Anwarul-Uloom Volume 22

Anwarul-Uloom Volume 22

انوارالعلوم (جلد 22)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محموداحمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 22

Page 2

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ السیح الثانی المصلح الموعود کی حقائق و معارف سے پُر سلسلہ تصانیف الموسوم ” انوار العلوم کی تئیسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ.انوار العلوم کی تئیسویں جلد حضرت مصلح موعود کی 5 اپریل 1952ء تا نومبر 1953ء کی 22 مختلف تقاریر وتحریرات پر مشتمل ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پسر موعود کی عظیم الشان پیشگوئی سے نوازا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مہتم بالشان پیش خبری کو اپنے ایک اشتہار 20 فروری 1885ء میں شائع فرمایا.اس پیشگوئی میں غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل ایک پسر عطا ہونے کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی.اس موعود بیٹے کی علامات میں یہ بھی بیان کیا گیا تھا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا ، علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا ، کلام اللہ کا مرتبہ اُس کے ذریعہ ظاہر ہوگا اور قو میں اُس سے برکت پائیں گی! پسر موعود ومصلح موعود کے بارہ میں پیشگوئی اور اُس میں بیان فرمودہ غیر معمولی علامات کا شاندار ظہور حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی کے بابرکت وجود میں ہوا جو صرف 25 سال کی عمر میں حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کی وفات کے بعد مسند خلافت پر متمکن ہوئے.

Page 3

حضرت مصلح موعود تمام عمر علوم ظاہری و باطنی ، اپنی ذہانت و فطانت اور اپنی خدا داد صلاحیتوں اور استعدادوں سے نہ صرف احباب جماعت کو مستفیض کرتے رہے بلکہ آپ کی قائدانہ صلاحیتوں اور فکری استعدادوں سے دوسروں نے بھی فائدہ اُٹھایا اور قو میں آپ سے برکت پاتی رہیں.قرآن کریم کے گہرے علوم و معارف آپ کو عطا کئے گئے.آپ نے ساری عمر خدمت قرآن میں صرف کر کے کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کیا اور یہ مرتبہ اس شان سے ظاہر ہوا کہ جماعت کے شدید معاند بھی آپ کے علم قرآن کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے اور اُنہوں نے بر ملا کہا کہ تم مرزا محمود کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ اس کے پاس قرآن ہے.انوار العلوم کی تئیسویں جلد میں شامل تقاریر وتحریرات اہم جماعتی مواقع پر کی گئی ہیں جو کہ ہمارے لئے مشعل راہ اور تاریخ احمدیت کا ایک قیمتی سرمایہ ہے.اس عرصہ کے دوران حضرت مصلح موعود نے خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے 1950ء، 1951 ء کے اجتماعات سے متعدد خطابات فرمائے اور خدام کو مختلف حوالوں سے قیمتی نصائح سے نوازا اور مجلس کے کاموں میں اُن کی راہنمائی فرمائی.اسی عرصہ میں جماعت احمدیہ کے ۲ جلسہ ہائے سالانہ 1950ء اور 1951 ء منعقد ہوئے.ان جلسوں کے مواقع پر حضور نے تینوں دن خطابات فرمائے اور خواتین کو بھی اپنے کلمات طیبات سے نوازا.یہ سب خطابات اس کتاب کی زینت ہیں.27 دسمبر 1950ء کی جلسہ سالانہ کی تقریر بہت اہم مضامین پر مشتمل ہے.اس میں حضور نے متفرق امور کے بیان کے علاوہ جماعت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو مختلف الزامات لگائے جاتے ہیں اُن کا بڑی تفصیل سے رڈ فرمایا ہے.باؤنڈری کمیشن میں جماعت احمدیہ کا علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کے مسئلہ پر بھی حضور نے سیر حاصل بحث فرمائی ہے.اسی طرح پاکستان کے بنانے میں جماعت احمدیہ کی جو خدمات ہیں اُن کا بھی تفصیل سے ذکر فرمایا ہے.اس تقریر کا بہت سا مواد غیر مطبوعہ ہے جو پہلی دفعہ شائع کیا جا رہا ہے.

Page 4

جلسہ سالانہ 1950ء ، 1951ء کے اختتامی خطابات کا موضوع ”سیر روحانی" ہے.یہ سلسلہ خطابات حضور نے قبل ازیں 1938ء میں شروع کیا تھا.اس کی دو تقاریر اس جلد میں شامل ہیں.یہ دونوں تقاریر بھی غیر معمولی علم و معرفت کے مضامین پر مشتمل ہیں.حضور نے 26 نومبر 1950ء کو پہلی بار اپنے اُستاد محترم حضرت خلیفہ امسیح الاول کے وطن بھیرہ کا سفر اختیار فرمایا.اُس موقع پر آپ نے جو معرکۃ الآراء خطاب فرمایا وہ بھی بہت اثر انگیز ، پر معارف اور لطیف مضامین پر مشتمل ہے اور اس جلد میں شامل اشاعت ہے.خدام الاحمدیہ کی سالانہ تربیتی کلاسز کے مواقع پر حضور کے دو اہم خطابات بھی اس جلد میں شامل ہیں.جلد ھذا میں شامل تقاریر وتحریرات حضرت مصلح موعود کی ولولہ انگیز قیادت اور آپ کے تجر علمی کی آئینہ دار ہیں.ان تحریرات کے مطالعہ سے جہاں ایمان ترقی کرتا ہے اور علم و معرفت میں اضافہ ہوتا ہے وہاں اس کے مطالعہ سے تاریخ احمدیت اور تاریخ اقوامِ عالم سے بھی آگا ہی ملتی ہے.یہ پُر شوکت نقار یر اور ولولہ انگیز خطابات یقیناً احباب جماعت کے ازدیاد علم اور از دیا ایمان کا موجب ہوں گے.اِنشَاءَ اللہ اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسب سابق بہت سے بزرگان اور مربیان سلسلہ نے اس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی ہے.نے مسودات کی ترتیب و اصلاح اور ابتدائی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بہت محنت اور اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں.صاحب مربیان سلسلہ نے پروف ریڈنگ حوالہ جات کی تلاش و ترتیب، مسودات کی نظر ثانی ، ،

Page 5

اعراب کی درستگی ، RECHECKING اور متعد دمتفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.تعارف کتب مکر ما تحریر کردہ ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.خاکساران سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے.نیز دُعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ ن سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے ، اپنی بے انتہاء رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 6

بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب یه سید نا حضرت فضل عمر ليلة امسیح الثانی کی ایمان افروز ، پر معارف اور روح پر در خطابات پر مشتمل انوارالعلوم کی بائیسویں جلد ہے جو ۷ارستمبر ۱۹۵۰ء تا ۲۵ / مارچ ۱۹۵۲ء کی ۲۲ مختلف تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے ہے.(۱) عورتیں آئندہ نسلوں کو دین دار بنا سکتی ہیں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے لجنہ اماءاللہ کراچی کے اجتماع میں مؤرخہ ۱۷ ستمبر ۱۹۵۰ء کو یہ معرکۃ الآراء خطاب فرمایا.جس میں حضور نے سورۃ النساء کی آیت ۲ کی بہت لطیف تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ” الناس میں عورتوں اور مردوں کو سانجھا خطاب ہے.اللہ تعالیٰ کے جو احکام ہیں اُن میں عورتیں بھی ویسے ہی مخاطب ہیں جیسے مرد.ان کے جذبات، احساسات اور اُمنگیں بھی ویسی ہی ہیں جیسے مردوں کی.خدا عورتوں کی بھی ویسے ہی دُعا سنتا ہے جیسے مردوں کی اس لئے اولاد کی تربیت کی طرف عورتوں کو توجہ دینی چاہئے.قومی ترقی کا انحصار آئندہ نسلوں کی صحیح تربیت پر ہے.جو ایک احمدی عورت کی ذمہ داری ہے.اور اس کے لئے اسلامی تعلیم سے آراستہ ہونا بھی ضروری ہے.حضرت عائشہ عورتوں کے حقوق ، اُن کے فرائض اور اُن کے کاموں سے خوب واقف تھیں و اپنی خلقت اور بناوٹ کی وجہ سے اس حصہ کو زیادہ یا درکھ سکتی تھیں اس لئے آنحضور نے نے فرمایا کہ یہ حصہ عائشہ سے سیکھو.وہ صلى الله

Page 7

66 (۲) سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ۲۱ / اکتوبر۱۹۵۰ء کو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع کے افتتاحی اجلاس کے موقع پر بنفس نفیس تشریف لا کر ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا جس میں حضور نے عقیدہ ، ایمان اور عمل کے آپس کے تعلق کو نہایت لطیف پیرا یہ میں بیان فرما کر نو جوانوں کو اپنے عقیدہ یعنی کلمہ کو ایمان سے مزین کر کے عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی نصیحت فرمائی.اس مضمون کو بیان کرنے سے قبل نماز میں یکسوئی پیدا کرنے کے لئے امام کی اطاعت اور صفوں کو سیدھا بنانے کی بھی تلقین فرمائی اور فرمایا ” نماز میں جس کی صف سیدھی نہیں اُس کا دل ٹیڑھا ہے.“ حضور نے فرمایا کہ کلمہ شہادت اور چیز ہے اور ایمان اور چیز.صرف کلمہ کو دُہرا لینا ایمان نہیں بلکہ ایمان در حقیقت وہ قوت محرکہ ہے جو صداقتوں کو ماننے اور اس کو دنیا میں پھیلانے کے پیچھے عمل کر رہی ہے.کلمہ پر خالی یقین کر لینا ہی کافی نہیں.اس کی مثال تو اُس بیلنے کی ہے جو گنے کے بغیر خالی چلایا جائے.اگر رس لینا ہے تو گنا اُس میں ڈالنا پڑے گا اس لئے ایمان میں حلاوت لانے کے لئے قوت محرکہ ہونی ضروری ہے.پس ایمان، عقیدہ اور قوت محرکہ کے مجموعہ کا نام ہے.جب عقیدہ اتنا پختہ ہو جائے کہ انسان اپنے اندر اس کے ذریعہ تبدیلی پیدا کرے تو اس کو مومن کہتے ہیں.پھر عمل کے ذریعہ اپنے ایمان کا لباس تیار کرتا ہے کیونکہ عمل ایمان کا لباس ہے.اس لئے احمدیت میں داخل ہونے کے لئے سب سے پہلی چیز جو پیدا کرنی ہے وہ ایمان ہے عقیدہ اس کا ایک حصہ ہے.دوسری چیز عمل ہے اور تیسری چیز راست بازی ہے کیونکہ مذہب نام ہے ہی راست بازی کا.اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مذہب پر چلنے والا شخص سچائی کو اپنے ہر شعبہ زندگی میں داخل کرتا ہے اور جھوٹ سے دُور رہتا ہے کیونکہ جھوٹ اور مذہب دونوں الگ الگ چیزیں ہیں.-

Page 8

(۳) اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع پر ۲۲ /۱ کتوبر ۱۹۵۰ء کو صبح دس بجے اپنے خطاب میں خدام کو جس اہم بات کی طرف توجہ دلائی وہ سچ بولنے کے متعلق تھی.حضور نے عہد کی اہمیت بیان فرما کر دورانِ اجتماع خدام کو کھڑا کر کے ان سے ہمیشہ سچ بولنے کا عہد لیا.اور فرمایا کہ اسلام ، مذہب اور انسانیت کی جان سچ ہے.جو شخص سچ نہیں بولتا وہ قوم کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے.(۴) مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں نو جوانوں کو ضروری ہدایات اجتماع خدام الاحمدیه مرکز یه پر ۲۲ اکتو بر ۱۹۵۰ء کو رات کے وقت حضور پنڈال میں اُس وقت تشریف لائے جب خدام کے مابین تقریری مقابلہ ہورہا تھا.اس موقع پر حضور نے تقریر اور مضمون نویسی پر خدام کو بیش قیمت ہدایات دیں.جن میں دوران تقریر گرج اور اونچی آواز میں بولنے سے خدام کو منع کرتے ہوئے فرمایا کہ مضمون کو آہستگی سے اور ایسے رنگ میں پڑھنا چاہئے کہ سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے جائیں.اور انتظامیہ کو بھی تقاریر کے لئے عناوین سوچ سمجھ کر دینے چاہئیں جس سے خدام کو بولنے کی مشق ہو جائے.اور جہاں تک تحریری مضامین کا سوال ہے اس سلسلہ میں خدام کے حلقے اور سرکل بنا دیں اور ان کو ایک مضمون دے دیا جائے جہاں تمام خدام اس مضمون کے حوالہ سے تیاری کریں اور اپنے نمائندہ کو میٹنگ منعقد کر کے دلائل لکھوائیں اور وہ یہاں آکر سُپر وائزر کے سامنے مضمون لکھے.اسے کتابیں دیکھنے کی اجازت ہو مگر کسی سے مشورہ کی نہیں اور یوں ساری کی ساری جماعت اس مضمون کی تیاری میں شامل ہو گی.اس موقع پر حضور نے خدام کو اپنے اپنے حلقہ اور علاقہ کے تحت اکٹھے بیٹھنے کی بھی نصیحت فرمائی.

Page 9

م (۵) مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ ء کے آخری اجلاس میں بعض اہم ہدایات سید نا حضرت مصلح موعود نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ء کے اختتامی اجلاس منعقدہ ۲۳ اکتوبر ۱۹۵۰ء میں خدام الاحمدیہ سے خطاب فرمایا.حضور نے خدام میں انعامات کی تقسیم کے بعد فرمایا کہ جب کسی نو جوان کو انعام دیا جاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے نوجوانوں کے دلوں میں بھی ویسے کام کرنے کی تحریک پیدا ہو اس لئے انعام لیتا ہو ا دیکھ کر بَارَكَ الله لَكَ فِيهِ کہا جاتا ہے اور انعام لینے والے کو دعا دی جاتی ہے اور انعام لینے والا انعام دینے والے اور دوسرے حاضرین کے اس دعائیہ کلمات پر جَزَاكُمُ اللہ کہتا ہے.حضور نے مزید فرمایا کہ جو کچھ یہاں سیکھا ہے واپس جا کر میٹنگز منعقد کر کے اجلاسات منعقد کر کے نمائندے دوسروں تک یہ باتیں پہنچا ئیں.اور جو عہد سچ بولنے کا کل میں نے لیا تھا وہ عہد بھی لیں اور تمام خدام أى والله بلند آواز سے کہنے کی مشق کریں کیونکہ یہ الفاظ عہد نبھانے پر دلالت کرتے ہیں.حضور نے خدام کو تیرا کی اور دیگر پیشے اور ہنر سیکھنے کی طرف بھی توجہ دلائی لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ ہندو کے یہاں سے چلے جانے کے بعد تعلیمی ڈگریوں کی بھی گنجائش ہے اگر پاکستان نے ترقی کرنی ہے تو لازماً تعلیم کے ساتھ کرنی ہے.یہ تعلیمی ڈگریاں کچھ عرصہ تک تو اس خلاء کو پُر کرسکتی ہیں لیکن ہنر اور پیشے اپنانے سے روزگار میں ترقی ہوگی.حضور نے آخر میں خدام کو اپنا منہ صاف رکھنے کی بھی نصیحت فرمائی اور فرمایا یہ سوشل تعلقات کے لئے ضروری ہے.

Page 10

(۶) تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے زیر اہتمام پہلے چودہ روزہ تربیتی کورس جس میں۵۰ خدام نے شرکت کی کے اختتام پر مورخہ سے نومبر ۱۹۵۰ء کو حضور نے خطاب کرتے ہوئے خدام کو نصیحت فرمائی کہ واپس جا کر اپنی اپنی جگہ پر خدام کی تنظیم قائم کریں اور اس تعلیم کو جو یہاں سیکھی ہے اپنے ساتھی خدام کو بھی سکھائیں.نیز حضور نے خدام کو اُس عہد کو تازہ کرنے کی نصیحت فرمائی جو آنحضور ﷺ نے اسلام کے پر چار کا اپنے خدا سے کیا تھا.حضور نے فرمایا:- پس یہاں سے فارغ ہو کر اپنے اپنے علاقہ میں جاؤ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم کرو تبلیغ کرو اور کوشش کرو کہ مرکز کی آواز کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے.ہمارے ہر نو جو ان کے اندر یہ آگ ہونی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کا کام کرے.“ وو حضور نے خطاب کے آخر میں خدام سے درج ذیل عہد تین بار لیا.66 " کیا آپ لوگ اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ جو باتیں آپ نے یہاں سیکھی ہیں اُن پر عمل کرنے کی پوری کوشش کریں گے اور اپنی اپنی جماعتوں میں ان اسباق اور تعلیموں کو پھیلانے کی کوشش کریں گے اور زیادہ سے زیادہ اخلاص خود بھی دکھائیں گے اور دوسروں میں بھی اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.“ (۷) بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر حضرت خلیفہ اسیح الثانی مورخه ۲۶ نومبر ۱۹۵۰ء کو پہلی بار حضرت خلیفتہ المسح الاول کے مولد ومسکن بھیرہ تشریف لے گئے.جہاں حضور نے بعد نماز ظہر وعصر احباب جماعت سے ایک دردانگیز اور پُر معارف خطاب فرمایا جو دو گھنٹے جاری رہا.حضور نے خطاب کے آغاز میں بھیرہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ بھیرہ ، بھیرہ والوں کے لئے اینٹوں، گارے اور چونے سے بنا ہوا ایک شہر ہے مگر میرے لئے میرے استاذ جنہوں نے مجھے

Page 11

۶ نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم اور بخاری کا ترجمہ پڑھایا کا مولد ومسکن ہے.میں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا ہے.پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی قدر بہت زیادہ ہے.یہاں ہی کی ایک بیٹی امتہ الحئی جو حضرت مولانا نورالدین صاحب کی بیٹی تھی سے میری شادی ہوئی.اُن سے باوجود وعدہ کے میں اُنہیں اُن کی زندگی میں یہاں نہ لا سکا.اب اُن کو فوت ہوئے ۲۶ سال ہو گئے ہیں.حضور نے اپنے اس معرکۃ الآراء خطاب میں اس امر کا بھی ذکر کیا کہ بعض لوگوں نے مجھے بھیرہ میں مخالفت کا ذکر کر کے دورہ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا.اس ضمن میں آپ نے اسلام کے دور اول میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شدید مخالفت کا ذکر فرمایا اور کہا کہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ، ولید کے بیٹے خالد اور عمرو بن العاص کے بیٹے عبداللہ بن عمرو مسلمان ہوئے اور اسلام کے لئے انہوں نے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم فرمائی.اس لئے آپ کو دُعاؤں کے ساتھ تبلیغ کا کام نہیں چھوڑ نا اور نرمی سے دلائل دیتے ہوئے جنگ جیتی ہے اور بتانا ہے کہ وہ تمام علامات جو قرآن و احادیث میں بیان ہوئی ہیں وہ حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کے حق میں پوری ہوگئی ہیں.(۸) ہم خدا تعالی کوکسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے مؤرخہ ۲۶ دسمبر ۱۹۵۰ ء کو جلسہ سالانہ کے افتتاحی اجلاس سے ایک مختصر خطاب فرمایا.جس میں حضور نے انتظامیہ کو بعض ہدایات فرما ئیں.نیز حاضرین جلسہ کو یہ بنیادی نصیحت فرمائی کہ وہ اپنے خدا سے قریبی تعلق پیدا کریں.آپ نے فرمایا کہ ہما را دشمن چاہتا ہے کہ ہم اپنے خدا سے تعلق تو ڈلیں لیکن ایسا نہیں ہوگا ہمارے جسم کی ایک ایک بوٹی بھی جُدا ہو جائے خواہ اس کے بدلہ میں ہماری جان و مال تباہ ہو جائیں لیکن ہم اپنے خدا کو نہیں چھوڑ سکتے بلکہ ہم تو چاہتے ہیں کہ خدا کا چہرہ ہمارے مخالفین کو بھی نظر آئے اور اُن کے دلوں میں بھی رسول کریم ﷺ کی محبت پیدا ہو جائے تا

Page 12

صلى الله وہ اپنی مستیوں اور غفلتوں سے ہٹ کر دین کی محبت میں لگ جائیں اور رسول کریم ہے کی حکومت دنیا پر پھر سے قائم ہو جائے.(۹) اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے اس کے مطابق اپنے فرائض ادا کرو جلسہ سالانہ ۱۹۵۰ء کے دوسرے دن مؤرخہ ۲۷ / دسمبر کو عورتوں کے پنڈال میں بنفس نفیس تشریف لے جا کر حضرت مصلح موعود نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.جس میں آپ نے قرونِ اولیٰ کی عورتوں کی قربانیوں ، اُن کی علمی ذہانت اور فراست کا ذکر کر کے عورتوں کو اُن کی ذمہ داریوں سے آگاہ فرمایا.آپ نے فرعون کی بیوی کی مثال دی جس نے باوجود فرعون جیسے دشمن کے پاس رہتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت کی.آپ نے حضرت مریم علیھا السلام کی مثال بھی دی کہ وہ ایک عورت ہی تھی جس نے اپنے بچے کی ایسی پرورش کی کہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان بنا.اسی طرح آپ نے حضرت خدیجہ ، حضرت عائشہ کی قربانیوں کا ذکر فرمایا اور ایک مشہور صوفی خاتون رابعہ بصری کا ذکر کر کے فرمایا کہ عورت اب ایک نمایاں حیثیت اختیار کر رہی ہے.عورت اور مرد میں دماغ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں جو کچھ مرد سیکھ سکتا ہے وہ ایک عورت بھی سیکھ سکتی ہے.اگر آپ میں سے ہر عورت نے کم از کم ایک عورت کو اسلامی نور سے منور کیا ہوتا تو احمدیت کتنی ترقی کر چکی ہوتی.تعلیم دینا اور تبلیغ کرنا صرف مردوں کا کام نہیں بلکہ عورتوں کا بھی ہے.جس طرح بھنور میں پھنسی کشتی دونوں طرف چپو چلانے سے ہی نکل سکتی ہے اسی طرح جماعت کی گاڑی چلانے کے لئے مرد اور عورتوں دونوں کو برابر کام کرنا ہوگا.عورتوں کا علمی معیار بلند کرنے کے لئے حضور نے لجنہ اماءاللہ کو ایک کورس جاری کرنے کی ہدایت فرمائی اور فرمایا کہ خدام کی طرز پر پندرہ روزہ تربیتی کورس منعقد کر پھر اس سال زنانہ کالج قائم کر کے دینی علم کے ساتھ ساتھ دُنیوی علوم کی ترویج کا بھی

Page 13

انتظام کیا جائے.اسی طرح لجنہ کے دفاتر کا بھی حضور نے اعلان فرمایا.جس میں لائبریری بھی ہوگی اور عورتیں اس سے بھی فائدہ اُٹھا سکیں گی.(۱۰) متفرق امور حضرت مصلح موعود نے ۱۹۵۰ ء کے جلسہ سالانہ کے دوسرے دن مؤرخہ ۲۷ / دسمبر کو با و جو د علالت اور گلا کی خرابی کے بہت سے متفرق امور کی طرف توجہ دلائی اور جماعت پر مخالفین کی طرف سے الزامات کا ذکر کر کے بڑی تفصیل سے ان کے مؤثر جوابات دیے.سب سے پہلے نظارت دعوۃ و تبلیغ کو توجہ دلائی کہ تقریر کے لئے موضوع دیتے وقت مناسب و موزوں آدمی کا چناؤ بھی ضروری ہے پھر حضور نے جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی رہائش کو آسان بنانے کے لئے ایسے مخلصین کو اپنی اپنی زمینوں پر مکان بنانے کی تحریک فرمائی جن کی زمینیں ربوہ میں تھیں.حضور نے سورۃ کہف کی تفسیر کو ہر گھر میں موجود رکھنے کی بھی تحریک فرمائی.ہماری مخالفت میں جو جماعتیں سرگرم ہیں اُن میں احرار، اسلامی جماعت اور اسلام لیگ ہیں.مجلس احرار نے ہم پر یہ الزام عائد کیا کہ ہم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وفادار نہیں ہیں.انہوں نے پہلے ہم پر انگریزی حکومت کے باغی ہونے کا الزام لگایا پھر کچھ سالوں کے بعد انگریزوں کا ایجنٹ ہونے اور خوشامدی ہونے کا الزام لگا دیا.جبکہ یہ الزام غلط ہے.اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے قائم کیا تھا تو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو ایسی باتیں سیکھاتے جو اُن کی تائید کرنے والی ہو تیں لیکن ایسا نہیں ہوا.آپ نے تو بڑے بڑے پادریوں سے ٹکر لی آپ نے اُن کے خدا کو مار ڈالا.پھر دوسری طرف اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انگریزوں نے ہی کھڑا کیا تھا تو پھر پادری صاحبان جو واقعہ عیسائیت کے ایجنٹ ہیں وہ ان کے دوست ہوتے جبکہ عملاً ایسا نہیں.پادری صاحبان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کھل کر مخالفت کی جس میں پادری رلیا رام بھی تھا.جس کے ہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب شائع ہوتی تھیں.اس کے باوجود

Page 14

۹ اُس نے موقع پا کر آپ پر مسودہ میں کاغذ رکھنے کا مقدمہ کر دیا.حضور نے اس ضمن میں ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک کے مقدمہ کا بھی تفصیل سے ذکر فرمایا.حضور نے اپنے اس خطاب میں جماعت احمد یہ پر ہونے والے جن الزامات کو گنوایا ان میں سے ایک سردار آفتاب احمد خان جنرل سیکرٹری مسلم کشمیر کا نفرنس کا الزام تھا کہ کشمیر میں احمدیوں نے ملک سے غداری کی ہے اور کشمیر کے محاز پر احمدیوں نے غداری کے طور پر فرقان فورس بھیجی.حضور نے فرمایا کہ اگر ہم واقعہ غدار ہیں تو ہمیں دو سال تک محاذ پر کیوں بٹھائے رکھا.اگر ہم غدار ہیں تو کیوں قوم نے ہمیں گولیوں کا مستحق نہ بنا دیا.حضور نے فوج کے کمانڈر انچیف کے فرقان فورس کے حق میں تعریفی بیان کو بھی تفصیل سے بیان فرمایا.حضور نے احرار کے اس الزام کو بھی بیان فرما کر اس کا تسلی بخش جواب دیا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے باؤنڈری کمیشن کے موقع پر ملک سے غداری کی حضور نے اس حوالے سے اپنی ساری بحث کو سمیٹتے ہوئے خلاصہ فرمایا : - خلاصہ یہ ہے کہ احمدیوں کا الگ میمورنڈم پیش کرنا احرار کی اس شرارت کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ احمدی مسلمان نہیں کیونکہ اگر اس کا جواب احمد یہ میمورنڈم میں دوسرے مسلمانوں کی حمایت کر کے نہ دیا جاتا تو گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو اور سکھ اعداد و شمار سے غلط ثابت کر سکتے تھے.حضور نے میمورنڈم کے بعض پیرا گراف اس تقریر میں پڑھ کر سنائے جس سے ثابت کیا کہ قادیان جماعت کا عالمی اور دائی مرکز ہے اور جماعت کے لئے ممکن نہیں کہ وہ مرکز کو کسی اور جگہ تبدیل کرے.جماعت کی بہت بھاری اکثریت مغربی پنجاب پاکستان میں موجود ہے.اس لئے قادیان کو پاکستان سے علیحدہ کرنا جماعت کے مستقبل کے لئے نقصان دہ ہے اس لئے اسے پاکستان کے ساتھ ملایا جائے جبکہ احرار کہتے ہیں کہ سرظفر اللہ خان صاحب نے قادیان کو انڈیا کے ساتھ ملانے کے لئے کوششیں کیں جو سراسر غلط ہے.حضور نے اپنے مؤقف کو جھوٹا ثابت کرنے والے کے لئے دو ہزار روپیہ انعام کا

Page 15

بھی اعلان فرمایا.آخر میں حضور نے پاکستان بننے میں جماعت احمدیہ کی جو خدمات ہیں اُن کا بھی اختصار سے ذکر فرمایا اور میمورنڈم پڑھ کر سنایا.(۱۱) سیر روحانی نمبر (۵) حضرت طریقہ اسیح الثانی کا یہ معرکۃ الآراء خطاب جو آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۵ ء کے اختتامی اجلاس میں مؤرخہ ۲۸ / دسمبر کو ارشاد فرمایا حقائق و معارف و قرآنی انوار پر مشتمل تقاریر کا ایک تسلسل ہے جو آپ نے کراچی، ممبئی اور حیدرآباد کے سفر کے بعد ایک نظارہ کی بناء پر ۱۹۳۸ء میں شروع کیا تھا.اس مضمون کا محرک دتی میں واقع غیاث الدین تغلق کا قلعہ بنا.اس سفر میں آپ نے ۱۶ مادی اشیاء کا مشاہدہ کیا.ان کے مقابل پر عالم روحانی میں ان کے مشابہ اور مماثل امور کو نہایت و جد آفرین اور اثر انگیز پیرا یہ میں ان تقاریر میں بیان فرمایا.جن کا نام آپ نے ”سیر روحانی“ رکھا.اس خطاب میں آپ نے عجائبات سفر میں سے ساتویں یعنی دیوانِ عام کو بیان فرمایا ہے.آپ نے فرمایا کہ دنیوی دیوان عام کی غرض بادشاہ کے قوانین کا اعلان ، بادشاہ کا جلوہ افروز ہونا، عوام کی فریا د یں سننا وغیرہ ہوتا ہے لیکن یہ دیوان عارضی ہوتے ہیں جو جلد یا بدیر ویران اور برباد ہو جاتے ہیں پھر یہ ویسے بھی ایک خاص محدود علاقہ کے لئے ہوتے ہیں.لیکن ایک قرآنی دیوان بھی ہے جس میں حضرت محمد رسول اللہ اللہ جلوہ افروز ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولَا اور إِنِّي رَسُولُ اللهُ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا کہہ کر اس بادشاہت کے دائمی ہونے کے ساتھ ساتھ ساری دُنیا کے لئے ہونے کا اعلان کیا گیا اور دیوانِ عام میں بادشاہوں کے مقرر کردہ گورنرز اُن کی مضبوطی کا باعث بنتے ہیں جبکہ اس قرآنی دیوان میں اس کو بادشاہ مقرر کرنے والا خود اس کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے.اور پھر احیائے دین کے لئے مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث کر کے آنحضور ﷺ کے تا قیامت گورنر جنرل ہونے کا اعلان فرمایا اور اس کے ذریعہ دین کو دوبارہ عروج ملا.صلى الله

Page 16

"1 حضور نے دربار عام میں ہونے والے دس امور کو نہایت فصیح و بلیغ رنگ میں روحانی دربار پر اطلاق کر کے تفصیلاً بیان فرمایا اور اسلام پر ہونے والے بعض اعتراضات کا جواب بھی دیا جیسے تعدد ازدواج وغیرہ اور قرآن کریم کو ایک مکمل اور جامع قانون کے طور پر پیش فرمایا اور بیان کیا کہ دُنیا میں جاری ہونے والے قوانین عارضی ہوتے ہیں لیکن قرآنی تعلیم دائمی ہے.حضور نے امریکہ کے قانون کی مثال دی ہے کہ ایک وقت میں شراب حرام قرار دی گئی مگر کچھ عرصہ کے بعد پھر حلال کر دی گئی مگر قرآن نے تاقیامت شراب حرام کر دی ہے.(۱۲) اپنے اندر سچائی محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی بنیاد چونکہ ۴ رفروری کو ڈالی گئی تھی اس مناسبت.نئے سال کے آغاز پر مجلس نے مؤرخہ ۱۲ فروری ۱۹۵۱ء کو ایک تقریب کا انعقاد کیا.اس موقع پر حضرت مصلح موعود نے خدام سے ایک خطاب فرمایا جس میں آپ نے خدام کو سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف اپنے اندر پیدا کرنے کی نصیحت فرمائی.سچائی کے متعلق فرمایا کہ بلا محل سچ بولنے سے بعض دفعہ فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اس لئے شریعت نے حکم دیا ہے کہ گواہی صرف قاضی لے.اور محنت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یورپ کے مقابل پر ہمارے نوجوانوں کو محنت کی عادت نہیں اور ۲۵ ، ۲۵ سال تک اپنے والدین کے سہارے جی رہے ہوتے ہیں.ہمارے نوجوانوں کو پڑھائی کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ہر نو جوان کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ جلد سے جلد اپنی پڑھائی ختم کرے اور پھر اپنی قوم اور ملک کی خاطر کوئی کام کرے.(۱۳) اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش کرو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی چودہ روزہ تربیتی کلاس بمقام ربوہ منعقد ہوئی جس میں بیرون ربوہ سے بھی خدام نے شرکت کی.۲۱ / اپریل ۱۹۵۱ء کو اس کلاس کی اختتامی تقریہ

Page 17

۱۲ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے خدام کو چند قیمتی ہدایات سے نوازا.آپ نے فرمایا: حقیقت یہ ہے کہ جو چیز دل سے نکلتی ہے وہی دوسروں پر اثر کرتی ہے اور اسی چیز کا نام تبلیغ اور تعلیم وتربیت ہے “.حضور نے جو نصائح فرمائیں ان کا خلاصہ یہ ہے.ا - وعظ و نصیحت کرنے کے لئے اپنے اندر جوش اور عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے.یہاں چودہ دن رہ کر جو نیا جوش اور نیا عزم پیدا ہوا ہے اسے یہاں سے لے کر جاؤ اور اپنی اپنی جماعتوں میں بھی یہ جوش اور عزم پیدا کرو.تم عمل کی طرف توجہ کرو.تم اپنی اصلاح کرو اور دوسروں کی بھی اصلاح کرو.یہ نہ کہو کہ سب بڑے ہیں بلکہ جس خادم کے بارہ میں شکایت ہے اُسی کا نام لکھ کر رپورٹ کرو.اگر یہ لکھ دیتے ہو کہ سارے بُرے ہیں تو یہ لغو طریق ہے اور حدیث مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَ اَهْلَكَهُمُ کے مطابق ساری قوم کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے.(۱۴) اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو گزشتہ سال حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اپنے ایک خطاب میں عورتوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ایک کالج کھولنے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ آئندہ سال اس کا ضرور اجراء ہو جائے چنانچہ ۱۴ ارجون ۱۹۵۱ء کو آپ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے اس کا افتتاح فرمایا اور ربوہ کی احمدی خواتین سے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.حضور نے اپنے اس خطاب میں نہایت احسن پیرایہ میں تاریخ کی اہمیت وافادیت مثالوں کے ساتھ بیان کر کے تاریخ کا مطالعہ کرنے کی طرف طالبات کو توجہ دلائی اور فرمایا کہ تاریخ پڑھنے سے اپنے آباء واجداد کا ، اپنے اسلاف کا پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے کیا کیا قربانیاں کیں.وہ کیا تھے اور کیا ہم اُن کے نقش قدم پر چل رہے ہیں.حضور نے

Page 18

۱۳ تقریر کے آغاز میں دنیوی تاریخ کی اہمیت بیان فرمائی اور بعد میں اسلامی تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس کے مطالعہ سے اس بات کا علم ہو گا کہ اسلام کہاں سے شروع ہوا.نہتے مگر ایمان سے پُر مسلمانوں نے جابر بادشاہوں کا مقابلہ کیا اور قیصر و کسری کے تختوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا.پس اس کے لئے تمہارے اندر سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اُس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت کی حقیقی روح کو دُنیا میں قائم نہ کر دو.اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذ بہ ہونا چاہے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں.اخلاق فاضلہ سکھائیں اور بیچ کی اہمیت تم پر روشن کریں.(۱۵) ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے جماعت احمدیہ نے ۱۹۵۱ء میں یوم تحریک جدید منایا اس سلسلہ میں بیت مبارک ربوہ میں مؤرخہ ۲ ستمبر کو ایک اجلاس منعقد ہوا.جس میں حضور نے چندہ تحریک جدید کی اہمیت ایک نئے انداز میں بیان فرمائی.حضور نے فرمایا کہ قریباً تمام مذاہب کی تعلیمات سانبھی ہیں جیسے تو حید کی تعلیم ، عبادت کی تعلیم ، روزے کی تعلیم ، اخلاق حسنہ اپنانے کی تعلیم ، صدقہ زکوۃ کی تعلیم ہے لیکن جب لوگ ان تعلیمات سے یا ان ذمہ داریوں سے جو ان پر عائد ہوتی ہیں غافل ہو جاتے ہیں تو ان ذمہ داریوں کی طرف لوگوں کی توجہ پھر انے کے لئے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ تحریکیں کرتے ہیں اور اُسے جدید کہا جاتا ہے اور كُلُّ جَدِيدِ لذيذ کے مطابق لوگ نئی آواز کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں.اسی ناطے تحریک جدید کو جدید کہا گیا ور نہ کام تو وہی ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کئے اور امت کو کرنے کو کہا.اس لئے ان کاموں کی تکمیل کے لئے کئے گئے وعدہ جات کو ادا کریں.قربانی کا بہترین وقت جنوری سے جون جولائی تک ہوتا ہے جس میں خرچہ کم ہوتا ہے.کپڑوں پر بھی زیادہ خرچہ نہیں اُٹھتا اور نہ ہی سردیوں کی طرح بستر وغیرہ پر خرچ ہورہا ہوتا ہے اور زمینداروں کی دونوں فصلوں کی آمد بھی اس عرصہ میں آجاتی ہے پھر تازہ وعدہ کی وجہ سے دلوں میں جوش بھی ہوتا ہے اس لئے اس کی ادائیگی اس عرصہ میں آسان ہوتی

Page 19

۱۴ ہے.حضور نے آخر میں فرمایا ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے، زندگی کو اتنا سادہ بنالے کہ اس پر یہ قربانی دو بھر نہ ہو اور تمام وعدے پہلے تین چار ماہ میں ہی ادا ہو جائیں.(۱۲) خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے سالانہ اجتماع مؤرخہ ۱۳ اکتو برا۱۹۵۱ء کو خدام سے یہ خطاب فرمایا.شدید گرمی کے باعث حضور نے مجلس شوریٰ میں اس امر پر غور کرنے کی بھی درخواست کی کہ اسے نومبر میں کر لیا جائے اور مختلف مجالس سے شمولیت کرنے والے نمائندگان رخصت لے کر حاضر ہوں.اجتماع میں گزشتہ سال کی نسبت حاضری اور نمائندگی میں کمی پر حضور نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر گاؤں اور ہر شہر میں مجالس قائم کرو.اگر ہر جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور چندہ منظم ہو جائے تو چالیس پچاس ہزار روپیہ چندہ اکٹھا کرنا کوئی مشکل امر نہیں اور مجالس کے قیام سے اجتماعات میں حاضری بھی بڑھے گی.صلى الله (۱۷) رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں حضرت مصلح موعود نے بیت مبارک ربوہ میں مؤرخہ ۱۸ نومبرا ۱۹۵ء کو منعقدہ جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں باوجود علالت کے بنفس نفیس شرکت فرمائی اور جلسہ میں کم حاضری کو دیکھ کر انتظامیہ کو فرمایا کہ اُسے اس طرف توجہ دینی چاہئے اور ایسے با برکت جلسوں میں حاضری بڑھانی چاہئے تا معلوم ہو کہ ہمیں رسول کریم ﷺ سے والہانہ محبت ہے.اس خطاب میں حضور نے غار حراء میں آنحضور ﷺ پر نازل ہونے والی سب سے پہلی وحی اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ کی بہت لطیف تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ صلى الله

Page 20

۱۵ وحی اپنی ذات میں بتا رہی ہے کہ آنحضور ﷺ بلند کریکٹر کے مالک تھے.آپ نے اس حوالہ سے مزید فرمایا.غرض اِقْرَأَ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ میں بظاہر ایک پیغام دیا گیا ہے لیکن بباطن اس پیغام کے الفاظ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے اخلاق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ علیہ بلا دلیل کسی کام کو کرنے کے لئے تیار نہ تھے.نہ بلا حق کسی سے کوئی کام کروانے کے لئے تیار تھے اور نہ کسی بے نتیجہ کام کو کرنے کے لئے تیار ہوتے.ان تینوں اخلاق کو پیش کر کے محمد رسول اللہ ﷺ کی اخلاقی مثال بھی دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی ہے.“ (۱۸) ہجرت مشرقی پنجاب سے پاکستان ہجرت پر حضرت مصلح موعود نے دلوں کو گرما دینے والا یہ مضمون احباب جماعت کو حوصلہ اور دلاسہ دینے کی غرض سے تحریر فرمایا.جس میں آپ نے آنحضور ﷺ کی باوجود مکہ سے محبت کے وہاں سے ہجرت کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ آپ ﷺ نے مکہ چھوڑا مگر اس عزم صمیم کے ساتھ کہ پھر مکہ کو فتح کریں گے.ہماری یہ ہجرت بھی خدا کی خاطر ہے اس لئے آنحضور ﷺ کی تقلید میں میں مشرقی پنجاب آنے والے سب لوگوں سے کہتا ہوں کہ آؤ ہم بھی اپنے آقا رسول اللہ ﷺ کی اتباع میں تہیہ کر لیں کہ اپنے آبائی وطن کو لوٹیں گے اور ضرور کوٹیں گے لیکن بغض اور کینہ اور انتقام کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ انسانیت اور روحانیت کے تقاضوں کے جواب میں اور ہمدردی اور محبت کے جذبات لئے ہوئے...اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت وہاں قائم کریں جس طرح ہمارے آقا محمد رسول اللہ ﷺ نے قائم کی.الله (۱۹) افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء کے افتتاحی اجلاس منعقدہ ۲۶ / دسمبر کو

Page 21

۱۶ جلسہ گاہ تشریف لا کر مختصر خطاب فرمایا جس میں حضور نے ان مبارک دنوں کی مناسبت سے نصیحت فرمائی کہ یہ دن عبادات بجالانے اور خدمت دین بجالانے کے ہیں.ان ایام کو شکر گزاروں کی طرح بسر کرو اور لغو باتوں سے پر ہیز کرو.یہ ایام اُن بہترین ایام میں سے ہیں جو کسی قوم یا کسی فرد کو کبھی حاصل ہوئے ہوں.حضور نے اس خطاب میں جماعت کی مخالفت کا بھی ذکر فرمایا کہ یہ بہترین انعام ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ رہنے والی جماعتوں کو ملا کرتا ہے.(۲۰) چشمہ ہدایت جلسہ سالانہ ۱۹۵۱ء کے درمیانی دن یعنی ۲۷ / دسمبر کو حضور نے لجنہ میں جا کر خطاب نہ فرمایا بلکہ مردوں کے جلسہ گاہ سے ہی عورتوں کو مخاطب ہو کر تبلیغ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرو اور اس سستی اور غفلت کو چھوڑ دو.نیز حضور نے تعمیر دفتر لجنہ اماءاللہ پر خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے ہالینڈ کی بیت الذکر کے لئے چندہ اکٹھا کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے اس دن چشمہ ہدایت کے نام سے بصیرت افروز خطاب فرمایا لیکن اس سے قبل چند متفرق امور کی طرف بھی حضور نے توجہ دلائی.جس میں تبلیغ احمدیت کے متعلق بعض نہایت زریں ہدایات دینے کے علاوہ اشاعت لڑ یچر کے متعلق اپنی سکیم کا ذکر فر مایا.البدر، الفضل اور ریویو آف ریلیجنز کی اشاعت بڑھانے کی طرف توجہ دلائی.نیز احباب جماعت کو یہ لڑ پچر خریدنے اور پڑھنے کی طرف بھی توجہ دلائی اور بڑی بڑی جماعتوں میں لائبریریوں کے قیام کی بھی تحریک فرمائی نیز جامعہ احمدیہ کے طلبہ کو جامعہ سے فراغت سے قبل ایک علمی تحقیقی مقالہ لکھنے کی بھی سکیم پیش فرمائی.حضور نے مخالفت اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ان مشکلات میں بھی احمدیت ترقی کرے گی.حضور نے متفرق امور بیان کرنے کے بعد جو علمی تقریر فرمائی اُس کا آغا ز آپ نے

Page 22

۱۷ ,, - سورۃ العصر کی تلاوت سے فرمایا اور انسان کے خسارے میں نہ رہنے کی جو چار خصوصیات اس سورۃ میں بیان ہوئی ہیں اُن میں سے امنوا کے تحت ایمان کی نہایت لطیف تفسیر بیان فرمائی کہ ایمان کا لفظ امن سے نکلا ہے اور ایمان کے معنی ہیں امن دینا.ایمان کے معنی خالی عقیدہ کے مان لینے کے نہیں.ایمان تو اس چیز کو کہیں گے کہ کسی عقیدہ کو ایسا مان لینا جو امن دے دے.اگر اس کے ساتھ امن مل گیا تو وہ ایمان ہے.ایمان کے حوالے سے آنحضور ﷺ کی روایات حضور نے بیان فرمائیں کہ ایمان کے معنی بیان کرتے ہوئے رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ایمان اس عقیدہ کا نام ہے جو غیر متزلزل ہوا اور متزلزل کرنے والی چیزوں کو گنواتے ہوئے حضور نے فرمایا.۱.عقیدہ و نقل ۲ عقل.جذبات صحیحہ یعنی اگر فطرت کوئی بات کہتی ہو تو پہاڑوں میں رہنے والا ان پڑھ بھی کہہ دے گا یہ بات درست ہے.پس حصولِ ایمان کے جو مواقع خدا تعالیٰ نے میسر کر رکھے ہیں.ان کو بروئے کار لائیں اور اپنے عقیدوں کو نمبر وار لکھ کر نقل ، عقل اور جذبات صحیحہ سے ان کی تائید چا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے احمدیت کے جو اصول بیان فرمائے اُن میں سے دس موٹے موٹے اصول حضور نے بیان فرما کر ان کو بطور عقیدہ کے گنا اور عقل اور جذبات صحیحہ سے ان کے تائیدی دلائل دیئے نیز ان دس اصولوں کا غیر از جماعت کی تعلیمات سے موازنہ بھی کیا.جن میں وفات مسیح، اجرائے نبوت ، الہام کا دروازہ قیامت تک کھلنے اور قرآن کریم کے ناسخ منسوخ وغیرہ ہونے کا ذکر فرمایا.(۲۱) سیر روحانی (۶) سیر روحانی کا ایک مختصر تعارف اسی جلد کے تعارف میں ہو چکا ہے.جس میں ایک خواب کی بناء پر ۱۹۳۸ء سے شروع کرنے والے ایک اہم مضمون کا تہ کا تسلسل جاری رکھتے ہوئے دیوانِ عام کے مقابلہ پر روحانی دیوانِ عام کو پیش کیا گیا تھا.اب اس لیکچر میں جو آپ نے ۲۸ / دسمبر ۱۹۵۱ء کو جلسہ سالانہ کے آخری دن دیا

Page 23

۱۸ بادشاہوں کے دیوانِ خاص کے مقابلہ پر روحانی دیوانِ خاص یعنی خدائی دربار کو پیش کرتے ہوئے فرمایا کہ محلات میں دیوانِ عام کے علاوہ دیوانِ خاص بھی ہوتے ہیں جن کے قیام کی چارا غراض ہو ا کرتی تھیں.ا - بادشاہ کا اپنے وزراء کو خاص موقع دینا اور اُن کی تقرریاں یا اُن کو برطرف کرنا.بادشاہ کا اُن سے خاص امور پر مشورہ کرنا یا احکام صادر کرنا.اپنی مشکلات میں اُن سے مدد لینا یا اُن کی مشکلات دور کرنے کے لئے وعدے کرنا.۲- -۴- ان کے اچھے کام پر انعام واکرام دینا اور بُرے کاموں پر سرزنش دنیوی دربارِ خاص میں وزراء یا بادشاہ کو چاہنے والوں کی قربانیوں کے باوجود بادشاہ کا دل اپنی بیوی اور اپنی اولاد کی طرف اٹکا رہتا ہے اور ہمیشہ اُن کو نوازتا ہے کیونکہ تخت کا وارث ہمیشہ بیٹا ہی ہوتا ہے لیکن روحانی دربارِ خاص میں اس اللہ کی نہ بیوی ہے نہ اولاد.جہاں تو حید کے قیام اور شرک سے نفرت کی تعلیم دی گئی ہے.دُنیوی بادشا ہوں میں تو لوگ عزیز رشتہ دار اس کی موت کے بھی متمنی ہو جاتے ہیں لیکن یہاں کا بادشاہ حی و قیوم ہے.پھر دنیوی بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے درباری اس کے سامنے قصیدے پڑھتے ہیں اور بعد میں چغلی لیکن یہاں ہر وقت ہر جگہ اس کی تعریف ہی تعریف ہے.وہاں ایک انعام سے نواز کر بادشاہ ناراض ہو کر انعام کو واپس بھی لے لیتے ہیں لیکن یہاں جو انعام پیغمبری ایک دفعہ مل جائے وہ واپس نہیں لیا جاتا.اس کے انعامات غیر متبدل ہیں.پھر دُنیوی دربارِ خاص میں درباریوں میں با ہم رقابتیں پائی جاتی ہیں، بغض اور کینے پائے جاتے ہیں مگر یہاں تمام کی عزت برابر ہوتی ہے.کسی یہودی نے اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حضرت محمد ﷺ پر فضیلت دے دی تو خدا کا مقرر کردہ گورنر کہہ دیتا ہے لا تُفَضِلُونِي عَلى يُونُسَ کہ مجھے یوسف پر فضیلت نہ دو.پھر کوئی جھگڑا نہیں، کوئی تکرار نہیں ، اگر تجلیات الہیہ کے ظہور کے لئے حضرت آدم علیہ السلام کو مقرر کر دیا اُس کو اُس کی ذمہ داریوں سے آگاہ کر دیا تو فرشتے سوال کا جواب پا کر تسلی پاگئے اور خاموش

Page 24

۱۹ ہو گئے.کیونکہ آدم کا کام اور اور فرشتوں کا کام الگ.آدم انسانی تجلی کے ظہور کے قابل پایا جاتا ہے جبکہ فرشتوں کی تجلیات اور ہیں.کسی میں دخل اندازی نہیں.قرآن کریم میں ایک اور دربارِ خاص کا ذکر بھی ملتا ہے جس میں حضرت محمد رسول اللہ کو روحانی آدم کا درجہ دے کر گورنر مقرر کر دیا جاتا ہے حضور نے فرمایا کہ آدم ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے اور حضرت محمد رسول اللہ علیہ ایسے آدم ہیں جن سے روحانی نسل کا آغاز ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس زمانہ کے آدم ہیں.ان کے ذریعہ حضرت محمد رسول اللہ ﷺ تک رسائی ہوتی ہے اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں آکر خدا تعالیٰ سے ملاپ ہوتا ہے.یہ روحانی دربار، ڈ نیوی در باروں سے اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ دَنَا فَتَدَلی کے تحت یہ آدم خدا کی طرف بڑھتا ہے اور خدا اس کی عزت افزائی کے لئے نیچے اُترتا ہے.حضور نے نہایت گہرائی میں دنیوی دربارِ خاص کا مختلف پہلوؤں سے اس روحانی در بارِ خاص سے موازنہ فرما کر اس کو اعلیٰ ، ارفع اور اکمل قرار دیا ہے اور اس دربار کے گورنر کو ملاء اعلیٰ سے ملنے والے حکم يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ قُمْ فَانْذِرُ کی غیروں کے مقابل پر لطیف تفسیر بیان فرمائی.اور ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کے تحت اسلام میں صاف ستھرا رہنے کی تعلیم کو حکمتوں کے ساتھ بیان فرمایا.تیسری غرض کے تحت ملاء اعلیٰ سے اپنے گورنر کی حفاظت کے حوالے سے جو تدابیر بروئے کار لائی جاتی ہیں اُن کا نہ صرف ذکر فرمایا بلکہ اس حکومت کو دائمی قرار دیا جبکہ دنیوی حکومتیں یا منصب عارضی ہوتے ہیں.چوتھی اور آخری غرض دُنیا وی دیوان خاص کی یہ بیان فرمائی تھی کہ انعامات اور القابات سے نوازا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ اِس روحانی دربار میں گورنر کے ذریعہ درباریوں کو لا زوال القابات سے نوازتا ہے رَضِيَ الله عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ اور رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ کے القابات کا ذکر فرما کر صحابہ کرام کی بے مثال تاریخی قربانیوں کا تفصیل سے ذکر فرمایا ہے.لیکچر کے آخر میں حضور نے اس خدائی دربارِ خاص کے گورنر مقرر ہونے کی چار اغراض قرآن کریم سے بیان فرمائیں.تلاوت قرآن ، تعلیم الکتاب تعلیم حکمت اور تزکیۂ نفس.

Page 25

صلى الله اس سلسلہ میں آنحضور ﷺ کی سیرت کے بہت سے پہلو بیان فرمائے اور آنحضور کے اخلاق حسنہ کو اپنا کر مقام محمود پر پہنچنے کا ذکر فرمایا اور اس مبارک مقام محمود کی موجودہ زمانہ کے حوالہ سے تجلیات کا بھی ذکر فرمایا.(۲۲) اتحاد المسلمین حضرت مصلح موعود آغاز ۱۹۵۲ء میں ناصر آبا دسندھ تشریف لے گئے.واپسی پر حیدرآباد مقامی جماعت کی درخواست پر ۲۵ / مارچ کو ”تھیا سوفیکل ہال میں اتحادالمسلمین کے عنوان پر ایمان افروز تقریر فرمائی.اس جلسہ میں احمدی احباب کے علاوہ غیر از جماعت دوستوں نے بھی شرکت فرمائی اور دلچسپی کے ساتھ اس خطاب کو سُنا.حضور نے اپنے خطاب کے آغاز پر فرمایا کہ میرے اس موضوع کے دو معانی لئے جا سکتے ہیں.اول.مسلمانوں کا اتحاد کن بنیادوں پر قائم ہے؟ اس کی کیفیات کیا ہیں؟ اور دوئم.مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے ہم کون سے ذرائع اختیار کر کے اسے دُور کر سکتے ہیں.اور یہی دوسرا امر میری تقریر کا موضوع ہے کیونکہ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی ہے اور اس عدم اتحاد کی وجہ سے مسلمان بھرے پڑے ہیں اور یورپ سے امداد لینے پر مجبور ہیں.اور اسلام بھی انفرادیت کو چھوڑ کر اجتماعیت پر زور دیتا ہے.قوموں میں اختلافات پائے جاتے ہیں.اختلافات اُمت میں رحمت کا بھی باعث ہیں مگر بعض امور تو بہر حال ایسے ہونے چاہئیں جن میں اختلافات کو ایک طرف رکھ کر اجتماعیت کے حوالہ سے فیصلہ کرنا ہے.مثلاً اسلام میں بعض امور ایسے ہیں جو دوسرے مذاہب میں نہیں.اس حوالے سے مسلمانوں میں اتحاد ضروری ہے.جیسے کلمہ طیبہ ایک قبلہ ہے.نماز با جماعت ہے.حج ہے.زکوۃ اور قضاء کا نظام ہے ان تمام امور میں اجتماعیت ہے اور اجتماعیت کی وجہ سے اتحاد ہے.اسلام ایک اجتماعی مذہب ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرمایا ہے وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُواط إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ (الانفال: ۴۷)

Page 26

۲۱ پس مسلمانوں کو باوجود اختلافات کے اس پر متفق ہو جانا چاہئے کہ خدا ایک ہے ہم خدا کے سوا کسی کی عبادت نہیں کریں گے.اور اتحاد کا دوسرا اصل یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کر دیا جائے.جو سچائیاں قرآن میں ہیں اُن کو ہرگز نہ چھوڑیں خواہ قومی رسم و رواج کو چھوڑ نا پڑے.اتحاد کے حوالے سے خطاب کے آخر میں فرمایا کہ مسلمان اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے.اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے.پاکستان کو ہندوؤں سے بچانا ہے ، کشمیر کو حاصل کرنا ہے اگر اختلافات کو بالائے طاق رکھ گران امور کو مشترک بنا کر اتحاد کریں تو دشمن کو لازماً شکست ہوگی اور ہم فتح حاصل کریں

Page 27

انوار العلوم جلد ۲۲ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں.از سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحد خلیفة المسیح الثانی

Page 28

Page 29

انوار العلوم جلد ۲۲ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عورتیں آئندہ نسلوں کو د بندار بنا سکتی ہیں فرموده ۱۷ رستمبر ۱۹۵۰ء بمقام احمد یہ ہال کراچی ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.مجھے افسوس ہے کہ آج پچھلے دو ہفتوں کے متواتر بولنے کی وجہ سے میرا گلا بہت ہی زیادہ بیٹھا ہوا ہے کھانسی بہت شدت کی اٹھ رہی ہے اور میں آج اچھی طرح اپنے خیالات ظاہر نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو جس قدر مواقع ملتے رہے ہیں اسی نسبت سے عورتوں کیلئے زیادہ سے زیادہ مواقع نکالنے کی ضرورت ہے تا کہ وہ دین کی ضروریات سے واقف ہوں اور اپنے فرائض سے آگاہ ہوں لیکن عورتوں کا پروگرام میرے یہاں کے قیام کے آخری دنوں میں اتفاقاً آپڑا کیونکہ جب پہلے دن میری تقریر رکھی گئی تھی تو اس دن مجھے نقرس کا ایسا شدید دورہ ہوا کہ میں چل پھر بھی نہیں سکتا تھا.مگر بعد میں پروگرام رکھنے کی وجہ سے میرا گلا اتنا ماؤف ہو چکا ہے کہ اب میرے لئے بولنا مشکل ہے.خصوصاً اس کی لئے بھی کہ آج ہی میری ایک تقریر مردوں میں بھی ہو چکی ہے حالانکہ سب کو معلوم تھا کہ میں شدید نزلہ اور کھانسی میں مبتلا ہوں اور بعض دفعہ تو دو دو گھنٹہ تک ایک ہی اُچھو اُٹھتا چلا جاتا ہے اور رات اور دن دوائیاں کھا کھا کر افاقہ ہوتا ہے.پس آج کے دن کوئی اور تقریر نہیں رکھنی چاہئے تھی اور ایسے حالات میں سے مجھے نہیں گزارنا چاہئے تھا کہ میں عورتوں میں بولنے کے قابل نہ رہتا.مگر یہ آپ کا اور آپ کے خاوندوں یا باپوں کا معاملہ ہے آپ گھر میں نبٹ لیجئے.بہر حال آج کے مردوں کے پروگرام نے مجھے بالکل بے بس کر دیا ہے اور گلا اِس قدر زخمی ہے کہ معمولی آواز سے بھی میں بول نہیں سکتا.پھرسہ

Page 30

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں بڑی مشکل یہ ہے کہ علاوہ گلے کے ماؤف ہونے کے آواز کے جو پردے ہیں وہ نزلہ کے اثر کے نیچے اس قدر ماؤف ہو چکے ہیں کہ میری آواز صاف بھی نہیں اور ایسی طرح نہیں نکلتی کہ میرے الفاظ اچھی طرح سمجھے جا سکتے ہوں.انسانی پیدائش کی غرض قرآن کریم میں اللہ تعالی انسان کی پیدائش کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے يَايُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا ربِّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً كَثِيرًا وَنِسَاءً وَاتَّقُوا الله الذي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إن الله كَانَ عَلَيْكُم رقيبا لے یہ آیت بنی نوع انسان کی پیدائش کے واقعات کو اور اُس کی پیدائش کی غرض کو نہایت مختصر الفاظ میں بیان کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يايما النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي رَبِّكُمُ اے لوگو! تقومی کرو اپنے رب کا.ناس عربی زبان میں اسی کو کہتے ہیں جس کو اُردو یا فارسی زبان میں آدمی کہتے ہیں.بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جہاں عورتوں میں یہ بیداری پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اس بات کا مطالبہ کرتی ہیں کہ ان کو بھی قومی اور دینی خدمت کرنے کا موقع دیا جائے وہاں وہ ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھ سکیں کہ وہ بھی آدمی ہیں.ذرا کسی عورت سے کہو کہ تم آدمی ہو تو وہ کہے گی میں کیوں آدمی ہونے لگی آدمی ہوتے ہیں مرد.حالانکہ آدمی کے معنی ہیں آدم کی اولاد اور جو آدمی کے معنی ہیں وہی نساس کے ہیں.عربی زبان میں جب ناس کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں.اسی طرح اردو میں جب آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور عورتیں بھی شامل ہوتی ہیں.جب ہم کہتے ہیں آدمی پر یہ فرائض عائد ہیں تو اس و کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ مردوں پر بھی یہ فرائض عائد ہیں اور عورتوں پر بھی یہ فرائض عائد ہیں.اسی طرح عربی میں جب ہم کہتے ہیں ناس کا یہ حال ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ مردوں کا بھی یہی حال ہے اور عورتوں کا بھی یہی حال ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ الهِ النَّاسِ )

Page 31

انوار العلوم جلد ۲۲ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں.کہو میں پناہ مانگتا ہوں ناس کے رب کی، ناس کے بادشاہ کی ، ناس کے معبود کی.اب اس کے یہ معنی نہیں کہ مردوں کے رب کی ، مردوں کے بادشاہ کی اور مردوں کے معبود کی بلکہ اس کے یہ معنی ہیں کہ میں پناہ مانگتا ہوں مردوں اور عورتوں کے رب کی.میں پناہ مانگتا ہوں مردوں اور عورتوں کے بادشاہ کی اور میں پناہ مانگتا ہوں مردوں اور عورتوں کے معبود کی.پس ناس عربی میں اور آدمی فارسی میں اور اُردو میں ایک ہی معنی رکھتے ہیں.آدمی کا لفظ عربی زبان کا ہی لفظ ہے مگر عام طور پر یہ استعمال نہیں کیا جاتا.زیادہ تر ناس کا لفظ ہی استعمال کرتے ہیں لیکن فارسی اور اُردو میں آدمی کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے.غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَآتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ اے مردو اور عورتو! تم پناہ اور ڈھال کے طور پر بنا لو اپنے رب کو.الذِي خَلَقَكُمْ وہ جس نے تم کو پیدا کیا.یمن نفیس واحِدَةٍ ایک ہی قسم کی طاقتوں کے ساتھ ، ایک ہی قسم کے جذبات کے ساتھ.ایک ہی قسم کے ارادوں کے ساتھ ، ایک ہی قسم کی فکروں کے ساتھ ، ایک ہی قسم کی اُمنگوں کے ساتھ.گویا اس آیت میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ مرد و عورت جہاں تک نفس کا تعلق ہے برابر ہیں اور ایک ہی اصل پر چل رہے ہیں.جس قسم کی باتیں مرد کو غصہ دلا سکتی ہیں ویسی ہی باتیں ایک عورت کو بھی غصہ دلا سکتی ہیں، جس قسم کے سلوک کو ایک مرد نا پسند کرتا ہے ویسے ہی سلوک کو ایک عورت بھی نا پسند کرتی ہے اور جس قسم کے جذبات ایک مرد میں پائے جاتے ہیں ویسے ہی جذبات ایک عورت میں بھی پائے جاتے ہیں.پس جہاں تک نفس انسانی کا تعلق ہے وہی نفس مرد میں پایا جاتا ہے اور وہی نفس عورت میں پایا جاتا ہے.عام طور پر لوگ اس کے یہ معنی کیا کرتے ہیں کہ اے انسانو! تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس نے تم کو ایک آدمی سے پیدا کیا مگر یہ معنی غلط ہیں.نفس کے معنی عربی زبان میں آدمی کے ہر گز نہیں.نفس کے معنی جان کے ہیں سے اور جان کا لفظ عورت کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور مرد کے لئے بھی بولا جاتا ہے.نفس کے معنی ہیں سانس لینے والی چیز اور سانس مرد بھی لیتا ہے اور عورت بھی لیتی ہے.عربی کا ایک لفظ ہے تنفس یعنی سانس اپنے اندر کھینچنا ہے اُردو میں بھی کہا جاتا ہے میرے تنفس : میں

Page 32

انوار العلوم جلد ۲۲ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں خرابی پیدا ہوگئی ہے.مثلاً نزلہ کھانسی یا دمہ کی وجہ سے یا دمہ کو ضیق النفس بھی کہتے ہیں یعنی سانس کی تنگی.تو نفس کے معنی اصل میں سانس کے ہوتے ہیں لیکن پھر نفس کے معنی سانس لینے والی چیز کے بھی بن گئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَآتِهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبِّكُمُ الّذي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةِ اے انسانو! مردو اور عورتو! اپنے خدا کو اپنے لئے ڈھال بنالو اور تمام خرابیوں اور فتنوں سے بچنے کے لئے اس کی پناہ لیا ج کرو جس نے تم کو ایک سانس لینے والے وجود سے یعنی ایک ہی قسم کی ہستی سے پیدا کیا ہے.اب یہاں کسی مرد کا ذکر نہیں ، کسی عورت کا ذکر نہیں بلکہ مطلب یہ ہے کہ تمام مرد اور تمام عورتیں ایک ہی قسم کی قوتیں اپنے اندر رکھتے ہیں کوئی علیحدہ علیحدہ چیز نہیں ہے.وخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا اور پھر اس قسم کے اُس نے بہت سے جوڑے پیدا کئے ہیں.خلق منھا کے معنی ہیں.اس قسم کے جوڑے پیدا کئے ہیں.یعنی ایک انسانی وجود شروع ہوا جس میں مرد بھی شامل تھا اور عورت بھی اور ان کے جذبات اور خواہش اور اُمنگیں ایک ہی قسم کی تھیں.پھر آگے ان کی نئی نسل سے جو ہزاروں ہزاروں افراد پھیلے وہ بھی کوئی علیحدہ قسم کے نہیں تھے.یہ نہیں کہ آدم کے وقت تو وہ ایک قسم کے تھے اور بعد کی نسلوں میں فرق پڑ گیا.بعد کی نسلوں میں فرق نہیں پڑا بلکہ ان کے مرد اور عورتیں دونوں ایک ہی قسم کے جذبات رکھتے تھے.وبثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيرًا وَنِسَاء :- پھر اللہ تعالیٰ نے ان جوڑوں میں سے مرد و عورتیں بہت سی پھیلائیں.یعنی مرد اپنی ماں اور اپنے باپ کا وارث تھا اور عورت اپنی ماں اور اپنے باپ کی وارث تھی.جس طرح مرد نے اپنے باپ کے علاوہ ماں کے جذبات کا حصہ لیا اسی طرح عورت نے اپنی ماں کے علا وہ باپ کے جذبات کا حصہ لیا.قرآن کریم کی امتیازی تعلیم یہ ایک اصول بات قرآن کریم میں بیان کی گئی ہے جس میں اسلام کو باقی تمام مذاہب پر فوقیت حاصل ہے.دنیا میں کوئی مذہب ایسا نہیں جس نے یہ بیان کیا ہو کہ عورت اور مرد کے جذبات اور احساسات اور اُمنگیں ایک ہی قسم کی ہیں.یہ خیال کر لینا کہ مرد اور قسم کے

Page 33

انوار العلوم جلد ۲۲ L عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں ہیں اور عورتیں اور قسم کی ہیں غلط ہے.جیسے ایک عمارت میں اگر کچھ لوگ رہتے ہیں اور اُن کے ہمسایہ میں بعض اور لوگ ٹھہرے ہوئے ہوں تو یہ نہیں کہا جاتا کہ یہ اور قسم کے مرد ہیں اور وہ اور قسم کے مرد ہیں بلکہ باوجود الگ الگ محلوں، الگ الگ مکانوں اور الگ الگ شہروں میں رہنے کے ہر شخص سمجھتا ہے کہ تمام لوگ ایک جیسی طاقتیں رکھتے ہیں.اسی طرح بے شک عورت اور مرد کے جسم الگ الگ ہیں مگر طاقتیں ایک جیسی ہیں اور اُن کے جسموں کا الگ الگ ہونا ایسا ہی ہے جیسے الگ الگ مکان میں مختلف لوگ رہ رہے ہوں.اگر عورت کے جسم میں روح آجائے تو وہ کوئی الگ چیز نہیں بن جاتی بلکہ اُس کے اندر وہی روح ہے جو مرد کے اندر ہے صرف اُس کے جسم کی بناوٹ مرد سے علیحدہ ہے.ورنہ اُس کے اندر وہی روح پائی جاتی ہے جو مردوں کے اندر پائی جاتی ہے.اب اس بات کو پھیلا کر دیکھو تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک بہت بڑی سچائی ہے جو قرآن کریم نے بیان کی ہے.تمام چیزیں جو مرد پر اثر کرتی ہیں وہی عورت پر بھی اثر کرتی ہیں.مثلاً بچہ پیدا ہوتا ہے تو یہ نہیں ہوتا کہ مرد ہنے لگیں اور عورت رونا شروع کر دے یا بھوک پر عورت روٹی کھانے لگے اور مرد فاقہ شروع کر دیں.یا باپ مرے تو بیٹے رونے لگ جائیں اور بیٹیاں پہننے لگ جائیں.ایسا کبھی نہیں ہوا بلکہ باپ کی وفات کا جواثر بیٹوں پر ہوتا ہے وہی اثر بیٹیوں پر بھی ہوتا ہے.اسی طرح خاوند کی وفات پر جواثر بیوی پر ہوتا ہے ویسا ہی اثر بیوی کی وفات کا خاوند پر ہوتا ہے.آخر وہ کونسی چیز ہے جو ان کو الگ کرتی ہے.جہاں تک مکان کا تعلق ہے اس کا فرق کوئی فرق نہیں.فرض کرو ایک شخص ایک انگریزی طرز کی کوٹھی میں رہتا ہے اور ایک پرانے طرز کے محل میں رہتا ہے تو کیا ان دونوں میں فرق ہوگا ؟ اِس میں رہنے والے بھی مرد ہیں اور اُس میں رہنے والے بھی مرد ہیں.اسی طرح جسم ایک مکان ہے خواہ جسم مرد کی شکل میں بنا دیا جائے اور خواہ عورت کی شکل میں بنا دیا جائے.اس میں رہنے والی بھی روح ہے.یہ مضمون ہے جو قرآن کریم بیان فرماتا ہے.اور جو دنیا کی کسی اور کتاب میں بیان نہیں کیا گیا.اس سے اللہ تعالیٰ یہ سبق دیتا ہے کہ

Page 34

انوار العلوم جلد ۲۲ Δ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں خدا کو اپنی ڈھال بناؤ واتَّقُوا الله الذي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالأَرْحَامَ إن الله كان عليكم رقیب فرماتا ہے.اے مرد اور عور تو ! اس خدا کو اپنی ڈھال بنا لوجس کا نام لے کر دُنیا میں اپنی اغراض پوری کرتے ہو اور جس کے نام کے ساتھ تم لوگوں سے رحم اور انصاف کی اپیل کرتے ہو اور کہتے ہو خدا کے واسطے یہ معاملہ یوں کرو، خدا کے واسطے یہ معاملہ یوں کرو.فرماتا ہے جب تم لوگ یہ کہتے ہو کہ خدا کے واسطے ہمارے ساتھ یوں معاملہ کرو تو تم ہماری طاقت اور قوت کا اقرار کرتے ہو.لیکن ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ تم جب انسانوں سے خدا کے نام پر اپیل کرتے ہو تو تم کیوں اُسی خدا کے پاس نہیں جاتے اور اُس سے براہ راست اپنا تعلق پیدا نہیں کرتے جو تمام تکلیفوں کو دور کرنے والا ہے.کیونکہ بہر حال انسانوں میں سے بھی بعض ایسے ہوتے ہیں جس کے سامنے اگر خدا تعالیٰ کا نام بھی لیا جائے تو اُن پر کوئی اثر نہیں ہوتا.مثلاً دہر یہ ہیں.اگر ان کے سامنے خدا تعالیٰ کا نام لیا جائے تو وہ ہنستے ہیں.اسی طرح بعض سنگدل ڈا کو جب ڈاکہ ڈالتے ہیں یا دشمن کی فوجیں چڑھائی کرتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اگر ان کے سامنے فریاد کی جائے تو کیا وہ چھوڑ دیتے ہیں؟ کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ کہیں ڈا کہ پڑا ہو اور لوگوں نے یہ کہا ہو کہ خدا کے واسطے ہمیں چھوڑ دو اور اُنہوں نے چھوڑ دیا ہو؟ یا مثلاً جرمنوں اور انگریزوں کی لڑائی ہو چکی ہے.اس لڑائی میں کیا وہ گولیاں چلاتے تھے یا خدا کا نام سن کر اپنے دشمن کو چھوڑ دیتے تھے؟ ان کے سامنے اگر ہزار دفعہ بھی خدا کا نام لیا جاتا تو وہ چھوڑتے نہیں تھے.پس بیشک انسان خدا تعالیٰ کا نام لیتا ہے مگر جس طرح اس نام کا وہ استعمال کرتا ہے وہ غلط ہے.صحیح طریق یہ ہے کہ انسانی خدا تعالیٰ کے آگے جھکے اور بجائے انسان سے یہ کہے کہ تو خدا کے واسطے مجھے چھوڑ دے وہ خدا تعالیٰ سے ہی کہے کہ اے خدا ! تو اپنی صفاتِ حسنہ سے کام لے کر اور اپنی صفات رحمانیت اور رحیمیت سے کام لیکر مجھ پر رحم کر اور میری مشکلات کو دور فرما دے.پس یہ اللہ تعالیٰ کے نام لینے کا غلط طریق ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا نام لے کر انسانوں سے اپیل کرتا ہے.حالانکہ جس سے وہ اپیل کر رہا ہوتا ہے وہ بعض دفعہ دہر یہ ہوتا ہے ، بے دین

Page 35

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں ہوتا ہے ، سنگدل ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے نام کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.پس اصل طریق یہی ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے سامنے جائے اور اُس کے سامنے اپنی مشکلات پیش کرے.دیکھو اس میں مرد و عورت کا یکساں حق تسلیم کیا گیا ہے یہ نہیں کہا گیا کہ مردوں کی دُعائنی جاتی ہے لیکن عورتوں کی نہیں بلکہ فرماتا ہے اے مرد اور اے عورتو! تم میرے نام کو اپنی ڈھال بناؤ اور اپنی ضرورتوں کے وقت مجھے اپنی مدد کے لئے بلاؤ.إن الله كَانَ عَلَيْكُمْ رقیب فرماتا ہے.دنیا میں بہت سے جھگڑے رقابتوں پر چلتے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ محبت کا سب سے گہرا تعلق میاں بیوی کا ہوتا ہے ادھر مرد کی ساری زندگی گزر جاتی ہے عورتوں اور بچوں کی پرورش میں اور اُدھر عورت کی ساری زندگی گزر جاتی ہے مرد کو آرام پہنچانے اور اُس کے کھانے پینے کا خیال رکھنے میں.مگر با وجود اس کے وہ ایک دوسرے کے رقیب ہوتے ہیں.ذرا بات ہو تو عورت کہے گی مرد ایسے ہوتے ہیں اور ذرا عورت سے کوئی اختلاف ہو تو مرد کہے گا کہ عورتیں ایسی ہوتی ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مثال کے طور پر بیان فرمایا کہ مرد عورت کے لئے ساری عمر قربانی کرتا رہتا ہے ، ساری عمر اس کی ضروریات کو پورا کرتا رہتا ہے مگر کسی دن اُس کی مرضی کے خلاف بات ہو جائے تو وہ کہے گی کہ میں نے تو تجھ سے کبھی کوئی خیر نہیں دیکھی جب بھی تُو نے سلوک کیا بُراہی کیا.۵ے مردوں میں بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں کئی مرد بھی ایسے ہوتے ہیں جو عورت کی تمام قربانیوں کے بعد کہہ دیتے ہیں کہ ہم نے تو تجھ میں کبھی کوئی خوبی دیکھی ہی نہیں.آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ وجہ یہ ہے کہ عورت اور مرد میں مقابلہ کے جذبات پیدا کئے گئے ہیں.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے ہمیں یہ نظارہ نظر آتا ہے.چونکہ قرآن کریم کی یہ تعلیم کہ مرد اور عورت میں یکساں قو تیں رکھی گئی ہیں ابھی دنیا میں نازل نہیں ہوئی تھی اِس لئے عورت مرد کے خلاف کھڑی ہو جاتی اور مرد عورت کے خلاف کھڑا ہو جاتا اِن دونوں میں خوب مقابلہ ہوتا.بیشک جہاں تک محبت کا تعلق ہے ہزاروں لاکھوں گھرانے محبت و پیار سے رہتے تھے اور وہ ایک دوسرے کے لئے قربانی بھی کرتے تھے لیکن جہاں تک زبان کا تعلق تھا، جہاں تک تقریروں کا تعلق تھا ، جہاں تک

Page 36

انوار العلوم جلد ۲۲ 10 عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں تحریروں کا تعلق تھا ، مرد کہتے کہ ان عورتوں نے یوں کیا اور عورتیں کہتیں کہ ان مردوں نے یوں کیا.اللہ تعالیٰ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے مرد اور عورتو ! یاد رکھو تم ایک دوسرے کے رقیب بنے ہوئے ہو حالانکہ اصل رقیب خدا ہے اور وہ دیکھتا ہے کہ ہم نے جو طاقتیں رکھی ہیں تم اُن کا کس طرح استعمال کرتے ہو.ہم نے یہ طاقتیں اس کی لئے رکھی ہیں تا کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو اور محبت اور پیار سے زندگی بسر کرو.اگر تم آپس میں ہی لڑتے جھگڑتے رہتے ہو تو تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ تم دو نہیں بلکہ ایک تیسرا وجود بھی تمہیں دیکھ رہا ہے جو خدا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں.جہاں دو ہوتے ہیں وہاں ایک تیسرا وجود خدا بھی ہوتا ہے.پس یہ نہ سمجھو کہ صرف تم ہی ہو بلکہ ہم بھی ہیں.اگر تم ہمارے قواعد کو پورا نہیں کرو گے تو ہم بھی تمہارا فیصلہ کرنے کیلئے موجود ہیں.عورتوں اور مردوں کی ذمہ داریوں میں فرق اس آیت میں جہاں تک قوتوں کا سوال ہے، جہاں تک جذبات کا سوال ہے، جہاں تک افکار کا سوال ہے مردوں اور عورتوں کو برابر قرار دیا گیا ہے.اور جب وہ برابر ہیں اور جب ان کی طاقتیں بھی برابر ہیں تو لازماً ان کی خدمتیں بھی برا بر ہوں گی گوان کی نوعیت بدل جائے گی.بعض لوگ ان کہتے ہیں کہ اگر مردوں اور عورتوں کی طاقتیں برا بر ہیں تو ان کو کام بھی ایک جیبیا ہی کرنا چاہئے.مگر یہ غلط ہے.دنیا میں ایک کالج سے ہی تین نوجوان بی.اے کی تعلیم حاصل کر کے فارغ ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد ایک انجینئرنگ کی طرف چلا جاتا ہے ، ایک وکیل بن جاتا ہے اور ایک اچھا ایڈمنسٹریٹر بن جاتا ہے.اب جہاں تک تعلیم کا سوال ہے تینوں کو تعلیم یافتہ قرار دیا جائے گا لیکن ان کی ذمہ داریوں میں فرق ہے.اسی طرح عورت اور مرد میں ایک سے جذبات پیدا کئے گئے ہیں مگر ان کی ذمہ داری الگ الگ ہے.عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم دے اور اُنہیں اچھا شہری بنائے.اسی طرح جو فوجی کام ایسے ہیں جن میں عورت زیادہ

Page 37

انوار العلوم جلد ۲۲ 11 عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں بہتر طور پر اپنے فرائض ادا کر سکتی ہے اُن میں حصہ لے.مثلاً نرسنگ ہے یہ کام عورت زیادہ بہتر کر سکتی ہے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ پر تشریف لے جانے لگے تو ایک صحابیہ آئیں اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللهِ ! میں بھی جنگ پر جانا چاہتی ہوں.رسول کریم می صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہاں عورت کیا کرے گی؟ اس نے کہايَا رَسُولَ اللهِ ! میں نرسنگ نہیں کر سکتی.میں زخمیوں اور بیماروں کی تیمار داری اور ان کی مرہم پٹی کروں گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا چلو.کہ چونکہ عربوں میں یہ رواج تھا کہ وہ مردکو ہی سپاہی سمجھتے تھے اس لئے جب مال غنیمت تقسیم ہونے لگا تو عورت کا سوال آ گیا.اُس زمانے میں سپاہیوں کو تنخواہیں نہیں ملتی تھیں اور انہیں اپنے کھانے پینے کے تمام اخراجات اپنی گرہ سے ادا کرنے پڑتے تھے بلکہ ہتھیار بھی وہ اپنے پاس سے خرید کر استعمال کیا تو کرتے تھے لیکن اس زمانہ میں سپاہی کو تنخواہ بھی ملتی ہے اور اسے راشن بھی دیا جاتا ہے اور پھر ہتھیار بھی گورنمنٹ مہیا کرتی ہے.غرض اُس زمانہ میں چونکہ سارا خرچ وہ خود کرتے تھے اس لئے دشمن کی طرف سے جو مال ملتا تھا وہ بعد میں سپاہیوں میں کر دیا جاتا تھا.چنانچہ جب اموال غنیمت تقسیم ہونے لگے تو صحابہ نے کہا يَا رَسُول اللَّهِ ! ایک عورت بھی آئی تھی کیا اُس کا بھی حصہ نکالا جائے ؟ آپ نے فرمایا ہاں.تو عورت نے جو خدمت کی تھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے تسلیم کیا اور اس کا حصہ نکالا.سو اصل کا موں کو قائم رکھتے ہوئے جو بچوں کی پرورش اور ان کی نگرانی کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں جو زائد کام عورت کر سکتی ہو شریعت نے اس کی اجازت دی ہے.مثلاً تعلیم کو ہی لے لو.حضرت عائشہ نے اس میں اتنی ترقی کر لی تھی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ صحابہ سے فرمایا کہ آدھا دین تم عائشہ سے سیکھ سکتے ہو.۵ آدھے دین کے یہ معنی نہیں کی کہ ان کو نماز روزہ کے احکام کا زیادہ علم تھا بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کا مقصد یہ تھا کہ عورتوں کے متعلق جو شریعت کے احکام ہیں وہ حضرت عائشہ کو خوب معلوم ہیں.چنانچہ جن لوگوں کو عورتوں کے متعلق کوئی مسئلہ پوچھنے کی ضرورت ہوتی تو وہ تق

Page 38

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں حضرت عائشہؓ سے پوچھ لیتے تھے اور اُن کی مشکل حل ہو جاتی تھی.غرض عورتوں کے حقوق اور اُن کے فرائض اور کاموں کے متعلق جو معلومات حضرت عائشہ کو تھیں وہ مردوں کو بھی نہیں تھیں اسی لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ حصہ عائشہ سے سیکھو کیونکہ عائشہ اپنی خلقت اور بناوٹ کی وجہ سے یہ حصہ زیادہ یا درکھ سکتی تھیں.چنانچہ عورتوں کے متعلق جتنے مسائل ہوتے تھے وہ صحابہ حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہو کر پوچھتے تھے اور دریافت کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کے بارہ میں کیا مسلک تھا.تو تعلیم میں بھی عورتیں ہمیشہ حصہ لیتی رہی ہیں لیکن سب سے بڑا کام جو عورت کے ذمہ لگایا گیا ہے وہ تربیت صحیح ہے.یعنی اولاد کو صحیح اور سچا مسلمان بنانا.بہت سی عورتیں یہ بجھتی ہیں کہ یہ کوئی کام نہیں حالانکہ اگر ہم غور کریں تو دنیا میں جتنی تبا ہی آئی ہے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہ کرنے کی وجہ سے ہی آئی ہے.اور جب بھی کسی قوم نے ترقی کی ہے آئندہ نسل کے اچھا ہونے کی وجہ سے ہوئی ہے.اور اس کا اگلا قدم تباہی کی طرف اُسی وقت اُٹھا ہے جب اس کی آئندہ نسل خراب ہوگئی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کو ہی دیکھ لو.تمیں سال تک اسلام نے کیسی ترقی کی تھی مگر پھر جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ میں نے دیکھا میرے منبر پرسؤ ر اور گتے ناچ رہے ہیں.شہ میں چالیس برس کے بعد ایسے جوان پیدا ہو گئے جن کی ماؤں نے ان کی صحیح تربیت نہیں کی تھی اور وہ ایسے خراب ثابت ہوئے کہ بادشاہ بھی بنے ، وزراء بھی بنے ، گونر بھی بنے ، علاقوں کے حکمران بھی بنے مگر اسلام سے ان کو اتنی دوری تھی کہ خدا نے ان کو سوروں اور گتوں سے مشابہت دیدی.وہ اُس منبر پر بیٹھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا مگر انہوں نے باتیں وہ کیں جو گتوں اور سوروں والی تھیں اور جو اتنی بھیانک اور خوفناک تھیں کہ خود اُن کی اولادوں نے ان کے خلاف نفرت اور ی حقارت کا اظہار کیا.یزید کے مرنے کے بعد جب اس کے بیٹے کو بادشاہ بنایا گیا تو اس نے تقریر کرتے ہوئے کہا.اے لوگو! اس وقت تم میں ایسے لڑکے موجود ہیں جو مجھ سے زیادہ اچھے ہیں اور ایسے لڑکے موجود ہیں جن کے باپ میرے باپ سے زیادہ اچھے

Page 39

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں ہیں پس ان لڑکوں کی موجودگی میں جو مجھ سے زیادہ اچھے ہیں اور ان لڑکوں کی موجودگی میں جن کے باپ میرے باپ سے زیادہ اچھے ہیں میرا تخت شاہی پر بیٹھنا مناسب نہیں چنانچہ میں اس بادشاہت کو چھوڑتا ہوں.یہ مسلمانوں کا حق ہے وہ جسے چاہیں دیدیں میں بادشاہت کے لئے تیار نہیں ہوں.میرے نزدیک ہمارے باپ دادا نے بھی ظلم کیا تھا اور میں ان ظلموں میں شریک ہونے کیلئے تیار نہیں ہوں.اے اُس کی ماں نے جب یہ تقریر سنی تو اُس نے زور سے اپنے سینے پر ہاتھ مارا اور کہا نالائق تو نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹ دی.اس نے کہا اماں! میں نے اپنے باپ دادا کی ناک نہیں کاٹی بلکہ جوڑی ہے.اس کے بعد اُس نے اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازے بند کر لئے اور چند روز کے بعد ہی فوت ہو گیا.یہ اس کی طبعی فطرت کا اظہار تھا ورنہ ماں نے اسے ضرور خراب کرنے کی کوشش کی ہوگی اور اُس نے ہی تحریک کی ہوگی کہ تو ظلم کو جاری رکھ اور حکومت پر قبضہ کرلے جس پر تیرے باپ نے ظالمانہ طور پر قبضہ کیا ہو ا تھا.تو ماں کی تربیت ایک نہایت اہم چیز ہے.مرد کا کام موجودہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے عورت کا کام آئندہ زمانہ کی اصلاح کرنا ہے.یہ صاف ظاہر ہے کہ اِن دونوں میں کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دی جاسکتی.بے شک موجودہ کام مرد کرتے ہیں لیکن آئندہ دور کی تعمیر عور تیں کرتی ہیں.اگر عورتوں نے آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہیں کی ہوگی اور ایسے قائمقام پیدا نہیں کئے ہونگے جو دین اور تقویٰ سے متاثر ہوں تو مردوں کی تمام کوششیں اکارت چلی جائیں گی.پس عورت کی ذمہ داری مرد سے کم نہیں.اگر وہ اپنے فرائض کو بھول کر ان کاموں میں حصہ لینا شروع کر دیتی ہے جو مرد کے سپرد کئے گئے ہیں تو اس کا یہ فعل ایسا ہی ہو گا جیسا کسی کو حج بنایا جائے اور وہ ایک سپاہی کو دیکھے کہ وہ دائیں طرف ہاتھ کرتا ہے تو اُس طرف کی کاریں کھڑی ہو جاتی ہیں اور بائیں طرف ہاتھ کرتا ہے تو اُس طرف کی کاریں کھڑی ہو جاتی ہیں تو وہ اس نظارے سے ایسا متاثر ہو کہ حجی کا کام چھوڑ کر سپاہی کا کام اختیار کرے حالانکہ سپاہی کا کام بہت ادنی ہے.بیشک اُس کی شان بڑی نظر آتی ہے کہ وہ اکڑا ہوا کھڑا ہوتا ہے اور سامنے سے کسی رئیس یا حج یا فوج کے اعلیٰ افسر

Page 40

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں کی کا رآتی ہے تو وہ اُس کے ایک اشارہ پر کھڑی ہو جاتی ہے لیکن حقیقتا جو حج کی اہمیت ہے وہ سپاہی کی نہیں.اسی طرح عورت کو اللہ تعالیٰ نے اگلی نسل کا معلم بنایا ہے اور یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو اس کے سپرد کیا گیا ہے.یوں سمجھ لو کہ جیسے فوج میں ایک لڑنے والے ہوتے ہیں اور ایک سپر مائنز Sappers and Miner) ہوتے ہیں جو سر میں بناتے ہیں ، جھاڑیاں کاٹتے ہیں، پہاڑیاں اُڑاتے ہیں، ریلیں بچھاتے ہیں اور فوج کیلئے راستہ صاف کرتے ہیں.دنیا کی کسی فوج میں سپر مائیز کم نہیں سمجھے جاتے.ان میں بھی کپتان ہوتے ہیں.ان میں بھی میجر ہوتے ہیں ، ان میں بھی کرنیل ہوتے ہیں اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر سپر مائیز نہیں ہوں گے تو فوج لڑ نہیں سکے گی.اسی طرح اگر عورتیں اپنی ذمہ داری نہ سمجھیں تو آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہیں ہو سکتی.اور جب تک آئندہ نسل کی صحیح تربیت نہ ہو اُس وقت تک قومی ترقی نہیں ہو سکتی.اگر تابعین کی نسل کی صحیح طور پر نگرانی کی جاتی تو یز ید کہاں سے پیدا ہوتا.یزید اسی وجہ سے پیدا ہوا کہ عورتوں نے کہا کہ ہمارا کام ختم ہو گیا ہے.جب اُنہوں نے تربیت کی تو صحابہ جیسے نیک لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بے انتہا فائدہ پہنچایا اور جب اُنہوں نے توجہ ہٹالی تو وہ لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اسلام اور مسلمانوں کو بے انتہا نقصان پہنچایا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو آپ کی قوت قدسیہ سے اللہ تعالیٰ نے ابو بکر اور عمر اور عثمان اور علی اور طلحہ اور زبیر اور لاکھوں نیک لوگ پیدا کئے لیکن دوسرے ابو بکر پیدا کرنا عورت کا کام تھا کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخر انسان تھے اور انہوں نے ایک دن فوت ہو جانا تھا.پس پہلا ابو بکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا ابو بکر ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.پہلا عمر" محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا عمر ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.پہل عثمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا عثمان ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.پہلا علی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا لیکن دوسرا علی تو ایک عورت ہی پیدا کر سکتی تھی.اور جب انہوں نے پیدا نہ کیا تو نتیجہ

Page 41

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں یہ ہوا کہ تباہی آگئی.عدل جاتا رہا ، انصاف قائم نہ رہا اور چاروں طرف ظلم ہی ظلم ہونے لگا.آخر مسلمانوں کی اگلی نسل کیوں بگڑی ؟ کیا ان کے بگاڑنے کیلئے جہنم سے شیطان آئے تھے؟ وہ اس لئے بگڑے کہ عورتوں نے اپنی ذمہ داری نہ سمجھی اور انہوں نے اپنی اولا د کو ایسی تعلیم نہ دی جس کے ماتحت وہ اپنے والدین کے نقش قدم پر چلنے والے ہوتے.ایک عجیب مثال ب مثال ایک عجیب مثال مجھے ہمیشہ ایک واقعہ یا درہتا ہے جس کا میرے دل پر نہایت گہرا اثر ہے اور جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح بعض جاہل عورتوں کو بھی یہ احساس ہوتا ہے کہ اُن کی اولا د صحیح راستہ سے منحرف نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک میراثن تھی جسکا اٹھارہ بیس سال کا ایک نوجوان لڑکا عیسائی ہو گیا.وہ احمدی نہیں تھی لیکن اُس نے کسی سے سُنا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جو عیسائیوں کا بڑا مقابلہ کرتے ہیں.وہ لڑکا بڑا پکا عیسائی تھا مگر وہ اون اُسے ساتھ لے کر قادیان پہنچی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو گئی.اس کے لڑکے کو سل کا مرض تھا آپ نے اسے قادیان میں رکھا اور حضرت خلیفہ اوّل سے علاج کروایا اور میراشن روزانہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پاس آتی اور منتیں کرتی کہ آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ میرے بیٹے کو ہدایت دے دے.آپ اُسے بلاتے اور سمجھاتے مگر وہ اتنا پکا عیسائی تھا کہ ہر قسم کے دلائل کے باوجود اُس نے عیسائیت ترک کرنے کا نام نہ لیا.آخر ایک دن وہ اپنی ماں کو سوتا دیکھ کر رات کے وقت سل کی حالت میں گیارہ بارہ بجے اُٹھ کر بھاگا تا کہ وہ بٹالہ میں عیسائیوں کے پاس چلا جائے.آدھ گھنٹہ کے بعد اُس کی ماں کی آنکھ کھلی اور جب اُس نے دیکھا کہ اس کالڑ کا بستر پر نہیں تو فوراً اُسے خیال آیا کہ وہ بھاگ گیا ہے.چنانچہ وہ اُسی وقت دوڑی اور آدھی کی رات کے وقت جنگل میں سات آٹھ میل تک دوڑتی چلی گئی اور بٹالہ کے قریب پہنچ کر اس مالی نے لڑکے کو پکڑ لیا اور راتوں رات پھر اسے قادیان واپس لائی.اس واقعہ کا کہ اب تک اُس کے لڑکے کی اصلاح نہیں ہوئی اُسے اتنا صدمہ ہوا کہ وہ دوسرے دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئی اور رو رو کر التجا کی کہ میرا ایک ہی بیٹا ہے خاوند

Page 42

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بناسکتی ہیں میرا مر چکا ہے میں آپ سے صرف یہ درخواست کرتی ہوں کہ آپ کوشش کریں کہ یہ کلمہ پڑھ کر مرجائے.مجھے اس کی زندگی کی خواہش نہیں ، اس کی صحت کی خواہش نہیں مجھے صرف اتنی خواہش ہے کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت میں نہ مرے.جس کرب و اضطراب سے اُس نے یہ باتیں کیں اس کا اثر ہوا.خدا تعالیٰ نے اُس کی دعائنی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی دعا فرمائی اور سات آٹھ دن کے بعد اُس کی کا لڑکا مسلمان ہو گیا اور مسلمان ہونے کے تین چار دن بعد مر گیا.اب دیکھو! وہ ایک جاہل عورت تھی مگر اُس کے دل میں یہ درد تھا کہ میں اپنے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے والی اولا د چھوڑوں.اگر معاویہ کی بیوی کے دل میں بھی یہی درد ہوتا کہ میں ایسی اولا د چھوڑوں جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے والی ہو تو یزید پیدا نہ ہوتا بلکہ سعید پیدا ہوتا.مگر اس نے اپنی ذمہ داری نہ سمجھی اور یہ چاہا کہ صرف ایک لڑکا ہو جو میرا نام قائم رکھنے والا ہو اور اُس نے سمجھا کہ گھر کے کام کے علاوہ مجھ پر اور کوئی ذمہ داری نہیں.پس عورتیں اگر چاہیں تو وہ دنیا کو مستقل طور پر دین بخش سکتی ہیں ، عورتیں اگر چاہیں تو وہ دنیا کو مستقل طور پر ایمان بخش سکتی ہیں اور یہ کام اتنا بڑا ہے کہ نپولین کی فتح یا تیمور کی فتح یا ملکہ الزبتھ کی فتح یا اور بادشاہوں کی فتوحات اس کے مقابلہ میں بالکل بیچ ہو کر رہ جاتی ہیں.قرآن کہتا ہے کہ تم ہمیشہ کیلئے دین قائم کرو مگر یہ کس طرح ہو سکتا ہے جب ہمیشہ کیلئے عورت دین کو قائم کرنے کی جدو جہد نہ کرے.اگر عورت فیصلہ کر لے کہ میں نے آئندہ ہے.نسل کو پہلوں سے زیادہ دین دار بنانا ہے تو شیطان اس پر کس طرح قبضہ کر سکتا ہے مردوں نے شیطان کا مقابلہ کیا اور ہمیشہ ناکام رہے.زیادہ سے زیادہ وہ صرف ایک نسل کو دین کو دین پر قائم کرنے میں کامیاب ہوئے.صرف عورت ہی ہے جو شیطان کا ہمیشہ کے لیے مقابلہ کر سکتی ہے.اگر عورتیں فیصلہ کر لیں کہ ہم نے آئندہ نسلوں کو خادمِ دین بنانا ہے تو شیطان کس کو بگاڑے گا.آئندہ نسل پر شیطان کا اثر نہیں ہوتا بلکہ ماں کا اثر ہوتا ہے.لیکن ماں اپنی غلطی سے اُسے چھوڑ دیتی ہے اور وہ شیطان کا شکار ہو جاتا ہے.پس

Page 43

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو.یہ کہنا کہ مرد اگر تبلیغ کیلئے امریکہ گئے ہیں تو ہم بھی جائیں ، ایک ادنیٰ خواہش ہے.سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کو ایسے راستہ پر چلاؤ جس پر چل کر وہ پہلوں سے زیادہ دیندار ہوں، پہلوں سے زیادہ قربانی کرنے والے ہوں ، پہلوں سے زیادہ ایثار سے کام لینے والے ہوں.اگر تم ایسا کرو اور اگلی نسل کی عورتیں اگلی نسل کو بچائیں تو اس طرح قیامت تک خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم ہو سکتی ہے.گویا جس کام کو تیرہ سو سال میں امام ابو حنیفہ نہیں کر سکے ، امام شافعی نہیں کر سکے ،سید عبدالقادر صاحب جیلانی نہیں کر سکے ، حضرت معین الدین صاحب چشتی نہیں کر سکے ، شہاب الدین صاحب سہروردی نہیں کر سکے عورت اس کو کر سکتی ہے کیونکہ عورت کے ہاتھ میں بچہ ہوتا ہے.بچہ بولنا سیکھتا ہے تو اپنی ماں کی گود میں.جذبات سیکھتا ہے تو اپنی ماں کے ذریعہ سے.فکر کا مادہ اس میں پیدا ہوتا ہے تو ماں کی وجہ سے.غرض وہ تمام باتیں عورت سے ہی سیکھتا ہے.اگر عورت اس عزم کے ساتھ کھڑی ہو جائے کہ میں اپنی آئندہ نسل کی اصلاح کروں گی تو جو کام بزرگوں سے نہیں ہو اوہ ہمیشہ ہمیش کیلئے ہو سکتا ہے اور خدا کی بادشاہت اس دنیا میں قائم ہو سکتی ہے جس طرح وہ ان آسمان پر ہے.حضرت مسیح نے نہایت درد سے کہا تھا کہ اے خدا! جس طرح تیری بادشاہت آسمان پر ہے ویسی ہی زمین پر بھی قائم ہو.ہر مومن کے دل میں ایسا ہی جذبہ ہونا چاہئے.مگر سچ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت آسمان پر تو فرشتوں کے ذریعہ قائم ہے لیکن زمین پر وہ اسی طرح آسکتی ہے جب عورتیں اُس کو قائم کرنے کا تہیہ کر لیں.مرد صرف اپنے زمانہ کی اصلاح کر سکتے ہیں لیکن عورتیں آئندہ نسل کو دین پر قائم کر سکتی ہیں.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو اپنے فرائض کے سمجھنے کی توفیق دے تا کہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کو آپ ہمیشہ ہمیش کیلئے دنیا میں قائم کر دیں.اور آپ کے بعد آپ کی بیٹیاں اور پھر بیٹیوں کے بعد اُن کی بیٹیاں قرآن کریم کی تعلیم کو جاری کرنے والی اور اپنے نیک نمونہ کے ساتھ اسلام کو دائمی زندگی بخشنے والی ہوں.اللَّهُمَّ امِینَ الاظہار لزوات الخمار صفحه ۷ ۸ تا ۱۰۰)

Page 44

انوار العلوم جلد ۲۲ النساء: ٢ ۱۸ عورتیں آئندہ نسلوں کو دیندار بنا سکتی ہیں الناس : ۲ تا ۴ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۱۳۲۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء المنجد عربي اُردو صفحه ۱۰۳۵ مطبوعہ کراچی ۱۹۹۴ء بخاری کتاب الایمان باب كفران العشير (الخ) الله بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علم باب مناقب المهاجرين وفضلهم ك ابوداؤد كتاب الجهاد باب في المرأة والعبد يحذيان من الغنيمة موضوعات کبیر ملاعلی قاری صفحہ ۳۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ کنز العمال جزا اصفحہ ۷ اكتاب الفتن والاهواء باب في الفتن و الهرج مطبوع مؤسسة الرسالة الطبعة الخامسة ۱۹۸۱ ء میں بندروں کا ذکر ہے.تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۱۳۰ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء

Page 45

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۹ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو از بدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 46

Page 47

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۲۱ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو نَحْمَدُهُ وَ نُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو فرموده ۲۱ /اکتوبر ۱۹۵۰ء بر موقع افتتاح سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :- دنیا میں جب بھی کوئی اجتماع ہوتا ہے تو ہمیشہ اُسے ایک مناسب صورت دی جاتی ہے اور اسلام نے بھی اس کو ملحوظ رکھا ہے.مثلاً ہمارا روزانہ کا اجتماع نماز ہے.نماز کو ہمارے خدا نے شروع ہی سے ایک ایسی شکل دی ہے جو سارے مسلمانوں میں یکساں نظر آتی ہے.یعنی سب مسلمانوں کا ایک طرف منہ کرنا ، پھر ایک خاص وقت میں خاص قسم کی حرکات کرنا یعنی نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اوپر اُٹھانا، پھر سینہ پر ہاتھ باندھنا، منہ قبلہ رُخ کرنا ، رکوع کرتے وقت سب کا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر مجھک جانا ،سجدہ میں منہ اور ناک زمین پر لگانا اور اسی طرح کی اور مختلف حرکات کرنا اور ان سب باتوں کا ایک ہی وقت میں تمام کے تمام مسلمانوں میں جاری ہونا اس میں اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وحدتِ کامل وحدت صوری کے بغیر نہیں ہو سکتی.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ خدام میں وہ وحدت صوری پیدا کرنے کی کوشش نہیں کی گئی.کچھ خدام تو ہاتھ باندھے کھڑے ہیں اور کچھ ہاتھ لٹکائے کھڑے ہیں.کچھ خدام ایک طرف دیکھ رہے ہیں تو کچھ دوسری طرف دیکھ رہے ہیں گویا اس تھوڑے سے وقت میں بھی خدام اس تنظیم کو جو درحقیقت اسلام نے ہی قائم کی ہے لیکن مسلمانوں نے اسے بھلا دیا ہے قائم نہیں رکھ سکے.دوسرے صفیں ٹیڑھی ہیں.کوئی خادم آگے کھڑا ہے تو کوئی پیچھے کھڑا ہے.بیشک خیمے لگے ہوئے ہیں اور خدام ان کے آگے کھڑے ہیں لیکن جہاں خیمے ترتیب کے ساتھ ایک لائن میں لگائے گئے ہیں وہاں

Page 48

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو چاہئے تھا کہ مفیں بھی ترتیب کیسا تھ لگائی جاتیں.پس میری پہلی ہدایت تو یہ ہے کہ آئندہ اگر خیمے لگائے جائیں تو وہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک ایک ہی لائن اور ایک ہی صف میں ہوں.دوسرے چونکہ خدام نے ایک خاص وقت میں صف میں کھڑا ہونا ہوتا ہے اس لئے خیموں کے آگے ایک لائن لگا دی جائے جس پر تمام خدام ایڑیاں رکھ کر کھڑے ہوں.صف بندی ہمیشہ ایڑیوں کے ساتھ ہوتی ہے اُنگلیوں کے ساتھ نہیں ہوتی.اگر صف بندی اُنگلیوں کے لحاظ سے کی جائے گی تو کسی کا پاؤں چھوٹا ہوتا ہے اور کسی کا بڑا اس لئے کی کسی کا پاؤں آگے ہو جائے گا اور کسی کا پیچھے.پس صرف ایڑی ہی ایسی چیز ہے جس پر صف بندی کی بنیا د رکھی جاتی ہے اس لئے آئندہ کے لئے یہ بات نوٹ کر لی جائے کہ ہر خیمے کے آگے ایک لائن کھینچ دی جایا کرے تا اُس پر خدام سیدھی ایڑیاں رکھ کر کھڑے ہو جایا کریں.اس کے علاوہ صف بندی کی خاص طور پر مشق کرانی چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز میں جس کی صف سیدھی نہیں اُس کا دل ٹیڑھا ہے یا ہمیں جب عید کے موقع پر یا کسی جنازہ کے لئے کھلے میدان میں صفیں بندھوانی پڑتی ہیں.تو با وجود پوری کوشش کے وہ ہمیشہ خراب رہتی ہیں کیونکہ مسجدوں میں دیواروں اور صفوں کی وجہ سے صفیں سیدھی باندھی جا سکتی ہیں لیکن کھلے میدان میں ایسا مشکل ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جوانی میں صف سیدھی رکھنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی.پس خدام کو ہدایت دینی چاہئے کہ وہ صف بندی کی مشق کریں اور پھر اپنی اپنی جگہوں پر جا کر باقی خدام کو صف بندی کی مشق کرائیں.فوجیوں کو دیکھ لو ان کی صفیں ہمیشہ سیدھی ہوتی ہیں.ہمارے لوگ صف سیدھی کرنے کے لئے نیچے مُجھک کر دیکھتے ہیں لیکن وہ ایسا نہیں کرتے.فوجیوں میں صف سیدھی کرنے کا طریق یہ ہے کہ وہ سید ھے چھاتی نکال کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور کندھے کے ساتھ کندھا ملا لیتے ہیں.پھر آنکھ کو دائیں پھیر کر دیکھتے ہیں کہ کہیں صف ٹیڑھی تو نہیں.اگر صف ٹیڑھی معلوم ہو تو وہ فوراً سیدھی کر لیتے ہیں.پس جہاں سالانہ اجتماع کے موقع پر مختلف ق

Page 49

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳ سچا ایمان ، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو مشقیں کرائی جائیں وہاں خدام کو صف بندی کی بھی عادت ڈالی جائے اور یہ کام اسی اجلاس سے شروع کر دینا چاہئے.قائد اور زعماء جو یہاں موجود ہیں، انہیں صف بندی کے اصول بتائے جائیں جب آخری دن آئے گا یعنی پرسوں صبح تو کوئی وقت نکال کر میں آپ کو اکٹھا کروں گا اور کھڑا کر کے دیکھوں گا کہ آیا آپ صحیح طور پر اپنی صفیں سیدھی کر سکتے ہیں اور آیا قائدین اور زعماء کو وہ طریق یاد ہو گیا ہے جسے محوظ رکھ کر خدام کو صفیں سیدھی رکھنے کی مشق کرائی جائے گی.تیسری بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب ایسے کام کئے جائیں تو صحیح طریق یہ ہوتا ہے کہ خدام سیدھے کھڑے ہو جائیں اور اپنی نظریں سامنے رکھیں.اور خواہ کتنی ہی کی اہم بات کیوں پیدا نہ ہو وہ اپنی نظریں سامنے سے نہ ہٹا ئیں.یہ چیز بھی اسلام میں جاری کی گئی ہے.نماز میں یہ حکم ہے کہ نمازی اپنی نظر اپنی سجدہ گاہ پر رکھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ نماز میں جو شخص دائیں یا بائیں دیکھتا ہے یا اس کی نظر نیچے اور اوپر پھرتی ہے قریب ہے کہ خدا تعالیٰ اُس کی بینائی کو اُچک لے.اب دیکھ لو یہ کتنا خطر ناک وعید ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کر نیوالے کو اندھا کر دے گا.غرض وہ سارے احکام جواب تنظیم کے لئے مقرر کئے گئے ہیں اسلام میں پہلے سے موجود ہیں.ہمیں یہ سبق سکھایا گیا ہے کہ صرف نماز میں ہی نہیں بلکہ تنظیم کے جو مواقع بھی پیش آئیں اُن میں ہمیں انہی اصولوں پر کار بند رہنا چاہئے.لیکن میں دیکھتا ہوں کہ تمام خدام جو کھڑے ہیں ان میں سے کچھ دائیں طرف دیکھ رہے ہیں تو کچھ بائیں.کچھ اوپر دیکھ رہے ہیں اور کچھ نیچے حالانکہ اسلامی اصول کے مطابق چاہئے تھا کہ آپ سب سامنے دیکھتے.میرا خطیب ہونے کے لحاظ سے یہ کام ہے کہ چاروں طرف دیکھوں میں دیکھتا ہوں کہ اس وقت جب میں سامنے دیکھنے کی نصیحت کر رہا ہوں اس وقت بھی خدام دائیں اور بائیں اور اوپر اور نیچے دیکھ رہے ہیں.انسان کو کم از کم نصیحت کے وقت تو اس پر عمل کر لینا چاہئے.بد قسمت ہے وہ شخص جو تنظیم کے وقت اپنا کام بھول جاتا ہے لیکن کم از کم وہ کمزوری جو نا قابل معافی ہے اور حیرت انگیز ہے وہ یہ ہے کہ انسان اُسی وقت جبکہ نصیحت ہورہی ہو اس کی خلاف ورزی کرے

Page 50

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو اس کے بعد میں آپ لوگوں کو بتانا چاہتا ہوں، اخبارات پڑھنے والے جانتے ہیں اور جن جماعتوں میں میں گیا ہوں وہ بھی جانتی ہیں کہ میں اڑھائی ماہ سے شدید کھانسی میں مبتلا ہوں اور میرا گلا بیٹھا ہوا ہے یہاں آکر کچھ آرام آ گیا تھا لیکن خطبہ سے دوبارہ تکلیف شروع ہو گئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں گرد اڑتی ہے اور گر دکھانسی کے لئے مہلک ہوتی ہے اس لئے باوجود اس خواہش کے کہ میں اکثر وقت یہاں گزاروں میں ایسا نہیں کرسکوں گا.نائب صدر میری جگہ پر کام کریں گے سوائے اُن وقتوں کے جن میں میں یہاں ٹھہر نے کا فیصلہ کروں یا میری صحت مجھے ٹھہرنے کی اجازت دے اس لئے میں خدام کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جب وہ کوئی کام کر رہے ہوں اور وہ مجھے یہاں آتا دیکھیں وہ اپنی آنکھیں اُسی طرح بند کر لیں گے کہ گویا اُنہوں نے مجھے دیکھا ہی نہیں.اگر وہ مجھے دیکھ کر میری طرف بھاگیں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ گر داڑے گی اور میں بیمار ہو جاؤں گا اور آئندہ اجتماع میں شریک نہ ہوسکوں گا.سوائے دو تین اشخاص کے جو میرے ساتھ آنے اور جانے کے لئے مقرر ہیں.دوسرے خدام کو میرے ساتھ نہیں چلنا چاہئے.بلکہ اگر مخصوص عملہ کے سوا کوئی اور شخص میرے ساتھ آ رہا ہو تو انہیں چاہئے کہ وہ اُسے الگ کر کے سمجھا دیں کہ اُس کا اِس طرح میرے ساتھ جانا منع ہے.اور پرائیویٹ سیکر یٹری کو چاہئے کہ وہ میرے ساتھ آنے والے مخصوص عملہ پر مخصوص لیبل لگا دیں تا کہ ان کے علاوہ ان اگر کوئی اور شخص میرے ساتھ آرہا ہو تو کا رکن اُس کو ہٹا سکیں.پر اس کے بعد میں خدام الاحمدیہ کو ان کے ان مستقل فرائض کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں جو اسلام کی ابتداء سے ان پر عائد ہوتے ہیں بلکہ دنیا کی پیدائش سے ان پر عائد ہوتے ہیں لیکن مختلف وقتوں میں لوگ اُنہیں بھول جاتے رہے ہیں اور انہیں یاد کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے انبیاء دنیا میں مبعوث ہوتے رہے ہیں.نمازوں کے طریق کی بدلتے رہے ہیں، اعمال کی تفصیلات بدلتی رہی ہیں.روزوں کے طریق بدلتے رہے ہیں، حج کی جگہیں بھی بدلتی رہی ہیں، حج کی کیفیتیں بھی بدلتی رہی ہیں، زکوۃ کے طریق بھی بدلتے رہے ہیں اور زکوۃ کے نصاب بھی بدلتے رہے ہیں لیکن بعض ایمانی، اعتقادی

Page 51

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو اور عملی اصول ایسے ہیں جو حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر ابھی تک ایک ہی رہے ہیں اور قیامت تک ایک ہی رہیں گے.نہ حضرت آدم علیہ السلام نے ان کے خلاف کیا، نہ حضرت نوح علیہ السلام نے ان کے سوا کوئی اور تعلیم دی ، نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان سے انحراف کیا نہ حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیھما السلام نے ان سے الگ ہو کر تعلیم دی اور نہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جدا گا نہ تعلیم دی.حضرت آدم علیہ السلام سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر قیامت تک وہ اصول ایک ہی رہے ہیں ، ایک ہی ہیں اور ایک ہی رہیں گے.لیکن بعض زمانے ایسے آتے ہیں جب لوگ ان اصولوں کو بھول جاتے ہیں اور بعض زمانے ایسے آئے ہیں جب مؤمنوں کو بڑے تعہد اور سختی کے ساتھ اُن پر عمل کر نیکی ضرورت ہوتی ہے.ان اصولوں میں سے پہلی چیز ایمان ہے.ایمان کی اسلامی تشریح تو یہ ہے کہ ایمان اَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ کے فارمولہ پر جس کو عربی میں کلمہ کہتے ہیں یقین اور ایمان رکھے.لیکن دیکھ لو جب یہ کہا جاتا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے؟ اسلام کیا چیز ہے؟ تو تم کلمہ شہادت پڑھتے ہو اور کہتے ہو اس پر ایمان اور یقین رکھنا.جس سے معلوم ہوا کہ ایمان اور چیز ہے اور کلمہ شہادت اور چیز ہے.ایمان در حقیقت وہ قوت محرکہ ہے جو صداقتوں کو ماننے اور صداقتوں کو دنیا میں پھیلانے کے پیچھے عمل کر رہی ہوتی ہے اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ وہ کلمہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اور پھر اس کے بعد کے لوگوں میں قوت محرکہ کے طور پر رہا ہے یعنی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں موجود تھے اُس وقت بھی یہ کلمہ قوت محرکہ کے طور پر تھا اور آپ کے بعد کے زمانہ میں بھی یہی قوت محرکہ کے طور پر ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے وقت میں کوئی کلمہ نہیں تھا بلکہ یہ عقیدہ رکھنا کہ حضرت عیسی علیہ السلام خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے گئے ہیں تا وہ اپنی قوم کی اصلاح کریں اور اُن کے اعمال درست کریں اسی کو قوت محرکہ قرار دیا گیا تھا.اس سے

Page 52

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶ سچا ایمان ، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو قبل حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا اور ان کے بتائے ہوئے طریق پر عمل کرنا قوت محرکہ قرار دیا گیا تھا.گویا اسلام سب جگہوں پر موجود تھا لیکن اس کی شکلیں بدل گئی تھیں اسی طرح ایمان ہر جگہ تھا لیکن قوت محرکہ بدلتی رہتی تھی.ایمان صرف کلمہ کا نام نہیں بلکہ ایمان نام ہے اس یقین اور اس اعتماد کا جو صداقت اور اصول صداقت پر ہو جو انسانی اعمال اور زندگی کو اسکے تابع کر دے.بے شک کسی وقت اس کا جزو حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لانا تھا، کسی وقت اس کا جز وحضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا تھا، کسی وقت اس کا جز و حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لا نا تھا لیکن اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان لانا اس کا جُزو ہے.پس پہلی چیز جس سے کوئی قوم بنتی ہے وہ ایمان ہے.یہ تو مذہبی چیز ہے جب ہم قوموں کی طرف جاتے ہیں تو ان کے اندر ایمان ایک الگ رنگ میں ہوتا ہے جسے نیشنل سپرٹ یا قومی روح کہا جاتا ہے.گویا قومی روح سیاسی ایمان ہے.ایک انگریز کا ایمان یہ ہے کہ حکومت کو جو مشکل بنتی ہے اُس کی حفاظت اور قیام کے لئے وہ ہمیشہ فعال رہے گا.ایک امریکن کا ایمان یہ ہے کہ امریکہ اور اُس کے ماتحت علاقوں کو جو مشکل حاصل ہے اُس کی حفاظت اور ترقی کے لئے وہ ہمیشہ کوشاں رہے گا.یہ سیاسی ایمان بھی اسی طرح کا ہے جس طرح کا مذہبی ایمان ہے کہ مذہب کی تمام صداقتوں کی پر ایمان لایا جائے اور اس کے جو اصول ہیں اُن کی حفاظت اور اشاعت کے لئے اپنی کی ساری زندگی لگا دی جائے.اور جس وقت کوئی شخص یہ پختہ ارادہ کر لیتا ہے کہ میں ان کی صداقتوں اور ان اصولوں پر قائم رہوں گا اور دوسروں کو بھی ان کی طرف لاؤں گا تو اسے ایمان کہتے ہیں.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ اسلام کا دوبارہ احیاء کیا گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ اسلام زندہ ہی ہے لیکن موجودہ لوگوں کا یقین اور اعتماد جو بیکار ہو چکا تھا اور خدا اور اُس کا رسول اِس سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا رہے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسے دوبارہ زندہ کرنے کیلئے اس دنیا میں تشریف لائے.پس احمدیت میں

Page 53

انوار العلوم جلد ۲۲ سچا ایمان ، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو داخل ہونے والے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جس اصول صداقت کو اسلام نے پیش کیا ہے یعنی اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اس کو وہ صحیح سمجھتا ہو ، اس کے اندر یہ یقین پایا جاتا ہو کہ وہ عقیدہ جس پر اُسے قائم کیا گیا ہے وہ لفظاً لفظ اپنے تمام اجزاء سمیت اور اپنے مجموعی معانی کے مطابق بالکل صحیح اور درست ہے اور یہ ضروری چیز ہے کہ وہ اسے دل میں قائم رکھے اور اسے دنیا میں پھیلائے.یہ اس زمانہ کا اُسی طرح کا ایمان ہے جس طرح یہ اُس زمانہ کا ایمان تھا جس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں ظاہر ہوئے تھے.میں ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ ایمان کے یہ معنے سمجھتے ہیں کہ وہ ان الفاظ کو دُہرا دیں جو کلمہ میں پائے جاتے ہیں یعنی اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلهُ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ یہ کوئی لمبا فقرہ نہیں ، کوئی لمبی سورۃ اور کتاب نہیں جس کو کوئی ہندو، سکھ یا عیسائی یاد نہ کر سکے بلکہ یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے جس کو ایک ہندو ، جی ایک عیسائی ، ایک سکھ ، ایک زردشتی یا شنٹو ازم کا قائل بھی ایک دو منٹ کے بعد دُہرا سکتا ہے.پس اگر اس میں کوئی جادو ہے اور یہی الفاظ انسان کو کچھ کا کچھ بنا دینے کے قابل ہیں تو ہزاروں ہزار منکرین اسلام جو قرآن مجید کو محض اسکی تکذیب کرنے کے لئے پڑھتے ہیں وہ بھی مسلمان ہو جاتے.لیکن حال یہ ہے کہ ہزاروں ہزار اشخاص نے ہزار ہا دفعہ اَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه پڑھا اور وہ پھر بھی کافر کے کافر رہے بلکہ وہ ان لوگوں سے زیادہ کا فر تھے جنہوں نے اسے بغیر پڑھے رڈ کیا.کیونکہ ان لوگوں نے کلمہ کے الفاظ کو پڑھ کر اور اس کا مفہوم سمجھ کر اس کو رڈ کیا جبکہ دوسروں نے اسے بغیر پڑھے رڈ کر دیا.پس ایمان کلمہ پڑھنے کا نام نہیں بلکہ اُن باتوں کو یا در رکھنے اور ان پر عمل کرنے کا نام ہے جو اس میں بیان کی گئی ہیں.اور اس یقین کا نام ہے جو عمل پیدا کرتا ہے اور اُس قوت محرکہ کا نام ہے جو عقیدہ کو مل کی صورت میں تبدیل کرتی چلی جاتی ہے.اس کی مثال کے طور پر میں بیلنا پیش کرتا ہوں.بیلنا اُس چیز کا نام ہے جس میں گنے

Page 54

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸ سچا ایمان ، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو پہلے جاتے ہیں اور ان سے رس نکالا جاتا ہے.خالی بیلنا مفید نہیں ہو سکتا.اگر بیلنے لگا دیئے جائیں اور ان کو خالی چلاتے رہیں تو ملک کو نہ رس ملے گا اور نہ شکر.بیلینے سے رس اُس وقت پیدا ہوگی جب اُس میں گنے ڈالے جائیں گے اور پھر اُس رس سے شکر بنائی جائے گی.پس کلمہ کے الفاظ پر خالی یقین کر لینے کی مثال آپ وہ بیلنا سمجھ لیں جس میں گنے نہ ڈالے جائیں.اور قوت محرکہ ایسی ہی ہے جیسے بہلنے میں گئے ڈال کر اُسے حرکت دی جاتی ہے.جس طرح بلینے کے اندر ایک ایسی مشین ہے جو گنے کو حرکت دیتی ہے اور اُس سے رس نکلتی ہے اسی طرح عقیدہ کے اندر جب تک قوت محرکہ نہ پائی جائے اس سے کوئی فائدہ نی حاصل نہیں ہوتا.کلمہ کے الفاظ کو خالی ماننا کوئی مفید چیز نہیں.کلمہ کے الفاظ کو اس حد تک مانای اہئے کہ وہ انسان کے اندر حرکت کر کے نئے اعمال پیدا کر دے اور اُسی وقت اسے ایمان کہتے ہیں.اس سے پہلے وہ صرف عقیدہ ہے ایمان نہیں.عقیدہ کا لفظ عربی میں اس بات کو کہتے ہیں جس کو ہم مانتے ہیں.ایمان کا لفظ اس وقت بولا جاتا ہے جب ہم اس سے فائدہ حاصل کرنا شروع کر دیتے ہیں.ایمان کے معنی ہیں امن دینا ، فائدہ اور راحت دینا.اور یہ ظاہر ہے کہ محض عقیدہ سے دنیا میں امن قائم نہیں ہوتا.دنیا میں امن اُن اعمال سے پیدا ہوتا ہے جو ہم عقیدہ کے نتیجہ میں بجا لاتے ہیں.گویا ایمان ، عقیدہ اور قوت محرکہ کے مجموعہ کا نام ہے.جب عقیدہ اتنا پختہ ہو جاتا ہے که انسان اپنے اندر اُس کے ذریعہ تبدیلی پیدا کرے تو اُس کو مومن کہتے ہیں.جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے دنیا میں ہزاروں ہزار ان پڑھ لوگ بھی ایسے ملیں گے جو کہیں گے کہ اللہ ایک ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول ہیں.گاؤں کی ایک بڑھیا عورت سے بھی پوچھو وہ کہے گی یہ بات سچ ہے کہ اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں.بعض اوقات یہ لوگ مر بھی جائیں گے مگر یہی کہیں گے کہ یہ بات سچ ہے لیکن باوجود اس کے وہ اسلام کی اشاعت کے لئے کوئی فکر اور کوئی تدبیر نہیں کر رہے ہوتے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر عقیدہ تو ہوتا ہے ایمان نہیں ہوتا.وہ یہ تو مانتے ہیں کہ خدا ایک ہے اور محمد اُس کے رسول ہیں لیکن یہ ماننے کا مقام اتنا ترقی نہیں کرتا کہ یہ بات ان

Page 55

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو کے فکر ، عقل اور جذبات کا ایک حصہ بن جائے.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک سفید رنگ کا آدمی کا لا کپڑا اوڑھ لے.اب وہ کالا کپڑا اوڑھ لینے سے کالا نہیں بن جاتا ہاں وہ دور سے ایک کالی چیز نظر آتا ہے.لیکن ایک کالے رنگ کا آدمی ہو تو جہاں تک جلد کا تعلق ہوتا ہے وہ اندر سے بھی کالا ہوتا ہے اور باہر سے بھی کالا ہوتا ہے.یا مثلاً سیا ہی جسم پر مل لینے کی وجہ سے کوئی شخص کالا نہیں ہو جاتا وہ تو صرف کوٹنگ COATINQ) ہوگی یہ عقیدہ کی مثال ہے.لیکن ایمان کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی چیز واقع میں سیاہ ہو، کوئی چیز واقع میں سفید ہو، کوئی چیز واقع میں سرخ ہو، کوئی چیز واقع میں زرد رنگ کی ہو.غرض احمدیت میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے جو چیز اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے وہ ایمان ہے.عقیدہ اس کا ایک حصہ ہے یعنی ایمان دو چیزوں کا نام ہے اور وہ عقیدہ اور قوت محرکہ ہیں.اور عقیدہ ایک چیز کا نام ہے یعنی کسی چیز کو سچا سمجھنا.پھر ایک شخص میں کام کا جوش ہوتا ہے ایک میں نہیں یعنی عقیدہ اور قوت محرکہ الگ الگ بھی پائی جاتی ہیں.ہزاروں ہزار آدمی ایسے پائے جاتے ہیں جو عقیدہ رکھتے ہیں لیکن ان میں قوت محرکہ نہیں پائی جاتی.اسی طرح ہزاروں ہزار آدمی ایسے ہوتے ہیں جن میں عقیدہ پایا جاتا صرف قوت محرکہ پائی جاتی ہے.وہ کام کرتے ہیں لیکن کوئی مقصد اپنے سامنے نہیں رکھتے.گویا عقیدہ مقصد پر دلالت کرتا ہے اور ایمان مقصد اور اس کے مطابق عمل پر دلالت کرتا ہے.دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو مقصد رکھتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے اور دنیا میں ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو عمل کرتے ہیں لیکن کوئی مقصد نہیں رکھتے.لیکن مومن وہ ہے جو مقصد اور عمل دونوں کا مجموعہ ہوتا ہے.دوسری چیز جو احمدیت میں داخل ہو کر انسان کو اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے وہ عمل ہے.ایمان کے بعد عمل کا مقام آتا ہے اور یہ وہ مقام ہے جہاں قوت محرکہ عمل میں آجاتی ہے.مثلاً بیلنا ہے.بلینے میں اگر گنا ڈالا جائے جو قوت محرکہ کا قائم مقام ہے اور پھر بیلنا کی حرکت کرے تو اس سے رس ٹپکنے لگتی ہے.اسی طرح انسان کے اندر جب عقیدہ پیدا ہوتا ہے.اور قوت محرکہ بھی پیدا ہوتی ہے تو قوت محرکہ مقصد کے ساتھ مل کر رس پیدا

Page 56

انوار العلوم جلد ۲۲ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو کرتی ہے.جس طرح بیلنا ہومگر اُس میں گنا نہ ڈالا جائے تو بلینے کو حرکت دینے سے رس نہیں ٹپکتی.اس طرح اگر صرف عقیدہ ہی عقیدہ ہوقوت محرکہ نہ ہو تو اس سے انسان کوئی فائدہ حاصل نہیں کر سکتا.جس طرح بیلنے کو جب تک حرکت نہ دی جائے اور اس میں گنا نہ ڈالا جائے انسان رس حاصل نہیں کر سکتا.رس نکالنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بیلنا میں گنے ڈالے اور پھر اسے حرکت دے.اسی طرح کوئی مقصد معین ہوتا ہے اور پھر انسان کے اندر ایک جوش ہوتا ہے کہ اس مقصد کو پورا کرنے کے لئے کچھ کرنا چاہئے اور پھر انسان وہ کام کرنے لگ جائے تو اس کو عمل کہتے ہیں ،عمل کے بغیر بھی انسان صحیح نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.میں نے بتایا ہے کہ خالی بیلنا حرکت کرتا رہے اس میں گنا نہ ڈالا جائے تو رس حاصل نہیں ہوسکتا اسی طرح عقیدہ ہو لیکن قوت محرکہ صحیح طور پر کام نہ کرے تو ایمان بیکار ہے.اسی طرح اگر عمل ہو ایمان نہ ہو تو وہ عمل بھی بیکار ہے اس کا کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں ہوگا.یورپ والے کتنا عمل کر رہے ہیں لیکن چونکہ وہ عمل ایمان کے تابع نہیں اس لئے روحانیت سے دور ہیں..وہ در اصل عمل ایمان کا لباس ہے اور ایمان مخفی چیز ہے.جب ہم لباس کو دیکھتے ہیں تو اس سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی آدمی ہے.فرض کرو دور سے کوئی آدمی آرہا ہے ہم اس کے کپڑے دیکھتے ہیں تو ان کپڑوں سے سمجھ لیتے ہیں کہ وہ آدمی ہے.کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ محض کپڑے ہی ہوتے ہیں کوئی آدمی وہاں نہیں ہوتا جیسے کوئی کپڑے دھو کر سکھانے کیلئے دیوار یا کسی درخت پر لٹکا دے.لیکن عام طور پر یہی ہوتا ہے کہ جب کپڑے نظر آئیں تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جاتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی آدمی ہے.اگر کوئی قمیص ہل رہی ہے اور ایک شخص دوسرے سے کہتا کہ دیکھو وہ کوئی آدمی آرہا ہے تو وہ اسے جھٹلائے گا نہیں یہ نہیں کہے گا کہ تم جھوٹ کہتے ہو.دس لاکھ میں سے نو لاکھ نا نوے ہزار نو سو ننانوے حالات میں وہ آدمی ہوتا ہے خالی قمیص نہیں ہوتی.لیکن کبھی کبھی خالی قمیص بھی لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور یہ استثنائی چیز ہے.ورنہ عام حالات میں قمیص اور آدمی دونوں اکٹھے ہوں گے.اسی طرح جب عمل نہیں ہو گا ہم ایمان کو نہیں مانیں گے اور عمل ایمان کے

Page 57

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو بغیر پیدا نہیں ہوتا.عمل گواہی دیتا ہے ایمان پر اور ایمان پیدا کرتا ہے عمل کو.تیسری چیز جو احمدیت میں داخل ہونے والے کے لئے اپنے اندر پیدا کرنا ضروری ہے وہ راست بازی ہے.یہ خلق بھی کام کے لئے ایک اصولی خُلق ہے.راست بازی اپنی ذات میں ایک طبعی چیز ہے مثلاً کوئی شخص آپ کے سامنے بُوٹ رکھے اور کہے یہ کیا ہے؟ تو آپ کہیں گے یہ بُوٹ ہے.اور اگر وہ شخص یہ کہے کہ تم اسے بُوٹ نہ کہو تو تم کہو گے اور کیا کہوں یہ ہے ہی بُوٹ.غرض راست بازی ایک طبعی چیز ہے اور انسان مجبور ہوتا ہے کہ وہ سچ کہے.لیکن جب مصلحتاً وہ اُسے بدلنا چاہتا ہے تو وہ ایک غیر طبعی چیز بن جاتی ہے.راست بازی مذہبی چیز نہیں، راست بازی انسان کا طبعی حصہ ہے.جب تم سچ بولنے سے انکار کرتے ہو تو گویا فطرت کا انکار کرتے ہو.راست بازی کس چیز کا نام ہے؟ فرض کرو تمہارے سامنے پہاڑ کا ایک ٹیلہ ہے تو تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ ایک گدھا ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ریل ہے تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ لنڈن ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ نیو یارک ہے ، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ دہلی ہے، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ دریا ہے ، تم یہ بھی ہ سکتے ہو کہ یہ ایک خیمہ ہے ، تم یہ بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ ایک خادم ہے جو پہرہ دے رہا ہے تم یہ سب کچھ کہہ سکتے ہو لیکن جو شخص تمہارے ساتھ سازش میں شریک نہیں ہو گا اُسے جب تم کہو گے کہ یہ پہاڑی ہے تو وہ کہے گا ٹھیک ہے.لیکن جب تم کہو گے کہ یہ خیمہ ہے تو وہ کہے گا یہ جھوٹ ہے تم پاگل ہو گئے ہو.جب تم کہو گے یہ لنڈن ہے تو وہ کہے گا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ، اگر تم کہو گے کہ یہ نیو یارک ہے تو وہ کہے گا پاگل خانہ میں جا کر علاج کرواؤ.غرض جھوٹ یا سازش میں جو شریک نہ ہو اس کے سامنے جب کسی چیز کا وہ نام لو جو اُس کا اصلی نام نہیں تو تین کنڈیشنز ہوں گی.یا تو وہ کہے گا یہ تمسخر کر رہا ہے.یا کہے گا کہنے والا احمق ہے.یا کہے گا یہ جھوٹ ہے.ان تین حالتوں کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی.غرض راست بازی ایک طبعی خُلق ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ جب کسی کے سامنے تم ایک چیز کا وہی نام لو گے جو اُس کا اصلی نام ہے تو وہ اُس کی تصدیق کرے گا

Page 58

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲ سچا ایمان، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو اور جب کوئی اور نام لو گے تو وہ تمہاری تکذیب کریگا.تم اپنی بیوی، بیٹے ، ماں باپ اور بھائی کے سامنے بھی کوئی اور نام لے کر انہیں یقین دلانے کی کوشش کرو گے تو وہ تمہاری تکذیب کریں گے.تم اگر اپنے بچہ کے سامنے بھی اس پہاڑی کے متعلق یہ کہو گے کہ کراچی سے ایک خادم آیا ہے اور وہ پہرہ دے رہا ہے تو وہ کہے گا باپ مذاق کر رہا ہے.تم اگر زیادہ زور دو گے تو ہو سکتا ہے وہ مان جائیں اور کہیں زیادہ نہ چڑاؤ کہیں جنون بڑھ نہ جائے.پس راست بازی باہر سے نہیں آتی بلکہ انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے.باہر سے اسے مٹایا جاتا ہے.مثلاً تم اپنے کسی دوست سے مذاق کرنا چاہتے ہو.تم ایک بانس کی پر شلوار اور قمیص لٹکا کر کہو گے کہ یہ آدمی کھڑا ہے تو یہ بات باہر سے پیدا ہوئی ہے.تمہارا دل یہ کہ رہا ہوگا کہ یہ ایک بانس ہے اور اس پر شلوار اور قمیص انکائی ہوئی ہے.راست بازی جہاں ایک فطری اور طبعی خلق ہے وہاں دین کو بھی اس کی ضرورت ہوتی ہے.قطع نظر اس کے کہ راست بازی چھوڑ کر تم آدمیت کے دائرہ سے نکل جاتے ہو کیونکہ آدمی نام ہے دل کا.آدمی اس فیصلہ کا نام نہیں جو تم طبعی حالات میں کرتے ہو.آدمی نام ہے اُن صحیح جذبات اور صحیح افکار کا جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں.آدمی نام ہے صحیح عزائم اور صحیح ارادوں کا جو انسان کے اندر پیدا ہوتے ہیں.جب صحیح جذبات صحیح افکار اور صحیح عزائم اور صحیح ارادوں کے خلاف تمہاری ظاہری اغراض اور خارجی ضرورتیں تمہیں کوئی اور بات کہنے پر مجبور کرتی ہیں تو وہ غیر طبعی چیز بن جاتی ہے راست بازی نہیں رہتی.مگر جہاں آکر آدمیت کا تعلق ہوتا ہے تم اُسے کچل رہے ہوتے ہو.لیکن اس کے ساتھ ہی راست بازی کی مذہب کو بھی ضرورت ہوتی ہے اس لئے کہ مذہب خود ایک سچائی ہے.اس لئے کہ خدا تعالیٰ کا ایک نام حق بھی ہے یعنی خدا تعالیٰ ایک ایسی چیز ہے جو خلاف واقعہ نہیں بلکہ وہ اُسی طرح ہے جس طرح کہا گیا ہے.اور خدا تعالیٰ وہ بات کہتا ہے جو راست ہوتی ہے.خدا تعالیٰ پہاڑ کو دریا نہیں کہتا اور نہ دریا کو پہاڑ کہتا ہے وہ پہاڑ کو پہاڑ اور دریا کو دریا کہتا ہے.وہ آدمی کو جنگل نہیں کہتا اور نہ جنگل کو آدمی کہتا ہے.وہ آدمی کو آدمی اور جنگل کو جنگل کہتا ہے.پھر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر آنے والی چیز راست اور

Page 59

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳ سچا ایمان ، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو درست ہوتی ہے اور چونکہ مذہب راست بازی ہے اس لئے جو اس پر عمل کرے گا وہ راست باز ہوگا.بازی کے معنی ہیں عمل کرنا، کھیلنا.بازی فارسی کا ایک لفظ ہے اور اس کے معنی کھیلنے کے ہوتے ہیں.اور راست بازی کے معنی ہیں راستی کے ساتھ کھیلنا سچائی پیش کرنا.سچائی کو مقصود قرار دے لینا.گویا انسان جس طرف بھی حرکت کرے اُس کا مقصود راستی ہو.جس طرح یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص دولت میں کھیل رہا ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اُس کے ارد گر د دولت ہی دولت ہے.اسی طرح راست بازی کے معنے یہ ہیں کہ سچائی اُس کے اردگرد جلوہ گر ہوتی ہے.چونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والے دلائل ، تعلیمات اور عقائد ہمیشہ سچے ہوتے ہیں اس لئے جو شخص ان کے مطابق اپنی زندگی بنا لیتا ہے وہ راست باز ہوتا ہے.اور اگر کوئی شخص راست باز نہ رہے تو وہ ان احکام کو جو خدا تعالیٰ کی طرف سے آتے ہیں اپنا نہیں سکتا.وہ انہیں اپنی زندگی کا مقصد قرار نہیں دے سکتا کیونکہ یہ امر محال ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کرنے والا بھی ہو اور وہ جھوٹ کا عادی بھی ہو.گویا دوسرے لفظوں میں مذہب نام ہے راست بازی کا.اور سچا مذہب نام ہے اس بات کا کہ وہ تمہارے سونے جاگنے ، اُٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے پر بلکہ تمہاری ہر حرکت پر حاوی ہو.وہ تمہاری ہر شعبہ زندگی میں راہ نمائی کرتا ہو.اور اگر مذہب نام ہے راست بازی کا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ مذہب پر چلنے والا شخص سچائی کو اپنے ہر شعبۂ زندگی میں داخل کرتا ہے.اور اگر کوئی شخص جھوٹ کا عادی ہوگا تو اس کے یہ معنی ہوں گے کہ وہ جہاں بھی جھوٹ بولے گا مذہب کو پرے دھکیل دیگا.مثلاً تمہارا ایک دوست ہے اُسے یہ علم نہیں کہ تم چور ہو تمہیں علم ہے کہ اگر اسے پتہ لگ گیا کہ تم چور ہو تو وہ تمہیں چھوڑ دے گا.تم اگر دونوں اکٹھے جارہے ہو اور تمہیں پتہ لگتا ہے کہ رستہ میں مال پڑا ہے اور تم اُسے چرانا چاہتے ہو تو تم اُس دوست کو اس کا علم نہ ہونے دو گے بلکہ بہانہ بنا کر اُس سے الگ ہو جاؤ گے کیونکہ تم جانتے ہو کہ وہ دوست تمہارے رستہ میں حائل ہوگا.پس اگر مذہب کا نام راستی ہے اور تمہیں ذرا بھی جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو تم جہاں بھی جھوٹ کی طرف مائل ہو گے وہاں تم مذہب چھوڑنے پر مجبور ہو جاؤ گے.پس جھوٹ

Page 60

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴ سچا ایمان ، پیہم عمل اور راستبازی کی عادت پیدا کرو اور مذہب دونوں الگ الگ چیزیں ہیں اور دونوں ایک وقت میں نہیں چل سکتے.چونکہ مذہب ایک سچا دوست ہے وہ دنیا میں تمہیں پار گزارتا ہے اور اگلے جہاں میں تمہیں جنت میں لے جاتا ہے.وہ ایک دوست ہے جو تمہارے ساتھ چوری، فریب اور ٹوٹ میں شریک ہونے کے لئے تیار نہیں اس لئے یا تو اس کے ساتھ فریب کر رہے ہو گے یا تم اُسے چھوڑ دو گے تا وہ تمہیں چوری اور دوسرے خلاف شریعت امور سے باز نہ رکھ سکے.پس راست بازی جہاں انسانیت کا تقاضا ہے ، وہاں وہ مذہب کا تقاضا بھی ہے مذہب اور جھوٹ اسی طرح جمع نہیں ہو سکتے جس طرح کفر اور مذہب دونوں جمع نہیں ہو سکتے.یہ تین باتیں ہیں جو میں نے تم سے کہی ہیں.اجتماع کے دوران میں جُوں جُوں موقع نکلے گا میں یہاں آؤں گا اور کچھ اور باتیں بھی کہوں گا.مگر یہ خوب یا درکھنا کہ جب تم مجھے دیکھو میرے ارد گر د جمع نہ ہونا کیونکہ اس طرح مٹی اُڑے گی اور میری کھانسی اور بڑھ جائے گی 66 اور اس صورت میں میں باوجود خواہش کے اجتماع میں شریک نہ ہوسکوں گا.“ سنن ابی داؤد كتاب الصلواة باب تسوية الصفوف الفضل ۱۹ ،۲۰ / اکتوبر ۱۹۶۱ ء )

Page 61

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵ اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفة المسیح الثانی

Page 62

Page 63

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۳۷ اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے فرموده ۲۲ /اکتوبر ۱۹۵۰ء بر موقع ( دوسرادن ) سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بوقت ۱۰ بجے صبح بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ایک نقص میں نے گھر سے یہاں آتے ہوئے یہ دیکھا ہے کہ بعض حصے کام کے ہیں جن میں خدام الاحمدیہ کی یہ نگرانی نہیں کی جاتی کہ وہ تمام کے تمام اس میں مشغول ہیں یا نہیں.مثلا فٹ بال کا میچ ہو رہا تھا تو ضروری نہیں سمجھا گیا کہ اس امر کی نگہداشت کی جائے کہ آیا سارے خدام میچ دیکھ رہے ہیں یا نہیں.میں نے دیکھا کہ کچھ خدام میچ دیکھ رہے تھے اور کچھ اِدھر اُدھر کھڑے تھے اس طرح یہ غرض کہ خدام سالانہ اجتماع کے دو تین دن اس مشق میں گزاریں کہ ہر وقت کام میں مشغول رہیں باطل ہوگئی کیونکہ ان دو تین دنوں میں بھی بعض حصے ایسے ہیں جن میں بعض خدام مشغول ہیں اور بعض مشغول نہیں اس لئے میں مجلس انتظامیہ خدام الاحمدیہ مرکزیہ کو یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ فوراً اس بارہ میں قانون بنا کر آئندہ اس کی تعمیل کرائے اور دیکھے کہ آیا تمام کے تمام خدام کام میں لگے رہتے ہیں یا نہیں.مثلاً میچ دیکھنا بھی کام ہے اور یہ ضروری امر ہے کہ کھیلیں ہو رہی ہوں تو باقی خدام دیکھ رہے ہوں.یہ نہ ہو کہ بعض خدام کھیلیں دیکھ رہے ہوں اور بعض اِدھر اُدھر پھر رہے ہوں.اگر ایک وقت میں چار پانچ کھیلیں ہو رہی ہوں تو منتظم خدام سے پوچھ لیں کہ وہ کونسی کھیل دیکھنا چاہتے ہیں اور ہر ایک کو حکم دے دیں کہ وہ کوئی نہ کوئی کھیل ضرور دیکھے تا آوارگی کی عادت نہ ہو.دنیا کے لوگ تو ساری عمر

Page 64

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸ اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے کام میں لگے رہتے ہیں ہمارے نوجوانوں کو بھی اس کی عادت ہونی چاہئے اور کم از کم دو تین دن تک انہیں ہر وقت کام میں مشغول رہنا چاہئے.رستہ میں مجھے سینکڑوں ایسے خدام ملے ہیں جو اِدھر اُدھر کھڑے تھے یا پھر رہے تھے اس طرح وہ غرض پوری نہیں ہوتی جس کیلئے یہ اجتماع مقر ر کیا گیا ہے.دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بعض دفعہ خدام سے عہد لینا پڑتا ہے لیکن ابھی تک میرے سامنے کوئی ایسا طریق نہیں لایا گیا کہ وہ عہد کیسے لیا جائے اس کیلئے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی لفظ ایسا تجویز کیا جائے کہ جب عہد لیا جائے تو خدام اسے دُہرا سکیں.دنیا کے تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ عہد کے الفاظ میں خاص شان ہونی چاہئے.عہد میں ہمیشہ ایسے الفاظ استعمال کئے جانے چاہئیں جن کو اونچی آواز میں بولا جا سکے.مثلاً یورپ میں جب ایسا کیا جاتا ہے تو وہ اسے اے Ayd) کہتے ہیں لیں (Yes) نہیں کہتے.کیونکہ لیس (Yes) پورے زور سے ادا نہیں ہوتی اور اے Aye) میں زور آجاتا ہے.ہمارے ملک میں 'ہاں' کا لفظ ہے لیکن اس لفظ کا استعمال مہذب نہیں سمجھا جاتا.مہذب لوگ اس کی جگہ جی کا لفظ استعمال کرنے لگ گئے ہیں.لیکن جی اپنے اندر کوئی شان نہیں رکھتا بلکہ اس میں لجاجت والا رنگ پایا جاتا ہے.عربی میں ایک لفظ ہے جس سے اے نکلا ہے اور وہ لفظ ای ہے ای کو ایسا زوردار سمجھا جاتا ہے کہ عرب کہتے ہیں.ى وَاللهِ ہاں خدا تعالیٰ کی قسم.عرب لوگ نَعَمُ بھی کہیں گے لیکن نَعَمْ کے بعد قسم کا لفظ لگا نا پسند نہیں کیا جاتا.لیکن ای کے بعد مرجح ہے کہ قسم کا لفظ لگایا جائے.جب کوئی عرب انی کہے گا تو عام حالات میں اس سے امید کی جائے گی کہ وہ اس کے بعد واللهِ کہے یعنی خدا کی قسم.پس میں تجویز کرتا ہوں کہ جب کوئی عہد لیا جائے تو خدام بلند آواز سے کہیں ائی اور پھر عام آواز میں واللہ کہیں.واللہ کا لفظ اونچی زبان میں کہنے کی ضرورت نہیں.اب میں تم سے اسی سلسلہ میں ایک عہد لیتا ہوں.میں نے قاعدہ بتا دیا ہے اس کے مطابق تم وہی الفاظ دُہراتے جاؤ.یعنی تم زور دار الفاظ میں ایک دفعہ ای کہو گے پھر ذرا کم آواز میں واللہ کہو گے.گویا اس کے یہ معنی ہوں گے کہ میں ایسا عہد کرتا ہوں خدا کی قسم.

Page 65

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹ اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے میں نے جیسا کہ کل بیان کیا تھا اسلام کی جان یا مذہب کی جان یا انسانیت کی جان بچ ہوتا ہے جو شخص سچ نہیں بولتا وہ قوم کو تباہ کرنے والا ہوتا ہے.جب تک ہم سچائی کو قائم نہیں کریں گے ہم دنیا میں کامیابی حاصل کرنے کی کوئی بڑی امید نہیں کر سکتے.مثلا تم اپنی زندگی وقف کرتے ہو.اب اگر تم سچ بولتے ہو تو دین کیلئے جان کی ضرورت پڑی تو تم اپنی جان دے دو گے.یا مثلاً ہم کوئی کام تمہارتے سپر د کرتے ہیں.اگر تم سچ بولتے ہو تو خواہ تمہاری جان بھی چلی جائے تم اُس کام کو پورا کر کے چھوڑو گے.لیکن اگر تم جماعت میں داخل ہوتے ہو اور تم میں سچ بولنے کی عادت نہیں تو تم ہر کام میں کمزوری دکھاؤ گے ، تم ہر کام میں غداری کرو گے اور تم جماعت کے لئے کوئی مفید وجود نہیں بن سکو گے.پس یہ پہلا کام ہے کہ جماعت میں سچ بولنے کی عادت پیدا کی جائے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب کبھی تم سے گواہی لی جائے تو تم سچی گواہی دو.سچ بولنا ایسا اہم کام ہے کہ اس کے نتیجہ میں خواہ تمہارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں تمہارے ماں باپ اور بہن بھائی ماخوذ ہو جائیں تب بھی تم ہمیشہ سچ بولو، اور ہمیشہ سچی گواہی دویلے پس ایک پروگرام میں خدام کے لئے اِس سال یہ تجویز کرتا ہوں کہ جب تم سے کوئی گواہی لی جائے یا کوئی عہد لیا جائے تو تم اس کیلئے کوئی عذر یا بہانہ نہیں بناؤ گے چاہے اس کے پورا کرنے میں تمہاری جان ہی کیوں نہ چلی جائے.اگر جماعت اس نقطہ پر مضبوطی سے قائم ہو جائے تو دوسری قوموں میں اس کی بہت بڑی عزت قائم ہو جائے گی.پس تمہیں یہ عہد کر لینا چاہئے کہ خواہ کتنی رُسوائی اور ذلت تمہیں برداشت کرنی پڑے تم ہمیشہ سچ بولو گے مگر ایسا سچ جو شریعت کے مطابق ہو.بعض باتیں ایسی ہوتی ہیں کہ اگر وہ بتا دی جائیں تو انہیں سچ نہیں کہتے.مثلاً ایک بچہ کو کوئی چور مل جاتا ہے اور اُس سے پوچھتا ہے بتاؤ زیورات والا صندوق کہاں ہے؟ اب اگر وہ اسے بتا دیتا ہے کہ زیورات والا صندوق فلاں جگہ ہے تو یہ سچ نہیں ہوگا.شریعت نے صرف مجسٹریٹ کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ہر بات پوچھ سکتا ہے لیکن یہ سچ نہیں کہ خواہ کوئی بات بھی ہو تم ٹھیک ٹھیک بتا دو.سچ وہ ہے جس کا قرآن کریم یا قانون حکم دیتا ہے.عدالت میں اگر کوئی ایسی بات پوچھی جاتی ہے جو تم بتانا

Page 66

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰ اقرار کرو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے نہیں چاہتے تو تم خود یا تمہارا وکیل عدالت میں یہ کہہ سکتا ہے کہ قانوناً ایسا سوال جائز نہیں لیکن جب حج یہ فیصلہ کر دے کہ ایسا سوال قانونا جائز ہے تو وہاں سچ بولنا ضروری ہوتا ہے.ذاتی معاملات میں ضروری نہیں کہ تم سچ بولو تم کہہ سکتے ہو کہ میں یہ بات بتانا نہیں چاہتا.غرض سچ بولنے کے یہ معنے نہیں کہ تم ہر بات بیان کرو.سچ بولنے کے یہ معنی ہیں کہ جہاں سچ بولنا چاہئے وہاں سچ بولو.یا جہاں قرآن کریم اور قانون تمہیں سچ بولنے پر مجبور کرتے ہیں وہاں سچ بولو.اب میں تم سب سے یہ عہد لیتا ہوں کہ خواہ کیسے بھی حالات ہوں تم سچ بولو.تم سب کھڑے ہو جاؤ.کیونکہ بیٹھے ہوئے آواز زور سے نہیں نکلتی لیکن میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر تم ظاہری طور پر یہ عہد کر لیتے ہو کہ تم ہمیشہ سچ بولو گے لیکن دل سے تم اس کا عہد نہیں کرتے تو تمہارا یہ پہلا جھوٹ ہوگا.کیا خدام الاحمدیہ اس امر کا اقرار کرتے ہیں کہ خواہ کیسے ہی خطرناک حالات ہوں یا انہیں کیسی ہی مشکلات میں سے گزرنا پڑے وہ قرآن کریم کی ہدایات اور اس کی شرائط کے مطابق ہمیشہ سچ بولیں گے.“ سب خدام نے بیک آواز کہا.اِنی وَاللهِ ! حضور نے یہ الفاظ تین بار دہرائے سب خدام نے ہر بار بیک آواز ای واللہ کہہ کر اقرار کیا).ا النساء: ١٣٦ (رساله خالد ر بوه اکتوبر ۱۹۶۲ء)

Page 67

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۱ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں نو جوانوں کو ضروری ہدایات از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة اسبیع الثانی

Page 68

Page 69

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ وو ۴۳ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں نو جوانوں کو ضروری ہدایات فرموده ۲۲ /اکتوبره ۱۹۵ء بر موقع ( دوسرا دن) سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بوقت شب بمقام ربوہ) پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدام کو یہ دن کام میں گزار نے چاہئیں.ابھی میں جب گھر سے آیا ہوں تو کچھ خدام باہر کھڑے ہوئے تھے پھر یہاں سے بھی بعض خدام اُٹھ کر جاتے رہے اس کے یہ معنی ہیں کہ یہاں انہیں کام پر لگائے رکھنے کا کوئی انتظام نہیں.یہ تربیت اور نظام کے مظاہرے کے دن ہیں اس لئے اگر کوئی ایسی بات پائی جاتی ہے جو نظام کے خلاف ہے تو جس غرض کیلئے یہ اجتماع کیا گیا ہے وہ اس کی روح کو کچلنے والی ہوگی اس لئے مرکزی معتمدین اور زعماء یہ بات نوٹ کر لیں کہ آئندہ جو خدام یہاں بیٹھیں وہ خیموں کے نظام کے مطابق بیٹھیں یعنی ہر جماعت اکٹھی بیٹھے کیونکہ یہ بات تو یہاں نہیں کہ انہوں نے متفرق جگہوں سے آنا ہے یا انہوں نے متفرق کاموں سے آنا ہے یہاں جگہ بھی ایک ہے اور سارے دن کا پروگرام بھی مقرر ہے.جس وقت جلسہ ہوگا خدام کسی نہ کسی کام میں مصروف ہوں گے اور اس کام کو چھوڑ کر انہوں نے یہاں آ جانا ہو گا.مثلا کھانا ہے وہ بھی خدام اکٹھا کھاتے ہیں.یعنی کھانے کا بھی ایک خاص وقت مقرر ہے، پھر رہائش کی جگہ بھی ایک ہے اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ جلسہ میں خدام الگ الگ بیٹھیں.آئندہ کیلئے یہ انتظام ہونا چاہئے کہ خدام جماعت وار بیٹھیں اور ایک خاص وقت

Page 70

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات مقرر ہونا چاہئے کہ وہ اُس وقت کے اندر اندر یہان جلسہ گاہ میں آکر بیٹھ جائیں.پھر اُنہیں جماعت وار بٹھایا جائے اور دیکھا جائے کہ آیا تمام خدام حاضر ہیں.اور زعیم اعلان کرے کہ میری مجلس کے سب خدام حاضر ہیں.پھر وہ زعماء اس بات کے ذمہ دار ہونگے کہ ان کی مجالس کے ارکان اپنی اپنی جگہ پر بیٹھیں رہیں.اگر کسی خادم کو کوئی ایسی ضرورت پیش آجائے کہ وہ جانا چاہے تو وہ اپنے زعیم سے اجازت لے کر مجلس سے اُٹھے اور وہ زعیم اس بات کا ذمہ دار ہو کہ وقت پر بتائے کہ فلاں فلاں خادم میری اجازت سے باہر گئے ہیں.دوسری بات میں لیکچراروں کے متعلق کہنا چاہتا ہوں.عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جلدی جلدی اور زور کے ساتھ بولا جائے تو تقریر زیادہ مؤثر ہوتی ہے حالانکہ یہ بات غلط ہے نہ جلدی جلدی بولنا تقریر کے اندر اثر پید کرتا ہے اور نہ زور سے بولنا تقریر کے اندر اثر پیدا کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب کوئی تقریر میں بے موقع زور سے بولتا ہے تو تقریر کا اثر کم ہو جاتا ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ گلے سے اوپر بول رہا ہے دل سے نہیں بول رہا.اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ پندرہ سولہ منٹ کے بعد ہی گویائی سے محروم ہو جاتا ہے.مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے وہ لیکچرلکھا جو آریوں کی مجلس میں پڑھا گیا اور جس کے نتیجہ میں چشمہ معرفت کتاب لکھی گئی.اُس وقت مولوی عبدالکریم صاحب فوت ہو چکے تھے ان جیسی آواز والا جماعت میں اور کوئی شخص موجود نہ تھا اور یہ سوال در پیش تھا کہ یہ تقریر کون پڑھے.تجویز یہ ہوئی کہ مقابلہ کر کے دیکھا جائے کہ کون شخص زیادہ موزوں ہے کہ اسے تقریر پڑھنے کیلئے کہا جائے.مختلف لوگوں نے وہ تقریر پڑھی بڑے بڑے لوگوں میں سے حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل، مرزا یعقوب بیگ صاحب اور شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی تھے.ان کے علاوہ اور لوگ بھی تھے.میری عمر اُس وقت چھوٹی تھی لیکن میں یہ خیال کرتا ہوں (شاید یہ اندازہ اب موجودہ عمر کے لحاظ سے ہو ) کہ اگر میں وہ تقریر پڑھتا تو غالباً اچھی پڑھتا.لیکن حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی

Page 71

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات آواز زیادہ بلند نہ تھی اگر چہ آہستہ آہستہ زور پکڑ کر وہ مؤثر ہو جایا کرتی تھی لیکن وہ اس مقام پر نہیں پہنچتی تھی جہاں تقریر کرنے والا جوش کے ساتھ سامعین کو اپنے ساتھ بہالے جایا کرتا ہے.یوں تقریر کے لحاظ سے آپ کی آواز میں بڑا اثر تھا اور مضمون سامعین کے ذہن نشین ہو جا تا تھا اور ان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جا تا تھا لیکن پڑھنے میں یہ طریق کامیاب نہیں ہوتا.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل نے وہ مضمون تو پڑھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کے پڑھنے کے طریق پر مطمئن نہ ہوئے.حضرت خلیفہ امسیح الاول کے بعد مرزا یعقوب بیگ صاحب نے مضمون پڑھنا شروع کیا.اُن کی آواز باریک تھی دوسرے وہ عربی سے ناواقف تھے اور مضمون میں چونکہ اکثر قرآنی آیات تھیں نتیجہ یہ ہوا کہ اُنہوں نے غلط پڑھنا شروع کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.یہ بھی موزوں نہیں.اس کے بعد شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے پڑھنا شروع کیا.اُنہوں نے یہ خیال کیا کہ پہلے دونوں کی آواز میں چونکہ بلندی اور گرج نہیں تھی اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا طریق بیان پسند نہیں فرمایا چنانچہ انہوں نے بڑے زور کے ساتھ گرج کی سی آواز میں پڑھنا شروع کیا مگر اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی آواز جلدی بیٹھ گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تشریف رکھیں.غرض مضمون کو آہستگی سے اور ایسے رنگ میں پڑھنا چاہئے کہ سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے جائیں.جب تک سامعین پڑھنے والے کی آواز میں سموئے نہیں جاتے اور جب تک ان کا پڑھنے والے کی آواز کے ساتھ اشتراک پیدا نہیں ہوتا اُس وقت تک تقریر میں زور پیدا کرنا اُن کو قریب کرنے کی بجائے دور کرنا ہے.پھر تقریر کرنے والے کو اپنا مضمون اس طرز سے بیان کرنا چاہئے کہ اسے سارے مضمون کے سارے پہلو مد نظر ہوں.بعض دفعہ تقریر کرنے والا اپنا مضمون ایسے طور سے بیان کرتا ہے کہ وہ خیال کرتا ہے کہ اس کا طریق بیان درست ہے لیکن جن شقوں کی وجہ سے وہ اسے واضح محسوس کرتا ہے وہ سامعین کو معلوم نہیں ہوتیں اس لئے اس کی تقریر بیکار

Page 72

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات ہو جاتی ہے.مثلاً آج ہی بعض مقررین نے کہا ہے کہ یہ بات تو واضح ہے لیکن یہ فقرہ وہاں کہا جاتا ہے جہاں تقریر کرنے والا کسی منطقی نکتہ کی طرف پہلے اشارہ کر دیتا ہے.مثلاً ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر عقل اور سمجھ رکھی ہے.پھر ہم کہتے ہیں یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب ایک انسان کے سامنے کوئی غیر معمولی بات پیش کی جائے تو وہ اسے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوگا.چونکہ ہم نے ایسی بات پیش کی ہے جس کو دنیا کے سب لوگ جانتے ہیں اور پھر یہ بات پیش کی کہ اگر انسان کے سامنے کوئی غیر معقول بات رکھی جائے تو وہ اسے مانے کیلئے تیار نہیں ہوتا تو یہ بات سج جائے گی.لیکن اگر ہم کہیں گے کہ یہ بات واضح ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ظہور ہونا چاہئے تھا تو یہ بات ہمارے لئے تو واضح ہو گی کہ دنیا کے حالات اس قسم کے ہیں کہ وہ تقاضا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مامور مبعوث ہو لیکن ایک مخالف تو یہ بات نہیں مانتا.پس ہر بات کہتے وقت یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ آیا سننے والا اسے سمجھ سکے گا یا نہیں.اس کے بعد میں اس مجلس کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.میرے نزدیک تقریریں کرانے کا یہ طریق جو نکالا گیا ہے غلط ہے.بعض تقریریں کرنے والوں نے ایسے مضامین منتخب کئے ہیں جو بہت ہی اہم ہیں لیکن وہ دومنٹ کے بعد چپ ہو گئے.دو منٹ میں مضمون کی ماہیت کو بیان کرنا بھی مشکل ہے اس لئے یہ طریق غلط ہے.پھر یہ کہنا کہ تقریر کیلئے نام لکھا دو یہ طریق بھی غلط ہے.یہ علم کے مظاہرہ کا موقع ہے یہ اجلاس عام انجمنوں کا اجلاس نہیں.یہ وہ اجلاس ہے جس میں یہ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے نو جوانوں کو اتنی مشق کرائی ہے.مثلاً جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کے لئے بعض دفعہ بڑے بڑے عالموں کا بھی نام آ جاتا ہے لیکن میں وہ نام کاٹ دیتا ہوں اور کہتا ہوں کہ انہیں پہلے با ہر مشتق کرالو.اسی طرح یہ خدام الاحمدیہ کا اسٹیج ہے یہاں یہ مظاہرہ کیا جاتا ہے کہ ہم نے اپنے خدام کو تقریر کرنے کی کتنی مشق کروائی ہے اور ان کے ذہنوں میں کتنی جلاء پیدا کر دی ہے.پس ایسے موقع پر یہ کہنا کہ تقریروں کے لئے نام لکھوا دو غلط ہے.کچھ مضامین پہلے چن لینے چاہئیں اور انہیں باہر بھجوا دینا چاہئے اور بعض ایسے سرکل بنا دینے چاہئیں جن میں

Page 73

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات سے ایک ایک نمائندہ لے لیا جائے.پھر اُنہیں اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی میٹنگ کریں اور اُس موضوع پر جس پر اُن کے نمائندہ نے اجتماع کے موقع پر تقریر کرنی ہے خوب بحث کریں اور دلائل بیان کریں.پھر جو نمائندہ منتخب ہو وہ اُن دلائل میں سے کچھ دلائل چن لے اور نوٹ لکھ لے.یہاں تقریر زبانی ہو لیکن تقریر کرنے والے کو یہ اختیار دینا چاہئے کہ وہ اس کیلئے بعض نوٹ لکھ لے.پھر ان لیکچراروں کو کم از کم بیس منٹ ملنے چاہئیں.اس طرح دو گھنٹے میں چھ لیکچر ہو جائیں گے.جہاں تک تحریری مضامین کا سوال ہے اس بات کی ضرورت نہیں کہ یہاں یہ کہا جائے کہ دوست اس امتحان میں شامل ہونے کیلئے اپنا نام لکھوا دیں بلکہ پرچے بنا کر باہر بھجوا دینے چاہئیں.خدام ان پر چوں کی تیاری کریں اور جب یہاں آئیں تو وہ امتحان کیلئے اپنا نام لکھوا دیں.یہاں سپر وائزروں کے سامنے بیٹھ کر وہ مضامین لکھیں اور ہر سال ایسا کریں.جو گروپ قابل ہو جائیں اُن کی جگہ دوسرے گروپ لے لئے جائیں.اس طرح قدم به قدم تمام جماعتوں کے سرکل مقرر کر کے مضامین لکھوا ؤ.اگر آپ لوگوں نے مضمون نویسی کی مشق کرانی ہے تو بیشک امتحان میں شامل ہونے والے کتابیں بھی ساتھ لے آئیں.انہیں یہ اختیار دیا جائے کہ وہ ضروری کتا بیں دیکھ سکیں لیکن کسی سے مشورہ نہ لیں.بہر حال انہیں یہ موقع دینا چاہئے کہ وہ مختلف کتابوں سے استنباط کر کے مضامین لکھیں.آخر ہم مضامین لکھتے ہیں تو کیا فرشتے ہمیں آ کر نوٹ لکھواتے ہیں؟ ہم بھی دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور ان سے مسائل اخذ کر کے مضامین لکھتے ہیں.ہمارا یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے کہ انہیں موجد بنائیں بلکہ ہمارا ان امتحانوں سے یہ مقصد ہونا چاہئے کہ ہمارے نوجوان علوم مروجہ کو استعمال کرنا زیادہ سے زیادہ جانتے ہوں جس طرح کتابوں کا امتحان ہوتا ہے ایک امتحان اس قسم کا بھی ہو لیکن ضروری ہے کہ ایک مضمون مقرر کر دیا جائے.مثلاً وفات مسیح کا مضمون ہے.ایک سال کیلئے یہ مضمون مقرر کر دیا جائے.بے شک آپ بعض سوالات بھی دیدیں.مثلاً کسی نے نئے رنگ میں کوئی اعتراض کیا ہے.یا کوئی پرانا اعتراض زیادہ اہم ہو گیا ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان سوالات کو مد نظر رکھ کر مضمون

Page 74

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات لکھا جائے.صرف شرط یہ ہوگی کہ مضمون اس جگہ لکھنا ہوگا اور سپر وائزر کی نگرانی میں لکھنا ہوگا تا معلوم ہو کہ مضمون لکھنے والا وہی ہے.ہمارا اصل مقصد یہ نہیں کہ خدام کی ذہانت کا امتحان لیا جائے بلکہ ہم نے ان کے علم کا امتحان لینا ہے اور علم کتابوں کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے.پس آئندہ یہ طریق بند کیا جائے اور علاقے اور سرکل مقرر کر دیئے جائیں اور ان سے ایک ایک نمائندہ اس امتحان میں شمولیت کیلئے لیا جائے.انہیں مضمون پہلے بتا دیا جائے اور یہ اجازت دی جائے کہ لوکل مجلس کے تمام خدام اپنی ایک میٹنگ منعقد کریں اور اپنے نمائندہ کو دلائل لکھوائیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ساری کی ساری ا جماعت اس مضمون کی تیاری میں شامل ہوگی اور ہر خادم یہ کوشش کرے گا کہ اُس کی دلیل زیادہ اعلیٰ ہو.پھر کتابوں کا مطالعہ بھی کیا جاسکتا ہے صرف دیکھنا یہ ہے کہ آیا اس نے مقررہ وقت میں مضمون لکھ لیا ہے؟ صَاحِبُ القلم اُسی کو کہتے ہیں جو کسی مضمون کو مقررہ وقت میں لکھ سکے اور صاحِبُ القلم پیدا کرنا ہمارا مقصد ہے.پھر تقریری امتحان بھی اسی طرح کا ہونا چاہئے.ایک اور چیز بھی ہے جس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہاں ایسا کوئی انتظام نہیں کہ اگر مضمون میں کوئی غلطی ہو جائے تو اُس کی اصلاح کر دی جائے.مثلاً یہی مضمون کہ پاکستان کو کس بلاک میں شامل ہونا چاہئے یہ مضمون طلباء کے ساتھ تعلق نہیں رکھتا.اگر کوئی لیکچرار کوئی ایسی بات کہہ دے جو سلسلہ کی پالیسی کے خلاف ہو اور اُس کی بعد میں تردید نہ کی جائے تو سننے والا وہی خیال ساتھ لے جائیگا اور کہے گا میں خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع پر گیا تھا اور وہاں سے یہ بات سن کر آیا ہوں.پس اس موقع پر ایسا انتظام بھی ہونا چاہئے کہ کوئی شخص کسی قسم کا کوئی غلط خیال اپنے ساتھ لے کر نہ جائے.میں بعد میں کوئی ایسا طریق مقرر کر دوں گا جس سے غلط خیالات کی تردید ہو سکے اور خدام اپنے ساتھ غلط خیالات لے کر نہ جائیں.یہ ہدا یتیں میں آئندہ اجتماع کے متعلق دیتا ہوں تحریری اور تقریری مقابلوں کیلئے مجالس کو پہلے لکھا جائے اور وہ اپنی میٹنگ بلائیں اور اپنے اپنے نمائندہ کو نوٹ لکھوائیں.

Page 75

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹ مضمون نویسی اور تقریری مقابلوں کے بارہ میں ہدایات نمائندہ اپنی اپنی مجلس کے ارکان سے دلائل سن کر آئے اور اگر یہ پتہ لگ جائے کہ بعض اچھے جوان تیار ہو گئے ہیں تو انہیں سٹیج پر بولنے کیلئے زائد وقت بھی دیا جا سکتا ہے مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سوائے ایک دو نو جوانوں کے کسی نے کوئی خاص بات بیان نہیں کی اور نہ ہی کسی نے یہ خیال کیا ہے کہ جو دو منٹ وقت ملا ہے اس میں کوئی اچھی بات بیان کروں.“ (رساله خالد ربوہ اکتوبر ۱۹۶۲ء)

Page 76

Page 77

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں بعض اہم ہدایات مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ء کے آخری اجلاس میں بعض اہم ہدایات از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد نا خلیفہ المسیح الثانی

Page 78

Page 79

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۵۳ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں بعض اہم ہدایات نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۵۰ء کے آخری اجلاس میں بعض اہم ہدایات فرموده ۲۳ را کتوبر ۱۹۵۰ء بر موقع اختتامی اجلاس سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ بمقام ربوہ ) تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا.' چونکہ اب میں محسوس کر رہا ہوں کہ مجھے ضعف زیادہ ہے اس لئے میں انہی تقریروں پر کس کروں گا جو میں کل سے کرتا چلا آرہا ہوں البتہ انعامات کی تقسیم کے متعلق میں ایک بات کہنا چاہتا ہوں.چاہئے تھا کہ نوجوانوں کی ایسے رنگ میں تربیت کی جاتی کہ انہیں معلوم ہوتا کہ اس موقع پر انہیں کس طرح کام کرنا چاہئے.جب کسی نوجوان کو انعام دیا جاتا ہے تو اس کی غرض یہ ہوتی ہے کہ دوسرے نو جوانوں کے دلوں میں بھی تحریک پیدا ہو کہ وہ بھی ویسے ہی کام کریں اور دوسروں کے دلوں میں تحریک کا ثبوت اس طرح مل سکتا ہے کہ وہ اس میں دلچسپی لیں.یوں تو انعام دینے والا ، دوسرے کے لئے دل میں بھی دعا کرسکتا ہے مگر میں نے جو طریق جاری کیا تھا کہ دوسرے بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيْهِ کہیں تو اس کی غرض یہ تھی کہ دوسروں کے دل میں ایسے کاموں کی رغبت پیدا ہو.مگر انعامات کی تقسیم کے وقت باقی سب لوگ خاموش رہے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ میری یہ ہدایت انہیں فراموش ہو چکی ہے.اُن کا فرض تھا کہ کسی کو انعام ملتا تو وہ بلند آواز سے بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهِ کہتے.دوسری عجیب بات میں نے یہ دیکھی ہے کہ انعام لینے والوں کو بھی یہ معلوم نہیں کہ

Page 80

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات انہیں کیا کہنا چاہئے ان میں سے بھی بعض نے بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيْهِ کہہ دیا حالانکہ انعام دینے والا کہتا ہے بَارَكَ اللهُ لَكَ فِیهِ خدا تجھے برکت دے اور اس انعام کو تیرے لئے فائدہ مند بنائے اور یہ انعام تیری آئندہ ترقیات کا پیش خیمہ ہو.اور انعام لینے والا کہتا ہے جَزَاكُمُ الله کیونکہ انعام دینے والے نے اس کو انعام بھی دیا اور دعا بھی دی.پس یہ اُس کے شکریہ میں دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تجھے اس نیکی کی جزا عطا فرمائے.اس کی ایسی ہی مثال ہے جیسے شریعت نے یہ سکھایا ہے کہ جب کوئی شخص کھانا کھائے تو فارغ ہونے پر کہے کہ الْحَمْدُ لِلهِ.اب یہ عقل کے بالکل خلاف بات ہو گی اگر کھانا کھلانے والا الْحَمْدُ لِلهِ کہے اور کھانے والا خاموش رہے.پس انعام دینے والے کے لئے مناسب فقرہ یہ ہے کہ بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهِ اور انعام لینے والے کے لئے مناسب رہ یہ ہے کہ جَزَاكُمُ الله یعنی جنہوں نے انعام دیا ہے اللہ تعالیٰ ان کی اس نیکی کو قبول کرے اور اُنہیں اس کا نیک بدلہ دے.پس آئندہ کے لئے یا درکھو کہ جب انعام دینے والا بَارَكَ اللهُ لَكَ فِيهِ کہے تو دوسرے بھی یہی فقرہ زور سے کہیں تا انعام لینے والے کو محسوس ہو کہ سب نے اس کے کام کو پسند کیا ہے اور وہ بھی اس کی خوشی میں شریک ہیں اور لینے والا جَزَاكُمُ الله کہے تا اس کے دل میں شکر گزاری کا مادہ پیدا ہو.اب میں آپ لوگوں کو چند فقرات کہنے کے بعد دعا کے ساتھ رخصت کرتا ہوں.سب سے پہلی بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ لوگوں نے یہاں سے جو کچھ سیکھا ہے اسے یاد رکھئے اور دوسروں تک پہنچائیے.جو جو نمائندے یہاں آئے ہیں ان کو چاہئے کہ وہ واپس جا کر اپنی اپنی مجالس کا اجلاس کریں اور ان کے سامنے وہ ساری کیفیت بیان کریں جو انہوں نے دیکھی ہے اور ان باتوں کا خلاصہ بیان کریں جو میں نے کہی ہیں اور ان فیصلوں کا ذکر کریں جو آپ لوگوں کے مشورہ کے بعد میں نے کئے ہیں اور انہیں یہ تحریک کریں کہ وہ ان تمام باتوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں.اسی طرح جو عہد میں نے کل لیا تھا یا آج لیا ہے وہ عہد تمام خدام سے میٹنگ کر کے لیں اور انہیں سکھائیں کہ جب عہد لیا جائے توائی زور سے کہیں اور والله نسبتا آہستہ آواز میں کہا جائے.

Page 81

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۵ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات.بهر حال إِلى وَاللہ کہنے کی اس طرح مشق کرائیں کہ اُس کی آواز سے میدان گونج اُٹھے ابھی اپنی اپنی ذات میں جتنی بلند ہو جاتی ہے اتنی ہی ہوتی ہے اُس کے پیچھے مشق نہیں ہوتی.میں نے بتایا ہے کہ ائی کا لفظ خود بخود اپنی ذات میں طاقت رکھتا ہے اور مشق سے یہ طاقت دوگنی گنی بڑھائی جاسکتی ہے.صحیح طریق یہ ہے کہ جب یہ الفاظ کو ئی شخص کہنا چاہئے تو پہلے اپنے سانس کو کھینچ لے.نکلے ہوئے سانس پر جب کوئی بلند آواز سے انى وَاللَّـهِ کہنا چاہے تو وہ نہیں کہ سکتا.لیکن جب سانس اندر کھینچا ہو تو ایک تو اس کے اعصاب آواز کو بلند کرتے ہیں دوسرے جو منہ سے ہوا نکلتی ہے وہ اُسے اور اونچا کر دیتی ہے.میرا گلا بیٹھا ہوا ہے مگر میں نے تجربہ کے بعد اس راز کو معلوم کر لیا ہے اور تقریر کے وقت اپنے سانس کو کچھ دیر کے لئے روک لیتا ہوں جس سے آواز بلند ہو جاتی ہے.یوں میں کہیں سے گزر رہا ہوں اور مجھے کوئی اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہے تو بعض دفعہ پاس کا آدمی بھی وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ کی آواز نہیں سن سکتا.گلے میں ہی آواز رہ جاتی ہے آجکل کئی عزیز اور بچے میرے پاس آتے ہیں اور اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہتے ہیں تو تھوڑی دیر کے بعد وہ دریافت کرتے ہیں کہ آپ خفا تو نہیں ہم نے اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا تھا مگر آپ نے جواب نہیں دیا ؟ میں کہا کرتا ہوں کہ ہم نے تو وَ عَلَيْكُمُ السَّلَامُ کہا تھا مگر تم نے سنا نہیں.اس گر کے ماتحت میں نے اس وقت تقریر کر لی ہے.بیشک بیمار گلے کی صورت میں یہ چیز بعد میں گلے کے لئے مضر ثابت ہو جاتی ہے کیونکہ جو ماؤف گلا ہوا سے اس طرح تکلیف پہنچتی ہے لیکن ضرورت کے وقت گزارہ ہو جاتا ہے.پس اپنی کہنے سے پہلے اپنے سانس کو تھوڑی دیر کے لئے روک لیا کرو.جب ایسا کرو گے تو ائی کہنے کیسا تھ صرف اپنی کی آواز ہی نہیں نکلے گی بلکہ ساتھ ہوا بھی نکلے گی اور وہ اُس آواز کو اور بھی بلند کر دیگی.پس آئندہ کے لئے اس طرح مشق کرو کہ اِنی کہنے والے خواہ چندا فراد ہی ہوں ان کی آواز فضا میں ایک گونج پیدا کر دے.اس کے علاوہ تین چھوٹی چھوٹی اور بھی باتیں ہیں.خدام الاحمدیہ کی تنظیم جب جاری کی گئی تھی تو میں نے تیر نے اور سواری کی مشق کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی تھی.کل ہی شیخو پورہ کے دوستوں نے ایک واقعہ سنایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر خدام

Page 82

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع میں بعض اہم ہدایات میری ہدایت پر عمل کرتے تو وہ حادثہ نہ ہوتا.وہ واقعہ یہ ہے کہ جب سیلاب آیا تو شیخو پورہ کا ایک احمدی لڑکا اورلڑکوں کے ساتھ مل کر سیلاب زدگان کو بچانے کیلئے گیا.پھٹوں کی کشتی پر وہ سوار تھے راستہ میں کشتی الٹ گئی.باقی تو بچ گئے لیکن وہ چونکہ تیر نانہیں جانتا تھا اس لئے ڈوب گیا.میں نے خدام کو توجہ دلائی کہ سب سے اہم چیز تیرنا ہے.زمین پر جو مصیبتیں آتی ہیں ان سے انسان اپنی کوشش سے بچ نکلتا ہے لیکن پانی میں جو مصیبتیں آتی ہیں ان سے بغیر تیر نے کے رہائی نہیں مل سکتی اسی لئے میں نے نو جوانوں کو اس طرف توجہ دلائی تھی مگر معلوم ہوتا ہے خدام نے اس فن کی طرف جو نہایت شریف فن ہے توجہ نہیں کی.یہ ظاہر ہے کہ تم تیرا کی کا فن خشکی پر نہیں سیکھ سکتے.اس لئے بہر حال تمہیں پانی میں داخل ہونا پڑے گا.کوئی افیونی یہ سمجھ لے کہ وہ خشکی پر بھی تیر سکتا ہے تو اور بات ہے.ورنہ کوئی عقل مند ایسا خیال نہیں کر سکتا.کہتے ہیں کوئی افیونی چاند کی چاندنی میں رات کے وقت زمین پر پیٹ کے بل چل رہا تھا.کسی نے اُس سے پوچھا کہ کیا کر رہے ہو؟ اُس نے کہا میں دریا میں تیر رہا ہوں حالانکہ وہاں کوئی دریا نہیں تھا بلکہ خشکی تھی اور چاند کی روشنی اُس پر پھیلی ہوئی تھی.تو افیونی تو خشکی پر تیر سکتا ہے لیکن عقل مند نہیں تیر سکتا.عقل مند اگر تیرنا سیکھنا چاہے تو اُس کے لئے ضروری ہوگا کہ وہ نہریا دریا پر جائے اور تیرنا سیکھے.عرب لوگ پانی سے بہت ڈرتے تھے اور تیرا کی کا فن سیکھنے کی طرف اُن کی توجہ نہیں تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام پر جو سب سے بڑی آفت آئی وہ تیر نا نہ جاننے کی وجہ سے ہی آئی.سب سے بڑی اور ہولناک شکست جو اسلام کو پیش آئی وہ جنگ جسر تھی.ایرانیوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کا زبردست لشکر گیا.ایرانی سپہ سالار نے دریا پار اپنے مورچے بنائے اور ان کا انتظار کیا.اسلامی لشکر نے جوش میں بڑھ کر ان پر حملہ کیا اور دھکیلتے ہوئے آگے نکل گئے مگر یہ ایرانی کمانڈر کی چال تھی.اس نے ایک فوج بازو سے بھیج کر پل پر قبضہ کر لیا اور تازہ حملہ مسلمانوں پر کر دیا.مسلمان مصلحتا پیچھے لوٹے مگر دیکھا کہ پل پر دشمن کا قبضہ ہے گھبرا کر دوسری طرف ہوئے تو دشمن نے شدید حملہ کر دیا اور مسلمانوں کی بڑی تعداد دریا میں کودنے پر مجبور ہوگئی

Page 83

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات اور ہلاک بھی ہوگئی.مسلمانوں کا یہ نقصان ایسا خطر ناک تھا کہ مدینہ تک اس سے ہل گیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں کو جمع کیا اور فرمایا اب مدینہ اور ایران کے درمیان ! کوئی روک باقی نہیں.مدینہ بالکل نگا ہے اور ممکن ہے کہ دشمن چند دنوں تک یہاں پہنچ جائے اس لئے میں خود کمانڈر بن کر جانا چاہتا ہوں.باقی لوگوں نے تو اس تجویز کو پسند کیا مگر حضرت علی نے کہا کہ اگر خدانخواستہ آپ کام آگئے تو مسلمان تنتر بتر ہو جائیں گے اور ان کا شیرازہ بالکل منتشر ہو جائے گا اس لئے کسی اور کو بھیجنا چاہئے آپ خود تشریف نہ لے جائیں.اس پر حضرت عمر نے حضرت سعد کو جو شام میں رومیوں سے جنگ میں مصروف تھے لکھا کہ تم جتنا لشکر بھیج سکتے ہو بھیج دو کیونکہ اس وقت مدینہ بالکل نگا ہو چکا ہے اور اگر دشمن کو فوری طور پر نہ روکا گیا تو وہ مدینہ پر قابض ہو جائے گا کے یہ خطر ناک نقصان جو مسلمانوں کو پہنچا محض تیرنا نہ جانے کا نتیجہ تھا.پس تیرنا نہایت ضروری اور اہم چیز ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں عورتوں کو بھی تیرنا سکھانا چاہئے.قادیان میں ہم کبھی نہر پر جاتے تو اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو بھی ساتھ لے جاتے اور اُنہیں تیرنا سکھاتے تھے.لوگ اعتراض کرتے تھے مگر میں نے تو اُسوقت اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو تیرنا سکھا دیا تھا.اب بھی ربوہ میں تالاب بننے چاہئیں اور لڑکوں اور لڑکیوں کو تیرنا سکھانا چاہئے.تیرنا انسانی زندگی کا ایک ضروری حصہ ہے اگر جہاز میں انسان سوار ہو اور جہاز ڈوبنے لگے تو اسے تیر نے کا فن اتنا تو آنا چاہئے کہ وہ دس بیس منٹ یا دو چار گھنٹے پانی میں تیر سکے تا کہ اگر اُس کو کوئی مدد پہنچ سکتی ہو تو اس عرصہ میں اسے پہنچ جائے.یہ تو نہ ہو کہ ادھر پانی میں گرے اور اُدھر ڈوب جائے.میں تمام خدام سے کہتا ہوں کہ ان میں سے جو تیرنا جانتے ہوں وہ کھڑے ہو جائیں (اس پر ستر فیصدی خدام کھڑے ہوئے حضور نے فرمایا ) کوشش کرو کہ یہ ستر فیصدی سو فیصدی بن جائیں.گو اس تعداد کو دیکھ کر یہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ ستر فیصدی کتنا تیرنا جانتے ہیں ممکن ہے پانچ پانچ ہاتھ تیر کے ہی یہ ستر فیصدی ختم ہو جائیں.تیرنے کی طاقت دوسری

Page 84

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات طاقتوں سے مختلف ہوتی ہے.مثلاً میرے ہاتھ بچپن سے کمزور ہیں پاؤں مضبوط ہیں لیکن ہاتھ اتنے کمزور ہیں کہ میں چھوٹے سے چھوٹا ڈمبل بھی نہیں دبا سکتا لیکن فٹ بال کا میں کھلاڑی رہا ہوں لوگ عام طور پر ہاتھ باہر نکال کر تیرتے ہیں مگر میں نے صرف تیرنا سیکھا ہوا ہے جسے ہمارے ملک میں لوگوں نے نہایت ہی گندہ نام دیا ہوا ہے.بیس سال کے بعد میں ایک دفعہ نہر میں تیرا.۳۰، ۴۰ لڑکے میرے ساتھ تھے مگر وہ قریباً سارے کے سارے رہ گئے اور میں سوا دو میل تک تیرتا چلا گیا.صرف ایک لڑکا آخر تک میرے ساتھ رہا.غرض لمبے تیرنے کی بھی مشق کرنی چاہئے.میں تالاب اور نہر میں تو تیرتا ہوں مگر دریا میں تیرنے کا مجھے موقع نہیں ملا.تیرنے کے لئے ہمیشہ گروپ کی صورت میں جانا چاہئے اور پھر قاعدہ یہ ہے کہ دریا میں چونکہ چکر آجاتے ہیں اس لئے گروپ کے افراد ہمیشہ اپنے ساتھ ایک رستی رکھتے ہیں جس کے ساتھ کچھ بوجھ بندھا ہوا ہوتا ہے اگر کوئی شخص چکر میں آ جائے تو اُس کے ساتھی زور سے اُس کی طرف رشتی پھینکتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ بندھا ہوا ہوتا ہے اور جس کی وجہ سے وہ دُور تک پہنچ جاتی ہے.جب اُس رہستی کو وہ شخص پکڑ لیتا ہے تو وہ اُسے کھینچ لیتے ہیں.ایک اور بات جس کی طرف میں نے پہلے بھی کئی دفعہ توجہ دلائی ہے مگر اب تک توجہ نہیں کی گئی یہ ہے کہ ہر خادم کو کوئی نہ کوئی ہنر آنا چاہئے.پڑھنا لکھنا غیر طبعی چیز ہے اور ہنر ایک طبعی چیز ہے جو ہر جگہ کام آسکتی ہے.مثلاً معماری ہے ، لوہاری ہے ، نجاری ہے یا اِسی قسم کے اور پیشے ہیں.پیشہ ور ہر جگہ اپنے گزارے کی صورت پیدا کر لیتا ہے اور لوگ اُسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں.آپ کو اگر اچھی عربی آتی ہے اور آپ افغانستان چلے جائیں تو آپ کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ لوہار کا یا نجار کا کام جانتے ہیں یا آپ درزی ہے ہیں یا آپ جو تا بنانا جانتے ہیں تو آپ کی بڑی قیمت ہے.اسی طرح آپ کو اچھی انگریزی آتی ہے اور آپ آزاد علاقے میں چلے جائیں تو آپ کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ لوہارا کام جانتے ہیں یا اچھے بڑھئی ہیں تو وہ آپ کو سر پر اٹھا لیں گے.یہی حال جرمنی اور فرانس کا ہے وہاں بھی محض علم کی کوئی قیمت نہیں لیکن اگر آپ کو کوئی پیشہ آتا ہے تو آپ کی

Page 85

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹ مجلس خدام الاحم مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات بڑی قیمت ہے.اسی طرح آپ وحشی قبائل میں چلے جائیں تو وہاں بھی پیشے کی بڑی قدر ہوتی ہے لیکن فلسفہ کسی کام نہیں آ سکتا.میں نے کہا تھا کہ ایسی جماعتیں جن کو ہر وقت خطرات درپیش ہوں اُن کو اس بات کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ وہ مختلف قسم کے پیشے اور ہنر سیکھیں مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ خدام نے اس طرف بھی توجہ نہیں کی.سب سے زیادہ ملزم اس بارہ میں مرکزی عُہد یدار ہیں میں نے تو ایک صنعتی سکول بھی کھولا تھا اور چاہا تھا کہ جماعت کے نوجوان مختلف قسم کے پیشے اور ہنر سیکھ کر باعزت طور پر اپنی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوسکیں مگر اس کی طرف بھی توجہ نہ کی گئی اور وہ مدرسہ بند کرنا پڑا.بہر حال جماعت کے نوجوانوں کو کسی نہ کسی پیشہ کے سیکھنے کی طرف توجہ ضرور کرنی چاہئے.اس کے بعد حضور نے فرمایا خدام میں سے جو درزی کا کام کرتے ہیں یا لوہار کا کام کرتے ہیں یا بڑھئی کا کام کرتے ہیں ان کو مستی کرتے ہوئے جو دوسرے خدام ہیں ان میں سے جنہوں نے کوئی اور فن بھی سیکھا ہو اہو وہ کھڑے ہو جائیں.اس پر بعض خدام کھڑے ہوئے اور حضور ان سے دریافت فرماتے رہے کہ وہ اس وقت کیا کام کرتے ہیں اور انہوں نے موجودہ کام کے علاوہ کونسا ہنر سیکھا ہوا ہے.اس کے بعد حضور نے پھر سلسلہ تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا.) مختلف قسم کے پیشے اور ہنر جاننا غیر ملکوں میں جانے کے لئے بڑی سہولت پیدا کرنے والی چیز ہے اور ان کے ذریعہ وہاں آسانی سے روزی کمائی جاسکتی ہے.اس کے علاوہ ہماری جماعت کی ترقی میں بھی ان پیشوں کا بہت حد تک دخل ہے.ایک علاقہ ایسا ہے جس میں لوہار کے کام، بڑھئی کے کام اور درزی کے کام جاننے والوں کی بہت ضرورت ہے اگر ہمارا سو دو سو آدمی وہاں پہنچ جائے تو وہاں کی جماعت بہت مضبوط اور قوی ہوسکتی ہے.میں اس سلسلہ میں یہ بھی بتانا چاہتا ہوں کہ طالب علم عموماً تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد نوکریاں کرنے لگ جاتے ہیں.ہمارے ملک میں کچھ عرصہ تک تو گریجوایٹوں کو جگہ مل جائے گی کیونکہ ہند و چلا گیا ہے اور اُس کی جگہ پر کرنے کے لئے ابھی گریجوایٹوں کی کافی

Page 86

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات ہے ضرورت ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد یہ گنجائش بھی جاتی رہے گی بہر حال اس وقت سب سے زیادہ گنجائش تعلیمی ڈگریاں رکھنے والوں کے لئے ہے.اگر پاکستان نے ترقی کرنا ہے تو لازماً تعلیم کے ساتھ ترقی کرنی ہے اس لئے بی اے بی ٹی کی ڈگریاں رکھنے والوں کی بہت زیادہ کھپت ہوسکتی ہے.بعض علاقوں میں ایسے لوگوں کی بہت زیادہ مانگ.اور وہاں تنخواہیں بھی اچھی ملتی ہیں.مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے دنوں بار بار اعلان کرنے کے باوجود ہمیں باہر بھجوانے کے لئے صرف دونو جوان ملے حالانکہ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ طالب علموں پر استاد کا بھاری اثر ہوتا ہے اگر ہمارے تعلیم یافتہ نوجوان اچھے ذہین ہوں اور وہ دینی مسائل کو سمجھ کر بیرونی ممالک میں جائیں تو بہت بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں کیونکہ جو خوبیاں ایک بچے احمدی میں ہوسکتی ہیں وہ کسی دوسرے میں نہیں ہوسکتیں.پس ایک تو نو جوانوں کو تعلیمی ڈگریوں کی طرف توجہ کرنی چائیے اور دوسرے انہیں کوئی نہ کوئی ہنر سیکھنا چاہئے تیسرے میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلائے بغیر نہیں رہ سکتا کہ عام طور پر ہماری جماعت کے دوستوں میں اور شاید باقی لوگوں میں بھی منہ کو صاف رکھنے کی عادت نہیں پائی جاتی اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جب وہ بات کرتے ہیں تو ان کے منہ سے اتنی شدید بُو آتی ہے کہ سر درد شروع ہو جاتا ہے.حالانکہ دانتوں کی صفائی سے معدہ اچھا رہتا ہے اور معدہ کی مضبوطی سے انسانی صحت اچھی رہتی ہے.پس میں خدام الاحمدیہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ مہینہ میں ایک دفعہ اس کا امتحان لیا کریں.جس کا طریق یہ ہے کہ ایک دوسرے کے ناک کے پاس آکر اپنا سانس چھوڑو تا کہ دوسرا بتائے کہ تمہارے تنفس سے بُو آتی ہے یا نہیں.گھر یلو تعلقات پر اس چیز کا بڑا اثر ہوتا ہے.قریب ترین تعلق میاں بیوی کا ہوتا ہے.اس کے آپس میں کئی دفعہ جھگڑے ہوتے رہے ہیں اور بالکل ممکن ہے کہ وہ اپنی ذات میں یہ سمجھتے ہوں کہ ان جھگڑوں کی فلاں فلاں وجوہ ہیں لیکن در حقیقت اس کی وجہ یہ ہو کہ مرد کے لئے عورت کے منہ کی بُو نا قابل برداشت ہو.وہ اس بات کو ظاہر نہیں کرے گا لیکن آہستہ آہستہ اُس کے دل میں یہ خیالات پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے کہ اگر میں اپنی بیوی کو چھوڑ دوں اور کسی اور سے

Page 87

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱ مجلس خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع...میں بعض اہم ہدایات شادی کرلوں تو اچھا ہے.پس یہ ایک نہایت ہی اہم چیز ہے مگر اس کی طرف توجہ بہت کم کی جاتی ہے حالانکہ یہ زندگی کے اہم ترین امور میں سے ہے.صحت کا اس سے تعلق ہے، سوشل تعلقات پر اس کا اثر پڑتا ہے اور مذہب نے بھی اس کی اہمیت کی طرف توجہ دلائی ہے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں اگر کوئی شخص پیاز کھا کر مسجد میں آجاتا ہے یا لہسن کھا کر مسجد میں آجاتا ہے تو فرشتے اُس کے پاس نہیں آتے.کے اب فرشتے تو ہر جگہ ہیں پاخانہ میں انسان جاتا ہے تو اُس وقت بھی فرشتے ساتھ ہوتے ہیں.لہسن کے کھیت میں بھی فرشتے ہوتے ہیں پیاز کے کھیت میں بھی فرشتے ہوتے ہیں ، پھر اس حدیث کے معنی کیا ہوئے؟ در حقیقت اس جگہ فرشتہ سے مراد آسمان کا فرشتہ نہیں وہ تو پا خانہ میں بھی جاتا ہے لہسن کے کھیت میں بھی جاتا ہے، پیاز کے کھیت میں بھی جاتا ہے.اس جگہ فرشتہ سے مراد شریف الطبع اور نازک مزاج انسان ہیں جن کے لئے بُو نا قابل برداشت ہوتی ہے اور جو اس سے دُور بھاگتے ہیں اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر زور دیا ہے کہ مجالس میں آؤ تو عطر وغیرہ لگا کر آؤ تا کہ لوگوں کے اجتماع کی وجہ سے بُو پیدا نہ ہو.الفضل یکم اگست ۱۹۶۲ء) تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۹۴ تا ۷ ۹ مطبع دار الفکر بیروت لبنان مطبوعه ۲۰۰۲ء تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۱۱۱ تا ۱۱۲ مطبع دار الفکر بیروت لبنان مطبوعه ۲۰۰۲ء مسلم کتاب المساجد باب نهى من أكل ثوماً او بَصَلاً (الخ)

Page 88

Page 89

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نو جوانوں سے خطاب از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 90

Page 91

انوار العلوم جلد ۲۲ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب فرموده ۷/نومبر ۱۹۵۰ء بمقام ربوہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.نام جو میں نے پڑھوائے تھے اُس کی ایک حکمت یہ بھی تھی کہ دیکھوں تربیت کا کس حد تک اثر ہوا ہے.پچاس خدام میں سے ۱۲ ایسے تھے جو کھڑے ہونے سے پہلے اس کیلئے تیار نہیں تھے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اُن پر تربیتی کلاس کا کوئی اثر نہیں ہوا لیکن اکثریت ایسی تھی جس نے اپنا مقصد سمجھا تھا.یعنی پچاس میں سے اڑتیں کا کھڑا ہونا ظاہر کرتا تھا کہ وہ انتظار میں تھے کہ آواز آئے اور وہ اُٹھ کھڑے ہوں لیکن بارہ ایسے تھے جو مُردوں کی طرح کھڑے ہوئے.اُن کو دیکھ کر یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ کسی تربیتی کیمپ میں رہ چکے ہیں بلکہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ کسی مسجد کے ملاں کے شاگردوں میں سے ہیں.ولوی محمد صدیق صاحب نے اپنی رپورٹ میں ذکر کیا ہے کہ اکثر مجالس سے نمائندگان نہیں آئے.جہاں تک انسانی نفس کا تعلق ہے نئی بات لوگ آہستہ آہستہ اختیار کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے لوگ آجکل کے لوگوں سے تقویٰ میں بہت بڑھے ہوئے تھے لیکن جب آپ نے یہ اعلان فرمایا کہ ہر احمدی ہر تین ماہ کے بعد ایک پائی فی روپیہ کے حساب سے چندہ دے تو بعض دوستوں نے یہ کہا کہ اس طرح تو احمدیت میں داخل ہونے میں مشکل پیدا ہو جائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کئی لوگ ایسے بھی تھے جو ایک پائی فی روپیہ فی سہ ماہی سے کئی گنا زیادہ چندہ دیتے تھے مگر اس شرح

Page 92

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۶ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب کے مقرر ہو جانے سے بعض نے خیال کر لیا کہ اس طرح احمدیت قبول کرنے میں لوگ ہچکچاہٹ محسوس کریں گے.لیکن اب کئی لوگ ایسے ہیں جو اپنی آمد کا تمیں چالیس فیصدی چندہ دیتے ہیں حالانکہ اِن میں سے بعض ایمان میں اتنے پختہ نہیں جتنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ ایمان میں پختہ تھے لیکن اُس زمانہ میں لوگ ایک پائی فی روپیہ فی سہ ماہی شرح چندہ مقرر ہونے سے گھبراتے تھے.پس ابتداء میں ہمیشہ وقتیں پیش آتی ہیں لیکن جب کام چلے گا ، خدام میں اس کی اہمیت پیدا ہوتی چلی جائے گی.بڑی بات یہ ہے کہ کورس میں شامل ہونے والوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اپنی جگہ پر خدام کی تنظیم کریں.میں سمجھتا ہوں کہ ابھی خدام کی دس فیصدی تنظیم ہوئی ہے نوے فیصدی تنظیم ابھی باقی ہے.آپ کو چاہئے کہ اپنی اپنی جگہوں پر جا کر خدام کی تنظیم کریں.اسی طرح اردگرد کے علاقہ میں پھر پھر کر مجالس میں تحریک کریں کہ اگلے سال اس کورس میں شامل ہونے کے لئے خدام زیادہ تعداد میں آئیں.بعض جگہوں پر مشکلات بھی ہیں مثلاً کراچی کی جماعت کے اکثر خدام ملازم پیشہ ہیں اسی لئے انہیں چھٹیاں ملنی مشکل ہوں گی لیکن یہ ہو سکتا ہے کہ سال میں دو تین خدام اس کورس میں شامل ہو جائیں اور وہ وہاں جا کر باقی خدام کو ٹریننگ دیں کیونکہ اس انتظام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ جو خدام اس تربیتی کورس میں شامل ہوں وہ واپس جا کر دوسرے خدام کو ٹریننگ دیں.یا درکھیں کہ اس کورس سے ہمارا یہ مقصد نہیں تھا کہ ہم تمیں چالیس خدام کوٹرینڈ کریں یا ہمیں صرف تمہیں چالیس خدام کی ضرورت ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ تھا کہ جس خادم کو اس کے لئے بلایا جائے وہ آگے دوسروں کو سکھائے اور کوشش کرے کہ آئندہ سال زیادہ خدام اس کورس میں حصہ لیں.آپ میں سے ہر ایک دو چار پانچ چھ اور خدام کو ٹریننگ دیں.اسی طرح وہ خدام آگے اور خدام کو ٹریننگ دیں اس طرح پچاس خدام کو تربیت دینے کی وجہ سے ہزاروں تک یہ تربیت پہنچ جائے گی.میں نے اساتذہ سے کہا تھا کہ اس کورس میں موٹی موٹی باتیں سکھائی جائیں،

Page 93

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۷ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب پیچیدگیوں میں نہ پڑا جائے اس لئے بطور امتحان میں ایک دو باتیں پوچھتا ہوں.انڈرٹرینینگ ( زیر تربیت ) خدام سب کھڑے ہو جائیں.جو سوال میں کروں گا اُس کا جواب نہیں دینا بلکہ صرف ہاتھ کھڑا کرنا ہے جس سے معلوم ہو کہ تمہیں جواب آتا ہے اور میں جس سے چاہوں گا جواب پوچھ لوں گا.مثلاً میں ایک فقرہ بولتا ہوں ، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ آپ اس کی اصلاح کرلیں گے تو ہاتھ کھڑا کریں.اس میں مولوی فاضل یا مدرسہ احمد یہ کے فارغ التحصیل خدام میرے مخاطب نہیں.مثلاً میں یہ فقرہ بولتا ہوں إِنَّ اللهَ اَمَرَ الْمُؤْمِنُونَ اَنْ يُصَلُّونَ.بولو یہ صحیح ہے یا غلط؟ (اس پر متعدد خدام نے ہاتھ کھڑے کئے اور حضور نے ایک خادم سے دریافت فرمایا کہ اس میں کیا غلطی ہے؟ اُنہوں نے دو غلطیوں کی تصحیح کی.یعنی انہوں نے بتایا کہ اللہ“ اسمِ انَّ ہے اس لئے اس پر بجائے کسرہ کے فتح آئے گی کیونکہ ”ان “ اپنے ما بعد کو فتح دیتا ہے اور الْمُؤْمِنُونَ» مفعول بہ ہونے کی وجہ سے منسوب ہوگا.یعنی الْمُؤْمِنِینَ پڑھا جائے گا.آخری غلطی کی وہ تصحیح نہ کر سکے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے دوسرے خدام سے دریافت فرمایا کہ بتائیں کیا اور بھی کوئی غلطی ہے یا نہیں؟ مگر کوئی خادم جواب نہ دے سکا.تو حضور نے فرمایا کہ اس فقرہ میں يُصَلُّونَ نہیں چاہئے بلکہ صرف يُصَلُّوا چاہئے.دوسرا سوال حضور نے یہ کیا کہ:.فاعِل کے آخر میں جو حرکت آتی ہے وہ کیا ہے؟ جو خدام اس سوال کا جواب بتا سکتے ہیں وہ ہاتھ کھڑا کریں.“ ( اس پر متعدد خدام نے ہاتھ کھڑے کئے.حضور کے دریافت کرنے پر ایک خادم نے بتایا کہ فاعل کے آخر میں رفع آتا ہے.اس کے بعد حضور نے فرمایا : - ) آپ لوگوں نے جو کچھ پڑھا ہے میں امید کرتا ہوں کہ وہ لکھا بھی ہوگا.“ (اس کے بعد حضور نے اساتذہ کرام سے سوال کیا کہ وہ جو کچھ پڑھایا کرتے تھے آیا وہ لکھوایا بھی کرتے تھے یا نہیں ؟ اور خدام اپنی جگہوں پر واپس جا کر اِن اسباق کو یاد کرنا چاہیں تو وہ کر سکتے ہیں یا نہیں ؟ اس پر حضور کو بتایا گیا کہ سوائے ان پڑھ خدام کے جو لکھنا نہیں جانتے باقی خدام نے اسباق نوٹ کر لئے ہیں اور واپس جا کر وہ اگر یاد کرنا چاہیں

Page 94

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۸ تو ایسا کر سکتے ہیں.اس کے بعد حضور نے فرمایا:.) تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب ر پورٹ میں ایک بات یہ بھی کہی گئی ہے کہ افسوس ہے کہ کورس پورا نہیں ہوسکا کیونکہ جو خدام کورس میں شامل ہوئے اُن میں سے بعض کی علمی قابلیت اپنے ساتھیوں کی نسبت کی بہت کم تھی.میں نے شروع میں ہی یہ ہدایت کی تھی کہ جو خدام تعلیم یافتہ نہیں ہیں اُن کو کی الگ تو نہیں پڑھانا چاہئے لیکن اس کا یہ اثر بھی نہیں پڑنا چاہئے کہ کورس خراب ہو جائے کیونکہ اگر یہ غلطی کی جائے تو نا فرض شناسی کی ایسی عادت پڑ جائے گی کہ اس کا روکنا مشکل ہو گا.ہر طالب علم کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ اُستاد اپنے فرض کو ادا کر رہا ہے اور یہ اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب اُستاد اپنے پہلے فرض یعنی کورس کو پورا کرے.میں امید کرتا ہوں کہ آئندہ یہ غلطی سرزد نہیں ہوگی پڑھانے کے لئے بیشک آسان الفاظ استعمال کر لو لیکن کورس پورا کر دینا چاہئے.میں نے مولوی سیف الرحمن صاحب کو جن کے سپرد عربی کی ابتدائی تعلیم تھی یہ ہدایت کی تھی کہ صرف ونحو کی لمبی باتوں میں نہ پڑو ،صرف ایسی موٹی موٹی باتیں بتا دو جن سے خدام کے اندر قرآن وحدیث پڑھنے کیلئے دلیری پیدا ہو جائے اور اس طرح اگر ایک گھنٹہ روزانہ بھی پڑھائی کی جاتی تو اس قدر عربی چھ سات دن میں پڑھائی جاسکتی تھی.یعنی عنوان بتا دیے جاتے تا کہ کوئی شخص عربی لفظ بول کر انہیں ڈرانہ سکے.بہر حال آئندہ یہ احتیاط ہونی چاہئے کہ کورس پورا ہو جائے.اگر کورس پورا نہیں ہوگا تو نہ تو طالب علم اپنے مقصد کو حاصل کر سکیں گے اور نہ استادوں کے متعلق وہ اچھا امپریشن (IMPRESSION) لے کر جائیں گے، یہ تو صاف بات ہے کہ اگر ایک ڈاکٹر اپنے شاگرد کو آدھی ڈاکٹڑی پڑھا دے تو وہ لوگوں کو مارنے والا بنے گا جلانے والا نہیں بنے گا.اسی طرح وہ کورس جو مقرر کیا گیا ہے اگر پورا نہ ہو تو لازماً اس کا اچھا اثر نہیں پڑسکتا.بڑی بھاری چیز جو تمہاری آنکھوں کے سامنے رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ ہم نے احمدیت کے ذریعہ سے اس عہد کو پورا کرنا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے کیا.ہمارا فرض تھا کہ ہم یہ عہد آپ کے ذہن نشین کرائیں اور اساتذہ کا فرض تھا کہ ہمارا

Page 95

۶۹ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب انوار العلوم جلد ۲۲ نمائندہ ہونے کی حیثیت سے آپ کو پڑھائیں.اگر نمائندہ خدام اس بات کو سمجھ لیں اور انہیں اس کا یقین ہو جائے اور ساتھ ہی وہ اِس کو آگے پھیلانے کی کوشش کریں تا وہ اُس عہد کو تازہ کریں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی خاطر ہم سے لیا تو ہمیں بہت جلد کامیابی حاصل ہو سکتی ہے.نص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد اپنی ذات کے لئے نہیں لیا تھا بلکہ آپ نے یہ عہد خدا تعالیٰ کی خاطر لیا تھا.ہم اگر اس کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس لئے تا اس کی عہد کو جو آج سے چودہ سو سال قبل لیا گیا تھا دوبارہ زندہ کریں.دوسروں کو یاد دلائیں اور کی اسے لوگوں میں قائم کرنے کی کوشش کریں.اگر یہ بات پختہ ہو جائے تو ہم اس فرض کو ادا کریں گے جو ہمارے ذمہ لگایا گیا تھا.ایک ماں جو قربانی کرسکتی ہے وہ ہر تھا جانتا ہے.آپ میں سے وہ کون سا شخص ہے جو ماں کے پیٹ سے پیدا نہیں ہوا.بیشک بعض لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے اپنی ماں کا دودھ نہیں پیا ہوگا یا جنہوں نے ماں کی تربیت اپنی ہوش میں حاصل نہیں کی ہوگی لیکن ایسے لوگ بہت کم ہیں نوے فیصدی لوگ کی ایسے نکلیں گے جنہوں نے اپنی ماں کا دودھ پیا ہوگا یا اُس کی نگرانی میں دودھ پیا ہوگا یا ای جنہوں نے بچپن میں تربیت اپنی ماں کی نگرانی میں حاصل کی ہوگی وہ جانتے ہیں کہ مائیں کتنی قربانی کرتی ہیں.مائیں قربانی کرنے میں بعض دفعہ اتنی بڑھ جاتی ہیں کہ انسان اندازہ نہیں کر سکتا.وہ بسا اوقات یہ جانتے ہوئے کہ ان کی قربانی بچہ کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی قربانی پیش کر دیتی ہیں.مثلاً سینکڑوں ہزاروں ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ ایک عورت جو پانی سے خوف کھاتی تھی جب اُس کا بچہ پانی میں گر گیا تو با وجود یہ جاننے کے کہ وہ تیر نا نہیں جانتی یا یہ جانتے ہوئے کہ وہ پانی میں کود کر بچہ کو بچا نہیں سکتی پانی میں چھلانگ لگا دیتی ہے اور وہ خیال نہیں کرتی کہ میں مرجاؤں گی.یا کسی ماں کا بچہ چوری ہو گیا ہو اور وہ اتنی دیر کے بعد سے دیکھے کہ اسے پہچاننا مشکل ہو مثلاً وہ بچہ ڈا کو اُٹھا کر لے گئے ہوں اور انہوں نے اس کو ڈاکہ زنی کی تربیت دی ہو ، وہ چوری کیلئے باہر نکلے اور اپنی ماں کے ہاں چوری کرے، ماں نے پولیس

Page 96

انوار العلوم جلد ۲۲ ۷۰ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب کو رپورٹ کی ہو اور اُس نے اُسے گرفتار کر لیا ہو اور ماں کو بطور گواہ پیش کیا ہوا ایسے موقع پر ماں گواہی دے دے گی لیکن اس لئے کہ وہ جانتی نہیں کہ وہ اس کا اپنا بیٹا ہے مجسٹریٹ کے سامنے اقرار کر لینے کے بعد کہ اس نے چوری کی ہے اور اس علم کے بعد اگر وہ انکار کر دے تو وہ سزا کی مستحق ہوگی اگر اسے یہ پتہ لگ جائے کہ چور اس کا اپنا بیٹا ہے تو وہ فوراً کہہ دے گی کہ چور یہ نہیں تھا میں نے جھوٹ بولا ہے.وہ اپنے آپ کو قید میں ڈال دے گی لیکن اُس کے خلاف گواہی نہیں دے گی سوائے اس کے کہ وہ مؤ منہ ہو.یہی حال اُن لوگوں کا ہوتا ہے جو بچے مذہب میں داخل ہوتے ہیں لیکن پھر دُور جا پڑتے ہیں.اُن کے دلوں میں یہ خیال اور تصور تو ہوتا ہے کہ وہ بچے مذہب میں داخل ہیں لیکن وہ صرف ناموں سے محبت کرتے ہیں حقیقت کو پہچاننے کی طاقت اپنے اندر نہیں رکھتے.اگر کسی وقت اُنہیں معلوم ہوگا کہ وہ عملی طور پر اُسی مذہب کی مخالفت کر رہے ہیں جس کی سچائی کے وہ زبان سے قائل ہیں تو وہ فوراً اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لیں گے.مثلاً آجکل مسلمان لفظ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے تو محبت کرتے ہیں لیکن آپ کی روحانی شکل سے نفرت کرتے ہیں لیکن اگر اُنہیں کسی وقت یہ پتہ لگ جائے کہ وہ شکل جس کو اب تک غیر کی شکل سمجھ رہے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل ہے تو وہ اپنے خیال کو فوراً بدل دیں گے اور مخالفت ایک ساعت میں بدل جائے گی.صحابہ کو دیکھو ان میں سے بعض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شدید ترین دشمن تھے لیکن جب انہیں یہ سمجھ آ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں تو آناً فاناً اُن کی نفرت محبت میں بدل گئی.عکرمہ جو ابو جہل کا بیٹا تھا ہمیشہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرتا رہا.جب مکہ فتح ہوا تو بغض کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا کیونکہ وہ آپ کی حکومت کے ماتحت رہنے کیلئے تیار نہیں تھا.اُس کی بیوی دل سے مسلمان تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ کے متعلق یہ احکام صادر فرمائے تھے کہ اگر وہ پکڑا جائے تو اُسے سزا دی جائے.اُس کی بیوی نے جب یہ احکام سنے تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی اور عرض کیا يَا رَسُولَ اللہ ! میں دل سے مسلمان ہوں.عکرمہؓ کو بعض غلط فہمیاں ہیں جن کی بناء

Page 97

انوار العلوم جلد ۲۲ اے تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب پر وہ آپ کی مخالفت کرتا رہا ہے اور اب اسی مخالفت کی وجہ سے مکہ چھوڑ کر باہر چلا گیا ہے.يَا رَسُولَ الله ! وہ اسلام کی اس لئے مخالفت کر رہا ہے کہ وہ سمجھتا ہے یہ دین جھوٹا ہے.کیا یہ بہتر ہوگا کہ آپ کا ایک رشتہ دار غیروں میں دھکے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہوگا کہ وہ آپ کیلئے قربانیاں کرے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عکرمہ کو معاف کرنے کا وعدہ فرمایا.عکرمہ کی بیوی نے دوبارہ عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! عکرمہ اسلام سے اتنا متنفر ہے کہ اگر آپ نے فرمایا کہ اُسے یہاں آ کر مسلمان ہونا پڑے گا تو وہ نہیں آئے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم اُسے مسلمان ہونے کیلئے نہیں کہیں گے.عکرمہ حبشہ کی طرف بھاگ رہا تھا اور قریب تھا کشتی میں سوار ہو جائے کہ اُس کی بیوی وہاں پہنچی.اُس کی نے یہ کہا میرے خاوند ! تم مکہ کے ورچول رولر (VIRTUAL RULER) کے بیٹے تھے اور اب غیروں میں دھکے کھاؤ گے؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ تم غیروں میں دھکے کھانے کی بجائے اپنے ایک رشتہ دار کی اطاعت کر لو؟ عکرمہ نے جواب دیا میں اسلام کا دشمن ہوں اور ساری عمر دشمنی کرتا رہا ہوں اب جب مسلمانوں کو فتح ہوگئی ہے وہ میرے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو ہم اُن کے ساتھ کیا کرتے تھے.اُس کی بیوی نے کہا میں یہ بات کرتی آئی ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تم واپس چلے آؤ تو آپ معاف فرما دیں گے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا ہے کہ جی چاہے تو مسلمان ہو جائے ورنہ اُسے مجبور نہیں کیا جائے گا.عکرمہ نے تعجب سے کہا کیا یہ بات سچی ہے؟ اُس کی بیوی نے کہا میں نے ڈو بد و باتیں کی ہیں.چنانچہ وہ واپس آ گیا اور کہا مجھے محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس لے چلو.چنانچہ وہ اُسے آپ کے پاس لے گئی.عکرمہ نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے کیا یہ ٹھیک ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اس نے ٹھیک کہا ہے.عکرمہ نے کہا میری بیوی نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ مجھے اپنے مذہب میں داخل ہونے کیلئے مجبور نہیں کریں گے کیا یہ ٹھیک ہے آپ نے فرمایا ، ہاں اس نے ٹھیک کہا ہے.یہ سنتے ہی عکرمہ کی آنکھیں کھل گئیں اور اس نے کہا.اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهُ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ـ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم.

Page 98

انوار العلوم جلد ۲۲ ۷۲ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب کو اس سے حیرت ہوئی.عکرمہ نے کہا کہ وہ شخص جو میرے جیسے دشمن کو معاف کرنے کیلئے تیار ہو گیا ہے اور وہ یہ بھی نہیں کہتا کہ میں اپنا مذہب تبدیل کر کے اس کے مذہب میں داخل ہو جاؤں وہ عام انسان نہیں ہو سکتا وہ یقیناً خدا کا رسول ہے اس لئے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکرمہ! میں نے تمہیں صرف معاف ہی نہیں کیا بلکہ اگر تمہاری کوئی خواہش ہو تو بیان کرو! اگر وہ ہماری طاقت میں ہوئی تو ہم اسے پورا کریں گے.لیکن وہ شخص دنیاوی و جاہت کیلئے اپنی ساری عمر لڑ تا رہا کہنے لگا يَا رَسُولَ اللہ ! مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں آپ دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ میرے تمام گناہ کی معاف کر دے.یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو عکرمہ میں پیدا ہوا.پس مخالفت گوراستی سے دور لے جانے والی ہے لیکن یہ بعض اوقات راستی کی طرف لانے کا موجب بھی بن جاتی ہے.دنیا احمدیت کی مخالفت اس لئے نہیں کرتی کہ یہ سچی ہے بلکہ وہ اس لئے مخالفت کرتی ہے کہ وہ یہ بجھتی ہے یہ جھوٹ ہے.ہاں کچھ صاحب اغراض بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے احمدیت کو قبول کر لیا تو ہماری نمبر داریاں اور حکومتیں جاتی رہیں گی لیکن مخالفین کا اکثر حصہ یہ سمجھتا ہے کہ ہم خدا اور اس کے رسول کے مخالف ہیں.آپ سمجھتے ہیں کہ اِن لوگوں کا ایمان لانا بھی آسان ہے اور ان کا قابلِ رحم ہونا بھی یقینی ہے.اگر ہم یہ ثابت کر دیں کہ ہم خدا اور اس کے رسول کے مخالف نہیں تو اُن کی مخالفت عقیدت سے بدل جائے گی اور اُن کی حالت قابلِ رحم اس لیے ہے کہ وہ ہماری اس لئے مخالفت نہیں کرتے کہ ہم ان کے خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم ہیں بلکہ وہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ ہم ان کے خدا اور رسول کی مخالفت کرتے ہیں.گویا وہ خدا اور اُس کے رسول کی خاطر ہماری مخالفت کر رہے ہیں اور جو خدا اور اُس کے رسول کی خاطر ہماری مخالفت کر رہا ہے وہ ایک حد تک ہمارے لئے قابل عزت بھی ہے کیونکہ اُس کا جذ بہ نیک ہے.پس یہاں سے فارغ ہو کر اپنے اپنے علاقہ میں جاؤ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم کرو تبلیغ کرو اور کوشش کرو کہ مرکز کی آواز کو زیادہ سے زیادہ پھیلایا جائے.ہمارے نوجوان ابھی بہت پیچھے ہیں.ہمارے ہر

Page 99

انوار العلوم جلد ۲۲ ۷۳ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب نو جوان کے اندر یہ آگ ہونی چاہئے کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو قائم کر دے.اگر یہ آگ پیدا نہ ہو تو وہ سلسلہ کیلئے کوئی مفید وجو د نہیں.پس اپنے اندر ایک آگ پیدا کرو، اپنے اندر ایک سوزش اور جلن پیدا کرو جس کے نتیجہ میں تم میں سے ہر ایک مالی قربانی اور تبلیغ کے لئے تیار ہو جائے.تمہارے یہاں پڑھنے کا فائدہ تبھی ہو سکتا ہے جب تم باہر جا کر یہی اسباق دوسروں کو سکھاؤ.ان کو خود بھی یا درکھو، ان پر عمل کرو اور دوسروں کو بھی سمجھا ؤ اور اُن سے عمل کروانے کی کوشش کرو.اور پھر ایسے نئے آدمی پیدا کرو جو تمہارے ساتھ مل کر احمدیت کی اشاعت میں حصہ لیں.پھر کوشش کرو کہ وہ بھی ان پر عمل کریں اور اور نئے افراد پیدا کریں اور اُن سے عمل کروائیں.وہ احمدیت میں داخل ہو کر اس کے احکام کے پابند ہوں اور اس کو آگے پھیلائیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے ایک دن ساری دنیا میں پھیل جائے.یہی کام ہے جس کیلئے تم بلائے گئے ہو اور یہی وہ کام ہے جس کو تمہیں ہر وقت مد نظر رکھنا چاہئے.اگر تم نے یہ کام کیا تو تم خدا تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہو جاؤ گے اور اگر نہ کیا تو اُس کی ناراضگی کاج موجب بنو گے کیونکہ جتنے دن تم یہاں رہے تم نے محض ایک تھیٹر دیکھا ، ایک سینما دیکھا اور تم ایسی باتوں میں شامل رہے جن میں تمہاری روح شامل نہیں تھی.تم نے اپنے دن بھی ضائع کئے اور اپنے استادوں کے دن بھی ضائع کئے.تمہاری مثال اُس گدھے کی سی ہوگی جس کی پیٹھ پر کتابیں لدی ہوئی ہوں وہ خود اُن سے کوئی فائدہ نہیں اُٹھا سکتا لیکن دوسرے لوگ اُن سے فائدہ حاصل کرتے ہیں.“ (اس کے بعد حضور نے تمام نمائندگان سے جنہوں نے تربیتی کورس پاس کیا تھا مندرجہ ذیل عہد لیا تھا :.) 66 ' کیا آپ لوگ اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ جو باتیں آپ نے یہاں سیکھی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے اور اپنی اپنی جماعتوں میں اِن اسباق اور تعلیموں کو پھیلانے کی کوشش کریں گے اور زیادہ سے زیادہ اخلاص خود بھی دکھائیں گے اور دوسروں میں بھی اخلاص پیدا کرنے کی کوشش کریں گے.

Page 100

انوار العلوم جلد ۲۲ ۷۴ تربیتی کورس کے اختتام پر احمدی نوجوانوں سے خطاب سب نمائندگان نے بیک زبان کہا: ”انی وَاللهِ “ یہ عہد حضور نے تین دفعہ لیا اس کے بعد حضور نے لمبی دعا کروائی اور پھر تمام خدام کو حضور نے شرف مصافحہ بخشا.الفضل ۲۸ را پریل ۱۹۶۷ء) ٢٠١ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء

Page 101

انوار العلوم جلد ۲۲ ۷۵ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفة المسیح الثانی

Page 102

Page 103

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ 22 بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر (فرموده ۲۶ /نومبر ۱۹۵۰ء بمقام بیت احمد یہ بھیرہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ایک ربع صدی سے زیادہ عرصہ ہو ا یعنی تقریباً ۳۰ سال ہوئے جب سے میرے دل میں اس شہر میں آنے کا شوق تھا.بھیرہ ، بھیرہ والوں کے لئے اینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چونے سے بناہوا ایک شہر ہے مگر میرے لئے یہا مینٹوں اور گارے یا اینٹوں اور چونے کا بنا ہو ا شہر نہیں تھا بلکہ میرے اُستاد جنہوں نے مجھے نہایت محبت اور شفقت سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھایا اور بخاری کا بھی ترجمہ پڑھایا ان کا مولد ومسکن تھا.بھیرہ والوں نے بھیرہ کی رہنے والی ماؤں کی چھاتیوں سے دودھ پیا لیکن میں نے بھیرہ کی ایک بزرگ ہستی کی زبان سے قرآن کریم اور حدیث کا دودھ پیا.پس بھیرہ والوں کی نگاہ میں جو قدر بھیرہ شہر کی ہے میری نگاہ میں اس کی اس سے بہت زیادہ قدر ہے.میری صحت بچپن سے ہی کمزور تھی اور میں اکثر بیمار رہتا تھا جس کی وجہ سے میں پڑھائی میں سخت کمز ور تھا.میری آنکھوں میں گرے تھے اور گلے میں سوزش رہتی تھی اس لئے نہ تو میں پڑھ سکتا تھا اور نہ اچھی طرح دیکھ سکتا تھا.اُن دنوں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل مولوی نورالدین صاحب جو بھیرہ کے رہنے والے تھے اُنہوں نے مجھے بلا کر کہا کہ میاں ! سے قرآن کریم پڑھا کرو.تمہیں نہ دیکھنے کی تکلیف ہوگی اور نہ پڑھنے کی تکلیف ہوگی میں خود ہی بولا کروں گا اور میں ہی کتاب دیکھا کروں گا.چنانچہ میں نے آپ سے قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا.میں قرآن کریم کھول کر سامنے رکھ لیتا اور

Page 104

انوار العلوم جلد ۲۲ ZA بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر مولوی صاحب پڑھتے بھی جاتے اور ترجمہ بھی کرتے جاتے.میں نہیں کہہ سکتا کہ آیا میری ذہانت کا نتیجہ تھا یا اُن کے اخلاص اور محنت کا کہ ۱۴، ۱۵ سال کی عمر میں ۶ ماہ کے اندر اندر تھوڑا تھوڑا وقت پڑھنے کے بعد قرآن کریم کا ترجمہ ختم ہو گیا.پھر جب میری عمر ۲۲،۲۰ سال کی ہوئی تو آپ نے مجھے بلایا اور فرمایا میاں ! تم مجھ سے بخاری بھی پڑھ لو چنانچہ میں نے بخاری شریف پڑھنی شروع کر دی.گلے کی سوزش کی وجہ سے مجھ سے پڑھا نہیں جاتا تھا اور آنکھوں میں لگروں کی وجہ سے میں کتاب کو دیکھ نہیں سکتا تھا آپ خود ہی بخاری کا ایک پارہ اپنے سامنے رکھ لیتے اور روزانہ نصف پارہ مجھے پڑھا دیا کرتے.آپ خود ہی پڑھتے جاتے تھے اور خود ہی ترجمہ کرتے جاتے تھے.اس طرح دو اڑھائی ماہ میں چھٹیاں وغیرہ نکال کرمیں نے بخاری کا ترجمہ ختم کر لیا.پھر عربی کے کچھ ابتدائی رسالے بھی میں نے آپ سے پڑھے.یہ علم تھا جو آپ نے مجھے سکھایا اور جس کی وجہ سے میرے اندر مزید مطالعہ کا شوق پیدا ہوا.آپ جو کچھ مناسب سمجھتے تھے تشریح کے طور پر خود ہی بیان کر دیتے تھے اور اگر میں کوئی سوال کرتا تو مجھے روک دیتے تھے.ہمارے ایک ہم جماعت تھے.تھے تو وہ بڑی عمر کے لیکن دوبارہ کلاس میں شامل ہوئے تھے اُن کا نام حافظ روشن علی تھا.آپ حضرت نوشہ صاحب کے خاندان میں سے تھے جن کا مزار رن مل، ضلع گجرات میں ہے اور گدی کے مالکوں میں سے تھے.انہی کے داماد (حافظ مبارک احمد صاحب) نے ابھی قرآن کریم کی تلاوت کی ہے.جب مولوی صاحب کوئی تشریح بیان فرماتے تو چونکہ حافظ روشن علی صاحب اعتراض کرنا شروع کر دیتے اور کہتے کہ ان معنوں پر یہ یہ اعتراض پڑتا ہے.میری عمر اُس وقت ۲۰ ۲۱ سال کی تھی.میں نے حافظ صاحب کو اعتراض کرتے دیکھا تو ایک دن میرے دل میں بھی گد گدی سی اُٹھی اور میں بھی اعتراض کرنے لگا.مولوی صاحب کو مُجھ سے بہت محبت تھی.ایک دو دن تک تو آپ نے برداشت کیا.لیکن پھر جو میں نے سوال کیا تو فرمایا میاں ! تمہارا معاملہ اور ہے اور حافظ صاحب کا معاملہ اور ہے.یہ مولوی ہیں اور ان کا طریق بال کی کھال نکالنا ہوتا ہے لیکن تم مولوی نہیں تم نے تو دین

Page 105

انوار العلوم جلد ۲۲ ۷۹ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر حاصل کرنا ہے.پھر فرمایا میاں! یہ تو دیکھو مجھے تم سے کتنا عشق ہے.اگر میں ان معنوں سے جو بیان کرتا ہوں زیادہ معنے جانوں تو کیا تمہیں بتا نہ دوں ؟ اگر مجھے کوئی اور معنے معلوم ہوتے تو میں تمہیں ضرور بتا دیتا.پس اگر میں نے تمہیں کوئی اور معنے نہیں بتائے تو اس کا یہی مطلب ہے کہ مجھے صرف اتنے ہی معنے آتے ہیں.پھر فرمایا میاں ! اتنا تو سوچو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے اللہ تعالیٰ کا بندہ صرف میں ہی ہوں یا تم بھی ہو؟ کیا یہ میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر جو اعتراض پڑتا ہے اُس کا جواب دوں یا تمہارا بھی فرض ہے کہ تم خود سوچو اور اسلام پر پڑنے والے تمام اعتراضات کا جواب دو؟ تم سوال نہ کیا کرو بلکہ خود سوچا کرو اور ان اعتراضات کے خود جوابات دیا کرو.آپ نے مجھے جو کچھ پڑھایا میں اُس کی بھی قدر کرتا ہوں لیکن جو آپ نے مجھے نہیں پڑھایا وہ میرے لئے بہت زیادہ قیمتی ہے کیونکہ جونہی یہ آواز میرے کانوں میں پڑی کہ کیا صرف میرا ہی فرض ہے کہ اسلام پر پڑنے والے شبہات کا جواب دوں یا تمہارا بھی فرض ہے کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے صرف میں ہی اللہ کا بندہ ہوں یا تم بھی اللہ کے بندے ہو؟ اس آواز نے میرے اندر ایک آگ لگا دی اور میں نے سمجھا که گویا اسرافیل فرشتے نے صور پھونکا.اس کے بعد میں نے پوچھنا بند کر دیا اور سوچنا شروع کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے علم کے سمند ر سکھا دیئے.اب اگر کوئی اسلام کا دشمن اسلام پر کتنے بھی اعتراض کرے میں انہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم سے ہی رڈ کرسکتا ہوں.چونکہ بھیرہ آنے کا شوق مجھے مدت سے تھا اس لئے یہاں آکر میں خوش بھی ہوں کہ میری ایک دیرینہ خواہش پوری ہوئی.مگر بھیرہ کی دیواروں میں داخل ہونے کے بعد میرے دل کے زخم دوبارہ ہرے ہو گئے.بھیرے کی ہی ایک لڑکی امتہ الحی سے جو حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ المسیح الاوّل کی بیٹی تھیں ، میری شادی ہوئی.ہم دونوں میں بہت محبت تھی.بیوقوف لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید اسلام اور روحانیت کے یہ معنے ہیں کہ میاں کو بیوی سے محبت نہ ہو اور بیوی کو میاں سے محبت نہ ہولیکن جو لوگ اسلام اور

Page 106

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۰ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر روحانیت کو سمجھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اسلام ہی ایک مذہب ہے جو خاوند کو بیوی سے اور بیوی کو خاوند سے محبت کرنے کا حکم دیتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض دفعہ جس گلاس میں میں پانی پیتی اُسی گلاس میں اُسی جگہ ہونٹ رکھ کر پانی پیتے اور فرماتے میں یہ بتانے کے لئے ایسا کرتا ہوں کہ مجھے تم سے کتنی محبت ہے یا پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ایک دفعہ میرے سر میں شدید درد ہو رہا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے.آپ نے فرمایا عائشہ صبر کرو.لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.شدت درد سے مجھے تکلیف ہو رہی تھی اور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو جو مجھے دین سکھانے کے لئے تھی سمجھ نہ سکی.مجھے غصہ آ گیا کہ مجھے سر درد ہو رہا ہے اور بجائے اس کے کہ آپ مجھ سے ہمدردی کا اظہار کریں آپ کہتے ہیں کہ صبر کر و لوگ بیمار ہوا ہی کرتے ہیں.میں نے غصہ سے کہا آپ کو کیا میں مرجاؤں گی تو آپ دوسری شادی کر لیں گے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اُس وقت تکلیف میں کہہ رہی تھیں ہائے میں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات سُن کر فرمایا اچھا عائشہ اگر یہ بات ہے تو ہائے تو نہیں ہائے میں سے اور چند دنوں کے بعد آپ بیمار ہو کر فوت ہو گئے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب تک زندہ رہیں ہمیشہ ہی اس بات پر افسوس کیا کرتی تھیں کہ میں نے یہ فقرہ کیوں کہا جس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا.گویا میں نے آپ کی محبت پر شبہ کیا.کاش ! میں یہ فقرہ نہ کہتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے مر جاتی تا یہ صدمہ نہ دیکھتی.غرض نا واقف اور جاہل لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ایک مسلمان کے معنی یہ ہیں کہ وہ کوئی پتھر دل کا انسان ہے اور مسلمان وہ ہے جس میں محبت اور وفا کے جذبات نہیں پائے جاتے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم محبت اور وفا کا مجسمہ تھے.ایک دفعہ آپ ایک مجلس میں بیٹھے صحابہ سے باتیں کر رہے تھے ایک شخص آیا اور اُس نے کہا یا رَسُول اللہ ! آپ کی بیٹی آپ کو بلا رہی ہے کیونکہ اس کا لڑکا بیمار ہے.آپ باتوں میں مشغول تھے فرمایا

Page 107

انوار العلوم جلد ۲۲ Al بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اچھا آتا ہوں اور پھر باتوں میں بھول گئے.تھوڑی دیر کے بعد پھر ایک شخص آیا اور اُس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کی بیٹی یاد فرماتی ہیں لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہے.آپ نے فرمایا اچھا آتا ہوں.تھوڑی دیر کے بعد تیسرا شخص آیا اور اُس نے عرض کی يَا رَسُول اللہ ! جلدی تشریف لائیے لڑکے کی حالت زیادہ خراب ہو گئی ہے.آپ تشریف لے گئے اور اپنے نواسہ کو گود میں لے لیا.تھوڑی دیر میں اُس کی جان نکل گئی.اُس وقت آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.آپ کے پاس ایک انصاری کھڑے تھے.انہوں نے کہا آپ خدا تعالیٰ کے رسول ہیں اور رو رہے ہیں ! جس کے معنی یہ تھے کہ بھلا رسول کو جذبات سے کیا تعلق ؟ آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے ہر انسان کے اندر خواہ وہ رسول ہو یا غیر رسول محبت کے جذبات پیدا کئے ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے تمہیں محبت کے جذبات سے محروم رکھا ہے تو میرے پاس اس کا کیا علاج ہے؟ ۳ غرض آج سے چھپیں ستائیس یا اٹھائیس سال پہلے امتہ الحی مرحومہ سے جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے میں نے کہا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کے وطن لے جاؤں گا پھر اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت میں یہاں نہ آسکا اور امتہ الحی مرحومہ فوت ہوگئیں اور جب مجھے بھیرہ آنے کا موقع ملا تو ان کی وفات پر ۲۶ سال گزر رہے ہیں.پس جو نہی میں بھیرہ میں داخل ہو اوہ باتیں مجھے یاد آ گئیں کہ میں نے امتہ الحی مرحومہ سے ان کے ابا کا وطن دکھانے کا وعدہ کیا تھا لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت جب تک وہ زندہ رہیں مجھے یہاں آنے کا موقع نہ ملا اور جب مجھے یہاں آنے کا موقع ملا تو بھیرے کی بیٹی اور میری بیوی امتہ الحی مرحومہ فوت ہو چکی تھیں.بہر حال جیسے اللہ تعالیٰ کی مشیت ہوتی ہے اسی طرح ہوتا ہے.میں امتہ الحی مرحومہ کو بھیرہ لا سکایا نہ لا سکا یہ سب رسمی باتیں ہیں انسان کے اندر محبت کے جذبات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے یہ چیز پیدا ہوتی ہے لیکن اگر فلسفیانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ کوئی بات نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر کی جنگ میں تشریف لے گئے تو جو لوگ قید ہو کر مسلمانوں کے قبضہ میں آئے اُن میں آپ کا ایک داماد بھی تھا جس کو کفار جبر جنگ کے لئے ساتھ لے گئے تھے آپ نے قیدیوں سے کہا تم فدیہ

Page 108

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۲ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر دو اور رہائی حاصل کرلو.آپ کے داماد نے کہا میرے ہاں تو کچھ بھی نہیں ہاں مکہ جا کر کچھ انتظام کر دوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا.یہ نوجوان ایک شریف الطبع انسان تھا با وجود اس کے کہ لوگ اسے کہتے تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو دُکھ دو مگر وہ دُکھ نہ دیتا وہ کہتا تھا میں مسلمان نہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی عقیدت نہیں رکھتا لیکن پھر بھی میں ان کی لڑکی کو کیوں ماروں.چنانچہ وہ با وجود دوسروں کے اُکسانے کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو دُکھ نہیں دیتا تھا.جب وہ واپس مکے گیا تو گھر میں کوئی چیز نہ تھی جو فدیہ کے طور پر دی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کے پاس ایک سونے کا ہار تھا جو شادی کے موقع پر والدہ کی طرف سے اُسے دیا گیا تھا.اُس نے اپنے خاوند کو وہ ہار دے کر کہا یہ ہارلے لو اور اسے فدیہ کے طور پر بھجوا دو.مسجد میں جا کر جب دوسرے لوگوں نے فدیے پیش کرنے شروع کئے تو ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے عرض کیا کہ یا رَسُول اللہ ! آپ کے داماد نے یہ ہار بطور فدیہ بھجوایا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہار پر سے کپڑا اٹھایا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اگر آپ لوگ خوشی سے منظور کر لیں کہ یہ ہار واپس کر دیا جائے تو میں اس کی سفارش کرتا ہوں.ہار تو ہا رہی ہے مگر اس میں اتنا فرق ہے کہ یہ ہار میری مرحومہ بیوی خدیجہ کے ہاتھ کا تحفہ ہے جو اُس نے اپنی بیٹی کو دیا تھا اور میری بیٹی کے پاس بس یہی ہار اپنی والدہ کی ایک یادگار ہے اس کے سوا اور کوئی یاد گار نہیں مجھے یہ ہار دیکھ کر صدمہ ہوا کہ خاوند کی جان بچانے کے لئے میری بیٹی نے ایک ہی چیز جو اُس کے پاس اپنی والدہ کی یاد گار تھی اُس نے بطور فدیہ بھیج دی ہے.اگر آپ لوگ خوشی سے اسے معاف کر دیں تو میں یہ ہار واپس کر دوں.صحابہ کرام تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں قربان کرنے کے لئے تیار تھے ہار کی بھلا حیثیت ہی کیا تھی.صحابہ نے عرض کیا يَا رَسُول اللہ ! اس سے زیادہ خوشی ہمارے لئے اور کیا ہو گی کہ ہم اس ہار کو جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بیٹی کو بطور تحفہ دیا تھا اُسے واپس کر دیں چنانچہ رسول کریم

Page 109

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۳ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ ہا روا پس کر دیا ہے اب دیکھو سونے میں کیا رکھا تھا ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا وطن چھوڑا، جائدادیں چھوڑیں ، مکان چھوڑے اور مشیت الہی کے مقابلہ میں ان کی کچھ بھی پرواہ نہ کی.پھر آپ کی شان تو بڑی تھی صحابہ نے بھی اپنا سب کچھ خدا تعالیٰ کی خاطر قربان کر دیا لیکن سونے کے اس ہار کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صدمہ پہنچا اس لئے کہ یہ حضرت خدیجہ کا دیا ہوا ہار تھا.سونے کا سوال نہیں اگر وہ مٹی کا بھی بنا ہوا ہوتا تو آپ کو تکلیف ہوتی کیونکہ اس کا جذبات کے ساتھ تعلق تھا.پس امتہ الحی نے فوت ہونا تھا اور وہ فوت ہو گئیں میں پہلے مرجاتا یا وہ پہلے مرگئیں اس میں کوئی فرق نہیں یہ خدا تعالیٰ کا قانون تھا جو پورا ہو الیکن یہ جذبات کی چیز ہے کہ جب ہم دونوں باتیں کیا کرتے تھے تو میں اُن سے وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں تمہیں تمہارے ابا کا وطن دکھاؤں گا لیکن جب وہ وقت آیا کہ میں نے بھیرہ دیکھا تو وہ ہستی جس سے میں وعدہ کیا کرتا تھا کہ میں اُسے اُس کے ابا کا وطن دکھاؤں گا اس دنیا سے گزرچکی تھی.جب کہ میں بتا چکا ہوں مجھے یہاں آنے کی دیرینہ خواہش تھی مقامی جماعت کے بعض دوست ڈرتے تھے کہ کہیں دوسرے لوگ شورش نہ کریں اور انہوں نے چاہا کہ میں بھیرہ نہ جاؤں لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آخر یہاں کے لوگ میری وجہ سے شورش کیوں کریں گے.آخر کوئی کسی کے خلاف ہوتا ہے تو وہ اس لئے کہ وہ اس کا کام بگاڑتا ہے میں نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ میرے خلاف ہوں گے.اگر کوئی شخص میرے یہاں آنے کی وجہ سے شورش کرے گا تو وہ غلط فہمی کی بناء پر ہو گی.وہ اس خیال سے شورش کرے گا کہ میں ( نعوذ باللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہوں مجھ کو تو یہ مخالفت بھی اچھی لگتی ہے کہ یہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے ہے.آخر دیکھنا یہ ہے کہ کیا یہاں کسی سے میرا زمین کا جھگڑا ہے یا مکان کا جھگڑا ہے یا کسی عہدے کا جھگڑا ہے.میں گورداسپور کا رہنے والا ہوں اور ہجرت کے بعد ضلع جھنگ میں مقیم ہوں.اور جہاں تک جائداد کا سوال ہے یہاں کے کسی رہنے والے کو مجھ پر شکوہ نہیں

Page 110

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۴ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر ہوسکتا اگر کسی کو مُجھ پر کوئی شکوہ ہے تو کسی جائداد کے جھگڑے کی وجہ سے نہیں بلکہ وہ شکوہ مخالفوں کی ان باتوں کی وجہ سے ہے کہ میں (نعوذ باللہ ) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتا ہوں اور آپ کے دین کو بگاڑتا ہوں.یہ سب باتیں ہیں تو جھوٹی لیکن بہر حال جو شخص مجھے گالیاں دیتا ہے، مجھے مارنے کو تیار ہو جاتا ہے یا مجھ پر پتھراؤ کرنے کا ارادہ کرتا ہے وہ اِس لئے ایسا کرتا ہے کہ وہ اپنی غلط محبت کی وجہ سے مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تصور کرتا ہے.میرے لئے تو یہ امر بھی خوشی کا موجب ہے کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کرتے ہیں جو انہوں نے عملاً نہیں کی یا وہ مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرتے ہیں جو عملاً انھوں نے نہیں کیا.اگر وہ عملاً بھی ایسا کرتے تب بھی میں خوش ہوتا کہ ان کے اندر میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت تو ہے.آخر میں بھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اتباع میں سے ہوں آپ کو شعر کی صورت میں ایک الہام ہوا.اُس کے الفاظ میں پہلے سُنا دیتا ہوں اور پھر اُس کا ترجمہ کروں گا.اُس وقت لوگ بڑی مخالفت کرتے تھے.میں ابھی بچہ ہی تھا لا ہور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دعوت سے واپس تشریف لا رہے تھے آپ جب بازار میں سے گزر رہے تھے تو لوگ چھتوں پر کھڑے ہو کر آپ کو گالیاں دیتے تھے اور کہتے تھے کہ مرزا دوڑ گیا مرزا دوڑ گیا.اسی اثناء میں میں نے ایک بڑھے کو دیکھا جس کا ایک ہاتھ کٹا ہو ا تھا اور اُس پر تازہ تازہ ہلدی لگی ہوئی تھی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی ہاتھ کٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی.میں نے دیکھا کہ وہ بڑھا اپنا تندرست ہاتھ کٹے ہوئے ہاتھ پر ہاتھ مار کر کہہ رہا تھا مرزا ئٹھ گیا مرزا ئٹھ گیا.میں حیران تھا کہ آخر یہ کیوں کہتا ہے مرزا ئٹھ گیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ لا ہور شہر میں جارہے تھے اور پیچھے سے کسی نے حملہ کیا اور آپ گر گئے.اسی طرح لوگوں کو پتھراؤ کرتے بھی ہم نے دیکھا.غرض اُن دنوں مخالفت بڑی زوروں پر تھی اور قدرتی طور پر جماعت کے بعض دوستوں کو بھی غصہ آ جاتا تھا کہ آخر یہ لوگ بلا وجہ ایسا کیوں کرتے ہیں اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا

Page 111

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۵ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اے دل تو نیز خاطر ایناں نگہدار آخر کنند دعوی حُبّ پیمبرم یعنی اے ہمارے مامور! یہ مسلمان جو تمہیں گالیاں دیتے ہیں تو پھر بھی ان کا لحاظ کر آخر یہ تمہیں کیوں گالیاں دیتے ہیں ؟ تمہیں مارنے کیوں دوڑتے ہیں اور تم پر حملہ آور کیوں ہوتے ہیں؟ یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے ہی تمہیں مارتے اور گالیاں دیتے ہیں اس لئے ان کا لحاظ رکھنا بڑا ضروری ہے.غرض ہماری جو مخالفت ہوتی ہے تمہیں دیکھنا چاہئے کہ اس کے پیچھے کیا بات ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ یہ لوگ جو تمہیں گالیاں دیتے اور کہتے ہیں کہ تمہاری چائے بھی شراب سے بدتر ہے شراب پینا جائز ہوسکتا ہے لیکن تمہاری چائے پینی جائز نہیں اگر انہیں پتہ لگ جائے کہ میرے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا جو شعلہ جل رہا ہے وہ ان کے لاکھوں لاکھ کے اندر بھی نہیں جل رہا تو وہ فوراً تمہارے قدموں میں گر جائیں.یہ لوگ مخالفت اسی لئے کرتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ میں اور میرے ساتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں.یہ مخالفت بعض غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ہے اسی لئے جب میں نے سُنا کہ لوگ میرے آنے پرشورش کریں گے تو مجھے غصہ نہیں آیا مجھے یہ سن کر کہ لوگ میری مخالفت کی وجہ سے شورش کریں گے خوشی ہوئی کہ ابھی میرے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چنگاری ان کے اندر سلگ رہی ہے اگر چہ وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ایسا کر رہے ہیں لیکن اس کا موجب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہی ہے اس لئے ہمیں بجائے غصہ میں آنے کے ان کی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور ان کی غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے.اگر کسی شخص کا بھائی بیمار ہو جاتا ہے تو وہ اُسے زہر دے کر مارا نہیں کرتا ، وہ گلا گھونٹ کر ہلاک نہیں کرتا بلکہ اُس کا علاج کرتا ہے اسی طرح ہمارا فرض ہے کہ ہم بجائے ناراض ہونے کے اس مخالفت کو رفع کرنے کی تدبیر کریں.اگر لوگ مخالفتیں کرتے ہیں اور مجھے یا بانی سلسلہ احمدیہ کو یا تمہیں بُرا بھلا کہتے ہیں تو جماعت کو یا د رکھنا چاہئے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں پس تم بجائے ناراض ہونے کے دعائیں کرو اور ان مخالفت

Page 112

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۶ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر کرنے والوں کو اصل حقیقت سے واقف کرو جب تم انہیں اصل حقیقت سے واقف کر دو گے تو انہیں پتہ لگ جائے گا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن نہیں بلکہ آپ کے سچے عاشق ہیں اور وہی لوگ جو تمہیں مارنے پر آمادہ ہیں تمہاری خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.آخر مکہ والوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کتنی مخالفت کی تھی ؟ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اس لئے کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے یہ شخص دین حقہ یعنی ان کے آباؤ اجداد کے دین کی مخالفت کرتا ہے اور اسے بگاڑتا ہے لیکن جب انہیں پتہ لگ گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دینِ حقہ لائے ہیں تو وہی مکہ والے جو آپ کو مارنے کے درپے تھے آپ کی خاطر قربانیاں کرنے اور اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہو گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد ترین دشمن عتبہ، شیبہ، ولید ، عاص اور ابو جہل تھے اور ان کے ساتھ چمٹا ہوا ابوسفیان تھا یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ابتداء سے مخالفت کی اور ایسی شدید مخالفت کی جس کی شان دنیا کے پردہ پر نظر نہیں آتی.ابو جہل کی مخالفت کا یہ حال تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ ایک چٹان پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے صبح کا وقت تھا کہ ابو جہل پاس سے گزرا.اُس نے جب آپ کو چٹان پر اس طرح خاموش بیٹھے دیکھا تو شیطان نے اُس کے دل میں شرارت پیدا کی اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں ، بُرا بھلا کہا اور پھر آپ کو ایک تھپڑ مارا اور کہا تو باز نہیں آتا اپنی باتوں سے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش بیٹھے کوئی بات سوچ رہے تھے جب ابو جہل نے آپ کو تھپڑ مارا تو آپ نے صرف اتنا کہا کہ میں نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے کہ میرے ساتھ اتنی دشمنی کی جاتی ہے، میں نے تو آپ لوگوں کو صرف خدا تعالیٰ کا پیغام سُنایا ہے.آپ نے یہ فرمایا اور پھر چٹان پر بیٹھ گئے.حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے، آپ نہایت دلیر بہادر اور مضبوط پہلوان تھے آپ ہر وقت شکار میں مشغول رہتے تھے اور دین کے متعلق سوچنے کا کبھی آپ کو خیال بھی نہیں آتا تھا.جب ابو جہل نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مارا تو حمزہ کی ایک پرانی لونڈی اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی.پرانی لونڈیاں اور خادم بھی گھر کے

Page 113

بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۷ فرد بن جاتے ہیں.اس لونڈی نے جب یہ نظارہ دیکھا تو اسے بہت دکھ ہو اوہ مسلمان تو تھی نہیں سارا دن کام کرتی جاتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دوسرے بزرگوں کو یاد کر کے بڑ بڑاتی جاتی کہ آمنہ کے بچے نے ان کا کیا بگاڑا ہے کہ وہ یونہی اسے مارتے ہیں اور وہ انہیں کچھ بھی تو نہیں کہتا.سارا دن اُس کے سینہ کے اندر ایک آگ لگی رہی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پتھر پر سے اُٹھے اور اپنے گھر تشریف لے گئے.حضرت حمزہ شکار کے لئے باہر گئے ہوئے تھے شام کو وہ اوپیچی شے بنے نیزہ اور تلوار لٹکائے ہوئے تیر کمان پکڑے اور ہاتھ میں شکار لٹکائے گھر واپس تشریف لائے.حضرت حمزہ کا گھر میں داخل ہونا تھا کہ وہ لونڈی کھڑی ہو گئی اور اُس نے کہا تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو کیا تمہیں معلوم ہے کہ آج صبح ابو جہل نے تمہارے بھیجے سے کیا کیا ؟ حضرت حمزہ نے کہا کیا بات ہے؟ یہ سوال سُن کر وہ لونڈی رو پڑی اور اس نے کہا آج میں دروازہ میں کھڑی تھی کہ میں نے دیکھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پتھر پر چپ کر کے بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل ( ابو جہل کا اصل نام ابوالحکم تھا ) پاس سے گزرا اور بغیر کچھ کہے اُس نے آپ کے منہ پر تھپڑ مارا اور بُرا بھلا کہا.آپ نے صرف اتنا کہا کہ اے لوگو! میں نے تمہارا کیا بگاڑا ہے کہ تم مجھے مارتے ہومیں تو صرف خدا تعالیٰ کا پیغام تمہیں سناتا ہوں.پھر وہ لونڈی غصہ میں آکر کہنے لگی خدا کی قسم ! محمد نے ابو جہل کو کچھ بھی تو نہیں کہا تھا.ایک جاہل عورت کی زبان سے یہ بات سُن کر حضرت حمزہ کو غیرت آگئی اور وہ فوراً واپس لوٹے.شام کا وقت تھا ابو جہل بیت اللہ میں بیٹھا تھا اور اس کے ار در گرد دوسرے سردارانِ مکہ بیٹھے تھے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بدگوئیاں ہو رہی تھیں.حضرت حمزہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے اور سید ھے اُس جگہ پر پہنچے جہاں ابو جہل دوسرے سرداروں کے ساتھ بیٹھا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بدگوئیاں کر رہا تھا ہاتھ میں تیر کمان تھی آپ نے اُس کا ایک سرا پکڑ کر ابو جہل کے منہ پر دے مارا اور کہا تو بڑا بہادر بنا پھرتا ہے میری لونڈی نے مجھے بتایا ہے کہ میرا بھتیجا ( محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) آج صبح جب ایک پتھر پر بیٹھا تھا تو تو نے اُسے تھپڑ مار اور اس نے تمہیں کوئی وراس

Page 114

انوار العلوم جلد ۲۲ ٨٨ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر جواب نہ دیا اب میں تمہیں مارتا ہوں اگر تم بہادر ہو تو میری مارکا جواب دو 1 یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابو جہل گھبرا گیا اُس کے ساتھی جوش سے کھڑے ہوئے اور حضرت حمزہ کے ساتھ لڑنے کو اٹھے مگر ابو جہل پر صداقت کا اثر تھا وہ کہنے لگا جانے دو مجھ سے ہی صبح غلطی ہو گئی تھی.حضرت حمزہ واپس آئے اور اُس مکان کا پتہ لے کر جہاں اُن دنوں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقیم تھے پہنچے اور عرض کیا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں.غرض ابوجہل کی دشمنی کا یہ حال تھا کہ وہ بلا وجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی کیا کرتا تھا اگر یہ ہوتا کہ آپ تو حید کا وعظ کر رہے ہوتے تو ہم کہتے ابو جہل پاس سے گز را اور آپ کا وعظ سُن کر وہ غصہ میں آ گیا لیکن آپ خاموش پتھر پر بیٹھے کسی مسئلہ کے متعلق سوچ رہے تھے.یہ ابو جہل کی مخالفت کی حالت تھی اُس کا بیٹا عکرمہ بھی اُس کے نقشِ قدم پر چلتا تھا اور وہ آپ کی دشمنی میں انتہا کو پہنچا ہوا تھا بیبیوں مسلمانوں کو اس نے مارا اور قتل کیا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے اسلام کو فتح دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت میں مکہ میں داخل ہوئے اور آپ نے چند افراد کو جو تعداد میں سات کے قریب تھے اور جنہوں نے مسلمانوں کو مارا اور انسانیت کے خلاف جرائم کئے تھے قتل کر دینے کا حکم دے دیا.یورپ والوں نے بھی بعض لوگوں کو اسی مجرم کی بناء پر قتل کیا یا پھانسی پر لٹکایا ہے.گزشتہ جنگ کے اختتام پر بھی جب بعض سر کردہ جرمن لیڈروں پر مقدمہ چلایا گیا تو یہ کہا گیا کہ اُنہیں جنگ کے بدلہ میں نہیں بلکہ انسانیت سوز جرائم کے بدلہ میں پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے جو ان سے سرزد ہوئے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فتح مکہ کے بعد ان سات اشخاص کے متعلق یہ احکام جاری کئے کہ انہیں قتل کر دیا جائے ان سات افراد میں عکرمہ بھی تھا.اس کی بیوی دل سے مسلمان ہو چکی تھی وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُس نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! میں دل سے مسلمان ہوں مگر میرا خاوند مکہ چھوڑ کر بھاگ گیا ہے وہ اسلام کا کتنا دُشمن ہی سہی لیکن پھر بھی آپ کا بھائی ہے کیا یہ بہتر ہے کہ وہ کسی اور ملک میں جا کر کسی غیر کے ماتحت رہے

Page 115

انوار العلوم جلد ۲۲ ۸۹ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اور وہاں دھکے کھاتا پھرے یا یہ بہتر ہے کہ آپ اسے معاف کر دیں اور وہ آپ کے زیر سایہ زندگی بسر کرے؟ آپ نے فرمایا اچھا ہم اسے معاف کرتے ہیں وہ واپس آ جائے ہم اسے کچھ نہیں کہیں گے.اس کی بیوی نے پھر عرض کیا یا رَسُول اللہ ! وہ بڑا غیرت مند شخص ہے اگر آپ یہ کہیں گے کہ وہ مسلمان ہو کر یہاں رہے تو وہ یہاں نہیں رہے گا.ہاں اگر آپ اجازت دیں کہ وہ کافر ہوتے ہوئے بھی یہاں رہ سکتا ہے تو وہ واپس آ جائے گا.آپ نے فرمایا بہت اچھا ہم اسے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہیں گے وہ اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے.عکرمہ کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ عہد لے کر عکرمہ کی تلاش میں گئی عکرمہ حبشہ کی طرف بھاگا جارہا تھا وہ کشتی میں سوار ہونے کو تیار تھا کہ اُس کی بیوی وہاں پہنچی اور اُس نے خاوند سے کہا تم کہاں جارہے ہو یہاں اپنا بھائی حاکم ہے کیا یہ بہتر ہے کہ تم اس کے ماتحت رہو یا یہ بہتر ہے کہ تم غیر کی غلامی کرو؟ عکرمہ نے کہا کیا تجھے معلوم نہیں کہ مجھے قتل کر دینے کے احکام جاری ہو چکے ہیں ؟ اُس نے کہا تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں جانتے تمہارے سینہ میں کفر کی آگ بھڑک رہی ہے میں جانتی ہوں کہ جو کچھ اُنہوں نے مجھ سے کہا ہے سچ کہا ہے.انہوں نے کہا ہے کہ اگر عکرمہ مکہ واپس آ جائے تو میں اسے معاف کر دوں گا.عکرمہ نے کہا اچھا انہوں نے اگر معاف بھی کر دیا تو وہ مجھے مسلمان ہونے کے لئے کہیں گے لیکن میں تو مسلمان نہیں ہوں گا.بیوی نے کہا نہیں انہوں نے کہا ہے کہ وہ تمہیں مسلمان ہونے کے لئے بھی نہیں کہیں گے تم اپنے مذہب پر قائم رہ کر مکہ میں رہ سکتے ہو.عکرمہ نے کہا کیا یہ سچ ہے؟ بیوی نے کہا ہاں یہ بالکل سچ ہے، میں نے خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات کر لی ہے.عکرمہ نے کہا اچھا میں چلتا ہوں لیکن میں محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے منہ سے یہ باتیں سنوں گا تب مانوں گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجلس میں بیٹھے تھے کہ عکرمہ کی بیوی اُسے ساتھ لئے حاضر ہوئی.عکرمہ نے کہا محمد ! ( عکرمہ ابھی ایمان نہیں لایا تھا.اور وہ آپ کو اسی نام سے پکارتا تھا ) میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے؟ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے.عکرمہ نے کہا میری بیوی نے ایک اور بات

Page 116

انوار العلوم جلد ۲۲ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر بھی کہی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں مکہ میں اپنے مذہب کو مانتے ہوئے بھی رہ سکتا ہوں مجھے اپنا مذہب تبدیل کرنے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے.عکرمہ نے کہا اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ - رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عکرمہ ! میں نے تجھے مسلمان ہونے کے لئے نہیں کہا.عکرمہ نے کہا اتنا بلند حوصلہ اور ایثار خدا تعالیٰ کے رسول کے سوا کسی میں نہیں ہو سکتا.جب میں نے اپنے کانوں سے یہ بات سُن لی کہ آپ نے مجھ جیسے شدید دشمن کو بھی معاف کر دیا ہے تو میں آپ کی رسالت پر ایمان لاتا ہوں.اب آگے دیکھو.عکرمہ میں کتنی جلدی فرق پڑتا ہے.وہ دنیا دار عکرمہ جو اپنی عزت اور وجاہت کی خاطر آپ سے لڑائیاں لڑا کرتا تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ عکرمہ ہم صرف تمہارے قصوروں کو ہی نظر انداز نہیں کرتے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ تم کچھ مانگ لو.اگر ہماری طاقت میں ہو ا تو ہم تمہاری خواہش کو پورا کر دیں گے تو اُس کے منہ سے یہ بات سجتی تھی کہ مجھے دو سو اونٹ دے دیں ، میرے مکان مجھے واپس دے دیں لیکن وہ کلمہ پڑھتے ہی بدل چکا تھا.اُس نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! میں آپ سے صرف اتنا چاہتا ہوں کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے آپ سے لڑائیاں کر کے جو گناہ سہیڑے ہیں خدا تعالیٰ وہ گناہ مجھے معاف کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کچھ ؟ عکرمہؓ نے عرض کیا.یا رَسُول اللہ ! اس سے بڑی چیز اور کیا ہوسکتی ہے کے پھر اسی عکرمہ نے مسلمان ہونے کے بعد وہ قربانی دکھائی جس کی نظیر نہیں ملتی.جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی فوجیں قیصر کی فوجوں سے لڑنے کے لئے گئیں تو ایک جگہ دشمن کو زور حاصل ہو گیا دشمن نے ایک ٹیلہ پر عرب تیرانداز بٹھا دئیے جو صحابہ کو پہچانتے تھے اور انہیں ہدایت تھی کہ صحابہ کو چن چن کر ان کی آنکھوں پر تیر ماریں.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا اور اکثر صحابہ کی آنکھیں ضائع ہو گئیں.مسلمانوں کو فکر پڑی کہ صحابہ کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں.حضرت عکرمہ حضرت ابو عبیدہ کے پاس گئے (حضرت ابو عبیدہ اسلامی فوج کے کمانڈر تھے ) اور کہا.صحابہ کی یہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی.دشمن کی

Page 117

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۱ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر تعداد بہت زیادہ ہے.جب تک ہم اچانک حملہ کر کے انہیں خوفزدہ نہیں کریں گے یہ پیچھے نہیں ہٹیں گے.آپ مجھے اجازت دیں کہ میں ۳۰ آدمی ساتھ لے کر کفار کے لشکر کے قلب پر حملہ کر دوں تا کہ وہ تر بتر ہو جائے.حضرت ابو عبیدہ نے کہا.یہ بات خلاف عقل ہے کہ ۶۰ ہزار دشمن کے مقابلہ پر میں آدمی جائیں.حضرت عکرمہ نے کہا.آخر ہم مر ہی جائیں گے اور کیا ہو گا.حضرت ابو عبیدہ نے کہا میں اتنی بڑی ذمہ داری نہیں لے سکتا.حضرت ابو عبیدہ نے حضرت خالد بن ولید کو بلایا اور ان سے کہا.عکرمہ یوں کہتا ہے.خالد رضی اللہ عنہ نے کہا.عکرمہ نے ٹھیک کہا ہے.جب تک دشمن پر ہمارا رعب نہیں پڑے گا وہ پیچھے نہیں ہٹے گا.حضرت ابو عبیدہ نے کہا.اس کے یہ معنے ہوں گے کہ میں تھیں مسلمان مروا دوں.خالد رضی اللہ عنہ نے کہا.آخر آدمی مرا ہی کرتے ہیں.تب حضرت ابو عبیدہ نے عکرمہ کی بات مان لی.ہاں اتنا کر دیا کہ تمیں آدمیوں کی بجائے ساٹھ آدمی ان کے ساتھ کر دئے تا کہ دشمن کے ہر ہزار کے مقابلہ میں ایک مسلمان ہو جائے.دوسرے دن ان ساٹھ افراد نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اُٹھائیں اور ساٹھ ہزار دشمن میں کھس گئے.پہلی صف والے ابھی تلواریں ہی اُٹھاتے رہے کہ یہ آگے گزر گئے.جب دوسری صف والے تلواریں اُٹھانے لگے تو یہ تیسری صف میں پہنچ چکے تھے.دشمن فوج کا کمانڈ رجس سے قیصر نے یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر اس نے مسلمانوں کے مقابلہ میں فتح حاصل کی تو وہ اُسے اپنی لڑکی بیاہ دے گا وہ تخت پر بیٹھا ہو ا تھا.یہ وہاں پہنچے.اُس وقت تک لشکر کو بھی ہوش آچکی تھی.یہ مرتے گئے لیکن پیچھے نہ ہٹے.جب یہ عین اُسی جگہ پہنچے جہاں کمانڈر بیٹھا تھا تو وہ گھبرا کر بھاگ اُٹھا لیکن یہ ساٹھ کے ساٹھ یا تو زخمی ہو گئے یا مر گئے 2 اتنے میں جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ان کے ساٹھ جانباز سپاہی لڑ رہے ہیں تو انہوں نے بھی دشمن پر حملہ کر دیا اور دشمن کو جب خبر پہنچی کہ ان کا کمانڈر بھاگ گیا ہے تو وہ بھی بھاگ کھڑے ہوئے.فتح کے بعد جب تلاش کیا گیا تو سوائے چند کے جو شدید زخمی تھے باقی سب مر چکے تھے.گرمی کا موسم تھا شدت پیاس کی وجہ سے زخمیوں کی زبانیں باہر نکل رہی ہیں ، بعض سپاہی پانی کی کھپیاں لے کر وہاں پہنچے.جب وہ حضرت عکرمہ کے پاس گئے تو

Page 118

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۲ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر آپ کو سخت پیاس لگی ہوئی تھی انہیں پانی پینے کے لئے کہا گیا.جب وہ پانی پینے لگے تو ان کی نظر اپنی داہنی طرف پڑی.آپ نے دیکھا کہ حضرت فضل رضی اللہ عنہ (حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے بھائی ) شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہے ہیں.آپ نے اُن کی طرف اشارہ کیا اور کہا.پہلے انہیں پانی دو.جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں نے اپنے پہلو میں ایک اور زخمی دیکھا جو شدت پیاس کی وجہ سے تڑپ رہا تھا.انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا کہ پہلے اسے پانی پلاؤ.دس آدمی زخمی پڑے ہوئے تھے.ان دسوں کے پاس جب آدمی چھا گل لے کر گیا تو انہوں نے دوسرے کی طرف بھیج دیا تا کہ اُسے پہلے پانی پلایا جائے.جب وہ آدمی دسویں کے پاس پانی لے کر گیا تو وہ مر چکا تھا.نویں کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکا تھا.آٹھویں کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکا تھا.اسی طرح وہ ہر ایک کے پاس سے ہوتا ہو ادوبارہ مکرمہ کے پاس گیا تو وہ بھی مر چکے تھے.اب دیکھو.گجا یہ کہ ابو جہل کی دشمنی کی یہ حالت تھی کہ اس نے انتہائی مخالفت کی.اور گجا یہ کہ جب اس کے بیٹے عکرمہ کو پتہ لگ گیا کہ اس کے باپ نے غلطی کی تھی تو وہی عکرمہ جو اپنی ذاتی عزت اور وجاہت کی خاطر اپنے باپ کے نقش قدم پر چلتا ہو ا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائیاں کیا کرتا تھا، اُس نے اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر اس طرح قربان کیا کہ اس کی نظیر کم ملتی ہے.رض خالد بن ولید کو دیکھ لو مسلمان ان کا نام لیتے تھکتے نہیں لیکن وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اشد ترین دشمن تھا.عمرو بن العاص کی بھی مسلمان تعریف کرتے ہیں کہ وہ بہترین جرنیل تھے لیکن وہ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اشد ترین دشمن تھے.ان کو دیکھو اور ان کی اولا دوں کو دیکھو.اُحد کے واقعات کو دیکھو.وہ شخص جس کی وجہ سے فتح مبدل بہ شکست ہو گئی تھی وہ خالد بن ولید ہی تھا.وہ حملہ جس کی وجہ سے مسلمان لشکر میں گہرام مچ گیا تھا ، وہ خالد بن ولید کا ہی کیا ہو ا تھا.اور خالد رضی اللہ عنہ ہی ہے جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں سَیفٌ مِنْ سُيُوفِ الله اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار نے وہی خالد ا سلام کی لڑائیوں میں اتنا د زخمی ہؤا کہ جب وہ

Page 119

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۳ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر مرنے لگا تو اُس نے کہا میرے سر سے لے کر پاؤں تک کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں تلوار کا نشان نہ ہو.یہ وہی خالد تھا جس نے اسلامی لشکر کو پسپا کر دیا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخمی کر دیا تھا.دوسرا جرنیل جس نے خالد کے ساتھ مل کر مسلمان لشکر پر حملہ کیا وہ عمر و بن العاص تھا جس نے بعد میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مصر فتح کیا لیکن جنگِ اُحد کے وقت یہی دونوں تھے جنہوں نے صحابہ کو زخمی کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینک دیا اور آپ کو بھی زخمی کر دیا.حضرت عمرو بن العاص کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمرو آپ سے پہلے مسلمان ہو چکے تھے جو لوگ حدیث سے واقف نہیں وہ عبداللہ بن عمر وا ور عبد اللہ بن عمر میں فرق نہیں کرتے.در حقیقت یہ دونوں الگ الگ شخصیتیں ہیں.حضرت عبداللہ بن عمرو سے بہت سی روایات مروی ہیں.حضرت عمرو بن العاص جب فوت ہونے لگے تو آپ رو ر ہے تھے.حضرت عبداللہ بن عمرو نے کہا.باپ! کیا آپ اب بھی روتے ہیں؟ اگر آپ کفر کی حالت میں مرتے تب تو کوئی بات تھی خدا تعالیٰ نے آپ کو اسلام نصیب کیا ہے اب تو آپ کے لئے بشارت ہی بشارت ہے.حضرت عمرو بن العاص نے کہا.بیٹا تمہیں معلوم نہیں.اسلام کے ساتھ میری دو کیفیتیں رہی ہیں.جب تک میں مسلمان نہیں ہو ا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھے اتنا بغض اور اسلام کے ساتھ مجھے اتنی دشمنی تھی کہ میں نے کبھی آنکھ اُٹھا کر آپ کی شکل تک نہیں دیکھی.اگر میں اُس وقت مرتا اور کوئی شخص مُجھ سے یہ پوچھتا کہ آپ کی شکل کیسی تھی تو میں آپ کی شکل نہ بتا سکتا.پھر جب اسلام لایا تو مجھے آپ سے اتنا عشق پیدا ہوا اور میرے اندر آپ کی اس قدر محبت جاگزیں ہوئی کہ میں آپ کے رُعب کی وجہ سے آپ کی طرف نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتا تھا اور اگر اب مجھ سے کوئی پوچھے کہ آپ کی شکل کیسی تھی تو میں نہیں بتا سکتا.کفر کی حالت میں بغض کی وجہ سے میں نے آپ کی شکل نہ دیکھی اور اسلام کی حالت میں محبت اور عشق کی وجہ سے آپ کی طرف آنکھ اُٹھا کر نہ دیکھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت میں میں اگر فوت ہو جاتا تو کوئی فکر نہ تھا لیکن آپ کی وفات کے بعد کئی غلطیاں مجھ سے سرزد ہوگئی ہیں.میں نہیں

Page 120

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۴ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر جانتا ان غلطیوں کی وجہ سے قیامت کے دن بھی آپ کا دیدار نصیب ہو یا نہ ہو اور یہ کہہ کر وہ پھر رونے لگ گئے.ہماری جماعت کے بعض لوگ مخالفت سے گھبراتے اور غصہ میں آ جاتے ہیں لیکن مخالفت کی وجہ سے گھبرانے اور غصہ میں آ جانے کی کوئی وجہ نہیں.یہ لوگ مخالفت کیوں کرتے ہیں؟ یہ لوگ اس لئے مخالفت کرتے ہیں کہ ان کا خیال ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں اور نعوذ باللہ آپ کو گالیاں دیتے اور اسلام کو بگاڑتے ہیں.گویا وہ مخالفت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اس غلط نہی کے نتیجہ میں کرتے ہیں کہ ہم اسلام کے دشمن ہیں.ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں اور ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرنی چاہئے.آخر ہم ان کی غلط فہمیوں کو کیوں دور نہیں کرتے.اگر ایک شخص ہمارے متعلق یہ کہتا ہے کہ ہم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک کرتے ہیں تو تم نے کیوں لوگوں کو یہ نہیں بتایا کہ ہم حسین رضی اللہ عنہ کی ہتک نہیں کرتے بلکہ ان کی تم سے بھی زیادہ عزت کرتے ہیں.اگر تم نے انہیں یہ بتایا ہوتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ کہا ہے کہ : - خاکم نثار کوچه آل محمد است تو وہ حقیقت سمجھ جاتے اور لوگوں سے کہتے کہ کیا یہ فقرہ کہنے والا شخص حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا دشمن یا ہتک کرنے والا ہو سکتا ہے لیکن تم گھروں میں بیٹھے رہے اور گھر بیٹھے بیٹھے تم نے سمجھ لیا کہ لوگوں نے اس کے معنے سمجھ لئے ہیں.پھر فرض کرو اگر مخالف یہ کہتا ہے کہ مرزا صاحب ( علیہ الصلوۃ والسلام) نے مولویوں کو گالیاں دی ہیں تو تم ان کے سامنے گالیوں کی ایک فہرست رکھ دیتے کہ یہ گالیاں مولویوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دی ہیں یہ سب گالیاں کتابوں میں چھپی ہوئی ہیں تم وہ کتا بیں نکال کر ان کے سامنے رکھ دیتے اور انہیں بتاتے کہ کیا یہ مولویوں کا کام ہے.تو ساری بات ان کی سمجھ میں آ جاتی.مثلاً اگر کوئی کسی کو حرام زادہ کہے اور وہ اُسے کہے بے ایمان ! یہ بات مت کہو اور پہلا شخص جس نے اسے حرامزادہ کہا ہے اس سے لڑنے لگ پڑے تو اگر تیسرا شخص پاس سے گذرتا ہے اور وہ اس سے دریافت کرتا ہے میاں ! تم لڑتے کیوں ہو؟ اور وہ کہتا ہے

Page 121

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۵ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اس نے مجھے بے ایمان کہا ہے تو اگر پہلا شخص اسے یہ بتا دیتا ہے کہ اس نے مجھے حرام زادہ کہا تھا اور قرآن وحدیث نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے تو وہ کہے گا یہ تو قرآن اور حدیث کی بات کہتا ہے.یہ گالی نہیں.گالی وہ ہے جو تم نے دی.پس اگر تم لوگوں کے پاس جاتے ہو اور انہیں بتاتے ہو کہ مخالفوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور ان کے جواب میں آپ نے انہیں یہ کہا ہے کہ قرآن کریم نے ان سے منع فرمایا ہے تو وہ مخالفین کے پاس جاتے اور انہیں کہتے مرزا صاحب کو تم نے یہ یہ گالیاں دی ہیں اب اگر انہوں نے اس کے جواب میں کچھ کہا ہے تو شریعت میں اس کا نام گالی نہیں.اس پر مخالف یا تو یہ کہہ دیتے کہ یہ ہماری کتابیں نہیں اور یا یہ فتویٰ دیتے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے تھے لیکن یہ صاف بات ہے کہ وہ یہ فتویٰ ہر گز نہیں دیں گے کہ ہمارے ماں باپ جھوٹے تھے.اگر ایک اہلِ حدیث تمہارے پاس آتا ہے اور کہتا ہے کہ مرزا صاحب نے مخالفین کو گالیاں دی ہیں تو تم جھٹ انہی کی کتابیں ان کے سامنے رکھ دو اور کہو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اور دوسرے علمائے اہلِ حدیث نے مرزا صاحب کو یہ یہ گالیاں دی ہیں اور مرزا صاحب نے انہیں گالیوں سے منع فرمایا ہے لیکن جب ایک شخص یونہی شور مچادیتا ہے کہ مرزا صاحب نے مخالفین کو گالیاں دی ہیں تو لوگوں کو چونکہ پتہ نہیں ہوتا کہ ان کے باپوں نے مرزا صاحب کو کیا کچھ کہا ہے اس لئے وہ مخالفت کرنے لگ جاتے ہیں.تم ان کے پاس جاؤ.اور ان کے سامنے ان کی کتابیں رکھ دو اور بتاؤ کہ تمہارے علماء نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ او السلام کو یہ یہ گالیاں دی ہیں.کیا یہ ا اسلام کی تعلیم کے مطابق ہیں؟ بعض غیر اسلامی گالیاں ہیں اور بعض غیر اسلامی نہیں.مثلاً احمق ہے کسی کو احمق کہنا شرافت کے تو خلاف ہے لیکن اسلام کے خلاف نہیں.لیکن اگر کوئی حرامزادہ کہہ دیتا ہے تو یہ اسلام کے خلاف ہے.اسلام نے ایسا کہنے سے منع فرمایا ہے.پھر اس قسم کی احادیث موجود ہیں کہ اگر کوئی کسی کے متعلق کوئی بُرا کلمہ کہتا ہے تو وہ اس کی طرف لوٹ آتا ہے.اب یا تو یہ باتیں احادیث سے نکال دو.اور اگر انہیں احادیث سے نہیں نکالتے تو پھر غصہ میں کیوں آتے ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے

Page 122

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۶ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر ایک جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے وہ خود کا فر ہو جاتا ہے.!! اگر کوئی کسی کو کافر کہتا ہے اور وہ اسے کا فر کہ دیتا ہے تو یہ کوئی گالی نہیں.اسلام خود کہتا ہے اگر کوئی دوسرے مسلمان کو کافر کہتا ہے تو وہ خود کا فر ہے.اب یا تو یہ حدیث کاٹ دو اور یا ہماری بات مانو.ہم کوئی نیا فتویٰ نہیں دیتے آج سے چودہ سو سال قبل سے یہ باتیں کتابوں میں لکھی ہوئی ہیں.ہم تو آج پیدا ہوئے.ہم امام مسلم کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے.ہم امام بخاری کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے.ہم ابوداؤد اور ترمذی کے ساتھ تو نہیں بیٹھے تھے ہم نسائی اور ابن ماجہ کے پاس تو نہیں بیٹھے تھے لیکن ان بزرگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں یہ باتیں لکھی ہیں اور وہ اب تک موجود ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہودی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اسے جھوٹا کس طرح کہہ سکتے ہو؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کتاب میں جو پیش گوئیاں اس کے متعلق پائی جاتی ہیں اور وہ اس کے حق میں پوری ہو گئی ہیں کیا وہ پیشگوئیاں اس نے موسیٰ علیہ السلام کو لکھوا دی تھیں؟ ۱۳ اگر آج سے کئی سو سال قبل کی لکھی ہوئی باتیں اس شخص کے حق میں پوری ہو جاتی ہیں تو یہ شخص یقینا سچا ہے.اگر یہ جھوٹا ہوتا تو خدا تعالیٰ اتنے سو سال قبل کہی ہوئی باتیں اس کی ذات میں کیوں پوری کرتا.غرض جو بات مسلمان عیسائیوں اور یہودیوں کے اعتراضات کے جواب میں کہتے ہیں وہی بات ہم کہتے ہیں.مسلم اور بخاری میں یہ باتیں لکھی ہیں.ہم تو اُس وقت موجود نہیں تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں لکھوا دیں.اگر تم کہو کہ میں مسلم اور بخاری کے وقت میں موجود تھا تو تمہیں یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میں فرشتہ ہوں اور اگر میں فرشتہ ہوں تو تم فرشتے کی کیوں مخالفت کرتے ہو اور اگر میں انسان ہوں تو صاف بات ہے کہ یہ باتیں میں نے مسلم اور بخاری کو نہیں لکھوائیں.پھر اگر انہوں نے یہ سب باتیں خدا تعالیٰ کے رسول کی طرف منسوب کر کے لکھی ہیں تو اگر میں خدا اور اُس کے رسول کا دشمن تھا تو یہ باتیں میرے ساتھ کیسے پوری ہو گئیں.آخر اس کی بھی تو کوئی دلیل ہونی چاہئے.مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آنے والا مسیح شادی کرے گا اور اس کے نتیجہ میں اس کی اولا د بھی ہو گی.۱۴

Page 123

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۷ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اب سیدھی بات ہے کہ خالی شادی کوئی اہم بات نہیں.لوگ شادیاں کرتے ہی ہیں.مان لیا کہ حضرت مرزا صاحب جھوٹے ہیں لیکن یہ تو بتائیے کہ اگر آپ جھوٹے تھے تو خدا تعالیٰ یہ بات پوری نہ ہونے دیتا.اول تو آپ شادی ہی نہ کرتے یا اگر شادی کرتے تو آپ کی بیوی مرجاتی یا وہ اچھے خاندان میں سے نہ ہوتی یا اس کے ہاں اولاد نہ ہوتی یا اولاد پیدا ہوتی تو وہ مرجاتی لیکن وجہ کیا ہے کہ ایک شخص خدا تعالیٰ پر افتراء بھی کرتا ہے لیکن خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب باتیں اُس کی ذات میں پوری کر دیتا ہے.یا مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آنے والے مسیح اور مہدی کے زمانہ میں سورج اور چاند کو گرہن لگے گا ھے اور فرمایا یہ ایک ایسی آیت ھے ہے کہ یہ کسی اور مدعی نبوت پر پوری نہیں ہوئی.یہ بات شیعوں اور سنیوں سب کی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے اور یہ ۱۸۹۴ء میں پوری ہوئی.گجرات کا واقعہ ہے کہ ایک مولوی کہتا رہتا تھا مرزا سچا کیسے ہوسکتا ہے.حدیث میں لکھا ہے کہ جب صحیح آئے گا سورج اور چاند کو گرہن لگے گا اور ایسا گرہن اس سے قبل کسی مدعی نبوت کے زمانہ میں نہیں لگا ہوگا.جب یہ گرہن لگا تو اس مولوی کے ہمسایہ میں ایک احمدی رہتا تھا اُس نے بتایا کہ وہ مولوی کو ٹھے پر کھڑا ہوا سورج گرہن دیکھتا جاتا اور کہتا جا تا اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے اب لوگ گمراہ ہو جائیں گے.یہ نہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کا ایک نشان ہے جس کے نتیجہ میں لوگ ہدایت پا جائیں گے بلکہ وہ کہتا تھا کہ اس کے نتیجہ میں لوگ گمراہ ہو جائیں گے.اب سوال یہ ہے کہ جو جھوٹا ہوتا ہے اُس پر بچوں والی علامتیں کیسے پوری ہوسکتی ہیں.مثلاً حکومت ہے وہ افسر مقرر کرتی ہے اور اس کی علامتیں مقرر کرتی ہے.وہ گزٹ شائع کرتی ہے کہ فلاں افسر فلاں جگہ مقرر کیا گیا ہے.مثلاً ایک ڈپٹی کمشنر ہے.حکومت کہتی ہے فلاں شخص کو فلاں ضلع میں ڈپٹی کمشنر مقرر کیا جاتا ہے سب محکمے اس کے ماتحت ہوں گے تحصیلدار، ضلعدار، گرد اور اور پٹواری سب اس کے تابع ہوں گے.اس کے بعد ایک شخص آتا ہے.گزٹ میں اُس کا نام چھپ جاتا ہے.سب محکمے اُس کی اطاعت کرتے ہیں لیکن لوگ کہتے ہیں یہ جھوٹا ہے.بھلا گورنمنٹ ایسا کرنے دیتی

Page 124

انوار العلوم جلد ۲۲ ۹۸ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر ہے ؟ اگر کوئی شخص جعلی طور پر اپنے آپ کو افسر ظاہر کرے گا تو وہ فوراً اُسے گرفتار کر لے گی.اور اگر کوئی حکومت ایسا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تو کیا خدا تعالیٰ اتنا ہی کمزور ہے کہ ایک شخص اُس پر الزام لگاتا ہے اور افتراء کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ اُسے وحی کرتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سب پیشگوئیاں اُس کی ذات میں پوری کر دیتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اُس زمانہ میں عیسائیوں کا زور ہو گا اور عیسائیوں کا زور ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.اُس زمانہ میں یا جوج اور ماجوج چاروں طرف سے پہاڑوں کی چوٹیوں اور سمندروں کی لہروں پر سے گزر کر دنیا پر قابض ہو جائیں گے اور وہ قابض ہو جاتے ہیں لیکن لوگ کہہ دیتے ہیں یہ شخص جھوٹا ہے.یہ بالکل وہی بات ہے کہ کسی بُز دل کو فوج میں بھرتی کر لیا گیا.لڑائی میں اسے ایک تیر آلگا اور اس کے جسم سے خون بہنے لگا.وہ بُز دل تو تھا ہی.تیر لگنے کے بعد وہ میدان میں کیسے ٹھہر سکتا تھا.وہ بے ساختہ پیچھے کو بھاگا.وہ دوڑتا چلا جاتا تھا اور کہتا چلا جاتا تھا یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.تیر تو جسم میں لگ چکا تھا اور خون بہہ رہا تھا.اب اس کے کہنے سے کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو ، خواب کیسے بن سکتا تھا.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ ایک شخص پر سب علامات پوری ہو ہو، چکی ہوں لیکن لوگ کہیں یا اللہ ! یہ جھوٹا ہی ہو.یا اللہ! یہ جھوٹا ہی ہو.یہ باتیں بھلا ہو سکتی ہیں ؟ مومن تو خوش ہوتا ہے کہ یہ باتیں پوری ہو جائیں.پس جاؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ بخاری اور مسلم یہ یہ کہتے ہیں اور یہ سب کچھ پورا ہو گیا ہے.اب کیا ہم اُس وقت موجود تھے کہ ہم نے خود یہ باتیں انہیں لکھوا دیں؟ اور اگر ہم اُس وقت موجود نہ تھے تو پھر آپ لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے میں انکار کیا ہے؟ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُونَ " یا جوج اور ماجوج پہاڑی رستہ سے بھی آئیں گے اور نشیب کے رستہ سے بھی.وہ سمندر کے رستہ سے بھی آئیں گے اور خشکی کے رستہ سے بھی.اور ساری دنیا پر چھا جائیں گے.بائیبل میں لکھا ہے: دیکھو اے جو ج ، روش اور مسکہ اور توبل کے فرماں روا ! میں وو تیرا مخالف ہوں اور میں تجھے پھر ا دوں گا اور تجھے لئے پھروں گا.اور

Page 125

انوار العلوم جلد ۲۲ ٩٩ شمال کی دُور اطراف سے چڑھا لاؤں گا.‘کلے بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر یہ سب باتیں پہلے سے لکھی ہیں.اگر ان میں سے ایک بات پوری ہو گئی تو یقیناً دوسری بات بھی ٹھیک ہے.اگر روس کا ذکر آ گیا تو یقیناً دوسرا فریق برطانیہ اور امریکہ ہے.یہ حز قیل علیہ السلام کی پیشگوئی ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ یا جوج اور ماجوج تمام دنیا پر چھا جائیں گے اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ سب باتیں پوری ہوگئی ہیں.آج سے سو سال قبل کیا کسی کے وہم میں بھی آسکتا تھا کہ روس اس طرح ترقی کر جائے گا.میں اس صدی والوں کو کہتا ہوں کہ ۱۹۰۴ء میں جاپان نے روس کو کس طرح گرایا تھا.اُس وقت کیا کوئی خیال بھی کر سکتا تھا کہ ایک دن روس اتنا زور پکڑ جائے گا کہ دوسری حکومتیں اس سے لرز نے لگ جائیں گی.لیکن نوشتوں میں لکھا تھا کہ تو دنیا میں پھیلے گا اور میں تجھے تباہ کروں گا اور ادھر یا جوج کے متعلق لکھا ہے کہ وہ سمندروں کی لہروں اور پہاڑوں کی چوٹیوں سے گزر کر دنیا میں چھا جائے گا.یہ کتنی صاف پیشگوئی ہے.کیا تم اسے قرآن کریم سے نکال دو گے؟ یا تو تم کہو یہ غلط ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے تو غلط کیسے ہو سکتی ہے.یہ تو وہی بُزدل والی بات ہے کہ یا اللہ ! یہ خواب ہی ہو.یا اللہ ! یہ اخواب ہی ہو.ایک قوم جس کا نام بائبل میں آتا ہے وہ دنیا میں پھیل گئی.پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں خبر دی اور وہ پوری ہو گئی.اب کیا تم یہ کہو گے کہ قرآن کریم اور بائیبل جھوٹے ہیں اس لئے کہ مرزا صاحب جھوٹے ثابت ہو جائیں.اسلامی طریق تو یہ تھا کہ تم کہتے.مرزا صاحب سچے ہی سہی کیونکہ اس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سچے ثابت ہوتے ہیں.ایک راجہ نے ایک دن دربار میں ذکر کیا کہ میں نے بینگن کھائے ہیں مجھے بہت مزہ آیا.بینگن بڑی لذیذ سبزی ہے.ایک درباری کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا.ہاں ہاں.حضور! بینگن بڑی لذیذ چیز ہے.وہ طب بھی پڑھا ہوا تھا.اُس نے کہا اس میں یہ یہ خوبیاں ہیں.پھر کہا حضور ! اس کی شکل دیکھیں.تو بالکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی صوفی سبز جبہ پہنے نماز کے لئے کھڑا ہو.چند دنوں کے بعد راجہ نے دربا میں کہا میں نے بینگن

Page 126

انوار العلوم جلد ۲۲ 1.0 بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر کھائے تو مجھے بواسیر ہوگئی.میں سمجھتا تھا کہ یہ بہت اچھی چیز ہے لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ یہ بڑی ناقص چیز ہے.اب ہر چیز میں بُرائیاں بھی ہوتی ہیں اور خوبیاں بھی.سنکھیا کو دیکھ لو سنکھیا مارتا بھی ہے اور زندہ بھی کرتا ہے.اسی طرح دوسری چیزوں کا حال ہے.لیکن جب راجہ نے کہا کہ میں نے بینگن کھائے تو مجھے تکلیف ہو گئی یہ بہت ناقص سبزی ہے تو وہی درباری اُٹھا اور اُس نے کہا.ہاں ہاں حضور ! یہ بڑی ناقص چیز ہے اس میں یہ یہ بُرائیاں ہیں اور پھر یہ بیل پر لٹکا ہو ابا لکل یوں معلوم ہوتا ہے جیسے کسی چور کا منہ کا لا کر کے اُسے سولی پر لٹکا دیا جائے.لوگوں نے پوچھا یہ کیا بات ہے؟ اگلے دن تو تو نے بینگن کی اتنی تعریف کی تھی کہ حد نہ رہی اور آج اتنی مذمت کی کہ گویا اس جیسی خراب چیز دنیا میں کوئی نہیں.اُس نے کہا میں راجہ کا نوکر ہوں بینگن کا نہیں.اسی طرح میں کہتا ہوں.اے بھائیو! تمہیں اس سے کیا کہ حضرت عیسی علیہ السلام آئیں گے یا نہیں ؟ تم تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر آج تم یہ اعتراض کرتے ہو کہ آپ حدیث اور سنت کے خلاف جاتے ہیں حالانکہ آپ حدیث وسنت سے اپنے دعوی کے ثبوت میں دلائل دیتے تھے.پھر آپ حنفیوں میں پیدا ہوئے اس طرح آپ ان کے عقیدوں سے واقف تھے.اُن دنوں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بڑے سمجھے جاتے تھے.وہ اعتراض کرتے وقت کہتے تھے کہ قرآن کریم میں یہ لکھا ہے ، حدیث میں یہ لکھا ہے ، سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن و حدیث سے ہی ان اعتراضات کے جوابات دیتے تھے.حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاوّل ایک دفعہ اتفاق سے قادیان آئے اور کسی کام کے لئے لاہور ٹھہر گئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی لا ہور آئے ہوئے تھے.اُنہوں نے خیال کیا کہ مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقرب ہیں ان سے مباحثہ ہو جائے.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب نے اشتہار بازی شروع کر دی.حضرت مولوی صاحب کی دو ماہ کی رُخصت تھی اور وہ لاہور میں ہی ختم ہوگئی.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کہتے تھے کہ احادیث سے حیات و وفات مسیح پر بحث ہونی

Page 127

انوار العلوم جلد ۲۲ 1+1 بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر چاہئے اور حضرت خلیفہ اوّل فرماتے تھے کہ قرآن سے بحث ہو.آخر حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل نے تنگ آکر اتنی بات مان لی کہ اس بحث میں بخاری کو بھی پیش کیا جا سکتا ہے.ایک دوست نظام الدین تھے انہیں حج کرنے کا بڑا شوق تھا.انہوں نے دس حج کئے تھے.وہ بمبئی تک پیدل جاتے اور آگے جہاز کے ذریعہ سفر کرتے.انہوں نے براہین احمدیہ پڑھی ہوئی تھی اور انہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی دونوں سے عقیدت تھی.جب لوگ یہ شور مچاتے کہ مرزا صاحب کہتے ہیں قرآن کریم کی رو سے حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں تو یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ مرزا صاحب قرآن وحدیث کے بلند پایہ عالم ہو کر اتنی بڑی غلطی کے کس طرح مرتکب ہوئے ہیں.ایک دفعہ وہ حج کے لئے گئے تھے.جب واپس کو ٹے تو کسی شخص نے اُن سے اِس بات کا ذکر کر دیا کہ مرزا صاحب نے یہ کہا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور یہ امر قرآن کریم سے ثابت ہے.انہوں نے کہا مرزا صاحب میرے دوست ہیں میں جانتا ہوں کہ وہ بہت بڑے عالم ہیں اور قرآن وحدیث کے مسائل سے واقف ہیں، وہ ایسا نہیں کہہ سکتے.وہ کہنے لگے یا تو مرزا صاحب نے یہ کہا نہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے اور اگر کہا ہے تو میں اُن کے پاس جاؤں گا اور اُنہیں کہوں گا کہ وہ ایسا دعویٰ نہ کریں اور وہ مان لیں گے.چنانچہ وہ قادیان آئے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے.میں حج پر گیا ہوا تھا جب واپس آیا تو میں نے یہ عجیب بات سنی کہ آپ نے فرمایا ہے حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہاں میں نے یہ بات کہی ہے.انہوں نے کہا میں تو لوگوں سے کہہ آیا ہوں کہ میں مرزا صاحب سے کہوں گا کہ آپ یہ دعوی نہ کریں اور اگر وہ نہ مانے تو میں کہوں گا کہ اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہو سکے تو آپ لاہور یا دہلی کی کسی مسجد میں تو بہ کا اعلان کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہاں اگر یہ امر قرآن کریم سے ثابت نہ ہوا تو میں ایسا کرنے کے لئے تیار ہوں.اُنہوں نے کہا اچھا میری تسلی ہو گئی ہے.میں نے مولویوں

Page 128

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۰۲ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر سے کہا ہے کہ وہ قرآن کی تین سو آیات سے حضرت عیسی علیہ السلام کی حیات ثابت کر کے دکھا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تین سو آیات کی کیا ضرورت ہے اس کے لئے تو ایک آیت بھی کافی ہے.میاں نظام الدین صاحب کو محبہ پڑا کہ شاید قرآن کریم میں حیات مسیح کے متعلق تین سو آیات نہ ہوں.اس لئے انہوں نے کہا اچھا دوسو آیات سے ہی وہ حیات مسیح ثابت کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر فرمایا کہ اس کے لئے ایک آیت بھی کافی ہے دوسو کی ضرورت نہیں.انہیں پھر مجبہ پڑا که شاید قرآن کریم میں حیات مسیح کو ثابت کرنے کے لئے دوسو آیات بھی نہ ہوں اس لئے انہوں نے کہا.اچھا وہ ایک سو آیات سے حیات مسیح ثابت کریں.آپ نے فرمایا نہیں اس کے لئے ایک آیت ہی کافی ہے.پھر وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرح نیچے اتر تے گئے.جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے لوط علیہ السلام کی بستی کے متعلق فرمایا تھا کہ خدایا! اگر اس میں اتنے لوگ مجھ پر یقین رکھنے والے ہوں تو کیا پھر بھی تو اسے تباہ کر دے گا.تو خدا تعالیٰ نے کہا اگر اتنے لوگ ہوں تو میں انہیں ضرور معاف کر دوں گا.اس سے آپ کو شبہ ہوا کہ شاید اس بستی میں اتنے مومن نہ ہوں.اس لئے آپ آہستہ آہستہ نیچے اُترتے گئے یہاں تک کہ آپ دس تک آ گئے اور خدا تعالیٰ نے کہا ابراہیم! اگر اس میں دس مومن بھی ہوں تب بھی میں اس بستی کو تباہ نہیں کروں گا.جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہو ا کہ اس بستی میں دس مومن بھی نہیں تو آپ نے دُعا کرنی چھوڑ دی اسی طرح میاں نظام الدین صاحب بھی دس آیات پر آگئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.نہیں دس آیات کا کیا سوال ہے وہ ایک سے ہی حیات مسیح ثابت کر دیں تو وہ کہنے لگے آخر قرآن کریم میں حیات مسیح کو ثابت کرنے والی اتنی کم آیات تو نہیں ہوں گی.بہر حال وہ خوشی خوشی لاہور پہنچے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی چینیاں والی مسجد میں بیٹھے تھے اور وہ دن وہ تھا جب حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل نے اُن کی یہ بات مان لی تھی کہ قرآن کریم کے علاوہ آر بخاری بھی پیش کر سکتے ہیں اور مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی بہت خوش تھے کہ وہ بالآخر

Page 129

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۰۳ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کو احادیث کی طرف لے ہی آئے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو خودنمائی کا بڑا شوق تھا وہ اپنے شاگردوں کو بتا رہے تھے کہ مولوی نور الدین مرزا صاحب کا شاگرد ہے اور بہت بڑا طبیب ہے.میں نے اُسے یوں رگیدا اور یوں لتاڑا اور آخر وہ احادیث کی طرف آہی گیا.اتنے میں میاں نظام الدین صاحب جا پہنچے اور اُنہوں نے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا.آپ یونہی کام خراب کر دیتے ہیں.مرزا صاحب تو سیدھے سادھے آدمی ہیں اور وہ قرآن کریم کو مانتے ہیں.میں انہیں ابھی منوا آیا ہوں کہ اگر قرآن کریم میں سے ہم دس آیات بھی حیات مسیح کی نکال دیں تو وہ دہلی یا لاہور کی کسی مسجد میں وفات مسیح کے عقیدہ سے تو بہ کر لیں گے اور یہ دس آیات بھی میں نے ہی کہی ہیں ورنہ وہ تو کہتے تھے کہ تم حیات مسیح کی ایک ہی آیت قرآن کریم سے نکال دو.آپ مولوی نور الدین صاحب سے جھگڑا کرنا چھوڑ دیں اور دس آیات حیات مسیح کی مجھے بتا دیں.میں ابھی مرزا صاحب سے تو بہ کروا لیتا ہوں.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی غصہ میں آکر کہنے لگے تمہیں کس نے کہا تھا کہ اس معاملہ میں دخل دیتے.میں مولوی نور الدین کو گھسیٹ کر حدیث کی طرف لایا ہوں اور تم پھر بحث کے لئے قرآن کریم کو بیچ میں لے آئے ہو.میاں نظام الدین صاحب اس صدمہ میں چند منٹ تک بالکل خاموش بیٹھے رہے پھر کہنے لگے.اچھا مولوی صاحب ! اگر یہ بات ہے تو پھر جدھر قرآن ہے اُدھر میں.اور اس کے بعد قادیان جا کر اُنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لی.پس حقیقت یہی ہے کہ جو مسلمان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت رکھتا ہے اُس کے دل میں یہی ہے کہ جدھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اُدھر ہی میں ہوں.تم جاؤ اور انہیں بتاؤ کہ لوگ تمہیں دھوکا دیتے ہیں اور تم دھوکا میں آکر ہماری مخالفت کرتے ہو.تم ان کے سامنے قرآن کریم رکھو اور کہو ہم پر کیا الزام رکھتے ہو.قرآن کریم میں سب کچھ لکھا ہے اسے پڑھو اور پھر اس پر عمل کرو.ان کے سامنے احادیث رکھو اور کہو کہ جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سب احادیث میں پہلے سے موجود ہے ہم نے اپنے پاس سے یہ عقیدہ نہیں

Page 130

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۰۴ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر آیا گھڑ لیا بلکہ آج سے کئی سو سال پہلے یہ بات احادیث میں لکھی ہوئی موجود تھی.اس طرح ایک شخص جس کے اندر کفر اور ارتداد پیدا نہیں ہوا وہ جب دیکھے گا کہ خدا تعالیٰ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اِسی طریق کے اختیار کرنے پر خوش ہیں تو اُس کا جوش ٹھنڈا ہو جائے گا جس طرح میاں نظام الدین صاحب نے کہا تھا کہ جدھر قرآن اُدھر میں.اسی طرح یہ لوگ بھی کہیں گے کہ جدھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر ہم.اور تم دیکھو گے کہ جو لوگ آج قسمیں کھاتے ہیں کہ وہ تمہاری چائے نہیں پئیں گے ، تمہیں ماریں گے اور تمہارا بائیکاٹ کریں گے، وہ تمہارے ساتھ چمٹ جائیں گے اور کہیں گے جدھر قرآن اُدھر ہم.انہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم سے دشمنی نہیں.انہیں یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے دشمن ہو.تم ان پر یہ ثابت کر دو کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے دشمن نہیں ، دوست ہیں.پھر ان کے دل صاف ہو جائیں.ابھی مسلمانوں کے اندر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی چنگاری موجود ہے تم اسے ٹھنڈا کرنے کی بجائے گرم ہوا دو، یہ مخالفت خود بخو رہٹ جائے گی.میں یہاں آیا تو بیماری کی حالت میں ہوں اور جب کہ آپ دوستوں کو محسوس ہو رہا ہوگا کہ میرا گلہ بیٹھ رہا ہے اور میں بولنا نہیں چاہتا تھا لیکن جبکہ میں نے بتایا ہے میں مدتوں کے انتظار کے بعد اس بستی میں آیا ہوں.اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی تعلق ہے.اس بستی کے ایک معزز گھرانے کی لڑکی میری بیوی تھی اور اس بیوی سے میری اولا د بھی ہے.پھر اس بستی کے ایک معزز شخص سے میں نے قرآن کریم پڑھا.بخاری پڑھی اور دینی علوم سیکھے.پس اس بستی سے مجھے روحانی اور جسمانی نسبت ہے.میرا دل چاہتا ہے کہ جس بات کو میں سچا سمجھتا ہوں اُس کو یہاں رہنے والے لوگ بھی سچا سمجھنے لگ جائیں اور جس طرح ان کا حق ہے کہ وہ مجھے کہیں تم غلطی پر ہو ، ہم سچ کہتے ہیں اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں انہیں کہوں میں حق پر ہوں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ یہ نا پسندیدہ امر ہے کہ کوئی شخص دوسرے کو کہے کہ مجھے تو تمہیں غلطی میں مبتلا سمجھنے کا حق ہے لیکن تمہیں ایسا کرنے کا حق حاصل نہیں.کوئی مذہب ایسا نہیں جس کا تم نام لو اور میں نے اُس کی کتابیں

Page 131

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۰۵ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر نہ پڑھی ہوں.ایک شخص جو پاگل ہے وہ مولوی محمد علی صاحب کی جماعت سے تعلق رکھتا ہے وہ کبھی کبھی مجھے بھی خط لکھ دیتا ہے اور اُس کی نقل مولوی محمد علی صاحب کو بھیج دیتا ہے اور کبھی مولوی محمد علی صاحب کو خط لکھتا ہے اور اس کی نقل مجھے بھیج دیتا ہے.ایک دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا کیا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں.اُس نے کہا اچھا آپ میرے خطوط پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ مجھے خدا تعالیٰ نے یوں کہا ہے تو میں اس کے خط کیوں نہ پڑھوں.وہ حق پر ہو یا نہ ہونیکن میرا فرض ہے کہ وہ چیز جسے وہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے ، ضرور پڑھوں.وہ مولوی محمد علی صاحب کے پاس گیا اور اُنہیں کہنے لگا آپ بڑے تنگ دل واقع ہوئے ہیں.میں آپ کا مرید تھا لیکن آپ میرے خطوط نہیں پڑھتے اور جس کا میں مرید نہیں تھا وہ کہتا ہے کہ میں تمہارے خطوط پڑھتا ہوں.غرض میں نے دنیا کے ہر مذہب کا لٹریچر پڑھا ہے.میں نے سُنیوں کا لٹریچر پڑھا ہے ، میں نے شیعوں کا لٹریچر پڑھا ہے، میں نے خارجیوں کا لٹریچر پڑھا ہے، ہندوؤں ، زرتشتیوں اور عیسائیوں کا لٹریچر میں نے پڑھا ہے.مجھے جب خدا تعالیٰ کہے گا بتاؤ تمہیں کس طرح پتہ لگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے ہیں تو میں کہوں گا میں نے ہر مذہب کی کتب کا مطالعہ کیا ہے اور ان سے مجھے یہی معلوم ہوا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ کہا ہے وہ ٹھیک ہے لیکن جس نے دوسرے مذاہب کا لٹریچر نہیں پڑھا وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دے گا.خدا تعالیٰ کہے گا مان لیاستی مذہب سچا ہے لیکن جب تم نے بانی سلسلہ احمدیہ کا لٹریچر شائع کردہ نہیں پڑھا تو تمہیں یہ کس طرح پتہ لگا کہ وہ اپنے دعوئی میں بچے نہیں.ظاہر ہے کہ وہ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب وعظ فرماتے تو ابو جہل اور اس کے ساتھی شور مچاتے جاتے تھے اور آپ کی بات نہیں سنتے تھے.اب خواہ وہ اپنے خیال میں سچے بھی ہوں ، پھر بھی وہ خدا تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ جب انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو سُنا ہی نہیں اور اُس پر غور نہیں کیا.پس میں جھوٹا سہی ، احمدیت جھوٹی سہی لیکن خدا تعالیٰ کے

Page 132

انوار العلوم جلد ۲۲ ١٠٦ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر سامنے تم کیا جواب دو گے؟ اگر تم نے احمدیت کا لٹریچر پڑھا تھا اور پھر تم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ماننے میں غلطی ہو جاتی تو تم کہہ سکتے تھے خدایا! ہم نے اُن کے عقائد کو بغور پڑھا تو تھا لیکن ہم نے یہی نتیجہ اخذ کیا کہ یہ جھوٹے ہیں.خدا تعالیٰ کہے گا اچھا تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے اور یہ بات قابل معافی ہے لیکن ایک شخص اگر یہ کہے کہ میرے پاس ایک شخص آیا تھا اور اُس نے کہا تھا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں لیکن میں نے اُسے پرے دھکیل دیا اور کہا تم جھوٹ بولتے ہو تو خدا تعالیٰ کہے گا تم نے میری ہتک کی.ایک شخص نے تمہارے سامنے یہ کہا کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں اور خدا تعالیٰ نے مجھے یوں کہا ہے لیکن تم نے اس کی بات کو نہ سُنا اور اُسے رڈ کر دیا.ایک شخص اگر ایسی بات کہتا ہے اور تم سمجھتے ہو کہ یہ محض افتراء ہے تو تم اسے سمجھا دو کہ میاں ! یہ بات درست نہیں لیکن اس کی بات تو سُن لو.کیونکہ اگر تم اس کی بات سنتے ہی نہیں تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا جواب دو گے کہ اسے ہم نے کیوں رڈ کر دیا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وعظ فرمایا کرتے تھے تو مکہ والوں نے لوگوں کو یہ سکھا دیا تھا کہ جب یہ وعظ کرے تو تم وہاں سے چلے جاؤ یا کانوں میں انگلیاں ڈال لو اور اس کی بات نہ سنو.۱۳ سال تک آپ نے تبلیغ کی اور مصائب اور تکالیف کا مقابلہ کیا.ایک دفعہ حج کے موقع پر جب لوگ کثرت سے مکہ میں جمع ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے انہیں تبلیغ کرنے لگ جاتے.بعض لوگ آپ کی بات سُنتے اور حیرت کا اظہار کر کے علیحدہ ہو جاتے اور بعض لوگ باتیں سُن رہے ہوتے تو مکہ والے اُن کو ہٹا دیتے اور بعض لوگ جو مکہ والوں سے آپ کی باتیں سُن چکے ہوتے وہ جنسی اُڑا کر آپ سے جدا ہو جاتے.اسی دوران میں آپ کی نظر مدینہ کے سات افراد پر پڑی.مکہ والے ارد گرد بھاگتے پھرتے تھے اور جس طرح ہمارے مخالف کہتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بدتر ہے وہ بھی لوگوں کو آپ کے خلاف بہکاتے تھے اور آپ کی باتیں سننے سے منع کرتے تھے.سب لوگوں نے آپ کو رڈ کر دیا لیکن جب آپ مدینہ والوں کے پاس گئے تو انہوں نے آپ کی باتیں سننے پر آمادگی کا اظہار کیا.اُنہوں

Page 133

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۰۷ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا اس سال ہم تھوڑی تعداد میں آئے ہیں اگلے سال ہم زیادہ تعداد میں آئیں گے اور آپ کی باتیں سنیں گے.چنانچہ اگلے سال باره آدمی آئے.آپ کی باتیں اُن کے دلوں میں گھر کر گئیں اور وہ آپ کی بیعت کر کے واپس چلے گئے اور اگلے سال اس سے بھی زیادہ تعداد میں آنے کا وعدہ کیا.چنانچہ اگلے سال ایک بڑا قافلہ آیا جس میں عورتیں اور بچے بھی تھے لیکن مخالفت کا اتنا جوش تھا کہ مشرکین مکہ چونکہ لوگوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں نہیں سننے دیتے تھے اس لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی عقبہ میں مدینہ سے آنے والوں سے رات کے بارہ بجے ملاقات فرمائی.مدینہ والوں نے جب آپ کی باتیں سنیں تو انہوں نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! آپ نے جو کچھ بیان کیا وہ سب ٹھیک ہے ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں.چنانچہ آپ نے اُن کی بیعت لے لی.حضرت عباس کو بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ لے گئے تھے.حضرت عباس آپ سے دو سال بڑے تھے اور دل سے آپ پر ایمان لاچکے تھے.جب وہ لوگ بیعت کر چکے تو اُنہوں نے عرض کیا یا رَسُول اللہ ! اس بہتی نے آپ کو قبول نہیں کیا آپ ہماری بستی میں آجائیں.حضرت عباس نے کہا یہ آسان بات نہیں.مکہ والوں کو پتہ لگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لے گئے ہیں تو وہ مدینہ پر حملہ کر دیں گے.تم پہلے سوچ سمجھ لو ایسا نہ ہو کہ پھر مقابلہ سے گریز کرو.اُنہوں نے کہا ہم نے خوب سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ کیا ہے.ہم بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے جانا چاہتے ہیں.حضرت عباس نے کہا اچھا معاہدہ کر لو.چنانچہ ایک معاہدہ ہوا کہ اگر مدینہ میں آپ پر یا مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم مدافعت کے ذمہ دار نہیں ہوں گے کیونکہ سارے عرب سے لڑائی مول لینا ہمارے بس کی بات نہیں.اتنے میں کسی نے کفار مکہ کو یہ خبر دے دی کہ مدینہ سے ایک قافلہ آیا ہے اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کر رہا ہے ، ان کا جلدی کوئی انتظام کرنا چاہئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ بات پہنچ گئی اور آپ نے خیال کیا ایسا نہ ہو کہ وہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچائیں

Page 134

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۰۸ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اس لئے آپ نے فرمایا اب گفتگو ختم کر دینا چاہئے اور یہاں سے چلے جانا چاہئے لیکن مدینہ والے اب ایمان لاچکے تھے اور موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی.اُنہوں نے کہا ہم کمزور نہیں ہم بھی عرب ہیں اگر مشرکین مکہ نے ہمیں کوئی نقصان پہنچانا چاہا تو ہم ان کا مقابلہ کریں گے اور آپ پر جو انہوں نے ظلم کئے ہیں ان کا بدلہ لیں گے.جب آپ مدینہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور کچھ عرصہ کے بعد آپ جنگ بدر کے لئے باہر نکلے تو خدا تعالیٰ نے الہاماً آپ کو یہ خبر دی کہ آپ کا مقابلہ قافلہ سے نہیں ہوگا بلکہ ملکہ سے آنے والے لشکر کے ساتھ ہوگا.اُس وقت آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے.کیا آپ لوگ اس کے لئے تیار ہیں؟ اس پر ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اُس نے کہایا رَسُول اللہ ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ آیا ہے تو ہم اس سے ڈرتے نہیں ہم اس کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہیں.مگر ہر ایک کا جواب سن کر آپ یہی فرماتے کہ اے لوگو ! مجھے مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش بیٹھے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا کہ مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے عرض کیا یا رسُول اللہ ! مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں.اس نے عرض کیا.یا رَسُول اللہ ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب فرما رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہو ا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اگر مدینہ کے باہر کوئی لڑائی ہوئی تو ہم اس میں حصہ لینے کے پابند نہیں ہوں گے.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے.اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! جس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا ، اُس وقت ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم نے آپ کے معجزات اور نشانات دیکھ لئے ہیں ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے، یا رَسُول اللہ ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں.ہم موسیٰ علیہ السلام کے

Page 135

انوار العلوم جلد ۲۲ 1+9 بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر ساتھیوں کی طرح آپ کو یہ نہیں کہیں گے کہ فاذهَبُ انْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَا إنَّا هُهُنا قاعدون ۱۸ کہ جاتو اور تیرا رب دشمن سے لڑتے پھرو.ہم تو یہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور یا رَسُول اللہ ! دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ آئے.پھر اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے.یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے.آپ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو تو ہم بلا دریغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.یہ کتنا بڑا تغیر ہے جو اسلام میں داخل ہونے کے بعد صحابہ کے اندر پیدا ہو گیا.پس حقیقت یہ ہے کہ لوگ احمدیت سے ناواقف ہیں انہیں یہ معلوم نہیں کہ خدا تعالیٰ نے اُن پر کتنا بڑا احسان کیا ہے کہ اس تاریک زمانہ میں اُس نے اپنا ایک مامور بھیجا تا کہ وہ اسلام کو باقی ادیان پر غالب کر دے.ان لوگوں کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ مان لیا ہم قرآن کریم کے منکر ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہیں لیکن یہ تو بتاؤ کہ ہم نے امریکہ اور لنڈن میں مسجد میں بنائی ہیں کیا مسجد میں کا فر بناتے ہیں ؟ پھر یہ بتاؤ کہ دوسرے فرقوں کے نوجوان لہو و لعب میں اپنا وقت بسر کر رہے ہیں لیکن ہمارے نوجوان اپنی زندگیاں وقف کر کے محض خدا تعالیٰ کی خاطر باہر نکل گئے ہیں اور وہ کافروں کو مسلمان بنا رہے ہیں کیا یہ کام کا فر کرتے ہیں؟ یہ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا صرف کافر کو ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہے ، مومن کو آپ سے عشق نہیں ؟ میں نے ایک دفعہ مخالفین کو یہ دعوت دی تھی کہ تم بھی تبلیغ کی غرض سے باہر نکل کھڑے ہو اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل آتے ہیں پھر دیکھیں گے کہ کس کی کوشش کے نتیجہ میں اسلام پھیلتا ہے لیکن اس چیلنج کا جواب موصول نہیں ہو ا.اگر ان کے پاس سچائی ہے تو وہ میدان میں کیوں نہیں آئے ؟ یہ سیدھی بات ہے کہ جو لوگ ہماری مخالفت کرتے ہیں اور عشق رسول کا دعویٰ کرتے ہیں وہ بھی اسلام کی اشاعت کے لئے باہر نکل کھڑے ہوں، ہم بھی باہر نکلتے ہیں.اگر ہم جھوٹے بھی ہوئے تب بھی اسلام کے لئے بہر حال یہ طریق

Page 136

انوار العلوم جلد ۲۲ 11.بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر مفید ہو گا اور دنیا کو پتہ لگ جائے گا کہ اسلام کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کون قربانی کرتا ہے اور محض زبانی دعوؤں پر کون اکتفا کرتا ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ بجائے اس کے کہ یہ لوگ میرا چیلنج قبول کرتے ، ہمارے خلاف جلسے کرتے ہیں اور تقریروں میں یہ فتوے صادر کرتے ہیں کہ احمدیوں کی چائے شراب سے بھی بدتر ہے.شراب پی جا سکتی ہے لیکن ان کی چائے پینا جائز نہیں.کیا ان فتوؤں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کو کوئی فائدہ پہنچ سکتا ہے؟ اسلام کو اگر فائدہ پہنچ سکتا ہے تو اس طرح کہ میرا مبلغ اگر دس مسلمان بناتا ہے تو یہ میں مسلمان بنائیں.میرا مبلغ اگر ایک روٹی کھا کر گزارہ کرتا ہے تو یہ آدھی روٹی کھائیں.اگر وہ ایسا کریں تو کیا میری آنکھیں کھل نہ جائیں.یہ کتنا بڑا نشان ہوگا تمہاری صداقت کا اور اس سے اسلام کو کتنا بڑا فائدہ پہنچے گا.ہماری لڑائی بھی ختم ہو جائے گی اور مقابلہ بھی ہو جائے گا.مثلاً یہ تو شاندار مقابلہ ہو گا کہ دریا کا بند ٹوٹ جائے تو کون دریا کا بند باندھتا ہے لیکن اگر ہم بند بنانے سے پہلے آپس میں لڑ پڑیں اور لوگ پانی کی رو میں آکر تباہ و برباد ہو جائیں تو کیا یہ خدمت خلق ہوگی ؟ غرض اگر یہ لوگ اپنے دعوؤں میں بچے ہیں تو یہ بھی تبلیغ کے لئے باہر نکل جائیں اور ہم بھی تبلیغ کے لئے باہر جاتے ہیں.پھر جو فریق جیت جائے اُسے حق ہوگا کہ وہ دوسرے کو جھوٹا کہہ سکے اور لوگ بھی سمجھ لیں گے کہ کون جیتا اور کون ہارا.اور اس سے اسلام کو بھی فائدہ پہنچ جائے گا لیکن گالیاں دینے اور اس قسم کے فتوے دینے میں کیا رکھا ہے.کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو پتھر نہیں پڑے تھے؟ ایک دفعہ مولوی ثناء اللہ صاحب قادیان آئے اور اُنہوں نے ایک لیکچر دیا اور لوگوں کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میاں محمود احمد بھی کلکتہ جائیں اور میں بھی کلکتہ جاتا ہوں پھر دیکھیں گے کہ کس پر پتھر پڑتے ہیں اور کس پر پھول برستے ہیں بلکہ اس چیز کا پتہ امرتسر کے اسٹیشن پر ہی لگ جائے گا.لوگ اِس بات کو سُن کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کرنے لگے.اُن کی اس بات کا جواب میں نے اُسی دن عصر کے وقت دیا کہ مولوی صاحب نے خود ہی

Page 137

انوار العلوم جلد ۲۲ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر اس جھگڑے کا فیصلہ کر دیا ہے مجھے کسی دلیل کی ضرورت نہیں.مولوی صاحب نے کہا ہے کہ کلکتہ تک جا کر ہم دیکھتے ہیں کہ پتھر کس پر پڑتے ہیں اور پھول کس پر برسائے جاتے ہیں.آپ عالم آدمی ہیں تاریخ نکال کر دیکھیں کہ مکہ والے پتھر کس کو مارتے تھے اور پھول کس پر پھینکتے تھے.اگر پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑتے تھے اور پھول ابو جہل پر پھینکے جاتے تھے تو میں سچا اور یہ جھوٹے.لیکن اگر پھول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پھینکے جاتے تھے اور پتھر ابو جہل کو مارے جاتے تھے تو میں جھوٹا اور یہ بچے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے تو طائف والوں نے لڑکوں کو اُکسایا اُنہوں نے آپ پر پتھر پھینکنے شروع کئے اور گتے آپ کے پیچھے لگا دئیے.آپ وہاں سے چلے آئے اور راستہ میں ایک باغ میں پناہ گزین ہوئے.آ کے ساتھ حضرت زیڈ بھی تھے اور وہ بھی زخمی تھے.آپ کے پاؤں سے لہو بہہ رہا تھا.وہ باغ اتفاقا آپ کے ایک شدید دشمن کا تھا.مکہ میں زراعت نہیں ہوتی تھی اس لئے بعض لوگوں نے مکہ سے باہر زمین خرید کر باغات لگائے ہوئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس باغ کے کنارے پر بیٹھ گئے اِس لئے کہ اگر آپ اس کے اندر گئے تو باغ کا مالک کیا ہے گا ؟ ایسے موقع پر ایک شدید سے شدید دشمن میں بھی شرافت کا احساس پیدا ہو جاتا ہے.جب اُس باغ کے مالک نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی حضرت زید کی یہ حالت دیکھی تو اُس نے کہا ان پر بڑا ظلم ہوا ہے.خود تو اُس سے جرات نہ ہوئی ، اُس نے اپنے ایک غلام کو جو نینوا شہر کا رہنے والا تھا حکم دیا کہ ان کو اچھے اچھے انگور کھلا ؤ.وہ غلام انگور لے کر آپ کے پاس گیا.اُس نے جب آپ کو سر سے پاؤں تک زخمی دیکھا تو وہ حیران ہوا اور آپ سے دریافت کرنے لگا کہ یہ کیا ہوا ہے؟ آپ نے فرمایا.میں لوگوں سے کہتا ہوں کہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور وہ مجھے پتھر مارتے ہیں.وہ غلام عیسائی تھا.جب اُس نے آپ سے تمام قصہ سُنا تو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی.اُس نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے خدا تعالیٰ کا ایک رسول بیٹھا ہے.تھوڑی دیر کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس غلام سے کہا

Page 138

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۱۲ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر اے میرے بھائی ! یونس بن متی کے بیٹے ! میں تمہیں خدا تعالیٰ کی باتیں سُنانا چاہتا ہوں.چنانچہ آپ نے اسے تبلیغ شروع کی اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر ، ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا.باغ کے مالک نے پہلے تو ترس کھا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے انگور بھیجے تھے.جب اُس نے دیکھا کہ اُس کا غلام عقیدت مندانہ طور پر آپ کے پاس بیٹھا ہے تو وہ غضبناک ہو گیا اور اپنے غلام کو بُلا کر کہنے لگا یہ شخص میرا رشتہ دار ہے؟ میں جانتا ہوں کہ یہ مجنون ہے.اُس غلام نے کہا یہ نہیں ہوسکتا.اس کی باتیں تو نبیوں والی معلوم ہوتی ہیں.لوگ کہتے ہیں جب اُوکھلی میں سر دیا تو موہلوں کا کیا ڈر 19 اگر کوئی صداقت کی مخالفت کرتا ہے تو کرے مومن کو مخالفت سے گھبرانا نہیں چاہئے.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کو جب شہید کیا جا رہا تھا تو دیکھنے والوں نے شہادت دی ہے کہ جب آپ پر پتھر برسائے جاتے تھے تو آپ فرماتے تھے اے اللہ ! تو ان لوگوں پر رحم فرما.دراصل ان کو پتہ نہیں کہ میں کون ہوں.یہ مجھے جھوٹا اور مرتد خیال کرتے ہیں اور اپنے خیال میں ایک نیکی کا کام کر رہے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جس کے اندر سچائی ہوتی ہے وہ کہتا ہے اچھا جتنا ستانا ہے ستالو.ہاں اگر وہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس سچائی نہیں تو وہ بے شک ڈرے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نجران کے عیسائیوں کا جب وفد آیا تو مسجد میں بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو بھی ہوگئی.وہ باتیں سنتے رہے.آخر انہوں نے کہا ہماری نماز کا وقت ہو گیا ہے ہم باہر جا کر نماز ادا کر آئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باہر جانے کی کیا ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی اپنی نماز ادا کر لیں.آخر ہماری مسجد خدا تعالیٰ کے ذکر کے لئے ہی بنائی گئی ہے ہے لیکن اب یہ رواداری لوگوں میں باقی نہیں.یہاں تک کہ اس زمانہ میں بعض مساجد پر یہاں تک لکھ دیا گیا ہے کہ اس مسجد میں کوئی وہابی یا مرزائی داخل نہ ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کی اتباع کا یہ لوگ دعوی کرتے ہیں وہ تو عیسائیوں

Page 139

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۱۳ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر سے بھی فرماتے ہیں کہ تم اپنی عبادت ہماری مسجد میں ہی کر لو لیکن یہ لوگ مسلمانوں کو بھی مسجد میں عبادت کرنے سے منع کرتے ہیں.اب یہ حدیث میری بنائی ہوئی نہیں.میں تو اُس وقت موجود ہی نہیں تھا جب بخاری اور مسلم لکھی گئی تھیں بلکہ انہیں تو پتہ بھی نہ تھا کہ میں کسی زمانہ میں پیدا ہوں گا.جب مکہ فتح ہوا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند شدید معاندین کے متعلق ہے احکام نافذ فرمائے کہ وہ جہاں کہیں ملیں قتل کر دیئے جائیں ان لوگوں میں ایک عکرمہ بھی تھے جو ابو جہل کے بیٹے تھے وہ ڈر کے مارے مکہ سے بھاگ کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے ایسے سینیا جانے کا ارادہ کر لیا.یہ دیکھ کر عکرمہ کی بیوی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا کہ یا رسُول اللہ ! آپ میرے خاوند کو قتل کرنے کے احکام واپس لے لیں اور اُسے اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے مکہ میں رہنے کی اجازت عطا فرما دیں.آپ نے فرمایا.اچھا اگر وہ یہاں آ جائے تو ہم اسے صرف معاف ہی نہیں کریں گے بلکہ اُس کے مذہب میں مداخلت بھی نہیں کریں گے.یہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا.مگر ہمارے مخالف کہتے تو یہ ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آقا اور سردار ہیں لیکن جو کام یہ لوگ کرتے ہیں وہ آپ کے رویہ کے خلاف ہیں.اگر یہ سب لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والے کام کرنے لگ جائیں تو دشمن کس طرح اسلام سے باہر جاسکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی آیا.آپ نے اسے کھانا وغیرہ کھلایا اور رات کو وہ وہیں سو گیا لیکن جاتے ہوئے وہ بستر پر پاخانہ کر گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا تو فرمایا تم نے اپنے مہمان پر ظلم کیا کہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ نہ بتائی.چونکہ اسے پاخانہ کرنے کی جگہ کا پتہ نہیں لگا اس لئے وہ بستر پر ہی پاخانہ پھر گیا.اس کے بعد آپ نے ایک عورت کو بلایا اور اُسے فرمایا تم پانی ڈالتی جاؤ اور میں خود کپڑا دھوتا ہوں.اُس عورت نے پانی ڈالتے ہوئے کہا کہ خدا تعالیٰ اس شخص کو غارت کرے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا گالی مت دو پتہ نہیں اُسے کتنی تکلیف ہوئی

Page 140

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۱۴ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر ہو.یہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا ہی نتیجہ تھا کہ لوگ آپ کے پاس آتے اور مسلمان ہوتے جاتے.جب نور قلب پیدا ہو جائے ، جب وسعت قلب نصیب ہو جائے ، جب روحانیت دکھائی جائے تو کیا کسی کی عقل ماری گئی ہے کہ وہ جہنم میں جائے.تنور میں جان بوجھ کر کوئی نہیں پڑتا.جتنے لوگ جہنم میں جائیں گے غلط فہمی کی بناء پر ہی جائیں گے.پس تم ان کے پاس جاؤ اور انہیں سمجھاؤ.جب ان کے اندر نور ایمان پیدا ہو جائے گا ، جب ان کی محبت تیز ہو جائے گی تو جو لوگ آج تمہیں مارنے کا فتویٰ دیتے ہیں اگر کوئی تمہیں پتھر مارے گا تو وہ خود اپنے سینہ پر لیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک شخص نے بظاہر اسلام قبول کر لیا اور وہ جنگ حنین میں شریک ہوا لیکن اُس کی نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کر دوں گا.جب لڑائی تیز ہوئی تو اس شخص نے تلوار کھینچ لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس وقت اکیلے تھے صرف حضرت عباس ساتھ تھے.اس شخص نے موقع غنیمت جانا اور آگے بڑھ کر وار کرنا چاہا.خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہاماً بتا دیا کہ اس شخص کے اندر کپٹال ہے.وہ شخص خود ذکر کرتا ہے کہ میں آپ کی طرف بڑھتا گیا اور میں خیال کرتا تھا کہ اب میری تلوار آپ کی گردن اڑا دے گی لیکن جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے اپنا ہاتھ میری طرف بڑھایا اور سینہ پر رکھ کر فرمایا.اے خدا! تو اس کو شیطانی خیالات سے نجات دے اور اس کے بغض کو دور کر دے.وہ شخص کہتا ہے مجھے یکدم یوں محسوس ہوا کہ آپ سے زیادہ پیاری چیز اور کوئی نہیں.اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آگے بڑھو اورلڑو.میں نے تلوار سونت لی اور خدا کی قسم ! اگر اُس وقت میرا باپ بھی زندہ ہوتا اور وہ میرے سامنے آ جاتا تو میں اپنی تلوار اس کے سینہ میں بھونک دینے سے بھی دریغ نہ کرتا.یہ محبت ہے جس نے اُس کی دشمنی کو دور کر دیا.پس تم تبلیغ کرو اور نرمی سے سمجھاؤ اور دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کے اندر بھی محبت پیدا کرے.ان کی دنیا داری بغض اور کینہ و فساد کی آگ کو مٹا دے.انہیں ایمان

Page 141

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۱۵ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقریر بخشے.انہیں اسلام کی محبت بخشے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا جذبہ بخشے اور بجائے اس کے کہ یہ ہمیں مارتے پھریں یہ بھی آگے بڑھیں اور عیسائیت کے سینے میں الفضل جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۶۲ء) خنجر بھونک دیں.ل : ابوداؤ د کتاب الطهارة باب مؤاكلة الحائض و مجامعتها : بخاری کتاب المرضى باب مَا رُخِصَ لِلْمَرِيضِ أَنْ يَقُولَ إِنِّي وَجِعٌ سے بخاری کتاب الجنائز باب يعذب الميت ببعض بكاء اهله : السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء : اوچی: ہتھیار بند ، سر سے پاؤں تک ہتھیاروں سے سجا ہو ا ، با نکا سپاہی : سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۳۱۲،۳۱۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ك : السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء : تاریخ ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۴۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء (مفہوماً) 2: الاستيعاب في معرفة الاصحاب جلد ۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۵ء ا بخارى كتاب المغازى باب غزوة موتة مِنْ أَرض الشام ال : مسلم كتاب الايمان باب كون الاسلام يهدم ما قبله (الخ) ۱۲ : مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحه ۲۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء : وَمِنْ قَبْلِهِ كِتَبُ مُوسَى إِمَامًا وَّ رَحْمَةً (الاحقاف : ۱۳) : مشكوة صفحه ۴۸ مطبوعہ کراچی ۱۳۶۸ھ ها : الدار قطنی جلد ۲ صفحہ ۶۵.مطبوعہ لا ہور باب صفة صلاة الكسوف A -۱۵ : آیت: نشان ل : الانبياء : ۹۷ کلی : حز قیل باب ۲۳۸ آیت ۲ تا ۴ برٹش اینڈ فارن بائیبل سوسائٹی ۱۸۸۷ء.لنڈن ۱۸: المائدة: ۲۵ ۱۹ : سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۶۰ تا ۶۳ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء

Page 142

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۱۶ بھیرہ کی سرزمین میں ایک نہایت ایمان افروز تقر ٢٠ : السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۱ : کپٹ : کینہ، دشمنی ۲۲ : السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۲۷ ، ۱۲۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء

Page 143

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۱۷ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے ہم خدا تعالی کو کسی صورت بھی نہیں چھوڑ سکتے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفة المسیح الثانی

Page 144

Page 145

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۱۱۹ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے (فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۵۰ء برموقع افتتاح جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - میں اس وقت دعا کے ساتھ جلسہ کا افتتاح کرنے آیا ہوں لیکن افتتاح سے پہلے جیسا کہ یہ اصول چلا آیا ہے میں کچھ باتیں بھی کہا کرتا ہوں تا وہ جلسہ میں آنے والوں کے لئے ہدایت کا موجب بنیں اور تاکہ دعا کرتے وقت وہ دعا کرنے والوں کے لئے محمد ومعین ثابت ہوں.سب سے پہلے تو میں ایک رقعہ کے متعلق جو کسی دوست نے بھجوایا ہے کچھ کہنا چاہتا ہوں.وہ رقعہ یہ ہے کہ تمام دوستوں کی خواہش ہے کہ يَا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا کی اپیلیں جو سامنے لٹکائی ہوئی ہیں وہ ہٹائی جائیں کیونکہ اس صورت میں نصف کے قریب سامعین لیکچرار کو نہیں دیکھ سکتے.میرے نزدیک یہ بات معقول ہے اسٹیج کے سامنے کوئی ایسی چیز نہیں لٹکانی چاہئے جو سامعین اور لیکچراروں کے درمیان روک بنے.جن لوگوں نے ایسا کرنے کی کوشش کی ہے اُنہوں نے میری ان ہدایتوں کو سننے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی جو میں نے دی تھیں.چنانچہ آج صبح ہی جب مجھ سے پوچھا گیا کہ ہم اس طرح سٹیج کے ارد گرد یا مَسِيحَ الْخَلْقِ عَدْوَانَا کی اپیلیں لڑکا نا چاہتے ہیں تو میں نے منع کیا اور کہا کہ یہاں اپیلیں نہ لٹکائی جائیں مگر جب میں آیا تو مجھے تعجب ہوا کہ میری ہدایت کے خلاف اِن کو یہاں لٹکایا گیا ہے.اس لئے میں ہدایت دیتا ہوں کہ جب میں دعا کے بعد یہاں سے جاؤں گا تو ان آویزوں کو فوراً یہاں سے ہٹا دیا جائے اور انہیں

Page 146

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۰ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے ایسی جگہ میں لڑکا یا جائے کہ یہ جلسہ میں مخل نہ ہوں.اصل اور مقدم چیز تو جلسہ ہے اور ایسی چیز جو اس میں مخل ہو یا تقریروں کے اثر میں روک بننے والی ہو وہ کسی صورت میں جائز نہیں ہو سکتی ایسا کرنے کا کسی کو حق نہیں.بات دراصل یہ ہے کہ نوجوانوں کو بات سمجھنے کی عادت نہیں میں نے کہا تھا کہ آویزے سٹیج پر فلاں جگہ لگائیں لیکن انہوں نے میری پوری بات سنی نہیں صرف سٹیج کا لفظ سُن لیا اور آویزے موجودہ صورت میں لگا دیئے.جب یہ سوال میرے پاس پہنچا تو میں اُس وقت ناشتہ کر رہا تھا لیکن میں نے اُس وقت دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں جواب بھجوا دیا کہ ایسا کرنے کی کسی کو اجازت نہیں.اس کے بعد سب سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جیسا کہ تمام دوستوں کو معلوم ہے کہ میرا یہ سارا سال بیماری میں گزرا ہے.گزشتہ جلسہ کے بعد مجھے کھانسی اور نزلہ ہوا پھر آواز بیٹھ گئی اور کئی دن تک بغیر آواز کے گویا جیسے پھسپھسا ہٹ ہوتی ہے میں بولتا تھا ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے اس بیماری سے افاقہ ہو الیکن دو ماہ کے بعد کوئٹہ میں نقرس کا دورہ ہو گیا جو دو ماہ تک رہا پھر کھانسی کا دورہ ہوا جو چارہ ماہ تک رہا پھر کچھ عرصہ آرام رہا لیکن پچھلے دنوں بخار کا شدید دورہ ہوا لیکن اب پھر کھانسی اور زکام ہے ان بیماریوں کی وجہ سے مُجھ میں اتنی طاقت نہیں کہ میں اتنا بوجھ اُٹھا سکوں جتنا بوجھ میں پہلے اُٹھایا کرتا تھا پس احباب کو انتظام کے ماتحت اگر کچھ قربانی کرنی پڑے اور اُنہیں ملاقات کا اتنا وقت نہ ملے جتنا پہلے ملا کرتا تھا تو انہیں سمجھ لینا چاہئے کہ یہ اشد ضرورت کی وجہ سے کیا گیا ہے اور انہیں اس پابندی کو قبول کرنا چاہئے.اب بھی میں بول رہا ہوں تو بڑے زور سے چند الفاظ کہہ رہا ہوں اور میں نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ تقریریں میں کس طرح کروں گا.کل تک مجھے آرام تھا لیکن رات کو تقریروں کے لئے نوٹ لکھنے کی وجہ سے مجھے زیادہ دیر تک جاگنا پڑا.پہلے تو میں رات کو کام کرنے کا عادی تھا اور تین تین چار چار بجے تک کام کرتا رہتا تھا لیکن اب بیماری کی وجہ سے میں سردی میں کام نہیں کر سکتا.آٹھ بجے ہی بستر میں داخل ہو جا تا ہوں لیکن کل نوٹوں کی وجہ سے گیارہ بجے رات تک کام کرتا رہا جس کی وجہ سے میرا

Page 147

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۱ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے گلا بیٹھ گیا ہے اور نزلہ کے آثار پیدا ہو گئے ہیں.خیر کل کی بات تو کل کی رہی اس وقت مجھے گلے میں شدید درد ہے اور اس کے ساتھ سر میں بھی درد ہو رہا ہے ناک اور کن بیٹیوں میں بھی درد ہے جس کی وجہ سے میں خیال کرتا ہوں کہ میرے لئے تقاریر کو نبھانا مشکل ہوگا اس وجہ سے احباب کو اور بھی احتیاط کرنی چاہیئے اس لئے میں پیدل چل کر نہیں آیا بلکہ کار پر آیا ہوں اور آئندہ بھی کار پر ہی آیا کروں گا کیونکہ گرد اڑنے کی وجہ سے بیماری کے زیادہ ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے اسی طرح احباب ملاقات کے وقت بھی یہ احتیاط رکھیں کہ وہ اس طرح قدم رکھیں کہ گر دنہ اُڑے.ایک بات میں سلیج کے افسروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں جو تکلیف مجھے محسوس ہوئی ہے وہ دوسرے لیکچراروں کو بھی محسوس ہو گی اور وہ تکلیف یہ ہے کہ مائیکروفون عین منہ کے سامنے رکھا ہوا ہے اور یہ اتنا موٹا ہے کہ اس کی وجہ سے آدھے آدمی نظر نہیں آتے.اس سے سُننے والوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے اور تقریر کرنے والوں کو بھی.اسے ایسی جگہ پر رکھنا چاہئے کہ یہ منہ سے نیچے رہے تا سامعین تقریر کرنے والے کو دیکھ سکیں اور تقریر کرنے والے سامعین کو دیکھ سکیں.اس کے بعد میں دوستوں کو اس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہمارے لئے جس قسم کی مشکلات ہیں اور جن حالات سے ہم گزر رہے ہیں یہ مشکلات اور حالات کسی دوسری قوم کو پیش نہیں آ رہے.ہماری حالت اُس یتیم کی سی ہے جس کے نہ صرف ماں باپ ہی فوت ہو گئے ہیں بلکہ اُس کا کوئی عزیز بھی دنیا میں باقی نہیں رہا.صحابہ کرام کا جو حال تھا وہی ہمارا ہے دنیا کی کوئی قوم ہم سے منہ لگانے کے لئے تیار نہیں.دنیا کی کوئی قوم ہم سے خوش خلقی سے پیش آنے کے لئے تیار نہیں ، دنیا کی کوئی قوم ہمارے ساتھ محبت سے ہاتھ ملانے کو تیار نہیں اور ہم جب بھی سوچتے ہیں ہمیں کوئی ایسی بات نظر نہیں آتی جس کی وجہ سے یہ عداوت کی جاتی ہے اور جس کی وجہ سے بغض و کینہ ہم سے روا رکھا جاتا ہے.ہم نے کسی کا مال نہیں مارا جب دوسرے لوگ مال کو ٹتے ہیں ہم دوسروں کی خدمت کرتے ہیں ، جب دوسرے لوگ ظلم کرتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ إِلَّا مَا شَاءَ الله رحم سے

Page 148

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۲ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے کام لیتے ہیں، جب دوسرے لوگ بغض اور کینہ دکھاتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ محبت اور پیار کا سلوک کرتے ہیں اور جب دوسرے لوگ قوم اور ملک سے سچی ہمدردی نہیں رکھتے بلکہ ظاہر داری سے کام لیتے ہیں ہماری جماعت کے لوگ قوم ، ملک، ہم مذہبوں اور تمام بنی نوع انسان سے خواہ وہ اسلام سے نسبت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں ہمدردی کرتے ہیں اور باوجود اس کے کہ دنیا ہمیں کشتی اور گردن زدنی سمجھتی ہے ہمیں سب کی بھلائی مدنظر رہتی ہے.دنیا ہمیں اس لئے نہیں دھت کارتی کہ ہم نے اس کا کچھ بگاڑا ہے، وہ ہم سے اس لئے تعلق نہیں توڑتی کہ ہم نے کسی پر ظلم کیا ہے بلکہ وہ اس لئے ہمیں منہ نہیں لگاتی کہ ہم نے اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے آقا سے منہ لگا یا لیا ہے لیکن ہم اسے کسی وجہ سے چھوڑ نہیں سکتے.یہ وہ چیز ہے جس پر ہم اپنے عزیز ترین وجو دوں کو بھی قربان کر سکتے ہیں.ہم اسے نہ حکومت کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں نہ مُلک وقوم کی خاطر چھوڑ سکتے ہیں اور نہ ہم کسی عقیدہ کی خاطر اسے چھوڑ سکتے ہیں.ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے.ہمارے دُشمنوں کو سوائے اس کے ہمارے ساتھ اور کوئی دشمنی نہیں کہ ہم نے خدا تعالیٰ کی آواز کوسُن لیا اور یہ ایسی چیز نہیں جس کا ہمارے پاس کوئی علاج ہو.اگر مال کا سوال ہوتا تو ہم کہتے چلو اس سے ہمیں کیا غرض اسے چھوڑ دو، اگر ملک کا سوال ہوتا تو ہم کہتے کہ اسے چھوڑ دو ہمیں ساری دنیا سے عداوت مول لینے کی کیا ضرورت ہے اگر عزت کا سوال ہوتا تو ہم کہتے ہمیں ساری دنیا سے لڑائی سہیڑ نے سے کیا غرض اسے چھوڑ دو.یہ لوگ ہم سے اُس چیز کو چھڑانا چاہتے ہیں جسے چھوڑ کر نہ ہمارا دنیا میں کچھ رہتا ہے اور نہ آخرت میں.یہ لوگ ہم سے خدا چھڑوانا چاہتے ہیں اور اس کا ہمارے پاس ایک ہی جواب ہے کہ تم ہم سے ملک لے لو ، تم ہماری آزادیاں لے لو ، تم ہماری عزتیں لے لو ، تم ہمارے مالوں پر قبضہ کر لو، ہم اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.پس ہماری حالت اس قسم کی ہے جس کو لا علاج مرض کہتے ہیں.ہماری مرض وہ ہے جس کے دور کرنے کا خیال بھی ہمارے جسموں پر کپکپی طاری کر دیتا ہے.اگر خدا تعالیٰ

Page 149

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۳ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے سے محبت کرنا مرض ہے، اگر اُس کی باتوں کو ماننا مرض ہے اور یہ ایسی متعدی بیماری ہے جس سے دنیا ڈرتی ہے کہ یہ اُسے نہ لگ جائے تو ہم کہیں گے کہ خواہ اس کے بدلے میں ہمارے جسم کی ایک ایک بوٹی بھی جدا ہو جائے ، خواہ اس کے بدلے میں ہماری جان اور مال تباہ ہو جائیں لیکن ہم اسے نہیں چھوڑ سکتے.اور بیماریاں تو قابلِ علاج ہیں لیکن اس مرض کا کوئی علاج نہیں اور نہ صرف اِس کا کوئی علاج ہی نہیں بلکہ اس میں مبتلا رہنے کو ہم فخر سمجھتے ہیں اور اس کے علاج کو عذاب سمجھتے ہیں.اس مرض کی دوا اور دار وسوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کے ہاتھ میں نہیں.پس آؤ ہم اپنے رب کے حضور میں عرض کریں کہ اے ہمارے رب ! ابھی تو ہم نے اپنے مونہوں سے کہا ہے کہ ہم تیرے ہو گئے ہیں اور دنیا ہم سے عداوت کرنے لگی ہے.اے ہمارے رب! اگر ہماری موتیں اسی حالت میں ہو جائیں تو نہ ہم دنیا کے رہتے ہیں اور نہ دین کے.دنیا کے لوگ ہم سے منہ نہیں لگاتے کہ ہم نے تجھ سے منہ لگایا ہے لیکن ہم تیرے بندے اب تک نہیں بنے کیونکہ ہم نے مونہوں سے کہا ہے کہ ہم تیرے ہو گئے لیکن ہم نے اپنے دعوئی کے مطابق عمل نہیں کیا ہمارے اعمال میں ابھی خامیاں ہیں.پس اے خدا! تُو ہمارے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر دے کہ دنیا ہماری مخالفت کرتی ہے تو کرتی چلی جائے لیکن ہم نے تیری محبت کا جو دعویٰ کیا ہے ہم اس میں سو فیصدی صادق ثابت ہوں اور خالص طور پر تیرے بن جائیں.پھر تمام عداوتیں ہمارے لئے راحتیں بن جائیں گی.دنیا جس چیز کو دوزخ سمجھتی ہے ہم اسے جنت قرار دیں گے کیونکہ جسے تو مل گیا اسے سب کچھ پل گیا.تیرے لئے گالیاں سننا ساری دنیا کی تعریفوں سے بہتر ہے.اے خدا! تُو ہمارے اس دعویٰ کو حقیقی بنا دے، تو ہمارے اندر اپنا عشق پیدا کر دے، تو ہمارے اندر اپنا لگاؤ پیدا کر دے، تیرے وجود کے سوا باقی ساری دنیا ہماری نظروں سے غائب ہو جائے.بجائے اس کے کہ ہم دنیا کی طرف نظر اٹھا ئیں دنیا ہمیں خود ہی نظر نہ آئے صرف تیرا ہی چہرہ ہمارے سامنے رہے.دنیا کی ہر چیز بے شک ہم سے چھینی جاسکتی ہے لیکن تو ہم سے چھینا نہ جا سکے.

Page 150

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۴ ہم خدا تعالیٰ کو کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑ سکتے پس آؤ ہم خدا تعالیٰ سے مدد کے لئے عرض کریں کہ ہم ہزاروں جو تیرے نام پر یہاں جمع ہوئے ہیں تو ہمیں اپنا لے اور ہمارے ساتھ باقی ساری دنیا کو بھی اپنا لے.دشمن بے شک ہمارے ساتھ دشمنی کرتا ہے لیکن ہماری اُس کے ساتھ کوئی دشمنی نہیں.لوگ بے شک ہمارے مخالف ہیں لیکن ہماری ان سے کوئی مخالفت نہیں.ہم تو یہی چاہتے ہیں کہ تیرا چہرہ انہیں بھی نظر آئے اور اُن کے دلوں میں بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت پیدا ہو جائے تا وہ اپنی مستیوں اور غفلتوں سے ہٹ کر دین کی خدمت میں لگ جائیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا پر پھر اُسی طرح قائم ہو جائے جس طرح وہ تیرہ سو سال پہلے قائم ہوئی تھی.پس تو ہم پر بھی رحم فرما اور ہمارے مخالفوں پر بھی الفضل لاہور ۱۳ جنوری ۱۹۵۱ء ) رحم فرما.آمین ل: تذکرۃ صفحہ ۴۲۳.ایڈیشن چہارم

Page 151

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۵ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو XXXXXX اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے اس کے مطابق اپنے فرائض ادا کرو از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفة المسیح الثانی

Page 152

Page 153

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۱۲۷ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے اس کے مطابق اپنے فرائض ادا کرو ( مستورات سے خطاب) ( فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۰ء بر موقع جلسه سالانه بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - و, میری عورتوں میں تقریر یاد گار ہے اُس زمانہ کی جب ابھی مائیکرو فون نہیں ہوا کرتے تھے اور جب لاؤڈ سپیکر مردانہ جلسہ کی تقریر کو عورتوں تک نہیں پہنچا سکتے تھے اُس وقت ضرورت ہوا کرتی تھی کہ میں عورتوں میں الگ تقریر کروں اس لئے عام حالات میں اب عورتوں میں الگ تقریر کرنے کی مائیکروفون اور لاؤڈ سپیکر کی ایجاد کے بعد خاص ضروت نہیں رہی لیکن اس طریق کو قائم اس لئے رکھا گیا ہے کہ بعض باتیں عورتوں کے ساتھ خصوصاً تعلق رکھتی ہیں اور وہ مردوں کی تقریر کا حصہ نہیں بن سکتیں اس لئے ایسی باتوں کو پہنچانے کے لئے اور عورتوں کے مخصوص معاملات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے لئے ایک تقریر ایسی رکھ دی جاتی ہے جو عورتوں کے جلسہ میں الگ ہومگر ظاہر ہے کہ اب اس تقریر کی اہمیت نہیں رہی اور اب اس کے لئے اتنا وقت دینے کی ضرورت نہیں رہی جتنا پہلے دیا جاتا تھا.مثلاً ابھی آج میں یہاں سے فارغ ہو کر اور نماز پڑھا کر مردانہ جلسہ میں تقریر کروں گا تو آپ کے لاؤڈ سپیکروں کا تعلق مردانہ جلسہ کے مائیکروفون سے کر دیا جائے گا اور جس طرح مرد میری تقریر سنیں گے اسی طرح مستورات

Page 154

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۸ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو بھی یہاں بیٹھی ہوئی میری تقریر سُن سکیں گیں.اس سال تو خصوصیت کے ساتھ یہ بات بھی یا د ر کھنے والی ہے کہ گزشتہ سال کے جلسہ کے بعد سے میں متواتر بیمار چلا آیا ہوں اور خصوصیت کے ساتھ چھ مہینے تک بلکہ اس سے بھی زیادہ گلے کی بیماری رہی ہے.بعض اوقات تو آواز بالکل بند ہو جاتی تھی اور محض ہونٹوں سے ہوا نکل سکتی تھی.اب بھی میرے گلے کی حالت ایسی ہے کہ میں بولتے وقت تکلیف محسوس کرتا ہوں.دو دن سے نزلہ دوبارہ میرے کان پر اور ناک پر اور گلے پر گر رہا ہے.ان حالات میں ضروری ہے کہ گلے کی حفاظت جہاں تک ہو سکے کی جائے اور اگر یہ خیال میں نہ رکھوں تو شاید باقی تقریریں کرنی بھی میرے لئے مشکل ہو جائیں بلکہ بظاہر حالات اب بھی مشکل نظر آتا ہے کہ میں دونوں دنوں کی تقریریں کر سکوں پس میں اسی نیت سے آیا ہوں کہ صرف چند باتیں آپ کے سامنے کروں یہی وجہ تھی کہ میں جان بُو جھ کر وقت سے دیر کر کے آیا ہوں کیونکہ اگر میں وقت پر آتا تو مجبوراً میں تقریریں بھی زیادہ کرتا.اب یہاں سے جا کر میں نے نمازیں پڑھانی ہیں اور پھر تقریر شروع کرنی ہے پس میں نے مناسب سمجھا کہ دیر سے جاؤں اور صرف چند منٹ بولوں ، نماز پڑھاؤں اور پھر دوسری تقریر کروں جو اگر لاؤڈ سپیکر خراب نہ ہو ا تو انشاء اللہ آپ کو اسی طرح پہنچے گی جس طرح مردوں کو پہنچ رہی ہوگی.میں آج احمدی خواتین کی توجہ اس امر کی طرف منعطف کرانا چاہتا ہوں کہ ” ہرسخن وقتے و ہر نکتہ مقامے دارد‘ ہر زمانے کے ساتھ انسان کا طور و طریق بدلتا چلا جاتا ہے.ایک زمانہ ایسا تھا کہ احمدیت بہت ہی کمزور تھی چند افراد احمدیت میں داخل تھے اور عام طور پر لوگ خیال کرتے تھے کہ یہ چند دن کے مہمان ہیں ایک کھیل ہے جو کھیلا جارہا ہے جیسے کسی شخص کو جوں کاٹ لیتی ہے یا پتو کاٹ لیتا ہے یا مچھر کاٹ لیتا ہے اسی طرح وہ سمجھتے تھے کہ چند احمدیوں کی حیثیت ایک جوں یا ایک مچھر یا ایک پتو سے زیادہ نہیں اسی لئے ان کی مخالفت کا رنگ بھی نرالا تھا.ایک مخالف مولوی سمجھتا تھا کہ اگر میں نے قلم اُٹھا کر لکھ دیا کہ احمدی کا فر ہیں تو یہ اُسی وقت ختم ہو جائیں گے اور تمام دنیا میرے فتوے کے نیچے ان

Page 155

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۲۹ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو سے ملنا جلنا چھوڑ دے گی اور یہ ڈر کے مارے ہم سے مل جائیں گے لیکن ان کے فتوے بیکار گئے.جنہوں نے احمدیت کا لطف اُٹھایا اور جنہوں نے احمدیت کی باتوں پر غور کیا وہ سمجھ گئے کہ اگر روحانی چاشنی اور روحانی لذت کہیں سے مل سکتی ہے تو احمدیت سے ہی مل سکتی ہے اس لئے کفر کے فتوے اور اعلان ان لوگوں کے لئے بیکار ثابت ہوئے اور وہ جماعت میں شامل ہونا شروع ہوئے.سورج اور چاند کو گرہن لگا اور اُسی طرح لگا جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا.طاعون پھیلی اور شہروں کے شہر اور قبیلوں کے قبیلے صاف ہو گئے اور سینکڑوں نے نہیں بلکہ ہزاروں نے محسوس کیا کہ اب آسمان زمین پر تغیر چاہتا ہے اب خدا کچھ کر کے دکھانا چاہتا ہے تب کچھ یہاں سے اور کچھ وہاں سے ، کچھ اس جگہ سے کچھ اُس جگہ سے ، کچھ اس بستی سے اور کچھ اُس بستی سے، کچھ اس شہر سے اور کچھ اُس شہر سے احمدیت میں داخل ہونے شروع ہوئے اور سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں تک پہنچ گئے.جب جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی گئی ہے اُس وقت پہلے جلسہ میں تین سو سے کچھ اوپر لوگ شامل ہوئے اور ان تین سو میں سے بعض آٹھ آٹھ ، نو نو سال کے بچے بھی تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جو آخری جلسہ سالا نہ ہوا اس پر ساڑھے سات سو آدمی جمع تھا اور اس ساڑھے سات سو آدمی کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود کی طبیعت پر اتنا اثر ہوا کہ آپ نے فرمایا معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ نے مجھ سے جو کام لینا تھا وہ لے لیا اور اب میری وفات کا وقت قریب ہے چنانچہ چند ماہ کے بعد ہی آپ فوت ہو گئے.اب ایک ایک شہر میں اس سے بہت زیادہ جماعت پائی جاتی ہے بلکہ بعض شہروں میں تو پانچ پانچ ، سات سات بلکہ آٹھ آٹھ ہزار افراد پائے جاتے ہیں..اب گجا وہ زمانہ کہ ساڑھے سات سو آدمی کے آنے کو بڑی کامیابی سمجھا جاتا تھا اور گجا یہ زمانہ کہ ایک ایک شہر میں اس سے بہت زیادہ افراد پائے جاتے ہیں.حضرت خلیفہ اول کی زندگی میں جو آخری جلسہ ہوا اُس میں اٹھارہ سو آدمی تھا

Page 156

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۰ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے....فرائض ادا کرو اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اب جماعت بہت زیادہ پھیل گئی ہے اور پہلے سے کئی گنا طاقتور ہو گئی ہے.اس کے مقابلہ میں قادیان کے آخری جلسہ میں چالیس ہزار سے اوپر احمدی شامل تھا اور اب بھی کل شام کے کھانے کی جور پورٹ ملی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ چوبیس ہزار مرد و عورت نے کل شام کا کھانا کھایا ہے.۲۶ کی شام سے ۲۷ کی شام کی حاضری عام طور پر زیادہ ہوا کرتی ہے پس کوئی بعید بات نہیں کہ چھیں ستائیس ہزار کی حاضری ہو جائے.اب گجا سات سو گیا اٹھارہ سو اور گجا ستائیس ہزار آدمی کا جلسہ پر جمع ہو جانا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں سوائے افغانستان کے باہر کے کسی ملک میں احمدی جماعت نہیں تھی مگر اب احمدیت انڈونیشیا میں ، ایران میں ، شام میں، لبنان میں ، مصر میں ، سوڈان میں ، ایسے سینیا میں، کینیا میں، یوگنڈا میں ، ٹانگا نیکا میں، سیرالیون میں، گولڈ کوسٹ میں، نائیجیریا میں، انگلینڈ میں ، سپین میں ، ہالینڈ میں ، جرمنی میں ، سوئٹزر لینڈ میں ، یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں ، نارتھ امریکہ میں ، ماریشس میں ، ملایا میں ، بور نیو میں، سیلون میں، برما میں اور اسی طرح اور کئی علاقوں میں قائم ہے جو شاید اس وقت مجھے یاد بھی نہ ہوں اور بعض جگہ تو اتنی بڑی تعداد میں جماعت پائی جاتی ہے کہ پچاس پچاس ساٹھ ساٹھ ، ہزار آدمی وہاں احمدی ہو چُکا ہے.پس جو کیفیت آج سے پچاس سال پہلے تھی اور جو اُس وقت کے لحاظ سے ہمارے لئے کافی سمجھی جاسکتی تھی وہ آج کافی نہیں ہو سکتی.بچپن میں جو کپڑے پہنے جاتے ہیں وہ بڑی عمر ہونے پر نہ قد کے لحاظ سے کافی ہوتے ہیں اور نہ قسم کے لحاظ سے کافی ہوتے ہیں.چھوٹے بچے کو جس قسم کا کپڑا پہنایا جاتا ہے وہ جوان عمر والے کو نہیں پہنایا جا تا اور پھر جتنا کپڑا چھوٹے بچے کے لئے کافی ہوتا ہے اتنا کپڑا جوان عمر والے کے لئے کافی نہیں ہو سکتا پس وہ زمانہ اور تھا اور یہ زمانہ اور ہے.اب ضرورت ہے کہ جماعت کا ہر فرد اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے مرد بھی اور عورت بھی ، بڑا بھی اور چھوٹا بھی ، تاجر بھی اور صناع بھی ، وکیل بھی اور ڈاکٹر بھی ، عالم بھی اور ان پڑھ بھی ، پروفیسر بھی اور شاگرد بھی،

Page 157

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۱ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو زمیندار بھی اور غیر زمیندار بھی.میں دیکھتا ہوں کہ سب سے بڑی مشکل ہمارے راستہ میں عورتیں ہیں.میں نے کوئٹہ میں ایک تقریر کی بعض لوگ جو اُس تقریر میں شامل تھے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے جاتے ہوئے اِس خیال کا اظہار کیا کہ ہم اس تقریر سے اتنے متاثر ہوئے ہیں کہ شاید مطالعہ کے بعد ہم احمدی ہی ہو جائیں.جب وہ گھر گئے اور ان کی بیویوں نے یہ بات سُنی تو انہوں نے صاف طور پر اُن سے کہہ دیا کہ اگر تمہاری یہی نیت ہے اور آئندہ بھی تم نے ان کے جلسوں میں جانا اور ان کی تقریریں سننا اور ان کی کتابوں کو پڑھنا ہے تو ہمیں اپنے ماں باپ کے گھر بھیج دو ہم یہاں رہنے کے لئے تیار نہیں اور چونکہ ایمان ابھی ان کے دل میں پیدا نہیں ہوا تھا اور چونکہ ان کا مطالعہ بھی ابھی کافی نہیں تھا وہ یہ سُن کر ڈر گئے اور انہوں نے احمدیوں سے ملنا جلنا ترک کر دیا.یہ ایک مثال نہیں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسی مثالیں ہیں کہ مرد احمدیت کی طرف آتے آتے اس لئے رُک گئے کہ عورتوں نے مخالفت کی اور انہوں نے مردوں کو اس سے باز رکھا.آخر اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا تم یہ سمجھتی ہو کہ عورت کا دماغ ادنیٰ ہوتا ہے؟ بحیثیت ایک عورت ہونے کے تمہیں یہ خیال کبھی بھی نہیں کرنا چاہئے.میں بھی اس بات کا قائل نہیں کہ عورت کا دماغ ادنیٰ درجہ کا ہوتا ہے.گو اس وجہ سے کہ عورتوں کو تعلیم پانے کا موقع کم ملتا ہے اس کا لازمی نتیجہ پیدا ہوا ہے کہ وہ عملی میدان میں بھی کم نکلتی ہیں لیکن جہاں خدا تعالیٰ کے دین کا سوال ہے عورت کا دماغ مرد سے ادنی انہیں اور اس کا ثبوت ہر زمانہ میں سیاست میں بھی اور مذہب میں بھی ملتا چلا آیا ہے.فرعون کی بیوی کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے جس نے فرعون جیسے دشمن کے پاس رہتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی خدمت بھی کی اور مدد بھی کی.اسی طرح قرآن کریم میں حضرت مریم کا ذکر آتا ہے وہ بھی ایک عورت ہی تھیں جنہوں نے اپنے بچے کی ایسی پرورش کی کہ وہ نہایت اعلیٰ درجہ کا انسان ثابت ہوا.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت خدیجہ نے دعویٰ نبوت کے وقت جو نمونہ دکھایا اور جس عقل اور شعور سے کام لیا وہ اسلامی تاریخ کا

Page 158

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۲ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو ایک بے بہا جو ہر ہے جسے ہر قسم کے دشمن کے سامنے پیش کر کے ہم فخر کر سکتے ہیں.ہم تو خیر دور زمانہ کے ہیں اور واقعات سے ہم جتنا اندازہ لگا سکتے ہیں وہ اتنا گہرا نہیں ہو سکتا جتنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت خدیجہ کی صحبت میں اندازہ لگایا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کافر کہنے والے لوگ موجود ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بے دین کہنے والے لوگ موجود ہیں ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جھوٹا اور جھوٹا مذہب بنانے والا کہنے والے لوگ موجود ہیں اور عیسائیوں کی کتابیں اس سے بھری پڑی ہیں لیکن شدید سے شدید دشمن بھی یہ اقرار کرنے پر مجبور ہے کہ وہ نہایت ہی ذہین آدمی تھا.کوئی یہ نہیں کہتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمجھدار نہیں تھے.وہ ان کے دین پر حملہ کرتا ہے ، وہ ان کی خیانت پر حملہ کرتا ہے مگر ان کی عقل پر حملہ کرنے والا کوئی نہیں.ایسے عقل مند انسان نے جو رائے حضرت خدیجہ کے متعلق قائم کی اور جو گہرا اثر ان کے دماغ پر حضرت خدیجہ کا پڑا ہے اس سے پتہ لگ سکتا ہے کہ ہم جو ڈور سے اندازہ لگا رہے ہیں ہمارے اندازے کتنے چھوٹے ہوں گے اور خدیجہ ان سے کتنی بالا ہوں گی کیونکہ ہم سینکڑوں سال بعد میں اندازہ لگا رہے ہیں.ہمارے سامنے خدیجہ کی ساری تاریخ نہیں ہمیں صرف چند واقعات کا علم ہے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس گھر میں رہتے تھے اور رات دن آپ کا معاملہ حضرت خدیجہ سے پڑتا تھا اس وجہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہزاروں واقعات دیکھے ہوں گے.پس آپ نے جو واقعات دیکھے ان کے ماتحت جو اندازہ حضرت خدیجہ کا آپ لگا سکتے تھے وہ ہم نہیں لگا سکتے.چنانچہ اتنی بڑی عقل والا انسان جس کی دانش اور عقل اور بے دار مغزی کا شدید ترین دشمن بھی قائل ہے اُس پر حضرت خدیجہ کا جو اثر تھا اس کا آپ لوگ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ حضرت خدیجہ فوت ہو گئیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ چھوڑ کر مدینہ تشریف لے گئے آپ کی اس کے بعد 9 شادیاں ہوئیں اور گیارہ یا بارہ سال حضرت خدیجہ کو فوت ہوئے بھی ہو گئے ایک دن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے تھے غالباً حضرت عائشہ کے ہاں ہی تھے کہ کسی عورت کے بولنے کی آواز آئی یہ ذہین اور بے دار مغز انسان جسے اگر کوئی سب سے بڑا نبی نہیں مانتا تو اس

Page 159

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۳ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو وو کو دنیا کا عقل مند ترین انسان ماننے پر مجبور ہے بے اختیار ہو کر اُٹھ بیٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ آہ ! میری خدیجہ، آہ! میری خدیجہ زندہ ہوتیں تو اس فقرے کے کوئی معنی نہ تھے.ہم سمجھ سکتے تھے کہ ایک عورت کی آواز حضرت خدیجہ کی آواز سے ملتی تھی اس لئے آپ کو دھوکا لگا.آپ نے سمجھا کہ خدیجہ آگئیں ہیں لیکن خدیجہ کو فوت ہوئے بارہ سال ہو چکے ہیں اور آپ کی کئی دوسری شادیاں ہو چکی تھیں جن میں سے بعض سے آپ ان کی دینی خدمات کی وجہ سے اور قومی خدمات کی وجہ سے اور محبت الہی کی وجہ سے بہت خوش تھے مگر باوجود اس کے ایک سکتہ آپ پر طاری ہو گیا.آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ خدیجہ تفوت ہو گئیں ہیں ، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ اس کی وفات پر ۱۲ سال گزر چکے ہیں، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ میں خدیجہ کے بعد اور کئی شادیاں کر چکا ہوں ، آپ بھول جاتے ہیں اس بات کو کہ ان میں سے کئی ایسی ہیں جو دینی خدمات میں پیش پیش ہیں اور عورتوں میں میری سیکرٹری کا کام کر رہی ہیں.آپ ان تمام واقعات کو بھول جاتے ہیں اور بے اختیار ہو کر کہتے ہیں ' آہ ! میری خدیجہ - آہ! میری خدیجه آنے والی خدیجہ کی بہن تھی اور بہنوں کی آواز آپس میں ملتی ہے مگر اس آواز کو سُن کر آپ بے تاب ہو گئے اور اپنے خیال میں آپ نے یوں محسوس کیا کہ خدیجہ فوت ہی نہیں ہوئیں اور وہ پھر اپنے گھر میں آگئی ہیں.یہ بات بتاتی ہے کہ وہ عورت معمولی عورت نہیں تھی وہ عورت اپنی ذہنی اور مذہبی کیفیتوں میں ایسی شان رکھتی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا دانا اور ہوشیار اور عقلمند انسان بھی اُس کی عقل اور دانش سے متاثر تھا اور اس کا نام بھی اس کے دل میں گدگدیاں پیدا کر دیتا تھا.پھر حضرت عائشہ بھی ایک عورت ہی تھیں جن کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ آدھا دین تم عائشہ سے سیکھ سکتے ہو ئے اگر عائشہؓ نے واقع میں اسلام کا مطالعہ نہ کیا ہوتا ، اگر عائشہ نے واقع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو یاد نہ رکھا ہوتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا صاف گوانسان کیا عائشہ کی خاطر یہ کہہ سکتا تھا کہ آدھا دین تم عائشہ سے سیکھ سکتے ہو.پھر اسلام میں اور بھی بہت سی عورتیں گزری ہیں.رابعہ بصری ایک مشہور

Page 160

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۴ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو صوفی عورت تھیں.اس طرح کئی بادشاہ گزری ہیں ، کئی عالم عورتیں گزری ہیں جنہوں نے دین کی بڑی بڑی خدمتیں کی ہیں.تو عورت اور مرد میں دماغ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں جو کچھ ایک مرد سیکھ سکتا ہے وہ ایک عورت بھی سیکھ سکتی ہے.گو پہلی نسل اتنی ذہین نہیں ہو گی جتنے ذہین مرد ہوتے ہیں کیونکہ مردوں کی ذہانت میں نسلی تجربہ بھی شامل ہوتا ہے مگر یہ کام تم شروع کر کے ہی سیکھ سکتی ہو.ہم دیکھتے ہیں کہ مردوں میں باوجود جاہل ہونے کے یہ مادہ پایا جاتا ہے کہ وہ مسائل بیان کر سکیں گے لیکن عورت اچھی تعلیم یا فتہ بھی ہو تو وہ پہلے شرمائے گی پھر مسکرائے گی پھر سر نیچے ڈال دے گی اور پھر ہنسنے لگے گی اور کہے گی اچھا میں بھی مسئلہ بیان کر سکتی ہوں لیکن مردوں میں کسی جاہل سے جاہل سے بھی کہو کہ مسئلہ بیان کرو تو وہ مسئلہ بیان کرنا شروع کر دے گا چاہے اُس کو کچھ بھی نہ آتا ہو.یہ فرق کیوں ہے؟ اسی لئے کہ مرد نسلاً بعد نسلاً مسائل بیان کرنے کے عادی ہو چکے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کے اہل ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو نا اہل ہوتے ہیں وہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہم اہل ہیں اور عورت جو اہل ہوتی ہے وہ بھی اپنے آپ کو نا اہل سمجھتی ہے.یہ ذہنیت کا فرق ہے عقل یا علم کا فرق نہیں.یہ عادت تمہیں دور کرنے کی ضرورت ہے.اب عورتوں کی حکومت کا زمانہ ہے ملکہ وکٹوریہ کے عہد سے عورتوں نے سر نکالنا شروع کیا اور پھر مغربیت کے اثر کے نیچے ان میں اور زیادہ بیداری پیدا ہوئی اور اب تو یہ حال ہے کہ تھوڑے ہی دن ہوئے اخبارات میں ایک لطیفہ شائع ہوا.نوابزادہ لیاقت علی خان اور ان کی بیگم کی بنگال میں ایک دعوت ہوئی.اس موقع پر کوئی شخص عورتوں کے متعلق نوابزادہ لیاقت علی خان سے باتیں کر رہا تھا.باتوں باتوں یں مسٹر لیاقت علی خان اسے کہنے لگے کہ میاں تم یہ طریقہ اختیار کرو کہ بیوی کچھ کرے اسے مان لیا کرو مگر کیا وہ کچھ کرو جو تمہارا جی چاہے؟ اس پر بیوی بول اُٹھی کہ جو کچھ جی میں آیا کرو گے تو پھر گھر میں بھی آؤ گے یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کچھ تو رد عمل ہے اُن مظالم کا جو پُرانے زمانے میں عورتوں پر کئے جاتے تھے.پُرانے زمانے میں سمجھا جاتا تھا کہ عورت جوتی سے سیدھی ہوتی ہے

Page 161

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۵ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے....فرائض ادا کرو اور عام طور پر یہ کہا بھی جاتا تھا کہ عورت تو جوتی کی طرح ہے ایک پیر نکال دیا اور دوسرا لے لیا اور شاید جوتی تو وہ اب بھی ہے مگر اب اپنے ہی مرد کے سر پر پڑنے لگ گئی ہے.پورپ نے دنیا میں جو خیالات پھیلائے ہیں کچھ ان سے متاثر ہو کر اور کچھ علم اور عقل کی روشنی کی وجہ سے اب لوگ پرانے ظلموں کا جواب کسی قدر دلداری سے دینے لگے ہیں اور یہ دلداری اب تعلیم یافتہ لوگوں سے ہٹ کر نچلے طبقہ میں بھی آرہی ہے.پہلے ہمارے ملک کا زمیندار عورت سے محبت کرنا جانتا ہی نہیں تھا وہ سمجھتا تھا کہ عورت کا اتنا ہی کام ہے کہ اُس کے لئے روٹی پکاوے مگر اب اس کے دل میں بھی اپنی بیوی سے محبت کا احساس پیدا ہو رہا ہے.آج ہی میری بیوی نے ایک واقعہ سُنایا کہ عورتوں کی بیرکوں کے پاس ایک مرد آیا اور اس نے سوراخ میں سے گڑ نکال کر اندر دیا اور کہا کہ یہ راجو کو دے دو.انہوں نے کہا کہ کون را جو؟ مگر وہ یہی کہتا چلا گیا کہ راجو کو دے دو.آخر بڑی مصیبت سے اُسے سمجھایا کہ یہاں تو بیسیوں راجو ہیں تم کس را جو کو گڑ دینا چاہتے ہو؟ انہوں نے تو یہ واقعہ اس انداز سے سُنایا کہ دیکھیں وہ اپنی بیوی کو گڑ دینے آیا تھا جو ایک نہایت معمولی اور حقیر سی چیز تھی مگر میں اس واقعہ کو سُن کر اس خیال سے گھنٹوں حفظ اُٹھاتا رہا کہ وہ نہایت ریفائنڈ اور اعلیٰ درجہ کا جذ بہ جو تعلیم یافتہ لوگوں میں پیدا ہو چکا تھا وہ اب نچلے طبقہ میں بھی پیدا ہو رہا ہے اور وہ بھی عورت کی قدرو منزلت کو سمجھنے لگا ہے.مرد کے ہاتھ میں گڑ آیا تو اس نے سمجھا کہ بغیر راجو کے اس کے کھانے کا مزہ نہیں آئے گا.یہ جذبہ جب اس طرح نیچے پھیلنا شروع ہوا تو تم سمجھ سکتی ہو کہ ملک کی کیا حالت ہو جائے گی اور عورت کتنا بلند مقام حاصل کر لے گی.بہر حال ملک کے گوشہ گوشہ میں یا تو مغربی تعلیم کے اثر کے نیچے اور یا اس رد عمل کے نتیجہ میں جو مسلمانوں نے قرآن کریم کی تعلیم کو بھلا کر اختیار کیا تھا عورت اب بھی ایک نمایاں حیثیت اختیار کر رہی ہے اور یا پھر یہ سمجھ لو کہ جب علم پھیلا اور جہالت دُور ہوئی تو لوگوں کو خود بخو د شرم آئی کہ ہم نے عورت کو کیسی ذلت میں رکھا ہوا تھا حالانکہ وہ بھی ہماری طرح اللہ تعالیٰ کی ایک مخلوق ہے بہر حال کسی نہ کسی وجہ سے

Page 162

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۶ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو یور بین خیالات کی وجہ سے یا پُرانے مظالم کے رد عمل کی وجہ سے یا علم پھیلنے کی وجہ سے عورت کی حکومت اب پھر قائم ہو رہی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکومت قائم کی تھی مگر بعد میں مسلمانوں نے اس کو بھلا دیا.حدیثوں میں آتا ہے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے کوئی ایسی بات کی جو آپ کو پسند نہ تھی اور جس سے فتنہ پیدا ہوسکتا تھا اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ہم الگ رہیں گے.چنانچہ آپ نے باریاں چھوڑ دیں مسجد میں خیمہ لگا کر سب سے الگ تھلگ رہنا شروع کر دیا اور لوگوں نے جب یہ بات سنی تو ان میں یہ مشہور ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے.حضرت عمر کو اپنی رہائش کے لئے چونکہ شہر میں جگہ نہیں ملی تھی اس لئے آپ مدینہ سے باہر رہتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے ایک ایک انصاری اور مہاجر کو آپس میں بھائی بھائی بنا دیا تھا.حضرت عمر کا جو انصاری بھائی تھا ایک دن وہ شہر میں آتا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننا اور دوسرے دن حضرت عمر آتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے مستفیض ہوتے.جس دن یہ واقعہ ہوا ہے اُس دن حضرت عمر کی نہیں بلکہ ان کے انصاری بھائی کی مسجد میں آنے کی باری تھی.شام کے وقت وہ گھبرایا ہوا واپس گیا اور جاتے ہی حضرت عمر سے کہنے لگا عمر ! اندھیر ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سب بیویوں کو طلاق دے دی ہے.حضرت عمر بھی یہ سنتے ہی گھبرائے ہوئے اندر گئے اور جا کر اپنی بیوی سے کہنے لگے آخر وہی ہوا جس سے میں ڈرتا تھا.ارے میں تجھے سمجھایا کرتا تھا کہ مردوں کے مقابلہ میں باتیں نہیں کرنا چاہئیں اور تو ہمیشہ کہتی تھی میں کیوں نہ بولوں جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی آپ کے سامنے بولتی ہیں اور آپ انہیں منع نہیں فرماتے تو تم مجھے منع کرنے والے کون ہو.اور میں تجھے ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا اور کسی دن انہیں طلاق مل جائے گی چنانچہ وہی ہو ا جس سے میں ڈرتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ساری بیویوں کو طلاق دے دی ہے اس کے بعد اسی گھبراہٹ

Page 163

انوار العلوم جلد ۲۲ ا ۱۳۷ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو میں آپ مدینہ تشریف لائے اور سب سے پہلے اپنی بیٹی حفصہ کے پاس گئے دیکھا کہ وہ رور ہی تھی آپ نے فرمایا کہ کیا ہوا ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ انہوں نے روتے ہوئے کہا کچھ پتہ نہیں مجھے صرف اتنا معلوم ہوا ہے کہ آپ ہم سے خفا ہو گئے ہیں اور مسجد میں چلے گئے ہیں.آپ نے فرمایا دیکھ ! میں تیری ماں کو یہی کہا کرتا تھا کہ ایک دن تیری بیٹی کو طلاق مل جائے گی کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے باتیں کرتی ہے اس کے بعد آپ مسجد میں گئے وہاں خیمہ لگا ہوا تھا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے جس کے نشانات آپ کے جسم پر نظر آرہے تھے.حضرت عمر چاہتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارہ میں گفتگو کریں مگر ڈرتے بھی تھے کہ کہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اور ناراضگی پیدا نہ ہو آخر انہوں نے گفتگو کا یہ ذریعہ نکالا کہ جاتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہنے لگے کہ یا رَسُول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ خدا کے نبی ہیں خدا کے پیارے اور اس کے مقرب ہیں اور یہ خبیث قیصر اور کسری دین سے بے بہرہ اور خدا اور رسول کو چھوڑنے والے ہیں مگر وہ لوگ تو اعلیٰ درجے کے محلات میں رہتے ہیں اور آپ خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو کر ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے ہیں.ان کا منشاء یہ تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو غصہ آیا ہو ا تھا وہ کسی طرح دور ہو جائے چنانچہ جب انہوں نے یہ بات کی تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمانے لگے وہ تو ظالم بادشاہ ہیں اور ہم خدا تعالیٰ کے نبی ہیں.میرا دنیا کی ان چیزوں سے کیا کام ہے مجھے تو اللہ تعالیٰ نے کسی اور مقصد کے لئے بھجوایا ہے.جب انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غصہ فرو ہو گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ یا رَسُول اللہ ! کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تو طلاق نہیں دی.آپ نے کہا الْحَمدُ لِلَّهِ آپ نے طلاق نہیں دی مگر یا رَسُول اللہ ! عورتوں کی یہ حالت ہے کہ میں جب گھر میں جاؤں اور کوئی بات کروں تو میری بیوی مجھے مشورے دینا شروع کر دیتی ہے کہ یوں کرو اور یوں نہ کرو.مکہ والوں میں یہ رواج تھا کہ وہ عورتوں کو بولنے نہیں دیتے تھے اور یہی

Page 164

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۸ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو اثر حضرت عمر پر بھی تھا چنا نچہ وہ کہنے لگے یا رَسُول اللہ ! میں نے اپنی بیوی کو ڈانٹا کہ تم مجھے مشورے دیتی ہو تمہاری کیا حیثیت ہے کہ تم اس قسم کی باتیں کرو.اس پر وہ کہنے لگی حفصہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دے لیتی ہے تم مجھے روکتے ہو تمہارا کیا حق ہے تم مجھے روکو ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں کو منع نہیں فرماتے.میں نے کہا کہ اگر یہ بات درست ہے تو کسی دن تمہاری بیٹی کو طلاق مل جائے گی.رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ہنسے اور آپ فرمانے لگے کہ میں نے تو طلاق نہیں دی.اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کس قدر عورتیں اپنے مردوں کو مشورے دیتیں اور ان پر ایک رنگ کی حکومت رکھتی تھیں.کے پرانی طرز کے لوگ جیسے حضرت عمرؓ تھے اپنی بیویوں کو ڈراتے بھی تھے کہ اگر تم نے یہی طریق جاری رکھا تو تمہیں طلاق دینی پڑے گی لیکن بہر حال اسلام نے عورت کا درجہ قائم کیا.اگر واقعہ میں عورت قابل نہ ہوتی تو کیا خدا عورتوں سے ڈرتا تھا وہ سیدھی طرح کہہ دیتا کہ عورتوں کو گھروں میں بٹھاؤ.نہ انہیں علم سکھاؤ اور نہ انہیں دین کے مسائل سمجھا ؤ صرف روٹیاں پکانے میں انہیں مشغول رکھو.مگر جب خدا نے کہا کہ عورت کو دین سکھاؤ اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کی دولڑکیاں ہوں اور وہ ان کی اچھی تربیت کرے اور انہیں علم سکھائے تو اُس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے گے تو اس کے معنی یہ تھے عورت بھی ویسا ہی دماغ رکھتی ہے جیسا کہ مرد ر کھتے ہیں اور عورت بھی ویسے ہی ترقی کر سکتی ہے جیسے مرد کر سکتے ہیں.اگر عورت کا دماغ اس قابل نہیں تھا کہ وہ دین کو سمجھ سکتا ، اگر عورت کا دماغ اس قابل نہیں تھا کہ وہ علوم کو اخذ کر سکتا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کیوں فرماتے.پس دماغ تو ہے مگر عورت کو اس سے کام لینا نہیں آتا کیونکہ اسے کام کی طرف توجہ نہیں.اس وقت ہزاروں عورتیں یہاں بیٹھی ہیں اس سال کچھ تو جلسہ گاہ بڑی بنا دی گئی ہے اور کچھ سردی کی وجہ سے عورتیں کم آئی ہیں لیکن پھر بھی کل دو پہر کو پانچ ہزار عورت شمار کی گئی تھی.ممکن ہے آج اس سے بھی زیادہ ہوں یا کم از کم کل جتنی ہی ہوں چونکہ ہمارے جلسہ گاہ میں غیر احمدی عورتیں بھی آتیں ہیں اور وہ بھی اس تعداد میں شامل ہوتی ہیں اس لئے اگر

Page 165

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۳۹ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو غیر احمدی مستورات پانچ سو بھی فرض کی جائیں اور ان کو اس مقدار سے نکال دیا جائے تب بھی ساڑھے چار ہزار احمدی عورت اس وقت یہاں موجود ہے.اگر تم اپنے فرض کو ادا کرتیں اور ہر عورت سمجھتی کہ میں نے کم از کم ایک عورت کو اسلامی نور سے منور کرنا ہے تو اب تک احمدیت کتنی ترقی کر چکی ہوتی.پھر ہماری جماعت میں صرف اتنی ہی عورتیں نہیں جتنی اس وقت یہاں موجود ہیں بلکہ ہماری جماعت میں ایک لاکھ سے زیادہ عورتیں ہیں.اگر وہ ساری کی ساری اپنے فرض کو ادا کریں تو کتنی جلدی احمدیت ترقی کر سکتی ہے اور وہ مخالفت جو محض عورتوں کی وجہ سے ہے کتنی جلدی ختم ہو سکتی ہے.پس ضرورت اس بات کی ہے کہ تم اپنی تعلیم کو استعمال کرنا سیکھو.ہماری جماعت کی عورتوں میں تعلیم بہت ہے مگر وہ اس تعلیم کو استعمال کرنا نہیں جانتیں اور اپنے وقت کو ادھر اُدھر کی باتوں میں ضائع کر دیتی ہیں.مردوں میں بھی یہ نقص ہے مگر عورتوں میں نسبتاً زیادہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسجد میں بیٹھتے تو ساٹھ دفعہ استغفار کرتے تھے.ے اس زمانہ میں مردوں میں بھی یہ رواج کم ہے اور عورتوں میں تو ساٹھ دفعہ استغفار کی بجائے ساٹھ قہقہے ضرور بلند ہوتے ہیں.جہاں عورتیں بیٹھتی ہیں وہ ساٹھ دفعہ ہاہا، ہو ہو ضرور کرتی ہیں.اگر ہاہا، ہو ہو کر نے کی بجائے وہ ساتھ دلیلیں بیان کریں، اگر ہاہا، کرنے کی بجائے وہ ساٹھ دفعہ استغفار کریں ، اگر ہاہا کرنے کی بجائے وہ ساٹھ معقول باتیں بیان کر دیں تو اس سے کتنی اصلاح ہو سکتی.مذہبی تعلیم ہی نہیں دُنیوی تعلیم میں بھی دوسری عورتیں ہماری عورتوں سے پیچھے ہیں بلکہ ہماری اعلیٰ تعلیم کو اگر مدنظر رکھا جائے تو ہماری عورتیں دوسری عورتوں سے سو گنے زیادہ ہیں.ان میں سے سو میں سے ایک بھی نہیں جس نے اعلیٰ دنیوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہو اور ہماری جماعت میں کئی ہیں.تو تعلیم کے لحاظ سے خواہ دُنیوی تعلیم کو بھی لیا جائے ہماری جماعت میں بہت زیادہ تعلیم پائی جاتی ہے اور ہماری عورتیں نسبت تعلیم کے لحاظ سے دوسروں سے پانچ چھ گنا بڑھ کر ہیں اور اگر دینی تعلیم کو لیا جائے تو ہماری عورتوں کے مقابلہ میں وہ بالکل صفر ہیں.ہماری جماعت میں سینکڑوں عورت ایسی ہے

Page 166

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۰ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو جو قرآن کریم کا ترجمہ جانتی اور دوسروں کو پڑھا سکتی ہے.سینکڑوں عورت ایسی ہے جو حد یث کا ترجمہ جانتی اور دوسروں کو پڑھا سکتی ہے لیکن باوجود اس تعلیم کے تم نے اپنی ذمہ داری کبھی کبھی ہی نہیں.تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یہ مردوں کا کام ہے حالانکہ پھنسی ہوئی کشتی اور پھنسی ہوئی گاڑی بغیر دونوں طرف چپو چلانے کے اور بغیر دونوں بیلوں کے زور لگانے کے نہیں نکل سکتی.ہماری کشتی بھی اس وقت بھنور میں پھنسی ہوئی ہے جب تک دونوں چیو نہیں چلائیں گے مرد بھی اور عورت بھی اور جب تک اس گاڑی کو مرد بھی نہیں کھینچیں گے اور عورتیں بھی اُس وقت تک ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے.پس میں لجنہ اماءاللہ کو ہدایت کرتا ہوں کہ وہ ایک کورس جاری کریں جس میں وہ تمام مسائل آجائیں جو بالعموم ہمیں پیش آتے ہیں اور پھر جیسے خدام کا پندرہ روزہ تربیتی کورس ہوتا ہے اسی طرح عورتوں میں تحریک کی جائے کہ مختلف مقامات سے اس غرض کے لئے احمدی عورتیں آئیں اور دینی مسائل سیکھیں.یہاں آنے پر ان کو مختلف مسائل کے متعلق نوٹ لکھوائے جائیں.سوال و جواب کے ذریعہ ان کی معلومات کو بڑھایا جائے اور ان کے سامنے ایسی تقریریں کی جائیں جو ان کی عملی استعداد میں اضافہ کرنے والی ہوں.ہمیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم عورتوں کی تعلیم کو اور زیادہ وسیع کریں.اور ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی عورتوں کو اور بھی اعلیٰ درجے کی تعلیم دلائیں اس کے لئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس سال یعنی ۱۹۵۱ء میں یہاں زنانہ کالج قائم کر دیا جائے.جگہ ہم نے تجویز کر دی ہے.میری بیوی اُم متین مریم صدیقہ جو ایم ، اے ہیں وہ اس کی نگران ہو سکتی ہیں.فرخندہ بیگم بی ، اے.بی ، ٹی ہیں وہ اب جلدی ہی ایم اے کر لیں گیں وہ پروفیسر مقرر ہوں گی.اسی طرح ایک دو اور عورتیں باہر سے لے کر ہم کام شروع کر دیں گے اور کچھ مرد پردہ کے پیچھے بیٹھ کر پڑھا دیں گے.ہماری تجویز یہ ہے کہ اس وقت جو د مینیات کلاس ہے اسے ختم کر دیا جائے.مدرسہ میں جتنی عربی اور قرآن کریم اور دینیات کی تعلیم ہے اُسی پر اکتفاء کیا جائے اور اس کے بعد کالج میں

Page 167

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۱ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو ان کی تعلیم پر زیادہ زور دیا جائے تا کہ ہماری جماعت میں زیادہ سے زیادہ عورتیں بی ، اے اور ایم ، اے ہوں.تا کہ انہی میں سے وہ ہوں جو دینی خدمات کے لئے وقف ہوں ، انہی میں سے وہ ہوں جو ڈاکٹری وغیرہ کا پیشہ اختیار کرنے والی ہوں اور انہی میں سے وہ ہوں جو اپنے گھر بار کا کام کریں اور اپنے خاندان اور علاقہ کی تعلیم کا انتظام کریں.اس سال سے ایف اے کی جماعت شروع کر دی جائے گی.اگلے سال تک کورس اور پروفیسروں کے انتظام کے ساتھ انشاء اللہ دوسری جماعت ایف ، اے کی اور پہلی جماعت بی اے کی شروع کر دی جائے گی اور تیسرے سال کے شروع میں سارے بی اے کی جماعت کھول دی جائے گی اور اگر خدا تعالیٰ پر و فیسر مہیا کر دے تو ایم اے کی کلاسز بھی کھل جائیں گی.پس ایک تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کی تعلیم کے معیار کو بلند کرنے کے لئے ہم نے کالج کھولنے کا ارادہ کیا ہے اس کے ساتھ بورڈنگ بھی ہوگا.جنہوں نے اپنی لڑکیوں کو کالج میں تعلیم دلانی ہو جیسا کہ لجنہ کی طرف سے بار بار اعلان ہو رہا ہے وہ اطلاع دیں یہاں رہنے والی لڑکیوں کو اپنے گھروں میں ہی رکھیں گے مگر جن کا یہاں کوئی رشتہ دار نہیں ان کے لئے ایک چھوٹا سا بورڈ نگ بنا دیا جائے گا اور وہ اُس میں رہیں گی.اس ذریعہ سے انشاء اللہ عورتیں بہت جلد اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیں گی اور ہمارا علمی معیار بہت اونچا ہو جائے گا.ایک کالج آسانی کے ساتھ ایک سو شاگرد ایک جماعت میں لے سکتا ہے.اگر ہر سال ایک سو بی، اے یا ایک سو ایم ، اے عورتیں ہمارے کالج سے نکلنا شروع ہو جائیں تو دس سال کے اندر اندر سارے مغربی پنجاب کی تعلیم اور سارے مغربی پنجاب کی عقلی اور ذہنی ترقی کا معیار بہت بلند ہو سکتا ہے اور نسبت کے لحاظ سے ہماری تعلیم بہ بڑھ جائے گی.دوسری لڑکیوں کا بہت سا وقت مشاعروں میں یا پارٹیوں میں یا سینماؤں میں ضائع چلا جاتا ہے.مگر ہمارے کالج کی لڑکیاں ان باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کریں گی اور وہ بہت جلد علمی ترقی حاصل کر لیں گی.لڑکوں کی تعلیم میں بھی ہم نے یہی دیکھا ہے چونکہ احمدی لڑکے محنت زیادہ کرتے اور اپنے وقت کو ضائع ہونے سے بچاتے

Page 168

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۲ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو ہیں اس لئے وہ اعلیٰ نمبروں میں پاس ہوتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ دوسرے لڑکے سینما میں وقت ضائع کرتے ہیں اور ہمارے لڑکے دوسروں کو بھی ان باتوں سے منع کرتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لڑکے زیادہ ہوشیار ہوتے ہیں اور زیادہ اچھے نمبروں پر کامیاب ہوتے ہیں.پھر ان کو اخلاقی تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے عام طور پر ان میں دیانتدار زیادہ ہوتے ہیں.غرض احمد یوں کے لئے ترقی کا بہت بڑا میدان ہے کیونکہ ہماری بنیاد مذہب اور اخلاق پر ہے اور دوسروں کی بنیاد ضیاع وقت پر ہے اور یہ سیدھی بات ہے کہ بالآخر مذہب اور اخلاق ہی جیتیں گے.دنیا میں جب بھی کوئی شخص مذہبی نشان دکھاتا ہے یا اخلاقی نشان دکھاتا ہے تو چاہے کسی وجہ سے دکھائے وہ جیت جاتا ہے.مجھے یاد ہے میں بچہ تھا کہ میں نے ایک کشتی منگوائی.میں نے اور بعض اور رشتہ داروں نے چندہ ڈالا اور قادیان کے اردگرد جو جو ہڑ تھا اُس میں کشتی ڈال دی.ہم حتی الوسع اس کی حفاظت کرتے تھے پھر بھی بعض دفعہ جب تالا کھلا رہ جاتا تو گاؤں کےلڑ کے آتے اور اسے کھول کر پانی میں لے جاتے اس میں صرف پانچ آدمیوں کی گنجائش تھی مگر وہ دس دس پندرہ پندرہ اس میں بیٹھ جاتے.اور پھر خوب گو دتے اور چھلانگیں لگاتے نتیجہ یہ ہوا کہ وہ کشتی خراب ہو گئی.میں نے ایک لڑکے سے پوچھا تو اُس نے بتایا کہ دوسرے وقت میں گاؤں کے بعض لڑکے آتے ہیں اور وہ اس کشتی کو پانی میں لے جا کر خراب کر دیتے ہیں.میں نے کہا کہ اس دفعہ لے جائیں تو مجھے بتانا چنانچہ ایک دن گاؤں کے دس بیس لڑ کے آئے اور وہ اس کشتی کو پانی میں لے جا کر خوب گودنے اور چھلانگیں لگانے لگے.وہ لڑکا بھاگا بھاگا میرے پاس آیا اور اُس نے کہا کہ چلیں لڑکے کشتی لے گئے ہیں اور وہ اسے خراب کر رہے ہیں.میری عمر اُس وقت ساڑھے تیرہ سال کی تھی میں دوڑا دوڑا وہاں پہنچا دیکھا تو واقعہ میں وہ اسے خراب کر رہے تھے.لڑکوں نے مجھے دیکھ لیا اور چونکہ وہ گاؤں کے تھے اور ہم گاؤں کے مالک تھے وہ ہم سے ڈرتے بھی تھے انہوں نے جب مجھے آتے دیکھا تو یکدم اُنہوں نے تالاب میں چھلانگیں ماردیں اور بھاگ گئے لیکن اُن کا

Page 169

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۳ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو رنگ لیڈر چھلانگ لگانے کے بعد گھبراہٹ میں بجائے دوسرے ساحل کی طرف جانے کے اُسی طرف آ گیا جس طرف میں کھڑا تھا اور کچھ دُور فاصلہ سے نکل کر اُس نے بھا گنا چاہا میں نکڑ سے بھاگ کر اُس کی طرف پہنچا اور ابھی وہ جو ہڑ سے نکل ہی رہا تھا کہ میں نے اسے پکڑ لیا اور بڑے غصہ سے اُسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا.اُس نے بھی سمجھ لیا کہ میں اب مار سے بچ نہیں سکتا چونکہ وہ ایک مزدور پیشہ لڑکا تھا اس میں یہ جرات تو نہیں تھی کہ وہ مجھے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھا سکے اور پھر وہ مجرم بھی تھا ورنہ وہ مجھ سے دُگنا طاقتور تھا اور اگر وہ مجھے مارنا چاہتا تو خوب گوٹ سکتا تھا.بہر حال میں نے اسے مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھایا اس پر بے اختیار اس نے بھی اپنا ہاتھ اُٹھا لیا.مارنے کے لئے نہیں بلکہ اس لئے کہ جب مار پڑے تو وہ اسے روک لے مگر پھر اسے خیال آیا کہ فائدہ کوئی نہیں.اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ انہیں اور زیادہ غصہ آئے گا اور یہ مجھے اور ماریں گے.بہر حال جب اُس نے ہاتھ اُٹھایا تو مجھے طبعی طور پر اور زیادہ غصہ آیا اور میں بڑے زور سے اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف لے گیا تا کہ پوری طاقت کے ساتھ اسے ماروں مگر معاً اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہاتھ اُٹھانے کا کیا فائدہ؟ اور اس خیال کے آتے ہی اُس نے اپنا ہاتھ نیچے گرا دیا اور اپنا منہ آگے کر کے کہا کہ لوجی مارلو.میں تھا تو بچہ مگر آخر بچہ کے سر میں بھی دماغ ہوتا ہے جب اُس نے کہا کہ لوجی مارلو تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے اُس نے مجھے ڈنڈا مارا ہے میرا ہاتھ گر گیا اور میں شرم کے مارے پانی پانی ہو گیا اس لئے کہ اس نے اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا.میں سمجھتا ہوں کہ جب ہم جُدا ہوئے تو اُس کا سر اونچا تھا فخر سے اور میرا سر نیچا تھا شرمندگی سے.تو گالی دینے والا بے شک گالی دیتا ہے لیکن فورا اس کے ساتھی سمجھتے ہیں کہ یہ ذلیل آدمی ہے اور وہ بھی اپنی ذات میں شرمندہ ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں نے بہت بُری حرکت کی.غرض اعلی تعلیم اور اعلیٰ اخلاق سے جو کام لیا جا سکتا ہے وہ گالی گلوچ سے نہیں لیا جا سکتا اور یہ ہتھیار خدا تعالیٰ نے ہمیں بخشا ہے.ضرورت اس بات کی ہے کہ تم عزم کر لو کہ آئندہ اپنی تعلیم کو استعمال کرو گی.اگر تم اپنی تعلیم کا استعمال سیکھ لو اور اگر اخلاق کے متعلق جو اسلام کی تعلیم ہے اس کو یاد کر لو اور عورتوں کے سامنے پیش کر و تو لازماً

Page 170

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۴ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو عورتوں کے دل نرم ہو جائیں گے.بے شک کچھ مرد ایسے بھی ہوں گے جو کہیں گے خبر دار ! آئندہ احمدی عورتوں سے ہر گز نہ ملنا.مگر کچھ ایسے بھی ہو نگے جو کہیں گے کہ ان کا لڑ پچر لاؤ تا کہ ہم بھی اس کا مطالعہ کریں.تو عورتوں میں تعلیم پھیلانا اور انہیں مسائل سکھانالجنہ کا آئندہ پروگرام ہونا چاہئے جس کی ایک شاخ میں نے یہ بتائی ہے کہ ہم نے یہاں کالج کھولنے کا ارادہ کیا ہے.دوسری چیز جس کی طرف عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ مسجد ہالینڈ ہے.میں نے عورتوں کے چندہ سے اس مسجد کے بنانے کا فیصلہ کیا ہے.ہالینڈ ایک چھوٹا سا ملک ہے شاید ساری آبادی اس کی پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں مگر وہ ایسا ملک ہے جس نے انگریزوں کی طرح بعض دوسرے ملکوں پر قبضہ کیا ہوا ہے.انڈونیشیا جس کے بڑے بڑے جزائر سماٹرا، جاوا اور بور مینو وغیرہ ہیں اور جس کی آبادی آٹھ کروڑ سے زیادہ ہے.یہ سارا ملک پہلے ہالینڈ کے ماتحت تھا.گویا انڈونیشیا آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے برابر ہے لیکن مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے کیونکہ پاکستان میں ڈیڑھ دو کروڑ ہندو ہیں اور وہاں ہندو اور دوسری قو میں چالیس پچاس لاکھ سے زیادہ نہیں.اس ملک پر پہلے ہالینڈ کا قبضہ تھا.ملک کا نام ہالینڈ ہے لیکن قوم کا نام ڈچ ہے جو انڈو نیشیا پر حکومت کر رہی تھی.اب جس طرح پاکستان آزاد ہوا ہے اسی طرح انڈونیشیا میں پاکستان کے قیام کے بعد نئی اسلامی حکومت قائم ہوئی ہے جس کی آبادی مسلمانوں کے لحاظ سے سارے اسلامی ممالک سے زیادہ ہے لیکن جس طرح پاکستان اور ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی انگریزوں کے ساتھ تعلق ہے اسی طرح انڈونیشیا گو آزاد ہو گیا ہے لیکن چونکہ اس کا تعلق ایک لمبے عرصہ تک ہالینڈ سے رہا ہے ڈچ کی کمپنیاں وہاں کھلی ہوئی ہیں.ڈچ زبان بولنے والے وہاں پائے جاتے ہیں.ڈچ زبان میں ڈگریاں ان کو حاصل ہوتی ہیں اس لئے باوجود آزاد ہونے کے ڈچ کا ان پر اثر ہے.اور انڈونیشیا کا ڈچ پر اثر ہے.پھر انڈونیشیا کو ایک اور خصوصیت حاصل ہے کہ مشرقی ممالک میں سے وہ ملک جس نے سب سے زیادہ احمدیت کو قبول کیا ہے وہ انڈونیشیا ہی ہے.

Page 171

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۵ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو یہاں دس ہزار احمدی ہیں اور احمدی بھی اچھے تعلیم یافتہ ہیں.گویا صرف تعداد کے لحاظ سے وہ زیادہ نہیں بلکہ رسوخ کے لحاظ سے بھی زیادہ ہیں.انڈونیشیا کے کئی وزراء ایسے ہیں جن کی رشتہ داریاں احمدیوں کے ساتھ ہیں اور کئی احمدی بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں.چنانچہ انڈونیشیا نڈونیشیا کی آزادی کے بعد ان کی طرف سے جو سفیر پاکستان میں مقرر ہو کر آیا اُس کا سیکرٹری ایک احمدی اور قادیان کا تعلیم یافتہ ہے اور سیکرٹری کی حیثیت ایک کمشنر کی سی ہوتی ہے.اسی طرح ایک پہلا سیکرٹری جو بیمار ہو کر واپس چلا گیا وہ بھی احمدی تھا.پس میں نے عورتوں کو یہ خوشی کا موقع دینا چاہا کہ وہ اپنے چندہ سے ایسی جگہ مسجد بنائیں جس کا اثر سب سے زیادہ انڈونیشا پر پڑے گا.ڈچ لوگوں میں جتنی بھی احمدیت پھیلے گی انڈونیشیا پر اس کا رد عمل ضرور پیدا ہو گا.مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس اہمیت کو عورتوں نے سمجھا نہیں.تمیں ہزار روپیہ تو صرف زمین پر خرچ ہو چُکا ہے اور اسی ہزار روپیہ کا عمارت کے لیے اندازہ ہے اور ایسی جگہ جہاں بڑے بڑے امراء پائے جاتے ہیں اور جہاں ہمارے ملک کے مقابلے میں نہایت گراں مزدوریاں ہیں.عمارت پر اسی ہزار روپیہ کا خرچ کوئی بڑی چیز نہیں.کراچی میں ابھی حال ہی میں وہاں کی جماعت نے مسجد بنائی ہے جس پر ان کا ایک لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے اور ہالینڈ کا دارالخلافہ ہیگ تو کراچی سے بہت گراں ہے اور پھر یورپ میں مزدوریاں بھی بہت زیادہ ہوتی ہیں پس وہاں کے اتنی ہزار کے معنے درحقیت چالیس ہزار ہی کے ہیں.میں نے آج سے اٹھائیس سال پہلے جرمنی کی مسجد کے لئے عورتوں کو تحریک کی تھی.اُس وقت احمدی عورتیں موجودہ تعداد سے دس حصہ کم تھیں اب تو اٹھائیس سال میں ہم بہت زیادہ بڑھ گئے اور ہماری حیثیتیں بھی بہت بڑھ گئی ہیں میں سمجھتا ہوں کہ آجکل دو تین شہروں مثلاً کراچی اور لا ہور وغیرہ کو ملا کر ہماری جتنی آمدنی ہے اتنی آمدنی پہلے ساری جماعت کی نہیں تھی.مگر اُس وقت عورتوں نے اپنی ذمہ داری کو سمجھا اور میرے اعلان پر ایک مہینہ کے اندر اندر انہوں نے اتنی ہزار روپیہ جمع کر دیا.مگر بعد میں جرمنی حکومت نے چونکہ ایسی پابندیاں لگا ہیں

Page 172

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۶ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو دیں جن کے ماتحت چھ سات ماہ کے اندر مسجد کی تعمیر مکمل ہو جانی چاہئے تھی اور ہمارے لئے ان پابندیوں کے مطابق مسجد بنا نا ممکن نہیں تھا اس لئے ہم نے وہ روپیہ لندن کی مسجد میں لگا دیا اور عورتوں کے روپیہ سے وہ مسجد بن گئی.بہر حال ہماری جماعت کی عورتوں کی تعدا داب دس گنا زیادہ ہے اگر اس مسجد کی بھی وہ وہی اہمیت محسوس کرتیں اور اسی اخلاص کا نمونہ دکھاتیں جو اُنہوں نے برلن کی مسجد کے متعلق دکھایا تھا تو اب تک آٹھ لاکھ روپیہ جمع ہو جانا چاہئے تھا مگر ہو انہیں ہزار ہے.اب گورنمنٹ کی طرف سے مطالبہ ہورہا ہے کہ جلدی مسجد بنائی جائے اور جن شرطوں کے مطابق ہمیں اس مسجد کے بنانے کی اجازت ملی ہے ان کے لحاظ سے بھی ہمیں جلد سے جلد یہ مسجد بنالینی چاہئے.پس میں احمدی خواتین کو ایک بار پھر تحریک کرتا ہوں کہ وہ جلد سے جلد اس مسجد کے لئے روپیہ جمع کریں.زمین خرید لی گئی ہے اور اگر چھ مہینے کے اندر اندر ہم عمارت شروع نہیں کریں گے تو معاہدہ کے مطابق یہ زمین ضبط ہو جائے گی.لجنہ اماءاللہ کو چاہئے کہ وہ مختلف جماعتوں پر ان کی تعداد کے لحاظ سے چندہ معین کر کے تقسیم کر دے اور اُن کا فرض قرار دے کہ وہ اس چندہ کو جلد سے جلد جمع کر کے مرکز میں ارسال کریں.مردوں پر امریکہ کی مسجد کا خرچ ڈالا گیا ہے جس پر ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہو چکا ہے اور ابھی عمارت کی مرمت اور درستی پر اور رو پر بھی خرچ ہوگا.عورتوں میں مسجد ہالینڈ کے چندہ کی تحریک اگر چہ پیچھے ہوئی ہے مگر تمہارے لئے ایک یہ بھی خوشی کی بات ہے کہ مردوں کا چندہ تمہارے چندہ سے بھی کم ہے حالانکہ مرد اگر قربانی کرتے تو ایک ایک شہر کے لوگ اتنا روپیہ جمع کر سکتے تھے مگر ان کا چندہ صرف چھیں ہزار ہوا ہے.پس تمہارے لئے یہ امر مزید خوشی کا موجب ہے کہ باوجود اس کے کہ تمہاری آمد میں مردوں سے بہت کم ہوتی ہیں پھر بھی تم اُن سے پہلے چندہ ادا کر دیتی ہو.ابھی گزشتہ دنوں یہاں خدام کا اجتماع ہوا تو ان میں سے ایک نے کھڑے ہو کر کہا کہ عورتوں کی اس میں کیا خوبی ہے آخر وہ ہم سے لے کر ہی دیتی ہیں دوسرے نے جواب دیا کہ لے تو لیتی ہیں.آخر میں میں تمہیں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ لجنہ کے دفتر کی بنیاد یہاں قائم

Page 173

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۷ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو کر دی گئی ہے شاید عورتوں نے وہ جگہ دیکھی ہوگی.اس میں بارہ کمرے ہوں گے اور ایک بڑا ہال ہو گا ایک لمبی بلڈنگ لائبریری کے لئے بنائی جائے گی تا کہ عورتوں میں مطالعہ کا شوق پیدا ہو.کمروں میں میز لگے ہوئے ہوں گے گر سیاں بچھی ہوئی ہوں گی اور مطالعہ کا شوق رکھنے والی عورتیں مختلف علوم وفنون کی کتابیں وہاں بیٹھ کر مطالعہ کریں گی اور جو نوٹ لکھنا چاہیں گی وہ نوٹ لکھیں گی.اسی طرح ہال میں مختلف مضامین پر لیکچر بھی ہوں گے اور عام مطالعہ کرنے والی مستورات وہاں بیٹھ کر مطالعہ بھی کریں گی.اس کے ساتھ لجنہ کے دفاتر بھی ہوں گے اور پھر آہستہ آہستہ ایسی عمارتیں بھی بنائی جائیں گی جن میں آنے والی مستورات کو ٹھہرایا جا سکے اب بھی اس کا احاطہ اتنا وسیع ہے کہ اس میں کئی ہزا ر عورت آسکتی ہے لیکن پھر یہ فخر بھی صرف تم کو ہی حاصل ہے کہ تمہارا اٹھائیس ہزار روپیہ اس غرض کے لئے پہلے سے جمع ہے صرف چوہیں ، پچھیں ہزار روپیہ اور ہو تو کام ہو جاتا ہے یہ کام بھی آپ لوگوں نے ہی کرنا ہے.یہ عمارت اب جلدی ملنے والی ہے اور چونکہ اس میں لائبریری بھی ہو گی اور لجنہ کا دفتر بھی اس لئے اس عمارت کے مکمل ہونے پر عورتیں اس میں اطمینان سے اپنے اجلاس بھی کر سکیں گی اور ان کی رہائش کا بھی اس میں انتظام ہوگا.یہ کام بھی ہے جس کی طرف میں نے توجہ دلا دی ہے گولجنہ یہ کام کریں گی جس کی طرف میں نے توجہ دلا دی ہے کیونکہ یہ کام ایسا ہے جو عورتوں کے اعزاز کو قائم کرنے اور ان کی پوزیشن کو نمایاں کرنے والا ہے اور عورتوں کا اس طرف توجہ کرنا نہایت ضروری ہے.میرا ارادہ تو صرف دس منٹ بولنے کا تھا مگر تقریر ایک گھنٹہ کی ہو گئی ہے.اب میں مختصر دعا کے بعد یہاں سے جاؤں گا اور نماز کے بعد مردوں میں تقریر کروں گا جو یہاں بھی سنی جائے گی.اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کو موجودہ دور کی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور وہ ایمان اور اخلاص اور فدائیت آپ میں پیدا کرے جو صحابیات کے اندر پائی جاتی تھیں تا کہ اس زمانہ میں احمدیت کی اشاعت کا جو فریضہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہم پر عائد کیا گیا ہے اس میں آپ کا حصہ مردوں سے کم نہ ہو.“ الفضل ربوہ ۱۹ / جولائی ۱۹۶۲ ء ) 66

Page 174

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۸ اسلام نے عورت کو جو بلند مقام بخشا ہے...فرائض ادا کرو مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل خديجة : موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۳۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ ٣ : بخاری کتاب المظالم باب الْغُرُفِةِ وَالْحُلَّيَّةِ (الخ) : ترمذی ابواب البر والصلة باب ما جاء في النفقة على البنات ه : ابن ماجه كتاب الادب باب الاستغفار

Page 175

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۴۹ متفرق امور از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احد خلیفة المسیح الثانی متفرق امور

Page 176

Page 177

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۱۵۱ متفرق امور نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ متفرق امور فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۵۰ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ا حباب کو معلوم ہے کہ میرا یہ سارا سال زیادہ تر کھانسی اور نزلہ کی تکلیف میں ہی گزرا ہے اور بی بیماری کی وجہ سے میرے جسم میں اب وہ تاب و توانائی نہیں ہے کہ میں زیادہ بول سکوں.سردی میں اُٹھنے بیٹھنے سے میرے جسم میں دردیں شروع ہو جاتی ہیں اور میرے لئے بیٹھنا یا کھڑا ہونا مشکل ہو جاتا ہے اسی لئے میں نے احباب سے یہ خواہش کی تھی کہ جہاں تک ہو سکے گرد اڑانے سے پر ہیز کریں اور اگر ان کی ملاقاتوں پر کوئی پابندی لگائی جائے تو وہ اُسے خوشی سے قبول کریں کیونکہ یہ پابندی اُنہی کے فائدہ کے لئے ہے.مجھے خوشی ہے کہ جو دوست ملاقات کے لئے آتے رہے ہیں انہوں نے اس کا لحاظ رکھا ہے اور اس دفعہ ملاقات کے دوران میں گرد نہیں اُڑی.اسی طرح جب کبھی میں نماز کے لئے جلسہ گاہ میں آیا ہوں تو میرے کانوں میں یہ آوازیں بھی پڑتی رہی ہیں که دوست گرد نہ اُڑائیں.بہر حال یہ اقدام تو آئندہ کی احتیاط کے لئے ہے ورنہ جو بیماری ہے وہ بدستور موجود ہے اور میرا گلا بیٹھا ہوا ہے.میرا ارادہ تھا کہ عورتوں میں صرف دس پندرہ منٹ تقریر کروں تا کہ گلا محفوظ رہے لیکن جب میں نے تقریر شروع کی تو گلے کا خیال نہ رہا اور وہ تقریر ایک گھنٹہ کے قریب رہی.چنانچہ میں دیکھتا ہوں کہ اس کا میرے گلے پر اس وقت اثر ہے لیکن بہر حال جب تک مجھے طاقت ہے اُس وقت تک میرا یہی کام ہے کہ میں اپنے اُس فرض کو ادا کرتا چلا جاؤں جو میرے پیدا کرنے والے نے

Page 178

انوار العلوم جلد ۲۲ میرے ذمہ لگایا ہے.غالب کہتا ہے ؎ ۱۵۲ گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے متفرق امور اگر غالب اپنے ساغر و مینا کوموت کی آخری گھڑیوں سے پہلے اپنے سامنے سے اُٹھنے نہیں دیتا تو میں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اہم کام کے لئے مقرر ہوں جب تک میری زبان میں جنبش ہے خدا تعالیٰ کے کلام کو لوگوں تک پہنچانے میں کس طرح دریغ کر سکتا ہوں.میں نے باوجود کمزوری کے اس سال یہ ارادہ کیا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو کل کسی علمی موضوع پر تقریر کروں.۱۹۴۵ ء سے برا بر دوسرے دن کی علمی تقریر نہیں ہو رہی (سوائے مارچ ۱۹۴۸ ء کے جلسہ کے جو لاہور میں ہوا تھا ).۱۹۴۵ ء میں میں سخت بیمار ہو گیا تھا.۱۹۴۶ء پر بارش ہو گئی اور دوسرے دن کی تقریر نہ ہوسکی.۱۹۴۷ء میں ہمیں قادیان سے نکلنا پڑا اور ۱۹۴۸ء میں یہ جلسہ ایک عارضی رنگ میں ہوا.۱۹۴۹ء میں ہم قریب ترین عرصہ میں یہاں آئے تھے اور مجھے اتنی فرصت نہیں تھی کہ اس طرف توجہ کرتا.اب بھی بوجہ بیماری کے اتنی طاقت تو نہیں کہ میں کوئی لمبی تقریر کر سکوں لیکن میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ ایک کام جو ادھورا پڑا ہے اگر خدا تعالیٰ توفیق دے تو میں اسے مکمل کر سکوں تو وہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے کام آئے گا اور اس سے فائدہ اُٹھانے والوں کی دُعائیں مجھے ملتی رہیں گی.چنانچہ میں نے اس سال سے ارادہ کیا ہے کہ دوسرے دن کی تقریر کسی علمی موضوع پر ہوا کرے اور اگر خدا تعالیٰ نے توفیق دی تو کل انشاء اللہ میں کسی علمی موضوع پر تقریر کروں.آج میں حسب عادت متفرق امور کے متعلق کچھ کہوں گا مگر اپنی تقریر شروع کرنے سے پہلے کل کی ایک تقریر کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.مجھے یہ شکایت پہنچی ہے کہ کل ایک ایسی تقریر ہوئی ہے جو مقررہ موضوع سے الگ تھلگ تھی.اس میں بعض باتیں ایسی کہی گئی ہیں جو نا مناسب تھیں یہ تقریر مولوی عبدالغفور صاحب کی تھی جس کا عنوان تھا:

Page 179

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۳ " نامحرم مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط اسلام نے کیوں منع قرار دیا ہے.“ بعد میں تو اور لوگوں نے بھی شکایت کی ہے لیکن جس شخص نے اس چیز کا مجھ سے پہلے ذکر کیا اُس نے مجھے بتایا کہ اصل مضمون کا کوئی پہلو بھی تقریر میں بیان نہیں کیا گیا بلکہ بعض با تیں اس میں ایسی کہی گئی ہیں جو قطعی طور پر نامناسب تھیں.اس تقریر کے دوران میں لاؤڈ سپیکر کا کنکشن چونکہ عورتوں کی طرف دیا گیا تھا اس لئے وہ باتیں نہیں کہنی چاہئے تھیں گو میرے خیال میں تو وہ باتیں مردوں میں بھی نہیں کہنی چاہئے تھیں مگر شکایت کرنے والے نے کہا ہے کہ چونکہ تقریر عورتوں کی طرف بھی سنی جارہی تھی اس لئے ایسی باتیں انہیں نہیں کہنی چاہئے تھیں لیکن جب اس دوست نے شکایت کی تو میں نے کہا اس میں مولوی صاحب کا کوئی قصور نہیں کیونکہ اُن کی پچھلی تقریریں جیسا کہ میں نے سُنا ہے اچھی ہوتی رہی ہیں اور مجھے بیرون جات سے خطوط آتے رہے ہیں کہ ان کی تقریروں کو جلد شائع کیا جائے.پھر حاضری کی جو رپورٹیں ملتی رہی ہیں اُن سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سب سے زیادہ حاضری انہی کی تقریر کے وقت میں تھی یہ بات بتاتی ہے کہ لوگوں کے ذہنوں پر پچھلی روایات کا اثر تھا کہ ان کی تقریر عموماً کامیاب ہوا کرتی ہیں.جس طرح بعض لوگ میلوں میں شامل ہوتے ہیں اسی طرح ہماری جماعت کے بعض افراد کو بھی جلسہ چھوڑ کر بازار وغیرہ میں پھرنے کی عادت ہے لیکن مولوی عبدالغفور صاحب کی تقریر کے دوران میں اکثر لوگ دُکانیں چھوڑ کر جلسہ گاہ میں آگئے تھے اُن کی یہ قربانی بتاتی ہے کہ اُن پر اس بات کا اثر تھا کہ مولوی صاحب کی پچھلی تقریریں کامیاب رہی ہیں ورنہ وہ کوئی پُرانے لیڈر تو ہیں نہیں کہ ان کی تقریر سننے کے لئے لوگ اپنی عادت کی بھی پرواہ نہ کریں اور جلسہ گاہ میں جمع ہو جائیں.غرض میں نے شکایت کرنے والے کو بتایا کہ اس میں مولوی عبدالغفور صاحب کا کوئی قصور نہیں قصور آپ کے بھائی سید ولی اللہ شاہ صاحب کا ہے.اُنہوں نے کہا اس میں سید ولی اللہ شاہ صاحب کا کیا قصور ہے؟ میں نے کہا یہ کہ انہوں نے اس مضمون کے لئے صحیح انتخاب نہیں کیا.یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ کوئی شخص نسخہ لکھوانے کے لئے وکیل کے پاس جائے یا مقدمہ کا مشورہ کرنے کے لئے انجینئر کے پاس جائے.

Page 180

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۴ دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ سارے علوم کسی ایک شخص کو آتے ہوں اور جب کوئی شخص کسی غلط جگہ پر جائے گا تو لازماً اُسے غلط مشورہ ہی ملے گا.مولوی صاحب کا بھی اگر یہ مضمون رکھا جاتا کہ خدا تعالیٰ نے اس بارہ میں کیا کہا ہے تو آپ لوگ دیکھتے کہ وہ کس طرح دھواں دھار تقریر کرتے اور قرآن کریم کی آیتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثیں دھڑا دھڑ پیش کرتے چلے جاتے مگر مضمون یہ تھا کہ مرد اور عورت کا آزادانہ اختلاط کیوں ممنوع قرار دیا گیا ہے اور کیوں کا جواب ہمارے مولوی کو نہیں آتا.تم کسی مولوی سے پوچھو کہ اس بارہ میں خدا تعالیٰ نے کیا کہا ہے تو دیکھو وہ کیسی دُھواں دھار تقریر کرنی شروع کر دے گا مگر یہ پوچھو کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیوں کہا ہے ؟ تو وہ خاموش ہو جائے گا کیونکہ ”کیوں“ سائیکالوجی کا مضمون ہے اور یہ مولوی کو نہیں آتا وہ یہ تو بتا سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے ، حدیث میں یوں آتا ہے مگر یہ نہیں بتا سکتے کہ ایسا کیوں ہے.پس اصل سوال یہ نہیں کہ مولوی صاحب نے ایسی غیر محتاط باتیں کیوں کہیں ، سوال یہ ہے کہ آجکل کے مولویوں کی تعلیم رکن بنیادوں پر قائم کی گئی ہے.اگر تعلیم کی بنیا دروایات اور نقل پر ہے تو وہ کیوں کا جواب نہیں دے سکتا.اس کا جواب علم النفس کا کوئی ماہر ہی دے گا.میری ایک بیوی مجھ سے اپنی تقریر کے متعلق مشورہ کرنے آئیں اور مجھے کہا کہ اس سال جلسہ سالانہ کے موقع پر میں نے فلاں مضمون لیا ہے اُس کے متعلق مجھے نوٹ لکھوا دیں.میں کئی لوگوں کو نوٹ لکھوایا کرتا ہوں.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب بھی بعض دفعہ مختلف مضامین کے متعلق میرے پاس مشورہ کے لئے آتے ہیں.قاضی اسلم صاحب بھی مشورہ کے لئے آتے ہیں.اس سال چوہدری مشتاق احمد صاحب بھی اپنے مضمون کے متعلق مشورہ لینے آئے لیکن جب میری بیوی نے کہا مجھے فلاں مضمون کے متعلق کچھ نوٹ لکھوا دیں تو میں نے اُسے کہا کہ میں اس مضمون کے متعلق نوٹ نہیں لکھواؤں گا کیونکہ تم نے انتخاب غلط کیا ہے.میں نے کہا مضمون تو بڑا اچھا ہے اگر میں یہ مضمون لوں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے میں وہ وہ مطالب بیان کروں کہ سُننے والوں کی آنکھیں گھل جائیں لیکن تمہیں ابتدائی مشق ہے تمہیں وہ مضمون لینا چاہئے

Page 181

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۵ متفرق امور جو گھلے استدلال کا ہو.اس مضمون کے متعلق تمہیں نوٹ لکھوانے کے یہ معنے ہیں کہ میں مضمون خراب کر دوں.اسی طرح مولوی عبدالغفور صاحب کا مضمون یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یوں فرمایا ہے ، حدیث میں یوں آیا ہے.یہ مضمون نہیں تھا کہ ایسا کیوں فرمایا گیا ہے.اگر آپ مولوی صاحب سے یہ پوچھتے کہ مرد و عورت کا آزادانہ اختلاط اسلام نے جائز رکھا ہے یا نہیں؟ تو دیکھتے کہ مولوی صاحب کس طرح حدیثیں اور آیات قرآنیہ نکال نکال کر آپ لوگوں کے سامنے رکھتے کہ آپ کہتے سُبحَانَ اللہ.لیکن اگر آپ یہ کہتے ہیں که مرد و عورت کا آزانہ اختلاط اسلام نے کیوں منع کیا ہے اور ”کیوں“ کا جواب ہمارے مولوی کے بس کی بات نہیں.اگر اس مضمون کے لئے قاضی اسلم صاحب یا ناصر احمد صاحب کو مقرر کیا جاتا یا ناظر صاحب دعوۃ و تبلیغ خود اسے بیان کرتے یا شمس صاحب ( مولا نا جلال الدین صاحب همس ) کو یہ مضمون دیا جاتا جو ولایت میں رہ چکے ہیں تو یہ انتخاب موزوں ہوتا.لوگ سمجھتے ہیں کہ ہر شخص کو ہر فن آنا چاہیئے گویا اسے ہرفن مولا ہونا چاہئے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ”کیوں“ بھی علم کا حصہ ہے اور ہمارے آقا کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ یعنی وہ رسول لوگوں کو یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم نے کیا کہا اور وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ کیوں کہا گویا سائیکالوجی اور علم النفس بھی شریعت کا ایک حصہ ہے لیکن ہم اس کو کیا کریں کہ مدارس میں ہم يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ تو کرتے ہیں اور الحِكْمَةَ کو چھوڑ جاتے ہیں اور جب ہم الحِكْمَةَ کو چھوڑ جاتے ہیں تو ہم اپنے مولویوں سے یہ کس طرح اُمید رکھ سکتے ہیں کہ وہ یہ بھی بیان کریں کہ خدا تعالیٰ نے ایسا کیوں کہا؟ ہمیں کوشش تو کرنی چاہئے کہ اس پہلو کو بھی سیکھیں لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ہمارا عالم یہ پہلو بیان کر سکے.بہر حال یہ اعتراض مولوی عبد الغفور صاحب پر نہیں پڑتا کیونکہ یہ حصہ ان کا موضوع نہیں یہ قصور انتخاب کرنے والے کا ہے.اس مضمون کو بیان کرنے کے لئے علم النفس کے

Page 182

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۶ متفرق امور ماہر آنے چاہئیں یا وہ مبلغ آنے چاہئیں جو تبلیغ کے لئے مغربی ممالک میں گئے اور اُن پر اس قسم کے اعتراضات ہوئے یہ گنہ تو مغربی ممالک کی نکالی ہوئی ہے تم اگر مسلمان کو کہو گے کہ اسلام نے ایسا کیوں کہا ہے تو وہ کہے گا ایسا کہنے والا کافر ہے.اسلام نے ایسا کیوں کہا ہے ؟ یہ اعتراض مغربی ممالک کی طرف سے کیا گیا ہے اس لئے جو مبلغ مغربی ممالک میں رہ چکے ہیں وہ ان باتوں کو بیان کر سکتے ہیں اور جو مبلغ مغربی ممالک میں تبلیغ کے لئے نہیں گئے اور اُن پر اس قسم کے اعتراضات نہیں ہوئے وہ اس مضمون کو بیان نہیں کر سکتے.پر دوسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ربوہ میں زمینوں کے ایک بڑے حصہ حکومت کی ہدایات کے ماتحت نشاندہی ہوچکی ہے.اس لئے جن دوستوں نے زمین خریدی ہوئی ہے انہیں چاہتے کہ وہ جلد سے جلد مکان بنانا شروع کر دیں.اگر مکان بن جائیں تو ہمیں جلسہ سالانہ کے موقع پر بھی سہولت ہوسکتی ہے.۳۰ ہزار روپیہ خرچ کر کے بیرکس بنوائی گئی ہیں اور وہ بھی یونہی اینٹوں کو کھڑا کر دیا گیا ہے اور پھر اینٹیں بھی سُوکھی نہیں.بیرکوں کی یہ حالت ہے کہ اُن میں آدمی سو بھی نہیں سکتے.اگر لوگوں نے مکان بنائے ہوتے تو بہت سے لوگ ان مکانوں میں رہ سکتے تھے.بہر حال جن لوگوں نے زمین خریدی ہوئی ہے انہیں چاہئے کہ وہ جلد سے جلد مکان بنائیں.نظامت جائداد کا کام ہے کہ وہ جلد مینٹیں تیار کروائے.بعض لوگوں کی خواہش بھی ہے کہ وہ جلدی مکان بنوائیں لیکن انہیں اینٹیں نہیں مل رہیں.میرے نزدیک اس دقت کو دیکھتے ہوئے شروع شروع میں مکان بنانے والوں کو بھی چاہئے کہ وہ صرف باہر کی دیواریں پکی بنالیں اور اندر کی دیوار کچی رکھیں اس طرح پکی اینٹوں کا بوجھ ہلکا ہو جائے گا.بڑے بڑے شہروں میں بھی پکی اینٹ میٹر نہیں آرہی.یہاں تو صرف ایک سال ہوا کہ ہم آکر بسے ہیں.ایک وجہ اینٹ تیار نہ ہونے کی یہ بھی ہے کہ جن لوگوں کے سپر د بھٹہ کا کام کیا گیا تھا وہ نا تجربہ کار تھے اُنہوں نے سال میں صرف دو بھٹے نکالے ہیں اور میں نے تجربہ کاروں سے سُنا.کہ کوشش کی جائے تو سال میں گیارہ بھٹے نکل سکتے ہیں.

Page 183

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۷ متفرق امور اس سال پانی کی بھی دقت ہے.کل تو روٹی بھی تیار نہیں ہو سکتی تھی اگر خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل سے کوئی صورت پیدا نہ کرتا.جماعت کی مخالفت آجکل زیادہ ہے.واٹر ٹینکس water tank) کے لئے ہم جس محکمہ میں بھی گئے وہاں کوئی نہ کوئی احراری ٹائپ کا آدمی تھا جس نے اس میں رُکاوٹ پیدا کر دی.اگر حالات یہی رہتے تو آج میرا مضمون یہ بھی ہوتا کہ ۱۳۰۰ سالوں تک مسلمانوں نے بغیر پانی اور بغیر لنگر کے حج کیا ہے.اگر ہم بغیر پانی اور بغیر لنگر کے ایک جلسہ پر گزارہ کر لیں تو کون سی بڑی بات ہے لیکن چونکہ روٹی پک گئی اور پانی کا ایک حد تک انتظام ہو گیا اس لئے میں نے یہ مضمون بیان نہیں کیا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہم جس محکمہ میں بھی گئے وہاں کوئی نہ کوئی احراری ٹائپ آدمی موجود تھا اور اُس نے ہمارے کام میں کوئی نہ کوئی روک پیدا کر دی.جب چاروں طرف سے انکار ہو گیا اور جب آٹا گوندھنے کے لئے بھی لنگر خانہ میں پانی موجود نہیں تھا اُس وقت آدمی پھر لاہور بھیجے گئے وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ملتان کی میونسپلٹی نے اپنی ضرورتوں کے لئے ایک ٹرک بنوایا ہے جس میں ۹۰۰ گیلن پانی کی گنجائش ہے.وہ ٹرک ابھی بنا ہے اور ملتان جانے والا ہے.ملتان میونسپلٹی کے پریذیڈنٹ کو فون کیا گیا کہ وہ جلسہ سالانہ کے موقع پر یہ ٹرک ہمیں دے دیں چنانچہ اُس نے اجازت دے دی اور وہ ٹرک یہاں پہنچ گیا اور ہماری تکلیف رفع ہو گئی.مجھے خوشی ہوئی ہے کہ یہ خدمت ملتان نے کی ہے.پنجاب میں اسلام کی پہلی مدد بھی ملتان سے ہوئی کہ اس علاقہ کے رہنے والوں نے اسلام کو پہلے قبول کیا اور ہمارے جلسہ میں بھی مدد کی توفیق ملتان کو ہی ملی.اگر چہ پریذیڈنٹ ملتان میونسپلٹی نے گوٹرک ہمیں کرایہ پر دیا تھا لیکن جب کرایہ کی ضرورت نہ ہو اُس وقت کسی چیز کا کرایہ پر دے دینا بھی دینے والے کی شرافت کا ثبوت ہے.بہر حال ابھی تک ہمارا انتظام ایسا نہیں کہ اسے مکمل کیا جا سکے یا جس کے ہوتے ہوئے ہر تکلیف رفع ہو سکے اور سردی بھی ایسی شدید پڑ رہی ہے کہ پارہ انجماد کے درجہ کے قریب پہنچا ہو ا ہے اس لئے دوستوں کو چاہئے کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھیں اور سردی

Page 184

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۸ متفرق امور میں باہر زیادہ نہ پھر میں کیونکہ مومن کی جان قیمتی ہوتی ہے.دیکھو کتنی دیر کے بعد ایک احمدی ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا بچہ 9 ماہ کے بعد پیدا ہو جاتا ہے لیکن بعض جگہوں پر دس دس سال متواتر تبلیغ کرنے کے بعد ایک احمدی ہوتا ہے.اگر دوست اس حقیقت کو مد نظر رکھیں تو انہیں محسوس ہو کہ مومن کی جان کتنی قیمتی ہوتی ہے.ایک بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ انگریزی ترجمۃ القرآن اور تفسیر کبیر کی ایک ایک اور جلد شائع ہو چکی ہے.تفسیر کبیر کی جو جلد پچھلے سال شائع ہوئی ہے.اُس کے ایک ہزار نسخے ابھی قابل فروخت ہیں اور اس سے پچھلی جلد کے بھی کچھ نسخے پڑے ہیں.دوست کچھ تو گزشتہ مصائب کی وجہ سے مہاجر بن گئے اور کچھ یہ وجہ ہوگئی کہ ہندوستان اب کوئی چیز نہیں جاسکتی اور کچھ وجہ یہ بھی ہو گئی ہے کہ بعض لوگ ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں اچھالے لیں گے، اچھالے لیں گے.سورۃ یونس کے بغیر کھف والی تفسیر پچاس پچاس روپیہ پر لوگوں نے خریدی ہے اور بعض لوگوں نے تو سو سو روپیہ میں ایک ایک جلد خریدی ہے.بیرونی ممالک کی لائبریریوں میں رکھنے کے لئے ہم نے کچھ کا پیاں ریزرو کی ہوئی ہیں لیکن سال میں پندرہ بیس ایسی چٹھیاں ضرور آ جاتی ہیں کہ ہمیں ریز رو کتابوں میں سے ہی ایک جلد دے دی جائے بے شک ہم سے قیمت زیادہ لے لی جائے.لیکن میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ یہاں قیمت کا سوال نہیں ایک پبلک کی قیمت ایک فرد سے بہر حال زیادہ ہے اس لئے دوستوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے یہ نہ ہو کہ یہ کا پہیاں بھی ختم ہو جائیں اور بعد میں انہیں اس سے کئی گنا زیادہ قیمت پر بھی یہ تفسیر نہ مل سکے.سورۃ کھف والی جلد اور پارہ عم يتساءلون کا پہلا حصہ بالکل ختم ہو چکا ہے اور دوسراحصہ بھی تھوڑی تعداد میں ہے اور اب تیسرا حصہ شائع ہو گیا ہے.قرآن کریم تو ایسی چیز ہے کہ اس کی تفسیر کا ہر جگہ پر ہونا ضروری ہے لوگ پڑھیں گے اور اس پر عمل کریں گے تو فائدہ اُٹھائیں گے.ہمارا یہی ہتھیار ہے جس سے ہم نے دُنیا فتح کرنی ہے.اگر ہم نے اس ہتھیا رکو استعمال نہ کیا تو پھر فتح مشکل ہی نہیں ناممکن ہے.اس تفسیر کے چھپنے کے بعد بڑے بڑے شدید دشمنوں کے خیالات بدل گئے ہیں.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے بتایا کہ میرے امرتسر کے

Page 185

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۵۹ ایک دوست تھے میں نے انہیں کہا آپ کو تفسیر کبیر ضرور خریدنی چاہئے لیکن اس نے کہا اگر چہ تم میرے دوست ہو لیکن پھر بھی میں احمدیوں کا لٹریچر نہیں خریدتا.میں نے اُسے کہا تم میری خاطر تفسیر خرید لو چنانچہ اُس نے تفسیر خرید لی.چوہدری صاحب نے بتایا کہ دوسری دفعہ جب وہ قادیان آیا تو اُس نے کہا ظفر اللہ ! تم قیمت پہلے لے لو اور آئندہ جو جلد شائع ہو وہ مجھے بھیج دو.میں نے اُسے کہا تم تو کہتے تھے کہ میں یہ تفسیر ہر گز نہیں خریدوں گا مگر اب قیمت پیشگی جمع کرا رہے ہو.اُس نے کہا میں پہلے کہتا تھا کہ میں نہیں خریدوں گا لیکن اب جب آپ کی وجہ سے میں نے یہ کتاب خرید لی اور اسے پڑھا تو معلوم ہوا کہ اس کا ہر مسلمان کے پاس ہونا ضروری ہے.میں نے اکثر دیکھا ہے کہ بعض دوستوں نے اپنے غیر احمدی دوستوں کو پڑھنے کے لئے تفسیر دی اور ایک عرصہ کے بعد اُنہوں نے بجائے کتاب واپس کرنے کے قیمت دے دی.ایک دوست نے مجھے بتایا کہ میں نے ایک دوست کو پڑھنے کے لئے تفسیر دی لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے قیمت مجھے دے دی اور کہا کہ میں یہ کتاب نہیں دوں گا.آخر بڑی مشکل سے میں نے وہ کتاب اُن سے واپس لی.لاہور کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ ایک ہندو نے تفسیر کبیر خریدی ہمیں اس کتاب کی ضرورت پڑی تو ہم نے کہا چلو اس ہندو سے لے لیتے ہیں.چنانچہ ہم اُس ہندو کے پاس گئے اور اُسے کہا کہ یہ کتاب تمہارے کام کی تو ہے نہیں ہمیں اس کی ضرورت ہے تم قیمت لے لو اور ہمیں یہ کتاب دے دو.مگر اُس نے کہا میں کسی قیمت پر بھی یہ کتاب نہیں دیتا.ہم نے کہا اچھا زیادہ قیمت لے لو اور کتاب دے دو لیکن وہ پھر بھی نہ مانا.پس اس کتاب کا ہر گھر میں موجود ہونا ضروری ہے اور اسے ابھی سے خرید لینا چاہئے دیر نہیں کرنی چاہئے.پیچھے جا کر جو پچھتانا پڑتا ہے تو تم پہلے ہی لے لو.میں نے بعض جلد میں اپنے چھوٹے بچوں کے لئے بھی خرید رکھی ہیں تا کہ وہ بڑے ہو کر یہ نہ کہیں کہ ہمارے پاس یہ تفسیر نہیں.آخری پارہ کی چوتھی جلد بھی جلد شروع ہو جائے گی اور ۱۹۵۱ء میں انشاء اللہ شائع ہو جائے گی.اسی طرح انگریزی ترجمۃ القرآن کی تیسری جلد بھی ۱۹۵۱ء میں شائع

Page 186

انوار العلوم جلد ۲۲ ہو جائے گی.17.متفرق امور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اہم کتب کی اشاعت کا انتظام بھی ہو گیا ہے.ہمارا سارا سٹاک قادیان رہ گیا تھا.پہلے تو قادیان والے کتابیں بھجواتے رہے لیکن اب وہ نہیں بھیجتے وہ کہتے ہیں ہمارے پاس تو پریس نہیں کہ دوبارہ شائع کر لیں.آپ کے پاس تو پریس ہے اس لئے یہ کتابیں ہمارے پاس ہی رہنے دیں.سو اب یہاں اہم کتب کی اشاعت کا انتظام ہو گیا ہے.حقیقۃ الوحی چھپ گئی ہے.ابھی نظارت تالیف و تصنیف نے میرے ہاتھ میں ایک کاپی دی ہے.ہلکے کاغذ والی کتاب کی قیمت ۶ روپے اور اعلیٰ کاغذ والی کتاب کی قیمت ۸ روپے ہے.ابھی اور کتابیں بھی شائع ہو رہی ہیں اور اگلے سال سے انشاء اللہ برابر چھپنی شروع ہو جائیں گی اور کتب کا ذخیرہ یہاں قائم ہو جائے گا.ایک بات میں اور کہنا چاہتا ہوں.گزشتہ خطبات جمعہ میں بھی میں نے اس طرف توجہ دلائی تھی اور اتنی توجہ دلائی ہے کہ بعض دُشمنانِ احمدیت نے مجھے لکھا.دیکھا اب لگا ہے سلسلہ ختم ہونے لیکن یہ ان کی حماقت ہے.آخر جماعتوں پر کوئی وقت ایسا بھی آیا کرتا ہے جب ان میں جوش پیدا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لو جنگ حنین کے موقع پر اسلامی لشکر پیچھے ہٹ گیا اور رسول کریم کو ان مسلمانوں میں جوش پیدا کرنے کے لئے کہنا پڑا کہ اے انصار ! خدا کا رسول تمہیں بلا تا ہے.یہ فقرہ مخفی طور پر مہاجرین پر ایک چوٹ تھی چنانچہ اُس نے ایک طرف تو انصار کے اندر ایک جوش پیدا کر دیا کہ اب ہمیں بلایا جاتا ہے مہاجرین کو نہیں بلا یا جاتا اور دوسری طرف مہاجرین یہ سن کرکٹ گئے کہ ہمیں نہیں بلایا گیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ مہاجرین و انصار نے آگے بڑھ کر قربانی کا ایک بے مثال نمونہ دکھایا اور جنگ کا نقشہ پلٹ گیا.پس ایسی جماعتیں مرتی نہیں ہاں بعض اوقات وہ سو جاتی ہیں اور اُن کو بیدار کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ میری اس تحریک سے پہلے دفتر اول کے دو لاکھ ۷۵ ہزار کے وعدے تھے ان میں سے صرف ایک لاکھ چھتیس ہزار کی وصولی ہوئی تھی.نومبر کے شروع میں میں نے تحریک کی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے ہندوستان کو ملا کر دو لاکھ چودہ ہزار پانچ سو چار کی وصولی ہو گئی.

Page 187

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۱ متفرق امور گویا اس تحریک کے بعد جماعت احمدیہ پاکستان نے ۵۱ ہزار روپیہ ادا کیا اور دس بارہ ہزار روپیہ قادیان میں وصول ہوا اور اب موجودہ رقم میں سے صرف ۶۳ ہزار روپیہ باقی ہے اور چونکہ دوستوں نے دوبارہ یہ وعدہ کیا ہے کہ وہ بقایا اپریل ۱۹۵۱ ء تک ادا کر دیں گے اس لئے یہ ۶۳ ہزار روپیہ بھی جلد ادا ہو جائے گا.اب ہم دیکھیں گے کہ دشمن کیا کہتا ہے.پہلے اس نے کہا جماعت مرگئی.اب وہ یہ کہے گا کہ جماعت دوبارہ زندہ ہو گئی.انصاف تو یہ ہے کہ وہ کہے اس اعلان پر احمدی دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں.بہر حال جماعت نے اخلاص کا نہایت اچھا نمونہ دکھایا ہے.اس سال پنجاب میں سیلابوں کی وجہ سے بڑی خطر ناک تباہی آئی اور سندھ میں بیماری کی وجہ سے ۲۵ سے چالیس فیصدی تک فصلیں مر گئیں.اتنی تباہی کے ایام میں اگر جماعت نے اتنی سستی دکھائی تو یہ ختم ہونے کی علامت نہیں.کچھ تو سیلاب کی وجہ سے چندہ ادا نہ کیا جا سکا اور کچھ اس خیال سے سستی ہو گئی کہ میں نے چندہ نہیں دیا تو کیا ہے میرا دوسرا بھائی دے دے گا لیکن میری تحریک کا یہ اثر ہوا کہ یا تو ۵۰ فیصدی سے بھی کم چندہ آیا تھا اور یا اب ۸۵ فیصدی چندہ آچکا ہے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ احباب اپنے وعدوں کو پورا کرتے ہوئے باقی رقم کو بھی جلد پورا کریں گے.انشاء اللہ تعالیٰ تحریک جدید دفتر دوم کے وعدے ایک لاکھ پینتیس ہزار روپے کے تھے اور ابھی ان میں سے ۷۹ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے گویا نصف کے قریب آمد ہوئی ہے.یہ چیز مجھے خطر ناک نظر آتی ہے.کیونکہ اس میں زیادہ تر ہمارے نو جوان شامل ہیں اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ نوجوان، بوڑھوں سے زیادہ قربانی کریں کیونکہ ایک تو نو جوان بوڑھوں سے زیادہ کھاتے پیتے ہیں دوسرے ان پر بیوی بچوں کی پرورش ، نوجوان بچوں کی تعلیم اور شادی کا اتنا بوجھ نہیں ہوتا جتنا بوڑھوں پر ہوتا ہے.پس نو جوانوں کو چاہئے کہ جس طرح بھی ہو وہ زور لگا کر اس کمی کو پورا کریں خصوصاً خدام الاحمدیہ کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور دفتر دوم میں دفتر اول سے زیادہ چندے آنے چاہئیں.نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ دفتر دوم کے لئے وعدہ کریں اور اگر پہلے وعدہ کم ہوا ہے تو اس میں زیادتی کریں اور پھر اسے جلد سے

Page 188

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۲ جلد پورا کریں.اب تو میں نے شرائط اتنی ہلکی کر دی ہیں کہ سوائے کنگال کے ہر ایک شخص اس میں حصہ لے سکتا ہے.ہماری جماعت لاکھوں کی ہے.اگر اس میں سے ۶۰-۷۰ ہزار افراد بھی تحریک جدید میں حصہ لیں تو چھ لاکھ روپیہ جمع ہوسکتا ہے.اس وقت وعدوں کی میزان ۷۲۷، ۲۷ روپے کی ہے.پہلے ۲۰ ہزار تھی.نو جوانوں کو فکر کرنی چاہئے اور انہیں اپنی کوششوں کو زیادہ تیز کرنا چاہئے.اب میں دوستوں کو اِس امر کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آنے والے ایام بہت نازک ہیں.بہت سے کام ہمارے ذمہ ہیں.ہم نے سکول بنانا ہے ، عورتوں کا کالج بنانا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ یہ کالج اسی سال یعنی ۱۹۵۱ء میں ہی کھل جائے.اس کالج کے ساتھ بورڈنگ ہاؤس بھی ہو گا.پھر مردانہ کالج بھی یہاں لانے کی ضرورت ہے.ہمارے مخالف حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ جس عمارت میں آجکل ہما را کالج ہے اس سے ہمیں نکال دیا جائے لیکن بجائے اس کے کہ کوئی ہمیں وہاں سے نکالے بہتر یہی ہے کہ ہم خود اُس کو چھوڑ کر یہاں آجائیں.مومن غیرت مند ہوتا ہے.اگر پاکستان کے بعض لوگ تفرقہ پیدا کرنا چاہتے ہیں اور ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان امتیاز پیدا کرتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم بھی اُنہیں کہہ دیں کہ مُلکِ خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست‘.ہمارے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان خدا تعالیٰ کا ملک وسیع ہے اور فقیر کے بھی پاؤں ہیں.اگر کسی خاص جگہ پر لوگ اُسے رہنے نہیں دیتے تو وہ دوسری جگہ پر چلا جاتا ہے اور اگر ایک فقیر اور سائل کا بھی اتنا حوصلہ ہوتا ہے کہ جب اسے ایک گھر سے دھتکارا جائے تو وہ کہتا ہے میں خدا تعالیٰ کے ملک میں رہتا ہوں اور اس کا ملک تمہارے گھر سے وسیع ہے اور پھر میرے پاؤں بھی لنگڑے نہیں.تو الہی جماعت میں کیوں غیرت نہ ہو اُسے بھی ان لوگوں کے جواب میں یہ کہنا چاہئے کہ ملک خدا تنگ نیست پائے گدا لنگ نیست‘.اگر لوگ ہمیں اس عمارت میں جہاں آجکل ہمارا کالج ہے نہیں رہنے دیتے تو ہم بھی اپنا کالج بنائیں گے اور کسی دوسرے کا احسان نہیں لیں گے.یہ مالی قربانیاں ہمیں آئندہ چند سال میں کرنی پڑیں گی.علاوہ ان عمارتوں کے

Page 189

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۳ متفرق امور دفاتر بھی بنیں گے ، کارکنوں کی رہائش کے لئے مکان بھی بنیں گے پھر دوست خود بھی یہاں مکان بنائیں گے اس کے علاوہ میں نے مسجد امریکہ اور مسجد ہالینڈ کی بھی تحریک کی ہوئی ہے.امریکہ میں ہمارا ڈیڑھ لاکھ روپیہ خرچ ہوا ہے.اس مکان پر مسجد کی طرح مینارے تو ابھی نہیں بنے.یہ جگہ ابھی تک مکان کی ہی صورت میں ہے لیکن یہ مکان نہایت اہم جگہ پر واقع ہے.اس کے قریب غیر ملکی سفارت خانے ہیں.پاکستان کا سفارت خانہ بھی قریب ہی ہے.پھر پریذیڈنٹ کا گھر بھی اس جگہ کے قریب واقع ہے.ایسی عمارت ڈیڑھ لاکھ روپیہ میں ملنی بہت سستا سودا ہے.پھر یہ معمولی مکان نہیں.دومنزلہ عمارت ہے.بہر حال یہ مکان خرید لیا گیا ہے لیکن اس کے لئے چندہ صرف ۲۲ ہزار روپیہ آیا ہے.باقی کچھ روپیہ اشاعت قرآن کی مد سے بطور قرض لیا گیا ہے اور کچھ دوسری مدات سے بطور قرض حاصل کیا گیا ہے.اگر یہ روپیہ جمع نہ ہو ا تو آئندہ بہت سی مشکلات پیدا ہو جائیں گی.جب لندن میں مسجد بنانے کی تحریک ہوئی تو عورتوں نے ساٹھ ستر ہزار روپے جمع کر دئیے تھے.اس وقت جماعت کی تعداد موجودہ تعداد سے دسواں حصہ تھی.پھر عورت کی آمد مرد کی آمد سے آدھی تو ضرور سمجھنی چاہئے بلکہ اس سے بھی کم ہوتی ہے.اب جبکہ ہماری تعداد اُس وقت کی تعداد سے دس گنا زیادہ ہے اور مسجد ایک اہم ملک اور پھر اس کے مرکز میں بنائی جارہی ہے تو ہم اس میں سستی کیوں کریں.لوگ وہاں اپنے کاموں کے لئے آئیں گے تو ہم سے بھی شناسا ہو جائیں گے.موجودہ وقت میں ہماری جماعت کا دو اڑھائی سو آدمی ایسا ہے جن کی آمد ایک ہزار روپیہ سے زائد ہے ان میں سے آدھے لوگ بھی اپنی ایک ایک ماہ کی آمد اس مسجد کے لئے دے دیں تو یہ رقم پوری ہو جائے گی لیکن جماعت نے اس کی اہمیت کو سمجھا نہیں.پس میں ایک دفعہ پھر جماعت کو توجہ دلاتا ہوں.ہمیں سب ملکوں میں مسجدیں بنانی پڑیں گی.اگر سب ممالک میں مساجد بن جائیں تو جو دُنیا ہمارے متعلق یہ کہتی ہے کہ ہم مسلمان نہیں ، کافر ہیں ہم اُسے بتا سکتے ہیں کہ کیا کافر ہی سب ملکوں میں مساجد بنا رہے ہیں.پس مسجد ہماری تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے.جن لوگوں کی آمد نہیں زیادہ ہیں وہ اس طرف توجہ کریں.اگر ایک سال تکالیف اُٹھا

Page 190

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۴ متفرق امور - کر وہ اپنی ماہوار آمد کا پچاس فیصدی بھی دے دیں تو یہ کام آسانی سے ہو سکتا ہے.ہم نے حفاظت مرکز کے لئے ایک فیصدی کے حساب سے جماعت کی جگہ کی قیمت کا اندازہ لگایا تو ۱۵ لاکھ کی رقم بن گئی تھی لیکن بعض ناہندہ اور مقروض بھی ہوتے ہیں.یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض لوگوں تک میری آواز نہ پہنچے اس لئے جن کی حیثیتیں زیادہ ہیں وہ اپنے اوپر بوجھ ڈال کر اگر ایک ایک ماہ کی نصف آمد اس مد میں دے دیں تو ہمارا بوجھ ہلکا ہو جائے گا اور کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں جن کی ماہوار آمد ہزار ہزار روپیہ ہو اور وہ ہزار ہزار رو پید اس مد میں لکھا دیں.چندہ نہ آنے کی وجہ سے بہت سی اہم مدات کا روپیہ اس مد میں پھنس گیا ہے اور لوگ اب وہ قرض مانگ رہے ہیں.ایک قرضہ کا تو اتنا تقاضا ہؤا کہ میں نے کہہ دیا مکان رہن رکھ کر یہ روپیہ ادا کر دو.آج میں نے عورتوں کو بھی توجہ دلائی ہے اور مردوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں کہ ہزار روپیہ ماہوار یا اس سے زیادہ او پر آمد والے ایک ایک ہزار لکھا دیں اور جن کی آمد نہیں اس سے کم ہیں وہ پچاس فیصدی یا ۲۵ فیصدی ماہوار آمد کا دیں اور جو سو روپیہ ماہوار سے کم آمد والے ہیں وہ اپنی آمد کا ۵ فیصدی دے دیں یا پانچ پانچ دس دس روپے دے دیں تو یہ کوئی زیادہ بوجھ نہیں.اتنا چندہ بآسانی دیا جا سکتا ہے.اس موقع پر حضور نے اعلان فرمایا کہ ڈاکٹر فرزند علی صاحب نے لکھا ہے میری امانت تحریک جدید میں سے کالج کے لئے پانچ صد روپیہ لے لیا جائے اور چیک لکھ کے دے دیا ہے.اسی طرح بابو سراجدین صاحب لاہور والے بھی اس مد میں ایک سو روپیہ کا وعدہ کرتے ہیں.جَزَاكُمُ الله اَحْسَنَ الْجَزَاءِ.اس کے بعد فرمایا ) اب میں ایک ایسے اہم معاملہ کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں جو ان دنوں بہت اہم ہو گیا ہے اور وہ ہماری مخالفت کی عام رو ہے جو مختلف جماعتوں اور فرقوں میں پیدا ہوگئی ہے.جب ہم قادیان سے آئے اُس وقت چونکہ صرف قادیان ہی سکھوں سے مقابلہ کر رہا تھا اس لئے کیا زمیندار اور کیا دوسرے مخالف اخبار سب ہی یہ لکھ رہے تھے کہ قادیان والے خوب مقابلہ کر رہے ہیں لیکن وہی اخبار جو اُس وقت ہماری تعریفیں کر رہے.

Page 191

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۵ متفرق امور تھے اب ہماری مخالفت میں پیش پیش ہیں.اُس وقت میں نے جماعت سے کہا تھا کہ یہ وقت بہت اچھا ہے تم تبلیغ کرو لیکن کئی لوگ ایسے تھے جنہوں نے مجھے کہا کہ آپ کچھ دن ٹھہر جائیں.اس وقت لوگ ہم پر بہت خوش ہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ناراض ہو جائیں لیکن میں سمجھتا تھا اگر تم نے اس موقع سے فائدہ نہ اُٹھایا تو کچھ عرصہ کے بعد انہی لوگوں کا رویہ تمہارے خلاف ہو جائے گا اور یہی لوگ تمہارا گلا کاٹنے کو دوڑیں گے لیکن جماعت نے اس طرف توجہ نہ کی.اور اب جب شورش پیدا ہوگئی ہے تو کہتے ہیں ذرا ٹھہر جانا چاہئے.ابھی ان لوگوں کو تبلیغ نہیں کرنی چاہئے کیونکہ ہمارے خلاف ہیں.گو یا تبلیغ نہ تو امن میں ہو سکتی ہیں اور نہ فساد میں.پھر تبلیغ ہو گی کس وقت ؟ بہر حال جماعت نے پہلے غلطی کی ہے اور اب اس کی اصلاح اسی طرح ہو سکتی ہے کہ وہ موجودہ شورش کی پرواہ نہ کریں اور زیادہ سے زیادہ وقت تبلیغ میں صرف کریں.جو جماعتیں ہماری مخالفت میں زیادہ سرگرم ہیں وہ احرار، اسلامی جماعت اور علامہ عنایت اللہ مشرقی کی اسلام لیگ ہیں.مجلس احرار نے متواتر تقاریر میں احمدیوں کے قتل کی تحریک کی ہے.جہاں جہاں مجلس احرار کے لیڈروں کی تقاریر ہوئی ہیں جماعت کے لوگوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے کھلے بندوں یہ کہا کہ احمدیوں کو قتل کر دو.منٹگمری میں انہوں نے یہاں تک کہا کہ احمدیوں کے مکانوں پر پہلے نشان لگا دو اور پھر ایک رات سب کو قتل کر دو.یہ نشان لگانے کی ترکیب نرالی ہے نئی نہیں.پرانے زمانہ میں بھی جب ڈاکو حملہ کرنے والے ہوتے تھے تو وہ جس مکان پر اُنہوں نے حملہ کرنا ہوتا تھا اُس پر پہلے نشان لگا دیتے تھے.کہتے ہیں ایک دفعہ ایک گھر پر حملہ کرنے کے لئے دو ڈاکوؤں نے نشان لگایا.اُس گھر میں ایک ہوشیار کو نڈی تھی وہ باہر آئی اتفاقاً اُس کی نظر اس نشان پر پڑ گئی.وہ گھبرا گئی لیکن کچھ دیر سوچنے کے بعد اُس نے اپنے مکان کے ارد گرد کچھ اور مکانوں پر بھی وہی نشان لگا دیا.ڈاکو آئے تو انہیں اس مکان کا پتہ نہ لگ سکا.میں جماعت کے دوستوں سے بھی کہتا ہوں کہ ایسی ذہانت سے کام لینا چاہئے.تم اگر اپنے مکانوں پر کوئی نشان لگا ہوا دیکھو تو ویسا ہی نشان تم اپنے اردگرد کے اور مکانوں پر بھی لگا

Page 192

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۶ متفرق امور دو.پھر جو ہو گا دیکھا جائے گا.خواہ وہ تمہارے گھر کے افراد کو مار دیں یا سب گھروں پر حملہ کر کے ان کے بسنے والوں کو قتل کر دیں.بہر حال یہ تحریک ہوئی اور کئی شکلوں میں ہوئی ہے.بعض دفعہ گورنمنٹ کو توجہ دلاتے ہیں کہ احمدیوں کو اقلیت قرار دے دیا جائے اور انہیں مسلمانوں سے الگ سمجھا جائے.ان کا یہ توجہ دلانا بالکل ویسا ہی ہے جیسے ایک مشہور واقعہ ہے کہ کوئی ظالم خاوند تھا وہ ہمیشہ مال دار عورتوں سے شادی کر کے اُن کی دولت پر قبضہ کر لیتا اور اس کے بعد کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر انہیں طلاق دے دیتا.ایک دفعہ اس نے ایک عورت سے شادی کی وہ عورت نہایت ہوشیار تھی.اسے پتہ لگا کہ اس کا خاوند ظالم ہے اور کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر مال و دولت پر قبضہ کرنے کے بعد وہ اُسے طلاق دے دے گا.اس نے بڑی عمدگی سے کام کیا اور خاوند کو اعتراض کا کوئی موقع نہ ملا.جب اُس نے دیکھا کہ یہ عورت تو الگ ہوتی نظر نہیں آتی بلکہ ہو سکتا ہے کہ میں مر جاؤں اور یہ میرے مال و دولت پر قبضہ کر لے تو اُسے طلاق دینے کا کوئی بہانہ سوچنے لگا.ایک دن اُس نے اپنی بیوی سے کہا میں باورچی خانہ میں بیٹھ کر کھانا کھاؤں گا.بیوی نے بہتیرا کہا کہ وہاں دھواں ہوگا اور تکلیف ہو گی مگر وہ نہ مانا اور اپنی اس بات پر اصرار کرتا رہا.چنانچہ وہ باورچی خانہ میں بیٹھ گیا.اس کی بیوی روٹیاں پکا رہی تھی وہ جھٹ غصہ سے اُٹھا اور اپنی بیوی کے سر پر جوتی مار کر کہنے لگا کمبخت ! روٹیاں تو تو ہاتھ سے پکاتی ہے تیری گہنیاں کیوں ہلتی ہیں؟ عورت بڑی ہوشیار تھی وہ کہنے لگی.آپ غصہ میں آگئے ہیں اور غصہ میں کھانا ہضم نہیں ہوتا.آپ مجھے مارنا ہی چاہتے ہیں تو کھانا کھا کر مار لیں.چنانچہ بیوی نے کھانا اُس کے سامنے رکھ دیا.جب وہ کھانا کھا رہا تھا تو اُس نے خاوند کی داڑھی پکڑ لی اور اُسے جوتا مار کر کہا.کمبخت ! کھانا تو تو منہ سے کھاتا ہے تیری داڑھی کیوں ہلتی ہے؟ اسی طرح ہماری مخالفت کرنے والے کر رہے ہیں.ایک جگہ انہوں نے ہمارے خلاف بہت شور مچایا کہ کیا اسلامی حکومت کو اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ احمدیوں کو ان کے تبلیغی کام سے روک دے اور بات صرف اتنی تھی کہ غیر احمدیوں کا کوئی جلسہ ہوا تھا اور ایک احمدی لڑکا باہر اشتہار بانٹ رہا تھا.اتنی سی بات پر انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ کیا احمدیوں کو

Page 193

انوار العلوم جلد ۲۲ 172 متفرق امور اسلامی حکومت میں رہتے ہوئے اتنی جرات ہو سکتی ہے حالانکہ یہ ویسی ہی بات ہے کہ کھانا تو تم منہ سے کھاتے ہو تمہاری داڑھی کیوں ہلتی ہے.گویا ہم پر جو چاہے اعتراض کرے اور جتنے اعتراض چاہے کرے ہمیں جواب دینے کی بھی اجازت نہیں.ہمارے مخالف جو چاہیں ہمارے خلاف کہتے پھریں لیکن چونکہ پاکستان کی حکومت اسلامی حکومت ہے اس لئے ہمیں یہ حق حاصل نہیں کہ ہم اتنا بھی کہہ سکیں کہ تم جو کچھ کہہ رہے ہو یہ غلط کہہ رہے ہو.گویا احمدی یہ سمجھیں کہ جو گالیاں اُنہیں دی جا رہی ہیں وہ گالیاں نہیں بلکہ اُن کی عزت افزائی ہو رہی ہے.ایک جگہ کے متعلق مجھے رپورٹ ملی کہ ایک پیرا اپنے مریدوں کو اکٹھا کر کے انہیں کہہ رہا ہے کہ تم بندوق چلانے کی مشق کر لو اس کے بعد ہم ربوہ پر حملہ کریں گے اور اُسے تباہ کر دیں گے.ڈپٹی کمشنر کے پاس جب اُس کی رپورٹ کی گئی تو اُس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ شخص پاگل ہے حالانکہ یہ رپورٹ ایسی نہیں تھی کہ کہنے والے کو پاگل کہہ کر ٹال دیا جاتا.اگر وہ پیر فی الواقعہ پاگل ہے تو پھر تو بہت زیادہ خطر ناک ہے کیونکہ ایسا اقدام عموماً پاگل ہی کیا کرتے ہیں.اسی طرح ایک جگہ پر کہا گیا کہ ڈپٹی احمدی ہے اسے مار دو.اسی طرح میرے متعلق بھی کہا گیا کہ اسے مار دیا جائے.مجسٹریٹ علاقہ اس جلسہ میں موجود تھا.اُس نے اپنی رپورٹ میں اس امر کا ذکر کیا لیکن پولیس کی رپورٹ میں اس کا ذکر نہیں تھا.جب پولیس کو ڈی سی نے اس طرف توجہ دلائی تو یہ کہہ دیا گیا کہ جس شخص نے یہ بات کہی ہے وہ پاگل ہے حالانکہ کھلے بندوں احمدیوں کے قتل کی تحریک کی گئی اور ایک آدمی کھڑا ہوا اور اُس نے کہا میں یہ کام کروں گا لیکن جب سپر نٹنڈنٹ پولیس سے اس کا ذکر کیا گیا تو اُس نے کہہ دیا کہ وہ پاگل تھا گویا یہ کام بڑے بڑے عقل مند کیا کرتے ہیں.پھر ہم پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں حالانکہ اگر کوئی جماعت ایسی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں گداز ہے اور آپ کے نام کو دنیا میں عزت کے ساتھ قائم کرنے والی ہے تو وہ صرف ہماری ہی جماعت ہے.جب ہمارے سلسلہ کی بنیاد ہی اسی امر پر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نور

Page 194

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۸ متفرق امور ہمیشہ قائم رہے گا اور جب ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ اسلام کے تنزل کے دور میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی ایک غلام اسے دوبارہ دنیا میں قائم کرے گا اس کے احیاء کیلئے باہر سے کوئی نبی نہیں آئے گا تو کوئی شخص یہ کس طرح کہہ سکتا ہے کہ یہ فرقہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرنے والا ہے یہ تو واقعاتی لحاظ سے محال ہے لیکن دوسری طرف یہ عقلی طور پر بھی محال ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اور غلام بھی کہتے ہوں اور پھر وہ آپ کی ہتک بھی کرتے ہوں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک شخص یہ کہے کہ میں افلاطون کا شاگر دہوں اور پھر کہے کہ افلاطون بڑا جاہل ہے.اگر وہ واقعی افلاطون کا شاگر د ہے تو وہ اُسکی تعریف کرے گا مذمت نہیں کرے گا.اسی طرح اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگرد اور غلام کہتے ہیں تو وہ آپ کی تعریف ہی کریں گے مذمت نہیں کریں گے ورنہ وہ اپنے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا شاگر د کیسے کہہ سکتے ہیں.پھر کسی جگہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم انگریزوں کے خوشامدی ہیں چنانچہ راولپنڈی میں تقریر کرتے ہوئے بڑے فخر سے اس چیز کو پیش کیا گیا کہ میں نے فلاں کمشنر کو بہکایا اور بعض حوالجات بھی دکھائے جس پر وہ احمدیوں کے خلاف ہو گئے.میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ یہ درست ہے.اُس کے خیالات ہمارے متعلق پہلے ہمدردانہ تھے لیکن اب وہ مخالف ہے.اسی طرح ایک ریلوے افیسر کو بھی یہ بات کہی گئی وہ ایک احمدی کے پاس آیا اور اُس نے کہا میں پہلے آپ لوگوں کے خلاف نہیں تھا لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ آپ لوگ تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں.غرض افسروں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو اس مخالفت سے متاثر ہو گیا ہے.میں نے درد صاحب کو ایک ضروری کام کیلئے کراچی بھیجا.وہاں انہیں پاکستان سیکریٹریٹ کے ایک انڈرسیکرٹری ملے وہ احمدیوں کے ممنونِ احسان تھے.ایک احمدی دوست نے انہیں تعلیم دلوائی تھی.انہوں نے درد صاحب سے کہا کہ لوگوں میں آپ کی مخالفت عام ہو رہی ہے اور یہ میں صرف آپ کے فائدہ کیلئے کہتا ہوں کہ آپ اس

Page 195

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۶۹ متفرق امور طرف توجہ کریں.ایک صوبہ کے گورنر نے ایک بڑے شہر میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ احمدی بھائی مجھے معاف کریں اگر میں یہ کہوں کہ انگریزوں کی عادت تفرقہ ڈال کر حکومت کرنا تھی اور اپنی اسی عادت کے مطابق انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے احمدیوں کو کھڑا کیا اور بہائیوں کو روس نے کھڑا کیا.وہ گورنر احمدیوں کا ملنے والا ہے لیکن مخالفت سے وہ بھی متاثر ہو گیا.اگر افسروں پر یہ اثر غالب ہو کہ ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں تو ان سے انصاف کی بہت کم امید ہوسکتی ہے.مجھے تعجب آتا ہے که تعلیم یافتہ آدمی بلا تحقیق کس طرح ایک رائے قائم کر سکتا ہے.آخر جو لوگ بڑے عہدوں پر پہنچے ہیں وہ بڑے تجربہ کے بعد پہنچے ہیں لیکن عجیب بات یہ کہ جب ہمارا معاملہ آتا ہے تو وہ ایک فریق کی بات سُن کر متاثر ہو جاتے ہیں.اسکی وجہ یہ ہے کہ ہماری مخالفت کا ان کے دماغ پر اتنا اثر پڑا ہے کہ اب وہ کسی تحقیقات کی ضرورت ہی نہیں سمجھتے حالانکہ اگر وہ سوچتے تو انہیں معلوم ہوتا کہ یہی مولوی پہلے کہا کرتے تھے کہ ہم انگریزوں کے خلاف ہیں.علماء کی کتابیں موجود ہیں.ان میں صاف لکھا ہے کہ انگریزی حکومت کو فکر کرنی چاہئے.مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں اگر ابھی اس کی اصلاح نہ کی گئی تو کسی وقت حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.حضرت مسیح موعود کے دعوئی کے پانچ سات سال بعد کی کتب میں جو مخالف علماء کی طرف سے لکھی گئی تھیں یہ نظر نہیں آتا کہ مرزا صاحب انگریزوں کے ایجنٹ ہیں.بلکہ ساری کتب میں یہ لکھا ہے کہ مرزا صاحب حکومت کے مخالف اور اس کے باغی ہیں.لیکن اب احراری علماء یہ کہہ رہے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں.اگر یہ لوگ علم کی بناء پر ہماری مخالفت کرتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ یا تو اس وقت کے علماء جھوٹے تھے یا موجودہ علماء جھوٹ بول رہے ہیں.مولوی محمد حسین صاحب اور لدھیانے والے مولویوں کی کتابیں موجود ہیں اُن میں صاف لکھا ہے کہ مرزا صاحب حکومت کے باغی ہیں.ان باتوں کے ہوتے ہوئے ایک عقل مند دیانت دار اور تجربہ کار افسر دھوکا میں کس طرح آسکتا ہے.یہی لوگ جو اب کہتے ہیں کہ احمدی انگریزوں کے ایجنٹ ہیں انہوں نے دعویٰ کے پہلے آٹھ دس سال میں یہ کہہ کر

Page 196

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷۰ جماعت احمدیہ کی مخالفت کیوں کی تھی کہ مرزا صاحب انگریزوں کے خلاف ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام تھا جو غالبا ۱۸۹۳ء میں ہوا اُس کے الفاظ یہ ہیں.سلطنت برطانیہ تا ہشت سال.بعد ازاں ایام ضعف و اختلال، ۳ بعض کے روایات میں ایام ضعف و اختلال“ کے الفاظ بھی آتے ہیں لیکن مجھے یہ الہام اسی طرح یاد ہے.جب یہ الہام ہوا تو بعض مصلحتوں کی بناء پر اسے شائع نہ کیا گیا لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو ہر وقت اس ٹوہ میں رہتے تھے کہ کوئی قابلِ اعتراض بات مل جائے.انہوں نے یہ الہام کسی احمدی سے سُن لیا اور فوراً مضمون لکھا کہ کیا میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ شخص ( حضرت مسیح موعود ) حکومت کا باغی ہے.اب اسے یہ الہام بھی ہونے لگا ہے کہ حکومت برطانیہ صرف چند سال تک ہی ہے.اگر حضرت مسیح موعود فی الواقعہ انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور جماعت احمد یہ انگریزوں کی قائم کردہ ہے تو آپ کو انگریزوں کے خلاف الہامات کیوں ہوئے؟ یہ تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود کو انگریزوں نے قائم کیا مگر کیا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ انہی کے خلاف اپنے الہامات شائع کریں اور پھر وہ پورے بھی ہو جائیں.آپ کو الہام ۱۸۹۳ ء میں ہوا اور ۱۹۰۰ ء کے بعد سے انگریزوں کی حکومت میں ضعف و اختلال شروع ہو گیا.ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئی اور آہستہ آہستہ کینیڈا، آسٹریلیا اور ہندوستان میں بیداری پیدا ہوئی اور اُنہوں نے آزادی حاصل کر لی.پس یہ چیز عقلی طور پر محال ہے کہ حضرت مسیح موعود کو انگریزوں کا ایجنٹ قرار دیا جائے.اگر آپ کو انگریزوں نے قائم کیا تھا تو چاہیے تھا کہ وہ آپ کو ایسی باتیں سکھاتے جو اُنکی تائید کرنے والی ہوتیں کیونکہ جہاں یہ لوگ سیاست میں بڑھے ہوئے ہیں وہاں یہ مذہبی تعصب میں بھی بڑھے ہوئے ہیں.پرنس آف ویلز کا ایک عورت سے تعلق تھا وہ با قاعدہ سب مجلسوں میں آتی تھی وہ بادشاہ کے گھر میں ٹھہر تی تھی.دعوتوں اور ناچ گانوں میں شامل ہوتی تھی اور ان محفلوں میں سب وزراء بھی شامل ہوتے تھے لیکن کسی وزیر نے میل جول پر اعتراض نہیں کیا.مسٹر بالڈو نہ جس نے بعد میں اعتراض کیا وہ کئی دفعہ ان ناچ گانوں میں شامل ہو چکا تھا جس میں یہ عورت پرنس آف ویلز کے ساتھ

Page 197

انوار العلوم جلد ۲۲ KI شریک تھی.بدقسمتی سے ایڈورڈ ہشتم نے ایک دفعہ آرچ بشپ آف کنٹر بری کی دعوت کی اور اُس عورت کو بھی بلا لیا.آرچ بشپ آف کنٹر بری ناراض ہو گیا اور اس نے بادشاہ سے فوراً استعفیٰ دلوا دیا.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ انگریز مذہب کے بارہ میں نہایت متعصب واقع ہوئے ہیں اور بڑے سے بڑا بادشاہ بھی اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.برطانیہ کے وزیر اعظم مسٹرائیلی کی بہن سخت کٹر پادری تھی جو بھی فوت ہوئی ہے.ہمارے مشن میں بھی وہ آیا کرتی تھی.وہ ساؤتھ افریقہ میں بطور مشنری کام کرتی تھی.پس انگریز خواہ چھوٹے ہوں یا بڑے ان میں اسلام کے خلاف اور عیسائیت کی تائید میں شدید جذبہ پایا جاتا ہے.میں جب انگلستان گیا تو ایک دہر یہ ڈاکٹر سے میرا تبادلہ خیالات ہؤا.اس سے جب میری گفتگو ہوئی تو اُس نے دو چار فقرات کے بعد ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کر دیا.میں نے کہا آپ تو دہر یہ ہیں.اُس نے پھر اعتراض کیا تو میں نے کہا آپ تو دہر یہ ہیں لیکن جب اُس نے پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کیا تو میں نے حضرت مسیح علیہ السلام پر اعتراض کر دیا.اس پر وہ کہنے لگا میں مسیح کے متعلق کوئی بات سُنے کیلئے تیار نہیں.میں نے کہا اگر تم مسیح کے متعلق کوئی بات سننے کیلئے تیار نہیں تو کیا میں ہی ایسا بے غیرت ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے متعلق اعتراضات سنتا چلا جاؤں اور خاموش رہوں.غرض برطانیہ کے ایک دہریہ کو بھی عیسائیت سے محبت ہے.عیسائیت کی محبت میں برطانیہ اور امریکہ سب سے زیادہ بڑھے ہوئے ہیں اور یہ دونوں مملک جتنا روپیہ مشنوں پر خرچ کر رہے ہیں ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ آمد اس کا چوتھا حصہ نہیں.ہندوستان اور پاکستان کی مشتر کہ آمد چھ ارب روپیہ یعنی ۶۵ کروڑ پاؤنڈ ہے لیکن برطانیہ اور امریکہ دونوں مشنوں پر جو خرچ کر رہے ہیں وہ ایک ارب پاؤنڈ سالانہ سے زیادہ ہے.گویا عیسائی مشنوں کے اخراجات ہندوستان اور پاکستان کی مشترکہ آمد سے بھی زیادہ ہیں اور یہ روپیہ برطانیہ اور امریکہ دیتے ہیں.چھوٹے حکام سے لے کر وائسرائے اور بادشاہ تک گر جا میں جاتے ہیں.پھر عجیب بات یہ ہے کہ احراریوں کے خیال کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 198

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷۲ متفرق امور کو کھڑا انگریزوں نے کیا مگر اسے کہا یہ کہ تم کہو عیسی مر گیا ہے.یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ جس طرح ہم احمق ہیں انگریز بھی ویسے ہی احمق ہیں جو حکومت اربوں روپیہ عیسائیت کی اشاعت کیلئے خرچ کر رہی ہے.جس کی بنیاد ہی مسیح کی اگو ہیت پر ہے، جس کے پادریوں میں اتنی طاقت ہے کہ انکی مخالفت کی وجہ سے ایک بادشاہ بھی استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جاتا ہے کیا اُس نے مسلمانوں کو کمزور کرنے کیلئے یہی کہلوانا تھا کہ عیسی مر گیا ہے.جس وقت ہم کچھ بھی نہ تھے اُس وقت انگریز اتنا خطرناک حربہ چلا کر پہلے کیا فائدہ اُٹھا سکتا تھا.آج تو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہم اتنی قلیل تعداد میں ہیں کہ تم خیال کرتے ہو کہ چاہیں تو ہم سب کو ایک رات میں ہلاک کر دیں.پھر وہ کون سی طاقت تھی جس سے انگریز اُس وقت فائدہ حاصل کرنا چاہتا تھا جب ہم موجودہ حالات سے کئی گنا کمزور تھے.مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جب سیالکوٹ میں تقریر ہوئی تو علماء نے آپ پر کفر کے فتوئے لگائے اور ان میں سب سے پیش پیش پیر جماعت علی صاحب تھے.ڈھنڈورے پیٹے گئے اور اشتہاروں اور اعلانوں کے ذریعہ یہ پروپیگنڈا کیا گیا کہ جو شخص مرزا صاحب کی تقریر سننے جائے گا اُس کا نکاح ٹوٹ جائے گا.آپ کی تقریر ایک سرائے میں ہوئی تھی.لوگ باوجود ان فتوؤں کے تقریر سننے کیلئے گئے.مولوی اشتہار بانٹتے تھے اور لوگوں کو پکڑ پکڑ کر کہتے تھے کہ دیکھو اس میں کیا لکھا ہے تو لوگ یہ کہہ کر آگے چلے جاتے کہ نکاح کا کیا ہے نکاح تو پھر دوبارہ کسی مولوی کو سوا روپیہ دے کر پڑھا لیں گے لیکن مرزا صاحب شاید دوبارہ یہاں نہ آئیں.جب تقریر شروع ہوئی تو بعض لوگوں نے شور مچا دیا.اُن دنوں سیالکوٹ میں ایک انگریز لیفٹینٹ سپر نٹنڈنٹ پولیس تھا جس کا نام Beltis تھا وہ دیوار پر چڑھ گیا اور اُس نے کہا مسلمانو! تم بہت بے وقوف ہو یہ ہمارے خدا کو مار رہا ہے لیکن میں خاموش کھڑا تقریر سن رہا ہوں اور تمہارے مذہب کو چلا رہا ہوں اور تم شور مچارہے ہو.مثل مشہور ہے کہ میں نے کیا تیری ماں ماری ہے، ہم نے عیسائیوں کا خدا مار دیا لیکن پھر ہم انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ لوگ ان کے خدا کو زندہ آسمان پر بٹھائے ہوئے ہیں اور پھر بھی انکے مخالف ہیں مَا شَاءَ اللہ کتنی عقل کی بات ہے.

Page 199

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷۳ متفرق امور میں بتا چکا ہوں کہ یہ بات عقلی طور پر محال ہے کہ ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جا سکے.اب میں واقعاتی مثالیں لیتا ہوں.اگر احمدیوں کو فی الواقعہ انگریزوں نے قائم کیا ہوتا تو ضروری تھا کہ پادری لوگ جو واقعہ میں عیسائیت کے ایجنٹ ہیں اور جن کی وجہ سے عیسائیت ہر ملک میں پھیل رہی ہے وہ ان کے دوست ہوتے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا نہیں ہؤا.سب سے پہلے جن لوگوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت کی وہ پادری ہی تھے.امرتسر میں پادری رلیا رام کا ایک مشہور پر لیس تھا.حضرت مسیح موعود ا جب بھی کوئی مضمون چھپوایا کرتے تو اسی پریس سے چھپوایا کرتے.ایک دفعہ آپ نے ایک مسودہ چھپنے کیلئے بھجوایا اور مسودہ کے ساتھ ایک خط بھی بھیج دیا جس میں طباعت کے متعلق ہدایات درج تھیں.اُس وقت مسودہ میں کوئی دوسرا کاغذ بھیجنا سرکاری مُجرم تھا.اب تو صرف اتنا قانون ہے کہ وہ چٹھی بیرنگ ہو جاتی ہے لیکن اُن دنوں یہ بڑا جرم سمجھا جاتا تھا.آپ رلیا رام کے کسٹومر CUSTUMER) تھے اور دُکاندار اپنے گاہک سے کوئی بُر اسلوک نہیں کرتا لیکن رلیا رام نے ایک انگریز سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات کی مدد سے آپ پر مقدمہ چلا دیا.مقدمہ میں خود سپرنٹنڈنٹ پیش ہوا.وکیل نے آپ سے دریافت کیا کہ آپ نے مسودہ میں ایک دوسرا رقعہ ڈالا ہے یا نہیں ؟ آپ نے کہا ہاں میں نے مسودہ کے ساتھ ایک اور رقعہ بھی بھیجا تھا.آپ کی اس سچائی کا مجسٹریٹ پر نہایت گہرا اثر ہوا.سپرنٹنڈنٹ ڈاک خانہ جات نے بہتیرا زور لگایا کہ آپ کو کسی طرح سزا ہو جائے لیکن مجسٹریٹ نے کہا نہیں.سچ بولنے والے کو سزا نہیں دے سکتا اور اُس نے آپ کو بری کر دیا.غرض حضرت مسیح موعود کی سب سے پہلے عیسائی پادریوں نے ہی مخالفت کی.پھر حضرت مسیح موعود کا مشہور مخالف پادری ٹھاکر داس تھا.اس نے اسلام اور " 6 66 احمدیت کے خلاف ریویو براہین احمدیہ ازالته المزار قادیانی ” ذنوب محمدیہ اور انجیل یا قرآن چار کتابیں لکھی ہیں.پھر پادری ایس پی جیکب S.P.Jacob) تھا اُس نے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی جس کا نام مسیح موعود تھا.ڈاکٹر گرس وولڈ

Page 200

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷۴ متفرق امور (THE REV.H.D.GRISWOLD, PH.D) نے ”مرزا غلام احمد قادیانی کے نام سے آپ کے خلاف ایک کتاب لکھی.پھر مشہور پادریوں فتح مسیح ، وارث مسیح محی الدین، سراج الدین عبد اللہ آتھم اور ہنری مارٹن کلارک نے آپ کی مخالفت کی.عجیب بات یہ ہے کہ عبد اللہ آ تم سرکاری ملازم تھا اور ڈپٹی کے عہدہ پر فائز تھا.اگر انگریزوں نے ہی حضرت مسیح موعود کو کھڑا کیا تھا تو کیا انہوں نے اپنے ایک اعلیٰ افسر سے کہنا تھا کہ وہ آپکی مخالفت کرے پھر ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے آپ پر مقدمہ چلایا.امرتسر کے ڈی سی اے ای مارٹینو نے آپ کے نام خلاف قاعدہ وارنٹ گرفتاری جاری کیا یہ ایجنٹوں والا سلوک تھا جو آپ سے کیا گیا ؟ پھر قادیان جانے والے ہر احمدی کا نام نوٹ کیا جاتا تھا.کیا یہ اس بات کی علامت ہے کہ احمدیت انگریزوں کی قائم کی ہوئی ہے؟ ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ ابھی وہ احمدی نہیں ہوئے تھے کہ وہ ڈی سی جالندھر کو کسی کام کے سلسلہ میں ملنے کیلئے گئے.اُس نے کہا مجھے یہ معلوم کر کے بڑی خوشی ہوئی ہے کہ آپ اپنے باپ والا عقیدہ نہیں رکھتے.مرزا صاحب گواحمدی نہیں تھے لیکن ان میں غیرت پائی جاتی تھی.انہوں نے ڈی سی کو کہا.کون حرام زادہ ہے جس نے مجھے حرامزاده قرار دیا ہے؟ اُس نے کہا آپ کو حرامزادہ کس نے کہا ہے؟ مرزا صاحب نے جواب دیا جو شخص اپنے باپ کا مخالف ہوتا ہے وہ حرام زادہ ہوتا ہے اس پر اُس نے معذرت کی کہ مُجھ سے غلطی ہوگئی ہے.عیسائیوں میں حضرت مسیح موعود کی اتنی مخالفت پائی جاتی تھی کہ ایک عیسائی ڈی سی مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنے باپ کی جماعت میں شامل نہ ہونے پر مبارک باد دیتا ہے.قادیان جانے والوں پر پہرہ اُس وقت تک قائم رہا جب تک آپ کی وفات سے دو سال قبل پیش نہ آیا.اُس نے یہ سوال اُٹھایا کہ یہ پہرہ کیوں ہے؟ جب اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مرزا صاحب نے حکومت کے خلاف کوئی اقدام کیا ہو.وہ ایک مذہبی آدمی ہیں پھر یونہی اتنے آدمی رستوں پر کیوں بٹھائے گئے ہیں اور اتنا روپیہ کیوں خرچ کیا جا رہا ہے؟ چنانچہ اس کے آنے پر خفیہ پولیس کی ڈائریوں کا سلسلہ ختم ہوا.اگر ہم

Page 201

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷۵ متفرق امور انگریزوں کے ایجنٹ ہوتے تو ہنری مارٹن کلارک ہماری مدد کر تا لیکن اس نے ہماری مخالفت کی اور اس کی تائید مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کی.مولوی محمد حسین صاحب نے کہا میں بھی یہی کہوں گا کہ مرزا صاحب نے مسمی عبدالحمید کو آپ کے قتل کیلئے بھیجا تھا.سر ڈگلس جب گورداسپور آیا تو پادری نے اسے بار بار کہا کہ مرزا غلام احمد ( علیہ السلام) ہمارے دین کی بہتک کرتا ہے اسے کسی نہ کسی طرح ضرور سزاملنی چاہئے.مسٹر ڈگلس اب بھی زندہ ہے.اسکی عمر ۸۰ سال ہے اور ہمارے لندن مشن میں آتا رہتا ہے.امرتسر کے ڈی اے ای مارٹینو نے اُسے لکھا کہ میں نے غلطی سے مرزا غلام حمد صاحب قادیانی کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے ہیں میں اس معاملہ کو آپ پر چھوڑتا ہوں.آپ چاہیں تو انہیں گرفتار کر لیں اور چاہیں تو نہ کریں.انگریز آفیسر عموماً اپنے ساتھیوں سے مشورہ کر لیتے ہیں.اُس نے دوسرے افسروں کو بُلا کر مشورہ لیا.مسلمان افسروں نے کہا مرزا غلام احمد صاحب مذہبی آدمی ہیں اور ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتے ہیں یہ مناسب نہیں کہ ان کے نام وارنٹ گرفتاری جاری کیا جائے.اگر انہیں بلانا ضروری ہے تو کوئی آدمی بھیج کر اُنہیں بلا لیا جائے.اُس نے یہ مشورہ مان لیا اور پولیس کے ایک افسر جلال الدین کو قادیان بھیجا تا کہ وہ حضرت مسیح موعود کو بلا لائے.جب آپ عدالت میں پیش ہوئے تو آپ کو دیکھتے ہی اُس کے دل کی کایا پلٹ گئی اور اُس نے عدالت کے چبوترے پر گرسی بچھا کر آپ کو بٹھایا.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی تو اِس بات کے حریص تھے کہ آپ کو ہتھکڑی لگی ہوئی دیکھیں.ان کا خیال تھا کہ مقدمہ کرنے والا انگریز ہے فیصلہ کرنے والا انگریز ہے اور میں اہلحدیث کا ایڈووکیٹ بطور گواہ جا رہا ہوں اب تو مرزا صاحب کو ضرور پھانسی کی سزا ہوگی.وہ اُس دن ایک بڑا جبہ پہن کر عالمانہ شان میں آئے اور سمجھتے تھے کہ مرزا صاحب کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہوں گی اور میں انہیں دیکھ کر مسکراؤں گا.مگر جب عدالت میں آئے تو حضرت مسیح موعود کو بجائے ہتھکڑی لگنے کے اعزاز کے ساتھ مجسٹریٹ کے پاس گرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھا.مولوی صاحب آپ کا یہ اعزاز دیکھ کر جل گئے.( یہ مولوی جو

Page 202

انوار العلوم جلد ۲۲ KY عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے کیلئے عدالت میں آیا تھا اُسے تو انگریزوں کا دشمن کہا جاتا ہے اور مرزا صاحب جن پر انگریزوں نے قتل کا مقدمہ کھڑا کیا تھا انہیں انگریزوں کا دوست قرار دیا جاتا ہے.کیا کوئی عقل اسے مان سکتی ہے؟ ) مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے عدالت میں آتے ہی جھٹ آگے بڑھ کر مجسٹریٹ سے کہا مجھے بھی گر سی دی جائے.ڈپٹی کمشنر حیران ہوا کہ کیا یہ ملاقات کا کمرہ ہے کہ گرسی مانگی جا رہی ہے.اُس نے کہا تم کون ہو؟ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے کہا میں اہلِ حدیث کا ایڈووکیٹ ہوں اور مشہور مولوی ہوں.ڈپٹی کمشنر نے کہا تم گواہی دینے آئے ہو ملاقات کرنے نہیں آئے.پھر گری کا مطالبہ کیسا ؟ مولوی محمد حسین صاحب نے کہا اگر عدالت میں مجھے گرسی نہیں مل سکتی تو مرزا صاحب کو کیوں گر سی دی گئی ہے؟ ڈپٹی کمشنر نے کہا ان کا نام خاندانی گرسی نشینوں میں ہے مولوی صاحب نے کہا مجھے بھی گر سی ملتی ہے اور میرے باپ کو بھی گر سی ملتی تھی.میں جب لاٹ صاحب کو ملنے جاتا ہوں تو وہ مجھے گرسی دیتے ہیں.ڈپٹی کمشنر نے کہا ” بک بک مت کر پیچھے ہٹ اور سیدھا کھڑا ہو جا یہ سنتے ہی اردلی آیا اور اُس نے مولوی صاحب کو کمرہ سے باہر کر دیا.مولوی صاحب وہاں سے نکلے تو خیال کیا کہ اگر یہ بات باہر نکل گئی تو بد نامی ہوگی اس لئے اندر کے معاملہ کی چشم پوشی کے لئے ایک گرسی پر جو باہر برآمدہ میں پڑی تھی اُس پر بیٹھ گئے.ارد لیوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ گرسی کی درخواست پر اسے جھاڑ پڑی ہے.اُنہوں نے خیال کیا ایسا نہ ہو کہ مولوی صاحب کو یہاں بیٹھے دیکھ کر صاحب ہم پر ناراض ہو.اُنہوں نے اُس کرسی پر سے بھی انہیں جھڑک کر اُٹھا دیا.مولوی صاحب وہاں سے بھی ذلت کے ساتھ اُٹھ کر باہر چلے گئے.عدالت کے باہر ہزاروں آدمی فیصلہ کا اعلان سُننے کے لئے کھڑے تھے.اُن میں سے بعض تو یہ دعائیں کر رہے تھے کہ اے خدا! اسلام کے پہلوان کو عیسائیوں کی طرف سے دائر شدہ مقدمہ میں بری کر دے اور کچھ لوگ مخافت کی وجہ سے وہاں جمع تھے تا جب حضرت مسیح موعود سزا پا کر باہر نکلیں تو وہ خوشی کے شادیانے بجائیں.ان لوگوں میں سے بعض تو زمین پر بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ چادریں بچھا کر اُن پر بیٹھے ہوئے تھے.مولوی صاحب نے اپنی سبکی کو

Page 203

انوار العلوم جلد ۲۲ 16 چھپانے کیلئے مناسب سمجھا کہ کسی چادر پر ہی بیٹھ جائیں تا کہ باہر کے لوگ یہ کہیں کہ انہیں اندر بھی گرسی ملی ہوگی.انہوں نے ایک چادر کا کنارہ کھینچا اور اُس پر بیٹھ گئے لیکن اُن کا بیٹھنا ہی تھا کہ چادر کے مالک نے کہا.اُٹھ اُٹھ ! تو نے میری چادر پلید کر دی ہے مسلمان ہوکر اسلام کے ایک سپاہی کے خلاف عیسائیوں کی تائید میں گواہی دینے آیا ہے.الغرض عیسائیوں کی مخالفت انتہا کو پہنچی ہوئی تھی لیکن پھر بھی ہم تو انگریزوں کے ایجنٹ ہیں اور یہ ان کے مخالف.یہ مربعوں کی درخواستیں دیں اور ملازمتیں حاصل کرنے کیلئے انگریزوں کی خوشامد میں کرتے پھر میں تو پھر بھی انگریزوں کے مخالف ہیں لیکن ہم جن پر انگریزوں نے مقدمات کئے ان کے ایجنٹ ہیں.غرض جتنے انگریز افسر آئے وہ سارے کے سارے ہمارے خلاف رہے.صرف میرے زمانہ میں ایڈوائر پر یہ اثر ہوا کہ احمدیوں سے جو برتاؤ کیا جا رہا ہے وہ کسی غلط فہمی کی بناء پر ہے.وہ ہمیشہ ہمیں عزت کی نگاہوں سے دیکھتا تھا.میاں عزیز احمد صاحب کو نوکری نہیں ملتی تھی.بعض لوگوں نے انہیں کہا اپنے بھائی سے کہو وہ ایڈ وائر کو کہہ دیں اور آپ کو کوئی نوکری مل جائے.ایڈ وائر ہر مجلس میں یہ کہتا تھا کہ احمدیوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا ہے وہ درست نہیں.لیکن ایمرسن کے زمانہ میں پھر سارے حکام ہمارے خلاف ہو گئے جو جنلنسن تک جاری رہے.آخر یہ تو بتاؤ وہ کون سی چیز ہے جس کی وجہ سے ہمیں انگریزوں کا ایجنٹ کہا جاتا ہے احرار کہتے ہیں ہم انگریزوں کے دشمن ہیں اور احمدی ان کے دوست ہیں کیا یہ ہماری انگریز دوستی کی علامت ہے کہ ۱۹۳۴ء میں کریمینل لاء امنڈ منٹ ایکٹ کے ماتحت مجھے نوٹس دیا گیا کہ احمدی ان دنوں قادیان میں نہ آئیں اور یہ نوٹس مجھے گیارہ بجے رات کو دیا گیا.اور پھر چار پانچ سو پولیس افسر دوسپر نٹنڈنٹ پولیس اور ایک ڈپٹی کمشنر اس لئے قادیان بھیجے گئے تا کہ تلواروں کی نوکوں کے نیچے مولوی عطاء اللہ صاحب بخاری تقریر کریں.اس سے کیا ظاہر ہوتا ہے؟ کیا یہ کہ انگریز احمدیوں کا دوست تھا یا احرار کا ؟ پھر جب لاہور میں مسجد شہید گنج کو گرایا گیا اُس وقت گورنر کے اے ڈے سی کے نام برابر یہ فون آتے تھے کہ خبردار! احرار کو تکلیف نہ ہو.کیا یہ ہماری انگریز دوستی اور انکی انگریز دشمنی

Page 204

انوار العلوم جلد ۲۲ KA متفرق امور کی علامت ہے؟ - پھر احرار کہتے ہیں کہ کشمیر کے معاملہ میں احمدیوں نے ملک سے غداری کی ہے چنانچہ لا ہور میں ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے سردار آفتاب احمد خاں صاحب جنرل سیکرٹری مسلم کشمیر کا نفرنس نے کہا احمدیوں نے غداری کے طور پر کشمیر کے محاذ پر فرقان فورس بھیجی ہے.یہ لوگ خفیہ خبریں ہندوستان تک پہنچاتے ہیں اور دشمن کے ہوائی جہاز ان سے فائدہ اُٹھا کر پاکستانی فوج کی پوزیشنوں پر حملہ کرتے ہیں.یہ بیان پنجاب کے مشہور اخبارات میں چھپا.ہم نے اس کے خلاف حکومت کے پاس شکایت کی کہ ہم تو ملک کی خدمت کر رہے ہیں اور اس خدمت کا ہمیں یہ صلہ ملا ہے کہ ہمیں قوم کا غدار کہا جا رہا ہے.اگر ہم واقعی غدار ہیں تو آپ نے ہمیں دو سال تک محاذ پر کیوں بٹھائے رکھا.اگر ہم غدار تھے اور سزا کے مستحق تھے تو کیوں قوم نے ہمیں گولیوں کا مستحق نہ بنادیا؟ اگر اس نے ہمیں نہیں مارا تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ملک کے غدار نہیں.چنانچہ تحقیقات ہوئی اور حکومت کی طرف سے سردار آفتاب احمد صاحب کو کہا گیا کہ وہ اپنے اس بیان کی تردید کرے، کشمیر منسٹری کی طرف سے ایک مسودہ تیار کیا گیا اور وہ کراچی بھیجا گیا کہ سردار صاحب ان الفاظ میں اپنے بیان کی تردید کریں گے لیکن ہؤا کیا ؟ سردار آفتاب احمد صاحب کا بیان تو ملک کے کئی مشہور اخبارات میں شائع ہو الیکن اسکی تردید را ولپنڈی کے ایک قلیل الاشاعت اخبار تعمیر مؤرخہ ۸/ جون۱۹۵۰ء میں کی گئی اور وہ بھی اُن الفاظ میں نہیں کی گئی جن الفاظ میں تردید کرنے کے متعلق حکومت کو اطلاع دی گئی تھی جو مسودہ کراچی بھیجا گیا وہ یہ ہے: گزشتہ دنوں اپنی ایک تقریر میں میں نے فرقان بٹالین کے کام اور رویہ کے متعلق نکتہ چینی کی تھی جس کا اقتباس ایک اخبار میں شائع ہو گیا.جب میری توجہ اس جانب دلائی گئی اور میں نے تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ جن اطلاعات کی بناء پر میں نے اعتراضات کئے تھے وہ صحیح نہیں تھیں.مجھے افسوس ہے کہ یہ غلطی ان رضا کاروں میں سے بعض

Page 205

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۷۹ کی دل شکنی کا موجب ہوئی جنہوں نے جہاد کشمیر میں حصہ لیا.ہم ان تمام اصحاب کی خدمات کے دل سے معترف ہیں جنہوں نے کشمیر کی جنگ آزادی میں جانی و مالی قربانیاں دیں.اور ظلم و استبداد کے خلاف ہمارے شانہ بہ شانہ نبرد آزما ہوئے.میں اپنا اخلاقی فرض سمجھتا ہوں کہ حقیقت حال معلوم ہونے پر میں اپنی غلطی کا اعتراف کروں اور اس کیلئے اظہارافسوس کروں“ آفتاب احمد خان ۱۸ جون ۱۹۵۰ء لیکن عملی طور پر جن الفاظ میں تردید کی گئی وہ یہ ہیں :- چند یوم ہوئے میں نے فرقان بٹالین کے بارہ میں اظہار خیال کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ اس بارہ میں میری اطلاع تمام کی تمام درست نہ تھی.جہاد کشمیر میں ہر شخص اور ہر گروہ نے بزعم خویش اپنی توفیق ، ہمت اور اعتقادات کے مطابق پوری سرگرمی سے حصہ لیا ہے.البتہ یہ الگ بات ہے کہ کسی نے اس سلسلہ میں اپنا مخصوص جماعتی اور مذہبی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی ہو.ہم جہاد کشمیر میں دیانت اور اخلاص سے حصہ لینے والے سب کے شکر گزار ہیں.اللہ تبارک و تعالیٰ سب کو سچے طور پر خدمت اسلام بجالانے کی تو فیق اور ہدایت عطا کرے اور ہمیں خاتم النبیین حضور سرور کائنات، فخر موجودات کی اطاعت پر پورے طور پر قائم رکھے.آفتاب احمد اخبار روزنامہ تعمیر راولپنڈی مؤرخه ۸/ جون ۱۹۵۰ ء زیر عنوان شکریہ ) متفرق امور جب وہ وقت گزر گیا تو پھر سردار آفتاب احمد خاں نے دوبارہ وہی اعتراض

Page 206

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۰ شائع کر دیا حالانکہ اُس وقت انہوں نے مان لیا تھا کہ مجھے غلط فہمی ہوئی ہے.مگر اُن کو جھوٹا ثابت کرنے کے خدا تعالیٰ نے اور سامان پیدا کر دیئے.سر ڈکسن آگئے اور یہ ضرورت پیش آئی کہ والنٹیئر فوجیں پیچھے ہٹائی جائیں.گورنمنٹ ایسا کرنے کا وعدہ کر چکی تھی چنانچہ فرقان فورس کو بھی ڈس بیند (DISBAND) کر دیا گیا.وہ فوج جس کے متعلق سردار آفتاب احمد صاحب اور احراری کہتے ہیں کہ وہ ہندوستان کے ایجنٹ تھے اور اُنکی وجہ سے حکومت پاکستان کو بہت نقصان ہوا.اُس کے متعلق پاکستانی فوج کا کمانڈر انچیف یہ اعلان کرتا ہے.یعنی :- کشمیر کی جنگ آزادی میں لڑنے کیلئے جون ۱۹۴۸ء میں ایک والنٹیئر فوج مہیا کرنے کی تمہاری پیشکش شکریہ کے ساتھ منظور کی گئی اور فرقان فورس ظہور میں آئی.تھوڑے ہی عرصہ کی ٹرینگ کے بعد ۱۹۳۸ ء کے موسم گرما میں تم عملی طور رمیدان جنگ میں جانے کیلئے تیار ہو گئے اور ستمبر ۱۹۴۸ء میں تمہیں مالف (MALF) کمان کے ماتحت کر دیا گیا.تمہاری بٹالین تمام کی تمام والٹیروں پر مشتمل تھی جو ہر قسم کے پیشوں سے آئے تھے.تم میں نو جوان کسان بھی تھے تم میں طالب علم بھی تھے ، استاد بھی تھے ، ہنر مند لوگ بھی تھے اور یہ سارے کے سارے ملکی خدمت کی روح سے بھرے ہوئے تھے.تم نے اپنی خدمت کے بدلہ میں کوئی عوضانہ اور شہرت نہ چاہی.تمہارا کام نہایت شریفانہ تھا.تم سب نے اپنے اس جذ بہ سے کام سیکھا ، ہم سب کو متاثر کیا اور جس جوش کے ساتھ تم آئے تھے اُس نے بھی ہمیں بہت متاثر کیا.ہرنئی فوج کیلئے جو مشکلات ہوتی ہیں تم نے جلد سے جلد ان پر قابو پالیا.کشمیر میں بہت ہی اہم علاقہ تمہارے سپرد کیا گیا تھا اور تم نے بہت جلد ثابت کر دیا کہ تم پر جو اعتبار کیا گیا تھا وہ درست تھا اور تم نے

Page 207

انوار العلوم جلد ۲۲ ΙΔΙ نہایت بہادری کے ساتھ دشمن کے خلاف اپنے فرض کو ادا کیا.تم پر زمین سے بھی دشمن حملہ کر رہا تھا اور آسمان سے بھی لیکن دوسال کے عرصہ میں تم نے ایک انچ زمین بھی اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دی.تمہارا شریفانہ رویہ انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اور تمہارا نظم اعلیٰ درجہ کا تھا.چونکہ اب تمہارا کام ختم ہو چکا ہے اور بٹالین کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے گھروں کو چلی جائے میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر تم میں سے ہر ایک کا اُس خدمت کی وجہ سے جو اُس نے پاکستان کی کی.شکر یہ ادا کروں.خدا حافظ.“ یہ وہ اعلان ہے جو پاکستانی افواج کے کمانڈر انچیف نے کیا اور احراری اب تک دُہرا رہے ہیں کہ احمدیوں نے کشمیر کی جنگِ آزادی میں ملک سے غداری کی.اور وہ سردار آفتاب احمد جس نے حکومت کے حکم کے ماتحت اپنے بیان کی تردید کی تھی اب پھر وہی اعتراض کرتے ہیں.حکومت ہماری خدمات سے کس طرح متاثر تھی اس کا اندازہ ایک اور اعلیٰ افسر کے بیان سے بھی لگ سکتا ہے وہ کہتا ہے کہ فرقان فورس پر غداری کا الزام لگایا گیا ہے لیکن جہاں تک میرا علم ہے میں یہ کہہ سکتا ہیں کہ فرقان فورس نے نہایت ہی شاندار خدمات سرا انجام دی ہیں اور ان خدمات کے عوض میں ہم سے کسی چیز کی بھی خواہش نہیں کی.پھر اس سے بھی ایک اعلیٰ افسر لکھتا ہے کہ کوئی شخص کمانڈر انچیف کے خلاف بات نہیں کر سکتا.وہ اس بارہ میں زیادہ تجربہ کار ہیں لیکن میں ذاتی علم کی بناء پر بھی کہہ سکتا ہوں کہ سوائے تعریف کے میں نے فرقان فورس کے خلاف کچھ نہیں سُنا.مجھے افسوس ہے کہ سردار آفتاب احمد نے جو بیان شائع کیا ہے وہ نہایت ہی غیر شریفانہ ہے.یہ تو اعلیٰ افسروں اور اُس ڈیپارٹمنٹ کی رائے ہے جس کے ماتحت فرقان فورس کام کر رہی تھی.پھر کمانڈر انچیف کا بیان ہے جس کو صرف غیر جانبدار اخباروں نے شائع کیا ہے ہمارے دشمنوں نے شائع نہیں کیا.اب ظاہر ہے کہ کشمیر کے ساتھ پاکستان کے عوام کو

Page 208

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۲ متفرق امور خاصی دلچسپی ہے اگر یہ کہا جائے کہ فلاں شخص نے کشمیر کے معاملہ میں مخالف رویہ اختیار کیا ہے تو لوگ اس کے خلاف بھٹک اُٹھیں گے اسی وجہ سے ہماری مخالفت کی جاتی ہے اور یہ سب کام کرنے کے بعد بھی یہ لوگ دیانتدار کہلاتے ہیں.ہمارے جلسہ پر سینکڑوں غیر احمدی احباب بھی آتے ہیں میں انہیں کہوں گا کہ اس قدر افتراء کرنے والے مولوی اگر حکومت میں برسر اقتدار آ گئے تو تم دنیا کو کیا منہ دکھاؤ گے؟ اتنے بے ایمان لوگ اگر تمہارے لیڈر بن گئے تو تمہاری خیر نہیں.اسی طرح سے احرار نے عوام کو بھڑکانے کیلئے یہ جھوٹا الزام تراشا کہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے باؤنڈری کمیشن کے موقع پر ملک سے غداری کی.چنانچہ آزاد‘ور دسمبر ۱۹۴۹ء لکھتا ہے : ”اگلے دن سکھوں نے اپنا کیس پیش کیا کہ نکا نہ ہماری زیارت گاہ ہے اُسے گھلا شہر قرار دیا جائے.ہمارے ظفر اللہ صاحب بھی آن موجود ہوئے کہ آج میں پھر پیش ہونا چاہتا ہوں مجھے بھی اجازت دی جائے.آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیش نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ہے تا کہ قادیان بھی گھلا شہر قرار دیا جائے.ستیلو اڈ نے اعتراض کیا کہ اس نام کی کوئی اقلیت ملک میں موجود نہیں.ظفر اللہ نے کہا ہم اقلیت ہیں ہم تمام مسلمانوں سے علیحدہ ہیں.“ یہ آزاد اخبار کا بیان ہے یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو شریعت کے ٹھیکیدار سمجھتے ہیں.ختم نبوت کے محافظ کہلاتے ہیں جن کا لیڈر یہ کہا کرتا ہے کہ میں آل رسول ہوں اس جھوٹ کے بعد انہیں پتہ لگا کہ احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے پیش ہی نہیں کیا بلکہ شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا تھا.اس پر سول اینڈ ملٹری گزٹ میں انہوں نے یہ نوٹ شائع کر دیا کہ : - شیخ بشیر احمد نے جو لاہور کی جماعت احمدیہ کے امیر ہیں

Page 209

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۳ متفرق امور باؤنڈری کمیشن کے سامنے اپنی جماعت کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ضلع گورداسپور جو اُس وقت تک ۳ / مارچ ۱۹۴۷ء کی ابتدائی سکیم کے مطابق پاکستان کا حصہ تھا ضرور اس سے علیحدہ کر دیا جائے اور قادیانیوں کی ایک علیحدہ اور آزاد ریاست بنا دی جائے.اس نے اپنے دعوی کی بنیاد اس بات پر رکھی تھی کہ چونکہ قادیانی مسلمانوں کا حصہ نہیں ہیں اس لئے ان کو علیحد ہ وحدت تسلیم کیا جائے، ۵ ظاہر ہے کہ اس چیز کو مسلمانوں کے سامنے پیش کرنے کے معنی ہی یہ ہیں کہ جن لوگوں کو واقعات کا صحیح علم نہیں وہ کہیں گے آخر مولوی بالکل جھوٹ تو نہیں بولتے کچھ نہ کچھ تو اس نے ضرور کہا ہوگا.مگر بعد میں انہیں پتہ لگا کہ یہ بات غلط ثابت نہیں ہو سکتی اس پر وو انہوں نے دوسری طرف رُخ بدلا اور کہا: جب تین مارچ ۱۹۴۷ء کے بیان میں ضلع گورداسپور کے پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ہو چکا تھا اور جب وہ مسلم اکثریت کا ضلع تسلیم کر لیا گیا تھا اور جب قادیان بھی اس ضلع میں شامل تھا اور اسی طرح قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا تھا تو پھر آپ کو کیا ضروت محسوس ہوئی تھی کہ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت سے علیحد اپنا محضر پیش کرتے اور آپ کے اس جواب کے کیا معنے کہ ہم نے محضر اس لئے پیش کیا تھا کہ قادیان پاکستان میں شامل ہو جائے جبکہ اس کا پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ ایک عرصہ پہلے ہی ہو چکا تھا اور جب اس فیصلہ پر ہندوستان کو بھی اعتراض نہ تھا.ہم الفضل اور ان کے وکیل شیخ بشیر احمد کو چیلنج کرتے ہیں کہ اس محضر کو جو آپ نے مسلمانوں سے جُدا جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کیا تھا من وعن شائع کرو.تا کہ ملت اسلامیہ کو معلوم ہو سکے کہ تم نے ہم سے جُدا کیا بات چیت کی تھی اور ۳/ مارچ کے واضح بیان کے بعد گورداسپور ہم

Page 210

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۴ متفرق امور سے کیوں چھن گیا ؟‘ 1 سیہ وہ الزامات ہیں جو عام مسلمانوں کو بھڑکانے کیلئے احمدیوں پر لگائے گئے اور یہ صاف بات ہے کہ اگر عوام کو یہ پتہ لگ جائے کہ احمدیوں نے ضلع گورداسپور کو جُدا کرنے کیلئے کوشش کی اور جو خون ریزی ہوئی ہے وہ محض احمدیوں کی وجہ سے ہوئی ہے تو لازماً ان کے اندر جوش پیدا ہو گا.چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق جب یہ بات کہی گئی کہ انہوں نے گورداسپور کو پاکستان سے علیحدہ کرانے کی کوشش کی تو چونکہ وہ حکومت کے رُکن ہیں اس لئے حکومت مجبور ہوئی کہ وہ اسکی تردید کرے چنانچہ حکومت نے اعلان شائع کیا کہ: یہ کہا گیا ہے کہ جولائی ۱۹۴۹ء میں باؤنڈری کمیشن کے رُو برو آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب (موجودہ وزیر خارجه پاکستان) نے مسلم لیگ کی طرف سے کیس پیش کرتے ہوئے اس بات پر اصرار کیا کہ انہیں جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی بحث کرنے کی اجازت دی جائے.اور پھر بحث کے دوران میں انہوں نے کمیشن سے کہا کہ قادیان کو کھلا شہر قرار دیا جائے اور یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ انہوں نے دوران بحث میں اس بات پر زور دیا کہ احمدیہ جماعت عام مسلمانوں سے ایک علیحدہ امتیازی حیثیت کی مالک ہے پھر ان مفروضہ بیانات کی بناء پر یہ بحث کی جاتی ہے کہ آخر یہل چوہدری صاحب کی اس بحث نے کہ جماعت احمد یہ ایک علیحدہ فرقہ ہے گورداسپور کے مسلمانوں کی عام آبادی کے تناسب کو کم کر دیا اور کمیشن نے اس جماعت کی علیحدہ حیثیت کی وجہ سے گورداسپور کے مسلم اکثریت والے ضلع کو مسلم اقلیت کا ضلع قرار دے کر پاکستان کی حدود سے نکال دیا.ایوارڈ کی رُو سے اسے پاکستان میں شامل ہونا چاہئے تھا.حکومت کو یہ اعتراضات سُن کر سخت تعجب اور حیرت ہوئی ہے

Page 211

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۵ کیونکہ اسے پہلے ہی یہ علم تھا کہ اِن اعتراضات میں کوئی حقیقت نہیں اور یہ اصل واقعات کے بالکل خلاف ہیں لیکن اس کے باوجود حکومت نے ان اعتراضات کی پوری پوری تحقیقات کی جس نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ الزامات اور اعتراضات گلیۂ بے بنیاد ، خلاف واقعہ اور جھوٹے ہیں.آنریبل چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب ہرگز جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش نہیں ہوئے نہ آپ نے اُنکی طرف سے کسی کیس کی وکالت کی اور نہ انہوں نے کبھی بحث کے دوران میں وہ باتیں کہیں جو ان کی طرف منسوب کی گئی ہیں.“ وو جب گورنمنٹ کی طرف سے یہ اعلان ہوا تو احراریوں کو لگے پتو پڑنے کہ جو حکومت سنیوں کی تھی جب وہ بھی کہہ رہی ہے کہ مولوی جھوٹے ہیں تو کیا کریں.چنانچہ انہوں نے اپنا رُخ بدلا.اب دیکھیئے کیا ہی نرم الفاظ میں اعلان کیا گیا ہے.آزاد لکھتا ہے: " بر سیبل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سرظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات کے اب ذرا اس کو پہلے بیان کے ساتھ ملا کر دیکھو.کیا چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا نام ضمناً آتا رہا ہے؟ پہلے کہا تھا ” ہمارے ظفر اللہ بھی آن موجود ہوئے کہ آج میں پھر پیش ہونا چاہتا ہوں ں مگر احرار کے نزدیک یہ واقعات کا ذکر نہیں صرف خطابت اور تقریر کی روانی کا جوش ہے.پھر کہا تھا.آج میں نے مسلمانوں کا کیس پیش نہیں کرنا بلکہ جماعت احمدیہ کا کیس سکھوں کے مقابلہ میں پیش کرنا ہے یہ بھی جوش خطابت ہے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خاں کا ذکر ضمناً آ رہا ہے.دراصل مخاطب جماعت احمد یہ ہے.گویا ظفر اللہ اصطلاح ہے اور مراد اس سے جماعت احمد یہ ہے.یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے جو انہوں نے بولا.پہلے کہا چوہدری ظفر اللہ خاں نے یوں کہا پھر وہی مولوی کہتے ہیں ظفر اللہ کا 66

Page 212

متفرق امور انوار العلوم جلد ۲۲ Υ کون کم بخت نام لیتا ہے وہ تو یوں ہی پاس سے گزرے تھے اور ان کا نام آگیا.اس کے بعد آزاد نے مندرجہ ذیل مضمون لکھا جو میں سارا سُنا تا ہوں.پہلے میں نے تھوڑا سُنا یا تھا.' حکومت نے اس بیان سے عوام کو جہلِ مرتب میں ڈالنے اور غلط نہی میں مبتلا کرنے کی جو کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے (اس لئے کہ مولوی صاحبان کے جھوٹ کو ظاہر کیا گیا ہے اور ایسا کرنا سخت غلطی ہے ) اس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد شده الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطبق کر کے عوام کے ذہنوں سے اُس اثر اور دلوں سے اُن تاثرات کو دُور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق اُن کے دلوں میں موجود ہیں......برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات : (حالانکہ دیکھ لو اِس میں سارا الزام چوہدری ظفر اللہ خاں پر ہی لگایا گیا ہے جماعت کا تو یہاں نام ہی نہیں ) پھر لکھا ہے: ” ہمارا الزام سر ظفر اللہ کی ذات پر نہیں بلکہ قادیانی جماعت پر ہے ( گویا جہاں ہم نے ظفر اللہ کہا ہے وہاں قادیانی جماعت سمجھو ) وہ جماعت کہ سر ظفر اللہ جس کا نفس ناطقہ ہے ( یعنی ہم نے خلاصہ جماعت احمد یہ نہیں لکھا ظفر اللہ لکھ دیا ہے ) اور وہ الزام یہ نہیں کہ گورداسپور کیوں گیا ( یہاں گورداسپور کا سوال ہی نہیں ) بلکہ وہ الزام یہ ہے کہ جب مسلم لیگ تمام مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندے سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا اور جب انتخابات کے ذریعہ یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ حق نمائندگی صرف

Page 213

انوار العلوم جلد ۲۲ رو I^2 مسلم لیگ کو ہی حاصل ہے تو مرزائی وکیل کو باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ کہنے کا کیا حق تھا کہ ” قادیان بین الا قوامی یونٹ بن چکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں اور یہ سب کچھ اُس وقت کیا گیا جب سر ظفر اللہ مسلم لیگ کے نمائندہ کی حیثیت سے موجود تھے اور جب تمام مسلمان انہیں اپنا نمائندہ تسلیم کرتے تھے.اُنہوں نے بشیر احمد کو جُدا پیش ہونے سے کیوں نہ روکا اور کیوں قادیانیوں کی جدا پیشی کے خلاف احتجاج نہ کیا.اصل بات ،اصل مسئله، اصل ملزم ، اصل مجرم قادیانی جماعت ہے کہ جس نے جد ا نمائندہ اور الگ محضر پیش کیا اور مسلم لیگ کو نمائندہ تسلیم کرنے سے عملاً انکار کر دیا.حکومت نے سر ظفر اللہ کے متعلق تحقیقات تو فرمائی اور اس کی تردید بھی کی تاکہ کسی طرح قادیانی جماعت کا چہرہ ڈھل سکے کیا حکومت پاکستان اس بات کی تحقیقات کو بھی تیار ہے کہ قادیانی جماعت نے وزارتی کمیشن سے کیا مطالبہ کیا تھا اور باؤنڈری کمیشن کے سامنے متفرق امور کیا بحث کی تھی ؟‘A اس بیان میں مندرجہ ذیل دعوے کئے گئے ہیں اول حکومت نے اس بیان سے عوام کو جہلِ مرتب میں ڈالنے اور غلط فہمی میں مبتلا کرنے کی جو ناکام کوشش کی ہے وہ انتہائی مذموم ہے.اس بیان کا مقصد محض قادیانی جماعت پر عائد شدہ الزامات کو سر ظفر اللہ پر منطبق کر کے عوام کے ذہنوں سے اُس اثر اور دلوں سے اُن تاثرات کو دور کرنا ہے جو کہ مرزائی جماعت کے متعلق ان کے دلوں میں موجود ہیں.آخر میں لکھا ہے ”برسبیل تذکرہ تقریر کی روانی اور خطابت کے جوش میں سر ظفر اللہ کا نام بھی آتا رہا لیکن اصل مبحث قادیانی جماعت تھی نہ کہ سر ظفر اللہ کی ذات میں نے اصل مضمون پڑھ دیا ہے اس میں جماعت کا کہیں ذکر نہیں صرف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا ذکر ہے.اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اس بیان میں جتنی

Page 214

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۸ باتیں بیان کی گئی ہیں وہ سب کی سب جھوٹی ہیں کیونکہ یہ طبقہ جو احرار سے تعلق رکھتا.ایک فیصدی بھی سچ نہیں بولتا.پہلی بات تو میں نے بتا دی ہے کہ یہ جھوٹ ہے کہ الزام چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر تھا جماعت پر نہیں تھا.اب میں دوسری بات لیتا ہوں.دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ جب مسلم لیگ مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت تھی تو مرزائیوں نے مسلم لیگ کے نمائندہ سے الگ اپنا وکیل کیوں پیش کیا ؟ میرا جواب یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے الگ میمورنڈم پیش کرنے کی وجہ احرار اور اُن کے ہم خیال تھے اگر وہ نہ ہوتے تو نہ ہم کو لیگ سے علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کی ضرورت تھی اور نہ مسلم لیگ کو ہم سے علیحدہ میمورنڈم پیش کرانے کی ضرورت تھی.واقعہ یہ ہے کہ جب باؤنڈری کمیشن مقرر ہوا تو طبعا ہر جماعت نے خدمت قوم کے خیال سے اپنے اپنے میمورنڈم تیار کئے اور یہ خیال کیا گیا کہ جتنے زیادہ میمورنڈم دیں گے اُتنا ہی کمیشن پر زیادہ اثر ہو گا.زمیندار بھی کہیں گے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں، تاجر بھی کہیں گے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور اِسی طرح دوسرے لوگ بھی.ہندوؤں کی طرف سے بھی بیسیوں انجمنوں نے میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ کیا.اسی خیال کے ماتحت جماعت احمدیہ نے بھی الگ میمورنڈم تیار کیا اور غالباً گورداسپور مسلم لیگ کی طرف سے بھی ایک میمورنڈم تیار کیا گیا اور وہ لوگ جنہوں نے یہ میمورنڈم تیار کیا تھا ابھی زندہ موجود ہیں اِن میں غلام فرید صاحب ایم ایل اے، شیخ کبیر الدین صاحب، شیخ شریف حسین صاحب وکیل جو احراریوں کے لیڈر تھے ، مولوی محبوب عالم صاحب جو اس وقت اوکاڑہ میں احراریوں کے لیڈر بنے ہوئے ہیں اور مرزا عبد الحق صاحب وکیل.کیا یہ لوگ مسلم لیگ کو مسلمانوں کا واحد نمائندہ خیال نہیں کرتے تھے؟ اسی طرح امرتسر کی ایک انجمن نے بھی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ کیا اور بعض انجمنوں نے جالندھر اور ہوشیار پور سے بھی یہی ارادہ کیا کہ علیحدہ میمورنڈم پیش کیا جائے.حقیقت یہ ہے کہ ہر ایک کے اندر ایک خاص جوش تھا کہ کسی طرح پاکستان کی طرف سے زیادہ سے زیادہ میمورنڈم بنائیں اور یہ کہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اس کا حکومت پر اثر ہوگا.گویا صرف

Page 215

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۸۹ قادیانیوں نے ہی علیحدہ میمورنڈم پیش نہیں کیا تھا مسلم لیگ کی بھی ایک شاخ نے ایسا کرنے کا ارادہ کیا اور جنہوں نے علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ نہیں کیا وہ وہی تھے جو کہتے تھے کہ ہم پاکستان کی پ“ بھی نہیں بننے دیں گے اس لئے نہیں کہ وہ مسلمانوں کے نمائندہ تھے بلکہ اس لئے کہ وہ پاکستان کا وجود ہی گوارہ نہیں کرتے تھے ورنہ خود لیگیوں نے بھی علیحدہ میمورنڈم تیار کئے تھے تا کہ لیگ کو مضبوطی حاصل ہو.جب میمورنڈم پیش کرنے کا وقت قریب آیا اور چوہدری صاحب مسلم لیگ کی طرف سے نمائندہ مقرر ہوئے تو انہوں نے جماعت کو اطلاع دی کہ فیصلہ یہ ہوا ہے کہ دونوں فریق کی طرف سے صرف کانگرس اور لیگ کے میمورنڈم پیش ہوں کیونکہ دو ہی نکتہ نگاہ ہیں اور یہ دونوں انجمنیں دو مخالف خیالات کی نمائندگی کرتی ہیں اس پر ہر جماعت نے اپنے میمورنڈم پیش کرنے کا ارادہ چھوڑ دیا (یا در ہے کہ احمدیہ میمورنڈم تیار کر کے لیگ کو بھجوا دیا گیا تھا تا کہ کوئی اعتراض ہو تو وہ بتا دیں مگر انہوں نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا ).اس کے بعد کانگرس نے کسی مصلحت کے ماتحت اپنے وقت میں سے کچھ وقت سکھوں کو دیا اور اسی طرح احمدیوں کو بھی.شاید ان کا یہ مطلب ہو کہ سکھوں کے مطالبات تو یہی ہیں جو کانگرس کے ہیں لیکن یہ اُجڑ قوم ہے.کہیں یہ نہ کہہ دیں کہ جب تک سردار جی نہ بولیں گے ہم راضی نہیں ہوں گے اور جب سکھ بولے تو شاید ا چھوتوں میں بھی یہ خیال پیدا نہ ہو جائے اس لئے ان کو بھی وقت دو.( پہلے فیصلہ کے مطابق وقت صرف لیگ اور کانگرس میں تقسیم تھا اگر لیگ یا کانگرس اجازت نہ دیتی تو کوئی اور میمورنڈم پیش نہ ہوسکتا ) جب اس فیصلہ کا علم مسلم لیگ کو ہوا تو اس خیال سے کہ ہندوؤں کی طرف سے بعض دوسری قوموں کے لیڈر بھی پیش ہوں گے شاید اس کا بھی کوئی اثر پڑ جائے لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی ایک دو علیحدہ میمورنڈم پیش کر دیں چنانچہ لیگ کی طرف سے ہمیں اور عیسائیوں کو ہدایت ملی کہ علیحدہ علیحدہ میمورنڈم پیش کرو ورنہ ہم پہلے ایسا کرنے کا ارادہ چھوڑ چکے تھے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ صرف احمدیوں کو ہی علیحدہ میمورنڈم پیش کرنے کی اجازت کیوں

Page 216

انوار العلوم جلد ۲۲ 19.متفرق امور دی گئی گورداسپور کی مسلم لیگ کو اجازت کیوں نہ دی گئی ، اس کا جواب یہ ہے کہ مسلم لیگ گورداسپور بہر حال مسلم لیگ کہلاتی تھی اور کوئی معقمند نہیں کہہ سکتا کہ وہ مرکزی مسلم لیگ کے ساتھ متفق نہیں ہوگی لیکن احراریوں نے یہ پروپیگنڈا کیا ہوا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں اور شبہ تھا کہ ہند و سکھ ریڈ کلف کو یہ نہ کہہ دیں کہ مسلمان ، احمدیوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اس لئے ان کی آبادی کو نکال کر دیکھا جائے کہ آیا گورداسپور میں مسلم اکثریت ہے یا غیر مسلم اکثریت.ضلع گورداسپور میں ساٹھ ہزار احمدی تھے اور انہیں ملا کر مسلمان ٪ ۵۱۰۱۴ تھے جس کے یہ معنی تھے کہ اگر احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ کر دیا جاتا تو مسلمان ٪ ۴۵.۶۹ رہ جاتے اور غیر مسلم زیادہ ہو جاتے تھے.پس احراریوں نے جو یہ شرارت کی کہ احمدیوں کو باقی مسلمانوں سے علیحدہ سمجھا جائے اِس کی وجہ سے مسلم لیگ نے فیصلہ کیا کہ ہم علیحدہ میمورنڈم پیش کریں ورنہ ہندو کہہ دیں گے کہ یہ مسلمان نہیں اور ثبوت میں احراریوں کا فتویٰ پیش کر دیں گے.گویا احمدی اس لئے الگ پیش نہیں ہوئے کہ وہ اپنے آپ کو الگ سمجھتے تھے بلکہ ان کے الگ پیش ہونے کی ضرورت اس لئے سمجھی گئی کہ احراریوں نے یہ اعلان کیا ہوا تھا کہ احمدی مسلمان نہیں اگر ان سے علیحدہ پاکستان کی حمایت میں میمورنڈم پیش نہ کرایا جاتا تو ضلع گورداسپور میں مسلمان بڑی نمایاں اقلیت ہو جاتے تھے.بعد میں سر تیجا سنگھ کی جرح نے ثابت کر دیا کہ احرار اور سکھوں اور ہندوؤں کی سکیم کا کس طرح احمدیہ میمورنڈم نے خاتمہ کر دیا.سر تیجا سنگھ نے احمدی میمورنڈم کے پیش ہونے پر سٹ پٹا کر کہا کہ احمدیہ موومنٹ کا اسلام میں مؤقف کیا ہے“ یعنی آپ لوگ تو مسلمانوں میں ہیں ہی نہیں آپ ان کی طرف سے کس طرح بول رہے ہیں ؟ شیخ بشیر احمد صاحب نے جو احمدیوں کی طرف سے میمورنڈم پیش کر رہے تھے جواب دیا کہ ہما را دعوی ہے کہ ہم اوّل سے آخر تک مسلمان ہیں ہم اسلام کا ایک حصہ ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوؤں اور سکھوں کا یہ منصوبہ تھا کہ وہ کہیں احمدی مسلمان نہیں انہیں نکال کر معلوم کرو کہ آیا ضلع گورداسپور میں اقلیت میں ہیں یا اکثریت میں؟ لیگ اسے بھانپ گئی اور اس نے پاکستان کی حمایت میں احمدیوں سے علیحدہ محضر پیش کر وا دیا.

Page 217

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۹۱ دیکھو! یہ احراری جھوٹے ہیں پہلے انہوں نے کہا میمورنڈم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے پیش کیا تھا اور اس لئے علیحدہ میمورنڈم پیش کیا گیا کہ احمدی مسلمان نہیں ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ میمورنڈم شیخ بشیر احمد صاحب نے پیش کیا اور سر تیجا سنگھ کے اس سوال کے جواب میں کہ احمدیوں کا مؤقف کیا ہے، شیخ بشیر احمد صاحب نے کہا ہم شروع سے آخر تک مسلمان ہیں اور اپنے آپ کو اسلام کا ایک حصہ سمجھتے ہیں مگر احرار جھوٹ بول کر کہتے ہیں کہ ہم نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ کہا کہ ہم مسلمان نہیں ہم مسلمانوں سے الگ ہیں کسی شاعر کا شعر ہے ہم آہ بھی بھرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا یہ لوگ کتنا بھی جھوٹ بولیں انہیں کوئی کچھ نہیں کہتا لیکن بدنام ہم ہیں ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کا ایک حصہ ہیں لیکن وہ کہتے ہیں انہوں نے کہا تھا کہ ہم مسلمان نہیں ” ہے“ کو ”نہیں“ کہہ دینا کیا چھوٹی سی بات ہے.خلاصہ یہ ہے کہ احمدیوں کا الگ میمورنڈم پیش کرنا احرار کی اس شرارت کو ختم کرنے کے لئے تھا کہ احمدی مسلمان نہیں کیونکہ اگر اس کا جواب احمدیہ میمورنڈم میں دوسرے مسلمانوں کی حمایت کر کے نہ دیا جاتا تو گورداسپور میں مسلمانوں کی اکثریت کو ہندو اور سکھ اعداد و شمار سے غلط ثابت کر سکتے تھے.یادر ہے کہ بٹالہ تحصیل میں مسلمانوں کی تعداد تین لاکھ ساٹھ ہزار کے قریب تھی اور احمدی ووٹ پچپن ہزار ووٹ میں سے پانچ ہزار سے اوپر تھا اور تحصیل گورداسپور ، شکر گڑھ اور پٹھان کوٹ میں دو ہزار سے زائد تھا پس ووٹوں کے لحاظ سے احمدیوں کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر بنتی ہے مگر چونکہ احمدیوں میں تعلیم زیادہ تھی اس لئے تعلیم کی وجہ سے ان کے ووٹ ساٹھ ہزار میں سے اتنے بن گئے.صرف قادیان میں احمدی بارہ ہزار سے زائد تھے اور اردگرد کے پانچ چھ دیہات میں مزید پانچ ہزار تھے گویا صرف قادیان اور اس کے اردگرد کے دو دو میل کہ حلقہ میں احمدی سترہ ہزار تھے.٪ ۱۴۵ سارے ضلع کی آبادی

Page 218

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۹۲ متفرق امور کے.اگر قادیان کے علاوہ کوئی احمدی نہ ہوتا تب بھی احمدیوں کے نکالنے سے مسلمان اقلیت میں آجاتے تھے.پس احمدیوں سے علیحدہ محضر پیش کروانا مسلمانوں کے مفاد کے لئے نہایت ضروری تھا اور لیگ نے جو فیصلہ کیا وہ بالکل درست تھا..دوسری بات یہ یادر کھنے کے قابل ہے کہ فیصلہ کے مطابق وقت صرف مسلم لیگ اور کانگرس کو ملنا تھا اگر مسلم لیگ ہمیں اجازت نہ دیتی تو احمدی میمورنڈم پیش نہ ہو سکتا تھا.خان افتخار حسین خان صاحب ممدوٹ ، خواجہ عبدالرحیم صاحب سابق کمشنر چوہدری اکبر علی صاحب اور دوسرے مسلم لیگی لیڈر اس بات کے گواہ ہیں کہ وقت صرف مسلم لیگ کو دیا گیا تھا ہمیں براہ راست وقت نہیں ملا.مسلم لیگ نے اپنے وقت میں سے ہمیں کچھ وقت دیا ور نہ ہم الگ محضر پیش ہی نہیں کر سکتے تھے.پھر کمیشن کے دونوں مسلمان حج جسٹس محمد منیر اور سابق مسٹر جسٹس حال ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ بھی اس کے گواہ ہیں ان لوگوں کو معلوم ہے کہ اس میمورنڈم کے پیش کرنے میں برابران مسلمان جوں سے مشورہ کیا جاتا رہا کیونکہ ان جوں کے متعلق فیصلہ کیا گیا تھا کہ یہ قوم کے نمائندے ہیں.میں خود مسٹر جسٹس منیر کی کوٹھی پر گیا ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ بھی وہاں آگئے تھے اسی طرح چوہدری نذیر احمد صاحب ممبر پبلک سروس کمیشن بھی اتفاقاً آ گئے میرے ساتھ شیخ بشیر احمد صاحب اور در دصاحب بھی تھے.ہم نے اس میمورنڈم پر قانونی طور پر ڈسکس کی اور اس کی کا پیاں ہم نے ان میں سے اکثر کو الگ بھی دے دی تھیں.پس یہ سوال نہیں کہ ہم نے مسلم لیگ سے الگ محضر کیوں پیش کیا بلکہ سوال یہ ہے کہ الگ محضر پیش کرایا گیا اور اس کی وجہ میں بتا چکا ہوں کہ احرار کی یہ شرارت تھی کہ احمدی مسلمان نہیں اور اس کا انہوں نے پروپیگینڈا کیا ہو ا تھا.اگر ہم علیحدہ پیش نہ ہوتے تو ریڈ کلف کو ادھر اُدھر کے بہانے بنانے کی ضرورت ہی نہ تھی.وہ احراریوں کا فتویٰ پیش کر کے کہہ سکتا تھا کہ چونکہ احمدی مسلمان نہیں اس لئے ان کو نکال دیا جائے تو مسلم آبادی ۴۵ فیصد ہی رہ جاتی ہے اس لئے یہ ضلع ہندوستان میں شامل ہونا چاہئے.اس میمورنڈم کو پیش کرنے کا فائدہ یہ ہوا کہ ریڈ کلف کو بہانے تلاش کرنے پڑے جس کی وجہ سے ہم آج تک

Page 219

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۹۳ انگریزوں کو بدنام کر رہے ہیں.اُس وقت مسلم لیگ احراریوں کی شرارت کو بھانپ گئی اور اس نے دھوکا نہیں کھایا.اب انگریزوں کا اس فیصلہ کو درست ثابت کرنے کے سوا کوئی وجہ جواز نہیں چنانچہ جب کوئی انگریز ہمارے پاس آتا ہے وہ شرمندہ ہو جاتا ہے.ان لوگوں کے ہندوستان سے تعلقات میں ہندوستان کو پاکستان کے مقابلہ میں جو زک پہنچی اس کا اثر زائل کرنے کے لیے یہ شرارتیں کروائی جارہی ہیں اور یہ پرو پیگنڈا کروایا جا رہا ہے کہ ضلع گورداسپور کا پاکستان سے الگ ہونا احمدیوں کی وجہ سے تھا حالانکہ ہم نے میمورنڈم صرف اس لئے پیش کیا تھا کہ احراری چونکہ ہمیں مسلمانوں سے خارج کہتے ہیں اس لئے تم ہمیں مسلم سمجھو یا غیر مسلم ہم بہر حال پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں اور ہم مسلم لیگ کے ساتھ ہیں.تیسرا آزاد نے اپنے۲ جون کے اخبار میں حکومت کے اعلان پر اعتراض کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ مرزائی وکیل کو باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ کہنے کا کیا حق تھا کہ قادیانی بین الا قوامی یونٹ بن چکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں.یہ فقرہ جس خلاصہ سے لیا گیا ہے وہ بے شک الفضل میں چھپا ہے لیکن یہ خلاصہ کسی اور اخبار یا ر پورٹر نے لکھا ہے جو قطعاً غلط ہے.یہ ہمارے میمورنڈم میں ہرگز موجود نہیں بلکہ اس عبارت کا میمورنڈم سے دُور کا بھی تعلق نہیں.اگر یہ عبارت ہمارے میمورنڈم میں احرار دکھا دیں تو میں اُنہیں دو ہزار روپیہ انعام دوں گا اور اس کا فیصلہ میں باؤنڈری کمیشن کے ایک ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنر سندھ پر چھوڑتا ہوں جو احمدی نہیں اگر وہ ہما را میمورنڈم پڑھ کر کہ دیں کہ ہمارے میمورنڈم میں یہ فقرہ موجود ہے تو میں پلا چون چراں دو ہزار کا چیک میمورنڈم کے ساتھ ہزا ایکسی لینسی کو بھجوا دوں گا.اگر یہ فقرہ ہمارے میمورنڈم میں ہو یا اس کے ہم معنی کوئی فقرہ ہمارے میمورنڈم میں ہو تو وہ ہمارے خلاف فیصلہ کرا کے اور وہ فقرہ نقل کر کے ہمیں بھجوا دیں اور دو ہزار کا چیک احرار کو دے دیں.اس موقع پر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے گئے تو حضور نے نعروں کے متعلق ہدایات دیتے

Page 220

انوار العلوم جلد ۲۲ ہونے فرمایا کہ ) ۱۹۴ متفرق امور میں نے آخری دو تین سالوں میں دوستوں کو ہدایات دی تھیں کہ نعرہ نہ لگایا جائے لیکن اب چونکہ دشمن کہتا ہے کہ ہم نے احمدیوں کو مار ڈالا ہے.اس لئے اب وہ وقت گزر گیا ہے اب نعرہ لگانے کی ممانعت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب صلح حدیبیہ کے اگلے سال حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے تو معاہدہ یہ تھا کہ مکہ والے اس سال جبل ابوالقیس پر چلے جائیں گے اور ملکہ کی گلیاں خالی کر دیں گے تا کہ مسلمان اطمینان سے خانہ کعبہ کا طواف کر سکیں.اتفاق کی بات ہے کہ اس سال مدینہ میں ملیریا کا زور تھا اور اس کی وجہ سے صحابہ سے چلا نہیں جا تا تھا ، ان کے پاؤں لڑکھڑاتے تھے اور وہ گبڑے ہو کر چلتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو دیکھا کہ جب وہ جبل ابوالقیس کے سامنے آتے تو اکٹڑ کر چلتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن سے دریافت کیا کہ جب تم اس پہاڑی کے سامنے آتے ہو تو اتنا اکڑ کر کیوں چلتے ہو؟ اس پر صحابی نے عرض کیا کہ یا رَسُولُ اللہ ! میں اُنہیں بتانا چاہتا ہوں کہ اگر چہ ہمیں بخار ہے لیکن تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے ہم میں اب بھی طاقت پائی جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تکبر خدا تعالیٰ کو بہت ہی نا پسند ہے لیکن اس شخص کی حرکت خدا تعالیٰ کو عرش پر بھی پسند آئی ہے.اسی طرح میں کہتا ہوں کہ دشمن کو اپنی زندگی جتانے کے لئے نعرہ لگانا جائز ہے.اب جو نعرہ لگا تھا وہ تو کچھ اچھا لگا تھا لیکن اس سے پہلے کا نعرہ بخار والوں کا نعرہ تھا حالانکہ جن کی نقل میں یہ نعرہ لگایا گیا ہے وہ بخار میں بھی اکڑ کر چلتے تھے دشمن کہتا ہے کہ ہم نے تمہیں مار دیا ہے لیکن تم نے انہیں بتانا ہے کہ ہم مرنے والے نہیں.اب میں میمورنڈم کے وہ پیرا گراف پڑھ کر سُنا تا ہوں جن کی وجہ سے احمدیوں پر اعتراض کیا گیا ہے.ہمارے میمورنڈم میں جماعت احمدیہ کے انٹر نیشنل ہونے کا ذکر صفحہ پر آتا ہے اور اس کا ہیڈ نگ نمبر (۱) ہے.اس پیرا کا مضمون یہ ہے کہ:.لکھ کہتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ پر ہمارے گردوارے واقع ہیں

Page 221

۱۹۵ انوار العلوم جلد ۲۲ اور اس اہمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے یہ خیال نہ کیا جائے کہ ان علاقوں میں مسلمان زیادہ ہیں بلکہ اس اہمیت کی وجہ سے کہ ان میں گردوارے ہیں وہ علاقے ہمیں دیئے جائیں.“ ہم نے میمورنڈم میں ثابت کیا ہے کہ سکھوں کے نزدیک مذہبی طور پر جتنی اہمیت ان جگہوں کو حاصل ہے اس سے بہت زیادہ اہمیت قادیان کو حاصل ہے سکھوں نے یہ متبرک مقامات خود مقرر کئے ہیں لیکن اس چیز کا کہ قادیان ہمارا مذہبی مرکز ہے خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں ذکر ہے پس احمد یہ مرکز اس عقیدہ کی رو سے الها می مرکز ہے.چنانچہ اس میں لکھا ہے: The Holy Founder of the Ahmadiyya Movement laid it down that the Headquarters of the Ahmadiyya Community should always be at Qadian.It is not possible, therefore, for the community or its present Head to transfer the Headquarters of the Community from Qadian to any other place.یعنی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے خود اپنی تحریرات میں اس بات کا ذکر کیا ہے کہ جماعت کا مرکز ہمیشہ قادیان رہے.اس لئے جماعت یا جماعت کے موجودہ امام کے لئے ممکن نہیں کہ وہ جماعت کے مرکز کو قادیان کے سوا کسی اور جگہ تبدیل کرے.پھر میمورنڈم میں بتایا گیا تھا کہ سکھ تو ایک مقامی جماعت ہیں اس کی دوسرے ممالک میں کوئی شاخیں قائم نہیں لیکن جماعت احمدیہ میں مختلف ممالک کے لوگ شامل ہیں اور اگر مذہب کو کوئی اہمیت دی جاسکتی ہے تو وہ اہمیت احمدیوں کو دینی چاہئے چنانچہ ہمارے میمورنڈم میں یہ الفاظ آتے ہیں کہ :- People from all parts of the world come here for religious and spiritual training.True, that Hindus number about 300 millions and sikhs about 5 millions but there are no conversions among them from

Page 222

XXXXXXXXXX ۱۹۶ انوار العلوم جلد ۲۲ outside India.Branches of the Ahmadiyya Community are established in the U.S.A., Canada, Argentine, England, France, Spain, Italy, Syria, Palestine, Iran, Afghanistan, China, Ceyon; Mauritious, Burma, Malaya, Indonesia, Kenya, Tanganyika, Uganda, Abyssinia, the Sudan, Nigeria, Gold Coast, and Sierraleone.In some of the foreign countries there are hundreds of local branches.In the U.S.A.thousands of American citizens owe allegiance to the Ahmadiyya Creed.Even at the present time there is a British ex.Lieutenant and a Syrian barriester staying at Qadian for religious instruction.A German ex-Military officer is also expected in Qadian shortly to get training as a Muslim Missionary.Similarly, converts from the U.S.A.as well as the Sudan and Iran intend to come to Qadian for religious instruction.Before this, students from Indonesia, Afghanistan, China and parts of Africa have visited our Headquarters.Hence the position of Qadian among religious centers is very high.If shrines are included in 'other factors' Qalian undoubtedly takes the first place.یعنی دنیا کے تمام حصوں سے یہاں مذہبی ٹریننگ حاصل کرنے کے لئے لوگ آتے ہیں یہ بات سچ ہے کہ ہندوؤں کی آبادی تمیں کروڑ کی ہے اور سکھ قریباً پچاس لاکھ ہیں لیکن ان کے مذاہب میں بیرونی ممالک کے لوگ شامل نہیں ہوئے اس کے برعکس جماعت احمد یہ کی شاخیں یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ ، کینیڈا، ارجنٹائن، انگلینڈ، فرانس، سپین ، اٹلی ، شام ، فلسطین ، ایران ، افغانستان، چین، سیلون، ماریشس، برما، ملایا، انڈونیشیا، کینیا، ٹانگا نیگا ، یوگنڈا، ایسے سینیا، سوڈان، نائیجیریا، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں قائم ہیں.

Page 223

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۹۷ متفرق امور بعض ممالک میں سینکڑوں مقامی شاخیں پائی جاتی ہیں.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں ہزاروں لوگ اس جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.اس وقت بھی ایک انگریز سابق لیفٹیننٹ اور سیریا کا ایک بیرسٹر قادیان آئے ہوئے ہیں اور مذہبی ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں اور پھر جرمن کا ایک سابق فوجی افسر بھی بہت جلد قادیان آنے والا ہے ( یہ مسٹر کنزے ہیں جو ملک سے پہلے قادیان نہ پہنچ سکے تھے یہ اب پاکستان کے قیام کے بعد یہاں پہنچے ہیں) اسی طرحU.S.A ، ایران اور سوڈان سے بھی بعض لوگ یہاں آنے کا ارادہ رکھتے ہیں ( قیام پاکستان کے بعد U.S.A سے مسٹر رشید احمد یہاں آچکے ہیں اور سوڈان سے مسٹر عباس ابراہیم آئے ہیں.ایران سے ابھی تک کوئی نہیں آیا ) اس سے قبل افغانستان، انڈونیشیا، افریقہ اور چین سے بھی بعض لوگ یہاں آ رہے ہیں اس لئے مذہبی مراکز میں سے جو پوزیشن قادیان کو حاصل ہے وہ نہایت اعلیٰ ہے.تقسیم ملک کی شرائط میں یہ چیز بھی شامل تھی کہ بعض اور امور کی بناء پر ملک کے کسی حصہ کو پاکستان یا ہندوستان میں شامل کیا جاسکتا ہے ) اگر دیگر امور میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کسی علاقہ کو بعض مذہبی وجوہ کی بناء پر بھی ہندوستان یا پاکستان میں شامل کیا جا سکتا ہے تو سب.اہم جگہ قادیان کو پیش کرنی پڑے گی.پھر بتایا گیا تھا کہ جماعت احمدیہ کی گل سات سو پنتالیس انجمنیں ہیں جس میں سے ۷۴ مغربی پنجاب اور پاکستان میں شامل ہیں اس لئے قادیان کو مغربی پنجاب یعنی پاکستان سے علیحدہ کرنا جماعت احمدیہ کے مستقبل کے لئے سخت نقصان دہ ہوگا.اب دیکھو میمورنڈم میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں مگر احراری کہتے ہیں کہ ہم پاکستان میں شامل ہونا نہیں چاہتے تھے.یہ کتنا بڑا جھوٹ اور افتراء ہے.ہر شخص کے دماغ میں کوئی نقص نہ ہو وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس میں نہ تو کسی الگ یونٹ ہونے کا ذکر ہے اور نہ یہ سوال ہے کہ قادیان کو خود یہ فیصلہ کرنے کا حق ہے کہ آیا وہ ہندوستان میں شامل ہو یا پاکستان میں بلکہ محض یہ ذکر ہے کہ قادیان ایک اہم مذہبی مرکز ہے اور اس کے پاکستان کے ساتھ ایسے تعلقات ہیں کہ اس کو اس سے علیحدہ کرنا نہایت

Page 224

انوار العلوم جلد ۲۲ نقصان دہ ہوگا.۱۹۸ متفرق امور پھر اگر یہ کہا جائے کہ ہم اس میمورنڈم کو نہیں لیتے الفضل میں جو خلاصہ شائع ہوا ہے ہم اسے لیتے ہیں اُس میں یہ لکھا ہے کہ قادیان ببین الا قوامی یونٹ بن چُکا ہے اور اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں “.میں یہ کہتا ہوں کہ اگر اس غلط خلاصہ کو بھی لیا جائے جو الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۴۹ء میں شائع ہوچکا ہے تب بھی آزاد کا جھوٹ ثابت ہے.آزاد لکھتا ہے کہ احمدی نمائندہ کو کیا حق تھا کہ وہ کہتا ہے قادیان بین الا قوامی یونٹ بن چکا ہے اور اسے حق ہے کہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں.۱۰ یہ سراسر جھوٹا اور دھوکا دینے والا فقرہ ہے.الفضل کے شائع کردہ غلط خلاصہ میں بھی یہ امر بیان نہیں.آزاد کے نقل کردہ فقرہ کا یہ مفہوم ہے کہ قادیان عام دنیا کا ایک یونٹ ہے.دوم اُسے حق حاصل ہے کہ خواہ ہندوستان میں رہے یا پاکستان میں.اور یہ کہ وہ اس حق کو کس طرح استعمال کرنا چاہتا ہے اس طرف سے خاموشی ہے.مگر الفضل کا فقرہ یہ ہے کہ قادیان اسلامی دنیا کی ایک بین الا قوامی تحریک بن چکا ہے اس لئے اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ ہند یونین میں آنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں.سو ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں.دیکھو ان احرار کے علماء نے کس صداقت سے کام لیا ہے قادیان اسلامی دنیا کا ایک بین الاقوامی یونٹ بن گیا ہے“ کے فقرہ کو نقل کرتے ہوئے ”اسلامی“ کا لفظ بیچ میں سے اُڑا دیا ہے.تا کہ لوگ سمجھیں کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمانوں سے الگ قرار دے رہے تھے اور آخری فقرہ کہ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں، اس کو بھی اُڑا دیا ہے تا کہ آزاد کے خریدار یہ سمجھیں کہ احمدیوں نے اپنا فیصلہ کرنے کا حق تو بتایا

Page 225

انوار العلوم جلد ۲۲ ۱۹۹ متفرق امور لیکن یہ بات نہ کہی کہ ہم کہاں جانا چاہتے ہیں اور اس طرح مسلمانوں کے معاملہ کو کمزور کر دیا لعُنَتُ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ - 66 66 غرض اس اقتباس سے واضح ہے کہ احرار کا الزام خالص دھوکا بازی اور سراسر جھوٹ ہے.الفضل کے شائع کردہ غلط خلاصہ میں بھی اس کا ذکر نہیں.احرار نے یہ الزام لگایا ہے کہ احمدیوں نے اپنے میمورنڈم میں کہا کہ قادیان بین الاقوامی یونٹ بن چکا ہے اور اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں.حالانکہ خلاصہ میں یہ تھا کہ ” قادیان اسلامی دنیا کی ایک بین الا قوامی یونٹ بن چکا ہے اس لئے اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ آیا وہ ہند یونین میں آنا چاہتے ہیں یا پاکستان میں.احراریوں نے اسلامی دنیا “ کے الفاظ حذف کر دیئے اور کہہ دیا قادیان بین الا قوامی یونٹ بن چکا ہے.پھر اس کا اگلا فقرہ کہ ” سو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں اس کو بھی حذف کر دیا.یہ کتنا بڑا جھوٹ ہے اور پھر بھی یہ مولوی بچے کے بچے ہیں.اگر ایک عیسائی یہ اعتراض کر دے کہ قرآن کریم میں لکھا ہے.لا تقربوا الصلوة - تو یہ لوگ شور مچا دیں گے کہ اگلا فقرہ کیوں نہیں پڑھا آگے صاف لکھا ہے وَ انتُم شکاری.اسی طرح یہاں اگلا فقرہ یہ تھا سو ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم پاکستان میں آنا چاہتے ہیں مگر اس کو اُڑا دیا.اور پہلے فقرہ سے اسلامی دنیا کے الفاظ حذف کر کے یہ کہہ دیا کہ گویا ہم نے کہا ہے قادیان بین الاقوامی یونٹ بن چکا ہے اور اس یونٹ کا حق ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ وہ پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں اور ان کی تفاصیل سے ظاہر ہے کہ ”آزاد“ کے معنے جھوٹ اور تعصب سے آزاد نہیں بلکہ اس کے معنے مادر پدر آزاد کے ہیں.اتنا بڑا جھوٹ ان مسلمانوں کو دھوکا دینے کے لئے بولا جاتا ہے جنہوں نے سچ کی خاطر کسی زمانہ میں اپنی جانیں دیں.یہ اُن مسلمانوں کے ایمان کو برباد کرنے کے لئے جھوٹ بولا جاتا رہا جن کے ماں باپ نے سچائی کو قائم کرنے کے لئے عظیم الشان قربانیاں دیں.پھر یہ جھوٹ کو شیر مادر سمجھنے والے لوگ تو صادقوں کے سردار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 226

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۰۰ متفرق امور دوست ہیں اور احمدی سچ بولنے والے احرار کے جھوٹوں اور افتراؤں کا شکار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن ہیں لَعْنَتِ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ.میں پھر دو ہزار رو پیدا نعام مقرر کرتا ہوں اور ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب کو جو اس کمشن کے ممبر تھے جس کی نسبت یہ جھگڑا ہے حج ماننے کے لئے تیار ہوں کہ کیا الفضل کے شائع شدہ غلط خلاصہ میں ”اسلامی“ کا لفظ ہے یا نہیں ؟ اور کیا اس فقرہ کے آخر میں پاکستان میں شامل رہنے کا مطالبہ کیا ہے یا نہیں؟ اگر یہ دونوں باتیں غلط ہوں تو اُن کے فیصلہ کر دینے پر میں دو ہزار روپیہ فوراً احرار کو دے دوں گا.لیکن اگر ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد بوجہ اپنے موجودہ عہدے کے یہ سمجھیں کہ اُن کے لئے یہ ثالثی مناسب یا جائز نہیں تو اس کے لئے بھی تیار ہوں کہ اُوپر کے دونوں اُمور کے متعلق پانچ پانچ آدمی جو حج رہے ہوں یا دس سالہ پریکٹس والے وکیل یا بیرسٹر ہوں مرکزی احرار کی طرف سے اور صدر انجمن احمدیہ کی طرف سے مقرر ہو جائیں اور پھر اُن کے نام کے قرعے ڈال کر پانچ آدمی منتخب کرنے چاہئیں.یہ قرعہ سے نکلے ہوئے پانچ آدمی مؤکد بعذاب قسم کھا کر جو فیصلہ کریں مجھے وہ منظور ہوگا.اور اگر یہ فیصلہ میرے خلاف ہوا تو میں دو دو ہزار کی رقم ہرامر کے بارہ میں جس کا فیصلہ میرے دعوی کے خلاف ہو احرار کو ادا کرونگا.ہز ایکسی لینسی شیخ دین محمد صاحب گورنرسندھ کا نام صرف اس لئے تجویز کیا ہے کہ وہ باؤنڈری کمیشن کے ممبر تھے اور اس وقت حج کا کام نہیں کر رہے لیکن اگر ان کے لئے یہ کام جائز نہ ہو یا جائز ہومگر وہ پسند نہ کریں تو پھر دوسری تدبیر اختیار کرنے پر بھی مجھے اعتراض نہ ہوگا.اب میں احمد یہ جماعت کی اُن خدمات کا ذکر کرتا ہوں جو اس نے پاکستان کی تائید میں اُس وقت کیں.باؤنڈری کمیشن کا کام ایک نادر چیز ہے.ہندوؤں کو بھی اس کے قواعد معلوم نہیں تھے اور نہ تازہ لٹریچر دستیاب ہو سکتا تھا.میں نے فوراً سینکڑوں روپے خرچ کر کے امریکہ اور برطانیہ سے تازہ لٹریچر منگوایا پھر ڈاکٹر سپیٹ کو جو لندن میں سکول آف اکنامکس کے پروفیسر تھے اور جغرافیہ کے ماہر تھے یہاں منگوایا اور کئی ہزار روپیہ خرچ کر کے اُن کی مدد سے نقشے تیار کر کے کمیشن کے سامنے پیش کئے اور پھر اس نے لندن

Page 227

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۰۱ متفرق امور میں جا کر تائید کی.میں حیران ہوں کہ پاکستان کے ذمہ دار افسر ہماری ان خدمات کو سے پہلے یہ کہتے تھے کہ ہم بُھول گئے ہیں اور ان لوگوں کو منہ لگا رہے ہیں جو تقسیم ملک سے وو پاکستان کی پ“ بھی نہیں بننے دیں گے.احرار نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر احمدیوں کی بات کچی ہے تو میمورنڈم پیش کریں سو یہ میمورنڈم ہے ( حضور نے میمورنڈم اپنے ہاتھ میں پکڑا ہو ا تھا ) جس کا سر دست میں خلاصہ سُنا تا ہوں.اس میں لکھا ہے: "There is no doubt that at the press conference the Viceroy Said that this district Muslims had a majority only of 0.8% and hat therefore parts of Gurdaspur would necessarily have non-Muslim majorities.We submit, however, that the Viceroy is not correcty informed on the point.In the 1941 census report, The Muslims population of the district of Gurdaspur is 51.14% of the total.This gives it an excess of 2.8% and not 0.8% over the rest.2.We must also remember that if the Muslim majority in the district of Gurdaspur is slight it is because one of its te sils viz.Pathankot,has a Muslim population of only 38.88%.If we look at the other three tehsils, we find that the tehsil Batala has 55.07% Muslims,tehsil Gurdaspur 52.15% and tehsil shakargarh 53.184%: Census Report,1941".According to these figures it is evident that even if we bracket Batala tehsil christians with Hindus and Sikhs ,Muslims in tehsil Batala have an excess of 10.14%, in tehsil Gurdaspur an excess of 4.30%, in tehsil Shakargarh an excess of 6.28%.If the numberof Christians is added to the number f

Page 228

For انوار العلوم جلد ۲۲ Muslims then those who wish to live in Pakistan in tehsil Batala shave a majority of 60.53%, the percentage of those wishing to go into Hindustanis reduced to 39.47.In tehsil Gurdaspur,the collective Muslim-Christian population acquires a majority of 59.24% and the rest become reduced to a minority of 40.76%.In the tehsil Shakargarh, muslim-Christian population rises to 54.84% and the rest drop to 45.16%.f we keep these figures in view and leave Pathankot out of consideration for the present, it becomes obvious that there can be no question of separating any part of the remainder of Gurdaspur and joining it on to Eastern Punjab.Taking the three tehsils together the Muslim-Christian popualtion has a majority of 53².It follows that according to the Vicory's declaration none of the three tehsils (Batala, Gurdaspur and Shakargarh)can be separated from western Punjab and joined on the Eastern Punjab.It would be utterly unjust and unconstitutional to do so.پھر صفحہ نمبر ۱۰ پر لکھا ہے: In our opinion several 'other factors' can be cited in support of our contention that Qadian should remain a part of Western Punjab.یعنی بہت سے اور دلائل بھی پیش کئے جا سکتے ہیں جو ثا بت کر سکتے ہیں کہ ہمارا یہ دعویٰ درست ہے کہ قادیان کو پاکستان میں شامل ہونا چاہئے.پھر لکھتا ہے: To separate Qadian from Western Punjatherefore, would be highly prejudicial for its future.

Page 229

انوار العلوم جلد ۲۲ ٢٠٣ متفرق امور Promote If Qadian is joined on to the Eastern Punjab it would mean of two things: either Qadian will continue to cultivate and urdu among Ahmadies and thus to deprive its youth from obtaining employment under the Government and its enterprising members progressing in trade and comerce; or, Qadian will drop the use of Urdu which is the language in wich the gebus literature of Ahmadies has been written and thus commit suicide in terms of its religious future.The only college of the Ahmadiyya community is situated in Qadian.If Qadian is joined on to Eastern Punjab, it would mean that majority of students belongg to one Dominion will have to Study in a College Situated in another Dominion will be very injurious and might prove positively detrimental to the interests of the students and of the institution.یعنی اگر قادیان کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملایا جائے تو دو باتوں میں سے ایک ضروری ہو گی.اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہندوستان والے گورمکھی اور دیگر زبانیں چلائیں گے اور ہم اُردو میں تعلیم دیں گے اس طرح ہم اپنے نو جوانوں کو سرکاری ملازمتوں سے محروم کر دیں گے.اسی طرح احمدی تاجر اور پیشہ ور اپنی تجارتوں اور پیشوں کو فروغ نہیں دیں سکیں گے.اور یا قادیان اُردو کا استعمال چھوڑ دے اور اُردو وہ زبان ہے جس میں جماعت کا سارا مذہبی لٹریچر شائع ہوا ہے اور یہ اس کی خود کشی کے مترادف ہوگا.جماعت احمدیہ کا صرف ایک ہی کالج ہے اور وہ قادیان میں واقع ہے اگر قادیان کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملا دیا جائے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ طلباء کی

Page 230

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۰۴ اکثریت جو ایک ٹو آبادی سے تعلق رکھتی ہوگی اسے ایک ایسے کالج میں تعلیم حاصل کرنی پڑے گی جو دوسری کو آبادی میں ہوگا.یعنی جماعت کا اکثر حصہ پاکستان میں ہے اس لئے تعلیم حاصل کرنے والے بھی زیادہ تر پاکستان والے ہی ہوں گے اور انہیں ہندوستان میں تعلیم حاصل کرنی ہوگی.پھر لکھا ہے:- About 90% of the property of the community is situated in wessern Punjab and Pakistan.If Qadian is joined on to Eastern Punjab the financial resources of the Ahmadiyya Centre will very materially suffer.یعنی جماعت کی ۹۰ فیصدی جائیداد مغربی پنجاب اور پاکستان میں واقع ہے.اگر قادیان کو مشرقی پنجاب کے ساتھ ملایا گیا تو جماعت کو اس جائیداد سے فائدہ اُٹھانے سے محروم کر دیا جائے گا.پھر لکھا ہے: It is being said in certain official circles that keeping in view the economic life of this District and its means of communication, Gurdaspur should be placed in Eastern Punjab.This view,however, is not correct, for, to overlook the basic factor of majority Popoulation is beyond the scope and authority of the boundary commission This commission has not been appointed as a guardian over backword populations to decide what are their proper needs: it has been appointed to demarcate the boundary line by ascertaining contigious majority areas of Muslims and non-Muslims.If this results in any inconvenience to the people of the district it is for the majority

Page 231

۲۰۵ انوار العلوم جلد ۲۲ community in Gurdaspur District to decide whether they are prepared to put up with the inconvenience involved in having its arteries of communications passing through foreign territory.In case they are prepared to put up with it,no one else has any right to object, or to deny their right to be placed where they desire to be placedsides, this is by no means an insurmountable difficulty, as has been demonstrated in a number of countries where it has been successfully overcome.یعنی تم یہ دلائل پیش کرتے ہو کہ گورداسپور کو جانے والی ریل امرتسر کے علاقہ میں سے گزرے گی جو ہندوستانی علاقہ ہوگا.یہ تکلیف بے شک ہمیں ہوگی لیکن ہم اس کے با وجود پاکستان میں جانا چاہتے ہیں.جب ضلع کے باشندے ان تکلیفوں کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں تو تم کون ہو جو ہمیں پاکستان سے الگ کر کے ہندوستان سے ملا دو.پھر آگے لکھا ہے کہ اگر قادیان پاکستان سے الگ کر دیا گیا تو پاکستان کا ڈیفنس کمزور ہو جائے گا.چنانچہ لکھا ہے: Of course both Hindustan and Pakistan are proclaiming their intention to live like peaceful neighbours; but there can be no guarantee against future complications between the two.The possibility of war between them should not, therefore,be ignored or overlooked.If Gurdaspur Districtor any portion of it, be apportioned to Eastern Punjab, then, in the case of hostilities between the two, Amritsar would be a big centre of military activity; and the tip of its territory being about 18 miles from the

Page 232

M+y انوار العلوم جلد ۲۲ capital of Western Punjab,it would be admirably placed for exering pressure against Western Punjab.For the proper defence of Lazore from this point of view and of Western Punjab of which this town is the capital,it is necessary that Gurdaspur District should be places in Western Punjab.Should Gurdaspur belong to Western Punjab, portions of Eastern Punjab lying this side of the Beas would not be left free to attack Western Punjab any time they liked.But the situation would change radically from the military point of view if Eastern Punjab should also hold Gurdaspur District in addition to Amristar.In that case not only would Eastern Punjab be able to maintain strong garrisons almost at the throat of Lahand therefore of the whole of Western Punjab,but also have elbow room for them in the adjoining territory of Gurdaspur District; and his would constitute a military threat to Western Punjab which would be well able to paralyse its entire defensive system.Therefore, Gurdaspur being a Muslim majority district (and this majority is desirous of being included inWestern Punjabestern Punjab has right to insist upon getting this territory which is essential for its defensive system against an attack from the east.پھر اور بعض دلائل ہم نے دیئے ہیں.مثلاً لکھا ہے: Among the Gurdaspur Muslims, the majority are jats, of which tribe the greater potion lives in the Western districts liksialkot, Sheikhupura,Lyallpur and Lahore.Gurdaspur Muslims therefore

Page 233

۲۰۷ انوار العلوم جلد ۲۲ should not be cut off fm areas inhabited by the larger body of th tribe to which these Muslims belongts are no doubt to be found the Ambala Division as well, but, for the greater part, they are Hindu jats; and they have, moreover, no connection with the jats of the Gurdaspur district.Thus, to cut off Gurdaspur from Western Punjab would raise insurmountable difficulties in the social life of the Gurdaspur Muslims.پھر بتایا گیا کہ گورداسپور میں جو زبان بولی جاتی ہے وہ لا ہور اور مغربی پنجاب کے ضلعوں سے بہ نسبت جالندھر، ہوشیار پور کے زیادہ ملتی ہے.چنانچہ لکھا ہے: The dialect spoken in Gurdaspur choy remembers the one spoken in Lahore, Sialkot and adjoining parts of Sheikhupura and Gujranwala districts; while it does not at all resemble the one spoken in the eastern districts.As the larger number of people using this dialect would be living in Western punjab, the Gurdaspur Muslims too should be apportioned to the same side.یہ وہ میمورنڈم ہے جس کے من وعن شائع کرنے کے لئے ”آزاد“ نے مطالبہ کیا تھا اور جس کی وجہ سے احمدیوں پر غداری کا الزام لگایا جاتا ہے اس جھوٹے پراپیگنڈے کی وجہ سے کہ احمدی پاکستان کے دشمن ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک کرتے ہیں.اوکاڑہ اور راولپنڈی میں دو احمدی شہید کئے گئے ہیں اور ایک جگہ احمدیوں کا منہ کالا کر کے اُن کو سڑکوں پر پھر ایا گیا ہے.اور مختلف جگہوں سے شرارت کی خبریں آرہی ہیں مگر حکومت خاموش ہے بلکہ مسلم لیگ نے تو احرار سے سمجھوتہ یا سمجھوتہ کے مشابہہ کوئی گفت و شنید کی ہے.مسلم لیگ سے متعلق بعض اخبار برابر یہ پروپیگنڈا کر رہے ہیں کہ احمدی جناح لیگ والوں سے مل گئے ہیں تا عوام میں اپنے ساتھ ہمدردی پیدا کریں

Page 234

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۰۸ متفرق امور حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے.ہم نے اس دفعہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم مرکز سے الیکشنوں میں دخل نہیں دیں گے بلکہ انتخابی حلقہ کے احمدی باہم مشورہ سے فیصلہ کریں گے.ظاہر ہے کہ اس اصل کے فیصلہ کے بعد کوئی سمجھوتہ کسی انجمن سے نہیں ہوسکتا.ذاتی طور پر جو لوگ مجھ سے ملے ہیں احمدی یا غیر احمدی میں نے اُن کو یہی مشورہ دیا ہے کہ یہ تفرقہ کا وقت نہیں تم کو چاہئے کہ لیگ کی کوئی غلطی ہے تو اندر رہ کر اصلاح کرو اس وقت الگ الگ پارٹیاں نہ بناؤ مگر میرے اس رویہ کا بدلہ یہ ہے کہ جو پنجاب کے بعض لیگی لیڈر یا لیگی راہنما دے رہے ہیں.انسان کی تو طینت یہ ہے کہ وہ محسن اور خیر خواہ کی قدر کرتا ہے مگر پنجاب کے یہ کا رکن شاید اپنے آپ کو انسانیت سے بھی بالا سمجھتے ہیں.میں دوستوں کو اس کے با وجود اصولی مشورہ دوں گا تفصیلی نہیں دے سکتا کہ فیصلہ کے خلاف ہے، کہ احرار اور احرار کے دوست جو چاہیں کریں ، انہیں اپنے فرض کو نہیں بولنا چاہئے.انہیں چاہئے کہ پاکستان کے فائدہ کے لئے فساد اور اختلاف کو کم کرنے کی ہر جگہ کوشش کریں اور دلوں کو ملانے کی کوشش کریں اور ہر ایک کو نصیحت کریں کہ یہ وقت اختلاف کا نہیں.پاکستان کے مفاد کو پارٹی بازی کے مفاد سے مقدم رکھو اور مل کر ملک کی پھنسی ہوئی کشتی نکالنے کی کوشش کرو.میں جناح لیگ والوں سے کہتا ہوں کہ آپ کے اخبارات نے زیادہ شرافت سے کام لیا ہے اور اس وجہ سے یقیناً میرا یہ مشورہ آپ کے لئے تکلیف دہ ہو گا.لیکن پاکستان ذاتی فوائد سے مقدم ہے.مجھے معاف کریں کہ باوجود آپ کے نیک سلوک اور شرافت کے میں آپ کے حق میں رائے نہیں دے سکتا.اگر پاکستان کے لئے خطرہ نہ ہوتا تو اس فتنہ انگیزی کے بعد میں آپ کی تائید کا اعلان کرتا مگر زمانہ کے حالات مجھے مجبور کرتے ہیں کہ میں صلح اور اتحاد پر ہی زور دوں.ہاں میرے دل پر جہاں آپ کے اس فعل کا بُرا اثر ہے کہ آپ نے اپنے جذبات کو قربان کر کے اتحاد کو قائم کیوں نہ رکھا.وہاں اس بات کا اچھا اثر ہے کہ ایسی شہرت کا موقع کہ احمدیت پر جھوٹ بول کر آپ لوگوں میں مقبول ہو سکتے تھے آپ نے ہاتھ سے جانے دیا اور ظلم کے ارتکاب کو پسند نہ کیا.میں آپ کے

Page 235

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۰۹ متفرق امور اس فعل کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ آپ کو صحیح راستہ پر چلائے اور ملک کا سچا خادم بنائے.غیر مطبوعہ از ریکارڈ خلافت لائبیری) الجمعة : ٣ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۷ ۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء تذکرہ صفحہ ۷۶۶.ایڈیشن چہارم آزاد - ۹/دسمبر ۱۹۴۹ء ه آر.اے سول اینڈ ملٹری گزٹ 1 آزاد.یکم جنوری ۱۹۴۹ء ، آزاد ۲ جون ۱۹۵۰ء تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۵۱۱ مطبوعہ مصر ۱۹۶۱ء میں جنگ احد کے حالات میں اس سے مشابہہ واقعہ کا ذکر آتا ہے.آزاد ۲ جون ۱۹۵۰ء ال الفضل ۳۱ دسمبر ۱۹۴۹ء ۱۳۱۲ النساء : ۴۴

Page 236

Page 237

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۱ سیر روحانی (۵) از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی سیر روحانی (۵)

Page 238

Page 239

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۲۱۳ سیر روحانی (۵) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (۵) تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۰ء بر موقع جلسه سالانه ربوہ ) عالم روحانی کا دیوان عام تشہد ،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: - سیر روحانی کے مضمون کا محرک جیسا کہ دوستوں کو معلوم ہے ۱۹۳۸ء میں میں اپنے بعض کاموں کے سلسلہ میں سندھ گیا اور پھر وہاں سے کراچی چلا گیا میرا گلا اُن دنوں بہت خراب تھا اور ڈاکٹر بتاتے تھے کہ گلے کی خرابی کے لئے سمندر کی ہوا بہت مفید ہوتی ہے اور تجربہ بھی اس کی تصدیق کرتا ہے چنانچہ جب سمندر کی سیر کا موقع ملا تو اس کے بعد ایک لمبے عرصہ تک مجھے گلے کی تکلیف نہیں ہوئی اسی نقطہ نگاہ کے ماتحت میں کراچی گیا اور ارادہ کیا کہ ہم جہاز میں سوار ہو کر بمبئی جائیں اور پھر حیدر آباد دکن کی جماعت سے بھی مل آئیں کیونکہ حیدرآباد کی جماعت دیر سے یہ اصرار کرتی چلی آرہی تھی کہ کبھی موقع ملے تو میں وہاں ضرور آؤں.چنانچہ میں کراچی سے بمبئی اور بمبئی سے حیدر آباد گیا.اس سفر میں میں نے بہت سی چیزیں دیکھیں.مغلیہ زمانہ کی بھی اور اس سے پہلے پٹھانوں کے زمانہ کی بھی.اسی طرح گولکنڈہ کا قلعہ دیکھا، پھر آگرہ میں آئے تو ہم نے آگرہ کا تاج محل اور فتح پور سیکری وغیرہ دیکھا.اس کے بعد دتی آئے اور وہاں کے تاریخی مقامات دیکھے.اسی تسلسل میں جب ہم دلی پہنچے اور ہم نے وہاں غیاث الدین تغلق کا قلعہ دیکھا تو ایک عجیب واقعہ پیش آیا جو

Page 240

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۴ سیر روحانی (۵) میرے اس مضمون کا محرک ہوا.میں نے اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پہلی تقریر میں بیان کیا تھا میں اُس جگہ پر پہنچ کر کھڑا ہو گیا اور پہلے تو اس عبرت ناک نظارہ پر غور کرتا رہا کہ یہ بلند ترین عمارت جو دہلی پر بطور پہرہ دار کھڑی ہے اس کے بنانے والے کہاں چلے گئے.وہ کس قدر اولوالعزم، کس قدر با ہمت اور کس قدر طاقت وقوت رکھنے والے بادشاہ تھے جنہوں نے ایسی یادگاریں قائم کیں.وہ کس شان کے ساتھ ہندوستان میں آئے اور کس شان کے ساتھ مرے مگر آج ان کی اولادوں کا کیا حال ہے.کوئی ان میں سے بڑھتی ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی معمار ہے، کوئی موچی ہے اور کوئی میراثی ہے.میں انہی خیالات میں تھا کہ میرے خیالات میرے قابو سے باہر نکل گئے اور میں کہیں کا جا پہنچا.سب عجائبات سفر جو سفر میں میں نے دیکھے تھے میری آنکھوں کے سامنے سے گزر گئے.دہلی کا یہ وسیع نظارہ جو میری آنکھوں کے سامنے تھا میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہو گیا اور آگرہ اور حیدرآباد اور سمندر کے نظارے ایک ایک کر کے سامنے سے گزرنے لگے آخر وہ سب ایک اور نظارہ کی طرف اشارہ کر کے خود غائب ہو گئے.میں اسی محویت کے عالم میں کھڑا رہا اور کھڑا رہا اور میرے ساتھی حیران تھے کہ اس کو کیا ہو گیا یہاں تک کہ مجھے اپنے پیچھے سے اپنی لڑکی کی آواز آئی کہ ابا جان دیر ہو گئی ہے.میں اس آواز کو سنکر پھر واپس اسی مادی دنیا میں آ گیا مگر میرا دل اُس وقت رقت انگیز جذبات سے پُر تھا.نہیں وہ خون ہو رہا تھا اور خون کے قطرے اس سے ٹپک رہے تھے مگر اس زخم میں ایک لذت بھی تھی اور وہ غم سرور سے ملا ہو ا تھا.میں نے افسوس سے اس دنیا کو دیکھا اور کہا کہ ”میں نے پالیا میں نے پالیا.جب میں نے کہا ” میں نے پالیا میں نے پالیا تو اُس وقت میری وہی کیفیت تھی جس طرح آج سے دو ہزار سال پہلے گیا کے پاس ایک بانس کے درخت کے نیچے گوتم بدھ کی تھی جبکہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب اور اُس کا وصال حاصل کرنے کے لئے بیٹھا اور بیٹھا رہا اور بیٹھا رہا یہاں تک کہ بدھ مذہب کی روایات میں لکھا ہے کہ بانس کا درخت اُس کے نیچے سے نکلا اور اُس کے سر کے پار ہو گیا مگر محویت کی وجہ سے اُس کو کچھ پتہ نہ چلا.یہ تو ایک قصہ ہے جو بعد میں لوگوں نے بنا لیا

Page 241

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۵ سیر روحانی (۵) اصل بات یہ ہے کہ بدھ ایک بانس کے درخت کے نیچے بیٹھا اور وہ دنیا کے راز کو سوچنے لگا یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے یہ راز اُس پر کھول دیا تب گوتم بدھ نے یکدم اپنی آنکھیں کھولیں اور کہا ” میں نے پالیا میں نے پالیا.میری کیفیت بھی اُس وقت یہی تھی جب میں اس مادی دنیا کی طرف واپس کو ٹا تو بے اختیار میں نے کہا ” میں نے پالیا میں نے پالیا.اُس وقت میرے پیچھے میری لڑکی امتہ القیوم بیگم کھڑی تھی اُس نے کہا ابا جان! آپ نے کیا پا لیا ؟ میں نے کہا میں نے بہت کچھ پالیا مگر میں اس وقت تم کو نہیں بتا سکتا اگر اللہ نے چاہا تو میں جلسہ سالانہ پر بتاؤں گا کہ میں نے کیا پایا اُس وقت تم بھی سن لینا.میں نے جو چیزیں وہاں دیکھیں اور جو اپنے لیکچر میں میں نے سولہ عجائبات سفر گنی بھی ہیں وہ سولہ بڑی بڑی چیزیں تھیں.اول قلعے، دوم بادشاہوں کے مقابر ، سوم مساجد، چوتھے ایک وسیع اور بلند تر مینار، پانچویں کو بت خانے ، چھٹے باغات، ساتویں دیوانِ عام ، آٹھویں دیوانِ خاص، نویں نہریں ، دسویں لنگر خانے ، گیارہویں دفاتر ، بارہویں کتب خانے ، تیرھویں مینا بازار، چودھویں جنتر منتر ، پندرھویں سمندر، سولہویں آثار قدیمہ.یہ سولہ چیزیں تھیں جن کا میری طبیعت پر خاص اثر ہو امیں نے عبرت کا مقام جب ان کے متعلق غور کیا تو میں نے دیکھا کہ سمندر کے علاوہ کہ وہ خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ چیز ہے اور سب کی سب تباہ و برباد ہو گئیں.نہریں سوکھ گئیں ، مینار ٹوٹ پھوٹ گئے اور مسجدیں بہت سی بر باد اور بہت سی غیر آباد ہو گئیں، کتب خانوں کی خبر گیری کرنے والے کوئی نہ رہے، جنتر منتر تماشا بن کر رہ گئے غرض تمام یادگاریں جو اپنے زمانہ میں دنیا کو محو حیرت بنا دیتی تھیں آج ویران ہو چکی تھیں ، برباد ہو چکی تھیں، تباہ وخستہ حال ہو چکی تھیں اور اپنے بنانے والوں کے انجام پر رو رہی تھیں.جب میں نے یہ دیکھا تو میں نے اپنے دل میں کہا یہ دنیا کیسی عبرت کی جگہ ہے کہ انسان جتنا اونچا ہوتا ہے اُتنا ہی گرتا ہے.ایک چوڑھے کا بچہ آج سے ہزار سال پہلے بھی چوڑھا تھا اور ان اب بھی وہ پوڑھا ہے آج اُس کا چوڑھا ہونا اُس پر گراں نہیں گزرتا کیونکہ وہ جیسا پہلے تھا

Page 242

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۶ سیر روحانی (۵) ویسا ہی آج بھی ہے.مگر یہاں یہ کیفیت ہے کہ آج سے پانچ یا چھ پشت پہلے ایک شخص ہندوستان کا بادشاہ ہے اور آج وہ پانی بھرتا یا سڑکوں کی صفائی کرتا ہے.اگر وہ نسلاً بعد نسل ستے کا کام کر رہا ہوتا تو اس پر کوئی گراں نہ گزرتا مگر وہ ایک ایک قدم پر آہیں بھرتا ہے، وہ ایک ایک سانس پر حسرت اور اندوہ کے جذبات میں بہہ جاتا ہے، وہ حیران ہوتا ہے اپنے ماضی پر اور افسوس کرتا ہے اپنے حال پر.میں نے خود اپنی آنکھ سے دِتی میں بعض شاہی گھرانوں کے شہزادوں کو مشکیں اُٹھائے لوگوں کو پانی پلاتے دیکھا ہے.میں چھوٹا تھا کہ ا یکدفعہ میں دتی گیا میرا ایک عزیز مجھے کہنے لگا چلو تم کو ایک تماشا دکھاؤں.وہ مجھے جامع مسجد کے پاس لے گیا وہاں سے مشکیں اُٹھائے آنے جانے والوں کو پانی پلا رہے تھے.وہ مجھے ایک مٹھے کے پاس لے گیا جو کٹورا ہاتھ میں لئے اسی طرح پانی تقسیم کر رہا تھا.میرے ساتھی نے اُس سے کہا کہ ہمیں پانی پلاؤ اُس نے کٹورا بھر کر دیا اور جب ہم پانی پی چکے تو وہ خاموشی کے ساتھ سیدھا کھڑا ہو گیا اور تھوڑے توقف کے بعد چلا گیا.میں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ یہ کیا تماشا ہوا ؟ اُس نے کہا، باقی سقوں کو دیکھو ے پانی پلانے کے بعد اپنا ہاتھ بڑھا دیتے ہیں کہ لاؤ ہمیں کچھ معاوضہ دو اور پانی پینے والے انہیں پیسہ، دو پیسے یا دھیلہ دے دیتے ہیں اور یہ کچھ نہیں کرتا ، پانی پلاتا ہے اور پھر اکڑ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور کچھ دیر توقف کے بعد منہ پھیر کر چلا جاتا ہے مانگتا کچھ نہیں کیونکہ یہ شہزادہ ہے اور گو یہ اب لوگوں کو پانی پلاتا ہے مگر اس کی آن اب بھی قائم ہے اگر کوئی دیدے تو لے لیتا ہے اور نہ دے تو چُپ کر کے واپس چلا جاتا ہے.چنانچہ بعد میں ہم نے اُسے کچھ دیا بھی مگر یہ نظارہ بتاتا ہے کہ ان شہزادوں کی کیا سے کیا حالت ہو چکی ہے.یہ ساری کیفیت میری آنکھوں کے سامنے آ گئی.مسلمانوں کے شاندار عہد ماضی کی یاد آخر سات سو سال تک مسلمانوں نے حکومت کی.راس کماری سے ہمالیہ کی چوٹیوں تک اور پشاور سے لیکر مشرقی پاکستان کے کناروں تک مسلمان حاکم تھا.مسلمان قوتِ فعال تھا، مسلمان ہی کے پاس فوج تھی، مسلمان ہی کے پاس تجارت تھی ،

Page 243

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۷ سیر روحانی (۵) مسلمان ہی کے پاس زراعت تھی، مسلمان ہی کے پاس علم تھا، مسلمان ہی کے پاس یو نیورسٹیاں تھیں، مسلمان ہی کے پاس ہسپتال اور شفا خانے تھے اور مسلمان ہی کے پاس حکومت تھی مگر جس وقت میں تغلق کے قلعہ کی چوٹی پر کھڑا یہ نظارہ دیکھ رہا تھا میں نے دیکھا کہ اب انگریز حاکم تھا، ہند و تمام محکموں پر قابض ، تجارت پارسیوں اور میواڑیوں کے ہاتھ میں تھی ، یونیورسٹیاں ہندوؤں اور انگریزوں کے ہاتھ میں تھیں اور مسلمان ہر جگہ دستر خوان کے گرے ہوئے ٹکڑوں کا محتاج تھا.اگر کسی نے کچھ ڈال دیا تو ڈال دیا ورنہ اُس کا کسی چیز میں حق نہیں تھا.گھروں میں بیٹھے ہوئے بھی یہ گزشتہ تاریخ انسان کے دل کو کپکپا دیتی ہے مگر تغلق کے قلعہ پر جو ایسی جگہ بنا ہو ا تھا جہاں ساری دتی پر نگاہ دوڑائی جا سکتی تھی ، یہ تاریخ تجسم کا رنگ اختیار کر کے میری آنکھوں کے سامنے آگئی.میں نے سوچا اور غور کیا کہ جہاں قدم قدم پر اسلام کی شان بلند ہوتی تھی ، جہاں قدم قدم پر نعرہ ہائے تکبیر بلند کئے جاتے تھے، جہاں قدم قدم پر مسلمانوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے زمین روندی جاتی تھی اور بڑی بڑی طاقتیں ان سے ٹکر کھانے سے گھبراتی تھیں آج مسلمان کس ذلت میں ہے، کس مصیبت اور کسمپرسی کی حالت میں ہے؟ یہ زخم تھا جو تغلق کے قلعہ پر مجھے لگا اور میں نے سوچا کہ کیا کوئی مرہم ایسا بھی ہے جو میں اپنے دل پر لگا سکوں اور جس سے یہ دردناک تکلیف دور ہو سکے چنانچہ میں اس چیز میں کھویا گیا اور کھویا گیا اور کھویا گیا کہ ہماری کیا حالت تھی اور اب ہم کسی حالت کو پہنچ گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تب معا میری توجہ اس بات کی.طرف پھری کہ اے بندہ خدا! کا اصل مقصد مسلمانوں نے فراموش کر دیا اللہ تعالی نے مسلمانوں کو جس عظیم الشان نعمت سے سرفراز کر کے بھیجا تھا اُس کو وہ بھول گئے اور یہ چیزیں جو اُن کی شوکت کا محض عارضی نشان تھیں ان کی طرف متوجہ ہو گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے قلعے بناتے.اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں کوئی بڑا قلعہ بھی ہوتا ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ نہریں

Page 244

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۸ سیر روحانی (۵) بنائیں اگر وہ اس لئے آتے تو مدینہ منورہ میں نہریں بھی ہوتیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے نہیں آئے تھے کہ بڑے بڑے مقبرے بنائیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو پکی قبر بنانے سے بھی منع فرمایا ، اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ بھول بھلیاں بنانے کے لئے آئے تھے نہ مینا بازار بنانے کیلئے آئے تھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو یہ پیغام لے کر آئے تھے کہ آؤ میں تمہیں خدا تعالیٰ سے ملا دوں.بیشک باقی چیزیں بھی مسلمانوں کو ملیں مگر وہ تابع تھیں اصل مقصود اور مطلوب نہیں تھیں.بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو اپنی ذات میں مقصود ہوتی ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہوتی ہیں جو توابع کے طور پر ملتی ہیں اور تابع چیزوں کو اپنے مدنظر رکھنا اور اُن کو اپنا مقصود قرار دے لینا نہایت شرمناک ہوتا ہے.ہم اپنے دوست کے گھر جاتے ہیں تو ہماری اصل خواہش یہی ہوتی ہے کہ ہم اپنے دوست سے ملیں مگر ہمارا دوست ہمارے لئے پلاؤ بھی پکاتا ہے ، مرغ بھی پکا تا ہے، کوفتے بھی پکاتا ہے ، چائے بھی رکھتا ہے.اگر ہم اپنے دوست سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہاں ہمیں پلاؤ ملے گا ، چائے ملے گی یا کوفتے ملیں گے تو ہم کتنے کمینے ہوں گے.اگر آپ لوگ اپنی ماں سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کی خاطر تواضع کرے گی تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں.اگر آپ اپنے باپ سے اس لئے ملنے جائیں کہ وہ آپ کو اچھے اچھے کھانے کھلائے گا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں.اگر آپ اپنے دوست سے اس لئے ملنے جاتے ہیں کہ وہ آپ کو پلاؤ کھلائے گا یا مرغ آپ کے لئے ذبح کر یگا تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آپ بڑے کمینے ہیں.لیکن اگر آپ اپنی ماں سے ملنے کے لئے جائیں گے تو وہ آپ کے لئے چائے ضرور پکائے گی ، آپ کے لئے پراٹھے ضرور تیار کرے گی.اگر آپ اپنے باپ کو ملنے جائیں گے تو وہ کچھ نہ کچھ کھانا ضرور پکائے گا.اگر آپ اپنے دوست کو ملنے جائیں گے تو وہ آپ کی کچھ نہ کچھ تواضع ضرور کریگا.تو دیکھو بات وہی بن جاتی ہے لیکن طریق مختلف ہو جاتا ہے.ایک صورت میں پلاؤ بھی ملے گا اور کمینے بھی بن جاؤ گے.لیکن اگر تم اپنے دوست کے پاس محض اس سے ملنے کے لئے جاؤ تو پلاؤ پھر بھی ملے گا مگر تم نہایت شریف الطبع اور با اخلاق

Page 245

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۱۹ سیر روحانی (۵) انسان کہلاؤ گے.تو اسلام وہ طریق بتاتا ہے جس پر چلنے سے دُنیوی حکومتیں اور اُس کی نعمتیں خود بخود آ جاتی ہیں.اسلام کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرو تو یہ چیزیں تمہیں خود بخود مل جائیں گی مگر وہ ان چیزوں کو مقصود قرار نہیں دیتا.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو وہ نعمتیں ملیں کہ دنیا حیران رہ گئی.شہنشاہ ایران کا رومال حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو ہی دیکھ لو وہ آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت ابو ہریرہ کے قبضہ میں وفات سے صرف تین سال پہلے ایمان لائے تھے.انہوں نے جب دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اب بڑی عمر ہو چکی ہے اور آپ کی زندگی کے دن اب بظا ہر تھوڑے رہ گئے ہیں تو انہوں نے قسم کھائی کہ اب میں آپ سے جدا نہیں ہوں گا چنانچہ اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ با وجود اس کے کہ انہیں صرف تین سال ملے سب سے زیادہ حدیثیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی مروی ہیں.چونکہ یہ غریب آدمی تھے اور سارا دن مسجد میں بیٹھے رہتے تھے اس لئے بعض دفعہ سات سات وقت کا انہیں فاقہ ہو جاتا تھا اور شدت بھوک کی وجہ سے وہ بیہوش ہو کر گر پڑتے تھے.جب اسلام کی فتوحات کا دور آیا اور قیصر و کسریٰ کے خزانے اسلامی تصرف میں آئے تو کسری شہنشاہ ایران کا ایک خاص ریشمی رومال جو تخت پر بیٹھنے کے وقت وہ اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا مال غنیمت میں تقسیم ہو کر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھ آیا.ایک دفعہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کو نزلہ کی شکایت تھی کہ بیٹھے بیٹھے انہیں کھانسی آ گئی اور کی انہوں نے شہنشاہ ایران کے اس رومال میں تھوک دیا اور پھر کہانی بیخ ابو ہریرہ یعنی واہ واہ ! تیری بھی کیا شان ہے کبھی تو سر میں جوتیاں پڑا کرتی تھیں اور آج یہ حالت ہے کہ تو کسری شہنشاہ ایران کے رومال میں تھوکتا ہے.لوگوں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کہا؟ اس پر انہوں نے یہ واقعہ سنایا کہ میں آخری زمانہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا اور میں نے قسم کھالی کہ اب میں رات اور دن آپ کے پاس رہوں گا اور

Page 246

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۰ سیر روحانی (۵) آپ کی باتیں سنوں گا اور چونکہ میں ہر وقت وہیں بیٹھا رہتا تھا ، اسلئے بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور میں بیہوش ہو کر گر جاتا تھا.لوگ سمجھتے تھے کہ مجھے مرگی ہوگئی ہے اور عربوں میں رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو اس کے سر پر جوتیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے.انہوں نے کہا ادھر میں فاقہ سے مر رہا ہوتا تھا اور اُدھر میرے سر پر جھوتیاں پڑنے لگ جاتیں حالانکہ اُس وقت مجھے اندر سے ہوش ہوتا تھا مگر میری زبان میں اتنی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ میں انہیں منع کر سکوں پس یا تو میرا وہ حال تھا اور یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبردای کا یہ نتیجہ ہے کہ اب میں اُس رومال میں جسے بادشاہ اپنی شان دکھانے کے لئے تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا تھوک رہا ہوں.تو یہ چیزیں ملتی ہیں اور اسلام بھی ہمیں وہ چیزیں دیتا ہے جو دنیا کے پیچھے چلنے سے حاصل ہوتی ہیں مگر اسلام زیادہ شاندار طور پر یہ چیز میں دیتا ہے اور وہ لوگ ذلّت کے طور پر ان چیزوں کو حاصل کرتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ تم اپنے باپ کے پاس جاؤ مگر اس لئے کہ تمہیں حلوہ کھانے کو مل جائے ، ماں کے پاس جاؤ مگر اس لئے کہ تمہیں پر اٹھے کھانے کو ملیں.جب ہم اس نیت اور اس ارادہ سے جاتے ہیں تو گو یہ چیزیں ہمیں مل جاتی ہیں مگر ہم ذلیل اور کمینے بھی قرار پاتے ہیں.اسلام کہتا ہے تم ماں کے پاس جاؤ مگر ماں کے پیار کے لئے ، دوست کے پاس جاؤ مگر دوست کی محبت کے لئے.حلوہ تمہیں پھر بھی ملے گا ، پر اٹھے تمہیں پھر بھی ملیں گے ، پلاؤ پھر بھی تمہیں ملے گا مگر تم شریف اور با اخلاق کہلاؤ گے.یہ فرق ہے جو اسلامی تعلیم پر عمل کرنے اور دنیوی طریقوں کو اختیار کرنے میں ہے اور اسی کی طرف میرا آج کا مضمون اشارہ کرتا ہے.اسلامی نظام حکومت کا ایک اجمالی نقشه میرا یہ مضمون در حقیقت اسلامی طریق حکومت کی ایک تصویر ہے یا اسلام دنیا میں جو اصلاح پیدا کرنا چاہتا ہے اُس کا ایک اجمالی نقشہ اس مضمون میں کھینچا گیا ہے.آجکل پاکستان میں اس بات پر بڑاز ور دیا جاتا ہے کہ اسلامی نظامِ حکومت قائم ہونا چاہئے مگر عملی طور پر وہ اس کو قائم کرنا نہیں چاہتے کیونکہ اسلام جو کچھ بتا تا ہے اُس

Page 247

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۱ سیر روحانی (۵) پر عمل کرنے کے لئے وہ لوگ تیار نہیں ہوتے.میں آج کے مضمون کے ذریعہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہے وہ اسلامی حکومت جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا میں قائم کی اور یہ ہے وہ نظام جس کے متعلق قرآن کریم ہماری راہنمائی فرماتا ہے.اسلام نے نہریں بھی بنائی ہیں، قلعے بھی بنائے ہیں ، مساجد بھی بنائی ہیں ، مینار بھی بنائے ہیں ، باغات بھی بنائے ہیں ، بازار بھی بنائے ہیں.دیوانِ عام بھی بنائے ہیں اور دیوانِ خاص بھی بنائے ہیں مگر ان کے طریق اور رکھے ہیں.آج میں انہی میں سے ایک چیز کو اس موقع پر بیان کرنا چاہتا ہوں.دیوان عام کے قیام کی اغراض میں نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے سفر میں دیوانِ عام بھی دیکھے جن میں بادشاہ اپنا دربار لگا یا کرتے تھے اور عوام الناس آتے اور اپنی شکایات وغیرہ پیش کرتے.میں نے سوچا کہ یہ دیوانِ عام کیوں بنایا گیا تھا اور اس کی اغراض اور مقاصد کیا تھیں ؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ :.دیوانِ عام کے قیام کی پہلی غرض یہ ہوا کرتی تھی کہ اس دیوان میں بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کیا جائے جب بادشاہوں نے اپنی رعایا کے سامنے بڑے بڑے اعلان کرنے ہوتے تھے تو ہمیشہ دیوانِ عام میں ہی کیا کرتے تھے پس دیوانِ عام کی پہلی غرض بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتی تھی..اس کی دوسری غرض یہ ہو ا کرتی تھی کہ بادشاہ لوگوں کے سامنے آئے اور انہیں اپنا دیدار کرنے کا موقع دے اور ان کے متعلق انعام واکرام کا اعلان کرے.۳- دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہو ا کرتی تھی کہ عوام کو فریاد پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور ان کے مظالم کا انسداد کیا جائے.- دیوان عام کی چوتھی فرض یہ ہوا کرتی تھی کہ عوام کو اپنے مطالبات پیش کرنے کا موقع دیا جائے اور بادشاہ ان کی ضرورتیں پوری کرے.طریق یہ ہوتا تھا کہ بادشاہ دربار عام میں بیٹھتا تھا اور وزیر اعظم اُس کے اعلان سناتا تھا.

Page 248

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۲ سیر روحانی (۵) میں نے دیکھا کہ وہ دیوانِ عام جو دنیوی دیوان عام اغیار کے قبضہ میں بادشاہوں کا بنایا ہوا تھا وہ اب ویران اور برباد ہے اس کی عمارت موجود تھی مگر انگریزوں کے قبضہ میں تھی.خودان بادشاہوں کی اولاد موجود تھی مگر اسے ٹکٹ حاصل کئے بغیر دیوانِ عام کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہ تھی وہ مارے مارے پھر رہے تھے اور کوئی انہیں پوچھتا تک نہیں تھا.اب بھی بعض شہزادے ایسے ہیں جو نہایت تکلیف کے ساتھ اپنی زندگی کے دن بسر کر رہے ہیں حکومت موجود ہے مگر وہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں کرتی.قرآنی دیوان عام کی خصوصیت اس میں نے سوچا کہ آیا اس کے مقابلہ میں پس قرآن کریم نے بھی کوئی دیوانِ عام پیش کیا ہے یا نہیں ؟ اور اگر کیا ہے تو وہ کیا ہے؟ جب اس نقطہ نگاہ سے میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ ہمارے خدا نے بھی ایک دیوانِ عام بنایا ہے جس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ کوئی دشمن اس پر قبضہ نہیں کر سکتا وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہے اور اسی کے قبضہ اور تصرف میں ہے.پہلے بادشاہوں کے دیوانِ عام ان کے ہاتھوں سے چھینے گئے ، غیر تو میں آئیں اور ان پر قابض ہو گئیں پہلے یہ دیوان عام انگریزوں کے پاس گئے اور اب ہندو حکومت قائم ہوئی تو اس کے پاس چلے گئے.گویا جن مزدوروں نے یہ دیوانِ عام بنایا تھا وہ اب حاکم ہیں اور حاکم مزدور.لیکن قرآن کریم جس دیوان عام کو پیش کرتا ہے اس میں نہ کوئی تبدیلی کر سکتا ہے اور نہ اس پر کوئی مخالفانہ قبضہ کر سکتا ہے.محمد رسول اللہ کے تقرر پر پھر میں نے دیکھا کہ مغل بادشاہ اور پٹھان بادشاہ اور دوسرے بادشاہ جب دیوانِ عام قرآنی دیوان عام سے اعلان میں بیٹھتے تو وہ مثلاً یہ اعلان کرتے کہ ہم فلاں کو وزیر مقرر کرتے ہیں، فلاں کو گورنر مقرر کرتے ہیں، فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں کہ اور پھر ساتھ ہی یہ کہتے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ وفاداری سے حکومت کی خدمت بجالائے گا اور ہماری حکومت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لئے اپنا تمام زور صرف کر دیگا

Page 249

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۳ سیر روحانی (۵) لیکن میں نے دیکھا کہ قرآن کریم جس دیوانِ عام کو پیش کرتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کسی گورنر یا خلیفہ اللہ کے تقرر کا اعلان ہوتا ہے تو بجائے یہ کہنے کے کہ ہم امید کرتے ہیں تم ہماری حکومت کو مستحکم کرو گے اور ہماری طاقت بڑھانے میں حصہ لو گے بادشاہ یہ کہتا ہے کہ ہم تمہیں طاقت دیں گے، ہم تمہیں مستحکم کریں گے، ہم تمہارے رُعب کو قائم کریں گے.چنانچہ میں نے دیکھا کہ پُرانے زمانہ کے بادشا ہوں کے مقابلہ میں قرآن کریم میں بھی ایک دیوانِ عام لگایا گیا اور تمام پبلک کو مخاطب کر کے کہا گیا اِنَّا ارسلنا اليكُمْ رَسُولاً، شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إِلَى فِرْعَوْنَ رَسُولان تعطى فِرْعَوْنُ الرَّسُولَ فَاخَذْنَهُ أَخَذَ او بِيلاً فَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِنْ كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ ولا شيبان السَّمَاءُ مُنْفَطِرُ بِهِ ، كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً.اعلان ہوتا ہے کہ ہم اس دنیا میں ایک خلیفہ مقرر کر رہے ہیں اور اعلان ان الفاظ میں ہوتا ہے کہ اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولاً ہم تمہاری طرف ایک رسول بنا کر بھیج رہے ہیں شاهِدًا عليكم جو تم پر نگران رہے گا اور دیکھے گا کہ تم ہماری مرضی کے مطابق چلتے ہو یا نہیں.كما أرسلنا إلى فرعون رَسُولاً اور یاد رکھو کہ ہمارا اس کو گورنر بنا کر بھیجنا کوئی نئی چیز نہیں بلکہ پہلے بھی ہم اپنے گورنر بھیجتے رہے ہیں اور لوگ غلطی سے ان کا انکار کرتے رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ تم بھی وہی غلطی کرو اور اُس انجام کو دیکھو جو پہلے لوگوں نے دیکھا تعطى فرعون الرّسول اُس وقت کے حاکم اور بادشاہ فرعون نے تکبر کیا اور موسٹی کے ماننے سے اُس نے انکار کیا.فَاخَذَ نَهُ آخَذَ او بیلا اس پر ہم نے اُس کو پکڑ کر تباہ و برباد کر دیا پس جس طرح ہم نے فرعون کو تباہ کیا ہے اگر تم ہمارے گورنر جنرل کی مخالفت کرو گے اور اس کے مقابلہ پر فرعون والا طریق اختیار کرو گے تو تم بھی تباہ کر دیئے جاؤ گے.نَكَيْفَ تَتَّقُونَ إِن كَفَرْتُمْ يَوْمًا يَجْعَلُ الوان شيبان السَّمَاءُ مُنقَطِرُ بِهِ اگر تم نے بھی انکار کیا جس طرح فرعون نے موسیٰ کا انکار کیا تھا تو تم کس طرح یہ خیال کر سکتے ہو کہ تم ہمارے عذاب سے بچ جاؤ گے.تم اُس دن سے ڈرو جو جوانوں کو بوڑھا کر دے گا.وہ دُنیوی بادشاہوں کی طرح یہ نہیں کہتا کہ ہم اپنے گورنر سے یہ امید کرتے ہیں

Page 250

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۴ سیر روحانی (۵) کہ وہ ہماری بادشاہت کو مضبوط کرے گا بلکہ فرماتا ہے کہ ہم اس کی بادشاہت کو خود قائم کریں گے اگر تم اس کی مخالفت کرو گے تو ہم تم پر عذاب نازل کریں گے کہ جس سے آسمان بھی پھٹنا شروع ہو جائے گا.كَانَ وَعْدُهُ مَفْعُولاً دُنیوی بادشاہ ڈرتے ہیں کہ اگر ہماری مخالفت ہوئی تو ہم کیا کریں گے مگر یہاں فرماتا ہے کہ یہ وہ وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہے گا اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو بدل نہیں سکتی.زمین و آسمان کا فرق کتنا زمین و آسمان کا فرق اُس دیوانِ عام اور اس دیوانِ عام میں ہے وہاں بادشاہ یہ کہتے ہیں کہ ہم فلاں کو اپنا نائب مقرر کرتے ہیں اس لئے کہ وہ ہماری حکومت کو مستحکم کرے ، اس لئے کہ وہ ہماری طاقت کو مضبوط کرے، اس لئے کہ وہ ہماری جڑیں لگائے مگر یہاں دیوانِ عام میں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اے لوگو سنو ! ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر مقرر کر کے بھجواتے ہیں اگر تم اس کی فرمانبرداری نہیں کرو گے تو ہم خود اس کو طاقت بخشیں گے اور خود اس کو قوت بخشیں گے اور اگر اس کا مقابلہ کرو گے تو ہم تمہیں ایسی سزا دیں گے کہ زمین تو زمین آسمان کا کلیجہ بھی شق ہو جائے گا ( السّماءُ مُنفَطِر بی) اور کوئی طاقت نہیں جو ہمارا مقابلہ کر سکے.قرآنی گورنر جنرل کا دائرہ حکومت اس کے ساتھ ہی یہ اعلان ہوتا ہے کہ گورنر ہے کس جگہ کے لئے؟ د نیوی گورنر مقر ر ہوتے ہیں تو ایک آدھ ملک کے لئے مگر فرما تا ہے کہ یہ گورنرسب دنیا کے لئے ہے گویا یہ گورنر نہیں بلکہ گورنر جنرلوں کے بھی اوپر گورنر جنرل ہے.چنانچہ دربار عام میں اعلان ہوتا ہے قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ الّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًات اے یہودی مذہب کے ماننے والو سنو ! یہ شخص جس کو ہم نے بھجوایا ہے موسیٰ کی طرح صرف مصر کے لوگوں کے لئے نہیں.اے اسرائیلی انبیاء کے ماننے والو! یہ شخص صرف بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح کسی ایک قوم کی طرف نہیں.اے مسیح کے ماننے والو سنو ! مسیح کی طرح فلسطین کی طرف نہیں.اے کرشن اور رامچندر کے ماننے والو! یہ اس طرح نہیں

Page 251

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۵ سیر روحانی (۵) آیا جس طرح رامچندر اور کرشن ہندوستان کی طرف آئے تھے.اے زرتشت کے ماننے والوسنو ! یہ اس طرح نہیں آیا جس طرح زرتشت ایران کی طرف آیا تھا.اے تمام دوسری اقوام اور مملکتوں اور بر اعظموں میں رہنے والوسنو ! یہ اس طرح نہیں بھیجا گیا جس طرح انبیاء ایک ایک قوم اور ایک ایک بستی کی طرف بھیجے جاتے تھے بلکہ يَايُّهَا النَّاسُ اے تمام انسانو! خواہ تم روئے زمین کے کسی علاقہ میں رہتے ہو،اے برطانیہ کے رہنے والو! اے فرانس کے رہنے والو! اے جرمنی کے رہنے والو! اے امریکہ کے رہنے والو! اے یورپ کے رہنے والو! اے جزائر کے رہنے والو! اے افریقہ کے رہنے والو! اے دنیا کے کسی گوشے اور خطہ میں رہنے والو! اسے تم پر افسر بنا کر بھیجا گیا ہے یہ ہمارا گورنر جنرل ہے جس کی حکومت سے کوئی شخص باہر نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (۲) پھر یہ تو اپنے زمانہ کی گورنری کے متعلق اعلانِ عام تھا اور گو اس میں سارے کی دائمی حکومت کا اعلان ملکوں کو شامل کر لیا گیا تھا مگر یہ شبہ باقی رہتا تھا کہ ممکن ہے یہ سب دنیا کے لئے تو ہو لیکن سب زمانوں کے لئے نہ ہو.دنیا میں گورنر اور وائسرائے مقرر ہو کر آتے ہیں تو پانچ سال کے بعد بدل جاتے ہیں اور پھر وہ انہی گلیوں میں عام لوگوں کی طرح پھرتے نظر آتے ہیں جن گلیوں میں شاہانہ شوکت کے ساتھ پھرا کرتے تھے.پس چونکہ یہ شبہ پیدا ہو سکتا تھا اس لئے پہلے اعلان کے ساتھ ہی خدائی دربار عام میں یہ اعلان بھی کر دیا گیا کہ یہ گورنر جنرل قیامت تک کے لئے ہے.یہ پانچ سال کے لئے یا دس سال کے لئے یا سو سال کے لئے یا دوسو سال کے لئے یا ہزار سال کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک کے لئے ہے جب تک انسان تباہ نہیں ہو جاتا ، جب تک ایک انسان بھی اس دنیا میں زندہ ہے اُس وقت تک یہی گورنر جنرل رہے گا فرماتا ہے وما ارسلنكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ وَ يَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ قُل لَّكُمْ مِبْعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلَا تَسْتَقْدِمُونَ سے فرماتا ہے اے بنی نوع انسان !

Page 252

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۶ سیر روحانی (۵) سن رکھو اس رسول کو ہم نے کہہ دیا ہے کہ وہ صرف اس زمانہ کے لئے نہیں بلکہ انسان کی تعریف کے نیچے جتنے انسان آتے ہیں ان سب کو یہ جمع کر نیوالا ہے خواہ وہ اس صدی کے ہوں یا اگلی صدیوں کے قیامت تک اس کا راج قائم ہے اور کوئی شخص اس کی حکومت سے باہر نہیں نکل سکتا.بشيرا ونذيرا دنیا میں اصول یہ ہے کہ جب بادشاہت بدلتی ہے تو آنے والی حکومت کسی کو گرا دیتی ہے اور کسی کو اونچا کر دیتی ہے بشيرا ونذیرا کا بھی یہی مفہوم ہے کہ جو لوگ اس کے قانون کی پابندی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ بلند کریگا اور جو لوگ اس کے قانون کی نافرمانی کرنے والے ہوں گے اُن کو یہ گرادے گا.گویا فرمایا کہ اے ہمارے رسول ! دونوں طاقتیں تجھ کو دی جاتی ہیں، تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو بلند کیا جائے گا اور تیرے ہی ذریعہ سے لوگوں کو گرایا جائے گا، تیرے ہی ذریعہ سے ملزم سزا پائیں گے اور تیرے ہی ذریعہ سے متبعین انعام حاصل کریں گے.وَلكِن اكثر النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ لیکن اس زمانہ کے اکثر لوگوں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا.کیونکہ اس سے پہلے جس قد را نبیاء گزرے ہیں ان میں سے کسی نبی کی نبوت سو سال کے بعد ختم ہو گئی تھی اور کسی کی دو سو سال کے بعد.ان کے لئے یہ سمجھنا بڑا مشکل ہے کہ کوئی ایسا نبی بھی آسکتا ہے جس کی نبوت قیامت تک چلتی چلی جائے اور کبھی ختم ہونے میں نہ آئے چنانچہ فرمایا وَ يَقُولُونَ مَتَى هَذَا الوَعْدُ اِنْ كُنتُمْ صَدِقِينَ وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تم جو یہ کہتے ہو کہ یہ ہمیشہ ہمیش کے لئے نبی ہے اس کا ثبوت کیا ہے اس طرح تو ایک جھوٹا نبی بھی کہہ سکتا ہے کہ میری نبوت کبھی ختم نہیں ہوگی بہر حال کوئی نہ کوئی ایسی دلیل ہونی چاہئے جس سے ہم یہ اندازہ لگا سکیں کہ ہمارے سامنے جو دعویٰ پیش کیا جا رہا ہے اس میں سچائی پائی جاتی ہے اور یہ ہمیشہ کے لئے ہے.فرماتا ہے قُل لَّكُمْ مِيْعَادُ يَوْءٍ لا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَ لا تَسْتَقْدِمُون فرمایا اس کا پتہ تم کو ایک ہزار سال میں لگے گا.بڑی سے بڑی نبوت جو آج تک چلی ہے وہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک قائم نہیں رہی.آدم علیہ السلام کا زمانہ لے لو، نوح علیہ السلام کا زمانہ لے لو، موسیٰ علیہ السلام کا زمانہ لے لو، کوئی زمانہ بھی ہزار سال سے زیادہ لمبا نہیں رہا.موسیٰ علیہ السلام

Page 253

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۷ سیر روحانی (۵) کا زمانہ بظاہر دو ہزار سال کا نظر آتا ہے لیکن وہاں تیرہ سو سال کے بعد جو نبی آیا اُس نے آتے ہی یہ کہہ دیا کہ اب موسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہونے والی ہے اور وہ نبی دنیا میں ظاہر ہونے والا ہے جس کے متعلق تمام انبیا ء اپنے اپنے زمانہ میں پیشگویاں کرتے چلے آئے ہیں.گویا مسیح علیہ السلام نے آمد کے ساتھ سلسلہ موسویہ کے امتداد کی خبر نہیں دی بلکہ ایک نئے دور کے آغاز کی خبر دیدی اور بتایا کہ پہلا سلسلہ ختم ہونے والا ہے.مسلمانوں کے ہزار سالہ غرض ہزار سال وہ میعاد ہوتی ہے جس میں کسی قوم کو یہ پتہ لگ جاتا ہے کہ دور تنزل کی قرآن کریم میں خبر اب پرانی نبوت ختم ہو گئی ہے اور نئی نبوت کا دور شروع ہونے والا ہے اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اشارہ فرمایا ہے.یہاں دن سے مراد ہزار سالہ زمانہ ہے چنانچہ قرآن کریم خود اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک دوسرے مقام پر فرماتا ہے.يُدَيرُ الْأَمْرُ مِنَ السَّمَاءِ إلى الأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إليهِ في يَوْمٍ كَانَ مقْدَارُةَ الفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ٢٠ فرمایا ہم اس دنیا میں ایک نیا نظام قائم کرینگے اور آسمان سے زمین پر اپنے انوار کی بارش برسائیں گے مگر پھر آہستہ آہستہ وہ نظام کمزور ہوتا چلا جائے گا اور دنیا یہ سمجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت اب ختم ہو گئی ہے.دنیا یہ مجھے گی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت اب ختم ہو گئی ہے اور یہ دور تنزل تمہاری گنتی کے لحاظ سے ایک ہزار سال تک چلتا چلا جائے گا.بہائیوں کا ایک غلط استدلال بہائی لوگ قرآن کریم کی اس آیت سے ناجائز فائدہ اٹھا کر کہتے ہیں کہ گویا ہزار سال کے بعد نَعُوذُ بالله شریعتِ اسلام منسوخ ہو جائے گی حالانکہ شریعت اسلام تو تب منسوخ ہو سکتی تھی جب کہ یکدم قرآن خراب ہو جاتا اور وہ دنیا کے لئے نا قابل عمل ہو جاتا، لیکن اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یکدم قرآن خراب ہو جائے گا بلکہ اس میں یہ بتایا گیا کہ آہستہ آہستہ ایک ہزار سال میں ایمان او پر چڑھ جائے گا.پس اس کے معنے سوائے اس

Page 254

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۸ سیر روحانی (۵) کے اور کوئی نہیں ہو سکتے کہ اسلام اور قرآن کا اثر آہستہ آہستہ لوگوں کے دلوں سے کم ہونا شروع ہوگا اور اس پر ایک ہزار سال کا عرصہ صرف ہو گا.اگر کتاب نے منسوخ ہونا ہوتا تو کتاب کی منسوخی تو یکدم ہوتی ہے ہزار سال میں آہستہ آہستہ نہیں ہوتی.پس ہزارسال میں آہستہ آہستہ اسلام کے اُٹھ جانے کے یہی معنی تھے کہ اُس کا اثر لوگوں پر سے کم ہو جائے گا اور جب اثر کم ہو جائے تو اُس وقت کتاب منسوخ نہیں بلکہ ایک نیا معلم بھیجا جاتا ہے جو اُس کتاب کی تعلیم کو دنیا میں پھر قائم کر دیتا ہے.پس بہائیت اس آیت سے بالکل ناجائز فائدہ اُٹھاتی اور لوگوں کو دھوکا میں مبتلاء کرتی ہے.بہر حال اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ ایک ہزار سال میں ایمان دنیا سے اُٹھ جائے گا اور چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کے تین سو سال کو مبارک زمانہ قرار دیا ہے جس میں اسلام کے متعلق یہ مقدر تھا کہ وہ دنیا میں ترقی کرتا جائے گا اور دور تنزل قرآن کریم نے ہزار سال بتایا ہے اس لئے ہزار سال میں پہلے تین سو سال جمع کئے جائیں تو یہ تیرہ سو سال کا عرصہ بن جاتا ہے پس قُل لَّكُمْ مِّيْعَادُ يَوْمٍ لَّا تَسْتَأْ خِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَّلَا تَسْتَقْدِمُونَ کے یہ معنے ہوئے کہ تم اسلام کے دورِ تنزل کو دیکھ کر اس واہمہ میں مبتلاء ہو سکتے ہو کہ شاید محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت ختم ہوگئی ، لیکن تیرہ سو سال کے بعد تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ اس کی حکومت ختم نہیں ہوئی بلکہ قیامت تک کے لئے ہے.احیائے اسلام کے لئے مسیح موعود کی بعثت چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ مین تیرہ سو سال کے ختم ہونے پر امت محمدیہ میں سے ایک شخص نے کھڑے ہو کر یہ اعلان کیا کہ میں مسیح موعود ہوں اور مجھے خدا تعالیٰ نے ان پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے بھیجا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے تیرہ سو سال پہلے فرمائی تھیں.میں اس لئے نہیں آیا کہ کوئی نیا مذہب قائم کروں، میں اس لئے نہیں آیا کہ موسوی مذہب کو قائم کروں، میں اس لئے نہیں آیا کہ عیسوی مذہب کو قائم کروں بلکہ میں اس لئے آیا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 255

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۲۹ سیر روحانی (۵) کی حکومت کو دوبارہ دنیا میں قائم کروں.گویا تیرہ سو سال کے بعد جو تغیر ہوا وہ یہی تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک ہے اور اس میں کوئی وقفہ نہیں.دُنیا کی تمام تاریخیں بتاتی ہیں کہ تیرہ سو سال کے بعد کوئی نبوت نہیں چلی.موسیٰ علیہ السلام کے تیرہ سو سال بعد حضرت عیسی علیہ السلام آئے مگر انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اب موسوی سلسلہ ہی قیامت تک قائم رہے گا بلکہ انہوں نے کہا تو یہ کہ: - وو دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑ ا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر ہر گز نہ دیکھو گے جب تک نہ کہو گے کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.‘ھے لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سو سال کے بعد جو شخص آیا اُس نے کہا میں اس کی لئے آیا ہوں تا قیامت تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گورنر جنرل ہونے کا اعلان کروں.دنیاوی حکومتوں کی نا پائیداری دنیا میں بادشاہ اپنی حکومت کا اعلان کرتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ ان کی حکومت ایک لمبے عرصہ تک قائم رہے گی لیکن چند سال کے بعد ہی ایک نیا انقلاب پیدا ہو جاتا ہے اور اُن کی جگہ کوئی اور حکومت ملک پر قابض ہو جاتی ہے.دیکھو ۱۹۱۱ء میں جارج پنجم نے دتی میں ایک بہت بڑا در بار منعقد کیا اور اس بات پر بڑی خوشی کا اظہار کیا گیا کہ اب انگریزی حکومت ہندوستان میں مستحکم ہو گئی ہے لیکن اس اعلان پر ابھی چھتیں سال گزرے تھے کہ ۱۹۴۷ ء میں انگریز اپنا بوریا بستر باندھ کر یہاں سے چلے گئے.یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو چند سال میں ہی رونما ہو گیا.لیکن یہاں تیرہ سو سال پہلے اعلان ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قیامت تک قائم رہے گی اور تیرہ سو سال کے بعد کوئی سید نہیں، قریش نہیں بلکہ اُس قوم کا ایک فرد جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کا فرتھی جو اسلام کو جانتی تک نہ تھی اور اُس نے بعد میں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کے لئے خون کی ندیاں تک بہا دیں اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے

Page 256

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۰ سیر روحانی (۵) اس لئے بھیجا گیا ہے کہ میں اسلام کو دنیا کے تمام دوسرے ادیان پر غالب کروں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کا جھنڈا دنیا میں گاڑ دوں.خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آنے والے موعود کی خبر دیتے ہوئے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا تھا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چلا گیا تو اس کی قوم میں سے ایک فارسی الاصل شخص اُٹھے گا جو ایمان کو پھر لوگوں کے قلوب میں زندہ کر دیگا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کے دوبارہ عروج کی یہ بشارت پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی دی اس وقت وہ قوم جس میں سے اس عظیم الشان انسان نے کھڑا ہونا تھا کا فرتھی ، وہ بے دین اور لا مذہب تھی وہ جانتی تک نہ تھی کہ اسلام کس چیز کا نام ہے مگر صدیوں بعد چین اور تبت اور ترکستان کے پہاڑوں سے یہ قوم اُٹھتی ہے اور دیوانہ وار تمام پہاڑوں اور دریاؤں اور صحراؤں کو عبور کرتے ہوئے اسلامی حکومت کو تباہ کر دیتی ہے.بغداد جو اسلام کا ایک عظیم الشان مرکز تھا اُس پر یہ قوم حملہ آور ہوتی ہے اور اٹھارہ لاکھ مسلمانوں کو نہایت بیدردی کے ساتھ قتل کر دیتی ہے.مگر ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ وہی ہلا کو جس نے بغداد میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا تھا اس کی نسل میں سے ایک مغل شہزادہ مسلمان ہو جاتا ہے اور وہی قوم جس کی تلوار نے مسلمانوں کو مٹایا تھا خود اسلام کی تلوار کا شکار بن کر رہ جاتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کی پیشگوئیوں کے عین مطابق تیرہ سو سال بعد ایک مغل اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے کھڑا کیا ہے اور میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر کے رہونگا.یہ کتنا عظیم الشان نشان ہے اور کتنے عظیم الشان طریق پر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس وعدے کا ایفاء کیا جو اُس نے اپنے دربار میں کیا تھا.کیا دنیا کا کوئی دیوانِ عام اس کی مثال پیش کر سکتا ہے؟ دربارِ عام کا ایک اور مقصد دربار عام کا ایک مقصد جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے بادشاہ کے خاص قوانین کا اعلان کرنا ہوتا ہے.ہے.

Page 257

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۱ سیر روحانی (۵) دتی میں شاہی دربار منعقد ہوا تو اس کی غرض یہ تھی کہ بادشاہ بنگال کی تقسیم کی منسوخی کا اعلان کرے مگر یہ غرض کتنی چھوٹی اور کتنی حقیر تھی اور پھر کتنی عجیب بات ہے کہ وہی تقسیم جو 1911ء میں منسوخ کی گئی تھی چھتیں سال کے بعد دوبارہ ظہور میں آ گئی.اگر اُس وقت جارج پنجم کو یہ پتہ لگ جاتا کہ چھتیں سال کے بعد بنگال کی پھر تقسیم ہو جائے گی اور اس وقت دوصوبے ہی نہیں بلکہ دو الگ الگ حکومتیں بن جائیں گی تو شاید اُسے یہ اعلان کرتے ہوئے ہنسی آ جاتی اور وہ سوچتا کہ میں کیا حماقت کر رہا ہوں.یہاں بھی ایک قانون قرآنی آئین کا اعلان اور اس کی اہم خصوصیات پیا مانا ہوتا ہے مگر کا اعلان ہوتا ہے.وہ قانون کس قسم کا ہے فرماتا ہے اللهُ نَزَّلَ احْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَبًا مُّتَشَابِهَا مَّثَانِي تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ جُلُودُهُمْ وَ قُلُوبُهُمْ إِلَى ذكر الله ذلك هُدَى اللهِ يَهْدِي بِه مَنْ يَشَاءُ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَالَهُ من ها دن کے فرماتا ہے ہم ایک نیا آئین جاری کرتے ہیں (جیسے انگریز آئے تو انہوں نے تعزیرات ہند کا نفاذ کیا ہم ایک نیا گورنر جنرل قیامت تک کے لئے مقرر کرتے ہیں اور اس کے ساتھ دنیا کی ہدایت اور اس کی راہنمائی کے لئے ایک قانون بھی نازل کرتے ہیں مگر تمہارے قانونوں اور اس قانون میں بہت بڑا فرق ہے.تمہارے قانون کی فرمانبرداری لوگ ڈر سے کرتے ہیں وہ اس لئے کرتے ہیں کہ اگر انہوں نے بغاوت کی تو پولیس انہیں گرفتار کر لے گی ورنہ ان قوانین کی تائید کرنے والے بھی بعض دفعہ اپنے دلوں میں سمجھتے ہیں کہ یہ قوانین غلط ہیں اور جب انہیں اختیار ملتا ہے تو وہ ان کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں مگر ہمارا قانون اپنی ذات میں ایسی خوبیاں رکھتا ہے کہ جس سے کوئی سوچنے والا انسان انکار نہیں کرسکتا.اَحْسَنَ الحديث نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِیثِ ہم ایک قانون جاری کر رہے ہیں مگر وہ کوئی جبری قانون نہیں وہ محض اپنی بادشاہت منوانے کے لئے نہیں بلکہ بہتر سے بہتر بات جو کہی جاسکتی ہے خواہ دینی رنگ میں یا دنیوی رنگ میں ، خواہ

Page 258

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۲ سیر روحانی (۵) عقل سے خواہ نقل سے ، خواہ روایت سے خواہ درایت سے، خواہ چھوٹوں کے لئے خواہ بڑوں کے لئے ، خواہ مردوں کے لئے ، خواہ عورتوں کے لئے ، ان تمام بہترین باتوں کو اس قانون میں جمع کر دیا گیا ہے اور اب قیامت تک یہ قانون منسوخ نہیں ہوسکتا.دُنیوی حکومتیں بعض دفعہ بڑی سوچ بچار کے بعد قانون بناتی ہیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی انہیں اپنا قانون اپنے ہاتھوں سے منسوخ کرنا پڑتا ہے.امریکہ نے بڑا زور لگایا کہ وہ کسی کی طرح شراب کے استعمال کو روک دے اور اُس نے اس پر قانونی پابندیاں بھی لگائیں مگر تھوڑے عرصہ کے بعد ہی امریکہ کو پھر شراب نوشی کی اجازت دینی پڑی اور شراب کی ممانعت کا قانون اسے منسوخ کرنا پڑا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم جس قانون کے نفاذ کا اعلان کر رہے ہیں وہ اَحْسَنَ الحَدِيث پر مشتمل ہے ہر بہتر سے بہتر بات اس میں موجود ہے اور وہ انتہائی طور پر پاک اور بے لوث قانون ہے جس میں بنی نوع انسان کی تمام ضرورتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے.وہ ایسا قانون نہیں جو آج سے سو یا ہزار سال کے بعد منسوخ ہو سکے یا جس میں رد و بدل کی گنجائش نکل سکے.ایک مکمل قانون اس کے بعد وہ اور زیادہ تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ وہ قانون کیا ہے؟ فرماتا ہے کتابا وہ قانون ایک مکمل کتاب ہے.جب بادشاہ نے دتی میں اعلان کے لئے دربار منعقد کیا تو اس نے تعزیرات ہند کا اعلان نہیں کیا ، اس نے اپنے تمام قوانین کو پیش نہیں کیا ، بلکہ صرف تقسیم بنگال کے منسوخ کرنے کا اعلان کیا.مگر قرآن کریم کے متعلق اللہ تعالیٰ یہ اعلان فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ٹکڑا پیش نہیں کرتے بلکہ کامل شریعت پیش کرتے ہیں.ایک ٹکڑا بعض دفعہ انسان بھی اچھے سے اچھا بنا سکتا ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہزار یا دو ہزار سال تک قائم رہے.سوال سارے قانون کا ہے کہ وہ شروع سے لیکر آخر تک مکمل ہو اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ہو سکتی ہو.یہ کمال کسی اور کلام کو حاصل نہیں.پس فرماتا ہے کہ ہم جس قانون کو پیش کرتے ہیں :-

Page 259

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۳ سیر روحانی (۵) اوّل وه اَحْسَنَ الْحَدِيث ہے یعنی اس میں بہتر سے بہتر اور پختہ سے پختہ باتیں بیان کی گئی ہیں اور وہ ایک خوبصورت اور بے عیب قانون ہے.دوم وہ کوئی ایک ٹکڑا نہیں بلکہ تمام قسم کے قانونوں پر حاوی ہے.انگلستان میں چند بہائی عورتوں سے گفتگو میں جب انگلستان گیا تو وہاں ایک دن کچھ بہائی عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں.بہائی لوگ بہاء اللہ کو خدا سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کو منسوخ قرار دیتے ہیں مگر مسلمانوں کی یہ حالت ہے کہ وہ ہماری دشمنی کی وجہ سے بہائیوں کو تو اچھا سمجھتے ہیں اور ہمارے سلسلہ کے خلاف شور مچاتے رہتے ہیں.کراچی کے بعض اخبارات میں صفحوں کے صفحے بہاء اللہ کی تعریف میں شائع کئے جاتے ہیں حالانکہ وہ خدائی کا دعویدار تھا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اُس کا یہ عقیدہ تھا کہ آپ کی حکومت ختم ہو چکی ہے اور اب نئی شریعت کی دنیا کو ضرورت ہے.بہر حال وہ عورتیں مجھ سے ملنے کے لئے آئیں ان عورتوں میں سے ایک تو شنگھائی بنک کے مینیجنگ ڈائریکٹر کی بیوی تھی دوسری امریکہ کی رہنے والے تھی اور تیسری ایک احمدی بیرسٹر کی بیوی تھی جو ایرانی اور بہائی تھی.ان کے ساتھ عبداللہ کو حکم تھے جو انگلستان کے سب سے پہلے نو مسلم تھے اور جنہیں لڑکی نے شیخ الاسلام کا خطاب دیا تھا.ان عورتوں نے آتے ہی مجھ سے سوال کیا کہ آپ بہاء اللہ کو کیوں نہیں مانتے؟ میں نے کہا اس لئے نہیں مانتا کہ میں قرآن کریم کو مانتا ہوں.وہ کہنے لگیں آپ قرآن کو کیوں مانتے ہیں کیا یہ کتاب منسوخ نہیں ہو سکتی؟ میں نے کہا یہ تو بحث ہی نہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں کئی چیزیں ہو سکتی ہیں مگر ہوتی نہیں.میں نے کہا تم مرسکتی ہو یا نہیں ؟ اگر مر سکتی ہو تو کیا یہ کہا جاسکتا ہے کہ تم مر چکی ہو؟ تم نے یقیناً ایک دن مرنا ہے مگر اس وقت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تم مر چکی ہو.پس یہ سوال جانے دو کہ کوئی کتاب منسوخ ہو سکتی ہے یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اس وقت قرآن کریم منسوخ ہے یا نہیں ؟ تم مجھے کوئی ایک بات بتا دو جو قابل عمل ہو مگر قرآن کریم میں نہ ہو یا بہاء اللہ کی کوئی ایک بات ہی مجھے بتا دو جو سب سے اچھی ہو اور وہ قرآن کریم میں بیان نہ ہوئی ہو.

Page 260

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۴ سیر روحانی (۵) وہ کہنے لگی کہ بہاء اللہ نے علم سیکھنے کا حکم دیا ہے یہ کتنی اچھی بات ہے.میں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اس حکم پر اتنا زور دیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں جس شخص کی دولڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو اچھی تعلیم دلائے اور نیک تربیت کرے تو اُس کے لئے جنت واجب ہو جاتی ہے.اس پر وہ کہنے لگی بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں کرنا حرام قرار دیا ہے لیکن قرآن اس کی تعلیم دیتا ہے.امریکہ اور انگلستان اور یورپ اسلام کی اس تعلیم کو نہیں مان سکتا اور دنیا اس ظلم کو بھی برداشت نہیں کر سکتی.میں نے کہا میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ دنیا اس ظلم کو برداشت کر سکتی ہے یا نہیں تم پہلے مجھے یقینی طور پر بتا دو کہ بہاء اللہ نے ایک سے زیادہ شادیاں منع کی ہیں؟ اُس نے کہا ہاں بالکل منع ہے.وہ ایرانی عورت جو ان کے ساتھ تھی وہ عبد البہاء کے پاس چھ ماہ رہ کر آئی تھی اور اُس نے ان سے خاص تعلیم پائی تھی.میں نے کہا اس سے پوچھو کہ آیا بہاء اللہ کی اپنی دو بیویاں تھیں یا نہیں؟ تم تو کہتی ہو کہ ایک سے زیادہ شادیاں منع ہیں اور بہاء اللہ نے آپ دوشادیاں کی ہیں.کہنے لگی آپ پالکل الزام لگا رہے ہیں بہاء اللہ نے ہرگز دوشادیاں نہیں کیں.میں نے کہا اس ایرانی عورت سے پوچھو.اُس سے پوچھا تو وہ کہنے لگی اجی مجھے اس جھگڑے میں کیوں گھسیٹتے ہیں آپ آپس میں بات کیجئے اور مجھے رہنے دیجئے.میں نے کہا اس میں گواہی کا سوال ہے آپ سچی گواہی کیوں چھپاتی ہیں جو واقعہ ہو وہ آپ بتا دیں.کہنے لگی کہ بات یہ ہے کہ انہوں نے یہ دوشادیاں دعوی سے پہلے کی تھیں.اس پر پہلی عورت نے شور مچا دیا کہ بس جواب ہو گیا یہ دعوئی سے پہلے کی شادیاں تھیں.میں نے کہا تمہارا عقیدہ یہ ہے کہ امام اپنی پیدائش کے وقت سے علم غیب رکھتا ہے جب اسے پتہ تھا کہ ایک سے زیادہ شادیاں رڈ کی جائیں گی تو پھر اُس نے خود کیوں ایک سے زیادہ شادیاں کیں؟ یا تو یہ کہو کہ وہ علم غیب نہیں رکھتا تھا اور یا یہ کہو کہ اس نے خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف فعل کیا.اور اگر وہ علم غیب نہیں رکھتا تھا تب بھی اس کی خدائی باطل ہے اور اگر خدا تعالیٰ کے حکم کے خلاف اس نے فعل کیا تب بھی وہ قابلِ اعتراض ٹھہرتا ہے.اور پھر سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکم بعد میں نازل ہوا تھا تو اُس نے دوسری بیوی رکھی کیوں؟

Page 261

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۵ سیر روحانی (۵) اسے اس نے طلاق کیوں نہ دیدی؟ اس پر وہ کہنے لگی کہ ایک کو اس نے اپنی بہن قرار دید یا تھا.میں نے کہا کہ اس پر اوّل تو پھر وہی اعتراض ہے کہ جب وہ عالم الغیب تھا اور جانتا تھا کہ مجھے اسے بہن قرار دینا پڑے گا تو اس نے پہلے اسے بیوی کیوں بنایا ؟ لیکن اِس کو بھی جانے دو سوال یہ ہے کہ آیا بہن سے شادی تمہارے نزدیک جائز ہے؟ وہ کہنے لگی آپ تو گالیاں دیتے ہیں.میں نے کہا اسی ایرانی بہن سے پوچھو.اُس نے پہلے تو بڑا زور لگایا کہ کسی طرح وہ اس بحث میں نہ پڑے اور بار بار کہے کہ میرا اس سے کیا تعلق ہے میں تو یونہی آگئی تھی لیکن آخر میرے اصرار پر اُسے ماننا ہی پڑا کہ واقعہ میں بہاء اللہ کے ہاں اس سے اولا د بھی ہوئی ہے.قیامت تک قائم رہنے والا لائحہ عمل غرض کہنے کو تو لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم کس طرح مانیں کہ قرآن کریم منسوخ نہیں ہوسکتا جب کہ پہلی کتابیں ہمیشہ سے منسوخ ہوتی چلی آئی ہیں لیکن وہ کوئی ایسی بات بھی نہیں بتا سکتے جو دنیا کے لئے قابل عمل ہو اور قرآن کریم میں موجود نہ ہو یا قرآن کریم نے کوئی حکم دیا ہو اور اس پر عمل نہ ہو سکتا ہو.تیرہ سو سال ہو چکے دُنیا اس کے کسی حکم کو قابل تبدیل قرار نہیں دے سکی اور آئندہ کے متعلق بھی ہم اسی پر قیاس کر کے کہہ سکتے ہیں کہ وہ قیامت تک کے لئے ایک زندہ اور قائم رہنے والا لائحہ عمل ہے کیونکہ تیرہ سو سال کے گزرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ماً مور آیا اُس نے دنیا میں پھر یہ اعلان کر دیا کہ یہ کتاب قیامت تک قائم رہنے والی ہے اور اس کا قانون ایک اٹل صداقت ہے دنیا ہزاروں تغیرات میں سے گزرتی چلی جائے اس کا کوئی قانون بدل نہیں سکتا، اس کی کوئی حلیم تبدیل نہیں کی جاسکتی.فطرتِ انسانی سے مطابقت رکھنے والی تعلیم پھر فرماتا ہے مُتَشَابِهَا اِس کامل کتاب کی ایک یہ بھی خوبی ہے کہ یہ متشابہہ ہے.متشابہہ کے دو معنے ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ فطرت کے متشابہہ ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ قرآن کریم جو تمہارے ہاتھوں

Page 262

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۶ سیر روحانی (۵) میں ہے یہ في کتب مخنون ۵ ایک کتاب مکنون میں ہے یعنی اس کا ایک ورق تو یہ کھی ہوئی کتاب ہے اور اِس کا دوسرا ورق ہر انسان کی فطرت پر لکھا ہوا ہے.گویا دو قرآن ہیں ایک قرآن فطرت انسانی میں ہے اور ایک قرآن اس کتاب میں ہے.کوئی شخص ایسی چیز نہیں پیش کر سکتا جو قرآن کریم میں تو ہو مگر اس کا فطرتِ صحیحہ انکار کرتی ہو اور کوئی بات کی فطرتِ صحیحہ میں ایسی نہیں ہو سکتی جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو.یہ دلیل ہے اس بات کی که قرآن کریم قیامت تک قائم رہنے والی کتاب ہے کیونکہ جب یہ فطرت کے مطابق ہے تو جس طرح فطرت نہیں بدل سکتی اسی طرح قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا.وہ لوگ جو قرآن کریم کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں ہمارا اُن سے یہ سوال ہے کہ کیا انسانی فطرت کبھی بدل سکتی ہے؟ اگر بدل نہیں سکتی تو پھر قرآن کریم بھی بدل نہیں سکتا.گو یا صرف یہی نہیں کہ یہ کتاب اب تک نہیں بدلی بلکہ متشابہ کہہ کر اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ یہ کتاب کبھی بدل ہی نہیں سکتی کیونکہ یہ فطرت کے مطابق ہے اور فطرت اس کے مطابق.جب تک انسان کی فطرت صحیحہ قائم رہے گی یہ قرآن بھی قائم رہے گا.سابق الہامی کتب کی تمام اعلیٰ دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ پہلی الہامی کتابوں کی اعلیٰ تعلیم کو پیش کرتا ہے گویا یہ تعلیمیں قرآن کریم میں جمع ہیں متشابہ ہے موسیٰ کی کتاب سے اور یہ متشابہ ہے زرتشت کی کتاب سے اور یہ متشابہہ ہے رام اور کرشن کی کتاب سے.اَحْسَنَ الْحَدِيث میں تو یہ بتایا گیا تھا کہ قرآن کریم میں اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں بیان کی گئی ہیں اور متشابہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم سے پہلے جو الہامی کتب نازل ہو چکی ہیں ان تمام کتابوں کی اچھی سے اچھی اور بہتر سے بہتر باتیں اس میں موجود ہیں.تو رات کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں، وید کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں، ژند اوستا کی اچھی باتیں اس میں موجود ہیں.جب ساری اچھی باتیں اس میں موجود ہیں تو ہمیں اس بات کی کوئی ضرورت ہی نہیں رہتی کہ ہم دوسری کتابوں کی طرف رجوع

Page 263

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۷ سیر روحانی (۵) عیسائیوں کا ایک اعتراض عیسائی اعتراض کیا کرتے ہیں اور انہوں نے ینا بیخ الاسلام وغیرہ بعض کتابیں بھی اس موضوع پر لکھی ہیں کہ قرآن کریم نے فلاں بات فلاں جگہ سے نقل کی ہے اور فلاں، فلاں جگہ سے.حالانکہ قرآن کریم تو آپ کہتا ہے کہ میں نے ان باتوں کو نقل کیا ہے مگر قرآن کریم یہ بھی کہتا ہے کہ میں نے ان کی رڈی باتیں چھوڑ دی ہیں.اگر اس میں ساری اچھی باتیں نہیں آئیں تو پھر جو قرآن کریم نے اچھی باتیں چھوڑ دی ہیں تم ان کی نقل کر دو اور کہو کہ یہ باتیں قرآن کریم سے رہ گئی ہیں لیکن اگر باقی صرف پھوگ ہی رہ گیا ہے تو ہم نے اس پھوگ کو کیا کرنا ہے.گائے بھینس چارہ کھاتی ہے اور دودھ دیتی ہے تو اس دودھ کو دیکھ کر کہہ سکتے ہو کہ یہ وہی چارہ ہے جو ہم نے کھلایا تھا مگر پیتے دودھ ہی ہو چارہ نہیں کھاتے.قرآن کریم نے بھی بعض باتوں کی نقل ہی کی ہے مگر انہیں نقل کر کے اس نے دودھ بنا دیا ہے جسے ہم پی رہے ہیں.بائیبل صرف ایک گھاس کے مشابہ ہے ، زرتشتی کتابیں صرف ایک گھاس کے مشابہ ہیں ، وید صرف گھاس کے مشابہ ہے لیکن قرآن کریم انہی باتوں کو نقل کر کے جس طرح گائے اور بھینس گھاس کھا کر دودھ دیتی ہیں ان کو گھاس.سے دودھ کی شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.پس بیشک قرآن کریم میں بعض باتیں ایسی ہیں جو انجیل کے مطابق ہیں، بعض باتیں ایسی ہیں جو تو رات کے مطابق ہیں اور بعض باتیں ایسی ہیں جو دوسری کتب کے مطابق ہیں مگر اس نے ان تعلیموں کو نہایت ادنیٰ حالت سے لیکر اعلیٰ حالت تک پہنچا دیا ہے.ہمارے مخالفوں کو گھاس کھانا ہی اچھا لگتا ہے تو وہ بے شک گھاس کھا ئیں ہم تو دودھ ہی پئیں گے.قرآن کریم کی افضلیت پھر فرماتا ہے کہ یہ قرآن مَشَانِی ہے.مَشَانِی کے متعلق ہم عربی لغت میں دیکھتے ہیں کہ اس کے کیا معنی ہیں.وہاں مَثَانِی کے کئی معنے لکھے ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ مَابَعْدَ الْأَوَّلِ مِنْ اَوْتَارًا لعُوْدِ یعنی مزامیر اور سرنگی کی تاروں میں سے پہلی تار کے بعد جو دوسری تاریں آتی ہیں اُن کو مَشَانِی کہتے ہیں.پس قرآن کریم کو مَشَانِی قرار دینے کے یہ معنے ہوئے

Page 264

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۸ سیر روحانی (۵) کہ یہ پہلی تاروں کے بعد دوسری تا ر ہے.قرآن کریم یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ میں دنیا میں پہلی الہامی کتاب ہوں جیسے ویدوں کا دعوی ہے بلکہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں ان کتابوں کے پیچھے آیا ہوں اور پھر اوپر کی چوٹی پر ہوں تا کہ کوئی اعتراض نہ کرے کہ قرآن کریم پہلی کتابوں سے اُتر کر دوسرے درجہ کی کتاب ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ میں ہوں تو دوسری کتاب مگر پہلی کتابوں سے زیادہ شاندار ہوں.اگر ایک ڈاکٹر اپنے فن میں بڑا مشہور ہو اور اُس کے بعد کوئی دوسرا ڈاکٹر آ کر اپنے آپ کو اُس سے بڑھا کر دکھا دے تو وہ چھوٹا سمجھا جاتا ہے یا بڑا سمجھا جاتا ہے؟ اگر ایک بیرسٹر بڑی کامیاب پریکٹس کرتا ہو اور اس کے بعد ایک دوسرا بیرسٹر آ جائے جو اپنے کام میں اتنا شہر ہ حاصل کر لے کہ تمام لوگ پہلے بیرسٹر کو چھوڑ دیں اور اُس کے پاس آجائیں تو کیا کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ دوسرا بیرسٹر ہے اس کو پہلے بیرسٹر پر کیا فضیلت حاصل ہے؟ پہلے کی موجودگی میں اپنے درجہ کو قائم کر لینا اور اپنی دھاک بٹھا لینا ایک فخر کی بات ہوتی ہے ورنہ جہاں عالم نہیں ہوتے وہاں بعض دفعہ جاہل بھی آکر عالم بن جاتے ہیں اور وہ جو کچھ اوٹ پٹانگ کہہ دیں لوگ سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللهِ کہنے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بڑے عالم ہیں.اسی قسم کے مسخرے کا ایک لطیفہ ہے.لوگ اُس سے مسئلے پوچھنے آتے تو ایک لطیفہ کبھی وہ عقل کی بات کہ دیتا اور کبھی بے وقوفی کی.ایک دفعہ عیسائی آئے اور انہوں نے کہا بتاؤ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے تھے تو رکس سیڑھی سے گئے تھے؟ اُس نے کہا حضرت عیسی علیہ السلام جب آسمان پر گئے تھے تو لوگ سیڑھی اُٹھانی بُھول گئے تھے اُس پر چڑھ کر چلے گئے تھے.یہ تو معقول بات کہہ دی چاہے مذاق کی تھی ، مگر اس کے بعد ایک دوسرا شخص آیا اور اس نے کہا کہ جب چاند نکلتا ہے تو پہلے وہ نہایت باریک ہوتا ہے اور پھر ذرا موٹا ہوتا ہے پھر اور بڑا ہوتا ہے یہاں تک کہ ہوتے ہوتے پورا چاند بن جاتا ہے اور پھر تھوڑے دنوں کے بعد ہی غائب ہو جاتا ہے وہ چاند جاتا کہاں ہے؟ کہنے لگا اس کو کاٹ کر ستارے بنا لئے جاتے ہیں چونکہ قوم میں کوئی اور عالم نہیں تھا اس لئے لوگ اُسی کو بڑا عالم سمجھتے تھے.

Page 265

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۳۹ سیر روحانی (۵) قرآن کریم کا کمال تو پہلے پہل اگر کوئی شخص آ جائے جس کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی دوسرا ڈاکٹر یا مقنن یا انجینئر نہ ہو تو ایک معمولی آدمی بھی لوگوں پر اپنی حکومت جما لیتا ہے لیکن پہلوں کے مقابل پر آ کر کامیاب ہونا بہت بڑی ہمت چاہتا ہے.قرآن کریم اسی مضمون کی طرف لوگوں کو توجہ دلاتا ہے اور فرماتا ہے کہ ہم پہلوں کی موجودگی میں آکر کامیاب ہوئے ہیں.تم اپنی طرح یہ نہ سمجھ لو کہ ملک میں کوئی حکومت نہ تھی، کوئی قانون نہ تھا کہ موسیٰ علیہ السلام نے آکر ایک تعلیم دی اور لوگوں نے اسے مان لیا، ایران میں کوئی قانون نہ تھا زرتشت آئے اور انہوں نے اپنا اقتدار قائم کر لیا، اکیلے اکیلے میدان مار لینا اور بات ہے اور مقابلہ میں آ کر میدان جیتنا اور بات ہے.ہم بعد میں آئے اور پھر ان کی چھاتیوں پر مونگ دل رہے ہیں.عیسائیوں کی کتابیں موجود ہیں ، یہودیوں کی کتابیں موجود ہیں، زرتشتیوں کی کتابیں موجود ہیں ، ہندوؤں کی کتابیں موجود ہیں مگر پھر ہم ان سب کے سامنے آ کر میدان مار رہے ہیں.مَثَانِی کے دوسرے معنے خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب مَعَاطِفُ الْوَادِي کے ہیں چلتے چلتے جب وادی ایک طرف مڑتی ہے تو اُس کے موڑ کو بھی مثانی کہتے ہیں.پس قرآن کریم کی دوسری خوبی اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ یہ بنی نوع انسان کو موڑ کر ان کا رخ ایک دوسری طرف پھیرنے والی کتاب ہے.حقیقت یہ ہے کہ بنی نوع انسان جب علوم میں ترقی کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نگاہ صرف دنیا کا حصول ہوتا ہے وہ جغرافیہ میں یا سائنس یا تاریخ میں جب دسترس پیدا کرتے ہیں تو ان کا نقطۂ نظر صرف مادی ہوتا ہے اور وہ اُسی مادی راستے پر چلتے چلے جاتے ہیں.قرآن کریم نے ان راستوں سے بنی نوع کی انسان کو روکا نہیں.وہ حساب کی بھی تصدیق کرتا ہے جغرافیہ کی بھی تصدیق کرتا ہے ، وہ اسی سائنس کی بھی تصدیق کرتا ہے، وہ تاریخ کی بھی تصدیق کرتا ہے ، مگر ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ایک اور طرف بھی ہے جس طرف تمہیں توجہ پھیر نے کی ضرورت ہے اور وہ موڑ وہ

Page 266

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۰ سیر روحانی (۵) ہے جس کے پیچھے خدا تعالیٰ بیٹھا ہے.بے شک سائنس بھی اپنی ذات میں ایک مفید چیز ہے، جغرافیہ، حساب اور تاریخ بھی اپنی ذات میں مفید علوم ہیں مگر ان علوم کی وادی چلتے چلتے ایک طرف خم کھاتی ہے اور اس کے موڑ کے پیچھے خدا تعالیٰ کا وجود رونما ہوتا ہے.تم بے شک ان علوم میں ترقی کرو مگر یہ بھی دیکھو کہ اس مادی دنیا کے علاوہ خدا تعالیٰ کی بھی ایک ذات ہے جس کا حصول تمہارا سب سے بڑا مقصد ہونا چاہئے.پس قرآن کریم انسانی عقلوں کو موڑ کر انہیں خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ کرنے والی کتاب ہے اور یہی بات مَثَانِی میں بیان کی گئی ہے.قرآنی تعلیم کے ذریعہ مَثَانِی کے تیرے نے قُوَّةَ الشَّيْءِ وَ طَاقَتُهُ کے ہوتے ہیں یعنی کسی چیز کی قوت اور اس کی طاقت.غیر معمولی طاقت کا حصول فرماتا ہے قرآن کریم کی آیتیں اور قرآن کریم کی تعلیم تمہاری قوت اور طاقت کا موجب ہیں یعنی قرآن کریم پر عمل کرنے والے ہمیشہ دُنیا پر غالب رہیں گے اور کسی جگہ نیچا نہیں دیکھیں گے.قرآن کریم کہتا ہے کہ سچ بولو.دنیا میں کبھی سچ بولنے والے ذلیل نہیں ہو سکتے.قرآن کریم کہتا ہے کہ علم سیکھو دنیا میں کبھی علم سیکھنے والا ذلیل نہیں ہو سکتا.قرآن کریم کہتا ہے کہ دھو کا مت دو.دھوکا اور فریب سے بچنے والا دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا.قرآن کریم کہتا ہے کہ تم علوم طبیعیات پر غور کرو اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرو.علوم طبیعیات پر غور کرنے والا اور قدرت کے رازوں کی جستجو کرنے والا دنیا میں کبھی ذلیل نہیں ہو سکتا.غرض جو کچھ قرآن کریم کہتا ہے وہ انسان کی طاقت کا موجب ہوتا ہے اُس کی کمزوری کا موجب نہیں ہوتا.یہی وہ چیز ہے جس کا قرآن کریم ایک اور جگہ ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے رُبمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُ والوَكَانُوا مُسلمین کہ کافر بھی بعض دفعہ کہہ اُٹھتا ہے کہ کاش ! مجھے اسلام کا نام نہ ملتا تو اس کی تعلیم ہی مل جاتی.یہود کا اعتراف عجز ایک دفعہ بعض یہودی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا آپ کے قرآن میں ایک ایسی آیت

Page 267

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۱ سیر روحانی (۵) موجود ہے کہ اگر وہ ہماری کتاب میں ہوتی تو ہم اس آیت کے نازل ہونے والے دن کو عید مناتے.آپ نے پوچھا وہ کونسی آیت ہے؟ انہوں نے کہا اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَاتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الاسلام دینا، یہ آیت اگر ہماری بائیبل میں ہوتی تو ہم اس خوشی میں عید مناتے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم کیا جانو جس دن یہ آیت اتری ہے اُس دن ہمارے لئے دو عید میں جمع تھیں، یہ حج کے دن نازل ہوئی ہے اور حج کے دن پہلے سے عید چلی آ رہی ہے اور پھر وہ جمعہ کا دن تھا اور جمعہ بھی ہمارے لئے عید کا دن ہے.تعدد ازواج پر بعض حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں ہے جس پر چل کر انسان ذلیل ہو سکے.وہ چیزیں جن پر دنیا انگریزوں سے گفتگو اعتراض کرتی ہے وہ بھی ایسی ہیں کہ اگر ان کو لوگ صحیح طور پر سمجھ جائیں تو ان کے اعتراضات بند ہو جائیں.میں جب ولایت گیا تو ایک دفعہ بعض انگریز مجھ سے ملنے کے لئے آئے.چونکہ انگریزوں میں عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اسلام میں عورتوں پر بہت ظلم کیا جاتا ہے اور اس کی ایک وجہ وہ تعدد ازواج کو بھی قرار دیتے ہیں اس لئے انہوں نے اس موضوع پر مجھ سے گفتگو شروع کر دی اور کہا کہ اسلام میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی گئی ہے جو بڑی خطر ناک بات ہے اور کوئی فطرت اسے برداشت نہیں کر سکتی.میں نے کہا کیا یہ بہت بُری تعلیم ہے؟ انہوں نے کہا بہت بُری تعلیم ہے.میں نے کہا میری اس وقت تین بیویاں ہیں ( اس وقت میری تین بیویاں تھیں) کہنے لگے آپ کی تین بیویاں ہیں ؟ آپ تو بڑے روشن خیال آدمی ہیں آپ نے یہ کیا کیا ؟ میں نے کہا جب آپ مجھے روشن خیال تسلیم کرتے ہیں تو پھر آپ کو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ میں نے کوئی ظلم نہیں کیا.پھر میں نے انہیں بتایا کہ اسلام نے بے شک بعض حالات میں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دی ہے مگر اسلام نے اس کے ساتھ کئی قسم کی پابندیاں بھی عائد کر دی ہیں جن کی موجودگی میں کوئی شخص محض عیاشی کے لئے ایک سے زیادہ شادیاں نہیں کر سکتا.اسلام کہتا ہے اگر تم ایک سے زیادہ شادیاں کرو

Page 268

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۲ سیر روحانی (۵) تو ہر ایک کو برابر کی باری دو، اسلام کہتا ہے کہ جتنا خرچ تم ایک بیوی کو دو اتنا ہی خرچ دوسری بیوی کو دو، اسلام کہتا ہے کہ جس طرح تم ایک بیوی کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہو اُسی طرح تم دوسری بیوی کی ضرورتوں کو بھی پورا کرو.ان احکام کی موجودگی میں اگر کوئی شخص دوشادیاں کرتا ہے یا چار کرتا ہے تو آخر وہ کیوں کرتا ہے؟ بڑی وجہ اس کی یہی سمجھی جاسکتی ہے کہ اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ اگر اسے اپنی پہلی بیوی سے محبت نہیں تو کتنا جبر ہے جو شریعت اس پر کرتی ہے.وہ چوبیس گھنٹے اپنی اس بیوی کے پاس گزارتا ہے جس سے اُسے محبت ہے تو شریعت کہتی ہے اُٹھاؤ اپنا بستر اور جاؤ دوسری بیوی کے پاس اور اس کے پاس بھی اسی طرح چوبیس گھنٹے گزارو.وہ اپنی نئی بیوی کے لئے جس سے اسے محبت ہوتی ہے کوئی زیور یا کپڑا تیار کر کے لاتا ہے تو شریعت کہتی ہے اب جاؤ اور اسی قسم کا کپڑا اور اسی قسم کا زیور اپنی دوسری بیوی کو دے آؤ.غرض قدم قدم پر شریعت اس کے جذبات پر ایسا جبر کرتی ہے کہ اس کے بعد یہ خیال بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دوسری شادی کرنے والا عیاشی کا ارتکاب کرتا ہے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی ایک بیوی جنہیں ہم بچپن میں مولویانی کہا کرتے تھے وہ ایک دفعہ ہمارے ہاں آئیں.میں اُن دنوں شدید بیمار تھا اور مجھ سے اُٹھا بھی نہیں جاتا تھا ، پھر بھی میں سہارا لے کر دوسری بیوی کے گھر گیا.وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں یہ کیسی قابلِ رحم حالت ہے کہ اُٹھا جاتا نہیں مگر دوسری بیوی کے گھر جارہے ہیں.اب بتاؤ اس میں عیاشی کی کونسی بات ہے، عیاشی تو تب ہو جب وہ صرف ایک بیوی سے تعلق رکھے اور دوسری کو نظر انداز کر دے.میری یہ بات سنکر وہ کہنے لگے کہ آپ کی اور بات ہے.میں نے کہا اگر میرے جیسا بن جانے سے یہ بات قابلِ اعتراض نہیں رہتی تو آپ بھی اچھے آدمی بن جائیں بُرے کیوں بنے ہوئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر میں نے انہیں کہا جب ہم ایک سے زیادہ شادیاں کرتے ہیں تو اس کی وجوہات ہوتی ہیں.کی شادیوں میں مثلاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی شادیاں

Page 269

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۳ سیر روحانی (۵) کیں مگر اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے سپر د تمام عورتوں کی تعلیم و تربیت کا کام تھا اور یہ اتنا بڑا کام تھا کہ آپ اکیلے اسے سنبھال نہیں سکتے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپ زیادہ شادیاں کرتے تا زیادہ سے زیادہ تعداد میں ایسی عورتیں تیار ہو سکتیں جو اسلام میں داخل ہونے والی مستورات کی نگرانی کرتیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا کام سرانجام دیتیں.میں بھی ایک قوم کا لیڈر ہوں میرے پاس سینکڑوں عورتیں آتی ہیں اور وہ اپنی مصیبتیں اور مشکلات بیان کرتی ہیں ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنا ، ان کی تعلیم کا انتظام کرنا اور ان کی تنظیم کو مکمل کرنا یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو کوئی غیر عورت نہیں کر سکتی.یہ کام اسی کی صورت میں ہو سکتا ہے کہ میں اپنی بیویوں کو تعلیم دوں اور وہ دوسری عورتوں کو تعلیم دیں اور ان کی تنظیم کا کام سرانجام دیں.اس پر انہیں خاموش ہونا پڑا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے مثال نمونہ غرض اسلام کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ اس نے ہر ضرورت کے متعلق احکام نازل کئے ہیں اگر اسلام نے اس قسم کے احکام نہ دیئے ہوتے تو ہمیں دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا پڑتا مگر اب ہمارا سر اونچا رہتا ہے اور دشمن کو شرمندہ ہونا پڑتا ہے.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں آتا ہے کہ آپ جب بیمار ہوئے تو باوجو د سخت کمزوری کے ایک ہاتھ علی رضی اللہ عنہ کے کندھے پر اور دوسرا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے کندھے پر رکھ کر ایک گھر سے دوسرے گھر میں جاتے اور بعض دفعہ تو ایسی صورت ہوتی تھی کہ آپ کے پاؤں شدت کمزوری کی وجہ سے زمین کے ساتھ گھسٹتے چلے جاتے تھے.بیویوں نے جب یہ حالت دیکھی تو اُن سب نے مشورہ کیا کہ ایسی حالت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گھر سے دوسرے گھر میں جانا مناسب نہیں.آپ کو کسی ایک ہی بیوی کے گھر میں ٹھہر نا چاہئے.چنانچہ سب - متفقہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ يَا رَسُولَ الله ! جب تک آپ اچھے نہیں ہو جاتے آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ٹھہریں وہ کی آپ کی سب سے زیادہ خدمت کر سکتی ہیں چنانچہ آپ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر

Page 270

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۴ سیر روحانی (۵) میں رہے اور وہیں آپ نے وفات پائی.مسلمانوں کے تحفظ اور غرض اسلام کے احکام پر عمل کرنا ایک بہت بڑا مجاہدہ ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم بغیر کسی حقیقی ان کی بقاء کا صحیح طریق ضرورت کے ایک سے زیادہ شادیاں کرو.وہ ضرورت حقہ کے ساتھ اِس کی اجازت کو مشروط قرار دیتا ہے اور جب ضرورت حلقہ پیدا ہو جائے تو پھر ایک سے زیادہ شادیوں پر اعتراض کرنا درست نہیں.جب بہار میں مسلمانوں کا قتلِ عام ہوا تو وہاں کے کچھ لوگ قادیان آئے اور انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ اب ہمارے بچاؤ کا کیا طریق ہے؟ میں نے کہا قرآن کریم نے دو علاج بتائے تھے مگر وہ دونوں تم نے چھوڑ دیئے ہیں.قرآن کریم نے کہا تھا کہ تبلیغ کرو مگر تم نے تبلیغ ترک کر دی اگر سارے مسلمان تبلیغ پر زور دیتے تو آج انہیں ایک ہندو بھی ہندوستان میں نظر نہ آتا.دوسرا علاج اسلام نے یہ بتایا تھا کہ تم چار چار شادیاں کرو تم ایک ہی نسل میں آٹھ گنا ہو جاؤ گے دوسری نسل میں سولہ گنا ہو جاؤ گے اور تیسری نسل میں بہتیس گنا ہو جاؤ گی گے.میں نے کہا اس وقت کئی اچھوت اقوام موجود ہیں اگر تم اُن کی بیٹیاں لینی شروع کر دو تو وہ شوق سے اپنی لڑکیاں تمہارے ساتھ بیاہ دیں گے اور ہر عورت کم سے کم چار بچے جنے گی نتیجہ یہ ہوگا کہ پچاس سال کے بعد تم آٹھ سے بتیس کروڑ ہو جاؤ گے.غرض خدا تعالیٰ نے علاج تو بتایا ہے لیکن اگر تم عمل نہ کرو تو کیا کیا جائے.گزشتہ جنگ کے بعد کئی یورپین قوموں میں یہ تحریک پیدا ہوئی ہے کہ اگر وہ اپنی تعداد کو بڑھانا چاہتی ہیں تو انہیں ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے.اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنیکا نسخہ غرض ایک سے زیادہ شادیاں اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنے کا ایک زبر دست ذریعہ ہے.دو نسلیں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال لیں تو مسلمانوں کی تمام مشکلات دُور ہو سکتی ہیں اور وہ مغلوب ہونے کی بجائے ایک غالب قوم کی شکل اختیار کر سکتے ہیں.لوگ کہتے ہیں کہ اگر ہماری اولاد ہوئی تو وہ کھائے گی کہاں سے؟

Page 271

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۵ سیر روحانی (۵) حالانکہ یہی تو وہ حکمت ہے جس کو وہ نہیں سمجھتے ، تم بچے پیدا کرو اور کرتے چلے جاؤ ، و ه ی بے شک بھو کے رہیں گے ، وہ بیشک پیاسے رہیں گے ، وہ بے شک ننگے رہیں گے، لیکن جس وقت بتیس کروڑ بھوکے اور پیاسے اور ننگے اُٹھے، وہ بم کی طرح پھٹیں گے اور سارے ملک پر قبضہ کر لیں گے.کھاتے پیتے لوگ تو عیاشیاں کیا کرتے ہیں یہ بھو کے مرنے والے لوگ ہی ہیں جو قوموں کو تخت و تاج کا وارث بنایا کرتے ہیں.مسلمانوں کے اندر حرکت مـــانـی کے چوتھے معنے مفاصل یا جوڑ کے ہیں ۱۵ جوڑ سے حرکت پیدا ہوتی ہے، کمر کا اور بیداری پیدا کرنیکا ذریعہ جوڑ بند ہو جائے تو تم چل نہیں سکتے ،گھٹے کا جوڑ بند ہو جائے تو تم حرکت نہیں کر سکتے ، ہاتھ کا جوڑ بند ہو جائے تو تم کسی چیز کو ایک جگہ سے ہٹا کر دوسری جگہ پر نہیں رکھ سکتے ، گویا جو ڑ حرکت کا ایک ذریعہ ہوتا ہے قرآن کریم کہتا ہے کہ اس کی آیتیں مسلمانوں کے لئے مفاصل ثابت ہونگی ان کے اندر ایک حرکت اور بیداری پیدا کر دیں گی اور انہیں آنافا نا کہیں سے کہیں پہنچا دیں گی.یہ آٹھ خوبیاں اُس قانون کی بتائی گئی ہیں جو محمد رسول اللہ آٹھ خوبیوں والا کلام صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا اور جس کا اللہ تعالیٰ نے ا.دربار عام میں اعلان کیا.دُنیوی حکومتوں کی تعزیرات میں تو سزائیں ہی سزائیں ہوتی ہیں مگر یہ قانون بشارات پر بھی مشتمل ہے اور انذار پر بھی مشتمل ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہارے سامنے ایک ایسی چیز پیش کر رہے ہیں جو آٹھ خوبیاں اپنے اندر رکھنے والی ہے وہ اَحْسَنَ الْحَدِیثِ ہے وہ کتاب ہے وہ مُتَشَابِہ ہے یعنی فطرت کے مطابق ہے اور نیز پہلی کتابوں کی تعلیم کے مقابلہ میں برتر تعلیم دیتی ہے اور پھر وہ مَشَانِی ہے اور مَشَانِی کے چار معنے بتائے جاچکے ہیں گویا یہ آٹھ خوبیوں والا قانون ہے جس کے نفاذ کا ہم اپنے دیوانِ عام میں اعلان کرتے ہیں...تَقْشَعِرُّ الہی عظمت اور محبت کا پُر کیف نظارہ پھر فرماتا ہے تفصیرُ مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ثُمَّ تَلِينُ

Page 272

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۶ سیر روحانی (۵) جُلُودُهُمْ وَ قُلُوبُهُمْ إلى ذكر الله - یہ ایسی عجیب تعلیم ہے کہ جس وقت انسان اسے پڑھتا ہے تو پہلے اس کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وہ کانپنے لگ جاتا ہے مگر پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور اُس کے پیار کا مشاہدہ کرتا ہے تو اُسے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی سزائیں بھی محبت اور پیار کا رنگ رکھتی ہیں.وہ سزا دیتا ہے تب بھی پیار کے طور پر اور اگر ڈانٹتا ہے تب بھی پیار کے طور پر.جب مؤمن اس بات کو سوچتے ہیں تو تینین جُلُودُهُمْ وَ قُلُوبُهُمْ إِلى ذِكْرِ الله ان کی جلد میں نرم ہو جاتی ہیں اور ان کے دل اللہ تعالی کی طرف اس طرح کھچے چلے جاتے ہیں کہ وہ سید ھے خدا تعالیٰ کے دربار میں پہنچ جاتے ہیں اور اسے کہتے ہیں اے ہمارے رب ! تیری مار بھی پیاری ہے اور تیرا پیار بھی پیارا ہے.یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام کے دیوانِ عام سے کیا گیا ہے کیا دنیا کی کوئی حکومت اس اعلان کا مقابلہ کر سکتی ہے؟ - قانونِ الہی کی اتباع کرنے پھر وہ بتاتا ہے کہ جو لوگ ہمارے اس قانون پر عمل کریں گے اُن سے ہمارا کیا اور نہ کرنے والوں سے سلوک سلوک ہوگا فرماتا ہے قُلْ اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ، وَاللهُ غَفُورُ رحيم 14 دنیوی گورنمنٹیں دربار عام سے اعلان کرتی ہیں تو کہتی ہیں کہ دیکھو تم ہمارے قانون کی پابندی کرو گے تو جیل خانوں سے بچ جاؤ گے، تمہیں بڑے بڑے خطاب دیئے جائیں گے تمہیں زمین اور مال ملے گا اور ہم تمہاری حفاظت کریں گے.مگر یہاں ایک عجیب منظر دیکھنے میں آتا ہے کہ خدائی دیوانِ عام میں بادشاہ یہ اعلان کرتا نظر آتا ہے کہ اے لوگو! اگر تم ہمارے قانون کی پابندی نہیں کرو گے تب بھی تم حکومت کے منافع سے محروم نہیں کئے جاؤ گے فرماتا ہے محلا تُمِدُّ هَؤُلَاء وَهُؤلاء مِن عَطَاء رَبِّكَ وما كان عطار رتك مَحْظُورًا لا یعنی تم اگر کافر بھی ہو گئے تب بھی ہم تمہیں اپنے رزق سے محروم نہیں کریں گے اور تمہاری کوششوں کے نتائج پیدا کرتے چلے جائیں گے.یہ کتنا عظیم الشان فرق ہے جو دُنیوی حکومتوں اور الہی حکومت میں نظر آتا ہے.دُنیوی

Page 273

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۷ سیر روحانی (۵) حکومتیں اپنے قانون کے خلاف ورزی کرنیوالوں کو سزائیں دیتی ہیں اور انہیں جیل خانوں میں بند کر دیتی ہیں مگر خدائی گورنمنٹ یہ اعلان کرتی ہے کہ اگر تم ہمارے قانون کی کے ماننے سے انکار بھی کرو گے تب بھی ہم تمہیں رزق دیتے چلے جائیں گے اور تمہیں اُن فوائد سے محروم نہیں کریں گے جو ہماری حکومت سے سب لوگوں کو حاصل ہوتے ہیں.اور اگر تم ہمارے قوانین کو تسلیم کرو گے تو تم بادشاہ کے محبوب بن جاؤ گے فرماتا ہے قل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله اے ہمارے رسول ! تو لوگوں میں یہ اعلان کر دے کہ میں تو اس قرآن پر عمل کر کے اور اس کی تعلیم کو مان کر خدا تعالیٰ کا پیارا بن گیا ہوں اگر تم بھی چاہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے محبوب بنو تو تم میرے نقش قدم پر چل پڑو خدا تعالیٰ تم سے بھی محبت کرنے لگ جائے گا اور تمہیں بھی اپنا محبوب بنالے گا.دنیوی بادشاہوں کا طریق عمل دنیوی بادشاہ جب کسی قانون کا اعلان کرتے ہیں تو اس قانون کی فرمانبرداری کرنے والوں کو کبھی کوئی انعام نہیں ملتا.کیا تم نے کبھی دیکھا کہ کسی شخص کو اس لئے انعام ملا ہو کہ اُس نے چوری نہیں کی ، یا کسی شخص کو اس بات پر انعام ملا ہو کہ وہ سڑک کے بائیں طرف اپنا موٹر چلایا کرتا تھا ؟ ہاں یہ نظارہ دیکھنے میں ضرور آتا ہے کہ کسی کو ذیلدار بنا دیا گیا محض اس لئے کہ جب ڈپٹی صاحب دورے پر آتے ہیں تو وہ لوگوں کی مُرغیاں چرا چرا کر انہیں کھلاتا ہے.پھر جو خطاب ملتے ہیں اُن کا حقیقت کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا.خطاب ملتا ہے خان بہادر اور خان بہادر صاحب کی اپنی یہ حالت ہوتی ہے کہ اگر چوہا بھی چیں کرے تو اُن کی جان نکل جاتی ہے.گویا خطاب ملتے ہیں تو جھوٹے اور خطاب ملتے ہیں تو انصاف کے خلاف.نہ خطاب کا حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے اور نہ انصاف کے ساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے.جتنے خطاب لینے والے ہوتے ہیں اگر ان کے حالات پر غور کر کے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ انہیں خطاب محض اس وجہ سے دیئے گئے ہیں کہ وہ افسروں کو شکار کھیلاتے رہے ہیں یا مرغابیاں مار مار کر ان کے لئے لاتے رہے ہیں.

Page 274

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۸ سیر روحانی (۵) ایک ذیلدار کا واقعہ مجھے یاد ہے ہمارے ہاں ایک ڈپٹی کمشنر آیا وہ کچھ پاگل سا تھا مگر اُسے شکار کا بہت شوق تھا.ذیلدار صاحب اسے اپنے ساتھ شکار کے لئے لے گئے.چلتے چلتے اسے دور سے کچھ بطخیں نظر آئیں جو تالاب میں پھر رہی تھیں اس نے سمجھا کہ مرغابیاں ہیں ذیلدار سے کہنے لگا کہ دیکھو! وہ کیسی اچھی مرغابیاں ہیں.ذیلدار کو معلوم تھا کہ یہ مرغابیاں نہیں بطخیں ہیں مگر ڈپٹی کمشنر کے کہنے پر اُس نے بھی کہنا شروع کر دیا کہ بڑی اچھی مُرغابیاں ہیں.اُس نے فائر کیا جس سے ایک بطخ مرگئی.اب وہ شخص جس کی بطخ ماری گئی تھی وہ بھی ساتھ تھا مگر ڈر کے مارے وہ بھی اس کی تعریف کرتا چلا جاتا تھا اور کہتا جاتا تھا کہ صاحب! ایسی مرغابی تو بہت کم آتی ہے.کچھ دیر کے بعد وہ خود بھی سمجھ گیا کہ یہ مرغابی نہیں بلخ تھی اور اُس نے پانچ روپے نکال کر صبح والے کو دیئے کہ یہ لے لو مگر وہ بار بار یہی کہتا چلا جاتا تھا کہ آپ پانچ روپے کیوں دیتے ہیں یہ مرغابی ہی تھی.یہ تو خطاب لینے والوں کا حال تھا کہ اول تو جو انہیں خطاب ملتے تھے وہ انصاف کے خلاف ہوتے تھے یعنی محض خوشامد یا افسروں کی تعریفیں کرنے پر انہیں خطاب مل جاتے تھے اور پھر خطاب جھوٹے ہوتے تھے ان کا حقیقت کے ساتھ کوئی جوڑی نہیں ہوتا تھا.اسی طرح اگر زمین ملتی تھی تو وہ عارضی ہوتی تھی اور اگر مال ملتا تھا تو وہ کھویا جانے والا ہوتا تھا مگر یہاں یہ اعلان ہوتا ہے کہ اگر تم اس گورنر کی اطاعت کرو گے تو بادشاہ کے محبوب بن جاؤ گے فرماتا ہے قُل اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله کہ اگر تم خدا تعالیٰ کے محبوب بننا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو اور میری ’اتباع کے یہ معنے ہیں کہ جس شخص کی اتباع کرنی ہے وہ اِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ ١٨ کا مصداق ہے.تمام عظیم الشان اخلاق اور تمام اعلیٰ قسم کی خوبیاں اور کیریکٹر اس میں موجود ہیں.پس فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله کے یہ معنے ہوئے کہ تم بھی تمام اعلیٰ درجہ کے اخلاق اور خوبیاں اپنے اندر پیدا کرو، تب خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگ جائے گا.بغاوت کرنے والوں کے متعلق اعلان (۵) پھر دنیوی بادشاہ یہ بھی اعلان کیا کرتے ہیں کہ جو لوگ

Page 275

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۴۹ سیر روحانی (۵) بغاوت کریں گے اور حکومت کے احکام کی خلاف ورزی کریں گے اُن کو یہ یہ سزائیں دی جائیں گی.ہم دیکھتے ہیں کہ آیا اِس روحانی دربار عام میں بھی کوئی ایسا اعلان کیا گیا ہے یا نہیں؟ اس نقطہ نگاہ سے جب ہم اس دربارِ عام پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں باغیوں کے بارہ میں یہ اعلان سنائی دیتا ہے کہ لا يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُوا في البلادن متاع قَلِيلُ ثُمَّ مَا وَهُمْ جَهَنَّمُ ، وَ بِئْسَ الْمِهَادُن وا فرماتا ہے ہمارے دشمن دُنیوی طور پر بڑی بڑی طاقتیں رکھتے ہیں اور ہم نے ان کی طاقتیں چھینی بھی نہیں کیونکہ ہم نے کہدیا ہے کہ ملا تمدُّ هَؤُلَاء وَهَؤُلَاءِ مِنْ عَطَاء رَبِّكَ، وَمَا كَات عطاءُ رَبّكَ مَحْظُورًا.یعنی ہمارا قانون یہ ہے کہ ہم اس مادی دنیا میں مؤمنوں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں اور کافروں کی بھی مدد کیا کرتے ہیں لیکن باوجود اس کے ہمارا فیصلہ یہ ہے کہ ہم نے ان بغاوت کرنے والوں کو تباہ و برباد کر دینا ہے وہ ہماری مخالفت میں لوگوں کو بیشک اُکسائیں، بیشک ان کو اشتعال دلائیں ، بیشک ان کے خیالات کو بگاڑنے کی کوشش کریں نتیجہ یہی ہوگا کہ یہ مخالفت کر نیوالے مٹ جائیں گے اور دُنیا پر ہماری تعلیم غالب ہو کر رہے گی.مخالف تدابیر کر نیوالے اسی طرح فرماتا ہے وَ أَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ ايمانهم لَئِن جَاءَ هُمْ نَذِيرُ ليَكُونَنَّ ہلاک کئے جائیں گے آغدَى مِنْ إحْدَى الْأُمِّهِ فَلَمَّا جَاءَ هُمْ نذِيرُ ما زَادَهُمْ إِلَّا نُفُوران اِسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَ مَكْرَ الشييُّ ، وَلا يَحِيقُ المَكْرُ السَّيِّئُ إلا بأهله، فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الأَوَّلِينَ فَلَن تَجِدَ يسُنّتِ اللهِ تَبْدِيلاً : وَ لَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تحويلا ۲۰ یہ بڑے بڑے دشمن جو ہماری حکومت کے مخالف ہیں قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ اگر ان کے پاس خدا تعالیٰ کا کوئی رسول آ جائے تو وہ پہلی قوموں یعنی موسوی اور عیسوی سلسلہ سے بھی بہتر ہو جائیں کی گے فلما جاءَ هُم تذيرُ مَا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا مگر جب خدا تعالیٰ کا ایک نذیر ان کے کی پاس آ گیا تو اب یہ اس کی مخالفت پر آمادہ ہو گئے اور اس کی حکومت کا جو ا اُٹھانے کے

Page 276

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۰ سیر روحانی (۵) لئے تیار نہیں ہوتے کیونکہ انہوں نے نمبر داریاں سنبھالی ہوئی تھیں اور اعلیٰ اور بلند اخلاق کے عادی نہیں تھے.وَلا يَحِيقُ المَكْرُ السّيّئ إلا بأهله، مگر ہمیں اس بارہ میں کسی دوسرے کی مدد کی ضرورت نہیں بدی خود اُس کے سر پر پڑا کرتی ہے جو اس میں مبتلاء ہوتا ہے ہماری طاقت اس میں ہے کہ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ باتیں بتائی ہیں جو نہایت اعلیٰ درجہ کی ہیں اور جنہیں ہر فطرتِ صحیحہ قبول کرتی ہے ان کے لئے نہ کسی فوج کی ضرورت ہے نہ دشمن سے لڑائی کی ضرورت ہے یہ لوگ آپ ہی تباہ و برباد ہو جائیں گے.اسلام کی اشاعت اس کی اعلیٰ چنانچہ دیکھ لو اسلام نے تلوار کے زور سے فتح نہیں پائی بلکہ اسلام نے اس اعلیٰ تعلیم درجہ کی تعلیم کی وجہ سے ہوئی ہے کے ذریعہ صفت پائی ہے جو دلوں میں اتر جاتی تھی اور اخلاق میں ایک اعلیٰ درجہ کا تغیر پیدا کر دیتی تھی.ایک صحابی کہتے ہیں میرے مسلمان ہونے کی وجہ محض یہ ہوئی کہ میں اُس قوم میں مہمان ٹھہرا ہوا تھا جس نے غداری کرتے ہوئے مسلمانوں کے ستر قاری شہید کر دئیے تھے جب انہوں نے مسلمانوں پر حملہ کیا تو کچھ تو اونچے ٹیلے پر چڑھ گئے اور کچھ ان کے مقابلہ میں کھڑے رہے.چونکہ دشمن بہت بڑی تعداد میں تھا اور مسلمان بہت تھوڑے تھے اور وہ بھی نہتے اور بے سروسامان اس لئے انہوں نے ایک ایک کر کے تمام مسلمانوں کو شہید کر دیا.آخر میں صرف ایک صحابی رہ گئے جو ہجرت میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے ان کا نام عامر بن فہیر ہا تھا.بہت سے لوگوں نے مل کر ان کو پکڑ لیا اور ایک شخص نے زور سے نیز ہ ان کے سینہ میں مارا.نیزے کا لگنا تھا کہ اُن کی زبان سے بے اختیار یہ فقرہ نکلا کہ فُزَتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.جب میں نے ان کی زبان سے یہ فقرہ سنا تو میں حیران ہوا اور میں نے کہا یہ شخص اپنے رشتہ داروں سے دُور، اپنے بیوی بچوں سے دور، اتنی بڑی مصیبت میں مبتلاء ہوا اور نیزہ اِس کے سینہ میں مارا گیا مگر اس نے مرتے ہوئے اگر کچھ کہا تو

Page 277

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۱ سیر روحانی (۵) صرف یہ کہ " کعبہ کے رب کی قسم ! میں کامیاب ہو گیا.کیا یہ شخص پاگل تو نہیں؟ چنانچہ میں نے بعض اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے اور اس کے منہ سے ایسا فقرہ کیوں نکلا ؟ انہوں نے کہا تم نہیں جانتے یہ مسلمان لوگ واقعہ میں پاگل ہیں جب یہ خدا تعالیٰ کی راہ میں مرتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور انہوں نے کامیابی حاصل کر لی.میری طبیعت پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں ان لوگوں کا مرکز جا کر دیکھوں گا اور خود ان لوگوں کے مذہب کا مطالعہ کروں گا.چنانچہ میں مدینہ پہنچا اور مسلمان ہو گیا.صحابہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کا کہ ایک شخص کے سینہ میں نیزہ مارا جاتا ہے اور وہ وطن سے کوسوں دور ہے ، اُس کا کوئی عزیز اور رشتہ دار اس کے پاس نہیں اور اس کی زبان سے یہ نکلتا ہے کہ فُزْتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ اس کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ جب وہ یہ واقعہ سنایا کرتا اور فُزَتُ وَ رَبِّ الْكَعْبَةِ کے الفاظ پر پہنچتا تو اس واقعہ کی ہیبت کی وجہ سے یکدم اس کا جسم کانپنے لگ جاتا اور آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے اے تو اسلام اپنی خوبیوں کی وجہ سے پھیلا ہے زور سے نہیں.مسلمانوں کی تمام جنگیں مدافعانہ تھیں اللہ تعالیٰ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ کیا تم یہ خیال کرتے ہو کہ آسمان سے لشکر اُتریگا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو کامیاب کریگا؟ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ مسلمانوں کو لڑائیاں بھی لڑنی پڑیں مگر جتنی بھی لڑائیاں ہوئی ہیں ان میں ابتداء کفار کی طرف سے ہوئی ہے.کفار نے آپ حملہ کیا اور مسلمانوں کو ان کے دفاع کے لئے میدانِ جنگ میں اتر نا پڑا.پس سوال یہ نہیں کہ مسلمانوں نے جنگیں کی ہیں یا نہیں سوال یہ ہے کہ کیا اسلام نے یہ کہا تھا کہ اگر کفار کی طرف سے حملہ ہوا تب تم جیتو گے ورنہ نہیں ؟ اسلام نے تو یہ کہا تھا کہ میں خود جیتوں گا اور وہ اسی طرح جیتا کہ جو لوگ اسلامی تعلیم کا مطالعہ کرتے یا مسلمانوں کی قربانی کا نظارہ دیکھتے اُن کے دل مرعوب ہو جاتے اور وہ اسلامی تعلیم کے حُسن اور اس کی صداقت کا اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے.

Page 278

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۲ سیر روحانی (۵) کامیابی تو پوں کے ساتھ نہیں افسوس کہ آج کے مسلمان توپ و تفنگ کی طرف دیکھ رہے ہیں بجائے اس کے بلکہ قرآن کے ساتھ وابستہ ہے کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کریں، اخلاق فاضلہ پر زور دیں، دعا ، نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ کریں وہ یورپ کی طرف آنکھ اُٹھائے اِس اُمید میں بیٹھے ہوئے ہیں کہ کب یہ لوگ انہیں تو ہیں اور تلوار میں دیتے ہیں جن کے زور سے وہ دنیا کو فتح کریں.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی طرف نہیں دیکھتے وہ کافر کی تو پ اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے ہیں حالانکہ کامیابی تو پوں کے ساتھ نہیں بلکہ اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے.گفر کی مجموعی طاقت کے (۶) اب میں یہ بتا تا ہوں کہ طاقت مخالفانہ کے بارہ میں اس نے کیا حکم دیا ہے؟ طاقت مخالفانہ متعلق اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور انفرادی مخالفت یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں.مخالفوں اور باغیوں کے متعلق اُس نے جو حکم دیا ہے اس کا ذکر اوپر ہو چکا ہے اب کفر کی مجموعی طاقت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ فرمایا ہے اُس کا ذکر کیا جاتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُل جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ۲۲ یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو ان لوگوں سے کہہ دے کہ قرآن آ گیا اب گفر اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا.یہ کتنا عظیم الشان دعوئی ہے جو قرآن کریم نے پیش کیا ہے.کیا دنیا کی کوئی طاقت ایسی مثال پیش کر سکتی ہے؟ امریکہ اور انگلستان نے سائنس میں کتنی عظیم الشان ترقی کر لی ہے مگر کیا کوئی امریکن سائنسدان یا انگلستان کا مُقنن یہ کہہ سکتا ہے کہ انہوں نے ایسا مکمل اور جامع قانون تیار کر لیا ہے کہ ساری حکومتیں اس کی اتباع پر مجبور ہونگی.باوجود ایک بے مثال ترقی کر لینے کے امریکہ اور انگلستان ایسا دعوئی نہیں کر سکتے ، لیکن قرآن کریم تمام دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کرتا ہے کہ میرا قانون ایسا مکمل اور اتنا جامع ہے کہ قیامت تک یہ اپنی موجودہ شکل میں ہی قائم رہیگا.یہ ایسا دعویٰ ہے کہ اس کی مثال دنیا کی کسی حکومت میں نہیں مل سکتی قرآن کریم کہتا ہے جَاءَ الْحَقُ

Page 279

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۳ سیر روحانی (۵) حق آ گیا جس کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے ایسی حکومت بھیج دی ہے جس کے مقابلہ میں کوئی اور حکومت ٹھہر ہی نہیں سکتی.ایک شبہ کا ازالہ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ہم اس دعوی کو کیا کریں؟ قرآن کریم کے مقابلہ میں اور کئی حکومتیں ٹھہری ہوئی ہیں، ہند و موجود ہیں ، عیسائی موجود ہیں، زرتشتی موجود ہیں اور ان کی کتابیں بھی موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا دنیا میں آج اسلام پر عمل کیا جاتا ہے یا ہندو اور عیسائی اور زرتشتی مذہب پر عمل کیا جاتا ہے؟ کیا اسلام کے سوا دنیا میں کوئی ایک مذہب بھی ایسا ہے جس کے پیرو اپنے مذہب پر عمل کر رہے ہوں؟ وہ کہتے یہی ہیں کہ ہم عیسائیت پر عمل کرتے ہیں یا ہندو مذہب پر عمل کرتے ہیں یا زرتشتی مذہب پر عمل کرتے ہیں لیکن شروع سے لے کر آخر تک وہ اسلامی تعلیم کو اپنا رہے ہیں.ان کا عمل انجیل پر نہیں ، ان کا عمل ژنداو ستا پر نہیں ، ان کا عمل وید پر نہیں ، ان کا عمل اسلام پر ہے.چنانچہ دیکھ لو عیسائیت کی تعلیم کی رو سے شراب پینا جائز ہے خود حضرت مسیح ناصری نے بھی انجیل کے مطابق ( گو ہم مسلمان اس کے قائل نہیں ) شراب کا معجزہ دکھایا مگر آج سارے یورپ میں ایسی سوسائٹیاں بنی ہوئی ہیں جو اس بات پر زور دے رہی ہیں کہ شراب پینی بند کر دی جائے اور سارے یورپ کے ڈاکٹر شور مچا رہے ہیں کہ شراب ایک زہر ہے جس کا پینا انسانی جسم کے لئے مہلک ہے اس تمام جد و جہد میں کس مذہب کی فتح ہے؟ عیسائیت کی یا اسلام کی ؟ اسلام نے کہا جاء الحق حق آ گیا اب باطل اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا قرآن کریم نے شراب کو حرام قرار دیا تھا اب دنیا مجبور ہورہی ہے کہ شراب کو نا جائز قرار دے.قرآن کریم کی پیش کردہ توحید کی فتح پھر جب قرآن کریم آیا اُس وقت دنیا کے چپے چپے پر لوگوں نے بت بٹھائے ہوئے تھے مگر آج دنیا کا تعلیم یافتہ انسان بُت کے آگے سر جُھکانے کے لئے تیار نہیں.دنیا کے چپے چپے پر سے بُت اُٹھ گئے اور وہی تو حید دنیا میں قائم ہوگئی جو قرآن کریم نے پیش کی تھی.اسی طرح اور ہزاروں امور میں تعلیمات اسلامیہ کے فائق

Page 280

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۴ سیر روحانی (۵) ہونے کو پیش کیا جا سکتا ہے.لوگوں نے ابھی ان حقائق کو نہیں مانا کیونکہ كَافَّةً لِلنَّاس کا اسلامی تعلیم پر برتری کو تسلیم کرنا مسیح موعود کے زمانہ کے ساتھ وابستہ تھا اور اب یہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے شروع ہو چکا ہے لیکن اس حقیقت سے کوئی سمجھدار انسان انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام نے ہر معاملہ میں جو تعلیم پیش کی ہے اس کا مقابلہ دنیا کا کوئی اور مذہب نہیں کر سکتا.قضاء کے بارہ میں انصاف اور قضاء کو ہی لے لو.بادشاہ قاضی مقرر کرتے ہیں تو ان قاضیوں سے یہ امید رکھتے ہیں کہ ان کی خواہش اسلام کی شاندار تعلیم اور منشاء کے مطابق فیصلے کئے جائیں.آج بھی پاکستان میں یہ بحث شروع ہے کہ گورنر جنرل کسی قانون کے ماتحت آ سکتا ہے یا نہیں آ سکتا ؟ پاکستان کی دستور ساز کمیٹی نے جور پورٹ تیار کی ہے اور جسے رائے عامہ کے لئے مشتہر کیا گیا ہے اس میں ایک شق یہ رکھی گئی ہے کہ : - وو جب تک صد ر حکومت یا صدرصو بہ اپنے عہدہ پر فائز رہیں ، ان کے خلاف کسی قسم کی فوجداری نالش کسی عدالت میں دائر نہ ہونا چاہئے 66 اور نہ جاری رہنا چاہئے.حالانکہ اسلامی تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر نائش ہوئی.اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ پر نالش ہوئی اور وہ عدالت میں پیش ہوئے بلکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کو ہم معصوم سمجھتے ہیں بلکہ میرا یہ کہنا کہ ہم ان کو معصوم سمجھتے ہیں ایک بے وقوفی کا فقرہ ہے وہ معصوم تھا اور یقیناً تھا میرے سمجھنے یا نہ سمجھنے کا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ انسان جس کو خدا تعالیٰ نے اپنا گورنر جنرل مقرر کر کے بھیجا، وہ انسان جسے اس نے اس دنیا میں خلیفہ اللہ بنا کر بھیجا اور ایسا خلیفہ اللہ بنا کر بھیجا ہے جس پر اس نے وہ کامل قانون نازل کیا جس کے متعلق وہ خود کہتا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس قانون کی مثال تیار کرنے پر قادر نہیں ہو سکتی اور ایسا آئین نازل کیا جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے، اتنے بلند ترین مقام کا انسان اپنی وفات کے قریب صحابہ سے کہتا ہے کہ

Page 281

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۵ سیر روحانی (۵) خدا تعالیٰ نے مجھے دنیا میں انصاف قائم کرنے کے لئے بھیجا تھا میں نے اس دنیا میں اُس کی رضا اور خوشنودی کے لئے اُس کے احکام کو جاری کیا ہے لیکن ممکن ہے اس جد و جہد میں مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہوگئی ہو اور میں نے دوسرے کا حق مارلیا ہواے میرے صحابہ ؟ تمہاری وفاداری یہ ہوگی کہ اگر میں نے غلطی سے کسی کا حق مارلیا ہے تو وہ اپنا بدلہ آج مجھ سے لے لے تا قیامت کے دن خدا تعالیٰ مجھ سے اس غلطی کا بدلہ نہ لے.کیا دنیا کا کوئی گورنر جنرل ایسا ہے؟ کیا دنیا میں کوئی ماں کا بیٹا ایسا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا یا آپ کے برابر ہی ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہو سکتا ہے مجھ سے کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور اگر ایسا ہو گیا ہو تو مجھ سے بدلہ لے سکتے ہو.تم سمجھ سکتے ہو کہ وہ عشاق ، وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درد ناک منظر فریفتہ اور شیدائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں کی خاک بھی اپنے لئے اکسیر سمجھتے تھے اُن کا اس فقرہ کو سنکر کیا حال ہو ا ہوگا اور اُن کے دل پر اُس وقت کیا گزری ہو گی.تم اپنی حیثیت پر قیاس کرتے ہوئے اندازہ لگا سکتے ہو کہ ان کے دل پھٹ گئے ہوں گے ، ان کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا ہوگا کہ ہمارا وہ آقا جوگند تلوار سے بھی اگر ہماری گردنیں کاٹ ڈالے تو ہم یہ سمجھیں گے کہ اس سے زیادہ ہم پر کوئی احسان نہیں وہ کہتا ہے کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لو.مجمع پر خاموشی طاری تھی کہ ایک صحابی اُٹھے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! مجھے آپ سے ایک تکلیف پہنچی ہے فلاں لڑائی کے موقع پر جب آپ صفیں ٹھیک کر رہے تھے ایک صف کو چیر کر آپ آگے آئے تو اس وقت آپ کی گہنی میری پیٹھ پرلگی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مجھے گہنی مار کر اس کا بدلہ لے لو.تم سمجھ سکتے ہو کہ اُس وقت صحابہ کرام کا کیا حال ہوا ہوگا.یقیناً اُن کی تلواریں میانوں سے نکل رہی ہوں گی یقینا وہ اُس کی تکہ بوٹی کر دینے کے لئے تیار ہوں گے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رُعب انہیں کچھ کرنے نہیں دیتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ اور مجھے کہنی مارلو.اس نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! جب آپ کی گہنی مجھے لگی تھی تو اس وقت میرے جسم پر پورا کپڑا

Page 282

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۶ سیر روحانی (۵) نہیں تھا اور میری پیٹھ منگی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے فرمایا کہ میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو تا کہ میری نگی پیٹھ پر یہ شخص گہنی مار کر مجھ سے بدلہ لے لے.صحابہ کرام کا دل تو اُس وقت یہی چاہتا ہوگا کہ اس شخص کی زبان کاٹ ڈالیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے نتیجہ میں وہ مجبور تھے.انہوں نے آپ کی پیٹھ نگی کی اور اُسے کہا کہ وہ آئے اور کہنی مارلے.وہ شخص آگے بڑھا اُس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور اُس نے ادب کے ساتھ اپنا سر جھکاتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کو چوم لیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلمنے فرمایا یہ کیا؟ اس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کس کم بخت کے دل میں یہ خیال بھی آسکتا تھا کہ وہ آپکو کہنی مارے، يَا رَسُولَ الله ! جب آپ نے ذکر فرمایا کہ میری موت اب قریب ہے تو میرے دل میں خیال آیا کہ میں اس بہانے سے آپ کو پیار تو کرلوں.۲۳ اسلامی کانسٹی ٹیوشن یہ ہے اسلامی کانسٹی ٹیوشن.بے شک اسلامی قانون کے ماتحت خلیفہ یا امام پر اپنے قانون کے نفاذ میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا چنانچہ تاریخ میں اس امر کی کوئی مثال نہیں ملے گی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس لئے کوئی مقدمہ دائر کیا گیا ہو کہ فلاں گورنر کیوں بنایا گیا ؟ یا فلاں سکیم کیوں بنائی گئی ؟ لیکن ذاتی معاملات میں امام یا خلیفہ پر نالش کی جاسکتی ہے اور اس کے بغیر دنیا میں کہیں انصاف قائم نہیں ہوسکتا.اسی طرح اسلام اس امر پر بھی زور دیتا ہے کہ دلیل دے کر کسی شخص کو مجرم بنایا جائے یہ اسلامی کانسٹی ٹیوشن کی ہی خوبی ہے کہ وہ دوسرے کو دلیل کی بناء پر مجرم بنانے کا فیصلہ کرتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے ليفلك مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيَى مَن حي عن بَينَةٍ وَإِنَّ اللهَ لَسَمِيْعُ عَلِيم ۲۴ یعنی ہم نے قرآن کریم نازل کر دیا اب دنیا میں ہمارا قانون یہ ہوگا کہ وہی شخص زندہ رکھا جائیگا جس کو دلیل زندہ رکھے گی اور وہی شخص تباہ ہو گا جس کو دلیل تباہ کرے گی گویا غلبہ بھی دلیل کے ساتھ ہوگا اور شکس و

Page 283

انوار العلوم جلد ۲۲ بھی دلیل کے ساتھ ہوگی.۲۵۷ سیر روحانی (۵) غرض اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ جاءَ الْحَقُّ دلائل کے زور سے گھر کی شکست وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ b زهوگان هم تلوار کے وار سے نہیں بلکہ دلیل کے زور سے کفر کو مٹائیں گے اور گفر اس لئے شکست کھائے گا کہ صداقت روشن ہو جائے گی اور جب صداقت روشن ہو جائے تو گفر اس کے مقابلہ میں نہیں ٹھہر سکتا جیسے دنیا میں جب سورج چڑھتا ہے تو ڈنڈے مار مار کر ظلمت کو دُور نہیں کیا جاتا بلکہ سورج کی شعاعیں ظلمت کو آپ ہی آپ دور کر دیتی ہیں.قیدیوں کی آزادی کے اعلانات (۷) پھر دنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے بعض دفعہ اعلانات کئے جاتے ہیں کہ بادشاہ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا ہے اس خوشی میں اتنے قیدی رہا کئے جاتے ہیں یا فلاں شہزادہ کی شادی ہوئی ہے اس خوشی میں اتنے مجرموں کو رہا کیا جاتا ہے یا فلاں جشن مسرت منایا جا رہا ہے ، اِس خوشی میں اتنے قیدی آزاد کئے جاتے ہیں.میں نے سوچا کہ کیا ہمارے دربار میں بھی کوئی قیدی آزاد کئے جاتے ہیں یا نہیں؟ جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ دُنیوی گورنمنٹوں کی طرف سے تو صرف بعض قیدی چھوڑے جاتے ہیں لیکن اس دربار عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا گورنر جنرل مقرر کرتے ہیں اور اسے اختیار دیتے ہیں کہ وہ ہماری طرف سے تمام گنہگاروں اور قیدیوں کی آزادی کا اعلان کر دے وہ فرماتا ہے قُل يعِبَادِي الذين آشرفُوْا عَلَ أنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللهِ إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وَ أَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا له مِن قَبْلِ أنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ ۲۵ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے تم کو اس دنیا کا گورنر جنرل مقرر فرمایا ہے تم جاؤ اور ہماری طرف سے یہ اعلان کر دو کہ اے میرے بندو! الّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى انفسهم جنہوں نے گناہوں کو کمال تک پہنچا دیا یعنی کوئی گناہ نہیں جو انہوں نے چھوڑا

Page 284

انوار العلوم جلد ۲۲ ہو ۲۵۸ سیر روحانی (۵) لا تقنطوا من رحمة الله تمہارا با دشاہ حقیقی جس نے مجھے گورنر جنرل مقرر کر کے بھیجا ہے اُس کی رحمت بہت وسیع ہے پس تمہارے لئے اُس کی رحمت سے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا گورنمنٹیں تو یہ اعلان کرتی ہیں کہ دورانی مہینے یا چھ مہینے یا سال تک کی جن لوگوں کو سزا دی گئی ہے اُن کی قید معاف کی جاتی ہے یا وہ مجرم جو اخلاقی ہیں اُن کو معاف کیا جاتا ہے یا بعض پولیٹیکل مجرموں کو معاف کیا جاتا ہے مگر ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ تمہارا خدا تمام قسم کے گناہوں کو چھوٹے سے چھوٹے گناہ سے لیکر بڑے سے بڑے گناہ تک خواہ وہ اخلاقی ہوں یا مذہبی ہوں یا سیاسی ہوں سب کو معاف کر سکتا ہے پس تمہارے لئے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.یہ کتنا عظیم الشان اعلان ہے جو اسلام نے دنیا کے سامنے کیا ہے.کیا تو بہ سے گناہ بڑھتے عیسائی کہتے ہیں کہ اسلام نے گناہ بڑھا دیا ہے کیونکہ اسلام اس تعلیم کا حامل ہے کہ تو بہ سے انسان کے گناہ ہیں یا کم ہوتے ہیں؟ معاف ہو جاتے ہیں.حالانکہ عیسائیت خود کہتی ہے.کہ خدا محبت ہے اور عیسائیت خود کہتی ہے کہ محبت سے دل صاف ہوتے ہیں.جب محبت اور پیار سے دل صاف ہوتا ہے تو تو بہ سے گناہ کس طرح بڑھ سکتا ہے؟ احادیث میں آتا ہے قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے ایک مجرم پیش ہو گا اُس سے کچھ سوالات کئے جائیں گے جن کا وہ جواب نہیں دے سکے گا مگر آخر اُس کے دل کی کسی مخفی نیکی کی وجہ سے خدا تعالیٰ اسے معاف کر دیگا اور اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! میرے اس بندے نے فلاں گناہ کیا تھا اُس کے بدلہ میں اسے یہ انعام ملے.اس سے فلاں قصور سرزد ہو ا تھا اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دیا جائے.مگر اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کا ذکر نہیں کرے گا صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کے ذکر پر ہی اکتفا کرے گا.جب اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے کہے گا کہ دیکھو! اس نے فلاں موقع پر پتھر مارا تھا اس کے بدلہ میں اسے یہ انعام دو.اس نے فلاں گالی دی تھی اس کے بدلہ میں یہ انعام دو.اور اللہ تعالیٰ اس کے بعد خاموش ہو جائیگا تو وہ شخص ادب کے ساتھ کہے گا کہ

Page 285

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۵۹ سیر روحانی (۵) حضور! میری ایک عرض ہے میرے سارے گناہ ابھی آپ نے بیان نہیں کئے صرف چھوٹے چھوٹے گناہوں کا آپ نے ذکر فرمایا ہے بڑے بڑے گناہ تو ابھی رہتے ہیں.۲۶ غور کرو ہما را خدا کتنی محبت کرنے والا ہے اور اس کی درگاہ کتنی پیاری ہے وہ تو دل کی صفائی چاہتا ہے اُسے مارنے اور سزا دینے سے کوئی دلچسپی نہیں.تم اپنے دل کو صاف کر لو تو تمہارے تمام گناہ اللہ تعالیٰ معاف کر دیگا اور اس بات کی ذرا بھی پرواہ نہیں کریگا کہ وہ گناہ کتنے ہیبت ناک تھے.مصیبت زدوں کی امداد کے اعلانات پھر کئی مصیبت زدہ ہوتے ہیں ان کے لئے بھی دربار عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم تمہیں اس اس رنگ میں مددد دیں گے مثلاً گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو گورنمنٹ نے یہ اعلان کیا کہ ہم زمینداروں کو بیج مہیا کر کے دیں گے لیکن ساتھ ہی اس نے یہ کہہ دیا کہ یہ بطور تقاوی ہو گا اور اس پر تمہیں اتنا سو د دینا پڑے گا.غرض گورنمنٹیں نا گہانی مصائب اور آفات کے مواقع پر مصیبت زدوں کی ہمیشہ مدد کرتی ہیں مگر قسم قسم کی تدابیر سے بجائے کچھ دینے کے خود فائدہ اُٹھا لیتی ہیں.پھر اگر انہیں یہ پتہ لگ جائے کہ فلاں شخص جو امداد کے لئے آیا ہے وہ مثلاً باغی ہے یا باغی رہ چکا ہے تو وہ اُس کی امداد کے لئے اُس وقت تک تیار نہیں ہوتیں جب تک وہ اُن سے معافی نہ مانگے اور اس بات کا اقرار نہ کرے کہ آئندہ وہ ہر قسم کی بغاوت سے مجتنب رہے گا.اخباروں والے ہی جب گورنمنٹ کے خلاف کوئی مضمون لکھتے ہیں اور وہ پکڑے جاتے ہیں تو پریس والوں کو یہ لکھ کر دینا پڑتا ہے کہ آئندہ وہ احتیاط سے کام لیں گے.سیاسی مجرم پکڑے جاتے ہیں تو وہ بھی جب تک گورنمنٹ کو یہ لکھ کر نہ دیں کہ ہم آئندہ محتاط رہیں گے اور گورنمنٹ کے خلاف کسی کارروائی میں حصہ نہیں لیں گے اُس وقت تک انہیں رہا نہیں کیا جاتا.البی دربار عام سے ایک عجیب اعلان لیکن اس در بار عام سے میں نے ایک عجیب اعلان ہوتے دیکھا،

Page 286

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۰ سیر روحانی (۵) میں نے سنا کہ اس دربار عام میں یہ اعلان کیا جاتا ہے قُل مَن يُنَجِّيْكُمْ من ظُلمتِ البَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً لَيْن انْجِينَا مِن هذه لنَكُونَنَّ مِن السكرين قُلِ اللهُ يُنيكُم مِّنْهَا وَمِن كُلِّ كَرْبِ ثُمَّ انْتُمْ تُشْرِكُون فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو دنیا میں اعلان کر اور لوگوں سے کہ کہ تمہارا خدا ہر مصیبت میں تمہاری مدد کرنے کے لئے تیار ہے.فرماتا ہے کون ہے جو تمہیں سمندر کی مصیبتوں اور خشکی کی مصیبتوں سے نجات دلاتا ہے؟ جب مصیبتیں آتی ہیں تَدْعُونَهُ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً تم روتے ہوئے دعائیں کرتے ہو کہ وہ کی مصیبتیں تم سے ٹل جائیں مگر چونکہ تم اپنی قوم کو نہیں چھوڑ سکتے اس لئے تم دعا ئیں چوری چوری کرتے ہو ا ونچی آواز سے نہیں کرتے تا ایسا نہ ہو کہ تمہاری قوم یہ سمجھ لے کہ اب تم بیٹوں کو چھوڑ نے لگے ہو اور تم بار بار یہ کہتے ہو کہ حضور ! اب ہم کو چھوڑ دیجئے تو ہم تو حید پر ایسا عمل کریں گے اور آپ کی ایسی فرمانبرداری اور اطاعت کریں گے کہ آپ بھی ہم پر اقو ہو جاہیں گے.فرماتا ہے قُلِ اللهُ يُنْجِيكُم مِّنْهَا وَ مِن كُلِّ كَرْبِ تُو کہہ دے کہ خدا تعالیٰ تم کو اس مصیبت سے بھی بچائے گا اور آئندہ آنے والی مصیبتوں سے بھی بچائے گا مگر تم نے بھی یہ بھی سوچا ہے کہ آج تو تم یہ کہ رہے ہو کہ ہم تو حید پر ایمان رکھیں نے مگر گل اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے بعد تم پھر شرک میں مبتلاء ہو جاؤ گے.لوگ بعض دفعہ سچے دل سے تو بہ کرتے ہیں مگر پھر اپنے نفس کی کمزوری کی وجہ سے گناہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں مگر یہاں اُن کی اِس کیفیت کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ یہ جانتے ہیں کہ ہم آج تو تو بہ کرتے ہیں مگر گل جھوٹ بولنا شروع کر دیں گے.آج تو ہم تو بہ کر رہے ہیں مگر کل پھر شرک میں ملوث ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ بھی اُن کی اِس حالت کو جانتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ منافقت سے کام لے رہے ہیں ، مگر اُس کا رحم بے انتہاء وسیع ہے وہ کہتا ہے اگر گل یہ شرک کریں گے تو دیکھا جائے گا اس وقت تو یہ تو بہ کر رہے ہیں چلو ان کو معاف کر دو.کیا دنیا کی کوئی ایسی حکومت ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے مجرموں کو اس طرح معاف کر دے؟

Page 287

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۱ سیر روحانی (۵) نظام آسمانی میں دخل (۸) پھر نظام سماوی میں دخل دینے والے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: - إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاءَ دینے والوں سے سلوک الدُّنْيَا بزينة الكواكب وحفظا من كل شَيْطَنٍ مارين لا يَسْمَعُونَ إِلَى الْمَلا الأعلى ويُقَدِّنُونَ مِنْ كُلِّ جَانِبِ ) دحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ واصِبُ إلَّا مَن خَطِفٌ الْخَطْفَةَ فَاتْبَعَهُ شِهَابٌ نَاقِب فرماتا ہے بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو قانون شکنی کی کوشش کرتے ہیں وہ قانون کو بگاڑ کر اس کی اصل شکل کو مسخ کر دیتے ہیں اور اس طرح قانون کی غرض کو ضائع کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمارے اس قانون کے خلاف بھی لوگ کوششیں کریں گے اور اس کو بگاڑنے کے لئے ہر قسم کی تدابیر سے کام لیں گے مگر ہم تمہیں پہلے سے بتا دیتے ہیں کہ ہمارے قانون کو کوئی بگاڑ نہیں سکتا کیونکہ ہم نے اپنے روحانی آسمان کو کواکب کے ساتھ ا مزین کیا ہے.اس جگہ روحانی آسمان سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور کواکب سے مراد صحابہ کرام کی جماعت ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی ایسے رنگ میں حفاظت کی کہ جس کی مثال دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں مل سکتی.اسی حقیقت کی طرف رسول کریم صلی اللہ سماء روحانی کی کواکب سے حفاظت علیہ وسلم نے اپنی اس حدیث میں اشارہ فرمایا ہے کہ اَصْحَابِيْ كَالنُّجُومِ بِاتِهِمُ اقْتَدَيْتُمُ اهْتَدَيْتُمْ ۲۹ میرے سب صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کے پیچھے بھی چلو گے ہدایت پا جاؤ گے.پس ستارے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنا زَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِزِينَةِ الكوار کب یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو سماء دنیا ہے اس کی حفاظت کے لئے ہم نے کو اکب مقرر کر دیئے ہیں.اگر کوئی شخص اس کے لائے ہوئے قانون کو بگاڑنے کی کوشش کرے گا تو یہ ستارے اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور اس کے ہاتھوں کو شل کر دیں گے.چنا نچہ دیکھ لو قرآن کریم کے خلاف دشمنانِ اسلام

Page 288

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۲ سیر روحانی (۵) نے کس قدر منصوبے کئے اور کس طرح اسلام کو مٹانے کے لئے انہوں نے اپنی کوششیں صرف کیں مگر پھر کس طرح صحابہ کرام نے اس دین کی حفاظت کی اور اپنی جانیں قربان کر کے دنیا میں اس کو قائم کیا.مگر فرماتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئیگا جب مسلمانوں میں غفلت اور سستی پیدا ہو جائے گی اور لوگ پھر اس دین کو بگاڑنے کی کوشش کریں گے.جب دنیا میں وہ وقت آئے گا کہ مسلمان سو جائے گا ،صحابہ کرام فوت ہو جائیں گے اور اسلام کو مٹانے والے لوگ پیدا ہو جائیں گے فاتْبَعَهُ شِهَابٌ نَاقِب تو اُس وقت تو خدا تعالیٰ ایک شہاب پیدا کر یگا جو آسمان سے گرے گا اور ایسے لوگوں کو کچل کر رکھ دے یعنی مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام ) کا ظہور ہوگا اور اسلام کو دوبارہ زندہ کیا جائے گا.حکومتوں کی طرف سے تعلیم کا انتظام (۹) پھر دنیا میں جو حکومتیں قائم ہوتی ہیں وہ اس بات کی کوشش کیا کرتی ہیں کہ مدر سے جاری کریں ، سکول اور کالج کھولیں اور رعایا کی اعلیٰ تعلیم کا انتظام کریں.اور تو اور معمولی معمولی ریاستوں میں بھی لوگوں کی تعلیم کا خیال رکھا جاتا ہے اور بعض دفعہ ان کی طرف سے ایسا اعلان سُننے میں آجاتا ہے کہ ہم اپنی رعایا کے بڑے خیر خواہ ہیں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ریاست میں ایک مڈل سکول جاری کیا جائے مگر اسلام جس حکومت کو قائم کرتا ہے اس کا رنگ بالکل اور ہے اور اس کی تعلیم کا دستور بالکل نرالا ہے.سکول میں آخر وہی جائے گا جو فیس دے سکتا ہے، جو کتا ہیں خرید سکتا ہے ، جو تعلیمی اخراجات کو برداشت کر سکتا ہے، جو مضبوط قومی اور اچھا دماغ رکھتا ہے مگر اس دربار عام سے یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم علوم روحانیہ کی جو یونیورسٹی قائم کر رہے ہیں اس کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے تمہیں گھر سے نکلنے کی بھی ضرورت نہیں ،تمہیں چار پائی سے بھی اُٹھنے کی ضرورت نہیں، تمہیں ہاتھ ہلانے کی بھی ضرورت نہیں بلکہ والَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا، وَإِنَّ اللهَ لَمَعَ الْمُحْسنين ٣٠ اور وہ لوگ جو اپنے دل میں ہمارا عشق رکھیں گے، جو ہماری طرف محبت اور پیار کے ساتھ رجوع کریں گے ہم اپنے علم کے دروازے اُن پر کھول دیں گے، نہ اس میں کتابیں خریدنے کی

Page 289

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۳ سیر روحانی (۵) ضرورت ہے نہ قلم اور دوات کی ضرورت ہے، نہ کاغذ کی ضرورت ہے نہ مدرسوں کی ضرورت ہے نہ محنت و خوشامد کی ضرورت ہے، نہ فیس دینے کی ضرورت ہے نہ گھر سے باہر جانے کی ضرورت ہے.ہر دل میں ایک یونیورسٹی بنا دی گئی ہے، ہر قلب میں علوم کے چشمے پھوڑ دیئے گئے ہیں.تمہارا کام صرف اتنا ہے کہ تم ہماری طرف متوجہ ہو کر یہ کہو کہ الہی ! مجھے فلاں فلاں چیز کی ضرورت ہے اور ہم وہ چیزیں تمہیں دے دیں گے.ایک بزرگ کا واقعہ ایک بزرگ کا واقعہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ اُن کی طرف سرکاری سمن آیا جس میں یہ لکھا تھا کہ آپ پر بعض لوگوں کی طرف سے ایک الزام لگایا گیا ہے اس کی جواب دہی کے لئے آپ فوراً حکومت کے سامنے حاضر ہوں.وہ یہ سُن کر حیران رہ گئے کیونکہ وہ ہمیشہ ذکرِ الہی میں مشغول رہتے تھے مگر چونکہ سرکاری سمن تھا وہ چل پڑے.دس میں میل گئے ہوں گے کہ آندھی آئی، اندھیرا چھا گیا، آسمان پر بادل امڈ آئے اور بارش شروع ہوگئی ، وہ اُس وقت ایک جنگل میں سے گزر رہے تھے جس میں دُور دُور تک آبادی کا کوئی نشان تک نہ تھا.صرف چند جھونپڑیاں اُس جنگل میں نظر آئیں وہ ایک جھونپڑی کے قریب پہنچے اور آواز دی کہ اگر اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.اندر سے آواز آئی کہ آ جائیے.انہوں نے گھوڑا باہر باندھا اور اندر چلے گئے.دیکھا تو ایک اپاہج شخص چار پائی پر پڑا ہے اُس نے محبت اور پیار کے ساتھ انہیں اپنے پاس بٹھا لیا اور پوچھا کہ آپ کا کیا نام ہے اور آپ کس جگہ سے تشریف لا رہے ہیں؟ انہوں نے اپنا نام بتایا اور ساتھ ہی کہا کہ بادشاہ کی طرف سے مجھے ایک سمن پہنچا ہے جس کی تعمیل کے لئے میں جا رہا ہوں اور میں حیران ہوں کہ مجھے یہ یمن کیوں آیا کیونکہ میں نے کبھی دُنیوی جھگڑوں میں دخل نہیں دیا.وہ یہ واقعہ سُن کر کہنے لگا کہ آپ گھبرائیں نہیں ، یہ سامان اللہ تعالیٰ نے آپ کو میرے پاس پہنچانے کے لئے کیا ہے.میں ا پانچ ہوں ، رات دن چار پائی پر پڑا رہتا ہوں، مجھے میں چلنے کی طاقت نہیں لیکن میں نے اپنے دوستوں سے آپ کا کئی بار ذکر سُنا اور آپ کی بزرگی کی شہرت میرے کانوں تک پہنچی.میں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کیا کرتا تھا کہ یا اللہ ! قسمت والے تو وہاں چلے

Page 290

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۴ سیر روحانی (۵) جاتے ہیں میں غریب مسکین اور عاجز انسان اس بزرگ کے قدموں تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں تو اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا فرما کہ میری ان سے ملاقات ہو جائے.میں سمجھتا ہوں کہ اس سمن کے بہانے اللہ تعالیٰ آپ کو محض میرے لئے یہاں لایا ہے.ابھی وہ یہ باتیں ہی کر رہے تھے کہ باہر سے آواز آئی بارش ہو رہی ہے اگر اجازت ہو تو اندر آ جاؤں.انہوں نے دروازہ کھولا اور ایک شخص اندر آیا.یہ سرکاری پیادہ تھا.انہوں نے اس سے پوچھا کہ آپ اس وقت کہاں جا رہے ہیں؟ وہ کہنے لگا بادشاہ کی طرف سے مجھے حکم ملا ہے کہ فلاں بزرگ کے پاس جاؤں اور اُن سے کہوں کہ آپ کو بلانے میں غلطی ہو گئی ہے دراصل وہ کسی اور کے نام سمن جاری ہونا چاہئے تھا مگر نام کی مشابہت کی وجہ سے وہ آپ کے نام جاری ہو گیا اس لئے آپ کے آنے کی ضرورت نہیں.یہ بات سُن کر وہ اپانج مسکرایا اور اُس نے کہا دیکھا میں نے نہیں کہا تھا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ محض میرے لئے یہاں لایا ہے سمن محض ایک ذریعہ تھا جس کی وجہ سے آپ میرے پاس پہنچے یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمائی ہے کہ والذینَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُم سبلنا، جو لوگ ہم میں ہو کر اور ہم سے مدد مانگتے ہوئے اپنے مقاصد کے لئے جد و جہد صلی کرتے ہیں ہم اس مقصد کے حصول کے لئے ان پر دروازے کھول دیتے ہیں.رؤیا و کشوف میں رسول کریم دیکھو! رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں اور اب آپ کے اور ہمارے درمیان چودہ اللہ علیہ وسلم کی زیارت سوسال کا لمبا عرصہ حائل ہو چکا ہے.صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ فضیلت حاصل تھی کہ انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور آپ کی باتوں کو اپنے کانوں سے سُنا لیکن عشق ہمارے دلوں میں بھی گد گدیاں پیدا کرتا ہے.ہم زمانہ کے لحاظ سے پیچھے ہیں لیکن عشق کے لحاظ سے پیچھے نہیں چنانچہ باوجود اس کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ پر صدیاں گزر چکی ہیں پھر بھی خدا تعالیٰ ہمیں خوابوں اور کشوف کے ذریعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار تک پہنچا دیتا ہے اور ہم بھی اس کیف اور سرور سے اپنے عشق کے مطابق حصہ پالیتے ہیں جس کیف اور

Page 291

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۵ سیر روحانی (۵) سرور سے صحابہ کرام نے حصہ پایا.خود میں نے متعدد بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی اور کئی دفعہ تو آپ ایسی محبت سے آئے ہیں کہ اسے دیکھ کر تمام جسمانی کوفت دُور ہو جاتی رہی ہے.جن دنوں مصری فتنہ زوروں پر تھا میں ایک رات سخت بے قراری کی حالت میں اپنی رپائی پر کوٹھا تھا اور مجھے سمجھ نہیں آتا تھا کہ میں اس کا کیا علاج کروں.میں اسی حالت میں تھا کہ یکدم جاگتے جاگتے میں نے دیکھا کہ ایک فرشتہ بچوں کی طرح دوڑتا ہوا آیا اور وہ میرے کندھے پلا کر کہتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں یہ سنکر میرے دل میں عجیب کیفیت ہوگئی کہ میرے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی حالت ہے کہ آپ میری تکلیف کا حال سُن کر برداشت نہیں کر سکے اور آپ خود میری دلجوئی کے لئے تشریف لائے ہیں.تب میں نے کہا یہ فتنہ لغو ہے اور میں آرام سے سو گیا.غرض اللہ تعالیٰ کے دروازے ہر شخص کے لئے کھلے ہیں اور جو بھی چاہے وہ ان دروازوں سے گزر کر اپنے مقصد کو حاصل کر سکتا ہے.روحانی اور مادی علوم یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو دیدار الہی کے رستوں کا ذکر ہے ظاہری اور باطنی علوم کے عطا کئے کے متلاشیوں کو خوشخبری جانے کا اللہ تعالٰی نے کہاں وعدہ کیا ہے؟ سو یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف روحانی علوم کے متلاشیوں کو ہی سیر نہیں کیا بلکہ وہ علوم جسمانی اور روحانی دونوں کے متلاشیوں کو خوشخبری دیتا ہے کہ میرے دربار میں آؤ اور اپنے دامن کو گوہر مقصود سے بھر لو وہ فرماتا ہے وَهَدِّينَهُ التَّجْدَين اسے ہم نے انسان کے لئے دونوں علوم کے راستے کھول دیئے ہیں.ہم نے خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے اور ہم نے علومِ جسمانی میں کمال حاصل کرنے کا رستہ بھی اس کے لئے کھول رکھا ہے.یہ الگ سوال ہے کہ دنیا میں کتنے لوگ ہیں جو اس راستہ پر چل کر علوم حاصل کرتے ہیں.اصل چیز یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے راستہ کھول دیا ہے اور ہر انسان کے لئے ان علوم

Page 292

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۶ سیر روحانی (۵) کے حاصل کرنے کا موقع موجود ہے اگر وہ حاصل نہیں کرتے تو اس میں ان کا اپنا قصور ہے.دنیا میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ سب لوگ کتابیں ایک جیسی پڑھتے ہیں یہ نہیں ہوتا کہ سکولوں اور کالجوں میں بعض لڑکوں کو اور کتابیں پڑھائی جاتی ہوں اور بعض کو اور.مگر ایک تو سائنس میں ترقی کرتے کرتے انتہائی کمال حاصل کر لیتا ہے اور دوسرا ابھی سائنس کے دروازے پر ہی بیٹھا ہوتا ہے.ایک اپنی زندگی میں سینکڑوں مفید ایجادات کر لیتا ہے اور دنیا میں چاروں طرف شور مچ جاتا ہے کہ ایڈیسن بڑا موجد ہے مگر دوسرا کوئی ایک چیز بھی ایجاد نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ نے هَدَيْنَهُ التَّجْدَيْنِ میں جس حقیقت کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے قابلیتیں تمام انسانوں میں پیدا کر دی گئی ہیں اگر وہ ان قابلیتوں سے کام لیں تو وہ علومِ ظاہری اور باطنی دونوں میں کمال حاصل کر سکتے ہیں.لیکن اگر کوئی اپنی قابلیت سے کام نہ لے تو اس میں خدا تعالیٰ کا قصور نہیں.جیسے یو نیورسٹی ہر طالب علم کے لئے اپنے دروازے کھول دیتی ہے لیکن یو نیورسٹی کا ہر آدمی آئین سٹائن نہیں بنتا، یونیورسٹی کا ہر آدمی نیوٹن نہیں بنتا.آئین سٹائن اور نیوٹن وہی بنتا ہے جو اپنی دماغی قابلیتوں کو کام میں لاتا ہے.اسی طرح یہ روحانی یو نیورسٹی سکھاتی تو ہر شخص کو ہے مگر سیکھتا وہی ہے جو اپنی استعدادوں کو کام میں لاتا ہے اور ان سے فائدہ اُٹھاتا ہے.تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات (۱۰) پھر تمام مخلوق کی جسمانی ضروریات کے متعلق اعلان فرماتا ہے پوری کرنے کا وعده وما من دابة فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رزْقُهَا وَ يَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا، كُلٌّ فِي كِتَبٍ مُّبِيْنٍ ٣٢ دنیا کی حکومتیں فوڈ ڈیپارٹمنٹ FOOD DEPARTME) قائم کرتی ہیں جس کے سپر د ملک کی غذائی حالت کی نگرانی ہوتی ہے اسی طرح جب کسی دوسرے ملک میں قحط پڑتا ہے یا نا گہانی حوادث سے اُس کی غذائی حالت خراب ہو جاتی ہے تو ایسی صورت میں بھی یہی ڈیپارٹمنٹ اس ضرورت کو پورا کرنے کا کام سرانجام دیتا ہے.مگر ڈ نیوی حکومتوں کے فوڈ ڈیپارٹمنٹ کیا کرتے ہیں؟ وہ ایک طرف سے بہت ہی سستے

Page 293

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۷ سیر روحانی (۵) داموں پر ایک چیز خریدتے ہیں اور دوسری طرف بہت بڑے نفع کے ساتھ اسے فروخت کر دیتے ہیں.مثلاً ہمارے ملک میں ہی چھ روپے من گندم مل رہی ہے لیکن چھ روپے من گندم لے کر ہمارا فوڈ ڈیپارٹمنٹ سولہ روپے میں ہندوستان کو دے رہا ہے.اسی طرح انگریزی زمانہ میں اڑھائی اڑھائی تین تین کروڑ روپیہ سالا نہ حکومت اس ذریعہ سے کماتی تھی اور ساتھ ہی یہ بھی کہتی چلی جاتی تھی کہ ہم بنی نوع انسان کی کتنی خدمت کر رہے ہیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا آسمانی حکومت کا بھی یہی طریق ہے یا اس میں کوئی اور طریق رائج ہے؟ اس بارہ میں جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس حکومت میں ڈ نیوی حکومتوں کے برعکس یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہر جاندار کوکھانا کھلا نا ہمارے ذمہ ہے وہ فرماتا ہے وَمَا مِن دَايَةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَ اللهِ رِزْقُهَا کوئی حرکت کرنے والی زندہ اور جاندار چیز ایسی نہیں جس کے رزق کی ذمہ داری خدا تعالیٰ کی ذات پر نہ ہو.اور کیوں نہ ہو، جب ہم نے ایک مخلوق کو پیدا کیا ہے تو اس مخلوق کو کھانا کھلانا بھی ہمارا ہی فرض ہے کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس بات کا ثبوت کیا ہے اور کس طرح یہ مانا جاسکتا ہے کہ ہر جاندار کو خدا تعالیٰ خود رزق دیتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بندے کا دینا اور طرح کا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا دینا اور طرح کا ہے.تم اپنے ہاتھ سے کپڑے بنتے ہو مگر روئی خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے ، روٹی تم اپنے ہاتھ سے پکاتے ہومگر گندم خدا تعالیٰ پیدا کرتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ نے اپنی مخلوق کو رزق دینے کی جو تراکیب رکھی ہیں وہ اتنی عجیب ہیں کہ اُن کو دیکھ کر تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے محض اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت ہو رہا ہے.زمیندار جانتے ہیں کہ وہ گندم بوتے ہیں اور انہیں اس کے لئے بہت بڑی محنت کرنی پڑتی ہے، وہ زمین میں ہل چلاتے ہیں ، بیج ڈالتے ہیں، پانی دیتے ہیں اور مہینوں اس فصل کی دیکھ بھال اور نگرانی کرتے ہیں.راتوں کی نیند اور دن کا آرام انہیں اس غرض کے لئے قربان کرنا پڑتا ہے وہ خود بھی تکلیف اُٹھاتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں کو بھی اس قربانی میں اپنے ساتھ شریک کرتے ہیں.اتنی بڑی محنت کے بعد اگر گندم ہی گندم انہیں مل جاتی جس کے ساتھ بھوسے کا کوئی حصہ نہ ہوتا تو کیا وہ دیانتداری کے

Page 294

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۸ سیر روحانی (۵) ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی گندم میں سے بیل کو ایک دانہ دینے کے لئے بھی تیار ہوتے ؟ وہ ساری کی ساری فصل اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے اور بیل بھو کے مرجاتے مگر چونکہ بیلوں کا رزق خدا تعالیٰ کے ذمہ ہے اس لئے وہ دانے تھوڑے پیدا کرتا ہے اور بھوسہ زیادہ کی پیدا کرتا ہے، دانے تم اُٹھا کر اپنے گھر لے آتے ہو اور کھوسہ اپنے جانوروں کے لئے رکھ لیتے ہو.یہ خدائی فعل ہے جو بتا رہا ہے کہ کس طرح اُس نے اپنی مخلوق کے رزق کا انتظام کیا ہے.تم صرف دانے کھا سکتے ہو کھوسہ نہیں کھا سکتے اس لئے تم مجبور ہو کہ تم بھوسہ جانوروں کو دو.اگر تمہارے اختیار میں ہوتا تو یا تو تمہارے جانور مر جاتے اور یا پھر تم انہیں دوسروں کی فصل میں چھوڑ دیتے.سندھی مزارعین کی کیفیت میں ایک دفعہ سندھ گیا وہاں سلسلہ کی زمینیں ہیں اور کچھ میری بھی زمینیں ہیں.ہم نے ان زمینوں پر مینیجر وغیرہ مقرر کئے ہوئے ہیں مگر مزارع اکثر سندھی ہیں.وہاں کے عملہ نے میرے پاس شکایت کی کہ سندھی مزارع کھیتوں میں اپنے جانور چھوڑ دیتے ہیں اور فصلوں کو نقصان پہنچتا ہے آپ انہیں نصیحت کیجئے کہ وہ ایسا نہ کریں.چنانچہ میں نے ان کو بلوایا اور انہیں نصیحت کی کہ یہ جتنی جائیداد ہے سب انجمن کی ہے اور اس میں سے جتنی بھی آمد ہوتی ہے اس میں ایک پیسہ بھی کسی کو نفع کے طور پر نہیں ملتا بلکہ سب کا سب خدا تعالیٰ کے راستہ میں خرچ کیا جاتا ہے اس لئے اگر آپ لوگ بھی دیانتداری سے کام لیں اور اپنے جانوروں کو فصلیں کھانے نہ دیں تو اس ثواب میں برابر کے شریک ہو سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی رضا آپ کو حاصل ہو سکتی ہے.میں نے اس موضوع پر ان کے سامنے پندرہ ہیں منٹ تقریر کی اور میں نے دیکھا کہ ان سندھیوں کا لیڈر جو چانڈیہ قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا سر ہلا تا چلا جاتا تھا جس سے میں نے یہ سمجھا کہ اس پر خوب اثر ہورہا ہے مگر پندرہ ہیں منٹ کے بعد جب میں تقریر ختم کر چکا تو ان سندھیوں کا سردار کہنے لگا سائیں ! جے ڈھور ڈنگر نے کھیتی نہیں کھانی تے پھر بھی پوچھنی ہی کیوں ہے؟ یعنی اگر جانوروں نے فصل نہیں کھانی تو پھر ہمیں فصل بونے کی ضرورت ہی کیا ہے.تو اللہ تعالیٰ اگر ان کی روزی

Page 295

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۶۹ سیر روحانی (۵) انسان پر چھوڑ دیتا تو انہوں نے تو مر جانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کا رزق اپنے ہاتھ میں رکھا ہے.اس نے دیکھا کہ جانور کی محنت زیادہ ہے اور تمہاری کم ہے، اُن کا پیٹ بڑا ہے اور تمہارا پیٹ چھوٹا ہے اس لئے اس نے تمہارے لئے تو دانے بنائے اور ان کے لئے بھوسہ بنا دیا.دانے اس نے کم بنائے اور بھوسہ اس نے زیادہ بنایا کیونکہ عَلَى اللهِ رِزْقُهَا ان جانوروں کا رزق اللہ تعالیٰ کے ذمہ تھا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم پھر بنی نوع انسان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الله الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأَرْضَ قَرّارًا کے رزق کی فراوانی وَالسَّمَاءِ بِنَاءِ وَ صَوَّرَكُمْ فَاحْسَنَ صُورَكُمْ وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَتِ، ذَلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ فَتَبرَكَ اللهُ رب العلمین ۳۳ یعنی تمہارا خدا وہ ہے جس نے زمین کو تمہارے لئے ٹھہر نے کی جگہ اور آسمان کو تمہارے لئے چھت کے طور پر بنایا ہے پھر اس نے تم کو کام کرنے کی قابلیت عطا فرمائی ہے فَاحْسَنَ صُوَرَكُمْ اور قابلیت بھی بہت اعلیٰ درجہ کی پیدا کی جب ہے.اس جگہ صورت کے معنی ناک، کان ، منہ اور آنکھیں وغیرہ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کو بنایا تو تمام اعضاء اُس نے اُسی وقت بنا دیئے تھے.اس جگہ صورت سے مراد وہ قو تیں اور قابلیتیں ہیں جو بنی نوع انسان میں رکھی گئیں اور جن سے وہ دنیا میں بہت بڑی ترقیات حاصل کرتا ہے.و رزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَتِ، پھر اُس نے نہایت اعلیٰ درجہ کی چیزیں جو تمہارے جسم کے مناسب حال ہیں تمہارے لئے پیدا کیں.مثلاً زبان خواہش رکھتی ہے کہ وہ میٹھا کھائے تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے میٹھا پیدا کر دیا یا زبان چاہتی ہے کہ اسے نمک مرچ اور کباب ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے نمک مرچ اور کباب پیدا کر دئیے.یا مثلاً زبان چاہتی ہے کہ اسے کھانے کے لئے چاول ملیں تو اللہ تعالیٰ نے اس کے لئے چاول پیدا کر دیئے.غرض جو بھی خواہشیں اور قو تیں انسان کے اندر پیدا کی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں پیدا کر دی ہیں اور یہ ثبوت ہے اِس بات کا کہ اس دنیا کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے کیونکہ انسان میں جو

Page 296

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۰ سیر روحانی (۵) طاقتیں رکھی گئی ہیں ویسی ہی چیزیں دنیا میں بنا دی گئی ہیں.ان چیزوں کی پیدائش کو ہم اتفاقی نہیں کہہ سکتے یہ اتفاقی معاملہ تب ہوتا جب بنی نوع انسان کی کوئی ایسی طاقت ہوتی جس کا جواب قانونِ قدرت میں نہ ہوتا مگر ہم تو دیکھتے ہیں کہ ہر طاقت اور ہر قابلیت کا جواب خدا تعالیٰ کے قانون میں موجود ہے.اگر تمہارا منہ نرم نرم اور پہلی سی چیز کو چاہتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے چاول بنا دیئے ہیں.اگر تمہارے دانت سخت چیز کے چبانے کی طاقت رکھتے ہیں تو اس نے ہڈیاں اور دانے وغیرہ بنا دیئے ہیں.اگر تمہارا معدہ لذیذ اور شیر میں چیزوں کا محتاج ہے تو اس نے تمہارے لئے شکر پیدا کر دی ہے.بچپن میں دانت نہیں ہوتے تو ماں کی چھاتیوں میں دودھ پیدا کر دیتا ہے غرض تمام چیز میں جن کی عمر بھر کسی وقت بھی ضرورت محسوس ہوتی ہے ان سب کا کائناتِ عالم میں موجود ہونا دلالت کرتا ہے کہ ایک ایسی ہستی موجود ہے جس نے پالا رادہ اور حکمت کے ماتحت اس دنیا کو پیدا کیا ہے.پھر فرماتا ہے هُوَ اللهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ بنی نوع انسان پر عظیم الشان احسان المُصَوِّرُ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَى ، يُسَبِّحُ له ما في السموات والأَرْضِ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ۳۴ فرماتا ہے وہ خدا ہی ہے جو (۱) پیدا کرتا ہے (۲) پھر وہ تراشتا ہے یعنی نقائص کو دور کرتا ہے (۳) پھر وہ تصویر دیتا ہے یعنی کام کے مناسب حال قو تیں بخشتا ہے (۴) له الاسماء الحسنی ، اِس کے علاوہ وہ اور بھی بہت سے نیک تغیرات پیدا کرتا ہے.مثلاً طاقتوں کے مطابق با ہر سامان پیدا کرتا ہے جس کی طرف اُس کی صفتِ رحمن اشارہ کرتی ہے.اور پھر کام کرنے پر اعلیٰ سے اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے سامان مہیا کرتا ہے جس کی طرف اس کی صفتِ رحیم اشارہ کرتی ہے.مثلاً ہر کام دنیا میں ایک اچھا یا بُرا اثر چھوڑتا ہے وہ و ہیں ختم نہیں ہو جاتا.تم ہاتھ ہلاتے ہو تو ہاتھ ہلانے سے تمہارا کام ختم نہیں ہو جا تا بلکہ اس سے دوسری دفعہ تمہارے اندر ہاتھ ہلانے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے یا مثلاً بچہ کو دیکھ لو وہ اپنے ہاتھ پاؤں ہلاتا ہے اور آخر کچھ عرصہ کے بعد اُس کے پاؤں میں کھڑا ہونے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.اُس کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا کسی ایک حرکت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ

Page 297

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۱ سیر روحانی (۵) اس کی پہلی تمام حرکتوں کا ایک مجموعی نتیجہ ہوتا ہے.انسانی دماغ کی حیرت انگیز وسعت یہی حال حافظہ کی قوت کا ہے ہم ایک بچہ کو بتاتے ہیں کہ یہ چیز جو تم کھا رہے ہوا سے روٹی کہتے ہیں.اب اگر دس سال کے بعد بھی اس سے پوچھو کہ اس چیز کا کیا نام ہے تو وہ فوراً کہہ دیگا کہ روٹی.یہ چیز اس کے دماغ میں کس نے محفوظ رکھی ہے صرف اللہ تعالیٰ نے اور پھر یہ دماغ کے اندر کتنی بڑی لائبریری ہے جس میں لاکھوں لاکھ الفاظ سالہا سال سے محفوظ چلے آتے ہیں اور جب بھی کسی لفظ کی ہمیں ضرورت محسوس ہوتی ہے، ہمارے دماغ کا لائبریرین فوراً اس لفظ کو نکال کر ہمارے سامنے رکھ دیتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ برٹش میونا کم BRITISH MUSED) میں تین لاکھ کتابیں محفوظ ہیں اور وہ اس میوزیم کی تعریف کرتے نہیں تھکتے لیکن اللہ تعالیٰ کے انعامات کی طرف دیکھو کہ ایک ادنیٰ سے ادنیٰ اور جاہل سے جاہل انسان کے دماغ میں بھی اُس نے پچاس لاکھ سوراخ بنارکھے ہیں جن میں ہر فقرہ اور ہر لفظ اور ہرز بر اور ہر زیر کو محفوظ رکھنے کی الگ الگ الماری ہے اور جب بھی کسی چیز کی ضرورت محسوس ہوتی ہے فوراً بلا کسی توقف اور تاخیر کے وہ چیز ہمارے سامنے لا کر پیش کر دیتا ہے.دنیا کی لائبریریوں میں تو ایک ایک الماری میں سینکڑوں کتابیں ہوتی ہیں مگر یہاں ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ کے لئے ایک ایک سیل موجود ہے.وہ جب بھی کوئی لفظ سیکھتا ہے اللہ تعالیٰ اسے فوراً اُٹھا کر دماغ کی کوٹھڑی میں محفوظ کر دیتا ہے.پھر باہر تو لائبریریوں میں جو کام کرنے والے رکھے جاتے ہیں اُن کو بڑی بڑی تنخواہیں دی جاتی ہیں مگر یہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کئے ہوئے نوکر موجود ہیں جو تم سے کوئی تنخواہ طلب نہیں کرتے.تمہارے سامنے روٹی آتی ہے تو جھٹ لائبریرین تمہارے دماغ کے سوراخ میں سے روٹی کا لفظ نکال کر تمہارے سامنے رکھ دیتا ہے.پانی آتا ہے تو پانی کا لفظ تمہارے سامنے آ جاتا ہے اسی طرح ایک ایک فقرہ اور ایک ایک لفظ جو تمہاری زبان پر جاری ہوتا ہے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ فرشتے رات اور دن مسلسل کام کر رہے ہیں.گویا ساری

Page 298

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۲ سیر روحانی (۵) حکومت امریکہ کا اتنا انتظام نہیں جتنا ایک جاہل سے جاہل آدمی کے دماغ میں خدا تعالیٰ نے انتظام قائم کیا ہوا ہے.دنیوی حکومتوں کی احسان فراموشی پھر دنیوی حکومتیں وقت پر خدمت لے لیتی ہیں لیکن بعد میں بھول جاتی ہیں اور انہیں خیال بھی نہیں رہتا کہ فلاں شخص نے مصیبت اور تکلیف میں ہماری خدمت سرانجام دی تھی.ہمارے ایک دوست ہیں مجھے ہمیشہ ان پر ہنسی آیا کرتی ہے لیکن ان کے استقلال کو دیکھ کر تعجب بھی آتا ہے.انہوں نے گزشتہ جنگ میں کچھ رنگروٹ دیئے تھے افسروں نے انہیں خوب شاباش دی اور انہیں یہ امید پیدا ہو گئی کہ جنگ کے خاتمہ پر میری اس خدمت کے بدلہ مجھے انعام کے طور پر کوئی زمین دیدی جائے گی جب جنگ ختم ہو گئی اور وہ کسی افسر سے ملنے کے لئے جاتے تو بعض دفعہ پیغام آ جاتا کہ ہمیں ملنے کی فرصت نہیں اور بعض دفعہ یہ کہدیا جاتا کہ صاحب بہادر اندر نہیں ہیں.مگر آدمی ہمت والے تھے انہوں نے چٹھیاں لکھتے لکھتے وائسرائے تک معاملہ پہنچا دیا.وائسرائے نے اُن کی درخواست پر لکھا ڈیفنس سیکرٹری فوراً کارروائی کرے.ڈیفنس سیکرٹری نے وہ درخواست گورنر کو بھجوا دی.گورنر نے کمشنر کے پاس بھجوا دی کمشنر نے ڈپٹی کمشنر کے پاس پہنچا دی.ڈپٹی کمشنر نے ریوینیو آفیسر کے پاس پہنچا دی اور معاملہ پھر وہیں کا وہیں رہا.انہوں نے پھر اپنی درخواستیں نیچے سے اوپر پہنچانی شروع کیں اور افسروں نے پھر اسی طرح ان کی درخواستیں اوپر سے نیچے بھجوائی شروع کر دیں.غرض اسی تگ و دو میں ان کے کئی سال گزر گئے مگر انہیں مربع آج تک نہیں ملا بلکہ سیب کا مرتبہ بھی نہیں ملا.مگر اس گورنمنٹ کو دیکھو کہ یہ بھولی نہیں.بچپن میں ایک لفظ سیکھا جاتا ہے اور بڑے ہوکر برابر وہ سیکھا ہو ایاد رہتا ہے یہ کبھی نہیں ہوا کہ کوئی چیز سیکھی ہوئی ہو اور پھر وہ دماغ کے کسی گوشے میں محفوظ نہ رہے بلکہ اس حفاظت کا یہ حال ہے کہ فرانس میں ایک دفعہ ایک لڑکی کو دورے پڑنے شروع ہوئے جب اُسے دورہ پڑتا تو وہ جرمن زبان میں بعض مذہبی دعائیں پڑھنا شروع

Page 299

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۳ سیر روحانی (۵) کر دیتی.وہ فرانسیسی لڑکی تھی اور جرمن زبان کا ایک حرف بھی نہیں جانتی تھی.جب دورے میں اس نے جرمن زبان میں باتیں شروع کیں تو ڈاکٹروں نے شور مچا دیا کہ اب تو جن ثابت ہو گئے.یہ لڑکی تو جرمن زبان نہیں جانتی یہ جو جرمن زبان بول رہی ہے تو ضرور اس کے سر پر جن سوار ہے.آخر ایک ڈاکٹر نے اس کے متعلق تحقیقات شروع کی وہ حافظہ کا بہت بڑا ماہر تھا.جب اُس نے تحقیق کی تو اسے معلوم ہوا کہ جب یہ لڑکی دواڑھائی سال کی تھی تو اُس وقت اس کی ماں ایک جرمن پادری کے پاس ملازم تھی.جب وہ پادری جرمن زبان میں سرمن پڑھتا تھا تو یہ لڑ کی اُس وقت پنگھوڑے میں پڑی ہوتی تھی.جب اُسے یہ بات معلوم ہوئی تو وہ اس جرمن پادری کی تلاش میں نکلا اُسے معلوم ہوا کہ وہ جرمن پادری اِس وقت پین میں ہے.پین پہنچنے پر اسے معلوم ہوا کہ وہ پادری ریٹائر ہو کر جرمنی چلا گیا ہے اس کی تلاش میں جرمنی پہنچا، وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ وہ پادری مر گیا ہے.مگر اس نے اپنی کوشش نہ چھوڑی اور اس نے گھر والوں سے کہا کہ اگر اس پادری کے کوئی پُرانے کاغذات ہوں تو وہ مجھے دکھائے جائیں.گھر والوں نے تلاش کر کے اسے بعض کا غذات دیئے اور جب اس نے ان کا غذات کو دیکھا تو اسے معلوم ہوا کہ وہ دعائیں جو بیہوشی کی حالت میں وہ لڑکی پڑھا کرتی تھی وہ وہی اس پادری کی سرمن تھی.اب دیکھو! دو اڑھائی سال کی عمر میں ایک پادری نے اس کے سامنے بعض باتیں کیں جو اس کے دماغ میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ کر دیں.بچہ کے کان میں اذان اور یہی وجہ ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کسی مسلمان کے گھر میں بچہ پیدا ہو تو فوراً اقامت کہنے کی حکمت اس کے ایک کان میں اذان اور دوسرے کان میں اقامت کہو.۳۵ یورپ کے مدبرین نے تو آج یہ معلوم کیا ہے کہ انسانی دماغ میں سالہا سال کی پُرانی چیزیں محفوظ رہتی ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ بچہ کے پیدا ہوتے ہی تم اس کے کان میں اذان کہو کیونکہ اب وہ دنیا میں آ گیا ہے اور اس کا دماغ اس قابل ہے کہ وہ

Page 300

انوار العلوم جلد ۲۲ تمہاری باتوں کو محفوظ رکھے.۲۷۴ نیا کا ذرہ ذرہ خدا تعالیٰ پھر فرماتا سیر روحانی (۵) ہے يُسبّحُ لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ و الأرض جو دنیا کا ذرہ ذرہ گواہی دیتا ہے کہ وہ تسبیح کر رہا ہے جو کچھ کرتا ہے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہوسکتا.بے شک بادی النظر میں بعض چیزیں قابلِ اعتراض نظر آئیں گی لیکن جب بھی غور کیا جائے گا انسان کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور پر حکمت ہے.لطیفہ مشہور ہے کہ کوئی مثلاً دماغ کا آدمی ایک دفعہ باغ میں گیا اور اس نے دیکھا کہ آم کے درخت پر تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہیں اور ایک معمولی سی بیل کے ساتھ بڑا سا حلوہ کڈ و لگا ہوا ہے.وہ دیکھ کر یہ کہنے لگا کہ لوگ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بڑا حکیم ہے مگر مجھے تو اس میں کوئی حکمت نظر نہیں آتی کہ اتنے بڑے درخت کے ساتھ تو چھوٹے چھوٹے پھل لگے ہوئے ہوں اور اتنی نازک سی بیل کے ساتھ اتنا بڑا حلوہ کڈ ولگا ہوا ہو.اس کے بعد وہ آرام کرنے کے لئے اُسی آم کے درخت کے نیچے سو گیا.سویا ہوا تھا کہ اچانک ایک آم ٹوٹا اور زور سے اُس کے سر پر آلگا.وہ گھبرا کر اٹھ بیٹھا اور کہنے لگا خدایا! مجھے معاف فرما اب تیری حکمت میری سمجھ میں آ گئی ہے اگر اتنی دور سے حلوہ کد وی میرے سر پر پڑتا تو میں تو مر ہی جاتا.غرض اس عالم کا ذرہ ذرہ گواہی دے رہا ہے کہ اُس نے جو کچھ کیا ہے ٹھیک کیا ہے.دنیا میں ہزاروں نہیں لاکھوں قسم کے جراثیم پائے جاتے ہیں اور انسان یہ سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کیڑوں کو بلا وجہ پیدا کر دیا ہے مگر سائنس کی ترقی پر ثابت ہوا ہے کہ دنیا کا ہر کیڑا کسی اور کیڑے کے زہر کو مارنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور کوئی کیڑا بھی ایسا نہیں جو مفید کام نہ کر رہا ہو.کئی لاکھ کیڑوں کے متعلق یہ تحقیق کی جا چکی ہے اور علم حیوانات والوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہر کیڑا کوئی نہ کوئی مفید کام کر رہا ہے اور کسی نہ کسی زہر یلے مادے کو تباہ کرنے میں اس کا دخل ہے.پھر فرماتا ہے وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ وہ خدا غالب ہے اس کے فیصلہ کو کوئی رڈ نہیں کر سکتا.دُنیوی بادشاہتیں بدل جاتی ہیں تو ساتھ ہی ان کے فیصلے بھی بدل جاتے ہیں

Page 301

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۵ سیر روحانی (۵) اور لوگوں کی گزشتہ خدمات پر پانی پھر جاتا ہے.انگریزوں نے اپنی حکومت کے دوران میں لوگوں کو مربعے دیئے تھے مگر اب ایجیٹیشن AGITATION) شروع ہے کہ بڑی بڑی زمینیں اور جاگیریں واپس لے لینی چاہئیں.اُس وقت لوگ سمجھتے تھے کہ شاید قیامت کی تک یہ سلسلہ اسی طرح قائم رہے گا مگر حکومت بدلی تو ساتھ ہی اس کے فیصلے بھی بدل گئے وہاں جَفَّ الْقَلَمُ بِمَا هُوَ كَائِنْ ۳۶ کا قانون ہے کہ جو کچھ خدا تعالیٰ نے کہہ دیا سو کہہ دیا وہ قیامت تک بدل نہیں سکتا.پھر وہ حکیم ہے اور اُس کے ہر حکم میں کوئی نہ کوئی حکمت کام کر رہی ہے کوئی امرچنٹی کا موجب نہیں جیسا کہ دُنیوی حکومتوں میں ہوتا ہے.پھر فرماتا ہے وَاتَّقُوا اللهَ آسمانی علوم تقویمی کے ساتھ وابستہ ہیں، يملكه الله، والله بكن شَيْءٍ عَلِیم ۳۷ دنیا میں تو کہا جاتا ہے کہ نوکری ملنے کے لئے بی.اے ہونا ضروری ہے یا بی.ایس سی ہونا ضروری ہے یا ایم.اے ہو تب ہم اسے ملازم رکھ سکتے ہیں، یا ایم.ایس سی کی ڈگری ضروری ہے مگر یہاں یہ بات نہیں، فرماتا ہے تم تقویٰ اختیار کرو ہم اُسی وقت تمہیں اپنے پاس سے علوم سکھانے شروع کر دیں گے.دنیا کے ملازموں کو تو علم سیکھ کر نوکری ملتی ہے بی.ایس سی کی ڈگری حاصل کرنا پہلے ضروری ہے اور اس کے بعد ملازمت ملتی ہے وہ بھی اپنے اندر محدود ترقی رکھتی ہے مگر یہ الہی گورنمنٹ ساتھ ہی ساتھ ہر ترقی پر مزید علم بخشتی ہے اور جب بھی کوئی شخص تقوی میں آگے قدم بڑھا تا ہے اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی اُس پر پہلے سے زیادہ زور کے ساتھ نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں گویا اس علم کے لئے ہی.ایس.ہی ہونا ضروری نہیں صرف تقوی میں ترقی کرنا ضروری ہے.جوں جوں کو ئی شخص تقویٰ میں ترقی کرتا جاتا ہے اُس کا علم بڑھتا چلا جاتا ہے اور اُسے پہلے سے زیادہ ڈگریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں.عالم روحانی میں سب سے بڑی ڈگری چنانچہ دیکھ لو اس عالم روحانی میں سب سے بڑی ڈگری اس شخص کو ملی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی جس کے متعلق خود خدا تعالی

Page 302

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۶ سیر روحانی (۵) قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ وہ اُمّی اور ان پڑھ ہے.۳۸ دنیوی حکومتوں میں ایک اُمّی کا کوئی مقام نہیں مگر خدا تعالیٰ کا دربار دیکھو کہ اُس نے دنیا کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے ایک اُمی کا ہی انتخاب کیا اور فرمایا کہ ہم اس کو وہ علم سکھائیں گے کہ دنیا کے بڑے بڑے آدمی بھی اس کے سامنے اپنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوں گے.دیدار عام کی دعوت دیوان عام کی دوسری غرض لوگوں کو بادشاہ کا دیدار عام دینا ہوتی ہے.بادشاہ دربار میں آ کر بیٹھتے ہیں اور لوگ اُن کے دیدار سے لطف اندوز ہوتے ہیں.مگر سوال یہ ہے کہ ان کو بادشاہ کے دیکھنے سے کیا مل جاتا ہے؟ کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.وہ دیکھتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں.مگر اس کی دربار عام میں جو دیدار عام کرایا جاتا ہے اس میں یہ خوبی ہے کہ ادھر انسان کو دیدار حاصل ہوا اور ادھر اس پر چودہ طبق کھل گئے.اور پھر یہ دیدار وہ ہے جس سے ہر شخص لے سکتا ہے اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے.لا تدركه الأبصارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ ٣٩ فرماتا ہے ہم یہ جانتے ہیں کہ تمہارے دلوں میں ہمارے دیدار کی ایک نہ مٹنے والی خواہش پائی جاتی ہے مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ تم میں یہ طاقت نہیں کہ اپنی کوشش اور جد و جہد سے ہمارے دیدار سے فیضیاب ہوسکو اس لئے ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے خود تم پر جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ تم میں سے کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو ہمارا دیدار نہ کر سکے.دنیوی درباروں کے ناقص انتظامات دنیا میں تو جب دیوان عام منعقد کیا جاتا ہے تو اوّل تو سب لوگوں کو اس دربار میں بیٹھنے کے لئے جگہ ہی نہیں ملتی صرف چند سو آدمی اندر بیٹھ سکتے ہیں مثلاً دہلی میں دربار عام منعقد ہوا تو دہلی کے رہنے والے لاکھوں کی تعداد میں تھے مگر دربار کے اندر بیٹھنے والے چار پانچ سو سے زیادہ نہ تھے.دوسرا طریق بادشاہوں نے یہ مقرر کیا ہو ا ہوتا ہے کہ وہ جھرو کے میں بیٹھ جاتے ہیں اور لوگ ارد گرد کے میدانوں میں جمع ہو کر اُن کا دیدار کرتے ہیں مگر اس طرح بھی زیادہ

Page 303

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۷ سیر روحانی (۵) سے زیادہ چالیس پچاس ہزار آدمی دیدار کر سکتے ہیں اور چالیس پچاس ہزار آدمی جو ان کو دیکھنے کے لئے جمع ہوتا تھا وہ بھی ایسا ہوتا تھا جو اچھا تندرست اور مضبوط ہو ورنہ اس دیدار عام کے باوجود بیمار وہاں نہیں جا سکتا تھا.کو لا، لنگڑا وہاں نہیں پہنچ سکتا تھا.پولیس والا جو کسی چوراہے پر آن ڈیوٹی ہوتا تھا وہ وہاں نہیں جا سکتا تھا اور پھر اگر شہر والے وہاں چلے بھی جاتے تو دو دو چار چار سو میل کے علاقہ میں رہنے والے لوگ وہاں نہیں پہنچ سکتے تھے.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہاری اس خواہش کو دیکھا اور ہم نے یہ فیصلہ کر لیا کہ ہم تمہاری اس خواہش کو ضرور پورا کریں گے چنانچہ گو تمہاری آنکھیں خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتیں مگر خدا خود چل کر تمہاری آنکھوں کے سامنے آئے گا.اور وہ کیوں ایسا کرے گا ؟ اس لئے کہ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ لطیف کے ایک معنی باریک اور پوشیدہ ہونے کے اور الْبَرُّ بِعِبَادِهِ الْمُحْسِنُ إِلى خُلْقِهِ " کے بھی ہیں یعنی اپنے بندوں سے بہت نیکی کرنے والا اور ان کی ضرورتوں کے مطابق سامان مہیا کرنے والا.فرماتا ہے ہم کیوں تمہارے پاس چل کر آئیں گے؟ اس لئے آئیں گے کہ ہم بادشاہ ہیں اور ہم اپنے بندوں کے ساتھ نیکی کرنے والے ہیں اور اس لئے ہماری صفت یہ ہے کہ ہم اپنے بندوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں اور ان پر اپنے احسانات کی بارش نازل کرتے ہیں اور پھر اس لئے ہم خود چل کر تمہارے پاس آئیں گے کہ ہم خبیر ہیں یعنی ہم اس بات سے واقف ہیں کہ تم خود اس مقام کو حاصل نہیں کر سکتے.یہ وہ دیدار ہے جس کے مقابلہ میں دُنیوی بادشاہوں کے دیدار کوئی حقیقت ہی نہیں رکھتے.پھر عملاً صفات الہیہ کو جس طرح قرآن کریم نے ظاہر کیا ہے صفات الہیہ پر بحث دنیا کی کسی اور کتاب نے ظاہر نہیں کیا، اس نے صفات الہیہ پر ایسی تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ کو اس نے انسان کے سامنے لا کر کھڑا کر دیا ہے.مسئلہ تو حید کو ہی لے لو اس سبق کو اس نے اس طرح ننگا کر کے رکھ دیا ہے کہ آج ساری دنیا اس بات پر مجبور ہے کہ خواہ وہ عملاً شرک ہی کا ارتکاب کر رہی ہو پھر بھی زبان سے وہ یہی کہے کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں.

Page 304

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۸ سیر روحانی (۵) خدا اور اُس کے بندے کے دیوانِ عام کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ اپنی فریاد بادشاہ تک براہِ راست پہنچا سکیں.اس درمیان کوئی واسطہ نہیں نقطہ نگاہ سے بھی جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے دیوانِ عام کی اس غرض کو پورا کیا.تمام مذاہب کہتے ہیں کہ خدا اور اس کے بندے میں کوئی نہ کوئی واسطہ ہونا چاہئے مگر اسلام کہتا ہے کہ خدا اور اس کے بندے کے درمیان کوئی واسطہ نہیں.نبی کتنی بڑی شان رکھنے والا وجود ہوتا ہے مگر خواہ کوئی بڑے سے بڑا نبی ہو پھر بھی وہ خدا اور بندوں کے درمیان واسطہ نہیں بن سکتا.احادیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا کہ يَارَسُولَ الله ! احسان کیا چیز ہے؟ آپ نے فرمایا احسان یہ ہے کہ تو نماز اس یقین اور وثوق کے ساتھ پڑھے کہ گویا تو خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر یہ مقام تمہیں حاصل نہیں تو تمہیں کم سے کم یہ یقین رکھنا چاہئے کہ خدا تم کو دیکھ رہا ہے اگے اور جب کسی بندے کو خدا دیکھ رہا ہو تو اُس کی فریاد کے پہنچنے میں کوئی روک ہی کیا ہو سکتی ہے.غرض تمام مذاہب ایک واسطہ کے قائل ہیں مگر اسلام اس چیز کا قائل نہیں.چنانچہ دیکھ لو وہ ایک طرف تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر تعریف کرتا ہے کہ فرماتا ہے یہ قیامت تک کے لئے گورنر جنرل مقرر کئے گئے ہیں مگر دوسری طرف جہاں واسطے کا سوال آتا ہے وہاں فرماتا ہے قُل إِنَّمَا أَنَا بَشَر مَثْلُكُمْ " یعنی تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تو تمہاری طرح ایک انسان ہوں.بشر ہونے کے لحاظ سے مجھے میں اور تم میں کوئی فرق نہیں.پس اسلام کے نزدیک کسی کو خدا اور بندہ کے درمیان کھڑے ہونے کا حق حاصل نہیں.الہی دربار میں مظلوموں اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے فریاد سنے کا طریق کیا مقرر کیا ہوا ہے وہ فرماتا ہے آمن يُجِيبُ کی فریاد سننے کا طریق المضطر إذا دَعَاهُ وَيَخيف النور عيني المُضْطَرَّ السُّوءِ ٢٣ یعنی ان سے پوچھو کہ کیا کوئی ہمارے جیسا در بار منعقد کرنے والا دنیا میں کوئی بادشاہ

Page 305

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۷۹ سیر روحانی (۵) حکومتیں دربارِ عام منعقد کرتی ہیں تو بادشاہ اعلان کرتے ہیں کہ جس شخص پر کوئی ظلم ہوا ہو وہ آئے اور ہمارے دربار میں فریاد کرے مگر دنیا میں لوگ اگر فریاد کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے افسران سے کہتے ہیں کہ اگر تم نے ہمارے خلاف شکایت کی تو ہم تمہاری زبان گڑی سے کھینچ لیں گے.وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے فریاد کی تو بعد میں وہی افسر مجھے اور رنگ میں مصیبتوں میں مبتلاء کر دیں گے.مگر یہاں یہ حالت ہے کہ رات کی تاریکی سایہ ڈالے ہوئے ہے ، مصیبت زدہ بندہ اپنے لحاف میں پڑا آہیں بھر رہا ہے، دنیا کا کوئی فرد نہیں جانتا کہ وہ کیا کر رہا ہے یا کیا کہہ رہا ہے.کوئی افسر اسے دھمکا نہیں سکتا، کوئی افسر اسے فریاد سے روک نہیں سکتا وہ لحاف میں لیٹے لیٹے خدا تعالیٰ کے دربار میں اپنی آواز بلند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ اے خدا! فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے تو میری طرف سے آپ اس کا بدلہ لے.ظالم نہیں جانتا کہ اس کے خلاف بادشاہ تک شکایت پہنچ چکی ہے ، وہ نہ سنتا ہے نہ دیکھتا نہ اُس کے دل پر کوئی خیال گزرتا ہے مگر مظلوم کی فریا دخدا تعالیٰ کے عرش کو ہلا دیتی ہے.وہ فرماتا ہے آمَن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوء جب وہ اکیلے خدا تعالیٰ کے حضور مضطر ہو کر فریاد کرتا ہے.جب کوئی اس کے پاس نہیں ہوتا اُس وقت کون اس کی مدد کے لئے آتا ہے؟ دنیا غافل ہوتی ہے مگر خدا اپنے بندے کی مدد سے غافل نہیں ہوتا وہ خود آتا ہے اور کہتا ہے اے میرے بندے! میں تیری مدد کو آ گیا ہوں اور پھر اس سے ایسی محبت اور پیار کا سلوک کرتا ہے کہ اُس کا ہر دکھ دُور ہو جاتا ہے.خدا تعالی کی عطا کا بے مثال نمونہ دیوان عام کی چوتھی غرض یہ ہوتی ہے کہ لوگ بادشاہ کے سامنے اپنے مطالبات پیش کریں مگر ظاہر ہے کہ ہر شخص نہ در بار عام میں پہنچ سکتا ہے اور نہ بادشاہ اتنا وقت دے سکتا ہے.دس بیس کروڑ رعایا ہو تو بادشاہ کے پاس اتنا وقت کہاں ہوسکتا ہے کہ وہ ہر ایک کے مطالبہ کو سُنے اور اس کے بارہ میں ضروری کارروائی کرے.پھر اگر مطالبات پیش کرنے کا موقع بھی ملے تو جو کچھ دل میں ہوتا ہے وہ سب کچھ انسان مانگ نہیں سکتا.اول تو وہ اس بات سے ڈرتا ہے کہ کہیں افسر خفا نہ ہو جائے اور پھر انہیں یہ بھی ڈر ہوتا ہے کہ اگر

Page 306

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۰ سیر روحانی (۵) نے اپنے دل کی بات کہہ دی تو نہ معلوم بادشاہ اس کو مانے یا نہ مانے.مگر اس الہی دربار کی عجیب شان ہے اس دربار عام کے بارہ میں فرماتا ہے يستله من في السمواتِ وَالْأَرْضِ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ فَبِأَيِّ آلَاء رَبِّكُمَا تُكَذِ بْنِ ۲۴ فرماتا ہے آسمان کا رہنے والا ہو یا زمین کا رہنے والا ہر ایک اپنی ضرورت خدا تعالیٰ سے مانگتا ہے.یہاں سوال پیدا ہو سکتا تھا کہ کیا آدمی کی ہر ضرورت پوری ہو جاتی ہے؟ اس کے متعلق فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ في شان نہ صرف ہر مانگنے والے کی ضرورت کو پورا کرتا ہے بلکہ ہر روز وہ نئی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے ایک نئی شان میں جلوہ گر ہوتا ہے.پہلے بندہ کہتا ہے خدایا! مجھے فلاں چیز چاہئے اور خدا تعالیٰ اسے وہ چیز دے دیتا ہے.پھر وہ اور چیز مانگتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے وہ چیز بھی دے دیتا ہے اس طرح وہ مانگتا چلا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے دیتا چلا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کی ہر روز ایک آخر مانگتے مانگتے اسے خیال آتا ہے کہ اب میں کیا مانگوں؟ میں نے تو اس سے بہت کچھ مانگ لیا ہے نئی شان سے جلوہ گری اللہ تعالٰی اس کی طرف دیکھتا ہے اور فرماتا ہے آج تو ہم ایک نئی شان میں تمہارے سامنے جلوہ گر ہوئے ہیں پچھلی ضرورتوں کا خیال جانے دو اب ہم سے اور مانگو ہم تمہیں دینے کے لئے تیار ہیں.پہلے تم نے اُس شان کو دیکھا تھا جو گزر چکی اب تم ہماری اس نئی شان کا مشاہدہ کرو اور جو کچھ مانگنا چاہتے ہو مجھے سے مانگو.غرض یہ دربار عام وہ ہے جس میں سب مانگتے ہیں، ہر روز ما نگتے ہیں اور ہر روز انہیں نئے انعام ملتے ہیں دُنیوی اور اُخروی ترقیات کا ایک تسلسل جاری ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتا.علوم قرآنیہ کے انکشاف کا کتنی عجیب بات ہے کہ قرآن کریم تو یہ کہتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہر روز ایک نئی شان میں دنیا کے دروازہ کبھی بند نہیں ہو سکتا : سامنے آتا ہے اور ہر روز وہ نیا احسان دنیا پر کرنے کے لئے تیار ہوتا ہے مگر آج وہی مسلمان جن کی کتاب میں یہ تعلیم موجود تھی جو دنیا کی کسی

Page 307

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۱ سیر روحانی (۵) اور کتاب میں موجود نہیں اس قرآن کو ماننے والا مولوی یہ کہتا ہے کہ رازی کے بعد اب کوئی نئی تفسیر نہیں ہو سکتی ، ابن حیان جو مضمون بیان کر چکا اس پر اب اور کوئی مضمون بڑھایا نہیں جا سکتا جس کے معنی یہ ہیں کہ ان بزرگوں کی وفات کے بعد اب نَعُوذُ بالله خدا تعالیٰ کا خزانہ خالی ہو چکا ہے جو معارف اور علوم وہ دے چکا سو دے چکا اب معرفت کی کوئی نئی بات بنی نوع انسان پر نہیں کھل سکتی ، روحانیت کا کوئی نیا را از بنی نوع انسان پر منکشف نہیں ہوسکتا.گویا وہ دروازہ جسے خدا تعالیٰ نے گھلا قرار دیا تھا اُسے اِن مولویوں نے بند سمجھ لیا اور وہ روحانی انعامات جن کے متواتر نزول کی اُس نے بشارت دی تھی ان کے متعلق انہوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ وہ ختم ہو چکے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا تھا کہ كُلّ يَوْمٍ هُوَني شان ہم تو ہر روز ایک نئے روپ میں آتے ہیں اور نئی شان کے ساتھ نئے انعامات بنی نوع انسان پر نازل کرتے ہیں.یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ جس قرآن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے اسی قرآن کے ماننے والے یہ کہتے ہیں کہ جو شخص قرآن کریم کی کوئی نئی تفسیر کرتا ہے وہ گفر اور الحاد کا ارتکاب کرتا ہے حالانکہ یہ کفر نہیں بلکہ یہ خدا تعالیٰ کی کتاب کو ایک زندہ کتاب ثابت کرنے والی خوبی ہے.یہ اس دعویٰ کا ایک عملی ثبوت ہے جو قر آن کریم نے پیش کیا کہ ہم ہر روز ایک نئی شان میں دنیا پر جلوہ گر ہوتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جبکہ دنیوی انعامات قرآن ایک زندہ کتاب ہے بہت بڑھ چکے ہیں ضرورت تھی کہ اسی طرح روحانی انعامات کی بھی بارش ہوتی تاکہ دنیا کی طرف راغب لوگ دین داروں کو شرمندہ نہ کر سکتے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ انہی وعدوں کے مطابق اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ میں پھر ہمارے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے اور ہم دنیا میں یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہما را خدا ایک زندہ خدا ہے.ہماری کتاب ایک زندہ کتاب ہے اور وہ اب بھی اپنے روحانی انعامات جس کو چاہے دے سکتا ہے ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگ اُس سے مانگیں.دینے والا نہیں تھکا تو مانگنے والے اس سے کیوں مایوس ہوں.

Page 308

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۲ سیر روحانی (۵) اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ مجھے بھی اور آپ بارگاہ رب العزت میں پکار لوگوں کو بھی اپنی ذمہ داریوں کے سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے تا کہ وہ نور جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہم نے پایا ہے وہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلے اور ہم اپنی زندگیوں میں اسلام کی فتح کا دن دیکھ کر اس بات پر فخر کر سکیں کہ ہم نے شیطان کی حکومت مٹا کر دنیا میں خدا اور اُس کے رسول کی حکومت قائم کر دی ہے.اسی مقصد کو پورا کرنے کے لئے ہماری جماعت کے بیسیوں مبلغین اس وقت غیر ممالک میں کام کر رہے ہیں اور وہ اس بات کے مستحق ہیں کہ اُن کی کامیابی کے لئے دُعائیں کی جائیں.نہ صرف اس لئے کہ وہ اسلام کی اشاعت کا فرض ادا کر رہے ہیں بلکہ اس لئے بھی کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی ملک کہلاتا ہے.ہم سے لوگ خواہ کتنے بھی اختلاف رکھتے ہوں وہ منہ سے یہی کہتے ہیں کہ لَا اِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله اور منہ سے یہی کہتے ہیں کہ اسلامی احکام پر ہی عمل کرنا چاہئے.لیکن ان مبلغین کے ارد گر دوہ لوگ بستے ہیں جو لا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ کے قائل نہیں ساری طرف سے انہیں یہی آوازیں آتی ہیں کہ نَعُوذُ بِالله قرآن جھوٹا ہے ، اسلام جھوٹا ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہیں پس ذہنی لحاظ سے جو اطمینان کی کیفیت آپ لوگوں کو میسر ہے وہ ان مبلغوں کو میتر نہیں.پس اُن کا حق ہے کہ آپ لوگ انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.میں ان کی غفلتوں کا انکار نہیں کرتا لیکن اُن کی قربانیوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.بعض دفعہ ان کے جانے کے بعد اُن کے گھروں میں بچے پیدا ہوئے ہیں اور وہ بڑے ہو کر اپنی ماؤں سے پوچھتے ہیں کہ ہمارے ابا کی شکل کیسی ہے؟ اتنی بڑی قربانی کے بعد آپ لوگ خود ہی غور کریں کہ اُنکا ہم پر کتنا بڑا حق ہے پس چاہئے کہ ہم اللہ تعالیٰ سے دُعا کریں کہ وہ ہر جگہ اسلام کی اشاعت کے راستے کھولے اور انہیں اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے.اس طرح ہماری جماعت کے باقی افراد کے قلوب کو بھی اِس کام کی اہمیت سمجھنے کیلئے کھول دے اور تبلیغ کے متعلق اُن کے اندر ایک نئی زندگی اور بیداری پیدا فرمائے.اب دنیا پر ایسا وقت آچکا ہے کہ ہماری جماعت

Page 309

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۳ سیر روحانی (۵) کے ایک ایک فرد کو بیدار ہو جانا چاہئے اور ایسی کوشش کرنی چاہئے کہ لاکھوں لاکھ لوگ اسلام میں داخل ہونے شروع ہو جائیں اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کے دوستوں کو تبلیغ کا ایسا جوش عطا فرمائے جو کبھی مٹنے والا نہ ہو اور ایسا جنون بخشے جو کبھی دینے والا نہ ہو اور جس کے نتیجہ میں فوج در فوج لوگ اسلام اور احمدیت میں داخل ہونے شروع ہو جائیں.دُعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں اسی طرح ہمیں دعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اپنا تقرب اپنا قرب نصیب کرے نہ ، نصیب فرمائے کیونکہ یہی ایک غرض ہے جس کے لئے ہم جد و جہد کر رہے ہیں.اگر ہمیں ذاتی طور پر خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں تو ہمیں اس سے کیا کہ اس زمانہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں.اللہ تعالیٰ نے خواہ کتنا بڑا مسیح اور مہدی ہمارے لئے بھیج دیا ہو، خواہ کتنے بڑے مدارج کے دروازے اُس نے ہمارے لئے کھول دیئے ہوں اگر ہم خود ان دروازوں کے اندر داخل نہیں ہوئے تو ہماری کیا زندگی ہے.اگر واقعہ میں اُس نے اپنے قُرب کے دروازے کھول دیئے ہیں اور اپنی برکتیں نازل کر دی ہیں تو ہماری اس سے زیادہ اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ دروازے تو گھلے ہوں مگر ہم اس کے قرب سے محروم رہیں.پس دعائیں کرو کہ خدا تعالیٰ کی محبت اور اُس کا عشق ہمارے دلوں میں اتنا پیدا ہو کہ دنیا کی کوئی چیز اسکو چھپا نہ سکے.ہم خدا کے ہو جائیں اور خدا ہمارا ہو جائے.ہم خدا میں ہو جائیں اور خدا ہم میں ہو جائے.ہم خدا کو دیکھیں اور دنیا ہم میں خدا کو دیکھے.یہی چیزیں ہیں جو نبیوں کی جماعتوں کو حاصل ہو ا کرتی ہیں اگر یہ چیز نہیں تو پھر ہماری زندگی زندگی نہیں بلکہ ہم وَمَن كَانَ في هذة أعمى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعلى ۲۵ کے مصداق ہیں.پس آؤ ان باتوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں ، اپنی کمزوریوں کے دُور ہونے کے لئے ، اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لئے اور دشمنوں کی ہدایت اور ان کی راہنمائی کے لئے اور یہ کہ اگر ہمارا اُس کی راہ میں مرنا ہی ضروری ہے تو وہ اپنے

Page 310

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۴ سیر روحانی (۵) فضل سے ہمارے دلوں کو وہ طاقت بخشے کہ دنیا کی ساری مصیبتیں اور تکلیفیں خدا تعالیٰ کے راستہ میں ہمیں ایسی ہی خوبصورت نظر آئیں جیسے گلاب کا پھول.ہماری زندگیاں بدل جائیں ہم میں جوش عمل پیدا ہو جائے اور ہما را رسمی ایمان حقیقی ایمان کی شکل اختیار کر لے.خدا تعالیٰ ہمارے ایمان کو مضبوط کرے اور ہمیں وہ قوت عمل عطا کرے جس سے دنیا کا نقشہ بدل جائے.وہ آپ آسمان سے اتر آئے اور ہمیں اپنی گود میں اُٹھا لے اور ہمیں اپنی رحمت اور شفقت کے دامن میں چھپا لے اور ہمیں اپنی رضا کا وارث کرے.دُعائیں کرو کہ تثلیث کا بُت ہمارے اسی طرح قادیان اور ہندوستان کے احمدیوں کے لئے بھی دعائیں کرو کہ ہاتھوں سے پاش پاش ہو جائے اللہ تعالیٰ ان کی ہمتوں کو بلند کرے اور ہمارا خدا اُن کا آپ حافظ و ناصر ہو اور اُن کو ایسی ترقی عطا فرمائے کہ وہ لاکھوں لاکھ اور کروڑوں کروڑ ہو جائیں.گویا ادھر ہم ترقی کر رہے ہوں اور اُدھر وہ ترقی کر رہے ہوں اور جیسے نوح کے زمانہ میں ہوا کہ آسمان سے بھی پانی برسا اور زمین سے بھی چشمے پھوٹ پڑے اور پھر دونوں پانی آپس میں مل گئے اور کفر وشیطنت کی دنیا ان پانیوں سے تباہ ہو گئی اس طرح خدا ادھر ہمیں ترقی عطا فرمائے اور اُدھر اُن کو ترقی دیتا چلا جائے اور پھر یہ ترقیات ساری دنیا پر اس طرح چھا جائیں کہ اسلام اور احمدیت کو غلبہ میسر آ جائے.عیسائیت نے بہت لمبی عمر پائی ہے اب ہمیں خدا سے دُعا کرنی چاہئے کہ وہ اس ضلالت کو ہمارے ہاتھوں سے تباہ کرے اور یہ بُت ہمارے ہاتھوں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے جس طرح سومنات کا بت محمود غزنوی کے ہاتھ سے توڑا گیا تھا اسی طرح خدا اب تثلیث کا بُت میرے ہاتھوں سے پاش پاش کرے اور وہ دنیا میں دوبارہ کبھی غلبہ اور عروج حاصل نہ کرے.اللَّهُمَّ امِینَ.المزمل : ۱۶ تا ۱۹ الاعراف : ۱۵۹ ۳ سبا : ۲۹ تا ۳۱ السجدة :.لوقا باب ۱۳ آیت ۳۵ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن مطبوعہ ۱۸۸۷ء (مفہوماً)

Page 311

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۵ بخارى كتاب التفسير تفسير سورة الجمعة باب قوله وَ آخَرِينَ مِنْهُمُ....الخ ك الزمر : ٢٤ الواقعة : ٧٩ اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ١٠ اَلْمَثَانِي مِنَ الْوَادِى مُعَاطِفُهُ - اقرب الموارد جلد ا صفحه ۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء المثاني الشئ ـ قواهُ وَطَاقَاتُه - اقرب الموارد جلد ا صفحه ۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء الحجر : ٣ المائده : ۴ سیر روحانی (۵) بخاری کتاب التفسير تفسير سورة المائده باب قوله الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ.ها لسان العرب زیر لفظ ثنى دار الكتب العلمية بيروت لبنان مطبوعه ۲۰۰۵ء ۱۶ ال عمران :۳۲ کا بنی اسرائیل: ۲۱ ۱۹ آل عمران: ۱۹۷، ۱۹۸ ۲۰ فاطر : ۴۴،۴۳ القلم : ۵ بخارى كتاب الجهاد والسير باب مَنْ ينكب اويطعن في سبيل الله، سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۲ بنی اسرائیل:۸۲ ۲۳ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۷ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۲۴ الانفال :۴۳ ۲۵ الزمر : ۵۵،۵۴ ۲۶ مسلم کتاب الایمان باب اذنى اَهْلِ الْجَنَّةِ منزلة فِيهَا الانعام: ۶۴ ، ۶۵ الـ الصفت : ۷ تااا ۲۹ مشكوة كتاب الفتن باب مناقب الصحابة ٣٠ العنكبوت :٧٠ ا البلدا ۳۳ المؤمن : ۶۵ ۳۴ الحشر: ۲۵ ۳۲ هود: ۷ ۳۵ مجمع الزوائد جویم صفحه ۹۵ کتاب الصيد و الذبائح باب الاذان في أذن المولود مطبع دار الفکر بیروت لبنان مطبوعه ۱۹۹۴ء ٣٦ المعجم الكبير جلدا اصفحه ۲۲۳ مطبوعہ بغداده ۱۹۸ء

Page 312

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۶ سیر روحانی (۵) البقره : ۲۸۳ ۳۸ الاعراف: ۱۵۸ ۳۹ الانعام:۱۰۴ ٤٠ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۱۱۴۴ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ام بخاری کتاب الایمان باب سؤال جبريل النبي صلى الله عليه وسلم عَنِ الْإِيمَان (الخ) الكهف :ااا ٤٣ النمل : ٦٣ ۲۴ الرحمن : ۳۱،۳۰ ۴۵ بنی اسرائیل: ۷۳

Page 313

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۸۷ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 314

Page 315

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۲۸۹ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ سے خطاب فرموده ۱۲ رفروری ۱۹۵۱ء بمقام ربوه) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: وو سال دو قسم کے ہوتے ہیں ایک تو وہ سال ہوتا ہے جو کسی جماعت کی ابتداء یا کسی کام کے جاری ہونے کے وقت سے بارہ مہینے گزرنے کے بعد شروع ہوتا ہے اور ایک وہ سال ہوتا ہے جو شمسی یا قمری سالوں کے اصول پر شروع ہوتا ہے.قمری سال تو بدلتا رہتا ہے لیکن شمسی سال ہمیشہ یکم جنوری کو شروع ہوتا ہے.آج جب مجھ سے خواہش کی گئی کہ میں خدام الاحمدیہ کو سال رواں کے متعلق بعض ہدایات دوں تو میں نے یہ بات مان تو کی لی لیکن میری سمجھ میں یہ بات نہ آئی کہ یہ کونسا سالِ رواں ہے جس کے متعلق مجھ سے بعض نصائح اور ہدایات حاصل کرنے کی خواہش کی گئی ہے اس پر مجھے بتایا گیا کہ مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام چونکہ ۴ فروری کو ہوا تھا اس لئے اس مہینہ سے مجلس خدام الاحمدیہ کے نئے سال کی ابتدا ہوتی ہے.ورنہ شمسی یا قمری اصول کے مطابق یہ کوئی نیا سال شروع نہیں ہوا.نصیحت ہمیشہ اس شخص کے لئے مفید اور کارآمد ہوتی ہے جو اُ سے قبول کرتا اور اُس پر عمل کرتا ہے.باقی لوگوں کے لئے اس کا عدم اور وجود برابر ہوتا ہے.چند ماہ ہوئے خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع ہوا تھا اور اُس موقع پر میں نے جماعت کے نوجوانوں کو

Page 316

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۰ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو بہت سی مفید باتوں کی طرف توجہ دلائی تھی چونکہ میرے پاس امتحان کا کوئی ذریعہ موجود نہیں اس لئے میں نہیں جانتا کہ میری نصائح کا کیا اثر ہوا اور عمل میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی اور جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ پہلی نصائح کا کیا اثر ہوا اور ان کے نتیجہ میں اعمال میں کیا تبدیلی پیدا ہوئی.اُس وقت تک مزید نصائح کی طرف انسان کی توجہ کم ہوتی ہے اور مزید نصائح چنداں مفید بھی نہیں ہوتیں بلکہ بسا اوقات نصائح کی زیادتی قوم کی سستی اور غفلت کا موجب ہو جاتی ہے.کیونکہ جو چیز بار بار سامنے آتی ہے، جہاں وہ بار بار بیداری پیدا کرنے کا موجب ہو جاتی ہے وہاں بعض دفعہ وہ اپنی کثرت کی وجہ سے غفلت کا موجب بھی ہو جاتی ہے.پس میں نہیں سمجھتا کہ نو جوانوں میں نئی نصائح کے متعلق کیا کیفیت پیدا ہوئی ہے.کیونکہ میں اس حقیقت سے ناواقف ہوں کہ میری پہلی نصائح نے کیا اثر کیا تھا.بہر حال نتیجہ کا پیدا نہ ہونا جہاں ایک صحیح رائے قائم کرنے سے انسان کو محروم کر دیتا ہے وہاں اس بات کا کافی موجب نہیں ہوتا کہ نصائح کے سلسلہ کو ترک کر دیا جائے.اس لئے میں نئے سال کے لئے جماعت کے نوجوانوں کو اختصار کے ساتھ چند امور کی طرف توجہ دلا دیتا ہوں.جو نصائح کی جاسکتی ہیں وہ تو سینکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہوں گی اور پھر وہ مختلف حالات میں بدلتی بھی رہتی ہیں مگر اس زمانہ میں سب سے بڑی ضرورت سچائی کی ہے.انبیاء نے اس پر خاص زور دیا ہے اور انسانی اخلاق کا یہ ایک بنیادی حصہ ہے.سچائی اور راستی پر کوئی ایسا وقت نہیں آیا جب اس کی ضرورت نہ سمجھی گئی ہو بلکہ کفار کے نزدیک بھی یہ چیز بڑی قیمتی سمجھی جاتی تھی اور شاید ہی کسی زمانہ میں اسے ترک کرنا جماعتی اور سیاسی طور پر تسلیم کیا گیا ہو.مگر اس زمانہ میں سیاسی اور قومی مفاد کے لئے جھوٹ کو جھوٹ سمجھا ہی نہیں جاتا بلکہ اسے ایک نہایت ضروری چیز قرار دیا جاتا ہے.اور یہ مرض کی اس قدر پھیل گیا ہے کہ ہمارے ملک میں لوگ بڑے اطمینان کے ساتھ قسمیں کھا کھا کر جھوٹ بولتے ہیں اور ساتھ ہی اس بات پر ناراض بھی ہوتے ہیں کہ ہمارے اس جھوٹ کو

Page 317

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۱ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو سیچ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا.عدالتوں میں پہلے یہ رواج تھا کہ گواہ کے ہاتھ میں قرآن کریم دے کر اُس سے قسم لیتے تھے اور اس کا مطلب یہ ہوتا تھا کہ قرآن کریم میں جو وعید نازل ہوئے ہیں انہیں مد نظر رکھتے ہوئے میں قسم کھاتا ہوں اور اگر میری قسم جھوٹی ہو تو مذکورہ وعید اور سزائیں مجھے ملیں لیکن اِن گواہوں میں سے کئی ایسے ہوتے تھے جو قسم کھا کر بھی جھوٹ بولتے تھے.مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو ہمارے بڑے بھائی تھے اور ای.اے سی تھے وہ اپنا تجربہ سُنایا کرتے تھے کہ جتنا کوئی قرآن کریم ہاتھ میں لے کر جوش سے گواہی دیتا تھا میرے تجربہ میں اُتنا ہی وہ جھوٹا ہوتا تھا.وہ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا اچھا واقف تھا اُس کا مقدمہ میرے سامنے پیش ہوا.وہ کہنے لگا مجھے کوئی اور تاریخ دی جا ہے کیونکہ جو گواہ میں نے پیش کرنے تھے ، وہ فلاں فلاں وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.میں نے ہنس کر کہا میں تو تمہیں عقل مند اور ہوشیار آدمی خیال کرتا تھا لیکن اب میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ تم بے وقوف ہو.وہ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا گواہوں کے لئے جگہ اور وقت کی کیا ضرورت ہے.اگر تمہاری جیب میں کچھ ہے تو روپیہ ٹھٹی دے کر بعض آدمی گواہی کے لئے لے آؤ.چنانچہ وہ باہر چلا گیا اور عملی طور پر تھوڑی دیر میں ہی کچھ گواہ لے آیا.گواہی لیتے ہوئے میں ہنستا بھی جاؤں اور مذاق بھی کرتا جاؤں.وہ لوگ قرآن کریم سر پر رکھ کر اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ واقعہ یوں ہوا ہے.حالانکہ تھوڑی دیر ہوئی میں نے خود مدعی کو اس غرض کے لئے باہر بھیجا تھا کہ وہ کچھ دے دلا کر چند گواہ لے آئے.جب وہ گواہی دے چکے تو میں نے انہیں پکڑا اور کہا تم بڑے کذاب ہو، تمہیں واقعہ کا علم ہی نہیں لیکن محض چند ٹکوں کی وجہ سے تم اتنا جھوٹ بول رہے ہو کہ قرآن کریم کی بھی پرواہ نہیں کرتے.اب جس قوم کی یہ حالت ہو اُس کا یہ کہنا کہ ہم کامیاب کیوں نہیں ہوتے بالکل غلط بات ہے.دُنیا میں وہی قو میں جیتا کرتی ہیں جن میں صداقت ہوتی ہے.میں عیسائی دُنیا کو دیکھتا ہوں کہ اُنہوں نے مشق کے ساتھ اپنے اندر سچائی کی اتنی عادت پیدا کر لی ہے کہ جہاں حکومت کی خاطر وہ ہر قسم کا جھوٹ بول لیتے

Page 318

۲۹۲ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو انوار العلوم جلد ۲۲ ہیں وہاں جب ذاتیات کا سوال آتا ہے تو وہ جھوٹ نہیں بولتے.امریکہ کا کیریکٹر زیادہ اچھا ثابت نہیں ہوا.امریکہ کا کیریکٹر کمزور ہے.کیونکہ اُنہوں نے جلد ترقی کی ہے اس لئے وہ اپنا کیریکٹر نہیں بنا سکا لیکن یورپ نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اور اس نے اپنا کیریکٹر بنالیا ہے.اسی طرح کسی زمانہ میں ایک مسلمان کا کیریکٹر ایسا تھا کہ وہ جو بات کہتا تھا ٹھیک ہوتی تھی اور جب تک ہماری جماعت بڑھی نہیں تھی اُس وقت تک اس کا بھی یہی حال تھا.احمدی کوئی بات کہہ دے لوگ اسے صحیح تسلیم کر لیتے تھے اور کہتے تھے احمدی جھوٹ نہیں بولتے تھے.تحصیلوں پر جھنگ کا ہی ایک واقعہ ہے یہاں ایک دوست احمدی ہوئے تھے جن کا نام مغلہ تھا.ان کے تمام رشتہ دار اُن کے سخت مخالف ہو گئے.اس علاقہ کے لوگ چوری کو ایک فن سمجھتے ہیں اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں.چنانچہ جتنا بڑا کوئی چور ہوگا اُتنا ہی وہ چوروں میں معزز ہو گا.مثلاً کہا جائے گا فلاں آدمی بڑا معزز ہے اس لئے کہ فلاں موقع پر اس نے اتنی بھینسیں نکال لیں یا فلاں آدمی بہت معزز ہے اس لئے کہ اُس نے اتنی گائیں نکال لیں اور پھر چوروں میں اس حد تک نظام قائم ہوتا ہے کہ ہر علاقہ میں جو چند ضلعوں یا پر مشتمل ہوتا ہے، علاقہ کے سب چور اُس کی ہدایات پر عمل کرتے ہیں اور مال مسروقہ میں سے اُس کا حصہ نکالتے ہیں.مغلہ ایسے ہی بالا دستوں میں سے ایک تھے جو بعد میں احمدی ہو گئے اور چوری سے اُنہوں نے تو بہ کر لی.انہوں نے بتایا کہ علاقہ کے چور مال مسروقہ کا پانچواں دسواں یا بارہواں حصہ میرے گھر پر لاتے تھے اور وہ سُنایا کرتے تھے کہ چوروں کے اندر ایسا نظام موجود ہے کہ بعض چوری کی ہوئی چیزوں کو دودو تین تین سو میل تک پہنچا دیا جاتا ہے.ہر ایک جگہ کا اڈہ مقرر ہوتا ہے اور پہلے سے ہی یہ طے ہوتا ہے کہ اگر کوئی مسروقہ چیز مشرق کے کسی علاقہ کی طرف نکالنی ہے تو اتنے میل پر فلاں آدمی کو دے آؤ اور اگر مغرب کو مال نکالنا ہے تو چھ سات میل پر ایک دوسرے آدمی کو دے آؤ.اسی طرح شمال اور جنوب میں ایک ایک آدمی مقرر ہوتا ہے.چور مخصوص حالات کے مطابق یہ فیصلہ کرتا ہے کہ مال فلاں طرف نکالا جائے.مثلاً اگر وہ دیکھتا.

Page 319

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۳ اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو کہ جس کے ہاں چوری کی ہے اُس کی رشتہ داریاں مشرق میں ہیں تو وہ مسروقہ مال مغرب کی طرف بھیج دے گا اور اگر رشتہ داریاں مغرب میں ہیں تو وہ اسے مشرق کی طرف بھیج دیتا ہے.اسی طرح اگر اس کی رشتہ داریاں شمال کی طرف ہیں تو وہ مال جنوب کی طرف بھیج دے گا اور اگر رشتہ داریاں جنوب کی طرف ہیں تو وہ مال شمال کی طرف بھیج دے گا مثلاً بریکا نیر گورداسپور سے کتنی دُور تھا لیکن ہمارے علاقہ کا مسروقہ مال بریکا نیر تک جاتا تھا.پھر چوروں میں اس قسم کا نظام ہوتا ہے کہ مثلاً ایک شخص اگر کوئی جانور چوری کرتا ہے تو وہ حالات کے مطابق اُسے دس بارہ میل پر کسی مقررہ اڈے پر پہنچا دے گا اور اُسے مثلاً دسواں حصہ قیمت کامل جا ہے گا.پھر دوسرا آدمی اُسے دوسرے اڈے تک پہنچا دے گا اور اُسے دسواں حصہ قیمت کا مل جائے گا.اس طرح وہ ایک عام اندازہ لگا کر قیمت کے حصے کرتے جائیں گے اور آخری وقت اُسے بیچ کر ا پنا حصہ پورا کرے گا.ایک دفعہ سکھوں نے میری کچھ گھوڑیاں چرا لیں اور پولیس نے میرے خیال میں اُنہیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن چونکہ پولیس والے ایسے معاملات میں مجرموں سے کچھ لے کر کھا پی بھی لیتے ہیں اس لئے وہ سفارش لے آئے کہ اُنہیں معاف کر دیں اور اپنی رپورٹ واپس لے لیں یہ لوگ گھوڑیاں واپس دے دیں گے.ان کا خیال تھا کہ اگر انہوں نے معاف کر دیا اور پولیس سے اپنی رپورٹ واپس لے لی تو بعد میں گھوڑیاں غائب کر دی جائیں گی.میں نے کہا میں ایسا نہیں کروں گا.ہمارے وہ دوست میرے پاس پہنچے اور اُنہوں نے کہا میں نے سُنا ہے کہ سکھوں نے آپ کی گھوڑیاں چُرالی ہیں.یہ لوگ سیدھی طرح تو گھوڑیاں واپس نہیں کریں گے آپ اجازت دیں کہ میں ان کی گھوڑیاں چوری کروا دوں اس طرح وہ آپ کی گھوڑیاں واپس کر دیں گے.میں نے کہا آپ نے تو بہ کی ہوئی ہے آپ اپنی تو بہ پر قائم رہیں گھوڑیوں کی خیر ہے.اتفاقاً وہی چور جنہوں نے میری گھوڑیاں چرائی تھیں ایک اور مقدمہ میں گورداسپور عدالت میں پیش ہوئے.مسٹر اوگلی ڈی سی کی عدالت میں وہ چور پیش ہوئے.وہ احمدیوں کے اخلاق کے

Page 320

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۴ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو بہت مداح تھے.کسی شخص نے انہیں بتایا کہ یہ لوگ بہت سخت ہیں.انہوں نے قادیان کے مرزا صاحب کی گھوڑیاں بھی پھرالی تھیں.جس مقدمہ میں وہ چور عدالت میں پیش ہوا تھا اُس کی سزا دو سال سے سات سال تک ہو سکتی تھی لیکن ڈی سی نے مجرم کو مخاطب کر کے کہا تمہارے جُرم اور حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے میں تمہیں دو سال کی سزا دیتا ہوں اور پانچ سال مرزا صاحب کی گھوڑیاں چرانے کی سزا دیتا ہوں لیکن خدا تعالیٰ کی نظر میں یہ سزا بھی کم تھی.سات سال کی قید کے بعد جب وہ چور رہا ہو کر گھر آیا تو اُس کی غیر حاضری میں اُس کی بیوی آوارہ ہو چکی تھی.اُس نے اُسے قتل کر دیا اور خود پھانسی پر چڑھ گیا.غرض جب کوئی شخص سچائی کے ساتھ کام کرتا ہے تو خدا تعالیٰ خود اُس کا بدلہ لیتا ہے.مغلہ جب احمدی ہوئے تو انہوں نے قومی عادت یعنی چوری کو ترک کر دیا اور جھوٹ بولنا بھی چھوڑ دیا کیونکہ یہ ابتدائی مُجرم ہوتا ہے.اُن کے ماں باپ اور دوسرے رشتہ داروں نے ان کا بائیکاٹ کر دیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ مغلہ کا فر ہو گیا ہے لیکن بعد میں پتہ لگا کہ اُن کا لڑکا کا فر ہو کر سچ بولنے لگ گیا ہے اور چوری بھی اُس نے چھوڑ دی ہے.چور چوریاں کرتے تھے اور پولیس اور دوسرے لوگ ان کا تعاقب کرتے تھے.عدالتوں میں بات اور ہوتی ہے اور انسان وہاں جھوٹ بول کر گزارہ کر لیتا ہے لیکن برادری یا پنچائت میں یہ بات مشکل ہوتی ہے کہ کوئی اپنا قصور چھپالے.عدالتوں میں بتانے والے لوگ نہیں ہوتے اس لئے مجرم جو چاہے بیان دے دے.لیکن برادری اور پنچایت میں وہ اگر جھوٹ بولے گا تو فوراً بعض واقف لوگ کھڑے ہو جائیں گے جو اُس کا جھوٹ ظاہر کر دیں گے.غرض جب چور چوریاں کر کے گھروں میں واپس آتے تو تعاقب کرنے والے بھی پہنچ جاتے اور کہتے تم نے ہمارا مال چرایا ہے لیکن وہ کہتے نہیں اور اکثر قرآن کریم بھی اُٹھا لیتے.لوگ چوٹی اٹھنی پر قسمیں کھا لیتے ہیں پھر بھینس یا گائے پر وہ قرآن کریم کیوں نہ اُٹھاتے.تعاقب کرنے والے چوروں کی قسم پر اعتبار نہ کرتے اور کہتے لاؤ مغلے

Page 321

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۵ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو کو.اگر وہ کہہ دے کہ تم نے مال چوری نہیں کیا تو ہم مان لیں گے.وہ وہاں پہنچتے اور مغلے سے کہتے تم گواہی دو کہ ہم نے ان کا مال نہیں چرایا.وہ کہتے ہیں کیسے کہوں کہ تم نے مال نہیں چرایا کیا تم فلاں مال چرا کر نہیں لائے ؟ اُن کے بھائی کہتے.کیا تم ہمارے بھائی ہو یا ان کے بھائی وہ کہتے.اس میں کوئی شک نہیں کہ تم میرے بھائی ہو لیکن یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں جھوٹی گواہی دوں.وہ انہیں مارتے ، پیٹتے اور سمجھتے کہ اب مارکھا کر اسے عقل آگئی ہو گی لیکن وہ دوبارہ یہی کہہ دیتے کہ تم نے چوری کی ہے.میاں مغلہ سُنایا کرتے تھے کہ جب کوئی چوری کا معاملہ میرے سامنے آتا تو میں خیال کرتا کہ اگر سچ بولا تو میرے بھائی اور دوسرے رشتہ دار مجھے ماریں گے اور اگر جھوٹ بولا تو گناہ گار ہو جاؤں گا اس لئے میں کہہ دیتا میں تو آپ کے نزدیک کافر ہوں پھر آپ میری گواہی کیوں لیتے ہیں؟ وہ کہتے تم کافر تو ہو لیکن بولتے سچ ہو.پھر میں کہتا میرا اس معاملہ میں کیا واسطہ ہے؟ لیکن وہ میرا پیچھا نہ چھوڑتے.میرے بھائی اور رشتہ دار مجھے چٹکیاں کاٹتے اور مجبور کرتے کہ میں جھوٹ بول دوں لیکن میں کہتا تم لائے تو تھے فلاں بھینس پھر میں جھوٹ کیسے بولوں.نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ مجھے خوب مارتے.وہ دوست تنگ آکر قادیان آگئے اور ایک احمدی انجینئر خان بہادر نعمت اللہ خاں صاحب مرحوم نے جنہوں نے ربوہ کے قریب دریائے چناب پر پل بنایا تھا انہیں ملازم کرا دیا.غرض بعض ایسی عادات ہوتی ہیں جن کا ترک کرنا آسان نہیں ہوتا.جس طرح جھنگ کے لوگوں میں چوری کی عادت ہے نو جوان بعض دفعہ جھوٹ کی پرواہ نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر جھوٹ بول لیا تو کیا ہوا.حالانکہ جھوٹ فطرت کے خلاف ہے.جھوٹ اس چیز کا نام ہے کہ کان سے جو کچھ سُنا ہو اس کے متعلق کہہ دیا جائے کہ میں نے نہیں سُنا.آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہو اس کے متعلق کہہ دیا جا ہے کہ میں نے نہیں دیکھا.ہاتھ نے ایک چیز اٹھائی ہو لیکن انسان کہہ دے کہ میرے ہاتھ نے فلاں چیز نہیں اُٹھائی.ایک شخص کے ؤں ایک طرف چلیں لیکن وہ کہہ دے کہ میرے پاؤں اس طرف نہیں چلے.گویا انسان کسی غیر کی نہیں بلکہ اپنی تردید آپ کرتا ہے.جو چیز اُس نے خود دیکھی ہے اُس کے متعلق

Page 322

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۶ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو کہ دیتا ہے کہ میں نے نہیں دیکھی.جو چیز اس نے خود سُنی ہے اس کے متعلق کہہ دیتا ہے کہ میں نے نہیں سنی.جو چیز وہ خود چکھتا ہے اس کے متعلق وہ کہہ دیتا ہے کہ فلاں چیز میں نے نہیں چکھی.اُس کے ہاتھوں نے ایک چیز اُٹھائی ہوتی ہے لیکن وہ کہہ دیتا ہے کہ میں نے فلاں چیز نہیں اُٹھائی.گویا وہ اپنی تردید آپ کرتا ہے اور اس سے زیادہ فطرت کے خلاف اور کیا چیز ہو گی.محبہ ایسی چیز پر ہو سکتا ہے جس میں قیاس کا دخل ہو حواسِ خمسہ کے افعال پر مجبہ نہیں کیا جاسکتا اور حواس خمسہ کے افعال کے خلاف بات کہنے کو جھوٹ کہتے ہیں.جو شخص حواس خمسہ کی تردید کرتا ہے وہ گویا اپنی زبان ، ہاتھ ، ناک اور کان کی تردید کرتا ہے اور پھر وہ اس میں سب سے زیادہ لذت محسوس کرتا ہے کہ وہ اپنے خلاف آپ گواہی دے رہا ہے.ایک انسان کے ہاتھ ایک چیز پکڑتے ہیں اور وہ کہتا ہے میں نے فلاں چیز نہیں پکڑی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ہاتھوں کو کہتا ہے کہ تم نے فلاں چیز نہیں پکڑی.ایک چیز اُس کی زبان چھتی ہے لیکن وہ کہتا ہے میں نے فلاں چیز نہیں چکھی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی زبان سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں چیز نہیں چکھی.یا اُس کے کان ایک بات سنتے ہیں اور وہ اس کا انکار کر دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کانوں سے کہتا ہے کہ تم نے فلاں بات نہیں سنی.اب یہ کتنی مضحکہ خیز اور عجیب بات ہے مگر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور واقعہ آنے پر جھوٹ بول دیتے ہیں.اب اگر میں یہ کہوں کہ تم جھوٹ بولتے ہو یا نہیں؟ تو تم یہ بات نہیں سمجھ سکو گے.لیکن میں یہ سوال اور طرح کرتا ہوں.(اس موقع پر حضور نے خدام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ خادم کھڑے ہو جائیں جو یہ سمجھتے ہوں کہ میرے سارے دوست سچ بولتے ہیں.مگر اس پر کوئی نوجوان کھڑا نہ ہوا.تقریر جاری رکھتے ہوئے حضور نے فرمایا:-) دیکھو یہ مرض اتنا پھیل چکا ہے کہ تم میں سے ایک خادم بھی ایسا کھڑا نہیں ہو ا جو کہہ سکے کہ میرے سارے دوست سچ بولتے ہیں حالانکہ اس کا علاج آسان تھا کہ جب تمہارا کوئی دوست جھوٹ بولتا تو اُسے کہتے کہ آج سے میں تمہارا دوست نہیں اور آج سے میں

Page 323

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۷ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو تمہارے ساتھ کلام نہیں کروں گا.نتیجہ یہ ہوتا کہ آج تم بڑی دلیری سے کھڑے ہو جاتے اور کہتے میرے سب دوست سچ بولتے ہیں کیونکہ جب تمہارے کسی دوست نے جھوٹ بولا تھا اُس وقت سے وہ تمہارا دوست نہیں رہا تھا.اگر تم ایسا کرتے تو تم خود بھی اور تمہارا وہ دوست بھی سچ بولنے لگ جاتا.اگر تمہاری دوستی کی اُس کے نزدیک کوئی قیمت ہوتی تو وہ کہتا میں اس کا دوست رہنا چاہتا ہوں اس لئے میں آئندہ ہمیشہ سچ بولوں گا اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ تم بھی سچ بولنے لگ جاتے کیونکہ جب تم اپنے دوست سے سچ بلواتے تو پھر وہ دوست بھی تمہیں مجبور کرتا کہ تم سچ بولو اور اس طرح تمہیں وہ قیمت مل جاتی جس کا ہیرے جواہرات بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.بہر حال اگر تم نے پہلے اس طریق پر عمل نہیں کیا تو اب اس پر عمل کرنا شروع کر دو.یہ کہنا فضول ہوگا کہ تم جھوٹ نہ بولو کیونکہ اگر میں ایسا کہوں تو تمہارے لئے آگے قدم اُٹھا نا مشکل ہو جائے گا.میں کہتا ہوں جھوٹ بولنے والا تمہارا دوست نہ ہو اس طرح تم خود سچ بولنے لگ جاؤ گے.تم اگر ایک دوست کو یہ کہو گے کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو میری تمہاری دوستی ٹوٹ جائے گی تو لازماً تمہارا دوست بھی یہ فیصلہ کر لے گا کہ اگر تم نے جھوٹ بولا تو اُس کی دوستی بھی ٹوٹ جائے گی اور جب بھی تم جھوٹ بولو گے تو وہ کہے گا میاں ! تم کیا کر رہے ہو؟ غرض سچ ایک قیمتی چیز ہے اور پھر کوئی مشکل بھی نہیں آسان ترین ہے جو کام ہاتھ نے کیا ہے اس کے متعلق یہ کہ دینا کہ ہاتھ سے یہ کام کیا ہے اس میں بوجھ کیا ہے.آنکھ نے جو کچھ دیکھا اُس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ آنکھ نے فلاں چیز دیکھی ہے اس میں کونسی مشکل ہے.کانوں نے ایک بات سنی ہے.اب اس کے متعلق یہ کہہ دینا کہ کانوں نے فلاں بات سنی ہے اور اس کو ڈ ہرا دینا کون سی مشکل بات ہے.یہاں کوئی فقرہ نہیں بنانا صرف ایک بات کو دہرا دینا ہے مثلاً عربی زبان ہے آپ لوگ اسے بڑی مشکل سے سیکھ سکتے ہیں لیکن ایک دو سال کے بچے کو بھی کہو ذَهَبتُ تو وہ اِسے دُہرا دے گا.گویا جو فقرہ بنانا تم ساتویں، آٹھویں جماعت میں سیکھو گے وہ تم ایک سال کے بچہ سے بھی بن سکتے ہو.تم کہو گے ذَهَبْتُ تو وہ فورا ڈ ہرا دے گا.اسی طرح بی نقل کرنے کو کہتے ہیں یعنی جب تم سچ

Page 324

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۸.اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو بولتے ہو تو ایک بات کو دُہرا دیتے ہو.ہاتھ سے ایک کام کرتے ہو تو تم کہتے ہو ہاتھ فلاں کام کرتے ہیں.آنکھیں دیکھتی ہیں تو تم کہتے ہو آنکھیں دیکھتی ہیں.کان سنتے ہیں تو تم کہتے ہو کان سنتے ہیں.زبان چکھتی ہے تو تم کہتے ہو زبان چکھتی ہے اور اسی کو سچ کہتے ہیں لیکن یا درکھو سچ کے یہ معنے نہیں کہ آنکھ نے جو کچھ دیکھا ہے وہ تم ضرور کہہ دو.قرآن کریم بعض باتوں کے بیان کرنے سے منع کرتا ہے.پس اگر کوئی شخص ان کو بیان کرتا ہے تو وہ سچ نہیں بولتا بلکہ فتنہ و فساد پھیلاتا ہے.سچ کے معنی صرف یہ ہیں کہ اگر تم کوئی بات کہو تو ضرور سچ کہو یہ نہیں کہ تم وہ بات ضرور کہو.فرض کرو تم نے ایک لڑکے کو کسی دوسرے لڑکے کو مارتے دیکھا.اب اگر ہیڈ ماسٹر تمہیں بلا کر پوچھتا ہے کہ کیا اس لڑکے نے فلاں لڑکے کو مارا تھا ؟ تو تم سچی بات بتا دو خواہ مارنے والا تمہارا گہرا دوست ہی ہو.لیکن اگر تم خود یڈ ماسٹر کے پاس چلے جاتے ہو اور اُسے کہتے ہو کہ میں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ سچ نہیں بلکہ فتنہ اور شرارت ہے.جب ہیڈ ماسٹر خود بلا کر پوچھے اور تم کہو میں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ سچ ہو گا لیکن اگر تم خود ہیڈ ماسٹر کے پاس چلے جاتے ہو اور کہتے ہو میں نے فلاں لڑکے کو مارتے ہوئے دیکھا ہے تو یہ فتنہ ہوگا اور اسلام اس سے منع کرتا ہے.ہر نیکی کسی عمل پر گناہ بن جاتی ہے اور ہر بدی کسی عمل پر نیکی بن جاتی ہے.مثلاً عفو کرنا بھی اسلام نے جائز رکھا ہے.فرض کرو اس لڑکے نے واقعی طور پر کسی لڑکے کو مارا تھا لیکن بعد میں مار کھانے والا مارنے والے کو معاف کر دیتا ہے اور اپنے والدین یا بہن بھائیوں کو نہیں بتا تا تو یہ بہت بڑی نیکی ہے.اب اگر تم اس کے والدین کے پاس چلے جاتے ہو اور کہتے ہو فلاں لڑکے نے تمہارے لڑکے کو مارا ہے تو گو اس طرح تم ایک حقیقت بیان کرتے ہو لیکن تمہارا یہ حقیقت بیان کرنا فتنہ کا موجب بن جائے گا.وہ لڑکا مارنے والے کو معاف کر آیا تھا لیکن اس کے والدین یا اُستادا گر تم ان کے پاس رپورٹ کرتے ہو تو اُسے سزا دیں گے.پس سچ اس چیز کا نام نہیں کہ تم جو کچھ دیکھو وہ بیان کر دو.سچ اس چیز کا نام ہے کہ جب تم سے گواہی لی جائے تو تم وہی بیان کرو جو واقع ہوا ہے.یہی وجہ ہے کہ شریعت نے

Page 325

انوار العلوم جلد ۲۲ ۲۹۹ اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو حکم دیا ہے کہ گواہی صرف قاضی لے کیونکہ بعض جگہیں ایسی ہوتی ہیں جہاں شریعت کہتی ہے کہ گواہی نہ لو.اب اگر گواہی لینے والا قاضی نہ ہو تو ہو سکتا ہے وہ کوئی ایسی بات پوچھ لے جس کے پوچھنے کی شریعت نے اجازت نہیں دی اور اس طرح فتنہ پھیل جائے.مثلاً ایک شخص کسی دوسرے شخص پر الزام لگاتا ہے کہ اس نے چوری کی تو اب چوری کرنا بے شک جرم ہے لیکن قاضی کو یہ اختیار نہیں کہ وہ اس کی بات مان لے اور فیصلہ کر دے کہ اس نے فی الواقعہ چوری کی ہے.قاضی کو فیصلہ کرنے کا اُسی وقت اختیار ہے جب الزام لگانے والا الزام کو گواہیوں سے ثابت کر دے.شریعت نے توبہ کا دروازہ کھلا رکھا ہے نے اور تو بہ کا دروازہ اُسی وقت کھلا رہ سکتا ہے جب اخفاء کا دروازہ کھلا رہے.جب کسی مجرم کو چھپانے کی اجازت نہیں تو پھر تو بہ کا دروازہ بھی گھلا نہیں.مثلاً اگر کسی نے دوسرے شخص کا کھانا اُٹھا لیا تو ہو سکتا ہے وہ ایسا کرنے میں معذور ہو اور خدا تعالیٰ نے اس پر پردہ ڈال دیا ہو یا ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ مالک کو اپنے پاس سے بدلہ دے دے یا ہوسکتا ہے کہ کھانا کھا لینے کے بعد اسے یہ خیال آئے کہ میں نے بڑی غلطی کی ہے.اگر دو وقت کا پہلے فاقہ تھا تو ایک وقت کا فاقہ اور برداشت کر لیتا.وہ خدا تعالیٰ کے سامنے گڑ گڑائے اور کہے خدایا ! میں نے غلطی کی ہے تو مجھے معاف کر دے اور خدا تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا ہو اور جس شخص کا کھانا اُس نے کھایا ہے وہ بھی صبر کر لے.لیکن اگر اسے کھانا کھاتے ہوئے کوئی دیکھ لیتا ہے اور وہ مالک کو کہہ دیتا ہے کہ فلاں نے تمہاری چوری کی ہے تو یہ سچ نہیں بلکہ فتنہ اور شرارت ہے.اس قسم کی شکایت اگر قاضی کے پاس جائے تو چونکہ وہ شریعت کا واقف ہو گا.وہ کہے گا دو گواہ لاؤ.اور اگر دو گواہ مل جاتے ہیں تو پتہ لگا کہ خدا تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی نہیں کی لیکن اگر وہ بغیر گواہوں کے اس کی بات کو مان لیتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کی پردہ پوشی کو توڑتا ہے.پس سچ کے یہ معنے نہیں کہ جو کچھ تم دیکھوا سے ضرور بیان کرو اور نہ سچ کے یہ معنے ہیں کہ تم جو کچھ دیکھو اُسے ہر ایک کے سامنے بیان کرو.اگر غیر قاضی تم سے سوال کرتا ہے تو تم کہہ دو میں نہیں بتا تا.اسی طرح اگر تم کسی شخص کو کوئی مجرم کرتے دیکھتے ہو تو تمہارا اُس پر پردہ ڈال دینا سچ کے خلاف نہیں.تمہارا

Page 326

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۰ اپنے اندر سچائی، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو سچ کے خلاف فعل اُس وقت متصور ہو گا جب قاضی یا قائمقام قاضی جسے شریعت نے اپنے دائرہ میں گواہی لینے کا حق دیا ہے ، تم سے دریافت کرے اور تم سچ نہ بولو.مثلاً تم سکول کے ساتھ تعلق رکھتے ہو تو اگر کسی لڑکے نے دوسرے لڑکے کو مارا یا اُس نے گالی دی یا سکول کی کوئی چیز اٹھا لی تو مجسٹریٹ ہیڈ ماسٹر ہے.اگر وہ تمہیں بلائے اور تم سے دریافت کرے کہ فلاں بات کیسے ہوئی تو تم ٹھیک ٹھیک واقعہ بیان کر دو لیکن اگر وہ تمہیں گواہی کے لئے نہ بُلائے تو خواہ وہ بات درست ہی ہو اس کا چھپا نا سچ کے خلاف نہیں بلکہ اس طرح تم صلح پسند بنتے ہو اور فتنہ سے دُور رہتے ہو.دوسری چیز محنت ہے یہ خلق بھی ہمارے ملک میں بہت کم پایا جاتا ہے اور مسلمانوں کی تباہی کا زیادہ تر موجب یہی تھا کہ اُن میں محنت کی عادت جاتی رہی تھی.جتنے وقت میں ہمارے نوجوان ایک چھوٹا اور ادنی علم سیکھ سکتے ہیں وہ درحقیقت دُنیا میں چوٹی پر پہنچنے کا زمانہ ہوتا ہے.ہمارے نوجوان ۲۵ ، ۲۶ سال کی عمر میں کالج سے فارغ ہوتے ہیں لیکن دُنیا کے دوسرے ممالک کے لوگ اس عمر میں چوٹی تک پہنچ جاتے ہیں.جس وقت ہمارے نو جو ان کالجوں میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں دوسرے ممالک کے لوگ اس وقت تک ملک میں کافی شہرت حاصل کر لیتے ہیں.اُن کے کام کا زمانہ پندرہ سولہ سال کی عمر سے شروع ہوتا ہے لیکن ہمارے نوجوان ۲۵، ۲۵ سال کی عمر تک ماں باپ کی کمائی پر پلتے ہیں.اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے اندر محنت کی عادت نہیں پائی جاتی.انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ بزرگوں کا فرض ہے کہ وہ ہمیں کھلا ئیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ ہمارا بھی کوئی فرض ہے.کہتے ہیں ایک بوڑھا شخص کوئی ایسا درخت لگا رہا تھا جو دیر سے پھل دیا کرتا ہے.ایران کا بادشاہ اس بوڑھے کے پاس سے گزرا اور اس سے دریافت کیا.بوڑھے تم ۸۰۷۰ سال کے ہو چکے ہو اور یہ درخت جب پھل دے گا اُس وقت تک تم مر چکے ہو گے تم یہ درخت کیوں لگا رہے ہو؟ بوڑھے نے جواب دیا.بادشاہ سلامت ! آپ کیا کہہ رہے ہیں اگر یہی خیال ہمارے بزرگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا اور وہ یہ درخت نہ

Page 327

انوار العلوم جلد ۲۲ ٣٠١ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو لگاتے تو ہم پھل کہاں سے کھاتے ؟ اُنہوں نے درخت لگائے اور ہم نے پھل کھایا اب ہم یہ درخت لگائیں گے تو آنے والی نسل اس کا پھل کھائے گی.اس بادشاہ کی عادت تھی کہ جب اسے کوئی بات پسند آتی تو وہ کہتا زہ اور خزانچی کو حکم تھا کہ جب وہ کسی کام پر زہ کہے تو وہ تین ہزار دینار کی تحصیلی بطور انعام اسے دے دے.بادشاہ نے اس بوڑھے کے جواب پر کہا ”زہ اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی تحصیلی فوراً بوڑھے کے سامنے رکھ دی اور کہا بادشاہ سلامت کو آپ کی بات بہت پسند آئی ہے اور اُنہوں نے آپ کو یہ رقم بطور انعام دی ہے.بوڑھے نے ہنس کر کہا.بادشاہ سلامت ! آپ نے تو کہا تھا.بوڑھے تم کیا کر رہے ہو اس کا تمہیں کیا فائدہ؟ لوگ جلدی جلدی پھل دینے والے درختوں کا پھل بھی ایک عرصہ کے بعد کھاتے ہیں لیکن میں نے تو اس درخت کا پھل اسے لگاتے ہی کھا لیا.بادشاہ کو یہ بات پھر پسند آئی اور اس نے کہا ”زہ “ اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی ایک اور تھیلی اس بوڑھے کے سامنے رکھ دی.بوڑھا ہنسا اور اس نے کہا بادشاہ سلامت ! اور لوگ تو جلد سے جلد پھل دینے والے درخت کا پھل سال میں ایک دفعہ کھاتے ہیں اور میں نے اس درخت کا پھل چند منٹوں میں دو دفعہ کھا لیا.بادشاہ نے کہا ”زہ اور خزانچی نے تین ہزار دینار کی ایک اور تھیلی اس بوڑھے کے سامنے رکھ دی.پھر بادشاہ نے خزانچی سے کہا یہاں سے جلدی چلو ورنہ یہ بوڑھا تو ہمارا سارا خزانہ ٹوٹ لے گا.دنیا میں یہی طریق ہوتا ہے کہ اگلا شخص نیچے کی طرف حرکت کرتا ہے لیکن ہمارے کی ہاں ایسا نہیں ہوتا.نو جوان جونکوں کی طرح والدین کے ساتھ چمٹے رہتے ہیں.انہیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ خود کھا ئیں.اپنے والدین کو کھلا ئیں اور اپنی اگلی نسل کا خیال رکھیں.اس کے بالمقابل یورپ کے لوگ پندرہ پندرہ سولہ سولہ سال کی عمر میں اپنی کی زندگیاں بدل لیتے ہیں.ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نے مجھے سُنایا کہ میں امریکہ گیا.اُن دنوں کی صوفی مطیع الرحمن صاحب بنگالی مرحوم وہاں تھے.اُنہوں نے ایک لڑکے کو میرے ساتھ لگا

Page 328

انوار العلوم جلد ۲۲ ٣٠٢ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو دیا کہ وہ میرے ساتھ ساتھ رہے.اس لڑکے کی عمر ۱۳ ، ۱۴ سال کی تھی.ایک دن جب میں سیر کے لئے باہر گیا تو میں نے اس لڑکے سے اس کے والد کا نام پوچھا.اس نے ایک بڑے بکر Banked) کا نام لیا جو بہت مالدار تھا.تعلیم کے متعلق میں پہلے پوچھ چکا تھا کہ وہ مڈل یا انٹرنس جو وہاں کی ابتدائی تعلیم ہوتی ہے پاس ہے.میں نے اس لڑکے سے کہا.تمہارا باپ بہت امیر ہے تم کالج میں کیوں تعلیم حاصل نہیں کرتے جب سامان میسر ہیں تو تم نے اپنی تعلیم بیچ میں کیوں چھوڑ دی ؟ وہ لڑکا غصہ سے کہنے لگا میں اتنا بے غیرت نہیں کہ اپنے ماں باپ سے خرچ لے کر مزید تعلیم حاصل کروں.میرا والد مزید تعلیم کے لئے مجھے اخراجات دیتا تھا لیکن میں نے کہا میں نے پڑھنا ہوگا تو خُو د محنت کر کے پڑھوں گا باپ کا احسان نہیں اُٹھاؤں گا لیکن ہمارے ملک میں لڑکے کئی سال تک فیل ہوتے چلے جاتے ہیں اور انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم اپنے والدین پر بوجھ بنے ہوئے ہیں.فیل ہونے پر وہ کہہ دیتے ہیں ہم نے تو بڑی محنت کی تھی اور اپنی کلاس میں ہوشیار تھے لیکن فلاں اُستاد کی جوتی کو ایک دفعہ ہم نے ٹیڑھی نظر سے دیکھ لیا تھا تو اِس لئے اُستاد کی ہم سے دشمنی ہوگئی اور اُس نے ہمیں فیل کر دیا.ایک دفعہ ایک احمدی دوست نے مجھے خط لکھا کہ میرا لڑکا قادیان میں پڑھتا ہے.عربی میں وہ اچھا ہوشیار تھا لیکن اُستاد نے اسے فیل کر دیا ہے.اگر وہ کمزور ہوتا تو مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن وہ عربی میں اچھا ہوشیار تھا مگر اُستاد نے پھر بھی اسے فیل کر دیا یہ بڑے ظلم کی بات ہے اور پھر اس قسم کی حرکتیں قادیان میں کی جاتی ہیں آپ اس طرف توجہ کریں.میں نے اس لڑکے کے پرچے منگوائے تو یہ دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ اس نے ۵۰ یا سو نمبروں میں سے صرف دو یا اڑھائی نمبر حاصل کئے تھے اور یہ نمبر بھی اُستاد کے رحم و کرم کی وجہ سے اُس نے حاصل کر لئے تھے ورنہ میرے نزدیک وہ صفر کا مستحق تھا.میں نے اس دوست کو لکھا.افسوس ہے کہ آپ نے اس بارہ میں تقویٰ سے کام نہیں لیا.آپ کہتے ہیں میرا لڑکا اچھا ہوشیار تھا میں نے اس کے پرچے منگوائے ہیں اور خود دیکھے ہیں اس کو زیرو (0) ملنا چاہئے تھا لیکن پتہ نہیں کہ اُستاد کے اس کے ساتھ کیسے تعلقات

Page 329

انوار العلوم جلد ۲۲ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو تھے کہ اس نے اُسے دو یا اڑھائی نمبر دے دیئے.غرض ہمارے ملک کے لڑکے خود محنت نہیں کرتے اور جب فیل ہو جاتے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو کلاس میں ہوشیار تھے اور محنت بھی خوب کی لیکن اُستاد کو ہم سے دشمنی تھی اس لئے اس نے ہمیں فیل کر دیا.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا وہ حصہ جو انہوں نے عملی رنگ میں گزارنا تھا حصول تعلیم میں گزر جاتا ہے.ہمارے ملک میں اوسط عمر ۳۵ سال ہے.یورپ میں اوسط عمر ۴۵ سال ہے.اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے بڑی عمر نہیں ہو سکتی.بعض ۷۰ ۸۰ سال کی عمر کو بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن جب اوسط نکالی جائے تو وہ یہی ۳۵ سال بنتی ہے اور اگر ۲۵ ، ۲۶ سال پڑھنے میں ہی لگا رہے تو باقی کیا رہ گیا.حالانکہ ہر نو جوان کے اندر یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ جلد سے جلد تیاری کو ختم کرے اور پھر اپنی قوم اور ملک کی خاطر کوئی کام کرے.پس تم زیادہ سے زیادہ محنت کی عادت ڈالو.جب تک تم محنت کی عادت نہیں ڈالو گے اس وقت تک یہ اُمید کرنا کہ تم کوئی مفید کام کر سکو گے ، غلط ہے.کوئی مفید کام کرنے کے لئے ضروری ہے کہ زندگی کے عملی حصے کو کام میں لگایا جائے.طاقت کا زمانہ یہی ہوتا ہے جس کو ہمارے نو جوان حصول تعلیم میں ضائع کر دیتے ہیں.عورتوں کے متعلق مشہور ہے.بیسی کھیسی یعنی عورت ہیں سال کی ہوئی تو بوڑھی ہوئی.مرد کے کام کا وقت بھی ہیں سے چالیس سال تک کا ہوتا ہے اور اگر اس میں سے ۲۶،۲۵ سال تیاری پر لگا دیئے جائیں تو پھر آدھا کام ہو گا.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ پڑھائی میں یا سکول میں اتنا وقت خرچ کر دیتے ہیں اُن کے ذہن گند ہو جاتے ہیں اور کسی بڑے کام کرنے کی اُن میں طاقت ہی نہیں رہتی.جب کسی بڑے کام کے کرنے کا وقت آتا ہے تو ان کی طاقت کمزور ہو جاتی ہے.جن لوگوں نے کام کرنا ہوتا ہے وہ علم سے کام لیتے ہیں اور تھوڑے سے سرمایہ سے زیادہ کام کرنا جانتے ہیں.انہیں محنت کی عادت ہوتی ہے وہ جب کوئی بڑا کام کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر علم اور دولت کا خیال نہیں کرتے کہ وہ کس قدر ہیں بلکہ وہ کام پر لگ جاتے ہیں اور دُنیا میں اپنا نام پیدا کر لیتے ہیں

Page 330

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۴ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو جہاں تک مدرسہ کی تعلیم کا سوال ہے میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ میں پرائمری کے امتحان میں بھی فیل ہوا.مڈل کے امتحان میں بھی فیل ہوا.پھر انٹرنس کا امتحان دیا تو اس میں بھی فیل ہوا لیکن میری عمر ابھی ۱۷ سال کی تھی جب میں نے تفخیذ الاذہان جاری کیا اُس وقت یہ رسالہ سہ ماہی نکلتا تھا.بعد میں ماہوار کر دیا گیا یعنی ایک سال تک رسالہ سہ ماہی رہا اگلے سال ماہوار کر دیا گیا.لیکن تم میں کتنے خدام ہیں جن کو ۱۷ سال کی عمر میں کام کا احساس ہو چُکا ہو اور اُنہوں نے کوئی کام شروع کر دیا ہو.اگر کوئی ایسا نوجوان ہے جس نے ۱۷ سال کی عمر میں کام شروع کر دیا تھا تو کم از کم اسے اتنی تسلی ضرور ہوگی کہ وہ اگر ۳۰ سال کی عمر میں بھی فوت ہو جائے تو خدا تعالیٰ کے سامنے وہ یہ کہہ سکے گا کہ میں نے ۱۳ سال تو کام کر لیا لیکن اگر تم پڑھتے چلے جاتے ہو اور کام کرنے کا احساس تمہارے اندر پیدا نہیں ہوتا تو خدا تعالیٰ کے سامنے کیا کہو گے.اگر ۳۰ سال کی عمر میں تم میں.کوئی خادم فوت ہو جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے کیا کہے گا کہ اس کی قوم نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا.ماں باپ نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا.مذہب نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا.ملک نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا.کیا وہ خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہے گا کہ میں ساری عمر ڈی او جی.ڈاگ (Dog) ڈاگ معنے گتا“ کا سبق دہراتا رہا.خدا تعالیٰ سوال کرے گا کہ تم نے دُنیا میں کیا کام کیا ؟ تو کیا تم یہ کہو گے ڈی او جی ڈاگ (Dog) ڈاگ معنے گتا.یہ کوئی زندگی ہے.تم دُنیا میں پیدا ہوئے اور پھر مر گئے اور خدا تعالیٰ کے سامنے یہ کہنے لگے کہ میں ساری عمر یہی سبق دُہرا تا رہا.خدا تعالیٰ کہے گا کہ تم بھی گتے ہی ہوا اور کتے سے بھی بدتر ہو.یا درکھو جلدی جلدی پڑھنا ہتھیار کا کام دیتا ہے لیکن ہمارے ملک کے نو جوانوں کی مثال اُس شخص کی سی ہے جس کے گھر پر ڈا کو آئے اور اُنہوں نے گھر کی عورتوں پر ہاتھ ڈالا لیکن وہ ابھی چھری تیار کر رہا تھا.بعد میں وہ چھری تیار کر کے لے بھی آیا تو اُسے کیا فائدہ ہوگا.غرض تھوڑی سے تھوڑی مدت میں علم کو ختم کرنا اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.ہمارا

Page 331

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۵ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو ایک انٹرنس پاس لڑکا یا مولوی فاضل تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اس قابل نہیں ہوتا کہ وہ انگریزی یا عربی بول سکے حالانکہ اُسے بہت سے ایسے مواقع میسر آتے ہیں جن سے اگر وہ چاہے تو فائدہ اُٹھا سکتا ہے.کسی زمانہ میں عربی کے بڑے سے بڑے عالم بھی عربی نہیں بول سکتے تھے کیونکہ انہیں عربی بولنے کے مواقع میسر نہیں آتے تھے.لیکن اب تو ہمارے پانچ سات آدمی ایسے ہوں گے جو عرب ممالک سے ہو آئے ہیں اور پھر عربی بولنے والے طالب علم بھی آتے رہتے ہیں انہیں ان سے گفتگو کرنے کا موقع مل سکتا ہے.انگریزی دانوں کو تو انگریزی بولنے کے مواقع کثرت سے ملتے ہیں لیکن عربی دانوں کو اگر عربی زبان میں کچھ بولنے کا موقع ملے تو ان کی حالت اُس شخص کی سی ہو گی جو ایک وزنی ٹرنک سر پر اُٹھائے جارہا ہو.وہ اُس وقت پسینہ پسینہ ہور ہے ہوتے ہیں کیونکہ انہیں عربی بولنے کی عادت نہیں ہوتی.پس تمہیں علم سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے.مثلاً عربی دانوں کو لے لو.جتنے طلباء ہمارے جامعتہ المبشرین میں پڑھتے ہیں.جہاں تک کورس کی تعلیم کا سوال ہے ان میں سے ایک بھی نہیں جس کی تعلیم مجھ سے دس گنا زیادہ نہ ہو لیکن جتنا قرآن کریم کو میں سمجھتا ہوں اور اس کے معانی اور معارف بیان کرسکتا ہوں اس کا فیصدی بھی بیان نہیں کر سکتے.گویا ان کی تعلیم مجھ سے دس گنا زیادہ ہے لیکن علم سے بھی کم ہے کیونکہ وہ پڑھنے کے لئے علم سکھتے ہیں استعمال کے لئے نہیں کتاب کا علم علم نہیں علم کتابیں پڑھنے کے بعد آتا ہے.ہم کتابیں پڑھتے ہیں اور بعد میں ان پر غور کرتے ہیں اور نتائج نکالتے ہیں.ہم سمجھتے ہیں کہ کتاب کے باغیچہ یا وادی میں گھاس یا کی ل نکلا ہے وہ گھاس یا پھول اپنی جگہ پر قیمتی نہیں بلکہ ان کی قیمت اُس وقت بڑھتی ہے جب مالی ان سے ہار تیار کرتا ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مالی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم وادی کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں.ہم پڑھتے رہتے ہیں لیکن علم کا انیلسز“ اور استعمال نہیں سیکھتے.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہماری معلومات خراب ہوتی ہیں، ہماری دلیل ناقص ہوتی ہے.جو بات ہم دس بار بھی پڑھ چکے ہوں اُسے موقع پر چسپاں کرنا نہیں آتا اور وقت پر پتہ نہیں لگتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں.

Page 332

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۶ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو مجھے یاد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے کہ ۱۷ ، ۱۸ سال ہو گئے کہ ہم وفات مسیح پر زور دے رہے ہیں لیکن ابھی تک جماعت کے بعض لوگ یہ نہیں سمجھے کہ یہ کیا مسئلہ ہے.وہ وفات مسیح کی ایک آیت لے لیں گے لیکن بیان کرتے وقت اُلٹ دلیل دے دیں گے مثلاً آپ فرماتے ہیں کہ یعيْسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ الي و مُطَيرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إلى يَوْمِ القِيمة کی آیت سے لوگ اس بحث میں پڑے رہتے ہیں کہ توفی کے کیا معنے ہیں حالانکہ یہاں توفی کے معنوں کا سوال نہیں.سوال مقام کا ہے.کوئی مقام سمجھ لو سوائے وفات کے معنوں کے اور کوئی معنے لگ نہیں سکتے.اور معنے کرنے میں ہمیں آیت کے الفاظ کو آگے پیچھے کرنا پڑے گا.ہمارے دعوی کی بنیاد ایک تو یہ آیت ہے اور ایک آیت سورہ مائدہ کے آخر میں آتی ہے لیکن جو لوگ علم سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.وہ لفظی معنوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں.ہمارے ایک عالم تھے جو غیر احمدیوں میں بھی بڑے عالم سمجھے جاتے تھے لیکن انہیں علم کو استعمال کرنا نہیں آتا تھا.ایک جگہ وفات مسیح پر بحث ہو گئی.دوست انہیں لے گئے دوسرے عالم نے کہا قرآن کریم سے وفات مسیح ثابت نہیں ہوتی تو اُنہوں نے کہا قرآن کریم میں تھیں آیات ہیں جن سے وفات مسیح ثابت ہوتی ہے.اُس نے کہا پھر ثابت کرو.انہوں نے ایک آیت پڑھی.مخالف نے اس پر اعتراض کیا بجائے اس کے کہ وہ اس اعتراض کا جواب دیتے انہوں نے کہا اچھا اسے چھوڑ و دوسری آیت لو.پھر دوسری آیت پڑھی.مخالف مولوی نے اس پر بھی اعتراض کیا تو اُنہوں نے کہا اچھا اسے بھی چھوڑ دو یہاں تک کہ ۳۰ کی ۳۰ آیات ختم ہو گئیں.حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی جو لاہور کے ایک پرانے احمدی خاندان کے فرد ہیں جن کے گھروں کے پاس اب ہماری جامع مسجد بنی ہوئی ہے شروع شروع میں غیر مبائع ہو گئے.ان کے والد بہت پرانے احمدی تھے.میری عقیقے پر بھی وہ قادیان

Page 333

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۷ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو آئے تھے.گو بارش کی وجہ سے وہ قادیان پہنچ نہ سکے.گویا اُس وقت سے ان کے والد کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلقات تھے.مرہم عیسی صاحب پیغا می تو ہو گئے لیکن اُن کو مجھ سے ہمیشہ اُنس رہا.اعتراضات بھی کرتے تھے لیکن پرانی محبت کی وجہ سے انہوں نے تعلقات میں فرق نہیں آنے دیا.میں سفر پر کہیں جا تا تو عموماً یہ میرے ساتھ ساتھ رہتے تھے.ایک دفعہ فیروز پور میں میری تقریر ہوئی.مرہم عیسی صاحب بھی وہاں آ پہنچے.وہ مولوی صاحب جن کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں وہ بھی وہیں تھے.میری طبیعت خراب تھی.جو نظارہ مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ میں لیٹا ہوا تھا کہ مرہم عیسی صاحب نے اعتراضات کرنے شروع کر دیئے.میں نے انہیں کہا مولوی صاحب سے بات کریں.مرہم عیسی صاحب نے اعتراض کیا.مولوی صاحب نے جواب دیا.انہوں نے پھر اعتراض کیا جس کا مولوی صاحب نے کچھ جواب دیا لیکن مرہم عیسی صاحب نے پھر اعتراض کیا.اس کا جواب دینے پر وہ مولوی صاحب کہنے لگے تو بڑا چالاک ہے تینوں گلاں بڑیاں آندیاں ہیں.آخر اس کام کو مجھے خود سنبھالنا پڑا اور میں نے مرہم عیسی صاحب سے کہا کہ آپ ادھر آئیں اور مجھ سے بات کر یں.پس اگر علم آتا ہے تو اس کا استعمال کرنا بھی ضروری ہے اور استعمال کا وقت ۱۵، ۱۶ سال کی عمر میں شروع ہو جاتا ہے لیکن جو طریق اب جاری ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم ۲۵ ، ۳۰ سال کی عمر میں میدانِ عمل میں گودے.جنگ میں ۱۵، ۱۶ سال کا ایک ریکروٹ لیا جاتا ہے لیکن ہمارا نو جوان ۲۵ ۳۰ سال کی عمر میں جا کر اگر سپاہی بنے گا تو اس نے لڑنا کیا ہے.تیسری چیز ایثار ہے.پہلی وہ چیزیں ایسی تھیں جو ذاتی خوبیاں تھیں لیکن جب قومی طور پر کام کرنا پڑتا ہے اُس وقت اگر وہ ایسا نہ بنے کہ ارد گرد کے لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر سکے تو اس کے لئے دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنا ناممکن ہو جاتا ہے اور وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتا.اگر گاڑی کے دو گھوڑے اکٹھا زور نہ لگائیں بلکہ ان میں سے ایک ایک طرف زور لگائے اور دوسرا دوسری طرف تو گاڑی چل نہیں سکتی بلکہ گاڑی ٹوٹ جائے گی.گاڑی کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں جانور ایک ساتھ زور

Page 334

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۸ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو لگائیں اور پر ایک ہی سمت کو چلیں.اسی طرح وہی افراد قومی حصہ بن سکتے ہیں جن کے اندر قومی کیریکٹر پایا جائے اور بہترین قومی کیریکٹر ایثار ہے.ایثار کے معنی ہیں دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرنا.جب کسی قوم کے افراد دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرنے لگ جاتے ہیں تو وہ قوم کے لئے مفید وجود بن جاتے ہیں.اور جب کوئی فرد صرف اپنے حق کے حصول میں لگا رہے اور دوسرے کے لئے اپنے حق کو چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوتو وہ قوم کے لئے مفید وجود نہیں بن سکتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ ایثار استعمال کر کے مسلمانوں کو ایک غیر متناہی جھگڑے سے بچالیا ہے.اگر آپ یہ فرماتے کہ تم دوسروں کا حق نہ مارو ہاں اپنے حق کو حاصل کرنے کے لئے ہمیشہ کوشش کرو تو بہت سے لوگ لوٹ کھسوٹ کا نام ہی حق سمجھ لیتے اور کہتے کہ یہ ہمارا حق ہے اس لئے ہم اسے حاصل کر کے رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی ہوشیاری سے دوسرے کا حق مار لیتے.ایک جلسہ پر میں نماز پڑھانے لگا.عموماً لوگوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوں.سیٹھ غلام غوث صاحب مرحوم جو حیدر آباد دکن کے رہنے والے تھے نہایت مخلص احمدی تھے.ان کے بیٹے سیٹھ محمد اعظم صاحب بھی نہایت مخلص نوجوان ہیں اور جماعت حیدر آباد دکن کے سیکرٹری مال ہیں.سارا خاندان ہی مخلص ہے.ان کا وطن قادیان سے ہزار بارہ سو میل کے فیصلہ پر ہے.وہ جب جلسہ پر آتے تو نماز میں میرے ساتھ کھڑے ہوتے تا کہ انہیں دعائیں کرنے کا زیادہ موقع مل سکے.اس جلسہ کے موقع پر بھی وہ میرے ساتھ کھڑے تھے کہ گجرات کے ایک احمدی آگے بڑھے اور انہیں پیچھے دھکیل کر کہنے لگے آپ لوگوں کو تو یہ موقع روز ملتا ہے ہم لوگ دُور سے آتے ہیں ہمیں بھی حضور کے ساتھ کھڑا ہونے کا موقع دیں.اب گجرات قادیان سے ۷۰ ۸۰ میل پر واقع ہے اور حیدر آباد (دکن) اور قادیان کے درمیان ہزار بارہ سو میل کا فاصلہ ہے لیکن اُنہوں نے بغیر تحقیقات کے اسے اپنا حق کی سمجھ لیا.پس اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرماتے کہ اپنا حق لو، دوسرے کا حق نہ لوتو

Page 335

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۰۹ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو سارے لوگ یہ کہتے کہ یہی حق ہمارا ہے.اس لئے آپ نے فرمایا دوسرے کے لئے اپنا حق قربان کر دیا کرو اور جب اکثر لوگ ایثار کریں گے تو وہ ظلم سے بچے رہیں گے.سو میں سے ایک آدھ آدمی ایسا ہو گا جس کو اپنا حق دوسرے کے لئے چھوڑنا پڑے.باقی سب ایسے ہی ہوں گے جن کا حق نہیں ہوگا اور وہ دوسرے کا حق غصب کرنے سے بچ جائیں گے.قوم کا مفید وجود بننے کے لئے یہ روح نہایت ضروی ہے اور جو شخص قوم کا مفید وجود بننا چاہتا ہے ضروری ہے کہ وہ ایثار سے کام لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں آخری زمانہ میں ایک عظیم الشان فتنہ برپا ہو گا جو سب لوگوں پر چھا جائے گا.اُس وقت مومن وہی ہو گا جو ایثار کرے گا اور سمجھے گا کہ قوم کی اصلاح کے لئے ضروی ہے کہ میں اپنا حق چھوڑ دوں اور خلوت اختیار کرلوں کے اصل بات یہ ہے کہ جب انسانی اخلاق میں تنزل پیدا ہو جاتا ہے تو عام طور پر انسان خواہ مخواہ ہر چیز کو اپنا حق تصور کر لیتا ہے اور ایثار کا لفظ کہہ کر اُسے اس قسم کی حرکات سے روکا گیا ہے.اگر کسی قوم کے افراد میں ایثار کا مادہ کی نہیں پایا جاتا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی.جب حضرت معاویہ سے یہ غلطی ہوئی کہ اُنہوں نے اپنے بیٹے یزید کی خلافت کا اعلان کیا تو اُنہوں نے لوگوں کو مدینہ میں اکٹھا کیا اور یزید کے متعلق کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے بعد میرا بیٹا میرا جانشین ہو کیونکہ ایک ایسے خاندان کا فرد ہے جو عرب میں معزز سمجھا جاتا ہے اور پھر اسے خدمت کا موقع ملا ہے.اس لئے ان کا حق ہے کہ خلافت انہی کو ملے.تمہاری کیا رائے ہے؟ آپ کا یہ مطلب تھا کہ یہ لوگ میری تائید کر دیں گے تردید نہیں کریں گے اور میں یزید کی خلافت کا اعلان کر دوں گا.حضرت عبداللہ بن عمرؓ جو اُس وقت ایمان لائے تھے جب حضرت معاویہؓ کا باپ ابوسفیان کفر کی سرداری کر رہا تھا بلکہ حضرت عمر بھی ابھی ایمان نہیں لائے تھے آپ اُس مجلس میں موجود تھے.آپ فرماتے ہیں میں پڑکا باندھے بیٹھا تھا جب معاور نے کہا ہمارے خاندان کا حق ہے کہ اسے خلافت ملے اور میرا بیٹا مستحق ہے کہ وہ میرے بعد خلیفہ ہو تو میں نے چاہا کہ پڑکا کھولوں اور کھڑا ہو کر کہوں کہ بادشاہت کا حق دار وہ ہے

Page 336

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۰ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو جو اسلام کی تائید میں اُس وقت تلوار چلا رہا تھا جب تمہارا باپ کفر کی سرداری کر رہا تھا لیکن مجھے خیال آیا کہ اس طرح فتنہ کا دروازہ کھل جائے گا اس لئے میں نے دوبارہ پڑکا باندھ لیا اور خاموش رہنا ہی بہتر خیال کیا.یہ ایثار ہے جو حضرت عبد اللہ بن عمر نے یزید کے مقابلہ میں دکھایا.آپ کے مقابلہ میں یزید تو کوئی نسبت ہی نہیں رکھتا تھا.وہ تو ایک خبیث انسان تھا.آپ کے مقابلہ میں ابوسفیان اور حضرت معاویہ کی بھی کوئی حیثیت نہیں تھی.وہ ابتدائی ایمان لانے والوں میں سے تھے اور اُس وقت ایمان لائے تھے جب حضرت عمر بھی ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے.آپ جب ایمان لائے تو آپ کی عمر ۱۵ سال کی تھی اور اپنے باپ سے کئی سال قبل آپ ایمان لے آئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو اس قد رعشق تھا کہ بعض اوقات حضرت عمرؓ فرماتے تھے فلاں بات عبداللہ سے پوچھ لو.کیونکہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو زیادہ جانتا ہے.یعنی آپ کی فضیلت کو حضرت عمر بھی تسلیم کرتے تھے.یزید کے مقابلہ میں ان کا حق تو مسلم تھا لیکن انہوں نے اپنا حق چھوڑ دیا اور کہا میں لوگوں کو فتنہ میں نہیں ڈالنا چاہتا.یزید خلیفہ بنتا ہے تو بنے دو میں کیوں فتنہ کا موجب بنوں.لیکن میں کہتا ہوں کاش ! حضرت عبداللہ بن عمرؓ اس موقع پر خاموش نہ رہتے بلکہ بول پڑتے.وہ حکومت کے یقیناً حقدار تھے.اگر وہ حکومت حاصل کر لیتے تو یقیناً اسلامی حکومت میں جو فوراً تنزل شروع ہو گیا تھاوہ نہ آتا اور اسلام کی ترقی کا دور لمبا ہو جاتا.ہم حضرت معاویہ کی خلافت کے قائل نہیں.وہ ایک بادشاہ تھے اور بادشاہ ہونے کے لحاظ سے ایک اچھے بادشاہ تھے.اُخروی لحاظ سے وہ صحابی اور نیک آدمی تھے لیکن خلیفہ نہیں تھے.اُن کے پاس خلافت آئی نہیں.خلافت دو ہی صورتوں میں اُن کے پاس آ سکتی تھی یا تو خدا تعالیٰ انہیں خلیفہ مقرر کر دیتا یا مسلمان جمہور انہیں خلیفہ منتخب کر لیتے.اگر اُنہیں خلیفہ سمجھا جائے تو سوال پیدا ہو گا کہ ان کے پاس خلافت کہاں سے آئی؟ کی ظاہر ہے کہ نہ انہیں خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا تھا اور نہ جمہور مسلمانوں نے اُنہیں خلیفہ منتخب کیا.اس لئے وہ خلیفہ نہیں کہلا سکتے.غرض حضرت عبد اللہ بن عمرؓ نے سوچا کہ بنیادی

Page 337

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۱ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو بادشاہت تو ایک جسمانی چیز ہے روحانی چیز نہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے روحانی مرتبہ دیا ہے وہ چھوڑ کر میں ایک جسمانی چیز کے پیچھے کیوں پڑوں؟ اگر حضرت عبداللہ بن عمر خلافت کی بجائے اس چیز کو دیکھتے کہ مسلمانوں کی گردنیں کس ہاتھ میں جا رہی ہیں تو وہ اس بارہ میں ایثا ر نہ دکھاتے اور یہ امر مسلمانوں کے لئے یقیناً خوش قسمتی کا موجب ہوتا.دنیا میں یزید کو سب کچھ کہا گیا ہے اور شیعوں نے تو اسے اتنی گالیاں دی ہیں کہ زمین اور آسمان پلا دیا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑی گالی وہ تھی جو خود اس کے بیٹے سے اسے ملی اور وہ اس کا وہ فعل تھا جو اس نے یزید کی وفات کے بعد خلافت قبول نہ کرنے کے بارہ میں کیا.میرے نزدیک اس کا خلافت کو قبول نہ کرنا ایک بہترین گواہی تھی اس کی امر پر کہ معاویہ کا یہ فیصلہ غلط تھا کہ یزید بادشاہت کا مستحق ہے.میں حیران ہوں کہ مسلمانوں نے یزید کے بیٹے کی وہ قدر کیوں نہیں کی جس کا وہ حقدار تھا.وہ اسلامی شعار کو قائم رکھنے والی اہم ہستیوں میں سے ایک تھا.یزید کے بعد شاہی خاندان کے افراد نے اُسے بادشاہ بنا دیا اور اعلان کر دیا کہ یزید کے بعد اُس کا بیٹا خلیفہ ہوگا.یہ لوگ اگر چہ بادشاہ ہوتے تھے لیکن کہلاتے خلیفہ ہی تھے.بادشاہ بنانے کے بعد وہ اُسے ایک خاص جگہ لے گئے تا وہ اپنی خلافت کا اعلان کرے اور یہ اعلان کر دیا کہ تمام رؤسا اور خاندان کے لوگ اُس کی بیعت کریں.وہ اُسے پبلک میں لے آئے اور اُسے اعلان کرنے کے لئے کہا.اُس نے ممبر پر کھڑے ہو کر جو اعلان کیا وہ یہ تھا کہ اے لوگو ! خدا تعالیٰ نے بادشاہت کا حق تمہیں دیا ہے اور اسلام نے بھی تمہیں اختیار دیا ہے کہ جسے چاہو بادشاہ بنا لولیکن ان لوگوں نے مجھ سے پوچھے بغیر یہ رستی میرے گلے ڈال دی ہے اور جن کا حق تھا اُنہیں پوچھا ہی نہیں.میں دیکھتا ہوں کہ اس مجلس میں وہ لوگ موجود ہیں جو اپنی ذات میں مجھ سے اچھے ہیں، جن کے باپ میرے باپ سے اچھے ہیں اور جن کے دادے میرے دادا سے اچھے ہیں اُن کی موجودگی میں میرا بادشاہت کو قبول کرنا مشکل امر ہے اس لئے میں یہ رتی گلے سے اُتار کر پھینکتا ہوں.تمہارا حق ہے جن کو چاہو بادشاہ بنا لو سے اُس کی ماں کو جب یہ اطلاع ملی تو اس نے منہ پر تھپڑ مار کر کہا کہ کم بخت ! آج ٹو نے اپنے

Page 338

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۲ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو باپ دادا کی ناک کاٹ دی ہے.اُس نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کہا ماں ! میں نے اپنے باپ دادا کی ناک کاٹی نہیں بلکہ کٹی ہوئی ناک جوڑ دی ہے.یہ کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا اور ایک کمرہ میں داخل ہو گیا اور اُس کا دروازہ بند کر دیا.سارا خاندان اُس کا دشمن ہو گیا.وہ اُس کمرہ سے باہر نہ نکلا یہاں تک کہ ۴۰ دن بعد اُسی کمرہ میں وہ فوت ہو گیا.وہ اسلامی تاریخ کا ایک شاہکار تھا.وہ اسلامی تأثیر کا ایک جوہر تھا جو لوگوں کے دلوں میں گھر کر گیا.لوگ بادشاہت کو حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ذلیل ہوتے ہیں لیکن اُس نے بادشاہت کو چھوڑا اور ذلیل ہوا.وہ اس لئے ذلیل ہوا کہ جو مال اُس کے باپ نے چرایا ہو ا تھا اُسے پھینکنے کے لئے اُس نے لڑائی کی.غرض ایثار بہت بڑی چیز ہے اور اس کے بغیر قو میں نہیں بنتیں.جن لوگوں میں ایثار نہیں پایا جاتا اور وہ ہمیشہ یہ کہتے رہتے ہیں کہ یہ میرا حق تھا، یہ میرا حق تھا وہ اکثر جھوٹے ہوتے ہیں.ایسے لوگ قوم نہیں بناتے.قوم وہ لوگ بناتے ہیں جنہیں یقین ہو جاتا ہے کہ یہ ہمارا حق ہے لیکن پھر بھی اپنا حق دوسرے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں.مگر یا درکھو عزت نفس بھی ضروری چیز ہے.دوسرے کے سمانے لجاجت کرنا اور اُس کی منت خوشامد کرنا نیکی پیدا نہیں کرتا.نیکی اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب دشمن دیکھتا ہے کہ ہم میں غیرت موجود ہے اور غیرت کی وجہ سے ہم اُس کے سامنے جھکنے کو تیار نہیں لیکن پھر بھی ہم اپنا حق چھوڑ دیتے ہیں اس سے وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا.لیکن اگر تم اصرار کرتے ہو تو وہ سمجھے گا یہ ایثار نہیں بلکہ اس میں اس کا کوئی فائدہ مخفی ہے.چوتھی چیز اخلاق میں مطمح نظر کا اونچا کرنا اور اسے اونچا کرتے چلے جانا ہے.جب کبھی انسان کسی کام کے لئے اُٹھتا ہے تو اُس کی دو حالتیں ہوتی ہیں.یا تو وہ کامیاب ہوتا ہے یا نا کام ہوتا ہے.جب وہ ناکام ہوتا ہے تو اس کا کام باقی ہوتا ہے اور وہ اس کو پورا کرنے کے لئے دوبارہ کوشش کرتا ہے.اگر وہ پھر نا کام ہوتا ہے تو وہ سہ بارہ کوشش کرتا ہے.لیکن اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اپنی جگہ پر پہنچ جاتا ہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ساکن ہو جاتا ہے اور جب وہ ساکن ہو جاتا ہے تو تنزل کی طرف چلا جاتا ہے.

Page 339

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۳ اپنے اندر سچائی ، محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو گویا جو فیل ہو جاتا ہے وہ کوشش کرتا ہے تا دوبارہ کامیاب ہو جائے لیکن جو کامیاب ہو جاتا ہے وہ ساکن ہو جاتا ہے.اس لئے کہ اس کے سامنے تگ و دو کا میدان نہیں رہتا.اسلام اسے جائز قرار نہیں دیتا.اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے اور جب اللہ تعالیٰ نے انسان کے لئے غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے تو کوئی ترقی ایسی نہیں ہو سکتی جس کے آگے ترقی کرنے کا مقام نہ ہو.انسان کو ہمیشہ اپنا پر وگرام بدلتے رہنا چاہئے.جو ہڑ کے پانی کی طرح ساکن ہو جانا قوم کے لئے مفید نہیں ہوتا.کھڑا پانی سڑ جاتا ہے اور اُس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح اگر کسی قوم کے افراد ایک جگہ پر پہنچ کر ساکن ہو جاتے ہیں تو وہ قوم ترقی نہیں کر سکتی.پس مطمح نظر کا اونچا کرتے چلے جانا قومی ترقی کے لئے نہایت اہم ہے.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں.نِيَّةُ المُؤْمِنِ خَيْرٌ مِنْ عَمَلِهِ کے مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے.یہ ایک چھوٹا سا فقرہ ہے لیکن اپنے اندر ایک بہت بڑا مد عا لئے ہوئے ہے.مومن کی نیت ہمیشہ اُس کے عمل سے بہتر ہوگی.اس کے دو معنے ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ انسان کی نیت بھی اچھی ہو اور اُس کے اعمال بھی اچھے ہوں لیکن اُس کا ارادہ یہ ہو کہ وہ پہلے سے بڑھ کر نیک اعمال کرے گا.دوسرے یہ کہ اُس کی نیت اچھی ہو لیکن اعمال بُرے ہوں اور ارادہ یہ ہو کہ وہ اپنی اصلاح کرے گا اور پھر جوں جوں وہ کام کرتا جائے اپنی نیت کو بھی بلند کرتا جائے.جب وہ ایک روزہ رکھتا ہے تو اس کے بعد دوسرا روزہ رکھتا ہے، پھر تیسرا روزہ کی رکھتا ہے.جب وہ ایک دن روزہ رکھتا ہے اور اُس کی شام قریب آتی ہے تو وہ دوسرے روزے کی نیت کرتا ہے اور جب تیسرے روزے کی شام قریب آتی ہے تو وہ چوتھا روزہ رکھتا ہے اور یہ ارادہ رکھتا ہے کہ کوئی دوسری نیکی کروں.مثلاً صدقہ دوں اور جب وہ صدقہ کرتا ہے تو کسی اور نیکی کی نیت کر لیتا ہے اس طرح اُس کی نیت عمل پر سبقت لے جاتی ہے.غرض انسان کا ارتقائی پروگرام ہونا چاہئے جو اونچے سے اونچا ہوتا چلا جائے.خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھو کہ پہلے ایک چھوٹا پہاڑ ہوتا ہے پھر اُس سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے،

Page 340

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۴ اپنے اندر سچائی ،محنت اور ایثار کے اوصاف پیدا کرو پھر اُس سے بڑا پہاڑ ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ انسان اُس کی چوٹی پر چلا جاتا ہے.تم کبھی یہ نہیں دیکھو گے کہ انسان ایک ہی دفعہ کسی پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ جائے.یہی وہ انسان سے امید رکھتا ہے کہ جب وہ ایک نیکی کرے تو پھر اس سے بڑی نیکی کرے، پھر اس سے بڑی نیکی کرے.اور کامیاب وہی انسان ہوتا ہے جو ایک جگہ پر ساکن نہ ہو جائے بلکہ جب وہ ایک مقصد کو حاصل کرلے تو اُس سے بڑے مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرنے لگ جائے.وہ ایک چھوٹی نیکی کر کے ٹھہر نہیں جاتا بلکہ وہ ہر روز ایک نیا پروگرام تیار کرتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ پہلے سے آگے نکل جاؤں.اور جب کوئی انسان اس قسم کا پروگرام تیار کرتا ہے تو یقیناً اُس کا فکر ترقی کرتا ہے ، اُس کا عمل وسیع ہوتا ہے اور ہر کامیابی پر اُس کا حوصلہ بھی وسیع ہوتا ہے.اس وقت میں ان چار نصاح پر تقریر ختم کرتا ہوں.نصائح تو اور بھی ہیں لیکن بہر حال میں نے اپنی تقریر ختم کرنی ہے.چاہئے کہ تم یہ چاروں باتیں ہمیشہ اپنے مد نظر رکھو.میں نے یہ نہیں کہا کہ تم سچ بولو بلکہ میں نے کہا ہے کہ تم ایسے دوست بناؤ جو ہمیشہ سچ بولیں.میں نے کہا ہے کہ تم محنت کی عادت ڈالو.اپنے اندر قربانی اور ایثار کا مادہ پیدا کرو.اپنے مطمح نظر کو اونچا رکھو.یہاں تک کہ مطمح نظر ہمیشہ بلند سے بلند تر ہوتا روزنامه الفضل ربوہ مورخہ ۲۷، ۲۸ ، ۲۹ راپریل ۱۹۶۱ء) چلا جائے.66 آل عمران : ۵۴ المعجم الكبير جلد ۲ صفحه ۶۰ مكتبة العلوم و الحكم الطبعة الثانية ١٩٨٣ء سے تاریخ ابن اثیر جلد ۴ صفحه ۱۳۰.مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء المعجم الکبیر جلد 4 صفحہ ۲۲۸ مطبوعہ بغداد ۱۹۷۹ ء کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے.

Page 341

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۵ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش کرو از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفة المسیح الثانی

Page 342

Page 343

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۳۱۷ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش کرو تربیتی کلاس سے خطاب فرموده ۲۱ را پریل ۱۹۵۱ء بمقام ربوه ) تشہد ، تعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا.آج چودہ دن کے اجتماع کے بعد جو خدام باہر سے آئے تھے اُن کے فارغ ہونے کا وقت آ گیا ہے.میرے پاؤں میں جو درد ہے اور جمعہ پڑھانے کے بعد تکلیف زیادہ ہوگئی ہے اس لئے کھڑے ہونے کی بجائے بیٹھے بیٹھے ہی چند باتیں بیان کرتا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ جو چیز دل سے نکلتی ہے وہی دوسروں پر اثر کرتی ہے اور اسی چیز کا نام تبلیغ اور تعلیم و تربیت ہے.دُنیا میں ہزاروں کتابیں ہوتے ہوئے بھی انسان اپنے اصل مقام سے پھر جاتا ہے اور ایسی غلطیوں میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ صحیح راستہ اختیار نہیں کرتا.ورنہ صداقتیں ابتدائے عالم سے ہی موجود ہیں.پچھلے خطبوں میں میں یہ مضمون بیان کرتا آیا ہوں کہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں کوئی ایسی ترکیب اور گر بتائیے جس سے محبت الہی پیدا ہو حالانکہ یہ بات غلط ہے.دُنیا میں ہر شخص جانتا ہے کہ ماں باپ سے کیسے محبت کی جاتی ہے، اولا د اور بہن بھائیوں سے کیسے محبت کی جاتی ہے اور اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے.پھر خدا تعالیٰ کے لئے کونسی نئی چیز پیدا ہو گئی ہے جس کے لئے لوگ بھاگتے پھرتے ہیں.جن ذرائع سے ماں باپ کی محبت پیدا ای ہوتی ہے انہی ذرائع سے خدا تعالیٰ کی محبت بھی پیدا ہوتی ہے.پھر خدا تعالیٰ کی محبت کے

Page 344

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۸ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش لئے کونسا گر تلاش کرنے کی ضرورت ہے.بعض نوجوانوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ ہاتھوں میں کا پیاں لئے پھرتے ہیں اور جب مجھ سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اس کاپی میں کوئی نصیحت لکھ دیں.بسا اوقات میں لکھ بھی دیتا ہوں لیکن میں سوچتا ہوں جب انہوں نے قرآن کریم سے فائدہ نہیں اُٹھایا، اُمت محمدیہ کے اولیاء اور صوفیاء سے فائدہ نہیں اُٹھایا ، میری کتابوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا.اسی طرح سلسلہ کے علماء کی کتابوں سے فائدہ نہیں اُٹھایا تو میری کوئی نصیحت اُنہیں کو کیا فائدہ دے گی ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے پاس بعض لوگ آتے اور کہتے کہ آپ ہمیں کوئی معجزہ دکھا ئیں.آپ فرمایا کرتے کہ تم نے پہلے معجزوں سے کیا فائدہ اُٹھایا کہ ایک اور معجزہ کے طالب ہو.بے شک کسی چیز کی وقتی طور ضرورت پیش آجاتی ہے لیکن وہ حقائق میں سے کوئی نئی چیز نہیں.کیا کوئی ایسا وقت آیا ہے کہ جب ظلم کو بُرا نہ سمجھا جاتا ہو؟ یا کوئی ایسا وقت آیا ہے کہ جب جھوٹ کو بڑا نہ سمجھا جاتا ہو؟ ہر وقت اور ہر زمانہ میں یہ حقائق موجود ہوتے ہیں لیکن جب لوگوں کی توجہ ان سے کلیتہ پھر جاتی ہے تو کسی نئے مصلح اور ریفارمر کی ضرورت ہوتی ہے.غرض جن صداقتوں اور حقائق کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے وہ دُنیا میں پہلے سے موجود ہیں.ہاں اُلجھنیں نئی ہو سکتی ہیں.مثلاً انسان شروع سے پیروں سے چلتا چلا آیا ہے یہ کوئی نئی چیز نہیں.ہاں اس میں یہ الجھن پیدا ہوسکتی ہے کہ انسان رستہ بھول جائے اور پوچھے کہ صحیح راستہ کون سا ہے.اب جہاں تک چلنے کا سوال ہے وہی پاؤں ہیں جن سے حضرت آدم کے وقت سے لوگ چلتے آئے ہیں.جہاں تک دیکھنے کا سوال ہے وہی آنکھیں موجود ہیں جن سے لوگ حضرت آدم کے وقت سے دیکھتے آئے ہیں.جہاں تک سوچنے کا سوال ہے وہی دماغ موجود ہے جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے چلا آیا ہے.غرض جہاں تک حقائق کا سوال ہے یہ حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ایک ہی صورت میں چلے آتے ہیں.سوال یہ ہے کہ انسان ارادہ کرے کہ اس نے ان پر عمل کرنا ہے.مثلاً سچ بولنا ہے اس کے متعلق یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کیوں بیچ بولنا چاہئے.ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان یہ فیصلہ کر لے اس نے

Page 345

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۱۹ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش سچ بولنا ہے.پھر اس بات کی ضرورت نہیں کہ بتایا جائے کہ دوسروں پر ظلم نہ کرو.اِس بات پر غور و فکر کی ضروت نہیں کہ کہ امانت سے کام لینا چاہئے اس امر کی تحقیقات کی ضرورت نہیں کہ چوری نہیں کرنی چاہئے.صرف ارادہ کی ضرورت ہے.پس جہاں تک ظلم نہ کرنے ، دیانت سے کام لینے ، سچ بولنے اور چوری نہ کرنے کا سوال ہے ان کا حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے ہی فیصلہ ہو چکا ہے.ان صداقتوں کے لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت عیسی علیہ السلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے مبعوث کرنے کی ضروت نہیں تھی کیونکہ یہ صداقتیں شروع سے ایک ہی چلی آتی ہیں صرف لوگوں کی تربیت کے لئے ان کی ضرورت پیش آئی ہے تا کہ لوگ اپنا نیک نمونہ پیش کریں اور ان کے نمونہ سے دُنیا میں ایک نئی حرکت ، نیا جوش اور نیا عزم پیدا ہو جائے اور لوگ ان صداقتوں پر عمل کرنے لگ جائیں.مثلاً سچ کی ہے یہ تعلیم حضرت داؤد، حضرت یحی ، حضرت موسیٰ ، حضرت عیسی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام دوسرے انبیاء نے دی ہے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اُمت کے دوسرے بزرگوں نے بھی بیچ کی تعلیم دی ہے اس کے لئے حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث کرنے کی ضرورت نہیں تھی.ان کی ضروت اس لئے پیش آئی کہ لوگوں کے سامنے پیش کریں کہ سچ بولا جا سکتا ہے تا اس سے لوگوں کے اندر حرکت پیدا ہو اور وہ اس تعلیم پر عمل کرنے لگ جائیں ورنہ بیچ وہی تھا جو حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں تھا علیه ای کوئی نئی چیز نہیں تھی.پس اصل چیز یہی ہے کہ اپنے اندر ایک جوش اور عزم پیدا کیا جائے.وعظ ونصیحت جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ انسان پر بوجھ ہوتی چلی جاتی ہے.قرآن کریم کے ایک چھوٹی سی کتاب ہونے میں بھی ایک حکمت تھی کہ لوگ اسے بار بار پڑھیں اور عمل کریں.اسے بوجھ سمجھ کر اس کی طرف سے توجہ نہ ہٹا لیں.اگر یہ بڑی کتاب ہوتی تو لوگ اسے دیکھ کر گھبرا جاتے اور چاہتے کہ کسی طرح اس کا خلاصہ نکال لیا جائے کیونکہ بڑی کتابوں کو کوئی

Page 346

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۰ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش نہیں پڑھتا اور جب کوئی پڑھے گا نہیں تو عمل کیسے کرے گا.میرے خطبوں کو ہی لے لو اگر انہیں اگر جمع کیا جائے تو کئی جلدیں تیار ہو سکتی ہیں لیکن لوگ ان سے فائدہ نہیں اُٹھا سکتے سوائے اس کے کہ انہیں سُن لیا یا اخبار میں پڑھ لیا.یہ نہیں کہ بعد میں بھی انہیں پڑھ کر ان سے فائدہ اُٹھا ئیں.پس کسی چیز کی طوالت فائدہ نہیں دیتی بلکہ عزم فائدہ دیتا ہے.تم لوگوں نے یہاں آکر تعلیم حاصل کی ہے اگر تم غور کرو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ جن اصولی باتوں کی انسان کو ضرورت ہوتی ہے وہ گھر میں موجود ہیں.یہاں آکر ان باتوں کو سیکھنے کا یہی فائدہ ہے کہ انسان دوسرے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھتا ہے ان سے ملتا جلتا ہے جس سے دل میں ایک نیا جوش اور نیا عزم پیدا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ بھی فرماتا ہے كونوا مع الصدقین کے اسی طرح کہا جاتا ہے کہ: صالح ترا صالح کنند طالع ترا طالع کنند انسان جب کسی دوسرے کی صحبت میں بیٹھتا ہے تو اُس کے اندر نیکی کا جوش پیدا ہو جاتا ہے.تم بھی ایک نیا جوش اور نیا عزم لے کر یہاں سے جاؤ اور واپس جا کر اسے دوسرے لوگوں میں بھی پیدا کرنے کی کوشش کرو.مجھے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے کہ میں نے ہوائی بندوق خریدی اور ہم چند بچے اکھٹے ہو کر باہر شکار کو نکلے.بچوں کے لئے ہوائی بندوق رائفل سے بھی بڑھ کر ہوتی ہے.ہوائی بندوق سے دو چار گز کے فاصلہ سے ہی شکار کیا جا سکتا ہے زیادہ فاصلہ سے شکار نہیں کیا جاسکتا.قادیان میں چونکہ اور بندوقیں بھی تھیں اور لوگ بالعموم شکار کے لئے باہر جاتے تھے اس لئے جانور قریب پہنچنے سے پہلے اُڑ جاتا تھا اور دُور سے فائر کرنا مفید نہیں تھا اس کی لئے ہم چاہتے تھے کہ کچھ فاختائیں چھاتی تان کر درخت پر بیٹھی رہیں اور ہم قریب پہنچ کر اُنہیں شکار کر لیں.چنانچہ ہم دیہات کی طرف نکل گئے اور ہمارے ارد گرد بچے جمع ہو گئے ہر ایک بچہ یہ کہتا تھا کہ تم ہمارے گاؤں چلو وہاں ایک ایک درخت پر ساٹھ ساٹھ فاختائیں بیٹھتی ہیں.آخر کا ر ان میں سے ایک لڑکا را ہنما بن کر جوش سے ہمارے آگے

Page 347

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۱ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش چل پڑا اور کہا کہ یہ بندوق شکار مار بھی لیتی ہے؟ ہم نے کہا ہاں مار لیتی ہے.برات کی شکل میں ہم ان کے گاؤں جا نکلے.اس لڑکے کی ماں باہر نکلی سکھ مرد تو گوشت کو کھا لیتے ہیں لیکن سکھ عورتیں ہندوؤں کی طرح گوشت استعمال نہیں کرتیں اس نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم جیو ہتیا کرتے ہوا اور مسلوں کو ساتھ لے آئے ہو!! اس پر وہی لڑکا جو ہمیں اصرار کے ساتھ لایا تھا سب سے زیادہ اُس کی آنکھیں سُرخ ہو گئیں اور وہ ناچنے لگا اور کہنے لگا تم کیوں جیو ہتیا کرتے ہواور یہاں شکار مارنے کیوں آتے ہو؟ میں حیران تھا کہ کیا ہوا یہ لڑکا ہمیں خود ساتھ لایا ہے اور یہاں آکر اس طرح آنکھیں نکالنے لگا.اس کی وجہ یہی تھی کہ دوسرے کو دیکھ کر ان میں جوش پیدا ہو جاتا ہے.وہ لڑ کا شکار کو بُرا نہیں سمجھتا تھا اور جیو ہتیا کو نہیں جانتا تھا لیکن جب ماں نے کہا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم جیو ہتیا کرتے ہو تو یہ سُن کر جھٹ اس کے اندر جوش پیدا ہو گیا اور وہ ہمیں گھور نے لگا.پس یہی ہے کہ آپس میں ملنے جلنے سے انسان کے اندر جوش اور عزم پیدا ہوتا ہے اور انسان اس سے فائدہ اُٹھاتا ہے پس آپ اپنی اپنی جگہوں پر واپس جا کر اپنا نیک نمونہ پیش کریں.لوگوں کے سامنے نئی روح اور نئی زندگی پیش کریں اور دو چار دس آدمیوں میں وہی جوش اور وہی عزم پیدا کر دیں جو آپ نے چند دن یہاں رہ کر اپنے اندر پیدا کیا ہے.پھر وہ لوگ دوسروں کے پاس جائیں اور ان کے اندر جوش اور عزم پیدا کر دیں.جب لوگ دیکھیں گے کہ یہ لڑ کا آوارہ تھار بوہ میں چند دن تربیت حاصل کرنے کے بعد واپس آیا ہے تو اس نے آوارگی چھوڑ دی ہے وہ دین کی خدمت کر رہا ہے اور خدمت خلق مشغول ہے تو پانچ سات آدمی ضرور اس کے گرد جمع ہو جائیں گے.پس اگر تم نے ان چند دنوں سے فائدہ اُٹھایا اور یہ روح اپنے اندر پیدا کر لی تو اچھی بات ہے اور تم نے اپنا مقصد حاصل کر لیا.لیکن اگر تم نے صرف کا پیوں میں اسباق کے نوٹ لئے ہیں تو یہ دن تم نے ضائع کئے اس سے زیادہ باتیں قرآن کریم ، توریت، انجیل، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب ، میری کتب، حضرت خلیفہ اول کی کتب اور علمائے سلسلہ

Page 348

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۲ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش کی کتب میں موجود تھیں اور یہ کام تم گھر بیٹھ کر کر سکتے تھے.صرف میری کتابوں میں بھی اتنا مصالحہ موجود ہے کہ اس کے سامنے یہ نوٹ تمہیں حقیر نظر آئیں گے.لیکن اگر تم نے ان چند دن کی صحبت سے فائدہ اُٹھا لیا تو یہ چیز تمہارے کام آئے گی.خلوت میں اگر کتا ہیں پڑھی جائیں تو بعض اوقات مشوش دماغ ان سے کچھ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا لیکن کی دوسروں کے ساتھ بیٹھ کر جو باتیں سنی جائیں وہ مفید ہو جاتی ہیں.پس آج میں صرف اتنی نصیحت کرتا ہوں کہ تم عمل کی طرف توجہ دو.باہر سے جو رپورٹیں آتی ہیں ان میں بتانا چاہئے کہ خدام کی کیا حالت ہے لیکن جو عہد یدار یہ لکھتا ہے کہ کوئی شخص ہماری بات نہیں مانتا میں اُسے پاگل سمجھتا ہوں.ہر ایک شخص کے کان ہیں پھر وہ تمہاری بات کیوں نہیں سنتا.گاندھی جی کھڑے ہوئے تو لوگ اُن کے گرد جمع ہو گئے ریہ محض اس لئے تھا کہ انہوں نے اپنا نمونہ دوسروں کے سامنے پیش کیا.تم بھی اپنا نمونہ پیش کر و لوگ تمہاری بات ماننے لگ جائیں گے.یہ کہنا کہ لوگ ہماری بات نہیں سنتے انسانیت اور ہمسایوں پر بدظنی ہوتی ہے اور اس شخص سے زیادہ ذلیل اور قوم کا دشمن اور کوئی نہیں ہوتا جو یہ کہتا ہے کہ کوئی شخص میری بات نہیں مانتا.وہ یا تو اول درجہ کا متکبر ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میرے سوا اور کوئی کام نہیں کر سکتا اور یا وہ اپنے سوا کسی کو نیک نہیں سمجھتا.اگر کسی کو دس آدمیوں کی موجودگی میں اپنی تعریف کرانی مقصود ہو تو ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو ان دس آدمیوں سے افضل ثابت کرے اور اس کے لئے اسے کام کرنا پڑے گا کسی کی بڑائی اور زندگی کا یہی ثبوت ہوتا ہے کہ وہ باقیوں کو کمتر دکھا دے لیکن جو لوگ اپنی بڑائی چاہتے ہیں اور کام کرنا نہیں چاہتے وہ اپنے آپ کو اونچا کرنے کی بجائے باقیوں کو ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ بُرا طریق ہے اس سے بچنا چاہئے.میرا یہ مطلب نہیں کہ نو جوانوں کی سستی اور غفلت سے مرکز کو مطلع نہ کیا جائے ایسا ضرور کریں لیکن ایسی بات لکھتے وقت یہ دیکھ لینا چاہئے کہ کہیں یہ بات اپنے آپ کو بڑھانے اور دوسروں کو ذلیل کرنے کے لئے تو نہیں.پس ماننے والے موجود ہیں، سننے والے موجود ہیں بشرطیکہ کوئی منوانے والا اور سنو انے والا ہو.ہٹلر کو دیکھ لو کہ وہ کس طرح اپنی قوم کو

Page 349

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۳ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش ساتھ لے کر نکلا.انسان کے اندر روح ہونی چاہئے.اُسے پُر امید ہونا چاہئے اور اچھا نمونہ دکھانا چاہئے.لوگ خود بخود تمہاری بات مانیں گے سنیں گے اور اس پر عمل کریں گے.لوگ قربانی کرنے سے ڈرتے ہیں.تم قربانی کر کے ان کا ڈراتار دو مگر مرکز کو واقف کرنے کے لئے مفصل اطلاع دو.مثلاً کسی جگہ دس خدام ہیں اور ان میں سے آٹھ خدام نما زنہیں پڑھتے تو تم کہو کہ صرف دو آدمی نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں آتے ہیں.اس سے مرکز خود نتیجہ نکال لے گا کہ باقی آٹھ خدام نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں نہیں آئے اور مرکز انہیں ہدایت دے گا لیکن تم خدا تعالیٰ اور بنی نوع انسان کے سامنے کسی دوسرے پر الزام نہیں لگاؤ گے.تم لکھو تو مرکز کو تحریر کرو کہ فلاں شخص چندہ نہیں دیتا یہ مت لکھو کہ کوئی چندہ نہیں دیتا یہ چیز تکبر اور بے ایمانی پر دلالت کرتی ہے.تم یہ لکھو کہ فلاں نے چندہ نہیں دیا میں اس کے پاس فلاں وقت گیا لیکن معلوم ہوتا ہے وہ مالی مشکلات میں ہے میں پھر کسی وقت جاؤں گا اور اُسے اِس طرف توجہ دلاؤں گا.پس تم امید کبھی ختم نہ کرو نہ ذہن سے نہ زبان سے اور نہ قلم سے.کیونکہ جس وقت تم امید ختم کرو گے اُس وقت واقعہ میں ان کے اندر اور اپنے اندر تم موت پیدا کر لو گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ فَهُوَا هُلَكَهُمُ سے جو شخص کہتا ہے کہ لوگ مر گئے وہ قوم کا دشمن ہے اور وہ ایسا کہہ کر اپنی قوم کی موت کا باعث بنتا ہے پس تم کبھی بھی ایسی بات زبان پر مت لاؤ.جب کوئی شخص ایسی بات زبان پر لاتا ہے اور کہتا ہے کہ لوگ مر گئے تو تم سمجھ لو کہ وہ غلطی پر ہے تم اسے اس بات سے روکو اور بجائے اس کے کہ تم اس کی تصدیق کرو کہ میرا بھی یہی تجربہ ہے تم یہ کہو کہ بعض مشکلات ہوتی ہیں اور کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں ہمارا یہ کام نہیں کہ ہم نا امید ہو جائیں.ہمارا کام یہ ہے کہ ہم انہیں اُٹھا ئیں اور سمجھا ئیں اگر کوئی گونگا ہے تو اسے اشارے سے سکھائیں جاہل ہے تو اسے علم سکھائیں دوسرے پر فتویٰ نہیں لگا نہ چاہئے بلکہ خود کام کرنا چاہئے.جب کسی کو بُرا کہہ دیا جاتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ چلو میں بُرا ہوں تو

Page 350

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۴ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش بُرا ہی سہی.پس تم میرا بیان کردہ طریق اختیار کرو اور یہ مت کہو کہ فلاں کام نہیں کرتا اور اس کی اصلاح سے مایوس مت ہو جاؤ.میں نتیجہ نکالنے سے منع کرتا ہوں واقعات بیان کرنے سے منع نہیں کرتا.واقعات بیان کرنا نہایت ضروری چیز ہے لیکن یہ مت کہو کہ لوگ ایسے ہو گئے ہیں.اگر ایک شخص نے جھوٹ بولا تو یہ مت کہو کہ سارے جھوٹ بولتے ہیں بلکہ یہ کہو کہ فلاں نے جھوٹ بولا ہے.ہم سچ بولنے کی اہمیت کو جانتے ہیں اس لئے ہم اسے سمجھا ئیں گے کہ وہ جھوٹ نہ بولے.یا ایک شخص نے خیانت کی ہو تو یہ مت کہو کہ سب خائن ہو گئے بلکہ یہ کہو کہ ایک شخص نے خیانت کی ہے ہم سب مل کر اس کی اصلاح کی کوشش کریں گے.میرا اپنا تجربہ ہے کہ جب کوئی کہتا ہے کہ لوگ مر گئے ہیں یا لوگ خائن کی ہو گئے ہیں تو اس میں بہت حد تک جھوٹ ہوتا ہے اور پھر یہ بے اصولے پن کی بھی علامت ہوتی ہے کہ یا تو انسان ایک ہی جھاڑو سے سب کو گندے گڑھے میں ڈال دیتا ہے اور یا پھر سب کو عرش پر پہنچا دیتا ہے.اگر وہ کوئی تقریر کرے اور لوگ سُبحَانَ اللہ کہ دیں تو وہ خوشی سے باہر نکلتا ہے اور کہتا ہے کہ سب لوگ اچھے ہیں لیکن اگر کوئی اُس پر اعتراض کر دے تو کہہ دیتا ہے کہ سب لوگ خراب ہیں.پس جس خادم سے کوئی غلطی سرزد ہو تم اُس کی اصلاح کرنے کی کوشش کرو اور مرکز کو اطلاع دو لیکن یہ نہ کرو کہ لکھ دو کہ سب خراب ہیں وہ ہماری بات نہیں سنتے.یہ لغو طریق ہے اسے اختیار نہیں کرنا چاہئے.پرانے لوگوں نے لطیفے کے طور پر بیان کیا ہے کہ ایک نائی تھا وہ عموماً درباریوں کی حجامت بنایا کرتا تھا.کسی درباری نے خوش ہو کر اُسے پانچ سو اشرفیاں دے دیں.جب اسے اس قدر نقدی ملی تو بجائے اس کے کہ وہ اُسے کہیں سنبھال کر رکھے وہ اسے اپنے ساتھ اُٹھائے پھرتا تھا.وہ امراء کی حجامتیں بنانے جاتا تو تھیلی ساتھ اُٹھا لیتا آہستہ آہستہ یہ ایک مذاق بن گیا.کوئی پوچھتا کہ یہ کیا ہے؟ تو وہ کہتا یہ پانچ سو اشرفیاں ہیں.ایک دن ایک امیر نے اُس سے پوچھا بتاؤ شہر کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ کیا حال پوچھتے ہو جناب ! دھن برستا ہے اور کوئی کمبخت ایسا نہیں ہو گا جس کے پاس پانچ سو اشرفیاں بھی نہ ہوں.چونکہ وہ عموماً امراء کے پاس جایا کرتا تھا اس لئے وہ زیادہ احتیاط نہیں کرتا تھا.

Page 351

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۵ اصلاح اور تربیت کے لئے اپنا نیک نمونہ پیش ایک دن مزاقا بعض امراء نے مشورہ کیا کہ اس کی تھیلی اٹھا لو چنانچہ وہ تھیلی اٹھالی گئی.دوسرے دن جب وہ حجامت بنانے آیا تو اُس کا رنگ اُڑا ہو ا تھا وہ بول نہیں سکتا تھا.کسی شخص نے اُس سے دریافت کیا بتاؤ میاں! آج شہر کا کیا حال ہے؟ اُس نے جواب دیا کہ شہر کا کیا کہوں سارا شہر کھو کا مر رہا ہے.اس امیر نے اپنے نوکر سے کہا تھیلی اٹھالا ؤ اور وہ تحصیلی نائی کو دیکر کہنے لگا میاں ! تم تھیلی لے لو لیکن شہر کو ٹھو کا نہ مارو.یہ کتنی گندی ذہنیت ہے ایسا انسان یا تو سو میپنگ SWEEPINQ) ریمارکس دے دیتا ہے اور یا پھر سب کو عرش پر بٹھا دیتا ہے.میرے ساتھ ہر روز یہی ہوتا ہے کئی لوگ آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سارے لوگ ایسے ہیں میں کہتا ہوں کوئی مثال دو پھر وہ کہتے ہیں کہ سب تو ایسے نہیں.جب میں پھر دُہراتا ہوں کہ کوئی مثال دو تو یہ تعداد اور کم ہو جاتی ہے اور آہستہ آہستہ ایک آدمی رہ جاتا ہے غرض یہ طریق غلط ہے.تم اپنی اصلاح کرو اور دوسروں کی بھی اصلاح کرو اور یہ نہ کہو کہ سب بُرے ہیں یا لوگ ہماری بات نہیں سنتے یہ بگاڑنے کا طریق ہے اصلاح کرنے کا نہیں.اگر دس خدام ہیں اور وہ تمام کے تمام نماز میں شامل نہیں ہوتے تو ہوسکتا ہے کہ ان میں سے آٹھ کے پاس کوئی حقیقی معزوری ہو جس کی وجہ سے وہ مسجد میں نہیں آ سکتے.پس تمہیں اس طریق کو تو ڑنا چاہئے اور مرکز میں کچی رپورٹیں بجھوانی چاہیں.تنظیم کے معنی ہی یہ ہیں کہ آپ لوگ مرکز سے وابستہ ہوں اگر آپ مرکز سے وابستہ نہیں تو کوئی تنظیم حقیقی تنظیم نہیں روزنامه الفضل ۲۵ / جولائی ۱۹۶۲ء) کہلا سکتی.التوبة: ١١٩ مسلم کتاب البر والصلة باب النهى عن قول هلگ الناس میں یہ الفاظ ہیں: إِذَا قَالَ الرَّجُلُ.هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكَهُمْ ،،

Page 352

Page 353

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۲۷ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 354

Page 355

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۳۲۹ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو فرموده ۱۴ جون ۱۹۵۱ء برموقع افتتاح جامعه نصرت ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فر مایا: - زمانہ کے حالات بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا چلا جاتا ہے یہ ایک عام قانون ہے جو دُنیا میں جاری ہے.دریا چلتے ہیں اور پہاڑوں اور میدانوں کے نشیب وفراز کی وجہ سے ان کے بعض حصوں پر دباؤ پڑتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کچھ دور جا کر دریا کا رُخ بدل جاتا ہے.بعض دفعہ دس دس ، پندرہ پندرہ ، ہمیں ہیں ، میں تھیں میل تک دریا رُخ بدلتے چلے جاتے ہیں.اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان بدلتے ہیں اور ان کے ساتھ زمانہ بدل جاتا ہے.یہ دونوں قسم کے نظارے ہمیں دُنیا میں نظر آتے ہیں.کبھی زمانہ کے بدلنے سے انسان بدلتے ہیں اور کبھی انسانوں کے بدلنے سے زمانہ بدلتا ہے.انسان کمزور ہوتا ہے تو زمانہ کے بدلنے سے وہ بدل جاتا ہے اور جب طاقتور ہوتا ہے تو اُس کے بدلنے سے زمانہ بدل جاتا ہے.کمزور قو میں اپنی حاصل شدہ عظمت اور طاقت کو زمانہ کے حالات کے مطابق بدلتی چلی جاتی ہیں.وہ اپنے ہمسایوں سے بد رسوم کو لیتی ہیں ، اپنے ہمسایوں سے بداخلاق کو لیتی ہیں، اپنے ہمسایوں سے سستی اور جہالت کو لیتی ہیں ، اپنے ہمسایوں سے جھوٹ اور فریب کو لیتی ہیں ، اپنے ہمسایوں سے ظلم اور تعدی کو لیتی ہیں اور وہی قوم جو کسی وقت آسمان پر چاند اور ستاروں کی طرح چمک رہی ہوتی ہے نہایت ذلیل اور حقیر ہو کر رہ جاتی ہے.تم اپنے ہی اسلاف کو دیکھو اگر تمہیں اپنے بناؤ اور سنگار سے فرصت ہو کہ تمہارے اسلاف کیا تھے اور اب تم کیا ہو.مجھے بتایا گیا ہے کہ

Page 356

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۰ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو کالج کی طالبات نے جب مضمونوں کا انتخاب کیا تو ان میں سے اکثر نے تاریخ سے بچنے کی کوشش کی.یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جیسے ہم کسی بچہ سے کہیں کہ آؤ ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کا نام بتائیں اور وہ بھاگے.تاریخ کیا ہے؟ تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہار باپ کون تھا، تمہارا دادا کون تھا، تمہاری ماں کون تھی ، تمہاری نانی کون تھی.تاریخ تمہیں بتاتی ہے کہ تمہارے آبا ؤ اجداد کیا تھے اور اب تم کیا ہو.تاریخ سے کسی شخص کا بھا گنا یا اس مضمون کو بوجھل سمجھنا ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنے آباؤ اجداد کی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو.حالانکہ اگر ڈ نیوی لحاظ سے کوئی مضمون ایسا ہے جس کے حصول کے لئے ہمیں لڑنا چاہئے تو وہ تاریخ ہی ہے.تاریخ سے بھاگنے کے معنی ہوتے ہیں طبیعت میں مُردہ دلی ہے.جیسے کمزور آدمی کو زخم لگ جاتا ہے تو وہ کہتا ہے مجھے نہ دکھاؤ میں نہیں دیکھتا میرا دل ڈرتا ہے.تاریخ سے بھاگنے والی قوم وہی ہوتی ہے جو ڈرپوک ہوتی ہے اور ڈرتی ہے کہ اگر میرے ماں باپ کی تاریخ میرے سامنے آئی اور اس میں میرا بھیا نک چہرہ مجھے نظر آیا اور مجھے پتہ لگا کہ میں کون ہوں تو میرا دل برداشت نہیں کرے.گا چونکہ وہ سمجھتا ہے کہ اس آئینہ میں میری شکل مجھے نظر آئے گی اس لئے وہ اپنی شکل کے خیال سے اور تصور سے کہ وہ کتنی بدصورت ہوگی اسے دیکھنے سے اجتناب کرنے کی کوشش کرتا ہے یہ بات فطرت انسانی میں داخل ہے کہ وہ اپنے آباؤ و اجداد اور اپنی اولاد اور اپنے رشتہ داروں کو اپنی شکل کا دیکھنا چاہتا ہے.کئی ماں باپ جن کے ہاں کسی حادثہ یا بیماری کی وجہ سے بدصورت بچے پیدا ہو جاتے ہیں اُن سے اُن کی مائیں بھی نفرت کرنے لگتی ہیں اور وہ بدصورت بچے اپنے دوسرے بھائیوں سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں اس خیال سے کہ یہ ہم سے اچھے ہیں.اسی طرح جب تاریخ میں انسان اپنے آباء کو دیکھتا ہے کہ اُنہوں نے یہ یہ کارنامے سرانجام دیئے ہیں اور اُن کی یہ شان تھی اور اس کے مقابلہ میں وہ یہ دیکھتا ہے کہ ہم کیا ہیں اور پھر وہ اس چلن اور طریق کو دیکھتا ہے جو اُس نے اور اُس کے ساتھیوں نے اختیار کیا ہوا ہے تو دیانتداری کے ساتھ وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوتا ہے کہ میری غفلت اور میری سحر انگاری اور میری اپنے

Page 357

انوار العلوم جلد ۲۲ ٣٣١ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو فرائض سے کوتاہی اور میری عیش و آرام کی زندگی مجھ کو مجرم بنانے کے لئے کافی - تی ہے.اسے تاریخ کے اس آئینے میں اپنا گھناؤنا چہرہ نظر آ جاتا ہے اور وہ خیال کرتا ہے کہ جب میں پُرانے حالات پڑھوں گا اور دیکھوں گا کہ وہ لوگ جو میرے آباء تھے ان کاموں سے نفرت کیا کرتے تھے تو مجھے اپنے اندر تغیر پیدا کرنا پڑے گا.پس وہ اپنے بدصورت چہرہ کو ان کے خوبصورت چہرہ سے ملانے سے گھبراتا ہے اور اس لئے تاریخ سے دُور بھاگتا ہے.جب آج کل کا مسلمان تاریخ کے آئینہ میں یہ دیکھتا ہے کہ اس کے ماں اور باپ ہمالیہ سے بھی اونچے قدوں والے تھے ، آسمان بھی ان کے دبدبہ سے کانپتا تھا اور اس کے مقابلہ میں وہ اپنی تصویر کا خیال کرتا ہے کہ بالکل ایک بالشتیہ نظر آتا ہے اور اس کی مثال ایک کا رک جتنی بھی نہیں جو دریا میں بہتا چلا جاتا ہے.سمندر کی لہریں اُٹھتی ہیں اور اُس کے آباؤ اجداد کی مضبوط چٹان سے ٹکراتی ہیں اور وہ بلند و بالا ہونے والی لہریں جن کو دیکھ کر بسا اوقات انسان یہ خیال کرتا ہے کہ وہ دُنیا کو بہا کر لے جائیں گی وہ اُس کے آبا ؤ اجداد کی چٹانوں سے ٹکرا کر پاش پاش ہو جاتی ہیں ان کا پانی جھاگ بن کر رہ جاتا ہے اور اس چٹان کے قدموں میں وہ جھاگ پھیل رہی ہوتی ہے، ہوا میں بلبلے پھٹ پھٹ کر غائب ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کو نظر آتا ہے کہ اس کے آبا ؤ اجداد کی کیا شان تھی.پھر وہ اپنی طرف دیکھتا ہے کہ ایک چھوٹی سی ندی جس کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ایک کارک کی طرح ادھر اُدھر پھر رہا ہے کبھی وہ کسی چٹان سے ٹکراتا ہے اور کبھی کسی سے وہ دائیں طرف چلا جاتا ہے اور کبھی بائیں طرف ، کبھی وہ خش و خاشاک کے ڈھیروں میں چھپ جاتا ہے اور کبھی گندی جھاگ میں اور ہر شخص اس کی لرزتی اور کپکپاتی ہوئی حالت کو دیکھ کر اس سے اپنا منہ پھیر لیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیا ہی ذلیل چیز ہے.تاریخ سے بھاگنے والا بُز دل ہوتا ہے جس میں یہ جرات نہیں ہوتی کہ وہ حقائق کے آئینہ میں اپنے باپ دادا کی شکل کے سامنے اپنی شکل رکھ سکے.بہادر اور ہمت والا انسان خود جاتا ہے اور اس آئینہ کو اُٹھاتا ہے وہ اس آئینہ میں اپنی شکل کو دیکھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے ہاں میرے آباء اجداد اگر چٹان تھے تو میں بھی چٹان بن کر رہوں گا وہ اگر طوفان تھے تو میں

Page 358

۳۳۲ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو انوار العلوم جلد ۲۲ عص ان سے بھی اونچا طوفان بنوں گا.وہ اگر سمندر کی لہروں کی طرح اُٹھتے تھے تو میں ان سے بھی اونچا اٹھوں گا.تم جانتی ہو کہ وہ لڑکی جس کے نمبر کلاس میں زیادہ ہوتے ہیں وہ اپنے نمبروں کو چھپاتی نہیں بلکہ ہر ایک کو بتاتی ہے.نمبروں کا بتانا ایسا ہی ہوتا ہے جیسے انسان کا اپنا منہ دکھانا.وہ اپنا اندرونہ دکھلاتی ہے اور جس کے نمبر کم ہوتے ہیں وہ ان کو چھپایا کرتی ہے.پس تاریخ کے پڑھنے سے گریز در حقیقت بُزدلی کی علامت ہے.ر حقیقت یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس شخص کو اپنے مکر وہ چہرے کا پتہ ہے اور اس می کو اپنے آباء واجداد کے حسین چہرے کا بھی پتہ ہے مگر ان دونوں باتوں کے معلوم ہونے کے بعد وہ یہ جرات نہیں رکھتا کہ ایک آئینہ میں دونوں کی اکھٹی شکل دیکھ سکے.یہاں تک تو میں نے صرف عام پیرا یہ میں اس مضمون کی اہمیت بیان کی ہے اگر مذہبی پہلو لے لو تو تاریخ ہی ایک مسلمان کو بتا سکتی ہے کہ کس طرح ایک ریگستان سے ایک انسان اُٹھا اور اس نے اپنی مقناطیسی قوت سے اپنے ارد گرد کے فولادی ذروں کو جمع کرنا شروع کیا.پھر تھوڑے ہی عرصہ میں وہ ایک علاقہ میں پھیل گیا پھر ملک میں پھیل گیا پھر زمین کے تمام گوشوں میں پچھے پچھے پر اُس کی جماعت پھیل گئی.قرآن کریم میں مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک جگہ ان کا نام بَرَرَہے اور سَفَرَة " رکھا ہے.یعنی ان کے قدم گھر میں ٹکتے ہی نہیں تھے دُنیا کے گوشوں گوشوں میں پھیلتے جاتے تھے اور جہاں جاتے تھے اپنی خوش اخلاقی اور اعلیٰ درجہ کے چلن کی خوشبو پھیلاتے جاتے تھے.لیکن گجا وہ پھیلنے والا مسلمان اور گجا آج کا سمٹنے والا مسلمان، گجا وہ زمانہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں فرمایا کہ مردم شماری کرو اور دیکھو کہ اب کتنے مسلمان ہو چکے ہیں.مردم شماری کی گئی اور گنتی کی گئی اور مسلمان مردوں عورتوں اور بچوں کی تعداد سات سو نکلی.تم جانتی ہو کہ ربوہ کی آبادی اس وقت اڑھائی ہزار کے قریب ہے گویا وہ تمہاری ربوہ کی آبادی کا ۱/۴ حصہ تھے.اور یہ وہ مردم شماری تھی جو ساری دُنیا کے مسلمانوں کی تھی کیونکہ اُس وقت مدینہ سے باہر مسلمان بہت تھوڑے تھے سوائے حبشہ کے کہ وہاں کوئی پچاس کے قریب مسلمان ہوں گے یا مکہ میں کچھ مسلمان تھے جو ڈر کے مارے اپنے ایمان کا اظہار نہیں کرتے تھے

Page 359

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۳ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو اور در گھلے بندوں اسلام میں شامل نہیں تھے.غرض مردم شماری کی گئی اور سات سو کی آبادی نکلی.وہ صحابہ جن کے سپرد یہ کام تھا وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مسلمانوں کی آبادی سات سو نکلی ہے پھر انہوں نے کہا يَا رَسُول اللہ ! آپ نے مردم شماری کا حکم کیوں دیا تھا ؟ کیا آپ کو یہ خیال آیا کہ مسلمان تھوڑے ہیں؟ یا رَسُول اللہ ! اب تو ہم سات سو ہو گئے ہیں اب ہمیں دُنیا سے کون مٹا سکتا ہے.آج کہا جاتا ہے کہ مسلمان ساٹھ کروڑ ہیں لیکن ان ساٹھ کروڑ کا دل اتنا مضبوط انہیں جتنا اُن سات سو کا دل مضبوط تھا.آخر یہ تفاوت جو دلوں کے اندر ہے تمہیں اس کا کس طرح پتہ لگ سکتا ہے بغیر تاریخ کے مطالعہ کے.ایک ایک مسلمان نکلتا تھا اور دُنیا کی طاقتیں اُس کے سامنے جھک جاتی تھی.وہ نقال نہیں تھا بلکہ خود اپنی ذات میں اپنے آپ کو آدم سمجھتا تھا.وہ یقین رکھتا تھا کہ دُنیا میری نقل کرے گی میرا کام نہیں کہ میں اس کی نقل کروں.تم اگر تاریخ پڑھو تو تمہیں پتہ لگے گا آج تم ہر بات میں یورپ کی نقل کر رہی ہو.تم بعض دفعہ کہہ دیتی ہو فلاں تصویر میں میں نے ایسے باغ دیکھے تھے اُف جب تک میں بھی ایسے بال نہ بنالوں مجھے چین نہیں آئے گا.فلاں پاؤڈر نکلا ہے جب تک اُسے خرید نہ لوں مجھے قرار نہیں آئے گا.اس کے معنی یہ ہیں کہ تم سمجھتی ہو کہ تمہارا دشمن بڑا ہے اور تم چھوٹی ہو.اگر تم بڑی ہو تو اُس کا کام ہے کہ وہ تمہاری نقل کرے اور اگر وہ بڑا ہے تو پھر تمہارا کام ہے کہ تم اُس کی نقل کرو.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں اسلامی لشکر ایران کے ساتھ ٹکر لے رہا تھا کہ بادشاہ کو خیال آیا کہ یہ عرب ایک غریب ملک کے رہنے والے بھو کے ننگے لوگ ہیں اگر ان کو انعام کے طور پر کچھ روپیہ دے دیا جائے تو ممکن ہے کہ یہ لوگ واپس چلے جائیں اور لڑائی کا خیال ترک کر دیں چنانچہ اُس نے مسلمانوں کے کمانڈر انچیف کو کہلا بھیجا کہ اپنے چند آدمی میرے پاس بھیجوا دیئے جائیں میں اُن سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں.جب وہ ملنے کے لئے آئے تو اُس وقت بادشاہ بھی اپنے دارالخلافہ سے نکل کر کچھ دُور آگے آیا ہوا تھا اور عیش

Page 360

انوار العلوم جلد ۲۲ اور ۳۳۴ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو ور تنقم کا ہر قسم کا سامان اس کے ساتھ تھا ، نہایت قیمتی قالین بچھے ہوئے تھے ، نہایت اعلیٰ درجے کے کا وچ اور کرسیاں بچھی ہوئی تھیں اور بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا کہ مسلمان سپاہی آپہنچے.سپاہیوں کے پاؤں میں آدھے چھلے ہوئے چمڑے کی جوتیاں تھیں جو مٹی سے آئی ہوئی تھیں اور ان کے ہاتھوں میں نیزے تھے.جس وقت وہ دروازے پر پہنچے چوبدار نے آواز دی کہ بادشاہ سلامت کی حضوری میں تم حاضر ہوتے ہو اپنے آپ کو ٹھیک کرو.پھر اس نے مسلمان افسر سے کہا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ کس قسم کے قیمتی قالین بچھے ہوئے ہیں تم نے اپنے ہاتھوں میں نیزے اُٹھائے ہوئے ہیں اِن نیزوں سمیت قالینوں پر سے گز رو گے تو ان کو نقصان پہنچے گا.اس مسلمان افسر نے کہا تمہارے بادشاہ نے ہم کو بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے کے لئے نہیں آئے ہیں.اگر ملنے کی احتیاج ہے تو اُس کو ہے ہمیں نہیں.اسے اگر اپنے قالینوں کا خیال ہے تو اسے کہہ دو کہ وہ اپنے قالین اٹھا لے.ہم جُوتیاں اُتارنے یا نیزے اپنے ہاتھ سے رکھنے کے لئے تیار نہیں.اس نے بہتیرا پروٹسٹ کیا اور کہا کہ اندر نہایت قیمتی فرش ہے جو تیاں اُتار دو اور نیزے رکھ دو مگر انہوں نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا.اس نے ہمیں بلایا ہے ہم اپنی مرضی سے اس سے ملنے نہیں آئے.غرض اسی حالت میں وہ اندر پہنچے.وہاں تو بڑے سے بڑا جرنیل اور وزیر بھی زمین بوس ہوتا اور بادشاہ کے سامنے سجدہ کرتا تھا مگر یہ تنی ہوئی چھاتیوں اور اُٹھی ہوئی گردنوں کے ساتھ وہاں پہنچے.بادشاہ کو سلام کیا اور پھر اُس سے پوچھا کہ بادشاہ تم نے ہمیں کیوں بلایا ہے؟ بادشاہ نے کہا کہ تمہارا ملک نہایت جاہل پست ، در ماندہ اور مالی تنگی کا شکار ہے اور پھر عرب وہ قوم ہے کہ جو گوہ تک (ایک ادنیٰ جانور ہے ) کھاتی ہے وہ عمدہ کھانوں سے نا آشنا ہے، عمدہ لباس سے نا آشنا ہے اور بھوک اور افلاس نے اسے پریشان کر رکھا ہے.معلوم ہوتا ہے اس تنگی اور قحط کی وجہ سے تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ ہم دوسرے ملکوں میں جائیں اور ان کو لوٹیں.میں تمہارے سامنے تمہاری اس تکلیف کو دیکھتے ہوئے یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ تمہارا جتنا شکر ہے اس میں سے ہر سپاہی کو میں ایک ایک اشرفی اور ہر افسر کو دو دو اشرفیاں دے دوں گا.تم یہ روپیہ لو اور اپنے ملک

Page 361

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۵ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو میں واپس چلے جاؤ.مسلمان کمانڈر نے کہا اے بادشاہ! یہ جو تم کہتے ہو کہ ہماری قوم گوہ تک کھانے والی تھی اور ہم غربت اور ناداری میں اپنے ایام بسر کر رہے تھے یہ بالکل درست ہے.ایسا ہی تھا مگر اب وہ زمانہ نہیں رہا.خدا تعالیٰ نے ہم میں اپنا ایک رسول بھیجا اور اُس نے ہم کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور ہم نے اُسے قبول کر لیا.تمہارا یہ خیال ہے کہ ہم روپوؤں کے لئے نکلے ہیں؟ مگر ہم روپوؤں کے لئے نہیں نکے تمہاری قوم نے ہم سے جنگ شروع کی ہے اور اب ہماری تلوار میں تبھی نیام میں جائیں گی جب یا تو کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو جاؤ گے اور یا پھر مسلمانوں کے باجگزار ہو جاؤ گے اور ہمیں جزیہ ادا کرو گے.ایران کا بادشاہ جو اپنے آپ کو نصف دُنیا کا بادشاہ سمجھتا تھا وہ اس جواب کو برداشت نہ کر سکا اُسے غصہ آیا اُس نے چوبدار سے کہا جاؤ اور ایک بورے میں مٹی ڈال کر لے آؤ.وہ بوری میں مٹی ڈال کر لے آیا تو اس نے کہا کہ یہ بوری اس مسلمان سردار کے سر پر رکھ دو اور اسے کہہ دو کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں اور سوائے اس مٹی کے تمہیں کچھ اور دینے کے لئے تیار نہیں.وہ مسلمان افسر جس کی گردن ایران کے بادشاہ کے سامنے نہیں جھکی تھی اِس موقع پر اُس نے فوراً اپنی گردن جھکا دی ، پیٹھ پر بوری رکھی اور اپنے ساتھیوں سے کہا کہ آجاؤ.بادشاہ نے خود ایران کی زمین ہمارے سپر د کر دی ہے.مشرک تو وہمی ہوتا ہے بادشاہ نے یہ سُنا تو اس کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور اُس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ان لوگوں کو جلدی پکڑ و مگر وہ اُس وقت تک دُور نکل چکے تھے.ہے اُنہوں نے کہا اب یہ پکڑی جانے والی مخلوق نہیں ہے.پھر وہی بادشاہ جس نے یہ کہا تھا کہ میں تمہارے سروں پر خاک ڈالتا ہوں وہ میدان چھوڑ کر بھاگا ، پھر ملک چھوڑ کر بھاگا اور شمالی پہاڑوں میں جا کر پناہ گزین ہو گیا اور اس کے قلعے اور محلات اور خزانے سارے کے سارے مسلمانوں کے قبضہ میں آگئے.ابو ہریرہ وہ غریب ابو ہریرہ جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سارا دن بیٹھے رہنے کے خیال سے کوئی گزارہ کی صورت پیدا نہیں کرتا تھا اور جسے بعض دفعہ کئی کئی دن کے فاقے ہو جایا کرتے تھے.ایک دن وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ انہیں کھانسی اُٹھی

Page 362

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۶ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو انہوں نے اپنی جیب میں سے رومال نکالا اور اُس میں بلغم کھو کا اور پھر کہا بخ بخ ابو ہریرہ ! یعنی واہ واہ ابو ہریرہ ! کبھی تو فاقوں سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا اور آج تو کسری کے اس رومال میں تھوک رہا ہے جسے بادشاہ تخت پر بیٹھتے وقت اپنی شان دکھانے کے لئے خاص طور پر اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا.لوگوں نے کہا یہ کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا میں آخری زمانہ میں مسلمان ہو ا تھا میں نے اس خیال سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں لوگوں نے بہت کچھ سُن لی ہیں اور اب میرے لئے بہت تھوڑا زمانہ باقی ہے یہ عہد کر لیا کہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ سے نہیں ملوں گا سارا دن مسجد میں ہی رہوں گا تا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی باہر تشریف لائیں میں آپ کی باتیں سُن سکوں.کچھ دن تو میرا بھائی مجھے روٹی پہنچا تا رہا آخر اُس نے روٹی پہنچانی چھوڑ دی اور مجھے فاقے آنے لگے اور بعض دفعہ سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور بھوک کی شدت کی وجہ سے میں بے ہوش ہو کر گر جاتا تھا لوگ یہ سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے اور عربوں میں یہ رواج تھا کہ جب کسی کو مرگی کا دورہ ہوتا تو اُس کے سر پر جو تیاں مارا کرتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ مرگی کا علاج ہے.جب میں بے ہوش ہوتا تو میرے سر پر بھی وہ جو تیاں مارنا شروع کر دیتے حالانکہ میں بھوک کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوتا تھا.اب گجا وہ حالت اور گجا یہ حالت کہ ایران کا خزانہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور اموال تقسیم ہوئے تو وہ رومال جو شاہ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا وہ میرے حصہ میں آیا.مگر ایران کا بادشاہ تو آرائش کے لئے اس رومال کو اپنے ہاتھ میں رکھا کرتا تھا اور میرے نزدیک اس رومال کی صرف اتنی قیمت ہے کہ میں اس میں اپنا بلغم تُھوک رہا ہوں ھے سوائے تاریخ کے کون سی چیز ہے جو تمہیں اپنے آباء کے ان حالات سے واقف کر سکتی ہے اور تمہیں بتا سکتی ہے کہ تم کیا تھے اور اب کیا ہو.کسی ملک میں مسلمان عورت نکل جاتی تھی تو لوگوں کی مجال تک نہیں ہوتی تھی کہ وہ اُس کی طرف اپنی آنکھ اُٹھا سکیں.آجکل ربوہ کی گلیوں میں احمدی عورتیں پھرتی ہیں تو ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ باہر کا کوئی

Page 363

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۷ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو او باش آدمی یہاں آیا ہو ا ہو اور وہ کوئی شرارت کر جائے.لیکن ایک وہ زمانہ گزرا ہے کہ مسلمان عورتیں دُنیا کے گوشے گوشے میں جاتیں ، اکیلے اور تن تنہا جاتیں اور کسی کو جرات نہیں ہوتی تھی کہ وہ ان کی طرف ترچھی نگاہ سے دیکھ سکے اور اگر کبھی کوئی ایسی غلطی کر بیٹھتا تو وہ اُس کا ایسا خمیازہ بھگتنا کہ نسلوں نسل تک اُس کی اولاد ناک رگڑتی چلی جاتی.مسلمان اپنے ابتدائی دور میں ہی دُنیا میں پھیل گئے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ابھی اتنی نوے سال ہی گزرے تھے کہ وہ چین اور ملایا اور سیلون اور ہندوستان کے مختلف گوشوں میں پھیل گئے ادھر وہ افریقہ کے مغربی ساحلوں تک چلے گئے تھے اور ان کی لہریں یورپ کے پہاڑوں سے ٹکرا رہی تھیں.اس ابتدائی دور میں مسلمانوں کا ایک قافلہ جس کو سیلون کے بدھ بادشاہ نے خلیفہ وقت کے لئے کچھ تحائف بھی دیئے تھے سیلون سے روانہ ہوا اور اسے سندھ میں لوٹ لیا گیا.سندھ میں اُن دنوں راجہ داہر کی حکومت تھی جب اس قافلہ کے لوٹے جانے کی خبر مشہور ہوئی تو گورنر عراق کا والی مکر ان کو حکم پہنچا کہ ہمارے پاس یہ خبر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کا ایک قافلہ جوسیلون سے چلا تھا وہ سندھ میں ٹوٹا گیا ہے اور مسلمان مرد اور عورتیں قید ہیں تم اس واقعہ کی تحقیق کر کے ہمیں اطلاع دو.والی مکران نے راجہ داہر سے دریافت کیا تو اُس نے اس واقعہ کا انکار کر دیا.مسلمان چونکه خود راست باز تھے اس لئے وہ سمجھتے تھے کہ دوسرے لوگ بھی سچ بولتے ہیں جب راجہ داہر نے انکار کر دیا تو انہوں نے بھی مان لیا کہ یہ بات سچ ہو گی.کچھ عرصہ کے بعد ایک اور قافلہ انہوں نے اسی طرح لوٹا اور ان میں سے بھی کچھ عورتیں انہوں نے قید کیں.ان عورتوں میں سے ایک عورت نے کسی طرح ایک مسلمان کو جو قید نہیں ہوا تھا یا قید ہونے کے بعد کسی طرح رہا ہو گیا تھا کہا کہ میرا پیغام مسلمان قوم کو پہنچا دو کہ ہم یہاں قید ہیں اور مسلمان حکومت کا فرض ہے کہ وہ ہم کو بچائے.اُس وقت خلیفہ بنوامیہ افریقہ پر چڑھائی کی تجویزیں کر رہا تھا اور سپین فتح کرنے کی سکیم بن رہی تھی اور تمام علاقوں میں یہ احکام جاری ہو چکے تھے کہ جتنی فوج میسر آسکے وہ افریقہ کے لئے بھجوا دی جائے.اُس وقت وہ پیغامبر پہنچا اور اُس نے عراق کے گورنر کو جو حجاج نامی تھا اور جو سخت بد نام تھا یہ

Page 364

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۸ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو پیغام پہنچایا.اس میں بدنامی کی بھی باتیں ہوں گی مگر اس جیسا نڈر، بہادر اور اسلام کے لئے قربانی کرنے والا آدمی بھی اُس زمانہ میں ہمیں شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے.آنے والے نے حجاج سے کہا کہ میں سندھ سے آیا ہوں.وہاں یکے بعد دیگرے دو مسلمان قافلے لوٹے گئے ہیں اور کئی مسلمان قید ہیں.راجہ داہر نے گورنر مکر ان سے کہا یہ بالکل جھوٹ کہا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا.حجاج نے کہا کہ میں کس طرح مان لوں کہ تم جو کچھ کہ رہے ہو درست کہہ رہے ہو.ہر بات کی دلیل ہونی چاہئے بغیر کسی دلیل کے میں تمہاری بات نہیں مان سکتا.اُس نے کہا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں واقعہ یہی ہے کہ وہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں.حجاج نے کہا کہ اول تو تمہاری بات پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہم نے گورنر مکران کو لکھا اور اُس نے جو جواب دیا وہ تمہارے اس بیان کے خلاف ہے دوسرے تمہیں یہ بات یا درکھنی چاہئے.خلیفہ وقت کا حکم ہے کہ جتنی فوج میسر ہوا فریقہ بھیج دو پس اس وقت ہم اپنی فوجوں کو کسی اور طرف نہیں بھیج سکتے.غرض اس نے ہر طرح سمجھایا مگر حجاج پر کوئی اثر نہیں ہوا اور اُس نے کہا کہ میرے حالات اس قسم کے نہیں کہ میں اس طرف توجہ کرسکوں.جب وہ ہر طرح دلائل دے کر تھک گیا تو اُس نے کہا میرے پاس آپ کے لئے اور خلیفہ وقت کے لئے ایک پیغام بھی ہے.حجاج نے کہا کے وہ کیا ہے؟ اُس نے کہا کہ جب میں چلا ہوں تو ایک مسلمان عورت جو قید ہونے کے خطرہ میں تھی اور اس وقت تک قید ہو چکی ہوگی اُس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا کہ اسلامی خلیفہ اور عراق کے گورنر کو ہماری طرف سے یہ پیغام دے دیں کہ مسلمان عورتیں ظالم ہندوؤں کے ہاتھ میں قید ہیں اور ان کی عزت اور ان کا ناموس محفوظ نہیں ہے ہم مسلمان قوم سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے فرض کو ادا کرے اور ہمیں یہاں سے بچانے کی کوشش کرے.کوئی ملک نہیں ، کوئی قوم نہیں دو یا تین عورتیں ہیں اور ہیں یا چھپیں مرد ہیں جن کے بچانے کے لئے بعض دفعہ ضلع کا ڈپٹی کمشنر بھی یہ کہہ دیتا ہے کہ میرے پاس سپاہی موجود نہیں یہ ایک معمولی واقعہ ہے اس کا حجاج پر یہ اثر ہوتا ہے کہ وہی حجاج جو یہ کہہ رہا تھا کہ ہمارے پاس فوج نہیں ہم یورپ پر حملہ کی تیاری کر رہے ہیں وہ اس پیغام کوسن کر گھبرا کر کھڑا ہو گیا اور جب اُس

Page 365

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۳۹ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو آنے والے آدمی نے پوچھا کہ اب آپ مجھے کیا جواب دیتے ہیں؟ تو حجاج نے کہا کہ اب کہنے اور سننے کا کوئی وقت نہیں اب میرے لئے کوئی اور فیصلہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اب اس کا جواب ہندوستان کی فوج کو ہی دیا جائے گا.چنانچہ اُس نے بادشاہ کو لکھا اُس نے بھی یہی کہا کہ ٹھیک فیصلہ ہے اب ہمارے پاس غور کرنے کا کوئی موقع باقی نہیں.اور اس فیصلے کے مطابق مسلمان فوج سندھ کے لئے روانہ کر دی گئی.درمیان میں کوئی ہزار میل کا فاصلہ ہے یا اس سے بھی زیادہ اور اس زمانے میں موٹروں کے ساتھ بھی اس فاصلے کو آسانی سے طے نہیں کیا جا سکتا لیکن بادشاہ نے حکم دیا کہ اب مسلمانوں کی عزت اور ناموس کا سوال ہے بغیر کسی التوا کے جلد سے جلد منزل مقصود پر مسلمانوں کا پہنچنا ضروی ہے چنانچہ مسلمان درمیان میں کہیں ٹھہرے نہیں اُنہوں نے اونٹوں اور گھوڑوں پر رات دن سفر کیا اور بارھویں دن اس فاصلے کو جو آج ریلوں اور موٹروں کے ذریعہ بھی اتنے قلیل عرصہ میں طے نہیں کیا جا سکتا اپنی ان تھک محنت اور کوشش کے ساتھ طے کرتے ہوئے وہ ہندوستان کی سرحد پر پہنچ گئے.اب تو تمہارا اپنا وجود ہی بتا رہا ہے کہ اس مہم کا بتا نتیجہ کیا ہوا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آٹھ ہزار سپاہی جو بصرہ سے چلا تھا.اس آٹھ ہزار سپاہی نے دو مہینہ کے اندر اندر سندھ ، ملتان اور اس کے گرد و نواح تک کو فتح کر لیا اور وہ قیدی بچائے گئے ، عورتیں بچائی گئیں اور سندھ کا ملک جس میں راجہ داہر کی حکومت تھی اسے سارا کا سارا فتح کر لیا گیا اور پھر مسلمانوں کا لشکر ملتان کی طرف بڑھا مگر بدقسمتی سے بادشاہ کی وفات کے بعد اُس کا بھائی تخت نشین ہوا اُسے ان لڑائیوں میں بادشاہ سے بھی اختلاف تھا اور افسروں سے بھی اختلاف تھا.جب وہ اپنے بھائی کی وفات کے بعد حکومت کے تخت پر بیٹھا تو اُس نے محمد بن قاسم کو جو ایک فاتح جرنیل تھا اور جو ارادہ رکھتا تھا کہ حملہ کر کے بنگال تک چلا جائے معزول کر کے واپس آنے کا حکم دے دیا اور جب وہ واپس آیا تو اسے قتل کروا دیا ور نہ ہندوستان کا نقشہ آج بالکل اور ہوتا.آج صرف یہاں پاکستان نہ ہوتا بلکہ سارا ہندوستان ہی پاکستان ہوتا.جن ملکوں کو عربوں نے فتح کیا ہے اُن میں اسلام اس طرح داخل ہوا ہے کہ کوئی

Page 366

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۰ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو شخص اسے قبول کرنے سے بچا نہیں.غیر قو میں جو ہندوستان میں آئی ہیں ان کے اندر تبلیغی جوش نہیں تھا اس لئے انہوں نے چند علاقوں کو فتح کیا ہے.وہاں کے رہنے والوں میں اسلام کی دشمنی بھی تھی ، اسلامی تعلیم سے منافرت بھی تھی اور پھر ان فاتح اقوام کا سلوک بھی اچھا نہیں تھا لیکن عرب تو اس طرح بچھ جاتا تھا کہ وہ جس ملک میں جاتا اپنے آپ کو حاکم نہیں سمجھتا تھا بلکہ لوگوں کا خادم سمجھتا تھا نتیجہ یہ ہوتا کہ تھوڑے عرصہ میں ہی سارے کا سارا ملک مسلمان ہو جاتا.پس اگر اُس زمانہ میں ہندوستان کو فتح کر لیا جاتا تو یقیناً آج ہندوستان ، ایران اور مصر کی طرح ایک مسلمان ملک ہوتا کیونکہ وہ لوگ عربوں کا نمونہ دیکھتے تھے.اُن کی خدمت اور حسن سلوک کو دیکھتے تھے ، اُن کی دیانت اور راست بازی کو دیکھتے تھے اور ان اخلاق سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے.ان کے سامنے عرب یا غیر عرب کا سوال نہیں ہوتا تھا بلکہ صرف سچائی کا سوال ہوتا تھا جس کے بعد بغض اور کینے آپ ہی آپ مٹ جاتے ہیں.تمہارے باپ دادا کے یہ حالات سوائے تاریخ کے تمہیں اور کس ذریعہ سے معلوم ہو سکتے ہیں.یہی چیز ہے جو تمہیں فائدہ پہنچا سکتی ہے ورنہ محض دو دو نے چار سے یعنی دو کو دو سے ضرب دی جائے تو چار حاصل ہوتے ہیں تمہیں کیا نفع حاصل ہو سکتا ہے.لیکن اگر تم تاریخ پڑھو اور تم ذرا بھی عقل رکھتی ہو ذرا بھی جستجو کا مادہ اپنے اندر رکھتی ہو تو تمہاری زندگی ضائع نہیں ہوسکتی.مضمون تو میں نے اور شروع کیا تھا مگر میں رو میں بہہ کر کہیں کا کہیں چلا گیا اور میں کہ یہ رہا تھا کہ کبھی زمانہ بدلتا ہے اور لوگ اس کے ساتھ بدلتے چلے جاتے ہیں اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنے ساتھ زمانوں کو بدل دیتے ہیں.مسلمان وہ قوم تھی جو زمانے کے ساتھ نہیں بدلی بلکہ زمانے کو اس نے اپنے ساتھ بدل دیا اور وہ جہاں جہاں گئے انہوں نے لوگوں کو اپنے اخلاق کی نقل پر مجبور کر دیا.اپنے لباس کی نقل پر مجبور کر دیا ، اپنے تمدن کی نقل پر مجبور کر دیا اور وہ دُنیا کے اُستاد اور راہنما تسلیم کئے گئے.آج مسلمان عورت یورپ کی بے پردگی کی نقل کر رہی ہے حالانکہ کبھی وہ زمانہ تھا کہ مسلمان عورتوں کے پردہ کو دیکھ کر یورپ کی عورتوں نے پردہ کیا.چنانچہ ننوں (NUNS) کو دیکھ لو.

Page 367

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۱ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو یورپ ایک بے پر د ملک تھا اور بے پردگی ان میں فیشن سمجھا جاتا تھا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان عورت پردہ کرتی ہے تو بہت حد تک انہوں نے بھی پردہ لے لیا.چنانچہ ننز (NUNS) میں گو پورا پردہ نہ ہو لیکن ان کی نقاب بھی ہوتی ہے ، ان کی پیشانی بھی ڈھکی ہوئی ہوتی ہے اور ان کے جسم پر کوٹ بھی ہوتا ہے جس سے ان کے تمام اعضاء ڈھکے ہوئے ہوتے ہیں اور گو ہم اسے پورا اسلامی پردہ نہ کہ سکیں مگر نوے فیصدی پر دہ ان میں ضرور پایا جاتا ہے.حالانکہ یہ وہ عورت تھی جو اسلام کے یورپ میں جانے سے پہلے منگی پھرتی تھی اور جیسے بندریا کو ایک بھکھری پہنا دی جاتی ہے اسی طرح انہوں نے ایک گھگھری پہنی ہوئی ہوتی تھی چنانچہ یورپ کی پرانی تصویریں دیکھ لوعورتوں کے باز و ٹانگیں اور سینہ وغیرہ سب ننگا ہوتا تھا مگر جب مسلمان عورتوں کو انہوں نے پردہ کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے بھی پردہ کے بہت سے حصوں کو لے لیا.مگر اب یورپ پھر اُسی پہلے زمانہ کی طرف جا رہا ہے اور مسلمان عورت بھی پردہ اُتار کر خوش ہوتی ہے کہ وہ یورپ کی نقل کر رہی ہے.آج کی مسلمان عورت یہ کہتی ہے کہ ہم زمانہ کے ساتھ چلیں اور پرانی مسلمان عورت یہ کہتی تھی کہ زمانہ میرے ساتھ ہے.یہ اپنی غلامی کا اقرار کرتی ہے اور وہ اپنی بادشاہی کا اعلان کرتی تھی کہ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں دوسروں کی نقل کروں لوگوں کا کام ہے کہ وہ میری نقل کریں.غرض میں کہ یہ رہا تھا کہ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے لئے تعلیم میں مشکلات تھیں.ایک عیسائی قوم ہم پر حاکم تھی اور مغربی تعلیم دلوانے میں ہمارے لئے مشکلات تھیں.پس میں اس بات پر زور دیتا تھا کہ ہماری لڑکیاں دینیات کلاس میں پڑھیں اور اپنا سارا زور مذہبی اور دینی تعلیم کے حصول میں صرف کریں اور شاید جماعت میں میں اکیلا ہی تھا جو اس بات پر زور دیتا تھا ورنہ جماعت کے افسر کیا اور افراد کیا اِن سب کی مختلف وقتوں میں یہی کوشش رہی کہ ہائی سکول کے ساتھ ایک بورڈنگ بنانے کی اجازت دے دی جائے تا کہ بیرون جات سے لڑکیاں آئیں اور وہ قادیان میں رہ کر انگریزی تعلیم حاصل کریں.اسی طرح اس بات پر بھی زور دیا جاتا رہا کہ لڑکیوں کے لئے کالج کھولنے

Page 368

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۲ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو کی اجازت دی جائے.مگر میں نے ہمیشہ اس کی مخالفت کی لیکن آج میں ہی زنانہ کالج کا افتتاح کر رہا ہوں.یہ تیسری قسم کی چیز ہے نہ میں زمانہ کے ساتھ بدلا نہ زمانہ میرے ساتھ بدلا بلکہ خدا تعالیٰ نے زمانہ میں ایسی خوشگوار تبدیلی پیدا کر دی کہ اب تعلیم کو اسلامی طریق کے ماتحت ہم کالج میں رائج کر سکتے ہیں.یہ کہ اس تعلیم کی آئندہ کیا تفصیلات ہوں گی اس کو جانے دو لیکن یہ کتنا خوش گوار احساس ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یونیورسٹی کے مضامین میں ایک مضمون اسلامیات کا بھی رکھا گیا ہے جس میں اسلامی تاریخ پر خاص طور پر زور دیا جائے گا.پس ہم زمانہ کے ساتھ نہیں بدلے.زمانہ بھی ہمارے ساتھ نہیں بدلا کیونکہ جو زور ہمارے نزدیک اسلامی تعلیم پر ہونا چاہئے وہ ابھی نہیں ہے لیکن خدا تعالیٰ نے زمانہ کو سمو دیا ہے اور اسے کچھ ہمارے مطابق کر دیا ہے اور کچھ ابھی ہمارے مطابق نہیں.پس ان بدلے ہوئے حالات کے مطابق جبکہ ہم سہولت کے ساتھ کالج میں بھی دینیات کی تعلیم دے سکتے ہیں میں نے فیصلہ کیا کہ دینیات کلاسز کو اُڑا دیا جائے اور اسی کالج میں لڑکیوں کو زائد دینی تعلیم دی جائے تا کہ وہ کالج کی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی لحاظ سے بھی اعلیٰ درجہ کی معلومات حاصل کر لیں اور اسلام پر ان کی نظر وسیع ہو جائے.عیسائی حکومت جو تعلیم میں پہلے دخل دیا کرتی تھی وہ اب باقی نہیں رہی.پس میں نے فیصلہ کیا کہ اب ہمیں کالج قائم کر دینا چاہئے تا کہ ہماری لڑکیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں جو اعلی تعلیم یافتہ عورتیں ہیں اُن کی برابری کرسکیں اور ایک مقام پر ان کے ساتھ بیٹھ سکیں.گو ہونا تو یہ چاہئے کہ اس تعلیم کو حاصل کرنے کے بعد تمہاری دماغی کیفیت اور تمہاری قلبی کیفیت اور تمہاری ذہانت دوسروں سے بہت بالا اور بلند ہو اور جب بھی تم اُن کے پاس بیٹھو وہ محسوس کریں کہ تمارا علم اور ہے اور اُن کا علم اور تمہارا علم آسمانی ہے اور اُن کا زمینی.اور اگر تم قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرو اور اس پر غور کرنے کی عادت ڈالو تو یہ کوئی بڑی بات نہیں.تم انٹرنس پاس ہو لیکن میں انٹرنس میں فیل ہوا تھا بلکہ واقعہ تو یہ ہے کہ میں مڈل پاس بھی نہیں کیونکہ میں مڈل میں بھی فیل ہو ا تھا.درحقیقت قانون کے مطابق میری تعلیم پرائمری تک ختم ہو جانی چاہئے تھی کیونکہ جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے

Page 369

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۳ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو پرائمری کا امتحان بھی پاس نہ کیا تھا مگر چونکہ گھر کا سکول تھا اس لئے اساتذہ مجھے اگلی کلاسوں میں بٹھاتے چلے گئے.پس میں پرائمری پاس بھی نہیں اور تم تو میٹرک کا امتحان پاس کر چکی ہو.پھر ایف اے بندگی اس کے بعد بی اے بندگی اور پھر انشاء اللہ ایم اے کی کلاسز کھل جائیں گی اور تم ایم اے ہو جاؤ گی.اگر تم یہ سمجھو کہ قرآن کریم کے علوم کے مقابلہ میں دُنیا کے علوم بالکل بیچ ہیں تو یقیناً تم تلاش کرو گی کہ قرآن کریم میں وہ علوم کیوں پائے جاتے ہیں.پہلے ہمیشہ ایمان پیدا ہوتا ہے اور پھر عمل پیدا ہوتا ہے اگر تمہیں یقین ہو که قرآن کریم میں وہ علم بھرا ہوا ہے جو دُنیا میں نہیں تو یقیناً تم تلاش کرو گی کہ وہ ہے کہاں؟ اور جب تم تلاش کرو گی تو وہ تمہیں مل جائے گا.قرآن کریم خود بتا تا ہے کہ وہ ایک بند خزانہ ہے اس کے الفاظ ہر ایک کے لئے گھلے ہیں ، اس کی سورتیں ہر ایک کے لئے کھلی ہیں مگر اُس کے لئے کھلی ہیں جو پہلے ایمان لاتا ہے وہ فرماتا ہے لا يَمَ الا مرو : وہ لوگ جو ہماری برکت اور رحمت سے ممسوح کئے جاتے ہیں وہی سمجھ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں کیا کچھ بیان ہوا ہے.باقی عربی کتابیں عربی جاننے سے سمجھی جاسکتی ہیں لیکن قرآن ایمان سے سمجھا جا سکتا ہے.اگر تمہیں کامل ایمان حاصل ہوا اور پھر تم اس کو دیکھو تو اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دُنیا کی کسی مجلس میں ، دُنیا کی کسی یونیورسٹی کی ڈگری یافتہ عورت سے تم نیچی نہیں ہو سکتی.وہ تمہیں اس طرح دیکھیں گی جس طرح شاگردا اپنے اساتذہ اور معلمین کو دیکھتے ہیں کیونکہ تمہارے پاس وہ چیز ہوگی جو اُن کے پاس نہیں ہوگی.مگر مصیبت یہ ہے کہ احمدی نوجوان بھی ابھی اِس بات پر تو ایمان لے آیا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنا ماً مور بھیجا وہ اس بات پر بھی ایمان لے آیا ہے کہ احمدیت کچی ہے مگر ابھی اس بات پر اُسے پختہ ایمان حاصل نہیں ہوا کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے.اگر یہ بات حاصل ہو جاتی تو آج ہماری جماعت کہیں سے کہیں پہنچ جاتی.اگر تمہاری جیب میں روپیہ موجود ہو تو کیا ضروت ہے کہ تم صندوق کھولنے جاتی ہو تم اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتی ہو اور روپیہ نکال لیتی ہو.اگر واقعہ میں ایک احمدی مرد اور عورت کے دل میں یہ ایمان ہو کہ قرآن کریم میں ہر چیز موجود ہے تو وہ کسی اور طرف

Page 370

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۴ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو جائے گا کیوں؟ وہ قرآن پر غور کرے گا اور اُسے وہ کچھ ملے گا جو اُسے دوسری کتابوں میں مل سکتا ہی نہیں.تب اُس کی زندگی دوسروں سے زیادہ اعلیٰ ہوگی اور وہ ان میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہوگا.بے شک بعض مجبوریوں کی وجہ سے اسے بھی یو نیورسٹیوں میں پڑھنا پڑے گا مگر اس کو آخری ڈگری دینے والا کوئی چانسلر نہیں ہوگا ، کوئی گورنر نہیں ہوگا، کوئی وزیر نہیں ہوگا بلکہ اسے آخری ڈگری دینے والا خدا ہوگا.اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ڈگری کے مقابلہ میں انسانوں کی ڈگری کوئی حقیقت نہیں رکھتی.غرض یہ کالج میں نے اس لئے کھولا ہے کہ اب دین اور دنیا کی تعلیم چونکہ مشترک ہو سکتی ہے اس لئے اسے مشترک کر دیا جائے.اس کا لج میں پڑھنے والی دو قسم کی لڑکیاں ہوسکتی ہیں.کچھ تو وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دُنیاوی کام کریں اور کچھ وہ ہوں گی جن کا مقصد یہ ہوگا کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کی خدمت کریں.میں دونوں سے کہتا ہوں کہ دینی خدمت بھی دُنیا سے الگ نہیں ہو سکتی اور دُنیا کے کام بھی دین سے الگ نہیں ہو سکتے.اسلام نام ہے خدا تعالیٰ کی محبت اور بنی نوع انسان کی خدمت کا.اور بنی نوع انسان کی خدمت ایک دنیوی چیز ہے جس طرح خدا تعالیٰ کی محبت ایک دینی چیز ہے.پس جب اسلام دونوں چیزوں کا نام ہے اور جب وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دُنیا کا کام کرے اور وہ لڑکی جو اس لئے پڑھتی ہے کہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد دین کا کام کرے اور دونوں اپنے آپ کو مسلمان کہتی ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ جو لڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دُنیا کا کام کرے اُسے معلوم ہے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرنا بھی دین کا حصہ ہے اور جولڑ کی اس لئے پڑھتی ہے کہ وہ دین کا کام کرے اُسے معلوم ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے پس دونوں کا مقصد مشترک ہو گیا.جو دینی خدمت کی طرف جانے والی ہیں اُنہیں یا درکھنا چاہئے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کرنا بھی دین کا حصہ ہے.دین کے معنی صرف سُبْحَانَ اللهِ سُبْحَانَ اللہ کرنے کے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کرنے اور ان کے دُکھ درد کو دور کرنے میں حصہ لینے کے بھی ہیں.اور جولڑ کیاں دُنیا کا کام کرنا

Page 371

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۵ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو چاہتی ہیں انہیں یا د رکھنا چاہئے کہ اسلام نے خدا تعالیٰ کی محبت پر بھی زور دیا ہے پس اُنہیں دنیوی کاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ کی محبت کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیشہ اس کی محبت اپنے دلوں میں زیادہ سے زیادہ پیدا کرتے چلے جانا چاہئے.اور چونکہ دونوں قسم کی لڑکیاں در حقیقت ایک ہی مقصد اپنے سامنے رکھتی ہیں اس لئے جو اختلاف تمہیں اپنے اندر نظر آسکتا تھا وہ نہ رہا اور تم سب کا ایک ہی مقصد اور ایک ہی مدعا ہو گیا.پس یہ مقصد ہے جو تمہارے سامنے ہوگا اور اس مقصد کے لئے تمہیں دینی روح بھی اپنے اندر پیدا کرنی چاہئے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا جذ بہ بھی اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے تا کہ وہ مقصد پورا ہو جس کے لئے تم اس کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آئی ہو.دوسرے کالجوں میں پڑھنے والی لڑکیاں ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کو بھلا کر ڈ نیوی کاموں میں ہی منہمک ہو جائیں مگر چونکہ یہ کالج احمد یہ کالج ہے اس لئے تمہارا فرض ہے کہ تم دونوں دامنوں کو مضبوطی سے پکڑے رہو.اگر ایک دامن بھی تمہارے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے تو تم اُس مقصد کو پورا نہیں کر سکتیں جو تمہارے سامنے رکھا گیا ہے اور جس کے پورا کرنے کا تم نے اقرار کیا ہے.پس ان ہدایات کے ساتھ میں احمد یہ زنانہ کالج کے افتتاح کا اعلان کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جو اس کالج میں پڑھانے والی ہوں گی وہ بھی اس بات کو مدنظر رکھ کر پڑھائیں گی کہ طالبات کے اندر ایسی آگ پیدا کی جائے کہ ان کو پارہ کی طرح ہر وقت بے قرار اور مضطرب رکھے.جس طرح پارہ ایک جگہ پر نہیں ٹکتا بلکہ وہ ہر آن اپنے اندر ایک اضطرابی کیفیت رکھتا ہے اسی طرح تمہارے اندر وہ سیماب کی طرح تڑپنے والا دل ہونا چاہئے جو اُس وقت تک تمہیں چین نہ لینے دے جب تک تم احمدیت اور اسلام کو اور احمدیت اور اسلام کی حقیقی روح کو دُنیا میں قائم نہ کر دو.اسی طرح پروفیسروں کے اندر بھی یہ جذ بہ ہونا چاہئے کہ وہ صحیح طور پر تعلیم دیں، اخلاق فاضلہ سکھائیں اور سچائی کی اہمیت تم پر روشن کریں.تمہیں بُرا تو لگے گا مگر واقعہ یہی ہے کہ عورت سچ بہت کم بولتی ہے اس کے نزدیک اپنے خاوند کو خوش کرنے کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے اور سچائی کی کم.جب اسے پتہ لگتا ہے

Page 372

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۶ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو کہ فلاں بات کے معلوم ہونے پر میرا خاوند ناراض ہوگا تو بھی اس معاملہ میں جھوٹ ہی بولتی ہے سچائی سے کام نہیں لیتی کیونکہ وہ ڈرتی ہے کہ اگر میں نے سچ بولا تو میرا خاوند ناراض ہو گا.وہ ایک طرف تو یہ دعویٰ کرتی ہے کہ میں محکوم نہیں مجھے مرد کے برابر حقوق حاصل ہیں اور دوسری طرف وہ مرد سے ڈرتی ہے.اگر اس کا مرد سے ڈرنا ٹھیک ہے تو پھر وہ محکوم ہے اسے دنیا کے کسی فلسفہ اور قانون نے آزاد نہیں کیا.اور اگر وہ مرد کے برابر قومی رکھتی ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ جھوٹ بولے اور اسی طرح صداقت پر قائم نہ رہے جس طرح آزاد مرد صداقت پر قائم رہتے ہیں.یہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے لیکن تمہاری اصلاح کے ساتھ نہایت گہرا تعلق رکھتا ہے.تمہیں اپنے دل میں یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ تم آزاد ہویا نہیں.اگر تم آزاد نہیں ہو تو کہو کہ خدا نے ہمیں غلام بنا دیا ہے اور چھوڑ و اس بات کو کہ تمہیں مردوں کے برابر حقوق حاصل ہونے چاہئیں اور اگر تم آزاد ہو تو خاوند کے ڈر کے مارے جھوٹ بولنا اور راستی کو چھپانا ایک لغو بات ہے.اسی طرح میں دیکھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی عورت میں کام کرنے کی عادت بہت کم ہے.لجنہ بنی ہوئی ہے اور کئی دفعہ میں اسے اس طرف توجہ بھی دلا چکا ہوں مگر ہنوز روز اوّل والا معاملہ ہے.تمہیں اپنے کالج کے زمانہ میں اس بات پر بھی غور کرنا چاہئے کہ عورت کی زندگی زیادہ سے زیادہ کس طرح مفید بنائی جاسکتی ہے.یہ پرانا دستور جو ہمیشہ سے چلا آیا ہے اور اب بھی ہے کہ کھانا پکانا عورت کے ذمہ ہے اس میں اب تبدیلی کی ضروت ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں عورت صرف کھانے پینے کے کام کے لئے ہی رہ گئی ہے اس کے پاس کوئی وقت ہی نہیں بچتا جس میں وہ دینی یا مذہبی یا قومی کام کر سکے.یورپ کے مدبرین نے مل کر اس کا کچھ حل سوچا ہے اور اِس وجہ سے اُن کی عورتوں کو بہت سا وقت بچ جاتا ہے مثلاً یورپ نے ایک قسم کی روٹی ایجاد کر لی ہے جسے ہمارے ہاں ڈبل روٹی کہتے ہیں.یہ روٹی عورتیں گھر میں نہیں پکا تیں بلکہ بازار سے آتی ہے اور مرد عورتیں اور بچے سب اسے استعمال کرتے ہیں.مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ بادشاہ کے ہاں کیا دستور ہے کہ آیا اُس کی روٹی بازار سے آتی ہے یا نہیں لیکن یورپ میں ایک لاکھ میں سے

Page 373

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۷ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو ننانوے ہزار نو سو ننانوے یقیناً بازار کی روٹی ہی کھاتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا بہت سا وقت بچا لیتے ہیں.اس کے علاوہ انہوں نے اس قسم کے کھانا پکانے کے برتن (Cooke) نکالے ہوئے ہیں جن سے بہت کم وقت میں سبزی اور گوشت وغیرہ تیار ہو جاتا ہے.پھر انہوں نے اپنی زندگیاں اس طرح ڈھال لی ہیں کہ عام طور پر وہ ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں.یورپ میں بالعموم چار کھانے ہوتے ہیں صبح کا ناشتہ ، دو پہر کا کھانا، شام کا ناشتہ اور رات کا کھانا.عام طور پر درمیانے طبقہ کے لوگ صبح کی چائے گھر پر تیار کر لیتے ہیں.باقی دو پہر کے کھانے اور شام کی چائے وہ ہوٹل میں کھا لیتے ہیں اور شام کا کھانا گھر پر کھاتے ہیں.پھر سر د ملک ہونے کی وجہ سے ایک وقت کا کھانا کئی کئی وقت چلا جاتا ہے اور پھر کھانے انہوں نے اس قسم کے ایجاد کر لئے ہیں جن کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے.مثلاً کولڈ میٹا Cold med) ہے.روٹی بازار سے منگوالی اور کولڈ میٹ کے ٹکڑے کاٹ کر اس سے روٹی کھالی لیکن ہمارے ہاں ہر وقت چولہا جلتا رہتا ہے.جب تم کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے آتی ہو تو تمہیں یہ بھی سوچنا پڑے گا کہ تم اپنی زندگی کس طرح گزارو گی.اگر چولہے کا کام تمہارے ساتھ رہا تو پھر پڑھائی بالکل بے کار چلی جائے گی.تمہیں غور کر کے اپنے ملک میں ایسے تغیرات پیدا کرنے پڑیں گے کہ چولہے جھو نکنے کا شغل بہت کم ہو جائے.اگر یہ شغل جاری رہا تو پڑھائی سب خواب و خیال ہو کر رہ جائے گی.یہی چولہا پھونکنے کا شغل اگر کم سے کم وقت میں محدود کر دیا جائے مثلاً اس کے لئے ایک گھنٹہ صبح اور ایک گھنٹہ شام رکھ لیا جائے تب بھی اور کاموں کے لئے تمہارے پاس بہت سا وقت بچ سکتا ہے.یہ مت خیال کرو کہ تم نوکر رکھ لو گی نوکر رکھنے کا زمانہ اب جارہا ہے اب ہر شخص نو کر نہیں رکھ سکے گا بلکہ بہت بڑے بڑے لوگ ہی نو کر رکھ سکیں گے.کیونکہ نوکروں کی تنخواہیں بڑھ رہی ہیں اور ان تنخواہوں کے ادا کرنے کی متوسط طبقہ کے لوگوں میں بھی استطاعت نہیں ہوسکتی.جب میں یورپ میں گیا ہوں تو اُس وقت ابھی نوکروں کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھیں تب بھی ہم نے جو عورت رکھی ہوئی تھی اُسے ہم ۲۱ شلنگ ہفتہ وار یا

Page 374

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۸ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو ساٹھ روپے ماہوار دیا کرتے تھے اور ساتھ ہی کھانا بھی دیتے تھے پھر ان کی یہ شرط ہوا کرتی تھی کہ ہفتہ میں ایک دن کی پوری اور ایک دن کی آدھی چھٹی ہوگی.ڈیڑھ دن تو اس طرح نکل گیا جس میں گھر والوں کو خود کام کرنا پڑتا تھا.آقا بہتیری شور مچاتی رہے کہ کام بہت ہے وہ کہے گی کہ میں نہیں آسکتی کیوں کہ میری چھٹی کا دن ہے.پھر جتنا وقت مقرر ہو اس سے زیادہ وہ کام نہیں کرے گی کتنا بھی کام پڑا ہو وہ فوراً چھوڑ کر چلی جائے گی اور کہے گی کہ وقت ہو چکا ہے.دراصل اس میں ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے اختیار میں ہی نہیں ہوتا کہ زیادہ کام کریں کیونکہ وہاں ہر طبقہ کے لوگوں کی الگ الگ انجمنیں بنی ہوئی ہیں.کوئی گھر کے نوکروں کی انجمن ہے، کوئی قلیوں کی انجمن ہے، کوئی انجنوں میں کوئلہ ڈالنے والوں کی انجمن ہے، کوئی اُستادوں کی انجمن ہے ان انجمنوں کی سفارش کے بغیر کسی کو نوکری نہیں ملتی.اگر وہ زائد کام کریں تو انجمن کی ممبری سے ان کا نام کٹ جاتا ہے اور پھر انہیں کہیں ملازمت نہیں ملتی.ہمیں وہاں مضمون لکھنے کے لئے ایک ٹائپسٹ کی ضرورت تھی.دفتر نے ایک عورت اس غرض سے رکھی جو ز یکوسلواکیہ کی رہنے والی تھی اُسے ہمارے مضامین پڑھنے کے بعد سلسلہ سے دلچسپی ہوگئی مگر مشکل یہ تھی کہ اُس کا وقت ختم ہو جاتا اور ہمارا کام ابھی پڑا ہوا ہوتا.بعض دفعہ ہمیں دوسرے ہی دن مضمون کی ضرورت ہوتی اور وہ کہتی کہ اب میں جارہی ہوں کیونکہ وقت ہو گیا ہے.مگر چونکہ اسے ہمارے سلسلہ میں دلچسپی ہو گئی تھی اس لئے وہ کہتی کہ میں زائد وقت کی ملازمت تو نہیں کر سکتی لیکن میں یہ کر سکتی ہوں کہ مضمون ساتھ لے جاؤں اور گھر پر اسے ٹائپ کروں.انجمن والے مجھے گھر کے کام سے نہیں روک سکتے اُس وقت میرا اختیار ہے کہ میں جو چاہوں کروں آپ مجھے اس وقت کی تنخواہ نہ دیں میں آپ کا کام مُفت کر دوں گی.اگر آپ مجھے کچھ دینا چاہیں تو بعد میں انعام کے طور پر دے دیں اس طرح وہ مشن کا کام کیا کرتی تھی.کیونکہ وہ ڈرتی تھی کہ اگر انہیں پتہ لگا کہ میں چھ گھنٹہ سے زیادہ کہیں کام کرتی ہوں تو وہ مجھے نکال دیں گے اور پھر مجھے کہیں بھی نوکری نہیں ملے گی.یہ چیزیں ابھی ہمارے ملک میں نہیں آئیں لیکن جب آئیں تو پھر لوگوں کے لئے بہت کچھ مشکلات پیدا ہو جائیں

Page 375

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۴۹ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو گی.اب تو وہ پانچ سات روپے میں نو کر رکھ سکتے ہیں لیکن جس دن نوکر کی پچاس روپیہ تنخواہ ہوگئی اور سور و پیہ تمہیں ملا تو تم نوکر کہاں رکھو گی.آجکل یورپ میں نوکر کی تنخواہ تین پونڈ ہفتہ وار ہے جس کے معنی آجکل کے پاکستانی روپیہ کی قیمت کے لحاظ سے ۱۲۰ روپیہ ماہوار کے ہیں اور کھانا بھی الگ ہی دینا پڑتا ہے اس زمانہ میں اوپر کے طبقہ کی تنخواہیں گر رہی ہیں اور نچلے طبقہ کی تنخواہیں بڑھتی جا رہی ہیں اس کے معنی یہ ہیں جو شخص سات آٹھ سو روپے ماہوار لیتا ہے وہ بھی ملازم نہیں رکھ سکتا صرف ہزاروں روپیہ ماہوار کمانے والا ملازم رکھ سکتا ہے ایسی صورت میں یہی ہو سکتا ہے کہ ایک وقت کا کھانا دو تین وقتوں میں کھالیا یا ایک وقت ہوٹل میں جا کر کھا لیا اور دوسرے وقت کے کھانے میں کولڈ میٹ استعمال کر لیا اس طرح بہت سا وقت اور کاموں کے لئے بھی بچ سکتا ہے.پھر ہمارے ہاں ایک یہ بھی نقص ہے کہ بچوں کو کام کرنے کی عادت نہیں ڈالی جاتی.بچے دستر خوان پر بیٹھتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ امی نو کر پانی نہیں لاتی کہ ہم ہاتھ دھوئیں، امی نوکر نے برتن صاف نہیں کئے.امریکہ میں ہر بچہ اس بات کا پابند ہوتا ہے کہ وہ اپنے کھانے کے برتن کو خود دھو کر رکھے اور اگر نہ دھوئے تو اسے سزا ملتی ہے کیونکہ ماں اکیلی تمام کام نہیں کر سکتی.اگر وہ کرے تو اس کے پاس کوئی وقت ہی نہ بچے وہ اسی طرح کرتی ہے کہ کچھ کام خود کرتی ہے اور کچھ کاموں میں بچوں سے مدد لیتی.ہے.غرض یورپ میں اوّل تو روٹی بازار سے منگوائی جاتی ہے پھر انہوں نے کولڈ میٹ اور اسی قسم کی چیزیں ایسی بنائی ہیں جن کا ذخیرہ کیا جا سکتا ہے اور بجائے اس کے کہ ہر وقت گرم کھانا کھایا جائے وہ اسی سے روٹی کھا لیتے ہیں پھر ایک وقت کا پکا ہوا کھانا دو وقتوں میں کھا لیتے ہیں اور پھر کام میں بچوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور اس طرح بہت سا وقت بچا لیا جاتا ہے.تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے ایک لطیفہ پڑھا جو امریکہ کے مشہور رسالہ میں شائع ہوا تھا اور جس سے ان لوگوں کے کریکٹر پر خاص طور پر روشنی پڑتی ہے.ایک باپ کہتا ہے کہ میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آئی کہ میرے بچوں کو کبھی کبھی یہ تو بھول جاتا ہے کہ آج ہم نے سکول جانا ہے، کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اپنے کپڑے بدلنے

Page 376

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۰ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو ہیں، کبھی یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ہم نے اتنے بجے سونا ہے لیکن اگر کبھی ہنی میں میں نے اپنے بچوں سے کوئی وعدہ کیا ہو ا ہوتا ہے اور اُس پر پانچ سال بھی گزر چکے ہوں تو وہ ان کو نہیں بھولتا.اس مثال سے اُن کے کریکٹر کا پتہ لگتا ہے کہ وقت پر سونا ، وقت پر سکول جانا ، وقت پر کپڑے بدلنا اور کھانے کے برتن دھونا یہ سب بچوں کو سکھایا جاتا ہے اور یہ باتیں ان کے فرائض میں شامل کی جاتی ہیں.اس رنگ میں انہوں نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ ان کا بہت سا وقت بچ جاتا ہے.پھر بچوں کے پالنے کا کام ایسا ہے جس میں بہت کچھ تبدیلی کی ضروت ہے.یورپ میں تو عورتیں بچے کو پنگھوڑے میں ڈالتی ہیں چوسنی تیار کر کے اُس کے پاس رکھ دیتی ہیں اور مکان کو تالا لگا کر دفتر میں چلی جاتی ہیں.جب بچے کو بھوک لگتی ہے تو وہ خود چُوسنی اُٹھا کرمنہ میں لگا لیتا ہے لیکن ہمارے ہاں اگر ماں دو منٹ کے لئے بھی بچے سے الگ ہو تو وہ اتنا شور مچاتا ہے کہ آسمان سر پر اُٹھا لیتا ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ماں بچے کو الگ نہیں کرتی اسے ہر وقت اپنے ساتھ چمٹائے پھرتی ہے.بچہ پیدا ہوا اور اسے گود میں ڈال لیا اور پھر تین چار سال تک اسے گود میں اٹھائے پھرتی ہے بلکہ ہمارے ملک میں تو پانچ پانچ سال تک لاڈلے بچوں کو اُٹھائے پھرتی ہیں.یہ سارے رواج اس قابل ہیں کہ ان کو بدلا جائے.جب تم ہمت کر کے ان رسوم کو بدلو گی تو آہستہ آہستہ باقی عورتوں میں بھی تمہارے پیچھے چلنے کا شوق پیدا ہو جائے گا.میں نے بتایا ہے کہ سب سے پہلے روٹی پکانے کے طریق میں تبدیلی کی ضروت ہے عربوں میں بھی بازار سے روٹی منگوانے کا طریق ہے مگر وہان تنور کی خمیری روٹی ہوتی ہے.انگریزی روٹی کا رواج نہیں.جتنے ملکوں میں بازار سے روٹی منگوانے کا طریق رائج ہے اُن سب میں خمیری روٹی کھائی جاتی ہے.خمیری روٹی ہمیشہ تازہ ہی پکا کر کھانی پڑتی ہے.بہر حال بغیر اس کے روٹی کا سوال حل ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں اور بغیر اس کے کہ بچہ پالنے کے طریق میں تبدیلی ہو ہماری عورتیں فارغ نہیں ہو سکتیں.جب تک بچہ گود میں رہے گاماں بے کار رہنے پر مجبور ہوگی یا بیٹی مجبور رہے گی.کام کے

Page 377

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۱ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو لئے اُسے فراغت اُسی وقت ہو سکتی ہے جب بچہ کو پیدا ہوتے ہی پنگھوڑے میں ڈال دیا جائے اور پھر وقت پر اسے دودھ پلا دیا جائے گود میں اسے نہ اُٹھایا جائے.غرض جب تک یہ سوال حل نہیں ہوتا ماں کی زندگی بیکار رہے گی.اور جب تک کھانے کا سوال حل نہیں ہوتا عورت کی زندگی بیکا ر رہے گی.یہ بھی ہو سکتا ہے کہ روزانہ چار وقت کے کھانے کی بجائے صرف دو وقت کا کھانا رکھ لیا جائے اور ناشتے کا کوئی سادہ دستور نکالا جائے اور کھانے ایسے تیار کئے جائیں جو کئی کئی وقت کام آسکیں اور روٹی بازار سے منگوالی جائے لیکن اگر صبح شام کھانا پکانے اور برتن مانجنے کا کام اگر عورت کے ہی سپر در ہے گا تو وہ بالکل بے کار ہو کر رہ جائے گی اور کسی کام کے لئے وقت صرف نہیں کرے گی.پس جہاں دینی مسائل کو مد نظر رکھنا ہمارے لئے ضروری ہے وہاں ان عائلی مشکلات کو حل کرنا تمہارے لئے ضروری ہے.ہندوستان میں مسلمانوں کے تنزل اور ان کے انحطاط کی بڑی وجہ یہی ہوئی کہ جب ان کے پاس دولت آگئی تو انہوں نے اس قسم کے مشاغل.بے کاری کو اختیار کر لیا.گھروں میں مرد بیٹھے چھالیہ کاٹ رہے ہیں، گلوریاں بنا رہے ہیں اور عورت بھی کھانے پکانے میں مصروف ہے کبھی یہ چیز لی جا رہی ہے، کبھی وہ چیز تلی جارہی ہے، کبھی کہتی ہے اب میں چٹنی بنالوں ، کبھی کہتی ہے اب میں میٹھا بنارہی ہوں.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تو کھانے تیار کرنے میں مشغول ہو گئے اور حکومت انگریزوں نے سنبھال لی.یہ مصیبت جتنی ہندوستان میں ہے باہر نہیں.عرب میں جا کر دیکھ لو سارا عرب بازار سے روٹی منگوا تا ہے.مصر میں جا کر دیکھ لو سارا مصر بازار سے روٹی منگواتا ہے اور سالن بھی وہ گھر تیار نہیں کرتے بازار سے ہی منگوا لیتے ہیں.وہاں لوبیا کی پھلیاں بڑی کثرت سے ہوتی ہیں صبح کے وقت مکہ میں چلے جاؤ ، قاہرہ میں چلے جاؤ بازاروں میں لوبیا کی دیکھیں تیار ہوں گی اور ہر شخص اپنا برتن لے جائے گا اور تندور کی روٹیاں اور لو بیا کی پھلیاں لے آئے گا.غریب اسے یونہی کھا لیتے ہیں اور امیر آدمی گھی کا تڑکہ لگا لیتے ہیں.اسی طرح دو پہر کے وقت روٹی بازار سے آتی ہے اور سالن کے طور پر وہ کوئی بھی سستی سی چیز لے

Page 378

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۲ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو لیتے ہیں اور گزارہ کر لیتے ہیں.مگر ہمارے ہاں یہ حالت ہے کہ لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہم وہ ماما رکھنا چاہتے ہیں جو ایک سیر آئے میں ۸۰ پھلکے پکا سکتی ہو.بازار والوں نے اپنے کام کو اس طرح ہلکا کر لیا کہ سیر آٹے میں چھ روٹیاں تیار کر لیں اور انگریزوں نے سیر میں چار اور بعض دفعہ دو اور انہوں نے اپنے کام کو اس طرح بوجھل بنا لیا کہ ۸۰،۸۰ پھلکے بنانے لگے.یہ سب شغل بے کاری ہیں.جن کو دُور کرنا پڑے گا اور جن کو دور کر کے ہم اپنا وقت بچا سکتے ہیں.آخر علم کے استعمال کے لئے تمہارے پاس وقت چاہئے.اگر تم نے اپنے آپ کو ایسا بنا لیا کہ تمہارے پاس کچھ بھی وقت نہ بچا تو تم نے کرنا کیا ہے.پس پہلا سوال وقت کا ہے تم کو اپنی زندگی ایسی بنانی پڑے گی کہ تم ان کاموں کے لئے اپنے اوقات کو فارغ کر سکو پھر تمہارے لئے آسانی ہی آسانی ہے اور تم اس وقت سے فائدہ اُٹھا کر بیسیوں ایسے کام کر سکتی ہو جو تمہاری ترقی کے لئے ضروری ہیں.پس یہ مسئلہ بھی تمہیں ہی حل کرنا پڑے گا پس اگر تم یہ مسئلہ حل کر لو تو تمہاری مائیں آپ ہی آپ تمہاری نقل کرنے پر مجبور ہوں گی.ہم نے دیکھا ہے کہ لڑکی پرائمری پاس ہوتی ہے تو جاہل مائیں اپنی لڑکی کے آگے پیچھے پھرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہماری یہ بیٹی پرائمری پاس ہے بڑی عقل مند اور ہوشیار ہے.اگر مائیں اپنی پرائمری پاس لڑکیوں کی بات رد نہیں کر سکتیں تو تم تو بی.اے ہو گی تمہاری بات وہ کیوں ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں گی.یہ کام جو میں نے بتایا ہے اسے معمولی نہ سمجھو یہی وہ چیز ہے جس نے ہمارے ملک کی عورت کو بے کار بنا دیا ہے.دوسری قوموں نے تو اس مسئلہ کو حل کر لیا اور چھ سات گھنٹے بچالئے لیکن تمہیں کھانے پکانے کے دھندوں سے ہی فرصت نہیں ملتی اگر تم بھی چھ سات گھنٹے بچا لو تو یقیناً تم ان اقوام سے بہت زیادہ ترقی کر سکتی ہو.کیونکہ وہ اگر چھ گھنٹے بچاتی ہیں تو دو گھنٹے قومی کاموں میں صرف کرتی ہیں اور چار گھنٹے ناچ گانے میں صرف کرتی ہیں.لیکن تم اپنا سارا وقت قومی اور مذہبی کاموں میں صرف کر دو گی.اس لئے یورپ کی عورت کے مقابلے میں تمہیں اپنے کاموں کے لئے تین گنا وقت مل جائے گا اور جب وہ چھ گھنٹوں

Page 379

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۳ اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلو میں سے چار گھنٹے ناچ گانے میں صرف کریں گی اور تمہارا تمام وقت خالص دینی کاموں میں صرف ہوگا اور اس طرح تم ان سے تین گنا کرو گی تو تمہاری فتح یقینی ہے کیونکہ وقت کے لحاظ سے یورپ کی تین تین عورتوں کے مقابلے میں تمہاری ایک ایک عورت ہوگی.اس وقت تمہاری سو عورت بھی یورپ کی ایک عورت کے مقابلے میں کوئی حقیقت نہیں رکھتی کیونکہ تمہارا علم بھی کم ہے اور تمہارے پاس اپنے قومی کاموں کے لئے وقت بھی نہیں بچتا.لیکن جب تم علم حاصل کر لو گی اور قومی کاموں کے لئے وقت بھی ان سے زیادہ صرف کرو گی تو تمہاری ایک عورت کے مقابلے میں یورپ کی سو عورت بھی کوئی حقیقت نہیں رکھے گی.جب تک یورپ کا ماحول ایسا ہے اور اس کا طریق عمل ایسا ہے کہ اس کی ایک عورت تمہاری سو عورت کے برابر ہو گی اُس کا جیتنا یقینی ہے.لیکن جب تم اپنے آپ کو ایسی بنا لوگی کہ تمہاری ایک عورت اُن کی سو عورت کے برا بر ہوگی تو پھر تمہارا جیتنا یقینی ہے.ان ریمارکس اور نیتوں کے ساتھ میں اپنے خطبہ کو ختم کرتا ہو ا کالج کا افتتاح کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمارے زنانہ کالج کی چھوٹی سی بنیاد کو اپنی عظیم الشان برکتوں سے نوازے اور یہ چھوٹا سا ادارہ دُنیا کے تمام علمی اداروں پر چھا جائے.عبس : ۱۷ عبس : ۱۶ (الفضل ربوہ ۱۵ / جولائی ۱۹۵۱ء) مسلم کتاب الايمان باب جواز الاستسرار بالايمان (الخ) ۴ تاریخ طبری جلد ۴ صفحه ۳۲۲ تا ۳۲۵ دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء ۵ بخاری کتاب الاعتصام باب مَاذَكر النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم وَ حَقٌّ عَلَى اِتِّفَاقِ أَهْلِ الْعِلْمِ (الخ) الواقعة:٨٠

Page 380

Page 381

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۵ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ہراحمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 382

Page 383

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۳۵۷ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ( فرموده ۲ ستمبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسه یوم تحریک جدید بمقام بیت مبارک ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا پیغام حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک ایک ہی رہا ہے.بے شک اس میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں، اس میں ترقی ہوتی رہی ہے لیکن مغز اور جڑ ایک ہی رہی ہے.مثلاً مذہب کی جڑ ہے خدا تعالیٰ پر ایمان لانا اور پھر خدائے واحد پر ایمان لانا.زمانے کی ضرورتوں اور لوگوں کی عقل کے معیار کے مطابق توحید کی شرح پہلے موٹی تھی پھر درمیانے درجہ کی ہوئی اور پھر فلسفی اور باریک رنگ کی ہو گئی.لیکن کہا ہر نبی نے یہی ہے کہ خدا ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر نبی نے یہی کہا ہے کہ ہمیشہ ایک خدا کی عبادت کرنی چاہئے.ہاں عبادت میں آگے فرق ہو گیا ہے.زمانہ کے حالات ، لوگوں کی عقل کے معیار اور اُن کے کام کاج اور اخلاص کے معیار کے مطابق کسی مذہب میں ہفتہ میں ایک نماز فرض کر دی گئی اور باقی کو نفل قرار دے دیا گیا.کسی مذہب میں صبح و شام دو نمازوں کو فرض قرار دے دیا گیا اور باقی نمازوں کو نفل قرار دیا گیا اور اسلام میں آ کر خدا تعالیٰ نے پانچ نمازیں ایک دن رات میں فرض قرار دے دیں اور باقی نمازوں کو نفل قرار دے دیا لیکن عبادت در حقیقت ایک ہی رہی ہاں اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں.پھر روزے ہیں.ہر مذہب میں روزے کی تعلیم پائی جاتی ہے.روزوں کی شکل میں

Page 384

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۸ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے فرق ہے.ہندوؤں میں اُس زمانہ کے حالات اور مشکلات کو دیکھ کر یہ روزہ قرار دیا گیا کہ چولھے کی پکی ہوئی چیز نہیں کھائی ، کوئی مادی اور ٹھوس چیز نہیں کھانی.ہاں اگر کوئی ہلکی پھلکی چیز ہو اور وہ کھالی جائے تو کوئی حرج نہیں.اُس زمانہ میں لوگ جنگلات میں رہتے تھے اور غیر محفوظ تھے.دشمن اور جانوروں کے اچانک حملہ کا انہیں مقابلہ کرنا پڑتا تھا اس لئے روزوں میں کھانا بالکل بند نہ کیا گیا تا کہ ان کی طاقت بحال رہے اور انسان کمزور نہ ہونے پائے.اُس وقت شہر نہیں تھے اور نہ ہی مقرر شدہ راستے تھے.دشمن چوری چوری حملہ آور ہوتا تھا.مہذب ملکوں میں تو راستے مقرر ہوتے ہیں اور خواہ دشمن ہوں یا دوست اُن ہی راستوں کے ذریعہ آتے جاتے ہیں اس لئے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے میں سہولتیں پیدا ہوگئی ہیں لیکن پہلے زمانہ میں یہ سہولتیں نہیں تھیں.جس طرح جنگل میں ایک شکاری اچانک بندوق ہاتھ میں لے کر جانور کے سر پر پہنچ جاتا ہے اسی طرح لوگ جنگلوں میں رہتے تھے تو دشمن اُن پر اچانک حملہ آور ہو جا تا تھا اس لئے روزوں میں یہ رعایت دی گئی کہ وہ ہلکی پھلکی چیزیں کھا سکتے ہیں.گویا روزہ اُس وقت بھی موجود تھا ہاں اس کی شکل بدلی ہوئی تھی.البتہ ہندوؤں میں کچھ روزے ایسے بھی تھے جن میں ہماری طرح کھانا پینا با لکل منع ہوتا تھا.پھر عیسائیوں میں بھی روزے پائے جاتے ہیں.کچھ روزے ایسے ہیں جن میں آدھے دن کا فاقہ ہوتا ہے یا ویسے بعض پابندیاں لگا دی جاتی ہیں.مثلاً کہا جاتا ہے کہ گوشت نہیں کھانا.اسی طرح دوسرے مذاہب میں روزے پائے جاتے ہیں.اسلام نے ان روزوں کی شکل بدل دی ہے ورنہ روزہ اپنی ذات میں وہی ہے جو پہلے زمانوں میں تھا.پھر ز کوۃ اور صدقہ ہے.یہ بھی ہر مذہب میں پایا جاتا ہے.زمانہ کے حالات کے لحاظ سے بعض پابندیاں عائد کی جاتی رہی ہیں لیکن اصول ایک ہی رہے ہیں.عیسائیوں ، زرتشتیوں ، یہودیوں ، ہندوؤں اور دیگر سب مذاہب میں صدقہ اور زکوۃ پائے جاتے ہیں ہاں شکل اور تفصیل میں فرق آ گیا ہے.پھر حج ہے یہ بھی قریباً ہر مذہب میں پایا جاتا ہے.عرب میں حج کرنے کا رواج تھا

Page 385

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۵۹ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے یہودی بھی بیت المقدس جاتے تھے.زرتشتی بھی ایسے مقدس مقامات پر جمع ہوتے تھے.ہندو بھی گنگا جمنا اور ہر دوار جاتے تھے.گویا حج ہر مذہب میں تھا لیکن اس کی شکل مختلف فرض تو حید ہر زمانہ میں ایک تھی.عبادت بھی وہی تھی صرف تفصیل میں کچھ فرق نظر آتا ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کسی نہ کسی رنگ میں اس کا وجود پایا جاتا تھا.حضرت آدم علیہ السلام کے وقت میں یہ موٹے رنگ میں تھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بار یکی اور فلسفہ پیدا کر دیا.پھر چوری ہے.یہ بھی ہر مذہب میں بُری سمجھی جاتی ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک سب نبیوں نے اس سے روکا ہے.پھر ہر نبی نے جھوٹ سے منع کیا ہے ہر نبی نے یہ کہا ہے کہ قتل مت کرو.قرآن کریم میں ہابیل اور قابیل کا قصہ موجود ہے.ان میں سے ایک نے دوسرے کو کہا کہ تم مجھے قتل نہ کرو کہ اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوگا.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی تعلیم پیش کی ہے.گویا اخلاقی تعلیم بھی اصولی لحاظ سے ہر زمانہ میں ایک سی تھی.پھر لین دین میں انصاف کے متعلق ہر نبی نے تعلیم دی ہے.پھر اسلام میں یا اسلام کے بعد جدید کیا چیز ہے کہ اس کا نام جدید رکھا جائے.جہاں تک اصول کا تعلق ہے وہ ایک ہی ہیں.اسلام نے کوئی نیا اصل پیش نہیں کیا بلکہ بعض لوگوں نے یہاں تک دھوکا کھایا ہے کہ اسلام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی موجود تھا.حالانکہ اس کا صرف یہ مطلب ہے کہ پہلے زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا حکم تھا.اس لئے وہ مذہب اسلام کہلانے کے مستحق تھے لیکن اسلام کے عقائد اور مسائل کی تفصیل پہلے نہیں پائی جاتی تھی.یوں اصولی لحاظ سے اسلام نے بھی کوئی نئی چیز پیش نہیں کی.جدید چیز جو ہے وہ در حقیقت کام کی روح ہوتی ہے.اس کی شکل ہوتی ہے.کچھ عرصہ کے بعد لوگ تعلیم کو بھول جاتے ہیں اور اُن ذمہ داریوں سے جو اُن پر عائد ہوتی ہیں فاضل ہو جاتے ہیں.ان ذمہ داریوں کی طرف لوگوں کو توجہ پھرانے

Page 386

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۰ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کے لئے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ لوگ تحریکیں کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف لائے تو آپ نے فرمایا خدائے واحد سے محبت کے تعلقات پیدا کرو اور اس سے ملنے کی کوشش کرو.حضرت موسیٰ علیہ السلام دُنیا میں آئے تو انہوں نے بھی یہی کہا کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرو اور اُس سے ملنے کی کوشش کرو.حضرت عیسی علیہ السلام آئے تو اُنہوں نے بھی یہی کہا کہ خدا تعالیٰ سے محبت کرو اور اُس سے ملنے کی کوشش کرو.حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیم میں کوئی جدت نہیں پائی جاتی.جدت صرف یہ تھی کہ یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم کو بھول چکے تھے.گو یا موسوی تعلیم ان کے قلوب سے مٹ چکی تھی.حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا چلو ہم کوئی نئی بات کریں تا لوگ اس طرف متوجہ ہوں.كُلُّ جَدِيدٍ لَذِيذ کے مطابق لوگ نئی آواز کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں اس لئے یہودیوں میں پھر خدا تعالیٰ کی طرف توجہ پیدا ہوگئی.اُنہوں نے اپنے اندر محبت الہی کو پیدا کیا.خدا تعالیٰ کی عزت کو دوبارہ قائم کیا اور وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیم پر دوبارہ عمل پیرا ہوئے.لیکن جب عیسائی بھی خدا تعالیٰ کی محبت کو بھول گئے حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیم کو اُنہوں نے پسِ پشت ڈال دیا تو خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا.آپ نے محبت الہی کو دوبارہ قائم کیا لیکن مسلمان بھی چند صدیوں کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لائے ہوئے پیغام کو بھول گئے اور اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے تعلقات منقطع کر لئے.اس پر خدا تعالیٰ نے ان کی سستی دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کھڑا کر دیا.گویا خدا تعالیٰ کے لحاظ سے تو مذہب ایک ہی ہے لیکن بندوں کے لحاظ سے اس کی شکل بدلتی رہتی ہے کیونکہ وہ کچھ عرصہ کے بعد اس کو بھول جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ.حضرت نوح علیہ السلام کو بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندو کو میری طرف لا ؤ.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ.حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ.

Page 387

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۱ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی کہا تھا کہ جاؤ اور میری بندوں کو میری طرف لاؤ اور ان اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہی کہا ہے کہ جاؤ اور میرے بندوں کو میری طرف لاؤ.در حقیقت بات ایک ہی تھی لیکن وہ نئی تھی اُن لوگوں کے لئے جو خدا تعالیٰ سے غافل ہو گئے تھے اور اُس کی تعلیم کو بھول گئے تھے.جیسے کسی نے اگر کوئی شہر بچپن میں دیکھا ہو پھر وہ بڑھاپے کے وقت اُس میں دوبارہ جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر پہلے بھی دیکھا ہی نہیں تھا اور وہ اُسے بالکل نیا معلوم ہوتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص غرض کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ غرض قیامت تک مقدم رہے گی اور باقی ہر چیز اس سے مؤخر ر ہے گی.جولوگ اس غرض کو بھول جاتے ہیں وہ اِس دُنیا میں بھی ذلیل ہوتے ہیں اور اگلی زندگی میں بھی ذلیل ہوتے ہیں.اس دُنیا میں انسانوں کے دو گروہ ہوتے ہیں.ایک گروہ وہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو نہیں مانتا اور ایک وہ گروہ ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو مانتا ہے.اب جو شخص اپنی غرض پیدائش کو بھول جاتا ہے وہ دُنیا میں اس طبقہ کے لوگوں میں ذلیل ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو مانتے ہیں اور جو نہیں مانتے ان میں ان کی ایک حد تک قدر ہوتی ہے لیکن اگلی زندگی میں وہ سب لوگوں کے سامنے ذلیل ہوتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتوں کے سامنے بھی وہ ذلیل ہوتا ہے.بسا اوقات دُنیا میں خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کو نہ ماننے والے زیادہ ہوتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ کا مخالف یہ سمجھتا ہے کہ اس کی عزت زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ اسے اکثریت کی تائید حاصل ہوتی ہے.مولوی ثناء اللہ صاحب ایک دفعہ قادیان آئے اور ایک بڑے جلسہ میں نعر ہائے تکبیر میں اُنہوں نے کہا میں ایک نکتہ بیان کرتا ہوں.مرزا صاحب اور میرے درمیان آسان طریق فیصلہ یہ ہے کہ مرزا صاحب میرے ساتھ کلکتہ تک ٹرین میں چلیں.کلکتہ تک سینکڑوں اسٹیشن ہیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں انہیں پتھر پڑتے ہیں یا مجھے، اور پھول پر برسائے جاتے ہیں یا اُن پر.کلکتہ تک جاتے ہوئے اس بات کا فیصلہ ہو جائے گا کہ

Page 388

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۲ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے مسلمان کس کی تائید میں ہیں.جماعت کے دوست گھبرائے ہوئے میرے پاس آئے اور اُنہوں نے کہا لوگوں پر بڑا اثر ہو ا ہے اور وہ اُس وقت سخت جوش میں ہیں.شام کو میری تقریرتھی.میں نے کہا مولوی ثناء اللہ صاحب نے خود فیصلہ کر دیا ہے کہ سچا کون ہے صرف فرق یہ ہے کہ انہوں نے نتیجہ از خود نکال لیا ہے.اگر نتیجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نکلا ہوا ہے تو اچھا ہے.میں نے کہا مولوی ثناء اللہ صاحب نے کہا ہے کہ مرزا محمود احمد میرے ساتھ کلکتہ چلیں ہم دیکھیں گے کہ راستہ میں پھول کس پر برستے ہیں اور پتھر کس پر پھینکے جاتے ہیں.میں نے کہا مولوی صاحب نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ جس پر پھول پڑیں گے وہ سچا ہو گا.حالانکہ نتیجہ نکالنا ان کا کام نہیں تھا.ہم سے پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو جہل گزر چکے ہیں.مولوی صاحب خود بتا دیں کہ مکہ میں پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے یا ابو جہل کو ؟ اور پھول ابو جہل کو پڑا کرتے تھے یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو؟ اور اگر پتھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑا کرتے تھے اور پھول ابو جہل پر ا برسائے جاتے تھے تو نتیجہ ظاہر ہے کہ جس پر پتھر پڑیں گے وہ سچا ہے اور جس پر پھول برسائے جائیں گے وہ جھوٹا ہے.غرض کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ گندی حالت کی وجہ سے اکثریت اُن لوگوں کی ہو جاتی ہے جو دین سے بے بہرہ ہوتے ہیں.بداخلاقی اور بے دینی کی ایک روچل پڑتی ہے.جس طرح اس زمانہ میں احراری ہیں.انہیں ہزاروں آدمی میٹر ہیں جن میں وہ کھڑے ہو کر نعرے لگاتے ہیں ، جلوس نکالنے کے لئے انہیں ہزاروں لوگ مل جاتے ہیں.ہماری طرف سے اگر کوئی دھتکارا جاتا ہے تو وہ اسے سٹیج پر کھڑا کر کے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ان کی عزت اسی جھوٹ میں ہی ہے اور بظاہر وہ معزز نظر آتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے نزدیک عزت اُس کو ملتی ہے جو صداقت شعار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کی تعلیم کا پیرو ہوتا ہے اور راستبازوں کے نزدیک بھی وہی سچا ہوتا ہے لیکن اِس دُنیا میں بظاہر جھوٹ بولنے والے مؤیدین کی اکثریت کی وجہ سے اپنے آپ کو معزز سمجھتے ہیں.ایک دفعہ میرے پاس دیو بند کے دو طالب علم آئے.انہوں نے کہیں سے یہ سُن لیا

Page 389

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۳ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تھا کہ میں نے کسی مدرسہ میں تعلیم حاصل نہیں کی.میرے پاس کچھ اور دوست بھی بیٹھے ہوئے تھے.وہ دونوں طالب علم بھی آکر بیٹھ گئے اور ان میں سے ایک جو زیادہ تیز معلوم ہوتا تھا اُس نے کہا آپ کہاں تک پڑھے ہوئے ہیں؟ میں سمجھ گیا کہ وہ گستاخ ہے.میں نے کہا میں نے کچھ نہیں پڑھا.اُس نے کہا پھر بھی آپ کسی مدرسے میں پڑھتے ہیں؟ میں نے کہا اگر میں پڑھا ہوتا تو میں پہلے ہی بتا دیتا.وہ کہنے لگا کیا آپ ہندوستان یا پنجاب کے کسی سکول کے فارغ التحصیل نہیں ہیں ؟ میں نے کہا میں نے ایک دفعہ واضح کر دیا ہے کہ جس چیز کو آپ پڑھائی خیال کرتے ہیں وہ میں نے کہیں سے بھی حاصل نہیں کی.جس وقت میں نے یہ کہا تو اس کے دوسرے ساتھی نے جو ذرا ہوشیار معلوم ہوتا تھا اُس کے گھٹنے کو چھو کر چُپ کرانے کی کوشش کی لیکن چونکہ وہ جوش میں تھا چُپ نہ ہوا.اُس نے کہا اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ بالکل ان پڑھ ہیں.میں نے کہا آپ کی گفتگو کی بنیاد اس بات پر تھی کہ میں کسی مدرسہ میں پڑھا ہوں اور کس نصاب کو میں نے پاس کیا ہے؟ سومیں نے کوئی سکول یا نصاب پاس نہیں کیا.میں نے وہی تعلیم حاصل کی ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاصل کی تھی اور آگے اپنے متبعین کو دی اور وہ قرآن ہے.اب آپ فیصلہ کر لیں کہ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( نعوذ باللہ ) جاہل تھے یا عالم.بے شک جو درجہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے وہ بہت بلند ہے.ہم دونوں ایک ہی کتاب پڑھنے والے ہیں.چنانچہ میرے اس جواب پر وہ خاموش ہو گیا.غرض بعض دفعہ انسان جھوٹی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے.ان کے نزدیک جب تک کسی نے سلم ، الشمس البازغہ، شروح کا فیہ وشروح شافیہ اور سیبویہ اور ہدایہ اور شافی وغیرہ کتب نہ پڑھی ہوں وہ عالم نہیں کہلا سکتا.علماء سب تفاسیر تو نہیں پڑھے ہوتے ہاں اُنہوں نے بیضاوی کے چند سیپارے پڑھے ہوتے ہیں اور اس کا نام وہ علم رکھتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں نہ منطق تھی نہ فلسفہ صرف قرآن ہی قرآن تھا.پھر آپ نے کیا پڑھا تھا ؟ صرف قرآن کریم اور قرآن کریم اخلاق علم النفس ، فلسفہ اور منطق سب کچھ پیش کرتا ہے لیکن لوگ چاہتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہٹ کر بندوں کی

Page 390

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۴ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے طرف مائل ہو جائیں.اگر یہ کہیں کہ میں فلاں کتاب پڑھا ہوں جو مصنفہ خدا تعالیٰ ہے تو یہ بات انہیں تسلی نہیں دیتی.انہیں یہ بات تسلی دیتی ہے کہ کس نے وہ کتاب جو مصنفہ بیضادی ہے پڑھی ہو مصنفہ خدا تعالیٰ ان کے نزدیک کوئی چیز نہیں.اور جب انہیں ایسی باتوں کا پتہ لگتا ہے یعنی انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ہم بیضا دی پڑھے ہوئے ہیں اور فلاں نے بیضادی نہیں پڑھی تو بہت خوش ہوتے ہیں.عیسائی بھی یہ شور مچاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بائیبل اور عبرانی نہیں جانتے تھے اس لئے جو قصے جھوٹے تھے وہ اُنہوں نے قرآن کریم میں درج کر دیئے ہیں بچے قصے اُنہوں نے درج نہیں کئے.حالانکہ ہمارے نزد یک جو قصے قرآن میں بیان نہیں ہوئے وہ اس قابل نہیں تھے کہ قرآن کریم میں بیان ہوتے.لیکن بعد میں آنے والے مسلمانوں نے ان قصوں کو بھی نہ چھوڑا جن کو قرآن کریم نے چھوڑ دیا تھا اور اُنہوں نے وہ سب قصے تفسیروں میں بھر دیئے اور لکھ دیا کہ فلاں روایت یوں آتی ہے اور فلاں روایت یوں آتی ہے.یہ باتیں بالکل ایسی ہی ہیں جیسے کوئی نجاست پھینکے تو دوسرا شخص اُسے قبول کرے.غرض یہ چیزیں کمزوروں کے لئے تو کچھ اثر رکھتی ہیں لیکن طاقتور کے لئے یہ کوئی چیز نہیں.ہماری جماعت میں بھی جو کمزور تھے اُن کے دل خائف تھے.جب ہم قادیان سے نکلے تو اُنہوں نے خیال کر لیا کہ اب سلسلہ کمزور ہو جائے گا لیکن ہمارے دل میں قادیان سے نکلنے کے بعد اور زیادہ ایمان پیدا ہوا اور اگر ہمیں خدا نخواستہ یہاں سے بھی نکلنا پڑے تو اس سے ہمارے ایمان میں اور بھی زیادتی ہو گی کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ہم جتنا نیچے گریں گے اُنتا ہی زیادہ اُبھریں گے اور اگر ہمیں دشمن مٹا ڈالے گا تو پھر خدا تعالیٰ کوئی بہت بڑا معجزہ دکھائے گا اور ہمیں اس کے نتیجہ میں پہلے سے زیادہ طاقت عطا کرے گا.غرض یہ ابتلاء اور مصائب ایماندار کے لئے کوئی چیز نہیں.ہاں کمزور اس سے خائف ہو جاتا ہے.حدیث میں آتا ہے کہ دشمن سے لڑائی کی کبھی خواہش نہ کرو جس کے معنے یہ ہیں کہ ابتلاؤں اور مصائب کی دُعا نہ کرو.ہمیشہ دعا ئیں کرو کہ خدا تعالیٰ تمہیں ان سے محفوظ رکھے لیکن با وجود اس کے مومن کا حوصلہ اتنا بلند ہونا چاہئے کہ ساری دُنیا بھی مقابلہ پر آئے تو جسم میں لرزہ پیدا نہ ہو.جب

Page 391

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۵ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تک یہ چیز انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر لیتا اُس کا یہ خیال کر لینا کہ وہ ما مور کی جماعت میں داخل ہے اُسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.ہمارے رستہ میں کانٹے ہی کانٹے اور قربانیاں ہی قربانیاں ہیں.اگر ہم یہ خیال کر لیں کہ ہم پر کوئی مصیبت اور ابتلا نہیں آئے گا تو یہ ہماری کمزوری ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے میری جماعت میں شامل ہونا پھولوں کی سیج پر چلنا نہیں بلکہ کانٹوں پر چلنا ہے.اگر تم نازک بدن ہو اور کانٹوں پر چلنا برداشت نہیں کر سکتے تو کہیں اور چلے جاؤ.ہم احراریوں سے جو ہمیں ہر وقت مارنے کے لئے تدابیر کرتے رہتے ہیں نہیں ڈرتے.ہم تم سے ڈرتے ہیں.ہم اُس شخص سے ڈرتے ہیں جو ہمارے ساتھ چل پڑتا ہے اور پھر تلواروں سے ڈرتا ہے.ایسا شخص ہمیں کمزور کر سکتا ہے.احراریوں کے مقابلہ میں تو ہمارا ایک ایک احمدی ان کے دس دس ہزار آدمی سے زیادہ طاقتور ہے.غرض منافقت سب سے زیادہ خطر ناک چیز ہے مگر لوگوں کو یہ غلطی لگی ہوئی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ منافق خود بھی اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہے حالانکہ یہ درست نہیں.منافق اپنے آپ کو مومن ہی سمجھتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ آیا اُس کے کام بھی مومنوں والے ہیں یا نہیں؟ صرف اپنے آپ کو مومن کہہ دینا مومن بننے کے لئے کافی نہیں مومن قربانی میں ہمیشہ آگے بڑھتا ہے اور پھر افسوس کرتا ہے میں نے اس قدر قربانی نہیں کی جس قدر کرنی چاہئے تھی.حضرت عمرؓ فرماتے ہیں نِيَّةُ الْمُؤْمِنِ خَيْرٌ مِّنْ عَمَلِهِ لا شُرَاحِ حدیث نے تو اس کی عجیب و غریب تفسیر کی ہے لیکن اس کی سیدھی سادھی تفسیر یہی ہے کہ مومن کا نیک کام کرنے کا ارادہ اُس کے عمل سے ہمیشہ زیادہ ہوتا ہے.وہ اگر چھ نمازیں یعنی پانچ فرض اور چھٹی تہجد کی نماز پڑھتا ہے تو ساتھ ہی یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں ان سے زیادہ نمازیں پڑھوں.وہ جس قدر نیک عمل کرتا ہے اُس سے بڑھ کر نیک عمل کرنے کی نیت کرتا ہے.وہ اگر ایک روپیہ چندہ دیتا ہے اور خواہش یہ رکھتا ہے کہ ہو سکے تو وہ دو روپیہ چندہ دے اور اگر دو روپیہ چندہ دیتا ہے تو وہ خواہش رکھتا ہے کہ وہ اڑھائی روپے چندہ دے.غرض مومن کی نیت اُس کے عمل سے زیادہ ہوتی ہے لیکن تم میں سے بعض کی یہ حالت ہے کہ وہ

Page 392

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۶ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے قربانی کرتے وقت سوچنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے یہ قربانی کی تو فلاں خرچ کہاں سے پورا کریں گے.جب تمہارا بچہ بیمار ہو جاتا ہے اُسے ٹائیفا نڈ یا ہیضہ ہو جاتا ہے تو کیا تمہاری اُس وقت کی قربانی اور دین پر حملہ کے وقت کی تمہاری قربانیاں ایک سی ہیں؟ اگر دونوں مواقع پر تمہاری قربانیاں ایک سی ہیں تب تو کوئی بات ہے لیکن تم اگر اپنے بچہ کی بیماری کے وقت تو اپنا لحاف اور پگڑی بھی بیچنے پر تیار ہو جاتے ہو اور اُس سے علاج کے اخراجات پورے کرتے ہو اور جب دین کی خاطر قربانی کرنے کا وقت آتا ہے تو تم بہانے بنانے لگ جاتے ہو تو تم کیسے مومن ہو.تمہارا یہ کہہ دینا کہ تم مومن ہو تمہیں مومن نہیں بنا سکتا اور تمہاری یہ دلیل درست نہیں ہو سکتی کہ تم اپنے آپ کو منافق خیال نہیں کرتے بلکہ مومن خیال کرتے ہو.تم مومن ہو یا منافق اس کا فیصلہ خدا تعالیٰ نے کرنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہیں نہیں فرمایا کہ منافق یہ کہتا ہے کہ میں منافق ہوں مومن نہیں ہوں.وہ کہتا یہی ہے کہ میں مومن ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ منافق کی یہ علامت ہے کہ وہ موقع پر جھوٹ بولتا ہے.غصہ آئے تو گالیاں دینے لگ جاتا ہے اور جب وعدہ کرتا ہے جھوٹا کرتا ہے اور جب اُس کے پاس امانت رکھوائی جائے تو اُس میں خیانت کرتا ہے.ہے اب دیکھ لو ان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہیں نہیں کہا کہ منافق اپنے آپ کو منافق سمجھتا ہے وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے لیکن موقع پر جھوٹ بولتا ہے.وہ اپنے آپ کو مومن سمجھتا ہے لیکن غصہ آنے پر گالیاں دینے لگ جاتا ہے.اور وعدہ کرتا ہے تو پورا نہیں کرتا ( جیسے کہ کمزور وعدہ کرنے والے تحریک کے دفتر سے معاملہ کر رہے ہیں ) اور جب اُس کے پاس امانت رکھی جاتی ہے تو اُس میں خیانت کرتا ہے.یہ وہ فیصلہ ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کے متعلق فرمایا ہے اب جو شخص اس کے خلاف منافق کی تعریف یہ کرتا ہے کہ منافق وہ ہے جو اپنے آپ کو منافق کہتا ہے یا سمجھتا ہے اُس کی مثال در حقیقت اُس پٹھان کی سی ہے جس نے فقہ کی کتاب ” قدوری یا کنز“ پڑھی (پٹھان فقہ بہت پڑھتے ہیں ) اور فقہ میں پڑھا کہ حرکت قلیلہ بھی نماز کو توڑ دیتی ہے.پھر اُس نے ایک دن حدیث میں پڑھا کہ

Page 393

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۷ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روتے ہوئے بچہ کو گود میں اٹھا لیا تو کہنے لگا.خو! محمد صاحب کا نماز ٹوٹ گیا.کسی دوسرے شخص نے کہا نماز تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتائی ہے پھر تم کون ہو یہ کہنے والے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حرکت سے نماز ٹوٹ گئی.پس فیصلہ تو خدا اور اُس کے رسول نے کرنا ہے تم خود اپنے آپ کو مومن سمجھ لو تو یہ درست نہیں ہو سکتا.مومن اور منافق میں یہ فرق ہے کہ مومن ہر ضرورت کے وقت قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور اُس کی نیت عمل سے بڑھتی جاتی ہے.یعنی وہ قربانی کرتا ہے لیکن اُس کا نفس کہتا ہے کہ یہ قربانی تھوڑی ہے میں اور قربانی کروں.اور پھر وہ ان بوجھوں کو برداشت کرتا ہے جو اس کے لئے ضروری ہوتے ہیں.جو وعدہ کرتا ہے اسے ضرور پورا کرتا ہے.میں نے کئی دفعہ سُنایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد منشی اروڑے خان صاحب ایک دفعہ قادیان آئے.آپ پہلے منشی تھے بعد میں ترقی کر کے تحصیلدار ہو گئے تھے.اُس زمانہ میں منشی کی تنخواہ سات آٹھ روپیہ ہوتی تھی.حضر مسیح موعود علیہ السلام کی محبت کی وجہ سے وہ ہر اتوار قادیان آتے.منشی صاحب کپور تھلے کے تھے اور اُن کا گاؤں قادیان سے چھپیں چھبیس میل کے فاصلے پر تھا.وہ پیدل چل پڑتے اور رستہ میں کہیں دو پیسے یا آنہ دے کرتا نگہ پر بیٹھ جاتے اور پھر پیدل چل پڑتے.آٹھ دس روپے تنخواہ کے لحاظ سے جو وہ جمع کر سکتے جمع کرتے اور جب قادیان آتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بطور نذرانہ پیش کر دیتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات سے کچھ دیر قبل یا وفات کے کچھ دیر بعد وہ تحصیلدار ہو گئے اور اُن کی تنخواہ بھی بڑھ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے چھ سات ماہ بعد وہ قادیان تشریف لائے اور حضرت خلیفہ اسیح الاوّل سے کہنے لگے مجھے ایک رقعہ لکھ دیں میں نے میاں صاحب سے ملنا ہے.اُس وقت خلیفہ تو آپ ہی تھے لیکن آپ نے پھر بھی ایک رقعہ بطور سفارش مجھے لکھ دیا اور وہ رقعہ اُنہوں نے اندر بھیجا اور میں باہر آ گیا.اُنہوں نے مجھ سے مصافحہ کیا اور مصافحہ تک اُنہوں نے اپنے جذبات پر قابو رکھا.اُن

Page 394

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۸ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے کے ہاتھ میں کچھ نقدی تھی.اُنہوں نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ میں دیا اور رونے لگ گئے.اُن کی حالت ایسی تھی جس طرح کسی بکرے کو ذبح کیا جاتا ہے.میری عمر چھوٹی تھی اور میں حیران تھا کہ انہیں کیا ہو گیا ہے کہ یہ رورہے ہیں.آٹھ دس منٹ کے بعد انہوں نے بولنا شروع کیا لیکن پھر بھی وہ متواتر نہیں بول سکتے تھے.آدھا فقرہ کہتے اور رونے لگ جاتے.پھر ایسا کرتے.آٹھ دس منٹ میں جو فقرہ اُنہوں نے مکمل کیا وہ یہ تھا کہ میں ہمیشہ خیال کرتا تھا کہ کتنی دیر کے بعد خدا تعالیٰ نے اُمت کی التجاؤں کو سُنا ہے اور اُس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو مبعوث فرمایا ہے.میں دیکھتا تھا کہ لوگ اپنے پیروں کو سونا پیش کرتے ہیں اور آپ کی شان تو اُن سے بہت زیادہ ہے.میری خواہش تھی کہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں سونا پیش کروں لیکن زیادہ دیر انتظار نہیں کیا جاسکتا تھا.جو رقم جمع ہوتی میں وہ یہاں آ کر پیش کر جاتا.آخر وہ وقت بھی آ گیا کہ خدا تعالیٰ نے میری تنخواہ بڑھا دی اور اُس نے توفیق دی کہ سونا جمع کر کے میں اپنی خواہش کو پورا کر سکوں لیکن جب یہ وقت آیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فوت ہو گئے.یہ فقرہ کہا ہی تھا کہ ان کی چیخ نکل گئی.پھر وہ کچھ سنبھلے اور کہا جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس دُنیا میں تھے تو مجھے سونا میسر نہیں تھا اور جب سونا میسر آیا تو آپ اس دُنیا سے رُخصت ہو گئے.اُن کے ہاتھ میں اُس وقت پانچ یا سات اشرفیاں تھیں وہ اُنہوں نے مجھے دیں اور کہا یہ اب حضرت (خلیفہ اسیح ) کو دے دی جائیں.وہ لوگ بھی انسان تھے جنات نہیں تھے وہ بھی تمہارے جیسے مرد تھے فرشتے نہیں تھے ، اُن کو بھی کھانے پینے کی ضرورت تھی، اُن کے ساتھ بھی دُنیاوی حوائج لگی ہوئی تھیں لیکن ان کے اندر ایمان کا شعلہ بھڑک رہا تھا اور وہ قربانی کو ہر چیز پر مقدم رکھتے تھے.وہ کہتے تھے کہ خواہ ہم ننگے رہیں لیکن خدا تعالیٰ کا بلند کیا ہو ا جھنڈا اونچار ہے لیکن تم ان سے کئی گنا زیادہ ہو چکے ہو.تم احمدیت سے جو لذت حاصل کر رہے ہو یہ لذت وہ حاصل نہیں کرتے تھے.اُس وقت احمدیوں کی تعریف کرنے والا کوئی نہیں تھا.اُس وقت ابھی مرکز کی بنیاد رکھی جارہی تھی.جیسے مکڑی اپنا جالا بنتی ہے لیکن یہ کہ وہ دُور دُور ممالک میں نکل جائیں،

Page 395

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۶۹ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے تبلیغ کریں اور عیسائیوں اور ادنی اقوام کو مسلمان بنا ئیں اور اس طرح اسلام کا جھنڈا بلند کریں یہ چیز انہیں حاصل نہیں تھی.یہ چیز اب تمہیں نصیب ہوئی ہے.اس لئے کہ تم نے تحریک جدید میں دو دو، چار چار سو سو ، دو دو سو روپے دیئے ہیں اور اس خرچ سے باہر مبلغ بھیجے جاتے ہیں اور وہ دوسری اقوام میں تبلیغ کرتے ہیں.جب تمہیں احراری یا اس قسم کے دوسرے لوگ گالیاں دے رہے ہوتے ہیں تو اُن میں سے ایک آدمی کھڑا ہو جاتا ہے اور کہتا ہے چاہے تم انہیں گالیاں دو لیکن اسلام کی صحیح خدمت یہی لوگ کر رہے ہیں.پس چاہئے تو یہ تھا کہ ہر احمدی اس تحریک میں شامل ہوتا اور پھر ہر سال آگے نکلنے کی کوشش کرتا اور اپنے وعدہ کو پورا کرتا لیکن حالت یہ ہے کہ بجٹ وہی ہے.بجٹ میں جو ۱۲ لاکھ روپیہ کی رقم دکھائی گئی ہے اس میں بیرونی ممالک کی رقوم بھی شامل ہیں جو پہلے بجٹ میں شامل نہیں کی جاتی تھیں.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ اصلی بجٹ بھی پہلے سے ۵۰، ۶۰ ہزار زیادہ ہے لیکن ہر سال پانچ سات ہزار کا خرچ بڑھ جانا معمولی چیز ہے.اعتراض تب تھا جب مقامی اخراجات زیادہ بڑھ جاتے لیکن صورت یہ ہے کہ بجٹ بڑھا نہیں لیکن با وجود اس کے کہ بجٹ وہی ہے ساری آمد پہلے تین ماہ میں خرچ ہو جاتی ہے.یہ اس لئے نہیں کہ اخراجات کا بجٹ زیادہ ہو گیا ہے بلکہ یہ اس لئے ہے کہ جماعت میں سے ایک حصہ سُست ہو گیا ہے.پچھلے سال بھی مجھے بار بار توجہ دلانی پڑی اور میرے بار بار توجہ دلانے پر جماعت سنبھل گئی لیکن یہ سال پچھلے سال سے بھی بدتر ہے.پچھلے سال اس وقت تک ایک لاکھ اٹھارہ ہزار روپیہ وصول ہو چکا تھا اور وہ سال اتنا خراب تھا کہ کئی دن بغیر کسی آمد کے گزر جاتے تھے.اس سال باوجود اس کے کہ احباب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ وقت پر وعدہ ادا کریں گے اور قربانی پیش کریں گے صرف ایک لاکھ ۱۲ ہزار پانسو روپیہ کی آمد ہوئی ہے.گویا تحریک جدید کے لحاظ سے جو سال تاریک اور بُرا تھا ، یہ سال اُس سے بھی زیادہ تاریک اور بُرا ہے.ان حالات میں جو لوگ وعدہ پورا کرنے میں شستی کر رہے ہیں اُن کا کیا حق ہے کہ وہ کہیں کہ ہم وہ جماعت ہیں جس نے اسلام کو تمام دُنیا پر غالب کرنا ہے.اگر وعدے نہ کرتے تو اس سے بہتر تھا کہ وہ وعدے کر کے

Page 396

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۰ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے انہیں پورا نہیں کر رہے.اصل بات تو یہی تھی کہ وہ بھی وعدے کرتے اور دوسرے احمدی بھی وعدے کرتے اور پھر ان کو جلد سے جلد ادا کرتے.تحریک جدید کے قواعد کے ماتحت اپنے ماحول کو اور اپنے اخراجات کو ایسا بناتے کہ وہ قربانی کر سکتے.مگر اس سے اتر کر یہ مقام تھا کہ وہ کہہ دیتے کہ ہم اس بوجھ کو نہیں اُٹھا سکتے.تم ہنستے ہو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم پر کہ اُنہوں نے وقت پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہہ دیا فاذْهَبْ آنْتُ وَ رَبُّكَ فقاتلا انا ههنا قاعِدُون سے کہ جاؤ تو اور تیرا رب لڑتے پھر وہم یہاں بیٹھے ہیں.مگر وہ لوگ ان سے اچھے تھے جنہوں نے تحریک کے وعدے کر دیئے اور وقت پر پورا کرنے کی کوشش نہ کی کیونکہ اُنہوں نے اپنے نبی سے سچ سچ کہہ دیا کہ ہم تمہارے ساتھ مل کر دشمن سے نہیں لڑ سکتے.اُنہوں نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دھوکا نہیں دیا.اگر پچاس ساٹھ ہزار آدمی اُن کے ساتھ مل جاتا اور پھر دشمن کے مقابل پر آ کر بھاگ جاتا تو یہ زیادہ خطر ناک تھا.میں اگر اکیلا باہر نکلوں گا تو میں اپنی طاقت کے مطابق سکیم تیار کروں گا لیکن اگر پچاس ساٹھ آدمی کا جتھا میرے ساتھ دُشمن کے ساتھ لڑنے کے لئے نکل کھڑا ہو اور جب دشمن سامنے آ جائے تو وہ بھاگ کھڑا ہو تو اس سے وہ کام جس کے لئے ہم باہر نکلے تھے پورا نہیں ہوسکتا بلکہ خود امام کی جان خطرہ میں پڑ جاتی ہے.پس اگر ان لوگوں میں روحانیت ہوتی ، اگر ان میں ایمان ہوتا ، اگر شرافت ہوتی تو وہ اپنے وعدوں کو جلد ادا کر دیتے.اس سال سے پہلے دو لاکھ اسی ہزار تک بھی وعدے ہوتے رہے ہیں اور وہ پورے ہوتے رہے ہیں لیکن اس سال دو لاکھ سینتالیس ہزار روپے میں سے صرف ایک لاکھ بارہ ہزار پانچ صد روپے وصول ہوئے ہیں.یہ کیا کمال ہے جس کا دعوی کرتے ہوئے تم میں سے بعض کے منہ سے جھاگ آنے لگتی ہے.ان لوگوں نے اپنے اندر کافروں والی دلیری ہی کیوں پیدا نہ کر لی کہ یہ کہہ دیتے کہ جاؤ ہم تمہارے ساتھ مل کر کام نہیں کرتے جس سے کم سے کم یہ پتہ تو لگ سکتا کہ میرے ساتھ کتنے آدمی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے سویں حصّہ سے کام لے لیا تھا.اگر پہلے دن ہی یہ معلوم ہو جاتا کہ ہمارے ساتھ کام کرنے والے تھوڑے ہیں تو ہم کام کی نوعیت بدل

Page 397

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۱ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے دیتے اور بجائے مرکز قائم کرنے کے ہم خود ہی باہر نکل جاتے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتے رہتے.لیکن اب شروع سال میں تو اُنہوں نے وعدے کئے کہ ہم قربانی کریں گے پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر موقع پر آ کر دھوکا دے دیا.اول تو وعدے بھی بعض کے اپنی شان سے کم ہوتے ہیں اور بعد میں عین وقت پر ایسے لوگ بھاگ جاتے ہیں.اگر وعدہ پورا نہیں کرنا تھا تو پھر وعدہ ہی کیوں کیا تھا.اُنہوں نے کیوں اپنا ایسا ماحول پیدا نہ کر لیا کہ جس سے وعدہ ادا کرنے میں سہولت ہوتی.آج سے پندرہ سال پہلے جب تحریک جدید شروع ہوئی تو اس وقت کے لوگ زیادہ پستی کے ساتھ ادائیگی کرتے تھے.اُس وقت ایک چپڑاسی کی تنخواہ ۱۲ ،۱۳ روپے تھی اور اب چالیس روپے کے قریب ہے.اگر آج سے ۱۰، ۱۵ سال قبل وہ ۱۳ روپے میں سے پانچ روپے سالانہ دے سکتا تھا تو وہ آج کیوں پانچ روپے نہیں دے سکتا.یہ صرف اس لئے ہے کہ آج سے دس پندرہ سال پہلے تحریک جدید میں حصہ لینے والا یہ سمجھتا تھا کہ ان پانچ روپوں پر میری آئندہ روحانی زندگی کا دارو مدار ہے اور وہ شروع سال سے ہی ان کی ادائیگی کی فکر کر لیتا تھا.اب چالیس روپے تنخواہ والا آدمی بیٹھا رہتا ہے اور خیال کر لیتا ہے کہ پانچ روپے میں کونسی جلدی ہے جلد ادا کرلوں گا.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ ذکر کیا ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جنگ تبوک کے لئے باہر تشریف لے گئے اُس وقت تین صحابہ سے سستی ہو گئی تھی اور وہ اس جنگ میں شریک نہیں ہو سکے تھے.انہوں نے خیال کر لیا تھا کہ ہمیں کونسی جلدی ہے.روپیہ پاس ہے جب چاہیں گے تیاری کر لیں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں گے.وہ اسی طرح کرتے رہے حتی کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت دُور نکل گئے اور وہ صحابہ آپ کے ساتھ نہ مل سکے.اگر تم پہلے دن سے اپنے وعدے کی ادائیگی کی فکر کرتے تو اپریل مئی تک اپنے وعدے ادا کر لیتے.جو قربانی تم نے اب کمزور بن کر کرنی ہے تو تم نے اعلیٰ مومن بن کر ہی کیوں نہ کر لی.اب تم قربانی بھی کرو گے اور کمزور کے کمزور بھی رہو گے لیکن اس سے پہلے یہی قربانی کرتے تو تم اعلی مومن کہلاتے اور پھر وہ

Page 398

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۲ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے قربانی موجودہ قربانی سے کم ہوتی.قربانی کا اصل وقت وعدہ کے بعد کے پہلے چھ ماہ ہوتے ہیں.اگر تم اُس وقت وعدہ پورا کر لیتے تو اب چھاتی تان کر پھرتے کہ ہم نے تبلیغ کے لئے جس رقم کا وعدہ کیا تھا وہ ہم ادا کر چکے ہیں.اب سردیوں کا موسم آنے والا ہے کسی نے لحاف بنانا ہے، کسی نے سردیوں کے لئے کپڑوں کی مرمت کروانی ہے، جس پر کافی خرچ آئے گا اور پھر بچوں کے لئے اور اپنے لئے گرم کپڑے بنوانے ہیں.گرمیوں میں بستروں کی ضرورت نہیں ہوتی.بستروں اور زیادہ کپڑوں کے بغیر بھی کام چل سکتا ہے.میں اس دفعہ بعض وجوہات کی بنا پر کسی پہاڑ پر نہیں جاسکا.ساری گرمیاں یہیں رہا ہوں.میں نے مہینہ بھر قمیض نہیں پہنی.رات کو صرف تہہ بند باندھ کر سوتا رہا ہوں.کیونکہ سر سے پیر تک گرمی کے دانوں کی وجہ سے زخم پڑے ہوئے تھے.کھانا کھانا چاہتا تھا تو بھوک محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن سردیوں میں زیادہ کپڑوں کی ضرورت ہوتی ہے اور کھایا پیا اچھا جاتا ہے.پس اس وقت تو آپ لوگوں کے سامنے سردیوں کے اخراجات آچکے ہیں جو عام طور پر نومبر دسمبر تک ہوتے ہیں اس کے بعد انسان اس بوجھ سے فارغ ہو جاتا ہے.پس قربانی کا بہترین وقت جنوری سے لے کر جون جولائی تک ہوتا ہے.خرچ کم ہوتا ہے اور زمینداروں کی دونوں فصلوں کی آمد اس عرصہ میں آ جاتی ہے اور پھر تازہ وعدہ کی وجہ سے دلوں میں جوش ہوتا ہے.جو اس وقت کو گزار دیتا ہے وہ اپنے آپ کو وعدہ خلافی کے خطرہ میں ڈال لیتا ہے.میں اس بات کا اقرار کروں گا کہ یہ پہلا سال ہے جس میں میرا وعدہ ابھی تک پورا نہیں ہو ا تھا لیکن اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ میں سمجھتا تھا کہ میں وعدہ پورا کر چکا ہوں.قریباً ایک ماہ ہوا کہ دفتر والوں نے مجھے یاد دہانی کرائی.اس پر میں نے انہیں کہا کہ تم نے اس سے پہلے مجھے کیوں یاد نہ کرایا لیکن میں نے دفتر میں چیک دے دیا ہے کہ وہ تحریک جدید کو ادا کر دیں.معلوم نہیں کہ انہوں نے وہ چیک دے دیا ہے یا نہیں ( بعد میں معلوم ہوا کہ یہ چیک خزانہ میں پہنچ چکا ہے ) میری ہمیشہ ہی یہ کوشش رہی ہے کہ میں مارچ اپریل تک اپنا وعدہ ادا کر دوں.مارچ اپریل میں وعدہ کا پورا کرنا آسان ہوتا ہے اور انسان فارغ ہو کر اگلے سال کے متعلق سوچ بچار کرتا ہے اور

Page 399

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۳ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اس کے لئے سکیمیں بنانا شروع کر دیتا ہے.اگر نئے سال کے وعدہ تک بوجھ سر پر رہے تو وقت آنے پر انسان بُزدل ہو جاتا ہے.ایک طرف بھوک نہ لگنے کی وجہ سے طبیعت پریشان ہوتی ہے تو دوسری طرف شدت گرمی اور تپ وغیرہ کے ساتھ جان نکل رہی ہوتی ہے.پھر سردی کے اخراجات کا فکر شروع ہو جاتا ہے اس طرح نئے وعدے تک انسان کی جان نکل جاتی ہے اور اُس کے لئے وعدے میں اضافہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے.اگر جنوری سے اگست تک وعدہ ادا کیا جاتا تو نئے وعدہ سے دس ماہ قبل وہ اکڑ کر چلتا اور نیا وعدہ بڑھ چڑھ کر کرتا.پہلے وعدہ ادا کرنے کا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ ایک لمبا عرصہ بوجھ سے فارغ رہنے کی وجہ سے قربانی میں بڑھنے کا موقع ملتا ہے.پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کر و.جماعت کے پاس روپیہ ہے.ہم نے تقسیم ملک سے قبل جماعت کی ماہوار آمد کا اندازہ لگایا تھا تو وہ ۱۳ لاکھ روپیہ کی تھی اور ابھی کئی وعدے وصول نہیں ہوئے تھے.اندازہ تھا کہ پندرہ سولہ لاکھ روپیہ ماہوار جماعت کی آمد ہے.اگر پندرہ سولہ لاکھ جماعت کی ایک ماہ کی آمد ہے تو اس کا اگر ۳۳ فیصد بھی دیا جائے تو ہمیں چھ لاکھ روپیل سکتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ وصولی بہت کم ہے.تین لاکھ پچاس ہزار روپیہ کے گل وعدے ہیں لیکن وصولی صرف ایک لاکھ بارہ ہزار کی دفتر اول میں ہوئی ہے اور دفتر دوم میں صرف ۳۰ ۴۰ ہزار روپیہ وصول ہوا ہے.اس کی کام سے کوئی نسبت ہی نہیں.تمام دُنیا میں تبلیغ کرنا کوئی معمولی کام نہیں.تم پہاڑ کو خلالوں سے کھود نہیں سکتے.تم پھونکوں سے ہنڈیا پکا نہیں سکتے.تم تنکے پر بیٹھ کر دریا پار نہیں کر سکتے.تم نے جو کام کرنا.وہ نہایت عظیم الشان ہے.اتنے قریب وقت میں اتنے وسیع پیمانہ پر دُنیا کی کسی اور قوم نے کام نہیں کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں معلومہ دُنیا شام، فلسطین، عراق ، مصر اور عرب تک محدود تھی.اب ہمارے مخاطب لوگوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے.تمام دُنیا معلوم ہو چکی ہے اور سائنس کی ترقی کی وجہ سے ذرائع آمد ورفت میں سہولت پیدا ہو گئی ہے.پہلی قوموں کے اگر دس پندرہ لاکھ انسان مخاطب ہوتے تھے تو ہمارے اڑھائی ارب انسان مخاطب ہوتے تھے تو ہمارے اڑھائی ارب انسان مخاطب

Page 400

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۴ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ہیں.اب تمہیں پہلوں سے بہت بڑھ کر قربانی کرنا پڑے گی لیکن واقعہ یہ ہے کہ ہم پہلوں والی قربانی بھی نہیں کرتے.جب تک تم اپنی روح کو بدلو گے نہیں ، جب تک تم اس طرح غسل نہیں لے لیتے جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے جاری کیا تھا.آپ نے بپتسمہ جاری کیا.آپ جسم پر پانی کا چھینٹا دیتے اور کہتے ”لو اب تو پاک ہو گیا ہے، بپتسمہ کا مطلب یہی تھا کہ جس طرح تمہیں ظاہری غسل دیا گیا ہے اور اس سے تم پاک ہو گئے ہو اسی طرح تم اپنی روح کو بھی غسل دو اور اُسے صاف کرو.، پس جب تک تم اپنی روح میں تبدیلی پیدا نہیں کرتے تم اس بوجھ کو اُٹھا نہیں سکتے.اگر تم نے وعدہ کر کے اُسے ادا نہیں کرنا تو تم پہلے سے ہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ہم یہ کام نہیں کر سکتے.تم اس کام میں شامل ہو کر اور وعدوں کی عدم ادائیگی سے جماعت کو نقصان پہنچا رہے ہو.آج سے سترہ سال قبل بھی تو کام ہو رہا تھا.اگر چہ وہ محدود تھا لیکن اُس وقت جماعت کا چندہ کہاں تھا.ہر زمانے کے مطابق انسان اپنی سکیم بناتا اور اس کے مطابق کام کرتا ہے لیکن اب سکیم بعض وعدہ کرنے والوں کے جھوٹے وعدوں کے مطابق بنائی جاتی ہے اس لئے درمیان میں خرابی پیدا ہو جاتی ہے.کل ہی ایک مبلغ کی شکایت آئی ہے کہ مجھے چھ ماہ تک کوئی خرچ نہیں ملا.وہ مبلغ جھوٹ نہیں بولتا.محکمہ بہانے بنائے گا گو واقعہ کا انکار نہیں کرے گا لیکن حقیقت یہی نکلے گی کہ روپیہ نہیں تھا.ویسے وہ بہانے بنائے گا اور دوسرے محکمہ کو لکھے گا کہ رپورٹ کرو.اِس پر دس پندرہ دن لگ جائیں گے.پھر تیسرے محکمہ کو لکھا جائے گا کہ ایسا کیوں ہوا؟ اور اس کی رپورٹ آنے تک دس بارہ دن اور گزر جائیں گے.پھر اوپر کے محکمہ کو لکھا جائے گا کہ اب کیا کریں لیکن مبلغ وہاں اکیلا بیٹھا ذلیل اور رسوا ہو رہا ہے.لوگ دیکھتے ہیں کہ اُس کے پاس کھانے کو کچھ نہیں کپڑے دُھلانے کے لئے پیسے نہیں، سفر کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں اور اُس کا دل بیٹھا جاتا ہے.پس تم اپنے اندر تبدیلی پیدا کرو اور اگر تم نے اپنے اندر تبدیلی پیدا نہیں کرنی تو صاف کہہ دو کہ ہم کام نہیں کریں گے تا کہ ہم اس کے مطابق اپنی سکیم بدل دیں.خدا تعالیٰ نے انسان پر اتنی ذمہ داریاں ہی ڈالی ہیں.جتنے سامان اُسے مہیا کئے گئے

Page 401

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۵ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ہیں.خدا تعالیٰ جو سامان مہیا کر دیگا اُس کے مطابق ہم کام کرتے جائیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ مخلصین کی جماعت اُس وقت آگے نکل آئے گی.میں نے اس تحریک کا آغاز کرتے ہوئے ہی بتا دیا تھا کہ اس تحریک کی بنیا د روپے پر نہیں.اس کی بنیاد قربانی پر ہے.اُس وقت کئی لوگ ہزاروں میل پیدل یا جہاز کے ڈیک پر یاریل کا تھرڈ کا ٹکٹ لے کے باہر نکل گئے تھے.میرے نزدیک اس سستی کی ذمہ داری صرف جماعت پر نہیں دفتر پر بھی ہے.نو جوان دفتروں میں آگئے ہیں اور انہیں ہوئی جہاز کے سفر کے سوا کوئی بات سُوجھتی ہی نہیں.اس کا بجٹ پر اثر پڑتا ہے.لیکن اس کے علاوہ جو کام اس سے پہلے ایک وکیل اپنے ہاتھ سے کرتا تھا اُس کے لئے اب وہ ایک ایک دو دو کلرک مانگتا ہے.ان چیزوں سے نقصان ہوتا ہے.دس بارہ سال تک جب تک کام میرے سپر در ہا اگر کوئی وکیل کہتا کہ مجھے ایک آدمی کی ضرورت ہے تو میں کہتا کہ تم بھی آدمی ہو، تم خود کام کرو.پہلے صرف دو آدمی تھے جن کے سپر د تحریک جدید کا کام تھا.مولوی عبد الرحمن صاحب انور عام کاموں کے سیکرٹری تھے اور چوہدری برکت علی خاں صاحب مال کے سیکرٹری تھے.پھر قریشی عبدالرشید صاحب آگئے اور یہ تینوں کام چلاتے رہے.اگر چہ بعد میں انہوں نے ایک ایک دو دو کلرک لے لئے تھے لیکن کام بہت سادہ تھا لیکن اب وہی محکمہ صدر انجمن احمد یہ کو چیلنج کر رہا ہے حالانکہ صدر انجمن احمدیہ کی آمد تحریک جدید کی آمد سے پانچ گنے زیادہ ہے.نوجوان آئے اور اُنہوں نے مرکز کی اِس روح کو بدل ڈالا.عملہ بڑھایا جا رہا ہے پھر بھی کام میں دیر ہو جاتی ہے.پہلے سیدھے سادھے طور پر وہ کاغذات میرے پاس لاتے تھے.اب ہر جگہ شکایت ہے کہ کام کو لمبا کیا جاتا ہے.کئی دفعہ خود مجھے تین تین چار چار دفعہ کا غذ بھجوانے پڑتے ہیں پھر کہیں جواب آتا ہے.پہلی دفعہ کاغذ بھیجتا ہوں.چند دن کے بعد وہ سمجھتے ہیں شاید میں بھول گیا ہوں گا.آخر میں بھی انسان ہوں.بعض دفعہ میں بھی بھول جاتا ہوں.پھر دوبارہ کاغذ بھیجتا ہوں اور وہ کہتے ہیں ہم اس کا جواب بھیجتے ہیں.پہلے سستی ہو گئی تھی اب نہیں ہو گی لیکن وہ کا غذ بھی پاس رکھ لیتے ہیں

Page 402

انوار العلوم جلد ۲۲ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے اور چند دن کے بعد یہ سمجھ کر کہ میں بھول گیا ہوں گا بے فکر ہو جاتے ہیں.غرض مرکز میں بھی اب نقص پیدا ہو رہا ہے.وکلاء اُس معیار پر قائم نہیں جس معیار پر انہیں قائم ہونا چاہئے تھا.وہ ذاتی طور پر بہت کم کام کرتے ہیں اور دوسروں سے کام لینے کی خواہش رکھتے ہیں.ساری عمر ہم نے خود کام کیا اور دفتر سے پتہ کیا جا سکتا ہے کہ میرے ہاتھ کا لکھا ہؤا روزانہ کتنا ہوتا ہے.بے شک اب نقرس کی وجہ سے مجھ سے لکھا کم جاتا ہے اور اکثر اوقات میں کسی دوسرے شخص سے لکھواتا ہوں لیکن یہ بیماری کی وجہ سے ہے.پہلے میں کتابیں بھی تصنیف کرتا تھا اور اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا.ڈاک پر نوٹ بھی میں خود لکھتا تھا.مسلوں پر نوٹ بھی میں خود لکھتا تھا اور یہ کبھی نہیں ہو ا تھا کہ میں نے اس کام کے لئے کوئی آدمی رکھا ہو.اب بھی شوق ہے کہ میں اُنگلیوں کو کام کی عادت ڈالوں اور پھر خود کام کرنا شروع کر دوں لیکن نقرس کی وجہ سے اُنگلیاں چلتی نہیں پھر بھی ہر ناظر اور وکیل سے زیادہ تحریر میری ہوتی ہے.بہر حال دفتر میں یہ نقص بھی ہے کہ وکلاء خود کام کم کرتے ہیں اور عملہ کو بڑھاتے جارہے ہیں لیکن اس کا تعلق آمد سے نہیں صرف تحریک کی روح کی خلاف ورزی ہے.آمد سے تعلق تب ہوتا اگر وعدوں سے بجٹ کو بڑھا کر پیش کیا جاتا.مگر ایسا نہیں.خرچ کے بجٹ میں زیادتی ہوتی تو مرکزی انجمن ذمہ دار تھی لیکن واقعہ یہ ہے کہ آمد کم ہو رہی ہے.چھ ماہ میں جہاں تین لاکھ روپیہ وصول ہو جاتا تھا وہاں اب 9 ماہ میں صرف ڈیڑھ لاکھ روپیہ وصول ہوا ہے.حالانکہ ملک میں آمد نیں بڑھ رہی ہیں.جب سے پاکستان بنا ہے مُلک آزاد ہو جانے کی وجہ سے تجارت اور صنعت بڑھ گئی ہے جس کا ما ہوار آمدنوں پر اثر پڑا ہے.سنٹرل گورنمنٹ نے اب جو گریڈ بنائے ہیں اُس پر دو کروڑ روپیہ زائد خرچ آئے گا اور جن لوگوں کے گریڈ بڑھے ہیں اُن میں احمدی بھی ہیں.پھر صوبائی حکومت نے بھی تنخواہوں میں زیادتی کی ہے اور ملکی آزادی کی وجہ سے لوگوں کی آمد میں بڑھ گئی ہیں.اس کا لازمی نتیجہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ چندے بڑھ جائیں.وصیت کا محکمہ ہے وہاں یہ اجازت ہے کہ جب کوئی چاہے اپنی وصیت منسوخ کرا دے لیکن پھر بھی لوگ وصیت منسوخ نہیں کراتے اور چندہ بھی نہیں دیتے.جب اخراج از جماعت کی سزا

Page 403

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۷ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے ہوتی ہے تو چندہ ادا کرتے ہیں.حالانکہ سیدھا سادھا طریق یہ تھا کہ آمد کم ہو گئی ہے تو وصیت منسوخ کرالو اور جب حالات درست ہو جائیں تو پھر وصیت کر دو لیکن جماعت کے دوست اس اصول پر عمل پیرا نہیں ہوتے.وہ نا جائز طریق اختیار کرتے ہیں.میں جماعت سے کہوں گا کہ جو لوگ کام کرنا نہیں چاہتے بہتر ہے کہ وہ الگ ہو جائیں.جن لوگوں کا اس تحریک میں حصہ لینے کو جی نہیں چاہتا ہم ان کو بُرا سمجھتے ہیں لیکن وہ لوگ ان لوگوں سے اچھے ہیں جنہوں نے وعدہ کیا اور پورا نہ کیا.کم سے کم وقت پر انہوں نے ہمیں ہوشیار تو کر دیا.یہودیوں نے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلا انا ههنا قاعِدُون تو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیھما السلام ہوشیار ہو گئے اور انہوں نے ایک سکیم بنالی.اگر یہودی ان کے ساتھ ہو جاتے لیکن وقت پر بھاگ جاتے تو بوجہ نبی ہونے کے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام بھاگ تو نہیں سکتے تھے لازمی بات تھی کہ وہ کم سے کم مارے جانے کے خطرہ میں پڑ جاتے لیکن جب یہودیوں نے کہا کہ ہم آپ کے ساتھ نہیں جائیں گے تو انہوں نے ایک نئی سکیم بنالی جس سے اُن کی جانیں بھی بچ گئیں اور کام بھی ہو گیا.لیکن اگر قوم انہیں عین وقت پر دھوکا دیتی تو اُن کی جانیں خطرہ میں پڑ جاتیں.مسلمان جنگ حنین میں اپنی غلطی کی وجہ سے بھاگے اور ایک وقت ایسا آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف ایک شخص رہ گیا یہ خدا تعالیٰ کا خاص فضل تھا جس نے مدد کی اور آپ کو دشمن کے نرغہ سے بچالیا لیکن جہاں تک ظاہری تدبیر کا سوال ہے اُس وقت جو صورت پیدا ہو گئی تھی اُس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت یقینی تھی.خدا تعالیٰ نے ہی معجزہ دکھلایا ور نہ بھاگنے والوں نے تو آپ کو دشمن کے سپرد کر دیا تھا.اگر وہ ساتھ نہ جاتے تو خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی اور تدبیر بتا دیتا جس سے آپ کی جان محفوظ رہتی اور طائف بھی فتح ہو جاتا.آخر مد ینہ بھی تو بغیر لشکروں کے فتح ہو ا تھا.پس تمہارے سامنے دونوں طریق موجود ہیں.زیادہ صحیح یہی ہے کہ ہر احمدی تحریک

Page 404

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۸ ہر احمدی تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے جدید میں حصہ لے اور بڑھ چڑھ کر حصہ لے.زندگی کو اتنا سادہ بنالے کہ اس پر یہ قربانی دو بھر نہ ہو اور تمام وعدے پہلے تین چار ماہ میں ہی ادا ہو جائیں.دوسرا مقام یہ ہے کہ تم بالکل انکار کر دو کہ ہم اس میں حصہ نہیں لیں گے لیکن یہ سب سے خطر ناک ہے کہ تم وعد کرو اور اُسے وقت کے اندر پورا نہ کرو.تم پہلے یہ چیز پوری طرح سمجھ لو اور پھر کام کرو.چاہئے کہ تم سب اس میں شامل ہو جاؤ.اپنی زندگی کو سادہ بناؤ اور وعدے کو وقت کے اندر پورا کرو یا تم میں سے ایک حصہ یہ کہہ دے کہ ہم آپ کے ساتھ اسلام کی جنگ میں شریک نہیں ہو سکتے لیکن اگر تم وعدہ کرو اور پورا نہ کرو تو یہ منافق کا کام ہے تم اِس صورت میں خدا تعالیٰ کے سامنے کبھی بھی اپنی براءت نہیں کر سکتے.تم خود سمجھ لو کہ ان تینوں فریقوں میں سے تم کون سے فریق میں شامل ہو.جب تم وعدہ لکھاتے ہو تو کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم نے وعدہ لکھوا دیا ہے لیکن دل میں یہ کہتے ہو کہ خدا تعالیٰ کے غضب کے ماتحت ہم نے اس وعدہ کو پورا نہیں کرنا.یہ کتنی خطرناک چیز ہے کہ ایک دوست کے سامنے جس کا تم پر کوئی تصرف نہیں وہ تمہیں اگلی زندگی میں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا.تم خوش ہونا چاہتے ہو لیکن خدا تعالیٰ کے سامنے تم اپنا منہ کالا کرتے ہو جس سے تمہارا ہر وقت کا واسطہ ہے.اس سے بہتر تھا کہ تم ادنیٰ درجہ کے مومن بن جاتے اور منافقوں میں تمہارا شمار نہ ہوتا.الفضل ربوه ۱۸ ر ستمبر ۱۹۵۱ء) ل المعجم الكبير جلد 4 صفحہ ۲۲۸ مطبوعہ عراق ۱۹۷۹ء بخاری کتاب الایمان باب علامات المنافق المائده:۲۵

Page 405

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۷۹ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 406

Page 407

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۳۸۱ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں (فرموده ۱۳ راکتو بر ۱۹۵۱ء بر موقع اجتماع خدام الاحمدیہ بوقت سواسات بجے شام بمقام ربوہ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: چونکہ اس سال گرمی زیادہ پڑی ہے اور میری طبیعت کمزوری کی وجہ سے گرمی برداشت نہیں کر سکتی اس لئے میں خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں گزشتہ سال جتنا حصہ نہیں لے سکا اس لئے میں نے چاہا کہ رات کے وقت ایک مختصر سی تقریر کر دوں تا آخری تقریر کو ساتھ ملا کر تین تقاریر ہو جائیں.در حقیقت یہ وقت علمی مقابلوں کا ہے اور میں نے پروگرام پر غور کر کے سمجھا کہ میں اس وقت میں سے کچھ وقت تقریر کے لئے لے سکتا ہوں کیونکہ علم کے ساتھ تربیت اور ہدایات کا تعلق ہے اس لئے علمی مقابلوں کے وقت سے تقریر کے لئے کچھ وقت بچانا درست ہو سکتا ہے چنانچہ میں نے کہلا بھیجا کہ میں سات بجے آؤں گا اور تقریر بھی کروں گا.میرے نزدیک کل جو شوری ہونے والی ہے اُس میں اِس امر پر بھی غور کر لیا جائے کہ آئندہ سالانہ اجتماع کن دنوں میں ہو ا کرے.کل جب میں تقریر کر رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ تین چار نوجوان بیہوش ہو گئے اور اُنہیں اُس جگہ پہنچایا گیا جہاں طبی امداد کا انتظام ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ اس سال اتنی گرمی پڑ رہی ہے کہ اس میں کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے اور ہر نو جوان اس کی برداشت نہیں کر سکتا.حقیقت تو یہ ہے کہ جو قو میں اپنے وطن.

Page 408

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۲ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں اور اس کے حالات کو یا د رکھتی ہیں وہ اپنے آپ کو اُس کے مطابق بنانے کی کوشش کرتی ہیں لیکن بدقسمتی سے ہم گرم ملک والے ٹھنڈے ملک والے حاکموں کے ماتحت ایک لمبا عرصہ گزار چکے ہیں اور اُن کو آسائش اور آرام کے لئے جو سامان کرتے ہم نے دیکھا اور اُس میں ہمیں بعض فوائد نظر آئے ہم نے اُن کی نقل شروع کر دی.اب ہم واقعات سے اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ خواہ ان سے بچنے کی کتنی کوشش کریں ان سے بچ نہیں سکتے.ورنہ عرب اور افریقہ کے لوگ جن کے ملک میں اتنی گرمی پڑتی ہے کہ ہمارے ملک کی گرمی اُس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں وہ دھوپ میں بہت اچھی طرح چلتے پھرتے ہیں اور گرمی کا انہیں احساس بھی نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہی ہے کہ اُنہوں نے اپنے ملک کے حالات کو دیکھا ہے وہ سمجھتے ہیں کہ جب اُنہوں نے عرب اور افریقہ جیسے گرم ممالک میں بودو باش اختیار کی ہے تو اُنہوں نے اپنی روزی بھی وہیں سے تلاش کرنی ہے اس لئے اُنہوں نے بچپن سے ہی ایسی عادات پیدا کر لی ہیں کہ وہ گرمی برداشت کر لیتے ہیں لیکن ہمارے ملک کے لوگوں نے ملکی حالات کے مطابق اپنے حالات نہیں بنائے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک پر جو لوگ حاکم تھے اُنہوں نے جب اپنے آرام کے لئے پنکھوں کا انتظام کیا تو یہ خیال کیا کہ اگر اُنہوں نے اپنے ماتحت کلرکوں کے لئے ایسا انتظام نہ کیا اور اُن کے کمروں میں بجلی کے پنکھے نہ لگوائے تو کام پوری طرح نہیں ہو گا اس لئے اگر چہ اُنہوں نے بجلیاں اپنے کام کے لئے چلائیں لیکن بجلی کے پنکھے اُنہوں نے کلرکوں کے کمروں میں بھی لگا دیئے حالانکہ پٹھانوں ، مغلوں اور دوسرے راجوں مہاراجوں کے زمانہ میں یہاں بجلیاں نہیں تھیں وہ انہی ملکوں میں رہتے تھے.یہاں گرمی پڑتی تھی اور وہ لوگ اس میں رہنے کی مشق کرتے تھے، اس وجہ سے انہیں گرمی محسوس نہیں ہوتی تھی.آہستہ آہستہ جب ہم اپنے ملک کے حالات کو سدھاریں گے یا ہمارا ملک سُدھر جائے گا تو یہ دونوں باتیں ممکنات میں سے ہو جائیں گی.یا تو انگریزوں کے جانے کے بعد لوگ آرام و آسائش کے خیال کو چھوڑ دیں گے اور وہ افریقہ اور عرب جیسے ٹرو پیکل کنٹر (Tropical Countr) کی طرح گرمی کو اپنالیں گے اور اسے

Page 409

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۳ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں برداشت کرنے کی مشق کریں گے اور یا سائنس میں ترقی کر کے ملک کے حالات کو اپنے مطابق بنالیں گے.جیسے یورپ نے ترقی کر کے کمروں کو گرم کرنے کا طریق نکال لیا ہے اور ایسی ایجاد میں کر لی ہیں جن سے اُن کی زندگی آرام اور آسائش والی ہوگئی ہے اسی طرح ہمارے ملک کے لوگ ترقی کر کے ایسی ایجادیں کرلیں گے جن سے فضا ٹھنڈی ہو جائے گی اور تمام لوگ اس ملک میں اُسی طرح رہیں گے جس طرح وہ ایک درمیانی گرمی والے ملک میں رہتے ہیں یا جس طرح لوگ پہاڑوں پر رہتے ہیں.غرض جب ملک ترقی کرے گا تو ہمارے ملک کے لوگ اپنے حالات کو گرمی کے مطابق بنا لیں گے یا ہمارے عالم اور سائنسدان گرمی کو ہمارے حالات کے مطابق بنا دیں گے.بہر حال کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا کیونکہ جب کوئی قوم ترقی کرتی ہے تو وہ ماحول کو اپنے مطابق بنا لیتی ہے یا اپنے آپ کو ماحول کے مطابق بنا لیا کرتی ہے لیکن جب تک یہ زمانہ نہیں آتا ہمیں یہ احتیاط کرنی چاہئے کہ ہم اپنے اجتماع کو ٹھنڈے موسم میں کریں.ہمارے ملک میں بد قسمتی سے یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ جو چیز انگریز نے پیدا کی ہے وہ تم نہ کرو اور یہ انگریزوں سے نفرت اور اُن کی بدسلوکیوں کی وجہ سے ہے.انگریز اپنے ایک خاص دن کی یاد میں دسمبر کے مہینہ میں سات آٹھ دن کی چھٹیاں دیا کرتا تھا.اب ہندوستان اور پاکستان دونوں ممالک نے وہ چھٹیاں منسوخ کر دی ہیں حالانکہ ہر قوم کو اجتماع کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا کرنی چاہئے اور اس کے لئے بہترین دن سردی کے ہیں.محرم نے تو چکر کھانا ہے اس سال اکتوبر میں آیا ہے تو دوسرے سال اس کے کچھ دن ستمبر میں آجائیں گے.تیسرے سال محرم ستمبر کے درمیان آجائے گا ، چوتھے سال ستمبر کے شروع میں آ جائے گا اور پانچویں سال اس کے کچھ دن اگست میں آجائیں گے، اِس طرح ۱۶، ۱۷ سال برابر بدلتا جائے گا.گویا ۱۷ سال تک ہماری قوم کو ایسے معتدل دن نہیں ملیں گے جن میں لوگ اجتماع کر سکیں یا وہ مل کر باتیں کر سکیں.انگریز کے زمانہ میں ہماری ساری ضروریات دسمبر کے مہینہ میں پوری ہو جاتی تھیں خواہ نام ان کا کرسمس رکھ لیں لیکن بہر حال وہ دن ایسے تھے کہ ہمارے اجتماع آرام سے گزر جاتے تھے.اب اگر انگریز

Page 410

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۴ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں چلے گئے ہیں تو ان دنوں کا نام کریسمس نہ رکھو نیشنل ہالیڈیNational Holiday) رکھ لو تا قوم کو اجتماع وغیرہ کا موقع مل سکے.انگریزوں نے اپنے رواج کے مطابق سال میں بعض ایسے دن رکھ لئے تھے جن میں وہ اکٹھے ہوتے تھے اور باتیں کرتے تھے.اُن کے جانے کے بعد اب کوئی بھی قومی تہوار کے دن نہیں جن میں اجتماع وغیرہ ہو سکے.یورپ میں کرسمس اور ایسٹر کے نام سے سال میں بعض چھٹیاں آجاتی ہیں اسی طرح سال میں اور دن بھی مقرر ہیں جن میں قوم کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور اپنے معاملات پر غور کرتے ہیں.ہمیں بھی ایسے دن بنانے پڑیں گے اور جب ہمیں ایسے دن بنانے پڑیں گے تو کیوں نہ ہم ابھی سے ایسے دن بنا لیں.اگر محرم دس دن قبل ہوا تو یہ اجتماع نہیں ہو سکے گا.اس سال حج میں جو آج سے کچھ دن قبل ہو ا تو کسی وجہ سے سات ہزار حاجی مر گیا ہے اگر ہم ابھی سے کوئی تجویز نہیں کریں گے تو ہم قومی جانیں ضائع کرنے کا موجب ہوں گے.جب آئندہ ایسے دن نظر آ رہے ہیں تو کیوں نہ ہم ابھی فیصلہ کر لیں.آخر ہم میں سے کتنے لوگ ملازم ہیں جو چھٹیوں کے نہ ہونے کی وجہ سے اجتماع سے رہ جائیں گے.کراچی میں کوئی پچاس ہزار ملازم ہیں جن میں قریباً ملاز مین احمدی ہوں گے اور ان میں سے اجتماع کے موقع پر ربوہ آنے والے چھ سات ہوں گے.کیا ان چھ سات افراد کو اجتماع کے لئے چھٹیاں نہیں مل سکیں گی؟ سال میں ۲۰ دن کی چھٹیوں کا گورنمنٹ نے بھی حق دیا ہوا ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے چھ سات افراد چھٹی حاصل کرنا چاہیں اور اُنہیں چھٹی نہ ملے.یہ ہو سکتا ہے کہ ضرورت کے وقت حکومت چھٹیاں روک لے لیکن یہ دقت اُس وقت ہوگی جب لوگ کثرت سے یہاں آئیں گے.اور جب لوگ کثرت سے آئیں گے نہیں تو حکومت کا دو چار پانچ دس افراد کو رخصت دینے میں کیا حرج ہے.پھر تمہارا نہیں دن کی چھٹی کا حق بھی ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ ہم اجتماع کے لئے کوئی دن مقرر کر لیں اور ان دنوں میں چھٹیاں حاصل کر کے لوگ یہاں آجایا کریں.اسی طرح اور جگہوں کو دیکھ لو.پچھلے سال کوئٹہ سے کوئی بھی نہیں آیا تھا.اب پتہ لگا ہے کہ اس سال دو نمائندے کوئٹہ سے آئے ہیں.اب کیا کوئٹہ شہر سے دو آدمیوں کو رخصت نہیں مل سکتی.آخر

Page 411

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۵ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں ان کی رخصت میں حکومت کیوں روک ڈالے گی.یہی حال لاہور کا ہے.لاہور کی دس لاکھ کی آبادی ہے اور ان میں سے پچاس ہزار کے قریب ملازم ہوں گے جن میں سے بہت تھوڑی تعداد ہماری ہے.اب اگر لاہور سے آٹھ دس آدمی اجتماع پر آجائیں تو کیا وجہ ہے کہ اُن کی رخصت کا انتظام نہ ہو.اگر یہاں آنے والوں میں ملازمین کی کثرت ہوتی یا ہم سب ملازموں کو یہاں بلاتے تو حکومت کے لئے مشکل پیدا ہو سکتی تھی لیکن جب یہاں آنے والوں میں ملازمین کی کثرت بھی نہیں اور نہ ہم سب ملازمین کو یہاں بلاتے ہیں صرف چند نمائندے یہاں آتے ہیں اور اُن کی نسبت اتنی بھی نہیں ہوتی جتنی آئے میں نمک کی ہوتی ہے تو اس سے کیا فرق پڑ سکتا ہے.پھر کیوں نہ خدام اس موقع پر چھٹیاں لے کر آئیں.یہ کیا بات ہے کہ چھٹیاں ملیں گی تو ہم آئیں گے ورنہ نہیں آئیں گے.قوم کو سال میں دو تین دن کی ضرورت ہو اور وہ بھی لوگ پیش نہ کر سکیں.میرے اپنے خیال میں چونکہ دسمبر میں جلسہ سالانہ بھی ہوتا ہے اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سالانہ اجتماع نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہو.لاکھوں کی جماعت ہے جن میں سے اس اجتماع پر صرف ۵۵۵ دوست باہر سے آئے ہیں اور ان میں سے اکثر ایسے ہوں گے جو جلسہ پر بھی آجائیں گے اس لئے اگر نومبر کے پہلے ہفتہ میں اجتماع رکھ لیا جائے تو اس کا جلسہ سالانہ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا.خدا تعالیٰ انہیں توفیق دے گا تو وہ دوبارہ بھی آجائیں گے.جو لوگ دور سے آئے ہیں وہ کوئی چالیس پچاس ہوں گے اور ان میں سے دس بارہ ایسے افراد ہوں گے جو دوبارہ جلسہ سالانہ پر نہ آ سکتے ہوں اس لئے ساری جماعت کے فائدہ کو قربان نہیں کیا جاسکتا.کل شوری میں اس کے متعلق فیصلہ کر لیا جائے آئندہ یہ اجتماع محرم کے دنوں میں نہیں ہو سکے گا کیونکہ محرم آئندہ اٹھارہ سال گرمی کے موسم میں آئے گا اور گرمی برداشت نہیں ہو سکے گی.مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سال اجتماع میں نمائندگان کی حاضری بہت کمزور ہے.گزشتہ سالوں میں رپورٹ میں مقابلہ کیا جاتا تھا کہ پچھلے سال اتنے خدام حاضر ہوئے تھے اور اب اتنے خدام آئے ہیں لیکن اس سال یہ حوالہ نہیں دیا گیا اور جب حوالہ

Page 412

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۶ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں نہ دیا گیا تو مجھے شک پڑا اس لئے میں نے کہا پچھلے حوالے لاؤ.جب وہ حوالے لائے گئے تو معلوم ہوا کہ پچھلے سال بیرون جات سے ۵۹۰ خدام آئے تھے اور اس سال ۵۵۵ خدام آئے ہیں.پچھلے سال بیرونی جماعتوں کی نمائندگی ۳ے تھی لیکن اس سال صرف ۵۴ مجالس کے نمائندے آئے ہیں.گویا اس سال پہ کی کمی آ گئی بلکہ تم سے کچھ زیادہ کی کمی ہے.یہ حالت تسلی بخش نہیں.ہونا یہ چاہئے تھا کہ چند نمائندے زیادہ آتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر واقعہ میں اپنے فرائض کو ادا کیا جاتا اور خدام اپنے وعدے پورے کرتے تو اس سال سینکڑوں نئی جگہوں میں جماعتیں قائم ہو جاتیں.اور اگر ان نئی جماعتوں میں سے دس فی صدی جماعتوں کے نمائندے بھی یہاں آتے تو پچھلے سال مجالس کی نمائندگی جو تھی اب ۱۰۰ ہو جاتی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدام نے صحیح طور پر اپنے فرائض کو ادا نہیں کیا.ایک اور چیز جس کا رپورٹ میں ذکر نہیں کیا گیا وہ یہ ہے کہ رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ اس سال کتنی نئی مجالس قائم ہوئی ہیں اور ان نئی مجالس میں سے کتنی مجالس کے نمائندے یہاں آئے ہیں.پچھلے سال میں نے کہا تھا کہ ہر گاؤں اور ہر شہر میں مجالس قائم کرو اس لئے چاہئے تھا کہ مجلس عاملہ مجھے بتاتی کہ پچھلے سال گل تعداد مجالس کیا تھی اور اب کیا ہے.مجھے ابھی بتایا گیا ہے کہ اس سال ۲۹ نئی مجالس قائم ہوئی ہیں.اگر یہ بات درست ہے تو پچھلے سال ۲۹ مجالس کم تھیں لیکن ۷۳ مجالس کے نمائندے اجتماع پر آئے تھے اب ۲۹ مجالس زیادہ بھی ہوگئی ہیں لیکن صرف ۵۴ مجالس کے نمائندے یہاں آئے ہیں.اگر ان مجالس میں سے پانچ سات مجالس بھی ایسی ہیں جو اس سال نئی قائم ہوئی ہیں تو اس کے معنے یہ ہیں کہ پرانی مجالس میں سے ۴۵ یا ۴۶ مجالس کے نمائندے آئے.اس طرح حاضری میں کوئی ۴۰ فیصد کی کمی آگئی اور یہ بات نہایت افسوسناک ہے.اس طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ کام مجلس عاملہ کا ہے اُسے اس طرف خاص طور پر توجہ کرنی چاہئے.اس سال سوائے لڑائی اور شکایتوں کے مجلس عاملہ نے کوئی کام نہیں کیا.آپس کے جھگڑوں پر اس نے وقت ضائع کیا ہے اصل کام کی طرف توجہ نہیں کی.لیکن جہاں یہ بات

Page 413

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۷ خدام ہر جگہ مجالس قائم کریں اور چندہ کو منظم کریں افسوسناک ہے کہ مجلس عاملہ نے کوئی کام نہیں کیا وہاں مجھے یہ دیکھ کر خوشی بھی ہوئی ہے کہ ہماری تنظیم میں ترقی ہوئی ہے.ایک تو ۲۹ نئی مجالس قائم ہوئی ہیں.اگر چہ یہ تعداد تسلی بخش نہیں لیکن یہ ضرور ہے کہ ہمارا قدم پیچھے نہیں ہٹا بلکہ کچھ آگے ہی بڑھا ہے مگر یہ کہ جتنا قدم آگے بڑھنا چاہئے تھا اتنا نہیں بڑھا.دوسری خوشی کی بات یہ ہے کہ ہما را چندہ منتظم ہو رہا ہے.پچھلے سال کے چار ہزار روپیہ چندہ کے مقابلہ میں اس سال کا چندہ آٹھ ہزار روپیہ سے کچھ زائد ہے اور یہ چیز بتاتی ہے کہ مجالس اپنے فرائض کو سمجھ رہی ہیں.اگر ہر جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور چندہ منظم ہو جائے تو چالیس پچاس ہزار روپیہ چندہ اکٹھا ہونا کوئی مشکل امر نہیں.ابھی ہم نے مرکز بنانا ہے.لجنہ اماء اللہ اپنا مرکز بنا چکی ہے.لنگر کے سامنے شمال کی طرف یہ عمارت بنی ہے خدام اسے دیکھ لیں.پچھلے سال کسی نے کہا تھا کہ عورتیں آخر ہم سے ہی چندہ لیتی ہیں اور میں نے کہا تھا کہ عورتیں پھر بھی تم سے زیادہ ہمت والی ہیں کہ تمہاری جیب سے لے کر چندہ دے دیتی ہیں لیکن تم خود چندہ نہیں دے سکتے.دیکھواُنہوں نے کارکنات کے لئے الگ مکانات بھی بنالئے ہیں.میں جب وہاں سے گزرتا ہوں تو سمجھتا ہوں کہ ان مکانات میں رہنے سے اُنہیں زیادہ آرام مل سکتا ہے لیکن تم نے یہ کام ابھی کرنا ہے.میں نے خدام کو ۱۲ کنال زمین اس لئے دی ہے کہ وہ اس میں اپنا مرکزی دفتر تعمیر کریں.پس اپنے چندہ کو بڑھاؤ اور ہر جگہ خدام الاحمدیہ کی مجالس قائم کرو.اگر سب جگہ مجالس قائم ہو جائیں اور ہما را چندہ منتظم ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں یہ کام کچھ مشکل نہیں.پندرہ ہیں ہزار روپیہ قرض بھی لیا جا سکتا ہے جو اگلے سال آسانی سے اُتر سکتا ہے.“ الفضل ربوہ ۱۷ اکتوبر ۱۹۶۲ء)

Page 414

Page 415

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۸۹ رسول کریم ﷺ کا بلند کر دار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 416

Page 417

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۱ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند کر دار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے معلوم ہوتی ہیں ( خطاب فرموده ۱۸ رنومبرا ۱۹۵ ء بر موقع جلسه سیرۃ النبی بمقام بیت مبارک ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں آج محض اس غرض کے لئے جلسہ میں آ گیا ہوں کہ مجھے عرصہ سے سیرت النبی کے جلسوں میں بولنے کا موقع نہیں ملا، ورنہ میری صحت اس امر کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ میں جلسہ میں آؤں اور تقریر کروں.میرا گلہ بیٹھا ہو اہے اور کھانسی کی شکایت ہے.کل بخار بھی رہا ہے اور اس سے پہلے بھی بخار آتا رہا ہے اس لئے میرے لئے کھڑا ہونا مشکل ہے.پس میری یہاں آنے کی اصل غرض یہ نہیں کہ میں کوئی تقریر کروں.تقریریں لوگ کرتے ہی ہیں بلکہ میری یہاں آنے کی غرض حصولِ برکت تھی جو اس قسم کے جلسوں میں شمولیت کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے.میں جب یہاں پہنچا تو اس بات کو دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا کہ اکثر لوگوں نے اس بارہ میں بے تو جہی سے کام لیا ہے.جو لوگ جلسہ میں حاضر ہیں وہ ربوہ کی آبادی کے تیسرے حصہ سے بھی کم ہیں.جس کے یہ معنے ہیں کہ ہم باہر تو تحریک کرتے ہیں کہ احمدی اور غیر احمدی تو کیا، غیر مسلم بھی اس قسم کے جلسوں میں زیادہ سے زیادہ تعداد میں شریک ہوں لیکن خود ہماری دلچسپی کا یہ حال ہے کہ رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات سننے کے لئے سال میں ہم ایک دن بھی نہیں نکال سکتے.اس سال جلسہ کی حاضری دیکھ کر میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ گزشتہ سالوں میں بھی ویسی

Page 418

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۲ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..ہی بے توجہی برتی گئی ہو گی اور کارکنوں نے اس پر کوئی نوٹس نہیں لیا ہوگا اور جماعت کے افراد کو ان کے فرائض کی طرف توجہ نہیں دلائی ہوگی.جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ آہستہ آہستہ اپنے مقام سے گرتے چلے گئے اور آخر وہ دن آ گیا جب اکثریت اپنے فرائض سے غافل ہو گئی اور صرف اقلیت فرائض کو پہچاننے والی رہ گئی.پس بہر حال یہاں آنے کے نتیجہ میں مجھے ایک برکت تو حاصل ہو گئی.مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ کا رکن اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا نہیں کر رہے اور اس کے نتیجہ میں جماعت کی توجہ اس اہم کام کی طرف کم ہوگئی ہے..دنیا میں ہر چیز خواہ وہ بیماری ہو یا تندرستی، وہ دوسروں پر اثر ڈالتی ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ مجلس میں اگر ایک شخص کھانستا ہے تو اس کے ساتھ دس افراد اور کھانسنے لگ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس سے پہلے کھانس نہیں رہے تھے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس شخص کی کھانسنے کی آواز کان میں پڑتے ہی ساتھ والے افراد کے اعصاب بھی اسی قسم کی حرکت کرنے لگتے ہیں جس قسم کی حرکات کے نتیجہ میں کھانسی پیدا ہوتی ہے.مجلس میں ایک شخص ا باسی لیتا ہے تو جھٹ دس پندرہ اور افراد بھی اُبا سی لینے لگ جاتے ہیں کیونکہ وہ اُسے ا باسی لیتے ہوئے وہی حالات اور کیفیات محسوس کرنے لگ جاتے ہیں جن حالات اور کیفیات کے نتیجہ میں اُباسی پیدا ہوتی ہے.ایک آدمی دوڑتا ہو ا نظر آتا ہے تو دوسرے کئی لوگ بھی دوڑ نے لگ جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ کوئی حادثہ ہو گیا ہے یا کوئی تماشہ ہے جس کی طرف لوگ بھاگے جا رہے ہیں.اسی طرح دوسرے کاموں میں بھی خواہ وہ دینی ہوں یا دُنیوی لوگ ایک دوسرے کی نقل کرتے ہیں.اسی طرح یہاں بھی ہوا ہے جب دس پندرہ افراد نے شستی کی اور کارکنوں نے اس طرف توجہ نہیں کی تو دوسری دفعہ پچاس، ساٹھ افراد نے سستی سے کام لیا اور جب ان پر بھی کارکنوں نے کوئی ایکشن نہ لیا تو تیسری دفعہ سو ، دو سو افراد نے سستی سے کام لیا اور جب پھر بھی کارکنوں نے اس طرف توجہ نہ کی تو چار پانچ سو افراد نے سستی کی اور جب کا رکنوں کو اتنی کمی نظر آئی تو انہوں نے سمجھ لیا کہ رستہ ہاتھ سے نکل چکا ہے اب اس کی اصلاح کرنے کی کوئی ضرورت نہیں.

Page 419

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۳ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..اگر جماعت کو انہی حالات میں سے گزرنے دیا گیا تو دس پندرہ سال کے بعد یہ حالت ہو جائے گی کہ دس بارہ سیکرٹری جمع ہو جایا کریں گے اور شاید اخبار میں یہ شائع کر دیا جایا کرے گا کہ نہایت شاندار جلسہ ہوا، دھواں دھار تقریریں ہوئیں، زور دار لیکچر دیئے گئے.اس طرح یہ چیز الفضل کا ریزولیوشن بن کر رہ جائے گی ، اس میں حقیقت نہیں ہو گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا نظارہ نہیں ہوگا بلکہ تمسخر ہو گا.اب میں ہدایت دیتا ہوں کہ جلسہ میں آنے والوں کی لسٹیں تیار کرو تا کہ نہ آنے والوں کی نگرانی کی جاسکے.پھر ان سے پوچھو کہ وہ جلسہ میں کیوں نہیں آئے ؟ حقیقت یہ ہے کہ ان جلسوں کو چھٹی لینے کا ذریعہ بنا لیا جاتا ہے.یوم التبلیغ کو لے لو.اُس دن سب اداروں میں چھٹی ہوتی ہے لیکن کا رکن تبلیغ کے لئے باہر نہیں جاتے اور جب کارکن تبلیغ کے لئے باہر نہیں جاتے تو انہیں دیکھ کر دوسرے لوگ بھی سستی کرتے ہیں لیکن مجھے نظارت کی طرف سے چٹھی آ جاتی ہے کہ ایک دن کی چھٹی منظور کی جائے ، ہم نے تبلیغ کے لئے جانا ہے لیکن چھٹی ہو جانے کے باوجود نہ ناظر باہر جاتے ہیں نہ وکلاء باہر جاتے ہیں اور نہ دوسرے کا رکن باہر جاتے ہیں.میں اس چیز کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ آخر یہ غفلت کب دُور ہو گی؟ لیکن رپورٹیں آ جاتی ہیں کہ سب لوگ تبلیغ کے لئے باہر گئے ہوئے تھے حالانکہ باہر جانیوالے صرف اُستاد، طالب علم اور کچھ مخلصین ہوتے ہیں.کارکنوں میں سے ایک چوتھائی حصہ بھی باہر نہیں جاتا.تمام ناظر اور وکلاء گھروں میں جا بیٹھتے ہیں اور اُس دن چھٹی مناتے ہیں حالانکہ چھٹی دی ہی اس لئے جاتی ہے کہ لوگ باہر جائیں اور تبلیغ کریں.اس نقص کو دیکھ کر میں نے قادیان میں یہ حکم دیا تھا کہ جو تبلیغ کے لئے باہر جائیں صرف انہیں چھٹی دی جائے ، باقی کارکن دفاتر میں کام کریں لیکن اس حکم کے با وجود اس دن کو چھٹی کا دن بنا لیا جاتا ہے.گویا یوم التبلیغ کیا ہے قادیان کا قدموں کا میلہ ہے یا لا ہور کا چراغاں کا میلہ ہے اور یا لائکپور کی طرح کی جانوروں کی منڈیاں ہیں.صحیح روح پیدا نہیں کی گئی.پس میں سمجھتا ہوں کہ میرے یہاں آنے کے نتیجہ میں ایک فائدہ یہ بھی ہوا ہے کہ

Page 420

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۴ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ کارکن اپنے فرائض کی طرف توجہ نہیں دے رہے.باوجود اس کے کہ مجھے جلسہ میں آنے کی طاقت نہیں تھی ، میری طبیعت خراب تھی لیکن کل خدا تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈال دیا کہ میں جلسہ میں ضرور جاؤں.میں ایک دو سال سے سُن رہا تھا تو کہ لوگ اس طرف پوری توجہ نہیں دیتے اور ان میں وہ جوش اور ولولہ نہیں ہوتا جو عاشق کو اپنے معشوق کی ملاقات کے وقت ہوتا ہے سو آج یہاں آنے سے اس کی تصدیق ہوگئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کوئی ایسی چیز نہیں ہیں کہ جنہیں کوئی انسان ایک بیٹھک میں یا ایک تصنیف میں بیان کر سکے.آپ کے اعمال، آپ کے اقوال اور آپ کے جذبات اتنے متنوع تھے اور اتنی اقسام پر مشتمل تھے کہ انہیں ایک وقت میں یا ایک بیٹھک میں محسوب کر لینا، گن لینا اور شمار کر لینا انسانی طاقت سے بالا ہے.در حقیقت جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفات الہیہ کو بیان کیا ہے اور ایسے رنگ میں بیان کیا ہے کہ اور کوئی شخص اس طرح صفات الہیہ کو بیان نہیں کر سکا اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کو جس طرح قرآن کریم نے بیان کیا ہے یا خدا تعالیٰ نے ان کا احاطہ کیا ہے اُس طرح اور کوئی انسان ان کو بیان نہیں کر سکتا اور نہ ان کا احاطہ کر سکتا ہے.احادیث کی کتب میں حضرت عائشہؓ سے ایک قول مروی ہے کہ آپ نے فرمایا گان خُلُقَهُ كُلُّهُ فِي القُرآن اس کے ایک معنے تو یہ ہیں جو ہمیشہ کئے جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام صفات اور تمام خوبیاں قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں.یعنی قرآن کریم میں جن اخلاق کو سکھایا گیا ہے اُن سب پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا ہے.لیکن اس کے ایک دوسرے معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ اگر تم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور خوبیوں کو جمع کرنا چاہو اور اُن کا احاطہ کرنا چاہو تو وہ سب کی سب قرآن کریم میں مل سکتی ہیں.وہ سب کی سب کسی انسانی تصنیف میں نہیں مل سکتیں.انسان اگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام ، اعمال اور خوبیوں کو گنے گا تو ان میں بہت سی کوتا ہی رہ جائے گی اور جب تم اس کتاب کو دیکھو گے تو کہو گے او ہو! وہ فلاں خوبی بیان

Page 421

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۵ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..کرنا تو بھول گیا لیکن قرآن کریم لکھنے والا بھولتا نہیں.اس لئے جب تم قرآن کریم میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں آپ کے اعمال و اقوال اور اخلاق دیکھو گے تو تم یہ نہیں کہو گے کہ اوہو! فلاں چیز رہ گئی ہے بلکہ تم یہ کہو گے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں یہ خوبی بھی تھی لیکن میں نے اس کا خیال نہیں کیا تھا.پس اگر کسی انسان نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیوں ، اخلاق اور اعمال و اقوال کا احاطہ کرنا ہو تو اس کا ذریعہ یہ ہے که قرآن کریم کو دیکھا جائے اور معلوم کیا جائے کہ آپ کے کیا اعمال ہیں اور آپ کے کیا اقوال ہیں.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ، سیرت اور سوانح پر مشتمل نہیں لیکن اس میں یہ خوبی ہے کہ جب وہ کوئی مضمون لیتا ہے تو اس کے تمام متعلقہ مضامین کو اُس کے نیچے تہہ بہ تہہ جمع کر دیتا ہے.بالکل اُسی طرح جس طرح زمین کے طبقات ہوتے ہیں.اوپر کے طبقہ میں اور قسم کی مٹی ہوتی ہے ، دوسرے طبقہ میں اور قسم کی مٹی ہوتی ہے، تیسرے طبقہ میں اور قسم کی مٹی ہوتی ہے.اور جب ہم کسی زمین کو دیکھتے ہیں تو اندازہ لگاتے ہیں کہ یہ زمین اچھی پیداوار دینے والی ہے یا بُری پیداوار کی دینے والی ہے.یہ کنکریلی زمین ہے یا اس میں عمدہ لیسدار مٹی پائی جاتی ہے اور اس سے ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ اس میں فصل اچھی ہوگی یا خراب ہو گی.مکان اچھے تعمیر ہوں گے یا خراب تعمیر ہوں گے ، بنیا دیں گہری کھودنی پڑیں گی یا تھوڑی ، عمارت کئی منزلوں کی بن سکے گی یا وہ زمین زیادہ بوجھ برداشت نہیں کر سکے گی لیکن ایک ماہرفن اس زمین کو کھو دے گا تو کہدے گا کہ اتنے گز زمین کھود نے کے بعد پتہ لگتا ہے کہ اتنے ہزار سال پہلے اس جگہ میں پانی ہوتا تھا اور وہ اپنے اندر فلاں قسم کے جانور اور حیوانات رکھتا تھا.پھر وہ چند گز اور مٹی کھو دے گا اور اس زمین سے جس کو سرسری طور پر دیکھ کر ہم نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ اس میں فصل زیادہ ہوگی یا کم ، عمارت کئی منزلوں والی بن سکے گی یا نہیں ، وہ ماہر فن یہ نتیجہ نکالے گا کہ فلاں فلاں وقت میں اس زمین میں یہ یہ تبدیلیاں اندرونی آگ یا گرمی کی وجہ سے پیدا ہوئیں یا دھاتوں نے پکھل پکھل کر اس کے اندر یہ یہ تغیرات پیدا کر دئیے.

Page 422

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۶ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..اسی طرح وہ نیچے چلتا جائے گا اور تاریخ کے مختلف زمانے بیان کرتا جائے گا.وہ محض اس زمین کو دیکھ کر دو دو تین تین ہزار سال تک کے واقعات بیان کرے گا اور یہ سب چیزیں زمین کے اندر مخفی ہوں گی.یہی حال قرآن کریم کا ہے.اس کے مطالب بھی الفاظ کی تہوں کے نیچے چھپے ہوتے ہیں.اگر زمین کی سب چیزوں کو باہر نکال کر پھیلا دیا جائے تو انسان کا زمین پر چلنا پھرنا مشکل ہو جائے گا لیکن چونکہ وہ سب چیزیں زمین کے اندر تہہ بہ تہہ رکھی ہوئی ہیں اس لئے ہم اس کے اوپر چلتے پھرتے ہیں لیکن جب اسے کھودتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مثلاً اس کے اندر چونے کی چٹانیں ہیں.اگر وہ چھونے کی چٹانیں باہر نکال کر سطح پر پھیلا دی جائیں تو کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ یہاں ربوہ آباد ہوسکتا تھا ؟ یہ ای جگہ بجائے آدمیوں کے چٹانوں سے بھری ہوئی ہوتی.اس طرح وہ سب مطالب جو قرآنی الفاظ کی تہوں میں چھپے ہوئے ہیں باہر نکال لئے جاتے اور ظاہری الفاظ میں انہیں بیان کیا جاتا تو جیسے اس زمین کی اندر کی چیزیں اگر باہر آ جائیں تو ربوہ آباد نہیں ہو سکتا تھا وہ چیزیں پھیل کر سینکڑوں میل کا علاقہ رُک جاتا اسی طرح قرآن کریم کو بھی انسان نہیں کی پڑھ سکتا تھا.وہ اتنی بڑی کتاب ہو جاتی کہ کتاب نہ رہتی ایک عظیم الشان لائبریری ہو جاتی اور اس میں ہزاروں کتب رکھی ہوئی ہوتیں.ایک نسلِ انسانی کہہ دیتی کہ ہم نے اس کے پانچ سو صفحات پڑھے ہیں، دوسری کہتی کہ ہم نے اس کے ایک ہزار صفحات پڑھے ہیں.اب قرآن کریم ایک چھوٹی سی کتاب ہے لیکن زمین کی طرح اس کی ایک تہہ کے نیچے ایک مضمون ہے دوسری تہہ کے نیچے دوسرا مضمون ہے تیسری تہہ کے نیچے تیسرا مضمون ہے اور اس طرح تھوڑے سے الفاظ میں ہزاروں مضامین بیان کر دیئے گئے ہیں.حفظ کرنے والے اسے آسانی سے حفظ کر سکتے ہیں اور پڑھنے والے اسے جلدی پڑھ لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور سوانح بھی قرآن کریم میں تہہ بہ تہہ بیان کئے گئے ہیں.ظاہر الفاظ میں مضمون اور ہوتا ہے لیکن ان کے نیچے اور مضامین بھی ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو پہلا مقام جہاں آپ پر کلام الہی نازل ہو ا وہ غار حرا تھی.دُنیا کے لیڈر جب کوئی اُمنگ رکھتے ہیں یا اپنے اندر کوئی خوبی

Page 423

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۷ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..دیکھتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو باہر لاتے ہیں اور اپنی خوبیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں.اس طرح لوگوں کی توجہ اُن کی طرف پھرتی ہے اور وہ اپنے ارد گرد ایک جماعت اکٹھی کر لیتے ہیں لیکن اس کے برخلاف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دُنیا سے الگ ہو گئے تھے.آپ غار حرا میں چلے جاتے تھے اور کئی کئی دن تک آپ وہاں عبادت کرتے تھے.غار ثور تک تو میں جانہیں سکا میرے دل کو اُن دنوں تکلیف تھی اور غار ثور پہاڑ پر ایک سنگی جگہ واقع ہے اور اس کے نیچے کھڑ آتی ہے.عین اُس جگہ پہنچ کر کہ جہاں سے غار ثور قریباً سو گز رہ گئی تھی میں بیٹھ گیا اور اپنے ایک ساتھی کو وہاں بھیجا کہ وہ غار دیکھ آئے.غار حرا میں میں خود گیا ہوں اور قریباً ایک گھنٹہ تک میں نے وہاں نماز پڑھی ہے اور دُعائیں کی ہیں.غارِ حرا استعارہ کے طور پر غار کہلاتی ہے لیکن دراصل وہ غار نہیں بلکہ حرا پہاڑی پر چڑھ جائیں تو جو رستہ معروف ہے واللہ اَعْلَمُ کہ یہی رستہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھا بہر حال جو اس وقت معروف رستہ ہے اس کے ذریعہ اگر پہاڑی کی چوٹی تک چلے جائیں تو اس کی چوٹی تک کوئی غار نہیں آتی.غار حرا میں جانے کے لئے چوٹی سے نیچے اُترنا پڑتا ہے اور چند گز نیچے جا کر ایک جگہ آتی ہے جسے غارِ حرا کہتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ کسی زمانہ میں یہاں زلزلہ آیا جس کے نتیجہ میں چوٹی سے ایک پتھر گرا جو نیچے جا کر ایک پتھر پر ٹک گیا اور ایک پہلو پر ایک اور پتھر آٹکا اس طرح وہ جگہ ایک کمرہ کی صورت اختیار کر گئی ہے.یہ ایک چھوٹی سی جگہ ہے جس کا رقبہ سات آٹھ فٹ ہوگا کیونکہ میں نے جب وہاں نماز پڑھی ہے تو وہاں کوئی ایسی زائد جگہ نظر نہیں آتی تھی کہ دو تین آدمی وہاں بیٹھ جائیں لیکن یہ جگہ اُونچی ہے اور انسان کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتا ہے.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیر کے دوران میں اس جگہ کو دیکھا اور اسے عبادت کے لئے چن لیا.غار اُسے کہتے ہیں جو زمین کے اندر گھسی ہوئی ہولیکن غار حر از مین کے اندر گھسی ہوئی نہیں بلکہ وہ تین چار پتھر ہیں جو ایک دوسرے کے سہارے کھڑے ہیں اور اس طرح ایک کمرہ بن گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے اور وہاں عبادت کیا

Page 424

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۸ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..کرتے تھے وہ علیحدگی معمولی علیحدگی نہیں تھی.حرامکہ سے چار پانچ میل کے فاصلہ پر ایک ویران جگہ میں واقع ہے اس کے قریب کوئی آبادی نہیں.اتنی دُور جا کر بیٹھنا بڑی ہمت کا کام ہے اور یہ کام انسان اُسی وقت کر سکتا ہے جب وہ دُنیا سے بیزار ہو جائے اور اس سے بالکل علیحدگی اختیار کرلے.آپ نے اس جگہ عبادت کی اور اس سے آپ کا یہ مطلب تھا کہ میں نے دُنیا بالکل چھوڑ دی ہے جیسے ہندوؤں کے سادھو پہاڑوں پر چلے جاتے ہیں اور اس طرح لوگوں سے علیحدگی اختیار کر لیتے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ اُس وقت آپ کو یہ خیال آیا کہ یہ دُنیا ر ہنے کے قابل نہیں اصل ذات اللہ تعالیٰ کی ہے جس سے دل لگانا چاہئے.اس وجہ سے مکہ سے دُور جا کر عبادت میں مشغول رہتے تھے.حضرت عائشہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے.اُس زمانہ کے لحاظ سے یہ سامان سنٹو، کھجور میں اور چھا گل پانی کی قسم کا ہو ا کرتا تھا اور عرب میں اتنی غذا کو کافی سمجھا جاتا تھا.شور بہ چاول تو دو چار دن تک کام نہیں دے سکتے.زیادہ دیر تک یہی خشک چیزیں کام دیتی ہیں.حضرت عائشہ بیان فرماتی ہیں کہ آپ کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے اور کئی کئی دن تک غار حرا میں عبادت کرتے.جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو جاتا تو گھر واپس آتے اور مزید سامان لے کر واپس غارِ حرا چلے جاتے ہے اس عرصہ میں آپ پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوا.ایک فرشتہ آیا اور اُس نے کہا اقرا باسم رَتِكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الإنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ اقْرَا وَ رَبُّكَ الأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالقَلَمِن عَلمَ الإنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْن سے یہ پہلا کلام ہے جو آپ پر نازل ہوا اور غار حرا میں نازل ہوا.اس کا ایک پہلو تو تعلیمی ہے اس کو میں اس وقت نظر انداز کرتا ہوں.میں یہ کہتا ہوں کہ جب کسی سے کلام کیا جاتا ہے تو پہلا مخاطب وہی ہوتا ہے اور کلام میں اس کا لحاظ کیا جاتا ہے.قرآن کریم کے پہلے مخاطب عرب لوگ تھے اس لئے اس میں جو واقعات بیان کئے گئے ہیں وہ وہی ہیں جنہیں عرب لوگ جانتے تھے.قرآن کریم میں حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے ، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے،حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے یا عرب کے بعض نبیوں اور قوموں

Page 425

انوار العلوم جلد ۲۲ ۳۹۹ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..کا ذکر ہے.جیسے نمود اور عاد کا ذکر ہے جو عرب میں یا عرب کے کناروں میں گزری ہیں اور عرب لوگ ان سے واقف تھے لیکن قرآن کریم میں حضرت کرشن اور حضرت رام چندر علیہما السلام کا ذکر نہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ان کو قرآن کریم خدا تعالیٰ کا نبی نہیں مانتا.قرآن کریم نے انا ارسلنكَ بالحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا، وَإِن مِّنْ أُمَّةِ الَّا خَلَا فِيهَا نذیر سے کہہ کر ان کی نبوت کو تسلیم کیا ہے.اس کا ایک طرف یہ کہنا کہ ہر قوم میں نبی گزرا ہے اور دوسری طرف ان سب کا ذکر نہ کرنا بلکہ صرف اُن کا ذکر کرنا جو عرب کے علاقہ میں گزرے ہیں یا اُس کے ارد گرد گزرے ہیں یہ بتاتا ہے کہ قرآن کریم میں صرف اُن انبیاء اور قوموں کا ذکر ہے جو عرب کے ساتھ ساتھ تھیں اور عرب لوگ اُنہیں جانتے تھے کیونکہ جوشخص پیغام کو صیح طور پر سمجھ نہ سکے وہ صحیح طور پر پیغام نہیں پہنچا سکتا.صحیح پیغام پہنچانے کے لئے ضروری تھا کہ جن کو وہ پیغام دیا گیا ہے وہ اُسے سمجھ سکتے اس لئے قرآن کریم میں صرف اُن انبیاء اور قوموں کا ذکر آتا ہے جن کو عرب لوگ جانتے تھے تا وہ ان واقعات سے نتیجہ اخذ کر سکیں اور اس کے بعد غیر معروف نبیوں کا صرف اصولی طور پر ذکر کر دیا گیا ہے.پس جب بھی کسی سے کلام کیا جاتا ہے تو کلام میں مخاطب کا لحاظ رکھا جاتا ہے.اب اقرا باسمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ایک فقرہ ہے جس میں بظاہر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پڑھ اپنے رب کا نام لے کر جس نے تجھے پیدا کیا ہے اور رب کے معنے ہیں وہ ذات جس نے انسان کو پیدا کیا اور پھر ایسے ذرائع مہیا کئے جن پر عمل کر کے وہ دُنیا میں ترقی کر سکتا ہے اور پھر بڑھاتے بڑھاتے انسان کو کمال تک پہنچا دیا.پس جہاں تک انسان کی پیدائش کا سوال ہے وہ لفظ رب میں آجاتا تھا اور یہ کہنا کافی تھا کہ اقرا با شو رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ پڑھ اُسی رب کا نام لے کر جس نے دُنیا کو پیدا کیا ہے لیکن اس جگہ اپنے رب کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور ان الفاظ سے بنی نوع انسان کی پیدائش اور ان کی ربوبیت کے مضمون سے ترقی کر کے خود اس فرد مخاطب کی پیدائش اور ربوبیت کی طرف توجہ پھیری گئی ہے جو قرآن کریم کا سب سے پہلا مخاطب ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.

Page 426

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۰ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..اس آیت سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فطرت کا پتہ لگتا ہے.بہت سے انسان سوچ سمجھ کر کام نہیں کرتے بلکہ عادتا یا رسم ورواج کی نقل میں کام کرتے ہیں.کسی کو اگر فرشتہ نظر آ جاتا ہے تو یہ ایک شاندار حادثہ ہے اس کے لئے اس شخص کو کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی.جب انسان کوئی ایسی چیز دیکھتا ہے جو عام حالات میں سامنے نہیں آتی تو دوسرا بے شک یہ کہ سکتا ہے کہ یہ وہم ہے.لیکن جس شخص پر یہ بات گزرتی ہے وہ اسے وہم نہیں سمجھتا وہ اسے حقیقت سمجھتا ہے.مثلاً ایک شخص خواب میں سانپ دیکھتا ہے وہ روتا ہے، چیختا ہے اور دوڑتا ہے.اب دوسروں کے لئے تو یہ ایک خواب ہے لیکن جس نے یہ نظارہ دیکھا ہے اُس پر وہ تمام کیفیات طاری ہو جاتی ہیں جو فی الواقعہ سانپ دیکھنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.اسی طرح فرض کرو کہ ایک شخص فرشتہ دیکھتا ہے لیکن دراصل وہ فرشتہ نہیں ہوتا بلکہ محض وہم ہوتا ہے تو بھی دیکھنے والے کے لئے وہ نظارہ نہایت ڈراؤنا اور ہیبت ناک ہوتا ہے.وہ ڈرتا ہے اور اُس کا دل مرعوب ہو جاتا ہے.اگر تمہیں محض ایک فرشتہ نظر آتا اور وہ کہتا اُٹھو اور فلاں کام کرو تو تم فوراً وہ کام کرنے لگ جاتے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرشتہ نظر آتا ہے جنگل میں جہاں آپ اکیلے تھے.ایک ہیبت ناک چیز کا سامنے آجانا جو پہاڑوں کی پرواہ بھی نہیں کرتی اور انہیں طے کر کے آجاتی ہے کوئی کم ہیبت ناک نظارہ نہیں تھا مگر جب وہ فرشتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتا ہے اور کہتا ہے اِقرا تو عالم الغیب خدا جانتا تھا کہ محمد رسول اللہ صرف فرشتہ کے کہنے کی وجہ سے پڑھنے نہیں لگ جائیں گے وہ دلیل چاہیں گے.اس لئے اُس نے اس پیغام میں جو آپ کو دیا گیا ساتھ دلیل بھی رکھ دی اور اقرا ہی نہیں کہا بلکہ اقرا باسم ربك الذي خلق سے آپ کو مخاطب کیا گیا تا آپ کہہ سکیں کہ آپ کو کیوں پڑھنا چاہئے اور آپ کے پڑھنے میں کوئی فائدہ بھی ہوگا یا نہیں.اگر خالی اقرا کہا جاتا تو آپ خیال کر سکتے تھے کہ میں اپنی قوم کو اور اپنے شہر کو چھوڑ کر یہاں آ گیا ہوں.میری قوم کو جوڑ تتبہ حاصل تھا میں نے اُس کی بھی پرواہ نہیں کی اس لئے کہ وہ جو کچھ کرتی تھی پلا دلیل کرتی تھی اب میں اس کی بات کیوں مانوں.پس آپ کے اخلاق کا پہلا حصہ

Page 427

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۱ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..اس آیت میں نظر آ جاتا ہے اس لئے کہ جب فرشتہ نے کہا اقرا تو پڑھ تو اس نے اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ ساتھ ہی یہ بھی کہا باسم ربك الذي خلق تو اپنے رب کا نام لے کر پڑھ جس نے تجھے پیدا کیا ہے.یعنی جو خدا تیرا خالق و مالک ہے وہ اپنے خالق و مالک ہونے کی وجہ سے تجھے حکم دیتا ہے بلا وجہ حکم نہیں دیتا.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فطرت صحیحہ کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ کوئی کام بلا وجہ اور بلا دلیل نہیں کرتے تھے.جب کوئی انسان اس حکمت کے ماتحت کام کرنے لگ جائے تو خواہ اسے الہام کی روشنی نصیب نہ ہو ، وہ شاندار کام کر جاتا ہے.چنانچہ بعض جرنیلوں نے با وجود اسباب کی کمی کے نہایت شاندار کام کیا ہے اس لئے کہ وہ فطرت کے مطابق چلتے تھے.خالد، سعد بن وقاص، عمر و بن عاص نے صحابہ میں سے اور موسیٰ ، طارق ، محمد بن قاسم نے قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں میں سے اور چنگیز خان، قبلائی خاں اور با تو خاں اور تیمور نے ایشیائی مسلمانوں اور غیر مسلموں میں سے حیرت انگیز کام کئے ہیں.چند دن ہوئے میں ”با تو خان کے متعلق کچھ باتیں معلوم کرنے کے لئے انسائیکلو پیڈیا دیکھ رہا تھا تو میں نے اُس میں پڑھا کہ اُس کے زمانہ میں لاریاں نہیں تھیں ، گاڑیاں نہیں تھیں اور نہ دوسرے موجودہ زمانہ کے نقل و حرکت کے سامان میسر تھے.باجود اس کے وہ ایک لشکر جرار کے ساتھ آیا.یورپ کی تمام قو میں اور حکومتیں اس کے مقابلہ کے لئے اکٹھی ہو گئیں.وہ چکر کھا کر پولینڈ کی طرف چلا گیا ، یورپین قو میں خوشیاں منانے لگیں کہ ہم با تو خاں سے بچ گئی ہیں لیکن ابھی وہ لوگ خوشی کا جشن ہی منا رہے تھے کہ وہ بجلی کی کی رفتار سے پولینڈ کو فتح کرتے ہوئے ہنگری کے اُن میدانوں میں اُتر آیا جہاں یورپ کی فوجیں جمع تھیں.غرض باوجود سامان نقل و حرکت کے نہ ہونے کے یہ لوگ اس طرح سفر کرتے تھے جس طرح آندھیاں چلتی ہیں اور یہ محض ہوشیاری اور ذہانت کی وجہ سے تھا.وہ لوگ بے سوچے سمجھے کام نہیں کرتے تھے بلکہ عقل سے کام لیتے تھے.اسی طرح کی تیمور تھا، نپولین تھا ، یا اس زمانہ میں ہٹلر تھا.چاہے وہ نا کام ہو گیا لیکن ایک عرصہ تک لوگ حیران تھے کہ وہ کیا کرتا ہے.

Page 428

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۲ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..پس فطرتِ صحیحہ سے کام لینے والا شاندار کام کر جاتا ہے اور جب اس فطرت کے ساتھ نو رمل جائے تو پھر نُورٌ عَلی نُورِ ہو جاتا ہے جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ آپ کو ایسی فطرت عطا ہوئی تھی کہ اگر آگ نہ بھی ہوتی تب بھی وہ جل اُٹھتی.اس کے معنے یہ ہیں کہ نور نے آ کر فطرت صحیحہ کو نُورٌ عَلى نُور کر دیا تھا لیکن فطرت صحیحہ آپ کو پہلے سے عطا کی جاچکی تھی.خدا تعالیٰ کا پہلا کلام رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کتنے ڈراؤنے اور حیران کن حالات میں نازل ہوتا ہے.ایک شخص شخص تنہائی میں شہر سے کئی میل دور عبادت کر رہا تھا کہ ایک فرشتہ آتا ہے اور جن حالات میں وہ فرشتہ آتا ہے وہ کوئی کم ہیبت ناک نہیں.وہ حیران ہوتا ہے کہ یہ کیسا وجود ہے کہ جس طرح چاہتا ہے آتا ہے.جنگل اور پہاڑیاں بھی اسے روک نہیں سکتیں.اس رُعب کی موجودگی میں اور اس ہیبت ناک نظارہ کی موجودگی میں بھی خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ اگر کوئی بات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہی جائے گی تو آپ کہیں گے ، میں یہ کام کیوں کروں پہلے میری تسلی کرو.اس لئے خدا تعالیٰ نے فرمایا اقرا باسمِ رَتِكَ الَّذِي خَلَقَ تُو اپنے اس رب کے نام سے پڑھ جس نے تجھے پیدا کیا ہے یعنی ساتھ ہی اس کی دلیل بھی دے دی.رتك “ کہہ کر بتایا کہ تیرے پیدا کرنے والے کا تجھ پر حق ہے تو اس حق کو پورا کرنے کے لئے یہ کام کر.مگر ابھی یہ سوال رہ جاتا تھا کہ کیا جن کی طرف پیغام بھیجا جا رہا ہے اُن پر بھی پیغام بھجوانے والے کا کوئی حق ہے؟ سوالّذي خلق کہہ کر بتایا کہ وہ تیرا رب ہی نہیں سب مخلوق کو اس نے پیدا کیا ہے.پس اس کا حق ہے کہ ان سے بھی اپنی فرمانبرداری کا مطالبہ کرے.پس تجھے کسی ایسے کام کے لئے نہیں بھجوایا جاتا جس کا تجھے حق نہیں بلکہ تجھے بھجوانے والے کا اُن پر بھی حق ہے.اس آیت میں خلق کا لفظ استعمال کیا گیا ہے خلق کی حد بندی نہیں کی گئی اس سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت خلق وسیع ہے اور اس کی مخلوقات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا.گو یا خلق قائم مقام ہے خَلَقَ كُلَّ الْمَخْلُوقَاتِ کا.گویا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ ارشادفرمایا ہے کہ کو میرا پیغام پہنچانے کے لئے تیار ہو جا اس لئے کہ میں پیغام دینے والا تیرا پیدا کرنے 66

Page 429

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۳ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..والا اور تربیت کرنے والا ہوں اور جن لوگوں کی طرف بھجوا رہا ہوں وہ بھی میرے ہی پیدا کئے ہوئے ہیں.ان کے بارہ میں رَبِّهِمُ کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ وہ قرآنی پیغام سے پہلے خدا تعالیٰ کی کامل ربوبیت تلے نہیں آئے تھے بلکہ صرف خلق کی صفت کے نیچے آتے تھے.اگر خالی یہ کہا جاتا کہ اقرا باسم رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ تو اس سے قبہ ہو سکتا تھا کہ شاید لوگوں پر جبر کیا جا رہا ہے.آخر خدا تعالیٰ کو انہیں حکم دینے کا کیا حق ہے.پس الَّذِي خَلَق کے الفاظ زائد کر کے بتا دیا گیا کہ اللہ تعالیٰ کا محمد رسول اللہ پر اگر خالق و رب ہونے کا حق ہے تو دوسرے لوگوں پر خالق ہونے کا حق تو واضح ہے.گورب ہونے کا حق ابھی مخفی ہے.جب تم خدا کے پیغامبر ہو کر ان تک خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا دو گے تو خدا تعالیٰ کی ربوبیت کامل طور پر ان کی طرف بھی منتقل ہو جائے گی.گویا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کا اِن الفاظ میں نقشہ پیش کر دیا گیا ہے کہ آپ بلا دلیل بات کو سُننے کے لئے کسی حالت میں تیار نہ تھے.اس مرحلہ کے بعد اب ایک اور مرحلہ پیش آتا ہے.بے دلیل بات نہ کرنے کے علاوہ فطرت صحیحہ یہ بھی مطالبہ کرتی ہے کہ کوئی بے نتیجہ کام اُس سے نہ کروایا جائے.مانا کہ خدا تعالیٰ کا حق ہے کہ وہ انسان کو حکم دے مگر کیا اس کے حکم کو ماننے کا کوئی امکان ہے؟ اگر اس کے ماننے کا کوئی امکان ہی نہیں تو یہ بے نتیجہ کام کیوں کیا جائے.اگلی آیت اس مشبہ کا ازالہ کرتی ہے.اس میں فرمایا گیا ہے کہ خُلَقَ الْانْسَانَ مِنْ عَلَقٍ - انسان کے اندر تعلق باللہ کا مادہ رکھا گیا ہے اس لئے خواہ تیرے مخاطب کتنے ہی تقویٰ اور خوف خدا سے دُور پڑے ہوئے ہوں فطرتاً ان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف کوٹیں اور اُس سے محبت کریں.پس ظاہری حالات کے لحاظ سے یہ پیغام کتنا ہی کامیابی سے دُور نظر آتا ہے حقیقتا ناممکن نہیں بلکہ اس کے کامیاب ہونے کے مخفی اور فطری سامان موجود ہیں.بظاہر تو اس دلیل میں انسانی فطرت کی پاکیزگی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مگر باطناً اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فطرت کے اس پہلو کی طرف بھی اشارہ کیا

Page 430

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۴ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..گیا ہے کہ آپ کوئی فضول اور بے نتیجہ کام کرنے کے لئے تیار نہ تھے.آپ وہی کام کرتے تھے جس کا کوئی فائدہ ہو.خواہ مادی خواہ قانونی یا اخلاقی.اور یہ ایک بہت زبر دست پاکیزہ فطرت پر دلالت کرنے والی بات ہے.قرآن کریم ایک دوسری جگہ فرماتا ہے ہم نے انسان کو نطفہ سے پیدا کیا ہے، نطفہ سے ہم نے علقہ پیدا کیا اور علقہ سے مُضغہ بنایا.مضغہ سے ہڈیاں بنائیں پھر ہڈیوں پر گوشت چڑھایا اور اس کے بعد اس کے اندر ایک اہم تغیر کر کے روح پیدا کی ہے لیکن اس آیت کے ایک تحت اسطح معنے بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ عربی محاورہ میں خُلِقَ مِنْ شَيْءٍ کے یہ معنے بھی ہوتے ہیں کہ اس کی فطرت میں یہ چیز رکھی گئی ہے مثلاً وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِّنْ طِينٍ کے معنے ہوں گے کہ ہم نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے لیکن جب مِنْ عَجَلٍ “ کے آ جائے تو اس کے یہ معنے نہیں ہوں گے کہ ہم نے انسان کو جلدی سے پیدا کیا ہے.جلدی کوئی مادہ تو نہیں کہ اسے گھولا اور انسان پیدا کر دیا بلکہ اس کے یہ معنے ہیں کہ انسان کی فطرت میں مجلت رکھی گئی ہے.پس جہاں علق کے ایک معنے یہ تھے کہ ہم نے انسان کو اس حالت سے پیدا کیا ہے کہ وہ رحم سے چمٹا ہوا تھا وہاں اس کے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسان کی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے.جیسے ”من عجل “ کے عربی محاورہ کے رو سے معنے ہیں کہ انسان کے اندر عجلت رکھی گئی ہے.پس خَلَقَ الانسان مِنْ عَلَقٍ کے ایک معنے یہ ہیں کہ انسان کی فطرت میں یہ مادہ رکھا گیا ہے کہ وہ کسی کا ہو رہے.شعراء اور صوفیا کا خیال بھی یہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پنجابی کا ایک مصرعہ سُنایا کرتے تھے جو اس وقت مجھے یاد نہیں رہا لیکن اُس کا مطلب یہ تھا کہ یا تو تو کسی کا ہو جایا کوئی تمہارا ہو جائے.پس خَلَقَ الانسان من علق کے یہ معنے بھی ہیں کہ ہم نے انسانی فطرت میں محبت اور علاقہ کا مادہ رکھا ہے.ہم نے اسے اسی حالت پر پیدا کیا ہے کہ وہ کسی کا ہو رہے.اس لئے اے رسول ! تو دوسرے لوگوں کے پاس جا اور اس بات کا خیال نہ کر کہ بظاہر حالات وہ تیرے پیغام کو نہیں سنیں گے کیونکہ ہم نے انسان کی فطرت میں یہ چیز رکھ دی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا ہو کر رہنا چاہتا ہے.بے شک جب تک

Page 431

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۵ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..اسے اصل چیز نہیں ملتی اس وقت تک کبھی وہ بیوی کا ہو رہتا ہے، کبھی بہن بھائی کا ہو رہا ر رہتا ہے ، کبھی وہ ماں باپ کا ہو رہتا ہے، کبھی وہ دوستوں کا ہو رہتا ہے، وہ درمیان میں بُھولتا پھرتا ہے مگر جب خدا تعالیٰ کے ملنے کا راستہ اُس پر کھل جاتا ہے تو پھر وہ خدا تعالیٰ ہی کا ہوکر رہتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنگ بدر کے موقع پر دیکھا کہ ایک عورت کا بچہ گم ہو گیا ہے اور وہ میدانِ جنگ میں اپنے بچہ کو تلاش کرنے کے لئے ماری ماری پھر رہی ہے.اسے جہاں کوئی بچہ ملتا وہ اسے پیار کرتی اور گلے لگاتی لیکن جب دیکھتی کہ وہ اُس کا اپنا بچہ نہیں تو اسے چھوڑ دیتی اور آگے چلی جاتی یہاں تک کہ اُسے اپنا بچہ مل گیا.اُس نے اُسے پیار کیا، گلے لگایا اور ایک جگہ آرام سے بیٹھ گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ نظارہ دیکھ رہے تھے.آپ نے صحابہ کو مخاطب کر کے فرمایا.یہی حالت خدا تعالیٰ کی ہوتی ہے.جس طرح یہ عورت جب اسے کوئی بچہ ملتا ہے تو اُس سے پیار کرتی ہے، گلے لگاتی ہے اور جب اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہ میرا بچہ نہیں تو اُسے چھوڑ کر آگے چلی جاتی ہے حتی کہ اسے اپنا بچہ مل جاتا ہے اور وہ سکون سے ایک جگہ پر بیٹھ جاتی ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندہ کے لئے ہر وقت بیتاب رہتا ہے.جب بندہ صحیح رنگ میں تو بہ کر کے اُسے مل جاتا ہے تو وہ ویسا ہی سکون محسوس کرتا ہے جس طرح کا سکون اس ماں نے محسوس کیا ہے.پس خلق الانسان من علق کے معنے یہ ہیں کہ ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس میں تعلق اور محبت پیدا کرنے کا مادہ رکھ دیا ہے اور اس میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ اے رسول ! تُو ان سے مایوس نہ ہو.ہم نے ان میں ایسا مادہ ودیعت کر رکھا ہے کہ وہ تجھے مانیں گے.غرض إقرا باسمِ رَتِكَ الَّذِي خَلَقَ میں بظاہر ایک پیغام دیا گیا ہے لیکن باطن اس پیغام کے الفاظ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا دلیل کسی کام کو کرنے کے لئے تیار نہ تھے نہ بلا حق کسی سے کوئی کام کروانے کے لئے تیار تھے اور نہ کسی بے نتیجہ کام کو کرنے کے

Page 432

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۶ رسول کریم ﷺ کا بلند کر دار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..لئے تیار تھے.ان تین اعلیٰ اخلاق کو پیش کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی مثال بھی دُنیا کے سامنے پیش کر دی گئی ہے.اس وقت میری صحت اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ میں کوئی لمبا مضمون بیان کروں.میری غرض اِس وقت آنے کی یہ تھی کہ تمہیں بتاؤں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کا نقشہ آپ کے پہلے الہام میں کس طرح بیان کیا گیا ہے.ایک با اخلاق انسان کو جب کوئی کام دیا جاتا ہے تو پہلے وہ پوچھتا ہے کہ مجھے بتاؤ کہ میں تمہاری بات کیوں مانوں؟ میں ڈر سے کوئی بات مانے کو تیار نہیں.جب اُس پر حق ثابت کیا جاتا ہے تو اعلیٰ اخلاق والا انسان یہ کہتا ہے کہ میں مانتا ہوں کہ آپ کا مجھ پر حق ہے لیکن اس کام کا تعلق دوسرے لوگوں سے ہے اس لئے پہلے یہ بتاؤ کہ کیا تمہارا ان پر بھی حق ہے؟ اگر تمہارا ان پر بھی حق ہے تو پھر میں جاؤں گا اور یہ کام کروں گا.پھر جب یہ سوال حل ہو جاتا ہی ہے تو اخلاق فاضلہ والا انسان یہ پوچھتا ہے کہ مخاطبین پر تمہارا حق سہی مگر کیا اس پیغا مبری کا مادی یا اخلاقی فائدہ ہے اور اس پیغام کے پہنچانے میں کوئی حکمت کارفرما ہے؟ اگر ایسا کی ہو تو میں یہ کام کر سکتا ہوں ورنہ نہیں کیونکہ اس کے بغیر کام کرنے کے یہ معنی ہوں گے کہ گومیں ایک فرض بجالاتا ہوں، گومیں لوگوں کو اُن کے فرض کی طرف توجہ دلاتا ہوں مگر ایک بے فائدہ اور بے نتیجہ کام کرتا ہوں.چنانچہ فطرت صحیحہ کے اس مظاہرہ کا بھی جواب اس آیت میں دیا گیا اور بتایا گیا کہ یہ کام بظاہر بے فائدہ نظر آتا ہے مگر حقیقتا بے فائدہ نہیں نتیجہ خیز ہے اور مفید ہے.غرض ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حق ہے کیونکہ اس نے آپ کو پیدا کیا ہے اور تربیت کر کے کمال تک پہنچایا ہے.پھر مخلوقات پر بھی اُس کا حق ہے کیونکہ وہ ان کا بھی خالق و مالک ہے.پھر انسان کی فطرت میں خدائی محبت رکھی گئی ہے اس لئے یہ کہنا کہ آپ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے غلط ہے.آج احمدی بھی کہتے ہیں کہ غیر احمدی کس طرح مانیں گے؟ تمہیں سمجھ لینا چاہئے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو علی سے پیدا کیا ہے.خدا تعالیٰ نے انسان کی فطرت میں محبت کا مادہ رکھ

Page 433

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۷ رسول کریم ﷺ کا بلند کردار اور اعلیٰ صفات قرآن مجید سے..دیا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ تم نے اسے نگا نہیں کیا.اس پر جو پردے پڑے ہیں ان پردوں کو تم نے اُٹھایا نہیں.اگر تم ان پر دوں کو اُٹھاؤ گے تو تمہیں خدا تعالیٰ کا وجود نظر آ جائے گا.میں اب شعف محسوس کر رہا ہوں اس لئے اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں.مجھے افسوس ہے کہ جتنی آیات میں نے پڑھی تھیں میں ان سب کی تفسیر بیان نہیں کر سکا لیکن میں پھر نصیحت کرتا ہوں کہ یہ جلسہ نہایت اہم ہے.یہ جلسہ اُس عظیم الشان انسان کے حالات اور سوانح بیان کرنے کے لئے ہے جو نہ صرف خود ایک عظیم الشان انسان تھا بلکہ اُس نے ہمیں بھی عظیم الشان بنا دیا ہے.اس جلسہ میں چھوٹے بچوں کو گھسیٹ کر لانا چاہئے تا کہ معلوم ہو کہ تمہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت ہے.محض خیالی محبت ( الفضل ۲۵ / مارچ ۱۹۵۲ء) نہیں.مسند احمد بن حنبل جلد ۶ صفحه ۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۲۱۳ ھ میں ” كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآنُ“ کے الفاظ ہیں.بخاری کتاب بدء الوحى باب كَيْفَ كَانَ بدء الوحى إِلى رَسُول الله (الخ) العلق: ۲ تا ۶ فاطر: ۲۵ ه المؤمنون: ۱۵،۱۴ المؤمنون: ١٣ ك الانبياء: ۲۸ بخاری کتاب الادب باب رحمة الولد و تقبيله و معانقته

Page 434

Page 435

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۰۹ ہجرت از سیدنا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 436

Page 437

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۴۱۱ ہجرت نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ رقم فرمودہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی) ہجرت آج سے قریباً ساڑھے تیرہ سو سال پہلے بنی نوع انسان کے سردار، آخری شریعت کے حامل ، مالک ارض و سما کے محبوب، اپنے اہلِ وطن کے ظلم وستم سے ستائے جا کر، اپنے محبوب وطن کے چھوڑنے پر مجبور ہوئے تھے.مکہ سے نکل کر آپ تین دن غار ثور میں چھپے رہے.جب وہاں سے آپ مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تو آپ نے مکہ کی طرف منہ کیا اور کچھ دیر تک محبت سے لبریز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد کہا اے مکہ ! تُو مجھے دُنیا کی ساری جگہوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن تیرے شہریوں نے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور کر دیا ہے یا یہ وہ آخری فقرہ تھا جو مکہ کو وداع کہتے وقت میرے آقا نے کہا.اراس فقرہ کا ایک ایک لفظ اس غم اور رنج کی ترجمانی کر رہا ہے جو مکہ کے چھوڑنے پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں پیدا ہو رہا تھا.آج ساڑھے تیرہ سو سال کے بعد بھی ہمارے دل اس فقرہ کو پڑھ کر ہاتھوں سے نکلنے لگتے ہیں تو قیاس کرو اُن لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے وہ الفاظ عین موقع پر اپنے کانوں سے سنے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اُس وقت آپ کے ساتھ تھے یہ الفاظ سُنتے ہی اُن کا دل بے قابو ہو گیا اور بے اختیار بول اُٹھے مکہ نے اپنے نبی کو نکال دیا، اب یہ شہر اپنی تباہی کا انتظار کرے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا فقرہ کہنے کے بعد اس غم اور صدمہ کو جو مکہ کے چھوڑنے پر آپ کے دل میں پیدا ہوا تھا یکسر بھلا دیا.وہ کامل وقار اور سکون کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار ہوئے اور

Page 438

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۱۲ ہجرت مدینہ کی طرف روانہ ہو گئے.ملکہ آپ کو پیارا تھا مگر خدا تعالیٰ آپ کو اس سے بھی زیادہ پیارا تھا.خدا تعالیٰ نے ایک کام آپ کے سپرد کیا تھا وہ کام آپ کی ساری توجہ چاہتا تھا.مکہ سے زیادہ مکہ اور اُس کے گردونواح کے دلوں کی فتح آپ کے مد نظر تھی.مکہ کا گردو نواح ہی نہیں بلکہ سارا عرب اور ساری دُنیا چلا چلا کر محمد عربی کو پکار رہی تھی کہ ہمیں شیطان کے پنجہ سے چھڑائیے اور اس کی دست برد سے نجات دلوائیے.دُنیا کے نجات دہندہ نے اپنے غموں کو دُنیا کے غموں کے لئے قربان کر دیا.بے شک آپ کو آپ کے اہلِ وطن نے دھتکار دیا تھا لیکن آپ با وفا تھے، آپ اُن کو دھتکارنے کے لئے تیار نہ تھے.آپ نے مکہ کو پیچھے چھوڑا مگر اس عزم صمیم کے ساتھ کہ پھر ملکہ کو فتح کریں گے.مکہ کی فتح کی خاطر نہیں مکہ والوں کے دلوں کی فتح کی خاطر.اس لئے نہیں کہ پھر اپنا وطن پنے لئے حاصل کریں بلکہ اس لئے کہ جنت سے نکالے ہوئے اور دھتکارے ہوئے مکہ والوں کو پھر اُن کے وطن جنت میں واپس لے جا کر داخل کریں.مدینہ جو آپ کا دار ہجرت تھا وہ موسمی بخار کا گھر تھا.جب آپ وہاں پہنچے تو طبعا مہاجرین ، جن کے وطن میں یہ بخار کم ہوتا تھا، مدینہ والوں سے بھی زیادہ اس کے شکار ہونے شروع ہوئے.بعض نے بخار کے حملہ میں رونا اور چلانا شروع کیا اور مکہ کی یاد میں شعر گنگنانے لگے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سُنا تو اس پر خفگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ خدا کی تقدیر پر خوش ہونا اور اُس کے مقررہ فرائض کو انجام تک پہنچانے میں لگ جانا ہی مومن کا کام ہے.اُس دن کے بعد حبشہ ، یمن اور یونان سے آکر بسے ہوئے مکہ کے عارضی باشندے تو کبھی کبھار مکہ کی یاد میں آہیں بھر لیتے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جن کی نسل بنائے مکہ سے لے کر اُس وقت تک مکہ میں بس رہی تھی وہ ملکہ کو بھلا چکے تھے.ان کے سامنے صرف دُنیا کو نجات دلانے کا کام تھا اور وہ اسی کام میں لگ گئے اور اُس وقت تک صبر نہ کیا جب تک کہ دُنیا کو شیطان کے پنجہ سے چھڑا نہ لیا.آپ نے یہ نہیں دیکھا کہ مکہ والوں نے مجھے مکہ سے نکال دیا ہے بلکہ اس بات پر غور فرمایا کہ مکہ نے مجھے کیوں نکالا ؟ ایک پُر امن شہری اور خیر خواہ خلائق فرد کو اپنے وطن سے نکال دینے والا کسی بڑی اور گہری

Page 439

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۱۳ ہجرت اخلاقی اور روحانی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ہمدردی اور جو پیار بنی نوع انسان سے تھا اُس کو دیکھتے ہوئے کوئی شریف مکہ والا آپ کو مکہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کر سکتا تھا.آپ کے لئے تو یہ بات حد درجہ بعید از قیاس تھی.جب پہلی وحی کنبوت آپ پر نازل ہوئی ، آپ کی رفیقہ حیات حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کو ساتھ لے کر ورقہ بن نوفل کے پاس جو اُن کے رشتہ دار تھے، مگر عیسائی ہو چکے تھے، مشورہ کے لئے گئیں.ورقہ بن نوفل نے سارے حالات سُن کر کہا کہ آپ پر وحی لانے والا فرشتہ وہی ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی لایا تھا.اور پھر کہا کاش! میں اُس وقت تک زندہ رہوں جب تمہاری قوم تمہیں اپنے وطن سے نکال دے گی تا کہ میں اس وقت پورے طور پر تمہاری مدد کر سکوں.اس فقرہ کو سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محبت اور اُس ہمدردی پر نظر کرتے ہوئے جو آپ کے دل میں مکہ والوں کے لئے تھی حیرت سے ورقہ کے منہ کو دیکھا اور کہا.کیا کہتے ہو؟ کیا مکہ والے مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے کہا.ہاں ! ہاں ! وہ ضرور تمہیں نکال دیں گے.لوگ نبیوں سے ایسا ہی کیا کرتے ہیں کے غرض مکہ والوں کے متعلق یہ وہم بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ ایسے خیر خواہ شخص کو اپنے وطن سے نکال دیں گے مگر اُنہوں نے ایسا ہی کیا.اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے دل انسانی دل نہیں رہے تھے اور شیطان نے اُن پر قبضہ پالیا تھا.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں جانا چاہتے تھے اور ایسا کرنے کا پختہ ارادہ رکھتے تھے اس لئے نہیں کہ آپ ان سے بدلہ لیں جنہوں نے آپ کو نکال دیا تھا بلکہ اس لئے کہ اُن کو شیطان کے پنجہ سے چھڑائیں اور شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی حکومت پھر دوبارہ مکہ میں قائم کر دیں.آج بھی مشرقی پنجاب سے لاکھوں مسلمان اپنے گھروں سے نکالے گئے ہیں.اُنہیں یقیناً اپنے وطن پیارے ہوں گے اور اپنی جائیدادوں کے جاتے رہنے کا غم ہوگا.ان کے دل ان لوگوں کے خلاف غصہ اور رنج سے بھرے ہوئے ہوں گے جنہوں نے اُنہیں ان کے گھروں سے نکالا.ان جائیدادوں پر قبضہ کر لیا اور ان کی عزت و ناموس پر

Page 440

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۱۴ ہجرت حملہ کیا.مگر میں ان سے پوچھتا ہوں کہ ایسا کرنے والوں نے ایسا کیوں کیا ؟ کیا ان مہاجرین نے اپنی جائیدادیں ان سے چھین کر حاصل کی تھیں؟ کیا یہ مہاجرین غیر ملکی ٹیرے تھے جو مشرقی پنجاب میں زبر دستی آ گھسے تھے؟ کیا یہ مہاجرین مشرقی پنجاب کے ہندوؤں اور سکھوں کے ہمسائے نہ تھے ان کی خوشیوں اور غموں میں اُن کے شریک نہ تھے ؟ اُن کے جتھوں اور اُن کی دھڑا بازیوں میں شامل نہ تھے؟ کیا یہ آپس میں ایسے ملے ہوئے نہ تھے؟ کیا یہ عدالتی مقدمات میں سکھوں اور ہندوؤں کی گواہی میں بیسیوں مسلمان اُن کی طرف سے گواہ نہیں گزرتے تھے ؟ پھر ان پرانے ساتھیوں ، دوستوں اور ہمسایوں نے اپنے ہی جسم کے کاٹنے کے لئے کیوں تلوار اٹھائی ؟ اپنی ہی عزت و ناموس کو برباد کرنے کے لئے کیوں کھڑے ہو گئے ؟ اپنے ہی ہاتھوں سے اپنا ملک کیوں اُجاڑا ؟ یقینا کوئی گہری اور پوشیدہ اخلاقی بیماری ان کی رُوحوں کو لگی ہوئی تھی.ان خدا کے بندوں کو شیطان چھین کر لے گیا تھا.پس میں مشرقی پنجاب سے آنے والے سب لوگوں سے کہتا ہوں آؤ ہم بھی اپنے آ قا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں تہیہ کر لیں کہ اپنے آبائی وطن کو لوٹیں گے اور ضرور لوٹیں گے لیکن بغض اور کینہ اور انتقام کے جذبہ کے ساتھ نہیں بلکہ انسانیت اور روحانیت کے تقاضوں کے جواب میں اور ہمدردی اور محبت کے جذبات لئے ہوئے.ان واقعات نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں ، ان واقعات نے ہمیں بتا دیا ہے کہ انسان کی ظاہری شکل تو وہی ہے جو پہلے تھی مگر اس کا باطن بدل چکا ہے.انسان کے جسم میں وحشی درندوں کی روحیں داخل ہو گئی ہیں.آؤ! ہم بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح عزم کر لیں کہ ہم ان وحشی اور درندہ روحوں کو اپنے بھائیوں کے جسم سے نکال دیں گے.ہم ضرور اپنے وطنوں کو جائیں گے.اس لئے نہیں کہ اپنی حکومت وہاں قائم کریں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالیٰ کی حکومت وہاں قائم کریں.جس طرح ہمارے آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا.جب تک خدا تعالیٰ کی حکومت مشرقی پنجاب کیا ساری دُنیا میں قائم نہ ہوگی ، بہار، نواکھلی، امرتسر ، گورداسپور ،لدھیانہ، جالندھر، پٹیالہ، کپورتھلہ کے

Page 441

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۱۵ واقعات ہر جگہ پر اور بار بار ہوتے رہیں گے.جنگل کے درندے ابتدائے آفرینش سے آج تک لڑتے ہی چلے آئے ہیں.انسانوں میں سے سچا انسان ہی صرف امن اور صلح سے رہنا جانتا ہے.وہ بھی لڑنے پر مجبور ہوتا ہے مگر اس لئے کہ امن قائم کرے.پس اگر ہم امن چاہتے ہیں تو خواہ صلح سے یا جنگ سے جس طرح بھی ہو ہمیں خدا تعالیٰ کی بادشاہت دُنیا میں قائم کرنی ہو گی.اگر اس کے لئے ہمیں جنگ بھی کرنی پڑے تو وہ جنگ جنگ نہیں ہوگی ، وہ صلح کا پیغام ہو گا.وہ امن کی آواز ہوگی.مرضیں اُبھر پڑی ہیں.بیماریاں ظاہر ہوگئی ہیں اور مرض کا ظاہر ہو جانا خوش قسمتی کی علامت ہے.اے دُنیا کے سب سے بڑے طبیب روحانی سے منسوب ہونے والے لوگو! اٹھو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اور سب دوسرے کاموں کو ثانوی حیثیت دیتے ہوئے ، اپنے مقصد اوّل کی طرف توجہ کرو.دُنیا کا ہسپتال بیماروں سے پُر ہے.دُنیا کا طبیب اعظم ہسپتال کے عملہ کو اپنی امداد کے لئے بلا رہا ہے.کیا تم اس کی آواز پر لبیک نہیں کہو گے؟“ ( مكتبه سلطان القلم ربوہ ) ل السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء بخاری کتاب بدء الوحی باب کیف كَانَ بدء الوحى إِلَى رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم(الخ)

Page 442

Page 443

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۱۷ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 444

Page 445

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۴۱۹ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵ ء (فرموده ۲۶ / دسمبر ۱۹۵۱ء بر موقع افتتاح جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دو میں بعض حالات کی وجہ سے افتتاح جلسہ سے پہلے دو نکاحوں کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.میں نے اس بات کو ظاہر نہیں ہونے دیا کیونکہ ایسے موقع پر دوسرے احباب اپنے کاغذات دے دیتے اور اتنا وقت لے لیتے ہیں کہ جس سے جلسہ کے پروگرام پر بھی اثر پڑ جاتا ہے.یہ دو نکاح جن کا اعلان کرنا چاہتا ہوں ایک تو میرے لڑکے مرزا وسیم احمد کا ہے جو کہ شروع ایامِ ہجرت سے قادیان میں بیٹھا ہوا ہے.یہ نکاح امۃ القدوس بیگم جو ہمارے ماموں مرحوم و مغفور میر محمد اسمعیل صاحب کی بیٹی ہیں اُن سے ایک ہزار روپیہ مہر پر قرار پایا ہے.لڑکی کی طرف سے اُس کے چازاد بھائی سید داؤ داحمد وکیل ہیں اور لڑ کے کی طرف سے قبولیت کا اختیار میرے نام آیا ہوا ہے.وو (اس کے بعد حضور نے سید داؤ د احمد صاحب سے دریافت فرمایا کہ ): سید داؤ د احمد تمہیں امتہ القدوس کے حقیقی ولیوں کی طرف سے اور امتہ القدوس بیگم کی طرف سے اُن کا نکاح ایک ہزار و روپیہ مہر پر مرزا وسیم احمد ولد مرزا محمود احمد سے منظور اس پر سید داؤ د احمد صاحب نے اپنی منظوری کا اعلان کیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا:-) اب میں مرزا وسیم احمد کی طرف سے اعلان کرتا ہوں کہ اُن کو ایک ہزار روپیہ مہر پر

Page 446

انوار العلوم جلد ۲۲ ا ۴۲۰ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء 66 امتہ القدوس بیگم بنت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب مرحوم سے اپنا نکاح منظور ہے.“ دوسرا نکاح امتہ النصیر بیگم جو میری لڑکی اور سارہ بیگم مرحومہ کے بطن سے ہے اس کا ایک ہزار روپیہ مہر پر پیر معین الدین ولد پیر اکبر علی صاحب مرحوم سے قرار پایا ہے.احباب کو معلوم ہو گا کہ میں اپنی لڑکیوں کا نکاح صرف واقفین زندگی سے کر رہا ہوں اور اس رشتہ میں بھی میرے لئے نہی کشش تھی کہ لڑکا واقف زندگی ہے.میں اپنی طرف سے اور امۃ النصیر بیگم کی طرف سے پیر معین الدین صاحب ولد پیرا کبر علی صاحب مرحوم سے ایک ہزار روپیہ مہر پر ان کے نکاح کی قبولیت کا اعلان کرتا ہوں.پیر معین الدین ولد پیرا کبر علی صاحب مرحوم کیا آپ کو ایک ہزار روپیہ مہر پر امتة النصیر بیگم بنت مرزا محموداحمد سے اپنا نکاح منظور ہے؟“ ان کی منظوری کے بعد حضور نے فرمایا : ) دوست اب دُعا کر لیں.اس کے بعد جلسہ کا افتتاح ہوگا.“ ( دُعا سے فارغ ہونے کے بعد حضور نے تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حسب ذیل تقریر فرمائی:-) آج ہم پھر کسی انسان کے حکم سے نہیں ، کسی ذاتی خواہش کے مطابق نہیں، کسی دنیوی نفع حاصل کرنے کے لئے نہیں بلکہ محض خدا تعالیٰ کے نام کی عزت کے لئے اور اس کے دین کی خدمت کے مواقع تلاش کرنے کے لئے جمع ہوئے ہیں.ہم اپنے مخالفوں کی نظر میں ایک حقیر کیڑے سے بھی بدتر ہیں لیکن اس حقارت اور اس عداوت کو دیکھ کر ہمارے دل نہ مایوس ہوتے ہیں نہ افسردہ ہوتے ہیں اس لئے کہ ہماری نظر میں یہ سلوک بہترین انعام ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ وابستہ ہونے والی جماعتوں کو ملا کرتا ہے.ایک چھوٹا بچہ جب اکیلا گلی میں سے گزر رہا ہوتا ہے اور گلی کے اوباش اور شر بریٹر کے اُس کو دق کرنے کے لئے اس پر حملہ کرتے ہیں اور اُس کی آواز سُن کر اُس کی ماں بے تاب ہو کر اپنے گھر سے باہر نکل آتی ہے تو وہ اس لڑکے کی افسردگی کا وقت نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پر ناز کرتا ہے کہ میری ماں نے میرے لئے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے.آخر سیدھی بات ہے کہ

Page 447

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۱ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء ہمارا دشمن ہمارا دشمن ہی ہے اور ہمارا خدا ہما را خدا ہی ہے.کتنا نادان ہے وہ انسان، کیسا بے وقوف اور کیسا احمق ہے جو خدا کی محبت کو انسانی دشمن کی عداوت سے حقیر سمجھتا ہو.خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار تو اتنی قیمتی چیز ہے کہ انسان اس کے مقابلہ میں اگر وہ انسانی عداوت سے حاصل ہوتا ہو تو نہ صرف یہ کہ اس کو نا پسند نہ کرے گا بلکہ تمنا کرے گا کہ وہ عداوت مجھے حاصل ہوتا کہ میرے خدا کی محبت میرے لئے اور زیادہ جوش مارے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں لَا تَتَمَنَّوْا لِقَاءَ الْعَدُو دُشمن کے حملہ کی تمنا نہ کیا کرو.آخر سوچنا چاہئے کہ اس فقرہ کے معنے کیا ہیں؟ کون دشمن کے حملہ کی تمنا کیا کرتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟ ظاہر ہے کہ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے، جہاں تک مرنے کا تعلق ہے، جہاں تک تکالیف کا تعلق ہے کوئی شخص بھی دشمن کے حملہ کی تمنا نہیں کر سکتا مگر مسلمان ایسی حالت میں تھے کہ ان کے دل اسی نکتہ کے ماتحت جو میں نے بیان کیا ہے بعض دفعہ خواہش کر سکتے تھے کہ کاش! ہمارا دشمن ہم پر حملہ کرے تا کہ ہمارا خدا بھی ہماری مدد کے لئے آ جائے.تو صرف اور صرف یہی وجہ ہو سکتی تھی کہ جس کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فقرہ فرمایا یعنی اے مسلما نو ! جب دشمن تم پر حملہ کرتا ہے تو خدا تمہارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے اور یہ بات تمہیں اتنی لذیذ معلوم ہوتی ہے اور تمہیں اس میں اتنا مزا آتا ہے کہ جب دشمن حملہ چھوڑ دیتا ہے تو تم کہتے ہو کاش ! ہمارا دشمن ہم پر پھر حملہ کرے تا ہمارا خدا پھر ہمارے پاس آ جائے.یہ خواہش عشق تو ٹھیک ہے لیکن الہی حکمتوں اور الہی منشاء کے خلاف ہے اس لئے لَا تَتَمَنَّوُا لِقَاءَ الْعَدُقِ فرما کر بتایا کہ یہ ہے تو بڑی زبردست خواہش اور ہے تو عاشقانہ مطالبہ لیکن خدا تعالیٰ کی مدد کی خاطر اُس کے ادب کے لحاظ سے ایسی خواہش مت کیا کرو.پس ہمارے لئے دُنیا میں کوئی ایسا حملہ، کوئی ایسی تحقیر ، کوئی ایسی تذلیل نہیں ہے جو کہ ہمیں اپنے کام سے پھر اسکے اور جو ہمیں مایوس کر سکے.پس ہمارے احباب کو یہ امر مد نظر.رکھنا چاہئے کہ در حقیقت سب سے محفوظ مقام ، سب سے عزت والا مقام ،سب سے مزے والا مقام اس وقت دنیا میں اگر کسی کو حاصل ہے تو وہ آپ لوگوں کو ہی حاصل ہے.دُنیا

Page 448

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۲ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء کے بڑے سے بڑے بادشاہ ، دُنیا کے بڑے سے بڑے حاکم ، دُنیا کے بڑے سے بڑے حکمران، دُنیا کے بڑے سے بڑے لیڈر انسانی امداد پر بھروسہ کرتے ہیں.ان کی تکلیفوں کے وقت کچھ انسان آگے آتے ہیں مگر تمہاری تکلیفوں کے وقت خدائے واحد خود آسمان سے اُتر آتا ہے.پس یہ ایام بہترین ایام ہیں جو کسی قوم اور کسی فرد کو کبھی حاصل ہوئے ہوں.یہی وہ انعام ہے جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جماعت کو حاصل ہوا، یہی وہ انعام ہے جو حضرت عیسی کی جماعت کو حاصل ہوا، یہی وہ انعام ہے جو حضرت موسٹی کی جماعت کو حاصل ہوا اور یہی وہ انعام ہے جس کے لئے خدا نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ ا د ننا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِيْنَ انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ : کے پس یہ چیز جو کہ بہترین انعاموں میں سے ہے اور وہ خلعت جو ہمیشہ ہی اللہ تعالیٰ کے خاص لوگوں کو پہنایا جاتا ہے وہ آج آپ لوگوں کو پہنایا گیا ہے.اور در حقیقت ہم اس لئے بھی یہاں جمع ہوئے ہیں تا کہ اپنے رب کے حضور میں اپنا اظہارِ شکریہ کریں اور اُس کی خدمت میں عرض کریں کہ ہم اس انعام کی قدر کرتے ہیں جو آپ کی طرف سے ہم پر نازل کیا گیا ہے.پس اپنے ان ایام کو شکر گزاروں اور قدردانوں کے ایام کی طرح گزارو.لغو باتوں ، فضول باتوں اور بریار باتوں میں اپنے اوقات صرف مت کرو.کبھی نہ کبھی انسانوں پر ایسا وقت بھی آتا ہے خواہ وہ کتنے ہی مشغول ہوں اور کتنے ہی اعلیٰ مقام پر ہوں جبکہ وہ ایک مزاح کے رنگ میں ہوتے ہیں اور ایک خوشی کی حالت میں ہوتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی آتا ہے کہ ایک دفعہ ایک بچہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اُس کو مذاقیہ کہا کہ وہ چڑ یا اُڑ گئی.اسی طرح وضو فرماتے ہوئے آپ نے منہ سے اپنی گلی کا پانی اُس پر پھینکا.یہ وقت بھی بے شک آتے ہیں مگر ہر کام کا ایک موقع اور ہر سکتے کا ایک الگ مقام ہوتا ہے.یہ دن ہمارے لئے ایسے دن ہیں کہ ان میں بہت زیادہ ہمیں عبادت کرنی چاہئے ، بہت زیادہ ہمیں اپنے اوقات دین کی خدمت میں خرچ کرنے چاہئیں اور بہت زیادہ

Page 449

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۳ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء ہمیں اپنے اوقات مفید کاموں اور سلسلہ کے کاموں اور اسلام کے کاموں میں صرف کرنے چاہئیں.جیسا کہ آپ لوگوں نے محسوس کیا ہوگا میری آواز بیٹھی ہوئی ہے.مجھے یکدم چھ سات دن سے نزلہ کی شکایت پیدا ہوئی اور اتنا شدید نزلہ ہوا کہ تین دن تک میں دائیں اور بائیں رات کو کروٹ بدلتے ہوئے ( بلکہ اوّل تو بہت سا وقت نیند ہی نہیں آتی تھی ) ناک کے نیچے رومال رکھ کر لیٹتا تھا کیونکہ پانی پرنالے کی طرح چلتا چلا جاتا تھا اور مجھے یہی احتمال تھا کہ میں شاید اس جلسہ پر کوئی تقریر نہیں کر سکوں گا مگر پرسوں سے کسی قدر افاقہ شروع ہوا ہے.مگر ایسا نہیں کہ نزلہ بالکل بند ہو گیا ہو نہ ایسا کہ میری آواز کھلی ہو اس لئے میں آہستہ ہی بول سکتا ہوں.یہ نہیں جانتا کہ کل تک کیا ہو.ممکن ہے اللہ تعالیٰ اس بات کی توفیق عطا کر دے کہ میں اچھی طرح بول سکوں مگر موجودہ حالت یہی ہے کہ معمولی سی بات کرنے سے بھی سینہ میں خراش شروع ہو جاتی ہے اور اس طرح ناک بہنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور چھینکیں شروع ہو جاتی ہیں گو پہلے سے بہت افاقہ ہے اس لئے میں احباب سے یہ بھی خواہش کرتا ہوں کہ جیسا کہ انہوں نے گزشتہ سال نہایت ہی ہمت کے ساتھ اور عقل سے کام لے کر بہت حد تک گر داڑانے سے پر ہیز کیا تھا جلسہ کے وقت میں بھی اور ملاقاتوں کے وقت میں بھی اس دفعہ اُس سے بھی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ اُن دنوں عملاً میری بیماری رفع ہو چکی تھی کمزوری باقی تھی لیکن ان دنوں میں عملاً مجھ پر بیماری کا حملہ ہے اور ذراسی گرد اڑنے سے بھی نزلہ کی شکایت عو دکر آتی ہے.ملاقات کے وقت بعض دوست ذرا پیر زیادہ زور سے مارنے کے عادی ہوتے ہیں.میں اس کو بُرا تو نہیں کہتا آخر کام کرنے والی اور اُمنگوں والی جماعتوں میں کچھ بہادرانہ رنگ بھی پایا جانا چاہئے مگر وقت وقت کے لحاظ سے بعض دفعہ احتیاط بھی کی جاسکتی ہے.سو دوست جب ملاقات کے لئے آئیں اُس وقت آہستہ سے قدم رکھیں تا کہ گرد نہ اُڑے.اسی طرح بعض لوگ اپنا کپڑ ا ساتھ سمیٹتے آتے ہیں.خصوصاً گاؤں کے لوگ اور ان کے کپڑے کے سمیٹنے سے اُسی طرح گرداڑتی ہے جس طرح جھاڑو سے.وہ تو تندرست ہوتے ہیں اُن کو

Page 450

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۴ افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۵۱ء وہ گر د محسوس نہیں ہوتی مگر میرے لئے وہ گرد بہت زیادہ تکلیف کے بڑھانے کا موجب ہو جاتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ دوست گاڑی کے ساتھ بھاگنا شروع کر دیتے ہیں یا ایسی طرز پر ارد گر دکھڑے ہوتے ہیں کہ اس سے گرد پڑتی ہے.چونکہ آگے میرے دو بلکہ تین دن کام کے لحاظ سے نہایت بھاری ہیں.گھنٹوں مجھے ملاقات بھی کرنی پڑے گی اور پھر مجھے اگر خدا نے توفیق دی تو گھنٹوں ہی تقریر بھی کرنی پڑے گی ان حالات کے لحاظ سے میرا بھی اور ان کا اپنا فائدہ بھی اسی میں ہے کہ وہ گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی احتیاط سے کام لیں تا کہ اللہ تعالی آرام اور سہولت سے یہ دن ہمارے گزار دے اور ہمیں اپنے فرائض کے ادا کرنے میں کسی قسم کی کوئی روک پیدا نہ ہو.اس کے بعد میں دُعا کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس اجتماع کو مبارک کرے اور ہمیں اپنے فضلوں کا وارث بنائے اور ہمارے دلوں میں ایسا نور پیدا کرے جو کہ دُنیا کو روشن کر دے اور ہماری زبانوں میں وہ تاثیر بخشے جولوگوں کے لئے اطمینان پیدا کرنے کا موجب ہو اور ہماری غفلتوں اور سُستیوں اور مناقشا نہ طبیعت اور بدظنی کی طبیعت کو بدل کر بچے اور محنتی اور عقلمند کارکنوں والی طبیعت ہم کو عطا فرمائے تا کہ ہم نہ صرف یہ کہ آپس میں اتفاق و اتحاد سے رہیں بلکہ بیرونی دُنیا کے فتنوں اور فسادوں کو دور کر کے ساری دُنیا میں ایک ایسا امن قائم کر دیں، ایک ایسا نظام قائم کر دیں جس کے ذریعہ سے دُنیا اُن آرام کے دنوں کو پھر دیکھ لے جن کے لئے وہ صدیوں سے ترس رہی ہے اور جن حالات کی وجہ سے بنی نوع انسان کا امن بالکل برباد ہو چکا ہے اور انسان اپنے خدا سے بدظن ہو گیا ہے.پس آؤ اُس خدا سے دُعا کریں جس کے ہاتھ میں ساری طاقتیں ہیں اور جو ناممکن کو ممکن بنا دیتا ہے ، مایوسیوں کو امیدوں سے بدل دیتا ہے ،شکوک کو یقین سے تبدیل کر دیتا ہے.(الفضل لا ہور یکم جنوری ۱۹۵۲ء) ا كنز العمال جلد ۴ صفحه ۳۶۱ مطبوعه حلب ۱۹۷۰ء الفاتحه: ۷،۶

Page 451

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۵ چشمہ ہدایت از بد نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی چشمہ ہدایت

Page 452

Page 453

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۴۲۷ چشمہ ہدایت نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ چشمه هدایت ” حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے احمدیت کی گاڑی بہر حال چلتی جائے گی فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسہ سالانہ بمقام ربوہ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: - ر بعض دوست توجہ دلانے کے باوجود جلسے کے مبارک ایام ذکر الہی اور دُعاؤں میں گزارنے کی بجائے ادھر اُدھر پھرنے میں ضائع کر دیتے ہیں.جب میں نے دوستوں کو ادھر اُدھر پھرتے دیکھا تو دل میں کہا کہ جو لوگ توجہ دلانے کے باوجود ایسا کرتے ہیں اُن کے دلوں کو بدلنا اُسی کے اختیار میں ہے جس نے ان کو پیدا کیا ہے.پس جب میں نماز میں خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوا تو میں نے اُس سے عرض کیا کہ الہی ! ! تو نے ان کو اپنے دین کی خدمت کے لئے کھڑا کیا ہے پس اب تو ہی ان کے دلوں میں دین کی عزت ، ذکر الہی کا احترام اور عبادت کی محبت عطا فرما کہ یہ کام میرے بس میں نہیں ہے.آمین آج کے دن میری عورتوں میں بھی تقریر ہوا کرتی ہے لیکن اس سال عورتوں نے خود ہی اپنے حق کو چھوڑ دیا بعض وجوہات سے.کیونکہ عورتوں میں چونکہ وہ برقع پہنے ہوئے ہوتی ہیں اس لئے پورے طور پر یہ نگرانی نہیں کی جاسکتی کہ ممکن ہے کوئی مرد ہی آجائے یا

Page 454

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۸ چشمہ ہدایت کوئی عورت ہی بدا رادہ سے آئی ہوئی ہو تو اُس کی نگرانی نہیں کی جاسکتی اس لئے اُنہوں نے کہا ہم اپنا حق آپ چھوڑتی ہیں.چونکہ میرا بھی گلا بیٹھا ہوا تھا اور مجھے نزلہ کی شکایت بھی تھی میں نے اس کو ایک الہی تحریک سمجھا اور بڑی خوشی سے اس کو قبول کیا کہ بہت اچھا اگر تم اپنا حق آپ چھوڑتی ہو تو پھر مجھے کیا عذر ہو سکتا ہے.مگر اُنہوں نے یہ بھی ساتھ خواہش کی کہ مردوں کی تقریر میں کچھ ہمارے متعلق بھی کہا جائے تا کہ ہم وہیں سے لاؤڈ سپیکر کے ذریعہ سے سُن سکیں.حسب وعدہ میں دو چار منٹ یہ تقریر عورتوں کی طرف خطاب کر کے کرتا ہوں.تبلیغ کی طرف توجہ کی ضرورت سب سے پہلے تو میں ان کو اپنی گزشتہ سال کی تقریر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے انہیں اب دین میں زیادہ حصہ لینے اور تبلیغ کی طرف توجہ کرنے کی تحریک کی تھی لیکن وہی منتظمات جنہوں نے مجھے تحریک کی ہے کہ میں عورتوں کو مخاطب کروں ، مردوں کی سیج سے میں انہی کو کہتا ہوں کہ سب سے پہلے اُنہوں نے ہی اپنی فرض شناسی سے گریز کیا ہے.میں نے یہ تجویز کی تھی کہ عورتیں آزادی کی رو میں بہہ رہی ہیں اور نئی نئی امنگیں ان کے دلوں میں پیدا ہو رہی ہیں اس لئے تبلیغ کا میدان ان میں اس وقت زیادہ وسیع ہے بہ نسبت مردوں کے کیونکہ وہ اس وقت حکومت کے نشہ میں چُور ہو رہے ہیں اور مذہب سے بہت ہی دُور ہو رہے ہیں.چنانچہ میری اس تحریک کے ماتحت مختلف اضلاع میں عورتوں کی پارٹیاں ربوہ سے بھیجی گئیں اور عورتوں کی مجالس جمع کی گئیں اور ان میں یہاں کی عورتوں نے جا کر لٹر پھر بھی تقسیم کیا اور تقریریں بھی کیں.اب چاہئے یہ تھا کہ ۱۹۵۱ء میں اس سلسلہ کو وسیع کیا جاتا مگر جہاں تک میرا علم ہے اُن ضلعوں میں بھی دورہ نہیں کیا گیا جن میں پہلے کیا گیا تھا اور نئے ضلع تو بالکل ہی اس سوال سے باہر ہیں.پس سب ے پہلے میں انہیں کہتا ہوں کہ تم نے جو مجھ سے حق مانگا ہے سٹیج پر سے تقریر کا اسی کے مطابق میں تمہیں کہتا ہوں کہ اپنے فرائض کی طرف توجہ کرو اور اس سستی اور غفلت کو چھوڑ دو.

Page 455

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۲۹ چشمہ ہدایت تعمیر دفتر لجنہ اماءاللہ یہ بات تو میں نے اپنی طرف سے کہی ہے جس بات کی انہوں نے مجھ سے خواہش کی ہے وہ یہ ہے کہ میں عورتوں میں تحریک کروں کہ لجنہ اماء اللہ کا دفتر بن گیا ہے وہ اس کے چندہ کی طرف زیادہ توجہ کریں.اس میں تو میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں نے پھر ہم پر بازی لے لی ہے.مردوں کے دفتر ا بھی بنیادوں سے ہی نیچے پڑے ہوئے ہیں اور سال سال، دو دو سال سے رقمیں بھی منظور ہوچکی ہیں ، سامان بھی آچکے ہیں اور افسر بھی مقرر ہو چکے ہیں اور انجینئر بھی ہیں لیکن وہ ابھی تک ابتدائی مراحل سے بھی نہیں گزر سکے مگر عورتوں کا دفتر خدا تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو چکا ہے.صرف پردہ بنانے میں افسر نے کسی قدر سستی کی ہے.اگر وہ پردہ بنا ہو ا ہوتا تو اُن کا سارا کام اس جگہ پر بڑی اچھی طرح چل سکتا تھا.پھر یہ بھی ہے کہ عورت اپنی نظر سے بہت فائدہ اُٹھاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے اُس کے اندر کچھ ایسی صفت رکھی ہے کہ جو چیز دکھاوے والی ہو اُس پر وہ فریفتہ ہوتی ہے.سونا ہے، زیور ہے، اس زیور کے اُوپر وہ جان دیتی ہے.اُسے آپ نظر نہیں آ رہا ہوتا کہ میرے گلے میں ہار کیسا پڑا ہوا ہے اُس کا سارا لطف تو یہ ہوتا ہے کہ لوگ دیکھ رہے ہیں میرے گلے کا ہار.تو میں نے لجنہ سے کہا تھا کہ میری کسی تحریک کی ضرورت ہی نہیں.جس وقت مستورات اپنا دفتر بنا ہو ا دیکھیں گی بس کہیں گی سُبحَانَ الله فوراً لو چندہ اور اس کو مکمل کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بارہا میں نے یہ لطیفہ سنا ہوا ہے کہ آپ فرماتے تھے کوئی عورت تھی اسی طرح کی اُسے عادت تھی مگر تھی وہ غریب.اُس نے ایک اچھی سی انگوٹھی بڑے شوق سے بنوائی اور خیال کیا کہ عورتیں اس کی تعریف کریں گی اور کہیں گی.بی بی ! تم نے یہ کہاں سے بنوائی ہے؟ کتنی قیمت میں بنی ہے؟ نمونہ کیسا اچھا ہے ! ہم تو چاہتی ہیں ایسی انگوٹھی ہم بھی بنوائیں مگر اتفاق کی بات ہے لوگوں کی اُس پر نظر نہ پڑی اور اُنہوں نے اُس سے کچھ پوچھا نہیں.آخر اس نے باتیں کرنی شروع کر دیں کہ فلاں بات یوں ہے ، فلاں بات یوں ہے اور بات کے ساتھ ساتھ انگوٹھی بھی سامنے کر دیتی لیکن پھر بھی کسی نے نہ پوچھا.آخر تنگ آ کر اُس نے اپنے گھر کو آگ لگا دی.

Page 456

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۰ چشمہ ہدایت سارے ارد گرد کے لوگ اکٹھے ہو گئے ، عورتیں بھی آگئیں اور اُس سے ہمدردی کرنے لگیں کہ کیا ہوا؟ کچھ بچا بھی ؟ اُس نے کہا کچھ نہیں بچا صرف یہ انگوٹھی بچی ہے.آخر کسی عورت نے پوچھا کہ بہن ! یہ انگوٹھی تم نے کب بنوائی تھی؟ وہ رو کر کہنے لگی کہ تو پہلے پوچھ لیتی تو میرا گھر ہی کیوں جلتا.تو بار ہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ لطیفہ سنایا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ عورت کی فطرت میں کچھ نمائش اللہ تعالیٰ نے رکھی ہے.پس میرے زیادہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں.میرے خیال میں جو سامنے دفتر لجنہ اماءاللہ کا بنا ہوا ہے وہ اپنی شان سے اور اپنی عظمت سے اور اپنے اس نظارہ سے کہ مرد چپ کر کے بیٹھے ہیں اور ہم نے اپنا دفتر بنا لیا ہے عورتوں کو سب وعظوں سے زیادہ کام پر تیار کر دے گا.مجھے یقین ہے کہ وہ بڑے شوق سے جاتے ہی روپے جمع کرنا شروع کر دیں گی اور جو باقی رقم ہے اُس کو غالبا چند دنوں کے اندر ہی پورا کر دیں گی.مجھے زیادہ فکر عورتوں کے ذمہ جو مسجد ہالینڈ کے لئے چندہ کی تحریک مسجد ہالینڈ لگائی گئی ہے اُس کا ہے اس میں ابھی بہت سی کمی باقی ہے.میں نے جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے مسجد ہالینڈ کا چندہ عورتوں نے مردوں سے زیادہ دیا ہے.مردوں کے ذمہ واشنگٹن کی مسجد لگائی گئی ہے اور اُس کا خرچ مسجد بنا کر قریباً اڑھائی پونے تین لاکھ ہوتا ہے اور جو عورتوں کے ذمہ کام لگایا تھا مسجد ہالینڈ کا اُس کی ساری رقم زمین وغیرہ ملا کر کوئی اسی ہزار یا لاکھ کے قریب بنتی ہے.اُنہوں نے اپنے اسی ہزار میں سے چھیالیس ہزار روپیہ ادا کر دیا ہے یعنی پچاس فیصدی سے زیادہ اور مردوں نے اپنے اڑھائی پونے تین لاکھ میں سے اب تک چھتیس ہزار روپیہ دیا ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس مکان کو اس وقت تک ایک احمدی کے پاس اگر وہی سمجھئے.یوں تو انہوں نے قرض دیا ہوا ہے لیکن بہر حال اس مکان کے لئے دیا ہوا ہے اس لئے اُسے گرو ہی سمجھو.اس کے ساتھ وہاں کے مبلغ کی طرف سے اصرار ہو رہا ہے کہ پچھلا قرضہ ادا کرو اور آگے کے لئے مسجد کی تیاری کرو.پس ممکن ہے یہ مکان گر وہی رکھنا پڑے لیکن مسجد ہالینڈ کی طرف میں سمجھتا ہوں کہ عورتوں کو توجہ دلانے کی اتنی

Page 457

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۱ چشمہ ہدایت ضرورت نہیں.مجھے یقین ہے کہ وہ میری اس مختصر تحریک سے ہی اپنے فرض کو سمجھنے لگ جائیں گی اور اس نیک کام کی تکمیل تک پہنچا دیں گی.میں عورتوں سے کہتا ہوں تمہاری قربانی مردوں سے اس وقت بڑھی ہوئی ہے.اپنی اس شان کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دفتر کے قرضہ کو بھی ادا کرو اور اس کے ساتھ مسجد ہالینڈ کو بھی نہ بھولنا.اس کے لئے ابھی کوئی پچاس ہزار روپیہ کے قریب ضرورت ہے.ہمارا پہلا اندازہ مکان اور مسجد کی تعمیر کا تمیں ہزار کے قریب تھا لیکن اب وہ کہتے ہیں کہ ساٹھ ہزار سے کم میں وہ جگہ نہیں بن سکتی کیونکہ اس جگہ پر گورنمنٹ کی طرف سے کچھ قیود ہیں اور وہ ایک خاص قسم کی اور خاص شان کی عمارت بنانے کی وہاں اجازت دیتے ہیں اس سے کم نہیں دیتے.پس زمین کی قیمت مل کر ۹۰ ہزار سے ایک لاکھ تک کا خرچ ہو گا جس میں سے وہ بفضلہ چھیالیس ہزار تک اس وقت تک ادا کر چکی ہیں.یہ باتیں تو میں نے عورتوں سے مخاطب ہو کے کی ہیں اب جو باقی باتیں ہیں چونکہ اسلام مردوں کا بھی ہے اور عورتوں کا بھی اس لئے اس میں مرد بھی شریک ہوں گے اور عورتیں بھی شریک ہوں گی.( الاظہار لذوات الخمار صفحه ۱۳۱ تا ۱۳۳، الفضل ۲ /جنوری ۱۹۵۲ء) قادیان سے ایک اخبار بدر کے نام سے نکلنا شروع ہوا ہے.گومیں سمجھتا ہوں کہ ہمارے ملک کی ضروریات اس سے کچھ زیادہ پوری نہ ہو سکیں گی لیکن دوستوں کو یہ امر ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اس وقت یہاں کے دوست نسبتا زیادہ اچھی حالت میں ہیں اس لئے وہ اخبار کی زیادہ مدد کر سکتے ہیں اور ان کی یہ مدد اس اخبار کی مالی حالت کو مضبوط کرنے کے علا وہ ہندوستان میں اسلام کی تبلیغ میں بھی بڑی مُمد ثابت ہوگی.پس یہ ایک ثواب کا فعل ہے دوستوں کو ضرور اس اخبار کی مدد کرنا چاہئے.الفضل“ کے خریداروں کی تعداد میں ایک عرصہ سے کوئی نمایاں اضافہ نہیں ہو رہا.حالانکہ جماعت کافی بڑھ رہی ہے.اخبارات ضروریاتِ زندگی میں سے ہوتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی اکثر مجھے اخبار پڑھنے کی تحریک فرمایا کرتے تھے اور ایک روز نامہ اخبار تو بڑی بھاری تربیت گاہ کا رنگ رکھتا ہے.اس کی طرف سے

Page 458

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۲ چشمہ ہدایت لا پرواہی اور عدم توجہی اپنے علم کو زنگ لگانے کے مترادف ہے.پس احباب کو الفضل کی خریداری بڑھانے کی طرف بھی توجہ دینی چاہئے..رسالہ ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) اب دوبارہ شائع ہونا شروع ہو گیا ہے اور تبلیغ کی غرض سے مختلف ممالک کی لائبریریوں وغیرہ میں بھی بھجوایا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسے دس ہزار کی تعداد میں شائع کرنے کی خواہش فرمائی تھی اور ہماری موجودہ طاقت اور تبلیغی ضرورت کے لحاظ سے تو دس ہزار کہتے ہوئے بھی ہمیں شرم آنی چاہئے کیونکہ اب تو اس سے بہت زیادہ اشاعت کی ضرورت ہے.احباب دو طرح سے اس کی اشاعت میں حصہ لے سکتے ہیں ایک تو اس کے خریدار بن کر اور دوسرے اسے موزوں غیر مسلم اصحاب یا لائبریریوں میں پہنچانے کے لئے چندہ دے کر.ایک بات میں دوستوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہر سال جو دُنیا میں آتا ہے وہ اپنے ساتھ کچھ نئی مشکلات لاتا ہے اور کچھ نئی آسانیاں بھی لاتا ہے.جو قوم یا جو فرد بھی یہ خیال کر لیتا ہے کہ بس ہمارے او پر پچھلے پانچ یا سات سال سے جو کچھ گزرا تھا وہی گزرتا چلا جائے اُس سے زیادہ نادان اور غافل کوئی نہیں ہوسکتا.یقینا ساری دُنیا بدلتی ہے، بدلتی چلی جائے گی اور جب دُنیا بدلتی ہے تو کونسا انسان ایسا ہو سکتا ہے جو ایک جگہ پر کھڑا رہے اور اُس کے لئے حالات نہ بدلیں.ہر گھر میں دیکھ لو ہر سال میں کوئی مرجاتا ہے اور کوئی پیدا ہو جاتا ہے.گویا ایک صورت ترقی کی ہو جاتی ہے اور ایک تنزل کی ہو جاتی ہے اور اس طرح لوگ بالعموم سموئے جاتے ہیں.آہستہ آہستہ دُنیا کا قدم آگے نکلتا چلا جاتا ہے اور بعضوں کا آہستہ آہستہ نیچے گرنا شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ دونوں باتیں ایک وقت میں لگی ضرور رہتی ہیں مگر جماعت کے دوستوں کو میں نے دیکھا ہے کہ قومی لحاظ سے انہیں اس کا احساس نہیں ہوتا.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جس حالت سے ہم گزر رہے ہیں اُسی حالت میں ہم گزرتے چلے جائیں اور یہ ناممکن بات ہے.اگر اسی حالت میں ہم گزرتے چلے جائیں تو یقیناً ہم پر ایک موت طاری ہو جائے گی.در حقیقت انسان موت سے بچتا ہے حرکت کے ساتھ.تمام قرآن کریم اسی سے بھرا ہوا ہے کہ کام کرنا اور عمل کرنا بس یہی انسان کی

Page 459

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۳ چشمہ ہدایت زندگی کا موجب ہوتا ہے.اور اب تو دیکھ لو جو نیا اضافی فلسفہ نکلا ہے اور آئن سٹائن نے نکالا ہے اس میں اُس نے اصول ہی یہ رکھا ہے کہ ایک خاص حد تک تیز رفتار میں موت سے انسان بچ جاتا ہے.وہ کہتا ہے کہ ہلاکت اور تباہی اس تیزی سے نیچے نیچے ہے.جب کوئی چیز سورج کی روشنی کے برابر رفتار میں تیز ہو جائے گی وہ موت سے بچ جائے گی.تو تیز رفتار انسان کو ہلاکت سے بچاتی ہے.کھڑے رہنے کی خواہش کرنا یا آہستہ چلنے کی خواہش کرنا قوم کو تباہ کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ ضرور نئی نئی مشکلات لاتا ہے تا کہ لوگوں کے اندر بیداری پیدا ہو.اگر اللہ تعالیٰ نئی نئی مشکلات نہ لائے تو آہستہ آہستہ لوگ ا شست ہوتے چلے جائیں.قرآن کی طرف رغبت کم ہو جائے ، دین کی طرف رغبت کم ہو جائے ، قربانیوں کی طرف رغبت کم ہو جائے اور پھر وہ ایک قسم کے جانور بن کر رہ جائیں انسان نہ رہیں.اور اب تو ایک اور دلچسپی کی چیز ہمارے لئے پیدا ہو گئی ہے جو ہمارے لئے خدا نے پیدا کی ہے کیونکہ اس کے فوائد اگر اسلام کو پہنچیں گے تو اسلام ہمارا ہے ہم اس کے دعویدار ہیں اور وہ پاکستان ہے.ہمارے لئے بھی کچھ نہ کچھ نئی مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں اور پاکستان کے لئے بھی اور باقی عالم اسلام کے لئے بھی.کمزور انسان ان باتوں کو دیکھ کر گھبراتا ہے وہ کہتا ہے یہ مصیبت آ گئی وہ مصیبت آ گئی لیکن عقل مند انسان سمجھتا ہے کہ ان مصیبتوں کے بغیر میری قوت عملیہ کبھی بھی اپنے پورے زور میں نہیں آئے گی اور بغیر اس کے کہ قوت عملیہ اپنے پورے زور پر آئے مسلمان ترقی نہیں کر سکتے.ہماری ذاتی مشکلات میں سے سب سے پہلے احرار کی مخالفت ہے.میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک اِن کی مخالفت کا سوال ہے اس کے دو پہلو ہیں.ایک پہلو تو اس کا یہ ہے کہ لوگوں کے اندر مخالفت ہوتی ہے اور وہ مخالفت کی وجہ سے ہماری باتوں کے سُننے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے.اُن کے دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے یہ چیز تو ہمارے لئے بُری ہوتی ہے.مگر ایک صورت یہ بھی ہو ا کرتی ہے کہ جب کوئی شخص مخالفت کی باتیں سنتا ہے تو وہ پھر کریدتا ہے کہ اچھا! یہ ایسے گندے لوگ ہیں.ذرا میں بھی تو جا کے دیکھوں.اور جب وہ دیکھتا ہے تو حیران ہو جاتا ہے کہ جو باتیں مجھے اُنہوں نے بتائی تھیں وہ تو بالکل اور تھیں

Page 460

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۴ چشمہ ہدایت اور یہ باتیں جو کہتے ہیں بالکل اور ہیں اور وہ ہدایت کو تسلیم کر لیتا ہے.مجھے خوب یاد ہے میں چھوٹا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام مسجد میں تشریف رکھتے تھے مجلس لگی ہوئی تھی کہ ایک صاحب رام پور سے تشریف لائے.وہ رہنے والے تو لکھنؤ یا اُس کے پاس کے کسی مقام کے تھے ، چھوٹا سا قد تھا، دُبلے پتلے آدمی تھے.ادیب تھے، شاعر تھے اور اُن کو محاورات اُردو کی لغت لکھنے پر نواب صاحب رامپور نے مقرر کیا ہوا تھا ، وہ آ کے مجلس میں بیٹھے اور اُنہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ میں رام پور سے آیا ہوں اور نواب صاحب کا درباری ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پوچھا کہ آپ کو یہاں آنے کی تحریک کس طرح ہوئی ؟ اُنہوں نے کہا میں بیعت میں شامل ہونے کے لئے آیا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمانے لگے.اس طرف تو ہماری جماعت کا آدمی بہت کم پایا جاتا ہے، تبلیغ بھی بہت کم ہے ، آپ کو اس طرف آنے کی تحریک کس نے کی؟ تو یہ لفظ میرے کانوں میں آج تک گونج رہے ہیں اور میں آج تک اس کو بھول نہیں سکا حالانکہ میری عمر اُس وقت سولہ سال کی تھی کہ اس کے جواب میں اُنہوں نے بے ساختہ طور پر کہا کہ یہاں آنے کی تحریک مجھے مولوی ثناء اللہ صاحب نے کی.میں تو شاید اپنی عمر کے لحاظ سے نہ ہی سمجھا ہوں گا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر ہنس پڑے اور فرمایا.کس طرح ؟ اُنہوں نے کہا مولوی ثناء اللہ صاحب کی کتابیں دربار میں آئیں.نواب صاحب بھی پڑھتے تھے اور مجھے بھی پڑھنے کے لئے کہا گیا تو میں نے کہا جو جو حوالے یہ لکھتے ہیں میں ذرا مرزا صاحب کی کتابیں بھی نکال کر دیکھ لوں کہ وہ حوالے کیا ہیں.خیال تو میں نے یہ کیا کہ میں اس طرح احمدیت کے خلاف اچھا مواد جمع کرلوں گا لیکن جب میں نے حوالے نکال کر پڑھنے شروع کئے تو ان کا مضمون ہی اور تھا.اس سے مجھے اور دلچسپی پیدا ہوئی اور میں نے کہا کہ چند اور صفحے بھی اگلے پچھلے پڑھ لوں.جب میں نے وہ پڑھے تو مجھے معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور آپ کی شان اور آپ کی عظمت جو مرزا صاحب بیان کرتے ہیں وہ تو ان لوگوں کے دلوں میں ہے ہی نہیں.پھر کہنے لگے مجھے فارسی کا شوق تھا.اتفاقاً مجھے درنمین فارسی مل گئی اور میں

Page 461

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۵ چشمہ ہدایت نے وہ پڑھنی شروع کی تو اس کے بعد میرا دل بالکل صاف ہو گیا اور میں نے کہا کہ جا کر بیعت کرلوں.تو مخالفت ایک رنگ میں مفید بھی ہو ا کرتی ہے اور ایک رنگ میں مضر بھی ہو ا کرتی ہے.یعنی لوگ جوش میں آجاتے ہیں اور بعض دفعہ فساد کر نے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ سلسلہ کی باتیں سننے سے آئندہ محروم رہ جاتے ہیں.پس ان دونوں نقطہ نگاہ سے ہمیں اپنے نظریئے تبدیل کرنے پڑتے ہیں.جو مخالفت کا نقطہ نگاہ ہے اس سے ہم کو اپنا یہ نقطہ نگاہ تبدیل کرنا پڑتا ہے کہ ہم جس چستی کے ساتھ اپنا لٹریچر لکھ رہے تھے ، جس طرز سے ہم اپنا لٹریچر لکھ رہے تھے، جس طرح ہم اس کی اشاعت کر رہے تھے ، جس طرح ہم تبلیغ کر رہے تھے ہم کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اب وہ زمانہ نہیں رہا کہ ہم پرانے ڈگر پر چل سکیں اور اپنے پرانے طریق پر لوگوں تک پہنچ سکیں کیونکہ اب لوگوں کے دل ہماری نسبت انقباض محسوس کر رہے ہیں اور اب ہمیں ان تک پہنچنے کے لئے نئے طریقے اور نئی طرزیں ایجاد کرنی پڑیں گی.اور جہاں تک لوگوں کو توجہ ہوتی ہے اس کے لحاظ سے ہمارے لئے سہولت پیدا ہو جاتی ہے کہ لوگ خود ہمارے گھروں تک پہنچتے ہیں.میں نے دیکھا ہے اس زمانہ میں بھی مخالفت کے باوجود کئی لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور وہ یہی بتاتے ہیں کہ ہم نے مخالفوں کی باتیں سنیں اور اس کی وجہ سے سلسلہ کی طرف متوجہ ہو گئے.دوسرا امر جو اس سال ہمارے لئے وجہ تشویش بنا رہا ہے یہ ہے کہ ہندوستان کے بعض علاقوں میں بسنے والی احمدی جماعتوں کے لئے بعض وجوہ کی بناء پر نئی نئی مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں.تحریک جدید اس وقت ایک نازک دور میں سے گزر رہی ہے.ہمارے جو مبلغین سالہا سال سے مختلف ممالک میں متعین ہیں اُن کے تبادلے کی وجہ سے ہمارا خرچ بہت بڑھ گیا ہے لیکن آمد میں کوئی خاص اضافہ نہیں ہوا.گو اس سال دوستوں نے وعدوں میں بھی اور وصولی میں بھی گزشتہ سال کی نسبت اچھا نمونہ دکھایا ہے لیکن ابھی اس طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے تاکہ تحریک پر قرض کا جو بار آ پڑا ہے اُسے اُتارا جا سکے.دوست

Page 462

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۶ چشمہ ہدایت زیادہ سے زیادہ وعدے لکھا ئیں اور پھر نہ صرف اِس سال کے بلکہ گزشتہ سال کے وعدوں کی وصولی کے لئے بھی خاص کوشش کریں.اس سال ہمارے علاوہ عام مسلمانوں کے لئے بھی کافی مشکلات رہی ہیں.مثلاً کشمیر کا مسئلہ ہے جو حل ہونے میں ہی نہیں آتا.میرے نزدیک اس مسئلہ کو یوں غیر معتین عرصہ کے لئے ملتوی کرنا قرین مصلحت نہیں ہے.ایک لمبے عرصہ تک باشندگانِ کشمیر کو ایک غیر ملکی حکومت کے ماتحت رہنے دینا اور پھر یہ اُمید کرنا کہ وہ ہمیں ووٹ دیں گے کوئی ایسی تشفی کی بات نہیں ہے.پھر ہمارے ملک میں اسی سال نوابزادہ لیاقت علی صاحب کا قتل بھی ایک افسوسناک واقعہ ہے جو نتیجہ ہے مولویوں کے اُس پرو پیگنڈا کا کہ جس سے اختلاف رائے ہو بے شک اُسے قتل کر دیا کرو.مسئلہ فلسطین بھی کشمیر کے مسئلہ سے کم اہم نہیں ہے.یہ ایک چھوٹا سا ملک ہے اور وہاں لاکھوں مہاجرین کو آباد کرنے کا سوال در پیش ہے.پاکستان کو یہ سہولت تھی کہ یہ ایک وسیع ملک ہے جہاں مہاجرین کافی تعداد میں بسائے جا سکتے تھے لیکن وہاں یہ حالت نہیں ہے.مہاجرین کی آبادکاری کے سوال کے علاوہ اس مسئلہ کا ایک نازک اور اہم پہلو یہ ہے کہ ہمارے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوار میں دشمن اسلام کو بسا دیا گیا ہے.میں نے تو ابتداء میں ہی اس خدشہ کا اظہار کیا تھا لیکن اب تو یہودی علانیہ اپنی کتابوں میں مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ پر قابض ہونے کے ناپاک عزائم کا اظہار کرنے لگے ہیں.علاوہ ازیں ایران میں تیل کا مسئلہ، مصر کا برطانیہ سے تنازعہ، سوڈان کی بے چینی اور شام کے فسادات یہ سب ایسے امور ہیں جو مسلمانوں کے لئے تکلیف دہ ہیں.ہم تعداد میں بہت کم ہیں اس لئے ان مشکلات کے ازالہ کے لئے عملاً زیادہ حصہ نہیں لے سکتے لیکن کم از کم دُعا کا ہتھیار تو ہمارے پاس ہے.پس آؤ ہم دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی ان مشکلات کو اپنے خاص فضل سے دُور کرے اور نقصان کی بجائے ان مشکلات کو اسلام کی ترقی کا ذریعہ بنائے.آمین

Page 463

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۷ چشمہ ہدایت احمدیت بہر حال ترقی کرے گی اس سال اللہ تعالی کے فضل سے جماعت کے تبلیغی مشنوں میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری تبلیغ میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور جماعت نے ترقی کی ہے.جس مقام پر ہم آج ہیں یقینا گزشتہ سال وہ مقام ہمیں حاصل نہ تھا اور جس قسم کے تغیرات اس وقت رونما ہورہے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ جس مقام پر ہم آج ہیں آئندہ سال انشاء اللہ ہم اس سے یقیناً آگے ہوں گے.یہ تغیرات نہ تمہارے اختیار میں ہیں نہ میرے یہ خدا تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہیں.بس انسانی تدابیر کو نہ دیکھو بلکہ خدائی تقدیر کی اُنگلی کو دیکھو جو یہ بتا رہی ہے کہ حالات خواہ اچھے ہوں یا بُرے احمدیت کی گاڑی بہر حال چلتی چلی جائے گی.انشاء اللہ ( نعرہ ہائے تکبیر ) ہم نے ربوہ کی زمین خرید کر یہاں مہاجرین کو آباد کرنے کے لئے مختلف قواعد بنائے تھے یقیناً ان قواعد کی رو سے ہم سو فیصدی سب کو خوش نہیں کر سکتے تھے چنانچہ جن دوستوں کو اس سے کچھ نقصان پہنچا ہے اُنہوں نے اس سلسلے میں بے چینی اور بے اطمینانی کا اظہار کیا ہے.یہ بے چینی دنیوی روح پر دلالت کرتی ہے گو ساتھ ہی زیر کی اور دانائی کی بھی علامت ہے لیکن محض دنیوی زیر کی اور دانائی کی.میں ان دوستوں سے کہتا ہوں کہ تمہاری یہ بے چینی درست ہوتی بشر طیکہ تمہیں غیب کا علم ہوتا.جب تمہیں یہ معلوم ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون ہمسایہ تمہارے لئے اچھا ہو گا اور کون سی جگہ تمہارے اور تمہارے اہل و عیال کی صحت کے لئے اچھی ہو گی تو پھر اس بے چینی کا کیا مطلب؟ تمہارے لئے تو ایک ہی محفوظ طریق ہے اور وہ یہ کہ جہاں تک ظاہری حالت کا تعلق.بے شک ایک حد تک انہیں مد نظر رکھو لیکن اگر دوسرے بھائی سے اختلاف اور رنجش کی صورت ہو گئی ہے تو پھر استخارہ کرو اور معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑ دو.آخر تمہیں کیا پتہ کہ کونسا قطعہ تمہارے لئے اچھا ثابت ہو گا.پس کیوں نہیں تم خدا تعالیٰ پر معاملہ چھوڑ دیتے تا کہ اس کی مشیت میں جو تمہارے لئے بہتر ہے وہی ہو جائے.ہے ایک اور بات جس کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ میں نے گزشتہ سالوں میں

Page 464

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۸ چشمہ ہدایت ایک سکیم تیار کی تھی اور اس بات کی خواہش کی تھی کہ سلسلہ کی طرف سے کچھ لٹریچر شائع کیا جائے.کچھ بچوں کے لئے ہو، کچھ درمیانی عمر والوں کے لئے ہو اور کچھ بڑے لوگوں کے لئے ہو.مجھے افسوس ہے کہ ہمارے مصنفین اور علماء نے اس کی طرف پوری توجہ نہیں کی اس لئے اب میں نے اس کو خود اپنی نگرانی میں لے کر آدمی مقرر کر دیئے ہیں کہ تم یہ کام کرو.پہلے ہم نے بچوں کا حصہ لیا ہے اور کچھ کتابیں مختلف لوگوں کے ذمہ لگا دی ہیں کہ یہ تم نے چند مہینوں کے اندر پوری کر کے دینی ہیں چنانچہ یہ کتابیں فی الحال میں نے لوگوں کے سپرد کر دی ہیں.(۱) ہستی باری تعالیٰ پر ایسا سادہ مضمون جس کو بچے سمجھ سکیں.(۲) معیار و شناخت نبوت.(۳) دُعا.(۴) قضاء و قدر.(۵) بعث بعد الموت.(۶) بهشت و دوزخ.(۷) معجزات.(۸) فرشتے.(۹) صفات الہیہ (۱۰) ضرورت نبوت و شریعت اور اس کا ارتقاء.(۱۱) عبادت اور اس کی ضرورت.(۱۲) نماز.(۱۳) ذکر الہی.(۱۴) روزہ.(۱۵) حج.(۱۶) زکوۃ - ( ۱۷ ) معاملات.اچھے شہری کے فرائض، ورثہ تعلیم ، تربیت افراد میں قوم کا فرض اور اس کی ذمہ داریاں.(۱۸) اخلاق اور ان کی ضرورت ، ملت شخص پر مقدم ہے، فرد پر خاندان مقدم ہوتا ہے.حکومت قوم پر مقدم ہوتی ہے، ظاہر و باطن دونوں کی ضرورت اور اہمیت.(۱۹) ماں باپ پر بچوں کے متعلق فرائض اور بچوں پر ماں باپ کے متعلق فرائض.(۲۰) حفظانِ صحت جسمانی بحیثیت ماحول اور حفظان صحت جسمانی بحیثیت فرد.(۲۱) محنت کی عادت اور وقت کی پابندی، ایفائے عہد ، مظلوم کی امداد، سچ، جھوٹ سے پر ہیز.(۲۲) چندہ اور اس کی اہمیت تبلیغ اور اس کی اہمیت، زندگی وقف کرنے کی اہمیت.( ۲۳ ) احمدیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ہندوستان اور پاکستان کی اہمیت.(۲۴) حکومت اسلامی ، حکومت اور رعایا کے تعلقات ، جہاد.ان میں سے بعض مضامین پر تو مستقل رسالہ ہوگا اور بعض تین تین، چار چار عنوانوں پر ایک ایک رسالہ ہو گا.یہ انشاء اللہ دو تین مہینے میں اُمید ہے کہ کتابیں تیار ہو جائیں گی اور پھر ان کو اگلے سال یعنی ۱۹۵۲ء میں انشاء اللہ چھپوار دیا جائے گا.اس طرح بچوں کی تربیت اور تعلیم میں بہت کچھ مددل جائے گی.

Page 465

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۳۹ چشمہ ہدایت دوسرا طریق میں نے بڑے مضامین کے متعلق سوچا.میں نے پچھلے سال تحریک کی کہ ہمارے جو جامعہ کے لڑکے ہیں اُن کو ڈگری نہ دی جائے جب تک یہ کسی نہ کسی مضمون کے متعلق کتاب نہ لکھ دیں.اس کے ذریعہ بھی بڑا مفید لٹریچر جمع ہو جائے گا.عنوان ہم مقرر کریں گے اور کام ان سے لیں گے.اس طرح وہ مستقل کتابیں پیدا ہو جائیں گی جن کے ذریعہ ہماری جماعت بھی فائدہ اُٹھائے گی اور دوسرے لوگ بھی فائدہ اُٹھا سکیں گے.اس سال چونکہ یہ بے وقت کا رروائی شروع ہوئی اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ بجائے لمبی کتاب دینے کے پچھتر صفحوں کی کتاب مقرر کر دی جائے اور ایسے عنوان مقرر کئے جائیں جن کو وہ زیادہ آسانی کے ساتھ لکھ سکیں.چنانچہ یہ کتا بیں اس سال انشاء اللہ وہ تھیس کے طور پر لکھیں گے اور پھر ان کو سلسلہ کی طرف سے ( جو ان میں سے مفید ہوں گی ) شائع کر دیا جا ہے گا.(1) احکام الصلوۃ اور ان کی اصولی حکمتیں.(۲) اجرائے نبوت فی الامۃ ( حدیث کی روشنی میں جو کچھ اس مسئلہ پر علمائے سلسلہ لکھتے آئے ہیں ان کا خلاصہ اور نئی تحقیق ) (۳) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصانیف کی وجہ سے غیر احمدی مصنفین پر کیا اثر پڑا ہے.( مسائل کے لحاظ سے ) (۴) اشتراکیت اور مذہب (۵) الامام المہدی (اسلامی لٹریچر میں پہلے اس کی کیا اہمیت رہی ہے اور اب مسلمان اس حقیقت کو کس طرح فراموش کرتے جا رہے ہیں ) (1) ہمارے مشن ( یعنی اب تک جس جس جگہ ہمارے مشن قائم ہوئے ان کا ذکر نیز ان ممالک کے مختصر ضروری جغرافیائی اور تاریخی احوال اور مذہبی تحریکیں نیز مشن کے قیام کی تاریخ ، کام کی نوعیت اور نتیجہ ) (۷) ہجرت از قادیان اور پیشگوئی دربارہ واپسی.(۸) مودودی تحریک پر تبصرہ.

Page 466

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۰ (۹) حضرت مسیح ناصری کی سیرت قرآن مجید کی روشنی میں.(۱۰) تاریخ اسلام بعہد حضرت عمرؓ (11) تاریخ اسلام بعہد حضرت ابوبکر (۱۲) سُود کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر.(۱۳) علوم متعلقہ حدیث.(۱۴) جہاد.(۱۵) انڈیکس کتاب تذکرہ.(۱۶) احکام صوم اور اس کی اصولی حکمتیں چشمہ ہدایت (۱۷) اسلامی قانون وراثت.یہ گویا ۷ اکتا بیں انشاء اللہ تعالیٰ مارچ تک تیار ہو جائیں گی اور خدا تعالیٰ نے چاہا تو ان میں سے بہت سی ۱۹۵۲ء میں شائع کر دی جائیں گی.آئندہ کے لئے اس سے زیادہ وسیع مضامین دینے کا ارادہ ہے.چونکہ اس دفعہ لڑکوں کو صرف تین تین مہینے کی مہلت دی گئی ہے.طریق کار یہ اختیار کیا گیا ہے کہ وہ ہیڈنگ جو رکھے گئے ہیں ان کے متعلق کہا گیا کہ وہ ان کے ضمنی عنوان لکھ کر لائیں کہ ان کے کون کون سے پہلوؤں پر وہ روشنی ڈالیں گے پھر ان کا پرو فیسر جس کے ذمہ وہ مضمون لگایا گیا ہے پرنسپل اور وکیل التعلیم اور وہ طالبعلم باری باری میرے پاس آئے اور میری مجلس میں ان پر غور کر کے اس کی اصلاح کی گئی جو غیر ضروری مضمون تھے وہ کاٹے گئے اور جو ضروری حصے رہ گئے تھے اُن کو داخل کر کے پھر وہ مضمون ان کو دیا گیا کہ اس پر وہ کتاب لکھ کر لائیں.آئندہ کے لئے ارادہ ہے زیادہ مستقل کتابیں ہوں جن کے اوپر وہ ایک لمبا عرصہ غور کرنے کے بعد مضمون لکھ سکیں.اس کے علاوہ کچھ لٹریچر ہندوؤں اور سکھوں کے لئے بھی تیار ہو رہا ہے.جماعت کو اس کے متعلق یہ امر یا د رکھنا چاہئے کہ کتابیں اگر لکھ کر الماریوں میں پڑی رہیں تو کوئی فائدہ نہیں ہوتا.دوستوں کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے اور کتابیں پڑھوانے کی

Page 467

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۱ چشمہ ہدایت عادت ڈالنی چاہئے.دُنیا میں سب سے اچھا جلیس کتاب ہوتی ہے کیونکہ انسان کسی جگہ پر بھی جائے وہ جلیں ساتھ جا سکتا ہے.تمہارا گہرے سے گہرا دوست جب تم گھر میں جاتے ہو تو وہ باہر رہ جاتا ہے.تمہارا گہرے سے گہرا دوست اپنے بیوی بچوں کی ضرورتوں کے لئے رات کو تمہیں چھوڑ کر چلا جاتا ہے لیکن تمہاری کتاب ہر وقت ساتھ رہ سکتی ہے.رات کو تم سوتے ہو، بیوی تمہارے ساتھ ہے، دروازے بند کئے ہوئے ہو، پردہ کئے ہوئے ہو، اُس نے بھی کتاب اُٹھائی ہوئی ہے اور تم نے بھی ایک کتاب اُٹھائی ہوئی ہے دونوں پڑھتے چلے جاتے ہیں.علم بڑھتا چلا جاتا ہے.کوئی خاص مسئلہ تمہیں پسند آتا ہے تو تم اس سے مخاطب ہو جاتے ہو.کوئی خاص مسئلہ اُسے پسند آتا ہے تو وہ تم سے مخاطب ہو جاتی ہے.اس طرح دونوں اپنے تبادلہ خیالات سے اپنے گھر کا علم بھی بڑھاتے جاتے ہیں، اپنے خاندان کا علم بھی بڑھاتے جاتے ہیں اور پھر اپنے ہمسایہ اور اپنی قوم کا علم بھی بڑھاتے جاتے ہیں.تو سب سے پہلی ذمہ داری جماعت پر یہ ہے کہ وہ اس لٹریچر کو خریدے.دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ پھر وہ اپنی عورتوں اور بچوں کو پڑھوائیں اور تیسری ذمہ داری جو میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر علم وسیع نہیں ہو سکتا یہ ہے کہ ہر جماعت میں لائبریریاں کھولی جائیں.اگر ہم ہر جماعت میں لائبریریاں کھول دیں تو میں سمجھتا ہوں ہماری تبلیغ کئی گنا وسیع ہو سکتی ہے.لائبریری کے لئے کوئی دوست کچھ وقت دے دیا کریں.آخر جو چندہ جمع کرتا ہے اُس کو بھی گھر بیٹھے چندہ نہیں آجا تا دن میں سے گھنٹہ دو گھنٹے وہ وقف کرتا ہے تبھی چندہ آتا ہے.بعض دفعہ شام کے وقت جب وہ سمجھتا ہے کہ مجھے فرصت ہے تو اس کام کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے بلکہ بڑے شہر والوں نے تو بتایا کہ انہیں دو دو تین تین گھنٹے روزانہ وقت دینا پڑتا ہے.اسی طرح کوئی شخص لائبریری کے لئے بھی وقت دے سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ شام کو پانچ بجے سے سات بجے تک یا چھ سے آٹھ بجے تک یا سات سے کو بجے تک لائبریری کھلے گی اور لوگوں کو کتابیں دی جائیں گی.کچھ اخبار بھی منگوا کر رکھے جاسکتے ہیں.چھوٹی جماعتوں کے لئے تو کتابیں تقسیم کرنے والی لائبریری زیادہ اچھی رہتی

Page 468

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۲ چشمہ ہدایت ہے اُن سے اتنا خرچ برداشت نہیں ہوسکتا کہ میزیں ہوں اور گر سیاں ہوں لیکن بڑے شہر مثلاً لا ہور ہے، کراچی ہے، ملتان ہے، پشاور ہے، راولپنڈی ہے، لائل پور ہے.اسی طرح میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان میں بنگال کو ملا کر کوئی ہمیں چھپیں ایسے شہر ہیں جن میں با قاعده احمدی لائبریریاں ہونی چاہئیں اور باقی جگہ ایسی لائبریریاں ہونی چاہئیں جو کتابیں تقسیم کرنے والی ہوتی ہیں.گھر کی ایک الماری میں کتابیں رکھی ہوئی ہوں اور ایک صفحہ پر کتابوں کی لسٹ چھپوا کر لوگوں میں تقسیم کر دی جائے کہ یہ ہماری لسٹ ہے جس نے کوئی کتاب پڑھنی ہو وہ بتا دے ہم اُس کے گھر پر پہنچادیں گے اور جب وہ کتاب پڑھ کر واپس کر دے تو پھر دوسروں کو دے دی جائے.حال ہی میں پنجاب اسمبلی کے ایک رکن عبدالستار صاحب نیازی پردہ پل اور اسلام نے اسمبلی میں پردہ بل پیش کرنے کی کوشش کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی.اس پل کی غرض یہ تھی کہ جو عورتیں پردہ کی پابندی نہیں کرتیں انہیں قانونا مجرم سمجھا جائے اور سزا دی جائے.( حضور نے اس پل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : - ) اس پل پر بہت لے دے ہوئی ہے.ایک طبقہ کا یہ خیال ہے کہ جب اسلام نے پردہ کا حکم دیا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ضرور سزا ملنی چاہئے لیکن دوسرے طبقہ نے یہ کہا ہے کہ جب قرآن مجید نے بے پردگی کے لئے کوئی سزا تجویز نہیں کی تو ہماری طرف سے سزا تجویز کرنا شریعت میں دخل اندازی کے مترادف ہوگا.دراصل اس مسئلہ کو ایک عجیب گورکھ دھندا بنا دیا گیا ہے.اگر یہ سمجھا جائے کہ چونکہ پردہ ایک اسلامی حکم ہے اس لئے اس کی خلاف ورزی پر ضرور سزا ملنی چاہئے تو سوال یہ ہے کہ کیا دیگر اسلامی احکام کی خلاف ورزی پر سزا ملتی ہے؟ قرآن مجید نے سُود سے منع کیا ہے لیکن پاکستان کے سارے محکمے سو د لیتے ہیں.اسلام مساوات کی تعلیم دیتا ہے لیکن یہ مساوات پاکستان میں کہاں نظر آتی ہے اور اگر یہ دلیل مان لی جائے کہ جس معاملہ میں قرآن مجید نے کوئی سزا تجویز نہ کی ہو اُس میں دخل اندازی نہیں کرنی چاہئے تو سوال یہ ہے کہ آج پاکستان

Page 469

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۳ چشمہ ہدایت میں جو تعزیرات نافذ ہیں کیا ان سب کا قرآن مجید نے ذکر کیا ہے؟ اس دلیل کی رو سے تو پاکستان کی تعزیرات میں سے نصف کے قریب فوراً منسوخ کرنی پڑیں گی کیونکہ ان کا قرآن مجید میں کوئی ذکر نہیں ہے.در حقیقت اس قسم کے بل پیش کرنے اور پھر ان کو مستر د کر نے کے لئے اس قسم کی دلیلیں دینے سے صاف پتہ چلتا ہے کہ آج مسلمان کس قدر پراگندہ خیال ہو چکے ہیں.وہ بالکل متضاد چیزیں پیش کرتے ہیں اور پھر انہیں اسلام کا نام دے دیتے ہیں.مثلاً اگر پاکستان میں یہ قانون پاس ہو جاتا تو یہاں پردے کی خلاف ورزی کرنے پر سزا ملتی.لیکن اس کے برعکس لڑکی میں یہ قانون جاری ہے کہ جو پردہ کرے اُسے سزا دی جائے.اور کئی دیگر اسلامی ممالک میں یہ قانون رائج ہے کہ نہ پردے کی پابندی پر سزا ملتی ہے اور نہ اسے چھوڑنے پر.گویا تینوں متضاد صورتیں اسلامی ممالک میں رائج ہیں لیکن تینوں صورتوں کو اسلام کی طرف منسوب کیا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ پراگندہ خیالی ہے جسے دور کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں.آپ نے یہی بتایا ہے کہ جب تک مسلمان اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے ہوئے ایک ہاتھ پر جمع نہ ہوں گے تا ساری اسلامی دنیا میں ایک ہی قانون اور فتویٰ جاری ہو اُس وقت تک وہ کبھی بھی موجودہ انتشار اور پراگندگی سے بچ نہیں سکتے نہ مذہبی طور پر نہ سیاسی طور پر.گو ہماری ہر جگہ مخالفت کی جاتی ہے لیکن ذرا غور کر واحمدیت کی ضرورت کتنی واضح ہو جاتی ہے.اس تمسخر کو دیکھ کر جو آج خود مسلمان اسلام سے کر رہے ہیں ہر طبقہ اور ہر فرقہ اپنے خیال اور اپنی خواہش کو اسلام کی طرف اور قرآن کی طرف منسوب کر دیتا ہے اور اپنی اکثریت کے زعم میں دوسروں سے جبراً اپنے مسلک کو منوانے کی کوشش کرتا ہے.ایسا کرنے میں آج وہ اخبار بھی شامل ہے جس نے حال ہی میں حکومت کو میرے خلاف کا رروائی کرنے کا مشورہ دیا ہے.میں ایسے اخبار نویسوں کو کہتا ہوں کہ تمہاری یہ دھمکیاں اس لئے ہیں نا کہ تم زیادہ ہو اور ہم تھوڑے ہیں ورنہ کیا وجہ ہے کہ تم اس قسم کی باتیں انگریزوں اور ہندوؤں کے متعلق نہیں کہتے ؟ یہ محض اکثریت میں ہونے کا نتیجہ ہے کہ تم ایسی

Page 470

انوار العلوم جلد ۲۲ چشمہ ہدایت باتیں کر رہے ہو لیکن غور کرو کیا ابو جہل کی بھی یہی دلیل نہیں تھی کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کوئی حق نہیں کہ وہ ہمارے ملک کی ننانوے فیصدی آبادی کے خیالات کے خلاف کوئی بات کہے.آخر آج جو دلیل تم دیتے ہو کیا وہی دلائل ابو جہل نہیں دیا کرتا تھا ؟ تمہارے کہنے پر حکومت بے شک مجھے پکڑ سکتی ہے ، قید کر سکتی ہے، مار سکتی ہے لیکن میرے عقیدہ کو وہ دبا نہیں سکتی.اس لئے کہ میرا عقیدہ جیتنے والا عقیدہ ہے وہ یقیناً ایک دن جیتے گا تب ایسا تکبر کرنے والے لوگ پشیمان ہونے کی حالت میں آئیں گے اور انہیں کہا جائے گا بتاؤ کیا تمہارا فتویٰ اب تم پر عاید کیا جائے ؟ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اکثریت کا گھمنڈ کرنے والے لوگ آپ کے سامنے پیش ہوئے تو آپ نے انہیں فرمایا بتا ؤ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ آپ کا مقصد یہ کہنے سے یہی تھا کہ وہ اپنی اکثریت کے زعم میں جو کچھ کہا کرتے تھے وہ اُنہیں یاد دلایا جائے.کفار نے کہا بے شک ہم نے بہت ظلم کئے لیکن ہم آپ سے یوسف والے سلوک ہی کی اُمید کرتے ہیں.میں بھی کہتا ہوں کہ اُس دن جب تمہارا اکثریت میں ہونے کا غرور ٹوٹ جائے گا تو خواہ اُس وقت میں ہوں یا میرا قائمقام تم سے بھی بہر حال یوسف والا سلوک ہی کیا جائے گا.( انشاء اللہ ) اصل دیکھنے والی چیز ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم سوچیں اور غور کریں کہ کیا واقعی ہم نے اپنے خدا کو خوش کر لیا ہے؟ کیا ہمیں وہ چیز مل گئی ہے جس کی خاطر ہم نے دُنیا جہاں کی مخالفتیں مول لی ہیں؟ اگر ایسا ہے تو پھر واقعی ہمیں دُنیا کی کسی طاقت کی پرواہ نہیں لیکن اگر یہ چیز نہیں ملی تو خواہ دُنیا کہے یا نہ کہے ہم مر چکے اور ہمارا دل ہی ہماری حالت پر نوحہ کناں ہوگا.پس پورا زور لگاؤ کہ وہ چیز ہمیں حاصل ہو جائے جس کی خاطر ہم یہ سب تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں.لیکن وہ چیز کیا ہے؟ وہ چیز ہے ایمان باللہ جسے قرآن مجید نے مومنوں کے سامنے ایک بہترین تحفہ کے طور پر پیش کیا ہے.اگر ایمان باللہ مل جائے اور اگر اس کے سارے پہلو اُسی طرح محفوظ ہوں جس طرح قرآن مجید کہتا ہے تو پھر سمجھ لو کہ تم نے سر کچھ پالیا.“ ( الفضل ۳ / جنوری ۱۹۵۲ ء لا ہور )

Page 471

چشمہ ہدایت انوار العلوم جلد ۲۲.۴۴۵ حضور نے تقریر کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا :- اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَالْعَصْرِن اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي چشمہ ہدایت حسرة إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ خُشْرِكْ وتواصوا بالصبر لاے یعنی دنیا پر نظر کر کے اور تاریخ عالم پر غور کر کے تمہیں دکھائی دے سکتا ہے کہ ہر طرف گھانا ہی گھانا اور تباہی ہی تباہی اور جھگڑے ہی جھگڑے پائے جاتے ہیں.صرف ایک ہی چیز ہے جو ان تمام بداثرات سے پاک نظر آسکتی ہے اور وہ مومن انسان ہے جو عمل صالح کرتا ہے اور تواصوا بِالْحَقِّ کرتا ہے اور تواصوا بالصبر کرتا ہے.گویا یہ چار چیزیں ایسی ہیں جو ساری دنیا کے فسادات کا علاج ہیں.جن میں سے پہلی اور سب سے اہم چیز ایمان ہے.یہ سیدھی بات ہے کہ اگر ایمان کامل کسی کو نصیب ہو جائے تو پھر دنیا کی مشکلات اور دنیا کی تکالیف اس کی نگاہ میں بالکل بے حقیقت ہو جاتی ہیں.احادیث میں ایک واقعہ بیان ہوا ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ ایمان کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور جب وہ کسی شخص کو بچے طور پر حاصل ہو جائے تو اُس کی نگاہ میں دنیا کتنی بے حقیقت ہو جاتی ہے.احد کی جنگ میں ایک واقعہ ایسا پیش آیا جس کے نتیجہ میں لوگوں میں یہ مشہور ہو گیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں.تمام مدینہ میں گہرام مچ گیا اور عورتیں اور بچے بلبلاتے اور چیختے ہوئے میدانِ جنگ کی طرف دوڑ پڑے.شہر سے نکلنے والی عورتوں میں ایک ستر سالہ بڑھیا بھی تھی اس کی بینائی بہت کمزور ہو چکی تھی اور اسے نہایت قریب سے ہی کوئی چیز نظر آتی تھی دُور کی چیز کو وہ نہیں دیکھ سکتی تھی زیادہ تر دوسرے کو آواز سے پہچانتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس وقت میدانِ جنگ سے بخیریت واپس تشریف لا رہے تھے اور آپ کی خاص طور پر حفاظت کرنے کے لئے ایک انصاری صحابی آپ کے ساتھ ساتھ چلے آرہے تھے اور وہ اس فخر میں آپ کے اونٹ کی نکیل پکڑے ہوئے تھے کہ ہم خدا کے رسول کو میدانِ جنگ سے زندہ سلامت لے آئے ہیں.ان کے دوسرے بھائی اسی جنگ میں شہید ہو چکے تھے.جب مدینہ سے عورتوں اور بچوں کا ایک

Page 472

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۶ چشمہ ہدایت ریلا روتا اور بلبلاتا ہوا نکل رہا تھا تو اس صحابی نے دیکھا کہ ان کی ستر سالہ بڑھیا ماں بھی بے تابی کے ساتھ چلی آرہی ہے.اس نابینا بڑھیا کے قدم لڑکھڑا رہے تھے.اُسے رستہ نظر نہیں آتا تھا اور وہ پریشانی کے عالم میں ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی.جب اس صحابی نے اپنی ماں کو دیکھا تو انہوں نے کہا یا رَسُول اللہ ! میری ماں ! ، يَا رَسُول اللہ ! میری ماں ! مطلب یہ تھا کہ اس کا جوان بیٹا بڑھاپے کی عمر اور کمزوری میں مارا گیا ہے آپ اس کی طرف توجہ فرمائیں تا کہ اس کے دل کو تسکین حاصل ہو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اس بات کو سمجھ گئے.وہ بڑھیا قریب آئی تو آپ نے فرمایا میری اونٹنی کو کھڑا کرو.پھر آپ نے اس عورت کو مخاطب کیا اور فرمایا اے خاتون ! میں تمہارے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے بیٹے کو شہادت کا رتبہ دیا وہ تمھیں صبر دے اور تمہارے اس غم کو دُور کرے.نظر کی کمزوری کی وجہ سے وہ عورت ادھر اُدھر دیکھ رہی تھی کہ یہ آواز مجھے کہاں سے آرہی ہے؟ وہ تو یہی بجھتی تھی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور آواز تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی.دیکھتے دیکھتے آپ کے چہرہ پر اس کی نظر پڑ گئی اور اس نے دیکھ لیا کہ آپ ہی ہیں اور آپ ہی بول رہے ہیں.اس پر تنک کر جیسے عورت خفگی میں بولتی ہے کہنے لگی یا رَسُول اللہ ! آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں.یا رَسُول اللہ ! میرے بیٹے کا یہاں کیا ذکر ہے سوال تو آپ کی زندگی کا تھا سو آپ خیریت سے آگئے بیٹے مرتے پھر میں ان کا کیا سوال ہے ہے تو حقیقت یہ ہے کہ اگر ہم کو خدا مل جائے اور اگر ہر قسم کے خطرات کو مول لینے کے بعد خدا کا دامن ہمارے ہاتھ میں آجائے تو ہم تو یہی کہیں گے کہ قوم کیا ہوتی ہے تو میں رہیں یا جائیں خدا ہمارا مددگار ہے.پس ہمیں ایمان کی فکر کرنی چاہئے اور سوچنا چاہئے کہ آیا ہم جو کچھ کر رہے ہیں وہ خدا کے منشاء کے مطابق ہے یا وہ اُس معیار تک پہنچتا ہے جس معیار تک پہنچنے کے بعد انسان ہر قسم کے روحانی خطرات سے محفوظ ہو جاتا ہے.پہلی چیز ایمان ہے.دوسری چیز عمل صالح ہے.تیسری چیز وصیت پالحق.اور چوتھی چیز وصیت بالصبر ہے.ان میں سے پہلی چیز کو لیتا ہوں یعنی ایمان.ہم منہ سے کہہ دیتے

Page 473

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۷ چشمہ ہدایت ہیں کہ ایمان.ایمان.یا ایمان کا کیا ہے.اللہ کا فضل ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ ہمیں ایمان نصیب ہے لیکن ہم کبھی یہ نہیں سمجھتے کہ ایمان ہوتا کیا ہے.آیا ایمان صرف پانچ حرفوں کے جمع ہونے کا نام ہے؟ آخر ہر چیز کی کوئی حقیقت ہوتی ہے، خربوزہ کی کوئی حقیقت ہے ، آم کی کوئی حقیقت ہوتی ہے، ہم کپڑے کا لفظ بولتے ہیں تو اس کی بھی کوئی حقیقت ہوتی ہے.کپڑا کھڈ رکھی ہے، کپڑا کمخواب بھی ہے، کپڑا زربفت بھی ہے.پس ہمیں سوچنا چاہئے کہ آخر یہ جو لفظ ایمان ہے اس کا کیا مفہوم ہے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ جب ہمارے دماغ میں کوئی عقیدہ راسخ ہو گیا اور ہم نے سمجھ لیا کہ فلاں چیز کچی ہے اور ہم نے منہ سے کہہ دیا کہ یہ چیز کچی ہے تو گویا ہم کو ایمان نصیب ہو گیا حالانکہ اسلام یہ معنے نہیں کرتا.ایمان کا لفظ امن سے نکلا ہے اور امن تو آپ لوگ جانتے ہی ہیں روزانہ بحث ہوتی ہے کہ دُنیا میں امن ہونا چاہئے ، امن ہونا چاہئے گو ساتھ ہی یہ بحث بھی ہوتی ہے کہ جہاں احمدی جلسہ ہو اُس میں سر پھٹول ہونی چاہئے اور ان کے جلسہ کو برخاست کر دینا چاہئے.بہر حال ایمان کے معنے ہیں امن دینا.سو اب ایمان کے معنے خالی عقیدہ کے مان لینے کے نہ ہوئے ایمان تو اُس چیز کو کہیں گے کہ کسی عقیدہ کو ایسا مان لینا جو امن دے دے.اگر اس کے ساتھ اسے امن مل گیا ہے تو وہ ایمان ہے اور اگر امن نہیں تو نام ہے ایمان نہیں.اب ایک امن تو وہ ہے جو ہمارے دیکھنے میں نہیں آتا مثلاً لوگ کہتے ہیں الحمديته ہم دوزخ سے بچ جائیں گے اور جنت میں چلے جائیں گے.سو دوزخ کو کس نے دیکھا اور جنت کو کس نے دیکھا.ہندو بھی یہی کہتا ہے کہ میں دوزخ سے بچ گیا اور جنت میں چلا گیا.گھتا ، سُور ، بلی بن گئے تو دوزخ ہوگئی ، آدمی بن گئے تو جنت ہو گئی.پس وہ بھی یہی کہتا ہے ، بدھ بھی یہی کہتا ہے کہ بُرے اعمال ہوں گے تو جو نہیں بھگتوں گا.بُرے اعمال نہ ہوئے تو نہیں بھگتوں گا.عیسائی بھی یہی کہتا ہے کہ جس کے بُرے اعمال ہوں گے وہ ہمیشہ ہمیش کی دوزخ میں جائے گا اور آگ اور پتھر اور گندھک اور کیا کیا بلاؤں میں وہ جلایا جائے گا اور اگر عیسائیت پر پکا ہوا ایمان ہوا اور صحیح پر پختہ ایمان ہوا تو اگلے جہان میں نہایت ہی خوشحال قلب کے ساتھ رہے گا تو کیا فرق ہے ہمارئے

Page 474

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۸ چشمہ ہدایت ایمان کا لفظ کہنے میں اور ان کے ایمان کے کہنے میں ، وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ ہمیں ایمان حاصل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ایسی چیز بھی ہو جس کو ہم دیکھ سکیں تو ہم اس سے ایمان کی حقیقت پہچانیں گے.اگلے جہان کی جو جنت ہے وہ عقل سے پہچانی نہیں جاسکتی اور نہ رؤیت میں آتی ہے صرف عقیدہ پر اس کی بنیاد ہے.قرآن کہتا ہے تو ہم مانتے ہیں، انجیل کہتی ہے تو عیسائی مانتے ہیں، دید اور اپنشد کہتے ہیں تو ہند و مانتے ہیں ، بدھ مذہب کی کتابیں کہتی ہیں تو بدھ مانتے ہیں ، زرتشتی کتابیں کہتی ہیں تو وہ مانتے ہیں.نہ کسی نے دیکھا نہ کوئی عقلی دلیل ایسی ہے جس کے ذریعہ اس کے وجو د کو سامنے لاسکیں.اب اگر کوئی ایسی دلیل ہم کو مل جائے جسے دوسرے کے سامنے ہم ثابت کر سکیں اور کہہ سکیں کہ لو یہ معیار ہے اور اسے ماننا پڑے کہ یہ ٹھیک ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے کہ چونکہ ایمان کے پہچاننے کی دلیل صرف ہمارے پاس ہے تمہارے پاس نہیں اس لئے ایمان صرف ہمارے پاس ہی ہے.اب ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کی کیا تعریف کی ہے اس طرح آہستہ آہستہ اس کے معنے ہم پر کھلتے جائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان کا چھوٹے سے چھوٹا مزہ جو انسان کو حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ منُ كَانَ أَنْ يُلْقَى فِى النَّارِ اَحَبُّ إِلَيْهِ مِنْ اَنْ يَّرْجِعَ فِي الْكُفْرِ بَعْدَ أَنْ أَنْقَذَهُ الله سے یعنی ایمان لانے کے بعد اگر اُس کو آگ میں ڈال کر جلا دیا جائے تو وہ اس کو نہایت ہی پسند کرے گا بہ نسبت اس کے کہ وہ اپنے اس عقیدہ کو چھوڑ دے اور کفر کی طرف کوٹ جائے بعد اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو کفر سے بچالیا ہے.ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ پُرانے زمانہ کی اُمتوں میں سے جن کو ایمان نصیب ہوتا تھا لوگ اُن کے سروں پر آرے رکھ کر انہیں چیر دیتے تھے اور وہ کٹ کر دوٹکڑے ہو جاتے تھے لیکن اپنی بات پر قائم رہتے تھے کے صحابہ میں اس کی نظیریں بڑی کثرت سے پائی جاتی ہیں.حضرت بلال کو بھو کا رکھا جاتا تھا ، چوبیس گھنٹے ان کی خوراک کو بند رکھتے.اس کے بعد ان کو تپتی ہوئی ریت پر لٹاتے ، بڑا سا گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھتے اور پھر ایک

Page 475

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۴۹ چشمہ ہدایت آدمی اُن کے سینہ پر چڑھ جاتا اور گو دتا.پھر کہتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جھوٹے ہیں اور خدا تعالیٰ کے اور بھی شریک ہیں.یہ لات منات اور غزی جو ہیں یہ سب خدا کے شریک ہیں.زبان اُن کی اٹک جاتی تھی ، گلا اُن کا خشک ہو جاتا تھا.حبشیوں کے منہ سے یوں بھی ش نہیں نکلتا.جس وقت ان کو بہت پیٹتے تو وہ کہتے تھے اَسْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا الله اور جب بالکل ہی بے دم ہو جاتے تو وہ فرماتے اَحَدٌ اَحَدٌ یعنی خدا ایک ہی ہے.۵ غرض اس کا نمونہ مسلمانوں میں موجود ہے کہ کس کس طرح انہیں تکلیفیں دی گئیں مگر پھر بھی وہ اپنے عقیدہ پر قائم رہے.اس کے مقابلہ میں وہ بھی مسلمان کہلانے والے لوگ ہوتے ہیں جو معمولی لالچ کا بھی مقابلہ نہیں کر سکتے.حضرت خلیفہ اول سُنایا کرتے تھے کہ کوئی مولوی صاحب میرے دوست تھے اور مجھے ان پر بڑی حسن ظنی تھی ، بظا ہر بڑے نیک اور نمازی نظر آتے تھے ایک دن کسی نے مجھے آکر کہا کہ آپ فلاں مولوی صاحب کی بڑی قدر کرتے ہیں.وہ بڑا ذلیل قسم کا آدمی ہے میں نے کہا نہیں بڑا اچھا آدمی ہے کہنے لگا فلاں لڑکی جو شادی شدہ تھی اُس کی اس نے دوسری جگہ شادی کر دی ہے.میں نے کہا تم الزام لگاتے ہو ایک دو دن کے بعد مولوی صاحب جو مجھے ملنے کے لئے آئے تو میں نے کہا مولوی صاحب ! میں تو نہیں مانتا لیکن کسی شخص نے یہ بات بتائی ہے اور میرا فرض ہے کہ آپ کو وہ بات پہنچا دوں اُس نے کہا ہے کہ آپ نے ایک شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ پر نکاح پڑھ دیا ہے.کہنے لگا شادی شدہ عورت کا دوسری جگہ پر نکاح.مولوی صاحب ! آدمی کو چاہئے کہ پہلے تحقیقات کرے اور پھر دیکھے کہ کیا بات ہے یونہی کسی پر الزام نہیں لگا نا چاہئے.میں نے کہا یہی تو میری غرض تھی اور میں خوش ہو گیا کہ معلوم ہوتا ہے بات جھوٹی ہے اور یہی میرا مطلب تھا لیکن اس کے بعد کہنے لگا مولوی صاحب ! یہ بتائیے نمبر دار نے چڑی چڈا روپیہ جے کڑھ کے میرے سامنے رکھ دیتا تے میں کی کردا.آپ فرماتے تھے میں نے سمجھا تھا کہ خبر نہیں مارا ہو گا، پیٹا ہو گا ، گھر سے نکال دیا ہوگا اور کیا کیا زمینداروں نے ظلم کیا ہو گا.آخر کہلوا لیا ہو گا مولوی تھا ڈر گیا.مگر ظلم کیا

Page 476

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۰ چشمہ ہدایت نکلا؟ مجبوری کیا نکلی؟ مجبوری یہ نکلی کہ چڑی چڑا روپیہ کڈھ کے آگے رکھ دتا تے میں کی کردا“ یہ آجکل کے مسلمانوں کی حالت ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ آرے سے تم کو چیر دیا جائے ، آگ میں تم کو جلا دیا جائے مگر تمہارے دل میں جو یقین اور وثوق پیدا ہو چکا ہو وہ نہ نکلے اور تم اپنی بات پر قائم رہو اور یہ بھی ادنیٰ درجہ کا ایمان ہے.اس کے اوپر ایمان بڑھتا چلا جاتا ہے.اب ہم ایمان کے سمجھنے میں ایک قدم قریب ہو گئے لیکن یہ بھی بات ہے کہ ہر شخص کو آرے سے تو چیرا نہیں جاتا ، ہر شخص کو تو آگ میں نہیں ڈالا جاتا ، ہر شخص کو تو پہاڑ سے گرایا نہیں جاتا.جس کو گرائیں گے اُس کو تو پتہ لگ جائے گا کہ ایمان اسے نصیب ہے یا نہیں ہمیں کس طرح پتہ لگے گا ؟ اُس کو تو پتہ لگ گیا کہ ایمان کی کیا طاقت ہے ہمیں کس طرح پتہ لگے گا ؟ یہ معیار اگر مل جائے تو پھر بے شک ہم مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہمیں ایمان حاصل ہے.اس کے پہچاننے کے لئے ہم کو یہ مسئلہ یوں سمجھنا چاہئے کہ ایمان کے معنے بیان کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان اُس عقیدہ کا نام ہے جو غیر متزلزل ہو یعنی وہ کسی صورت میں بھی متزلزل نہ ہو سکے.اب ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت لے کر خدائی قانون کی طرف جاتے ہیں کہ غیر متزلزل کونسی چیز ہؤا کرتی ہے یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ کسی چیز کو عام حالات میں کیا بات متزلزل کر دیا کرتی ہے؟ یوں تو ایک پاگل ہوتا ہے وہ ہر بات کے متعلق قیاس کر لیتا ہے سوال یہ ہے کہ ایک انسان جو معمولی عقل کا انسان ہے اور مشترک عقل اُس میں پائی جاتی ہے وہ کیوں متذبذب ہو ا کرتا ہے؟ اگر تم غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ تین چیزیں ہیں جن کی وجہ سے انسان متزلزل ہو ا کرتا ہے.ایک متزلزل کرنے والی چیز ہوتی ہے عقیدہ اور نقل.ایک شخص کو یقین ہے که قرآن سچا ہے اُس کو اگر آکر کوئی کہے کہ قرآن میں یہ لکھا ہوا ہے تو چاہے اس کا کوئی عقیدہ ہو اگر وہ قرآن کو سچا سمجھتا ہو گا تو فوراً کہہ دے گا کہ میری غلطی ہے قطع نظر اس کے کہ وہ بات ٹھیک ہے یا نہیں یہ جانے دو.لیکن جس کو کسی چیز پر عقیدت ہو جس کو نقل کہتے

Page 477

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۱ چشمہ ہدایت ہیں یعنی حوالہ کہ تمہارے مذہب میں یا فلاں کتاب میں یوں لکھا ہوا ہے اُس کی وجہ سے انسان اپنے عقیدہ پر پکا ہوتا ہے.جب اس سے ہٹا دو کہ یوں نہیں تو وہ ہل جاتا ہے.میں نے پہلے بھی کئی دفعہ سُنایا ہے کہ مولوی نظام الدین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک پرانے دوست ہوا کرتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے بھی وہ دوست تھے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوی مسیحیت کیا اور انہوں نے مخالفت کی اور کفر کے فتوے لگائے تو مولوی نظام الدین صاحب اُس وقت حج کے لئے گئے ہوئے تھے ، انہیں حج کا بڑا شوق تھا ، ۱۲ حج اُنہوں نے کئے تھے، جب حج سے واپس آئے اور انہوں نے سُنا کہ اس طرح جھگڑا ہو گیا ہے تو اُنہیں بڑا افسوس ہوا اور قادیان پہنچے.حضرت صاحب بیٹھے تھے کہنے لگے میں نے حج سے واپس آکر کچھ باتیں سنی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا آپ نے کیا سنا ہے؟ انہوں نے کہا میں نے سُنا ہے آپ کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں آپ نے فرمایا میاں صاحب ! بات تو ٹھیک ہے.وہ کہنے لگے قرآن میں تو اس کے خلاف لکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ اسلام نے فرمایا اگر قرآن میں اس کے خلاف لکھا ہوتا تو ہم فوراً چھوڑ دیتے.یہی تو سوال ہے ہم کہتے ہیں قرآن میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور وہ کہتے ہیں نہیں لکھا.وہ کہنے لگے قرآن میں تو بیسیوں آیتیں ہیں.آپ نے فرمایا بیسیوں نہیں آپ ایک ہی لے آئے.انہوں نے تو اپنے مولویوں سے سُنا ہوا تھا کہ قرآن میں لکھا ہے حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں ، وہ تھے ان پڑھ مگر دیندار بہت تھے کہنے لگے اچھا اگر میں سو آیت لے آؤں تو کیا آپ مان جائیں گے؟ آپ نے فرمایا سو کا سوال نہیں ایک ہی لے آئیں.اس پر انہیں محبہ پڑا کہ شاید سو آیتیں نہ ہوں کہنے لگے اچھا اگر میں پچاس آیتیں لے آؤں تو کیا آپ مان جائیں گے؟ حضرت صاحب نے فرمایا میاں صاحب! ہم نے کہہ جو دیا ہے کہ ایک آیت ہی لے آئیں تو ہم اپنا عقیدہ چھوڑنے کے لئے تیار ہیں.اس سے پھر ان کو اور شھبہ پڑا اور آخر دس پر آ گئے.چونکہ ہر روز وعظ سُنتے تھے کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر زندہ ہیں اس لئے انہوں نے

Page 478

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۲ چشمہ ہدایت سمجھا کہ کم سے کم دس آیتیں تو ضرور ہوں گی اس سے کم تو نہیں ہوسکتیں.پھر کہنے لگے اچھا اقرار رہا مگر شرط یہ ہے کہ مولوی محمد حسین بٹالوی میرا بھی دوست ہے اور آپ کا بھی دوست ہے آپ جانتے ہیں اس کے دل میں بدظنی ہو گی وہ آپ کے اقرار کو یوں نہیں مانے گا.لاہور میں جامع مسجد میں جا کر اعلان کرنا پڑے گا کہ میری غلطی ہے.آپ نے فرمایا ضرور.اُن دنوں حضرت خلیفہ اول جموں سے چھٹی لے کر لاہور آئے ہوئے تھے اور مولوی محمد حسین صاحب نے آپ سے بحث شروع کر دی تھی کہ میرے ساتھ وفات مسیح پر مباحثہ کر لو اور معیار کیا ہو گا حضرت خلیفہ اول فرماتے تھے قرآن اور وہ کہتے تھے حدیث.آخر بڑے جھگڑوں اور اشتہار بازیوں کے بعد اور پیغام رسانیوں کے بعد حضرت خلیفہ اول نے مان لیا کہ اچھا تم بخاری کو اَصَحُ الْكُتُبِ بَعْدَ كِتَابِ اللهِ کہتے ہو جو کچھ قرآن اور بخاری میں لکھا ہوگا وہ میں مان لوں گا.چینیاں والی مسجد میں مولوی محمد حسین صاحب بیٹھے ہوئے تھے اُن کے ارد گردان کے معتقد تھے اور وہ بڑے زور شور سے کہہ رہے تھے تعلّی کی اُن کو عادت تھی کہ دیکھونو ر الدین اتنا بڑا عالم بنا پھرتا ہے سارے ہندوستان میں مشہور ہے میں نے اُس کو یہ دلیل دی اور اُس نے وہ دلیل دی.اُس نے یوں کہا اور میں نے اُسے یوں کہا.اور میں نے اُسے یوں پٹخنی دی اور آخرا سے منوا لیا کہ حدیث بھی پیش ہو سکے گی.اتنے میں بدقسمتی سے مولوی نظام الدین صاحب وہاں پہنچ گئے اور کہنے لگے مولوی صاحب ” چھڈو بھی تہانوں عادت ہے اینویں لمبے جھگڑے کرن دی.میں مرزا صاحب کو منوا آیا ہوں آپ قرآن سے دس آیتیں لکھ دیں ، میں ابھی مرزا صاحب کو شاہی مسجد میں لا کر سب کے سامنے ان سے تو بہ کراؤں گا.اب عین موقع پر جو آ کر انہوں نے یہ کہا دوسرے موقع پر بات ہوتی تو شاید وہ برداشت بھی کر جاتے تعلی تو اُن کی ساری یہی تھی کہ نورالدین قرآن کہتا تھا اور میں نے حدیث منوالی.اس موقع پر جو نظام الدین صاحب نے یہ بات کہی تو مولوی محمد حسین صاحب غصہ میں آگئے اور کہنے لگے میں مہینہ بھر توں حدیث ول لیا ر ہیا ، توں پھر قرآن ول لے گیا ہاں.میاں نظام الدین صاحب نیک آدمی تھے ، جب اُنہوں نے یہ بات سنی تو اُن پر سکتہ سا آ گیا اور بہت ہی افسردہ شکل

Page 479

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۳ چشمہ ہدایت بنا کر مجلس سے اٹھے اور کہنے لگے ” چنگا مولوی صاحب ! جے ایہہ گل ہے تو پھر جدھر قرآن اُدھر میں.اور یہ کہہ کر وہ قادیان آئے اور اُنہوں نے بیعت کر لی.تو حقیقت یہ ہے کہ جب کسی شخص کو یقین ہوتا ہے نقل پر تو اُس کو اگر حوالہ دیا جائے تو وہ متزلزل ہو جاتا ہے.دوسری چیز متزلزل کرنے والی عقل ہوتی ہے.عقل کا مادہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان میں پیدا کیا ہے اور عقل سے انسان روزانہ فیصلے کرتا ہے.اگر کسی شخص کی سمجھ میں آ جائے کہ عقل یوں کہتی ہے تو وہ بھی متزلزل ہو جاتا ہے.تیسری چیز انسان کو متزلزل کرنے والی جذبات صحیحہ ہوتے ہیں.بے شک عقل بھی کام دیتی ہے اور نقل بھی کام دیتی ہے.لیکن اگر فطرت کوئی بات کہتی ہو تو جس کو نہ قرآن کا پتہ ہو نہ حدیث کا پتہ ہو، پہاڑوں میں رہنے والا ہو وہ بھی کہہ دے گا کہ بات درست ہے.مثلاً بچے کی محبت یا بچہ کے لئے قربانی کیا کسی آیت کے تحت ہے یا حدیث کے ماتحت ہے؟ یہ محض فطرت کے ماتحت کی جاتی ہے.اگر کسی کے جذبات انگیخت میں آجائیں اور اسے کہا جائے کہ یہ فطرت کے خلاف ہے.کسی ماں کو کہا جائے کہ یہ بات تیرے ماں ہونے کے خلاف ہے.کسی باپ کو یہ کہا جائے کہ یہ تیرے باپ ہونے کی حیثیت کے خلاف ہے تو وہ فوراً پرانے خیالات کو چھوڑ دے گا اور سمجھے گا کہ میں باپ ہوں جو چیز میرے باپ ہونے کے خلاف ہے اُس کو میں اختیار نہیں کرسکتا.تو تین چیزیں ہیں جن سے کوئی چیز متزلزل ہوسکتی ہے.نقل ، عقل اور جذبات صحیحہ.جس چیز کی تائید میں نقل ، عقل اور جذبات صحیحہ ہوں اُس میں تزلزل کبھی نہیں آسکتا کیونکہ انہی تین چیزوں سے انسان بدلا جا تا ہے.اگر یہ تینوں چیزیں اس کی تائید میں ہو جائیں تو پھر اسے متزلزل کرنے والی اور کوئی چیز نہیں ہوسکتی.اب ہمارے پاس دلیل آ گئی جس سے بغیر آگ میں ڈالے جانے کے، بغیر آرے سے چیرے جانے کے ہم پتہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے اندر ایمان موجود ہے.اگر ہمارے عقیدے عقل کے مطابق ہیں، نقل کے مطابق ہیں ، جذبات صحیحہ کے مطابق ہیں تو سیدھی

Page 480

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۴ چشمہ ہدایت بات ہے کہ جب تک ہمارے ہوش قائم ہیں ، جب تک ہم پاگل نہیں ہو جاتے ہم انہیں بھی نہیں چھوڑ سکتے.لالچ سے انسان چھوڑ سکتا ہے لیکن دل سے وہ کبھی الگ نہیں ہوسکتا.یہی ایمان کے پرکھنے کا ذریعہ ہے.اور وہی قوم ایماندار ہو سکتی ہے جس میں یہ تینوں باتیں پائی جائیں.یوں تو ہر قوم کہتی ہے کہ ہم ایماندار ہیں عیسائی بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں اور ہندو بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں ،سکھ بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں ، زرتشی بھی کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں ، مسلمانوں میں سے حنفی ، شافعی ، حنبلی سب کہتے ہیں کہ ہم ایماندار ہیں مگر سوال یہ ہے کہ جو کچھ ان کے عقیدے ہیں اگر وہ نقل ، عقل اور جذبات صحیحہ کے مطابق ہیں تو پھر وہ غیر متزلزل ہیں کیونکہ ایمان کی تعریف میں شامل ہیں اور اگر ان کے عقیدے اور ان کے خیالات متزلزل ہو سکتے ہیں کسی جگہ عقل کے خلاف ہیں، کسی جگہ نقل کے خلاف ہیں ، کسی جگہ جذبات صحیحہ کے خلاف ہیں تو سمجھ لو کہ چاہے وہ کتنا ہی یقین ظاہر کرتے ہوں قسمیں کھاتے ہوں ، روتے ہوں ، چلاتے ہوں ، جس دن بھی ان کے کان کھلے اور عقل اندر آئی ، جس دن بھی ان کے کان کھلے اور نقل اندر آئی ، جذبات صحیحہ اندر آئے اُسی دن اُن کا ایمان متزلزل ہو جائے گا.یہی وہ ایمان ہوتا ہے جس کے متعلق کہتے ہیں کہ کیا ایک چلو پانی سے ایمان بہہ گیا چنانچہ دیکھو یہ ایک ایسا مسئلہ تھا کہ اس کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں غیر لوگ بھی سمجھ گئے تھے.وہ ایمان نہیں لائے تھے مگر سمجھ گئے تھے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کو جو تبلیغی خط لکھے تو ایک خط ہرقل کے نام بھی تھا.جب اس کے پاس خط پہنچا تو اس نے کہا کہ عرب کا کوئی آدمی لاؤ جس سے میں پوچھوں کہ حقیقت کیا ہے؟ اتفاق کی بات ہے کہ ابو سفیان جو اُس وقت مکہ کے سردار تھے اور اسی طرح مکہ کے چند اور آدمی تجارت کے لئے وہاں گئے ہوئے تھے ، سپاہی انہیں پکڑ کر لے آئے.اُس نے ابوسفیان کے پیچھے اس کے ساتھیوں کو کھڑا کر دیا اور کہا کہ میں اس سے چند سوال کرونگا اگر یہ سچ بولے تو نچپ رہنا اور اگر کسی بات میں اس نے جھوٹ بولا تو تم

Page 481

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۵ چشمہ ہدایت پکڑ لینا چنا نچہ ابوسفیان کھڑے ہو گئے.بعد میں جب وہ اسلام لائے تو اُنہوں نے بتایا کہ کئی جگہ میرا دل چاہتا تھا کہ میں جھوٹ بولوں لیکن پھر میں رُک جاتا تھا اس خیال سے کہ میرے ساتھی ہی مجھے جھٹلا دیں گے.اُس نے جو سوال کئے اُن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ يَرْتَدُّ اَحَدٌ مِنْهُمْ سُخَطَةً لِدِينِهِ کہ کیا کوئی اس کے دین سے اس طرح بھی مرتد ہوتا ہے کہ خود اس کے دین سے اُس کو نفرت ہو؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اُسے نفرت ہو جائے ، صحابیوں سے نفرت ہو جائے ، روپیہ پر جھگڑا ہو جائے، زمین پر جھگڑا ہو جائے اور وہ مرتد ہو جائے تو یہ اور بات ہے.میرا مطلب یہ ہے کہ جو عقیدہ یہ شخص پیش کرتا ہے.مثلاً کہتا ہے خدا ایک ہے تو کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جو مرتد ہونے کے بعد یہ کہنا شروع کر دے کہ مجھ پر اب ثابت ہو گیا ہے کہ خدا ایک نہیں دو ہیں کیا ایسا بھی کبھی ہوتا ہے؟ ابوسفیان نے کہا نہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مرتد تو ہوئے ہیں.کئی مرتدین کا تاریخ میں ذکر آتا ہے لیکن دیکھو اُس نے یہ نہیں پوچھا کہ مرتد ہوتے ہیں یا نہیں ؟ کیونکہ وہ جانتا تھا کہ مرتد تو لوگ ہوتے ہی ہیں.شیطان خدا سے مرتد ہوا.پس مرتد ہونا کوئی بات نہیں سُخَطَةً لِدِينِہ اس کے عقیدہ کو غلط سمجھ کر الگ ہونا اصل چیز ہے.جب اُس نے کہا نہیں تو اُس نے کہا بس میں جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نبیوں کی یہ علامت ہوا کرتی ہے.ان سے لڑائیاں بھی ہو سکتی ہیں، لالچوں کے مارے بھی لوگ اُن سے الگ ہو سکتے ہیں لیکن وہ ایسی سچائی پیش کرتے ہیں کہ انسان اُس سچائی سے نفرت نہیں کر سکتا ، جس نے ایک دفعہ مانا وہ جہاں جائے اُس عقیدہ کو وہ چھوڑ نہیں سکتا.ہر قل کا یہ سوال بتاتا ہے کہ وہ جانتا تھا کہ سچے نبی کے ساتھ یہ تین چیزیں ہوتی ہیں.نقل صحیح ، عقل صحیح اور جذبات صحیحہ.جب یہ تین چیزیں ہوں تو ایمان میں تزلزل نہیں آسکتا اس لئے وہ جب بھی مرتد ہو گا عقیدہ سے نہیں ہوگا.یہی چیز ہے جس کو قرآن کریم میں بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے کہ ان کا فروں سے کہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ تم میں سے لوگ ہم میں آرہے ہیں اور کو کوئی کوئی ہمارا بھی تم میں

Page 482

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۶ چشمہ ہدایت چلا جاتا ہے لیکن تم یہ تو سوچو کہ اَدْعُوا إلى الله وقد عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي، ك نَ فرق یہ ہے کہ کوئی شخص میرے عقیدہ کو جھوٹا سمجھ کر تم میں نہیں جاتا.لالچ سے جاتا ہے ، ڈر سے جاتا ہے ، مصیبتوں سے خوف کھا کر جاتا ہے، قوم کی خوشنودی کے لئے جاتا ہے.اور جو میرے پاس آتا ہے وہ کسی لالچ سے نہیں آتا، کسی فریب سے نہیں آتا بلکہ میرے عقیدہ کو سچا سمجھ کر میرے پاس آتا ہے یہ فرق ہے جو پایا جاتا ہے.اب دیکھو یہ کتنا سیدھا سادہ اور واضح اصول مقرر ہو گیا.ہم ایک عیسائی کے سامنے بھی اسے ثابت کر سکتے ہیں، ایک ہندو کے سامنے بھی اُسے ثابت کر سکتے ہیں.ایک یہودی کے سامنے بھی اسے ثابت کر سکتے ہیں آخر کوئی بتائے کہ عقل صحیح اور نقل صحیح اور جذبات صحیحہ کے سوا اور کونسی چیز ہے جو انسان کو متزلزل کرنے والی ہے اور یہ چیز میں جس کی تائید میں ہوں کیا اس کو کوئی متزلزل کر سکتا ہے؟ یہی حال اب دیکھو کہ کوئی شخص احمدیت سے اس کے عقیدہ کی وجہ سے مرتد نہیں ہوتا ، کوئی شخص تم نے نہیں دیکھا ہوگا جو یہ کہے کہ میری سمجھ میں آگیا کہ انسان مرا نہیں کرتے لیکن تم سارے کے سارے اس لئے احمدی ہو کہ تم کہتے ہو سب لوگ مرا کرتے ہیں.اسی طرح ہمیں کوئی شخص ایسا نظر نہیں آتا جو احمدیت سے مرتد ہوا ہو اور اس نے یہ کہنا شروع کر دیا ہو کہ حضرت صاحب نے کہہ دیا تھا کہ قرآن میں کوئی آیت منسوخ نہیں یہ کتنا ظلم تھا میں تو قرآن میں بیسیوں آیتیں منسوخ دکھا سکتا ہوں.یوں بیسیوں احمدی ایسے نکل آئیں گے جو کہیں گے کہ میرا مقدمہ تھا خلیفہ صاحب نے غلط فیصلہ کر دیا، میری جائیدا دگوٹ لی، میری فلاں رقم کھا لی یا میری بیوی کو ضلع دلا دیا اور پھر وہ چلا جاتا ہے سو دفعہ چلا جائے مگر وہ اس لئے نہیں جائے گا کہ اب مجھے پتہ لگ گیا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں منسوخ بھی ہیں.یا ہم کہتے ہیں قرآن میں ترتیب ہے اور وہ کہنا شروع کر دے کہ قرآن بے ترتیب ہے.تو سُخَطَةً لِدِينِہ کوئی شخص احمدیت سے مرتد نہیں ہوتا لیکن سُخطَةً لِدِينِهِ تم سارے کے سارے غیر احمدیت سے آئے ہو، تم سارے غیر احمدیت سے اس لئے آئے ہو کہ تمہیں وہ عقائد عقل کے خلاف نظر آئے نقل کے خلاف نظر آئے ، جذبات صحیحہ کے خلاف نظر آئے.بہت کم تعداد میں

Page 483

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۷ چشمہ ہدایت ہمارے ہاں مرتد ہوئے ہیں لیکن ان سب مرتدوں میں سے ہم نے کسی کو بھی نہیں دیکھا جس نے احمدیت کے عقائد کو ترک کر دیا ہو.ہم نے دیکھا ہے بیسیوں سال کے مرتد بھی ملیں اور اُن سے پوچھا جائے کہ وفات مسیح کے متعلق کیا خیال ہے؟ تو وہ کہتے ہیں وہ تو مرزا صاحب نے سچ ہی کہا ہے عیسی تو مرا ہی ہوا ہے.غرض میں تمہیں بتا تا ہوں کہ تمہارے لئے حصول ایمان کے مواقع موجود ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ تم میں سے ہر شخص کے اندر ایمان موجود ہے، میں یہ بھی نہیں کہتا کہ تم میں سے شخص کے اندر ایمان موجود ہونا ضروری ہے.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمہارے لئے ایسے مواقع ضرور موجود ہیں کہ بغیر اس کے کہ تم کو تلوار سے کاٹا جائے ، بغیر اس کے کہ تم کو آگ میں ڈالا جائے ، بغیر اس کے کہ تم کو پہاڑ سے گرایا جائے تم کہہ سکتے ہو کہ ہم میں ایمان موجود ہے.تم اپنے عقیدوں کو نمبر وار لکھ لو اور پھر دیکھو کہ عقل اُن کی تائید کرتی ہے یا نہیں ؟ نقل اُن کی تائید کرتی ہے یا نہیں؟ جذبات صحیحہ اُن کی تائید کرتے ہیں یا نہیں ؟ تم زبان پر میٹھا رکھو تو تمہاری زبان چاہے دس کروڑ بادشاہ تم کو کہے کہ کہو یہ چیز کڑوی ہے وہ کبھی اُسے کڑوا نہیں کہے گی لیکن لالچ میں آجاؤ تو پانچ روپے لے کر کونین کے متعلق بھی تم کہہ سکتے ہو کہ وہ کڑوی نہیں.پس لالچ اور چیز ہے ورنہ جس شخص کے ساتھ یہ تینوں باتیں مل جائیں گی وہ یقین اور وثوق کے ساتھ آپ ہی آپ فیصلہ کر سکتا ہے.جوانی میں فیصلہ کر سکتا ہے، بچپن میں فیصلہ کر سکتا ہے کہ میں اس مقام پر اب کھڑا ہو گیا ہوں کہ اب میرے لئے ایسے مواقع موجود ہیں کہ میرے ایمان کو کوئی اور ورغلا نہیں سکتا.نہ بادشاہتیں مجھے ہلا سکتی ہیں، نہ حکومتیں ہلا سکتی ہیں نہ کوئی اور طاقت ہلا سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احمدیت کے جو اصول دنیا کے سامنے پیش فرمائے ہیں وہ اگر چہ بہت سے ہیں مگر میں اس وقت صرف دس موٹے موٹے اُصول پیش کرتا ہوں جن سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اس وقت حقیقی ایمان ہمارے پاس ہے یا ہمارے غیر کے پاس.آپ نے بتایا کہ : - تمام انسان جو اب تک پیدا ہوئے اپنا کام ختم کر کے فوت ہو چکے ہیں ، خواہ وہ بڑ.

Page 484

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۸ چشمہ ہدایت ہوں خواہ چھوٹے ، خواہ روحانی بزرگ ہوں یا مادی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان معنوں میں خاتم النبیین تھے کہ تمام سابقہ نبیوں کی نبوت آپ کی تصدیق کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی اور آئندہ آنے والے مامورین بھی آپ کی مہر سے ہی کسی درجہ کو پہنچ سکتے ہیں.محض آخری ہونا کوئی فخر کی بات نہیں.اسلام کا روحانی غلبہ تمام دنیا پر ہوگا.-۴- الہام الہی کا دروازہ قیامت تک کھلا ہے.۵- قرآن کریم ایک زندہ نا قابل منسوخ اور ایک غیر محدود مطالب والی کتاب ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنی قدرتوں کے ذریعہ سے اپنے آپ کو ظاہر کرتا رہتا ہے.- مذہب کی بنیا دا خلاق پر ہے.- قانون شریعت اور قانونِ قدرت کا متشارک اور متشابہہ ہونا ضروری ہے.- اسلام کے تمام احکام حکمت پر مبنی ہیں اور اسی وجہ سے قرآن کریم کے مطالب میں ترتیب پائی جاتی ہے.۱۰ - خدا تعالیٰ ہمیشہ ایسے آدمی پیدا کرتا ہے جو تزکیۂ نفس کریں.اب ہم نمبر وار ایک ایک عقیدہ کو لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ عقائد جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰہ والسلام نے پیش فرمائے آیا نقل ان کی تائید کرتی ہے، عقل ان کی تائید کرتی ہے یا جذبات صحیحہ ان کی تائید کرتے ہیں؟ اگر یہ تینوں چیزیں ان عقائد کو درست تسلیم کرتی ہوں تو یہ لازمی بات ہے کہ وہی عقائد آخر دنیا میں قائم ہوں گے اور ہر و شخص جو مذہب پر ایمان رکھتا ہوگا ، ہر وہ شخص جس کے دماغ میں عقل کا مادہ ہوگا اور ہر وہ شخص جس کی فطرت میں جذبات صحیحہ پائے جاتے ہوں گے وہ ان عقائد کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکے گا.پہلی چیز جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی وہ یہ ہے کہ ہر انسان خواہ وہ چھوٹا ہو یا بڑا، خواہ نبی ہو یا غیر نبی اپنا وقت ختم کر کے اور اُس طبعی عمر کو پا کر جو سنت اللہ میں پائی جاتی ہے آخر فوت ہو جاتا ہے.یہ عقیدہ ہے جو حضرت مسیح موعود

Page 485

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۵۹ چشمہ ہدایت علیہ السلام نے پیش فرمایا لیکن غیر احمدی علماء سنی کیا اور شیعہ کیا اور حنفی کیا اور شافعی کیا اور حنبلی کیا اور مالکی کیا سب یہ کہتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام اب تک آسمان پر زندہ موجود ہیں وہ فوت نہیں ہوئے اور یہ کہ آخری زمانہ میں وہی دوبارہ دنیا میں آئیں گے اور اُمتِ محمدیہ کی اصلاح کریں گے.اب اس مسئلہ میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آیا نقل ان کی تائید کرتی ہے؟ پہلی چیز قرآن مجید ہے قرآن کریم سے وہ صرف یہ آیت پیش کرتے ہیں کہ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ ولكِن شُيّة لهُمْ ، اور وہ اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہیں حالانکہ ایک بچہ بھی ان کے اس استدلال کو سُن کر ہنس پڑے گا.مثلاً وہی لوگ جو اس آیت کو پیش کرتے ہیں ان سے پوچھا جائے کہ کیا آپ کے پردادا کو قتل کیا گیا تھا یا اُن کو صلیب دیا گیا تھا ؟ اور جب وہ کہیں نہیں تو پوچھا جائے کہ پھر کیا وہ زندہ ہیں؟ تو وہ کہیں گے نہیں وہ تو فوت ہو گئے.یہ کونسی دلیل ہے کہ جسے قتل نہ کیا جائے یا صلیب پر نہ لڑکا یا جائے تو وہ زندہ ہوتا ہے سب ہنس پڑیں گے کہ کیسا بیوقوفی کا سوال ہے.وہ اگر قتل نہیں ہوئے یا صلیب نہیں دیئے گئے تو زندہ کس طرح ہو گئے.مگر حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہی الفاظ آگئے تو لوگوں نے نتیجہ نکال لیا کہ چونکہ وہ قتل نہیں ہوئے اور چونکہ وہ صلیب نہیں دیئے گئے اس لئے ثابت ہوا کہ وہ زندہ ہیں.گویا جسے نہ قتل کیا جائے نہ صلیب دیا جائے وہ زندہ ہوتا ہے.ان لوگوں کی مثال بالکل ویسی ہی ہے ، جیسے کہتے ہیں کہ کسی شخص کو بگولے نے اڑایا اور ایک باغ میں لا کر گرا دیا.اتفاقاً وہاں انگور کی کچھ بیلیں تھیں.اُس کے اِدھر اُدھر ہاتھ مارنے سے بہت سے انگور گرے اور جمع ہو گئے اُسے لالچ آئی اور اُس نے ٹوکرا بھرا اور سر پر رکھ کر گھر کی طرف چل پڑا.راستہ میں مالک نے دیکھ لیا اواُس نے پوچھا کہ یہ انگور کہاں لئے جا رہے ہو؟ کہنے لگا پہلے ساری بات سُن لو پھر خفا ہونا.بات یہ ہے کہ مجھے بگولے نے اُڑا کر تمہارے باغ میں پہنچا دیا.جہاں گر ا وہاں انگور کی بیلیں تھیں، ہاتھ اِدھر اُدھر مارے تو انگور گر کر پاس ہی ٹوکرا پڑا ہو ا تھا سب اس میں جمع ہو گئے اب فرمائیے اس میں میرا کیا قصور ہے؟ اُس نے کہا اتنا تو درست ہے لیکن

Page 486

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۰ چشمہ ہدایت تمہیں یہ کس نے کہا تھا کہ انگور کا ٹوکرا اُٹھا کر سر پر رکھ کر گھر کی طرف چل پڑو؟ کہنے لگا بس یہی میں بھی سوچتا چلا آ رہا تھا کہ یہ بات کیا ہوئی.یہی حال ان کا ہے کہ مسیح کو قتل نہیں کیا گیا، مسیح کو صیب نہیں دیا گیا اس سے ثابت ہوا کہ مسیح آسمان پر اُٹھا لیا گیا ہے اور اب وہ سوچ رہے ہیں کہ یہ بات کیا ہوئی ؟ کیا جسے قتل نہ کیا جائے یا جسے صلیب نہ دیا جائے وہ آسمان پر چلا جاتا ہے.اس کے مقابلہ میں ہم بیسیوں آیات پیش کرتے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.پھر صحابہ کا اجماع بھی اسی پر ہوا کہ تمام رسول فوت ہو چکے ہیں اور یہ پہلا اجماع تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر ہوا.اگر حضرت عیسی علیہ السلام زندہ ہوتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو جاتے تو حضرت عمر کی تو جان ہی نکل جاتی.غرض نفلی طور پر کوئی چیز بھی نہیں جو ہمیں اس عقیدہ سے متزلزل کر سکے.باقی رہی عقل.سو عقلی طور پر دلیل استقرائی ہمارے حق میں ہے ہم دیکھتے ہیں کہ جو بھی پیدا ہوتا ہے وہ مرتا ہے.استثناء یہ لوگ بتاتے ہیں کہ عیسی پیدا ہوا اور وہ مرا نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ آم کے درخت کو ہمیشہ آم ہی لگیں گے لیکن یہ لوگ ہم سے یہ منوانا چاہتے ہیں کہ استثنائی طور پر کیکر کو بھی آم لگ جاتا ہے ہم کہیں گے عقل اس کو نہیں مانتی.عقل یہی کہتی ہے کہ کیکر کو آم نہیں لگ سکتا ہمیشہ آم کے درخت کو ہی آم لگے گا.اسی طرح جو شخص بھی پیدا ہوا وہ مرا اور جو شخص بھی پیدا ہو گا وہ مرے گا.پھر عیسی کا استثناء کیسا ؟ ابھی ہمارے اخبار میں ایک مضمون چھپا ہے کسی غیر احمدی نے نظم کہتے ہوئے ایک شعر کہ دیا کہ:- جناب موسیٰ عیسی کے بعد دنیا سے ہوئے رسول معظم بھی سوئے خلد رحیل اب شعر سے صاف ثابت ہوتا تھا کہ موسی عیسی سب فوت ہو چکے ہیں، لیکن جب اُس سے کہا گیا کہ دیکھو تم نے خود اقرار کر لیا ہے کہ عیسی فوت ہو چکا ہے تو اب اس ڈر سے کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے اُس نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اس کے یہ معنے تھوڑے ہی ہیں کہ عیسی فوت ہو چکا ہے یہ تو اپنی طرف سے معنے کر لئے گئے ہیں.اب بات کیا ہے؟ بات یہ

Page 487

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۱ چشمہ ہدایت ہے کہ سچی بات منہ سے نکل جایا کرتی ہے.کہتے ہیں کہیں چوری ہو گئی مگر پولیس کو چور کا پتہ نہیں لگتا تھا.جس نے چوری کی تھی وہ کوئی نیا نیا چور بنا تھا.اُسے خوف پیدا ہو ا کہ کہیں میں پکڑا نہ جاؤں وہ پولیس کے ساتھ ساتھ رہنے لگا اور جب اُنہوں نے تفتیش شروع کی تو وہ اپنی عقلمندی جتانے کے لئے جتانے لگا کہ معلوم ہوتا ہے پہلے چور یہاں آیا پھر آگے بڑھا پھر اندر داخل ہوا اور آخر اُس نے اسباب اُٹھا کر گٹھڑی میں باندھ لیا ، اس کے بعد وہ دیوار پھاند کر نکلنے لگا تو گھڑی اور میں باہر.پولیس والوں نے جھٹ اُسے گرفتار کر لیا اور کہا کہ اب آپ بھی باہر نہیں رہ سکتے.تو بات یہ ہے کہ دماغ میں تو یہی گھسا ہوا ہے کہ ہر شخص مرتا ہے اور عقل اسی کی تائید کرتی ہے چنانچہ جہاں بے ساختہ شعر کہنا پڑے وہاں اُن کی زبان سے یہی نکل جاتا ہے کہ موسیٰ" کہاں اور عیسی کہاں سب فوت ہو چکے ہیں.جذبات صحیحہ کو لے لو تو کوئی مسلمان بھی یہ برداشت نہیں کرے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو فوت ہو جائیں اور حضرت عیسی کو سنبھال کر رکھ لیا جائے.آخر تم کونسی چیز سنبھال کر رکھا کرتے ہو اچھی چیز یا بُری چیز ؟ ہمیشہ اچھی چیز سنبھال کر رکھی جاتی ہے ،مثلاً گھر میں کباب پکتے ہیں تو ایک دوشامی کباب تم سنبھال کر رکھ لیتے ہو کہ بچہ صبح ناشتہ کر لے گا.لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دال خراب ہو گئی اور تم نے اُسے سنبھال کر رکھ لیا ہو کہ صبح بچے کو کھلائیں گے یا اچھا کوٹ تو تم سنبھال کر نہ رکھو اور پھٹا ہو اکوٹ سنبھال لو کہ اگلے سال عید کے موقع پر پہنیں گے.اگر خدا نے کسی نبی کو سنبھال کر ہی رکھنا تھا تو تم میں تو عقل ہے کہ تم شامی کباب سنبھال کر رکھو ، سڑی ہوئی دال نہ رکھو لیکن خدا نے سنبھالنا چاہا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ سنبھالا عیسی کو سنبھالا.دوسری چیز مسئلہ نبوت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ وسلام نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کے یہ معنے بیان فرمائے ہیں کہ آپ اپنے درجہ اور روحانی کمالات میں تمام انبیائے سابقین سے افضل واعلیٰ ہیں اور کسی نبی کی نبوت بھی آپ کی تصدیق کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتی آپ تصدیق کرتے ہیں تو اُس کو نبی تسلیم کیا جاتا ہے اگر آپ تسلیم نہ کریں اور آپ کی مہر تصدیق اُس کی نبوت پر نہ لگے تو وہ کبھی نبی تسلیم

Page 488

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۲ چشمہ ہدایت نہیں کیا جا سکتا.اب دیکھ لو جہاں تک نقل کا سوال ہے سارا قرآن اس مضمون کی تصدیق کرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم وضاحتاً بتاتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نازل ہونے والی کتب کی تصدیق کرتے ہیں یعنی جب تک آپ کی تصدیق نہ ہو اور جب تک آپ کی طرف سے اعلان نہ ہو کہ فلاں کتاب خدائی تھی اور فلاں نبی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا اُس وقت تک نہ اُس کتاب کا منجانب اللہ ہونا تسلیم کیا جا سکتا ہے اور نہ اُس نبی کی نبوت تسلیم کی جا سکتی ہے.عقلاً دیکھ لو کہ کیا کوئی نبی بھی دنیا میں ایسا پایا جاتا ہے جس کے حالات کو پڑھ کر ہم خود یہ فیصلہ کرسکیں کہ فلاں شخص نبی تھا.ہم اگر کسی کو نبی تسلیم کرتے ہیں تو محض اس لئے کہ قرآن نے کہا کہ وہ نبی تھا.یا قرآن نے ہمیں نبیوں کی شناحت کے اُصول بتائے ہیں کہ فلاں فلاں اُمور کا نبیوں میں پایا جانا ضروری ہے ورنہ اُن کے حالات جو بیان کئے جاتے ہیں اُن کو اگر مد نظر رکھا جائے تو پھر تو کسی نبی کی نبوت کو بھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا.مثلا مسیح کو ہی لے لیا جائے.انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح لوگوں کے جن بھوت نکالتے تھے ، اور پھر سوروں کے گلوں پر اُن کو ڈال دیتے تھے اور وہ جھیل میں ڈوب کر مر جاتے تھے.انجیل کہتی ہے کہ شیطان حضرت مسیح کے پاس آیا اور وہ انہیں ایک پہاڑی پر لے گیا اور کہا کہ تو مجھے سجدہ کرے تو میں ساری دنیا کی دولت اور ساری دنیا کے خزانے تجھے دے دوں گا.انجیل کہتی ہے کہ حضرت مسیح اُن مجالس میں شریک ہوا کرتے تھے ، جن میں شراب پی پی کر لوگ مدہوش ہو جاتے تھے بلکہ ایک مجلس میں شراب ختم ہو گئی تو اُنہوں نے کھڑے ہو کر یہ معجزہ دکھایا کہ جن مشکوں میں پانی بھرا ہوا تھا وہ سب کے سب شراب سے بھر گئے.ہمارے شاعر تو صرف تفنن طبع کے لئے یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ ساقیا ہمیں اور پلا مگر انجیل کے بیان کے مطابق تو حضرت عیسی علیہ السلام معجزے دکھا دکھا کر شرا ہیں پلایا کرتے تھے.اسی طرح اور بیسیوں باتیں ہیں جو انجیل میں درج ہیں ان باتوں کے دیکھتے ہوئے کیا کوئی عقل مان سکتی ہے کہ اس قسم کے انسان کو خدا رسیدہ کہا جا سکے.صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ نعوذ باللہ کوئی ہتھکنڈے باز آدمی تھا.گلا ڈر کے بھا گا تو کہہ دیا میرے پاس جن بھوت تھے جو میں نے ان پر ڈال دیئے تھے.شراب میں

Page 489

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۳ چشمہ ہدایت مد ہوش لوگوں کو پانی پلا دیا اور کہہ دیا کہ یہ پانی نہیں تھا شراب تھی.مگر جس وقت ہم قرآن کو دیکھتے ہیں ، جس وقت ہم قرآن کی پاکیزگی اور اس کی طہارت کو دیکھتے ہیں اور پھر قرآن کو ہی یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ عیسی خدا تعالیٰ کا رسول تھا تو ہم سر جھکا دیتے ہیں اور کہتے ہیں یہ عیسی جو قرآن نے پیش کیا ہے وہ اور ہے اور وہ عیسی " جو انجیل پیش کرتی ہے وہ اور ہے.قرآن کا عیسی “ نبی ہے انجیل کا عیسی نبی نہیں.گویا ہماری مثال ویسی ہی ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں کہ پنجابی شاعر پر کسی شخص نے جس کا نام محمد تھا، سخت ظلم کئے.وہ کہنے لگا بہت اچھا تم ظلم کر لو میں بھی شعر کہ کر تمہاری خوب خبر لوں گا.اُس نے کہا تم نے شعر کہے تو میں تم پر کفر کا فتوی لگوا دونگا کیونکہ میرا نام محمد ہے.مگر وہ بھی ہوشیار تھا اُس نے نظم کہی اور اس کی خوب خبر لی مگر دو چار شعروں کے بعد وہ یہ شعرضرور لکھ دیتا ہے کہ: - جس دا اسیں کلمہ پڑھ دے اوہ محمد ہور ہے ایہہ محمد چور ہے یہی ہماری حالت ہے.انجیل والے عیسی کا ذکر آئے تو ہم کہتے ہیں دفع بھی کرو وہ کوئی آدمی تھا! لیکن قرآن کے مسیح کا ذکر آئے تو ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے یہ عیسی خدا کا نبی تھا کیونکہ اس کی نبوت پر محمد رسول اللہ کی مُہر لگ گئی.اب خواہ ساری دنیا حضرت مسیح کی بُرائیاں کرے، ساری دنیا ان کی طرف عیوب منسوب کرے ہم کہیں گے سب جھوٹ ہے عیسی سچ مچ خدا کا نبی تھا.اسی طرح موسی کے حالات جو تورات میں بیان ہوئے ہیں وہ ایسے تکلیف دہ ہیں کہ کوئی شخص اُن حالات کو دیکھ کر انہیں نبی نہیں کہہ سکتا.یہی حال حضرت داؤد کا ہے.قرآن کے حالات پڑھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ داؤد ایک فرشتہ تھا.مگر بائیبل میں جو حالات لکھے ہیں اُن کو پڑھ کر تو شرم آجاتی ہے کہ کیا یہ شخص خدا کا نبی کہلا سکتا ہے؟ بائیبل بتاتی ہے کہ داؤد کو فتح حاصل ہوئی تو اس خوشی میں وہ ننگے ہو کر لشکر کے آگے آگے ناچنے اور گودنے لگے اور اسی حالت میں وہ شہر میں داخل ہوئے بادشاہ کی بیٹی سے اُن کی شادی ہو چکی تھی وہ اپنے جھرو کے میں بیٹھی لشکر کی واپسی کا انتظار کر رہی تھی.اُس نے جو دیکھا

Page 490

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۴ چشمہ ہدایت که دا و دلشکر کے آگے ناچتے گو دتے چلے آرہے ہیں تو اسے اتنی شرم آئی کہ اُن کے گھر میں داخل ہوتے ہی اُس نے کہا کہ آج آپ نے بڑی قابل شرم حرکت کی ہے.لیکن ادھر ہم قرآن والا داؤ د دیکھتے ہیں تو چونکہ اس کی نبوت پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مُہر لگ گئی اس لئے داؤد کا نا چنا اور تھر کنا اور گودنا اور ان کا ننگا ہونا سب ہماری نگاہ سے غائب ہو جاتا ہے اور ہم کہتے ہیں تم جھوٹ کہتے ہو داؤ دخدا کا نبی تھا.اسی طرح نوح اور لوط کے واقعات پڑھ کر دیکھولو، بائیبل بتاتی ہے کہ وہ شراب پی کر ننگے ہوئے اور اُنہوں نے اپنی بیٹیوں سے زنا کیا.اگر قرآن کی تصدیق ہمیں نظر نہ آتی ، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر ان نبیوں کی نبوت پر نہ گتی تو ہم کہتے یہ سب جھوٹے انسان تھے لیکن اب ہم نہیں کہہ سکتے.اب ہم کہتے ہیں کہ یہ لوگ خدا کے مقدس اور راستباز انسان تھے اور جو کچھ کہنے والے ان کے متعلق کہتے ہیں وہ سب غلط اور بیہودہ باتیں ہیں.اسی طرح حضرت کرشن اور رام چندر کو لے لو.قرآن نے یہ اصول بتایا کہ قران مین ألة الاخلا فيما نذیر اس اصول کے مطابق ہم سمجھتے ہیں کہ ہندوستان میں بھی نبی آئے اور کرشن اور رام چندر دونوں نبی تھے.مگر اُن کے حالات جو ہند و تاریخ بتاتی ہے وہ اتنے گھناؤنے ہیں کہ کوئی سلیم الفطرت انسان اُن واقعات کی بناء پر ان لوگوں کے تقدس کا قائل نہیں رہ سکتا.سیتا کے ساتھ جو ظلم کیا گیا اور اسے سالہا سال تک جس طرح جنگل میں نکال دیا گیا وہ ایسے واقعات ہیں جو طبیعت پر سخت گراں گزرتے ہیں.لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر اِن پر لگ جاتی ہے تو سارے واقعات ایک ایک کر کے ہماری نگاہ میں بے حقیقت ہو جاتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ سب مخالفین کی افتراء پردازیوں کا نتیجہ ہے ورنہ وہ لوگ نبی تھے ، خدا تعالیٰ کے راستباز اور مقدس انسان تھے.اب دیکھو یہ معنے جو خاتم النبیین کے ہم کرتے ہیں یہ ایسے ہیں جن کی بناء پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں بھی یہ ثابت کیا جا سکتا تھا کہ آپ خاتم النبیین ہیں.آپ کی زندگی میں بھی مسلمان کہ سکتے تھے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا

Page 491

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۵ چشمہ ہدایت ہی نتیجہ ہے کہ نوح اور لوط اور داؤد اور موسیٰ اور عیسی وغیرہ کو ہم نبی تسلیم کرتے ہیں ورنہ اُن کی اپنی کتابوں کے واقعات اُن کی نبوت کے خلاف ہیں.مگر جن معنوں میں غیر احمدی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبین قرار دیتے ہیں ان معنوں میں تو قیامت کے دن تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ثابت ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ کسی کو کیا پتہ کہ کل کوئی نبی آ جائے.یہ تو محض ایک خیال ہے کہ کوئی نبی نہیں آ سکتا.کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ تمہیں کیا پتہ کہ کوئی آئے گا یا نہیں ممکن ہے کہ کل ہی کوئی نبی آجائے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین نہ رہیں.پس یہ معنے ایسے نہیں جن کو دنیا پر ثابت کیا جا سکے.ان معنوں کے لحاظ سے تو جب کوئی شخص مرنے لگے اُس وقت بھی وہ یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ ولیہ وسلم خاتم النبیین ہیں کیونکہ وہ کہہ سکتا ہے کہ ممکن ہے میرے مرنے کے بعد ہی کوئی نبی دنیا میں آجائے.غرض جب تک صو را سرافیل نہ پھونکا جائے یہ معنے دنیا پر ثابت نہیں کئے جا سکتے کیونکہ قیامت کے دن تک ہر شخص کو یہ مشبہ ہے کہ ممکن ہے کوئی نبی آجائے اور یہ معنے غلط ہو جائیں.پس غیر احمدی جو خاتم النبیین کے معنے کرتے ہیں ان کے رو سے قیامت کے آنے سے پہلے آپ کا خاتم النبیین : ثابت نہیں ہوسکتا لیکن ہمارے معنوں کے رو سے محمد رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم اُس دن بھی خاتم النبین تھے جس دن آپ نے دعوی فر مایا کیونکہ اُس دن بھی بائیبل موسی اور عیسی اور داؤد اور دوسرے نبیوں کے وہی حالات پیش کرتی تھی جو آج پیش کرتی ہے لیکن جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان نبیوں پر مُہر لگ گئی ، جب آپ نے ان کی نبوت کی تصدیق فرما دی تو ہم ان واقعات کو بھی پڑھتے ہیں مگر ہم پورے یقین اور وثوق کے ساتھ کہتے ہیں کہ یہ سب باتیں غلط ہیں.یہ لوگ یقیناً نبی تھے، یقیناً راست باز اور مقدس انسان تھے.اب دیکھو کتنا زمین و آسمان کا فرق ہے جو ہمارے معنوں میں اور انکے معنوں میں پایا جاتا ہے.ایک معنوں کے رُو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت اُسی دن ثابت تھی جس دن آپ نے خاتم النبیین ہونے کا دعویٰ فرمایا ، اور ایک معنوں کے رُو سے

Page 492

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۶ چشمہ ہدایت.قیامت کا دن آنے سے پہلے پہلے آپ خاتم النبیین ثابت نہیں ہو سکتے جب تک اسرافیل اپنا ھور نہ پھونکے.جب تک عزرائیل دنیا سے آخری آدمی کی بھی جان نہ نکال لے اُس وقت تک یہ ثابت نہیں ہوسکتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں.لیکن اگر تمام انسان ختم ہو جائیں، ہر انسان موت کا شکار ہو جائے ، دنیا پر ایک متنفس بھی باقی نہ رہے اور اُس وقت تک کوئی نبی نہ آئے تو پھر بے شک کہا جا سکے گا کہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اب تک کوئی نبی نہیں آیا.لیکن ہمیں تو آج بھی پتہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں.ہمارے تو آباؤ اجداد کو بھی یقین تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں بلکہ آج سے تیرہ سو سال پہلے صحابہ کو بھی یقین تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں کیونکہ ہمارے بزرگ اس بات پر ایمان رکھتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بغیر نہ عیسی کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے نہ موسیٰ کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے نہ کسی اور نبی کی نبوت ثابت ہو سکتی ہے.پھر ان کے علماء نے خود ان کے خلاف لکھا ہے چنانچہ مولوی محمد قاسم صاحب نانوتوی نے اپنی کتاب تحذیر الناس میں صاف طور پر لکھا ہے کہ بھلا یہ کوئی عقل کی بات ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ کہا جائے کہ چونکہ وہ سب سے آخر میں آئے ہیں اس لئے سب سے بڑے نبی ہیں ؟ آخر میں آنا بھی کوئی بڑائی کی بات ہوتی ہے؟ یہ عقل کے خلاف ہے.اب آیت کو دیکھ لوتو وہ بھی صاف طور پر ہمارے معنوں کی ہی تائید کرتی ہے.قرآن کریم میں یہ آیت اس طرح آتی ہے کہ مَا كَانَ مُحَمَّدُ أَبَا أَحَدٍ من رِّجَالِكُمْ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِين که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں.اب اگر وہ معنے کرو جو غیر احمدی کرتے ہیں تو اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ جو شخص کسی کا باپ نہ ہو وہ رسول اللہ ہوتا ہے اور جو رسول اللہ ہو وہ خاتم النبیین ہوتا ہے.جس طرح وہ لطیفہ تھا کہ چونکہ مسیح قتل نہیں ہوئے اور صلیب نہیں دیئے گئے اس لئے معلوم ہوا کہ چوتھے آسمان پر چلے گئے.اسی طرح یہ لطیفہ ہے کیونکہ فقرہ یہ ہے کہ محمد رسول اللہ

Page 493

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۷ چشمہ ہدایت صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن آگے مضمون یہ بیان کیا جاتا ہے کہ چونکہ وہ مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں اس لئے وہ رسول اللہ ہیں اور چونکہ وہ رسول اللہ ہیں اس لئے خاتم النبیین ہیں.گو ی معنے یہ بنے کہ جو کسی کا باپ نہ ہو وہ رسول اللہ ہوتا ہے اور جو رسول اللہ ہو وہ خاتم النبیین ہوتا ہے.کیا ان میں کوئی بھی جوڑ اور مطابقت ہے؟ یا کوئی بھی مطلب ہے جو ان معنوں کو تسلیم کرنے سے نکل سکتا ہے؟ بے شک بعض جاہل لوگ کہہ دیا کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس لئے اولا د نہیں ہوئی کہ آپ آخری رسول تھے.چونکہ نبی کی اولاد بہر حال نبی ہوا کرتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کوئی زندہ رہنے والی اولاد نہیں دی.لیکن واقعات کا علم رکھنے والے لوگ جانتے ہیں کہ یہ بات غلط ہے.نبی کی اولاد کا نبی ہونا ضروری نہیں.چنانچہ نوح کی اولاد ہوئی مگر وہ نبی نہیں ہوئی.اسی طرح قرآن کریم میں اشارتاً اور بائیل میں وضاحاً ذکر آتا ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کا ایک بیٹا ہو ا جو نا خلف تھا.پس یہ غلط ہے کہ نبی کی اولا دضرور نبی بنتی ہے اور یہ بھی غلط ہے کہ جس کی اولاد نہ ہو وہ رسول اللہ ہوتا ہے اور جو رسول اللہ ہو وہ خاتم النبیین ہوتا ہے.پس جو معنے غیر احمدی بیان کرتے ہیں وہ عقل کے بھی خلاف ہیں کیونکہ محض آخری ہو نا عقلاً کوئی بڑائی کی علامت نہیں ہوا کرتی اور پھر نقل کے بھی مطابق نہیں کیونکہ اگر قرآن کریم کی اس آیت کا وہ مفہوم لیا جائے تو آیت بالکل بے معنی بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خاتم النبیین کا مفہوم بیان کرتے ہوئے دنیا کو بتایا کہ خاتم النبیین ایک نہایت ہی بلند اور ارفع و اعلیٰ مقام ہے جو نبوت ورسالت سے بالا ہے اور اس کے معنے یہ ہیں کہ اب جو بھی فیضانِ الہی آئے گا وہ آپ کے توسط سے آئے گا اور وہی شخص اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کر سکے گا جس پر اس خاتم النبیین کی مہر ہو گی.گویا الہی دربار میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت ایسی ہی ہے جیسے ایک رجسٹرار کی ہوتی ہے، بغیر آپ کے واسطہ کے اور بغیر آپ کی تصدیق اور آپ کی مہر کے

Page 494

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۶۸ چشمہ ہدایت الہی دربار میں کسی کو مقبولیت حاصل نہیں ہو سکتی.چنانچہ پچھلے نبی بھی آپ کی تصدیق کے ساتھ ہی نبی ثابت ہوتے ہیں اور آئندہ بھی آپ کے فیضان سے ہی اللہ تعالیٰ کے قرب کے مدارج حاصل ہوا کریں گے.اسی مقام کی وضاحت ایک دوسرے مقام پر ان الفاظ میں کی گئی تھی که اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَى فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْن اِن شانِئَكَ هُوَ الابترن لے اے محمد ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تیرا دشمن لا ولد رہے گا اور تیرے بیٹے ہوں گے.یہ دعوی ہے جو اللہ تعالے نے تمام دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور بتایا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے اولاد نہیں رہیں گے بلکہ ان کا دشمن بے اولا د ر ہے گا.اب جب خدا نے یہ کہا کہ مَا كَانَ مُحَمَّدُ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ تو دشمن کو اعتراض کا موقع مل سکتا تھا کہ دیکھا کہتے تھے کہ میری اولا د ہو گی اور دشمن کی نہیں ہو گی مگر اب آپ ہی مان لیا کہ میں بے اولاد ہوں گا.اللہ تعالیٰ اس کا جواب یہ دیتا ہے کہ وَلكِن رَّسُولَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِين که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں تو اس سے ان کا چھوٹا ہوتا ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ تم نے جو إن شَانِئَكَ هُوَ الابتر کے معنے سمجھے تھے وہ غلط تھے.باوجود اس کے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ اولاد نہیں ہو گی.پھر بھی سورہ کوثر میں جو بتایا گیا تھا کہ اس کے دشمن ابتر رہیں گے وہ بالکل درست ہے، کس طرح؟ اُنہوں نے یہ سمجھا تھا کہ اس جگہ جسمانی اولاد مراد ہے حالانکہ ہماری مراد یہاں جسمانی اولاد نہیں بلکہ روحانی اولاد تھی.ہمارا منشاء یہ تھا کہ آج دشمن اپنی اکثریت کے گھمنڈ میں اکثر رہا ہے لیکن ایک دن آنے والا ہے جبکہ وہ بے اولاد ہو جائے گا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اولا د والے ہو جائیں گے یعنی ان دشمنوں کی اولادیں اپنے ماں باپ کو چھوڑ چھوڑ کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل ہوتی چلی جائیں گی اور اس طرح دُشمن گھٹتے جائیں گے اور آپ بڑھتے جائیں گے.یہ مفہوم تھا جو سورۃ کوثر کی آیت کا تھا.اب یہ سیدھی بات ہے کہ جس کی جماعت دنیا میں قائم ہو جائے گی ، جو ساری دنیا پر غالب آ جائے گا ، جس کے دشمن مٹ جائیں گے، جو اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گا وہ یقینا رسول اللہ ہو گا.یہ نہیں

Page 495

انوار العلوم جلد ۲۲ چشمہ ہدایت کہ کسی کا بیٹا نہ ہو اور اُس کے متعلق کہا جائے کہ وہ رسول اللہ بن گیا.آگے فرماتا ہے وخاتم النبين خالی یہی نہیں کہ یہ اللہ کا رسول ہے بلکہ رسولوں کی مہر ہے.تم اس کو جھوٹا سمجھتے ہو اور خیال کرتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو پیشگوئی کی تھی کہ میرا دشمن ابتر رہے گا.وہ غلط نکلی.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ وہ پیشگوئی پوری ہوگی اور اس کی اولا د دنیا میں ہمیشہ کے لئے قائم رکھی جائے گی.یعنی اس کا فیضان کبھی ختم نہ ہوگا اور قیامت تک اسی کی برکت سے اور اسی کی غلامی میں وہ لوگ کھڑے ہوں گے جو اس کے لائے ہوئے دین کی دنیا میں اشاعت کریں گے اور اس کے نام کو کو نہ کو نہ میں پھیلائیں گے.اب دیکھو یہ معنے جو ہم کرتے ہیں یہ نقلی طور پر بھی صحیح ہیں اور عقلی طور پر بھی صحیح ہیں اور جذباتی طور پر بھی صحیح ہیں کونکہ جذبات صحیحہ کسی کی یہ بڑائی تسلیم نہیں کر سکتے کہ وہ اس لئے بڑا ہے کہ سب کے آخر میں آیا.وہ بادشاہ جو کسی خاندان یا قوم کا آخری بادشاہ ہو اور اس کے بعد اس خاندان اور قوم میں سے بادشاہت مٹ جائے اُسے کوئی بھی بڑا نہیں کہا کرتا.غرض ہمارا عقیدہ وہ ہے جس کی نقل بھی تائید کرتی ہے جس کی عقل بھی تائید کرتی ہے اور جس کی جذبات صحیحہ بھی تائید کرتے ہیں لیکن غیر احمدیوں کے معنے نقل کے لحاظ سے بھی باطل ہیں اور عقل کے لحاظ سے بھی باطل ہیں اور جذ بات صحیحہ کے لحاظ سے بھی باطل ہیں ، پس جو شخص بھی اس عقیدہ کو سمجھ کر مانے گا وہ کبھی بھی اس عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا.اور جو بھی تم میں سے غور کرے وہ خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ ختم نبوت کے کون سے معنے ہیں جن سے نقل تسلی پاتی ہے ، کون سے معنے ہیں جن سے عقل تسلی پاتی ہے اور کون سے معنے ہیں جن سے جذبات صحیحہ تسلی پاتے ہیں.میں یقیناً کہتا ہوں کہ اس عقیدہ کو سمجھ لینے کے بعد ایک آرا کیا اگر دس ہزار آرا بھی کسی کے سر پر رکھ دیا جائے تو وہ کہے گا کہ بات تو یہی ٹھیک.تمہارا دل جتنا چاہے مجھے مارلو میں اس عقیدہ کو نہیں چھوڑ سکتا.تیسرا اصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیش فرمایا کہ اسلام کا روحانی منظر غلبہ تمام دنیا پر ہو گا.یہ اصل بھی نہایت اہم ہے اور مسلمان بغیر اس صح نظر کے دنیا میں

Page 496

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷۰ چشمہ ہدایت کبھی بھی حقیقی سر بلندی حاصل نہیں کر سکتے.یہ عجیب بات ہے کہ مسلمان پہلے تو اس اصل کو کسی نہ کسی شکل میں تسلیم کرتا تھا مگر اب ہماری مخالفت میں اُس نے اس اصل کو بھی چھوڑ ہے.پہلے کہتا تھا کہ مسیح اور مہدی دنیا میں آئیں گے تو سب کفار کو مسلمان بنالیں گے اور گو وہ کہتا یہی تھا کہ تلوار کے زور سے مسلمان بنا ئیں گے مگر یہ سیدھی بات ہے کہ جب مسیح اور مہدی نے آنا تھا تو کچھ نہ کچھ اس کے ذریعہ روحانیت نے بھی غلبہ پانا تھا مگر اب جوں جوں ہماری تبلیغ وسیع ہوتی جارہی ہے اور جوں جوں وہ مسیح اور مہدی کی آمد سے مایوس ہوتا جا رہا ہے تعلیم یافتہ طبقہ نے یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ قرآن کے ہوتے ہوئے کسی عیسی اور مہدی کی ضرورت ہی کیا ہے.گویا تھوڑا بہت جو وہ سچائی کے قریب تھے وہ بھی ختم ہو گیا.اب دنیا میں صرف ہماری ہی جماعت ہے جو اس مسئلہ کو پیش کرتی ہے کہ اسلام روحانی طور پر ساری دنیا پر غالب آئے گا.مسلمان اس بات کو رڈ کرتا ہے اور وہ کہتا ہے ہمیں اس روحانی غلبہ کی ضرورت نہیں ہم چاہتے ہیں کہ سیاسی طور پر ایران آزاد ہو جائے ، شام آزاد ہو جائے ، فلسطین آزاد ہو جائے ، لبنان آزاد ہو جائے ،سعودی عرب آزاد ہو جائے ، مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں ، پاکستان کی حکومت مضبوط ہو جائے ، سوڈان کو آزادی حاصل ہو جائے.اگر یہ ممالک سیاسی رنگ میں مکمل آزادی حاصل کر لیں تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ وہ کامیاب ہو گئے.مگر میں پوچھتا ہوں اگر یہ ساری باتیں ہم کو حاصل ہو جائیں ، اگر پاکستان ایک مضبوط اسلامی ملک بن جائے اور تھوڑی بہت اس کی طاقت میں جو کمی ہے وہ دُور ہو جائے ، اگر ایران کے تیل کے چشموں کا سوال حل ہو جائے اور پھر اس کی مالی حیثیت بھی اتنی مضبوط ہو جائے کہ اس کا خزانہ ہر قسم کا مالی بوجھ اُٹھانے کے لئے تیار ہو جائے ، اگر سعودی عرب بھی آزاد ہو جائے اور اس کے تیل کے چشمے اُسی کے قبضہ میں آجائیں اور وہ موجودہ آمد سے دس بیس گنا آمد اسے دینے لگیں ، اگر مصر میں سے بھی انگریزی فوجیں نکل جائیں ، اگر شام کے جھگڑے بھی ختم ہو جائیں اور آئے دن جو وہاں قتل کی وارداتیں ہوتی رہتی ہیں اور کبھی کوئی کمانڈر انچیف مارا جاتا ہے اور کبھی کوئی وزیر یہ سب باتیں ختم ہو جائیں ، اگر پاکستان میں اندرونی طور پر جو جھگڑے پائے

Page 497

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷۱ چشمہ ہدایت جاتے ہیں وہ بھی ختم ہو جائیں اور دشمنوں کی سازشیں اور ریشہ دوانیاں جاتی رہیں تب بھی تم غور کر کے دیکھ لو کہ اِس موجودہ دنیا کے نقشہ پر روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ان ممالک کی آزادی اور ان کی طاقت ہمارے لئے کوئی بھی فخر کی چیز ہوگی؟ یہ ساری حکومتیں آزاد بھی ہو جائیں تو دنیا کی پالیٹکس میں ان کی کیا حیثیت ہو سکتی ہے.روس اور امریکہ اور انگلینڈ اور فرانس کے مقابلہ میں ان کا کیا درجہ تسلیم کیا جا سکتا ہے.اگر ایک بادشاہ کے گھر کے پاس کسی غریب آدمی کا مکان ہوا اور فرض کر لو کہ اس کے پاس کسی وقت لاکھ دو لاکھ روپیہ بھی آ جائے تب بھی بادشاہ کے مقابلہ میں اس کی کیا حیثیت تسلیم کی جاسکتی ہے.جس دن اُس کا روپیہ ختم ہو جائے گا اُسی دن اس کی ساری حیثیت جاتی رہے گی اور وہ پھر دنیا میں ایک بے حقیقت چیز بن کر رہ جائیگا.پس سوال یہ ہے کہ اگر وہ سب کچھ ہو جائے جو مسلمان چاہتے ہیں تب بھی دنیا میں مسلمان کی کیا حیثیت ہوگی؟ کیا اس کا پھیلاؤ، کیا اس کا روپیہ، کیا اس کی فوج ، کیا اس کی تعداد اور کیا اس کی طاقت اس قابل سمجھی جا سکتی ہے کہ دنیا کی پالیٹکس پر کوئی غیر معمولی اثر پیدا کر سکے؟ اگر نہیں تو بتاؤ اس صح نظر سے اسلام کو کیا فائدہ؟ اور مسلمان نوجوانوں کے اندر اس صحیح نہ سے وہ کونسا انقلاب پیدا ہو سکتا ہے کہ ہر مسلمان کا دل اُچھلنے لگے کہ میں بھی اس صح نظر کے حصول کے لئے کچھ کوشش کروں شاید کہ میرا نام بھی تاریخ میں محفوظ ہو جائے.زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو پولیٹیکل دنیا میں ایک تیسرے درجہ کی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے اور تیسرے درجہ کی حیثیت کوئی ایسی چیز نہیں جو انتہائی مقصود قرار دیا جا سکے.اس میں کوئی محبہ نہیں کہ مسلمان ممالک کی آزادی ضروری چیز ہے.کون چاہتا ہے کہ وہ ہمیشہ غلام بنار ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ طمح نظر ایسا ہو سکتا ہے جس سے مسلمان نوجوانوں کی رگوں میں نیا خون دوڑ نے لگے اور کیا اس کے ذریعہ سے اسلام کو کوئی اہم پوزیشن دنیا میں حاصل ہو جاتی ہے؟ پس سوال یہ نہیں کہ اسلامی ممالک کی آزادی اچھی چیز ہے یا نہیں ؟ سوال یہ ہے کہ اگر وہ آزادی ان کو حاصل ہو جائے تو پھر ہم کیا بن جاتے ہیں؟ ایک غریب آدمی جس

Page 498

انوار العلوم جلد ۲۲ چشمہ ہدایت کے گھر میں آٹا بھی نہیں ہم یہ نہیں کہتے کہ اسے آٹا نہ ملے ،مگر آٹا مل جانے سے کیا اس کی دنیا میں کوئی پوزیشن قائم ہو سکتی ہے؟ اگر سیر بھر آئے کا اس کے لئے انتظام بھی ہو جائے تب بھی وہ جن کے پاس کئی کئی کروڑ روپیہ ہے ان کے مقابلہ میں اُس کی کوئی حیثیت نہیں ہوسکتی.پس ہم یہ نہیں کہتے کہ مسلمان حکومتوں کو آزادی حاصل نہ ہو.ہم چاہتے ہیں مسلمان ممالک آزاد ہوں ، ہم چاہتے ہیں کہ مسلمان حکومتیں طاقتور ہوں لیکن جو سوال ہمارے سامنے ہے وہ یہ ہے کہ اس آزادی کے بعد دنیا میں ہماری پوزیشن کیا بنتی ہے؟ مسلمان اس بات کا مدعی ہے کہ وہ ساٹھ کروڑ ہے.عیسائیوں نے جو تازہ جغرافیہ لکھا ہے اس میں اُنہوں نے مسلمانوں کی تعداد اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ مان لی ہے لیکن دنیا کی آبادی دو ارب چالیس کروڑ ہے دو ارب چالیس کروڑ ہی میں اڑتالیس کروڑ بیس لاکھ تمام آبادی کا چوتھا حصہ بنتے ہیں.گویا اگر سارے مسلمان آزاد ہو جائیں، اگر ہر اسلامی ملک میں اتنی ہی دولت ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے ، اتنا ہی اسلحہ ہو جتنا امریکہ میں پایا جاتا ہے، اتنی ہی تجارت ہو جتنی امریکہ میں پائی جاتی ہے پھر بھی روپیہ میں سے چونی انہیں حاصل ہو گی.اب تم خود ہی بتاؤ کہ ۱۲ آنے بڑے ہوتے ہیں یا چونی بڑی ہوتی ہے؟ چونی بہر حال چھوٹی ہوتی ہے اور ۱۲ آنے بڑے ہوتے ہیں.وہ ہند و جس کو ہمارے آدمی تحقیر کے طور پر کراڑ کر اڑ کہا کرتے تھے وہ بھی آزادی کے بعد بہتیس کروڑ آبادی کا مالک بن چکا ہے.پھر چین کو دیکھ لو اس کی آبادی اور رقبہ کو لے لو اس کی آبادی پچاس کروڑ ہے.اگر مسلمان اڑتالیس کروڑ ہی ہوں تو خالی چین کے لوگوں کی تعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے.پس سوال یہ ہے کہ اگر ایسا بھی ہو جائے تو یہ کونسا مقصد ہے جو ہر مسلمان کے سامنے رہنا چاہئے؟ میں نے بتایا ہے کہ اگر کوئی آدمی مر رہا ہو تو ہماری خواہش ہو گی کہ خدا کرے وہ بیچ جائے لیکن کیا جو شخص مرنے سے بچ جائے وہ بادشاہ ہو جایا کرتا ہے؟ یا کوئی بڑا عالم ہو جایا کرتا ہے؟ مسلمانوں کی آزادی کے لئے جدوجہد کے معنے صرف اتنے ہیں کہ مسلم باڈی پالیٹکس میں مرض پیدا ہو چکا ہے اور وہ اس مرض کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ہماری

Page 499

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷۳ چشمہ ہدایت خواہش ہوگی کہ وہ مرض دُور ہو جائے بلکہ ہماری دعا ہو گی کہ وہ مرض دُور ہو جائے لیکن اگر یہ مرض دُور ہو جائے تب بھی دنیا کی قوموں میں بیٹھتے وقت ایک مسلمان کی کیا پوزیشن ہو گی ؟ اگر ایران بھی آزاد ہو جائے ، اگر مصر کے مسائل بھی حل ہو جائیں ، اگر فلسطین اور شام اور لبنان بھی آزاد ہو جائیں، اگر سوڈان بھی آزاد ہو جائے ، اگر تمام اسلامی ممالک ے جھگڑے ختم ہو جائیں ، اُن کی طاقت بڑھ جائے ، اُن کا روپیہ زیادہ ہو جائے ، اُن کی عظمت ترقی کر جائے ، دولت اُن کے ہاتھ میں آجائے ، تمام تجارت جو اس وقت امریکہ کے پاس ہے ان پر اُن کا قبضہ ہو جائے پھر بھی ۱۲ آنے کے مقابلہ میں وہ چار آنے کے مالک رہتے ہیں اور جب ان کی حالت یہ ہوگی کہ چونی ان کے پاس ہوگی اور ۱۲ آنے غیر کے پاس ہوں گے تو اسلام کسی طرح غالب آیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کسی طرح قائم ہوئی.غرض جو شخص بھی اس مسئلہ پر اس رنگ میں غور کرے گا اور عقل سے کام لے گا وہ بعثت محمدیہ کی یہ غرض قرار دیتا کہ سیاسی لحاظ سے ایران آزاد ہو جائے ، مصر آزاد ہو جائے ، شام اور فلسطین آزاد ہو جائیں، لبنان آزاد ہو جائے ،سوڈان آزاد ہو جائے ، پاکستان مضبوط ہو جائے اپنی انتہائی پست خیالی تصور کرے گا وہ شرمائے گا کہ میں یہ کیا کہہ رہا ہوں اور کونسا مقصد ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی طرف منسوب کر رہا ہوں.کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ یہ چھوٹے چھوٹے علاقے آزاد ہو جائیں؟ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس لئے آئے تھے کہ مسلمان دنیا میں ایک چونی کی حیثیت حاصل کر لیں.میں تو سمجھتا ہوں اگر میرے واہمہ اور خیال میں بھی ایسا نظریہ آئے تو میرا ہارٹ فیل ہو جائے کہ میں کتنا پست نظر یہ اُس عظیم الشان اور مقدس انسان کی بعثت کے متعلق رکھ رہا ہوں جسے خدا نے اوّلین و آخرین کا سردار بنایا.میں تو سمجھوں گا میرے جیسا جھوٹا انسان دنیا میں اور کوئی نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیم الشان رسول کی طرف اتنا چھوٹا ، اِتنا معمولی اور اتنا ادنیٰ درجہ کا خیال منسوب کر رہا ہو کہ اتنا بڑا رسول اس لئے آیا تھا کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہو جائیں،

Page 500

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷۴ چشمہ ہدایت اس لئے آیا تھا کہ مصر آزاد ہو جائے ، اس لئے آیا تھا کہ فلسطین اور شام اور لبنان کے جھگڑے دُور ہو جائیں.میں جانتا ہوں کہ مخالف یہ کہیں گے کہ دیکھا! ہم نہیں کہتے تھے یہ لوگ مسلمانوں کے دشمن ہیں انہیں اسلامی ممالک کی آزادی سے کوئی تعلق نہیں.لیکن میں ان کے اعتراضات کی پرواہ نہیں کرتا.میں جانتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت اور آپ کی شان کیا ہے.میں جانتا ہوں کہ اس عظمت اور شان کے مقابلہ میں اس ادنی ترین مقصد پر آکر ٹھہر جانا قطعی طور پر اپنی نا بینائی کا اظہار کرنا ہے.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت ایران کے تیل کے چشموں کے آزاد ہونے سے قائم ہوتی ہے، اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت مصر سے انگریزی فوجوں کے نکل جانے سے قائم ہوتی ہے تو پھر جب انگریزوں نے ایک ایک مُلک سے مسلمانوں کو کان پکڑ کر نکال دیا تھا تو تمہیں کہنا چاہئے تھا کہ عیسی کی عظمت ظاہر ہوگئی بلکہ عیسائیت کی موجودہ طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے تمہیں اب بھی تسلیم کرنا چاہئے کہ عیسائیت اسلام پر بازی لے گئی لیکن ہر باشعور انسان جو حقیقت کو جانتا ہے اور سمجھ سکتا ہے کہ ملکوں کی آزادی بالکل اور چیز ہے اور مذہب کا غلبہ ایک دوسری چیز ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا میں آکر یہ اصول پیش فرمایا کہ تمہارا یہ مطمح نظر نہایت ادنی ہے تمہیں اپنے افکار کو بلند کرنا چاہئے.تمہیں سمجھنا چاہئے کہ تمہارا کیا منصب ہے اور کونسا کام جو خدا تعالیٰ نے تمہارے سپر د کیا ہے.بے شک سیاست کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کی اصلاح ضروری ہے.بے شک دولت کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو ترقی کی ضرورت ہے، بے شک تمدن کے لحاظ سے بھی مسلمانوں کو اپنے اندر تغیر پیدا کرنے کی ضرورت ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی غرض یہ بھی تھی کہ اسلام کو روحانی طور پر دنیا میں غالب کیا جائے.اب اس کی تشریح کرو تو اس عظیم الشان مقصد کے یہ معنے بن جاتے ہیں کہ اسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کے دلائل اتنی طاقت پکڑ جائیں کہ مسلمانوں کے ساتھ باتیں کرتے وقت وہ کتنی کترانے لگیں.آج یورپ میں جو بھی لٹریچر شائع ہوتا ہے اس میں یہ لکھا ہوتا ہے کہ اسلام میں

Page 501

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷۵ چشمہ ہدایت فلاں نقص ہے اور اسلام میں فلاں خرابی ہے، لیکن کل اسلام کو ایسا غلبہ حاصل ہو کہ یورپ کے رہنے والے اپنی کتابوں میں یہ لکھیں کہ اسلام میں فلاں بات بہت اعلیٰ ہے مگر عیسائیت بھی اس سے بالکل خالی نہیں.میسیج کی فلاں بات سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی دنیا کے سامنے یہی بات پیش کی تھی ، آج کا یورپ زدہ مسلمان یورپ کی ڈیما کریسی کو دیکھ کر کہتا ہے کہ قرآن سے بھی کچھ کچھ ایسے ہی اصول ثابت ہوتے ہیں اور یہ خوبی ہمارے اندر بھی پائی جاتی ہے.یہ اپالوجی ( Apolog) ہے جو آج کا مسلمان پیش کر رہا ہے اور یہ اسلام کے لئے فخر کا دن نہیں.اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہوگا ، جب یورپ اور امریکہ میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اسلامی پر وہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں اس کی کچھ کچھ انجیل سے بھی تائید ہوتی ہے اور ہمارے مسیح نے بھی جو فلاں بات کہی ہے،اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ اس قسم کا پردہ ہونا چاہئے.اسلام کے لئے فخر کا دن وہ ہو گا جب یورپ اور امریکہ کا عیسائی اپنی تقریروں میں یہ کہے گا کہ کثرت ازدواج کا مسئلہ جو مسلمان پیش کرتے ہیں بے شک یہ بڑا اچھا مسئلہ ہے اور عیسائیوں نے کسی زمانہ میں اس کے مخالف بھی کہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے پوری طرح غور نہیں کیا تھا.اصل بات یہ ہے کہ عیسائیت کے وہ بزرگ جو پہلی صدی میں گزرے ہیں انہوں نے بھی دو دو تین تین شادیاں کی ہیں، پس کثرت ازدواج کی خوبی صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ عیسائیت میں بھی پائی جاتی ہے.جس دن یورپ اور امریکہ کے گرجوں میں کھڑے ہو کر ایک پادری اپنے مذہب کی اس رنگ میں خوبیاں بیان کرے گا وہ دن ہوگا، جب ہم کہیں گے کہ آج اسلام دنیا پر غالب آ گیا.اب ہمیں اپالوجی (Apology) کی ضرورت نہیں.اب دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ یہ خوبیاں ان کے اندر بھی پائی جاتی ہیں یہ ہو گا اسلام کا غلبہ اور یہ ہوگا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا دن.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا وہ دن ہو گا جب دو ارب چالیس کروڑ کی دنیا میں چالیس کروڑ مسلمان نہیں ہو گا بلکہ دو ارب مسلمان ہوگا اور چالیس کروڑ غیر مذاہب کا پیرو ہوگا.مگر یہ نظریہ کس نے پیش کیا ؟ یہ صرف حضرت مرزا صاحب نے پیش کیا اور یہی وہ چیز

Page 502

انوار العلوم جلد ۲۲ مطر چشمہ ہدایت ہے جس پر آپ پر کفر کا فتویٰ لگایا گیا اور کہا گیا کہ اسلام کے غلبہ کا یہ کونسا طریق ہے.اسلام تو اس طرح غالب آ سکتا ہے کہ تلوار ہاتھ میں لی جائے اور کفار کو تہہ تیغ کر دیا جائے.مگر غور کر کے دیکھ لو کہ کونسا نظریہ ہے جو اسلام کی عظمت کو قائم کرنے والا ہے اور کونسا مح نظر ہے جس پر ایک سچا مسلمان تسلی پاسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ صلح نظر پیش کیا ہے کہ اسلام کو روحانی غلبہ سب دنیا پر حاصل ہو گا اور روحانی غلبہ کے معنے یہ ہیں کہ دنیا کے سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی معیاروں کو بدل دیا جائے گا.آج یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام قابل اعتراض نہیں کیونکہ یورپین تہذیب کی فلاں فلاں بات کی وہ تائید کرتا ہے یا وہ ڈیما کرسی جو آج یورپ پیش کرتا ہے بڑی اچھی چیز ہے مگر اسلام نے بھی اس ڈیما کرسی کی تائید کی ہے.یہ طریق جو آج مسلمانوں نے اختیار کر رکھا ہے یہ ہرگز اسلام کے لئے کسی عزت کی بات نہیں.ہم تو اُس دن کے منتظر ہیں جب امریکہ کے منبروں پر کھڑے ہو کر عیسائی پادری یہ کہا کریں گے کہ وہ اسلامی خریت اور آزادی جس کو قر آن پیش کرتا ہے ہماری قوم بھی اس سے بالکل خالی نہیں اور ہم اس کی تائید میں اپنی کتابوں کے حوالے پیش کرتے ہیں یا وہ اخلاقی ، مذہبی اور سیاسی معیار جو اسلام پیش کرتا ہے اُسی سے ملتے جلتے معیار ہماری کتابوں میں بھی پائے جاتے ہیں.غرض آجکل کا مسلمان آزادی کا تو دعوی کرتا ہے مگر ذہنی غلامی اختیار کرتے ہوئے وہ چاہتا ہے کہ وہ بھی مغربی تہذیب کے اچھے نقالوں میں سے بن جائے وہ انہی کے نام پر اُن کی نقل کرنے میں عزت محسوس کرتا ہے اور اگر وہ آزادی ظاہر کرتا ہے تو صرف اتنی کہ کسی میں مغربی تہذیب کا نقال بننا چاہتا ہے اور کسی میں کمیونسٹ نظریہ کا نقال بننا چاہتا ہے اور نقل خواہ دس متفرق آدمیوں کی کی جائے بہر حال نقل ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دنیا کے سامنے یہ سمح نظر رکھا کہ کسی دن یورپ بھی میرا نقال ہو گا اور امریکہ بھی میرا نقال ہو گا.اب دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے جو بات کہی کہ دنیا کا سیاسی اور اخلاقی اور مذہبی نقطہ نظر بدل کر اُن کو مسلمان بنالینا اور پھر اسلام کے مطابق اُن کے اعمال کو ڈھال دینا یہ صح نظر ہے جو تمہیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے.

Page 503

انوار العلوم جلد ۲۲ چشمہ ہدایت اس کا قرآن کریم سے بھی ثبوت ملتا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُوله بالهدى و دينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلّه " خدا ہی ہے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا ہے ہدایت دے کر اور دین حق دے کر.تلوار دے کر اور ڈنڈا دے کر نہیں يُظْهِرَ عَلى الدِّينِ كُلّم تا کہ وہ سارے دینوں پر اُسے غالب کرے.سارے ملکوں پر نہیں کیونکہ ملکوں پر قبضہ کر لینا کرئی بڑی بات نہیں ، بڑی بات یہی ہے کہ دلوں پر قبضہ ہو.اب دیکھو اس آیت میں دہی چیز بیان کی گئی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا یہ مقصد نہیں کہ ایران کے تیل کے چشمے آزاد ہو جائیں ، مصر سے انگریزی فوجیں نکل جائیں ، شام اور فلسطین آزاد ہو جائیں یہ باتیں ہوں گی اور ضرور ہوں گی مگر بہر حال یہ ابتدائی چیزیں ہیں مسلمان اس کے لئے جدو جہد کر رہا ہے اور وہ ایک دن اپنی غلامی کا جامہ چاک چاک کر کے پھینک دے گا لیکن یہ آزادی اُس کا مقصد نہیں.جب کسی کے ہاں کوئی بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ اُس کا ناک بھی پونچھتا ہے مگر اُس کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بچہ پیدا ہوتو میں اُس کا ناک پو نچھا کروں گا.مقصد اُس کا یہی ہوتا ہے کہ وہ بڑا عالم فاضل ہو عقل بھی یہی کہتی ہے کہ چند ریاستوں پر کسی کا قبضہ کر لینا کوئی بڑی بات نہیں.دلوں کو بدل دینا اور اُن کو فتح کر لینا بڑی بات ہے.فرض کرو پاکستان کسی وقت اتنی طاقت پکڑ جائے کہ وہ حملہ کرے اور سارے امریکہ کو فتح کرلے اور امریکہ کے لوگ ہمیں ٹیکس دینے لگ جائیں لیکن امریکہ کا آدمی اسلام اور قرآن پر لعنتیں ڈالتا ہو تو یہ بڑی فتح ہو گی یا امریکہ آزاد رہے لیکن امریکہ کے ہر گھر میں رات کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج کر سونے والے لوگ پیدا ہو جائیں تو یہ بڑی بات ہوگی؟ پس عقل بھی یہی کہتی ہے کہ یہی مقصد سب سے بالا ہے.یا مثلاً پاکستان کی ہندوستان سے کسی وقت لڑائی ہو جائے اور پاکستان ہندوستان کو فتح کر لے تو پھر بھی یہ کونسی فتح ہے.پہلے بھی یہی کہا گیا تھا ہندوستان کو فتح کر لیا گیا لیکن پھر وہ فتح کس طرح.

Page 504

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۷۸ چشمہ ہدایت بے حقیقت بن کر رہ گئی اور کس طرح مسلمان سخت ذلت کے ساتھ وہاں سے نکلے کہ ہر شخص بزبانِ حال یہ کہ رہا تھا کہ : - بہت بے آبرو ہو کر تیرے کوچہ سے ہم نکلے لیکن اگر پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بتائے ہوئے مقصد کو اپنے سامنے رکھتے ہوئے مسلمان کھڑا ہو اور وہ پھر ہندوستان میں داخل ہوتلوار کے زور سے نہیں بلکہ قرآن کے زور سے، بندوق کے زور سے نہیں بلکہ سچائی کے زور سے.شام لال ہند و عبد اللہ بن جائے ، سندر داس ہند و عبد الرحمن بن جائے ، ویدوں کی جگہ قرآن پڑھا جانے لگے تو آج تو تم اس طرح نکلے ہو کہ وہ تمھیں نکال کر خوش ہوئے ہیں لیکن اگر تم یہ فتح حاصل کر لو اور تم کسی دن اُن سے یہ کہو کہ اب ہمارا کام ہندوستان میں ختم ہو چکا ہے اب ہم چین کو جاتے ہیں تو تم دیکھو گے کہ اُس دن سارے ہندوستان میں گہرام مچ جائے گا اور ہر شخص رونے لگ جائے گا اور کہے گا خدا کے لئے ہمیں چھوڑ کر نہ جاؤ تم ہمارے لئے خیر اور برکت کا موجب ہو.یہ چیز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی اور اسی کی قرآن بھی تائید کرتا ہے اور عقل بھی تائید کرتی ہے اور جذبات صحیحہ بھی تائید کرتے ہیں کیونکہ جذبات صحیحہ اس بات کو کبھی تسلم نہیں کرتے کہ کسی کو مکا مار کر اُس سے یہ کہا جائے کہ تو مجھے پیار کر لیکن محبت اور پیار کے ساتھ اسے اپنا غلام بنا لو تو پھر تم اُسے کہو بھی کہ خدمت نہ کرو تو وہ کہے گا مجھے ثواب لینے دیں اپنی خدمت سے محروم کیوں کرتے ہیں.میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ سندھ میں جب مجھے گھوڑے پر سورا ہو کر کہیں جانا پڑتا ہے تو ساتھ ساتھ کوئی مخلص احمدی بعض دفعہ عمر کے لحاظ سے بڑھاپے میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے وہ دوڑتا چلا جاتا ہے.اُسے منع بھی کرو تو وہ رکتا نہیں اور ساتھ ساتھ دوڑتا چلا جاتا ہے اور جب میں گھوڑے سے اترتا ہوں تو وہ پیر دبانے لگ جاتا ہے کہ آپ تھک گئے ہوں گے.اسے بہتیرا کہا جاتا ہے کہ میاں ! میں گھوڑے پر سوار رہا اور تم پیدل چلتے آئے تھکا میں ہوں یا تم ؟ مگر وہ یہی کہتا چلا جاتا ہے کہ نہیں آپ تھک گئے ہوں گے مجھے پیر

Page 505

انوار العلوم جلد ۲۲ چشمہ ہدایت دبانے دیں.یہ غلامی ہے جو محبت کی غلامی ہے اور جس میں انسان اپنی عزت محسوس کرتا ہے.لیکن اس کی بجائے اگر کسی بڑھے کو مار مار کر ہم کہیں کہ آؤ اور ہمارے پیر دباؤ تو سب لوگ کہنے لگ جائیں گے کہ دیکھو! یہ مذہبی لیڈر بنے پھرتے ہیں اور حالت یہ ہے کہ ایک بڑھے کو مار رہے ہیں لیکن اب سوار ہم ہوتے ہیں اور پیدل وہ چلا آتا ہے لیکن گھوڑے سے اُترتے ہی وہ ہمارے پیر دبانے لگ جاتا ہے دیکھنے والا دیکھتا ہے اور حیران ہوتا ہے بلکہ اسے منع بھی کرو تو وہ کہتا ہے تم مجھے منع کرنے والے کون ہو میں تو ثواب حاصل کر رہا ہوں.چوتھا اصول حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیش فرمایا کہ الہام الہی دروازه قیامت تک کھلا ہے اس کے مقابلہ میں غیر احمدیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ الہام الہی کا دروازہ بند ہو چکا ہے.اب دیکھ لو حضرت مرزا صاحب نے جو کچھ کہا نقل اس کے مطابق ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ المَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَ لا تَحْزَنُوا و آبشرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنتُمْ تُوعَدُونَ ٣٥ یعنی وہ لوگ جو سچے دل سے اللہ تعالیٰ پر ایمان لاتے ہیں اور پھر مخالفتوں کے باوجود اپنے اس ایمان پر قائم رہتے ہیں اور صبر اور استقامت سے کام لیتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان پر اُترتے ہیں اور وہ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ تم اپنے گزشتہ مصائب پر کسی قسم کا خوف مت کھاؤ اور نہ آئندہ کے لئے کوئی غم کرو ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہاری مدد کرنے کے لیے ہر وقت تیار ہیں.پھر اسی دنیا کا سوال نہیں بلکہ ہم تم کو یہ بھی خبر دیتے ہیں کہ اگر ان کشمکش اور تکلیف کے دنوں میں تمہیں موت آگئی تو تمہاری موت بھی بڑی خوشی کا موجب ہو گی اور تم جنت میں داخل کئے جاؤ گے.اب دیکھو قرآن مجید نے صاف طور پر یہ بیان فرمایا ہے کہ مومنوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں جو مصائب میں اُنہیں تسلی دیتے ہیں اور مشکلات میں اُن کی ڈھارس بندھاتے ہیں اور آئندہ کے لئے انہیں بشارتیں دیتے ہیں اور اسی چیز کو وحی اور الہام کہا جاتا ہے..

Page 506

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۰ چشمہ ہدایت پُرانے بزرگوں نے اس پیغام کو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ملے وحی کی بجائے الہام کہنا شروع کر دیا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اُن کا لحاظ کرتے ہوئے اسے الہام ہی قرار دیا ور نہ وحی اور الہام میں کوئی فرق نہیں.بہر حال نام کچھ رکھ لو واقعہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے اور ان پر اپنی مرضی کو ظاہر فرماتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دعویٰ فرمایا وہ بے ثبوت نہیں بلکہ نقل اس کی تائید میں ہے.پھر حدیثیوں سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَات _ یعنی اب صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں اور مبشرات اسی کو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو بشارت دے اور اُن سے ہمکلام ہو.پھر عقل بھی یہی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے الہام کا سلسلہ ہمیشہ کے لئے جاری رہنا چاہئے کیونکہ بولنا اور کلام کرنا اُس کی صفت ہے اور جب خدا تعالیٰ کی اور تمام صفات کام کر رہی ہیں تو کلام کرنے کی صفت اُس کی کیوں باطل ہوگئی.جب لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیوں جی اللہ تعالیٰ دعائیں سنتا ہے؟ تو کہیں گے جی ہاں کیوں نہیں سنتا وہ سمیع الدعاء ہے.پوچھا جائے کیا خدا دیکھتا ہے؟ کہیں گے کیوں نہیں خدا بصیر ہے.پوچھا جائے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے؟ کہیں گے کیوں نہیں ان اللہ تعالیٰ گُل شَيءٍ قدير 10 اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.پھر پوچھا جائے کیا خدا بات کرتا ہے؟ کہیں گے نہیں جی کسی پُرانے زمانہ میں وہ بات کیا کرتا تھا اب تو نہیں کرتا.گویا اللہ تعالیٰ کی ننانوے صفات جو بیان کی جاتی ہیں اُن میں سے تو سب صفات سلامت ہیں ایک بولنے والی صفات میں کچھ خرابی پیدا ہوگئی ہے.گویا اُس کی زبان کے نروز Nerves) نعوذ باللہ مفلوج ہو گئے ہیں اور اب وہ اپنے بندوں سے کلام نہیں کر سکتا.دنیا میں تو گونگا بھی اشارے کر لیتا ہے مگر اس زمانہ میں لوگ جس خدا کو پیش کرتے ہیں وہ اشارے بھی نہیں کر سکتا.پھر جذ بات صحیحہ کو لوتو وہ بھی اس کی تائید کرتے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے ساتھ انسان کو جو تعلق ہے اس کی بنیاد محض محبت پر ہے اور جذبات محبت پر ہے اور جذبات محبت بغیر

Page 507

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۱ چشمہ ہدایت معشوق سے ملنے کے کبھی تسلی نہیں پاسکتے.اگر تم اپنے کسی محبوب کے پاس جاؤ اور اس کے پاس گھنٹوں بیٹھے رہو مگر وہ تم سے بات تک نہ کرے اور تمہاری طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھے تو اپنے ایمان سے کہو کہ تم وہاں سے روتے ہوئے آؤ گے یا ہنستے ہوئے آؤ گے؟ وہ تم سے بولتا ہے تو تمہارا دل خوش ہوتا ہے اور اگر بات نہیں کرتا تو تم پر موت آجاتی ہے.پس جذبات صحیحہ بھی اسی اصول کی تائید کرتے ہیں وہ شخص جو یہ عقیدہ پیش کرتا ہے کہ خدا نہیں بولتا وہ اگر یہ کہتا ہے کہ میں خدا سے محبت کرتا ہوں تو وہ جھوٹ بولتا ہے.ایک گونگے سے انسان پھر بھی محبت کر سکتا ہے کیونکہ سمجھتا ہے کہ اس کی زبان نہیں لیکن اگر زبان ہوا اور پھر بھی کوئی شخص نہ بولے تو اس سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.پانچویں بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش کی وہ یہ ہے کہ قرآن کریم ایک زندہ کتاب ہے مگر غیر احمدیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن میں جو کچھ لکھا ہوا ہے وہ ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مگر اس کی بہت سی آیتیں منسوخ ہیں یعنی وہ قرآن میں تو لکھی ہوئی ہیں مگر واجب العمل نہیں.پھر وہ کہتے ہیں اس کے مطالب بہت محدود ہیں.امام رازی تک تو اس کے علوم کا انکشاف ہوتا رہا مگر اس کے بعد اس کے روحانی معارف کا انکشاف لوگوں پر بند ہو گیا.گویا قرآن اس چشمہ کی مانند ہے جو خشک ہو چکا ہے یا نعوذ باللہ وہ ایک اندھا کنواں ہے جولوگوں کی تشنگی کو فرو کرنے کے لئے اپنے اندر پانی کا ذخیرہ نہیں رکھتا کسی زمانہ میں تو لوگ اس قرآنی چشمہ سے سیراب ہوتے تھے اور اس آسمانی کنوئیں سے اپنی پیاس بجھاتے تھے لیکن اب وہ اس قرآن سے نئے معارف اور نئے حقائق اور نئے علوم حاصل نہیں کر سکتے.یہ سلسلہ انکشاف صرف امام رازی تک جاری رہا ہے اس کے بعد یہ کان ختم ہو گئی اور اب اس میں سے کوئی نئی دولت حاصل نہیں کی جاسکتی.پھر وہ کہتے ہیں قرآن ہے تو خدا کی کتاب مگر یہ خدا سے ملا نہیں سکتی.تعلق باللہ پیدا کرنا جو ہر الہی کتاب کا خاصہ ہو ا کرتا ہے وہ کام اب قرآن سے نہیں لیا جا سکتا ہے.حالانکہ اگر یہ کتاب تعلق باللہ والا کام نہیں کرتی تو اس کے معنے یہ ہیں کہ یہ قیامت تک کے -

Page 508

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۲ چشمہ ہدایت لوگوں کے لئے ہدایت نامہ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی کتاب اسی لئے آتی ہے کہ وہ لوگوں کو خدا سے ملائے جو کتاب بندوں کو خدا سے نہیں ملاتی اُس کتاب کو لے کر ہم نے کرنا کیا ہے اور اگر وہ نہیں ملاتی تو اس کے صاف معنے یہ ہیں کہ وہ الٹھی کتاب نہیں.اب اگر وہ دنیا میں رہے تب بھی بیکار ہے اور اگر نہ رہے تب بھی حرج نہیں.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ بالکل غلط عقیدہ ہے قرآن وہ کتاب ہے جو انسان کے دل میں خدا تعالیٰ کی خشیت پیدا کر کے اُس کو خدا کی طرف لے جاتی ہے اور انسان کی جتنی طبعی اور روحانی ضرورتیں ہیں اُن کو پورا کرتی ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَقَدْ صَرَّفنَا لِلنَّاسِ فِي هَذَا الْقُرْآنِ مِن كُلِّ مَشَد ! ہم نے اس قرآن میں پھیر پھیر کر اور چکر دے دے کر اور نئے نئے اُسلوب سے اور نئی نئی طرزوں سے نئی نئی فطرتوں کے لئے مضامین بیان کئے ہیں اور پھر من حل مشد ہر قسم کے مضامین بیان کئے ہیں.دو ہی چیزیں ہوتی ہیں جو کسی تعلیم کی برتری کو ثابت کرتی ہیں.ایک یہ کہ ہر قسم کے مضامین اُس میں بیان ہوں اور دوسرے یہ کہ مختلف طبقات میں سے ہر طبقہ کے لیے اُس میں مضامین بیان ہوں اور یہ دونوں خصوصیتیں قرآن کریم میں پائی جاتی ہیں.گویا کوئی انسان نہیں رہا جو قرآن کا مخاطب نہ ہوا اور کوئی بات نہیں رہی جو قرآن نے بیان نہ کی ہو.جب ہر بات اس میں بیان کر دی گئی ہے اور ہر قسم کے لوگوں کی فطرت کوملحوظ رکھ کر اُس میں تعلیم نازل کی گئی ہے تو پھر بنی نوع انسان کو اپنے خدا کی محبت اور اس کا پیار کیوں حاصل نہ ہو.بے شک پرانے زمانہ میں موسی اور عیسی اور دوسرے نبیوں کو خدا ملا اور ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں لیکن ہمارا دل اس سے تسلی نہیں پاتا.ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں بھی خدا کی محبت حاصل ہو.اور زندہ کتاب وہی کہلا سکتی ہے جو زندہ خدا سے ہمارا تعلق پیدا کر دے.اگر وہ ہمیں اپنے خدا سے نہیں ملاقی تو اس کتاب کا وجود اور عدم ہمارے لئے برابر ہے.قرآن کہتا ہے کہ ہم نے ہر انسان کی روحانی ضرورتوں کے پورا کرنے کے سامان اس کتاب میں رکھ دیئے ہیں جو بھی سچے دل سے اس پر عمل کرے گا وہ اپنے خدا کو پالے گا.

Page 509

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۳ چشمہ ہدایت اسی طرح فرماتا ہے وَ أوحي إلي هذا القران لا نَذِرَكُمْ بِهِ وَ مَنْ بَلَم، كل دیکھو قرآن میری طرف اس لئے وحی کیا گیا ہے کہ میں اس کے ذریعہ تمہیں بھی فائدہ پہنچاؤں اور وہ تمام لوگ جن کے کانوں تک اس کتاب کی آواز پہنچے اُن کو بھی فائدہ پہنچاؤں اور وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوں.غرض ایک طرف قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس میں ہر قسم کے مضامین بیان کئے گئے ہیں اور ہر قسم کے لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور دوسری طرف اس نے یہ کہا ہے کہ جس کے ہاتھ میں بھی قرآن ہوگا اُس کو فائدہ پہنچے گا کیونکہ یہ اسی لئے نازل کیا گیا ہے کہ وہ سب لوگ جن کے کانوں تک اس کی آواز پہنچے اُن کو فائدہ پہنچائے.پس جب قرآن قیامت تک کے لئے ہے اور جب قرآن سب دنیا کو فائدہ پہنچانے کے لئے نازل کیا گیا ہے تو یہ کہنا کہ اب نئے معارف اس کتاب میں سے نہیں نکل سکتے یا خدا سے انسان مل نہیں سکتا دونوں غلط عقیدے ثابت ہوئے.اسی طرح میں نے بتایا ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن کریم کی کئی آیتیں منسوخ ہیں لیکن جب ہم قرآن کریم کو دیکھتے ہیں تو ہمیں اس میں یہ آیت نظر آتی ہے کہ هوا الذي انزل عليك الكتب مِنْهُ أَيتَ مُحْكَنتَ هُنَّ أم الكتب وَأَخَرُ متشبهت ۱۸ محکمات اور متشابہات کے کیا معنے ہیں؟ میں اس وقت اس بحث میں نہیں پڑتا ان کے معنے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھ پر حل کر دیئے ہیں، میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے وضا حنا یہ بات بیان فرمائی ہے کہ قرآن کریم میں صرف دو قسم کی آیات ہیں کچھ آیات محکم ہیں اور کچھ منشا بہ.اب کوئی بھی مفسّر ایسا نہیں جو متشابہہ کے معنے منسوخ کے کرتا ہو وہ متشابہہ کے کوئی نہ کوئی معنے کرتا ہے ، مگر یہ نہیں کرتا کہ اس کے معنے منسوخ آیات کے ہیں.اور جب قرآن کہتا ہے کہ میرے اندر صرف دو ہی قسم کی آیات ہیں یا محکم ہیں یا متشابہ اور متشابہ کے معنے منسوخ کے نہیں تو منسوخ آیات کہاں سے آگئیں؟ یا تو قرآن ہی کہتا کہ میرے اندر بعض آیات منسوخ بھی ہیں مگر وہ تو کہتا ہے کہ اس کتاب میں صرف دو ہی قسم کی آیات ہیں محکمات یا متشابہات اور

Page 510

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۴ چشمہ ہدایت متشابہات کے معنے منسوخ کے نہیں پھر یہ تیسری قسم کی آیات کہاں سے آگئیں جن کو منسوخ کہا جاتا ہے.عقل بھی یہی کہتی ہے کہ جو کتاب آخر زمانہ تک کے لئے ہو وہ لازماً کامل ہونی چاہئے اور جب کوئی کتاب کامل ہوگی تو لازماً وہ زندہ بھی رہے گی.یہ کسی طرح ہوسکتا ہے که کامل کتاب نازل ہو اور پھر اُس کی برکات کا سلسلہ معدوم ہو جائے اور اُس کے پاکیزہ اثرات جاتے رہیں.اسی طرح جو کتاب شفاء للنَّاسِ ہوگی وہ منسوخ ہونے کے شبہ سے گلیۂ پاک ہوگی.میں تو سمجھتا ہوں قرآن کریم کو شفا مللناس اسی لئے کہا گیا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں یہ غلط عقیدہ پیدا ہونے والا تھا کہ قرآن کریم کی کئی آیات منسوخ ہیں.اللہ تعالیٰ اسے شفاء قرار دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ اس میں کسی منسوخ آیت کے ہونے کا احتمال ہی نہیں ہو سکتا یہ کتاب تو علاج کے لئے نازل کی گئی ہے اور دوا میں اگر کسی قسم کی بھی غلط آمیزش کا شبہ ہو تو اُسے استعمال نہیں کیا جا سکتا.چنانچہ دیکھ لو وہی شخص جو کہتا ہے کہ قرآن میں کچھ آیتیں منسوخ ہیں اُسی سے پوچھو کہ کیا کسی جو شاندہ میں اگر تھوڑ اسا سنکھیا ملا ہو ا ہو تو تم اسے استعمال کر لو گے؟ وہ کبھی ایسے جو شاندہ کو نہیں پئے گا کیونکہ ڈرے گا کہ اگر اس میں سنکھیا ہوا تو میں مر جاؤں گا.اسی طرح اگر قرآن میں کچھ منسوخ آیات بھی ہیں تو کسی نے عمل کیوں کرنا ہے وہ تو کہے گا معلوم نہیں یہ آیت منسوخ ہے یا وہ آیت منسوخ ہے پس شفاء للنَّاسِ کہہ کر اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ انسان سب سے زیادہ دوا کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ وہ ڈرتا ہے کہ اگر میں نے احتیاط نہ کی تو علاج کرتے کرتے مر جاؤں گا.پھر جب تم اپنے متعلق یہ احتیاط کرتے ہو کہ تمہاری دوا میں کوئی زہر نہ ملی ہوئی ہو تو جس کتاب کو خدا تعالیٰ نے لوگوں کی امراض روحانیہ کا نسخہ قرار دیا ہے اُس کے متعلق تم یہ عقیدہ کسی طرح رکھ سکتے ہو کہ اس میں غیر اجزاء بھی پڑے ہوئے ہیں اور پھر یہ بھی پتہ نہیں کہ وہ سنکھیا ہے یا بیش ہے یا پارہ ہے یا کیا چیز ہے گویا بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے کسی جو شاندہ میں کوئی زہر ملا دیا گیا ہوا ایسی صورت میں قرآن کا کیا اعتبا ر رہا.پھر جس کتاب کے متعلق یہ کہا گیا تھا کہ وہ قیامت کے لئے ہے اُس کے متعلق

Page 511

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۵ چشمہ ہدایت مسلمانوں نے یہ عقیدہ رکھ لیا کہ رازی تک جس قدر نکتے کھل سکتے تھے کھل گئے اب تمام نکات اور معارف کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے اب کوئی نیا نکتہ اس کتاب میں سے نہیں نکل سکتا اور جب اس کتاب میں سے نہیں نکل سکتا جب اس کتاب کے متعلق یہ عقیدہ رکھ لیا جائے تو پھر کسی کو کیا ضرورت ہے کہ وہ قرآن شریف پڑھا کرے وہ تو پھر رازی کی کتاب ہی پڑھا کرے گا.جیسے لوگ بڑے شوق سے انگور کھاتے ہیں لیکن انہی انگوروں کا اگر شربت بنا لیا جائے تو پھر لوگ شربت کی بوتل رکھ لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اب انگور لے کر ہم نے کیا کرنا ہے.اسی طرح جب امام رازی تک قرآن کا نچوڑ تمام تفسیروں میں آ گیا تو مسلمانوں کو کوئی ضرورت نہ رہی کہ وہ قرآن پڑھا کریں اسی لئے قرآن جاننے والے مسلمان بہت کم پائے جاتے ہیں لیکن تفسیریں پڑھے ہوئے مسلمان کافی تعداد میں مل جاتے ہیں ، صرف مولوی عبید اللہ صاحب سندھی نے مسلمانوں میں درس قرآن کا کچھ رواج ڈالا ہے اور وہ بھی ہم سے سیکھ کر کیونکہ وہ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ میں قادیان آتے رہے ہیں ورنہ صدیوں تک مسلمان جلالین اور دوسری تفسیر میں ہی پڑھتے رہے ہیں.قرآن کی طرف اُنہوں نے توجہ نہیں کی کیونکہ جب اُنہوں نے یہ سمجھ لیا کہ افشردہ انگور و ہم نے لے لیا ہے تو پھر باقی جو کچھ رہ گیا وہ ان کی نگاہ میں صرف چھلکے کی حیثیت ہی رکھ سکتا تھا ، اس کو لے کر انہوں نے کیا کرنا تھا.چھٹی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے یہ پیش فرمائی کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنی قدرتوں کو ظاہر کرتا رہتا ہے.غیر احمدی کہتے ہیں کہ اب خدا تعالیٰ معجزات ظاہر نہیں کرتا گو اُنہی میں سے ایک طبقہ اس بارہ میں اُن سے اختلاف بھی رکھتا ہے اور وہ معجزات کا قائل ہے مگر جو معجزات ماننے والے ہیں وہ ایسے ایسے معجزات مانتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک شخص نے ہمارے خلاف ایک دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مرزا صاحب اپنا بڑا معجزہ یہ بیان کرتے ہیں کہ لیکھرام اُنکی پیشگوئی کے مطابق مارا گیا یا فلاں کے ہاں بیٹا پیدا ہو گیا.بھلا یہ بھی کوئی معجزہ ہے.معجزہ تو یہ ہوتا ہے کہ سید عبدالقادر صاحب جیلانی کے پاس ایک دفعہ ان کا ایک مرید آیا اور اس نے پوچھا کہ حضور کبھی مُردے بھی زندہ ہوتے

Page 512

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۶ چشمہ ہدایت ہیں یا نہیں ؟ کہنے لگے کیوں نہیں ، میں ابھی دکھا دیتا ہوں وہ اُس وقت مرغا کھا رہے تھے.پہلے تو خوب مزے لے لے کر اس کی بوٹیاں کھائیں جب کھا کر فارغ ہوئے تو کہنے لگے، ارے! اس کی ہڈیاں جمع کر کے لانا.ہڈیاں جمع کر کے لائی گئیں تو انہوں نے او پر ہاتھ رکھا اور اُسی وقت گڑ گڑ گڑ گڑا کرتا ہو امر غ نکل آیا.وہ کہنے لگا یہ ہوتا ہے معجزہ.بھلا یہ کیا معجزہ ہے کہ فلاں آدمی مر جائے گا اور فلاں کے ہاں بیٹا پیدا ہو جائے گا.پس یا تو وہ یہ کہیں گے کہ معجزہ ہوتا ہی نہیں اور یا پھر گڑ گڑ گر گر کرتا ہو ا معجزہ مانگیں گے درمیان میں کوئی مقام ہی نہیں ہوتا جہاں وہ ٹھہر سکیں.لیکن دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَانٍ فَباي الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبن ۲۰ تمہارا خدا وہ ہے جو ہر وقت ایک نئی قدرت دکھاتا ہے.یہ کہنا کہ کسی وقت اُس کی قدرت ظاہر نہیں ہو سکتی درست نہیں بلکہ ہر وقت ہی اللہ تعالیٰ اپنی نئی قدرت اور نیا جلوہ دکھاتا ہے.دیکھی ہوئی چیز کو دوبارہ دیکھنا لطف نہیں دیتا انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے جدت کا مادہ رکھا ہوا ہے.چنانچہ جب ریل گاڑی جاری ہوئی تو شروع شروع میں لوگ اُسے مجو بہ سمجھتے ہوئے اس پر پھولوں کے ہار ڈالتے تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کا جوش ختم ہو گیا.پھر ہوائی جہاز اور دوسری سواریاں نکلیں تو اُن کی طرف متوجہ ہو گئے.غرض فطرتِ انسانی کو ہمیشہ نئی چیزوں سے لطف آتا ہے اور وہ نئی نئی چیزوں سے تسلی پاتی ہے.مجھے قرآن پڑھ کر بڑا مزہ آتا ہے لیکن جب کبھی رات کو خدا میرے کان میں کوئی بات کہتا ہے تو کچھ نہ پوچھو کہ اس کا کیا مزہ ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک نئی چیز ہوتی ہے.غرض قرآن یہ کہتا ہے کہ خدا ہر گھڑی ایک نئی قدرت دکھاتا ہے.مگر مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں.عقل بھی یہی کہتی ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدرتیں دکھائے کیونکہ جب خدا دیکھتا ہے اور اس کے دیکھنے کی صفت معطل نہیں ، جب وہ سنتا ہے اور اُس کے سننے کی صفت معطل نہیں.جب وہ پیدا کرتا ہے اور اس کے پیدا کرنے کی صفت معطل نہیں تو اُس کی قدرت کی صفت کیوں ظاہر نہیں ہو سکتی.جس طرح وہ سمیع ہے اور بصیر ہے اور خالق ہے اور یہ صفات ہمیشہ ظاہر ہوتی ہیں اسی طرح ضروری ہے کہ اُس کی قدرت کی صفت بھی ہمیشہ

Page 513

انوار العلوم جلد ۲۲ ظاہر ہو.۴۸۷ چشمہ ہدایت جذبات صحیحہ بھی یہی کہتے ہیں کیونکہ جذبات صحیحہ ایک مفید تغیر کی ہمیشہ خواہش رکھتے ہیں اور یہ بات انسانی فطرت میں پائی جاتی ہے.چنانچہ اسی فطرت کے تقاضا کو پورا کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے موسم بدلتے ہیں اور نئے نئے پھل پیدا ہوتے ہیں اور انسان بھی کبھی اپنے لباس میں تغیر کرتا ہے اور کبھی مکان میں اور کبھی نئے نئے کھانے تیار کرتا ہے کیونکہ نئی چیز سے فطرت تسکین پاتی اور ایک لطیف حظ محسوس کرتی ہے.تم تو شاید اسے بچوں والی بات کہو گے لیکن عاشق ہر بات کو اپنے عشق کے نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے، حدیثوں میں آتا ہے جب بادل آتا، بوندیں برسنے لگتیں تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر صحن میں نکلتے اور اپنی زبان پر بارش کا قطرہ لیتے اور فرماتے یہ میرے رب کی تازہ نعمت کا مزہ ہے.اس تمہارے لئے تین دن برابر بارش برستی رہے تب بھی تمہارے دل میں کوئی احساس پیدا نہیں ہوتا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بارش کے ایک تازہ قطرہ کو بھی دیکھتے تو اُسے اپنی زبان پر لیتے گویا قطرہ کیا آیا خدا تعالیٰ کی طرف سے پانی کا ایک ٹھنڈا اور شیر میں گلاس آ گیا.یہ ہے سچا عشق اور اسی کی ہر مومن سے امید کی جاتی ہے.وہ شخص عاشق ہی کسی طرح کہلا سکتا ہے جس میں یہ جذ بہ نہ ہو کہ میرا خدا میرے لئے نئی نئی قدرتیں ظاہر کرے.ساتویں بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی وہ یہ ہے کہ مذہب کی بنیا د ا خلاق پر ہے.اسی زمانہ کے علمائے سوء غیر مسلموں سے بدسلو کی جائز سمجھتے ہیں ، وہ قتل مرتد کو ضروری سمجھتے ہیں، امن پسند غیر مسلم سے لڑنے کو ثواب سمجھتے ہیں، جو مسلمان کو غلام نہ بنائے اُسے بھی غلام بنانا جائز سمجھتے ہیں، جو اختلاف رکھتا ہو اُسے تنگ کرنا جائز سمجھتے ہیں اور دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی تحقیر جائز سمجھتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر یہ اصول پیش کیا کہ مذہب پر افراد سے زیادہ اخلاق کی پابندی ضروری ہے اس لئے غیر مسلموں سے بدسلو کی مت کرو.اور آپ نے فرما یا جہاد کے معنے یہ ہیں کہ جب دشمن اسلام کو مٹانے کے لئے حملہ کرے تو اُس

Page 514

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۸۸ چشمہ ہدایت کے حملہ کا جواب دو.اگر وہ تمہارے آدمیوں کو جنگ میں پکڑ کر غلام بنا تا ہو تو تم بھی اُس کے آدمیوں کو پکڑ کر غلام بنانے کے حقدار ہو لیکن بغیر جنگ کے وہ غلام بنا تا ہو تب تم اُس کی نقل نہ کرو کہ بغیر جنگ کے غلام بنا لو کیونکہ جنگ کی ذمہ داری قوم پر ہوتی ہے.اس لئے اگر جنگ کے نتیجہ میں کوئی فعل خراب نکلتا ہے تو قوم جواب دہ ہے، لیکن اگر فرد کے کسی فعل کے نتیجہ میں کام خراب ہوتا ہے تو قوم جواب دہ نہیں ہوسکتی.پس اگر جنگ کے نتیجہ میں وہ تمہارے آدمیوں کو پکڑ کر غلام بنا لیتے ہیں تو تم بھی بنالو، لیکن اگر فرد تمہارے آدمی کو پکڑ کر لے جاتا ہے تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ تم اُس کے آدمی پکڑ کر لے آؤ کیونکہ وہ ایک فرد کا فعل ہے.اختلاف مذاہب یا عقیدہ پر چڑ نا درست نہیں کہ حریت انسان کا پیدائشی حق ہے.سمجھانا اور تبلیغ کرنا تمہارا کام ہے لڑنا اور فساد کرنا تمہارا کام نہیں.اسی طرح فرمایا غیر قوموں کے بزرگوں کو گالیاں دینا تمہارا کام نہیں تمہارا فرض ہے کہ اُن کا ادب اور احترام کرو.چنانچہ قرآن کریم میں یہ آیتیں موجود ہیں : - (1) وَلا تُمْسِكُوا بعصم الكوافر ۲۲ یعنی کا فرعورتوں کے ننگ و ناموس کو اپنے قبضہ میں نہ رکھو.اس میں یہ اصول بتایا گیا ہے کہ غیر قوم کا حق مارنا جائز نہیں.بے شک وہ کافر ہوں گی.لیکن بوجہ کا فر ہونے کے انہیں قتل نہیں کرنا بلکہ آرام سے انہیں اپنے کا فرماں باپ کے پاس ان کے گھر پہنچا دینا.(۲) پھر فرماتا ہے.لا اكراة في الدين قد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيّ : ٢٣ دين میں کوئی جبر نہیں چاہے تمہارے خلاف ہی کو ئی شخص عقیدہ رکھنا چاہے تو وہ رکھ سکتا ہے.(۳) پھر فرمایا ہے.اذن لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا، ۲۴ جن کے ساتھ لڑائی کی جاتی ہے اُن کو اجازت ہے کہ وہ لڑیں.دوسرے جن کے ساتھ لڑائی نہیں کی جاتی اُن کو اجازت نہیں.-۴- پھر فرمایا ہے.مَا كَانَ لِنَبِي آن يَكُونَ لَه آشرى حَتَّى يُنْخِنَ فِي الأَرْضِ ۲۵ بغیر خطر ناک جنگ کے غلام بنانا جائز نہیں ، جنگ ہو اور سخت جنگ ہو اس کے بعد غلام بنانا

Page 515

انوار العلوم جلد ۲۲ جائز ہے ورنہ بغیر جنگ کے ناجائز.۴۸۹ چشمہ ہدایت (۵) پھر فرمایا ہے.وَلا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا الله عدوا بغير علم، ۲۶ جن لوگوں کو یہ خدا کے ہوا معبود بناتے ہیں وہ خواہ اُن کو خدا بنا دیتے ہیں تب بھی تم ان کو گالیاں مت دو ورنہ وہ تمہارے خدا کو بُرا بھلا کہنے لگ جائیں گے.یہ اصول جو قرآن کریم نے بیان کئے ہیں انسانی فطرت کے مطابق ہیں.عقل بھی یہی کہتی ہے کہ کسی کا عقیدہ جھوٹ ہو یا سیچ اکثریت اپنے نزدیک اسے ویسا ہی سچا سمجھتی ہے جیسے اسلام کی اکثریت اپنے مذہب کو سچا سمجھتی ہے.عیسائیت جھوٹی ہے مگر سوال یہ ہے کہ دنیا کا اکثر عیسائی، عیسائیت کو کیا سمجھتا ہے؟ سچا سمجھتا ہے.ہندو مذہب جھوٹا ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ دنیا کا اکثر ہندو اپنے مذہب کو کیا سمجھتا ہے؟ سچا سمجھتا ہے.یہودی مذہب یقیناً جھوٹا ہے.میں جھوٹے کا لفظ بولتا ہوں تو اس کا یہ مطلب ہے کہ اس زمانہ میں وہ مذہب ختم ہو چکا ہے ورنہ ابتداء کے لحاظ سے نہیں.لیکن سوال یہ ہے کہ یہودیوں کا اکثر حصہ یہودیت کو کیا سمجھتا ہے؟ سچا سمجھتا ہے.اگر اس بات پر کسی کو قتل کرنا جائز ہے، اس بات پر کسی کو لوٹ لینا جائز ہے، اس بات پر کسی کو مار دینا جائز ہے کہ میں سمجھتا ہوں میرا مذہب سچا ہے تو پھر عیسائیت کو کیوں یہ حق حاصل نہیں.چھ سو سال تک عیسائیت نے دنیا پر غلبہ حاصل کیا ہے اب بھی اُس کو غلبہ حاصل ہے.اگر عیسائیت انسانیت کو چھوڑ دے، اگر روس کا کانٹا اُس کے اندر سے نکل جائے تو آج بھی عیسائی مسلمان ملکوں کو تباہ کر سکتا ہے لیکن وہ نہیں کرتا.اس لئے کہ اُس نے اپنے جھوٹے مذہب میں بھی اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ مذہب کی خاطر کسی کو نہیں مارنا.پہلے کرتے رہے ہیں سارا فلپائن مسلمان تھا.اسے عیسائی کر لیا گیا گوان کو انہوں نے عیسائی بنالیا لیکن اب وہ نہیں کرتے.پس اگر یہ عقیدہ درست ہو کہ جب ایک قوم کی اکثریت ہو اور اکثریت کو کسی اقلیت سے اختلاف ہو تو اُس کا حق ہے کہ وہ زبر دستی دوسروں سے اُن کا مذہب بدلوائے ، انہیں مارے پیٹے تو پھر عیسائی کو یہ کیوں حق حاصل نہیں ؟ ہندؤوں کو کیوں یہ حق حاصل نہیں کہ ہندوستان میں مسلمان کو ہندو بنالیں.چین میں کنفیوشس مذہب کے پیرووں

Page 516

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۰ چشمہ ہدایت کو کیوں یہ حق نہیں کہ وہ لوگوں کو اپنے مذہب میں شامل کر لیں.فلپائن میں جہاں اب بھی پندرہ بیس ہزار مسلمان پڑا ہے عیسائیوں کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً مسلمانوں کو عیسائی بنا لیں.امریکہ کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبراً اُن مسلمانوں کو جو اُس کے مُلک میں رہتے ہیں عیسائی بنالے.روس کو کیوں حق حاصل نہیں کہ وہ جبر اسب کو عیسائی بنالے یا جبر اسب کو کمیونسٹ بنالے.اگر تمہاراحق ہے اور تم دوسروں کو جبراً اپنے عقیدہ پر لا سکتے ہو تو ویسا ہی عقلاً دوسروں کو بھی حق حاصل ہے لیکن اِس حق کو جاری کر کے دنیا میں کبھی امن قائم رہ سکتا ہے ، اس حق کو جاری کر کے کیا تم اپنے بیٹے کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے؟ بیوی کو بھی کہہ سکتے ہو کہ یہ مسئلہ ٹھیک ہے کہ عیسائیوں کا حق ہے کہ وہ مسلمانوں کو زبر دستی عیسائی بنا لیں؟ مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ عیسائیوں کو زبر دستی مسلمان بنالیں ؟ احمدیوں کی حکومت ہو تو اس کا حق ہے کہ وہ غیر احمدیوں کو احمدی بنالے؟ ایران والوں کا حق ہے کہ وہ سب حنفیوں کو ز بر دستی شیعہ بنالیں؟ اگر ایسا ہو تو کیا سارا پاکستان بڑی خوشی سے کہے گا کہ الْحَمدُ للهِ جزاک الله کیا اچھا کام کیا ہے؟ غرض یہ ایسی عقل کے خلاف بات ہے کہ کوئی عقل بھی اس کو تسلیم نہیں کرتی.جذبات صحیحہ بھی اس کے خلاف ہیں کیونکہ ہر ایسے شخص کو جو دیانت داری سے اختلاف رکھتا ہے سزا دینا انسانی فطرت پسند نہیں کرتی.واقعات کو بھی دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کرتے تھے کیونکہ آپ کا عقیدہ تھا.مکہ والے آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے مگر وہ کہتے تھے کہ ہم ڈنڈے سے سیدھا کریں گے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دُکھ دیتے تھے.ایک دفعہ خانہ کعبہ سے باہر ایک پتھر کی چٹان پر صفا میں آپ بیٹھے ہوئے تھے اور کچھ سوچ رہے تھے.چہرہ پر آپ نے ہاتھ رکھا ہوا تھا اور سہارا لے کر سوچ رہے تھے کہ ابو جہل نے دیکھا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کر دیں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسی طرح بیٹھے رہے.پھر اس کمبخت نے زور سے آپ کو تھپڑ مارا کہ ہمارے

Page 517

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۱ چشمہ ہدایت بزرگوں کی ہتک کرتا ہے؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر صرف آنکھ اُٹھائی اور کہا کہ آخر تم لوگ مجھے کیوں دکھ دیتے ہو اور کیوں میرے ساتھ دشمنی کرتے ہو؟ میرا سوائے اِس کے کیا قصور ہے کہ میں کہتا ہوں کہ تمہارا خدا جو تمہیں پیدا کرنے والا ہے اُس کو مان لو.ابوجہل اس فقرہ کو سُن کر چلا گیا.پاس ہی حضرت حمزہ کا مکان تھا.حمزہ اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے.اُن کی ایک لونڈی اُس وقت دروازہ پر کھڑی یہ نظارہ دیکھ رہی تھی.غلام غلام ہی ہوتا ہے لیکن دیر تک رہنے کی وجہ سے وہ بھی خاندان کا جز دہو جاتا ہے.یہ دیکھ کر اُس کا دل برداشت نہ کر سکا اور وہ سارا دن گڑھتی رہی.حمزہ اپنی عادت کے مطابق شکار کو گئے ہوئے تھے شام کے وقت ترکش گردن میں ڈالی ہوئی اور کمان پکڑی ہوئی بڑے اکڑتے ہوئے جیسے شکاری ہوتے ہیں غرور سے گھر میں داخل ہوئے.اُن کو اس حالت میں دیکھتے ہی اس لونڈی کو غصہ آ گیا ، وہ تھی کو نڈی مگر پرانی تھی اور اپنا حق سمجھتی تھی دیکھ کر کہنے لگی بڑا اوپچی بنا پھرتا ہے تو اور کمان لگائی ہوئی ہے آخر یہ کس بات کے لئے ہے؟ آج میں نے دیکھا کہ تیرا بھتیجا با ہر پتھر پر بیٹھا ہوا تھا میں دروازہ پر کھڑی تھی خدا کی قسم! میں نے یہ سُنا اس نے کچھ بھی نہیں کہا تھا.اور پھر ابو جہل نے آکر اُس کو تھپڑ مارا.یہ فقرہ حمزہ نے سُنا وہ حمزہ جو روز قرآن سنتا تھا مگر اسلام لانے کی جرات نہیں کرتا تھا جب اُس کے سامنے ننگے طور پر یہ بات پیش کی گئی کہ ایک شخص عقیدہ پیش کرتا ہے اور ایک ظالم اُٹھ کر اُسے مارتا ہے تو حمزہ سے برداشت نہ ہو سکا.وہ اُسی وقت گھر سے نکلے خانہ کعبہ میں ابو جہل اور اُس کے ساتھی رؤوسا بیٹھے ہوئے تھے اور مجلس میں کہیں لگ رہی تھیں.حمزہ نے پہنچتے ہی اپنی کمان اُٹھا کر اُس کے منہ پر ماری اور کہا محمد تیرے آگے جواب نہیں دیتا اس لئے تو دلیر بنتا ہے.اب میں نے تیرے منہ پر کمان ماری ہے اور سارے مکہ والوں کے سامنے تیری ہتک کی ہے اُٹھ ! اگر تیرے اندر طاقت ہے تو جواب دے.وہ امراء جو اُس کے ساتھ بیٹھے تھے کھڑے ہو گئے اور انہوں نے چاہا کہ بدلہ لیں لیکن حق کا رُعب ہوتا ہے.ابو جہل نے سمجھا اس وقت مار لیا تو آدھا مکہ اس کی طرف سے کھڑا ہو جائے گا اس لئے اُس نے کہا آج مجھ سے ہی کچھ غلطی ہو گئی تھی میں نے

Page 518

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۲ چشمہ ہدایت بلا وجہ آج محمد کو مارا تھا اور اُس نے اپنے ساتھیوں کو ٹھنڈا کر دیا لیکن آگ سلگ چکی تھی.حمزہ وہاں گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھا کرتے تھے اور عرض کیا ! يَا رَسُول اللہ ! میں مسلمان ہونے کے لئے آیا ہوں اور اسلام لے آئے.کے یہ تھی حق کی مظلومیت.مظلومیت خود اپنے اندر طاقت رکھتی ہے تم ظلم کرتے چلے جاؤ سعید فطر تیں ہمیشہ اس کے خلاف مقابلہ میں پروٹسٹ کریں گی ، ہمیشہ اس کے خلاف احتجاج کریں گی مجھے اپنی زندگی کا ایک واقعہ یاد ہے.سیالکوٹ میں میں نے لیکچر دیا، کشمیر موومنٹ کے سلسلہ میں جلسہ تھا.مخالفین نے حملہ کر دیا.چنانچہ بیس ہزار آدمی ہجوم کرتے ہوئے اُس جگہ جو قلعہ کہلاتا ہے جمع ہو گئے اُنہوں نے پہلے سے منصوبہ کیا ہو ا تھا، پھر اُن کی جھولیوں میں بھرے تھے اور وہ برابر ایک گھنٹہ اور پانچ منٹ تک پتھر برساتے گئے.لوگ مجھ سے بہتیری خواہش کرتے کہ لیکچر بند کیجئے مگر میں نے کہا نہیں لیکچر بند نہیں ہوسکتا.چنانچہ وہ برابر پتھر مارتے رہے.آخر پولیس نے لاٹھی چارج کیا اور وہ بھاگ گئے.میں نے غیر احمد یوں سے کہا کہ آپ لوگوں کے لئے یہ پتھر نہیں مار ر ہے ہمارے لئے مار رہے ہیں یہ ہما را تحفہ ہے پاس ہی کوٹھی تھی میں نے کہا آپ اس میں چلے جائیں، گھر جانا ہے تو گھر چلے جائیں.کچھ لوگ اُٹھے مگر باقی بدستور بیٹھے رہے اور انہوں نے کہا کہ یہ آپ پر جو پتھر پڑ رہا ہے نا جائز پڑ رہا ہے اور ہم بھی اس میں آپ کے شریک ہیں.احمدیوں سے میں نے کہا کہ کروٹ نہیں بدلنا.جس وقت کوئی ڈھیر ہو جائے اُس وقت دوسرے لوگ اُسے اُٹھا کر لے جائیں.چنانچہ چھپیں آدمی ہمارے زخمی ہوئے اور ایک کا تو ہاتھ ہی مارا گیا مگر کوئی احمدی ملا نہیں.پیغامیوں کے ایک مبلغ ہوتے تھے جو ہمارے شدید مخالف تھے اب وہ فوت ہو چکے ہیں اس لئے نام بتانے میں کوئی حرج نہیں یعنی مولوی عصمت اللہ صاحب.وہ ہمارے سخت مخالف تھے لیکن رات کے ایک بجے وہ اُس کوٹھی پر پہنچے جہاں میں ٹھہرا ہو اتھا.لوگوں نے بتایا کہ عصمت اللہ صاحب آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ خواہ ایک منٹ ہی ملاقات کا

Page 519

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۳ چشمہ ہدایت موقع دیا جائے میں ضرور ملنا چاہتا ہوں.جب وہ آئے تو میں نے کہا فرمائیے اس وقت کیوں آئے؟ کہنے لگے میں اس وقت جلسہ گاہ سے آ رہا ہوں.ہمارے اور آپ کے درمیان اختلاف ہے، سب کچھ ہے لیکن خدا کی قسم! آج میرا دل گواہی دیتا ہے کہ یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں یہ نظارہ نظر آیا تھا اور یا آج یہ نظارہ نظر آیا ہے.پس بیشک ظلم ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جذ بات صحیحہ ہمارے ساتھ ہیں.دیکھو ہر شخص جانتا ہے کہ ایمان کے بغیر نجات نہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ایمان اس کو کہتے ہیں جو غیر متزلزل ہو.اور غیر متزلزل یقین ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ نقل صحیح اور عقل صحیح اور جذبات صحیحہ اس کے ساتھ نہ ہوں.اور میں نے بتایا ہے کہ ہمارے سارے کے سارے مسائل میں نقل صحیح ہمارے ساتھ ہے ،عقل صحیح ہمارے ساتھ ہے اور جذبات صحیحہ ہمارے ساتھ ہیں اس لئے جہاں تک عقل کا سوال ہے کوئی احمدی متزلزل نہیں ہو سکتا.لالچ میں آسکتا ہے ، ڈرسکتا ہے اور جہاں تک واقعات کا اور عقل کا سوال ہے دنیا کا کوئی انسان بھی ہم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.بعض لوگ کانوں میں اُنگلیاں ڈال ڈال کر ہم سے بچنا چاہتے ہیں اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کی مجلسوں میں نہ جاؤ ان کے جلسوں کو نہ سنو، تقریریں ہوں تو شور مچاؤ.قرآن میں بھی یہی لکھا ہے کہ مخالف کہتے ہیں کہ قرآن نہ سنو کہیں اس کی آواز تمہارے کان میں نہ پڑ جائے ' کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ کسی جگہ بھی عقل داخل ہوئی تو ہم مر گئے ، کسی جگہ نقل داخل ہوئی تو ہم تباہ ہو گئے، کسی جگہ جذ بات صحیحہ داخل ہوئے تو ہم گئے.اسی لئے وہ اپنے کانوں میں روئیاں ٹھونستے ہیں.مگر تم وہ ہو جن کو ہم کہتے ہیں کہ ہر مجلس میں جاؤ اور کان کھول کر جاؤ تمہیں کوئی ڈر نہیں.اور تمہارا مخالف تمہاری مجلس میں آنے سے پہلے اپنے کانوں میں رُوئی ڈالتا ہے تا کہ اُس کا ایمان بچ جائے مگر آخر کب تک وہ روئی ڈالے گا.کسی دن اُس کی رُوئی گرے گی کسی دن تمہاری آواز اُس کے کان میں پڑے گی اور وہ متاثر ہو کر تمہارے ساتھ شامل ہو جائے گا.وَاخِرُ دَعُونَا آنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ - (الفضل ۲۱ / مارچ ۱۹۶۲ء)

Page 520

انوار العلوم جلد ۲۲ العصر : ۲ تا ۴ ۴۹۴ سیرت ابن ہشام جلد ۳ صفحه ۱۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء مسلم کتاب الایمان باب بيان خصال من اتَّصف بِهِنَّ (الخ) بخاری کتاب الاکراه باب مَنْ اِخْتَارَ الضَّرْبَ (الخ) ۵ سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۳۴۰،۳۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء بخاری کتاب بدء الوحى باب كَيْفَ كَانَ بدء الوحى إِلَى رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم (الخ) ك يوسف : ١٠٨ النساء : ۱۵۸ فاطر: ۲۵ ا الاحزاب: ۴۱ ل الكوثر : ۲ تا آخر الصف: ١٠ ١٣ حم السجدة: ٣١ ها البقره: ١١٠ بخارى كتاب التعبير باب المبشرات ١٨ آل عمران: ۸ ۱۹ افشرده انگور: انگور کا شربت ۲۰ الرحمن : ٣١،٣٠ بنی اسرائیل: ۹۰ كل الانعام: ۲۰ ال ابوداؤد کتاب الادب باب في المطر ٢٢ الممتحنة: اا ۲۳ البقرة: ۲۵۷ ۲۴ الحج:۴۰ ۲۵ الانفال: ۶۸ الانعام: ١٠٩ ۲۷ سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۳۱۲،۳۱۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء قَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَذَالْقُرآن (حم السجدة: ۲۷) چشمہ ہدایت

Page 521

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۵ سیر روحانی (۶) از یدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة أصبح الثاني سیر روحانی (۶)

Page 522

Page 523

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ۴۹۷ سیر روحانی (۶) نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ سیر روحانی (۶) تقریر فرموده مورخه ۲۸ دسمبر ۱۹۵۱ء بر موقع جلسه سالانه ر بوه) عالم روحانی کا دیوان خاص تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:- میں نے گزشتہ سال اسلام کے دیوانِ عام کے متعلق تقریر کی تھی اور بتایا تھا کہ دتی کی سیر میں ہم نے دیوانِ عام دیکھے جو آج اُجڑے ہوئے نظر آتے تھے.جہاں انگریزوں کے چپڑاسی تو بڑی شان سے پھرتے تھے اور مغلوں کی نسلیں چھپتی پھرتی اور نظریں بچاتی پھرتی تھیں اور میں نے بیان کیا تھا کہ قرآن کریم میں ایک دیوانِ عام کا ذکر آتا ہے جو کبھی غیر آباد نہیں ہوتا ، جو کبھی دشمن کے قبضہ میں نہیں جاتا اور جس کو دیکھ کر مؤمنوں کے دلوں میں کبھی بھی حسرت پیدا نہیں ہوتی.آج میں اس مضمون کے تسلسل میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اسلام نے دیوانِ عام ہی نہیں بلکہ ایک دیوان خاص بھی پیش کیا ہے اور اسلام کے دیوانِ خاص کے مقابلہ میں ان بادشاہوں کے بنائے ہوئے دیوانِ خاص اتنی بھی حیثیت نہیں رکھتے جتنی ایک زندہ ہاتھی کے مقابلہ میں اُن مٹی کے بنے ہوئے ہاتھیوں کی حیثیت ہوتی ہے جنہیں کھلونوں کے طور پر خانہ بدوش عور تیں بیچتی پھرتی ہیں.دیوان خاص کی اغراض دیوان خاص کیا چیز تھی ؟ دیوان خاص شاہی قلعوں میں ایک نہایت اعلیٰ درجہ کی عمارت یا

Page 524

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۸ سیر روحانی (۶) وسیع ہال ہو ا کرتا تھا جو گویا خاص ملاقات کا کمرہ ہوتا تھا اس میں بادشاہ بیٹھتے تھے، شہزادے بیٹھتے تھے اور وہ وزراء، امراء جن سے امور مملکت کے متعلق مشورے لئے جاتے تھے بیٹھتے تھے عام لوگوں کو وہاں آنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی.اسی طرح بادشاہ اگر کسی کو گورنر مقرر کرتے یا کمانڈر انچیف مقرر کرتے یا اور کسی بڑے عہدہ پر مقرر کرتے تو ان کو وہاں بلوایا جاتا تھا اور بادشاہ کی طرف سے وزراء اور امراء کے سامنے اعلان کیا جاتا تھا کہ ہم فلاں شخص کو گورنر مقرر کرتے ہیں یا کمانڈر انچیف مقرر کرتے ہیں یا جرنیل مقرر کرتے ہیں یا فلاں بڑے عہدہ پر مقرر کرتے ہیں.یا اگر کوئی خادم قوم یا خادم ملک کوئی بڑی بھاری خدمت بجالاتا تو اُس کو بلایا جاتا اور اِن سب وزراء اور امراء کے سامنے اُس کا اعزاز و اکرام کیا جاتا اور کہا جاتا کہ اس کو یہ خلعت دی جاتی ہے یا اس کی عزت افزائی میں اسے یہ انعام دیا جاتا ہے.یا اہم ملکی مسائل پیش ہوتے اور بادشاہ ضروری سمجھتا کہ وزراء سے مشورہ لینا چاہئے تو اس مجلس میں جو لوگ مقررہ اوقات پر جمع ہوتے تھے اُن کے سامنے ان امور کو پیش کیا جاتا اور درباری اپنی اپنی رائے اور مشورہ دیتے یا جس جس سے پوچھا جاتا وہ رائے دیتا اور اس کے بعد بادشاہ کی طرف سے ایک فیصلہ صادر ہو جاتا.گویا دیوان خاص کے قیام کی چاراہم اغراض ہو ا کرتی تھیں.اول بادشاہ کا اپنے وزراء کو اپنے تقرب میں جگہ دینا اور ان کا اعزاز کرنا یا مختلف مناصب پر اُن کا تقرر کرنا یا انہیں برطرف کرنا.دوم بادشاہ کا ان سے خاص امور کے بارہ میں مشورہ لینا اور خاص امور کے بارہ میں مشورہ دینا جن سے وہ اپنے فرائض کو عمدگی سے ادا کر سکیں.سوم اپنی مشکلات میں ان سے مدد لینا اور اُن کی مشکلات میں اُن کو مدد دینے کے وعدے کرنا.چهارم ان کے اچھے کاموں پر انعام واکرام دینا اور بُرے کاموں پر سرزنش کرنا.یہ وہ چارا غراض ہیں جن کے ماتحت ”دیوان خاص‘ قائم کئے جاتے ہیں.

Page 525

انوار العلوم جلد ۲۲ ۴۹۹ سیر روحانی (۶) مگر میں نے دیکھا کہ دنیوی بادشاہوں میں حقیقی محبت کا فقدان بادشاہ جب اپنے درباریوں کو کوئی اعزاز دیتے تھے تو ان کا اعزاز محض قانونی ہوتا تھا.چنانچہ پہلی بات تو یہی ہے کہ بادشاہ اپنی محبت کا اور اپنے تعلقات کا اور اپنے اخلاص کا تو اظہار کرتا تھا لیکن بادشاہ کو ان لوگوں سے حقیقی محبت نہیں ہوتی تھی اس کی اصل محبت اپنے بیوی بچوں سے ہوتی تھی.یہ کبھی بھی نہیں ہوتا تھا کہ کسی شخص نے بڑی قربانی کی ہو اور اس نے اپنا تخت اُس کے سپر د کر دیا ہو یا اپنے اختیارات جو نیابت کے ہیں اُس کے سپر د کر دیئے ہوں.اس کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی تھی کہ میں اپنی اولاد کی طاقت کو مضبوط کروں اور اُن کے لئے راستہ صاف کروں گویا یہ خدمت کرنے والے لوگ ایک قسم کے اجیر ہوتے تھے.(۲) پھر بسا اوقات جو انعام ملتے تھے محض نمائشی انعامات اور خطابات نمائشی ہوتے تھے اور خدمت کے مقابلہ میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی.مثلاً اپنے زمانہ کو ہی لے لو.ابھی انگریزوں کی یاد تازہ ہے وہ کہتے تھے کہ فلاں کو خطاب دیا جاتا ہے اب وہ خان صاحب“ ہو گئے ہیں اور فلاں’’ خان بہادر ہو گئے ہیں اور حقیقت یہ ہوتی تھی کہ بسا اوقات خان بہادر صاحب کی چار پائی کے نیچے چو ہا بھی ہے تو اُن کی جان نکل جاتی تھی لیکن وہ خان بھی تھے اور بہادر بھی تھے.گویا بادشاہ اُن کو ” خان بہادر تو بنا دیتا تھا لیکن حقیقتا نہ وہ خان بنتے تھے اور نہ بہادر ہوتے تھے.یا مثلاً آجکل پٹھان بھی خان کہلاتے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اپنے زمانہ ء حکومت میں انہوں نے بڑے بڑے کام کئے تھے جن سے دنیا میں اُن کا شہرہ ہوا اور اُنہیں خطاب عزت کے طور پر خان صاحب کا نام دے دیا گیا.چنانچہ اُس زمانہ میں جو بادشاہ ہوتے تھے یا نواب اور امراء ہوتے تھے اُن کی عظمت کی وجہ سے انہیں خان ہی کہا جاتا تھا.مغل بھی اپنے ابتدائی زمانہ میں خان کہلاتے تھے بلکہ بچپن میں جب میں اپنے شجرہ نسب کو سنتا تو میں حیران ہوتا تھا کہ پہلے کہا جاتا ہے فلاں خان ، فلاں خان، فلاں خان.اور پھر شروع ہو جاتا ہے فلاں بیگ ، فلاں بیگ ، فلاں بیگ.میں حیران

Page 526

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) ہوتا تھا کہ یہ خان کہاں سے آ گیا.بعد میں معلوم ہو ا کہ خان ایک اعزاز کا لفظ تھا مگر آہستہ آہستہ اتنی کثرت سے قوم میں بڑے لوگ پیدا ہوئے کہ اُن کی کثرت کی وجہ سے ساری قوم ہی خان کہلانے لگ گئی اور اب تک کہلاتی ہے.ہر پٹھان جب تمہیں نظر آئے گا تم کہو گے خان صاحب ! بیٹھئے ، خان صاحب ! تشریف لائیے ، خان صاحب ! آپ کس طرح تشریف لائے ہیں ؟ غرض وہ خان کہلاتا ہے مگر وہ تو محض ایک تسلسل کے طور پر خان بن گیا ہے درحقیقت خود اُس نے کوئی بڑا کام نہیں کیا، نہ اُس نے ذاتی طور پر کوئی ایسی قابلیت حاصل کی ہے جس کی وجہ سے اُسے کوئی خاص مقام عزت حاصل ہوتا لیکن انگریز کا بنایا ہو ا خان صاحب بسا اوقات کسی جولا ہے کی بیٹی مانگتا تو وہ کہتا تھا نہیں ، ہم کذاتوں کو نہیں دے سکتے.انگریز اُسے خان صاحب کہتا تھا اور ہمارے ملک کا جولاہا اسے کذات کہتا تھا.یا اگر کوئی خان صاحب سید یا مغل یا پٹھان ہوتے تو وہ خان صاحب یا خان بہادر سمجھ کر اسے عزت نہیں دیتا تھا بلکہ سید یا مغل یا پٹھان ہونے کی وجہ سے عزت دیتا تھا.گویا لوگ اس نسل کی وجہ سے یا اس رشتہ داری کی وجہ سے تو عزت کرتے تھے جو اسے اپنے باپ دادا کی وجہ سے حاصل ہوتی تھی لیکن اس عزت کی وجہ سے جو اسے گورنر جنرل کی طرف سے ملتی تھی اسے اپنے خاندان کا حصہ بنانے کے لئے تیار نہیں تھے.انگریزی خطابات حاصل پھر بعض کو اُس زمانہ میں ”سر‘“ کا خطاب دیا جاتا تھا اب سر“ کے معنے جناب کے ہیں لیکن حقیقتاً ا وو کرنے والوں کی کیفیت بعض ”مسٹر ایسے ذلیل ہوتے تھے اور ایسی پا جیا نہ حرکتیں کرتے تھے کہ لوگ انہیں گالیاں دیتے تھے.پھر انگریز کے زمانہ میں خطاب ہوتے تھے سٹار آف انڈیا (Star of India) یا گرینڈ کراس آف انڈین ایمپائر (Grand Cross of Indian Empire) یعنی بڑی صلیب دیدی گئی لیکن بڑی صلیب لینے والے جو لوگ تھے ان میں سے کئی صلیب کے شدید دشمن ہوتے تھے.کئی مسلمان جن کے دلوں میں غیرت ہوتی تھی اُن کا جی چاہتا تھا کہ موقع ملے تو صلیب کو توڑ ڈالیں.کہلاتے تھے وہ بڑی صلیب کے حامل لیکن ان کے دل میں یہ ہوتا تھا کہ ہم چھوٹی

Page 527

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۰۱ سیر روحانی (۶) صلیب کے بھی حامل نہیں.یہ خطاب کیا ہوا کہ جس کو خطاب دیا جاتا ہے وہ اس کو ذلیل سمجھتا ہے ، وہ اس کو حقیر سمجھتا ہے ، وہ اس کو نا قابل اعتناء سمجھتا ہے ، وہ اس کو قابل ہلاکت سمجھتا ہے.مغلوں کے زمانہ میں اعتماد الدولہ اور نظام الملک کے خطاب ملتے تھے لیکن وہی اعتماد الدولہ اور نظام الملک دوسرے دن فوج لے کر بادشاہ کے خلاف لڑنے کے لئے آ جاتے تھے.نہ دولت کا ان پر کوئی اعتماد ہوتا تھا نہ ملک کے نظام کے ساتھ ان کی کوئی وابستگی ہوتی تھی.دیکھ لو نظام حیدر آباد کو نظام الملک کا خطاب حاصل تھا لیکن اور نگ زیب کے بعد اس نے ملک کی آزادی کا اعلان کر دیا اور بعد میں انگریزوں کے ساتھ مل گیا.اب بھی موجودہ نظام نے شروع میں ہندوؤں سے لڑنے کے لئے اپنی قوم کو اُبھارا اور اُکسایا جب قوم لڑنے کے لئے کھڑی ہو گئی تو اُس نے حکومت کو چٹھی لکھ دی کہ بندہ تو حضور کا غلام ہے یہ لوگ باغی ہو کر لڑائی کر رہے ہیں جس طرح ارشاد ہو کیا جائے گا.شہزادوں کی غذاری اسی طرح ان بادشاہوں کی اولا د بسا اوقات خود اپنے باپ کی وفات کی متمنی ہوتی تھی.باپ صاحب بیٹھے ہوئے اپنے وزیروں سے کہتے تھے کہ ہم امید کرتے ہیں کہ آپ لوگ ہمارے خاندان کے وفا دار ثابت ہوں گے اور ہماری اور ہماری نسل کی بہی خواہی کریں گے.اور بیٹا پاس بیٹھا ہو ا اِس امید میں ہوتا تھا کہ رات کو موقع ملے تو کسی کی معرفت یا خود اُسے قتل کر کے تخت پر بیٹھ جائے.رباریوں کی سازشیں پھر اسی دربار میں جہاں بادشاہ کی طرف سے اعزاز مل رہا ہوتا تھا بسا اوقات جس کو اعزا ز مل رہا ہوتا تھا وہ کسی بیگم یا شہزادہ یا شہزادی سے مل کر بادشاہ کے خلاف منصوبہ کر رہا ہوتا تھا.ادھر اعزا ز مل رہا ہوتا تھا اور اُدھر ساز باز جاری ہوتی تھی کہ اس کو مٹا دیا جائے.ایک ہندو اخبار تھا اُس کا یہ طریق تھا کہ وہ بڑے بڑے لوگوں کے راز معلوم کر کے 66 پھر کہانی کے طور پر اُن کو شائع کیا کرتا تھا اور اس سلسلہ کا نام اُس نے چوں چوں کا مربہ رکھا ہو ا تھا.یہ سلسلہ مضامین اخبار عام میں بھی چھپتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 528

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۰۲ سیر روحانی (۶) کے پاس یہ اخبار آیا کرتا تھا.اس میں ایک ریاست کا واقعہ لکھا تھا اُس وقت تو مجھے معلوم نہیں تھا بعد میں پتہ چلا کہ یہ کپورتھلہ کی ریاست کا واقعہ تھا.کپورتھلہ کا راجہ جو پارٹیشن کے وقت تک زندہ تھا اب سُنا ہے فوت ہو چکا ہے کہا جاتا ہے کہ وہ راجہ کی اولاد میں سے نہیں تھا بلکہ اُس کا باپ ایک حج تھا جس کو میں نے بھی دیکھا ہے ( اصل راز کو اللہ بہتر جانتا ہے ).میں ایک دفعہ کپورتھلہ گیا تو دوستوں نے مجھے دکھایا تھا وہ اُس وقت کسی کام کیلئے پیلیس میں آیا ہو ا تھا دوستوں نے بتایا کہ یہ شخص جو پھر رہا ہے راجہ کا باپ ہے.میں نے پوچھا کہ باپ جب دربار میں آتا ہے تو راجہ کی کیا حالت ہوتی ہے؟ کہنے لگے وہ ہمیشہ کترا تا ہے اور جب بھی کوئی ایسا موقع آئے وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا لیتا ہے اور ملنے میں شرم اور ذلت محسوس کرتا ہے.بہر حال اس اخبار میں یہ واقعہ لکھا تھا کہ پہلے زمانہ میں کپورتھلہ کے راجہ کی دو رانیاں تھیں اور دونوں کے اولاد نہیں تھی وہ دونوں ایک دوسری سے رقابت رکھتی تھیں.کچھ درباری ایک طرف تھے اور کچھ دوسری طرف.جس نے ایک کی غیبت کرنی ہو وہ دوسری کے پاس چلا جاتا اور جس نے دوسری کی غیبت کرنی ہو وہ اس کے پاس آجاتا.یہ جھگڑے بڑھ گئے تو آخر ایک پارٹی کے لوگوں نے سوچا کہ کب تک راجہ اور کب تک رانیاں ، یہ مرا تو خبر نہیں انگریز کس کو لا کر بٹھا دیں، اس لئے کوئی ایسی تدبیر کرنی چاہئے کہ مستقل طور پر ہما را د بد بہ قائم رہے.یہ سوچ کر اُنہوں نے ایک رانی کو اپنے ساتھ ملایا اور اُسے سکھایا کہ وہ مشہور کر دے کہ مجھے حمل ہے.چنانچہ وہ اس بات پر راضی ہو گئی اور تجویز یہ ہوئی کہ نویں مہینہ مشہور کر دیا جائے گا کہ بچہ پیدا ہو گیا ہے ادھر دو تین جگہ سے جن کے ہاں اُنہی دنوں میں بچے پیدا ہونے والے تھے وعدے لے لئے گئے کہ جس کے ہاں لڑکا پیدا ہو ا وہ اپنا لڑکا دے دیگا.انہوں نے انتظام یہ کیا ہوا تھا کہ جس دن بچہ پیدا ہو رانی فوراً بیمار بن کر بیٹھ جائے گی اور اُس کی گود میں بچہ ڈال کر سب کو دکھا دیا جائے گا کہ رانی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے.اتفاقاً اسی شخص کا جو اُس وقت سرشتہ دار تھا اور بعد میں ہائی کورٹ کا جج بن گیا بچہ پیدا ہو ا جو راجہ کا بیٹا قرار دیدیا گیا.انہوں نے یہ منصوبہ کر کے

Page 529

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۰۳ سیر روحانی (۶) تمام شہر میں مشہور کر دیا کہ رانی حاملہ ہے.راجہ محسوس کرتا تھا کہ یہ بات غلط ہے اس کی بڑی عمر ہو چکی تھی اور وہ سمجھتا تھا کہ میرے ہاں اولا د نہیں ہو سکتی.اُس کے دل میں محبہ پیدا ہوا اور اُس نے ناراضگی کا اظہار شروع کر دیا کہ یہ بڑی غیر معقول بات ہے یہ دھوکا اور فریب ہے جو مجھ سے کیا جا رہا ہے.اس سے دوسری رانی کو موقع مل گیا اور اس نے کہا یہ دھوکا فلاں فلاں وزیر کر رہا ہے.راجہ نے ان کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں اور ادھر گورنمنٹ کو لکھ دیا کہ کہا جاتا ہے کہ رانی حاملہ ہے حالانکہ یہ بالکل جھوٹ ہے، رانی ہرگز حاملہ نہیں.مگر جہاں حکومت کا ایک بڑا حصہ سازش میں شریک ہو وہاں کسی لیڈی ڈاکٹر کا خرید لینا کونسی مشکل بات تھی.چنانچہ معائنہ کرایا گیا اور لیڈی ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ رانی حاملہ ہے.جب یہ جھگڑا بڑھا تو گورنمنٹ کے پاس رپورٹ کی گئی.اُس وقت راجے وائسرائے کے ماتحت نہیں ہوتے تھے بلکہ پنجاب کے، پنجاب کے گورنر کے ماتحت اور یو، پی کے یو، پی کے گورنر کے ماتحت ہوتے تھے اور پھر آگے ان کا براہِ راست تعلق کمشنر کے ساتھ ہوتا تھا.جب رپورٹ کی گئی تو پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر نے کمشنر کولکھا کہ تحقیقات کر کے فیصلہ کرو جھگڑا لمبا ہو رہا ہے.ادھر سے اُس پارٹی کے افراد نے رپورٹ کرنی شروع کر دی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے تا کہ راجہ کی باتوں کا ازالہ ہو آخر دونوں طرف کی رپورٹوں پر کمشنر ایک دن سول سرجن کو ساتھ لے کر چلا.چونکہ دوسرے فریق نے خود اس بات کو مشہور کیا تھا اس لئے اسے بھی خیال تھا کہ کمشنر آ جائے گا.انہوں نے پہلے سے ایسا انتظام کیا ہوا تھا کہ دفتر سے پتہ لگ جائے کہ کمشنر کب چلا ہے.چنانچہ انہیں پتہ لگ گیا که کمشنر فلاں دن آ رہا ہے انہوں نے آدمی مقرر کر دیئے کہ جب اس کی سواری قریب پہنچے تو اشارہ کر دیا جائے کہ کمشنر آ رہا ہے اور پھر اندر بھی انہوں نے انتظام کیا ہو ا تھا.راجہ تخت پر بیٹھا ہوا اپنے دبدبہ اور شان کا اظہار کر رہا تھا کہ میں تم لوگوں کو سیدھا کروں گا اور تمہیں یوں سزا دوں گا.اور اُدھر انہوں نے اُس چپڑاسی کو جو چوری لے جھل رہا تھا اپنے ساتھ ملایا ہو اتھا اور اُس کو سکھایا ہو ا تھا کہ جونہی ہم اشارہ کریں تو کان میں جُھک کر راجہ کو ایک بڑی گندی گالی دے دینا.بس اِدھر اُنہوں نے اشارہ کیا کہ کمشنر صاحب آ رہے

Page 530

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۰۴ سیر روحانی (۶) ہیں اور اُدھر اُس چوری بردار نے جھک کر ایک بڑی گندی گالی راجہ کے کان میں دے دی.تم سمجھ لو کہ ایک چپڑاسی چوری بردار ایسی حرکت کرے تو راجہ کی کیا حالت ہو گی وہ قعہ میں پاگل ہو جائے گا چنانچہ وہ بے تحاشا اُٹھا اور اُس نے ہاتھ اور پاؤں سے اُسے مارنا شروع کر دیا.دوسرے لوگ تو چاہتے تھے کہ اس نظارہ کو وسیع کریں چنانچہ دوسری پارٹی میں جو لوگ شامل تھے وہ آگے بڑھے اور انہوں نے کہا حضور ! اس کا کوئی قصور نہیں، حضور ! اس پر ایسی سختی نہیں کرنی چاہئے.اُسے اور غصہ آیا اور اُس نے اُن کو بھی مارنا شروع کر دیا.اتنے میں کمشنر اور سول سرجن اندر داخل ہوئے اور سارے درباری ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو گئے کہ حضور ! روز ہمارے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے ، چنانچہ رپورٹ ہو گئی کہ راجہ پاگل ہو گیا ہے اور اُس کا بیٹا قبول کر لیا گیا جو بڑا ہو کر ریاست کا حکمران بنا غرض یہ یہ کارروائیاں دربارِ خاص میں ہوتی تھیں.بیگمات کے جوڑ توڑ پھر دُنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص میں جوڑ توڑ کے جو نتائج پیدا ہوتے تھے وہ زیادہ تر شہزادوں اور بیگمات کی وجہ سے پیدا ہوتے تھے کیونکہ اُس زمانہ کے لحاظ سے شہزادے اور بیگمات حکومت کے حق دار سمجھے جاتے تھے بلکہ بہت سے مملکوں میں تو بیگمات کو اب بھی حکومت میں حصہ دار سمجھا جاتا ہے.آج تک انگلستان میں ملکہ تخت نشینی کے وقت بادشاہ کے ساتھ بیٹھتی ہے اور اُس کو ملک کا حصہ دار سمجھا جاتا ہے اور شہزادوں میں سے ہر شہزادہ خود بادشاہت حاصل کرنے کا خواہشمند ہوتا تھا.ایک کہتا تھا کہ میرا بڑا بھائی جو اتفاقاً مجھ سے بارہ مہینے پہلے پیدا ہوا ہے بادشاہ بن جائے گا.اگر بارہ مہینے پہلے میں پیدا ہوتا تو میں بادشاہ بن جاتا ، چنانچہ وہ کہتا ہے اس کو مارو میں بادشاہ ہو جاتا ہوں.اگلا کہتا ہے اس کو مارو میں ہو جا تا ہوں.شاہجہان کے زمانہ میں اس کی زندگی میں ہی بیٹیوں نے کہا کہ یہ تو نہ معلوم کب مرے پہلے اپنے لئے میدان تیار کرو.چنانچہ دارا اور مراد اور شجاع اور اورنگ زیب نے لڑلڑا کر اپنے باپ کی حکومت کو ختم کر دیا.بادشاہ کی تخت نشینی کی جو ساری مدت بتائی جاتی ہے اس میں سے پچاس فیصدی زمانہ ایسا ہے جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت

Page 531

انوار العلوم جلد ۲۲ اتنا عرصہ قید رہے.سیر روحانی (۶) قرآنی در بارِ خاص کی نرالی شان ان ڈو نیوی بادشاہوں کے دربار خاص کے مقابلہ میں میں نے قرآنی دربارِ خاص کو دیکھا تو مجھے اس کی شان ہی اور نظر آئی.میں نے دیکھا کہ یہ بادشاہ جو قر آنی در بارِ خاص کا مالک تھا اولا د اور بیویوں سے بالکل آزاد تھا اس لئے یہاں اس قسم کے جوڑ تو ڑ کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ درباریوں کی محبت اور درباریوں کے اخلاص کو بانٹنے والے لوگ دنیا میں موجود ہیں اور نہ اس بات کا کوئی سوال تھا کہ وہ بیٹھا ہو ا مخاطب ہم سے ہے اور غرض یہ ہے کہ ہم سے کام لے کر اپنے بیٹے کی عزت بڑھائے.اس دربار میں وہ جو بھی عزت دیتا تھا وہ ہمارے لئے ہی ہوتی تھی کوئی اور اُس کو نہیں چھین سکتا تھا.چنانچہ قرآن کریم اسی مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے وَقُلِ الحَمدُ للهِ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذ ولدا و لَمْ يَكُن لَّا شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّهُ وَلِيَّ مَنَ الذُّلِ وَكَبْرَهُ تَكْبِيران خدا تعالیٰ کی وحدانیت دیکھو شرک ایک بڑی اہم چیز ہے اور تمام اسلام کی اور حمد کا گہرا تعلق بنیاد اس کے روڈ پر ہے، تمام مذاہب کی بنیاد اس کے رڈ پر ہے مگر سوال تو یہ ہے کہ شرک کی تردید کے ساتھ الْحَمْدُ لِلہ کا کیا تعلق ہے؟ الْحَمدُ لِلهِ تو انسان اسی صورت میں کہہ سکتا ہے جب اس کا نتیجہ ہمارے ساتھ تعلق رکھتا ہو.اگر ایک خدا ہونے سے ہمیں کوئی خاص فائدہ پہنچتا ہے تو پھر بے شک ہم کہیں گے الْحَمْدُ للهِ خدا ایک ہے ورنہ جہاں تک خدا کے ایک ہونے کا سوال ہے یہ ایک صداقت ہے جسے ماننا پڑتا ہے مثلاً سورج ایک ہے کہنا پڑتا ہے کہ ایک ہے.سامنے پہاڑ ہو مانا پڑے گا کہ پہاڑ ہے مگر یہ تو نہیں کہیں گے کہ الْحَمْدُ لِلہ یہ پہاڑ ہے کیونکہ ہمارے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں لیکن اگر ہمیں گرمی لِلَّهِ لگ رہی ہو اور اُس وقت ٹھنڈی ہوا چل پڑے تو ہم کہیں گے الْحَمْدُ لِلَّهِ اس کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہم خالی ہوا کے چلنے پر اَلحَمدُ لِلهِ کہہ رہے ہیں بلکہ ہم ہوا کے

Page 532

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) اُس اثر پر ا DATA ANNOTAKU کہتے ہیں جو ہم پر پڑتا ہے.اسی طرح یہاں فرماتا ہے.وقل الحمد لله الذي لم يَتَّخِذ ولدار لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ - شکر ہے کہ خدا کا جس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی نہیں تو ہمارے دربارِ خاص کا بھی وہی حال ہوتا جو ڈ نیوی درباروں کا ہوتا ہے کہ قربانیاں ہم کرتے اور بادشاہ کہتا کہ بیٹے صاحب کو تخت دے دیا جائے یا بیوی صاحبہ کی خوشامد کرنی پڑتی جیسے کسی شاعر نے کہا ہے.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں مرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا بادشاہوں کے لئے اپنی جانیں دیر بایوں کو ہر وقت یہی مصیبت رہتی تھی کہ ادھر بیویوں کو خوش کرو اور قربان کر نیوالوں کا حسرت ناک انجام ادھر شہزادوں کو خوش کرو گویا قربانیاں کرنے والے اور مرنے والے اور ، جہاد کرنے والے اور، اپنے مال اور جائداد میں لگانے والے اور ، اور بادشاہت کرنے والے شہزادے اور بیگمات.تو فرماتا ہے وقلِ الْحَمْدُ لله الذي لم يَتَّخِذَ وَلدَا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فِي الْمُلْكِ دنیا میں قاعدہ یہ ہے کہ جو بادشاہ ہوتے ہیں ان کی اولادیں اور ان کی بیویاں سارا حق لے جاتی ہیں اور قربانیاں کرنے والے ہمیشہ وفادار غلام کہلاتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کہہ دے میں اُس بادشاہ کا غلام ہوں کہ لمْ يَتَّخِذ ولدًا وَ لَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكَ فى المُلك جس کی نہ کوئی بیوی ہے اور نہ اُس کا کوئی بیٹا ہے.اس لئے نہ تو اس کی محبت مجھ میں اور ان میں تقسیم ہے، نہ مجھے دو مالکوں کے خوش کرنے کی ضرورت ہے ایک ہی خدا ہے جس سے میرا واسطہ ہے اور اُس کی محبت کسی اور کے ساتھ بٹی ہوئی نہیں خالص میرے لئے ہے.ولم يكن له ولي من الذل پھر درباریوں میں سے بعض لوگ بڑی بڑی عزتیں پا جاتے ہیں اور وہ دربار میں خاص عزت پا جانے کی وجہ سے بادشاہ پر ایسے حاوی ہو جاتے ہیں کہ بادشاہ سمجھتا ہے کہ بغیر ان کی مدد کے میرا کام نہیں چل سکتا لیکن ہما را با دشاہ اس قسم کا نہیں اس

Page 533

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۰۷ سیر روحانی (۶) کے دربار میں کوئی شخص ایسا نہیں کہ ہمارا خدا اس بات کی احتیاج رکھتا ہو کہ وہ اس کی مدد کرے اسی لئے فرماتا ہے وَكَبَرُهُ تَكْبِيرًا اب تو نڈر ہو کر خدائے واحد کی تکبیر کر کیونکہ اور کوئی شریک نہیں جو تجھ سے مطالبہ کرے کہ تھوڑی سی تکبیر میری بھی کر لیا کر.اس کا نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیٹی اور نہ کوئی شریک ہے.وہاں تو ڈرتے ہیں کہ بادشاہ کی تعریف کی تو ولیعہد ناراض ہو جائے گا ولیعہد کی تعریف کی تو چھوٹا شہزادہ ناراض ہو جائے گا یہ ایک ہی دربار ہے جو ان سارے جھگڑوں سے آزاد ہے.خوشامد ، جھوٹ اور مداہنت کے اڈے یہ ہے کہ دنیوی بادشاہوں کے دیوان خاص میں یہ تین لہریں ہی پس پردہ چلتی ہیں، بیٹے اپنا رُسوخ چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ہلا استحقاق حکومت ان کی ہو اور قربانی دوسروں کی.بیویاں علاوہ اپنے نفوذ کے اپنی اپنی اولاد کی تائید میں امراء کو کرنا چاہتی ہیں.ایک کہتی ہے امراء میرے بیٹے کی طرف ہو جائیں اور دوسری کہتی ہے کہ میرے بیٹے کی طرف ہو جائیں.غدر کا سارا جھگڑا اسی وجہ سے ہؤا کہ بعض بیگمات کہتی تھیں ہمارا بیٹا تخت نشین ہو جائے اور دوسری کہتی تھیں ہمارا ہو جائے.ظاہر میں بادشاہ کی خدمت کا دعویٰ ہوتا تھا لیکن باطن میں کسی خاص شہزادہ یا ملکہ کی امداد کا دم بھر رہے ہوتے تھے اور پھر ایک دوسرے کے خلاف بادشاہ کے کان بھرتے تھے.قربانی اور اخلاص کی قدر نہیں ہوتی تھی خوشامد اور جھوٹ کی قدر ہوتی تھی.یا بعض دفعہ کوئی جابر امیر بادشاہ پر حاوی ہو جاتا تھا اور درباریوں کو اُسے خوش کرنے کی فکر رہتی.لیکن قرآن کے دربارِ خاص میں یہ باتیں نہیں.وہاں نہ کوئی بیٹا ہے نہ بیوی ، نہ کوئی جابر حاکم ہے بلکہ خالص خدا ہے جس کی نہ چغلی کی جاسکتی ہے نہ غیبت کی جاسکتی ہے نہ کسی اور کو خوش کرنے کے لئے اس سے مداہنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.پھر دُنیوی بادشاہوں کی اولاد ہمیشہ زندہ اور قائم رہنے والا بادشاہ ان کی موت کی متعھی ہوتی تھی اور چاہتی تھی کہ یہ مریں تو ہم بادشاہ ہو جائیں اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا کہ بادشاہ ایک

Page 534

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۰۸ سیر روحانی (۶) شخص کو کوئی عہدہ دیتا تھا لیکن دوسرے دن بادشاہ فوت ہو جاتا.اس کے بعد اس کا بیٹا تخت نشین ہوتا اور وہ اسے ذلیل کر دیتا، لیکن ہمارے دربارِ خاص میں بیٹھنے والا بادشاہ فرماتا ہے.الله لا إله إلا هُوَ الْحَيُّ القَيُّومُ سے تمہارا بادشاہ وہ ہے جو زندہ ہے کبھی مرنے والا نہیں اس لئے تم کو ڈرنا نہیں چاہئے اس کی طرف سے جوڑ تبہ تمہیں ملے گا اُسے کوئی چھینے گا نہیں.دیکھو انگریزوں نے لوگوں کو خطابات دیئے تھے دنیوی خطابات کا انجام مگر اب ہندوستان اور پاکستان میں روزانہ اعلان ہوتے ہیں کہ ہم ان خطابات کو چھوڑتے ہیں.صرف چند ڈھیٹ ابھی تک ہندوستان میں بھی اور پاکستان میں بھی ایسے ہیں جو ان خطابوں سے چھٹے بیٹھے ہیں ورنہ باقی سب اپنی اپنی قوم کو خوش کرنے کے لئے کہہ رہے ہیں کہ میں نے ”خان بہادر کا خطاب چھوڑا، میں نے فلاں خطاب چھوڑا، میں نے ”جی ہی.آئی.ای“ کا خطاب چھوڑا ، میں نے فلاں خطاب چھوڑا یہ سب لعنتی چیزیں ہیں.پہلے انہی خطابوں کے لئے خوشامد میں کرتے پھر تے تھے اور اب لعنتی چیزیں بن گئیں کیونکہ بادشاہت بدل گئی یا بادشاہ کی جگہ اُس کا بیٹا آ گیا تو پھر بیٹے کی پارٹی برسر اقتدار آ جاتی ہے اور باپ کی پارٹی رہ جاتی ہے.لیکن الله لا اله الا هو الحي القيوم: کہنے والا فرماتا ہے تمہیں گھبراہٹ کیوں ہو، تمہیں خطرہ کیوں گزرے، تمہارا دل کیوں دھڑ کے، تمہارا جس بادشاہ سے تعلق ہے وہ جو خطاب بھی تمہیں دے گا وہ چلتا چلا جائے گا اس کو کوئی دوسرا با دشاہ بدلنے والا نہیں کیونکہ کوئی نئی حکومت نہیں آئے گی.بادشاہوں کے خلاف پھر درباروں میں سازشوں کی وجہ سے یہ بھی ہوتا تھا کہ لوگ چوری چھپے باتیں کرتے رہتے دربارِ خاص میں منصوبے تھے یعنی بادشاہ کے سامنے تو قصیدے پڑھے جارہے ہوتے تھے اور گھروں میں یا مجلسوں میں یہ کہا جاتا تھا کہ دیکھو! بادشاہ نے فلاں بات کی ہے اور ہمارے حقوق اس نے تلف کر دیئے ہیں اب اِس اِس طرح ہم کو فریب

Page 535

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) کرنا چاہئے ، یہ یہ چالاکیاں کرنی چاہئیں یہ دنیوی بادشاہوں کے دربارِ خاص کے نقائص ہو ا کرتے تھے.اس دربارِ خاص کو میں نے دیکھا تو اس کے متعلق لکھا تھا لا يَعْذِّبُ عَنْهُ مثقال ذرة في السموتِ وَلا فِي الْأَرْضِ وَلا أَصْغَرُ مِنْ ذلِكَ وَلا أَكْبَرُ إِلَّا ي كتب مبین کے فرماتا ہے اس قرآنی در بارِ خاص کا بادشاہ عالم الغیب ہے.اس کا دیا ہوا انعام راستہ میں کہیں غائب نہیں ہو سکتا.یہاں تو یہ تھا کہ بادشاہ نے خلعت پہنایا اور گھر پہنچنے سے پہلے پہلے راستہ میں کسی نے خنجر مار دیا گویا انعام تو ملا مگر انعام سے وہ فائدہ نہ اٹھا سکا مگر یہ وہ بادشاہ ہے کہ چونکہ یہ عالم الغیب ہے اس لئے جس شخص کو یہ انعام دیتا ہے اُس کی نگرانی بھی کرتا ہے کہ انعام اُس کو پہنچ جائے اور خواہ کوئی کتنا زور لگالے، کتنی ہی طاقت خرچ کر لے وہ اس خطاب سے محروم نہیں ہوسکتا وہ خدا کی دی ہوئی چیز ہے اُس کو کون لے سکتا ہے مگر دُنیوی بادشاہوں کی دی ہوئی چیز تو بسا اوقات ضائع ہو جاتی ہے بلکہ بعض دفعہ وہ آپ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوسروں کو ذلیل کر دیتے ہیں.ایک مشہور تاریخی واقعہ ایک مشہور تاریخی واقعہ ہے شبلی ایک بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں یہ امیر گھرانے کے تھے اور یہ بغداد کے بادشاہ کے گورنر تھے.وہ کسی کام کے متعلق بادشاہ سے مشورہ کرنے کے لئے اپنے صوبہ سے دار الحکومت میں آئے.اُنہی دنوں ایک کمانڈر انچیف ایران کی طرف سے ایک ایسے دشمن کے مقابلہ میں بھیجا گیا تھا جس سے کئی فوجیں پہلے شکست کھا چکی تھیں اُس نے دشمن کو شکست دی اور ملک کو دوبارہ مملکت میں شامل کیا.جب وہ واپس آیا تو بغداد میں اس کا بڑا بھاری استقبال کیا گیا اور بادشاہ نے بھی ایک دربارِ خاص منعقد کیا تا کہ اُسے انعام دیا جائے اور اُس کے لئے ایک خلعت تجویز کیا جو اُس کے کارناموں کے بدلہ میں اُسے دیا جانا تھا مگر بدقسمتی سے سفر سے آتے ہوئے اُسے نزلہ ہو گیا دوسری بد قسمتی یہ ہوئی کہ گھر سے آتے ہوئے وہ رومال لانا بھول گیا.جب اُس کو خلعت دیا گیا تو دستور کے مطابق اس کے بعد اُس نے تقریر کرنی تھی کہ میں آپ کا بڑا ممنون ہوں آپ نے مجھ پر بڑا احسان کیا ہے اور میری تو اولاد در اولا داس چار گز کپڑے کے بدلے میں

Page 536

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۰ سیر روحانی (۶) آپ کی غلام رہے گی.مگر جب وہ تقریر کے لئے آمادہ ہورہا تھا تو یکدم اُسے چھینک آئی اور ناک سے بلغم ٹپک پڑا.بلغم کے ساتھ اگر وہ تقریر کرتا تو شاید قتل ہی کر دیا جاتا اُس نے گھبراہٹ میں ادھر اُدھر ہاتھ مارا جب دیکھا کہ رو مال نہیں ملا تو نظر بچا کر اُسی جبہ سے اُس نے ناک پونچھ لی.بادشاہ نے اسے دیکھ لیا وہ کہنے لگا اُتار لو اس خبیث کا خلعت.یہ ہماری خلعت کی ہتک کرتا ہے اور ہمارے دیئے ہوئے تحفہ سے ناک پونچھتا ہے.اس نے یہ کہا اور شبلی نے اپنی کرسی پر چیخ ماری اور رونا شروع کر دیا چونکہ دل میں نیکی تھی اور تقویٰ تھا، خد نے اُن کی ہدایت کے لئے ایک موقع رکھا ہوا تھا انہوں نے چیخ ماری تو بادشاہ نے کہا خفا ہم اس پر ہوئے ہیں تم کیوں روتے ہو؟ وہ کھڑے ہو گئے اور انہوں نے کہا بادشاہ میں اپنا استعفاء پیش کرتا ہوں.بادشاہ نے کہا یہ کیا بے وقت کی راگنی ہے کیا ہوا تم کو اور کیوں تم استعفاء پیش کرتے ہو؟ انہوں نے کہا بادشاہ میں یہ کام نہیں کر سکتا.اس نے کہا آخر ہوا کیا ؟ انہوں نے روتے ہوئے کہا کہ یہ شخص آج سے دو سال پہلے اس جگہ سے نکلا تھا اور ایک ایسی مہم پر بھیجا گیا تھا جس میں ملک کے بڑے بڑے بہادر جرنیل شکست کھا کر آئے تھے اور ایک ایسے علاقہ کی طرف بھیجا گیا تھا جس کا دوبارہ فتح کرنا بالکل ناممکن سمجھا جاتا تھا یہ دو سال باہر رہا.یہ جنگلوں میں گیا، یہ پہاڑوں میں گیا اور اس نے دشمن سے متواتر لڑائیاں کیں، یہ ہر روز مرتا تھا، ہر صبح مرتا تھا، اور ہر شام مرتا تھا، ہر شام اس کی بیوی سوچتی تھی کہ صبح میں بیوہ ہو کر اُٹھوں گی اور ہر صبح جب وہ اُٹھتی تھی تو خیال کرتی تھی کہ شام مجھ پر بیوگی کی حالت میں آئے گی ، ہر شام اس کے بچے سوتے تھے تو سمجھتے تھے کہ صبح ہم یتیم ہوں گے اور ہر صبح اس کے بچے اُٹھتے تھے تو وہ خیال کرتے تھے کہ شام کو ہم یتیم ہوں گے، ایک متواتر قربانی کے بعد اس نے اتنا بڑا ملک فتح کیا اور آپ کی مملکت میں لا کر شامل کیا اس کے بدلہ میں آپ نے اس کو چند گز کپڑا دیا جس کی حیثیت ہی کیا تھی مگر محض اس لئے کہ اس نے مجبوراً اس خلعت سے ناک پونچھ لیا آپ اس پر اتنا خفا ہوئے.پھر میں کیا جواب دوں گا اُس خدا کے سامنے جس نے مجھے یہ جسم ایسا دیا ہے جس کو کوئی بادشاہ بھی نہیں بنا سکتا ، جس نے مجھے یہ خلعت دی ہے اور میں اس کو تیری خاطر

Page 537

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۱ سیر روحانی (۶) گندہ کر رہا ہوں میں اس کے متعلق اپنے خدا کو کیا جواب دونگا ؟ یہ کہہ کر وہ دربار سے نکل گئے مگر وہ اتنے ظالم اور جابر تھے کہ جب مسجد میں گئے اور انہوں نے کہا کہ میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں تو ہر ایک نے یہی کہا کہ کم بخت ! کیا شیطانوں کی تو یہ بھی کہیں قبول ہوسکتی ہے نکل جا یہاں سے..انہوں نے ہر جگہ پھر نا شروع کیا مگر کسی کو یہ جرات نہیں ہوتی تھی توبہ کی قبولیت کہ ان کی توبہ قبول کرے.آخر وہ جنید بغدادی کے پاس پہنچے کہ اِس اِس طرح مجھ سے قصور ہوئے ہیں اور اب میں تو بہ کرنا چاہتا ہوں کیا میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟ انہوں نے کہا ہاں قبول ہو سکتی ہے مگر ایک شرط پر.پہلے اسے مانو.شبلی نے کہا مجھے وہ شرط بتا ئیں میں ہر شرط ماننے کے لئے تیار ہوں.انہوں نے کہا اُس شہر میں جاؤ جہاں تم گورنر رہے ہو اور ہر گھر پر دستک دے کر کہو کہ میں تم سے معافی مانگتا ہوں اور جو جو ظلم تم نے کئے تھے ان کی لوگوں سے معافی لو.انہوں نے کہا منظور ہے.چنانچہ وہ گئے اور انہوں نے ہر دروازہ پر دستک دینی شروع کر دی جب لوگ نکلتے وہ کہتے کہ میں شیلی ہوں جو یہاں کا گورنر تھا میں قصور کرتا رہا ہوں ، خطائیں کرتا رہا ہوں اور تم لوگوں پر ظلم کرتا رہا ہوں اب میں اس کی معافی طلب کرتا ہوں.لوگ کہہ دیتے کہ اچھا ہم نے معاف کر دیا لیکن نیکی کا بیج ہمیشہ بڑھتا اور رنگ لاتا ہے دس ہیں گھروں سے گزرے تو سارے شہر میں آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ وہ گورنر جوگل تک اتنا ظالم مشہور تھا وہ آج ہر دروازہ پر جا جا کر معافیاں مانگ رہا ہے اور لوگوں کے دلوں میں روحانیت کا چشمہ پھوٹا اور انہوں نے کہا ہمارا خدا کتنا زبردست ہے کہ ایسے ایسے ظالموں کو بھی نیکی اور تو بہ کی توفیق عطا فرما دیتا ہے.چنانچہ پھر تو یہ ہوا کہ شبلی جنید کے کہنے کے ماتحت ننگے پاؤں ہر دروازه پر جا کر دستک دیتے تھے لیکن بجائے اس کے کہ دروازہ کھل کر شکوہ اور شکایت کا دروازہ گھلتا اندر سے روتے ہوئے لوگ نکلتے اور کہتے تھے کہ آپ ہمیں شرمندہ نہ کریں آپ تو ہمارے لئے قابلِ قدر وجود ہیں اور ہمارے روحانی بزرگ ہیں آپ ہمیں اس طرح شرمندہ نہ کریں.غرض سارے شہر سے انہوں نے معافی لی اور پھر وہ جنید کے پاس

Page 538

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۲ سیر روحانی (۶) آئے اور انہوں نے تو بہ قبول کی اور انہیں اپنے شاگردوں میں شامل کیا اور اب وہ مسلمانوں کے بڑے بڑے اولیاء میں سے سمجھے جاتے ہیں.خدا تعالیٰ کے عطیہ کی بے حرمتی تو دیکھو! شبلی کو کس بات سے ہدایت ملی ؟ اس بات سے کہ خدا نے ہم کو کیا کچھ دیا ہے جس کو ہم گندہ اور نا پاک کر رہے ہیں مگر بادشاہ اس دربارِ خاص میں چند گز ریشم کا ٹکڑا چند سنہری تاگے لگے ہوئے یا چند موتی اور ہیرے جڑے ہوئے دیتا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہوتی ہے کہ اگر وہ لوگ خود چاہیں تو اس سے بہتر خلعت بنا سکتے ہیں مگر اس لئے کہ ان کی ہتک ہو گئی وہ انہیں ذلیل کر دیتا ہے.غرض ان خدمات کے بدلہ میں جو کچھ ملتا تھا وہ اتنا حقیر ہوتا تھا کہ اس کا خیال کر کے بھی انسان حیران ہو جاتا ہے کہ کیا انسان اتنا بھی ذلیل ہو جاتا ہے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کے پیچھے دوڑتا پھرے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو انعامات ملتے ہیں ان میں یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ کبھی واپس نہیں ہو سکتے اور جس کو انعام ملتا ہے اس کی طاقت نہیں ہوتی کہ وہ اس کی ہتک کرے بلکہ وہ ہمیشہ اس کی عزت کرتا ہے.دنیا میں کوئی ایک لاکھ بیس ہزار نبی اللہ تعالیٰ کے غیر متبدل انعامات جیسا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے گزرا ہے ہے اور معلوم نہیں کتنی دنیا ئیں ہیں اور کتنے اور نبی ہوں گے.درجنوں پیغمبروں کے حالات تو ہمیں بھی معلوم ہیں مگر کیا تم نے کبھی سُنا کہ فلاں وقت میں فلاں پیغمبر صاحب کے مستعفی ہونے کا وقت آ گیا اور انہیں کہا گیا کہ آپ اب استعفاء دیدیں؟ یا کبھی تم نے سُنا کہ اللہ تعالیٰ نے کسی پر خفا ہو کر کہا کہ اُتار لو اس کا خلعت پیغمبری اور اُس نے اسے چھوڑ دیا ہو؟ اس دربار میں سے جس کو ملتا ہے ہمیشہ کے لئے ملتا ہے اور جس کو ملتا ہے اس کے دل میں اپنے اس عہد ہ کو اتنی عظمت ہوتی ہے اور اتنی قدر ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ اس کی قدر کرنے میں اس کی اس طرح مدد کرتا ہے کہ وہ اس عہد ہ کو کبھی نہیں چھوڑتا اور نہ اس کی ہتک کرتا ہے.

Page 539

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۳ سیر روحانی (۶) الہی دربار میں کسی چھوٹے سے چھوٹے پھر میں نے دیکھا کہ دنیوی بادشاہوں کے دیوان خاص درباری کی ہتک بھی برداشت نہیں کی جاسکتی میں جو امراء ہوتے ہیں ان میں با ہم رقابتیں اور بغض اور کینے پائے جاتے ہیں اور وہ ایک دوسرے کو گرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس الہی دربار میں اگر کوئی بڑا ہے تو بڑے نے چھوٹے پر کیا حسد کرنا ہے وہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کسی چھوٹے کی ہتک ہو جائے یا اس کی کسی رنگ میں تنقیص کی جائے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جیسا انسان جن کے مقابلہ میں موسی کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں ابراہیم کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے تھے، جن کے مقابلہ میں نوح کوئی حیثیت نہیں رکھتے تھے، ان موسیٰ اور ابراہیم اور نوح سے کم درجہ رکھنے والوں اور موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک یونس نبی ہیں کوئی یہودی کسی جھگڑے میں کہہ دیتا ہے کہ یونس بڑا آدمی تھا مسلمان آگے سے کہہ دیتا ہے محمد رسول اللہ کے مقابلہ میں یونس کی کیا حقیقت ہے.اب بجائے اس کے کہ دربارِ خاص کا آدمی خوش ہو کہ میری عزت کی گئی ہے جب اس کو خبر پہنچتی ہے تو اس کا چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور وہ کہتا ہے لَا تُفَضِّلُونِي عَلَى يُونُسَ ابْنِ مَتى ل یونس بن متی پر مجھے فضیلت نہ دیا کرو.حالانکہ فضیلت ہے لیکن کسی درباری کی وہ ہتک برداشت نہیں کرتا وہ کہتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہی سہی پر تم نے کیوں اس کو چھوٹا کہا ؟ تمہارا کام یہی ہے کہ اس کی عزت کرو کیونکہ وہ خدا کے درباریوں میں سے ہے.ابو البشر آدم کی پیدائش پر اب میں ایک دربار خاص کا ذکر کرتا ہوں جو قرآن کریم نے دربار خاص کا انعقاد بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَلَّمَ ادَمَ الأسْمَاء كُهَاثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلى المَلئِكَةِ فَقَالَ انْبِتُونِي بِأَسْمَاء هَؤُلاء اِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ قَالُوا سُبْحَنَكَ لا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ العَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَادَمُ انْبِتُهُمْ بِاسْمائِهِمْ فَلَمَّا انْبَاهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ

Page 540

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۴ سیر روحانی (۶) قال الم أقل لكم إنّي اَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاعْلَمُ مَا تُبْدُونَ ومَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ کے فرمایا در بار شاہی لگا اور ملائکہ جمع ہوئے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایک خاص مقام ایک شخص کو عطا کیا تھا جس کی توثیق کی جانی تھی اور جس کے متعلق اس دربار میں آخری اعلان کرنا تھا.وہ مقام ابوالبشر آدم کے لئے تجویز کیا گیا تھا جسے عالم انسانی میں جلوہ الہی کی ایک نئی تجلی کے ظاہر کرنے کے لئے مقرر کیا گیا تھا.ملائکہ نے اس بات کی ابتدائی خبر سن کر کہا کہ ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ اس انسان کی ضرورت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہم تمہیں اس کی ضرورت عملی طور پر دکھا دینگے.چنانچہ اللہ تعالی نے وہ تمام تجلیات جن کو وہ نئی شکل میں دکھانا چاہتا تھا آدم کے اندر ودیعت کر دیں اور پھر آدم کو ان کے سامنے بلایا اور وہ تجلیات اس میں سے ظاہر ہوئیں.جس طرح فلم چلتی اور اس میں سے تصویر میں نکلتی ہیں اسی طرح آدم کے وجود سے ان تجلیات کا ظہور شروع ہوا.اس پر اللہ تعالیٰ نے ملائکہ سے فرمایا کہ اگر تمہارا دعویٰ صحیح تھا تو تم مجھے بتاؤ کہ کیا تم ان تجلیات کی پوری کیفیت بیان کر سکتے ہو؟ انہوں نے کہا اے خدا! تو پاک ہے ہمیں تو اتنا ہی آتا ہے جتنا تو نے ہمارے اندر رکھا ہے تو سب کچھ جانتا ہے اور تیرے سارے کام حکمت پر مبنی ہیں جس کے سپر د تو کوئی کام کرتا ہے اُس کی طاقتیں بھی اس کے اندر ودیعت کر دیتا ہے.پھر فرمایا اے آدم! ہم نے جو علم تیرے اندر رکھے ہیں اور جو تجلیات تم سے ظاہر ہونے والی ہیں اُن کو ظاہر کرو.چنانچہ آدم نے ان تجلیات مخفیہ کو اور ان صفات انسانیہ کو جو اس کے لئے مخصوص تھیں ظاہر کیا پھر فرمایا قال الم اقل لكُم إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَوتِ و الأرض وَاعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُون میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ مجھے زمین و آسمان کی وہ بار یک باتیں معلوم ہیں جو تم معلوم نہیں کر سکتے اور ایک ایسے نئے وجود کی ضرورت ہے جو میرے ان علوم کو ظاہر کر سکے جو تم پر ظاہر نہیں ہو سکتے.آدم کی اہلیت کا اعلان یہ ایک دربار ہے جو اللہ تعالیٰ نے لگایا اس دربار کی غرض آدم کو مقام انسانیت پر فائز کرنا یعنی اسے ابوالبشر بنانا تھا گویا یہ نہایت ہی اعلیٰ درباروں میں سے ایک دربار ہے گورنر کا تقرر

Page 541

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۵ سیر روحانی (۶) ہو رہا ہے ، بادشاہ بیٹھا ہے اور بتایا جا رہا ہے کہ اس پر یہ یہ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں اور پھر بتایا جا رہا ہے کہ یہ ان ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے قابل ہے.دنیا کے درباروں میں تو جب کوئی کمانڈر مقرر کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ہمیں تمہاری وفاداری سے امید ہے کہ تم ہماری خواہشوں کو پورا کرو گے لیکن یہاں کہا جاتا ہے ہم نے اس کو مقر رکیا ہے اور ہم نے اس کا انتخاب غلط نہیں کیا جو کام ہم نے اس کے سپر د کیا ہے اس کا یہ اہل ہے اور یہ ا سے کر کے دکھا دیگا.ظرف صحیح کے انتخاب کی اہمیت گویا خلاصہ اس دربار کا یہ تھا کہ ایک نیا گورنر مقرر ہو رہا تھا دوسرے درباری اس انتخاب کی وجہ سمجھنا چاہتے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سب علم ہماری طرف سے آتا ہے مگر اسے حاصل ہر شخص اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے اور اگر ایک چوکو نہ برتن ہوگا تو اس کے اندر جو پانی ہوگا وہ چوکو نہ ہوگا ، اگر ایک گول برتن ہو گا تو اس کے اندر پڑا ہوا پانی بھی گول ہو جائے گا ، اگر ہم پانی کو چوکو نہ شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں تو گول شکلوں والے کتنے بھی برتن ہمارے پاس لائے جائیں ہم کہیں گے یہ اس قابل نہیں کیونکہ ہم نے اس کو چوکونہ شکل دینی ہے.یا اگر فرض کرو کسی ایسی شکل میں ہم اس کو دیکھنا چاہتے ہیں جیسے تکون ہوتی ہے تو بے شک چار گوشیہ برتن لائے جائیں اور کہا جائے کہ ان میں پانی پڑسکتا ہے ہم کہیں گے پڑسکتا ہے مگر ہم نے اس کو دیکھنا سہ گوشہ ہے.یا اگر ہماری غرض یہ ہے کہ جیسے ایک سینگ ہوتا ہے اسی طرح سینگ کی شکل میں پانی کو دیکھیں تو اس غرض کے لئے ہم اسی قسم کے برتن کو پسند کریں گے جو سینگ کی شکل کا ہوگا.یا اگر قلفی جمانی ہو تو اب قلفی کی شکل چاہے شلفی کی ہو چاہے جو تی کی مزہ ایک جیسا ہی رہے گا مگر ہمارے ملک میں قلفی کی شکل کا رواج ہے اب اگر قلفی بنانی ہو اور کوئی کہے کہ ٹفن کیرئیر میں قلفی جمالوتو دوسرا شخص کبھی نہیں بنائے گا وہ کہے گا قلفی لاؤ.میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ اس کی کیا حکمت ہے؟ بہر حال جس نے کام کرنا ہو وہ جس شکل کو پسند کرتا ہے اس قسم کا ظرف لیتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی فرماتا ہے کہ یہاں سوال ظرف کا ہے

Page 542

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۶ سیر روحانی (۶) ہم جن صفات کو دُنیا میں ظاہر کرنا چاہتے ہیں وہ ظرف فرشتوں کا نہیں بلکہ آدم کا ہے.پھر انسان چیز بھی اپنے ظرف کے مطابق حاصل کرتا ہے اگر دوسیر والا ظرف ہوگا تو دوسیر چیز آئے گی ، اگر چھ چھٹانک والا ظرف ہوگا تو چھ چھٹا نک آئے گی ، اگر ایک تولہ والا ظرف ہوگا تو ایک تولہ آئے گی.اس نقطہ نگاہ سے بھی فرمایا کہ جس علم اور قانون کی اس وقت ضرورت ہے اس کا ظرف صحیح یہی آدم ہے چنانچہ دیکھو! اس شخص کو ہم نے سکھایا اور سیکھ گیا یہی ثبوت ہے اس بات کا کہ یہ شخص قابل تھا اور فرشتے اس جواب کوسن کر فوراً سرتسلیم خم کر دیتے ہیں اور سب کی تسلی ہو جاتی ہے.پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ اب گورنر کے احکامات کو رائج کرو چنانچہ فَسَجَدُوا سارے کے سارے تعمیل حکم میں لگ گئے اور سب نے اس حکم پر لبیک کہا اور فرمانبرداری اور امداد شروع کردی.بعض لوگ فرشتوں کے ہمدرد بن کر اس آیت پر یہ ایک اعتراض کا جواب اعتراض کیا کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا فرشتوں کو نہ سکھایا وہ نہ سیکھے اس میں فرشتوں کا قصور کیا ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصل سوال یہ تھا کہ خدا تعالیٰ کی مختلف تجلیات کے لئے مختلف آئینوں کی ضرورت ہوتی ہے ایک تجلی کا آئینہ آدم ہے.فرشتے معلوم کرنا چاہتے تھے کہ وہ نئی تجلی کیا ہوگی جو کہ آدم کے ذریعہ ہی ظاہر ہو سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے وہ تجلی آدم پر ڈالی اور اس نے اسے صحیح طور پر اخذ کر لیا اور پھر اس کو اپنے جسم سے ظاہر کر دیا فرشتے خاموش ہو گئے اور کہا کہ ہم سمجھ گئے.اصل مضمون نہیں بلکہ یہ سمجھ گئے ہیں کہ اس تجلی کا حامل آدم ہی ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے.آدم کا کام اور ہے اور اصل حقیقت تو وہ اب بھی نہیں سمجھے جس دن اصل حقیقت سمجھنے لگ جائیں گے، اس دن وہ آدمی بن فرشتوں کا کام اور جائیں گے آج بھی فرشتہ اصل حقیقت کو نہیں سمجھا مگر فرشتہ اتنا سمجھ گیا ہے کہ آدم کا کام اور ہے اور میرا کام اور.اگر فرشتے اسے نئی تجلی نہ سمجھتے تھے اور اگر وہ یہی سمجھتے تھے کہ آدم کو سکھایا تو وہ سیکھ گیا تو میں ان داناؤں سے جو فرشتوں

Page 543

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۷ سیر روحانی (۶) کے وکیل بنتے ہیں پوچھتا ہوں کہ ان کی عقل کیوں ماری گئی.اگر سوال یہی تھا کہ اس کو سکھا یا وہ سیکھ گیا تو فرشتے کیوں نہ بولے وہ چُپ کیوں ہو گئے ؟ ان کو کہنا چاہئے تھا کہ اس کو سکھایا یہ سیکھ گیا ہمیں سکھاتے تو ہم سیکھ جاتے مگر ان کی تو تسلی ہوگئی اور اس معترض کی ابھی تک تسلی نہیں ہوئی اور پچاس ساٹھ ہزار سال سے جو ا سے شبہ پیدا ہوا ہے وہ ابھی دُور نہیں ہوا.آدم سے مختلف تجلیات کا ظہور اصل سوال کرنے والوں کا بیان ہے کہ ان کے لئے یہ سوال حل ہو گیا کیونکہ وہ آگے سے نہیں بولے اور اسی لئے نہیں بولے کہ درحقیقت وہ احمق ہے جو سمجھتا ہے کہ یہاں انسانیت کے سمجھنے کا سوال تھا.انسانیت کے سمجھنے کا سوال نہیں تھا بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ حجابی جو آپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں آیا ہم اس کے حامل نہیں ہو سکتے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں ہم تمہیں عملاً تحجتی کر کے دکھا دیتے ہیں اس تجلی کے بعد تم خود فیصلہ کر لینا کہ تم اسے ظاہر کر سکتے ہو یا نہیں.چنانچہ آدم سے مختلف تجلیات کا ظہور ہو ا مثلاً ایک تجلی تو یہی ظاہر ہوئی کہ انسان دوزخ میں ڈالا گیا فرشتہ دوزخ میں جا ہی نہیں سکتا.آخرا بوجہل وغیرہ دوزخ میں گئے ہیں یا نہیں فرشتہ اس بجلی کو برداشت ہی نہیں کر سکتا یہ قہری تجلی تھی جس کو برداشت کرنے کی صرف آدم میں طاقت رکھی گئی فرشتہ اس تجلی کا حامل ہو ہی نہیں سکتا تھا.ملائکہ سے تعلق رکھنے والی تجلیات اور رنگ کی ہیں ان تجلیات کو ہم نہیں اُٹھا سکتے وہ فرشتوں کے لئے مخصوص ہیں اور ہمارے لئے انسان کی تجلیات مخصوص ہیں.پس فرشتوں کا یہ سوال ہی نہیں تھا کہ وہ کونسی تجلی ہے جس کے اظہار کے لئے آدم پیدا کیا گیا ہے بلکہ ان کا سوال یہ تھا کہ ایسی کونسی تجلتی ہے جو آدم ہی اُٹھا سکتا ہے ہم نہیں اُٹھا سکتے ؟ جب آدم نے مختلف قسم کے افعال کا ارتکاب شروع کیا کسی نے خدا کو گالیاں دینی شروع کیں، کسی نے اس سے کھیل اور تمسخر شروع کیا، کسی نے نماز کا انکار کیا، کسی نے روزہ کا انکار کیا، کسی نے حج کا انکار کیا، کسی نے زکوۃ کا انکار کیا، کسی نے چوری کی، کسی نے ڈاکہ ڈالا تو فرشتوں نے کانوں پر ہاتھ رکھے اور کہا کہ اس کے لئے یہ آدم

Page 544

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۸ سیر روحانی (۶) ہی موزوں ہے ہم اس کے اہل نہیں اسی لئے قرآن کریم میں انسان کے متعلق ہی ظَلُومًا جَھولا کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ، فرشتوں نے کہا ہم ظَلُومًا جَهُولًا نہیں بن سکتے یہ آدمی ہی کی ہمت ہے وہ بیشک ظَلُومًا جَهُولًا بنتا پھرے.پس سوال یہ نہیں تھا کہ وہ نئی تجلی کیا ہے جس کا آدم کے ساتھ تعلق ہے بلکہ سوال یہ تھا که آیا انسان ہی اس تجلی کا حامل ہو سکتا ہے؟ فرشتے نہیں ہو سکتے ؟ خدا تعالیٰ نے عملاً تحجتی ظاہر کر کے دکھا دی اور فرشتوں نے مان لیا کہ ہم میں اس کی اہلیت نہیں لیکن آج ہزاروں سال کے بعد ایک انسان اُٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ فرشتے بیوقوف تھے اُن بیوقوفوں کو سوال کرنا آیا تھا جواب سمجھنا نہیں آیا حالانکہ فرشتوں کا چُپ ہو جانا بتاتا ہے کہ فرشتوں کا یہ سوال تھا ہی نہیں کہ آپ ہمیں سکھاتے تو ہم بھی سیکھ جاتے بلکہ فرشتوں کا سوال یہ تھا کہ وہ کونسی تجلتی ہے جس کا حامل انسان ہو سکتا تھا ہم نہیں ہو سکتے تھے.خدا کے بتانے یا نہ بتانے کا ذکر نہیں تھا بلکہ اس تجلی کے قابل وجود کا ذکر تھا.روحانی دربار خاص کی اب میں اس دربار کی بعض مخصوص کیفیات کا ذکر کرتا ہوں.اوّل اس دربار میں بھی بادشاہ کے گر د کچھ درباری یعنی بعض مخصوص کیفیات ملائکہ نظر آتے ہیں.وہ درباری گلی طور پر بادشاہ کے کمال علم کے قائل ہیں دُنیوی در بارِ خاص میں تو بسا اوقات کمانڈر سمجھتا ہے کہ بادشاہ اگر چھوٹی سے چھوٹی لڑائی کے لئے بھی جائے گا تو ہار جائیگا مگر اس دربار میں ہر شخص یہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ بادشاہ جانتا ہے وہ میں نہیں جانتا.سوم وہ اس سے زیادتی علم کے لئے بھی سوال کرتے رہتے ہیں گویا وہ صرف یہی نہیں جانتے کہ یہ ہر بات جانتا ہے اور ہم نہیں جانتے بلکہ ان کے دل میں تڑپ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرتے جائیں اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق اپنے آپ کو مقام تکمیل تک پہنچائیں.فرشتہ اپنی ملکیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے اور انسان اپنی انسانیت کے لحاظ سے کامل ہونا چاہتا ہے مگر ترقی بہر حال موجود دوم

Page 545

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۱۹ سیر روحانی (۶) ہے کیونکہ استاد موجود ہے جب تک استاد موجود رہے گا شاگرد اس سے نئی نئی چیزیں سیکھتا رہے گا.چہارم با دشاہ ڈنڈے سے ان کو سیدھا نہیں کرتا جیسے دنیا میں کیا جاتا ہے بلکہ ان پر حقیقت کو واضح کرتا ہے اور ان کے سینوں کو روشنی بخشتا ہے.پنجم جب کسی نئے کام پر کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو تمام سامان اسے مہیا کر کے دیئے جاتے ہیں.دنیا میں تو یہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بادشاہ کی طرف سے کسی کو مقرر کیا جاتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے کہ اب فوج بھرتی کرو یا لڑائی کے لئے سامان مہیا کرو مگر وہاں ساری چیزیں وہ خود مہیا کر کے دیتا ہے.ششم اس دربار کے درباری ایسے ہیں کہ بجائے رقابت میں مبتلاء ہونے کے وہ افسر مقررہ کی پوری طرح اعانت کرتے ہیں اور اس سے مخلصانہ تعاون کرتے ہیں چنانچہ فرشتوں کے متعلق فرماتا ہے کہ فَسَجَدُوا جب انہیں تعاون کے لئے کہا گیا تو انہوں نے تعاون کرنا شروع کر دیا اور جس نے تعاون نہ کیا اُس کو خود با دشاہ نے سزا دی اور اُس کی شرارت کو بے ضرر کر دیا.قرآن کریم میں ایک اب میں ایک اور روحانی در بارِ خاص کا ذکر کرتا ہوں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: - قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرُ اور دربارِ خاص کا ذکر و ما من إله إلا اللهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ ملے (٦٨) ربُّ السَّمَوتِ وَ الْأَرْضِ وَ مَا بَيْنَهُمَا الْعَزِيزُ الْغَفَّارُ قُلْ هُوَ نَبِّوا عَظِيمُ و انْتُمْ عَنْهُ مُعْرِضُونَ مَا كَانَ لِي مِن عِلْمٍ بِالْمَلَا الْأَعْلَى إِذْ يَعْتَصِمُوتان يوحى إلي إلَّا انَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ إذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيْكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بشَرًا مِن طِينٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِن رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ ® فَسَجَدَ الْمَلَيْكَةُ كُلُّهُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِيسَ : اسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَفِرِينَ قالَ يَابْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَن تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ اسْتَكْبَرْتَ أَمْ كُنْتَ مِنَ الْعَالِينَ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ ، خَلَقْتَنِي مِنْ نَارٍ وَخَلَقْتَهُ مِن طِينٍ قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ

Page 546

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۰ سیر روحانی (۶) رجِيمُ وَإِن عَلَيْكَ لَعْنَتِي إِلَى يَوْمِ الدّينِ قَالَ رَبِّ فَانْظُرْنَ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ قَالَ فَإِنَّكَ مِنَ الْمُنظَرِينَ إلى يَوْمِ الوقت المَعْلُومِ قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لأُغْوِيَنَّهُمْ أجْمَعِينَ إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ قَالَ فَالْحَقُّ وَ الْحَقِّ أَقُولُ لَا مَلَنَ جَهَنَّمَ مِنْكَ وَ مِمَّن تَبِعَكَ مِنْهُمْ أَجْمَعِينَ قُل مَّا اسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍةٌ مَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلّفين إن هُوَ إِلَّا ذكر للعلمينَ وَلَتَعْلَمُنَّ نَبا بَعْدَ حِيين ١٠ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس جگہ پھر ایک آدم کی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے مگر جیسا کہ سیاق وسباق بعثت عظمی کا دربار خاص میں اعلان سے ظاہر ہے یہ آیات قطعی طور پر ثابت کرتی ہیں کہ یہاں وہ آدم مراد نہیں جس سے نسل بشر کا آغاز ہو ا بلکہ اس جگہ آدم سے مرا دمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہے چنانچہ دیکھو ان آیات کی ابتدا ان الفاظ سے ہوتی ہے کہ قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرُ وَ مَا مِن الهِ إِلَّا اللَّهُ الْوَاحِدُ الْقَهَّارُ - تو ان سے کہہ دے کہ میں خدا کی طرف سے ایک تنبیہہ کرنے والے کی حیثیت سے آیا ہوں اور اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ واحد اور قہار ہے.اس کے بعد فرماتا ہے وہ آسمان اور زمین کا رب ہے اور ان کے درمیان جو کچھ ہے ان کا بھی رب ہے اور وہ بڑا غالب اور بخشنے والا ہے.تو کہہ دے کہ یہ ایک عظیم الشان چیز ہے جس سے تم اعراض کر رہے ہو اور مجھے کیا خبر ہے کہ فرشتے آسمان پر کس کے تقرر کے بارہ میں بخشیں کر رہے تھے مجھے آسمان سے وحی آ گئی اور پتہ لگ گیا کہ میں خدا کی طرف سے نذیر ہوں.دیکھو! جب خدا نے فرشتوں کو بلایا اور ان سے کہا کہ میں ایک بہت بڑے انسان کو مٹی سے پیدا کرنے والا ہوں جب میں اس کو پیدا کرلوں اور وہ اپنی جوانی کی عمر کو پہنچ جائے اور کلامِ الہی اس پر نازل ہو جائے تو تم فوراً اُس کی مدد کر نے لگ جاؤ.اب دیکھو یہاں کسی پہلے آدم کا یا پیدائش عام کا ذکر نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اور ان کی بعثت کا ذکر ہے اور پھر جہاں یہ ذکر ختم ہوتا ہے وہاں بھی ان باتوں کو بیان کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ قُل مَّا اسْلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَ مَا أَنَا

Page 547

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۱ سیر روحانی (۶) مِنَ الْمُتَكَفِينَ یعنی خدا نے کہا اور میں مقرر ہو گیا.میں تم سے کسی اجر کا طالب نہیں.اگر ابوالبشر آدم کا یہاں ذکر ہوتا تو آدم کو کہنا چاہئے تھا کہ خدا نے مجھے خلیفہ بنایا ہے مگر بنایا آدم کو اور کہہ رہے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ میں تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا ان دونوں کا آپس میں جوڑ کیا ہوا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں آدم سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.در حقیقت قرآن کریم میں آدم قرآنی اصطلاح میں آدم سے مراد کا جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ خالی ایک نام نہیں بلکہ آدم ایک عہدہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کیا جاتا ہے.اس عہدہ کے لحاظ سے جو آدمی بھی اس پر مقرر ہو جائے وہ آدم کہلاتا ہے اور قرآن کریم کے پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عہدہ اُس شخص کو دیا جاتا ہے جس سے کسی چیز کی ابتداء ہو.جب کوئی ایسا سلسلہ قائم کیا جائے کہ جس نے قیامت تک جاری رہنا ہو اور اس سے متواتر تنوع پیدا ہونا ہو اور نئی نسلیں پیدا ہونی ہوں تو اُس کا نام آدم رکھا جاتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آدم اول دور بشری کا آدم تھا جس سے نسلِ انسانی چلی اور کروڑوں کروڑ آدمی اس بھی ایک عظیم الشان آدم ہیں دنیا میں پھیل گئے.اس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایک آدم تھے جن سے ایک روحانی نسل کا آغاز ہوا.جس طرح آدم کے پیدا ہونے کے بعد جن اور بھوت وغیرہ سب غائب ہو گئے اور انسانی نسل چل پڑی اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیدا ہونے کے بعد پہلے سارے نبیوں کی نسلیں ختم ہو گئیں اور وہ بے اولاد ہو گئے گویا بعینہ اسی طرح ہو ا جس طرح وہاں ہوا تھا.جس طرح وہاں صرف آدم کی نسل چلی اسی طرح یہاں صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی نسل چلی اور باقی نسلیں منقطع ہو گئیں.ممکن ہے کوئی کہے کہ یہ کس طرح درست ہو سکتا ہے آدمی تو دنیا میں کروڑوں کروڑ پھرتے ہیں ، ان کی نسلیں منقطع کس طرح ہوئیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آدمی وہ ہوتے ہیں جو زندہ ہوں.جن کے اندر روحانیت نہیں ، جن

Page 548

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۲ سیر روحانی (۶) کے اندر خدا کا خوف نہیں ، جن کا خدا تعالیٰ سے تعلق نہیں ، جن کو خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں حالانکہ یہی باتیں انسان کی پیدائش کا مقصد ہیں وہ آدمی کہاں ہیں.اب آدمی وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتا ہے کیونکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولا د میں سے ہے ، باقی صرف جانوروں کی حیثیت رکھتے ہیں کیونکہ وہ خدا سے دُور ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی جو آدم کا نام دیا گیا ہے وہ بھی اسی لئے ہے کہ کو آدم قرار دینے میں حکمت آپ کو خدا تعالی کی طرف سے طائم الخلفاء قرار دیا گیا ہے جس کے معنے یہ ہیں کہ اب جو شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنا چاہے اُس کے لئے آپ کی غلامی اختیار کرنا ضروری ہے.جس طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص خدا تک پہنچنا چاہے تو وہ نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لائے کیونکہ اب وہی نسل سمجھی جاتی ہے باقیوں کے متعلق سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہیں ہی نہیں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعد وہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے متبع سمجھے جائیں گے جو مسیح موعود کو مانتے ہیں اسی لئے آپ کا نام بھی آدم رکھا گیا.بہر حال ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ میں خدا کا رسول ہوں اور میرے ساتھ بہت بڑے واقعات وابستہ ہیں.میں عالم روحانی کی مکمل سکیم کے ماتحت پیدا کیا گیا ہوں اور جب دربارِ خاص میں فرشتے بحث کر رہے تھے تو میں اُس وقت موجود نہ تھا.اس دربار میں مجھے چُنا گیا اور آسمانی بادشاہت کے دشمنوں کے خلاف مجھے نذیر یعنی کمانڈر انچیف مقرر کیا گیا.ملا اعلیٰ کے فرائض ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ سعید روحوں کے اثرات آسمان پر جمع ہونے شروع ہوتے ہیں اور الہی احکام کے نازل ہونے سے پہلے ملائکہ بھی فطرتاً ایک معتین وجود کی طرف مائل ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے دعا کرنے لگ جاتے ہیں کہ ہمارے ہدایت کے کام کو آسان

Page 549

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۳ سیر روحانی (۶) کرنے کے لئے اس وجود کو مقرر فرما.گویا ملائکہ کے جہاں اور کام ہیں وہاں جیسے فون میں تم نے دیکھا ہو گا کہ جب کسی کو فون کیا جاتا ہے تو درمیان میں کنٹیکٹ (CONTACT) کرنے والے لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور وہ کنکشن کو فون کرنے والے کے ریسیور (RECEIVER) سے ملا دیتے ہیں جس سے دونوں کا آپس میں تعلق قائم ہو جاتا ہے اسی طرح قرآن کریم کی ان آیتوں سے پتہ لگتا ہے کہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک واسطہ ہے اور اس کنکشن بورڈ (CONNECTION BOARD) کا نام ملا اعلیٰ ہے.خدا تعالیٰ جب کوئی بات بندوں تک پہنچانا چاہتا ہے تو بخاری میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ پہلے وہ بات جبرئیل کو بتاتا ہے پھر وہ نچلے فرشتوں کو بتاتا ہے ، پھر وہ اس سے نچلے فرشتوں کو بتاتے ہیں یہاں تک کہ وہ زمین تک پہنچ جاتی ہے گویا خدا جب کوئی بات دنیا میں پھیلانا چاہتا ہے تو پہلے وہ ملا اعلیٰ کو بتاتا ہے.اسی طرح زمین سے آسمان پر جب کوئی بات جاتی ہے تو پہلے وہ ملا اعلیٰ میں جاتی ہے اور پھر وہ خدا کے سامنے پیش ہو کر آخری فیصلہ ہوتا ہے.خدا تعالیٰ کا انتخاب ہمیشہ اسی نکتہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ یہ جو لوگ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ یونہی اندھا دھند نبی قابلیت کی بناء پر ہوتا ہے بنادیتا ہے یہ بات غلط ہے.بعض لوگ کہتے ہی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نعوذ باللہ خدا عاشق ہو گیا تھا.پنجابی شعر پڑھو تو ان میں یہی مضمون ہوتا ہے کہ ” او کملی والیا تیرے تے رب عاشق ہو گیا.حالانکہ قرآن یہ بتاتا ہے کہ دنیا میں جب خرابی پیدا ہوتی ہے تو فرشتے انسانی روحوں کے ساتھ چھونا شروع کرتے ہیں اور چُھو کر محسوس کرتے ہیں کہ کس روح میں کیا قابلیت ہے؟ پھر وہ مختلف اثرات لے کر ریکارڈ روم میں جمع ہوتے ہیں اور اس میں ان کی توجہ ایک روح کی طرف مرکوز ہوتی چلی جاتی ہے اور آخر تمام روحوں میں سے جو مکمل روح انہیں نظر آتی ہے اُس کے پچھنے جانے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور ایک وجود پر ان کا اتحاد ہو جاتا ہے کہ یہ روح ہے جس سے ہماری روحیں ملتی جلتی ہیں.جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو

Page 550

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۴ سیر روحانی (۶) اللہ تعالیٰ اُس شخص کو خدمت کے لئے مقرر کر دیتا ہے.اللہ تعالیٰ تو عالم الغیب ہے اسے ضرورت نہیں کہ وہ ایسا کرے لیکن چونکہ اُس نے فرشتوں سے خدمت لینی ہوتی ہے اس لئے ان کے اندر بشاشت پیدا کرنے اور محبت پیدا کرنے اور ہمدردی پیدا کرنے کے لئے اُس نے یہ طریق رکھا ہے کہ وہ پہلے فرشتوں کوغور کرنے کا موقع دیتا ہے تا کہ وہ جھیں کہ ان کا بھی انتخاب میں حصہ ہے اس کے بعد حکم نازل ہوتا ہے اور وہ چونکہ ان کے منشاء کے ماتحت ہوتا ہے اس لئے ان کی تسلی ہو جاتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقُبُولُ فِي الْأَرْضِ ! پھر ایسے انسان کی قبولیت دنیا میں پھیلا دی جاتی ہے اور لوگ اس کو ماننے لگ جاتے ہیں.اس سے پتہ لگ گیا کہ درحقیقت وہ قابلیت کی بناء پر ہی نبی ہوتا ہے اگر قابلیت کی بناء پر نہ ہوتا تو ملا اعلیٰ کے دنیا سے معلومات حاصل کرنے کے کیا معنے ؟ پھر تو خدا آسمان پر بیٹھا ہو ا کہہ دیتا فلاں نبی بن جائے اور وہ بن جاتا.بہر حال ان آیات سے ظاہر ہے کہ یہ واقعہ پیدائشِ انسانی کے بعد کا تھا اور سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کے بعد کا تھا کیونکہ اس آیت میں فرشتوں کا جو سوال تھا اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا.جہاں آدم اول کی پیدائش کا ذکر ہے وہاں اس سوال کا بھی ذکر ہے کہ آپ کیوں پیدا کرنا چاہتے ہیں مگر یہاں یہ وہ سوال نہیں کرتے کیونکہ وہ سوال ایک دفعہ ہو چکا اور حل ہو چکا اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر کوئی وجہ نہیں تھی کہ پھر دوبارہ وہی سوال کیا جاتا کیونکہ ملائکہ کا رُجحان خود وجود محمدی کی طرف آپ کی بعثت سے پہلے ہو چکا تھا.اب خدا نے بتا دیا کہ ہم اس شخص کو نبی بنانے لگے ہیں جب ہم نبی بنا ئیں اور یہ اُس عمر کو پہنچ جائے کہ خدا کی وحی اس پر نازل ہونے لگے تو فوراً اس کے کام میں مدد دینے کے لئے کھڑے ہو جانا اور وہ کہتے ہیں آمَنَّا وَصَدَّقْنَا.یہاں یہ سوال رہ جاتا ہے کہ فرشتوں کے ملائکہ کا شیطانی عنصر سے اختصام متعلق يَخْتَصِمُونَ کا لفظ کیوں آتا ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ وہ کیا جھگڑا کرتے تھے ؟ صوفیاء نے اس پر بحث کی ہے کہ اختصام کیا

Page 551

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۵ سیر روحانی (۶) تھا مگر وہ اس مضمون کو اس طرح بیان نہیں کرتے جس طرح میں نے بیان کیا ہے ورنہ شاہ ولی اللہ صاحب نے بھی اس مضمون کو لیا ہے اور پُرانے صوفیاء نے بھی.وہ کہتے ہیں کہ فرشتوں میں یہ سوال اُٹھتا ہے تو وہ یہ بخشیں کرتے ہیں کہ کون مستحق ہے اور کون نہیں ؟ مگر میرے نزدیک یہ غلط ہے جھگڑا تب ہوتا جب اختلاف ہوتا یا ووٹنگ والا سسٹم ہوتا مگر جیسا کہ میں بتا چکا ہوں فرشتے تاثرات کو قبول کرتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ ان کی توجہ ایک روح پر مرکوز ہو جاتی ہے اور چونکہ الہی منشاء بھی وہی ہوتا ہے اس لئے الہی حکم صادر ہو جاتا ہے اور وہ دنیا میں نافذ ہو جاتا ہے مگر پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ يَخْتَصِمُونَ کا لفظ کیوں آیا ہے؟ سو یا درکھنا چاہئے کہ میرے نزدیک یہاں يَخْتَصِمُونَ کا ذکر اس رسول کے متعلق نہیں یعنی یہ نہیں کہ فرشتے اس رسول کے متعلق جھگڑ رہے تھے کہ یہ رسول بنے یا وہ بنے بلکہ وہ اس شیطانی عنصر کے ساتھ جھگڑ رہے تھے جس نے اس رسول کی مخالفت کرنی تھی گویا فرشتوں نے جب وجود محمدی میں نورالہی دیکھنا شروع کیا تو فوراً شیطانی طاقتیں جو راستہ میں حائل ہونے کے لئے جمع ہو رہی تھیں ان سے انہوں نے جھگڑنا شروع کر دیا پس يَخْتَصِمُونَ کا لفظ رسالت کے متعلق نہیں بلکہ یہ اختصام شیطانوں کے متعلق ہے اور انہی کے ساتھ ان کا سارا جھگڑا ہے.پس يَخْتَصِمُونَ کے معنے یہ ہیں کہ جوں جوں انہیں پتہ لگتا چلا جاتا ہے کہ فلاں شخص اس عہدہ کے قابل ہے شیطانی طاقتیں جو مقابل میں کھڑی ہوتی ہیں ان سے لڑائی شروع کر دیتی ہیں یہاں تک کہ خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت آخری جنگ میں شیطانی طاقتیں شکست کھا جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی حکومت د نیا میں قائم ہو جاتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب ہم اس دربارِ خاص کا ذکر کرتے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے کا الہی دربار میں شاندار اعزاز لئے منعقد ہوا اور جس میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے انتہائی قُرب کے مقام کو ظاہر کیا اور بتایا کہ آپ کو دوسرے درباریوں پر کیا

Page 552

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۶ سیر روحانی (۶) فضیلت حاصل ہے.پہلے اُس دربار کا ذکر کیا گیا تھا جس میں آپ کا انتخاب عمل میں لایا جائے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ ہم آپ کو اس منصب پر مقرر کر رہے ہیں اب اسی دربار کے دوسرے حصہ میں یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا کتنا بڑا اعزاز کیا گیا.محبت اور اتحاد کا کمال اللہ تعالیٰ سورہ نجم میں فرماتا ہے وَهُوَ با لا فُقِ الأغلى ثم دنا فَتَدَليلُ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی یعنی بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور پھر وہ درباری اس کے قریب ہو ا جس کے بعد بادشاہ اپنے عرش سے اتر کر اُس کے پاس آ گیا اور اتنا اُس کے قریب ہو گیا کہ یوں نظر آتا تھا جیسے دو قومیں آپس میں ملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں.گویا در بار لگا بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا اور اُس نے اپنے اس درباری کو بلایا جس کے لئے دربارِ خاص منعقد کیا گیا تھا اور حکم بھیجا کہ ہمارے دربار میں حاضر ہو جاؤ ہم تمہارا اعزاز کرنا چاہتے ہیں.یہاں تک تو باقی بادشاہوں سے بات ملتی ہے لیکن دنیا کے درباروں میں کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس کو کسی عہدے پر مقرر کیا جاتا ہے وہ کھسک جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اس کا اہل نہیں.لیکن اس دربار کے متعلق فرماتا ہے کہ خدائی حکم کے ملتے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے قریب ہو گئے اور دوسرے درباروں کے خلاف جن میں بادشاہ اپنی جگہ سے کھسکتا نہیں خدا تعالیٰ عرش عظیم سے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ گیا اور اتنا قریب ہوا کہ یوں نظر آتا تھا گویا دو قوسیں آپس میں ملا کر کھڑی کر دی گئی ہیں.دوسری جگہ عام انسانوں کے متعلق بھی خدا تعالیٰ کا یہ فعل موجود ہے چنانچہ فرماتا ہے لا تدركه الأَبْصَارُ وَهُوَيدْرِكُ الأَبْصَارُ ٣ ابصار خدا تک نہیں پہنچتیں کیونکہ وہ نا کام رہ جاتی ہیں مگر خدا خو دلوگوں کی آنکھوں تک پہنچ جاتا ہے.قَابَ قَوْسَيْن کا نظارہ غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا گیا اور آپ اس کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے مگر جب چلے تو اللہ تعالیٰ اپنی محبت کے جذبہ میں اپنی جگہ پر نہ ٹھہرا بلکہ آپ نیچے اتر

Page 553

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۷ سیر روحانی (۶) آیا.فکان قاب قوسین او ادنی اور اُس نے اُتر کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم تجھے اپنا گورنر بنانا چاہتے ہیں مگر ہماری گورنری ایسی نہیں ہوتی جیسی دنیا کی گورنریاں ہوتی ہیں ہم تجھے گورنر بھی بنانا چاہتے ہیں اور اپنا دوست بھی بنانا چاہتے ہیں.اب ہم دونوں کی قومیں ایک ہوگئی ہیں.اے محمد ! (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کچھ تیرے بھی دشمن ہوں گے اور کچھ میرے بھی دشمن ہونگے آخر ہر ایک کے دشمن ہوتے ہیں کچھ میرے بھی دشمن ہیں یعنی تو حید کے منکر اور کچھ تیرے بھی دشمن ہیں یعنی انسانیت اور اخلاق اور شرافت کے دشمن.تجھے بھی ضرورت ہے ان پر تیر چلانے کی اور مجھے بھی ضرورت ہے اپنے دشمنوں پر تیر چلانے کی.پس آ! ہم دوست بنتے ہیں اب ہم دونوں اپنی کمانیں جوڑ لیتے ہیں اور ان دونوں کمانوں کا ایک ہی وتر ہوگا یعنی وہ تار جو کمان میں ہوتی ہے ایک ہوگی اور پھر تیرا تیر بھی اور میرا تیر بھی اکٹھا ایک ہی طرف چلے گا ، یہ کتنی دوستی ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے اظہار فرمایا.پھر فرماتا ہے فكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ آدنی - مقام محمدیت کی بلندی آؤ عربی زبان میں یا کے معنے بھی دیتا ہے اور ترقی کے معنی بھی دیتا ہے گویا پہلے تو تیرا تیر بھی اور میرا تیر بھی ایک طرف چلتا تھا مگر پھر اس سے بھی ترقی ہوئی اور وہ ترقی یہ ہے کہ پہلے تو دو قوسیں تھیں اور دشمن بھی دو ہی تھے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن اور خدا کا دشمن.بیشک تیرا کٹھا چلتا تھا مگر دشمن دو تھے پھر وہ دونوں ایک ہو گئے یعنی قوسیں بھی ایک بن گئیں اور ہاتھ بھی ایک بن گیا تیر بھی ایک بن گیا اور دشمن بھی ایک بن گیا.اسی کی طرف دوسری جگہ قرآن کریم میں اس طرح اشارہ کیا گیا ہے کہ ما دمیت اذ رميت ولكن الله رفی = " یعنی اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اور تُو دونوں اس طرح اکٹھے ہو چکے ہیں کہ تو نے جو بدر کی جنگ میں پتھر پھینکے تھے وہ تو نے نہیں پھینکے بلکہ ہمارا ہاتھ تھا جو ان کو پھینک رہا تھا.گویا پہلا اتحاد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خدا کے درمیان یہ ہوا کہ دو قوسوں سے ایک تیر چلنا شروع ہوا اور پھر

Page 554

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۸ سیر روحانی (۶) آخری اتحاد قوسوں کا آپس میں مدغم ہو جانا اور پھر ہاتھوں کا بھی آپس میں مدغم ہو جانا تھا گو یا ہاتھ بھی ایک ہو گئے ، قوس بھی ایک ہو گئی ، دشمن بھی ایک ہو گیا اور تیر بھی ایک ہو گیا.یہ کیسا عجیب دربار ہے کہ ابھی کام شروع بھی نہیں کیا اور پہلے ہی عجیب دربار دوستانہ تعلق اور پیار ہو گیا کیوں؟ اس لئے کہ دُنیوی بادشاہ جب کسی کو جرنیل مقرر کرتے ہیں تو کہتے ہیں معلوم نہیں وہ شکست کھا کر آتا ہے یا فتح حاصل کر کے؟ پہلے پتہ تو کر لینے دو.مگر یہ دربار ایسا ہے جس میں بادشاہ کو پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ میرا جرنیل جیت کر آئے گا اس لئے اگر اسے پہلے سے ہی انعام دے دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں، بہر حال اسی نے جیتنا ہے.بادشاہوں کے خلاف پھر ہم دنیوی بادشاہوں کے دربار میں جا کر دیکھتے ہیں تو وہاں بعض دفعہ عجیب تماشہ نظر آتا ہے.بادشاہ بیٹھا درباریوں کی سرگوشیاں ہوا ہوتا ہے اور دُور کناروں پر لوگ آپس میں پھسر کر رہے ہوتے ہیں کہ فلاں جس کو بادشاہ نے منہ چڑھایا ہوا ہے بڑا خبیث آدمی ہے.دیکھنا کسی دن بادشاہ سے دھوکا کر کے رہے گا.یہ فلاں شہزادہ کا دشمن ہے، فلاں بیوی پر اس کو بدظنی ہے خبر نہیں کیا کرے گا غرض اِ دھر دربار لگا ہوا ہوتا ہے اور اُدھر سرگوشیاں ہو رہی ہوتی ہیں.اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دربار لگا ہو ا ہے بادشاہ آیا اور اُس نے کسی کو خلعت دیا جب اسے خلعت دے کر رخصت کیا تو کسی درباری نے کہا حضور ! اگر یہ طاقت پکڑ گیا تو آپ کے خلاف کھڑا ہو جائے گا اور آپ کو نقصان پہنچائے گا.بادشاہ جواب دیتا ہے میں خوب جانتا ہوں لیکن موقع دیکھ رہا ہوں موقع پر گردن پکڑ لونگا.آسمانی دربار کی ایک سیر ہم اس آسانی در بار کو بھی جاکر دیکھتے ہیں کہ کیا یہاں بھی وہی کچھ ہے کہ ادھر گورنری دی جا رہی ہے اور اُدھر سازشیں اور شکایتیں ہو رہی ہیں اور گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں؟ سو قرآن کریم کی اجازت سے میں تم کو اس دربارِ خاص میں لے جاتا ہوں ورنہ اس دربار

Page 555

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۲۹ سیر روحانی (۶) میں ہر ایک کو جانے کی اجازت نہیں.ہم اس دربار میں جاتے ہیں ، دروازہ کھولتے ہیں اور اندر سر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ کیا باتیں ہو رہی ہیں؟ کیا گورنروں کے خلاف باتیں ہو رہی ہیں، ان پر جرح وقدح ہو رہی ہے یا ان کے نقائص بیان کئے جارہے ہیں یا تعریفیں ہو رہی ہیں؟ ہم جب اندر سر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے تو ہمارے سر ڈالتے ہی ہمارے کان میں ایک آواز آتی ہے کہ آ جاؤ بے شک آؤ کوئی حرج نہیں ہم جو کام کر رہے ہیں وہ تم کو بھی بتاتے ہیں تم بھی وہی کام کرو.اِنَّ اللهَ وَمَلَيْكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ، يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ۱۵ اس دربار میں بجائے گورنر کی شکائتیں ہونے کے، بجائے اس پر الزام قائم کرنے کے بجائے ، اس کے متعلق شبہات پیدا کرنے کے ہم جو دیکھتے ہیں تو بادشاہ بھی اُس پر برکات نازل کرنے میں لگا ہوا ہے اور درباری بھی اس کے لئے دعائیں کر رہے ہیں اور ہم جو چوری چھپے دیکھنے جاتے ہیں تو ہمیں کہا جاتا ہے کہ تم بھی درود پڑھوا اور سلام بھیجو.اخلاص اور محبت کے نظارے کیا اخلاص اور کیسی کچی محبت اور کیسے بچے تعلق کا دربار ہے کہ جس پر ہر شخص اعتبار کر سکتا ہے اور کہہ سکتا ہے کہ یہاں نہ میرے ساتھ غداری کی جائے گی ، نہ میرے دوستوں کے ساتھ غداری کی جائے گی ، نہ میرے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی جائے گی، اس دربار میں خالص سکہ ہے اور صرف اللہ تعالیٰ کی محبت کام کر رہی ہے.دوسرا حصہ درباریوں کی برطرفی کا ہوتا ہے وہ میں بتا چکا ہوں کہ برطرفی اِس دربار میں ہوتی ہی نہیں.درباری ختم بھی ہو گیا مر گیا نوع کسی زمانہ میں پیدا ہوا اور ختم ہو گیا ، اس کی نسل کا بھی پتہ نہیں ، اس کی حکومت کوئی نہیں ، مذہب کوئی نہیں، تعلیم کوئی نہیں لیکن مجال ہے جو نوح کو کوئی گالی دے سکے ، جھٹ خدا کے فرشتے اُس کی گردن پکڑ لیتے ہیں کہ خدا کے گورنر کو گالی دی جا رہی ہے !! دربارِ خاص کی دوسری غرض دوسری غرض در بار خاص کی یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے وزراء اور امراء کو خاص امور کے بارہ میں

Page 556

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۰ سیر روحانی (۶) مشورہ دے اور بتائے کہ انہوں نے اِن اِن ہدایتوں کے ماتحت کام کرنا ہے تا کہ وہ اپنے فرائض کو صحیح طور پر ادا کر سکیں.چنانچہ اب اس دربار کا ذکر کیا جاتا ہے جس میں عہدہ رسالت کی تفویض کے احکام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے گئے اور بتایا گیا کہ آپ نے دنیا میں کیا کرنا ہے اور کس طرح اپنے فرائض کو سرانجام دینا ہے.دُنیوی بادشاہوں کے مشوروں کی حقیقت ہم دیکھتے ہیں کہ دنیوی درباروں میں اوّل تو بادشاہ خود مشورہ کا محتاج ہوتا ہے اور پھر جو وہ مشورے دیتا ہے بالعموم غلط بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات اُن مشوروں سے وزراء کو اتفاق نہیں ہوتا اور بعض دفعہ وہ اُن پر عمل ہی نہیں کر سکتے اور سب کام خراب ہو جاتا ہے مگر یہ ایسا دربار ہے جس کا بادشاہ کسی کے مشورہ کا محتاج نہیں.کامیابی کے متعلق تذبذب کی کیفیت پھر دنیوی دربارِ خاص میں بادشاہ ایک افسر کو بلاتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہم تمہاری وفاداری پر یقین کر کے تم کو فلاں عہد ہ پر مقرر کرتے ہیں امید ہے تم ہمارے اعتبار کے اہل ثابت ہو گے تم فلاں فلاں کام دیانتداری سے کرو اور اگر تم اس میں کامیاب ہو جاؤ گے تو ہم تم سے بہت خوش ہونگے.میں پہلے بتا چکا ہوں کہ وہ خوشی کتنی حقیر ہوتی ہے مگر بہر حال یہی سہی لیکن ان کلمات میں بھی کتنی کمزوری پائی جاتی ہے.اوّل بادشاہ کہتا ہے ہم تم کو چُنتے ہیں اور ہم امید کرتے ہیں کہ تم کامیاب ہو گے گویا با دشاہ اُس کو ایک تخمین (یعنی اندازہ) سے چُنتا ہے اور پھر اس شک میں رہتا ہے کہ معلوم نہیں وہ کامیاب بھی ہوگا یا نہیں.لیکن اس الہی دربار میں کوئی شک نہیں ہر شخص کو یقین کے ساتھ چنا جاتا ہے اور یقین کیا جاتا ہے کہ وہ کامیاب ہوگا اور یقین کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ وہ کیوں کا میاب نہیں ہو گا جب کہ ہم اس کے ساتھ ہیں.بڑے بڑے جرنیلوں کی ناکامی دنیا میں بسا اوقات بڑے بڑے جرنیل بڑے سکتے ثابت ہوتے ہیں چنا نچہ دیکھ لو

Page 557

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۱ سیر روحانی (۶) پچھلی جنگ عظیم میں کس طرح جرنیل بدلے گئے.پہلی جنگ عظیم میں تین جرنیل یکے بعد دیگرے بدلے گئے تھے دوسری جنگ عظیم میں بھی ایسا ہی ہوا.ابھی تازہ واقعہ دیکھ لو میکارتھر نے کوریا کی جنگ میں کتنا بڑا شہر ہ حاصل کیا تھا لیکن ٹرومین سے اس کا اختلاف ہو گیا اور لوگوں نے اس کے کان بھرنے شروع کر دیئے کہ اگلی پریذیڈنٹی کے لئے یہ کھڑا ہونا چاہتا ہے اور آپ کا مد مقابل بننا چاہتا ہے چنانچہ جھٹ فساد کی تاریں چھوٹنی شروع ہوئیں اور اُسے نکال کر باہر پھینک دیا اب اُسے کوئی پوچھتا بھی نہیں.دوسرے دنیا میں جب کسی جرنیل پر بھروسہ کیا جاتا ہے تو وہ بھروسہ خیالی اور شکی ہوتا ہے جو آگے چل کر غلط ہو جاتا ہے اور بعض جگہ وہ شکست کھا جاتا ہے یا بعض جگہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اتنا نتیجہ نہیں نکلتا جتنے نتیجہ کی امید کی جاتی ہے.اور بعض دفعہ وہ کامیاب ہو جاتا ہے تو خود بادشاہ کے خلاف لڑنا شروع کر دیتا ہے.دوسری قوموں کو جانے دو مسٹر چرچل کو ہی دیکھ لو.اس نے گزشتہ جنگ میں کتنی بڑی قربانی کی مگر چند مہینوں کے اندراندر اس کے ملک نے اسے ایسی خطر ناک شکست دی کہ پارلیمنٹ میں اس کی اور اس کے ساتھیوں کی پارٹی نہایت ہی قلیل رہ گئی.پھر ہندوستان میں گاندھی جی نے کہا کہ مجھے اندر سے آواز آتی ہے اور لگے نبیوں کے سے دعوے کرنے آخر انہی کے ایک چیلے نے اُٹھ کر انہیں پستول مار دیا.قرآنی دربارِ خاص میں لیکن اب قرآنی دربار کی سُن لو یہاں ایک بڑے بھاری جرنیل کا تقرر ہوتا ہے اسے دربارِ خاص گورنر جنرل کی ہدایات میں بلایا جاتا ہے اور اعلان پڑھا جاتا ہے کہ ہم نے آپ کو مقرر کیا اب ہم آپ کو ہدائتیں دیتے ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے کس طرح کرنا ہے اور کس کس طریق سے اس کام کو سرانجام دینا ہے.چنانچہ فرماتا ہے يَايُّهَا الْمُدَّيَّرُ قُمْ فَانْذِرُ وَرَبِّكَ فَكَبَرْقُ وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْن وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْن وَلا تَمْنُنْ تَسْتَغير ويريك فاضيرة ١٦

Page 558

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۲ سیر روحانی (۶) میلاد النبی کے وعظ یہ آیات تو قرآن کریم میں تیرہ سو سال سے موجود ہیں اور علماء نے ان آیات کی تفسیر میں بھی لکھی ہیں لیکن آجکل کل کے مولویوں کے وعظ خصوصاً میلادالنبی ” کے تم نے سنے ہی ہوں گے، جب وہ ان آیات کی تفسیر شروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں.ه او او کملی والیا! اے زُلفاں والیا ! اے کملی والیا! ایک ہندو وکیل سے گفتگو میں ایک دفعہ فیروز پور گیا وہاں ایک ہندو وکیل جو اچھا ہوشیار اور آریہ سماج کا سیکرٹری تھا مجھ سے ملنے کے لئے آیا اور کہنے لگا آپ کہتے ہیں ہندو مسلمان لڑتے رہتے ہیں مگر کیا آپ نے کبھی بتایا بھی کہ اسلام کیا چیز ہے؟ میں نے کہا تمہیں کیا بتائیں؟ کہنے لگے، میلادالنبی کا جلسہ ہوتا ہے تو ہم بھی جاتے ہیں کہ وہاں چل کر پتہ لگائیں گے کہ اسلام کیا ہوتا ہے مگر وہاں ہمیں یہ سنایا جاتا ہے کہ اے کملی والیا ! اے زُلفاں والیا! کہنے لگا ہم زُلفیں دیکھنا نہیں چاہتے ہم کملی دیکھنا نہیں چاہتے ہم تو تعلیم سٹنا چاہتے ہیں مگر بجائے یہ بتانے کے کہ رسول اللہ کی تعلیم کیا تھی ، آپ کے کیا کام تھے اور آپ کی کیا خدمات تھیں ہمیں بتایا یہ جاتا ہے کہ آپ کی زُلفیں ایسی تھیں اور آپ کی عملی ایسی تھی ہم عشق مجازی تو نہیں کرنا چاہتے کہ ہمیں یہ باتیں بتائی جاتی ہیں.شرمندگی تو بہت ہوئی مگر خیر میں نے کہا لوگ غلطی کرتے ہیں ہمارا نقطہ نگاہ بھی آپ کبھی سُن لیں.کہنے لگا میں نے آپ کی ایک تقریر سنی ہے اور اس سے میں سمجھتا ہوں کہ آپ کا طرز اور ہے مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے اس کے بعد یہ خواہش کرنا کہ ہم مسلمان ہو جائیں اور ہم سے اس کی امید رکھنا کس طرح درست ہو سکتا ہے کیا کملی دیکھ کر کوئی مسلمان ہو سکتا ہے یا زُلفیں دیکھ کر کوئی مسلمان ہوسکتا ہے؟ دربار خاص کا نقشہ دوسرے پس غیر احمدی بھی اس دربار کا نقشہ کھینچتے ہیں لیکن ان کا نقشہ میں پہلے سُنا دیتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کے نقطہ نگاہ سے ہوتا ہے.وہ کہتے ہیں دربارِ خاص لگا ہوا ہے،

Page 559

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۳ سیر روحانی (۶) با دشاہ خلق وکون کی آمد آمد ہے، چھوٹے چھوٹے درباروں کے اہلکار تو ایسے موقع پر ہمہ تن مصروف عمل ہوتے ہیں ، بھاگ دوڑ ہو رہی ہوتی ہے، افسر قرینہ سے کھڑے ہوتے ہیں اور منتظر ہوتے ہیں کہ بادشاہ آئے تو فوراً اس کا استقبال کریں اور اس کا اعزاز کریں ا اور اس کی تعریف کریں.لیکن ہمارے بادشاہ کے دربار کا یہ حال بتایا جاتا ہے کہ بادشاہ سلامت تشریف لاتے ہیں، تمام دربار میں خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور جس کی خاطر در بارِ خاص لگایا گیا تھا وہ ایک کمبل اوڑھ کر ایک گوشے میں سویا پڑا ہے اب بادشاہ اس میں کے پاس پہنچتا ہے، اُس نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں، گھٹے گھٹنے تک اس کے جسم پر میل چڑھی ہوئی ہے، بادشاہ سلامت آ کر اُسے جگاتے ہیں کہ اُٹھ میاں ! یہ سونے کا وقت ہے.تجھے کام پر بھیجنا تھا تیری خاطر در بار خاص لگایا تھا اور تو کمبل لے کر سو رہا ہے ، اُٹھ ! اُٹھ کے کمبل اُتار، کپڑے دھو، غنسل کر ، شرک چھوڑ دے، سُودخوری نہ کر اور مصیبتیں برداشت کر.یہ دربار ہے جس کا نقشہ ہمارے سامنے کھینچا جاتا ہے.بھلا جو معمولی معمولی ریاستیں ہیں مثلاً شملہ کی ریاستیں جو پانچ پانچ سات سات ہزار آبادی کی ہیں کیا تم نے کبھی وہاں بھی ایسا در بار دیکھا کہ راجہ نے کسی کو بلا یا ہوا اور جس کے اعزاز میں دربارمنعقد کیا گیا ہو اُس کی یہ حالت ہو کہ وہ کمبل میں سو رہا ہے اور اتنی میل چڑھی ہوئی ہے کہ حد نہیں.کپڑوں سے بدبو آ رہی ہے ، پاجامے سے بدبو آ رہی ہے ، راجہ آ کر جگاتا ہے اور جگانے کے بعد کچھ ملامت کرتا ہے اور ملامت کر کے کہتا ہے تیرے سپر دفلاں کام کیا جاتا ہے مگر ایسے گند میں باہر جانا بھی ٹھیک نہیں پہلے کپڑے دھو لے ،غسل کرلے اور پھر جا کر یہ کام کر.یہ دربار ہے جو غیر احمدی پیش کرتے ہیں.حقیقی دربار کی جھلک اب میں وہ دربار پیش کرتا ہوں جو حقیقتا قرآن کا در بار ہے اور جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم سے ہمیں سمجھایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.يَآتِهَا المُدَيَّدُ دِثار کے ایک معنی عربی زبان میں اُس کپڑے کے ہوتے ہیں جو سوتے وقت او پر لیا جاتا ہے کا مثلاً کمبل ، لوئی یا لحاف وغیرہ اور لوگوں نے یہاں یہی معنے مراد لئے ہیں.مگر جب مدثر کہا جائے گا تو لغت کے لحاظ سے اس کے یہ

Page 560

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۴ سیر روحانی (۶) معنی ہونگے کہ وہ کمبل یا لوئی اوڑھ کر بھی سورہا ہے.کئی لوگ لوئیاں لے کر تو یہاں بھی بیٹھے ہیں مگر وہ جاگ رہے ہیں.مدثر تب کہا جائیگا جب کوئی لوئی لے کر سو رہا ہو.لیکن آجکل کے مولوی کی یہ حالت ہے کہ ادھر تو ہمیں کفر کا فتویٰ دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور اُدھر قرآن میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کوئی لفظ استعمال ہو تو یہ ہمیشہ اس کے بُرے معنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق لیتا ہے اور عیسی کی نسبت وہی لفظ آ جائے تو خیر.معلوم نہیں عیسی اس کا کیا لگتا ہے کہ وہ ہمیشہ اس کے اچھے معنے کرتا مد قمر کے معنی ہے اور پھر بھی وہ مولوی کہلا تا ہے.یہ درست ہے کہ مدثر کے ایک معنی کمبل اوڑھ کر سونے والے کے بھی ہیں مگر مدقر کے ایک اور معنی بھی ہیں جو اچھے ہیں اور اس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ نہیں سو جھتے اور وہ معنے ہیں : کپڑے پہن کر تیار ہو جانے والا اور گھوڑے کے پاس کھڑا ہونے والا کہ حکم ملتے ہی فوراً چھلانگ مار کر اس پر ا سوار ہو جائے.11 یہ بھی لغت میں لکھے ہوئے ہیں.چنانچہ دینار کے متعلق لکھا ہے کہ اس کے معنے ہیں اَلشَّوبُ الَّذِى فَوقَ الشَّعَارِ ولا یعنی دیٹا ر اس کپڑے کو کہتے ہیں جو گرتا وغیرہ کے اوپر پہنا جائے.جب انسان نے باہر جانا ہوتا ہے تو وہ خالی گرتا نہیں پہنتا بلکہ کوٹ پہنتا ہے.یا فوج والے لڑنے کے لئے جاتے ہیں تو وردی پہن لیتے ہیں، پس اس کے معنے یہ ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وردی پہنی ہوئی ہے.ان مفسرین کو یہ تو نظر آتا ہے کہ مدقر کے معنے کمبل اوڑھ کر سونے والے کے ہیں مگر یہ نظر نہیں آتا کہ اس کے ایک یہ معنے بھی ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے انسان !.اسی طرح اس کے دوسرے معنے گھوڑے پر چھلانگ لگا کر چڑھنے والے کے ہیں ۲۰ گویا وہ اس بات کے انتظار میں کھڑا ہے کہ حکم ملے تو گھوڑے پر چھلانگ لگا کر سوار ہو جاؤں اور کام کے لئے دوڑ پڑوں.اب ان معنوں کو دیکھو اور کمبل اوڑھ کر سو رہنے والے معنوں کو دیکھو کیا اِن دونوں میں کوئی بھی نسبت ہے؟ کیا وہ دربار معلوم ہوتا ہے اور دربار بھی وہ جو

Page 561

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۵ سیر روحانی (۶) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تقرر کے لئے منعقد ہو ا.پیچھے مایوسی ہو جائے تو اور بات ہے لیکن یہاں تو ابتداء میں ہی نَعُوذُ بِاللہ گالیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ اوسونے والے! تیری کام کی طرف توجہ ہی نہیں، میل سے بھرا ہوا ہے اُٹھ ! اور تیار ہو اور اپنے کام کی طرف جا اور ہر قسم کے سستی اور شرک وغیرہ کو چھوڑ.قمْ فَانْذِرُ کی تشریح آگے آتا ہے تم فانذر اس کے معنے وہ یہ کرتے ہیں کہ کھڑا ہو جا اور انذار کر.حالانکہ جو کمبل لے کر سویا پڑا ہے اُس کے سپر دکوئی عظمند کام ہی کیوں کرے گا.وہ تو کہے گا کہ اگر وہ سو یا ہو ا ہے تو سویا ہی رہے تم نا نذر کے الفاظ تو بتا رہے ہیں کہ جس کے سپر د کام کیا جاتا ہے وہ اپنے اندر کوئی شان رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی عزم رکھتا ہے، وہ اپنے اندر کوئی پختہ ارادہ رکھتا ہے.وہ قسم کا لفظ لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کے معنے کھڑے ہو جانے کے ہیں حالانکہ جس طرح مدثر کے دو معنے ہیں اسی طرح عربی زبان میں قسم کے بھی دو معنے ہیں.قسم کے معنے کھڑے ہونے کے بھی ہیں اور قسم کے معنے کسی بات پر ہمیشہ کے لئے قائم ہو جانے کے بھی ہیں.انہوں نے پہلے لمبل کے معنے کئے پھر کہا اوسونے والے! کھڑا ہو جا.ہم نے یہ معنے کئے ہیں کہ اے وہ شخص جو عہدہ کے مطابق وردی پہنے تیار کھڑا ہے کہ حکم ملتے ہی گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے کام پر چلا جاؤں قسم ہمیشہ کے لئے اپنے کام پر لگ جا اور کبھی بھی اپنے کام میں سستی مت دکھا ئیو اور کبھی بھی اپنے کام سے غفلت مت کیجیؤ - فانذر اب ہمیشہ ہمیش کے لئے انذار کا مقام اور نبوت کا کام تیرے سپر د کر دیا گیا ہے اب کوئی پنشن نہیں ، کوئی چھٹی نہیں ، ساری عمر کے لئے یہ کام تیرے سپرد کر دیا گیا ہے.رَبَّكَ فَكَبّر کا تیسری آیت ہے وربِّكَ فَحَبر اور اپنے رب کی بڑائی کا دنیا میں ڈھنڈورا پیٹ.اب اس آیت کو ذرا پہلی آیت پہلی آیات سے تعلق سے ملاؤ کہ ارے سوئے ہوئے ! ارے کمبل اوڑھ کر لیٹے ہوئے ! ارے نیند کے ماتے اُٹھ ! ڈھنڈورا پیٹ.بھلا نیند والے نے کیا ڈھنڈورا پیٹنا

Page 562

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۶ سیر روحانی (۶) ہے محض بے جوڑ معنے ہیں جن کا پہلی آیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.لیکن میں نے جو معنے کئے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اے حکم ملتے ہی گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو کر دنیا میں دوڑ جانیوالے ! اب ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا کا پیغام پہنچانا تیرے سپرد کیا گیا ہے تو دنیا کو بتا کہ اگر مانو گے تو بچو گے نہیں مانو گے تو تباہ ہو جاؤ گے.ثِيَا بَكَ فَطَهِّرُ چوتی آیت ہے وَثِيَا بَكَ فَطَهِّرُ.مولوی اس کے یہ معنے کرتے ہیں کہ اپنے کپڑے پاک کر.وہ کہتے ہیں نماز کی مضحکہ خیز تفسیر جو پڑھنی تھی کپڑے پاک کرنا ضروری تھا گو یا صرف نماز کے لئے کپڑے صاف کئے جاتے ہیں.انگریزوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے، امریکنوں نے کبھی کپڑے پاک نہیں رکھے جب سے نماز شروع ہوئی ہے اُس وقت سے کپڑے پاک رکھے جانے شروع ہوئے ہیں.دوسرے الفاظ میں اس کے معنے یہ بنتے ہیں کہ ان کے نزدیک پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صفائی کی طرف کوئی رغبت نہیں تھی نماز کا حکم آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کپڑے صاف رکھو.پھر سوچو کہ ان آیات کا آپس میں جوڑ کیا ہوا ؟ پہلے معنے کئے اوسونے والے اُٹھ ! پھر کہا اُٹھ اور دنیا میں جا کر انذار کر.پھر ساتھ ہی کہہ دیا جا اور کپڑے دھو.اب وہ کپڑے دھوئے کہ انذار کرے.دونوں میں جوڑ کیا ہو !؟ اب یہ مولوی فیصلہ کر لیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا کرتے تھے ؟ کپڑے دھونے لگتے تھے یا باہر جا کر تبلیغ کرتے تھے ؟ غرض ایسی بے جوڑ باتیں کرتے ہیں اور اس قسم کی ہتک آمیز باتیں کرتے ہیں کہ در حقیقت اگر وہ غور کریں تو ان کو معلوم ہو کہ اسلام کے ساتھ ان باتوں کا کوئی تعلق ہی نہیں.ایسی ایسی غیر معقول باتیں کرتے ہیں کہ ہر بُری بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.بھلا کوئی سمجھائے کہ درثيابك فطر کا اس جگہ جوڑ کیا بنتا ہے.اگر پہلی آیت کے یہ معنے ہیں کہ اے کمبل لے کر سونے والے ! تو یہ اگلے معنے نہیں لگتے کہ اُٹھ اور دنیا میں شور مچا دے.کمبل لے کر سونے والے نے شور کیا مچانا ہے وہ تو پھر سو جائے گا.مگر تھوڑی دیر کے لئے یہ بھی مان لیا کہ اُسے ہلا یا، پانی کے چھینٹے دیئے اور

Page 563

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۷ سیر روحانی (۶) وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا مگر جب وہ تبلیغ کرنے کے لئے نکلا تو ہم نے کہا ٹھہر جا ٹھہر جا کپڑے دھولے تیرے کپڑے بہت میلے ہیں.لَا حَولَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ تبلیغ بھی رہ گئی.گویا محمد رسول اللہ علیہ وسلم جیسا پاکیزہ نفس انسان جن کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ایسا ہے کہ اگر اس پر خدائی نور نہ بھی گرتا تب بھی یہ روشن نظر آتا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کے بغیر بھی پاکیزہ تھے اس مقدس انسان کے متعلق یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جیسے کوئی پہاڑی گڈریا ہوتا ہے کہ مہینوں اُس کو کپڑے دھونے کی توفیق نہیں ملتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل بھی نَعُوذُ باللهِ ویسی ہی تھی.پہلے تبلیغ کا علم دیا پھر خیال آیا کہ بڑی شرمندگی ہو گی لوگوں کو خیال آئے گا کہ کیسے آدمی کو بھیج دیا اس لئے کہہ دیا کہ کپڑے دھو لے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے رشتہ داروں اب ہم بتاتے ہیں کہ اس کے کیا معنے ہیں.لیکن میں یہ اور دوستوں کو تبلیغ کرنے کا ارشاد بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ یہ خالص میرے معنے نہیں بلکہ بعض پہلے صوفیاء نے بھی اس حصہ کے یہ معنے لکھے ہیں پہلے نہیں لکھے لیکن یہ معنے لکھے ہیں تیاب عربی زبان میں لغةً تو کپڑوں اور دل کو کہتے ہیں.اسے لیکن محاورہ میں شیاب اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی کہتے ہیں کیونکہ ان کے ذریعہ سے انسان کی حفاظت ہوتی ہے، اس کے عیب چھپتے ہیں اور وہ اس کے گرد لپٹے ہوئے ہوتے ہیں جیسے کپڑا لپیٹتا ہے.پس استعارہ اور مجاز کے طور پر جیسے لوگ کہتے ہیں فلاں سکندر ہے ، حاتم ہے مجازاً اور استعارہ ثیاب کے معنے ، دوست ، رشتہ دار اور قریبی لوگوں کے ہوتے ہیں اور لغةً اس کے معنے کپڑے اور دل کے ہیں.دل کے معنے میں اس جگہ نہیں لگا تا لیکن میں کہتا ہوں کہ جو معنے بھی لگا و سیاق وسباق کو مدنظر رکھو.میرے نزدیک سیاق و سباق کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کے جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ! تو پہلے اپنے بیوی بچوں اور رشتہ داروں کو سمجھا، پھر اپنے قریبی دوستوں کو سمجھا ، پھر اپنی قوم والوں کو سمجھا اور ان کو دین اسلام کی تعلیم کی طرف لا.اب

Page 564

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۸ سیر روحانی (۶) دیکھو یہ معنے یہاں چسپاں ہو جاتے ہیں اور آیات کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ اے تقریر گورنری کی خبر سنتے ہی وردی پہن کر کھڑے ہونے والے! اور اس بات کی امید رکھنے والے کہ حکم ملتے ہی میں گھوڑے پر چڑھ جاؤں تیار ہو اور ہمیشہ کے لئے اس کام میں مشغول ہو جا جو ہم نے تیرے سپرد کیا ہے اور سب سے پہلے یہ انذار اپنے گھر سے ، اپنی بیوی سے اور اپنے رشتہ داروں اور بچوں سے شروع کر..اب دیکھ لو یہاں کپڑے دھونے اور انذار کرنے میں کوئی اختلاف نہیں کیونکہ یہ کپڑے دھونا انذار کی تشریح ہے اور ثيابك نطق سے انذار ختم نہیں ہوتا بلکہ جاری رہتا ہے صابن کے گھت گھت کرنے سے تو انذار ختم ہو جاتا ہے لیکن اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ کرنے سے انذار ہوتا ہے ختم نہیں ہوتا.پس یہ تضاد نہیں بلکہ عین وہی چیز ہے.قرآن کریم اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دينتابك لطيفة - تو اٹھ اور و ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ.جا کر اپنی قوم کو سمجھا اپنے کے عمل سے ثیاب کے معنوں کی تصدیق رشتہ داروں کو سمجھا، اپنے دوستوں اور عزیزوں کو سمجھا ، چنانچہ ہم قرآن کریم میں اس کی تصدیق دیکھتے ہیں مثلاً بیویوں کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے.هُن لباس لكم ۲۲ عورتیں تمہارا لباس ہیں.اب دیکھ لو ان کو ثِياب بتایا گیا ہے پھر اسی آیت میں طہر کا لفظ آتا ہے اور قرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے متعلق یہی لفظ استعمال کرتا ہے، فرماتا ہے اِنَّمَا يُرِيدُ اللهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ البَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا ٢٣ ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتدائے نبوت سے کہہ دیا تھا کہ جا اور اپنے خاندان کو پاک کر.اب ہم تجھ کو کہتے ہیں کہ وہ جو ہم نے حکم دیا تھا اس کا ہم بھی پکا ارادہ کر چکے ہیں اور تیرے اہل و عیال کو پاکیزگی کے اعلیٰ مقام پر پہنچا کر چھوڑیں گے.گویا وہ خبر اس جگہ آکر بیان ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ ہم نے کہا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تھا لیکن ہم اسے خود پورا کرینگے کیونکہ ہم نبی کو جو کچھ کہا کرتے ہیں اس کی

Page 565

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۳۹ سیر روحانی (۶) ذمہ داری ہم پر ہوتی ہے اسی طرح سورہ شعراء میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا گیا که وانذر عَشِيرَتَكَ الأقربين ۲۴ یعنی اے محمد رسول اللہ ! تو اپنے قبیلہ میں سے قریبی رشتہ داروں کو جا کر ہوشیار کر.پس ثیاب سے مراد اس جگہ وہی لوگ ہیں جو کپڑوں کی طرح ساتھ لیٹے ہوئے ہوتے ہیں اور سورۃ شعراء میں اسی لفظ کو دوسرے رنگ میں ادا کر کے اللہ تعالیٰ نے اس لفظ کے مجازاً ہونے کی تشریح کر دی اور بتا دیا کہ ہماری اس سے یہی مراد ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو انذار قرآن پہنچا دے.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات پر غور کرنے سے بھی انہی معنوں کی تصدیق ہوتی ہے چنانچہ بخاری کو نکال لو دوسری حدیثوں کو نکال لو ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلا الہام نازل ہو ا تو سب سے پہلے آپ اپنے گھر گئے اور حضرت خدیجہ کو خبر دی کیونکہ ثِيَابَكَ فَطَهِّرُ کا حکم تھا کہ پہلے اسلام کی تعلیم اپنی بیوی اور رشتہ داروں کو دو پھر حضرت علی کو بتایا.چنانچہ تاریخ صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سب سے پہلے آپ پر ایمان لانے والی اور سب سے پہلے طہارت کو قبول کرنے والی عورتوں میں سے حضرت خدیجہ تھیں.نابالغ جوانوں میں سے حضرت علی تھے اور بالغ جوانوں میں سے حضرت زیڈ تھے وہ بھی لوگوں میں آپ کے بیٹے کے طور پر مشہور تھے اسی طرح بڑی عمر کے لوگوں میں سے ابو بکڑ تھے جو آپ کے جانی اور جوانی کی عمر کے دوست تھے.گویا جس طرح ثِيَابَكَ فَطَهَرُ کہا گیا تھا عملاً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بالکل اُسی طرح کیا.لیکن کوئی حدیث نکال کر دکھا دو، ضعیف سے ضعیف نکال کر دکھا دو، منافقوں کی بیان کردہ حدیث نکال کر دکھا دو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس الہام کے بعد فوراً بازار گئے ہوں اور ریٹھے خرید نے شروع کر دیئے ہوں اور پھر کپڑوں کو ریٹھے اور صابن مل مل کر ٹوٹنے لگ گئے ہوں لیکن ہمارے پاس ثبوت موجود ہے، حدیث موجود ہے جو بتاتی ہے کہ آپ نے پہلے حضرت خدیجہ کو خدا تعالیٰ کی بات بتائی ، پھر زید کو بتائی ، پھر علی کو بتائی ، پھر ابوبکر کو بتائی غرض جس طرح آپ نے عمل کیا وہ حدیثوں میں موجود ہے.پس ہمیں دیکھنا چاہئے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریٹھے لے کر اور پھٹہ لے کر کپڑے گوٹنے

Page 566

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۰ سیر روحانی (۶) شروع کر دیئے تھے یا خدیجہ اور علی اور زیڈ اور ابو بکر کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے؟ اور اگر آپ اپنے قریبیوں کو مسلمان بنانے لگ گئے تھے تو یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وَثِيَابَكَ فَطَهَرُ کے یہی معنے ہیں کہ تو اپنے قریبی رشتہ داروں اور دوستوں کو قرآن کی تعلیم دے اور ان کو اسلام کی طرف لا.وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ كى نام تغیر کیڑوں کی گندگی تو خیر کچھ برداشت بھی ہو جاتی ہے آگے آتا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ اس کے مولوی یہ معنے کرتے ہیں کہ تو گندگی جسمانی کوڈ ورکر.گو یا کپڑے ہی غلیظ نہیں تھے بلکہ آپ خود بھی ( نَعُوذُ بِاللهِ ) میلے تھے اب یہ اور بھی لمبا کام ہو گیا.انذار بیچارہ تو انتظار ہی کرتا رہے گا پہلے کپڑے دھوئے جائیں گے ، حمام میں غسل کئے جائیں گے، میلیں اُتاری جائیں گی اور خبر نہیں کتنی دیر میں یہ کام پورا ہو ا نذار تو ختم ہو گیا لیکن ہم جو معنے کرتے ہیں اس کے لحاظ سے کوئی وقت ہی پیش نہیں آتی کیونکہ رجز کے ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں اور فَاهُجُرُ کے بھی ایک معنے نہیں بلکہ کئی ہیں ہمیں سارے معنوں کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ پچھلی آیتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے کونسے معنے ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے لحاظ سے تسلیم کئے جا سکتے ہیں.یہاں آپ کو گورنری پر مقرر کیا جا رہا ہے کوئی قیدی مجسٹریٹ کے سامنے پیش نہیں ہو رہا جس کو جھاڑ پلائی جا رہی ہو بلکہ اعلیٰ درجہ کے عہدہ اور خاتم النبیین کے منصب پر ایک شخص مقرر ہو رہا ہے اور بات اس طرح شروع کی جاتی ہے جس طرح کوئی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ مجرم کو جھاڑ رہا ہے.رجز اور ہجر کے متعدد معانی بیشک رجز کے معنے عربی زبان میں غلاظت اور میل کچیل کے بھی ہیں ۲۵ لیکن اس کے ایک معنے الْعَذَابُ کے ہیں ۲۶ اور ایک معنی عِبَادَةُ الْأَوْثَان یعنی جھوں کی پرستش کے ہیں.اسی طرح ھجر کے بھی کئی معنی ہیں ھجر کے ایک معنی ہیں چھوڑ دینا اور اعراض کرنا ، دوسرے معنی ہیں کسی چیز کو پوری طرح کاٹ دینا ۲۹؎ اور تیسرے معنی ہیں اونٹ کے پیر میں رسی باندھ کر وہی رہتی اس کی گردن سے باندھ دینا

Page 567

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۱ سیر روحانی (۶) تا کہ پھندا پڑ جائے اور وہ نکلنا بھی چاہے تو نکل نہ سکے اور اس کی حرکت زیادہ سے زیادہ محدود رہ جائے.سے پس وہ تو یہ معنی کرتے ہیں کہ اپنے جسم کی گندگی دور کر یعنی کپڑے بھی دھو اور جسم کی گندگی بھی دور کر ، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ان معنوں کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ایک شبہ کا ازالہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ قرآن کے متعلق یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ بعض دفعہ اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا ہے اور مراد اُمت ہوتی ہے.اس طرح ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچاؤ کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں کہ گندگی اور غلاظت دُور کرنے کا جو حکم دیا گیا ہے اس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد آپ کی اُمت ہے لیکن اس جگہ یہ معنے نہیں ہو سکتے اس لئے کہ یہ تو گورنر کے تقرر کا اعلان ہے جب اُس کی اُمت کو ئی تھی ہی نہیں ، جب اُمت تھی ہی نہیں اور آپ کو خاتم النبیین کے عہدہ پر قائم کیا جارہا تھا تو اُس وقت اِس کا کیا ذکر تھا کہ تیرے مرید کپڑے بھی دھوئیں اور جسم کی غلاظت بھی دُور کر میں اُس وقت بہر حال کلام مخصوص تھا محمد رسول اللہ سے.اُس وقت میں دوسرے لوگوں کی شرکت کا کوئی سوال نہیں تھا.پھر جیسا کہ میں نے بتایا ہے ان معنوں کا سیاق وسباق سے بھی کوئی جوڑ نہیں.پہلے کہا جاتا ہے ساری دنیا کو تبلیغ کر.پھر کہتا ہے ٹھہر جا پہلے کپڑے دھو لے.پھر کہتا ہے کپڑے بھی ابھی رہنے دے پہلے نہالے.غرض بالکل غیر متعلق باتیں ہیں اور کسی اعلیٰ درجہ کے کلام میں ان کی کوئی جگہ نہیں ہو سکتی.اب میں بتاتا ہوں کہ اس آیت کے اصل معنے کیا ہیں اور ہر معنی کے لحاظ سے اس آیت سے کتنے بڑے معارف نکلتے ہیں.میں نے بتایا کہ رجز کے تین معنے ہیں گندگی، عذاب اور شرک.اور ہجر کے معنے چھوڑنے کے بھی ہیں ، کاٹنے کے بھی ہیں اور گلے اور پیر میں رسہ باندھ کر حرکت کو محدود کرنے کے ہیں.ان معنوں کے لحاظ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے مطابق جو معنے بنتے ہیں وہ یہ ہیں.

Page 568

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۲ سیر روحانی (۶) دنیا میں غلاظت اور اول ، اے رسول ! گندگی کو مٹادے ، گندگی کو چھوڑ گندگی مٹادینے کا حکم منانے کے یہ معنے ہیں کہ لوگ گندے ہیں تو ان کی گندگی کو دور کر.اور ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے جب ہجر کے معنے کاٹ دینے کے بھی پائے جاتے ہیں ، جب ھجر کے معنے مٹا دینے کے بھی پائے جاتے ہیں، جب ھجر کے معنے تو ڑ دینے کے بھی پائے جاتے ہیں تو تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غلاظت میں کیوں پھنسانا چاہتے ہو.حقیقت تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنے عزیزوں اور دوستوں کے عیبوں پر پردہ ڈالتے ہیں، لوگ کہتے ہیں یہ ہما را دوست ہے یہ ہمارے عیبوں کو چھپاتا ہے مگر یہ مولوی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بنے پھرتے ہیں اور پھر جھوٹے عیب آپ کی طرف منسوب کرتے ہیں.جب ھجر کے معنے کاٹ دینے کے بھی ہیں تو وہ کیوں ایسے معنے نہیں لیتے جو محمد رسول اللہ کی شان کے مطابق ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ! تو گندگی کو کاٹ ڈال یعنی دنیا سے اس کا نام ونشان مٹا دے اور یہ بالکل ٹھیک ہے ساری دنیا گندی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحکم دیا گیا کہ اس گندگی کو مٹا دے اور تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کس طرح عمل کیا.جیسا کہ میں نے بتایا ہے تاریخ میں یہ کہیں ذکر نہیں آتا کہ آپ نے حضرت خدیجہ سے یہ کہا ہو کہ صابن لایا جائے اور آپ نے صابن مل مل کر میل اُتارنی شروع کر دی ہو اور پھر حدیثوں میں اس کی تفصیل آتی ہو مگر جو کچھ میں کہتا ہوں وہ کتب اسلام میں دے نہیں ! چھوڑ نے کے یہ معنے ہیں کہ گندہ ہے اور لفظاً لفظاً موجود ہے.رِجُز کے معنے ہوتے ہیں گندگی.لیکن گندگی سے مراد صرف میں نہیں بلکہ رجسز کے معنے ہیں اشیائے ماحول کی گندگی ، جسم کی گندگی ، دماغ کی گندگی ، دل کی گندگی ، خیالات کی گندگی ، زبان کی گندگی ، یہ ساری باتیں رجز کے اندر شامل ہیں اب یہ کتنا شاندار کام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر د کیا گیا ہے اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت یہ ثابت ہو جائے کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے تو آپ کی کتنی شان بلند ہو جاتی ہے،

Page 569

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۳ سیر روحانی (۶) کوئی نبی ہے ہی نہیں جس نے یہ کام کیا ہو، انجیل لاؤ، توریت لا کر صح انبیاء لا ؤ، آپ کے مقابلہ میں کوئی نبی ٹھہر ہی نہیں سکتا.اسلام سے پہلے گندگی کو اسلام سے پہلے دین کے یہ معنے سمجھے جاتے تھے کہ گندے رہو.عیسائی تاریخوں کو نکال کر دیکھ بزرگی کی علامت سمجھا جاتا تھا لومیں نے پڑھا ہے بعض پادری بڑے بزرگ سمجھے جاتے تھے اور ان کی بزرگی کی علامت یہ سمجھی جاتی تھی کہ چالیس سال سے انہوں نے غسل نہیں کیا اور ناخن اتنے بڑھے کہ کئی کئی انچ لمبے ناخن ہو گئے ، گویا ان کے ہاں بزرگوں کا نشان یہی سمجھا جاتا تھا.مسلمانوں نے بھی کچھ کمی نہیں کی ، انہوں نے ایک زیارت گاہ بنائی ہوئی ہے کہتے ہیں کہ ایک بزرگ وہاں بیٹھے تھے چالیس سال تک انہوں نے سر نہیں اُٹھایا اور دیوار میں بیٹھے بیٹھے گڑھا پڑ گیا گویا پیشاب اور پاخانہ بھی پاجامہ میں ہی کرتے رہے.اس میں عزت کیا ہے؟ آخر سوچنا چاہئے کہ جو شخص بیٹھا رہا اور ہلا نہیں اور وہیں اس کے جسم کا نشان پڑ گیا اس کے معنے یہ ہیں کہ اس نے نہ نماز پڑھی ، نہ روزہ رکھا ، نہ دین کا کوئی کام کیا، نہ کھانا کھایا ، نہ نہایا ، نہ پیشاب کیا، نہ پاخانہ کیا، مگر وہ تو ضروری ہے پھر یہی صورت ہو سکتی ہے کہ وہ پیشاب، پاخانہ پاجامہ میں ہی کر ڈالتے ہونگے اور ان کا نام انہوں نے زیارت گاہ رکھا ہوا ہے.ہندوؤں میں دیکھ لو ان میں بھی بزرگی کے یہی معنے سمجھے جاتے ہیں کہ فلاں شخص ایسا بزرگ ہے کہ کوئی اس کو پرواہ ہی نہیں.جب سے پیدا ہوا ہے نہایا نہیں.بدھ جی کے متعلق بتاتے ہیں کہ وہ اتنے بزرگ تھے کہ انہوں نے دیوار کے پاس بیٹھ کر عبادت کرنی شروع کی نیچے سے بانس کا درخت نکلا اور ان کے پیٹ میں سے ہوتے ہوئے سر میں سے پار نکل گیا مگر وہ ہلے ہی نہیں.غرض محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے وقت دنیا میں آئے جب کہ ساری دنیا غلاظت کا پوٹلا بنی ہوئی تھی جب کہ مذہب اور روحانیت کے معنے یہ سمجھے جاتے تھے کہ انسان غلیظ اور گندہ ہو.اس دنیا میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود پیدا ہوتا ہے اور

Page 570

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۴ سیر روحانی (۶) ایسے خلاف ماحول میں اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم ملتا ہے کہ اے محمد رسول اللہ ! یہ جو تجھے اردگرد نظر آتا ہے کہ گندگی کا نام مذہب اور غلاظت کا نام نیکی رکھا جا رہا ہے یہ سب جھوٹ ہے ان خیالات کو دنیا سے نیست و نابود کر دے.جسم کی صفائی کے متعلق رسول کریم چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جمعہ کو آؤ تو غسل کر کے آؤ ، صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات مسجد میں آؤ تو پیاز کھا کر یا لہسن کھا کر نہ آؤ تا کہ تمہارے منہ سے بدبو نہ آئے.عطر لگا کر آؤ.پھر انسان کے ساتھ شہوت گئی ہوئی ہے اسلام نے حکم دیا ہے کہ اس کے بعد غسل کیا جائے لوگ پوچھتے ہیں کہ غسل جنابت کا فائدہ کیا ہے؟ وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ غسل جنابت ہی ہے جو تمہیں پاکیزہ رکھتا ہے.اب تم مجبور ہو جاتے ہو کہ غسل کرو اور اگر غسل جنابت نہیں کرتے تو بے دین سمجھے جاتے ہو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آکر دنیا کی کایا پلٹ دی، مذہب کا نام غلاظت سمجھا جاتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذہب کا نام صفائی رکھ دیا.اسی طرح لباس کی صفائی کے متعلق آپ نے احکام دیئے کہ جمعہ کے دن نئے کپڑے یا ڈھلے ہوئے کپڑے پہن کر آؤ، عیدوں پر تمہارے کپڑے دُھلے ہوئے ہوں ، غرض جسمانی صفائی پر آپ نے اتنا زور دیا کہ دنیا میں روحانیت کا جو نقشہ تھا اُس کو بالکل بدل دیا.پہلے گندے اور غلیظ آدمی کے متعلق کہتے تھے کہ یہ نیک ہے اب صاف اور پاکیزہ آدمی کونیک کہتے ہیں کتنا بڑا تغیر ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت خلیفہ اول کا ایک واقعہ چونکہ سر میں چکر آنے کی مرض تھی آ با دام روغن اور مشک کا استعمال فرمایا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اول سناتے تھے کہ ایک دفعہ میں درس دے کر واپس آ رہا تھا کہ ایک ہندو جس کے مکانات میں بعد میں صدر انجمن احمدیہ کے دفتر بن گئے ( کیونکہ ہم نے وہ مکان خرید لیا تھا ) اور جو ریٹائر ڈ ڈپٹی تھا

Page 571

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۵ سیر روحانی (۶) اپنے صحن میں بیٹھا ہوا تھا مجھے دیکھتے ہی کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا حکیم صاحب ! ایک بات پوچھنی ہے آپ خفا تو نہیں ہونگے ؟ سنا ہے کہ مرزا صاحب پلاؤ اور بادام روغن کھا لیتے ہیں؟ میں نے کہا ٹھیک ہے کھا لیتے ہیں.حیران ہو کر کہنے لگا کیا یہ ٹھیک بات ہے؟ میں نے کہا ڈپٹی صاحب ! ہمارے مذہب میں پلاؤ اور بادام روغن جائز ہے.کہنے لگا کیا فقراء کے لئے بھی جائز ہے؟ میں نے کہا ہاں ہمارے مذہب میں فقراء کو بھی پاک چیزیں کھانے کا حکم ہے.اس پر وہ اچھا! کہہ کر واپس چلا گیا گویا جوطیب چیزیں کھائے وہ ان کی نگاہ میں بزرگ نہیں ہو سکتا تھا.یہ تو حضرت خلیفہ اول کا واقعہ ہے جو تہذیب سے بات کرتے تھے ہمارے ایک اور دوست تیز زبان تھے اور مذاقیہ طبیعت کے تھے امرتسر کے رہنے والے تھے ان کے جواب ہمیشہ اسی طرز کے ہوا کرتے تھے.ان کو کوئی ہند و مجسٹریٹ مل گیا اور کہنے لگا کیا ہے تمہارا مرزا تم کہتے ہو وہ خدا کا ماً مور ہے اور یہ ہے اور وہ ہے ہم نے سنا ہے کہ وہ بادام اور پستہ اور مُرغ سب چیزیں کھا لیتا ہے.وہ کہنے لگے آپ مرزا صاحب کو چڑانے کے لئے پاخانہ کھایا کریں مجھے اس پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے.غرض اس نے اپنے رنگ میں جیسے اس کا اپنا مذاق اور علم تھا جواب دیدیا تو بات یہ ہے کہ دنیا میں بزرگی کا نقشہ یہی کچھ رہ گیا تھا کہ انسان غلیظ اور گندہ ہو.اسی طرح مکان کی صفائی بھی کوئی مکان کی صفائی سے متعلق ارشادات ضروری نہیں کبھی جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکان کی صفائی کا بھی حکم دیا اسکے چنانچہ آپ نے مسجد کی صفائی کے متعلق کئی احکام دیئے (اصل مکان جو آپ کے قبضہ میں تھا وہ وہی تھا ) آپ نے فرما یا مسجد کو صاف رکھو، اس میں جھاڑو دیا کرو، اس میں خوشبوئیں جلا یا کرو تا کہ وہ صاف رہے.۳۲ راستوں کی صفائی کا حکم اسی طرح راستوں کی صفائی کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا آپ نے فرمایا اس شخص کو ثواب ملتا ہے جو راستہ میں سے پتھر وغیرہ اُٹھا دے.۳۳ پاخانہ کے متعلق فرمایا کہ جو شخص

Page 572

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۶ سیر روحانی (۶) راستہ میں پاخانہ پھرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے، ۳۴ے جو شخص کھڑے پانی میں پیشاب کرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی لعنت ہے.جو شخص راستہ سے پتھر یا کانٹوں کو ہٹا دیتا ہے یا گندی چیزوں کو ہٹا دیتا ہے اسے ثواب ملتا ہے.اگر کوئی مسجد میں تھوک بیٹھے تو فرمایا وہ اسے وہاں سے اُٹھا کر مٹی میں دفن کر دے.۳۵ غرض اتنے احکام ہیں صفائی کے کہ اس تہذیب یافتہ زمانہ میں بھی ہمارا ملک کم سے کم ان پر عمل نہیں کر رہا.یہ طہارت اور نظافت کے احکام ہیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا میں قائم ہوئے.افکار کی صفائی کے متعلق ہدایات پھر آپ نے کہا کہ افکار کی صفائی بھی ضروری ہے گویا آپ نے ہر ایک چیز کی صفائی کا حکم دیا ہے صرف جسم کو مل مل کر دھونے کا حکم نہیں مثلا فکر ہے اس کی صفائی کا بھی آپ نے حکم دیا فرمایا بدظنی نہیں کرنی ، ۳۶ بغض اور کینہ دل میں نہیں رکھنا سے گویا دماغ اور خیالات کی پاکیزگی بھی آپ نے قائم کی اور حکم دیا کہ کسی قسم کے بدخیالات اور بدارا دے تم نے نہیں رکھنے.قلب کی صفائی کا حکم پھر قلب کی صفائی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے محبت خالص پر زور دیا.۳۸ کا حکم دیا، نفاق سے روکا، سچے تعلقات اور وفاداری زبان کی صفائی کا حکم پھر زبان کی صفائی کا حکم دیا فرمایا گالی گلوچ نہیں کرنی ، پیش آنا ہے.۳۹ سخت الفاظ نہیں بولنے، دوسرے سے محبت کے ساتھ مُنہ کی صفائی کا حکم پھر منہ کی صفائی ہے مُنہ کی صفائی کے لئے مسواک کا حکم دیا بلکہ یہاں تک فرمایا کہ فرشتے نے منہ کی صفائی کے متعلق اتنا زور دیا کہ میں نے سمجھا شاید فرض ہو جائے.پھر فرمایا میں ہر نماز کے لئے مسواک اس لئے ضروری قرار نہیں دیتا کہ کہیں میرے حکم کے بعد خدا اس کو فرض قرار نہ دیدے.۴۰

Page 573

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۷ سیر روحانی (۶) عظیم الشان تغیر یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو محد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ہوا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دنیا دیکھو، پہلی تاریخیں پڑھو ، ہندوؤں کی تاریخیں پڑھو، عیسائیوں کی تاریخیں پڑھو، یہودیوں کی پڑھو وہ غلاظت کا ٹوکرا معلوم ہوتی ہیں.اس کے مقابلہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کو دیکھو یہاں بڑا بزرگ تو الگ رہا جو چھوٹے سے چھوٹا بزرگ تھا وہ بھی پاکیزہ اور صاف ستھرا اور نہایا دھویا ہو انظر آتا ہے.گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا اب ان معنوں کے لحاظ سے وَثِيَابَكَ فَطَهِّرُ وَالرُّجْزَ ا فَاهُجُرُ کے یہ معنے بنتے ہیں کہ اے ہمارے گورنر ! جو یہ پتہ لگتے ہی کہ ہم اس کو ایک اہم کام سپرد کرنے لگے ہیں وردی پہن کر گھوڑے کے پاس تیار کھڑا ہو گیا ہے کہ چھلانگ لگا کر سوار ہو جاؤں دائمی طور پر اپنے کام میں لگ جا اور دنیا کو ہوشیار کر اور پہلے اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کی اصلاح کر ، پھر باقی دنیا کی اصلاح کا فرض سرانجام دے اور ہر قسم کی صفائی دنیا میں قائم کر اور لوگوں کو بتا کہ گندگی اور غلاظت کے ساتھ خدا نہیں ملتا بلکہ انسان کا ذہن گند ہو جاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو جاتا ہے.جز کے دوسرے معنوں اب ہم اس آیت کو دوسرے معنوں کے لحاظ و و سے لیتے ہیں.دوسرے معنے رجز کے عذاب کے لحاظ سے آیت کی تشریح کے تھے اس کے لحاظ سے آیت کے یہ معنے بن جائیں گے کہ تو عذاب کو دنیا سے مٹا دے.ان معنوں کے رو سے مندرجہ ذیل مطالب اس آیت کے نکلتے ہیں.تعذیب نفس کی ممانعت اول اسلام سے پہلے مختلف ادیان میں تعذیب نفس کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا مثلاً کہتے تھے کہ بیٹے کی قربانی خدا کے قریب کر دیتی ہے.یہ سمجھا جاتا تھا کہ شادی نہ کرنا، رہبانیت اختیار کرنا اور اپنے نفس کا بیکار کر دینا یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی چیز ہے.ہتھیار کے ساتھ اپنے

Page 574

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۸ سیر روحانی (۶) آپ کو ہیجڑا بنا لینا یہ بڑی نیکی ہے.اپنے آپ کو الٹا لٹکائے رکھنا یعنی سر نیچے اور ٹانگیں او پر کر لینا، یہ بڑی نیکی ہے.ٹھنڈے موسم میں دریا میں بیٹھے رہنا یہ بڑی نیکی ہے، گرمی کے موسم میں دھوپ میں بیٹھ رہنا یہ بڑی نیکی ہے ، جسم پر کوڑے لگانا یہ بڑی نیکی ہے.اچھی اور پاکیزہ چیزیں نہ کھانا یہ بڑی نیکی ہے.پس فرماتا ہے ہم نے ان تمام باتوں کی تیرے ذریعہ سے اصلاح کر دی ہے اور ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ وہ تمام احکام جن کو دین کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا، جن کو روحانیت کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا ، جن میں انسان کے دل کو یا جسم کو یا دماغ کو عذاب دیا جا تا تھا وہ ساری کی ساری چیزیں منسوخ کی جاتی ہیں.خدا سے ملنے کے لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ کسی کا ناک کاٹا جائے یا کسی کو الٹا لٹکایا جائے.خدا کے ملنے کے لئے روحانی ذرائع ہیں یہ غلط طریق تھے جو دنیا نے جاری کئے ہوئے تھے.اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جا اور ان کو منسوخ کر اور دنیا کو بتا دے کہ یہ غلط طریق تھے جو اس نے اختیار کر لئے تھے.عورتوں کو مُعَلَّقہ چھوڑنے اور اسی طرح عورتوں کو مُعَلَّقَہ چھوڑا جاتا تھا یہ بھی تہذیب تھی ، آگ کا عذاب دیا آگ کا عذاب دینے کی ممانعت جاتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہیں کسی کو آگ کا عذاب دینے کی اجازت نہیں یہ خدا کا حق ہے کہ وہ جہنم میں ڈالتا ہے تمہیں حق نہیں کہ ایسا کرو.غلامی کی ممانعت اسی طرح دنیا میں غلامی کا رواج تھا انسان کی آزادی کو چھین لیا جاتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ یہ عذاب بند کیا جاتا ہے اب کوئی غلامی نہیں.اسے جانوروں کو دُکھ دینے کی ممانعت جانوروں کے منہ پر لوگ لینے لگاتے تھے اور اس طرح جانوروں کی مختلف قسمیں بناتے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس طرح جانور کو تکلیف ہوتی ہے اگر تم نے نشان ہی لگانا ہو تو جانوروں کی پیٹھ پر لگاؤ تا کہ انہیں کم سے کم تکلیف ہو.۴۲

Page 575

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۴۹ سیر روحانی (۶) جانوروں کے متعلق لوگ سمجھتے تھے کہ وہ حقیر اور ذلیل چیز ہیں اور ان کے احساسات کا خیال رکھنے کی ضرورت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک عورت کو محض اس لئے عذاب دیا گیا کہ اُس نے بلی کو باندھ رکھا اور اُسے کھانے پینے کو کچھ نہ دیا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مرگئی پس اُسے دوزخ میں داخل کیا گیا.۴۳ اور فرمایا ایک عورت کو اس لئے جنت میں داخل کیا گیا کہ اس نے ایک گتے کو جو پیاسا تھا وہ اپنا جوتا لے کے کنویں میں اُتری اور اس میں پانی بھر کر اُسے پلایا اس وجہ سے خدا نے ایسے جنت میں داخل کر دیا.۴۴ یہ تعلیم بتا رہی ہے کہ رسول کریم ہر حصہ زندگی سے تعذیب کا اخراج مصلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ دنیا سے کس طرح عذاب کو مٹایا گیا اور عذاب دینے کو بُرا اور ناپسند قرار دیا گیا حالانکہ اس سے پہلے یہ باتیں ضروری سمجھی جاتی تھیں.وہاں روحانیت کی ترقی کے لئے لوگ اپنے جسم پر کوڑے مارتے تھے اور یہاں ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر آئے تو آپ نے دیکھا کہ ایک رستی لٹکی ہوئی ہے آپ نے اپنی بیوی سے پوچھا یہ رشی کس لئے لڑکائی ہے؟ اس نے کہا یا رَسُول اللہ ! جب میں عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہوں تو رسی پکڑ لیتی ہوں تا کہ مجھے نیند نہ آئے.آپ نے فرمایا خدا کو تمہارے نفس کو تکلیف میں ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں جب تک تمہارا نفس برداشت کر سکتا ہو عبادت کرو اور جب نہ کرے نہ کر و ۴۵ تو دیکھو تعذیب کو کس طرح ہر حصہ و زندگی سے مٹا دیا گیا ہے.پس فرماتا ہے وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! دنیا میں روحانیت کی ترقی کے لئے غلط معیار قائم ہو گئے ہیں لوگ کہتے ہیں روحانیت کی ترقی اور نفوس کی اصلاح کے لئے ہیجڑے بن جاؤ ، پلاؤ کے اندر مٹی ملاؤ یا اس میں تیل ملاؤ یا سردیوں میں اُلٹے لٹک جاؤ، گرمیوں میں آگ کے سامنے بیٹھو یہ سب لغو باتیں ہیں ہم ان کو منسوخ کرتے ہیں خدا کو ان غلاظتوں اور تکلیفوں سے کوئی تعلق نہیں.خدا تو تم کو آرام پہنچانا چاہتا ہے خدا تم کو عذاب میں نہیں ڈالنا چاہتا.خدا نے اپنے تک پہنچنے کے راستے اور قسم کے بنائے ہیں جن سے بغیر نفس کی ذلت کے ، بغیر کسی نفس کو توڑ دینے کے، بغیر جذبات کو مار دینے کے خدا

Page 576

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) تک انسان پہنچ سکتا ہے خدا کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ان باتوں کو رائج کرے.رجز کے تیسرے معنے تیسرے معنے السر جز کے شرک کے ہیں ، اس لحاظ وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ کے یہ معنے ہوں گے کہ تُو 66 شرک مٹا دے.دیکھو شرک کو چھوڑ دے اور شرک کو مٹا دے میں فرق ہے.مولویوں نے اس کے یہ معنے کئے ہیں کہ تو شرک چھوڑ دے حالانکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرک پہلے ہی چھوڑا ہو ا تھا، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی شرک نہیں کیا.ہے پس یہ معنے کرنا کہ ” شرک چھوڑ دے‘ محمد رسول اللہ کی ہتک ہے اور یہ معنے کرنا کہ شرک کو مٹادے“ یہ رسول اللہ کا اصل کام ہے.خدا فرماتا ہے تو شرک کو توڑ دے کیونکہ ہجر کے معنے توڑ دینے اور مٹا دینے کے بھی ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید کی اتنی اعلیٰ تعلیم دی کہ شرک کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی.انسانیت کی تذلیل کا ایک بھیانک نظارہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں مبعوث ہوئے تھے بھلا سوچو تو سہی کہ اُس وقت کیسا بھیا نک نظارہ نظر آتا تھا کہ ابو جہل جیسا انسان جو باتیں کرتا تھا تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے عقلمندوں میں سے ہے.ابوسفیان جس کا اسلام لانے کے بعد بھی عرب پر سکہ جما ہوا تھا اور لوگ اُس کی عزت کرتے تھے اُن کی یہ حالت تھی کہ اپنے سامنے مٹی کا بنا ہو ابت رکھتے ہیں اور اُس کے آگے گر جاتے ہیں اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کتنی ذلت تک انسانی دماغ پہنچا ہو ا تھا.بنوں کی بے بسی ایک صحافی کہتے ہیں کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم دینی شروع کی تو میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی تھی کیونکہ ماں باپ سے سنا ہو ا تھا کہ بچوں میں طاقت ہوتی ہے ہماری عادت تھی کہ جب ہم باہر کسی کام کے لئے جاتے تو ایک چھوٹا سا پتھر کا بنا ہو ابت اپنے ساتھ لے جاتے تا کہ اُس کی برکت سے ہم مصیبتوں سے بچے رہیں.وہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ میں سفر پر گیا اور بُت کو اپنے ساتھ لے لیا ایک جگہ پہنچ کر مجھے ایک ضروری کام پیش آیا میں نے اسباب

Page 577

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۵۱ سیر روحانی (۶) رکھا اور بُت کو پاس بٹھا کر کہا حضور والا! آپ ذرا میرے اسباب کا خیال رکھیے میں ایک ضروری کام کے لئے جا رہا ہوں یہ کہہ کر میں چلا گیا.وہ کہنے لگے کام کر کے جب میں واپس آ رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ گیدڑ نے اُس کے سر پر پیر رکھا ہوا ہے اور پیشاب کر رہا ہے.گیدڑ اور گنے کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ٹانگ اُٹھا کر اور کوئی سہارا ہو تو اُس پر رکھ کر پیشاب کرتا ہے میں نے آتے ہی اُسے اُٹھا کر پرے پھینک دیا اور میں نے کہا اپنے آپ کو تو پیشاب سے بچا نہیں سکتا میرے سامان کو تُو نے کیا بچانا ہے اور میں آ کر مسلمان ہو گیا ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو تعلیم شرک کے خلاف پیش کی وہ ایسی نفسوں میں گڑ گئی کہ جو بھی سنتا تھا وہ اس پر فریفتہ ہو جاتا تھا اس سے باہر نکلنے کی اس میں جرات ہی نہیں تھی.ہندہ کا اعتراف توحید ہندہ کا واقعہ مشہور ہے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو مسلمانوں کو جولوگ دُکھ دینے والے تھے ، جنہوں نے مسلمانوں پر بعض دفعہ انسانیت سوز مظالم کئے تھے یعنی ان کے ناک کان وغیرہ کاٹے تھے ان میں ہندہ بھی تھی.ایسے لوگوں کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ ان کو معافی نہیں ہو گی بلکہ ان کو پکڑ کر سزا دی جائے گی ہندہ کے متعلق بھی یہی احکام تھے مگر ہندہ بڑی ہوشیار عورت تھی چُھپ گئی اُسے تلاش کیا گیا مگر نہ ملی مسلمانوں نے سمجھا کہ کہیں بھاگ گئی ہے.درمیانی طرز کے لوگ جو غور کر رہے تھے اور اس لڑائی کا انجام دیکھنا چاہتے تھے جب مکہ فتح ہو گیا تو انہوں نے سمجھا کہ اسلام سچا ہے ان کے لئے آپ نے بیعت کا اعلان کر دیا.عورتوں کے لئے بھی اعلان ہو ا چنا نچہ سینکڑوں عورتیں بیعت کے لئے آئیں اور ان میں ہندہ بھی چُھپ کر آ گئی.بیعت کے وقت جو الفاظ دُہرائے جاتے تھے ان میں یہ الفاظ بھی آتے تھے کہ ہم شرک نہیں کریں گی ، باقی الفاظ تو وہ دُہراتی چلی گئی جب آپ ان الفاظ پر پہنچے کہ کہو ہم شرک نہیں کریں گی تو چونکہ ہندہ کی طبیعت بڑی تیز تھی فوراً مجلس میں بول اُٹھی کہ کیا اب بھی ہم شرک کریں گی ؟ تم اکیلے تھے اور ہم سارے تم کو مارنے کے لئے اکٹھے ہوئے ، تم کمزور تھے اور ہم طاقتور تھے ، ہم نے

Page 578

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۵۲ سیر روحانی (۶) ساری قوم کا زور صرف کیا مگر تمہارا خدا جیتا اور ہم ہارے کیا اب بھی ہم شرک کریں گی ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، ہندہ ہے؟ جس کا مطلب یہ تھا کہ تمہارے لئے تو سزا تجویز ہے، اُس نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! اب آپ کو مجھ پر کوئی اختیار نہیں ، اب میں مسلمان ہو چکی ہوں.۴۹ تو دیکھو یہ تو حید کی تعلیم تھی جس نے دلوں کو اس طرح صاف کر دیا کہ دیکھنے والا سمجھتا تھا کہ سب لغو اور عبث باتیں ہیں بھلا شرک کوئی مان سکتا ہے.مشرکانہ عقائد کے پیرو بھی پھر ہوں بُھوں تعلیم پھیلی شرک میٹا گیا.یورپ میں اب بھی ایسے گرجے موجود آج تو حید کو ہی درست سمجھتے ہیں ہیں جن میں حضرت مریم اور حضرت عیسیٰ کی تصویر لٹکی ہوئی ہوتی ہے اور جن کے آگے وہ سجدے کیا کرتے تھے.ہندوؤں میں بھی لاکھوں دیوتا تسلیم کئے جاتے تھے مگر اب دیکھو ہندوؤں میں جتنے نئے فرقے نکلے ہیں سب تو حید پیش کرتے ہیں آخر ہزاروں لاکھوں بُت جو ایجاد ہوئے ہیں تو ہر زمانہ میں ایجاد ہوتے رہے ہیں مگر اب کوئی نئی موومنٹ بتا دو جس میں کوئی نیابت ایجاد کیا گیا ہو.اب آریہ سماجی نکلے، بنگال کی برہمو سماج نکلی ، اسی طرح بنگال کی دیویکا نند ۵۰ے کی سوسائٹی ہے.ٹیگوراہے تھا، غرض جتنے نکلے سب نے تو حید پیش کی اور کہا کہ ہمارے مذہب میں بُبت ہیں ہی نہیں.یہ سب باتیں ہیں یہ نتیجہ تھا اسلام کی تعلیم کا.ادھر عیسائیت جو مسیح اور مریم کی خدائی کو پیش کیا کرتی تھی اب جس عیسائی سے پوچھو وہ کہتا ہے یہ تو ظہور ہیں.ایک ظہور کا نام باپ رکھ دیا، ایک ظہور کا نام بیٹا رکھ دیا ، ایک ظہور کا نام روح القدس رکھ دیا ، ورنہ خدا تو ایک ہی ہے اس سے کون انکار کر سکتا ہے.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جا اور شرک کو دنیا سے اُکھیڑ کر پھینک دے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی کر دکھایا.کہاں ہیں مبل اور لات اور غمز کی ؟ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہتھوڑے سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا.دلوں سے شرک کو نکال پھینکا اور وَالرُّجُزَ فَاهُجُو کے حکم کو ایسے طور پر پورا کیا کہ آج کسی شریف آدمی کو مجلس میں یہ کہنے کی جرات نہیں کہ خدا کے سوا کوئی اور بھی اُس

Page 579

انوار العلوم جلد ۲۲ کا شریک ہے.۵۵۳ سیر روحانی (۶) یہ کتنا عظیم الشان تغیر ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیدا کیا اور جس کی مثال دنیا کے کسی نبی کی زندگی میں بھی نہیں ملتی.پس مبارک ہے وہ جس نے اپنے گورنر جنرل کے لئے یہ پروگرام تجویز کیا اور مبارک ہے خدا تعالیٰ کا یہ گورنر جنرل جس نے اس پروگرام کو اس طرح پورا کیا کہ جس طرح اسے پورا کرنے کا حق تھا.شرک کو باندھ رکھنے کا حکم چوتھے معنے اس کے یہ بنتے ہیں کہ ٹو شرک کو باندھ دے یعنی باوجود اس کے کہ تو توحید کی تعلیم دے گا لوگ مسلمان ہونگے اور شرک چھوڑتے چلے جائیں گے پھر بھی شرک دنیا میں قائم رہے گا کیونکہ شرک نفس کو عیاشی پر قائم رکھنے کی درمیانی سٹیج ہے.جب تک انسانی نفس کے اندر کمزوری رہے گی وہ جھوٹے یا سچے طور پر شرک کا قائل رہے گا.نفس گنہگار کی تسلی کے لئے مسلمان یوں تو اللہ اللہ کرتے ہیں لیکن جب ان کا دل چاہتا ہے کہ اسلامی احکام کو توڑ دیں شرک ایک ضروری چیز ہے تو توڑ دیتے ہیں مگر ساتھ ہی اُن کا دل پھر یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ جنت میں بھی جائیں اس لئے کہتے ہیں فلاں بزرگ کی قبر پر چڑھاوا چڑھا دیا تو جنت میں چلے گئے، فلاں کی بیعت کر لی تو چلو جنت مل گئی.پس شرک نفس گنہگار کو تسلی دینے کا ایک ذریعہ لوگوں نے بنایا ہوا ہے جب تک نفس گنہگار باقی رہے گا شرک کسی نہ کسی شکل میں باقی رہے گا.حضرت خلیفہ اول سنایا کرتے تھے کہ ہماری ایک بہن تھیں جو کسی پیر صاحب کی مرید تھیں ایک دفعہ قادیان مجھے ملنے کے لئے آئیں تو میں نے کہا بہن! تم احمدی نہیں ہوتیں اس کی وجہ کیا ہے؟ کہنے لگیں ہم نے پیر پکڑ لیا ہے اور پیر صاحب کی بیعت کر لی ہے اب ہمیں کسی اور کی ضرورت نہیں.میں نے کہا پیر صاحب کی بیعت نے تمہیں فائدہ کیا دیا ہے کہنے لگی فائدہ یہ دیا ہے کہ وہ کہتے ہیں اب تم نے ہماری بیعت کر لی ہے اس لئے اب تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں جو تمہاری مرضی ہو کرو تمہارے گناہ ہم نے اُٹھا لئے ہیں اور اب تمہارے سب گناہوں کے ہم جوابدہ ہیں.

Page 580

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۵۴ سیر روحانی (۶) میں نے کہا اچھا بہن اب جاؤ گی تو اُن سے پوچھنا کہ ایک ایک گناہ کے بدلہ میں جو لوگوں کو اتنی جوتیاں قیامت کے دن پڑنی ہیں جن کی حد نہیں تو جب آپ نے ہم سب کے گناہ اُٹھالئے ہیں تو آپ کو کتنی جوتیاں پڑیں گی ؟ چنانچہ وہ گئی اور پھر واپس آئی تو میں نے کہا پوچھا تھا ؟ کہنے لگی ہاں پوچھا تھا مگر وہ سوال تو پیر صاحب نے حل کر دیا.میں نے کہا کس طرح؟ کہنے لگی پیر صاحب نے کہا دیکھو جب تم پل صراط پر جاؤ گی اور فرشتے پوچھیں گے کہ تمہارے یہ یہ گناہ ہیں تو تم کہہ دینا ہمیں کچھ پتہ نہیں یہ پیر صاحب کھڑے ہیں ان سے پوچھو.جیسے ریلوے سفر میں ایک ایک کے پاس ٹکٹ ہوتے ہیں اور ریل والے پوچھتے ہیں کہ ٹکٹ کہاں ہے تو اُن سے کہا جاتا ہے کہ فلاں سے لے لو اسی طرح وہاں ہوگا.کہنے لگی اچھا پیر صاحب ! جب وہ آپ سے پوچھیں گے تو آپ کیا کہیں گے؟ کہنے لگے جب فرشتوں نے ہم سے پوچھا تو ہم آنکھیں سرخ کر کے کہیں گے شرم نہیں آتی کربلا میں ہمارے دادا نے جو قربانی دی تھی کیا اس کے بعد ہم سے پوچھنے کی کوئی ضرورت رہ گئی ہے؟ اور فرشتے شرمندہ ہو کر ایک طرف ہو جائیں گے اور ہم دگر دگڑ کر کے جنت میں پہلے جائیں گے.تو در حقیقت شرک جہاں ایک گندی چیز ہے، شرک جہاں ایک نا پاک چیز ہے وہاں وہ نفس گنہگار کے لئے ایک ضروری چیز بھی ہے جس کے بغیر اس کا گزارہ نہیں ہو سکتا.جس طرح مسلمان گنہگار کا شفاعت کے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا، اسی طرح غیر مسلمان کا شرک کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا مسلمان بھی یہی کہتا ہے.مستحق شفاعت گنہگار انم چلو چھٹی ہو گئی.شفاعت کے ہوتے ہوئے اب کسی عمل کی کیا ضرورت ہے؟ پس اس قسم کی شفاعت اور اس قسم کا کفارہ دنیا سے مٹے گا نہیں، تھوڑا بہت قیامت تک ضرور رہے گا ور نہ گنہگار کا ہارٹ نہ فیل ہو جائے.اس کے دل کو تسلی دلانے اور اُس کی زندگی کو قائم رکھنے کے لئے یہ لازمی چیز ہے کہ کوئی نہ کوئی سہارا ہو.جس طرح انسان بیہوش ہونے لگے تو پتھر پر سہارا لے لیتا ہے اسی طرح مسلمان شفاعت کے پتھر پر ہاتھ رکھ کر سہارا لے لیتا ہے اور عیسائی کفارہ کے پتھر پر سہارا لے لیتا ہے.

Page 581

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) شرک کی مضرتوں پس چوتھے معنے اس کے یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو شرک کو مٹائے گا اور وہ بہت کچھ مٹے گا لیکن پھر دنیا کو محفوظ رکھنے کا حکم بھی کسی نہ کسی شکل میں وہ دنیا میں قائم رہے گا کیونکہ شرک ایک لازمی چیز ہے پھر اس کے لئے کیا کرنا چاہئے.اس کے لئے فرماتا ہے تو شرک کو باندھ دے یعنی جب ایک ضرر نے موجود رہنا ہے اور خدا تعالیٰ نے دنیا کو ایسی شکل میں پیدا کیا ہے کہ گنہگار کے ساتھ شرک نے قائم رہنا ہے تو پھر مؤمنوں کو اُس کے ضرر سے کس طرح بچایا جائے.اس کا طریق یہی ہے کہ جس چیز نے قائم رہنا ہو اس کے ضر ر کو کم کر دیا جاتا ہے مثلاً بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق ڈاکٹر کہتے ہیں انہوں نے ہٹنا نہیں.ایسی بیماریوں کا علاج یہ ہوتا ہے کہ انہیں کسی دوا سے دبا دیا جاتا ہے مثلاً کھانسی آتی ہے تو او پیم دے دی بلغم دبا رہا.شرک کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ شرک بیشک مٹے گا مگر جو باقی رہے گا اسے اس طرح باندھ دو کہ وہ دوڑ کو دکر دنیا میں پھیل نہ سکے اور اس کی مضرت باقی نہ رہے.ایک داعی الی الخیر جماعت اس کا طریق یہ بتایا کہ مؤمنوں کی جماعت اسلام میں قائم رہے جو شرک کے خلاف لوگوں کو کہتی رہے اور دلائل دیتی رہے تاکہ لوگ جب شرک کی طرف مائل ہونے لگیں تو انذار وتخویف اور حقیقت کے بیان کے ساتھ اور وعظ اور نصیحت کے ساتھ نیک طبیعتیں رُک جائیں جس طرح جانور کے پیر کو گردن سے باندھتے ہیں تو وہ دوڑ نہیں سکتا اسی طرح شرک دوڑنے کے قابل نہ رہے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عن المنكر، وأولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ۵۲ یعنی چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیکی اور تقویٰ اور اسلام کی طرف لوگوں کو بُلائے اور انہیں نیک باتوں کا حکم دے اور بُری باتوں سے رو کے واوليك هُمُ الْمُفْلِحُونَ اور جس قوم میں یہ بات پائی جاتی ہے وہ ضرور کامیاب ہوتی ہے کیونکہ وہ شرارت کو دبائے رکھتی ہے بڑھنے

Page 582

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) نہیں دیتی.جیسے جنگل میں کہیں گندہ بیج پڑ جائے تو وہ مٹتا نہیں بلکہ پھیل جاتا ہے لیکن اگر کوئی اعلیٰ درجہ کی کھیتی ہو تو زمیندار جانتا ہے کہ اس میں بھی بعض دفعہ دب گھاس نکل آئے گی ، بعض دفعہ تھوہر میں نکل آئیں گی، بعض دفعہ بکولیاں پیدا ہو جائیں گی ، بعض دفعہ آک نکل آئے گا.اُس وقت ضرر سے بچنے کا کیا طریق ہوتا ہے؟ یہی ہوتا ہے کہ زمیندار ہل چلاتے ہیں بیشک وہ پھر بھی نکلتی ہیں لیکن کمزور ہو جاتی ہیں اور کھیت کو نقصان نہیں پہنچا سکتیں.پس تم ایسے مبلغ مقرر کرتے رہو اور مسلمانوں میں سے ایک ایسی جماعت کو مخصوص کرو جو دین کی خدمت میں لگی رہے جس کی وجہ سے اس قسم کے شرر آمیز اور نقصان دہ مادوں کاہل کے ساتھ قلع قمع ہوتا رہے بیشک شتر کا بیج پھر بھی موجود رہے گا لیکن وہ کمزور ہو جائے گا اور اصل فصل کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا.مسلمانوں کا تبلیغ اسلام سے تغافل مسلمانوں نے اس پر ایک زمانہ میں عمل کیا لیکن افسوس ہے کہ بعد میں مسلمان اپنے اس فرض کو بُھول گئے اب صرف احمدی جماعت ہی ہے جو ہل چلا چلا کر دب، گھاسوں اور جڑی بوٹیوں کو دور کر رہی ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے فائدہ کے لئے یہ کام ہو رہا ہے وہ اسی کا نام انکارِ جہا د رکھتے ہیں، اصل جہاد احمدی کر رہے ہیں اور مولوی کہتا ہے کہ چھوڑ دو یہ ہل چلانے آگ نکلنے دو، تھوہریں نکلنے دو، بکولیاں پیدا ہونے دو، کھیتوں کو برباد ہونے دو، مسلمانوں کو بھو کا مرنے دو، تم تو بے ایمان ہو گئے ہو جو مسلمانوں کے لئے روٹی مہیا کر رہے ہو.وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ کی تشریح آگے فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ غیر احمدی مولوی اس کے یہ معنے کرتا ہے کہ لوگوں پر اس نیت سے احسان نہ کر کہ تجھے اس کے بدلہ میں کچھ زیادہ ملے.اسی کا ترجمہ میں نے پہلے یہ کر دیا تھا کہ سو دخوری نہ کر.لوگوں کو اس لئے پیسے نہ دیا کر کہ اس کے بدلے میں تجھے زیادہ ملے لیکن دوسری شکل ہمارے ملک میں ایک اور بھی ہوتی ہے جسے

Page 583

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) ڈھویا دینا کہتے ہیں اور اُردو میں ڈالی دینا کہتے ہیں.بعض باغبان گلدستے بنا لیتے ہیں کچھ پھول لے لئے ، کچھ تریں لے لیں ، کچھ تر کاری لے لی اور کسی امیر آدمی کے گھر لے گئے کہ میں ڈالی لایا ہوں آگے اُس کی طرف سے جو بدلہ ملتا تھا وہ قیمت میں نہیں ہوتا تھا.مثلاً یہ نہیں ہوتا تھا کہ دو آنے کی چیز ہوئی تو اس نے دو آنے ہی دے دیئے بلکہ کبھی دس کبھی نہیں کبھی پچاس اور کبھی سو روپے دے دیتا تھا.عربوں میں اس کا بڑا رواج تھا خصوصاً بنوامیہ بنو امیہ کے ایک بادشاہ کا لطیفہ کے خلفاء کے پاس بڑے بڑے تحفے آتے تھے.لطیفہ مشہور ہے کہ بنو امیہ کا ایک بادشاہ ایک دفعہ شکار کے لئے گیا اور جنگل میں اکیلا رہ گیا اُسے ایک شخص ملا جو گدھا ہانک رہا تھا اور اُس پر اُس نے کھیرے رکھے ہوئے تھے.بادشاہ نے کہا میاں ! کہاں جا رہے ہو؟ اس نے کہا دمشق جا رہا ہوں.کہنے لگا کہ کس لئے ؟ اس نے اسی بادشاہ کا نام لیا کہ اس کے حضور میں پیش کرنے کے لئے یہ لے چلا ہوں.کہنے لگا کیوں؟ اس نے کہا اس لئے کہ وہ مجھے انعام دیگا.اس نے کہا ان چیزوں کا بھلا کیا انعام ہو سکتا ہے یہ تو بہت معمولی چیزیں ہیں اچھا تم کیا امید رکھتے ہو؟ اس نے کہا میں تو امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے تین سو اشرفی انعام دیگا.اُس نے کہا تین سو اشرفی ! یہ تو ایک اشرفی کی بھی چیز نہیں تمہیں تین سو اشرفی کون دیگا ؟ کہنے لگا تین سو نہ سہی اڑھائی سو لے لونگا.اُس نے کہا اڑھائی سو بھی بہت زیادہ ہے.کہنے لگا تو پھر دوسو سہی.اس نے کہا دو سو بھی بہت زیادہ ہے.کہنے لگا نہ مانے گا تو ڈیڑھ سو سہی اس نے ڈیڑھ سو کو زیادہ بتایا تو کہنے لگا سو سہی.اُس نے کہا کون بے وقوف ہے جو تمہیں سو اشرفی دے دیگا.وہ بیچارا مایوس ہو کر اِسی طرح قیمت گراتا چلا گیا اور آخر کہنے لگا کہ میں دس اشرفی تو ضرور لوں گا.اُس نے کہا یہ تو دس اشرفی کی بھی چیز نہیں.کہنے لگا اگر اس نے دس سے بھی کم دیں تو میں گدھا اُس کی ڈیوڑھی میں باندھ دونگا اور آپ چلا آؤنگا.اُس نے کہا اچھا! اس گفتگو کے بعد وہ گھوڑے پر سوار ہو کر واپس آ گیا اور اُس نے سپاہیوں کو حکم دیدیا کہ اگر اس اس طرح کا کوئی آدمی آئے تو خیال رکھنا اور اسے میرے پاس بھیج دینا.اس نے پتہ نہ لگنے

Page 584

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۵۸ سیر روحانی (۶) دیا کہ میں بادشاہ ہوں.جب وہ آیا تو سپاہیوں نے اسے اندر بھجوا دیا.وہاں بادشاہی جلال تھا اور تمام درباری ادب کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.اس کی شکل پہچانی نہیں جاتی تھی کیونکہ جنگل میں وہ سادہ لباس میں گھوڑے پر اکیلا سوار تھا اُس جنگلی کو دیکھ کر بادشاہ کہنے لگا کس طرح آنا ہو !؟ اُس نے کہا حضور ! آپ کے لئے ایک نیا تحفہ لایا ہوں کہنے لگا کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تریں اور کھیرے ہیں.کہنے لگا کیا بے قیمت چیز ہے ، اس نے کہا حضور نئی چیز ہے کسی نے اب تک کھائی نہیں اُس نے پوچھا اچھا تو پھر تم مجھ سے کیا امید رکھتے ہو؟ کہنے لگا تین سو اشرفی.اُس نے کہا کیا تم مجھے پاگل سمجھتے ہو کہ ان کھیروں اور تروں کے بدلہ میں تمہیں تین سو اشرفی دیدوں گا.اُس نے کہا تین سو نہیں تو اڑھائی سو دے دیجئے.کہنے لگا اڑھائی سو بھی کون دے سکتا ہے.اس نے کہا اڑھائی سو نہیں تو دوسو دے دیجئے.کہنے لگا دوسو بھی زیادہ ہے.اس نے کہا تو پھر سو اشرفی لائیے.وہ کہنے لگاسو بھی بہت زیادہ ہے غرض اسی طرح وہ قیمت گھٹاتا چلا گیا جب دس پر پہنچا تو بادشاہ نے کہا دس اشرفی بھی بہت زیادہ ہے.اس پر وہ بے اختیار کہنے لگا وہ کم بخت منحوس جو مجھے راستہ میں ملا تھا جس طرح اُس نے کہا تھا ویسا ہی ہوا ہے اور یہ کہہ کر وہ کوٹا.بادشاہ ہنس پڑا اور اس نے اسے واپس بلا یا اور کہا گھبراؤ نہیں اور پھر اس نے حکم دیا کہ جتنی رقمیں ہوئی ہیں وہ سب جمع کر کے اسے دیدی جائیں یعنی ۳۰۰ + ۲۵۰ ۲۰۰۶ + ۱۵۰+۱۰۰+۹۰ اس طرح کئی سو روپے بن گئے جو اُسے دے کر اس نے رخصت کیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک یہ ڈھوئے اور ڈالی کا طریق ہو اکرتا تھا چونکہ یہ سود خوری سے کم ہے اس لئے وہ اس کے معنے یہ کرتے ہیں کہ اے محمد رسول اللہ ! تو ڈھوئے لے کر لوگوں کے پاس نہ جایا کراے محمد رسول اللہ ! تو ڈالیاں لے لیکر ڈپٹی کمشنر کے پاس نہ جایا کر.لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ - خدا کا گورنر جنرل اور اُس کا جرنیل آیا ہے اس کو ڈھوئے اور ڈالیوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟ خدا تو اس سے یہ کہتا ہے کہ ہم تجھے اپنے پاس سے رزق دینگے اور بے حساب دینگے خدا تو اسے یہ کہتا ہے کہ لَولاک لَمَا خَلَقْتُ الاَ فَلَاكَ ۵۳.

Page 585

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۵۹ سیر روحانی (۶) اے محمد رسول اللہ ! اگر تو دنیا میں نہ آیا ہوتا تو یہ سونے اور چاندیاں اور لو ہے اور پیتل اور زمر داور ہیرے اور دریا اور پہاڑ غرض کچھ بھی نہ ہوتا یہ سب کچھ تیری خاطر پیدا کئے گئے ہیں.وہ شخص جس کی جوتیوں کی خاک ہیں یہ چیزیں بلکہ جس کی جوتیوں کی خاک سے ادنی ہیں اس کے متعلق مولوی یہ کہتے ہیں کہ وہ زیادہ لینے کے لئے لوگوں کو ڈھوئے دیتا پھرتا تھا کہ میں دس روپے کی چیز دیتا ہوں وہ مجھے پندرہ دے دے.نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ یہ بھی اسی طرح ان کی غلطی ہے جس طرح کہ پہلی غلطیاں تھیں اور یہاں بھی وہی نادانی کام کر رہی ہے کہ ہر بُرے معنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اور ہر اچھے معنے اپنے عیسی کی طرف منسوب کئے جائیں.لغت کے لحاظ سے وَلَا اب ہم دیکھتے ہیں کہ آیت کے صحیح معنے کیا ہیں؟ اس غرض کے لئے ہم پھر لغت کو تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ کے صحیح معنے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ فن کبھی صلہ کے ساتھ آتا ہے اور کبھی بغیر صلہ کے.جب یہ صلہ کے ساتھ آئے تو اس کا صلہ علی ہوتا ہے چنانچہ مَنَّ عَلَيْهِ کے معنے ہوتے ہیں اس پر احسان کیا یا اس پر احسان جتایا اور بغیر صلہ کے من آئے تو اس کے معنے ہوتے ہیں کسی کو روکنا یا کاٹنا ۵۵ اور اِسْتَكْثَرَ کے معنے ہوتے ہیں زیادہ لینا.۵۶ے اس میں روپیہ کی شرط نہیں جو چیز بھی ہم زیادہ لیں اس کے معنے اِستِكْثَار کے ہو جائیں گے.پہلے دو معنوں کے متعلق میں بتا چکا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں اور آپ کی شان کے بالکل خلاف ہیں اور پھر سیاق وسباق کے ساتھ بھی ان کا کوئی جوڑ نہیں.ذکر ہو رہا ہے انذار کا اور کہا جا رہا ہے کپڑے دھو ، ریٹھے لا ، صابن خرید ، حمام میں جا اور پھر سُو دخوری نہ کر.ان گندے معنوں کے ساتھ بھی اس کا کوئی جوڑ نہیں بنتا لیکن ہم جو معنے بتاتے ہیں وہ سارے کے سارے ان آیتوں پر چسپاں ہو جاتے ہیں.

Page 586

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۰ سیر روحانی (۶) بھلے مشرکوں کو قتل کرنے یا ان کی آزادی اب ہمارے نقطہ نگاہ سے اس کے یہ معنے بن جائیں گے کہ اے محمد رسول اللہ ! یر یا بندیاں عائد کرنے کی ممانعت ہم نے تجھے شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے پہلے حکم آچکا ہے کہ وَالرُّجُزَ فَاهْجُرُ شرک کو مٹا دیے.پس ہم نے شرک کے مٹانے کا حکم دیا ہے لیکن اس سے ایک غلط نہی بھی ہو سکتی ہے ہم اس غلط نہی کی تشریح کر دیتے ہیں کہ کہیں تم یا تمہارے مُرید اس حکم کے یہ معنے نہ کرلو کہ مشرکوں کو مارو اور اُن کی آزادی پر پابندی عائد کرو اور اس طرح اسلام کو ترقی دو.کیونکہ مٹانے کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ جس طرح وہ کہتے ہیں کہ جو مسلمان ہیں ان کو خوب مارو، ان پر خوب سختی کرو، انہیں خوب ذلیل کرو اسی طرح جو لوگ تم سے اختلاف عقیدہ رکھتے ہیں تم بھی ان سے یہی سلوک کرنے لگ جاؤ.خدا تعالیٰ نے سمجھایا کہ مسلمانوں کے دماغ بھی کبھی خراب ہو سکتے ہیں اور ایسا ہوسکتا ہے کہ مسلمان بھی غیر مسلموں پر سختی کرنے لگ جائیں اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ہم نے یہ حکم دیا ہے کہ شرک کو مٹا دے تو ہمارا یہ مطلب نہیں کہ تم مشرکوں پر پابندیاں عائد کرو یا مشرکوں کو قتل کرو یہ اسلام میں منع ہے پس اس جگہ من کے معنے روکنے اور کاٹنے کے ہیں فَلَا تَمُنُنُ پس مت کاٹ وہ شرک جس کے متعلق ہم نے کہا ہے کہ اسے مٹا دے اس کا یہ مطلب نہیں کہ تو مشرکوں کو مارنے لگ جائے اور اس طرح تَسْتَكْثِرُ مسلمانوں کی جمعیت اور ان کی شوکت کو بڑھا دے.پس اس جگہ آدمی بڑھانے کا ذکر ہے روپیہ بڑھانے کا ذکر نہیں یعنی مشرکوں کو مت کاٹ ، مشرکوں پر قیود مت لگا اس طرح سے کہ مسلمانوں کی طاقت بڑھے اور مسلمان زیادہ ہو جائیں.ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ تبلیغ رکھی ہے، ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ روحانی تعلیمات رکھی ہیں ، ہم نے اسلام کی ترقی کا ذریعہ اعلیٰ درجہ کے اخلاق رکھے ہیں ان ذرائع سے اسلام کو بڑھاؤ ، مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا ان کو مار کر یا ان پر قید میں لگا لگا کر اسلام بڑھانے کا حکم نہیں دیا.اب دیکھو یہ معنے کتنے اعلیٰ اور اسلام کی خوبی ثابت ا کرنے والے ہیں.

Page 587

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۱ سیر روحانی (۶) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر فرما تا ہے ویوتک فَاصْبِرُ یعنی اگر لِرَبِّک مشکلات آئیں تو ان پر صبر کی جیو مگر کے مقام صبر کی عظمت وَلِرَبِّكَ.صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک ہوتا ہے صبر مجبوری.، بڑے آدمی کا بیٹا ہوتا ہے وہ کسی کو مارتا ہے تو لوگ کہتے ہیں کہ کیا کریں بول نہیں سکتے.ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے بڑا آدمی ظلم کر رہا ہو تو غریب آدمی کی ماں الٹا اپنے بچے کو مارتی ہے.یا اگر اُس نے کسی عورت کے خاوند کو مارا ہو تو وہ الگ بیٹھ کر روتے ہیں سامنے رو بھی نہیں سکتے.یہ بیچارگی کا صبر ہے مگر فرماتا ہے اے محمد رسول اللہ ! ہم تیرے جیسے بزرگ شان والے انسان سے یہ امید نہیں کرتے کہ تو بزدلی والا صبر کریگا بلکہ وَلِرَبِّكَ فَا صبر تو وہاں صبر کر جہاں تجھے نظر آتا ہو کہ میرا یہاں صبر کرنا خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب ہوگا یہ نہیں کہ اس لئے صبر کرو کہ اگر میں نے صبر نہ کیا تو ظالم ظلم میں بڑھ جائے گا یا میں اس کا مقابلہ کس طرح کر سکتا ہوں وہ طاقتور ہے اور میں کمزور ہوں تو صبر کریگا ہماری خوشنودی کے لئے اور ہمیں راضی کرنے کے لئے.دوسرے معنے صبر کے ایک کام پر لگ جانے کے ہیں ۵۷، پس اس کے معنے یہ ہونگے کہ آج سے دوسرے سب کام چھوڑ کر تو صرف اپنے رب کی خدمت میں لگ جا.اب دیکھو یہ دربار کیسا شاندار ہے گورنر جنرل کے تقرر پر دربار خاص لگتا ہے، گورنر جنرل پیش ہوتا ہے اور اسے کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلے ہم خوشی کا اظہار کرتے ہیں کہ تقر ر عہدہ کے وقت سے (جو سورۃ اقراء میں ہے ) تم وردی پہن کر اور گھوڑا لے کر کھڑے ہو کہ حکم ملتے ہی تم کام کے لئے نکل کھڑے ہو گے اب ہم ہمیشہ کے لئے یہ عہدہ تمہارے سُپر د کرتے ہیں ، کوئی ماں کا بچہ ایسا نہیں جو تم کو اِس عہدہ سے الگ کر سکے ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ عہدہ تمہارے سپرد کیا جاتا ہے.خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچا نا تمہارا فرض ہوگا کمزور کو بیدار کرنا تمہارے ذمہ ہوگا اور اپنے رب کی سچی شان کو قائم کرنا تمہارا کام ہو گا اور سب سے پہلے یہ کام اپنے اہل و عیال اور اپنے دوستوں اور اپنی قوم کے لوگوں سے شروع کر.پھر دائرہ وسیع کرتا چلا جا اور لباس اور جسم اور دماغ اور دل اور مکان اور ملک

Page 588

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۲ سیر روحانی (۶) کی صفائی کو قائم کر اور ہر قسم کے گند کو مٹا دے اور آئندہ کے لئے تعذیب نفس اور تعذیب انسان اور تعذیب افکار کو دنیا سے ختم کر دے کہ خدا تعالیٰ کو اپنا قرب دینے کے لئے ان طریقوں کی ضرورت نہیں اور شرک کا قلع قمع کردے اور ایسے سامان کر کہ مشرک شرک کو دنیا میں پھیلا نہ سکیں ، موحدین دنیا میں غالب ہو جائیں مگر یہ غلبہ مشرکوں پر پابندیاں لگا کر یا انہیں قتل کر کے حاصل نہ کیا جائے بلکہ تبلیغ اور قربانی اور ایثار سے ایسا کیا جائے اور آفات و مصائب میں برداشت کے ذریعہ سے یہ بات حاصل کی جائے مگر بُزدلانہ صبر نہیں بلکہ دلیرانہ صبر کہ جس میں باوجود طاقت کے برداشت اور عفو سے کام لیا جائے اور صرف خدا کو خوش کرنے کے لئے یہ کام کیا جائے اور اپنے اعلان کے آخر میں ہم پھر کہتے ہیں کہ یہ کام تیرے سپرد چند دن کے لئے نہیں کیا جاتا ، چند سال کے لئے نہیں کیا جاتا اب تو ہی ہمارا ہو کر رہے گا اور ہمیشہ کیلئے اس عہدہ پر قائم رکھا جائے گا.دیوان خاص کی تیسری غرض ) (۳) دیوان خاص کی تیسری غرض یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے درباریوں کے کام میں سہولت پیدا کرنے کے لئے مختلف قسم کی تدابیر اختیار کرتا اور اُن کی مشکلات کے بارہ میں علاج تجویز کرتا ہے اور پھر انہیں مدد دینے کے وعدے کرتا ہے جس سے ان کے اندر کام کرنے کی ایک نئی روح پیدا ہو جاتی ہے.دنیوی بادشاہوں کا طریق کار میں نے دیکھا کہ دنیوی بادشاہ ایسا کرتے ہیں مگر اوّل تو وہ ہمیشہ ہی صحیح علاج بتانے میں کامیاب نہیں ہوتے.دوسرے کئی دفعہ بادشاہ علاج بتانے کی جگہ خود اپنے درباریوں سے علاج پوچھتے ہیں اور اُن کی مشکلات میں مدد دینا تو الگ رہا خود اپنی مشکلات میں اُن سے مدد لینے کے محتاج ہوتے ہیں اور پھر جو وعدے کرتے ہیں ان کو بھی بسا اوقات وہ پورا نہیں کرتے.قرآنی دیوان خاص کا نرالا طریق مگر اس دیوانِ خاص میں میں نے اس بارہ میں بھی نرالا طریق دیکھا.میں نے

Page 589

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۳ سیر روحانی (۶) دیکھا کہ بادشاہ خود ہی سب علاج بتاتا ہے اور خود ہی سب کچھ مہیا کرنے کا وعدہ کرتا ہے اور پھر ہر وعدہ کو وہ پورا بھی کرتا ہے.چنانچہ میں نے قرآنی در بار خاص کا مطالعہ کیا تو مجھے عجیب حسن نظر آیا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں نے دیکھا کہ بادشاہ جب وزراء اور افسر مقرر کرتے ہیں تو ان سے کہتے ہیں کہ وہ کی حفاظت خاص کا وعد بادشاہ اور اس کے خاندان کی حفاظت کرینگے مگر میں نے اس دربارِ خاص کا یہ طریق دیکھا کہ جب اس دربار میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گورنر جنرل مقرر کیا گیا تو ساتھ ہی کہدیا گیا کہ یايُّهَا الرَّسُولُ بلغ ما أنزل إليكَ مِن رَّبِّكَ، وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَغْتَ رِسَلَتَهُ، وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ، إِنَّ اللهَ لا يَهْدِى الْقَوْمَ الكفرين ۵۸ یعنی اے ہمارے رسول ! ہم نے تیری طرف جو کچھ نازل کیا ہے تو اسے لوگوں تک پہنچا دے اور اگر تو ایسا نہیں کریگا تو تیری رسالت کا کام نا تمام رہے گا بیشک اس کام میں تجھے مشکلات پیش آئیں گی ، اپنے اور بیگانے تیری مخالفت میں کھڑے ہو جا ئینگے اور وہ کوشش کرینگے کہ تجھے کچل کر رکھ دیں اور تیرے نام کو صفحہ ہستی سے معدوم کر دیں مگر خدا اُن کو نا کام کریگا اور وہ تجھے لوگوں کے تمام حملوں سے محفوظ رکھے گا.یہ کیسا دیوانِ خاص“ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بات الگ بھی کی جاتی ہے اور پھر دیوانِ عام میں سُنانے کا حکم دیا جاتا ہے اور پھر ساتھ ہی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس اعلان کی وجہ سے کوئی نقصان پہنچے تو ہم ذمہ دار ہیں.دشمنوں کی عبرت ناک ناکامی کا مرقع دنیا نے اس اعلان کو سنا تو وہ حقارت کے ساتھ ہنسی اور اُس نے سمجھا کہ وہ اپنی کوششوں سے اس گورنر جنرل کے غلبہ اور اقتدار کو روک سکے گی اور اسے تباہ و برباد کر دیگی مگر واقعات بتاتے ہیں کہ دشمنوں کی ہر تد بیر نا کام ہوئی اور خدا تعالیٰ کی حفاظت ہمیشہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شامل حال رہی.

Page 590

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۴ سیر روحانی (۶) حضرت عمرؓ کا ارادہ قتل چنا نچہ دیکھ لو جب مکہ میں اسلام نے ترقی کرنی شروع کی اور کفار کی تمام تدابیر کے باوجود مسلمانوں کی تعداد میں زیادتی ہوتی چلی گئی تو حضرت عمرؓ جو ابھی اسلام نہیں لائے تھے انہوں نے جوش میں آکر ایک دن تلوار ہاتھ میں لی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور جاتے ہوئے کہہ گئے کہ اچھا میں خود ہی اس روز روز کے جھگڑے کو ختم کئے دیتا ہوں.ابھی وہ گھر سے تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ انہیں راستہ میں اپنا ایک دوست ملا اُس نے پوچھا عمر ! اتنے جوش میں تلوار نگی لٹکائے کہاں جا رہے ہو؟ عمر نے کہا آج میں نے ارادہ کیا ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا سر لے کر ہی واپس لوٹوں گا تا کہ یہ روز روز کے جھگڑے ختم ہو جائیں.اُس دوست نے کہا عمر ! تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے جا رہے ہو پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو.عمر نے کہا میرے گھر میں کیا ہوا ہے؟ دوست نے کہا تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دین میں داخل ہو چکے ہیں.یہ سُن کر حضرت عمرؓ نے بڑے غصہ میں اپنی بہن کے گھر کا راستہ لیا جب گھر کے قریب پہنچے تو انہیں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سُنائی دی.قرآن کریم پڑھنے کی آواز سُن کر انہیں اور بھی جوش آیا اور جھٹ دروازہ کے اندر داخل ہو گئے.ان کی آہٹ پاکر حضرت خباب جو ایک حبشی غلام تھے اور وہی اس وقت عمر کی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھا رہے تھے کہیں چھپ گئے اور اُن کی بہن نے قرآن کریم کے اوراق ادھر اُدھر چھپا دیئے.حضرت عمرؓ نے اندر آتے ہی نہایت جوش اور غصہ کے ساتھ کہا بہنوئی پر حملہ میں نے سنا ہے تم دونوں اپنے دین سے پھر گئے ہو اور تم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی پیروی اختیار کر لی ہے!! یہ کہتے ہی وہ اپنے بہنوئی پر جھپٹ پڑے اور انہیں مارنا شروع کر دیا.یہ دیکھ کر اُن کی بہن اپنے خاوند کو بچانے کے لئے آگے بڑھی مگر حضرت عمرؓ کا ہاتھ جو اُٹھ چکا تھا اُسے روکنا مشکل تھا چنانچہ ایک مکہ ان کی بہن کو بھی جا لگا اور اُن کے جسم میں سے خون بہنے لگا.

Page 591

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۵ سیر روحانی (۶) ا بہن کو زخمی دیکھ کر حضرت عمر یوں تو عرب لوگ اپنی بیویوں کو مارنا کوئی عیب نہ سمجھتے تھے مگر کسی دوسری عورت پر کی ندامت و شرمندگی ہاتھ اٹھانا وہ اپنی مردانگی کے خلاف خیال کرتے تھے حضرت عمر کا اپنی بہن کو زخمی کرنا پالا رادہ نہ تھا چونکہ وہ اپنا ہا تھا اُٹھا چکے تھے اس لئے اب اُس کا رُکنا مشکل ہو گیا تھا جب انہوں نے اپنی بہن کو زخمی اور خون میں تر بتر دیکھا تو اُن کے دل میں ندامت اور شرمندگی پیدا ہوئی اور انہیں گھبراہٹ کے عالم میں اور کچھ نہ سُوجھا اپنی بہن سے کہنے لگے اچھا ان باتوں کو جانے دو یہ بتاؤ کہ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے ؟ یہ سُن کر بہن کو بھی سخت غصہ آیا ، کہنے لگی میں تمہیں ہرگز وہ اوراق نہیں دکھاؤنگی کیونکہ مجھے خطرہ ہے کہ تم اُن کو ضائع کر دو گے.حضرت عمر نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں کہ ایسا نہیں کرونگا بلکہ دیکھ کر تمہیں واپس دید ونگا.بہن نے کہا تم جب تک غسل نہ کر لو تم ان اوراق کو ہاتھ نہیں لگا سکتے چنانچہ حضرت عمر غسل کرنے کے لئے چلے گئے جب غسل سے فارغ ہوئے تو بہن نے قرآن کریم کے وہ اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے.حضرت عمر پر قرآن کریم کا معجزانہ اثر حضرت عمر کے دل میں بہین کے زخمی کرنے سے اتنی ندامت پیدا ہو چکی تھی کہ ضد اور تعصب اور عداوت کا وہ پردہ جس کی وجہ سے وہ قرآن کریم کو سننا تک گوارا نہ کر سکتے تھے اب ہٹ چکا تھا.جب بہن نے قرآن کریم کے اوراق ان کے سامنے رکھے تو انہوں نے انہیں پڑھنا شروع کیا وہ آیات سورہ طہ کی تھیں جوں جوں وہ ان آیات کو پڑھتے جاتے ایک ایک لفظ ان کے سینے میں نقش ہوتا چلا جاتا.پڑھتے پڑھتے حضرت عمرؓ کی حالت بالکل بدل گئی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور قرآن کریم کی آیات نے اُن کی فطری سعادت کو بیدار کر دیا قرآن کریم کا ایک ایک لفظ ان کے سینے کی گہرائیوں میں جاگزیں ہو گیا.اب عمر وہ عمر نہیں رہا تھا جو مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے دُکھ دیا کرتا تھا، اب عمر وہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنی لونڈی کو اسلام لانے کی وجہ سے

Page 592

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) ہمیشہ زدوکوب کیا کرتا تھا، اب عمر وہ عمر نہیں رہا تھا جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ عہد کر کے نکلا تھا کہ آج میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر کے ہی واپس کو ٹو نگا، اب عمر اپنی اس اصل حالت پر آچکا تھا جو اُس کے لئے ازل سے مقد رتھی ، اب عمر اس رنگ میں رنگین ہو چکا تھا جس میں خدا تعالیٰ اُسے رنگنا چاہتا تھا ، اب عمر کی سنگدلی کی جگہ ایمان کامل نے لے لی تھی حضرت عمرؓ نے جب یہ آیت پڑھی.اِنَّنِي آنَا اللهُ لا إله إلا انَا فَاعْبُدْنِي ، وَأَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِي إِنَّ السَّاعَةَ أُتِيَةً أَكَادُ أَخْفِيْهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْس بما تشخی۵۹ تو وہ بے اختیار ہو کر بولے یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے.یہ سنکر حضرت خباب جوان سے ڈر کر چھپے بیٹھے تھے باہر نکل آئے.حضرت عمر کی دارار تم کو روانگی حضرت عمر نے جنہیں اب ایمان نے بیقرار کر دیا تھا بیتابی کے ساتھ خباب سے پوچھا مجھے جلد بتا ؤ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہیں؟ میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں.خباب نے بتا دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں جگہ ہیں مگر چونکہ حضرت عمرؓ نے ابھی تک اپنی تلوار اسی طرح کھینچ رکھی تھی جس سے یہ خطرہ محسوس ہوتا تھا کہ ان کے ارادے نیک نہیں اس لئے ان کی بہن اس خیال سے کہ خدانخواستہ ان کی نیت خراب ہی نہ ہو آگے بڑھی اور ان کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگی خدا کی قسم ! میں تمہیں ہرگز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں جانے دوں گی جب تک تم مجھ سے اقرار نہ کرو کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی دُکھ نہیں پہنچاؤ گے.حضرت عمر نے کہا نہیں نہیں بہن ! ایسا نہیں ہوسکتا مجھ پر اسلام کا گہرا اثر ہو چکا ہے.یہ سنکر بہن نے انہیں چھوڑ دیا اور حضرت عمر دار ارقم کی طرف روانہ ہو گئے جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن دنوں مقیم تھے.حضرت عمرؓ کا رسول کریم صلی اللہ حضرت عمر نے دروازے پر پہنچ کر دستک علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہوتا ہی رسول کریم صل اللہ علیہ وسلم اس وقت داخل صحابہ کو قرآن کریم کی تعلیم دے رہے تھے.صحابہ نے جب دروازے کی دراڑ میں سے دیکھا کہ عمر ننگی تلوار لئے دروازے

Page 593

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۷ سیر روحانی (۶) میں کھڑے ہیں تو انہوں نے سمجھا آج عمر کے ارادے نیک نہیں ہیں اس لئے انہوں نے دروازہ کھولنے میں تامل کیا لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دروازہ کھول دو.حضرت حمزہ جو ابھی نئے ایمان لائے تھے جوش کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے دروازہ کھول دو اگر تو عمر کسی نیک ارادہ کے ساتھ آیا ہے تو بہتر ورنہ کیا عمر کو تلوار چلانی آتی ہے ہمیں تلوار چلانی نہیں آتی.صحابہ نے دروازہ کھولا اور حضرت عمر اُسی طرح ننگی تلوار لئے اندر داخل ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھتے ہی فرمایا عمر ! تم کس ارادے سے آئے ہو؟ حضرت عمر نے عرض کیا یا رَسُولَ اللَّه! میں تو آپ کے خادموں میں داخل ہونے کے لئے حاضر ہو ا ہوں.نعرہ ہائے تکبیر یہ سنگر آپ نے خوشی کے جوش میں اللهُ اَكْبَرُ کہا اور ساتھ ہی صحابہ نے بڑے زور کے ساتھ اللہ اکبر کا نعرہ لگایا یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں بھی گونج اُٹھیں.10 خدا کی حفاظت کا غیر معمولی نشان اب دیکھ عمر تو اس ارادہ کے ساتھ اپنے گھر سے نکلے تھے کہ آج میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار کر ہی واپس لوٹوں گا اُس وقت جبکہ عمر ا پنی تلوار سونت کر گھر سے نکلے ہونگے مکہ والے کتنے خوش ہونگے کہ آج عمر محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کئے بغیر واپس نہ آئیگا، مکہ کے لوگ بیتابی کے ساتھ انتظار کر رہے ہونگے کہ کب انہیں خوشخبری ملتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوقتل کر دیا گیا ہے ، وہ لوگ ایڑیاں اُٹھا اٹھا کر حضرت عمرؓ کی راہ تک رہے ہو نگے کہ کب وہ پہنچ کر اپنی کامیابی کی اطلاع دیتے ہیں ، وہ لوگ خوش ہونگے کہ آج عمرؓ اس جھگڑے کو ختم کر کے ہی واپس آئے گا.عمرا اپنی جگہ خوش تھے اور گھر سے تلوار سونت کر نکلتے وقت کہہ رہے ہونگے کہ میرے جیسا بہادر بھلا فیصلہ کئے بغیر کوٹ سکتا ہے؟ غرض حضرت عمرا اپنی جگہ خوش تھے اور مکہ والے اپنی جگہ پر خوش تھے اس بات پر که محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج ضرور قتل ہو جا ئینگے مگر خدا تعالیٰ عرش پر بیٹھا ہوا اُن کی نادانی پر ہنس رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا ہم نے تجھ سے یہ

Page 594

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۸ سیر روحانی (۶) نہیں کہا کہ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ، ل خدا تعالیٰ تجھے خود لوگوں کے حملہ سے بچائے گا چنانچہ اُس نے حضرت عمرؓ کو اس طرح پکڑا کہ کوئی انسان اس طرح پکڑ نہیں سکتا.انسان کی گرفت زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ کوئی مسلمان حضرت عمرؓ کے مقابلہ میں کھڑا ہو جا تا اور اُن کو مار دیتا، انسان کی گرفت زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت عمر کی بہن یا ان کا بہنوئی اور ان کا حبشی غلام انہیں راستہ میں پکڑ لیتے اور انہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ جانے دیتے ، انسان کی گرفت یہ ہو سکتی تھی کہ حضرت حمزہ یا کوئی اور صحابی حضرت عمر کے مقابلہ پر کھڑے ہو جاتے اور انہیں قتل کر دیتے مگر خدا تعالیٰ نے حضرت عمر کو اس طرح پکڑا کہ وہی عمر جو آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے نکلا تھا آپ کے پاس پہنچ کر خود قتل ہو گیا.جسم کی موت بھلا کیا حقیقت رکھتی ہے اصل موت تو وہ ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی کی غلامی میں داخل ہو جاتا ہے.حضرت عمرؓ گئے تو اس نیت کے ساتھ تھے کہ وہ آپ کو مار دینگے لیکن اسی عمر کو خدا نے ایسا مارا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر تلوار لے کر کھڑا ہو گیا اور اُس نے کہا کہ اگر کسی نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں تو میں اُس کی گردن کاٹ دونگا.۱۲ پھر واقعہ ہجرت پر غور کرو اور دیکھو کہ اللہ تعالیٰ نے رسول کریم واقعہ ء ہجرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کیسی معجزانہ رنگ میں حفاظت فرمائی.ملکہ کے صنادید آپس میں مشورہ کر کے فیصلہ کرتے ہیں کہ مختلف قبائل کے مسلح نوجوان رات کو آپ کے مکان کے ارد گرد گھیرا ڈال لیں اور جب آپ باہر تشریف لائیں تو سب مل کر آپ کو قتل کریں تا کہ یہ خون قریش کے متفرق قبائل پر تقسیم ہو جائے اور بنو ہاشم انتقام لینے کی جرات نہ کر سکیں.ادھر انہوں نے یہ فیصلہ کیا اور اُدھر اُسی خدا نے جس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہوا تھا محمد رسول اللہ علیہ وسلم کو کفار کے اس بدارادہ کی اطلاع دے دی اور آپ کو مکہ سے ہجرت کا حکم دے دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اپنے گھر سے ایسی حالت میں نکلتے ہیں جب قریش کے مسلح نوجوان آپ کے قتل کے ارادہ سے آپ کے مکان کے ارد گر دیگھیرا ڈالے ہوئے ہیں مگر آپ کے دل

Page 595

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۶۹ سیر روحانی (۶) میں کوئی گھبراہٹ پیدا نہیں ، آپ کے بدن میں کوئی ارتعاش پیدا نہیں ہوتا ، آپ کے جسم پر کپکپی طاری نہیں ہوتی ، آپ کے حواس پراگندہ نہیں ہوتے ، آپ بڑے اطمینان کے ساتھ اُن سفاک اور خونخوار بھیڑیوں کے درمیان سے خراماں خراماں نکل جاتے ہیں اور کوئی آنکھ آپ کو بد ارادہ سے نہیں دیکھ سکتی ، کوئی ہاتھ آپ پر وار کرنے کے لئے نہیں اُٹھ سکتا، کوئی تلوار اپنی میان سے باہر نہیں آسکتی ، زمین و آسمان کے خدا نے اُن کی آنکھوں کو اندھا کر دیا، اُن کے ہاتھوں کوشل کر دیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بحفاظت وہاں سے نکال لیا کیونکہ خدا نے یہ فرمایا تھا کہ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ - غار ثور تک پہنچ کر بھی دشمن رسول کریم صلی اللہ جب دشمن نے دیکھا کہ اس کا یہ تیر بھی خالی چلا گیا تو علیہ وسلم کی گرفتاری میں کامیاب نہ ہو سکا اپنی ندامت اور شرمندگی مٹانے کے لئے اُس نے مکہ کے ہوشیار اور فنکا رکھوجیوں کی مدد سے آپ کے پاؤں کے نشانات دیکھتے ہوئے غار ثور تک آپ کا تعاقب کیا اور دشمن اس قدر قریب پہنچ گیا کہ حضرت ابو بکر جو اس ہجرت میں آپ کے ساتھ شامل تھے گھبرا اُٹھے اور انہوں نے کہا يَا رَسُول اللہ ! دشمن اس قدر قریب پہنچ چکا ہے کہ اگر وہ ذرا آگے بڑھ کر غار کے اندر جھا نکے تو ہمیں پکڑنے میں کامیاب ہو سکتا ہے.مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے اطمینان سے فرماتے ہیں کہ اے ابو بکر ! گھبراتے کیوں ہو خدا ہمارے ساتھ ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں پکڑنے میں کامیاب ہوسکیں.چنانچہ مکہ کے صنادید جس طرح رات کی تاریکی میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑنے میں ناکام و نا مراد رہے ہیں اسی طرح وہ دن کی روشنی میں بھی آپ کی گرفتاری میں کامیاب نہ ہو سکے اور خدا نے بتا دیا کہ میں رات اور دن اس انسان کے ساتھ ہوں.ممکن ہے اُن مکہ کے نوجوانوں میں بعض یہ خیال کرتے ہوں کہ چونکہ رات تھی اس لئے محمد رسول اللہ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ، خدا اُن کو دن کے وقت غار ثور کے منہ پر لایا اور پھر اُن کی آنکھوں میں نا بینائی پیدا کر کے بتا دیا کہ اس کا اصل باعث یہ نہیں کہ محمد رسول اللہ رات کی تاریکی میں

Page 596

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۰ سیر روحانی (۶) نکل آئے تھے بلکہ اس کا اصل باعث یہ ہے کہ میں اس کا محافظ ہوں ورنہ دن کی روشنی میں اپنے کھوجیوں کی نشان دہی کے باوجود تم اسے پکڑنے میں کیوں کامیاب نہ ہو سکے.سُراقہ کا تعاقب پھر جب آپ مدینہ جارہے تھے ایک دشمن آپ کے سر پر پہنچ گیا مگر الہی تصرف کے ماتحت اُس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ گھٹنوں تک زمین میں پھنس گیا.وہ پھر آگے بڑھا تو دوبارہ اُس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور وہ پیٹ تک زمین میں پھنس گیا.اس پر وہ گھبرا اُٹھا اور اُس نے سمجھا کہ یہ بلا وجہ نہیں ہو سکتا چنانچہ یا تو وہ آپ کی گرفتاری کے ارادہ سے باہر نکلا تھا یا بجز اور انکسار کے ساتھ وہ آپ سے معافی کا طالب ہوا اور اُس نے کہا کہ آپ خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ آپ ایک دن ضرور غالب آکر رہیں گے.۶۴ اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر خدا تعالیٰ نے آپ کی معجزانہ رنگ میں حفاظت فرمائی اور دشمن کو اپنے ناپاک عزائم میں نا کام رکھا.الہی تصرف کے ماتحت دشمن اسی طرح غزوہ خطفان سے واپسی کے موقع پر جبکہ آپ ایک درخت کے نیچے سور ہے تھے ایک کے ہاتھ سے تلوار گر جانا دشمن آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آپ کے پاس جا پہنچا اور اُس نے آپ کی ہی تلوار سونت کر آپ کو جگایا اور پوچھا کہ اب آپ کو کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے لیٹے لیٹے نہایت اطمینان کے ساتھ فرمایا کہ اللہ.ان الفاظ کا اُس پر ایسا ہیبت ناک اثر ہوا کہ اُس کے ہاتھ کانپ گئے اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً وہ تلوار اپنے ہاتھ میں پکڑی اور اُس سے پوچھا کہ بتا اب تجھے مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اُس نے کہا آپ ہی رحم کریں تو کریں ورنہ میری نجات کا اور کوئی ذریعہ نہیں.۶۵ جنگ اُحد میں خدائی تصرف پھر جنگ اُحد میں ایک وقت ایسا آیا جب بعض صحابہ کی غلطی کی وجہ سے اسلامی لشکر تتر بتر ہو گیا اور آپ کے ارد گر دصرف چند صحابہ رہ گئے اور ایک وقت تو ایسا آیا کہ آپ اکیلے

Page 597

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۱ سیر روحانی (۶) نرغہء اعداء میں گھر گئے.ایسے خطرناک موقع پر اگر خدا کی حفاظت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو دشمن کے لئے آپ کو جانی نقصان پہنچانا کوئی بڑی بات نہ تھی.ہزاروں مسلح سپاہیوں کے سامنے کسی ایک شخص کی کیا حیثیت ہوتی ہے مگر ان نازک گھڑیوں میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دشمن کے سامنے میدانِ جنگ میں ڈٹے رہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی وہاں سے ہٹ جانے یا خود حفاظتی کے لئے کسی پتھر کے پیچھے چھپ جانے کا خیال بھی آپ کے دل میں پیدا نہیں ہوا.دشمن آگے بڑھا اور اُس نے آپ پر شدید حملہ کر دیا یہاں تک کہ آپ کے دندانِ مبارک بھی شہید ہو گئے اور آپ بیہوش ہو کر گڑھے میں گر گئے.دشمن نے سمجھا کہ وہ آپ کو مارنے میں کامیاب ہو گیا ہے مگر جب جنگ کے بادل پھٹے انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے صحابہ میں سورج کی طرح دسکتے دیکھا اور یہ خبر اُن پر بجلی بن کر گری کہ آج بھی وہ ہزاروں کا لشکر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ، اور کیوں ایسا نہ ہوتا جبکہ اس گورنر جنرل کے متعلق دربارِ خاص میں یہ اعلان کر دیا گیا تھا کہ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ، اے محمد رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! خدا تجھے لوگوں کے حملوں سے بچائے گا.جنگ حنین میں محمد رسول اللہ صلی اللہ اسی طرح حنین کی جنگ میں جب صرف با راه آدمی رسول کریم (۱۲) علیہ وسلم کا دشمن کی طرف بڑھتے چلے جانا صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گردورہ گئے تھے اور دشمن کے چار ہزار تیرانداز تیروں کی بارش برسا رہے تھے بعض صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگے بڑھنے سے روکنا چاہا اور کہا کہ يَا رَسُولَ الله ! اِس وقت آگے بڑھنا ہلاکت کے منہ میں جانا ہے مگر آپ نے بڑے جوش سے فرمایا میرے گھوڑے کی باگ چھوڑ دو میں پیچھے نہیں ہٹ سکتا اور خود دشمن کی طرف یہ کہتے ہوئے آپ نے بڑھنا شروع کر دیا کہ :.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبُ

Page 598

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۲ سیر روحانی (۶) میں خدا تعالیٰ کا سچا نبی ہوں اُس کی طرف جھوٹی بات منسوب نہیں کر رہا لیکن میری اس وقت کی کیفیت کو دیکھ کر تم یہ خیال نہ کر لینا کہ میرے اندر کوئی خدائی طاقت پائی جاتی ہے میں ایک انسان ہوں اور عبد المطلب کا بیٹا ہوں.غرض اُن نازک گھڑیوں میں بھی جب اسلام کے جانباز سپاہی جو سارے عرب کو شکست دے چکے تھے بارہ ہزار کی تعداد میں ہوتے ہوئے ایک غیر متوقع حملہ کی تاب نہ لا کر اپنے پائے ثبات میں جنبش محسوس کر رہے تھے اور اُن کی سواریاں میدانِ جنگ سے بھاگ رہی تھیں ، جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گر دصرف چند آدمی رہ گئے تھے ، جب ہر طرف سے دشمن بارش کی طرح تیر برسا رہے تھے آپ آگے ہی آگے بڑھتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یقین تھا میرا خدا میرے ساتھ ہے اور وہ مجھے خود دشمن کے حملہ سے بچائے گا.ایک حیرت انگیز واقعہ پھر اسی جنگ کا ایک اور حیرت انگیز واقعہ یہ ہے کہ ملکہ کا ایک شخص جس کا نام شیبہ تھا اس جنگ میں صرف اس نیت اور ارادہ کے ساتھ شامل ہوا کہ موقع ملنے پر میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دونگا.جب لڑائی تیز ہوئی تو وہ خود کہتا ہے کہ میں نے تلوار سونت لی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارادہ سے میں نے آپ کے قریب ہونا شروع کیا.اُس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے جلا کر بھسم کر دے مگر پھر بھی میں آگے بڑھتا چلا گیا اُس وقت اچانک مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ ! میرے پاس آؤ جب میں آپ کے قریب پہنچا تو آپ نے میرے سینہ پر اپنا ہاتھ پھیرا اور فرمایا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالات سے نجات دے.شیبہ کہتے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا تھا کہ یکدم میری تمام دشمنی دُور ہوگئی اور میرا دل آپ کی محبت اور پیار کے جذبات سے اس قدر لبریز ہو گیا کہ اُس وقت میرے دل میں سوائے اس کے اور کوئی خواہش نہ رہی کہ میں اپنی جان آپ کے لئے قربان کر دوں.۱۸

Page 599

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۳ سیر روحانی (۶) تھا اُس نے یہود کے اشتعال دلانے پر شاہ ایران کا محمد رسول اللہ صلی اللہ پھر کسری شاہ ایران جو آدھی دنیا کا مالک علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم دینا اپنے گورنر بین کو لکھا کہ عرب کے اس مدعی نبوت کو گرفتار کر کے میرے پاس بھجوا دیا جائے یہ شخص اپنے دعووں میں بہت بڑھتا چلا جا رہا ہے.گورنریمن نے اس حکم کے ملتے ہی ایک فوجی افسر کو اس ڈیوٹی پر مقرر کیا اور وہ ایک سپاہی کو اپنے ساتھ لیکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے مدینہ منورہ میں پہنچا اور اُس نے آپ سے کہا کہ کسری نے گورنر یمن کو حکم بھجوایا ہے کہ آپ کو گرفتار کر کے اُس کی خدمت میں حاضر کیا جائے اور ہم اس غرض کے لئے یہاں آئے ہیں آپ ہمارے ساتھ چلیں ورنہ کسری کو زیادہ غصہ آیا تو وہ آپ کو بھی ہلاک کر دیگا اور آپ کی قوم اور ملک کو بھی برباد کر دے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شاہ ایران کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سزا نے فرمایا تم آج رات ٹھہرو کل میں تمہیں اس کا جواب دونگا.رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی تو خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو بتایا گیا کہ کسریٰ کی اس گستاخی کی سزا میں آج رات ہم نے اس کے بیٹے کو اس پر مسلط کر دیا ہے اور اُس نے اپنے باپ کو قتل کر دیا ہے.جب صبح ہوئی اور گورنر یمن کے ایچی دوبارہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا جاؤ اور اپنے گورنر سے جا کر کہہ دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خداوند کو مار دیا ہے.جب گورنر یمن کو یہ اطلاع پہنچی تو اس نے کہا اگر یہ گورنر یمن کا استعجاب فخص واقعہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے تو ایسا ہی ہوا ہو گا لیکن اگر یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں تو پھر کسر ٹی اسے بھی تباہ کر دیگا اور اس کے ملک کو بھی برباد کر دے گا بہر حال اُس نے حیرت اور استعجاب کے ساتھ اس خبر کو سُنا اور اُس نے ایران سے آنے والی اطلاعات کا انتظار کرنا شروع کیا.

Page 600

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۴ سیر روحانی (۶) گورنر یمن کا اقرار کہ مدینہ تھوڑے ہی دن گزرے تھے کہ یمن کی بندرگاہ پر ایران کا ایک جہاز لنگر انداز ہوا اور اس میں ایک کے نبی نے سچ کہا تھا شاہی ایلچی نے گور نریمن کو بادشاہ کا ایک محلے دیا.خط اُس پر چونکہ ایک نئے بادشاہ کی مہر تھی اس لئے خط کو دیکھتے ہی گورنر یمن کہہ اُٹھا کہ مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا.پھر اُس نے خط کھولا تو اُس میں کسری کے بیٹے ( شیرویہ ) نے لکھا ہوا تھا کہ میں نے اپنے باپ کو اس کے مظالم کی وجہ سے قتل کر دیا ہے اور اب میں اُس کی جگہ تخت حکومت پر متمکن ہوں تم تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور یہ بھی یاد رکھو کہ میرے باپ نے عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا جو حکم بھیجا تھا اُس کو میں منسوخ کرتا ہوں کیونکہ وہ نہایت ظالمانہ حکم تھا.گورنر یمن اس خط کو پڑھ کر اس قد رمتاثر ہوا کہ وہ اور اُس کے کئی ساتھی اُسی وقت اسلام میں داخل ہو گئے انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام میں داخل ہونے کی اطلاع بھجوا دی.19 اس واقعہ پر غور کرو اور دیکھو کہ کس طرح قدم قدم پر اللہ تعالیٰ کی معجزانہ تائید اور اس کی نصرت آپ کے شامل حال رہی.دشمن نے آپ کو قتل کرنے کے لئے کئی منصوبے کئے مگر اللہ تعالیٰ نے ہر دفعہ اس کو اپنے منصوبوں میں نا کام رکھا.یہود کی متواتر نا کامی مدینہ منورہ میں اسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہود تھے جو مخالفت کا کوئی موقع اپنے ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے.ایک دفعہ انہی کے ایک قبیلہ بنونضیر نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بعض امور پر گفتگو کرنے کے لئے بلوایا.لیکن در پردہ سازش کی کہ ایک شخص چپکے سے چھت پر چڑھ کر ایک بڑا وزنی پتھر آپ پر گرا دے جس سے آپ ہلاک ہو جائیں اور بعد میں یہ مشہور کر دیا جائے کہ یہ ایک اتفاقی حادثہ ہو گیا ہے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت اِس کی خبر دیدی اور آپ وہاں سے اُٹھ کر واپس آگئے.کے اسی طرح غزوہ خیبر میں ایک یہودی عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کی اور کھانے میں زہر ملا دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلا لقمہ ہی اُٹھایا تھا

Page 601

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) کہ آپ کو اس کا علم ہو گیا کہ کھانے میں زہر ملایا گیا ہے اور آپ اسے چھوڑ کر کھڑے ہو گئے.ایک غرض اس دربار میں خدائی گورنر جنرل کے متعلق جو کچھ کہا گیا تھا تاریخی واقعات اس بات پر گواہ ہیں کہ وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پوار ہوا.اچھے ہتھیاروں اور اچھے پھر ایک افسر سبھی کامیاب ہوتا ہے جب اسے اچھے ہتھیار اور اچھے معاون ملیں.دُنیوی بادشاہ افسر معاونوں کی ضرورت مقرر کر کے یہ چاہتے ہیں کہ اب وہ اچھے ہتھیار اور اچھے معاون خود تلاش کریں مگر اس دربار میں میں نے یہ عجیب بات معلوم کی کہ گورنر جنرل کے مقرر ہوتے ہی یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ اسے بہترین ہتھیا راور بہترین معاون ہم خود دینگے اسے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی چنانچہ اس خدائی گورنر جنرل کے متعلق یہ اعلان کیا گیا کہ گلا اِنَّهَا تَذْكِرَةً فَمَنْ شَاءَ ذَكَرَات في صُحف مكرّمَةٍ مَرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةٍن بايدي سَفَرَةٍن كرَام بَرَرَةٍن ۷۲ قرآنی اسلحہ اے لوگو سنو! ہم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا کا روحانی حاکم مقرر فرما دیا ہے اور اسے ایک ایسے ہتھیار کے ساتھ صلح کیا ہے جس کی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ جسموں کو نہیں بلکہ دلوں اور دماغوں کو فتح کرتا ہے.پھر یہ ہتھیا رایسا نہیں جس کی چوٹ کھا کر لوگ زخموں سے تڑپنے اور تلملا نے لگ جائیں بلکہ فَمَن شَاء ذكره لوگ اس ہتھیار کی چوٹ کھانے اور اس کا شکار ہونے میں ایک لذت اور سرور محسوس کرتے ہیں.یہ روحانی ہتھیار صُحُف مكرمة میں ہے یعنی پہلی الہامی کتب کی تمام اعلیٰ درجہ کی اخلاقی اور روحانی تعلیموں کو اس میں جمع کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے لوگ اسے اپنے سروں پر اُٹھائے پھر میں گے اور کوئی نقص اس میں نہیں پائیں گے.حاملین قرآن کی عظمت یہ ہتھیار بايدي سفرة ہوگا یعنی ایسے سپاہیوں کے ہاتھوں میں دیا جائیگا جو مسافر بھی ہونگے اور لکھنے والے بھی ہونگے یعنی ایک طرف وہ اپنے زمانہ کے لوگوں کے دلوں کو فتح کرنے کے لئے

Page 602

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۶ سیر روحانی (۶) دُور دُور کا سفر کرینگے جیسے صحابہ قرآن کریم کو اپنے ہاتھ میں لے کر ہندوستان، ایران، عراق، مصر، بربر اور روم وغیرہ تک چلے گئے اور دوسری طرف آئندہ زمانہ کے لوگوں کے دل فتح کرنے کے لئے وہ اس کتاب کو لکھ لکھ کر پھیلا دینگے تا کہ ہر زمانہ کے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.وہ دنیا کو اس ہتھیار سے فتح کرنے کی وجہ سے کرا چھ ہو جائیں گے لیکن معز ز ہونے کی وجہ سے وہ مغرور نہ ہونگے بلکہ بردة ہوں گے یعنی دوسروں پر احسان کرنے والے اور اُن کے غمخوار اور اپنی ترقی کو ذاتی بڑائی کا موجب نہیں بنائیں گے بلکہ اُسے محتاجوں کی تکلیفیں اور غرباء کی مشکلات دور کرنے کا موجب بنائیں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور چنا نچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگی کے حالات پر نگاہ ڈالی آپ کے صحابہ کی غرباء پروری جائے تو ہر شخص کو یہ اقرار کرنے پر مجبور ہونا پڑیگا کہ ان میں یہ خوبی نہایت نمایاں طور پر پائی جاتی تھی.اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کو بڑی شان عطا فرمائی مگر ہر قسم کی طاقت اور شوکت رکھنے کے باوجود انہوں نے غرباء اور مساکین کے ساتھ اپنا تعلق قائم رکھا اور اُنکی تکالیف کو دور کرنے کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کیا.حلف الفضول میں شمولیت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابھی مبعوث نہیں ہوئے تھے کہ مکہ کے بعض شرفاء نے ایک سوسائٹی بنائی جس کا کام یہ تھا کہ جو لوگ مظلوم ہوں اُن کی امداد کی جائے اس سوسائٹی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شامل ہوئے اور چونکہ اس کے بانیوں میں سے اکثر کے نام میں فضل آتا تھا اِس لئے اِس کا نام حلف الفضول رکھا گیا.اس واقعہ پر سالہا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ صحابہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! یہ کیسی سوسائٹی تھی جس میں آپ بھی شریک ہوئے تھے ؟ غالباً صحابہ کا منشاء یہ تھا کہ آپ تو نبی ہو نے والے تھے آپ ایک انجمن کے ممبر کس طرح ہو گئے جس میں دوسروں کے.

Page 603

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۷ سیر روحانی (۶) ماتحت ہو کر کام کرنا پڑتا تھا.آپ نے فرمایا یہ تحریک مجھے ایسی پیاری تھی کہ اگر آج بھی مجھے کوئی اس کی طرف بلائے تو میں اس میں شامل ہونے کے لئے تیار ہوں کے گویا غرباء کی امداد کے لئے آپکو دوسروں کی ماتحتی میں بھی کوئی عار نہیں تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مظلوم پھر اللہ تعالیٰ نے اس کا ایک ثبوت بھی انہی دنوں بہم پہنچا شخص کے متعلق ابو جہل سے مطالبہ دیا.مکہ کے قریب کا ایک شخص تھا جس کا ابو جہل کے ذمہ کچھ قرض تھا اُس نے ابو جہل سے اپنے روپے کا مطالبہ شروع کر دیا مگر ابو جہل اس کی ادائیگی میں لیت و لعل کرتا رہا.آخر وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ابو جہل نے میرا اتنا روپیہ مارا ہوا ہے آپ مجھے میرا حق دلا دیں.یہ وہ زمانہ تھا جب ابو جہل آپ کے قتل کا فتوی دے چکا تھا اور ملکہ کا ہر شخص آپ کا جانی دشمن تھا.جب آپ باہر نکلتے تو لوگ آپ پر پتھر اور مٹی پھینکتے ، بیہودہ آوازے کستے اور ہنسی اور تمسخر کرتے مگر آپ نے ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور فوراً اُس آدمی کو ساتھ لے کر ابو جہل کے مکان پر پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.ابوجہل نے دروازہ کھولا تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ وہ شخص جس کا میں اس قدر دشمن ہوں آج میرے مکان پر چل کر آ گیا ہے.اُس نے پوچھا آپ کس طرح آئے ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے اس شخص کا کوئی روپیہ دینا ہے؟ اس نے کہا ہاں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر دے دو.ابو جہل خاموشی سے اندر گیا اور روپیہ لا کر اس کے حوالے کر دیا.۴ کے قدرت کا ایک عجیب نشان جب یہ خبر مکہ میں مشہور ہوئی تو لوگوں نے ابوجہل کا مذاق اُڑانا شروع کر دیا کہ تم تو کہتے تھے کہ محمد ( صلے اللہ علیہ وسلم ) کو جتنا دُ کھ دیا جائے اتنا ہی اچھا ہے اور خود اُن سے اتنا ڈر گئے کہ اُن کے کہتے ہی چُپ کر کے روپیہ لا کر دیدیا.ابو جہل کہنے لگا تم نہیں جانتے جب میں نے دروازہ کھولا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے دائیں اور بائیں دو

Page 604

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۸ سیر روحانی (۶) دیوانے اونٹ کھڑے ہیں اور اگر میں نے ذرا بھی انکار کیا تو وہ مجھے نوچ کر کھا جائینگے.۷۵ غرض ایک غریب کا حق دلوانے کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جان کو خطرہ میں ڈالنے سے بھی دریغ نہ کیا اور اس طرح اپنے عمل سے بتا دیا کہ انسان کے اندر غرباء کی امداد کا کس قدر احساس ہونا چاہئے.صدقہ کا ایک دینا ر تقسیم نہ ہونے پر اسی طرح ایک دفعہ صدقات کا کچھ روپیہ آیا تو اُن کو تقسیم کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گھبراہٹ ایک دینار کسی کونے میں گر گیا اور آپ کو اُٹھانے کا خیال نہ رہا.نماز پڑھانے کے بعد آپ کو یاد آیا تو لوگوں کے اوپر سے پھاندتے ہوئے آپ جلدی سے اندر تشریف لے گئے.صحابہ حیران ہوئے کہ آج کیا بات ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گھبراہٹ میں گھر تشریف لے گئے ہیں.جب آپ واپس آئے تو آپ نے فرمایا صدقہ کا ایک دینا ر گھر میں رہ گیا تھا میں نے چاہا کہ جس قدر جلدی ممکن ہو اسے غرباء میں تقسیم کر دوں.۶ کے حضرت عائشہ کی سخاوت اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا گو خود نہیں کماتی تھیں مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کے تعلق کی وجہ سے صحابہ آپ کی خدمت میں اکثر ھدایا بھجواتے رہتے تھے لیکن وہ بھی اپنا اکثر رو پی غرباء اور مساکین میں تقسیم فرما دیا کرتی تھیں.تاریخ سے ثابت ہے کہ بعض دفعہ ایک ایک دن میں ہزار ہا روپیہ آپ کے پاس آیا مگر آپ نے وہ سب کا سب شام تک تقسیم کر دیا اور ایک پائی بھی اپنے پاس نہ رکھی.اس پر ایک سہیلی نے کہا آپ روزہ سے تھیں افطاری کے لئے چار آنے تو رکھ لیتیں آپ نے فرمایا تم نے پہلے کیوں نہ یاد دلایا.کے حضرت عائشہ کی اپنے ان کی عادت کو دیکھ کر ایک دفع ان کے بھانجے نے جس نے اُن کے مال کا وارث ہو نا تھا کہیں کہہ دیا کہ حضرت بھانجے سے نا راضگی عائشہ تو اپنا سارا مال لگا دیتی ہیں.یہ خبر جس

Page 605

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۷۹ سیر روحانی (۶) حضرت عائشہ کو پہنچی تو آپ نے اپنے گھر میں اُس کا آنا جانا بند کر دیا اور قسم کھائی کہ اگر میں نے اسے اپنے گھر میں آنے کی اجازت دی تو میں اس کا کفارہ ادا کروں گی.کچھ عرصہ کے بعد صحابہؓ نے درخواست کی کہ آپ اس کا قصور معاف فرما دیں.چنانچہ اُن کے زور دینے پر حضرت عائشہ نے اسے معاف کر دیا مگر فرمایا کہ چونکہ میں نے یہ عہد کیا تھا کہ اگر میں اسے معاف کروں گی تو کفارہ ادا کروں گی اس لئے میں اس کا کفارہ یہ قرار دیتی ہوں کہ آئندہ میرے پاس جو دولت بھی آئیگی وہ میں سب کی سب غرباء اور یتامی و مساکین کی بہبودی کے لئے تقسیم کر دیا کرونگی.۷۸ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی اسی طرح صحابہ میں سے حضرت عبدالرحمن بن عوف لا کھو ں کثرت مال کے باوجود انتہائی سادہ زندگی روپیہ کی جائداد کے مالک تھے چنانچہ جب آپ فوت ہوئے تو اڑھائی لاکھ دینا ر اُن کے گھر سے نکلا ۹ کے مگر اتنی دولت رکھنے کے باوجود تاریخ سے ثابت ہے کہ وہ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور اپنے اموال کا اکثر حصہ غرباء کی ترقی کے لئے خرچ دیا کرتے تھے.۸۰ غرض صحابہ نے مال و دولت کو کبھی ذاتی بڑائی کے حصول کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ ہمیشہ سے بنی نوع انسان کی بہبودی کے لئے خرچ کیا ہے.ایک صحابی کا اپنے تمام قرض معاف کر دینا یہ خوبی صحابہ میں اس قدر نمایاں پائی جاتی تھی کہ اسلامی تاریخ میں ایک مشہور صحابی حضرت قیس کے متعلق جنہیں فتح مکہ کے موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی لشکر کا کمانڈر مقررفرمایا تھا روایت آتی ہے کہ جب وہ مرض الموت میں مبتلاء ہوئے تو ایک دن انہوں نے اپنے بعض دوستوں سے پوچھا کہ میری بیماری کی خبر تو سب لوگوں میں مشہور ہو چکی ہے مگر میری عیادت کو بہت کم لوگ آئے ہیں اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے کہا بات دراصل یہ ہے کہ آپ بڑے مخیر آدمی ہیں آپ نے سینکڑوں لوگوں کو قرض دیا ہوا ہے اب وہ آپ کے پاس آتے ہوئے شرماتے ہیں کہ

Page 606

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۰ سیر روحانی (۶) مبادا آپ روپیہ کا تقاضا نہ کر دیں.آپ نے فرمایا! اوہو میرے دوستوں کو بڑی تکلیف ہوئی جاؤ اور سارے شہر میں منادی کردو کہ ہر شخص جس کے ذمہ قیس کا کوئی قرض ہے وہ اُسے معاف کر دیا گیا ہے.کہتے ہیں کہ اِس اعلان پر اس قدر لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے کہ ان کی سیڑھیاں ٹوٹ گئیں.11 یہ وہ بردة تھے جو محمد رسول اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے تیار ہوئے جنہوں نے اپنی جانوں اور اپنے اموال کو ایک حقیر چیز کی طرح محض اس لئے لگا دیا کہ بنی نوع انسان کو ترقی حاصل ہو.تمام مشکلات کو دُور کرنے کا وعدہ پھر دنیا میں حکومتوں پر جب مشکلات کے اوقات آتے ہیں تو بادشاہ اُن کا حوالہ دیکر کہتے ہیں کہ ہم امید کرتے ہیں کہ تم ثابت قدم رہو گے اور ہماری حکومت کے ہوا خواہ ثابت ہو گے اور ہمارے درجہ کی بلندی کا موجب ثابت ہو گے مگر اس دربار میں میں نے یہ عجیب بات دیکھی کہ تمام مشکلات کے حل کرنے کا بادشاہ خود وعدہ کرتا ہے.مثلاً سب سے بڑا صدمہ اس روحانی گورنر جنرل پر ترک وطن کے صدمہ بچے کو اپنے آبائی وطن کے چھوڑنے کا پیش آنے والا مکہ میں واپسی کی بشارت تھا سو اس کی اُس نے پہلے خبر دے دی کہ عارضی طور پر ہماری مصلحت کے ماتحت تمہارے دشمن تم پر غالب آئیں گے اور تم کو اپنا وطن چھوڑ نا پڑیگا لیکن ہم تجھے پھر اپنے وطن میں واپس لائیں گے چنانچہ فرماتا ہے.ان الَّذِي فَرضَ عَلَيْكَ الْقُرْآن تَرَادُكَ إلى معاد ۸۲ ہم جس نے تجھ پر قرآن کی حکومت قائم کی ہے اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ جب دشمن تجھے تیرے وطن سے نکال دیگا جس کی طرف دنیا حج اور عمرہ کے لئے بار بار آتی ہے تو ہم پھر تجھے واپس تیرے وطن میں لے آئیں گے.غور کرو اور دیکھو کہ کتنی بڑی تشفی ہے.اوّل مصیبت کے آنے کی خبر دی.دوم اس مصیبت کے وقت میں پیشگوئی پورا ہونے کی خوشی پہنچائی.سوم واپس آنے کی خوشخبری دی اور

Page 607

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۱ سیر روحانی (۶) چہارم عملاً واپس لا کر دل کو تیسری خوشی پہنچائی.کیا دنیا کا کوئی دربار خاص اس روحانی دربار کا مقابلہ کر سکتا ہے؟ دربار خاص میں محمد رسول اللہ صلی اللہ پھر سب حکومتیں ایک عرصہ کے بعد کمزور ہو کر مٹ جاتی ہیں کوئی علیہ وسلم کی دائمی حکومت کا اعلان حکومت دائی نہیں ہوتی.انگریزوں ہی کو دیکھ لو اُن کی حکومت اب ہندوستان میں کہاں ہے؟ سیلون میں کہاں ہے؟ برما میں کہاں ہے؟ پرانی زبر دست حکومتیں کہاں ہیں ؟ نہ بادشاہ باقی رہے نہ اُن کے اُمراء اور وزراء باقی رہے ، نہ مشکلات میں مشورے دینے والے کام آئے نہ دوسروں کی مشکلات میں مدد دینے کا وعدہ کر نیوالے اپنے وعدوں کا ایفاء کر سکے مگر میں نے اس دربارِ خاص میں دیکھا کہ گورنر جنرل کو یہ بتایا جا رہا تھا کہ تم کو ہمیشہ کی حکومت دنیا پر دی جاتی ہے چنانچہ فرمایا.وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا اے ہمارے رسول ! ہم نے تجھے کسی ایک قوم یا ایک ملک کی طرف نہیں بھیجا، کسی ایک صدی یا ایک زمانہ کے لوگوں کی طرف مبعوث نہیں کیا بلکہ دنیا کی ہر قوم اور قیامت تک آنے والا ہر زمانہ تیرا مخاطب ہے اور ہر فرد کے لئے تیری غلامی لازمی ہے گویا تیری حکومت دنیوی بادشا ہوں کی طرح عارضی اور فانی نہیں بلکہ دائمی حکومت تجھے عطا کی جاتی ہے اور ہمیشہ کی سرفرازی تجھ کو بخشی جاتی ہے اب کوئی ماں ایسا بچہ نہیں بن سکتی جو تیرے مقابل میں کھڑا ہو سکے.یہ کیسا شاندار مقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا کیا گیا اور کیسا عظیم الشان دربار ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعزاز کے لئے منعقد ہوا.دیوان خاص کی چوتھی غرض (۴) چوتھی غرض دیوانِ خاص کی یہ ہوتی ہے کہ بادشاہ اپنے درباریوں کو اُن کے اچھے کاموں پر خطاب دیتا اور انعام بخشتا ہے مگر دنیا کے درباروں میں میں نے دیکھا کہ خطاب ہے تو بے معنی اور انعام ہے تو فانی، حکومتیں ” خان بہادر اور خان صاحب“ کا خطاب دیتی ہیں مگر حقیقتا نہ وہ خان ہوتے ہیں نہ بہادر.پھر انعام دیتی ہیں تو بسا اوقات وہ انعام

Page 608

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۲ سیر روحانی (۶) عارضی ثابت ہوتے ہیں اور دوسری حکومت چھین لیتی ہے.کبھی انعام ملنے سے پہلے ہی وہ صاحب ختم ہو جاتے اور کبھی اُن سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق ہی نہیں ملتی.کھا نا ملتا ہے تو معدہ خراب ہو جاتا ہے، کپڑا ملتا ہے تو جسم پر خارش یا کوڑھ ہو جاتا ہے اور انسان نہ اس کھانے سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے نہ کپڑے سے.کبھی انعام لینے والے خود حکومت کے دشمن ہو جاتے ہیں جیسے بعض انگریز کے خوشامدی اور اس سے انعام واکرام لینے والے آج ہم سے اس لئے نا خوش ہیں کہ یہ انگریز کی اطاعت کرتے تھے اُس وقت ان کی تعریف سے ان کے لب خشک ہوتے تھے اور بڑی بڑی کوششوں اور التجاؤں کے بعد انعام لیتے تھے اور اب ہم پر جنھوں نے کبھی کچھ نہیں لیا آنکھیں نکالتے ہیں کہ تم نے اُن کے اچھے کاموں کی تعریف کیوں کی.غرض دنیوی درباروں کا نہ خطاب حقیقت کے مطابق ہوتا ہے نہ انعام مستقل اور پائدار ہوتا ہے اور نہ انعام لینے والے حکومت کے نیچے وفادار ہوتے ہیں.صحابہ کرام کو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمُ مگر میں نے دیکھا کہ اس دربار کا خطاب بالکل سچا اور انعام ہمیشہ کے لئے رہنے والا وَرَضُواعنه کا خطاب ہے چنا نچہ دیکھ لوصحابہ کواللہ تعالیٰ خطاب دیتے ہوئے فرماتا ہے کہ والشبقون الاولونَ مِنَ الْمُهْجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ و الَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۵۴ یعنی مہاجرین اور انصار میں سے وہ لوگ جو سابق پالایمان ہیں اور اسی طرح وہ لوگ جنھوں نے نیکی اور تقویٰ میں ان کے نمونہ کی اتباع کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اُس سے راضی ہو گئے یہ وہ عظیم الشان خطاب ہے جو صحابہ کرام کو ملا اور عَلَى رُؤُوسِ الْأَشْهَادِ اس کا اعلان کیا گیا.دنیا میں ہزاروں انقلابات آئے ، حکومتیں بدلیں ، حوادث رونما ہوئے مگر اس الہی دربار سے رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ کا جو خطاب صحابہ کرام کو ملا تھا وہ بدل نہ سکا.آج بھی جب صحابہ کا کوئی ذکر کرتا ہے تو ایک مخلص کا دِل محبت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہو جاتا ہے اور وہ رضيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ

Page 609

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۳ سیر روحانی (۶) کہے بغیر نہیں رہتا اور قیامت تک ایسا ہی ہوتا چلا جائے گا.یہ کوئی معمولی بات نہیں دنیا میں لوگ نہایت چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کرتے ہیں اور پھر اُن قربانیوں کے بعد جو بدلہ اُنہیں ملتا ہے وہ نہایت ہی ذلیل اور ادنیٰ قسم کا ہوتا ہے مگر اللہ تعالیٰ کے انعامات اتنے اہم ہوتے ہیں اور اُن کا دائرہ اتنا وسیع ہوتا ہے کہ اُن کے مقابلہ میں دنیا کی بادشاہتیں بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتیں مثلاً یہی بات دیکھ لو تیرہ سو سال کا زمانہ گزرنے کے باوجود آج بھی صحابہ کا ذکر آئے تو ہم رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ کہے بغیر نہیں رہ سکتے.اب یہ بھی ایک خطاب ہے جو اللہ تعالیٰ نے انہیں دیا ایسا ہی جیسے خان صاحب یا خان بهادر یا سر یا ڈیوک یا مارکوس یا ارل وغیرہ ہیں مگر سوچو تو سہی کتنے خان بہادر یا سر یا ڈیوک یا مارکونٹس یا ارک ہیں جن کا نام دنیا جانتی ہے یا کتنے بادشاہ ہیں جن کا نام دنیا خطاب سمیت لیتی ہے؟ بڑے بڑے بادشاہ دنیا میں گزرے ہیں مگر آج لوگ اُن کا نام نہایت بے پروائی سے لیتے ہیں.سکندر، دارا ، اور تیمور کا انجام سکندر کتنا بڑا بادشاہ تھا یونان سے وہ چلتا ہے اور ہندوستان تک فتح کرتا چلا آتا ہے اور بڑی بڑی زبر دست حکومتوں کو راستہ میں شکست دیتا ہے مگر آج ایک غریب اور معمولی مزدور بھی سکندر کا نام نہایت بے پروائی سے لیتا ہے.بچے بھی سکندر سکندر کہتے پھر تے ہیں اور کوئی ادب کا لفظ اُس کے لئے استعمال نہیں کرتا.دارا بھی ایک عظیم الشان بادشاہ تھا اور گوا سے سکندر کے مقابلہ میں شکست ہوئی مگر اس میں کوئی شبہ نہیں کہ وہ بھی زبردست سلطنت کا مالک تھا اور چین تک اس کی حکومت پھیلی ہوئی تھی مگر آج لوگ اسے دارا دارا کہتے پھرتے ہیں بادشاہ کا لفظ بھی اُس کے متعلق استعمال نہیں کرتے.تیمور جو ایک زمانہ میں دنیا کے لئے قیامت بن گیا تھا آج اسے ساری دنیا تیمور لنگ یعنی لنگڑا تیمور کہتی ہے حالانکہ اپنے زمانہ میں اُس کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ حملہ کرتا تو گشتوں کے پشتے لگا دیتا اور بعض جگہ تو لوگوں کو مار مار کر اُن کی لاشوں کو جمع کرتا اور مینار

Page 610

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۴ سیر روحانی (۶) کھڑا کر دیتا.بعض مؤرخ کہتے ہیں کہ اُس نے کئی لاکھ آدمی قتل کیا ہے مگر اب ایک ذلیل سے ذلیل انسان بھی جب تیمور کا ذکر کرتا ہے تو کہتا ہے لنگڑا تیمور‘ حالانکہ اُس کے زمانہ میں کسی کو یہ جرات نہیں تھی کہ وہ اسے لنگڑا تیمور کہے وہ شہنشاہ کہلاتا تھا اور بڑے بڑے حکمران اُس کے خوف سے کانپتے تھے.غرض وہ بادشاہ جن کی اپنے زمانہ میں بڑی ہیبت صحابہ کی بے مثال عظمت تھی جن کا نام سنکر ہزاروں میل پر لوگ کا آپ اُٹھے اُن کا نام آج انتہائی لا پروائی کے ساتھ ایک معمولی اور بے حیثیت آدمی بھی لے لیتا ہے اور کئی تو ایسے ہیں جن کا نام بھی آج کوئی نہیں جانتا مگر وہ غریب بکریاں اور اونٹ چرانے والے صحابہ جنہوں نے غربت میں اپنی عمر میں گزار دیں آج ان کا نام آتا ہے تو رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کہے بغیر ایک مسلمان کا دل مطمئن ہی نہیں ہوتا.حضرت ابو ہریرہ کی فاقہ کشی حضرت ابو ہریرہ کو ہی دیکھ لو وہ اپنے متعلق کہتے ہیں کہ مجھے سات سات وقت کا فاقہ ہو جاتا تھا اور جب میں شدتِ ضعف سے بیہوش ہو جا تا تھا تو لوگ میرے سر پر جھو تے مارتے اور سمجھتے کہ مجھے مرگی کا دورہ ہو گیا ہے پھر حضرت ابو ہریرہ کسی اعلیٰ خاندان میں سے نہ تھے کوئی نامور لیڈر یا مشہور ادیب نہ تھے، کوئی فوجی ما ہر یا سیاسی نفوذ رکھنے والے انسان نہ تھے مگر آج بھی ہماری یہ کیفیت ہے کہ ابو ہریرہ کا نام آتا ہے تو رضي الله عنہ کہے بغیر دل کو چین ہی نہیں آتا.حضرت ابوبکر رضي الله عنه کا بلند مقام اسی طرح حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی جو حالت تھی وہ خود ان کے باپ کی شہادت سے ظاہر ہے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے باپ کا نام ابوقحافہ تھا جب حضرت ابو بکر خلیفہ ہوئے تو اُس وقت ابو قحافہ مکہ میں تھے کسی شخص نے وہاں جا کر ذکر کیا کہ ابو بکر نعرب کا بادشاہ ہو گیا ہے.ابوقحافہ مجلس میں بیٹھے تھے کہنے لگے کونسا ابوبکر ؟ اُس نے کہا وہی ابو بکر قریشی.کہنے لگے کونسا قریشی ؟ اُس نے کہا وہی جو

Page 611

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۵ سیر روحانی (۶) تمہارا بیٹا ہے اور کون.وہ کہنے لگے واہ ! ابو قحافہ کے بیٹے کو عرب اپنا بادشاہ مان لیں یہ کیسے ہوسکتا ہے تو بھی عجیب باتیں کرتا ہے.غرض ابو قحافہ کی یہ حالت تھی کہ وہ اپنے بیٹے کے متعلق یہ مان ہی نہیں سکتے تھے کہ سارا عرب اُنہیں بادشاہ تسلیم کرلے گا مگر اسلام کی خدمت اور دین کے لئے قربانیاں کرنے کی وجہ سے آج حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو جو عظمت حاصل ہے وہ دنیا کے بڑے سے بڑے بادشاہوں کو بھی حاصل نہیں آج دنیا کے بادشاہوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جسے اتنی عظمت حاصل ہو جتنی حضرت ابو بکر کو حاصل ہے بلکہ حضرت ابو بکر تو الگ رہے کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو اتنی عظمت حاصل نہیں جتنی مسلمانوں کے نزدیک ابو بکر کے نوکروں کو حاصل ہے اس لئے کہ اُس نے ہمارے رب کے دروازہ پر سجدہ کیا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے در کا غلام ہو گیا اب یہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی شخص اس عظمت کو ہمارے دلوں سے محو کر سکے اور اُس خطاب کو چھین سکے جو اس نے اپنے دربار میں صحابہ کرام کو دیا.آج صحابہ کے زمانہ پر تیرہ سو سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر آج بھی وہ خطاب جو خدا نے اُن کو دیا تھا قائم ہے اور رہتی دنیا تک قائم رہیگا.رقابت اور عناد سے پاک دربار پھر ڈ نیوی بادشاہوں کے دیوان خاص میں باریاب ہونے والوں کو خطابات ملتے ہیں تو باہم رقابت اور دشمنی اور لڑائی شروع ہو جاتی ہے لیکن اس دیوانِ خاص میں شریک ہونے والوں کے دلوں میں کوئی رقابت، کوئی دشمنی اور کوئی لڑائی نہیں ہوتی بلکہ ان کے دل ایک دوسرے کی محبت اور پیار کے جذبات سے لبریز ہوتے ہیں فرماتا ہے.والذين جاء مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بالايمان ولا تَجْعَل في قُلُوبِنَا غِلَّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رحیم ۵ ۵۵ یعنی بعد میں آنے والے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ! تو ہمیں بھی بخش اور ہمارے اُن بھائیوں کو بھی بخش جو ہم سے ایمان لانے میں سبقت اختیار کر چکے ہیں اور ہمارے دلوں کو اُن کے متعلق ہر قسم کے کینہ اور

Page 612

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۶ سیر روحانی (۶) بغض سے صاف کر دے.اے ہمارے رب ! تو بڑا مہربان اور بڑا رحم کر نیوالا ہے.تعلقات کی خرابی کی تین وجوہ دنیا میں تعلقات کی تمام تر خرابی حسد، رقابت اور آئندہ کے خطرات کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.حسد پہلوں سے ہوتا ہے رقابت ہمعصروں سے ہوتی ہے اور خطرہ بعد میں آنے والوں سے ہوتا ہے لِلَّذِينَ آمَنُوا کہ کر ایک سچا مؤمن ان تینوں نقائص سے اپنا دل صاف رکھنے کی خواہش کرتا ہے گویا اس کا دل ایسا پاکیزہ ہوتا ہے کہ اس میں نہ پہلوں کا حسد ہوتا ہے نہ ہمعصروں کی رقابت ہوتی ہے اور نہ بعد میں آنے والوں کے متعلق کوئی بدظنی ہوتی ہے.ہر قسم کے بغض اور کینہ سے مبرا وجود اسی طرح اللہ تعالیٰ اس دیوانِ خاص والے در بایوں کی نسبت فرماتا ہے کہ اِنَّ الْمُتَّقِينَ في جَنْتٍ وَعُيُونٍ ادْخُلُوهَا بِسَلْمِ امِنِيْنَ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِمْ مِّن غِلٌ اِخْوَانًا عَلى سُرُرٍ مُّتَقَبِلِين A یعنی متقی لوگ باغات اور چشموں والے مقامات میں ہو نگے اور انہیں کہا جائیگا کہ تم سلامتی کے ساتھ ان میں داخل ہو جاؤ اور ان کے سینوں کو ہر قسم کے بغض اور کینہ اور حسد سے پاک کر دیا جائیگا اور وہ بھائی بھائی بن کر جنت میں رہیں گے.الہی خطابات کو چھیننے کی غرض اس دربار میں خطابات تقسیم ہوتے ہیں تو با ہم چپقلش اور رقابت شروع نہیں ہو جاتی اور پھر کوئی شخص طاقت نہیں رکھتا خطابات ملتے ہیں تو وہ نہ صرف حقیقت کے مطابق ہو تے ہیں بلکہ دنیا لاکھ کوشش کرے وہ اُن کو چھیننے کی طاقت نہیں رکھتی.اس دربار سے اگر کسی کو نبی کا خطاب دیا گیا تو وہ نبی فوت ہو چکا اور ہزار ہا برس اُس کی وفات پر گزر گئے مگر نبی کا خطاب موجود ہے اور اگر اس سے کوئی منکر ہوتا ہے تو فوراً با غیوں میں شریک ہو جاتا ہے.حکومت بدل گئی ، گورنر کے بعد گورنر تبدیل ہوئے مگر مجال ہے کہ پُرانے گورنر کی کوئی ہتک کر سکے اور اُس کے درجہ کو کم کر سکے !

Page 613

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۷ سیر روحانی (۶) غرض یہ وہ دربار ہے جس میں درباری کو جو خطاب دیا جاتا ہے اُس کے چھینے کی کسی میں طاقت نہیں ہوتی اور پھر جو خطاب دیا جاتا ہے وہ بالکل سچا اور حقیقت کے مطابق ہوتا ہے.اگر کسی کو بہا در کہتا ہے تو وہ بہادر ہی ہوتا ہے یہ نہیں ہوتا کہ حکومت اسے خان بہادر کہے اور وہ ایک چوہے سے بھی ڈرتا رہے.محمد رسول اللہ اور صحابہ کرام " پھر ہم نے دیکھا کہ اس قسم کا ایک اور اعلان بھی اس دربار سے ہو رہا تھا اور دربارِ خاص کا کو ایک اور عظیم الشان خطاب مالک اپنے گورنر جنرل کے متعلق کہہ رہا تھا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَ الَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرْسِهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا رَيْمَا هُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِّن اثر السجود ، یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں اور وہ لوگ جو اُن پر ایمان لا کر ان کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں کفار کے لئے بڑے سخت واقع ہوئے ہیں مگر ان کا آپس میں سلوک انتہائی رحم اور شفقت پر مبنی ہے.تو انہیں دیکھے گا کہ وہ رات اور دن خدا تعالیٰ کے حضور رکوع وسجود میں بسر کرتے اور اُس کا فضل تلاش کرتے ہیں اور اُس کی رضا کے حصول کے لئے ہمیشہ سرگرم رہتے ہیں اور اُنکی اس پاکیزہ زندگی کا نشان خود ان کے چہروں سے عیاں ہو گیا ہے.قوت مؤثرہ اور قوت متاثرہ کے کرشمے حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایسا بنا یا ہے کہ وہ ایک طرف تو اپنے رگر دو پیش کے اثرات کو قبول کرنے کے لئے بڑی شدت سے مائل رہتا ہے اور دوسری طرف اس میں یہ بھی طاقت ہے کہ اگر چاہے تو وہ ایسے اثرات کو قبول کرنے سے انکار کر دے.گویا ایک طرف تو وہ ایک مضبوط چٹان ہے کہ جس سے سمندر کی تیز لہریں ٹکرا کر واپس لوٹ جاتی ہیں اور اُس پر ذرا بھی نشان پیدا کرنے کے قابل نہیں ہوتیں اور دوسری طرف وہ ایک اسفنج کے ٹکڑے کی طرح یا نرم موم کی طرح ہے کہ اُس پر ہاتھ ڈالتے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس میں طاقت مقابلہ ہے ہی نہیں اور یہی

Page 614

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۸ سیر روحانی (۶) دونوں چیزیں انسان کے تمام اعمال کی جڑ ہیں یعنی کسی جگہ پر اثر قبول کرنا اور کسی جگہ پر اُس کو ر ڈ کر دینا.اچھے اثرات کو قبول کرنے اور اس جگہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے متعلق یہ بیان کیا بُرے اثرات کو رڈ کرنے کی خوبی گیا ہے کہ وہ اشداء عَلَى الْكُفَّارِ اور رُحَمَاء بَيْنَهُمْ ہیں یعنی یہ نہیں کہ وہ ہر ا ثر کو قبول کرنے والے ہیں کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ شیطان کا اثر بھی قبول کر لیتے.اور یہ بھی نہیں کہ کسی کا اثر قبول نہ کریں کیونکہ اس صورت میں وہ فرشتوں کے اثر کو بھی رڈ کر دیتے بلکہ اُن کے اندر یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں.ان میں یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ کتنے ہی تکلیف دہ نتائج ہوں پھر بھی وہ کسی غلط اثر کو قبول نہیں کرتے اور یہ بھی طاقت ہے کہ خواہ حالات کتنے مخالف ہوں وہ اچھی چیز کے اثر کورڈ نہیں کرتے.جب کسی ایسی چیز کا سوال ہو جو مذہب اور دین کے خلاف ہو تو وہ ایک ایسے پہاڑ کی مانند بن جاتے ہیں جس پر کوئی چیز اثر نہیں کر سکتی لیکن جہاں تقویٰ اور باہمی اخوت اور برادرانہ تعلقات کا سوال ہو وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ تصویر لینے کا ایک شیشہ ہیں اور فوراً اس کے عکس کو قبول کر لیتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگی میں یہ دونوں باتیں اور آپ کے صحابہ کا نمونہ نہایت نمایاں طور پر پائی جاتی تھیں یعنی ایک طرف تو غیرت میں اس قدر بڑھے ہوئے تھے کہ دین کے خلاف کوئی بات سُننا تک برداشت نہیں کر سکتے تھے اور دوسری طرف وہ محبت میں اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ اپنے بھائیوں کا کوئی قصور اُنہیں نظر ہی نہیں آتا تھا.چنانچہ دیکھ لو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں دشمنوں نے کئی مواقع پر چاہا کہ آپ ان کے بارہ میں نرمی سے کام لیں اور اُن کے جوں کی تنقیص نہ کریں مگر آپ نے کسی مرحلہ پر بھی اُن کے آگے سر نہیں جھکا یا حالانکہ آپ جانتے تھے کہ اس انکار کے نتیجہ میں ان لوگوں کی آتشِ غضب اور بھی بھڑک اُٹھے گی اور

Page 615

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۸۹ سیر روحانی (۶) یہ پہلے سے زیادہ جوش اور انتقامی قوت کے ساتھ اسلام کو مٹانے کے لئے کمر بستہ ہو جائینگے مگر آپ نے اپنی یا اپنے عزیزوں اور ساتھیوں کی مشکلات کی کوئی پرواہ نہ کی اور ہمیشہ انہیں یہی کہا کہ خدا نے جس پیغام کے پہنچانے کی ذمہ داری مجھ پر ڈالی ہے میں اس کے پہنچانے میں اپنے آخری سانس تک کوشش کرتا چلا جاؤں گا اور کبھی اس میں غفلت اور کوتا ہی سے کام نہ لونگا.عماید قریش کے آنے پر رسول کریم جب مکہ میں اسلام نے پھیلنا شروع کیا اور قریش کو نظر آنے لگا کہ ان کی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا کو جواب کوششیں نا کامی کا رنگ اختیار کرتی جا رہی ہیں تو انہوں نے اپنا ایک وفدا بو طالب کے پاس بھیجا جس میں ابو جہل ، ابوسفیان اور عتبہ وغیرہ قریش کے بڑے بڑے رؤساء شامل تھے.انہوں نے ابوطالب کے پاس آکر کہا کہ آپ ہماری قوم میں معزز ہیں اس لئے ہم آپ سے یہ درخواست کرنے آئے ہیں کہ اب بات حد سے بڑھ چکی ہے ہم نے آج تک بہت صبر کیا ہے مگر اب ہمارے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے آپ اپنے بھتیجے کو سمجھائیں کہ وہ ہمارے بنوں کو بُرا بھلا کہنا چھوڑ دے اور اگر وہ نہ مانے تو اس کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں ہم خود اس سے نپٹ لینگے.اور اگر آپ اپنے بھتیجے کو بھی نہ سمجھائیں اور اس کی حمایت سے بھی دستبردار نہ ہوں تو ہم آپ کا بھی مقابلہ کرینگے اور آپ کو اپنی لیڈری سے الگ کر دینگے.ابوطالب کے لئے یہ ایک نہایت ہی نازک موقع تھا انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بلایا اور کہا اے میرے بھتیجے ! آج تیری قوم کے معززین کا ایک وفد میرے پاس آیا تھا وہ تیری باتوں سے سخت مشتعل ہو چکے ہیں اور قریب ہے کہ وہ لوگ کوئی سخت قدم اُٹھا ئیں اور مجھے بھی تکلیف پہنچائیں.میں محض تیری خیر خواہی کے لئے کہتا ہوں کہ ان باتوں کو چھوڑ دے ورنہ میں اکیلا ساری قوم کا مقابلہ نہیں کر سکتا.میں سمجھتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی افسردگی کی گھڑیوں میں سے یہ سخت ترین گھڑی تھی.ایک طرف وہ شخص تھا جس نے نہایت محبت سے آپ کو پالا تھا اور جس کے پاؤں میں کا نا پچھنا بھی آپ گوارہ نہ کر سکتے تھے اُسے

Page 616

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۰ سیر روحانی (۶) ساری قوم دُکھ دینے اور نقصان پہنچانے کی دھمکی دے رہی تھی اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کی صداقت کا اظہار تھا.آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور آپ نے کہا.اے میرے چا ! آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں.خدا کی قسم ! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں بھی لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی توحید کے اعلان سے نہیں رک سکتا ۸۸ کیونکہ یہی وہ کام ہے جس کے لئے میں اس دنیا میں بھیجا گیا ہوں.آپ کا انتہائی مشکلات اور مصائب کے اوقات میں جبکہ ابوطالب کے قدم بھی لڑکھڑا گئے تھے یہ دلیرانہ جواب اِس لئے تھا کہ آپ آیشستا على الكفار کی صفت کے حامل تھے اور دین کے لئے اتنی غیرت رکھتے تھے کہ کفر کی ہر طاقت کے مقابلہ میں ایک مضبوط چٹان کی طرح ڈٹ جاتے تھے اور کسی بڑی سے بڑی مصیبت کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے.مسیلمہ کذاب کی ناکام واپسی اسی طرح ایک دفعہ مسلیمہ کذاب آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا اگر آپ مجھے اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں تو میری ساری قوم آپ پر ایمان لانے کے لئے تیار ہے.اُس وقت اُس کی قوم کا ایک لاکھ سپاہی اُس کی پشت پر تھا اور وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے صرف اتنا چاہتا تھا کہ آپ کی وفات کے بعد اُسے حکومت دیدی جائے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں خدا نے آشراءُ عَلَى الْكُفَّار کی صفت کا حامل بنایا تھا انہوں نے جب اس بات کو سُنا تو آپ نے کھجور کی شاخ کے ایک تنکے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جو اُس وقت آپ کے ہاتھ میں تھی فرمایا تم تو خلافت کہتے ہو میں تو تمہیں یہ تنکہ بھی دینے کے لئے تیار نہیں.یہ جواب ایسا تھا جس پر وہ غصہ اور نا راضگی کی حالت میں واپس چلا گیا اور جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو وہ اپنے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مسلمانوں پر حملہ آور ہوا اور اُس نے ایسا شدید حملہ کیا جس کی مثال کسی پہلے حملہ میں نہیں ملتی مگر با وجود اس کے کہ مسیلمہ اور اس کی قوم کی طرف سے حقیقی خطرہ کا امکان تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطالبہ کورڈ کر دیا اور اس بات کی ذرہ

Page 617

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۱ سیر روحانی (۶) بھی پرواہ نہ کی کہ اس کے نتیجہ میں کیا مشکلات آسکتی ہیں.ایک صحابی کی درخواست پر رسول کریم نگر جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے مقابلہ میں ایک صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے اپنی چادر دے دینا ایسے پہاڑ کی حیثیت رکھتے تھے جس سے ٹکڑا کر انسان کا سر پاش پاش ہو جاتا ہے مگر پہاڑ اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا وہاں اپنے ماننے والوں کے متعلق آپ کے دل میں اس قدر محبت اور پیار کے جذبات پائے جاتے تھے کہ احادیث میں لکھا ہے ایک دفعہ ایک مخلص عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خوبصورت چادر پیش کی جو اس نے اپنے ہاتھ سے بنی تھی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ اسے اپنی ذات کے لئے استعمال فرمائیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ چادر پہن کر باہر تشریف لائے تو ایک شخص آگے بڑھا اور اس نے کہايَا رَسُولَ الله! یہ چادر مجھے دے دیجئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس چادر کی خود ضرورت تھی مگر آپ نے اُس کے سوال کو رڈ کرنا مناسب نہ سمجھا اور فوراً واپس آ کر اُسے چادر بھجوادی.لوگوں نے اسے ملامت کی کہ تم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ چادر کیوں مانگ لی ؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تو اس کی خود ضرورت تھی.اُس نے کہا میں نے یہ چادر اپنے کفن کے لئے لی ہے چنانچہ راوی کہتا ہے کہ بعد میں وہی چادر اس کا کفن بنی.20 غرباء کی دلداری اسی طرح ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر بدصورت بھی تھے سخت گرمی کے موسم میں اسباب اُٹھا رہے ہیں اور اُن کا تمام جسم پسینہ اور گردوغبار سے اٹا ہوا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموشی سے ان کے پیچھے چلے گئے اور جس طرح بچے کھیل میں چوری چھپے دوسرے کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر کہتے ہیں اور پھر چاہتے ہیں کہ وہ اندازہ سے بتائے کہ کس نے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا ہے اِسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی سے اُس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیئے.اُس نے آپ کے ملائم ہاتھوں کو ٹول کر سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ

Page 618

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۲ سیر روحانی (۶) علیہ وسلم ہیں تو محبت کے جوش میں اُس نے اپنا پسینہ سے بھرا ہو ا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور آخر آپ نے فرمایا میرے پاس ایک غلام ہے کیا اس کا کوئی خریدار ہے؟ اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله! میرا خریدار دنیا میں کون ہو سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا ایسا مت کہو خدا کے حضور تمہاری بڑی قیمت ہے.2 عورتوں کی تکلیف کا احساس ایک دفعہ آپ نے فرمایا جب میں نماز پڑھا تا ہوں تو بعض دفعہ میرا جی چاہتا ہے کہ میں نماز کو لمبا کروں مگر اچانک میرے کانوں میں کسی بچہ کے رونے کی آواز آجاتی ہے اس پر میں جلدی جلدی نماز پڑھا دیتا ہوں تا کہ اس کی ماں کو تکلیف نہ ہو.۹۲ غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہمیں دونوں قسم کے نظارے نظر آتے ہیں.وہ نظارے بھی جن میں آپ دشمن کے سامنے ایک ننگی تلوار کی طرح کھڑے ہو گئے اور نہ اس کی دھمکیوں سے مرعوب ہوئے نہ اس کی خوشامد سے متاثر ہوئے.اور وہ نظارے بھی جن میں آپ نے اپنے ماننے والوں سے ایسی شفقت اور محبت کا سلوک کیا کہ کوئی ماں بھی اپنے بچوں سے اس شفقت کا اظہار نہیں کرتی.جنگِ بدر میں صحابہ کا دشمن کیلئے پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے متبعین میں بھی یہ دونوں اوصاف پیدا فرما پیغام موت بن کر ظاہر ہونا دیئے تھے اور وہ بھی اگر ایک طرف اشداء على الكفّار کی صفت کے حامل تھے تو دوسری طرف ماننے والوں کے لئے مجسمہ ء رحم و الفت تھے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بدر کی جنگ ہوئی تو اس جنگ میں صرف ۳۱۳ آدمی مسلمانوں کی طرف سے شریک ہوئے اور وہ بھی بالکل بےسروسامان اور ناتجربہ کار تھے لیکن دشمن کا ایک ہزار سپاہی تھا اور پھر وہ سارے کا سارا تجربہ کار آدمیوں پر مشتمل تھا اور اسلحہ کی بھی بڑی بھاری مقدار ان کے پاس موجود تھی ابھی جنگ شروع نہیں ہوئی تھی کہ ابو جہل نے ایک عرب سردار سے کہا کہ تم جاؤ اور یہ اندازہ

Page 619

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۳ سیر روحانی (۶) کر کے آؤ کہ مسلمانوں کی کتنی تعداد ہے؟ جب وہ اسلامی لشکر کا جائزہ لینے کے بعد واپس گیا تو اُس نے کہا میرا اندازہ یہ ہے کہ مسلمان تین سو اور سوا تین سو کے درمیان ہیں.ابو جہل اس پر بہت خوش ہوا اور کہنے لگا کہ اگر یہ بات درست ہے تو پھر ہم نے میدان مارلیا.اُس نے کہا اے میری ! قوم بیشک مسلمان تھوڑے ہیں لیکن میرا مشورہ یہی ہے کہ مسلمانوں سے لڑائی نہ کرو.انہوں نے کہا تو بڑا بزدل ہے آج ہی یہ لوگ قابو آئے ہیں اور آج ہی تو ہمیں ایسا بُزدلانہ مشورہ دے رہا ہے.اُس نے کہا یہ درست ہے مگر پھر بھی میں تمہیں یہی مشورہ دونگا کہ جنگ نہ کرو کیونکہ اے میری قوم! میں نے اونٹوں پر آدمی نہیں بلکہ موتیں سوار دیکھی ہیں ۹۳ یعنی میں نے جس شخص کو بھی دیکھا اُس کا چہرہ بتا رہا تھا کہ وہ اس نیت اور ارادہ کے ساتھ میدانِ جنگ میں آیا ہے کہ آج مر جانا ہے یا مار دینا ہے اس کے سوا اور کوئی جذبہ اُن کے دلوں میں نہیں پایا جاتا تھا.یہ فدائیت کا بے مثال جذبہ مسلمانوں میں اسی لئے پیدا ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اشراءُ عَلَى الْكُفَّارِ صفیت کا حامل بنایا تھا اور وہ تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے بھی بڑے بھاری تجربہ کا راور مسلح لشکر کے مقابلہ میں پیغام موت بن کر نمودار ہوتے تھے.اہلِ عرب کے ارتداد پر حضرت اس طرح جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے تو سارا عرب مرتد ہو گیا اور ابوبکر کی حیرت انگیز جرأت حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ جیسے بہادر انسان بھی اس فتنہ کو دیکھ کر گھبرا گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے قریب ایک لشکر رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے تیار کیا تھا اور حضرت اسامہ کو اس کا افسر مقرر کیا تھا.یہ شکر ابھی روانہ نہیں ہوا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے اور آپ کی وفات پر جب عرب مرتد ہو گیا تو صحابہؓ نے سوچا کہ اگر ایسی بغاوت کے وقت اسامہ کا لشکر ابھی رومی علاقہ پر حملہ کرنے کے لئے بھیج دیا گیا تو پیچھے صرف بوڑھے مرد اور بچے اور عورتیں رہ جائیں گی اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں رہے گا چنانچہ انہوں نے تجویز کی کہ ا کا بر صحابہ کا ایک وفد حضرت ابو بکر کی خدمت میں جائے اور اُن سے درخواست

Page 620

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۴ سیر روحانی (۶) کرے کہ وہ اس لشکر کو بغاوت کے فرو ہونے تک روک لیں.چنانچہ حضرت عمرؓ اور دوسرے بڑے بڑے صحابہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے یہ درخواست پیش کی.حضرت ابو بکر نے جب یہ بات سنی تو انہوں نے نہایت غصہ سے اس وفد کو یہ جواب دیا کہ کیا تم یہ چاہتے ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ابو قحافہ کا بیٹا سب سے پہلا کام یہ کرے کہ جس لشکر کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روانہ کرنے کا حکم دیا تھا اُسے روک لے؟ پھر آپ نے فرمایا خدا کی قسم ! اگر دشمن کی فوجیں مدینہ میں گھس آئیں اور گتے مسلمان عورتوں کی لاشیں گھسیٹتے پھر میں تب بھی میں اس لشکر کو نہیں روکوں گا جس کو روانہ کرنے کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا ؟ یہ جرات اور دلیری حضرت ابو بکر میں اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ خدا نے یہ فرمایا کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ و الذين معه اشراءُ عَلَى الْكُفَّارِ - جس طرح بجلی کے ساتھ معمولی تار بھی مل جائے تو اس میں عظیم الشان طاقت پیدا ہو جاتی ہے اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے نتیجہ میں آپ کے ماننے والے بھی آیشداء علی الکفار کے مصداق بن گئے.حضرت ابوبکر کی اسلام کیلئے اسی طرح ایک دفعہ باتوں باتوں میں حضرت ابوبکر کے ایک بیٹے نے جو بعد میں مسلمان غیرت اور جذ بہ ء فدائیت ہوئے تھے کہا ابا جان! فلاں جنگ میں جب آپ بدر مقام سے گزرے تھے تو اُس وقت میں ایک پتھر کے پیچھے چھپا ہوا تھا میں اگر چاہتا تو آپ کو قتل کر سکتا تھا مگر میں نے کہا باپ کو مارنا درست نہیں.حضرت ابوبکر نے جواب دیا خدا نے تجھے ایمان نصیب کرنا تھا اس لئے تو بیچ گیا ورنہ خدا کی قسم ! اگر میں تجھے دیکھ لیتا تو ضرور مار ڈالتا.۹۵ عبداللہ بن اُبی بن سلول ایک جنگ کے مواقع پر انصار اور مہاجرین میں جھگڑا پیدا ہو گیا.اُس وقت عبد اللہ بن اُبی بن سلول جو ایک کے بیٹے کا اخلاص دیربنہ منافق تھا اُس نے سمجھا کہ یہ انصار کو بھڑ کانے کا اچھا موقع ہے وہ آگے بڑھا اور اُس نے کہا اے انصار ! یہ تمہاری غلطیوں کا نتیجہ ہے کہ

Page 621

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۵ سیر روحانی (۶) تم نے مہاجرین کو سر چڑھا لیا اب مجھے مدینہ پہنچ لینے دو پھر دیکھو گے کہ مدینہ کا سب سے زیادہ معزز شخص یعنی نَعُوذُ باللهِ وہ خود مدینہ کے سب سے ذلیل آدمی یعنی نَعُوذ باللهِ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے نکال دیگا.عبداللہ کا بیٹا ایک سچا مسلمان تھا جب اُس نے اپنے باپ کی یہ بات سنی تو وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اُس نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! میرے باپ نے جو بات کہی ہے اُس کی سزا سوائے قتل کے اور کوئی نہیں ہو سکتی اور میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ اسے یہی سزا دینگے لیکن اگر آپ نے کسی اور مسلمان کو کہا اور اُس نے میرے باپ کو قتل کر دیا تو ممکن ہے اُس کو دیکھ کر میرے دل میں کبھی خیال آجائے کہ یہ میرے باپ کا قاتل ہے اور میں جوش میں آکر اُس پر حملہ کر بیٹھوں اِس لئے يَا رَسُولَ اللہ ! آپ مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کو اپنے ہاتھوں سے قتل کروں تا کہ کسی مسلمان کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو.۶ش یہ واقعہ کس طرح اُن دونوں اوصاف کو ظاہر کر رہا ہے جو اللہ تعالیٰ نے صحابہ ء کرام میں ودیعت کر دیئے تھے یعنی ایک طرف وہ کفر کے لئے ایک ننگی تلوار تھے اور دوسری طرف اپنے بھائیوں کے جذبات کا انہیں اتنا احساس تھا کہ عبداللہ کے بیٹے نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر درخواست کی کہ يَا رَسُولَ اللہ ! اگر آپ میرے باپ کے متعلق قتل کا حکم صادر فرما ئیں تو پھر یہ کام میرے سپرد کیا جائے تا کہ کسی اور مسلمان کا بغض میرے دل میں پیدا نہ ہو.ایک معمولی شکر رنجی کے موقع پر اسی طرح ایک دفعہ حضرت ابو بکر اور حضرت عمر میں کسی بات پر شکر رنجی ہوگئی.حضرت ابوبکر کے پاکیزہ جذبات غلطی حضرت عمر کی تھی مگر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمرؓ پر ناراض ہونے لگے تو حضرت ابو بکر آگے بڑھے اور کہنے لگے يَا رَسُولَ اللہ ! میرا قصور تھا عمر کا کوئی قصور نہیں تھا.۹۷ گویا جس طرح ایک ماں اپنے بچے کے متعلق اُستاد سے شکایت کرتی ہے لیکن جب وہ ڈانٹتا ہے تو سب سے زیادہ دُکھ بھی ماں کو ہی ہوتا ہے یہی حال صحابہ کا تھا اُن کے دلوں میں اپنے بھائیوں

Page 622

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۶ سیر روحانی (۶) کی اتنی محبت پائی جاتی تھی کہ وہ ان کی معمولی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.حضرت عمرؓ کا ایک بدوی عورت حضرت عمر کو دیکھ لو اُن کے رُعب اور دبدبہ سے ایک طرف دنیا کے بڑے کے بچوں کے فاقہ پر تلملا اٹھنا بڑے بادشاہ کا نپتے تھے، قیصر وکسری کی حکومتیں تک لرزہ براندام رہتی تھیں مگر دوسری طرف اندھیری رات میں ایک بدوی عورت کے بچوں کو بھوکا دیکھ کر عمر جیسا عظیم المرتبت انسان تلملا اٹھا اور وہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لاد کر اور گھی کا ڈبہ اپنے ہاتھ میں اُٹھا کر اُن کے پاس پہنچا اور اُس وقت تک واپس نہیں کو ٹا جب تک کہ اُس نے اپنے ہاتھ سے کھانا پکا کر اُن بچوں کو نہ کھلا لیا اور وہ اطمینان سے سو نہ گئے.۹۸ عبادت الہی میں رسول کریم عبادت الہی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا استغراق صرف اشداء عَلَى الْكُفَّارِ اور رُحَمَاءُ صلی اللہ علیہ وسلم کا استغراق بنتهُمْ ہی نہیں بلکہ رُكَعًا سُجَّدًا کے بھی مصداق ہیں چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ خوبی بھی اُن میں نمایاں طور پر پائی جاتی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث سے ثابت ہے کہ آپ رات کو اللہ تعالیٰ کے حضور اتنی اتنی دیر عبادت میں کھڑے رہتے تھے کہ آپ کے پاؤں سوج جاتے.99 ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! آپ اس قدر عبادت کیوں کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کا وعدہ فرمایا ہوا ہے.آپ نے فرمایا اے عائشہ ! کیا میں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟ ۱۰۰ میدانِ جنگ میں بھی اسی طرح صحابہ کی یہ حالت تھی کہ میدان جنگ میں بھی وہ نمازوں کی ادائیگی کا التزام رکھتے تھے نمازوں کی بالالتزام ادائیگی اور راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالی کے حضور سربسجود رہتے اور دعاؤں اور ذکر الہی میں اپنا وقت گزارتے.غرض دنیوی درباروں میں بادشاہوں کی طرف سے جو خطابات دیئے جاتے ہیں وہ

Page 623

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۷ سیر روحانی (۶) بسا اوقات حقیقت کے برعکس ہوتے ہیں مگر یہ عجیب دربار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے جو خطاب دیا جاتا ہے وہ حقیقت کے عین مطابق ہوتا ہے اور پھر وہ خطاب چلتا چلا جاتا ہے دنیا لاکھ کوشش کرے زمانہ میں ہزاروں انقلاب آئیں اُس خطاب کو کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.اب میں اُن بعض انعامات کا ذکر کرتا دربارِ خاص میں انعامات کا اعلان ہوں جو اس الہی دربار میں خدا تعالیٰ 6 6 نے اپنے گورنر جنرل کو عطا کئے اور جن کی نظیر دنیا کے درباروں میں اور کہیں نظر نہیں آ سکتی.اللہ تعالیٰ نے اپنے دربارِ خاص میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلا یا اور اُن کے لئے اپنے خاص انعامات کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا کہ انا أعطيتكَ الْكَوْثَرَ فَصل لربك وانزل إنَّ شَانِئَكَ هُوَ الابترن انا یعنی اے ہمارے گورنر جنرل ! ہم نے تجھے کوثر عطا کیا ہے پس تو اس نعمتِ عظیمہ کی شکر گزاری کے طور پر اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہو جا اور قربانیوں پر زور دے یقیناً تیرا دشمن ہی ابتر رہے گا.کوثر کے معنے کوثر کے معنے عربی زبان میں ہر قسم کی خیر اور برکت اور بھلائی کی کثرت کے ہوتے ہیں ۱۲ گویا کوئی خیر نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل نہیں ہوئی اور کوئی برکت نہیں جو آپ کو نہیں ملے گی اور پھر وہ خیر اور برکت اتنی کثرت کے ساتھ ملے گی کہ اس کثرت میں بھی دنیا کا کوئی انسان آپ کا مقابلہ نہیں کر سکے گا.سورہ کوثر کے نزول کے وقت رسول اللہ جس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی حالت اس انعام کا اعلان کیا گیا آپ کی اور آپ کے ساتھیوں کی یہ حالت تھی کہ باہر نکل کر نماز بھی ادا نہیں کر سکتے تھے اور آپ کے پیغام کو ماننے والے صرف چند افراد تھے جو اُنگلیوں پر گنے جا سکتے تھے.

Page 624

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۸ سیر روحانی (۶) تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اُس وقت تک مکہ کے گل بیاسی آدمی آپ پر ایمان لائے تھے ۱۰۳ مگر یہ تو آخری دنوں کی بات ہے اس سے پہلے یہ حالت تھی کہ صرف چند آدمی جن کی تعداد دس پندرہ سے زیادہ نہیں تھی آپ پر ایمان لائے.مکہ کی آبادی اُس وقت آٹھ دس ہزار کی تھی اور آٹھ دس ہزار کی آبادی میں سے ایک دو درجن کے قریب آدمیوں کا ساتھ ہونا اور سارے شہر کے لوگوں کا مخالف ہونا اور ایسا مخالف ہونا کہ ہر وقت ان کا مسلمانوں کی جان لینے کی فکر میں رہنا بتا تا ہے کہ مسلمانوں کی اُس وقت کیسی نازک حالت تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حالت تھی کہ گو آپکو خانہ کعبہ میں جا کر نماز پڑھنے کی کا گلا گھونٹنے کی کوشش اجازت نہیں تھی مگر کبھی کبھی آپ محبت الہی کے جوش میں وہاں چلے جاتے اور نماز ادا فرماتے.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ شہر کے ٹھنڈے اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے آپ کو پیٹنا شروع کر دیا اور پھر آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اُسے گھونٹنے لگے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو اس کی اطلاع ملی تو آپ دوڑے دوڑے وہاں آئے اور انہیں ہٹانا شروع کیا.اُس وقت وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خون پو نچھتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے کہ اے میری قوم ! تم کو کیا ہو گیا کہ تم ایک ایسے شخص کو مارتے ہو جس کا قصور سوائے اس کے اور کوئی نہیں کہ وہ کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ؟ اسی طرح آپ پر ایمان لانے والوں کو طرح طرح کے دُکھ دیئے جاتے.حضرت عثمان بن مظعون کا واقعہ حضرت عثمان بن مظعون ایک بہت بڑے رئیس کی اولاد میں سے تھے.ہجرت اولیٰ کے وقت وہ ایسے سینیا کی طرف چلے گئے تھے مگر بعد میں کفار نے یہ خبر اڑا دی کہ مکہ کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے ہیں اس پر بعض لوگ حبشہ سے واپس آگئے جن میں حضرت عثمان بن مظعون بھی شامل تھے.جب انہیں معلوم ہوا کہ یہ خبر جھوٹی تھی تو انہوں نے دوبارہ ایسے سینیا جانے کا ارادہ کیا.اس پر مکہ کا ایک رئیس جو اُن کے باپ کا گہرا

Page 625

انوار العلوم جلد ۲۲ ۵۹۹ سیر روحانی (۶) دوست تھا اُن سے ملا اور اُس نے کہا تم واپس نہ جاؤ میں تمہیں اپنی پناہ میں لے لیتا ہوں.چنانچہ مروجہ دستور کے مطابق وہ اُنہیں خانہ کعبہ میں لے گیا اور وہاں اُس نے اعلان کر دیا کہ عثمان بن مظعون میری حفاظت میں ہے اب کوئی شخص اسے تکلیف نہ پہنچائے.اس اعلان کے نتیجہ میں عثمان بن مظعون کھلے بندوں مکہ میں پھر نے لگے مگر جب انہوں نے دیکھا کہ لوگ دوسرے مسلمانوں کو مارتے پیٹتے ہیں تو اُن کی غیرت جوش میں آئی اور وہ اُس رئیس کے پاس آکر کہنے لگے کہ میں آپ کی پناہ میں نہیں رہنا چاہتا کیونکہ مجھ سے یہ برداشت نہیں ہو سکتا کہ میں تو آرام سے پھر وں اور دوسرے مسلمان تکلیفیں اُٹھا ئیں.اُس نے بہت سمجھایا مگر وہ نہ مانے اور آخر اس نے اپنی پناہ کے واپس لینے کا اعلان کر دیا.ایک دن عرب کے مشہور شاعر لبید جو بعد میں اسلام بھی لے آئے تھے مکہ میں آئے اور انہوں نے رؤساء کی محفل میں اپنے اشعار سنانے شروع کر دیے.سناتے سناتے انہوں نے یہ مصرعہ پڑھا کہ: اَلَا كُلُّ شَيْءٍ مَا خَلَا اللَّهَ بَاطِلُ ย اے لوگو سنو کہ خدا کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے.حضرت عثمان بن مظعون یہ مصرعہ سنتے ہی بول اُٹھے کہ خوب کہا تم نے بڑی سچی بات کہی ہے.اب گوانہوں نے لبید کے مصرعہ کی داد دی تھی مگر لبید ایک نوجوان کی تعریف بھی برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے اسے تعریض سمجھتے ہوئے شعر پڑھنے بند کر دیئے اور کہا اے مکہ والو! کیا تم میں اب کوئی شریف آدمی نہیں رہا کہ یہ کل کا بچہ مجھے داد دیتا ہے.اس پر لوگوں نے معذرت کی اور حضرت عثمان بن مظعون کو ڈانٹا کہ خاموش رہو.اس کے بعد لبید نے دوسرا مصرعہ پڑھا جو یہ تھا کہ: وَكُلُّ نَعِيمٍ لَا مُحَالَةَ زَائِلُ یعنی ہر نعمت آخر تباہ ہونے والی ہے.حضرت عثمان پھر بول اُٹھے کہ یہ بالکل غلط ہے جنت کی نعمتیں کبھی تباہ نہیں ہونگی.ان کا یہ کہنا تھا کہ لبید غصہ میں آ گیا اور انہوں نے کہا میری

Page 626

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۰ سیر روحانی (۶) ہتک کی گئی ہے اب میں اپنا کلام نہیں سناؤں گا.یہ دیکھ کر ایک شخص اُٹھا اور اُس نے اس زور سے اُن کی آنکھ پر مکہ مارا کہ ان کا ایک ڈیلا با ہر نکل آیا.یہ دیکھ کر ملکہ کا وہی رئیس جس نے انہیں پناہ دی تھی حسرت کے ساتھ آگے بڑھا اور کہنے لگا کیا میں نہیں کہتا تھا کہ میری پناہ نہ چھوڑ! ! وہ کہنے لگے تم تو یہ کہتے ہو خدا کی قسم ! میری تو دوسری آنکھ بھی خدا تعالیٰ کی راہ میں نکلنے کے لئے تیار ہے.۱۰۵ نرینہ اولاد نہ ہونے پر دشمن کی طعنہ زنی غرض یہ وہ حالت تھی جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ پر گزر رہی تھی اور چونکہ آپ کے ہاں کوئی نرینہ اولاد بھی نہیں تھی اس لئے دشمن اپنی نابینائی کی وجہ سے کہتا کہ یہ نَعُوذُ باللهِ اونتر انکھتر ا ( پنجابی ) یعنی بے نسل ہے نہ روحانی لحاظ سے اس کی کوئی جمعیت ہے اور نہ جسمانی لحاظ سے اس کی کوئی نرینہ اولاد ہے.ایسے حالات میں خدا تعالیٰ کی غیرت جوش میں آئی اور اُس نے کہا اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم تجھے خیر کثیر عطا کرنے والے ہیں اور تیرے ان مخالفوں کو جو آج تجھے مٹانے پر کمر بستہ ہیں ابتر بنانے والے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چنا نچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کلام پر.جوں جوں دن گزرتے چلے گئے زیادہ سے زیادہ خیر کثیر ملتی چلی گئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ خیر اور برکت ملتی چلی گئی اور آپ کے مخالفوں کے حصہ میں زیادہ سے زیادہ نا کامی اور نا مرادی آتی گئی اور آخر وہ دن آیا کہ وہی شخص جسے اندھیری رات میں مکہ سے نکل جانے پر مجبور کر دیا گیا تھا، جس کے قتل کے منصوبے کئے گئے تھے، جس کو مٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا گیا تھا، دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوا اور اُس نے تمام مکہ کے لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر کے پوچھا کہ بتاؤ اب تمہارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے ؟ انہوں نے کہا ہم آپ سے اسی سلوک کی امید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں کے ساتھ کیا تھا.آپ نے فرمایا جاؤ میں نے

Page 627

انوار العلوم جلد ۲۲ تم سب کو معاف کر دیا.۱۰۶ ۶۰۱ سیر روحانی (۶) ابوسفیان کا اقرار کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ مکہ کے لوگ سمجھتے تھے کہ یہ اکیلا شخص کب تک اپنے مشن علیہ وسلم دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے کو قائم رکھ سکتا ہے یہ آج نہیں تو کل تباہ ہو جائیگا مگر خدا اسے کوثر دینے کا وعدہ فرما چکا تھا.اُس نے آپ کے ماننے والوں میں اتنی کثرت پیدا کی کہ ابوسفیان نے جب فتح مکہ کے موقع پر اسلامی لشکر کو دیکھا تو بے اختیا ر وہ حضرت عباس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا عباس ! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا کا سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے.۱۰۷ کفار کے بیٹے محمد رسول اللہ صلی اللہ پھر ان لوگوں کو اپنے بیٹوں پر بڑا نا ز تھا، مگر خدائی نشان دیکھ کر وہی عاص بن وائل علیہ وسلم کی غلامی میں آگئے جو بڑے تکبر سے اپنا تہ بند نکائے پھرتا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتا تھا اُس کا اپنا بیٹا مسلمان ہو گیا، وہی ولید جو رات اور دن اسلام کے مٹانے پر کمر بستہ رہتا تھا اُس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں داخل ہو گیا ، وہی ابو جہل جو تمام کفار کا لیڈر تھا اور جس کی زندگی کی ایک ایک گھڑی اسلام کی مخالفت میں گزری اُس کا اپنا بیٹا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد میں شامل ہو گیا.یہ ایک خطرناک قسم کی آگ تھی جو خدا نے اُن کے دلوں میں پیدا کر دی اور جس کے شعلے انہیں ہر وقت جلا کر خاکستر بناتے رہتے تھے اور انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس آگ کے بجھانے کا کیا انتظام کریں.وہ خود اسلام کے دشمن تھے مگر اُن کی اولادوں نے اپنے آپ کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنا شروع کر دیا اور وہ اپنے باپوں اور بھائیوں کے خلاف تلواریں چلا نے لگ گئے.یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا جس میں وہ رات اور دن مبتلا ء رہتے تھے کہ جس مذہب کو مٹانے کے لئے اُنہوں نے اپنی عمریں صرف کر دیں وہی مذہب اُن کے گھروں میں داخل ہو گیا اور اُس نے اُنہی کے بیٹوں کو اُس کا شکار بنالیا.

Page 628

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۲ سیر روحانی (۶) کون ابتر ثابت ہوا؟ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو اُس وقت گورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان اُنہیں کچھ نہیں کہہ رہی تھی مگر مکہ کی گلیوں کی وہ زمین جس پر اُن قدوسیوں کے قدم پڑ رہے تھے اُن دشمنوں کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی کہ اے ابو جہل ! عتبہ، شیبہ اور ولید کہاں ہے؟ وہ تمہاری اولا دجس پر تم فخر کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابتر کہا کرتے تھے وہ ابتر ہے یا آج تم ابتر ثابت ہورہے ہو؟ تمہاری اولادوں نے جن پر تمہیں ناز تھا تمہیں چھوڑ دیا اور وہ تمہاری آنکھوں کے سامنے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں چلی گئیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آج اسی طرح آج تیرہ سو برس گزر گئے مگر دنیا میں کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ بھی دنیا میں روحانی اولا دموجود ہے میں ابو جہل کا بیٹا ہوں یا عتبہ اور شیبہ کا بیٹا ہوں مگر آج لاکھوں مسلمان یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ہیں کیونکہ خدا نے یہ کہا تھا کہ اے محمد رسول اللہ ! ہم تجھے کوثر عطا کریں گے اور تیرے دشمن کو ابتر رکھیں گے.تمام الہامی کتب سے افضل الہامی کتاب پھر آپ کو اللہ تعالی نے اس رنگ میں بھی کوثر عطا کیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی آپ کو وہ کتاب ملی جس کی خیر اور برکت کا مقابلہ دنیا کی کوئی کتاب نہیں کر سکتی.وہ تمام الہامی کتابوں میں سے ایک زندہ الہامی کتاب ہے.وہ علوم اور معارف میں ایک نا پیدا کنا رسمندر ہے.وہ دنیا کی تمام اخلاقی اور روحانی ضرورتوں کو پورا کرنے والی کتاب ہے.دنیا کے علوم خواہ کتنے بھی ترقی کر جائیں، زمانہ خواہ کتنی کروٹیں بدل لے یہ کتاب قیامت تک اُن کے لئے ایک کا مل راہنما کا کام دیتی چلی جائے گی.

Page 629

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۳ سیر روحانی (۶) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پھر آپ کو درجہ ملا تو خاتم النبیین کا جس میں کوئی نبی بھی آپ کا مقام خاتم النبیین اور آپ کی عالمگیر بعثت شریک نہیں.پھر سب انبیاء ایک ایک قوم کی طرف مبعوث ہوتے رہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رَحْمَةٌ لِلْعَالَمِينَ بنا کر بھیجا گیا اور آپ کی برکات کا دائرہ اتنا وسیع کر دیا گیا کہ دنیا کی کوئی قوم آپ کی غلامی سے باہر نہ رہی.کرشن اور رام چندر کی تعلیم صرف ہندوستان کے لئے تھی ، زرتشت کی تعلیم صرف ایران کے لئے تھی ، حضرت موسیٰ سے لے کر حضرت مسیح تک تمام انبیا ء کی تعلیم بنی اسرائیل کے لئے تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے ہر أَسْوَد وأَحْمَر کی طرف مبعوث فرمایا اور آپ نے یہ اعلان کیا کہ بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةَ الْأَحْمَرَ وَالْاَسْوَدَ - وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَا فَةً لِلنَّاسِ.یعنی خدا تعالیٰ نے مجھے تمام عالم انسانی کی طرف مبعوث فرمایا اور ہر أسود و أحمر میرا مخاطب ہے.اب خواہ ایشیا کے رہنے والے ہوں یا افریقہ کے، یورپ کے رہنے والے ہوں یا جزائر کے، پہاڑوں میں رہنے والے ہوں یا میدانوں میں ، گاؤں میں رہنے والے ہوں یا شہروں میں ، سب پر آپ کی اطاعت فرض ہے اور کوئی شخص بھی آپ کی غلامی کا جوا اُٹھائے بغیر روحانی عمارت کی اینٹ نہیں بن سکتا.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس لحاظ سے بھی ہر قسم کے خدام کا عطا کیا جانا خیر کثیر عطا کیا کہ اس نے ہر قسم کے انسان آپ خیر کو عطا کئے.اگر جرنیلوں کی ضرورت تھی تو اس نے آپ کو ایسے جرنیل عطا کئے جن کے تدبر کا آج یورپ تک معترف ہے ، اگر مبلغوں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مبلغ عطا فرمائے جو قرآن ہاتھ میں لے کر ساری دنیا میں نکل گئے اور انہوں نے ہزاروں لوگوں کو اسلام میں داخل کیا ، اگر جاں نثار اور فدا کار غلاموں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے مخلص جاں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بھیٹر بکریوں کی طرح خدا تعالے کی راہ میں اپنے سر کٹا دیئے ، اگر کسی جگہ عورتوں کی فدائیت کی ضرورت پیش آئی تو عورتیں

Page 630

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۴ سیر روحانی (۶) آگے آگئیں ، اگر کسی جگہ نو جوانوں کا خون قوم کو درکا ر تھا تو نو جوان آگے نکل آئے ، اگر قوم کی ترقی کے لئے عابد و زاہد لوگوں کی ضرورت تھی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بڑے بڑے شب بیدار اور عابد وزاہد نفوس عطا فرمائے غرض کونسی ضرورت تھی جو خدا تعالیٰ نے پوری نہ کی.اخلاص اور فدائیت میں پھر اخلاص اور فدائیت کولو تو اس میں بھی جو برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والوں کو ملی وہ صحابہ کی امتیازی شان کسی اور نبی کے متبعین کو نہیں ملی.موسیٰ کے ساتھیوں نے ایک نہایت ہی نازک موقع پر یہ کہہ دیا کہ فاذْهَبُ انْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَا إنَّا هَهُنَا قاعدون 19 اے موسیٰ تو اور تیرا رب جا کر لڑتے پھرو ہم تو یہیں بیٹھے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وہ جاں نثار عطا فرمائے جنہوں نے بڑی دلیری سے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ گزرے.۱۱۰ غرض اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہر خیر اور برکت کی کثرت عطا کی.اُس نے روحانی لحاظ سے ایک طرف سے آپ کو وہ شریعت عطا فرمائی جو قیامت تک منسوخ نہیں ہو سکتی اور دوسری طرف آپ کو وہ بلند مقام بخشا کہ اب قیامت تک کوئی شخص خدا تعالیٰ کا قرب حاصل نہیں کر سکتا جب تک وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں شامل نہ ہو.اور جسمانی لحاظ سے اُس نے آپ کو خدام کی اتنی کثرت بخشی کہ سارا مکہ آپ کی زندگی میں آپ کے حلقہ بگوشوں میں شامل ہو گیا.اسی طرح مال ودولت کے لحاظ سے اس مال و دولت اور رُعب ودبدبہ قدر کثرت بخشی کہ قیصر و کسری کے خزائن مسلمانوں میں تقسیم ہوئے ، رُعب اور دبدبہ اس قدر عطا فر مایا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام سنکر گھر بیٹھے دشمن کا دل لرز جاتا اور اُس کا کلیجہ منہ کو آنے لگتا تھا.غرض ہر خیر

Page 631

انوار العلوم جلد ۲۲ سیر روحانی (۶) اور برکت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دی گئی اور اس کثرت کے ساتھ دی گئی کہ اس کی مثال نہ موسی کی زندگی میں مل سکتی ہے نہ عیسی کی زندگی میں مل سکتی ہے نہ داؤد اور سلیمان کی زندگی میں مل سکتی ہے اور نہ کسی اور نبی کی زندگی میں مل سکتی ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر تفصیلی طور پر دیکھا جائے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی چارا غراض بتلائی کی بعثت کی چار اغراض گئی تھیں تلاوت آیات تعلیم کتاب تعلیم حکمت اور تزکیہ نفوس چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيته وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتب والحكمة - وَاِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبين الا یعنی اللہ تعالیٰ نے مومنوں پر یہ بڑا بھاری احسان کیا کہ اُس نے اُن میں ایک ایسا رسول مبعوث فرمایا جو اللہ تعالیٰ کی آیات سے انہیں روشناس کرتا ہے ان کا تزکیہ نفس کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے اور یقیناً وہ اس سے پہلے ایک کھلی گمراہی میں مبتلا تھے.ہر کمال میں محمد رسول اللہ اس آیت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چار کام بتلائے گئے ہیں اور درحقیقت ہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منفرد ہونا انہی چاروں امور کی سرانجام دہی کے لئے آیا کرتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ آپ نے دنیا کے ہر نبی سے تلاوت آیات بھی زیادہ کی تعلیم کتاب بھی زیادہ دی تعلیم حکمت بھی زیادہ پیش کی اور تزکیہ نفوس بھی زیادہ کیا.گویا ہر کمال میں آپ کو کوثر عطا کیا گیا اور ہر خوبی میں آپ کو منفر د رکھا گیا.امور غیبیہ کے متعلق محمد رسول اللہ عربی زبان میں آیۃ کے جہاں اور بہت سے معنی ہیں وہاں اس کے ایک معنی اس صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی چیز کے بھی ہوتے ہیں جو کسی دوسری چیز کی طرف راہنمائی کرے چنانچہ قرآن کریم میں نازل شد و فقرات کو بھی اسی لئے آیات کہا

Page 632

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۶ سیر روحانی (۶) جاتا ہے کہ اس کا ہر فقرہ دوسرے فقرہ کے معانی کے لئے بطور دلیل ہوتا ہے جس کو مد نظر رکھنے کے بغیر اس کا مفہوم پوری طرح واضح نہیں ہوتا.پس يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آیتم میں یہ بتایا گیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی نوع انسان کی ایسے امور کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جن کو وہ خود اپنی عقل کے زور سے معلوم کرنے سے قاصر تھے اور چونکہ امور غیبیہ ہی ایک ایسی چیز ہیں جن کو کوئی انسان اپنی عقل اور فکر کے ساتھ معلوم نہیں کرسکتا اس لئے تلاوت آیات کا کام اسی صورت میں مکمل ہو سکتا تھا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا کوایسی باتیں بتاتے جو اُن کے لئے امور غیبیہ پر ایمان لانے کی محرک ہو تیں اور انہیں آپ کی راہنمائی میں وہ روحانی دولت ملتی جو اس سے پہلے ان کے پاس نہیں تھی.ہستی باری تعالیٰ اس نقطہ نگاہ سے اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ امور غیبیہ میں سب سے پہلی اور اہم خیر خدا تعالیٰ کا وجود ہے کیونکہ وراء الورای ہستی ہے اور کوئی انسان اپنے علم اور ادراک کے زور سے اُس تک نہیں پہنچ سکتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کے وجود کو بنی نوع انسان کے سامنے اس طرح پیش کیا کہ اس وراء الورای ہستی کی عظمت اور اس کی جبروت کا تصور بھی قائم رہا اور بنی نوع انسان کے قلوب میں یہ یقین بھی پیدا ہو گیا کہ ہمارا خدا اپنی مخلوق کو اعلیٰ درجہ کے مقامات پر پہنچانے کی خواہش رکھتا ہے اور وہ انہیں ہر وقت اپنے قرب میں جگہ دینے کے لئے تیار ہے.اس غرض کے لئے سب سے پہلی اور اہم خبر صفات الہیہ ہیں کیونکہ غیر محدود ہونے کی وجہ سے وہ صرف اپنی صفات کے ذریعہ ہی پہچانا جا سکتا ہے.بیشک صفات الہیہ پر اور مذاہب نے بھی روشنی ڈالی ہے مگر اوّل تو جس تفصیل کے ساتھ اسلام نے ان صفات کو بیان کیا ہے اس تفصیل کے ساتھ دنیا کے اور کسی مذہب نے صفات الہیہ پر روشنی نہیں ڈالی یہاں تک کہ یہودیت بھی جو اسلام سے پہلے آنے والے مذاہب میں سے ایک بہت بڑا مذہب تھا اور جسے تو رات جیسی کتاب دی گئی تھی اُس میں بھی بہت کم صفات الہیہ کا بیان ہوا ہے.بائیل میں خدا تعالیٰ کی صفات کی تنقیص اور پھر ان مذاہب نے خدا تعالی کی طرف کئی ایسے نقائص اور

Page 633

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۷ سیر روحانی (۶) عیوب بھی منسوب کر رکھے ہیں جن کی وجہ سے اُس کی صفات کی تنقیص ہوتی ہے مثلاً بائییل میں ہی لکھا ہے کہ: چھ دن میں خداوند نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا اور ساتویں دن آرام کیا اور تازہ دم ہوا.۱۱۲ گویا خدا تعالیٰ چھ دن کام کرنے کی وجہ سے نَعُوذُ بِاللهِ تھک گیا اور اُسے ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ آرام کرے اور تازہ دم ہو جائے ، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ خدا تعالیٰ کے متعلق یہ تصور بالکل غلط ہے اس لئے کہ وہ کوئی مادی وجود نہیں جو کام کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور تھکان اور کوفت محسوس کرے چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا مَسَّنَا مِن تُغُوبِ ۱۱۳ یعنی زمین و آسمان کی پیدائش سے ہمیں کوئی تھکان محسوس نہیں ہوئی.پس یہ بات بالکل غلط ہے کہ خدا تعالیٰ زمین و آسمان کی پیدائش سے تھک گیا اور ساتویں دن اُس نے آرام کی احتیاج محسوس کی.اسی طرح مسیحیت نے خدا تعالیٰ کی وحدانیت پر حملہ کیا اور مسیح اور روح القدس کو بھی اُس کی الوہیت میں شریک قرار دے دیا مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کو تمام مادی قیدوں اور ظہوروں سے پاک قرار دیا.اور پھر آپ نے اس امر پر بھی زور دیا که انسان اگر خدا تعالیٰ کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرے تو وہ خدا تعالیٰ کی محبت کو حاصل کر سکتا اور اس کے قرب میں بڑھ سکتا ہے.چنا نچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا نقش اپنے دل پر پیدا کریں.۱۱۴ اسی طرح وہ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے.اے انسانو! اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے تم کو اس دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا ہے اگر تم میں سے کوئی شخص اس مقام کا انکار کرے گا تو اُس کا نتیجہ اُس کو بھگتنا پڑے گا لا یعنی اس عزت کے مقام کو چھوڑ کر وہ خود ہی نقصان اُٹھائے گا خدا تعالیٰ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اسی طرح ایک اور جگہ اس نے فرمایا ہے کہ جو لوگ ہم سے ملنے کی کوشش کرتے ہیں

Page 634

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۸ سیر روحانی (۶) ہم یقیناً انہیں اپنی بارگاہ تک پہنچنے کے راستے بتا دیتے ہیں.۱۱۶ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا تعالیٰ کی عظمت اور اُس کے جاہ وجلال کو بھی قائم کیا اور بنی نوع انسان کو بھی اس امر کا یقین دلایا کہ وہ خدا تعالیٰ کے مقرب بن سکتے ہیں.اسی طرح ملائکہ بھی ایک مخفی وجود ہیں جن کی حقیقت کا علم بغیر کسی ملائكة الله ایسے انسان کی راہنمائی کے حاصل نہیں ہو سکتا جسے خدا خود اپنے غیب سے حصہ دے اور بتائے کہ ملائکہ کی کیا حقیقت ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد چونکہ اللہ تعالیٰ نے تلاوت آیات کا کام کیا تھا اس لئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے علم کے ماتحت ان کے متعلق بھی بنی نوع انسان کی صحیح راہنمائی فرمائی اور بتایا کہ ملائکہ نظام عالم کے روحانی اور جسمانی سلسلہ کی اُسی طرح ایک اہم کڑی ہیں جس طرح دوسرے نظر آنے والے اسباب مادی دنیا میں مختلف کاموں کی کڑیاں ہیں.وہ صرف خدائی دربار کی رونق کا سامان نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے تکوینی احکام کی پہلی کڑی ہیں اور ان کے بغیر اس کا ئنات کا وجود ادھورا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ اسی حقیقت کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ کچھ تو وہ ملائکہ ہیں جو عرش کو اُٹھائے ہوئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو عرش کے ارد گرد رہتے ہیں کے یعنی ایک تو وہ فرشتے ہیں جو خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرنے والے ہیں اور جن کے ذریعہ دنیا میں احکام الہیہ کا اجراء ہوتا ہے اور ایک وہ ہیں جو اُن احکام کو نچلے طبقہ تک لے جانے والے ہیں پس ملائکہ کا وجوداس عالم کا ایک اہم ضروری حصّہ ہے.رسالت اور کلام الہی کی ضرورت آپ نے رسالت اور کلام الہی کی ضرورت کو بھی واضح کیا اور بتا یا کہ جس طرح مادی دنیا میں خدا تعالیٰ نے صرف آنکھ پیدا نہیں کی بلکہ لاکھوں میل کے فاصلہ پر ایک سورج بھی پیدا کر دیا ہے تا کہ آنکھ اس کی روشنی سے فائدہ اُٹھائے اسی طرح روحانی عالم میں بھی خدا تعالیٰ نے سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں.جو شخص روحانی دنیا

Page 635

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۰۹ سیر روحانی (۶) کے سورج یا روحانی دنیا کے چاند یا روحانی دنیا کے ستاروں کی ضرورت کا انکار کرتا ہے وہ قانونِ قدرت سے اپنی آنکھیں بند کرتا اور حقائق سے روگردانی اختیار کرتا ہے چنانچہ اسلام نے اسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا ہے.کہ ہم تمہارے سامنے اس آسمان کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو مختلف بروج والا ہے ۱۱۸، یعنی جس طرح تمہیں اِس مادی دنیا کے آسمان میں سورج اور چاند اور ستارے دکھائی دیتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے روحانی عالم میں بھی ظلمتوں کو دُور کرنے کے لئے سورج اور چاند اور ستارے بنائے ہیں جو لوگوں کو اپنے نور سے منور کرتے رہتے ہیں.بعث بعد الموت آپ نے اسی سلسلہ میں بعث بعد الموت پر بھی روشنی ڈالی کیونکہ اس کے متعلق بھی کوئی انسان اپنی ذاتی کد و کاوش سے معلومات حاصل نہیں کر سکتا تھا آپ نے ایک طرف تو جزاء وسزا کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور دوسری طرف یہ بتایا کہ اس جزاء کا مخفی رکھا جانا بھی ضروری ہے ورنہ انسانی اعمال غیر اختیاری ہو جائیں اور جزا ء ایک بے معنی لفظ بن کر رہ جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص نہیں جانتا کہ اُس کے لئے عالم آخرت میں آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کیا سامان مخفی رکھا گیا ہے کیونکہ یہ انعام تمہارے اعمال کی جزاء میں ملنے والا ہے 119 اگر اس کو ظاہر کر دیا جائے تو حقیقت کے منکشف ہونے پر ایمان لا نا کوئی خوبی نہ رہے اور انسان کسی جزاء کا مستحق نہ ہو.آپ نے اس امر کی تصریح فرمائی کہ عالم آخرت درحقیقت اسی دنیا کا ایک تسلسل ہے جس میں اپنے اپنے اعمال کے مطابق مادیت کے بوجھ سے آزاد ہو کر انسانی روح اُس راستہ پر گامزن ہو جاتی ہے جو اُس نے خود اپنی دُنیوی زندگی میں اختیار کیا ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے کہ جو شخص اس دنیا میں روحانی لحاظ سے نا بینائی رکھتا ہوگا وہ عالم آخرت میں بھی اس نابینائی کو لے کر اُٹھے گا اور خدائی قرب کے دروازے اُس پر نہیں کھلیں گے ۱۲۰ غرض ہر وہ مخفی مسئلہ جس پر مذہب اور روحانیت کی بنیا دتھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کھول کر بیان کیا کہ انسانی عقول تسلی پاگئیں

Page 636

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۰ سیر روحانی (۶) اور ان کا رسمی ایمان مشاہدہ اور بصیرت کا رنگ اختیار کر گیا.شریعت لعنت نہیں بلکہ خدا تعالیٰ آپ کا دوسرا اہم کام تعلیم کتاب تھا اس کا م کو بھی آپ نے ایسے رنگ میں پورا کیا کہ بڑا بھاری فضل ہے اس کی مثال اور کسی وجود میں نہیں ملتی آپ کی بعثت سے پہلے دنیا میں بعض ایسے مذاہب تھے جو اپنی نادانی سے شریعت کو لعنت قرار دیتے تھے اور سمجھتے تھے کہ یہ ایک ایسا بوجھ ہے جو انسان کی کمر کو توڑ دینے والا ہے آپ نے بتایا کہ یہ نظر یہ صحیح نہیں، شریعت اللہ تعالیٰ کا ایک بڑا بھاری فضل ہے کیونکہ انسان جب اس مقصد کے لئے پیدا کیا گیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کرے تو وہ اپنی عقل سے خدا تعالیٰ کی مرضی کو کس طرح معلوم کر سکتا ہے.یہ مرحلہ تو اسی صورت میں طے ہو سکتا ہے جب خدا تعالیٰ خود بتائے کہ میری رضا کس امر میں ہے اور شریعت اس چیز کا نام ہے کہ خدا تعالیٰ کی رضا مندی کی راہوں کو خدا تعالیٰ کی زبان سے ہی معلوم کیا جائے.پس شریعت خدا تعالیٰ کی ایک بڑی بھاری رحمت ہے اس وجہ سے قرآن کریم کو مختلف مقامات میں رحمت قرار دیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ قرآن بنی نوع انسان کو تکلیف میں ڈالنے کے لئے نہیں بلکہ آسانیاں پیدا کرنے کے لئے آیا ہے.۱۲۱ شریعت کا فائدہ پھر آپ نے اس امر کی بھی وضاحت فرمائی کہ شریعت اس لئے نازل نہیں ہوتی کہ اُس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی شان بڑھتی ہے بلکہ اس لئے نازل کی جاتی ہے کہ بنی نوع انسان اُس کے احکام پر عمل کر کے ترقی کریں کیونکہ اس کا ہر حکم انفرادی اور قومی ترقی کے ساتھ تعلق رکھتا ہے، خدا تعالی کو اُن احکام پر عمل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو اسی نکتہ کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ تم میں سے جو شخص نیکی کرے گا وہ اپنے نفس کے لئے کریگا اور جو شخص بدی کا ارتکاب کرے گا اُس کا وبال بھی اس کی جان پر پڑے گا، خدا تعالیٰ اپنے بندوں پر کوئی ظلم نہیں کرتا.۱۲۲

Page 637

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۱ سیر روحانی (۶) قرآن کریم کی کامل تعلیم پھر تعلیم کتاب کے لحاظ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تعلیم پیش کی جو اپنے ہر پہلو کے لحاظ سے کامل ہے آپ نے بتایا کہ انسان پر اُس کے ماں باپ کے کیا حقوق ہیں؟ بھائی بہنوں کے کیا حقوق ہیں؟ بیوی کے خاوند پر اور خاوند کے بیوی پر کیا حقوق ہیں؟ ہمسائیوں کے کیا حقوق ہیں؟ یتامی و مساکین کے کیا حقوق ہیں ؟ بیواؤں کے کیا حقوق ہیں؟ دوستوں کے کیا حقوق ہیں؟ اسی طرح آپ نے سیاست ملکی پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ سرحدوں کی حفاظت کیا کرو، لڑائیوں کے متعلق متعدد احکام دیئے، معاہدات کی پابندی کی تلقین کی ، اقوامِ عالم کے جھگڑوں کے تصفیہ کے قواعد بیان کئے غرض انفرادی مسائل یا قومی زندگی میں جن مشکلات کا سامنا ہو سکتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر روشنی ڈالی اور ان کا کامیاب حل بتایا.پھر اس کیساتھ ہی آپ نے اس امر کی صراحت فرما دی کہ گواس کتاب میں وہ تمام ضروری امور بیان کر دئیے گئے ہیں جن کا مذہبی یا روحانی یا اخلاقی ترقی کیسا تھ تعلق ہے مگر انسانی دماغ کی ترقی کے لئے اجتہاد اور غور اور فکر کا بھی سلسلہ جاری رکھا گیا ہے تا کہ انسانی دماغ گند ہو کر نہ رہ جائے اور وہ اندھی تقلید کا شکار نہ ہو جائے.تعلیم حکمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تیسرا عظیم الشان کام تعلیم حکمت تھا اس لحاظ سے آپ نے ایک بے مثال معلم کے فرائض سرانجام دیئے.پہلی تمام کتب کو دیکھ لو وہ صرف اتنا کہتی ہیں کہ ایسا کرو اور ایسا نہ کرو، مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا کہ ایسا کیوں کرو اور کیوں نہ کرو.وہ شراب اور جوئے سے روکتا ہے تو اس کی حکمت بھی بتاتا ہے اور کہتا ہے کہ ان چیزوں کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں ۱۲۳ وہ نماز اور روزے کا حکم دیتا ہے تو ان کے فوائد بھی بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ نماز تمام بخش اور نا پسندیدہ کاموں سے انسان کو بچاتی ہے روزوں کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم میں تقویٰ پیدا ہو.۱۲۵ غرض اسلام احکام کے ساتھ حکمتیں بھی بیان کرتا ہے اور یہ اسلام کی اتنی بڑی ۱۲۴ اور

Page 638

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۲ سیر روحانی (۶) فضیلت ہے جس کا مقابلہ دنیا کا اور کوئی مذہب نہیں کر سکتا.آپ نے بتایا کہ خدا تعالیٰ حکیم بھی ہے وہ کوئی حکم بغیر کسی حکمت کے نہیں دیتا پس خدائی تعلیم کے یہ معنے نہیں کہ اُس کے احکام حکمتوں سے خالی ہوں اور محض جبر کے طور پر کچھ باتیں منوانے کی کوشش کی گئی ہو بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف کسی بات کا منسوب ہونا تقاضا کرتا ہے کہ وہ بات لازمی طور پر مختلف قسم کی حکمتوں سے پُر ہو ، تا کہ انسانی دل انقباض محسوس نہ کرے بلکہ وہ خوش ہو کہ جس حکم پر میں عمل کر رہا ہوں اُس میں میرا بھی فائدہ ہے اور دوسرے بنی نوع انسان کا بھی فائدہ ہے.تزکیه نفوس چوتھا اور اہم کام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیا گیا تھا وہ تزکیۂ نفوس ہے یعنی لوگوں کے دلوں میں ایسی پاکیزگی پیدا کرنا کہ وہ خدا تعالیٰ کے قریب ہو جائیں اور اُس کی قدرتوں کا جلوہ گاہ بن جائیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام کو بھی ایسے احسن طریق سے پورا کیا ہے کہ دوست ہی نہیں دشمن بھی اس بات کے معترف ہیں کہ آپ نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر دیا.آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے ہیں اُس زمانہ میں مذہب ہی نہیں انسانیت بھی مر چکی تھی اور شرافت دنیا سے مفقود ہو چکی تھی.ہر قسم کا فسق و فجور لوگوں میں پایا جاتا تھا اور ہر قسم کی نیکی عنقا تھی یہاں تک کہ بدی کا احساس بھی لوگوں کے قلوب سے مٹ چکا تھا اور وہ ندامت اور شرمندگی محسوس کرنے کی بجائے بدیوں کے ارتکاب پر فخر محسوس کرتے تھے.ایسے خطرناک زمانہ میں آپ نے تزکیۂ نفوس کا کام شروع کیا اور ہر قسم کی روکوں اور انتہائی مظالم کے باوجود اس کام کو جاری رکھا یہاں تک کہ وہ دن آ گیا کہ صدیوں کے مُردوں نے اپنے اندر زندگی کی روح محسوس کی ، قبروں میں دبے پڑے لوگ باہر نکل آئے ، اندھوں نے بینائی حاصل کی ، گولے اور لنگڑے چلنے لگے، کمزوروں نے اپنے اندر طاقت کی ایک لہر دوڑتی ہوئی پائی ، بیماروں نے صحت کے آثار محسوس کئے اور جہالت کی جگہ علم نے ، جمود کی جگہ سعی عمل نے ، شیطنت کی جگہ روحانیت نے اور بدی کی جگہ نیکی نے لے لی.برسوں کے مسخ شدہ انسان آپ کے فیضِ صُحبت سے ایسے پاک ہوئے کہ اُن کی کا یا پلٹ گئی ، وہ خدائے واحد کے آستانہ کی طرف کھینچے گئے اور دنیا کی ہدایت کے لئے

Page 639

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۳ سیر روحانی (۶) ایک ایسا مینار بن گئے کہ آج بھی اُن کی روشنی نیند کے ماتوں کو بیدار کرنے اور انہیں چاق و چوبند بنانے کے کام آ رہی ہے.غرض اس روحانی گورنر جنرل کو خدائے واحد کی طرف سے جس انعام کا وعدہ دیا گیا تھا وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے گو شر عطا کیا اور ہر رنگ میں اتنی برکات اور انعامات کے ساتھ نوازا کہ انسان کے لئے اُن کا شمار کرنا بھی مشکل ہے.ایک کثیر الخیر روحانی فرزند پھر کوثر کے ایک معنے الرَّجُلُ كَثِيرُ الْعَطَاءِ وَالْخَيْرِ ۱۲ کے بھی ہیں یعنی ایسا انسان جو بڑا کے پیدا ہونے کی پیشگوئی سخی ہو اور دنیا میں کثرت سے نیکی پھیلانے ۱۲۷ والا ہو.اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں یہ بیان فرمایا تھا کہ اے محمد رسول اللہ ! ہم اب بھی تجھے ہر قسم کی نعمتوں کی کثرت دینگے اور آئندہ زمانہ میں بھی تجھے ایک بہت بڑا روحانی فرزند عطا کریں گے جو کثیر الخیر ہو گا اور کثرت سے قرآن کریم کے علوم اور اس کے معارف دنیا میں پھیلائے گا خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی مفہوم میں یہ پیشگوئی فرمائی کہ يُفِيضُ الْمَالَ - 1 یعنی آنے والا مسیح کثرت کے ساتھ لوگوں میں روحانی دولت تقسیم کر یگا مگر اس کے ساتھ ہی قرآن کریم نے اِنَّا أَعْطَيْنَكَ الْكَوْثَرَن میں اس طرف بھی اشارہ فرما دیا ہے کہ آنے والا مسیح اُمت محمدیہ کا ایک فرد ہو گا کیونکہ إنا أعطيتك میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ مسیح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا جائے گا اور اس کا وجود ثابت کر دیگا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابتر نہیں ، پس وہ آپ کا ہی روحانی بیٹا ہوگا ، باہر کا کوئی آدمی نہیں ہوگا.تمام مخالف اقوام ابتر ہو کر رہ گئیں اس جگہ پہلے معنوں کے لحاظ سے دشمنوں سے مراد ابو جہل، عتبہ اور شیبہ ا وغیرہ ہیں ، مگر دوسرے معنوں کے لحاظ سے شان سے وہ تمام قو میں مراد ہیں جو آج اسلام پر حملہ کر رہی ہیں چنانچہ دیکھ لو جب اسلام ضعیف ہو گیا، مسلمانوں کی طاقتیں کمزور ہوگئیں اور عیسائی مصنفوں نے یہ لکھنا شروع کر دیا کہ اب اسلام ترقی نہیں کرسکتا اور خود

Page 640

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۴ سیر روحانی (۶) مسلمان مصنفین نے بھی دشمن کے مقابلہ میں معذرتیں شروع کر دیں، اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا اور آپ نے دنیا کو چیلنج کیا کہ میں محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی بیٹا ہوں اور میں اس بات کا ایک زندہ ثبوت ہوں کہ آج محمدی چشمہ کے سوا باقی تمام چشمے سُوکھ گئے ہیں اور میں اس چشمہ کا پانی پی کر زندہ ہوا ہوں.اگر تم سمجھتے ہو کہ تم بھی کسی زندہ مذہب کے پیرو ہو تو تم میرے سامنے وہ زندہ شخص پیش کرو جس پر خدا تعالیٰ کا تازہ کلام اُترتا ہو.مگر واقعات بتا رہے ہیں کہ اس چیلنج کے مقابلہ میں دنیا کی ساری قو میں ابتر ہو کر رہ گئیں اور وہ اسلام کے پہلوان کے مقابلہ میں اپنا کوئی پہلوان پیش نہ کر سکیں.ساٹھ سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے مگر نہ ہندو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ عیسائی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں نہ یہودی کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں ، نہ بدھ یا کنفیوشس مذہب کے پیرو کوئی روحانی بیٹا پیش کر سکے ہیں، نہ یورپ کا فلسفہ کوئی بیٹا پیش کر سکا ہے.ساٹھ سال سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی بیٹے کا چیلنج موجود ہے کہ اگر تمہارے اندر کوئی نور اور صداقت ہے تو تم میرے مقابلہ میں وہ شخص پیش کرو جس نے تمہارے مذہب پر چل کر خدا تعالیٰ کے مکالمات کا شرف حاصل کیا ہو اور اس کی تازہ وحی اور نشانات کا مورد ہوا ہو مگر کوئی مذہب اپنا روحانی بیٹا پیش نہیں کر سکا.پس جس طرح آج سے تیرہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے اس انعام کو پورا کیا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر قسم کی نعماء سے حصہ عطا فرمایا اسی طرح اُس نے تیرہ سو سال کے بعد ایک بار پھر دنیا پر یہ ثابت کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی صاحب اولاد ہیں اور آپ کے دشمن ہی ابتر ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پھر اسی دربار خاص میں ایک اور عظیم الشان انعام بھی اس خدائی گورنر جنر ل کو عطا کو مقامِ مقام م محمود کی بشارت کیا گیا اور کہا گیا کہ عَسَى أَن يَبْعَتُكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودان ۱۲۸ یعنی اے محمد رسول اللہ ! عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ ہر

Page 641

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۵ سیر روحانی (۶) دوست اور دشمن تیری تعریف میں رطب اللسان ہوگا اور ہر مقام پر تیرے بلند اخلاق اور اعلیٰ درجہ کے کردار کا چرچا ہو گا.اس انعام کا اعلان بھی ایسی حالت میں کیا گیا جب دنیا اپنی نابینائی کی وجہ سے اس خدائی گورنر جنرل کا حسن دیکھنے سے عاری تھی اور وہ اپنی مخالفت کے جوش میں اسے محمد کہنے کی بجائے مذقم کہہ کر پکارا کرتی تھی مگر ابھی ایسی مخالفت پر کچھ زیادہ عرصہ گزرنے نہیں پایا تھا کہ اُس کا روحانی حسن ظاہر ہونا شروع ہوا اور لوگوں کو محسوس ہوا کہ انہوں نے سونے کو پیتل اور ہیرے کو کوئلہ قرار دیکر ہمالیہ سے بھی بڑی غلطی کا ارتکاب کیا ہے.ہر وصف میں یکتا اور بے نظیر نبی انہوں نے تعصب کی پٹی اپنی آنکھوں سے اُتار کر اس کے اخلاق فاضلہ کو دیکھا تو انہیں بے مثال پایا اور اس کے زندگی بخش کلام کو سُنا تو اُسے تمام کلاموں سے افضل پایا، اس کے علم کو دیکھا تو دنیا کے بڑے بڑے عالموں کو اس کے سامنے جاہل پایا، اس کی معرفت کو دیکھا تو بڑے بڑے عارفین کو اُس کے آگے زانوئے تلمذ تہہ کرتے دیکھا، اس کی محبت اور تعلق یا اللہ کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کا ویسا عاشق اور سچا عبادت گزار انہیں ساری دنیا میں نظر نہ آیا ، انہوں نے اس کے دلائل و بینات کا جائزہ لیا تو انکارڈ کرنے کی دُنیا کے کسی مذہب میں طاقت نہ پائی، اس کی دعاؤں کی قبولیت کو دیکھا تو انہیں بے نظیر پایا ، اس کے فیوض و برکات اور اس کی تعلیمات کا مشاہدہ کیا تو دنیا میں اُن کا کوئی ثانی نہ دیکھا، اس کی پیشگوئیوں پر انہوں نے نظر دوڑائی تو انہیں آپ کی صداقت اور راستبازی کا ایک بڑا نشان دیکھا.غرض جس پہلو سے بھی انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اُسے مجسمہ حسن و احسان پایا اور وہ آپ کے ایسے والہ وشیدا ہوئے کہ تمام دنیوی علائق کو تو ڑ کر وہ آپ سے ایسے وابستہ ہو گئے اور اس عہدِ وفا کو انہوں نے مرتے دم تک اس خوبی سے نباہا کہ پہلی امتیں اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں.زبانوں پر حمد کے ترانے یہی وہ چیز تھی جس کی خدا تعالیٰ کی طرف سے ان الفاظ میں خبر دی گئی تھی کہ عَسَى أَن يَبْعَثَكَ رَبُّكَ

Page 642

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۶ سیر روحانی (۶) مَقَامًا مَّحْمُودا یعنی اے محمد رسول اللہ ! آج لوگ تیرا حسن دیکھنے سے قاصر ہیں وہ تجھے ایسی گٹھلی سمجھتے ہیں جو پاؤں تلے روندی جائیگی ، ایک ایسا بیج خیال کرتے ہیں جسے پرندے اُچک کر لے جائیں گے مگر ہم نے تیرے اندر ایسی خوبیاں ودیعت کر دی ہیں کہ جوں جوں ان خوبیوں کا ظہور ہوتا جائے گا تیری حمد کے ترانے لوگوں کی زبانوں پر جاری ہوتے جائیں گئے اور مذقم کہنے والے تجھ پر درود اور سلام بھیجیں گے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے وہ تمام مسائل جن پر یورپ کے مدبرین اور بڑے بڑے فلا سفر بھی اعتراض کیا کرتے تھے آج دنیا اُن کی معقولیت کی قائل ہو رہی ہے اور وہ تسلیم کرتی ہے کہ دنیا کی مشکلات کا صحیح حل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیش کردہ تعلیم میں ہی ہے.اسلامی تعلیم کی برتری کا اعتراف ایک زمانہ ایسا گزرا ہے جب تو حید کے اعلان پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں کو انتہائی مصائب کا نشانہ بنایا گیا مگر آج ساری دنیا خدائے واحد کے آستانہ پر سر جھکائے ہوئے ہے بلکہ وہ لوگ جو مذہباً تثلیث کے قائل ہیں یا مذہباً سینکڑوں دیوتاؤں کو تسلیم کرتے ہیں وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ خدا تو ایک ہی ہے باقی سب اُس کے ظہور ہیں.پھر شراب کو اچھا سمجھا جاتا تھا، اسلام کے مسئلہ طلاق پر اعتراض کیا جاتا تھا ، تعدد ازدواج کو عورتوں کے لئے شدید ظلم قرار دیا جا تا تھا، سُو دکو تجارت کا ایک لازمی جزو سمجھتے ہوئے بڑا مفید خیال کیا جاتا تھا، پردہ کو بُر اقرار دیا جاتا تھا، ورثہ کے مسائل کو درست نہیں سمجھا جاتا تھا مگر آج دنیا ٹھوکریں کھا کر اس تعلیم کی طرف آ رہی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کی کیونکہ خدا نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ وہ آپ کو مقام محمود عطا کر یگا اور دنیا آپ کے اخلاق اور آپ کی تعلیم کی برتری کی وجہ سے اپنے دل کی گہرائیوں سے آپ کی تعریف کریگی.دشمنوں کے منہ سے محمد رسول اللہ حقیقت یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام فضائلِ حسنہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف سے اس طرح متصف کر کے مبعوث فرمایا

Page 643

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۷ سیر روحانی (۶) ہے کہ کوئی خوبی نہیں جو آپ میں نہ پائی جاتی ہو اور کوئی کمال نہیں جو آپ کے اندر نہ دکھائی دیتا ہو اور پھر ہر کمال اپنے اپنے دائرہ میں ایسی امتیازی شان کے ساتھ آپ کے اندر پایا جاتا ہے کہ دوست تو الگ رہے ، دشمن بھی آپ کی تعریف کرنے پر مجبور ہیں اور وہ آر کے اخلاق کی بلندی اور آپ کے کردار کی پاکیزگی کے معترف ہیں.سرولیم میور کا اقرار کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ سر ولیم میور اسلام کا ایک شدید ترین دشمن ہے مگر اس نے بھی جب علیہ وسلم نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے اس انقلاب پر نگاہ دوڑائی جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب کی سرزمین میں پیدا کیا تو وہ بھی یہ الفاظ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ: یہ کہنا کہ اسلام کی صورت عرب کے حالات کا ایک لازمی نتیجہ تھی ایسا ہی ہے جیسا کہ یہ کہنا کہ ریشم کے بار یک تاگوں میں سے آپ ہی ایک عالیشان کپڑا تیا ر ہو گیا ہے یا یہ کہنا کہ جنگل کی ہے تراشی لکڑیوں سے ایک شاندار جہاز تیار ہو گیا ہے یا پھر یہ کہنا کہ گھر دری چٹان کے پتھروں میں سے ایک خوبصورت محل تیار ہو گیا ہے اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ابتدائی عقائد پر پختہ رہتے ہوئے عیسائیت اور یہودیت کی سچائی کی راہنمائی کو قبول کرتے چلے جاتے اور اپنے متبعین کو اِن دونوں مذاہب کی سادہ تعلیم پر کار بند رہنے کا حکم دیتے تو دنیا میں شاید ایک ولی محمد یا ممکن ہے کہ ایک شہید محمد پیدا ہو جاتا جو عرب کے گر جا کی بنیا د رکھنے والا قرار پاتا، لیکن جہاں تک انسانی عقل کام دیتی ہے کہا جا سکتا ہے کہ اس صورت میں آپ کی تعلیم عرب کے دل کی گہرائیوں میں تلاطم پیدا نہ کر سکتی اور سارا عرب تو الگ رہا اس کا کوئی معقول حصہ بھی آپ کے دین میں داخل نہ ہوتا ، لیکن باوجود ان تمام باتوں کے آپ نے اپنے انتہائی کمال کے ساتھ ایک ایسی گل ایجاد کی

Page 644

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۸ سیر روحانی (۶) کہ جسکی موقع کے مناسب ڈھل جانیوالی قوت کے ساتھ آپ نے آہستہ آہستہ عرب قوم کی پراگندہ اور شکستہ چٹانوں کو ایک متناسب محل کی شکل میں بدل دیا اور ایک ایسی قوم بنا دیا جس کے خون میں زندگی اور طاقت کی لہریں دوڑ رہی تھیں.ایک عیسائی کو وہ عیسائی نظر آتے تھے، ایک یہودی کی نگاہ میں وہ ایک یہودی تھے ، ایک مکہ کے بُت پرست کی آنکھ میں وہ کعبہ کے اصلاح یافتہ عبادت گزار تھے اور اس طرح ایک لاثانی ہنر اور ایک بے مثال دماغی قابلیت کے ساتھ انہوں نے سارے عرب کو خواہ کوئی بُت پرست تھا ، یہودی تھا کہ عیسائی تھا مجبور کر دیا کہ وہ ان کے قدموں کے پیچھے ایک سچے مطیع کے طور پر جس کے دل سے ہر قسم کی مخالفت کا خیال نکل چکا ہو چل پڑے.یہ فعل اُس صناع کا ہوتا ہے جو اپنا مصالح آپ تیار کرتا ہے اور یہاں اس مصالح کی مثال چسپاں نہیں ہوتی جو کہ آپ ہی آپ بن جاتا ہے اور اس مصالح کے ساتھ تو اس کو بالکل ہی کوئی مشابہت نہیں جو اپنے صناع کو خود تیا ر کرتا ہے یہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی ذات تھی جس نے اسلام بنایا یہ اسلام نہیں تھا اور نہ کوئی اور پہلے سے موجود اسلامی روح تھی جس نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بنایا.‘۱۲۹ میور چونکہ اسلام کا شدید مخالف تھا اس لئے گو اُس نے یہ کہا کہ اسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تیار کردہ ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اس صداقت کا بھی اُس نے کھلے بندوں اقرار کیا کہ دنیا نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہیں کیا بلکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی دنیا پیدا کی ہے اور یہ کام یقیناً خدا تعالیٰ کے فرستادوں کے سوا اور کوئی نہیں کرسکتا.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ مقام محمود عطا کیا کہ آپ کا حسن کبھی دشمن کی آنکھوں میں بھی عرفان کی ایک جھلک پیدا کر دیتا ہے اور وہ بھی آپ کی ستائش کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.

Page 645

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۱۹ سیر روحانی (۶) اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے محمد رسول اللہ پھر اخلاق فاضلہ کو لو تو کوئی خُلق نہیں جس میں آپ نے دنیا کے صلی اللہ علیہ وسلم کا بلند مقام لئے ایک بے مثال نمونہ نہ چھوڑا ہو اور ہر ہر شخص آ ں آپ کے اُن اخلاق کو دیکھ کر آپ کی تعریف کرنے پر مجبور نہ ہو.مثال کے طور پر بہادری کو لے لو، استقلال کو لے لو، سخاوت کو لے لو ، حیا کو لے لو، انصاف کو لے لو، رحم کو لے لو، دوستوں اور دشمنوں سے آپ کے معاملات کو دیکھ لو، جنگ میں آپ کی ہوشیاری کو دیکھ لو، عورتوں اور بچوں سے معاملات کو لے لو، آپ کے تنظیمی کارناموں پر نظر ڈالو، آپ کی جرنیلی شان کو ملاحظہ کرو تمہیں دکھائی دیگا کہ ہر پہلو کے لحاظ سے آپ کو مقام محمود حاصل ہے اور ہر معاملہ میں دنیا آپ کی اقتداء کرنے پر مجبور ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری آپ کی بہادری کی یہ کیفیت تھی کہ مدینہ میں ایک دفعہ باہر جنگل کی طرف سے شور کی آواز آئی ، اُن دنوں یہ خبریں مشہور ہو رہی تھیں کہ روما کی حکومت مدینہ پر حملہ کر نیوالی ہے، اس شور کی آواز پر تمام مسلمانوں میں گھبراہٹ پیدا ہوگئی اور وہ اس ارادہ کے ساتھ مسجد میں جمع ہوئے کہ مشورہ کے بعد کچھ لوگوں کو باہر بھجوا دیا جائے جو دیکھیں کہ یہ کیسا شور ہے مگر ابھی وہ جمع ہی ہو رہے تھے کہ انہوں نے دیکھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھوڑے کی تنگی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے باہر سے تشریف لا رہے ہیں ، آپ نے آتے ہی فرمایا میں شور کی آواز سنکر فوراً باہر چلا گیا تھا اور میں نے چکر لگا کر دیکھ لیا ہے خطرہ کی کوئی بات نہیں ، اطمینان سے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ.۱۳۰.صبر واستقلال صبر واستقلال آپ کے اندر اس قدر پا یا جاتا تھا کہ مکی زندگی میں کفار کی طرف سے آپ کو سخت سے سخت تکالیف دی گئیں، کو بُرا بھلا کہا گیا ، آپ کو شعب ابی طالب میں ایک لمبے عرصہ تک محصور رکھا گیا، آپ کا مقاطعہ کیا گیا، آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر اسقدر گھونٹا گیا کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں ، آپ پر پتھروں کی اسقدر بوچھاڑ کی گئی کہ طائف سے آتے وقت

Page 646

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۰ سیر روحانی (۶) آپ سر سے پاؤں تک لہولہان ہو گئے اسے مگر ان تمام تکالیف کے باوجود آپ جس پیغام کو لیکر کھڑے ہوئے تھے اُسے اُٹھتے بیٹھتے ، سوتے اور جاگتے آپ نے لوگوں تک پہنچایا اور ایک لمحہ کے لئے بھی آپ کے پائے ثبات میں جنبش نہیں آئی.سخاوت آپ کے اندر اس قدر پائی جاتی تھی کہ اگر آپ سے کوئی چیز مانگی سخاوت جاتی اور وہ آپ کے پاس موجود ہوتی تو آپ اس کے دینے میں کبھی دریغ نہ فرماتے اور یہ سخاوت عمر بھر آپ کا معمول رہی مگر صحابہ کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کے ایام آتے تو اُن دنوں آپ کی سخاوت کا دائرہ غیر معمولی طور پر وسعت اختیار کر لیتا ۱۳۲ اسی سخاوت کا یہ نتیجہ تھا کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی تو آپ کے گھر میں کوئی درہم اور دینار موجود نہیں تھا حالانکہ آپ اُس وقت عرب کے بادشاہ بن چکے تھے.حیا آپ کے اندر اسقدر پایا جاتا تھا کہ صحابہ کہتے ہیں آپ ایک کنواری لڑکی رحم دلی سے بھی زیادہ حیادار تھے.۱۳۳ رحم آپ کے اندر اس قدر پایا جاتا تھا کہ آپ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص رحم نہیں کرتا اللہ تعالے کی طرف سے بھی اُس پر رحم نہیں کیا جا تا ۱۳۴، آپ کا ایک نواسہ ایک دفعہ بیمار ہوا اور اُس کی حالت نازک ہو گئی.آپ کی بیٹی نے آپ کی طرف پیغام بھیجا، آپ تشریف لائے اور بچے کو دیکھا تو آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.ایک صحابی کہنے لگے یا رَسُولَ الله ! آپ بھی روتے ہیں آپ نے فرمایا ہاں اللہ تعالیٰ نے مجھے سخت دل نہیں بنایا.۱۳۵ عدل و انصاف انصاف آپ کے اندر اس قدر پایا جاتا تھا کہ ایک دفعہ کسی بڑے خاندان کی عورت نے چوری کی اور وہ پکڑی گئی اس پر بعض لوگوں نے چاہا کہ اسکے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی جائے کہ اسے کوئی سزا نہ دی جائے کیونکہ یہ بڑے خاندان کی عورت ہے اس غرض کے لئے انہوں نے حضرت اسامہ کو تیار کیا.اسامہ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کے متعلق سفارش کی تو آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور فرمایا خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس قسم کا جرم کرے تو میں اُسکے بھی ہاتھ کاٹ دوں.۱۳۶)

Page 647

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۱ سیر روحانی (۶) بدر کی جنگ میں جن کفار کو مسلمانوں نے قید کر لیا تھا اُن میں حضرت عباس بھی شامل تھے اور چونکہ وہ ناز و نعمت میں پلے ہوئے تھے اس لئے جب انہیں رسیوں سے جکڑا گیا تو انہوں نے شدت تکلیف کی وجہ سے کراہنا شروع کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں میں ان کے کراہنے کی آواز پہنچتی تو آپ بے چینی میں بار بار کروٹیں بدلتے مگر زبان سے کچھ نہیں فرماتے تھے.صحابہ نے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت دیکھی تو وہ سمجھ گئے کہ اس کی وجہ حضرت عباس کا کراہنا ہے وہ چپکے سے اُٹھے اور انہوں نے حضرت عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دیں اور اُن کے کراہنے کی آواز بند ہو گئی.تھوڑی دیر کے بعد جب آپ کے کانوں میں حضرت عباس کے کراہنے کی آواز نہ آئی تو آپ نے صحابہ سے فرمایا عباس کے کراہنے کی آواز کیوں نہیں آ رہی ؟ انہوں نے کہا يَا رَسُول اللہ ! ہم نے آپ کی تکلیف کے خیال سے اُن کی رسیاں ڈھیلی کر دی ہیں آپ نے فرمایا یہ انصاف کے خلاف ہے کہ باقی قیدیوں کو سختی سے جکڑا جائے اور عباس کی رسیاں ڈھیلی کر دی جائیں.جاؤ اور یا تو عباس کی رسیاں بھی گس دواور یا پھر باقی قیدیوں کی رسیاں بھی ڈھیلی کر دو.۱۳۷ قیصر روما کے دربار میں غرض جس پہلو کے لحاظ سے بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جائے آپ تعریف ہی تعریف کے ابوسفیان کا اقرار قابل دیکھائی دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب قیصر روما نے ابوسفیان سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق مختلف سوالات کئے تو ہر سوال کے جواب میں اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبی اور آپ کے کمال کا اعتراف کرنا پڑا.جب اس نے پوچھا کہ اس شخص کا خاندان کیسا ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ وہ ایک نہایت معزز خاندان میں سے ہے.جب اُس نے پوچھا کہ کیا دعویٰ سے پہلے تم نے کبھی اسے کسی بُرائی میں مبتلاء دیکھا ؟ تو اُس نے کہا ہر گز نہیں.جب اُس نے پوچھا کہ اس کی عقل اور اصابت رائے کا کیا حال ہے؟ تو ابوسفیان کو یہی کہنا پڑا کہ ہم نے اُس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا.جب اُس نے پوچھا کہ کیا اُس نے کبھی

Page 648

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۲ سیر روحانی (۶) بد عہدی بھی کی ہے؟ تو ابوسفیان نے کہا کہ اس نے آج تک کوئی بد عہدی نہیں کی.جب اُس نے پوچھا کہ وہ تمہیں کن باتوں کی تعلیم دیتا ہے.تو ابوسفیان نے کہا کہ ہمیں یہی کہتا ہے کہ ہم سچ بولا کریں ، خدائے واحد کی عبادت کیا کریں ، وفائے عہد سے کام لیں، امانت اور دیانت کا مادہ اپنے اندر پیدا کریں اور ہر قسم کے ناپاک اور گندے کاموں سے بچیں.۱۳۸ غرض با وجود مخالفت کے اُسے ہر سوال کے جواب میں آپ کی طہارت اور پاکیزگی کا اقرار کرنا پڑا اور قیصر روما کے بھرے دربار میں اُسے آپ کے مناقب کا ترانہ گانا پڑا کیونکہ خدا نے کہا تھا کہ ہم تجھے مقام محمود عطا کرنے والے ہیں.آج مکہ والے تجھے بیشک مدتم کہہ لیں ، بیشک ہر قسم کا جھوٹ بول کر تجھے بُرا بھلا کہتے پھریں مگر ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ تیری تعریف قائم کی جائے اور زبانوں اور دلوں پر تیری حمد جاری کی جائے چنانچہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ابوسفیان کو قیصر روما کے دربار میں کھینچ کر لے گئی اور شاہی دربار میں اُسے اقرار کرنا پڑا کہ مکہ کے لوگ جھوٹ بولتے ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقتاً تعریف کے قابل ہیں اور کوئی عیب اُن میں نہیں پایا جاتا.موجودہ زمانہ میں پھر اللہ تعالیٰ نے اسی مقام محمود کی تجلیات کو اور زیادہ روشن اور نمایاں کرنے کے لئے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود مقامِ محمود کی تجلیات علیہ الصلوۃ والسلام کو اور آپ کے بعد مجھے پیدا کیا اور ہم سے اُس نے آپ کے حُسن کی وہ تعریف کروائی کہ آج اپنے تو الگ رہے بیگانے بھی آپ کی تعریف کر رہے ہیں اور یورپ اور امریکہ میں بھی ایسے لوگ پیدا ہو رہے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود اور سلام بھیجتے ہیں مگر یہ تغیر کیوں ہوا؟ اسی لئے کہ اس روحانی در بار خاص کا بادشاہ جس انعام کا اعلان کرتا ہے وہ انعام چلتا چلا جاتا ہے اور کوئی انسان اس کو چھینے کی طاقت نہیں رکھتا.جب اُس نے اپنے دربار میں یہ اعلان کیا کہ اے ہمارے گورنر جنرل ! ہم تجھے ایسے مقام پر پہنچانے والے ہیں کہ دنیا تیری تعریف کرنے پر مجبور ہو گی تو کون شخص تھا جو خدا تعالیٰ کے اس پروگرام میں حائل ہوسکتا.اس نے محمدی انوار کی تجلیات کو روشن کرنا شروع کیا اور اُس کے حُسن کو اتنا بڑھایا کہ دنیا کی تمام

Page 649

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۳ سیر روحانی (۶) خوبصورتیاں اس حسین چہرہ کے سامنے ماند پڑگئیں اور دوست اور دشمن سب کے سب یک زبان ہو کر پکار اٹھے کہ محمد حقیقتا محمد اور قابل تعریف ہے صلی اللہ علیہ وسلم.عظیم الشان در بار غرض یہ کیسا عظیم در بار ہے کہ اس میں بادشاہ کی طرف سے اپنے درباری کو جو انعام دیا گیا وہ دنیا کی شدید مخالفت کے با وجود قائم رہا، قائم ہے اور قائم رہے گا.حکومتیں اس روحانی گورنر جنرل کے مقابلہ میں کھڑی ہوئیں تو وہ مٹادی گئیں سلطنتوں نے اس کو ترچھی نگاہ سے دیکھا تو وہ تہہ وبالا کر دی گئیں ، بڑے بڑے جابر بادشاہوں نے اس کا مقابلہ کیا تو وہ مچھر کی طرح مسل دیئے گئے کیونکہ اس دربارِ خاص کا بادشاہ یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اُس کے مقرر کردہ گورنر جنرل کی کوئی ہتک کرے یا اس کے پہنائے ہوئے جبہ کو کوئی اُتارنے کی کوشش کرے.وہ اپنے درباریوں کے لئے بڑا غیور ہے اور سب سے بڑھ کر وہ اس درباری کے لئے غیرت مند ہے جس کا مبارک نام محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہے خدا تعالیٰ کی اس پر لاکھوں برکتیں اور کروڑوں سلام ہوں.امِيْنَ يَارَبَّ الْعَلَمِينَ.لے چوری : سرا گائیں جن کی دُم کی پوریاں بادشاہوں اور امیروں کے سر پر ہلاتے ہیں، ایک پنکھا نقرئی بنی اسرائیل: ۱۱۲ البقرة : ۲۵۶ سبا : ۴ ۵ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۶۶ - المكتب الاسلامی بیروت الشفا القاضي ابي الفضل عياض الجزء الاول صفحہ ۷۷ مطبوعہ ملتان ك البقرة: ۳۲ تا ۳۴ ۱۰ ص: ۶۶ تا ۷۹ الاعراف: ۱۲ 2 الاحزاب : ۷۳ مسلم كتاب البر والصلة باب اذا احب الله عبدا احبه لعباده النجم: ۸ تا ۰ 1.ها الاحزاب : ۵۷ الانعام: ۱۰۴ المدثر: ۲تا۸ كل المنجد عربي اُردو صفحہ ۳۱۱ مطبوعہ کراچی ۱۹۷۵ء الانفال: ۱۸ ۱۸ تا ۲۰ اقرب الموارد الجزء الاول صفحه ۳۱۹ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء

Page 650

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۴ سیر روحانی (۶) ال تاج العروس الجزء الاول صفحه ۱۸۲ مطبوعہ مصر ۱۲۸۵ھ ٢٢ البقرة : ۱۸۸ ۲۳ الاحزاب: ۳۴ ۲۴ الشعراء: ۲۱۵ ۲۵ تا ۷ لسان العرب المجلد الخامس صفحه ۱۴۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۲۸ تا ۳۰ لسان العرب جلد ۱۵ صفحه ۳۱ تا ۳۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ٣١ ترمذی کتاب الادب باب ماجاء في النظافة ۳۲ ابوداؤد كتاب الصلوة باب اتخاذ المساجد في الدُّوَر ۳۳ بخارى كتاب الطهارة باب فَضْل التهجير إلى الظهر ۳۴ مسلم کتاب الطهارة باب النهي عن التخلي في الطريق ۳۵ بخارى كتاب الصلوة باب كفَّارَة البزاق في المسجد ۳۶، ۳۷ بخاری کتاب الادب باب مَايُنهى عَنِ التَّحَاسُد ۳۸ بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس و البهائم ۳۹ بخاری کتاب الادب باب لا يسبّ الرجُلُ وَالدَيْهِ ، بخاری کتاب الادب باب ماینهی من السباب واللعن ٢٠ بخارى كتاب الجمعة باب السواك يوم الجمعة ام بخارى كتاب العتق باب في العتق وفضله بخارى كتاب المساقاة.باب فضل سقى الماء ۴۴ بخاری کتاب الانبياء باب حديث الغار ۲۵ بخاری کتاب الایمان باب أَحَبُّ الدِّينِ إِلَى اللهِ أَدْوَمةَ ٤٦ لسان العرب جلد ۵ صفحه ۱۴۶.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء السيرة الحلبية جلد ۱ صفحه ۱۴۶، ۱۴۷ مطبوعه مطبع ازهریه مصر ۱۹۳۲ء.مرقاة المفاتيح شرح مشكوة كتاب الدعوات باب الاستعاذة ٤٩ تفسير كبير فخر الدین رازی جلد ۲۹ صفحہ ۳۰۷ مطبوعه طهران ۱۳۲۸ھ

Page 651

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۵ سیر روحانی (۶) ۵۰ ویویکانند: ویویکا نند اوائل عمر میں برہمو سماج کا رکن بنا.وہ ہمالیہ میں کئی برس تک ریاضت کرنے کے بعد جدید دنیا میں پہلا ہندو مبلغ بننے کے لئے روانہ ہوا.ویویکا نند نے طویل سفر کئے اور ویدانت ہندومت کے فضائل پر لیکچر دیئے.اس نے ۱۸۹۳ء میں بمقام شکا گو.مذاہب کی پارلیمنٹ میں ہندومت کی ترجمانی کرتے ہوئے ایک زبردست تأثر قائم کیا.خدا کی وحدانیت کا پہ ترجمان جہاں بھی گیا سامعین کے ذہن پر چھا گیا اور اپنے پیروکار بنائے.( مذاہب عالم کا انسائیکلو پیڈ یا صفحہ ۱۹۹.لیوس مور مطبوعہ لا ہو ر ۲۰۰۲ء) ا ٹیگور: اس کا پورا نام دیوندر ناتھ ٹیگور تھا.ٹیگور نے ۱۸۴۲ء میں برہمو سماج میں شامل ہوکر ہندوازم کی تجدید کی اور جماعت کی قیادت سنبھالی.انہوں نے اس تحریک کی خدمت کے لئے ایک مطبع اور رسالہ جاری کیا اس کی پرورش فرقہ وارانہ ماحول میں نہیں ہوئی اس لئے یہ تنگ نظر نہیں تھا.(مذاہب عالم کا تقابلی مطالعہ مؤلفہ غلام رسول مہر صفحه ۲۱۴.مطبوعہ لاہور جنوری ۱۹۸۳ء) ۵۲ ال عمران: ۱۰۵ ۵۳ موضوعات ملاعلی قاری صفحه ۵۹ مطبع مجتبائی دهلی ۱۳۴۶ھ ۵۴ ۵۵ لسان العرب جلد ۱۳ صفحہ ۱۹۷.بیروت ۱۹۸۸ء ۵۶ اقرب الموارد جلد ۲ صفحه ۱۰۶۸ مطبوعہ بیروت ۱۸۸۹ء ۵۸ المائدة: ۶۸ ۵۹ طه: ۱۶۰۱۵ السيرة الحلبية الجزء الاول صفحہ ۳۶۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء الى المائدة : ٦٨ ۱۲ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۲۲۱ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۶۳.بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب مناقب المهاجرين و فضلهم ۶۴ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۵ بخاری کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع ، شرح مواهب اللدنيه جلد ۲ صفحه ۵۳۰ دار الكتب العلمية بيروت ١٩٩٦ء

Page 652

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۶ ۱۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۴ ۸ مطبوعه ۱۲۹۵ مصر مسلم كتاب الجهاد و السيرباب غزوة حنين ۱۸ تاریخ طبری جلد دوم حصہ اول اردو صفحه ۳۵۴ ناشر دارالاشاعت کراچی ۲۰۰۳ء 19 تاريخ طبرى الجزء الثالث صفحه ۷ ۲۴ تا ۲۴۹ - دار الفکر بیروت ۱۹۸۷ء ٤٠ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۲۸ ، ۱۲۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ اک سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۸۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ عبس : ۱۲ تا ۱ سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۴۶.مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۷۴ ۷۵ سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحه ۱۳۶،۱۳۵ - مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ بخاری کتاب الزكوة باب من احب تعجيل الصدقة من يومها مستدرک حاکم جلد ۴ صفحه ۱۳ مطبوعہ بیروت ۱۹۷۸ء بخاری کتاب المناقب باب مناقب قریش ۱۰۷۹ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۳۱۳ تا ۳۱۷ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ هـ DO 신 القصص : ۸۶ ۳، سبا : ۲۹ ٨٤ التوبة : ١٠٠ ۸۵ الحشر: ۱۱ الحجر : ۴۶ تا ۴۸ الفتح: ٣٠ سیر روحانی (۶) سیرت ابن هشام الجزء الاول صفحه ۲۸۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۸۹ بخاری کتاب المغازى باب قصه الاسود العنسي ۹۰ بخاری کتاب الجنائز باب من استعد الكفن في زمن النبي صلى الله عليه وسلم ا شمائل الترمذى باب ماجاء فى صفة مزاح رسول الله صلى الله عليه وسلم ۹۲ بخاری کتاب الاذان باب انتظار الناس.قيام الامام العالم ۹۳ سیرت ابن هشام الجزء الثانىی صفحه ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۹۴ تاريخ الخلفاء للسيوطي صفحه ۵۱ - مطبوعه لاهور ۱۸۹۲ء

Page 653

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۷ سیر روحانی (۶) ۹۵ کنز العمال جلد ۱ صفحه ۹۳ كتاب الغزوات باب غزوة احد الطبعة الاولى ۱۹۹۸ء مطبع دار الكتب العلمية بيروت لبنان ٩٦ سیرت ابن هشام الجزء الثاني صفحه ۶۹ ۱ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۹۷ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبى صلى الله عليه وسلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلم لَوْ كُنت مُتَّخِذَا خَلِيلًا ۹۸ ١٠٠.٩٩ بخارى كتاب التفسير - تفسير سورة الفتح باب قولهِ لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ ١٠١ الكوثر : ۲ تا ۴ ١٠٢ لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۳۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۱۳ ۱۰۴ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم باب قول النبي صلى الله عليه وسلّم لو كنت متخذا خليلا ۱۰۵ اسد الغابة في معرفة الصحابة جلد ۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵ مطبوعہ بیروت ۱۲۸۶ھ ١٠٦ سيرد رت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۹ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۱۰۷ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۵ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ھ ۱۰۸ مسند احمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۳۰۴ بیروت ۱۹۲۸ء ۱۰۹ المائدة: ۲۵ بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر الله ال عمران: ۱۶۵ خروج باب ۳۱ آیت ۱۷ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء (مفہوماً) ۱۱۳ ق : ۳۹ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالِانْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذريت: ۵۷) ها هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ فَمَنْ كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُهُ (فاطر:۴۰)

Page 654

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۸ سیر روحانی (۶) ١١٦ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَالَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنكبوت: ۷۰) لى الَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ المؤمن: ۸) ١١٨ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْبُرُوج (البروج : ۲) فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أَخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (السجدة: ۱۸) ١٣٠ وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلا (بنی اسرائیل: ۷۳) ا مَا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لِتَشْقى - إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى (طه: ۴،۳) ۲۲ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ اَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ حم السجدة : ۴۷) إِثْمُهُمَا اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا (البقرة: ۲۲۰) ۱۳ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ (العنكبوت: ۴۶) ۱۲۵ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة : ۱۸۴) لسان العرب جلد ۲ صفحہ ۳۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۸۸ء ۱۲۷ بخاری کتاب احادیث الانبياء باب نزول عيسى ابن مريم ۱۲۸ بنی اسرائیل: ۸۰ ۱۲۹ ۱۳۰ بخاری كتاب الجهاد باب السرعة والركض في الفزع ١٣١ السيرة الحلبية جلد ا صفحه ۳۹۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ۱۳۲ بخاری کتاب الصوم باب اَجْوَدُ مَا كان النَّبيُّ صلى الله عليه وسلم يَكُونَ فِي رمضان ۱۳۳ بخاری کتاب الادب باب الحياء ۱۳۴ بخاری كتاب الادب باب رحمة الولدو تقبيله ومعانقته ۱۳۵ بخاری کتاب الجنائز باب قول النبي صلى الله عليه وسلم يُعَذِّبُ الميت ببعض بكاء اهله ۱۳۶ بخاری کتاب الحدود باب كراهية الشفاعة في الحد ۱۳۷ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۱۰۹ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ء بخاری کتاب بدء الوحي باب كيف كان بدء الوحى إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم

Page 655

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۲۹ اتحاد المسلمین از سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیلة انتج الثانی اتحاد المسلمین

Page 656

Page 657

انوار العلوم جلد ۲۲ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ ۶۳۱ اتحاد المسلمین نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اتحاد المسلمين فرموده ۲۵ / مارچ ۱۹۵۲ء بمقام حیدر آبادسندھ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: ” میری آج کی تقریر کا موضوع ” اتحاد المسلمین ہے جس کے کئی معنی ہو سکتے ہیں.اس کے ایک معنے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد کن بنیادوں پر قائم ہے اور اس کے یہ معنے بھی ہو سکتے ہیں کہ مسلمانوں کا اتحاد کن بنیادوں پر قائم کرنا چاہئے یعنی ایک صورت میں اس عنوان کا یہ مفہوم لیا جائے گا کہ تقریر کرنے والا تسلیم کرتا ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد پایا جاتا ہے اور وہ صرف اس اتحاد کی کیفیت بیان کرنا چاہتا ہے اور دوسرے معنوں کے لحاظ سے اس عنوان کا یہ مفہوم ہو جائے گا کہ مسلمانوں میں اتحاد کی کمی.ہے اور ہم نے اسے پیدا کرنا ہے لیکن اسے پیدا کرنے کے لئے وہ کون سے ذرائع ہیں جنہیں اختیار کیا جائے.میں سمجھتا ہوں کہ ہر شخص جس نے اسلامی دُنیا کا مطالعہ کیا ہے یا ہر گروہ جس نے مسلمانوں کے حالات کو سوچا ہے ، دیکھا ہے اور جانچا ہے وہ یقیناً اسی نتیجہ پر پہنچے گا کہ مسلمانوں میں کسی نہ کسی قسم کے اتحاد کی ضرورت ہے کیونکہ مسلمان موجودہ زمانہ میں اتحاد کی ان بنیادوں سے دور جا پڑے ہیں جو مستحکم عمارت کے لئے ضروری ہیں.آخر مسلمان کے گھر میں پیدا ہونے والا اور مسلمانوں سے رشتہ جوڑنے والا شخص اگر اسلام کے اصولوں سے تھوڑی بہت محبت رکھتا ہے تو وہ یہ ضرور دیکھتا ہے کہ اس کے آباء اجدادکون تھے، اسلام کہاں سے آیا ، اسلام کن بنیادوں سے اُٹھا اور کس طرح دُنیا میں پھیلا.یہ ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ سندھ میں پیدا ہوئے اور نہ سندھ میں تشریف لائے.

Page 658

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۲ اتحاد المسلمین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہندوستان میں پیدا ہوئے اور نہ ہندوستان تشریف لائے ، اسی طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع اور صحابہ بھی نہ سندھ میں پیدا ہوئے اور نہ یہاں تشریف لائے.اس میں کوئی مجبہ نہیں کہ بعض صحابہ کے متعلق پتہ لگتا ہے کہ وہ یہاں آئے اور یہیں فوت ہوئے لیکن یہ تاریخی بات نہیں بہر حال اگر ایک یا دو صحابہ کا یہاں آ جانا ثابت بھی ہو تو یہ ایک استثنائی امر ہے.پھر یہ بات بھی ثابت نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں سندھ کے لوگ مکہ یامد ینہ گئے ہوں ، آپ کی مجلس میں بیٹھے ہوں اور انہوں نے آپ کے ارشادات سے استفادہ کیا ہو لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں اسلام آیا اور اکثریت نے اسے قبول کیا.یہ چیز بتاتی ہے کہ اسلام پر کبھی روشن زمانہ بھی آیا ہے ، اس پر فتوحات کا زمانہ بھی آیا ہے ، وہ عزت سے یہاں آیا اور پھر سندھ سے نکل کر یو پی سی پی، بہار اور بنگال تک پھیل گیا اور پھر آگے چین تک نکل گیا.پھر شمالی سرحدوں سے نکل کر بخارا اور چینی ترکستان اور کاکیشیا سے نکل کر پولینڈ تک چلا گیا، پولینڈ میں آج تک مسلمانوں کے آثار پائے جاتے ہیں.غرض اسلام جو دُنیا کے گوشہ گوشہ میں پھیلا ہے اس کی عظمت کا ہر شخص کو علم ہے مگر آج اس عظمت کے آثار کہاں پائے جاتے ہیں؟ خدا خدا کر کے یہ ہوا کہ بعض اسلامی علاقوں نے آزادی کا سانس لیا ہے لیکن یہ آزادی سیاسی طور پر ہے ورنہ جہاں تک عظمت کا سوال ہے ابھی تمام اسلامی علاقے اس سے بہت دُور ہیں.مثلاً بڑائی اور طاقت کے یہ معنے ہیں کہ اگر کوئی ملک کسی علاقہ پر حملہ کرے تو اُس علاقہ کے رہنے والے یہ یقین اور وثوق رکھیں کہ کیا بلحاظ ظاہری سامان کے اور کیا بلحاظ اخلاقی طاقت کے وہ اس قابل ہیں کہ دشمن کا منہ توڑ جواب دے سکیں اور نہ صرف دشمن کو اپنی سرحدات سے باہر نکال دیں بلکہ خود اس کی سرحدوں میں جا کر اسے مزا چکھا سکیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ ابھی تک کوئی ایسا اسلامی ملک نہیں جو دشمن کی سرحدوں میں جا کر اُسے مزا چکھانا تو الگ رہا کسی دوسرے ملک کی مدد کے بغیر اپنا دفاع بھی کر سکے.ہر اسلامی ملک سہارے کے لئے امریکہ، برطانیہ یا کسی اور یورپین طاقت سے مدد مانگنے پر مجبور ہوتا ہے.

Page 659

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۳ اتحاد المسلمین ایک بھی تو اسلامی ملک ایسا نہیں جس نے جنگی سامان پیدا کیا ہو.جنگی سامان سے یہ مراد نہیں کہ اس نے رائفلیں مرمت کر لی ہوں یا رائفلیں بنالی ہوں.رائفل کو اس زمانہ میں کوئی حیثیت حاصل نہیں.جنگی سامان بڑی بڑی تو ہیں ہیں، اینٹی ایر کرافٹ گئیں ہیں، ڈسٹرائر ہیں، آبدوز کشتیاں ہیں، ہوائی جہاز ہیں، کروزر ہیں یہ جنگی سامان کسی اسلامی ملک میں بھی تیار نہیں کیا جاتا بلکہ اگر جھگڑا ہوا ہے تو اسی بات پر کہ امریکہ اور برطانیہ ہمیں جنگی سامان نہیں دیتے.اس کے دوسرے معنے یہ ہیں کہ ہم جنگ کے لئے تیار نہیں.ہاں اگر تم ہماری مدد کرو تو ہم اپنی حفاظت کر سکتے ہیں.بہر حال اب تک جو کچھ ملا ہے اس پر ہم خدا تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے.خدا تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ تین شگر تُم لا زیر نكُمْ اگر تم میرا شکر ادا کرو گے تو میں تم پر اور احسان کروں گا.اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہمیں جو کچھ ملا ہے اس پر خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پھر یہ بھی ہمارا فرض ہے کہ ہم محسوس کریں کہ ہم نے ابھی اس مقصد کو حاصل نہیں کیا جس کے حصول کے بغیر ہم نہ تو جرأت اور دلیری کے ساتھ رہ سکتے ہیں اور نہ کسی ملک کو چیلنج کر سکتے ہیں.مثلاً اس زمانہ میں روس کی طاقت ہے، امریکہ کی طاقت ہے، برطانیہ کی طاقت ہے، پھر ان سے اُتر کر فرانس، اٹلی اور جرمنی کی طاقتیں ہیں.نو آبادیات کے لحاظ سے آسٹریلیا اور کینیڈا کی طاقتیں ہیں.جاپان بھی سر اُٹھا رہا ہے مگر کیا روپیہ جنگی سامان ، تجارت اور صنعت وغیرہ کے لحاظ سے کوئی اسلامی ملک یا اسلامی ممالک کا جتھہ ہے جسے ہم ان طاقتوں کے مقابلہ میں پیش کر سکیں.کیا کوئی ایسا اسلامی ملک ہے جو یہ کہہ سکے کہ اگر ان ممالک کے پاس اتنی تو ہیں ہیں تو میرے پاس بھی اتنی تو ہیں ہیں، اگر ان کے پاس گولہ بارود ہے تو میرے پاس بھی گولہ بارود ہے، اگر ان کے پاس جنگی سامان ہے تو میرے پاس بھی جنگی سامان ہے، اگر ان کے پاس کارخانے ہیں تو میرے پاس بھی کارخانے ہیں ، اگر ان کی تجارت وسیع ہے تو میری تجارت بھی وسیع ہے.مسلمانوں کی طاقت ان ممالک کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں.پس یہ تو صاف بات ہے کہ اتحاد المسلمین کے موضوع پر تقریر کرنے کے لئے اس بات کے متعلق سوچنے کی ضرورت ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد

Page 660

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۴ اتحاد المسلمین کیسے پیدا کیا جا سکتا ہے تا کہ وہ طاقتور بن جائیں اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جائیں.اتحاد عربی لفظ ہے اور وحدت سے نکلا ہے جس کے معنے ہیں پجہتی اختیار کر لینا.یہ لفظ بتاتا ہے کہ یہ فرض کر لیا گیا ہے کہ بہت سی چیزیں ہیں اور اُنہوں نے ارادہ کیا ہے کہ وہ اپنی انفرادیت کو کھو کر اجتماعیت اختیار کریں گی.عربی زبان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ مطالب کو اس طرح بیان کرتی ہے کہ ایک لفظ کے اندر سارا فلسفہ بیان کر دیا جاتا ہے.اتحاد نے اُردو زبان میں آ کر اپنے معنے کھو دئے ہیں لیکن عربی زبان میں جب یہ لفظ بولا جاتا ہے تو اس کے فلسفہ کو جانے والا فوراً سمجھ جاتا ہے کہ بولنے والا کئی باتیں تسلیم کرتا ہے.وہ تسلیم کرتا ہے کہ اسلام میں کئی گروہ ہیں اور وہ الگ الگ ہیں.پھر وہ گروہ ارادہ اور عزم کے ساتھ بعض مقاصد کے لئے ایک ہو جاتے ہیں.پس جب ایک شخص یہ کہے گا کہ مسلمانوں میں اتحاد ہو تو وہ تسلیم کرے گا کہ مسلمانوں کے حکومتوں اور افراد کے لحاظ سے مختلف اجزاء ہیں اور ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم ان اجزاء اور افراد کو اکٹھا کریں گے.گویا اتحاد کے معنی ہیں تمدن کی بنیا د رکھنا.یہی معنے مدنیت کے ہیں.مدنیت کے معنے ہیں ایک جگہ رہنا اور بعض قیود اور پابندیوں کو اپنے اوپر عائد کر لینا.اگر ہم کہیں انسان مدنی الطبع ہے تو اس کے یہ معنے ہوں گے کہ گتوں ، سوروں اور بلیوں میں یہ طاقت نہیں کہ وہ اپنے انفرادی حقوق کو چھوڑ کر قومی حقوق کو ترجیح دیں لیکن انسان کے اندر یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ وہ بعض اوقات قومی حقوق کی خاطر انفرادی حقوق کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہی چیز اتحاد ہوتی ہے.اتحاد ساری باتوں میں ناممکن ہے.اتحاد صرف بعض باتوں میں ہوسکتا ہے اور بعض باتوں میں نہیں ہو سکتا.نہ ہر بات میں اتحاد ہوسکتا ہے اور نہ ہر بات میں اتحاد ہونا مفید ہو سکتا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں میں یہ سوال پیش کرتا ہوں کہ کیا ہر جہت سے ایک ہو جانا ممکن ہے؟ کیا تمام اختلافات مٹائے جا سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ ہم دعوی کریں کہ ہم آپس میں اتحاد پیدا کر سکتے ہیں.پھر اگر ہم اتحاد پیدا کر سکتے ہیں تو کن اصول کے لحاظ سے پیدا کر سکتے ہیں اور کن اصول کے لحاظ سے نہیں کر سکتے.

Page 661

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۵ اتحاد المسلمین سب سے پہلے ہمیں اختلافات کو دیکھنا پڑے گا جن کی وجہ سے انسان مختلف کہلا تا ہے اور اگر ہم گلی طور پر اتحاد کر لیں تو ہمیں یہ بات بھی دیکھنی پڑے گی کہ کن کن طاقتوں کو ہمیں مٹانا پڑے گا اور ان طاقتوں کو مٹا کر ہمیں کیا طاقت حاصل ہوگی.کسی قوم کے قدرتی موٹے موٹے اختلاف یہ ہیں.اوّل.مرد و عورت کا اختلاف.یہ اختلاف ہر جگہ ہوتا ہے.مرد کا کام اور ہے اور عورت کا کام اور ہے.مرد کی خصوصیات اور ہیں اور عورت کی خصوصیات اور ہیں.عورت کے ذمہ بچہ جنا لگایا گیا ہے اور مرد کے سپر دضروریات زندگی کو مہیا کرنا ہے.عورت کے ذمہ بچہ پالنے کا کام ہے اور مرد کے ذمہ باہر کی نگرانی ہے.غرض عورت اور مرد کے قومی اور طاقتیں مختلف ہیں اور ان میں اتحاد نہیں ہو سکتا اور اگر یہ بات ممکن بھی ہوتی کہ اس اختلاف کو مٹا دیا جاتا تو انسان اسے کبھی پسند نہ کرتا.اس اختلاف کو مٹانا خود کشی کے مترادف ہے.مرد اور عورت کے درمیان جو اختلاف ہے وہ بہر حال قائم رہے گا.خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ ہم نے تم پر یہ احسان کیا ہے کہ ہم نے مرد اور عورت کو پیدا کیا اور ان دونوں سے ہم نے نسل چلائی تا کہ انسان نیکی اور تقویٰ کا مظاہرہ کرے اور پھر ہم نے ان کے اندر اپنی صفات پیدا کی ہیں.پھر قد و قامت کا فرق ہے.بعض ملکوں میں لوگ بڑے قد کے ہوتے ہیں اور بعض مملکوں میں چھوٹے قدوقامت کے لوگ پائے جاتے ہیں.پھر جسامت کا فرق ہے.بعض لوگ ڈبلے ہوتے ہیں اور بعض موٹے ہوتے ہیں.پھر رنگ و روغن میں فرق ہے.بعض لوگ بھورے رنگ کے ہوتے ہیں ، بعض سفید رنگ کے ہوتے ہیں.بعض زرد رنگ کے ہوتے ہیں اور بعض سُرخ رنگ کے ہوتے ہیں.حبشیوں میں چلے جاؤ تو وہاں کالے رنگ کے لوگ ملیں گے.ہندوستان میں رہنے والے گندمی رنگ کے ہوتے ہیں.چین میں زرد رنگ کے لوگ ہوتے ہیں اور عرب میں شتر مرغ کے انڈے والے رنگ کے لوگ پائے جاتے ہیں اور یورپ میں سفید رنگ والے لوگ پائے جاتے ہیں.پھر نقش و نگار میں بھی فرق ہے.کسی کی ٹھوڑی لٹکی ہوئی ہوتی ہے، کسی کی اُبھری ہوئی ہوتی ہے، کسی کی ایک ذقن ہوتی ہے اور کسی کی دو ذقن ہوتی ہیں.پھر کوئی بڑا مضبوط جوان ہوتا

Page 662

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۶ اتحاد المسلمین ہے اور کوئی دُبلا پتلا ہوتا ہے.پھر طاقت میں بھی فرق ہوتا ہے.کوئی زیادہ طاقتور ہوتا ہے اور کوئی کمزور ہوتا ہے.پھر خوبصورتی اور بدصورتی میں بھی فرق ہوتا ہے.عقل اور دانش میں بھی فرق ہوتا ہے.کسی میں عقل و دانش زیادہ ہوتی ہے اور کسی میں کم.کسی کا حافظہ زیادہ اچھا ہوتا ہے اور کسی کا کم.پھر حواس خمسہ کا فرق ہے.ظاہری نظر کے لحاظ سے ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر عینک لگاتے ہیں تو کسی کو ایک نمبر کی عینک لگاتے ہیں اور کسی کو دونمبر کی عینک لگاتے ہیں اور کسی کو دور نظر کی عینک لگاتے ہیں اور کسی کو قریب سے دیکھنے کی عینک لگاتے ہیں.پھر ذائقہ میں بھی فرق ہوتا ہے.بعض لوگ باریک سے باریک ذائقہ کا بھی پتہ لگا لیتے ہیں.انگریزوں میں یہ چیز کثرت سے پائی جاتی ہے.وہاں ذائقہ کی مشق کی جاتی ہے.شراب کا وہاں عام رواج ہے اور وہ ایسے شخص کو جو یہ بتا دے کہ یہ شراب کس سنہ کے انگوروں سے بنی ہے پانچ پانچ ہزار روپے انعام دے دیتے ہیں.اسلام میں چونکہ اعتدال کا حکم دیا گیا ہے اس لئے مسلمانوں میں اتنا غلو نہیں ہوتا کہ وہ کھانے پینے کی چیزوں کے لئے پانچ پانچ ہزار روپے کے انعام دے دیں لیکن یورپ میں کھانے پینے کی چیزوں کے لئے ہزاروں روپے کے انعام دے دیئے جاتے ہیں.اسی طرح ناک کے ذریعہ مختلف خوشبوؤں میں امتیاز کرنے کے لحاظ سے بھی فرق ہے.پھر آواز میں فرق ہے.کوئی شخص گلے میں بولتا ہے تو کوئی ناک میں بولتا ہے.کوئی شخص اتنی موٹی آواز میں بولتا ہے کہ کسی جگہ لوچ نظر نہیں آتا.تو کوئی اتنی بار یک آواز میں بولتا ہے کہ اس میں ترنم اور سوز پایا جاتا ہے.پھر بوجھ اُٹھانے اور جانچنے کی طاقت میں فرق ہے.کوئی من بوجھ اُٹھا سکتا ہے تو کوئی دو من بوجھ اُٹھا سکتا ہے.پھر وزن اور فاصلہ کا اندازہ لگانے میں فرق ہے.ایک سپاہی آنکھ سے دیکھ کر بتا سکتا ہے کہ یہ فاصلہ ایک فٹ کا ہے یا دوفٹ کا.پیمانے تو اب نکلے ہیں.پہلے افسروں کو فاصلہ جانچنے کی مشق کرائی جاتی تھی اور صرف آنکھ کے اندازے سے فوج کام کرتی تھی.افسر آنکھ سے اندازہ لگا کر بتاتا تھا کہ اب کتنے فاصلہ پر گولہ پھینکنے کی ضرورت ہے اور تو ہیں کتنے فاصلہ سے گولہ پھینکتی تھیں.پہلے زمانہ میں بڑی بڑی جنگیں محض آنکھ کے ذریعہ فاصلہ کا اندازہ لگا لینے کے

Page 663

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۷ اتحاد المسلمین تجربہ سے فتح ہوئی ہیں لیکن بعض لوگوں کو اس کا کچھ پتہ بھی نہیں ہوتا کہ آنکھ کے ذریعہ کس طرح اندازہ لگایا جاتا ہے.یونہی اوٹ پٹانگ بتا دیتے ہیں.ایک لطیفہ مشہور ہے کہ ایک راجہ سے کوئی گناہ ہو گیا.پنڈتوں نے کہا کہ یہ گناہ مٹ نہیں سکتا.ہاں فلاں قسم کے برہمن کو اتنا دان دیں تو اس کا اثر دور ہوسکتا ہے.راجہ بڑا پریشان تھا لیکن جس قسم کے برہمن کی تلاش تھی اس قسم کا برہمن اس علاقہ میں نہیں تھا.بادشاہ نے وزیروں کو حکم دیا کہ وہ اس قسم کے برہمن کو تلاش کریں چنانچہ ایک وزیر نے کہا اگر آپ اجازت دیں تو میں اس قسم کے برہمن کی تلاش کروں.بادشاہ نے اسے اجازت دے دی چنانچہ وہ سڑک پر کھڑا ہو گیا ، تا آنے جانے والوں کو جانچ کر پتہ لگا سکے کہ ان میں سے کون برہمن ہے.جب رعایا کو پتہ لگا کہ راجہ کو ایک برہمن کی تلاش ہے لیکن وہ مل نہیں رہا تو انہوں نے جھوٹ بولنا شروع کر دیا اور اپنے آپ کو برہمن ظاہر کرنا شروع کر دیا.کوئی شو در ہوتا لیکن وہ اپنے آپ کو برہمن ظاہر کرتا.کوئی کھتری ہوتا ، ویش ہوتا یا کسی اور گوت کا ہوتا تو وہ بھی اپنے آپ کو برہمن ظاہر کرتا تا کہ کسی طرح اس کو دان مل سکے.وہ وز یر سڑک پر کھڑے ہو کر آنے جانے والوں کی جانچ کر رہا تھا کہ دو آدمی گزرے.اس نے خیال کیا کہ شاید ان میں سے ایک برہمن ہو.چنانچہ اس نے انہیں بلا کر دریافت کیا کہ آیا ان میں سے کوئی برہمن ہے؟ ان میں سے ایک شخص جو بنیا تھا کہنے لگا کہ میں برہمن ہوں اور دوسرے شخص نے بھی جو در حقیقت برہمن تھا کہا میں برہمن ہوں.وزیر نے حکم دیا کہ ان دونوں کو میرے پاس لایا جائے اور ان سے بیان لئے جائیں.اس نے بنیئے سے دریافت کیا کہ درخت کتنا اونچا ہوتا ہے.اس نے کہا درخت ۴۴ ، ۴۵ فٹ اونچا ہوتا ہے.پھر اس نے برہمن سے مخاطب ہو کر کہا تم بتاؤ درخت کتنا اونچا ہوتا ہے.اس نے کہا درخت چار پانچ فٹ اونچا ہوتا ہے.اس پر وزیر نے کہا یہی برہمن ہے.چونکہ یہ لوگ مفت خور ہوتے ہیں اور بے کا ر رہتے ہیں اس لئے یہ لوگ خود غور کرتے نہیں محض سنی سنائی بات پر یقین کر لیتے ہیں.بہر حال وزیر نے اس شخص کی بیوقوفی سے اسے پہچان لیا اور کہا یہی شخص برہمن ہے اسے دان دے دو.

Page 664

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۸ اتحاد المسلمین پس بعض لوگ غلط اندازہ لگانے والے ہوتے ہیں اور بعض لوگ اندازہ لگانے میں بڑے ماہر ہوتے ہیں.پھر بعض لوگ کان کے ذریعہ فاصلہ کا اندازہ لگا لیتے ہیں.امریکہ میں ریڈ انڈین لوگ پائے جاتے ہیں.وہ زمین پر کان رکھ کر اس کے اندر سے آوازسُن کر یہ اندازہ لگاتے ہیں کہ دشمن اتنے میل کے فاصلہ پر ہے اور وہ فلاں جہت سے آ رہا ہے.کوئی گھوڑا آ رہا ہوتا ہے تو وہ زمین پر کان رکھ کر معلوم کر لیتے ہیں کہ کوئی سوار آ رہا ہے.جنگوں میں وہ اسی طرح اپنی حفاظت کر لیتے ہیں.جب کوئی خطرہ ہو وہ کان زمین پر رکھتے ہیں اور بتا دیتے ہیں کہ اتنے فاصلہ پر سوار آ رہے ہیں اور پھر وہ فلاں جہت سے آ رہے ہیں، پھر تیل کے چشمے ہیں.کئی لوگ ایسے ہیں جو ناک سے مٹی سونگھ کر یہ بتا دیتے ہیں کہ اس جگہ تیل پایا جاتا ہے.پاکستان نے بھی اس قسم کا ایک آدمی رکھا تھا جو ناک سے سونگھ کر بتا دیتا تھا کہ اس جگہ تیل پایا جاتا ہے.اس فن کے ماہر لوگوں نے شکایت کی تھی کہ اس میں ہماری ہتک ہے لیکن حکومت نے یہی کہا تھا کہ اسے تجربہ ہے.میرے پاس کوئٹہ میں کچھ ماہرین آئے اور اُنہوں نے کہا کہ حکومت نے ایسا شخص جس نے اس فن کی با قاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی ملازم رکھ کر ہماری ہتک کی ہے تو میں نے انہیں یہی کہا تھا کہ تم لوگ تھیوری جانتے ہو لیکن وہ فن جانتا ہے.حکومت کیا کرے.حکومت کے پاس ایکسپرٹ جاتے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ یہ شخص اس فن کا ماہر ہے اس لئے وہ اس کو ملازم رکھنے پر مجبور ہے.میں نے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ اس میں ہماری ہتک ہے.حماقت ہے.کیونکہ دُنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جن کے اندازے غیر معمولی طور پر صحیح ہوتے ہیں.پھر جذبات کا فرق ہے.ایک شخص میں غصہ پایا جاتا ہے تو دوسرے میں محبت کا جذ بہ زیادہ ہوتا ہے.کسی میں وقار کم ہوتا ہے تو کسی میں زیادہ.کسی میں قربانی کا مادہ زیادہ ہوتا ہے تو کسی میں کم.کسی میں ایثار کا جذبہ زیادہ پایا جاتا ہے تو کسی میں کم.کسی میں رقم کا جذ بہ زیادہ پایا جاتا ہے تو کسی میں کم.کسی میں حقانیت پائی جاتی ہے، کسی میں دیانت پائی جاتی ہے، ایک شخص کو ہزاروں روپے دئے جاتے ہیں اور وہ پورے کے پورے

Page 665

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۳۹ اتحاد المسلمین واپس کر دیتا ہے لیکن دوسرے کو دو پیسے بھی دئے جائیں تو وہ اُن میں خیانت کر جاتا ہے.کسی کو آدھی روٹی دے دی جائے تو وہ گزارہ کر لیتا ہے، کسی کو چار روٹیاں دی جاتی ہیں لیکن وہ پھر بھی کھانا کم ملنے کی شکایت کرتا ہے.کوئی دال اور معمولی سالن پر گزارہ کر لیتا ہے تو کوئی زردہ اور پلاؤ کی خواہش کرتا ہے.پھر میلان کا فرق ہے.اپنے بچوں کو پوچھ کر دیکھ لو.کوئی وکالت کا پیشہ پسند کرتا ہے تو کوئی سپاہ گری کو پسند کرتا ہے.کوئی کہتا ہے میں کلر کی کروں گا تو کوئی کسی اور کام کی طرف مائل ہوتا ہے.اگر زور دے کر انہیں کوئی خاص پیشہ اختیار کرنے پر مجبور کیا جائے تو بغاوت ہو جاتی ہے اور کئی بچے اسی لئے بھاگ جاتے ہیں کہ وہ کسی پیشہ کی طرف مائل ہوتے ہیں لیکن ماں باپ انہیں کسی اور پیشے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں.میرے اپنے عزیزوں سے ایک بڑے افسر ہیں.وہ ڈاکٹری کی طرف مائل تھے لیکن ان کے ماں باپ انہیں انجینئر بنانا چاہتے تھے.اب گو وہ بڑے افسر ہیں لیکن اس وقت وہ صرف اس اختلاف کی وجہ سے گھر سے بھاگ گئے تھے وہ یہی کہتے تھے کہ میں ڈاکٹر بنوں گا.یہ مثالیں میں نے ایسی چیزوں کی دی ہیں جو قدرتی اور طبعی ہوتی ہیں لیکن بعض چیزیں اکتسابی بھی ہیں مثلاً علم کی کمی اور زیادتی ہے.کوئی بڑا عالم ہوتا ہے تو کوئی معمولی لکھا پڑھا ہوتا ہے.کوئی عربی میں بولتا ہے تو کوئی ترکی میں کلام کرتا ہے، کوئی فارسی میں بولتا ہے تو کوئی پشتو میں بولتا ہے.کوئی ہندی میں بولتا ہے تو کوئی چینی میں بولتا ہے.پھر جائے رہائش کا فرق ہے.کوئی ٹھنڈے ملک کا رہنے والا ہوتا ہے ، کوئی گرم ملک کا رہنے والا ہوتا ہے اور کوئی درمیانی آب و ہوا والے ملک کا رہنے والا ہوتا ہے.کوئی ایسے ملک کا رہنے والا ہوتا ہے جہاں ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں کوئی کو والے ملک کا رہنے والا ہوتا ہے.پھر سامان معیشت کا فرق ہے، خوراک کا فرق ہے.کوئی چاول کھاتا ہے ، کوئی گندم کھاتا ہے اور کوئی باجرا کھاتا ہے.یہاں ہمارے ملک میں ہی اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ حیرت آتی ہے حالانکہ ملک ایک ہے.میں جب شروع شروع میں یہاں آیا تو مجھے زمینداروں نے بتایا کہ ہم نے مزارعین کے لئے باجرہ کی بجائے گندم رکھی تو وہ ناراض ہو گئے لیکن ہمارے ہاں انہیں باجرا دو تو وہ ناراض ہوتے

Page 666

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۰ اتحاد المسلمین ہیں.بنگال کے رہنے والے چاول کھاتے ہیں.انہیں روٹی دو تو وہ بیمار ہو جاتے ہیں.ربوہ میں سندھ کے بعض طالب علم بھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان میں سے ایک طالب علم کو جو گر یجو یٹ ہے پیچش ہو گئی.میں نے کہا تمہیں پیچش کیوں ہوئی ہے؟ اس نے بتایا کہ ہمارے علاقہ کی خوراک اور اس علاقہ کی خوراک میں فرق ہے.اس لئے مجھے پیچش ہوگئی ہے.پھر لباس کا اختلاف ہے.ہمارے ہاں تو کھچڑی سی پکی ہوئی ہے لیکن دوسرے ملکوں میں جاؤ تو اُن کا ایک لباس ہوتا ہے.ایک انگریز ایک امریکن کو دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ وہ امریکن ہے اسی طرح ایک امریکن ایک انگریز کو دیکھ کر کہ سکتا ہے کہ وہ انگریز ہے.چین کا لباس اور ہے ، عرب کا لباس اور ہے.پھر پیشوں کا اختلاف ہے.کوئی ڈاکٹر ہے، کوئی وکیل ہے، کوئی انجینئر ہے، کوئی لوہار ہے، کوئی دھوبی ہے، کوئی ترکھان ہے ہر ایک شخص اپنے اپنے مذاق کے مطابق کوئی نہ کوئی پیشہ اختیار کر لیتا ہے.پھر اعمال کا فرق ہے کوئی محنت کرتا ہے اور کوئی سست ہوتا ہے، کوئی ہاتھ سے کام کرنا پسند کرتا ہے تو کوئی دماغ سے کام کرنا پسند کرتا ہے.پھر عقائد کا اختلاف ہے.مسلمانوں کو ہی دیکھ لو با وجود اس کے کہ وہ سب ایک خدا اور ایک رسول کو مانتے ہیں لیکن پھر بھی ان میں کئی فرقے پائے جاتے ہیں اور ان کے عقائد میں اختلاف پایا جاتا ہے.پھر سیاست کا اختلاف ہے.پاکستان میں بھی ہم اکثر سنتے ہیں کہ حزب مخالف کے بغیر کوئی حکومت ملک کے لئے مفید نہیں ہو سکتی.بہر حال سیاست میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے.یہ کتنے اختلاف ہیں جو پائے جاتے ہیں انہیں دیکھ کر ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بعض اختلاف ایسے ہیں جن کا مٹانا ناممکن ہے.ان میں اتحاد ہو ہی نہیں سکتا.مثلاً گورے اور کالے کے فرق کو کون مٹا سکتا ہے ، پھر زرد اور بھورے کو کون مٹا سکتا ہے، لمبے اور چھوٹے قد کو کون مٹا سکتا ہے، موٹے اور ڈ بلے کو کون مٹا سکتا ہے اسی طرح اور اختلافات ہیں اگر انہیں مٹانے کی کوشش کی جائے تو بغاوت ہو جائے.یہ سب اختلافات تقدیر الہی کے مطابق ہیں جو خدا تعالیٰ نے نازل کر دی ہے ہم انہیں مٹا نہیں سکتے.پھر بعض اختلافات انسانی زندگی کا ایک ضروری حصہ ہیں اگر انہیں مٹا دیا جائے تو زندگی بے کیف بن جاتی ہے.مثلاً عورت اور مرد کا اختلاف ہے

Page 667

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۱ اتحاد المسلمین یہ ایسا اختلاف ہے کہ اسے مٹایا نہیں جا سکتا.فرض کرو خدا تعالیٰ مرد کو طاقت دے دے اور کہے تم جو چاہو کرو تو وہ سکون اور آرام نہیں رہے گا جس سے دُنیا چل رہی ہے.اگر تم اختلاف کو دور کر دو تو انسانی زندگی بے کیف اور بے لذت ہو جائے اور دُنیا میں رہنا مُشکل ہو جائے.کسی شاعر نے کہا ہے.ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است یعنی ہر رنگ اور ہر بومفید ہے اور اس کے بغیر کوئی لذت اور راحت نہیں.پھر بعض اختلافات ایسے ہیں جو نہایت ضروری ہیں.اگر انہیں مٹا دیا جائے تو دُنیا پر تباہی آ جائے مثلاً ایک بچہ چوری کرتا ہے.باپ کہتا ہے تم نے چوری کیوں کی ؟ اب اگر کوئی کہے کہ تم اسے کچھ نہ کہو اور آپس میں اتحاد کر لو تو دنیا پر تباہی آجائے یا بچہ نماز نہیں پڑھتا.باپ کہتا ہے تم نماز پڑھو.یہ بھی ایک اختلاف ہے جو نہایت ضروری ہے.اب اگر تم کہو کہ آپس میں اتحاد ضروری ہے اس لئے تم اسے نماز کے لئے نہ کہو تو دُنیا پر تباہی آ جائے.اسی طرح شرارت سے منع کرنا ، جھوٹ سے منع کرنا ، غرض ہزاروں اختلافات ایسے ہیں جن کا مٹانا دُنیا کے لئے تباہی کا موجب ہے اور ان کا اظہار کرنا ضروری ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تم کوئی بُری چیز دیکھو اور تم میں اس کوڈ ورکر نے کی طاقت ہو تو تم اسے ہاتھ سے دُور کر دو اور اگر تمہیں ہاتھ سے دُور کرنے کی طاقت حاصل نہیں لیکن تم زبان سے اُسے بُرا کہہ سکتے ہو تو اُسے زبان سے بُرا کہو.پھر فرمایا اگر تم میں اتنی طاقت بھی نہیں کہ تم کوئی بُری چیز دیکھ کر اسے زبان سے بُرا کہو مثلاً دوسرا حاکم ہے اور یہ غریب آدمی ہے اگر یہ زبان سے اُسے کچھ کہے گا تو وہ شاید اسے کچھ تکلیف دے اس لئے فرمایا کہ تم کم از کم دل میں بُرا مناؤ کے اب دیکھ لو خو د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اختلاف کو جائز قرار دیا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ اگر تم میں طاقت ہے اور تمہیں اختیار حاصل ہے تو تم جو بُری چیز دیکھو سے ہاتھ سے دُور کر دو اور اگر تم میں طاقت نہیں یا تمہیں اختیار حاصل نہیں لیکن تم زبان سے اُسے بُرا کہہ سکتے ہو تو اسے زبان سے بُرا کہو اور اگر تم زبان سے بھی بُرا نہیں کہہ سکتے تو دل میں اُسے بُرا مناؤ.

Page 668

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۲ اتحاد المسلمین ایک بزرگ کا قصہ مشہور ہے کہ وہ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو سارنگی بجا رہا تھا.آپ نے اس کی سارنگی لی اور اُسے توڑ دیا.وہ بادشاہ کا درباری تھا.اس نے بادشاہ کے پاس شکایت کی کہ فلاں بزرگ نے میری سارنگی تو ڑ دی ہے اور اس طرح اُنہوں نے میری ہتک کی ہے.بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں بلایا.جب وہ دربار میں آئے تو بادشاہ خود سارنگی بجانے لگا وہ بزرگ بیٹھ گئے اور بادشاہ کی طرف دیکھتے رہے اور وہ سارنگی بجاتا رہا.تھوڑی دیر کے بعد بادشاہ اس بزرگ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کیا تم فلاں دن فلاں جگہ سے گزرے تھے ؟ اُنہوں نے کہا ہاں.پھر کہا کیا تم نے فلاں درباری کی سارنگی تو ڑ دی تھی ؟ انہوں نے کہا ہاں.بادشاہ نے کہا تم نے وہ سارنگی کیوں توڑی تھی؟ اس بزرگ نے کہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اگر تو کوئی بُری بات دیکھو اور تم میں طاقت ہو اور تمہیں اختیار حاصل ہو تو اسے ہاتھ سے دُور کر دو چنانچہ میں نے اسے سارنگی بجاتے دیکھا تو مجھے یہ بات بری لگی میں سمجھتا تھا کہ اگر میں سارنگی توڑ دوں تو یہ مجھے کچھ نہیں کہے گا اس لئے میں نے سارنگی تو ڑ دی.بادشاہ نے کہا پھر تم نے میری سارنگی کیوں نہیں توڑی ؟ اس بزرگ نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تمہیں اختیار حاصل نہ ہو تو تم زبان سے منع کرو.بادشاہ نے کہا آپ نے تو زبان سے بھی بُر انہیں منایا.اُنہوں نے کہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر تم زبان سے بھی بُرا نہ منا سکو تو دل میں ہی بُر اما نو اور خدا کی قسم جب سے میں دربار میں آیا ہوں میں اسے بُرا منا رہا ہوں کے پس یہ بھی ایک اختلاف ہے جو قائم رہا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے ہیں کہ میرا اختلاف قائم رہنا چاہئے.قرآن کریم بھی اختلاف کو تسلیم کرتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے ومن ايته خَلْقُ السموت والأَرْضِ وَاخْتِلافُ السِنَتِكُمْ وَالوَانِكُمْ ، اِنّ في ذلكَ لأيتِ لِلعلمين ٢٥ فرمایا! دیکھو خدا تعالیٰ کس کس رنگ میں اپنے جلوہ کو ظاہر کرتا ہے.اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا.اب کیا یہ ایک چیز کا نام ہیں.آسمانوں کو دیکھ لو وہاں تمہیں کچھ سیارے نظر آئیں گے، کچھ ستارے ہوں گے.پھر ان میں کوئی اپنے محور کے گرد گھوم رہا ہو گا اور b

Page 669

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۳ اتحاد المسلمین بعض ایک دوسرے کے ارد گرد گھوم رہے ہوں گے.پھر زمین کی طرف دیکھو وہاں باغ ، درخت ، بُوٹیاں اور جانور نظر آتے ہیں ایک ہی پانی ہو گا لیکن کوئی پھل کھٹا ہوتا ہے کوئی میٹھا ہوتا ہے اور کوئی کڑوا ہوتا ہے.یہ بھی ایک اختلاف ہے اور یہ اختلاف ہر جگہ نظر آ رہا ہے.پھر بولیاں دیکھ لو بھانت بھانت کی بولی بولی جاتی ہے.پھر رنگوں کا اختلاف ہے کوئی زرد نظر آتا ہے تو کوئی سُرخ نظر آتا ہے، کوئی کالا نظر آتا ہے تو کوئی سفید نظر آتا ہے.فرمایا یہ سب نشانات ہیں اگر تم ان پر غور کرو گے تو تمہیں معلوم ہوگا کہ اس کا جلوہ ذرہ ذرہ میں ظاہر ہو رہا ہے.پھر کئی اختلاف بہت باریک ہوتے ہیں.انہیں پہچانا نہیں جاتا.دو بھائی ہوتے ہیں آپ کہتے ہیں کہ ایک بھائی کا نام غلام قادر ہے اور دوسرے کا نام غلام رسول ہے لیکن اگر آپ کا امتحان لیا جائے کہ بتاؤ ان دونوں میں کیا فرق ہے تو تم اسے بیان نہیں کر سکو گے.ان دونوں کے درمیان جو فرق ہے اسے آنکھ محسوس کرتی ہے زبان سے اسے بیان نہیں کیا جاسکتا.پھر آواز کا فرق ہے.کان آوازسُن کر پہچان لیتا ہے کہ یہ فلاں کی آواز ہے.ہال میں کتنے آدمی بیٹھے ہیں.اب ہال کے باہر کوئی آدمی کھڑا ہو اور ہال کے اندر کوئی دو آدمی آپس میں بات کریں تو وہ کہہ دے گا کہ یہ آواز دوسری آواز سے مختلف ہے.غرض بعض اختلاف ایسے ہیں جنہیں بیان نہیں کیا جاسکتا.کان ، ناک اور آنکھ اس اختلاف کو ظاہر کر سکتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ قد وقامت ، رنگوں ، بوٹیوں ، درختوں ، پہاڑوں اور دریاؤں وغیرہ میں جو فرق ہے یہ اللہ تعالیٰ کا ایک بہت بڑا نشان ہے.رنگوں کو لے لو ایک ایک رنگ کئی قسم کا ہوتا ہے.عورتیں بازار میں جاتی ہیں اور بزاز انہیں سُرخ رنگ کا کوئی تھان دکھاتا ہے تو وہ کہتی ہیں یہ سُرخ نہیں ذرا گہرائر خ رنگ والا کپڑا دو.پھر وہ ایک اور کپڑا جس کا رنگ سُرخ ہوتا ہے دکھاتا ہے تو وہ کہتی ہیں یہ نہیں اس سے ذرا ہلکے رنگ کا کپڑا ہمیں چاہئے.گویا ایک ایک رنگ سے آگے بیسیوں قسمیں نکل آتی ہیں.پھر سبز رنگ ہے ، زرد رنگ ہے، ان سب کی بیسیوں اقسام ہیں.غرض دُنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ممتاز نہیں.فرمایا یہ اختلاف اور امتیاز نشان ہے جاننے اور سمجھنے والوں کے لئے.

Page 670

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۴ اتحاد المسلمین ایک شخص جنگل میں جاتا ہے تو کہتا ہے درخت ہیں اور کیا ہے لیکن ایک فاریسٹ آفیسر جنگل میں جاتا ہے تو وہ کہے گا وہاں اتنی قسم کی بوٹیاں ہیں، فلاں میں کیمیکل اتنا ہے اور فلاں میں اتنا ہے.پھر اتنی قسم کے درخت ہیں جو فلاں فلاں کام آ سکتے ہیں لیکن ایک عام آدمی جنگل میں سے گزرے تو وہ سوائے اس کے کہ بتائے یہ جنگل ہے اور کچھ نہیں بتا سکے گا.ایک ماہی گیر دریا پر جائے تو وہ کہے گا اس دریا میں اتنی مچھلی ہے اور فلاں فلاں قسم کی مچھلی ہے وہ یہ بھی بتائے گا کہ فلاں فلاں قسم کی مچھلی میں کانٹا ہے، فلاں مچھلی کے پکوڑے اچھے تکے جاسکتے ہیں اور فلاں قسم کی مچھلی پکانے میں مزیدار ہوتی ہے.ہمارے نزدیک تو وہ محض ایک دریا ہوتا ہے لیکن ایک ماہی گیر اسی دریا کے متعلق بیسیوں باتیں بتا دے گا.غرض ہر فن کا واقف جب کوئی چیز دیکھے گا تو وہ اپنے فن کے مطابق اس میں اتنے اختلاف بیان کرے گا کہ دوسرا آدمی ایسا نہیں کرسکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ اختلاف ایک جاہل شخص کو نظر نہیں آتے لیکن عالموں کو لاؤ ، ماہرین کو لاؤ ، رنگوں کے ماہرین کو لاؤ ، ڈاکٹروں کو لاؤ ، فارسٹ افسروں کو لاؤ، نباتات کے ماہرین کو لاؤ پھر میری مخلوق کو ان کے سامنے پیش کرو تو وہ اس کی بیسیوں قسمیں بتائیں گے اور تمہیں ہر چیز میں اختلاف ماننا پڑے گا اور یہ اس خدا نے پیدا کیا ہے جس نے متنوع اور رنگ دار زندگی کو پیدا کیا ہے.اس آیت میں خدا تعالیٰ نے قدرتی اور ضروری اختلافات کی مثالیں بیان کر دی ہیں اگر ان اختلافات کو مٹایا جائے تو زندگی بے کیف ہو جاتی ہے.پھر میں نے بتایا ہے کہ بعض اختلافات ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو مٹانا نتباہی کا موجب ہوتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے: وَ انْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَبَ بِالْحَقِّ ليَحْكُمَ بَيْنَ النَّاسِ فِيمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ، وَمَا اخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا الَّذِينَ أُوتُوهُ مِن بَعْدِ مَا جا تهُمُ الْبَيِّنْتُ بَغيَّا بَيْهم ، فَهَدَى اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فيهِ مِنَ الْحَقِّ بِاذْيهِ ، وَاللهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ بعض جگہ اختلاف ایسے لوگوں کا ہوتا ہے جو جھوٹ کی طرف لے جاتے ہیں یا سچائی کی طرف لے جاتے ہیں فَهَدَی الله الّذينَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِيهِ خدا تعالیٰ ان لوگوں

Page 671

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۵ اتحاد المسلمین کو کامیابی کا رستہ دکھاتا ہے جو اختلاف کرتے ہیں گویا یہ بات اتنی اچھی ہے کہ خدا تعالیٰ ایسا کرنے والے کو کامیابی بخشتا ہے.اس لئے نہیں کہ اس نے اتحاد کر لیا بلکہ اس لئے کہ اس نے اختلاف کیا.پھر فرمایا مِنَ الْحَقِّ اس نے حق کی خاطر اختلاف کیا.پھر اپنی مرضی سے اختلاف نہیں بیاذ نہ خدا کے حکم کے مطابق اس نے اختلاف کیا ہے.گویا اللہ تعالیٰ نے اختلاف کے باوجود ایک شخص کو عزت اور رتبہ دیا ہے لیکن دوسرا شخص ویسا ہی کام کر رہا ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ اسے عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے اس لئے کہ وہ حق کی خاطر اختلاف نہیں کر رہا ہوتا بلکہ باطل کی خاطر اختلاف کر رہا ہوتا ہے.کفار کی طرف سے بھی یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ ہمیں آپس میں متحد رہنا چاہئے لیکن قرآن کریم نے فرمایا ہے یہ اتحاد اچھا نہیں.کفا ر اعتراض کرتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آ کر اختلاف پیدا کر دیا ہے.ہم سب اپنے آباؤ اجداد کے مذہب پر چل رہے تھے آپ نے ایک علیحدہ مذہب پیش کر کے ہمیں اختلاف کی دعوت دی ہے گویا کفار اتحاد کا واسطہ دیتے تھے لیکن خدا تعالیٰ اختلاف کو جائز قرار دیتا ہے.قرآن کریم میں آتا ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اتَّبِعُوا ما انزل الله قَالُوا بَلْ نَتَّبِعُ مَا الفَيْنَا عَلَيهِ آبَاءَنَا ، أَو لَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ ل یعنی جب انہیں کہا جاتا ہے کہ یہ پرانی چیزیں ہیں تم انہیں ترک کر دو اور جو خدا تعالیٰ نے نازل کیا ہے اسے مان لو تو وہ کہتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا ہم اپنے آباؤ اجداد کے مذہب پر چلیں گے کیونکہ اس میں اتحاد پایا جاتا ہے تمہاری خاطر ہم اس مذہب کو کیسے چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے او لو كان اباؤُهُمْ لَا يَعْقِلُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُون یہ کیا بودی دلیل ہے کہ ہم اپنے آبا ؤ اجداد کے مذہب پر چلیں گے.تمہاری بات مان کر ہم ان سے اختلاف نہیں کریں گے لیکن اگر وہ بے عقل بھی تھے تب بھی یہ لوگ ان کے پیچھے چلیں گے.اگر وہ بے علم تھے اور انہیں ہدایت نہیں ملی تھی تب بھی یہ لوگ ان کے پیچھے چلیں گے اتحاد تو ان چیزوں میں ہوتا ہے جن کے ساتھ علم ہو ، ہدایت ہو، عقل ہو، اگر ان کے ساتھ علم نہیں، ہدایت نہیں، عقل نہیں تو اتحاد کیسا.تمہارا ان کے ساتھ رہنا تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا

Page 672

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۶ اتحاد المسلمین مثلاً یہ اتحاد ہے کہ دو آدمی غرق ہونے لگے ہوں اور انہیں ایک شہتیر مل جائے اور وہ دونوں اسے پکڑ لیں لیکن یہ اتحاد نہیں کہ ایک بل میں سانپ ہو اور زید اس میں ہاتھ ڈال دے تو بکر بھی اس میں ہاتھ ڈال دے.اگر وہ ایسا کرتا ہے تو یہ اتحاد اس کے لئے مہلک ہو گا.گویا ہر اتحاد اچھا نہیں ایک موقع پر اتحاد اچھا ہے اور اختلاف بُرا ہے اور ایک موقع پر اختلاف بُرا ہے اور اتحاد اچھا ہے.اب سوال یہ ہے کہ جب بعض اختلافات قدرتی ہیں اور بعض انسانی زندگی کے لئے ضروری تو کیا اسلام میں انفرادیت سکھائی گئی ہے اجتماعیت نہیں سکھائی گئی ؟ یہ تو انفرادیت ہے کہ اپنے ذاتی فائدہ کی چیزیں قبول کر لو اور باقی ترک کر دو.اس کا جواب یہ ہے کہ یہ درست ہے کہ اسلام انفرادیت کی بھی تعلیم دیتا ہے لیکن اجتماعیت اور ملت کا جو احساس اسلام نے پیدا کیا ہے وہ کسی اور مذہب نے پیدا نہیں کیا.صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے اپنے ماننے والوں کو اجتماعیت کی طرف توجہ دلائی ہے مثلاً اسلام میں ایک کلمہ ہے جو ہر مسلمان کے لئے ماننا ضروری ہے.بے شک اسلامی فرقوں میں اختلاف پایا جاتا ہے مثلاً ہماری جماعت کو بھی دوسرے فرقوں سے اختلاف ہے لیکن کوئی احمدی ایسا نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ میں کلمہ طیبہ نہیں مانتا.پھر شیعوں کوشنیوں سے اختلاف ہے اور سیوں کو شیعوں سے اختلاف ہے لیکن سنی یا شیعہ کو یہ جرات نہیں کہ کلمہ سے انکار کر دے.تم کسی اسلامی فرقہ میں چلے جاؤ اور ان سے پوچھ لو وہ کلمہ سے باہر نہیں جائیں گے.ہر ایک مسلمان یہ کہے گا کہ ہمارا ایک کلمہ ہے اور وہ لَا إِلهُ إِلَّا اللَّهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ہے.ہر شخص جو مسلمان ہو گا وہ اس بارہ میں دوسرے مسلمانوں سے متحد ہوگا.شیعہ سُنیوں سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ کے بارے میں ان میں کوئی اختلاف نہیں ہوگا.سنی شیعہ سے اختلاف رکھیں گے لیکن کلمہ میں دونوں متحد ہوں گے اور یہ کلمہ صرف مسلمانوں میں ہے اور کسی مذہب میں نہیں.اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایک عیسائی کو لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کہنا نہیں آتا.ایک عیسائی بھی لَا اِلهَ إِلَّا اللہ کہہ سکتا ہے لیکن ان کا اپنا کوئی ایسا کلمہ نہیں جس میں بتایا گیا ہو کہ خدا تین ہیں تم کسی مشن میں چلے جاؤ اور عیسائیوں سے پوچھو کہ کیا تمہارا بھی کوئی.

Page 673

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۷ اتحاد المسلمین کلمہ ہے تو وہ یہی جواب دیں گے کہ ہمارا کوئی کلمہ نہیں.وہ یہ کہہ ہی نہیں سکتے کہ ہمارا کوئی کلمہ ہے کیونکہ ان کے ہاں مذہب کا ضروری حصہ وہ لوگ بھی ہیں جو تین خدا مانتے ہیں اور ساتھ ہی ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو باوجود عیسائی ہونے کے ایک خدا کے قائل ہیں لیکن ہمارا ہر شخص لا إِلهَ إِلَّا اللہ میں دوسرے مسلمانوں سے اتحا درکھتا ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی شخص لا إِله إِلَّا اللہ کے خلاف کسی تعلیم کو مانتا ہو اور وہ اسلام میں بھی رہے.پھر عیسائیوں میں وہ لوگ بھی ہیں جو حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا مانتے ہیں اور وہ لوگ بھی ہیں جو انہیں ایک بزرگ اور نبی خیال کرتے ہیں.پس وہ ایک کلمہ بنا ہی نہیں سکتے.پھر ہندو مذہب کو لے لو.ہندو بھی اپنے مذہب کے متعلق بہت غیرت رکھتے ہیں اور وہ اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا مذہب بہت پرانا ہے لیکن ان سے پوچھو کہ کیا ہندوؤں کے پاس کوئی کلمہ ہے جسے ہم ہندو مذہب کا خلاصہ کہہ سکیں تو وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے سکیں گے.وٹ از ہندوازم (What is Hinism) ایک کتاب چھپی ہے.اس میں بڑے بڑے ہندو لیڈروں کو کھلے، مالویہ، اور تملک وغیرہ کے مضامین ہیں لیکن سارے مضامین کا یہی خلاصہ ہے کہ ہندو مذہب کوئی چیز نہیں.وہ ہندو مذہب کی کوئی تشریح نہیں کر سکتے.بعض کے نزدیک ہندو وہ ہے جو وید مانتا ہے لیکن جو ہندو وید نہیں مانتا لیکن ہندو کہلاتا ہے کیا وہ ہندو نہیں ؟ مثلاً مدراسی لوگ وید نہیں مانتے.پھر بعض کہتے ہیں جو شخص پر ان مانتا ہے وہ ہندو ہے لیکن آریہ لوگ پر ان نہیں مانتے.پھر بعض نے یہ کہا ہے کہ جو بت پرستی کرے وہ ہندو ہے لیکن و دیکانند والے بتوں کی پوجا نہیں کرتے.پھر بعض کہتے ہیں کہ ہند و وہ ہوتے ہیں جو گائے نہیں کھاتے لیکن ساتھ ہی دوسرا مضمون نگار یہ لکھتا ہے کہ بمبئی میں ایسے ہندو پائے جاتے ہیں جو گائے کا گوشت کھاتے ہیں.پھر بعض نے کہا ہے کہ اصل میں ہندو وہ ہے جو ہندوستان میں پیدا ہو ا ہو لیکن اس کے یہ تو معنے بنتے ہیں کہ جو مسلمان ہندوستان میں پیدا ہوئے ہیں وہ بھی ہندو ہیں.ہندو کہتے ہیں ہمارا مذہب سب سے پرانا ہے لیکن وہ ابھی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے لیکن ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۳۷۰ سال قبل فرما دیا تھا کہ ہمارا کلمہ لا إِلهَ إِلَّا الله

Page 674

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۸ اتحاد المسلمین ہے اور اس میں اسلام کا خلاصہ آ گیا ہے.باقی لوگ ابھی ٹکریں مار رہے ہیں کہ ہمارا کلمہ کیا ہے.اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے مسلمانوں کے سوا دوسرے لوگوں کو حاصل نہیں.پھر اسلام میں ایک قبلہ پایا جاتا ہے لیکن اسلام کے سوا کسی مذہب میں قبلہ نہیں پایا جاتا.بے شک ہندوؤں کے پاس سومناتھ کا مندر موجود ہے لیکن یہ ایسی چیز نہیں جس پر سارے ہند و جمع ہو جائیں.عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی کوئی قبلہ نہیں.وہ یروشلم کی مسجد کو بطور قبلہ پیش کرتے ہیں لیکن یہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پانچ سو سال بعد حضرت داؤد علیہ السلام نے بنائی تھی کے حضرت داؤد علیہ السلام سے پانچ سو سال قبل یہودیوں کے پاس کون سا قبلہ تھا ؟ ہمارے پاس پہلے سے قبلہ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب ظاہر ہوئے تو آپ نے بتا دیا کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے اور اس طرح مسلمانوں پر کوئی دن ایسا نہیں آیا جب اُن کے پاس کوئی قبلہ نہ ہو.یہ نہیں کہ ایک سال دو سال یا دس سال کے بعد قبلے کا حکم ہوا ہو بلکہ پہلے دن سے بتا دیا گیا ہے کہ ہمارا فلاں قبلہ ہے.اب یہ اتحاد کی کتنی بڑی صورت ہے جو دوسرے مذہب والوں کو حاصل نہیں.پھر نماز با جماعت ہے.اسلامی نماز بھی انفرادی نماز نہیں بلکہ ایک قومی نماز ہے.پہلے صفوں میں سیدھے کھڑے ہو جاؤ، قبلہ رُخ ہو ، اقامت ہو ، پھر ایک امام ہو، امام کھڑا ہو تو مقتدی کھڑا ہو ، امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلا جائے.یہ خصوصیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے اور مذاہب میں نہیں.نہ عیسائیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے اور نہ یہودیوں میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے.عیسائی اور یہودی اکٹھے تو ہو جاتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان کے لئے اکٹھا ہونے کا کہاں حکم ہے.ساری تو رات میں اکٹھے ہو کر عبادت کرنے کا حکم نہیں ملتا.تو رات میں یہی آتا ہے کہ کامل عبادت یہی ہے کہ تم خدا تعالیٰ کے لئے قربانی پیش کرو.باقی یہ کہ عبادت کے لئے تم اکٹھے ہو جاؤ ایسا کوئی حکم نہ پرانوں اور ویدوں میں موجود ہے اور نہ ایسا حکم تو رات اور انجیل میں پایا جاتا ہے.صرف اسلام ہی ایسا مذ ہب ہے جو کہتا ہے پہلے اذان دو، پھر اس طرح مسجد میں آؤ، سیدھی صفوں میں کھڑے ہو جاؤ، پھر قبلہ کی طرف منہ کرو، سامنے ایک امام ہو جو حرکت

Page 675

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۴۹ اتحاد المسلمین امام کرے وہی حرکت مقتدی بھی کرے، امام سجدہ میں جائے تو مقتدی بھی سجدہ میں چلے جائیں ، امام کھڑا ہو تو مقتدی بھی کھڑے ہو جائیں ، اس طرح ساری قوم امام کے تابع ہو جاتی ہے اور یہ طاقت ہٹلر میں بھی نہیں تھی کہ اس کے اشارے سے سارے لوگ جھک جائیں لیکن یہاں یہ بات پائی جاتی ہے کہ امام رکوع میں جاتا ہے تو سارے مقتدی رکوع میں چلے جاتے ہیں.امام سجدہ میں جاتا ہے تو سارے لوگ سجدہ میں چلے جاتے ہیں.گویا خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو وہ طاقت بخشی ہے جس نے اجتماعیت کی ایسی مستحکم روح قائم کر دی ہے جس کی مثال اور کسی مذہب میں نہیں ملتی.پھر حج ہے.یہ خصوصیت بھی صرف اسلام میں ہے.بیشک ہندو لوگ یا ترا کے لئے جاتے ہیں لیکن یا ترائیں بیسیوں ہیں.کوئی شخصی یا تر انہیں اور نہ ایسی تعلیم ہے کہ جس شخص کے پاس سرمایہ ہو پھر امن ہو ، اس کے لئے کوئی روک نہ ہوا ایسا شخص اگر جج نہیں کرتا تو وہ گنہگار ہے.یہ اجتماعیت صرف اسلام میں پائی جاتی ہے.باقی لوگ یا تر ا گئے تب بھی بزرگ ہیں اور اگر یا ترا کو نہ گئے تب بھی بزرگ ہیں.پھر زکوۃ ہے.اسلام میں جیسی زکوۃ پائی جاتی ہے.وہ کسی اور مذہب میں نہیں پائی جاتی.بیشک یہودیوں میں بھی زکوۃ پائی جاتی ہے لیکن اس میں اتنی باریکیاں نہیں پائی جاتیں جتنی باریکیاں اسلامی زکوۃ میں پائی جاتی ہیں.اسلامی زکوۃ کے اخراجات کو نہایت وسیع طور پر بیان کیا گیا ہے اور اس میں قومی ترقی کی ہر چیز آ جاتی ہے.اس میں کلیت کا رنگ پایا جاتا ہے اور یہ بات یہودی زکوۃ میں نہیں پائی جاتی.اسلامی زکوۃ میں ہر قسم کے غرباء کا حق مقرر کر دیا گیا ہے مثلاً ایک شخص کے پاس تجارت کے لئے سرمایہ نہیں تو اسلام کہتا ہے اسے کچھ سرمایہ دے دو.ایک درزی ہے وہ درزی کا کام جانتا ہے لیکن اس کے پاس کوئی مشین نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکوۃ میں سے کچھ اسے بھی دے دو.ایک شخص کو یکہ چلانا آتا ہے لیکن اس کے پاس روپیہ نہیں تو اسلام کہتا ہے کہ زکوۃ میں اسے بھی کچھ دے دو.اسی طرح ایک مسافر آتا ہے وہ مالدار ہوتا ہے لیکن وہ شہر میں جاتا ہے اور اس کا مال چوری ہو جاتا ہے اور وہ گھر سے بھی روپیہ منگوا نہیں سکتا تو اسلام کہتا ہے کہ

Page 676

انوار العلوم جلد ۲۲ اتحاد المسلمین زکوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو.ایک غریب آدمی قید ہو جاتا ہے اس کے بچوں کے پاس کھانے پینے کے لئے کچھ نہیں ہوتا تو اسلام کہتا ہے زکوۃ میں سے اسے بھی کچھ دے دو.گویا اسلام نے زکوۃ کے نظام کو اس قدر وسیع کیا ہے اور اتنا نرم رکھا ہے کہ ہر قوم اور ہر گروہ کے لوگ اس سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ کسی کا سر بھی نیچا نہ ہو کیونکہ بڑی زکوۃ حکومت خود دے گی مثلاً زمین ہے.زمین کی زکوۃ میں ذاتی طور پر نہیں دے سکتا بلکہ یہ زکوۃ گورنمنٹ کے پاس جمع کرائی جائے گی اور وہ آگے مستحقین میں تقسیم کرے گی.اگر حکومت اس رقم میں سے کچھ میرے ہمسایہ کو دیتی ہے تو اگر چہ وہ میری رقم ہو گی لیکن میرا ہمسایہ اسے گورنمنٹ سے حاصل کرے گا اس طرح وہ میرا ممنون نہیں ہو گا اور میرے سامنے نظریں نیچی نہیں کرے گا.گویا ز کوۃ لینے کے نتیجہ میں جو تحقیر پیدا ہوتی ہے وہ پیدا نہیں ہوگی.غرض اسلامی زکوۃ میں اس امر کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ غریب کی نظر نیچی نہ ہو اور با وجود مدد لینے کے وہ امیر ہمسایہ کو کہہ سکے کہ میں نے تجھ سے مدد نہیں لی.پھر قضاء ہے.یہ بھی اسلام کی ہی ایک خصوصیت ہے اور یہ خصوصیت بھی اس بات کی ایک دلیل ہے کہ اسلام اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے.ایک فردا گر کسی کو ڈنڈا مارے تو قضاء اسے کہے گی کہ تم قاضی کے پاس جاؤ وہ اسے ڈنڈا مارے گا.یہاں تک کہ اسلام میں بدکاری کی سزا سخت ہے لیکن اس کے لئے بھی اسلام نے یہی تعلیم دی ہے کہ تم سزا کو اپنے ہاتھ میں نہ لو بلکہ معاملہ قاضی کے پاس لے جاؤ.وہ سزا دے گا.ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اس وقت یہودی سزا پر عمل کیا جاتا تھا.اس شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر خاوند دیکھے کہ اس کی بیوی بد کاری کر رہی ہے تو کیا اُسے حق ہے کہ وہ اپنی بیوی کو مار ڈالے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اسے خود سزا دینے کا حق نہیں.موسوی شریعت میں زنا کی سزا قتل تھی کے اور اس وقت تک اس بارہ میں موسوی شریعت کے مطابق ہی عمل کیا جاتا تھا.اس شخص نے عرض کیا جب زنا کی سزا قتل ہے تو خاوند جب اپنی آنکھوں سے اپنی بیوی کو بدکاری کرتے دیکھے تو کیوں نہ اسے قتل کر دے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے سزا دینے کا حق

Page 677

انوار العلوم جلد ۲۲ اتحاد المسلمین نہیں.سزا دینے کا حق قاضی کو ہے.اگر وہ اپنی بیوی کو بد کاری کرتے دیکھتا ہے اور اسے قتل کر دیتا ہے تو اسے قاتل سمجھ کر موت کی سزا دی جائے گی.اب دیکھو اسلام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ اسلام یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ کہیں بدلہ لینے میں جلد بازی سے کام تو نہیں لیا گیا.کیا جرم کی تحقیق کے سامان پوری طرح مہیا کئے گئے ہیں اور یہ باتیں قاضی دیکھ سکتا ہے.دوسرا نہیں.اگر چہ یہ انفرادی حق ہے لیکن کسی شخص کو اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ قانون کو ہاتھ میں لے لے.مجرم کو سز ا صرف حکومت کے ذریعہ ہی دلائی جاسکتی ہے.پھر فرضیت جہاد ہے.جہاد بھی اکیلا شخص نہیں کر سکتا بلکہ جب جہاد فرض ہوگا تو ساری قوم لڑے گی.پس جہاد بھی ایک اجتماعی چیز ہے.اسلام کہتا ہے کہ جب امام کہے کہ اب جہاد کا موقع ہے تو ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس فریضہ کو پورا کرے اور اگر کوئی مسلمان اس فرض کو پورا نہیں کرتا تو وہ شریعت اور قانون کا مجرم ہے.یہ ایک اجتماعی حکم ہے پس جو شخص یہ کہتا ہے کہ اسلام انفرادی مذہب ہے وہ غلطی پر ہے.اسلام انفرادی مذہب نہیں بلکہ اجتماعی مذہب ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام ایک طرف تو انفرادیت کی حقیقت کو تسلیم کرتا ہے اور نہ صرف تسلیم کرتا بلکہ اسے ضروری قرار دیتا ہے اور دوسری طرف وہ اجتماعیت کی تعلیم دیتا ہے.یہ دونوں چیزیں اکٹھی کیسے ہو سکتی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں لیکن دراصل یہ متضاد نہیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار ہیں.ان دونوں کو جمع کئے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی.جس مذہب نے صرف انفرادیت کی تعلیم دی ہے وہ بھی تباہ ہو ا ہے.کوئی مذہب اور کوئی حکومت اپنے لئے ترقی کا راستہ نہیں کھول سکتی جب تک کہ وہ ان دونوں چیزوں پر بیک وقت عمل نہ کر رہی ہو.اگلے زمانہ میں خدا تعالیٰ سے تعلق محض انفرادیت کے طور پر ہوتا تھا لیکن صحیح راستہ انفرادیت اور اجتماعیت کے درمیان ہے جیسے اگلے جہاں میں ایک پل صراط ہوگی.یہ اس دُنیا کی پل صراط ہے.اسلام دونوں چیزوں کو ایک وقت میں بیان کرتا ہے.ایک طرف وہ انسان کو اتنا بلند کرتا ہے کہ اسے

Page 678

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۵۲ اتحاد المسلمین عرش پر پہنچا دیتا ہے اور اس کے درمیان اور خدا تعالیٰ کے درمیان کوئی واسطہ باقی نہیں رہتا اور دوسری طرف جس طرح یونانی جب لڑتے ہیں تو وہ آپس میں ایک کو دوسرے کے ساتھ باندھ دیتے ہیں تا اگر وہ مریں تو اکٹھے مریں.اسی طرح اسلام بھی ایک انسان کو دوسرے انسان کے ساتھ باندھ دیتا ہے.پس حقیقت یہی ہے کہ اتحاد موجودہ حالات اور افراد سے اتحاد کا نام ہے.اتحاد اس بات کا نام ہے کہ موجودہ حالات اورافراد سے کام لیا جائے اور ترقی کے معنے یہ ہیں کہ موجودہ حالات اور افراد میں اختلاف پیدا کیا جائے.جب تک تجربہ اور تھیوری سے اختلاف نہیں کیا جاتا اس وقت تک ترقی نہیں ہو سکتی.غرض انفرادیت کے بغیر ترقی مشکل ہے اور اتحاد کے بغیر امن قائم رکھنا مشکل ہے.قرآن کریم نے ان دونوں کو تسلیم کیا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاطِيْعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ اے مسلمانو ! تم آپس میں اختلاف نہ کرو.اگر تم آپس میں اختلاف کرو گے تو کمزور ہو جاؤ گے اور دُشمن سے شکست کھا جاؤ گے.تم ہمیشہ اکٹھے رہنا اور ایک دوسرے کے مددگار رہنا ؤ اضبوڈا اور چونکہ اکٹھے رہنے میں تمہیں کئی مشکلات پیش آئیں گی اس لئے تمہیں صبر سے کام لینا ہو گا.جب تم اجتماعیت کی طرف آؤ گے تو کئی جھگڑے پیدا ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شکوہ پیدا ہو جایا کرتا تھا.ایک دفعہ آپ مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے ایک شخص نے کہا.اس تقسیم میں انصاف سے کام نہیں لیا جار ہا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے شخص اگر میں انصاف نہیں کروں گا تو اور کون کرے گا ؟ حضرت عمرؓ بھی وہاں موجود تھے.آپ نے تلوار نکال لی اور عرض کیا یا رَسُول اللہ ! آپ اجازت دیں تو میں اس کی گردن کاٹ دوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جانے دو.اس شخص نے بے شک غلطی کی ہے لیکن اگر اس کی گردن کاٹ دی گئی تو لوگ کہیں گے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا الے پس اگر اُس زمانہ کے لوگ بھی شکوہ کر دیتے تھے اور اختلاف کا اظہار کر دیتے تھے تو پاکستان اور شام اور عراق اور اُردن کے لوگ کیوں نہیں کر سکتے ؟ غلطیاں ہو جاتی ہے.

Page 679

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۵۳ اتحاد المسلمین ہیں اور لوگ شکوہ بھی کرتے ہیں پھر تم کیا کرو.فرمایا.واصبر وا.تم صبر کرو اور مجھ پر اُمید رکھو.میں خود اس کا بدلہ دوں گا.پھر فرماتا ہے واعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا ولا تفرقوا اے مسلمانو ! تم سارے مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ نہ کرو.اگر تم نے تفرقہ کیا تو اس کے نتیجہ میں تمہاری طاقت زائل ہو جائے گی.یہ اجتماعی اتحاد کی دعوت ہے لیکن دوسری طرف یہ بھی فرمایا ہے کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے باپ دادا کے مذہب کو کیسے چھوڑ سکتے ہیں وہ بے دین ہیں.گویا قرآن کریم اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کرتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام میں بھی اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا گیا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اخْتِلَافُ أُمَّتِی رَحْمَةٌ - سے میری اُمت کا اختلاف رحمت ہے.اب دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اختلاف کو بجائے عذاب کے رحمت قرار دیتے ہیں اور اختلاف کرنے والے دونوں فریق کو اپنی اُمت قرار دیتے ہیں لیکن دوسری طرف آپ فرماتے ہیں.مَنُ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبراً فَلَيْسَ مِنَّا " جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہو اوہ ہم میں سے نہیں.گویا آپ نے ایک طرف یہ کہا کہ اختلاف رحمت ہے اور دوسری طرف یہ کہا کہ جو شخص جماعت سے بالشت بھر بھی الگ ہو گا وہ ہم میں سے نہیں.یعنی وہ مسلمان نہیں رہے گا.ایک صحابی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! جب تفرقہ ہو گا تو میں کیا کروں.کیا میں تلوارلوں اور لوگوں کا مقابلہ کروں.آپ نے فرمایا نہیں.اُس صحابی نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! پھر میں کیا کروں؟ تو آپ نے فرمایا.عَلَيْكَ بِالْجَمَاعَةِ ـ ۱۵ جس طرف جماعت ہو اسی طرف تم چلے جاؤ.گویا آپ نے ایک طرف انفرادیت پر اس قدر زور دیا ہے کہ اختلاف امت کو رحمت قرار دے دیا اور دوسری طرف یہ شدت ہے کہ اگر تم پر ظلم بھی کیا جائے تب بھی تم اختلاف نہ کرو بلکہ جماعت کا ساتھ دو.غرض رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم دونوں نے اختلاف اور اتحاد دونوں کو تسلیم کیا ہے.اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے اصول ہیں جنہیں اختیار کر کے ہم اتحاد اور

Page 680

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۵۴ اتحاد المسلمین انفرادیت کو قائم رکھ سکتے ہیں.ہم قرآن کریم میں دیکھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.قُل ياهل الكتب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا الله وَلا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ فَإِن تَوَلَّوا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ 4 اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتا ہے.اے میرے رسول ! تم عیسائیوں اور یہودیوں سے کہہ دو کہ ہم میں اور تم میں جو نقطہ مرکزی ہے میں اس پر تمہیں متحد ہو جانے کی دعوت دیتا ہوں.وہ نقطہ مرکزی کیا ہے؟ وہ نقطہ مرکزی یہ ہے کہ تم بھی کہتے ہو خدا ایک ہے اور ہم بھی کہتے ہیں خدا ایک ہے.آؤ ہم اسی بات پر ا کٹھے ہو جائیں.بے شک تم بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھو اور میں قبلہ کی طرف رُخ کر کے نماز پڑھوں گا لیکن یہ نقطہ ہم دونو میں مشترک ہے.آؤ ہم اس پر اکٹھے ہو جائیں اور عہد کر لیں کہ ہم خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کریں گے.تم بے شک صرف سجدہ کرو اور ہم رکوع اور سجدہ کریں.تم ہفتہ میں ایک دن عبادت کرو اور ہم ساتوں دن عبادت کریں.ہم جمعہ کو اکٹھے ہوں اور تم اتوار کو اکٹھے ہو جاؤ لیکن ہم اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم صرف خدا تعالیٰ کا نام لیں گے اور کسی کو اس کا شریک قرار نہیں دیں گے.اب دیکھو یہودیت اور عیسائیت الگ مذاہب ہیں لیکن قرآن کریم کہتا ہے کہ ان دونوں میں ایک نقطہ مرکزی ہے اور وہ تو حید ہے.آؤ ہم اس پر اکٹھے ہو جائیں اور باقی اختلافات کو رہنے دیں.گویا پہلا گر اتحاد کا یہ معلوم ہوا کہ اگر تم صحیح طور پر اتحاد چاہتے ہو تو پہلے اختلاف کو تسلیم کرو.جو شخص یہ کہے گا کہ میں اختلافات مٹا کر اتحاد کروں گا وہ کامیاب نہیں ہوگا.وہی شخص کامیاب ہو گا جو جز وی اختلافات کو چھوڑ دے.لائڈ جارج کا ایک مشہور مقولہ ہے جب برطانیہ کو فرانس اور جرمنی سے خطرہ پیدا ہوا تو لائڈ جارج فرانس گئے اور اُنہوں نے حکومت فرانس سے بات چیت کی.جب واپس آئے تو لوگوں نے کہا.کیا تمہیں کامیابی حاصل ہو گئی ہے اور کیا برطانیہ اور فرانس کا اتحاد ہو گیا ہے؟ لائڈ جارج نے کہا ہم نے اس بات پر اتحاد کر لیا ہے کہ آپس میں اختلاف کو قائم رکھیں.کے اس اتحاد کی وجہ سے وہ محفوظ ہو گئے.اُنہوں نے اس بات پر اتحاد کیا تھا کہ وہ

Page 681

انوار العلوم جلد ۲۲ اتحاد المسلمین ہم آپس کے اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں لیکن باوجود اس اختلاف کے ہم اکٹھے رہیں گے اور دشمن کامل کر مقابلہ کریں گے.لائڈ جارج نے تو یہ بات آج کہی ہے لیکن اسلام نے ساڑھے سترہ سو سال قبل یہ بات کہی تھی کہ اے عیسائیو اور یہودیو! تم ہم سے کیوں جھگڑتے ہو کیا تم میں اور ہم میں اتحاد کا کوئی پوائنٹ موجود ہے یا نہیں ؟ اور اگر اتحاد کا کوئی پوائنٹ موجود ہے تو آؤ پہلے اسی کو لے لو اور اس پر متحد ہو جاؤ.پس اتحادالمسلمین کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اختلافات کو چھوڑ دیا جائے اور اتحاد کے جو ممکن پہلو ہوں انہیں لے لیا جائے.اگر کوئی کہے کہ اگر تم صرف اتحاد کے پہلو لے لو تو اختلاف والی باتوں میں کیا کرو گے تو اس کا حل بھی قرآن کریم نے بتا دیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جن باتوں میں تمہارا اختلاف ہے ان میں تم اپنی اپنی کتاب اور تعلیم کے مطابق چلو اور اس کے مطابق اپنے جھگڑوں کا فیصلہ کرو.فرمایا یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس انجیل اور تو رات ہے وہ ان پر عمل کر سکتے ہیں جیسے فرمایا وَ مَن لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللهُ فَأُولَيْكَ هُمُ الكَفِرُونَ ١٨ پس ایک طرف تو یہ کہا کہ یہودی اور عیسائی اپنی اپنی تعلیم پر چلیں اگر وہ اپنی تعلیم پر نہیں چلیں گے تو وہ خائن ہوں گے اور دوسری طرف یہ کہا کہ تم اکٹھے ہو جاؤ یعنی دونوں پوائنٹ کو لیا ہے کہ اختلاف قائم کرو اور اتحاد کے پوائنٹ کو لے کر جو تم دونوں کے درمیان مشترک ہوا کٹھے ہو جاؤ.پھر یہ قدرتی بات ہے کہ اگر ہم اکٹھے ہو کر بیٹھ جائیں گے تو آہستہ آہستہ اتحاد کی کئی صورتیں نکل آئیں گی.فلاں مردہ باد اور فلاں زندہ باد کے نعروں سے کچھ نہیں بنتا.اگر کوئی نقطہ مرکزی ایسا ہے جس پر اتحاد ہو سکتا ہے تو اس کو لے لو کیونکہ قرآن کہتا ہے کہ اختلافات قائم رکھو بلکہ بعض دفعہ یہاں تک کہتا ہے کہ ہم اختلافات رکھنے میں تمہاری مدد کریں گے.پھر یہ بیوقوفی کی بات ہے کہ ہم ان اختلافات کی وجہ سے اتحاد کو چھوڑ دیں.میں نے عملی طور پر بھی اس کا تجربہ کیا ہے.جب تحریک خلافت کا جھگڑا شروع ہوا اور مولا نا محمد علی اور شوکت علی نے یہ تحریک شروع کی کہ انگریزوں کو کہا جائے کہ وہ سلطان ترکی کو جسے ہم مسلمان خلیفہ تسلیم کرتے ہیں

Page 682

انوار العلوم جلد ۲۲ اتحاد المسلمین کچھ نہ کہیں ورنہ ہم سب مسلمان مل کر ان کا مقابلہ کریں گے تو انہوں نے باقی مسلمانوں کو بھی دعوت دی کہ وہ اس تحریک میں ان کے ساتھ شامل ہوں.اور اس کے تعلق میں لکھنؤ میں ایک جلسہ کیا گیا.میں نے جب اس بات پر غور کیا تو میں نے دیکھا کہ شیعہ اور اہل حدیث سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے اور نہ خوارج اسے خلیفہ تسلیم کرتے ہیں اور پھر ہم احمدی بھی اس بات کے خلاف ہیں.ہمارا ہیڈ خود خلیفہ ہوتا ہے.میں نے خیال کیا کہ یہ سارے لوگ یہ بات کیوں کہیں گے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ مانتے ہیں اس لئے اگر تم نے اس پر ہاتھ ڈالا تو ہم سب متحد ہو کر اس کی امداد کریں گے.میں نے جلسہ میں شرکت کے لئے ایک وفد لکھنو بھیجا اور انہیں تحریری پیغام بھجوایا کہ اگر تم اس صورت میں انگریزوں کے پاس جاؤ گے تو وہ کہیں گے کہ خوارج ، اہل حدیث اور شیعہ مسلمان عبدالحمید کو اپنا خلیفہ نہیں مانتے تم کیسے کہتے ہو کہ وہ سب مسلمانوں کا خلیفہ ہے.میں نے کہا تم یوں کہو کہ سلطان تر کی جسے مسلمانوں کی اکثریت خلیفہ تسلیم کرتی ہے اور باقی مسلمان بھی ان کا احترام کرتے ہیں اگر تم نے اسے کچھ کہا تو ہم سب مسلمان مل کر تمہارا مقابلہ کریں گے اگر تم یوں کہو گے تو کام بن جائے گا.کسی احمدی ، شیعہ یا اہل حدیث کو یہ جرأت نہیں ہو سکے گی کہ وہ کہے سلطان عبد الحمید کو مار دو.وہ دل میں بے شک کہے لیکن اس کا زبان سے اظہار نہیں کرے گا.مولانا شوکت علی کی طبیعت جوشیلی تھی.جب وفد میرا خط لے کر گیا تو انہوں نے کہا یہ تفرقہ کی بات ہے.پندرہ دن کے بعد اہلِ حدیث کی طرف سے اعلان شائع ہوا کہ ہم سلطان ترکی کو اپنا خلیفہ تسلیم نہیں کرتے ،شیعوں کی طرف سے بھی اس قسم کا اعلان شائع ہوا اور پھر سر پھٹول شروع ہو گئی.خوارج اس ملک میں موجود نہیں تھے ورنہ وہ بھی اس قسم کا اعلان کر دیتے اور پھر سال ڈیڑھ سال کے بعد خود ترکوں نے بھی اُسے جواب دے دیا تین چار سال کے بعد شملہ میں ہم سب ملے تو مولانا محمد علی نے کہا کتنا اچھا کام تھا لیکن آخر ہم اس میں نا کام ہو گئے مسلمانوں میں تفرقہ ہو گیا اور ہم اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے.میں نے کہا مولا نا میں نے مشورہ دے دیا تھا کہ یہ نہ لکھا جائے کہ ہم سب مسلمان سلطان ترکی کو

Page 683

انوار العلوم جلد ۲۲ اتحاد المسلمین خلیفہ مانتے ہیں کیونکہ اہلِ حدیث ، خوارج ، شیعہ اور ہم احمدی اسے خلیفہ تسلیم نہیں کرتے بلکہ یہ کہا جائے کہ سلطان ترکی جس کو مسلمانوں میں سے اکثریت خلیفہ مانتی ہے اور جو خلیفہ نہیں مانتے وہ بھی ان کا احترام کرتے ہیں، اگر میری بات مان لی جاتی تو یہ نا کامی نہ ہوتی.اُنہوں نے کہا آپ نے یہ مشورہ ہمیں دیا ہی نہیں.میں نے کہا آپ کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی کو دیا تھا مگر اُنہوں نے کوئی توجہ نہ کی.میں نے کہا اگر آپ میرا مشورہ مان لیتے تو اہلِ حدیث ، خوارج اور شیعہ کو شکایت پیدا نہ ہوتی.آپ یہ لکھتے کہ اکثریت مسلمانوں کی سلطان ترکی کو خلیفہ مانتی ہے اور اقلیت اسے اپنے اقتدار کا نشان مانتی ہے.وہ افسوس کرنے لگے کہ مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا.پس شیعہ سنی اور حنفی وہابی اور احمدی غیر احمدی کے اختلافات کو چھوڑ دیا جائے اور ان کی اتحاد کی باتوں کو لے لیا جائے.یہی اتحاد کا اصول ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عیسائیوں اور یہودیوں کو اس بات کی دعوت دی تھی.پھر دوسرا اصول اتحاد کا یہ ہے کہ چھوٹی چیز کو بڑی چیز پر قربان کر دیا جائے.اگر تم دیکھتے ہو کہ ہر بات میں اتحاد نہیں ہوسکتا تو تم چھوٹی باتوں کو چھوڑ دو اور بڑی باتوں کو لے لو.دیکھو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جہاں توحید کا ذکر کرتا ہے وہاں ماں باپ کا بھی ذکر کرتا ہے اور ان کی اطاعت اور فرمانبرداری پر زور دیتا ہے لیکن جب انبیا ء دُنیا میں آئے اور ان کی قوم نے یہ کہا کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے مذہب کو نہیں چھوڑ سکتے تو خدا تعالیٰ نے یہاں تک کہہ دیا کہ کیا تم جاہلوں کی بات مانتے ہو.باپ دادے کی عزت بے شک بڑی ہے لیکن جب ان کا مقابلہ خدا تعالیٰ سے ہو جائے تو انہیں چھوڑ دو.پس اتحاد کا دوسرا گر بہ ہے کہ تم چھوٹی باتوں کو بڑی باتوں پر قربان کرنے کی روح پیدا کرو.سچائی کو ہرگز نہ چھوڑو وہاں قومی رسم و رواج کو چھوڑنا پڑے تو کوئی بات نہیں.پس ان دونوں باتوں پر عمل کیا جائے تو اتحاد ہو سکتا ہے.اس وقت پاکستان ، لبنان، عراق ، اُردن، شام، مصر، لیبیا، ایران، افغانستان ، انڈونیشیا اور سعودی عرب یہ گیارہ مسلم ممالک ہیں جو آزاد ہیں اور ان سب میں اختلافات پائے جاتے ہیں.اگر

Page 684

انوار العلوم جلد ۲۲ اتحاد المسلمین انہوں نے آپس میں اتحاد کرنا ہے تو پھر اختلافات کو برقرار رکھتے ہوئے ان کا فرض ہے کہ وہ سوچیں اور غور کریں کہ کیا کوئی ایسا پوائنٹ بھی ہے جس پر وہ متحد ہو سکتے ہیں اور اگر کوئی ایسا پوائنٹ مل جائے تو وہ اس پر اکٹھے ہو جائیں اور کہیں کہ ہم یہ بات نہیں ہونے دیں گے.مثلاً یہ سب مُمالک اس بات پر اتحاد کر لیں کہ ہم کسی مسلم ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور بجائے اس کے کہ اس بات کا انتظار کریں کہ پہلے ہمارے آپس کے اختلافات دُور ہو جائیں وہ سب مل کر اس بات پر اتحاد کر لیں کہ وہ کسی ملک کو غلام نہیں رہنے دیں گے اور سب مل کر اس کی آزادی کی جد و جہد کریں گے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دی تھی کہ آؤ ہم تو حید پر جو ہم سب میں مشترک ہے متحد ہو جائیں اسی طرح ہم سب مسلمان اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ ہم کسی کو غلام نہیں رہنے دیں گے.اختلافات بعد میں دیکھے جائیں گے.اسی طرح پاکستان کے مسلمانوں کے آپس کے جھگڑے ہیں اور ان میں کئی اختلافات پائے جاتے ہیں لیکن ان سب ممالک میں کوئی چیز مشترک بھی ہے وہ اس پر متحد ہو سکتے ہیں مثلاً یہی بات لے لو کہ ہم نے پاکستان کو ہندوؤں سے بچانا ہے یا کشمیر حاصل کرنا ہے تم ان چیزوں کو لے لو اور بجائے آپس میں اختلاف کرنے کے ان چیزوں پر متحد ہو جاؤ بعد میں ملنے ملانے سے دوسرے اختلافات بھی دُور ہو جائیں گے.میں دیکھتا ہوں کہ اختلاف کو لے لیا جاتا ہے اور اتحاد کو چھوڑ دیا جاتا ہے.ہر فرقہ دوسرے فرقہ کو جس سے اُسے اختلاف ہو واجب القتل قرار دے دیتا ہے حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا.کیا یہ لوگ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ مومن ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو عیسائیوں اور یہودیوں کو بھی کہتے ہیں کہ آؤ ہم تو حید پر جو ہم سب میں مشترک ہے اکٹھے ہو جائیں لیکن تم ایسا نہیں کرتے اور ویس کے تاجر کی طرح جب تک تم دوسرے کا گوشت نہ کاٹ لو اپنی جگہ سے نہیں ہٹتے.عالم اسلامی کا اتحاد بھی اسی طرح ہوگا.اگر مسلم ممالک آپس میں اتحاد کرنا چاہتے ہیں تو وہ اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ اختلاف کے باوجود ہم دشمن سے اکٹھے ہو کر لڑیں گے.آؤ ہم بھی اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ

Page 685

انوار العلوم جلد ۲۲ ۶۵۹ اتحاد المسلمین باہمی اختلافات کے باوجود ہم ایک دوسرے سے لڑیں گے نہیں.میری طبیعت خراب تھی اور خیال تھا کہ میں تھوڑی دیر تقریر کر سکوں گا لیکن خدا تعالیٰ نے توفیق دے دی اور میں اتنی دیر بول سکا ہوں.اب اذان ہو رہی ہے اس لئے میں تقریر کو ختم کرتا ہوں.اسلام پر ایک نازک زمانہ آ رہا ہے.مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور خطرات کو دیکھیں اور کم از کم اس بات پر اکٹھے ہو جائیں کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مٹنے نہیں دیں گے.“ الفضل ربوه ۱۲ ، ۱۹ دسمبر ۱۹۶۲ء) ابراهیم: ۸ مسلم کتاب الایمان باب بيان كون النهي عن المنكر من الايمان (الخ) الروم: ٢٣ ه البقرة : ١٤ البقرة: ۱۷ کے اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۵۵۰ مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۸ء ۵ استثناء باب ۲۲ آیت ۲۲ برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لنڈن ۱۸۸۷ء ا الانفال: ۴۷ ال بخارى كتاب الامناقب باب علامات النبوة في الاسلام ۱۲ ال عمران: ۱۰۴ ۱۳ موضوعات ملا علی قاری صفحہ ۱۷ مطبوعہ دہلی ۱۳۴۶ھ مسلم كتاب الامارة باب الامر بلزوم الجماعة عند ظهور الفِتَنِ میں مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ شِبْرًا فَمَاتَ فَمِيْتَةٌ جَاهِلِيَّةٌ “ کے الفاظ ہیں.ها ابن ماجه كتاب الفتن باب الْعُزُلَةُ (مفہوم) ١٦ آل عمران: ۶۵ K ۱۸ المائدة: ۴۵

Page 686

۱۲ ۱۵ ۱۷ ۲۶ انڈیکس کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات

Page 687

آخرت آخرت اسی دُنیا کا ایک تسلسل ہے ۶۰۹ مضامین احمدیوں کے قتل کی کھلے بندوں تحریک اسلام کی تعلیم شادیوں کے بارہ میں ۱۶۷ ،۱۶۵ ۲۵-احمدی سیالکوٹ میں پتھراؤ سے اسلام نے ہر ضرورت کے متعلق زخمی احمدیت احمدیت کی ترقی ۴۹۲ احکام نازل کئے ۲۴۱ تا ۲۴۴ اسلام کے احکام پر عمل کرنا ایک بڑا ۱۲۹ ۱۳۰ مجاہدہ ہے احمدیت بہر حال ترقی کرے گی ۴۳۷ اسلام نے اعلیٰ تعلیم کے ذریعہ ۲۴۳ ۲۴۴ آدمی آدمی کے معنی.آدم کی اولاد ۴ آدمی کا لفظ عربی زبان کا لفظ ہے احمدیت کے دس اصول ۴۵۸،۴۵۷ اتحاد اخلاق اتحاد کے معنی ۶۳۴ اتحادساری باتوں میں ناممکن ہے اتحاد المسلمين ۶۳۴ اذان اتحاد مسلمین کے طریق ۶۵۴ تا ۶۵۹ احرار اجتماع سالانہ اجتماع ٹھنڈے موسم میں اخلاقی تعلیم ہر زمانہ میں تھی ۳۵۹ تا ۳۶۱ بچہ کے کان میں اذان کی حکمت ۲۷۳ احرار نے احمدیوں کے قتل کی تحریک اسلام نام ہے خدا کی محبت اور بنی نوع کی خدمت کا اسلام کا غلبہ تمام دنیا پر ہوگا ۳۴۴ اسلام کے غلبہ کا حقیقی تصور ۴۶۹ تا ۴۸۱ فتح پائی ۲۵۰ اسلامی تعلیم قضاء کے بارہ میں ۲۵۴ تا ۲۵۶ کرنے کا ارشاد ۳۸۴،۳۸۳ کی ہے.اسلاف احمدی احمدی لڑ کے اعلیٰ نمبروں پر پاس اسلام ہوتے ہیں ۱۴۲ ۱۴۱ احمدیوں کے لئے ترقی کا بہت بڑا میدان ہے اسلاف کے نقش قدم پر چلو ۳۲۹ روشنی ڈالی اسلام کو تمام مذاہب پر فوقیت ہے ۲ بیان کرتا ہے اسلامی نظام حکومت کا ایک نقشہ ۱۴۲ ܬܪܙ اسلام کی ترقی کے ذرائع ۵۶۰ اسلام نے صفات الہیہ پر تفصیل سے اسلام احکام کے ساتھ حکمتیں بھی སྐད་ ۲۲۰ اسلامی تعلیم کی برتری کا اعتراف ۶۱۶ اسلام انفرادیت کی تعلیم دیتا ہے ۶۴۶

Page 688

۳۹۹ ۲۷۷ ۵۲۴ ۲۷۸ ۴۰۳ ۴۸۰ ۳۲۳ اسلام نے اجتماعیت کی طرف توجہ فراوانی دلائی ۰،۲۶۹ ۲۷ | رب کے معنی ۶۴۶ اللہ کے احسانات ۲۶۲ تا ۲۷۲ صفات الہیہ پر بحث اسلام کا دوسرے مذاہب سے امتیاز اللہ تعالیٰ کا ہر کام بے عیب اور اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہے ۶۴۷ تا ۶۵۱ پر حکمت ہے ۲۷۴ تعلق باللہ اسلام نے نظام زکوۃ کو وسیع کیا ۶۵۰ دنیا کا ذرہ ذرہ اللہ کی تسبیح کر رہا ہے خدا اور بندے کے درمیان کوئی ۲۷۴ واسطہ نہیں ۲۲۸ ۲۲۹ اللہ کی طرف سے دیدار عام کی انسان کے اندر تعلق باللہ کا مادہ احیائے اسلام کے لئے مسیح موعود کی بعثت اسلامی کانسٹی ٹیوشن اسلامیات پاکستان بننے کے بعد اسلامیات کا مضمون رکھا گیا اعتراض ۲۵۶ | دعوت ۲۷۷ ،۲۷۶ رکھا گیا ہے اللہ کے دربار میں فریا د نے کاطریق الہام الہی ۲۷۸ | الہام الہی کا دروازہ قیامت تک ۳۴۲ اللہ کی عطاء کا بے مثال نمونہ ۲۸۰،۲۷۹ کھلا ہے اللہ کی نئی شان سے ہر روز جلوہ گری الہام اور وحی میں کوئی فرق نہیں ۵۲۴،۵۲۳ ۳۶۱ ۴۰۴ 2.۴۸۶،۲۸۰ ایک اعتراض کا جواب ۵۱۶ تا ۵۱۸ اقلیت اقلیت کے لئے طاقت حاصل کرنے کا ایک نسخہ.تعدد ازواج ۲۴۴ ۲۴۵ اللہ تعالیٰ اللہ کا ایک نام حق بھی ہے ۳۲ ہمارا خدا زندہ خدا ہے اللہ تعالیٰ نے غیر متناہی ترقیات کا سلسلہ کھلا رکھا ہے اللہ تعالیٰ کی محبت قیمتی چیز ہے ۲۸۱ ۳۱۳ ۴۲۱ اللہ بندوں سے ہمکلام ہوتا ہے ۴۸۰ امید امید کبھی ختم نہ کرو انتخاب خدا کا انتخاب قابلیت کی بناء پر ہوتا ہے اللہ ہمیشہ اپنی قدرتیں ظاہر کرتا ہے ۴۸۵ انسان اللہ کی واحدانیت اور حمد کا تعلق انسان کو ایک خاص غرض کے لئے ۱۲۲ ہم اللہ کو نہیں چھوڑ سکتے اللہ تعالیٰ محبت کرنے والا ہے اللہ کا رحم بے انتہا وسیع ہے ۲۵۹ پیدا کیا گیا ۵۰۵ تا ۵۰۷ ۲۶۰ اللہ تعالیٰ کے غیر متبدل انعامات ۵۱۲ انسان کی فطرت میں محبت کا مادہ اللہ پر ہر جاندار کے رزق کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق کی ۲۶۷ اللہ ورا الورامی ہستی ہے صفات الهیه اللہ اصل رقیب ہے رکھا گیا انسان کی فطرت میں اُجلت رکھی گئی ۱۰

Page 689

انگریز بادشاہوں کے مشوروں کی حقیقت ۵۳۰ ہر احمدی تحریک جدید میں حصہ لے انگریز مذ ہب کے بارہ میں بزرگی ۳۷۸،۳۷۷ متعصب ہیں ا اسلام سے پہلے بزرگی کا تصور ۵۴۳ | تحریک جدید نازک دور میں ۴۳۵ ایثار بہائیت تربیت ایثار کے معنی ۳۰۸ بہائی تعلیمات ۲۳۳ تا ۲۳۵ دنیا کی تباہی آئندہ نسل کی ایثار بہترین قومی کیریکٹر ہے ۳۰۸ بہائی بہاء اللہ کو خدا سمجھتے ہیں ۲۳۳ عدم تربیت سے آئی قوم کا مفید وجود بننے کے لئے ایثار بہائی قرآن کو منسوخ قرار دیتے ہیں ماں کی تربیت ایک اہم چیز ہے ضروری ہے ایثار کے بغیر قومیں نہیں بنتیں ایمان ۳۰۹ ۳۱۲ پروگرام ۲۳۳ ترقی ۱۲ ۱۳ انفرادیت کے بغیر ترقی مشکل ہے ۶۵۲ توبه ایماندار کی تین علامات ۴۵۵،۴۵۴ انسان کو پروگرام بدلتے رہنا چاہئے کیا تو بہ سے گناہ بڑھتے ہیں؟ ایمان کا مفہوم ایمان کے معافی ایمان عقیدہ اور قوت محرکہ کے ۲۵ تا ۲۹ ۲۸ ۴۴۶ ۳۱۳ انسان کا پروگرام ارتقائی ہونا چاہئے شریعت نے تو بہ کا دروازہ کھلا ہونا رکھا ہے توحید علم تاریخ کی اہمیت ۳۳۰ تا ۳۴۰ توحید ہر زمانہ میں تھی مجموعہ کا نام ہے ۲۸ ۲۹ تاریخ ہمیں ایمان کی فکر کرنی چاہئے ایمان کا لفظ امن سے نکلا ہے ۴۴۷ ایمان کے بغیر نجات نہیں ۴۹۳ تاریخ سے بھاگنے والا بز دل ہوتا ہے تاریخ آباء کے حالات سے بادشاہوں میں محبت کا فقدان ۴۹۹ واقف کرتی ہے ۳۳۲،۳۳۱ ۳۳۶ ۲۵۹،۲۵۸ ۲۹۹ ۳۵۹ تیرنا تیرنا ضروری اور اہم چیز ہے ۵۷،۵۶ ج جلسہ سالانہ بادشاہوں کے خلاف دربار خاص تبلیغ میں منصوبے ۵۰۹،۵۰۸ تبلیغ میں زیادہ وقت صرف کریں ۱۶۵ جلسہ سالانہ کی تعداد بادشاہوں کے خلاف درباریوں کی تحریک جدید سرگوشیاں جلسہ سالانہ پر جمع ہونے کی غرض ۵۲۸ تحریک جدید کی بنیاد قربانی پر ہے ۳۷۵ ۱۳۰ ۱۲۹ ۴۲۲،۴۲۰

Page 690

جلسہ میں شامل ہونے والوں کو نصائح جماعت احمدیہ ۴۲۳ ،۴۲۲ جماعت احمدیہ کے خلوص کا ذکر ۱۶۱ جماعت کی مخالفت کی رو پیدا ہوگئی ۱۶۷ ،۱۶۵،۱۶۴ جماعت کی تعداد ۱۹۱،۱۹۰ جماعت لٹریچر خرید کر پڑھے ۴۴۱ خدام الاحمدیہ خ خدام کو ہدایات سالانہ اجتماع میں در بارالهی در بارالہی میں کسی کی بیتک برداشت نہیں در بار خاص ۲۱ تا ۵۳،۲۳ تا۶۱ خدام صف بندی کی مشق کریں ۲۲ ۲۳ خدام جماعت وار بیٹھیں خدام کو عمومی ہدایات ہر خادم کوئی نہ کوئی ہنر سیکھے ۴۳ ۴۴ ۴۳ ۵۹،۵۸ قرآنی در بار خاص کی شان ۵۱۳ در بار خاص کا بادشاہ عالم الغیب ۵۰۹ دربار خاص کی کیفیات در بارِ خاص کا ذکر قرآن میں ۵۱۹،۵۱۸ ۵۱۹ جنگ جنگ جسر میں مسلمانوں خدام کا اجتماع نومبر کے پہلے ہفتہ میں ہو دربار خاص میں گورنر جنرل کی ۳۸۵ ہدایات ۵۳۱ کی خوفناک شکست ۵۷،۵۶ دربارِ خاص میں انعامات خطابات مسلمانوں کی جنگیں مدافعانہ تھیں ۲۵۱ کا اعلان ۵۹۷ نمائشی انعامات و خطابات ۵۰۰۴۹۹ جہاد انگریزی خطاب حاصل کرنے درباری جہاد کا حقیقی تصور ۴۸۷ تا ۴۸۹ والوں کی حالت درباریوں کی سازشیں ۵۰۱ تا ۵۰۴ ۵۰۱،۵۰۰ چ دنیاوی خطابات کا انجام چوری ۵۸۷ ، ۵۸۶ ۵۰۸ دماغ الہی خطابات کو کوئی چھین نہیں سکتا انسانی دماغ کی حیرت انگیز وسعت ۲۷۲،۲۷۱ چوری ہر مذہب میں بُری ہے ۳۵۹ حج خوشخبری دیوان عام ۲۲۱ دیوانِ عام کے قیام کی اغراض روحانی اور مادی علوم کے متلاشیوں کو خوشخبری ۲۶۵ ۲۶۶ دیوان عام کی خصوصیت دیوان خاص ۲۲۲ دیوان خاص کی اغراض ۴۹۸،۴۹۷ حج ہر مذہب میں پایا جاتا ہے دنیاوی حکومتوں کی نا پائیداری ۳۵۹،۳۵۸ دربار ۲۳۰،۲۲۹ دربار آسمانی کی سیر ۵۲۹،۵۲۸ دیوان خاص کی تیسری غرض ۵۶۲ دیوان خاص کی چوتھی غرض ۵۸۲۵۸۱

Page 691

عیسائی دُنیا نے سچائی کی عادت پیدا راستبازی راستبازی انسان کا طبعی حصہ ہے راستبازی ایک طبعی خلق ہے راستبازی انسان کے اندر سے پیدا ہوتی ہے راستباز وہ ہے جو مذہب پر عمل کرے رپورٹ ۳۱ ۳۱ ۳۲ ۳۳ کرلی سچائی کا ، خدا بدلہ دیتا ہے ۲۹۱ ۲۹۴ سچائی کے بارہ میں بار یک احتیاطیں سکیم ۲۹۸ تا ۳۰۰ کتابیں لکھنے کی سکیم ۴۳۸ تا ۴۴۰ سمندر سمندر کی ہوا گلے کی خرابی کے لئے مرکز میں بچی رپورٹیں بھجوائیں ۳۲۵ مفید ہے روزه ش ہر مذہب میں روزہ کی تعلیم ۳۵۸،۳۵۷ شرک ز شرک کو باندھ رکھنے کا حکم زكوة شرک کی مضرتوں سے دُنیا کو زکوۃ اور صدقہ ہر مذہب میں پاک رکھنے کا حکم ۳۵۸ شرک پر پابندیوں کی ممانعت س سچ سچ ایک قیمتی چیز ہے ۲۹۷ صبر دو طرح کا ہوتا ہے ۵۶۱ صحابه ایک انصار صحابی کی تقریر ایک صحابی کا اکٹر کر چلنا ۱۰۹، ۱۰۸ ۱۹۴ ایک صحابی کے اسلام لانے کا واقعہ ۲۵۱ ۲۵۰ ۲۵۶،۲۵۵ ایک صحابی کا عشق رسول ۲۱۳ ایک صحابی کا قرض معاف کرنا ۵۷۹ ۵۵۳ ۵۸۰ صحابہ کو رضی اللہ عنہم کا خطاب ۵۸۲ صحابہ کی بے مثال عظمت ۵۸۳ ۵۸۴ شریعت سائیکالوجی اور علم النفس بھی شریعت کا حصہ ہے صحابہ کا أَشِدَّاءُ عَلَى الْكَفَّارِ ہونا ۵۹۳،۵۹۲ صحابہ کی میدانِ جنگ میں نمازیں ۵۹۶ صحابہ کی امتیازی شان صحابة ایک صحابیہ کی حضور سے فدائیت ۶۰۴ ۴۴۶،۴۴۵ ۳۲۱،۳۲۰ نیک صحبت سے نیا جوش اور عزم پیدا ہوتا ہے ۶۱۰ ۶۱۰ ۵۰۱ سچ اور فتنہ میں فرق سچائی (دیکھئے راستبازی) ۲۹۸ سچائی کی سب سے زیادہ ضرورت ۲۹۰ وہی قو میں جیتا کرتی ہیں جن میں سچائی ہے ۲۹۱ شریعت خدا کی بھاری رحمت شریعت کا فائدہ انسان کو شہزادے شہزادوں کی غداری کی غداری

Page 692

۱۳۹ علوم قرآنیہ کا دروازہ کبھی بند نہیں عورتیں وقت ضائع کرتی ہیں b طالبات کے اندر ایک آگ پیدا کی جائے ۳۴۵ ہو سکتا عورت عورت ومرد برا بر ہیں ۲۸۱،۲۸۰ عورتوں کو مسجد ہالینڈ بنانے کی تحریک ۱۰۶،۵ عورت بیچ کم بولتی ہے ۱۴۴ تا ۱۴۶ عورتوں اور مردوں کی ذمہ داریوں عورت میں کام کرنے کی عادت ع عربی میں فرق عربی زبان کی خصوصیات عزت ۱۰ تا ۱۵ کم ہے عورتوں کو تبلیغ کی تلقین ۶۳۴ عورت کا کام آئندہ زمانہ کی اصلاح عزت اُسی کو ملتی ہے جو صداقت شعار عورتوں کی تربیت سے صحابہ پیدا ہوتا ہے ۳۶۲ ہوئے ایک عورت کا اخلاص عورتوں کو تیرنا سکھانا چاہئے عقل کا مادہ اللہ نے ہر انسان میں پیدا کیا ۴۵۳ عورتیں ہمارے راستہ میں بڑی ۱۳ عورتیں دفتر لجنہ کا چندہ دیں عورتوں کی قربانی مردوں سے بڑھی ۱۴ ہوئی ہے اله ہے عیسائیت نے خدا کی وحدانیت عقل ۱۵، ۱۶ عیسائیت ۵۷ | عیسائیوں کا ایک اعتراض عمل عمل ایمان کا لباس ہے عمل کی طرف توجہ دو علم کتابوں کے مطالعہ سے پیدا ہوتا ہے مشکل ہیں ۳۱ پر حملہ کیا عورت کا دماغ ادنی نہیں ۱۳۱ ۳۰ غ ۳۲۲ غلاظت فرق نہیں ۱۳۴ غلاظت سے خدا نہیں ملتا ف رہی ہے ۱۳۵ ۳۴۵ ۳۴۶ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۱ ۲۳۷ ۶۰۷ ۴۸ علم کتابیں پڑھنے کے بعد آتا ہے ۳۰۵ علم کا استعمال بھی ضروری ہے علوم ۳۰۷ عورت ومرد میں دماغی لحاظ سے عورت نمایاں حیثیت اختیار کر عورت کا درجہ اسلام نے قائم کیا ۱۳۸ فرشتے ۵۴۷ عورت ترقی کر سکتی ہے ۱۳۸ فرشتوں نے کس سے جھگڑا کیا ؟ ۵۲۴ عورتوں کی تعداد، جماعت میں ۱۳۹ جماعت کی عورتوں میں تعلیم بہت فرشتے نظام عالم کی اہم کڑی ہیں علوم آسمانی تقویٰ سے وابستہ ہیں ۲۷۵ ہے ۱۳۹ فرشتے مخفی وجود ہیں ۵۲۵ ۶۰۸ ۶۰۸

Page 693

فسادات قرآن خدا کی طرف متوجہ کرنے قرآن خدا کی طرف لے جاتا ہے ۴۸۲ فسادات کے چار علاج ۴۴۶،۴۴۵ | والی کتاب ۴۸۳ ۴۸۴ ۱۳۹ ۲۴۰ قرآن میں دو قسم کی آیات قرآنی تعلیم کے ذریعہ غیر معمولی قرآن شفاء ہے فطرت طاقت کا حصول ۲۴۰ حاملین قرآن کی عظمت ۵۷۶،۵۷۵ فطرتِ صحیحہ سے کام لینے والا شاندار کام کرتا ہے قرآن کتاب مکنون ہے ۲۳۶ قرآن کریم کی کامل تعلیم ۶۱۱ ۴۰۲ قرآن مثانی ہے ۲۳۷ قرآن اختلاف اور اتحاد کو تسلیم فوجی قرآن کا کمال ۲۳۹ فوجیوں کی صفیں ہمیشہ سیدھی قرآنی تعلیمات ۲۴۰ کرتا ہے قیدی ۶۵۳ ۲۲ ہوتی ہیں ق قانون قرآن پر عمل کرنے والے غالب قیدیوں کی آزادی کے اعلانات ۲۵۷ رہیں گے قرآن مسلمانوں کے اندر بیداری ۲۴۰ ۲۵۸ قانون الہی کے متبعین سے سلوک پیدا کرنے کا ذریعہ قرآن ۲۴۶ ۲۴۷ قرآن کریم کی پیش کردہ توحید کی فتح قرآن کریم کی امتیازی تعلیم ۷،۶ قرآن زندہ کتاب ہے ۲۴۵ ۲۵۴،۲۵۳ کالج زنانہ کالج کھولنے کا ارادہ ۲۸۱ کام ۱۴۱ ۱۴۰ قرآن کی تفسیر کا ہر جگہ ہونا ضروری قرآن بعض باتوں کے بیان کرنے کام کر نا انسان کی زندگی کا موجب ۱۵۸ سے منع کرتا ہے ۲۹۸ قرآنی آئین کی خصوصیات ۲۳۱ تا ۲۳۳ قرآن کریم کے چھوٹا ہونے کامیابی ۴۳۳،۴۳۲ قرآنی تعلیم فطرت کے مشابہہ ہے میں حکمت ۳۲۰،۳۱۹ کامیابی قرآن کے ساتھ وابستہ ہے ۲۵۲ ۳۳۵ قرآن میں ہر چیز موجود ہے ۳۴۳ کتاب قرآن قیامت تک قائم رہنے والا قرآن ایمان سے سمجھا جا سکتا ہے ۳۴۳ سب سے اچھا جلیس کتاب ہے ۴۴۱ ۲۳۶،۲۳۵ قرآن کے مطالب الفاظ کی تہوں لائحہ عمل قرآن میں تمام اعلیٰ تعلیمات کے نیچے جمع ہیں ۳۳۶ قرآن زندہ کتاب ہے قرآن کریم کی افضلیت ۲۳۷، ۲۳۸ قرآن میں ہر قسم کے مضامین ہیں ۳۹۶ ۴۸۱ ۴۸۲ کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالیں ۴۴۰ کفر کے متعلق اللہ تعالی کا فیصلہ ۲۵۲

Page 694

کفر کی شکست دلائل کے زور سے ۲۵۷ | محنت کی کمی.مسلمانوں کی تباہی کا مسلمانوں کا نامبررة سفرة ۳۳۲ بڑا سبب ۳۰۰ مسلمان ابتدائی دور میں دُنیا میں زیادہ سے زیادہ محنت کی عادت ڈالو ۳۰۳ پھیل گئے گ گورنر جنرل مخالفت قرآنی گورنر جنرل کا دائرہ حکومت ۲۲۴ ۲۲۵ ۴۴۱ مسلمان جہاں گئے لوگوں کو اپنے مخالفت سے ایک شخص کی بیعت اخلاق کی نقل پر مجبور کیا مذہب لائبریری مذہب خود ایک سچائی ہے ہر جماعت میں لائبریری کھولی جائے مذہب نام ہے راستبازی کا مذہب اور اخلاق ہی جیتیں گے لجنہ اماء الله مذہب کی جڑ خدا پر ایمان لانا لجنہ اماءاللہ کورس جاری کرے مذہب کی بنیاد ا خلاق پر ہے لجنہ کا پروگرام تعلیم پھیلانا مرد ۱۴۰ ۱۴۴ لجنہ کے دفاتر کا تفصیلی خاکہ ۱۴۷،۱۴۶ لجنہ اماءاللہ کا دفتر بن گیا ماں آئندہ نسل پر ماں کا اثر ہوتا ہے مبلغ ایک مبلغ کی مشکلات مبلغین کے لئے دُعا کی تحریک ۴۲۹ ۱۶ ۳۷۴ ۲۸۲ مرد کا کام زمانہ کی اصلاح کرنا ہے مزارع ۴۳۴ ۴۳۵ ۳۲ ۳۳ ۱۴۲ ۳۵۷ ۴۸۷ ۱۳ سندھی مزارعین کی کیفیت ۲۶۸، ۲۶۹ ہمیں سب ملکوں میں مساجد بنانی پڑیں گی مسجد تبلیغ کا بہت بڑا ذریعہ ہے مسلمان ۱۶۳ ۱۶۳ ۲۲۷ مسلمانوں کا شفاعت کے بغیر گزارہ نہیں مسلمانوں کا تبلیغ اسلام سے تغافل مسلمان اتحاد سے دور جا پڑے مطمح نظر مطمح نظر کا اونچا کر نا تر قی کے لئے اہم ہے مظلومیت مظلومیت اپنے اندر طاقت رکھتی ہے ملاء اعلیٰ ملاء اعلیٰ کے فرائض منافق منافق کی علامات ۳۳۷ ۳۴۰ ۵۵۴ ۶۳۱ ۳۱۳ ۴۹۲ ۵۲۳،۵۲۲ منافقت منافقت سب سے خطرناک چیز ہے ۳۶۶ ۳۶۵ ۲۴۴ محنت کا خُلق ہمارے ملک میں مسلمانوں کے تنزل کی خبر مسلمانوں کی بقاء کا طریق کم پایا جاتا ہے

Page 695

" نظام مؤمن کی جان قیمتی ہوتی ہے ۱۵۸ نظام آسمانی میں دخل دینے والوں مؤمن غیرت مند ہوتا ہے ۱۶۲ سے سلوک ۳۶۵ نماز وحدت ۲۶۱ وحدت کامل ، وحدت صوری کے بغیر نہیں ہوسکتی ۶،۵ وعده جسمانی ضروریات پورا کرنے کا مؤمن کا حوصلہ بلند ہونا چاہئے ۳۶۴ نفس مؤمن قُربانی میں ہمیشہ آگے نفس کے معنی بڑھتا ہے مؤمن اور منافق میں فرق ۳۶۷ نماز کی صف بندی ایڑیوں کے ساتھ مهاجرین مہاجرین کی ابتدائی مشکلات ۴۱۲ ہوتی ہے ۲۲ ۲۱ وعده ۲۶۶تا۲۶۸ وعظ و نصیحت نماز کا تصور ہر مذہب میں ۳۵۷ وعظ ونصیحت زیادہ ہو تو بوجھ ہوتی ہے نمازی ۳۱۹ نبی ہر قوم میں نبی گزرا ہے ۳۹۹ نمازی اپنی نظر سجدہ پر رکھے نمونه ۲۳ هدایات DO نیک نمونہ پیش کرنے کی تلقین مضمون نویسی اور فن تقریر کے ۳۲۲ ۳۲۳ بارہ میں ہدایات ۴۴ تا ۴۹

Page 696

آیات قرآنیہ الفاتحه وَلَتَكُن مِّنْكُمْ (۱۰۵) (۱۰۴) | ۵۵۵ اهْدِنَا (۷،۶) ۴۲۲ لَقَدْ مَنَّ الله (۱۲۵) ۲۰۵ لَا تَسَبُّوا (۱۰۹) البقرة لَا يَغُرَّنَّكَ ( ۱۹۷) وَأَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتَابِ (۱۴) النساء ۲۴۹ 69 الاعراف فَسَجَدُوا (۱۲) ۵۲۶،۲۷۶ ۴۸۹ قُلْ يَأَيُّهَالنَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ (109) ١٩٩ ۶۴۴ يَأَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا (۲) وَعَلَّمَ آدَمَ (۳۲ تا ۳۴) ۵۱۳ | لَا تَقْرَبُوا الصَّلوةَ ( ۴۴) إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ (11+) وَإِذَا قِيلَ (۷۱) (۱۵۸) | ۴۸۰ ۶۴۵ | المائدة هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ (۱۸۸) ۵۳۸ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ (۲۵۶) (۴) ۵۰۸ لا إِكْرَاهَ فِي الدِّين (۲۵۷) ۸۸ فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ وَاتَّقُوا الله (۲۸۳) آل عمران (۲۵) | ۷۵ ۴۵۹ | الانفال مَا رَمَيْتَ إِذْرَمَيْتَ (۱۸) ۵۱۶ ۲۲۴ ۵۲۷ لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ (۴۳) ۲۵۶ ۲۴۱ وَأَطِيعُوا اللَّه وَرَسُولَهُ (۴۷) ۶۵۲ ۶۰۴،۳۷۰،۱۰۹ وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ (۴۵) هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَيْكَ (۸) ۴۸۳ يَأَيُّهَا الرَّسُولُ (۶۸) قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله (۳۲) وَالله يَعْصِمُكَ (۶۸) بِعِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ (۵۴) ۲۴۶ قُلْ يَاهْلَ الْكِتَابِ (۶۵) ۶۵۴ الانعام ۵۶۳ ۵۶۸ مَا كَانَ لِنَبِيِّ (۶۸) التوبة ۴۸۸ والشبقُونَ الأَوَّلُونَ (۱۰۰) ۵۸۲ كُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ (۱۱۹) ۳۲۰ هود وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَذَالْقُرْآنُ (۲۰) (<) ۴۸۳ قُلْ مَنْ يُنَجِّيُكُمُ (۶۵،۶۴) ۲۶۰ | يوسف ۲۶۶ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْل الله (۱۰۴) ۶۵۳ لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ ادْعُوا إِلَى اللَّهِ (۱۰۸) ۴۵۶

Page 697

ابراهیم الشعراء وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا لَئِنْ شَكَرْتُمْ (۸) ۳۳ وَانْذِرُ عَشِيرَتَكَ (۲۱۵) ۵۳۹ (۲۹ تا ۳۱) ۵۸۱،۲۲۵ الحجر النمل فاطر إِنَّا أَرْسَلُنكَ بِالْحَقِّ (۲۵) ۳۹۹ رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ (۳) ٢٣٠ أمَّن يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِنَّ الْمُتَّقِينَ (۴۶ تا ۴۸) بنی اسرائیل كُلًّا نُمِدُّ (۲۱) وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى (۷۳) (۶۳) / ۵۸۶ القصص ٢٤٦ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ (AY) ٢٨٣ | العنكبوت عَسَى أَنْ يُبْعَثَكَ (۸۰) ۶۱۴ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا ۲۷۸ ۵۸۰ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا (۲۵) وَأَقْسَمُوا ( ۴۳ ۴۴ ) الصفت إِنَّا زَيَّنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا (۷ تا ۱۱ ) ۴۶۴ ۲۴۹ ۲۶۱ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ (۸۲) (۷۰) ۲۵۲ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا لِلنَّاسِ (۹۰) ۴۸۲ | الروم وَقُلِ الْحَمْدُ لِلَّهِ (۱۱۲) ۵۰۵ | وَمِنْ ایله (۲۳) الكهف السجده قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ (III) طة إِنَّنِي أَنَا اللَّه (۱۶،۱۵) الانبياء مِنْ كُلِّ حَدَبٍ يَنْسِلُون (۹۷) الحج (۶) ۲۷۸ ۵۶۶ ۹۸ الاحزاب ۲۶۲ ۶۴۲ قُلْ إِنَّمَا أَنَا مُنْذِرٌ (۶۶ تا ۷۹) الزمر اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ ( الله ) قُلْ لِعِبَادِی (۵۵،۵۴) ۲۲۷ | المؤمن يَسْئَلُهُ مَنْ (۳۱،۳۰) إِنَّمَا يُرِيدُ الله (۳۴) ۵۳۸ | اللَّهُ الَّذِي جَعَلَ (۶۵) مَا كَانَ مُحَمَّدٌ (۴۱) ٤٦٦ | حم السجدة إِنَّ اللَّهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّه (۵۷) (۳۱) ۵۲۹ ظَلُومًا جَهُولًا (۷۳) ۵۱۸ الفتح سبا أُذِنَ لِلَّذِينَ (٤٠) ۳۸۸ لَا يَعْزُبُ عَنْهُ (۴) ۵۰۹ ق ۵۱۹ ۲۳۱ ۲۵۷ ۲۸۰ ۲۶۹ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ (۳۰) ۵۸۷ مَامَسَّنَا مِنْ لُغُوبٍ (۳۹) ۶۰۷

Page 698

۱۴ النجم الممتحنة وَهُوَ بِالْأفق الأعلى عبس وَلَا تُمْسِكُوا (۱۱) ۸۸ كَلَّا إِنَّهَا تَذْكِرَة (۱۲ تا ۱۷ ۵۷۵ ( ۸ تا ۱۰) ۵۲۶ | الصف البلد الرحمن هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (1+) هَدَيْنَهُ النَّجْدَين (۱۱) العلق ۲۶۵ (۳۱،۳۰) ٢٨٦ الجمعة الواقعه يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابِ (۳) ۱۵۵ فِي كِتَبٍ مَّكْنُون (۷۹) لَا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ ۲۳۶ القلم إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (۵) ۲۴۸ (A+) ۳۴۳ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ( ۲ تا ۴) العصر وَالْعَصْرِ ( ۲ تا ۴) الكوثر إِنَّا أَعْطَيْنكَ ۳۹۸ ۴۴۵ الحشر وَالَّذِينَ جَاءُ وُا مِنْ بَعْدِهِمْ المزمل إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا (۱۶ تا ۱۹) (11) هُوَ اللهُ الْخَالِقُ (۲۵) ۲۷۰ ۵۸۵ / المدثر يَأَيُّهَا الْمُدَّثِرُ (۲تا۸) ۲۲۳ ۵۳۱ (۲ تا ۴) الناس قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ (۲ تا ۴) ۵۹۷ ،۴۶۸

Page 699

۹۸ عیسائیوں کا زور ہوگا ۱۵ احادیث اِخْتِلَافُ أُمَّتِي رَحْمَةٌ ۶۵۳ يُفِيضُ الْمَالَ ی أَصْحَابِي كَا النُّجُومِ بُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ الْقُبُولُ ج جَفَّ الْقَلَمُ ث ۲۶۱ ۶۰۳ ۵۲۴ ۲۷۵ حدیث پالمعنى ۶۱۳ ( ترتیب بلحاظ صفحات ) میں نے تجھ سے کوئی خیر نہیں دیکھی ۹ جہاں دو ہوتے ہیں وہاں تیسرا خدا 1.آدھا دین عائشہ سے سیکھو ۱۳۳،۱۱ عَلَيْكَ بِالْجَمَاعَة ۶۵۳ میرے منبر پر سُور اور گتے ۱۲ ہماری مسجد میں نماز ادا کر لیں آه! میری خدیجه ۱۱۲ ۱۳۳ میرا دُنیا کی چیزوں سے کیا کام ۱۳۷ جس شخص کی دولڑ کیاں ہوں ۱۳۸ ۲۳۴ اس شخص کی حرکت خدا کو پسند ۱۹۴ شخص اگر ایمان ثریا پر بھی قیامت کے دن خدا کے سامنے ایک مجرم ۲۳۰ ۲۵۹،۲۵۸ ۲۷۳ ۲۷۸ ۳۰۹ جب کسی گھر میں بچہ پیدا ہو احسان یہ ہے آخری زمانہ میں ایک فتنہ دشمن سے لڑنے کی خواہش نہ کر و ۳۶۴ اللہ اپنے بندہ کے لئے بے تاب ۴۰۵ ۴۴۸ رہتا ہے جن کو ایمان نصیب ہوتا تھا ۲۲ ۲۳ ۶۱ ۸۰ ۹۲ ۹۶ ۹۶ لا ل لَا تَتَمَنَّوُا لِقَاءَ الْعَدُوِّ نماز میں جس کی صف سیدھی لَا تُفَضِّلُونِي لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ ۴۲۱ ۵۱۳ ۴۸۰ جو شخص دائیں بائیں دیکھے اگر کوئی پیاز کھا کر مسجد آئے عائشہ صبر کرو لَوْ لَاكَ لَمَا خَلَقْتُ الْأَفُلاكَ ۵۵۸ سيف من سيوف الله آنے والا مسیح شادی کرے گا مَنْ مَنْ فَارَقَ الْجَمَاعَةَ ۶۵۳ جو کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے مَنْ قَالَ هَلَكَ الْقَوْمُ ۳۲۳ سورج اور چاند کو گرہن

Page 700

۶۲۰ ۶۴۲۶۴۱ مَنْ كَانَ أَنْ يُلْقَى ۴۴۸ احادیث بالمعنى ۵۴۴ تا ۵۴۶ اگر میری بیٹی فاطمہ ایمان اُس عقیدہ کا نام ہے ۴۵۰ ۵۴۹٬۵۴۸ اگر کوئی بُری چیز دیکھو یہ میرے رب کی تازہ نعمت ۴۸۷ میں نے کبھی شرک نہیں کیا ۵۵۰ اگر میں انصاف نہیں کروں گا ۶۵۱ ۵۹۲ ایمان اُس کو کہتے ہیں ۴۹۳ میرا جی چاہتا ہے کہ

Page 701

۶۲۰،۵۹۳ ۱۹۲ ۱۹۲ 후궁 ۴۲۰ ۱۶۸ ۱۶ آیا آدم علیہ السلام حضرت ۲۵، ۲۲۶ ،۳۵۹،۳۵۷ ،۳۳۳،۳۱۹ ،۳۱۸ ۵۲۱،۵۲۰،۵۱۶،۳۶۰ آدم کی پیدائش پر در بار خاص اسماء آپ کی اسلام کے لئے غیرت ۵۹۴ اسامہ حضرت آپ کے پاکیزہ جذبات ۵۹۵ افتخار حسین خان ممدوٹ آپ کا حضور کی حفاظت کرنا ۵۹۸ افلاطون ابو جہل ۸۷،۸۶،۷۰، اکبر علی ؛ پیر ۱۱۱،۱۰۵،۹۲،۸۸ ۱۱۳ ۴۴۴۳۶۲ ، اکبر علی ؛ چوہدری ۴۹۱،۴۹۰، ۵۵۰،۵۱۷، ۵۷۷، الزبتھ ؛ ملکہ ۵۱۴،۵۱۳ کا انعقاد آدم سے مختلف تجلیات کا ظہور آدم سے مراد ۵۱۸،۵۷ ۵۲۱ ۶۱۳،۶۰۲،۶۰۱،۵۹۲،۵۸۹ ابو حنیفہ ، حضرت امام امتہ الحی ؛ حضرت ۱۷ حرم حضرت مصلح موعود ابوسفیان ، حضرت ۸۶، ۳۱۰،۳۰۹، امۃ القدوس ؛ صاحبزادی ۸۱،۷۹ ۵۸۹،۵۵۰ بیگم حضرت مرزا د سیم احمد ۴۱۹، ۴۲۰ آفتاب احمد؛ سردار ۷۸ تا ۱۸۱ ہر قل کے دربان میں گواہی ۴۵۴ امتہ القیوم صاحبزادی آمنه ؛ حضرت آئن سٹائن ۴۵۵ ۶۲۲۶۲۱ امته النصیر؛ صاحبزادی ۲۱۵ ۴۲۰ ۵۰۴،۵۰۱ ۲۹۳ ۲۶۶ لا لا ۴۰۱ لات ۹۶ حضور کی عظمت کا اقرار ۶۰۱ اور نگ زیب ،۲۵ ۵۱۳،۳۶۰،۱۰۲۲۶ ۲۸۱ ابراہیم علیہ السلام ؛ حضرت ابن حیان ابوبکر، حضرت ،۲۵۶،۲۵۰،۱۴ ۵۶۹،۵۴۰،۵۳۹،۴۴۰،۴۱۱ آپ کے خلیفہ بننے پر باپ کی حیرت ۵۸۵،۵۸۴ آپ کی حیرت انگیز جرات ۵۹۳ ۵۹۴ ابوطالب ؛ حضرت ۵۸۹ اوگلی ؛ مسٹر ابو قحافہ حضرت ۵۹۴٬۵۸۵٬۵۸۴ | ایڈوائر ابوهريرة : حضرت ایڈیسن کسری کے رومال میں تھوکنا ۲۱۹ ، ایمرسن ۳۳۶،۳۳۵ ۵۸۴،۲۲۰،۲۱۹ ان کی فاقہ کشی ائیلی وزیراعظم برطانیہ اروڑے خان ؛ حضرت منشی ان کا اخلاص KI با تو خان بالڈونہ بخاری : امام

Page 702

برکت علی خاں ؛ چوہدری بشیر احمد ، شیخ ایڈووکیٹ ۳۷۵ جنید بغدادیؒ، حضرت KZ ۵۱۱ دارا ۵۸۳،۵۰۴ ۱۸۳،۱۸۲، ۱۹۰،۱۸۷ تا ۱۹۲ جیکب (S.P.JACOB) ۱۷۳ داؤد علیہ السلام؛ حضرت ۴۶۳،۳۱۹ بلال، حضرت چ ان کی تکالیف ۴۴۹ ،۴۴۸ چرچل ۵۳۱ داؤ د احمد؛ حضرت سید ۶۴۸،۶۰۵،۴۶۵ ۴۱۹ بہاء اللہ ۲۳۳ تا ۲۳۵ چنگیز خان ۴۰۱ داہر ، راجہ ۳۳۷ تا ۳۳۹ بیٹی (BELTI) ۱۷۲ دین محمد ؛ شیخ ۲۰۰،۱۹۳ ۱۹۲ ۱۸۰ ۱۷۵ ۱۳۳ ط حجاج اس کی غیرت ایمانی ۳۳۷ تا ۳۳۹ ڈکسن حز قیل علیہ السلام ؛ حضرت 99 ڈگلس حسین ، حضرت امام ۹۴ حفصہ حضرت اُم المؤمنین ۱۳۷ ، رابعہ بصری رازی؛ حضرت امام ۴۸۵،۴۸۱،۲۸۱ ،۲۳۶،۲۲۵،۲۲۴ ۶۰۳،۴۶۴،۳۹۹ ۱۹۷ ۱۷۳ ۱۹۲ ۱۴ ،۲۳۶،۲۲۵ ۶۰۳،۲۳۹ رام چندر ۱۳۸ ۵۶۸،۵۶۷ حمزه حضرت ۹۶ ۶۴۷ ۱۹۱ ۱۹۰ ۵۸۴،۵۸۳،۴۰۱ ،۱۶ ترندی امام مملک تیجا سنگھ ؛سر تیمور ٹرومین ٹھا کر داس ۵۳۱ قبول اسلام کا واقعہ ۸۶ تا ۸۸ ۷۳ خ ۴۹۰ تا ۴۹۲ رشید احمد (امریکن) رلیا رام ثناء اللہ ، مولوی ۳۶۱۷۱۱۰، خالد بن ولید ؛ حضرت ۹۱ تا ۹۳ ۴۰۱۷ روشن علی ؛ حضرت حافظ ۴۳۴،۳۶۲ خباب ؛ حضرت ۵۶۶،۵۶۴ ریڈ کلف ج جلال الدین ( پولیس افسر ) خدیجہ حضرت اُم المؤمنين ،۸۲ ز ۵۴۲،۵۴۰،۵۳۹،۴۱۳ ،۸۳ ۱۷۵ آپ کا مقام حضور کی نظر میں جلال الدین شمس ؛ مولا نا زبیر حضرت زرتشت ، حضرت ۱۳۱ تا ۱۳۳ جماعت علی شاہ ؛ پیر ۱۷۲

Page 703

۳۷۵ ۵۷۹ ۱۹۲ ۱۹۲،۱۶۸ ۳۷۵ ۴۴۲ 19 زید حضرت ۱۱۱ ،۵۴۰،۵۳۹ | شجاع س ساره بیگم؛ حضرت حرم حضرت مصلح موعود سپیٹ ، ڈاکٹر ستیلواڈ ۴۲۰ ۲۰۰ ۱۸۲ ۵۰۴ عبدالرحمن انور شریف حسین شیخ ۱۸۸ عبدالرحمن بن عوف ؛ حضرت شوکت علی ؛ مولانا ۶۵۵ تا ۶۵۷ ان کی سادگی شہاب الدین سہروردی ۷ عبدالرحیم ؛ خواجہ شیبه شیرویه ۶۱۳،۶۰۲۵۷۲،۸۶ | عبدالرحیم درد؛ حضرت مولانا ۵۷۴ ۱۵۳،۱۵۲ عبدالرشید قریشی عبدالستار نیازی عبدالغفور ، مولوی b ۴۰۱ ۱۴ سراج الدین (عیسائی) ۱۷۴ سراج الدین صاحب؛ با بو ۱۶۴ | طارق بن زیاد سراقہ سعد حضرت سعد بن وقاص، حضرت سکندر سلطان احمد؛ حضرت مرزا سلمان فارسی ، حضرت ۵۷۰ | طلحہ : حضرت لد ۱۰ عائشہ ، حضرت اُم المؤمنين ۵۸۳ ، ۱۷۴ ۲۹۱ ۲۳۰ سلیمان علیہ السلام حضرت ۴۶۷ ،۸۰ عبدالقادر جیلانی ، حضرت سید ۴۸۶،۴۸۵،۱۷ ۱۳۲ ۱۳۳ ،۲۴۳، ۳۹۸، ۵۹۶۹ عبدالکریم سیالکوٹی، حضرت مولانا آپ کی معلومات مردوں سے آپ کا مشہور قول زیادہ ۲۴۲،۴۴ ۱۱ ۱۲ عبد اللطیف شہید ؛ حضرت صاحبزادہ ۳۹۴ آپ کی سخاوت ۵۷۹،۵۷۸ | عبدالله آهم ۱۱۲ ۱۷۴ عاص بن وائل ۶۰۱۸۶ عبد اللہ بن ابی سیتا سیف الرحمن ؛ مولوی ۴۶۴ ۶۸ عامر بن فهيره عباس ؛ حضرت ۱،۲۵۰ ۲۵ | اِس کے بیٹے کا اخلاص ۵۹۵،۵۹۴ ۱۱۴۱۰۷ ، عبد الله بن عمر به حضرت ۹۳، ۳۰۹ تا ۳۱۱ ش ۶۲۱،۶۰۱،۲۴۳ | عبد اللہ بن عمرو ۹۳ شافعی ، حضرت امام ۷ عباس ابراہیم ( سوڈانی) ۱۹۷ عبد اللہ کو مکم ۲۳۳ شاہجہاں ۵۰۴ عبدالبها ۲۳۴ عبد المطلب شیلی عبدالحق ؛ حضرت مرزا ۱۸۸ عبید اللہ سندھی ؛ مولوی ۵۷۲ ۴۸۵ ان کی توبہ ۵۰۹ تا ۵۱۲ | عبدالحمید ۶۵۶،۷۵ عبید، حضرت ۹۱،۹۰

Page 704

۲۰ عثمان ، حضرت ۶۱۳،۶۰۲،۵۸۹۰۸۶ ۲۵۶،۱۴ ۱۰۰،۲۶ تا ۱،۱۰۲ ۲۰۱۷ ۱۷ ، ۲۲۷ ، آپ کے زمانہ کے لوگ تقویٰ میں ۲۲۹، ۲۵۳،۲۳۸، ۳۶۰،۳۱۹، بڑھے ہوئے تھے عثمان بن مظعون ؛ حضرت ۳۷۴، ۴۴۰،۴۲۲۳۹۸، ۴۴۷، آپ کے مخالفین کی ایذا رسانیاں ان کی تکالیف ۵۹۸ تا ۶۰۰ ۴۵۱ ، ۴۵۹۰۴۵۷ تا ۴۶۵،۴۶۳، 12-119 ۶۰۵،۶۰۳،۵۵۲،۵۳۴، ۶۰۷ میاں محمود کو مطالعہ اخبار کی تلقین ۴۳۱ عزیز احمد ، حضرت مرزا KZ ۴۶۶ ، ۴،۴۷ ۴۷ ، ۴۸۲،۴۷۵، آپ کے الہامات عصمت اللہ (پیغامی) ۴۹۳،۴۹۲ عطاء اللہ شاہ بخاری ۱۷۷ وفات عیسی کے دلائل ۴۶۰ بعثت کا مقصد عکرمہ حضرت قبول اسلام ۷۰ تا ۷۲، ۸۸ تا ۹۰ آپ کی بہادری وایثار ۹۰ تا ۹۲ علی، حضرت ،۲۴۳،۵۷ ، ۱۴ ۵۹۳،۵۴۰،۵۳۹ ،۲۵۶،۲۵۴ عمر حضرت خلیفہ دوم ،۵۷ ،۱۴ ۱۳۶۰۹۳۹۰ تا ۲۴۱،۲۴۰،۱۳۸ ،۳۱۳،۳۱۰،۳۰۹ ، ۲۵۶ ،۲۵۴ ،۵۶۸،۴۶۰،۴۴۰،۳۶۵،۳۳۳ ۵۹۳ تا ۶۵۲،۵۹۵ آپ کے دور کا واقعہ ۳۳۳ تا ۳۳۵ آپ کا قبول اسلام ۵۶۴ تا ۵۶۷ خدمت خلق ۵۹۶ عمر و بن العاص : حضرت ۹۳٬۹۲ عنایت اللہ مشرقی ۴۰۱ ۱۶۵ عیسی علیہ السلام ؛ حضرت ۷ ، ۲۵ بعض عیسائی انہیں نبی مانتے ہیں آپ کا مطمح نظر، اسلام کا غالب غ غلام احمد قادیانی ؛ حضرت مرزا مسیح موعود علیہ السلام ۶۴۷ روحانی غلبه ۱۵۲ ،۴۵ ،۴۴ ۴۶، ۹۵،۹۴، ۹۷، ۱۰۰،۹۸ تا ۱۰۳، ،۱۶۸،۱۶۰،۱۳۰ ۱۲۹، ۱۰۶ ۱۰۵ ۱۰۱۶۹ ۱۷ تا ۱۷۶ ۱۹۵۰ ، ۲۶۲،۲۵۴، ،۳۱۹،۳۱۸،۳۰۷ ،۳۰۶،۲۸۳ ،۳۶۸،۳۶۷ ،۳۶۵،۳۶۱،۳۲۱ ،۴۳۴ ،۴۳۲،۴۳۰،۴۲۹ ،۳۷۰ آپ کا تصور جہاد ۴۴۳ ۴۷۶،۴۷۵ ۴۸۸ ،۴۸۷ آپ کو آدم قرار دینے میں حکمت ۵۲۲ آپ پر اعتراض کا جواب ۵۴۴ آپ کا دُنیا کو چیلنج غلام غوث سیٹھ غلام فریدایم ایل اے غیاث الدین تغلق ۴۵۱ ، ۴۵۷، ۴۶۱،۴۵۸، ۴۶۷ ، فاطمه به حضرت ۴،۴۶۹ ۴۷ ، ۴۷۷ تا ۴۸۵،۴۸۲، فتح مسیح ف ۶۲۲۵۰۱،۴۸۷ فرخندہ بیگم (بی اے بی ٹی ) ایک عیسائی لڑکے کا علاج ۱۶،۱۵ فرزند علی صاحب؛ ڈاکٹر آپ کے ذریعہ اسلام کا احیاء ہوا ۲۶ فرعون ۵۴۵ ۶۱۴ ۳۰۸ ۱۸۸ ۲۱۷ ،۲۱۳ ۶۲۰ ۱۷۴ ۱۴۰ ۱۶۴ ۲۲۳،۱۳۱

Page 705

۲۱ فضل ، حضرت قابیل قبلائی خان قیصر کبیر الدین؛ شیخ ۹۲ ۳۵۹ ۴۰۱ ۲۱۹ لیکھرام مارٹن کلارک مارٹینو مالویه ۱۸۸ مبارک احمد؛ حافظ محبوب عالم ؛ مولوی کرشن علیہ السلام ؛ حضرت ۲۲۴ ۶۰۳،۴۶۴،۳۹۹ ،۲۳۶،۲۲۵ ۴۸۵ | ۵۳۸،۵۳۶ ، ۵۴۰ تا ۵۴۳، ۵۴۷ تا ۵۵۳، ۵۵۸ تا ۵۶۶۰۵۶۴،۵۶۰ تا ۵۹۳،۵۶۸ تا ۶۰۱،۵۹۷،۵۹۵، ۷۵، ۱۷۴ ،۶۵۰،۶۴۷ ،۶۴۵ ،۶۴۱،۶۳۲۶۳۱ ۷۵، ۱۷۴ ۶۴۷ 2^ ۱۸۸ محمد ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۱۹، ۳۳۶ حضرت خاتم الانبیاء ۱۱،۹، ۱۲، ۱۴ ، ۵۷۳ ۱۹۷ ۶۵۴، ۶۵۷ تا ۶۵۹ حضرت عائشہؓ سے محبت ۸۰ نواسے سے پیار ۸۱،۸۰ حضرت خدیجہ سے تعلق ۸۱ تا ۸۳، ۱۳۱ تا ۱۳۳ عکرمہ سے سلوک ۷۰ تا ۷۲، ۱۶، ۲۳،۲۲،۱۷، ۲۶،۲۵ تا ۶۱،۲۸، ۶۹،۶۸، ۸۳۷۹ تا ۹۲٬۸۵ تا ۱۰۰ ، وادی عقبہ میں معاہدہ ۱۰۳ تا ۱۰۶ ۱۰۹ ۱۲۴،۱۱۵،۱۱۰ ، ۸۸تا ۱۱۳۹۰ کسرای کسرای کوخدا کی سزا کنزے گاندھی گرس و ولڈ ؛ ڈاکٹر گوتم بدھ گو کھلے لاٹ (پادری) لانڈ جارج لبيد لائیڈ جارج لوط علیہ السلام ؛ حضرت لیاقت علی خان ،۱۹۴،۱۷۱،۱۹۸ ،۱۶۷ ، ۱۵۴ ، ۱۲۹ ۵۳۱،۳۲۲ ،۲۲۱،۲۲۰،۲۱۹ ، ۲۰۷ ، ۲۰۰ ، ۱۹۹ ۱۷۳ ۲۱۵ ،۲۱۴ ۶۴۷ جنگ بدر سے قبل مشورہ غلام کو تبلیغ کرنا 101.12 1+1 ۱۱۲ ۱۱۱ وفد نجران کو عبادت کی اجازت ۱۱۲ ۲۲۷ تا ۲۳۰ ۲۳۴،۲۳۳، ۲۳۸، ۲۴۵ ،۲۵۰ تا ۲۵۲ ، ۲۶۱،۲۶۰،۲۵۷، ۲۷۶،۲۷۳، ۲۸۲،۲۷۸، ۳۰۸ تا ۳۳۵،۳۱۹،۳۱۰ تا ۳۳۷، ۳۵۷، ۳۶۰ تا ۳۶۶،۳۶۴، ۳۷۱،۳۶۷، مہمان نوازی کا واقعہ آپ کی قوت قدسیہ ۱۱۳ ۵۷۲،۱۱۴ بیویوں سے علیحدگی ۱۳۶ تا ۱۳۸ آپ کا استغفار جنگ حنین میں انصار کو بلانا ۱۳۹ 17.،۴۰۰،۳۹۳،۳۹۱،۳۷۷ ،۳۷۳ ۵۹۹ آپ کے تقرر پر قرآنی ۴۲۱،۴۱۴، ۴ ۴۳ ۴۴۴ ، ۴۴۸ تا ۴۵۰ ،۴۶۴ ،۴۶۰،۴۵۸ ،۴۵۵،۴۵۴ ،۱۰۲ ۴۶۵،۴۶۴ ۴۳۶،۱۳۴ ،۵۱۲۵۰۶،۴۹۳ ،۴۸۰،۴۷۳ ،۵۳۴،۵۳۲،۵۳۰،۵۲۳،۵۱۳ دیوان عام سے اعلان ۲۲۲ تا ۲۲۴ آپ کی دائمی حکومت کا اعلان ۲۲۵ تا ۲۲۷

Page 706

آپ کی ایک پیشگوئی کا پورا ہونا اہل مکہ سے وفا ۲۲ ۴۱۲ آپ کے ارشادات صفائی ۲۳۰ آپ کو حضرت خدیجہ کا کے بارہ میں ۵۴۴ تا ۵۴۷ آپ کی شادیوں میں حکمت ورقہ بن نوفل کے پاس لے جانا آپ کا مقام صبر بیویوں سے سلوک ۲۴۳ ،۲۴۲ ۲۴۳ ۴۱۳ ورقہ بن نوفل کی بات پر آپ آپ کی شجاعت آپ کا انصاف ۲۵۴ تا ۲۵۶ ، کی حیرت ۶۲۱،۶۲۰ آپ کا مزاح ۴۱۳ ۴۲۲ ،۵۶۲،۵۶۱ ۶۲۰،۶۱۹ ،۵۸۸،۵۷۱ ۶۱۹،۵۹۰،۵۸۹ آپ کی دائمی حکومت کا اعلان ۵۸۱ آپ کی زیارت رویاء کشوف سے آپ کی شہادت کی افواہ ۴۴۵ ایذا رسانیاں ۲۶۵،۲۶۴ بارش دیکھ کر رد عمل ۴۸۷ ایک دشمن کا تلوار سے قتل آپ کا مردم شماری کرانا ۳۳۲ ۳۳۳ آپ کی شان خاتم النبیین ۴۶۱، کا ارادہ ۴۶۴،۴۶۲ تا ۴۶۹ ۶۰۲۰ جنگ احد میں شدید زخمی ہونا آپ کے حالات متنوع تھے ۳۹۴ آپ کی بعثت اور اغراض ۲۱۷، کسرای کی طرف سے گرفتاری ۲۱۸ ۴۰ ۴۷ ، ۷ ۴۷ ، ۶۰۵ کا حکم ۵۷۰ ۵۷۱ ۵۷۳ ۳۹۵،۳۹۴ بعثت کا اعلان در بار خاص میں بنو نضیر کا پتھر گرانے کی کوشش ۵۷۴ آپ کی سیرت کا احاطہ قرآن نے کیا آپ کے حالات قرآن میں تہہ بہ تہہ ہیں غار حرا میں عبادت ۳۹۶ تا ۳۹۸ ۴۰۱ میں ۵۲۱،۵۲۰ یہودی عورت کا کھانے میں ۳۹۶ آپ ایک عظیم الشان آدم ہیں زہر ملانا ۵۲۲۵۲۱ گلا گھونٹنے کی کوشش آپ کوئی کام بلا دلیل نہ آپ کا شاندار اعزاز در بارالہی طائف میں تکالیف کرتے تھے آپ پلا دلیل بات سننے کو تیار رشتہ داروں اور دوستوں کو تبلیغ نہ تھے ۴۰۴،۴۰۳ کا حکم خدا نے آپ کو تربیت کے پہلی وحی کے بعد ردعمل کمال تک پہنچایا آپ کا وطن سے پیار ۴۰۶ ۴۱۱ ۵۲۵ تا ۵۲۸ ابو جہل کا تھپڑ مارنا ۵۳۷، ۵۳۸ خدا کی طرف سے تسلیاں ۵۳۹ ۵۷۵۰ ۵۷۴ ۵۹۸ ،۸۷ ،۸۶ ۴۹۱،۴۹۰ ۵۶۳ ۵۸۰ دُنیا میں غلاظت مٹانے کا حکم آپ کی حفاظت ۵۶۸ تا ۵۷ ۵۴۲ ۵۴۳ آپ کی سخاوت ۶۲۰،۵۹۱

Page 707

۲۳ غریب پروری ،۵۷۷ ،۵۷۶ آپ کے صحابہ کو قیصر و کسری آپ کو کثیر الخیر وجود عطا کیا گیا ۵۹۲٬۵۹۱ کے خزائن ملے ۶۰۴ آپ کو لا تعداد برکات اور آپ کا تو کل ۵۷۰۵۶۹ ہر خیر و برکت کی کثرت دی گئی ۶۰۴، انعامات سے نوازا گیا ۵۷۰،۵۶۹ ۶۱۳ ۶۱۳ ۶۰۵ آپ کو مقام محمود کا ملنا ۶۱۴ تا ۶۲۳ دشمن کا تعاقب کرنا حلف الفضول میں شمولیت ۵۷۶، آپ ہر کمال میں منفرد ۶۰۵، آپ کی تعریف دشمن کے ۵۷۷ ۶۱۶،۶۱۵ منہ سے ۶۱۶ تا ۶۲۲۶۲۱،۶۱۸ ابو جہل سے ایک شخص کو آپ کی امور غیبیہ میں راہنمائی اخلاق فاضلہ کے لحاظ سے قرض دلانا ۵۷۸،۵۷۷ ۶۰۶،۶۰۵ | بلند مقام آپ کے غیر معمولی تقوی کا واقعہ آپ نے خدا کو مادی قیدوں سے آپ کی رحم دلی ۵۷۸ پاک قرار دیا ۶۰۷ آپ کے تقسیم اموال پر آپ اور صحابہ کا عظیم خطاب ۵۸۷، آپ نے رسالت اور کلام الہی ۵۸۸ کی ضرورت کو واضح کیا عمائد قریش کے آنے پر چچا ملائكة کے متعلق آپ کی کو جواب ۵۹۰،۵۸۹ | راہنمائی ۶۰۸ ۶۰۸ اعتراض محمد اسلم ؛ قاضی محمد اسمعیل ؛ حضرت میر عورتوں کی تکلیف کا احساس ۵۹۲ آپ نے بعث بعد الموت پر محمد اعظم سیٹھ عبادت میں استغراق ۵۹۶ روشنی ڈالی ۲۰۹ محمد بن قاسم آپ کو خیر کثیر دی گئی آپ نے شریعت کو اللہ کا بھاری محمد حسین بٹالوی ، مولوی آپ کی روحانی اولاد ۶۰۲ فضل قرار دیا ۶۱۰ ۶۱۹ تا ۶۲۲ ۶۲۰ ۶۵۲ ۴۲۰،۴۱۹ ۳۰۸ ۴۰۱،۳۳۹ ،۹۵ ۱۰۰ تا ۱۶۹۰۱۰۳ ،۰ ۱،۱۷ ۴۵۲،۴۵ مکہ میں دس ہزار صحابہ کے ساتھ آپ نے ہر لحاظ سے کامل تعلیم اس کی ذلّت آپ کا داخلہ ۶۰۲ پیش کی ۶۱۱ محمد حسین حکیم مرہم عیسی آپ کو افضل ترین کتاب ملی ۶۰۲ آپ نے تعلیم حکمت کا کام کیا ۱۱ محمد صدیق ، مولوی ۱۷۵ تا ۱۷۷ آپ رحمۃ للعالمین ہیں ۶۰۳ آپ نے تزکیہ نفوس کا کام محمد ظفر اللہ خان ؛ حضرت چوہدری آپ کو ہر قسم کے خدام عطا بہترین رنگ میں کیا کئے گئے ۶۰۴۶۰۳ آپ نے بتایا کہ خدا حکیم ہے ، ۱۸۴،۱۸۲،۱۵۹ ۱۵۸ ۱۵۴ ۶۱۲ ۶۱۲ ۱۸۵ تا ۳۰۱،۱۹۱،۱۸۸

Page 708

۲۴ محمد علی ؛ مولوی (امیر لاہور جماعت دیوبند کے طلباء سے گفتگو ۱۰۵ محمد علی ؛ مولانا ( برصغیر کے لیڈر ) آپ کا کام ۶۵۶،۶۵۵ غار حرا میں دُعائیں محمد قاسم نانوتوی محمد منیر جسٹس ۱۹۲ ۳۶۳،۳۶۲ بیان فرمودہ روایات ۳۷۶ بیان فرمودہ واقعات ۳۹۷ آپ کی جامع دعائیں ۱۲۳ ۱۲۴ ، ۲۸۲ تا ۴ ۲۸ ، ۴۲۴ ، ۴۳۹،۴۲۷ ۳۰۶ ۴۳۵،۴۳۴،۳۰۷ allfall ۲۹۲،۲۶۴،۲۶۳،۲۴۸ تا ۲۹۵ ،۳۶۱،۳۰۸ ،۳۰۶،۳۰۳،۳۰۰ ۳۶۲، ۴۵۰،۴۴۹، ۵۰۹ تا ۵۱۲، محمود احمد حضرت مصلح موعود ۲۴۳ ، آپ کے رویا وکشوف ۲۶۵ ۵۵۸،۵۵۷،۵۵۴،۵۵۳ ۶۷ ۱۰۴ ۱۲۰ ۱۲۱ ، ۱۲۸ ،۱ ۳۶۱،۱۵، آپ پر محکمات اور متشابہات بیان کردہ قصے ولطائف ۳۹۱،۳۶۲، ۴۲۳،۴۲۰،۴۱۹، کے معنی کھولے گئے ۴۲۴ ، ۴۲۸ بیویوں سے حسن سلوک ۴۸۳ ۲۴۲ ،۱۶۶ ،۴۸۶،۴۸۵،۴۳۰،۴۲۹،۳۲۴ ۶۴۲۶۳۷ آپ کے بچپن کے واقعات ۷۷، آپ کے سیالکوٹ لیکچر میں محمود غزنوی ۳۲۱،۳۲۰،۱۴۳،۱۴۲،۷۸ پتھراؤ ۳۴۳،۳۴۲ ۲۸۴ ۱۷۴ ۵۰۴ آپ کی تعلیمی حالت آپ سے خلیفہ اول کی شفقت فلسطین میں یہود بسانے پر مریم علیہ السلام ؛ حضرت ۵۵۲،۱۳۱ ۴۹۲ محی الدین (ایک عیسائی) مسلمانوں کی ذلّت پر غم ۲۱۶ ، ۲۱۷ | مراد ۴۳۶ مریم صدیقہ حضرت سیدہ مسلم امام ۷۸،۷۷ | تشویش خلیفہ اول کا سوالات سے روکنا تحریکات ۷۹۷۸ ۱- دفتر لجنہ کے لئے آپ کا وسعتِ مطالعہ ۱۰۴ ، ۱۰۵ چندہ کی تحریک آپ کا سوا دو میل تیرنا ۵۸ ۲ - مسجد ہالینڈ کے لئے تفخیذ جاری کرنا ۴۳۰،۴۲۹ مسیلمہ کذاب اس کی ناکامی مشتاق احمد چوہدری ۱۴۰ ۹۶ ۵۹۰ ۱۵۴ ۴۳۱،۴۳۰ مطیع الرحمن صاحب بنگالی ۳۰۴ چندہ کی تحریک آپ کے سفر ۵۳۲٬۵۰۲۲۶۸ ۳.مسلمانوں کے لئے دہریہ سے تبادلہ خیال ۱۷۱ دعا کی تحریک بہائی عورتوں سے گفتگو ۳۳۵،۲۳۳ ایک احمدی کی آپ سے ۴۳۶ معاویہ حضرت ۳۰۹،۱۶ تا ۳۱۱ معین الدین؛ پیر معین الدین چشتی " ، حضرت خواجہ ۴۲۰ انگریزوں سے گفتگو ۲۴۲،۲۴۱ عقیدت

Page 709

۲۵ مغله جھنگ کے ایک مخلص احمدی.،۴۶۴،۳۹۸،۳۶۰،۲۸۴،۲۲۶ ۴۶۵، ۵۲۹،۵۱۳،۴۶۷ | ہابیل DO سچائی میں بے مثال ۲۹۲ تا ۲۹۵ نورالدین ؛ حضرت خلیفہ اوّل ۱۵ ، ہارون علیہ السلام ؛ حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت ،۲۵ ،۲۲۴،۲۲۳،۱۳۱،۱۰۸ ،۹۶،۲۶ ۷۷، ۷۸ ۱۰۰ تا ۳۲۱،۱۲۹،۱۰۳، ،۵۴۴،۴۸۵،۴۵۲،۴۴۹،۳۶۷ ہٹلر ملا کو ہندہ ۳۵۹ ۳۷۷ ۶۴۹،۴۰۱،۳۲۲ ۲۳۰ ۵۵۲،۵۵۱ ۴۵۵،۴۵۴ ۳۱۹ ،۱۶ ،۱۴،۱۳ ،۱۲ ۳۰۹ تا ۳۱۱ ۴۵ ،۴۴ ۴۵ ،۴۴ اس کا قبولِ اسلام ہر قل ی یحیی علیہ السلام ؛ حضرت یزید یعقوب بیگ، مرزا یعقوب علی عرفانی ؛ حضرت شیخ یوسف علیہ السلام؛ حضرت ۶۰۰ ، ۴ ۴ ۴ ،۱۱۲ ۵۱۳ یونس علیہ السلام ؛ حضرت ۵۵۳،۵۴۵ ۴۵ ،۴۴ ZA ۲۶۶ ۱۷۴ ۴۱۳ ۴۱۹ ۱۷۰،۱۳۴ ۱۵۳ ۶۰۲۶۰۱،۸۶ ۶۱۸،۶۷ پ کا انداز تقریر نوشه؛ حضرت نیوٹن وارث مسیح ورقہ بن نوفل وسیم احمد ؛ حضرت مرزا ،۳۱۹،۲۳۹،۲۳۶،۲۲۹ ،۲۲۷ ،۲۲۶ ،۴۱۳،۳۹۸،۳۷۷ ،۳۷۰،۳۶۰ ،۴۶۵،۴۶۳،۴۶۱۴۶۰،۴۲۲ ۶۴۸،۶۰۵،۶۰۳،۵۱۳،۴۸۲،۴۶۶ ۵۳۱ ۱۵۵ ۴۰۱ ۱۶ میکارتھ ، جنرل ناصر احمد نپولین نذیر احمد چوہدری نظام الدین ؛ مولوی نعمت اللہ خان بہادر نوح علیہ السلام ؛ حضرت ۱۹۲ وکٹوریہ؛ ملکہ ۱۰۱ تا ۱۰۴ ولی اللہ شاہ؛ حضرت سیّد ۴۵۱ تا ۴۵۳ ۲۹۵ ۲۵ ولید ولیم میور

Page 710

آسٹریلیا آگرہ آ.۶۳۳،۱۷۰ له الله الله ۲۶ مقامات انگلستان (برطانیہ) الله 66 ،۲۳۴،۲۳۳،۲۲۵ ،۲۰۰،۱۹۶۰ ۱۷ ۱ بور نیو بہار ۱،۲۵۲ ۴۷ ۰۴ ۶۵۴،۶۳۳،۶۳۲،۵ | بھیره ۱۸۸، ۲۰۷ | بیکانیر اٹلی ۶۳۳،۱۹۶ اوکاڑہ ارجنٹائن ۱۹۶ | ایران اُردن افریقہ ۶۵۷،۶۵۲ ،۲۲۵ ،۱۹۷ ، ۱۷ ،۲۱۹ ،۱۹۷ ، ۱۹۶ ، ۱۳۰، ۵۷ ،۳۳۶،۳۳۵ ،۳۳۳،۳۰۰،۲۳۹ دل لد لد له ولد ولد الله الهه لده ۶۰۳،۳۸۲،۳۳۷ افغانستان ۱۹۷ ، ۶۵۷ ایشیا ،۵۷۶،۵۷۳،۵۰۹ ،۴۹۰،۴۷۷ ۶۵۷ ،۶۰۳ ،۱۹۹،۱۳۰،۵۸ ۶۰۳ امرتسر ، ۱۷۴ ، ۱۷۳،۱۵۸،۱۱۰ پاکستان له له له الد له لدله الدله الله ۸۳٬۸۱،۷۹ ،۷ ۲۹۳ ،۱۶۱،۱۴۵ ، ۱۴۴۶۰،۴۸ ،۱۸۰، ۱۷ ۱۱۶۸،۱۶۷ ، ۱۶۳ ۱۶۲ ۱۸۴،۱۸۳،۱۸۱ ، ۱۸۷ تا ۱۹۰ ۱۹۳ ، ۱۹۷ تا ۲۰۴،۲۰۲، ۲۰۵ ، ۲۰۷، ۲۰۸ ، ،۳۷۶،۳۴۲،۳۳۹،۲۵۴،۲۲۰،۲۱۶ ،۴۴۳،۴۴۲،۴۳۸ ،۴۳۳،۳۸۳ ۵۴۵،۴۱۴ ،۲۰۵،۱۸۸ ، ۱۷۵ ، ۱۰۹ ،۹۹،۲۶ ،۱۷ امریکہ ، ۱۹۷ ، ۱۹۶۷۱ ، ۱۶۳ ،۱۴۶،۱۳۰ ،۲۵۲،۲۳۴،۲۳۳،۲۳۲،۲۲۵ ،۲۰۰ بٹالہ بخارا ۱۹۱ ۱۵ ،۵۰۸ ، ۴۹۰ ، ۴۷۷ ،۴۷۳،۴۷۰ ۶۳۲ ۶۵۸،۶۵۷،۶۵۲۶۴۰،۶۳۸ بربر ۵۷۶ پٹھانکوٹ ۱۹۱ برلن الده ۳۰۱،۲۹۲،۲۷۲، ۴۷۱،۳۴۹ تا ۴۷۳، برما ۵۸۱،۱۹۶،۱۳۰ | پٹیالہ لد الد ۴۷۵ تا ۴۷۷ ۶۳۲۶۲۲،۴۹۰، بصره انڈونیشیا ۶۳۸،۶۳۳ bi الدله الله.انڈونیشیا میں دس ہزار احمدی ۶۵۷ ،۱۹۷ الد الدلد بغداد بغدا داسلام کا عظیم مرکز تھا ہمیتی بنگال ۳۳۹ پشاور ۵۰۹ | پنجاب ۲۳۰ له الله اا.،۲۳۲،۲۳۱،۱۳۴ ۶۴۰،۶۳۲،۴۴۲،۳۳۹ ۴۴۲،۲۱۶ ،۱۷۸،۱۶۱،۱۵۷ ،۱۴۱ ۳۶۳ ،۲۰۸،۲۰۷ ،۲۰۴ ،۲۰۳ ، ۱۹۷ پولینڈ لد لد له ولد الد ولد الله ۶۳۲،۴۰۱

Page 711

ثبت ۲۳۰ دمشق ترکستان ۲۳۰ | دهلی ترکی ٹانگانیکا 2 ولد لدلله الله ۲۷ ۵۵۷ سپین ۱۰۳،۱۰۱،۳۱، ۲۱۳ ۲۱۴ ، سعودی عرب س ۳۳۷ ،۲۷۳،۱۹۶،۱۳۰ ،۳۸۲،۳۷۳ ۴۹۷ ،۲۷۶،۲۳۲،۲۲۹ ،۲۱۷ ،۲۱۶ ۶۵۵ تا ۶۵۷ | دیوبند ۱۳۰ ،۱۹۹ رام پور راولپنڈی جاپان ۶۳۳۹۹ جالندھر ۱۷۴، ۱۸۸ ، ۲۰۷، ۴۱۴ | ربوه جاوا الدلد جرمنی ،۲۲۵ ،۱۴۵ ،۱۳۰،۵۸ ۶۵۴۶۳۳،۲۷۳ ۴۵۲ ۲۹۵،۲۹۲،۸۳ جموں جھنگ چ چین ،۲۳۰،۱۹۷ ،۱۹۶ ،۴۸۹،۴۷۸ ، ۴۷ ۲۳۳۷ ۶۴۰،۶۳۵،۶۳۲٬۵۸۳ حبشہ ( ایسے سینیا) 17'60' ۵۹۸،۴۱۲،۳۳۲،۱۹۹، ۱۳۰، ۱۱۳ حیدر آباد دکن وله الد له الله ۶۳۱،۳۰۸ ۳۶۲ سماٹرا سندھ لداه له ،۱۷۹،۷۸،۱۹۸ ۴۴۲،۲۰۷ ،۵۷،۵۳،۴۳،۲۱ سوڈان ۶۵۷ ،۴۷۰ الدلد ،۲۱۳،۲۰۰،۱۹۲،۱۶۱ ۲۶۸، ۳۳۷ تا ۴۷۸،۳۳۹، ۶۴۰،۶۳۲۶۳۱ +2126127619 ۴۷۳،۴۷۰،۴۳۶ ۶۵، ۱۱۹ ، ۱۲۷ ، ۱۵۱، ۲۱۳،۱۶۷ ، سویٹزرلینڈ ۲۹۵،۲۸۹، ۳۲۹،۳۲۱،۳۱۷، سیالکوٹ ۳۳۶،۳۳۲، ۳۸۴،۳۸۱،۳۵۷، سی پی ۳۹۶،۳۹۱، ۴۱۹، ۴۲۷ ، ۴۲۸، سیرالیون ربوہ میں جلد مکان بنانے کی تحریک اله.۴۹۲،۱۷۲ ۶۳۲ b اله.761 3 hb الله ۶۴۰،۴۹۷ سیلون ۵۸۱،۳۳۷ ،۱۹۹،۱۳۰ ش ۱۵۶ شام (سیریا) شکر گڑھ ۶۵۷،۶۵۲،۴۳۶،۳۷۳ 191 ۶۵۶،۵۳۳ ربوہ کی آبادی میں مشکلات ۱۹ ، ۱۵۷ رن مل ( ضلع گجرات) روس 66’621970' V7 شمله روم ۶۳۳،۴۹۰،۴۸۹ شنگھائی شیخو پوره زیکوسلواکیہ ۳۴۸ طائف ۲۳۳ ۵۶،۵۵ ۶۱۹،۳۷۷ ، ۱۱۱

Page 712

عراق ۲۸ ع ۳۳۷، ۳۷۳،۳۳۸، کاکیشیا ۶۳۲ لبنان ۵۰۲،۴۱۴۳۶۷ | لدھیانہ ۶۵۲٬۵۷۶، ۶۵۷ کپورتھلہ کراچی غانا ف فتح پور سیکری له الله فرانس فلپائن فلسطین ،۲۲۵ ،۱۹۶،۵۸ ۶۵۴۶۳۳،۴۷۱،۲۷۲ ۴۹۰،۴۸۹ ۴۳۶،۳۷۳،۲۲۴ ۱۹۶ فیروز پور ۵۳۲،۳۰۷ ق قادیان ، ۱۰۱ ، ۱۰۰،۵۷ ، ۱۵ کربلا الکھنو لنڈن ،۱۴۵،۶۶،۳۲،۳ ،۲۳۳،۲۱۳،۱۷۸ ،۱۶۸ ۴۴۲،۳۸۴ ۵۵۴ لیسا ۱۷۸ تا ۶۵۸،۴۳۶،۱۸۲ ۱۱۰ ۳۶۲،۳۶۱،۱۱۱ | ماریشس کینیا کینیڈا گجرات گورداسپور ۱۵۹،۱۵۲۱۴۲،۱۱۰،۱۰۳ تا ۱۶۱، ،۱۸۳،۱۸۲،۱۷۷ ، ۱۷۵ ، ۱۷۴ ، ۱۶۴ ،۴۷۳،۴۷۰،۱۳۰ ۶۵۷ ، ۴۷۴ لد اله ۶۵۶،۴۳۴ ،۱۴۶،۱۰۹،۳۱ ۲۰۰،۱۷۵، ۱۶۳ ۱۰۶،۵۷ تا ۱۳۲،۱۰۸، مدینہ ۶۳۸،۳۸۴ ،۱۳۱۱۲۰ ،۲۵۱،۲۱۸ ،۲۱۷ ، ۱۹۴ ،۱۳۷ ، ۱۳۶ ۱۹۹،۱۳۰ ،۴۳۶،۴۱۲،۴۱۱،۳۷۷ ،۳۳۲،۳۰۹ | ۹۳۳،۱۹۹،۱۷۰ ۳۰۸،۹۷،۷۸ ،۵۷۴،۵۷۳،۵۷۰،۴۴۵ ۵۹۳ تا ۶۳۲،۶۱۹،۵۹۸،۵۹۵ ۱۸۳،۱۷۵،۸۳، | مصر ،۱۹۳، ۱۹۱،۱۹۰،۱۸۸ ،۱۸۶،۱۸۴ ۱۸۴ ، ۱۹۱،۱۸۷ ،۱۹۵ ، ۱۹۷ تا ۱۹۹ ، گولکنڈہ ،۲۹۴ ،۲۸۴ ، ۲۴۴ ، ۲۰۵ ،۲۰۳،۲۰۲ ۳۰۸،۳۰۷ ،۳۰۶،۳۰۲،۲۹۵ ،۳۶۷ ،۳۶۴،۳۶۱،۳۴۱،۳۲۰ قاہرہ لائل پور لاہور ۴۱۴ ،۲۹۳،۲۰۷ ،۲۰۵ له الله لدلدله له خاله ۱۰۰،۸۴ تا ۱۴۵،۱۰۳، ،۴۵۱،۴۳۹،۴۳۱،۴۱۹ ،۳۹۳ ،۱۷۸ ۱۷۷ ، ۱۶۴ ، ۱۵۹ ، ۱۵۷ ، ۱۵۲ ۵۵۳،۴۸۵،۴۵۳ ،۳۹۳،۳۸۵،۳۰۶ ،۲۰۷ ،۱۸۲ ۳۵۱ ۴۵۲،۴۴۲ له لد له ولد الله حاله ،۴۷۳،۴۷۰،۴۳۶،۳۷۳،۳۵۱ ۶۵۷،۵۷۶،۴۷۷ ، ۴۷۴ ۳۳۸،۳۳۷ مکران ۷۰ ۸۶،۸۲،۷۱تا ۹۰، ۱۰۶ تا ۱۰۸ ۱۱۱۰ ،۱۳۲،۱۱۳، ۱۳۷ ، ،۳۹۸،۳۶۲،۳۵۱،۳۳۲،۱۹۴ ۴۱۱ تا ۴۳۶،۴۱۳ ۴۴۴، ۴ ۴۹۱،۴۵، ۵۶۴،۵۵۱، ۵۶۷ تا ۵۷۲،۵۶۹، ،۵۸۹،۵۸۴،۵۷۹،۵۷۷ ، ۵۷۶

Page 713

ملایا ملتان نٹگمری نائیجریا ننکانہ نواکھلی نینوا ۲۹ ۴۱۲ ۵۷۳ ۵۷۴ ۶۳۲،۵۰۳ ،۲۶۷ ،۲۴۴ ،۲۲۹،۲۲۵ ،۲۱۶ ،۲۱۴ ،۱۳۵،۸۸،۳۰ ۳۵۱،۳۴۰،۳۳۹،۳۳۷ ،۲۸۴ ۱۴۴ ، ۱۶۰،۱۵۸، میمن ۵۹۸ تا ۶۳۲۶۲۲۶۰۲ | ہندوستان ۳۳۷ ،۱۹۹،۱۳۰ ۱۶۹ تا ۱۷۱، ۱۸۷،۱۸۳،۱۸۰،۱۷۸، گورنر یمن کا قبول اسلام ۱۹۲، ۱۹۳ ، ۱۹۷ تا ۲۰۴،۲۰۳،۱۹۹، یوپی یورپ ۴۴۲،۳۳۹،۱۵۷ ۱۶۵ ،۴۶۴،۴۵۲،۴۳۸ ،۳۸۳،۳۶۳ ،۲۷۳،۲۵۳ ۲۵۲،۲۳۴،۲۲۵ ، ۱۴۵ ،۴۳۵،۴۳۱،۴۸۹،۴۷۸ ، ۴۷۷ ۳۳۷ ،۳۳۳،۳۰۳،۳۰۱،۲۹۲ ۱۸۲ ،۵۸۳،۵۸۱،۵۷۶۰۵۳۱،۵۰۸ ۳۴۷ ،۳۴۶،۳۴۱،۳۴۰،۳۳۸ ۳۸۴،۳۵۳،۳۵۲،۳۵۰،۳۴۹ ،۵۵۲،۴۷۶،۴۷۵ ، ۴۷ ۴۰ ۴۰۱ ۶۳۶،۶۳۵،۶۲۲،۶۱۶۰۶۱۴،۶۰۳ ۴۱۴ ۶۴۷ ،۶۳۵،۶۳۲۶۰۳ ۴۰۱ ۲۰۷ ،۱۸۸ ۱۴۵ هنگری ہوشیار پور ۳۱ نیویارک ن ہالینڈ DO ۴۳۰ ۶۴۸ ۱۶۳،۱۴۴،۱۳۰ یوگنڈا یونان ۱۹۹،۱۳۰ ۵۸۳،۴۱۲

Page 714

17.۱۷۳ ۴۳۲ ۷۳ ۱۸۸ ۲۵۳،۲۳۶ ۱۸۲ ۳۶۳ ۲۱۳ تا ۲۱۵ ۳۶۳ حقیقۃ الوحی ز ذنوب محمدیہ ریویو آف ريليجنز ریویو براہین احمدیہ بخاری کتابیات ،۱۰۱،۹۸ ،۹۶،۷۸،۷ ۵۳۹،۵۲۳،۴۵۲،۱۱۳، ۱۰۴ ۱۰۲ ۴۳۱ 1+1 ۳۶۴ بدر (اخبار) براہین احمدیہ بیضاوی ،۱۸۵،۱۸۲ آزاد (اخبار) آ.۲۰۷ ، ۱۹۹ ، ۱۹۸ ،۱۹۳،۱۸۶ ۹۶ ۹۶ ۴۴۸ ابن ماجہ ابوداؤد اپنشد اخبار عام ۵۰۱ | تحذیر الناس ازالته المز ارقادیانی ۷۳ ترجمۃ القرآن انگریزی ۱۵۸ ،۱۵۹ ۳۶۳ تشحید الا ذہان ۱۸۳ ،۱۹۳، ۱۹۸ ، تعمیر (اخبار) الشمس البازغہ الفضل ۴۳۲،۴۳۱،۳۹۳،۲۰۰،۱۹۹ تفسیر کبیر انجیل ۳۲۱،۲۵۳،۲۳۷ ، اس کا ہر گھر میں موجود ہونا ۳۰۴ ۱۷۹،۱۷۸ ۱۵۸ زمیندار (اخبار) زند اوستا ز ۴۶۳،۴۶۲،۴۴۸ ، ۴۷۵ ، ضروری ہے ۵۴۳، ۶۵۵،۶۴۸ | تورات ۱۷۳ ۴۰۱ ۱۵۹ ۳۲۱،۲۳۷ ،۲۳۶ س ۶۰۶،۵۴۳،۴۶۳، ۶۵۵،۶۴۸ سول اینڈ ملٹری گزٹ جلالین ج ۴۸۵ سیبویه سیر روحانی.مضمون کا محرک شروح شافیه ۴۴ چ چشمه معرفت ،۲۳۷ ،۹۹ ،۹۸ انجیل یا قرآن انسائیکلو پیڈیا بائیل ۴۶۳،۳۶۴،۲۴۱ تا ۴۶۵ ، ۴۶۷، ۶۰۷ ،۶۰۶

Page 715

۲۳۷ DO هدایه بینا بیع الاسلام انگریزی کتاب ۱۱۳۹۸ ،۹۶ ۱۷۳ ۹۶ What is Hinduism 647 ،۲۳۷ ،۲۳۶ ۳۱ مسیح موعود نسائی ۳۶۳ ۳۶۶ ۳۶۶ ۴۴۸ ،۲۵۳ ۷۴ شروح کافیہ قدوری ق مرزا غلام احمد قادیانی

Page 715