کہ پہلی محبت ماں باپ کی بچہ سے تھی پہلی محبت بچہ کی ماں باپ سے نہیں تھی.یا یوں کہو کہ پہلے اس محبت کو محسوس کرنے والے ماں باپ تھے بچے نہیں تھے.یوں تو لوگ ہمیشہ بحث کیا کرتے ہیں کہ پہلے انڈا تھا یا مرغی ؟ اور یہ بحث ہمیشہ جاری رہے گی کہ پہلے آدم ہوا یا بچہ.لیکن بہر حال کوئی نہ کوئی تھیوری ماننی پڑے گی.ڈارون کہتا ہے کہ نسل انسانی نے آہستہ آہستہ ارتقائی صورت اختیار کی ہے پہلے وہ بعض جانوروں کی شکل میں تھا لیکن ارتقائی دور میں سے گزرتے گزرتے آخر وہ
انوار العلوم جلد 23 202 تعلق باللہ انسانی شکل میں نمودار ہوا.قرآن کریم اس تھیوری کو غلط قرار دیتا ہے لیکن بہر حال اگر ڈارون کی تھیوری لوتب بھی پہلا وجود جو محسوس محبت کرنے والا تھا وہ ماں باپ کا ماننا پڑے گا بچے کا نہیں اور اگر قرآن کریم کی تھیوری لوتب بھی ماں باپ کی محبت کو پہلی محبت ماننا پڑے گا بچے کی محبت کو پہلی محبت نہیں ماننا پڑے گا.دینی لحاظ سے بھی یہی اصل ہے کیونکہ خالق و مخلوق کے تعلق میں خالقیت کا تعلق مقدم ہے اور مخلوقیت کا تعلق مابعد.پس ماننا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جب اپنی محبت کے لئے پیدا کیا تو پہلے محبت اللہ تعالیٰ کے دل میں آئی اور اس کے بعد مخلوق میں.جس طرح پہلے محبت ماں باپ کے دل میں آتی ہے اور بعد میں بچہ میں جب وہ محسوس کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.چنانچہ ماں جنتے ہی بچہ سے محبت کرتی ہے بلکہ جننے سے بھی پہلے.لیکن بچہ کی ماں ولادت کے وقت فوت ہو جائے تو وہ پالنے والی عورت ہی کو ماں سمجھنے لگتا ہے اور اصل ماں باپ کو بھول جاتا ہے.اِس سوال کا جواب دینے کے بعد اب میں اُن موجبات کو لیتا ہوں جو ماں باپ کے دل میں محبت پیدا کرنے والے ہیں لیکن جن کو وہ خود نہیں جانتے صرف ان کے نتیجہ کو جانتے ہیں اور اُن کو انسان اور خدا تعالیٰ کے رشتہ پر چسپاں کرتے ہیں.(الف) پہلا موجب میں نے خالقیت کا بتایا ہے یہ ہمیں فطرتِ انسانی سے معلوم ہوتا ہے.بچے گڑیاں بنانے کے شوقین ہوتے ہیں، مکان بنانے کے شوقین ہوتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خالقیت کا ایک زبر دست تقاضا انسان و حیوان میں ہے اور پھر وہ اپنی مخلوق سے طبعاً محبت کرتا ہے.پس یہ جذبہ سب سے پہلے ماں باپ کے دل میں بچہ کی محبت پیدا کرتا ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ بھی نکال سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جو اصل خالق ہے اُس کی محبت اپنی مخلوق سے بہت زیادہ شدید ہونی چاہیے اور سچ پوچھو تو اس کی موٹی مثال موجود ہے.ماں باپ کے جتنے قصور بچے کرتے ہیں وہ کب تک اُن کو معاف کرتے ہیں.بعض دفعہ تو ایک بات نہ ماننے پر ہی اُنہیں عاق کر دیتے ہیں.بیسیوں واقعات سننے میں آتے ہیں کہ ماں باپ نے اپنے بچوں کو عاق کر دیا اور جب پوچھا گیا کہ آپ نے عاق کیوں کیا ہے تو انہوں نے جواب یہ دیا کہ ہم نے کہا تھا فلاں جگہ شادی کر لو مگر
انوار العلوم جلد 23 203 تعلق باللہ اُس نے ہماری بات نہ مانی اور فلاں جگہ شادی کر لی.اب کوئی اُن سے پوچھے کہ یہ بھی کوئی عاق کرنے والی بات تھی.عمر اُس نے بسر کرنی تھی یا تم نے ؟ مگر وہ برداشت نہیں کر سکتے اور اُنہیں عاق کر دیتے ہیں.اس کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ کا یہ حال ہے کہ رات دن دنیا کی چھاتی پر انسان گناہ کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی بات کو رڈ کر رہا ہے مگر وہ ہے کہ اوّل تو عذاب نہیں دیتا اور پھر باوجود جاننے کے کہ کل یہی شخص تو بہ توڑ دے گا اُس کی تو بہ کو قبول کر لیتا ہے اور فرماتا ہے اگر کل اِس نے تو بہ توڑی تو دیکھا جائے گا آج تو یہ تو بہ کر رہا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِظُلْمِهِمْ مَا تَرَكَ عَلَيْهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى 29 اگر اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو جو ظلم اور گناہ کرتے ہیں پکڑنا چاہے تو انسان کیا حیوان بھی اس دنیا کے پر دہ پر نہ رہیں اور انسان کا نام و نشان تک مٹادیا جائے مگر وہ ٹلاتا جاتا ہے اور کہتا ہے معاف کر دو.کیاد نیا میں کوئی ماں باپ ہیں جو اپنے بچوں کو اتنا معاف کرتے ہوں.اپنے نفس پر غور کر کے دیکھ لو ہم میں سے ہر خدا کی جس قدر نافرمانیاں کرتا ہے اور جس قدر ہزاروں ہزار قصور اُس سے سرزد ہوتے ہیں کیا اس قدر نا فرمانیاں وہ اپنے ماں باپ کی کر سکتے ہیں ؟ وہ تو مار مار کر دھجیاں اڑا دیں.(ب) دوسری وجہ ماں باپ کی محبت کی میں نے وحدت وجود بتائی ہے خدا تعالیٰ کو انسان سے یہ تعلق تو نہیں لیکن وحدت مرکزیت کا تعلق ہے کیونکہ انسان اپنی ساری طاقتیں اُس سے لیتا ہے.ماں باپ چھوٹے قد کے ہوں تو بچہ بعض دفعہ لمبے قد کا ہوتا ہے.ماں باپ کی نظر کمزور ہو تو بچے کی نظر تیز ہوتی ہے.ماں باپ کند ذہن ہوں تو بچہ بعض دفعہ بڑا ذہین ہوتا ہے.یاماں باپ بہادر ہوں تو بچہ بُزدل ہوتا ہے.غرض ہزاروں ہزار چیزیں ایسی ہیں کہ باوجود وحدت وجود کے بچے ماں باپ سے نہیں لیتے لیکن خدا تعالیٰ کو انسان سے چونکہ وحدت مرکزیت کا تعلق ہے اور انسان کلی طور پر اپنی طاقتیں اُسی سے لیتا ہے اس لئے کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کو خدا سے حاصل نہ ہو گویا خدا تعالیٰ انجن ہے اور وہ گل اور یہ تعلق بھی بڑا گہر اہوتا ہے.(ج) تیسری وجہ ماں باپ کی محبت کی اپنائیت ہے کہ یہ شے میری ہے.
انوار العلوم جلد 23 204 تعلق باللہ تعلق بھی اللہ تعالیٰ کا انسان سے ماں باپ سے زیادہ ہے کیونکہ ان کا اپنائیت کا احساس ابتدا کے لحاظ سے بھی محدود ہے اور انتہاء کے لحاظ سے بھی محدود ہے.ماں باپ کی اپنائیت کا احساس اُس وقت ہوتا ہے جب بچہ رحم مادر میں آتا ہے اور جب وہ مر جاتا ہے تو یہ احساس ختم ہو جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ احساس یا تعلق دونوں لحاظ سے غیر محدود ہے.میں خواہ آج پیدا ہوا یا پچھلی صدی میں پیدا ہوا.خدا تعالیٰ ازل سے یہ جانتا تھا کہ میں اُس کا ہوں اور ازل سے یہ جانتا ہے کہ میں مرنے کے بعد بھی اُسی کا ہوں پس ماں باپ کی اپنائیت محدود دائرہ کے لئے ہے اور خدا تعالیٰ کی اپنائیت غیر محدود دائرہ کے لئے ہے.(د) چوتھی وجہ ماں باپ کی محبت کی بقائے ذات کا احساس ہے چونکہ انہوں نے فنا ہونا ہے اس لئے وہ ایک ایسے وجود کو چاہتے ہیں جن میں اُن کا وجود زندہ رہے.خداتعالی فنا سے پاک ہے مگر اس کا تعلق اس جہت سے بھی انسان سے ہے.ماں باپ کا بقائے ذات کا تعلق زمانہ کے لحاظ سے ہوتا ہے.یعنی ماں باپ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ جب ہم مر جائیں گے تو اُس زمانہ میں یہ بچہ ہمارا قائم مقام ہو گا لیکن خدا تعالیٰ کا بقائے ذات کا تعلق مقام کے لحاظ سے ہے یعنی چونکہ وہ وراء الوراء ہے وہ انسان کے ذریعہ سے اپنے وجود کو دنیا میں زندہ رکھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں صرف اپنے بندے کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہو سکتا ہوں اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی.اگر حضرت عیسی علیہ السلام دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آئے ہوتے تو اُن کی قوم خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی.اسی طرح بڑے بڑے اولیاء جو امت محمدیہ میں آئے اگر وہ نہ آئے ہوتے تو اُس زمانہ کے لوگ خد اتعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتے تھے.اسی طرح اس زمانہ میں اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ آتے تو دنیا خدا تعالیٰ کو نہیں دیکھ سکتی تھی.پس ماں باپ کو مد نظر رکھتے ہوئے بقائے ذات کا تعلق وقت کے لحاظ سے ہے اور خدا تعالیٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا بقائے ذات کا مقام کے لحاظ سے ہے.خدا اس مجلس میں اِن آنکھوں سے نظر نہیں آرہا لیکن اس کے
انوار العلوم جلد 23 205 تعلق باللہ بندے نظر آرہے ہیں جو اُس کے وجود کو دنیا میں زندہ رکھے ہوئے ہیں اور در حقیقت یہی قسم بقائے ذات کی اصل بقاء ہے.وہ بقاء ایک شکی سی چیز ہے اور یہ بقاء ایک یقینی اور قطعی چیز ہے.آخر سوچنا چاہیے کہ جسمانی بیٹا ماں باپ کی بقاء کا کس طرح موجب بنتا ہے.وہ صرف ورثہ لیتا ہے اس کے سوا والدین کی حیات کا وہ اور کیا موجب ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے نیک بندے خدا تعالیٰ کے وجود کو دنیا میں زندہ کرتے اور زندہ رکھتے ہیں اور جسمانی بیٹوں کے مقابلہ میں خدا تعالیٰ سے اُن کی محبت بہت زیادہ ہوتی ہے.چنانچہ دیکھ لو بقائے ذات کی خواہش رکھنے والے ماں باپ کی یہ حالت ہوتی ہے کہ وہ بعض دفعہ محتاج بھی ہوتے ہیں تو بچہ اُن کی مدد نہیں کرتا.وہ اپنے ماں باپ کا وفادار ہونے کی بجائے اپنی اولاد کا زیادہ وفادار ہوتا ہے لیکن وفادار روحانی بیٹے کی یہ حالت ہوتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے ابراہیم کو خواب میں دکھایا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں تو ابراہیم جو اپنی اولاد کے ذریعہ جسمانی بقاء کا محتاج تھا وہ اس خواب کے آتے ہی اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے تیار ہو گیا اور اُس نے کہا جب میرا خدا مجھ سے یہ قربانی چاہتا ہے تو میں اپنا قدم پیچھے کیوں ہٹاؤں.پس وفادار جسمانی بیٹے اور وفادار روحانی بیٹے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.جس طرح ابراہیم خدا نما تھا کوئی بیٹا بھی باپ نما نہیں ہو سکتا.(ھ) پانچویں وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان اپنے لئے علاوہ جسمانی حیات کے روحانی حیات بھی چاہتا ہے.سب سے زیادہ موقع تربیت کا اُسے اپنی اولاد کے متعلق ملتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ میرے اخلاق کا مظاہرہ ہو تا رہے چنانچہ دیکھ لو والدین ہمیشہ یہ خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں خوبیاں ہماری اولاد ظاہر کرے یا ہمارے فلاں مطمح نظر اُس کے ذریعہ سے پورے ہوں لیکن عملاً کم ہو تا ہے.پھر بھی ایسی خواہش کے پورا ہونے کا وجو د اولاد ہی ہو سکتی ہے اِس لئے وہ اُن سے محبت کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا بھی انسان اس رنگ میں مظہر ہوتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے اِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًا لِتُؤْمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَتُعَزِّرُوهُ وَ تُوقِرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بُكْرَةً وَأَصِيلًا - إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللهَ يَدُ اللَّهِ
انوار العلوم جلد 23 206 تعلق باللہ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ 100 اِس آیت میں بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے لئے بطور گواہ ہیں اور گواہ کے ذریعہ ہمیشہ فریق مقدمہ کی سچائی ظاہر ہوتی ہے.پس آپ کو گواہ قرار دینے کے معنی یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے خد اتعالیٰ کی سچائی ثابت ہوتی ہے اور آپ کی ذات سے خدا تعالیٰ کا وجود ثابت ہوتا ہے اس لئے آپ کی بیعت خدا کی بیعت ہے.پھر فرماتا ہے یہی نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ بھی خدا کا ہاتھ ہے اس لئے کہ یہ ہاتھ مجھے دکھا رہا ہے اور چونکہ یہ میرا چہرہ دکھا رہا ہے اِس لئے اُس کا ہاتھ میرا ہاتھ ہے.گویا پہلی آیت يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ کی دلیل کے طور پر بیان کی گئی ہے یعنی چونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے مظہر کامل ہیں اور آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا وجود اس دنیا میں ظاہر ہو رہا ہے اس لئے آپ کی بیعت خدا کی بیعت اور آپ کا ہاتھ خدا کا ہاتھ ہے.اسی طرح اعلیٰ مومنوں کی نسبت فرماتا ہے کہ میں اُن کے ہاتھ ہو جاتا ہوں، پاؤں ہو جاتا ہوں، زبان ہو جاتا ہوں یعنی وہ میری صفات کو دنیا میں ظاہر کرنے والے ہوتے ہیں.خلاصہ یہ کہ اولاد سے جن امور کی بناء پر محبت کی جاتی ہے وہ سب کے سب خد اتعالیٰ میں پائے جاتے ہیں اس لئے وہ لازماً اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے.بعض سے عام جیسا کہ ہر ماں باپ اپنے ہر قسم کے بچے سے پیار کرتے ہیں اور بعض سے خاص.جیسا کہ ماں باپ اُن بچوں سے جن میں زیادہ اوصاف جمع ہو جائیں دوسرے بچوں سے زیادہ محبت کرتے ہیں.یہ ایک ضمنی حصہ ہے اور در حقیقت الگ باب ہے اس امر کے متعلق کہ خد اتعالیٰ کو اپنے بندوں سے کیوں اور کس قسم کی محبت ہوتی ہے مگر چونکہ میں محبت کا فلسفه بیان کر رہا تھا یہ بھی درمیان میں آگیا.(2) دوسرا موجب محبت کا احسان ہوتا ہے اس جذبہ کے ماتحت بچہ ماں باپ سے محبت کرتا ہے ماں باپ کی محبت اِس کے بر خلاف فطرتی ہوتی ہے جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کیونکہ ماں باپ اُس کے اخراجات برداشت کرتے اور اُس کے لئے ہر رنگ میں
انوار العلوم جلد 23 اور 207 تعلق باللہ نفس پر تکالیف وارد کرتے ہیں.شاگر داستاد سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے سکھاتا تعلیم دیتا ہے.محتاج محسن سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُس کی ضرورت کو پورا کرنے والا ہوتا ہے.مرید شیخ سے محبت کرتا ہے کیونکہ وہ اُسے روحانی تعلیم دیتا ہے.یہ وجہ بھی اللہ تعالیٰ میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہے اور قرآن کریم نے اس وجہ کی طرف خاص طور پر توجہ بھی دلائی ہے چنانچہ قرآن کریم میں بار بار اس امر کا ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ ربّ ہے، رحمن ہے، رحیم ہے ، مُلِكِ يَوْمِ الدِین ہے ، غفور ہے، ستار ہے ، جبار ہے ، وارث ہے، حفیظ ہے، بصیر ہے، رزاق ہے، سمیع ہے، مجیب الدعا ہے.یہ صفات بتا کر اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی ہے کہ تم ان صفات الہیہ پر غور کرو اور سوچو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کس قدر احسانات کئے ہیں اور یہ تو صرف چند نام بطور مثال میں نے لئے ہیں ورنہ بہت سے نام اللہ تعالیٰ نے بتائے ہیں جو اُس کی صفات حسنہ پر دلالت کرتے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ نظر نہیں آتا اور ماں باپ، استاد، محسن اور پیر کا ہاتھ نظر آجاتا ہے.بندوں کے احسانات ظاہر ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے احسانات پوشیدہ ہوتے ہیں اور در حقیقت اِن احسانات کو پوشیدہ رکھنا ہی ضروری ہوتا ہے کیونکہ اس احسان مندی کا بڑا بدلہ مقرر ہے جو انسانوں کی احسان مندی کا نہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا بدلہ زیادہ ملتا ہے اور شیخ اور پیر کی محبت کا بدلہ اتنا نہیں ملتا.جو چیز ظاہر ہو وہ چونکہ طبعی ہو جاتی ہے اور مزید بدلہ کا راستہ بند کر دیتی ہے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے احسانات کو مخفی رکھا ہے.اب یہ انسان کا کام ہے کہ وہ اُس کے احسانات کو تلاش کر کر کے اپنی محبت کو بڑھائے اور اُستوار کرلے.(3) تیسری وجہ محبت کی حسن ہے.اس کے مظہر میاں بیوی، عمدہ نظارے، عمدہ آواز، عمدہ قاعدے اور قانون وغیرہ ہوتے ہیں.یہ درجہ مادی محبت کے لحاظ سے احسان والی محبت سے ادنی ہے.احسان والی محبت کا درجہ مادی لحاظ سے حسن والی محبت سے اعلیٰ ہے کیونکہ احسان والی محبت میں اخلاق کا دخل ہوتا ہے اور حسن کی محبت میں صرف طبعی میلانات بلکہ پس پردہ لذات جسمانی کا حصول اس کا موجب ہوتا ہے.اسی وجہ سے
انوار العلوم جلد 23 208 تعلق باللہ ماں باپ کی محبت بیوی کی محبت سے زیادہ اعلیٰ سمجھی جاتی ہے کیونکہ اول الذکر کی بنیاد اخلاق پر اور ثانی الذکر کی لذات جسمانی پر ہوتی ہے.لیکن روحانی محبتوں میں یہ بات اُلٹ جاتی ہے مثلاً خدا تعالیٰ کی محبت کا موجب احسان کی یاد ہو تو یہ محبت درجہ کے لحاظ سے ادنی سمجھی جائے گی لیکن حسن باری محبت کا موجب ہو تو یہ محبت اعلیٰ سمجھی جائے گی گویا دنیا کی محبتوں اور خدا تعالیٰ کی محبت میں یہ فرق ہے کہ دنیوی محبت میں حسن والی محبت کا درجه احسان والی محبت کے درجہ سے کم ہے کیونکہ احسان کی محبت میں اخلاق کا دخل ہے حسن کی محبت میں صرف طبعی میلان کا بلکہ پس پردہ لذتِ جسمانی کے حصول کی خواہش کا.لیکن روحانی محبت میں حقیقت اُلٹ جاتی ہے اور احسان کی وجہ سے جو محبت ہو وہ حسن کی وجہ سے محبت سے ادنی سمجھی جاتی ہے.انسان میں حسن پہلے نظر آتا ہے اور احسان بعد میں.گویا حسن ظاہر ہے اور احسان مخفی اور اس وجہ سے احسان حسن سے اعلیٰ مقام پر ہے.مگر اللہ تعالیٰ کی ذات کے لحاظ سے احسان پہلے نظر آتا ہے اور حسن بعد میں.یعنی حسن الہی، احسان الہی سے زیادہ مخفی ہے.اسی کی طرف اللہ تعالیٰ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے کہ لَا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكُ الْاَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ 101 تمہاری آنکھیں اُس کو نہیں دیکھ سکتیں کیونکہ وہ لطیف ہستی ہے لیکن وہ خود چل کر تمہارے پاس آجاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے دل میں اُس کی محبت کی تپش پائی جاتی ہے اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک دفعہ ایک صحابی نے پوچھا کہ یار سول اللہ ! کیا آپ نے کبھی خدا کو بھی دیکھا ہے؟ آپ نے فرمایا تو ز آنی آراہ 102 وہ تو ایک نور ہے اُس کو کس طرح دیکھا جا سکتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی رؤیت جسمانی نہیں ہوتی.پس حسن الہی ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو محبت میں ترقی کرتے کرتے انسانوں کو حاصل ہوتی ہے لیکن اس کے بر خلاف انسانی حسن سب سے پہلے نظر آنے والی شے ہے اور اس کے دیکھنے کے لئے کسی محنت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن احسان بعد میں نظر آتا ہے اور اس کے لئے عقل اور فکر سے کام لینا پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ نے پانی دیا ہے ، روٹی دی ہے، ہوادی ہے، سورج دیا ہے، چاند دیا ہے ، سیارے اور ستارے دیئے ہیں، زمین بنائی ہے، ج
انوار العلوم جلد 23 209 تعلق باللہ آسمان بنایا ہے یہ سب اُس کے احسانات ہیں جو بالکل ظاہر ہیں لیکن حسن الہی ایک مخفی چیز ہے جس کے لئے جہاد کرنا پڑتا ہے.اس لئے خدا کے معاملہ میں حسن کا مقام زیادہ بلند ہے اور یہ حسن الہی ظاہری آنکھوں سے نہیں بلکہ ایک نئی حس سے نظر آتا ہے جو احسان کے بعد آہستہ آہستہ ترقی پاتی ہے اور محبت کے اعلیٰ مدارج میں سے ہے اور احسان کی محبت سے بہت بالا ہے کیونکہ اس کے لئے آنکھیں بھی پیدا کرنی پڑتی ہیں اُس سے بہت اعلیٰ آنکھیں جو احسان دیکھنے کے لئے ضروری ہیں.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نہایت اعلیٰ مقام پر پہنچ کر یہ حسن نشو و نما پاتا ہے اور قلب کی ایک نئی طاقت خدا تعالیٰ کے حسن کو دیکھنے اور چھونے پر قادر ہو جاتی ہے جو ہر انسان کو نہیں مل سکتی) اسی کا ایک حصہ کانوں سے حسن کو معلوم کرنے کا ہے جو الہام کے ذریعہ سے انسان کو موہبت کے رنگ میں عطا ہوتا ہے.انسان چاہتا ہے کہ جس کے ساتھ اُسے محبت ہے اُس کی آواز بھی سنے تا کہ اُس کے کان بھی اپنے محبوب کی آواز سے لطف اندوز ہوں اور یہی خواہش اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرنے والوں کے دلوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی شیریں آواز اُن کے کان میں آئے اور وہ اپنے محبوب سے راز و نیاز کی باتیں کریں لیکن ظاہر ہے کہ ہمارے یہ جسمانی کان خدا تعالیٰ کی آواز کو نہیں سُن سکتے.وہ تبھی سُنتے ہیں جب ایک نئی طاقت ہمارے اندر پید ا ہو جاتی ہے.دنیا میں تو جس طرح حسن ان مادی آنکھوں سے دکھائی دے سکتا ہے اسی طرح محبوب کی آواز بھی ہمارے یہ مادی کان شن لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے معاملہ میں جس طرح حسن الہی ایک نئی حس سے نظر آتا ہے اسی طرح حسن آواز کے لئے نئے کان پیدا کرنے پڑتے ہیں جو گویا احسان کی قدر کے بعد ایک موہبت کے رنگ میں عطا ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں حسن کی وجہ سے محبت کا مقام زیادہ بلند ہے اور احسان کی وجہ سے محبت کا مقام اُس سے نیچے ہے.چوتھا ذریعہ محبت کا اقتضائے حاجات و رفع شہوات ہے.جیسے میاں بیوی کی محبت ہے یا مال کی محبت بھی اسی قسم کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ عورت اور مرد
انوار العلوم جلد 23 210 تعلق باللہ ایک دوسرے کی بہت ہی تھوڑی ضرورتیں پوری کرتے ہیں اور پھر جو ضرورتیں پوری کرتے ہیں اُن کے تمام سامان خدا تعالیٰ کے پیدا کر دہ ہوتے ہیں.پس قضائے حاجات کے لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ ہی سب سے زیادہ محبت کا مستحق ہے کیونکہ وہی سب سے زیادہ اپنے بندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے والا ہے.پانچواں ذریعہ محبت کار فاقت و مصاحبت ہے.اس کی مثال دوستوں کی محبت اور میاں بیوی کی محبت ہے.بیویاں نہ سب کی حسین ہو سکتی ہیں نہ ہمیشہ حسین رہ سکتی ہیں.خوبصورت سے خوبصورت بیوی بھی ہو تو بعض دفعہ بیماریوں کی وجہ سے وہ نہایت بدصورت ہو جاتی ہے مگر یہ نہیں ہوتا کہ بیوی بدصورت ہو جائے تو خاوند اُسے چھوڑ دے.اس کی وجہ یہ ہے کہ گو ابتدا میں اکثر میاں بیوی ایک دوسرے سے اقتضائے حاجات اور حسن کی وجہ سے محبت کرتے ہیں یعنی وہ ایک دوسرے کو اچھے لگتے ہیں اور ایک دوسرے کے کام آتے ہیں اور ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں اس لئے وہ آپس میں محبت رکھتے ہیں لیکن بعد میں حسن اور شہوت ، رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل جاتے ہیں اور حسن بھول جاتا ہے گویا چونکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اس لئے اُن کی محبت ایک نیا چولہ بدلتی ہے جو بڑھاپے تک قائم رہتی ہے.اُس وقت وہ عورت جس پر وہ کسی زمانہ میں اُس کے حسن کی وجہ سے جان چھڑک رہا تھا اپنے سارے حسن کو کھو بیٹھتی ہے مگر مرد اس سے پھر بھی محبت کر رہا ہوتا ہے.اگر اُس عورت کی کوئی تصویر کھینچ کر دوسرے کے پاس لے جائے اور کہے بتاؤ کیا تم اِس عورت سے محبت کر سکتے ہو ؟ تو وہ دیکھتے ہی کہے گا کہ کیا تم مجھے احمق سمجھتے ہو کیا یہ اس قابل ہے کہ اس کے ساتھ محبت کی جائے.اس کی ب لٹکی ہوئی ہیں، چہرہ سوکھا ہوا ہے، دانت کوئی ہے نہیں، کمر کبڑی ہو چکی ہے اور تم کہتے ہو کہ میں اس کے ساتھ محبت کروں لیکن اُس کا خاوند اب بھی اس پر جان دیتا ہے کیونکہ اُس کی حسن اور قضائے حاجت والی محبت رفاقت اور مصاحبت کی محبت سے بدل چکی ہوتی ہے.اس رفاقت اور مصاحبت کو لو تو یہ بھی خدا تعالیٰ میں سب سے زیادہ پائی بھویں
انوار العلوم جلد 23 211 تعلق باللہ جاتی ہے.اسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ پایا جاتا ہے کہ وَاللهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا 103 یعنی تمہاری محبتیں شکلوں کی وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے تمہیں آپس میں اس طرح سمو دیا ہے کہ تمہیں شکلیں یاد ہی نہیں رہیں بلکہ تم ایک دوسرے کا حصہ ہو گئے ہو اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے سو میں اتنی میاں بیوی جن کی زندگی آرام سے گزرتی ہے اور وہ آپس میں محبت کرتے ہیں.اُن کی زندگی اسی رفاقت اور مصاحبت کی وجہ سے اچھی ہوتی ہے.اگر حسن اور قضائے حاجت کا سوال ہو تا تو شاید وہ اس طرح محبت نہ کر سکتے.(6) کبھی محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے بھی محبت ہوتی ہے.جیسے بعض لوگ بعض خاص کلبوں سے محبت رکھتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں جن سے انہیں لگاؤ ہوتا ہے.بعض خاص قسم کی سوسائٹیوں کو پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں ایسے لوگ آتے ہیں جن سے مل کر انہیں حق اور سرور حاصل ہوتا ہے.وطن کی محبت بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ وہاں اُن سے تعلقات محبت رکھنے والے لوگ زیادہ پائے جاتے ہیں.اسی طرح شہروں اور محلوں کی محبت کی وجہ بھی یہی ہوتی ہے کہ انسان کہتا ہے اس محلہ میں میرا چچا اور ماموں یا دوسرے رشتہ دار موجود ہیں.جب کسی شخص کو وطن سے باہر بھجوایا جائے تو چونکہ وہ جگہ ایسی ہوتی ہے جو اُس کے محبوبوں کو جمع نہیں کرتی اس لئے اس کی طبیعت میں بے چینی رہتی ہے.پھر جس طرح بعض خاص کلبیں، مجالس ، شہر اور محلے مختلف محبتوں کو یکجا کرنے کی وجہ سے انسان کو محبوب ہوتے ہیں اسی قسم کی محبت بعض رشتہ داروں سے بھی ہوتی ہے اور انسان کہتا ہے فلاں سے مجھے بڑی محبت ہے کیونکہ وہ میرے چا کا بھی بیٹا ہے اور میری خالہ کا بھی بیٹا ہے تو دور شتے اُس میں بھی ہو گئے ہیں.کئی خاوند اپنی بیویوں سے اِس لئے محبت کرتے جاتے ہیں کہ اُن سے نیک اولاد اُنہیں حاصل ہوئی ہوتی ہے.غرض دنیا میں یہ ایک عام نظارہ نظر آتا ہے کہ محبوبوں کا اجتماع کرنے والے سے انسان کو محبت ہوتی ہے.اس نقطہ نگاہ سے بھی اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ اس محبت کا بھی مرکز ہے کیونکہ جو اچھا آدمی ہو گا وہ لازماً خدا سے بھی
انوار العلوم جلد 23 212 سکتا.تعلق باللہ ہے.تعلق رکھتا ہو گا.اس لئے خدا سے تعلق رکھ کر ہر اچھے آدمی سے تعلق پیدا ہو اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں.اگر حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں.اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کی ذات سے کسی کو محبت ہے تو وہ بھی خدا کے پاس ہیں.غرض جتنے حسین اور قابل محبت وجود خدا تعالیٰ میں جمع ہوتے ہیں اور کہیں جمع نہیں ہوتے.اُس کی جنت میں تمام نیک جمع ہو جاتے ہیں اور تمام محب اور محبوب اُس کی طاقت سے محب اور محبوب بنتے ہیں.پس اس نقطہ نگاہ سے بھی خدا تعالیٰ کا وجو د ہی اس قابل ہے کہ اُس کے ساتھ محبت کی جائے اور اسی امر پر غور کرنے سے انسان اللہ تعالیٰ سے محبت بڑھا سکتا ہے.(7) طویل تعلق اور آئندہ ترقیات کی وابستگی کے احساس سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے.بادشاہوں سے یا وطن سے یا سیاسی اور مذہبی پارٹیوں سے اسی جہت سے محبت ہوتی ہے.بعض لوگ جو سینکڑوں سال سے حنفی چلے آرہے ہیں انہیں طبعی طور پر حنفیوں سے ہی محبت ہوتی ہے اور بعض دفعہ وہ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارا خاندان تو سات پشت سے حنفی ہے یا ہمارا خاندان سات پشت سے وہابی ہے.اسی طرح وہ سیاسی پارٹیاں جو ایک لمبے عرصہ تک برسر اقتدار رہتی ہیں اُن کے ساتھ بھی لوگوں کو محبت ہوتی ہے روہ سمجھتے ہیں کہ فلاں بڑی مضبوط پارٹی ہے.اگر ہم اس پارٹی کے ساتھ تعلق پیدا کریں گے تو ہمیں فائدہ ہو گا.غرض سابق لمبا تعلق یا آئندہ کے لمبے تعلق کی امید بھی انسان کے دل میں محبت پیدا کر دیتی ہے عادات سے محبت بھی اسی وجہ سے ہوتی ہے کہ اُن کے ساتھ ایک لمبا تعلق رہ چکا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کے لحاظ سے یہ وجہ بھی بڑی قوی ہے کیونکہ آئندہ ترقیات جتنی اُس سے وابستہ ہو سکتی ہیں اور کسی سے نہیں اور طویل تعلق زمانہ سابق یا مستقبل کے لحاظ سے بھی جتنا اُس سے ہے اور کسی سے نہیں.(8) آٹھویں وجہ محبت کی سکون کا حاصل ہو نا ہو تا ہے لیکن ساتھ ہی سکون سے
انوار العلوم جلد 23 213 تعلق باللہ بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی یہ دونوں چیزیں آپس میں لازم و ملزوم ہیں.محب کے وصال سکون اور حصولِ سکون سے محبت پیدا ہوتی ہے گویا اِن دونوں کا آپس میں خالق و مخلوق کا تعلق ہے.کبھی یہ خالق اور وہ مخلوق اور کبھی یہ مخلوق اور وہ خالق ہوتا ہے.یہ سکون کبھی عقلی ہوتا ہے اور کبھی جذباتی.عقلی جیسے کھانے پینے اور پہننے سے سکون حاصل ہوتا ہے اور جذباتی جیسے تعلقات مردوزن سے..کبھی تسکین کی امید کی وجہ سے بھی محبت پیدا ہوتی ہے یعنی امید ہو کہ اُس سے تسکین حاصل ہو گی جیسے سیاسی یا مذہبی پروگرام وغیرہ جن سے ملکی ترقی یا اُخروی زندگی کی امید ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ امر بھی سب سے زیادہ چسپاں ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے جس سکون کے ملنے کا امکان ہو سکتا ہے غیر سے نہیں کیونکہ غیر کی نعمت ٹوٹ سکتی ہے لیکن خدا تعالیٰ کی نعمت جاری ہے اور ترقیات وہ بہت زیادہ دے سکتا ہے.غرض جتنے موجبات محبت ہیں وہ سارے کے سارے نہایت شدت سے اللہ تعالیٰ کے وجود میں پائے جاتے ہیں.اس لئے جب ایک ایک وجہ شدید محبت پیدا کر سکتی ہے تو جس میں وہ سب وجوہ پائی جائیں اور شدت سے پائی جائیں اس سے کیوں محبت نہ ہو گی.ضرورت اس بات کی ہے کہ ذکر و فکر سے اِن اُمور کا احساس غائب سے حاضر میں لایا جائے اور عدم سے وجود میں اُن کو تبدیل کیا جائے.(9) ایک ذریعہ محبت کا تحریک و تحریص بھی ہوتا ہے.جب بار بار کسی حسین چیز کا ذکر کیا جائے تو لوگوں کو سُن سُن کر بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.عربوں میں قصہ مشہور ہے کہ ایک شخص نے کسی کتاب میں پڑھا کہ اُستادوں سے دوستانہ تعلقات نہیں رکھنے چاہئیں کیونکہ وہ بے وقوف ہوتے ہیں.اُس کے ایک استاد سے بڑے اچھے تعلقات تھے جو ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے اور وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ استاد تو بڑے اچھے ہوتے ہیں معلوم نہیں لکھنے والے نے یہ کس طرح لکھ دیا کہ استاد بے وقوف ہوتے ہیں.ایک دفعہ وہ اُن سے کچھ عرصہ کے بعد ملنے کے لئے گیا تو اُسے معلوم ہوا کہ استاد صاحب بیمار ہیں.اُس نے لوگوں سے دریافت کیا کہ وہ کب سے بیمار ہیں.تو انہوں نے جواب دیا کہ
انوار العلوم جلد 23 214 تعلق باللہ مدت ہو گئی وہ تو گھر سے نکلتے ہی نہیں.وہ بہت پریشان ہوا اور آخر دریافت حالات کے لئے اُن کے مکان پر پہنچا.بیوی نے اُن سے کہا کہ آپ اُن کے اچھے دوست ہیں آپ نے خبر بھی نہیں لی کہ اُن کا کیا حال ہے وہ تو مرنے کے قریب پہنچ چکے ہیں.اسے سن کر بہت افسوس ہوا اور اس نے کہا کہ پردہ کروا دیں تاکہ میں خود اُن سے حال دریافت کر سکوں.چنانچہ وہ اندر گیا دیکھا تو واقع میں استاد صاحب بڑے مضمحل اور کمزور ہو چکے تھے اور ہڈیوں کا ایک ڈھانچہ رہ گئے تھے.اُس نے پوچھا کہ آپ کو بیماری کیا ہے ؟ اُس نے جواب دیا کہ بیماری کی کچھ سمجھ نہیں آئی بہت علاج کروایا ہے مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا.اس نے کہا آخر کچھ تو بتائیے کہ یہ بیماری آپ کو شروع کس طرح ہوئی ہے ؟ اس نے کہا بات یہ ہے کہ جب میں کتابیں پڑھتا اور اُن میں محبت اور عشق کے واقعات دیکھتا تھا تو میرے دل میں بھی بار بار خیال آتا تھا کہ مجھے بھی محبت کرنی چاہیے مگر میں سمجھتا تھا کہ میری محبت کسی معمولی عورت سے نہیں ہو سکتی.دنیا میں جو سب سے زیادہ حسین عورت ہو گی اُس سے میں محبت کروں گا.چنانچہ ایک دن میں اپنی گلی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص میرے پاس سے گزرا اور اُس نے ایک شعر پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ ایم عمر وایسی حسین عورت ہے کہ ساری دنیا اُس پر عاشق ہے.میں نے کہا کہ بس عشق کرنا ہے تو ام عمر و سے ہی کرنا ہے.چنانچہ میں نے اس سے محبت کرنی شروع کر دی.اُس نے کہا یہ تو فرمائیے آپ نے ام عمرو کبھی دیکھی بھی تھی یا نہیں ؟ کہنے لگا میں نے دیکھی تو نہیں لیکن جب ساری دنیا اُس سے محبت کرتی تھی تو میں نے سمجھا کہ میں بھی اس سے کیوں نہ محبت کروں.چنانچہ میں اپنی محبت اور عشق میں ترقی کرتا چلا گیا اور دل میں بار بار حسرت پیدا ہوتی تھی کہ اقم عمرو کا مجھے وصال حاصل ہو مگر مدتیں گزر گئیں اور ام عمرو کا کچھ پتہ نہ چلا.ایک دن میں پھر اپنی گلی میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شخص گزرا اور اُس نے یہ شعر پڑھا کہ لَقَدْ مَرَ الْحِمَارُ بِأَمْ عَمْرٍو فَمَا رَجَعَتْ وَمَا رَجَعَ الْحِمَارُ کہ ام عمرو کو گدھا لے کر چلا گیا اور اس کے بعد نہ وہ کوئی اور نہ گدھا لوٹا.میں نے سمجھ لیا
انوار العلوم جلد 23 215 تعلق باللہ کہ وہ جو کوئی نہیں تو ضرور کر چکی ہے.چنانچہ اُس دن سے میں چارپائی پر پڑا ہوں اور حالت روز بروز بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے.آپ خود ہی انصاف فرمائیں کہ جب محبوب ہی نہ رہا تو اس دنیا میں زندہ رہ کر کیا کرنا ہے.وہ یہ قصہ سُن کر لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا باللہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھا اور کہنے لگا کتاب میں سچ لکھا تھا کہ استاد بے وقوف ہوتے و حقیقت یہ ہے کہ بار بار کسی چیز کا ذکر سننے سے بھی محبت ہو جاتی ہے.بار بار یہ کہنا کہ خدا بڑا پیارا ہے، خدا بڑا محسن ہے، خدا بڑا مہربان ہے، خدا ہم سب کی ضروریات پوری کرتا ہے، خدا ہم سب کو روزی دیتا ہے، خدا ہماری دعائیں سنتا ہے، خدا ہماری مشکلات دور کرتا ہے.اسی طرح وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کرنا اور خدا تعالیٰ سے محبت پیدا کرنے کی ترغیب دلانا.یہ چیزیں ایسی ہیں جو رفتہ رفتہ انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتی ہیں چنانچہ دیکھ لو جہاں سخاوت کا ذکر آئے گالوگ فوراً کہہ اُٹھیں گے کہ حاتم بڑا سخی تھا حالانکہ نہ اُنہوں نے حاتم کو دیکھانہ اُس کے حالات پڑھے محض اس لئے کہ لوگوں کی زبان پر حاتم کا بار بار ذکر آتا ہے ہر شخص حاتم سے محبت کرتا ہے.اسی طرح ایک پنجابی جو نہ یونان کا نام جانتا ہے نہ اُس ملک کے حالات سے واقفیت رکھتا ہے فوراً کہہ دے گا کہ تو بڑا افلاطون آیا ہے یا جب کوئی شخص اپنی بہادری کی ڈینگیں مارے تو لوگ کہتے ہیں بڑار ستم بنا پھرتا ہے حالانکہ کہا جاتا ہے کہ رستم کوئی حقیقی وجود نہیں تھا محض قصہ کہانیوں میں بہادری کے ذکر کے لئے ایک نام تجویز کر لیا گیا ہے.پھر اور باتوں کو جانے دو زلیخا کے حسن کے اتنے قصے مشہور ہیں کہ جن کی کوئی حد ہی نہیں.اچھے معقول ر تعلیم یافتہ آدمیوں نے بعض دفعہ مجھ سے پوچھا ہے کہ کیا یہ سچ ہے کہ زلیخا اتنی حسین تھی کہ اُس سے بڑھ کر اور کوئی حسین عورت نہیں تھی ؟ اب زلیخا مر کے مٹی بھی ہو گئی مگر اُس کے حسن کا چر چا باقی ہے کیونکہ لوگوں میں اُس کا بار بار ذکر آتا ہے.اسی طرح لیلی ضرور اچھی ہو گی لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری کئی نوکرانیاں اُس سے اچھی ہوں مگر اس وجہ سے کہ بار بار لیلیٰ کا ذکر آتا ہے اُس کا دماغوں پر ایسا نقشہ کھینچ گیا ہے کہ انسان خیال اور
انوار العلوم جلد 23 216 تعلق باللہ کرتا ہے کہ لیلیٰ سے بڑھ کر کوئی خوبصورت عورت ہو ہی نہیں سکتی.پس کسی کا اچھا ذکر سن سن کر بھی اُس سے محبت پیدا ہو جاتی ہے.جب ہماری عقل بتاتی ہے کہ خداسب سے اچھا ہے تو اگر قوم میں اِس امر کو جاری کیا جائے کہ محبت الہی کا ذکر بار بار ہو اور لوگوں کو تحریک کی جائے کہ وہ خود بھی ذکر و فکر کریں اور دوسروں سے بھی کروائیں اور اِس ذکر کو عام کرنے کے لئے وعظ و نصیحت کی مجالس منعقد کی جائیں اور بچوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، بیویوں کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں، ماں باپ کے کانوں میں بھی یہ باتیں ڈالی جائیں تو غیر شعوری طور پر لوگوں کے دلوں میں محبت الہی پیدا ہو جائے گی اور قوم میں ایسے لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں نظر آنے لگیں گے جو خدا کے نام پر سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوں گے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں حضرت عیسی علیہ السلام کی حیثیت ہی کیا ہے.مگر اس وجہ سے کہ عیسائی بچپن سے ہی اپنی قوم کے افراد کے دلوں میں یہ نقش کرتے رہتے ہیں کہ عیسی بڑا ہے کوئی عیسائی بھی خواہ وہ دہر یہ ہی کیوں نہ ہو یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عیسی پر فضیلت دی جائے.میں جب انگلستان گیا تو ایک عیسائی ڈاکٹر جو دہر یہ تھا مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور اُس نے مذہبی گفتگو شروع کر دی مگر تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑی بے باقی کے ساتھ حملہ کر دیتا تھا.تین چار دفعہ تو میں نے بر داشت کیا مگر جب بار بار اس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کیا تو میں نے کہا کیا تم جانتے نہیں عیسی میں فلاں فلاں نقص تھے جن کو انجیل سے ثابت کیا جاسکتا ہے.جب میں نے عیسی کا نام لیا تو وہ آگ بگولہ ہو گیا اور کہنے لگا عیسی کا نام نہ لیں یہاں عیسی کا کیا ذکر ہے میں عیسی کے متعلق کوئی بات سن نہیں سکتا.میں نے کہا تم اگر عیسی کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتے تو میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی بات نہیں سن سکتا.وہ دہر یہ تھا مگر اس وجہ سے کہ بچپن سے اُس کے کانوں میں یہ بات ڈالی جاتی رہی تھی کہ عیسی سب سے بڑا ہے باوجود دہر یہ ہونے کے وہ اس بات کو برداشت نہ کر سکا کہ عیسی
انوار العلوم جلد 23 اعتراض کیا جائے.217 تعلق باللہ اسی طرح جب میں حج کے لئے گیا تو جس جہاز میں میں نے سفر کیا اُسی میں تین بیرسٹر بھی سفر کر رہے تھے.ایک ہندو تھا اور دو مسلمان مگر وہ دونوں دہر یہ تھے.خدا تعالیٰ کی ہستی پر ایمان نہیں رکھتے تھے چنانچہ میرے ساتھ اُن کی لمبی بحث رہی.وہ خد اتعالیٰ کی ہستی پر بار بار مذاق اُڑاتے اور بعض دفعہ ایک تنکا نکال کر سامنے رکھ دیتے کہ اگر تمہارے خدا میں طاقت ہے تو وہ یہ تنکا ہلا کر دکھائے.ہندو بیرسٹر بھی اُن اعتراضات میں اُن کا شریک ہوا کرتا تھا.ایک دن اس بحث کے دوران میں جب کہ ہندو بیر سٹر بات کر رہا تھا اُس نے مثال میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی گستاخی سے ذکر کر دیا.بس اُس کا یہ ذکر کرنا تھا کہ وہ دونوں بیرسٹر جو خدا کی ہستی پر رات دن مذاق اُڑاتے رہتے تھے یکدم غصہ کے ساتھ اُس سے کہنے لگے کہ دیکھو میاں! اب اس کے بعد تم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں لینا ورنہ ہماری اور تمہاری دوستی بالکل ٹوٹ جائے گی.اُس نے کہا جب تم خدا کو ہی نہیں مانتے تو رسول کے ماننے کا سوال کیسا؟ وہ کہنے لگے کچھ ہو خدا کو جو مرضی ہے کہہ لو مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہم کوئی بات برداشت نہیں کر سکتے.اب اس کی وجہ کیا ہے ؟ وجہ یہی ہے کہ ماں باپ نے بچپن تحفظ ختم نبوت" کی تلقین کی ہوئی ہوتی ہے اور چونکہ بچپن سے وہ سنتے چلے آتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب نبیوں سے بڑے ہیں اس لئے وہ یہ بحث تو کر لیں گے کہ خدا ہے یا نہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف وہ کوئی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.تو بار بار سننے سے بھی محبت پیدا ہو جاتی ہے.اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حَبّبُوا اللَّهَ إِلَى عِبَادِهِ يُحْبِبْكُمُ اللهُ 104 یعنی لوگوں کے اندر تم ایسی باتیں کیا کرو جن سے خدا کی محبت پید اہو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا.اگر تم اپنے بچوں کو اور بڑوں کو، دوستوں کو اور رشتہ داروں کو محبت الہی کی ضرورت اور اُس کے حصول کی اہمیت بتاؤ اور محبت پیدا کرنے والے افعال کا ذکر بار بار اپنی مجالس میں محبت اور پیار سے کرتے رہو تو تمہاری محبت
انوار العلوم جلد 23 218 تعلق باللہ بھی بڑھے گی اور اُن کی بھی.(10) دسواں طریقہ محبت الہی کے حصول کا دعا ہے جو ساری کامیابیوں کی جڑ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آخِرَ الدَّوَاءِ الْكَى 105 کہ آخری علاج داغ دینا ہوتا ہے.اسی طرح سارے کاموں کا آخری انحصار دعا پر ہے.پس انسان کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جھکے اور اُس سے کہے کہ الہی! تیر اوجود مخفی ہے میری عقل سخت ناقص اور نا تمام ہے مگر میرے دل کے مخفی گوشوں میں تیرے وصال کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے.میرا دل تجھ سے ملنے کے لئے بیتاب ہے میں چاہتا ہوں کہ تیری محبت کو حاصل کروں.مگر اے میرے ربّ! میری کوششیں اُس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتیں جب تک تیرے فضل میرے شامل حال نہ ہوں.پس تو اپنی محبت سے مجھے حصہ عطا فرما اور مجھے اُن لوگوں میں شامل فرما جو تیرے محبین کے پاک گروہ میں شامل ہیں.چنانچہ حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اَللَّهُمَّ ارْزُقْنِی حَبَّكَ وَحُبَّ مَنْ أَحَبَّكَ وَحَبَّ مَا يُقَرِبُنِيْ اِلَيْكَ وَ اجْعَلْ حَبَّكَ أَحَبَّ إِلَيَّ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ - 106 اللَّهُمَّ ارْزُقْنِی جنگ یعنی اے میرے خدا! مجھے اپنی محبت عطا فرما وَ حَبَ مَنْ اَحَبَّكَ اور اے خدا جو تجھ سے محبت کرتے ہیں میرے دل میں تو اُن کی محبت بھی ڈال دے وَحَبَّ مَا يُقَرِبُنِی اِلَیگ اور ان کاموں کی اور ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کی اور ان قربانیوں اور نیکیوں کی بھی میرے دل میں محبت ڈال دے جن سے تیری محبت پیدا ہوتی ہے وَاجْعَلْ حَبَّكَ اَحَبَّ إِلَىَ مِنَ الْمَاءِ الْبَارِدِ اور اے میرے ربّ! اپنی محبت میرے دل میں اُس سے بھی زیادہ پیدا کر دے جتنی شدید گرمی کے موسم میں انسان کو ٹھنڈے پانی کی محبت ہوتی ہے.الْمَاءِ الْبَارِدِ کے معنی ٹھنڈے پانی کے بھی ہیں اور ماء کو حیات کا مرکز بھی قرار دیا گیا ہے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيْ 107 ہم نے پانی سے ہر چیز کو زندہ کیا ہے.پس یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الْمَاءِ الْبَارِدِ سے یہاں صرف جسمانی پانی مراد نہ ہو بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و و
انوار العلوم جلد 23 219 تعلق باللہ مقصد یہ ہو کہ تیری محبت اتنی پیاری ہو کہ مرکز حیات کی محبت بھی میرے دل میں اس قدر نہ ہو.بہر حال یہ دعا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مانگا کرتے تھے اور جس پر دوام انسان کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیتا ہے.وقت کم تھا لیکن پھر بھی میں نے جلدی جلدی اپنے مضمون کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے.دوستوں کو چاہیے کہ اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی کوشش کریں تا کہ یہ جسمانی زندگی ختم ہونے سے پہلے پہلے ہم میں سے ہر شخص کے دل میں محبت الہی پید اہو جائے.ا اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی محبت عطا فرمائے اور اپنے ماسوا کی محبت ہمارے دلوں سے سرد کر دے اور جن سے محبت کرنا اُس کے منشاء کے مطابق ہو اُن سے اِس قسم کی اور اتنی محبت ہمیں ہو کہ جس سے خدا تعالیٰ کی محبت بڑھے اور اُس کا تعلق زیادہ ہو حتی کہ ہماری محبت اُس کی محبت کو کھینچ لے اور وہ ہمارا چاہنے والا ہو جائے اور ہم 66 اُس کے.اللَّهُمَّ أَمِيْنَ وَأَخِرُ دَعْوَنَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ.“ 1: المدثر : 32 :2 3: تذکرہ صفحہ 10.ایڈیشن چہارم پیدائش باب 5 آیت 22.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 5 جیوش انسائیکلو پیڈیا جلد 5 صفحہ 178 تا181 (ترجمہ مفہوماً) 6 پیدائش باب 32.آیت 24 تا 28.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 7 تا 9 اقرب الموارد جلد 2 صفحہ 821.مطبوعہ بیروت 1889ء 10: المنجد صفحہ 526.مطبوعہ بیروت 1960ء :11 12: العلق: 3 :13
انوار العلوم جلد 23 220 :14 آل عمران: 60 15: الانبياء: 38 16: البقرة: 118 60:31:14 18،17: اقرب الموارد جلد 2 صفحہ 822.مطبوعہ بیروت 1889ء 19: الكهف: 55 20: مسلم كتاب التوبة باب في الحض على التوبة (الخ) 21: اقرب الموارد جلد اصفحہ 689 مطبوعہ بیروت 1889ء :22 بخاری کتاب الرقاق باب التواضع 23، 24 اقرب الموارد جلد 1 صفحہ 415.مطبوعہ بیروت 1889ء 25: الانبياء: 91 26: التوبة: 59 27: القلم: 33 28 تا 31: المفردات فی غریب القرآن صفحہ 197.مطبوعہ مصر 1324ھ 33،32: المفردات فی غریب القرآن صفحہ 198،197 مطبوعہ مصر 1324ھ 34 تا 37 اقرب الموارد جلد 1 صفحه 20.مطبوعہ بیروت 1889ء 38 تا 41: المفردات فی غریب القرآن صفحہ 27 مطبوعہ مصر 1324ھ 43،42: المفردات فى الغريب القرآن صفحہ 27 مطبوعہ 1324ھ 44: طه: 11 45: اقرب الموارد جلد 2 صفحہ 1437 مطبوعہ بیروت 1889ء تعلق باللہ 46: نوح: 24 :47 :مريم: 97 48: هود: 91 49: البروج: 15 50 طویلہ: گھوڑوں کا تھان.گھوڑوں کے باندھنے کی جگہ 51 النسائی کتاب النکاح باب كراهية تزويج العقيم 52: المائده: 55 53: البقرة: 166 54 التوبة: 24 55: مسنداحمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 207.مطبوعہ بیروت 1978ء 57،56: تفسیر در منثور للسیوطی جلد ا صفحه 261.مطبوعہ بیروت 1314ھ 60،59: البقرة: 38 61: النساء: 126 58:طه: 116
انوار العلوم جلد 23 221 تعلق باللہ 62: بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم باب قول النبی صلی اللہ عليه وسلم سدوا الابواب (الخ) 63: کنز العمال جلد 3 صفحہ 372 مطبوعہ حلب 1970ء 64: مسلم كتاب التوبة باب في سعة رحمة الله تعالى (الخ) 65: البقرة: 256 66: بدر اا جنوری 1912ء صفحہ 6 67 مسلم كتاب التوبة باب في الحض على التوبة 68: الانعام: 77 :69: ال عمران: 32 70: المائده: 55 :71 72: النساء: 37 73: البقرة: 191 74: النساء: 108 75: ترمذى ابواب البر والصلة باب ماجاء في الشكر (الخ) 76 اسد الغابة جلد 3 صفحہ 157 مطبوعہ ریاض 1286ھ 77: القصص : 77 78: القصص: 78 79 الحج: 39 80 ابراهيم: 8 81: الانعام: 142 الاعراف: 32 82 مسلم كتاب البر والصلة باب فضل عيادة المريض 83: ال عمران: 141 84: البقرة: 153 85: المائدة: 12 86: ابوداؤد كتاب الادب باب في المطر 87: الشعراء: 4 88 آل عمران: 149 89 يس: 83 90: البقرة: 223 91 ال عمران: 160 92: المائدة: 43 93: ال عمران: 77 94: بخاری کتاب الصوم باب من صام رمضان ايمانًا واحتسابًا ابًا (الخ)
انوار العلوم جلد 23 222 95: قاز: راج ہنس، ایک قسم کی مرغابی 96: الروم: 31 97: النساء: 2 98: يَوَدُّ اَحَدُهُمْ لَو يُعَمَّرَ اَلْفَ سَنَةٍ (البقرة: 97) 99: النحل: 62 100: الفتح: 9 تا 11 101: الانعام: 104 102: مسلم کتاب الایمان باب فی قولہ علیہ السلام نُورانی آرَاهُ (الخ) 103: النحل: 73 104: المعجم الكبير للطبراني جلد 8 صفحہ 91 مطبوعہ قاہرہ 1985ء :105 :106 107: الانبياء: 31 تعلق باللہ
انوار العلوم جلد 23 223 مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوت اسلام مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوتِ اسلام از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 225 مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوت اسلام ” اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوتِ اسلام محررہ 18 جنوری 1953ء) سواحیلی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور اس کے مضمون کے متعلق مختصر نوٹ شائع کئے جارہے ہیں.افریقہ کو اسلامی تاریخ میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے.خصوصاً شمال مشرقی افریقہ کو اسلام کے ابتدائی ایام میں جب مکہ والوں نے مسلمانوں پر بڑے بڑے مظالم کئے اور مکہ میں مسلمانوں کی رہائش ناممکن ہو گئی تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے ارشاد سے مسلمانوں کو حبشہ کی طرف جانے کی ہدایت فرمائی.حبشہ یعنی ایسے سینیا وہ ملک ہے جو کہ کینیا کالونی کے ساتھ لگا ہوا ہے.چنانچہ جب مسلمان اس ملک میں پہنچے اور وہاں کے بادشاہ کے قانون کے ماتحت انہیں کسی قسم کی تکلیف نہ پہنچائی گئی اور امن کا سانس انہوں نے لینا شروع کیا تو مکہ والوں سے یہ بات برداشت نہ ہو سکی اور انہوں نے اپنی قوم کے دو لیڈروں کو بادشاہ اور اس کے درباریوں کے لئے بہت سے تحائف دے کر بھجوایا اور انہیں ہدایت کی کہ وہ بادشاہ سے درخواست کریں کہ وہ مہاجرین مکہ کو مکہ کی حکومت کے حوالے کر دے تاکہ وہ ان سے اپنے خیالات اور عقائد کے مطابق سلوک کریں اور اگر بادشاہ نہ مانے تو پھر درباریوں کو تحفے دے کر ان سے بادشاہ پر زور ڈلوائیں اور مسلمان مہاجرین مکہ کو جس طرح بھی ہو واپس مکہ لائیں.
انوار العلوم جلد 23 226 مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوت اسلام چنانچہ یہ وفد حبشہ گیا اور درباریوں خصوصا پادریوں کے ذریعہ سے بادشاہ سے ملا جو اُس زمانہ میں نیگس کہلاتا تھا.جسے عرب لوگ نجاشی کہتے تھے.یہ اُس بادشاہ کا نام نہیں تھا بلکہ یہ اُس زمانہ کے حبشی بادشاہوں کا لقب ہو تا تھا.چنانچہ بادشاہ کے سامنے اُنہوں نے شکایت کی کہ اُن کے ملک کے کچھ باغی بھاگ کر حبشہ آگئے ہیں اور انہیں مکہ والوں نے اس لئے بھیجا ہے کہ ان باغیوں کو مکہ کی حکومت کے حوالہ کر دیا جائے.بادشاہ نے ان لوگوں کی باتیں سُن کر مسلمانوں کو بلوایا اور اُن سے پوچھا کہ وہ کس طرح آئے ہیں؟ اُنہوں نے بتایا کہ اُن پر اُن کی قوم ظلم کر رہی تھی اور چونکہ افریقن بادشاہ کا انصاف اور اس کا عدل مشہور تھا وہ اس کے ملک میں پناہ لینے کے لئے آگئے.اس پر بادشاہ نے مکہ کے وفد کو جواب دیا کہ چونکہ ان کے خلاف کوئی سیاسی مجرم ثابت نہیں صرف مذہبی اختلاف ثابت ہے اس لئے وہ ان کو واپس کرنے کے لئے تیار نہیں.مکہ کا وفد جب دربار سے ناکام لوٹا تو اس نے درباریوں اور پادریوں کو بھی تحفے تقسیم کئے اور اُنہیں اُکسایا کہ یہ مسلمان لوگ حضرت مسیح علیہ السلام کی بھی ہتک کرتے ہیں اس لئے مسیحیوں کو بھی مکہ والوں کے ساتھ مل کر ان پر سختی کرنی چاہئے.چنانچہ دوسرے دن پھر درباریوں نے بادشاہ پر زور دیا کہ یہ لوگ تو مسیح کی بھی ہتک کرتے ہیں.چنانچہ بادشاہ نے مسلمانوں کو پھر بُلوایا اور اُن سے پوچھا کہ آپ لوگ مسیح کے بارہ میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں ؟ مسلمانوں نے سورۃ مریم کی ابتدائی آیات پڑھ کر اس کو سنائیں جن میں مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کا ذکر ہے اور پھر کہا کہ ہم مسیح کو نبی اللہ مانتے ہیں.ہاں انہیں خدا کا بیٹا نہیں مانتے.اس پر پادریوں نے شور مچادیا کہ دیکھو انہوں نے مسیح کی ہتک کی ہے مگر افریقن بادشاہ منصف مزاج اور عادل تھا.اُس نے سمجھ لیا کہ یہ الزام ان پر غلط لگایا جارہا ہے.یہ لوگ مسیح کا ادب کرتے ہیں مگر اُس کو خدا یا خدا کا بیٹا نہیں مانتے.چنانچہ اس نے بڑے جوش سے ایک تنکا فرش پر سے اُٹھایا اور کہا کہ خدا کی قسم! میں بھی مسیح کو وہی کچھ مانتا ہوں جو یہ کہتے ہیں اور میں اس درجہ سے جو انہوں نے مسیح کا بیان کیا ہے اس سے ایک تنکے
انوار العلوم جلد 23 کے برابر بھی زیادہ نہیں سمجھتا.227 مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوت اسلام پادریوں نے بادشاہ کے خلاف بھی آوازے کسنے شروع کئے کہ تو بھی مرتد ہو گیا ہے لیکن نجاشی نے کہا کہ میں تمہارے اس شور و شغب کی وجہ سے مرعوب نہیں ہو سکتا.جب میرا باپ مر ا تھا تو میں چھوٹا بچہ تھا اور میری جگہ پر میر اچھا قائمقام مقرر کیا گیا تھا اور تم لوگوں نے اس کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مجھ کو تخت سے محروم کر دو.جب مجھے یہ بات معلوم ہوئی تو باوجود اس کے کہ میں چھوٹا تھا میں نے اپنا حق لینا چاہا اور نوجوان میرے ساتھ مل گئے اور میرے چچانے ڈر کر دستبرداری دے دی اور تخت میرے حوالے کر دیا.تو میری بادشاہت تمہاری وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے باوجود تمہاری مخالف کوششوں کے مجھے دی ہے.کیا میں اب تم سے ڈر کر خدا کو چھوڑ دوں گا اور ظلم اور تعدی کروں گا؟ نہ تم نے یہ بادشاہت مجھے دی ہے نہ میں تمہاری مدد کا محتاج ہوں.میں کسی صورت میں ظلم نہیں کر سکتا.یہ لوگ آزادی سے میرے ملک میں رہیں گے اور کوئی ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا.پس اے اہل افریقہ ! جن کی زبان سواحیلی ہے میں یہ ترجمہ آپ کے سامنے پیش کرنے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتا ہوں کیونکہ اس کتاب کے ابتدائی ایام میں اس کتاب کے ماننے والوں کو آپ کے بڑ ا عظم نے پناہ دی تھی اور ظلم و تعدی کرنے سے انکار کر دیا تھا اور انصاف اور عدل قائم کرنے کا بیڑہ اُٹھایا تھا.آج قرآن کریم کی پاکیزہ تعلیم اُسی طرح مظلوم ہے جس طرح کسی زمانہ میں قرآن کریم کے ماننے والے مظلوم ہوا کرتے تھے.آج اس قرآن کریم کو دُنیا میں لانے والا نبی فوت ہو چکا ہے لیکن اس کا روحانی وجود آج اس سے بھی زیادہ مظلوم ہے جتنا کہ آج سے قریباً چودہ سو سال پہلے وہ اپنی دنیوی زندگی میں مظلوم تھا.اس پر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں، اس کی لائی ہوئی تعلیم کو بگاڑ کر دُنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، اس کے ماننے والوں کو حقیر اور ذلیل سمجھا جاتا ہے لیکن خدا گواہ ہے کہ واقعہ یہ نہیں.خدا کی نظروں میں سب سے زیادہ معزز وجود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے جن پر قرآن نازل ہوا تھا اور سب سے زیادہ سچی تعلیم وہ ہے جو اس کتاب یعنی قرآن کریم میں
انوار العلوم جلد 23.228 مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوت اسلام موجود ہے.جیسا کہ آپ خود دیکھ لیں گے.دُنیا صرف اپنی طاقت اور اپنی قوت کے گھمنڈ پر اس کی تردید کر رہی ہے اور اس کے ماننے والوں کو ذلیل کر رہی ہے لیکن اے اہل افریقہ ! آج آپ کا بھی یہی حال ہے.آپ کو غیر ملکوں میں تو الگ رہا اپنے ملک میں بھی ذلیل سمجھا جا رہا ہے.پس وہ تعلیم جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے ایک وحشی اور غیر تعلیم یافتہ قوم کو دنیا کی ترقیات کی چوٹی پر پہنچا دیا تھا لیکن جو آج مظلوم ہے اور گھر سے بے گھر کر دی گئی ہے میں اُسے آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں.جبکہ آپ لوگوں کی حالت بھی اسی قسم کی ہے اور آپ سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کتاب کو غور سے پڑھیں اور اسی عدل و انصاف کی نگاہ سے اسے دیکھیں جس نگاہ سے نجاشی نے مکہ کے مسلم مہاجرین کو دیکھا تھا اور پھر اپنی عقل اور اپنی بصیرت سے نہ کہ لوگوں کے لگائے ہوئے جھوٹے الزاموں کے اثر کے نیچے اور لوگوں کی بنائی ہوئی رنگین عینکوں کے ذریعہ سے اسے دیکھیں.مجھے یقین ہے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ کو اس لاثانی جوہر کی حقیقت معلوم ہو جائے گی اور اُس رشتے کو آپ پکڑ لیں گے جو کہ خدا تعالیٰ نے اس کتاب کے ذریعہ سے آسمان سے پھینکا ہے تاکہ اس کے بندے اسے پکڑ کر اس تک پہنچ جائیں.اے اہل افریقہ ! ایک دفعہ پھر اپنے عدل اور انصاف کا ثبوت دو اور پھر ایک سچائی کے قائم کرنے میں مدد دو.جو سچائی تمہارے پیدا کرنے والے خدا نے بھیجی ہے.جس سچائی کو قبول کرنے کے بغیر غلام قومیں آزاد نہیں ہو سکتیں، مظلوم ظلم سے چھٹکارا نہیں پاسکتے.قیدی قید خانوں سے چھوٹ نہیں سکتے.امن، رفاہیت اور ترقی کا پیغام میں تمہیں پہنچاتا ہوں.یہ پیغام میرا نہیں بلکہ تمہارے اور میرے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے ، یہ زمین آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے، یہ یورپ اور امریکہ اور ایشیا کے پیدا کرنے والے خدا کا پیغام ہے.آؤ اور ہزاروں کی تعداد میں آؤ، لاکھوں کی تعداد میں آؤ، کروڑوں کی تعداد میں آؤ اور سچائی کے جھنڈے کے نیچے جمع ہو جاؤ تا کہ ہم سب مل کر دُنیا میں از سر نو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کر دیں اور بنی نوع انسان کی ہمہ گیر اخوت اور خدا تعالیٰ کے ہمہ گیر عدل و انصاف کو دُنیا میں قائم کر دیں.خدا تعالیٰ
انوار العلوم جلد 23 229 مشرقی افریقہ کے باشندوں کو دعوت اسلام آپ لوگوں کو میری آواز پر لبیک کہنے کی توفیق دے اور میں وہ دن دیکھوں جبکہ آپ لوگ میرے دوش بدوش دُنیا میں امن و سلامتی اور ترقی اور رفاہیت کے قائم کرنے میں کوشش کر رہے ہوں اور پھر یہ کوششیں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہوں.خاکسار.مرزا محمود احمد خلیفة المسیح الثانی (الفضل 26 فروری 1958ء) 1 سیرت ابن هشام جلد 1 صفحہ 356 تا362.مطبوعہ مصر 1936ء
انوار العلوم جلد 23 231 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (اسلامک آئیڈیالوجی) از افاضات سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 233 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ وو ” اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ اسلام کا بنیادی نظریہ متعلق مسئلہ نبوت کا (از افاضات حضرت خلیفتہ المسیح الثانی.یہ اس دستاویز کا ابتدائی حصہ ہے جو تحقیقاتی عدالت، فسادات پنجاب 1953ء میں صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے داخل کی گئی تھی) اسلام ایک کلیاتی مذہب ہے یعنی وہ صرف متفرق احکام نہیں دیتا بلکہ وہ دُنیا کی پیدائش کے مقصد اور شریعت کی ضرورت اور انسانی ذمہ داریوں کی حد بندیوں اور انسانی پیدائش کی غرض اور اُس کی فطرت کی حقیقت اور سوسائٹی کے مقابلہ میں اُس کا مقام اور اُس کے مقابلہ میں سوسائٹی کا مقام اور اُس کے آخری انجام کو بھی بیان کرتا ہے.وہ اس پر بحث کرتا ہے کہ دنیا بلا وجہ اور بلا مقصد پیدا نہیں کی گئی.کائنات کی پیدائش ایک بشر کامل کی پیدائش کے لئے تھی.بشر کامل سے مُراد اور بشر کامل سے مُراد ایسا وجود تھا جو خدا تعالیٰ کی صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنے والا ہو اور جو خدا تعالیٰ کی طرف جھکے اور خدا جس کی طرف جھکے اور اس طرح دو محبتوں کی وجہ سے وہ انسان کہلائے جو اصل میں انْسَانِ“ ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ.اول اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اُس سے.دوم اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے بھی محبت کرتا ہے اور اُس کی مخلوق سے بھی.پھر وہ یہ بتاتا ہے کہ کمال کے معنے یہ نہیں کہ اس سے قصور نہیں ہو سکتا کیونکہ قائم وَحَى بالذات تو ان معنوں میں بے عیب ہو کر بھی کامل کہلا سکتا ہے مگر مخلوق ان معنوں میں بے عیب ہو کر کامل نہیں کہلا سکتی بلکہ بوجہ مخلوق ہونے کے مجبور کہلائے گی
انوار العلوم جلد 23 234 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور مجبوری حسن کمال سے محروم کر دیتی ہے.پس اس کے کامل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور طریق اختیار کیا کہ اُس کے اندر خیر و شر کے دونوں مادے پیدا کر دیئے اور اس کی راہنمائی کے لئے اُسے دو مددگار طبعی اور دو مددگار فوق الطبعیات عطا فرمائے تاوہ اُن کی مدد سے خدا تعالیٰ تک پہنچے اور اپنے اخلاق کو کامل کرے اور اپنی ذمہ داری کو ادا رے.پہلا طبعی مددگار وہ معائنہ اور فکر کو قرار دیتا ہے چنانچہ فرماتا ہے اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَةٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ 1 یعنی زمین اور آسمان کی پیدائش اور رات اور دن کے آگے پیچھے آنے میں عظمندوں کے لئے بہت سے نشانات مخفی ہیں.اُن لوگوں کے لئے جو اللہ تعالیٰ کو کھڑے بھی اور بیٹھے بھی اور لیٹے ہوئے بھی یاد کرتے ہیں اور زمین و آسمان کی پیدائش پر غور کرتے ہیں.یعنی طبعیات پر غور اور اُس کے تغیر و تبدل پر فکر کرنا بھی ہدایت اور صحیح علم کا ایک ذریعہ ہے., دوسرا ذریعہ فرماتا ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقويها 2 یعنی انسان کے اندر اُس نے ایک ایسا مادہ رکھ دیا ہے جس سے وہ اچھے اور بُرے میں تمیز کرتا اور ہدایت کی راہیں معلوم کرتا ہے یعنی انسان کے اندر شعور اور تمیز پیدا کی گئی ہے جس سے وہ صدق و باطل میں فرق کر سکتا ہے.اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس آیت میں کہ فِطْرَتَ اللهِ الَّتِی فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا 3 اللہ تعالی کی پیدا کی ہوئی فطرت وہی ہے جسے لے کر انسان پیدا ہوتا ہے جو بعد میں اس پر رنگ آمیزی کی جاتی ہے اور اس پر تعصب کا رنگ چڑھایا جاتا ہے وہ خدا کی دین نہیں.بی نتیجے پر پہنچنے کے لئے صرف بیرونی اثرات سے خالی اور آزاد دماغ ہی کام دیتا ہے جسے لے کر بچہ پید ا ہو تا ہے.دو مافوق الطبعیات ذرائع اُس نے الہام اور نبوت پیدا کئے ہیں یعنی انسان جب خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُسے راہنمائی ملتی ہے.جیسے فرمایا وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.4 جو لوگ سچے طور پر ہماری ملاقات کے لئے کوشش کرتے ہیں ہم اُن کے لئے اپنی طرف راہنمائی کرنے والے اسباب پیدا
انوار العلوم جلد 23 235 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کر دیتے ہیں.اس کے علاوہ تفصیلی راہنمائی کے لئے نبوت کا مقام جاری کیا جس کے ذریعہ سے وہ شریعتیں اور قانون ملتے ہیں یا شریعت اور قانون کے راز معلوم ہوتے ہیں جو کسی مخصوص زمانے کے لئے ضروری ہوں.اسی کی طرف اس آیت میں اشارہ ہے کہ ایما يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقُضُونَ عَلَيْكُمُ ايَتِي، فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.2 اگر تمہاری طرف تم میں سے ہی رسول آئیں جو تم کو میرے نشانات بتائیں تو جو شخص تقویٰ اور اصلاح سے کام لے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف لاحق ہو گا نہ ماضی کا غم.قرآن کریم یہ چار ذرائع انسان کی تکمیل کے لئے بتاتا ہے جن میں سے دو طبعی ہیں اور دو فوق الطبعیات.اور غور کر کے دیکھا جائے تو دنیا کی ترقی انہیں چاروں ذریعوں سے وابستہ ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم نے یہ چار راستے تو انسان کے لئے کھولے ہیں لیکن اُن پر چلنے کے لئے اُسے مجبور نہیں کیا صرف اُسے قبول کرنے یا رڈ کرنے کی مقدرت دی ہے.اور محبت الہی کے پیدا کرنے کے لئے شریعت کی بنیاد انسان کے فائدہ پر رکھی ہے جبر اور زور پر نہیں رکھی.چونکہ انسانی فطرت اپنے کمال کے لئے تین سہاروں کی محتاج ہے ایک صحیح عمل پر اور ایک صحیح فکر پر اور ایک شوق ورغبت پر اس لئے صحیح عمل کے لئے اُس نے شریعت نازل کی.صحیح فکر کے لئے تمیز اور معائنہ قدرت کے سامان پیدا کئے.اور شوق اور رغبت کی تکمیل کے لئے الہام ووحی کا دروازہ کھولا.مگر چونکہ شریعت کا مکمل ہو جانا انسانی دماغ کے مکمل ہونے پر موقوف تھا اِس لئے شریعت کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ مکمل کر دیا لیکن محبت الہی کی خواہش کمالِ ذہنی سے بڑھتی ہے.اس لئے دوسرا راستہ الہام و رضا کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ پہلے سے بھی زیادہ کھول دیا.اگر پہلے نبیوں کے ذریعہ سے ایک ملک اور قوم میں محدود لوگ اُس مرتبہ کو پاتے تھے تو آپ کے بعد آپ کے ذریعہ سے یہ فیض اور بھی بڑھ گیا.جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رَسُوْلَكَ الْخَاتِمُ لِمَا سَبَقَ وَالْفَاتِحَ لِمَا انْغَلَقَ - یعنی اے خدا تیرارسول ایسا ہے کہ سابق انعامات کو اُس نے کمال تک پہنچا دیا اور وہ دروازے رحمت الہی کے جو پہلے بند تھے
انوار العلوم جلد 23 236 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اُس نے کھول دیئے.یہ وہ اسلامی آئیڈیالوجی ہے جسے میں تمہید کے طور پر بیان کرنا چاہتا ہوں.کیونکہ اسی پس منظر میں یہ امر سمجھ میں آسکتا ہے کہ آیا احمدیت نے اسلام میں کوئی نئی بات نکالی ہے یا اُس آئیڈیالوجی کی تشریح کی ہے.اب میں اوپر کے مختصر بیان کی تصدیق میں قرآن کریم اور احادیث اور اقوالِ اولیاء و صلحاء بیان کر کے کسی قدر تفصیل سے اس مضمون کو بیان کرتاہوں.مذکورہ بالا مختصر بیان کی تصدیق قرآن مجید سے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے له وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لِعِبِينَ - 1 یعنی زمین و آسمان بلا وجہ نہیں پیدا کئے گئے بلکہ اُن کی پیدائش میں حکمت تھی اور وہ اعلیٰ درجہ کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے تھے.پھر فرماتا ہے اَنَّ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا آسمان اور زمین یقیناً پہلے بند تھے پھر ہم نے اُن کو کھول دیا.اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ تمام عالم پہلے ایک واحد شکل میں تھا پھر اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے مختلف وجود بنائے گئے.جیسا م ہیئت اور علم تخلیق ارض سے ثابت ہوتا ہے کہ دنیا بننے سے پہلے ہیولائی حالت میں ہوتی ہے، پھر وہ پہلے تو زیادہ گھنی ہوتی جاتی ہے اور پھر بعض دفعہ اندرونی تغیرات سے متاثر ہو کر وہ جھٹکا کھاتی ہے اور اس کے کچھ حصے الگ ہو کر ایک نظامِ شمسی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.مگر دوسرے معنے اس کے یہ بھی ہیں کہ دنیا بغیر ہدایت اور رہنمائی کے ہوتی ہے پھر خدا تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے کلام کے نزول کا راستہ کھول دیتا ہے اور تاریکیوں میں سے نکل کر مخلوق روشنی کی طرف آجاتی ہے.پھر انسان کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَكُمْ عَبَثًا.2 کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تم کو بغیر کسی مقصد اور بغیر کسی مدعا کے پیدا کیا تھا.پھر اس اشارہ سے وضاحت کی طرف رجوع کرتے ہوئے فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُونِ.10 ہم نے تمام بڑے لوگوں اور عوام الناس کو
انوار العلوم جلد 23 237 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے نفس کو مہذب بنائیں اور قرب الہی حاصل کریں.دوسری جگہ اس کی تشریح یوں فرمائی ہے کہ صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً وَ نَحْنُ لَه عبدُونَ 11 یعنی اللہ تعالیٰ کے رنگ کو اختیار کرو اور اللہ تعالیٰ سے بہتر رنگ کون دے سکتا ہے.حدیث میں اس رنگ کی تشریح یوں آئی ہے خَلَقَ اللَّهُ أَدَمَ عَلَى صُورَتِهِ 12 اللہ تعالیٰ نے آدم کو ایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ الہی صفات کو ظاہر کر سکے.بائبل میں ہے کہ ”خدا تعالیٰ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا“.13 پھر اس مقصد کے پورا کرنے کا طریقہ بیان کرتا ہے کہ وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً 14 اور یاد کرو جب کہ تمہارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں دُنیا میں اپنی صفات کو ظاہر کرنے والا ایک وجود پیدا کرنا چاہتا ہوں.گویا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إلا لِيَعْبُدُونِ میں جو غرض انسان کی پیدائش کی بتائی گئی تھی اس آیت میں اُس غرض کے پورا کرنے کا اعلان کیا گیا.پھر انسان کو اس غرض کے پورا کرنے کے لئے چننے کی وجہ یہ بتائی کہ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا 151 یعنی شریعت کا حامل انسان کے سوا اور کوئی وجود مخلوقات میں سے نہیں ہو سکتا.کیونکہ اُس کے اندر اپنے ارادہ سے اپنے نفس پر ظلم کرنے اور اسے مجبور کر کے کام لینے اور عواقب کو بھلا کر کام کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے.امانت کا لفظ جو اس جگہ آیا ہے اس کی تشریح ایک دوسری آیت سے ہوتی ہے.إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا 10 یعنی اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم حکومت کی امانت اُن لوگوں کے سپر د کرو جو اس کے اہل ہیں.ایک اور آیت میں انسان کی اس طاقت کا اظہار ان الفاظ میں کیا گیا ہے.اِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرَا وَ إِمَا كَفُورًا 17 هم نے انسان میں یہ مادہ پیدا کیا ہے کہ وہ چاہے تو شکر گزار بندہ بن جائے اور چاہے تو نافرمان بن جائے.یعنی اس پر جبر نہیں کیا صرف اسے مقدرت بخشی ہے تاکہ وہ انعام کا مستحق.
انوار العلوم جلد 23 238 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 2191 اور جبر کی وجہ سے ایک آلہ بے جان قرار نہ پائے.اسی طرح فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ وَلِسَانًا وَ شَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ 18 کیا ہم نے انسان کے لئے دو آنکھیں دیکھنے کو نہیں بنائیں ؟ اور زبان اور ہونٹ اپنی شبہات کے اظہار کے لئے نہیں بنائے؟ اور اُس کو نیکی اور بدی دونوں کا راستہ نہیں دکھایا؟ پھر ایک اور جگہ فرماتا ہے فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقُولُهَا 19 انسان کے اندر بُری باتوں اور نیک باتوں کے سمجھنے کا مادہ رکھا گیا ہے.پیدائش عالم کا ایک مقصد خلاصہ کلام یہ کہ قرآن کریم اور اسلام کی رُو سے پیدائش عالم ایک مقصد کے مطابق ہے اور وہ ہے ایک ایسے وجود کو ظاہر کرنا جو صفات الہیہ کا مظہر ہو.اور اس کے لئے انسان چنا گیا ہے جس میں بالا رادہ خیر و شر کو اختیار کرنے کی طاقت رکھی گئی ہے اور انسان کے وجود کو ظاہر کرنا پھر ایک مقصد کے مطابق ہے اور اُسے آزاد بنایا گیا ہے کہ وہ اپنی عقل ور فہم سے کام لے کر ان دونوں طریق میں سے کسی ایک کو اختیار کرے.پھر اس کے بعد فرماتا ہے قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَتهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسْهَا - 20 جو اپنی فطرتِ صحیحہ کو پاک رکھے گا اور اسے خرابیوں میں مبتلا ہونے سے بچائے گا وہ اپنے مقصد اور مدعا کو پالے گا.اور جو شخص اپنی فطرتِ صحیحہ کو خاک اور مٹی میں مسل دے گاوہ اپنی پیدائش کے مقصد اور مدعا میں ناکام رہے گا.یعنی صفات الہیہ کا ظہور اُس کے ذریعہ سے نہیں ہو گا اور وہ ایک سڑے ہوئے پھل کی طرح ہو جائے گا جس کا نام تو پھل ہے لیکن وہ کام نہیں آسکتا.اس فطرتی راہنمائی کے علاوہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کی راہنمائی کے لئے ہم نے یہ طریق بھی جاری کیا ہے کہ ہم انسانوں میں سے بعض لوگوں کو چن لیتے ہیں اور اُن پر اپنا کلام نازل کرتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ بَصِيرٌ - 21 اللہ تعالی ملائکہ اور انسانوں میں سے رسول چن لیتا ہے کیونکہ اللہ تعالٰی دُعاؤں کا سُننے والا اور انسانوں کی حالتوں کو دیکھنے والا ہے.یعنی
انوار العلوم جلد 23 239 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ انسانوں کی حالتوں میں جب کبھی خرابی پید اہوتی اور اُن کی حالت اصلاح طلب ہو جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کچھ فرشتوں کو اصلاح کے لئے مبعوث کرتا ہے جو آگے اپنے جیسے وجودوں پر خدا تعالیٰ کی مرضی کو ظاہر کرتے ہیں اور وہ بنی نوع انسان کی اصلاح کے کام میں لگ جاتے ہیں.اسی طرح فرماتا ہے فَأَمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِنَى هُدًى فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - 22 یعنی اے بنی آدم ! جب تمہاری طرف ہدایت آئے تو جو میری ہدایت پر عمل کرے گا وہ خوف اور غم سے محفوظ رہے گا.اس جگہ ہدایت کا ذکر ہے رسالت کا نہیں جس میں رسالت اور عام الہام دونوں شامل ہیں.اور حضرت آدم کے زمانے میں ہی قیامت تک کے لئے انزال وحی کا جو کبھی رسالت کی شکل میں ہو گی، کبھی بغیر رسالت کے ہو گی وعدہ کیا گیا ہے.چنانچہ سورہ مومنون میں اس بات کا ذکر فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا اور اُس کو اپنی ہدایت کا وارث بنایا اور نوح اور اس کے بعد دوسرے رسول پے در پے بھیجے.یہاں تک کہ موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ آگیا.اور سورۂ حدید میں فرماتا ہے وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَ إِبْرَاهِيمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَبَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدِ وَ كَثِيرٌ مِنْهُم فسقُونَ.23 اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا اور اُن کی اولاد میں بھی نبوت اور کتاب کا سلسلہ جاری کیا.اُن میں سے کچھ تو ہدایت یافتہ ہو گئے اور اکثر اُن میں سے نا فرمان ہو گئے.اس کے بعد موسی کے زمانے کا ذکر یوں فرماتا ہے وَلَقَد اتينا مُوسَى الْكِتَبَ وَقَفَيْنَا مِنْ بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَأَيَّدُ نَهُ بِرُوحِ الْقُدْسِ ، اَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولُ بِمَا لَا تَهْوَى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَبْتُمْ وَ فَرِيقًا تَقْتُلُونَ - وَقَالُوا قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَلْ لَعَنَهُمُ اللهُ بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلًا مَا يُؤْمِنُونَ وَ لَمَّا عَهُم كِتَبٌ مِّنْ عِنْدِ اللهِ مُصَدِّقُ لِمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِنْ قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ فَلَعْنَةُ اللهِ عَلَى الْكَفِرِينَ 24 یعنی موسیٰ کو بھی کتاب ملی اور اُن کے بعد بھی خدا تعالیٰ نے پے در پے رسول بھیجے یہاں تک کہ عیسی بن مریم دُنیا میں ظاہر ہوئے اور اُن کے بعد خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لا
انوار العلوم جلد 23 240 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مبعوث فرمایا جن پر قرآن کریم نازل ہوا جس نے پہلی کتابوں کی تصدیق کر دی.ان آیات سے ظاہر ہے کہ حضرت آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک انبیاء کا سلسلہ متواتر جاری رہا اور بغیر کسی معتد بہ وقفہ کے اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے لوگ آتے رہے.بے شک قرآن کریم میں صرف ان نبیوں کے نام لئے گئے ہیں جن سے عرب واقف تھے لیکن دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيرُ - 25 اسی طرح فرماتا ہے وَلِكُلِ قَوْمٍ هَادٍ.26 یعنی دُنیا کی ہر قوم میں خدا تعالیٰ کے رسول اور ہادی گزرے ہیں.پس بنی نوع انسان کا اس کے ساتھ تعلق بذریعہ الہام آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود تک برابر چلا آیا ہے.خدا تعالیٰ کے وجود اور قیامِ نبوت کے متعلق اس اسلامی نظریہ اسلامی نظریہ کے مقابل دوسرے مذاہب کا نظریہ مذاہب اور دوسری کے خلاف دوسرے اقوام میں خدا تعالیٰ کا وجود اور نبوت کا قیام صرف اپنی اپنی قوم کے دائرہ میں محصور کیا گیا ہے.ہندو مذہب غیر اقوام میں مرسلانِ الہی کے متعلق بالکل خاموش ہے بلکہ اپنے نسلی نظریہ کے لحاظ سے اُس کے خلاف ہے.مشرقی ایشیائی اقوام بھی اس نظریہ سے بالکل کوری نظر آتی ہیں اور یہی حال بدھوں کا ہے.ایرانی، بابلی اور یونانی بھی مذہبی نظر سے اس بارہ میں بالکل خاموش ہیں بلکہ جو شہادت ملتی ہے وہ اس کے خلاف ملتی ہے.بنی اسرائیل بھی خدا کو ایک قومی خدا قرار دیتے ہیں اور نبوت کو ابراہیم کی نسل کا ورثہ سمجھتے ہیں.قرآن کریم میں بھی آتا ہے کہ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ - 27 یعنی ہم نے نوح اور ابراہیم کی ذریت میں نبوت رکھ دی ہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ نوح اور ابراہیم کی ذریت میں سے نبی آتے رہے اور اُن کا سلسلہ بند نہیں ہوا.یہ معنے نہیں کہ دوسری قوموں میں نبی نہیں آئے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرُ - وَلِكُلِ قَوْمٍ هَادٍ.اور اللہ تعالیٰ اس کو کسی زمانے سے مخصوص نہیں کرتا
انوار العلوم جلد 23 241 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بلکہ ان آیات کے مد نظر وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ کے معنے سوائے اس کے کچھ نہیں ہو سکتے کہ نوح اور ابراہیمؑ کی اولاد میں نبوت جاری رہی اور یہ معنے نہیں نکالے جاسکتے کہ اُن کی قوموں کے سوا باہر کوئی نبی کبھی نہیں آیا.جو قومیں کسی نبی کو نہیں مانتیں اُن کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ إِذْ قَالُوا مَا انْزَلَ اللَّهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ - 28 یعنی اُن لوگوں نے خدا تعالیٰ کی طاقتوں کا اندازہ نہیں کیا کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی کسی بندے پر کوئی وحی نازل نہیں کی.گویا وہ لوگ الہامِ الہی کے قطعا منکر تھے.دوسرا گروہ وہ تھا جو نبوت کا تو قائل تھا لیکن ہر قوم پر اسے یہ خیال ہوتا تھا کہ نبوت کا سلسلہ بند ہونا چاہئے اور آئندہ کسی قسم کا کوئی پیغام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آنا چاہئے.ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا - 29 پھر فرماتا ہے قَالُوا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ آبَاءَنَا.30 یعنی جو کچھ ہمارے باپ دادوں کے پاس تعلیم تھی وہی ہمارے لئے کافی ہے کسی نئی تعلیم کی ضرورت نہیں.ہندو قوم کے عقیدہ کی بنیاد اسی پر ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو کچھ ویدوں کے رشیوں پر اُتارا.اُس کے بعد دُنیا میں اُس کا کلام آنا بند ہو گیا اور اس تعلیم کے بعد کسی اور تعلیم کی ضرورت نہیں.بعض لوگ اس بات کے تو قائل نہیں تھے کہ ابتدائے عالم میں جو وحی نازل ہوئی وہی کافی تھی لیکن وہ وحی کے تسلسل کو بند کرنے والے ضرور تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کے متعلق فرماتا ہے وَ لَقَدْ جَاءَكُم يُوسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَاكٍ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولًا كَذَلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفُ مُرْتَابُ.21 اور تمہارے پاس یقیناً یوسف بھی اس سے پہلے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا تھا لیکن اُس کی لائی ہوئی تعلیم کے متعلق متواتر شبہ میں رہے.یہاں تک کہ جب وہ فوت ہو گیا تو تم یوں کہنے لگ گئے کہ اللہ تعالیٰ اس کے بعد کوئی رسول نہیں بھیجے گا.اسی طرح اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں اور شک میں پڑنے والوں کو گمراہ قرار دیا کرتا ہے.31
انوار العلوم جلد 23 242 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس آیت سے ظاہر ہے کہ بنی اسرائیل اپنے زمانے میں نبوت کے اجراء کو روکنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.حتی کہ یوسف علیہ السلام بھی جو نہ کسی سلسلے کے بانی تھے نہ کسی سلسلہ کے خاتم، نبوت کے روکنے کے لئے تیار ہو گئے تھے.اسی طرح قرآن کریم سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ اب کوئی رسول نہیں آئے گا.چنانچہ سورہ جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُن جنوں نے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی سُننے کے لئے آئے تھے ( ہمارے نزدیک وہ نصیبین کے یہودی تھے اور جن کا لفظ غیر قوموں کے لئے اور باغی قوموں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.) واپس جا کر اپنی قوم سے کہا کہ اَنَّهُمْ ظَنُّوا كَمَا ظَنَنْتُمْ أَنْ لَنْ يَبْعَثَ اللهُ اَحَدًا 32 کہ جس ملک سے ہم آئے ہیں وہ لوگ بھی تمہاری طرح یہ یقین رکھتے تھے کہ خدا تعالیٰ آئندہ کسی کو نبی بنا کر نہیں بھیجے گا.چونکہ سورہ احقاف سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ موسی پر ایمان لانے والے لوگ تھے.33 پس اس آیت کے معنے یہ ہیں کہ حضرت موسیٰ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.حضرت مسیح کے نزول کے بعد عیسائی لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہو گیا کہ گو عیسی علیہ السلام دوبارہ آئیں گے لیکن آئندہ کوئی اور نبی مبعوث نہیں ہو گا.34 ان دونوں نظریوں کو مقابل میں رکھ کر یہ نتائج نکلتے ہیں کہ اسلام کے نزدیک تو تمام بنی نوع انسان روحانی ترقی اور تقرب الہی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر تا رہے گا کہ انسان کو قرب الہی کے اعلیٰ درجے کے مقامات حاصل ہوتے رہیں لیکن اس کے مقابل پر باقی دنیا اس نظریہ کی قائل رہی ہے کہ خدا تعالیٰ ساری دُنیا کا خدا نہیں بلکہ وہ مخصوص قوموں کا خدا ہے.گویا اُن کے نظریہ میں خدا تعالیٰ کی حیثیت ایک بت کی حیثیت تھی جسے ہر ایک قوم نے اپنے لئے خدا ٹھہرالیا تھا اور پھر یا تو وہ لوگ یہ سمجھتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے قرب الہی کے حصول کے لئے کوئی آسمانی ذریعہ کبھی پیدا ہی نہیں کیا اور یا یہ سمجھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا ذریعہ پیدا تو کیا مگر صرف انہی کی قوم کے لئے پیدا کیا.اور پھر بعض لوگ اس غلطی میں مبتلا تھے کہ خدا تعالیٰ نے
انوار العلوم جلد 23 243 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ آسمانی ذرائع کو ایک زمانے تک پیدا کیا اور آئندہ آسمانی بر کتوں کے رستے بند کر دیئے.کسی نے تو یہ رستہ حضرت یوسف تک بند کر دیا، کسی نے حضرت موسی تک اور کسی نے حضرت عیسیٰ تک اور قرآن کریم ان میں سے ہر ایک کو ملامت کرتا اور جھوٹا قرار دیتا ہے.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے وقت دُنیا کا یہ روحانی نقشہ مکمل ہو گیا.قرآن کے رُو سے ابتدائے آفرینش میں ایک نبی تھا یعنی حضرت آدم نسل انسانی اُس وقت محدود تھی اور سب کی سب حضرت آدم پر ایمان لانے کے لئے مدعو.حضرت نوح تک یہ سلسلہ چلا.آپ کے بعد بنی نوع انسان کثرت سے ہو گئے اور دُنیا میں پھیل گئے.اُس وقت سے الگ الگ قوموں میں الگ الگ نبی آتے رہے.لیکن جب انسانی ذہن ارتقاء کو پہنچ گیا اور وہ زمانہ قریب آگیا جس میں بنی نوع انسان کے آپس میں ملنے اور ایک دوسرے سے تعلقات قائم کرنے کے سامان کثرت سے پیدا ہو جانے والے تھے تو خدا تعالیٰ نے پھر بنی نوع انسان کی وحدت کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو حکم دیا کہ آپ تمام بنی نوع انسان کو دعوتِ حقہ دیں.چنانچہ فرمایا وَ مَا اَرْسَلْنَكَ إِلا كَافَةً لِلنَّاسِ 35 ہم نے تجھے صرف اس غرض سے ہے کہ تو تمام بنی نوع انسان کو ایک مذہب اور ایک عقیدہ پر جمع کر دے.اور پھر فرماتا ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا 36 اے لوگو! میں تم سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.اِسی طرح فرماتا ہے وَاَرْسَلْنَكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا 27 ہم نے تجھے تمام بن نوع انسان کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے.نے تجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تمام یہاں سوال ہو تا تھا کہ آپ ساری دُنیا کے لئے کیوں مبعوث کئے گئے دنیا اور سب زمانوں کے لوگوں کی طرف کیوں مبعوث کئے گئے ہیں ؟ بھیجا ہے 37 اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِینًا 38 یعنی آج سے میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین کے چن لیا.یعنی
انوار العلوم جلد 23 244 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تو انسانی حالات اور زمانی کیفیات ایسی تھیں کہ مختلف علاقوں کے لئے مختلف قسم کے اصولی احکام دیئے جائیں لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت دُنیا اس حد تک ترقی کر چکی تھی اور آپس میں میل جول کے ذرائع اس حد تک پیدا ہو گئے تھے کہ اب تمام دنیا کے لئے ایک ہی قسم کے اصولی احکام دینا ضروری ہو گیا تھا.اسی طرح آپ کے زمانہ سے پہلے انسانی دماغ نے اس قدر نشو و نما نہیں پائی تھی کہ وہ شریعت کی تمام باریکیوں سے واقفیت کا متحمل ہو سکے مگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ و کے زمانہ میں انسانی دماغ اتنا کامل ہو چکا تھا کہ شریعت کے رازوں اور حکمتوں سے واقفیت حاصل کر سکے اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو وہ کتاب دی جو شریعت کے تمام ضروری احکام پر مشتمل تھی اور وہ ایسے الفاظ میں تھی جو شریعت کے رازوں اور حکمتوں کو تفصیل کے ساتھ واضح کر دینے پر كَمَا حَقُه حاوی تھی.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِأَتِمَ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ - كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولًا مِنْكُم يَتْلُوا عَلَيْكُم أيتِنَا وَيُزَكِّيْكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ.39 فرماتا ہے (تم میرا خوف کرو) تا میں تم پر اپنی نعمت کامل کر دوں اور تم ہدایت پا جاؤ.اس لئے کہ میں نے تمہاری طرف وہ رسول بھیجا ہے جو تم میں سے ہی ہے، جو تمہیں میرے نشان پڑھ کر سناتا ہے اور تم کو پاک کرتا ہے اور تمہیں شریعت بھی سکھاتا ہے اور اُس کی حکمتیں بھی تم پر واضح کرتا ہے.§ اس آیت میں اوپر والی آیت کی تشریح کر دی ہے کہ اتمام نعمت کے لئے یہ ضروری ہے کہ شریعت کی حکمتیں بیان کی جائیں کیونکہ شریعت کا کامل ہونا انسانی دماغ کے تنور کے لئے ضروری نہیں.شریعت صرف ہمارے خیال، ہمارے افکار اور ہمارے اعمال کو درست کرتی ہے مگر ہمارے ذہن کو بلندی تبھی حاصل ہوتی ہے جب کہ اُس شریعت کے بیان کرنے کا پس منظر بھی ہمارے سامنے کھولا جائے اور اُس کی حکمتیں بھی ہم پر ظاہر کی جائیں.تب ہمیں صرف ایک قانون ہی نہیں ملتا بلکہ ہم ایک رنگ میں اُس قانون کے بنانے والے ہو جاتے ہیں کیونکہ جب اُس قانون کے بنانے کی حکمتیں
انوار العلوم جلد 23 245 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہم پر ظاہر کر دی جاتی ہیں اور ہم ان سے متفق ہو جاتے ہیں تو ہمارا دل یہ محسوس کرتا ہے کہ اگر یہ علم ہمیں حاصل ہوتا اور ہم پر قانون بنانے کی ذمہ داری ڈال دی جاتی تو ہم بھی یہی قانون بناتے.پس گو قانون بنا بنایا ہمیں ملا ہے لیکن جو علم اس کے ساتھ دیا گیا ہے اُس کے ساتھ ہم محسوس کرتے ہیں کہ اگر ہم قانون بناتے تو یہی قانون بناتے اور یہی ہمارے لئے بہتر ہوتا.جب تک شریعت اس مقام پر نہ پہنچے اس وقت تک وہ عالمگیر شریعت نہیں بن سکتی اور نہ ہیشگی کی شریعت بن سکتی ہے.پس ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ گزشتہ زمانے میں بنی نوع انسان کے متفرق ہو جانے کے بعد پھر آدم کی طرح تمام دنیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر کیوں جمع کر دی گئی ہے اور کیوں اس سے پہلے جمع نہیں کی گئی.اُوپر کی تمہید سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے جو کمالِ انسانی ظاہر کیا گیا ہے وہ یہی ہے کہ ایک ایسی شریعت آپ کو دی گئی جو تمام اصولی و ضروری احکام پر مشتمل تھی جو تمام بنی نوع انسان کی ضرورتیں پوری کرنے والی تھی اور جس کے ساتھ اُن احکام کا پس منظر بھی دے دیا گیا جو اُن احکام کے دینے کی وجہ تھا تا بنی نوع انسان بشاشت کے ساتھ اُن احکام پر عمل کر سکے.حضرت مسیح ناصری بھی اپنے اس قول میں اسی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں کہ :.” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنا ہے مگر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے.لیکن جب وہ یعنی سچائی کا رُوح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گا“.40 قرآن مجید ہر حکم کی حکمت بیان کرتا ہے قرآن کریم کا یہ دعویٰ کہ وہ نہ صرف ضروری تعلیم بیان کرتا ہے بلکہ تعلیم کی غرض و غایت اور موجبات اور اس کا پس منظر بھی بیان کرتا ہے.اس نے مذہب کی تاریخ بالکل بدل دی.قرآن کریم سے پہلے شرائع تو آئی تھیں مگر
انوار العلوم جلد 23 246 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہر حکم کی حکمت نہیں بیان کی جاتی تھی.اس وجہ سے انسان اطاعت تو کر تا تھا مگر خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں پیدا نہیں ہو سکتی تھی کیونکہ وہ اپنے آپ کو ایک غلام محسوس کرتا تھا.وہ یہ نہیں سمجھتا تھا کہ اُس کا باپ یا اُس کی ماں اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کو نفع پہنچانے اور ترقی دینے کے لئے اُس کی خدمت کر رہے ہیں بلکہ وہ یہ سمجھتا تھا کہ ایک.آقا اُس پر اپنی حکومت جتانے کے لئے اُسے اندھا دھند حکم دے رہا ہے.لیکن قرآن کریم نے اس اصول کو پیش کیا کہ خدا تعالیٰ بھی بلاوجہ کوئی حکم نہیں دیتا اور ہر حکم کی کوئی ایسی وجہ ہوتی ہے جس میں خود انسان کا فائدہ مضمر ہو تا ہے اور وہ اس کی ترقی کو مد نظر رکھ کر دیا جاتا ہے.پس گو اسلام سے پہلے بھی بعض مذاہب نے کہا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق محبت کی بناء پر ہونا چاہئے لیکن انہوں نے محبت پیدا کرنے کے لئے سمجھ میں نہ آنے والے صرف چند احسانات گنا دینے پر بس کیا ہے.محبت پیدا کرنے کے حقیقی ذرائع مہیا نہیں کئے.صرف اسلام ہی ہے جس سے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ جو حکم دیتا ہے انسان کے فائدہ کے لئے دیتا ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں دیتا جس میں انسان کے لئے مضرت ہو.وہ فرماتا ہے طہ.مَا اَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقی.11 ہم نے تجھ پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تو شریعت کے احکام کے نیچے دب جائے بلکہ اس لئے نازل کیا ہے کہ دلوں کے وساوس دُور ہو جائیں اور اُن کے شبہات کا ازالہ ہو جائے اور شریعت کی حکمتیں اُن پر ظاہر ہو جائیں.یہاں تک کہ قرآن کریم ماننے والوں کے لئے رحمت کا موجب ہو جائے.تکلیف، دُکھ یا دباؤ کا موجب نہ بنے.چنانچہ فرماتا ہے وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِينَ 12 اور ہم قرآن مجید کی وہ تعلیم بھی نازل کرتے ہیں جو دلوں اور رُوحوں کی بیماریوں کے لئے شفاء ہے اور شبہات کو دُور کرتی ہے اور اسی طرح نہ صرف مسلمانوں کے لئے پا موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے بلکہ تمام انسانوں اور تمام زمانوں کے لئے رحمت اور فضل ہے.قرآن کریم کی یہ خوبی ایسی ظاہر ہے کہ آخر قرآن کریم نے یہ دعویٰ بھی کر دیا ہے کہ تِلكَ أيتُ الكتبِ وَ قُرْآنٍ مُّبِيْنٍ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِینَ.13 اس کتاب میں شریعت کے احکام بیان کئے گئے ہیں بلکہ احکام 41
انوار العلوم جلد 23 247 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس طرح کھول کھول کر بیان کئے گئے ہیں اور اُن کی حکمت اس طرح واضح کی گئی ہے کہ کئی دفعہ کفار بھی ان حکمتوں کو سُن کر دل میں خواہش کرنے لگتے ہیں کہ کاش ! وہ بھی مسلمان ہوتے اور اُس شریعت پر عمل کرنے والے ہوتے جو انسانوں کے لئے رحمت و برکت اور ترقی کا موجب ہے نہ کہ جبر اور سختی کا موجب.غرض اسلام نے پہلی دفعہ مذہب کی بنیاد عقل اور محبت پر رکھی.قرآن کے بعد انسان خدا کو ایک غضب کا دیوتا نہیں سمجھتا بلکہ وہ اُس کو ایک رُوحانی باپ اور رُوحانی ماں کے طور پر سمجھتا ہے جو اُس کے فائدے کے لئے اور اُس کے آرام کے لئے اور اُس کی ترقیات کے لئے اس کو ایسی نصیحتیں دیتا ہے کہ جن پر چل کر وہ سکھ اور آرام دیکھ سکتا ہے.اس کی تشریح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک واقعہ سے بھی ہوتی ہے کہ ایک جنگ میں ایک کافر عورت جس کا بچہ کھو گیا تھا جب وہ مل گیا تو وہ دنیا و مافیہا سے غافل ہو کر اُسے پیار کرنے لگ گئی.آپ نے صحابہ مخاطب کر کے فرمایا تم اس عورت کو دیکھتے ہو کہ یہ کتنی خوش ہے، کیونکہ اس کا بچہ اسے مل گیا ہے.اسی طرح جب خدا کا کوئی بندہ ہدایت پا کر اُس کی طرف کو ٹتا ہے تو وہ اس ماں سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس نے اپنے کھوئے ہوئے بچے کو پالیا ہو.14 44 کو اور اسی مضمون کی طرف قرآن کریم نے ان الفاظ میں اشارہ فرمایا ہے قل إن كُنتُم تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ 45 تُو کہہ دے کہ اے لوگو! اگر تمہارے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہے تو تم میری شریعت پر عمل کرو کیونکہ یہی شریعت سچی محبت پیدا کرنے کا ذریعہ بن سکتی ہے.تم اگر اس شریعت پر عمل کرو گے تو وہ تمہاری محبت کو اتنا بڑھا دے گی کہ اُس کے نتیجہ میں خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا اور تم محب سے محبوب بن جاؤ گے.افسوس دُنیا نے اس پر حکمت تعلیم کی قدر نہ کی.مسلمان علماء میں سے غزالی نے پردہ اُٹھا کر ایک جھلک اُس کی دیکھی.شاہ ولی اللہ صاحب نے اس سے زیادہ اس کی جلوت کا معائنہ کیا.اور احمدیت نے اس خوبی کو ایسے کامل طور پر واضح کیا کہ دُنیا کے دلوں کی پھر ایک دفعہ یہ حالت ہو گئی کہ رُبمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ _ 46
انوار العلوم جلد 23 248 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ایسی اعلیٰ اور اکمل تعلیم کے آنے کے ہر گز یہ معنے نہ تھے کہ اُس کے نزول کے بعد جو خیر و شر کے قبول کرنے کا مادہ انسان میں رکھا گیا تھا وہ باطل کر دیا جائے.کیونکہ قرآن کریم سے واضح ہے کہ انسان کو دوسری مخلوقات پر ترجیح دینے کی اور کلام الہی کا حامل بنانے کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ انسان اپنے نفس پر جبر کر کے اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے خدا تک پہنچنے کی کوشش کر سکتا تھا اور اپنی مرضی اور اپنے ارادہ سے اس کو چھوڑ بھی سکتا تھا.اگر یہ سمجھا جائے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد انسان میں خیر و شر کی مقدرت نہیں رہی تھی اور وہ ایک مقررہ رستہ پر چلنے پر مجبور تھا تو پھر اُسی دن سے انسان اپنی انسانیت بھی کھو بیٹھا تھا اور اب وہ نہ کسی انعام کا مستحق تھا نہ کسی سزا کا مستوجب.لیکن ایسا نہیں.قرآن کریم تور سولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی انسان کو سزا اور جزا کا مستحق قرار دیتا ہے اور جب تک انسان خیر و شر پر عمل کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور جب تک اُس کا ارادہ آزاد ہے اُس وقت تک جہاں اُس کے نیکی میں بڑھنے کا امکان موجود ہے وہاں اُس کے شرارت میں ترقی کرنے کے امکانات بھی موجود ہیں اور اگر اُس کے اندر تغیر و تبدیلی کی طاقت موجود ہے، اگر وہ بدعت نکال سکتا ہے، اگر وہ تحریف معانی کر سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمیوں کے آنے کا بھی رستہ کھلا رہے گا جو ان باتوں سے اُسے روکیں اور صحیح رستہ کی طرف لائیں.اگر ایسا ہونا نہیں تھا تو قرآن کریم یہ نہ فرماتا کہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ امَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كَفْرًا لَمْ يَكُن اللهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا - 47 یعنی وہ لوگ جو ایمان لائے پھر گفر کیا پھر ایمان لائے پھر کُفر کیا اور پھر کُفر میں اور بھی بڑھ گئے.یقیناً اللہ تعالیٰ اُن کے گناہوں کو معاف نہیں کرے گا اور وہ انہیں سیدھے راستے کی طرف نہیں لے جائے گا.سکتا؟ اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بعد بھی کفر کا دروازہ کھلا ہے.مسلمانوں کے بگڑنے کے متعلق پیشگوئیاں اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
انوار العلوم جلد 23 249 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہ قیامت کے دن میں دیکھوں گا کہ بعض لوگ حوض کوثر سے ہٹا کر دوسری طرف لے جائے جائیں گے.اُس وقت میں کہوں گا کہ اُصَيْحَابِی.یہ تو میری جماعت کے لوگ ہیں.اس پر خدا تعالیٰ فرمائے گا ”اِنَّكَ لَا تَدْرِى مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ“.48 تجھے کیا معلوم کہ تیرے بعد ان لوگوں نے کیا کیا ہے.اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهُمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ - 49 یعنی کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو بظاہر نمازیں بھی پڑھیں گے ، قرآن بھی پڑھیں گے اور بظاہر دوسرے لوگوں سے زیادہ اچھی نمازیں بھی پڑھیں گے لیکن پھر بھی وہ دین اسلام سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر نشان گاہ سے باہر نکل جاتا ہے.کثرت سے احادیث ایسی پائی جاتی ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ مسلمان بھی بگڑ سکتے ہیں اور بگڑیں گے اور آہستہ آہستہ اُن کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے یہود اور نصاریٰ کی ہوئی ہے.چنانچہ حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لَتَشْبِعُنَّ سُنَنَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ شِبْرًا بِشِبْرٍ وَ ذِرَاعًا بِذِرَاعِ حَتَّى لَوْ دَخَلُوْا فِي جُحْرِ ضَبٍ لَا تَبَعْتُمُوهُمْ قُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى؟ قَالَ فَمَنْ“.50 یعنی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جب کہ تم لوگ گزشتہ اقوام کے قدم بقدم چلو گے.یہاں تک کہ اگر انہوں نے گوہ کے سوراخ میں بھی اپنا ہاتھ ڈالا ہو گا تو تم بھی ویسا ہی کرو گے.صحابہ کہتے ہیں ہم نے پوچھا یار سول اللہ ! کیا ان پہلے لوگوں سے یہود اور نصاریٰ مراد ہیں ؟ آپ نے فرمایا اور کون.گویا آخر میں مسلمانوں میں یہود اور نصاریٰ والی غلطیاں پید اہو جائیں گی.قرآن کریم بھی اس کے متعلق فرماتا ہے يُدَيرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةَ أَلْفَ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ.اللہ تعالیٰ اس امر کو یعنی اسلام کو آسمان سے زمین کی طرف لائے گا اور مضبوطی سے قائم کرے گا.پھر ایک مدت کے بعد وہ آسمان کی طرف چڑھنا شروع ہو جائے گا.اتنے لمبے زمانے میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ہزار سال ہو گی.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
انوار العلوم جلد 23 250 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کے بعد کچھ عرصہ تک اسلام کی خوبیاں اور اُس کی اعلیٰ درجہ کی تعلیم حقیقی معنوں میں دُنیا میں قائم ہوتی چلی جائے گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ حالت بدل جائے گی اور ایک ہزار سال تک ایسا ہی ہو تا رہے گا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کی یہی تشریح فرماتے ہیں جو ہم نے اس وقت کی ہے.آپ فرماتے ہیں خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُوْنَهُمْ ثُمَّ يَفْشُو الْكَذِب 52 یعنی سب سے بہتر تو وہ صدی ہے جس میں میں ہوں.پھر اس کے بعد دوسری صدی اچھی ہو گی، پھر تیسری صدی اچھی ہو گی، پھر جھوٹ، فریب اور خرابیاں دُنیا میں پھیل جائیں گی.اور آخری زمانہ کا نقشہ بھی آپ اس آیت کے مطابق کھینچتے ہیں اور فرماتے ہیں لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُه - 53 کہ اُس زمانے میں اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف حرف باقی رہ جائیں گے.یعنی قرآن تو نہیں بدلے گا.قرآن تو موجود رہے گا لیکن قرآن کے سمجھنے والے مٹ جائیں گے.اور اسلام تو نہیں بدلے گا اسلام تو موجو د رہے گا لیکن اس پر عمل کرنے والے مٹ جائیں گے.یہی سورہ سجدہ میں بتایا گیا ہے کہ اسلام اُس وقت سمٹ کر آسمان پر چلا جائے گا.پھر اس سے بڑھ کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے ہیں کہ عَلَمَاءُ هُمْ شَرٌّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّماءِ - 54 یعنی عوام الناس تو الگ رہے علماء بھی اُس زمانے میں ایسے گر جائیں گے کہ آسمان کے نیچے اُن سے بد تر اور کوئی مخلوق نہ ہو گی.پھر آپ فرماتے ہیں کہ اسلام گرتے گرتے ایسی خطرناک حد تک پہنچ جائے گا اور اس کے دشمن اتنی قوت پکڑ جائیں گے کہ حضرت نوح سے لے کر آج تک کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے اس فتنہ سے لوگوں کو نہ ڈرایا ہو.55 اور پھر آپ فرماتے ہیں کہ ایمان اس قدر متزلزل ہو جائیں گے کہ يُصْبِحُ الرَّجُلُ مُؤْمِنًا وَيُمْسِى كَافِراً أَوْ يُمْسِيَ مُؤْمِنًا وَ يُصْبِحُ كَافِراً.5 انسان صبح کے وقت اُٹھے گا تو مومن ہو گا اور شام کے وقت سوئے گا تو کافر ہو گا اور شام کو مومن سوئے گا اور صبح کے وقت کا فر اُٹھے گا.قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیات اور احادیث سے صاف ثابت ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 251 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ اور آپ کی تعلیم کا ملہ کے ہر گز یہ معنے نہیں کہ اس کی موجودگی میں انسان بگڑ نہیں سکتے بلکہ قرآن کریم اور احادیث اس پر شاہد ہیں کہ نہ صرف یہ کہ اس کی موجودگی میں لوگ بگڑ سکتے ہیں بلکہ وہ بگڑیں گے اور ایسے بگڑیں گے کہ اسلام کی عمارت متزلزل ہو جائے گی اور اسلام کا نام ہی دُنیا میں باقی رہ جائے گا اور قرآن کے حروف ہی دُنیا میں باقی رہ جائیں گے.حقیقت بالکل غائب ہو جائے گی حتٰی کہ علماء عوام الناس سے بھی بدتر ہوں گے اور وہ دین کی حفاظت کی بجائے دین کو تباہ کرنے والے بن جائیں گے.اور جب یہ بات قرآن اور احادیث سے ثابت ہے تو دو باتوں میں سے ایک بات ماننی پڑے گی.یا تو یہ کہ اسلام کے متعلق یہ عقیدہ کہ وہ قیامت تک جائے گا غلط ہے اور یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ ایسی غلطیوں کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسے لوگ آتے رہیں گے جو کہ اسلام کی عمارت پھر مر مت کریں اور پھر اُس کو اپنی اصل شکل میں دُنیا کے سامنے پیش کریں.پہلا خیال تو قرآن اور حدیث کی رُو سے بالکل باطل اور غلط ہے.قرآن و حدیث اس پر شاہد ہیں اور گواہ ہیں اور پہلی کتب بھی کہ قرآن کریم کی تعلیم قیامت تک ہے.مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مردان پس صرف ایک ہی رستہ کھلا رہتا ہے اور وہ یہ تسلیم کر لینا کہ خدا کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں جب کبھی مسلمانوں میں خرابی پیدا ہو گی اور وہ اسلام سے دور چلے جائیں گے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے آدمی آئیں گے جو اسلام کو اُس کی اصل شکل میں لوگوں کے سامنے ظاہر کریں گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّيَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَالْإِثْمَ وَالْبَغْيَ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَ أَنْ تُشْرِكُوا بِاللهِ مَا لَمْ يُنَزِّلُ بِهِ سُلْطَنَا وَ اَنْ تَقُولُوا عَلَى اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ - وَلِحْلِ أُمَّةٍ أَجَلْ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ لَا يَسْتَأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا يَسْتَقْدِمُونَ - يُبَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمُ ايْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - 37 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتو اپنے لوگوں سے کہہ دے کہ میرے خدا نے اسلام
انوار العلوم جلد 23 252 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کے ذریعہ سے تمام وہ باتیں جن کی بُرائی فطرت پر گراں ہے خواہ وہ نمایاں طور پر بُری ہوں یا اُن کی بُرائی کسی قدر مخفی ہو اُن سب کو حرام کر دیا ہے اور اسی طرح اُس نے انتہائی درجہ کے گناہوں کو بھی حرام کر دیا ہے اور ایک دوسرے پر ظلم کو بھی حرام کر دیا ہے جو بغیر کسی قانونی یا اخلاقی وجہ کے ہو.اور اس سے بھی اُس نے منع کیا ہے کہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ کا کسی کو شریک بنائے جس کے لئے کوئی آسمانی دلیل موجود نہیں.اور اس سے بھی اُس نے منع فرمایا کہ تم اللہ تعالیٰ کے متعلق کوئی ایسی بات کہو جس کو تم نہیں جانتے.اور اے لوگو! ہر قوم کے لئے ایک وقت مقرر ہے جب وہ وقت آتا ہے تو وہ ایک گھڑی بھی مقررہ میعاد سے پیچھے نہیں ہٹ سکتے اور ایک گھڑی بھی اُس مقررہ میعاد سے آگے نہیں بڑھ سکتے.اے آدم کی اولاد! اگر تمہاری طرف کوئی رسول آئیں جو تمہیں میرے نشانات پڑھ کر سنائیں تو یاد رکھو کہ جو کوئی تقویٰ اختیار کرے گا اور اصلاح کو مد نظر رکھے گا تو ایسے لوگوں کو نہ آئندہ کسی قسم کا خوف ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر کسی قسم کا غم : پہنے گا.یہ آیت قطعی طور پر مسلمانوں کے متعلق ہے.اس سے پہلے کی آیتیں بھی اور بعد کی آیتیں بھی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اُمت کے متعلق ہیں اور اس آیت میں صاف کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی خرابی کے وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے انسان کھڑے کئے جاتے رہیں گے جو اُن کو خدا تعالیٰ کی باتیں بنائیں گے اور خدا تعالیٰ کی طرف واپس لانے کی کوشش کریں گے.جو لوگ اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور فساد اور فتنہ کی باتوں کو ترک کریں گے اور تقویٰ اور اصلاح کے رستوں کو اختیار کریں گے اُن کے لئے خدا کی طرف سے برکتیں اور رحمتیں ہوں گی اور خدا اُن کا خود محافظ ہو گا.اسی کی تصدیق میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَنْ يُجَدِّ دَلَهَا دِيْنَهَا - 58 الله تعالیٰ اِس اُمت میں ہر صدی کے سر پر ایسا آدمی مبعوث کرے گا جو اُمت کی خاطر اور اُس کے فائدہ کے لئے اور اُس کے دین کو پھر نئے سرے سے اُجاگر اور روشن اور غلطیوں سے پاک کر دے گا.
انوار العلوم جلد 23 253 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس حدیث کے ہم نے دو حوالے لکھے ہیں.شیعوں اور سنیوں دونوں کی کتب سے جس سے ہمارا منشاء یہ ہے کہ یہ حدیث تمام مسلمانوں میں متفق علیہ ہے.مصلحین اور مسجد دین کی مخالفت یہ ظاہر ہے کہ جو شخص بھی تجدید دین کرے گا وہ زیادہ یا کم رائج الوقت خیالات یا عقائد کے خلاف باتیں کرے گا تو اُس وقت کے تمام وہ علماء جو اُس کے ساتھ متفق نہیں ہوں گے اس کی تردید اور تکذیب کریں گے.چنانچہ اس امت میں ایسا ہی ہوتا چلا آیا ہے.حضرت جنید بغدادی پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا ہے.59 حضرت محی الدین ابن عربی کو علماء نے کافر اور زندیق کہا.آپ خود تحریر فرماتے ہیں "لَقَدْ وَقَعَ لَنَا وَ لِلْعَارِفِينَ أَمُورٌ وَ مِحَنْ بِوَاسِطَةِ إِظْهَارِنَا الْمَعَارِفَ وَ الْأَسْرَارَ وَ شَهِدُ وَافِيْنَا بِالزَّنْدَقَةِ وَأذُونَا آشَدَّ الاَ ذى وَ صِرْنَا كَرَ سُوْلِ كَذَّبَهُ قَوْمُهُ وَ مَا أَمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ وَاعْدَى عَدُوٌّ لَّنَا الْمُقَدِّدُونَ لا فَكَارِهِمْ 10 یعنی ہمیں اور خدا کے دوسرے عارف بندوں کو دین کے معارف اور اسرار کے ظاہر کرنے پر بڑی بھاری مشکلات اور مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے.لوگوں نے ہمیں کافر اور زندیق قرار دیا ہے اور اُنہوں نے ہمیں شدید ترین تکالیف پہنچاتی ہیں.اور ہم اُس رسول کی طرح ہو گئے ہیں جسے اس کی قوم نے جھٹلا دیا ہے اور جس پر صرف چند لوگ ایمان لائے.اور اس بارہ میں ہمارے شدید ترین دشمن وہ لوگ ہیں جو اپنے خیالات اور افکار کے مقلد ہیں.اسی طرح حضرت امام غزالی پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور اُن کی کتابوں کو جلا دینا اور اُن پر لعنت کرنا ثواب سمجھا گیا.11 حضرت امام ابو حنیفہ کو کافر، زندیق اور بدعتی کہا گیا.ان پر طرح طرح کی سختیاں کی گئیں اور انہیں قید خانہ میں ڈال دیا گیا.ނ حضرت امام شافعی کولوگوں نے رافضی کہہ کر قید کر وا دیا.62 حضرت امام مالک "پر کئی قسم کی سختیاں کی گئیں.ایک دفعہ اُن کی ایسی بے دردی مشکیں باندھی گئیں کہ اُن کا بازو اکھڑ گیا.پھر انہیں کوڑے مارے گئے اور وہ قید
انوار العلوم جلد 23 میں ڈالے گئے.254 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حضرت امام احمد بن حنبل بھی قید کئے گئے اور اُن کے پاؤں میں بھاری بھاری بیڑیاں ڈالی گئیں.انہیں ذلیل کرنے کے لئے لوگ اُن کو تھپڑ مارتے اور اُن کے منہ پر تھوکتے تھے.حضرت امام بخاری وطن سے نکالے گئے.63 حضرت بایزید بسطامی سات دفعہ اپنے شہر سے نکالے گئے.حضرت ذوالنون مصری ” مشکیں باندھ کر بغداد بھیجے گئے اور علماء کی ایک جماعت اُن کے کفر کی گواہی دینے کے لئے اُن کے ساتھ گئی.64 حضرت سید عبد القادر جیلانی پر اُس وقت کے علماء و فقہاء نے گفر کا فتویٰ لگایا.65 حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی نے مجددیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے ساتھ یہ سلوک ہوا کہ کافر ٹھہرائے گئے اور قید میں ڈالے گئے.66 68 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے مجددیت کا دعویٰ کیا اور اُن کے زمانے میں بھی اُن کے ساتھ بہت کچھ سختیاں کی گئیں اور انہیں بدعتی اور گمراہ کہا گیا.پھر حضرت سیّد احمد بریلوی نے مجددیت کا دعویٰ کیا اور خود مسلمانوں نے سکھوں کے ساتھ مل کر اُن کو قتل کر دیا.67 حقیقت یہ ہے کہ اصلاح بغیر تجدید کے نہیں ہو سکتی اور تجدید پر اُس وقت کے علماء میں انقباض پیدا ہونا طبعی امر ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ 8 اے افسوس انسانوں پر کہ کبھی کوئی رسول اُن کی طرف نہیں آیا جس کے ساتھ اُنہوں نے ہنسی اور تمسخر کا سلوک نہ کیا ہو.حقیقت یہ ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلے سارے طریقوں کو بند کر دیا.اب تمام روحانی طریقے آپ ہی سے جاری ہو سکتے تھے اور ہونے والے تھے.اسی طرح پہلے زمانوں میں جو مختلف نبیوں کے زمانہ میں خرابیاں ہوئیں وہ بھی مجموعی طور پر آپ کی اُمت میں پیدا ہوئی تھیں کیونکہ آب خدا اور وسواس دونوں کی جولانگاہ صرف ایک ہی اُمت ہو گئی تھی.اس قاعدہ کلیہ کے ماتحت جو ہم نے اوپر لکھا ہے اور جس کی
انوار العلوم جلد 23 255 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تصدیق قرآن اور حدیث سے ہوتی ہے یہ لازمی بات تھی کہ حضرت مرزا صاحب کے دعوے کی بھی مخالفت ہوتی اور علماء آپ کے خلاف کھڑے ہو جاتے لیکن دیکھنے والی بات یہ نہیں کہ علماء ان کے خلاف کھڑے ہیں دیکھنے والی بات صرف یہ ہے کہ :.(1) کیا مسلمان کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟ (2) کیا علماء کبھی بگڑ سکتے ہیں یا نہیں؟ (3) کیا مسلمانوں کے بگڑنے کی کوئی خبر قرآن نے دی ہے یا نہیں؟ (4) کیا علماء کے بگڑنے کی کوئی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں؟ (5) کیا اسلام سے غافل ہو جانے اور اس کی تعلیم کو چھوڑ دینے کی کوئی خبر قرآن اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے یا نہیں ؟ اگر یہ خبریں قرآن اور حدیث سے ثابت ہیں تو پھر حضرت مرزا صاحب یا اور کسی گزشته بزرگ کی مخالفت اسلامی اصول سے جائز نہیں ہو سکتی اور نہ یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ اسلام نے ایسی تحریکوں کو بزور منع کرنے کا حکم دیا ہے.ہم یہ قطعی طور پر ثابت کر چکے ہیں کہ قرآن اور حدیث کے مطابق مسلمانوں کے لئے مختلف زمانوں میں بگڑنا ضروری تھا اور اس حد تک بگڑ نا ضروری تھا کہ وہ اسلام اور قرآن کی تعلیم سے بالکل غافل ہو جائیں.اور یہ بھی ضروری تھا کہ اس زمانے کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے کوئی شخص کھڑا کیا جائے.اِن دونوں صورتوں کی موجودگی میں کوئی انسان یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ اکثریت اُس شخص کے خلاف نہیں ہو گی جو اصلاح کے لئے کھڑا کیا جائے گا.اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مذہب کو زور سے منوالے اور اگر اسلام کی یہ تعلیم ہے کہ اکثریت اپنے مخالف کو مٹانے کا اختیار رکھتی ہے اور وہ اس بات کی مجاز ہے تو اس کے معنے یہ ہیں کہ اسلام ایک ہی ممنہ سے تو یہ کہتا ہے کہ مسلمان بگڑیں گے اور اُن کی اصلاح کے لئے خدا کی طرف سے آدمی آئیں گے اور اُسی منہ سے وہ یہ کہتا ہے کہ اکثریت کو اختیار ہے کہ وہ ایسی اقلیت کو کچل ڈالے اور اس کو تباہ کر دے.گو یا خدا تعالیٰ خود اپنے بنائے ہوئے گھر کے گرانے کا سامان کرتا ہے.آخر وہ کونسی
انوار العلوم جلد 23 256 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ آسمانی طاقت آئے گی جو یہ بتائے گی کہ یہ اصلاح کا مدعی سچا ہے یا جھوٹا ہے.کیا یہ تسلیم کیا جاسکتا ہے کہ آدم سے لے کر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک تمام انبیاء کو تو اُن کے مخالف تکلیف دینے پر قادر ہو سکے اور اُن کو طرح طرح کے دکھوں میں مبتلا کیا گیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کو بھی کہنا پڑا کہ يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ کہنا پڑا کہ سب سے زیادہ مشکلات اور مصائب خدا تعالیٰ کے انبیاء پر آیا کرتے ہیں اور پھر اُن سے نیچے اتر کر جتنا جتنا کوئی شخص خدا تعالیٰ کو پیارا ہو تا ہے اُتنی ہی اُس پر مشکلات آتی ہیں.62 لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو مصلح اور مجدد آئیں گے آسمان سے فرشتے اُن کی مدد کے لئے اتر کر سب مسلمانوں کو بتادیں گے کہ یہ شخص سچا ہے تم اس کی مخالفت نہ کرو.جو بات سارے رسولوں کو حاصل نہیں ہوئی حتٰی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی حاصل نہیں ہوئی وہ آپ کے ایک خادم اور تابع کو حاصل ہو جائے گی.یہ بات نہ صرف عقلاً غلط ہے بلکہ نقلاً بھی غلط ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ مَاتَ مِيْتَةً جَاهِلِيَّةً 70 یعنی وہ شخص جس نے اپنے زمانہ کے امام کو قبول نہ کیا اور اُسی حالت میں مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا.یعنی اماموں کے آنے کے بعد کچھ لوگ انہیں مانیں گے اور کچھ نہیں مانیں گے.اگر لوگوں کو زبر دستی ایمان لے آنا تھا اور ہدایت سب پر پر کھل جانی تھی تو پھر اس حدیث کے معنے ہی کیا رہ جاتے ہیں.اور اگر مخالفت ہوئی تھی تو پھر لازماً ایک طرف اکثریت کا ہونا ضروری تھا اور ایک طرف مصلح اور اس کی چھوٹی سی جماعت کا ہونا.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اُن کی قبولیت کو دُنیا میں پھیلا دے.جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اکثریت ہمیشہ حق پر ہوتی ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اقلیت کو دبانے کا اکثریت کو حق حاصل ہے ، اُس کو قید کرنے اور قتل کرنے کا بھی حق ہے، اُس کو جبر امذ ہب بدلوانے کا بھی حق ہے، اس کو اس کے ضمیر کے خلاف مجبور کر کے اپنے اندر شامل کر لینے کا بھی حق ہے اُن کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ امت محمدیہ میں جتنے مصلح اور جتنے مجدد آئیں گے اُن سب کی گردنیں اور اُن سب کی
انوار العلوم جلد 23 257 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ جماعت کی گردنیں علماء سوء کے ہاتھ میں ہوں گی اور وہ اختیار رکھیں گے کہ جس وقت چاہیں اُن کی گردن مروڑ دیں اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر ہو گا جس کی تائید کے لئے وہ مصلح کھڑے ہوں گے اور جس نے اُن کی بعثت کی خبر دی ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ ملک کی اکثریت نے حضرت محی الدین ابن عربی، حضرت امام غزالی، حضرت امام ابو حنیفہ حضرت امام مالک حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل، حضرت مجدد الف ثانی حضرت مولانا شاہ ولی اللہ اور حضرت سیّد احمد بریلوی وغیرہ بیسیوں صلحاء امت کی سخت مخالفت کی.اُس وقت کے اجماع کا فیصلہ آج کیوں باطل ہو گیا ہے اور اُس وقت کی اقلیت آج حق پر کیوں کبھی جاتی ہے؟ کہا جاتا ہے کہ مرزا صاحب کی مخالفت کی یہ وجہ ہے کہ انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے مگر ہم پوچھتے ہیں کہ اگر کوئی شخص اس قسم کا دعویٰ خدا کی طرف سے خبر پاکر کرے تو کیا لوگوں کا یہ حق ہے کہ وہ اس کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور اس کی جماعت کو دُنیا سے مٹانے کی کوشش کریں ؟ اگر یہ درست ہے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ انسانی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان مجرم نہیں بلکہ تعریف کے قابل ہے لیکن خدا کی حکومت کی تائید میں بولنے والا انسان گشتنی اور گردن زدنی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَ فِي مِلَّتِنَا فَاَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِينَ وَ لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِم ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِی وَخَافَ وَعِيدِ.71 اور نہ ماننے والے ہمیشہ اپنی طرف مبعوث ہونے والے رسولوں سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہم یقیناً تم کو اپنے ملک سے نکال دیں گے یا تم ہمارے مذہب کی طرف واپس لوٹ آؤ گے.اس موقع پر رسولوں کا ربّ بھی اُن کی طرف وحی کرتا رہا ہے کہ ہم ظالموں کو ہلاک کر دیں گے.کیا جو بات قرآن کے رُو سے ہمیشہ نبیوں کے دُشمن کرتے چلے آئے تھے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب اس کو اسلام کی تصدیق حاصل ہو گئی ہے اور کیا اب وہ علماء جو اپنے آپ کو ورثہ انبیاء کہتے ہیں کفار کی اس دیرینہ رسم کا پورا کرنے کے ذمہ دار بن گئے ہیں؟ اور
انوار العلوم جلد 23 258 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 609 رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو کام ظلم تھا اب وہ انصاف اور عدل ہو گیا ہے؟ اسی طرح سورہ لیس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی سابق زمانے میں خدا تعالیٰ کے کچھ مرسل آئے (ان کو مفسرین نے حضرت مسیح کے حواری قرار دیا ہے.(72) تو لوگوں نے اُن سے کہا کہ لَبِنْ لَمْ تَنْتَهُوا لَنَرْجُمَنَّكُمْ وَ لَيَسَكُمْ مَنَا عَذَابٌ أَلِيمُ 13 اگر تم اپنے خیالات کی تبلیغ سے باز نہیں آؤ گے تو ہم تمہیں سنگسار کر کے قتل کر دیں گے اور تم کو دردناک عذاب پہنچائیں گے.کیا ان آیات سے یہ ظاہر نہیں کہ نبیوں اور ولیوں کے دشمن ہمیشہ نبیوں اور اُن کے ماننے والوں کو قتل کرنے ، عذاب پہنچانے اور ملک سے نکال دینے کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں کیا یہی وہ دھمکیاں نہیں تھیں جو اس زمانہ کے علماء نے احمدیوں کو دیں ؟ کیا انہوں نے نہیں کہا کہ ان لوگوں کو اس ملک سے نکال دینا چاہئے ؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ ان لوگوں کو بہت سے حقوق سے محروم کر دیا جائے ؟ کیا ان لوگوں نے یہ نہیں کہا کہ اگر یہ باز نہ آئیں تو ان کو قتل کر دینا چاہئے ؟ اور یہی تین باتیں ہیں جو قرآن کریم کے رُو سے انبیاء کے دُشمن کہتے چلے آئے ہیں.اسی طرح ایک اور جگہ قرآن کریم میں آتا ہے قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كنا كرهين 74 یعنی شعیب کی قوم کے ان سرداروں نے جو سخت متکبر تھے شعیب سے کہا کہ ہم ضرور تجھ کو اپنے علاقہ سے نکال دیں گے اور ان کو بھی جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں.یا تجھے ہمارے مذہب میں واپس لوٹنا ہو گا.شعیب نے جواب میں کہا کیا اگر ہم تمہارے دین کو نا پسند کرتے ہوں تب بھی تم ہم کو لوٹا دو گے؟ اس آیت سے ظاہر ہے کہ حضرت شعیب نے اس بات کو حیرت سے دیکھا ہے کہ کوئی شخص اپنے عقیدہ کے خلاف کسی دوسرے عقیدہ کے اظہار پر مجبور کیا جائے اور خدا تعالیٰ نے اُن کے اس استدلال کو درست تسلیم فرمایا ہے کیونکہ اس نے ان کے استدلال کو قرآن کریم میں درج فرما کر اس کی ہمیشہ کے لئے تصدیق کر دی ہے.یہ تو قبل از زمانه کرسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ہیں جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور
انوار العلوم جلد 23 259 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 76 الہی تصدیق کے بعد ہمارے لئے قابل عمل ہیں اور ضروری ہیں اور سچے مذہب کی آئیڈیالوجی کو ظاہر کرتی ہیں.مگر قرآن کریم نے بھی اسلامی تعلیم میں ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ 75 اے اسلام کے منکر و! تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور ہمارے لئے ہمارا دین ہے.اسی طرح فرماتا ہے لا إكراه في الدين 70 دین میں کسی قسم کا جبر نہیں.اسی طرح قرآن کریم میں منافقوں کو متواتر بُرا کہا ہے.فرماتا ہے يَقُولُونَ بِأَفْوَاهِهِمْ مَّا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا يَكْتُمُونَ.77 یہ لوگ وہ باتیں کہتے ہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو جانتا ہے جس کو وہ چھپا رہے ہیں اور آج جماعت اسلامی، مجلس عمل اور مجلس احرار کہتی ہیں کہ ہم احمدیوں کو مجبور کریں گے کہ وہ وہ باتیں کہیں جو اُن کے دلوں میں نہیں.یعنی وہ دل سے تو حضرت مرزا صاحب کو مامور من اللہ مانیں گے لیکن منہ سے اُن کو ان عقائد کا اقرار کرنا پڑے گا جو مولانا مودودی یا مجلس احرار یا علماء دیو بند بیان کرتے ہیں.گویا جس چیز کو قرآن کریم نا پاک اور مردود قرار دیتا ہے اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور قابل نفرت فعل ٹھہراتا ہے مولانا مودودی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات اور علماء دیو بند اسی فعل کے ارتکاب پر احمدیوں کو مجبور کرنا چاہتے ہیں.آخر وہ کونسی منطق ہے جو اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ احمدیوں کو تین دن قید کرنے کے بعد ان کے عقائد وہ نہیں رہیں گے جو تین دن پہلے تھے اور وہ دل سے اور ضمیر کی تائید سے اُن عقائد کے قائل ہو جائیں گے جو مولانامودودی، مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری اور مولانا ابو الحسنات بیان کرتے ہیں.جن کے احمدی پہلے منکر تھے.تین ہی دن کی مدت فقہا اس فاقہ شدہ کے لئے بھی مقرر کرتے ہیں جسے سور کھانا جائز ہو جاتا ہے.شاید مرتد کو تین دن قید کرنے کی بھی یہی حکمت ہے کہ اتنے ظلم کے بعد اسے جھوٹ بولنا جو سؤر کھانے کے برابر ہے جائز ہو جائے گا.مگر کیا قید سے یقین پیدا ہوا کرتا ہے؟ کیا قید اطمینانِ قلب پیدا کر دیتی ہے ؟ کیا قید انسان کے خیالات کو درست کر دیتی ہے ؟ کیا موت کا ڈر انسان کے خیالات کو صاف کر دیتا ہے ؟ کیا
انوار العلوم جلد 23 260 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ موت کا ڈر منافق بنا دیتا ہے مومن نہیں بناتا؟ اور منافقت تو ایک ایسی لعنت ہے کہ جس قوم میں بھی آئی وہ تباہ ہو گئی.یہ تو ہم مان سکتے ہیں کہ اگر کوئی شخص دیدہ و دانستہ اپنے فوائد کو مد نظر رکھتے ہوئے مسلمان ہونے کے لئے آئے تو ہمارا حق نہیں کہ ہم اُس کو مسلمان کرنے سے انکار کریں کیونکہ ہمیں قلوب کا علم نہیں.جیسا کہ تاریخ میں آتا ہے کہ ابو سفیان نے منہ سے تو یہ کہا کہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر شک کرتا ہوں مگر بیعت کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بڑھا دیا اور آپ نے اس کی بیعت لے لی.78 کیونکہ کسی شخص کا اس خیال سے بیعت کر لینا کہ میرا ایمان ایسے مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ شاید کچھ دنوں تک بعض ایسے مسائل جو اب تک میری سمجھ میں نہیں آئے حل ہو جائیں گے یہ اس کے اختیار کی بات ہے مگر کسی شخص کا اس پر جبر کرنا اور یہ کہنا کہ تو اُن عقائد کا اظہار کر جن کے خلاف تیر ادل کہتا ہے یہ نہایت ظالمانہ، نہایت ناپاک اور نہایت مکر وہ فعل ہے.یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اگر کوئی شخص دوسرے عقائد رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے الگ ہو جائے.کیونکہ اگر کوئی شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اس جماعت کے اصل عقیدے وہی ہیں جن پر وہ ایمان رکھتا ہے تو وہ اس جماعت سے کس طرح الگ ہو سکتا ہے.وہ یہی سمجھے گا کہ میں جن عقائد پر قائم ہوں وہی اس مذہب کے عقائد ہیں اور دوسرے لوگ یہ سمجھیں گے کہ جو اُن کے عقائد ہیں وہی ان کا مذہب انہیں سکھلاتا ہے.آگے دُنیا فیصلہ کرلے گی کہ کس کی بات ٹھیک ہے.دونوں میں سے کسی ایک سے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ جس مذہب کو مانتا ہے اُس مذہب کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرنا چھوڑ دے.آخر یہ دُنیا نے کیا پلٹا کھایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جس بات کے تکب کفار ہوتے تھے ، جس بات کو قرآن کریم بار بار رڈ کرتا، ناجائز ٹھہر آتا اور ظلم قرار دیتا ہے وہی مردود بات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُن علماء کا جو نائب رسول سمجھے جاتے ہیں، حق بن گئی اور ان کا خاص کام قرار پاگئی.کیا گفر اسلام بن سکتا ہے؟ کیا خدا کی جگہ شیطان لے سکتا ہے ؟ مَعَاذَ الله
انوار العلوم جلد 23 261 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جن چیزوں پر ان علماء نے شورش کی اور جن پر شورش کرنا ย اپنا حق قرار دیا ہے وہ ابتدائے اسلام سے مسلمانوں میں موجود رہی ہیں اور ابتدائے اسلام سے مسلمانوں کے علماء اور اولیاء اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ان کی تصدیق کرتے چلے آئے ہیں بلکہ اُن میں سے بعض اسلامی آئیڈیالوجی کا حصہ ہیں اور وہ ایسی باتیں نہیں ہیں کہ اگر وہ غلط بھی سمجھی جائیں تو ان پر شورش اور فساد کرنے کا کسی کو حق ہو.جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراضات کا خلاصہ بائی سلسلہ احمدیہ اور جماعت احمدیہ کے متعلق جو باتیں شورش کا موجب قرار دی گئی ہیں وہ خلاصہ مندرجہ ذیل ہیں: اوّل.احمدیوں نے اسلام میں انتیوں پر نزول وحی اور نزولِ جبرئیل تسلیم کیا ہے حالانکہ نہ غیر نبی پر وحی نازل ہو سکتی ہے نہ بعد رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جبرئیل نازل ہو سکتا ہے.ایسے عقیدہ والا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہے.دوم.انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کی ہتک کی ہے.سوم.انہوں نے (مرزا صاحب کے) مسیح موعود ہونے کا دعویٰ تسلیم کیا ہے اور حضرت مسیح ناصری کی وفات کا اعلان کر کے مسلمانوں کی دل شکنی کی ہے.چہارم.انہوں نے ایک نئی اُمت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج ا از اسلام کیا ہے..انہوں نے اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں پڑھنے سے روکا ہے، اُن کی نماز جنازہ پڑھنے سے روکا ہے اور اُن کو لڑکیاں دینے سے روکا ہے.ششم.انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کرنے کی تعلیم دی ہے اور اُن کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دیا ہے.ہفتہ.انہوں نے مسلمان حکومتوں سے اور مسلمان تحریکوں سے کوئی ہمدردی نہیں کی..انہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصا سخت گالیاں دیں.
انوار العلوم جلد 23 262 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہم.انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوششیں کیں.مثلار بوہ بنایا.د ہم.ایک بات احمدیوں کے متعلق یہ بھی کہی گئی ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے مجرم ہیں.سوال نمبر 1.متعلق اجرائے وحی و نزولِ جبرئیل کہا گیا ہے کہ یہ فسادات احمدیوں کے عقائد اور اُن کے طرزِ عمل کا طبعی نتیجہ تھے کیونکہ احمدیوں کا نبوت اور نزول وحی کے متعلق نظر یہ اپنی ذات میں اتنا اشتعال انگیز ہے کہ کوئی مسلمان اسے برداشت ہی نہیں کر سکتا.اور جو شخص یہ عقیدہ رکھے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے اور مسلمانوں کو اس پر غصہ آنا لازمی ہے.اور علماء نے لوگوں کو نہیں اُکسایا بلکہ لوگ خود ان باتوں کو سُن کر جوش سے اندھے ہو گئے.اِس کا جواب یہ ہے کہ احمدی جماعت کے عقائد آج پہلی مرتبہ لوگوں کے سامنے نہیں آئے بلکہ آج سے ستر سال پہلے سے سامنے آرہے ہیں.اگر ان سے واقع میں طبائع میں جوش پیدا ہو سکتا تھا تو وہ ستر سال پہلے پید اہونا چاہئے تھا نہ کہ آج.کہا گیا ہے کہ: پہلے انگریزی حکومت تھی جس کو اسلام سے کوئی واسطہ نہیں تھا لیکن اب قیام پاکستان کے بعد مسلمانوں کو اپنے جذبات کے اظہار کا موقع میسر آیا ہے“.اس کے جواب میں معزز عدالت کی توجہ کے لئے مندرجہ ذیل حقائق پیش کئے جاسکتے ہیں:.(1) انگریزی دورِ حکومت میں ہندو مسلم اور شیعہ سنی فسادات ہوتے رہے.انفرادی طور پر مذہبی اختلافات کی بناء پر بھی قتل کی وارداتیں ہوتی رہیں مثلاً راجپال، شردھانند وغیرہ قتل ہوئے.سیاسی اختلافات کی بناء پر انگریز گورنر جنرل (لارڈ منٹو)
انوار العلوم جلد 23 263 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ قتل ہوئے.بعض انگریز گورنروں اور انگریز افسروں پر قاتلانہ حملے ہوئے لیکن یہ قیقت ہے کہ بر عظیم ہندو پاکستان میں گزشتہ ستر سال میں کبھی احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے اور نہ مذہبی اختلافات کی بناء پر کبھی کوئی احمدی قتل ہوا.پس اگر احمد یہ عقائد ، احمد یہ لٹریچر اور دوسرے مسلمانوں سے ان کی نمازوں اور جنازوں میں علیحدگی ، باہمی تکفیر اور مسئلہ ختم نبوت مسلمانوں کے لئے فی الحقیقت نا قابل برداشت ہو تا تو کبھی ممکن نہ تھا کہ باہم فسادات نہ ہوتے اور کوئی احمدی کبھی کسی غیر احمدی کے ہاتھ سے مارا نہ جاتا.(2) پھر قیام پاکستان کے بعد بھی 1947 ء سے لے کر 1953ء تک چھ سال یہ فسادات کیوں رُکے رہے؟ کہا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد چونکہ مسئلہ مہاجرین اور مسئلہ کشمیر اور مسئلہ خوراک کی طرف سب کو توجہ تھی اس لئے احمدیوں کے خلاف مسلمانوں کا جوش دبا رہا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو جملہ مسائل ابھی تک حل نہیں ہوئے اور اب بھی اسی طرح مسلمانوں کی توجہ کا مرکز ہیں جس طرح پہلے تھے.دوسرے یہ کہ باوجود ان مسائل کے قیام پاکستان کے بعد 1953ء کے فسادات سے قبل پاکستان میں چار مقامات پر (نارووال ضلع سیالکوٹ، ضلع لاہور، ضلع سرگودھا اور ضلع میانوالی میں شیعہ سنی فسادات ہوئے لیکن کسی جگہ احمدی غیر احمدی فسادات نہیں ہوئے.اس سے بھی ثابت ہے کہ ابتداء عام مسلمانوں کے دل میں احمدیوں کے خلاف ہر گز وہ جوش اور اشتعال نہیں تھا جو اُن کے دلوں میں شیعوں کے خلاف تھا.احمدیوں کے خلاف تو جوش و اشتعال ایک لمبی مدت کی مسلسل کوششوں کے بعد پیدا ہوا ہے.(3) قیام پاکستان سے پہلے اور مابعد احمدیوں اور غیر احمدیوں کے مابین مسئلہ ختم نبوت اور صداقت حضرت مرزا صاحب اور وفات مسیح کے مسائل پر گزشتہ پچاس ساٹھ سال سے مناظرے ہوتے رہے ہیں.ہندوستان کے ہر بڑے شہر اور پنجاب کے قصبوں اور قریوں تک میں ایسے مناظرے ہوئے اور ہزاروں ہزار مسلمان نہایت شوق کے ساتھ یہ مناظرے سُنتے رہے لیکن ہمیشہ پر امن رہے کبھی کسی جگہ کوئی فساد نہیں ہوا.یہ امر واقعہ بذاتِ خود اس خود ساختہ نظریے کو غلط ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ یہ فسادات طبعی تھے.
انوار العلوم جلد 23 264 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (4) پھر یہ کہنا کہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی وحی یا نبوت کا تصور برداشت ہی نہیں کر سکتا، اس وجہ سے بھی غلط ہے کہ احمدی جماعت کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ قریباً تمام احمدی یہاں کے مسلمانوں ہی میں سے جماعت میں آئے ہیں.ان میں علماء بھی ہیں، صوفیاء اور گدی نشین بھی اور مذہبی اور دنیاوی لحاظ سے تعلیم یافتہ بھی.مشہور علماء جنہوں نے حضرت بانی حضرت مولانا نورالدین صاحب بھیروی، حضرت مولانا سلسلہ احمدیہ کی صداقت کا اقرار کیا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ، حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی، حضرت مولانا محمد احسن صاحب امروہی، حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب (سابق) مدرس دارالعلوم دیو بند و مظاہر العلوم سہارنپور ) ، حضرت مولانا قاضی سید امیر حسین صاحب سابق مدرس مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور ، حضرت مولانا فضل الدین صاحب کھاریاں، حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب میرٹھی، حضرت مولانا انوار حسین خاں صاحب شاه آباد ضلع ہر دوئی، حضرت مولانا حافظ سید علی میاں صاحب شاہجہانپوری، حضرت مولانا قاضی خلیل الدین احمد صاحب رازی تلہری، حضرت مولانا غلام حسین صاحب لاہوری گمٹی والے، حضرت مولانا حسن علی صاحب واعظ ( جنہوں نے تمام ہندوستان میں دورہ کر کے تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کیا، جن کی تبلیغی سرگرمیاں تمام ہندوستان میں مشہور ہیں.)، حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی، حضرت مولانا امام الدین صاحب گولیکی ضلع گجرات، حضرت مولانا محمد اسماعیل صاحب فاضل جلالپوری، حضرت مولوی محمد دلپذیر صاحب بھیروی (مشہور پنجابی شاعر ) حضرت میاں ہدایت اللہ صاحب لاہوری ( پنجابی شاعر سه حرفی والے) ، حضرت مولانا عبد القادر صاحب لدھیانوی حنفی حضرت مولانا عبد الماجد صاحب بھاگلپوری، حضرت مولانا عبد الواحد صاحب آف براہمن بڑ یہ بنگال، حضرت مولانا فضل الدین صاحب بھیروی و غیر ہ مشہور و مسلم علماء.
انوار العلوم جلد 23 265 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پیر اور گڈی نشین پیران عظام اور گدی نشینوں میں سے حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف والے (جو سابق ہز ہائنس نواب صاحب بہاولپور کے پیر تھے اور جن کے لاکھوں مرید ریاست بہاولپور اور سندھ میں موجود ہیں)، حضرت پیر صاحب کو ٹھے والے (صوبہ سرحد)، حضرت پیر صاحب العلم (صوبہ سندھ)، حضرت پیر سراج الحق صاحب جمالی نعمانی سرسه شریف (یو پی)، حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی، حضرت حافظ روشن علی صاحب و حضرت پیر برکت علی صاحب نوشاہی (آف رنمل شریف ضلع گجرات).مسلم مشاہیر جنہوں نے حضرت بانی سلسلہ مولانا شبلی نعمانی احمدیہ کی تعریف کی یا اُن کی مخالفت نہیں کی مولانا عبد الحلیم شرر، شمس العلماء مولانا سید میرحسن صاحب سیالکوٹی، شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب، خواجہ حسن نظامی دہلوی، مولانا ابو الکلام آزاد، مولانا محمد علی جوہر، مولانا عبد الماجد دریا بادی، مولانا غلام مرشد صاحب (خطیب شاہی مسجد لاہور)، حکیم بر ہم مدیر شرق گورکھپور، مولانا عبد اللہ العمادی، چوہدری سر شہاب الدین، ڈاکٹر سیف الدین کچلو، خلیفہ محمد حسین صاحب وزیر اعظم پٹیالہ، سید ریاض احمد صاحب ریاض خیر آبادی مدیر ریاض الاخبار گورکھپور، س العلماء مولانا الطاف حسین صاحب حالی، مولانا اکبر الہ آبادی.والی قلات اس سلسلہ میں ہم موجودہ نواب صاحب بلوچستان کے دادا جناب معلی القاب میر خداداد خان صاحب سابق والی قلات کا نام خاص طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں.انہوں نے بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق فرمائی تھی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس معز ز عدالت کے روبرو اپنے بیان میں اس امر کا ذکر فرمایا تھا تو اس کے بعد موجودہ نواب صاحب نے اس کی صحت سے انکار کیا اور اخبارات میں بھی تردید شائع کرائی.حقیقت حال کو واضح کرنے کے لئے ہم جناب میر خدا داد خان صاحب مرحوم سابق والی قلات کا اصل خط
انوار العلوم جلد 23 266 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ معزز عدالت کے ملاحظہ کے لئے پیش کرتے ہیں جس سے حضرت امام جماعت احمدیہ کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے.سورائی اور زبان مرز او جواب قادیان سلحه اعتنان بعد از اسلام د نشریه شون اور رات سو یا دانه زبانی حسین بخش دیا کہ دال سقیم نورالان سرا دارت تحصمت و بزرگی شده سعی شده خیلے حطو به گشتم دنیا دارم که الاصاحب کے از ناظر عالحمر الشرف فراموش نکرده طبق این کام ہمیشہ دعائی خیر و امرا اور فرسوده ممنون دیشگی ساخته باشند.من بردار خود را در من گیر شما میدانم کرد آنا کے خاک را شکار می کند یا بودیکی داشت چینی کا اصه الیہ دیس باقی ہوں.فرد ہوں از سرم یک سر سو رفت سیاں ہیں اور نیت دوز رو درخت میر خدارا درمان در جب اس کی دولتی تعصمت عكس مكتوب جناب معلى القاب مير خدا داد خان مرحوم سابق والٹے قلات
انوار العلوم جلد 23 267 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال اس سلسلہ میں ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کا ذکر بھی ضروری ہے کیونکہ اگر چہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنی وفات کے قریب (1933،34ء کے بعد) احمدیت کی مخالفت کی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے وہ تمام عمر احمدیت کے مذاح اور مؤید رہے.(الف) عدالت کے سامنے خواجہ نذیر احمد صاحب کے بیان اور مولانا غلام محی الدین صاحب قصوری کی تصدیق سے یہ ثابت ہے کہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنے والد صاحب کے ہمراہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی.(ب) ڈاکٹر صاحب موصوف نے سعد اللہ کو مسلم لدھیانوی کی ایک نہایت گندی اور فحش نظم کے جواب میں (جو اُس نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ہجو میں لکھی تھی) ایک نظم لکھی تھی جو کتاب ” آئینہ حق نما“ میں شائع ہو چکی ہے جو عدالت کے سامنے پڑھی جاچکی ہے.(ج) ڈاکٹر صاحب موصوف اپنے مشہور لیکچر ” ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر “ میں (جو آپ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات کے دو سال بعد ۱۹۱۰ء میں آسٹریحی ہال ایم.او کالج علیگڑھ میں بزبان انگریزی دیا تھا اور مولانا ظفر علی خان صاحب نے جس کا ترجمہ مئی ۱۹۱۱ء میں خود ڈاکٹر سر محمد اقبال کی موجودگی میں برکت علی محمدن ہال لاہور کے ایک عظیم الشان جلسہ کے سامنے پڑھ کر سنایا تھا) فرماتے ہیں: ” میری رائے میں قومی سیرت کا وہ اسلوب جس کا ایہ عالمگیر کی ذات نے ڈالا ہے ٹھیٹھ اسلامی سیرت کا نمونہ ہے اور ہماری تعلیم کا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ اس نمونہ کو ترقی دی جائے اور مسلمان ہر وقت اُسے پیش نظر رکھیں......پنجاب میں اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ اُس جماعت کی شکل میں ظاہر ہوا ہے
انوار العلوم جلد 23 268 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ جسے فرقہ قادیانی کہتے ہیں“.79 ڈاکٹر صاحب موصوف کا 1910ء میں یہ اظہارِ خیال بتاتا ہے کہ آج جو یہ بات کہی گئی ہے کہ احمدیت کی تعلیم اور نبوت کے بارے میں نظر یہ بذات خود مسلمانوں کے لئے طبعی طور پر اشتعال انگیز تھا ایک بے بنیاد اور بے حقیقت الزام ہے.اس ضمن میں ہم مفکر احرار مفکر احرار چوہدری افضل حق صاحب چوہدری افضل حق صاحب مرحوم کا ایک مضمون بھی معزز عدالت کے ملاحظہ کے لئے نقل کرتے ہیں.اگر چہ یہ درست ہے کہ ڈاکٹر سر محمد اقبال صاحب کی طرح چوہدری افضل حق صاحب نے بھی بعد میں بعض سیاسی وجوہ کی بناء پر احمدیت کی مخالفت کی لیکن اُن کا یہ ابتدائی اظہارِ خیال پورے طور پر اس الزام کی تردید کرتا ہے کہ احمدیت کی تعلیم مسلمانوں کے لئے بذات خود طبعی طور پر اشتعال انگیز ہے.چوہدری افضل حق صاحب اپنی کتاب موسومه به فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں “ میں تحریر فرماتے ہیں:.آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی جس مفقود ہو چکی تھی.سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گئی.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی.ہاں ایک دل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا.ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر واشاعت کے لئے بڑھا.اگر چہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے قابل تقلید ہے بلکہ دُنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ ہے“.80
انوار العلوم جلد 23 269 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (ب) پھر اسی کتاب کے صفحہ 41 پر تحریر فرماتے ہیں: سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں دینی مکاتب ہندوستان میں جاری ہیں مگر سوائے احمدی مدارس و مکاتب کے کسی اسلامی مدرسہ میں غیر اقوام میں تبلیغ و اشاعت کا جذبہ طلباء میں پیدا نہیں کیا جاتا.کس قدر حیرت ہے کہ سارے پنجاب میں سوائے احمدی جماعت کے اور کسی فرقے کا بھی تبلیغی نظام موجود نہیں“.جناب مولانا عبد الحلیم صاحب شرر لکھنوی مولانا عبد العلیم صاحب شرر تحریر فرماتے ہیں: احمدی مسلک شریعت محمدیہ کو اُسی وقعت اور شان سے قائم رکھ کر اس کی مزید تبلیغ واشاعت کرتا ہے.خلاصہ یہ کہ بابیت اسلام کے مٹانے کو آئی ہے اور احمدیت اسلام کو قوت دینے کے لئے.اور اسی کی برکت ہے کہ باوجو د چند اختلافات کے احمدی فرقہ اسلام کی سچی اور پُر جوش خدمت ادا کرتا ہے جو دوسرے مسلمان نہیں کرتے “.81 یہ عرض کر دینا ضروری ہے کہ مولانا عبد الحلیم صاحب شر ر احمدی جماعت میں شامل نہیں تھے.جناب مولانا محمد علی صاحب جو ہر (برادر مولانا شوکت علی صاحب مرحوم) نا شکر گزاری ہو گی اگر جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر تو جہات بلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف تبلیغ اور مسلمانوں کی تنظیم
انوار العلوم جلد 23 270 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور تجارت میں بھی انتہائی جدوجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقے کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کی بلند بانگ و باطن پیچ ، دعاوی کے خوگر ہیں.مشعل راہ ثابت ہو گا “.82 مولانا ظفر علی خان مدیر ”زمیندار باوجود اس حقیقت کے کہ مولوی ظفر علی صاحب احمدیت کے شدید مخالفوں میں سے ہیں انہوں نے فتنہ ارتداد (یو.پی) 1923ء کے موقع پر جماعت احمدیہ کی خدمات اسلامی کو سراہتے ہوئے اخبار ”زمیندار“ میں متعدد مقالے لکھے جن کے چند اقتباسات درج ذیل ہیں: (الف) مسلمانانِ جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں جو ایثار ، کمر بستگی، نیک نیتی اور توکل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے انداز عزت اور قدر دانی کے قابل ضرور ہے.جہاں ہمارے مشہور پیر اور سجادہ نشین حضرات بے حس و حرکت پڑے ہیں.اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمتِ اسلام کر کے دکھادی“.83 (ب) ”احمدی بھائیوں نے جس اخلاص، جس ایثار، جس خوشی اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے“.(ج) گھر بیٹھ کر احمدیوں کو بُرا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے لیکن اِس کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان اور دیگر یورپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء دیوبند ، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے
انوار العلوم جلد 23 271 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ بھی تبلیغ اشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں؟ کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان نہیں ہیں جو چاہیں تو بلا دقت ایک ایک مشن کا خرچ اپنی گرہ سے دے سکتے ہیں؟ یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے.فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اُچھالنا آج کے مسلمانوں کا شعار ہو چکا ہے“.84 مولانا ابو الکلام آزاد کے مولانا ابو النصر آہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی برادر اکبر مولانا ابوالنصر آہ زندگی میں 1905ء میں قادیان آئے اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ سے ملاقات کے بعد انہوں نے اپنے تاثرات اخبار وکیل “امر تسر میں شائع کرائے.لکھتے ہیں:.چھوٹے سے لے کر بڑے تک ہر ایک نے بھائی کا سلوک کیا اور مولانا حاجی حکیم نورالدین صاحب جن کے اسم گرامی سے تمام انڈیا واقف ہے اور مولانا عبد الکریم صاحب جن کی تقریر کی پنجاب میں دھوم ہے مولوی مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر ”بدر جن کی تحریروں سے کتنے انگریز یورپ میں مسلمان ہو گئے ہیں، جناب میر ناصر نواب صاحب دہلوی جو مرزا صاحب کے خسر ہیں ، مولوی محمد علی صاحب ایم.اے.ایل.ایل.بی ایڈیٹر ریویو آف ریلیجنز، مولوی یعقوب علی صاحب تراب ایڈیٹر الحکم، جناب شاہ سراج الحق صاحب وغیرہ وغیرہ پرلے درجے کی شفقت اور نہایت محبت سے پیش آئے“.”مرزا صاحب کی صورت نہایت شاندار ہے جس کا اثر بہت قوی ہوتا ہے.آنکھوں میں خاص طرح کی چمک اور کیفیت ہے اور باتوں میں ملائمت ہے.طبیعت منکسر مگر حکومت خیز ، مزاج ٹھنڈا --------------------------
انوار العلوم جلد 23 272 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 85" مگر دلوں کو گرما دینے والا ، بُرد باری شان میں انکساری، کیفیت میں اعتدال پیدا کر دیا ہے.لقتلو ہمیشہ اس نرمی سے کرتے ہیں کہ معلوم ہوتا ہے کہ گویا مسبتم ہیں.....مرزا صاحب کی وسیع الاخلاقی کا یہ ایک ادنیٰ نمونہ ہے کہ اثناء قیام کے متواتر نوازشوں کے خاتمہ پر بایں الفاظ مجھے مشکور ہونے کا موقع دیا.”ہم آپ کو اس وعدہ پر اجازت دیتے ہیں کہ آپ پھر آئیں اور کم از کم دو ہفتہ قیام کریں“.اُس وقت کا تبسم ناک چہرہ اب تک میری آنکھوں میں ہے.میں جس شوق کو لے کے گیا تھا ساتھ لایا ہوں اور شاید وہی شوق مجھے دوبارہ لے جائے.“ 5 (5) پھر یہ امر بھی اس معزز عدالت کی توجہ کے لائق ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں باوجود اس امر کے کہ آپ کے دعاوی کے ساتھ علماء نے اختلاف کیا، آپ کے خلاف کفر کے فتوے لگائے.نمازوں اور جنازوں اور رشتوں ناطوں سے علیحدگی ہوئی لیکن جب 26 مئی 1908ء کو آپ نے وفات پائی تو مسلم پر یس نے آپ کی تعریف اور آپ کی اسلامی خدمات کی ستائش سے بھر پور مضامین لکھے جس سے یہ امر ثابت ہوتا ہے کہ احرار اور ان کے ہمنواؤں کا یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ احمدیہ جماعت کے نظریات بالطبع مسلمانوں کے لئے اشتعال انگیز اور جماعت احمدیہ کو مسلمانوں سے الگ ایک جماعت ثابت کرنے والے ہیں.ذیل میں ہم چند اقتباسات درج کرتے ہیں: بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات (الف) مولانا عبد الله العمادی مدیر اخبار وکیل “ امر تسر نے اخبار ”وکیل“ میں شائع مشہور اخبارات کی آراء فرمایا:- ”وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.....خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا
انوار العلوم جلد 23 273 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مٹانے کے لئے اُسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پیدا ہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندانِ تاریخ بہت کم منظر پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں انقلاب کر کے د کھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جُدا ہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اُس شاندار مدافعت کا جوا اُس کی ذات سے وابستہ تھا، خاتمہ ہو گیا.اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے بر خلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے.....مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جب کہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لوحِ قلب سے نَسيا منسيا نہیں ہو سکتا.اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا ہے غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بارِ احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صف اول میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا
انوار العلوم جلد 23 274 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا “.86 (ب) علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نے لکھا: مرحوم ایک مانے ہوئے مصنف اور مرزائی فرقہ کے بانی تھے.....کئی دفعہ آپ کو کافر قرار دیا گیا اور آپ پر اکثر مقدمات کئے گئے.....بے شک مرحوم اسلام کا ایک بڑا پہلوان تھا“.87 (ج) تہذیب نسواں لاہور کے مدیر شمس العلماء مولانا ممتاز علی صاحب لکھتے ہیں: ” مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے وو اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت باخبر عالم، بلند ہمت، مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے “ 88 (1) اخبار زمیندار کے مدیر مولانا ظفر علی خان صاحب کے والد ماجد مولوی سراج دین صاحب تحریر فرماتے ہیں: مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے 26 مئی کی صبح کو لاہور میں انتقال فرمایا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيهِ رَاجِعُونَ.....مرزا غلام احمد صاحب 1860ء یا 1861ء کے قریب ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے.اُس وقت آپ کی عمر بائیس چوبیس سال کی ہو گی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے.کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا.عوام سے کم ملتے تھے.1877ء میں ہمیں ایک شب قادیان میں آپ کے ہاں مہمانی کی عزت حاصل ہوئی.اُن دنوں بھی آپ عبادت اور وظائف میں اس قدر محود مستغرق تھے کہ مہمانوں سے بھی بہت کم گفتگو کرتے تھے.
انوار العلوم جلد 23 275 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 1881ء یا 1882ء میں آپ نے براہین احمدیہ کی تصنیف کا اعلان دیا اور ہم اس کتاب کے اول خریداروں میں سے تھے “.89 (ح) ایڈیٹر ”صادق الاخبار ریواڑی مولوی بشیر الدین صاحب جو سرسید احمد خان صاحب کے ساتھیوں میں سے تھے اور مسلمانوں کے لیڈروں میں شامل تھے آپ کی وفات پر تحریر فرماتے ہیں: ”چونکہ مرزا صاحب نے اپنی پر زور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کما حقہ ، ادا کر کے خدمتِ اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامی اسلام اور معین المسلمین، فاضل اجل، عالم بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر افسوس کیا جائے“.یہ سب اقتباسات اس امر کے ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف 1953ء کے حالیہ فسادات احمدیت کی تعلیم اور نظریات کے اشتعال انگیز ہونے کے باعث نہ تھے بلکہ اُس اشتعال انگیز اور منافرت خیز پروپیگنڈے کا نتیجہ تھے جو مجلس احرار اور مجلس عمل کے اراکین نے قیام پاکستان کے بعد جماعت احمدیہ کے خلاف کیا.(6) اس امر کا ایک اور ثبوت کہ یہ تحریک کسی طبعی جذبے کا نتیجہ نہ تھی بلکہ انجینئرڈ تھی یہ بھی ہے کہ اگر یہ تحریک احمدیت کے نظریات کے باعث اشتعال ہونے کی وجہ سے ہوتی تو سب سے پہلے بہائیوں اور کمیونسٹوں کے خلاف اُٹھتی جو پاکستان میں بکثرت موجود ہیں اور ایک زبر دست تنظیم کے ساتھ پاکستان میں منظم پروپیگینڈا کے ذریعہ اپنی تعداد کو بڑھا رہے ہیں.(7) اس تحریک کے غیر مذہبی اور غیر طبعی ہونے کا ایک زبر دست ثبوت یہ بھی ہے کہ اس تحریک میں تحفظ ختم نبوت کے نام پر احرار نے پنجاب کے عیسائیوں کو بھی شامل کیا.
انوار العلوم جلد 23 276 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حالانکہ عیسائیوں کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تو کجا نَعُوذُ بِاللہ نبی بھی نہیں ہیں.بلکہ اُن کے نزدیک مسیح ناصری خاتم النبیین ہیں.چنانچہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی لاہور نے 1953ء میں ایک رسالہ موسومہ بہ ”خاتم النبیین“ شائع کیا جس کے صفحہ 21 پر درج ہے: توریت اور نبیوں کی ان خبروں کو بعض محمدی عالموں نے حضرت محمد عربی پر عائد کرنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس بحث میں علماء محمد پہ نے سخت ندامت اُٹھائی اور بڑی شکست اُٹھا کر خاموش رہ گئے اور انجیل میں مسیح کے یہ الفاظ پڑھ کر مسلمان بڑے خوش ہوئے کہ ”دنیا کا سر دار آتا ہے“.90 مگر جب ان کو معلوم ہوا کہ یہ خبر شیطان کے بارہ میں ہے تو چپ کر گئے".21 ”آخری نبی کی خبروں کے متعلق مسلمان عالموں کی ملمع سازیوں کی حقیقت بے نقاب ہو گئی اور اس بحث کا نہایت عمدہ نتیجہ نکلا کہ یہودیوں اور مسیحیوں کی کتابوں میں محمد صاحب کا نام و نشان بھی نہیں ہے.محمد صاحب پچھلے چھ صد سال پہلے مسیح خداوند کا اپنا دعویٰ تھا کہ تورات اور نبیوں کا سابقہ سارا بیان میرے حق میں ہے اور آئندہ کے لئے اس کا تاکیدی فرمان ہے کہ جھوٹے نبیوں سے خبر دار رہیں.(متی 7:150) مسیح کے قول کی صداقت کے سامنے کسی اور انسان کا کیا اعتبار ہے.کیونکہ وہی صادق القول اور سچا گواہ ہیں.مکاشفہ 15:1 و14:13 11:19 و6:22.اور اس کے مقدس حواریوں نے اس کے بچے قول کی تصدیق میں یہودی قوم کے سرداروں کے سامنے اس حقیقت کا اعلانیہ اقرار اور اظہار کیا کہ مسیح ناصری ہی خاتم النبیین اعمال 30:3 و اعمال 42:10 و پطرس 9:1-11.پس ہے.
انوار العلوم جلد 23 277 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہماری تحریک نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم دُنیا میں اس بات کا اعلانیہ اظہار کریں کہ توریت اور نبیوں اور انجیل مقدس میں مسیح خداوند اور اس کے حواریوں کے بعد کی بچے نبی کی آمد کی کوئی خبر نہیں.اس لئے مسیح اور اس کے حواریوں کے بعد کسی کا دعویٰ کی نبوت حق اور قابل وثوق نہیں ہے.پس ساری باتوں کو آزماؤ اور بہتر کو اختیار کرو.1.پھسلنیکیوں 21:5 22 اب اس کے بعد ہم معزز عدالت کی توجہ کے لئے اخبار آزاد 27 فروری 1953ء پنجاب کے عیسائی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر کا اعلان نقل کرتے ہیں.احراری اخبار آزاد عیسائی مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے “ کے زیر عنوان رقمطراز ہے: لاہور 25 فروری.مسیحی لیڈر مسٹر ظفر اقبال ظفر نے ہے.اخبارات کو بیان دیتے ہوئے کہا: میں برادرانِ ملت سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس دھوکے اور فریب میں نہ آئیں اور مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو زور شور سے جاری رکھیں.مرزائی اسلام اور پاکستان کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہیں.ہم اس تحریک میں برادرانِ ملت کے ساتھ ہیں اور ہم دو قدم آگے بڑھ کر ہر قسم کی جانی اور مالی قربانی دے کر مرزائیوں کو اقلیت قرار دینے کی تحریک کو کامیاب بنائیں گے “.23 مندرجہ بالا اقتباس میں ”برادرانِ ملت “ کے الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں.یا مجلس عمل کے اراکین اور عیسائی تو ایک ملت ہیں لیکن جماعت احمد یہ خارج از ملت احرار اور عیسائیوں کے اس اتحاد سے صاف طور پر ثابت ہوتا ہے کہ یہ تحریک در حقیقت مذہبی نہیں بلکہ سیاسی ہے.
انوار العلوم جلد 23 278 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (۸) اگر یہ تحریک طبعی ہوتی اور اس کا باعث احمدیت کے مخصوص عقائد و نظریات کا عام مسلمانوں کے لئے طبعاً اشتعال ہونا ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تحریک بجائے سیاسی لیڈروں کی طرف سے اُٹھائے جانے کے خود عوام کی طرف سے اُٹھتی.علماء کو اس کے بھڑ کانے کی کیا ضرورت تھی؟ اگر مسلمان جانتے ہوں کہ فلاں جگہ پر ان کو سور کھلایا جاتا ہے تو کسی عالم کو یہ بتانے کی کیا ضرورت ہو گی کہ تم وہاں نہ جاؤ.اگر واقع میں لوگوں میں ایسی تعلیمات پر غم اور غصہ پایا جاتا تھا تو پھر کسی شخص کے اشتعال دلانے اور تقریر کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور نہ ہزار ہا جھوٹ بولنے کی ضرورت تھی.وہ علماء کرام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گڈی پر بیٹھنے کے دعویدار ہیں برابر پانچ سال تک بولتے رہے ہیں، اُن کا جلسے کرنا اور اُن کا لٹریچر شائع کرنا، اُن کا نوٹ بنابنا کر بیچنے کی کوشش کرنا، اُن کا بکروں کی کھالیں طلب کرنا تا کہ لوگوں کو ان باتوں سے واقف کیا جائے بتاتا ہے کہ یہ عوام الناس کی تحریک نہیں تھی بلکہ علماء اسے عوام الناس میں پھیلانا چاہتے تھے تاکہ اس زور اور دباؤ کے ذریعہ سے وہ گورنمنٹ کو مجبور کریں.اور علماء اس مسئلہ میں غیر جانبدار پارٹی نہیں تھے.اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ اسلام میں وحی کا سلسلہ جاری ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسلام میں مولویوں کی کوئی حیثیت نہیں وہ محض ایک مدرس اور قانون کی تشریح کرنے والے لوگ کہلائیں گے اِس سے زیادہ اِن کو لوگوں پر کوئی حکومت حاصل نہیں.خدا رسیدہ اور اللہ تعالیٰ سے وحی پانے والے لوگ اگر دُنیا میں آتے رہیں تو PRIESTHOOD کا خاتمہ ہو جاتا ہے.PRIESTHOOD اُسی وقت رہتی ہے جب کہ وحی کا زمانہ دور ہو جاتا ہے اور لوگ نقل اور تقلید پر مجبور ہو جاتے ہیں.موسیٰ علیہ السلام سے لے کر عزرا نبی تک کوئی ملازم نہیں تھا کیونکہ متواتر نبی آتے رہے تھے.عزرا کے بعد جب نبیوں کے آنے میں وقفہ پڑا تب سے احبار اور رتی وغیرہ پیدا ہونے شروع ہوئے.جیسا کہ فریسیوں اور صدوقیوں کی تاریخ سے ثابت ہے.پس علماء کا اس معاملہ میں جوش دکھانا اُن کی ذاتی اغراض کے ماتحت تھا عوام الناس کو اس تحریک سے کوئی تعلق
انوار العلوم جلد 23 279 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ نہیں تھا.عوام الناس تو جھوٹ بول بول کر اور دھو کے دے دے کر فساد پر آمادہ کئے گئے.ہمارے ملک کے اکثر افراد تو پیروں کے ماننے والے ہیں.اہل حدیث تو بہت ہی کم ہیں.پھر اہل حدیث کا ایک حصہ ایسا بھی ہے جو کہ وحی و الہام کا قائل ہے اور بزرگوں کو مانتا ہے اور اُن کی بیعت کرتا ہے جیسا کہ مولانا داؤد صاحب غزنوی کے دادا کا عقیدہ تھا اور اُن کے والد مولوی عبد الجبار صاحب غزنوی نے اپنی کتاب ”اثْبَاتُ الْإِلْهَامِ وَ الْبَيْعَةِ“ میں لکھا ہے کہ: مسئلہ الہام کا حلت و حرمت کا مسئلہ نہیں جو اس کا ثبوت صحابہ اور تابعین سے ضرور ہونا چاہئے بلکہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر اس دم تک اگر کسی نے بھی دعوئی نہ کیا ہو اور آج ایک شخص متقی صالح دعوی کرے کہ مجھے الہام ہو تا ہے اور مجھے غیب سے آواز آتی ہے تو بھی اُس کو سچا جانیں گے اور بحکم شریعت تمام اہل اسلام پر 66 لازم ہے کہ اُس کو سچا سمجھیں جس ملک کی اکثریت وحی اور الہام کی قائل ہو ایسے ملک میں اس بات پر شور مچانا کہ مرزا صاحب وحی کے مدعی ہیں کسی کی سمجھ میں آسکتا ہے ؟ سامعین تو اکثر وہ لوگ ہوتے تھے جو کہ اُن لوگوں کے ماننے والے ہیں جو وحی و الہام کے مدعی ہیں.ہمارے ملک میں کتنے عوام ہیں جو کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو نبی نہیں مانتے اور حضرت خواجہ معین الدین چشتی صاف طور پر کہتے ہیں کہ د میدم روح القدس اندر معینے مے دمد من نمے دانم مگر من عیسی ثانی شدم 95 یعنی ہر لحظہ اور ہر گھڑی جبرئیل معین کے اندر آکر یہ بات بھونکتا ہے اس لئے میں نہیں کہتا، ر حقیقت یہی ہے کہ میں عیسی ثانی ہو گیا ہوں.یہاں صاف طور پر وحی کا دعویٰ ہے جبرئیل کے اترنے کا دعوی ہے مسیح ثانی ہونے کا دعویٰ ہے اور پاکستان کے اسی فیصدی مسلمان حضرت خواجہ معین الدین چشتی کو اپنا مقتدا اور زمانہ کا بہت بڑا ولی سمجھتے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 280 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اگر وحی کا دعویٰ کرنا انسان کو کافر اور گمراہ بنا دیتا ہے تو کیا یہی مولوی جرآت کر سکتے ہیں کہ پبلک میں کھڑے ہو کر کہیں کہ مرزا صاحب کا وہی دعویٰ ہے جو حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا ہے اور ایساد عویٰ کرنے والے کافر اور گمراہ ہوتے ہیں.مسلمانوں میں سے اکثر صوفیاء حضرت محی الدین ابن عربی کو صوفیاء کا سردار قرار دیتے ہیں اور محی الدین ابن عربی بھی اجراء وحی کے قائل ہیں.امام عبد الوہاب شعرانی لکھتے ہیں: "فَإِنْ قُلْتَ قَدْ ذَكَرًا لغَزَالِي فِي بَعْضِ كُتُبِهِ إِنَّ مِنَ الْفَرَقِ بَيْنَ تَنَذُّلِ الْوَحْيِ عَلَى قَلْبِ الْأَنْبِيَاءِ وَ تَنَزِّلِهِ عَلَى قُلُوبِ الْأَوْلِيَاءِ نُزُولُ الْمَلَكِ فَإِنَّ الْوَلِي يُلْهَمُ وَ لَا يَنْزِلُ عَلَيْهِ مَلَكَ قَطُّ وَ النَّبِيِّ لَا بُدَّ لَهُ فِي الْوَحْيِ مِنْ نُزُوْلِ الْمَلَكِ بِهِ فَهَلْ ذَلِكَ صَحِيحٌ فَالْجَوَابُ كَمَا قَالَهُ الشَّيْخُ فِي الْبَابِ الرّابع و الستِّينَ وَالثَّلَاثِ مِائَةٍ إِنَّ ذلِكَ غَلَط الْحَقِّ اَنَّ الْكَلَامَ فِى الْفَرِقِ بَيْنَهُمَا إِنَّمَا هُوَ فِي كَيْفِيَّةٍ مَا 5 يَنْزِلُ بِهِ الْمَلَكُ لَا فِي نُزُولِ الْمَلَكِ 26 یعنی اگر تو کہے کہ غزالی نے اپنی بعض کتابوں میں ذکر کیا ہے کہ انبیاء کے دلوں پر وحی کے نزول اور اولیاء کے دلوں پر وحی کے نزول میں مَا بِهِ الْاِمْتِیاز فرشتہ کا نزول ہے.اللہ تعالیٰ ولیوں پر وحی تو کرتا ہے مگر اُن پر فرشتہ کبھی نہیں اتر تا اور نبی کے لئے ضروری ہے کہ فرشتہ اس پر وحی لے کر نازل ہو.تو کیا یہ بات صحیح ہے ؟ اس کا جواب وہی ہے جو کہ حضرت محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب ( فتوحات مکیہ) کے 364 ویں باب میں بیان کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ غلط ہے اور سچی بات یہ ہے کہ نبیوں اور ولیوں کی وحی میں فرق صرف وحی کے مضمون میں ہوتا ہے نہ کہ فرشتہ کے نازل ہونے یا نہ نازل ہونے کا فرق.اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک بھی جو سردار صوفیاء کہلاتے ہیں.27 اور حضرت امام غزالی کے نزدیک بھی وحی نہ صرف نبیوں پر
انوار العلوم جلد 23 281 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اُترتی ہے بلکہ ولیوں پر بھی اترتی ہے.امام غزالی کے نزدیک تو نبیوں پر وحی فرشتوں کے ذریعہ اترتی ہے اور ولیوں پر بغیر فرشتوں کے.مگر حضرت محی الدین ابن عربی کے نزدیک ان کا یہ دعویٰ غلط ہے.وہ کہتے ہیں کہ ولیوں پر بھی فرشتوں ہی کے ذریعہ وحی اُترتی ہے.فرق صرف یہ ہوتا ہے کہ نبیوں کی وحی میں اور قسم کے امور ہوتے ہیں اور ولیوں کی وحی میں اور قسم کے امور.یعنی نبیوں کی وحی شریعت وغیرہ امور پر مشتمل ہوتی ہے اور ولیوں کی وحی میں یہ بات نہیں ہوتی.پس وحی کا نزول یا فرشتہ کے نزول کا عقیدہ کوئی نئی چیز نہیں.خود قرآن کریم بھی اس بات کا مدعی ہے کہ اِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَبِكَةُ اَلَا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ ابْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمُ تُوعَدُونَ - نَحْنُ اَولِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِيَ أَنْفُسُكُمْ وَ لَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ نُزُرًا مِنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ - 28 وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے پھر عمل کے ساتھ اس پر قائم ہو جاتے ہیں فرشتے اُن پر نازل ہوتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں نہ تو آئندہ کا کوئی خوف دل میں رکھو اور نہ کسی گزشتہ نقصان پر غم کھاؤ اور خدا تعالٰی کی طرف سے اُس جنت کی جس کا تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے خبر سُن لو.ہم اِس دُنیا میں بھی (خدا کے حکم کے ساتھ ) تمہارے ساتھ رہیں گے اور اسی طرح بعد میں آنے والی دنیا میں بھی.اور تم کو اِس دُنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی جو کچھ تم چاہتے ہو اور جو کچھ مانگتے ہو ملے گا.یہ خدائے بخشندہ اور مہربان کی طرف سے تمہارے لئے بطور اعزاز ظاہر ہو گا.اس آیت میں صاف طور پر بیان کیا گیا ہے کہ مسلمانوں میں سے بعض لوگوں پر فرشتے نازل ہوں گے اور انہیں خدا کا پیغام پہنچائیں گے.چنانچہ اس آیت کے ماتحت تفسیر بیضاوی میں لکھا ہے کہ ” نَلْهِمُكُمُ الْحَقِّ وَ نَحْمِلُكُمْ عَلَى الْخَيْرِ بَدَل مَا كَانَتِ الشَّيْطينَ تَفْعَلُ بِالْكَفَرَةِ 29 یعنی جس طرح شیطان کفار کے دلوں میں بُرے خیالات پیدا کرتے ہیں ہم مسلمانوں کو سچی باتوں کا الہام کریں گے اور نیک باتوں پر عمل کرنے کی 99 وو
انوار العلوم جلد 23 اُن کو تحریص کریں گے.282 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی طرح قرآن کریم میں مخلص مسلمانوں کی وفات کے وقت بھی فرشتوں کے ذریعہ وحی نازل ہونے کا ذکر موجود ہے.چنانچہ فرماتا ہے الَّذِينَ تَتَوَقِّهُمُ الْمَلَئِكَةُ طَيْبِينَ يَقُولُونَ سَلَامٌ عَلَيْكُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ.100 یعنی وہ لوگ جن کی جان فرشتے اس حال میں نکالتے ہیں کہ وہ پاک ہوتے ہیں فرشتے اُن سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو.اپنے اعمال نیک کی وجہ سے اب موعودہ جنت میں داخل ہو جاؤ.اور یہ آیت تو ہم پہلے ہی لکھ چکے ہیں کہ یبَنِي آدَمَ إِما يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ أَيْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ - 111 اے بنی آدم! (یہ آیت مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہی گئی ہے.اگر تمہاری طرف ہمارے رسول آئیں اور تم کو ہمارے نشانات و احکام سنائیں تو جو اصلاح سے کام لے گا اور تقویٰ کرے گا اُسے نہ آئندہ کا خوف ہو گا نہ گزشتہ کا غم.خود حدیثوں میں ایسے واقعات موجود ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی وحی صحابہ پر نازل ہوئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں عبد اللہ بن زید ایک صحابی تھے اللہ تعالیٰ نے اُن کو وحی کے ذریعہ سے اذان سکھائی تھی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی کی وحی پر انحصار کرتے ہوئے مسلمانوں میں اذان کا رواج ڈالا تھا.بعد میں قرآنی وحی نے بھی اس کی تصدیق کر دی.حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے یہی اذان سکھائی تھی مگر میں دن تک میں خاموش رہا اس خیال سے کہ ایک اور شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بیان کر چکا ہے.102 ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ نے مجھے آکر اذان سکھائی اور میں اُس وقت پوری طرح سویا ہوا نہیں تھا کچھ کچھ جاگ رہا تھا.103 پھر نہ صرف یہ کہ بعض صحابہ پر فرشتہ نازل ہوا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود دُعا فرمائی کہ خدا تعالیٰ بعض صحابہ پر فرشتے نازل کرے.چنانچہ ایک دفعہ حضرت حسان بن ثابت جب کفار کے بعض اعتراضات کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے
انوار العلوم جلد 23 283 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تو آپ نے فرمایا اللهُم اَيَّدُهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ.104 اے خدا ! تو جبرئیل کے ذریعہ سے اس کی مدد کر.اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی اُمتوں میں ایسے لوگ پائے جاتے تھے جن پر وحی الہی نازل ہوتی تھی.اگر میری اُمت میں بھی ایسے لوگ ہوئے تو عمر بن الخطاب ان لوگوں میں سے ایک ہو گا.105 اس پر حاشیہ میں لکھا ہے کہ محدث سے مراد وہ شخص ہے جو کہ عظیم الشان مرتبہ پر ہو اور صادق الکلام ہو.اور مجمع البحار میں لکھا ہے کہ اس سے وہ شخص مراد ہے جس کے دل میں خدا تعالیٰ کوئی بات ڈالتا ہے پھر وہ اپنی عقل سے یہ سمجھ لیتا ہے کہ یہ بات خدا کی طرف سے ہے.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کے لئے مخصوص کر دیتا ہے.اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فرشتے ان سے بولتے ہیں.حضرت مولانا روم فرماتے ہیں.ئے نجوم است و نه رمل است و نه خواب وحی حق وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ از پئے روپوش عامه در بیان وحی دل گویند آن را صوفیان 106 وحی الہی نہ نجوم ہے نہ رمل ہے نہ خواب ہے لیکن عوام الناس سے چھپانے کے لئے صوفی اسے وحی دل کہہ دیتے ہیں.اسی طرح وہ اپنی مثنوی کے دفتر سوم صفحہ 5 پر کہتے ہیں کہ خلق نفس از وسوسه خالی شود مہمان وحی اجلالی شود کامل انسانوں کا نفس خدا تعالیٰ نے وسوسہ سے پاک بنایا اور اُن کے اوپر وحی اجلالی نازل ہوتی رہتی ہے.تفسیر روح المعانی میں لکھا ہے کہ قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 284 107 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ يُكَلِمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيا - اس میں خدا تعالیٰ نے عام ذکر کیا ہے نبی کا ذکر نہیں کیا اس لئے نبیوں کے ساتھ وحی مخصوص نہیں بلکہ سابق زمانے میں مریم اور ام موسیٰ کی مثال موجود ہے کہ وہ نبیہ نہیں تھیں اور اللہ تعالیٰ نے اُن سے کلام کیا اور ہماری اُمت میں محدثین اُمت سے بھی یہی سلوک ہو گا اور اُن پر وحی نازل ہو گی.18 ظ الہام اور وحی کے معنے بعض لوگوں نے الہام اور وحی میں فرق کیا ہے لفظ لیکن لعنت والوں نے اس فرق کو تسلیم نہیں کیا.چنانچہ منتہی الادب میں لکھا ہے کہ اوحی اللہ کے معنے ہیں خدا تعالیٰ نے اس کی طرف فرشتہ بھیجا اور اس پر الہام کیا.لیسان العرب والے کہتے ہیں کہ وضع کے لحاظ سے وحی کا لفظ عام تھا.مگر ثُم قصر الْوَحَى لِلْالْهَامِ ہوتے ہوتے وحی کے معنے الہام کے ہو گئے.109 تاج العروس والے لکھتے ہیں کہ اؤ حَى إِلَيْهِ کے معنی ہیں أَلْهَمَهُ.اس پر خدا نے الہام نازل کیا.پھر وہ لکھتے ہیں کہ ابو اسحاق کہتے ہیں کہ وحی کے اصل معنی مخفی طور پر کسی بات کے بتانے کے ہیں اور اسی وجہ سے الہام کو بھی وحی کہتے ہیں.110 حدیث کی مشہور لغت نہایہ ابن الاثیر میں ہے کہ الہام کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی کے دل میں کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی تحریک ڈالے اور وہ بھی وحی کی اقسام میں سے ایک قسم ہے.اللہ تعالیٰ اس کے لئے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے رح چن لیتا ہے.111 حضرت شاہ ولی اللہ ” فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِینَ یہ مقربین الہی کی علامت ہے اور اس قرب کی خصوصیتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فرشتے ایسے شخص کو پکارتے ہیں جس طرح کہ مریم کو پکارا تھا.112 پھر فرماتے ہیں کہ امت فرشتہ کی معرفت وحی اور اس کے دیکھنے کے حصہ سے محروم نہیں ہے.کیا تمہیں معلوم نہیں کہ کس طرح مریم نے جبرئیل کو دیکھا اور ایک مضبوط اور تندرست آدمی کی شکل میں دیکھا اور کس طرح فرشتوں نے اس کو پکارا.
انوار العلوم جلد 23 285 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ ایک مومن اپنے ایک بھائی سے ملنے کے لئے ایک گاؤں کی طرف گیا.رستہ میں ایک فرشتہ اس پر ظاہر ہوا اور فرشتے نے اُس سے کہا کہ میں خدا کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہوں.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اگر تمہارے اندر ایمان کی ایک حالت رہے تو فرشتے تم سے مصافحہ کریں.ایسی حالت میں کہ تم اپنے بستروں پر لیٹے ہوئے ہو اور حدیث میں آتا ہے کہ اسید بن حضیر نے ملائکہ کو لیمپوں کی شکل میں دیکھا.113 اور اپنے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجھ پر وحی نازل کی اور فرمایا میں تجھے وہ طریقہ دوں گا جو ان تمام طریقوں میں جو اس وقت رائج ہیں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ تک پہنچانے میں قریب ہو گا اور سب سے زیادہ مضبوط ہو گا.114 امام رازی اپنی کتاب تفسیر کبیر کی جلدے صفحہ 371,370 پر فرماتے ہیں کہ :.ملائکہ انسان کی رُوحوں میں الہاموں کے ذریعہ سے اپنی تا ثیر نازل کرتے ہیں اور یقینی کشفوں کے ذریعہ سے اُن پر اپنے کمالات ظاہر کرتے ہیں.تفسیر عرائس البیان میں لکھا ہے میری اُمت میں محدث اور مکلم ہوں گے اور عمران میں سے ہو گا.پس محدث وہ ہوتے ہیں جن سے فرشتے بولتے ہیں اور مکلم وہ ہوتا ہے جن سے اللہ تعالیٰ کلام کرتا ہے “.115 حضرت مولانا محمد اسمعیل شہید جو حضرت مولانا شاہ ولی اللہ ” کے پوتے اور.حضرات دیو بند کے اُستاد اول ہیں فرماتے ہیں کہ :.وو یہ جان لینا چاہئے کہ وحی کی ایک قسم الہام بھی ہے.وہ الہام کہ جو نبیوں پر اُترنا ثابت ہے اُسے وحی کہتے ہیں اور اگر وہ غیر نبیوں پر اُترے تو اُسے محدثیت کہہ دیتے ہیں اور قرآن کریم میں الہام کو ہی خواہ وہ انبیاء پر اُترے یا غیر انبیاء پر وحی کہا گیا ہے“ 16 نواب صدیق حسن خان صاحب جو ہندوستان کے اہل حدیث کے مسلّمہ لیڈر تھے فرماتے ہیں:.
انوار العلوم جلد 23 وو 286 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حديث لَا وَحْيَ بَعْدَ مَوْتِی بے اصل ہے.ہاں لَا نَبِيَّ بَعْدِی آیا ہے.اس کے معنے نزدیک اہل علم کے یہ ہیں کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ نہ لاوے گا.سبکی نے اپنی تصنیف میں صراحت کی ہے اس بات کی کہ عیسی علیہ السلام ہمارے ہی نبی کی شریعت کا حکم دیں گے.قرآن و حدیث کی رُو سے اس سے یہ امر راجح سمجھا جاتا ہے کہ وہ سنت کو جناب نبوت سے بطریق مشافہہ کے بغیر کسی واسطہ کے یا بطریق وحی و الہام کے حاصل کریں گے......ہاں یہ بات اور ہے کہ اُن کو وحی آئے گی جس طرح حدیث نواس بن سمعان میں نزدیک مسلم وغیرہ کے آیا ہے.....ظاہر یہی ہے کہ لانے والے اس وحی کے جبرئیل علیہ السلام ہوں گے بلکہ اسی کا ہم کو یقین ہے.اس میں کچھ تر ڈر نہیں کیونکہ اُن (جبرئیل) کا وظیفہ یہی ہے کہ وہ درمیان خدا و انبیاء کے سفیر ہوتے ہیں.یہ بات کسی دوسرے فرشتہ کے لئے معلوم نہیں.ابو حاتم نے اپنی تفسیر میں لکھا ہے.إِنَّهُ وَكَلَ جِبْرَئِيلُ بِالْكُتُبِ وَ بِالْوَحْيِ إِلَى الْأَنْبِيَاءِ (انبیاء کی طرف وحی لانا اور کتابیں لانا جبرئیل کے سپر د ہے).....یہ حدیث کہ إِنَّ جِبْرَئِيلَ لَا يَنْزِلُ إِلَى الْأَرْضِ بَعْدَ مَوْتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بے اصل ہے.حالانکہ کئی احادیث میں آنا جبرئیل کا آیا ہے.جیسے وقت مرنے کے طہارت پر.شب قدر میں.دجال کے روکنے کو ملتے، مدینے سے.الی غَيْرِ ذَالِگ 117 غرض قرآن کریم، احادیث اور اولیاء اللہ کے کلام سے ثابت ہے کہ اُمت محمدیہ میں وحی کا سلسلہ جاری ہے اور اُمت محمدیہ کے بہت سے افراد نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ اُن پر وحی نازل ہوتی ہے اور آنے والے مسیح کے متعلق تو معین صورت میں وحی کے نزول کی خبر دی گئی ہے.چنانچہ حضرت نواس بن سمعان کی روایت میں جو مسلم نے
انوار العلوم جلد 23 287 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بیان کی ہے صاف کہا گیا ہے کہ أَوْحَى الله الی عیسىٰ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنِّىٰ قَدْ أَخْرَجْتُ عِبَادَاً لِيْ لَا يَدَانِ لِأَحَدٍ بِقَتَالِهِمْ فَحَزِزُ عِبَادِى إِلَى الطَّورِ - 118 یعنی اللہ تعالیٰ حضرت عیسی علیہ السلام پر جب وہ دُنیا میں آئیں گے تو وحی نازل کرے گا کہ میں نے ایسے بندے نکالے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں.پس میرے بندوں کو طور پر لے جا.119 " روح المعانی والے لکھتے ہیں کہ ”يُوحَى إِلَيْهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَحْى حَقِيقِى“ حضرت عیسی علیہ السلام پر وحی حقیقی نازل ہو گی.علامہ محمد الحتان اپنی کتاب اسعاف الراغبين ، جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اہل بیت کے فضائل کے متعلق لکھی گئی ہے لکھتے ہیں: ” مہدی آئے گا تو اکثر مسائل میں علماء کے مذہب کے خلاف حکم دے گا اور اُس پر وہ ناراض ہو جائیں گے کیونکہ وہ یقین کریں گے کہ جو اُن کے بڑے بزرگ تھے اُن کے بعد اللہ تعالیٰ کسی کو ایسی اجتہادی باتیں نہیں بتائے گا “.120 اسی طرح وہ اپنی کتاب کے صفحہ 144 پر لکھتے ہیں کہ :- ”مہدی کی جماعت سب غیر عربیوں پر مشتمل ہو گی.ان میں سے ایک بھی عربی نہیں ہو گا“.اسی طرح صفحہ 145 پر لکھتے ہیں کہ :- ”حضرت محی الدین ابن عربی کہتے ہیں کہ مہدی الہام کے ذریعہ سے شریعت کی باریکیاں سمجھ کے لوگوں تک پہنچائے گا.اور ایک حدیث کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مہدی میرا متبع ہو گا متبوع نہیں ہو گا.یعنی ایسے فتوے دے گا جو اُس وقت کے علماء کو نئے معلوم ہوں گے مگر وہ اپنے فیصلہ میں غلطی کریں گے.در حقیقت مہدی وہی فتوے دے گا جو نے لکھے ہیں اور وہ میرا متبع ہو گا اور اپنے حکم میں معصوم ہو گا “.
انوار العلوم جلد 23 288 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی طرح پر صفحہ 147 پر وہ مسیح کے متعلق لکھتے ہیں کہ :- امام سیوطی نے اپنی کتاب اعلام میں لکھا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کے مطابق حکم دیں گے.اور اس پر اجماع ہے کہ مسیح اپنے احکام میں کسی رائج مذہب کا مقلد نہیں ہو گا بلکہ وہ تمام شریعت کے احکام قرآن سے اخذ کرے گا جس طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اخذ کرتے تھے اور جبرئیل اُن پر وحی حقیقی لے کر نازل ہو گا“.پھر وہ لکھتے ہیں کہ :- امام سیوطی نے اس کی تائید میں بڑے دلائل دئے ہیں اور جو اس کو ر ڈ کرتے ہیں، اُن کو انہوں نے غلطی پر قرار دیا ہے“.21 غرض قرآن کریم اور احادیث کے حوالوں سے اور خداترس علماء کی گواہی سے یہ بات ثابت ہے کہ وحی الہی کا نزول اسلامی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کا ایک حصہ ہے.وحی الہی صرف شریعت میں محصور نہیں ہوتی بلکہ اس کے علاوہ بھی اس کی اغراض ہوتی ہیں.جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا کہ مومنوں کو تسلی دینے اور ان کا خوف دُور کرنے اور خدا تعالیٰ کی محبت کے اظہار کے لئے بھی وحی آتی ہے اور حضرت شاہ ولی اللہ نے فرمایا کہ وحی الہی تقرب الہی کے اظہار کے لئے اور شریعت کے بار یک اسرار کو ظاہر کرنے کے لئے اولیاء اللہ پر نازل ہوتی رہتی ہے.پس مذہب کی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) عموماً اور اسلام کی آئیڈیالوجی خصوصاً جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا تھا کہ وہ خدا کا قرب حاصل کرے اور اُس کی معرفت تامہ اُس کو ملے اور اس چیز کا ذریعہ وحی الہی کو تجویز کیا گیا تھا اس بات کی تائید میں ہے کہ شریعت کے ختم ہو جانے کے بعد وحی کو آتے رہنا چاہئے اور جو شخص وحی الہی کو بند کرتا ہے وہ نہ صرف قرآن، حدیث اور اولیاء اسلام کی تردید کرتا ہے بلکہ وہ اسلامک آئیڈیالوجی پر حملہ کرتا ہے اور اُس امتیازی فرق کو مٹا دیتا ہے جو کہ خدائی مذہبوں
انوار العلوم جلد 23 289 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور فلسفی مذہبوں میں مَا بِهِ الْاِمتیاز ہے.اسلام کا فخر تو اس بات میں ہے کہ اُس نے جیسا کہ ہم اُوپر ثابت کر چکے ہیں مذہب کی بنیاد محبت پر قائم کر دی ہے اور ذہنی غلامی سے انسان کو بچا لیا ہے اور محبت کی سب سے بڑی علامت یہی ہوتی ہے کہ محبوب کا قرب نصیب ہو اور اُس کے منہ سے ہمیں یہ معلوم ہو جاوے کہ وہ ہمارے کاموں سے راضی ہے اور ہم سے خوش ہے اور مصیبت کے وقت ہم سے ہمدردی کرے اور ہمارا ساتھ دے.لیکن عجیب بات ہے کہ اسلام تو کہتا ہے کہ پہلے زمانے میں چند نبیوں کو خدا کا محبوب قرار دیا جاتا تھا مگر اُمت محمدیہ میں محبت کا دروازہ اتنا وسیع کر دیا گیا ہے اور شریعتِ اسلام نے احکام اسلامی کو ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ انسان کے دل جبر و غلامی کا احساس مٹ جاتا ہے اور وہ اسلامی تعلیم پر اپنا ذوق اور شوق اور علم اور معرفت کے ساتھ نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ عمل کرنا چاہتا ہے اور عمل کرنا ضروری سمجھتا ہے اور اس کے نیک نتائج کو دیکھ کر اس کا دل خدا کی محبت سے بھر جاتا ہے کہ اُس نے مجھے ایسا رستہ دکھایا کہ جو میری کامیابی کا ہے اور مجھے تباہی سے بچانے والا ہے.لیکن آجکل کے علماء اسلام کی خدمت اس بات کا نام رکھتے ہیں کہ وہ اس آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کو مٹادیں اور خدا اور بندے کے درمیان ایک دیوار حائل کر دیں تا ایک مسلمان اور ایک فلسفی کے درمیان کوئی فرق باقی نہ رہے.قرآن تو سامری کے ثبت متعلق یہ فرماتا ہے کہ أَفَلَا يَرَوْنَ اَلا يَرْجِعُ إِلَيْهِم قولا 122 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ وہ ثبت اُن کی باتوں کا جواب نہیں دیتا.لیکن رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گڈی پر بیٹھنے کے دعویدار اور اسلام کی خدمت کے مدعی علماء آج یہ کہتے ہیں کہ جو اسلام کے خدا کو سامری کے بت جیسا نہیں سمجھتا وہ اسلام سے خارج ہے.حالانکہ خود اُن کے علماء مذکورہ بالا آیت أَفَلا يَرَوْنَ اَلَّا يَرْجِعُ إِلَيْهِمْ قَوْلًا سے یہ استدلال کر چکے ہیں کہ “لَمْ يَخْطُرُ بِبَالِهِمْ أَنَّ مَنْ لَا يَتَكَلَّمْ وَلَا يَضُرُّ وَ لَا يَنْفَعُ لَا يَكُونُ الْهَا“.اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ کیا اُن کے دلوں میں یہ خیال نہیں گزرتا کہ جو وجود کلام نہیں کرتا اور نہ کسی کو نقصان پہنچا سکتا ہے اور نہ نفع دے سکتا ہے وہ خدانہیں ہو سکتا.123
انوار العلوم جلد 23 290 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس کے ہم معنے ایک اور آیت سورۃ اعراف میں بھی ہے.وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الم يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا 124 کیا وہ یہ نہیں دیکھتے کہ بت اُن سے کلام نہیں کرتا اور نہ انہیں کوئی یہ ہدایت بھجواتا ہے (اور یہ بھی کلام الہی کی ہی ایک شاخ ہے.) اس پر بھی امام رازی فرماتے ہیں کہ "مَنْ لَا يَكُونُ مُتَكَلِّمًا وَ لَا هَادِيَا إِلَى السَّبِيْلِ لَمْ يَكُن الها“.125 جو ہستی بولتی نہیں اور سچا راستہ نہیں دکھاتی وہ خدا نہیں ہو سکتی.ہمارا خدا یقیناً بولنے والا خدا ہے اور سامری کے بت جیسا نہیں ہے کہ اپنے سے پیار کرنے والے کو جواب بھی نہ دے.ہم اس عقیدہ میں خدا کے سابق نبیوں کے عقیدہ کے مطابق ہیں.ہم اس عقیدہ میں قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدہ کے مطابق ہیں.ہم اس عقیدہ میں اُمتِ اسلامیہ کے روحانی پیشواؤں کے ہم عقیدہ ہیں.ہم اس عقیدہ میں خدائے واحد و قہار کی عزت کے قائم کرنے والے ہیں.اگر اسلام کی آئیڈیالوجی (IDEOLOGY) کو قائم کرنے، اگر بتوں پر خدا کی برتری ثابت کرنے کے نتیجہ میں ہم قابل دار ہیں، ہم کشتنی و سوختنی ہیں تو ہم کچھ نہیں کہنا چاہتے.ہماری گردنیں حاضر ہیں.یہ علماء جو چاہیں ہم سے سلوک کریں.ہم اس عقیدہ کو کبھی نہیں چھوڑ سکتے.ہمارا تو کل خدا پر ہے اور وہی ہمارا حافظ و ناصر ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی یہی سوال اُٹھایا گیا تھا کہ خدا اور غیر خدا میں کیا فرق ہے؟ اور حضرت ابراہیمؑ نے مشرکوں سے کہا تھا کہ بن فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَسْتَلُوهُمْ اِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ - فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ اَنْتُمُ الظَّلِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُءُوسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاء يَنْطِقُونَ - قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَنْفَعُكُم شَيْئًا وَ لَا يَضُرُّكُم - 126 عجب حضرت ابراہیم نے چند بُت توڑ دیئے وہ بت حضرت ابراہیم کے خاندان کے ہی ملکیت تھے ) اور لوگ اُن کے پاس آئے اور کہا کہ کیا آپ نے ہمارے معبودوں کے ساتھ یہ معاملہ کیا ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ ہاں! کسی نے تو یہ کام کیا ہی ہے.یہ ان میں سے بڑا بت ہے اس سے اور دوسروں سے پوچھو، اگر بت بولتے ہیں کہ انہیں کس نے توڑا ہے ؟ اس پر وہ آپس میں ایک دوسرے کی طرف
انوار العلوم جلد 23 291 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ متوجہ ہوئے اور کہا کہ تم لوگ شرک کر کے بڑے ظلم میں مبتلا ہو.پھر شرمندگی سے انہوں نے سر ڈال دیئے اور حضرت ابراہیم سے مخاطب ہو کر کہا کہ آپ کو معلوم ہی ہے کہ یہ باتیں نہیں کر سکتے.اس پر حضرت ابراہیمؑ نے کہا کہ کیا تم اللہ کے سوا اُن کی عبادت کرتے ہو جو نہ نفع پہنچاتے ہیں اور نہ ضرر پہنچاتے ہیں؟ پس حضرت ابراہیم کے وقت میں بھی تو خدا کے بولنے اور نہ بولنے کا جھگڑا ہوا تھا.حضرت ابراہیم کابُت پرستوں پر یہی الزام تھا کہ میرا خدا بولتا ہے اور تمہارا خدا نہیں بولتا.اگر کسی گزشتہ وقت میں خدا کا بولنا بھی اُس کی خدائی کو ثابت کر دیتا ہے تو پھر ہندوؤں کا یہ دعویٰ کہ ابتدائے عالم میں خدا نے وید نازل کئے اور پھر چپ ہو گیا درست ہونا چاہئے ! مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جو خدا پہلے سنتا تھا اب بھی سنتا ہے.جو پہلے دیکھتا تھا اب بھی دیکھتا ہے.اسی طرح جو پہلے بولتا تھاوہ اب بھی ضرور بولتا ہے.سوال نمبر 2: مسئله مختم نبوت دوسرا الزام یہ لگایا گیا ہے کہ مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدہ ختم نبوت کی ہتک کی ہے.یہ الزام بھی ہی آئیڈیالوجی اور اسلامی آئیڈیالوجی کے خلاف اور خود خاتم النبیین کی آیت کے بھی خلاف ہے.ہم بتا چکے ہیں کہ بیانِ قرآنِ کریم کے مطابق ختم نبوت کے ان معنوں کو متواتر مختلف قومیں پیش کرتی رہی ہیں کہ اُن کے نبی کے بعد اور کوئی نبی نہیں آئے گا.حضرت یوسف علیہ السلام کے بعد بھی لوگوں نے کہا کہ یوسف علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی بعض لوگوں نے کہا کہ موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا اور عیسی علیہ السلام کے بعد تو سارے عیسائی کہہ رہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.127 اب حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی لوگ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا.پس جس خیال اور فلسفہ کی قرآن کریم تردید کرتا ہے
انوار العلوم جلد 23 292 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی خیال اور فلسفہ کے مطابق وہ کس طرح حکم دے سکتا ہے.قرآن کریم بالنص اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ آخری اور کامل شریعت نازل ہو سکتی ہے مگر اس خیال کی کہ کوئی نبی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بعد کسی قسم کے نبی کے بھی آنے کی اجازت نہ ہو اس نے متواتر تردید کی ہے اسے بالکل غلط قرار دیا ہے.آیت خاتم النبیین کی تشریح آج کل کے علماء جس آیت سے مزعومہ عقیدہ ختم نبوت نکالتے ہیں.خود وہ آیت س عقیدی کی تردید کرنے والی ہے.اس آیت کے الفاظ یہ ہیں مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ 128 محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم - میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں.کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہونا، اِس بات کی دلیل نہیں ہوتا کہ وہ نبی نہیں ہے.اگر قرآن کریم نے یہ دلیل پیش کی ہوتی کہ جو شخص کسی بالغ مرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا یا قرآن سے پہلے بعض قوموں کا یہ عقیدہ ہو تا تو ہم کہتے کہ قرآن کریم میں اس عقیدہ کا استثناء بیان کیا گیا ہے یا اس عقیدہ کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ تو کسی قوم کا مذہب نہیں کہ جو کسی مرد کا باپ نہ ہو وہ نبی نہیں ہو سکتا.مسلمان اور عیسائی تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی نبوت کے قائل ہیں اور یہودی ان کی بزرگی مانتے ہیں مگر یہ کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا کہ اُن کے ہاں اولاد تھی کیونکہ اُن کی تو شادی بھی نہیں ہوئی تھی.پس اس آیت کے معنی کیا ہوئے کہ محمد ستم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن نبی ہیں لازما اس فقرہ کی کوئی وجہ ہونی چاہئے.پھر یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ایک شخص جس کے متعلق لوگ غلطی سے یہ کہتے تھے کہ وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبنی ہے.اس اظہار کے بعد کہ وہ متبنی نہیں اس امر کا لیا تعلق تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا ذکر کیا جاتا.اور پھر اس بات کا کیا تعلق تھا کہ آپ کی ختم نبوت کا ذکر کیا جاتا.کیا اگر زید رضی اللہ عنہ اپنی بیوی کو طلاق نہ دے دیتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے شادی نہ کرتے تو ختم نبوت کا مسئله مخفی رہ جاتا ؟ کیا اتنے اہم اور عظیم الشان مسائل یو نہی ضمنا بیان ہوا کرتے ہیں ؟
انوار العلوم جلد 23 293 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس کے علاوہ جیسا کہ ہم اُو پر لکھ چکے ہیں کسی مر د کے باپ ہونے یا نہ ہونے کے ساتھ نبوت کا کوئی تعلق نہیں.پس ہمیں قرآن کریم پر غور کرنا چاہئے کہ کیا کسی اور جگہ کوئی ایسی بات بیان ہوئی ہے جس سے اگر آپ بالغ مر دوں کے باپ ثابت نہ ہوں تو آپ کا نبی ہو نا مشتبہ ہو جائے.کیونکہ لکن کا لفظ عربی زبان میں اور اس کے ہم معنی لفظ دُنیا کی ہر زبان میں کسی شبہ کے دُور کرنے کے لئے آتا ہے.اِس اُلجھن کو دُور کرنے کے لئے ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں صاف لکھا ہوا نظر آتا ہے کہ إِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَتِكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْاَبْتَرُ - 129 ہم نے تجھ کو کوثر عطا فرمایا ہے.پس تو اللہ تعالیٰ کی عبادتیں کر اور قربانیاں کر.یقینا تیر ادشمن ہی نرینہ اولاد سے محروم ہے، تو نہیں.یہ آیت جو مکہ میں نازل ہوئی تھی اِس میں اُن مشرکین مکہ کارڈ کیا گیا تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند کی وفات ہو جانے پر طعنہ دیا کرتے اور کہا کرتے تھے کہ اس کی تو کوئی نرینہ اولاد نہیں.آج نہیں تو کل اس کا سلسلہ ختم ہو جائے گا.130 اِس سورۃ کے نزول کے بعد مسلمانوں کا یہ خیال ہو گیا تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد ہو گی اور زندہ رہے گی لیکن ہوا یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ تو اُن کے خیال کے مطابق ہوئی نہیں اور جن دُشمنوں کے متعلق هُوَ الابتر کہا گیا تھا اُن کی اولاد نرینہ زندہ رہی.چنانچہ ابو جہل کی اولاد بھی زندہ رہی، عاصی کی اولاد بھی زندہ رہی، ولید کی اولاد بھی زندہ رہی (گو آگے چل کر اُن کی اولاد مسلمان ہو گئی اور اُس میں سے بعض لوگ اکابر صحابہ میں بھی شامل ہوئے) جب حضرت زید کا واقعہ پیش آیا اور لوگوں کے دلوں میں یہ شبہات پیدا ہوئے کہ زید کی مطلقہ سے جو آپ کا متبنی تھا، آپ نے شادی کر لی ہے اور یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ بہو سے شادی جائز نہیں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم جو سمجھتے ہو کہ زید (رضی اللہ عنہ ) محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے بیٹے ہیں یہ غلط ہے.محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) تو کسی بالغ جوان مرد کے باپ ہیں ہی نہیں.اور ”مَا كَانَ ” کے الفاظ عربی زبان میں صرف یہی معنی نہیں دیتے کہ اس وقت باپ نہیں بلکہ یہ معنی بھی دیتے ہیں کہ آئندہ بھی وو
انوار العلوم جلد 23 294 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ باپ نہیں ہوں گے.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے كَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا 13 یعنی خدا تعالیٰ عزیز و حکیم تھا، ہے اور آئندہ بھی رہے گا.اس اعلان پر قدر تألوگوں کے دلوں میں ایک شبہ پیدا ہونا تھا کہ مکہ میں تو سورۃ کوثر کے ذریعے یہ اعلان کیا گیا تھا کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دشمن تو اولاد نرینہ سے محروم رہیں گے مگر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) محروم نہیں رہیں گے لیکن اب سالہا سال بعد مدینہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے که محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نہ اب کسی بالغ مر د کے باپ ہیں نہ آئندہ ہوں گے تو اس کے یہ معنی ہوئے کہ سورۃ کوثر والی پیشگوئی ( نعوذ باللہ ) جھوٹی نکلی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت مشکوک ہے؟ اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولکن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِینَ یعنی ہمارے اِس اعلان سے لوگوں کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوا ہے کہ یہ اعلان تو (نَعوذُ بِالله ) محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتا ہے لیکن اس اعلان سے یہ نتیجہ نکالنا غلط ہے.باوجود اس اعلان کے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں بلکہ خاتم النبیین ہیں یعنی نبیوں کی مُہر ہیں.پچھلے نبیوں کے لئے بطور زینت کے ہیں اور آئندہ کوئی شخص نبوت کے مقام پر فائز نہیں ہو سکتا جب تک کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی مہر اُس پر نہ لگی ہو.ایسا شخص آپ کا رُوحانی بیٹا ہو گا اور ایک طرف ایسے رُوحانی بیٹوں کے محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اُمت میں پیدا ہونے سے اور دوسری طرف اکابر مکہ کی اولاد کے مسلمان ہو جانے سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ سورہ کوثر میں جو کچھ بتایا گیا تھا وہ ٹھیک تھا.ابو جہل اور عاصی اور ولید کی اولا د ختم کی جائے گی اور وہ اولاد اپنے آپ کو محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے منسوب کر دے گی اور آپ کی روحانی اولاد ہمیشہ جاری رہے گی اور قیامت تک ان میں ایسے مقام پر بھی لوگ فائز ہوتے رہیں گے جس مقام پر کوئی عورت کبھی فائز نہیں ہو سکتی.یعنی نبوت کا مقام جو صرف مردوں کے لئے مخصوص ہے.پس سورۃ کوثر کو سورۃ احزاب کے سامنے رکھ کر ان معنوں کے سوا اور کوئی معنی ہو ہی نہیں سکتے.اگر خاتم النبیین کی آیت کے یہ معنی کئے جائیں کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم)
انوار العلوم جلد 23 295 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تم میں سے کسی بالغ مرد کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور آئندہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا تو یہ آیت بالکل بے معنی ہو جاتی ہے اور سیاق و سباق سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا اور کفار کا وہ اعتراض جس کا سورہ کوثر میں ذکر کیا گیا ہے پختہ ہو جاتا ہے اور اس کا کوئی جواب مسلمانوں کے پاس باقی نہیں رہتا.نبوت کے متعلق دوسری آیات اسی سلسلہ میں ہم قرآن شریف کی مندرجہ ذیل آیات بھی پیش کرتے ہیں: (۱) سورہ حج میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَكَةِ رُسُلًا وَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللَّهَ سَمِيع بصير - میر - 132 اللہ تعالیٰ فرشتوں اور انسانوں میں سے کچھ افراد کو رسول بنانے کے لئے چن لیتا ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً دُعاؤں کو سنتا اور حالات کو دیکھتا ہے.اس آیت سے پہلے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخاطبین کا ذکر ہے.آپ سے پہلے لوگوں کا ذکر نہیں ہے اور اس آیت کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ میں سے اور انسانوں میں سے رسول چتا ہے اور چنتا رہے گا.یقینا اللہ تعالیٰ سننے والا اور دیکھنے والا ہے.اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یعنی آپ کے زمانہ نبوت میں اور انسان بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے رسول کا نام پانے والے کھڑے ہوں گے.(2) سورۂ فاتحہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو دُعا سکھائی ہے اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - 133 یا اللہ تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا اُن لوگوں کا رستہ جن پر تیرے انعام ہوتے ہیں.یہ دُعا پانچ وقت فرضاً اور اس کے علاوہ کئی اور وقت نفلاً مسلمان پڑھتے ہیں.یہ منعم علیہ گروہ کا رستہ کیا ہے ؟ قرآن کریم نے خود اس کی تشریح فرمائی ہے.وَ لَهَدَيْنَهُمْ صِرَاطًا مُسْتَقِيمًا.134 اگر مسلمان رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں پر عمل کریں اور بشاشت کے ساتھ ان کی فرمانبرداری کریں تو ہم ان کو صراطِ مستقیم کی ہدایت دیں گے.پھر اس صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت دینے کا طریقہ یہ بیان کیا ہے وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِينَ وَالصَّدِيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ وَحَسُنَ أُولبِكَ رَفِيقًا - ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللَّهِ ط
انوار العلوم جلد 23 296 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ وَ كَفَى بِاللهِ عَلِيمًا 135 اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے.فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ تو وہ اُن لوگوں کے گروہ میں شامل کئے جائیں گے جن پر خدا تعالیٰ نے انعام کیا ہے.یعنی نبیوں کے گروہ میں اور صدیقوں کے گروہ اور شہیدوں کے گروہ میں اور صالحین کے گروہ میں.اور یہ لوگ سب سے بہتر ساتھی ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فضل ہے اور اللہ تعالیٰ تمام اُمور کو بہتر سے بہتر جانتا ہے.اس آیت میں صاف بتایا گیا ہے کہ منعم علیہ گروہ کا رستہ وہ رستہ ہے جس پر چل کر انسان نبیوں میں اور صدیقوں میں اور شہیدوں اور صلحاء میں شامل ہوتا ہے.بعض لوگ اس جگہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہاں ” مع “ کا لفظ ہے اور معنی یہ ہیں کہ یہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے.خود منعم علیہ گروہ میں شامل نہیں ہوں گے.حالانکہ اس آیت کے یہ معنی ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ اس صورت میں اس آیت کے یہ معنی بن جائیں گے کہ لوگ منعم علیہ گروہ کے ساتھ ہوں گے لیکن اس گروہ میں شامل نہیں ہوں گے یعنی نبیوں کے ساتھ ہوں گے لیکن نبیوں میں شامل نہیں ہوں گے.صدیقوں کے ساتھ ہوں گے مگر صدیقوں میں شامل نہیں ہوں گے.شہیدوں کے ساتھ ہوں گے لیکن شہیدوں میں شامل نہیں ہوں گے اور صالحین کے ساتھ ہوں گے لیکن صالحین میں شامل نہیں ہوں گے.گویا ان معنوں کی رُو سے امت محمدیہ صرف نبوت سے ہی محروم نہیں ہوئی بلکہ صدیقیت سے بھی محروم ہو گئی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا تھا کہ ابو بکر صدیق ہے وہ نعوذ باللہ غلط ہے اور شہداء کے درجہ سے بھی محروم ہو گئی.قرآن کریم میں جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم شہداء کے مقام پر ہیں وہ بھی غلط ہے ( شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ (136) اور صالحین میں بھی اِس اُمت کا کوئی آدمی داخل نہیں ہوتا.اور یہ جو خیال ہے کہ اُمت محمدیہ میں بہت سے صلحاء گزرے ہیں، یہ بھی بالکل غلط ہے.کیا کوئی عقلمند آدمی جس کو قرآن اور حدیث پر عبور ہو ان معنوں کو مان سکتا ہے ؟ ”مع“ کے معنی خالی ساتھ کے نہیں ہوتے.”مع“ کے معنی شمولیت کے بھی
انوار العلوم جلد 23 297 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہوتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں مومنوں کو دُعا سکھلائی گئی ہے.تَوَفَّنَا مَعَ الابرار - 137 اے اللہ ! ہم کو ابرار کے ساتھ موت دے.اور ہر مسلمان اس کے یہی معنی کرتا ہے کہ اے اللہ ! مجھے ابرار میں شامل کر کے موت دے.یہ معنی کوئی نہیں کرتا کہ یا اللہ ! جس دن کوئی نیک آدمی مرے اُسی دن میں بھی مر جاؤں.اسی طرح قرآن کریم میں ہے اِنَّ الْمُنْفِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا إِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوا وَ اَصْلَحُوا وَ اعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَ اخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَبِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِيْنَ اَجْرًا عَظِيمًا.138 یعنی منافق جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے اور تو کسی کو ان کا مددگار نہ دیکھے گا.ہاں جو تو بہ کرے اور اصلاح کرے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کو مضبوطی سے پکڑے اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنی اطاعت مخصوص کر دے تو وہ مومنوں میں شامل کئے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ جلد مؤمنوں کو بہت بڑا اجر دے گا.اس جگہ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ کے الفاظ ہیں مگر مَعَ.مِنْ کے معنوں میں استعمال ہوا ہے.اسی طرح سورہ حجر میں آیا ہے مَا لَكَ اَلا تَكُونَ مَعَ السُّجِدِينَ _ 139 اے ابلیس ! کیوں تو سجدہ کرنے والوں کے ساتھ نہیں ہوا مگر سورہ اعراف میں ہے لَمْ يَكُن مِّنَ السجدين 140 ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا.پس ”مع“ قرآن کریم میں ”میں“ کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم کی مشہور لغت ”مفردات القرآن“ مصنفہ امام راغب میں بھی لکھا ہے "وَ قَوْلُهُ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ أَيْ اِجْعَلْنَا فِي زُمْرَتِهِمْ إِشَارَةٌ إِلى قَوْلِهِ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِيْنَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ“ 141 يعنى فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِيْنَ میں مَعَ کے یہ معنی ہیں کہ ہم کو زمرة الشاہدین میں داخل فرما.جس طرح کہ آیت فَأُولَبِكَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمُ میں ”مَعَ“ کے معنی یہ ہیں کہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے منعم علیہم کے زمرہ میں شامل ہوں گے.نیز تفسیر بحر محیط میں امام راغب کے اس قول کی مزید تشریح ان الفاظ میں کی گئی وو وو
انوار العلوم جلد 23 298 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ قَالَ الرَّاغِبُ مِمَّنْ أَنْعَمَ عَلَيْهِمْ مِنَ الْفَرِقِ الْأَرْبَعِ فِي الْمَنْزِلَةِ وَ الثَّوَابِ النَّبِيُّ بِالنَّبِيِّ وَ الصَّدِّيقُ بِالصَّدِّيقِ وَالشَّهِيدُ بِالشَّهِيدِ وَالصَّالِحُ بِالصَّالِحِ “ - 142 " یعنی امام راغب کے نزدیک اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرنے والے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے نبیوں، صدیقوں، شہیدوں اور صالحون میں شامل کئے جائیں گے.یعنی اِس اُمت کا نبی، نبی کے ساتھ.صدیق، صدیق کے ساتھ.شہید ، شہید کے ساتھ.صالح، صالح کے ساتھ.اسی طرح مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے كه يبَنِي آدَمَ اِمَا يَأْتِيَنَّكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَقْضُونَ عَلَيْكُمْ أَيْتِي فَمَنِ اتَّقَى وَ أَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ.عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ _ 143 يَحْزَنُونَ - 143 اے بنی آدم ! اگر تمہارے پاس میرے رسول آئیں جو میری آیتیں تم کو پڑھ کر سنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کرتے ہوئے اُن کی باتوں پر کان دھریں گے اور اصلاح کے طریق کو اختیار کریں گے اُن کو آئندہ کسی قسم کا خوف نہ ہو گا اور نہ گزشتہ غلطیوں پر انہیں کسی قسم کا غم ہو گا.اس آیت میں بھی صاف بتایا گیا ہے کہ امت محمدیہ میں رسول آتے رہیں گے.اسی طرح قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و إذَا الرُّسُلُ أقتَتْ.144 اور جب رسول ایک وقت مقررہ پر لائے جائیں گے یعنی آخری زمانہ میں اللہ تعالیٰ تمام رسولوں کو بروزی رنگ میں دوبارہ ظاہر کرے گا.شیعہ لوگ اِسی سے استدلال کرتے ہیں کہ امام مہدی کے زمانہ میں تمام رسول لائے جائیں گے اور وہ اُن کی اتباع کریں گے.چنانچہ تفسیر قمی میں لکھا ہے ”مَا بَعَثَ الله نَبِيًّا مِن لَّدُنْ آدَمَ إِلَّا وَيَرْجِعْ إِلَى الدُّنْيَا فَيَنصُرُ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ“.145 اللہ تعالیٰ نے سے لے کر آخر تک جتنے نبی بھیجے ہیں وہ ضرور دُنیا میں واپس آئیں گے اور امیر المؤمنین مہدی کی مدد کریں گے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعوں کے نزدیک رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سارے رسول آئیں گے اور پھر بھی آپ کی ختم نبوت نہیں ٹوٹے گی.یہ تو قرآن کریم کی آیتوں میں سے چند آیات ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ آدم
انوار العلوم جلد 23 299 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی اُمت محمدیہ میں نبوت کا سلسلہ جاری ہے.اب ہم حدیثوں کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان میں اِس مسئلہ کے متعلق کیا لکھا ہے.جب ہم حدیثوں پر غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ وہ نبی اللہ ہو گا.146 گویا خود آپ اس آیت کے یہ معنی نہیں کرتے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا." بعض لوگوں نے ختم نبوت کی آیت سے ڈر کر یہ معنی کئے ہیں کہ آنے والا مسیح نبی نہیں ہو گا بلکہ وہ امتی ہو کر آئے گا لیکن ائمہ نے سختی سے اس کورڈ کیا ہے.چنانچہ حج الکرامۃ میں نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں کہ فَهُوَ عَلَيْهِ السَّلَامَ وَإِنْ كَانَ خَلِيْفَةٌ فِي الاُمَّةِ الْمُحَمَّدِيَّةِ فَهُوَ رَسُولٌ وَ نَبِيَّ كَرِيمٌ عَلَى حَالِهِ 147 یعنی عیسی علیہ السلام کو اُمت محمدیہ میں سے ایک خلیفہ ہوں گے مگر وہ رسول بھی ہوں گے اور نبی بھی ہوں گے.پھر لکھتے ہیں کہ "لَا كَمَا يَظُنُّ بَعْضُ النَّاسِ أَنَّهُ يَأْتِي وَاحِدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِدُونِ نُبُوَّةٍ وَ رِسَالَةٍ“.148 وہ اپنی اسی نبوت کی شان کے ساتھ آئیں گے جس طرح وہ پہلے نبی تھے نہ کہ جس طرح بعض لوگ خیال کرتے ہیں کہ وہ اِس اُمت کا ایک فرد بن کر آئیں گے.نبی اور رسول نہیں ہوں گے.پھر وہ لکھتے ہیں جو شخص اُن کی نبوت کے سلب ہونے کا اعلان کرتا ہے ، وہ پورے طور پر کافر ہو گیا.جیسا کہ سیوطی نے ثابت کیا ہے کیونکہ وہ نبی ہیں اور اُن کا وصف نبوت نہ اُن کی زندگی میں زائل ہوا اور نہ موت کے بعد زائل ہو گا.149 اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرزند ابراہیم کی وفات پر فرمایا ”لو عَاشَ اِبْرَهِيمُ لَكَانَ صِدِّ يُنَّا نَبِيًّا 150 یعنی اگر ابراہیم میرا فرزند زنده رہتا تو نہ صرف یہ کہ وہ نبی ہو تا بلکہ صدیق نبی ہوتا.جیسا کہ ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام صدیق نبی تھے.اسی طرح آپ فرماتے ہیں آمَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ لَنَبِيُّ ابْنُ نبي - 151 خدا کی قسم !میرابیٹا ابراہیم نبی ابن نبی ہے.اسی طرح حدیث میں آتا ہے کہ اِنّى عِنْدَ اللهِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّنَ وَإِنَّ أَدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ
انوار العلوم جلد 23 300 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ لَمُنْجَدِّلٌ فِي طِيْنَتِهِ 132 یعنی میں خاتم النبیین تھا جب کہ آدم ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے.اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ " قَالُوا يَا رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَتى وَجَبَتْ لَكَ النُّبُوَّةُ قَالَ وَ أَدَهُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.153 یعنی لوگوں نے پوچھا یار سُول اللہ ! آپ کی نبوت کب سے قائم ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آدم ابھی پیدا بھی نہ ہوئے تھے کہ خدا تعالیٰ نے مجھے اس مقام پر فائز کیا تھا.یہ وہ احادیث ہیں جن کو جماعت اسلامی، مجلس عمل اور مجلس احرار سب صحیح مانتے ہیں.ان سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ختم نبوت کا عہدہ ملنے کے بعد تشریعی نبی بھی آتے رہے.یعنی نوح علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام وغیرہ.پھر اگر جماعت احمد یہ یہ عقیدہ رکھتی ہے کہ خاتم النبیین کے بعد غیر تشریعی امتی نبی آسکتا ہے تو اس پر کیا اعتراض.اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی ایک روایت ہے جو ابن ابی شیبہ نے بیان کی ہے.اس نے کہا کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بعض لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم خاتم النبیین تو بے شک کہا کرو مگر لَا نَبِيَّ بَعْدَہ نہ کہا کرو.154 اس روایت سے ظاہر ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نزدیک خاتم النبیین اور لا نَبِيَّ بَعْدَہ میں فرق تھا.یعنی خاتم النبیین کے پورے معنی لَا نَبِیَ بَعْدَہ سے ادا نہیں ہوتے تھے بلکہ اس سے کچھ غلط فہمی پیدا ہو جاتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا لَا نَبِيَّ بَعْدِی فرمانا تو خود احادیث سے ثابت ہے.پس یہ تو کہا نہیں جاسکتا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کی منکر تھیں اور اس کو رڈ فرماتی تھیں بلکہ ان کے اس قول سے یہی ماننا پڑے گا کہ لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کے الفاظ سے کوئی دھوکا لگ سکتا تھا لیکن خاتم ا النبیین کے لفظ سے وہ دھوکا نہیں لگ سکتا.اسی لئے آپ نے فرمایا کہ خاتم اسبتین کا لفظ جو قرآنِ کریم میں آیا ہے وہ استعمال کیا کرو کیونکہ اِس سے کوئی دھوکا نہیں لگتا.لیکن لا نَبِيَّ بَعْدَہ کے الفاظ جو حدیثوں میں آئے ہیں وہ استعمال نہ کیا کرو کیونکہ ان سے دھوکا لگتا ہے.اور ظاہر ہے کہ یہ دھو کا وہی ہے جس کا ازالہ احمدی جماعت کرتی ہے.
انوار العلوم جلد 23 301 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کیونکہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ لَا نَبِيَّ بَعْدِی کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آسکتا.نہ شرعی نہ غیر شرعی، نه بروزی نه مستقل، نہ انٹتی نہ غیر انتی.حالانکہ یہ غلط ہے لیکن خاتم النبیین کے الفاظ سے یہ دھوکا نہیں لگتا.اگر جیسا کہ علماء کہتے ہیں، خاتم النبیین کے معنی بھی یہی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ تم خاتم النبیین کہا کرولا نَبِيَّ بَعْدَهُ نہ کہا کرو اس کے معنی کیا ہیں؟ یہ تو ایک بالکل ہی بے معنی کلام ہو جاتا ہے.ایک دوسری روایت بھی اس بارہ میں ابن ابی شیبہ نے نقل کی ہے اور امام سیوطی کی کتاب در منشور میں درج ہے.اُس کے الفاظ یہ ہیں کہ ایک شخص مغیرہ بن شعبہ کے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ محمد خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ پر اپنا درود بھیجے.اس پر مغیرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر تُو خاتم الانبیاء کہہ کر ہی ختم کر دے تو یہ کافی ہے کیونکہ ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں باتیں کیا کرتے تھے کہ عیسی علیہ السلام آنے والے ہیں اگر وہ آئے تو آپ سے پہلے بھی وہ نبی ہوں گے اور آپ کے بعد بھی وہ نبی ہوں گے.155 اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک یہ خیال کرنا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں، غلط ہے اور لَا نَبِيَّ بَعْدَہ کہنے سے اس خیال کو تقویت پہنچتی ہے کہ آپ کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آئے گا.لیکن خاتم النبیین سے یہ خیال ظاہر نہیں ہو تا کہ آپ کے بعد کسی قسم کا نبی نہیں آئے گا اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مغیرہ بن شعبہ کے نزدیک حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر نہیں تھے کیونکہ وہ کہتے ہیں ”جب وہ نکلیں گے “.شاید اُن کا یہ عقیدہ ہو کہ وہ زمین پر ہی کہیں چھپے بیٹھے ہیں.جیسا کہ شیعہ صاحبان کا مہدی کے متعلق خیال ہے.اسی طرح ابن الانباری نے کتاب المصاحف میں لکھا ہے کہ عبد الرحمن سلمی کہتے ہیں کہ مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت حسن اور حسین کو قرآن پڑھانے پر
انوار العلوم جلد 23 302 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مقرر کیا ہوا تھا.ایک دن میں قرآن کریم پڑھا رہا تھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پاس سے گزرے.اس وقت میں خاتم النبیین کی آیت پڑھارہا تھا.اس پر آپ نے فرمایا اللہ تجھے توفیق دے.تو میرے بچوں کو خاتم النبیین ت کی زبر سے پڑھا.156 اس سے ظاہر ہے کہ خاتم النبیین میں ت کی زیر سے یہ شبہ پیدا ہو تا تھا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ سب قسم کے نبی ختم ہو گئے.پس گو یہ قراءت موجود ہے مگر حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ پسند نہ کیا کہ اُن کے بیٹے اِس دھوکے میں پڑ جائیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا نبی بھی نہیں آئے گا اور انہوں نے اپنے بیٹوں کے اُستاد کو منع کر دیا کہ انہیں خاتم ت کی زیر سے نہ پڑھاؤ بلکہ حائم ت کی زبر سے پڑھاؤ.حضرت شیخ محی الدین ابن عربی "جو ساتویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اپنی کتاب فتوحات مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 3 میں لکھتے ہیں کہ وہ نبوت جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہر ہونے سے ختم ہو گئی ہے وہ تشریعی نبوت ہے.اس کا دُنیا میں کوئی مقام نہیں.پس آب کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو موقوف کرے اور کوئی شریعت ایسی نہیں ہو گی جو آپ کی شریعت میں کوئی حکم زائد کرے.اور یہی معنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کے ہیں کہ رسالت اور نبوت منقطع ہو چکی ہے پس میرے بعد اب کوئی رسول اور نبی نہیں ہے.یعنی کوئی ایسا نبی میرے بعد نہیں جو کسی ایسی شریعت پر قائم ہو جو میری شریعت کے مخالف ہے بلکہ جب کوئی نبی ہو گا تو وہ میری شریعت کے حکم کے ماتحت ہو گا اور کوئی رسول میرے بعد نہیں ہو گا.یعنی کوئی شخص مخلوق اللہ میں ایسا نہیں ہو گا جو کوئی نئی شرع لائے اور اُس کی طرف لوگوں کو بلائے.یہی وہ چیز ہے جو ختم ہوئی ہے اور جس کا دروازہ بند ہوا ہے نہ کہ نبوت کا مقام بند ہوا ہے.اسی طرح حضرت محی الدین ابن عربی لکھتے ہیں کہ جب عیسی علیہ السلام دوبارہ نازل ہوں گے تو وہ نبوت مستقلہ کے ساتھ نہیں اتریں گے بلکہ وہ نبوت مطلقہ والے ولی ہو کر اُتریں گے اور یہ وہ نبوت ہے جس میں محمد ی اولیاء بھی اُن کے ساتھ شریک ہیں.157
انوار العلوم جلد 23 303 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی طرح وہ لکھتے ہیں کہ نبوت مخلوقات میں قیامت تک جاری ہے گو کہ شریعت کے لحاظ سے وہ ختم ہو چکی ہے اور شریعت نبوت کے حصوں میں سے ایک حصہ ہے.اور یہ ناممکن ہے کہ خدا تعالیٰ کا الہام دُنیا میں سے بند ہو جاوے کیونکہ اگر وہ بند ہو جاوے تو دنیا کی رُوحانی غذا ختم ہو جاتی ہے اور رُوحانی وجودوں کے زندہ رہنے کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا.158 پھر وہ فرماتے ہیں نبوت عامہ یعنی جو شریعت سے خالی ہے وہ اِس اُمت کے بڑے لوگوں میں قیامت تک جاری ہے.159 پھر وہ لکھتے ہیں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ رسالت اور نبوت بند 160 ہو گئی ہے اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ آپ کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا.پس اس کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کرلے.پھر وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر رحم فرما کر نبوت عامہ اُن میں باقی رکھی یعنی وہ نبوت جس کے ساتھ شریعت نہیں ہوتی.161 سید عبد الکریم جیلانی جو قدوۃ الاولیاء کہلاتے ہیں لکھتے ہیں نبوت تشریعی کا حکم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد بند ہو گیا اور اسی وجہ سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین کہلائے کیونکہ وہ کامل تعلیم لے کر آئے تھے.162 حضرت مُلا علی قاری ” جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں اور جو حنفیوں کے عقائد کے مدون ہیں یعنی جنہوں نے اُن کے عقائد کو ایڈٹ کیا ہے) وہ اپنی کتاب ” موضوعات کبیر میں تحریر فرماتے ہیں: قُلْتُ وَ مَعَ هَذَا لَوْعَاشَ إِبْرَاهِيْمُ وَ صَارَنَبِيًّا وَ كَذَا لَوْ صَارَ عُمَرُ نَبِيًّا لَكَانَا مِنْ اَتْبَاعِهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَعِيْسَى وَ الْحَضْرَوَ الْيَاسَ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ فَلَا يُنَاقِضُ قَوْلَهُ تَعَالَى خَاتَمُ النَّبِيِّنَ إِذَا الْمَعْنى أَنَّهُ لَا يَأْتِي نَبِيٌّ بَعْدَهُ يُنْسِخُ مِلَّتَهُ وَ لَمْ يَكُنْ مِنْ أُمَّتِهِ فَيُقَوَىٰ حَدِيث لَوْ كَانَ مُوسى عليه السلام حَيًّا لَمَا وَسِعَهُ إِلَّا اتَّبَاعِي“ 163
انوار العلوم جلد 23 304 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ترجمہ : ”میں کہتا ہوں کہ باوجود اس کے کہ اگر صاحبزادہ ابراہیم زندہ رہتے اور نبی ہو جاتے اور اسی طرح اگر حضرت عمر بھی نبی ہو جاتے تو دونوں آنحضرت صلعم کے تابعین میں سے ہوتے.جس طرح عیسی خضر" اور الیاس ( کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے.) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ اگر ابراہیم زندہ رہتا تو ضرور سچا نبی ہو تا آیت خاتم النبیین کے خلاف نہیں ہے.کیونکہ خاتم النبیین کے معنی صرف اس قدر ہیں کہ آپ کے بعد کوئی ایسا نبی نہیں آئے گا جو آپ کی ملت کو منسوخ کرے اور آپ کی اُمت میں سے نہ ہو.اسی عقیدہ کی تقویت اس حدیث سے ہوتی ہے کہ اگر موسیٰ زندہ ہوتے تو میری اتباع کے بغیر انہیں کوئی چارہ نہ ہوتا.حضرت ملا علی قاری کا یہ قول ہم خاص طور پر عدالت کی توجہ کے لئے پیش کرتے ہیں کیونکہ اس میں خاتم النبیین اور عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں بعینہ وہی بات کہی گئی ہے جو اس وقت جماعت احمد یہ کہتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرزند حضرت ابراہیم آیت خاتم النبیین کے نزول (5ھ ) کے قریب تین سال بعد پیدا ہوئے اور نو ہجری میں (آیت خاتم النبیین کے نزول کے چار سال بعد ) فوت ہوئے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی وفات کے موقع پر فرمایا کہ اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا تو سچا نبی ہوتا.164 حضرت مُلا علی قاری مندرجہ بالا اقتباس میں فرماتے ہیں کہ آیت خاتم النبیین کے نزول کے بعد پید اہونے والے صاحبزادہ ابراہیم اگر فی الواقع نبی ہو جاتے تب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے میں کوئی فرق نہ آتا اور نہ ہی آپ کی خاتمیت کے منافی ہوتا کیونکہ حضرت مُلا علی قاری کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ و کے بعد کسی متبع یا امتی کا نبی ہونا آیت خاتم النبیین کے مخالف نہیں.اُن کے نزدیک خاتم النبیین کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد
انوار العلوم جلد 23 305 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ آپ کی اُمت سے باہر کوئی نبی نہیں ہو سکتا.یا ایسا نبی نہیں آسکتا جو نئی شریعت لائے.ہم اس حوالے کی طرف خاص طور پر معزز عدالت کی توجہ اِس لئے مبذول کرا رہے ہیں کہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام (جو سابق نبی ہیں) کے واپس آنے کے لئے وجہ جواز نہیں نکالی گئی بلکہ خود امت محمدیہ میں سے غیر تشریعی اور امتی نبی کا پیدا ہونا بھی جائز قرار دیا گیا ہے اور خاص طور پر کہا گیا ہے کہ اگر ایسا ہو تو اس سے ختم نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا.ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے نزدیک آیت خاتم النبیین کا مفہوم سوائے اس کے کچھ نہیں ہے جو حضرت ملا علی قاری کی مندرجہ بالا تحریر میں بیان کیا گیا ہے.اگر مجلس عمل کا یہ خیال درست ہے کہ لفظ خاتم النبیین کی یہ تاویل کرنا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت اور آپ کی اتباع اور پیروی میں غیر تشریعی نبی ہو سکتا ہے کافر اور دائرہ اسلام سے خارج کر دیتا ہے تو پھر حضرت مُلا علی قاری جیسے عظیم الشان بزرگ پر بھی اُن کو یہی فتویٰ لگانا پڑے گا.لیکن وہ ایسا ہر گز نہیں کر سکتے کیونکہ حضرت مُلا علی قاری وہ بزرگ ہیں جن کو تمام اہل سنت خواہ وہ دیوبندی ہوں یا بریلوی اور تمام اہل حدیث جن میں مولانا داؤد غزنوی بھی شامل ہیں، واجب الاحترام بزرگ خیال کرتے ہیں.165 حضرت ملا علی قاری بیک وقت امام فقہ بھی ہیں اور امام حدیث بھی.ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ مندرجہ بالا حوالہ ہم نے صرف یہ ثابت کرنے کے لئے پیش کیا ہے کہ حضرت مُلا علی قاری کے نزدیک خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں: (الف) کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے نہ ہونے والا نبی نہیں آسکتا.(ب) اگر اُمت محمدیہ میں کوئی تابع نبی پید ا ہو تو خاتمیت کے منافی نہیں.باقی رہا یہ سوال کہ آیا حضرت ملا علی قاری کے نزدیک ایسا کوئی امتی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فی الواقع پیدا ہونے والا تھایا نہیں؟ تو اس کی یہاں فی بحث نہیں بلکہ بحث صرف یہ ہے کہ لفظ خاتم النبیین کے جو معنی جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے وہ نئے نہیں بلکہ گزشتہ علماء، فقہاء اور محد ثین یہی معنے بیان فرماتے رہے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 306 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ امام عبد الوہاب شعرانی جو دسویں صدی ہجری میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:.یا درکھو کہ نبوت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کلی طور پر بند نہیں ہوئی صرف تشریعی نبوت آپ کے بعد بند ہوئی ہے.پس رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ قول کہ نہ کوئی نبی ہے نہ کوئی رسول ہے، اس کے یہ معنے ہیں کہ میرے بعد کوئی نئی شریعت نہیں.اور یہ قول آپ کا ایسا ہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا ”اذَاهَلَکَ کسْرَى فَلَا كِسْرَى بَعْدَهُ وَإِذَا هَلَكَ قَيْصَر فَلَا قَيْصَرَ بَعْدَهُ جِب کسری ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہو جائے گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا.حالانکہ اس قیصر کے بعد اور کئی قیصر ہوئے.مطلب یہ تھا کہ اس شان کا کوئی قیصر نہیں ہو گا “.166 شیعوں کے نزدیک بھی خاتم النبیین کے یہی معنی ہیں چنانچہ تفسیر صافی کے صفحہ 111 پر آیت خاتم النبیین کے ماتحت لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے علَى أَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَ أَنْتَ يَا عَلِيُّ خَاتَمُ الْأَوْلِيَاء.میں خاتم الانبیاء ہوں اور اے علی ! تُو خاتم الاولیاء ہے.حالانکہ حضرت علی کے بعد اور کئی اولیاء ہوئے اور شیعوں کے نزدیک تو گیارہ امام بھی ہوئے.اس کے صاف یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاتم الانبیاء کے معنی افضل الا نبیاء کے کئے ہیں اور بتایا ہے کہ میں افضل الا نبیاء ہوں اور تو افضل الاولیاء ہے.اسی طرح حضرت علی کی ایک اور روایت ہے جس میں انہوں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے فیضان جاری رہنے کا ارشاد فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں وَرَسُوْلُكَ الْخَاتَمُ لِمَا سَبَقَ وَ الْفَاتِحَ لِمَا انْغَلَقَ“.167 اے خدا تیر ار سول ایسا ہے کہ جو کمالات پہلے لوگوں کو حاصل ہوئے تھے اُن کے انتہائی درجہ کو پہنچا ہوا تھا اور جو کمالات پہلے لوگوں سے ہم کو نہیں ملے اُن کا دروازہ اس نے ہمارے لئے کھول دیا ہے.
انوار العلوم جلد 23 307 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ علامہ زرقانی جو بارہویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں شرح مواہب اللہ نیہ کی جلد 3 صفحہ 163 پر لکھتے ہیں کہ ختم کے معنی اعلیٰ درجے کے کمال کے ہوتے ہیں اور زینت کے ہوتے ہیں.پس خاتم النبیین کے یہ معنی ہیں کہ آپ انبیاء میں سے سب سے بہتر تھے.جسمانی اور روحانی طور پر اسی طرح آپ انبیاء کے لئے حُسن کا موجب تھے جس طرح انسان کے لئے انگوٹھی حسن کا موجب ہوتی ہے.شیعوں کی تفسیر مجمع البحرین میں لکھا ہے کہ تاء کی زبر کے ساتھ خاتم النبیین کا جو لفظ ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لئے زینت تھے.168 تفسیر فتح البیان جلد 7 صفحہ 286 پر لکھا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں کے لئے بطور انگوٹھی کے تھے جس سے وہ زینت حاصل کرتے تھے.یہ لفظ ان معنوں میں صلحاء امت نے بھی استعمال کیا ہے.چنانچہ حضرت سید عبد القادر جیلانی جو چھٹی صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے ہیں ”فَحِيْنَئِذٍ تَكُونُ وَارِثَ كُلَّ رَسُوْلٍ وَ نَبِي وَصِدِّيقِ وَ بِكَ تَخْتُمُ الْوِلَايَةُ"- 169 یعنی اے مجھ سے عقیدت رکھنے والے جب تو مخلوقات سے اُمیدیں چھوڑ دے گا اور اپنی خواہشات اور ارادے ترک کر دے گا تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تجھے ایک نئی زندگی ملے گی اور نیا علم اور نیا قرب اور نئی عزت تجھے بخشی جائے گی اور تو وارث ہو جائے گا ہر رسول اور ہر نبی اور صدیق کا اور ولایت تجھ پر ختم ہو جائے گی.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ امت محمدیہ کے اعلیٰ لوگ تو الگ رہے اُن کے شاگرد بھی نبیوں، رسولوں اور صدیقوں کے وارث اور خاتم الولایت کے مقام پر پہنچ جائیں گے.اگر حضرت سید عبد القادر جیلانی کے نزدیک خاتم کے معنی ختم کرنے والے کے ہوں تو لازماً اس حوالہ کے یہ معنی ہوں گے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی کے شاگردوں پر ولایت ختم ہو جائے گی اور مہدی اور مسیح اس شکل میں ظاہر ہوں گے کہ خدا کی ولایت اُنہیں حاصل نہ ہو گی.چونکہ اِس حوالے کے یہ معنی بالبداہت باطل ہیں اس لئے یہ بھی باطل ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی نے خاتم کے معنی ختم کرنے والا “ کے لئے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 308 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی بھی جو بارہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ :."رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خاتم النیتین کہا گیا ہے اس کے یہ معنی ہیں کہ کوئی شخص دُنیا میں ایسا نہیں ہو گا جس کو خدا دو تعالیٰ نئی شریعت دے کر لوگوں کی طرف بھیجے " 170 مولانا محمد قاسم بانی مدرستہ العلوم دیوبند جو تیر ہویں صدی ہجری کے آخر میں گزرے ہیں فرماتے ہیں کہ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہو نا بائیں معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیائے سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخری نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں.پھر مقام مدح میں وَلكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ فرمانا اِس صورت میں کیونکر صحیح ہو سکتا ہے.ہاں اگر اس وصف کو اوصاف مدح میں سے نہ کہئے اور اس مقام کو مقامِ مدح قرار نہ دیجئے تو البتہ خاتمیت باعتبار تأخر زمانی صحیح ہو سکتی 66 ہے.171 پھر فرماتے ہیں:.اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا “.172 ہم نے اوپر خاتم النبیین والی آیت کے جو معنی کئے ہیں اُن کی تصدیق بھی حضرت مولانا محمد قاسم کے اس قول سے ہو جاتی ہے: حاصل مطلب آیت کریمہ اس صورت میں یہ ہو گا کہ ابوت معروفہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مرد کی نسبت حاصل نہیں پر ابوت معنوی امتیوں کی نسبت بھی حاصل ہے اور انبیاء کی نسبت
انوار العلوم جلد 23 309 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 173" بھی حاصل ہے.انبیاء کی نسبت تو فقط خاتم النبیین شاہد ہے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی بہت بڑے فاضل اور جیسا کہ اوپر عرض کیا جاچکا ہے مدرسۃ العلوم دیوبند کے بانی تھے اور تمام دیوبندی علماء ان کو اپنا واجب الاحترام بزرگ اور مقتداء تسلیم کرتے ہیں.(ملاحظہ ہو بیان مولوی محمد علی صاحب کاندھلوی) مولانا موصوف کی عبارت جو نمبر (ب) پر تحذیر الناس صفحہ 28 کے حوالہ سے درج کی گئی ہے وہ نہایت واضح اور صاف ہے اور اس میں الفاظ پید اہو ، خاص طور پر اس معز ز عدالت کی توجہ کے قابل ہیں.ان الفاظ نے اس احتمال کی گنجائش بالکل باقی نہیں رکھی کہ نزولِ مسیح کے عقیدہ کے پیش نظر ایسا لکھا گیا ہے کیونکہ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہو نانہ تو خاتمیت کے منافی ہے اور نہ ہی عقیدہ ختم نبوت کے لئے باعث خطر.بشر طیکہ اس پیدا ہونے والے نبی کی نبوت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے مستفاض ہو یعنی بالعرض ہو، بالذات نہ ہو.ہم حضرت مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ کے الفاظ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں کچھ فرق نہ آئے گا موجودہ دیوبندی علماء کے سامنے پیش کر کے اُن سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا آپ بھی یہی الفاظ کہنے کے لئے تیار ہیں اور کیا آپ کا بھی وہی خیال ہے جو مولانا محمد قاسم رحمتہ اللہ علیہ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے ؟ ہمیں یقین ہے کہ اُن کا جواب یقیناً نفی میں ہو گا کیونکہ موجودہ غیر احمدی علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پیدا ہو (خواہ وہ آپ کا غلام اور امتی اور آپ کی پیروی کرنے والا ہی کیوں نہ ہو.) تو اس کی آمد سے عقیدہ ختم نبوت کو سخت خطرہ لاحق ہو جاتا ہے.مولانا محمد قاسم نانوتوی کے مندرجہ بالا حوالہ جات دکھانے کے لئے پیش کئے گئے ہیں کہ لفظ خاتم النتین میں میں ”ختمیت “ بمعنی تاخیر زمانی مراد نہیں لی گئی.باقی رہا یہ سوال کہ آیا مولانا محمد قاسم کے اپنے خیال میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد فی الواقع کوئی نبی آسکتا تھا یا نہیں ؟ تو اس کی نہ یہاں کوئی بحث ہے
انوار العلوم جلد 23 310 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور نہ ہم نے ایسا کوئی خیال مولانا موصوف کی طرف منسوب کیا ہے.اس جگہ تو ہماری بحث صرف لفظ ” خاتم کی تشریح و تأویل کے بارہ میں ہے نہ کہ اجرائے نبوت کے متعلق عقیدہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کے بارہ میں.اور مقصود صرف یہ دکھانا ہے کہ لفظ ”خاتم“ کے جو معنی جماعت احمد یہ بیان کرتی ہے وہ نئے نہیں پہلے بزرگوں نے بھی کئے ہیں.پھر حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے ایک نامور اور شہرہ آفاق معاصر حضرت مولانا عبد الحئی لکھنوی فرنگی محلی رحمتہ اللہ علیہ کا بھی یہ قول نقل کرتے ہیں کہ :.آنحضرت کے عصر میں کوئی نبی صاحب شرع جدید نہیں ہو سکتا اور نبوت آپ کی عام ہے اور جو نبی آپ کے ہم عصر ہو گا وہ متبع شریعت محمدیہ کا ہو گا “174 اسی طرح حضرت مولانا عبد الحی فرنگی محلی "لکھنوی اپنے رسالہ دافع الوسواس میں لکھتے ہیں کہ :.ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں آنحضرت کے مجرد کسی نبی کا ہونا محال نہیں بلکہ صاحب شرع جدید ہو نا البتہ ممتنع ہے 66 حضرت مولانا رومی جو ساتویں صدی ہجری کے قریباً آخر میں گزرے ہیں لکھتے مکر گن در راه نیکو خدمتے تا نبوت یابی اندر اُتے 176 یعنی تو بنی نوع انسان کی خدمت اور بہتری کے لئے کوشش کرتا کہ امت میں رہتے ہوئے نبوت پا جائے.اسی طرح فرماتے ہیں: چون بدادی دست خود در دست پیر پیر حکمت کو علیمست و خبیر
انوار العلوم جلد 23 311 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کو نبی وقت خویش ست اے مرید زاں کہ زو نُورِ نبی آید پدید 177 جب تو اپنا ہاتھ اپنے پیر کے ہاتھ میں دیتا ہے اس لئے کہ وہ دین اسلام کو خوب جاننے والا ور سمجھنے والا ہے اور اس لئے کہ اے مُرید ! وہ اپنے وقت کا نبی ہے تا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور اس کے ذریعہ سے ظاہر ہو.اس سے واضح ہے کہ مولانا رومی کے نزدیک بھی اِس اُمت میں سے کمال درجہ پر پہنچنے والا انسان نبی کہلاتا ہے.(ج) پھر مولانارومی نے اپنی مثنوی میں لفظ خاتم کے معنی بھی بیان کئے ہیں.فرماتے ہیں، معنى نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ ایں شناس ، این است ره رورا مهم تاز را ہے خاتم پیغمبراں بوکه بر خیزد زلب ختم گراں ختم ہائے کا نبیاء بگذاشتند آں بدین احمدی برداشتند قفلائے ناگشوده مانده بود از کف إِنَّا فَتَحْنَا بر کشور او شفیع است ایں جہاں و آں جہاں ایں جہاں در دین و آں جہاں درجناں اش اندر ظهور و در کمون اهْدِ قَوْمِي إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ در رو باز گشته از دم اوهر دو باب عالم دعوت او مستجاب بہر ایں خاتم شد است او که بجود مثل اونے بود و نے خواهند بود چونکه در صنعت برد استاد دست نی تو گوئی ختم صنعت بر تو ہست در کشادے ختم با تو خاتمی در جہان روح بخشاں حاتمی هست اشارات محمد المراد کل کشاد اندر کشاد اندر کشاد 178 یعنی نَخْتِمُ عَلَى أَفْوَاهِهِمْ کے معنی سمجھنے کی کوشش کرو.کیونکہ یہ راہ رو کے لئے ایک مشکل ہے تاکہ لب ہلانے سے خاتم النبین کے رستے سے ایک بھاری ختم اُٹھ ، جائے.ایسے بہت سے ختم جو پہلے نبی باقی چھوڑ گئے تھے وہ دین محمدی میں اُٹھائے گئے.بہت سے تالے بند پڑے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے إِنَّا فَتَحْنَا کے ہاتھ
انوار العلوم جلد 23 312 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ سے وہ سب کھول دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دونوں جہانوں کے شفیع ہیں اس جہان میں دین کے اور اگلے جہان میں جنت کے.ظاہر وباطن میں آپ کا ورد یہی تھا کہ اے خدا! میری قوم کو ہدایت دے کیونکہ انہیں علم نہیں ہے.آپ کے فیض سے دونوں دروازے کھل گئے اور دونوں جہانوں میں آپ کی دُعا مستجاب ہو گی.آپ ان معنوں میں خاتم ہیں کہ فیض رسانی میں آپ کے برابر نہ کوئی پہلے ہوا نہ کوئی آئندہ ہو گا.جس طرح جب کوئی استاد صنعت میں اپنا کمال دکھاتا ہے تو کیا تو یہ نہیں کہتا کہ اے اُستاد ! تجھ پر صنعت ختم ہے.اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اتو ہر قسم کے ختموں کو کھولنے کی وجہ سے خاتم ہے اور رُوح پھونکنے والوں میں تو خاتم ہے.غرضیکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صدا یہی ہے کہ تمام راستے کھلے ہیں اور کوئی بند نہیں ہے.حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں:- کہ کوئی کمال براہ راست حاصل ہونے والی نبوت کے سوا ختم نہیں ہوا اور اللہ تعالیٰ جو تمام فیوض کا مبدا ہے اُس کے متعلق بخل 179" اور دریغ کا خیال کرنا نا ممکن ہے “.حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی جو گیارھویں صدی ہجری کے شروع میں گزرے ہیں فرماتے ہیں:.مالات نبوت امتیوں کو تبعیت اور وراثت کے طریق پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد ملنا آپ کی خاتمیت کے منافی نہیں ہے اور اس بات میں تو ہر گز شک نہ کر “ 180 خود احادیث سے بھی ان معنوں کی تصدیق ہوتی ہے.چنانچہ شرح بخاری میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر تبصرہ کرتے ہوئے کہ میرے اور مسیح ابن مریم کے درمیان کوئی نبی نہیں علامہ عینی لکھتے ہیں کہ :- اس کے معنی یہ ہیں کہ میرے اور اُن کے درمیان کوئی شریعتِ مستقلہ والا نبی نہیں کیونکہ خود حدیثوں سے ثابت ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 313 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے در میان جرجیس اور خالد بن سنان دو نبی گزرے ہیں قسطلانی شرح بخاری میں لکھا ہے کہ :- وو 181 " - رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جو فرمایا ہے کہ میں آخری اینٹ ہوں اور میں خاتم النبین ہوں.اس کے معنی ہیں مکمل شرائع الدین.میں دین کی شرائع کو مکمل کرنے والا ہوں“.182 اسی طرح قسطلانی شرح بخاری جلد 6 صفحہ 21 مطبوعہ مصر 1304ھ پر لکھا ہے:.عیسی علیہ السلام کا نزول ختم نبوت کے منافی نہیں کیونکہ وہ آپ کے دین پر ہوں گے“.پھر لکھتے ہیں :- کہ چونکہ وہ آپ کے اتباع میں سے ہوں گے اس لئے ان کا وجود ختم نبوت کے مخالف نہیں ہو گا“.شیعہ لوگوں کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ امت محمدیہ میں کسی نبی کا آنا ختم نبوت کے خلاف نہیں.چنانچہ رسالہ غایۃ المقصود مصنفہ علامہ علی حائری میں لکھا ہے کہ :- هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّہ میں مہدی موعود کی پیشگوئی ہے اور رسول سے مراد مہدی موعود ہیں 183" اسی طرح تفسیر صافی میں بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں رسول سے مراد مہدی موعود ہیں.شیعہ صاحبان مہدی کو نہ صرف عام رسول قرار دیتے ہیں بلکہ اہم درجہ کار سول قرار دیتے ہیں.چنانچہ علامہ حائری لکھتے ہیں کہ :- وو ” مہدی علیہ السلام کی افضلیت حضرت مسیح ناصری پر ثابت << اور واضح ہے “.84 شیعوں کی کتاب اکمال الدین صفحہ 375 :- لکھا ہے.
انوار العلوم جلد 23 314 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ انبیاء اور اولیاء میں سے ہادیوں کے آنے کی بندش ہر گز جائز نہیں.جب تک انسان خدا کے حکموں کا مکلف ہے یہ لوگ بھی آتے رہیں گے“.اسی طرح ایک حدیث میں جو شیعوں کی تفسیر اتنی کے صفحہ ۳۳ پر لکھی ہے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی کو لیا اور اُسے مخاطب کر کے کہا کہ میں تجھ سے نبی پیدا کر تار ہوں گا، رسول پیدا کرتا رہوں گا، صالحین پیدا کرتا رہوں گا، ہدایت دینے والے ائمہ پیدا کرتا رہوں گا اور جنت کی طرف بلانے والے پیدا کرتا رہوں گا اور قیامت تک ایسا ہی کرتا چلا جاؤں گا اور ہر گز کسی کے اعتراض کی پرواہ نہیں کروں گا.یعنی خدا نے جس دن دُنیا پیدا کی تھی اُسی دن اُس نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ حافظ کفایت حسین صاحب اور شمسی صاحب کچھ کہتے رہیں، میں پھر بھی ارسالِ رُسُل اور ارسال مہدیتین سے دست کش نہ ہوں گا.بحث کا خلاصہ مذکورہ بالا آیات اور احادیث اور اقوالِ صلحاء و اولیاء سے مندرجہ ذیل باتیں روز روشن کی طرح ثابت ہیں.اول: قرآن کریم کی رُو سے ایک قسم کی نبوت کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے اور اس قسم کے انبیاء رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی آتے رہیں گے.دوم: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ختم نبوت کے مقام پر اپنی بعثت کے بعد فائز نہیں ہوئے بلکہ کائنات کی ابتداء میں ہی آپ کو مقام نبوت عطا کیا گیا تھا اور جتنے نبی دُنیا میں آئے گو آپ کی پیدائش کے لحاظ سے وہ آپ سے پہلے گزرے ہیں لیکن ختم نبوت کے لحاظ سے وہ ختم نبوت کے بعد ہوئے ہیں.سوم: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی جو نئی شریعت لانے والا ہو یا آپ کی اطاعت سے باہر ہو ظاہر نہیں ہو گا.چهارم: رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باوجود ختم نبوت کے اعلان کے مسلمانوں کے نزدیک نبی ظاہر ہو سکتا تھا جیسا کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم
انوار العلوم جلد 23 315 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور بعض صلحاء امت کا یہ خیال تھا کہ مسیح ناصری دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور نبی کی حیثیت میں آئیں گے.پنجم: آیت خاتم النبیین کے معنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بہت سے صلحاء کے نزدیک قطعی طور پر یہ ہیں کہ ہر قسم کا بابِ نبوت اس آیت سے مسدود نہیں.ششم: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم معین صورت میں فرماتے ہیں کہ اس امت میں سے کسی تابع نبی کا ہونا نا ممکن نہیں.چنانچہ آپ نے اپنے بیٹے ابراہیم کے متعلق ہفتہ فرمایا کہ اگر وہ زندہ رہتا تو نبی ہوتا.صلحاء امت میں سے بعض اکابر زمانہ صحابہ سے لے کر بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ تک اس بات کے قائل رہے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ایسے لوگ ظاہر ہوتے رہیں گے جو نبوت عامہ یعنی بغیر شریعت کے نبوت پائیں گے.ہشتم: کئی اکابر علماء امت خصوصاً دیو بندیوں اور اس زمانہ کے حنفیوں کے رہنما اس بات کے قائل ہیں کہ گو امت محمدیہ میں سے نبی کا آنا ثابت نہیں لیکن اگر کوئی اُمت میں سے نبی آئے تو یہ ختم نبوت کی آیت کے خلاف نہ ہو گا اور اسلام کے لئے کسی خرابی یا ذلت کا موجب نہیں ہو گا.اب دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جماعت احمدیہ اور دوسرے مسلمانوں کا اختلاف صرف اسی بات میں ہے کہ آیا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی اُمت میں سے ظاہر ہو سکتا ہے یا نہیں.در حقیقت جمہور مسلمان بھی اس بات کے قائل ہیں کہ ایک سابق نبی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ظاہر ہو گا اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر وہ نبی آیا تو وہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی نبی ہو گا اور آپ کے بعد بھی نبی ہو گا.اس لئے لا نَبِیَ بَعْدَہ کے الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہئیں بلکہ خاتم النبیین کہنا چاہئے.پس ختم نبوت کے بعد کسی نبی کے آنے کے متعلق
انوار العلوم جلد 23 316 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ گا.ہر اختلاف نہیں بلکہ اختلاف صرف یہ ہے کہ وہ نبی باہر سے آئے گا یا اُمت میں سے آئے عقلمند انسان سمجھ سکتا ہے کہ باہر سے آنے والا نبی یقینا ر سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح ممنون نہیں ہو گا جس طرح کہ وہ امتی جو آپ کی فرمانبرداری سے مقام نبوت پائے، آپ کا ممنون ہو سکتا ہے.پس احمدی جماعت کا عقیدہ اسلام کے عین مطابق اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو بڑھانے والا ہے.اور کم سے کم یہ مانا پڑے گا کہ وہ اسلامی رُوح کے ہر گز خلاف نہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نہ کسی رنگ کے نبی کے آنے کا دروازہ تمام مسلمانوں کے نزدیک کھلا ہے.اب ہم بتاتے ہیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا ختم نبوت“ پر ایمان بانی سلسلہ احمدیہ نے ختم نبوت کے متعلق کس شدت سے اظہار کیا ہے اور اگر اپنے متعلق نبی کا لفظ بولا ہے تو اس میں کتنی احتیاط برتی ہے.آپ فرماتے ہیں:.میں مفصلہ ذیل اُمور کا مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اِس خانہ خدا مسجد میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اُس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں“ پھر فرماتے ہیں:.185" ہم اس آیت پر سچا اور کامل ایمان رکھتے ہیں جو فرمایا کہ وَلكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ “ 186 اسی طرح فرماتے ہیں:.”عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نبی ہے اور وہ خاتم الانبیاء ہے اور سب سے بڑھ کر ہے “.187
انوار العلوم جلد 23 پھر فرماتے ہیں:- 317 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہو تا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ مخاطبہ ہرگز نہ پاتا کیونکہ آب بجز محمدی نبوت کے سب نبو تیں بند ہیں.شریعت والا نبی کوئی نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو “ 188 ہو“.ختم نبوت پر ایمان ان حوالجات سے ظاہر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ ختم نبوت پر پورا ایمان رکھتے تھے اور احمدی ہونے کی ایک شرط ہے ہرگز اس کا انکار نہیں کرتے تھے.موجودہ امام جماعت احمدیہ کا عقیدہ اس سے ظاہر ہے کہ آپ نے اپنی خلافت کے شروع سے ختم نبوت پر ایمان لانے کو اپنی شرائط بیعت میں شامل کیا ہے اور آپ کی بیعت کے فقروں میں سے ایک فقرہ یہ ہے کہ ”میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کروں گا“.اس بات کے بعد علماء کرام یہ تو حق رکھتے تھے کہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی یہی لکھتے اور کہتے ہیں کہ ہم رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین مانتے ہیں لیکن ان کے دلوں میں یہ عقیدہ نہیں یہ جھوٹ بول کے لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں.مگر ان کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ لوگوں سے یہ کہتے کہ احمدی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان کا اقرار نہیں کرتے.علماء کرام کالوگوں کے سامنے یہ بات کہنا بتاتا ہے کہ وہ جھوٹ بول کر فساد پیدا کرنا چاہتے تھے اور اُن کی تقریروں کی غرض مذہبی نہیں تھی کیونکہ مذہب جھوٹ کی اجازت نہیں دیتا.اُن کی اغراض محض پولیٹیکل تھیں اور وہ صرف اپنے مخالف کو زیر کرنا چاہتے تھے.اس سے اُن کو کوئی غرض نہیں تھی کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں وہ سچ ہے کہ جھوٹ ہے.وہ انصاف کے مطابق ہے یا اس میں ظلم اور تعدی سے کام لیا گیا ہے.
انوار العلوم جلد 23 318 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بانی سلسلہ احمدیہ کن معنوں میں نبی ہیں بے شک بانی سلسلہ احمدیہ ہے نے کہا ہے کہ میں ایک رنگ میں نبی ہوں لیکن اس کے ساتھ ہی آپ نے ہمیشہ یہ کہا ہے کہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض سے اور آپ کی اُمت میں سے ہو کر آیا ہوں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں:- کوئی شخص اس جگہ نبی ہونے کے لفظ سے دھوکا نہ کھاوے.میں بار بار لکھ چکا ہوں کہ یہ وہ نبوت نہیں ہے جو ایک مستقل نبوت کہلاتی ہے.کوئی مستقل نبی امتی نہیں کہلا سکتا مگر میں امتی ہوں" پھر فرماتے ہیں:.اتباع کامل کی وجہ سے میرا نام امتی ہوا اور پورا عکس نبوت حاصل کرنے سے میرا نام نبی ہو گیا.پس اس طرح پر مجھے دو نام حاصل ہوئے“.190 پھر فرماتے ہیں:.میں نہیں سمجھ سکتا کہ نبی کے نام پر اکثر لوگ کیوں چڑ جاتے ہیں.جس حالت میں یہ ثابت ہو گیا ہے کہ آنے والا مسیح اسی امت میں سے ہو گا.پھر اگر خدا تعالیٰ نے اس کا نام نبی رکھ دیا تو حرج کیا ہوا.ایسے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ اسی کا نام امتی بھی تو رکھا گیا ہے اور امتیوں کی تمام صفات اس میں رکھی گئی ہیں.پس یہ مرکب نام ایک الگ نام ہے اور کبھی حضرت عیسی اسرائیلی اس نام سے موسوم نہیں ہوئے اور مجھے خدا تعالیٰ نے میری وحی میں بار بار امتی کر کے بھی پکارا ہے اور نبی کر کے بھی پکارا ہے اور ان دونوں ناموں کے سُننے سے میرے دل میں نہایت لذت پیدا ہوتی ہے اور میں شکر کرتا ہوں کہ اِس مُرکب نام سے مجھے عزت دی گئی.اور اس مرتب نام کے رکھنے میں
انوار العلوم جلد 23 319 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حکمت یہ معلوم ہوتی ہے کہ تا عیسائیوں پر ایک سرزنش کا تازیانہ لگے کہ تم عیسی بن مریم کو خدا بناتے ہو مگر ہمارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس درجہ کا نبی ہے کہ اُس کی اُمت کا ایک فرد نبی ہو سکتا ہے اور عیسیٰ کہلا سکتا ہے.حالانکہ وہ اُمتی ہے“.191 پھر اس نبوت کی تعریف فرماتے ہوئے جس کا دعویٰ آپ نے کیا ہے تحریر فرماتے ہیں:.”میری مراد نبوت سے یہ نہیں ہے کہ میں نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر کھڑا ہو کر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں.صرف مُراد میری نبوت سے کثرتِ مکالمت و مخاطبت الہیہ ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع سے حاصل ہے.سو مکالمہ و مخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں.پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی.یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ و مخاطبہ رکھتے ہیں.میں اُس کی کثرت کا نام بموجب حکم الہی نبوت رکھتا ہوں.وَلِكُلِّ أَنْ يَصْطَلِحَ “ - 192 اسی طرح اپنی وفات سے صرف تین مہینے پہلے آپ نے فرمایا:- اصل یہ نزاع لفظی ہے.خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ و مخاطبہ کرے کہ جو بلحاظ کمیت و کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیشگوئیاں بھی کثرت سے ہوں اُسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے.پس ہم نبی ہیں.ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو تو ہم گفر سمجھتے ہیں“.193 آپ نے یہ جو تعریف فرمائی ہے وہ قرآن کریم میں بھی آتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے علِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ اَحَدًا - إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِنْ رَّسُولٍ.194 یعنی
انوار العلوم جلد 23 320 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اللہ تعالیٰ ہی علم غیب جاننے والا ہے اور وہ غیب کی خبریں کثرت سے کسی شخص کو نہیں دیتا سوائے ان کے جن کو اپنار سول بنانے کے لئے پسند کر لیتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:.”جاہل مخالف میری نسبت الزام لگاتے ہیں کہ یہ شخص نبی یا رسول ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں.میں اُس طور سے جو وہ خیال کرتے ہیں نہ نبی ہوں نہ رسول ہوں.ہاں میں اِس طور سے نبی اور رسول ہوں جس طور سے ابھی میں نے بیان کیا ہے.پس جو شخص میرے پر شرارت سے یہ الزام لگاتا ہے جو دعویٰ نبوت اور رسالت کا کرتے ہیں وہ جھوٹا اور ناپاک خیال ہے.مجھے بروزی صورت نے نبی اور رسول بنایا ہے اور اسی بناء پر خدا نے بار بار میر انام نبی اللہ اور رسول اللہ رکھا.مگر بروزی صورت میں.میر انفس در میان نہیں ہے بلکہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اسی لحاظ سے میر انام محمد اور احمد ہوا.پس نبوت اور رسالت کسی دوسرے کے پاس نہیں گئی.محمد کی چیز محمد کے پاس ہی رہی.علیہ الصلوۃ والسلام “.195 لفظ نبی کے بکثرت استعمال میں احتیاط حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس لفظ کے استعمال میں تو اس قدر احتیاط برتی ہے کہ آپ نے اپنی جماعت کو نصیحت فرمائی کہ عام بول چال میں میری نسبت نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.یا درکھنا چاہئے کہ اس عاجز نے کبھی اور کسی وقت حقیقی طور پر نبوت یا رسالت کا دعویٰ نہیں کیا اور غیر حقیقی طور پر کسی لفظ کو استعمال کرنا اور لعنت کے عام معنوں کے لحاظ سے اس کو بول چال میں لانا مستلزم گفر نہیں.مگر میں اس کو بھی پسند نہیں کرتا کہ اس میں عام مسلمانوں کو دھو کالگ جانے کا احتمال ہے “ 196 "
انوار العلوم جلد 23 321 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی نبوت کی یہی تعریف کی ہے.چنانچہ آر اپنی کتاب حقیقۃ النبوۃ میں تحریر فرماتے ہیں:.وو یہ سب جھگڑا جو نبوت کے متعلق پیدا ہوا ہے وہ صرف نبوت کی دو مختلف تعریفوں کے باعث ہے.ہمارا مخالف گروہ نبی کی اور تعریف کرتا ہے اور ہم اور تعریف کرتے ہیں.ہمارے نزدیک نبی کی تعریف یہ ہے کہ (1) وہ کثرت سے امور غیبیہ پر اطلاع پائے.(2) وہ غیب کی خبریں انذار و تبشیر کا پہلو اپنے اندر رکھتی ہوں (3) خدا تعالیٰ اُس شخص کا نام نبی رکھے.جن لوگوں میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں، وہ ہمارے نزدیک نبی ہوں گے “.197 اسی طرح فرماتے ہیں:.بعض لوگ ان تین شرائط کے پائے جانے کا نام نبوت نہیں رکھتے اور ان کے علاوہ اور شرائط مقرر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نبی کے لئے یا تو شریعتِ جدیدہ لانا ضروری ہے یا بلا واسطہ نبوت پانا.اور اگر ان دونوں شرائط کے علاوہ کوئی اور شرط بھی لگاتے ہوں تو اس کا مجھے علم نہیں.اور چونکہ یہ شرائط حضرت مسیح موعود میں نہیں پائی جاتیں، اس لئے ان کے نزدیک حضرت مسیح موعود نبی نہیں بلکہ صرف محدث ہیں.اور ہم بھی کہتے ہیں کہ اگر نبوت کی تعریف یہی ہے تو بیشک حضرت مسیح موعود نبی نہ تھے اور جن کے نزدیک یہ تعریف درست ہے اگر وہ مسیح موعود کو نبی کہیں تو یہ ایک خطرناک گناہ ہے کیونکہ شریعتِ جدیدہ کا آنا قرآن کریم کے بعد ممتنع ہے اور بلا واسطہ نبوت کا دروازہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسدود ہے “.198 انہوں نے اس بات کو بھی تسلیم کیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے عام بول چال میں نبی کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہئے.چنانچہ جب ایک شخص نے
انوار العلوم جلد 23 322 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ آپ سے یہ سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو عام بول چال میں اس لفظ کا استعمال منع فرمایا ہے اور آجکل اس لفظ پر خاص زور دیا جارہا ہے تو انہوں نے اس کے جواب میں تحریر فرمایا کہ:- نبوت کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ سب احمدی حضرت مسیح موعود کو نبی ظلی ہی مانتے ہیں لیکن چونکہ حضرت صاحب کے درجہ کو اس وقت بہت گھٹا کر لکھا جاتا ہے ، اس لئے مصلحت وقت مجبور کرتی ہے کہ آپ کے اصل درجہ سے جماعت کو آگاہ کیا جاوے، ور نہ اس طرح کے لفظ نبی کے استعمال کو میں خود بھی پسند نہیں کرتا.نہ اس لئے کہ آپ نبی نہ تھے بلکہ اس لئے کہ ایسانہ ہو کچھ مدت بعد بعض لوگ اِس سے نبوت مستقلہ کا مفہوم نکال لیں.مگر یہ صرف چند روزہ بات ہے اور بطور علاج کے ہے کیونکہ اس وقت بہت سے احمدی حضرت مسیح موعود کے درجہ سے ناواقف ہیں اور اخبار میں یہ بھی بار بار لکھ دیا جاتا ہے کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے کے لئے آئے تھے “ 199 اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ ان علماء کی خاطر یا دوسرے مسلمانوں کی خاطر یہ لفظ زیر بحث نہیں آتا رہا بلکہ احمدی جماعت کے ایک حصہ نے جب اس لفظ کو کلی طور پر ترک کرنے پر زور دیا اور اس طرح جماعت کی تنظیم میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا تو موجودہ امام جماعت کو اس مسئلہ پر تفصیلاً بحث کرنی پڑی.اِسی وجہ سے وہ یہ لکھتے ہیں کہ اس وقت اس لفظ پر مصلحتنا زور دیا جاتا ہے.یعنی عام حالات میں اس لفظ پر زور دینے کی ہمارے لئے کوئی وجہ نہیں مگر چونکہ اس وقت خود جماعت کا ایک حصہ اس کے خلاف پروپیگینڈا کرتا ہے اور جماعت کے لوگوں میں غلط فہمی پیدا ہوتی ہے اس لئے ہم اس مسئلہ پر بحث کر رہے ہیں.گویا یہ تمام بخشیں نہ تو مسلمانوں کے چڑانے کے لئے تھیں نہ ان کے لئے تھیں صرف جماعت احمدیہ کے ایک حصہ کے فتنہ کو دُور کرنے کے لئے جس سے جماعت میں
انوار العلوم جلد 23 323 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کمزوری پیدا ہونے کا احتمال ہو سکتا تھا اس بحث کو چھیڑا گیا تھا.اس کے بعد مختلف مواقع پر موجودہ امام جماعت نے اس کی تشریح کی ہے کہ نبوت کے لفظ سے اس سے زیادہ کچھ بھی مراد نہیں ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے کثرت سے الہام ہوتے تھے اور خدا تعالیٰ کے الہاموں میں ان کا نام نبی آتا تھا.ورنہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل پر ان کو کوئی مقام بھی حاصل نہیں.امام جماعت احمدیہ کے ایک اور حوالہ سے بھی ثابت ہے کہ وہ امت محمدیہ کا اصل نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں.چنانچہ آپ کا ایک اعلان الفضل 20 مئی 1950ء میں شائع ہوا ہے کہ کسی شخص نے آپ کو توجہ دلائی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کے متعلق خاندانِ نبوت کا لفظ اخبار میں لکھا جاتا ہے ، یہ نہیں چاہئے.اس تسلسل میں آپ تحریر فرماتے ہیں:.متواتر خط و کتابت میں ان صاحب نے ایک بات لکھی جس نے میری طبیعت پر اثر کیا اور وہ بات یہ تھی کہ خاندانِ نبوت سے یہ دھوکا لگتا ہے کہ شاید یہی ایک خاندانِ نبوت ہے.اور میں نے سمجھا کہ اس قسم کا دھوکا ضرور پیدا ہو جاتا ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال ٹھیک نہیں.اصل نبوت تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت تو ظلتی ہے.پس اصل ”خاندانِ نبوت“ تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان ہے جس نے اپنی قربانیوں سے اور اپنے ایثار سے اور اپنی خدمتِ اسلام سے یہ ثابت کر دیا کہ اُن کے دل میں جو اِس فضل اور احسان کی بہت بڑی قدر ہے جو خدا تعالیٰ نے انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پیدا کر کے کیا ہے.پس ایسا کوئی لفظ جس سے یہ شبہ پیدا ہو جائے کہ کسی اور خاندان کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے علاوہ کوئی امتیاز دیا جاتا ہے تو خواہ وہ نادانستہ ہی ہو پسندیدہ نہیں.
انوار العلوم جلد 23 324 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس لئے میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ آئندہ ”الفضل“ میں اور دوسری احمدی تحریروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کو خاندانِ نبوت کی بجائے خاندان مسیح موعود لکھا جایا کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جتنے دعاوی ہیں وہ سارے کے سارے مسیح موعود کے لفظ میں شامل ہو جاتے ہیں کیونکہ یہی نام آپ کا حاوی نام ہے.پس خاندانِ مسیح موعود کہنے سے وہ تمام باتیں اس خاندان کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تعلق کی وجہ سے ان کی طرف منسوب ہو سکتی ہیں.اصل سوال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خاندان اپنے عمل سے اپنے آپ کو اُس مقام کا اہل ثابت کرے جو مقام خدا تعالیٰ نے ان کو بخشا ہے.اگر ان میں سے ہی بعض دُنیا کے کاموں میں لگ جائیں اور روٹی انہیں خدا تعالیٰ پر مقدم ہو تو انہیں خاندانِ نبوت کہا جائے یا خانوادہ الوہیت کہا جائے بلکہ خواہ خدا ہی کہہ دیا جائے ہر تعریف اُن کے لئے ہتک کا ہی موجب ہو گی کسی عزت کا موجب نہیں ہو گی.بلکہ یہ سمجھا جائے گا کہ ان کی تعریف کرنے والے لوگ ان کو زیادہ سے زیادہ خدا تعالیٰ سے پھر انا چاہتے ہیں.200 ".ہو اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی لفظ نبی کا ایسا استعمال جس سے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے توجہ ہٹتی : احمدی جماعت کے لئے جائز نہیں.پس اس بارہ میں جن خیالات کا بھی اظہار ہوا ہے محض اپنی جماعت کے ایک کمزور حصّہ کی اصلاح کے لئے ہوا ہے اور ہر گز دوسرے فرقہ اسلام کو مد نظر رکھ کر اس لفظ پر زور نہیں دیا گیا.جہاں جہاں بھی یہ بات بحث میں آئی ہے یا تو کسی معترض کے جواب میں آئی ہے یا اپنی جماعت کے کمزور لوگوں کی اصلاح
انوار العلوم جلد 23 325 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کے لئے آئی ہے.اور اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ احمدی جماعت کسی مستقل نبوت کی قائل نہیں بلکہ وہ اس اُمت کا نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی سمجھتے ہیں اور قیامت تک انہیں کی نبوت کو جاری سمجھتے ہیں.آخر میں ہم ایک حوالہ سیّد عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا درج کر کے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ نبوت کے متعلق خواہ کوئی بھی اختلاف کیا جائے بہر حال احرار اور اُن کے ساتھیوں نے یہ سوال مذہب کی وجہ سے نہیں اُٹھایا بلکہ سیاست کی وجہ سے اُٹھایا ہے.چنانچہ سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے اپنی ایک تقریر میں بیان کیا:- یہ الگ بات ہے کہ سچا تھا، یا جھوٹا.یہ تو چیز ہی بالکل بے معنی ہے.فرض کر لو اگر وہ سچا ہوتا اور نبوت کا دعویٰ کرتا تو کیا ہم مان لیتے ؟ “201 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ سیّد عطاء اللہ شاہ صاحب کی مخالفت مذ ہبی نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب سچے بھی ہوتے تو بھی ہم اُن کو مان نہیں سکتے تھے.جس کے معنی دوسرے لفظوں میں یہ بنتے ہیں کہ اگر مرزا صاحب کے ماننے کا خدا بھی حکم دیتا تو بھی ہم نہ مانتے.پس صاف ظاہر ہے کہ یہ مذہبی مخالفت نہیں.اگر مذہبی مخالفت ہوتی تو خدا اور اُس کے رسول کی تائید میں ہوتی.عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری فرماتے ہیں ” کہ خدا بھی کہے تو ہم نہیں مانیں گے جس کے معنی یہ ہیں کہ ہمارے سیاسی فوائد اُن کے نہ ماننے میں ہیں.اس لئے ہم مذہب کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے.دوسرا حوالہ بھی سیّد عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا ہی ہے.وہ فرماتے ہیں:.اگر نبی ہی ماننا ہے تو خدا کی قسم ! جناح کو نبی مان لو.اگر اُسے نہیں مانا تو مجھے ہی مان لو.ارے! کوئی آدمی تو ہو.....اگر مسلمانو! تم تیرہ سو سال کی نبوت سے تنگ آگئے ہو تو قائد اعظم ہی کو نبی مان لو“ 202 اس حوالہ سے بھی ظاہر ہے کہ ایمان کو سیاست کا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے ایمان کو
انوار العلوم جلد 23 326 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ سچائی اور مذہب کا ذریعہ نہیں قرار دیا جاتا.اور یہ تکرار یہ کہنے والا مذ ہبی آدمی کبھی نہیں کہلا سکتا، سیاسی آدمی کہلا سکتا ہے.ایک تیسرا حوالہ بھی بتاتا ہے کہ یہ محض سیاسی جوش تھا.یہ بھی سیّد عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کا حوالہ ہے.اس کے لئے ہم ایک اشتہار کی مندرجہ ذیل عبارت پیش کرتے ہیں:- ”میرا مجلس احرار سے کوئی تعلق نہیں.میں مجلس احرار کا دو آنہ کا ممبر بھی نہیں ہوں.میں پکا مسلم لیگی ہوں.مسلم لیگ اور پاکستان کا سچا وفادار ہوں.میں ممتاز صاحب دولتانہ کو اس لئے اپنا لیڈر جانتا ہوں کہ وہ ایک تو صوبہ مسلم لیگ کے صدر ہیں اور دوسرے وہ صوبہ پنجاب کی حکومت کے وزیر اعلیٰ ہیں.اگر دولتانہ صاحب کہہ دیں کہ مرزا غلام احمد قادیانی کی نبوت پر ایمان لے آؤ تو میں اُس پر ایمان لے آؤں گا اور مرزا بشیر الدین محمود احمد کو خلیفۃ المسیح مان لوں 203" گا سوال نمبر 3 متعلق دعویٰ مسیحیت و متعلقہ امور تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شبہ نہیں.حضرت مرزا صاحب بانی سلسلہ احمدیہ نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور اسی سے لازم آتا ہے کہ مسیح ناصری کو وفات یافتہ سمجھا جائے لیکن اس دعویٰ سے مسلمانوں کی کوئی دل شکنی نہیں ہوتی.نہ عیسائیوں کی کوئی دل شکنی ہوتی ہے.عیسائی تو مسیح ناصری کو خدا کا بیٹا سمجھتے ہیں لیکن پھر بھی اُن کی اس دعوی سے دل شکنی نہیں ہوتی.بہت سے عیسائی ممالک میں احمدی مشنری ہیں اور وہ احمدیت کی تبلیغ کرتے ہیں.یہ نہیں کہ ان ممالک کے لوگ عیسائیت کو چھوڑ بیٹھے ہیں.وہ لوگ کروڑوں کروڑ روپیہ مسلمانوں میں تبلیغ کے لئے چندہ دیتے ہیں.جس کے معنی یہ ہیں کہ عیسائیت کی محبت اور اُس پر ایمان اُن کے دلوں میں
انوار العلوم جلد 23 327 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ موجو د ہے مگر پھر بھی وہ حضرت مرزا صاحب کے دعویٰ مسیح موعود سے نہیں چڑتے اور انہیں غصہ نہیں آتا.جس سے ظاہر ہے کہ وہ انسانی اخلاق کی قیمت کو سمجھتے ہیں.ہمارے علماء انسانی اخلاق اور حریت ضمیر کی قیمت نہیں سمجھتے.وہ اپنے تنگ مذاہب کے باوجود وسعت حوصلہ رکھتے ہیں لیکن یہ علماء اسلام کی وسیع اور پر محبت تعلیم کے باوجود اپنے اندر وسعت حوصلہ نہیں رکھتے.جہاں تک یہ سوال ہے کہ حضرت مرزا صاحب نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے تو یہ کوئی بُری بات نہیں.اگر اس اُمت میں سے کسی کو مسیح موعود ہونا تھا تو یہ دعویٰ حضرت مرزا صاحب کریں یا کوئی اور اس میں چڑنے کی کوئی بات نہیں.صرف یہ دیکھا جائے گا کہ مدعی سچا ہے یا جھوٹا.باقی رہا یہ سوال کہ تمام مسلمان مسیح کو زندہ سمجھتے ہیں اور اسی مسیح کی آمد کے قائل ہیں، یہ درست نہیں.مسلمانوں میں سب سے پہلا اجتماع اسی بات پر ہوا تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں جن میں مسیح بھی شامل ہیں.چنانچہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسلمان گھبر اگئے اور یہ صدمہ اُن کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا تو حضرت عمرؓ نے اسی گھبراہٹ میں تلوار کھینچ لی اور کہا کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں تو میں اُس کی گردن کاٹ دُوں گا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے بلکہ حضرت موسیٰ کی طرح خدا سے ملنے گئے ہیں اور پھر واپس آئیں گے اور منافقوں کو ختم کریں گے پھر وفات پائیں گے.204 گویا اُن کا یہ عقیدہ تھا کہ منافق جب تک ختم نہ ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے اور چونکہ منافق آپ کی وفات تک موجود تھے اس لئے وہ سمجھے کہ آپ فوت نہیں ہوئے ہیں.حضرت ابو بکر جو اُس وقت مدینہ کے پاس باہر ایک گاؤں میں گئے ہوئے تھے تشریف لائے.وہ سیدھے گھر میں گئے اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم مبارک دیکھا اور معلوم کیا کہ آپ واقع میں وفات پاچکے ہیں.اس پر آپ باہر تشریف لائے اور یہ کہتے ہوئے آئے کہ اللہ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو موتیں نہیں دے گا.یعنی ایک موت جسمانی دوسری موت رُوحانی کہ آپ کی وفات کے ساتھ ہی مسلمان
انوار العلوم جلد 23 328 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بگڑ جائیں.پھر آپ سیدھے صحابہ کے اجتماع میں گئے اور لوگوں سے کہا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضرت عمررؓ تلوار لئے کھڑے تھے اور یہ ارادہ کر کے کھڑے تھے کہ اگر کسی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا اعلان کیا تو میں اُس کو قتل کر دوں گا.حضرت ابو بکر کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا.اے لوگو! "مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ مَاتَ وَ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ حَقٌّ لَا يَمُوْتُ“.جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا وہ سُن لے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور جو کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی عبادت کر تا تھاوہ خوش ہو جائے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اور کبھی فوت نہیں ہو گا.پھر فرمایا وَ مَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ أَفَأَبِنْ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُم محمد صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اور آپ سے پہلے جتنے رسول گزرے ہیں سب فوت ہو چکے ہیں.پھر آپ کیوں نہ فوت ہوں گے.اگر آپ فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو کیا تم اپنی ایڑیوں کے بل پھر جاؤ گے اور اسلام کو چھوڑ دو گے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ جب قرآنِ کریم کی آیت حضرت ابو بکر صدیق نے پڑھی تو میری آنکھیں کھل گئیں اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ یہ آیت ابھی نازل ہوئی ہے اور مجھ پر ظاہر ہو گیا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں اور میرے پاؤں کانپ گئے اور میں زمین پر گر گیا.205 یہ ایک ہی اجماع صحابہ کا ہے.کیونکہ اُس وقت سارے صحابہ موجود تھے اور در حقیقت ایسا وقت مسلمانوں پر پہلے کبھی نہیں آیا کیونکہ پھر کبھی مسلمان اس طرح جمع نہیں ہوئے.اس اجتماع میں حضرت ابو بکر نے یہ آیت پڑھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور آپ سے پہلے جس قدر اللہ تعالیٰ کے رسول آئے ہیں وہ سب کے سب فوت ہو چکے ہیں.پس آپ کا فوت ہونا بھی کوئی قابل تعجب بات نہیں اور سارے کے سارے صحابہ نے آپ کے ساتھ اتفاق کیا.حضرت عمر جو پہلے مخالف تھے اس آیت کو سُن کر وہ بھی موافق ہو گئے.اگر واقع میں
انوار العلوم جلد 23 329 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مسلمانوں کے نزدیک حضرت مسیح آسمان پر زندہ موجود تھے تو حضرت عمرؓ نے یہ کیوں نہ کہا کہ آے ابو بکر آپ کیوں غلط بیانی کرتے ہیں؟ قرآن سے تو ثابت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں پھر محمد رسول اللہ کس طرح فوت ہو سکتے ہیں.مگر حضرت عمرؓ نے تو غم کی حالت میں حضرت عیسی کا نام بھی نہیں لیا حضرت موسیٰ کے خدا کے پاس جانے کا ذکر کیا.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے کان میں یہ بات کبھی نہیں پڑی تھی کہ حضرت عیسی آسمان پر زندہ ہیں.نہ غلط طور پر نہ صحیح طور پر.بعض روایتوں میں حضرت موسی کی بجائے حضرت عیسی کا نام آتا ہے.اگر یہ روایتیں بھی درست تسلیم کرلی جائیں تب بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ثابت ہے.قرآنِ کریم میں متعدد دیگر آیات بھی ہیں جو حضرت عیسی کی وفات پر دلالت کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے يُعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَ رَافِعُكَ إِلَى وَمُطَهَّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيِّمَةِ 206 اے عیسی میں تجھے وفات دُوں گا اور پھر تجھے اپنی طرف اُٹھاؤں گا اور تجھے کفار کے اُن سارے اعتراضات سے بچاؤں گا جو وہ تجھ پر کرتے ہیں اور تیری جماعت کو قیامت تک دوسرے لوگوں پر غلبہ دُوں گا.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے وفات کا ذکر کیا ہے اور پھر رفع کا ذکر کیا ہے اور وفات کے بعد رفع تو سب مومنوں کا ہوا کرتا ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اُمت کے لوگوں کو دُعا سکھاتے ہیں کہ اللَّهُمَّ ارْفَعْنِی.اے اللہ تُو مجھے اُونچا کر.207 اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب مومن مر جاتا ہے 208 تو اُس کی رُوح کو اُٹھا کر فرشتے آسمان پر لے جاتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ توفی کے معنی قبض روح کے نہیں لیکن ہماری طرف سے ایک لمبے عرصہ سے یہ چیلنج دیا جارہا ہے اور آج پھر ہم اس چیلنج کو دُہراتے ہیں.کوئی شخص یہ ثابت کر دے کہ اللہ تعالیٰ فاعل ہو ، ذی روح مفعول ہو اور توفی کے معنی قبض روح کے سوا کچھ اور ہوں تو بانی سلسلہ احمدیہ نے اس کے لئے ایک ہزار روپیہ انعام تو رکھا تھا مگر
انوار العلوم جلد 23 330 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ آج تک کسی لغت میں سے ایسا حوالہ نکال کر کوئی مولوی صاحب یہ انعام نہیں لے سکے ہیں.ہم اس وقت پھر اس چیلنج کو دہراتے ہیں.یہ علماء بیٹھے ہیں.یہ اب بھی کسی لعنت میں b سے یا کسی مشہور شاعر اور ادیب کے کلام میں سے کوئی ایسا حوالہ نکال کر دکھا دیں.بعض دفعہ یہ علماء علم کی کمی کی وجہ سے قرآن کریم کی بعض آیتیں (ثُمَّ تُونی كُلُّ نَفْس 2019 و غیرہ پیش کر دیتے ہیں کہ ان میں قبض روح کے معنی نہیں ہیں.حالانکہ اُن آیتوں کے الفاظ باب تفعل میں سے نہیں بلکہ باب تفعیل میں سے ہوتے ہیں اور عربی زبان میں اکثر بابوں کی تبدیلی سے معنی بدل جاتے ہیں.اسی طرح سورہ مائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَ اذْ قَالَ اللهُ يُعِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ وَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأَقِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحْنَكَ مَا يَكُونُ لِى أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقِّ إِنْ كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَه تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِى وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۖ إِنَّكَ أَنْتَ عَلَامُ الْغُيُوبِ - مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا اَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَاَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ - 210 یعنی یاد کر وجب اللہ تعالیٰ عیسی بن مریم سے کہے گا کہ کیا تُو نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو اللہ کے سوا دو معبود بنالو.اس پر عیسی علیہ السلام جواب دیں گے کہ آپ پاک ہیں، میرا کیا حق تھا کہ میں وہ بات کہتا جس کا مجھے حق نہ تھا.اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو آپ کو اس کا علم ہوتا.آپ میرے دل کی بات جانتے ہیں مگر میں آپ کی بات کا پس منظر نہیں جانتا.آپ تو سب غیبوں کو جاننے والے ہیں.میں نے تو اُن سے وہی بات کہی تھی جس کا آپ نے مجھے حکم دیا تھا اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور جب تک میں اُن میں رہا اُن پر گواہ تھا پھر جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے میں نہ تھا اور آپ ہر چیز کو اچھی طرح جانتے ہیں.اِس آیت میں حضرت مسیح کا صاف طور پر یہ فرمانا موجود ہے کہ میری وفات تک عیسائی نہیں بگڑے لیکن اب بگڑے ہوئے ہیں جس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام
انوار العلوم جلد 23 331 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ وفات پاچکے ہیں.اگر یہ کہا جاوے کہ یہ گفتگو قیامت کے دن ہو گی تو پھر بھی حضرت عیسی علیہ السلام کی وفات ہی ثابت ہوتی ہے کیونکہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُن کی وفات کے بعد عیسائی بگڑیں گے.اگر یہ گفتگو قیامت کے دن ہو تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت عیسی کی واپسی تک عیسائی نہیں بگڑے تھے بلکہ اُن کی وفات کے بعد بگڑے.حالانکہ مسلمانوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ جب حضرت عیسی اتریں گے تو عیسائی بگڑ چکے ہوں گے اور وہ سب کفار کا خاتمہ کریں گے اور توحید کو قائم کریں گے یاسب کو مسلمان بنالیں گے.پس خواہ یہ گفتگو کسی پہلے زمانہ کی طرف منسوب کی جائے یا قیامت کی طرف اس سے بہر حال اُن کی وفات ثابت ہے.پھر اگر یہ گفتگو قیامت ہی کے دن کی مانی جائے تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہو گی کہ حضرت عیسی اس دُنیا میں آئیں گے، عیسائیوں کو سمجھائیں گے ، توحید کی طرف لائیں گے اور اسلام کو قائم فرمائیں گے لیکن پھر بھی قیامت کے دن اُن سے یہ سوال کیا جائے گا کہ کیا تُو نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی تھی اور اُن سے یہ کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو معبود بنالو.اُن کی اس عظیم خدمت کے بعد یہ سوال کیا جانا کتنا حیران کن ہے اور اگر ایسا ہو تو کیا اس کا یہ جواب نہیں ہونا چاہئے کہ اے اللہ ! میں نے تو اپنی قوم کو مارا، اُن کے شرک کو دُور کیا اور توحید دُنیا میں قائم کی.پھر بھی مجھ پر یہ الزام ہے کہ گویا میں نے لوگوں کو شرک کی تعلیم دی.ظاہر ہے کہ حضرت مسیح کے رفع و نزول جسمانی کا عقیدہ صحیح ہونے کی حالت میں تو ان کی طرف سے یہی جواب ہونا چاہئے مگر اس جواب کا تو کوئی ذکر نہیں بلکہ بر خلاف اس کے قرآن شریف بتا رہا ہے کہ حضرت مسیح قیامت کے دن یہ جواب دیں گے کہ جب تک میں اُن میں موجود رہاوہ توحید پر قائم رہے، جب میں فوت ہو گیا تو پھر مجھے معلوم نہیں کہ انہوں نے کیا کیا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس آیت کے وہی معنی کرتے ہیں جو ہم نے کئے ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن میرے کچھ اشباع کو فرشتے سزا کے لئے لے جاویں گے اور میں اس پر فریاد کروں گا کہ یہ تو میرے اشباع ہیں.اس پر مجھ سے
انوار العلوم جلد 23 332 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کہا جائے گا کہ تجھے کیا خبر کہ تیرے بعد اُنہوں نے کیا کیا.فَأَقَوْلُ كَمَا قَالَ الْعَبْدُ الصَّالِحَ وَ كُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَا دُمْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا تَوَفَيْتَنِي كُنْتَ أَنْتَ الرَقِيبَ عَلَيْهِمْ کہ جس طرح خدا کے نیک بندے یعنی حضرت عیسی نے کہا ہے میں بھی کہوں گا کہ میں اپنی زندگی میں اپنی قوم پر گواہ تھا جب آپ نے مجھے وفات دی تو پھر آپ ہی اُن پر نگران تھے.بخاری کی اس حدیث سے یہ امور ظاہر ہیں.(1) یہ سوال بعثت نبوی سے پہلے ہو چکا تھا.کیونکہ آپ فرماتے ہیں کہ جس طرح عیسی کہہ چکے ہیں اسی طرح میں بھی کہوں گا.(2) مسیحی رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بگڑ چکے تھے اور اس سے پہلے حضرت عیسی کی وفات ہو چکی تھی.کیونکہ حضرت عیسی کے جواب میں اپنے وفات پانے اور مسیحیوں کے بگڑ جانے کا اقرار ہے.(3) توفی کے معنے یقینا اس جگہ موت کے ہی ہیں کیونکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح ناصری کا حوالہ دے کر اپنی نسبت توفی کا لفظ استعمال فرماتے ہیں اور آپ کی وفات کے متعلق کوئی دورائیں مسلمانوں میں نہیں ہیں.بعض لوگ غلطی سے توفی کے معنی وفات کے سوا کچھ اور کرنا چاہتے ہیں.ایک حصہ کا جواب ہم دے چکے ہیں دوسرا حصہ اب بیان کریں گے اور وہ یہ ہے کہ عربوں کے نزدیک اس لفظ کے معنی وفات کے سوا اور کچھ نہیں.چنانچہ اس کے لئے ہم جامعہ ازہر کے ایک بہت بڑے عالم علامہ محمود شلتوت کا فتویٰ پیش کرتے ہیں جس میں اُنہوں نے وضاحت سے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ عربی زبان بولنے والے توفی کے معنی موت کے سوا اور کچھ نہیں کرتے.آپ اپنے شائع شدہ فتویٰ میں لکھتے ہیں کہ تَوَفَّيْتَنِی کا لفظ جو آیت قرآنیہ میں حضرت عیسی کی نسبت استعمال ہوا ہے.اِس کا حق ہے کہ ہم اس کے وہی معنی کریں جو عربوں کے ذہن میں فوراً آتے ہیں اور وہ طبعی موت کے ہیں جسے سب لوگ جانتے ہیں اور جو تمام عربی زبان بولنے والے اِس لفظ اور اس کے استعمال سے سمجھتے ہیں اور اگر اس آیت میں اپنی طرف سے کوئی اور بات نہ ملائی جائے تو اس قول کو ہر گز صحیح
انوار العلوم جلد 23 333 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت عیسیٰ زندہ ہیں، فوت نہیں ہوئے.212 2 ہم اس فتوے کی ایک مطبوعه نقل معہ ترجمہ کے پیش کرتے ہیں.اصل مصری فتویٰ بھی ہمارے پاس موجود ہے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ مادری زبان عربی رکھنے والا جامعہ ازہر کا ایک ممتاز پروفیسر تو یہ کہتا ہے کہ اس لفظ کے معنی موت کے سوا کچھ نہیں لیکن ہمارے علماء جو عربی زبان کے دو فقرے بھی بولنے کی طاقت نہیں رکھتے پاکستان میں بیٹھ کر یہ کہتے ہیں کہ توفی کے معنی یہاں پر کچھ اور ہیں.صحابہ نے بھی توفی کے معنی موت کے ہی کئے ہیں.چنانچہ بخاری میں حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ مُتَوَفِّیگ کے معنی ممیتگ کے ہیں.213 اور امام مالک کا بھی قول ہے کہ مَاتَ عِیسَی ابْنُ مَرْيَمَ.حضرت عیسی بن مریم فوت ہو گئے ہیں.214 اسی طرح علامہ ابن حزم کا بھی یہی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسی وفات پاچکے 215 معراج کی حدیث میں بھی ذکر آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات تمام وفات یافتہ انبیاء کے ساتھ حضرت عیسی کو بھی دیکھا.216 پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھلے مسیح کا بھی حلیہ بیان کیا ہے اور آنے والے مسیح کا بھی حلیہ بیان کیا ہے اور دونوں خلیوں میں اختلاف ہے.پہلے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں كم فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ 217 یعنی مسیح ابن مریم کا رنگ سُرخ تھا اور اُن کے بال گھنگھر والے تھے.اور آنے والے مسیح کے متعلق فرماتے ہیں کہ فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ که الشَّعْرِ - 218 اُس کا رنگ گندم گوں ہو گا اور اُس کے بال سیدھے ہوں گے.اس سے بھی صاف پتہ لگتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک ایک مثیل مسیح آنے والا ہے.پہلا مسیح فوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ اور اخلاق اور کمالات کو لے کر ایک دوسرا شخص اس اُمت میں پیدا ہو گا.چونکہ مسیح کی آمد کا عقیدہ متواتر احادیث میں بیان کیا گیا ہے اور قرآنِ کریم میں بھی اس کی طرف اشارہ موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا إِذَا
انوار العلوم جلد 23 334 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ قَوْمُكَ مِنْهُ يَصِدُّونَ - 219 جب مسیح ابن مریم کا ذکر تمثیلی طور پر کیا جاتا ہے تو تیری قوم بر امناتی ہے.اس میں اسی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں میں مسیح کی دوبارہ آمد تمثیلی طور پر بیان کی جاتی تھی اور کفار اس پر چڑتے تھے کہ مسیح کو تو اتنی اہمیت دے دی کہ کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ آئے گا اور ہمارے معبودوں کو جھوٹا کہا جاتا ہے اور چونکہ ابنِ عباس اور امام مالک کا قول ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو چکے ہیں اس لئے اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ آنے والا مسیح اسی اُمت میں سے ہو گا اور یہ صرف ہمارا قیاس ہی نہیں بلکہ اس کا ثبوت تاریخ سے بھی ملتا ہے.چنانچہ خریدۃ العجائب جو سراج الدین ابی حفص عمرو بن الوردی کی کتاب ہے اور جس کے متعلق علامہ احمد بن مصطفی المعروف بطاش کبری زادہ نے جو جیو گریفی کا بہت بڑا ماہر سمجھا جاتا ہے اپنی کتاب مفتاح السعادہ جلد اوّل صفحہ 322 پر لکھا ہے: کہ یہ کتاب علامہ قزوینی کی کتاب عجائب المخلوقات سے بھی زیادہ اچھی ہے“.اس کتاب کے صفحہ 214 پر لکھا ہے کہ :- " قرآن کریم میں جو یہ ذکر ہے کہ عیسٰی علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اُٹھا لیا اس بارہ میں مسلمانوں میں اختلاف پایا جاتا ہے.ان میں سے اکثر تو یہ کہتے ہیں اور انہی کی بات زیادہ سچی ہے کہ عیسی علیہ السلام بعینہ دوبارہ آئیں گے لیکن ایک اور جماعت مسلمانوں کی یہ کہتی ہے کہ عیسیٰ کے نزول سے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا شخص ظاہر ہو گا جو حضرت عیسیٰ سے اپنی بزرگی اور اپنے کمالات میں مشابہہ ہو گا.جس طرح کہ ایک نیک آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ فرشتہ ہے اور شریر آدمی کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ شیطان ہے.ان دونوں کو بطور تمثیل کے یہ نام دیئے جاتے ہیں اور یہ مراد نہیں ہوتی کہ سچ سچ شیطان آگیا یا فرشتہ
انوار العلوم جلد 23 335 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ آگیا ہے.پھر وہ کہتے ہیں کہ ایک تیسر ا گر وہ بھی مسلمانوں میں ہے جن کا یہ خیال ہے کہ اس پیشگوئی.سے یہ مراد نہیں کہ حضرت عیسی دوبارہ دنیا میں آئیں گے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ عیسی نامی کوئی شخص رسولِ کریم کی اُمت میں سے ہو گا.اس میں مسیح کی رُوح داخل کر دی جائے گی لیکن یہ دونوں خیال اہمیت نہیں رکھتے مگر اصل حقیقت اللہ تعالیٰ کو ہی معلوم ہے“.اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں دو گروہ ایسے رہے ہیں جن کا یہ عقیدہ تھا کہ مسیح فوت ہو چکا ہے اور دوبارہ جو شخص آئے گاوہ اسی اُمت میں سے ہو گا.اُن میں سے ایک گروہ کا یہ عقیدہ تھا کہ ایک امتی شخص مسیح کے اخلاق اور آپ کے کمالات کو حاصل کر کے عیسیٰ بن مریم کہلائے گا.جس طرح احمدی کہتے ہیں اور دوسرے گروہ کا یہ خیال تھا کہ ہو گا تو وہ کوئی امتی شخص مگر اُس کا نام بھی عیسی ہو گا مگر اُس کے اندر مسیح کی رُوح داخل کر دی جاوے گی.مسیح کا جسم بہر حال واپس نہیں آئے گا.اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ صاحب کتاب نے یہ لکھا ہے کہ اکثر مسلمانوں کا عقیدہ یہی ہے کہ حضرت عیسی واپس آئیں گے اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ صاحب کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ دونوں عقیدے کہ مسیح دوبارہ نہیں آئیں گے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ صاحب کتاب نے یہ بھی لکھا ہے کہ قطعیت کے ساتھ کسی بات کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا.حقیقت اللہ ہی کو معلوم ہے.گویا اس زمانہ میں جب تک مسیح موعود ظاہر نہیں ہوئے تھے اُن کے نزدیک مسیح کے دوبارہ نازل ہونے کے عقیدہ کو ترجیح تو دی جاسکتی تھی مگر اُسے جزو ایمان قرار نہیں دیا جاسکتا تھا.ورنہ وہ وَاللهُ بِالصَّوَاب نہ لکھتے.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ اللہ ایک ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.کیا کوئی.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ اللہ کے رسول ہیں.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.کیا کوئی ن شخص کہہ سکتا ہے کہ قرآن خدا کی کتا ہے.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.کیا کوئی.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ فرشتے حق ہیں.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.کیا P
انوار العلوم جلد 23 336 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قیامت حق ہے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ.کیا کوئی شخص کہہ سکتا ہے کہ قدرِ خیر و شر حق ہیں.وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَاب - وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِالصَّوَابِ اُنہیں چیزوں کے متعلق کہا جاتا ہے جن میں اختلاف ممکن ہو اور جائز ہو اور جو جزو ایمان نہ ابی حفص عمرو بن الوردی کے اس بیان سے ثابت ہے کہ یہ عقیدہ مسلمانوں میں سینکڑوں سال سے رائج ہے.یہ صاحب آٹھویں صدی ہجری میں ہوئے ہیں.پس کم سے کم ہم کو یہ مانا پڑے گا کہ آٹھ نو سو سال سے مسلمانوں میں یہ عقیدہ موجود ہے کہ عیسی علیہ السلام آسمان سے نازل نہیں ہوں گے بلکہ اسی اُمت میں سے ایک شخص آپ کے کمالات کو لے کر دُنیا میں ظاہر ہو گا اور جو لوگ اِس عقیدے کے قائل نہیں تھے بلکہ مسیح کے آسمان سے اترنے کے قائل تھے وہ بھی مسیح کے آسمان سے اترنے کے عقیدہ کو جز و ایمان نہیں سمجھتے تھے بلکہ اس بات کا احتمال رکھتے تھے کہ شاید وہ اسی اُمت میں سے ظاہر ہو جائے لیکن اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے تمام فرقے مسیح کی آمد ثانی کے منتظر تھے کیونکہ انہوں نے کوئی ایسا فرقہ نہیں لکھا جو مسیح کی آمد کا ہی منکر ہو.سوال نمبر 4 متعلق اعتراض نئی اُمّت و مسئلہ کفر و اسلام چوتھا اعتراض یہ ہے کہ مرزا صاحب نے ایک نئی امت بنائی ہے اور اپنے نہ ماننے والوں کو کافر اور خارج از اسلام کہا ہے.اس لئے مسلمانوں کو اشتعال آتا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کہ مرزا صاحب نے کوئی نئی اُمت بنائی بلکہ بار بار آپ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں سے ہوں اور ہماری جماعت کی طرف سے ہمیشہ ہی اس بات پر زور دیا جاتا رہا ہے کہ امت محمدیہ ایک ہی ہے اور آپ بھی اس کے ایک فرد ہیں.چانچہ آپ کے الہاموں میں سے ایک الہام یہ ہے کہ رَبِّ أَصْلِحْ أَمَةً مُحَمَّدٍ 220 کہ اے میرے ربّ! امت محمدیہ کی اصلاح فرما.اگر آپ نے اپنی کوئی علیحدہ امت بنائی ہوتی تو پھر اُمت محمدیہ کی اصلاح کے لئے دُعا کرنے کی کیا ضرورت تھی؟ پھر تو آپ یہ کہتے کہ ”میری اُمت کی
انوار العلوم جلد 23 اصلاح کر “.337 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پھر آپ اپنی کتاب ” نزول المسیح میں لکھتے ہیں کہ مجھے خدا تعالیٰ نے سب انبیاء کے نام دیئے ہیں اور الفاظ یہ ہیں: اس صورت میں گویا تمام انبیاء گزشتہ اس امت میں دوبارہ پیدا ہو گئے ، 221 اگر آپ اپنی کوئی الگ اُمّت مانتے تو اس فقرہ کے معنی کیا بن سکتے ہیں ؟ پھر اسی کتاب کے صفحہ 34 پر آپ فرماتے ہیں کہ سورۃ نور اور سورۃ فاتحہ پر نظر غائز کر کے یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس اُمت کے گل خلفاء اسی اُمت میں سے ہوں گے اور یہ بات اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس طرح اپنے آپ کو اس اُمت میں شامل کرتے ہیں.پھر اپنے ملہم میں اللہ ہونے کے ثبوت میں آپ فرماتے ہیں کہ اگر خدا کو یہ منظور ہی نہیں کہ بموجب دُعا اهْدِنَا الصِّرَاط الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.انبیاء علیہم السلام کے انعامات میں اِس اُمت کو بھی شریک کرے.تو اُس نے کیوں یہ دعا سکھلائی“.222 اسی طرح فرماتے ہیں:.223" گا آخری خلیفہ مسیح موعود کے نام پر اسی اُمت میں سے آئے اسی طرح فرماتے ہیں:.”خدا نے اِس اُمت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح 224 " سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے“.اسی طرح فرماتے ہیں:.اسلامی تعلیم کا ان دو فقروں میں خلاصہ تمام اُمت کو سکھلایا گیا کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ “ 225
انوار العلوم جلد 23 338 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور آپ خود بھی لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ کہتے تھے اور اپنی جماعت کو بھی یہی پڑھنے کی تعلیم دیتے تھے.اسی طرح آپ فرماتے ہیں کہ : احادیث نبویہ میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ایک شخص پیدا ہو گا جو عیسی اور ابن مریم کہلائے گا “.226 اسی طرح فرماتے ہیں کہ :- جَعَلَ هَذِهِ الْأُمَّةَ كَأَنْبِيَاءِ الْأُمَمِ السَّابِقَةِ اَلَسْنَا بِخَيْرِ الْأُمَمِ فِي الْقُرْآنِ 227 یعنی اللہ تعالیٰ نے اِس اُمت میں پہلی امتوں کے انبیاء کی طرح کے بعض لوگ پیدا کئے ہیں.کیا قرآنِ کریم میں ہم کو خیر الامم نہیں قرار دیا گیا؟ ایسا ہی فرماتے ہیں: ہم ہوئے خیر اہم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے 228 جماعت احمدیہ کے موجودہ امام ہماری جماعت کے موجودہ امام نے بھی کی طرف سے اس عقیدہ کا اظہار متواتر اس عقیدہ کا اظہار کیا ہے.چنا 8 جولائی 1952 ء کے المصلح، میں ایک خط اور اُس کا جواب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع ہوا.اس خط کا مضمون یہ ہے کہ ایک شخص نے امام جماعت احمدیہ کو لکھا کہ خواب میں مجھے مرزا صاحب نظر آئے اور اُنہوں نے کہا کہ ”میری اُمت کا مبلغ بن“.پھر خط لکھنے والے نے لکھا کہ ”بوجہ قلت و کمزوری مال بندہ غیر ملت میں پھنسا ہوا ہے.اس لئے زیارت و فیض سے محروم ہے ہے: 66 اس خط کا جو جواب امام جماعت احمدیہ نے دیا اور جو اسی اخبار میں شائع ہوا ہے وہ یہ ”خواب میں غلطی لگی ہے.مرزا صاحب کی کوئی اُمت نہیں.
انوار العلوم جلد 23 339 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اُمت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ہے اور مرزا صاحب خود بھی اُن کی اُمت میں سے ہیں.اس لئے یہ خواب شیطانی ہے “.229 اس عبارت سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی حضرت مرزا صاحب کی کوئی اُمت نہیں.وہ خو در سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے ہیں اور اگر کسی شخص کو خواب میں بھی معلوم ہو کہ مرزا صاحب کی اُمت ہے تو اُس خواب کو شیطانی سمجھا جائے گا، خدائی نہیں.حضرت مرزا صاحب نے کسی کو دوسرا حصہ اس سوال کا یہ تھا ”کافر “ اور ”خارج از اسلام “ نہیں کہا کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر اور خارج از اسلام کہا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ اوّل تو یہ بات غلط ہے کہ مرزا صاحب نے اپنے مخالفوں کو کافر کہا بلکہ مرزا صاحب کے مخالفین نے مرزا صاحب کو اور اُن کی جماعت کو کافر کہا.چنانچه مولوی عبد الحق صاحب غزنوی نے 1892ء میں فتویٰ دیا کہ : ”مرزا ( کادیانی) کا فر ہے، چھپا مرتد ہے، گمراہ ہے، گمراہ کنندہ ملحد ہے ، دجال ہے ، وسوسہ ڈالنے والا، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا.....لَا شَكٍّ أَنَّ مِرْزَا مُرْتَةٌ كَافِرُ - زِنْدِيْقٌ - ضَالٌ - مُضِلٌ - مُلْحِدٌ - دَجّال ـ وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ“ 230 مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ : "مرزا غلام احمد ساکن قصبہ قادیان اور اس کے جملہ معتقدین گروہ اہل سنت و الجماعت سے اور اسلام سے بالکل خارج ہیں.معتقدین مرزا کے ساتھ کوئی معاملہ شرعاً درست نہیں.مسلمانوں کو ضروری اور لازم ہے کہ مرزائیوں کو نہ اسلامی سلام کریں اور نہ اُن سے رشتہ و قرابت رکھیں اور نہ اُن کا ذبیحہ کھائیں نہ اُن سے محبت اور نہ اُلفت رکھیں اور نہ اُن کو اپنے اسلامی مجمعوں میں شریک ہونے دیں
انوار العلوم جلد 23 340 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور نہ اُن کی مجلسوں میں اہل اسلام شریک ہوں.جس طرح ہندو، نصاریٰ، یہود سے اہل اسلام علیحدہ رہتے ہیں اس سے زیادہ مرزائیوں سے الگ رہیں.جس طرح سے بول و براز ، سانپ اور بچھو سے پر ہیز کیا جاتا ہے اس سے زیادہ مرزائیوں سے پر ہیز کر ناشر عاضر وری اور لازمی ہے“.231 اسی طرح دیکھیں فتویٰ مولوی نذیر حسین دہلوی المعروف شیخ الگل 232 فتوی مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی 233 فتوی مولوی عبد الحق صاحب مؤلف و مفسر حقانی 234 فتویٰ مولوی محمد اسماعیل صاحب 235 فتویٰ مولوی فقیر اللہ صاحب 236 فتوی مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی 237 مرزا صاحب کا موقف ان تمام ایام میں جب کہ علمائے کرام مرزا صاحب پر کافر اور خارج از اسلام ہونے کا فتویٰ لگارہے تھے.بزر مرزا صاحب کی طرف سے بار بار درخواست کی جاتی تھی کہ میں مسلمان ہوں، مجھے کافر نہ کہو.آپ نے علمائے کرام کو مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ ”اے زرگو! ، اے مولویو! اے قوم کے منتخب لوگو! خدا تعالیٰ آپ لوگوں کی آنکھیں کھولے.غیظ اور غضب میں آکر حد سے مت بڑھو.خدائے تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی زبانوں کو تکفیر سے تھام لو.خدائے تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں.آمَنْتُ بِاللَّهِ وَمَلْئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ وَاَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَ اَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ فَاتَّقُوا اللَّهَ وَلَا تَقُوْلُوْا لَسْتَ مُسْلِمًا وَاتَّقُوا الْمَلِكَ الَّذِي إِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ترجمہ : میں اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور مرنے کے بعد کی زندگی پر یقین رکھتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ صرف ایک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.پس اے لوگو! اللہ کا تقویٰ 238
انوار العلوم جلد 23 341 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اختیار کرو اور مجھے یہ مت کہو کہ تو مسلمان نہیں اور اُس خدا سے ڈرو کہ جس کے سامنے ایک دن تم نے پیش ہونا ہے“.اسی طرح فرمایا:- یاد رہے کہ جس قدر ہمارے مخالف علماء لوگوں کو ہم سے نفرت دلا کر ہمیں کافر اور بے ایمان ٹھہراتے اور عام مسلمانوں کو یہ یقین دلانا چاہتے ہیں کہ یہ شخص مع اس کی تمام جماعت کے عقائد اسلام اور اصول دین سے برگشتہ ہے.یہ اُن حاسد مولویوں کے وہ اختراع ہیں کہ جب تک کسی دل میں ایک ذرہ بھی تقویٰ ہو ایسے اختراع نہیں کر سکتا.جن پانچ چیزوں پر اسلام کی بناء ر کھی گئی ہے وہ ہمارا عقیدہ ہے اور جس خدا کی کلام یعنی قرآن کو پنجہ مارنا حکم ہے.ہم اس کو پنجہ مار رہے ہیں اور فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح ہماری زبان پر حسبنا كِتَاب اللہ ہے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرح اختلاف اور تناقض کے وقت جب حدیث اور قرآن میں پیدا ہو قرآن کو ہم ترجیح دیتے ہیں بالخصوص قصوں میں جو بالا تفاق نسخ کے لائق بھی نہیں ہیں اور ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جل شانہ، نے قرآن شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے.....اور ہم آسمان
انوار العلوم جلد 23 342 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے اور جو شخص مخالف اس مذہب کے کوئی اور الزام ہم پر لگاتا ہے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑ کر ہم پر افترا کرتا ہے اور قیامت میں ہمارا اُس پر یہ دعوی ہے کہ کب اُس نے ہمارا سینہ چاک کر کے دیکھا کہ ہم باوجود ہمارے اس قول کے دل سے اُن اقوال کے مخالف ہیں.اَلَا اِنَّ لَعْنَةَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ وَالْمُفْتِرِينَ“.239 اس قسم کی بہت سی تحریریں کسی کو کافر کہنے والا خود کا فر ہو جاتا ہے شائع کی گئیں لیکن علمائے کرام کا دل نہ پھیجا اور وہ اپنے فتوؤں پر مصر رہے.جب تو اتر اور تکرار کے ساتھ ان لوگوں نے اپنے کفر کے فتوے جاری رکھے تو پھر بائی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خیال کیا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کے ماتحت کہ جو شخص کسی کو کافر کہتا ہے وہ خود کا فر ہو جاتا ہے.کفر کا فتویٰ لگانے والوں کو بھی کافر کہا جائے تا اُنہیں معلوم ہو کہ اس لفظ کے استعمال سے دُکھ پہنچتا ہے.حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ :- أَيَّمَا رَجُلٌ مُسْلِمٌ كَفَّرَ رَجُلًا مُسْلِمًا فَإِنْ كَانَ كَافِرًا وَ إِلَّا كَانَ هُوَالْكَافِرُ“ 240 اس انکوائری میں مولانا مودودی صاحب نے یہ بات دیکھتے ہوئے کہ فتویٰ تو ہم پر ہی اُلٹ پڑا ہے اپنے جوابات میں یہ ظاہر کیا ہے کہ حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے بلکہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اُس کو کافر کہنے کی سزا ملتی ہے لیکن جس وقت انہوں نے یہ جواب دیا اُن کے ذہن میں غالباً یہ حدیث نہیں تھی جو ہم نے لکھی ہے.انہوں نے ایک دوسری حدیث کے الفاظ سے جس میں یہ ذکر ہے کہ گفر دونوں میں سے ایک پر الٹ پڑتا ہے فائدہ اُٹھا کر یہ خیال کر لیا کہ اس جواب سے وہ اپنے فعل پر پردہ ڈال دیں گے لیکن جو حدیث ہم نے اوپر بیان کی ہے اس میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ وہ شخص کافر ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ بھی حدیث لے لی
انوار العلوم جلد 23 343 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ جائے جس پر جماعتِ اسلامی نے اپنے دعوی کی بنیاد رکھی ہے تو پھر بھی اُن کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا کیونکہ جب کافر کہنے سے بھی انسان کافر نہیں بنتا بلکہ اسے صرف سزا ملتی ہے تو اس سے غیر احمدی علماء کے لئے راستہ نہیں کھلتا احمدیوں کے لئے راستہ کھل جاتا ہے.غرض احمدیوں نے کافر نہیں کہا.احمدیوں نے کافر کہنے والوں کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق اُن کے فعل کے مناسب حال جواب دیا ہے.اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط ہے تو یہ علماء اب کہہ دیں کہ کیا اُنہوں نے مرزا صاحب کے کافر کہنے سے پہلے آپ کو کافر کہا تھا یا نہیں یا کم سے کم آب کھڑے ہو کر کہہ دیں کہ جن علماء نے یہ فتویٰ دیا تھا انہوں نے جھوٹ بولا ہے مگر وہ کبھی ایسا نہیں کریں گے.لفظ "کافر" کا مفہوم دوسرا جواب ہمارا یہ ہے کہ یہ علماء جب کفر کا فتویٰ دیتے ہیں تو اس سے مراد بالکل اور ہوتی ہے اور احمدیوں نے جب کافر کہا ہے تو اس سے مراد اُن کی وہ نہیں تھی جو کہ ان لوگوں کی ہوتی ہے.احمدیوں کے نزدیک اسلام اور گفر دونوں نسبتی الفاظ ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے اسلام کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے اور کفر کا لفظ بھی مختلف معنوں میں استعمال کیا ہے.اسی طرح حدیث میں بھی ایمان اور کفر کے الفاظ مختلف معنوں میں استعمال ہوئے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اسلام کی ایک یہ تعریف فرماتا ہے کہ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَ لكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَ لَمَّا يَدُ خُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ - 241 اعراب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.تو اُن سے کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے ہاں تم یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں.ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.اس آیت سے ظاہر ہے کہ ایمان کا درجہ اسلام کے اُوپر ہو تا ہے اور خواہ انسان کی روحانیت اعلیٰ ہو، یا نہ ہو وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہو جاتا ہے اور یہی اسلام کی جامع مانع تعریف ہے اور اس درجے کے مسلمان کہلانے والے کے لئے یہ بحث فضول ہوتی ہے کہ اس کا ایمان کس حد تک پختہ ہے اور کس حد تک پختہ نہیں.اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ
344 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ انوار العلوم جلد 23 امَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ اَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةٌ كَذلِكَ كُنْتُم مِّنْ قَبْلُ فَمَن اللهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوا إِنَّ اللهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا - 242 اے مومنو! جب تم سفر کر رہے ہو تو اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو.اور جو شخص تم کو سلام کہے اُس کو یہ نہ کہا کرو کہ تو مومن نہیں.اگر تم ایسا کہو گے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ تم دُنیا کا مال چاہتے ہو.حالانکہ اللہ کے پاس بہت سے اموال ہیں اور تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا اور تم کو ایمان کے درجے عطا کر دئے ہیں.تم تحقیقات کر لیا کرو.اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال سے خوب واقف ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دل تو الگ رہا اگر کوئی شخص اسلام کی تفصیلات سے ناواقف ہو اُس نے اسلام کے صرف ظاہری آداب سیکھے ہوں اور وہ اپنے آپ کو مسلمانوں میں سے ظاہر کرے تب بھی اُس کو یہ کہنا کہ تو مسلمان نہیں، جائز نہیں اور فرماتا ہے کہ جو شخص ایسے شخص کو غیر مسلم کہتا ہے وہ در حقیقت اُس کو لوٹنے کی خاطر وہ راستہ کھولتا ہے.پھر فرماتا ہے کہ جو لوگ نئے نئے مذہب میں داخل ہوتے ہیں اُن کی معلومات ہمیشہ کم ہوا کرتی ہیں.پس جن کی معلومات زیادہ ہوں اُن کو اپنی معلومات پر فخر کر کے تھوڑی معلومات والوں پر طعنہ نہیں کرنا چاہئے.اسلام “ اور ”ایمان“ کے مراتب غرض ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا ایک درجہ ایمان سے چھوٹا ہے اور ایمان کا درجہ اُس سے بڑا ہے لیکن اس کے مقابل پر بعض دوسری آیات بھی ہیں جن سے پتہ لگتا ہے کہ ایک قسم کے اسلام کا درجہ ایمان سے بھی بڑا ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق آتا ہے اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّكَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ العلمين _ 243 جب اللہ تعالیٰ نے ابراہیم سے کہا کہ تو اسلام لے آ.تو اُس نے کہا کہ میں رب العالمین کے لئے اسلام لاتا ہوں.حالانکہ ابراہیم نبی تھے.پس یہ اسلام عام اسلام سے بلکہ عام ایمان سے بھی اونچا ہے.
انوار العلوم جلد 23 345 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی طرح فرماتا ہے يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّونَ الَّذِينَ أَسْلَمُوْا لِلَّذِينَ هَادُوْا - 244 بنی اسرائیل میں بعض نبی ایسے تھے جو شریعت نہیں لاتے تھے ، وہ مسلمان ہوتے تھے اور یہودیوں کو تو رات کے احکام پر چلاتے تھے.اس جگہ پر بھی نبیوں کا نام مسلم رکھا گیا ہے.پس معلوم ہوا کہ قرآن کے نزدیک اسلام کے دو درجے ہیں.ایک ایمان سے کم، ایک ایمان سے زیادہ.جو ایمان سے زیادہ اسلام ہے اُس سے خارج ہو کر بھی انسان ایمان کے درجے پر ہو سکتا ہے اور مسلم کہلانے کا حق رکھتا ہے اور اسلام کے جامع مانع دائرہ سے باہر نہیں لیکن اس کے بر خلاف جو ایمان سے کم اسلام ہے اُس اسلام میں داخل ہو کر بھی انسان ایمان سے محروم ہو سکتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم کی مذکورہ بالا آیت میں صراحتاً ذکر ہے.علمائے اسلام نے بھی یہی تشریح کی ہے.چنانچہ علامہ اصفہانی لکھتے ہیں:- الْإِسْلَامُ فِي الشَّرْعِ عَلَى ضَرْبَيْنِ أَحَدُ هُمَا دُوْنَ الْإِ يْمَانِ وَ هُوَ الْإِعْتِرَافُ بِاللَّسَانِ وَ بِهِ يُحْقَنُ الدَّمُ حَصَلَ مَعَهُ الاعْتِقَادُ أَوَلَمْ يَحْصُلُ وَإِيَّاهُ قُصِدَ بِقولِهِ قَالَتِ الأَعْرَابُ أَمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا.وَالثَّانِي فَوْقَ الْإِيْمَانِ وَهُوَ أَنْ يكُونَ مَعَ الْاِعْتِرَافِ اِعْتِقَادُ بِالْقَلْبِ وَ وَفَاء بِالْفِعْلِ وَ اسْتِسْلَامُ لِلَّهِ فِي جَمِيعِ مَا قَضَى وَ قَدَّرَ كَمَا ذُكِرَ عَنْ إِبْرَاهِيْمَ عَلَيْهِ السَّلَامُ فِي قَوْلِهِ اِذْ قَالَ لَهُ رَبُّكَ أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ وَ قَوْلُهُ تَعَالَى إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ للهِ الْإِسْلَامُ وَ قَوْلُهُ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا أَى إِجْعَلْنِي مِمَّنِ اسْتَسْلَمَ لِرِضَاكَ 245 یعنی اسلام دین محمدی کی رُو سے دو طرح کا ہوتا ہے.ایک اسلام ایمان سے نیچے ہوتا ہے اور وہ زبان سے اعتراف کرنا اور کلمہ پڑھنا.اور جان کی حفاظت اتنے سے ہی ہوتی ہے.اس کے ساتھ اعتقاد کی صحت کا کوئی سوال نہیں ہوتا.قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے کہ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَا قُلْ لَمْ تُؤْمِنَوْا وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا اس سے اسی طرح
انوار العلوم جلد 23 346 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کے اسلام کی طرف اشارہ ہے.اور دوسرا اسلام وہ ہوتا ہے جو ایمان سے اوپر ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ زبان سے کلمہ پڑھنے کے علاوہ دل میں بھی اس کا اعتقاد ہو اور عملاً بھی ایسا شخص وفاداری کا اظہار کرے اور خدا تعالیٰ کی تمام قضاؤں کے سامنے اپنے آپ کو جھکا دے.اسی قسم کے اسلام کی طرف حضرت ابراہیم کے اُس ذکر میں اشارہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اُن سے کہا کہ تو اسلام لا تو انہوں نے کہا میں رَبُّ الْعَلَمِینَ خدا کے لئے ایمان لاتا ہوں اور اسی طرف اشارہ ہے اس آیت میں کہ دین اللہ تعالیٰ کے نزدیک صرف اسلام ہے اور اسی طرف اشارہ ہے اس دُعا میں جو حضرت یوسف علیہ السلام نے کی تھی کہ الہی ! مجھے مسلمان ہونے کی حالت میں وفات دے.اسلامی لٹریچر سے اس کی تصدیق نفت کی اس تشریح کے علاوہ اسلامی دینی لٹریچر سے بھی اس اصطلاح کی تصدیق ہوتی ہے مثلاً حدیث میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ صَلَّى صَلوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَأَكَلَ ذَبِيحَتَنَا فَذَلِكَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةُ الله وَ ذِمَّةُ رَسُولِهِ فَلَا تَخْفَرُوا اللهَ فِي ذِمَّتِه.246 جو شخص ہماری طرح کی نماز پڑھتا ہے.ہمارے قبلے کی طرف منہ کرتا ہے اور ہمارے ذبیحہ کو کھاتا ہے وہ مسلمان ہے اور اللہ اور اس کے رسول کی حفاظت اس کو حاصل ہے.پس اے مسلمانو ! اُس کو کسی قسم کی تکلیف دے کر خدا تعالیٰ کو اُس کے عہد میں جھوٹ نہ بناؤ.اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ھیں ثَلَاثُ مِنْ أَصْلِ الْإِيْمَانِ أَلْكَفُّ عَمَّنْ قَالَ لا اله إِلَّا الله لا تكَفَّرُهُ بِذَنْبٍ وَلَا تُخْرِجْهُ مِنَ الْإِسْلَامِ بِعَمَل.247 ایمان کی تین جڑیں ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص لَا اِلهَ إلا اللہ کہہ دے تو اُس کے ساتھ کسی قسم کی لڑائی نہ کر ، اُس کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ بنا اور اسلام سے خارج مت قرار دے.اسی طرح رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں الْإِسْلَامُ عَشَرَةُ أَسْهُم وَقَدْ خَابَ مَنْ لَا سَهْمَ لَهُ شَهَادَةُ أَنْ لا إِله إِلَّا اللهُ وَهِيَ الْمِلَّةُ 248 اسلام کے دس حصّے ہیں
انوار العلوم جلد 23 347 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ جس شخص کے حصے میں ایک حصہ بھی نہ آیا ہو وہ تباہ ہو گیا.پہلا حصہ یہ ہے کہ وہ لا اِلهَ اِلَّا الله کی گواہی دے.یعنی جو شخص لا اِلهَ اِلَّا اللہ کہہ دیتا ہے وہ ملتِ اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے.اسی طرح بخاری کتاب الایمان میں آتا ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے دریافت فرمایا کہ أَتَعْلَمُونَ مَا الْإِيْمَانُ بِاللَّهِ وَحْدَهُ - کیا تمہیں معلوم ہے کہ ایمان کی کیا تعریف ہے ؟ اُنہوں نے کہا کہ اللہ اور اُس کا رسول بہتر جانتے ہیں.آپ نے فرمایا شَهَادَةُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَ آنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللَّهِ - ایمان یہ ہے کہ انسان اپنے مُنہ سے لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ کہہ دے.اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ مَنِ انْتَقَصَ مِنْهُنَّ شَيْئًا فَهُوَ سَهُمْ مِنْ سَهَامِ الْإِسْلَامِ تُرِكَ وَمَنْ تَرَكَهُنَّ كُلُّهُنَّ فَقَدْ تَرَكَ الْإِسْلَامَ 249 کہ اسلام کے کئی حصے ہیں جس نے ان حصوں میں سے کوئی حصہ کھو دیا اُس نے اسلام کے حصوں میں سے ایک حصہ کھو دیا اور جس نے سارے حصے کھو دیئے اُس نے سارا اسلام کھو دیا.ان حدیثوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ ایک اسلام محض لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہنے سے حاصل ہو جاتا ہے اور ملت اسلامیہ اسی کا نام ہے جو شخص لا إِلهَ إِلَّا الله کہہ دے وہ ملت اسلامیہ میں شامل ہو جاتا ہے.جو شخص اسے ملت اسلامیہ سے خارج قرار دے وہ خدا اور رسول پر ظلم کرتا ہے اور انہیں جھوٹا قرار دیتا ہے.ان معنوں میں ہم نے کبھی کسی مسلمان کو کافر نہیں کہا بلکہ سارے کے سارے مسلمان فرقوں کو ہم ملتِ اسلامی کا جزو قرار دیتے رہے ہیں.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ ”إِنْكَارُ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ هُوَ بِهِ كُفْرٌ وَلَيْسَ كَمَنْ كَفَرَ بِاللهِ وَمَلئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ - 250 الله تعالى کی کسی وحی یا الہام کا انکار کفر تو ہے لیکن وہ ایسا کفر نہیں جیسے اللہ ، ملا ئکہ ، کتب اور رسل کا کفر ہوتا ہے.اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں اَلْكُفْرَ كُفْرَانِ أَحَدُ هُمَا يَنْقُلُ عَنا وَالْآخَرَ لَا يَنْقُل عَنِ الْمِلَّةِ 251 یعنی کفر دو قسم کا ہوتا ہے.ایک کفر ملت سے نکال دیتا ہے الملة
انوار العلوم جلد 23 348 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور دوسرا کفر ملت اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا.اسی طرح امام ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ وَحَقِيقَةُ الْأَمْرِ انْ مِنْ لَمْ يَكُنْ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ حَقًّا يُقَالُ فِيهِ أَنَّهُ مُسْلِمٌ وَ مَعَهُ اِيْمَانُ يَمْنَعُهُ الْخُلُودُ فِي النَّارِ.وَهَذَا مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ بَيْنَ اَهْلِ السُّنَّةِ یعنی ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پورا مومن نہ ہو مگر پھر بھی ہم یہی کہیں گے کہ وہ مسلم ہے اور تمام اہل سنت اس پر متفق ہیں.لیکن هَلْ يُطْلَقُ عَلَيْهِ اِسْمُ الْإِيْمَانِ هَذَا هُوَالَّذِي تَنَازَعُوْا فِيْهِ فَقِيْلَ يُقَالُ مُسْلِمٌ وَلَا يُقَالُ مُؤْمِنٌ - 252 لیکن یہ سوال کہ کیا اس پر لفظ ایمان بھی بولا جائے گا یا نہیں اور اسے ہم مومن بھی کہیں گے یا نہیں ؟ یہ بات ایسی ہے جس میں علماء میں اختلاف ہوتے رہے.چنانچہ بعض نے کہا ہے کہ اسے مسلم تو کہیں گے مگر مومن نہیں کہیں گے.” ملت اسلامیہ “ میں شامل ہونے ان تمام حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ ملت اسلامیہ میں شامل ہونے کے لئے صرف کلمہ ضروری ہے کے لئے صرف گلے کا پڑھنا کافی ہے.باقی کوئی امر ایسا نہیں ہے کہ جو ملتِ اسلامی میں شمولیت کے لئے ضروری ہو.اگر باقی ضروری امور کا کوئی انکار کرتا ہے تو ہم اُسے غیر مؤمن کہہ لیں گے ، ناقص الایمان کہہ لیں گے لیکن یہ نہیں کہیں گے کہ ان اُمور کی وجہ سے وہ ملت اسلامیہ سے خارج ہو گیا ہے.ہاں چونکہ ایک اسلام ایمان سے بھی اوپر ہے اس کے لحاظ سے ایک شخص کو جس میں کوئی بڑا دینی نقص پایا جائے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ شخص اسلام سے خارج ہو گیا ہے مگر اس سے مراد ملت اسلامیہ سے خارج ہونا نہیں ہو گا.اِس سے صرف یہ مراد ہو گا کہ وہ ایمان کے بڑے درجوں سے محروم ہے.خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ لِيُقَوِّيَهُ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ ظَالِمٌ فَقَدْ خَرَجَ مِنَ الْإِسْلَامِ “.253 جو شخص ظالم کی جانتے بوجھتے ہوئے مدد کی کوشش کرے اور اُسے علم ہو کہ وہ ظالم ہے تو وہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.اس حدیث میں ایسے شخص کو جو کسی ظالم کی مدد کرتا ہے خارج عَنِ الْإِسْلَام
انوار العلوم جلد 23 349 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ قرار دیا گیا ہے.حالانکہ متعد د مواقع پر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں کہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہنے سے انسان ملت اسلامی میں داخل ہو جاتا ہے اور کوئی اور گناہ اُسے ملتِ اسلامیہ سے خارج نہیں کرتا.ان حدیثوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہی ماننا پڑتا ہے کہ جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کلمہ گو کو خارج از اسلام قرار دیا تو اس کے معنے یہ ہیں کہ ایمان کے بعض مدارج سے یہ شخص محروم ہے اور جب کسی شخص کو ملت اسلامیہ میں داخل قرار دیا ہے تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ اُس کے اندر ایمان کے تمام مدارج کامل طور پر پائے جاتے ہیں بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ وہ اسلامک باڈی پولٹکس (ISLAMIC BODY POLITICS) کا ممبر ہو گیا ہے اور اگر ہم نے کسی شخص کو مؤمن یا کافر کہا ہے تو انہی معنوں کی رُو سے کہا ہے.حضرت امام ابو حنیفہ کا عقیدہ حضرت ابو حنیفہ بھی اسی عقیدہ پر قائم تھے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے.چنانچہ کتاب معین الحکام مصنفہ ابوالحسن طرابلسی میں جو جماعت اسلامی کی طرف سے پیش کی گئی ہے اور جس کے حاشیہ والی کتاب سے انہوں نے سندلی ہے اس کے صفحہ 202 پر امام طحاوی، حضرت امام ابو حنیفہ اور ان کے ساتھیوں سے روایت کرتے ہیں کہ لَا يَخْرُجُ الرَّجُلُ مِنَ الْإِيْمَانِ إِلَّا جُعُود مَا أَدْخَلَهُ فِيهِ - 254 یعنی حضرت امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا یہ مذہب تھا کہ ایمان سے کوئی چیز کسی کو خارج نہیں کرتی سوائے اُس چیز کے دیدہ دانستہ انکار کے جس نے اُس کو اسلام میں داخل کیا تھا.یعنی کلمہ شہادت، مطلب یہ ہے کہ جب تک کلمہ شہادت کا کوئی شخص دیدہ دانستہ انکار نہ کرے اُس وقت تک کوئی چیز اس کو اسلام سے خارج نہیں کرتی.پھر امام طحاوی کا جو حنفیوں میں مجتہد المذہب کی حیثیت رکھتے ہیں یہ مذہب بیان کیا گیا ہے کہ ایسی صورت میں نہ تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس قسم کا مرتد ہو گیا ہے کہ اس پر مرتدین کے احکام جاری کر دیئے جائیں اور نہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس پر ایسے احکام جاری نہیں ہو سکتے کیونکہ کلمہ پڑھنے سے اس کا اسلام ثابت ہو چکا تھا.اب کسی شک کی وجہ سے اس کو اسلام سے نہیں نکالا جاسکتا کیونکہ اسلام ہمیشہ غالب
انوار العلوم جلد 23 350 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ رہتا ہے اور وہ عالم جس کے پاس ایسے شخص کا معاملہ پیش کیا جائے اس کو چاہئے کہ کسی مسلمان پر جو کہ ایک دفعہ کلمہ پڑھ چکا ہے کفر کا فتویٰ لگانے میں جلدی نہ کرے لیکن کفار میں سے اگر کوئی شخص کلمہ پڑھے تو اس کے اسلام کا فتویٰ دے.ہمیں تعجب ہے کہ اُنہوں نے اس کتاب کے حاشیہ پر چھپی ہوئی ایک کتاب سے حوالہ درج کر کے اس سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ کا یہ مذہب تھا کہ جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے اس سے جو شخص معجزہ مانگے وہ کافر ہو جاتا ہے.ہمیں افسوس ہے کہ اس حوالہ کے پیش کرنے میں اُنہوں نے دیانت سے کام نہیں لیا کیونکہ یہ مذہب مصنف کتاب کا بیان کیا گیا ہے، امام ابو حنیفہ کا بیان نہیں کیا گیا اور پھر مصنف کتاب کے نزدیک بھی یہ بیان کیا گیا ہے کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے.اگر کوئی شخص اس غرض کے لئے سوال کرے کہ اگر وہ معجزہ نہ دکھا سکے گا تو اس کا جھوٹ ظاہر ہو جائے گا تو پھر وہ کافر نہیں ہوتا.255 جس سے یہ احتمال نظر آتا ہے کہ اگر وہ معجزہ دکھا دے گا تو اس کی نبوت ثابت ہو جائے گی اس لئے اس کے کفر کا سوال ہی نہیں رہے گا.اسی مصنف کتاب کا مذہب صفحہ 205 پر بیان کیا گیا ہے کہ إِذَا كَانَ فِی الْمَسْئَلَةِ وَجُوْهٌ تُوْجِبُ التَّكْفِيرَ وَوَجْهُ وَاحِدٌ يَمْنَعُ فَعَلَى الْمُفْتِى أَنْ يَّمِيْلَ إِلَى ذلِكَ الْوَجْمِ یعنی اگر کسی شخص کے کافر بنانے میں بہت سی وجوہ پائی جاتی ہوں لیکن ایک وجہ تکفیر سے روکتی ہو تو مفتی کا فرض ہے کہ وہ اس ایک وجہ کی طرف مائل ہو جو اُس کو کافر بنانے سے روکتی ہے اور اُن وجوہ کی طرف توجہ نہ کرے جو اُسے کا فربنانے کی تائید کرتی ہیں.ہم نے جو یہ لکھا ہے کہ حضرت امام ابو حنیفہ" کا یہ مذہب ہے کہ جو چیز کسی کو اسلام میں داخل کرتی ہے وہی اُس کو اسلام میں قائم رکھتی ہے بلکہ اگر کوئی شخص شک کی وجہ سے انکار بھی کر دے تب بھی وہ اس کے ہوتے ہوئے اسلام سے نہیں نکلتا.اس کی تشریح کسان الحکام میں جس سے جماعت اسلامی نے حوالہ لیا ہے یہ کی گئی ہے کہ :- قدوری کتاب کی شرح میں یہ لکھا ہے کہ اگر
انوار العلوم جلد 23 351 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ دہر یہ ہو یا بت پرست ہو یا خدا کو مانتا ہو لیکن ساتھ اس کے اور بھی خدا مانتا ہو تو ایسا شخص اگر صرف لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہہ دے تو وہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے یا کہہ دے کہ میں محمد صاحب کو اللہ کا رسول مانتا ہوں تو وہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے کیونکہ اسلام کے منکر ان کلموں کے کہنے سے احتراز کرتے ہیں.پس جب ان دونوں حکموں میں سے کسی ایک کلمہ کا بھی وہ اظہار کر دے تو پھر اُس کو غیر مسلم نام سے نکالا جائے گا اور اُسے مسلمان قرار دے دیا جائے گا“.256 وو غیر احمدی علماء کے نزدیک لفظ ” کافر “ کا مفہوم غیر احمدی علماء تو جب ہم کو کافر کہتے ہیں تو اس کے یہ معنے بھی کرتے رہے ہیں کہ ہم جہنمی ہیں لیکن ہم تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں جہنم اُن لوگوں کو ملے گی جو کہ دیدہ دانستہ شرارت سے سچائیوں کا انکار کرتے ہیں.کلمہ کائمنہ سے پڑھناتو انسان کو صداقت سے بہت کچھ قریب کر دیتا ہے.جو شخص انبیاء وكتب کا بھی منکر ہے اُس کا انکار بھی اگر دیانتداری کے ساتھ ہے اور اُس پر خدا کی حجت تمام نہیں ہوئی تو ہمارے نزدیک تو وہ شحص رحم کا مستحق ہے اور جو اسلامی آئیڈیالوجی ہم شروع میں بیان کر آئے ہیں اس کے مطابق یہی نتیجہ نکلتا ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف فرماتا ہے کہ رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ 257 میری رحمت ہر چیز کو ڈھانپے ہوئے ہے اور فرماتا ہے وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ 258 میں نے سارے انسانوں کو اپنا مثیل ہونے کے لئے بنایا ہے اور اپنا عبد ہونے کے لئے بنایا ہے اور اللہ تعالیٰ دوسری جگہ فرماتا ہے فَادْخُلِي فِي عِبْدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي - 259 جو میرے عبد ہوں وہ میری جنت میں داخل ہو جاتے ہیں.مسلمان اس دُنیا میں باقی مذاہب کے مقابلہ میں تیسرا یا چوتھا حصہ ہیں.پھر ان میں سے ہزار میں سے ایک یا اس سے بھی کم بقولِ مودودی صاحب ے قطعی طور پر ناواقف ہیں اور رسومات گفر میں مبتلا ہیں.60 تو گویا دُنیا کی کل آبادی میں سے چالیس ہزار آدمی اسلام سے واقف ہے.پھر اسلام سے
انوار العلوم جلد 23 352 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ان میں سے بھی معلوم نہیں سچے مسلمان کتنے ہیں اور دکھاوے کے کتنے.اس کے معنے یہ ہیں کہ دُنیا میں اسلام پر عمل کرنے والے لوگ ہزار میں سے کوئی ایک ہے.اگر ان سب لوگوں کو ہمیشہ کے لئے دوزخ میں جانا ہے تو رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ کے کیا معنے ہیں اور مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُونِ کے کیا معنے ہیں.پھر تو خدا ہارا اور شیطان جیتا اور مقصد پیدائش عالم باطل ہو گیا.اسلام کی رُو سے تو در حقیقت دنیا کے مختلف تغیرات اور زمانہ برزخ اور یوم حشر اور زمانہ دوزخ یہ سب کے سب انسان کو صفائی اور پاکیزگی اور نجات کی طرف لے جارہے ہیں اور تمام کے تمام انسان ہی خدائی رحمت کے نیچے آجائیں گے اور خدا کی بات پوری ہو جائے گی کہ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا ليَعْبُدُونِ اور رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ يَا تِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ وَ نَسِيْمُ الصَّبَاتُحَرِّكُ ابْوَا بھا.261 یعنی جہنم پر ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ ہوائیں اس کے دروازے ہلا رہی ہوں گی اور اس جیل خانے کے دروازے کھول دیئے جائیں گے کیونکہ اس کے اندر کوئی قیدی باقی نہیں رہے گا.ہم نے کبھی کفر کا لفظ اُن معنوں میں استعمال نہیں کیا جن معنوں میں مولوی استعمال کرتے ہیں.ہم تو خدا کو رحیم و کریم سمجھتے ہیں.اس کی بخششوں کو روکنے والا کون انسان ہے.بانی سلسلہ احمدیہ کے چند اور حوالے ہم نے اوپر جو کچھ لکھا ہے اس کی تائید میں بانی سلسلہ احمدیہ کے چند حوالے پیش کرتے ہیں.آپ فرماتے ہیں:.کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا.اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتوائے کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ
انوار العلوم جلد 23 353 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہر اویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر ٹھہر آیا ہے “.262 آیا ہے“.اسی طرح آپ فرماتے ہیں:.یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا آخر کافر ہو جاتا ہے.پھر جبکہ قریباً دو سو مولوی نے مجھے کافر ٹھہرایا اور میرے پر کُفر کا فتویٰ لکھا گیا اور انہی کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مؤمن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے اور کافر کو مؤمن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے.تو اب اس بات کا سہل علاج ہے کہ اگر دوسرے لوگوں میں تخم دیانت اور ایمان ہے اور وہ منافق نہیں ہیں تو اُن کو چاہئے کہ ان مولویوں کے بارے میں ایک لمبا اشتہار ہر ایک مولوی کے نام کی تصریح سے شائع کر دیں کہ یہ سب کافر ہیں کیونکہ انہوں نے ایک مسلمان کو کافر بنایا.تب میں ان کو مسلمان سمجھ لوں گا “.263 یہ حوالہ بالکل اس حدیث کے مطابق ہے جو کہ اوپر نقل کی جاچکی ہے.پھر آپ فرماتے ہیں:- گفر دو قسم پر ہے.(اول) ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا رسول نہیں مانتا.(دوم) دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اُس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے.264 " اسلام کی تعریف اسی طرح اسلام کی تعریف بانی سلسلہ احمدیہ نے ان الفاظ میں فرمائی ہے کہ :- عقیدہ کے رُو سے جو خدا تم سے چاہتا ہے وہ یہی ہے کہ خدا ایک اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس کا نبی ہے“.265 "
انوار العلوم جلد 23 354 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسی طرح جزا و سزا کے متعلق آپ فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر عبدالحکیم میرے متعلق لکھتا ہے کہ گویا میں نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ وہ شخص جو میرے نام سے بھی بے خبر ہو گا اور گو وہ ایسے ملک میں ہو گا جہاں تک میری دعوت نہیں پہنچی وہ کافر ہو جائے گا اور دوزخ میں پڑے گا.آپ فرماتے ہیں یہ سراسر افتراء ہے.میں نے اپنی کسی کتاب میں ایسا نہیں لکھا اور پھر فرماتے ہیں کہ :- یہ تو ایسا امر ہے کہ ببداہت کوئی عقل اس کو قبول نہیں کر سکتی.جو شخص بکلی نام سے بھی بے خبر ہے اس پر مواخذہ کیوں کر ہو سکتا ہے.ہاں میں یہ کہتا ہوں کہ چونکہ میں مسیح موعود ہوں اور خدا نے عام طور پر میرے لئے آسمان سے نشان ظاہر کئے ہیں.پس جس شخص پر میرے مسیح موعود ہونے کے بارہ میں خدا کے نزدیک اتمام حجت ہو چکا ہے اور میرے دعوے پر وہ اطلاع پا چکا ہے وہ قابل مواخذہ ہو 266" گا.اسی طرح آپ لکھتے ہیں کہ :- ماسوا اس کے اگر فرض کے طور پر کوئی ایسا شخص دُنیا میں ہو کہ وہ باوجود پوری نیک نیتی اور ایسی پوری پوری کوشش کے کہ جیسا کہ وہ دُنیا کے حصول کے لئے کرتا ہے اسلام کی سچائی تک پہنچ نہیں سکا تو اُس کا حساب خدا کے پاس ہے “.267 موجودہ امام جماعت احمدیہ موجودہ امام جماعت احمدیہ نے بھی اس کے متعلق وضاحت کی ہے.آپ تحریر فرماتے کی طرف سے وضاحت ہیں:- باقی ہم میں اور اُن میں تو کفر کی تعریف میں اختلاف بھی بہت سا پایا جاتا ہے.یہ لوگ گفر کے معنے یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کا انکار حالا نکہ ہم یہ معنے نہیں کرتے اور نہ گفر کی یہ تعریف کرتے ہیں.ہم تو
-------------------------------------------____-_-_- انوار العلوم جلد 23 وہ 355 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے ایک حد تک پائے جانے کے بعد انسان مسلمان کے نام سے پکارے جانے کا مستحق سمجھا جاسکتا ہے لیکن جب وہ اس مقام سے بھی نیچے گر جاتا ہے تو گو وہ مسلمان کہلا سکتا ہے مگر کامل مسلم اُسے نہیں سمجھا جاسکتا.یہ تعریف ہے جو ہم گفر و اسلام کی کرتے ہیں اور پھر اس تعریف کی بناء پر ہم کبھی نہیں کہتے کہ ہر کافر دائمی جہنمی 268 " ہوتا ہے.آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:.اُن کے کفر اور ہمارے گفر میں بہت بڑا فرق ہے.اُن کا گفر تو ایسا ہے جیسے سُرمے والا سُرمہ پیتا ہے.وہ بھی جب کسی کو کافر کہتے ہیں تو اُس کا مطلب یہ ہوا کرتا ہے اُسے پیس کر رکھ دیں.کہتے ہیں کہ ہ جہنمی ہے اور ابدی دوزخ میں پڑے گا.....پس ہماری گفر کی اصطلاح ہی اور ہے اور اُن کے کفر کی اصطلاح اور.ہمارا کفر تو اُن کے کفر کے مقابلہ میں ایسا ہی ہے جیسے سورج کے مقابل پر ذرہ ہو.پس اس پر انہیں غصہ کیوں آتا ہے.آجکل بڑے زور سے کہا جاتا ہے کہ احمدی ہمیں کافر کہتے ہیں.اگر وہ بچے ہیں تو ثابت کریں کہ پہلے ہم نے انہیں کافر کہا ہو.اگر وہ ذرا بھی غور کریں گے تو انہیں معلوم ہو گا کہ پہلے اُنہوں نے ہی ہمیں کافر کہا ہم نے کافر نہیں کہا.گو اس رنگ میں بھی اُن کے کفر اور ہمارے کُفر میں بہت بڑا فرق ہے لیکن بہر حال اُن کا اخلاقی فرض ہے کہ وہ دیکھیں.پہلے اُنہوں نے ہمیں کافر کہا اور ہم پر گفر کے فتوے لگائے یا ہم نے اُن کو کافر کہا؟ “.69 262 اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک بھی گفر دو قسم کا ہے.ایک کفر کے باوجود انسان مسلمان کہلاتا ہے اور وہ ملتِ اسلامیہ میں شامل ہوتا ہے اور دوسرے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہم نے جو کچھ کہا جواب
انوار العلوم جلد 23 356 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ میں کہا ہے.اصل ذمہ دار علماء ہیں جنہوں نے ہم کو پہلے کافر کہا.لفظ کفر کی حقیقت احمد یہ جماعت کے نزدیک محض حجت اور عدم حجت کے متعلق ہے.گفر کے عواقب خدا تعالیٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے جو غیر احمدی علماء بتاتے ہیں اُن سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ خدا دو ہیں.ایک مؤمنوں کا خدا اور ایک کافروں کا خدا.حالانکہ خدا تو ایک ہی ہے.ایک باپ کے دو بیٹوں میں سے ایک فرمانبردار ہوتا ہے اور ایک نافرمان لیکن ہو تا بیٹا ہی ہے.نافرمان ہو جانے سے باپ کے دل سے اُس کی محبت نہیں جاسکتی اور وہ اُس کی بہتری کے لئے کوشش کرنے سے باز نہیں رہتا.اگر خدا مسلمانوں اور کافروں کا ایک ہی ہے تو یہی کیفیت اُس کی بھی ہونی چاہئے.کافر کے معنے محض اتنے ہیں کہ وہ اُس کا بیمار بندہ ہے جس کے دل میں کچھ خرابی پیدا ہو گئی ہے.مگر اس کا ہونے اور اُس کا ”بندہ “ ہونے میں تو کوئی فرق نہیں آتا.نپس کسی مذہب میں کسی شخص کو کافر کہنے کے بعد جو اُس کے لئے سزا اور جزا تجویز کی گئی ہے اُس کو مد نظر رکھے بغیر ہم اُس قوم کے کفر کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے اور اس بات کا پتہ کہ اسلام کے کون سے فرقے پیدائش عالم کی غرض کو مد نظر رکھتے ہیں اسی سے مل سکتا ہے کہ کُفر کی جو تشریح وہ کرتے ہیں آیا وہ اسلامک آئیڈیالوجی کے مطابق ہے یا اُس کے مخالف ہے.پس اس بات کو واضح کرنے کے لئے ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ حضرت امام جماعت احمدیہ نے گفر کی سزا کے متعلق یوں لکھا ہے :- اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان نجات ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خواہ کوئی کیسا ہی کا فر ہو مختلف قسم کے علاجوں کے بعد جن میں سے ایک علاج جہنم بھی ہے آخر جنت کو پالے گا.قرآن نجات کے بارہ میں وزنِ اعمال پر زور دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ نیک اعمال کا بڑھ جانا انسان کی نجات کے لئے اُس کی سچی کوشش پر دلالت کرتا ہے اور جو شخص سچی کوشش کرتا ہوا مر جاتا ہے وہ اس سپاہی کی طرح ہے جو فتح سے پہلے مارا جاتا ہے.....اگر ایک شخص نیکی کے لئے جد و جہد کرتے ہوئے مر جاتا ہے تو یقیناً وہ خدا تعالیٰ کے فضل کا
انوار العلوم جلد 23 357 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تحق ہے سزا کا مستوجب نہیں.کوئی قوم اپنے سپاہیوں کو اس بات پر ملامت نہیں کیا کرتی کہ وہ فتح پانے سے پہلے کیوں مارے گئے “ 270 پھر وہ لکھتے ہیں:.بات یہ ہے کہ اصل چیز محبت الہی ہے اور یہ رستہ شریعت نے اُسی کے لئے تجویز کیا ہے جس کا دل اللہ تعالیٰ کے عشق اور اُس کی محبت سے لبریز ہو گا......یہ انعام اُسی کے لئے مقدر ہے جس کا دل اللہ تعالیٰ کی محبت سے سرشار ہو گا اور جو اپنی تمام کو تاہیوں کے باوجود محبت الہی کی آگ اپنے اندر رکھتا ہو گا اور یقیناً جس دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہو گی اُسے کبھی دوزخ میں نہیں ڈالا جائے گا.اللہ تعالیٰ کسی نہ کسی طرح اُس کی نجات کا سامان پیدا کر دے گا اور حساب بنا بنا کر اور مختلف ذرائع اور طریق اختیار کر کے اُسے جنت میں لے جانے کی کوشش کرے گا“.271 اسی طرح امام جماعت احمد یہ لکھتے ہیں کہ :- ”جنت صرف منہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں.جنت بہت سی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے.اسی طرح دوزخ صرف مُنہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں.کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اُس پر مجبت تمام نہ ہو.خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت کا ہی منکر کیوں نہ ہو.خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مر جانے والے یا بلند پہاڑوں میں رہنے والے یا جنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڑھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یا پاگل جو عقل سے کورے ہوں ان لوگوں سے مؤاخذہ نہیں ہو گا بلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا“.272
358 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس حوالہ میں حضرت ابو ہریرہ کی اُس حدیث کی طرف اشارہ ہے جو روح المعانی انوار العلوم جلد 23 میں مروی ہے.273 پھر لکھا ہے:.نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اُس کے کان میں نہ پڑے تا کہ اُسے ماننی نہ پڑے.یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے “.274 ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ کے نزدیک مسلمان ایسے کافر نہیں جو ملتِ اسلامیہ سے خارج ہوں اور اُن کے نزدیک نجات کا تعلق محبت الہی پر ہے.اگر کوئی شخص اپنے اندر محبت الہی رکھتا ہے تو اگر اُس کے اندر کچھ غلطیاں بھی ہیں اور بعض قسم کا کفر بھی پایا جاتا ہے تب بھی اللہ تعالیٰ اُس کی نیک نیتی کو دیکھ کر اور اس کی محبت کے جذبات کو دیکھ کر اس کی بخشش کے کوئی نہ کوئی سامان کر دے گا.جماعت احمدیہ کی طرف سے اس جگہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب کہ احمدی لفظ کا فر کا کم سے کم استعمال جماعت کفر کے معنے بھی اور کرتی تھی اور ان الفاظ کو صرف جو اباً استعمال کرتی تھی تو پھر کیوں اُن کی طرف سے کوشش نہیں ہوئی کہ ان الفاظ کا استعمال کم کیا جائے یا روکا جائے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہماری طرف سے ایسی کوشش ہوتی رہی ہے.چنانچہ بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی کتاب ”انجام آتھم “ میں اس تحریک کو پیش کیا تھا کہ :- ”نہ ہمیں غیر احمدی علماء گالیاں دیں نہ ہم اُن کا جواب دیں اور اس طرح سات سال تک خاموشی سے گزار دیں.اس عرصہ میں خدا کے فیصلہ کا انتظار کیا جائے اور ان دنوں میں مجھے اسلام کے
انوار العلوم جلد 23 359 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ دشمنوں سے مقابلہ کرنے کی مہلت دی جائے.اگر میں ان ایام میں اسلام کی کوئی عظیم الشان خدمت کر لوں تو خود مسلمانوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ میں اسلام کا خادم ہوں، دُشمن نہیں اور اگر میں ایسانہ کر سکوں تو پھر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ میں اسلام کا خیر خواہ نہیں “ 275 اسی طرح 26 فروری 1899ء کو آپ نے ایک اعلان اپنی جماعت کے نام شائع کیا اور اُس میں لکھا کہ :- کسی کے دل کو ان الفاظ سے دُکھ نہ دیں کہ یہ کافر ہے یا دجال ہے یا کذاب ہے یا مفتری ہے......ہم نے ضمیمہ انجام آ کے صفحہ ۲۷ میں شیخ محمد حسین اور اُس کے گروہ سے یہ بھی درخواست کی تھی کہ وہ سات سال تک اس طور سے ہم سے صلح کر لیں کہ تکفیر اور تکذیب اور بد زبانی سے منہ بند رکھیں اور انتظار کریں کہ ہمارا انجام کیا ہوتا ہے لیکن اُس وقت کسی نے ہماری یہ درخواست قبول نہ کی اور نہ چاہا کہ کافر اور دجال کہنے سے باز آجائیں.یہاں تک کہ عدالت کو اب امن قائم رکھنے کے لئے وہی طریق استعمال کرنا پڑا جس کو ہم صلحکاری کے طور سے چاہتے تھے “ 276 یہ دوسری کوشش تھی.مگر اس کے باوجود غیر احمدی علماء اپنی گفر بازی سے باز نہ آئے.اس کے بعد 1910ء میں جماعت احمدیہ میں باہم اختلاف پیدا ہو گیا اور کچھ احمدیوں نے غیر احمدیوں کی مدد حاصل کرنے کے لئے مرزا صاحب کو ایسے رنگ میں پیش کرنا چاہا کہ اُن کا وجود اور عدم وجود برابر ثابت ہو تا تھا.تب جماعت احمدیہ کے اُس حصہ نے جو کہ مرزا صاحب کی آمد کو اہم قرار دیتا تھا اُن اصطلاحات کے مطابق جو کہ احمدیوں میں پائی جاتی ہیں اور جن کا اُوپر ذکر کیا جاچکا ہے اس مسئلہ پر اپنے خیالات کا اظہار ! کیا لیکن اس وقت اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ کسی وقت یہ با ہمی گفت و شنید
انوار العلوم جلد 23 360 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پبلک میں افتراق پیدا کرنے کا ذریعہ بنائی جائیگی لیکن یہ گفت و شنید بھی 1922 ء تک ہو گئی.1922ء کے بعد کوئی کتاب امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ایسی نہیں نکلی جس میں اس مضمون کے متعلق اظہارِ خیالات کیا گیا ہو.اگر کوئی تحریر شائع ہوئی ہے تو وہ صلح کی تائید میں شائع ہوئی ہے.چنانچہ امام جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک تحریر ریویو آف ریلیجنز اُردو جولائی 1922 ء میں شائع ہوئی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:."جو شخص غیر احمدیوں کو کافر، یہودی اور جاہل بلا ضرورت کہتا پھرتا ہے وہ در حقیقت شریعت کا مجرم اور فتنہ انگیز ہے.اگر غیر احمدی اُس کے نزدیک کافر ہیں تو اُس کو یہ کہاں سے حق حاصل ہو گیا کہ وہ اُن کو کافر کہتا پھرے.....بلاوجہ اور بے ضرورت اس قسم کے مضامین اخبار میں نکالنا اور زبانی کہتے پھر نا واقع میں فتنہ کا موجب ہے اور اگر کوئی شخص ایسا کرتا ہے تو میں اس کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے اخلاق کو درست کرے ورنہ وہ خدا کے نزدیک گنہگار ہے“.اسی طرح یکم مئی 1935ء کو آپ کا ایک خطبہ الفضل میں چھپا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں کہ :- اب بھی ہمیں کس طرح بار بار اُن کی طرف سے کافر کہا جاتا ہے اور اخبارات میں لکھا جاتا ہے.کیا ہمارے اخبارات میں بھی لکھا جاتا ہے کہ احراری کا فر ہیں ؟ ہم تو کہتے ہیں جو کسی کو بلا وجہ کا فر کہتا ہے وہ اُس کی دل آزاری کرتا ہے“.پس ہماری طرف سے برابر یہ کوشش ہوتی رہی ہے کہ ان الفاظ کو استعمال نہ کیا جائے لیکن احرار اور اُن کے ساتھیوں کی طرف سے ان الفاظ کو کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے اور وہ الفاظ جو کسی زمانہ میں صرف جو ابا استعمال کئے گئے تھے اور جو گزشتہ پچاس برس میں جماعت احمدیہ کی طرف سے کبھی استعمال نہیں کئے گئے اشتعال دلانے کے لئے اُن کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے.حالانکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگر
انوار العلوم جلد 23 361 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ شخص نے کسی کو پیٹھ پیچھے گالی دی اور دوسرے شخص نے وہ گالی اُس کو پہنچادی تو اُس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کسی نے کسی شخص کو تیر مارا اور وہ لگا نہیں لیکن دوسرے نے وہ تیر اُٹھایا اور اُس کے سینہ میں گھونپ دیا.علماء کا شغل تکفیر اسلام اور کفر کے بارہ میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئے کہ صرف یہی بات نہیں کہ غیر احمدیوں نے احمدیوں کو کافر کہا جس کے نتیجہ میں ایک لمبے عرصہ کے بعد احمدیوں کو جواب دینا پڑا اور اس جواب میں بھی وہ بہت محتاط رہے بلکہ اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ مسلمانوں کو کافر کہنے کی رسم علماء میں بہت دیر سے چلی آتی ہے.چنانچہ اسلامی بنیادی اصول کے مضمون میں ہم بتا چکے ہیں کہ شروع زمانہ اسلام سے علماء بزرگانِ اسلام کو کافر کہتے آئے ہیں.اب ہم چند حوالے اس بارہ میں دیتے ہیں کہ زمانہ قریب میں بھی سنیوں نے شیعوں کو خارج از اسلام قرار دیا ہے اور اُن کے ساتھ مناکحت حرام، اُن کا ذبیحہ حرام، اُن کا جنازہ حرام بلکہ اُن کا سٹی کے لئے جنازہ پڑھنا بھی حرام قرار دیا ہے.277 اسی طرح شیعہ حضرات کا فتویٰ سنیوں کے متعلق ہے کہ وہ سب غیر ناجی ہیں.خواہ شہید ہی کیوں نہ ہوں.278 تمام سٹی جو آئمہ اہل بیت پر ایمان نہیں لاتے کا فر ہیں.279 دیو بندی علماء نے مولوی ابو الحسنات صاحب کے والد اور ان کے پیر مولوی احمد رضا خان صاحب کی نسبت یہ فتویٰ دیا ہے کہ وہ اور اُن کے اتباع کافر ہیں.اور جو انہیں کافر نہ کہے یا اُن کے کافر کہنے میں کسی وجہ سے بھی شک کرے وہ بھی بلا شبہ قطعی 280 کافر ہے.اب مولانا میکش خود بتائیں کہ اُن کے پیر مولوی احمد رضا خان صاحب اور اُن کے ماننے والوں کے کفر میں آیا اُن کو کوئی شک ہے یا نہیں اور اسی فتویٰ میں وہ دیو بندیوں کو سچا سمجھتے ہیں یا جھوٹا؟ بریلوی علماء نے بھی کمی نہیں کی.وہ فتویٰ دیتے ہیں کہ دیو بندی علماء
انوار العلوم جلد 23 362 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 281 مسلمانوں کے اجتماعی فتویٰ سے کافر ہیں.مرتد اور اسلام سے خارج ہیں.اِس فتویٰ میں حرمین کے علماء بھی شامل ہیں.نہ معلوم میکش صاحب اس فتویٰ کے بعد جو اجماعی ہے اپنے پہلو میں بیٹھنے والے دیوبندی علماء کی نسبت کیا فتویٰ دیتے ہیں اور اجماع کی کیا قیمت لگاتے ہیں.مولانا ابو الحسنات اور میکش صاحب تو آج کہہ رہے ہیں کہ احمدیوں پر گفر کا فتویٰ اصلی ہے اور باقی فرقوں پر رسمی.مگر احمد رضا خان صاحب بریلوی اور علماء حرمین اپنے فتویٰ میں بائی سلسلہ احمدیہ اور دیو بندی علماء کا نام اکٹھا لکھتے ہیں اور آخر میں کہتے ہیں کہ یہ وہابی یعنی دیو بندی اوپر کے گنائے ہوئے لوگوں میں سے سب سے بڑے کافر ہیں.282 قادریہ اہل حدیث کے بارہ میں سنی علماء نے فتویٰ دیا ہے کہ مرتد ہیں اور باجماع امت 283 565 284 اسلام سے خارج ہیں.33 اہل حدیث نے مقلدین کی نسبت لکھا ہے حنفی ، شافعی، مالکی، حنبلی، چشتیہ، آ ه نقشبندیہ مجددیہ سب لوگ مشرک اور کا فر ہیں.14 لیکن باوجود اس کے اس گفر کے نتیجہ میں کبھی بھی کسی کو اقلیت قرار دینے یا مسلمانوں کے جائز حقوق سے محروم قرار دینے کی کوشش نہیں کی گئی.چنانچہ سب سے پہلی مثال تو اُن مرتدین کی ہے جن کو خود قرآن کریم نے کافر قرار دیا ہے.منافقوں کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں صاف طور پر فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا ثُمَّ ازْدَادُوا كُفْرًا لَمْ يَكُنِ اللَّهُ لِيَغْفِرَ لَهُمْ وَلَا لِيَهْدِيَهُمْ سَبِيلًا - 285 یعنی منافق پہلے ایمان لائے پھر کافر ہو گئے ، پھر ایمان لائے پھر کافر ہو گئے اور پھر کُفر میں اور بھی بڑھ گئے لیکن باوجود ان صریح الفاظ کے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں منافقوں کو اسلامی حقوق سے محروم نہیں کیا گیا بلکہ وہ آخر تک مسلمانوں میں شامل رکھے گئے، ان سے مشورے لئے جاتے رہے اور اُن کو تمام اسلامی کاموں میں شریک رکھا گیا.یہ عجیب بات ہے کہ خدا کسی کو کافر کہتا تو وہ محض کلمہ پڑھنے کی وجہ سے باوجود خدا کے حکم کے
انوار العلوم جلد 23 363 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسلامی حقوق سے محروم نہیں رکھا جاتا لیکن یہ علماء جس کو کافر کہیں وہ باوجو د کلمہ پڑھنے کے اور قسمیں کھانے کے کہ میں مسلمان ہوں، اسلامی حقوق سے محروم کیا جا سکتا ہے.دوسری مثال اس امر کے متعلق خوارج کی ہے.خوارج کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قَوْمُ يُحْسِنُونَ الْقِيْلَ وَ يُسِيْتُوْنَ الْفِعْلَ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيْهِمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ مَرُوقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّة“.286 یعنی مسلمانوں میں ایک جماعت ایسی پید اہو گی جو باتیں کرنے میں تو بڑی اچھی نظر آئے گی لیکن اُن کے افعال نہایت نا پسندیدہ ہوں گے.وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن اُن کے گلے سے نہیں اُترے گا اور وہ دین سے اسی طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر اپنے نشانہ سے نکل جاتا ہے.تاریخ سے ظاہر ہے کہ تمام صحابہ رضی اللہ عنہم اس پر متفق تھے کہ یہ حدیث خوارج کے متعلق ہے لیکن باوجود اس کے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو کافر کہا پھر بھی اُن کو اسلامی حقوق سے محروم نہیں رکھا گیا.انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جنگ کی اور لازما سیاسی طور پر اُن سے جنگ کرنی پڑی لیکن جب ان کو شکست ہوئی اور اُن کے آدمی قید ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن کے ساتھ کا فر جنگ کرنے والوں کا سلوک نہیں کیا بلکہ مسلمانوں والا کیا.چنانچہ ابن قتیبه کتاب الامامت و السیاست“ میں لکھتے ہیں: اَخَذَ عَلِيٌّ مَا كَانَ فِى عَسْكَرِهِمْ مِنْ كُلِّ شَيْ ءٍ فَأَمَّا السّلاحَ والدواب فَقَسَّمَهُ عَلِيٌّ بَيْنَنَا وَ اَمَّا الْمَتَاعَ وَالْعَبِيدَ وَالَّا مَاءَ فَإِنَّهُ حِيْنَ قَدِمَ الكُوْفَةَ رَدَّةَ عَلَى أَهْلِم 287 حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے لشکر کی تمام چیزوں پر قبضہ کر لیا.ہتھیار اور جنگی سواریاں تو لوگوں میں تقسیم کروائے لیکن سامان و غلام اور لونڈیوں کو کوفہ واپس آنے پر اُن کے مالکوں کو لوٹا دیا.اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ اُن کے قیدیوں کو غلام نہیں بنایا گیا.نہ مر دوں کو، نہ عورتوں کو ، نہ بچوں کو اور اُن کی جائدادیں ضبط نہیں کی گئیں، حالانکہ وہ باغی تھے.، صرف اسلام کے نام کی وجہ سے اور کلمہ پڑھنے کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے
انوار العلوم جلد 23 364 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اُن کو کافر قرار دینے کے باوجود اُن کے قیدیوں کو آزاد کر دیا، عورتوں کو آزاد کر دیا، بچوں کو آزاد کر دیا اور اُن کے سامان اُن کو واپس کر دیئے.چنانچہ علامہ ابن تیمیہ اس سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہو تو اُس پر پر کفر کا فتویٰ لگنے کے باوجود اُسے اسلامی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا.28 288 علماء کہتے ہیں کہ احمدی علماء کا ایک اور اعتراض اور اُس کا جواب جھوٹ بولتے ہیں.اُن کے دل میں کچھ اور ہے اور ظاہر کچھ اور کرتے ہیں.اندر سے یہ اسلام کے مخالف ہیں.یہ مسئلہ بھی نیا نہیں.یہ مسئلہ بھی اسلام میں زیر بحث آچکا ہے.سب سے پہلا جواب تو اِس اعتراض کا یہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ رضی اللہ عنہ سے جنہوں نے ایک شخص کو باوجو د لا اله الا اللہ کہنے کے لڑائی میں قتل کر دیا تھا.ناراض ہو کر کہا کہ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ حَتَّى تَعْلَمَ أَ قَالَهَا امْ لَا.289 تُو نے اُس شخص کا دِل پھاڑ کر کیوں نہ دیکھا کہ آیا اُس نے دھوکا دینے کے لئے یہ کلمہ کہا تھا یا سچے دل سے.دوسر ا جواب اِس کا یہ ہے کہ انسان تو انسان ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی جو دلوں کے راز جاننے والا ہے جب منافقوں کو کافر کہا اور بتایا کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں اُن کے دلوں میں وہ بات نہیں جو وہ مُنہ سے کہتے ہیں تو بھی منافق لوگ اسلامی حقوق سے محروم نہیں کئے گئے.اسلام کا یہ فتویٰ ہے کہ جب کوئی شخص ممنہ سے کہہ دے کہ میں مسلمان ہوں تو وہ اسلامی حقوق سے محروم نہیں کیا جاسکتا.چنانچہ امام شافعی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ: ” ایک شخص کے متعلق حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس رپورٹ پہنچی کہ یہ شخص دل سے مسلمان نہیں صرف ظاہر میں مسلمان ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ کیا یہ بات ٹھیک نہیں ہے کہ تم ظاہر میں مسلمان ہوئے ہو اور اصل میں مسلمان نہیں ہو.تمہاری غرض اسلام لانے سے صرف یہ ہے کہ تم
انوار العلوم جلد 23 365 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسلامی حقوق حاصل کرو.اُس نے اس کے جواب میں حضرت عمرؓ سے سوال کیا کہ حضور کیا اسلام ان لوگوں کو حقوق سے محروم کرتا ہے جو ظاہر میں اسلام قبول کریں اور کیا اُن کے لئے اسلام نے کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑا.اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ اسلام نے ان لوگوں کے لئے بھی رستہ کھلا رکھا ہے اور پھر خاموش ہو گئے “.290 اسی طرح جو آیت ہم نے منافقوں کے متعلق پہلے لکھی ہے اس مضمون کی ایک دوسری آیت یعنی يَحْلِفُونَ بِاللهِ مَا قَالُوا وَ لَقَدْ قَالُوا كَلِمَةَ الْكُفْرِ وَ كَفَرُوا بَعْدَ اسلامهم 291 وہ اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے یہ فقرات نہیں کہے.حالانکہ وہ اسلام لانے کے بعد کا فر ہو چکے ہیں.امام شافعی نے تفصیلی بحث کی ہے اور لکھا ہے کہ اس سے صاف نتیجہ نکلتا ہے کہ و شخص منہ سے کلمہ پڑھتا ہے خواہ دل میں اسلام پر ایمان نہ لایا ہو اسے مرتد قرار نہیں دیا جاسکتا.292 ان حوالوں سے جو ہم اوپر درج کر چکے ہیں مندرجہ ذیل نتائج بحث کا خلاصہ نکلتے ہیں:- اوّل: ایک اسلام بمعنی کامل ایمان ہو تا ہے اور سب مسلمان ہر گز اس میں شامل نہیں.دوسرا اسلام کلمہ پڑھ کر اسلام میں شمولیت کے ساتھ حاصل ہوتا ہے.اس مسلم کے لئے یہ کوئی شرط نہیں کہ اِس کو پورا ایمان نصیب ہو بلکہ بغیر کسی قسم کے ایمان کے بھی ایسا شخص مسلمان ہو سکتا ہے اور اس کے خلاف کسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں کی جاسکتی سوائے نصیحت اور وعظ اور دُعاکے.دوم: احمدیوں نے خارج از اسلام اور کافر ہونے کا فتویٰ غیر احمدیوں کے متعلق پہلے نہیں دیا بلکہ پہلے اُنہوں نے احمدیوں پر ایسا فتویٰ لگایا.سوم: غیر احمدیوں نے احمدیوں ہی پر یہ فتویٰ نہیں لگایا بلکہ وہ ہمیشہ سے ایک دو
انوار العلوم جلد 23 366 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ فتویٰ لگاتے چلے آئے ہیں.چہارم: جب غیر احمدیوں نے آپس میں ایک دوسرے پر فتویٰ لگایا اور احمدیوں پر فتویٰ لگایا تو انہوں نے اس کے یہ معنی لئے کہ وہ اسلام کی جامع و مانع تعریف سے بھی باہر ہیں.جب احمدیوں نے جو اباً اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق غیر احمدیوں پر کوئی فتویٰ لگایا تو اس فتوے میں اُنہوں نے یہ احتیاط کی کہ اُن کو ایمانِ کامل سے تو محروم قرار دیا لیکن اسلام کی جامع و مانع تعریف سے باہر نہیں کیا اور مختلف مواقع پر واضح کر دیا کہ وہ انہیں اسلام کی جامع و مانع تعریف کے اندر شامل رکھتے ہیں.غیر احمدیوں نے جب احمدیوں پر فتویٰ لگایا تو انہوں نے انہیں دائمی جہنمی قرار دیا لیکن احمدیوں نے جب کسی پر فتویٰ لگایا تو ساتھ ہی یہ کہہ دیا کہ اول تو اس فتویٰ کے یہ معنی نہیں کہ اسلام کی جامع و مانع تعریف سے وہ نکل گئے ہیں.دوم لفظ گفر کا اگر کسی معنوں میں بھی اُن پر اطلاق ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بھی قابل مواخذہ ہیں.اللہ تعالیٰ کا مؤاخذہ محض بد نیتی اور اتمام حجت پر ہوا کرتا ہے.اگر اُن کی نیت نیک ہے اور اگر اُن پر اتمام حجت نہیں ہوا تو وہ کسی سزا کے مستحق نہیں.ہفتم: احمدیوں نے متواتر اس بات کا اعلان کیا کہ ہم صلح کرنا چاہتے ہیں.اگر غیر احمدی اپنے فتوؤں کو واپس لے لیں تو ہم بھی اپنے فتوے واپس لینے کے لئے تیار ہیں اور جماعت کو روکا کہ ایسے الفاظ دوسروں کے متعلق استعمال نہ کیا کرو لیکن غیر احمدیوں نے فتوؤں میں ابتدا بھی کی اور پھر احمدیوں کی امن کی اپیلوں پر کان بھی نہ دھرا اور شروع دن سے آج تک متواتر اُن فتوؤں کو دُہراتے اور پھیلاتے چلے آرہے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 367 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ سوال نمبر 5 متعلق مسائل نماز و جنازه ورشته ناطه پانچویں یہ کہا گیا ہے کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دینے کا مطالبہ اس بناء پر اور غیر احمدیوں کو جوش اور اشتعال اس وجہ سے ہے کہ احمدی جماعت اپنے مخالفوں کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھتی، ان کے جنازے نہیں پڑھتی اور اُن کو لڑکیاں دینے سے اجتناب کرتی ہے.یہ باتیں اوّل تو خالص مذہبی نہیں.خوجہ قوم اور بوہرہ قوم کے لوگ اپنی لڑکیاں دوسری قوم کو نہیں دیتے ، مہدوی لوگ اپنی لڑکیاں دوسری قوم کو نہیں دیتے.بلوچستان کا بڑا حصہ مہدوی ہے.وہ کسی صورت میں بھی اپنی لڑکیاں غیروں کو نہیں دیتا.کراچی کی تجارت خوجہ قوم اور بوہرہ قوم کے پاس ہے وہ کبھی اپنی لڑکیاں غیروں کو نہیں دیتے لیکن باوجود اس کے علماء نے کبھی ان لوگوں کے خلاف شور نہیں مچایا بلکہ ان لوگوں کی دعوتیں اُڑاتے ہیں.حیدر آباد کے رہنے والے مسلمانوں کی طرف سے جو ریاستوں کی آزادی کی تحریک اُٹھی تھی مہدوی قوم کے لیڈر نواب بہادر یار جنگ اس کے صدر تھے اور قائد اعظم نے اُن کو اپنا نائب بنارکھا تھا مگر باوجو د اس کے ان علماء نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی کہ یہ تو اپنی لڑکیاں دوسروں کو نہیں دیتے.یہ تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سید محمد صاحب جونپوری کو خدا تعالیٰ کا رسول مانتے ہیں.یہ تو اپنے عقیدہ کی رُو سے دوسروں کے پیچھے نماز پڑھنا جائز نہیں سمجھتے اُن کو لیڈر کیوں بنایا گیا ہے اور جیسا کہ مہدوی لٹریچر سے ظاہر ہے بلوچستانی مہدویوں میں سے بعض نے تو اپنا نعرہ یہاں تک پہنچا دیا ہے کہ ہم ایسے سمندر میں داخل ہو گئے ہیں جس کے کنارے پر نبی بیٹھا کرتے تھے اور اُن لوگوں میں تین نمازیں پڑھنے کا حکم ہے، زائد معاف ہیں.عجیب عجیب قسم کے اُن میں ذکر ہیں اور بعض تو اُن میں سے یہاں تک کہتے ہیں کہ لِوَائِی أَرْفَعُ مِنْ لِوَاءِ مُحَمَّدٍ 293 میر ا جھنڈا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے سے اُونچا ہے.اور وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں.ایک لاکھ کے قریب تو بلوچستان میں ہیں.اس
انوار العلوم جلد 23 368 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کے علاوہ پالم پور میں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کثرت سے پائے جاتے ہیں مگر یہی مولانا مودودی جو حیدر آباد میں ملازم رہے ہیں اُنہوں نے کبھی ان کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی.حالانکہ وہ جو الزام ہم پر لگاتے ہیں، ان سے زیادہ سخت الزام ان پر لگتے ہیں.اس کے یہ معنی نہیں کہ ہم ان باتوں کو جائز سمجھتے ہیں ہم صرف یہ بتاتے ہیں جب یہ مولوی ہم پر الزام لگاتے ہیں تو ان کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی.جو لوگ ان کا سر پھوڑنے کی طاقت رکھتے ہیں اور اس کو جائز سمجھتے ہیں اُن کے سامنے تو یہ نظریں نیچی کر لیتے ہیں اور جو لوگ امن پسند شہری ہیں اُن پر ان کا سارا غصہ نکلتا ہے.یہ جانتے ہیں کہ اگر آغا خان کے خلاف کچھ کہا تو گورنمنٹ بھی گردن مروڑے گی اور بہت سارے چندوں اور امد ادوں سے بھی محروم ہو جانا پڑے گا.احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کا فتویٰ اب ہم یہ بتاتے ہیں کہ یہ باتیں بھی ایسی ہیں کہ جن میں پہلے غیر احمدی مولویوں نے ہی دیا ہے نہیں انہیں لوگوں نے کی ہے.مثلاً احمدیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے پہلے انہیں نے روکا ہے.چنانچہ 1892 میں مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی نے بانی سلسلہ احمدیہ کے متعلق فتوی دیا کہ :- نہ اس کو ابتداء سلام کریں.....اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں“.294 مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے فتویٰ دیا کہ :- ”قادیانی کے مرید رہنا اور مسلمانوں کا امام بننا دونوں باہم ضدین ہیں.یہ جمع نہیں ہو سکتیں“.295 مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی نے فتویٰ دیا کہ :- 296 " اس کو اور اس کے اتباع کو امام بنانا حرام ہے“.مولوی ثناء اللہ صاحب امر تسری نے فتویٰ دیا کہ :- ”اس کے خلف نماز جائز نہیں“.297
انوار العلوم جلد 23 369 مولوی عبدالسمیع صاحب بدایونی نے فتویٰ دیا کہ :- مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کسی مرزائی کے پیچھے نماز ہر گز جائز نہیں.مرزائیوں کے پیچھے نماز پڑھنا ایسا ہے جیسا ہندوؤں اور یہود و نصاریٰ کے پیچھے.مرزائیوں کو نماز پڑھنے یا دیگر مذہبی احکام ادا کرنے کے لئے اہل سنت والجماعت اور اہل اسلام اپنی مسجدوں میں ہر گز نہ آنے دیں“.298 مولوی عبد الرحمن صاحب بہاری نے فتویٰ دیا کہ :- مردود ہے امامه ”اس کے اور اس کے متبعین کے پیچھے نماز محض باطل و ان کی امامت ایسی ہے جیسے کسی یہودی کی 299 ".....مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ :- 300 " اس کے اور اس کے مریدوں کے پیچھے اقتداء ہر گز درست مولوی عبد الجبار صاحب عمر پوری نے فتویٰ دیا کہ :- ”مرزا قادیانی اسلام سے خارج ہے.....ہر گز امامت کے لائق نہیں، 301 مولوی عزیز الرحمن صاحب مفتی دیو بند نے فتویٰ دیا کہ :- شخص کا عقیدہ قادیانی ہے اس کو امام صلوۃ بنانا حرام دوجس ہے “ 302 مشتاق احمد صاحب دہلوی نے فتویٰ دیا کہ :- وو 66 مرزا اور اُس کے ہم عقیدہ لوگوں کو اچھا جاننے والا جماعتِ اسلام سے جُدا ہے.اور اس کو امام بنانا نا جائز ہے 3 مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے فتویٰ دیا کہ :- اس کے پیچھے نماز پڑھنے......کا حلم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا
انوار العلوم جلد 23 ہے 304 " 370 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مولوی محمد کفایت اللہ صاحب شاہجہانپوری نے فتویٰ دیا کہ :- ان کے کافر ہونے میں شک و شبہ نہیں اور ان کی بیعت وو حرام ہے اور امامت ہر گز جائز نہیں“.305 جنازے کے متعلق ان حضرات کے فتوے یہ ہیں مولوی نذیرحسین نے فتویٰ دیا کہ :- صاحب دہلوی ایسے دجال، کذاب سے احتر از اختیار کریں.....نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں 306 " مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ :- اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے “.307 قاضی عبید اللہ بن صبغۃ اللہ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ :- " جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد اور مرتد بغیر توبہ کے مر گیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا“.308 مفتی محمد عبد اللہ صاحب ٹونکی لاہور نے فتویٰ دیا کہ:- جس نے دیدہ و دانستہ مرزائی کے جنازہ کی نماز پڑھی ہے اُس کو اعلانیہ تو بہ کرنی چاہئے اور مناسب ہے کہ وہ اپنا تجدید نکاح کرے“ 309 پھر اس سے بھی بڑھ کر انہوں نے یہ فتویٰ دیا کہ ان لوگوں کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں بھی دفن نہ ہونے دیا جائے.چنانچہ مولوی عبد الصمد صاحب غزنوی نے فتویٰ دیا کہ ان کو مسلمانوں کے قبرستانوں میں دفن نہ کیا جائے.تا کہ :- اہل قبور اس سے ایذاء نہ پاویں“.310 قاضی عبید اللہ صاحب مدراسی نے فتویٰ دیا کہ ان کو :- ” مقابر اہل اسلام میں دفن نہیں کرنا بلکہ بغیر غسل و کفن کے
انوار العلوم جلد 23 371 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا“.311 اسی طرح انہوں نے یہ بھی فتوے دیئے کہ کسی مسلمان کے لئے احمدیوں کو " لڑکیاں دینا جائز نہیں.چنانچہ شرعی فیصلہ لکھا گیا کہ :- ”جو شخص ثابت ہو کہ واقعی وہ قادیانی کا مرید ہے.اُس سے رشتہ مناکحت کار کھنا ناجائز ہے“.312 بلکہ اس سے بڑھ کر یہ فتویٰ دیا گیا کہ :- ”جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں 313 اور اُن کے نکاح باقی نہیں رہے جو چاہے اُن کی عورتوں سے نکاح کر لے.گویا احمدیوں کی عورتوں سے جبر انکاح کر لینا بھی علماء کے نزدیک عین اسلام تھا.اسی طرح یہ فتویٰ دیا گیا کہ :-.جس نے اُس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے اور شرعاً مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اُس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد کہ پید اہوتے ہیں وہ ولد الزنا ہوں گے “ 314 احمدیوں کی طرف سے محض جوابی فتویٰ ان فتووں سے ظاہر ہے کہ نماز پیچھے نہ پڑھنے اور نماز جنازہ نہ پڑھنے کے فتوے بھی پہلے انہیں لوگوں نے دیئے.ہم نے کئی سال کے صبر کے بعد یہ فتوے دیئے ہیں.باقی یہ ظاہر بات ہے کہ انسان نماز میں جس کو امام بناتا ہے اُس کے تقویٰ کی بناء پر ہی بناتا ہے.جب ہم بانی سلسلہ احمدیہ کو خدا کا بھیجا ہوا مانتے ہیں تو اُن کو کافر قرار دینے اور رڈ کرنے والوں کو متقی کیس طرح سمجھ سکتے ہیں.لڑکیاں دینے سے انسان اس لئے رُکتا ہے کہ تمدن اور خیالات میں جب فرق ہوتا ہے تو ایسے معاملات میں بعض دفعہ سختی سے کام لیا جاتا ہے ورنہ یہ نہیں کہ شرعی طور پر دوسرے آدمی کو پلید سمجھا جاتا ہے.اگر نجاست کا سوال ہوتا تو پھر اہل کتاب کی لڑکیاں لینے کی کیوں اجازت دی جاتی.
انوار العلوم جلد 23 372 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 315 " رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ”شادی کفو میں کرو“.اس لئے یہ بھی ایک کفو ہے کہ انسان ایک امام کو مانتا ہے اور دوسرا اُسے کافر کہتا ہے تو کفو تو آپ ہی بدل جاتا ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے باوجود ابو جہل کے خاندان کے مسلمان ہو جانے کے ابو جہل کی بیٹی لینے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو منع فرمایا اور یہاں تک فرما دیا کہ خدا کے دُشمن اور خدا کے رسول کی بیٹیاں ایک گھر میں جمع نہیں ہو سکتیں.حالانکہ وہ لوگ مسلمان تھے “.316 شادی کے لئے کفو کی شرط پس شادی کے لئے صرف مسلمان ہونے کی شرط نہیں کفو کی بھی شرط ہے.اگر کوئی شخص اپنی ایم.اے لڑکی کو ایک جاہل مرد سے نہیں بیاہتا تو اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ وہ اسے خارج از ملت اسلامیہ سمجھتا ہے یا ایک امیر آدمی اپنی لڑکی ایک غریب سے نہیں بیاہتا تو اس کے یہ معنے کہاں ہوتے ہیں کہ وہ اُسے خارج از ملت اسلامیہ سمجھتا ہے.ہاں یہ سمجھتا ہے کہ کفو نہ ہونے کی وجہ سے دونوں کا میل آپس میں مناسب نہیں.اس سے نہ غیر قومیت ثابت ہوتی ہے، نہ غیر مذہب ثابت ہوتا ہے صرف سوشل تعلقات کی رفتت اِس کا باعث ہوتی ہے.سوال نمبر 6 شق اول متعلق خوشامد انگریز و غیره ششم.یہ کہا گیا ہے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم حکومت کی اطاعت کی تعلیم دی ہے اور اس کی تائید میں جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے اور اس کی خوشامد کی ہے.اس کے متعلق یاد رہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی پیدائش سکھوں کے زمانہ میں ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے بچپن کے زمانہ میں سکھوں کے مظالم دیکھے تھے جو مسجدوں کو گراتے تھے اور مسجدوں کو گرا کر اصطبل بناتے تھے ، مسلمان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جاتے تھے ، مسلمانوں کے مال لوٹ لیتے تھے ، اذان نہیں دینے دیتے تھے.اس کے بعد
انوار العلوم جلد 23 373 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ انگریزی حکومت آئی اور اس نے ان سب مظالم کو ختم کر دیا.اُن کے اس نیک سلوک کو دیکھنے کے بعد اگر بائی سلسلہ احمدیہ نے ان کی تعریف کی اور اُن کا مذہب میں دست اندازی نہ کرنا پسند کیا تو یہ کون سی عجیب بات ہے.حضرت یوسف علیہ السلام نے فرعونِ مصر کی نوکری کی تھی اور قرآن میں صاف آتا ہے کہ وہ اپنے بھائی کو اس لئے نہیں روک سکتے تھے کہ قانونِ ملک اس کی ا اجازت نہیں دیتا تھا.317 گویا یوسف علیہ السلام قانونِ ملک کے پابند تھے اور پابند رہنا چاہتے تھے.اسی طرح مسیح علیہ السلام کے متعلق انجیل میں لکھا ہے کہ جب کچھ لوگوں نے منصوبہ کر کے اُن سے سوال کیا کہ کیا قیصر کو ہمیں ٹیکس دینا چاہئے یا نہیں ؟ تو انہوں نے کہا کہ تم مجھے ٹیکس کا سکہ دکھاؤ اور اس کو دیکھ کر کہا کہ اس پر تو قیصر کی تصویر ہے.پس جو قیصر کا ہے قیصر کو دو اور جو خدا کا ہے خدا کو دو.318 خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو حبشہ میں بھیجوا دیا.ان لوگوں نے کئی سال تک اس حکومت کی اطاعت کی اور اس دوران میں جب حبشہ کے بادشاہ کو ایک دُشمن سے لڑائی پیش آئی تو مسلمانوں نے اُس سے درخواست کی لہ ہمیں بھی جنگ میں شامل ہونے دیا جائے کیونکہ ہم پر آپ کے احسانات ہیں اور اُنہوں نے اس کی کامیابی کے لئے دُعائیں کیں.319 سید احمد صاحب بریلوی سے جب لوگوں نے پوچھا کہ آپ اتنی دور سکھوں سے جہاد کرنے کیوں جاتے ہیں؟ انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں کیا وہ اسلام کے منکر نہیں.پھر آپ یہیں جہاد کیوں نہیں شروع کر دیتے ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ انگریز مذہب میں دخل اندازی نہیں کرتے اس لئے اُن سے جہاد جائز نہیں لیکن سیکھ چونکہ مذہب میں دخل اندازی کرتے ہیں اس لئے میں اُن سے لڑتا ہوں.320 پس اگر مرزا صاحب نے بھی انگریزوں کی تعریف کی اور اُن کی اطاعت کی تعلیم دی تو اس میں حرج کیا ہوا.اُنہوں نے وہی کچھ کیا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے
انوار العلوم جلد 23 374 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کیا تھا، جو حضرت مسیح علیہ السلام نے کیا تھا، جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے کیا تھا اور جو سید احمد صاحب بریلوی نے کیا تھا بلکہ وہی کچھ کیا جو ان علماء نے کیا تھا جو آج احمدیت پر اعتراض کر رہے ہیں.دیو بند کو مختلف ریاستوں سے مدد ملتی تھی.کیا کوئی عقلمند کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ لوگ انگریزوں کی تعریف نہ کرتے تو وہ ریاستیں ان کو مدد دیتیں؟ بے شک بعض بعض اوقات میں بعض مولویوں نے گورنمنٹ کی مخالفت بھی کی لیکن وہ مولوی بھی موجود ہیں جو گورنمنٹ کی تعریفیں کر کر کے مربعے وصول کیا کرتے تھے لیکن مرزا صاحب نے تو کبھی کوئی مربع نہیں لیا، نہ کوئی خطاب لیا.پس اگر آپ نے ایک ایسی حکومت کی وفاداری کی تعلیم دی جو مسلمانوں کو اُن کے مذہبی فرائض ادا کرنے سے نہیں روکتی تھی تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے؟ اس پالیسی کا مخالف اسے غلط قرار دے سکتا ہے مگر نیت پر حملہ کرنے کا اسے کوئی حق نہیں.انگریزی حکومت کی اطاعت اور خوشامد کا الزام اس جگہ یہ بھی یا در کھنا چاہئے کہ اسلامی تعلیم کی رُو سے تمام مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ بغاوت اور فساد کے تمام طریقوں سے بکلی مجتنب رہ کر امن پسند زندگی بسر کریں اور حکومت وقت کی اُس وقت تک کامل اطاعت کریں جب تک کہ وہ حکومت مذہب میں مداخلت نہ کرے.جماعت احمد یہ کا یہ عقیدہ صرف انگریزی حکومت کے بارے میں نہیں بلکہ ہر ملک اور ہر حکومت کے بارے میں ہے.جماعت احمدیہ کے نزدیک اسلامی تعلیم یہی ہے.امن عالم کے قیام کے لئے اس تعلیم کے سوا کوئی تعلیم نہیں جو قابل قبول ہو.اِسی اُصول کے ماتحت آج بھارت کے مسلمان ہندو حکومت کے ماتحت وفاداری سے زندگی بسر کر سکتے ہیں اور اسی اصول کے ماتحت چین، برما، سیلون، افریقہ ، امریکہ، جاپان اور فرانس و غیرہ ممالک کے مسلمان اپنے اپنے ملکوں کی غیر اسلامی حکومتوں کے ماتحت وفادار شہری کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہیں.اور اسی اصول کے ماتحت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں
انوار العلوم جلد 23 375 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ صحابہ کرام نے حضور علیہ السلام کے ارشاد کے ماتحت حبشہ کی عیسائی حکومت کے زیر سایہ وفادار شہریوں کی حیثیت سے برسوں امن پسندانہ زندگی بسر کی.اُن مسلمان صحابہ میں حضرت عثمان، حضرت جعفر ( جو حضرت علی کے بھائی تھے) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت رقیہ، حضرت ام المؤمنین ام سلمہ، حضرت اسماء زوجہ حضرت جعفر، حضرت عبد الرحمن ابن عوف، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت ابو عبیدہ بن جراح جیسے جلیل القدر صحابہ اور صحابیات شامل ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ان صحابہ کو پانچویں سال نبوت میں ارشاد فرمایا:- تم ملک حبش میں چلے جاؤ تو بہتر ہے.کیونکہ وہاں کا بادشاہ کسی پر ظلم نہیں کرتا اور وہ صدق اور راستی کی سر زمین ہے“.321 غرض کہ ایسی حکومت کی اطاعت کرنا جو مذہبی آزادی میں مداخلت نہ کرتی ہو مسلمانوں کا مذہبی فرض ہے.اندریں حالات اِسی اصول کے ماتحت مسلمانانِ ہند کا بھی یہی مذہبی فرض تھا کہ وہ حکومت انگریزی کی اطاعت کرتے.جب تک کہ وہ حکومت اُن کے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں مزاحم نہ ہوتی.پس جماعت احمدیہ نے اگر اس اسلامی تعلیم پر عمل کیا تو یہ کیونکر محل اعتراض ٹھہر سکتا ہے؟ ایک سوال لیکن یہاں پر ایک ضروری سوال پیدا ہوتا ہے اور وہ یہ کہ انگریزی حکومت کی اطاعت تو مسلمانانِ ہند نے بھی کی جن میں مجلس عمل کے ارکان بھی شامل تھے.لیکن سوال یہ ہے کہ اُن کا یہ عمل ان کے نزدیک اسلامی تعلیم کے مطابق تھا یا مخالف ؟ اگر اسلامی تعلیم کے مخالف تھا تو پھر مانا پڑے گا کہ اُن کی زندگی انگریزی حکومت کے صد سالہ دور میں منافقانہ زندگی تھی اور اگر اسلامی تعلیم کے مطابق تھا اور یہی درست ہے تو پھر جماعت احمدیہ پر اعتراض بے معنی ہے.بطور اعتراض پیش کردہ عبارتیں اس سلسلہ میں تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 7 اور ضمیمہ کتاب البریہ صفحہ 9
انوار العلوم جلد 23 اور 376 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 17 کے حوالے سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کی تعریف کی ہے.خود کاشتہ پودا کا جواب" سب سے پہلے تبلیغ رسالت جلد 7 صفحہ 19 کے حوالہ سے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عبارت پیش کی گئی ہے جس میں ”خود کاشتہ پودا کا فقرہ استعمال ہوا ہے.چونکہ یہ حوالہ مجلس عمل کی طرف سے عدالت میں پیش کرنے کے علاوہ بکثرت شائع بھی کیا گیا ہے اور ہر جلسہ میں اسے پیش کر کے بہ شد و مد یہ الزام لگایا گیا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے خود تسلیم کر لیا ہے کہ جماعت احمدیہ انگریزوں کا خود کاشتہ پودا ہے اور اُنہوں نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ انگریزوں کے ایماء پر کیا تھا.چونکہ یہ پروپیگینڈا بہت وسیع پیمانہ پر کیا گیا ہے اس لئے ہم مناسب خیال کرتے ہیں کہ اس موقع پر اس کا کسی قدر تفصیلی جواب عرض کریں.نقل عبارت میں تحریف سب سے پہلی بات جس کی طرف ہم معزز عدالت کو توجہ دلانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس عبارت کو پیش کرنے میں ذمہ داری سے کام نہیں لیا گیا اور اصل عبارت کے ابتدائی الفاظ جن سے حقیقت حال پر روشنی پڑتی تھی حذف کر دئے گئے ہیں.اصل عبارت یوں ہے:- ” مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بد اندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دُشمن ہیں.میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ اُمور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کی ہر روز کی مفتریانہ کارروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بد گمانی پیدا ہو کر وہ تمام جانفشانیاں پچاس سالہ میرے والد مرحوم مرزا غلام مرتضیٰ اور
انوار العلوم جلد 23 377 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ میرے حقیقی بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی جن کا تذکرہ سرکاری چٹھیات اور سر لیپل گریفن کی کتاب ”تاریخ رئیسان پنجاب“ میں ہے اور نیز میری قلم کی وہ خدمات جو میری اٹھارہ سال کی تالیفات سے ظاہر ہیں سب کی سب ضائع اور برباد نہ جائیں اور خدانخواستہ سر کار انگریزی اپنے ایک قدیم وفادار اور خیر خواہ خاندان کی نسبت کوئی تکدر خاطر اپنے دل میں پیدا کرے.اِس بات کا علاج تو غیر ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کا منہ بند کیا جائے کہ جو اختلاف مذہبی کی وجہ سے یا نفسانی حسد اور بغض اور کسی ذاتی غرض کے سبب سے جھوٹی مخبری پر 32266 کمر بستہ ہو جاتے ہیں.صرف یہ التماس ہے کہ سر کار دولتمدار...اس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جو عدالت میں پڑھ کر سنائی گئی ہے.اِس عبارت سے مندرجہ ذیل امور مستنبط ہوتے ہیں:.(الف) بعض دُشمنوں نے جن میں بعض حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے ذاتی اور خاندانی دشمن بھی تھے انگریزی حکومت میں یہ مخبری کی کہ آپ گورنمنٹ کے باغی ہیں.(ب) آپ کو یہ خطرہ لاحق ہوا کہ ان جھوٹی مخبریوں کو گورنمنٹ انگریزی بھی درست تسلیم کر کے سچ سچ آپ کو باغی نہ سمجھ لے.(ج) چونکہ یہ الزام محض جھوٹا اور بے بنیاد تھا.اس لئے آپ نے اس کی پر زور الفاظ میں تردید فرمائی اور اپنے خاندان کی حکومت انگریزی سے وفاداری کا ثبوت پیش ا کیا.(1) "خود کاشتہ پودا“ کے الفاظ آپ نے اپنی جماعت کی نسبت نہیں بلکہ اپنے خاندان کی نسبت استعمال فرمائے.علاوہ ازیں اشتہار جس کی عبارت کانٹ چھانٹ کر پیش کی گئی ہے.مندرجہ ذیل الفاظ سے شروع ہوتا ہے:.” بسا اوقات ایسے نئے فرقہ کے دُشمن اور خود غرض جن کی
انوار العلوم جلد 23 378 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ عداوت اور مخالفت ہر ایک نئے فرقہ کے لئے ضروری ہے.گورنمنٹ میں خلاف واقعہ خبریں پہنچاتے ہیں اور مفتریانہ مخبریوں سے گورنمنٹ کو پریشانی میں ڈالتے ہیں.پس چونکہ گورنمنٹ عالم الغیب نہیں ہے اس لئے ممکن ہے کہ گور نمنٹ عالیہ ایسی مخبریوں کی کثرت کی وجہ سے کسی قدر بد ظنی پیدا کرے یا بد ظنی کی طرف مائل ہو جائے.الہذا گور نمنٹ عالیہ کی اطلاع کے لئے چند ضروری امور ذیل میں لکھتا ہوں “.323 پس اِن اقتباسات سے مندرجہ بالا چاروں امور.....ثابت ہیں.اب معزز عدالت یہ خیال فرما سکتی ہے کہ اگر گورنمنٹ انگریزی نے خود ہی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو ایک سازش کی بناء پر دعویٰ کرنے کے لئے کھڑا کیا تھا اور آپ گورنمنٹ کے ایک کارکن یا ملازم کی حیثیت سے یہ کام سر انجام دے رہے تھے تو پھر آپ کو اس قسم کی مفتریانہ مخبریوں کی تردید کے لئے یہ اشتہارات شائع کرنے اور اس اشتہار کے ذریعہ سے گورنمنٹ کے سامنے اپنی بریت کرنے کی کیا ضرورت تھی.یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ عبارت جہاں سے نقل کی گئی ہے وہ کوئی خفیہ دستاویز نہیں جو مجلس عمل یا احرار کے ہاتھ لگ گئی ہے بلکہ یہ ایک شائع شدہ مطبوعہ اشتہار ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے خود شائع کر کے پبلک میں تقسیم کیا تھا.پھر اس عبارت میں جماعت احمدیہ کی بجائے ” خاندان“ کا لفظ ہے اور صرف جماعتی دشمنوں کا ہی نہیں بلکہ ذاتی اور خاندانی دشمنوں کی مخبریوں کا بھی ذکر ہے.پس آپ نے جماعت احمد یہ یا اپنے دعاوی کو سرکار کا خود کاشتہ پودا “ قرار نہیں دیا بلکہ یہ لفظ اپنے خاندان کی گزشتہ خدمات کے متعلق استعمال فرمایا.ورنہ اپنے دعاوی کی نسبت تو آپ نے اِسی اشتہار میں صفحہ 10 سطر 6 پر تحریر فرمایا ہے کہ آپ کا یہ دعویٰ خدا کے حکم اور اُس کی وحی کی بناء پر ہے.
انوار العلوم جلد 23 379 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ خاندان کی نسبت اس لفظ کے استعمال کی وجہ جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے اس اشتہار میں خود کاشتہ پودا “ کے الفاظ آپ نے اپنے خاندان کی نسبت استعمال فرمائے ہیں.ان الفاظ کے استعمال کی اصل وجہ بھی اسی اشتہار میں بدیں الفاظ بیان کی گئی ہے:.”ہمارا خاندان سکھوں کے ایام میں ایک سخت عذاب میں تھا اور نہ صرف یہی تھا کہ اُنہوں نے ظلم سے ہماری ریاست کو تباہ کیا اور ہمارے صدہا دیہات اپنے قبضہ میں کئے بلکہ ہماری اور تمام پنجاب کے مسلمانوں کی دینی آزادی کو بھی روک دیا.ایک مسلمان کو بانگ نماز پر بھی مارے جانے کا اندیشہ تھا.چہ جائیکہ اور رشوم عبادت آزادی سے بجالا سکتے.پس یہ اس گور نمنٹ محسنہ کا ہی احسان تھا کہ ہم نے اِس جلتے ہوئے تنور سے خلاصی پائی“.324 اس عبارت میں آپ نے سکھوں کے دورِ حکومت میں اپنے خاندان کی تباہ شدہ جاگیر اور پھر انگریزی دور میں اس کے ایک قلیل حصہ کی واگزاری کی طرف اشارہ کیا ہے نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف.آپ کے خاندان کی بہت بڑی جاگیر کی واپسی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے والد صاحب کی زندگی میں ہوئی تھی.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اِس کا ذکر بطور حسنِ بیان کے کیا ہے ورنہ در حقیقت یہ حکومت کا کوئی قابل ذکر احسان ہر گزنہ تھا.کتاب البریہ کی عبارت دوسری عبارت کتاب البریہ سے پیش کی گئی ہے.اس کے جواب میں بھی یہی گزارش ہے کہ یہ عبارت بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے بطور مدح کے تحریر نہیں فرمائی بلکہ بطور ذبّ یعنی بغرض رفع التباس اس الزام کی تردید کے لئے تحریر فرمائی ہے کہ آپ در پردہ انگریزی حکومت کے دشمن اور اُس کے باغی ہیں.جیسا کہ کتاب البریہ کی مندرجہ ذیل عبارت سے ظاہر ہے :-
انوار العلوم جلد 23 وو 380 325" مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ یہ بھی ذکر کے لائق ہے کہ ڈاکٹر کلارک صاحب نے اپنے بیان میں کہیں اشارۃ اور کہیں صراحتا میری نسبت بیان کیا ہے کہ گویا میر اوجود گورنمنٹ کے لئے خطرناک ہے.پادری مارٹن کلارک نے جو ایک بہت بڑا عیسائی پادری تھا اور انگریز حکام اُس کی عزت کرتے تھے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر اقدام قتل کا ایک جھوٹا استغاثہ دائر کیا تھا.اس مقدمہ کے دوران میں اُس نے بطور مستغیث عدالت میں جو بیان دیا اُس میں یہ کہا تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ انگریزوں کا باغی ہے اور اُس کا وجو د انگریزوں کے لئے خطرناک ہے.آپ نے اس الزام کی تردید کتاب البریہ کی اس عبارت میں فرمائی ہے جس کا بطور اعتراض حوالہ دیا گیا ہے تریاق القلوب کی عبارت اسی طرح تریاق القلوب صفحہ 15 کے حوالہ سے جو عبارت پیش کی گئی ہے اُس میں بھی تحریف کی ئی ہے اور وہ سیاق سباق سے الگ کر کے پیش کی گئی ہے.پیش کردہ عبارت سے معا پہلے یہ الفاظ ہیں جو حذف کر دئے گئے ہیں:.تم میں سے جو ملازمت پیشہ ہیں وہ اس کوشش میں ہیں کہ مجھے اس محسن سلطنت کا باغی ٹھہر اویں.میں سنتا ہوں کہ ہمیشہ خلاف واقعہ خبریں میری نسبت پہنچانے کے لئے ہر طرف سے کوشش کی جاتی ہے.حالانکہ آپ لوگوں کو خوب معلوم ہے کہ میں باغیانہ طریق کا آدمی نہیں ہوں“.326 اس کے آگے وہ عبارت شروع ہوتی ہے جو بطور اعتراض پیش کی گئی ہے.مندرجہ بالا اقتباس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ یہ عبارت بھی انگریزی حکومت کی مدح کے طور پر نہیں لکھی گئی بلکہ محض بطور ذب یعنی بغرض رفع التباس اِس الزام کی تردید کے لئے لکھی گئی ہے کہ آپ گور نمنٹ کے باغی ہیں.
انوار العلوم جلد 23 381 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مدح اور ذب میں فرق او پر عرض کیا گیا ہے کہ تعریفی الفاظ بطور مدح نہ تھے بلکہ بطور ”ذب “ یعنی بغرض رفع الزام تھے.اِس کی مثال قرآن مجید میں موجود ہے قرآن مجید میں حضرت مریم کی عفت اور عصمت بار بار اور زور دار الفاظ میں بیان کی گئی ہے لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس صاحبزادی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کی عفت اور عصمت کا قرآن مجید میں کہیں ذکر نہیں کیا گیا.حالانکہ وہ اپنی عفت اور عصمت کے لحاظ سے کسی رنگ میں بھی کم نہیں ہیں بلکہ حضرت فاطمتہ الزہراء تو اپنے مدارج عظمت کے لحاظ سے حضرت مریم سے افضل ہیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد سَيَدَةُ نِسَاءِ اَهْلِ الْجَنَّةِ 327 سے ظاہر ہے.قرآن مجید میں حضرت مریم کی پاکیزگی اور عفت و عصمت کا بار بار زور دار الفاظ میں ذکر ہونا اور اُن کے مقابل پر حضرت فاطمتہ الزہراء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ ماجدہ کا قرآن مجید میں ذکر نہ ہونا ہر گز ہر گز اس امر پر دلالت نہیں کرتا کہ حضرت مریم کو اُن پر کوئی فضیلت حاصل تھی کیونکہ حقیقت حال یہ ہے کہ حضرت مریم پر زنا اور بدکاری کی تہمت لگائی گئی تھی.اس لئے اُن کی بریت اور رفع الزام کے لئے بطور ”ذب“ اُن کی تعریف ضرورت تھی مگر چونکہ حضرت فاطمۃ الزہراء اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و کی والدہ ماجدہ پر ایسا کوئی الزام نہ تھا اس لئے باوجود اُن کی عظمت و شان کے اُن کی تعریف و توصیف کی ضرورت نہ تھی.بعینہ اسی طرح چونکہ حضرت مرزا صاحب پر آپ کے مخالفین کی طرف سے حکومت کا باغی ہونے اور اس کے خلاف تلوار کی لڑائی کی خفیہ تیاریوں میں مصروف ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا اس لئے ضروری تھا کہ اظہارِ حقیقت کے لئے زور دار الفاظ میں الزامات کی تردید کی جاتی.پس منظر پھر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی ان تحریرات پر غور کرنے کے لئے اس پس منظر کو بھی مدِ نظر رکھنا ضروری ہے جس میں یہ عبارتیں لکھی گئیں.حضرت مرزا صاحب کی پیدائش کے قریب زمانہ میں اور آپ کے دعویٰ سے قریباً
انوار العلوم جلد 23 382 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ چالیس سال قبل حکومت انگریزی کا تسلط پنجاب پر ہو چکا تھا.اس سے پہلے پنجاب پر سکھوں کی حکومت تھی جن سے انگریزوں نے قبضہ حاصل کیا تھا.سکھ دور کے جبر واستبداد اور وحشیانہ مظالم کی داستان حد درجہ المناک ہے.مسلمانوں کو اُس زمانہ میں انتہائی صبر آزما حالات میں سے گزرنا پڑا.اُنہیں جبراً مر تد بنایا گیا، اذا نہیں حکما ممنوع قرار دی گئیں، مسجد میں اصطبل بنائی گئیں، مسلمان عورتوں کی عصمت دری، مسلمانوں کا قتل اور لوٹ مار سکھوں کا روز مرہ کا مشغلہ تھا.یہ تو پنجاب کی حالت تھی.ہندوستان میں 1857ء کے سانحہ عظیم کے بعد کا زمانہ مسلمانوں کے لئے ابتلاء اور مصیبت کا زمانہ تھا.وہ تحریک ہندوؤں کی اُٹھائی ہوئی تھی لیکن اِس کو ”جنگ آزادی کا نام دیا گیا اور یہ اثر پیدا کرنے کی کوشش کی گئی کہ اس میں ہندوستانی مسلمان من حیث القوم پس پردہ شامل ہیں.سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد انگریزوں نے زمام حکومت اپنے ہاتھ میں لی تھی.اس لئے نئی حکومت کے دل میں متقدم حکومت کے ہم مذہب لوگوں کے بارہ میں شکوک و شبہات کا پیدا ہونا ایک طبعی امر تھا.اس پر 1857ء کا سانحہ مستزاد تھا.دوسری طرف ہندو قوم تھی جو تعلیم و تربیت، صنعت و حرفت، سیاست و اقتصاد غرضیکہ ہر شعبہ میں مسلمانوں کے بالمقابل ترقی یافتہ تھی.ہندوؤں نے مسلمانوں کا معاشرتی بائیکاٹ کر رکھا تھا.وہ مسلمانوں کے سیاسی زوال سے فائدہ اُٹھا کر مسلمانوں کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے سوچ رہے تھے.یہ دور ہندوستانی مسلمانوں کے لئے نازک ترین دور تھا.پس ایک طرف ہندو قوم کی ریشہ دوانیاں، مسلمانوں کا اقتصادی بائیکاٹ، مسلمانوں پر ان کا علمی، سیاسی اور اقتصادي تفوق اور اُن کو ہندوستان سے نکال باہر کرنے کے منصوبے تھے اور دوسری طرف سکھوں کے جبر واستبداد اور وحشیانہ مظالم کے لرزہ خیز واقعات.ان حالات میں انگریزی دورِ حکومت شروع ہوا.انگریزوں نے اپنی حکومت کی ابتداء اس اعلان سے کی کہ رعایا کے مذہبی معاملات میں نہ صرف حکومت خود مداخلت نہیں کرے گی بلکہ دوسری قوموں کی طرف بھی ایک دوسرے کے
انوار العلوم جلد 23 383 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مذہبی معاملات میں مداخلت برداشت نہیں کی جائے گی.ایسے قوانین بنا دئے گئے جن کے نتیجہ میں رعایا کے باہمی تنازعات کا فیصلہ عدل و انصاف سے ہونے لگا.ہندوؤں اور سکھوں کی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیوں کے آگے حکومت حائل ہو گئی.بالخصوص پنجابی مسلمانوں کو سکھوں کے اس جبر و استبداد سے اس طرح نجات مل گئی کہ گویاوہ ایک دہکتے ہوئے تنور سے یکدم باہر نکل آئے.قرآن مجید کی واضح ہدایت ایک طرف دو مشرک قومیں (ہندو اور سکھ ) مسلمانوں کے خون کی پیاسی تھیں تو دوسری طرف ایک عیسائی حکومت تھی جس کے ساتھ تعاون یا عدم تعاون کا مسلمانوں کو فیصلہ کرنا تھا.ان حالات میں مسلمانوں کے لئے قرآن مجید کی اس تعلیم پر عمل کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا کہ لَتَجِدَنَ أَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الْيَهُودَ وَالَّذِينَ اشْرَكُوا وَ لَتَجِدَنَّ أَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ قَالُوا إِنَّا نَصری - 328 یقیناً یقینا تو دیکھے گا کہ مسلمانوں کے بدترین دشمن یہودی اور مشرک ہیں اور یقین یقینا تو دیکھے گا کہ دوستی اور محبت کے لحاظ سے سب سے زیادہ مسلمانوں کے قریب عیسائی کہلوانے والے ہیں.اس واضح حکم میں مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ یہود یا ہنود اگر ایک طرف ہوں اور دوسری طرف عیسائی ہوں تو مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دوستی اور مودۃ کا ہاتھ عیسائیوں کی طرف بڑھائیں.چنانچہ عملاً مسلمانوں نے یہی کیا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر یہ قرآنی تعلیم مشعل راہ نہ بھی ہوتی تو بھی مسلمانوں کا مفاد اسی میں تھا اور حالات کا اقتضاء یہی تھا کہ وہ ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلہ میں انگریزوں کے ساتھ تعاون کرتے اور انگریزوں کی مذہبی رواداری سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے تباہ کن منصوبوں سے محفوظ رہ کر پُر امن تبلیغی مساعی کے ذریعہ سے اپنی تعداد کو بڑھانے کی کوشش کرتے رہتے.بعد کے حالات کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ انگریزی عملداری کے ابتداء میں مسلمانوں کی تعداد ہندو پاکستان میں ایک کروڑ کے تھی لیکن انگریزوں کے انخلاء 1947ء کے وقت مسلمانوں کی تعداد دس کروڑ تھی.
انوار العلوم جلد 23 384 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ریا تین صدیوں کی اسلامی حکومت کے دوران میں جس قدر مسلمانوں کی تعداد صرف ایک صدی سے بھی کم زمانہ میں اس سے دس گنا بڑھ گئی.چنانچہ سر سیّد احمد خان، مولانا شبلی نعمانی، نواب محسن الملک بہادر، نواب وقار الملک بہادر ، نواب صدیق حسن خان اور دوسری عظیم شخصیتوں نے دورِ اوّل میں اور قائد اعظم محمد علی جناح نے دورِ آخر میں ہندوؤں کی غلامی پر انگریزوں کے تعاون کو ترجیح دی اور مندرجہ بالا قرآنی تعلیم پر عمل کرتے ہوئے انگریزوں کی طرف دست تعاون بڑھایا.سرسید مرحوم نے انگریزی حکومت کو مسلمانوں کی وفاداری کا یقین دلانے کے لئے متعدد کتب و رسائل تصنیف کئے.مسلمانوں کی مغربی تعلیم میں ترقی کے لئے شبانہ روز کوششیں کیں جن کا نمونہ علی گڑھ یونیورسٹی کی صورت میں موجود ہے.چنانچہ احمدیت کا شدید ترین معاند اخبار ”زمیندار“ لاہور کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے:.جاتی“.329 ان دنوں سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ انگریز کی حمایت کی مہدی سوڈانی پھر یہ بات مد نظر رکھنی ضروری ہے کہ مہدی سوڈانی کی تحریک 1879ء اور اس کے برطانوی حکومت کے ساتھ تصادم کے باعث انگریزی قوم کے دل و دماغ پر یہ چیز گہرے طور پر نقش ہو چکی تھی کہ ہر مہدویت کے علم بردار کے لئے ضروری ہے کہ وہ تیغ و سنان ہاتھ میں لے کر غیر مسلموں کو قتل کرے.(ت) حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے سامنے کوئی اسلامی حکومت نہ تھی.پاکستان کا آئیڈیا(Idea) بھی اس وقت تک پیدا نہیں ہوا تھا.اگر انگریز اُس وقت چلا جاتا تو اُس کی جگہ وہی حکومت قائم ہوتی جو آج ہندوستان میں قائم ہے.پاکستان کا نام و نشان بھی نہ ہوتا.کیا بانی سلسلہ احمدیہ کا یہی مجرم ہے کہ وہ اس قسم کی حکومت کے مقابلہ میں انگریزی حکومت کو ترجیح دیتے تھے.یہ تو مستقبل کا حال تھا اور ماضی قریب کا حال یہ تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے ملک میں سکھوں کی حکومت تھی جنہوں نے مسجدوں کے اصطبل
انوار العلوم جلد 23 385 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بنا دئے تھے.جو زبر دستی مسلمان لڑکیوں کو چھین لے جاتے تھے ، جنہوں نے اذان کو مجرم قرار دے رکھا تھا، جن کی ساری حکومت میں تین چار مسلمان ملازم تھے ، جن کے حالات مظالم کو معلوم کر کے حضرت سید احمد بریلوی جیسے بے سر و سامان بزرگ جہاد کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے تھے.اپنے لڑکپن میں ان دل خراش واقعات کو سُننے اور دیکھنے والا شخص اگر انگریزی حکومت کو خدا کی رحمت نہ قرار دیتا تو کیا کہتا.کیا کوئی عقلمند انسان ایسا ہو سکتا ہے جو ان حالات میں پلنے کے بعد انگریزی حکومت کے طرزِ عمل کی تعریف نہ کرتا اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے جو رائے گورنمنٹ برطانیہ کی وفاداری کے متعلق ظاہر کی ہے وہ ظاہر نہ کرتا.ہم اس کی تائید میں معزز عدالت کے سامنے غیر احمدی عالموں اور لیڈروں کے چند اقوال پیش کرتے ہیں.گور نمنٹ برطانیہ سے وفاداری کے متعلق مولوی محمد حسین صاحب غیر احمدی علماء اور لیڈروں کے اقوال بٹالوی جو سردارِ اہل حدیث کہلاتے ہیں.اپنے رسالہ اشاعۃ السنۃ نمبر 10 جلد 6 صفحہ 287 میں لکھتے ہیں:.مسلمان رعایا کو اپنے گورنمنٹ سے (خواہ وہ کسی مذہب یہودی عیسائی وغیرہ پر ہو اور اس کے امن و عہد میں وہ آزادی کے ساتھ شعائر مذہبی ادا کرتی ہو ) لڑنا یا اس سے لڑنے والوں کی جان ومال سے اعانت کرنا جائز نہیں ہے.وَبِنَاءً عَلَیهِ اہل اسلام ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت و بغاوت حرام ہے“.اور لکھتے ہیں:.”مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے اصل معنے جہاد کے لحاظ سے بغاوت 1857ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی و فساد و عناد خیال کر کے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت قرار دیا.330
انوار العلوم جلد 23 پھر لکھتے ہیں: 386 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ "سلطان (روم) ایک اسلامی بادشاہ لیکن امن عام و محسن انتظام کی نظر سے (مذہب سے قطع نظر ) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص کر گروہِ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم، ایران خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے“.331 اور لکھتے ہیں:.اس امن و آزادی عام و حسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں اور جہاں کہیں وہ رہیں یا جائیں ( عرب میں، خواہ روم میں، خواہ اور کہیں) کسی اور ریاست کا محکوم ورعایا ہونا نہیں چاہتے “.332 اسی طرح سر سیّد احمد خان نے بھی اپنی کتاب رسالہ ”اسباب بغاوتِ ہند “برٹش گورنمنٹ کی وفاداری کی تلقین کی ہے اور اس کے خلاف کھڑے ہونے کو ” بغاوت“ قرار دیا ہے اور حضرت سیّد احمد بریلوی رحمتہ اللہ علیہ اِس انگریزی آزاد عملداری کو اپنی عملداری خیال کرتے تھے کیونکہ اس میں حکومت برطانیہ نے پوری مذہبی آزادی دے رکھی تھی.مولانا محمد جعفر تھانیسری لکھتے ہیں:.سید صاحب (حضرت سیّد احمد رائے بریلوی) کا سرکار انگریزی سے جہاد کرنے کا ہر گز ارادہ نہیں تھا اور وہ اس آزاد 66 عملداری کو اپنی ہی عملداری سمجھتے تھے “ 333
انوار العلوم جلد 23 387 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مولانا ظفر علی خان صاحب کا ارشاد مولانا ظفر علی خاں ہندوستان کو دار الا سلام قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:.مسلمان ایک لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے.اگر کوئی بد بخت مسلمان گورنمنٹ سے سرکشی کی جرأت کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں کہ وہ مسلمان 66 مسلمان نہیں “.334 پھر لکھتے ہیں:- ”زمیندار اور اس کے ناظرین گورنمنٹ برطانیہ کو سایہ خدا سمجھتے ہیں اور اس کی عنایت شاہانہ و انصاف خسروانہ کو اپنی دلی ارادت، قلبی عقیدت کا کفیل سمجھتے ہوئے اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے“.35 اس قسم کے اتنے حوالے موجود ہیں جو کئی جلدوں میں بھی نہیں سما سکتے.ان میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کسی الزام و اتہام کو دور کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ صرف انگریزی حکومت کے طریقہ عمل کی پسندیدگی کی وجہ سے ہے.اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو گورنمنٹ انگریزی کے بارہ میں جو بار بار لکھنا پڑا وہ بمقابلہ سکھ حکومت کے انگریزی حکومت کی بہتری کے لحاظ سے ہی نہیں بلکہ اس کی یہ وجہ بھی ہے کہ مسلمان مولوی اور دوسرے مذاہب والے خصوصاً عیسائی پادری آپ کے خلاف گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکایتیں کرتے رہتے تھے کہ آپ بباطن گورنمنٹ انگریزی کے دشمن ہیں اور موقع پا کر اس کے خلاف جنگ کا اعلان کریں گے.اور گور نمنٹ انگریزی نبھی آپ کو اس وجہ سے شبہ کی نظر سے دیکھتی تھی کہ آپ کا دعویٰ مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا تھا اور انگریزی حکومت اس قسم کے دعوے کی وجہ سے ان کی شکایت کو توجہ کی نظر سے دیکھتی تھی کیونکہ قریب ہی کے زمانہ
انوار العلوم جلد 23 388 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ میں مہدی سوڈانی کے دعوئی نے جو جنگ کی حالت پیدا کر دی تھی وہ انگریزوں کو بھولی نہیں تھی اور اس وجہ سے بھی کہ مسلمانوں کا یہ عقیدہ تھا کہ جب مہدی موعود آئے گا تو ہندوستان کے بادشاہوں سے جنگ کرے گا اور وہ اُس کے سامنے بیڑیوں میں جکڑے ہوئے پیش کئے جائیں گے اور اِسی طرح وہ مسیح موعود کے متعلق یہ خیال بھی کرتے تھے کہ مسیح موعود اہل کتاب سے جزیہ قبول نہیں کرے گا بلکہ صرف اسلام قبول کرے گا اور جو اسلام نہیں قبول کرے گا اُسے قتل کر دے گا.مسلمانوں کے یہ عقائد اقتراب الساعة ، حجج الکرامہ مؤلفہ نواب صدیق حسن خان میں موجود ہیں.اس لئے ضروری تھا کہ بانی سلسلہ احمدیہ ان عقائد کی تردید کرتے اور انگریزی گورنمنٹ کو یقین دلاتے کہ آپ کے خلاف مولویوں کی جو شکایات حکومت کو پہنچائی جاتی ہیں وہ غلط ہیں اور میرے نزدیک ایسی حکومت کی جس نے مذہبی آزادی دے رکھی ہو اور جو مذہب اسلام کے قبول کرنے سے نہ روکتی ہو، اطاعت کرنا ضروری ہے.ایسی شکایات کا ذکر فرماتے ہوئے آپ اپنی کتاب ”انجام آتھم “ میں مولویوں کے متعلق لکھتے ہیں کہ :- بعض ان کے اپنی بدگوہری کی وجہ سے گورنمنٹ انگریزی میں جھوٹی شکائتیں میری نسبت لکھتے رہے اور اپنی عداوت باطنی کو چھپا کر مخبروں کے لباس میں نیش زنی کرتے رہے اور کر رہے ہیں.....یہ نادان نہیں جانتے کہ کوئی بات زمین پر نہیں ہو سکتی جب تک کہ آسمان پر نہ ہو جائے اور گور نمنٹ انگریزی میں یہ کوشش کرنا کہ گویا میں مخفی طور پر گورنمنٹ کا بد خواہ ہوں یہ نہایت سفلہ پن کی عداوت ہے “.336 نیز اپنی کتاب ”نور الحق“ مطبوعہ 1893ء میں پادریوں کا ذکر کرتے ہوئے خصوصاً پادری عماد الدین کا جس نے اپنی کتاب توزین الا قوال میں حکومت کو آپ کے خلاف اکسایا تھا.لکھا:- ”اس میں ایک خالص افترا کے طور پر میرے بعض حالات لکھے ہیں اور بیان کیا ہے کہ یہ شخص ایک مفسد آدمی اور گورنمنٹ کا دشمن ہے
انوار العلوم جلد 23 389 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور مجھے اس کے طریق چال چلن میں بغاوت کی نشانیاں دکھائی دیتی ہیں اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ایسے ایسے کام کرے گا اور مخالفوں میں سے ہے “.337.پس حکومت سے مخالفین کی یہ شکایتیں اس امر کا موجب ہوئیں کہ بانی سلسلہ احمدیہ ان کو ر ڈ کریں اور انگریزی حکومت کا مذہبی آزادی دینے کی وجہ سے بار بار شکریہ ادا کریں.سوال نمبر 6 شق دوئم متعلق مسئلہ جہاد اس کے بعد ہم جہاد کے مسئلہ کو لیتے ہیں.یہ مسئلہ بھی اس رنگ میں پیش کیا جاتا ہے کہ گویا بانی سلسلہ احمدیہ نے انگریزوں کو خوش کرنے یا اُن کی مدد کے لئے اس کو پیش کیا تھا.سو اس کا جواب یہ ہے کہ جس وقت بانی سلسلہ احمدیہ نے دعویٰ کیا تھا اُس وقت جہاد کا مسئلہ صرف انگریزوں کے لئے ہی مفید نہیں تھا بلکہ فرانس، سپین، روس اور جرمنی کے لئے بھی مفید تھا جن کے ماتحت بہت سے اسلامی علاقے تھے.اُس وقت انگریزوں اور اُن قوموں کا آپس میں اختلاف تھا.پس یہ بات عقل میں نہیں آسکتی کہ انگریز کسی شخص سے ایسی بات کہلواتے جو صرف اُن کو فائدہ نہ پہنچاتی ہو بلکہ اُن کے دُشمنوں کو بھی فائدہ پہنچاتی ہو.اگر انہیں اپنی تائید کروانی ہوتی تو وہ محض اس رنگ میں ہونی چاہئے تھی کہ انگریزوں کے ہمارے ملک پر بڑے احسانات ہیں اس لئے انگریزوں سے جہاد نہیں کرنا چاہئے لیکن حضرت مرزا صاحب نے تو اپنی کتابوں میں اس بات پر زور دیا ہے کہ چونکہ ساری دُنیا میں اب مذہب کے لئے جنگیں نہیں کی جاتیں جس طرح کہ پہلے کی جاتی تھیں اس لئے اس زمانہ میں جہاد جائز نہیں اور انگریز یہ بات کبھی کہلواہی نہیں سکتے تھے.اُن کا فائدہ تو اس بات میں تھا کہ روسیوں یا جرمنوں یا فرانسیسیوں یا سپینش سے تو جہاد جائز ہوتا لیکن اُن سے جہاد جائز نہ ہوتا.
انوار العلوم جلد 23 390 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ جہاد کی حقیقت اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے جہاد کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے.یہ بات ہر شخص پر ظاہر ہے کہ چودہ سال تک رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے قسم قسم کے ظلم سہے لیکن پھر بھی مخالفوں کی سختی کا جواب سختی سے نہیں دیا.اسی دوران میں تیرہ سال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کرنی پڑی لیکن مدینہ جانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیچھا نہیں چھوڑا گیا اور مدینہ کے ارد گر د حملے کر کے لوگوں پر زور ڈالا گیا کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ و کا مقاطعہ کریں اور آپ سے کسی قسم کا تعلق نہ رکھیں.تب کہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے دفاع کی اجازت دی گئی اور لڑائی کا حکم ان الفاظ میں نازل ہوا: أَذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ لا وسلم بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقَّ إِلَّا اَنْ يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَ صَلَوتَ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ - الَّذِينَ إِنْ مَكَتَهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَأتُوا الزَّكَوةَ وَ اَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلَّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ - 338 یعنی اُن لوگوں کو جن پر حملہ کیا جاتا ہے حملہ کا جواب دینے کی اِس لئے اجازت دی جاتی ہے کہ اُن پر ظلم کیا گیا ہے اور یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی مدد پر قادر ہے.یہ لوگ جن کو اجازت دی گئی ہے وہ ہیں جو اپنے گھروں سے بغیر کسی قصور کے نکالے گئے.اُن کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ کہتے تھے اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض انسانوں کے حملہ کو دوسرے انسانوں کے ذریعہ سے نہ روکے تو عیسائیوں کے گرجے اور یہودیوں کی عبادت گاہیں اور راہبوں کی خلوت گاہیں اور مساجد جن سب میں اللہ تعالیٰ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے گرا دی جائیں اور اللہ تعالیٰ یقیناً اُن لوگوں کی مدد کرے گا جو خدا کی مدد کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ یقیناً طاقتور اور غالب ہے.وہ لوگ کہ اگر ہم اُن کو زمین میں طاقت بخشیں تو وہ نمازوں کو قائم کریں گے اور زکوۃ دیں گے اور نیک باتوں کا حکم دیں گے اور بُری باتوں سے روکیں گے اور سب باتوں کا انجام اللہ کے ہاتھ میں ہی ہونا چاہئے.
انوار العلوم جلد 23 391 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ان آیات سے ظاہر ہے کہ اسلام میں جہاد کا حکم اسی وجہ سے دیا گیا کہ مسلمانوں کو ربنا اللہ کہنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی اور محض دین کی وجہ سے وہ ملک سے نکالے جاتے تھے اور اُن پر طرح طرح کے ظلم کئے جاتے تھے اور اس حکم میں یہ شرط لگائی گئی کہ اُن لوگوں سے لڑیں جنہوں نے اُن پر حملہ کیا ہے، دوسروں سے نہیں اور یہ بھی بتایا گیا کہ مذہب میں دخل اندازی کی رُوح اگر پھیل جائے تو اس میں صرف مسلمانوں کا ہی نقصان نہیں اور صرف انہی کی مسجدیں نہیں گرائی جائیں گی بلکہ اس کے نتیجہ میں عیسائیوں کے گرجے بھی گرائے جائیں گے، یہودیوں کے معبد بھی گرائے جائیں گے اور راہبوں کے خلوت خانے بھی گرائے جائیں گے اور پھر یہ بھی کہا گیا کہ وہ لوگ جو اس نیت کے ساتھ کہ خدا تعالیٰ کے نام کو دنیا میں آزادی حاصل ہو اور مذہبی امور میں دست اندازی نہ کی جائے اُن لوگوں سے لڑیں گے جو کہ مذہبی دست اندازی کی خاطر اُن سے لڑتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو اپنے دشمنوں پر غلبہ عطا فرمائے گا اور جو لوگ اِن وجوہ سے جنگ کریں گے وہ یقیناً جب غالب آئیں گے تو خدا کی عبادتوں کو قائم کریں گے، غریبوں کے لئے اپنے مال خرچ کریں گے ہر ایک کو نیک بات کی تعلیم دیں گے اور بُری باتوں سے روکیں گے اور مذہبی امور میں اپنا اختیار نہیں جتائیں گے بلکہ ان باتوں کو خدا پر چھوڑ دیں گے.یہ حکم کتنا واضح ہے.جہاد صرف اُن لوگوں سے ہے جو کہ مسلمانوں کے خلاف دین کے لئے لڑتے ہیں اور جو خدا تعالیٰ کی اُس عبادت سے روکتے ہیں جو اُن کے طریق کے خلاف ہے اور جو اپنے سے مخالف لوگوں کی عبادت گاہوں کو گرانا جائز سمجھتے ہیں ایسے لوگوں سے جنگ جائز کی گئی اور اس قسم کی جنگ کے متعلق یہ بھی پیش گوئی کی گئی کہ جو شخص اس نیت کے ساتھ اور ان حالات میں جنگ کرے گاوہ ضرور کامیاب ہو گا.سورہ بقرہ میں بھی یہ مضمون دوبارہ بیان کیا گیا ہے.وہاں فرمایا گیا ہے:.وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَ اَخْرِجُوهُهُ مِنْ حَيْثُ اَخْرَجُوكُمْ وَالْفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ وَلَا تُقْتِلُوهُمْ
392 انوار العلوم جلد 23 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقتِلُوكُمْ فِيهِ فَإِنْ قَتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذلِكَ جَزَاءُ الْكَفِرِينَ فَإِنِ انْتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ - وَقَتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَلَا عُدْوَانَ إِلا عَلَى الظَّلِمِینَ.339 اور اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اُن لوگوں سے لڑوجو تم سے لڑتے ہیں لیکن دفاعی جنگ میں بھی حد سے مت بڑھو کیونکہ اللہ تعالیٰ حد سے بڑھنے والوں سے پیار نہیں کرتا اور تم جہاں بھی اُن کو پاؤ اُن سے جنگ کرو اور جن علاقوں سے انہوں نے تم کو نکال دیا ہے تم بھی اُن کو وہاں سے نکال دو اور دین کے معاملہ میں ظلم کرنا قتل سے بھی زیادہ سخت ہے اور تم اُن سے کبھی بھی مسجد حرام کے علاقہ میں نہ لڑو.سوائے اس کے کہ وہ اس علاقہ میں تم سے لڑائی کریں.اگر وہ تم سے اس علاقہ میں لڑائی کریں تو تم کو بھی اجازت ہے کہ تم بھی اس علاقہ میں اُن سے لڑو.الہی احکام کا انکار کرنے والوں کو یہی سزا ہوتی ہے لیکن اگر وہ لڑائی سے باز آجائیں تو اللہ تعالیٰ ہر ایک کی غلطیوں کو معاف کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور تم اُن سے لڑو یہاں تک کہ دین کے معاملہ میں ظلم کرنا بند ہو جائے اور اطاعت اور فرمانبر داری صرف اللہ کے لئے باقی رہے.لوگ اپنے خیالات اور اپنے عقیدوں کو جبر آلوگوں پر نہ ٹھونسیں) اگر وہ لوگ ان باتوں سے باز آجائیں تو سختی اور مقابلہ صرف اُن لوگوں کے لئے جائز ہے جو ظلم کرتے ہوں، دوسروں کے لئے نہیں.یہ آیت بھی کتنی واضح ہے.اس میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ صرف اُن لوگوں سے جنگ جائز ہے جو کہ لڑتے ہیں اور اُن سے بھی حدود اور مطالبات انسانیت کے ماتحت جنگ جائز ہے.اس سے آگے گزرنا جائز نہیں اور انہی علاقوں میں جنگ جائز ہے جن علاقوں میں دشمن جنگ کریں اور دین کے معاملہ میں دخل نہ دُشمن کے لئے جائز ہے نہ مؤمن کے لئے جائز ہے اور مسلمان کو جنگ میں اتنی احتیاط کرنی چاہئے کہ مقدس مقامات کے قریب جنگ نہ کرے.سوائے اس کے کہ دشمن اُسے مجبور کر دے اور جب دشمن جنگ سے رُکے تو پھر مسلمانوں کو بھی رُک جانا چاہئے اور یہ کہ اسلامی جنگ محض اس لئے ہوتی ہے کہ دین کے معاملہ میں کسی کو دُکھ میں ڈالنے سے روکا جائے اور دین کے
انوار العلوم جلد 23 393 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ معاملہ کو صرف اللہ پر چھوڑ دیا جائے.اپنا دین لوگوں سے نہ منوائیں اور جو بھی ان باتوں پر عمل کرے اُس کے ساتھ لڑائی جائز نہیں.اسی طرح ایک دوسری سورۃ میں واضح کر دیا گیا ہے کہ اسلامی جہاد صرف اُن لوگوں سے ہوتا ہے جو کہ دین میں دخل دینا چاہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:- لا يَنْكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ أَنْ تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ - إِنَّمَا يَنْهُكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ قَتَلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَ اَخْرَجُوكُمْ مِنْ دِيَارِكُمْ وَ ظَهَرُوا عَلَى إِخْرَاجِكُمْ أَنْ تَوَلَّوهُمْ ۚ وَمَنْ يَتَوَلَّهُمْ فَأُولَبِكَ هُمُ الظَّلِمُونَ - 340 اللہ تعالیٰ تمہیں اُن لوگوں سے دوستی اور سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی نہیں کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نہیں نکالا کیونکہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں صرف اُن لوگوں سے دوستی کرنے سے روکتا ہے جنہوں نے دین کے متعلق تم سے لڑائی کی اور تم کو تمہارے گھروں سے نکالا یا تم کو گھروں سے نکالنے والوں کی مدد کی.ایسے لوگوں سے جو دوستی اور پیار رکھتا ہے وہ ظالم ہے ( اور اپنی قوم کادشمن ہے).اس آیت سے صاف ظاہر ہے کہ جہاد صرف دینی جنگ کا نام ہے کیونکہ اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ صرف اُن سے دوستی ناجائز ہے جو کہ دین کے معاملہ میں تم سے لڑائی کرتے ہیں.اگر ہر جنگ جہاد ہے تو پھر اس کے تو یہ معنے ہوں گے کہ جو دینی امور کی وجہ سے مسلمان قوم سے لڑائی کرے اُن کے ساتھ ریشہ دوانیاں اور تعلق جائز ہے.حالانکہ کوئی عقلمند اس کو تسلیم نہیں کر سکتا.پس یہ آیت بتاتی ہے کہ قرآن تسلیم کرتا ہے کہ جنگیں دو قسم کی ہوں گی.ایک وہ جنگ جو کہ دینی جنگ ہو گی اور اسلام کو اسی جنگ سے تعلق ہے وہ جہاد کہلائے گی.اس کے علاوہ دینی جنگیں بھی انصاف اور عدل کے قوانین کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جاسکتی ہیں مگر وہ جہاد فی سبیل اللہ نہیں کہلائیں گی.خلاصہ یہ کہ قرآنِ کریم کی رُو سے جہاد فی سبیل اللہ وہی ہے جو (1) دین کی خاطر ہو اور
انوار العلوم جلد 23 394 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (2) ایسے لوگوں کے ساتھ کیا جائے جو کہ دین بدلوانے کے لئے مسلمانوں پر حملہ کریں یا دین کی وجہ سے اُن کو گھروں سے نکالیں.(3) جہاد میں بھی اس حد تک دشمن کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جس حد تک وہ خود کرتا ہے.اگر وہ گھروں سے مسلمانوں کو نکالے تو مسلمان بھی اُن کو گھروں سے نکال سکتے ہیں.اگر وہ مقدس مقامات کے قریب جنگ کریں تو وہ بھی وہاں جنگ کر سکتے ہیں لیکن مسلمانوں کا فرض ہو گا کہ وہ معابد کی حفاظت کریں اور مذہب میں دخل اندازی نہ کریں.(4) اور اگر دشمن ایسی جنگ سے رُک جائے تو پھر یہ بھی اس قسم کی جنگ کو ختم کر دیں.(5) قرآن کریم نے بتایا ہے کہ جو شخص ان شرطوں کے مطابق جنگ کرے گا چاہے وہ کمزور بھی ہو اللہ تعالیٰ اُس کی فتح کے سامان پیدا کر دے گا.جہاد کے لئے امام کی شرط ایک اور آیت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ جہاد صرف منظم صورت میں جائز ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَافَةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَةً 341 یعنی تم کو چاہئے مسلمان جہاد میں شریک ہوں.جس طرح کہ کفار سارے کے سارے جہاد میں شریک ہیں کیونکہ وہ اس کو مذہبی جنگ بنارہے ہیں.اب سب کے سب مسلمان تبھی شامل ہو سکتے ہیں جب کوئی امام اُن کو جمع کرنے والا ہو.چنانچہ اس آیت کی تشریح میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْإِمَامُ جَنَّةَ يُقَاتَلُ مِنْ وَ رَائِهِ - 342 امام ایک ڈھال کی طرح ہوتا ہے اس لئے سب مسلمانوں کو اُس کے پیچھے لڑائی کرنی چاہیئے.یعنی جہاد کے لئے شرط ہے کہ ایک امام اس کا اعلان کرے اور سب مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس کے ساتھ مل کر دینی جنگ میں شامل ہوں اور امام کا فرض ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے زیادہ اس جنگ میں شریک ہو.ان آیتوں اور حدیثوں سے صاف ظاہر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں
انوار العلوم جلد 23 395 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اس قسم کے جہاد کی کوئی صورت پیدا نہیں تھی.نہ تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے یا اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے پر کسی شخص کو ملک سے نکالا جاتا تھا، نہ اس لئے کسی قوم پر حملہ کیا جاتا تھا کہ وہ کیوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہے ، نہ لوگوں کو مجبور کیا جاتا تھا کہ وہ اسلام کو چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کر لیں اور نہ کوئی امام موجود تھا جو مسلمانوں کو منظم کرتا اور جو مسلمانوں کے آگے ہو کر لڑتا جس سے یہ پتہ لگ جاتا کہ وہ شخص لڑائی کروانے میں دیانتدار ہے.صرف دوسروں کا خون کروا کے تماشا نہیں دیکھ رہا.پس نہ تو مسلمانوں پر اس قسم کے حملے ہو رہے تھے نہ مسلمان منظم تھے.مولوی جہاد پر لوگوں کو اکسا دیتے تھے اور آپ مسجدوں میں بیٹھے رہتے تھے اور دوسرے مسلمان طاقتور غیر حکومتوں کی بندوقوں کا شکار ہوتے تھے.خدا تعالیٰ کی کوئی مدد اُن کو نہیں مل رہی تھی.حالانکہ اس آیت میں جنگ کرنے والوں سے خدا تعالیٰ وعدہ کرتا ہے کہ اُن کو مدد دی جائے گی.حضرت مرزا صاحب نے اس کے علاوہ کچھ نہیں لکھا.یہی جو قرآن کا حکم ہے آپ نے اس کی تشریح کی ہے.چنانچہ آپ نے اس کے متعلق ایک رسالہ ”جہاد“ لکھا ہے جو بائیس صفحات پر مشتمل ہے.اس میں آپ تحریر فرماتے ہیں:.جانا چاہئے کہ جہاد کا لفظ جہد کے لفظ سے مشتق ہے.جس کے معنے ہیں کوشش کرنا اور پھر مجاز کے طور پر دینی لڑائیوں کے لئے بولا گیا.343 پھر فرماتے ہیں:.سو واضح ہو کہ اسلام کو پیدا ہوتے ہی بڑی بڑی مشکلات کا سامنا پڑا تھا اور تمام قومیں اس کی دُشمن ہو گئی تھیں جیسا کہ یہ ایک معمولی بات ہے کہ جب ایک نبی یا رسول خدا کی طرف سے مبعوث ہوتا ہے اور اُس کا فرقہ لوگوں کو ایک گروہ ہونہار اور راستباز اور باہمت اور ترقی کرنے والا دکھائی دیتا ہے تو اس کی نسبت موجودہ قوموں اور فرقوں کے دلوں میں ضرور ایک قسم کا بغض اور حسد پیدا
انوار العلوم جلد 23 ہو جایا کرتا ہے“.396 344 " مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پھر فرماتے ہیں:.”یہی اسباب تھے جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مشرکوں اور یہودیوں اور عیسائیوں کے عالموں کو نہ محض حق کے قبول کرنے سے محروم رکھا بلکہ سخت عداوت پر آمادہ کر دیا.لہذا وہ اس فکر میں لگ گئے کہ کسی طرح اسلام کو صفحہ دُنیا سے مٹا دیں اور چونکہ مسلمان اسلام کے ابتدائی زمانہ میں تھوڑے تھے اس لئے اُن کے مخالفوں نے بباعث اُس تکبر کے جو فطرتاً ایسے فرقوں کے دل اور دماغ میں جاگزیں ہوتا ہے جو اپنے تئیں دولت میں، مال میں، کثرت جماعت میں، عزت میں، مرتبت میں دوسرے فرقہ سے برتر خیال کرتے ہیں.اس وقت کے مسلمانوں یعنی صحابہ سے سخت دشمنی کا برتاؤ کیا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ یہ آسمانی پوداز مین پر قائم ہو بلکہ وہ ان راستبازوں کے ہلاک کرنے کے لئے اپنے ناخنوں تک زور لگارہے تھے اور کوئی دقیقہ آزار رسانی کا اُٹھا نہیں رکھا تھا“.345 پھر فرماتے ہیں:- انہوں نے دردناک طریقوں سے اکثر مسلمانوں کو ہلاک کیا اور ایک زمانہ دراز تک جو تیرہ برس کی مدت تھی، اُن کی طرف سے یہی کارروائی رہی اور نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے وفادار بندے اور نوع انسان کے فخر ، اُن شریر درندوں کی تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور یتیم بچے اور عاجز اور مسکین عورتیں کو چوں اور گلیوں میں ذبح کئے گئے.اس پر بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے قطعی طور پر یہ تاکید تھی کہ شر کا ہر گز مقابلہ نہ کرو“ 346 پھر لکھتے ہیں :- ہیں:-
انوار العلوم جلد 23 397 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ان صابرانہ اور عاجزانہ روشوں سے مخالفوں کی شوخی دن بدن بڑھتی گئی اور انہوں نے اس مقدس جماعت کو اپنا ایک شکار سمجھ لیا.تب اُس خدا نے جو نہیں چاہتا کہ زمین پر ظلم اور بے رحمی حد سے گزر جائے، اپنے مظلوم بندوں کو یاد کیا اور اُس کا غضب شریروں پر بھڑ کا اور اُس نے اپنی پاک کلام قرآن شریف کے ذریعہ سے اپنے مظلوم بندوں کو اطلاع دی کہ جو کچھ تمہارے ساتھ ہو رہا ہے میں سب کچھ دیکھ رہا ہوں.میں تمہیں آج سے مقابلہ کی اجازت دیتاہوں اور میں خدائے قادر ہوں، ظالموں کو بے سزا نہیں چھوڑوں گا.یہ حکم تھا جس کا دوسرے لفظوں میں جہاد نام رکھا گیا اور اس حکم کی اصل عبارت جو قرآن شریف میں اب تک موجود ہے یہ ہے أُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقِّ - یعنی خدا نے اُن مظلوم لوگوں کی جو قتل کئے جاتے ہیں اور ناحق اپنے وطن سے نکالے گئے فریاد سُن لی اور اُن کو مقابلہ کی اجازت دی گئی اور خدا قادر ہے جو مظلوم کی مدد کرے.......مگر یہ حکم مختص الزمان والوقت تھا.ہمیشہ کے لئے نہیں تھا بلکہ اُس زمانہ کے متعلق تھا جب کہ اسلام میں داخل ہونے والے بکریوں اور بھیڑوں کی طرح ذبح کئے جاتے تھے “.347 پھر فرماتے ہیں:.عجیب اتفاق یہ ہے کہ عیسائیوں کو تو خالق کے حقوق کی نسبت غلطیاں پڑیں اور مسلمانوں کو مخلوق کے حقوق کی نسبت.یعنی عیسائی دین میں تو ایک عاجز انسان کو خدا بنا کر اُس قادر قیوم کی حق تلفی کی گئی جس کی مانند نہ زمین میں کوئی چیز ہے اور نہ آسمان میں اور مسلمانوں نے انسانوں پر ناحق تلوار چلانے سے بنی نوع کی حق تلفی کی
انوار العلوم جلد 23 398 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور اس کا نام جہاد رکھا.غرض حق تلفی کی ایک راہ عیسائیوں نے اختیار کی اور دوسری راہ حق تلفی کی مسلمانوں نے اختیار کرلی اور اس زمانہ کی بدقسمتی سے یہ دونوں گروہ ان دونوں قسم کی حق تلفیوں کو ایسا پسندیدہ طریق خیال کرتے ہیں کہ ہر ایک گروہ جو اپنے عقیدہ کے موافق اِن دونوں قسموں میں سے کسی قسم کی حق تلفی پر زور دے رہا ہے وہ یہ سمجھ رہا ہے کہ گویا وہ اس سے سیدھا بہشت کو جائے گا اور اس سے بڑھ کر کوئی بھی ذریعہ بہشت کا نہیں اور اگر چہ خدا کی حق تلفی کا گناہ سب گناہوں سے بڑھ کر ہے لیکن اس جگہ ہمارا یہ مقصود نہیں ہے کہ اُس خطر ناک حق تلفی کا ذکر کریں جس کی عیسائی قوم مر تکب ہے بلکہ ہم اس جگہ مسلمانوں کو اُس حق تلفی پر متنبہ کرنا چاہتے ہیں جو بنی نوع کی نسبت اُن سے سرزد ہو رہی ہے.پھر فرماتے ہیں:.وو 348" یہ خیال اُن کا ہر گز صحیح نہیں ہے کہ جب پہلے زمانہ میں جہاد روار کھا گیا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ آب حرام ہو جائے.اس کے ہمارے پاس دو جواب ہیں.ایک یہ کہ یہ خیال قیاس مع الفارق ہے.یعنی دلیل کی بنیاد ایسی چیز پر قائم کی گئی ہے جس کا اس سے جوڑ نہیں ہے.اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر گز کسی پر تلوار نہیں اُٹھائی بجز اُن لوگوں کے جنہوں نے پہلے تلوار اُٹھائی اور سخت بے رحمی سے بے گناہ اور پر ہیز گار مردوں اور عورتوں اور بچوں کو قتل کیا اور ایسے درد انگیز طریقوں سے مارا کہ اب بھی ان قصوں کو پڑھ کر رونا آتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ اسلام میں ایسا ہی جہاد تھا جیسا کہ ان مولویوں کا خیال ہے تاہم اس زمانہ میں وہ محکم قائم نہیں رہا کیونکہ لکھا ہے کہ جب مسیح موعود ظاہر ہو جائے گا تو سیفی جہاد اور
انوار العلوم جلد 23 399 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مذہبی جنگوں کا خاتمہ ہو جائے گا کیونکہ مسیح نہ تلوار اُٹھائے گا اور نہ کوئی اور زمینی ہتھیار ہاتھ میں پکڑے گا بلکہ اُس کی دُعا اُس کا حربہ ہو گا اور اُس کی عقدِ ہمت اُس کی تلوار ہو گی.وہ صلح کی بنیاد ڈالے گا اور بکری اور شیر کو ایک ہی گھاٹ پر اکٹھے کرے گا اور اُس کا زمانہ صلح اور نرمی اور انسانی ہمدردی کا زمانہ ہو گا.ہائے افسوس کیوں یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ تیرہ سو برس ہوئے کہ مسیح موعود کی شان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے کلمہ يَضَعُ الْحَرْب جاری ہو چکا ہے.جس کے یہ معنے ہیں کہ مسیح موعود جب آئے گا تو لڑائیوں کا خاتمہ کر دے گا“.349 پھر لکھتے ہیں :- ”جب کہ مسلمانوں کے پاس صبر اور ترک شر اور اخلاق فاضلہ کا یہ نمونہ ہے جس سے تمام دُنیا پر اُن کو فخر ہے تو یہ کیسی نادانی اور بد بختی اور شامت اعمال ہے جو اب بالکل اس نمونہ کو چھوڑ دیا گیا ہے.جاہل مولویوں نے خدا اُن کو ہدایت دے عوام کا لانعام کو بڑے دھو کے دئے ہیں اور بہشت کی کنجی اسی عمل کو قرار دے دیا ہے جو صریح ظلم اور بے رحمی اور انسانی اخلاق کے بر خلاف ہے.کیا یہ نیک کام ہو سکتا ہے کہ ایک شخص مثلاً اپنے خیال میں بازار میں چلا جاتا ہے اور ہم اس قدر اُس سے بے تعلق ہیں کہ نام تک بھی نہیں جانتے اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے مگر تاہم ہم نے اُس کے قتل کرنے کے ارادہ سے ایک پستول اُس پر چھوڑ دیا ہے.کیا یہی دینداری ہے ؟ اگر یہ کچھ نیکی کا کام ہے تو پھر درندے ایسی نیکی کے بجالانے میں انسانوں سے بڑھ کر ہیں.سُبحان اللہ وہ لوگ کیسے راستباز اور نبیوں کی رُوح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں اُن کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کروا گرچہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اس حکم کو پا کر شیر خوار
انوار العلوم جلد 23 400 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بچوں کی طرح عاجز اور کمزور بن گئے.گویا نہ اُن کے ہاتھوں میں زور ہے نہ اُن کے بازوؤں میں طاقت پھر فرماتے ہیں:.350" کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ، بے جرم، بے تبلیغ، خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ.اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے“.351 پھر فرماتے ہیں:.”ابھی ہم لکھ چکے ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں جو اسلام نے خدائی حکم سے تلوار اُٹھائی وہ اُس وقت اُٹھائی گئی کہ جب بہت سے مسلمان کا فروں کی تلواروں سے قبروں میں پہنچ گئے.آخر خدا کی غیرت نے چاہا کہ جو لوگ تلواروں سے ہلاک کرتے ہیں وہ تلواروں سے ہی مارے جائیں.خدا بڑا کریم اور رحیم اور حلیم ہے اور بڑا برداشت کرنے والا ہے لیکن آخر کار راستبازوں کے لئے غیرت مند بھی ہے.مجھے تعجب ہے کہ جب کہ اس زمانہ میں کوئی شخص مسلمانوں کو مذہب کے لئے قتل نہیں کرتا تو وہ کس حکم سے ناکردہ گناہ لوگوں کو قتل کرتے ہیں کیوں اُن کے مولوی اِن بے جا حرکتوں سے جن سے اسلام بدنام ہوتا ہے اُن کو منع نہیں کرتے “ 352 پھر فرماتے ہیں:.” موجودہ طریق غیر مذہب کے لوگوں پر حملہ کرنے کا جو مسلمانوں میں پایا جاتا ہے جس کا نام وہ جہاد رکھتے ہیں.یہ شرعی جہاد نہیں ہے بلکہ صریح خدا اور رسول کے حکم کے مخالف اور سخت معصیت 353"
انوار العلوم جلد 23 401 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پھر اسی صفحہ پر فرماتے ہیں کہ چونکہ مسلمانوں میں یہ عادت راسخ ہو گئی ہے اس لئے کسی مسلمان بادشاہ کو چاہئے کہ وہ ان امور کی طرف توجہ کرے اور اس کے لئے اُنہوں نے امیر افغانستان کو منتخب کر کے اُسے نصیحت کی کہ وہ ایسا کرے.پھر فرماتے ہیں:.”اسلام ہر گز یہ تعلیم نہیں دیتا کہ مسلمان راہزنوں اور ڈاکوؤں کی طرح بن جائیں اور جہاد کے بہانے سے اپنے نفس کی خواہشیں پوری کریں“.354 پھر فرماتے ہیں:.جہاد کا حکم بادشاہ کے بغیر نہیں.اس لئے امیر صاحب افغانستان کو چاہئے کہ وہ علماء کو سمجھائیں ور نہ ہو سکتا ہے کہ علماء اس حکم کو دیکھ کر کہ امیر کے بغیر جہاد نہیں اور پھر یہ دیکھ کر کہ امیر صاحب جہاد کا اعلان نہیں کرتے اُن کو بھی دائرہ اسلام سے خارج کر دیں.پس امیر صاحب کو اسلام کے حقوق کی حفاظت کے لئے اور اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے ایسا کرنا چاہئے.355 پھر فرماتے ہیں:- ”مسئلہ جہاد کے متعلق جو غلط فہمی ہوئی ہے اُس کے ذمہ دار صرف مولوی نہیں بلکہ پادری بھی ہیں جنہوں نے حد سے زیادہ اس بات پر زور دیا کہ اسلام میں جہاد فرض ہے اور دوسری قوموں کو قتل کرنا مسلمانوں کے مذہب میں بہت ثواب کی بات ہے.میرے خیال میں سرحدی لوگوں کو جہاد کے مسئلہ کی خبر بھی نہیں تھی.یہ تو پادری صاحبوں نے یاد دلایا.میرے پاس اس خیال کی تائید میں دلیل یہ ہے کہ جب تک پادری صاحبوں کی طرف سے ایسے اخبار اور رسالے اور کتابیں سرحدی ملکوں میں شائع نہیں ہوئے تھے اُس وقت تک ایسی
انوار العلوم جلد 23 402 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ وارداتیں بہت ہی کم سنی جاتی تھیں یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ بالکل نہیں تھیں بلکہ جب سکھوں کی سلطنت اس ملک سے اُٹھ گئی اور اُن کی جگہ انگریز آئے تو عام مسلمانوں کو اس انقلاب سے بڑی خوشی تھی اور سرحدی لوگ بھی بہت خوش تھے.پھر جب پادری فنڈل صاحب نے 1849ء میں کتاب میزان الحق تالیف کر کے ہندوستان اور پنجاب اور سرحدی ملکوں میں شائع کی اور نہ فقط اسلام اور پیغمبر اسلام علیہ السلام کی نسبت تو ہین کے کلمے استعمال کئے بلکہ لاکھوں انسانوں میں یہ شہرت دی کہ اسلام میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا صرف جائز ہی نہیں بلکہ بڑا ثواب ہے ان باتوں کو سُن کر سرحدی حیوانات جن کو اپنے دین کی کچھ بھی خبر نہیں جاگ اُٹھے اور یقین کر بیٹھے کہ در حقیقت ہمارے مذہب میں غیر مذہب کے لوگوں کو قتل کرنا بڑے ثواب کی بات ہے.میں نے غور کر کے سوچا ہے کہ اکثر سر حدی وارداتیں اور جوش عداوت جو سرحدی لوگوں میں پیدا ہوئی اس کا سبب پادری صاحبوں کی وہ کتابیں ہیں جن میں وہ تیز زبانی اور بار بار جہاد کا ذکر لوگوں کو سُنانے میں حد سے زیادہ گزر گئے.یہاں تک کہ آخر میزان الحق کی عام شہرت اور اُس کے زہریلے اثر کے بعد ہماری گورنمنٹ کو 1867ء میں ایکٹ نمبر 6723 سرحدی اقوام کے غازیانہ خیالات کے روکنے کے لئے جاری کرنا پڑا.یہ قانون سرحد کی چھ قوموں کے لئے شائع ہوا تھا اور بڑی اُمید تھی کہ اس سے وارداتیں رُک جائیں گی لیکن افسوس کہ بعد اس کے پادری عماد الدین امر تسری اور چند دوسرے بد زبان پادریوں کی تیز اور گندی تحریروں نے ملک کی اندرونی محبت اور مصالحت کو بڑا نقصان پہنچایا اور ایسا ہی اور پادری صاحبوں کی کتابوں نے جن کی تفصیل کی ضرورت نہیں دِلوں میں عداوت کا تخم بونے
انوار العلوم جلد 23 403 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ میں کمی نہیں کی.غرض یہ لوگ گورنمنٹ عالیہ کی مصلحت کے بہت حارج ہوئے.ہماری گورنمنٹ کی طرف سے یہ کارروائی نہایت قابل تحسین ہوئی کہ مسلمانوں کو ایسی کتابوں کے جواب لکھنے سے منع نہیں کیا.356 پھر ان فتنوں کو روکنے کے لئے تحریر فرماتے ہیں کہ :- ”میرے نزدیک احسن تجویز وہی ہے جو حال میں رومی گورنمنٹ نے اختیار کی ہے اور وہ یہ کہ امتحاناً چند سال کے لئے ہر ایک فرقہ کو قطعاً روک دیا جائے کہ وہ اپنی تحریروں میں اور نیز زبانی تقریروں میں ہر گز ہر گز کسی دوسرے مذہب کا صراحۃ یا اشارةً ذکر نہ کرے.ہاں اختیار ہے کہ جس قدر چاہے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کرے اِس صورت میں نئے نئے کینوں کی تخم ریزی موقوف ہو جائے گی اور پرانے قصے بھول جائیں گے اور لوگ باہمی محبت اور مصالحت کی طرف رجوع کریں گے “.357 ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ نے جہاد کے متعلق وہی تعلیم دی ہے جو قرآن کریم نے دی ہے اور آپ کے زمانہ میں جو جہاد کو روکا گیا ہے اُس کی تین و جنہیں آپ نے بتائی ہیں.ایک تو یہ کہ یہ حکم دوری ہے یعنی جب جب وہ حالات پید اہوں جن حالات میں اس حکم کو جاری کیا گیا تھا اس وقت یہ حکم جاری ہو گا نہ کہ ہر زمانہ میں اور وہ حالات اِس زمانہ میں پیدا نہیں.دوسرے یہ کہ جو تعریف جہاد کی اس وقت کے علماء کر رہے ہیں اور جس پر عمل کرنے کے لئے مسلمان کو بھڑکا رہے ہیں وہ تعریف اسلام سے ثابت نہیں.اس میں وحشت کی تعلیم دی گئی ہے اور اسلام کے خلاف ہے.تیسرے یہ کہ اس حکم کو اس زمانہ میں روکنے کا فیصلہ بانی سلسلہ احمدیہ نے نہیں کیا
انوار العلوم جلد 23 404 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بلکه خود رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشگوئی فرما دی تھی کہ مسیح موعود کے زمانہ میں دینی جنگیں ختم ہو جائیں گی لیکن اس جگہ یہ بھی یادر کھنا چاہئے کہ جس جہاد سے آپ نے روکا ہے وہ جہاد بالسیف ہے اور جہاد بالسیف سے زیادہ تاکیدی حکم جہاد بالقر آن کا ہے جس میں آپ ساری عمر مشغول رہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ جَاهِدُهُم بِه جِهَادًا كَبِيرًا - 358 یعنی قرآنِ کریم کے ساتھ تم غیر مسلموں کا مقابلہ کرو اور یہی بڑا جہاد ہے.چنانچہ اس آیت کے ماتحت تفسیر روح المعانی جلد 6 صفحہ 162 پر لکھا ہے:.أَى بِالْقُرْآنِ وَ ذُلِكَ بِتِلَاوَةٍ مَا فِيْهِ مِنَ الْبَرَاهِيْنَ وَالْقَوَارِعِ وَالزَّوَاجِرِ وَالْمَوَاعِظِ وَ تَذْكِيْرِ أَحْوَالِ الْأُمَمِ الْمُكَذِّبَةِ فَإِنَّ دَعْوَةَ كُلَّ الْعَالَمِيْنَ عَلَى الْوَجْهِ الْمَذْكُورِ جِهَادُ كَبِيرٌ.یعنی اِس جگہ پر جہاد سے مراد قرآنِ کریم کے ذریعہ سے جہاد کرنا ہے اور یہ اس طرح ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں جو براہین اور کفر کے خلاف باتیں ہیں اسی طرح جن خلاف اخلاق امور پر زجر کیا گیا ہے اور جو جو نصائح کی گئی ہیں اُن سب کو پڑھا جائے اور نبیوں کی منکر امتوں کے احوال بیان کر کر کے لوگوں کو نصیحت کی جائے کیونکہ دُنیا کے تمام انسانوں کو اس طریق سے اسلام کی طرف بلانا ہی سب سے بڑا جہاد ہے.بانی سلسلہ احمدیہ کی تائید یہ مذہب جو آپ کا جہاد کے متعلق ہے اس میں بانی سلسلہ احمدیہ منفر د نہیں بلکہ دیگر علماء اسلام میں علماء اسلام کے حوالے بھی اسی قسم کا مذہب رکھتے تھے.چنانچہ مفردات راغب والے لکھتے ہیں: اَلْجِهَادُ ثَلَاثَةُ اضْرَبِ مُجَاهَدَةُ الْعَدُقِ الظَّاهِرِ وَ مُجَاهَدَةُ الشَّيْطَانِ وَ مَجَاهَدَةُ النَّفْسِ - 359 یعنی جہاد تین قسم کا ہوتا ہے.ایک وہ جہاد ہے جو اس کھلے دشمن سے کیا جائے جو مسلمانوں سے لڑائی کرے.ایک وہ جہاد ہے جو شیطان سے کیا جائے اور ایک وہ جہاد ہے جو اپنے نفس سے کیا جائے.
انوار العلوم جلد 23 405 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ حنفیوں کی کتاب ھدایہ جلد 2 صفحہ 292،291 میں لکھا ہے:- إِنَّمَا فُرِضَ لِاعْزَازِ دِينِ اللَّهِ وَ دَفْعِ الشَّرِ عَنِ الْعِبَادِ.کہ جہاد دین الہی کو معزز بنانے کے لئے اور خدا کے بندوں کو شر اور فساد سے محفوظ رکھنے کے لئے فرض کیا گیا ہے.اور پھر اس کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ اس کی طرح قرآن کریم کی اس آیت میں اشارہ ہے کہ وَقْتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلَّهِ - 360 مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی امیر اہل حدیث نے بھی جہاد کی وہی تعریف کی ہے جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے کی.آپ کے متعلق روایت ہے کہ آپ نے اصل معنی جہاد کے لحاظ سے بغاوت 1857ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اُس کو بے ایمانی و عہد شکنی و فساد و عناد خیال کر کے اُس میں شمولیت اور اُس کی معاونت کو معصیت قرار دیا - 361 اس طرح حنفیوں کی طرف سے یہ فتویٰ شائع ہوا ہے کہ :- ”جو حکومت مسلمانوں کے مذہبی شعائر میں پوری آزادی دیتی ہے اُن کے جان و مال و آبرو کی محافظ ہے.قرآن اور رسول کی بے حرمتی کو قانونا جرم قرار دیتی ہے.بیت اللہ اور بیت الرسول کی زیارت سے نہیں روکتی اُس کے ساتھ ترک تعلقات کیسے واجب ہو سکتا ہے“.362 شیعہ صاحبان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ:- بر طانیہ عظمی کی برکات کا اعتراف کرتے ہوئے شیعانِ ہندوستان کی طرف سے دلی خلوص اور وفاداری کا اظہار کرتا ہوں اور اعلیٰ حضرت شہنشاہ معظم جارج پنجم خَلَدَ اللَّهُ سُلْطَانَہ و ملکہ کی سلامتی اور اقبال کی دُعا پر اس مبارک جلسہ کو برخاست کرتا ہوں“.363
انوار العلوم جلد 23 سر سید احمد خان لکھتے ہیں :- 406 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مسلمانوں کا بہت روزوں سے آپس میں سازش اور مشورہ کرنا اس ارادہ سے کہ ہم باہم متفق ہو کر غیر مذہب کے لوگوں پر جہاد کریں اور اُن کو حکومت سے آزاد ہو جائیں، نہایت بے بنیاد بات ہے.جبکہ مسلمان ہماری گورنمنٹ کے مست امن تھے.کسی طرح گورنمنٹ عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے.میں تیس برس پیشتر ایک بہت بڑے نامی مولوی محمد اسمعیل نے ہندوستان میں جہاد کا وعظ کہا اور آدمیوں کو جہاد کی ترغیب دی.اُس وقت اُس نے صاف بیان کیا کہ ہندوستان کے رہنے والے جو سر کار انگریزی کے امن میں رہتے ہیں ہندوستان میں جہاد نہیں کر سکتے.اس لئے ہزاروں آدمی جہادی ہر ایک ضلع ہندوستان میں جمع ہوئے اور سرکار کی عملداری میں کسی طرح کا فساد نہیں کیا اور غربی سرحد پنجاب پر جاکر لڑائی کی اور یہ جو ضلع میں پاجی اور جاہلوں کی طرف سے جہاد کا نام ہؤا اگر اس کو ہم جہاد ہی فرض کریں تو بھی اس کی سازش اور صلاح قبل دسویں مئی 1857ء مطلق نہ تھی“.364 علامہ سید رشید رضا صاحب شامی ثم مصری اپنی تفسیر المنار جلد 10 مطبوعہ قاہرہ صفحہ 307 پر لکھتے ہیں:.”ہم نے یہ دلیلیں اس لئے کثرت سے دی ہیں کہ یورپین لوگ اور اُن کے مقلد اور اُن کے شاگر د مشرقی عیسائیوں میں سے یہ دعوی کرتے ہیں کہ جہاد کے معنے یہ ہیں کہ مسلمان ہر اُس شخص سے لڑے جو کہ مسلمان نہیں تا کہ اُس کو مجبور کر کے اسلام میں داخل کرے.خواہ غیر مسلموں نے اُن پر زیادتی نہ کی ہو اور اُن سے دُشمنی نہ کی ہو اور اے پڑھنے والے تجھ پر روشن ہو چکا ہو گا اُن دلیلوں سے جو
انوار العلوم جلد 23 407 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں اور اُن دلیلوں سے جو ہم آئندہ بیان کریں گے اور بھی روشن ہو جائے گا کہ اسلام پر غیر مسلموں کا یہ الزام جھوٹ اور افتراء ہے“.اسی طرح فرماتے ہیں:.”وہ تفصیل جو ہم نے اوپر لکھی ہے اس سے یہ ثابت ہو چکا ہے پر کہ جہاد بالسیف کے مسئلہ میں مسلمانوں کا اجماع صرف اس بات پر ہے کہ جب مسلمانوں پر کوئی قوم حملہ کرے تو یہ جہاد فرض ہوتا ہے اور اُس وقت بھی اسی صورت میں فرض ہوتا ہے کہ جب کہ امام واجب الطاعت جنگ عام کا حکم دے لیکن اگر وہ صرف کچھ لوگوں کو اس لڑائی کا محکم دے تو پھر انہی لوگوں پر یہ جنگ فرض ہو گی باقی لوگوں پر یہ جنگ فرض نہیں ہو گی“.365 مولانا ظفر علی خاں صاحب ایڈیٹر ”زمیندار“ تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ :- اگر خدانخواستہ گورنمنٹ انگلشیہ کی کسی مسلمان طاقت سے ان بن ہو جائے تو ایسی حالت میں مسلمانوں کو اسی طرح سرکار کی جلتی آگ میں کود کر اپنی عقیدت مندی کا ثبوت دینا چاہئے جس طرح سرحدی علاقہ اور سمالی لینڈ کی لڑائیوں میں مسلمان فوجی سپاہیوں نے اپنے مذہبی اور قومی بھائیوں کے خلاف جنگ کر کے اس بات کا بارہا ثبوت دیا ہے کہ اطاعت اولی الامر کے حکم کے وہ کیس درجہ پابند ہیں.مسلمانوں کا سر پھرا ہوا نہیں ہے کہ وہ اس مہربان و عادل گور نمنٹ 366" سے سرکشی اختیار کریں.266 جہاد قیامت تک کے لئے ہے غرض بانی سلسلہ احمدیہ نے نہ تو جہاد کے اسلامی حکم کو منسوخ کیا ہے اور نہ ملتوی کیا ہے بلکہ اُس جہاد کو منسوخ کیا ہے جو اسلامی تعلیم کے خلاف موجودہ زمانہ کے علماء نے
انوار العلوم جلد 23 408 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ سمجھا تھا اور اس کے خلاف بھی اپنی مرضی سے فتویٰ نہیں دیا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے آپ کے منشاء کے مطابق ایک اعلان کیا ہے.یہ حکم جہاد قیامت تک کے لئے جاری ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ جن وجوہ سے یہ حکم جاری کیا جاتا ہے وہ وجوہ پیدا ہو جائیں.اگر کسی جگہ پر بانی سلسلہ احمدیہ نے نسخ یا حرام کا لفظ جہاد کے لئے استعمال کیا ہے تو اس کے معنے محض اتنے ہی ہیں کہ اس حکم کے لئے جو شرائط ہیں وہ اس زمانہ میں پوری نہیں ہیں یا یہ کہ اس زمانہ میں جو معنے اس حکم کے کئے جارہے ہیں اس معنوں کے رُو سے وہ ناجائز ہے کیونکہ وہ معنے غلط اور احکامِ قرآن کے خلاف ہیں.یہ امر کہ جہاں کہیں حرام یا منسوخ کا لفظ بانی سلسلہ احمدیہ نے لکھا ہے اس کے معنے حقیقی نسخ کے یعنی واقعی اور دائمی نسخ کے نہیں ہو سکتے.اسی بات سے ثابت ہے کہ آپ اُصولی طور پر یہ عقیدہ بیان کر چکے ہیں کہ قرآنِ کریم کا کوئی حکم قیامت تک نہیں بدل سکتا.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:.” میری گردن اُس مجوئے کے نیچے ہے جو قرآن شریف نے پیش کیا ہے اور کسی کو مجال نہیں کہ ایک نقطہ یا ایک شعلہ قرآن شریف کا منسوخ کر سکے “ 367 نسخ کے یہ محدود معنے کہ عارضی طور پر کسی شئے کو روک دیا جائے، عربی زبان میں عام مستعمل ہیں.چنانچہ مفردات راغب جیسی زبر دست لعنتِ قرآن میں لکھا ہے کہ: النَّسْخُ اِزَالَةٌ شَيْ ءٍ بِشَيْءٍ يَتَعَقَّبُهُ كَنَسْخِ الشَّمْسِ الظُّلَّ وَالظَّلِ الشَّمْسَ وَ الشَّيْبِ الشَّبَاب“ 368 یعنی سخ کا لفظ سُورج کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وہ سائے کو دور کر دیتا ہے اور سائے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جبکہ وہ سورج کو چھپا دیتا ہے اور بڑھاپے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جب وہ جوانی کو دور کر دیتا ہے یعنی کبھی تو نسخ عارضی ازالہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ سورج کے سار
انوار العلوم جلد 23 409 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مٹادینے کے متعلق جو عارضی ہوتا ہے اور کبھی مستقل ازالہ کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے جیسے بڑھاپے کے جوانی کو مٹادینے کے متعلق جو کہ مستقل ہوتا ہے.بانی سلسلہ احمدیہ نے صاف لکھا ہے کہ فرما چکا ہے سید کوئین مصطفی عیسی مسیح جنگوں کا کر دے گا التواء“ جس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ نے جو کچھ بھی اس بارہ میں لکھا ہے وہ صرف التواء کے معنوں میں ہے.مستقل طور پر اس حکم کو منسوخ کرنے کے معنوں میں نہیں اور اس عارضی التواء کے متعلق بھی آپ نے یہی تشریح کی ہے کہ جہاد کے التواء کے متعلق بھی میں نہیں کہہ رہا بلکہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے.چنانچہ آپ کی ایک تحریر سے صاف ظاہر ہے کہ ہو سکتا ہے آئندہ کسی زمانہ میں مسلمانوں کے لئے لڑائی کرناضروری ہو اور دینی جنگوں کی ضرورت پیدا ہو جائے.چنانچہ آپ لکھتے ہیں:.ممکن اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آسکیں.کیونکہ یہ عاجز اس دُنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آیا.درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے اور جبکہ یہ حال ہے تو پھر علماء کے لئے اشکال ہی کیا ہے.ممکن ہے کہ کسی وقت اُن کی یہ مراد بھی پوری ہو جائے“.369 علماء کا جہاد کے متعلق غلط نظریہ ممکن ہے کوئی شخص یہ کہے کہ حال کے علماء بھی اسی جہاد کے قائل تھے اور ہیں جو اوپر بیان کیا گیا ہے.سو اس شبہ کے ازالہ کے لئے ہم ذیل کے حوالے درج کرتے ہیں:- (1) ” خلیفہ وقت کا سب سے بڑا کام اشاعت اسلام تھا یعنی خدا اور
انوار العلوم جلد 23 410 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اُس کے رسول کا مقدس پیغام خدا کی مخلوق تک پہنچانا اور انہیں دعوتِ اسلام دینا.جب کسی حکمران کو دعوتِ اسلام دی جاتی ہے تو دو شرطیں پیش کی جاتی ہیں.ایک یہ کہ مسلمان ہو جائے.دوسرے یہ کہ اگر مسلمان نہیں ہوتے تو جزیہ دو اور یہ دونوں شرطیں نہ مانی جاتیں تو پھر مجاہدین اسلام کو ان سرکشوں کا بھر کس نکالنے کا حکم ملتا اور اس کا نام جہاد ہے 370 " (2) واضح ہو کہ اہل اسلام کے ہاں کتب احادیث اور فقہ میں جہاد کی صورت یوں لکھی ہے کہ پہلے کفار کو موعظہ حسنہ بناکر اسلام کی طرف دعوت کی جائے.اگر مان گئے تو بہتر نہیں تو کفارِ عرب سے باعث شدت گفر اور بت پرستی اُن کے ایمان یا قتل کے سوا کچھ نہ مانا جائے “.371 (3) سابق علماء تو الگ رہے.اب تک مولانا ابو الاعلیٰ مودودی صاحب اِس بیسویں صدی کے نصف آخر میں بھی یہی عقیدہ رکھتے اور اسی کی اشاعت کر رہے ہیں.ملاحظہ ہو :- ” یہی پالیسی تھی جس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے بعد خلفائے راشدین نے عمل کیا.عرب جہاں مسلم پارٹی پیدا ہوئی تھی سب سے پہلے اسی کو اسلامی حکومت کے زیر نگیں کیا گیا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطراف کے ممالک کو اپنے اصول و مسلک کی طرف دعوت دی.....آنحضرت کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ پارٹی کے لیڈر ہوئے تو اُنہوں نے روم اور ایران دونوں کی غیر اسلامی حکومتوں پر حملہ کیا.پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حملے کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچا دیا".372
انوار العلوم جلد 23 411 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ اسلام کے نہایت پاک اور ضروری حکم جہاد کو جو موجودہ مہذب دنیا کی تعلیمات و اُصولِ جنگ سے بھی بہتر اور نہایت منصفانہ اور عادلانہ تھا اور ہے ان علماء نے نہایت مکروہ اور ظالمانہ اور وحشیانہ شکل دے دی تھی.اس زمانہ کا مامور تو الگ رہا ہر محب اسلام کا فرض تھا اور ہے کہ اس کی تردید کرے اور اس تردید کو تمام عالم میں پھیلائے تاکہ اسلام کے چہرہ سے یہ بد نما داغ دور ہو جائے.چونکہ اس مضمون پر خاص زور دیا گیا ہے اور بعض زائد حوالے دونوں طرف سے عدالت عالیہ میں پیش ہوئے ہیں اس لئے ہم ایک ضمیمہ ساتھ لگا رہے ہیں جو جہاد کے متعلق دوسرے حوالوں سے بحث کرتا ہے.اس اعتراض کا جواب کہ جماعت احمدیہ آخر میں ہم یہ لکھ دینا بھی کو اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں ضروری سمجھتے ہیں کہ رسالہ ”جہاد“ چونکہ جہاد کے متعلق جماعت احمدیہ کے مسلک کو نہایت واضح کر دیتا ہے اس لئے ہم اس رسالہ کی ایک کاپی اپنے بیان کے ساتھ شامل کئے دیتے ہیں.اگر آنریل حجز اس رسالہ پر نظر ڈالیں گے تو ان پر ساری حقیقت کھل جائے گی.اس اعتراض کا پس منظر اصل میں یہ ہے کہ احمدیہ جماعت انگریزوں کی قائم کردہ ہے اور اس کو اسلام سے کوئی ہمدردی نہیں.ہم اس کے جواب میں وہ نوٹ پیش کر دینا کافی سمجھتے ہیں جو ہندوستان کے ایک مانے ہوئے عالم اور اخبار وکیل امر تسر کے ایڈیٹر مولانا عبد اللہ العمادی نے 1908ء میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر شائع کیا تھا.یہ وہ شخص ہے جو مسلمان لیڈروں میں بڑی حیثیت رکھتا تھا اور جو بائی سلسلہ احمدیہ کا ہمعصر تھا اور جس کے سامنے اُن کی زندگی کے حالات گزرے تھے.اس کے مقابلہ میں بعد کو آنے والے لوگوں کے بیان کوئی حقیقت نہیں رکھتے.وہ نوٹ یہ ہے:.وو وہ شخص بہت بڑا شخص.جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا.جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی.
انوار العلوم جلد 23 412 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار اُلجھے ہوئے تھے اور جس کی دونوں مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دُنیا کے لئے تیئیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنا رہا، جو شورِ قیامت ہو کر خفتگان خواب ہستی کو بیدار کرتا تھا.خالی ہاتھ دُنیا سے اُٹھ گیا.یہ تلخ موت، یہ زہر کا پیالہ موت جس نے مرنے والے کی ہستی نہ خاک پنہاں کی.ہزاروں لاکھوں زمانوں پر.تلخ ناکامیاں بن کر رہے گی.اور قضاء کے حملہ نے ایک جیتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتل عام کیا ہے.صدائے ماتم مدتوں اس کی یاد گار تازہ رکھے گی.مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کی رحلت اس قابل نہیں کہ اِس سے سبق حاصل نہ کیا جائے اور مٹانے کے لئے اسے امتدادِ زمانہ کے حوالہ کر کے صبر کر لیا جائے.ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دُنیا میں انقلاب پید اہو ہمیشہ دُنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عالم پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دُنیا میں انقلاب کر کے دکھلا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اِس رحلت نے اُن کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو، ہاں تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کر دیا ہے کہ اُن کا ایک بڑا شخص اُن سے جد اہو گیا اور اس کے ساتھ مخالفین اسلام کے مقابلہ پر اسلام کی اس شاندار مدافعت کا جو اُس کی ذات سے وابستہ تھی، خاتمہ ہو گیا.اُن کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے، ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے
انوار العلوم جلد 23 413 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست و پائمال بنائے رکھا، آئندہ بھی جاری رہے.....مرزا صاحب اِس پہلی صف عشاق میں نمودار ہوئے تھے جس نے اسلام کے لئے یہ ایثار گوارا کیا کہ ساعت مہد سے لے کر بہار و خزاں کے سارے نظارے ایک مقصد پر ہاں ایک شاہد رعنا کے پیمانِ وفا پر قربان کر دیئے.سیّد ، غلام احمد ، رحمت اللہ، آل حسن، وزیر خال، ابو المنصور - - سَابِقُونَ الْأَوَّلُونَ کے زمرہ کے لوگ تھے جنہوں نے باب مدافعت کا افتتاح کیا اور آخر وقت تک مصروف سعی رہے.احمد، اختلاف طبائع اور اختلاف مدارج قابلیت کے ساتھ ان کے رازِ خدمت بھی جداگانہ تھے اور اسی لئے اثر اور کامیابی کے لحاظ سے اُن کے درجے بھی الگ الگ ہیں.تاہم اس نتیجہ کا اعتراف بالکل ناگزیر ہے کہ مخالفین اسلام کی صفیں سب سے پہلے انہی حضرات نے برہم کیں.مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر اُن سے ظہور میں آیا قبولِ عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے.اس لئے کہ وہ وقت ہر گز لوحِ قلب سے نَسْياً مَنْسِیا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یانہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کے امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دُنیا اسلام کی شمع عرفان حقیقی کو سر راہِ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور عقل و دولت کی
انوار العلوم جلد 23 414 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی نسبت گرمی کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجو د ہی نہ تھا.چونکہ خلافِ اصلیت محض شامت اعمال سے مفسدہ 1857ء کا نفس ناطقہ مسلمان ہی قرار دیئے گئے تھے.اس لئے مسیحی آبادیوں اور خاص کر انگلستان میں مسلمانوں کے خلاف پولیٹیکل جوش کا ایک طوفان برپا تھا اور اس سے پادریوں نے صلیبی لڑائیوں کے داعیان راہ سے کم فائدہ نہ اُٹھایا.قریب تھا کہ خوفناک مذہبی جذبے ان حضرات کے میراثی عارضہ قلب کا جو اسلام کی خودرو سر سبزی کے سبب بارہ تیرہ صدیوں سے ان میں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا چلا آیا تھا درمان ہو جائے کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اِس مدافعت نے نہ صرف عیسائی مذہب کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑا دیئے جو سلطنت کے زیر سایہ ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہو کر اُڑنے لگا........غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گران بار احسان رکھے گی کہ اُنہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے وہ فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسالٹریچر یاد گار چھوڑا جو اُس وقت تک کہ مسلمان کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ اُن کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے، قائم رہے گا.اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی بہت خاص خدمت انجام دی ہے.
انوار العلوم جلد 23 415 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ان کی آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعویٰ پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کسی درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریریں نظر انداز کی جاسکیں.......مرزا صاحب کا دعویٰ تھا کہ میں ان سب کے لئے حکم و عدل ہوں لیکن اس میں کلام نہیں کہ ان مختلف مذاہب کے مقابلہ پر اسلام کو نمایاں کر دینے کی اُن میں مخصوص قابلیت تھی اور یہ نتیجہ تھا اُن کی فطری استعداد کا، ذوقِ مطالعہ اور کثرت مشق کا.آئندہ اُمید نہیں ہے کہ ہندوستان کی مذہبی دُنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہشیں محض اس طرح مذہب کے مطالعہ میں صرف کر دے“.اس بیان کے علاوہ ہم جماعت احرار کے لئے ہم اُن کے لیڈر چوہدری افضل حق صاحب کی ایک رائے بھی بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جس سے احراریوں کے دعویٰ کی حقیقت کھل جاتی ہے.وہ لکھتے ہیں:.آریہ سماج کے معرض وجود میں آنے سے پیشتر اسلام جسدِ بے جان تھا جس میں تبلیغی جس مفقود ہو چکی تھی.سوامی دیانند کی مذہب اسلام کے متعلق بدظنی نے مسلمانوں کو تھوڑی دیر کے لئے چوکنا کر دیا مگر حسب معمول جلدی خواب گراں طاری ہو گئی.مسلمانوں کے دیگر فرقوں میں تو کوئی جماعت تبلیغی اغراض کے لئے پیدا نہ ہو سکی.ہاں ایک دِل مسلمانوں کی غفلت سے مضطرب ہو کر اُٹھا.ایک مختصر سی جماعت اپنے گرد جمع کر کے اسلام کی نشر و اشاعت کے لئے بڑھا.اگرچہ مرزا غلام احمد صاحب کا دامن فرقہ بندی کے داغ سے پاک نہ ہوا.تاہم اپنی جماعت میں وہ اشاعتی تڑپ پیدا کر گیا جو نہ صرف مسلمانوں کے مختلف فرقوں کے لئے
انوار العلوم جلد 23 416 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ قابل تقلید ہے بلکہ دُنیا کی تمام اشاعتی جماعتوں کے لئے نمونہ 66 ہے “.373 سوال نمبر 7 متعلق اعتراض عدم همدردی مسلمانان ہفتم یہ کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے مسلمان حکومتوں اور مسلمان تحریکوں سے کبھی ہمدردی نہیں کی.افسوس ہے کہ جماعت اسلامی، مجلس عمل اور احرار نے اس معاملہ میں بھی غلط بیانی سے کام لیا ہے.ہمارے زمانے کی بڑی بڑی مشہور اسلامی حکومتیں ترکی، عرب، مصر، ایران، افغانستان اور انڈونیشیا ہیں.بانی سلسلہ احمدیہ کے زمانہ میں صرف ترکی کی حکومت تھی جو مسلمانوں کے سامنے آئی تھی.ایران تو بالکل نظر انداز تھا اور افغانستان ایک رنگ میں انگریزوں کے ماتحت حکومت تھی.بانی سلسلہ احمدیہ کے سامنے کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں ترکی اور یورپ کی بڑی طاقتوں کو آپس میں لڑنا پڑا ہو.سوائے اس جنگ کے جو کہ یونان کے ساتھ ہوئی تھی اور بانی سلسلہ احمدیہ نے اس معاملہ میں ترکی کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے ترکی حکومت کی تائید آپ کے بعد دوسری جنگ ترکی اور اٹلی کے درمیان ہوئی جس میں جماعت احمدیہ نے ترکی سے ہمدردی ظاہر کی اور اٹلی کے خلاف جذبات کا اظہار کیا.تیسری جنگ ترکی اور اتحادی قوموں کے ساتھ ہوئی جس میں ترکی اپنی اغراض کے لئے نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ جرمن کی تائید کے لئے کھڑا ہوا تھا.لازماً اتحادی قوموں نے اپنی اپنی حکومتوں کی مدد کی.وہ وقت کسی ہمدردی کے اظہار کا تھا ہی نہیں.تمام مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا.ترکی کی شکست کے بعد تحریک خلافت پیدا ہوئی لیکن اپنے ہاتھوں سے ترکی کی حکومت کو تباہ کرنے کے بعد خلافت کا شور مچانا یہ تو کوئی پسندیدہ طریق
انوار العلوم جلد 23 417 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 66 نہیں تھا مگر اُس وقت بھی موجودہ امام جماعت احمدیہ نے ترکی کی تائید میں دو ٹریکٹ لکھے جن میں سے ایک کا نام ”ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض ہے اور دوسرے کا نام معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ“ ہے.عربوں کی امداد پھر جب عربوں کے ساتھ یورپین لوگوں نے معاہدہ کیا تو اس پر بھی امام جماعت احمدیہ نے سختی سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ عربوں کے ساتھ انگریزوں نے ظلم کیا ہے اور ان کے ساتھ دھوکا کیا ہے.374 انڈونیشیا کی آزادی پھر انڈونیشیا کی آزادی کا سوال پیدا ہوا تو اس میں بھی احمدی جماعت نے انڈو نیشیا کی آزادی کی پوری طرح تائید کی اور انڈو نیشیا کی زمین اسی طرح احمدی محبانِ وطن کے خون سے رنگین ہے جس طرح کہ غیر احمدی محبانِ وطن کے خون سے اور اسی کا نتیجہ تھا کہ انڈو نیشین ایمبیسیڈر (سفیر) نے اپنی حکومت کی طرف سے گزشتہ فسادات کے موقع پر حکومت پاکستان کے فارن منسٹر کے خلاف شورش پیدا ہونے پر انڈو نیشین حکومت کی ناپسندیدگی کو ظاہر کیا.یہ انڈو نیشین ایمبیسیڈر احمدی نہیں تھا اور اب تک وہی ایمبیسیڈر ہے.ہمیں افسوس ہے کہ مجلس عمل کے نمائندہ شمسی صاحب نے اس کو (اپنی ناجائز اغراض پوری کرنے کے لئے) احمدی قرار دیا ہے حالانکہ جس شخص کے متعلق کہا جاتا تھا کہ وہ احمدی ہے وہ کبھی بھی ایمبیسیڈر نہیں ہوا.وہ موجودہ فسادات سے پہلے اور موجودہ ایمبیسیڈر سے پہلے انچارج کی حیثیت میں پاکستان میں رہا ہے اور ان فسادات سے پہلے بدل کر عراق میں بطور منسٹر کے چلا گیا تھا مگر یہ بتانے کے لئے کہ گویا بیرونی دنیا میں ان مظالم پر کوئی نفرت نہیں راہوئی تھی اگر کسی نے دلچسپی بھی لی تھی تو وہ صرف ایک احمدی تھا.یہ جھوٹ بولا گیا کہ انڈو نیشین ایمبیسیڈر فساد کے وقت میں احمدی تھا.فسادات کے وقت میں جو ایمبیسیڈر تھا وہ آج بھی ہے اور وہ نہ اُس وقت احمدی تھا اور نہ اس وقت تک ہے.پیدا
انوار العلوم جلد 23 418 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ شدھی کا مقابلہ ہندوستان میں جب مالکانہ میں آریوں نے لوگوں کو شُدھ کرنا شروع کیا تو اُس وقت احمدی ہی تھے جو مقابلہ کرنے کے لئے آگے بڑھے اور اُنہوں نے اعلان کر دیا کہ اِس معاملہ کے دوران میں ہم احمدیت کی تبلیغ نہیں کریں گے.375 چنانچہ ہمیں ہزار کے قریب آدمیوں کو وہ واپس لائے اور وہ آج تک بھی حنفی ہیں احمدی نہیں اور اس وقت ملکانہ لیڈروں نے ہمارے اس کام کا اقرار کیا اور اس کی پبلک میں گواہی دی.376 سکھ حملہ آوروں کا مقابلہ اور 1927ء میں جب لاہور میں مسجد سے نکلتے ہوئے چند مسلمانوں پر سکھوں نے بلاوجہ ور تمان کی شرارت کا جواب حملہ کر دیا تو اس وقت بھی احمدی ہی اس مقابلہ کے لئے آگے آئے.377 اور ور تمان کی شرارت کا جواب بھی احمدیوں نے ہی دیا.378 چنانچہ ان ہی کی کوششوں کے نتیجہ میں 53 الف کا قانون بنا.ور تمان کے ایڈیٹر کو سزاملی اور یہ وہی زمانہ ہے جبکہ احرار معرض وجود میں آرہے تھے مگر ابھی اُنہوں نے اپنا نام احرار اختیار نہیں کیا تھا.بہار اور کلکتہ کے فسادات پھر جب بمبئی، بہار اور کلکتہ کے فسادات ہوئے تو اس وقت مسلمانوں کی تائید میں امام جماعت احمد یہ نے انگریزی میں ٹریکٹ لکھ کر انگلستان میں شائع کیا اور انگلستان کے کئی اخبارات نے ان سے متاثر ہو کر مسلمانوں کی تائید میں نوٹ لکھے.بہار کے فسادات جب بہار کے فسادات ہوئے اور بہت سے مسلمان مارے گئے تو قائد اعظم کی چندہ کی تحریک کا سب سے پہلے جماعت احمدیہ نے خیر مقدم کیا اور یہ پیش کیا کہ وہ اپنی تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ چندہ دیں گے.چنانچہ انہوں نے چندہ دیا اور نہ صرف قائد اعظم کے فنڈ میں چندہ دیا بلکہ خود وہاں وفد بھیجے جو مسلمانوں کو اُن کی جگہوں میں بسائیں اور اُن کے حقوق اُن کو دلائیں.379
انوار العلوم جلد 23 419 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کمیٹی جب کشمیریوں پر ظلم ہوا تو اس وقت بھی آگے آنے والی جماعت، جماعت احمدیہ ہی تھی.خود علامہ اقبال نے کشمیر کمیٹی کا صدر امام جماعت احمدیہ کو بنوایا.دو سال تک احمدی وکیل مفت کشمیر کے مقدمے لڑتے رہے.مشرق سے لے کر مغرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک جتنے مقدمے اُن دنوں میں مسلمانوں پر کئے گئے اور جتنی گرفتاریاں مسلمانوں کی ہوئیں اُن میں سے پچانوے فیصدی مقدمے احمدیوں نے لڑے اور گرفتار شدگان کی تعداد میں سے اسّی فیصدی کو رہا کرایا.حالانکہ احمدی وکیلوں کی تعداد غیر احمدی وکیلوں کے مقابلہ میں شاید ایک فیصدی ہو گی.380 باؤنڈری کمیشن باؤنڈری کمیشن کے موقع پر قائد اعظم کی نظر باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کے لئے صرف چوہدری ظفر اللہ خاں پر پڑی اور جب لیگ نے دیکھا کہ کانگرس شرارت کر کے سکھوں اور بعض اور قوموں کو آگے لا رہی ہے یہ بتانے کے لئے کہ ساری قومیں مسلمانوں کے خلاف ہیں تو لیگ کے کہنے پر جماعت احمدیہ نے بھی اپنا وفد باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ جماعت احمد یہ دوسرے مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہے اور وہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ ضلع جس میں اُن کا سنٹر ہے وہ پاکستان میں جائے.ضلع گورداسپور کی ساری آبادی میں مسلمان ساڑھے اکاون فیصدی تھے.اگر احمدی کافر قرار دے کے اس میں سے نکال دیئے جاتے جیسا کہ احراریوں کا تقاضا تھا تو ضلع گورداسپور کی کل مسلمان آبادی چھیالیس فیصدی رہ جاتی تھی.اس ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے لیگ نے چاہا کہ احمدی وفد پیش ہو اور اس ضرورت کے ماتحت احمدی وفد پیش ہوا اور اُس نے صفائی سے کہہ دیا کہ ہم مسلمانوں کا حصہ ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے پیش ہونے کی صرف لیگ یا کانگرس کو اجازت تھی اور دوسری کوئی جماعت انہی کی اجازت سے پیش ہو سکتی تھی.
انوار العلوم جلد 23 420 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ یار ٹیشن ہوئی اور کشمیر میں لڑائی شروع ہوئی تو کشمیر کی جنگ میں حصہ جب پار احمدی جماعت ہی تھی جو کہ منظم طور پر اس جنگ میں شرکت کے لئے گئی اور انہوں نے تین سال تک برابر اس محاذ کو سنبھالے رکھا جو کہ کشمیر کا سخت ترین محاذ تھا.یہاں تک کہ فوجی حکام کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ اس لڑائی کے لمبے عرصے میں احمدی فوج نے ایک انچ زمین بھی دُشمن کے ہاتھ میں نہیں جانے دی.381 اُس وقت مولانا مودودی یہ اعلان کر رہے تھے کہ کشمیر کا جہاد نا جائز ہے.382 ہم اُن کے فتویٰ سے متفق ہیں کہ یہ مذہبی جہاد نہ تھا مگر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی تو فرمایا ہے کہ جو اپنی جان اور مال کی حفاظت کے لئے لڑتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے.پس یہ جنگ اسلام کی تعلیم کے مطابق منع نہ تھی بلکہ پسندیدہ تھی.اور یہ احراری علماء احمدیوں کی پیٹھ میں خنجر گھونپنے کی کوشش کر رہے تھے اور احمدی فوج کی بدنامی کے لئے پورازور لگارہے تھے.تقسیم پنجاب کے وقت مسلمانوں سے تعاون پر گزشتہ تقسیم پنجاب کے فسادات کے موقع پر جماعت احمدیہ نے دوسرے مسلمانوں کے ساتھ جو تعاون کیا ہے اُس کے متعلق ہم مندرجہ ذیل شہادتیں اپنے حال کے مخالفین کی ہی پیش کرتے ہیں.اخبار ”زمیندار“ 3 / اکتوبر 1947ء کے اداریہ میں لکھتا ہے :- اہے:- اس میں شک نہیں مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکر یہ طریقہ پر کی“.20 ستمبر 1947ء کا اخبار زمیندار لکھتا ہے:.قادیان میں اس وقت تقریباً ایک لاکھ پناہ گزین موجود ہیں“.11 اکتوبر 1947ء کے اخبار زمیندار نے لکھا:.کل صبح ہندوستانی فوج کے ایک بڑے افسر نے تین
انوار العلوم جلد 23 421 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بریگیڈیئرز کے ہمراہ قادیان کا دورہ کیا.اس پارٹی کا متفقہ بیان ہے کہ قادیان کے تمام حصے صحرا کا منظر پیش کر رہے ہیں، ہر جگہ ہو کا عالم ہے.البتہ تین علاقے ایسے ہیں جہاں ایسے مسلمان دکھائی دیئے جو کفار کے مقابلہ کے لئے اپنی جانیں قربان کرنے کا عزم صمیم کر چکے ہیں.ان لوگوں کے چہروں سے بشاشت ٹپکتی ہے....پناہ گزینوں کی حالت بہت ابتر ہے.مقامی ملٹری نے انہیں خوراک دینے سے انکار کر دیا اور احمد یہ انجمن سے کہا ہے کہ وہ ان مصیبت زدوں کے لئے خوراک کا انتظام کرے.چنانچہ انجمن اپنا راشن کم کر کے ان پناہ گزینوں کو خوراک دے رہی ہے “.383 مولانا محمد علی جوہر کی تصدیق اس سوال کے جواب کے آخر میں ہم جماعت احمدیہ کے متعلق مولانا محمد علی جوہر مرحوم کی رائے بیان کر دینا ضروری سمجھتے ہیں.مولانا محمد علی ایسے بڑے لیڈر تھے کہ قائد اعظم اور مولانا محمد علی کے مقابلہ میں اور کوئی سیاسی لیڈر نہیں ٹھہر سکتا اور اسلام کی اتنی غیرت رکھتے تھے کہ دشمن بھی اُن کی اِس خوبی کو تسلیم کرتے تھے.انہوں نے اپنے اخبار ” ہمدرد “ دہلی مؤرخہ 24 ستمبر 1927ء میں لکھا:.ناشکر گزاری ہو گی کہ جناب مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب اور اُن کی اس منظم جماعت کا ذکر ان سطور میں نہ کریں جنہوں نے اپنی تمام تر توجہات ہلا اختلاف عقیدہ تمام مسلمانوں کی بہبودی کے لئے وقف کر دی ہیں.یہ حضرات اس وقت تک اگر ایک جانب مسلمانوں کی سیاسیات میں دلچسپی لے رہے ہیں تو دوسری طرف مسلمانوں کی تنظیم و تجارت میں بھی انتہائی جد وجہد سے منہمک ہیں اور وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرزِ عمل سوادِ اعظم اسلام کے لئے بالعموم اور اُن اشخاص کے لئے بالخصوص جو بسم اللہ کے
انوار العلوم جلد 23 422 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ گنبدوں میں بیٹھ کر خدمتِ اسلام کے بلند بانگ و در باطن پیج دعاوی کے خوگر ہیں.مشعل راہ ثابت ہو گا“.384 اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ مولانا محمد علی جوہر کے نزدیک نہ صرف جماعت احمدیہ کلی طور پر مسلمانوں کی بہبودی میں لگی ہوئی تھی اور مسلمانوں کی تنظیم اور جماعت کی ترقی کے لئے کوشش کر رہی تھی بلکہ اُن کے نزدیک مسلمان علماء کے لئے ضروری تھا کہ وہ جماعت احمدیہ کے کاموں میں اس کی تردید نہیں بلکہ تائید کریں اور تائید ہی نہیں اُس نقش قدم پر چلیں.سوال نمبر 8 درباره اعتراض دشنام دہی ہشتم: کہا گیا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو عموماً اور مسلمان علماء کو خصوصاًسخت گالیاں دی ہیں.یہ اعتراض بھی بالکل غلط ہے.بانی سلسلہ احمدیہ نے جو کچھ کہا ہے جو ابا کہا ہے.جب یہ لوگ ایک لمبے عرصے تک گالیوں سے باز نہ آئے تو انہوں نے کچھ الفاظ استعمال کئے تا کہ اُن کو احساس ہو جائے کہ ان الفاظ کا استعمال مناسب نہیں.بانی سلسلہ احمدیہ کے حق میں بائی سلسلہ احمدیہ کے متعلق جو سخت الفاظ استعمال کئے گئے اُن کی ایک مختصر سی لیسٹ ہم غیر احمدی علماء کے سخت الفاظ وو ذیل میں درج کرتے ہیں.ان علماء نے لکھا:.” مرزا ( کادیانی) کافر ہے.چھپا مرتد ہے.گمراہ ہے.گمراہ کنندہ ملحد ہے.دجال ہے.وسوسہ ڈالنے والا.ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا.لَا شَكٍّ أنَّ مِرْزًا كَافِرُ مُرْتَدُ - زِنْدِيْقٌ ضَالٌ مُضِلٌ.مُلْحِدٌ دَجَّالُ - وَسْوَاسٌ خَنَّاسٌ“ 385 ”مرزا قادیان اہل اسلام سے خارج ہے اور سخت ملحد اور ایک دجال دجالون مخبر عنھا سے ہے اور پیر و اُس کے گمراہ ہیں“.386
انوار العلوم جلد 23 423 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ "حقیقت میں ایسا شخص منجملہ اُن دجالوں کے ایک دنجال مگر بڑا بھاری دجال بلکہ اُس کا عم وخال ہے “.387 وہ کافر ہے.بد کردار شریعت محمدیہ کا مخالف.اس کو باطل کرنا چاہتا ہے.خدا اس کا منہ کالا کرے“ 388 غلام احمد قادیانی کج رو.پلید.جس کا عقیدہ فاسد ہے اور رائے کھوئی گمراہ ہے.لوگوں کو گمراہ کرنے والا.چھپائر تد ہے بلکہ وہ اپنے اس شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے “.389 اسلام کا چھپاؤ شمن.مسیلمہ کثانی.دجالِ زمانی نجومی.رملی.جو تشی.انکل باز جفری بھنگڑ بھکڑ.ارڈ پوپو.مکار.جھوٹا.فریبی.ملعون.شوخ.گستاخ.مثیل دجال.اعور الد جال.غدار.کاذب.کذاب.ذلیل و خوار.مردود.بے ایمان.روسیاہ.رہبر ملاحدہ.عبدالدراهم والدنانير تمغات لعنت کا مستحق.مورد ہزار لعنت.ظلام افاک.مفتری عَلَی اللہ جس کا الہام احتلام بے حیا.دھوکا باز.حیلہ باز.بھنگیوں اور بازاری شہروں کا سر گروہ.دہر یہ جہان کے احمقوں سے زیادہ احمق.جس کا خدا شیطان.یہودی.ڈاکو.خون ریز.بے شرم.مکار.طرار.جس کی جماعت بد معاش بد کردار.زانی.390 شرابی.مالِ مردم خور.اس کے پیرو خرانِ بے تمیز " 20 وو د بال.ملحد.کافر.رُوسیاہ.بدکار.شیطان.لعنتی.بے ایمان.ذلیل و خوار.خستہ خراب.کاذب.شقی سرمدی.لعنت کا طوق اس کے گلے کا ہار ہے.لعن طعن کا جوت اس کے سر پر پڑا.اللہ کی لعنت ہو.اس کی سب باتیں بکو اس ہیں “.391 کیا ان الفاظ کے کہنے کا ان علماء کا حق تھا لیکن اس کے جواب میں بائی سلسلہ احمدیہ کو کوئی بات کہنے کا حق نہیں تھا ؟ علاوہ ازیں یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 424 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بعض الفاظ جو زیادہ سخت نظر آتے ہیں اصل میں عربی زبان میں ہیں اور ان کا غلط ترجمہ کر کے لوگوں کو اشتعال دلایا جاتا ہے.اس کی ایک واضح مثال آئینہ کمالات اسلام صفحہ 547 کا حوالہ ہے.آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ 457 کا حوالہ 1- کہا گیا ہے کہ حضرت.بانی سلسلہ احمدیہ نے آئینہ کمالات اسلام صفحہ 457 پر تمام غیر احمدی مسلمانوں کو ”کنجریوں کی اولاد“ قرار دیا ہے.اس کے جواب میں عرض ہے کہ آئینہ کمالات اسلام پہلی مرتبہ 1893ء میں شائع ہوئی اور اس کا دوسرا ایڈیشن 1924ء میں (یعنی آج سے تیس سال قبل) شائع ہوا.جو عبارت مجلس عمل نے پیش کی ہے وہ عربی زبان میں ہے اور اس کے نیچے عربی عبارت کا کوئی ترجمہ اصل کتاب میں نہیں ہے جو ترجمہ مجلس عمل نے کیا ہے جماعت احمدیہ نے کبھی بھی درست تسلیم نہیں کیا بلکہ 1933ء و1934 ء سے لے کر آج تک متواتر ہیں سال سے ہماری طرف سے یہ اعلان کیا جاتا رہا کہ یہ ترجمہ غلط ہے بلکہ ذرية البغایا کے معنے ہدایت سے دُور “ اور ”حد سے بڑھ جانے “ کے ہیں.نیز یہ کہ یہ عبارت غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت نہیں ہے بلکہ متعصب اور بد زبان پادریوں اور پنڈتوں کی نسبت ہے.اندریں حالات اگر اس تحریر یا اس کے اس ترجمہ کی اشاعت سے اشتعال پیدا ہوا تو اس کی ذمہ داری ان علماء پر ہے جنہوں نے بار بار عوام میں اس عبارت کا خود ساختہ ترجمہ شائع کر کے ان کو اشتعال دلایا.2- ذرية البغایا جس کا ترجمہ کنجریوں اور بدکاروں کی اولاد کیا گیا ہے اس کی تفسیر حضرت بانی جماعت احمدیہ نے اس عبارت میں خود ہی فرما دی ہے.”الَّذِينَ خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ.یعنی ذریۃ البغایا وہ لوگ ہیں جن کے دلوں پر اللہ تعالیٰ نے مہر کر دی ہے.وہ قبول نہیں کریں گے یعنی رُشد و ہدایت سے محروم لوگ.ناب آئینہ کمالات اسلام کی اشاعت 1893ء کے وقت آپ کے ماننے والوں کی نہایت قلیل تھی.ابھی تک جماعت احمدیہ کا نام ”مسلمان فرقہ احمدیہ “ جو
انوار العلوم جلد 23 425 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 1900ء میں رکھا گیا) بھی نہیں رکھا گیا تھا.نمازوں اور جنازوں میں بھی علیحد گی واقع نہیں ہوئی تھی اس کتاب کے ضمیمہ میں اس سال جلسہ سالانہ قادیان میں باہر سے شامل ہونے والوں کی تعداد تین سو میں لکھی ہے اور اُس وقت زیادہ سے زیادہ دو تین ہزار آدمی آپ کو ماننے والے تھے.اگر مجلس عمل کا ترجمہ درست مانا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ آپ کو ماننے والوں کے سوا تمام لوگ ذریۃ البغایا ہیں اور وہ آپ کو ہر گز نہیں مانیں گے.ظاہر ہے کہ یہ مفہوم بالبداہت غلط اور باطل ہے.کیونکہ آپ کے ماننے والوں کی تعداد 1893ء کے بعد ہی بڑھی اور بڑھتے بڑھتے لکھو کھہا تک پہنچ گئی.پس پیش کر دہ ترجمہ یقینا غلط ہے.4- ایک اور ثبوت اس عمل کا کہ محولہ عبارت میں عام غیر احمدی مسلمان مراد نہیں ہیں، یہ ہے کہ اسی کتاب کے صفحہ 530 پر (مجلس عمل کی پیش کردہ عبارت سے چند صفحات پہلے) حضرت بانی جماعت احمدیہ نے ملکہ وکٹوریہ آنجہانی کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے عام مسلمانوں کا ذکر ان الفاظ میں فرمایا ہے:.سلطنت ”اے قیصرہ محترمہ آنچه انجام کار و اہم جمیع امور مے خواہم.نصحاً در خدمت به تقدیم رسانم آنست که مسلماناں عضد خاص و جناح دولت تو می باشند و نیز آنها را در ملک تو خصوصیت ممتازی و حلیلی است که از نظر دور بینت پوشیده نیست.باید در آنها مخصوصاً به نظر مرحمت و شفقت و لطف فوق العادت نگا ہے بکنی و راحت و آرام و تالیف قلوب آنها را نصب عین صحت خود سازی و بسیاری را از آنها بر منازلِ عالیه و مدارج قرب مشرف و سر فراز بفرمائی.آنچه من بینم.تفضیل و تخصیص و ترجیح آنها بر جمیع اقوام از لوازمات و منبع مصالح و برکات است.خدا را دلِ مسلماناں را خوش و کشت امید آنهارا سر سبز بکن زیرا که حق تعالیٰ ترانزولِ اجلال در زمین آنها مرحمت فرموده و مالک ملک گردانیدہ کہ مسلماناں قریب ہزار سال عنانِ امر و ہیں و نهمیش
انوار العلوم جلد 23 در دست داشته اند 426 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ یعنی اے قیصرہ! میں آپ کو محض اللہ نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمانانِ ہند تیرے خاص بازو ہیں اور ان کو تیری مملکت میں ایک خصوصیت حاصل ہے.اس لئے تجھے چاہئے کہ مسلمانوں پر خاص نظر عنایت رکھے اور ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائے اور ان کی تالیف قلوب کرے اور ان کو اعلیٰ سے اعلی ملکی مناصب اور عہدوں پر سر فراز کرے.وہ اس ملک پر ایک ہزار سال تک حکومت کر چکے ہیں اور اُن کو اس ملک میں ایک خاص شان حاصل تھی اور وہ ہندوؤں پر حاکم رہے ہیں.اس لئے تجھے یہی مناسب ہے کہ تو اُن کی عزت و تکریم کرے اور بڑے سے بڑے عہدے ان کے سپر د کرے.(ب) پھر اسی آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 266،265 حاشیہ بر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ تکفیر کرنے والے علماء کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے آپ کو دوسرے عام مسلمانوں کے ساتھ بدیں الفاظ شامل فرماتے ہیں:.”مولوی لوگ اپنے نفسانی جھگڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں اور دعوتِ اسلام کی نہ لیاقت رکھتے ہیں اور نہ اس کا کچھ جوش، نہ اس کی کچھ پرواہ.اگر ان سے کچھ ہو سکتا ہے تو صرف اسی قدر کہ اپنی ہی قوم اور اپنے ہی بھائیوں اور اپنے جیسے مسلمانوں اور اپنے جیسے کلمہ گویوں اور اپنے جیسے اہل قبلہ (حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور آپ کے ماننے والوں.ناقل) کو کافر قرار دیں.دجال کہیں اور بے ایمان نام رکھیں فتویٰ لکھیں کہ اُن سے ملنا جائز نہیں اور اُن کا جنازہ پڑھنا روا نہیں“.(ج) پھر صفحہ 339 پر تحریر فرماتے ہیں:.مسیح موعود کا دعویٰ اس حالت میں گراں اور قابلِ احتیاط ہو تا کہ جب اس دعویٰ کے ساتھ نعوذ باللہ کچھ دین کے احکام کی کمی و بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی.
انوار العلوم جلد 23 427 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اب جبکہ ان باتوں میں سے کوئی بھی نہیں.صرف مابہ النزاع حیاتِ مسیح اور وفات مسیح ہے اور مسیح موعود کا دعوی اس مسئلہ کی در حقیقت ایک فرع ہے اور اس دعویٰ سے مراد کوئی عملی انقلاب نہیں اور نہ اسلامی اعتقادات پر اس کا کچھ مخالفانہ اثر ہے تو کیا کوئی اس دعویٰ کے قبول کرنے کے لئے کسی بڑے معجزہ یا کر امت کی حاجت ہے ؟“ (د) پھر صفحہ ۴۱۹ پر عرب کے مشائخ کو ان الفاظ میں مخاطب فرماتے ہیں:.السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيُّهَا الْاَ تُقِيَاءُ الْأَصْفِيَاءُ مِنَ الْعَرَبِ الْعُرَبَاءِ السَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ اَرْضِ النُّبُوَّةِ وَجِيْرَانَ بَيْتِ اللَّهِ الْعُظْمَى أَنْتُمْ خَيْرَ أُمَمِ الْإِسْلَامِ وَ خَيْرَ حِزْبِ اللَّهِ الْأَعْلَى“.ترجمه فارسی: ” بنام مشائخ و صلحائے عرب.السلام علیکم اے اتقیائے برگزیده با از عرب عرباء.السلام علیکم اے ساکنانِ زمین نبوت و ہمسایہ گانِ خانه بزرگ خداوند قبل و علا.شما بہترین امت ہائے اسلام و گروه برگزیدہ خدائے بزرگ ہستید “ 392 (ر) پھر اسی کتاب کے آخر میں آخری ضمیمہ کے صفحہ ۴ پر زیر عنوان اشتہار کتاب آئینہ کمالات اسلام تحریر فرماتے ہیں:.” مجھے یہ بڑی خواہش ہے کہ مسلمانوں کی اولاد اور اسلام کے شرفاء کی ذریت جن کے سامنے نئے علوم کی لغزشیں دن بدن بڑھتی جاتی ہیں اس کتاب ( آئینہ کمالات اسلام.ناقل ) کو دیکھیں.اگر مجھے وسعت ہوتی تو میں تمام جلدوں کو مفت اللہ تقسیم کرتا“.مندرجہ بالا سب عبارتیں اُسی آئینہ کمالات اسلام کی ہیں جس کے صفحہ 547 کا حوالہ مجلس عمل نے دیا ہے اور یہ الزام لگایا ہے کہ اس عبارت میں نَعُوذُ باللہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے غیر احمدی مسلمانوں کو کنجریوں کی اولاد قرار دیا ہے.جو شخص اس کتاب میں دوسرے تمام مسلمانوں کو اپنی طرح کا مسلمان قرار دیتا ہے اور اُن کو
------------------------------ انوار العلوم جلد 23 428 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ”مسلمانوں کی اولاد “ اور ”اسلام کے شرفاء کی ذریت“ قرار دیتا ہے اور اُن مشائخ کو جو آپ کی جماعت میں شامل نہیں ہوئے تھے ، اپنے پاکیزہ الفاظ میں یاد کرتا ہے.کیا ممکن ہے کہ وہ اس کتاب میں اِن کو نَعُوذُ باللہ کنجریوں کی اولاد “ قرار دے؟ 5- ایک اور ثبوت اس امر کا کہ پیش کردہ الفاظ غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت نہیں ہیں ، خود پیش کر دہ عبارت کا سیاق و سباق ہے جو درج ذیل ہے :- ”جب میں بیس سال کی عمر کو پہنچا تبھی سے میرے دل میں یہ خواہش رہی کہ اسلام کی نصرت کروں اور آریوں اور عیسائیوں کے ساتھ مقابلہ کروں.چنانچہ اس غرض سے میں نے متعدد کتب تصنیف کیں جن میں سے ایک براہین احمدیہ ہے.....نیز اور بھی کتابیں ہیں جن میں سے سرمہ چشم آریہ، توضیح مرام، فتح اسلام، ازالہ اوہام ہیں.نیز ایک اور کتاب بھی جو میں نے انہی دنوں لکھی ہے.اس کا نام دافع الوساوس ( آئینہ کمالات اسلام) ہے.ان لوگوں کے لئے جو دین اسلام کا حسن دیکھنا اور دشمنانِ اسلام کو لاجواب کرنا چاہتے ہیں یہ کتاب نہایت مفید ہے.یہ کتابیں ایسی ہیں کہ سب کے سب مسلمان ان کو محبت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کے معارف اور مطالب سے فائدہ اُٹھاتے ہیں اور میری تائید کرتے اور جو میری دعوت (یعنی دعوت اسلام) کی تصدیق کرتے ہیں.ہاں وہ ذُرية البغایا جن کے دِلوں پر اللہ تعالیٰ نے مُہر کر دی ہوئی ہے ، وہ 66 قبول نہیں کرتے “ 393 ظاہر ہے کہ اس عبارت میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنے مخصوص دعاوی کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ اپنے دعویٰ سے پہلے بیس سالہ عمر کی زندگی کا ذکر فرمایا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ براہین احمدیہ میں آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل رسول ہونا اور قرآنِ مجید کا کامل کتاب ہونا ثابت کیا ہے اور تمام مسلمان فی الواقع اب تک اس کے
انوار العلوم جلد 23 429 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مداح ہیں.حتی کہ خود مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بھی ( جنہوں نے سب سے پہلے بانی سلسلہ احمدیہ پر کفر کا فتویٰ لگایا) اس پر تعریف و ستائش سے بھرا ہوا شاندار ریویو لکھا اور اُسے فی زماننا بے نظیر کتاب اور اس کے مؤلف کو بے نظیر مؤید اسلام قرار دیا اور کتاب سُرمہ چشم آریہ جس کا ذکر اس جگہ حضور نے کیا ہے ”مسلم بک ڈپو “ لاہور نے اپنے خرچ پر شائع کی.عبارت پیش کردہ میں ”دعوت“ سے مراد اپنے مخصوص مَا بِهِ النزاع دعاوی نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا ذکر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے مندرجہ بالا عبارت کے بعد بالفاظ ذیل فرمایا ہے:- اور جب میں اپنی پختگی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کی عمر ہوئی تو نیم وحی میرے پاس میرے رب کی عنایات لائی تا میری معرفت اور یقین میں اضافہ کرے“.پیش کر دہ عبارت میں جو ”دعوت“ کا لفظ ہے اس سے مراد دعوتِ اسلام “ ہے اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ مجلس عمل کی پیش کردہ عبارت از صفحہ 547 کے ساتھ کامل مطابقت رکھنے والی اور مضمونِ واحد پر مشتمل عبارت اس آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 388 پر موجود ہے : وَ اللَّهُ يَعْلَمُ إِنِّى عَاشِقُ الْإِسْلَامِ وَ فِدَاءً حَضْرَةِ خَيْرِ الْأَنَامِ وَغُلَامُ أَحْمَدَ الْمُصْطَفَى حَيْبَ إِلَى مُنْذُصَبَوْتُ إِلَى الشَّبَابِ وَ قَادَنِي التَوْفِيقُ إِلَى تَأْلِيفِ الْكِتَابِ اَنْ اَدْعُوا الْمُخَالِفِينَ إِلَى دِينِ اللهِ الْأَجْلَى فَاَرْسَلْتُ إِلَى كُلِّ مُخَالِفِ كِتَابًا وَ دَعَوْتُ إِلَى الْإِسْلَامِ شَيْحَأَوَ شَابًا “.394 اس عربی عبارت کا فارسی ترجمہ آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 393،392 حاشیہ میں بدیں الفاظ درج ہے:.خد اتعالیٰ خوب میداند که من عاشق اسلام و فدائے سید الا نام و غلام احمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم مے باشم.از عنفوان وقتے کہ بالغ بسن شباب و موفق بتالیف کتاب شده ام دوست دار آن بوده ام
انوار العلوم جلد 23 430 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کہ مخالفین را بسوئے دین روشن خدا دعوت کنم.بنا بر آں بسوئے ہر مخالفے مکتوبے فرستادم و جوان و پیر را ندائے قبولِ اسلام داده ام “.مجلس عمل کی پیش کردہ اور مندرجہ بالا دونوں عبارتوں کا یکجائی طور پر مطالعہ کرنے سے صاف ظاہر ہے کہ اوّل الذکر عبارت میں لفظ ”دعوت“ سے مراد ”دعوتِ اسلام “ ہی ہے نہ کہ اپنے مخصوص مَا بِهِ النَزَاع دعاوی کو قبول کرنے کی دعوت.ذُريَّةُ الْبَغَايَا کا صحیح مطلب 6- جیسا کہ اوپر عرض کیا جا چکا ہے ذُرِّيَّةً الْبَغَايَا“ کے معنی ”ہدایت سے دُور “ اور ”سرکش انسان کے ہیں.شعر ہے.(الف) خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اس کا یہی ترجمہ کیا ہے.آپ کا ایک أَذَيْتَنِي خُبْثًا فَلَسْتُ بِصَادِقٍ إِنْ لَمْ تَمْتُ بِالْخِزْيِ يَا بْنَ بِغَاءِ اس شعر میں ابن بغاء کا لفظ استعمال ہوا ہے.آپ اپنے اس شعر کا مندرجہ ذیل ترجمہ کرتے ہیں:.”خباثت سے تو نے مجھے ایذا دی ہے.پس اگر تُو اب رُسوائی سے ہلاک نہ ہوا تو میں اپنے دعویٰ میں سچا نہ ٹھہروں گا.اے سرکش انسان“ 395 عرض کرنا ضروری ہے کہ مندرجہ بالا ترجمہ خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا اپنا کیا ہوا ہے جو بہر حال محجبت ہے.کتاب آئینہ کمالات اسلام کی عربی عبارت کا ترجمہ خود حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا کیا ہوا نہیں بلکہ مولانا عبد الکریم سیالکوٹی کا ہے.اس لئے وہ بطور سند کے پیش نہیں ہو سکتا.پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے نزدیک ذریۃ البغایا“ کا مطلب ”سرکش انسان “ ہو گا، نہ کہ کنجریوں کی اولاد.
انوار العلوم جلد 23 431 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ (ب) تاج العروس میں جو عربی لغت کی مشہور کتاب ہے لکھا ہے کہ البغى مطلق باندی کو کہتے ہیں چاہے وہ بد کار نہ ہو.یعنی اس لفظ میں بدکاری کا مفہوم داخل نہیں ہے.علاوہ ازیں اس تاج العروس میں بغنی کے معنی متکبر انسان کے بھی ہیں.پھر قاموس اور صراح میں جو عربی لعنت کی کتابیں ہیں لکھا ہے:.يُقَالُ لِلْأَمَةِ بَغْيَ وَلَا يَرَادُ بِهِ الشَّتَمَ وَ الْبَغَايَا أَيضاً الطَّلَائِعُ الَّتِي تَكُوْنَ قَبْلَ وَرَوْدِ الْجَيْشِ“.یعنی جب باندی کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد گالی نہیں ہوتی اور بغایا اُس ہر اول دستے کو کہتے ہیں جو مقدمۃ الجیش یعنی لشکر کے آگے ہو آتے ہیں.اندریں صورت ”ذرية البغایا“ کے معنے ایسے لوگ ہوں گے جو گالی گلوچ اور تکفیر بازی اور معاندت میں عام لوگوں سے پیش پیش ہیں.(ج) تاج العروس میں ہے کہ ”بغی“ کا لفظ بد کار اور غیر بد کار دونوں پر بولا جاتا ہے.اندریں صورت کیا ضرور ہے کہ اس کا ترجمہ ”بد کار “ ہی لیا جائے.خصوصاً جبکہ بزرگانِ سلف کا یہ طریق رہا ہے اور یہی طریقہ از راہ احتیاط بھی مناسب ہے کہ اگر ایک لفظ کے دو معنے ہو سکتے ہوں تو انسب یہی ہے کہ وہ معنی لئے جائیں جو نرمی کے زیادہ قریب ہوں.مثال کے طور پر قرآن مجید کی آیت وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَافٍ مَّهِيْنٍ هَمَّازٍ مَشَاءٍ بِنَمِيمٍ مَنَاعِ لِلْخَيْرِ مُعْتَدٍ أَثِيمٍ عُتُلٍ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيمٍ - 396 پس دشمن اسلام کے لئے لفظ زنیم استعمال ہوا ہے.اس لفظ کے معنی حرامزادہ بھی ہیں اور اُس شخص کے بھی جو اُس کی طرف منسوب ہو تا ہو جس میں سے وہ در حقیقت نہ ہو.1- چنانچہ لعنت کی کتاب الفرائد الدریہ میں زنیم کے معنی لکھے ہیں ”Ignoble“.المنجد " لعنت کی کتاب) میں اس کے معنی ”الدنی الاصل “ یعنی بد اصل لکھے ہیں.-3- تفسیر کبیر مصنفہ حضرت امام رازی "جلد 8 صفحہ 265 مطبوعہ مصر میں لکھا ہے:.
انوار العلوم جلد 23 432 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ فَالْحَاصِلُ أَنَّ الزَّنِيمَ هُوَ وَلَدُ الزَّنَاءِ“.یعنی زنیم کے معنی ولد الزنا“ کے ہیں.397 -4 تفسیر حسینی مترجم اُردو موسومه به تفسیر قادری جلد 2 صفحہ 564 میں لکھا ہے:.زنیم.حرامزادہ نطفہ نا تحقیق کہ اُس کا باپ معلوم نہیں“.لیکن عام طور پر علماء اور مفسرین نے اس کے معنی بد فطرت اور شریر انسان یا ایسی قوم کی طرف منسوب ہونے والا جس میں سے وہ در حقیقت نہ ہو ہی گئے ہیں جو احتیاط کے پہلو سے نرمی کے زیادہ قریب ہیں.398 البغایا کے متعلق حضرت امام باقر کا حوالہ پر انصاف اور امن پسندی کا اقتضاء یہ تھا کہ مخالفین اس ذریتہ البغایا کا ایسا مفہوم نہ لیتے جو منشائے متکلم کے بھی خلاف ہے، عبارت کے سیاق و سباق کے بھی خلاف ہے، واقعات کے بھی خلاف ہے اور جماعتِ احمدیہ کے مؤقف کے بھی بر خلاف ہے.شیعوں کے مشہور امام حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں:- ہیں.النَّاسُ كُلُّهُمْ أَوْلَادُبَغَايَامَاخَلَاشِيْعَتُنَا“.399 اے ابو حمزہ! خدا کی قسم ہمارے شیعوں کے سوا باقی تمام لوگ اولاد بغایا“ اس عبارت میں بعینہ وہی لفظ اولاد بغایا غیر شیعوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے جو آئینہ کمالات اسلام کی عبارت زیر بحث میں ہے.حضرت امام باقر کی مندرجہ بالا عبارت جب ذرية البغایا کے بارے میں اعتراض کے جواب میں جماعت احمدیہ کی طرف سے احرار کے سامنے پیش کی گئی تو مجلس احرار کے ترجمان اخبار ”مجاہد “ نے اس کا مندرجہ ذیل جواب دیا:- وو ولد البغایا، ابن الحرام اور ولد الحرام.ابن الحلال اور بنت الحلال و غیرہ سب عرب کا اور ساری دُنیا کا محاورہ ہے جو شخص نیکی کو
انوار العلوم جلد 23 433 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ ترک کر کے بدکاری کی طرف جاتا ہے اُس کو باوجودیکہ اُس کا ، نسب درست ہو.صرف اعمال کی وجہ سے ابن الحرام، ولد الحرام کہتے ہیں.اس کے خلاف جو نیکو کار ہوتے ہیں اُن کو ابن الحلال کہتے ہیں.اندریں حالات امام کا اپنے مخالفین کو اولاد بغایا کہنا بجا اور درست ہے“ 400" 66 لیکن ہمیں افسوس ہے کہ مجلس احرار اور اُس کے ہمنواؤں کو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں یہ عرب کا، ساری دُنیا کا محاورہ “ یاد نہ رہا اور اُنہوں نے ممبروں پر ، اسٹیج پر ، اخبارات میں ، رسائل میں، کتابوں میں غرضیکہ ہر جگہ پھر پھر کر یہ پروپیگنڈا جاری رکھا کہ نعوذ باللہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور جماعتِ احمدیہ کے نزدیک تمام غیر احمدی مسلمان نعوذ باللہ کنجریوں کی اولاد ہیں.حالانکہ وہ یہ جانتے تھے کہ اُن کا یہ بیان کردہ ترجمہ جماعت احمدیہ کو مسلم نہیں اور نہ یہ مسلّم ہے کہ یہ عبارت غیر احمدی مسلمانوں کی نسبت ہے.وہ یہ بھی جانتے تھے کہ جن لوگوں کو وہ یہ عبارت سُنا سنا کر اور اس عبارت کا مخاطب بتا بتا کر اشتعال دلا رہے ہیں وہ اِس عبارت کی تحریر کے وقت (1893ء میں) پیدا بھی نہ ہوئے تھے.اس سے صاف طور پر ثابت ہے کہ اس اشتعال انگیزی اور اس کے نتیجہ میں فسادات کی تمام ذمہ داری خود اُن علماء پر ہے.9- پھر شیعہ صاحبان کے مستند امام حضرت جعفر صادق علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں:.مَنْ أَحَبَنَا كَانَ نُطْفَةَ الْعَبْدِ وَ مَنْ أَبْغَضَنَا كَانَ نُطْفَةً الشَّيْطَان“ 401 یعنی جو شخص ہم سے محبت رکھتا ہے وہ بندے کا نطفہ ہے.مگر وہ جو ہم سے بغض رکھتا ہے وہ نطفہ شیطان ہے.کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ حضرت امام جعفر صادق اور حضرت امام با قر ا یسے جلیل القدر اماموں نے شیعوں کے علاوہ تمام مسلمانوں کو اولاد بغایا اور نطفہ شیطان قرار دیا تھا کیونکہ اس قسم کے الفاظ سے صرف اظہار ناراضگی مقصود ہوتا ہے اور اُن کی
انوار العلوم جلد 23 434 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ وہ حقیقت لغوی مُراد نہیں ہوتی.نیز کیا غیر شیعہ مسلمانوں کے لئے یہ جائز ہے کہ شیعوں کو قتل کرنا شروع کر دیں.اُن کے گھروں کو آگ لگا دیں اور اُن کا ساز و سامان کوٹ لیں اور جب اس فساد کے اسباب کے بارہ میں تحقیقات شروع ہو تو مجلس عمل کی طرح یہ تحریری بیان داخل کر دیں کہ چونکہ شیعوں کے اماموں نے تمام غیر شیعہ مسلمانوں کو ” اولا د بغایا “ اور ”نطفہ شیطان “ قرار دیا تھا.اس لئے اشتعال انگیزی اور فسادات کی ذمہ داری خود شیعوں پر ہے.10-حضرت امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں:.مَنْ شَهِدَ عَلَيْهَا بِالزِّنَا فَهُوَ وَلَدَ الزَنَاءِ“ _ 402 یعنی جو حضرت عائشہ پر زنا کی تہمت لگائے وہ ولد الزنا ہے.تخص اس عبارت میں بھی حضرت امام اعظم کا منشاء محض اظہارِ ناراضگی ہے نہ کہ معترض کے نسب پر اعتراض.خلاصہ کلام یہ کہ آئینہ کمالات اسلام صفحہ 547 کی عبارت میں غیر احمدی مسلمانوں کے بارے میں کوئی سخت لفظ استعمال نہیں کیا گیا.جن لوگوں کی نسبت وہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ معدودے چند مخصوص افراد تھے جو فوت ہو چکے.موجودہ زمانہ کے لوگوں کا اِس عبارت سے قطعا کوئی تعلق نہیں اور اس لفظ کے معنی صرف ہدایت سے ڈور سرکش اور متکبر انسانوں کے ہیں، نہ کہ کنجریوں کی اولاد.اس سلسلہ میں آخری گزارش یہ ہے کہ آئینہ کمالات اسلام 1893ء میں شائع ہوئی.یہ عبارت عربی زبان میں ہے جس کو عام مسلمان سمجھ ہی نہیں سکتے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اس کی اشاعت کے 18 سال بعد تک زندہ رہے.آپ کی زندگی میں بلکہ آپ کی وفات کے بعد بھی غالباً 1933 ء یا 1934ء تک کسی غیر احمدی عالم نے اس عبارت کا مخاطب غیر احمدی مسلمانوں کو قرار نہیں دیا.سب سے پہلے 1933ء یا 1934ء میں مجلس احرار نے اس عبارت کا خود ساختہ ترجمہ شائع کیا تو اسی وقت جماعت احمدیہ نے بذریعہ اشتہارات و اخبارات و کتب و رسائل یہ اعلان کر دیا تھا کہ ”ذریۃ البغایا“ کے
انوار العلوم جلد 23 435 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ مخاطب غیر احمدی نہیں ہیں اور اس کا درست ترجمہ بھی وہ نہیں ہے جو مجلس احرار پیش کرتی ہے بلکہ اس کا ترجمہ ہدایت سے دُور اور سرکش انسان ہے.چنانچہ لاہور سے احمد یہ فیلوشپ آف یو تھ نے گالی اور اظہار واقعہ میں فرق“ نامی ایک اشتہار 34-1933ء میں شائع کیا جو الفضل میں بھی شائع ہوا.احمدیہ پاکٹ بک ایڈیشن دسمبر 1934ء کے صفحہ 672 پر مفصل طور پر وایڈ یشن 1945ء کے صفحہ 962 وایڈیشن 1952ء کے صفحہ 904 پر یہی اعلان کیا گیا.الفضل میں شائع ہوا.پروفیسر الیاس برنی کی کتاب ” قادیانی مذہب“ کا جواب 1934-35ء میں شائع ہوا.اس میں بھی صفحہ 322 پر یہی تحریر کیا گیا.چنانچہ پروفیسر الیاس برنی صاحب نے اپنی کتاب ” قادیانی مذہب“ کے بعد کے ایڈیشنوں میں قادیانی حساب صفحہ 24 تا صفحہ 27 پر جو سب کے سب فسادات سے پہلے شائع ہو چکے تھے خود یہ تحریر کیا کہ :- ” جماعت احمدیہ کا جواب یہ ہے کہ اس لفظ کا ترجمہ ہدایت سے دُور اور سرکش انسان“ ہے.کنجریوں کی اولاد نہیں“.پس باوجود اس قدر متواتر اور بار بار تردید کے اگر احرار اور اُن کے ہمنواؤں نے اپنی اشتعال انگیزی کی مہم کو تیز کرنے کے لئے اس حوالہ کو استعمال کیا تو اس سے فسادات کی ذمہ داری اُن پر ہے.حجم الھدیٰ صفحہ 10 کا حوالہ اسی طرح کہا گیا ہے کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے نجم الھدی صفحہ 10 پر تمام غیر احمدی مسلمانوں کے بارے میں یہ لکھا ہے کہ میرے دُشمن خنزیر ہیں اور اُن کی عورتیں گھتیاں 403 ہیں.خنزیر کا لفظ قرآن کریم میں بھی اپنے مخالفوں کے لئے استعمال کیا گیا ہے.علاوہ ازیں مجلس عمل کی طرف سے نجم الھدیٰ صفحہ 10 میں جو حوالہ دیا گیا ہے وہ نا مکمل ہے.انہوں نے اگلی سطر نقل نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت بائی سلسلہ احمدیہ کی پیش کردہ عبارت میں اُن کے نہ ماننے والوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ صرف
انوار العلوم جلد 23 436 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اُن لوگوں کا ذکر ہے جو گالیاں دینے والے تھے.چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:- انہوں نے گالیاں دیں اور میں نہیں جانتا کیوں دیں.کیا ہم اُس دوست کی مخالفت کریں یا اُس سے کنارہ کریں“.404 اس عبارت میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اُن دُشمنوں کا ذکر فرمایا ہے جو آپ کے محبوب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بد زبانی اور بد گوئی سے کام لیتے تھے اور حضور کو گندی گالی دینے سے اُن کا مقصود یہ تھا کہ مسلمانوں کو حضور کی محبت سے دور کر دیں مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں کہ ہم ان دشمنوں کی غلیظ گالیوں کے باعث اپنے محبوب سے کبھی کنارہ کش نہیں ہو سکتے.یہ گالیاں دینے والے کون تھے ؟ اس کی تفصیل بھی اسی کتاب نجم الھدی کے صفحہ 12 پر پیش کردہ عبارت کے آگے تفصیل سے موجود ہے.حضور عام مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.(الف) سو آپ لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ دین صلیبی اُونچا ہو گیا اور پادریوں نے ہمارے دین کی نسبت کوئی دقیقہ طعن کا اُٹھا نہیں رکھا اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیں اور بہتان لگائے اور دُشمنی کی.....اور تھوڑی مدت سے ایک لا کھ کتاب اُنہوں نے ایسی تالیف کی ہے جس میں ہمارے دین اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بجز گالیوں اور بہتان اور تہمت کے اور کچھ نہیں اور ایسی پلیدی سے وہ تمام کتابیں پر ہیں کہ ہم ایک نظر بھی اُن کو دیکھ نہیں سکتے اور تم دیکھتے ہو کہ اُن کے فریب ایک سخت آندھی کی طرح چل رہے ہیں اور اُن کے دل حیا سے خالی ہیں اور تم مشاہدہ کرتے ہو کہ اُن کا وجود تمام مسلمانوں پر ایک موت کھڑی ہے اور کمبینہ طبع آدمی خس و خاشاک کی طرح اُن کی طرف کھینچے جارہے ہیں.....پھر ان کی اپنی عورتیں اسی غرض کے لئے شریفوں کے گھروں میں بھیجیں...
انوار العلوم جلد 23 437 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ صیتیں ان کے مذہب باطل نے ہمارے ملک کی نیکیوں کو دُور کر دیا اور کوئی گھر ایسانہ رہا جس میں یہ مذہب باطل داخل نہ ہو.....اسلام پر وہ پڑیں جن کی نظیر پہلے زمانوں میں نہیں ہے.پس وہ اُس شہر کی طرح ہو گیا جو مسمار ہو جائے اور اس جنگل کی طرح جو وحشیوں سے بھر جائے“.405 (ب) ”ہم صرف اُن لوگوں کی طرف توجہ کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بصراحت یا اشارات سے گالیاں دیتے ہیں اور ہم اُن پادری صاحبوں کی عزت کرتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نہیں دیتے اور ایسے دلوں کو جو اس پلیدی سے پاک ہیں ہم قابل تعظیم سمجھتے ہیں اور تعظیم و تکریم کے ساتھ اُن کا نام لیتے ہیں اور ہمارے کسی بیان میں کوئی ایسا حرف اور نقطہ نہیں ہے جو اُن بزرگوں کی کسریشان کرتا ہو اور صرف ہم گالی دینے والوں کی گالی اُن کے منہ کی طرف واپس کرتے ہیں تا اُن کے افتراء کی پاداش ہو“.406 (ج) ”آپ لوگ دیکھتے ہیں کہ ہزار ہا مسلمان مرتد ہو کر دین اسلام کو چھوڑ گئے ہیں.پس سوچ لو کہ کیا یہ نہایت بڑی مصیبت ہمارے دین محمدی پر نہیں ہے ؟ اور پھر انہوں نے علاوہ بد مذہبی پھیلانے کے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں بھی دیں اور ہمارے دین اسلام پر اعتراض کئے اور ہجو کی اور بات کو انتہا تک پہنچا دیا.کیا خدا نے ان کو ہمیں دُکھ دینے کیلئے موقع دیا اور ہمیں نہ دیا؟ 407 (1) اس زمانہ میں فسادِ عظیم صلیبی کارروائیوں کا فساد ہے.اسی فساد نے بہت سے بیابانی اور شہری لوگوں کو ہلاک کیا ہے.پس یہ امر واجب ہے کہ مجدد اس صدی کا اس اصلاح کے لئے آوے اور بموجب منشاء احادیث کے کسر صلیب اور قتل خنازیر کرے“ 408 مندرجہ بالا عبارتوں سے (جو سب کی سب نجم الھدی کی ہیں اور مجلس عمل کی
انوار العلوم جلد 23 438 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پیش کر دہ عبارت سے آگے درج ہیں) صاف ظاہر ہے کہ مجلس عمل کی پیش کر دہ عبارت میں دشمن“ کے لفظ سے بھی گالیاں دینے والے بد زبان پادری اور اُن کی وہ عورتیں تھیں جن کا عبارت ”الف“ میں ذکر ہے.جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گندی اور پلید گالیاں دیں اور مسلمانوں کے دلوں کو دُکھایا اور ”ینا بیع الاسلام اور امہات المسلمین “ نامی فحش سے بھری ہوئی کتابیں شائع کر کے کئی مسلمانوں کو مرتد کیا.پس مجلس عمل نے اس عبارت کو پیش کر کے اور عوام الناس کو یہ بتا بتا کر کہ اے مسلمانو! تم کو مرزا صاحب نے سور اور تمہاری عورتوں کو گھتیاں قرار دیا ہے.ناحق اشتعال دلایا اور فساد برپا کیا.حالانکہ غیر احمدی مسلمانوں کو اس کتاب میں اور مجلس عمل کی پیش کردہ عبارت از صفحہ 10 سے چند سطریں پہلے صفحہ 9 و صفحہ 11 پر تمام مسلمانوں کو اپنے بھائی قرار دیا ہے اور صفحہ 4 پر لکھا ہے:.وو اور میں خادموں کی طرح اس کام کے لئے اسلامی جماعت کے کمزوروں کے لئے کھڑا ہوں“.گویا اپنے آپ کو مسلمانوں کا خادم قرار دیا ہے.پس یہ الزام بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ آپ نے عام مسلمانوں کو نَعُوذُ بِاللہ.خنزیر وغیرہ الفاظ سے یاد کیا ہے بلکہ اس پروپیگنڈا کی ایک اور واضح مثال ہے جو مجلس عمل اور مجلس احرار کے ممبر ان عام ناواقف مسلمانوں میں کرتے رہے اور جس کے نتیجہ میں یہ فسادات رو نما ہوئے.(ذ) اب آخری گزارش یہ ہے کہ اگر چہ ہم اوپر ثابت کر آئے ہیں کہ اِس عبارت میں صرف بد زبان عیسائی پادریوں اور اُن کی مبلغہ عورتوں کا ذکر ہے لیکن اگر نجم الھدی میں ان کا بالصراحت ذکر نہ بھی ہو تا تب بھی کم از کم اتنا تو خود اس عبارت سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں مسلمانوں کا ذکر نہیں بلکہ اُن گالیاں دینے والے ”دشمنوں کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ مسلمانوں میں سے بھی بوقت تحریر کتاب نجم الھدیٰ (1898ء میں) آپ کو گالیاں دینے والے معدودے چند مولوی ہی تھے نہ کہ عام مسلمان.تو اس 66
انوار العلوم جلد 23 439 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ صورت میں بھی یہی سمجھا جاسکتا تھا کہ خطاب اُن چند مخصوص ”دشمنوں“ سے ہے نہ کہ عام مسلمانوں سے.وہ ” دشمن“ جو آپ کو 1898ء میں گالیاں دیتے تھے فوت بھی ہو چکے اور آب اُن میں سے ایک بھی زندہ نہیں لیکن سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور دوسرے احرار لیڈروں نے عام جلسوں میں یہاں تک کہا کہ ”مرزا صاحب نے خواجہ ناظم الدین اور ممتاز دولتانہ اور دوسرے تمام مسلمانوں کو خنزیر اور اُن کی عورتوں کو کُتیاں قرار دیا ہے“.حالانکہ عبارت پیش کردہ میں مسلمانوں کا نام نہیں ہے بلکہ صرف گالیاں دینے والے دشمنوں کا ذکر ہے.ہم یہ صورتِ حال معزز عدالت کے نوٹس میں لا کر نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ اس قسم کے اشتعال انگیز اور بے بنیاد پروپیگنڈا کے نتیجہ میں جو فسادات رُونما ہوئے احرار اور ان کے ہمنوا اس کی ذمہ داری سے کسی طرح بچ نہیں سکتے.غرضیکہ یہ حوالہ عیسائیوں کے متعلق ہے.مسلمانوں کے متعلق ہے ہی نہیں.یہ علماء خواہ مخواہ اپنے آپ کو عیسائی قرار دے کر اسے اپنے پر چسپاں کر رہے ہیں.علاوہ ازیں بول چال میں جب کسی جانور کا نام انسانوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تو اُس کی معروف صفت کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے.خنزیر کی معروف صفت یہ ہے کہ وہ دائیں بائیں نہیں دیکھتا، سیدھا حملہ کرتا ہے.انہیں معنوں میں قرآنِ کریم نے یہودیوں کو خنزیر کہا ہے.یہ مطلب نہیں کہ یہود کو گالی دی ہے بلکہ اُن کی صفت بتائی ہے کہ بندروں کی طرح یہ لوگ بدکار ہو گئے اور سؤروں کی طرح دائیں بائیں نہیں دیکھتے، سوچتے نہیں اور یو نہی اسلام پر حملہ کر دیتے ہیں.یہی معنی حضرت مسیح موعود کے مندرجہ بالا کلام کے ہیں جو عیسائیوں کے متعلق اُن کے ہزاروں حملوں کے جواب میں کہے گئے ہیں.اگر قرآن کریم نے یہ الفاظ استعمال کر کے گالی نہیں دی تو بانی سلسلہ احمدیہ نے وہی الفاظ استعمال کر کے کس طرح گالیاں دی ہیں.پس بانی سلسلہ احمدیہ کا وہ شعر جو عام طور پر مخالفین کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے.
انوار العلوم جلد 23 440 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اوّل اُن بد زبان عیسائیوں کے متعلق ہے.مسلمانوں کے متعلق نہیں.دوم وہ گالی نہیں قرآنِ کریم کی اتباع میں عیسائیوں کے ناواجب حملوں کی تشریح کی گئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود نے جو الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اُن سے بہت زیادہ سخت الفاظ ہزاروں نہیں لاکھوں دفعہ یہ لوگ استعمال کر چکے ہیں.گزشتہ فسادات کے موقع پر بھی جو الفاظ انہوں نے استعمال کئے ہیں اور جو عدالتِ عالیہ کے سامنے پیش ہوئے ہیں وہ بتا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کی اندرونی کیفیت کیا ہے.انوار الاسلام کا حوالہ انوار الاسلام صفحہ 20 کے حوالہ سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے عام مسلمانوں کو (نعوذ الله ولد الحرام قرار دیا ہے کہ ”جو شخص ہماری فتح کا قائل نہ ہو گا، سمجھا جائے گا کہ اُسے ولد الحرام بننے کا شوق ہے“.ہمیں افسوس ہے کہ اصل عبارت میں قطع و برید کی گئی ہے جس سے یہ ظاہر نہیں ہو تا کہ اس جگہ ”فتح“ سے کیا مراد ہے؟ اصل واقعہ یہ ہے کہ اِس عبارت میں رُوئے سخن مولوی عبدالحق غزنوی کی طرف ہے.اس جگہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے پادری عبد اللہ آتھم کے متعلق اپنی پیشگوئی پر مولوی عبدالحق غزنوی کی نکتہ چینی کا جواب دیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ آتھم مدت معینہ کے اندر اس لئے نہیں مرا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے الہاما بتایا تھا کہ اُس نے پیشگوئی کی شرط ” بشر طیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے“ سے فائدہ اُٹھایا ہے لیکن مولوی عبد الحق مذکور نے اس کی تکذیب کی اور آپ کو گالیاں دیں اور عیسائیوں کو غالب اور فاتح قرار دیا تو آپ نے انوار الاسلام میں لکھا: - ”ہاں اگر یہ دعویٰ کرو کہ عبد اللہ آتھم نے ایک ذرہ حق کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ ڈرا تو اس وہم کی بیخ کنی کے لئے یہ سیدھا اور صاف معیار ہے کہ ہم عبد اللہ آتھم کو دو ہزار روپیہ نقد دیتے ہیں.وہ تین مرتبہ قسم کھا کر یہ اقرار کر دے کہ میں نے ایک ذرہ بھی
انوار العلوم جلد 23 441 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اسلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور نہ اسلامی پیشگوئی کی عظمت میرے دل میں سمائی بلکہ برابر سخت دل اور دشمن اسلام رہا اور مسیح کو برابر خدا ہی کہتا رہا.پھر اگر ہم اسی وقت بلا توقف دو ہزار روپیہ نہ دیں تو ہم پر لعنت اور ہم جھوٹے اور ہمارا الہام جھوٹا اور اگر عبد اللہ آتھم قسم نہ کھائے یا قسم کی سزا میعاد کے اندر نہ دیکھ لے تو ہم بیچے اور ہمارا الہام سچا.پھر بھی اگر کوئی حکم سے ہماری تکذیب کرے اور اس معیار کی طرف متوجہ نہ ہو اور ناحق سچائی پر پر وہ ڈالنا چاہے تو بیشک وہ ولد الحلال اور نیک ذات نہیں ہو گا کہ خواہ نخواہ حق سے رو گردان ہوتا ہے اور اپنی شیطنت سے کوشش کرتا ہے کہ بیچے جھوٹے ہو جائیں“.409 اسی طرح صفحہ 27 پر یہ ذکر کر کے کہ آتھم کے قسم کی طرف رُخ نہ کرنے اور انعام نہ لینے سے صاف ثابت ہے کہ اُس نے خوف کے دنوں میں در پردہ اسلام کی طرف رجوع کیا تھا.فرماتے ہیں:- اس سے بتمامتر صفائی ثابت ہے کہ ہماری فتح ہوئی اور دین اسلام غالب رہا.پھر بھی اگر کوئی عیسائیوں کی فتح کا گیت گاتار ہے تو اسے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ آتھم کو قسم کھانے پر مستعد کرے اور ہم سے تین ہزار روپیہ دلاوے اور میعاد گزرنے کے بعد ہم کو بیشک منہ کالا دجال کہے.اگر ہم نے اس میں افتراء کیا ہے تو بیشک ہمارے آگے آجائے گا اور ہماری ذلّت ظاہر ہو گی لیکن اے میاں عبد الحق! اگر اس تقریر کو سُن کر چپ ہو جاؤ تو بتلا کہ سچی لعنت کس پر پڑی اور واقعی طور پر منہ کیس کا کالا ہوا؟“ 410 اس عبارت سے ظاہر ہے کہ اس تحریر کے مخاطب عام مسلمان نہیں ہیں بلکہ خاص طور پر میاں عبد الحق ہیں جنہوں نے اسلام کے بالمقابل عیسائیوں کی حمایت کی تھی.(ب) ہم قبل ازیں ذریۃ البغایا کی تشریح کے ضمن میں زیر عنوان ”آئینہ کمالات اسلام
انوار العلوم جلد 23 442 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 66 کا حوالہ “احرار کے اخبار ”مجاہد “ 4 مارچ 1936 ء سے شیعوں کے امام حضرت امام جعفر صادق اور اہل سنت کے امام حضرت امام ابو حنیفہ کے حوالوں سے ثابت کر چکے ہیں کہ لفظ "ولد الحرام“ سے مراد محض کج فطرت اور شریر لوگ ہوتے ہیں.اس سے لغوی معنی مراد نہیں ہوتے.(ج) مولوی عبدالحق غزنوی نے انوار الاسلام کی اشاعت سے قبل حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہایت گندی اور غلیظ گالیاں دی تھیں.411 پس حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے یہ الفاظ بطور جواب کے تھے.(1) انوار الاسلام 1898ء میں شائع ہوئی تھی.مولوی عبدالحق غزنوی چالیس سال سے فوت ہو چکے ہیں.پس اس حوالہ کی بناء پر عام مسلمانوں کو اشتعال کیونکر آسکتا تھا.اگر مجلس احرار کے لیکچرار اور اخبار نے اسے پیش کر کے اور مسلمانوں کو اس کا مخاطب قرار دے کر اشتعال پیدا کیا اور پھیلایا تو اس سے فساد کی ذمہ داری احرار اور اُن کے ہمنواؤں پر ثابت ہوتی ہے یا کسی اور پر.پھر یہ بھی یاد رکھنے والی بات ہے کہ مرزا صاحب نے تو کسی زمانہ میں کوئی لفظ جوابی طور پر کہا تھا مگر یہ لوگ آج تک برابر اُن الفاظ کو دُہراتے چلے جارہے ہیں.حالانکہ وہ الفاظ جماعت احمدیہ کی طرف سے پچھلے پچاس سال سے دُہرائے نہیں گئے.ظالم وہ ہوتا ہے جو حملہ کو لمبالئے چلا جاتا ہے یا ظالم وہ ہوتا ہے جو جواب دیتا ہے اور پھر چپ ہو جاتا ہے ؟ آخر ان الفاظ کے بعد وہ کون سا ذریعہ تھا جس سے مخالفوں کو جواب دیا جاسکتا اور پھر اس جواب کے بعد گزشتہ پچاس برس کے لمبے زمانے میں کسی ذمہ دار احمدی نے اس قسم کے الفاظ غیروں کے متعلق کبھی استعمال نہیں کئے.ایک اور اعتراض اور اُس کا جواب کہا جاتا ہے کہ موجودہ امام جماعتِ احمدیہ نے ان کو ابو جہل کہا ہے.مگر یہ بالکل غلط ہے.انہوں نے ان کو ہر گز ابو جہل نہیں کہا.امام جماعت احمد یہ نے تو ابو جہل کے ایک فعل کو بطور مثال کے پیش کیا ہے اور وہ بھی آفاق کے ایڈیٹر کا جواب دینے
انوار العلوم جلد 23 443 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اور اُس کے ایک بے جاو ناروا خیال کی لغویت ظاہر کرنے کے لئے نہ کہ سارے مسلمانوں کے متعلق.”آفاق“ کے ایڈیٹر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ زمینوں کی ملکیت کے متعلق امام جماعت احمدیہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان خیالات کے اظہار کا انہیں کوئی حق نہیں کیونکہ وہ تھوڑے ہیں اور ہم زیادہ ہیں.اس پر انہوں نے مثال دی تھی کہ اگر تھوڑے ہونا کسی شخص کی زبان بندی کر دیئے جانے کے لئے کافی ہے تو پھر ابو جہل کا بھی یہ دعویٰ صحیح ہو گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان بندی ہونی چاہئے کیونکہ وہ تھوڑے ہیں اور ہم زیادہ ہیں.پس وہاں یہ بتانا مقصود تھا کہ تمہارا دعویٰ غلط ہے.یہ بتانا مقصود نہیں تھا کہ تم ابو جہل ہو اور باوجود اس کے آخر میں آپ نے یہ بھی فرما دیا تھا کہ تم جو کچھ چاہو کرو ہم تو تمہارے ساتھ محبت اور پیار ہی کا سلوک کریں گے.412 اور اس اعتراض کا جواب خود بائی سلسلہ احمدیہ بھی اپنی کتابوں میں دے چکے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا ہے:- " لَيْسَ كَلَامُنَا هَذَا فِي أَخْيَارِهِمْ بَلْ فِي أَشْرَارِهِمْ 413 - ہم نے جو سخت الفاظ استعمال کئے ہیں وہ غیر احمدیوں میں سے نیک لوگوں کے متعلق نہیں بلکہ وہ ان میں سے شرارتی لوگوں کے متعلق ہیں.اور آپ نے فرمایا ہے:- غرض ایسے لوگ جو مولوی کہلاتے ہیں انصارِ دین کے دشمن اور یہودیوں کے قدموں پر چل رہے ہیں مگر ہمارا یہ قول کلی ہے.راستباز علماء اس سے باہر ہیں.صرف خاص مولویوں کی 414 << نسبت یہ لکھا گیا ہے “.4 پھر آپ نے فرمایا:- وَنَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنْ هَتَكِ الْعُلَمَاءِ الصَّالِحِيْنَ وَ قَدْح الشُّرَفَاءِ الْمُهَذَّبِينَ سَوَاءً كانُوْا مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ اَوِ الْمَسِيحِيَيْنَ
انوار العلوم جلد 23 444 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اَوِ الْأَرَيَةَ بَلْ لَا نَذْكُرُ مِنْ سُفَهَاءِ هَذِهِ الْأَقْوَامِ إِلَّا الَّذِينَ اشْتَهَرُوْا فِي فَضَوْلِ الْهَدْرِ وَ الْإِعْلَانِ بِالسَّيِّئَةِ وَالَّذِي كَانَ هُوَ نَقِيُّ الْعِرْضِ عَفِيفُ اللَّسَانِ فَلَا نَذْكَرَهُ إِلَّا بِالْخَيْرِ وَ نُكْرِمُهُ وَ نُعِزُهُ وَنُحِبُّهُ كَالْإِخْوَانِ“ 415 یعنی ہم اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ ہم نیک علماء کی ہتک اور مہذب شرفاء کی عیب چینی کریں.خواہ وہ مسلمان ہوں یا مسیحی ہوں یا ہندو ہوں بلکہ ہم اُن اقوام میں سے جو بیوقوف ہیں، اُن کے لئے بھی سخت کلامی نہیں کرتے.ہم صرف اُن کے متعلق سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں جو بیہودہ گوئی میں مشہور ہیں اور بد کلامی کی اشاعت جن کا کام ہے لیکن وہ جو ان باتوں سے پاک ہیں اور اُن کی زبان گند سے آلودہ نہیں ہم ایسے لوگوں کا ذکر ہمیشہ نیکی سے کرتے ہیں اور اُن کی عزت کرتے ہیں اور اُن کو بلند درجہ پر بٹھاتے ہیں اور اُن سے اپنے بھائیوں کی طرح محبت کرتے ہیں.پھر لکھا ہے:- ”ہماری اس کتاب میں اور رسالہ ”فریادِ درد“ میں وہ نیک چلن پادری اور دوسرے عیسائی مخاطب نہیں ہیں جو اپنی شرافت ذاتی کی وجہ سے فضول گوئی اور بد گوئی سے کنارہ کرتے ہیں اور دل دُکھانے والے لفظوں سے ہمیں دُکھ نہیں دیتے اور نہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتے اور نہ اُن کی کتابیں سخت گوئی اور توہین سے بھری ہوئی ہیں.ایسے لوگوں کو بلاشبہ ہم عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور وہ ہماری کسی تحریر کے مخاطب نہیں ہیں بلکہ صرف وہی لوگ ہمارے مخاطب ہیں، خواہ وہ بگفتن مسلمان کہلاتے یا عیسائی ہیں جو حد اعتدال سے بڑھ گئے ہیں اور ہماری ذاتیات پر گالی اور بد گوئی سے حملہ کرتے یا ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شانِ بزرگ میں توہین اور ہتک آمیز باتیں منہ پر لاتے اور اپنی کتابوں میں شائع کرتے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 445 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ سو ہماری اِس کتاب اور دوسری کتابوں میں کوئی لفظ یا کوئی اشارہ ایسے معزز لوگوں کی طرف نہیں ہے جو بد زبانی اور کمینگی کے طریق کو اختیار نہیں کرتے“.416 سوال نمبر 9 متعلق اعتراض کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو دوسرے مسلمانوں سے علیحدہ رکھا ہے ؟ ، نہم: کہا جاتا ہے کہ انہوں نے مسلمانوں سے الگ رہنے کی کوشش کی ہے مثلار بوہ بنایا ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ ربوہ بنانا مسلمانوں سے الگ رہنے کے لئے نہیں ہے بلکہ مرکزی انتظام کی درستی کے لئے ہے.جہاں یونیورسٹیاں بنتی ہیں یونیورسٹی کے تمام متعلقات وہاں اکٹھے کر دیئے جاتے ہیں.انگلستان میں آکسفورڈ اور کیمرج یونیورسٹیوں کو آکسفورڈ اور کیمرج کے شہروں کے معاملات میں دخل دینے کے مواقع بہم پہنچائے گئے ہیں اور ایسا ماحول پیدا کیا گیا ہے جس سے یونیورسٹی زیادہ آسانی سے چل سکے.اس کے یہ معنے تو نہیں کہ وہ ایک الگ گورنمنٹ ہے اور انگلستان کے خلاف منصوبے کر رہی ہے.چونکہ احمدی بعض باتوں میں دوسرے مسلمانوں سے گو عقیدہ یا شرعاً نہیں لیکن عملاً اختلاف رکھتے ہیں مثلاً سود کو جائز نہیں قرار دیتے، سینما دیکھنا پسند نہیں کرتے، ناچ گانے پسند نہیں کرتے.اگر وہ اپنا مرکز ایسی جگہ بنائیں جہاں سینما بھی ہوں، ناچ گانے بھی ہوں، سُود کے سامان بھی ہوں تو وہ اپنے نوجوانوں اور اپنے کمزوروں کی عادتوں کی اصلاح میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتے.اسی طرح جو بیرونی مقامات سے لوگ آتے ہیں اگر ہر قسم کی عیاشی کے سامان جو دوسرے شہروں میں پائے جاتے ہیں اُن کے مرکز میں بھی پائے جائیں تو باہر سے آنے والے لوگوں کے وقت کو پوری طرح دین میں مشغول نہیں رکھا جاسکتا.کوئی شخص ایک دن کے لئے آتا ہے کوئی دو دن کے لئے آتا ہے.اگر وہ اس وقت میں سے بھی کچھ بچا کر سیر اور تماشے میں لگا دے تو اُس کے آنے سے
انوار العلوم جلد 23 446 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ پورا فائدہ نہیں اُٹھایا جاسکتا.اسی لئے احمدیوں نے اپنا الگ مرکز بنایا ہے.اس سے کوئی سیاسی غرض یا مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی غرض کہاں سے نکلی.جماعت اسلامی کا مجوزہ مرکز سب سے زیادہ معترض اس پر مولانا مودودی ہیں لیکن مولانا مودودی نے خود بھی ایسا ہی مرکز بنایا ہے اور اس میں بھی یہی شرط رکھی ہے کہ اس میں صرف جماعت اسلامی کے لوگ ہی زمین خرید سکتے ہیں.ہم ان کا اعلان ذیل میں درج کرتے ہیں.طفیل محمد قیم جماعت اسلامی لکھتے ہیں:.تمام وہ لوگ جنہوں نے مرکز جماعت اسلامی میں اراضی کی خرید کے لئے رقوم جمع کرائی تھیں مطلع ہوں کہ کیمل پور سٹیشن سے دو فرلانگ کے فاصلہ پر راولپنڈی کیمل پور کی پختہ سڑک کے اوپر جماعت نے ایک سو ایکٹر زمین خرید لی ہے.یہ زمین ہمیں چار سو روپے ایکڑ کے حساب سے مل گئی ہے لیکن خرید اراضی کے اس وقت تک کے اور آئندہ پلاٹ بنا کر تقسیم تک کے مصارف ملا کر غالباً پانچ سو روپے یا اس سے کم و بیش فی ایکٹر تک قیمت چڑھ جائے گی.زمین بارانی مگر مزروعہ ہے اور پانی بہت زیادہ گہرائی میں ہے.اس لئے ٹیوب ویل لگائے بغیر چارہ نہیں اور اس پر بھی شاید کثیر رقم صرف ہو گی.تعمیر کا کچھ سامان خرید ا جا چکا ہے اور بھٹے کی کوشش ہو رہی ہے.اس وقت ہمارے پاس ساٹھ ایکڑ اراضی قابلِ فروخت ہے لیکن مجلس شوری نے فیصلہ کیا ہے کہ اب صرف ارکانِ جماعت کو ہی مرکز میں اراضی خریدنے کی اجازت دی جائے اور وہ بھی صرف دو کنال فی کس کے حساب سے.جس میں سے ایک کنال حسب قاعدہ جماعت لے لے گی اور ایک کنال خریدار کے پاس رہ جائے گی.جو لوگ پہلے سے خریدار بنے ہوئے ہیں اور اُن کی رقمیں مرکز میں موجود ہیں
انوار العلوم جلد 23 447 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ اُن کے حقوق پر یہ فیصلہ اثر انداز نہ ہو گا.بجز اس کے کہ غیر ارکان کے بارے میں یہ تحقیقات کی جائے گی کہ آیا فی الواقع وہ ہمدردوں کی تعریف میں آتے ہیں یا نہیں اور اُن کو نظام جماعت سے موجودہ علیحدگی محض کسی مجبوری یا صرف جماعت کے عدم اطمینان کی بناء پر ہے یا کسی اور وجہ سے.جو لوگ فی الواقع ہمدرد ثابت ہوں گے اُن کی خریداری کو باقی رکھا جائے گا اور دوسرے احباب سے درخواست کی جائے گی کہ وہ اپنی رقوم واپس لے لیں اور اس طرح دار الاسلام کی بستی کو خالصہ ایک نمونہ کی بستی بنانے میں مدد دیں.(خاکسار طفیل محمد قیم جماعت اسلامی ذیلدار پارک اچھرہ لاہور)“.417 سوال نمبر 10 متعلق مخالفت پاکستان دہم یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے مخالف ہیں اور عقلاً بھی وہ مخالف ہونے چاہئیں کیونکہ وہ ایک امام کو مانتے ہیں اور اس طرح وہ ایک متوازی حکومت بنانے کے جو رم ہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ امام کو ماننا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ امام اور سیاست وسلم کا حکم ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ و شخص امام کی بیعت میں نہ ہو وہ اپنی زندگی رائیگان کر دیتا ہے.418 اور امام کا ہونا بڑی اچھی بات ہے.اس کے بغیر تو کوئی انتظام ہو ہی نہیں سکتا.جو لوگ امام کو سیاست کا حق دیتے ہیں اُن پر تو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں لیکن جو لوگ اپنے امام کو سیاست کا حق نہیں دیتے اُن پر یہ اعتراض کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ ایک متوازی حکومت بناتے ہیں.جماعت احمدیہ کا تو اعتقاد یہ ہے کہ جس حکومت کے تحت میں رہو اُس حکومت کی اطاعت کرو.کیسی عجیب بات ہے کہ انگریز کے وقت میں تو اس امر پر زور دیا جاتا اور بڑے شدومد سے یہ پروپیگینڈا
انوار العلوم جلد 23 448 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ کیا جاتا کہ احمدی اسلام کے غدار ہیں کیونکہ انگریز کی اطاعت کرتے ہیں اور پاکستان میں آکر اس کے بالکل بر خلاف یہ کہا جارہا ہے کہ احمدی پاکستان کے خلاف متوازی حکومت بنا رہے ہیں.ایک ہی تعلیم دو جگہ پر دو مختلف نتیجے کس طرح پیدا کر سکتی ہے.احمدی تعلیم کی رُو سے تو صرف احمدی جماعت ہی نہیں بلکہ احمدی جماعت کا امام بھی پاکستان کی حکومت کے تابع ہیں اور اُن کا فرض ہے کہ پاکستان کی حکومت کے تابع رہیں.باقی رہا یہ بے وقوفی کا سوال کہ اگر کسی وقت امام حکومت کے خلاف حکم دے تو پھر احمدی کیا کریں گے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم اُس شخص کو امام تسلیم کرتے ہیں جو سب سے زیادہ شریعت کی پابندی کرنے والا اور دوسروں کو پابند بنانے والا ہو.پس یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف حکم دے.کل کو اگر کوئی کہے کہ اگر تمہارا مذہب چوری اور ڈاکہ ڈالنے کا حکم دے تو تم کیا کرو گے ؟ تو ہم اس کو بھی یہی جواب دیں گے کہ ہمارا مذہب چوری اور ڈاکہ کا حکم دے ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ اُس کی رُوح کے خلاف ہے.اگر یہ اعتراض پڑتا ہے تو مودودی صاحب پر البتہ پڑتا ہے جو امیر بھی ہیں اور سیاست بھی اُن کے مقاصد میں داخل ہے.اُن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ پاکستان کے خلاف ہوئے تو اُن کی جماعت کیا کرے گی.وَأَخِرُ دَعَوْنَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ “.( الناشر الشركةالاسلاميه لمیٹڈربوہ) 1 آل عمران: 192،191 2: الشمس: 9 4: العنكبوت: 70 5: الاعراف :36 3: الروم: 31 6: نهج البلاغه صفحه 101 مطبوعہ بیروت لبنان الطبعة الاولى 1967ء 7: الانبياء: 17 10: الذاريات: 57 8: الانبياء: 31 9: المؤمنون: 116 11: البقرة: 139 12: بخاری کتاب الاِسْتِئُذَان باب بدء السَّلام 13: پیدائش باب 1 آیت 27 14: البقرة: 31 15: الاحزاب: 73
انوار العلوم جلد 23 449 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 16: النساء:59 17: الدهر: 4 18: البلد: 9تا11 19: الشمس: 9 20 الشمس: 11,110 21: الحج: 76 :22: البقرة: 39 23: الحديد : 27 24: البقرة: 88تا90 25: فاطر: 25 26: الرعد: 8 27: الحديد: 27 28: الانعام: 92 29: البقرة: 171 30: المائده: 105 31 المومن: 35 32: الجن: 8 33: قَالُوا يُقَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَبًا أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوسى مُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَ إِلى طَرِيقِ مُّسْتَقِيمٍ (الاحقاف : 31) 34: رساله خاتم النبیین شائع کردہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی صفحہ 41 35: سبا: 29 36: الاعراف: 159 37: النساء: 80 38: المائدة: 4 40 یوحنا باب 16 ، آیت 13،12 3.2:46:41 39: البقرة: 151 152 44 بخاری کتاب الادب باب رَحمَة الْوَلَد وَتَقْبِيْلِهِ وَمُعَانَقَتِهِ 45 آل عمران: 32 42: بنی اسرائیل : 83 43: الحجر : 3،2 46: الحجر: 3 47: النساء: 138 48: بخاری کتاب التفسیر باب وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا (الخ) :49 بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام 50 بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لتتبعن سُنَنَ مَنْ كَان قبلكم (مفهواً) 51: السجدة: 6 52: ترمذی ابواب الشهادة باب ما جاء في شَهادة الزور 53 54 كنز العمال جلد 11 صفحہ 181 مطبوعہ حلب 1974ء 55 سنن ابی داؤ د کتاب الملاحم باب خروج الدجال
انوار العلوم جلد 23 450 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 56 صحیح مسلم کتاب الایمان باب الحث على المبادرة بالأعمال 57: الاعراف: 34تا36 :58 سنن ابو داؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة 59: افضل الاعمال فی جواب نتائج الاعمال صفحہ 25 60 اليواقيت والجواهر جلد 1 صفحہ 25 مطبوعہ مصر 1321ه 61: الطبقات للشعرانی صفحه 17 تا 19 :62: تاريخ الاسلام للذهبي جزو 9 صفحہ 311 مطبع دار الكتب العربی بیروت لبنان الطبعة الاولى 1987ء 63: اليواقيت والجواهر جلد 1 صفحہ 14 مطبوعہ مصر 1321ھ 64: اليواقيت والجواهر جلد 1 صفحہ 14 مطبوعہ مصر 1321ھ 65 تاريخ الاسلام للذهبي جزو 14 صفحہ 338 مطبوعہ دارالکتب العربي بيروت لبنان الطبعة الاولى 1987ء 66: انوار احمد یہ صفحہ 3 67 سوانح عمری مؤلفہ مولوی محمد جعفر صاحب تھا نیسری صفحہ 134.نیز ملاحظہ ہو 68: يس: 31 The Indian Musalmans by W.W.Hunter page 10.69 ابن ماجه ابواب الفتن باب الصبر على البلاء :70 مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 61 مطبوعہ بیروت 1994ء 71: ابراهيم: 15,14 72: فتح البیان جلد 11 صفحہ 280 مطبوعہ بیروت 1992ء 73: يس: 19 74: الاعراف: 89 76: البقرة: 257 77 آل عمران 168 78: السيرة الحلبية جلد 3 صفحہ 92 مطبوعہ مصر 1935ء :75: الكافرون: 7
انوار العلوم جلد 23 451 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 79: ملت بیضاء پر ایک عمرانی نظر،صفحہ 18،17 مطبوعہ اقبال اکیڈمی لاہور 80: فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں از چوہدری افضل حق صفحہ 46 سٹیم پریس وطن بلڈنگز لاہور 81: رسالہ دلگد از بابت ماہ جون 1906ء 82: اخبار " ہمدرد" دہلی 26 ستمبر 1927ء 83 زمیندار 24 جون 1923ء :84 زمیندار 7 دسمبر 1926ء 85: بحوالہ اخبار "وکیل" از "بدر" 25 مئی 1905ء صفحہ 8 86: اخبار "وکیل" امر تسر علیگڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ بحوالہ تشخیز الا ذبان 1908ء جلد 8 نمبر 3 صفحہ 333،332 88 تہذیب نسواں بحوالہ تشحیذ الاذہان 1908ء جلد 3 نمبر 10 صفحہ 383 89 زمیندار 8 جون 1908ء بحوالہ بدر 25 جون 1908ء صفحہ 13 90: یوحنا باب 14 آیت 30 91: یوحنا باب 12 آیت 31 92: رسالہ خاتم اسبیتیین صفحہ 22،21 93 آزاد 27 فروری 1953ء صفحہ 5 کالم 2 94: اثبات الالهام والبيعة صفحه 148 95: دیوان حضرت خواجہ معین الدین چشتی صفحہ 56 مطبوعہ نولکشور نومبر 1868ء 96: اليواقيت و الجواهر جلد 2 صفحہ 84، 85 مصنفہ امام عبد الوہاب شعرانی مطبوعہ مصر 1351ھ 97: تفہیمات الہیہ - از حضرت شاہ ولی اللہ جلد 2 صفحہ 32 مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء 98 حم السجدة: 31 تا 33
انوار العلوم جلد 23 452 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 99: تفسیر بیضاوی جلد 7 صفحہ 399 مطبوعہ بیروت 1383ھ 100: النحل : 33 101: الاعراف: 36 102: سنن ابو داؤ د کتاب الصلوة باب بدء الاذان :103 بذل الجهود فى حل ابو داؤد جلد ۱ مطبوعہ میر ٹھ صفحہ 280،279 104: صحیح بخاری کتاب بدء الخلق باب ذكر الملائكة (الخ) :105: بخاری کتاب فضائل اصحاب النَّبِيَّ صلى الله علیه و سلم باب مناقب عمر بن الخطاب (الخ) :106 مثنوی مولاناروم دفتر چهارم صفحہ 46 مطبع کانپور 107: الشورى: 52 108: تفسیر روح المعانی زیر آیت ما كان لبشر ان يكلّمه الله الا وحيا جلد 13 صفحه 54 مطبوعہ بیروت 2005ء 109 لسان العرب جلد 15 صفحہ 240 زیر لفظ وحی مطبوعہ بیروت 1988ء 110: تاج العروس جلد 10 صفحہ 385 111: نهايه لابن الاثیر جلد 4 صفحہ 72 مطبوعہ مصر 1311ھ 112: تفہیمات الہیہ جلد 2 صفحہ 148 مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء :113: تفہیمات الہیہ مصنف حضرت شاہ ولی اللہ جلد 2 صفحہ 161 مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء 114: تفہیمات الہیہ جلد 1 صفحہ 61،60 مطبع حیدری مغربی پاکستان مطبوعہ 1967ء :115 تفسیر عرائس البيان زير آيت ينزل الملائكة بروح من امره على من يشاء من عباده جلد 1 صفحہ 521 116 منصب امامت اُردو ترجمہ صفحہ 40،39 مطبوعہ لاہور 1949ء (مفہوماً) :117: اقتراب الساعة صفحه 162 163 مطبوعہ آگرہ.1301ھ
انوار العلوم جلد 23 453 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 118: مسلم كتاب الفتن وأشراط الساعة باب ذكر الدجال 119: روح المعانی جلد 11 صفحہ 219 مطبوعہ بیروت 2005ء 120 اسعاف الراغبين صفحه 143 121 اسعاف الراغبين برحاشیہ نورالابصار صفحہ 142 122: طه : 90 123: تفسیر کبیر للامام رازی جلد 22 صفحہ 104 زير آيت افلايرون الا يرجع اليهم مطبوعه طهران 124: الاعراف: 149 125: تفسير كبير للامام رازی جلد 15 صفحه 7 زیر آیت و اتخذ قوم موسى من بعده من حليهم مطبوعه طهران 126: الانبياء: 64تا67 127: رساله خاتم النبیین شائع کردہ پنجاب ریلیجس بک سوسائٹی لاہور 128: الاحزاب: 41 129: الكوثر: 2تا4 130: تفسير البحر المحيط الجزء الثامن صفحہ 519 مطبوعہ ریاض 1329ھ 131: النساء : 159 134: النساء: 69 132: الحج: 76 133: الفاتحة: 7،6 135: النساء : 71،70 136: البقرة: 144 137: آل عمران: 194 138: النساء: 147،146 139: الحجر: 33 140: الاعراف: 12 141 مفردات راغب صفحہ 442 زیر لفظ کتب مطبوعہ بیروت 2002ء 142 تفسیر بحر محیط جلد 3 صفحہ 387 مطبوعہ مصر 143: الاعراف: 36 144: المرسلات: 12 145: تفسير القمى صفحہ 23 مطبوعہ ایران 1313ھ 146: مسلم کتاب الفتن واشراط الساعة باب ذكر الدجال
انوار العلوم جلد 23 454 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 147: حجج الكرامه صفحه 426 مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال 148: حجج الکرامہ صفحہ 426 مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال 149: حجج الكرامه صفحه 431 مطبوعہ مطبع شاہجہانی بھوپال 150 ابن ماجه ابواب ما جاء في الجنائز باب ما جاء فى الصلوة على ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم 151: کنز العمال جلد 11 صفحہ 472 كتاب الفضائل من قسم الافعال الفصل الثالث باب فی فضائل المتفرقه ذكر ولد ابراهيم مطبوعه حلب 1974ء 152: مسند احمد بن حنبل صفحه 1216 مطبوعه لبنان 2004ءحدیث 17280 153 ترمذی أَبْوَابِ المناقب عَنْ رَسُولِ الله صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِابِ مَا جَاء فِي فَضْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :154 در منثور جلد 5 صفحہ 386 مطبع دار الكتب العلمية، بيروت، لبنان، الطبعة الاولى $1990 155: در منثور جلد 5 صفحه 386 زیر آیت خاتم النبیین مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان، الطبعة الاولى 1990ء 156: در منثور جلد 5 صفحه 386 زیر آیت خاتم النبيين مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان، الطبعة الاولى 1990ء 157: فتوحات مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 3 مطبوعہ بیروت 158 فتوحات مکیہ جلد 2 باب 73 صفحہ 90 مطبع دار صادر بیروت 159: فتوحات مکیہ جلد 2 صفحہ 90سوال نمبر 83 مطبع دار صادر بیروت 160: فتوحات مکیہ جلد 2 باب 188 صفحہ 376 مطبع دار صادر بیروت :161 شرح فصوص الحكم فصل حكمة قدريه صفحه 168،167 مطبوعہ مصر 1321ھ 162: الانسان الكامل باب السادس و الثلاثون في التوراة جلد 1 صفحه 69 مطبع الازهرية مصرية مطبوعہ 1316ھ
انوار العلوم جلد 23 455 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 163 موضوعات کبیر ملا علی قاری صفحہ 58، 59 مطبوعہ دھلی 1346ھ 164: ابن ماجه كتاب الجنائز باب ما جاء فى الصلوة على ابن رسول الله صلى الله عليه وسلم(الخ) 165 ملاحظہ ہو بیان مولانا داؤد غزنوی صاحب، رُو برو عدالت ہذا مورخہ 15 اکتوبر 1953ء گواہ نمبر 67 آخری سطر 166: اليواقيت والجواهر جلد 2 صفحہ 39 مطبوعہ مصر 1321ھ 167 نهج البلاغۃ صفحہ 101 مطبوعہ بیروت، الطبعة الاولى 1967ء 168: مجمع البحرین زیر لفظ ختم صفحہ 514 169: فتوح الغیب مقالہ نمبر 4 صفحہ 7 ناشر محمد تقی اردو بازار جامع مسجد دہلی 1348ھ 170: تفہیمات الہیہ مصنفہ حضرت شاہ ولی اللہ تفہیم نمبر 54 جلد نمبر 2 صفحہ 85 مطبع حیدری مغربی پاکستان 1967ء :171 تحذیر الناس مولانا محمد قاسم نانوتوی صفحه 3 مطبع خیر خواہ سر کار پریس سہارن پور 1309ھ 172: تحذیر الناس مولانا محمد قاسم نانوتوی صفحہ 28 مطبع خیر خواہ سر کار پر یس سہارن پور 1309ھ 173: تحذیر الناس مولانامحمد قاسم نانوتوی صفحه 10 مطبع خیر خواہ سر کار پریس سہارن پور 1309ھ 174: تحذیر الناس مولانا محمد قاسم نانوتوی صفحه 43 مطبع خیر خواہ سر کار پر لیس سہارن پور 1309ھ 175 رسالہ دافع الوسواس فی اثر ابن عباس صفحہ 16 مطبوعہ لکھنو بار دوم :176 مثنوی مولاناروم دفتر پنجم صفحہ 13 مطبوعہ کانپور 177: مثنوی مولاناروم دفتر پنجم صفحہ 20 مطبوعہ کانپور 178: مثنوی مولاناروم دفتر ششم صفحہ 6،5 مطبوعہ کانپور ข 179: مقالات مظہری صفحہ 88 180 مکتوبات امام ربانی مکتوب نمبر 301 صفحہ 141 مطبوعہ لاہور 1331ھ 181: عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری جلد 16 صفحہ 36 مطبوعہ مصر 182: ارشاد الساری قسطلانی جلد 6 صفحه 22 باب مطبوعہ مصر 1304ھ
انوار العلوم جلد 23 456 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 183: غایۃ المقصود جلد 2 صفحہ 123 مطبع شمس الہند لاہور 1318ھ 184: غاية المقصود جلد 2 صفحہ 38 مطبع مشمس الہند لاہور 1318ھ 185 مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 232 186: ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 207 :187 کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16،15 188: تجلیات الہیہ ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 412،411 189: حاشیہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 360 190: براہین احمدیہ حصہ ، پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 360 191: براہین احمدیہ حصہ ، پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 355 192: تتمہ حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 503 193 اخبار بدر مورخہ 5 مارچ 1908ء صفحہ 2 194: الجن: 28،27 195: ایک غلطی کا ازالہ ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 216 196: انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 27 حاشیہ 197: حقيقة النبوۃ، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 459 198: حقيقة النبوة، انوار العلوم جلد 2 صفحہ 460 199: ضمیمہ الفضل 2.اگست 1914ء نمبر 2 جلد 2 صفحہ ج 200 الفضل 20 مئی 1950ء صفحہ 3 201: آزاد 17 جنوری 1950ء صفحہ آخری کالم 4 202: حواله از تعمیر نو گجرات 5 دسمبر 1949ء صفحہ 8 کالم 3 203: بیان سید زین العابدین گیلانی سابق صدر ڈسٹرکٹ مسلم لیگ ملتان میونسپل کمشنر 30 جولائی 1952ء مندرجہ پوسٹر بعنوان سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کی سیاسی قلابازی ملتان میں کشت و خون اور حسب معمول احراری لیڈروں کی
انوار العلوم جلد 23 457 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ بے وفائی.مطبوعہ پاکستان پبلسٹی پر نٹنگ ورکس چوک شہیداں ملتان شہر 204 سيرة عمر بن الخطاب لابن جوزی صفحه 41 مطبوعه از هر 1331ھ 205: بخاری کتاب المغازی باب مرض النبی صلی اللہ علیہ وسلم 206: آل عمران: 56 207: مستدرک حاکم جلد 1 صفحہ 405 كتاب الامامه والصلوٰةالجماعة_بابالتأمين مطبوعہ دار الكتب العلمیہ بیروت 1990ء 208 مشكوة كتاب الجنائز باب مَا يُقَالُ عِنْدَ مَنْ حَضَرَهُ الْمَوْتُ 209: البقرة:282 210 المائدة: 118،117 :211 بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائده باب وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا - 212: الفتاوی محمود شلتوت صفحہ 50 تا 58 مطبوعہ قاہرہ 213 بخاری کتاب التفسير باب تفسير سورة المائدة 214: مجمع بحار الانوار جلد 1 صفحہ 286 مطبوعہ نولکشور 1314ھ (قَالَ مَالِكَ مَاتَ) 215 المحلى جز اول صفحه 23 مطبع النهضة بمصر مطبوعہ : 1347ھ 216 بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب ذکر ادریس علیه السلام (الخ) 217، 218: بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب قول الله تعالى وَاذْكُرُ فی الکتاب مريم (الخ) 219: الزخرف: 58 220 تذکرہ صفحہ 241،47.ایڈیشن چہارم 221: نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 382 حاشیہ 222: نزول المسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 487 223: حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 153 224 حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 152 225: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 114
انوار العلوم جلد 23 458 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 226: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 406 227: استفتاء، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 676 228: آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 226.در ثمین اُردو صفحہ 17 229 المصلح کراچی 8 جولائی 1953ء صفحہ 3 230: فتوی 1892ء از اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 204 231: رسالہ صاعقه ربانی بر فتنہ قادیانی مؤلفه عبد السمیع فاروقی بد ایوانی مطبوعہ روہتک صفحه 9 232: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 186 233: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 201 234: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 190 235: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 191، 192 236: اشاعۃ السنہ جلد 13 نمبر 6 فتوی 1892ء 237: اشاعۃ السنہ جلد 14 نمبر 1 تا6 238 ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 102 239 ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 322 تا324 240 ابو داؤد كتاب السنة باب الدليل على زيادة الايمان و نقصانہ میں كَفَرَ کی بجاۓ اكْفَرَ ہے.241: الحجرات: 15 242: النساء: 95 243: البقرة: 132 244: المائدة: 45 245: المفردات فی غریب القرآن صفحہ 248 مطبوعہ بیروت 2002ء 246 بخاری کتاب الصلوۃ باب فضل استقبال القبلة 247 سنن ابی داؤ د کتاب الجهاد باب في الغزومع أئمة الجور 248: کنز العمال جلد 1 صفحہ 32 کتاب الایمان والاسلام الفصل الاول في حقيقة الایمان مطبوعہ بیروت 1998ء
انوار العلوم جلد 23 459 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 249: كنز العمال جلد اصفحہ 31 کتاب الایمان والاسلام مطبوعہ بیروت 1998ء 250 کتاب الایمان صفحه 17 مصنفہ امام ابن تیمیہ مطبوعہ دہلی.1311ھ 251: کتاب الایمان صفحه 171 مصنفہ امام ابن تیمیہ مطبوعہ دہلی.1311ھ 252: كتاب الایمان صفحه 125 مصنفہ امام ابن تیمیہ مطبوعہ دہلی.1311ھ 253: مشكاة المصابیح جزء 3 صفحہ 113 كتاب الآداب باب السلام الفصل الاول الناشر المكتب الاسلامی بیروت 1985ء 254 لسان الحكام بر حاشیہ معین الحکام صفحہ 202 255: لسان الحكام بر حاشیہ معین الحکام صفحہ 206 256: لسان الحكام بر حاشیہ معین الحکام صفحہ 254 :257 الاعراف: 157 258: الذاريات: 57 259: الفجر: 31،30 260: مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم ایڈیشن سوم صفحہ 107 261 تفسير معالم التنزيل تفسير سورة هود الجزء الثانى عشر صفحه 263 مطبوعه بيروت 1985 ء (لَيَأْتِيَنَّ عَلى جَهَنَّمَ زَمَانٌ لَيْسَ فِيْهَا أَحَدٌ) 262: حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 123 263: حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 169،168 264 حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 185 265 کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 16،15 :266 حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 184 267: حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 180 268 ، 269 : الفضل یکم مئی 1935ء صفحہ 7 270 دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد 20 صفحہ 457،456 271: تفسیر کبیر جلد نہم صفحہ 471 (سورة زلزال) مطبوعه نظارت اشاعت ربوہ 272 احمدیت کا پیغام، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 569
انوار العلوم جلد 23 460 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 273 دیکھو روح المعانی جلد 8 صفحہ 41 زیر آیت مَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُوْلًا (سورة اسراء) مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان 274 احمدیت کا پیغام، انوار العلوم جلد 20 صفحہ 569 275: ضمیمہ انجام آتھم ، روحانی خزائن جلدا اصفحہ 311 تا319 (مفہوم) 276 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 299و300 277 فتویٰ شائع کردہ النجم لکھنو.فتاویٰ عالمگیر یه جلد 2 صفحه 283 و فتاوی عزیزی از خاندان شاہ ولی اللہ صاحب صفحہ 192،191 278: حدیقہ شہداء صفحہ 65 279 شرح اصولِ کافی جلد 3 صفحہ 61 280 ردالتكفير على الفحاش الشنظیر صفحہ 11 مطبوعہ 1910ء 281 حسام الحرمین صفحہ 73 تا 78 فتویٰ احمد رضاخان بریلوی مطبوعه بریلی 282 حسام الحرمین صفحہ 78 فتویٰ احمد رضا خان بریلوی مطبوعه بریلی (مفہوم) 283: فتوائے علماء اسلام مشتہرہ مہر محمد قادری لکھنو 284: مجموعہ فتاوی صفحه 55،54 285: النساء: 138 286 سنن ابی داؤ دکتاب السنة باب في قتال الخوارج 287 كتاب الامامة والسياسة لا بن قتيبه الجزء الاول صفحہ 149 مطبع مصطفى البابی الحلبی بمصر مطبوعہ 1969ء 288 کتاب الایمان صفحہ 115 مطبوعہ 1311ھ 289 مسلم کتاب الایمان باب تحریم قتل الكافر بَعْدَ قوله لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّه 290 كتاب الأم للشافعي جلد 6 صفحہ 159 291: التوبة: 74 292 كتاب الأم للشافعي جلد 6 صفحہ 148،147
انوار العلوم جلد 23 461 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 293: رسالہ ذکرِ صوت یا عبادت شہداء جکیگور بلوچستان 294: اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 85 296:295: شرعی فیصلہ صفحہ 31 297: فتوی شریعت غراء صفحہ 9 298: صاعقه ء ربانی بر فتنہ قادیانی مؤلفه عبد السمع فاروقی بدایوانی صفحه 9 مطبوعہ روہتک 299: فتوی شریعت غراء صفحہ 4 300: شرعی فیصلہ صفحہ 25 301: شرعی فیصلہ صفحہ 20 302 شرعی فیصلہ صفحہ 31 303: شرعی فیصلہ صفحہ 24 304 حسام الحرمین صفحہ 81 تا 83 فتوی احمد رضاخان بریلوی مطبوعه بریلی 305: فتوی شریعت غراء صفحہ 6 306 اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 185 307: اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201 :308 فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزولِ حضرت عیسی علیہ السلام 309: فتوی شریعت غراء صفحہ 12 310 اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 201 :311 فتویٰ 1893ء منقول از فتوی در تکفیر منکرِ عروج جسمی و نزول عیسی علیہ السلام 312: شرعی فیصلہ صفحہ 31 313 فتویٰ مولوی عبد الله و مولوی عبد العزیز صاحبان لدھیانه از اشاعة السنة جلد 13 نمبر 12 صفحہ 381 314 فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی و نزول عیسیٰ علیہ السلام مطبوعہ 1311ھ 315 ابن ماجه كتاب النکاح باب الاكفاء
انوار العلوم جلد 23 462 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 316 بخاری کتاب النکاح باب ذب الرجل عن ابنته في الغيرة والانصاف 317 مَا كَانَ لِيَأْخُذَ أَخَاهُ فِي دِينِ الْمَلِكِ......(يوسف: 77) 318 متی باب 22 آیت 17 تا 21 319 مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 332 تا 334 حدیث نمبر 1742 مطبوعہ دار الاحیاء التراث العربی بیروت لبنان مطبوعہ 1994ء 320 سوانح احمدی کلاں صفحہ 71 مؤلفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری اسلامیہ سٹیم پریس لاہور (مفہوماً) 321 تاریخ الاسلام للامام الذهبی جز و 1 صفحہ 184 ناشر دار الکتب العربی بیروت لبنان مطبوعہ 1987ء 322 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 198،197 323 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 188 324 مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ 191 325 کتاب البریۃ ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 3 326 تریاق القلوب، روحانی خزائن جلد 15 صفحہ 155 327: بخاری کتاب فضائل أصْحَاب النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاب مناقب فَاطِمَةَ اللَّهِ 328: المائدة: 83 329 اخبار زمیندار مورخہ 27 نومبر 1952ء صفحہ 3 کالم 5 330 رسالہ اشاعۃ السنۃ نمبر 10 جلد 6 صفحہ 288 331 رسالہ اشاعۃ السنۃ نمبر 10 جلد 6 صفحہ 292 332 رسالہ اشاعۃ السنتہ نمبر 10 جلد 6 صفحہ 293 333 سوانح احمدی مؤلفہ مولوی محمد جعفر تھانیسری صفحہ 139 334 زمیندار 11 نومبر 1908ء 335 زمیندار 9 نومبر 1911ء
انوار العلوم جلد 23 463 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 336 انجام آتھم ، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 68 337 نور الحق، روحانی خزائن جلد 8 صفحہ 33و34 338: الحج : 40 تا42 339 : البقرة: 191 تا 194 340: الممتحنه:10،9 341: التوبة :36 342 بخارى كتاب الجهاد والسير باب يُقَاتَلُ من وراء الامام 343: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 3 344: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 4،3 345: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 4و5 346: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 5 347: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 5 و6 348: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 796 349: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 8 350 گور نمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 11 و12 351 گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 12 352: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 13 353: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 17 354: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 18 355: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 18 (مفہوم)) 356: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 20و21 357: گورنمنٹ انگریزی اور جہاد روحانی خزائن جلد 17 صفحہ 22 358 الفرقان: 53 359 مفرداتِ امام راغب صفحہ 106 زیر لفظ جهد مطبوعہ بیروت 2002ء 360: البقرة: 194
انوار العلوم جلد 23 464 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 361: رساله اشاعة السنّة جلد 6 نمبر 10 صفحہ 288 362: کلمۂ حق صفحہ 21، 22 شائع کردہ مرکزی خلافت کمیٹی بمبئی :363 رساله موعظه حسنه صفحه 68 364: " اسباب بغاوتِ ہند صفحہ 32،31 مصنفہ سرسید احمد خان مطبع سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 1997ء 365 تفسیر المنار جلد 10 صفحہ 307، 309 مطبوعہ بیروت 1931ء :366 زمیندار مورخہ 11 نومبر 1911ء :367 اخبار عام لاہور 26 مئی 1908ء 368 المفردات فی غریب القرآن صفحہ 512 مطبوعہ بیروت 2002ء ”نسخ“ 369 ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 197 و198 370: "ضرب مجاہد " مؤلفہ ایم اسلم صاحب صفحہ 35 371: صيانة الانسان.مصنفہ ولی اللہ صاحب لاہوری صفحہ 232 مطبوعہ مطبع مصطفائی لاہور 1873ء 372: رسالہ "جهاد فی سبیل الله " مصنفہ مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صفحہ 31،30 مطبوعہ 1964ء 373: فتنہ ارتداد اور پولٹیکل قلابازیاں از چوہدری افضل حق صفحہ 46 سٹیم پریس وطن بلڈنگز لاہور 374 یہ مضامین الفضل مورخہ 9 جون 1920ء صفحہ 3 تا 4 و 20 جون 1925ء صفحہ 3 تا 6 | میں شائع ہوئے ہیں.375 الفضل 26 مارچ 1923ء والفضل 26 اپریل 1923ء 376 الفضل 9 اپریل 1923ء والفضل 12 اپریل 1923ء 377 الفضل 13 مئی 1927ء صفحہ 5 تا 8 378 الفضل 10 جون 1927 ء صفحہ 6 تا 9 379: الفضل مورخہ 4 مئی 1947ء •
انوار العلوم جلد 23 465 مسئلہ وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 380 الفضل 12 جولائی 1932 ء و الفضل 24 جولائی 1932 ء و الفضل 23 اگر 1932ء و الفضل 8 ستمبر 1932ء والفضل 18 ستمبر 1932ء صفحہ 1، الفضل 25 جون 1933ء صفحہ 9 381 اعلان کمانڈر انچیف افواج پاکستان از الفضل 23 جون 1950ء صفحہ 8 382 ترجمان القرآن جون 1948ء صفحہ 119 383: زمیندار 11 اکتوبر 1947ء صفحہ 8 384 اخبار ہمدرد دہلی 24 ستمبر 1927ء 385 فتویٰ مولوی عبد الحق صاحب غزنوی از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 204 386 فتوی مولوی مسعود صاحب دہلوی از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 189 387 فتویٰ مولوی عبد الحق صاحب از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 189 388: فتوی مولوی محمد اسمعیل صاحب از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 6 صفحہ 191 :389 فتویٰ مولوی عبد الصمد غزنوی از اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 201 390 از مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اشاعۃ السنۃ جلد 14 نمبر 1 تا 6 391 اشتہار ضرب النعال على وجه الدجّال از مولوی عبد الحق صاحب غزنوی 392 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 430،429 393 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 548،547( عربی عبارت کا ترجمہ) 394 آئینہ کمالات اسلام صفحہ ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 389،388 395 الحکم جلد 11 نمبر 7 بابت 24 فروری 1907ء صفحہ 12 کالم نمبر 2 396: القلم : 11 تا14 397 تفسیر کبیر جلد 30 صفحه 85 زیر آیت عُتُلٍ بَعدَ ذَلِكَ زَنِيهِ (سورة القلم) مطبوعه طهران 398: تفسیر حسینی صفحہ 382 تفسیر سورۃ القلم مطبوعہ 1274ھ 399: الفروع الکافی جلد سوئم کتاب الروضہ صفحہ 135 مطبوعہ نولکشور لکھنؤ 1886ء 400 اخبار مجاہد لاہور 14 مارچ 1936ء
انوار العلوم جلد 23 466 مسئله وحی و نبوت کے متعلق اسلامی نظریہ 401 : فروع کافی جلد 2 صفحہ 216 کتاب النکاح مطبوعہ نولکشور 1886ء 402: کتاب الوصیت صفحه 39 مطبوعہ حیدر آباد دکن ط 403: قُلْ هَلْ أَنَيْتُكُم بِشَرٌ مِنْ ذَلِكَ مَثْوبَةً عِنْدَ اللهِ مَنْ لَعَنَهُ اللَّهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَبِكَ شَرُّ مَكَانًا وَ أَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ (المائدة: 61) 404 نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 54 405 نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 63 تا 67 406 نجم الہدی ، روحانی خزائن جلد 14 حاشیہ صفحہ 80،79 407 نجم الہدی روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 88 408 نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 86 حاشیہ 409: انوار الاسلام، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 30و31 410 انوار الاسلام ، روحانی خزائن جلد 9 صفحہ 38 411: رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 13 صفحہ 185 مطبوعہ 1892ء 412 الفضل 3 جنوری 1952ء صفحہ 4،3 (مفہوم) 413 الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 314 حاشیہ 414: اشتہار بعنوان قیامت کی نشانی ملحقہ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 610 415 لجة النور، روحانی خزائن جلد 16 صفحہ 409 416: ٹائیٹل پیج "ایام الصلح" روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 228 ا 417: "کوثر " لاہور 9مارچ 1948ء 418: كنز العمال جلد 6 صفحہ 26 مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان مطبوع 1998ء
انوار العلوم جلد 23 467 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی بنیاد ہیں از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 469 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی بنیاد ہیں (فرمودہ 25 جون 1953ء بر موقع افتتاح فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- آٹھ سال ہوئے میں نے قادیان میں ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی تھی.وہاں پر اس کا کام شروع ہو گیا تھا لیکن 1947ء کے انقلاب کے بعد ہمارے پاس یسرچ انسٹیٹیوٹ کے لئے کوئی جگہ نہ تھی.میں نے ایک دوست کو تحریک کی کہ وہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ربوہ میں بنانے کے لئے ایک لاکھ روپیہ جمع کریں.ایک لاکھ میں جمع کروں گا.ابھی تک میں تو اس بارے میں تحریک نہیں کر سکا کیونکہ جماعت کے سامنے اور بہت سی تحریکات ہیں لیکن اس دوست نے باون ہزار روپیہ کے قریب جمع کر دیا ہے جس سے یہ عمارت تیار کی گئی ہے.اگر بقیہ رقم بھی جمع ہو گئی تو انشاء اللہ العزیز وسیع پیمانے پر کام جاری ہو جائے گا اور بلڈنگ بھی مکمل ہو جائے گی.سر دست اِس انسٹیٹیوٹ میں پانچ ریسرچ سکالر کام کر رہے ہیں.یہ ایک حقیقت ہے کہ جس آسمانی کتاب نے کائنات عالم پر غور کرنے کی طرف سب سے زیادہ توجہ دلائی ہے وہ قرآن کریم ہے.دُنیا کی کوئی آسمانی کتاب ایسی نہیں جس نے انسان کو کائنات عالم پر غور کرنے کا اس طرح واضح حکم دیا ہو جس طرح قرآن کریم نے دیا ہے.قرآن مجید نے اِس بارے میں تین بنیادی امور بیان فرمائے ہیں: اوّل.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِس دُنیا کی تمام چیزیں مرتب ہیں کوئی چیز مفرد
انوار العلوم جلد 23 470 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...نہیں ہے.سب اشیاء میں ترکیب پائی جاتی ہے.فرمایادَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ 1 دوم.قرآن کریم کہتا ہے کہ اشیاء کی وہ ترکیب ہر وقت عمل (work) کر رہی ہے.یعنی اس کے نتائج کا ایک سلسلہ جاری ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شان 2 کہ اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی شان اور ترکیب کے ساتھ تجلی فرماتا ہے.جس کے یہ معنی ہیں کہ کائنات عالم کی تمام چیزیں اس کی اس تجلی سے متاثر ہوتی ہیں اور ان مرکب اشیاء کا سلسلہ کسی جگہ پر ٹھہر نہیں جاتا بلکہ آگے ہی آگے چلتا ہے.گویا ہر وقت نئے نتائج پیدا ہو رہے ہیں.الف اور ب کے ملنے سے ج پیدا ہوتا ہے.پھر ج اور دکے ملنے سے س پیدا ہوتا ہے.غرض اسی طرح ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے.سوم.قرآن کریم کہتا ہے کہ ان تمام اشیاء اور ان کی ترکیب اور اُس ترکیب سے پیدا ہونے والے نتائج کے اسرار کو معلوم کرنا تمہارا کام ہے.اس کام کو سر انجام دینے والے ہی اللہ تعالیٰ کے عظمند ہیں.الَّذِينَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبُحْنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ - 3 وہ لوگ جو آسمان و زمین کی پیدائش کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں اور بالآخر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ اے خدا! تو نے اس کار خانہ کو بے حکمت پیدا نہیں کیا.تو پاک ہے اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا.پھر قرآن مجید بھی وعدہ کرتا ہے کہ جو لوگ قوانین الہی میں غور کریں گے اور کائنات عالم کی حکمتوں کو سوچیں گے ان پر ان کے اسرار ضرور کھولے جائیں گے اور دُنیا کے ذرہ سے لے کر خود خدا تعالیٰ تک اُن لوگوں کے لئے کامیابی کا راستہ کھلے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا.4 کہ جو لوگ ہمارے پیدا کر دہ عالم کے متعلق اور ہم تک پہنچنے کے لئے صحیح طریق سے کوشش کریں گے ہم اُن پر کامیابی کے راستے ضرور کھولیں گے.یہ تین اہم صداقتیں ہیں جن کا قرآن کریم اعلان کرتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی تین امور سائنس کی بنیاد ہیں.ان حالات میں کس قدر تعجب کی بات ہو گی کہ مسلمان کا ئنات عالم سے غفلت اختیار کریں.
انوار العلوم جلد 23 471 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...دنیا میں مختلف خیال کے لوگ بستے ہیں بعض لوگ تو یہ خیال کرتے ہیں کہ دُنیا کی طرف توجہ کرنا مذہب کا کوئی حصہ نہیں.بلکہ اُن کے نزدیک دُنیا سے بے توجہ رہنا مذہبی آدمی کے لئے ضروری ہے.جیسا کہ بُڈھوں کا خیال ہے یا عیسائیوں کے بعض فرقے سمجھتے ہیں.بعض لوگ دُنیا کو صرف دُنیا کے نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اُس کو ہی اپنا منتہائے مقصود سمجھتے ہیں.بعض ایسے لوگ بھی ہیں کہ وہ کائناتِ عالم پر غور کرتے ہیں اور بعض ایجادات بھی ایجاد کرتے ہیں لیکن ان کے مذہب نے انہیں اس بارے میں کوئی ہدایت نہیں کی.ان کے مذہب اس پہلو سے سراسر خاموش ہیں.انہوں نے یہ طریق اپنے لئے از خود ایجاد کر لیا ہے لیکن قرآن کریم تو مسلمانوں کو نہ صرف کائنات عالم پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے بلکہ وہ اس کام کو مذہب کا ایک حصہ قرار دیتا ہے اور اس کوشش کے نتیجہ میں ثواب اور روحانی بدلے کی اُمید دلاتا ہے.اگر مسلمان اس پہلو سے غفلت اور سستی کریں تو وہ صریح طور پر قرآن کریم کے احکام سے منہ پھیر نے والے قرار پائیں گے.جو لوگ صحیح طور پر کائناتِ عالم پر غور کرنے والے ہیں وہ بڑی محنت سے کام کرتے ہیں.میں نے بہت سے سائنسدانوں کے حالات پڑھے ہیں.وہ بڑے انہماک سے بارہ بارہ گھنٹے تک کام کرتے ہیں اور پھر شاندار نتائج پیدا کرتے ہیں لیکن مسلمان بالعموم پانچ چھ گھنٹے کے کام کو بہت زیادہ سمجھتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ لوگ اسی لئے اپنے کام کی رپورٹ کرنے اور ڈائری لکھنے سے گھبراتے ہیں.تبلیغی کام کرنے والے اور ریسرچ میں کام کرنے والے اگر اپنے کام کی ڈائری لکھیں تو اس سے انہیں صحیح طور پر احساس ہو جائے کہ انہیں کتنا کام کرنا چاہئے تھا اور انہوں نے کتنا کیا ہے.سست لوگ اس بارے میں یہ غذر کیا کرتے ہیں کہ ہم نے کام کرنا ہے یاڈائری لکھنا ہے.ڈائری لکھنے اور رپورٹ کرنے میں وقت ضائع ہوتا ہے.یہ غذر در حقیقت نفس کا دھوکا ہوتا ہے.ڈائری وہی لکھ سکتا ہے جو صحیح طور پر کام کرتا ہے اور جو شخص کام نہیں کرتا وہ ڈائری لکھنے سے گریز کرتا ہے.ہمارا دنیا سے بہت بڑا مقابلہ ہے.ہماری یہ ریسرچ انسٹیٹیوٹ دُنیا کی لیبارٹریوں اور
انوار العلوم جلد 23 472 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...ریسرچ انسٹیٹیوٹوں کے مقابلہ میں بلحاظ اپنے سامان اور کارکنوں کے کوئی حیثیت نہیں رکھتی لیکن یاد رکھنا چاہئے کہ اصل کام یہ ہے کہ انسان میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے کی روح پیدا ہو جائے اور یہ روح محنت اور ایثار سے پیدا ہوتی ہے.جب ہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نے بہت بڑے دُشمن سے مقابلہ کرنا ہے تو ہمارے اندر کام کرنے کی رُوح بڑھ جائے گی.ہمارے اس مقابلہ کی بنیاد روپے پر نہیں ہے.دُنیا کے مقابلہ میں ہمارے پاس روپیہ ہے ہی نہیں.نپولین کا قول ہے کہ ناممکن کا لفظ میری ڈکشنری میں نہیں ہے.اس کے یہی معنی تھے کہ نپولین کسی کام کو ناممکن نہیں سمجھتا تھا.ہاں وہ اُسے مشکل ضرور سمجھتا تھا اور پھر ہمت سے اُس کام کو سر انجام دیتا تھا.دُنیا میں بہت سے لوگ ایسے گزرے ہیں کہ وہ اپنی اولوالعزمی سے سامانوں کے مفقود ہونے کے باوجود کامیابی کا راستہ نکال لیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کے وقت مسلمانوں پر جو غفلت اور جمود کی حالت طاری تھی اُس کو بیداری سے بدلنا نا ممکن سمجھا جاتا تھا لیکن آپ نے مسلمانوں کے اندر اُمید کی کرن پیدا کر دی اور اُنہیں بیدار کر دیا.یورپین مصنفین حضرت سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے کے ہندوستانی مسلمان لیڈروں یعنی سرسید احمد خاں، امیر علی وغیرہ کو اپالوجسٹ (APALOGIST) یعنی معذرت کرنے والے قرار دیتے تھے لیکن وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا طریق اسلام کی طرف سے معذرت خواہانہ نہیں بلکہ جارحانہ حملے کا طریق ہے.ابھی ایک مشہور مغربی مصنف نے تحریک احمدیت کا ذکر اسی انداز میں کیا ہے.وہ کہتا ہے کہ مستقبل کے متعلق ایک ایسی جگہ بھی آتی ہے جہاں پر مؤرخ کو خاموش ہونا پڑتا ہے.تحریک احمدیت کے مستقبل کے ذکر میں اُس نے لکھا ہے کہ بہت سے گھوڑے جو گھوڑ دوڑ کی ابتداء میں کمزور نظر آتے ہیں وہی بسا اوقات اول نکلتے ہیں.حقیقت بھی یہی ہے کہ اس وقت مذہبی دُنیا میں جو تغیرات پیدا ہوئے ہیں اور مسلمانوں میں جس قدر بیداری نظر آتی ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کے نتیجہ میں ہے.اب
انوار العلوم جلد 23 473 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی....مسلمانوں میں سے ننانوے فیصدی لوگ وفات مسیح کے عقیدہ کو ماننے لگ گئے ہیں، عصمت انبیاء کو ماننے لگ گئے ، عدم نسخ قرآن کے نظریے کو بھی نانوے فیصدی لوگ ماننے لگ گئے ہیں.حالانکہ گزشتہ بارہ سو سال میں علمائے اسلام قرآنی آیات کے منسوخ ہونے کا عقیدہ رکھتے آئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے نہایت لطیف رنگ میں انہی آیات سے بہت سی حکمتیں بیان فرمائیں جنہیں لوگ منسوخ سمجھتے تھے.اس طرح مسئلہ نسخ قرآن کی بنیاد کو آپ نے توڑ کر رکھ دیا.تمام وہ مسائل جو باقی دنیا اور مسلمانوں کے لئے مشکوک بلکہ مخالفانہ طور پر تسلیم کئے جاتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُن کو بدل دیا.پس نا ممکن بات کو خد اتعالیٰ کے فضل سے ممکن بنایا جاسکتا ہے.جب ہم قادیان سے نکلے ہیں تو خود جماعت کا ایک بڑا حصہ کہتا تھا کہ اب ہمارے پاؤں کس طرح جمیں گے لیکن دیکھ لو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب ہمارا بجٹ پہلے سے زیادہ ہے اور مخالفت کے باوجود جماعت کی ترقی ہو رہی ہے.اقتصادی حالت بھی پہلے سے بہتر ہے.اگر جماعت کی صحیح تربیت کی جائے تو چندے دُگنے ہو سکتے ہیں.میرے نزدیک ریسرچ سکالر کو یہ کبھی نہیں سوچنا چاہئے کہ کوئی ایسی بات بھی ہے جو نہیں ہو سکتی.اس کو اپنی تحقیقات کے سلسلہ کو پھیلانے میں یہ بھی نہ ماننا چاہئے کہ میں دُنیا کو پیدا نہیں کر سکتا.(گو یہ پیدا کرنا مجازی رنگ میں ہی ہو گا) یہ تو درست ہے کہ جن چیزوں کو اللہ تعالیٰ نے ناممکن قرار دے دیا ہے وہ بہر حال نا ممکن ہیں لیکن یہ درست نہیں کہ جن چیزوں کو انسان کسی وقت نا ممکن کہہ دیں وہ فی الواقع نا ممکن ہوتی ہیں.ابھی جب ایٹم بم ایجاد ہوا تو وہ سائنسدان جو کہتے تھے کہ دنیا کا کبھی خاتمہ نہیں ہو سکتا وہ کہنے لگ گئے کہ اس ایجاد سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ دنیا ختم ہو سکتی ہے.چار پانچ ماہ تک وہ لوگ CHAIN REACTION (تسلسل رد عمل) کے نظریہ کے ماتحت دنیا کے خاتمہ کے قائل رہے ہیں.بہر حال ریسرچ کرنے والے انسان کے لئے بہت بڑی وسعت ہے.دُنیا میں ایک وقت میں ایک چیز ناممکن سمجھی جاتی ہے اور پھر وہ ممکن ہو جاتی ہے.گویا قدرت بھی اپنے دائرہ کو لمبا کرتی رہتی ہے.پہلے لوگ دُنیا کی لمبائی کا اندازہ روشنی کے تین ہزار سال سمجھتے
انوار العلوم جلد 23 474 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...تھے.جنگ کے بعد یہ اندازہ چھ ہزار سال تک پہنچ گیا اور اب نیا نظریہ یہ ہے کہ دُنیا کی لمبائی روشنی کے چھتیس ہزار سال کے برابر ہے.اس وقت محققین کے دو نظریے ہیں.بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ دُنیا EXPAND ہو رہی ہے.جوں جوں ہم علمی طور پر آگے بڑھتے ہیں دُنیا کی وسعت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے.دوسرے گروہ کا خیال ہے کہ در حقیقت ابھی تک ہم نے صحیح اندازہ ہی نہیں کیا.ہمارے سارے اندازے ناقص اور کم ہیں.قرآن مجید کہتا ہے الی رنگ منتهها کہ ہر چیز کی اُلجھنیں اللہ ہی حل کر سکتا ہے اور ہر چیز انجامکار تیرے رب کی طرف پہنچتی ہے.گویا ہمارے سامنے UNLIMITED SOURCES (غیر محدود خزانے) موجود ہیں جن کی ریسرچ ہم نے کرنی ہے لیکن ہمارے پاس سامان نہیں.ایٹم بم کے متعلق پانچ ہزار ور کر کام کر رہے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہاں صرف پانچ کارکن ہیں.پھر ان کے سامانوں کی فراوانی سے بھی ہمیں کوئی نسبت نہیں.اُن لوگوں کا بجٹ دو دو ارب کا ہوتا ہے.ہمارے ریسرچ کے بجٹ کو اُن کے بجٹ کے ساتھ کوئی نسبت نہیں.ظاہر ہے کہ جب سامان تھوڑے ہوں اور کام کرنے والے آدمی تھوڑے ہوں تو کام کی نسبت زیادہ ہونی ضروری ہے.کم ہمت آدمی کام کی زیادتی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ بہت کام ہے مجھ سے تو یہ ہو ہی نہیں سکے گا.اس لئے وہ کام چھوڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور مختلف جھوٹے عذرات پیش کرتا ہے لیکن اچھا آدمی کام کی زیادتی کی وجہ سے گھبراتا نہیں بلکہ کہتا ہے کہ میں کام کے لئے وقت کی مقدار کو بڑھا کر اور محنت میں اضافہ کر کے اس کام کو کروں گا.سوچ لو کہ جب دُنیا کے سامنے یہ حقیقت واضح طور پر پیش ہو کہ ایک ایسا ہے کہ زیادہ کام کو دیکھ کر اُس نے کام کرنا ہی چھوڑ دیا اور دوسرا ایسا ہے کہ کام کی زیادتی کی وجہ سے اس نے زیادہ محنت اور زیادہ ہمت سے کام کو سر انجام دیا تو دُنیا اُن میں سے کس کو اچھا سمجھے گی اور کس کو بُرا قرار دے گی.صحابہ کی کامیابی تو خاص خدائی نصرت کا نتیجہ تھی.دنیوی طور پر بھی بعض لوگ ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے بظاہر ناممکن کاموں کو ممکن کر دکھایا ہے.سکندر، چنگیز خاں، تیمور، بابر اور ہٹلر وغیرہ ایسے ہی
انوار العلوم جلد 23 475 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...لوگ تھے.ان کے علاوہ اور بہت سے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے اپنی قربانی اور ایثار سے بڑے بڑے کام کر دکھائے ہیں.ترکی کی گزشتہ جنگ میں ایک کرنیل کا واقعہ میں نے پڑھا ہے کہ ایک قلعے کے فتح کرنے کے لئے وہ اپنے ساتھیوں سمیت پہاڑی پر چڑھ رہا تھا کہ درمیان میں اُسے گولی لگی اور وہ زخمی ہو گیا.اُس کے سپاہی محبت کی وجہ سے اُس کی خبر گیری کے لئے بڑھے مگر اُس نے کہا کہ تم لوگ مجھے ہاتھ مت لگاؤ ، وہ سامنے قلعہ ہے جس کا فتح کرنا ہمارا مقصد ہے جاؤ اور اُس قلعہ کو فتح کرو.اگر فتح کر لو تو اس قلعے کے اوپر میری لاش کو دفن کرنا ورنہ اُسے کتوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دینا.اُس کے اِس جذبہ کا اس کے ساتھیوں میں وہ اثر ہوا کہ سب نے نہایت ہمت کے ساتھ جنگ کی اور قلعے کو فتح کر لیا.پس دُنیا میں کوئی کام نا ممکن نہیں.صرف وہی کام ناممکن قرار دیا جائے گا جسے ہمارا خد انا ممکن قرار دے لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے قرآنِ کریم نے کائناتِ عالم کے رازوں کو جاننے کی طرف خود توجہ دلائی ہے اور وعدہ کیا ہے کہ جو لوگ صحیح رُوح سے اِس راستے میں کام کریں گے وہ ضرور کامیاب ہوں گے.پس میں اس انسٹیٹیوٹ کے افتتاح کے وقت توجہ دلاتا ہوں کہ اپنے اندر قرآنی روح پیدا کرو.زیادہ محنت اور زیادہ وقت لگا کر کام کرنے کی عادت ڈالو.تب بہت سی چیزیں جو دُنیا کے لئے ناممکن ہیں تمہارے لئے ممکن ہو جائیں گی.تمہارے سامنے کائناتِ عالم کی کوئی دیوار بند نہیں.تم جس طرح بڑھنا چاہو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے لئے دروازہ کھول دے گی.تمہارا یہ کام کوئی دنیوی کام نہیں بلکہ حقیقتا دینی کام ہے.قرآنِ مجید کے حکم کی تعمیل ہے اور پھر اس ریسرچ میں حقیقی طور پر کام کرنے والے کارکن سلسلہ کے لئے مالی طور پر بہت مُحمد ہو سکتے ہیں اور اخلاقی طور پر بھی.اُن کے زیادہ محنت سے کام کرنے کو دیکھ کر ان کے اس کریکٹر کا اثر باقی افراد اور خصوصاً تبلیغی کام کرنے والوں پر بھی پڑے گا اور اسی میں ہماری کامیابی کا راز ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے ہمت اور عزم کے ساتھ زیادہ وقت لگا کر
انوار العلوم جلد 23 476 قرآن مجید کی بیان کردہ تین صداقتیں سائنس کی...اور زیادہ محنت کے ساتھ کام کریں خدا تعالیٰ کی نصرت ہمارے شامل حال ہو گی.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے.آمین“.(الفرقان جولائی 1953ء) 2: الرحمن :30 3: آل عمران: 192 1: الذريت :50 4: العنكبوت :70 5: النزعت : 45
انوار العلوم جلد 23 477 جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 479 جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ (محررہ 21 جولائی 1953ء) اے عزیزو! آجکل احمدی احراری جھگڑے میں ایک طوفان بے تمیزی اُٹھ رہا ہے اور جن لوگوں کا اس اختلاف سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ بھی سنی سنائی باتوں پر کان دھر کے اشتعال میں آرہے ہیں اور غلط رائے قائم کر رہے ہیں لیکن یہ معاملہ ایسا نہیں کہ صرف اظہارِ غضب سے اسے حل کیا جا سکے.جب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احترام کا سوال ہو تو کم سے کم اس وقت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کو سامنے رکھنا چاہئے کیونکہ کس طرح و سکتا ہے کہ ایک شخص آپ کے احترام کے لئے جان دینے کا دعویٰ کرتا ہو لیکن اس غرض کے لئے وہ کام کرتا ہو جنہیں آپ نے منع فرمایا ہے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب وہ بات کرتے ہیں تو غلط بیانی کرتے ہیں اور جب کسی سے اختلاف ہوتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں.مگر مومنوں کو ہو ایسا نہیں ہونا چاہئے.اب آپ لوگ خود ہی دیکھ لیں کہ کیا احمدیت کے خلاف تقریریں کرنے والے جن کی تقریریں آپ نے سُنی ہیں اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں کہ نہیں ؟ کیا جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ فساد نہ کرو تو کیا آپ پر یہی اثر ہوتا ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ فساد نہ کرو؟ یا اس کے نتیجہ میں بہت سے بچے اور چند نوجوان فوراً جلوس بناتے اور گلیوں میں
انوار العلوم جلد 23 480 جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے احمدیوں کے خلاف شور مچاتے پھرتے ہیں اور بعض پرائیویٹ مجالس میں احمدیوں کے قتل اور بائیکاٹ کے منصوبے کرنے لگ جاتے ہیں.اگر یہ مقرر واقع میں امن کی تعلیم دیتے ہیں تو اس کا الٹا اثر کیوں ہوتا ہے کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سامعین بین السطور مطلب ان تقریروں کا یہی سمجھتے ہیں کہ مقرر کہتا ہے کہ ہمیں قانون کی زد سے آزاد رہنے دو اور خود جاکر جو نقصان احمدیوں کا ہو سکتا ہے کرو.اسی طرح جو الفاظ وہ میری نسبت یا چوہدری ظفر اللہ خان کی نسبت یا باقی جماعت احمدیہ کے متعلق بولتے ہیں کیا وہ گالی گلوچ کی حد میں نہیں آتے اور کیا یہ سچ نہیں کہ ان لوگوں کی طرف سے جو جلوس مختلف جگہوں پر نکالے گئے ان میں چوہدری ظفر اللہ خاں کو نہایت ناپسندیدہ طور پر پیش کیا گیا اور ایک کتا پکڑ کر اسے ظفر اللہ خاں ظاہر کیا گیا اور اس پر جو تیاں لگائی گئیں.کیا یہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس قول کے مطابق نہیں کہ جب وہ جھگڑتا اور مخالفت کرتا ہے تو گالی گلوچ پر اتر آتا ہے.اے اسلام کی غیرت رکھنے والو ! اور اے وہ لو گو جن کے دل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذرا بھی عشق ہے، میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ایک کے لئے بھی یہ خیال کر سکتے ہیں کہ ان مجالس اور ان جلوسوں کو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پسند کر سکتے تھے ؟ کیا اگر کوئی دشمن ایسے جلوس کا نقشہ کھینچ کر یہ کہے کہ نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَالِكَ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کسی جلوس کو پسند فرمایا تھا تو کیا آپ کے جسم پر لرزہ طاری نہ ہو جائے گا؟ کیا آپ اسے غلط بیانی کرنے والا نہ کہیں گے ؟ پھر آپ یہ کس طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ایسی تقریریں کرنے والے اور ایسے جلوس نکلوانے والے احترام رسول کی خاطر ایسا کر رہے ہیں.کیا سچ جھوٹ سے قائم ہوتا ہے ؟ کیا احترام اور اعزاز گالی گلوچ کے ذریعہ سے قائم کیا جاتا ہے؟ کیا یہ مظاہر ات دُنیا کی نگاہ میں اسلام کی عزت کو بڑھانے والے ہیں یا گھٹانے والے ؟ کیا اگر اللہ تعالیٰ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نظارہ دکھا دے تو آپ فخر کریں گے کہ ان کے نام پر تقریریں کرنے والے امن کا نام لے کر فساد کی تعلیم دے رہے ہیں ؟ کیا وہ اس جلوس کو دیکھ کر خوش ہوں گے
انوار العلوم جلد 23 481 جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے جس میں گالیاں دی جاتی ہیں ؟ جس میں ماتم کیا جاتا ہے ؟ جس میں کتوں کو جوتیاں مار کر اپنے ملک کا وزیر خارجہ قرار دیا جاتا ہے؟ کیا اگر صحابہ یہ نظارہ دیکھیں تو وہ خوش ہو کر ایک دوسرے سے کہیں گے کہ یہ ہیں ہمارے بچے پیرو؟ یہ وہی کام کر رہے ہیں جس کا کرنا ہم پسند کرتے تھے ؟ اگر ایسا نہیں بلکہ آپ کا دل گواہی دیتا ہے کہ نہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ کام پسند کر سکتے تھے نہ صحابہ ان کاموں کا کرنا پسند کر سکتے تھے تو بتائیں کہ حرمت رسول کا دعویٰ کرنے والے اگر سچے ہیں تو یہ کام کیوں کرتے ہیں.اے عزیزو! عقیدہ وہی ہوتا ہے جو ایک شخص بیان کرتا ہے، نہ وہ جو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.پس اچھی طرح سُن لو کہ بانی سلسلہ احمدیہ کا ایمان تھا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین تھے اور قرآن کریم خاتم الکتب ہے.آپ فرماتے ہیں:- میں مسلمانوں کے سامنے صاف صاف اقرار اس خانہ خدا میں کرتا ہوں کہ میں جناب خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کا قائل ہوں اور جو شخص ختم نبوت کا منکر ہو اس کو بے دین اور دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں“.1 اسی طرح فرماتے ہیں:.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن اور تمام آدم زادوں کے لئے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم.سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو 2 پھر آگے لکھتے ہیں:.آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مر تبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے اور کسی کے لئے خدا نے نہ چاہا
انوار العلوم جلد 23 482 جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لئے زندہ ہے“.3 ان الفاظ کے ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ بانی سلسلہ احمدیہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہ مانتے تھے تو وہ یاد رکھے کہ وہ خدا کی گرفت تلے ہے.اسے ایک ناکردہ گناہ پر اتہام لگانے کی خدا تعالیٰ سزا دے گا اور ہر شخص جو اس امر سے واقف ہو کر محض اس لئے اس الزام لگانے والے کے پیچھے چلے گا کہ وہ اس کا مولوی ہے یا وہ قومی یا شہری جدوجہد میں اس کی مدد کرے گا اور اس کا رفیق کار ہو گا تو اسے یاد رہے کہ اتنے بڑے اتہام پر خاموش رہنے والا اور اس کے خلاف احتجاج نہ کرنے والا خدا تعالیٰ کے سامنے کوئی جواب نہیں دے سکتا.پس چاہئے کہ وہ عاقبت کو سنوارے اور اس دنیا کے کاموں اور اس کی ترقیوں میں بھی اللہ تعالیٰ پر توکل کرے نہ کہ ان لوگوں پر جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر یہ اخلاق سوز جلوس نکلواتے ہیں اور قتل اور فساد کی سازشیں کرتے ہیں.اے عزیزو! بانی سلسلہ ہی نے ختم نبوت کے عقیدہ پر اتنازور نہیں دیا بلکہ میں نے بھی اسے بیعت کی شرائط میں قرار دیا ہے اور ہر بیعت کرنے والے سے اقرار لیتا ہوں کہ میں رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین یقین کروں گا.اب بتاؤ کہ اس سے زیادہ زور اس عقیدہ پر کیا ہو سکتا ہے.اب بھی جو نہ سمجھے قیامت کے دن ہمارا ہاتھ ہو گا اور اس کا دامن.باقی رہا یہ کہ ہم یہ سب کچھ دل سے نہیں کہتے بلکہ جھوٹ بولتے ہیں.تو یہ دلیل تو دونوں طرف چل سکتی ہے.ہم بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پر الزام لگانے والے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین نہیں مانتے.اگر ہم ایسا کہیں تو کیا آپ ہماری بات مان لیں گے اور وہی غیرت جس کا مظاہر ہ ہمارے متعلق کرتے ہیں ان کے متعلق بھی دکھائیں گے؟ اے عزیزو! ایک دن ہم سب نے مرنا ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا ہے.آپ کے آباء بھی مرے اور آپ بھی مریں گے اور آپ کی اولاد بھی مرے گی اور
انوار العلوم جلد 23 483 جو خاتم النبیین کا منکر ہے وہ یقیناً اسلام سے باہر ہے یہی حال میر ا اور میرے ساتھیوں کا ہے.پس چاہئے کہ ہم اس دن کے لئے تیاری کریں جو آنے والا ہے.یہ دنیا چند روزہ ہے یہ لاف گزاف اور کثرت پر ناز اور پھکڑ بازی اور گالی گلوچ مَالِكُ الْمُلْكِ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ کے سامنے ہر گز کام نہ دیں گے.پس چاہئے کہ جس نے ایسی غلطی نہیں کی وہ اپنے بھائی کو سمجھائے اور جس نے کی ہے وہ تو بہ کرے کہ اسی کی جان محفوظ ہے جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اخلاق پر چلتا ہے نہ وہ کہ منہ سے آپ کے احترام کا دعویٰ کرتا ہے مگر عمل اس کے خلاف کرتا ہے.جو لوگ ایسے ہیں کہ ہمیں مارنے کا ارادہ رکھتے ہیں وہ بے شک اس کی طاقت رکھتے ہیں کیونکہ وہ بہت ہیں اور ہم تھوڑے ہیں مگر وہ اُس دن کو بھی یاد رکھیں جس دن ہم سب خد اتعالیٰ کے سامنے پیش ہوں گے.جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مُنہ دکھانا ہو گا.جو اُس دن خوش ہو گا وہی کامیاب ہے اور جو اُس دن آنکھ اونچی نہ کر سکے گا اُس کی زندگی رائیگاں گئی.کاش! وہ پیدا نہ ہوتا، کاش ! اسے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی غضب ناک آنکھ نہ دیکھنی پڑتی.“ ( الناشر انجمن ترقی اسلام ربوہ.پاکستان) 1 تقریر جامع مسجد دہلی 1893ء 2 کشتی نوح.روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 13 مطبوعہ 2008ء کشتی نوح روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 14 مطبوعہ 2008ء 3
انوار العلوم جلد 23 485 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت نوجوانوں میں لیڈرشپ کی اہلیت کی اہمیت از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 487 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ نوجوانوں میں لیڈرشپ کی اہلیت کی اہمیت (خلاصہ خطاب فرمودہ 24 اگست 1953ء بمقام احمد یہ ہال کراچی) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے کار گزاری کی رپورٹ مجلس خدام الاحمدیہ کی کار گزاری کے متعلق قائد صاحب کی رپورٹ کا ذکر کرتے ہوئے اراکین مجلس سے فرمایا:.وو کام کا اندازہ آپ لوگ زیادہ لگا سکتے ہیں کہ جنہوں نے خود اس کی سرانجام دہی میں حصہ لیا ہے.اگر رپورٹ مبالغہ سے خالی ہے اور پوری احتیاط سے لکھی گئی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس میں سے بہت کم مجالس ایسی عملی رپورٹ پیش کر سکی ہیں.چونکہ پاکستان میں یہ مقام بہت اہمیت رکھتا ہے اور ویسے بھی دارالحکومت ہونے کی وجہ سے غیر ممالک کی اس پر نظریں رہتی ہیں.اس لئے یہاں کی مجلس کا اچھا کام ہمارے لئے خوشی کا موجب ہے.اگر سارے خدام اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں کہ ہم نے صرف مجلس ہی قائم نہیں کرنی بلکہ کام کرنا ہے تو یقیناً اس سے جماعت میں بہت بیداری پید اہو سکتی ہے.نوجوانوں کی ذمہ داری ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں زندگی کے ساتھ ساتھ موت کا سلسلہ بھی قائم کیا ہوا ہے.لوگ پیدا ہوتے ہیں اور ایک عرصہ تک زندگی گزارنے کے بعد مر جاتے ہیں.موت سے جو ایک خلا پیدا ہوتا ہے اسے پورا کرنا نوجوانوں کا کام ہے.اگر نوجوانوں کی حالت پہلے لوگوں کی مانند ہو یا ان سے بہتر ہو تو قوم تنزل سے محفوظ رہتے ہوئے ترقی کے راستے
انوار العلوم جلد 23 488 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت پر بدستور گامزن رہتی ہے لیکن اگر نوجوان ہی قومی کردار کے اعتبار سے معیار پر پورے نہ اُترتے ہوں تو پھر قوم کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے.سو قوم کی آئندہ ترقی کا دارو مدار نوجوانوں پر ہوتا ہے.جس فوج کا ہر سپاہی سمجھ لے کہ شاید آگے چل کر میں ہی کمانڈر انچیف بن جاؤں تو وہ یقیناً اس احساس کے تحت اپنے عمل و کردار کو ایسے طریق پر ڈھالے گا جو بالآخر اسے اس عہدے کا اہل بنا دے.یہاں تک کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ اس فوج کے تمام سپاہیوں میں کمانڈر انچیف بننے کی اہلیت پیدا ہو جائے گی لیکن اگر فوج کا ہر سپاہی یہ سمجھ بیٹھے کہ میں تو کمانڈر انچیف نہیں بن سکتا تو وہ فوج گرتے گرتے اس حالت کو پہنچ جائے گی کہ اس میں ڈھونڈے بھی کوئی شخص ایسا نہ ملے گا کہ جو اس عہدے کی ذمہ داری سنبھال سکے.پس جماعت کی ترقی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے ہر فرد میں یہ احساس پیدا ہو کہ بڑے سے بڑا کوئی عہدہ ایسا نہیں ہو سکتا جس کی ذمہ داریوں کو میں کماحقہ ادانہ کر سکوں.جب تک ہر فرد اس احساس کے ماتحت آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرے اُس وقت تک قومی اعتبار سے وہ صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی جس کا پیدا ہونا تحفظ و بقاء اور ترقی کے لئے ضروری ہے.پس تم میں سے ہر شخص کو یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وقت پڑنے پر وہ بڑے سے بڑا عہدہ سنبھالنے کا اہل ثابت ہو سکے.کامل علم اور کامل عمل اس کوشش اور جدوجہد میں کامیاب ہونے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں.علم کامل اور عمل کامل.علم کامل اس بات کا مقتضی ہے کہ وہ اس جماعت یا مذہب یا سیاست کا بغور مطالعہ کرتا رہے جس سے وہ منسلک ہے.اسی طرح عمل کامل کے لئے ضروری ہے کہ نظم و ضبط اور جماعتی پابندی کو لازم پکڑا جائے.دوسرے اپنے اندر خیال آرائی اور بلند پروازی پیدا کی جائے.کیونکہ جب تک انسان اس صفت سے متصف نہ ہو اس وقت تک آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو سکتی.
انوار العلوم جلد 23 489 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت ترقی کا سلسلہ لامتناہی ہے قومی اعتبارسے ترقی کا کوئی مقام ایسا نہیں ہو تا جسے لامتناہی ہے انتہائی منزل سے تعبیر کیا جاسکے.دنیا میں کوئی قوم بھی ایسی نہیں گزری کہ جو یہ دعویٰ کر چکی ہو کہ وہ ترقی کے اس مقام تک پہنچ گئی ہے کہ جس سے آگے ترقی کرنا ممکن نہیں ہے.قرآن کریم نے اللہ تعالیٰ کی یہ شان بیان فرمائی ہے کہ كُلّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَان ! کہ وہ ہر روز ایک نئی حالت میں ہوتا ہے.شان اسی چیز کو کہیں گے جو غیر متوقع اور غیر معمولی ہو.تو كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کا مطلب یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ کی صفات ایسی ہیں کہ ان کے مطابق وہ ہر روز دنیا میں تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے لیکن وہ تبدیلیاں غیر معمولی ہوتی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر ہوتی ہیں.پس انسان بھی جسے اس نے دنیا میں امور کی سر انجام دہی کے لئے ایک واسطہ بنایا ہے.جہدِ مسلسل کے لئے پیدا کیا گیا ہے.کوئی مقام ایسا نہیں آسکتا جس کے بعد وہ اپنے آپ کو جد وجہد اور عمل و کوشش سے بے نیاز سمجھنے لگے.اسی امر کے لئے کہ اس کی جدوجہد اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پر منتج ہو.ضروری ہے کہ وہ خیال آرائی اور بلند پروازی سے کام لے.جب بھی وہ بلند پروازی اور خیال آرائی سے کام لینا چھوڑ دے گا اس کی سب کو ششیں بے نتیجہ ہو کر رہ جائیں گی.بلند پروازی کی تعریف غلام قوم میں سب سے بڑی برائی یہی ہوتی ہے کہ وہ غور و فکر کی عادت کھو بیٹھتی ہے.اس کے افراد صبح سے شام تک اور شام سے صبح تک حال میں ہی محور ہتے ہیں اور مستقبل کی طرف کوئی دھیان نہیں دیتے اور اگر کبھی اس طرف متوجہ ہوتے بھی ہیں تو بے حقیقت اور خیالی باتوں سے آگے نہیں جاتے.کوئی پروگرام اور کوئی سکیم ان کے مد نظر نہیں ہوتی.محض ایک خیال دل میں پیدا ہوتا ہے جسے عملی جامہ پہنا کبھی نصیب نہیں ہو تا.حالانکہ سکیم اس کو کہتے ہیں کہ فلاں چیز ملنی ممکن ہے اسے حاصل کرنے کے لئے فلاں فلاں ذرائع کی ضرورت ہے اور وہ ذرائع فلاں فلاں نوعیت کی کوشش کے بغیر مہیا نہیں ہو سکتے.تو گویا ذرائع معلوم کرنے کے بعد یہ سوچنا کہ ان ذرائع کو کیونکر فراہم کیا جاسکتا ہے.دوسرے الفاظ میں بلند پروازی کہلاتی ہے.
انوار العلوم جلد 23 490 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت بلند پروازی اس کو کہتے ہیں کہ انسان اپنی موجودہ حالت سے اوپر ایک مقصد معین کرے.پھر یہ سوچے کہ یہ مقصد کن ذرائع سے حاصل ہو سکتا ہے.جب ذرائع اپنی معین صورت میں سامنے آجائیں تو پھر اس امر پر غور کرے کہ کن طریقوں سے یہ ذرائع فراہم ہو سکتے ہیں.جب کوئی شخص یہ طریقے معلوم کر کے مصروفِ عمل ہو جاتا ہے تو ذرائع خود بخود پیدا ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ مقصد مل جاتا ہے جس کے لئے یہ سب کوشش ہو رہی تھی.اگر ایسا ظہور میں نہیں آتا تو وہ بلند پروازی نہیں خام خیالی یا واہمہ ہے.ایسا شخص ہمیشہ خوابوں کی دُنیا میں اُلجھا رہتا ہے.پس ہماری جماعت کے نوجوانوں کو غور و فکر اور بلند پروازی کی عادت ڈالنی چاہئے“.غور و فکر کی عادت سے کام لینے کا طریق اس مرحلہ پر حضور نے مثالیں دے دے کر واضح کیا کہ غور و فکر سے کیونکر کام لیا جا سکتا ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا :.مثلاً آپ ” مصلح“ میں امریکہ یا ہالینڈ کے مشن کی رپورٹ پڑھتے ہیں.آپ کے لئے اتنا ہی کافی نہیں ہے کہ آپ اسے پڑھ کر وہاں کے حالات سے باخبر ہو جائیں بلکہ رپورٹ میں نو مسلموں کی تعداد پڑھتے ہی آپ کو سوچنا چاہئے کہ اس ملک میں بیعت کی رفتار کیا ہے ؟ وہاں کب سے مشن قائم ہے اور اس عرصہ میں کتنے آدمیوں نے بیعت کی؟ بیعت کی رفتار نکالنے کے بعد آپ اندازہ لگائیں کہ اس حساب سے وہ ملک کتنے عرصہ میں جاکر مسلمان ہو گا اور اسی طرح ہم کتنے عرصہ میں توقع کر سکتے ہیں کہ ساری دنیا اسلام کو قبول کر لے گی.اگر بیعت کی رفتار کے مطابق آپ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ اس ملک کے مسلمان ہونے میں سینکڑوں کیا ہزار سال لگ جائیں گے جیسا کہ بظاہر حالات نظر بھی آرہے ہیں تو پھر آپ کو سوچنا چاہئے کہ تبلیغی مساعی کو کیونکر مثمر بثمرات بنایا جاسکتا ہے.یہاں یہ کہہ کر آپ اپنے دل کو تسلی نہیں دے سکتے کہ کوشش کرنا ہمارا کام ہے نتیجہ خدا کے ہاتھ میں ہے اور اگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا تو اس میں ہمارا کیا دخل ہے؟ اس میں شک نہیں نتیجہ پیدا کرنا اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے لیکن خدا
انوار العلوم جلد 23 491 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت ظالم نہیں کہ وہ کسی کی کوششوں کو رائیگاں جانے دے.سوال پیدا ہو گا خدا نے ابراہیم علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے نوح علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے موسیٰ علیہ السلام کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے بدھ کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ اس نے رامچندر کی کوششوں کو کیوں بے نتیجہ نہ رہنے دیا؟ صاف بات ہے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو اس طرح ادا کیا کہ جو ادا کرنے کا حق تھا.پس ایسی صورت میں آپ کو اپنی کوششوں کو تیز کرنا چاہئے نہ یہ کہ آپ دل کو تسلی دے کر بیٹھے رہیں.یہ کہنا کہ ہم اس لئے ناکام رہ گئے کہ نتیجہ خدا کے ہاتھ میں تھا بالکل غلط ہے.ایسا کہنے والا شرارتی ہے.اگر چہ یہ بات صحیح ہے کہ نتیجہ خدا کے ہی ہاتھ میں ہوتا ہے لیکن خدا بھی کسی وجہ سے نتیجہ پیدا کرتا ہے.ہمارا خدا بھی آئینی خدا ہے.وہ ڈکٹیٹر نہیں.وہ ہر چیز حکمت کے ساتھ کرتا ہے.وہ یہ نہیں کہتا کہ ہم دیں نہ دیں ہماری مرضی.وہ کہتا ہے کہ اگر تم استحقاق پیدا کر لو تو ہم انعام ضرور دیں گے اور اگر نہ دیں تو ہم ظالم.صحیح طریق پر کام لو تو کوئی وجہ تو نہیں کہ ہم انعام نہ دیں.نتیجہ بے شک خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن اس نے نتیجے کو ہمارے تابع کرنے کے لئے کچھ قانون بنا دیئے ہیں.خود فیصلہ کرنا بندے کے اختیار میں نہیں لیکن خدا کے ہاتھ کو پکڑ کر فیصلہ کروانا بندے کے ہاتھ میں ہے“.ایک اور مثال غور و فکر کی عادت سے کام لینے کے طریق واضح کرتے ہوئے حضور نے ایک اور مثال دی.فرمایا:- اگر تم یہ سوچو کہ دُنیا ہماری مخالفت کرتی ہے تو ساتھ ہی تمہیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ دُنیا مخالفت کیوں کرتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ سچی تحریکوں کی مخالفت ہوتی ہی آئی ہے.یہ ہے صحیح لیکن ساتھ ہی تمہیں یہ سوچنا پڑے گا کہ کیا یہ مخالفتیں ہمیشہ ہمیش جاری رہتی ہیں ؟ کیا پہلوں نے ان مخالفتوں کو دبانے اور کم کرنے کا کوئی طریقہ نہیں نکالا تھا؟ کیا آدم، نوح، ابراہیم اور موسیٰ و عیسی نے ان مخالفتوں سے ہار مان لی تھی؟ اگر انہوں نے ہار نہیں مانی تھی تو ہم کیوں ہار مانیں ؟ اور کیوں نہ ایسا رستہ
انوار العلوم جلد 23 492 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت نکالیں کہ جس سے یہ مخالفتیں آپ ہی ختم ہو جائیں.اگر تم سوچتے تو تمہارے سامنے خود راستے کھل جاتے.ہر شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ غور و فکر کی عادت ڈالے اور محض دوسروں کے غور و فکر پر تکیہ نہ کرے.“ جو اس کی بیداری غور و فکر کی عادت پیدا کرنے کے طریقوں پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے حضور نے بچپن ہی سے تربیت کرنے اور بالخصوص حواس کو بیدار رکھنے کی اہمیت پر بہت زور دیا اور اس ضمن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زریں ہدایات نیز آئمہ کرام اور شاہانِ اسلام کے سبق آموز واقعات پیش کرنے کے بعد حضور نے واضح فرمایا کہ اگر حواس بیدار ہوں تو انسان بہت سے خطرات سے بیچ کر اپنے لئے ترقی کے راستے پیدا کر سکتا ہے.اس ضمن میں حضور نے سوچنے کی عادت ڈالنے کی طرف پھر توجہ دلائی اور فرمایا:.” باو قار طریق پر سوچنے اور غور کرنے کی عادت ڈالو تاکہ تم میں ایسی روح اور جذبہ پیدا ہو جائے کہ تم وقت آنے پر بڑی سے بڑی ذمہ داری اُٹھا سکو.کام کرنے کا جذبہ قوم کو اُبھار دیتا ہے.پھر کسی کے مرنے یا فوت ہونے سے حوصلے پست نہیں ہوتے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ میں غور و فکر کی عادت پیدا کر کے ان میں جذبہ عمل بھر دیا تھا.یہی وجہ ہے کہ ان میں کسی کے مرنے یا فوت ہونے سے کبھی خلا پیدا نہیں ہوا.ہر موقع پر کوئی نہ کوئی لیڈر آگے آتا رہا اور مسلمان اس کی قیادت میں منزل بہ منزل کامیابی و کامرانی کی طرف بڑھتے رہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر نے آگے آکر خلاء کو پورا کر دیا اور قوم میں پست ہمتی قطعاً پیدا نہ ہونے دی.آپ نے اس موقع پر صحابہ مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.اگر کوئی شخص محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خدا سمجھتا تھا تو وہ سُن لے کہ اس کا خدا فوت ہو گیا لیکن جو اسی حی و قیوم ہستی کو خد امانتا ہے کہ جس نے حمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کیا تھا تو اس کو مایوس ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہ زندہ ہے اور اس پر کبھی موت وارد نہیں ہوتی.2 کو
انوار العلوم جلد 23 493 نوجوانوں میں لیڈر شپ کی اہلیت کی اہمیت پس کام فکر اور سمجھ کے مطابق کرنے چاہئیں.اگر ایسا کرنے لگ جاؤ گے تو تم میں سے ہر شخص کمان کے قابل ہو جائے گا.یہی چیز قوم کو خطرات سے بچانے والی ہوتی ہے کہ اس کے ہر فرد کے اندر لیڈر شپ کی صلاحیت موجود ہو.جب یہ صلاحیت قوم میں عام ہو جائے تو پھر لیڈر ڈھونڈنے یا مقرر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی.ایسی حالت میں وقت پڑنے پر لیڈر شپ خود بخود اُبھر کر آگے آجاتی ہے اور قوم پر ہر اساں یا پریشان ہونے کا کبھی موقع نہیں آتا.اس میں شک نہیں قوموں پر مصائب آسکتے ہیں، انہیں قتل بھی کیا جاسکتا ہے، انہیں گھروں سے بھی نکالا جاسکتا ہے لیکن اگر سوچنے کی عادت ہو تو ان سے بچنے کی راہیں بھی نکل سکتی ہیں“.1 الرحمن : 30 المصلح مورخہ 25 اگست 1953 ء) 2 بخاری کتاب المغازى باب مَرَض النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم وَوَفَاتِه
انوار العلوم جلد 23 495 موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 497 موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو (خلاصہ خطاب فرمودہ 26 اگست 1953ء بمقام کراچی) "سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 26 اگست کو صبح لجنہ اماء اللہ کے اجلاس میں احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے انہیں حالات کے مطابق اپنی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کرنے اور اپنے فرائض کو پہچاننے کی طرف توجہ دلائی.حضور نے اس امر پر زور دیتے ہوئے کہ آجکل سوسائٹی میں ظاہری طور پر عورتوں کا اثر بڑھ گیا ہے.انہیں تلقین کی کہ وہ اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں اور اپنے اپنے حلقے میں دوسری خواتین کے ساتھ تعلقات بڑھا کر ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ہمہ تن مصروف ہو جائیں کہ جو احمدیت کے خلاف بکثرت پھیلی ہوئی ہیں.حضور نے فرمایا کہ اگر احمدی خواتین نے اس امر کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے ادا کیا تو اس کا نہایت خوشگوار اثر ظاہر ہو گا.دوران تقریر حضور نے اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ ہمارے خلاف غلط فہمیاں پھیلتی کیوں ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دینی کارناموں پر تفصیل سے روشنی ڈالی اور بتایا کہ حقیقی اسلام کے پیش ہونے سے ان مخالف مولویوں پر اس کا کیا اثر پڑا جنہوں نے دین پر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی تھی اور معمولی معمولی مسائل میں اختلافات کے نت نئے پہلو نکال کر مسلمانوں کے مختلف گروہوں کو مجبور کر رکھا تھا کہ وہ ان کے ساتھ چمٹے رہیں.مثال کے طور پر مسلمانوں میں یہ عقیدہ پھیلا ہوا تھا کہ عیسی علیہ السلام آسمان سے آکر تمام کافروں کو تہہ تیغ کر دیں گے اور دنیا کے خزانے
انوار العلوم جلد 23 498 موجودہ حالات میں اپنے فرائض کو پہچانو مسلمانوں میں بانٹ دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ کہہ کر کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اب جو کچھ کرنا ہو گا خود مسلمانوں ہی کو کرنا ہو گا، ان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا.اسی طرح رفع یدین اور امین بالجہر وغیرہ کے جھگڑے عبث ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف حالات اور مختلف مزاجوں کے لحاظ سے مسائل سمجھانے میں مختلف طریق اختیار فرمائے تھے.تمہیں جس میں آسانی ہو اسی طریق پر عمل کرو.لوگوں کو ایسے مولویوں کی محتاجی سے نجات دلا دی.پھر مسلمانوں میں اس بات پر اختلاف چلا آرہا تھا کہ قرآن مجید کی کتنی آیات منسوخ ہیں.مختلف لوگ پانچ سے لے کے سات سو آیات تک مختلف تعداد کے قائل تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آکر اعلان کر دیا کہ قرآن کا ایک شوشہ بھی منسوخ نہیں ہے.یہ سارے کا سارا قابل عمل ہے اور اس طرح لوگ دین کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں مولویوں کی غلامی سے آزاد ہو گئے.ایسی صورت میں ان مولویوں کا سیخ پا ہونا لازمی تھا کیونکہ اسی طرح ان کی اجارہ داری ختم ہوتی تھی.انہیں اس کے سوا اور کوئی راہ نہ سوجھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا کر لوگوں کو بد ظن کر دیا جائے.چنانچہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے تعلقات کو وسیع کریں، اپنے اپنے حلقہ میں میل جول بڑھائیں.ہمارے ملنے جلنے سے ہی بہت سی غلط فہمیاں دور ہو جائیں گی کیونکہ ہم سے مل کر دوسروں کو معلوم ہو گا کہ ہم تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی اُمت ہیں.ہمارا کلمہ ، ہماری نماز ، ہمارا روزہ، ہمارا حج ، ہماری زکوۃ سب وہی ہے اور مولوی صاحبان جو کہتے ہیں وہ درست نہیں ہے لیکن اگر یہ غلط فہمیاں اسی طرح پھیلی رہیں تو اس سے ہماری مشکلات میں بے حد اضافہ ہو جائے گا.پس احمدی خواتین کو اپنی ذمہ داری کو سمجھنا چاہئے اور دوسری خواتین سے میل جول بڑھا کر یہ غلط فہمیاں دور کرنی چاہئیں." (روز نامہ المصلح 27 اگست 1953ء)
انوار العلوم جلد 23 499 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 501 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات (محررہ 29.اکتوبر 1953ء) سوال نمبر 1: جو مسلمان مرزا غلام احمد صاحب کو نبی بمعنی ملہم اور مامور من اللہ نہیں جوار مانتے کیا وہ مومن اور مسلمان ہیں؟ ومسلم “ اور ”مومن“ قرآن مجید کے محاورات کو دیکھتے ہوئے دو الگ الگ معنے رکھتے ہیں.مسلم “ نام اُمتِ محمدیہ کے افراد کا ہے اور ”ایمان“ دراصل اس روحانی اور قلبی کیفیت کا نام ہے جس کو کوئی دوسرا جان نہیں سکتا.خدا تعالیٰ ہی اس سے واقف ہوتا ہے.جہاں تک لفظ ”مسلم“ کا تعلق ہے قرآن کریم کی آیت هُوَ سَشْكُمُ الْمُسْلِمینَ 1 کے مطابق امت محمدیہ کا ہر فرد مسلم کہلانے کا مستحق ہے.اس تعریف کی تاکید اس حدیث صحیح سے بھی ہوتی ہے کہ "مَنْ صَلَّى صَلَوتَنَا وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَ أَكَلَ ذَبِيحَتَنَافَذَالِکَ الْمُسْلِمُ الَّذِي لَهُ ذِمَّةَ اللَّهِ وَ ذِمَّةً رَسُوْلِهِ.2 یعنی جو شخص بھی ہمارے قبلہ (یعنی کعبہ) کی طرف منہ کر کے مسلمانوں کی سی نماز پڑھے اور مسلمانوں کا ذبیحہ کھائے پس وہ مسلمان ہے جس کو خدا اور اس کے رسول کی حفاظت حاصل ہے.باقی رہا ”مومن سو کسی کو مومن قرار دینا در حقیقت صرف خدا تعالیٰ کا کام ہے.عام اصطلاح میں ”مسلم “ اور ”مومن ایک معنوں میں استعمال ہو جاتے ہیں لیکن در حقیقت ”مومن خاص ہے اور مسلم “ عام.پس ہر مومن ”مسلم “ضرور ہو گا لیکن مسلم کا ”مومن “ ہو ناضروری نہیں.ہر 66
انوار العلوم جلد 23 502 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات مندرجہ بالا تشریح کے مطابق جو شخص رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے اور آپ کی امت میں سے ہونے کا اقرار کرتا ہے وہ اپنے کسی عقیدہ یا عمل کی دانستہ یا نادانستہ غلطی کی وجہ سے اس نام سے محروم نہیں ہو سکتا.ظاہر ہے کہ اس تشریح کے مطابق اور قرآن کریم کی آیت ” هُوَ سَتكُمُ الْمُسْلِمِینَ“ کے تحت کسی شخص کو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے کی وجہ سے غیر مسلم نہیں کہا جاسکتا.ممکن ہے ہماری بعض سابقہ تحریرات سے غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی جائے.اس کے متعلق ہم کہہ دینا چاہتے ہیں کہ ہماری ان بعض سابقہ تحریرات میں جو اصطلاحات استعمال کی گئی ہیں وہ ہماری مخصوص ہیں.عام محاورہ کو جو مسلمانوں میں رائج ہے استعمال نہیں کیا گیا.کیونکہ ہم نے اس مسئلہ پر یہ کتابیں غیر احمدیوں کو مخاطب کر کے شائع نہیں کیں بلکہ ہماری یہ تحریرات جماعت کے ایک حصہ کو مخاطب کر کے لکھی گئی ہیں اس لئے ان تحریرات میں ان اصطلاحات کو مد نظر رکھنا ضروری نہیں تھا جو دوسرے مسلمانوں میں رائج ہیں.ہمارے اس عقیدہ کی تائید کی کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہ ماننے والا مسلمان مسلمان “ ہی کہلائے گا حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے الہامات سے بھی ہوتی ہے چنانچہ ملاحظہ ہو آپ کا الہام مسلماں را مسلماں باز کردند 3 یعنی آپ کی بعثت کی غرض مسلمانوں کی حقیقی مسلمان بنانا ہے ایک دوسرے الہام میں خدا تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو یہ دعا سکھلائی ہے رَبِّ اَصْلِحْ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ 4 حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی تمام کتابوں میں ان تمام مسلمانوں کو جو آپ کی جماعت میں داخل نہیں مسلمان کہہ کر ہی خطاب کیا ہے ؟ کیونکہ وہ اسلام کی عمومی تعریف کے مطابق طیبہ پر ایمان لانے کا اقرار کرتے ہیں.اسی طرح موجودہ امام جماعت احمد یہ بھی اُن کو مسلمان کے لفظ سے خطاب کرتے ہیں.6 ہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے "يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ لا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُه 7 یعنی لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اسلام کا صرف نام دو
--_--_--_--_--_--_----------------------------------- انوار العلوم جلد 23 503 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات رہ جائے گا.یہ حدیث اسی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے.چنانچہ جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی بھی موجودہ زمانہ کے مسلمانوں کو جو ان کی جماعت میں شامل نہیں ہیں صرف رسمی اور اسمی مسلمان قرار دیتے ہیں.چنانچہ وہ مسلمانوں کی دو قسمیں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دنیا میں جو مسلمان پائے گئے ہیں یا آج پائے جاتے ہیں ان سب کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے.ایک قسم کے مسلمان وہ جو خدا اور رسول کا اقرار کر کے اسلام کو بحیثیت اپنے مذہب کے مان لیں مگر اپنے اس مذہب کو اپنی کلی زندگی کا محض ایک جزو اور ایک شعبہ ہی بنا کر رکھیں.اس مخصوص مجزو اور شعبے میں تو اسلام کے ساتھ عقیدت ہو.لیکن فی الواقع ان کو اسلام سے کوئی علاقہ نہ ہو.دوسری قسم کے مسلمان وہ ہیں جو اپنی پوری شخصیت کو اور اپنے سارے وجو د کو اسلام کے اندر پوری طرح دے دیں.ان کی ساری حیثیتیں ان کے مسلمان ہونے کی حیثیت میں گم ہو جائیں.....یہ دو قسم کے مسلمان حقیقت میں بالکل ایک دوسرے سے مختلف ہیں.چاہے قانونی حیثیت سے دونوں پر لفظ مسلمان کا اطلاق یکساں ہو“.ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:.وو یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے 999 فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں، نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں ، نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے.باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آرہا ہے“.2 اسی طرح موجودہ دور کے مسلمانوں کے متعلق اہلحدیث کا خیال بھی ملاحظہ فرمایا جاوے.نواب صدیق حسن خاں صاحب بھوپالوی اپنی کتاب اقتراب الساعۃ کے
انوار العلوم جلد 23 صفحہ 12 پر تحریر فرماتے ہیں:.504 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات اب اسلام کا صرف نام، قرآن کا فقط نقش باقی رہ گیا ہے.مسجد میں ظاہر میں تو آباد ہیں لیکن ہدایت سے بالکل ویران ہیں.علماء اس اُمت کے بد تر اُن کے ہیں جو نیچے آسمان کے ہیں.انہی میں سے فتنے نکلتے ہیں، انہی کے اندر پھر کر جاتے ہیں“.10 پھر جناب علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال نے موجودہ مسلمانوں کے متعلق اپنا خیال ان اشعار میں بیان فرمایا ہے کہ شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلماں نابود ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود یوں تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟ 11 پھر صرف نام کے طور پر اسلام کے باقی رہنے کے متعلق مولانا حالی کا یہ شعر بھی ملاحظہ فرمایا جاوے.رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کارہ گیا نام کارہ گیا نام باقی 12 پھر سید عطاء اللہ صاحب بخاری کمیونزم اور اسلام کا مقابلہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے متعلق حسب ذیل بیان دیتے ہیں: مقابلہ تو تب ہو کہ اسلام کہیں موجو د بھی ہو.ہمارا اسلام؟ ہم نے اسلام کے نام پر جو کچھ اختیار کر رکھا ہے وہ تو صریح کفر ہے.ہمارے دل دین کی محبت سے عاری ، ہماری آنکھیں بصیرت سے نا آشنا اور کان سچی بات سُننے سے گریزاں
انوار العلوم جلد 23 505 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات بید لی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق بیکسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں ہمارا اسلام؟ بتوں سے تجھ کو اُمید میں خدا سے نومیدی مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے یہ اسلام جو ہم نے اختیار کر رکھا ہے کیا یہی اسلام ہے جو نبی نے سکھایا تھا؟ کیا ہماری رفتار، گفتار کردار میں وہی دین ہے جو خدا نے نازل کیا ہے.....یہ روزے، یہ نمازیں جو ہم میں سے بعض پڑھتے ہیں ان کے پڑھنے میں ہم کتنا وقت صرف کر رہے ہیں؟ جو مصلے پر کھڑا ہے وہ قرآن سنانا نہیں جانتا اور جو سُنتے ہیں وہ نہیں جانتے کہ کیا ئن رہے ہیں اور باقی 23 گھنٹے ہم کیا کرتے ہیں؟ میں کہتا ہوں گورنری سے گداگری تک مجھے ایک بات ہی بتلاؤ جو کہ قرآن اور اسلام کے مطابق ہوتی ہے ؟ ہمارا تو سارا نظام گفر ہے.قرآن کے مقابلہ میں ہم نے ابلیس کے دامن میں پناہ لے رکھی ہے.قرآن صرف تعویذ کے لئے ، قسم کھانے کے لئے ہے “ 13 مندرجہ بالا حوالجات سے کفر و اسلام کے مسئلہ کے متعلق جماعت احمدیہ کا مسلک اور اس کے مقابلہ پر موجودہ زمانے کے دوسرے مسلمان فرقوں کا طریق واضع اور عیاں ہے.سوال نمبر 2: کیا ایسے شخص کا فر ہیں؟ جواب: "کافر" کے معنے عربی زبان میں نہ ماننے والے کے ہیں.پس جو شخص کسی چیز کو نہیں مانتا اس کے لئے عربی زبان میں ”کافر “ کا لفظ ہی استعمال ہو گا.پس ایسے جب تک وہ یہ کہتا ہے کہ میں فلاں چیز کو نہیں مانتا اس کو اس چیز کا کافر ہی سمجھا جائے گا.چنانچہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام آئمہ اہل بیت کا انکار کرنے والوں کے متعلق فرماتے ہیں: عَرَفَنَا كَانَ مُؤْمِنًا مَنْ أَنْكَرَنَا كَانَ كَافِرًا.مَنْ
انوار العلوم جلد 23 506 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات 66 يَعْرِفْنَا وَلَمْ يُنْكِرْنَا كَانَ ضَآلَةً “ 14 یعنی جس نے ہم آئمہ اہل بیت کو شناخت کر لیا وہ مومن ہے اور جس نے ہمارا انکار کیا وہ کافر ہے اور جو ہمیں نہ مانتا ہے اور نہ انکار کرتا ہے وہ ضال ہے.اس ارشاد سے حضرت امام صاحب کی یہ مراد نہیں ہو سکتی کہ ایسا شخص امت محمدیہ سے خارج ہے بلکہ جیسا کہ ہم نے اوپر تشریح کی ہے یہی مراد ہو سکتی ہے کہ آئمہ اہل بیت کے درجہ کا منکر ہے ہمارے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مامور من اللہ کے انکار کے ہر گز یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ایسے لوگ اللہ تعالیٰ اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہو کر اُمت محمدیہ سے خارج ہیں یا یہ کہ وہ مسلمانوں کے معاشرہ سے خارج کر دیئے گئے ہیں.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں:.اوّل: ایک یہ کفر کہ ایک شخص اسلام سے ہی انکار کرتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خد اکار سول نہیں مانتا.دوم: دوسرے یہ کفر کہ مثلاً وہ مسیح موعود کو نہیں مانتا اور اس کو باوجود اتمام حجت کے جھوٹا جانتا ہے جس کے ماننے اور سچا جاننے کے بارہ میں خدا اور رسول نے تاکید کی ہے اور پہلے نبیوں کی کتابوں میں بھی تاکید پائی جاتی ہے“.15 یہ بیان کرنا بھی ضروری ہے کہ اس قسم کے فتوؤں میں بھی حضرت بانی سلسلہ احمدیہ یا آپ کی جماعت کی طرف سے ابتدا نہیں ہوئی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ غیر احمدی علماء نے اپنے فتوؤں میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو آپ کے ابتدائے دعویٰ 1890ءء 1891ء سے ہی نہ صرف کافر قرار دیا بلکہ مرتد، زندیق، ملحد، ابلیس، دجال، کذاب وغیرہ الفاظ بھی استعمال کئے اور اس قسم کے اور بہت سے گندے ناموں سے آپ کو یاد کیا گیا.اس قسم کے فقرے لکھے گئے اور کتابیں چھاپی گئیں.اشتہارات اور پمفلٹوں کے ذریعہ سے ان فتوؤں کو لوگوں میں پھیلا دیا گیا اور ظاہر ہے کہ جو شخص کسی پر اس طرح حملہ کرتا ہے وہ پھر اس قسم کے جواب کا مستحق بھی ہو جاتا ہے اور اس صورت میں
انوار العلوم جلد 23 507 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات اسے اپنے آپ کو ملامت کرنی چاہئے دوسرے کو الزام دینے کا اسے کوئی حق نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:.(الف) أَيْمَارَ جُلْ قَالَ لاَ خِيْهِ كَافِرٌ فَقَدْ بَاءَ بِهِ أَحَدُ هُمَا 1 (ب) اِذَا الْفَرَ الرّجُلُ أَخَاهُ فَقَدْ بَاءَ بِهَا أَحَدُ هُمَا 17 یعنی جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہے تو ان میں سے ایک ضرور کافر ہو گا.اگر وہ شخص جسے کا فر کہا گیا ہے کافر نہیں ہے تو کہنے والا کا فر ہو گا.(ج) مَا اكْفَرَ رَجُلٌ رَجُلًا قَطُّ إِلَّا بَاءَ بِهَا أَحَدُ هُمَا 1 یعنی دو (مسلمان) آدمیوں میں سے ایک آدمی اگر دوسرے کو کافر قرار دے تو لازمی ہے کہ ان میں سے ایک ضرور کا فر ہو جائے گا.غرضیکہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی طرف سے اس قسم کے فتوؤں میں کبھی ابتدا نہیں ہوئی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : پھر اس جھوٹ کو تو دیکھو کہ ہمارے ذمہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ گویا ہم نے بیس کروڑ مسلمان اور کلمہ گو کو کافر ٹھہر ایا حالانکہ ہماری طرف سے تکفیر میں کوئی سبقت نہیں ہوئی.خود ہی ان کے علماء نے ہم پر کفر کے فتوے لکھے اور پنجاب اور ہندوستان میں شور ڈالا کہ یہ لوگ کافر ہیں اور نادان لوگ ان فتوؤں سے ایسے ہم سے متنفر ہو گئے کہ ہم سے سیدھے منہ سے کوئی نرم بات کرنا بھی ان کے نزدیک گناہ ہو گیا.کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کافر ٹھہرایا تھا؟ اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یار سالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کافر ٹھہرایا ہو تو وہ پیش کریں ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو ٹھہر اویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم نے تمام مسلمانوں کو کافر
انوار العلوم جلد 23 508 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات ٹھہرایا ہے.اس قدر خیانت اور جھوٹ اور خلاف واقعہ تہمت کس قدر دلآزار ہے ہر ایک عظمند سوچ سکتا ہے اور پھر جبکہ ہمیں اپنے فتوؤں کے ذریعہ سے کافر ٹھہر اچھکے اور آپ ہی اس بات کے قائل بھی ہو گئے کہ جو شخص مسلمان کو کافر کہے تو گفر الٹ کر اُسی پر پڑتا ہے تو اس صورت میں کیا ہمارا حق نہ تھا کہ بموجب انہی کے اقرار کے ہم ان کو کافر کہتے “.19 پھر اس بات کے ثبوت میں کہ فتویٰ کفر کی ابتدا علماء کی طرف سے ہوئی نہ کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ذیل کے چند فتوے بطور مثال درج ہیں:.(الف) مولوی عبد الحق صاحب غزنوی (جو مولانا داؤد غزنوی صاحب کے غم بزرگوار تھے) نے لکھا ہے کہ: اس میں شک نہیں کہ مرزا (کادیانی) قادیانی کافر ہے.چھپا کر تد ہے، گمراہ ہے ، گمراہ کنندہ ملحد ہے ، دجال ہے، وسوسہ ڈالنے " والا ، ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا.20 اس قسم کا فتویٰ پنجاب و ہند کے قریباً دو صد مولویوں سے لے کر شائع کیا گیا.(ب) اس فتوے سے بھی کئی سال پہلے علمائے لدھیانہ نے 1884ء میں تکفیر کا مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کیا.جس کا ذکر قاضی فضل احمد صاحب کورٹ انسپکٹر لدھیانہ نے اپنی کتاب فضل رحمانی (مطبوعہ دہلی پہنچ پریس لاہور 1314ھ صفحہ 148) میں کیا ہے.با ہمی تکفیر کے بارے میں علماء کے چند فتوے درج ذیل ہیں: " مَنْ أَنْكَرَ إِمَامَةَ أَبِي بَكْرِ الصِّدِّيقِ فَهُوَ كَافِرٌ وَكَذَالِكَ 66 مَنْ أَنْكَرَ خِلَافَةَ عُمُر 21 یعنی جو شخص حضرت ابو بکر صدیق کی امامت اور حضرت عمر کی خلافت کا انکار کرے وہ کافر ہے.اسی طرح جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی نے
انوار العلوم جلد 23 509 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات بے علم و بے عمل مسلمان کو جس کا علم و عمل کا فر جیسا ہو اور وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو کافر ہی قرار دیا ہے اور اس کا حشر بھی کافروں والا بتایا ہے یعنی اس کو نجات سے محروم اور قابلِ مؤاخذہ قرار دیا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: ”ہر شخص جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا ہے جس کا نام مسلمانوں کا سا ہے، جو مسلمانوں کے سے کپڑے پہنتا ہے اور جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے حقیقت میں وہ مسلمان نہیں ہے بلکہ مسلمان در حقیقت صرف وہ شخص ہے جو اسلام کو جانتا ہو اور پھر جان بوجھ کر اس کو مانتا ہو.ایک کافر اور ایک مسلمان میں اصلی فرق نام کا نہیں کہ وہ رام پرشاد ہے اور یہ عبد اللہ ہے اس لئے وہ کافر ہے اور مسلمان “ 22 اسی طرح دوسرے مسلمان فرقوں کے علماء ایک دوسرے کو کافر اور جہنمی کہتے ہیں شیعہ اثنا عشریہ کے متعلق علماء اہلسنت والجماعت اور علماء دیوبند متفقہ طور پر مندرجہ ذیل فتویٰ صادر کرتے ہیں: شیعہ اثنا عشریه قطعاً خارج از اسلام ہیں.شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاً ناجائز اور ان کا ذبیحہ حرام.ان کا چندہ مسجد میں دینا ناروا ہے.ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں“.23 (نوٹ) اس فتویٰ میں دیگر علماء کے علاوہ دیوبند کی تصدیق بھی شامل ہے جس کی شہادت مولانا محمد شفیع صاحب مفتی دیو بند سے لی جاسکتی ہے.مندرجہ بالا فتویٰ کی عبارت سے خالص مذہبی اختلافات ہی ظاہر نہیں ہوتے بلکہ شیعہ فرقہ کے خلاف شدید غیظ و غضب کا اظہار پایا جاتا ہے.علاوہ ازیں اہلسنت و الجماعت کے مسلمہ گزشتہ بزرگان و اولیاء نے بھی حضرات شیعہ کے بارے میں فتویٰ کفر دیا ہے حوالہ جات ذیل ملاحظہ ہوں.
انوار العلوم جلد 23 510 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات (الف) حضرت مجدد الف ثانی سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کا فتویٰ کفر بر خلاف اصحاب شیعہ اثنا عشریہ.24 (ب) حضرت سیّد عبد القادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا فتویٰ 25 اسی طرح اہلسنت و الجماعت کے بریلوی فرقہ کے علماء مندرجہ ذیل فتویٰ علمائے دیو بند کے خلاف صادر کر چکے ہیں.(الف) حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی اور علمائے حرمین شریفین کے ستخطوں سے یہ فتویٰ شائع ہوا ہے: وَ بِالْجُمْلَةِ هَؤُلَاءِ الطَّوَائِف كُلُّهُمْ كُفَّارٌ مُرْتَكُونَ " خَارِجُوْنَ عَنِ الْإِسْلَامِ بِإِجْمَاعِ الْمُسْلِمِيْنَ 26 یعنی یہ سب گروہ (یعنی گنگوھیہ ، تھانوی ، نانوتویہ، دیوبندیہ وغیرہ) مسلمانوں کے اجماع کی رو سے کفار مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہیں اور اس کتاب کے ٹائٹل پیچ پر لکھا ہے: جس (رسالہ ہذا میں مسلمانوں کو آفتاب کی طرح روشن کر دکھایا کہ طائفہ قادیانیہ ، گنگوھیہ ، تھانویہ ، نانوتویہ و دیوبند یہ وامثالهم نے خدا اور رسول کی شان کو کیا کچھ گھٹایا علمائے حرمین شریفین نے باجماع امت ان سب کو زندیق و مرتد فرمایا ان کو مولوی در کنار مسلمان جاننے یا ان کے پاس بیٹھنے ، ان سے بات کرنے زہر و حرام و تباہ کن اسلام بتلایا“.ب) پھر اسی کتاب میں مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی بانی دیوبند ، مولوی اشرف علی صاحب تھانوی ، مولوی محمود الحسن صاحب و دیگر دیو بندی خیال کے علماء کی نسبت یہ فتویٰ درج ہے کہ: یہ قطعا مرتد اور کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جو ان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں
انوار العلوم جلد 23 511 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات شک کرے وہ بھی انہی جیسامر تد و کافر ہے......ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے انہیں نماز نہ پڑھنے دیں......جو ان کو کافر نہ کہے گا وہ خود کافر ہو جائے گا اور اس کی عورت اس کے عقد ور ہو جائے گا اور جو ادا ہو گی سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہو گی از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی.یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ یہ فتویٰ حضرت مولانا احمد رضا خاں صاحب آف بریلی کا شائع کردہ ہے جو فرقہ حنفیہ بریلویہ کے بانی اور مولانا ابو الحسنات صاحب صدر جمعیۃ العلمائے پاکستان و صدر مجلس عمل نیز ان کے والد مولوی دیدار علی صاحب کے پیر و مرشد تھے.اس فتویٰ کے بارے میں مولانا ابو الحسنات صاحب سے دریافت کیا جاسکتا ہے اور یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ ان کے پیرو مرشد کے اس فتویٰ کے بعد کہ دیو بندی بالا جماع کا فر ہیں انہیں کیا شبہ ہے ؟ آیا یہ کہ ان کے پیر نے غلطی کی تھی یا یہ کہ اجماع کوئی دلیل نہیں ہوتا؟ (ج) ”وہابیہ دیو بند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتٰی کہ حضرت سید الاولین و الآخرین صلی اللہ علیہ وسلم کی اور خاص ذاتِ باری تعالیٰ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مُرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و گفر سخت، سخت، سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے.ایسا کہ جو اِن مُرتدوں اور کافروں کے ارتداد و گفر میں شک کرے وہ بھی انہی جیسا مرتد و کافر ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محترز مجتنب رہیں.ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں اور نہ ہی اپنی مسجدوں میں گھنے دیں.نہ ان کا ذبیحہ کھائیں اور نہ ہی ان کی شادی و غمی میں شریک ہوں نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کو نہ جائیں، مریں تو گاڑنے تو پنے میں شرکت نہ کریں مسلمانوں کے قبرستان میں نہ دیں.“ 27 اسی پر بس نہیں بلکہ علماء کرام و مفتیانِ اہلسنت و الجماعت نے اہلحدیث مسلمانوں کے متعلق بھی اسی قسم کا فتویٰ دیا ہے کہ:
انوار العلوم جلد 23 وو 512 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات بدعت کفر والے شقی ان کے کفر پر آگاہی لازم ہے.اسلام کے نام کو پر دہ بناتے ہیں، مرتد ہیں.باجماع امت اسلام سے خارج ہیں جو ان کے اقوال کا معتقد ہو گا کافر و گمراہ ہو گا.کچھ شک نہیں کہ یہ خارجی ہیں اور ان کے کُفر میں کوئی شبہ نہیں.....ان کے پیچھے نماز پڑھنا، ان کے جنازہ کی نماز پڑھنا، ان کے ہاتھ کا ذبیحہ کھانا اور تمام معاملات میں ان کا حکم بعینہ وہی ہے جو مرتد کا.28 سوال نمبر 3: ایسے کافر ہونے کے دُنیا اور آخرت میں کیا نتائج ہیں؟ جواب: اسلامی شریعت کی رُو سے ایسے کافر کی کوئی دُنیوی سزا مقرر نہیں.وہ اسلامی حکومت میں ویسے ہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہوتے ہیں اسی طرح وہ عام معاشرہ کے معاملہ میں بھی وہی حقوق رکھتا ہے جو ایک مسلمان کے ہیں.ہاں خالص اسلامی حکومت میں وہ حکومت کا ہیڈ نہیں ہو سکتا.باقی رہے اخروی نتائج سو اُن نتائج کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے بالکل ممکن ہے کہ کسی حکومت کی وجہ سے ایک مسلمان کہلانے والے انسان کو تو خدا تعالیٰ سزا دے دے اور کافر کہلانے والے انسان کو اللہ تعالیٰ بخش دے.اگر کافر کے لئے یقینی طور پر دائمی جہنمی ہونالازمی ہے تو پھر کسی کو کافر قرار دینا صرف اللہ تعالیٰ کا حق ہے.سوال نمبر :4 کیا مرزا صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اور اسی ذریعہ سے الہام ہوتا تھا؟ جواب: ہمارے نزدیک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ بہر حال رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل وحی قرآن مجید ہے.قرآن کریم کی وحی کے متعلق ہمیں قرآن کریم سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ اس کی حفاظت کے خاص سامان کئے جاتے ہیں.ہمارے نزدیک حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو نبی گزرے ہیں ان کی وحی بھی اس رنگ کی نہیں ہوتی تھی اور حضرت بانی جماعت احمد یہ تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے.آپ کی وحی بھی قرآن کریم کے تابع تھی.
انوار العلوم جلد 23 513 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات بہر حال وہ ذرائع جو اللہ تعالیٰ اس وحی کے بھیجنے کے لئے استعمال کرتا تھاوہ ان ذرائع سے نیچے ہوں گے جو قرآن کریم کے لئے استعمال کئے جاتے تھے لیکن یہ محض ایک عقلی بات ہے واقعاتی بات نہیں جس کے متعلق ہم شہادت دے سکیں.بعض قرآنی آیات اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درجہ پر قیاس کر کے یہ جواب دے رہے ہیں.حقیقت کو پوری طرح معلوم کرنے کا ہمارے پاس کوئی ذریعہ نہیں البتہ ہم ضرور تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ پر وحی الہی ہوتی تھی اور قرآن کریم سے ثابت ہے کہ وحی الہی نہ صرف ماموروں بلکہ غیر ماموروں کو بھی ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کی طرف وحی نازل ہونے کا ذکر آیا ہے 29 اور حضرت مریم علیہ السلام کے متعلق بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ملائکہ ان کے پاس خد اتعالیٰ کا کلام لے کر آئے.30 پس وحی اور فرشتوں کا اُترنا مامور من اللہ کے علاوہ غیر ماموروں کے لئے بھی ثابت ہے.ہندوستان میں اسلام کا جھنڈا گاڑنے والے اور اس کی بنیاد قائم کرنے والے حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں د میدم روح القدس اندر معینی می دمد من نے گویم مگر من عیسی ثانی شدم 31 یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ مسلمانوں کی اصطلاح میں ”روح القدس “ حضرت جبرئیل کا نام ہے.32 ان کے علاوہ اسلام میں سینکڑوں اولیاء اللہ مثلاً سیّد عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت سید احمد صاحب سرہندی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ وغیر ہم علی قدرِ مراتب ملہم میں اللہ تھے.وحی تین طریقوں سے ہوتی ہے ان کا ذکر قرآن کریم کی آیت مَا كَانَ لِبَشَرِ أَنْ تكَلمَهُ اللهُ إِلَّا وَحْيَا أَوْ مِنْ وَرَائِ حِجَابٍ أَوْ يُرْسِلَ رَسُولًا فَيُوْحِيَ بِاِذْنِهِ مَا يَشَاءُ - 33 میں بیان ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام انبیاء و اولیاء پر انہی طریقوں سے وحی
انوار العلوم جلد 23 514 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات نازل ہوتی ہے البتہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی میں ایک فرق تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی شریعت جدیدہ والی نازل ہوتی تھی اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی وحی غیر تشریعی اور ظلتی ہے یعنی یہ نعمت آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی اور آپ کے فیض سے ملی ہے ماسوا اس کے دوسرا فرق یہ بھی ہے کہ قرآنی وحی کے ماننے کے لئے بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق کی ضرورت نہیں بلکہ اگر قرآن مجید حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تصدیق نہ کرتا ہو تو ہم ہر گز ان پر ایمان نہ لاتے.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے اپنی وحی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں بلحاظ مرتبہ فرق کیا ہے.آپ فرماتے ہیں: سنو ! خدا کی لعنت ان پر جو دعویٰ کریں کہ وہ قرآن کی مثل لا سکتے ہیں.قرآن کریم معجزہ ہے جس کی مثل کوئی انس و جن نہیں لا سکتا اور اس میں وہ معارف اور خوبیاں جمع ہیں جنہیں انسانی علم جمع نہیں کر سکتا بلکہ وہ ایسی وحی ہے کہ اس کی مثل اور کوئی وحی بھی نہیں.اگر چہ رحمان کی طرف سے اس کے بعد اور کوئی وحی بھی ہو اس لئے کہ وحی رسانی میں خدا کی تجلیات ہیں اور یہ یقینی بات ہے کہ خدا تعالیٰ کی تجلی جیسی کہ خاتم الانبیاء پر ہوئی ہے ایسی کسی پر نہ پہلے ہوئی اور نہ کبھی پیچھے ہو گی“.34 سوال نمبر 5: (الف) کیا احمد یہ عقیدہ میں یہ شامل ہے کہ ایسے اشخاص کا جنازہ جو مرزا صاحب پر یقین نہیں رکھتے INFRUCTUOUS 35 ہے؟ پریم (ب) کیا احمد یہ عقائد میں ایسی نماز جنازہ کے خلاف کوئی حکم موجود جواب ہے؟ 35 (الف) احمد یہ کریڈ (CREED) میں کوئی ایسی بات نہیں ہے کہ جو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کو نہیں مانتا اس کے حق میں نماز جنازہ 66 "INFRUCTUOUS" ہے.
انوار العلوم جلد 23 515 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات (ب) دوسری شق کا جواب یہ ہے کہ گو اس وقت تک جماعتی فیصلہ یہی رہا ہے غیر از جماعت لوگوں کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے لیکن اب اس سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریر اپنے قلم سے لکھی ہوئی ملی ہے جس کا حوالہ ایک مرتبہ 1917ء میں دیا گیا تھا اور حضرت امام جماعت احمدیہ نے اس کے متعلق اسی وقت اعلان فرما دیا تھا کہ اصل تحریر کے ملنے پر اس کے متعلق غور کیا جائے گا لیکن وہ اصل خط اس وقت نہ مل سکا.اب ایک صاحب نے اطلاع دی ہے کہ ان کے والد مرحوم کے کاغذات میں سے اصل خط مل گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کا مکفر یا مکذب نہ ہو اس کا جنازہ پڑھ لینے میں حرج نہیں کیونکہ جنازہ صرف دُعا ہے.لیکن باوجود جنازے کے بارے میں جماعت کے سابق طریقہ کے غیر احمدی مرحومین کے لئے دُعائیں کرنے میں جماعت نے کبھی اجتناب نہیں کیا.چنانچہ حضرت امام جماعت احمدیہ اور اکابرین جماعت احمدیہ نے بعض غیر احمدی وفات یافتہ اصحاب کے لئے دُعا کی ہے.چنانچہ جی معین الدین سیکرٹری حکومت پاکستان کے والد صاحب (جو احمدی نہ تھے) کی وفات پر حضرت امام جماعت احمد یہ ان کے گھر تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور ان سے میاں معین الدین کے ماموں صاحب نے ”فاتحہ “ کے لئے کہا تو آپ نے فرمایا کہ فاتحہ میں تو دعامانگنے والا اپنے لئے دُعا کرتا ہے.یہ موقع تو وفات یافتہ کے لئے دُعا کرنے کا ہوتا ہے اس پر متوفی کے رشتہ داروں نے کہا کہ ہمارے یہی غرض ہے فاتحہ کا لفظ رسما بول دیا ہے تو آپ نے متوفی کے رشتہ داروں سے مل کر متوفی کے لئے دُعا فرمائی.اسی طرح سر عبد القادر مرحوم کی وفات پر جب حضرت امام جماعت احمدیہ تعزیت کے واسطے ان کی کو ٹھی پر تشریف لے گئے تو ان کے حق میں بھی دُعا فرمائی.اس جگہ یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ ممانعت جنازہ کے بارے میں بھی سبقت ہمارے مخالفین نے ہی کی چنانچہ مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی کا فتویٰ 1890ء میں بایں الفاظ اشاعۃ السنہ میں شائع ہو چکا ہے: ڈاکٹر میجر محمد شاہنواز خان صاحب
انوار العلوم جلد 23 516 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات ”اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتراز اختیار کریں.....اور نہ اس کے پیچھے اقتداء کریں اور نہ اُس کی نماز جنازہ پڑھیں “.36 منکوحه و اسی طرح 1901ء میں مولانا عبد الاحد صاحب خانپوری لکھتے ہیں: جب طائفہ مرزائیہ امر تسر میں بہت خوار و ذلیل ہوئے جمعہ و جماعات سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکما روک دیئے گئے تو نہایت تنگ ہو کر مرزائے قادیان سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں.تب مرزانے ان کو کہا کہ صبر کرو! میں لوگوں سے صلح کرتا ہوں اگر صلح ہو گئی تو مسجد بنانے کی حاجت نہیں اور نیز اور بہت سی ذلتیں اُٹھا ئیں معاملہ وبر تاؤ مسلمان سے بند ہو گیا.عور تیں بوجہ مرزائیت کے چھن گئیں.مُردے ان کے بے تجہیز و تکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے “.37 اس حوالہ سے صاف ظاہر ہے کہ احمدیوں نے مسجدیں نہیں چھوڑیں بلکہ ان کو مسجدوں سے نکالا گیا، احمدیوں نے نکاح سے نہیں روکا بلکہ ان کے نکاح توڑے گئے، احمدیوں نے جنازہ سے نہیں روکا بلکہ ان کو جنازہ سے باز رکھا گیا لیکن باوجود اس کے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے آخری کوشش یہی کی کہ باقی مسلمانوں سے صلح ہو جائے لیکن جب باوجود ان تمام کوششوں کے ناکامی ہوئی تو جیسا کہ مولوی عبد الاحد صاحب کی مندرجہ بالا عبارت میں اقرار کیا گیا ہے تب بامر مجبوری فتنے سے بچنے کے لئے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق جوابی کارروائی کرنی پڑی.پھر اس سلسلہ میں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دیگر فرقوں نے بھی ایک دوسرے فرقہ والوں کے جنازہ کی حرمت و امتناع کے فتوے دیئے ہیں.
انوار العلوم جلد 23 517 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات چنانچہ علمائے اہلسنت و الجماعت و علمائے دیوبند نے شیعہ فرقہ والوں کے جنازہ کو نہ صرف حرام اور ناجائز قرار دیا ہے بلکہ ان کو اپنے جنازہ میں شریک ہونے کی بھی ممانعت کی ہے.چنانچہ مولانا عبد الشکور صاحب مدیر " النجم“ کا فتوی ملاحظہ ہو.آپ لکھتے ہیں: ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو اپنے جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں ہے.ان کی مذہبی تعلیم ان کی کتابوں میں یہ ہے کہ سنیوں کے جنازہ میں شریک ہو کر یہ دُعا کرنی چاہئے کہ یا اللہ ! اس قبر کو آگ سے بھر دے، اس پر عذاب نازل کر “ 38 (ب) نیز مولانا ریاض الدین صاحب مفتی دارالعلوم دیو بند لکھتے ہیں: شادی ، غمی، جنازہ کی شرکت ہر گز نہ کی جائے.ایسے عقیدہ کے شیعہ کافر ہی نہیں بلکہ اکفر ہیں“.39 (ج) اس کے بالمقابل شیعہ صاحبان کے امام حضرت جعفر صادق علیہ السلام نے شیعہ صاحبان کو یہ ہدایت فرمائی کہ اگر کسی غیر شیعہ کی نماز جنازہ میں شامل ہونا پڑ جائے تو متوفی کے لئے مندرجہ ذیل دُعا کرے: قَالَ إِنْ كَانَ جَاحِدًا لِلْحَقِّ فَقُلْ اللَّهُمَّ إِمْلَا جَوْفَهُ نَارًا وَ قَبْرَة نَارًا وَسَلَّطْ عَلَيْهِ الْحَيَّاتَ وَالْعَقَارِبَ وَذَلِكَ قَالَهُ أَبُو جَعْفَرٍ عَلَيْهِ السَّلَامُ لِإِمْرَأَةٍ سوءٍ مِنْ بَنِي أُمَيَّةَ صَلَّى عَلَيْهَا 40 اے اللہ ! اس کا پیٹ آگ سے بھر دے اور اس پر سانپ اور بچھو مسلّط کر یہی وہ دُعا ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے بنو امیہ کی ایک غیر شیعہ عورت کے بارے میں کی تھی.سوال نمبر 6: (الف) کیا احمدی اور غیر احمدی میں شادی جائز ہے؟ (ب) کیا احمدی عقیدہ میں ایسی شادی کے خلاف ممانعت کا کوئی حکم موجود ہے؟ جواب: کسی احمدی مرد کی غیر احمدی لڑکی سے شادی کو کوئی ممانعت نہیں البتہ احمدی لڑکی کے غیر احمدی مرد سے نکاح کو ضرور روکا جاتا ہے لیکن باوجود اس کے اگر
انوار العلوم جلد 23 518 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات کسی احمدی لڑکی اور غیر احمدی مرد کا نکاح ہو جائے تو اُسے کالعدم قرار نہیں دیا جاتا اور اولاد کو جائز سمجھا جاتا ہے.اس تعلق میں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ہماری طرف سے ممانعت کی ابتدا نہیں ہوئی بلکہ اس میں بھی غیر احمدی علماء نے ہی سبقت کی اور اس میں شدت اختیار کی.(الف) چنانچہ سب سے پہلے مولوی محمد عبد اللہ صاحب اور مولوی عبد العزیز صاحب مشہور مفتیانِ لدھیانہ نے یہ فتویٰ دیا: خلاصہ مطلب ہماری تحریرات قدیمہ اور جدیدہ کا یہی ہے کہ یہ شخص مرتد ہے اور اہل اسلام کو ایسے شخص سے ارتباط رکھنا حرام ہے......اسی طرح جو لوگ اس پر عقیدہ رکھتے ہیں وہ بھی کافر ہیں.41 (ب) جب عقیدت فرقہ قادیانی بسبب کفر و الحاد و زندقہ و ارتداد ہوا تو بمجرد اس عقیدت مندی ان کی بیویاں ان کے نکاحوں سے باہر ہو گئیں اور جب تک وہ تو بہ نصوح نہ کریں تب تک ان کی اولادیں سب حرامی ہوں گی“.42 علاوہ ازیں یہ عرض کرنا بھی ضروری ہے کہ دراصل غیر احمدیوں سے ممانعت نکاح کی بناء احمدیت سے بغض اور عداوت رکھنے والوں کے اثر سے لڑکیوں کو بچانا تھا کیونکہ تجربے نے یہ بتایا ہے کہ وہ احمدی لڑکیاں جو غیر احمدیوں میں بیاہی جاتی ہیں ان کو احمدیوں سے ملنے نہیں دیا جاتا، احمدی تحریکوں میں چندے دینے سے روکا جاتا ہے اور بعض گھرانے تو اتنے جاہل ہوتے ہیں کہ لڑکی پر اس وجہ سے سختی کرتے ہیں کہ وہ نماز کیوں پڑھتی ہے ؟ وہ کہتے ہیں کہ وہ اس طرح ہم پر جادو کرتی ہے.حقیقتا نکاح کا مسئلہ ایک سوشل قسم کا مسئلہ ہے ایسے مسائل میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کو کہاں آرام رہے گا اور کہاں اسے مذہبی امور میں ضمیر کی آزادی ہو گی اور اس پر ناجائز دباؤ تو نہیں ڈالا جائے گا جس سے اس کے عقائد دینیہ خطرے میں پڑ جائیں لیکن باوجو د مخالفت کے اگر کوئی احمدی اپنی لڑکی کا نکاح غیر احمدی مرد سے کر دے تو اس کے نکاح کو کالعدم قرار نہیں دیا جاتا.
انوار العلوم جلد 23 519 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات پھر یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ رشتہ ناطہ کے مسئلہ میں بھی ہماری جماعت اپنے طرزِ عمل میں منفرد نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور جماعتیں بھی اس طرزِ عمل کو اختیار کئے ہوئے ہیں بلکہ بعض تو آپس میں ایسی شدت اختیار کر چکے ہیں وہ دوسرے کے آدمی سے ازدواجی تعلق کو ”حرام“ اور اولاد کو ناجائز قرار دیتے ہیں.چنانچہ اہلسنت و الجماعت نے شیعہ اثنا عشریہ سے مناکحت کو حرام قرار دیا ہے.(الف) علماء دیوبند اور علماء اہلحدیث کا فتویٰ ملاحظہ ہو: دستی لڑکی شیعہ کے گھر پہنچتے ہی طرح طرح کے ظلم و ستم کا نشانہ بن کر مجبور ہو جاتی ہے کہ شیعہ ہو جائے.یہ خرابی علاوہ اس ار تکاب حرام کے ہے جو ناجائز نکاح کے سبب ہوتا ہے.....لہذا شیعوں کے ساتھ مناکحت قطعاًناجائز ، ان کا ذبیحہ حرام، ان کا چندہ مسجد میں لینا ناروا ہے، ان کا جنازہ پڑھنا یا ان کو جنازہ میں شریک کرنا جائز نہیں“.43 (ب) نیز بریلوی فرقہ جس کے ساتھ مولانا ابو الحسنات صاحب صدر مجلس عمل کا تعلق ہے کے نزدیک بھی شیعہ سے مناکحت ”زنا سے مترادف ہے.چنانچہ ردّ الرفضہ میں لکھا ہے: بالجملہ ان رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ ذبیحہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے.....اگر مر دستی اور عورت ان خبیثوں کی ہو جب بھی ہر گز نکاح نہ ہو گا.محض ”زنا“ ہو گا اولاد’ولد الزنا“ ہو گی“.44 ہم نہایت ادب سے عرض کرتے ہیں کہ اس فتویٰ میں جو کہ حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب بانی فرقہ بریلویہ کا ہے، شیعہ حضرات کو نہ صرف کافر قرار دیا گیا ہے بلکہ
انوار العلوم جلد 23 520 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات یہودیوں اور عیسائیوں سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے کیونکہ قرآن مجید کی رو سے کتابیہ عورت کے ساتھ مسلم مرد کا نکاح جائز ہے لیکن حضرت مولانا احمد رضا خان صاحب کے نزدیک شیعہ عورت کے ساتھ ستی مرد کا نکاح قطعاً حرام اور نا جائز ہے.(ج) اسی طرح اہل شیعہ کے نزدیک اہلسنت و الجماعت سے مناکحت ناجائز ہے.چنانچہ حضرات شیعہ کی حدیث کی نہایت مستند کتاب الفروع الکافی میں لکھا ہے: ” عَنِ الْفَضْلِ بْنِ يَسَارِقَالَ قُلْتُ لا بِي عَبْدِ اللَّهِ عَلَيْهِ السَّلَامُ إِنَّ لِاِمْرَأَتِي أَخْتَا عَارِفَةٌ عَلَى رَأْيِنَا وَ لَيْسَ عَلَى رَأْيِنَا بِالْبَصْرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ فَأَزَ وجَهَا مِمَّنْ لَا يَرَى رَأْيَنَا قَالَ لَا“ 45 یعنی فضل بن یسار سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام ابو عبد اللہ سے عرض کیا کہ میری اہلیہ کی ایک بہن ہے جو ہماری ہم خیال ہے لیکن بصرہ میں جہاں ہم رہتے ہیں شیعہ لوگ بہت تھوڑے ہیں.کیا میں اس کا کسی غیر شیعہ سے بیاہ کر دوں؟ حضرت امام نے فرمایا: نہیں.(د) اسی طرح ”امیر جماعت اسلامی“ کے نزدیک ایسے لوگوں کے لئے ان کی جماعت میں کوئی جگہ نہیں جو اپنی لڑکی یا لڑکے کی شادی کرتے وقت دین کا خیال نہ رکھیں.46 سوال نمبر 7: احمد یہ فرقہ کے نزدیک امیر المومنین کی SIGNIFICANCE کیا ہے؟ جواب: ہمارے امام کے عہدے کا اصل نام امام جماعت احمد یہ “ اور ”خلیفۃ المسیح ہے لیکن بعض لوگ انہیں ”امیر المومنین“ بھی لکھتے ہیں اور ایسا ہی ہے جیسا کہ مولانا ابو الاعلیٰ صاحب مودودی ”امیر جماعت اسلامی “ کہلاتے ہیں یا سید عطاء اللہ شاہ بخاری ”امیر شریعت “ کہلاتے ہیں.غالباً مودودی صاحب اور ان کی جماعت نے یہ مراد نہیں لی ہو گی کہ باقی لوگ اسلامی جماعت سے باہر ہیں یا کافر ہیں.نہ سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری کے ماننے والوں نے یہ مراد لی ہو گی کہ سیّد عطاء اللہ شاہ بخاری شریعت پر حاکم ہیں اور وہ جو کچھ کہتے ہیں وہی شریعت ہوتی ہے.جب کوئی احمدی حضرت امام جماعت احمدیہ کے لئے ”امیر المومنین “کا لفظ
انوار العلوم جلد 23 521 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات استعمال کرتا ہے تو اس کی مراد یہی ہوتی ہے کہ آپ ان لوگوں کے جو بائی سلسلہ احمدیہ کو مانتے ہیں ”امیر “ ہیں.لوگ اپنی عقیدت میں اپنے لیڈروں کے کئی نام رکھ لیتے ہیں.بعض تو کلی طور پر غلط ہوتے ہیں، بعض جزوی طور پر صحیح ہوتے ہیں بعض کلی طور پر صحیح ہوتے ہیں اور کوئی معقول آدمی ان باتوں کے پیچھے نہیں پڑتا جب تک کہ ایسی بات کو ایمان کا جزو قرار دے کر اس کے لئے دلائل اور براہین نہ پیش کئے جائیں.سابق مسلمانوں نے بھی بعض آئمہ کو ”امیر المومنین“ کے الفاظ سے یاد کیا ہے چنانچہ مولانا محمد زکریا شیخ اہلحدیث مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور اپنی کتاب (موسومه مقد مہ اوجز المسالک شرح موطا امام مالک) کے صفحہ 14 مطبوعہ یحیویہ سہارنپور 1348 ھ میں امام قطان اور یحیی بن معین سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”مَالِک اَمِيرَ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي الْحَدِيْثِ“ یعنی امام مالک فن حدیث میں امیر المومنین ہیں.اسی طرح حضرت سفیان ثوری کے متعلق حضرت حافظ ابن حجر عسقلانی، امام شعبہ اور امام ابن علقمہ اور امام ابن معین اور بہت سے علماء کی سند پر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں لکھتے ہیں: ”سُفْيَانِ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي الْحَدِيثِ“ یعنی حضرت سفیان ثوری فن حدیث میں امیر المومنین ہیں.47 احمدیہ انجمن اشاعت اسلام لاہور کے سابق امیر مولانا محمد علی صاحب مرحوم کو بھی ان کے بعض اتباع ” امیر المومنین “ لکھتے ہیں.پروفیسر الیاس برنی صاحب نے اپنی کتاب ”قادیانی مذہب“ مطبوعہ اشرف پرنٹنگ پریس لاہور بار ششم صفحہ 3 تمہید اوّل میں موجودہ نظام صاحب دکن کو ”امیر المومنین لکھا ہے.مزید برآں بعض لوگ اس قسم کے نام رکھ لیتے ہیں جیسے ”ابو الا علی“ حالا نکہ الا علی “ اللہ تعالیٰ کا نام ہے.“ 1: الحج : 79
انوار العلوم جلد 23 522 2: بخارى كتاب الصلوة باب فَضْلِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ 3: تذکرہ صفحہ 601.ایڈیشن چہارم 4: تذکرہ صفحہ 47.ایڈیشن چہارم 5 پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 439 مطبوعہ 2008 : 6 الفضل 19 مئی 1947ء.الفضل 18 ستمبر 1947ء تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات 7: مشكوة كتاب العلم _ الفصل الثالث جلد 73 مطبوعہ لاہور 1993ء روداد جماعت اسلامی حصہ سوم صفحہ 78 تا 80.مطبوعہ لاہور 1948ء 9 مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ 107.ایڈیشن سوم 10: اقتراب الساعة صفحہ 12 مطبوعہ 1301ھ 11 بانگ در اصفحہ 226.مطبوعہ لاہور 1968ء :12: مسدس حالی صفحہ 26 مطبوعہ تاج کمپنی 13: تقریر سید عطاء اللہ شاہ بخاری.آزاد 9 دسمبر 1949ء :14: الصافی شرح الاصول الکافى باب فرض الطاعة الائمة 15: حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 185 16: ترمذی ابواب الایمان بابِ مَا جَاء فِي مَنْ رَمَى أَخَاهُ بِكُفْرِ :17 مسلم کتاب الایمان باب بیان حال ایمان (الخ) :18 صحیح ابن حبان کتاب الایمان باب ماجاء فى صفات المومنين 19: حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 124،123 مطبوعہ 2008ء فتوی عبد الحق غزنوی.اشاعۃ السنۃ جلد 13 نمبر 7 صفحہ 204 مطبوعہ 1890ء 21: فتاوی عالمگیریہ جلد 2 صفحہ 283 مطبع مجید کا نپور 22: خطبات مودودی صفحہ 21 مطبوعہ لاہور 1965ء 23: فتوای شائع کردہ مولوی عبد الشکور صاحب مدير النجم لکھنؤ 24 مکتوبات امام ربانی جلد 1 صفحه 71 مکتوب پنجاه و چهارم
انوار العلوم جلد 23 523 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات 25: غنیۃ الطالبين مع زبدۃ السالكين صفحہ 157 و تحفه دستگیر یہ اُردو ترجمہ غنیۃ الطالبین مطبوعہ لاہور صفحہ 141،120 26: حسام الحرمين على منحر الكفر والمين مع سلیس ترجمہ اردو مسٹمی بنام تاریخ بین احکام و تصدیقات اعلام 1325 ھ مطبع اہل سنت و الجماعة بریلی 1326ھ بار اوّل صفحہ 24 مصنفہه مولوی احمد رضا خان بریلوی 27: تین سو علمائے اہل سنت و الجماعت کا متفقہ فتوی مطبوعہ حسن برقی پریس اشتیاق منزل نمبر 63 ہیو روڈ لکھنو 28: فتوی علماء کرام مشتهره در اشتہار شیخ مہر محمد قادری باغ مولوی انوار لکھنو.3 شوال 1354ھ 29 وَأَوْحَيْنَا إِلَى أُمِّ مُوسَى (القصص:8) 91911 30: وَ اِذْ قَالَتِ الْمَلَبِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ اصْطَفْكِ وَ طَهَّرَكِ وَاصْطَفْكِ عَلَى نِسَاءِ العلمينَ.(آل عمران: 43) 31 دیوان حضرت خواجہ معین الدین اجمیری 32: مفردات امام راغب صفحہ 205 مطبوعہ کراچی 1961ء 33: الشورى: 52 34: الْهُدَى وَالتَبْصِرَةُ لِمَنْ يَرى - روحانی خزائن جلد 18 صفحہ 275، 276.مطبوعہ $2008 35: INFRUCTUOUS :لا حاصل :36: اشاعة السنة نمبر 6 جلد 13 صفحہ 183 37: اظہار مخادعه مسیلمہ قادیانی بجواب اشتہار مصالحت پولوس ثانی صفحہ 2 مولفہ مولوی عبد الاحد خانپوری مطبوعہ مطبع چودھویں صدی راولپنڈی 1901ء 38 رسالہ موسومہ بہ علمائے کرام کا فتوی در باب ارتداد شیعه اثنا عشریہ صفحه 4 39: فتوی علمائے کرام صفحہ 4
انوار العلوم جلد 23 524 تحقیقاتی کمیشن کے سات سوالوں کے جوابات 40 فروع الكافي كتاب الجنائز جلد 1 صفحہ 100 باب الصلوة على الناصب مصنفہ حضرت محمد یعقوب کلینی مطبوعہ نولکشور 1302ھ :41: اشاعة السنة جلد 13 نمبر 12 صفحہ 381 42 مہر صداقت المعروف باحکام شریعت صفحہ 10 مطبوعہ 1335ھ 43: علمائے کرام کا فتوی در باب ارتداد شیعہ اثنا عشریہ شائع کردہ مولانا محمد عبد الشکور مدیر النجم صفحہ 3،1 44: رد الرفضت.مصنفہ احمد رضا خان بریلوی صفحہ 31،30 مطبوعہ 1320ھ 45: الفروع الكافى من جامع الكافي جلد 2 کتاب النکاح صفحہ 142 مطبوعہ $1886 46: روداد جماعت اسلامی حصہ سوم صفحہ 103 مطبوعہ لاہور 1948ء :47: تہذیب التہذیب جلد 4 صفحہ 100.مطبوعہ لاہور 1403ھ
انوار العلوم جلد 23 525 حقیقی اسلام از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی حقیقی اسلام
انوار العلوم جلد 23 527 حقیقی اسلام بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حقیقی اسلام (فرمودہ 29 اگست 1953ء بمقام بیج لگثری( BEACH LUXURY) ہوٹل کراچی) (غیر مطبوعه) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- اسلام کا لفظ قرآن کریم میں صرف اُس دین کے لئے نہیں بولا گیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا بلکہ آپ سے پہلے جو ادیان گزرے ہیں اُن کے اتباع کو بھی یا اُن کے نیچے اتباع کو بھی خدا تعالیٰ نے مسلم کے نام سے یاد فرمایا ہے اور یہ اتباع کسی قلیل زمانہ کے لئے نہیں تھے بلکہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں جو لوگ آپ پر ایمان لائے یا بعد میں آنے والے انبیاء پر ایمان لاتے رہے اُن کے متعلق بھی قرآن کریم یہی فیصلہ فرماتا ہے کہ وہ مسلم تھے.قرآن کریم کے اس محاورہ سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ جہاں تک ایک قومی اصطلاح کا سوال ہے اسلام کا لفظ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے لئے استعمال کیا گیا ہے.جو شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاتا ہے، قرآن کریم پر ایمان لاتا ہے ، حشر و نشر پر ایمان لاتا ہے ، تقدیر پر ایمان لاتا ہے ایسا انسان مسلم ہے.لیکن آگے ایک فرق پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان تو آپ کی بعثت کے بعد ہی ہو سکتا ہے.جو لوگ آپ سے پہلے گزرے ہیں اور جو آپ کا نام تک بھی نہیں جانتے تھے وہ مسلم کس طرح کہلائے ؟ ہمارا عقیدہ مسیحیوں کی طرح یہ نہیں ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 528 حقیقی اسلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے جو لوگ تھے وہ بھی آپ پر ایمان لائے ہوئے تھے یہ صرف مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام سے پہلے جتنے انبیاء گزرے ہیں وہ بھی حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان رکھتے تھے.مجھے ایک دفعہ ایک بڑے پادری سے جو ایک مذہبی کالج کا پر نسپل تھا بحث کرنے کا موقع ملا.میں نے سوال کیا کہ تمہارے نزدیک کوئی شخص کفارہ پر ایمان لائے بغیر نجات حاصل نہیں کر سکتا اور کفارہ کا مسئلہ صرف اُنیس سو سال سے جاری ہوا ہے اس سے ہزاروں سال پہلے مذہبی روایات کے مطابق دنیا بس رہی تھی اور کروڑوں بلکہ اربوں سال پہلے سائنس کی تحقیق کے مطابق بس رہی تھی اتنے سال تک دنیا نے کس سے نجات حاصل کی؟ یا تو تم یہ کہو کہ انہوں نے نجات حاصل نہیں کی اس صورت میں آدم علیہ السلام بھی اور نوح علیہ السلام بھی اور ابراہیم علیہ السلام بھی اور زکریا علیہ السلام بھی اور حز قیل" بھی جن کا بائبل میں ذکر آتا ہے سب کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ وہ نعوذ باللہ نجات یافتہ نہیں تھے.اور اگر وہ نجات یافتہ تھے تو ماننا پڑے گا کہ نجات بغیر مسیح کے بھی حاصل ہو سکتی ہے.اس پر اُس نے تعجب سے کہا کہ کون کہتا ہے ہ صحیح پر ایمان لائے بغیر نجات پاگئے وہ سارے کے سارے مسیح پر ایمان رکھتے تھے.میں نے جواب دیا کہ بائبل کی وہ کون سی آیات ہیں جن سے یہ ثابت ہو تا ہے صرف قیاس سے تو ایسی بات نہیں کہی جاسکتی.وہ میں نے کہا کہ اگر اُن کا ایمان لانا ضروری تھا تو مسیح کو آدم کے زمانہ میں کیوں نہ بھیجا گیا اور اتنے لمبے انتظار کے بعد کیوں مبعوث کیا گیا؟ اُس نے کہا کہ چونکہ دنیا کے دماغ ابھی اتنے ترقی یافتہ نہیں تھے کہ وہ کفارہ کا مسئلہ سمجھ سکیں اس لئے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح کو ابتداء میں نہ بھیجا بلکہ اُس وقت بھیجا جب وہ اس مسئلہ کو سمجھنے کے قابل ہو گئے.میں نے کہا کہ جب وہ اس مسئلہ کو سمجھ ہی نہیں سکتے تھے تو انہوں نے نجات کس طرح پائی؟ اور اگر وہ سمجھ سکتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح کو پہلے کیوں نہ بھیجا؟ غرض مسیحیوں کا تو یہ عقیدہ ہے کہ پہلے انبیاء بھی حضرت مسیح پر ایمان رکھتے تھے
انوار العلوم جلد 23 529 حقیقی اسلام لیکن مسلمانوں کا یہ عقیدہ نہیں.بے شک قرآن کریم میں یہ اشارہ پایا جاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ عیلہ وسلم کی بعثت کی خبر پرانے انبیاء سے ملتی چلی آئی ہے مگر یہ اجمالی خبر ہوتی ہے کہ ایک نبی آئے گا.یہ نہیں ہوتا کہ خبر دینے والا آنے والے نبی کی نبوت پر بھی ایمان لے آتا ہو.مگر قرآن کریم نے اُن تمام قسم کے انبیاء اور اُن کی جماعتوں کو مسلم قراد دیا ہے.پس معلوم ہوا کہ مسلم کی دو قسمیں ہیں.ایک اُس شخص کے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں شامل ہے اور دوسرے لفظ مسلم کے جو معنے ہیں اُن معنوں کا جس شخص پر اطلاق ہو گا وہ قرآنی اصطلاح میں مسلم قرار پائے گا.مسلم کے معنے ہیں مطیع ، فرمانبردار اور خدا تعالیٰ کے حکموں کو ماننے والا اب چاہے وہ اس تعلیم کو مانے جو مسیح پر نازل ہوئی تھی چاہے وہ اس تعلیم کو مانے جو داوڈ پر نازل ہوئی تھی اور چاہے وہ اس تعلیم کو مانے جو ابراہیم پر نازل ہوئی تھی.وہ مسلم قرار پائے گا ان معنوں میں کہ وہ خدائی احکام کا کامل فرمانبردار ہے.پس نوح کے زمانے میں اس کے یہ معنے تھے کہ خدا کا کلام جو نوح پر نازل ہوا اُس کی جس شخص نے اتباع اور فرمانبر داری کی وہ مسلم ہے.اور ابراہیم کے زمانہ میں اس کے یہ معنے تھے کہ جو شخص ابراہیم کے احکام کو مانتا ہے وہ مسلم ہے اور موسیٰ اور عیسی کے زمانہ میں اس کے یہ معنے تھے کہ جو شخص موسی اور عیسی کے احکام کو تسلیم کرتا ہے وہ مسلم ہے.لیکن اس زمانہ میں ایک تو مسلم نام ہو گا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے کی وجہ سے.گو ہو سکتا ہے کہ بعض لوگوں کے اندر اسلام کی حقیقت نہ پائی جاتی ہو جیسے بعض لوگوں کا نام حاتم خان رکھ دیا جاتا ہے لیکن وہ ہوتے بخیل ہیں.یا عبد الرحمن نام رکھ دیا جاتا ہے لیکن وہ ہوتے شیطان کے غلام ہیں.اور ایک مسلم نام ہو گا اُس کی حقیقت کے لحاظ سے.یعنی ایک تو نام کا اسلام ہو گا جیسے بعض لوگ اپنے آپ کو نصاریٰ کہتے ہیں، بعض یہودی کہتے ہیں اسی طرح ہم اپنے آپ کو مسلم کہتے ہیں.لیکن ایک وہ تعریف ہے جس کے ماتحت عیسی کے ماننے والے مسلم کہلائے یا موسی کے ماننے والے مسلم کہلائے یا ابراہیم کے ماننے والے مسلم کہلائے یعنی
انوار العلوم جلد 23 ہے.530 حقیقی اسلام ہم محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم کی پوری اطاعت کریں.گویا ہماری فضیلت یہ ہے کہ ہم دہرے مسلم ہیں.ایک اس لحاظ سے جس لحاظ سے سارے انبیاء کی جماعتیں مسلم قرار پائیں اور ایک اس لحاظ سے کہ ہماری قوم کا نام بھی مسلم رکھ دیا گیا 1 بے شک یہ نام ایک تفاول کے طور پر رکھا گیا ہے جیسے ماں باپ اپنے بچوں کا نام رکھ دیتے ہیں.لیکن یہاں ایک زائد بات یہ ہے کہ ماں باپ نام رکھتے ہیں تو اپنے بچوں میں ویسی صفات پیدا نہیں کر سکتے.وہ اپنے بچے کا نام بہادر خان رکھتے ہیں لیکن وہ اتنا بز دل ہوتا ہے کہ ایک چوہے سے بھی ڈر جاتا ہے.وہ اپنے بچے کا نام حاتم خان رکھتے ہیں لیکن وہ ہو تا سخت بخیل ہے.لیکن جب اللہ تعالیٰ کسی کا نام رکھتا ہے تو چونکہ خدا تعالیٰ میں طاقت ہے کہ وہ ویسی ہی صفات پیدا کر دے اس لئے وہ صرف تفاؤل ہی نہیں ہو تا بلکہ خدا تعالیٰ کا بھی ارادہ ہو تا ہے کہ اسے اس نام کا مستحق بنادے.پس ہمارا نام جو مسلم رکھا گیا ہے یہ ہے تو ایک نام ہی لیکن اس میں یہ وعدہ بھی پوشیدہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے اگر کوشش کریں تو انہیں اللہ تعالیٰ کے احکام کی فرمانبرداری کرنے کی توفیق مل جائے گی.پس ”حقیقی اسلام “ کے معنے یہ ہیں کہ ہمارے اندر یہ روح پیدا ہو جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے احکام کو سن کر ان کی اطاعت کریں اور کامل فرمانبرداری کا مظاہرہ کریں.یوں تو ہر شخص جو مسلمان کہلاتا ہے وہ مسلمان ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ الْوَلَدُ يَوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے آگے اُس کے ماں باپ اُسے سکھا کر یہو دی بنا دیتے ہیں یا اگر ماں باپ عیسائی ہوں تو وہ اسے عیسائی بنا دیتے ہیں یا مجوسی ہوں تو وہ اسے مجوسی بنا دیتے ہیں 2 لیکن پیدائشی لحاظ سے وہ فطرت صحیحہ لے کر ہی پید اہوتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کا خوف اور اُس کی محبت کا مادہ اس کے دل میں ہوتا ہے.ا غرض ترقی کرنے کے جس قدر سامان ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے مہیا فرما دیئے ہیں.ایک طرف اُس نے ہر بچہ کو فطرت صحیحہ دے کر پیدا کیا اور دوسری طرف اُس نے مسلمانوں کا ایسا ماحول بنا دیا اور دین کو اُن کے سامنے ایسے رنگ میں رکھا
انوار العلوم جلد 23 531 حقیقی اسلام کہ اگر وہ چاہیں تو آسانی سے اس کی اتباع کر کے اللہ تعالیٰ کے انعامات کے وارث بن سکتے ہیں.مثلاً پہلی چیز تو یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جب یہ فیصلہ کیا کہ امت محمدیہ میں شامل ہونے والے افراد مسلمان کہلائیں گے جس کے معنے یہ تھے کہ وہ جب چاہیں گے حقیقی مسلمان بن سکیں گے.تو اس کے لئے ایک سامان تو اس نے یہ پیدا کیا کہ اس نے قرآن کریم کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا.عیسائیت کے متعلق خود عیسائیوں کی لکھی ہوئی سینکڑوں کتابیں ایسی موجود ہیں جن میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ انجیل ایک محرف و مبدل کتاب ہے لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس کے متعلق اسلام کے شدید ترین دشمن بھی مانتے ہیں کہ جس رنگ میں اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا بعینہ اسی رنگ میں یہ کتاب آج بھی موجود ہے.سرولیم میور جیسا شدید دشمن اسلام قرآن کریم کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ یہ اور بات ہے کہ ہم اسے جھوٹا سمجھتے ہیں، یہ اور بات ہے کہ ہم اس کتاب کے لانے والے کے متعلق کہتے ہیں کہ اس نے اپنی طرف سے یہ باتیں پیش کی ہیں لیکن اس سے کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا کہ جس صورت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے قرآن کریم پیش کیا تھا اُسی صورت میں وہ آج بھی موجود ہے.2 آخر دشمن تو یہی کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ساری باتیں اپنی طرف سے بنا کر پیش کی ہیں لیکن ہمارے لئے یہ کتنا شاندار سر ٹیفکیٹ ہے کہ جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قرآن دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُسی شکل میں وہ آج بھی ہمارے سامنے موجود ہے.وہ قرآن کے متعلق یہ الفاظ کہتے ہیں لیکن انجیل کے متعلق نہیں کہتے بلکہ بعض عیسائی کہتے ہیں کہ ہمیں حسرت ہے کہ کاش !ہم انجیل کے متعلق بھی ویسی بات کہہ سکتے جو ہم قرآن کریم کے متعلق کہتے ہیں.اب یہ کتنی بڑی فضیلت اور برتری کی بات ہے.ہر پڑھا لکھا عیسائی جب انجیل پڑھتا ہے تو اس کے دل میں شبہ پیدا ہوتا ہے کہ مسیح نے یہی بات کہی تھی یا کچھ اور کہا تھا لیکن قرآن کریم کا پڑھنے والا شروع سے آخر تک یہ یقین رکھتا ہے کہ یہ اُسی شکل میں ہے جس شکل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
انوار العلوم جلد 23 532 حقیقی اسلام اسے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا یہ ہو ہا ہے کہ ایک مسلمان مرتد ہو جائے سین جب تک وہ قرآن کریم کو مانتا ہے وہ قرآن کریم کے صحیح ہونے میں شبہ نہیں کر سکتا.بعض فرقے مسلمانوں میں ایسے بھی ہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کچھ حصے غائب ہیں لیکن اُن میں سے بھی یہ کوئی نہیں مانتا کہ جو قرآن کریم موجود ہے اس میں بعض حصے غلط ہیں لیکن عیسائیت تو یہ کہتی ہے کہ جو چیز موجود ہے اس میں بھی کئی آئنتیں غلط ہیں.چنانچہ ہماری جماعت کی طرف سے جب اعتراضات کئے گئے تو کئی آیات عیسائیوں نے انجیل میں سے نکال ڈالیں بلکہ اب امریکہ میں ایک نئی بائیبل شائع ہوئی ہے جس میں سے وہ تمام آیات انہوں نے نکال دی ہیں جن پر ہماری طرف سے اعترض کیا جاتا تھا اور لکھا ہے کہ یہ بعد میں بعض مفسرین نے زائد کر دی تھیں اصل نسخوں میں یہ آیات نہیں پائی جاتیں.ہم کہتے ہیں کہ خواہ کچھ کہو.بہر حال فتح ہماری ہے کیونکہ تمہیں آج پتہ لگا کہ یہ آیتیں غلط ہیں لیکن ہمیں قرآن کریم کی روشنی میں پہلے ہی پتہ لگ گیا تھا کہ یہ غلط ہیں.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے اس کتاب کو عمل کے لئے آسان بنا دیا ہے.اس میں کوئی چیز ایسی نہیں جو انسان کی عقل اور اس کے فہم اور اس کی فراست کو صدمہ پہنچانے والی ہو.یہ تو ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص کسی آیت کے معنے نہ سمجھے یا غلط مفہوم سمجھ کر شکوک میں مبتلا ہو جائے لیکن جب بھی وہ کسی واقف شخص کے پاس جائے گا اسے پتہ لگ جائے گا کہ غلطی میری ہی تھی قرآن کریم میں کوئی غلطی نہیں.نولڈ کے جر من مستشرق اپنی کتاب میں ایک جگہ لکھتا ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ترتیب نہیں، اس کی آیات مضمون کے لحاظ سے بالکل بے جوڑ ہیں لیکن آخری عمر میں پہنچ کر وہ لکھتا ہے کہ میں نے قرآن کریم کی ترتیب کے متعلق جو رائے ظاہر کی تھی وہ غلط تھی میں نے جب قرآن کریم کا گہرا مطالعہ کیا تو مجھے اس میں بڑی زبر دست ترتیب نظر آئی.یہ محض ہماری ناواقفیت ہے کہ ہم اپنی نا سمجھی کی وجہ سے قرآن کریم پر اعتراض کرنے لگ جاتے ہیں.غرض اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایسی کتاب عطا فرمائی ہے جس نے
انوار العلوم جلد 23 533 حقیقی اسلام غیروں سے بھی خراج تحسین حاصل کیا ہے اور جس پر عمل بڑا آسان ہے.پس حقیقی اسلام کے یہ معنے نہیں کہ ہم سنی ہیں یا ہم خارجی ہیں.حقیقی اسلام کے یہ معنے نہیں کہ ہم اہلحدیث ہیں.حقیقی اسلام کے یہ معنے نہیں کہ ہم شافعی یا حنفی ہیں یا کسی اور گروہ سے تعلق رکھتے ہیں.حقیقی اسلام کے یہ معنے ہیں کہ ہم اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کے کامل فرمانبردار رہیں گے اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ایک حکم کی اطاعت کریں گے کیونکہ اسلام کے معنے اطاعت اور فرمانبرداری کے ہیں.بیشک ہر وہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو گیا اپنے نام کے لحاظ سے مسلم ہے چاہے وہ سنی ہو ، شیعہ ہو، چکڑالوی ہو ، اہل حدیث ہو لیکن جہاں تک حقیقت اسلامی کا سوال ہے ہم اس وقت مسلم کہلا سکتے ہیں جب ہمارے اندر خدائی احکام پر عمل کرنے کی روح موجود ہو.جیسے قرآن کریم نے ابراہیم “ پر ایمان لانے والوں کو بھی مسلمان کہا.موسیٰ پر ایمان لانے والوں کو بھی مسلمان کہا حالانکہ ان کے سامنے قرآن نہیں تھا.اس کے معنے یہ ہیں کہ ان کا یہ فیصلہ کہ ہم خدا تعالیٰ کی اطاعت کریں گے اس سپرٹ کا نام اسلام ہے.جب یہ سپرٹ پیدا ہو جائے تو چاہے وہ دوسروں سے کتنا ہی اختلاف رکھتا ہو وہ مسلمان ہے کیونکہ اس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میں خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کے آگے اپنا سر نہیں جھکاؤں گا.صحابہ نے جب ایران پر حملہ کیا تو ایرانی بادشاہ نے سوچا کہ یہ عرب ذلیل اور اونی قسم کے لوگ ہیں اگر ان کو کچھ لالچ دے دیا جائے تو یہ واپس چلے جائیں گے.چنانچہ اس نے اسلامی کمانڈر کو لکھا کہ میں آپ لوگوں سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں آپ اپنے نمائندے میری ملاقات کے لئے بھجوا دیں.اُس نے چند صحابہ کو بھجوا دیا.وہ وہاں پہنچے تو لوگ تو بادشاہوں کے سامنے سر جھکانے کے عادی ہوتے ہیں مسلمان خدا تعالیٰ کے سوا اور کسی کے آگے اپنا سر نیچا ہی نہیں کرتے تھے وہ ملاقات کے لئے گئے تو دربار کے قالینوں پر اپنے نیزے مارتے ہوئے اندر گھس گئے اور جاتے ہی السَّلَامُ عَلَيْكُمْ کہا.وہ حیران ہوا کہ یہ کیسے لوگ ہیں مگر بہر حال چونکہ اس نے خود بلایا تھا اِس لئے اُس نے
انوار العلوم جلد 23 534 حقیقی اسلام انہیں بٹھایا اور کہا کہ میں نے تم لوگوں کو اس لئے بلایا ہے کہ تم لوگ گوہیں کھانے والے مہذب دنیا کی غذاؤں سے نا آشنا، شادی بیاہ کے قوانین سے ناواقف بالکل اجڈ اور جاہل لوگ ہو.تم باپ کے مرنے کے بعد ماؤں کو ورثہ میں لے لیتے ہو ، تمہارا جہاں بانی اور حکمرانی سے کیا واسطہ.میں نے تمہاری غربت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ تم میں سے ہر ایک سپاہی کو ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں.بس تم یہ روپیہ لو اور واپس چلے جاؤ.اس سے تم اندازہ لگا سکتے ہو کہ اس نے ان کی کیا حیثیت سمجھی تھی.ایک چھوٹی سے چھوٹی ریاست بھی یہ پیشکش نہیں کر سکتی کہ ہر سپاہی کو پونے دس روپے اور افسر کو میں روپے دے دیئے جائیں اور ان سے غداری کروائی جائے.اگر آج کسی لیفٹینٹ کے پاس کوئی شخص جائے اور اسے کہے کہ میں روپے لے لو اور فلاں کی غداری کرو تو وہ اسے تھپڑ مارے گا.اس لئے نہیں کہ وہ غداری نہیں کر سکتا بلکہ اس لئے کہ کیا تم نے مجھے ایسا ہی ذلیل سمجھا ہے کہ میں بیس روپے کے بدلے غداری کا ارتکاب کرلوں گا.مگر اس نے اسلامی لشکر کے سامنے یہی پیشکش کی.صحابہ نے اس کی یہ بات سنی تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ جو کچھ فرمارہے ہیں درست ہے.ہماری حالت ویسی ہی تھی جیسا کہ ابھی آپ نے ذکر کیا ہے ہم اس سے انکار نہیں کرتے لیکن اب خدا تعالیٰ نے ہم میں ایک نبی بھیج دیا ہے اور ہماری حالت بالکل بدل چکی ہے.اب خدا کا وعدہ ہے کہ ظلم اور فساد کو دنیا سے مٹایا جائے گا.پس جب تک ظلم اور فساد قائم ہے ہم لڑیں گے اور اس وقت تک لڑتے چلے جائیں گے جب تک خدائی حکومت دنیا میں قائم نہیں ہو جاتی.بادشاہ کو اس جواب پر غصہ آیا اور اُس نے حکم دیا کہ ایک مٹی کا بورا بھر کر لاؤ اور اُن کے افسر کے سر پر رکھ دو.گویا جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”تیرے سر تے کھہ “ یعنی تیرے سر پر خاک پڑے.اِسی طرح اُس نے کہا کہ اب تمہارے سروں پر خاک ڈالی جاتی ہے.جاؤ جو کچھ تم نے کرنا ہے کر لو.اس صحابی نے بڑے آرام سے اپنا سر جھکایا اور مٹی کا بورا اپنے سر پر اٹھا کر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا چلو ایران کے بادشاہ نے خود اپنے ملک کی مٹی ہمارے حوالے کر دی ہے اور یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑوں پر سوار ہوئے اور
انوار العلوم جلد 23 535 حقیقی اسلام تیزی کے ساتھ نکل آئے.بادشاہ نے جب یہ سنا تو اس نے کہا ان لوگوں کو کسی طرح پکڑو اور ان سے یہ مٹی واپس لو مگر وہ اُس وقت تک گھوڑے دوڑاتے ہوئے کہیں کے کہیں نکل چکے تھے.یہ ہے اسلام کی صحیح سپرٹ.وہ لوگ خدا کے سوا اور کسی کو نہیں جانتے تھے اور اسی کی بادشاہت زمین اور آسمان میں تسلیم کرتے تھے.مسیح ناصری صرف اس نکتہ تک پہنچا کہ آسمان پر تو خدا کی بادشاہت ہے لیکن زمین پر ابھی اس کی بادشاہت قائم نہیں ہوئی.چنانچہ اس نے اپنے حواریوں کو یہ دعا سکھلائی کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی آئے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا کہ جس طرح اس کی بادشاہت آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی ہے.اس سے دونوں نبیوں کی شان اور رفعت کا کیسا امتیاز ظاہر ہوتا ہے.مسیح نے سمجھا کہ خد اتعالیٰ کی بادشاہت زمین پر آسکتی ہے لیکن ابھی نہیں آئی.اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ اس کی بادشاہت جس طرح آسمان پر ہے اسی طرح زمین پر بھی موجود ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کی بادشاہت کے سوا اور کسی کی بادشاہت ہے ہی نہیں.یہ چیز ایسی تھی جس نے صحابہ کو بالکل نڈر بنا دیا تھا کیونکہ جب کوئی شخص صرف خدا کو اپنا بادشاہ مانے گا تو وہ کسی اور سے ڈرے گا کیوں؟ اسے تو ہر چیز مٹی کابت نظر آئے گی.چاہے اسے حکم دینے والا جرنیل ہو کر نیل ہو یا کوئی اور ہو.وہ کہے گا کہ میر اخد امیرا حاکم ہے اور وہ میرے ساتھ ہے.اسی روح اور اس جذبے کا نام حقیقی اسلام ہے.حقیقی اسلام فقہ کی ان باریکیوں کا نام نہیں جو کتابوں میں بھری پڑی ہیں.حقیقی اسلام اس تفصیل کا نام نہیں جو حدیثوں میں موجود ہے.حقیقی اسلام اس تشریح کا نام نہیں جو علم الکلام والوں نے کی ہے.حقیقی اسلام اس سپرٹ کا نام ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی بادشاہت اپنے دل پر قائم کر لے.وہ اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کے سامنے اپنا سر نہ جھکائے اور اللہ کو زندہ اور قادرو توانا خدا سمجھے.اگر یہ بات نہیں تو نوح علیہ السلام کے ماننے والے کس طرح مسلم کہلائے، ابراہیم علیہ السلام کے ماننے والے کس طرح مسلم کہلائے.ان کے سامنے
انوار العلوم جلد 23 536 حقیقی اسلام نہ قرآن تھا، نہ حدیث تھی مگر پھر بھی وہ مسلم تھے.اس کی وجہ یہی تھی کہ اُنہوں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ جو کچھ خدا کہے گاوہ ہم نے کرنا ہے.اور جب کوئی قوم یہ فیصلہ کر لیتی ہے کہ میں نے وہی کچھ کرنا ہے جو خدا کہے گا اس کے دل میں خدا آکر بس جاتا ہے.اور جس کے دل میں خدا بس جائے اسے دنیا کی کوئی قوم مٹانے کی طاقت نہیں رکھتی کیونکہ جو اُس پر پر حملہ کرتا ہے وہ خدا پر حملہ کرتا ہے اور خدا کو مارنے کی کسی میں طاقت نہیں.بہر حال میں دوستوں کو مختصر 1 اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ آپ لوگوں کو ایک نام تو خدا تعالیٰ نے بخش دیا ہے اس میں آپ کا کوئی کمال نہیں.جس دن آپ کے باپ دادا آج سے ہزار یا نو سو سال پہلے مسلمان ہوئے تھے اُسی دن آپ کو یہ نام مل گیا تھا لیکن اس نام کے باوجو د جیسا کہ آپ لوگ خود جانتے ہیں کئی دوست جب علیحدہ اپنے دوستوں میں بیٹھتے ہیں تو کہتے ہیں اس دنیا کا کوئی خدا نہیں، کئی قیامت کا انکار کر دیتے ہیں، کئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق اپنے شکوک کا اظہار کرتے ہیں لیکن پھر اپنے آپ کو مسلمان بھی کہتے ہیں.میں جب حج کے لئے گیا تو دو مسلمان اور ہندو بیرسٹر بھی اس جہاز میں سفر کر رہے تھے.وہ تینوں سارا دن خدا اور مذہب پر ہنسی اُڑاتے رہتے تھے.ایک دن باتوں باتوں میں ہندو بیرسٹر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بے ادبی کا لفظ کہہ دیا.اس پر ان دونوں کے چہرے سرخ ہو گئے اور انہوں نے کہا خبر دار ! آئندہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ لفظ استعمال نہ کیا جائے.میں چونکہ روزانہ ان کے اعتراضات کا تختہ مشق بنا رہتا تھا اس لئے میں نے ہنس کر کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو خدا تعالیٰ کے نائب تھے.آپ تو خدا تعالیٰ کے وجود کے ہی قائل نہیں.اگر اس دنیا کا کوئی خدا نہیں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہاں سے آگئے ؟ وہ کہنے لگے ٹھیک ہے ہم خدا کو نہیں مانتے لیکن ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں کوئی بے ادبی کا لفظ نہیں سن سکتے.اسی طرح 1924ء میں جب میں یورپ گیا تو ایک انگریز دہر یہ مجھ سے ملنے
انوار العلوم جلد 23 537 حقیقی اسلام کے لئے آیا اور مذہب پر گفتگو شروع ہوئی.باتیں کرتے کرتے اس نے اچانک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے دی.میری عادت ہے کہ میں مخالف سے ہمیشہ تحمل اور نرمی کے ساتھ گفتگو کیا کرتا ہوں کیونکہ اگر ہم نرمی سے کام نہ لیں تو ہم تبلیغ نہیں کر سکتے.اسی رنگ میں میں بھی اس سے محبت کے ساتھ باتیں کر رہا تھا مگر اس نے بغیر اس کے کہ میری طرف سے کوئی سختی ہوتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے دی.اس پر جواب دیتے وقت میں نے اُلٹ کر وہی بات مسیح علیہ السلام کے متعلق کہہ دی.یہ سنتے ہی اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور اس نے کہا مسیح کا اس سے کیا تعلق ہے؟ میں نے کہا تم خدا کے متعلق بحث کر رہے تھے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا ذکر تھا کہ تم نے انہیں بُرا بھلا کہہ دیا.اب جب بھی تم بڑے طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لو گے میں وہی بات تمہارے مسیح کے متعلق کہوں گا.“ 1: هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ (الحج: 79) از ریکارڈ خلافت لائبریری ربوہ) 2 بخاری کتاب الجنائز باب مَا قِيلَ في اَوْلَادِ الْمُشْرِكِينَ میں "كُلُّ مَوْلُوْدِ يَوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَة.....“ کے الفاظ آئے ہیں.The Life of Mahomet BX William Muir P.559 Published in London 1877.3 4: وَلَقَد يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِكرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ ( القمر :31) 5 تاریخ طبری جلد 4 صفحہ 322 تا 325 مطبوعہ بیروت 1987ء 6: متى باب 6 آیت 10،9 ذا إِنَّ اللهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (التوبة: 116)
انوار العلوم جلد 23 539 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر....مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر روح پرور خطاب از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 541 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر روح پر در خطاب فرموده 24/ اکتوبر 1953ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- " جو خدام یہاں بیٹھے ہیں وہ خدام کی اصل تعداد کا ایک تہائی یا ایک چوتھائی ہیں جو مجھے بتائی گئی ہے.خدام الاحمدیہ کا یہ اجتماع تربیتی اور تعلیمی ہو تا ہے.کھیلیں وغیرہ تو ایک زائد چیز ہیں مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ منتظمین نے کھیلوں کو اصل چیز سمجھ لیا ہے اور وعظ و نصیحت اور تربیت کو ایک ضمنی اور غیر ضروری چیز فرض کر لیا ہے.اس لئے انہوں نے یہ کوشش نہیں کی کہ جبکہ میں خدام الاحمدیہ کو خطاب کرنا چاہتا تھا تو وہ انہیں پورے طور پر یہاں حاضر کرتے اور انہیں میری باتیں سننے کا موقع دیتے.چونکہ ایسے موقع پر باہر سے آئے ہوئے لوگ بھی شامل ہوتے ہیں اس لئے اگر انہیں نکال دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ اس مجلس میں چار سو یا ساڑھے چار سو سے زیادہ خدام نہیں.پرسوں خدام الاحمدیہ کی جو تعداد مجھے بتائی گئی تھی وہ ساڑھے دس سو یا گیارہ سو تھی جو آج لازماً بارہ تیرہ سو ہونی چاہئے تھی".حضور نے دفتر والوں سے دریافت فرمایا کہ:- "" اس سال کتنے خدام اجتماع میں شامل ہوئے ہیں اور پچھلے سال اجتماع میں
انوار العلوم جلد 23 542 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...شامل ہونے والے خدام کی کیا تعداد تھی ؟" اس پر دفتر کی طرف سے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے وہ یہ تھے: سال گزشتہ 876 موجودہ سال 1062 حضور نے فرمایا:- "اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سال پونے دو سو خدام زیادہ آئے ہیں لیکن جہاں تک میرا تائثر ہے دفتر مرکز یہ اعداد و شمار کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا.حالانکہ اس سے کئی نتائج نکالے جاسکتے ہیں.ہر دفعہ سوال کرنے پر ہانپتے کانپتے اور لرزتے ہوئے اعدادو شمار پیش کئے جاتے ہیں.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اعداد و شمار کے کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی جتنی کبڈی اور فٹ بال کے میچوں کو دی جاتی ہے ورنہ تمام اعداد و شمار ہر وقت اپنے پاس رکھے جاتے اور منتظمین سوال کرنے پر دلیری سے جواب دیتے.اور پھر صرف ایک سال کے ہی نہیں دفتر کے پاس ہر سال کاریکارڈ ہونا چاہیئے یعنی انہیں سوال کرنے پر فوری طور پر بتانا چاہئے کہ 1952ء میں کتنے خدام آئے، 1951ء میں کتنے آئے، 1950ء میں کتنے آئے، 1949ء میں کتنے آئے، 1948ء میں کتنے آئے.اعدادو شمار ہی کسی قوم کا اصل ٹمپر یچر ہیں.آجکل بیماریوں کی تشخیص ٹمپریچر دیکھ کر کی جاتی ہے.جب ٹمپریچر معلوم ہو جائے تو انسان کو یہ تسلی ہو جاتی ہے کہ مرض کی یہ شکل ہے.ٹمپریچر ہی بتاتا ہے کہ مریض کو ٹائیفائڈ ہے یا ملیریا ہے.پھر ٹمپریچر ہی بتاتا ہے که مرض خراب ہو رہا ہے یا مریض شفا کی طرف جارہا ہے.پھر ٹمپریچر ہی بتاتا ہے کہ سوزش یا خرابی زہریلی طرف جارہی ہے یا شفاء کی طرف جارہی ہے.غرض اعداد و شمار نہایت ہی اہم چیز ہیں جس کی طرف مجلس خدام الاحمدیہ نے کبھی توجہ نہیں کی اور مجھے ہر سال ہی اسے تنبیہ کرنی پڑتی ہے.حالانکہ ان کے پاس ہر سال کا نہیں ایک ایک دن کا بلکہ ہر صبح و شام کے اعداد و شمار کاریکارڈ ہونا چاہئے کیونکہ اعداد و شمار ہی تفصیلی ٹمپر یچر ہیں کسی قوم یا جماعت کی صحت تندرستی کا.اس کے بغیر کسی قوم کی مرض یا صحت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا.
انوار العلوم جلد 23 543 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...میں نے خدام الاحمدیہ کو پہلے بھی کئی بار اس طرف توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس اجتماع کا مقصد خالی کھیل کود نہیں بلکہ اس کی غرض نوجوانوں کے اندر وہ قربانی اور اخلاص پیدا کرنا ہے جس کے ساتھ وہ اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں.مجھے نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ خدام الاحمدیہ نے ابھی تک اپنے فرض کو صحیح طور پر ادا نہیں کیا بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ بعض جگہوں پر نوجوانوں کی اس الگ تنظیم کی وجہ سے ان میں اعتراض کرنے کی عادت پید اہو گئی ہے.آج ہی ایک خادم مجھے ملنے آئے تو وہ کہنے لگے ہماری جماعت میں یہ یہ خرابی ہے.وہ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جس نے ایک وقت میں سلسلہ کی اعلیٰ خدمت کی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر ان کی روایات اعلیٰ تھیں تو انہوں نے اپنے آپ کو کیوں اس رنگ میں منظم نہ کیا کہ جماعت انہیں آگے لے آتی اور جب لوگ امیر بناتے تو انہی میں سے کسی کو بناتے.اگر جماعت کے لوگوں نے ان میں سے کسی کو امیر نہیں بنایا تو اس کے یہی معنے ہیں کہ اب ان کے سلسلہ کے ساتھ پہلے کی طرح اچھے تعلقات نہیں ورنہ جماعت کے لوگوں کو ان سے کوئی دُشمنی تھی کہ وہ انہیں نظر انداز کر دیں؟ اگر مقامی جماعت نے انہیں آگے نہیں آنے دیا تو ان میں کوئی خرابی ضرور تھی.خالی شکایات کرنے سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا.اس کے تو یہ معنے ہیں کہ کام کرنے والوں کو ہٹا دیا جائے اور نکموں کو آگے لایا جائے اور جماعت کو آوارہ چھوڑ دیا جائے.یہ بات قطعی طور پر غلط ہے.ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے ایک غیر ملک سے مجھے شکایت آئی کہ جماعت فلاں شخص سے کام لے رہی ہے حالانکہ وہ منافق ہے.میں نے اُسے جواب میں یہی لکھا کہ آپ کے نزدیک جماعت کا کچھ حصہ تو منافق ہے اور کچھ حصہ جماعت میں شامل تو ہے لیکن کام سے غافل ہے اور جماعت کی کوئی خدمت نہیں کرنا چاہتا.آپ کے نزدیک جو لوگ غافل ہیں اور جماعت کی کوئی خدمت نہیں کرنا چاہتے وہ تو مومن ہیں اور جو خدمت کر رہے ہیں وہ منافق ہیں.اب ظاہر ہے کہ سلسلہ ان لوگوں سے کوئی کام نہیں لے سکتا جو کام نہیں کرتے.اس لئے اب سوائے اس کے اور کیا چارہ ہے کہ وہ ان لوگوں سے
انوار العلوم جلد 23 544 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...کام لے جو کام کرنا چاہتے ہیں.آپ لوگ تو سلسلہ سے بے غرض ہوئے وہ آپ سے کام کیسے لے.اگر کسی نے کام کرنا ہے تو اُسے انگلی ہلانی پڑے گی بغیر انگلی ہلانے کے کوئی کام نہیں ہو سکتا.بہر حال ہم اُس سے کام کرنے کے لئے کہیں گے جو کام کرے.اللہ تعالیٰ کراچی کی جماعت کو ہر نظر بد سے بچائے.اُنہوں نے فسادات کے ایام میں نہایت اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا ، ایسی قابلیت کا مظاہرہ کیا کہ وہ نائب مرکز بن گئے.یہی وجہ تھی کہ میں نے اعلان کیا کہ کراچی میں بھی ایک صدر انجمن احمد یہ ہو گی تا اگر جماعت کا کام کسی وقت معطل ہو جائے تو وہ کام سنبھال سکے کیونکہ مجھے اُمید تھی کہ جب اُنہوں نے بغیر ذمہ داری کے اتنا کام کیا ہے تو اگر ان پر ذمہ داری ڈال دی جائے گی تو وہ کام کو وقت پر سنبھال سکے گی.پنجاب کی جماعتوں کو میرا یہ فعل بُرا لگا اور اُنہوں نے احتجاج کیا کہ کراچی میں بھی صدر انجمن بن گئی ہے.اب تو دو عملی پید اہو جائے گی.میں نے انہیں یہی جواب دیا کہ یہ تو حسد ہے.جو لوگ کام کریں گے بہر حال وہی آگے لائے جائیں گے اور جو لوگ کام نہیں کریں گے وہ بہر حال گریں گے.اگر کسی خاندان نے کسی وقت کام کیا ہے تو ہمیں اس سے انکار نہیں لیکن اگر اب وہ کام نہیں کرتے تو سلسلہ انہیں کیوں آگے لائے؟ سلسلہ تو انہیں لوگوں کو آگے لائے گا جو ایثار اور قربانی کا اعلیٰ نمونہ دکھائیں گے دوسری جماعتوں اور خاندانوں کو اپنا و قار رکھنا مقصود ہے تو وہ کام کریں اور پھر کام بھی دیانت اور تقویٰ سے کریں لیکن اگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ان کے باپ دادوں نے کام کیا تھا اس لئے انہیں عزت ملنی چاہئے تو یہ غلط ہے.ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.جماعت نے اگر زندہ رہنا ہے تو وہ ایسے وجو دوں کو الگ پھینک دے گی.یہ بے حیائی کی علامت ہے کہ جو کام نہ کرے اُسے لیڈر بنا لیا جائے.اگر کسی خاندان نے کسی وقت خدمت کی ہے اور اب ان کی اولاد کام کرنا نہیں چاہتی تو ان خاندانوں کو آگے آنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ان کی اولاد اب کام کرنا نہیں چاہتی بلکہ وہ یہ چاہتی ہے کہ انہیں محض اس لئے عزت دی جائے کہ ان کے باپ دادوں نے کسی وقت کام کیا تھا.اب جو کام کریں گے بہر حال وہی آگے آئیں گے اور جو کام نہیں کریں گے وہ آگے نہیں آئیں گے.
انوار العلوم جلد 23 545 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...میں نے شروع میں بتایا تھا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کو قائم کرنے کی غرض ہی یہی تھی کہ نوجوان دین میں ترقی کریں اور اس قابل ہو جائیں کہ انہیں عزت دی جائے مگر گزشتہ حالات سے خدام الاحمدیہ نے کوئی زیادہ فائدہ نہیں اُٹھایا.تمہاری غلطیوں کی وجہ سے یا ہماری غلطیوں کی وجہ سے، بعض ایسی دیواریں قائم ہو گئی ہیں کہ اب سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی انہیں توڑ نہیں سکتا.تم اگر یہ سمجھتے ہو کہ ہم تدبیر سے انہیں توڑلیں گے تو یہ غلط ہے.خدا تعالیٰ ہی انہیں توڑے تو توڑے اور اس کی یہی صورت ہے کہ تم دُعائیں کرو، تہجد پڑھو اور ذکر الہی کرو.یہی ذرائع ہیں جن سے یہ دیواریں ٹوٹ سکتی ہیں اور کامیابی ہو سکتی ہے لیکن افسوس ہے کہ میرے پاس ایسی رپورٹیں آرہی ہیں کہ نوجوانوں میں نماز اور دُعا کی اتنی عادت نہیں رہی جتنی پرانے لوگوں میں تھی اور یہ نہایت خطرناک بات ہے.تمہارے لئے تو پرانے لوگوں سے زیادہ فتنے ہیں اس لئے پہلوں کے مقابلہ میں تمہارے سامنے بہت زیادہ مشکلات ہیں اور ان کو دور کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا تمہارے بس اور قابو میں نہیں.اس کا مقابلہ تو وہی کرے گا جو خدا تعالیٰ تک پہنچ سکے اور جب خدا تعالیٰ کسی بات میں دخل دیتا ہے تو وہ آپ ہی آپ حل ہو جاتی ہے.پس اگر تم نے موجودہ مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے تو تمہیں اپنے اندر اصلاح پیدا کرنی چاہئے.میں نے پہلے بھی جماعت کو توجہ دلائی ہے اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ تمہاری غرض نعرے اور کبڈیاں نہیں.نعرے اور کبڈیاں بالکل بیکار ہیں.یہ نعرے اور کبڈیاں تو محض ایسے ہی ہیں جیسے کوئی شخص کپڑے پہنے تو ان پر فیتے سے اپنا نام بھی لکھوالے.یہ بیکار چیزیں ہیں.تم نمازوں اور دعاؤں میں ترقی کرو اور نہ صرف خود ترقی کرو بلکہ ہر شخص اپنے ہمسایہ کو دیکھے اور اس کی نگرانی کرے تاکہ ساری جماعت اس کام میں لگ جائے.تم حسد کی عادت پیدا نہ کرو بلکہ آپس میں تعاون کی روح پیدا کرو.خدام الاحمدیہ کی تنظیم تمہارے لئے ٹریننگ کے طور پر ہے تاکہ جب تمہیں خدمت کا موقع ملے تو تم میں اتنی قابلیت ہو کہ تم امیر بن جاؤ یا سیکر ٹری بن جاؤ.اس لئے تمہیں جماعت کے عہدیداروں سے
انوار العلوم جلد 23 546 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...بجائے ٹکراؤ کے تعاون سے کام لینا چاہئے لیکن مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض جگہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور جماعت کی دوسری تنظیموں میں ٹکراؤ پیدا ہو گیا.پھر جو لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کا امیر اچھا نہیں خود ان کے متعلق رپورٹیں آتی رہتی ہیں کہ ان کی دینی حالت گر رہی ہے.فلاں پس تم اپنی ذکر الہی کی عادت اور اخلاص اور نمازوں کو درست کرو.جب یہ چیزیں درست ہو جائیں گی تو خود بخود لوگ تمہیں آگے لے آئیں گے اور یہ شکوہے سب ختم ہو جائیں گے.تم اپنے اندر نماز کی پابندی کی عادت پیدا کر و اور جھوٹ سے بکلی پر ہیز کرو.جھوٹ ایسی چیز ہے کہ اگر انسان اس کو چھوڑ دے تو اس کی دھاک بیٹھ جاتی ہے.جھوٹ کو انسان سب سے زیادہ چھپاتا ہے لیکن سب سے زیادہ وہی ظاہر ہوتا ہے.جھوٹ ایک ایسی بدی ہے کہ عام لوگ اس کو جلدی سمجھ لیتے ہیں اور اگر انہیں دوسرے کو جھوٹا کہنے کی جرات نہ ہو تو وہ کم از کم اپنے دلوں میں یہ بات ضرور لے جاتے ہیں کہ شخص جھوٹا ہے.اور سچ ایک ایسی نیکی ہے کہ مُنہ پر کوئی شخص بچے انسان کو سچا کہے نہ کہے وہ اپنے دل پر یہ اثر لے کر جاتا ہے کہ فلاں شخص سچا اور راست باز ہے.اگر خدام الاحمدیہ یہ کام کر لیں کہ ان کے اندر سچائی کا جذبہ پیدا ہو جائے تو ان کی اخلاقی برتری ثابت ہو جائے گی اور کسی شخص کو ان پر حملہ کرنے کی جرات نہیں ہو گی.ہر شخص یہی سمجھے گا کہ انہیں ذلیل کرنا بچے کو ذلیل کرنا ہے اور کوئی قوم یہ برداشت نہیں کر سکتی کہ سچ کو ذلیل کیا جائے.پھر محنت کی عادت ہے.دُنیا میں تمام ترقیات محنت سے ملتی ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو رعایتاً عہدے مل جاتے ہیں.اگر تم کام میں سست ہو گے تو سُننے والوں کو اس بات کا یقین ہو جائے گا اور وہ سمجھیں گے کہ انہیں عہدے محض رعایت کی وجہ سے ملتے ہیں ورنہ ان میں کام کرنے کی قابلیت موجود نہیں لیکن اگر وہ دیکھیں کہ احمدی جان مار کر کام کرتے ہیں اور حکومت اور ملک کو اتنا فائدہ پہنچاتے ہیں جتنا فائدہ سرے لوگ نہیں پہنچاتے تو ہر ایک شخص کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہ کہنا کہ احمدیوں کو
انوار العلوم جلد 23 547 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...عہدے رعایتاً دے دیئے جاتے ہیں غلط ہے.ہم اس اعتراض کا یہی جواب دیتے ہیں کہ تم وہ آدمی لاؤ جس کو بطور رعایت کوئی عہدہ ملا ہو.فرض کرو کوئی احمدی دیانت سے کام کر رہا ہے وہ ملک اور قوم کی خیر خواہی کر رہا ہے اور اس کا طریق عمل اور اس کی میسل اور اس کے کاغذات اس بات کی شہادت پیش کرتے ہیں کہ وہ اپنے ہم جلیسوں، ہم عمروں اور ہم عہدوں میں سب سے بہتر کام کرنے والا ہے اور مخالف اس کا نام لے کر کہے کہ فلاں کو عہدہ بطور رعایت ملا ہے تو اس کا ریکارڈ اس اعتراض کو دور کر دے گا لیکن اگر تمہارے کام کا ریکارڈ اچھا نہیں اور معترض تمہارا نام لے تو ہمارے لئے اس اعتراض کا جواب دینا مشکل ہو جائے گا.پس تم اپنے اندر محنت اور دیانتداری پیدا کرو تا کہ تم پر کوئی اعتراض ہی نہ کر سکے کہ تمہیں رعایتی ترقی دی گئی ہے بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ اگر تم میں سے کسی کو یہ نظر آتا ہو کہ اسے رعایت سے ترقی دی گئی ہے تو وہ اس عہدہ سے استعفیٰ دے دے کیونکہ اس سے زیادہ شرمناک بات اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان کسی اور شخص کی سفارش سے ترقی حاصل کرے.شیخ سعدی نے کہا ہے.حقا که با عقوبت دوزخ برابر است رفتن بپاۓ مر کی ہمسایہ در بہشت خدا کی قسم ایسی جنت دوزخ کے برابر ہے جس میں انسان کسی ہمسایہ کی سفارش سے داخل ہوا ہو.اگر کسی شخص میں اس کام کی اہلیت نہیں پائی جاتی جو اس کے سپر د کیا گیا ہے تو اسے سمجھ لینا چاہئے کہ اس عہدہ کے لئے اس کی سفارش رعایتی طور پر کی گئی ہے اور اس کا فرض ہے کہ اگر اس کے اندر غیرت پائی جاتی ہو تو وہ استعفیٰ دے کر الگ ہو جائے.پس تم اپنی عقل، محنت اور قربانی سے یہ بات ثابت کر دو کہ تم اپنے اقران، جلیسوں اور ہم عمروں سے بہتر ہو.اگر تم اس مقام کو حاصل کر لو تو لازمی طور پر تم ہم اس الزام سے بچ جاؤ گے کہ تمہیں کسی رعایت کی وجہ سے ترقی دی گئی ہے.میں کراچی گیا تو مجھے بتایا گیا کہ ایک احمدی کے متعلق لکھا گیا کہ اسے ملازمت سے
انوار العلوم جلد 23 548 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر بر طرف کر دیا جائے کیونکہ وہ نااہل ثابت ہوا ہے لیکن حکومت نے بعض انصاف کے قواعد بھی بنائے ہوئے ہیں تاکہ لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں.ان میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ جب کوئی افسر اپنے ماتحت کے متعلق اس قسم کے ریمارک کرے تو اس کارکن کو اس محکمہ سے تبدیل کر کے کسی دوسری جگہ مقرر کیا جائے اور اگر وہاں بھی اس کا افسر اسی قسم کے ریمارک کرے تو اسے نکال دیا جائے.چنانچہ اس احمدی کے متعلق جب افسر نے یہ سفارش کی کہ اسے نکال دیا جائے یہ نااہل ہے تو حکومت نے اُسے ایک اور محکمہ میں بھیج دیا.یہ ایک مرکزی ادارہ تھا.6 ماہ یا سال کے بعد جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس کے متعلق کیا کیا جائے تو اتفاقی طور پر اس کی تبدیلی کے احکام بھی جاری ہو گئے اور اس پر ادارے نے لکھا کہ اس کے بغیر ہمارا کام نہیں چل سکتا اسے تبدیل نہ کیا جائے.اعلیٰ افسروں نے لکھا کہ عجیب بات ہے کہ اس کا ایک افسر تو کہتا ہے کہ یہ نااہل ہے اسے ملازمت سے بر طرف کر دیا جائے اور دوسرا افسر کہہ رہا ہے کہ اسی نے آکر ہمارا کام سنبھالا ہے.بہر حال چونکہ ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ یہ شخص اہل ہے یا نا اہل اس لئے اس کی تبدیلی کے احکام رُک نہیں سکتے.چنانچہ اسے وہاں سے تبدیل کر دیا گیا اور کچھ عرصہ کے بعد اس تیسرے افسر سے اس کے متعلق رپورٹ طلب کی گئی.اس نے لکھا کہ میں نے اپنی پاکستان کی پانچ سالہ سروس میں اس قابلیت اور ذہانت کا آدمی نہیں دیکھا چنانچہ اعلیٰ افسروں نے پہلے افسر کے ریمارک بدلے اور کہا کہ یہ شخص ترقی دیئے جانے کے قابل ہے.غرض یہ بالکل غلط ہے کہ احمدیوں کو رعایتی طور پر عہدے دیئے جاتے ہیں لیکن اگر تمہیں کسی نے اہل سمجھ کر بھرتی کر لیا ہے اور وہ بھرتی کرنے والا احمدی ہے یا غیر احمدی اور اس پر الزام لگ رہا ہو کہ اس نے تمہاری ناجائز حمایت کی ہے تو کیا تم میں اتنی غیرت بھی نہیں کہ اُس نے تم پر جو احسان کیا ہے تم اس کا بدلہ اُتار دو اور اس کی عزت کو بچاؤ.اس کا صرف ایک ہی ذریعہ ہے اور وہ یہ کہ تم ملک اور قوم کی اتنی خدمت کرو، اتنی قربانی اور ایثار کرو کہ ہر ایک شخص یہی کہے کہ تم سے کوئی رعایت نہیں کی گئی بلکہ سفارش کرنے والے نے تمہاری سفارش کر کے اپنی دانائی کا ثبوت دیا ہے.کیونکہ اُس
انوار العلوم جلد 23 549 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...نے اس شخص کو چنا ہے جس کے سوا اور کوئی مستحق ہی نہیں تھا.پھر میں کہوں گا کہ اگر تم خدمتِ خلق کرتے ہو تو تمہیں اس کے مفید طریق اختیار کرنے چاہئیں.میں نے کراچی کی رپورٹ سُنی ہے وہ نہایت معقول رپورٹ تھی.میرے نزدیک وہ رپورٹ تمام مجالس تک پہنچانی چاہئے تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کریں.یہاں رپورٹوں میں عام طور پر یہ درج ہوتا ہے کہ اتنے لوگوں کو رستہ بتایا گیا.حالانکہ یہ نہایت ادنی اور معمولی نیکی ہے اور ایسی ہی بات ہے جیسے کہتے ہیں کسی نے اپنی ماں کو پنکھا جھلنے پر ایک ریچھ کو مقرر کیا.اس کی ماں بیمار تھی.مریضہ پر ایک مکھی بیٹھ گئی.ریچھ نے ایک پتھر اٹھا کر اس لکھی پر دے مارا جس سے وہ مکھی تو شاید نہ مری لیکن اس کی ماں مر گئی.یہ کوئی خدمت نہیں جسے بڑے فخر کے ساتھ خدمتِ خلق کا کام قرار دیا جاتا ہے.تم وہ کام کرو جو ٹھوس اور نتیجہ خیز ہو.اور اس کے لئے خدام الاحمدیہ کراچی کی رپورٹ بہترین رپورٹ ہے جو تمام مجالس میں پھیلانی چاہئے تا انہیں معلوم ہو کہ انہوں نے کس طرح خدمت خلق کا فریضہ سر انجام دیا.میں تمہیں اس کا چھوٹا سا طریق بتاتا ہوں.اگر تم میں جوش پایا جاتا ہے کہ تم ملک اور قوم کے مفید وجود بنو تو تم اس پر عمل کرو.اس وقت جو خدام حاضر ہیں ان میں سے جو لوگ تجارت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں".حضور کے اس ارشاد پر 40 خدام کھڑے ہوئے.فرمایا:.فرمایا:- جو خدام صنعت و حرفت کا کام کرتے ہیں وہ کھڑے ہو جائیں".حضور کے اس ارشاد پر 49 خدام کھڑے ہوئے.اس کے بعد حضور نے "وہ ذریعہ جو میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں یہ ہے کہ تم ارادہ اور عزم کر لو کہ تم میں سے ہر ایک نے اس سال کسی ایک شخص کو تجارت پر لگانا ہے.چاہے وہ تمہارے رشتہ داروں میں سے ہو یا کوئی غیر ہو.اسی طرح پر صناع یہ عہد کرے کہ اس نے اس سال کسی نہ کسی شخص کو اپنا کام سکھانا ہے.ایک سال میں وہ شخص ماہر کاریگر تو نہیں بن سکتا لیکن اگر وہ
انوار العلوم جلد 23 550 مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع 1953ء کے موقع پر...کام میں لگ جائے گا تو اگلے سال مہارت حاصل کر لے گا.لوہار کسی ایک شخص کو لوہارے کا کام سکھا دے، معمار کسی ایک شخص کو معماری کا کام سکھا دے، ترکھان کسی شخص کو تر کھانے کا کام سکھادے، موچی کسی ایک شخص کو موچی کا کام سکھا دے.اسی طرح دوسرے لوگ اپنے اپنے فن ایک ایک شخص کو سکھا دیں.مرکزی ادارہ کو چاہئے کہ وہ ان خدام کے نام لکھ لے.اگلے سال ان سے پوچھا جائے گا کہ انہوں نے اس ہدایت پر کس حد تک عمل کیا ہے.اگر تم اس کام کو شروع کر دو تو دو چار سال میں تم دیکھو گے کہ اس طریق پر عمل کر کے تم مذہب ، ملک اور قوم کے لئے نہایت مفید ثابت ہو سکو گے.مگر یاد رکھو تم یہ سوچنے میں نہ لگ جانا کہ جس کو کام پر لگایا جائے وہ تمہارا رشتہ دار ہی ہو.چاہے وہ غیر ہی ہو تم نے بہر حال اسے کام سکھانا ہے.دوسرے یہ بھی یاد رکھو کہ بعد میں کسی صلہ کی اُمید نہ رکھنا.احسان کرنے کے بعد اس کے صلہ کی اُمید رکھنا قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم احسان کر کے بدلہ کی اُمید نہ رکھو.تمہارا ایسی اُمید کرنا تمہارے اس کام کو باطل کر دے گا.تم یہ نیت کر کے کام سکھاؤ کہ تم اس کے بدلہ کی کسی انسان سے خواہش نہیں رکھتے ".(الفضل18اکتوبر 1961ء)
انوار العلوم جلد 23 551 مسئلہء خلافت از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی مسئلہ خلافت
انوار العلوم جلد 23 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 553 مسئلہ خلافت نَحْمَدُهُ وَنَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ مسئلء خلافت (فرمودہ 25 اکتوبر 1953ء بر موقع سالانہ اجتماع خدام الاحمد یہ بمقام ربوہ) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- میں کل تھوڑی دیر ہی بولا تھا لیکن گھر جاتے ہی میری طبیعت خراب ہو گئی اور سارا دن پسینے آتے رہے.آج بھی گلے میں تکلیف ہے، کھانسی آرہی ہے، بخار ہے اور جسم ٹوٹ رہا ہے جس کی وجہ سے میں شاید کل جتنا بھی نہ بول سکوں لیکن چونکہ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کا یہ آخری اجلاس ہے اس لئے چند منٹ کے لئے یہاں آگیا ہوں.چند منٹ بات کر کے میں چلا جاؤں گا اور اس کے بعد باقی پر وگرام جاری رہے گا.انسان دُنیا میں پیدا بھی ہوتے ہیں اور مرتے بھی ہیں کوئی انسان ایسا نہیں ہوا جو ہمیشہ زندہ رہا ہو لیکن قومیں اگر چاہیں تو وہ ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہیں.یہی اُمید دلانے کے لئے حضرت مسیح علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ :- میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسر امد دگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے “.1 اس میں حضرت مسیح علیہ السلام نے لوگوں کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلائی تھی کہ چونکہ ہر انسان کے لئے موت مقدر ہے اس لئے میں بھی تم سے ایک دن جدا ہو جاؤں گا لیکن اگر تم چاہو تو تم ابد تک زندہ رہ سکتے ہو.انسان اگر چاہے تو وہ زندہ نہیں رہ سکتا لیکن قو میں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں اور اگر وہ زندہ نہ رہنا چاہیں تو مر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی فرمایا کہ:- تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور
554 مسئلہ خلافت انوار العلوم جلد 23 اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت منقطع نہیں ہو گا اور وہ دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی".2 اس جگہ ہمیشہ کے یہی معنے ہیں کہ جب تک تم چاہو گے تم زندہ رہ سکو گے لیکن اگر تم سارے مل کر بھی چاہتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زندہ رہتے تو زندہ نہیں رہ سکتے تھے ہاں اگر تم یہ چاہو کہ قدرت ثانیہ تم میں زندہ رہے تو زندہ رہ سکتی ہے.قدرت ثانیہ کے دو مظاہر ہیں.اول تائید الہی اور دوم خلافت.اگر قوم چاہے اور اپنے آپ کو مستحق بنائے تو تائید الہی بھی اس کے شامل حال رہ سکتی ہے اور خلافت بھی اس میں زندہ رہ سکتی ہے.خرابیاں ہمیشہ ذہنیت کے خراب ہونے سے پیدا ہوتی ہیں.ذہنیت درست رہے تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کو چھوڑ دے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یہی فرماتا ہے کہ إِنَّ اللهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ 3 یعنی اللہ تعالیٰ کبھی کسی قوم کے ساتھ اپنے سلوک میں تبدیلی نہیں کرتا جب تک کہ وہ خود اپنے دلوں میں خرابی پیدا نہ کر لے.یہ چیز ایسی ہے جسے ہر شخص سمجھ سکتا ہے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں اس بات کو نہیں سمجھ سکتا.کوئی جاہل سے جاہل انسان بھی ایسا نہیں ہو گا جسے میں یہ بات بتاؤں اور وہ کہے کہ میں اسے نہیں سمجھ سکا.یا اگر ایک دفعہ سمجھانے پر نہ سمجھ سکے تو دوبارہ سمجھانے پر بھی وہ کہے کہ میں نہیں سمجھا لیکن اتنی سادہ سی بات بھی قو میں فراموش کر دیتی ہیں.انسان کا مرنا تو ضروری ہے اگر وہ مر جائے تو اس پر کوئی الزام نہیں آتا لیکن قوم کے لئے مرناضروری نہیں.قومیں اگر چاہیں تو وہ زندہ رہ سکتی ہیں لیکن وہ اپنی ہلاکت کے سامان خود پیدا کر لیتی ہیں.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ صحابہ کو ایک ایسی تعلیم دی تھی جس پر اگر ان کی آئندہ نسلیں عمل کرتیں تو ہمیشہ زندہ رہتیں لیکن قوم نے عمل چھوڑ دیا اور وہ مر گئی.دُنیا یہ شخص
انوار العلوم جلد 23 555 مسئلہ خلافت سوال کرتی ہے اور میرے سامنے بھی یہ سوال کئی دفعہ آیا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے صحابہ کو ایسی اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی تھی جس میں ہر قسم کی سوشل تکالیف اور مشکلات کا علاج تھا اور پھر رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا پھر وہ تعلیم گئی کہاں اور 33 سال ہی میں وہ کیوں ختم ہو گئی ؟ عیسائیوں کے پاس مسلمانوں سے کم درجہ کی خلافت تھی لیکن ان میں اب تک پوپ چلا آرہا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیوں میں پوپ کے باغی بھی ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی اکثریت ایسی ہے جو پوپ کو مانتی ہے اور اُنہوں نے اس نظام سے فائدے بھی اُٹھائے ہیں لیکن مسلمانوں میں 33 سال تک خلافت رہی اور پھر ختم ہو گئی.اسلام کا سوشل نظام 33 سال تک قائم رہا اور پھر ختم ہو گیا.نہ جمہوریت باقی رہی نہ غربا پروری رہی.نہ لوگوں کی تعلیم اور غذا اور لباس اور مکان کی ضروریات کا کوئی احساس رہا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ ساری باتیں کیوں ختم ہو گئیں؟ اس کی یہی وجہ تھی کہ مسلمانوں کی ذہنیت خراب ہو گئی تھی.اگر ان کی ذہنیت درست رہتی تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ یہ نعمت ان کے ہاتھ سے چلی جاتی.پس تم خدا تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرو اور ہمیشہ اپنے آپ کو خلافت سے وابستہ رکھو.اگر تم ایسا کرو گے تو خلافت تم میں ہمیشہ رہے گی.خلافت تمہارے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے دی ہی اِس لئے ہے تا وہ کہہ سکے کہ میں نے اسے تمہارے ہاتھ میں دیا تھا.اگر تم چاہتے تو یہ چیز ہمیشہ تم میں قائم رہتی.اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو اسے الہامی طور پر بھی قائم کر سکتا تھا مگر اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس نے یہ کہا کہ اگر تم لوگ خلافت کو قائم رکھنا چاہو گے تو میں بھی اسے قائم رکھوں گا.گویا اس نے تمہارے منہ سے کہلوانا ہے کہ تم خلافت چاہتے ہو یا نہیں چاہتے.اب اگر تم اپنا منہ بند کر لو یا خلافت کے انتخاب میں اہلیت مد نظر نہ رکھو مثلاً تم ایسے شخص کو خلافت کے لئے منتخب کر لو جو خلافت کے قابل نہیں تو تم یقیناً اس نعمت کو کھو بیٹھو گے.مجھے اس طرف زیادہ تحریک اس وجہ سے ہوئی کہ آج رات دو بجے کے قریب
انوار العلوم جلد 23 556 مسئلہ خلافت میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ پنسل کے لکھے ہوئے کچھ نوٹ ہیں جو کسی مصنف یا مؤرخ کے ہیں اور انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں پنسل بھی Copying یاBlue رنگ کی ہے.نوٹ صاف طور پر نہیں پڑھے جاتے اور جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان نوٹوں میں یہ بحث کی گئی ہے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمان اتنی جلدی کیوں خراب ہو گئے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ کے عظیم الشان احسانات ان پر تھے.اعلیٰ تمدن اور بہترین اقتصادی تعلیم انہیں دی گئی تھی اور رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر عمل کر کے بھی دکھا دیا تھا.پھر بھی وہ گر گئے اور ان کی حالت خراب ہو گئی.یہ نوٹ انگریزی میں لکھے ہوئے ہیں لیکن عجیب بات یہ ہے کہ جو انگریزی لکھی ہوئی تھی وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو نہیں لکھی ہوئی تھی بلکہ دائیں طرف سے بائیں طرف کو لکھی ہوئی تھی.لیکن پھر بھی میں اسے پڑھ رہا تھا گو وہ خراب سی لکھی ہوئی تھی اور الفاظ واضح نہیں تھے.بہر حال کچھ نہ کچھ پڑھ لیتا تھا.اس میں سے ایک فقرہ کے الفاظ قریباً یہ تھے کہ: There were two reasons for it.There temperament becoming (1) Morbid (2) Anarchical.یہ فقرہ بتا رہا ہے کہ مسلمانوں پر کیوں تباہی آئی.اس فقرہ کے یہ معنی ہیں کہ وہ خرابی جو مسلمانوں میں پیدا ہوئی اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کی طبائع میں دو قسم کی خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں.ایک یہ کہ وہ ماربڈ (Morbid) یعنی آن نیچرل (UNNATURAL) اور ناخوشگوار ہو گئے تھے اور دوسرے ان کی ٹنڈ نسیز (Tendancies) انار کیکل (Anarchical) ہو گئی تھیں.میں نے سوچا کہ واقع میں یہ دونوں باتیں صحیح ہیں.مسلمانوں نے یہ تباہی خود اپنے ہاتھوں مول لی تھی.مار بڈ (Morbid) کے لحاظ سے تباہی اس لئے واقع ہوئی کہ جو ترقیات انہیں ملیں وہ اسلام کی خاطر ملی تھیں، رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدولت ملی تھیں، ان کی ذاتی کمائی نہیں تھی.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں پیدا ہوئے اور مکہ والوں کی ایسی حالت تھی کہ لوگوں میں انہیں کوئی
انوار العلوم جلد 23 557 مسئلہ خلافت عزت حاصل نہیں تھی.لوگ صرف مجاور سمجھ کر ادب کیا کرتے تھے اور جب وہ غیر قوموں میں جاتے تھے تو وہ بھی ان کی مجاور یا زیادہ سے زیادہ تاجر سمجھ کر عزت کرتی تھیں.وہ انہیں کوئی حکومت قرار نہیں دیتی تھیں اور پھر ان کی حیثیت اتنی کم سمجھی جاتی تھی کہ دوسری حکومتیں ان سے جبراً ٹیکس وصول کرنا جائز سمجھتی تھیں.جیسے یمن کے بادشاہ نے مکہ پر حملہ کیا جس کا قرآن کریم نے اصحاب الفیل کے نام سے ذکر کیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو تیرہ سال تک آپ مکہ میں رہے.اس عرصہ میں چند سو آدمی آپ پر ایمان لائے.تیرہ سال کے بعد آپ نے ہجرت کی اور ہجرت کے آٹھویں سال سارا عرب ایک نظام کے ماتحت آ گیا اور اس کے بعد اُسے ایک ایسی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی کہ اس سے بڑی بڑی حکومتیں ڈرنے لگیں.اس وقت دنیا حکومت کے لحاظ سے دو بڑے حصوں میں منقسم تھی.اول.رومی سلطنت.دوم.ایرانی سلطنت.رومی سلطنت کے ماتحت مشرقی یورپ ، ترکی ، ایسے سینیا، یونان، مصر، شام اور اناطولیہ تھا اور ایرانی سلطنت کے ماتحت عراق، ایران، رشین ٹری ٹوری (TERRITORY) کے بہت سے علاقے، افغانستان، ہندوستان کے بعض علاقے اور چین کے بعض علاقے تھے.اُس وقت یہی دو بڑی حکومتیں تھیں.ان کے سامنے عرب کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی لیکن ہجرت کے آٹھویں سال بعد سارا عرب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہو گیا.اس کے بعد جب سرحدوں پر عیسائی قبائل نے شرارت کی تو پہلے آپ خود وہاں تشریف لے گئے.اس کی وجہ سے کچھ دیر کے لئے فتنہ ٹل گیا لیکن تھوڑے عرصہ بعد قبائل نے پھر شرارت شروع کی تو آپ نے ان کی سرکوبی کے لئے لشکر بھجوایا.اس لشکر نے بہت سے قبائل کو سرزنش کی اور بہتوں کو معاہدہ سے تابع کیا.پھر آپ کی وفات کے بعد اڑھائی سال کے عرصہ میں سارا عرب اسلامی حکومت کے ماتحت آگیا بلکہ یہ حکومت عرب سے نکل کر دوسرے علاقوں میں بھی پھیلنی شروع ہوئی.فتح مکہ کے پانچ سال کے بعد ایرانی حکومت پر حملہ ہو گیا تھا اور اس کے بعض علاقوں پر قبضہ بھی کر لیا گیا تھا اور چند سالوں میں رومی سلطنت اور دوسری سب
انوار العلوم جلد 23 558 مسئلہ خلافت حکومتیں تباہ ہو گئی تھیں.اتنی بڑی فتح اور اتنے عظیم الشان تغیر کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی.تاریخ میں صرف نپولین کی ایک مثال ملتی ہے لیکن اس کے مقابلہ میں کوئی ایسی طاقت نہیں تھی جو تعداد اور قوت میں اس سے زیادہ ہو.جر منی کا ملک تھا مگر وہ اس وقت 14 چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم تھا.اس طرح اس کی تمام طاقت منتشر تھی.ایک مشہور امریکن پریذیڈنٹ سے کسی نے پوچھا کہ جرمنی کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے ؟ تو اس نے کہا ایک شیر ہے، دو تین لومڑ ہیں اور کچھ چوہے ہیں.شیر سے مراد رشیا تھا.لومڑ سے مراد دوسری حکومتیں اور چوہوں سے مراد جر من تھے.گویا جرمنی اُس وقت ٹکڑے ٹکڑے تھا.روس ایک بڑی طاقت تھی مگر وہ روس کے ساتھ ٹکر ایا اور وہاں سے ناکام واپس لوٹا.اس طرح انگلستان کو بھی فتح نہ کر سکا اور انجام اس کا یہ ہوا کہ وہ قید ہو گیا.پھر دوسرا بڑا شخص ہٹلر آیا بلکہ دو بڑے آدمی دو ملکوں میں ہوئے.ہٹلر اور مسولینی دونوں نے بے شک ترقیات حاصل کیں لیکن دونوں کا انجام شکست ہؤا.مسلمانوں میں سے جس نے یکدم بڑی حکومت حاصل کی وہ تیمور تھا.اس کی بھی یہی حالت تھی.وہ بیشک دُنیا کے کناروں تک گیا لیکن وہ اپنے اس مقصد کو کہ ساری دُنیا فتح رلے پورا نہ کر سکا.مثلاً چین کو تابع کرنا چاہتا تھا لیکن تابع نہ کر سکا اور جب وہ مرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سامنے انسانوں کی ہڈیوں کے ڈھیر ہیں جو مجھے ملامت کر رہے ہیں.پس صرف رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی آدم سے لے کر اب تک ایسے گزرے ہیں جنہوں نے فردِ واحد سے ترقی کی.تھوڑے سے عرصہ میں ہی سارے عرب کو تابع فرمان کر لیا اور آپ کی وفات کے بعد آپ کے ایک خلیفہ نے ایک بہت بڑی حکومت کو توڑ دیا اور باقی علاقے آپ کے دوسرے خلیفہ نے فتح کر لئے.یہ تغیر جو واقع ہوا خدائی تھا کسی انسان کا کام نہیں تھا.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کے بعد حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر مکہ میں پہنچی تو ایک مجلس میں حضرت ابو بکر کے والد ابو قحافہ بھی بیٹھے تھے جب پیغامبر نے کہا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم
انوار العلوم جلد 23 559 مسئلہ خلافت فوت ہو گئے ہیں تو سب لوگوں پر غم کی کیفیت طاری ہو گئی اور سب نے یہی سمجھا کہ اب ملکی حالات کے ماتحت اسلام پراگندہ ہو جائے گا.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اب کیا ہو گا؟ پیغامبر نے کہا آپ کی وفات کے بعد حکومت قائم ہو گئی ہے اور ایک شخص کو خلیفہ بنالیا گیا ہے.انہوں نے دریافت کیا کہ کون خلیفہ مقرر ہوا ہے ؟ پیغامبر نے کہا ابو بکر ابو قحافہ نے حیران ہو کر پوچھا کون ابو بکر ؟ کیونکہ وہ اپنے خاندان کی حیثیت کو سمجھتے تھے اور اس حیثیت کے لحاظ سے وہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ان کے بیٹے کو سارا عرب بادشاہ تسلیم کر لے گا.پیغامبر نے کہا ابو بکر جو فلاں قبیلہ سے ہے.ابو قحافہ نے کہا وہ کس خاندان سے ہے ؟ پیغامبر نے کہا فلاں خاندان سے.اس پر ابو قحافہ نے دوباره دریافت کیا وہ کس کا بیٹا ہے؟ پیغامبر نے کہا ابو قحافہ کا بیٹا.اس پر ابو قحافہ نے دوبارہ کلمہ پڑھا اور کہا.آج مجھے یقین ہو گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کی طرف سے ہی تھے.ابو قحافہ پہلے صرف نام کے طور پر مسلمان تھے لیکن اس واقعہ کے بعد اُنہوں نے سچے دل سے سمجھ لیا کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دعویٰ میں راستباز تھے کیونکہ حضرت ابو بکر کی خاندانی حیثیت ایسی نہ تھی کہ سارے عرب آپ کو مان لیتے.یہ الہی دین تھی مگر بعد میں مسلمانوں کی ذہنیت ایسی بگڑی کہ اُنہوں نے یہ سمجھنا شروع کیا کہ یہ فتوحات ہم نے اپنی طاقت سے حاصل کی ہیں.کسی نے کہنا شروع کیا کہ عرب کی اصل طاقت بنو امیہ ہیں اس لئے خلافت کا حق ان کا ہے، کسی نے کہا بنو ہاشم عرب کی اصل طاقت ہیں، کسی نے کہا بنو مطلب عرب کی اصل طاقت ہیں، کسی نے کہا خلافت کے زیادہ حقدار انصار ہیں جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں جگہ دی.گویا تھوڑے ہی سالوں میں مسلمان مار بڈ (Morbid) ہو گئے اور ان کے دماغ بگڑ گئے.ان میں سے ہر قبیلہ نے یہ کوشش کی کہ وہ خلافت کو بزور حاصل کرلے.نتیجہ یہ ہوا کہ خلافت ختم ہو گئی.پھر مسلمانوں کے بگڑنے کا دوسرا سبب انار کی تھی.اسلام نے سب میں مساوات کی روح پیدا کی تھی لیکن مسلمانوں نے یہ نہ سمجھا کہ مساوات پیدا کرنے کے معنے
انوار العلوم جلد 23 560 مسئلہ خلافت یہ ہیں کہ ایک آرگنائزیشن ہو.اس کے بغیر مساوات قائم نہیں ہو سکتی.اسلام آیا ہی اس لئے تھا کہ وہ ایک آرگنائزیشن اور ڈسپلن قائم کرے مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی تھی کہ یہ ڈسپلن ظالمانہ نہ ہو اور افراد اپنے نفسوں کو دبا کر رکھیں تاکہ قوم جیتے.لیکن چند ہی سالوں میں مسلمانوں میں یہ سوال پیدا ہو نا شروع ہو گیا کہ خزانے ہمارے ہیں اور اگر حکام نے ان کے راستہ میں کوئی روک ڈالی تو انہوں نے انہیں قتل کرنا شروع کر دیا.یہ وہ روح تھی جس نے مسلمانوں کو خراب کیا.انہیں یہ سمجھنا چاہئے تھا کہ یہ حکومت الہیہ ہے اور اسے خدا تعالیٰ نے قائم کیا ہے.اس لئے اسے خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہی رہنے دیا جائے تو بہتر ہے.اللہ تعالیٰ سورہ نور میں فرماتا ہے کہ خلیفے ہم بنائیں گے لیکن مسلمانوں نے یہ سمجھ لیا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں.اور جب اُنہوں نے یہ سمجھا کہ خلیفے ہم نے بنائے ہیں تو خدا تعالیٰ نے کہا اچھا! اگر خلیفے تم نے بنائے ہیں تو اب تم ہی بناؤ.چنانچہ ایک وقت تک تو وہ پہلوں کا مارا ہوا شکار یعنی حضرت ابو بکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ کا مارا ہو ا شکار کھاتے رہے لیکن مرا ہوا شکار ہمیشہ قائم نہیں رہتا.زنده بکرا، زنده بکری، زندہ مرغا اور زندہ مرغیاں تو ہمیں ہمیشہ گوشت اور انڈے کھلائیں گی لیکن ذبح کی ہوئی بکری یا مرغی زیادہ دیر تک نہیں جاسکتی.کچھ وقت کے بعد وہ خراب ہو جائے گی.حضرت ابو بکر، عمر، عثمان ، علی کے زمانہ میں مسلمان تازہ گوشت کھاتے تھے لیکن بے وقوفی سے انہوں نے سمجھ لیا کہ یہ چیز ہماری ہے اس طرح اُنہوں نے اپنی زندگی کی روح کو ختم کر دیا اور مرغیاں اور بکریاں مردہ ہو گئیں.آخر تم ایک ذبح کی ہوئی بکری کو کتنے دن کھالو گے.ایک بکری میں دس بارہ سیر یا پچیس تیس سیر گوشت ہو گا اور آخر وہ ختم ہو جائے گا.پس وہ بکریاں مردہ ہو گئیں اور مسلمانوں نے کھا پی کر انہیں ختم کر دیا.پھر وہی حال ہوا کہ "ہتھ پرانے کھونڑے بسنتے ہوری آئے" وہ ہر جگہ ذلیل ہونے شروع ہوئے.انہیں ماریں پڑیں اور خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نازل ہوا.عیسائیوں نے تو اپنی مُردہ خلافت کو آج تک سنبھالا ہوا ہے لیکن ان بد بختوں نے زندہ خلافت کو اپنے ہاتھوں گاڑ دیا اور یہ محض عارضی خواہشات ، دنیوی ترقیات کی تمنا اور وقتی جوشوں کا
انوار العلوم جلد 23 نتیجہ تھا.561 مسئلہ خلافت خدا تعالیٰ نے جو عدے پہلے مسلمانوں سے کئے تھے وہ وعدے اب بھی ہیں.اس نے جب وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ 4 فرمایا تو الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلحت فرمایا.حضرت ابو بکر سے نہیں فرمایا، حضرت عمرؓ سے نہیں فرمایا، حضرت عثمان سے نہیں فرمایا، حضرت علیؓ سے نہیں فرمایا.پھر اس کا کہیں ذکر نہیں کہ خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ صرف پہلے مسلمانوں سے کیا تھا یا پہلی صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا یا دوسری صدی کے مسلمانوں سے کیا تھا بلکہ یہ وعدہ سارے مسلمانوں سے ہے چاہے وہ آج سے پہلے ہوئے ہوں یا 200 یا 400 سال کے بعد آئیں.وہ جب بھی آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحت کے مصداق ہو جائیں گے ، وہ اپنی نفسانی خواہشات کو مار دیں گے ، وہ اسلام کی ترقی کو اپنا اصل مقصد بنالیں گے ، شخصیات، جماعتوں، پارٹیوں، جتھوں، شہروں اور ملکوں کو بھول جائیں گے تو ان کے لئے خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ قائم رہے گا کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ یہ وعدہ اللہ تعالیٰ نے تمام لوگوں سے چاہے وہ عرب کے ہوں، عراق کے ہوں، شام کے ہوں، مصر کے ہوں، یورپ کے ہوں، ایشیا کے ہوں، امریکہ کے ہوں، جزائر کے ہوں، افریقہ کے ہوں، کیا ہے کہ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ وہ انہیں اس دنیا میں اپنا نائب اور قائمقام مقرر کرے گا.اب اس دُنیا میں شام، عرب اور نائیجیریا، کینیا، ہندوستان، چین اور انڈونیشیا ہی شامل نہیں بلکہ اور ممالک بھی ہیں.پس اس سے مراد دُنیا کے سب ممالک ہیں.گویا وہ موعود خلافت ساری دُنیا کے لئے ہے.فرماتا ہے وہ تمہیں ساری دُنیا میں خلیفہ مقرر کرے گا كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِم اُسی طرح جس طرح اس نے پہلے لوگوں کو خلیفہ مقرر کیا.اس آیت میں پہلے لوگوں کی مشابہت ارض میں نہیں بلکہ استخلاف میں ہے.گویا فرمایا ہم انہیں اُسی طرح خلیفہ مقرر کریں گے جس طرح ہم نے پہلوں کو خلیفہ مقرر کیا اور پھر اس قسم کے خلیفے مقرر کریں گے جن کا اثر تمام دنیا پر ہو گا.
انوار العلوم جلد 23 562 مسئلہ خلافت پس اللہ تعالیٰ کے اس وعدہ کو یاد رکھو اور خلافت کے استحکام اور قیام کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہو.تم نوجوان ہو ، تمہارے حوصلے بلند ہونے چاہئیں اور تمہاری عقلیں تیز ہونی چاہئیں تاکہ تم اس کشتی کو ڈوبنے اور غرق نہ ہونے دو.تم وہ چٹان نہ بنو جو دریا کے رخ کو پھیر دیتی ہے بلکہ تمہارا یہ کام ہے کہ تم وہ چینل (Channal) بن جاؤ جو پانی کو آسانی سے گزارتی ہے.تم ایک ٹنل ہو جس کا یہ کام ہے کہ وہ فیضانِ الہی جو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ حاصل ہوا ہے تم اسے آگے چلاتے چلے جاؤ.اگر تم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جاؤ گے تو تم ایک ایسی قوم بن جاؤ گے جو کبھی نہیں مرے گی اور اگر تم اس فیضانِ الہی کے رستہ میں روک بن گئے ، اس کے رستے میں پتھر بن کر کھڑے ہو گئے اور تم نے اپنی ذاتی خواہشات کے ماتحت اسے اپنے دوستوں ، رشتہ داروں اور قریبیوں کے لئے مخصوص کرنا چاہا تو یاد رکھو وہ تمہاری قوم کی تباہی کا وقت ہو گا.پھر تمہاری عمر کبھی لمبی نہیں ہو گی اور تم اس طرح مر جاؤ گے جس طرح پہلی قومیں مریں.لیکن قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ قوم کی ترقی کا رستہ بند نہیں.انسان بے شک دُنیا میں ہمیشہ زنده رہ نہیں رہتا لیکن قو میں زندہ رہ سکتی ہیں.پس جو آگے بڑھے گا وہ انعام لے جائے گا اور جو آگے نہیں بڑھتا وہ اپنی موت آپ مرتا ہے اور جو شخص خود کشی کرتا ہے اسے کوئی دوسرا بچا نہیں سکتا.“ روزنامه الفضل ربوہ خلافت نمبر مئی 1961ء) 1: یوحنا باب 14 آیت 16.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور 1943ء 2 رسالہ الوصیت صفحہ 7.روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 305 3 الرعد: 12 4: النور : 56
انوار العلوم جلد 23 563 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 565 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل ماٹو تجویز کرو (فرموده 7 نومبر 1953ء) 7 نومبر 1953ء کو لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے ہال میں جامعہ نصرت کا سالانہ جلسہ تقسیم انعامات و اسناد منعقد ہوا.جس میں تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- وو یہ ہال عورتوں کا اپنا بنایا ہوا ہے اور میرا خیال ہے کہ سارے پاکستان میں عورتوں کا اتنا بڑا ہال اور کوئی نہیں.بیشک بعض ہال ایسے ہیں جو عورتوں کے لئے بھی استعمال ہوتے ہیں مثلاً وائی.ایم.سی.اے ہال لاہور لیکن یہ ہال اُس سے بھی بڑا ہے.بہر حال عورتوں کے جو پاکستان میں ہال ہیں یہ ہال ان سب سے بڑا ہے اور یہ خوشی کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہماری جماعت کی عورتوں کو ہر رنگ میں ترقی کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.مسلمانوں کی روایات اسلام کی تعلیم پر اگر غور کیا جائے تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے اس امر پر خصوصیت سے زور دیا ہے کہ جو اچھی بات ہے وہ لے لو اور جو بُری ہے اُسے چھوڑ دو یعنی ہر ایسی چیز جو تمہارے سامنے آئے اُسے تم محض اس تعصب کی وجہ سے کہ وہ چیز تمہاری نہیں کسی اور کی ہے اُسے بالکل نہ چھوڑ دیا کرو بلکہ تم یہ دیکھا کرو کہ اس کا کونسا حصہ اچھا ہے اور کونسا حصہ بُرا ہے.پھر اچھے حصّے کو لے لیا کرو اور بُرے حصے کو چھوڑ دیا کرو.اس قسم کی تقریبات بھی یا تو مسلمانوں نے جاری ہی نہیں کیں اور یا اگر جاری کی ہیں تو محض
انوار العلوم جلد 23 566 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو دوسرے لوگوں کی نقل کرتے ہوئے جاری کی ہیں.اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ گزرا ہے (اور وہ زمانہ چھوٹا نہیں بلکہ صدیوں کا ہے) کہ انہوں نے اپنے ماضی کے واقعات کو یاد نہ رکھا.اُنہوں نے یہ یادنہ رکھا کہ وہ کن باپ دادا کی اولاد ہیں اور پھر ان باپ دادوں کے کیا اطوار تھے.وہ بالکل وحشیوں اور جانوروں کی طرح ہو گئے جو اپنے آپ کو کسی ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت نہیں سمجھتے.چنانچہ دیکھ لو جانوروں کا کوئی ماضی نہیں ہو تا انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ اُن کا باپ کون تھا، اُن کا دادا کون تھا، اُن کا پڑدادا کون تھا لیکن انسان اپنے باپ دادوں کا نام یاد رکھتا ہے.مگر مسلمانوں پر ایک ایسا زمانہ آیا جب وہ اپنے ماضی کو بھول چکے تھے اور وہ اُن جانوروں کی طرح ہو گئے تھے جو اپنے آپ کو کسی ماضی کے ساتھ وابستہ رکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے اور یا پھر وہ غیر لوگوں کے نقال ہو گئے اور اُنہوں نے اپنے ماضی کی تاریخ کو حقیر سمجھ کر چھوڑ دیا.انہیں جو کچھ حصہ ماضی کی تاریخ کا ملتا تھا انہوں نے اُسے بھی نظر انداز کر دیا اور سمجھ لیا کہ ہمیں اپنی سابقہ روایات پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں.نتیجہ یہ ہوا کہ اُن میں انتشار پیدا ہو گیا.جیسے دریا میں بہت سی کشتیوں کو آپس میں رشوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تو اُن پر بچے بھی چلتے ہیں، جو ان بھی چلتے ہیں، مرد بھی چلتے ہیں اور عور تیں بھی چلتی ہیں، گائے، بیل، اونٹ، گھوڑے اور بکریاں بھی چلتی ہیں لیکن جب کسی جگہ کشتیوں کے رستے ٹوٹ جاتے ہیں اُن کے بندھن کھل جاتے ہیں تو پھر کوئی کشتی کسی طرف چلی جاتی ہے اور کوئی کسی طرف.ایسی کشتیوں سے کوئی ملک یا کوئی قوم فائدہ نہیں اُٹھا سکتی کیونکہ بندھن ٹوٹ جانے کے بعد کشتیوں میں فاصلہ ہو جاتا ہے اور ہر ایک کی جہت بدل جاتی ہے.یہی حال قوموں کا ہے جو قومیں اپنی روایات کو قائم رکھتی ہیں اور اپنے ماضی کو بھلا نہیں دیتیں اُن کی مثال اُن کشتیوں کی سی ہوتی ہے جنہیں درمیان سے باندھ دیا جاتا ہے اور وہ دریا پر ایک پل بنا دیتی ہیں اس طرح لوگ اُن سے بہت کچھ فائدہ اُٹھا لیتے ہیں.اور جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں اور اپنی سابقہ روایات کو ترک کر دیتی ہیں اُن کی مثال ان کشتیوں کی سی ہوتی ہے
انوار العلوم جلد 23 567 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو جن کے درمیان کوئی بندھن نہیں ہوتا اور نہ اُن پر ملاح سوار ہوتے ہیں بلکہ وہ پانی کی رو کے ساتھ بہتی چلی جاتی ہیں.ایسی کشتیوں سے کوئی انسان، کوئی قوم اور کوئی ملک فائدہ نہیں اُٹھا سکتا.پس سابقہ روایات یا باپ دادوں کی حکایات اور اُن کا طور و طریق راہ نمائی کے لئے نہایت ضروری ہیں لیکن بد قسمتی سے مسلمانوں نے اُسے نظر انداز کر دیا جس کی وجہ سے اگر آج ہم اپنے باپ دادوں کا طور و طریق اور اُن کی عادات اور روایات معلوم کرنا چاہیں تو ہمارے لئے مشکل پیش آجاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ صحابہ سے نیچے اتر کر ہم اپنے باپ دادا کے حالات کو نہیں جانتے.حالانکہ ملک کے مختلف حالات جو کسی متمدن قوم پر گزرتے ہیں وہ مسلمانوں کے درمیانی عرصہ میں گزرے صحابہ پر نہیں گزرے.صحابه چند غریب اور سادہ طبع لوگ تھے.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو وہ آپ پر ایمان لے آئے اور پھر اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسلام کو پھیلاتے رہے.صحابہ کے وقت نہ تو متمدن حکومتیں تھیں، نہ اُن کے وقت میں وہ دفاتر تھے جن کی متمدن حکومتوں کو ضرورت ہوتی ہے.نہ اُن کے زمانہ میں کوئی تمدنی ترقی ہوئی یعنی نہ اُن کے زمانہ میں سڑکیں بنائی گئیں، نہ نہریں کھودی گئیں، نہ پل بنائے گئے.اس کے لئے انہیں فرصت ہی نہیں تھی.بنو امیہ کے زمانہ میں مسلمانوں کو اس قسم کے کاموں کے لئے فرصت ملی اور اُنہوں نے بہت سا کام بھی کیا لیکن افسوس کہ اس زمانہ کے تمدنی حالات محفوظ نہیں جس کی وجہ سے ہم اپنے شاندار ماضی سے کٹ گئے ہیں لیکن پھر بھی جو کچھ ہمارے پاس موجود ہے ہمارا فرض ہے کہ ہم اُسے قائم رکھیں اور اس کے ساتھ رشته و تعلق قائم کریں تاکہ ہماری مثال ایک پل کی سی ہو جائے نہ کہ اُن کشتیوں کی سی جو کسی رسہ سے بندھی ہوئی نہ ہوں اور پانی کی رو کے ساتھ ساتھ بہتی چلی جارہی ہوں کیونکہ اُن کا کوئی مصرف نہیں ہو تا.میں بتارہا تھا کہ مسلمانوں میں اس قسم کی تقریبات نہیں تھیں یا موجود تھیں تو اُنہوں نے ان سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا لیکن یوروپین لوگوں میں ان تقریبات کا رواج ہے
انوار العلوم جلد 23 568 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو اور اُنہوں نے اُن سے بہت فوائد اُٹھائے ہیں.یوروپین قومیں ایسی تقریبات مناتی ہیں اور ایسے مواقع پر سٹوڈنٹس کے علاوہ ماں باپ یا سٹوڈنٹس کے دوسرے قریبی رشتہ داروں کو بھی بلا لیتی ہیں.ان میں چونکہ پردہ کا رواج نہیں اس لئے اس قسم کی تقریبات پر سٹوڈنٹس کی مائیں بھی آجاتی ہیں اور اُن کے باپ بھی آجاتے ہیں.ہمارے ہاں پردہ کا رواج ہے اس لئے یہاں خُذْ مَا صَفَا وَدَعْ مَا كَدِرَ کے ماتحت لڑکیوں کے ادارے ماؤں کو بلا لیں اور لڑکوں کے ادارے باپوں کو بلا لیں.اسی طرح ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں کو اپنے بچوں اور عزیزوں کی سکول کی دیواروں کے پیچھے کی زندگی کا علم ہو جاتا ہے.ہمارے ملک میں چونکہ ایسا کوئی فنکشن (Function) نہیں ہوتا جس کی وجہ سے ماں باپ یا دوسرے رشتہ داروں کو اپنے بچوں اور عزیزوں کی سکول لائف دیکھنے کا موقع مل سکے.اس لئے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دس پندرہ سال تک اپنے بچوں کی سکول لائف سے اس طرح غافل رہتے ہیں جیسے کوئی مرد ایک پردہ دار عورت کی زندگی سے ناواقف ہوتا ہے.اس طرح باپ بیٹے کے درمیان جو اصلاح کا باہمی تعلق ہے وہ کٹ جاتا ہے.اسی طرح لڑکیوں کی تعلیم سے ماؤں کو اتنی ناواقفیت ہوتی ہے جتنی انہیں ایک غیر ملک کی عورت سے ہوتی ہے باوجود اس کے کہ سکول ان کے پاس ہوتا ہے اور باوجود اس کے کہ سکول عورتوں کا ہوتا ہے جس میں وہ بآسانی جاسکتی ہیں.انہیں یہ علم نہیں ہوتا کہ ان کی لڑکیوں کی تعلیم کیا ہے، ان کے کیا حالات ہیں، انہیں کس طرح پڑھایا جاتا ہے.اس مغائرت کو دُور کرنے کے لئے یوروپین قوموں نے بعض تقریبات مقرر کر رکھی ہیں وہ سال میں ایک یا دو دفعہ ماؤں کو سکول یا کالج میں بلا لیتی ہیں اور مائیں اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہیں کہ اُن کی لڑکیاں پڑھ رہی ہیں، کھانا پکارہی ہیں.یا مثلاً ایسے موقع پر کسی لڑکی نے انعام حاصل کیا ہو تو ماؤں کو اس طرح توجہ پیدا ہو جاتی ہے کہ اُن کی لڑکی بھی محنت کرے اور انعام حاصل کرے.یا وہ دیکھتی ہیں کہ سکول یا کالج کی لڑکیاں مہذب اور شائستہ ہیں اور ان کی لڑکی اکھڑ مزاج ہے ، اس کا طور و طریق ان کا سا نہیں تو وہ ادارے سے تعاون کر کے اپنی لڑکی کی اصلاح
انوار العلوم جلد 23 کی کوشش کرتی ہیں.569 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل ماٹو تجویز کرو پس ایک تو اس تقریب اپنی ماؤں کو بھی اس تقریب میں لاؤ کو اس بات کا ذریعہ بناؤ کہ لڑکیوں کی ماؤں اور ان کی دوسری بزرگ عورتوں کو ان تقریبات میں بلاؤ تا کہ وہ اپنی لڑکیوں کی سکول لائف سے واقف ہوں اور تا وہ تمہارے ادارہ سے تعاون کرتے ہوئے اپنی لڑکیوں کی مناسب اصلاح کر سکیں.مجھ پر یہ اثر ہے کہ اس وقت غالباً کالج کی لڑکیوں کے علاوہ سکول کی لڑکیوں کو بلا لیا گیا ہے یا ان کے علاوہ بعض ان لحاظ والی عور توں کو بلالیا گیا ہے جن کا بلانا مناسب سمجھا گیا ہے.حالانکہ چاہئے تھا کہ لڑکیوں کی ماؤں یا بڑی عورتوں کو اِس موقع پر خصوصیت سے دعوت دی جاتی کہ وہ یہاں آئیں اور اس تقریب میں شامل ہو کر اپنی لڑکیوں کی تعلیم و تربیت ، اُن کے کام اور طور و طریق کو خود دیکھیں اور معلوم کریں کہ کیا اُن کی لڑکیاں تعلیمی لحاظ سے ترقی کر رہی ہیں؟ دوسرا فائدہ اس کا یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح لڑکیوں کے رشتہ داروں کو سکول یا کالج سے محبت ہو جاتی ہے.تیسرے جب انہیں اپنی لڑکیوں کی تعلیمی زندگی سے واقفیت ہو جاتی ہے تو اُن میں غیریت اور اجنبیت کا احساس باقی نہیں رہتا اور باوجود اس کے کہ اُن کی لڑکیاں سکول کی دیواروں کے پیچھے ہوتی ہیں وہ انہیں ان دیواروں کے پیچھے سے بھی نظر آتی رہتی ہیں.اس تمہید کے بعد میں کالج کی منتظمات اور طالبات کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ جیسا کہ میں نے ابھی بتایا ہے ٹریڈیشنز (Traditions) نہایت ضروری چیز ہیں.ٹریڈیشنز یعنی روایات سابقہ انسان کے مستقبل کے بنانے میں بڑی ممد ہوتی ہیں اور اس کے ذریعہ انسان کی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے.دُنیا کے تمام انسان ایک شخص یعنی آدم کی نسل سے پیدا ہوئے ہیں اور سائنس کی تھیوری کو لے لیا جائے تب بھی تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ تمام قبائل اور قومیں کسی نہ کسی کی نسل سے چلی ہیں.پس ساری دُنیانہ سہی تم قبائل اور قوموں کو ہی لے لو، اُن پر نظر دوڑانے سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 570 اپنی روایات زندور کھو اور مستقل مائو تجویز کرو بعض قبیلے بہادر ہوتے ہیں اور بعض بُزدل ہوتے ہیں.اب سوال یہ ہے کہ کوئی بہادر اور کوئی بُزدل کیوں ہوتا ہے مثلاً قوموں میں سے بنگالیوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لڑائی کے قابل نہیں، کشمیریوں کے متعلق مشہور ہے کہ وہ لڑائی کے قابل نہیں.حالانکہ وہ بھی آدم کی نسل سے ہیں.بنگالی اور کشمیری بھی اُسی آدم کی اولاد ہیں جس طرح دوسری قومیں پٹھان، راجپوت اور مغل وغیرہ.کشمیری اور پٹھان تو ایک ہی نسل سے ہیں لیکن ایک نسل کی دو شاخوں میں سے ایک شاخ یعنی پٹھان بہادر ہوتے ہیں اور ایک شاخ یعنی کشمیری بُزدل ہوتے ہیں.بنگال میں بھی بعض ایسے قبائل ہیں جو لڑائی کے لحاظ سے اچھے ہیں.اب اگر ایک نسل کو بھی لیا جائے تب بھی یہ ماننا پڑے گا کہ بنگالیوں میں سے بعض لوگ بُزدل ہوتے ہیں اور بعض بہادر ہوتے ہیں.پس تم ان چیزوں سے یہ نتیجہ نکال سکتی ہو کہ اخلاق قوموں میں بدلتے رہتے ہیں.اخلاق صرف نسل کے ساتھ نہیں چلتے جاتے بلکہ بعض اور ذرائع بھی ہوتے ہیں جن سے اخلاق ترقی کرتے ہیں.اگر اخلاق نسل سے چلتے تو اس نسل کے سارے حصوں میں ایک ہی خُلق ہو تا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک حصے میں کوئی خُلق ہوتا ہے اور دوسرے حصہ میں کوئی خُلق ہوتا ہے.اس سے پتہ لگتا ہے کہ نسل کے علاوہ اور بھی بعض فیکٹر ز، موجبات اور ذرائع ایسے ہیں جو اخلاق پیدا کرتے ہیں.وہ فیکٹر ز ، موجبات اور ذرائع کیا ہیں؟ ان میں سے ایک موجب اور ایک فیکٹر صحبت ہے.جس قسم کی صحبت میں انسان رہتا ہے اُسی قسم کے اخلاق کو وہ قبول کر لیتا ہے.پھر ایک فیکٹر اور موجب تعلیم ہوتی ہے جیسی تعلیم کسی کو دی جاتی ہے اسی قسم کے اخلاق کو وہ قبول کر لیتا ہے.پھر ایک بڑا فیکٹر اور موجب اخلاق کا روایت ہوتی ہے جسے انگریز ٹریڈیشنز (Traditions) کہتے ہیں یعنی ماضی کی روایات کہ فلاں کا باپ ایسا تھا، دادا ایسا تھا، پڑدادا ایسا تھا.جب یہ باتیں کسی کے ذہن میں ڈالی جاتی ہیں تو انسان آہستہ آہستہ اُن کو اپنا لیتا ہے اور وہ اس کی طبیعت کا ایک مجزو بن جاتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ مذہب کا کنٹرول اور قبضہ نسل کی نسبت لوگوں پر زیادہ ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نسل کے لئے ضروری نہیں کہ وہ کسی بڑے آدمی
انوار العلوم جلد 23 571 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو ے چلے.ممکن ہے کہ کوئی نسل اور خاندان کسی ایسے فرد سے چلا ہو جو اچھے کیریکٹر کا مالک نہ ہو اور تم اس کے حالات کو سامنے رکھ کر کوئی اچھا نتیجہ اخذ نہ کر سکتی ہو.لیکن جب بھی چلے گا کسی بڑے آدمی سے چلے گا.خاندان اور نسل کسی چھوٹے اور ذلیل انسان سے بھی چل پڑتی ہے.ایک بُزدل آدمی کے بھی 12 بچے ہو سکتے ہیں اور پھر ان 12 بچوں میں سے بھی ہر ایک کے 12 ،12 بچے ہو سکتے ہیں اور پھر ان کے آگے بچے وسکتے ہیں اور جب سو سال میں وہ دس بیس ہزار افراد تک جا پہنچتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک الگ قوم سمجھنے لگ جاتے ہیں.جب دس پندرہ ، ہیں یا پچاس افراد ہوتے ہیں اور انہیں ایک دوسرے کی شناخت ہوتی ہے تو وہ ایک خاندان کہلانے لگ جاتا ہے اور جب جانے بوجھے لوگوں کی تعداد سینکڑوں تک جا پہنچتی ہے تو وہ قبیلہ بن جاتا ہے اور جب اُن کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے تو وہ ایک قوم بن جاتی ہے.پس قوم کسی خاص چیز کا نام نہیں.قوم محض نام ہے آپس میں تعلق رکھنے والے اور ایک دوسرے کو شناخت کرنے والے لوگوں کے گروہ کا.جب جانے بوجھے لوگوں کی تعداد ہزاروں تک جا پہنچتی ہے تو وہ اپنے آپ کو ایک الگ قوم شمار کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنا ایک نام رکھ دیتے ہیں.جب اس نام کی قوم کا آدمی دوسرے کو چلتا پھر تامل جاتا ہے تو وہ اس سے چمٹ جاتا ہے کہ اچھا آپ بھی فلاں قوم میں سے ہیں! میں بھی اسی قوم میں سے ہوں.مثلاً ایک پٹھان کو کوئی اور پٹھان مل جائے تو وہ کہے گا اچھا آپ پٹھان ہیں! میں بھی پٹھان ہوں.یہی دوسری قوموں کا حال ہے.غرض اسی طرح لوگ اکٹھے ہوتے جاتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک الگ قوم کہنا شروع کر دیتے ہیں.پس ضروری نہیں کہ کسی قوم کی ابتداء کسی بڑے آدمی سے ہوئی ہو.مسلمانوں اور ہندوؤں کی بعض قومیں ایسی دیکھی گئی ہیں جو ابتداء میں بعض معمولی آدمیوں سے چلی ہیں بلکہ بعض قو میں ڈاکوؤں سے چلی ہیں.سرگودھا اور جھنگ کے ضلعوں کے بعض قبیلے ایسے ہیں کہ اگر اُن کے ناموں کی تحقیق کی جائے تو پتہ لگتا ہے کہ کسی وقت ان کا مورث اعلیٰ ڈاکو تھا.اب اگر کسی ڈاکو کی اولاد سینکڑوں یا ہزاروں تک
انوار العلوم جلد 23 572 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو جائے اور وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں تو گو انہیں ایک قوم کہا جائے گا لیکن ایسی قوم کی کوئی ٹریڈیشن یا روایت نہیں ہوتی کہ آئندہ آنے والے ان پر فخر کریں.ا.بات کہ فلاں قوم کا مورث اعلیٰ ڈاکو تھا، اس نے فلاں کی گردن کاٹ لی تھی، فلاں کو اس نے لُوٹ لیا تھا، یہ ایسی بات نہیں جن پر اخلاق کی بنیاد رکھی جائے.لیکن مذہب ہمیشہ اچھوں سے چلتا ہے.اس کے معنے یہ ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے آدمی ڈاکہ مارنے والے، فریب کرنے والے ، ظلم کرنے والے، دوسروں کے اموال کھانے والے اور دغا باز نہیں ہوتے.وہ عدل و انصاف اور سچائی کو پھیلانے والے ہوتے ہیں.پس جہاں مذہب کے اور فوائد بھی ہیں وہاں ایک مذہب کا ایک فائدہ فائدہ یہ بھی ہے کہ اُس کی طرف منسوب ہونے والا بجائے اپنے باپ دادوں سے ٹریڈیشن لینے کے مذہب سے ٹریڈیشن لے لیتا ہے کیونکہ اس کے باپ دادوں کی روایات ایسی نہیں ہوتیں کہ وہ اچھے اخلاق پیدا کرنے کا موجب ہو سکیں.اس بارہ میں مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل جب گھوڑے سے گرے تو آپ کی صحت کو سخت دھکا لگا اور آپ بیہوش ہو گئے.لوگوں کو پتہ لگا تو وہ آپ کی خبر لینے آجاتے اور پھر سوال بھی کرتے.بیہوشی میں اس قسم کے سوالات کرنے مُضر ہوتے ہیں اس لئے ڈاکٹروں نے منع کیا ہوا تھا کہ آپ کے کمرہ میں کوئی نہ جائے.چنانچہ میں نے آپ کے کمرہ کے دروازے بند کر دیئے اور نیک محمد خاں صاحب افغان کو مقرر کیا کہ وہ کسی کو اندر نہ جانے دیں.نیک محمد خاں احمدیت میں نئے نئے آئے تھے اور افغانستان کے اچھے شریف خاندان میں سے تھے.اُن کا باپ ایک صوبہ کا گورنر تھا.جب احمدیت قبول کر لینے کی وجہ سے اُن کی مخالفت شدت اختیار کر گئی اور حالات بگڑ گئے تو وہ قادیان آگئے.اُس وقت اُن کی عمر 17،16 سال کی تھی.اس کے بعد وہ قادیان میں ہی رہے.نیک محمد خاں صاحب بہت نچست اور ہو شیار تھے.اس لئے میں نے انہیں پہرہ پر مقرر کیا اور ہدایت کی کہ وہ کسی شخص کو اندر نہ جانے دیں اور انہیں خاص طور پر بتایا کہ دیکھو بعض دفعہ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے کوئی بڑا آدمی آجاتا ہے تو خیال آتا ہے کہ
انوار العلوم جلد 23 573 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو شاید وہ حکم اس کے لئے نہ ہو.اس لئے یاد رکھو کہ کوئی چھوٹا ہو یا بڑا سوائے ڈاکٹروں اور ہم لوگوں کے جو خدمت پر مامور ہیں تم کسی شخص کو اندر نہ جانے دو.وہ کہنے لگے بہت اچھا.شام کے وقت میں آیا تو دیکھا کہ بعض لوگ چہ میگوئیاں کر رہے ہیں.نیک محمد خاں نوجوان تھے.سولہ سترہ سال کی عمر میں قادیان آئے تھے اور ایک شریف خاندان سے تھے.اُن کا باپ ایک معزز آدمی تھا.اس وجہ سے اُن کے پٹھان ہونے میں کوئی شبہ نہیں تھا لیکن ایک اور قسم کے پٹھان بھی ہمارے ملک میں ہوتے ہیں جن کے باپ دادے چار پانچ سو سال ہوئے اس ملک میں آئے وہ بھی اپنے آپ کو پٹھان کہتے ہیں لیکن چونکہ ایک لمبا عرصہ گزر جاتا ہے اس لئے یہ پتہ لگانا ذرا مشکل ہوتا ہے کہ وہ در حقیقت کون ہیں.ممکن ہے وہ پٹھان ہوں یا ممکن ہے کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں اور پٹھانوں کے ساتھ رہنے کی وجہ سے پٹھان کہلانے لگ گئے ہوں لیکن کہتے وہ یہی ہیں کہ وہ پٹھان ہیں.ہماری جماعت کے ایک دوست اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی ہوا کرتے تھے.اُن کی قوم بھی پٹھان کہلاتی تھی.اُن کے باپ دادا کئی سو سال ہوئے ہندوستان میں آئے تھے لیکن انہیں اپنے پٹھان ہونے پر بہت فخر تھا.وہ بھی حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی تیمار داری کے لئے آئے.معلوم نہیں اُن کے دل میں حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل کی کتنی محبت تھی لیکن ظاہر وہ یہی کیا کرتے تھے کہ انہیں آپ سے بہت بڑی عقیدت ہے.جب اُنہوں نے سنا کہ حضور گھوڑے سے گر پڑے ہیں اور بیہوش ہو گئے ہیں تو وہ گھبر اگر آئے اور اُنہوں نے اندر جانا چاہا.دروازہ پر نیک محمد خاں صاحب کھڑے تھے اُنہوں نے اندر جانے سے روکا.بعض لوگوں کو اپنی قومیت پر حد سے زیادہ غرور ہوتا ہے.اکبر شاہ خان صاحب نجیب آبادی کو بھی اپنی قومیت پر فخر تھا.حالانکہ اُن کے باپ دادا کئی سو سال ہوئے ہندوستان آئے تھے.اُنہوں نے کہا مطلب؟ نیک محمد خاں صاحب نے کہا.اندر جانا منع ہے.اُنہوں نے کہا.میں نہیں جانتا کس نے اندر جانا منع کیا ہے.میں ضرور جاؤں گا.چنانچہ وہ پھر آگے بڑھے.اس پر نیک محمد خاں صاحب نے انہیں دھکا دے دیا.
انوار العلوم جلد 23 574 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی کو غصہ آیا اور اُنہوں نے کہا تم نہیں جانتے میں کون ہوں؟ میں پٹھان ہوں.گویا وہ چار پانچ سو سال کی پٹھانی کا رُعب ایک نئے آئے ہوئے پٹھان پر ڈالنے لگے.نیک محمد خاں صاحب نئے نئے احمدیت میں آئے تھے اور احمدیت کی وجہ سے اُنہوں نے دُکھ اور تکالیف برداشت کی تھیں اس لئے اُن کا جوش تازہ تھا.جس وقت اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی نے کہا کہ تمہیں پتہ ہے میں کون ہوں ؟ میں پٹھان ہوں.تو نیک محمد خاں صاحب نے کہا تمہیں پتہ نہیں میں کون ہوں؟ میں احمدی ہوں.اب دیکھ لو جس کی پٹھانیت مشتبہ تھی وہ تو یہ کہتا ہے کہ میں پٹھان ہوں لیکن جس کی پٹھانی میں کوئی شبہ نہیں تھا وہ کہتا ہے میں احمدی ہوں.حالانکہ ممکن ہے کہ اکبر شاہ خاں صاحب کسی اور قوم سے ہوں لیکن پٹھانوں میں رہنے کی وجہ سے پیٹھان کہلانے لگ گئے ہوں.جیسے ایک میراثی کا لطیفہ مشہور ہے.جب یہاں انگریزوں کی حکومت تھی تو بعض قوموں کو زمین خریدنے کی اجازت نہ تھی اور بعض کو خریدنے کی اجازت تھی.بعض علاقوں میں سید زمین خرید سکتے تھے اور بعض علاقوں میں وہ زمین نہیں خرید سکتے تھے.بعض علاقوں میں انہیں زمیندار سمجھا جاتا تھا اور زمین خریدنے کی انہیں اجازت تھی لیکن بعض علاقوں میں انہیں غیر زمیندار سمجھا جاتا تھا اس لئے وہ وہاں زمین نہیں خرید سکتے تھے.میراثیوں کا ایک خاندان تھا جس کے بڑے بڑے افسروں سے تعلقات تھے.اُنہوں نے روپیہ جمع کرنا شروع کیا اور ایک وقت ایسا آیا جب وہ بہت مالدار ہو گئے.اب اُنہوں نے خیال کیا کہ یہ اُن کی بے عزتی ہے کہ لوگ انہیں میراثی کہیں.میراثیوں کے نزدیک "میراثی" دراصل میر آئی ہے یعنی اصل میں وہ ہیں تو سید لیکن کسی وقت اُن کے سردار کا کسی گناہ کی وجہ سے بائیکاٹ کر دیا گیا تھا.اس لئے لوگوں نے انہیں میراثی کہنا شروع کر دیا.بہر حال وہ سید بن گئے.روپیہ جمع تھا ہی اس لئے اُنہوں نے زمین خرید لی.جن لوگوں سے اُنہوں نے زمین خریدی تھی اُن کا ہمسایہ ایک زمیندار تھا.وہ مالدار تو نہیں تھا لیکن تھا عقلمند اور حوصلہ والا.اس نے اُن کے خلاف
انوار العلوم جلد 23 575 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو وہ مقدمہ دائر کر دیا اور کہا وارث ہم ہیں یہ لوگ زمین نہیں خرید سکتے اور دلیل یہ دی کہ یہ سید نہیں ہیں میراثی ہیں اور چونکہ یہ سید نہیں اس لئے یہ زمین نہیں خرید سکتے.میراثیوں کا رسُوخ تھا اس لئے اُنہوں نے روپیہ دے کر گواہ پیش کرنے شروع کئے.ان گواہوں میں ایک عورت بھی تھی جو زمیندار تھی لیکن تھی غریب.میراثی اس کے پاس بھی گئے اور کہا تم ایک سو روپیہ لے لو اور یہ گواہی دو کہ ہم واقع میں سید ہیں.اس عورت نے روپیہ تو لے لیا اور بظاہر گواہی کا وعدہ بھی کر لیا لیکن دل میں یہ فیصلہ کیا کہ و اُن کے خلاف گواہی دے گی اور عدالت میں کہے گی کہ یہ لوگ سید نہیں میراثی ہیں.چنانچہ وہ عورت عدالت میں گئی.مجسٹریٹ نے اس سے دریافت کیا تم بتاؤ کیا یہ لوگ فی الواقع سید ہیں؟ اس نے کہا ان لوگوں کے سیّد ہونے میں کوئی شبہ نہیں یہ تو پگے سید ہیں.مجسٹریٹ کو قدرتی طور پر شبہ ہوا کہ اُس نے لگے کا لفظ کیوں استعمال کیا ہے.اُس نے دریافت کیا تمہارے پگے سید کہنے کا کیا مطلب ہے ؟ اس عورت نے کہا باقی لوگ تو چار چار پانچ پانچ سو سال سے اس علاقے میں آئے ہوئے ہیں ان کے متعلق تو صحیح طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سید ہیں یا نہیں لیکن یہ لوگ تو پکے سید ہیں.میں ذاتی طور پر ان کے سیّد ہونے کی گواہ ہوں کیونکہ یہ میراثی تھے اور ہمارے سامنے سٹیڈ بنے ہیں.اس لئے ان کے سید ہونے میں کوئی شبہ نہیں.چنانچہ زمین اُن سے چھین لی گئی.پس اگر روایات محفوظ ہوں تو قبائل اور اقوام کے متعلق تحقیقات کرنے میں آسانی ہوتی ہے.مثلاً ایک یہودی سے پوچھو تو چونکہ اس کی نسل محفوظ ہے اس لئے وہ فوراً یہ کہہ دے گا کہ اتنے سو سال پہلے میرے دادا کا نام ابراہیم (علیہ السلام) تھا لیکن ایک دوسری قوم والے سے پوچھو تو وہ یہ بھی نہیں بتا سکے گا کہ اُن کا پڑدادا کون تھا.غرض کسی قوم کا پرانا ہونا اور اس کی روایات کا محفوظ ہونا افراد کے اندر بہادری اور جرات کی صفات پیدا کر دیتا ہے.مثلاً راجپوت ہیں.راجپوت ایک لڑنے والی قوم ہے.اگر ہوشیار والدین ہوں گے تو وہ اپنے بچے سے ہمیشہ کہتے رہیں گے کہ دیکھو! تمہارے باپ دادا بڑے بہادر تھے، وہ ایسے لڑنے والے تھے ، وہ ایسی قربانی کرنے والے تھے،
انوار العلوم جلد 23 576 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل ماٹو تجویز کرو ان باتوں کا اُس پر اتنا اثر ہو گا کہ جب بھی لڑنے کا موقع آئے گاٹنی ہوئی باتیں اُسے یاد آجائیں گی.وہ جان کی پرواہ نہیں کرے گا اور کہے گا کہ جب میرے ماں باپ نے قربانیاں کی تھیں تو میں کیوں نہ قربانی کروں.گویا ایک آدمی کو قربانی کے وقت اس کے ماں باپ پیچھے سے دھکا نہیں دیتے اور ایک کو چار پانچ سو سال کے باپ دادے جن کی روایات اُسے معلوم ہوتی ہیں قربانی کے وقت اُسے آگے کی طرف دھکا دیتے ہیں.اس لئے وہ قربانی اس کے لئے آسان ہو جاتی ہے اور وہ اُسے کر گزرتا ہے.مغلوں کو دیکھ لو قریباً گیارہ سو سال سے یہ معروف ہیں.اس سے پہلے یہ لوگ منگولیا کے علاقے میں رہتے تھے جو ایک برفانی علاقہ ہے.اس لئے کسی کو یہ علم نہیں کہ اُن کی وہاں کیا شان تھی.تاریخ اس پر بہت کم روشنی ڈالتی ہے.گیارہ سو سال ہوئے یہ لوگ فاتح ہوئے.اب ہوشیار مغل ماں باپ اپنے بچوں پر یہ اثر ڈالتے رہتے ہیں کہ تمہارے باپ دادوں کے یہ کیریکٹر تھے ، وہ جنگجو تھے ، انہوں نے کئی ملک فتح کئے، اُنہوں نے ایک طرف یورپ کو فتح کیا تو دوسری طرف ہندوستان اور چین تک وہ چلے گئے اور سینکڑوں سال تک اُنہوں نے ان علاقوں کو قبضہ میں رکھا.اس لئے تم بھی آگے بڑھو اور دنیا کو فتح کرنے کی کوشش کرو.ان خیالات کا نتیجہ یہ ہو گا کہ وقت آنے پر وہ پیچھے نہیں ہٹے گا بلکہ آگے بڑھے گا اور پھر وہ اکیلا نہیں لڑ رہا ہو گا بلکہ اُس کے باپ دادے اُسے پیچھے سے دھگا دے رہے ہوں گے.لیکن ایک ایسی قوم کا آدمی جس کی ہسٹری اور تاریخ محفوظ نہیں، اُسے یہ پتہ ہی نہیں کہ اس کے باپ دادے شریف تھے یا بد معاش تھے ، بہادر تھے یا بُزدل تھے، وہ میدانِ جنگ میں اکیلا لڑ رہا ہو گا اور اکثر اوقات وہ بُز دلی دکھا جائے گا.غرض روایات ایک جتھا بنا دیتی ہیں.اس لئے روایتوں کا محفوظ رکھنا قوم کی ترقی کا ایک بڑا ذریعہ ہے.اسی لئے یورپ میں سکولوں اور کالجوں نے اپنے اپنے مائو مقرر کئے ہوئے ہیں اور طلباء اور پروفیسروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ اس قسم کے اخلاق کو اپنے اندر پیدا کریں اور پھر انہیں دوسروں کے اندر بھی جاری کرنے کی کوشش کریں.
انوار العلوم جلد 23 577 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو ہندوستان میں صرف علی گڑھ کالج تھا جس نے اپنی روایات کو قائم رکھنے کی بنیاد ڈالی.علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طلباء ہمیشہ دوسروں سے ممتاز رہے ہیں اور اُنہوں نے بڑی وسیع الحوصلگی دکھائی ہے اور اچھے کام کئے ہیں.اسی طرح آکسفورڈ اور کیمبرج کے فارغ التحصیل طالب علم بھی اپنی ٹریڈیشنز اور روایات کو قائم رکھتے ہیں.یورپ میں ہر کالج نے اپنا اپنا مالو بنایا ہوا ہے.یہاں بھی کالج کو اپنا کوئی نہ کوئی ماٹو ، مطمح نظر اور مقصد قرار دینا چاہئے اور اُسے ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے.مثلاً سچائی اور قربانی ہے.اگر یہ ماٹو بنا دیا جائے اور کوشش کی جائے کہ کالج کی سٹوڈنٹس کے اندر یہ اخلاق نمایاں طور پر پیدا ہوں تو اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ جہاں بھی لڑکی جائے گی یہ ماٹو اس کے سامنے آجائے گا اور وہ اس کو پھیلانے کی پوری کوشش کرے گی.پھر ماٹو مقرر کرنے کے بعد کالجوں کے منتظمین کتابوں اور کاپیوں پر اس کی مُہریں لگا دیتے ہیں.قمیصوں پر گلے کے قریب ویسے نشان لگا دیتے ہیں.اس طرح آہستہ آہستہ کالج سے نکل کر ایک نسل تیار ہوتی چلی جاتی ہے.یہ پہلے سٹوڈنٹس ہوتے ہیں پھر اُن کی اولاد ہوتی ہے، پھر اُن کے پوتے ہوتے ہیں اور یہ سلسلہ آگے چلتا چلا جاتا ہے اور انہیں یگانگت اور وحدانیت کا احساس ہوتا جاتا ہے.جس طرح خاندان چلتا ہے اسی طرح اس خاندان میں ایک ریت چلتی چلی جاتی ہے مثلاً آکسفورڈ کا ایک فارغ التحصیل طالب علم جب دوسرے شخص کے کپڑے پر آکسفورڈ کا نشان دیکھے گا تو وہ اس کی طرف دوڑ پڑے گا اور خوشی سے کہے گا اچھا! تم آکسفورڈ میں پڑھتے رہے ہو.چاہے وہ فرانس کا ہو، جرمنی کا ہو یا کسی اور ملک کا جب بھی وہ آکسفورڈ کے دوسرے طالب علم کو دیکھے گا وہ اس کی طرف بڑھے گا اور اُسے تپاک سے ملے گا.اسی طرح کیمبرج یونیورسٹی کے طلباء کا حال ہے.پس تمہیں بھی اپنی ٹریڈیشنز اور روایات قائم کرنے کی کوشش کرنی اپنا ماٹو بناؤ چاہئے.تم بھی اپنا ماٹو بناؤ.قاعدہ یہ ہوتا ہے کہ غور کر کے دو تین اخلاق کو لے لیا جاتا ہے اور انہیں ہر چیز پر لکھ لیا جاتا ہے.کمروں اور ہال میں اُسے لکھ کر
انوار العلوم جلد 23 578 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو لگا دیا جاتا ہے.کتابوں اور کا پہیوں پر اس کی مہریں لگا دی جاتی ہیں.اس سے طالب علم کو وہ باتیں یاد آتی رہتی ہیں اور وہ انہیں ہر وقت اپنے سامنے رکھتا ہے.پروفیسر بھی اس کا خیال رکھتے ہیں اور طالب علموں کا بھی کام ہوتا ہے کہ نہ صرف وہ خود انہیں اپنے سامنے رکھیں بلکہ اپنے ساتھیوں میں بھی ان اخلاق کے پیدا کرنے کی تحریک کرتے رہیں.پہلے وہ اخلاق ایک مخصوص طبقہ میں ہوتے ہیں پھر آہستہ آہستہ اس سے ایک خاندان بن جاتا ہے.پس تم بھی اپنا ایک ماٹو بناؤ.شریعت کے بعض ایسے احکام کو لے لیا جائے جن کے نتیجہ میں بعض خاص قسم کے اخلاق پیدا ہوتے ہیں.یا بعض نقائص مد نظر رکھ لو اور انہیں دُور کرنا اپنا مقصد بنالو.مثلاً ہمارے ملک میں محنت کی عادت نہیں جس کی وجہ سے ہمارے سارے کام خراب ہو جاتے ہیں.تم اپنے ایک صناع کے پاس جاؤ اور اُسے ایک چیز بنانے کو کہو تو وہ مثلاً اُسے آٹھ آنے میں بنائے گالیکن ایک یوروپین کاریگر کے پاس جاؤ تو وہ وہی چیز ایک آنہ میں بنا دے گا.اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انہوں نے محنت کی عادت ڈال کر اپنے ہاتھ کو تیز بنالیا ہے اس لئے اُن کا مز دور جلدی کام کر لیتا ہے اور ہمارا مز دور دیر میں کام کرتا ہے.میں جب انگلینڈ گیا تو میرے ساتھ حافظ روشن علی صاحب بھی تھے.حافظ صاحب کی طبیعت میں مذاق تھا.ایک دن وہ سنجیدگی سے مجھے کہنے لگے کہ کیا آپ نے یہاں کوئی آدمی چلتے بھی دیکھا ہے؟ اب بظاہر اس کا جواب یہی ہو سکتا تھا کہ چلتے تو سارے ہی ہیں.یہاں کے رہنے والوں کے متعلق یہ سوال آپ کو کیوں پید ا ہوا لیکن میں اُن کا مطلب سمجھ گیا اور میں نے کہا کہ واقع میں میں نے یہاں کوئی آدمی چلتے نہیں دیکھا.حافظ صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے میں نے یہاں ہر ایک آدمی کو دوڑتے دیکھا ہے.اگر چہ وہ بھاگتے تو نہیں لیکن جب وہ چلتے ہیں تو ان کے پاؤں ہم سے تیز پڑتے ہیں.ہمارے ہاں اگر کوئی رستہ سے گزرتا ہے اور وہاں بھیڑ ہوتی ہے تو کہتا ہے "رستہ چھڑو اسیں اگے لنگھنا اے".لیکن ان میں سے ہر ایک گزرتا جاتا ہے اور کسی کو اپنے راستہ
انوار العلوم جلد 23 579 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو سے ہٹانے کی ضرورت نہیں پڑتی.ہم نے ایک عمارت پر مزدوروں کو کام کرتے دیکھا.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا آگ لگی ہوئی ہے اور یہ لوگ اُسے بجھا رہے ہیں.مزدور بڑی تیزی سے لوہا اور لکڑی لے جارہے تھے لیکن یہاں مزدور اپنی سستی کی وجہ سے اس کام کو گراں کر دیتے ہیں.میں تو اس کا نقشہ اس طرح کھینچا کرتا ہوں کہ اگر کوئی مزدور کوئی چیز لینے جاتا ہے تو وہ اس طرح ٹوکری اُٹھاتا ہے جیسے کسی کی کمر ٹوٹی ہوئی ہو ، وہ ہائے کہہ کر ٹوکری اُٹھاتا ہے اور پھر رینگتے رینگتے معمار تک پہنچتا ہے.اگر کوئی مزدور اینٹ اُٹھاتا ہے تو پہلے بھوں بھوں کرتا ہے.پھر دس گیارہ اینٹیں اکٹھی کرتا ہے.پھر آرام کرتا اور ستاتا ہے پھر اُٹھاتا ہے اور جوں کی طرح چلتا ہے اور دس بارہ منٹ میں مستری تک پہنچتا ہے.پھر مستری بھی اسی طرح کرتے ہیں.لیکن ایک یوروپین اتنے ہی عرصہ میں دس دفعه مستری تک چلا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ مالک مزدور کو بہت زیادہ مزدوری دے دیتے ہیں.اسی طرح زمیندار ہیں.ہمارے ہاں جو پیداوار ہوتی ہے میں نے اُس کا یورپ کی پیداوار سے مقابلہ کیا ہے.ہمارے ملک کی پیداوار میں اور یورپ کی پیداوار میں زیادہ فرق نہیں لیکن وہ مزدور کو دس روپے روزانہ دیتے ہیں اور ہمارے ہاں مزدور کو زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ روپیہ روزانہ ملتا ہے.گویا ایک یوروپین مز دور ہمارے مزدور سے چھ گنے سے بھی زیادہ کما لیتا ہے لیکن اتنی زیادہ اُجرت دے کر بھی اُن ممالک میں ہمارے ملک سے غلہ زیادہ ستا بکتا ہے.ماہرین زراعت سے میں نے اس کے متعلق گفتگو کی ہے کہ ان ممالک کی پیداوار ہمارے ملک کی پیداوار سے ڈیوڑھی ہے لیکن وہ اپنے مزدور کو دس روپے روزانہ دیتے ہیں اور ہم مزدور کو سواروپیہ یاڈیڑھ روپیہ دیتے ہیں اتنا فرق کیوں ہے؟ لیکن ان میں سے اکثر مجھے یہ معمہ نہیں سمجھا سکے.اس کی اصل وجه در حقیقت یہی ہے کہ وہاں مزدور زیادہ کام کرتا ہے.اگر یہاں ہم سو ایکڑ پر دس مزدور رکھنے پر مجبور ہیں تو وہاں ایک مزدور ہی کام دے جاتا ہے.اس لئے ہمارے ملک میں تین چار گنا تنخواہ زیادہ لینے کے باوجود وہ ہمارے ملک کے مزدور سے سستا رہتا ہے.یہ
انوار العلوم جلد 23 580 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو سب باتیں محنت کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے ہیں.جب تم اپنا مائو مقرر کرو گی تو اس پر غور بھی کرو گی مثلاً یوروپین ممالک میں کھانا کھڑے ہو کر پکایا جاتا ہے ہمارے ہاں عور تیں بیٹھ کر کھانا پکاتی ہیں.ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ہمارے ہاں کھانا پکانے کا جو طریق ہے اس سے صحت کو نقصان پہنچتا ہے.پھر اتنی پھرتی سے کام نہیں ہو سکتا جتنی پھرتی سے کھڑے ہو کر کام ہو سکتا ہے اس لئے یوروپین ممالک میں کھڑے ہو کر کھانا پکایا جاتا ہے.اسی طرح کپڑے بھی کھڑے ہو کر دھوئے جاتے ہیں.اس طرح بہت کم وقت میں کام ختم ہو جاتا ہے اور پھر اعضاء میں جو ڈھیلا پن بیٹھنے سے پیدا ہو جاتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہو تا.اسی طرح کاڑھنے وغیرہ کا کام ہے.یوروپین لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ کوئی چیز کتنی خوبصورت کاڑھی ہوئی ہے بلکہ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی چیز کتنے وقت میں کاڑھی گئی ہے.ان کے ہاں محنت اصل چیز ہے.اگر ایک عورت نے چار گھنٹے میں ایک اچھا بھول کاڑھا ہو اور دوسری عورت نے چار منٹ میں اس سے ادنی پھول کاڑھا ہو تو وہ اس عورت کو ترجیح دیں گے جس نے وہ کام چار منٹ میں ختم کر لیا دوسری عورت سے جس نے چار گھنٹہ میں کام کیا.پس محنت ایک ایسی چیز ہے کہ اس پر زور دینا اور اس کی عادت ڈالنا کیریکٹر میں ، خصوصیت پیدا کر دیتا ہے.اس کے علاوہ شریعت کے احکام پر غور کر کے بعض اور اخلاق بھی نکالے جاسکتے ہیں.ان میں سے دو تین اخلاق کو لے لو اور انہیں اپنا ماٹو قرار دے لو.پھر ہال میں، کمروں میں، لائبریری کی کتب پر، سکول کے رجسٹروں پر سب پر ان کی مہریں لگالو.لباس پر بھی اُسے بطور بیج لگالو، گلے کے بٹن والے حصہ پر یابازو پر کوئی جگہ متعین کرلی جائے اور وہاں اُسے لگا لیا جائے تاکہ آہستہ آہستہ یہ کالج کا ایک مخصوص کیریکٹر بن جائے.اگر تم اس طرح کام کرو تو تم عملی طور پر بہت کچھ کر لوگی.میں نے جو کچھ بتایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم اپنی پچھلی ٹریڈ یشنز کو قائم کرو اور دوسری قوموں کی نقل کم کرو.دوسرے اس قسم کی تقریبات میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے طالبات کی ماؤں کو شامل کرو تا انہیں پتہ لگے کہ ان کی لڑکیاں کالج میں کس قسم کی
انوار العلوم جلد 23 581 اپنی روایات زندہ رکھو اور مستقل مائو تجویز کرو زندگی بسر کر رہی ہیں.تیسرے بعض اخلاق کو اپنا ماٹو قرار دے لو تا وہ تمہارے کالج کی مخصوص روایت بن جائے.پھر ہر طالب علم اپنے آپ کو اس کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے تاکہ دیکھنے والے اُسے ایک نمایاں حیثیت دیں“.” مصباح “ بابت ماہ نومبر 1955ء)
انوار العلوم جلد 23 583 صد را مجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتاح...صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے احمدیہ دفاتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب از سید نا حضرت میر زابشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی
انوار العلوم جلد 23 بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ اس 585 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتاح...نَحْمَدُهُ وَ نَصَلَّىٰ عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح کے موقع پر خطاب فرموده 19 نومبر 1953ء) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:- مایوسیاں اور ناکامیاں اُن لوگوں کو زیادہ شاق گزرتی اور اُنہیں زیادہ صدمہ پہنچانے والی ہوتی ہیں جو کامیابی کے زمانہ میں یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں کبھی مایوسی نہیں آئے گی.اس وجہ سے ہجرت کا جو صدمہ ہماری جماعت کو پہنچ سکتا تھا اور پہنچا اس میں کوئی دوسری جماعت ہندوستان کی ہو یا پاکستان کی ، شریک نہیں اور شریک نہیں ہو سکتی تھی.میری توجہ تو اللہ تعالیٰ نے 1934ء سے ہی ادھر پھیر دی تھی کہ ہمارے لئے قسم کا کوئی صدمہ مقدر ہے.چنانچہ یہ بات میرے1934ء کے خطبات میں موجود ہے جن میں یہ مضمون بڑے زور سے بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد اس کی تکرار رہی ہے لیکن ہماری جماعت نے اس طرف کوئی توجہ نہ کی.میں یہ نہیں کہتا کہ یہ ان کی کسی غلطی یا کمزوری ایمان کی وجہ سے تھا بلکہ یہ ان کی مضبوطی ایمان کی وجہ سے تھا.ہاں یہ الہی کلاموں کی تشریح میں کوتاہی اور غفلت کا ثبوت ضرور تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں میں یہ بات موجود تھی کہ قادیان ترقی کرے گا، بڑھے گا، پھولے گا اور پھلے گا اور احمدیت اس جگہ راسخ ہو گی.اس لئے جماعت احمد یہ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہاموں اور پیشگوئیوں پر پورا یقین تھا اس میں
انوار العلوم جلد 23 586 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...شبہ کرنے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں تھی اور یہ ماننے پر آمادہ نہیں تھی کہ قادیان سے انہیں ہجرت کرنا پڑے گی.پس ان کا اس بنیاد پر یہ یقین رکھنا کہ چاہے کتنے ہی حوادث ہوں یہ جگہ ہمارے ہاتھ سے نہیں جائے گی ان کے ایمان کا ثبوت ہے لیکن ساتھ ہی اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ الہی کلاموں اور ان کی تشریحوں میں جو کبھی کبھی تعطل واقع ہو جایا کرتا ہے اور کبھی کبھی ان کی تعبیر وقتی طور پر مل بھی جایا کرتی ہے اس کے سمجھنے میں ان کی طرف سے کوتاہی واقع ہوئی.جن دنوں قادیان پر حملے ہو رہے تھے اور ہم سب دعاؤں میں مشغول تھے میں ایک دن بہت ہی زور سے دُعا کر رہا تھا کہ مجھے الہام ہوا أَيْنَمَا تَكُوْنُوْا يَأْتِ بِكُمُ اللَّهُ جَمِیعًا، میں نے اُس وقت سمجھ لیا کہ ہمارے لئے عارضی طور پر پراگندگی ضروری ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم جہاں کہیں بھی جاؤ میں کسی دن برکت اور یمن کے ساتھ تم سب کو واپس لے آؤں گا.یہ آیت قرآن کریم میں ہے اور در حقیقت یہ مسلمانوں کے ہجرت کے بعد مکہ واپس آنے پر دلالت کرتی ہے اور اس میں دونوں پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں.ہجرت کی بھی اور ہجرت کے بعد مکہ واپس آنے کی بھی.یعنی پہلے ہجرت ہوگی اور پھر اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو کامیابی کے ساتھ مکہ واپس لائے گا.نادان لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ ہم قادیان واپس جانا چاہتے ہیں اس لئے ہم ہندوستان کے ساتھ سازش کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ حب الوطنی کے خلاف تعلقات قائم کئے ہوئے ہیں.ان کا یہ اعتراض ایسا ہی بے ہودہ اور ناپاک ہے جیسے کوئی کہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کفارِ مکہ سے سازش کر کے مکہ واپس آنا چاہتے تھے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب خدا نے کہا تھا کہ میں تمہیں مکہ واپس لاؤں گا تو اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تم سازش کے ساتھ یا منت سماجت کر کے اور ذلیل ہو کر جاؤ گے بلکہ یہ کہا تھا کہ تم کامیاب و کامران ہو کر مکہ واپس جاؤ گے.پس اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ واپس جانا آپ کی کامیابی و کامرانی اور عزت کی دلیل ہے تو یہی بات آپ کے خادموں کے لئے بھی عزت اور ان کے مقرب ہونے کی
انوار العلوم جلد 23 587 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...دلیل ہے.خدا تعالیٰ ہمیں اس طرح قادیان واپس نہیں لے جائے گا کہ ہم دیانت اور امانت اور حب الوطنی کے جذبات کو ترک کر کے وہاں جائیں بلکہ وہ ہمیں اس طرح وہاں لے جائے گا کہ ہم دین اور وطن اور حکومت کے لئے عزت کا موجب ہو کر وہاں جائیں گے.اس قسم کے معترض محض تنگدلی، عناد اور تعصب کی وجہ سے اعتراض کرتے ہیں اور ان حقائق کے ماننے سے انکار کرتے ہیں جو ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ الہی جماعتوں کے ذریعہ دنیا میں پیش کئے جاچکے ہیں اور جب یہ حقائق کئی دفعہ الہی جماعتوں کے ذریعہ دُنیا میں پیش کئے جاچکے ہیں تو ان کے بارہ میں دھوکا نہیں کھایا جاسکتا.پس یہ ایک دھکا تھا جو ہماری جماعت کے لئے پہلے سے مقرر تھا.اُس وقت جماعت کے بعض لوگ ان لوگوں کو جنہیں میں قادیان سے باہر بھجوا رہا تھا مل کر یہ کہتے تھے یہ تو چند دن کی بات ہے، تھوڑے دنوں میں یہ حالت دُور ہو جائے گی ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ قادیان ہمارے ہاتھ سے چلا جائے.پھر ان چند دنوں کے لئے اس قدر پریشانی کی کیا ضرورت ہے.قادیان کو چھوڑ کر جانا ایمان کی کمی کی علامت ہے مگر آج یہاں وہ لوگ بھی بیٹھے ہیں جو نظام کے ماتحت قادیان سے باہر آنے والوں پر معترض تھے.وہ اُس وقت قادیان سے باہر آنا کمی ایمان کی علامت قرار دیتے تھے اور اب وہ خود بھی یہاں موجود ہیں.گویا جو بات میں نے بتائی تھی وہ صحیح تھی اور جس امر کی طرف ان کا ذہن جارہا تھا وہ غلط تھا.لازمی طور پر وہ لوگ جو آنے والوں کو کہتے تھے کہ تم کہاں جارہے ہو یہ تو چند دن کی پریشانی ہے قادیان ہمارے ہاتھ سے نہیں جاسکتا غلطی پر تھے اور ان کی یہ بات حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کے الہاموں کی تشریح کو نہ سمجھنے اور ان سے اغماض کرنے کی دلیل تھی.اب جب وہ اُن لوگوں کے سامنے یہاں بیٹھے ہیں جنہیں وہ قادیان سے آنے پر ملامت کرتے تھے تو انہیں کس قدر شرم آ رہی ہو گی اور ان کی طبیعت پر یہ بات کس قدر گراں گزر رہی ہو گی کہ وہ لوگ جنہیں وہ کہتے تھے کہ تم بیوقوف ہو کہ قادیان سے باہر جارہے ہو اب وہ انہیں دیکھ کر کہیں گے کہ آپ کہاں آگئے.بہر حال جس طرح یہ صدمہ جماعت احمدیہ کو پہنچا ہندوستان اور پاکستان کی کسی اور جماعت کو نہیں پہنچا.
انوار العلوم جلد 23 588 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...پھر ہم نے یہ تجویز کی کہ ہم ایک نیا مرکز بنائیں.مجھے خدا تعالیٰ نے بتادیا تھا کہ ہمیں نئے مرکز کی ضرورت ہو گی اور ایک رؤیا میں مجھے صاف طور پر نظر آیا تھا کہ ہم ایک نئی جگہ پر اپنا مرکز بنارہے ہیں.اُس وقت بھی اسی اثر کے نیچے یہ چہ میگوئیاں شروع ہوئیں کہ ہمیں نئے مرکز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ لوگ ہمارے ساتھ قادیان سے نکل تو آئے تھے لیکن ابھی ان کے اندر یہ خیال باقی تھا کہ یہ چار پانچ ماہ یا زیادہ سے زیادہ ایک سال کی بات ہے اس کے بعد ہم قادیان واپس چلے جائیں گے.لیکن میر انقطہ نگاہ یہ تھا کہ چاہے چار ماہ کے لئے ہو یا چار دن کے لئے ہمیں خدا تعالیٰ کے دین کی اشاعت کے لئے ایک مرکز قائم کرنا چاہئے.تم ریل کے تین چار گھنٹے کے سفر میں بھی آرام چاہتے ہو اور سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہو تو کیا وجہ ہے کہ دین کی اشاعت اور دین کے آرام کا خیال نہ رکھا جائے.اس کے لئے مرکز کی تلاش کیوں نہ کی جائے.ایک پراگندہ جماعت اشاعت دین کا کام نہیں کر سکتی.جو جماعت یہ خیال کرتی ہے کہ دس بارہ ماہ اشاعت دین کا کام نہ ہوا تو کیا ہوا؟ وہ جماعت جیتنے والی نہیں ہوتی شکست خوردہ ذہنیت کی مالک ہوتی ہے.کام کرنے والی اور اپنے مقصد کو پورا کرنے والی جماعت وہ ہوتی ہے جو کہے کہ ہمارا ایک دن بھی ضائع نہیں ہونا چاہئے.پھر میں نے ان لوگوں کو بتایا کہ دیکھو اتنی بڑی مصیبت ایک دو دن کے لئے نازل نہیں ہوا کرتی.یہ ایک وقت چاہتی ہے.جب کبھی خدا تعالیٰ نے کسی مصیبت کو جلدی سے ٹلا دینا ہو تو وہ اسی نسبت سے مصیبت کو نازل کرتا ہے.دیکھو جب کسی کا باپ کرتا ہے ، ماں مرتی ہے یا کوئی اور رشتہ دار مرتا ہے جو خاندان کا نگران ہوتا ہے تو کتنی آفت آجاتی ہے.اب خدا تعالیٰ نے یہ قانون نہیں بنایا کہ کوئی صبح مرے تو شام کو جی اُٹھے بلکہ اس کا یہ قانون ہے کہ وہ اگلے جہان میں زندگی پاتا ہے اور اس کے وہ رشتہ دار جو اس سے ملنے کی تمنار کھتے ہیں وہ بھی ایک لمبے عرصہ کے بعد وفات پا کر اس سے ملتے ہیں پہلے نہیں.رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی تو سات آٹھ سال کے بعد مکہ فتح ہوا اور اس کے بعد بھی خدا تعالیٰ نے ایسے سامان کر دیئے کہ آپ مکہ میں نہیں بسے
انوار العلوم جلد 23 589 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتاح..بلکہ صحابہ نے تو نبوت کے پانچویں سال ہی حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی جس کے معنے تھے کہ وہ 16 سال تک وطن سے الگ رہے پھر کہیں جا کر مکہ فتح ہوا.مگر جب مکہ فتح ہوا تو رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر بھی مدینہ کو ہی اپنا مر کز بنائے رکھا.گویا ان کے لئے ہمیشہ کی ہجرت ہو گئی.تو میں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ یہ تین چار ماہ کی بات نہیں اور اگر یہ تین چار ماہ کی بات بھی ہو تب بھی جب تم تھوڑی دیر کے لئے بھی اپنے لئے آرام چاہتے ہو تو خدا تعالیٰ کے دین اور اشاعت کے لئے سالوں انتظار کیوں کیا جائے.بہر حال ایک طبقہ کی مخالفت کے باوجود جماعت نے یہی فیصلہ کیا کہ میری رائے ہی ٹھیک ہے اور ہمیں مرکز بنانا چاہئے.چنانچہ یہ جگہ جو میری بعض پرانی خوابوں سے مطابقت رکھتی تھی مرکز کے لئے تجویز کی گئی.جو لوگ یہاں بیٹھے ہیں ان میں تھوڑے ہی ہیں جنہوں نے اس جگہ کو ابتدائی حالات میں دیکھا.اکثر نے اسے ابتدائی حالت میں نہیں دیکھا.ابتدائی حالت میں یہاں بسنے والے غالباً 35 آدمی تھے.ان کے لئے سڑک کے کنارے خیمے لگائے گئے تھے.جہاں اب بھی بعض کمرے بنے ہوئے ہیں.ان میں ابتداء لنگر بنا تھا.اب وہ سٹور کا کام دیتے ہیں.ایک سال کے قریب وہاں گزارا.پھر لاکھوں روپیہ خرچ کر کے ہم نے عارضی مکان بنائے تا ان میں وہ لوگ بسیں جنہوں نے ر آباد کرنا ہے.پھر لاکھوں روپیہ خرچ کر کے یہ بلڈ نگس بنیں جو اب تمہیں نظر آتی ہیں.اس عظیم الشان صدمہ کے بعد جماعت نے اتنی جلدی یہ جگہ اس لئے بنائی تاکہ وہ مل کر رہ سکیں.اکٹھے رہ کر مشورے کر سکیں.سکول اور کالج بنائیں تاکہ اُن کی اولاد تعلیم حاصل کرے.اس کے مقابلہ میں وہ لوگ جن کو اتنا صدمہ نہیں پہنچا ان میں سے کوئی جماعت بھی اپنا مرکز نہیں بنا سکی.بعض معترض کہتے ہیں کہ ہمارا یہاں ایک علیحدہ جگہ بس جانا ملک سے بیوفائی کی علامت ہے.یہ نہایت ہی احمقانہ خیال ہے کیونکہ ایک قسم کے کام کرنے والوں کے لئے اکٹھا رہنا ضروری ہوتا ہے چاہے وہ حب الوطنی میں سب سے زیادہ بڑھے ہوئے کیوں نہ ہوں.دوسرے شہروں میں جاؤ وہاں تم دیکھو گے کہ تمام نیچھ بند 1 اکٹھے رہتے ہیں، نائی
انوار العلوم جلد 23 590 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح....اکٹھے رہتے ہیں، دھوبی اکٹھے رہتے ہیں، موچی اکٹھے رہتے ہیں کیونکہ انہیں اپنے کام کے سلسلہ میں ایک دوسرے کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے.اگر یہ لوگ اکٹھے نہ رہیں تو بہت سی مشکلات کا سامنا ہو.مثلاً اگر ایک نائی بیمار ہو جائے اور اس کا قائمقام وہاں موجود نہ ہو تو لوگوں کو کتنی دقت کا سامنا ہو.ایک دھوبی کا مسالہ ختم ہو جائے تو وہ اپنے ساتھیوں سے مانگتا ہے.اگر اس کے قریب دوسرے دھوبی نہ ہوں تو اس کے کام میں روک پیدا ہو جائے.نیچہ بندی کے سلسلہ میں بھی بعض چیزیں ختم ہو جاتی ہیں تو نیچہ بند اپنے ہمسایوں اور اپنے قریب رہنے والوں سے مانگ لیتے ہیں.اگر ایک نیچہ بند ایک شہر میں رہتا ہو اور دوسرا دوسرے شہر میں تو وقتی ضرورت کے وقت کیا وہ دوسرے شہروں میں جاکر وہاں کے نیچہ بندوں سے وہ چیزیں مانگے گا؟ غرض ایک ہی کام کرنے والوں یا ایک ہی قسم کے پیشہ وروں کا اکٹھار ہنا ضروری ہے اور یہ معاشرتی اور اقتصادی حالت کا نتیجہ ہے، حب الوطنی کی کمی کا نتیجہ نہیں.کراچی اور لاہور کے شہروں میں دیکھ لو کیا ایک ہی پیشہ والے لوگ اکٹھے نہیں رہتے ؟ ہم تو اب بھی اس بات کے قائل ہیں کہ جو لوگ مشرقی پنجاب سے آئے ہیں ان میں سے جن کے آپس میں تعلقات تھے انہیں یہاں آکر الگ الگ قصبات بسانے چاہئے تھے.میں نے تو 1947ء میں یہاں تک کہا تھا کہ اُردو دانوں کی بھی الگ بستی ہونی چاہئے تاکہ ان کی زبان خراب نہ ہو.اب اگر میری تجویز کے مطابق اُردو دان الگ شہر آباد کر لیں تو کیا یہ لوگ کہیں گے کہ ان کا ایسا کر ناحُب الوطنی کی کمی کی وجہ سے ہے ؟ حالا نکہ اُنہوں نے الگ شہر اس لئے آباد کیا ہو گا تاکہ زبان کی سی قیمتی چیز ضائع نہ ہو.حقیقت یہ ہے کہ موجودہ صورت میں اُردو زبان زیادہ دیر تک زندہ نہیں رہ سکتی.اُردو دان پنجابیوں میں بس رہے ہیں اور ان کی اولادیں پنجابی زبان سیکھ رہی ہیں.ہمارے اپنے رشتہ داروں کی یہی حالت ہے.وہ دہلی میں رہتے تھے تو اُن کی زبان ٹکسالی زبان سمجھی جاتی تھی.ان میں کثرت سے ادیب پائے جاتے تھے.وہ ماہرین زبان تھے مگر اب وہ ادھر آگئے ہیں اور ان میں سے دس میں گھرانے لاہور میں بس گئے ہیں.بعض جیل روڈ پر آباد ہیں، بعض
انوار العلوم جلد 23 591 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...شیر انوالہ گیٹ میں ہیں اور بعض میو روڈ پر ہیں یعنی وہ دس میں گھرانے بھی لاہور کے مختلف علاقوں میں آباد ہیں.پنجابی ماحول کی وجہ سے ان کی اولادیں پنجابی زبان سیکھ رہی ہیں.اگر کسی بچے کے پیٹ میں درد ہوتا ہے تو وہ کہتا ہے " اماں میرے ڈڈھ وچ پیڑ ہوندی اے" اور مائیں انہیں پنجابی زبان بولتے دیکھ کر خوش ہوتی ہیں اور ہنس کر کہتی ہیں دیکھیں ! یہ بچہ کس طرح آسانی کے ساتھ پنجابی بولتا ہے.گویا خواجہ میر درد کا نواسہ مرزا غالب اور مومن خان کا بھانجا " میرے پیٹ میں درد ہو رہا ہے " کی بجائے "میرے ڈڈھ وچ پیر ہوندی اے" کہتا ہے اور ماں ہنس کر کہتی ہے دیکھیں! ہمیں تو پنجابی بولنی نہیں آتی مگر یہ بچہ خوب پنجابی بول سکتا ہے.پس میں نے یہ تجویز پیش کی تھی کہ گورنمنٹ تھل کا علاقہ آباد کرنا چاہتی ہے اسے چاہئے کہ وہ مظفر گڑھ کے علاقہ میں چالیس میل کا علاقہ صرف اُردو دانوں کے لئے وقف کر دے تاکہ جو لوگ قربانی کر کے وہاں آباد ہو سکیں، آباد ہو جائیں اور اس طرح اُردو زبان محفوظ ہو جائے لیکن شاید وہ اُردو دان مجھ سے زیادہ عقلمند تھے کہ وہ اکٹھے ایک جگہ آباد نہ ہوئے تا کل کوئی معترض یہ نہ کہہ سکے کہ ان کا ایک علاقہ میں آباد ہونا حُب الوطنی کے خلاف ہے.حالانکہ ایک خاص قسم کی تنظیم اور خاص مقصد کو سامنے رکھنے والے لوگ بالعموم ایک ہی جگہ پر اکٹھے رہتے ہیں اور ان کا ایسا کرنا معاشرتی اور اقتصادی حالت کے نتیجہ میں ہوتا ہے.کوئی جماعت اخلاق کی تعلیم دیتی ہے ، کوئی جماعت تصوف کی طرف مائل ہوتی ہے، کوئی جماعت احادیث کو رواج دینا چاہتی ہے اور اسے اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکٹھا رہنے کی ضرورت ہوتی ہے.مثلاً اہل حدیث کی ایک شاخ نے دیو بند آباد کیا تھا.اسی طرح بعض جگہیں دوسرے اہل حدیث نے بنائی ہیں مثلاً حضرت شیخ احمد صاحب سرہندی کے مریدوں نے بعض جگہیں بنائی ہیں کیونکہ ان کا اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے اکٹھے رہنا ضروری تھا.اگر وہ لوگ الگ الگ جگہوں پر پھیلے ہوئے ہوں تو وہ سکول اور کالج کس طرح چلا سکتے ہیں.اگر وہ لاہور ، گوجرانوالہ ، گجرات اور لائل پور میں پھیلے ہوئے ہوں اور اُن کا کالج لاہور میں ہو تو کیا
انوار العلوم جلد 23 592 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...ان کے لڑکے ان تمام ضلعوں سے لاہور جائیں گے تاکہ وہ اپنے کالج میں تعلیم حاصل کر سکیں؟ یا اگر ایک ہی مقصد رکھنے والے لوگ ضلع لاہور کے مختلف شہروں میں آباد ہوں تو کیا ان کے بچے کسی ایک پرائمری سکول میں اکٹھے ہو سکتے ہیں ؟ اور اگر وہ ایک شہر میں رہتے ہوں تو ان کا کالج چل سکتا ہے.اگر وہ ایک محلہ میں رہتے ہوں تو ان کا پرائمری سکول چل سکتا ہے لیکن اتنی چھوٹی سی بات بھی ہمارے ملک کے بعض افراد کی سمجھ میں نہیں آتی.ہم نے تو اُس وقت شور مچایا تھا کہ امر تسر والوں کو بھی الگ شہر آباد کرنا چاہئے کیونکہ انہوں نے ایک خاص قسم کا ماحول بنا لیا تھا اور بعض خاص قسم کی تجار تیں اس شہر میں چل رہی تھیں.ہم نے اُس وقت یہ کہا تھا کہ جالندھر ، پانی پت اور لدھیانہ والوں کو بھی الگ الگ قصبات آباد کرنے چاہئیں تاکہ خاص قسم کی تجار تیں اور صنعتیں جو ان شہروں میں چل رہی تھیں دوبارہ جاری کی جاسکیں.اگر انہیں الگ الگ جگہوں پر نہ بسایا گیا تو وہ مخصوص تجار تیں اور صنعتیں تباہ ہو جائیں گی.ہم نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ زبان اُردو کو زندہ رکھنے کے لئے اس کے بولنے والوں کو ایک علیحدہ علاقہ میں آباد کیا جائے اور پھر جو لوگ قربانی کر کے وہاں آباد ہو سکیں آباد ہو جائیں.وہاں وہ اپنے سکول بنائیں، کالج بنائیں تا کہ زبان صاف رہے.میں نے کہا تھا کہ اس کے لئے چالیس میل کے رقبہ کی ضرورت ہے.اس لئے کہ قریب کا علاقہ زبان پر اثر ڈالتا ہے.اگر بیچ میں شہر آباد ہو اور ارد گرد بھی اس زبان کے بولنے والے آباد ہوں تو شہر کی زبان محفوظ رہے گی بلکہ ممکن تھا کہ ارد گرد کے علاقہ میں بھی اُردو زبان پھیل جاتی اور آہستہ آہستہ اکتالیسویں میل کے علاقہ کے لوگ بھی اُردو بولنے لگ جاتے.پھر بیالیسویں میل کے علاقہ والے بھی اُردو بولنے لگ جاتے.پھر تینتالیسویں میل کے علاقہ والے بھی اُردو بولنے لگ جاتے کیونکہ اُردو ایک علمی زبان ہے اور علمی زبان جلد پھیل جاتی ہے.غرض ہم تو یہ تحریک کر رہے تھے کہ ہر تجارت ، صنعت اور پیشہ سے تعلق رکھنے والے لوگ الگ الگ قصبات آباد کریں بلکہ اُردو دان بھی ایک الگ علاقہ میں آباد ہوں مگر اُلٹا ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم حکومت کے خیر خواہ نہیں اور اس وجہ سے الگ آباد
انوار العلوم جلد 23 ہونا چاہتے ہیں.593 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتاح...حقیقت یہ ہے کہ شہروں کا بسانا کوئی آسان کام نہیں ہو تا.تغلق بادشاہ نے اپنے نام پر تغلق آباد بسانا چاہا لیکن باوجود اس کے کہ وہ سارے ہندوستان کا بادشاہ تھاوہ یہ شہر آباد نہ کر سکا.پس نئی جگہوں پر شہر بسانا اور پھر کسی سکیم کے ماتحت شہر بسانا آسان کام نہیں ہوتا.بعض شہر اتفاقی طور پر بس جاتے ہیں لیکن ارادہ کے ساتھ شہر بسانا ہو تو وہ نہیں بستا.لوگوں نے ہزاروں شہر بسائے جن میں سے صرف بیسیوں رہ گئے ہیں باقی سب اُجڑ گئے.صرف بغداد ایسا شہر ہے جسے مسلمانوں نے ارادہ کے ساتھ بسایا تھا اور وہ بس گیا لیکن جو رونق اس کی پہلے زمانہ میں تھی اب نہیں رہی.کسی زمانہ میں اس کی آبادی چالیس لاکھ تھی اب دو لاکھ ہے.اسی طرح بعض اور شہر بھی تھے جو بسائے گئے لیکن ان میں سے اکثر اُجڑ گئے اور ان کی جگہ ایسے شہر ترقی کر گئے جو اقتصادی وجوہ سے یا پبلک میں ایک خاص رو چل جانے کی وجہ سے خود بخود آباد ہو گئے تھے.پس ہمارا کام ایسا تھا کہ حکومت کو پبلک میں اسے بطور نمونہ پیش کرنا چاہئے تھا اور ہمیں اس کارنامہ پر شاباش دینی چاہئے تھی بلکہ چاہئے تھا کہ وہ فخر کرتی کہ اس غریب جماعت نے جو اپنا سب کچھ لٹا کر یہاں آئی تھی ایک الگ شہر آباد کر لیا.کئی سوسائٹیاں اپنے ارادہ میں ناکام رہیں اور ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ موقع دیا کہ ہم نے باوجو د کم مائیگی اور سامان اور ذرائع کے محدود ہونے کے شہر بسا لیا.یہ کتنی بڑی خدمت تھی ملک کی کہ اتنی بڑی تعداد انسانوں کی جو لاہور میں بس رہی تھی ہم نے اسے یہاں آباد کر دیا اور لاہور کی Congestion کو دور کر دیا.چھ سات ہزار نفوس کو ہم لاہور سے نکال لائے.آخر شہری طور پر یہ کتنا بڑا فائدہ ہے جو ہم نے لاہور کو پہنچایا.چاہئے تھا کہ دوسری جماعتیں بھی ہم سے نمونہ لیتیں مگر بجائے اس کے کہ وہ ہماری نقل میں قصبات تعمیر کرتے چونکہ وہ یہ کام نہ کر سکے اس لئے اُنہوں نے ہم پر بغاوت کا الزام لگادیا اور کہار بوہ جو اڑھائی تین میل کا علاقہ ہے اور ہر قسم کے سامانوں سے محروم ہے ملک کے لئے خطرناک قسم کی ٹر نگ بن گیا ہے.یہ غلط اور کمزور ذہنیت کا مظاہرہ تھا جو کیا گیا.تعلیم یافتہ طبقہ کو
انوار العلوم جلد 23 594 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...چاہئے تھا کہ وہ ایسے معترضین کو اس بات کی وجہ سے ملامت کرتا اور کہتا تم کیوں بلا وجہ شک کرتے ہو اور ہمیں دھوکا دیتے ہو یہ تو اللہ تعالیٰ کا فضل تھا کہ اس نے ان لوگوں کو ایک ایسے کام کی توفیق دی جو قوم اور ملک کے لئے باعث صد فخر ہے.ترقی کرنے والی قومیں ہمیشہ کام کرنے والوں سے حوصلہ پکڑتی ہیں اور ان سے نمونہ لیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ یہ ملک اور قوم کے لئے ترقی کی ایک صورت پیدا کی گئی ہے لیکن ان معترضین نے یہ نمونہ دکھا کر اور یہ کہہ کر کہ اس قصبہ کی وجہ سے ملک کا امن خطرہ میں پڑ گیا ہے ایک خطر ناک کذب بیانی سے کام لیا.بہر حال ہم سمجھتے ہیں کہ ہم میں زور نہیں تھا، طاقت نہیں تھی ہم بھی ویسے ہی تھے جیسے ہمارے دوسرے مہاجر بھائی ہیں ہمارے سامان بھی کم تھے لیکن اس کے باوجود خدا تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم اپنے آپ کو دُکھ میں ڈالیں اور یہاں آکر مکان بنائیں اور نہ صرف یہاں مکانات بنائیں بلکہ اپنے چندوں کو بھی قائم رکھیں.ناظر صاحب اعلیٰ نے ایڈریس میں کہا ہے کہ ہمارے چندے کم ہو گئے ہیں یہ بات درست نہیں.ہمارے چندے کم نہیں ہوئے بلکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے برابر بڑھ رہے ہیں اگر قادیان کے چندوں کو ملا لیا جائے جہاں دو اڑھائی لاکھ روپیہ کے قریب سالانہ جمع ہوتا ہے تو چندے پہلے سے زیادہ ہیں اور اگر تحریک جدید کے چندوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ اور بھی زیادہ ہو جاتے ہیں.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور اس کی دی ہوئی نعمت ہے.چاہئے کہ اس پر جماعت کے اندر شکریہ کا احساس پیدا ہو.ہمیں افسوس ہے کہ دوسرے لوگوں نے ہمارے اس کام کو قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھا.اگر وہ ہماری نقل کرتے اور بیس گاؤں اور آباد کر لیتے تو ہم خوش ہوتے کہ انہوں نے پاکستان کی مضبوطی کا ثبوت دیا ہے اور فاتحانہ سپرٹ کا اظہار کیا ہے لیکن کام کرنے کی بجائے دوسروں پر دباؤ ڈالنا شکست کی علامت ہوتی ہے.یہ ایک قابل فخر کارنامہ تھا کہ اُجڑے ہوئے لوگوں نے ایک شہر بسالیا اور ہمارا ملک اس کا رنامہ پر دوسرے ملکوں میں فخر کر سکتا تھا اور کہہ سکتا تھا کہ آؤ دیکھو
انوار العلوم جلد 23 595 صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید کے دفاتر کے افتتاح...ہمارے مہاجروں نے کیسا شاندار کارنامہ سر انجام دیا ہے اور ان لوگوں نے مصائب پر ہننے کی توفیق پائی ہے.بہر حال جماعت کو چاہئے کہ وہ دُعا کرے کہ ہم جس مقصد کے لئے یہاں جمع ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ اسے پورا کرنے کی توفیق بخشے.ہمارا مقصد یہی ہے کہ خدا تعالیٰ کا نام بلند ہو، اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ وسیع ہو، دینی تعلیم حاصل کرنے والے لوگ یہاں جمع ہوں اور وہ یہاں رہ کر دینی تعلیم حاصل کریں.ذکر الہی، نماز اور روزہ کا چرچا ہو، بُری رسومات سے بچنے کی توفیق ملے.خدا تعالیٰ ہمیں ان نیتوں اور ارادوں کو پورا کرنے کی توفیق بخشے اور ہمیں ہر شر سے محفوظ رکھے.اس شر سے بھی جو ماحول کی وجہ سے پید اہو سکتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں نظر بد سے بچائے اور اس شر سے بھی جو خود ہمارے نفس کے اندر پیدا ہو سکتا ہے.ہمیں بیرونی نظر بھی نہ لگے اور اند رونی طور پر بھی ہماری اصلاح ہو اور اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فرائض کو كَمَا حَقُہ پورا کرنے کی توفیق دے جو ہمارے ذمہ لگائے گئے ہیں.اسلام اُس وقت ترقی کرے گا جب ہم ان فرائض کے مطابق اپنی زندگی بسر کریں گے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کئے گئے ہیں.اگر ہم ان کے مطابق زندگی بسر نہیں کریں گے تو اسلام ترقی نہیں کر سکتا.اور اگر ہم نے اشاعت دین کی طرف توجہ نہ کی تب بھی اسلام ترقی نہیں کر سکتا.پس تم دعائیں کرو، ذکر الہی کرو اور اپنے اعمال کی اصلاح کرو تا خدا تعالیٰ تمہیں اشاعت دین کی توفیق بخشے جو تمہارے ذمہ لگائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ تمہیں حاسدوں کے حسد اور کینہ وروں کے کینے سے محفوظ رکھے.وہ تمہارا خو د حافظ و ناصر ہو اور تمہیں ان دشمنوں سے بھی بچائے جنہیں تم جانتے ہو اور ان کا شمنوں سے بھی بچائے جنہیں تم نہیں (روزنامه الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر دسمبر 1955ء) جانتے.:1 نیچه بند نیچه باندھنے والا.حقہ کے نیچے بنانے والا
انڈیکس 3 11 16 18 22 26 29 1- مضامین 2 آیات قرآنیہ 3- احادیث 4.اسماء 5 مقامات 6.کتابیات
3 اجماع مسلمانوں کا پہلا اجماع احمدی 327 مضامین روحانی ترقی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں 242 نہیں چھوڑتا اسلام نے مذہب کی بنیاد عقل اور اللہ تعالیٰ کی تجلی سے کائنات کی محبت پر رکھی ہے 247 تمام چیزیں متاثر ہوتی ہیں اسلام اور ایمان کے مراتب 344 تا346 اللہ تعالیٰ ہر وقت نئی شان سے تجلی اسلام کے دس حصے 347،346 | فرماتا ہے ایک احمدی بنانے میں کئی مہینے لگتے ہیں 67 اسلام کی تعریف 353 354 اللہ تعالیٰ ہر چیز کی الجھنیں حل احمدیوں نے ورتمان کی شرارت کا جواب دیا اسلام کے معنی اطاعت اور فرمانبرداری 533 کرسکتا ہے 418 حقیقی اسلام کے معنی ہیں ہم اللہ کے ایک احمدی کی قابلیت اور ذہانت کا واقعہ 548 فرمانبردار ر ہیں گے احمدیت احمدیت کے مستقبل کے بارہ میں 533 166 470 470 474 اللہ تعالیٰ استحقاق پر انعام دیتا ہے 491 تعلق باللہ اسلام کی صحیح سپرٹ کیا ہے 533 7 535 تعلق باللہ ہماری زندگی کا سب سے اصلاحات مغربی مصنف کی رائے 472 جماعتی ترقی کے لئے نئی اخلاق بڑا مقصد تعلق باللہ کا مفہوم اصلاحات ضروری ہیں 67 تعلق باللہ کے معنی 125 133.132 133 اخلاق قوموں میں بدلتے رہتے ہیں 570 نئی اصلاحات کو برداشت کریں 67 اللہ کا بندوں سے تعلق ماں سے زیادہ | اخلاقیات پیدا کرنے والے موجبات 570 | اعداد و شمار اردو ہوتا ہے اعداد و شمار نہایت اہم چیزیں ہیں 542 تعلق باللہ کو اسلام، انسانی پیدائش 135 اردو زبان والوں کو الگ علاقہ میں اعداد وشمار کسی قوم کا اصل ٹمپر یچر ہیں 542 کی غرض قرار دیتا ہے 138 ، 139 و رکھا جائے 590 تا592 | اقتصادی حالت خدا اپنے ظہور کے لئے کسی نیک اردو ایک علمی زبان ہے 592 | اقتصادی حالت کی مضبوطی کا چندوں بندے کا محتاج ہوتا ہے 114 جس کے دل میں خدا بس جائے اسلام اسلام ایک کلیاتی مذہب ہے اسلام کے نزدیک بنی نوع انسان 233 سے گہرا تعلق اللہ تعالیٰ اسے دنیا نہیں مٹاسکتی اللہ تعالیٰ رحم کا معاملہ کرتا ہے محبت الہی 7 اللہ تعالیٰ بندے کو سوتے وقت بھی محبت اٹلی کامزہ 139 536 131
4 فطرت انسانی میں محبت الہی رکھی گئی ہے 135 انسان محبت الہی ایک فطرتی مادہ ہے جو انسان کی تکمیل کے چار ذرائع 233 تا235 پریس ہر انسان کے اندر پایا جاتا ہے 137 انسان کے اندر شعور اور تمیز پیدا کی گئی 234 پریس نے اپنا فرض ادا کیا 108 تا 109 محبت الہی کی اقسام (1) کسبی (۲) وہی 171 انسان اس لئے پیدا کیا گیا کہ وہ خدا محبت الہی وہی ہوسکتی ہے جس میں کا قرب حاصل کرے دوام ہو 288 پہرا پہرا ایک ضروری چیز ہے 171 انسان جہد مسلسل کیلئے پیدا کیا گیا 489 پیدائش عالم محبت یا حسن سے پیدا ہوتی ہے یا انگریز احسان سے پیدائش عالم ایک مقصد کے 175 انگریز کی خوشامد اور تنسیخ جہاد مطابق ہے تحریف محبت الہی نشانات پر غور کرنے کا جواب سے پیدا ہوتی ہے 189 ایٹم بم 376t372 دعا کی طرف توجہ کرنا بھی محبت الہی ایٹم بم کے متعلق پانچ ہزار ورکر 69 238 پیدا کرتا ہے 193 کام کر رہے ہیں موجبات محبت شدت سے اللہ ایمان کے وجود میں پائے جاتے ہیں 213 ایمان بڑی اہم چیز ہے 474 60 تبلیغ رسالت کی عبارت میں تحریف 376 تریاق القلوب کی عبارت میں تحریف 380 تحریک جدید محبت الہی کی خواہش کمال ذہنی سے ایمان کا درجہ اسلام سے اوپر ہے 343 ترقی بڑھتی ہے محبت الہی اور انسان کی ذمہ داریاں 235 171t 167 ایمان کی تعریف ایمان روحانی او قلبی کیفیت کا نام ہے 501 تفسیر اللہ کن سے محبت نہیں کرتا 174 تا 185 بشر کامل محبت الہی پیدا کرنے کے ذرائع 186 تا 197 بشر، کامل سے مراد محبت الہی کے حصول کے طریق 197 تا 219 بلند پروازی الہام تحریک جدید میں ہر احمدی حصہ لے 113 347 ترقی کا سلسلہ لامتناہی ہے 489 ایک آیت کی تفسیر 90.89 توبہ تو بہ گناہ سے روکتی ہے 8 تو بہ ضمیر کو روشن کرتی ہے ∞ ج 233 بلند پروازی کی تعریف 489-490 ایک الہام کی تشریح 89 تا 91 | بلوغت جامعہ نصرت الہام اور وحی کے معنی 284 بارہواں سال بلوغت کا پہلا سال جامعہ نصرت کو ماٹو کی تلقین الہام کا بند ہونا ناممکن ہے 303 سمجھا جاتا ہے 889 53 577 580.578
5 جامعہ نصرت کو تین نصائح 581،580 جنازہ جذبہ جہاد کے متعلق علماء کا غلط نظریہ 411،409 جنازہ کے متعلق احمدیوں کا فتوی 370 371 جہاد کبیر جذ بہ قوم کوا بھار دیتا ہے 492 جو شخص مکفر یا مکذب نہ ہو اس کا جہاد کبیر کیا ہے 404 473 155.154 168 جماعت جنازہ پڑھنے میں حرج نہیں پراگندہ جماعت اشاعت دین کا کام جہاد نہیں کر سکتی 588 جہاد کی حقیقت جماعت احمدیہ جہاد بالسیف کی اجازت کی وجوہات 390 ، 391 جماعت احمدیہ کے خلاف اعتراضات جہاد صرف ان لوگوں سے ہے جو 515 چ 390 چندے اگر جماعت کی صحیح تربیت ہو تو چندے دُگنے ہو سکتے ہیں کا خلاصہ 261 262 | مسلمانوں سے دین کیلئے لڑتے ہیں 391 جماعت احمدیہ نے انڈونیشیا کی جہاداسلامی کی شرائط 392 تا394 آزادی کی تائید کی 417 جہاد صرف دینی جنگ کا نام ہے 393 | جماعت احمدیہ نے تقسیم پنجاب کے حب کے معانی جہاد کے لئے امام کی شرط 394 395 حب کا مقام اور ضروری اختیاہ حُسن وقت مسلمانوں سے تعاون کیا 420 جماعت احمدیہ کے الگ مرکز کی وجہ 445 جماعت احمدیہ کی مسلم حکومتوں سے ہمدردی 4220416 کشمیریوں پر ظلم ہوا تو جماعت احمد یہ آگے آنے والی تھی 419 جہاد کا لفظ جھد سے مشتق جہاد اسلامی کا پس منظر 396 397 حسن الہی احسان الہی سے زیادہ مخفی ہے 208 جہاد مسیح کے وقت موقوف ہوگا 398 399 حسن الہی ایک نئی جس سے نظر آتا ہے 209 جہاد بالسیف مختص الزمان تھا 397 حکومت حضور کے وقت تلوار اٹھانے کی وجہ 400 حکومت کا کام محنت اور دیانت جہاد کا حکم بادشاہ کے بغیر نہیں جماعت احمدیہ نے کشمیر کی جنگ میں حصہ لیا 420 جہاد کے بارہ میں غلط فہمی کے 401 ذمہ دار پادری بھی ہیں 402،401 جماعت احمدیہ مخالفت کے باوجود ترقی کر رہی ہے جماعت احمدیہ نے شدھی تحریک کا مقابلہ کیا سے کرو خ 473 ممانعت جہاد کی تین وجوہات 403 404 خاتم الانبیاء 61 جہاد کی تین اقسام 404 خاتم النبین ت کی زبر سے ہے 302 م | 407 خاتم الانبیاء کے معنی افضل الانبیاء 306 418 جہاد کب فرض ہوتا ہے جہاد قیامت تک کے لئے ہے 407 408 ختم کے معنی اعلیٰ درجہ کے کمال جماعت احمدیہ نے بہار کے فسادات میں چندہ کی تحریک میں حصہ لیا 418 جہاد بالسیف دائگی منسوخ نہیں 408 نیز زینت 307
6 ختم نبوت پر ایمان احمدی ہونے کی خلافت کو دائمی رکھنے کا طریق 555 ایک شرط ہے 317 خلافت کی شرائط ختم نبوت کی بحث کا خلاصہ 315،314 خلافت کے قیام اور استحکام 561 درد , خدام کو جامع نصائح خدام کو ہدایات ختم نبوت اورشیعوں کا عقیدہ 313-314 کے لئے کوشش کرتے رہو خلة خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ کی تنظیم کی غرض 543،54 خلہ اس دوستی کو کہتے ہیں جو جسم کے ہلا دیتا ہے دعا خدام الاحمدیہ کو اچھا کام کرنے کی توفیق ملی 5 تمام مساموں میں داخل ہو 160 سب سے مقدم دعا ہمارا اللہ سے تعلق 56.55 546.545 59 خلہ اس محبت کو کہتے ہیں جو قائم ہو تمام اختلافات کو دور کرے 160 غیر احمدی مرحومین کے لئے دعا خلہ کا لفظ مقامات محبت میں سب کی اجازت 562 درد سے نکلا ہوا ایک فقرہ عرش کو 18 125 515 خدام میں حب الوطنی کا مادہ دوسروں سے بلند ہے خزر 162 سے زیادہ ہونا چاہیئے 60.59 ڈائری خنزیر کی صفت دائیں بائیں نہیں دیکھتا 439 خدام کو ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کی تلقین 61 ڈائری وہی صحیح لکھ سکتا ہے جو صحیح تعلیمی ہوتا ہے 541 میں ترقی 545 رکھا گیا خدام الاحمدیہ کا اجتماع تربیتی اور خدام الاحمدیہ کے پاس صبح و شام کے اعداد و شمار کا ریکارڈ ہونا چاہئے 542 خوارج خوارج کو اسلامی حقوق سے محروم نہیں خدام الاحمدیہ کے قیام کی غرض دین خدام الاحمدیہ کراچی کی تعریف 549 خود کاشتہ پودا خواتین کام کرتا ہے 471 احمدی خواتین دوسروں سے میل جول بڑھائیں 498 ذرية 363 ذرية البغایا کا جواب ذکر الہی 4350424 خدمت خلق ہر روز کچھ وقت ذکر الہی کے لئے خرچ کرنا چاہئے 61 خود کاشتہ پودا کا جواب 376 تا389 خدمت خلق سے مراد ساری مخلوق خود کاشتہ پودا کے الفاظ اپنے ذکر الہی نفع والی محبت کا مقام ہے 187 کی خدمت ہے 55 خاندان کی نسبت استعمال فرمائے 377 خدمت خلق کے مختلف طریق 61 خود کاشتہ پودا کے الفاظ اپنے رپورٹ خلافت خاندان کی گزشتہ خدمات کے متعلق 378 درست رپورٹ کیا کریں 71
7 رغبت علماء کا شغل تکفیر 361 تا364 رغبت کے عربی زبان میں معنی 143 144 شہروں کا بسانا آسان کام نہیں 593 علماء کے ایک اعتراض کا جواب 364 ،365 روایات علماء وسعت حوصانہ نہیں رکھتے 327 عورتیں روایات سابقہ باپ دادا کی حکایات نہایت ضروری ہیں روایات افراد کے اندر بہادری اور جرات پیدا کرتی ہیں 567 575 ص صحابہ عورتوں کو چندہ جات کی تحریک 75 صحابہ کی جماعت خدا سے محبت کرنے عورتوں میں فدائیت کی روح نظر آتی ہے 76 والی جماعت تھی 157 عورت میں زینت کا احساس پایا جاتا ہے 122 روایات ایک جتھا بنادیتی ہیں 576 صحابہدگی کامیابی خاص خدائی نصرت عورتوں کی پانچ پر کیں جل گئیں 122 بیر ریسرچ سکالر کا نتیجہ تھی ریسرچ سکالر کیلئے ہدایات 473 صحابہ کا ایرانی بادشاہ سے لطیف مکالمہ 534،533 صحابہ نے نبوت کے پانچویں سال س حبشہ کی طرف ہجرت کی سائنس صدرا انجمن احمدیہ سائنس کی بنیاد تین اہم امور 469 470 صدرانجمن احمدیہ کی مالی حالت سائنسدان سائنسدان بارہ بارہ گھنٹے کام کرتے ہیں 471 کمزور ہے 474 عورتیں صبر سے کام لیں غ 589 غور کرنے کی عادت ڈالو 113 غور و فکر 122 491 غور و فکر کی عادت سے کام لینے کا طریق 490 فتوى ف احمدیوں کے پیچھے نماز نہ پڑھنے کے چ عشق فتویٰ میں پہل غیر احمدیوں نے کی 368 ،370 خدام کو سچ بولنے کی تلقین 546 عشق ایسی محبت کو کہتے ہیں جو ہلاکت سکھ اور بر بادی تک پہنچا دے 142-143 سکھوں کے درد ناک مظالم 382،379 ش شادی شادی کے لئے کفو کی شرط علماء 372 احمدیوں کے غیر احمد یوں سے ق طبیعات پر غور صحیح علم کا ایک ذریعہ ہے 234 قرآن نے مذہب کی تاریخ بدل دی 245 علم کامل اور عمل کامل کامیابی کے ذرائع 488 قرآن ہر حکم کی حکمت بیان کرتا ہے 245 قرآن دلوں کی بیماریوں کیلئے شفا ہے 246 ان علماء کے نام جنہوں نے حضرت قرآن نے کائنات عالم پر غور کرنے شادی نہ کرنے کی وجہ 517-518 بانی سلسلہ کی صداقت کا اقرار کیا 264 کی طرف توجہ دلائی ہے 471،469 قرآن
8 قرآن کی بیان کردہ تین صداقتیں کافر کے معنی نہ ماننے والا 505 لیڈرشپ سائنس کی بنیاد ہیں 469، 476 کافروں کے حقوق اسلامی حکومت میں 512 ہر فرد کے اندرلیڈرشپ کی قرآن میں وہ معارف ہیں جنہیں کام صلاحیت ہونی چاہئے انسانی علم جمع نہیں کر سکتا 514 جو کام کریں گے وہی آگے آئیں گے 544 لیلۃ القدر قرآن کی حفاظت کے بارہ میں کرنیل سرولیم میور کی شہادت 531 ایک کرنیل کی بہادری قرآن ہمیشہ کیلئے محفوظ کتاب ہے 531 کفارہ قرآن کی ترتیب کے بارہ میں کفارہ کا مسئلہ صرف انیس سو سال 475 493 لیلۃ القدر میں دعائیں قبول ہوتی ہیں 14 محاسبه محاسبہ کا طریق 62.61 نولڈ کے کی رائے 532 سے جاری ہوا قیود قیود کا بڑھانا جماعت کی ترقی کی کفر کفر کی دواقسام علامت ہے 67 کائنات 528 353 506.355 فتوی کفر کی ابتدا علماء نے کی 508 تا 512 کشمیری کائنات کی پیدائش ایک بشر کامل کیلئے 233 کشمیری اور پٹھان ایک نسل سے ہیں 570 محبت محبت خالص اپنی ذات میں ایک مذہب ہے 157 محبت کے پانچ درجے 162 163 محبت جذبات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے 171 کارکن کارکنوں کی تنخواہیں قرض لے کر ادا کی جارہی ہیں کافر 113 گ گورنمنٹ محبت کا ایک ذریعہ احسان ہے 183 محبت کی وجوہات 219ť 197 محبت کی سب سے بڑی علامت گورنمنٹ برطانیہ سے وفاداری محبوب کا قرب ہے کسی کو کافر کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے 342 کے اقوال لفظ کا فر کا مفہوم 344.343 389385 زیادہ محنت اور زیادہ وقت لگا کر کے متعلق غیر احمدی علماء اور لیڈروں ل کافر کا مفہوم غیر احمدی علماء کے نزدیک 351 مومن کو کافر کہنے والا کافر ہو جاتا ہے 353 لجنہ جماعت احمدیہ کی طرف سے کافر کا لجنہ ہال پاکستان میں عورتوں کا کم سے کم استعمال 358 تا 361 | سب سے بڑا ہال ہے 565 کام کی عادت ڈالو 289 475 تمام ترقیات محنت سے ملتی ہیں 546 مخالفت مصلحین اور مجددین کی مخالفت 253 تا 256
9 مدح مسلمانوں کے لئے اللہ نے ترقی مدح اور ذب میں فرق 381 کے جملہ سامان مہیا کئے 530-531 نبوت مذہب مسلمانوں کے تنزل کے اسباب 556 نبوت قیامت تک جاری ہے 303 جماعت احمدیہ کا مذہب 340 تا 342 559، 560 حضور کے بعد صرف تشریعی نبوت بند ہے 306 مذہب کا ایک فائدہ 572 | مشکلات نبی مرکب مشکلات کا مقابلہ کرنا ہے تو نبی کے فوت ہونے سے کسی مرکزیت سب سے اہم چیز ہے مراقبه دنیا کی تمام چیزیں مرکب ہیں 469 اپنے اندرا صلاح پیدا کریں 545 مقام کی برکات نہیں جاتیں مرکزیت 5 مقدس مقام نبی کی تعریف مقدس مقام کی برکات نہیں ملتیں 118 حضرت بانی سلسلہ کن معنوں مراقبہ کے معنی ، کچھ دیر خلوت میں نفس ملت اسلامیہ جو شخص لا الہ الا اللہ کہے وہ میں نبی ہیں نوجوان کا محاسبہ 62-61 118 319 320t318 ملت اسلامیہ میں داخل ہے 347-348 نوجوانوں میں لیڈرشپ کی اہلیت مراقبہ کرنے والا روحانی ڈاکٹر بنے گا 62 منافق کی اہمیت 4930487 منافقوں کو اسلامی حقوق سے محروم قوم کی آئندہ ترقی کا دارو مدار مسجد ایک بہترین مبلغ کا کام دیتی ہے 112 نہیں کیا گیا 362 نوجوانوں پر ہوتا ہے 488 مساجد کی تعمیر کی اہمیت ، بیرونی ممالک میں نظمين 112 منتظمین جلسہ کمزور طبائع سے والدین مسلم مسلم نام امت محمدیہ کے افراد کا ہے 501 مومن مسلم کی دو اقسام 529 مسلم کے معنی مطیع ، فرمانبردار 529 نرمی اور درگزر کا سلوک کریں 76 | والدین کی اولا د سے محبت مومن ہر وقت کام میں لگا رہتا ہے وحی کی پانچ وجوہات 201ť 197 مسلمان مومن کو اپنے کاموں میں ست وحی کا سلسلہ جاری ہے 286 مسلمان کی تعریف 501،346 نہیں ہونا چاہئے مسلمانوں کے بگڑنے کی پیشگوئیاں 248 تا 251 | مومن اپنی حفاظت کرتا ہے مسلمانوں کی اصلاح کے لئے مومن کی جان بڑی قیمتی ہوتی ہے 66 وحی خدا کی محبت کے اظہار کے لئے مردان خدا کے ظہور کی پیشگوئیاں 251 252 مومنوں کو چار صحبتیں حاصل ہوتی ہیں 150 بھی ہے وحی کا نزول اسلامی آئیڈیا لوجی کا 55 | حصہ ہے 288 288
10 10 وحی کے تین طریق 513 وفات مسیح وحی غیر مامور کو بھی ہو سکتی ہے 513 وفات مسیح کا ثبوت آیات قرآنیہ سے 328 تا330 یہود وو توفی کے معنوں کے بارہ میں چیلنج 329-330 میبودمسلمانوں کے شدید دشمن ہیں 111 ؤ ڈوہ محبت ہے جو گہرا اور مضبوط تعلق وقف یہود کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کو پیدا کر دے 149-148 پیشنر کو زندگی وقف کی تحریک 101-102 قدم اٹھانا چاہئے 111
329 133 195 184 328 192 194 259 11 الفاتحة اهْدِنَا الصِّرَاطَ (7.6) البقرة وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ (31) فَتَلَقَّى آدَمُ مِنْ رَّبِّهِ (38) آیات قرآنیہ وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَتَّخِذُ (166) 337-295 (171) قَالُوْا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الْفَيْنَا قَاتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ (194190) 237 (191) 159 فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ مِنِّي هُدًى قَاتِلُوْهُمْ حَتَّى (39) وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَبَ (88تا90) كُنْ فَيَكُوْنُ (118) (194) 239 239 (223) إنَّ اللهَ يُحِبُّ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ 136 (256) إِذْ قَالَ لَهُ رَبُّهُ أَسْلِمْ (132) صِبْغَةَ اللهِ (139) شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ 344 لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّيْنِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ (257) 237 يعِيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيْكَ 155 (56) خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ 241 (60) إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِيْنَ 392-391 (77) وَ اللهُ لَا يُحِبُّ الظَّلِمِينَ 174 (141) وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَّسُولٌ 405 (145) وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَ 193 (149) إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكَّلِيْنَ 165 (160) يَقُوْلُوْنَ بِأَفْوَاهِهِمْ 259 (168) إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ 234 470 (192.191) الَّذِيْنَ يَتَفَكَّرُوْنَ 330 (192) 247.171 (144) وَلَاتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ (152.151) فَاذْكُرُونِي أَذْكُرْكُمْ 296 (282) 244 | ال عمران إِنْ كُنتُمْ تُحِبُّوْنَ اللَّهَ (32) 187 (153)
12 تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (194) النساء بَتْ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرٌ (2) إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ (37) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ (59) 297 يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا (12) إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ (43) 198 يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ (45) 175 188 الاعراف لَمْ يَكُنْ مِّنَ الشَّجِدِيْنَ (12) 195 قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّي (34 تا 36) يبَنِي آدَمَ إِمَّا 345 (36) 297 251 298.235 يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا مَنْ يَّرْتَدَّ قَالَ الْمَلُا الَّذِيْنَ اسْتَكْبَرُوْا (55) 237 وَلَهَدَيْنَهُمْ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا لَتَجِدَنَّ أَشَدَّ النَّاسِ (69) وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ (71.70) (72) 295 (83) 172-155 (89) اَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ (149) 383 258 290 رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا 295 (105) 68 وَإِذَ قَالَ اللَّهُ يَعِيْسَى (118.117) خُذُوا حِذْرَكُمْ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا (80) 243 | الانعام يَا يُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لا أحبُّ الأفلينَ 241 (157) قُلْ يَأْيُّهَا النَّاسُ (159) 330 وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِيْنَ (197) 351 243 284 394 144 365 156 (95) إِنَّ الْمُنَافِقِينَ (147.146) 344-343 كَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا (159) المائدة (77) وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ 297 (92) 294 لَا تُدْرِكْهُ الْأَبْصَارُ (104) الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ التوبة 170 وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِيْنَ كَافَّةً 241 (36) إِنَّا إِلَى اللَّهِ رَاغِبُوْنَ (59) يَحْلِفُوْنَ بِاللَّهِ مَا قَالُوْا (74) 208 قُلْ إِنْ كَانَ آبَاؤُكُمْ (124) 183 (142) 243 (4)
290 144 بَلْ فَعَلَهُ كَبِيْرُهُمْ هَذَا (6764) 211 يَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا (91) 13 وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ (73) بَنِي إِسْرَائِيلَ نُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ 151 هود إِنَّ رَبِّي رَحِيْمٌ وَدُوْدٌ (91) الرعد وَلِكُلِّ قَوْمٍ هَادٍ (8) إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ (12) وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلًا (39) ابراهيم 240 (83) الكهف كَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ حَدَلًا (55) مریم 246 137 الحج إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (39) أذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقْتَلُوْنَ (40 تا 42) 554 سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا 149 اللَّهُ يَصْطَفِي مِنَ 80 (97) طه 183 390 الْمَلَئِكَةِ رُسُلا (76) 295،2 طهُ مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ (3-2) لَئِنْ شَكَرْتُمْ لَا زِيْدَنَّكُمْ إِنِّي أَنَسْتُ نَارًا (8) وَ قَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا (11) 183 أَفَلَا يَرَوْنَ أَلَّا يَرْجِعُ 246 148 (79) المؤمنون أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنكُمْ عَبَيًّا 501 236 561 404 191 (116) 289 النور وَعَدَ اللَّهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا مِنْكُمْ 159 (90) 257 فَنَسِيَ (116) الانبياء وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءَ وَالْأَرْضَ (56) (17) 236 | الفرقان 246 (15-14) الحجر تِلْكَ ايتُ الكِتب (3-2) مَا لَكَ الَّا تَكُوْنَ مَعَ السجدين (33) 297 وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ جَاهِدٌ هُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا النحل حَى (31) الَّذِيْنَ تَتَوَفَّهُمُ الْمَلَئِكَةُ إِنَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ (33) وَلَوْيُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ (62) (31) 282 خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ (38) 203 218 (53) 236 الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (4) 133
343 470 236 14 (25) 240 | الحجرات يس قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا 180 لَئِنْ لَّمْ تَنْتَهُوا (15) (19) 181 يَحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ 258 الذريت وَمِنْ كُلِّ شَيْءٍ خَلَقْنَا (31) 254 إِذَا أَرَادَ شَيْئًا (50) 192 وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ 489.470 239 393 313 431 146 (57) الرحمن (83) الصفت اَرْسَلْنَاهُ إِلَىٰ مِلَّةِ الْفِ القصص إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَرِ حِيْنَ (77) إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ 470.234 (78) العنكبوت وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا (70) الروم فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي (31) السجدة يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ (148) 234.197 المؤمن وَلَقَدْ جَاءَ كُمْ يُوْسُفُ 89 كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (30) الحديد مِنْ قَبْلُ (35) 241 وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا 249 حم السجدة إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللَّهُ (27) الممتحنة لَا يَنْهكُمُ الله (1009) الصف 281 (6) الاحزاب مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ (31 تا 33) (41) 292 الشورى إِنَّا عَرَضْنَا الْآمَانَةَ مَا كَانَ لِبَشَرٍ (52) 237 الزخرف 513،284 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوْلَهُ وَلَمَّا ضُرِبَ ابْنُ مَرْيَمَ مَثَلًا (10) القلم وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ (14011) إِنَّا إِلَى رَبَّنَا رَاغِبُوْنَ 334-333 (33) 206-205 (73) سبا وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا (39) فاطر وَإِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا (58) 243 الفتح إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا (9 تا 11)
238 133 293 259 قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (11.10) العلق خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ 474 15 الجن النزعت أَنَّهُمْ ظَنُّوْا كَمَا ظَنَنْتُمْ إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَهَا (8) عَلِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ (45) 242 البروج 319 وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ (27تا28) الْمُدَّثِرُ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ (15) (3) 151 الفجر الكوثر (32) 119 فَادْخُلِي فِي عِبَادِي الدهر (31.30) 351 إِنَّا أَعْطَيْنكَ الْكَوْثَرَ الْبَلَد (402) إِنَّا هَدَيْنَهُ السَّبِيْل (4) 237 أَلَمْ نَجْعَلْ لَهُ عَيْنَيْنِ الكفرون المرسلات (1109) 238 وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ الشَّمْس لَكُمْ دِيْنُكُمْ وَلِيَ دِيْنِ 298 فَالْهَمَهَا فَجُوْرَهَا (9) 234 (7) (12)
16 احادیث انّى عِنْدَ اللهِ لَخَاتَم النبيين 299 300 فَأَمَّا عِيسَى فَأَحْمَرُ جَعْدٌ 333 أَتَرَوْنَ هَذِهِ الْمَرْأَةَ 164 أَوْحَى اللَّهُ إِلَى عِيسَى 287 خ أَتَعْلَمُوْنَ مَا الْإِيْمَانُ 347 | أَيَّمَا رَجُلٍ قَالَ 507 قَوْمٌ يُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ اخِرُ الدَّوَاءِ الْكَيُّ 218 أَيَّمَا رَجُلٍ مُسْلِمٍ كَفَّرَ رَجُلا 342 | ل 363 إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدَهُ 158 إِذَا أَكْفَرَ الرَّجُلُ 507 تَزَوَّجُوا لْوَلُوْدَ 152 إِذَا هَلَكَ كِسْرى 306 لَا نَبِيَّ بَعْدِي لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ لَا يَبْقَ مِنَ الْإِسْلَامِ أَصَيْحَابِي 249 ثَلاثَ مِنْ أَصْل الايمان 346 لَتَتَّعَنَّ سُنَنَ الَّذِيْنَ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ الْإِسْلَامُ عَشْرَةُ أَسْهُم الْإِمَامُ جُنَّةٌ التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ ارْفَعْنِي 364 346 394 159 218 329 لِلَّهِ أَشَدُّ فَرْحًا حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيمَانِ حَيْبُوا اللَّهَ إِلَى عِبَادِهِ 60 217 لَو عَاشَ إِبْرَاهِيمُ 386 157 250 249 138 299 لَوْ كَانَ مُوْسَى حَيَّالَمَا وَسِعَهُ خ إِلَّا اتَّبَاعِي 303 خَلَقَ اللَّهُ ادَمَ عَلَى صُورَتِهِ 237 خَيْرُ النَّاسِ قَرْنِي 250 اللهُمَّ اَيْدَهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ 283 مَا اكْفَرَ الرَّجُلُ س الْوَلَدُ يُوْلَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ 530 مَنِ انْتَقَضَ مِنْهُنَّ شَيْئًا 507 347 آمَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ سَيِّدَةُ نِسَاءِ أَهْلِ الْجَنَّةِ 381 أَنَا خَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ أَنَا عِنْدَ ظَنْ عَبْدِي بِي 299 306 166 مَنْ صَلَّى صَلوتَنَا 501،346 ع عُلَمَاءُ هُمْ 250 إنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ 252 ف إِنَّ جِبْرِيلَ لَا يَنْزِلُ 286 فَإِذَا رَجُلٌ آدَمُ سَبْطُ الشَّعْرِ 333 مَنْ مَشَى مَعَ ظَالِمٍ مَنْ عَشِقَ فَعَفْ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ مَنْ مَاتَ بِغَيْرِ إِمَامٍ 162 177 256 348
17 نُوْرٌ أَنَّى أَرَاهُ ی وَادَمُ بَيْنَ الرُّوح يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ يَأْتِي عَلَى جَهَنَّمَ زَمَانٌ يَتَزَوَّجُ وَ يُوْلَدُ لَهُ يُصْبِحُ الرَّجُلُ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّيْنِ 287 299 انسان نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ مہدی میرا متبع ہوگا 208 کے قرب میں بڑھتا ہے 139 وہ نبی اللہ ہوگا ایمان کے لئے زیادہ محبت کی ضرورت 157 اگر میرا بیٹا ابراہیم زندہ رہتا 304 300 502 352 80 250 249 خدا کا ایک بندہ تھا 161 میرے اور عیسی کے درمیان نبی نہیں 312 اگر میں خدا کے سوا کسی کو خلیل بناتا 161 میں آخری اینٹ ہوں بیٹھ جاؤ 179 | جب مومن مرجاتا ہے میں بھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا میرے اتباع کو فرشتے سزا کیلئے 184،183 لے جاویں گے یہ میرے رب کی تازہ نعمت ہے 190 بچپن میں مرنے والے تم میں سے جب کوئی شخص نیک کسی شخص نے کسی شخص کو 196 پیٹھ پیچھے گالی دی کام کرے حدیث بالمعنى تم اس عورت کو دیکھتے ہو کوئی نبی ایسا نہیں گزرا ( ترتیب بلحاظ صفات ) جمعہ کے دن ایک ایسی کھڑی آتی ہے 14 رمضان میں لیلتہ القدر آتی ہے 14 خدا کے رسول عہد توڑا نہیں کرتے 25 ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے 26 247 250 313 329 331 357 361 خدا کے دشمن اور رسول کی بیٹیاں 372 شادی کفو میں کرو پہلی امتوں میں وحی نازل ہوتی تھی 283 تم ملک حبش میں چلے جاؤ ایک مومن بھائی سے ملنے گیا 285 میری امت میں محدث اگر تمھارے اندر ایمان کی ایک حالت رہے 285 جو جان و مال کی حفاظت کرتے مارا جائے 372 375 420 جو شخص امام کی بیعت میں نہ ہو 447 285 بعض لوگ غلط بیانی کرتے ہیں 479
18 اسماء آرا ابن عساکر ابن علقمه آدم علیہ السلام حضرت 80 81 ، 163 ابو عبیدہ بن الجراح حضرت 375 521 | ابو قحافہ حضرت ابن قتيبه 363 | ابو موسیٰ اشعری ، حضرت 559.558 375 136 134.89.87.85.84 $239.237.201.198.159 256.252.245.243.240 528.491.300.298.276 570.569.558 ابن معین (امام) 521 ابوہریرہ حضرت 161.138 ابو اسحاق 284 ابوالحسن (طرابلسی) 249 | ابی حفض عمرو بن الوردی 358.347.300.166 336 87.85.84 آغا خان آل حسن 368 413 ابراہیم علیہ السلام، حضرت 118 290-241 239.205.170 ابوالحسنات مولانا 361،259 | احمد ، حضرت 519،511،362 | احمد بن حنبل حضرت امام 254 ، 257 ابوالکلام آزاد مولانا 271،265 احمد بن مصطفی ابوالمنصور ابوالنصر آه، مولانا ابوبکر، حضرت 334 413 احمد جان لدھیانوی حضرت صوفی 265 271 احمد رضا خان بریلوی 362،361 520.519.511.510.369 269.161.7 491.346.344.299.291 535.533.529t527 ابراہیم: حضرت (حضور کا فرزند ) ابن ابی شیبه ابن الانباری 315.304.299 301.300 301 327 تا329، 492،410، 508 احمد شیخ، حضرت سرہندی 591،254 ابوجندل 558 تا 561 | اسامہ حضرت 25 اسماء حضرت ابو جہل 293 ، 294 ، اسید بن حضیر ابن تیمیہ (امام) 347 364،348 ابو حاتم 443،442،372 | اشرف علی تھانوی 364 375 285 510 286 افضل حق چودھری مفکر احرار 268 ، 415 ابن حجر عسقلانی حضرت حافظ 521 ابوحنیفہ حضرت امام 253 257 افلاطون 333 | ، 442،434،350،349 | اقبال (علامہ) ابن حزم (علامه) ابن عباس حضرت 162 163 ابوسفیان (حضرت) 260 اکبر الہ آبادی 215 419 265 5744573 333 334 ، 347 ابو عبد الله (امام) 520 اکبر شاہ خان نجیب آبادی 573 574
19 امام الدین گولیکی حضرت مولانا 264 امتہ الحئی ، حضرت 130 | پیٹر ( روس کا بادشاہ ) الطاف حسین حالی 265 504 | بہادر یار جنگ، نواب 367 حاتم خان 530.529 حامد علی ، حضرت شیخ 181،180 علی،حضرت حز قیل حضرت أم سلمہ ، حضرت ام المؤمنین 375 پیرا 158 98 حسان بن ثابت حضرت أم عمر و 214 پیر صاحبُ العَلَم حضرت 265 | حسن ، حضرت امام حسن علی ، حضرت مولانا أم موسى 284 پیر صاحب حضرت کو ٹھے والے 265 حسن نظامی، خواجه امیر حسین ، قاضی مولانا امیر علی 264 472 حسین ، حضرت امام تاج الدین شیخ 40 41 | حنوک انوار حسین خان، حضرت مولانا 264 تغلق 593 | حواء حضرت الیاس علیہ السلام حضرت الیاس برنی 304 521.435 تیمور 558.474.56 528 282 301.81 264 265 301 128.127 87.80 201.198.136134 خ بابر باقر، حضرت امام بایزید بسطامی ، حضرت بخاری حضرت امام 474 433.432 254 254 ج جعفر، حضرت جعفر صادق حضرت امام بدھ علیہ السلام،حضرت 491،129 ثناء اللہ، مولوی امرتسری 368 | خالد بن سنان 375 433 خان دوران خان خداداد خان 313 82 266-265 خدیجہ حضرت اُم المومنين 84،83 517،505،442 خلیل الدین احمد رازی مولانا 264 جلال الدین سیوطی حضرت امام 288 | , برجیس برهان الدین جہلمی برہم، حکیم، مدیر شرق 313 180 264.181 265 جنید بغدادی حضرت 301.299 253 داؤد علیہ السلام، حضرت 529 داؤد غزنوی ، مولانا 279 ، 305 ،508 چ دیانند سوامی بشیر احمد، حضرت مرزا 34 چنگیز خان 474،56 دیدار علی مولوی بشیر الدین، حافظ بشیر الدین ، مولوی 65 275 415.268 511 } حاتم 215 | ڈارون 202.201
314 269 265 20 سراج الحق نعمانی ، حضرت پیر 265 شمسی صاحب الحق 271 | شوکت علی مولانا سراج الدین ابی حفض 334 شہاب الدین سر چودھری 254 ز ذوالنون مصری ، حضرت سراج دین مولوی راجپال 262 سرسید احمد خان رازی حضرت امام 285، 290 ، 431 274 284.275 472.406.386 267 547 521 474 25 413 راغب امام 297 298 سعد اللہ لدھیانوی 491 سعدی شیخ ، حضرت رام چندر رحمت اللہ رشید احمد گنگوہی رشید رضا علامه رقیہ ، حضرت 413 سفیان ثوری 368 406 سکندر سہیل 375 | سید احمد روشن علی ؛ حضرت حافظ 578،265 سید احمد بریلوی روم.حضرت مولانا 283، 310 311 257.254 386 385.374.373 ص صدیق حسن خان نواب 285 503.384.299 b طحاوی، امام طفیل محمد میاں ظ ظفر اقبال ظفر ظفر علی خاں مولانا 349 447.446 277 270-267 407.387.274 50 265 سید احمد سرہندی شیخ مجددالف ثانی 257 ظہور احمد باجوہ، چودھری 517 513.510.312 ع سیف الدین کچلو، ڈاکٹر 265 عائشہ ، حضرت ام المؤمنين 283،162 ریاض احمد ریاض ریاض الدین، مولانا ز سید علی 434 341.315.301.300 264 زرقانی ، علامہ 307 | سید محمد جونپوری 367 | عاص زکریا علیہ السلام حضرت 528 ش عبدالاحد خانپوری زلیخا شافعی،حضرت شردھانند سامری 289 290 شعبه، امام سبکی 286 شعیب علیہ السلام حضرت 158، 215 شافعی ، حضرت امام 257،253 ،364 عبدالجبار عمر پوری زید حضرت 292 293 شبلی نعمانی 384،265 | عبدالجبار غزنوی 262 عبد الحامد بدیوانی مولوی 521 عبد الحق غزنوی 294.293 516 369 279 49 440 258 508.442339
عبد الحق مولوی عبد الحکیم ڈاکٹر 21 340 عبداللہ بن عمر حضرت 121 عیسیٰ علیہ السلام، حضرت 16 ، 80 ، 354 عبداللہ بن مسعود حضرت 216.212.204.128.86 179 عبد الحلیم شرر 265، 269 | عبدالماجد بھا گلپوری ، حضرت مولانا 24 258،245،243،242،239 288 286-279-276-261 265 304 302 301.299.291 264 عبد الحئی لکھنوی، مولانا 310 عبد الماجد دریا آبادی عبدالرحمن بن عوف حضرت 375 عبدالواحد حضرت مولانا عبدالرحمن بہاری 369 عبد الوهاب شعرانی، مولانا 280 ، 306 319،318،315،312،305 عبدالرحمن چودھری 65 | عبید اللہ قاضی مدراسی عبدالرحمن سلمی 301 عثمان حضرت عبدالرحیم حضرت مولانا 264 عبدالرحیم درد، مولانا 95 عزرا ( نبي) عبد السميع بدایونی مولوی 339، 369 عزیز الرحمن مولوی عبدالشکور مولانا 517 عطاء اللہ شاہ بخاری ، مولوی 41،40 عبد الصمد غزنوی مولوی 340 ، 370 504،439،326،325،259 373-338329.327.326|370 528.498.497.491.374 69.7 553.537.535.529 561.560.375 278 عیسی کا نزول ختم نبوت کے منافی نہیں 313 312 369 عینی ، علامہ غ غالب 520 $69.7 غزالی 591 $253.247 281.280.257 غلام احمد قادیانی، حضرت مرزا مسیح موعود.77.76.4946.19.18.7 118.99.98.92-81.79 161.145 144.136.121 182 181 180.178.165 259.257.255.204.187 271.268.267.263.261 327 322 319.318.279 342-340337.335.329 علی حضرت 518 عبدالعزیز مولوی عبد القادر جیلانی حضرت سید عبد القادر ، سر 315.306 302.301.235 513.510.307.254.130 561-560.375.372.363 515 313 عبد القادر لدھیانوی ، مولانا 264 علی حائری عبدالکریم جیلانی سید 303 عمادالدین، پادری 402،388 عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت مولانا 264 عمر فاروق ، حضرت 7 ، 25 ، 69 ، 94 304.285-283-282.164.430.271 365 364.341.329327 441.440 561-560-508.410 94 عبد الله انتم عبد الله العمادی ، مولانا 265 ، 272 ، 411 عبد اللہ بن زید، حضرت 282 | عمرو بن معدی کرب
22 352،343تا354 ،358 359 لفظ نبی کے بکثرت استعمال میں احتیاط فضل الدین، حضرت 379.378.376.372.362 264 320 | فضل الدین حضرت ، مولا نا بھیروی 264 381، 389387،385،384 | فتنوں کو روکنے کیلئے حضرت فضل بن بسیار 398،395، 404،399، 405 بانی سلسلہ احمدیہ کی تجویز 403 فقیر اللہ مولوی 413،409، 416، 426 تا430 آپ کے بارہ میں اخبار وکیل کا تبصرہ فنڈل، پادری 442.440.439.436433 415.412 498،497،482،473،443 آپ کے بارہ میں غیر احمدی علماء 506،502تا513،508 تا 516 کے سخت الفاظ 423.422 554،553،521، 587 آپ نے مسلمانوں میں امید کی آپ کے الہامی نام محمد احمد 320 | کرن پیدا کی آپ کے الہامات 87،84،83 آپ کے نزدیک حضور خاتم النبین 89، 121 ،336، 502 قرآن خاتم الکتب آپ کے الہامات میں قادیان کی آپ نے غیر احمدیوں کو مسلمان 585 کہہ کر پکارا 472 481 502 ق قزوینی قطان، مولوی قیصر ک کرمی کفایت حسین حافظ کلارک، ڈاکٹر 520 340 402 334 521 373.306 306 214 380 ترقی کا ذکر آپکی شادی کی پیشگوئی میں حکمتیں غلام حسین ، حضرت مولانا 264 80 81 غلام رسول وزیر آبادی، حضرت حافظ 264 | گاندھی آپ کی عمر پر اعتراض کا جواب غلام فرید ، حضرت خواجہ 130 89 تا 91 غلام قادر ، مرزا آپ کو مرغ کی ٹانگ پسند تھی 127 غلام محی الدین، مولانا 265 377 267 آپ کی محبت الہی میں ڈوبی غلام مرتضی ، حضرت مرزا 376 ،377 ہوئی تحریر 165 166 غلام مرشد، مولانا آپ کی وفات پر اخبارات کی آراء 2770272 آپ کا ختم نبوت پر ایمان 316 پر ف فاطمہ الزھراء، حضرت فضل احمد قاضی 265 381 508 | لیپل گریفن ،سر 377 لیلی 157 216،215،158 مالک، حضرت امام 257،253، 521.334.333 مجنوں محسن الملک نواب 158.157 384
23 ملکہ وکٹوریہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 511،507،506،502 تا 514 محمد حافظ حضرت خاتم الانبیاء 425 | 444، 447، 479 تا498،483 محمد جعفر تھانیسری، مولانا 386 145.144 527،516 تا 531 ، 533 ، محمد حسین بٹالوی، مولوی 340،98 429.385-368.559554.537-535 32.26.25.16.13.9.7.6 83.81.80.60.59.56.48 588،586،567،562 | محمد حسین، خلیفہ 100،88،84 ،103، 110 تا113 | آپ مکہ میں پیدا ہوئے مدینہ میں محمد حسین شیخ 138،121،120 ،139 ، 152 | دفن ہیں 265 359 119 محمد دلپذیر، حضرت مولوی بھیروی 264 153 ، 157 تا 159، 161 ، 162 آپ نے جو کچھ سیکھا براہ راست محمد زکریا، مولانا 164 ، 166 ،169 ، 172 ، 177، خدا سے سیکھا 174 محمد سرور شاہ ، حضرت سید 179 ، 186، 190، 191 ، 196 آپ کی محبت کا ایک تقاضا محمد شفیع ، مولانا 212،208،206،204، | آل محمد سے پیار 182 | محمد شاہ 216 تا 219 ، 225 ، 226 ، 235 آپ تمام دنیا کے لئے مبعوث محمد صادق، حضرت مفتی 243،242،240،239، کئے گئے 521 264 509 81 271 243 تا 245 محمد ظفر اللہ خان ، حضرت سر چودھری 102 370.369 518 247 تا254،252 تا 258، آپ دونوں جہانوں کے شفیع 312 | 104، 107، 127، 480،419 260 262 264 ، 276 ، 278 آپ نے صحابہ میں جذبہ عمل بھر دیا 492 محمد عبداللہ ٹونکی 282 283، 287 تا 311، 313 آپ نے فتح مکہ کے بعد بھی مدینہ محمد عبد اللہ مولوی 315 تا327،325 تا 329 ، کو مرکز بنائے رکھا 589 محمد علی جالندھری، مولوی 41،40 331 تا 335،333 336 ، محمد احسن مولانا 264 محمد علی جناح، قائد اعظم 349،347،346،343338 محمد اسمعیل ( عام مولوی )340، 406 325 421.419.418.384.367 269.265 351 353، 357، 360، 363 محمد اسمعیل بلال پوری حضرت مولانا 264 محمد علی جوہر، مولانا 364، 366 372،367 تا 375 محمد اسمعیل ، حضرت میر 91 381 390 ، 394 ، 396 ، محمد اقبال ڈاکٹر علامہ 267، 268 ،504 398تا408،404،400 تا 410 | محمد الحبان علامہ 436،428،420 تا 443،438 محمد بخش 287 محمد علی کاندھلوی ، مولوی 422.421 309 محمد علی مولانا، لاہوری 521،271،45 82 محمد قاسم نانوتوی، مولانا 308 تا 310 510
24 محمد کفایت اللہ ، مولوی 370 | بڑھانے کی تحریک 76 ملاعلی قاری 50،45 آپ کی ہندوستانی مسلمانوں ممتاز دولتانہ میاں 84،83،81 کے لئے دعائیں 109 ممتاز علی ، مولانا 82 آپ کا تعلق باللہ 130 ،131 | منٹوا (لارڈ) محمد میاں محمد ناصر خواجہ محمد نصیر خواجہ محمد نصیر سید 305t303 439.326 274.265 262 4 342.259 446-420-410.368.351 520.508.503.448 82 آپ کے رویا کشوف 92، 130 ، منور احمد صاحبزادہ محمود احمد ،حضرت مرزا بشیر الدین 588،586،556،555،131 | مودودی مولانا 23، 39،36،32،31 تا 41، 1934 سے آپ پر انکشاف کہ 229،86،50،47،45 ، 269 ، جماعت کیلئے صدمہ مقدر ہے 585 326، 417، 419، 421 ، 443، آپ کے بیان کردہ واقعات و لطائف موسیٰ علیہ السلام، حضرت 16 ،148 آپ کا رمضان میں نو دفعہ قرآن ختم کرنا 15 محمود الحسن، مولوی 243-242-239-212.204 187.186 182 179 177 502.497 $329.327.300.291.278 575573.215t213 533.529.513.491 510 332 | مومن خان حضرت اماں جان کا ادب 91 محمود شلتوت ایک عیسائی سے گفتگو 216 محی الدین ابن عربی، حضرت 253 مہدی سوڈانی تین بیرسٹروں سے گفتگو 217 257 ، 280 ، 281 ، 287، 302 میر حسن مولانا ، سیالکوٹی آپ کی ایک پادری سے بحث 528 مریم علیہ السلام، حضرت 284 | میر درد حضرت خواجہ آپ کا ایک انگریز سے مکالمہ 536 آپ نے بہت سے سائنسدانوں مسولینی کے حالات پڑھے 471 مشتاق احمد دھلوی ، مولوی اردو دانوں کے لئے الگ جگہ کی مظہر جان جاناں ، حضرت تجویز تحریکات 513،381 | میکش 558 369 312 ناصر احمد شیخ ناصر خلیق 591،590 | معین الدین (سیکرٹری حکومت پاکستان) 515 ناصر میر، میاں معین الدین چشتی ، حضرت خواجہ 279 ناصر نذیر، فراق 111 سات روزوں کی تحریک الفضل اور ریویو کی اشاعت مغیرہ بن شعبہ 513.280 315.301 591 388 265 591.81 362.361 65 83 82 83 ناصر نواب، حضرت میر دہلوی 271،88 ناظم الدین خواجہ 439
25 نذیر احمد خواجہ نذیر حسین دهلوی 267 368.340 نپولین 15856، 558 نوح علیہ السلام ، حضرت 127 | وليد نپولین کا قول ہے کہ ناممکن کا 239 تا 491،300،243،241 ولیم میور سر لفظ میری ڈکشنری میں نہیں 472 نجاشی (نیکس) 226 تا 228 535.529.528 نورالدین، حضرت خلیفہ اول 98 ہٹلر 271.264.178 نجیب (جنرل) 105 | آپ کا گھوڑے سے گرنا 573،572 نولڈ کے 532 293.174 531 ہدایت اللہ، حضرت میاں DO 558.474.56 264 ی نیک محمد خان افغان 572 تا 574 یحییٰ علیہ السلام، حضرت 292 یحیی بن معین 521 515.405.385.370 یعقوب علیہ السلام، حضرت 128 وزیر خان نصرت جہاں (حضرت اماں جان ) 79 تا 81 118.9290.8886.83 وقار الملک نواب نواس بن سمعان 413 یعقوب علی شیخ تراب، حضرت 271 384 یوسف علیہ السلام، حضرت 157 158 130 131 ولی اللہ شاہ محدث دہلوی 247، 254 | 243،241، 373،346،291 257، 288،285،284 ، 308 یونس علیہ السلام حضرت 268 89
26 مقامات Li ایشیاء 515.487.448.447.419 561.228.23 594.587.585.565.548 آکسفورڈ 445 آکسفورڈ کیمبرج کے طلباء روایات کو قائم رکھتے ہیں بٹالہ 577 براہمن بڑیہ 98 99 | پاکستان کے حکام عدل و انصاف 264 کو قائم رکھتے ہیں اٹلی اردن 416 برما 111 | بصره افریقہ 227 561،374،228 | بغداد 374 | پالم پور 520 پانی پت 254،119 | پٹیالہ پشاور افریقہ کو اسلامی تاریخ میں ایک صرف بغداد ایسا شہر ہے جسے 54 368 592 265 145.144 خاص اہمیت حاصل ہے 225 | مسلمانوں نے ارادہ سے بنایا ہے 593 پنجاب 124،111،106،96 افغانستان 572،557،416،401 | بلوچستان امرتسر 271 411،272، بمبئی 277 275.269.267.263 367.265.79 406.402.382.379.326 418 592،516 | بنگال امریکہ 158.85.50.5 228،188،186، 374، 490، بورنیو ترکی 561،532 | بہار 590.544.508.507.420 105.104.79.78 570.264.108 <416.78.24 65 557.475.417 418 اناطولیہ 557 بہاولپور 265 | تونس 111 انڈر ونیشیا انگلستان 416.111 561.417 216.186.50.5 پاکستان 23 تا 26، 79،78،37، ٹنڈوالہ یار ٹاہلی 35 35 107.106.104.102.99.93 277 275.263.262.112 417.384 383.333.326 578.558.445.414.270 ایران 416،410،386،111، 557.534.533 جاپان جالندھر ج 374.85.5 592
27 553 جرمنی 577.558.389.5 جزائر جہلم جھنگ 561 ربوہ کی تعمیر اللہ کا بہت بڑا 180 | احسان ہے 571 مقبرہ بہشتی ربوہ کا مقام 118 | عراق شام 93 جو ہر آباد 95 خدا نے ربوہ کو با برکت کیا 119 | عرب جیلٹن 65 ربوہ مرکزی نظام کی درستی کے لئے ہے 561.557 561.557.111 386 158.94.85 433.432.427.416.410 577.267 561.559.557 445 557،374 ربوہ میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ علی گڑھ 469 علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ طلباء ربوہ کی ابتدائی تاریخ 589 ہمیشہ دوسروں سے ممتاز رہے 577 چین 576،561،558 | کا افتتاح ف جبشه 226،225، 373 ، ربوہ کے لئے خوا ہیں 589،557،375 ربوہ کے قیام کے مقاصد 589 595 فرانس 577.389.374.5 حیدرآباد 367 368 | روس 558،389،158،5 | فرنگی محل خ روم 410.386 فلسطین خراسان دہلی 386 ,.590.421.81 سپین سرحد 389 قادیان 6 تا 96،88،87،85،9، 270 111 دیوبند 264، 374،369،270 | سرگودھا راولپنڈی 591،519،517،509 | سالی لینڈ 446.179 سندھ مجلس خدام الاحمدی راولپنڈی اول 117 سوئٹزرلینڈ 144.121118.107.99.98 265.79 420.339.274.271.180 571.263.94.516.473.469.425.421 407 594.588585.573.572.38.36.34.31.23 106،79 ،265 | خدا نے قادیان کو بابرکت کیا 119 65 | قاہرہ 406 265 ربوہ 9،3، 13 ،65، 75، 85 تا 87 سہارنپور 521،264 | قلات 94تا109،101،100،97 | سیالکوٹ 274.263 469.445.262.117.110 سیلون 374 | کراچی 117،105،104،67
263 561 263 242 میانوالی 28 547.527.497.367.118 590،549 | لائلپور 591 کراچی کی جماعت نے فسادات لاہور 265،263،99،95،45 نائیجیریا میں اعلیٰ درجہ کا نمونہ دکھایا 544 | 276،274،267 ، 369،277 | نارووال نصيبين 435.429.418.384.370 مجلس خدام الاحمدیہ کراچی کے کام کی تعریف 420.419.263.79 کشمیر کے بغیر پاکستان ہرگز محفوظ نہیں 487.565.521.508.447 DO 590 تا 593 | ہالینڈ 490.75.47 لدھیانہ 592،518،508 | ہندوستان 112 لنڈن کلکتہ کنجے جی 418 | لیاقت آباد 35 کنری 35 ماریشس کھاریاں 264 | مدینہ منورہ 6، 111،85،25،9،7 264.263.112 374.368.285.2710269 65 402-388-387-385-384-382 95 507.418.415.411.406.405 576.573.561.557.513 65 593.587.585.577 کوفه کیمبرج کمل بود کینیا 561.225 577،445 | مرا کو 446 | مصر مظفر گڑھ 327 294.286.120.119 95 589.390 363 111 416.373.111.69 561.557 591 119.111.85.25.96 293.286.228.226.225 591 586.558556.399.294 419 589.588 265 118 گجرات گوجرانوالہ گورداسپور گوکھووال 117 118 مقام ابراہیم مکہ میں ہے 591.265.264 ہندوستان کے مسلم پریس کا احتجاج ہوشیار پور 109 180 یمن یوپی 557 270.265 یورپ 228،182،158،100 576.561.557.536.271 579 یورپ کے ہر کالج نے اپنا ماٹو بنایا ہوا ہے یونان 577 557.416.215
29 آئینہ حق نما آ.267 کتابیات الفروع الکافی الفضل 520 92.40.34.32 435.360.324.323.111 آئینہ کمالات اسلام 424 الفضل کے خاتم النبین نمبر 441.434.432.4300426 کی تعریف آزاد (اخبار) 38،33،32 | لمی 77.76 314 آفاق اثبات الالہام والبيعة احمدیہ پاکٹ بک ازالہ اوہام اسباب بغاوت ہند اسعاف الراغبين اسلام اور ملکیت زمین اشاعۃ السنہ پاکستان لاء ریویو پیغام صلح (اخبار) 23 49.45 براہین احمدیہ 428،275،180 المصاحف 301 تاج العروس المصل المصلح 338، 490 تاریخ رئیسان پنجاب المنجد 431 تبلیغ رسالت 517 | تحذیر الناس امہات ا مسلمين 438 تذكرة انجام آتھم 358، 359، 388 تذکرة الاولياء 431.284 377 376.375 309 87.84.83 126 انجیل 276،216،128 | ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا 532،531،373،277 | فرض انوار الاسلام 442،440 | تریاق القلوب 227.105 443.442 279 435 428 386 287 38 515.385 288 276 503.388 اعلام اوجز المسالک 521 تحمید الا ذبان اعمال اقتراب الساعة اقرب الموارد اکمال الدین تفسیر المنار 160 بائبل 332،237،128،127 تفسیر بحر محيط تفسیر بیضاوی 313 363 | بخاری الامامت والسیاست الحكم 271 بدر (اخبار) 532.528.333 347-333-332 271.165 تفسیر حسینی تفسیر روح المعانی 417 380 165 406 297 281 432 287.283 404.358
30 30 313.306 } 285 تفسیر صافی تفسیر عرائس البيان 108 | عجائب المخلوقات 519 334 علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ 274 غ ڈان اخبار 307 432 298 313 رد الرفضه ریاض الاخبار 265 عالمية المقصود ریویو آف ریلیجنز 360،271،77 ف ز فتح الاسلام 431.285 345.277.276 388 تفسیر فتح البيان تفسیر قادری تفسیر قمی تفسیر کبیر رازی تورات توزین الاقوال توضیح مرام 428 تهذيب التهذيب 521 زمیندار (اخبار) 105،93،49 فتنہ ارتداد اور پولیٹیکل قلابازیاں 268 428 302.280 444 521.435 431 350 313 تہذیب نسواں لاہور 274 407.387.384.274.270 で فتوحات مکیہ 420 | فریاد درد ق قادیانی مذہب 429.428 108 قاموس قدوری قسطلانی شرح بخاری كتاب البريد 380،379،375 كتاب الفرائد الدريه 431 508 312 307 سرمه چشم آریہ سول اینڈ ملٹری گزٹ ش شرح بخاری، علامہ عینی شرح مواہب اللد نیہ ص صادق الاخبار 275 کلمه فضل رحمانی گ گالی اور اظہار واقعہ میں فرق 435 431 صراح 411.395 388.299 321 276 334 310 301 جہاد (رساله) حج الكرامة حقيقة النبوة ا خاتم النبین خريدة العجائب دافع الوساوس (رساله) در منشور
438-435 337 388 349 31 معین الحکام مفتاح السعادة 334 نجم الہدی مفردات القرآن 297 نزول المسیح مفردات راغب 161.160 نور الحق 350 284 لسان الحکام لسان العرب 408،404 نہایۃ ابن الاثیر 284 متی شنوی مجاهد (اخبار) مجمع البحار مجمع البحرین 276 311.283 444.432 283 307 معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا میخانه درد آئنده رویه مکاشفه 276 ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر 267 وکیل(اخبار) 411،272،271 291 منتهی الادب وید موضوعات کبیر 286 موطا امام مالک 417 میزان الحق 284 303 521 83.82 402 DO ہدایہ ہمدرد 405 421 ینابیع الاسلام 438