Anwarul-Uloom Volume 20

Anwarul-Uloom Volume 20

انوارالعلوم (جلد 20)

Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ قریبا ًعالم جوانی میں ہی مسند آرائےقیادت و امامت ہوئے اور آپؓ کا عہد ِخلافت نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط رہا۔ اس طویل مدت کے دوران آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ گہرے علم و عرفان سے دنیا کو بہرہ مند فرمایا ، جماعت کی ترقی و بہتری ، نظم وضبط، اتحاد و اتفاق کے عظیم الشان منصوبے بنا کر ان کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ذیلی تنظیمیں قائم کرکے ، تحریکات شروع کرکے ان کو قدم قد م پر رہنمائی بخشی، کہ آج بفضل اللہ تعالیٰ دنیا میں احمدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا ۔نازک موقعوں پر عالم اسلام کی رہنمائی کی۔غیر مسلم اقوام اورعام  انسانیت کے لئے اپنی فکرونظر کی بناء پر ایک قابل قدر مددگارومحسن  رہے۔ فضل عمر فاونڈیشن نے اس عظیم اور موعود قائد کی تحریرات و تقاریر کو جو 1906 سے 1961 تک پھیلی ہوئی ہیں اور ان کی تعداد صدہا تک پہنچتی ہے کومتفرق ماخذوں سے جمع کرکے زیر نظر مجموعہ میں پیش کیا ہے۔ <h3 style="text-align: center;">پیشگوئی مصلح موعود</h3> <blockquote>’’اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحبِ شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا۔ وہ دُنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور رُوح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کریگا۔ وہ کلمۃُ اللہ ہے کیونکہ خُدا کی رحمت و غیوری نے اسے کلمۂ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ<strong> سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دِل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائیگا</strong>۔ اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اسکے معنی سمجھ میں نہیں آئے) دو شنبہ ہے مبارک دو شنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند <span class="quranic">مَظْھَرُ الْاَوَّلِ وَ الْاٰخِرِ۔ مَظْھَرُ الْحَقِّ وَالْعَلَآءِ کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ</span>۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلالِ الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نُور آتا ہے نُور۔ جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی رُوح ڈالیں گے اور خُدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اُٹھایا جائے گا۔ <span class="quranic">وَکَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا</span>۔‘‘ (اشتہار ۲۰ ؍فروری ۱۸۸۶ء)</blockquote>


Book Content

Page 1

انوار العلوم تصانیف سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمد احمد اصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی 20

Page 2

انوار العلوم جلد ۲۰ الف پیش لفظ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ اللہ تعالی کے فضل و احسان اور اُس کی دی ہوئی توفیق سے فضل عمر فاؤ نڈیشن کو سید نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ امسیح الثانی الصلح الموعود (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی حقائق و معارف سے پُر سلسلہ تصانیف بنام انوار العلوم“ کی بیسویں جلد احباب جماعت کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے.وَمَا تَوْفِيْقَنَا إِلَّا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ انوار العلوم“ کی بیسویں جلد حضرت مصلح موعود کی ۱۹۴۸ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل " ہے جس میں معرکۃ الآرا تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن بھی شامل ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوشیار پور میں چلہ کشی کے دوران آپ کی تضرعات کو پایہ قبولیت بخشتے ہوئے ایک عظیم الشان پیشگوئی سے نوازا جو اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ ء میں شائع ہوئی.اس پیشگوئی میں ۵۲ علامات کے حامل پسر موعود کا وعدہ دیا گیا.جس کے بارہ میں فرمایا گیا کہ وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا ، وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا ، کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوگا، قو میں اُس سے برکت پائیں گی ، اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا.اس عظیم الشان پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو ایک فرزند دلبند ، گرامی ارجمند عطا فرمایا جس کے وجود میں ۵۲ علامات کا شاندار ظہور ہوا اور پھر حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خود اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر ۱۹۴۴ ء میں اپنے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا.حضرت فضل عمر اپنی تمام عمر علوم ظاہری و باطنی اور اپنی ذہانت و فطانت کے ذریعہ اقوام عالم کی راہنمائی کرتے رہے.اپنوں نے بھی فیض پایا اور غیروں نے بھی برکت حاصل

Page 3

انوار العلوم جلد ۲۰ پیش لفظ کی.کلام اللہ کا مرتبہ اس شان سے ظاہر ہوا کہ اغیار نے بھی کہا کہ مرزا محمود کے پاس قرآن ہے تم اُس کا مقابلہ کیسے کر سکتے ہو.الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ قوموں کی رستگاری کا عظیم کارنامہ عمر بھر سر انجام دیتے رہے.کشمیر کے حقوق اور آزادی کی بات ہو یا مسلمانان ہند کی آزادی کا مسئلہ فلسطینیوں کے حقوق و مسائل کی بات ہو یا عربوں کے حقوق و مسائل کی آپ نے بابا نگِ دہل ان کے حق میں آواز اُٹھائی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس سعی جمیلہ کو قبول فرمایا.انوار العلوم“ کی بیسویں جلد ۱۹۴۸ ء کی چھ تحریرات و تقاریر پر مشتمل ہے.یہ وہ دور ہے جب کہ ہجرت پاکستان کا واقعہ ابھی بالکل تازہ تھا اور حضور عارضی طور پر رتن باغ لاہور میں فروکش تھے.اسی سال اللہ تعالیٰ نے اولوالعزم خلیفہ کی برکت سے جماعت کو دوسرا مرکز ”ربوہ“ عطا فرمایا.جلسہ سالانہ لا ہور کا انعقاد ہوا.سیاسی منظر نامے میں حیدر آباد دکن پر قبضہ اور بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات ہوئی.ان مواقع پر حضور کی تحریرات احمدیوں اور اہل پاکستان کی راہنمائی کا موجب بنیں.حضور کی معرکۃ الآراء تصنیف دیباچہ تفسیر القرآن بھی ستمبر ۱۹۴۸ء میں منظر عام پر آئی.جس میں ضرورت قرآن اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و سوانح اور صداقت کا بین اظہار فرمایا.اور اس سلسلہ میں یورپ کے اعتراضات کے دندان شکن جوابات سپر قلم فرمائے.احمدیت کیا ہے اور کس غرض کے لیے اس کو قائم کیا گیا؟ اس بنیادی سوال کا خوبصورت اور مدلل جواب احمدیت کا پیغام کتابچہ میں تحریر فرمایا.یہ کتا بچہ بھی اس جلد کی زینت ہے.۱۹۴۸ء میں ہندوستان کے جلسہ سالانہ کے موقع پر حضور نے جو روح پرور اور زندگی بخش پیغام شرکائے جلسہ کے نام ارسال فرمایا اُس کو بھی شامل اشاعت کیا گیا ہے.غرضیکہ جلد هذا جہاں حضور کے تبحر علمی کی آئینہ دار ہے وہاں ۱۹۴۸ء کے معروضی حالات پر بھی روشنی ڈالنے والی ہے.اللہ تعالیٰ اس مواد کو نافع الناس بنائے.آمین اس موقع پر خاکساراپنے قارئین کرام سے ایک نہایت اہم اور ضروری گزارش کرنا چاہتا ہے.انوار العلوم“ کی اشاعت کا جب منصوبہ شروع کیا گیا تو اُس وقت یہی خیال تھا

Page 4

انوار العلوم جلد ۲۰ ج پیش لفظ کہ ۲۰ جلدوں میں جملہ تحریرات و خطابات مدون ہو جائیں گے.چنانچہ ۱۹۹۵ ء میں تین ہزار روپے ایڈوانس بکنگ کی صورت میں سیٹ کی قیمت مقرر ہوئی.جسے طباعت اور کاغذ کی گرانی کے پیش نظر ۲۰۰۸ء میں چار ہزار روپے کر دیا گیا.خدا تعالیٰ کے فضل سے ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن کو انوار العلوم کی ۲۰ جلدیں شائع کرنے کی توفیق مل چکی ہے.اَلحَمدُ لِلهِ عَلَى ذَلِكَ ان کتب کی اشاعت کے دوران اخبارات و رسائل میں سے کافی تعداد میں مزید مواد ملا ہے جو ابتدائی فہرست میں شامل نہ تھا.اسی طرح حضور کا غیر مطبوعہ مواد بھی مل رہا ہے.حضرت خلیفہ اصیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں نئی صورتِ حال تحریر کی گئی تو حضور انور نے فرمایا: جو مواد میسر ہے سب شائع ہونا چاہیے“.چنانچہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیر کے اس ارشاد کے مطابق حضرت مصلح موعود کا جو بھی مواد میسر ہو گا وہ سب انوار العلوم کی مزید جلدوں میں مدون کر کے طبع کیا جائے گا.انشاء اللہ انوار العلوم کی ۲۰ جلدوں میں ۲۰ / دسمبر ۱۹۴۸ ء تک کا مواد شامل کیا گیا ہے.۲۵ / دسمبر ۱۹۴۸ء سے دسمبر ۱۹۶۵ ء تک تقریباً پانچ جلدوں کا مواد موجود ہے جس کی ابتدائی ترتیب دے دی گئی ہے.اس کے علاوہ مربیان کرام کی آمدو روانگی کے موقع پر حضور کے خطابات نیز طلبہ مدرسہ احمدیہ و ہائی سکول سے خطابات کا مواد علیحدہ سے تقریباً دو جلدوں کا موجود ہے.اسی طرح قبل از خلافت تفخیذ الاذہان ، ریویو آف ریــلـیــجــنـز اور الفضل کے مضامین اور غیر مطبوعہ مواد کی تین جلدیں بن سکتی ہیں.خلافت کے بعد تفخیذ ، ریویو اور الفضل کے مضامین وغیر مطبوعہ مواد کی ایک جلد تیار ہو جائے گی.انشاء اللہ قبل ازیں ۲۰ جلدوں کے لیے ایڈوانس بکنگ کی سہولت دی گئی تھی.اب مزید ۱۰/۱۱ جلدوں کے لیے بھی یہی سہولت میسر ہو گی لیکن اس کی حتمی قیمت بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں طے کر لی جائے گی.خاکسار ان تمام احباب جماعت کا شکر گزار ہے جنہوں نے کتب کی خریداری میں ادارہ ھذا

Page 5

انوار العلوم جلد ۲۰ , پیش لفظ سے ہرممکن تعاون فرمایا.خاکسار امید کرتا ہے کہ آئندہ جلدوں کی خریداری کے سلسلہ میں بھی احباب کا تعاون ہمیں حاصل رہے گا تا کہ ہم سید نا حضرت فضل عمر کے علمی فیضان کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچا سکیں اور حضرت مصلح موعود کے روح پرور اور ولولہ انگیز خطابات کے ذریعہ ہماری علمی اور روحانی آبیاری ہوتی رہے.آپ سب کے تعاون پر خاکسار از حدممنون ہے.جَزَاكُمُ اللهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ اس جلد کی تیاری کے مختلف مراحل میں حسب سابق بہت سے بزرگان اور مربیان کرام نے اس اہم اور تاریخی کام کی تدوین و اشاعت میں خاکسار کی عملی معاونت فرمائی نے مسودات کی ترتیب ہے واصلاح اور ابتدائی پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں بہت محنت و اخلاص سے خدمات سرانجام دی ہیں.نے پروف ریڈنگ ، حوالہ جات کی تلاش ، مسودات کی نظر ثانی ، اعراب کی درستگی ، Re-Checking اور متفرق امور کے سلسلہ میں دلی بشاشت اور لگن سے سے اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے.تعارف کتب تحریر کردہ ہے.فَجَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ کا خاکساران سب احباب کا ممنونِ احسان اور شکر گزار ہے.نیز دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ اِن سب دوستوں کے علم و معرفت میں برکت عطا فرمائے ، اپنی بے انتہا رحمتوں اور فضلوں سے نوازے اور ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا کرنے اور حضرت مصلح موعود کے علمی فیضان کو احباب جماعت تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے.آمین والسلام خاکسار

Page 6

انوار العلوم جلد ۲۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ تعارف کتب تعارف کتب یہ انوارالعلوم کی بیسویں جلد ہے جوسید نا حضرت فضل عمر خلیفہ المسیح الثانی کی ۱۹۴۸ء کی چھ مختلف تحریرات ونگاری پر مشتمل ہے.تقاریر (۱) اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ امسیح الثانی جب ۱۹۴۸ء میں پہلی دفعہ کو ئٹہ تشریف لے گئے تو مجلس خدام الاحمدیہ کوئٹہ نے حضور کے اعزاز میں ایک پارٹی کا اہتمام کیا.اس موقع پر حضور نے یہ انتہائی ایمان افروز تقریر فرمائی جو پہلی دفعہ مؤرخها را کتوبر ۱۹۶۱ء کو افادہ عام کے لیے روز نامہ الفضل میں شائع کی گئی.اس پر معارف تقریر میں حضور نے متعدد امور کی طرف توجہ دلائی جن میں سے خاص طور پر قرآن کریم کی صحت تلفظ کے ساتھ تلاوت کرنا ہے.اسی طرح حضور نے عیسائیوں کے اسلامی تعلیم پر متعدد اعتراضات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اب عیسائیوں کی نئی نسل آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات کی حکمتوں کو سمجھنے اور ان کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہے.جس سے ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہو جائے گی مگر اس کے ساتھ آپ نے احباب جماعت کو یہ نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:.دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیا کو فتح کر لیا ہو.تو میں ہمیشہ مصیبتوں اور ابتلاؤں کی تلواروں کے سایہ تلے

Page 7

انوار العلوم جلد ۲۰ تعارف کتب بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں اور اُنہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں.پس اپنے آپ کو اس فتح کا اہل بناؤ.جب تک آپ لوگ خدا اور اس کے رسول کے دیوانے نہیں بن جاتے ، جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا.“ (۲) دیباچہ تفسیر القرآن اللہ تعالیٰ نے پیشگوئی مصلح موعود میں پسر موعود کی علامت یہ بیان فرمائی تھی کہ وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا...کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہو گا.حضرت مصلح موعود کے متعلق بیان فرمودہ اس علامت سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود آپ کا معلم بننا تھا اور خود آپ کو ظاہری و باطنی علوم سے بہرہ ور کرنا تھا.چنانچہ دنیا نے دیکھ لیا کہ کسی علم میں بھی دنیا کا کوئی عالم آپ کا مقابلہ نہ کر سکا اور جس کو بھی آپ سے شرف ملاقات حاصل ہوا وہ اس حقیقت کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکا کہ واقعی مذکورہ بالا پیشگوئی کا حرف حرف آپ کے وجود میں پورا ہوا.بالخصوص قرآن کریم کے علوم و معارف پر آپ کو ایسی دسترس عطا فرمائی گئی کہ غیر بھی اس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ پاک و ہند کے ایک مایہ ناز انشا پرداز اور اُردو ادب کے مسلّم نقاد علامہ نیاز فتح پوری صاحب نے آپ کی شہرہ آفاق تفسیر کبیر‘ کا مطالعہ کرنے کے بعد آپ کی خدمت میں تحریر فرمایا کہ:.اس میں شک نہیں کہ مطالعہ قرآن کا ایک بالکل نیا زاویۂ فکر آپ نے پیدا کیا ہے اور یہ تفسیر اپنی نوعیت کے لحاظ سے بالکل پہلی تفسیر ہے جس میں عقل و نقل کو بڑے حسن سے ہم آہنگ دکھایا گیا ہے.آپ کی تبحر علمی ، آپ کی وسعت نظر ، آپ کی غیر معمولی فکر و فر است ، آپ کا حسن استدلال اس کے ایک ایک لفظ سے نمایاں ہے“.( الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۶۳ء) حضرت مصلح موعود کے انتقال پر مولا نا عبدالماجد دریا آبادی نے لکھا کہ:.

Page 8

انوار العلوم جلد ۲۰ تعارف کتب علمی حیثیت سے قرآنی حقائق و معارف کی جو تشریح تبیین و تر جمانی وہ کر گئے ہیں اس کا بھی بلند وممتاز مرتبہ ہے“.(صدق جدید لکھنو ۱۸ ۱۷اپریل ۱۹۶۵ء) حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ خود فرمایا کہ: میں وہ شخص تھا جسے علوم ظاہری و باطنی میں سے کوئی علم حاصل نہیں تھا مگر خدا نے اپنے فضل سے فرشتوں کو میری تعلیم کے لیے بھجوایا اور مجھے قرآن کے ان مطالب سے آگاہ فرمایا جوکسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتے تھے “.(الموعود صفحہ ۲۱) ایک اور موقع پر آپ نے فرمایا کہ: ” میں نے کوئی امتحان پاس نہیں کیا.ہر دفعہ فیل ہی ہوتا رہا ہوں مگر اب میں خدا کے فضل سے کہتا ہوں کہ کسی علم کا مدعی آ جائے اور ایسے علم کا مدعی آ جائے جس کا میں نے نام بھی نہ سنا ہو اور اپنی باتیں میرے سامنے مقابلہ کے طور پر پیش کرے اور میں اُسے لا جواب نہ کر دوں تو جو اُس کا جی چاہے کہے.( ملا ئکتہ اللہ صفحہ ۵۳) پس زیر نظر کتاب دیباچہ تفسیر القرآن، حضرت مصلح موعود کے مذکورہ بالا دعاوی کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے حضور نے ایک قلیل وقت میں تصنیف فرمایا.اس میں یورپ کے نقادین اسلام کے مشہور اعتراضات کے دندان شکن جوابات دیئے گئے ہیں اور ضرورتِ قرآن پر نہایت لطیف رنگ میں بحث کی گئی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس سیرت کے واقعات از ولادت تا وفات ایسے عمدہ اور دلکش پیرایہ میں بیان کیے گئے ہیں جو اپنی نظیر آپ ہیں نیز آپ کے بارہ میں بائبل میں مندرج پیشگوئیاں بھی تفصیل سے بیان کی گئی ہیں.اس کے مضامین عالیہ اور براہین نیرہ مندرجہ ذیل شعر کے مصداق ہیں.أَحَادِيتُ قَدْ صِيغَتْ فَتُلْهِي بِحُسْنِهَا عَنِ الْوَشُى اَوْ شُمَّتْ لَاغْنَتْ عَنِ الْمِسْكِ یعنی اس کے مضامین اور عبارتیں ایسے رنگ میں ڈھالی گئی ہیں کہ جو اپنی ذاتی زیبائش اور حسن کی وجہ سے بناؤ سنگھار اور نقش و نگار سے مستغنی کر دیتی ہیں اور اگر انہیں سونگھی جانے والی چیز سے تشبیہ دی جائے تو اس کی خوشبو کستوری سے بے نیاز کر دیتی ہے.یہ کتاب کلام اللہ

Page 9

انوار العلوم جلد ۲۰ تعارف کتب قرآن کریم کے عالی مرتبت ہونے کو ثابت کرتی ہے.اللہ تعالیٰ اس معرکۃ الآراء کتاب کو ہمیں پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین (۳) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہمارے ہاتھ سے قائم ہوگی سید نا حضرت مصلح موعود نے یہ روح پرور تقریر مؤرخه ۲۰ رستمبر ۱۹۴۸ء بروز دوشنبه ر بوه کے افتتاح کے موقع پر ارشاد فرمائی تھی.یہ تقریر شروع کرنے سے پیشتر حضور نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعائیں پڑھیں جو آپ نے مکہ مکرمہ کی بنیا در کھتے وقت پڑھی تھیں.ان دعاؤں کے بعد سب سے پہلے حضور نے ان دعاؤں کے اس موقع پر پڑھنے اور مانگنے کی حکمت اور فلسفہ بیان فرمایا.اس کے بعد آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور مقام و مرتبہ کو دنیا میں ایک دفعہ پھر قائم کر کے دکھانے کا عزم ظاہر فرمایا کیونکہ آپ محسن انسانیت ہیں اور فرمایا اگر اِس کام میں ہماری جانیں اور ہمارے بیوی بچوں کی جانیں بھی چلی جائیں تو یہ ہمارے لیے عزت کا موجب ہوگا.نیز آپ نے فرمایا کہ اس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دُنیوی مقاصد پر مبنی ہیں صرف ایک ہی اہل دین حق کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے.یہ وہ تحریک ہے جس میں دنیا کے ہر مذہب ، ہر قوم ، ہر زبان اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والا شامل ہو سکتا ہے.پس یہی ایک جماعت ہے جس نے دین حق کے جھنڈے کو بلند رکھنے کا عزم کر رکھا ہے.جس کے لیے شہروں کو چھوڑ کر اس بے آب و گیاہ میدان کا انتخاب کیا ہے.اس کے بعد حضور نے ربوہ کی زمین کے انتخاب کا پس منظر بیان کرتے ہوئے اس تعلق میں اپنی ایک ۶ سالہ پرانی رؤیا بیان فرمائی.نیز اس کے حصول کے سلسلہ میں ہونیوالی کوششوں کا بھی ذکر فرمایا.یہ تقریر الفضل کے سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء میں پہلی بار شائع ہوئی.

Page 10

انوار العلوم جلد ۲۰ تعارف کت (۴) مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب حضرت مصلح موعود نے یہ مضمون بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے موقع پر تحریر فرمایا جو مورخه ۲۱ ستمبر ۱۹۴۸ء کو روزنامہ الفضل میں شائع ہوا..اِس مضمون کا آغار حضور نے اپنی ایک رؤیا سے کیا ہے جس میں آپ کو ابوالہول جیسی ایک چیز دکھائی گئی جس کے دو سر تھے.یہ رویا حضور کو ۱۱ اور ۱۲ ستمبر کی درمیانی رات کو دکھائی گئی جبکہ قائد اعظم کی وفات مؤرخہا ا ستمبر کو رات 10 بجے ہوئی تھی.حضور کا سونے کا معمول عموماً رات تقریباً گیارہ بجے کے بعد ہوتا تھا اس لیے یہ یقینی بات ہے کہ یہ رویا حضور کو قائد اعظم کی وفات کے بعد رات کو دکھائی گئی.مگر سونے سے قبل تک حضور کو قائد اعظم کی وفات کی ابھی اطلاع نہیں ملی تھی.پس حضور نے اس رؤیا کی تعبیر یہ فرمائی کہ اس رؤیا میں جس چیز کی شکل دکھائی گئی اس کے دوسر تھے جس سے مراد یہ ہے کہ مسلمانوں پر دو مصیبتیں آنے والی ہیں مگر مسلمان ان دونوں مصیبتوں کو برداشت کر جائیں گے.ان میں سے ایک مصیبت تو قائد اعظم جیسے ایک عظیم لیڈر کی وفات اور دوسری مصیبت حیدر آباد دکن پر ہندوستانی فوج کا قبضہ تھا.اس مضمون کے آخر پر حضور نے حیدر آباد دکن کی سلطنت کی کچھ تاریخ بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ حق تو یہ ہے کہ حیدر آباد دکن اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہیے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں شامل ہونا چاہیے لیکن ان واقعات پر کوئی جزع فزع کرنے کی بجائے مسلمانانِ پاکستان اگر مضبوط ارادے، بلند حوصلہ اور پختہ عزم سے کام لیں تو یقیناً پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا.(۵) احمدیت کا پیغام حضرت مصلح موعود نے یہ کتابچہ اکتوبر ۱۹۴۸ء میں تحریر فرمایا.اس کتا بچہ میں احمدیت سے متعلق اس بنیادی سوال کہ احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟‘ کا جواب

Page 11

انوار العلوم جلد ۲۰ تعارف کتب تحریر فرمایا ہے جس میں نہایت ہی آسان پیرایہ میں جماعت احمدیہ کا عقائد کے لحاظ سے تعارف کروایا گیا ہے.اس تعلق میں سب سے پہلے آپ نے مذکورہ بالا سوال کر نیوالوں کو یہ بات سمجھائی ہے کہ احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں ہے اور نہ ہی احمد یوں کا کوئی الگ کلمہ ہے.آپ نے تحریر فرمایا کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف اسلام کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ اس کا ایک کلمہ ہے.اور احمدیت چونکہ حقیقی دین ہونے کی دعویدار ہے اس لیے جماعت احمدیہ کا کلمہ بھی وہی ہے جو آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا.اس کے بعد حضور نے جماعت احمدیہ کے متعلق عقائد کے لحاظ سے بعض شکوک کا ازالہ فرمایا جس میں ختم نبوت، ملائکہ اللہ ، نجات ، احادیث، تقدیر، جہاد جیسے مسائل کے متعلق جماعت احمدیہ کا نقطہ نظر بیان فرمایا.اسی طرح اس کتابچہ میں ایک نئی جماعت بنانے کی وجہ اور غرض و غایت بیان فرمائی.نیز جماعت احمدیہ کے پروگرام پر روشنی ڈالی اور آخر پر احمد یوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ بیان فرمائی.پس یہ کتا بچہ جماعت احمدیہ کے تعارف کے لحاظ سے انتہائی لاجواب ہے جسے ہمیں کثرت سے دوسروں کو پڑھانا چاہیے.(۶) ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۸ء کے جلسہ سالا نہ ہندوستان کے موقع پر ہندوستان کے احمدیوں کے نام جو پیغام ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء کوتحریر کر کے ارسال فرمایا اس پیغام کواب انوار العلوم کی اس جلد نمبر ۲۰ میں شامل اشاعت کیا جا رہا ہے.اس پیغام کے آغاز میں حضور نے اس جلسہ سالانہ کے منعقد کرنے پر جماعت احمد یہ بھارت کو ھدیہ تبریک پیش کیا.اس کے بعد فرمایا کہ جماعتیں صدمات میں سے گذرے بغیر کبھی بڑی جماعتیں نہیں بن سکتیں.(حضور کا اس میں دراصل پارٹیشن کی طرف اشارہ تھا) پارٹیشن کے نتیجہ میں جو جماعتی نقصان ہوا اُس کے ذکر کے بعد حضور نے ہندوستان کے احمدیوں کو اُس وقت

Page 12

انوار العلوم جلد ۲۰ تعارف کتب کے حالات کے پیش نظر اُن کی دمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی اور فرمایا کہ:.پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اور ہندوستان کی باقی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کوشش کریں.صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کریں.وہ تمام اغراض جن کے لئے احمد یہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں.ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدرانجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی جماعتوں کے ساتھ خط وکتابت کر کے ان کو منظم کریں اور پھلنے پھولنے میں مدد دیں.“

Page 13

انوار العلوم جلد ۲۰ 1 اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی

Page 14

Page 15

انوار العلوم جلد ۲۰ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک رہو فرموده ۷ اگست ۱۹۴۸ ء بمقام کوئٹہ ) تشهد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:.اچھا کام تعریف کے قابل ہوتا ہے اور بُرا کام مذمت کے قابل ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی استاد اپنے شاگردوں کا دل بڑھانے کیلئے ان کے تھوڑے اور نامکمل کام کو بھی قابلِ تعریف ظاہر کرتا ہے اور کبھی وہ ان کے اندر نیا عزم پیدا کرنے کیلئے ان کے اچھے کاموں کو بھی قابلِ اعتراض اور قابل تنقید قرار دیتا ہے.جس کی وجہ سے شاگرد اپنے کاموں کی طرف زیادہ توجہ کرنے کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.عرفی یا انوری ان دونوں میں سے کسی ایک کے متعلق مجھے ایک واقعہ یاد ہے.وہ ذکر کرتا ہے کہ میں شعر کہا کرتا تھا اور اصلاح کے لئے استاد کے پاس لے جایا کرتا تھا مگر وہ بڑی سختی کے ساتھ ان پر تنقید کیا کرتا تھا.اتنی سخت تنقید کہ وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتی تھی.وہ کہتا ہے کہ مجھے اپنے متعلق احساس پیدا ہو گیا تھا کہ میں بڑا اچھا ادیب بن گیا ہوں لیکن میں نے متواتر دیکھا کہ میرا استاد برابر جرح کرتا چلا جاتا تھا.میں نے یہ خیال کر کے کہ یہ جرح نامناسب ہے اور تعصب پر مبنی ہے ایک دفعہ شرارت کر کے پرانی کا پہیوں سے کچھ کا غذا کھیڑے اور ان کی جلد بنالی اور خط بدل کر کسی سے چند نظمیں ان پر نقل کرالیں اور اپنے استاد کے پاس لے گیا.میں نے کہا مجھے اپنے والد صاحب کی لائبریری میں سے پرانے شاعروں کے کلام کے یہ اجزاء ملے ہیں.انہوں نے وہ نظمیں پڑھنی شروع کی ہی تھیں کہ بے تحاشہ تعریف کرنی شروع کر دی کہ یہ بڑا اعلیٰ درجہ کا کلام ہے اس نے بہت ہی عمدہ کہا ہے.وہ کہتا ہے جب میں نے یہ تعریفیں سنیں

Page 16

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک تو کہا استاد جی! بس رہنے دیجئے.میں نے دیکھ لیا ہے کہ آپ بلا وجہ مجھ پر تنقید کرتے رہے ہیں.یہ میرے ہی شعر تھے جو میں پرانے کاغذوں پر لکھ کر لے آیا ہوں اور میں نے یونہی آزمانے کے لئے یہ کہہ دیا تھا کہ یہ پرانی نظمیں ہیں.وہ لکھتا ہے کہ جب میں نے یہ بات کہی تو میرے استاد کا چہرہ افسردہ ہو گیا اور اس نے کہا میں تو سمجھتا تھا کہ میں اپنے پیچھے ایک ایسا کی شاگر دچھوڑ جاؤں گا جس کا فارسی زبان میں کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا مگر آج تم نے یہ جرات کی ہے تو اس کی وجہ سے اب تمہاری تمام ترقی ختم ہو گئی ہے.میں دشمنی کی وجہ سے تم پر تنقید نہیں کیا کرتا تھا بلکہ اس لئے تنقید کرتا تھا کہ تائم زیادہ سے زیادہ کوشش کرو اور تمہارے مخفی جو ہر زیادہ ہی سے زیادہ ظاہر ہوں.اگر میں کہہ دیتا کہ تم اچھے شاعر بن گئے ہو تو تم مزید محنت نہ کرتے یہ جرح ہی کا نتیجہ ہے کہ تم نے خوب زور لگایا اور محنت سے کام لیا اور اب تم صاحب کمال بن گئے ہولیکن اب تمہاری ترقی ختم ہو گئی ہے.وہ لکھتا ہے کہ واقعہ یہی ہے کہ میں نے پھر اس سے زیادہ ترقی نہیں کی.پس تنقید کئی وجوہ سے ہوتی ہے.کبھی کام کرنے والے کی تعریف کی جاتی ہے کہ کم حوصلہ انسان ست نہ ہو جائے اور ہمت نہ ہار بیٹھے اور کبھی سخت تنقید کی جاتی ہے تا با حوصلہ آدمی زیادہ کی سے زیادہ اپنے دماغ پر زور ڈال کر اپنے مخفی جو ہر کو باہر نکالنے کی کوشش کرے.یہ کام بہت ہی مشکل ہے.فطرت کا سمجھنا بہت مشکل ہوتا ہے.جیسے اس استاد نے غلطی کی اور اتنی سخت تنقید کی کہ جس سے شاگرد مایوس ہو گیا اور آخر اس نے دھوکا دیا جس کی وجہ سے وہ آئندہ ترقی حاصل نہ کر سکا.پس کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسان غلط اندازہ لگاتا ہے اور سمجھتا ہے کہ فلاں آدمی بہت بلند حوصلہ ہے.اس پر جتنی بھی تنقید کی جائے اتنی ہی وہ محنت کرے گا اور اس کے مخفی جو ہر ظاہر ہوں گے لیکن اس کا نتیجہ اُلٹ نکلتا ہے وہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہوتا ہے اور اس تنقید کی وجہ سے وہ چی مایوس ہو جاتا ہے اور آئندہ ترقیوں سے محروم ہو جاتا ہے.پھر بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان سمجھتا ہے کہ یہ کم حوصلہ اور کم ہمت ہے اس کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ اس کی تعریف شروع کر دیتا ہے لیکن وہ کم حوصلہ نہیں ہوتا اگر وہ اس پر تنقید کرتا تو اس کے مخفی جو ہر ظاہر ہوتے لیکن استاد نے اس کا اندازہ غلط لگایا اور کم حوصلہ سمجھ کر تعریف کر دی.اس تعریف کی وجہ سے وہ

Page 17

انوار العلوم جلد ۲۰ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہ محنت اور مزید جد و جہد نہیں کرتا.اس لئے وہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوتا اور ان اعلیٰ کی ترقیات سے محروم ہو جاتا ہے جن کا حصول اس کے لئے ممکن تھا.مگر ان خطرات کے درمیان بہر حال ایک تیسرا راستہ بھی ہے اور وہ یہ کہ انسان اچھے کام کی تعریف کرے اور بُرے کی مذمت کرے.بعض غلطیاں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ تھوڑی سی کوشش سے درست ہو جاتی ہیں اور اگر انہیں نظر انداز کیا جائے تو قومی ترقی رک جاتی ہے.کوئٹہ میں میں پہلی دفعہ آیا ہوں.اگرچہ یہاں کے خدام میں سے بعض نے قادیان میں تعلیم پائی ہے اور بعض کے ماں باپ بھی وہاں رہتے تھے مگر پھر بھی ان کے کاموں پر مجھے تنقید کا اس طرح موقع نہیں ملا جیسے آج ملا ہے.میں جب سے یہاں آیا ہوں میں محسوس کرتا ہوں کہ یہاں کے خدام علمی حصے کی طرف بہت کم توجہ کرتے ہیں.مثلاً جس خادم نے تلاوت کی ہے اُس نے اس امر کوملحوظ نہیں رکھا کہ قرآن مجید صحیح طور پر پڑھا جائے.اگر وہ تھوڑی سی اس امر کی کوشش کرتے تو بڑی آسانی کے ساتھ صحیح طور پر تلاوت کر سکتے تھے.میں نے دیکھا کہ انہوں نے بالعموم الف کو فتح کے ساتھ ادا کیا ہے.ان کی تلاوت میں ۵۰ یا ۶۰ فیصدی الف تھے جو انہوں نے فتح کے ساتھ ادا کئے ہیں.حالانکہ الف اور فتح الگ الگ چیزیں ہیں اور ان دونوں میں بہت فرق ہے.اسی طرح انہوں نے مدات کو بالعموم گرا دیا ہے.یعنی جہاں دوالف تھے وہاں انہوں نے ایک ہی الف پڑھا ہے اسی طرح اور باتیں بھی تھیں جنکی وجہ سے تلاوت ناقص ہوگئی.میں اس بات کا قائل نہیں کہ کوئی شخص اس بات میں لگار ہے کہ قاری کی طرح وہ قراءت کر سکے لیکن جو کام آسانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے اسے کیوں چھوڑا جائے.یہ کوشش کرنا کہ ہم قاری کی طرح ہی ادا کریں درست نہیں کیونکہ اس کی طاقت ہمیں خدا نے نہیں بخشی.میری کی مرحومہ بیوی اُمّم طاہر بیان کیا کرتی تھیں کہ ان کے والد صاحب کو قرآن مجید کے پڑھنے پڑھانے کا بڑا شوق تھا.انہوں نے اپنے لڑکوں کو قرآن پڑھانے کے لئے استاد ر کھے ہوئے تھے اور لڑکی کو بھی قرآن پڑھنے کے لئے ان کے سپرد کیا ہوا تھا.اُم طاہر بتا یا کرتی تھیں کہ وہ استاد بہت مارا کرتے تھے اور ہماری انگلیوں میں شاخیں ڈال ڈال کر ان کو دباتے تھے مارتے

Page 18

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہ تھے پیٹتے تھے اس لئے کہ ہم ٹھیک طور پر تلفظ کیوں ادا نہیں کرتے.ہم پنجابی لوگوں کا لہجہ ہی ایسا ہے کہ ہم عربوں کی طرح عربی کے الفاظ ادا نہیں کر سکتے.لاہور میں ایک میاں چنو رہا کرتے تھے وہ بعد میں چکڑالوی ہو گئے ان کے پاس ایک عرب آیا اور وہ اُس کو لے کر قادیان پہنچے ان دنوں صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید جو علاقہ خوست کے ایک بہت بڑے بزرگ تھے یہاں تک کہ امیر امان اللہ خاں کے دادا حبیب اللہ خاں کی رسم تاجپوشی بھی انہی سے کروائی گئی تھی ، وہ بھی قادیان میں آئے ہوئے تھے.وہ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے اور باتیں ہو رہی تھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوتین دفعہ ض کا استعمال کیا.آپ کا لہجہ اگر چہ درست تھا لیکن لکھنو کے آدمی جیسے اسے ادا کرتے ہیں آپ ویسے ادا نہیں کر سکتے تھے دو چار دفعہ آپ نے یہ لفظ استعمال کیا تو وہ عرب جو کئی سال سے کی لکھنو میں رہتا تھا اور اردو بولتا تھا اس نے کہا آپ کو کس نے مسیح موعود بنایا ہے؟ آپ کو تو ض بھی صحیح طور پر ادا کرنا نہیں آتا.صاحبزادہ صاحب بڑے عالم تھے اور آپ کو معلوم تھا کہ اس کی کیا حقیقت ہے.وہ غصہ میں آگئے اور اسے مارنے کے لئے اپنا ہاتھ اُٹھایا.مولوی عبد الکریم صاحب نے دیکھ لیا.آپ نے اسے چھڑانے کی کوشش کی.آپ چونکہ پٹھان اور طاقتور تھے اور مولوی عبد الکریم صاحب اکیلے اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا دوسرا ہاتھ پکڑ لیا کیونکہ آپ کا خیال تھا کہ آپ اسے مار بیٹھیں گے.اب دیکھو اس عرب نے یہ کیسی لغو حرکت کی.ہر ملک کا الگ الگ لہجہ ہوتا ہے.عرب خود کہتے ہیں کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں ، ہندوستانی اسے ادا نہیں کر سکتے.ہندوستان میں ض کو قریب ترین ادا کرنے والوں میں سے ایک میں ہوں لیکن میں بھی یہ نہیں کہتا کہ میں اسے بالکل صحیح ادا کرتا ہوں.قریب ترین ہی ادا کرتا ہوں.ہندوستانی لوگ اسے دواد یا ضاد پڑھتے ہیں لیکن اس کے مخارج اور ہیں پس جب عرب خود کہتا ہے کہ ہم ناطقین بالضاد ہیں اور کوئی اسے صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا تو پھر اعتراض کی بات ہی کیا ہوئی.جرمن لوگوں کو لے لو وہ گڑ اور گاڈ کے لفظوں کو ادا نہیں کر سکتے.وہ یا گڑ کہیں گے یا گوٹھ کہیں گے.پس میں یہ تو نہیں کہتا کہ ہم ان الفاظ کو ادا کرنے کا اہتمام کریں جن کے ادا کرنے کے ہم قابل نہیں یہ تو محض

Page 19

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک کی وقت کا ضیاع ہے لیکن الف ادا کرنا ہماری طاقت سے باہر نہیں.مد کوادا کرنا ہماری طاقت سے باہر نہیں.اگر صحیح طور پر کوشش کی جائے تو قرآن کو ہم اپنے لہجہ کے لحاظ سے اچھی طرح ادا کر سکتے ہیں خصوصاً جبکہ گلا اچھا ہو.پھر تلاوت کے بعد جو نظم پڑھی گئی ہے وہ بھی اس دستور کے مطابق کہ عموماً پہلے چند اشعار ٹھیک پڑھے جاتے ہیں اور پھر غلطیاں شروع ہو جاتی ہیں.اسی طرح انہوں نے بھی سات آٹھ اشعار تو ٹھیک پڑھے اور اس کے بعد غلطیاں شروع کر دیں جب جلسہ میں کوئی شخص تلاوت کرتا کی ہے یا نظم کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس چھوٹی سی عبارت کا مجلس میں پڑھ لینا کوئی مشکل امر نہیں ہوتا اور اگر وہ خود سے صحیح طور پر ادا نہیں کر سکتا تو کسی واقف زبان سے درست کروالینا اس کے لئے کوئی مشکل نہیں ہوتا.یہ قدرتی بات ہے کہ ایسی صورت میں سننے والے بجائے فائدہ اُٹھانے کے لفظی غلطیوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں اور اس طرح فائدہ سے محروم ہو جاتے ہیں اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ خدام صحیح طور پر قرآن کریم پڑھنا سیکھیں اور اُردو کی عبارتوں کو بھی صحیح ادا کرنے کی کوشش کیا کریں.ایڈریس میں جن کاموں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے میں ان سے خوش ہوں کہ انہوں نے ان کاموں کے کرنے کی کوشش کی ہے لیکن میں ان کی توجہ اس طرف پھرانا چاہتا ہوں کہ جس کام کے لئے ہم کھڑے ہوئے ہیں وہ اتنا عظیم الشان ہے کہ اس کے لئے یہ کوششیں کافی نہیں کی ہوسکتیں.مخالف ہمارے مقصد کو نہیں سمجھتا تو وہ معذور ہے.اگر وہ ضد یا نا واقفیت کی وجہ سے ہماری مخالفت کرتا ہے تو کوئی اعتراض کی بات نہیں وہ تو اس پر غور ہی نہیں کرنا چاہتا یا اگر غور کرتا ہے تو تعصب کی وجہ سے وہ صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتا لیکن اگر ہم بھی اپنے مقصد کو نہ سمجھیں اور ہمارا بھی رویہ ایسا ہی ہو کہ ہم اپنے مقصد کو سمجھنے کی کوشش نہ کریں تو ہم پر یقینا افسوس ہوگا.ہمارا دعویٰ ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہمارا دعوی سچا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نازک حالت کو دیکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور اس کا مقصد یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے ذریعہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت کو پھر سے دنیا میں قائم کر دے.یہ مقصد ہے جس کے لئے ہمیں کھڑا کیا گیا ہے اور جس کی خدا تعالیٰ ہم سے امید کرتا ہے اور یہ

Page 20

انوار العلوم جلد ۲۰ Λ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہ معمولی چیز نہیں.ایک انسان کے لئے ایک انسان کی اصلاح بھی ناممکن ہے مگر ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے.اسلام کے ماننے والوں میں سے کتنے ہیں جو خوشی سے ان احکام کو مانتے ہیں اور ان پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں.پھر جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اسلام کے احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو واقعہ میں عمل کرنے کے لئے تیار ہیں اور پھر جو عمل کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو ان پر عمل کر کے صحیح طور پر کامیاب ہوئے ہیں.پہلا سوال تو یہ ہے کہ وہ اسلام کے معنی ہی نہیں سمجھتے.ہر آدمی ایسی چیزوں اور عقائد کو جو رسم و رواج میں داخل ہیں الگ کر لیتا ہے اور کہتا ہے ان کو الگ کر لو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.کچھ عورتیں پردہ کی قائل نہیں ہیں وہ اس کو الگ کر لیتی ہیں اور کہتی ہیں بھلا اللہ تعالیٰ کو چھوٹے چھوٹے امور میں دخل دینے کی کیا ضرورت ہے.پردہ کو الگ کر دو باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.ہمارے نوجوان جن کے لئے ڈاڑھی رکھنا مشکل ہے وہ کہہ دیتے ہیں یہ تو کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتی ، باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.سُود لینے والا کہہ دیتا ہے کہ بینکنگ تو نہایت ضروری چیز ہے اس لئے سُود کو چھوڑو، باقی جو کچھ ہے اسلام ہے.غرض جس حکم کو وہ نہیں مانتا اس کے نزدیک وہ اسلام نہیں، باقی امور اسلام میں داخل ہیں تو پھر باقی کیا رہ جاتا ہے.سو د بھی اسلام میں داخل نہیں ، نمازیں بھی اسلام میں داخل نہیں ، ڈاڑھیاں بھی اسلام میں داخل نہیں تو پھر کچھ بھی اسلام میں داخل نہیں.مثل مشہور ہے کہ کوئی بُز دل آدمی تھا اسے وہم ہو گیا تھا کہ وہ بہت بہادر ہے.وہ گود نے والے کے پاس گیا.پرانے زمانہ میں یہ رواج تھا کہ پہلوان اور بہادر لوگ اپنے بازو پر اپنے کیریکٹر اور اخلاق کے مطابق نشان کھدوا لیتے تھے.یہ بھی گودنے والے کے پاس گیا.گود نے والے نے پوچھا تم کیا گدوانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا میں شیر گدوانا چاہتا ہوں.جب وہ شیر گود نے لگا تو اس نے سوئی چبھوئی.سوئی چبھونے سے درد تو ہونا ہی تھا وہ دلیر تو تھا نہیں اس نے کہا یہ کیا کرنے لگے ہو؟ گودنے والے نے کہا شیر گودنے لگا ہوں.اس نے پوچھا شیر کا کونسا کی حصہ گودنے لگے ہو؟ اس نے کہا دُم گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا شیر کی دُم اگر کٹ جائے

Page 21

انوار العلوم جلد ۲۰ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک تو کیا وہ شیر نہیں رہتا ؟ گودنے والے نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا اچھا دُم چھوڑ دو اور دوسرا کی کام کرو.اس نے پھر سوئی ماری تو وہ بول اُٹھا.اب کیا کرنے لگے ہو؟ اس نے کہا اب دایاں باز و گود نے لگا ہوں.اس آدمی نے کہا اگر شیر کا لڑائی یا مقابلہ کرتے ہوئے دایاں ہاتھ کٹ جائے تو کیا وہ شیر نہیں رہتا ؟ اس نے کہا شیر تو رہتا ہے.کہنے لگا پھر اس کو چھوڑو اور آگے چلو.اسی طرح وہ بایاں بازو گود نے لگا تو کہا اسے بھی رہنے دو کیا اس کے بغیر شیر نہیں رہتا ؟ پھر ٹا نگ گودنی چاہی تب بھی اس نے یہی کہا.آخر وہ بیٹھ گیا.اس آدمی نے پوچھا کام کیوں نہیں کرتے.گودنے والے نے کہا اب کچھ نہیں رہ گیا.یہی آجکل اسلام کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے.لوگ اپنی مطلب کی چیزیں الگ کر لیتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ باقی جو کچھ ہے وہ اسلام ہے.ہمارے نانا جان فرمایا کرتے تھے کہ چھوٹی عمر میں میری طبیعت بہت چلبلی تھی.آپ میر درد کے نواسے تھے اور دہلی کے رہنے والے تھے.وہاں آم بھی ہوتے ہیں.آپ فرمایا کرتے تھے جب والد ہ والد صاحب اور بہن بھائی صبح کے وقت آم چوسنے لگتے تو میں جو آم میٹھا ہوتا اس کو کھٹا کھٹا کہہ کر الگ رکھ لیتا اور باقی آم ان کے ساتھ مل کر کھا لیتا.جب آم ختم ہو جاتے تو میں کہتا میرا تو پیٹ نہیں بھرا.اچھا میں یہ کھٹے آم ہی کھالیتا ہوں اور سارے آم کھا جاتا.ایک دن کی میرے بڑے بھائی جو بعد میں میر درد کے گدی نشین ہوئے انہوں نے کہا میرا بھی پیٹ نہیں بھرا میں بھی آج کھٹے آم چوس لیتا ہوں.فرماتے تھے میں نے بہتیرا زور لگا یا مگر وہ باز نہ آئے.آخر انہوں نے آم چوسے اور کہا یہ آم تو بڑے میٹھے ہیں تم یونہی کہتے تھے کہ کھٹے ہیں.جس طرح وہ آم چوستے وقت میٹھے آم الگ کر لیتے تھے اور باقی دوسروں کے ساتھ مل کر چوس لیتے تھے اور کی بعد میں کھٹے کھٹے کہہ کر وہ بھی چوس لیتے تھے یہی حال آجکل کے مسلمانوں کا ہے.وہ لوگ جو کہتے ہیں کہ شریعت اسلامیہ کو نافذ کیا جائے ان کا اگر یہ حال ہو تو ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو اسلام کو جانتے ہی نہیں.وہ تو پھر ہڈیاں اور بوٹی کچھ بھی نہیں چھوڑیں گے.یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں نے یہ لکھ لکھ کر کتابیں سیاہ کر ڈالی ہیں کہ اسلام کی تعلیم پر عمل نہیں کیا جاسکتا.وہ کہتے ہیں کہ یہ کیا مصیبت ہے کہ انسان پورا ایک مہینہ روزے رکھتا جائے.اگر ی

Page 22

انوار العلوم جلد ۲۰ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک ہو معدہ خراب ہو جائے تب تو ہو کہ ایک آدھ دن کا روزہ رکھ لیا مگر متواتر ایک مہینہ روزہ رکھتے جانا تج کونسی عقل کی بات ہے.پھر یہ کام کا زمانہ ہے ، رات اور دن کام کرنا ہوتا ہے اور دن میں کئی شفٹیں ہوتی ہیں اور روزانہ پانچ پانچ نمازوں کا پڑھنا اور پھر امام کے انتظار میں بیٹھے رہنا کونسی عقل کی بات ہے.بھلا اس طرح انڈسٹری کیسے چل سکتی ہے.یہ زمانہ تجارت کا ہے.بینکنگ کے علاوہ دوسرے ملکوں سے ہم ضروری اشیاء کیسے حاصل کر سکتے ہیں.تم کہتے ہو بینکنگ اُڑا دو.اس طرح تو ملک تباہ ہو جائے گا.پھر تجارت کیسے کی جائے گی.اسی طرح تم کہتے ہے انشورنس کو اُڑا دو.انسان جتنا کماتا ہے، کھا جاتا ہے.اگر اس کو اڑا دیا جائے تو مرنے والا تو مر گیا، یتیم بچوں کے لئے کچھ نہیں رہے گا اور اس طرح قوم پر ایک غیر معمولی بار پڑ جائے گا پھر عورتوں کی مدد کے بغیر مرد کام نہیں کر سکتا.عورتیں مردوں کے دوش بدوش چلتی ہیں اور وہ ان کی عزت کا خیال کر کے ان کے اکرام کے طور پر بڑی سے بڑی قربانی کر لیتا ہے.اگر عورتوں کی کو پردہ میں بٹھا دیا جائے تو پھر دنیا کا کام کیسے چلے گا.یہ صفائی کا زمانہ ہے صحت ٹھیک ہونی چاہئے.تم کہتے ہو ڈاڑھیاں رکھو اس سے تو جوئیں پڑ جائیں گی اور میل بڑھ جائے گی ، یہ بھی کوئی انسانیت ہے.جرمن والے تو ٹنڈ ہی کروا لیتے ہیں.خوش قسمتی سے ہم پر انگریز حاکم کی تھے جس کے نتیجہ میں سروں کے بال محفوظ رہ گئے بلکہ بودے نکل آئے.اگر جرمن حاکم ہوتے تو کی وہ سر کے بال بھی اُڑا دیتے.غرض تمام اسلامی احکام جو اسلام پیش کرتا ہے.ان پر وہ اعتراض کرتے ہیں مثلاً ایک سے زیادہ شادیاں کرنا ہے.وہ کہتے ہیں یہ بھی کوئی انصاف کی بات ہے، مرد کو اگر زیادہ شادیاں کرنے کا حق ہے تو عورت کو کیوں نہیں.اسی طرح پہلے تو طلاق بھی بُری سمجھی جاتی تھی تی لیکن آجکل اسے بُر انہیں سمجھا جاتا بلکہ ٹائمنز آف لندن میں ایک دفعہ میں نے ایک واقعہ پڑھاتی کہ امریکہ میں ایک عورت تھی جب وہ فوت ہوئی تو وہ ۱۷ خاوند کر چکی تھی.جن میں سے بارہ خاوند اس کے جنازے پر موجود تھے.پھر طلاق کی وجوہات بھی وہاں بہت معمولی ہوتی ہیں.ایک عورت نے لکھا کہ میں نے اپنے خاوند سے اس لئے طلاق لی کہ میں نے ایک ناول لکھا اور خاوند سے کہا کہ اس کو شائع کرنے کی اجازت دو.اس نے کہا میں اس کی اجازت نہیں دے

Page 23

انوار العلوم جلد ۲۰ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک سکتا.میں نے حج سے کہا میں ادبی عورت ہوں اور میرے کام میں میرا خاوند روک بنتا ہے اس کی لئے میں طلاق لینا چاہتی ہوں.حجج نے کہا ٹھیک ہے ، اس طرح تو ملک کا ادب خراب ہو جائے گا.غرض ساری باتیں ایسی ہی مضحکہ خیز نہیں مگر ایک زمانہ ایسا گذرا ہے کہ طلاق پر بڑا اعتراض کی کیا جا تا تھا اور طلاق کے بعد شادی کو نخش خیال کیا جاتا تھا.مگر اب وہی مسئلہ ہے جس پر دوسری قو میں بھی عمل کر رہی ہیں بلکہ اس میں حد سے زیادہ گذر گئی ہیں.پھر قریب کی شادیاں ہیں.عیسائی اور ہندو بھی اس پر اعتراض کرتے تھے.مگر اب مسودے تیار ہورہے ہیں کہ اس کی اجازت ہونی چاہئے.غرض اب غیر قو میں بھی اسلامی احکام کی فضیلت کو تسلیم کر رہی ہیں لیکن اسلام میں کوئی ایک حکم نہیں بلکہ ہزاروں احکام ہیں جن پر عمل کرنا ضروری ہے.بھلا وہ لوگ جو ہر وقت سوٹ پہنے کے دلدادہ ہیں ، آجکل حج کیسے کر سکتے ہیں وہاں ان سلے کپڑے پہننے کی پڑتے ہیں ان کو یہ لوگ کیسے برداشت کر سکتے ہیں یہ تو کہیں گے نَعُوذُ باللہ یہ کیا بد تمیزی کی بات ہے.غرض یہ ساری باتیں ایسی ہیں کہ ان کو مسلمانوں میں بھی رائج کرنا مشکل ہے کجا یہ کہ ان کو یورپین ممالک میں رائج کیا جائے.وہ تو چھوٹی سے چھوٹی باتوں پر بھی اعتراض کر دیتے ہیں.ہمارے مبلغ جب امریکہ میں گئے تو وہ وہاں دیسی لباس پہنا کرتے تھے.ایک دن دو عورتیں آئیں اور انہوں نے کہا ہم اسلام کے متعلق باتیں سننے آئی ہیں.ہمارے مبلغ شلوار پہنے باہر آگئے.وہ کمرے میں داخل ہوئے ہی تھے کہ وہ عورتیں شور مچا کر بھاگیں کہ ہمارے سامنے یہ شخص ننگا آ گیا ہے، ہماری ہتک ہے.مبلغ نے کہا میں کیسے نگا ہوں، میں نے تو شلوار پہنی ہوئی ہے لیکن ان کے نزدیک یہ نائٹ ڈریس تھا اور رات کو ہی پہنا جاتا تھا اور ان کے نزدیک نائٹ ڈریس میں آدمی ننگا ہوتا ہے.غرض بہت شور ہوا، محلہ والے انہیں مارنے کو دوڑے.اتنے میں کوئی پادری آگئے اور انہوں نے کہا یہ تو ان کے ملک کا لباس ہے ان کے نزدیک ایسے شخص کو ننگا نہیں کہتے.میں جب انگلینڈ گیا تو میں نے چند گرم پاجامے سلوائے تھے مگر وہاں جا کر میں نے فیصلہ کیا کہ میں شلوار ہی پہنوں گا، میں ان کا لباس کیوں پہنوں.ہمارے جو وہاں مبلغ تھے وہ

Page 24

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک کی بار بار کہتے تھے کہ لوگ ہمارے متعلق کیا کہتے ہوں گے.مگر میں نے کہا جب ہمارے ملک میں.وہ یز جاتا ہے تو کیا وہ شلوار پہنتا ہے؟ اگر وہ شلوار نہیں پہنتا تو میں پتلون کیوں پہنوں کہتے تھے عورتیں آتی ہیں تو بُرا مناتی ہیں کیونکہ اس لباس میں وہ آدمی کو ننگا مجھتی ہیں.میں نے کہا میں تو کپڑے پہنے ہوئے ہوں اور مجھے کپڑے نظر آرہے ہیں.ایک دن سر ڈینی سن راس آئے جولنڈن میں ایک کالج کے پرنسپل تھے.ان کے ساتھ دواور بھی پروفیسر تھے.میں نے ނ کہا.سرڈینی سن راس! میں آپ سے ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں اگر آپ بے تکلفی.بتا ئیں.انہوں نے کہا پوچھ لیجئے.میں نے کہا جو لباس میں پہنے ہوئے ہوں ، کیا آپ اور آپ کے دوست اسے بُرا تو نہیں مناتے ؟ انہوں نے کہا سچ پوچھیں تو ہم بُرا مناتے ہیں.میں نے کہا آپ جب ہندوستان گئے تھے تو کیا آپ نے شلوار پہنی تھی اور اگر نہیں پہنی تھی تو کیا اس کا یہ تی مطلب نہیں کہ انگریز خود تو دوسروں کا لباس نہیں پہنتے مگر یہ حق رکھتے ہیں کہ دوسروں کو اپنا لباس کی پہنے پر مجبور کر دیں.کہنے لگے یہ بات ان لاجیکل تو ہے لیکن ہم بُرا ضرور مناتے ہیں.پھر میں نے کہا میں ایک اور سوال پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ بُرا تو مناتے ہیں مگر آپ کس کے کیریکٹر کو مضبوط سمجھتے ہیں؟ آیا اس کے کیریکٹر کو جو آپ کی رو میں بہہ جائے یا جو اپنے طریق پر قائم رہے کیونکہ جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے.کہنے لگے جو اپنے طریق پر قائم رہے وہی بہادر ہے.میں نے کہا بس مجھے اس تعریف کی ضرورت ہے دوسری کسی بات کی میں پرواہ نہیں کرتا.غرض ہم اسلام کی باتوں کو دوسروں سے نہیں منوا سکتے جب تک ہم ان پر عمل کرنے میں رات دن ایک نہ کر دیں اور دعائیں کر کے ہمارے ناک نہ رگڑے جائیں اور اپنی کوششوں کو بڑھانہ دیں.جب تک ہم دوسروں کی باتوں کو برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے اندر ایک قسم کی دیوانگی پیدا نہیں کر لیتے اُس وقت تک ہم کوئی عظیم الشان تغیر پیدا نہیں کر سکتے.آج تک کوئی بھی بڑا کام نہیں ہوا جس کے کرنے والے کو لوگوں نے پاگل نہ کہا ہو.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا اور ایک بڑے مقصد کو لے کر دنیا کے سامنے کھڑے ہو گئے تو کیا کوئی یہ خیال بھی کر سکتا تھا کہ آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے.دنیا کے سب لوگ کہتے تھے کہ یہ کام نہیں ہو سکتا یہ تو عقل کے خلاف ہے ، بھلا اتنا بڑا تغیر دنیا میں کیسے پیدا ہو سکتا

Page 25

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک ہے.ان کے نزدیک آپ نے قوم کی تمام رسوم کو چھوڑ کر ایک نیا طریق اختیار کر لیا تھا.ان کے اندر یہ احساس تھا کہ یہ کام نہیں ہو سکتا، اس لئے وہ آپ کو پاگل کہتے تھے لیکن آپ صرف منہ سے ہی نہیں کہتے تھے بلکہ جو کہتے تھے اس کے لئے پوری جد و جہد بھی کرتے تھے.جب ان کے کہنے کے بعد بھی آپ رات اور دن جد و جہد میں لگے رہے تو وہ کہتے یہ شخص پکا پاگل ہے مگر آپ برابر اس کے لئے اپنی زندگی کو لگاتے چلے گئے کیونکہ آپ کو یہ یقین تھا کہ یہ کام آپ کر کے چھوڑیں گے اور اس میں ضرور کامیاب ہوں گے.تو حید کے مسئلہ کو لے لو جس کو آجکل بڑے فخر کے ساتھ تم لوگوں کے سامنے پیش کرتے ہو اور تمہاری گردنیں ان کے سامنے بلند رہتی ہیں.تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ فطرتی مسئلہ ہے حالانکہ اس مسئلہ کو بھی وہ مجنونانہ خیال سمجھتے تھے.قرآن میں آتا ہے کہ اجعل الأيقةَ الْهَا وَاحِدًا في وہ لوگ یہ خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ ایک خدا ہو سکتا ہے، ان کے نزدیک تو کئی خدا تھے.ان کا یہ خیال تھا کہ آپ نے سارے خداؤں کو کوٹ کر ایک خدا بنالیا ہے.ان کے ذہنوں میں ایک خدا کا مسئلہ آتا ہی نہیں تھا.بھیرہ کے ایک طبیب تھے جن کا نام الہ دین تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پہلی کتب کو پڑھا ہوا تھا.وہ آپ کے بہت معتقد تھے لیکن احمدی نہیں ہوئے تھے.ان کے پاس ان کا ایک مریض احمدی چلا گیا اور اس نے تبلیغ شروع کر دی.آپ کے دعوئی کا انہیں علم تھا وہ اپنے آپ کو بہت بڑا عالم سمجھتے تھے اور حضرت خلیفہ اول جن کے علم و فضل کا ہر ایک اقرار کرتا ہے وہ ان کے متعلق کہا کرتے تھے کہ نورالدین کیا جانتا ہے ، وہ تو صرف ابتدائی باتیں جانتا ہے.جب اس دوست نے انہیں تبلیغ کی تو کہنے لگے میاں جانے بھی دو کیا مرزا صاحب کی کتابوں کو تم مجھ سے زیادہ سمجھتے ہو.میں آپ کی کتابوں کو جتنا سمجھتا ہوں تم نہیں سمجھتے.میں نے آپ کی کتابوں کا گہرا مطالعہ کیا ہوا ہے.آپ بڑے عالم ہیں کیا وہ اتنی بڑی بیوقوفی کی بات کہہ سکتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں.قرآن میں صاف لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں.بھلا آپ جیسا عالم یہ کہ سکتا ہے کہ وہ زندہ نہیں.اصل میں تم نے کتابوں کو غور سے پڑھا نہیں.مجھے اصل بات کا پتہ ہے.

Page 26

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک اصل بات یہ ہے کہ جب آپ نے براہین احمدی لکھی تو اس میں اسلام کی صداقت کو اتنے کے زبر دست دلائل کے ساتھ ثابت کیا کہ آپ سے قبل ۱۳۰۰ سال تک کسی عالم سے ایسا نہیں ہو سکا تھا اور وہ ایسے دلائل تھے کہ ان کے سامنے عیسائی اور ہندو ٹھہر نہیں سکتے تھے.مگر مولویوں کی عقل ماری گئی اور بجائے خوش ہونے کے انہوں نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شروع کر دیئے.مرزا صاحب نے کہا اچھا اب میں تم سے اس کا بدلہ لیتا ہوں.حضرت عیسی علیہ السلام کا آسمان پر جانا سیدھی سادھی بات ہے لیکن اب میں اس کا انکار کرتا ہوں.اگر تم میں ہمت ہے تو تم اس سیدھی سادھی بات کو ثابت کر کے دکھا دو.پس یہ تو محض ان کی عقل کا امتحان لینے کے لئے جی مرزا صاحب نے کیا تھا.اگر یہ سب مولوی آپ سے جا کر معافی مانگ لیں تو آپ اسی قرآن سے حضرت عیسی علیہ السلام کو زندہ ثابت کر دیں.غرض جس طرح ان کے خیال میں حیات مسیحی کا مسئلہ ایک ثابت شدہ مسئلہ تھا اسی طرح مکہ والوں کے نزدیک کئی خداؤں کا ہونا ایک ثابت شدہ مسئلہ تھا.وہ سمجھتے تھے کہ محمد رسول اللہ نے سب خداؤں کا قیمہ کر کے ایک بنالیا ہے.مگر پھر دیکھو آپ نے ان سے یہ مسئلہ منوالیا یا نہیں.وہ جو سمجھتے تھے کہ کئی خدا ہیں ان کا یہ حال ہو گیا.جب مکہ فتح ہوا تو چند ایسے آدمی تھے جن کو معاف کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب نہ سمجھا ، اور ان کے قتل کا حکم صادر کر دیا.ان میں سے ایک ہندہ ابوسفیان کی بیوی بھی یہ وہی عورت ہے جس نے حضرت حمزہ کا مثلہ کروایا تھا.آپ نے مناسب سمجھا کہ اسے اس ظالمانہ فعل اور خلاف انسانیت حرکت کی سزادی جائے.اُس وقت پردہ کا حکم نازل ہو چکا تھا.جب عورتیں بیعت کے لئے آئیں تو ہندہ بھی چادر اوڑھ کر ساتھ آگئی اور اُس نے بیعت کی کر لی.جب وہ اس فقرہ پر پہنچی کہ ہم شرک نہیں کریں گی تو چونکہ وہ بڑی تیز طبیعت تھی اُس نے کی کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم اب بھی شرک کریں گی؟ آپ اکیلے تھے اور ہم نے پوری طاقت اور کی قوت کے ساتھ آپ کا مقابلہ کیا.اگر ہمارے خدا سچے ہوتے تو آپ کیوں کامیاب ہوتے.وہ بالکل بیکار ثابت ہوئے اور ہم ہار گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہندہ ہے؟ آپ اس کی آواز کو پہچانتے تھے ، آخر رشتہ دار ہی تھی.ہندہ نے کہا يَا رَسُولَ الله! اب میں مسلمان

Page 27

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک ہو چکی ہوں اب آپ کو مجھے قتل کرنے کا اختیار نہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا ہاں اب تم پر کوئی گرفت نہیں ہو سکتی.سے غرض وہ قوم جو مجھتی تھی کہ آپ نے سب خداؤں کو کوٹ کر ایک خدا بنالیا ہے ان میں اتنا تغیر پیدا ہو گیا کہ ہندہ جیسی عورت نے کہا کہ کیا کوئی کہہ سکتا ہے کہ خدا ایک نہیں.اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جب تمام دنیا صداقت اسلام کی قائل ہو جائے گی.اب تو یہ حالت ہے کہ ایک مسلمان اپنی عملی کمزوریوں کی وجہ سے دوسروں کے سامنے شرمندہ ہو جاتا ہے لیکن ایک دن آئے گا جبکہ یورپین اقوام بھی ان احکام کو تسلیم کریں گی النَّاسُ عَلَى دِينِ ملوكهم لوگ بادشاہوں کے مذہب کے تابع ہوتے ہیں بے شک کچھ لوگ وہ بھی ہوتے ہیں جو نقال ہوا کرتے ہیں.جیسے شروع شروع میں مسلمان آئے تو ہندو بھی فارسی بولنے میں فخر محسوس کرتے تھے.اسی طرح جیسا کوئی فیشن ہو جائے لوگ بھی وہی اختیار کر لیتے ہیں.اُس کی وقت ہندوؤں نے بھی داڑھیاں رکھ لی تھیں مگر جب انگریزوں کا زمانہ آیا تو داڑھی منڈوانا شروع کر دی.چھوٹے کوٹ پہننے شروع کر دیئے.جب اسلام غالب آئے گا تو ہر انسان اس بات میں فخر محسوس کرے گا کہ وہ اسلام کی تعلیم پر عمل کرے لیکن جب تک اسلام غالب نہیں آتا ہمیں بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی اور اپنے نفسوں کو مارنا ہو گا.جب تک ہم اپنے نفسوں کو مار کر موجودہ رسم و رواج کے خلاف اپنے آپ کو نہیں اُبھاریں گے ، دریا کی دھار کے خلاف تیرنے کی کوشش نہیں کریں گے ، ملامت کی تلوار کے نیچے، ہنسی اور مذاق کی تلوار کے نیچے ، سیاسی لوگوں کے سیاسی اعتراضات کی تلوار کے نیچے ، مذہبی اور فلسفی لوگوں کے اعتراضات کی تلوار کے نیچے اپنا سر رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوتے اُس کی وقت تک اس عظیم الشان مقصد کے پورا کرنے کی ہمیں امید نہیں رکھنی چاہئے.دنیا میں آج تک کوئی قوم ایسی نہیں گذری جس نے صرف میٹھی میٹھی باتوں سے دنیا کو فتح کر لیا ہو.قو میں ہمیشہ مصیبتوں اور ابتلاؤں کی تلواروں کے سایہ تلے بڑھتی اور ترقی کرتی ہیں اور انہیں لوگوں کے اعتراضات برداشت کرنے پڑتے ہیں.پس اپنے آپ کو اس فتح کا اہل بناؤ.جب تک آپ لوگ خدا اور اس کے رسول کے دیوانے نہیں بن جاتے ، جب تک موجودہ فیشن اور رسم و رواج

Page 28

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶ اپنے فرائض کی ادائیگی میں رات دن منہمک کو کچلنے کے لئے تیار نہیں ہو جاتے اُس وقت تک اسلامی احکام کو ایک غیر مسلم کبھی بھی قبول کی کرنے کے لئے تیار نہیں ہوگا.وہ انگلینڈ سے مجھے ایک غیر مسلمہ کا خط آیا.وہ احمدی تو ہو چکی ہے مگر تعلیم ابھی کم ہے.و ہمارے مبلغ کے متعلق لکھتی ہے کہ جب میں ان کے لیکچر میں جاتی ہوں تو جو کچھ وہ کہتے ہیں میں.سمجھتی ہوں کہ یہ ناممکن ہے، اسے کیسے قبول کیا جاسکتا ہے مگر جب میں ان کے جوش اور ان کے چہرہ کی حالت دیکھتی ہوں تو مجھے یقین ہو جاتا ہے اور میرا دل تسلی پا جاتا ہے کہ آخر یہ ہو کر رہے گا.غرض جب لوگ ہمارے عزم کو دیکھ کر ہمارے اندر سنجیدگی اور جوش دیکھیں گے تو وہ انہیں خود بخود ماننے پر مجبور ہو جائیں گے.پس پہلے اپنے اندر جوش اور سنجیدگی پیدا کرنی چاہئے پھر ہم دوسروں کی توجہ کو بھی پھیر سکیں گے اور وہ سمجھ لیں گے کہ اسلام کی باتیں سچی ہیں اور وہ ان پر سچے دل سے غور کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے اور پھر اسلام اُس مقام پر پہنچ جائے گا جس پر آج سے تیرہ سو سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہنچایا تھا.ناطقين بالضاد: ض بولنے والے ص: ۶ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۴ تا ۹۶ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ھ (الفضل اا راکتو بر۱۹۶۱ء)

Page 29

انوار العلوم جلد ۲۰ لا دیباچه تفسیر القرآن از سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محموداحمد خلیفہ اسیح الثانی دیباچہ تفسیر القرآن

Page 30

Page 31

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹ دیباچہ تفسیر القرآن أَعُوذُ بَاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَىٰ رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ دیباچه تفسیر القرآن (انگریزی) اس نئے ترجمہ اور تفسیری نوٹوں کو پیش کرتے ہوئے ہم یہ بتا دینا مناسب سمجھتے ہیں کہ اس کی غرض تجارتی نہیں ہے اور نہ صرف ایک جدید چیز کا پیش کرنا اصل مقصود ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک وہ اقوام جو عربی سے ناواقف ہیں ایک نئے ترجمہ کی محتاج ہیں اور ساری دنیا عربی دانوں کو بھی شامل کرتے ہوئے ایک نئے انداز کے تفسیری نوٹوں کی محتاج ہے اس کی وجوہ کی مندرجہ ذیل ہیں.انگریزی نئے ترجمہ اور نئی (۱) اس وقت تک قرآن کریم کے جس قدر انگریزی تراجم غیر مسلموں نے کئے ہیں وہ سب کے سب ایسے تفسیر کے لکھنے کی وجوہ لوگوں نے کئے ہیں جو عربی زبان سے یا تو بالکل ناواقف تھے یا بہت ہی کم علم عربی زبان کا رکھتے تھے.اس وجہ سے قرآن کریم کا ترجمہ کرنا تو الگ رہا وہ اس کا مفہوم بھی اچھی طرح سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے اور بعض نے تو کسی اور زبان کے ترجمہ سے اپنی زبان میں ترجمہ کر دیا تھا جس کی وجہ سے مفہوم اور بھی حقیقت سے دُور جا پڑا تھا.(۲) مزید خرابی اُن تراجم میں یہ تھی کہ اُن کی بنیاد عربی لغت پر نہیں تھی بلکہ تفسیروں پر تھی اور تفسیر ایک شخص کی رائے ہوتی ہے جس کا کوئی حصہ کسی کے نزدیک قابل قبول ہوتا ہے اور کوئی تی حصہ کسی کے نزدیک.اور کوئی حصہ مصنف کے سوا کسی کے نزدیک بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا.اس

Page 32

انوار العلوم جلد ۲۰ تفسیر القرآن قسم کا ترجمہ ایک رائے کا اظہار تو کہلا سکتا ہے حقیقت کا آئینہ دار نہیں کہلا سکتا.ان نقائص کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ ضرورت شدید طور پر محسوس ہوتی تھی کہ ایک ایسا ترجمہ قرآن کریم کا غیر عربی دان لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے جو: (الف) عربی دان افراد کی کوشش اور محنت کا نتیجہ ہواور : (ب) جو لغت عربی پر بنی ہو.چنانچہ یہ انگریزی ترجمہ جس کے بعد دوسری زبانوں کے تراجم إِنْشَاءَ اللهُ جلد شائع کئے جائیں گے انہی دو اصول کے ماتحت شائع کیا جا رہا ہے.عربی زبان سے دوسری زبانوں اس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ عربی زبان ایک فلسفیانہ زبان ہے اور اس کے تمام میں ترجمہ کرنے میں ایک وقت الفاظ معین حکمتوں کے ماتحت وضع کئے گئے ہیں اور اس وجہ سے کہ ان کے مادے ابتدائی جذبات و مشاہداتِ انسانی کے اظہار کے لئے بنائے گئے ہیں اس لئے استعمال میں ان کے معنی بعض دفعہ نہایت وسیع ہی نہیں ہو جاتے بلکہ نہایت گہرے بھی ہو جاتے ہیں.دوسری زبانوں میں ان کا پورا ترجمہ کرنا قریباً ناممکن ہے اور ی جب تک کہ تفسیری نوٹوں میں ان معانی کی وسعت بیان نہ کی جائے صرف ترجمہ پورے مضمون کو ظاہر نہیں کرسکتا.اس لئے جو ترجمہ ہم پیش کر رہے ہیں ان معنوں میں مکمل ترجمہ نہیں کہلا سکتا کہ انگریزی ترجمہ نے عربی عبارت کا پورا مفہوم یا قریباً پورا مفہوم بیان کر دیا ہے بلکہ وہ ترجمہ عربی عبارت کے مختلف مفہوموں سے صرف ایک مفہوم کو ظاہر کرنے والا قرار دیا جا سکتا اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ہم نے : (۱) مختصر نوٹ ترجمہ کے نیچے دیئے ہیں یہ نوٹ اس وجہ سے کہ ایک مکمل تفسیر نہیں ہیں ان مختلف معانی کو جو ہمارے نزدیک کسی آیت کے ہیں مکمل طور پر تو نہیں ظاہر کرتے مگر کم سے کم ترجمہ کی محدودیت کا کسی قد رازالہ کر دیتے ہیں.ہے.(۲) دوسرے پڑھنے والے کو ترجمہ میں بصیرت بخشنے کے لئے اور اس کے دل کو اس بات پر مطمئن کرنے کے لئے کہ جو ترجمہ ہم نے کیا ہے وہ آزاد نہیں ہے بلکہ لغت اور وضع کلام کے مطابق ہے ہم نے ضروری الفاظ کے معانی ایسی کتب لغت سے جو نہ صرف مسلمانوں

Page 33

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱ دیباچہ تفسیر القرآن کے نزدیک بلکہ عربی بولنے والے غیر مذاہب کے لوگوں کے نزدیک بھی مسلمہ ہیں حاشیہ میں دیئے ہیں تا کہ ایک عربی سے ناواقف آدمی بھی یہ معلوم کر سکے کہ جو تر جمہ ہم نے کیا ہے وہ خواہ کسی دوسرے کے نزدیک قابل قبول نہ ہو ، مگر ہے عربی لغت کے عین مطابق.اور بغیر کسی قرآنی دلیل کے جس سے معلوم ہو کہ اس جگہ اس لفظ کو ان معنوں میں قرآن کریم نے استعمال نہیں کیا یا بغیر شواہد لغت عربیہ کے اسے رڈ کرنے کا کسی کو حق حاصل نہیں.ترجمہ کے متعلق اس قدر تشریح کے بعد اب ہم تشریحی تفسیری نوٹ لکھنے کی وجوہ نوٹوں کے متعلق کچھ کہنا چاہتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ درجنوں تفسیر میں قرآن کریم کی اس وقت تک لکھی جا چکی ہیں اور شاید ان کی موجودگی میں کسی نئی تفسیر کی ضرورت نہ سمجھی جائے لیکن ان تفسیروں کی موجودگی کے باوجود ہم نے کی یہ تفسیری نوٹ لکھے ہیں اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:.(۱) جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے عربی زبان کے الفاظ وسیع معانی رکھتے ہیں لیکن ترجمہ میں صرف ایک ہی معنی کا خیال رکھا جا سکتا ہے اس لئے ضروری تھا کہ نیچے نوٹ دیئے جاتے تا کہ بعض اور اہم معانی پر بھی روشنی پڑ جاتی.(۲) قرآن کریم کی تمام اہم اور مفصل تفسیر میں جو اس وقت تک لکھی گئی ہیں عربی زبان میں ہیں اور ظاہر ہے کہ جو لوگ قرآن کریم کی عبارت کو نہیں سمجھ سکتے وہ اس کی تفاسیر سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکتے.(۳) جو نوٹ تفسیری رنگ میں قرآن کریم کے تراجم کے حواشی میں غیر مسلم متر جموں نے لکھے ہیں وہ: (الف) مخالفین اسلام کی کتب سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں.(ب) ان لوگوں کو عربی زبان کا یا تو بالکل علم نہ تھا یا بہت ہی کم علم تھا اس وجہ سے معتبر اور مفصل تفسیروں سے وہ فائدہ نہیں اُٹھا سکے.چنانچہ مغربی زبانوں میں جس قدر تراجم ہیں ان میں سے کسی ایک کے حواشی میں بھی قرآن کریم کی معتبر اور مفصل تفاسیر میں

Page 34

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲ دیباچہ تفسیر القرآن ہیں سے کسی کا بھی حوالہ نہیں آتا ، صرف ادنیٰ اور عوام الناس کی دلچسپی کے لئے لکھی ہوئی تفاسیر کا حوالہ آتا ہے اور اگر کسی بڑی تفسیر کا حوالہ ہوتا ہے تو کسی دوسری تفسیر سے نقل کیا ہوا ہوتا ہے خود اس کتاب کو پڑھ کر استفادہ کیا ہوا نہیں ہوتا.(۴) کسی علمی کتاب کو سمجھنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ نہ صرف اُس زبان کا علم ہو جس میں وہ کتاب لکھی ہوئی ہے، نہ صرف اُن تفاسیر پر عبور ہو جو اُس زبان یا علم کے ماہروں نے لکھی بلکہ خود اُس کتاب کا بھی اِس قدر گہرا مطالعہ ہو کہ اس کی اپنی اصطلاحات اور محاورات اور ان اصول کا علم حاصل ہو جائے جن کے گرد اُس کی تعلیم کی فروع چکر کھاتی ہیں.اگر یہ علم نہ ہو تو تفسیروں کی مدد سے بھی کوئی شخص صحیح ترجمانی نہیں کر سکتا.چونکہ یہ درجہ کسی مغربی مترجم یا شارح قرآن کو حاصل نہ تھا اس لئے ان کے نوٹ بعض دفعہ مضحکہ خیز حد تک جا پہنچتے ہیں.(۵) ہر زمانہ اپنے ساتھ نئے علوم لاتا ہے.ان علوم کی ہر علمی کتاب کی تعلیم ایک نئی تنقید کا شکار ہوتی ہے اور اس کے مطالب یا زیادہ واضح ہو جاتے ہیں یا زیادہ مشکوک ہو جاتے ہیں.قرآن کریم بھی اس کلیہ سے منتقی نہیں ہوسکتا.پس موجودہ زمانہ کے علوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تفسیر ضروری تھی تا معلوم ہو سکے کہ وہ موجودہ علوم کی روشنی میں اپنی ہادیا نہ شان کس حد تک قائم رکھ سکا ہے یا اس کی شان کس حد تک آگے سے بھی زیادہ روشن ہوگئی ہے.جب قرآن کریم کی پہلی تفاسیر لکھی گئیں اُس وقت عربی زبان میں مکمل بائبل موجود نہ تھی بلکہ اُس کے جن ٹکڑوں کے تراجم عربی زبان میں ہوئے تھے وہ بھی مفسرین کی دسترس سے باہر تھے اس وجہ سے پرانے مفسرین نے قرآن کریم کے ان مضامین کی طرف جن میں موسوی سلسلہ کی تاریخ کی طرف اشارہ ہے صرف اپنے علم کے مطابق روشنی ڈالی ہے، جو بعض دفعہ نہایت مایوس کن اور بعض دفعہ مضحکہ خیز ہو جاتی ہے.مغربی مصنفین ان کی غلطیوں کو قرآن کریم کی طرف منسوب کر کے ہنسی اُڑاتے ہیں حالانکہ ان مفسروں نے جو کچھ لکھا بائبل کو پڑھ کر نہیں لکھا بلکہ یہودی اور مسیحی علماء سے پوچھ کر لکھا تھا.بعض دفعہ اُن کی

Page 35

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳ دیباچہ تفسیر القرآن علماء نے بائبل کی بجائے اپنی روایات کی کتب سے انہیں مضمون بتا دیئے اور بعض دفعہ ان کی کی ناواقفیت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ان سے تمسخر کیا.بیشک ان پر اعتبار کر کے ان مفسرین نے سادگی اور بے احتیاطی کا اظہار کیا لیکن اُس بات سے اُس زمانہ کے یہودی اور مسیحی علماء کی دیانت اور اُن کے تقویٰ پر جو زد پڑتی ہے وہ بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی.پس موجودہ مغربی مصنفین کو قرآن کریم کے مفسرین پر ہنسی اڑانے کی بجائے خود اپنے آباء کی دیانت پر ماتم کرنا چاہئے.اب جبکہ بائبل کے علوم ہر کس و ناکس کے لئے ظاہر ہو گئے ہیں اور عبرانی ، لاطینی اور یونانی کتب بھی مسلم علماء کی دسترس میں ہیں اس لیے موقع پیدا ہو گیا ہے کہ نئے رنگ میں ان مضامین پر روشنی ڈالی جائے جو قرآن کریم میں موسوی سلسلہ اور بائبل کے متعلق بیان ہوئے ہیں.(۶) پرانے زمانہ میں مختلف مذاہب کے درمیان اعمال کے متعلق تعلیمی برتری کا مقابلہ بہت کم تھا، بلکہ رسم ورواج اور عقائد کی بحث تک علماء کی گفتگو محدود رہتی تھی.اس وجہ سے قرآن کریم کی وہ تعلیم جو اخلاقی، تعلیمی، اقتصادی، سیاسی اور تعامل با ہمی کے امور کے متعلق تھی زیر بحث نہ آتی تھی.آج دنیا کی توجہ ان امور کی طرف زیادہ ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم کی ایسی تفسیر پیش کی جائے جس میں ان اُمور کے متعلق جو اس کی تعلیم ہے اس پر زیادہ روشنی ڈالی جائے.(۷) قرآن کریم چونکہ الہامی کتاب ہے اس میں آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں بھی ہیں.جن کے متعلق صحیح روشنی اُسی وقت ڈالی جاسکتی ہے جبکہ وہ پوری ہو چکی ہوں.اس لئے بھی ضروری تھا کہ اس زمانہ میں نئی تفسیر پیش کی جائے جو اس وقت پوری ہو چکنے والی پیشگوئیوں کو ظاہر کرے.(۸) قرآن کریم کی تعلیم سب مذاہب اور فلسفوں پر حاوی ہے اور وہ سب مذاہب کی اچھی تعلیموں پر مشتمل ہونے کے علاوہ ناقص کا نقص بھی ظاہر کرتی ہے اور نامکمل کو مکمل بھی کرتی ہے.ابتدائی زمانہ اسلام کے مفسرین کو چونکہ ان مذاہب اور ان فلسفوں کا علم نہ تھا وہ ان کی کے متعلق قرآنی تعلیم کو صحیح طور پر اخذ نہیں کر سکے.اب وہ سب پوشیدہ علوم ظاہر ہو چکے

Page 36

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴ دیباچہ تفسیر القرآن ہیں اور قرآن کریم کے وہ حصے جو ان کے متعلق ہیں اس کے عارفوں پر روشن ہو گئے ہیں پس اس زمانہ میں پرانی تفسیروں کی اس کمی کو پورا کرنا بھی ایک اہم ضرورت ہے.ہم سمجھتے ہیں کہ وجوہات مندرجہ بالا کی موجودگی میں یہ ترجمہ اور تفسیر جو ہم پیش کر رہے ہیں صرف نا قابل اعتراض ہی نہیں بلکہ ایک اہم ضرورت کو پورا کر رہا ہے، ہم اسے پورا کر کے اپنا کی حق ادا کر رہے ہیں.ہم اُمید کرتے ہیں کہ جو لوگ ہمارے پیش کردہ ترجمہ اور تفسیر کو غور سے پڑھیں گے اور تعصب سے آزاد ہو کر اس کا مطالعہ کریں گے وہ اسلام کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے پر مجبور ہوں گے اور اُن پر ثابت ہو جائے گا کہ اسلام نقائص سے پر مذہب نہیں جیسا کہ مغربی مصنفوں نے پیش کیا ہے بلکہ وہ روحانی علم کا ایک خوبصورت باغ ہے جس میں سیر کرنے والا ہر قسم کی خوشبو اور ہر قسم کے حسن کے نظارہ سے مستفیض ہوتا ہے اور وہ اُس آسمانی جنت کا ایک مکمل ارضی نقشہ ہے جس کا وعدہ سب مذاہب کے بانی دیتے چلے آئے ہیں.قرآن کریم کی ضرورت آج سے قریب سوا تیرہ سو سال پہلے جب قرآن کریم نازل ہوا دنیا میں اور بھی بہت سے مذاہب اور بہت سی کتابیں موجود تھیں.عرب کے ارد گرد عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید دونوں کے ماننے والے پائے جاتے تھے.خود بعض عرب بھی عیسائی ہو چکے تھے یا عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے.اسی طرح بعض عرب یہودیوں کے مذہب میں بھی شامل ہوتے رہتے تھے ، چنانچہ مدینہ کا کعب بن اشرف یہودِ مدینہ کا سردار مشہور دشمن اسلام اور اس کا باپ ایسے ہی لوگوں میں سے تھے.کعب کا باپ طی قبیلہ سے تھا.یہود سے اسے ایسی عقیدت ہوئی کہ ابورافع بن ابی حقیق یہودی نے اس سے اپنی لڑکی کی شادی کر دی اور اس یہودی لڑکی کے بطن سے کعب پیدا ہوا لے مکہ مکرمہ میں علاوہ عیسائی غلاموں کے خود مکہ کے بعض باشندے بھی عیسائیت کی طرف رغبت رکھتے تھے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی بیوی حضرت خدیجہ کے بھائی ورقہ بن نوفل نہ صرف یہ کہ عیسائی عقائد رکھتے تھے بلکہ انہوں نے کچھ عبرانی بھی سیکھی تھی اور وہ عبرانی انا جیل سے عربی میں ترجمہ کرتے تھے.بخاری میں لکھا ہے كَانَ إِمْرَأَ قَدْ

Page 37

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵ دیباچہ تفسیر القرآن تَنَصَّرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ وَكَانَ يَكْتُبُ كِتَابَ الْعِبْرَانِي فَيَكْتُبُ مِنَ الْإِنْجِيلِ بِالْعِبْرَانِيَّةِ مَا شَاءَ اللَّهُ اَنْ يَكتُب سے یعنی ورقہ بن نوفل نے جاہلیت میں عیسائیت اختیار کر لی تھی اور وہ عبرانی سے عربی میں انا جیل کا ترجمہ کیا کرتے تھے.ہے.عرب کے دوسرے کنارے پر ایرانی آباد تھے اور وہ بھی ایک نبی اور ایک کتاب کے ماننے والے تھے.زرتشت نبی کی کتاب ژند اوستا گوانسانی دستبرد کا شکار ہو چکی تھی لیکن تاہم لاکھوں انسانوں کا مرجع عقیدت بنی ہوئی تھی اور ایک زبر دست حکومت اس کے قانون کی اتباع کی کی مدعی تھی.ہندوستان میں وید ہزاروں سالوں سے لوگوں کی عقیدت کا مرجع بنے ہوئے تھے اور کرشن جی کی گیتا اور بدھ کی تعلیم مزید برآں تھیں.چین میں کنفیوشس ازم کا زور تھا اور بدھ مذہب بھی اپنے پاؤں پھیلا رہا تھا ان کتابوں اور ان تعلیموں کے ہوتے ہوئے کیا کسی نئی کی کتاب کی ضرورت تھی؟ یہ ایک سوال ہے جو قرآن کریم کے دیکھتے ہی ہر شخص کے دل میں پیدا ہوتا ہے یا پیدا ہونا چاہئے.اس سوال کا جواب کئی رنگ سے دیا جاسکتا ہے اول: کیا یہ اختلاف مذاہب خود اس بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئیے ؟ دوم کیا انسانی دماغ اسی طرح ارتقاء کی منزلوں کو طے کرتا ہوا نہیں جا رہا تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں.پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کی کے لئے بھی ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلیں طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی ؟ سوم: کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آ گیا تھا جس کی وجہ سے دنیا کو شدید طور پر ایک نئی کی کتاب کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا ؟ چهارم : کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع انسان کو انسانی پیدائش کا مقصد حاصل کرنا تھا؟

Page 38

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن میرے نزدیک ان چاروں سوالوں کا جواب ہی اس سوال کو حل کر دے گا کہ قرآن کریم کی سے پہلے مختلف کتب اور مختلف مذاہب کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت پیش آئی تھی.پس میں ان چاروں سوالوں کو باری باری لے کر جواب دیتا ہوں.پہلا سوال یہ ہے کہ کیا یہ اختلاف مذاہب خود اس پہلا سوال اور اس کا جواب بات کی دلیل نہ تھا کہ ان سب مذاہب کو متحد کرنے کے لئے کوئی اور مذہب آنا چاہئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مذہب اول انسان کو خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے آتا ہے اور دوسری غرض اس کی شفقت علی خلق اللہ کی تکمیل ہوتی ہے.اسلام کے سوا باقی سب مذاہب مذاہب اسلام سے پہلے جتنے بھی مذاہب دنیا میں موجود تھے وہ سب ایک دوسرے سے قومی مذہب تھے یونیورسل نہ تھے مختلف بلکہ ایک دوسرے کو رڈ کرنے والے تھے.بائبل دنیا کے خدا کو نہیں بلکہ بنی اسرائیل کے خدا کو پیش کرتی تھی ، چنانچہ اس میں بار بار یہ ذکر آتا ہے کہ: ” خداوند بنی اسرائیل کا خدا مبارک ہے جس نے تجھے بھیجا ہے کہ تو آج کے دن میرا استقبال کرے.خداوند بنی اسرائیل کا خدا مبارک ہے جس نے آج کے دن ایک آدمی ٹھہرایا کہ میری ہی آنکھوں کے دیکھتے ہوئے تخت پر بیٹھے.خداوند اسرائیل کا خداوندا بدالا با دمبارک ہو.‘۵ و, خدا وند اسرائیل کا خدا مبارک ہو جس نے اپنے ہاتھ سے وہ کلام کہ جس کو اپنے منہ سے میرے باپ داؤد سے کہا تھا پورا کیا.خداوند خدا اسرائیل کا خدا جوا کیلا ہے عجائب کا م کرتا ہے.‘ کے حضرت مسیح بھی اپنے آپ کو صرف بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث قرار دیتے تھے اور دوسری قوموں کے افراد کو دھتکار دیتے تھے.چنانچہ انجیل میں لکھا ہے:.تب یسوع وہاں سے روانہ ہو کے صور اور صیدا کی اطراف میں گیا اور دیکھو

Page 39

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷ دیباچہ تفسیر القرآن ایک کنعانی عورت وہاں کی سرزمین سے نکل کر اسے پکارتی ہوئی چلی آئی کہ اے خداوند داؤد کے بیٹے ! مجھ پر رحم کر کہ میری بیٹی ایک دیو کے غلبہ سے بے حال ہے.اس نے کچھ جواب نہ دیا.تب اس کے شاگردوں نے پاس آکر اس کی منت کی کہ اسے رخصت کر ، کیونکہ وہ ہمارے پیچھے چلاتی ہے.اس نے جواب میں کہا میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.پھر وہ آئی اور سجدہ کر کے کہا.اے خدا وند ! میری مدد کر.اس نے جواب دیا کہ مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیویں.،، اسی طرح حضرت مسیح نے اپنے حواریوں کو یہ تعلیم دی کہ :.وہ چیز جو پاک ہے کتوں کو مت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے مت پھینکو.ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کریں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں.‘۹ ویدوں کے ماننے والوں میں وید اس حد تک ہندوستان کی اونچی ذاتوں کے ساتھ مخصوص کر دیے گئے تھے کہ گوتم جو تمام ہندو قوم اور سناتن دھرم کا تسلیم شدہ شارح قانون ہے لکھتا ہے کہ: شود را گر وید کوسن لے تو راجہ سیسے اور لاکھ سے اس کے کان بھر دے.وید منتروں کا اچارن ( تلاوت ) کرنے پر اُس کی زبان کٹوادے.اور اگر دید کو پڑھ لے تو اس کا جسم ہی کاٹ دے.۱۰ اسی طرح خود وید میں غیر قوموں کے لئے جو تعلیم موجود ہے وہ نہایت ہی شدید اور سخت ہے.رگوید میں ویدک دھرم کے مخالفین کو کتا قرار دیتے ہوئے یہ بددعا کی گئی ہے کہ: ” اے آگ دیوتا! تو ان بُرے کتوں ( مخالفین) کو دور لے جا کر باندھ ,, دے لے اتھرو وید میں بھی یہ تعلیم دی گئی ہے کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو جکڑ کر اُن کے گھروں کو کوٹ لینا چاہئے.چنانچہ لکھا ہے کہ:.”اے ویدک دھر میں لو گو تم جیتے جیسے بن کر اپنے مخالفین کو باندھ لو اور پھر ان کے

Page 40

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸ دیباچہ تفسیر القرآن کھانے تک کی چیزیں زبر دستی اُٹھالا ؤ.اسی طرح ویدوں میں چاند، سورج ، آگ ، پانی اور اندر سے یہاں تک کہ گھاس سے بھی یہ دعائیں کی گئی ہیں کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کو تباہ و برباد کر دیا جائے.چنانچہ لکھا ہے کہ: اے آگ ! تو ہمارے مخالفوں کو جلا کر راکھ کر دے.‘۱۳ ”اے اندر! تو ہمارے مخالفوں کو چیر پھاڑ ڈال اور جو ہم سے نفرت رکھتے ہیں انہیں تتر بتر کر دے.۱۴ ” اے مخالفو! تم سر کٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہو جاؤ اس کے بعد پھر اندر دیوتا تمہارے چیدہ چیدہ لوگوں کو تباہ کر دے.‘۱۵ ”اے و بھ گھاس ! تو ہمارے مخالفوں کو جلا دے اور تباہ کر اور جس طرح تو پیدا ہوتے وقت زمین کو چیر کر باہر نکل آتا ہے ویسے ہی تو ہمارے مخالفوں کے سروں کو چیرتا ہوا او پر کونکل کر اُن کو تباہ کر کے زمین پر گرا دے.‘۱۶ پھر ہندو دھرم میں یہ بھی تعلیم موجود ہے کہ غیر ویدک دھرمی لوگوں کے ساتھ بات چیت بھی نہ کرو گے اگر کوئی ویدوں پر اعتراض کرے تو اُسے ملک سے باہر نکال دو یعنی جبس دوام کی سزا دو.' ۱۸ کنفیوشس ازم اور زردشت مذہب بھی قومی مذہب تھے.انہوں نے کبھی بھی دنیا کو اپنا مخاطب نہ سمجھا نہ دنیا کو تبلیغ کرنے کی کوشش کی.جس طرح ہندو مذہب کے مطابق ہندوستان خدا تعالیٰ کے خاص بندوں کا ملک تھا اسی طرح کنفیوشس ازم کے مطابق چین آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا اور زرتشتیوں کے نزدیک ایران آسمانی بادشاہت کا مظہر تھا.اس اختلاف کے ہوتے ہوئے یا تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ دنیا کے پیدا کرنے والے کئی خدا ہیں اور یا یہ ماننا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ کی وحدانیت کے لئے اس اختلاف کو مٹا دینا ضروری تھا.اب زمانہ اس قدر ترقی کر چکا ہے کہ شاید مجھے اس بات کے متعلق کچھ خدا ایک زیادہ لکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس دنیا کو پیدا کرنے والا اگر کوئی ہے تو وہ

Page 41

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹ دیباچہ تفسیر القرآن ایک ہی ہے.اسرائیلیوں ، ہندوؤں ، چینیوں اور ایرانیوں کا خدا عربوں ، افغانوں ، یورپینوں، منگولیوں اور سامی نسل کے لوگوں کے خدا سے کوئی مختلف خدا نہیں.اس دنیا میں ایک قانون جاری ہے.آسمان سے پاتال تک ایک ہی نظام کی کڑیاں ہمیں نظر آتی ہیں.در حقیقت سائنس کی بنیاد ہی اس بات پر ہے کہ تمام طبیعاتی اور میکینکل تغییرات ایک ہی سلسلہ کی کڑیاں ہیں اور یا تو بقول مادی علماء کے یہ ساری کائنات ایک قسم کی حرکت کا نتیجہ ہے اور یا پھر اس ساری کا ئنات کو بنانے والا ایک ہی ہاتھ ہے.اس حقیقت کو مدنظر رکھنے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اسرائیلیوں کا خدا کون ہے اور عربوں کا خدا کون ہے اور ہندوؤں کا خدا کون ہے؟ اور اگر خدا ایک ہے تو پھر یہ مختلف مذاہب کیوں پیدا ہوئے ؟ کیا وہ مذاہب صرف بنی نوع انسان کی دماغی اختراع سے تھے اس لئے ہر قوم نے اپنا اپنا خدا تجویز کر لیا ؟ اگر نہیں تو پھر اس اختلاف کی وجہ کیا تھی؟ اور کیا پھر اس اختلاف کا ہمیشہ کے لئے جاری رہنا دنیا کے لئے مفید ہوسکتا تھا ؟ مختلف ادیان کے انسانی دماغ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کیا یہ مذاہب بنی نوع انسان کی دماغی اختراع کا کی اختراع نہ ہونے کی وجوہ نتیجہ ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں اور ہرگز نہیں اور اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:.جو مذا ہب دنیا میں قائم ہو گئے ہیں جب ہم ان کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو مندرجہ ذیل امور ہمیں نظر آتے ہیں.ا.تمام مذاہب کے بانی دُنیوی طور پر کمزور اور نا دار قسم کے آدمی تھے اور کوئی طاقت ان کو حاصل نہ تھی مگر با وجود اس کے انہوں نے دنیا کے چھوٹے بڑوں کو مخاطب کیا اور وہ اور ان کے اتباع نہایت ادنیٰ حالت سے نکل کر اعلیٰ حالت تک پہنچ گئے.یہ اس امر کا ثبوت ہے کہ کوئی طاقتور ہستی ان کے پیچھے کام کر رہی تھی.یا کیزہ زندگی ۲.تمام کے تمام بانیان مذاہب ایسے ہیں کہ ان کی دعوئی سے پہلے کی زندگی ان کے دشمنوں کے نزدیک بھی پاک تھی اب یہ کیونکر خیال کیا جا

Page 42

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰ دیباچهتفسیر القرآن سکتا ہے کہ ایسے پاکیزہ لوگوں نے جو انسان تک پر جھوٹ نہیں بولتے تھے خدا تعالیٰ پر جھوٹ بولنا کی شروع کر دیا.یقیناً ان کے دعوئی سے پہلے کی پاکیزہ زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنے دعوی میں بچے تھے.قرآن کریم نے خاص طور پر اس دلیل کو لیا ہے اور فرماتا ہے.فَقَدْ لَبِثْتُ فِيكُمُ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ ، أَفَلَا تَعْقِلُون 19 یعنی میں نے اپنی عمر تمہارے اندر گزاری ہے اور تم نے میری زندگی کو دیکھا ہے اور گواہی دی ہے کہ میں جھوٹ بولنے والا نہیں ہوں.پھر تم کس طرح سمجھتے ہو کہ آج میں خدا تعالیٰ کی ذات پر افتراء کرنے لگ گیا ہوں.اسی طرح فرماتا ہے.لقَد من الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّن أَنْفُسِهِمْ ٢٠ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر یہ بہت بڑا فضل اور انعام اور احسان کیا ہے کہ اس نے انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے یہی مضمون ذیل کی آیت میں بھی بیان کیا گیا ہے کہ لقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُ من آنْفُسِكُمْ ال یعنی تمہاری طرف تمہیں میں سے ایک رسول آیا ہے یعنی کوئی ایسا شخص تمہارے سامنے رسالت کا دعویٰ نہیں کر رہا جس کے حالات زندگی سے تم نا آشنا ہو بلکہ ایسا شخص مدعی کماً موریت ہے جس کے حالات کو تم خوب جانتے ہو اور تمہیں معلوم ہے کہ اس کی زندگی کیسی پاکیزہ گزری ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے اور انبیاء کے متعلق بھی یہ حقیقت واضح فرمائی ہے کہ وہ اپنی قوم ہی میں سے مبعوث کئے گئے تھے.اور اُس قوم کے لوگ یہ عذر نہیں کر سکتے کہ ہم ان کے حالات سے واقف نہیں.اللہ تعالیٰ کی نے فرمایا ہے کہ جب دوزخی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو اُن سے کہا جائے گا آلمْ يَأْتِكُمْ رُسُلُ مِنْكُمْ يَتْلُونَ عَلَيْكُمْ أيت رَبِّكُمْ وَيُنذِرُونَكُمْ لِقَاء يومكم هذا ۲۲ یعنی کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول نہیں آئے جو تم پر ہماری آیات پڑھا کرتے تھے اور تمہیں اس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟

Page 43

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱ دیباچهتفسیر القرآن اسی طرح فرماتا ہے.يمعشر الجن والانس الم يَأْتِكُمْ رُسُلُ مَنْكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ أَيْتِي وَيُنذِرُونَكُمْ لقاء يومكم هذا ۲۳ یعنی اے جنوں اور انسانوں کے گروہ! کیا تمہارے پاس تمہیں میں سے ایسے رسول نہیں آئے جو تمہیں ہمارے نشانات سے آگاہ کیا کرتے تھے اور اس دن کے عذاب سے ڈرایا کرتے تھے؟ ایک اور جگہ فرماتا ہے.۲۴ فار سَلْنَا فِيْهِمْ رَسُولًا يَنْهُمْ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُمْ مِّنَ الهِ غَيْرُة ہم نے ان لوگوں میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا جس کی تعلیم یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی ہی عبادت کرو.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.پھر فرماتا ہے ويوم نَبْعَثُ فِي كُلّ أُمَّةٍ شَهِيدًا عَلَيْهِمْ مِّنْ أَنْفُسِهِمْ ۲۵ یعنی قیامت کے دن ہم ہر قوم کے خلاف خود اُنہی میں سے ایک رسول کھڑا کریں گے اس جگہ شہید سے مراد ہر وہ نبی ہے جو کسی قوم کی طرف مبعوث ہوا.یعنی قیامت کے دن وہ انبیا ء اپنے نمونہ کو پیش کریں گے کہ کلام الہی نے اُن پر کیا اثر کیا.اس طرح خدا تعالیٰ کفار کو شرمندہ کرے گا کہ ہمارا یہ نبی تو اس کمال کو پہنچ گیا اور تم انکار کر کے تمام ترقیات سے محروم رہ گئے.اس جگہ تمام انبیاء کے متعلق یہ بتایا گیا ہے کہ وہ من اَنفُسِهِم تھے یعنی ہر وہ قوم جس کی طرف وہ مبعوث کئے گئے ان میں سے ہر ایک کو جانتی تھی اور وہ ان لوگوں کی پاکیزگی اور طہارت کی شاہد تھی.علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ بھی کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ وإلى عادٍ آنَاهُمْ هُودًا وَإلَى ثَمُودَ أَخَاهُم طراحا ٢ وإلى مدين ٢٦ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا ۲ یعنی عاد کی طرف ہم نے ان کے بھائی ھود کو مبعوث کیا اور ثمود کی طرف ان کے بھائی صالح کو مبعوث کیا اور مدین کی طرف ان کے بھائی شعیب کو مبعوث کیا.گویا ی ھود، صالح اور شعیب سب کے سب اپنی قوم کی نظروں میں ایسا مقام رکھتے تھے کہ وہ ان کے حالات زندگی سے پوری طرح واقف تھے.اسی طرح حضرت صالح کے متعلق آتا ہے کہ جب انہوں نے خدا تعالیٰ کے احکام بیان

Page 44

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲ دیباچہ تفسیر القرآن فرمائے تو ان کی قوم نے کہا يُصْلِحُ قَد كُنتَ فِينَا مَرْجُوا قبل هذا انتهينا أن نَّعْبُدَ مَا يَعْبُدُ ايَاؤُنَا " اے صالح ! تو تو اس دعوی سے پہلے ہماری اُمیدوں کا مرکز تھا تو نے یہ کیا کیا کہ تو نے ہمیں اُس عبادت سے روک دیا جو ہمارے باپ دادا ایک مدتہ سے کرتے چلے آرہے تھے.اسی طرح حضرت شعیب کے متعلق اُن کی قوم نے کہا.يشُعَيْبُ أَصَلوتُكَ تَأمُرُكَ أن نَتْرُكَ مَا يَعْبُدُ اباؤنا أو أن تفعل في أموالنا ما تشاء اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِيمُ الرشید ۳۰ اے شعیب ! کیا تیری نماز تجھے یہ حکم دیتی ہے کہ ہم اپنے آباؤ اجداد کے طریقوں کو ترک کر دیں یا ہم اپنے اموال کی تقسیم میں تیری ہدایات کی تقلید کریں اور اپنی مرضی چھوڑ دیں.تو تو بڑا حلیم اور رشید تھا تجھے کیا ہوا ہے کہ تو ایسی غلط تعلیم دینے لگا.ان آیات سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت صالح ، حضرت شعیب اور اسی طرح باقی تمام انبیاء کے متعلق قرآن کریم میں اس حقیقت کو واضح کیا گیا ہے کہ وہ کوئی گمنام آدمی نہ تھے.ان کی اقوام ان کی زندگیوں پر شاہد تھیں اور ان کی نیکی ، تقومی اور عبادت پر گواہ تھیں اور یہ نہیں کہ سکتی تھیں کہ کسی پوشیدہ حالات والے یا بد کار شخص نے قوم کو ٹوٹنے کی تجویز کی ہے.بانیان مذاہب اور دنیوی تعلیم.تمام کے تمام بانیان مذاہب دنیوی تعلیم کے لحاظ سے قریباً کورے تھے لیکن جو تعلیم اُنہوں نے لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کیلئے دی ہے وہ نہایت ہی اعلی ، مناسب حال اور مناسب زمانہ ہے اور اُس پر چل کر ان کی قوم نے صدیوں تک تہذیب اور شائستگی میں دنیا کی راہنمائی کی ہے.یہ کس طرح خیال کیا جا سکتا ہے کہ جو شخص دُنیوی علوم سے بے بہرہ ہے وہ خدا تعالیٰ پر افتراء کر کے یکدم ایسی قدرت حاصل کر لیتا ہے کہ اس کی بتائی ہوئی تعلیم اُس زمانہ کی تعلیمات پر فائق ہو اور ان پر غالب آ جائے ، یہ کام تو صرف ایک بالا ہستی کی تائید ہی سے ہوسکتا ہے.

Page 45

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳ دیباچهتفسیر القرآن بانیان مذاہب زمانہ کی رو تغیر میں قدر پایان غاب گزرے ہیں ان کی جس مذاہب تعلیم پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمیشہ ہی وہ کے خلاف تعلیم دیتے تھے زمانہ کی زو کے خلاف رہی ہے.اگر ان کی تعلیمیں زمانہ کی رو کے مطابق ہوتیں تو کہا جا سکتا تھا کہ وہ اپنی جماعت کے ذہنی ارتقاء کے نمائندے تھے لیکن وہ لوگ تو اپنے زمانہ کی تعلیم کو نہ صرف رڈ کرتے تھے بلکہ اس کے خلاف ایک اور تعلیم بھی پیش کرتے تھے جس کی وجہ سے ملک میں ایک آگ لگ جاتی تھی لیکن باوجود اس کے ان می کے مخاطب ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو جاتے تھے.یہ چیز بھی بتاتی ہے کہ وہ نمائندہ انسان نہیں تھے بلکہ حقیقی مصلح اور خدا تعالیٰ کے نبی تھے.موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں ایک خدا کی تعلیم کتنی عجیب چیز تھی.حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں جبکہ مادیت کچھ یہود کی دنیا پرستی کی وجہ سے اور کچھ رومی حکومت کے غلبہ کی وجہ سے فلسطین پر غالب آ رہی تھی روحانیت پر زور دینا اور دنیا طلبی کے خلاف وعظ کرنا اور اُس وقت جبکہ یہو د رومی کوڑوں کے نیچے تلملا رہے تھے اور انتقام کے جذبات ان کے دل میں پیدا ہو رہے تھے، انہیں عفو اور رحم کی تعلیم دینا کتنی عجیب بات تھی.ہندوستان میں ایک طرف کرشن کا لڑائی کی تعلیم دینا اور دوسری طرف مادیت سے دل ہٹا کر خدا تعالیٰ کے ساتھ کو لگانے کی تعلیم دینا اُس زمانہ کے حالات کے کیسا خلاف تھا.زرتشتی تعلیم بھی جو انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر حاوی تھی ایران جیسے آزاد خیال لوگوں کیلئے کتنی نا قابل قبول تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرب میں پیدا ہو کر یہودیوں اور عیسائیوں کو دعوت دینا جبکہ مسیحیوں اور یہودیوں کے نزدیک ان کے مذہب کے سوا کہیں اور ہدایت نہیں پائی جاتی تھی اور مکہ والوں کو جو کہ شرک میں ڈوبے ہوئے تھے تو حید کی تعلیم دینا اور جو اپنی نسلی برتری کے خیالات میں مگن تھے انہیں تمام بنی نوع انسان کے برا بر ہونے کا پیغام پہنچانا ، شراب میں مست اور جوئے میں غرق رہنے والوں کو شراب کی حرمت اور جوئے کی شناعت کی تعلیم دینا بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے متعلق رائج الوقت خیالات اور اعمال کی مخالفت کرنا اور اس کی جگہ ایک نئی تعلیم پیش کرنا اور پھر اس میں کامیاب ہو جانا بتاتا ہے کہ آپ پہاڑ کی چوٹی سے پوری شدت کے ساتھ گرنے والے دریا کی مخالف سمت

Page 46

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴ دیباچہ تفسیر القرآن میں تیر کر منزل مقصود تک پہنچ گئے اور یہ کام انسانی طاقت سے باہر ہے.بانیانِ مذاہب کے ذریعہ ٥.جس قدر بانیان مذاہب گزرے ہیں سب کے ۵.ہاتھوں سے ایسے نشانات اور معجزات ظاہر ہوئے ہیں نشانات و معجزات کا ظہور جن کا ظہور کسی انسان کے ہاتھوں سے نہیں ہوسکتا.سب سے پہلے تو ان میں سے ہر ایک نے اپنے دعوی کے ساتھ ہی یہ خبر بھی دے دی ہے کہ میری تعلیم پھیل کر رہے گی اور اس کے ساتھ ٹکر انے والا خود پاش پاش ہو جائے گا اور باوجود اس کے کہ دنیوی لحاظ سے وہ بہت کمزور تھے ، دنیوی علوم کے لحاظ سے صفر تھے اور زمانہ کی رو کے خلاف تعلیم دینے والے تھے اور باوجود اس کے کہ ان کی شدید ترین مخالفت کی گئی پھر بھی وہ غالب آئے اور ان کی بتائی ہوئی خبر پوری ہوئی.کون انسان قبل از وقت ایسی خبر دے سکتا ہے اور پھر کون سی انسانی طاقت اسے پورا کروا سکتی ہے.انبیاء کی ترقی اور دنیا وی اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوسرے انسانوں نے بھی غیر معمولی ترقیاں کی ہیں مگر یہاں سوال لیڈروں کی ترقی میں فرق غیر معمولی ترقی کا نہیں بلکہ سوال اس بات کا ہے کہ ان لوگوں نے خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر کے اپنی ترقی کا اعلان کیا اور اپنی اخلاقی زندگی اور موت کو اس پیشگوئی کے ساتھ وابستہ کر دیا اور پھر زمانہ کی رو کے خلاف چلے.بیشک نپولین ، اسے ہٹلر ، ۳۲ے اور چنگیز خان ۳۳ نے بھی ادنیٰ حالت سے ترقی کی لیکن وہ زمانہ کی رو کے خلاف نہ چلے تھے.انہوں نے کبھی یہ اعلان نہیں کیا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں بتایا ہے کہ باوجود مخالفت کے تم جیت جاؤ گے.پھر ان کی کبھی شدید مخالفت نہیں ہوئی کیونکہ جس بات کا وہ اعلان کر رہے تھے.ملک کے اکثر افراد خود اس کے خواہشمند تھے.ذرائع میں اختلاف ہو تو ہو مگر مقصود میں اختلاف کی نہیں تھا.اگر وہ ہار جاتے یا ہار گئے تو ان کی عظمت میں کوئی فرق نہیں آسکتا.باوجود اس کے وہ ی قوم کے لیڈر بنے رہے اور یہی امید کرتے تھے کہ ہم ہی بنے رہیں مگر ذرا خیال تو کرو کہ اگر موسیقی اور عیسی اور کرشن اور زرتشت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِكَ ناکام رہتے تو کیا وہ آئندہ نسلوں میں قوم کے ہیرو کے طور پر یاد کئے جا سکتے تھے؟

Page 47

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵ دیباچہ تفسیر القرآن ان کی اپنی قو میں انہیں دھوکا باز اور دغا باز کہتیں ، تاریخیں ان کے ذکر کو نظر انداز کر دیتیں اور وہ ہمیشہ کیلئے بدنامی کے گڑھے میں گر جاتے.پس ان کے دعوئی میں اور نپولین اور ہٹلر وغیرہ کے دعوی میں زمین و آسمان کا فرق ہے اور اُن کی کامیابیوں اور ان کی کامیابیوں میں بھی زمین و آسمان کا فرق ہے.پھر ذرا ان لوگوں کے انجام کو بھی دیکھو.نپولین ہٹلر اور چنگیز خان کو کتنے لوگ عقیدت اور محبت سے یاد کرتے ہیں.ہیرو تو وہ ہوتے ہیں جن کا قبضہ قوم کے ایک حصہ کے دماغوں پر بھی ہو لیکن کیا ان کے ہاتھوں اور پاؤں اور دلوں پر بھی ان لوگوں کا قبضہ ہے؟ مگر ان دنیوی لیڈروں کے مقابلہ پر دینی راہبر ایسے تھے کہ لاکھوں آدمی ہر زمانہ میں ایسے گزرے ہیں جنہوں نے اُسی طرف آنکھ اُٹھائی ہے جس طرف اُٹھانے کے لئے ان لوگوں نے کہا تھا اور اسی بات کو سنا ہے جس کے سننے کی ان لوگوں نے اجازت دی تھی اور وہی فقرات اپنی زبان پر لائے ہیں جن فقرات کے بولنے کی ان کی طرف سے ہدایت تھی اور ان کے ہاتھ اور پاؤں ان ہی کاموں کے لئے چلے ہیں جن کاموں میں حصہ لینے کی اُنہوں نے ترغیب دی تھی.کیا دوسرے قومی لیڈروں کے متعلق اس مثال کا لا کھواں یا کروڑواں حصہ بھی ثابت کیا جا سکتا ہے؟ پس یہ لوگ یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے اور ان کے لائے ہوئے مذہب یقیناً خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے.بانیانِ مذاہب کی تعلیم اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب خدا تعالی کی طرف سے تھے تو ان کی تعلیمات میں اختلاف کیوں تھا ؟ کیا میں اختلاف کی وجہ خدا تعالی مختلف تعلیمیں دے سکتا ہے جبکہ کوئی عقلمند انسان بھی تعلیمیں نہیں دیا کرتا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے حالات میں مختلف قسم کی چی تعلیمیں نہیں دی جاتیں بلکہ مختلف حالات میں مختلف تعلیمیں دینا ہی حکیم ، ہستیوں کا کام ہوتا ہے ہے.آدم کے زمانہ میں تمام بنی نوع ایک ہی جگہ رہتے تھے اس لئے ان کے لئے ایک ہی قسم کی تعلیم کافی تھی.شاید نوع تک بھی یہی حالت تھی مگر میں اس کے متعلق قطعی رائے نہیں رکھتا.بائبل کہتی ہے کہ بابل کے زمانہ تک تمام قو میں ایک ہی جگہ پر رہتی تھیں.گو بائبل تاریخ کی کتاب نہیں لیکن ایک بات جو اس دعوی کی تائید میں مجھے تاریخ سے نظر آتی ہے اور وہ یہ کہ دنیا کی

Page 48

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶ دیباچہ تفسیر القرآن کی تمام اقوام میں یہاں تک کہ بعض جزائر کے وحشی قبائل میں بھی طوفانِ نوح کی خبر ملتی ہے.چونکہ ایسا طوفان جو ساری دنیا میں آیا ہو اور پھر ساری دنیا کو اس کے عالمگیر ہونے کا علم بھی ہو، یہ ایک غیر طبعی سادعوی ہو گا اس لئے یہی بات قرین قیاس معلوم ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی ایک مقام پر یہ طوفان آیا تھا جب کہ دنیا کی آبادی ایک جگہ پر تھی اور اس کے بعد لوگ اِدھر اُدھر پھیل گئے.پس گو بابل کے زمانہ تک دنیا کا ایک ہونا ثابت نہ ہو مگر نوح کے زمانہ تک تو دنیا کا ایک ہونا ثابت ہوتا ہے.نوح کے زمانہ کے بعد کسی وقت جب بنی نوع انسان متفرق ملکوں میں پھیل گئے اور وہ تعلیم جو نوع نے دی تھی آہستہ آہستہ خراب ہونے لگی تو اس وجہ سے کہ آمد ورفت کے ذرائع محدود تھے اور ایک ملک کے نبی کی آواز دوسری جگہ نہیں پہنچتی تھی خدا تعالیٰ نے مختلف ملکوں میں اپنے نبی بھیجے تا کہ کوئی قوم اُس کی ہدایت سے محروم نہ رہ جائے اور اس سے اختلاف مذاہب کی بنیاد پڑی.چونکہ بنی نوع انسان کی دماغی حالت ابھی تکمیل کو اور علم و عقل اپنے نقطۂ مرکزی کو نہ پہنچے تھے اس لئے ہر ملک اور اُس ملک کی دماغی حالت کے مطابق تعلیمات نازل ہوئیں.لیکن جب نسلیں ترقی کرتی گئیں اور غیر ممالک آباد ہونے شروع ہوئے اور آبادیوں کے فاصلے کم ہوتے چلے گئے اور ذرائع آمد و رفت میں ترقی ہوتی چلی گئی.کشتیوں نے جہازوں کی صورت اور جہازوں نے بادبانی کی جہازوں کی صورت اختیار کر لی.پاؤں پر چلنے والوں نے بیلوں پر ، پھر اونٹوں ، گدھوں ، گھوڑوں پر چڑھنا شروع کیا پھر ہاتھیوں پر چڑھنا شروع کیا اور پھر آرام اور سہولت سے سفر کرنے کیلئے بیلوں ، گھوڑوں اور گدھوں کو گاڑیوں میں جو تنا شروع کیا اور پھر ان گاڑیوں اور جہازوں نے سڑکوں اور سمندروں کے ذریعہ سے دُور دور تک آمد ورفت کے سلسلہ کو جاری کیا.تمام بنی نوع کیلئے ایک کامل الغرض جب انسانی دماغ اس حد تک پہنچ گیا کہ مختلف حالات کے متوازی تعلیمات کو سمجھ سکے دین کا ظہور اور توحید پر زور اور موقع مناسب پر ان کا استعمال کر سکے.جب انسان باہمی میل جول کے بعد اس نتیجہ پر پہنچنے کے قابل ہوا کہ سب بنی نوع انسان ایک ہی ہیں اور سب کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور سب کو ہدایت دینے والا ایک ہادی ہے تب اللہ تعالی

Page 49

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷ دیباچہ تفسیر القرآن نے ریگستان عرب کی بستی مکہ میں اپنا وہ آخری پیغام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا می جس کی پہلی آیت یہ ہے الْحَمدُ یو ر این ۳۴ یعنی وہ خدا تعالیٰ تمام تعریفوں لِلهِ رَبِّ کا مستحق ہے جو ہر قوم اور ہر ملک کی یکساں ربوبیت کرنے والا ہے اور اس کی ربوبیت کا پہلو کسی ایک قوم یا ایک ملک کے ساتھ مخصوص نہیں ہے اور جس پیغام کا خاتمہ ان آیات پر ہوتا ہے قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ مَلِكِ النَّاسِ إله الناس ۳۵ یعنی تو کہہ میں اُس کی خدا کی پناہ طلب کرتا ہوں جو تمام بنی نوع انسان کا رب ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا بادشاہ ہے، جو تمام بنی نوع انسان کا معبود ہے، وہ شخص جس پر یہ کلام نازل ہوا وہ شخص یقینا آدم ثانی تھا جس طرح آدم اول کے زمانہ میں ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت تھی اسی طرح اس کے زمانہ میں بھی ایک ہی کلام اور ایک ہی اُمت ہوگئی.پس اگر اس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہی ہے اور اگر وہ تمام اقوام اور تمام ممالک کے ساتھ یکساں تعلق رکھتا ہے تو ضروری تھا کہ کسی وقت تمام قومیں اور تمام افراد ایک نقطۂ مرکزی کی طرف جھکتے یا ایک نقطہ پر جمع ہونے کا سامان ان کے لئے پیدا کیا جاتا اور اس ضرورت کو صرف قرآن کریم پورا کرتا ہے.قرآن کریم کے بغیر دنیا کی روحانی پیدائش بالکل بیکار ہو جاتی ہے کیونکہ دنیا اگر روحانی طور پر ایک نقطہ پر جمع نہیں ہوتی تو خدائے واحد کی واحدانیت کس طرح ثابت ہو سکتی ہے.شروع شروع میں دریاؤں کے کئی نالے ہوتے ہیں مگر دریا آخر ایک بڑے وسیع رستہ میں اکٹھا ہو کر بہ چلتا ہے تب اس کی شان و شوکت ظاہر ہوتی ہے.موسی عیسی ، زرتشت ، کرشن اور دوسرے انبیاء کی تعلیمات پہاڑی نالے تھے.اپنی اپنی جگہ وہ بھی مفید کام کرتے رہے تھے مگر ان نالوں کا ایک دریا میں مل جانا خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور بنی نوع انسان کی انتہائی ترقی پر پہنچنے کے لئے نہایت ضروری تھا.1 قرآن مجید کے سوا کسی نبی کی اگر قرآن اس غرض کو پورا نہیں کرتا تو کس نبی کی کتاب اس غرض کو پورا کرتی ہے؟ کیا بائبل اس تعلیم سب قوموں کیلئے نہ تھی غرض کو پورا کرتی ہے جو خدا کو بنی اسرائیل کے ساتھ مخصوص کر دیتی ہے؟ کیا زرتشت کی کتاب اس ضرورت کو پورا کرتی ہے جو خدا کے نور کو ایرانیوں کے ساتھ وابستہ کر دیتی ہے؟ کیا وید اُس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جو ویدوں کے.

Page 50

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸ دیباچہ تفسیر القرآن سننے والے شُو در کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالنے کا ارشاد کرتے ہیں؟ کیا بدھ اس ضرورت کو پورا کرتے ہیں جن کا ذہن ہندوستان کی چار دیواری سے باہر کبھی گیا ہی نہیں ؟ ہاں ! کیا مسیح کی تعلیم اس غرض کو پورا کرنے والی ہے جو خود کہتا ہے کہ: یہ مت خیال کرو کہ میں تو راہ یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے آیا ہوں.میں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پوری کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.۳۶ اور موسی اور گزشتہ نبیوں نے عالمگیر مذہب کے متعلق جو کچھ خیالات ظاہر کئے ہیں وہ میں او پر لکھ ہی چکا ہوں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عیسائیت نے ساری دنیا کو تبلیغ کی ہے مگر یہ تبلیغ مسیح کے ذہن میں تو نہ تھی.سوال اس کا نہیں کہ دنیا کیا کرتی ہے.سوال اس بات کا ہے کہ بھیجنے والے خدا کا منشاء کیا تھا اور اس منشاء کو مسیح کے سوا کون ظاہر کر سکتا ہے.مسیح خود کہتا ہے کہ:.میں اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا اور کہ: گیا.۳۷ ابن آدم آیا ہے کہ کھوئے ہوئے کو ڈھونڈ کے بچاوے“.۳۸ پس مسیح کی تعلیم سوائے بنی اسرائیل کے اور کسی کے لئے نہ تھی.کہا جاتا ہے کہ مسیح نے دوسری اقوام کی طرف جانے کی بھی ہدایت کی تھی جیسے کہ اُس نے کہا:.تم جا کر سب قوموں کو شاگرد کرو اور انہیں باپ، بیٹے اور روح القدس کے " نام سے بپتسمہ دو“.۳۹ مگر اس حوالہ سے یہ نتیجہ نکالنا کہ میچ نے بنی اسرائیل کے سوا اور قوموں کی طرف بھی جانے کی ہدایت کی تھی درست نہیں.کیونکہ مسیح خود کہتا ہے کہ:.تم جو میرے پیچھے ہو لئے جب نئی خلقت میں ابن آدم جلال کے تخت پر بیٹھے گا تم بھی بارہ تختوں پر بیٹھو گے اور اسرائیل کے بارہ گروہوں کی عدالت ہوگی.۴۰

Page 51

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹ دیباچہ تفسیر القرآن اس آیت سے ظاہر ہے کہ میچ کی حکومت تا ابد بنی اسرائیل کے بارہ گروہوں پر ہے نہ کہ دوسری قوموں پر.اسی طرح مسیح کہتا ہے:.میں بنی اسرائیل کے گھر کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.پھر اس نے ہدایت کی طالب عورت کو جو کہ اسرائیلی نہ تھی بلکہ کنعان کی رہنے والی تھی.کہا کہ: مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کے آگے پھینک دیویں“.۴۲ پھر وہ کہتا ہے.غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامر یوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا.بلکہ پہلے بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جاؤ“.۴۳ یہ خیال نہ کیا جائے کہ اس جگہ پہلے“ کا لفظ ہے اور مطلب یہ ہے کہ پہلے اسرائیلی شہروں کی میں جاؤ اور پھر غیر اسرائیلی شہروں میں جانا کیونکہ اس جگہ خالی اسرائیلیوں کے شہروں میں پھرنا ہو مراد نہیں بلکہ اسرائیلیوں کو مسیحی بنانا مراد ہے اور مطلب یہ ہے کہ جب تک اسرائیلی مسیحی نہ : جائیں کسی اور قوم کی طرف توجہ نہ کرنا اور خود مسیح نے واضح کر دیا ہے کہ یہ کام مسیح ثانی کی آمد تک پورا نہ ہو گا.چنانچہ اس باب کی آیت ۲۳ میں لکھا ہے :.” جب وے تمہیں ایک شہر میں ستاویں تو دوسرے میں بھاگ جاؤ.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم اسرائیل کے سب شہروں میں نہ پھر چکو گے جب تک کہ ابن آدم نہ آئے گا، ۴۴ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں بنی اسرائیل کے شہروں میں پھر جانا مراد نہیں کیونکہ یہ کام تو چند مہینوں میں ہو سکتا تھا بلکہ اس سے مراد بنی اسرائیل کا مسیحیت میں داخل کی ہونا ہے اور مسیح فرماتے ہیں کہ اُن کی آمد ثانی تک یہ کام پورا نہیں ہو گا.پس مسیح کی آمد ثانی کی تک غیر قوموں کو مخاطب کرنے میں مسیحی لوگ حق بجانب نہیں بلکہ مسیح کی تعلیم کے خلاف چلنے والے ہیں.پھر ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے حواری بھی غیر اقوام میں اناجیل کی منادی

Page 52

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰ دیباچہ تفسیر القرآن کرنا جائز نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ چند رسولوں کے متعلق لکھا ہے:.وے جو اس جور و جفا سے جو کہ استیفن کے سبب بر پا ہوئی تتر بتر ہو گئے تھے.پھرتے پھرتے فینیکے وکپرس اور انطاکیہ میں پہنچے مگر یہودیوں کے سوا کسی کو کلام نہ سناتے تھے.۲۵ اسی طرح جب حواریوں نے سنا کہ پطرس نے ایک جگہ غیر قوموں میں انجیل کی منادی کی ہے تو وہ سخت ناراض ہوئے اور جب پطرس یروشلم میں آیا تو مختون اُس سے یہ کہہ کر بحث کرنے کی لگے کہ تو نامختونوں کے پاس گیا اور اُن کے ساتھ کھایا.۴۶ پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کوئی شخص بھی نہیں تھا جس نے ساری دنیا کو خطاب کیا ہو اور قرآن سے پہلے کوئی کتاب نہ تھی جس نے ساری دنیا کو مخاطب کر نے کا دعویٰ کیا ہو.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں جنہوں نے ساری دنیا کو مخاطب کر کے کہا کہ قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ انّي رَسُولُ اللهِ الَّيْكُمْ جَمِيعًا یعنی اے لوگو! میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.پس قرآن کریم کا آنا ان اختلافات کے مٹانے کے لئے جو وقتی اور قومی تعلیموں کی وجہ سے پیدا ہو گئے تھے ضروری تھا.اگر قرآن نہ آتا تو دنیا پر یہ بھی ثابت نہ ہوتا کہ دنیا کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے اور نہ یہ ثابت ہوتا کہ دنیا ایک خاص مقصود کو مد نظر رکھ کر پیدا کی گئی ہے.پس گزشتہ مذاہب کا اختلاف اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ وہ دنیا کو متحد کرنے والی آخری تعلیم کے رستہ میں روک نہیں بلکہ ان کا وجو دہی ایک ایسی تعلیم کا متقاضی ہے.دوسرا سوال اور اُس کا جوا.دوسرا سوال یہ ہے کہ انسانی دماغ اسی طرح کی.ارتقاء کی منزلوں کو طے کرتے ہوئے نہیں جا رہا تھ تھا جس طرح انسانی جسم نے کسی زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں ؟ پھر کیا جس طرح جسم کی ارتقائی منزلیں ایک مقام پر پہنچ کر ایک مستقل صورت اختیار کر گئیں اسی طرح کیا روح اور دماغ کیلئے بھی یہ ضروری نہ تھا کہ وہ ارتقائی منزلوں کو طے کرتے ہوئے ایک ایسی منزل پر پہنچتے جو انسانی پیدائش کا مقصود تھی؟

Page 53

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن اس سوال کا جواب یہ ہے کہ تمدن و تہذیب اور کلچر سے کیا مراد ہے ؟ ملک ممالک کی تہذیب اور ہے؟ تمدن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا پر تہذیب اور تمدن کے کئی دور آئے ہیں اور بعض اُن میں سے اتنے شاندار گزرے ہیں کہ بادی النظر میں وہ دور ہمارے موجودہ دور کے بالکل مشابہ معلوم ہوتے ہیں.اگر مکینیکل ترقی کو الگ کر دیا جائے تو پرانا دور تمدن موجودہ دور تمدن کے بالکل مشابہہ معلوم ہوتا ہے.اسی طرح پرانا دور تہذیب بھی موجودہ زمانہ کے دور تہذیب کے بہت حد تک مشابہ نظر آتا ہے.مگر زیادہ غور سے دیکھا جائے تو دو فرق ہمیں نمایاں نظر آتے ہیں لیکن پیشتر اس کے کہ میں ان امتیازوں کا ذکر کروں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ تمدن یعنی سویلیزیشن اور تہذیب یعنی کلچر سے میری کیا مراد ہے.میرے نزدیک تمدن ایک خالص مادی نقطہ نگاہ ہے.مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی اعمال میں جو یکسانیت اور سہولت پیدا ہو جاتی کی ہے وہ میرے نزدیک تمدن کہلاتی ہے.انسانی اعمال کے نتیجہ میں جس قسم کی اور جس قدر پیدا وار دنیا میں ہو اُس کو ایک دوسری جگہ پہنچانے کے لئے نقل وحرکت کے جتنے ذرائع موجود ہوں، مال کو سہولت کے ساتھ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ کی طرف منتقل کرنے کے لئے جتنی تدبیریں کی گئی ہوں، تعلیم جتنی رائج ہو ، صنعت و حرفت جتنی منظم کر لی گئی ہو، سائنس کی طرف قوم میں جتنا میلان پایا جاتا ہو اور ملک میں امن کے قیام کے لئے جس حد تک فوجی تنظیم کی گئی ہو ، یہ چیزیں لازمی طور پر انسان کے اعمال پر اثر ڈالتی ہیں اور ان میں جو ملک ترقی یافتہ ہو اُس کے افراد کی زندگی دوسری اقوام کے افراد کی زندگی سے نمایاں طور پر الگ نظر آتی ہے اور میرے نزدیک اسی کو تمدن یا سویلیزیشن کہتے ہیں.ایک زراعتی طور پر غیر تعلیم یافتہ ملک کے کچھ لوگوں کی غذا یقیناً زراعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ملک کی نسبت مختلف ہو گی.زراعتی طور پر ترقی یافتہ ملک طبی طور پر تجویز کردہ اور زبان کے ذائقہ کے مطابق خوراک استعمال کرے گا اور اس کی خوراک میں بہتات ہو گی.مگر زراعت میں غیر ترقی یافتہ ملک کے لوگوں کی خوراک میں نہ طبی اصول مد نظر رکھے جاسکیں گے نہ ذائقہ کا سوال مد نظر ہوگا.قدرت نے جو غذا ان کے ملک میں پیدا کر دی ہے وہ اسی کے کھانے پر مجبور ہوں گے اور اس سے آگے ان کی نگاہ جاہی نہیں

Page 54

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲ دیباچہ تفسیر القرآن سکے گی.اسی طرح ایک صنعت و حرفت میں پیچھے رہ جانے والا ملک صنعت وحرفت میں ترقی کر جانے والے ملک کا مقابلہ لباس اور مکان اور مکان کے فرنیچر میں بھی نہیں کر سکتا.مکانوں کی حفاظت اور نگہداشت میں بھی نہیں کر سکتا کیونکہ اُس ملک کے پاس اتنے کپڑے نہیں ہوں گے کہ اُس کے ماہر اس فکر میں لگ جائیں کہ وہ کپڑے کس کس شکل میں استعمال کئے جائیں.مختلف کوٹوں کی ساخت اور ان کے استعمال کے مواقع تو الگ رہے ان لوگوں کو تو کپڑے کی کمی کی وجہ سے خودکوٹ کا بھی خیال نہیں آسکتا.بلکہ وہ لوگ تو کرتے کو بھی ایک عیاشی سمجھیں گے.بکر وٹے کے چمڑے کے بوٹ تو الگ رہے اُن لوگوں کے لئے تو بھینس کے صاف شدہ چمڑے کے بوٹوں پر اصرار کرنا بھی ناممکن ہو گا.بلکہ ان کے لئے تو جوتی بھی ایک عیاشی کا خیال ہوگی اور وہ یا تو ننگے پاؤں پھرنے کو زندگی کا ایک معمول سمجھیں گے یا بالوں والے چھڑے تسموں کے ساتھ پیر میں باندھ کر یہ خیال کریں گے کہ ہم ایک نعمت عظمی کے مالک ہو گئے ہیں.چونکہ میں یہ مضمون ضمناً لکھ رہا ہوں اس کی تفصیلات بیان نہیں کرتا لیکن ایک ادنی تدبر سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ زندگیوں کا یہ فرق محض زراعت، صنعت و حرفت ، سائنس اور تعلیم کے فرق کا نتیجہ ہے.مگر فرق اتنا بڑا ہے کہ ایک قسم کی زندگی کے عادی لوگ دوسری قسم کی زندگی کے عادی لوگوں کے ساتھ مل کر بیٹھنا بھی برداشت نہیں کر سکیں گے.یہی چیز میرے نزدیک تمدن یعنی سویلیز میشن کہلاتی ہے اور اس کے اختلافات پر دنیا کی صلح اور دنیا کی جنگ کا بہت کچھ انحصار ہے.یہی تمدن آخرا مپیریل ازم اور خواہش عالمگیری انسان کے دل میں پیدا کرتا ہے.دوسری چیز تہذیب یعنی کلچر ہے اس کو تمدن سے وہی نسبت ہے جو روح کو جسم سے ہے.تمدن مادی ترقی کا نتیجہ ہے اور تہذیب دماغی ترقی کا نتیجہ ہے.تہذیب یعنی کلچر اُن افکار اور اُن خیالات کا نتیجہ ہے جو کسی قوم میں مذہب یا اخلاق کے اثر کے نیچے پیدا ہوتے ہیں.مذہب ایک بنیاد قائم کرتا ہے اور مذہب کے پیرو اُس بنیاد پر ایک عمارت کھڑی کرتے ہیں.خواہ وہ بنیاد رکھنے والے کے خیالات سے کتنے بھی دور چلے جائیں وہ بنیاد کو چھوڑ نہیں سکتے.جس شخص نے عمارت کی بنیا د رکھی ہو اُس کے نقشہ سے عمارت بنوانے والے کے نقشہ کو کتنا بھی اختلاف ہو پھر بھی وہ بنیاد کے کونوں اور زاویوں سے آزاد نہیں ہو سکتا.اسی طرح دنیا میں مختلف مذاہب اور

Page 55

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳ دیباچہ تفسیر القرآن مختلف فلسفوں نے انسانی دماغ کو خاص خاص راستوں پر چلایا ہے اور اس کے نتیجہ میں افکار نے جوصورت اختیار کی ہے وہ اخلاق اور آرٹ کی نقل میں ایسی مخصوص نوعیتیں اختیار کر گئی ہے کہ دیکھنے والا مختلف مذاہب کے سچے پیروؤں کے اصولِ اخلاق اور آرٹ کے ظہور کو جدا جدا صورتوں میں دیکھتا ہے اور یہی چیز کلچر ہے.مختلف کلچر بھی قوموں میں کچھ بھی قوموں میں اختلاف کرنے کا موجب ہوتی ہے.آج دنیا میں دہریت غالب ہے.آج دنیا میں اختلاف کا موجب ہیں وسعت خیالی کا دعوی کیا جاتا ہے.مگر باوجود اس کے ایک عیسائی کہلانے والے دہریہ اور ایک متعصب عیسائی میں جس سہولت کے ساتھ جوڑ اور اتفاق ہو جاتا ہے اس سہولت کے ساتھ اس عیسائی کہلانے والے دہریہ کا مسلمان کہلانے والے دہریہ سے یا ایک متعصب عیسائی کا ایک متعصب مسلمان سے اتفاق نہیں ہوتا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ موجودہ زمانہ کے اختلاف میں پولیٹیکل خیالات کا بھی جو کہ تمدن یعنی سویلیز یشن کا نتیجہ ہیں بہت کچھ دخل ہے مگر کلچر کے اختلاف کا بھی اس سے کم دخل نہیں.مسلمان خواہ یورپ کا رہنے والا ہو جب اُسے ایشیائی مسلمان ملتا ہے تو جس طرح اس کے دل کی کلی کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے عیسائی کے ساتھ ملنے سے نہیں کھلتی.جس طرح یورپ کے ایک متعصب عیسائی کے دل کی کلی امریکہ کے ایک دہر یہ عیسائی کے ساتھ مل کر کھل جاتی ہے اس طرح یورپ کے ایک مسلمان کے ساتھ مل کر نہیں کھلتی.کیا اس کی وجہ تعصب مذہب ہے؟ یقیناً نہیں.کیونکہ اگر تعصب مذہب اس کا باعث ہوتا تو چاہئے تھا کہ یہ تعصب ایک عیسائی کو مسلمان کی نسبت ایک دہریہ کا زیادہ مخالف بنا تا لیکن ایسا جی نہیں ہوتا.پس اصل وجہ یہی ہے کہ ایک عیسائی خواہ وہ دہر یہ ہو گیا ہو مگر اُس کی تہذیب یا کلچر عیسائی ہے.اس کا فکر تو عیسائیت سے آزاد ہو گیا ہے مگر اُس کی طبیعت اور افعال عیسائیت کی تہذیب سے آزاد نہیں ہوئے.کیونکہ نسلوں کا اثر ایک دم مٹایا نہیں جاسکتا.ایک آرٹسٹ خواہ دہر یہ ہو اس کی تصویر ہیں ، اس کی میوزک اور اس کی تعمیر عیسائی کلچر سے جدا نہیں ہو سکتی اور اگر وہ کی جدا ہو گی تو ایک بھونڈی سی چیز نظر آئے گی جیسے گلاب کے باغ میں کیکر کا درخت لگا دیا جائے.

Page 56

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴ دیباچہ تفسیر القرآن اس تشریح کے بعد میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تمدن اور تہذیب کے دور کبھی تو الگ الگ آتے ہیں اور کبھی ایک ہی وقت میں ظاہر ہوتے ہیں.یعنی کبھی کسی ملک میں تمدنی دور آیا ہے لیکن تہذیبی دور نہیں آیا اور کبھی تہذیبی دور آیا ہے اور تمدنی دور نہیں آیا.اس کی مثال ایسی ہے جیسے روم اپنے اقتدار کی حالت میں ایک اچھے تمدن کا نمونہ پیش کرنے والا تھا لیکن اس کی کوئی تہذیب یا کلچر نہیں تھا.اُس کا آرٹ اور اُس کا فلسفہ مقررہ ابتدائی اصول کے تابع نہ تھا بلکہ ہر شخص کا ذہن آزادانہ طور پر کام کر رہا تھا.مسیح کے زمانہ میں پہلی چند صدیوں میں عیسائیت نے کوئی تمدن تو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا لیکن ایک اعلیٰ درجہ کی تہذیب اور کلچر پیش کیا.وہ بھی ایک اصول اور ایک خاص دائرہ کے اندر کام کرنے والے لوگ تھے مگر ان کے اصول اور ان کے دائرے مذہب کے تعین کردہ تھے.لیکن روم کے اصول اور دائرے مادیات کے مقرر کردہ تھے.پس ابتدائی روم تمدن کا ایک اعلیٰ نمونہ تھا اور ابتدائی عیسائیت کلچر کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی.روم کے دوسرے دور ترقی میں تمدن اور کلچر مل گئے.روم نے جب عیسائیت قبول کی تو اس میں تمدن بھی تھا اور تہذیب بھی تھی لیکن اس کا تمدن تہذیب کے تابع تھا جیسا کہ آجکل یورپ میں تمدن بھی ہے اور تہذیب بھی ہے مگر بوجہ مادیت کے غلبہ کے اُس کی تہذیب اُس کے تمدن کے تابع ہے.تہذیب و تمدن کے مختلف ادوار ہم تاریخ عالم کے ابتدائی دوروں میں دیکھتے ہیں کہ جہاں جہاں مذہب نے اچھا فلسفہ، اخلاق اور اچھی تہذیب پیدا کی ہے وہ ہمارے زمانہ کے بہت قریب آگئی ہے اور جہاں جہاں مادیت نے عمدہ تمدن پیدا کیا ہے وہ تمدن ہمارے تمدن کے بہت قریب آ گیا ہے، لیکن دو فرق کی نمایاں نظر آتے ہیں.اسلام سے پہلے کا تمدن اور ایک ہی جڑ کی شاخیں نظر نہیں آتیں یا اگر نظر آتی ہیں تو نامکمل صورت میں.یہودی مذہب میں بیشک تمدن کو تہذیب کے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے اور تورات نے بہت حد تک سوسائٹی کے نظم ونسق کو اور اس کی مادی ترقی کو بھی مذہب کے دائرہ میں لانے کی کوشش کی ہے مگر بائبل کی یہ کوشش ابتدائی کوشش تو کہلا سکتی ہے کامیاب اور آخری کوشش نہیں کہلا سکتی.یہی حال ہندو مذہب اور زرتشتی مذہب کا ہے.

Page 57

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵ دیباچہ تفسیر القرآن ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت زندگی کی ہزاروں ضرورتوں کے متعلق قانونِ اخلاق کا وہ لچکدار فلسفہ جو ہر موقع اور ضرورت پر کام آسکے ان مذا ہب میں مفقود ہے.ایک ٹھوس غیر لچکدار تعلیم نامکمل صورت میں تمدن کے متعلق پائی جاتی ہے لیکن وسیع انسانی دنیا کی غیر لچکدار تعلیم رہنمائی نہیں کر سکتی.انسان کو دوسرے حیوانات سے یہی تو امتیاز حاصل ہے کہ سب کے سب انسان بظاہر ایک بھی ہیں اور سب کے سب ایک دوسرے سے جدا بھی ہیں.دنیا کی تمام بھینسیں اور تمام شیر اور تمام چیتے اور تمام باز اور تمام مچھلیاں غرض نباتات خواہ از قسم حیوانات ہوں یا جمادات ، خواہ حیوانات سمندری ہوں یا ہوائی ہوں یا خشکی کے ہوں اُن کی شکلیں بھی ایک ہیں اور اُن کے دماغ بھی ایک ہیں.اُن کی شکلیں بھی ایک قسم کا قانون چاہتی ہیں اور اُن کے دماغ بھی ایک قسم کا قانون چاہتے ہیں لیکن انسان کی اس بات میں منفرد ہے.تمام انسان ایک قسم کی شکل اور ایک قسم کے اعضاء لے کر پیدا ہوتے ہیں لیکن اُن کے دماغی افکار ایک دوسرے سے اتنے جدا ہوتے ہیں کہ بسا اوقات بیوی مشرق میں ہوتی ہے تو خاوند مغرب میں یا باپ مغرب میں ہوتا ہے تو بیٹا مشرق میں.ایسی ہستیوں کو جمع کرنے کے لئے یقیناً ایک لچکدار تعلیم کی ضرورت ہے جو اپنی لچک کے ساتھ اپنے قانون کی شدت کا ازالہ کر دے اور ہر نوعیت کے خیالات کو ایک رستی میں باندھ دے.یہودی اور عیسائی کلچروں کے دنیا میں جوں جوں ترقی ہوتی چلی گئی ہے ہمیں معلوم ہے کہ دنیا اس طرف آنے کی کوشش کرتی بعد ایک نئے کلچر کی ضرورت رہی ہے.موسی نے بنی اسرائیل کو ایک مذہب بھی دیا اور ایک تمدن بھی دیا مگر غیر لچکدار تمدن انسانی فطرت کو تسلی نہ دے سکا.جو نہی بنی اسرائیل کے دماغوں میں نئے افکار اور نئے خیالات اور نئی اُمنگیں پیدا ہوئیں اور انہوں نے ایک نئے آسمان میں اُڑنا شروع کر دیا، موسی کا تمدن ان سے بہت پیچھے رہ گیا.اس تمدن نے نئے زمانہ کے اسرائیلیوں کو اچھا شہری نہیں بنایا بلکہ یا تو باغی بناد یا یا منافق شہری بنا دیا.مسیح نے اس حالت کو دیکھا تو پکار اُٹھا کہ شریعت لعنت ہے کیونکہ اُس نے دیکھ لیا کہ موسوی شریعت نے غیر لچکدار ہونے کی وجہ سے انسانوں کو یا تو باغی بنا دیا یا منافق بنا دیا.مگر یہ اُس وقت نہیں ہوا جب

Page 58

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶ دیباچہ تفسیر القرآن موسی دنیا میں آئے تھے بلکہ اُس کے صدیوں بعد ایسا ہوا.موسوی تعلیم ایک بچے کا کوٹ تھا جو جوان ہو جانے کی صورت میں بنی اسرائیل کے جسم پر درست نہیں آ سکتا تھا.مسیح نے ان مضحکہ خیز شکلوں کو دیکھا جو تنومند جوانوں کی شکل میں بچوں کے چھوٹے چھوٹے فراک پہنے پھر رہے تھے اور مسیح کی فطرت نے اس سے بغاوت کی انہیں بلکہ مسیح کے دل میں خدا کی آواز گونجی کہ.دیکھو یہ لوگ اُس حالت سے آگے نکل چکے ہیں جس حالت میں موسوی تعلیم کا وہ نقشہ ان کے لئے کافی ہو سکتا تھا جو بنی اسرائیل کے علماء نے موسیٰ کے زمانہ میں کھینچا تھا.اب ان کے لئے ایک نئے کوٹ کی ضرورت ہے مگر اس نے جو علاج ان کے لئے تجویز کیا یا زیادہ درست یہ ہے کہ جو علاج صدیوں بعد کے عیسائیوں نے مسیح کے منہ سے بیان کیا یہ تھا کہ شریعت لعنت ہے.وہ کھانا جو انسان معدہ کی طاقت کو نظر انداز کر کے کھاتا ہے یقیناً ایک لعنت ہوتا ہے.مگر اس قول سے بھی زیادہ اور کوئی احمقانہ قول نہیں کہ کھانا لعنت ہے.بچے کا کوٹ بڑے آدمی کے جسم پر یقینا مضحکہ انگیز ہوتا ہے مگر بڑے کا کوٹ بچے کے جسم پر بھی تو مضحکہ انگیز ہوتا ہے.ہم یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ بچے کا کوٹ بڑے انسان کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے.ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ بڑے کی آدمی کا کوٹ بچے کے جسم پر مضحکہ انگیز ہے مگر کوٹ کو مضحکہ انگیز تو کوئی بیوقوف ہی کہے گا.پس میرے نزدیک تو مسیح کی طرف اس قول کو منسوب کرنا ظلم ہے.یقینا مسیح نے یوں کہا ہوگا کہ موسوی تعلیم کی موجودہ تشریح آجکل کے زمانہ کے لوگوں کے لئے لعنت ہے.اگر اس نے ایسا کہا تو بالکل سچ کہا.مگر مسیح کے اتباع نے اس فاضلانہ قول کو ایک احمقانہ شکل دے دی.مگر بہر حال خواہ مسیح نے وہ کہا جو میں سمجھتا ہوں کہ اُس نے کہا تھا اور خواہ وہ کہا جو عیسائیوں کے علمائے سابق نے غلطی سے سمجھا کہ اُس نے یہ کہا تھا.بہر حال یہ تو ثابت ہے کہ انسانی دماغ موسی کے زمانہ سے ترقی کر کے آگے نکل چکا تھا اس کے لئے ایک نئی تعلیم کی ضرورت تھی ایک نئے اصول اخلاق کی کی ضرورت تھی.ایک نئے تمدن کی ضرورت تھی اور ایک نئی تہذیب کی ضرورت تھی لیکن جہاں نی موسوی علماء نے انسان کی گردن میں رستہ لپیٹ کر اُس کو درخت کے ساتھ باندھ دیا تھا وہاں عیسوی تعلیم نے انسان کو تمام اخلاقی اور مذہبی قیود اور پابندیوں سے آزاد کر کے حیوان بنا دیا.موسوی قانون نے یہودی دماغ کو اپنے زمانہ سے آگے بڑھنے سے روک دیا.سوائے اس کے

Page 59

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۷ دیباچہ تفسیر القرآن کہ وہ باغی ہو یا منافق ہو اور عیسائی قانون نے انسان کو تمام اخلاقی ذمہ داریوں سے آزاد کر دیا تھ اور اس کے دماغ میں یہ بات ڈال دی کہ خدا کا قانون تیری اصلاح نہیں کر سکتا.تب انسان چی نے خدا کے کام کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور انسان نے اپنی نجات کے لئے اپنا رستہ آپ تلاش کرنا شروع کر دیا اور دنیا نے یہ عجیب نظارہ دیکھا کہ وہی مذہب جو نجات کے لئے خدا کی راہنمائی کو ضروری قرار دیتا تھا اس نے اپنی ترقی کے لئے خدا کی راہنمائی کو غیر ضروری قرار دے دیا.چونکہ ہمارے سامنے مختلف مذاہب میں سے مکمل کڑی صرف بنی اسرائیل کے مذہب کی ہے اس لئے میں نے اس کی مثال پیش کی ہے کیونکہ مسلسل کڑیوں سے ہی ارتقاء کا مسئلہ نکالا جا سکتا ہے اور اسرائیلی مذہب کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی دماغ پرانے زمانہ میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلا جا رہا تھا.اسی طرح دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ انسانی کی دماغ تمدن کے مختلف ادوار میں سے گزرتا چلا آیا ہے ، مگر پھر بھی اخوتِ انسانی کے نقطہ مرکزی تک وہ کبھی نہیں پہنچ سکا.پس یہ دونوں شہادتیں اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ جس طرح انسانی جسم نے پیدائش عالم کے ابتدائی دور میں ارتقاء کی منزلیں طے کی تھیں اسی طرح انسانی دماغی بھی انسانی تاریخ کے ابتدائی ادوار میں ارتقاء کی منزلیں طے کرتا چلا آیا تھا لیکن اسلام سے پہلے وہ کبھی بھی ارتقاء کی آخری منزل تک نہیں پہنچا.اپنی تمدنی ترقیوں کے ادوار میں وہ کبھی بھی قومی اور نسلی امتیازوں سے بالا نہیں ہوا اور انسانی اخوت کا مسئلہ اُس کے ذہن میں نہیں آیا نہ اپنی کی تہذیبی ترقی کے ادوار میں اُس نے شریعت اور قانون کے آخری نقطہ کو پایا.موسوی تعلیم.تمدن اور تہذیب کو جمع کرنے کی کوشش کی مگر ایک عرصہ کے بعد وہ نا کام ہوگئی کیونکہ اس کا فیصلہ اس بارہ میں آخری فیصلہ نہ تھا.مسیح نے تبدیلی کرنی چاہی مگر وہ تبدیلی اس بغاوت کے طوفان کے آگے خس و خاشاک کی طرح اُڑ گئی جو اُس وقت انسانوں کے دماغ میں پیدا ہو رہا تھا.مسیح کی کی تعلیم کا صرف یہی حصہ باقی رہ گیا جو انجیل نے اس صورت میں پیش کیا ہے کہ شریعت ایک لعنت ہے.حالانکہ ہر سمجھ دار انسان سمجھ سکتا ہے کہ یہ فقرہ اپنی موجودہ شکل میں خود ایک بہت بڑی لعنت ہے جس نے انسان کو خدا تعالیٰ سے برگشتہ اور اس کی راہنمائی سے آزاد کر دیا ہے.پس ابھی مقام ارتقاء باقی تھا.انسانی تہذیب اور تمدن کے سابق تغیرات اس بات کی طرف اشارہ کر رہے

Page 60

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸ دیباچہ تفسیر القرآن تھے کہ تہذیب و تمدن بھی اُسی طرح مسئلہ ارتقاء کے ماتحت ہیں جس طرح انسانی جسم.اور ضرور ہے کہ دنیا ایک دن اسی طرح تمدن اور تہذیب کا آخری ارتقائی مقام دیکھے جس طرح انسانی جسم کی پیدائش نے ارتقاء کا آخری مقام دیکھا.اور یہ حقیقت اسلام سے پہلے مذاہب کی موجودگی میں بھی ایک اور مذہب کی ضرورت کو تسلیم کرواتی ہے اور اسی ضرورت کو پورا کرنے کا قرآن کریم مدعی ہے.تیسرا سوال جس کا مثبت میں جواب ملنے سے قرآن کریم تیسرے سوال کا جواب کی ضرورت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے یہ ہے کہ کیا پہلی کتب میں کوئی ایسا نقص تو نہیں آ گیا تھا جس کی وجہ سے ایک نئی کتاب کی ضرورت شدید طور پر دنیا کو محسوس ہو رہی تھی اور قرآن کریم اس ضرورت کو پورا کرنے والا تھا ؟ سب سے پہلی چیز جو کسی کتاب کو صحیح معنوں میں مفید بنا سکتی ہے اور جس کی بناء پر اُس سے اچھے نتائج کی امید کی جاسکتی ہے وہ اُس کا بیرونی دست برد سے محفوظ ہونا ہے.الہی کتابوں کو انسانی کتابوں پر یہی فوقیت حاصل ہوتی ہے کہ اگر ہم کسی کتاب کو الہی کتاب تسلیم کر لیتے ہیں تو کی ہمیں اس بات کی بھی تسلی ہو جاتی ہے کہ اس کتاب کے ذریعہ سے ہم کسی قسم کی غلطی میں نہیں پڑیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان اسی بات پر مشتمل ہے کہ وہ ایسی ہستی ہے جو نور ہی نور ہے اور اس میں ظلمت بالکل نہیں ، ہدایت ہی ہدایت ہے اور اس میں گمراہی بالکل نہیں.اگر اللہ تعالیٰ پر ایمان اس یقین پر مشتمل نہ ہو تو پھر اس کی کوئی قیمت ہی باقی نہیں رہتی.اگر الہی کلام بھی غلطیوں سے پڑ ہو سکتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ انسان اپنی راہنمائی کو چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی راہنمائی کو قبول کرے.پس الہی کتاب پر ایمان کی بنیاد اس یقین پر ہے کہ وہ غلطیوں سے پاک ہے.لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایک کتاب الہی تو ہو لیکن بعد میں انسانی دست بُرد نے اُسے کو خراب کر دیا ہو.اگر کسی الہی کتاب کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ اس کے اندر انسانوں نے کی بھی کچھ اپنی طرف سے ملا دیا ہے تو پھر وہ کتاب انسانی ہدایت کے لئے بیکار ہو جائے گی اور اس کی کو پڑھنے والوں کے دلوں میں اس پر عمل کرنے کے لئے کبھی بھی وہ جوش پیدا نہ ہوگا جو جوش ایسے لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے جو اس کتاب کو کلی طور پر شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتے ہیں اور سمجھنے پر مجبور ہوتے ہیں.

Page 61

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹ دیباچہ تفسیر القرآن بائبل انسانی دست برد سے محفوظ نہیں ہے جب اس نقطہ نگاہ سے ہم پہلی کتب کو دیکھتے ہیں تو وہ قطعی کی طور پر ہمارے لئے تسلی کا موجب ثابت نہیں ہوتیں.عہد نامہ قدیم کے ماننے والے اس کو خدا تعالیٰ کی کتاب کہتے ہیں مسیحی بھی اسے خدائی کتاب قرار دیتے ہیں اور مسلمان بھی اسے خدا ہی کی طرف سے نازل شدہ کتاب قرار دیتے ہیں لیکن خدا کی طرف سے نازل ہونا اور بات ہے اور اُسی صورت میں آج تک موجود ہونا اور بات.اور ان دونوں باتوں میں بڑا بھاری فرق ہے.بیشک مذکورہ بالا تینوں تو میں اس بات پر متفق ہیں کہ عہد قدیم کے انبیاء سے خدا بولتا تھا لیکن عقیدہ یہ تینوں تو میں اس بات پر متفق نہیں کہ موجوہ عہد نامہ قدیم وہی کلام ہے جو ان.انبیاء پر نازل ہوا تھا اور نہ بیرونی اور نہ اندرونی شہادت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ موجودہ کی عہد نامہ قدیم وہی کلام ہے جو بنی اسرائیل کے انبیاء پر نازل ہوا تھا.اسرائیلی تاریخ اس بات پر متفق ہے کہ نبو کد نضر کے زمانہ میں اسرائیلی صحف جلا دیئے گئے تھے اور برباد کر دیئے گئے تھے اور دوبارہ انہیں عزرا نبی نے لکھا.چنانچہ عزرا کی نسبت یہودی کتب میں لکھا ہے:.دو شریعت بھلا دی گئی تھی مگر عز را نے پھر اسے دوبارہ قائم کیا.``It was forgotten but Ezra restored it پھر لکھا ہے.عزرا نے تو رات کو دوبارہ زندہ کیا اور اس میں اشورین حروف داخل کئے.“Ezra established the text of pentateuch, introducing therein the Assyian of square characters.اسی طرح لکھا ہے :.اس نے تورات کے دوبارہ لکھنے کے وقت مسودے کے بعض لفظوں کی صحت کے متعلق کی شبہ ظاہر کیا اور ان پر نشان لگا دیئے اور کہا کہ اگر ایلیا نبی اِس عبارت کی تصدیق کرے تو یہ نشان غلط قرار دیئے جائیں اور اگر ان مشکوک سمجھی ہوئی عبارتوں کو مشکوک قرار دے تو جن الفاظ پر نشان لگا دیئے گئے ہیں انہیں آئندہ بائبل سے نکال دیا جائے."He showed his doubts concerning the correctness

Page 62

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچ تفسیر القرآن of some words of the text by placing points over them.Should Elijah, Said he, approve the text, the points will be disregarded, should he disapprove, the doubtful words will be removed from the text.`..ان عبارات سے ظاہر ہوتا ہے کہ توریت جس شکل میں بھی اُس وقت موجود تھی خواہ وہ عز را کی لکھی ہوئی تھی خواہ پہلے سے کوئی نسخے موجود تھے وہ مشکوک تھی اور اس کی عبارتوں اور الفاظ کی نسبت قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اُسی طرح محفوظ ہیں جس طرح نازل ہوئے تھے.عزرا کی لکھی ہوئی کتاب جو موجودہ بائبلوں میں سے خارج کر دی گئی ہے اور جو در حقیقت موجودہ بائبلوں سے کم قابل اعتبار نہیں ہے اور جسے یونانی کی کتاب کی عزرا کہا جاتا ہے پہلے زمانے میں عزرا اور نحمیاہ کی کتابوں سے بھی پہلے بائبل میں درج کی جاتی ہے تھی.لیکن بعد کو جب اُس وقت کے پوپ نے جیروم سے جو عیسائیوں کا بہت بڑا پادری تھا بائبل کی تدوین کرائی تو اس نے عزرا کو اس بناء پر بائبل میں سے نکال دینے کا فیصلہ کر دیا کہ اس کا عبرانی نسخہ محفوظ نہیں.اس کتاب کو بعض مصنف عزرا کی کتاب ثالث قرار دیتے ہیں اور بعض ثانی قرار دیتے ہیں.اگر چہ یہ کتاب بائبل سے نکال دی گئی ہے لیکن پھر بھی اکثر حصہ یہودیوں اور مسیحیوں کا اس کو عزرا کی کتاب قرار دیتا ہے اور اس کتاب کے چودھویں باب میں لکھا ہے: ”دیکھو اے خدا میں جاؤں گا جیسا کہ تو نے مجھے حکم دیا تھا اور جولوگ موجود ہیں میں اُن کو فہمائش کروں گا، لیکن جو لوگ بعد کو پیدا ہوں گے اُن کو کون فہمائش کرے گا.اس طرح دنیا تاریکی میں ہے اور جو لوگ اس میں رہتے ہیں بغیر روشنی کے ہیں کیونکہ تیرا قانون جل گیا.پس کوئی نہیں جانتا اُن چیزوں کو جو تو کرتا ہے اور ان کا موں کو جو شروع ہونے والے ہیں لیکن اگر مجھ پر تیری مہربانی ہے تو تو روح القدس کو مجھ میں بھیج اور میں لکھوں جو کچھ کہ دنیا میں ابتداء سے ہوا ہے اور جو کچھ تیرے قانون میں لکھا تھا تا کہ تیری راہ کو پاویں اور وہ لوگ جو اخیر زمانہ میں ہوں گے زندہ رہیں.اُس نے مجھ کو یہ جواب دیا کہ جا اپنے راستہ سے لوگوں کو اکٹھا کر اور اُن سے کہہ وہ چالیس دن

Page 63

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱ دیباچه تفسیر القرآن تک تجھ کو نہ ڈھونڈیں.لیکن دیکھ تو بہت سے صندوق کے تختے تیار کر اور زار یا، ڈبریا، سلیمیا ، ایکانس اور عازیل پانچوں کو جو بہت تیزی سے لکھنے والے ہیں اپنے ساتھ لے اور یہاں آ اور میں تیرے دل میں سمجھ کی شمع روشن کروں گا جو نہ بجھے گی تا وقتیکہ وہ چیزیں پوری نہ ہوں جو تو لکھنی شروع کرے گا“.اس باب کی آیت ۲۰ تا ۲۵ کے اصل الفاظ انگریزی زبان میں مندرجہ ذیل ہیں:.20.Behold, Lord, I will go, as Thou hast commanded me, and reprove the people which are present but they that shall be born afterward, who shall admonish Them? Thus the world is set in darkness, and they That dwell therein are without light.21.For Thy Iaw is burnt, therefore no man knoweth the things that are done of the works that shall begin.22.But if I have found grace before thee.Send the Holy Ghost into me.And I shall write all that hath been done in the world since the beginning, which were written in thy law that men may find Thy Path, and that they which will live in the latter days may live.23.And He answered me, saying, Go thy way, gather the people tohether, and say unto them, that they seek thee not for forty days.24.But look thou prepare thee many box trees and take with thee, sarea, Dabria, Selemia, Ecanus, and Asiel these five which are ready to wrirte swiftly.25.And come hither, and I shall light a candle of understanding in Thine heart which shall not be put out, till the things be performed which thou shalt begin to write.

Page 64

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲ دیباچهتفسیر القرآن غرض حضرت عزرا اور پانچ زود نو لیس چالیس روز تک دوسروں سے الگ تھلگ جا بیٹھے اور الہامی تائید سے انہوں نے چالیس دن میں دوسو چار کتابیں لکھیں.چنانچہ اس باب کی چوالیسویں آیت میں لکھا ہے:.``44.In forty days they wrote two hundred and four اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ :.books...۵۲ (الف) عزرا نبی کے وقت میں جو قریباً چار سو سال قبل مسیح تھا تو رات اور دیگر انبیاء کی کتابیں جل گئی تھیں.(ب) ان کا نسخہ اُس وقت موجود نہ تھا.(ج) عزرا نے دوبارہ وہ کتابیں لکھیں.گویا یہ بتایا گیا ہے کہ وہ الہامی تھیں مگر مراد الہامی تائید ہے.یہ مراد نہیں کہ ان کا ایک ایک نقطہ الہام تھا.کیونکہ یہودی تاریخ بتاتی ہے کہ خود عزرا نے بعض حصوں کے مشکوک ہونے کا عتراف کیا تھا اور ان کا فیصلہ ایلیا پر اُٹھا رکھا تھا.پس موجودہ تو رات وہ تو رات نہیں جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی بلکہ وہ تو رات ہے جو عز رانے اپنے حافظہ سے لکھی تھی اور جس کے بعض حصوں کے متعلق خود عزرا کو بھی شبہ تھا بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ یوں سمجھنا چاہئے کہ وہ یہ تو رات بھی نہیں ہے جو عزرا نے لکھی تھی کیونکہ عزرا نے ۲۰۴ کتابیں لکھی تھیں مگر ۲۰۴ کتابیں موجودہ بائبل میں ہمیں نہیں ملتیں.عزرا کے حافظہ کے متعلق خود مسیحی مصنفوں کو بھی شبہات ہیں.چنانچہ ریورنڈ آدم کلارک بائبل کے مشہور مسیحی مفسر اپنی تفسیر مطبوعہ ۱۸۹۱ء کے صفحہ ۱۶۸ پر ا.تواریخ باب ۴ آیت ۷ کے ماتحت لکھتے ہیں: اس جگہ غلطی سے عزرا نے بیٹے کی جگہ پوتا لکھ دیا ہے.ایسے اختلافوں میں تطبیق بے فائدہ ہے.علمائے یہود کہتے ہیں کہ عزرا کو معلوم نہ تھا کہ بعض بعض کے بیٹے ہیں یا پوتے.جب

Page 65

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳ دیباچہ تفسیر القرآن یہودی اور عیسائی علماء کا عزرا کے حافظہ کے متعلق یہ خیال تھا تو یہودی اور عیسائیوں کے عوام الناس اور دوسری اقوام کے لوگ اس پر کیا تسلی پاسکتے ہیں اور جس کتاب کی سند ایسی ہو وہ روحانی معاملات میں کیونکر لوگوں کی تشفی کا موجب ہوسکتی ہے.اندرونی شہادت کہ موجودہ اب میں بائیل کی اندورنی شہادت کو لیتا ہوں کہ وہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے موجودہ تو رات حضرت تو رات اصلی تو رات نہیں موسی علیہ السلام پر نازل شدہ کتاب نہیں.اس بارہ میں سب سے اہم اور واضح وہ دلیل ہے جو استثناء باب ۳۴ میں حضرت موسی کی وفات کو بیان کرتی ہے.اس آیت میں لکھا ہے: ,, سوخدا وند کا بندہ موسیٰ خداوند کے حکم کے موافق موآب کی سرزمین میں مر گیا اور اُس نے اُسے موآب کی ایک وادی میں بیت فغور کے مقابل گا ڑا، پر آج کے دن تک کوئی اُس کی قبر کو نہیں جانتا.۵۳ یہ آیت صاف بتا رہی ہے کہ اس کا مضمون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سینکڑوں سال بعد استثناء میں بڑھایا گیا ہے بھلا کون عقلمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسی کو الہام میں فرمایا ہو کہ آج تک تمہاری قبر کوئی نہیں جانتا.کیا کسی زندہ انسان سے ایسا کلام کیا جا سکتا ہے؟ اور پھر کیا آج تک“ کا لفظ اس بارہ میں خود سے کو مخاطب کر کے کہا جاسکتا ہے؟ پھر آیت ۸ میں لکھا ہے: سو بنی اسرائیل موسی کے لئے موآب کے میدانوں میں تمہیں دن تک رویا گئے اور ان کے رونے پیٹنے کے دن موسیٰ کے لئے آخر ہوئے.۵۴ یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ موسیٰ کا کلام نہیں.موسیٰ کی کتاب میں بعد میں داخل کیا گیا ہے.پھر آیت ۱۰ میں لکھا ہے: اب تک بنی اسرائیل میں موسیٰ کی مانند کوئی نبی نہیں آیا جس سے خدا وند آمنے سامنے آشنائی کرتا“.یہ آیت بھی بتاتی ہے کہ یہ حضرت موسیٰ کا الہام نہیں بلکہ ان کی وفات کے کئی سو سال بعد کسی نے یہ آیت حضرت موسیٰ کی کتاب میں داخل کی ہے ممکن ہے وہ عزرا ہی ہوں اور ممکن ہے

Page 66

انوار العلوم جلد ۲۰ کوئی اور ہی شخص ہوں.۵۴ دیباچہ فیسیر القرآن دوسری اندرونی دلیل اس بات کی کہ موجودہ تو رات حضرت موسیٰ کے بعد لکھی گئی اور اُس میں دوسرے لوگوں کی تحریر میں بھی شامل ہیں یہ ہے کہ پیدائش باب ۱۴ آیت ۱۴ میں لکھا ہے:.” جب ابرام نے سنا کہ میرا بھائی گرفتار ہوا تو اُس نے اپنے ساتھ سیکھے ہوئے تین سو اٹھارہ خانہ زادوں کو لے کر دان تک ان کا تعاقب کیا.لیکن قاضیوں باب ۱۸ آیت ۲۷ تا ۲۹ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شہر جس کا نام پیدائش میں دان" آیا ہے پہلے لیس کہلا تا تھا لیکن موسیٰ کے کوئی ۸۰ سال بعد اس شہر کو فتح کر کے اس کا نام وو دان“ رکھا گیا.چنانچہ لکھا ہے: وہ میکاہ کی بنوائی ہوئی چیزوں کو اور اس کا ہن کو جو اس کے ہاں تھا لے کرلیس میں ایسے لوگوں کے پاس پہنچے جو امن اور چین سے رہتے تھے اور ان کو تہہ تیغ کیا اور شہر جلا دیا اور بچانے والا کوئی نہ تھا.کیونکہ وہ صیدا سے دور تھا اور یہ لوگ کسی سے سرو کا رنہیں رکھتے تھے اور وہ شہر بیت رحوب کے پاس کی وادی میں تھا.پھر انہوں نے وہ شہر بنایا اور اس میں رہنے لگے اور اس شہر کا نام اپنے باپ دان کے نام پر جو اسرائیل کی اولا د تھا دان رکھا.لیکن پہلے اس شہر کا نام لیس تھا.پس جو نام حضرت موسی کے ۸۰ سال بعد رکھا گیا تھا وہ موسیٰ کی کتاب میں کس طرح آسکتا تھا ؟ اس حوالہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ موسیٰ کی کتاب میں ان کی وفات کے بعد دخل اندازی ہوتی رہی اور بعض لوگوں نے اپنے زمانہ کے خیالات اور افکار اس میں داخل کر دیئے.یہ تغیر و تبدل صرف موسیٰ کی کتابوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ دوسری کتابوں کا بھی یہی حال ہے.چنانچہ یشوع کی کتاب کے باب ۲۴ آیت ۲۹ میں لکھا ہے:.اور ایسا ہوا کہ بعد ان باتوں کے نون کا بیٹا یشوع خداوند کا بندہ جو ایک سو دس برس کا بوڑھا تھا رحلت کر گیا.اسی طرح ایوب کی کتاب باب ۴۲ آیت ۱۷ میں لکھا ہے.اور ایوب بوڑھا اور عمر دراز ہو کے مر گیا.

Page 67

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن ان حوالوں سے صاف ظاہر ہے کہ یشوع کی کتاب کو یشوع نے نہیں لکھا اور ایوب کی کی کتاب کو ایوب نے نہیں لکھا بلکہ بعد کے لوگوں نے سنی سنائی باتوں کی بناء پر لکھ دی تھیں.اس کی سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل کے انبیاء نے تو الہی کلام ایک جگہ جمع کر دیا تھا مگر بعد میں مٹ گیا اور ی لوگوں نے اپنی یاد سے وہ کلام دوبارہ لکھا اور بہت سی باتیں اپنی طرف سے اس میں داخل کردیں.کیا اس قسم کی کتابیں جو نہ صرف تاریخی شواہد کی بناء پر بلکہ اپنی اندرونی شہادت کی بناء پر بھی مجروح اور غیر یقینی ہیں اور ان میں غلط واقعات بھی بیان ہو گئے ہیں ، یہ ثابت نہیں کرتیں کہ دنیا کو موٹی اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابیں تسلی نہیں دے سکتی تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی حفاظت سے ہاتھ کھینچ لیا اور ایک ایسی کتاب کی امید دنیا کو لگا دی جو ہر قسم کی انسانی کی دستبرد سے پاک اور محفوظ ہو؟ اگر موسی اور اس کے بعد آنے والے نبیوں کی کتابوں کے بگاڑ کے بعد بھی خدا تعالیٰ کسی ایسے کلام کی بنیاد نہ رکھا جو یقینی اور محفوظ ہوتا تو ہمیں مانا پڑتا کہ خدا تعالیٰ کو اپنے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کا کوئی فکر نہیں اور وہ ایمان کے بیج کو یقین اور اطمینان کی زمین میں بونے کی بجائے شک وشبہ اور بے اطمینانی کی زمین میں ہونا چاہتا ہے اور اسے اتنا اعتبار بھی بخشا نہیں چاہتا جتنا کفر کو حاصل ہے لیکن کیا ایسا ہو سکتا ہے؟ کیا یہ امر خدا تعالیٰ کی شان کے شایاں ہے؟ اگر نہیں تو ہمیں یقیناً اُس کتاب کی تلاش کرنی پڑے گی جس نے منسوخ ، محرف اور مبدل بائبل کی جگہ لی.بائبل کی متضاد باتیں بائبل سے اور بھی ایسی اندورنی شہادتوں کا پتہ لگتا ہے جو اس بات پر روشنی ڈالتی ہیں کہ بائبل اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہیں ہے.مثلاً : ا.تورات کی پہلی کتاب پیدائش میں لکھا ہے.تب خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت اور اپنی مانند بناویں“.۵۵ آگے چل کر لکھا ہے :.و دد لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا“.۵۶

Page 68

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶ دیباچہ تفسیر القرآن اب ان دونوں حوالوں میں تطابق کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ہم یہ تسلیم کریں کہ نیک و بد کی پہچان خدا کو بھی نہیں کیونکہ آدم خدا کی مانند تھا اور خدا تعالیٰ کی صفات آدم میں پائی جاتی تھیں اور سب سے بڑی صفت نیک و بد کی پہچان ہی ہے کیونکہ سب صفتیں اس کے ماتحت ہی آتی کی ہیں.اگر آدم کو نیک و بد کی پہچان نہ تھی تو کوئی اچھی صفت بھی بطور خلق کے اس کے اندر نہیں پائی جاتی تھی کیونکہ نیک کام وہی ہوتا ہے جو ارادے اور علم کے ساتھ کیا جاتا ہے جس کام کے ساتھ ارادہ اور ہ اور علم نہ ہو وہ نیک نہیں کہلا سکتا.جب آدم کو نیک و بد کی پہچان ہی نہ تھی تو آدم اصول اخلاق کے ماتحت نہ کسی بدی سے بچنے والا تھا اور نہ کسی نیکی کو بجالانے والا تھا.اسی طرح عملی طور پر اسے اچھی اور بُری باتوں کی کوئی تمیز نہ تھی.کیا خدا تعالیٰ کا وجود بھی یہودی اور مسیحی مذہب کے مطابق ایسا ہی ہے؟ کیا خدا کو اس بات کا کوئی علم نہیں کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے؟ اگر بدی اور نیکی کا اُس کو علم نہیں تو وہ نبیوں کو کیوں بھیجتا ہے؟ اور کیا خدا کی صفات نیکیوں کو قائم کرنے والی اور بدیوں کو مٹانے والی نہیں ہیں ؟ اگر اس سوال کو ہم نظر انداز بھی کر دیں کہ انسان کی پیدائش کی غرض ہی نیک و بد کی پہچان ہے اور اگر یہ پہچان اسے حاصل نہ ہو تو اس کے وجود کی کوئی ضرورت ہی نہیں.پھر یہ دیکھنا چاہئے کہ بغیر نیک و بد کی پہچان کے آدم خدا کی مانند ہوکس طرح گیا.اس پہچان کے بغیر وہ خدا کی مانند ہو ہی نہیں سکتا تھا.اگر وہ خدا کی مانند تھا تو یہ غلط ہے کہ اسے کہا گیا کہ تو نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا.اور اگر یہ درست ہے کہ اسے کہا گیا تھا کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت سے نہ کھانا تو یہ غلط ہے کہ خدا نے اسے اپنی مانند بنایا.۲.پیدائش باب ۲ ، آیت ۱۷ میں لکھا ہے :.جس دن تو اس نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھائے گا تو ضرور مرے گا.اسی طرح پیدائش باب ۲ آیت ۹ میں لکھا ہے:.اور باغ کے بیچوں بیچ حیات کے درخت اور نیک و بد کی پہچان کے درخت کو زمین سے لگایا.اس آیت کے دو ہی معنی ہو سکتے ہیں یا تو یہ کہ ایک ہی درخت میں دائمی حیات بخشنے اور

Page 69

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷ دیباچہ تفسیر القرآن نیک و بد کی پہچان دینے کی خاصیت تھی اور یا یہ کہ یہ دو درخت تھے.ایک میں حیات بخشنے کی طاقت تھی اور دوسرے میں نیک و بد کی پہچان دینے کی طاقت تھی.اگر اس کے معنی یہ لئے جائیں کہ یہ دو درخت نہیں تھے بلکہ ایک ہی درخت تھا تو پیدائش باب ۲ آیت ۱۷ کا حوالہ جو او پر لکھا جا چکا ہے کہ : در جس دن تو اس سے کھائے گا مر جائے گا.غلط ہو جاتا ہے.کیونکہ آیت ۹ تو اُسے حیات کا درخت قرار دیتی ہے موت کا نہیں.اور اگر یہ دو الگ الگ درخت تھے تو پھر یہ دونوں آیتیں متضاد ہیں.کیونکہ نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھانے سے موت کا آنا لازمی نہ تھا اس لیے کہ اگر آدم حیات کے درخت سے کھا لیتے جیسا تی کہ بائبل سے ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے کھایا تو نیک و بد کی پہچان کے درخت سے کھانے کے با وجود اُن پر موت کیونکر آئی ؟ اگر ایک درخت کے کھانے سے موت لا ز ما آنی تھی تو دوسرے درخت کا پھل کھانے سے حیات جاودانی مل جانی تھی.ایسے شخص کا معاملہ تو کوئی عقل حل ہی نہیں کر سکتی کہ ایک درخت اسے ہمیشہ کے لئے زندہ رکھنا چاہتا ہے اور دوسرا درخت اُسے مار دینا چاہتا ہے.بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم اور ان کی بیوی نے حیات کے درخت کا پھل کھایا ہے کیونکہ پیدائش باب ۳ آیت ۲ ،۳ میں لکھا ہے:.عورت نے سانپ سے کہا کہ باغ کے درختوں کا پھل ہم تو کھاتے ہیں مگر اُس درخت کے پھل کو جو باغ کے بیچوں بیچ ہے خدا نے کہا کہ تم اُسے نہ کھانا اور نہ اُسے چھونا ایسا نہ ہو کہ مرجاؤ“.ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوائے نیک و بد پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل کی آدم اور اس کی بیوی کھاتے تھے.اگر بائبل کی یہ بات درست ہے تو آدم اور اس کی بیوی حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے اور جب وہ حیات کے درخت کا پھل بھی کھاتے تھے تو اُن پر موت کس طرح آئی.لیکن عجیب بات ہے کہ باب ۳ کی آیت ۲۲ میں لکھا ہے کہ خدا نے فرشتوں سے کہا:.

Page 70

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸ دیباچهتفسیر القرآن ,, ایسا نہ ہو کہ آدم اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتار ہے“.یہ آیت بتاتی ہے کہ آدم نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا.اب ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس آیت کا مضمون درست ہے جو بتاتی ہے کہ آدم نے حیات کے درخت سے کچھ نہ کھایا تھا.یا اس باب کی آیت ۲ درست ہے جس میں آدم کی بیوی کا قول درج ہے کہ سوائے نیک و بد کی پہچان کے درخت کے باقی سب درختوں کا پھل آدم اور حوا کھاتے تھے.اور آیا یہ بات درست ہے کہ نیک و بد کی پہچان کے درخت کا پھل کھانے سے انسان ضرور مرتا ہے یا یہ بات درست ہے کہ حیات کے درخت کا پھل کھانے سے انسان کبھی نہیں مرتا.یہ سب متضاد باتیں ہیں اور اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسی باتیں نہیں آسکتیں.یقیناً یہ باتیں مختلف مصنفین نے اپنے اپنے خیالات کے مطابق تو رات میں درج کر دیں اور چونکہ اُن مصنفین کے خیالات متضاد تھے اس لئے اُن کے پیش کردہ نظریے بھی متضاد تھے.اور جس کتاب میں متضاد باتیں آجائیں جو ایک ہی وقت میں اور ایک ہی انسان میں کسی صورت میں جمع نہ ہو سکیں اور وہ کتاب ان کو ایک ہی وقت اور ایک ہی انسان میں جمع کرتی ہو تو یقینا وہ خدا کی کتاب تو کی الگ رہی ایک عقلمند انسان کی کتاب بھی کہلانے کی مستحق نہیں ہو سکتی.مگر موسیٰ علیہ السلام یقیناً خدا کے نبی تھے اور تورات یقیناً خدا کی نازل کردہ کتاب تھی پس یہ اختلاف بعد میں پیدا ہوا.نہ اس اختلاف سے خدا تعالیٰ پر کوئی الزام آتا ہے اور نہ موسیٰ پر.ہاں یہ ہم ضرور کہیں گے کہ خدا نے جب بائبل کی جگہ ایک اور کتاب نازل کرنے کا فیصلہ کر لیا تو بائبل کی حفاظت سے اُس نے ہاتھ کھینچ لیا اور وہ ایک محفوظ کتاب نہ رہی.-1 پیدائش باب ۲۲ آیت ۱۴ میں لکھا ہے:.” اور ابراہام نے اُس مقام کا نام ” یہوواہ یزی“ رکھا.چنانچہ یہ آج تک کہا جاتا ہے کہ خدا وند کے پہاڑ پر دیکھا جائے گا“.لیکن خروج باب ۲ آیت ۲ ،۳ میں لکھا ہے.,, وو ' پھر خدا نے موسیٰ کو فرمایا اور کہا میں خداوند ہوں ” یہوواہ “.اور میں نے

Page 71

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹ دیباچہ تفسیر القرآن ابراہام اور اضحاق اور یعقوب پر خدا کے نام سے اپنے تئیں ظاہر کیا اور یہوواہ کے نام سے اُن پر ظاہر نہ ہوا.“ ان دونوں آیتوں کا تضاد ظاہر ہے.کتاب خروج کہتی ہے کہ یہوواہ کے نام سے پہلی بار موسیٰ کو روشناس کیا گیا.اس سے پہلے کسی نبی کو خصوصاً ابراہیم.اسحاق اور یعقوب پر خدا تعالیٰ کا یہواہ نام ظاہر نہیں کیا گیا لیکن کتاب پیدائش کہتی ہے کہ ابراہیم پر بھی اس نام کو ظاہر کیا گیا تھا اور اُس نے ایک پہاڑی کا نام ” یہوواہ میری “ رکھ دیا تھا.۴.گنتی باب ۳۳ آیت ۳۸ میں حضرت ہارون کے متعلق لکھا ہے:.ہارون کا ہن خدا وند کے حکم کے مطابق کو وطور پر گیا اور اس نے بنی اسرائیل کے مصر سے نکلنے کے پیچھے چالیسویں برس کے پانچویں مہینے کی پہلی تاریخ وفات پائی.لیکن استثناء باب ۱۰ آیت ۶ میں لکھا ہے:.' تب بنی اسرائیل نے بیراث بنی یقعان سے موسیرہ کو کوچ کیا.وہاں ہارون کا انتقال ہوا اور وہیں گاڑا گیا.ایک ہی شخص دو جگہ وفات نہیں پاسکتا.یقیناً یہ دوالگ الگ مؤرخوں کا کام ہے کہ انہوں نے بائبل میں اپنی اپنی تحقیق کو خدا تعالیٰ کا الہام قرار دے کر شامل کر دیا ہے.۵.نمبر ا سموئیل باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۳ سے ظاہر ہے کہ داؤ دیسی کا آٹھواں بیٹا تھا.چنانچہ لکھا ہے:.ویسی نے اپنے سات بیٹوں کو سموئیل کے سامنے نکالا اور سموئیل نے میسی سے کہا کہ خدا نے ان کو نہیں چنا ہے.پھر سموئیل نے یہی سے پوچھا کہ تیرے سب لڑکے یہی ہیں ؟ اس نے کہا سب سے چھوٹا ابھی رہ گیا ہے وہ بھیڑ بکریاں چراتا ہے.سموئیل نے لیسی سے کہا کہ اُسے بلا بھیج کیونکہ جب تک وہ یہاں نہ آجائے ہم نہیں بیٹھیں گے.سو وہ اُسے بلوا کر اندر لایا.وہ سرخ رنگ اور خوبصورت اور حسین تھا اور خداوند نے فرمایا اُٹھ اور اُسے مسح کر کیونکہ وہ یہی ہے.تب سموئیل نے تیل کا سینگ لیا اور اسے اس کے بھائیوں کے درمیان مسح کیا اور خداوند کی روح اُس دن سے آگے داؤد پر

Page 72

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰ زور سے نازل ہوتی رہی.پھر سموئیل اُٹھ کر رامہ کو چلا گیا.چه تفسیر القرآن مگر نمبرا تو اریخ باب ۲ آیت ۱۳ تا ۱۵ میں لکھا ہے کہ داؤ د یسی کا ساتواں بیٹا تھا.چنانچہ لکھا ہے:.” اور میسی سے اُس کا پلوٹھا الیاب پیدا ہوا اور ابینداب دوسرا اور سمع تیسرا، نینیتل چوتھا،ردی پانچواں ، عوضم چھٹا ، داؤ دسا تواں“.یہ اختلاف بتا تا ہے کہ بائبل میں مختلف مؤرخوں نے اپنے اپنے خیالات داخل کر دیئے ہیں اور یہ موجودہ حالت میں محفوظ آسمانی کتاب نہیں کہلا سکتی.نمبر ۲ سموئیل باب ۶ آیت ۲۳ میں لکھا ہے:.سو ساؤل کی بیٹی میکل مرتے دم تک بے اولا در ہی.“ مگر نمبر ۲ سموئیل باب ۲۱ آیت ۸ میں لکھا ہے:.اور ساؤل کی بیٹی میکل کے پانچوں بیٹوں کو جو برزلی محولاتی کے بیٹے عدری ایل سے ہوئے تھے لے کر ان کو جعونیوں کے حوالے کیا“.ایک ہی کتاب میں ایک ہی جگہ اُسے بانجھ قرار دیا گیا ہے اور اُسی کتاب میں دوسری جگہ اس کے پانچ بیٹے قرار دیئے گئے ہیں.۷.نمبر ۲ تواریخ باب ۲۱ آیت ۱۹ ،۲۰ میں لکھا ہے کہ یہورام بادشاہ ۳۲ سال کی عمر میں بادشاہ ہوا اور آٹھ برس اُس نے بادشاہت کی اور پھر دو سال بادشاہت سے معزول ہو کر ایک سخت بیماری کے اثر سے وفات پا گیا.گویا اس کی عمر ۴۲ سال کی تھی.لیکن اسی کتاب کے باب ۲۲ آیت ۲،۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یروشلم کے باشندوں نے یہو رام کے چھوٹے بیٹے اخزیاہ کو اُس کی جگہ بادشاہ بنایا کیونکہ اُس کی انبوہ نے جو عربوں کے ساتھ چھاؤنی میں آیا تھا سب بڑے بیٹوں کو قتل کیا تھا سوا خزیاہ بن بیہورام یہوواہ کا بادشاہ ہوا.اخزیاہ بیالیس برس کی عمر میں بادشاہ ہوا.چونکہ اوپر کے حوالہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ یہو رام کی عمر اُس کی وفات کے وقت ۴۲ سال کی تھی اس لئے اس دوسرے حوالے کی بناء پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہورام بادشاہ کا سب سے چھوٹا

Page 73

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۱ دیباچہ تفسیر القرآن بیٹا اخزیاہ جب اپنے باپ کی وفات پر تخت پر بیٹھا تو اُس کی عمر بھی ۴۲ سال کی تھی.گویا وہ اپنے باپ کا ہم عمر تھا اور اس کے بڑے بھائی جن کو عربوں نے یہورام کے خلاف لڑائی میں مار دیا تھا وہ سب اپنے باپ سے بڑے تھے.کیا کوئی معقول انسان اس قسم کی لغو باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ بیالیس سال کی عمر میں باپ مارا جاتا ہے اور اُس کا سب سے چھوٹا بیٹا اُسی عمر کا اس کے بعد بادشاہ بن جاتا ہے !! یہ باتیں تو ایسی ہیں کہ کسی کمزور سے کمزور عقل والے انسان کی کتاب میں بھی نہیں پائی جاتیں کجا یہ کہ خدا کی نازل کردہ کتاب میں پائی جائیں.صاف ظاہر ہے کہ خدا کے الہام میں یہ باتیں نہ تھیں.نبیوں کے کلام میں یہ باتیں نہ تھیں.کسی ایک آدمی نے بھی یہ باتیں نہیں لکھیں.بلکہ کئی آدمیوں نے اپنے اپنے خیالات لکھ دیئے ہیں.کسی یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہو رام بیالیس سال کی عمر میں فوت ہوا اور اُس نے یہ بات لکھ دی.کسی دوسرے یہودی مؤرخ کا یہ خیال تھا کہ یہورام جب مرا اُس کی عمر سو سال تھی اور اُس وقت سب سے چھوٹا بیٹا بیالیس سال کا تھا اُس نے یہ بات درج کر دی کہ جب یہورام کا بیٹا تخت پر بیٹھا تو بیالیس سال کا تھا.اب یہ باتیں بظاہر متضاد نظر آتی ہیں ، لیکن اصل بات یہ ہے کہ جس نے یہو رام کو ۴۲ سال میں مارا ہے اُس کے خیال میں اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت بیالیس نہیں تھی بلکه شاید ۱۵،۱۴ سال ہو.اور جس شخص نے یہ لکھ دیا کہ اخزیاہ کی عمر تخت نشینی کے وقت ۴۲ سال تھی اُس کی تحقیق میں یہورام کی عمر اس کی وفات کے وقت ۴۲ سال یقینا نہیں تھی لیکن سوال تو یہ ہے کہ ایسی کتاب انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے اور وہ کس طرح یقین اور ایمان کے ساتھ اس کے مطالب پر غور کر سکتا ہے.اگر تو یہ کہا جاتا کہ تو رات مجموعہ ہے لاکھوں یہودیوں کی تحقیقاتوں کا تو پھر بھی اس کتاب کی کچھ قیمت باقی رہ جاتی.لیکن ایک طرف تو اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہونے والا کلام کہا جاتا ہے اور دوسری طرف وہ ہزاروں ہزار افراد کی تحقیقاتوں کا مجموعہ نظر آتا ہے اور اس طرح ایک غلط نام دے دینے کی وجہ سے تھوڑی بہت عظمت جو اسے حاصل ہو سکتی تھی وہ بھی جاتی رہی ہے.بھلا کون کہہ سکتا ہے کہ ایسی کتاب دنیا کی راہنمائی کا موجب ہوسکتی ہے اور کون کہہ سکتا ہے کہ اس کتاب کے بعد کسی اور کتاب کے آنے کی ضرورت نہیں تھی.

Page 74

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۲ دیباچہ تفسیر القرآن بائبل کے ظالمانہ احکام پھر صرف متضاد باتیں ہی نہیں ہیں بائل میں ظالمانہ احکام بائبل کے ظالمانہ احکام بھی نظر آتے ہیں جو ہرگز خدائے رحیم و کریم کی طرف منسوب نہیں کئے جاسکتے.مثلاً : ا.خروج باب ۲۱ آیت ۲۰ ۲۱ میں لکھا ہے:.اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اور وہ مار کھاتی ہوئی مرجائے تو اسے سزا دی جائے.لیکن اگر وہ ایک دن یا دو دن جئے تو اسے سزا نہ دی جائے اس لئے کہ وہ اس کا مال ہے.“ اس تعلیم میں غلاموں کے لئے کتنی سختی ہے.ایک ظالم اپنے غلام اور اپنی لونڈی کو لاٹھیوں سے مارتا ہے اور اتنا مارتا ہے کہ وہ غلام یا لونڈی ایک دو دن کے بعد مر جائے لیکن بائبل کہتی ہے اب وہ سزا کا مستحق نہیں کیونکہ غلام اور لونڈی اس کا مال ہیں.کیا یہ تعلیم اس قابل تھی کہ ہمیشہ کے لئے اسے قائم رکھا جاتا ؟ کیا یہ تعلیم ایسی نہ تھی کہ اس کی جگہ پر وہ تعلیم لائی جاتی جو غلام اور لونڈیوں کے دستور مٹانے والی اور مالک کے ہاتھوں کو روکنے والی ہوتی.یہ تعلیم اسلام ہی کے ذریعہ دنیا کو حاصل ہوئی چنانچہ اسلام نے جہاں غلامی کو مٹانے کے لئے قانون پاس کئے وہاں کی یہ اصول بھی مقرر کر دیا کہ جو غلام یا لونڈی لوگوں کے ہاتھ میں کسی وجہ سے باقی رہ گئے ہوں ان کو ہرگز مارا پیٹا نہ جائے.احادیث میں آتا ہے ایک دفعہ ابو مسعود انصاری اپنے غلام کو مار رہے تھے کہ انہیں پیچھے سے آواز آئی.اے مسعود ! جس قدر تجھ کو غلام پر مقدرت حاصل ہے اس کے کہیں زیادہ خدا کو تجھ پر مقدرت حاصل ہے.وہ کہتے ہیں میں نے مڑ کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لا رہے تھے اس پر ڈر کے مارے میرے ہاتھ سے کوڑا گر پڑا اور میں نے کہا يَارَسُولَ اللہ ! یہ غلام خدا کے لئے آزاد ہے.آپ نے فرمایا اگر تو اسے آزاد نہ کرتا تو آگ تیرا منہ جھلتی.۵۷ اسی طرح ایک اور صحابی فرماتے ہیں ہم سات بھائی تھے اور ہمارے پاس ایک لونڈی تھی.ہم میں سے چھوٹے بھائی نے اُس کے منہ پر تھپڑ مارا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ اس لونڈی کو فوراً آزاد کر دیا جائے کیونکہ جو شخص اپنے غلام یا لونڈی کو مارتا ہے وہ اس کو رکھنے !

Page 75

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۳ دیباچ تفسیر القرآن کے قابل نہیں سمجھا جاتا.۵۸ خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا یہ حال تھا کہ جب آپ کی شادی کے موقع پر آپ کی بیوی نے اپنا مال اور غلام آپ کی خدمت میں پیش کر دیئے.تو آپ نے فرمایا میں کسی انسان کو اپنا غلام رکھنے کے لئے تیار نہیں ہوں.یہ کہہ کر آپ نے سب غلام آزاد کر دیئے اور ساری عمر آپ نے کوئی غلام نہیں رکھا.۲.احبار باب ۲۰ آیت ۲۷ میں لکھا ہے کہ:.مرد یا عورت جس کا یار دیو ہے یا جادوگر ہے تو دونوں قتل کئے جاویں، چاہیئے کہ تم اُن پر پتھراؤ کرو اور اُن کا خون اُنہی پر ہووئے“.اسی طرح خروج باب ۲۲ آیت ۱۸ میں لکھا ہے کہ:.وو تو جادوگروں کو جینے مت دے“.یہ کیسی خلاف عقل تعلیم ہے اور پھر ظالمانہ بھی.اگر جادوگر سے مراد یہاں ہتھکنڈے دکھانے والے لوگ ہیں تو وہ ایک معصوم پیشہ لوگ ہیں.انسان کی مشوش زندگی میں کبھی کبھی ہنسی تی اور مذاق کا وقت بھی آجاتا ہے.اُس وقت یہ لوگ اپنی دیرینہ مشقوں کے ذریعہ سے لوگوں کی تو جہات کو زیادہ سنجیدہ مسائل سے اپنے ہتھکنڈوں کی طرف کھینچ لیتے ہیں.اس بے ضرر پیشہ کو قتل کا موجب قرار دینا انصاف کی تعلیم نہیں کہہ سکتے.اور اگر جادوگر سے مراد وہ روایتی جادوگر ہیں جو مرد کو بیل اور عورت کو چڑیا بنا دیتے ہیں تو یہ تعلیم نہ صرف احمقانہ ہے بلکہ ظالمانہ بھی.کیونکہ ایسے جادو گر نہ بھی ہوئے اور نہ بھی ہوں گے اور کسی کی طرف ایسے جادو منسوب کر کے قتل کر دینا ظالمانہ فعل ہے.استثناء باب ۷ آیت ۲ میں لکھا ہے:.جبکہ خدا وند تیرا خدا انہیں تیرے حوالہ کرے تو تو انہیں ماریو اور حرم کیجیئو نہ تو ان سے کوئی عہد کر یو اور نہ ان پر رحم کر یوں“.ایک مغلوب دشمن کے متعلق یہ کیسی ظالمانہ تعلیم ہے.تمام دشمنوں کو قتل کر دینا، ان کے ساتھ کسی قسم کا عہد نہ کرنا اور ہر قسم کے رحم سے انہیں محروم کر دینا یہ ظلم با دشاہوں کا فعل تو ہوسکتا ہے

Page 76

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۴ دیباچهتفسیر القرآن خدائے رحیم و کریم کی تعلیم نہیں ہو سکتی.یقیناً یہ تعلیم موسی کے بعد آنے والے سفاک یہودیوں کے دماغوں کا اختراع ہے اور موسی کی کتاب میں داخل کر کے اُس کو بھی گندہ کر دیا ہے.بائبل کی خلاف عقل باتیں بائبل میں بعض ایسی باتیں ہیں جو بالکل خلاف عقل ہیں.مثلاً : ۱۰.احبار باب ۱۱ آیت ۳ میں لکھا ہے ” خرگوش جگالی کرتا ہے.“ ۲.اسی طرح گنتی باب ۲۲ آیت ۲۸ میں بلعام کی گدھی کے متعلق لکھا ہے کہ اس نے بلعام سے باتیں کیں.۳.پیدائش باب ۴۶ آیت ۲۷، ۲۸ میں لکھا ہے کہ بنی اسرائیل جب مصر میں آئے تھے تو ۷۰ تھے ،لیکن ۲۱۵ سال کے بعد یعنی موسٹی کے زمانہ میں ان کی تعداد اس قدر بڑھ گئی کہ عورتوں اور وو بچوں کو نکال کر چھ لاکھ کے قریب پہنچ گئے.چنانچہ خروج باب ۱۲ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:.” اور بنی اسرائیل نے رقمیں سے ”سکات‘ تک پیادے سفر کیا.ان کے مرد سوالڑکوں کی کے چھ لاکھ کے قریب تھے.اگر مردوں کی تعداد کوملحوظ رکھ کر عورتوں اور بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو کل تعدا د ۲۵ لاکھ کے قریب پہنچ جاتی ہے مگر یہ سخت مبالغہ اور عقل کے خلاف بات ہے.۲۱۵ سال میں ۷۰ آدمیوں کا ۲۵ لاکھ ہو جانا بالکل عقل کے خلاف بات ہے اور واقعہ کے بھی خلاف ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جب مصر سے کنعان کی طرف ہجرت کی اور چالیس سال تک وہ جنگلوں میں پھرے تو کیا ۲۵ لاکھ آدمیوں کا روٹی کا انتظام چالیس پچاس سال تک ان جنگلوں میں ہوسکتا تھا ؟ بیشک بعض زمانوں کے متعلق بائبل میں آتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کے لئے آسمان سے بٹیر اُتارے اور زمین میں ترنجبین پیدا کر دی لیکن بائبل کے بیان کے مطابق یہ خوراک سارے عرصے کے لئے مہیا نہیں ہوئی تھی.پھر دوسرے عرصہ میں اتنے آدمیوں کے لئے خوراک کہاں کی سے لاتے تھے؟ پھر بائبل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک چشمہ سے پانی پی لیتے تھے.کیا کوئی تی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایک ایک چشمہ سے ۲۵ لاکھ آدمی پانی سے سیراب ہو سکتا ہے.جن علاقوں سے وہ گزرے ان میں ندیاں نہیں ہیں.کسی کسی جگہ پر چشمے ملتے ہیں اور چشمہ میں عام طور پر چند محد و دفٹ پانی ہوتا ہے کیا اس سے ۲۵ لاکھ آدمی سیراب ہو سکتے ہیں ؟ ایسی خلاف عقل

Page 77

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن بیان والی بائبل کس طرح بنی نوع انسان کے لئے تسلی کا موجب ہو سکتی ہے.بیشک وہ خدا کی تی طرف سے تھی ، بیشک خدا کے نبیوں نے اسے لکھا تھا لیکن وہ مٹ چکی تھی.وہ مسخ ہو چکی تھی ، وہ انسانی دست بُرد کا شکار ہو چکی تھی ، ایسی کتاب کو اُس کے بگڑ جانے کے بعد بھی خدا تعالیٰ کا کلام کہنا دشمنوں کو خدا تعالیٰ پر اعتراض کرنے کا موقع دینا ہے.ضروری تھا کہ اس کے بعد ایک اور کتاب کی آتی جو انسانی دست برد سے پاک ہوتی اور ایسی خلاف عقل باتوں سے محفوظ ہوتی.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں قرآن نے اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے الم ترالی الذین خرجوا مِن دِيَارِهِمْ وَهُمْ ألُوفَ حَذَرَ المَوت ۵۹، بنی اسرائیل جو فرعون کے ظلم سے ڈر کر بھاگے تھے اُن کی تعداد صرف چند ہزار تھی اور یہی بات صحیح اور درست ہے ورنہ ۲۵ لاکھ یہودی فلسطین کے چھوٹے چھوٹے قبائل سے ڈر کس طرح سکتے تھے.فلسطین کی آبادی تو اپنی شان وشوکت کے زمانہ میں بھی ۲۵ - ۳۰ لاکھ سے نہیں بڑھی.آجکل بھی اس کی آبادی ۱۳ - ۱۴ لاکھ ہے اور اس میں اور زیادتی کرنے کے خلاف عرب سختی سے احتجاج کر رہے ہیں.پرانے زمانہ میں جبکہ خوراک اِدھر اُدھر پہنچانے کے سامان مفقود تھے غیر زرعی علاقوں میں بڑی آبادی ہو ہی نہیں سکتی تھی.موسی کے وقت میں یقیناً سارے فلسطین کی آبادی چند ہزار افراد پر مشتمل کی ہو گی.چنانچہ بنی اسرائیل اور ان کے دشمنوں کی لڑائیوں میں ہمیشہ سینکڑوں اور ہزاروں افراد کا ہی پتہ لگتا ہے.اگر موسٹی کے ساتھ ۲۵ لاکھ آدمی فلسطین میں سے آئے تھے تو سفر کا زمانہ تو الگ رہا حکومت کے زمانہ میں بھی خوراک کا انتظام نہ ہوسکتا تھا اور لڑائی کا تو ذکر ہی کیا ہے.یہ لوگ تو اپنے کندھوں کے دھکوں سے ہی ان چند ہزار افراد سے فلسطین کو خالی کر سکتے تھے جو اُن سے پہلے وہاں بس رہے تھے.۴.اسی طرح تو رات میں لکھا ہے:.’ جب لوگوں نے دیکھا کہ موسیٰ پہاڑ سے اُترنے میں دیری کرتا ہے تو وہ ہارون کے پاس جمع ہوئے اور اسے کہا کہ اُٹھ ہمارے لئے معبود بنا جو ہمارے آگے آگے چلے کیونکہ یہ مرد موسیٰ' جو ہمیں مصر کے ملک سے نکال لایا ہے ہم نہیں جانتے کہ اسے کیا ہوا.ہارون نے انہیں کہا کہ زیور سونے کے جو تمہاری جورؤوں اور تمہارے بیٹوں

Page 78

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۶ دیباچہ تفسیر القرآن ،، اور تمہاری بیٹیوں کے کانوں میں ہیں تو ڑتوڑ کے مجھے پاس لاؤ.چنانچہ سب لوگ زیور جوان کے پاس تھے تو ڑ تو ڑ کر ہارون کے پاس لائے اور اس نے ان کے ہاتھوں سے لیا اور ایک بچھڑا ڈھال کر اس کی صورت چھینی سے درست کی اور انہوں نے کہا کہ اے اسرائیل ! یہ تمہارا معبود ہے جو تمہیں مصر کے ملک سے نکال لایا اور جب ہارون نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ایک قربانگاہ بنائی اور ہاورن نے یہ کہہ کر منادی کی کہ کل خداوند کے لئے عید ہے اور وے صبح کو اُٹھے اور سوختنی قربانیاں چڑھا ئیں اور سلامتی کی قربانیاں گزاریں اور لوگ کھانے پینے کو بیٹھے اور کھیلنے کو اُٹھے.10 لیکن یہ بات کسی انسان کی عقل میں نہیں آسکتی.کیا یہ ہوسکتا ہے کہ جس سے خدا کلام کرے وہ شرک کرنے لگ جائے.ایک ہاتھی کو دیکھنے والا اسے چوہانہیں قرار دے سکتا.ایک سورج کو دیکھنے والا اسے موم کی شمع نہیں قرار دے سکتا.ایک انسان کو دیکھنے والا اسے مچھر نہیں قرار دے سکتا.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ خدا کو دیکھنے والا اور اس سے باتیں کرنے والا نبی ایک کے بنے ہوئے بت کو خدا قرار دیدے.ہم ایک پاگل سے بھی تو اس قسم کی امید نہیں کر سکتے.پھر خدا کے ایک نبی سے اس قسم کی امید کس طرح کر سکتے ہیں.سونے دوسرے یہودی تو معذور تھے.نہ اُنہوں نے خدا کو دیکھا تھا نہ اس سے باتیں کی تھیں.انہوں نے موسیٰ اور ہارون کی باتیں سنی تھیں اور اس پر ایمان لے آئے.اسی طرح ان سے سامری نے جو کچھ کہا اُنہوں نے مان لیا.مگر ہارون کو کیا ہو گیا تھا ؟ کیا یہ ہوسکتا ہے کہ جس نے خدا کو دیکھا ہو اور اس سے باتیں کی ہوں وہ سامری کے دھوکے میں آجائے اور خود اپنے ہاتھ سے ایک سونے کا بچھڑا بنا کر اسے خدا قرار دینے لگے؟ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ دلوں کے بھید جاننے والے خدا نے اس شخص کو بنی اسرائیل کی اصلاح کیلئے چنا ہو جو موقع پر اتنا بزدل اور کمزوری ثابت ہوا ہو؟ ایک عام بادشاہ کی تعریف کرنے والے مؤرخین لکھا کرتے ہیں کہ اس نے اچھے جرنیل چنے اور یہ اس کے کمال کی علامت ہے.حالانکہ کوئی بادشاہ اپنے جرنیلوں کے دلوں کو نہیں پڑھ سکتا.لیکن بائبل کہتی ہے کہ خدا خدا بھی ہے اور غیب دان بھی ہے اور سہ انسانوں سے خواہ وہ بادشاہ ہوں یا غیر بادشاہ زیادہ عالم اور زیادہ جاننے والا بھی ہے مگر

Page 79

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۷ دیباچهتفسیر القرآن ساتھ ہی وہ ہم سے یہ منوانا چاہتی ہے کہ ہارون کو خدا نے ایک نبی کے مقام پر کھڑا کیا اور دنیا کی کی اصلاح کے لئے مبعوث کیا اور اُس سے باتیں کیں اور اپنا وجود اُس پر ظاہر کیا مگر جب سامری نے اس کے آگے شرک کی تعلیم پیش کی تو اس کے ساتھیوں کے کہنے پر اس نے ایک سونے کا بچھڑا بنایا اور لوگوں کے سامنے رکھ دیا اور کہا یہ تمہارا خدا ہے.وہ قوم کے ڈر کے مارے خدا کو بھول گیا ، اپنے دین کو بھول گیا، اپنی ذمہ داری کو بھول گیا ، اپنے علم کو بھول گیا اور جاہلوں اور نادانوں کی طرح ایک بے جان کھلونے کے سامنے اپنے ماتھے کو رگڑنے لگا.بائبل میں دست اندازی کرنے والے مصنف خود بیوقوف ہوں گے لیکن یہ ان کی انتہائی جسارت تھی کہ وہ بعد میں آنے والے لوگوں کو بھی اپنے جیسا بے وقوف سمجھتے تھے.یقیناً اُن کی دست بُرد کے بعد ایک ایسی کتاب کی ضرورت تھی جو تو رات کی ان لغویات کا پول کھول دے اور دنیا کو بتا دے کہ ہارون شرک کرنے والوں میں سے نہیں تھا.چنانچہ وہ کتاب قرآن کریم کی صورتی میں نازل ہوئی اور اس نے یہ اعلان کیا کہ ہارون نے ہرگز شرک نہ کیا تھا بلکہ اس نے اپنی قوم کو شرک سے روکا تھا.چنانچہ فرماتاتا ہے.ولقد قَالَ لَهُمْ هُرُونُ مِن قَبْلُ يقوم انّما فَيَنْتُمْ بِهِ : وَإِنَّ رَبِّكُمُ الرّحْمَنُ فَاتَّبِعُونِي وَاطِيْعُوا امْرِي ال یقیناً ہارون نے موسیٰ کے پہاڑ سے واپس آنے سے بھی پہلے بنی اسرائیل سے کہہ دیا تھا کہ اس کی بچھڑے کے ذریعہ سے تم گمراہی میں مبتلا کر دئیے گئے ہو اور تمہارا رب وہ ہے جس نے تمہاری پیدائش سے بھی پہلے تمہاری زندگی کی راحت کے سامان مہیا کر دیئے ہیں ( اور یہ بچھڑا تمہاری آنکھوں کے سامنے بنایا گیا ہے ) پس میری اتباع کرو اور میرا حکم مانو ( اور شرک میں مبتلا نہ ہو ) کیا کوئی عقلمند دنیا میں یہ کہہ سکتا ہے کہ موسی پر نازل ہونے والی کتاب جب صداقتوں اور کی سچائیوں کو جھٹلانے لگے اور خلاف عقل باتیں بیان کرنے لگے تو اُس وقت کسی ایسی کامل کتاب کی کی ضرورت نہ تھی جو آئے تو موسی کے دو ہزار سال بعد لیکن سچائیاں اس طرح بیان کرے کہ گویا می موسی کے وقت میں اور اس کے ساتھ موجود تھی.۵.پیدائش باب ۱۹ آیت ۲۶ میں لکھا ہے کہ لوط کی بیوی نے لوط کے ساتھ شہر سے بھاگتے ہوئے پیچھے پھر کر دیکھا اور وہ نمک کا کھمبا بن گئی.تورات کی یہ بات جنوں اور پریوں کے کسی

Page 80

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۸ دیباچہ تفسیر القرآن افسانہ میں مذکور ہوتی تو یہ اس کا ٹھیک مقالہ ہوتا.مگر خدا کے کلام میں ایسی باتوں کا کیا دخل.قرآن کریم نے کس صفائی کے ساتھ حقیقت کو بیان کر دیا ہے فرماتا ہے كَانَتْ مِنَ الْغَبِرِينَ - ۲۲ لوط کی بیوی کھمبا ومبا کوئی نہیں بنی بلکہ اس نے لوط کے ساتھ جانا پسند نہ کیا کیونکہ وہ خدا کی محبت پر اپنے رشتہ داروں کی محبت کو ترجیح دیتی تھی.غرض ایسی بیسیوں باتیں ہیں جو ہیں تو موسی کے زمانہ کی لیکن تو رات ان کو غلط بیان کرتی ہے.مگر قرآن کریم نے دو ہزار سال کے بعد آ کر اُن کی اصلاح کی ہے اور ایسی اصلاح کی ہے کہ عقل سلیم اُن کی سچائی تسلیم کرنے پر مجبور ہے.بائبل کی خلاف اخلاق باتیں پھر بائبل میں بعض ایسی خلاف اخلاق باتیں بھی درج ہیں جن کی نسبت کوئی یہ یقین نہیں کر سکتا کہ و وه خدا تعالیٰ کی طرف سے کہی گئی ہوں یا خدا کے نبیوں نے ایسا کام کیا ہوگا..پیدائش باب ۹ میں لکھا ہے کہ نوح نے انگور کا ایک باغ لگا یا اُس کی سے پی کر نشہ میں آیا اور اپنے ڈیرے کے اندر اپنے آپ کو ننگا کیا اور اس کے بیٹے حام نے اُس کی عریانی کا تماشہ دیکھاتی اور پھر جا کے اپنے بھائیوں کو خبر دی.۶۳ کیا کوئی عقل مند آدمی اس بات کو باور کر سکتا ہے کہ وہ کی نوح جس کی نسبت آتا ہے:.نوح اپنے قرنوں میں صادق اور کامل تھا اور نوح خدا کے ساتھ چلتا تھا.۱۴ وہ ننگا ہو کر اپنے بچوں کے سامنے آجائے گا؟ اور کیا یہ بات کوئی عقلمند انسان مان سکتا ہے کہ نوح ننگا ہو اور بُرا بھلا حام کو کہا جائے ؟ ایک ننگے پر نظر ڈالنے والا انسان آخر اُس کو نگا نہیں تو اور کیا دیکھے گا.پس حام کا اس میں کیا قصور تھا کہ اُس نے نشہ سے چورا اپنے باپ کو دیکھ لیا.مگر بائبل کہتی ہے کہ نوح نے کہا:.کنعان ملعون ہو ۶۵۰ حالانکہ کنعان کا کوئی بھی قصور نہ تھا.دیکھنے والا کنعان کا باپ حام تھا.حام کے خلاف تو نوح نے ایک لفظ بھی نہیں کہا مگر کنعان پر لعنت کر دی جس کا کوئی قصور نہ تھا.کیا اس لئے کہ حام اُس کا بیٹا تھا اور کنعان اُس کا پوتا تھا ؟ پس اِس قسم کے اعمال نہایت ہی اخلاق سوز ہیں اور خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی طرف ایسی باتیں منسوب کرنا نہایت ہی شرمناک امر ہے.ہر عظمند

Page 81

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۹ دیباچہ تفسیر القرآن سمجھ سکتا ہے کہ یہ باتیں یقیناً موسی سے خدا تعالیٰ نے نہیں کہیں نہ موسی نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں.نبیوں کو چور اور بٹ مار کہنے والے یہودی علماء نے یہ باتیں اپنے گناہوں کو چھپانے کے لئے موسی کے کلام میں داخل کر دیں اور اس بات کو ضروری بنا دیا کہ پھر خدا تعالیٰ ایک کامل کتاب دنیا میں اُتارے جو اِس قسم کی بیہودہ اور لغوا اور مفتریا نہ باتوں سے پاک ہو اور وہ قرآن کریم ہے..پیدائش باب ۱۹ آیت ۳۰ تا ۳۵ میں لکھا ہے کہ: لوط اپنی دونوں بیٹیوں سمیت اپنے شہر سے نکل کر ایک غار میں رہنے لگا.تب پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ ہمارا باپ بوڑھا ہے اور زمین پر کوئی مرد نہیں ہے جو تمام جہان کے دستور کے موافق ہمارے پاس اندر آوے.آؤ ہم اپنے باپ کو مے پلاویں اور اس سے ہم بستر ہوویں تا کہ اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں سو انہوں نے اُسی رات اپنے باپ کو مے پلائی اور پلوٹھی اندر گئی اور اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی.پر اُس نے لیٹتے اور اُٹھتے وقت اُسے نہ پہچانا اور دوسرے روز ایسا ہوا کہ پلوٹھی نے چھوٹی سے کہا کہ دیکھ کل رات میں اپنے باپ سے ہم بستر ہوئی آؤ آج رات بھی اس کو مے پلا دیں اور ٹو بھی جا کر اُس سے ہم بستر ہو کہ ہم اپنے باپ سے نسل باقی رکھیں.سو اُس رات بھی اُنہوں نے اپنے باپ کو مے پلائی اور چھوٹی اُٹھ کے اُس سے ہم بستر ہوئی اور اس نے اٹھتے اور بیٹھے وقت اُسے نہ پہچانا.کیا یہ تعلیم واقعہ کے لحاظ سے ممکن اور اخلاق کے لحاظ سے قابل برداشت ہے؟ مگر تورات خدا تعالیٰ کے ایک نبی کی نسبت ایسی کہانی بیان کرنے سے دریغ نہیں کرتی.لیکن تو رات سے مراد اس جگہ وہ تو رات نہیں جو خدا نے موسی پر نازل کی تھی بلکہ یہ وہ تو رات ہے جو بنی اسرائیل کے علماء نے اُس وقت لکھی جب اُنہیں حضرت لوط کی حقیقی یا نام نہا د اولا دمو آب یا بنی عمون سے اختلاف پیدا ہو گیا تھا اور بنی اسرائیل کا ایمان اتنا کمزور ہو چکا تھا اور دل اتنے سخت ہو چکے تھے کی کہ اُنہوں نے موآب اور بنی عمون کو ملعون کرنے کے لئے خدا کے نبی حضرت لوط پر حملہ کیا اور کی خدا کی کتاب میں ایسی گندی باتیں لکھیں جن کو خدا تعالیٰ کے نبیوں کی نسبت کوئی شخص سننے کے

Page 82

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن لئے بھی تیار نہیں ہوسکتا.کیا عیسائی اور یہودی دنیا خدا کے نبیوں کی نسبت ایسی باتیں سن سکتی ہے ہے؟ اگر سن سکتی ہے تو یہ اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ ایک ایسی پاک اور منزہ کتاب خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتی جو اس قسم کے ذہنوں کا علاج کرتی.۳.تو رات میں لکھا ہے اگر کئی بھائی ایک جا رہتے ہوں اور ایک ان میں سے بے اولا دمر جائے ، تو اُس مرحوم کی جورو کا بیاہ کسی اجنبی سے نہ کیا جائے بلکہ اس کے شوہر کا بھائی اس سے خلوت کرے اور اُسے اپنی جو رو کر لے اور بھاوج کا حق اُسے ادا کرے اور یوں ہوگا کہ اُس کا پلوٹھا جو اس سے پیدا ہو تو اس کے مرحوم بھائی کے نام پر قائم ہوگا تا کہ اس کا نام اسرائیل میں سے مٹ نہ جائے.اگر کسی اور شخص کی اولاد کے ذریعہ سے کسی شخص کا نام قائم رہ سکتا ہے تو بھائیوں کی اولاد کے ہونے کی صورت میں کیا ضرورت ہے کہ اس کے بھائیوں کے نطفہ سے اس کی بیوی کے ہاں بھی کوئی بیٹا پیدا ہو.اگر بھائیوں کا بیٹا اس کا بیٹا ہوسکتا ہے تو پھر اس کی بیوی سے بد کاری کروانے کا فائدہ ہی کیا ہے.بائبل یہی کہہ دیتی کہ بھائیوں کے بیٹوں میں سے ایک بیٹا مر نے والے کی طرف منسوب کر دیا جائے.میں تو سمجھتا ہوں کہ چونکہ یہودی علماء نے حضرت لوط پر ایک گندہ الزام لگایا تھا خدا نے ایسی تعلیم ان کے ہاتھوں سے تو رات میں لکھوا دی تا کہ لوط پر جھوٹا الزام لگانے والے یہودی سارے کے سارے خود اُس گند میں مبتلا ہو جائیں جو کام اُنہوں نے حضرت لوط کی طرف منسوب کیا تھا.یقیناً عہد نامہ قدیم کی یہ خرابیاں اس بات کی مین دلیل تھیں کہ دنیا کو اس قسم کی کامل کتاب کی ضرورت تھی جو عیبوں اور نقصوں سے پاک ہو اور وہ کتاب قرآن کریم ہے.موجودہ انا جیل کی حالت میں اوپر بتا چکا ہوں کہ عہد نامہ قدیم ظاہری اور باطنی دونوں طور پر محرف ومبدل ہو چکا ہے اور اس کی تعلیم اور ہو اس کی روشنی سے کسی انسان کا ہدایت پانا ناممکن ہے.اب میں عہد نامہ جدید کو لیتا ہوں.(۱) عہد نامہ جدید کا کوئی وجود نہیں ہے جو کتابیں عہد نامہ جدید کے نام سے ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں، وہ ہر گز نہ مسیح کے اقوال پر مشتمل ہیں اور نہ ان کے حواریوں کے اصل

Page 83

انوار العلوم جلد ۲۰ اے دیباچهتفسیر القرآن اقوال پر مسیح یہودی النسل انسان تھے اور ان کے حواری بھی یہودی النسل تھے.اس لئے اگر مسیح کا کوئی قول اپنی اصل شکل میں محفوظ ہو سکتا ہے تو عبرانی زبان میں.اور اگر ان کے حواریوں کا کوئی قول اپنی شکل میں محفوظ ہو سکتا ہے تو وہ بھی عبرانی زبان میں ہی محفوظ ہوسکتا ہے.لیکن انجیل کا کوئی نسخہ پرانی عبرانی زبان میں محفوظ نہیں ہے بلکہ انا جیل تمام کی تمام یونانی زبان میں ہیں.عیسائی پادری اس عظیم الشان نقص کو چھپانے کے لئے کہہ دیا کرتے ہیں کہ اُس کی زمانہ میں لوگوں کی زبان یونانی ہوگئی تھی لیکن کیا ایسا ہونا ممکن ہے؟ تو میں اپنی زبان آسانی سے نہیں چھوڑا کرتیں بلکہ وہ اپنی زبان کو ایسا ہی قیمتی ورثہ مجھتی ہیں جیسا کہ جائیداد و املاک کو مشرقی یورپ کی درجنوں قومیں روس کے ماتحت تین تین چار چار سو سال سے چلی آئیں ہیں لیکن اب تک ان کی زبانیں موجود ہیں.الجزائر اور مراکش پر فرانس اور سپین کا قبضہ ایک لمبے عرصے سے چلا آیا ہے، مگر باوجود اس کے وہاں کے لوگوں کی زبان عربی ہے.ان قوموں کو بھی نظر انداز کر دوخود یہودیوں کو ہی لے لو.حضرت مسیح کے زمانہ پر ساڑھے انیس سو سال گزر جانے کے بعد بھی انہوں نے اپنی زبان پوری طرح نہیں چھوڑی.اب بھی یورپ اور امریکہ کے مختلف ممالک کے رہنے والے یہودی پذش (YIDDISH) زبان بولتے ہیں جو مختلف ممالک کی بگڑی ہوئی یہودی زبان ہے.اگر اُنیس سو سال کی رہائش جو کلی طور پر دوسری اقوام کے ماحول میں گزری ہے وہ بھی یہودیوں کی زبان نہیں مٹا سکی تو ایک قلیل عرصہ کی اطالوی صحبت یہود کی زبان کو کس طرح بدل سکتی ہے؟ یا د رکھنا چاہئے کہ اطالوی حکومت فلسطین میں حضرت مسیح سے صرف چالیس سال پیشتر شروع ہوئی تھی اور یہ اتنا لمبا عرصہ نہیں جس میں کوئی قوم اپنی زبان کو چھوڑ دے.لیکن اس کے علاوہ یہ باتیں بھی یا درکھنے کے قابل ہیں کہ :.ا.تاریخی قو میں اپنی زبان کو کبھی نہیں چھوڑا کرتیں اور یہودی ایک تاریخی قوم ہے.ب.یہودیوں کا مذہب عبرانی زبان میں تھا اس لئے اس زبان کو چھوڑنا ان کے لئے بالکل نا ممکن تھا.ج.یہودی لوگ تہذیب و شائستگی کے لحاظ سے اپنے آپ کو اطالوی قوم سے کم نہیں سمجھتے تھے بلکہ بالا سمجھتے تھے اس لئے بھی یہودی اپنی زبان کے چھوڑنے پر تیار نہیں ہو سکتے تھے.

Page 84

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷۲ یہودی قوم آئندہ کی حکومت کی امیدوار تھی ، جو قو میں آئندہ کے متعلق امیدیں کھو بیٹھتی ہیں اُن کا دل بھی کمزور ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ وہ اپنی زبان کی حفاظت سے بے پروا ہو جاتی ہیں.لیکن حضرت مسیح کے زمانہ میں تو یہودی یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ جلد یہودیوں کا بادشاہ ظاہر ہو گا اور وہ پھر دوبارہ یہودی حکومت قائم کرے گا.پس یہ کس طرح ممکن ہو سکتا تھا کہ اُس زمانہ میں وہ اپنی زبان کو ترک کر دیتے.اُس زمانہ کے یہودی مصنفوں کی کتابیں اصل یا بگڑی ہوئی یہودی زبان میں ہیں.اگر ان لوگوں کی زبان بدل چکی تھی تو چاہئے تھا کہ اُس صدی یا اُس کے قریب کی لکھی ہوئی کتابیں اصل عبرانی یا بگڑی ہوئی عبرانی زبان کی بجائے کسی اور زبان میں ہوتیں.پرانی اناجیل کے نسخے یونانی زبان میں ملتے ہیں لیکن حضرت مسیح کے وقت میں ابھی تک اطالوی شہنشاہیت دوٹکڑوں میں تقسیم نہیں ہوئی تھی.اس کا مرکز ابھی روم میں ہی تھا اور رومی زبان اور یونانی زبان میں بہت کچھ فرق ہے اگر اطالوی حکومت کا کوئی اثر یہودیوں کی قوم پر پڑا بھی تھا تو اس کے نتیجہ میں اطالوی الفاظ عبرانی میں داخل ہونے چاہئیں تھے نہ کہ یونانی.لیکن انا جیل کے پرانے نسخے یونانی زبان میں پائے جاتے ہیں اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ انا جیل اُس وقت لکھی گئیں جبکہ رومی ایمپائر ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی تھی اور اس کے مشرقی مقبوضات یونانی ایمپائر کے حصہ میں آگئے تھے اور یونانی زبان نے بھی عیسائیت اور اس کے لٹریچر پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا تھا.ز.جتنے فقرے انا جیل میں اپنی اصل شکل میں محفوظ ہیں وہ سب کے سب عبرانی زبان میں ۲۸ ہیں مثلاً هو شعنا ايلى ايلى لما سبقتاني ربی ۲۹ تليشا قومی * ۰ ۷ ح.اعمال باب ۲ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد تک یہودی لوگ عبرانی زبان میں باتیں کرتے تھے.چنانچہ لکھا ہے:.” تب وے سب روح مقدس سے بھر گئے اور غیر زبانیں جیسے روح نے انہیں بولنے کی قدرت بخشی بولنے لگے اور خدا ترس یہودی ہر ایک قوم میں سے جو آسمان کے تلے ہے یروشلم میں آرہے ہیں.سو جب یہ آواز آئی تو بھیٹر لگ گئی اور سب دنگ

Page 85

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷۳ دیباچہ تفسیر القرآن ہو گئے کیونکہ ہر ایک نے انہیں اپنی اپنی بولی بولتے سنا اور سب حیران ہوئے اور تعجب کر کے آپس میں کہنے لگے دیکھو کیا یہ سب جو بولتے ہیں جلیلی نہیں ! پس کیونکر ہم میں سے اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے.ہم پارتھی اور میدی اور عیلامی اور رہنے والے مسوپوتامیہ، یہودیہ اور کپد کیہ.نپس اور آسیہ کے فروگیہ اور پمفولیہ.مصر اور لیبیا کے اس حصہ کے جو قرینی کے علاقہ میں ہے اور رومی مسافر یہودی اور یہودی مرید.کریتی اور عرب کے ہو کے ہم اپنی اپنی زبانوں میں انہیں خدا کی بڑی باتیں بولتے سنتے ہیں اور سب حیران ہوئے اور گھبرا کے ایک دوسرے سے کہنے لگا کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے اوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ نئی ئے کے نشے میں ہیں.اسے اس حوالہ سے ثابت ہے کہ اُس وقت تک فلسطین کے لوگوں کی زبان عبرانی تھی اور غیر زبانوں کی بولیاں بولنا اُن کے لئے ایک غیر معمولی بات تھی.جو نام اوپر گنائے گئے ہیں ان میں صاف طور پر رومیوں کا ذکر آتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اُس زمانہ میں رومی زبان فلسطین کی زبان نہیں تھی اور اس میں باتیں کرنا لوگوں کے لئے ایک اچنبھے کی بات تھی.اس بات سے قطع نظر کر کے کہ یہ واقعہ کس حد تک صحیح ہے اس حوالہ سے اس بات کا تو یقینی طور پر ثبوت مل جاتا ت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے صلیب کے واقعہ کے بعد بھی یہودیوں کی زبان عبرانی ہی تھی.غیر زبانیں جاننے والے اُن میں بہت ہی کم پائے جاتے تھے.حتی کہ جب مسیح کے حواریوں نے بعض غیر زبانوں میں باتیں کیں جن میں رومی زبان بھی شامل تھی تو لوگوں نے اُن پر یہ الزام لگا دیا کہ وہ ئے کے نشہ میں بکواس کر رہے ہیں.اگر سارے ملک کی زبان رومی یا کچھ یونانی ہوتی تو کس طرح ہو سکتا تھا کہ عوام الناس ان زبانوں کو نہ سمجھ سکتے اور ان کی تقریروں کو بے معنی قرار دے کر انہیں شراب کے نشہ میں مخمور سمجھ لیتے.مندرجہ بالا تمام دلائل سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور آپ کے حواریوں کی زبان عبرانی تھی لاطینی یا یونانی نہیں تھی.پس جو اناجیل یونانی یا لاطینی میں ہمارے سامنے پیش کی جاتی ہیں وہ یقیناً حضرت مسیح کے بہت عرصہ بعد لکھی گئی ہیں اور اُس زمانہ میں لکھی گئی ہیں جبکہ عیسائیت رومیوں میں پھیل گئی تھی بلکہ رومن شہنشا ہیت دوٹکڑے ہو کر کچھ

Page 86

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷۴ دیباچہ تفسیر القرآن اٹلی اور یونان کی حکومتوں میں تقسیم ہوگئی تھی.اس قسم کی کتابیں جو سو یا دو سو سال بعد غیر معلوم مصنفوں نے لکھی تھیں اور زبر دستی حضرت مسیح اور ان کے حواریوں کی طرف منسوب کر دی گئی تھیں اُن سے انسان کی روحانیت کو کیا فائدہ پہنچ سکتا تھا.ضرور تھا کہ ان کے ہوتے بھی نیا آسمانی صحیفہ نازل ہو جو اس قسم کی خرابیوں کی سے پاک ہو اور انسان اس یقین سے اس پر غور کر سکے کہ یہ پاک اور صاف کلام میرے پیدا کرنے والے کا تھا.دوسری دلیل : انجیل میں حضرت مسیح ناصری صاف طور پر بیان فرماتے ہیں کہ میں پرانی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ قائم کرنے آیا ہوں.چنانچہ مستی میں لکھا ہے:.یہ خیال مت کرو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ، میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ تو رات کا ہر گز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.۷۲ اس حوالہ سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ناصری کا اصل کام یہودیوں کو دوبارہ موسوی مذہب پر قائم کرنا تھا، مگر انجیل کی موجودہ شکل ہمیں بتاتی ہے کہ موسوی شریعت اس کے ذریعہ سے بالکل منسوخ کر دی گئی ہے یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اناجیل درحقیقت وہ نہیں جو حضرت عیسی علیہ السلام نے پیش کی تھیں.حضرت عیسی علیہ السلام کی تعلیم یقیناً وہی ہو گی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام دنیا میں لائے تھے.صرف ایسے امور جو فقیہوں اور فریسیوں نے موسوی شریعت میں اپنی طرف سے داخل کر کے اسے بگاڑ دیا تھا، مٹا دیئے گئے ہوں گے.لیکن انجیل فقیہوں اور فریسیوں کے احکام کو نہیں مٹاتی بلکہ موسی علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کے احکام کو بھی مٹاتی ہے.اس طرح اس کا ایک حصہ اس کے دوسرے حصہ کو باطل قرار دیتا ہے اور ظاہر ہے کہ جس کتاب کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو باطل قرار دے، وہ کتاب کسی ایک مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہو سکتی یا کسی معقول مصنف کی لکھی ہوئی نہیں ہوسکتی.چونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ کتابیں حضرت مسیح کے حواریوں کی لکھوائی ہوئی ہیں اس لئے یہ تو کہنا مشکل ہے کہ ان کتابوں کے

Page 87

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷۵ دیباچہ تفسیر القرآن مصنف معقول آدمی نہیں تھے.خدا تعالیٰ کے نبیوں کے خاص حواری معقول ہوا کرتے ہیں.پس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے اور وہ یہ کہ حواریوں نے اصل میں کوئی انجیل نہیں لکھوائی تھی.وہ زبانی باتیں کہتے تھے.کچھ عرصہ کے بعد ان کے شاگردوں کے شاگردوں نے اُن کی زبانی باتوں میں اپنے خیالات ملا دیئے اور اس طرح وہ اناجیل متضاد باتوں کا مجموعہ بن کر رہ گئیں.انا جیل کی تحریف و تبدل کے اندورنی شہادت پیش کرنے کے بعد اب ہم انجیل کے متعلق بعض عیسائی علماء کے خیالات متعلق عیسائی علماء کے خیالات درج کرتے ہیں.(الف) تفسیر ہارن جلد ۴ حصہ دوم باب ۴ مطبوعہ ۱۸۸۲ء میں لکھا ہے:.کلیسیا کے قدماء مؤرخین سے اناجیل کی تالیف کے زمانہ کے متعلق جو حالات ہم تک پہنچے ہیں ایسے غیر معین اور ابتر ہیں کہ کسی ایک امر معین کی طرف نہیں پہنچاتے اور پُرانے قدماء نے اپنے وقت کی گپوں کو سچ سمجھ کر لکھ دیا اور اُن لوگوں نے جو اُن کے بعد ہوئے ادب کر کے ان لوگوں کے لکھے ہوئے کو قبول کر لیا اور یہ روایات سچی اور جھوٹی ایک لکھنے والے سے دوسرے لکھنے والے کو پہنچیں اور مدت دراز کے گزر جانے کے بعد اُن کی تنقید مُتَعَذِّرُ ہو گئی.(ب ) پھر اس جلد میں لکھا ہے کہ:.پہلی انجیل ۳۷ یا ۳۸ یا ۴۱ یا ۴۳ یا ۴۸ یا ۶۱ ۶۲ یا ۶۴ عیسوی میں اور دوسری انجیل ۵۶ سے ۶۵ تک اور غالبا ۶۰ یا ۶۳ میں اور تیسری انجیل ۵۳ یا ۶۳ میں یا ۶۴ میں اور چوتھی انجیل ۶۸ یا ۶۹ یا • ۷ یا ۹۷ یا ۹۸ عیسوی میں تألیف ہوئیں اور نامۂ عبرانیہ یا۶۹ اور نامہ روم پطرس اور نامہ دوم سوم یوحنا اور نامہ یعقوب اور نامہ یہودا اور مشاہدات یوحنا اور نامہ اوّل یوحنا کے بعض ورس ( یعنی آیات ) کا حال تو ایسا ابتر ہے کہ کہنے کے لائق نہیں ان کو تو محض زبردستی سے ہلا سند حواریوں کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بہت علماء فرقہ پروٹسٹنٹ نے ان کتب کا انکار کیا تھا“.کے

Page 88

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷۶ دیباچہ تفسیر القرآن ( ج ) کا تھلک ہیرلڈ جلدے مطبوعہ ۱۸۴۴ ء صفحہ ۲۰۵ پر لکھا ہے:.”اسٹاڈسن اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ یوحنا کی انجیل یقیناً پلاریب مدرسہ اسکندریہ ا کے کسی طالب علم نے لکھی ہے اور ہارن اپنی تفسیر میں لکھتا ہے کہ فرقہ ایلو جین جو دوسری صدی میں تھا اس انجیل ( یوحنا ) اور اسی طرح یوحنا کی سب تصنیفات سے انکار کرتا ہے“.(ر) یوسیبس اپنی تاریخ کلیسیاء کی کتاب نمبر ۳ کے باب ۳ میں لکھتا ہے کہ:.پطرس کا پہلا خط سچا ہے مگر دوسرا خط پطرس کا کبھی پاک کتاب میں شامل نہیں کیا گیا لیکن پڑھا جاتا تھا.(ہ) پھر اسی کتاب کے پچیسویں باب میں لکھتا ہے کہ :.نامہ یعقوب اور نامہ یہودا اور نامہ روم پطرس اور نامہ دوم سوم یوحنا پر کلام کیا گیا ہے کہ آیا یہ سب انجیل نویسوں نے لکھے ہیں یا دوسرے لوگوں نے جن کے یہی " نام تھے.۴ کے (1) تفسیر بائبل ہارن صاحب جلد میں لکھا ہے کہ:.پہلے انا جیل عبرانی میں تھیں پھر کسی غیر معلوم شخص نے یونانی میں ترجمہ کیا.(ز) انسائیکلو پیڈیا ببلی کا میں لکھا ہے:."The NT was written by Christians for Christians: it was moreover written in Greek for Greek speaking Communities, and the style of writting (with the exeption, possibly, of the Apocalypce) was that of current literary composition.There has been no real break in the continuity of the Greek-speaking church and we find accordingly that few real blunders of writing are met with in the leading types of the extent texts.This state of things has not prevented Variations, but they are not for the most part accidental.And over whelming majority of the

Page 89

دیباچهتفسیر القرآن 22 XXXXXXXXXX انوار العلوم جلد ۲۰ various readings of the MSS of the NT were from the very first intentional alterations.The NT in very early times had no canonical authority, and alterations, and additions were actually made where they seemed improvements یعنی عہد نامہ قدیم عیسائیوں نے عیسائیوں کی خاطر لکھا تھا.علاوہ ازیں یہ یونانی میں یونانی بولنے والوں کے لئے لکھا گیا تھا اور طرز تحریر اُس وقت کے رائج طرز تحریر کے مطابق تھا.یونانی بولنے والے گر جا کے تاریخی تسلسل میں کوئی فرق نہیں پڑا.اس لئے ہمیں تحریر کی کوئی حقیقی غلطی موجودہ نسخوں میں نہیں ملتی.گو ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اختلافات پائے نہیں جاتے.لیکن وہ ی اختلافات اتفاقی نہیں ہیں بلکہ دیدہ دانستہ پیدا کئے گئے ہیں اور شروع سے ہی بعض مصنفوں نے بالا راده وه تغیرات عہد نامہ میں پیدا کئے.حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ قدیم اپنے ابتدائی زمانہ میں کوئی مذہبی نقدس نہیں رکھتا تھا ( یعنی اُسے خدائی کتاب نہیں کہا جاتا تھا ) اس لئے جہاں کہیں تبدیلیوں اور زیادتیوں سے مضمون میں اصلاح کی امید کی جاتی تھی وہاں تبدیلیاں اور زیادتیاں دلیری سے کر دی جاتی تھیں.( ح ) پھر لکھا ہے:.What is certain is that by the middle of fourth century.Latin biblical MSS exhibited a most confusing variety of text caused at least in part by revision from later Greek MSS as well as by modifications of the Latin phraseology.This confusion lasted until all the old latin (or-ante-hieronymain) texts were supplanted by the revised version of jerome (383-400 A.D) which was undertaken at the request of pope Damasus ultimately became the vulgate of the western Church.یعنی جو بات یقینی ہے وہ یہ ہے کہ چوتھی صدی کے درمیان میں بائبل کا لاطینی نسخہ نہایت ہی پراگندہ حالت میں تھا اور یہ مضامین کی پراگندگی یونانی نسخہ سے مقابلہ کی وجہ سے اور

Page 90

انوار العلوم جلد ۲۰ ZA دیباچہ تفسیر القرآن لاطینی اصطلاحوں میں تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہو گئی تھی اور یہ اختلافات قائم رہے یہاں تک کہ پرانے لاطینی نسخہ کی جگہ جیروم کا اصلاح شدہ نسخہ جو ۳۸۳ء سے ۴۰۰ ء تک کے درمیان زمانہ کے پوپ ڈیمیس کے حکم سے تیار کیا گیا تھا، عیسائیوں میں رائج کیا گیا.(ط) اسی طرح لکھا ہے:.More important than these external matters are the variations which in course of time crept in the text itself.Many of these variations are mere slips of the eye, ear, memory, or judgment on the part of a copyist, who had no intention to do otherwise than follow what lay before him.But transcribers, and especially early transcribers, by no means aimed at that minute accuracy which is expected of modern critical editor.Corrections were made in the interests of Grammar or on style.Slight changes were adopted in order to remove difficulties.Additions came in especially from parallel narratives in the gospels, citations from the Old Testament were made more exact or more complete.That all this was done in perfect good Faith and simply because no strict conception of the duty of a copyist existed, is especially clear from the almost entire absence of deliberate falsification of the text in the interest of doctrinal controversy.It may suffice to mention, in addition to what has been already said that glosses or notes originally written on the margin very often ended by being taken into the text, and that the custom of reading thus Scriptured in public worship naturally brought in liturgical additions, such as the doxology of the Lord's prayer while the Commencement of an ecclesiastical

Page 91

انوار العلوم جلد ۲۰ ۷۹ دیباچہ تفسیر القرآن lesson torn from its proper context had often to be supplemented by a few explanatory words, which soon came to be regarded as part of the original.<< ان بیرونی باتوں کی نسبت زیادہ اہم وہ تبدیلیاں اور وہ اختلافات ہیں جو کہ مرورِ زمانہ کی کی وجہ سے متن میں شامل ہو گئیں.ان تبدیلیوں میں سے بہت سی نقل نویسوں کی آنکھ ، کان اور کی یادداشت یا فہم کی غلطیوں کی وجہ سے ہوئیں جن کی اپنی نیت سوائے اس کے اور کوئی نہ تھی کہ جو کچھ اُن کے سامنے ہے وہ اُسے من و عن نقل کر دیں.لیکن مزید نسخے تیار کرنے والوں اور ان میں سے خاص طور پر ابتدائی لوگوں کا اصلی مقصد یہ نہیں تھا کہ بہت باریک بینی کے ساتھ صحت کا خیال رکھیں جیسا کہ موجودہ زمانہ کے نقادوں سے توقع کی جاتی ہے.گرامر اور سلاست عبارت کے پیش نظر بھی ان میں اصلاحات کی گئیں.مشکلات کو دُور کرنے کے لیے بعض معمولی تبدیلیاں بھی کی گئیں.عہد نامہ قدیم کے اقتباسات لینے میں یہ کوشش کی گئی کہ وہ زیادہ معتین اور زیادہ کی اصل صورت اختیار کر لیں.یہ کام پوری نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا کیونکہ اُس وقت ایک نقل نویس کی کے فرائض کے متعلق کوئی سخت نظریہ موجود نہیں تھا.یہ بات اس سے ظاہر ہے کہ متن میں کوئی تی دیدہ دانستہ جھوٹ کی آمیزش جو مذہبی عقائد کی بنا پر کی گئی ہے قریباً مفقود نظر آتی ہے.مندرجہ بالا امور کے علاوہ اس بات کا ذکر کرنا کافی ہوگا کہ حاشیہ پر درج شدہ نوٹوں کو اکثر متن میں شامل کر دیا جاتا تھا.اور اس طرح پبلک دینی اجتماعوں میں مذہبی صحیفوں کو پڑھنے کے رواج نے ایسی زیادتیاں کر دیں جیسا کہ دعائے ربانی کے نعتیہ اشعار میں.اسی طرح بعض دینی اسباق کو اپنے اصل متن سے علیحدہ کیا جاتا تو اس کی ابتداء میں بعض تشریحی الفاظ کا اضافہ کیا جاتا.اور یہ تشریحات کچھ عرصہ کے بعد اصل عبارت کا حصہ سمجھی جانے لگیں.(ی) اور پھر لکھا ہے:.It appears from what we have already seen that a considerable portion of the NT is made up of writing not directly apostolic.^ جن امور کا ہم اس سے پہلے جائزہ لے چکے ہیں اُن سے ظاہر ہے کہ عہد نامہ جدید کے

Page 92

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۰ معتد بہ حصے ایسی تحریروں پر مشتمل ہیں جو براہِ راست رسولوں کی طرف سے نہیں ہیں.دیباچ تفسیر القرآن Yest, as a matter of fact, evrey book in the NT with the exception of the four great epistles of St.paul is at present more or less the subject of controversy, and interpolations are assented even in these.19 پھر بھی حقیقت یہ ہے کہ عہد نامہ جدید کی ہر کتاب سوائے پولوس رسول کے چار عظیم الشان خطوط کے کم و بیش ما بہ النزاع ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ ان میں بھی دخل اندازی کی گئی ہے اور زیادتیاں ہوئی ہیں.پھر پُرانے زمانہ کی تحریف و تبدل کو تو جانے دو لطف یہ ہے کہ انجیل میں آج تک بھی تبدیلیاں کی جارہی ہیں.چنانچہ:.ا.یوحنا باب ۵ آیت ۲ تا ۵ لکھا تھا:.(۱) یروشلم میں بھیٹر دروازہ کے پاس ایک حوض ہے جو عبرانی میں بیت حسدا کہلاتا ہے.اُس کے پانچ اُسارے ہیں.ان میں ناتوانوں اور اندھوں اور لنگڑوں اور پژمردوں کی ایک بڑی بھیڑ پڑی تھی جو پانی کے ہلنے کے منتظر تھے.کیونکہ ایک فرشتہ بعضے وقت اُس حوض میں اُتر کے پانی کو ہلاتا تھا اور پانی کے ہلنے کے بعد جو کوئی کہ پہلے اس میں اتر تاکیسی ہی بیماری میں گرفتار ہو اُس سے چنگا ہو جاتا تھا.یہ واقعہ سینکڑوں سال سے انجیل میں لکھا جارہا تھا اور کسی مسیحی کے دل میں یہ خیال پیدا نہ ہوا تھا کہ یہ واقعہ کسی اور نے انجیل میں داخل کر دیا ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے جب عیسائیت پر یہ اعتراض کیا کہ اگر فلسطین میں ایک ایسا حوض موجود تھا کی جس میں گرنے سے لوگوں کو شفاء ہو جاتی تھی تو گو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ اس میں کسی خاص تاریخی میں گرنے سے شفاء ہوتی ہے مگر مسیح نے سمجھ لیا کہ یہ وہم ہے.اور اصل بات یہ ہے کہ اس پانی کی میں نہانے سے شفاء ہوتی ہے.پس مسیح نے اس کا پانی مریضوں کو استعمال کرانا شروع کر دیا جس سے اُن کو شفاء ہونی شروع ہو گئی اور لوگ ان کے معجزات کے قائل ہو گئے.چنانچہ

Page 93

انوار العلوم جلد ۲۰ ΔΙ دیباچہ تفسیر القرآن یوحنا باب ۹ آیت اتاے میں لکھا ہے:.' پھر اس نے جاتے ہوئے ایک شخص کو جو جنم سے اندھا تھا دیکھا اور اس کے شاگردوں نے اُس سے پوچھا کہ اے ربی ! گناہ کس نے کیا ؟ اس شخص نے یا اس کے ماں باپ نے کہ یہ اندھا پیدا ہوا.یسوع نے جواب دیا نہ تو اس شخص نے گناہ کیا نہ اس کے ماں باپ نے لیکن یوں ہوا کہ خدا کے کام اس میں ظاہر ہوویں.ضرور ہے کہ جس نے مجھے بھیجا ہے میں اُس کے کاموں کو جب تک کہ دن ہے کروں.رات آتی ہے اور کوئی اُس وقت کام نہیں کر سکتا.جب تک میں جہان میں ہوں جہان کا نور ہوں.یہ کہہ کے اس نے زمین پر تھوکا اور تھوک سے مٹی گوندھی اور وہ مٹی اُس اندھے کی آنکھ پر لیپ کی اور اُس سے کہا جا اور سلوام کے حوض میں نہا.تب وہ جا کے نہایا اور بینا ہو کے آیا.چونکہ اس سے مسیح کے معجزات پر زد پڑتی تھی اس لئے تازہ اُردو بائبل میں سے یہ تالاب کا واقعہ اُڑا دیا گیا ہے جس کے صاف معنی یہ ہیں کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچنے کے لئے انجیل بدل دی گئی ہے.اگر یہ واقعہ انجیل میں نہیں تھا تو انیس سو سال سے کس طرح اس میں شامل ہوتا چلا آیا اور اگر یہ واقعہ انجیل میں تھا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے ڈر کر عیسائی دنیا نے اس کو انجیل میں سے کیوں نکال دیا ؟ ۲.متی باب ۱۹ آیت ۱۶.۱۷ میں لکھا تھا:.” اور دیکھو ایک نے آکے اس سے کہا اے نیک استاد میں کونسا نیک کام کروں کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں؟ اُس نے اسے کہا.تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے.نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.یہ حوالہ اس بات کا ایک بین ثبوت تھا کہ حضرت مسیح کے متعلق عیسائیوں کا یہ ادعا کہ وہ کچھ معصوم عن الخطاء اور ہر قسم کے گناہوں اور عیوب سے منزہ تھے بالکل باطل اور بے بنیاد ہے.اگر وہ گنا ہوں سے منزہ ہوتے تو محض ایک کے نیک اُستاد کہنے پر وہ جواب میں یہ کیوں کہتے کہ تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

Page 94

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۲ دیباچہ تفسیر القرآن نے عیسائیوں کے سامنے اس حوالہ کو پیش کیا اور انہیں بتایا کہ تم مسیح کی معصومیت کا دعوی کس طرح کر سکتے ہو جبکہ مسیح خودا اپنی معصومیت کا اعتراف نہیں کرتا بلکہ صرف اتنی سی بات پر کہ ایک شخص نے اسے نیک استاد کہہ کر پکار اوہ کہہ اُٹھا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائیوں سے اس کا جواب بن نہ پڑا اور وہ اس بات پر مجبور ہوئے کہ اس آیت کے الفاظ اور اس کے مفہوم کو بالکل بدل ڈالیں.چنانچہ موجودہ کی انا جیل میں مذکورہ بالا الفاظ کو بدل کر یہ الفاظ درج کر دیئے گئے ہیں:.اور دیکھو ایک شخص نے پاس آ کر کہا اے استاد! میں کونسی نیکی کروں تا کہ ہمیشہ کی زندگی پاؤں.اُس نے اُس سے کہا تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے نیک تو ایک ہی ہے.66 تو کیوں مجھے نیک کہتا ہے اور تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے.ان دونوں کی فقرات میں موجود جو فرق ہے وہ ظاہر ہے.ایک حوالہ میں اپنے نیک ہونے سے انکار کیا گیا ہے اور دوسرے حوالہ میں صرف اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ تُو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں سوال کرتا ہے.حالانکہ حضرت مسیح دنیا میں آئے ہی اس لئے تھے کہ وہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ کی بتائیں.اگر وہ نیکی اور ہدایت کی راہ بتانے کیلئے نہیں آئے تھے تو ان کی بعثت کی غرض کیا تھی.اُن کو ہمارے عقیدہ کے مطابق خدا تعالیٰ کا نبی کہو یا عیسائیوں کے عقیدہ کے مطابق اللہ تعالیٰ کا بیٹا سمجھو دونوں صورتوں میں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وہ دنیا کو ہدایت اور نیکی کی راہ بتانے کے لئے آئے تھے.پس جب وہ آئے ہی اسی غرض کے لئے تھے کہ لوگوں کو نیکی اور ہدایت کی راہ بتا ئیں تو وہ یہ کس طرح کہہ سکتے تھے کہ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے پھر اگر ان سے نیکی کی بابت کچھ پوچھنا جرم تھا یا وہ دوسروں کو بتا نہیں سکتے تھے کہ نیکی کی راہ کون سی ہے تو انجیل کی کے مختلف مقامات پر انہوں نے نیکی کی تعلیم کیوں دی ہے؟ ایک طرف اُن کا لوگوں کو نیکی کی راہ می بتا نا اور دوسری طرف ان کا اس منصب پر کھڑا ہونا کہ لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کا موجب بنیں ، بتا رہا ہے کہ اُن سے یہ سوال نہیں کیا گیا تھا اے استاد ! میں کونسی نیکی کروں؟ اور نہ انہوں نے یہ جواب دیا کہ تو مجھ سے نیکی کی بابت کیوں پوچھتا ہے بلکہ در حقیقت ان سے وہی سوال کیا

Page 95

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۳ دیباچہ تفسیر القرآن گیا تھا جس کا پہلی انا جیل میں ذکر کیا گیا تھا اور جس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ تو کیوں کی مجھے نیک کہتا ہے نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا.مگر عیسائیوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراضات سے ڈر کر اس آیت کو بدل ڈالا جو ثبوت ہے اس بات کا کہ موجودہ اناجیل میں اب بھی تحریف و تبدیل ہوتی رہتی ہے.نمبر ا یوحنا باب ۵ آیت سے میں لکھا تھا:.” اور گواہی دینے والے تین ہیں.روح اور پانی اور خون.اور یہ تینوں ایک ہی بات پر متفق ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس حوالہ کی بناء پر عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تم تو مسیح کو خدا کہتے ہومگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ وہ رحم مادر میں نو ماہ تک خون کھا تا رہا اور یوحنا حواری کے قول کے مطابق وہ خود خون تھا.جو شخص نو ماہ تک رحم مادر میں خون کھاتا رہا اور جسے خودخون قرار دیا گیا ہے اُس کو خدا قرار دینا کتنی غیر معقول اور عقل و فہم سے بعید بات ہے.یہ حملہ بھی ایسا زبر دست تھا کہ عیسائی اس کی تاب نہ لا سکے اور اُنہوں نے اس آیت کی بجائے موجودہ اناجیل میں یہ الفاظ لکھ دیئے کہ :.تین ہیں جو آسمان پر گواہی دیتے ہیں.باپ اور کلام اور روح قدس اور یہ تینوں ایک ہیں.۴.مرقس باب ۹ آیت ۱۴ تا ۲۹ میں لکھا ہے:.وو اور جب وہ اپنے شاگردوں کے پاس آیا تو دیکھا کہ ان کے چاروں طرف بڑی بھیڑ اور فقیہوں کو ان سے بحث کرتے دیکھا اور فی الفور ساری بھیڑ اُسے دیکھ کر نہایت حیران ہوئی.اُس کے پاس دوڑ کے اُسے سلام کیا.تب اس نے فقیہوں سے پوچھا تم ان سے کیا بحث کرتے ہو؟ ایک نے اُس بھیڑ میں سے جواب دیا اور کہا اے استاد! میں اپنے بیٹے کو جس میں گونگی روح ہے تیرے پاس لایا ہوں وہ جہاں کہیں اسے پکڑتی ہے پٹک دیتی ہے اور وہ کف بھر لاتا ہے اور اپنے دانت پیتا ہے اور وہ سُوکھ جاتا ہے.میں نے شاگردوں سے کہا تھا کہ وہ اسے باہر کر دیں ، پر وہ نہ کر سکے.

Page 96

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۴ دیباچہ تفسیر القرآن اس نے اس کے جواب میں کہا اے بے ایمان قوم ! میں کب تک تمہارے ساتھ رہوں میں کب تک تمہاری برداشت کروں اُسے میرے پاس لاؤ.وہ اُسے اس کے پاس لائے اور جب اُس نے اُسے دیکھا فی الفور روح نے اسے اینٹھایا اور وہ زمین پر گرا اور کف بھر کے کوٹنے لگا.تب اُس نے اس کے باپ سے پوچھا کتنی مدت سے یہ اس کو ہوا؟ وہ بولا بچپن سے.اور وہ بہت بارا سے آگ میں اور پانی میں ڈالتی تھی تا کہ اسے جان سے مار دے.پر اگر تو کچھ کر سکتا ہے تو ہم پر رحم کر کے ہماری مدد کر.یسوع نے اسے کہا اگر تو ایمان لا سکے تو ایماندار کے لئے سب کچھ ہوسکتا ہے.تب فی الفور اُس لڑکے کا باپ چلایا اور آنسو بہا کے کہا.اے خدا وند ! میں ایمان لاتا ہوں.تو میری بے ایمانی کا چارہ کر.جب یسوع نے دیکھا کہ لوگ دور سے جمع ہوتے ہیں تو اس ناپاک روح کو ملامت کر کے اُسے کہا اے گونگی بہری روح ! میں تجھے حکم کرتا ہوں اس سے باہر نکل اور اس میں پھر کبھی مت داخل ہو.وہ چلا کر اور اُسے بہت اینٹھا کر اُس سے نکل گئی اور وہ مردہ سا ہو گیا ایسا کہ بہتوں نے کہا کہ وہ مر گیا.تب یسوع نے اُس کا ہاتھ پکڑ کے اُسے اُٹھایا اور وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور جب وہ گھر میں آیا اُس کے شاگردوں نے خلوت میں اُس سے پوچھا کہ ہم اُسے کیوں نہ نکال سکے ؟ اُس نے انہیں کہا کہ یہ جنس سوا دعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی.عیسائی اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت مسیح پر ایمان لانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کے حصول کے لئے کسی عمل صالح کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اوپر کے حوالہ کی یہ آیت کہ یہ جنس سوادُعا اور روزہ کے کسی اور طرح سے نکل نہیں سکتی ، بتاتی تھی کہ دعا اور روزہ کی بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جذب کرنے کے ذرائع میں سے ایک اہم ذریعہ ہیں.چونکہ حضرت مسیح کے حواریوں نے ان ذرائع سے کام نہ لیا اس لئے باوجود اس بات کے کہ وہ حضرت مسیح پر ایمان لا چکے تھے انجیل کے بیان کے مطابق وہ ایک بد روح کو نہ نکال سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اس آیت کو پیش کرتے ہوئے

Page 97

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۵ دیباچہ تفسیر القرآن عیسائیوں پر اعتراض کیا کہ تمہارا محض اسی بات پر انحصار رکھنا کہ تم حضرت مسیح پر ایمان لے آئے ہو اور ہر قسم کے عمل صالح کو باطل قرار دینا درست نہیں.حضرت مسیح تو خود تسلیم کرتے ہیں کہ دعا اور روزہ بھی ضروری چیزیں ہیں اور یہ بھی کہ وہ دعا اور روزہ سے کام لیتے تھے.تو جب دعا اور روزہ کی ضرورت ہے تو معلوم ہوا کہ محض حضرت مسیح پر ایمان انسان کو ہر قسم کی نیکی سے مستفیض اور نجات کا مستحق نہیں بنا سکتا.یہ اعتراض ایسا زبردست تھا کہ عیسائی اس کا کوئی جواب نہ دے سکے اور انہوں نے اپنی خیر اسی میں سمجھی کہ اس آیت کو اناجیل میں سے نکال دیں.چنانچہ موجودہ اناجیل میں ہمیں یہ آیت کہیں نظر نہیں آتی.گویا ایک آیت کو کتاب میں سے خارج کر دیا گیا اور اس طرح ثابت کر دیا گیا کہ انجیل اب تک انسانی دست بُر دکا شکار ہو رہی ہے.۵.متی باب ۱۲ آیت ۴۰،۳۹ میں لکھا تھا کہ ایک موقع پر جب بعض فقیہوں اور فریسوں نے حضرت مسیح سے کہا کہ :.”اے استاد ! ہم تجھ سے ایک نشان چاہتے ہیں“.تو حضرت مسیح نے ان کو جواب دیا کہ:.اس زمانہ کے بد اور حرامکار لوگ نشان ڈھوند تے ہیں پر یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی نشان انہیں دکھایا نہ جائے گا کیونکہ جیسا کہ یونس تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا.ویسا ہی انسان کا بیٹا تین دن اور تین رات زمین کے دل میں ہوگا.مذکورہ بالا آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حضرت مسیح کی اصل پیشگوئی یہ تھی کہ جس طرح یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہے ، اسی طرح میں بھی تین دن اور تین رات کی قبر کے اندر رہوں گا اور یونس نبی سے میری مماثلت ثابت ہو جائے گی.مگر انا جیل بتاتی ہیں کہ حضرت مسیج جمعہ کی شام کو قبر میں رکھے گئے ۱۰) اور جب اتوار کی صبح کو انہیں قبر میں دیکھا گیا تو وہ اس جگہ سے غائب تھے.اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ وہ صرف ایک دن اور دورات قبر میں رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ نے عیسائی دنیا سے مطالبہ کیا کہ جب حضرت مسیح کی پیشگوئی یہ تھی کہ لوگوں کو ویسا ہی نشان دکھایا جائے گا جیسے یونس نبی کے ذریعہ

Page 98

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۶ دیباچہ تفسیر القرآن وو نشان ظاہر ہوا.یعنی جیسے یونس نبی تین دن اور تین رات مچھلی کے پیٹ میں رہا ویسے ہی ابن آدم تین دن اور تین رات قبر میں رہے گا تو وہ تین دن اور تین رات زمین کے اندر کس طرح رہے؟ وہ واقعات جو ا نا جیل میں بیان کئے گئے ہیں وہ تو اس کی تصدیق نہیں کرتے.جب عیسائیوں نے دیکھا کہ اُن کیلئے اس اعتراض سے بچاؤ کی کوئی صورت نہیں تو انہوں نے اس آیت میں تحریف سے کام لیا اور موجود انا جیل میں بجائے تین دن اور تین رات کے تین رات دن کر دیا.اس طرح انہوں نے گو اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اعتراض سے بچانے کی کوشش کی ہے لیکن درحقیقت انہوں نے اپنے عمل سے ایک دفعہ پھر اس بات کو ثابت کر دیا ہے کہ اناجیل میں تحریف و تبدیل ہوتی چلی آئی ہے اور اب بھی عیسائی ضرورت محسوس ہونے پر اس میں تحریف و تبدیل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے ہیں.جب حالات یہ ہیں تو ایسی کتاب کے متعلق یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی رہنمائی کا فرض سرانجام دے سکتی ہے.یا کوئی شخص کس طرح اس کی آیات کے متعلق یہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.جب عیسائی آج بھی اس کی آیات میں تبدیلی کرنے سے احتراز نہیں کرتے تو کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ پہلے جو کچھ انہوں کی نے لکھا تھا وہ خدا تعالیٰ کا کلام تھا.پس انا جیل میں تحریف و تبدیل کا متواتر ہوتے چلے آنا ثبوت ہے اس بات کا کہ موجودہ اناجیل خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور وہ روحانی نقطۂ نگاہ سے بنی نوع انسان کے لئے کسی صحیح راہنمائی کا باعث نہیں ہوسکتیں.انا جیل میں اختلافات انا جیل کے اندر جو اختلافات پائے جاتے ہیں وہ بھی ثابت کرتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی کتاب نہیں.یا یہ کہ بعد میں انسانی دست بُرد نے اس کو بالکل بدل ڈالا کیونکہ ایک معقول انسان اپنی لکھی ہوئی کتاب میں اختلافات کو روا نہیں رکھتا تو پھر خدا کی کتاب میں اختلافات کیونکر پائے جا سکتے ہیں.ہم ذیل میں مثال کے طور پر نئے عہد نامہ کے چند اختلافات بیان کرتے ہیں.

Page 99

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۷ دیباچہ تفسیر القرآن مسیح کی پیدائش کی نسبت متی باب ۱ آیت ۲۱ ۲۲ اور لوقا باب ۱ آیت ۳۲ ،۳۳ میں لکھا ہے که صیح عام انسانوں میں سے ہوگا.ہاں وہ خدا کا بیٹا کہلائے گا.لیکن یوحنا کی انجیل میں لکھا ہے کہ مسیح کلمہ ہے جو ہمیشہ سے خدا کے ساتھ تھا اور خود خدا تھا.سب چیزیں اسی سے پیدا ہوئیں.۵۲ ۲ متی باب ۳ آیت ۱۳ تا ۱۷ مرقس باب ۱ آیت ۹ تا ۱۲ لوقا باب ۳ آیت ۲۱-۲۲ اور باب ۴ آیت ا میں بتایا گیا ہے کہ مسیح نے یوحنا سے بپتسمہ پایا اور بتپسمہ پاتے ہی وہ اُسی وقت یا اُسی دن اُس کے پاس سے چلا گیا.لیکن انجیل یوحنا میں بپتسمہ پانے کا ذکر نہیں اور مسیح کی کچ ملاقات یوحنا سے دو دن تک بتائی گئی ہے.۸۳.یوحنا بابا آیت ۱۹ تا ۴۴ سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح یوحنا اور اُن کے ساتھیوں سے کچھ دن ملاقات کرنے کے بعد سیدھا جلیل چلا گیا.لیکن متی باب ۴ آیت ۱ مرقس باب ۱ آیت ۱۲ اور لوقا باب ۴ آیت ا میں لکھا ہے کہ مسیح یوحنا سے بتپسمہ پانے کے فوراً بعد شیطان کے ساتھ امتحان دینے کی خاطر جنگل کو گیا اور چالیس دن وہاں رہا.۴ یوحنا بابا آیت ۳۵ تا ۵۱ میں لکھا ہوا ہے کہ یوحنا کی ملاقات کے معا بعد یوحنا کے شاگرد اندریاس اور ایک غیر معلوم شاگر د مسیح نے اپنے حواری بنائے اور جلیل کو جاتے ہوئے شمعون ، پطرس، نتائیل کو اُس نے اپنا مرید بنایا.لیکن متی بات ۴ آیت ۱۲ تا ۲۲ - مرقس باب ۱ آیت ۱۲ تا ۲۰.لوقا باب ۴ آیت ۱۴ ، ۱۵ اور لوقا باب ۵ آیت ۱ تا ۱۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یوحنا کی ملاقات کے بعد چالیس دن جنگل میں رہ کر مسیح نے روزہ رکھا.پھر یوحنا کے قید ہونے کی خبر سن کر جلیل گیا.وہاں کئی جگہ اور کئی دن اس نے وعظ کئے.پھر جلیل کی جھیل کے کنارہ پر جا کر اُس نے شمعون اور پطرس اور اندریاس اور یوحنا اور یعقوب کو اپنا شاگر د بنایا.گویا یوحنا نے ان لوگوں کے ایمان لانے کی جو جگہ بتائی ہے دوسری انا جیلی اُس کے خلاف بتاتی ہیں اور یوحنا نے جو وقت بتایا ہے دوسری انا جیل اُس وقت کے قریباً دو ماہ بعد کا وقت بتاتی ہیں..یوحنا باب ۴ آیت ۳ و آیت ۴۳ تا ۴۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کا وطن یہود یہ تھا اور

Page 100

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۸ مسیح اس خیال سے کہ پیغمبر کی عزت اپنے وطن میں نہیں ہوتی اُسے چھوڑ کر جلیل چلے گئے جہاں کے لوگوں نے اُن کی بہت قدر کی.لیکن اس کے خلاف متنی باب ۱۳ آیت ۵۴ تا ۵۸ ، لوقا باب ۴ آیت ۲۴ اور مرقس باب ۶ آیت ۴ میں لکھا ہے کہ مسیح کا وطن یہود یہ نہیں تھا بلکہ جلیل تھا.جب جلیل میں ان کی قدر نہ ہوئی تو اُنہوں نے کہا کہ کسی نبی کی قدر اُس کے وطن میں نہیں ہوتی.- یوحنا باب ۳ آیت ۲۲ تا ۲۶ اور یوحنا باب ۴ آیت ۱ تا ۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے یوحنا کی قید سے پہلے ہی اپنی تعلیم بیان کرنی شروع کر دی تھی اور بپتسمہ دینا بھی شروع کر دیا کی تھا.لیکن متی باب ۴ آیت ۱۲ تا ۱۷ مرقس باب ۱ آیت ۱۴ - ۱۵ ہمتی باب ۲۸ آیت ۱۹ اور مرقس باب ۱۶ آیت ۱۵ - ۱۶ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اپنی تعلیم کی تبلیغ تو یوحنا کے قید ہونے کے بعد شروع کی اور بپتسمہ کا حکم اپنے مرنے سے جی اُٹھنے کے بعد دیا.جیسا کہ لکھا ہے:.پھر وے گیارہ شاگر د جلیل کے اُس پہاڑ کو جہاں یسوع نے اُنہیں فرمایا تھا گئے اور اُسے دیکھ کر انہوں نے اُس کو سجدہ کیا.پھر بعضے دیدہ ۵۴ میں رہے اور یسوع نے پاس آکر اُن سے کہا کہ آسمان اور زمین کا سارا اختیار مجھے دیا گیا اس لئے تم جا کر سب قوموں کو شاگر د کرو اور انہیں باپ اور بیٹے اور روح قدس کے نام سے وو بپتسمہ دو..یوحنا باب ۱۳ سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح نے آخری کھانا عید سے ایک روز پہلے کھایا اور عید کے روز وفات پائی.لیکن متی باب ۲۶ آیت ۱۷ - مرقس باب ۱۴ آیت ۱۲ تا ۱۶ - لوقا باب ۲۲ آیت ۷ تا ۱۳ متی باب ۲۷ آیت ۱۵ تا ۳۱ مرقس باب ۱۲ /۱۴ اور باب ۱۵ آیت ۶ تا ۳۱.۲۰ لوقا باب ۲۳ آیت ۱۳ تا ۲۵ اور باب ۲۲ آیت ۱۳ تا ۲۷ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے ی آخری کھا نا عید کی شام کو کھایا تھا اور عید سے دوسرے دن صلیب پائی.یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۵ تا ۳۱ اور باب ۱۶ آیت ۱ تا ا ا سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے بعد کی فارقلیط یا روح القدس آئیں گے.اس کے دوبارہ زندہ ہو کر واپس آنے کا کہیں صاف طور پر ذکر نہیں.لیکن متی باب ۱۷ آیت ۲۳ اور مرقس باب ۹ آیت ۳۱ سے معلوم ہوتا ہے

Page 101

انوار العلوم جلد ۲۰ ۸۹ دیباچهتفسیر القرآن کہ مسیح تو دوبارہ زندہ ہو کر آئے گا لیکن فارقلیط کے دوبارہ آنے کا کوئی ذکر نہیں..یوحنا کی انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے حواریوں میں سے یوحنا اُس کا سب سے بڑا اور پیارا حواری تھا اس لئے اُس کا نام مسیح کا پیارا ہو گیا تھا.دیکھو یوحنا باب ۱۳ آیت ۲۳.اور باب ۱۸ آیت ۱۵.اور باب ۱۹ آیت ۲۶ ، ۲۷.لیکن دوسری انجیلوں سے پتہ لگتا ہے کہ مسیح کا سب سے پیارا حواری پطرس تھا اور تین شاگرد خاص تھے.پطرس.یوحنا.یعقوب.تعجب ہے کہ یوحنا کی انجیل میں یعقوب کا تو ذکر ہی نہیں کیا گیا اور پطرس اور یوحنا میں سے یوحنا کو زیادہ مقرب قرار دیا گیا ہے حالانکہ دوسری انا جیل پطرس کو زیادہ مقرب قرار دیتی ہیں.دیکھو متی باب ۱۷ آیت ۱.باب ۲۶ آیت ۳۷.مرقس باب ۵ آیت ۳۷.باب ۹ آیت ۲ - باب ۱۳ آیت ۳.باب ۱۴ آیت ۳۳- لوقا باب ۹ آیت ۲۸ - باب ۲۲ آیت ۳۲.۱۰ لوقا ( باب ۳ آیت ۳۳) نے یوسف کو ہیلی کا بیٹا بتایا ہے اور منتی (بابا آیت ۱۶) نے یوسف کو یعقوب کا بیٹا بتایا ہے..لوقا ( باب ۲ آیت ۴) نے مسیح کو داؤد کی اولاد ناتھن سے لکھا ہے اور متی نے ناتھن کے بھائی سلیمان بادشاہ کی نسل سے اُسے قرار دیا ہے.۸۵ ۱۲.متی کے نسب نامہ میں یوسف سے ابراہیم تک ۴۱ اشخاص کے نام ہیں اور لوقا کے نسب نامہ میں ۵۶.اور پھر ہر دوشجرہ نسب کے ناموں میں کئی جگہ اختلاف پایا جاتا ہے.۱۳.لوقا کا خود اپنا کلام بھی مختلف معلوم ہوتا ہے.چنانچہ وہ اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۵۰ ۵۱ میں لکھتے ہیں کہ:." مسیح اپنے شاگردوں کے سامنے بیت عنیا میں آسمان پر چلے گئے.لیکن یہی لوقا اپنی تصنیف اعمال میں لکھتے ہیں کہ یہ واقعہ زیتون کے پہاڑ پر ہوا تھا.۱۴.لوقا اپنی انجیل کے باب ۲۴ آیت ۲۱، ۳۶،۲۹ اور ا ۵ میں لکھتے ہیں کہ جس روز مسیح جی اُٹھے تھے اُسی دن یا پہلی رات جو آئی تھی اُس میں آسمان پر چلے گئے.لیکن یہی لوقا اعمال باب ۱ آیت ٣ میں لکھتے ہیں کہ وہ جی اٹھنے کے چالیس دن بعد آسمان پر چلے گئے تھے.

Page 102

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۰ دیباچہ تفسیر القرآن ۱۵.متی باب ۱۰ آیت ۱۰ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں سے کہا کہ راستہ کے لئے نہ جھولی دو نہ کرتے نہ جوتیاں نہ لاٹھی لو.لیکن مرقس باب ۶ آیت ۸، ۹ میں لکھا ہے کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو حکم دیا کہ سفر کے لئے سوائے لاٹھی کے کچھ نہ لو.پھر لکھا ہے کہ جو تیاں پہنو.گویا متی کی روایت کے مطابق تو جوتی سے بھی منع کیا گیا تھا اور لاٹھی سے بھی.لیکن کی مرقس کی روایت کے مطابق لاٹھیاں لینے اور جو تیاں پہننے کا حکم تھا.انجیل میں بعض تو ہمات کا ذکر انجیل کی تعلیم کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو ہمات سے بھی خالی نہیں.چنانچہ:.ا.مرقس باب ۱ آیت ۱۲ ،۱۳ میں لکھا ہے : اور روح اسے فی الفور بیابان میں لے گئی اور وہ وہاں بیابان میں چالیس دن تک رہ کے شیطان سے آزمایا گیا اور جنگل کے جانوروں کے ساتھ رہتا تھا اور فرشتے اُس کی خدمت کرتے تھے.یہ واقعات بالکل وہم ہیں اور الہی سنت ان امور کے بالکل خلاف ہے.اس دنیا میں انسان انسانوں کے ساتھ ہی رہتا ہے نہ کہ جانوروں اور شیطانوں یا فرشتوں کے ساتھ.کیا کوئی عظمند یہ تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون پہلے اس دنیا کے لئے کچھ اور تھا اور اب کچھ اور ہو گیا ہے.نہ تو اس دنیا میں شیطان کسی کے ساتھ ظاہری طور پر رہتے ہیں نہ فرشتے ظاہری طور پر خدمت کرتے ہیں.کشفی طور پر ان نظاروں کا نظر آنا اور بات ہے.ایسے کشفی نظارے نہ صرف پہلے ہوتے تھے بلکہ اب بھی ہوتے ہیں اور میں خود اس معاملہ میں تجربہ رکھتا ہوں.لیکن یہ بات نہ پہلے ہوتی تھی نہ اب ہوتی ہے کہ انسان جانوروں میں رہ رہا ہو بھیڑیئے اور شیر اُس کے اردگرد بیٹھے ہوئے ہیں شیطان آتا ہے اور اُس کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے اور خدا کا وہ بندہ اُس کی کے پیچھے پیچھے پھرتا اور بلا وجہ اس کے احکام کو مانتا چلا جاتا ہے اور کبھی کبھی اُس سے بغاوت بھی کی کر دیتا ہے.اسی طرح فرشتے آتے ہیں اُس کے لئے روٹی پکاتے ہیں، اس کے لئے ہنڈیا تیار کرتے ہیں ، اس کے لئے پانی مہیا کرتے ہیں.کہانیوں کی کتابوں میں تو ایسی باتیں آسکتی ہیں لیکن مذہبی کتابوں کا ایسی باتوں سے کیا تعلق.اگر نیا عہد نامہ کیلنگ کی جنگل بک“ کی طرح

Page 103

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۱ دیباچہ تفسیر القرآن ہوتا یا الف لیلیٰ کی مانند ہوتا تو اس قسم کی باتیں قابل اعتراض نہ ہو تیں لیکن نیا عہد نامہ تو لوگوں کی کی مذہبی اور روحانی رہنمائی کیلئے ہے اس میں اس قسم کی کہانیوں کا کیا مطلب؟ ہم مسیح ناصری جیسے نیک اور پاک آدمی کی نسبت کسی صورت میں بھی یہ نہیں مان سکتے کہ اُس نے ایسی باتیں کہی ہوں.وہ خدا تعالیٰ کا ایک برگزیدہ رسول تھا اور دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آیا تھا.کیا تو یہ ممکن ہے کہ ایسا پاکیزہ انسان دنیا کو ایسی باتیں بتاتا جو اُس کو جادہ اعتدال سے پھرا دیں کی اور وہم میں مبتلا کر دیں.پس یہ باتیں یقیناً بعد میں داخل کی گئی ہیں اور ان کی ذمہ داری مسیح پر نہیں اور نہ اُس کے حواریوں پر ہے بلکہ بعد میں آنے والے ایسے عیسائیوں پر ہے جن کی روحانیت مرچکی تھی اور جولوگوں کی واہ وا کو صداقت اور راستی پر ترجیح دیتے تھے." (ب) مرقس باب ۵ آیت ۱ تا ۱۴ میں لکھا ہے.” اور وے دریا کے پار گدر بینیوں کے ملک میں پہنچے اور جونہی وہ کشتی سے اُترے وہیں ایک آدمی جس میں ایک ناپاک روح تھی قبروں سے نکلتے ہوئے اُسے ملا اور وہ قبروں کے درمیان رہا کرتا تھا اور کوئی اُسے زنجیروں سے بھی جکڑ نہ سکتا تھا.کیونکہ وہ بار بار بیٹریوں اور زنجیروں سے جکڑ ا گیا تھا.لیکن اُس نے زنجیروں کو توڑا اور بیٹریوں کے ٹکڑے ٹکڑے کئے اور کوئی اُسے قابو میں نہ لا سکا.وہ ہمیشہ رات دن پہاڑوں اور قبروں کے بیچ چلایا کرتا اور اپنے تئیں پتھروں سے کا تھا تھا.پر جونہی اُس نے یسوع کو دور سے دیکھا دوڑا اور اُسے سجدہ کیا اور بُری آواز سے چلا کے کہا.اے خدا تعالیٰ کے بیٹے یسوع ! مجھے تجھ سے کیا کام ! تجھے خدا کی قسم دیتا ہوں مجھے نہ ستا.کیونکہ اُس نے کہا تھا کہ اے ناپاک روح اس آدمی سے نکل آ.پھر اُس سے پوچھا تیرا کیا نام ہے؟ تب اُس نے جواب دیا کہ میرا نام تمن ہے اس لئے کہ ہم بہت ہیں.پھر اُس نے اُس کی بہت منت کی کہ ہمیں اس سرزمین سے مت نکال اور وہاں پہاڑوں کے نزدیک ایک سوروں کا غول چرتا تھا.سوسب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو اِن سؤروں کے درمیان بھیج تا کہ ہم اُن میں بیٹھیں.یسوع نے انہیں فی الفور ا جازت دی اور وے ناپاک روحیں نکل کر سوروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول

Page 104

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۲ دیباچہ تفسیر القرآن کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور وے قریب دو ہزار کے تھے جو دریا میں ڈوب کرمر گئے اور وے جو سوروں کو چراتے تھے بھاگے اور شہر اور دیہات میں خبر پہنچائی.تب وے اس ماجرے کو دیکھنے نکلے“.ان آیات میں اس قدرو ہم کی باتیں جمع کر دی گئی ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے.اوّل یہ کہ ایک شخص اتنا پاگل اور مضبوط تھا کہ کسی قسم کی زنجیر میں اُس کو جکڑ نہیں سکتی تھیں.وہ ہر قسم کی زنجیریں توڑ دیتا تھا.کیا کوئی انسان اس قسم کا ہو سکتا ہے جو ہر قسم کی زنجیریں تو ڑ دے؟ ہاں یہ ممکن ہے کہ اُس زمانہ میں لوگوں کو زنجیریں بنانی نہ آتی ہوں اور وہ گھڑیوں کی زنجیروں جیسی کمزور زنجیروں سے لوگوں کو باندھتے ہوں.پھر لکھا ہے.وہ دیوانہ اپنے تئیں پتھروں سے کاٹتا تھا.یہ عجیب بات ہے کہ ایک شخص متواتر سالہا سال سے اپنے آپ کو پتھروں سے کا تھا تھا اور پھر بھی وہ مرتا نہیں تھا.پھر لکھا ہے.مسیح نے اُس شخص کو کہا کہ اے ناپاک روح ! اس آدمی میں سے نکل آ.یہ تو پہاڑی اور جاہل علاقوں کے خیالات ہیں نہ کہ خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول کے خیالات.اگر اِس قسم کی بدروحیں لوگوں میں آیا کرتی تھیں تو اب کیوں نہیں آتیں؟ اور کون سے ایسے ذرائع ہیں جن سے ایسی بدروحوں کا پتہ لگایا جاسکتا ہے.جس چیز کو آج ڈاکٹروں نے ”نیورس تھی نیا یا ہسٹیریا یا جنون قرار دیا ہے اس کو پرانے زمانے کے نا اقف لوگ بدروحیں قرار دیتے تھے.مگر انجیل یہ بتاتی ہے کہ حضرت مسیح جیسا سنجیدہ اور استباز اور عقلمند انسان بھی ان جاہلوں کی طرح یہ کہتا تھا کہ مجنونوں کے اندر کوئی بدروح داخل ہو جاتی ہے.نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ.خدا تعالیٰ کے ایک راستباز پر یہ کتنا بڑا الزام ہے.اپنی تو ہم پرستی کو دنیا کے ایک عظیم الشان رہنما کی کی طرف منسوب کر دینا یقیناً ایک بہت بڑا ظلم ہے مسیح خود ایسی بات نہیں کر سکتا تھا اور نہ اُس کے حواری ایسی بات کر سکتے تھے.یقیناً یہ بعد کے جہال کی داخل کی ہوئی بات ہے جنہوں نے انجیل کو اُس کے حقیقی معیار سے نیچے گرا دیا.پھر آگے چل کر اس وہم کو اور بھی پکا کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مسیح نے بد روح سے اُس کا نام پوچھا تو اُس نے کہا ” میرا نام تمن ہے اس لئے کہ ہم بہت ہیں.گویا ایک روح اتفاقی طور

Page 105

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۳ دیباچہ تفسیر القرآن پر پیدا نہیں ہو گئی تھی بلکہ ایک بڑا جتھا روحوں کا اُس وقت پایا جاتا تھا.پھر یہ کہا گیا ہے کہ روح نے مسیح کی منتیں کیں کہ اس سرزمین سے اُس کو نہ نکالیں لیکن جب مسیح نے نہ مانا تو سب دیووں نے اُس کی منت کر کے کہا کہ ہم کو ان سؤروں کے درمیان بھیج تا کہ ہم اُن پر بیٹھیں.اس پر یسوع نے فی الفور انہیں اجازت دی اور وے ناپاک روحیں نکلی کے سوروں میں بیٹھ گئیں اور وہ غول ( یعنی سوروں کا غول ) کڑاڑے پر سے دریا میں کودا اور می وے قریب دو ہزار کے تھے جو دریا میں ڈوب کر مر گئے.ان چند فقروں میں کتنا بڑا وہم اور کتنا ظلم موجود ہے.وہم تو یہ ہے کہ بدروحوں نے انسان میں سے نکل کر سوروں میں جانے کی اجازت مانگی.اور ظلم یہ کہ مسیح نے دوسرے لوگوں کے سؤروں پر بدروحوں کو مسلط ہونے کی اجازت دی اور اس طرح ہزاروں روپیہ کا مال لوگوں کا ضائع کر دیا.سوال یہ ہے کہ جب وہ روحیں مسیح سے پوچھے بغیر آدمی کے جسم میں داخل ہو گئی تھیں تو سؤروں میں داخل ہونے کے لئے انہیں کسی اجازت کی کیا ضرورت تھی ؟ دوسرے یہ کہ سوروں کا گلہ کسی کی ملکیت تھا.جنگلی سور تو اس طرح دو ہزار کے گلے کی صورت میں شہر کے پاس آکر نہیں پھرا کرتے.اتنی تعداد میں شہر کے قریب پھرنے والے سو ر تو کسی کی ملکیت ہوا کرتے ہیں.اس پر سوال ہوتا ہے کہ کسی کی ملکیت کو تباہ کرنے کا مسیح کو کیا حق پہنچتا تھا ؟ اگر کوئی کہے کہ خدا کے بیٹے کو سب چیزوں پر ملکیت کا حق حاصل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو محبت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے.اگر خدا محض اپنی ملکیت اعلیٰ سے حق کے طور پر انسان کی ملکیت کو تباہ اور برباد کر سکتا ہے تو پھر کونسا روحانی نظام دنیا میں کام کر رہا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمانیت کا جی ثبوت کیا ہے؟ علاوہ ازیں اس میں ایک اور عظیم الشان وہم کا بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ سوروں کی میں جب یہ روحیں چلی گئیں تو وہ دریا میں کود کر مر گئے یہ عجیب بات ہے کہ وہ بدروحیں ایک انسان میں گئیں تو وہ دریا میں نہ کو دا لیکن دو ہزار سوروں میں گئیں تو وہ دریا میں کود کر مر گئے.پس یہ آیات و ہم پر دلالت کرتی ہیں اور ظالمانہ مضامین ان کے اندر پائے جاتے ہیں اور کوئی عقلمند انسان جو مسیح کی عظمت کا قائل ہو وہ ان آیات کو مسیح یا اُن کے حواریوں کی طرف منسوب

Page 106

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۴ فسیر القرآن نہیں کر سکتا.از ماما نا پڑتا ہے کہ یہ آیات بعد میں بنا کر انجیل میں داخل کی گئی ہیں.ج.انجیل میں لکھا ہے مسیح مردے زندہ کیا کرتے تھے اور مردے واپس شہر میں آکر داخل ہو جایا کرتے تھے.چنانچہ یوحنا باب ۱۱ آیت ۴۳ ۴۴ میں لکھا ہے اور وہ یہ کہہ کر بلند آواز سے چلایا کہ اے لعز ر باہر نکل ! تب وہ جو مر گیا تھا کفن سے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے نکل آیا اور اُس کا چہرہ گرداگر درو مال سے لپٹا ہوا تھا.اسی طرح لکھا ہے.”دیکھو ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ گیا اور زمین کا نپی اور پتھر تڑک گئے اور قبریں کھل گئیں اور بہت لاشیں پاک لوگوں کی جو آرام میں تھے اُٹھیں اور اُٹھنے کے بعد قبروں سے نکل کر اور مقدس شہر میں جا کر بہتوں کو نظر آئیں.۸۶ کیا کوئی عقلمند ان باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اگر مردے پہلے زندہ ہوتے تھے تو اب کیوں نہیں ہوتے ؟ اگر کہو کہ یہ مسیح کی علامت تھی تو یہ غلط ہے.مسیح کہتے ہیں اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو جو نشانات میں نے دکھائے ہیں اُن سے بہتر نشانات تم دکھا سکتے ہو.چنانچہ یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۲.۱۳ میں لکھا ہے:.میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے یہ کام جو میں کرتا ہوں وہ بھی کرے گا اور اُن سے بھی بڑے کام کرے گا.کیونکہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور جو کچھ تم میرے نام سے مانگو گے وہی کروں گا تا کہ باپ بیٹے میں جلال پاوے.اگر تم میرے نام سے کچھ مانگو گے تو میں وہی کروں گا“.مگر کیا اس پیشگوئی کے مطابق اب بھی عیسائی مردوں کو زندہ کرتے ہیں؟ د متی باب ۱۴ آیت ۲۵ تا ۲۷ میں لکھا:.اور رات کے پچھلے پہر یسوع دریا پر چلتا ہوا اُن کے پاس آیا.جب شاگردوں نے اسے دریا پر چلتے دیکھا وے گھبرا کے کہنے لگے یہ بھوت ہے اور ڈر سے چلائے.وہیں یسوع نے انہیں کہا کہ خاطر جمع رکھو میں ہوں.مت ڈرو“.یہ بھی ایک وہم ہے جس کا انجیل میں ذکر کیا گیا ، ورنہ پانی پر کون چل سکتا ہے.

Page 107

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۵ دیباچہ تفسیر القرآن لوقا باب ۱۱ آیت ۲۴ تا ۲۶ میں لکھا ہے :.جب ناپاک روح آدمی سے باہر نکلتی ہے تو سوکھی جگہوں میں آرام ڈھونڈتی ہے اور جب نہیں پاتی تو کہتی ہے کہ میں اپنے گھر کو جس سے نکلی ہوں پھر جاؤں گی اور یہ کہ اسے جھاڑا ہوا اور آراستہ پاتی ہے تب جا کے اور سات روحیں جو اُس سے بدتر ہیں اپنے ساتھ لاتی ہے اور وے اس میں داخل ہو کے وہاں بستی ہیں اور اُس آدمی کا پچھلا حال پہلے سے بُرا ہوتا ہے.یہ کیسے وہی خیالات ہیں.اوّل یہ بیان کرنا کہ نا پاک روح آدمی میں سے نکل کر سوکھی جگہ میں آرام ڈھونڈتی پھرتی ہے اور پھر سات اور گندی روحیں لے کر واپس آجاتی ہے.کیا کوئی عقلمند انسان ان باتوں کو تسلیم کر سکتا ہے؟ اور کیا ان باتوں کو حضرت مسیح اور خدا کے کلام کی طرف منسوب کرنا جائز ہو سکتا ہے؟ جھوٹ بہت ہی بُری چیز ہے اور و ہم بھی ایک نہایت گندی ہی مرض ہے.لیکن جھوٹ اور و ہم کو خدا تعالیٰ کے نبیوں اور خدا تعالیٰ کے کلام کی طرف منسوب کرنا تو اور بھی ظالمانہ فعل ہے اور انجیل کے نادان دوستوں نے اس جرم کا ارتکاب کر کے اُسے دنیا کی ہدایت دینے والی کتابوں سے ہمیشہ کے لئے نکال دیا ہے.انجیل کی خلاف اخلاق باتیں -۱ مرقس باب ۱۱ آیت ۱۲ تا ۱۴ میں لکھا ہے: صبح کو جب وہ بیت عنیاہ سے باہر آئے تو اُس کو بھوک لگی اور دور سے انجیر کا ایک درخت پتوں سے لدا ہوا دیکھ کے وہ گیا کہ شاید اس میں کچھ پاوے.جب وہ اُس پاس آیا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا.تب یسوع نے اُس سے خطاب کر کے کہا کہ کوئی تجھ سے پھل نہ کھاوے“.اس حوالہ سے معلوم ہوتا ہے کہ:.(الف) مسیح باوجود یکہ ایک ایسے ملک کے رہنے والے تھے جہاں انجیر کثرت سے ہوتی ہے مگر وہ ایسے ناواقف تھے کہ انہیں یہ بھی معلوم نہ تھا کہ انجیر کے درخت کو کب

Page 108

انوار العلوم جلد ۲۰ پھل لگتا ہے.۹۶ دیباچہ تفسیر القرآن (ب) و نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ ایسے بد اخلاق تھے کہ بجائے اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کے انہوں نے ایک بے جان درخت کو بددعا دی اور کہا کہ آئندہ کوئی تجھ سے کبھی پھل نہ ج کھاوے.ہم مسلمان جو مسیح کی خدائی کے قائل نہیں انہیں خدا کا ایک نبی مانتے ہیں ہم بھی تو ان سے ایسی بدتہذیبی کے ارتکاب کو تسلیم نہیں کر سکتے.پھر تعجب ہے ان لوگوں کی پر جو اُن کو خد وخدا کا بیٹا بناتے ہیں اور اخلاق کا بہترین نمونہ قرار دیتے ہیں اور پھر بھی انجیل میں ایسی باتیں ان کے متعلق پڑھتے ہیں اور انہیں برداشت کر لیتے ہیں اور اُن کے دل میں یہ کبھی خیال نہیں آتا کہ یہ باتیں مسیح نے کبھی نہیں کہی ہوں گی بلکہ دوسرے لوگوں نے اُن کی طرف منسوب کر دی ہوں گی.آجکل کے بعض پادری اس حوالہ کے متعلق کہا کرتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہودی کی قوم اب پھل دینے کے ناقابل ہوگی اس لئے آئندہ یہودیوں میں سے کوئی نیک پھل پیدا نہیں ہوگا.لیکن کیا کوئی شخص جو علم ادب سے ذرا بھی حصہ رکھتا ہو اس عبارت کے ایسے معنی کرسکتا ہے؟ کیا انجیر کے درخت سے یہودیوں کو تمثیل دینے کیلئے اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ مسیح اُس وقت انجیر کے درخت کے پاس جائے جب اُسے بھوک لگی ہو.پھر اُس درخت کے پاس جائے جس میں پتے موجود تھے اور پھر راوی اُس کے متعلق یہ الفاظ بھی کہے کہ مسیح اس لئے اُس کی درخت کے پاس گیا تھا کہ شاید اُس میں کچھ پاوے.مگر جب وہ اس کے پاس پہنچا تو پتوں کے سوا کچھ نہ پایا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا.مسیح کا بھوک لگنے پر درخت کے پاس جانا اور ایسے درخت کے پاس جانا جس میں پتے لگے ہوئے تھے اور اس امید کے ساتھ جانا کہ اس سے پھل ملے گا کی جیسا کہ فقرہ شاید اُس میں کچھ پاوے سے ظاہر ہے اور پھر راوی کا یہ کہنا کیونکہ انجیر کا موسم نہ تھا‘ صاف بتاتا ہے کہ کسی تمثیل کے لئے مسیح اُس درخت کے پاس نہیں گیا تھا بلکہ اپنی بھوک کو دُور کی کرنے کیلئے گیا اور ایسے موسم میں گیا جبکہ ممکن تھا کہ درخت میں پھل لگا ہوا ہوتا.مگر ابھی پورا وقت نہیں آیا تھا یا شاید اس درخت میں پھل عام موسم سے ذرا دیر میں لگتا تھا یا شاید اُس کی بیماری کی وجہ سے اس درخت میں پھل ہی نہیں لگتا تھا.اس پر مسیح ناراض ہو گیا اور اس درخت پر لعنت کی.دو

Page 109

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۷ دیباچہ تفسیر القرآن کیا درختوں، دریاؤں، پہاڑوں اور پتھروں کو لعنت کرنے والے انسان معقول اور کی با اخلاق انسان سمجھے جاتے ہیں؟ کیا انجیل میں تبدیلی کرنے والا انسان یہ خیال کرتا تھا کہ مسیح جیسے شریف انسان کو آنے والی دنیا ایسے بُرے اخلاق سے متصف سمجھ لے گی ؟ عیسائی تو بیشک اُس کے دھوکا میں آگئے مگر ہم مسلمان یہ باتیں کبھی مسیح کی طرف منسوب نہیں کر سکتے.اس لئے کی نہیں کہ مسیح کی شخصیت دوسرے نبیوں سے نرالی تھی بلکہ اس لئے کہ کسی شریف انسان سے بھی ہم ایسی اُمید نہیں کر سکتے خواہ وہ نبی نہ بھی ہو.۲.متی باب ۷ آیت ۶ میں لکھا ہے:.وہ چیز جو پاک ہے کتوں کومت دو اور اپنے موتی سؤروں کے آگے نہ پھینکو.ایسا نہ ہو کہ وے انہیں پامال کر دیں اور پھر کر تمہیں پھاڑیں“.یہ چیز جسے پاک اور موتی قرار دیا گیا ہے خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کے نشانات ہیں اور کتے اور سؤر سے مراد وہ لوگ ہیں جو اُس وقت تک حضرت مسیح پر ایمان نہ لائے تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ کے نشانات پاکیزہ چیزوں سے بھی پاک ہیں اور موتیوں سے بھی زیادہ کی قیمتی ہیں.مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ پاک چیزیں اور موتی ایسے ہی لوگوں کے لئے آتے ہیں جن کو ایمان نصیب نہیں ہوتا.کیا خدا تعالیٰ کے نبی اِن لوگوں کو ایمان دینے کے لئے آتے ہیں جو پہلے سے مؤمن ہوتے ہیں؟ ہم تو دیکھتے ہیں کہ کبھی بھی خدا تعالیٰ کے نبی ایسے زمانہ میں نہیں آئے جب دنیا مومن تھی ہمیشہ تاریکی اور ظلمت کے زمانہ میں خدا کے نبی آیا کرتے ہیں اور اُن کا کام یہی ہوتا ہے کہ دنیا کے بھولے بھٹکوں کو راہ ہدایت کی طرف لائیں.دنیا کی بھولی ہوئی روحیں اُن کا مقصود ہوتی ہیں اور دنیا کے بھٹکے ہوئے لوگوں کو ہدایت دینا ہی اُن کا مدعا ہوتا ہے.کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ خدا کا پیارا اُن کو کتا اور سور قرار دے، محض اس جرم پر کہ ابھی تک ہدایت اُن پر ظاہر نہیں ہوئی؟ اور کیا خدا کا نبی یہ کہ سکتا ہے کہ اُن کے آگے خدا کی تعلیمیں پیش نہ کرو کیونکہ وہ اُن کو پاؤں تلے روندیں گے؟ اگر خدا تعالیٰ کے نشانات نہ ماننے والے کے سامنے پیش نہ کئے جائیں تو وہ اُن کو قبول کس طرح کریں گے اور دنیا ہدایت کی طرف آئے گی کیونکر؟ پس یہ مسیح پر بہت بڑا الزام ہے کہ جن لوگوں کی ہدایت کے لئے اُسے بھیجا گیا تھا اُنہی کو اُس نے

Page 110

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۸ دیباچهتفسیر القرآن کتے اور سور قرار دیا.کسی شرارت کی وجہ سے نہیں، کسی خاص معاندانہ فعل کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے کہ اب تک اُن پر صداقت ظاہر نہ ہوئی تھی.اس کے مقابلہ میں ہمارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ اَلا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ۵۷ اے ہمارے رسول ! تُو اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اس لئے کہ کا فرلوگ ایمان کیوں نہیں لاتے.کیا ہی زمین و آسمان کا فرق ہے ان دونوں مدعیانِ ہدایت وارشاد میں کہ ایک تو ایمان نہ لانے والوں کے غم میں اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے اور دوسرا اپنے حواریوں کو حکم دے رہا ہے کہ اِن کتوں اور سو روں کی پرواہ نہ کرو اور ان کو خدا تعالیٰ کا کلام مت پہنچاؤ.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے عالی اخلاق کی وجہ سے تمام انبیاء سے بڑھ کر تھے مگر میں یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں کہ حضرت مسیح اخلاق سے اتنا گرے ہوئے تھے.بیشک وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرتبہ کو نہیں پہنچے تھے مگر وہ خدا کے نبی تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے اخلاق اور روحانیت سکھانے کی کے لئے لوگوں کی طرف آئے تھے اور یقیناً اُن کا نمونہ لاکھوں کروڑوں لوگوں سے اچھا تھا.افسوس ہے اُس شخص پر جس نے ایسی بُری بات مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب کی.اس سلسلہ میں اُس کنعانی عورت کا واقعہ بھی نہیں بھلایا جا سکتا جس کا ذکر متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶ اور مرقس باب ۷ آیت ۲۴ تا ۲۷ میں آتا ہے.اُس عورت نے نہایت عاجزی سے مسیح سے عرض کی اور اپنے قومی رواج کے مطابق اُسے سجدہ بھی کیا اور اُس سے صرف اتنا چاہا کہ وہ اُس کو بھی اپنی لائی ہوئی ہدایت سے روشناس کرے.مگر مسیح نے بقول انجیل یہ جواب دیا کہ :.مناسب نہیں کہ لڑکوں کی روٹی لے کر کتوں کو پھینک دیں.وہ مسکین عورت کس اشتیاق اور تمنا کے ساتھ مسیح کے پاس آئی ہو گی.اس لئے نہیں کہ وہ چی اُس سے روٹی مانگے ، اِس لئے نہیں کہ وہ اُس سے کپڑا مانگے ، اس لئے نہیں کہ وہ اُس سے پانی کی مانگے ، وہ صرف اتنا چاہتی تھی کہ اُس کو کوئی ایسا رستہ بتا دیا جائے جس سے وہ اپنے خدا سے مل سکے.وہ اُسی چیز کو طلب کرنے آئی تھی جس کے دینے کا مسیح مدعی تھا.مگر موجودہ انا جیل کہتی ہیں مسیح نے اُسے دھتکار دیا.ایک طاقتور اور قومی مرد نے ایک کمزور اور مسکین عورت کو منہ در منہ

Page 111

انوار العلوم جلد ۲۰ ۹۹ دیباچہ تفسیر القرآن کہہ کر اُس کی تذلیل کی.کیا اس حوالہ سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ مسیح نے اُس کنعانی عورت کی تذلیل نہیں کی بلکہ جنس نسوانی کی تذلیل کر کے اپنی نسبت یہ ثابت کر دیا کہ وہ مسکین عورتوں کا رہنما نہیں ہے اور یہودی نسل کا اس قدر دلدادہ ہے کہ یہودی کمپنیوں سے اپنے پاؤں پر عطر ملوانا پسند کرتا ہے لیکن غیر یہودی عورت کو ہدایت دینا پسند نہیں کرتا.۸۸ اگر عیسائی دنیا اس حوالہ کو تسلیم کرتی ہو تو بیشک کرے مگر میں کبھی مان نہیں سکتا کہ حواریوں نے اُس کی نسبت ایسا کہا ہو.میرے نزدیک یہ باتیں بعد کے لوگوں نے اپنے پاس سے بنائی ہیں اور ایسے وقت میں بنائی ہیں جبکہ مسیح کی حقیقی حیثیت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہو چکی تھی.اصلی مسیح دنیا سے غائب ہو چکا تھا اور ایک خیالی مسیح اُس زمانہ کے نادان اور دین سے ناواقف لوگ بنا رہے تھے..یوحنا باب ۲ آیت ۱ تا ۴ میں لکھا ہے:.اور تیسرے دن قانائے جلیل میں کسی کا بیاہ ہوا اور یسوع کی ماں وہاں تھی اور یسوع اور اُس کے شاگردوں کی بھی اُس بیاہ میں دعوت تھی اور مے گھٹ گئی.یسوع کی ماں نے اُس سے کہا کہ اُن کے پاس مے نہ رہی.یسوع نے اُس سے کہا اے عورت مجھے تجھ سے کیا کام! اسی طرح متی باب ۱۲ آیت ۴۷ - ۴۸ میں لکھا ہے:.کسی نے اس سے کہا کہ دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر کھڑے تجھ سے بات کیا چاہتے ہیں.پر اُس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی“.یوحنا اور متی کے یہ دونوں حوالے بتاتے ہیں کہ مسیح اس سب سے قومی رشتہ کی بھی پرواہ نہیں کرتا تھا جس کی عزت و احترام ہر شریف انسان کا کام ہے.کیا آج مسیحی دنیا میں کوئی شریف انسان ماں سے کہہ سکتا ہے کہ ”اے عورت! مجھے تجھ سے کیا کام اور کیا آج مسیحی دنیا میں یہ کہہ کر کہ کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی شریفوں میں گنا جا سکتا ہے؟ پھر کیا مسیح کی ہی مقدس ذات اس تمسخر کے لئے باقی رہ گئی تھی کہ انجیل اس کی طرف ایسی بات منسوب

Page 112

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن کرتی ہے؟ ماں کا ادب تو ادنیٰ قوموں میں بھی پایا جاتا ہے یہ ان اخلاق میں سے ہے جن کی کی ذلیل ترین انسانوں سے بھی امید کی جاتی ہے.مگر بنی اسرائیل کا وہ آخری تاجدار، موسوی سلسلہ کا وہ آخری ہیرو جو اپنی قوم کو تاریکی اور ظلمت سے نکالنے اور اسے با اخلاق بنانے کے لئے آیا تھا اُس کی نسبت موجودہ انا جیل ہم سے منوانا چاہتی ہیں کہ اُس نے اپنی ماں کے ساتھ ترش روئی کی اور اُس کے متعلق گستاخانہ رویہ اختیار کیا.عیسائی کہتے ہیں وہ خدا کا بیٹا تھا، وہ انسان تھا ہی نہیں.سوال تو یہ ہے کہ اگر مسیح کی اصل شان خدا کا بیٹا ہونا ہی تھی تو وہ مریم کے گھر میں کیوں پیدا ہوا تھا ، اگر مریم کے گھر میں پیدا ہونے کی حالت اُس نے اپنے لئے پسند کر لی اور نو مہینہ تک مریم کو اُن تکالیف میں مبتلا رکھا جن تکالیف کو مائیں حمل کے ایام میں برداشت کیا کرتی ہیں ، اگر خدا کے بیٹے نے دو سال تک مریم کی چھاتیوں سے دودھ پینے کی تکلیف گوارا کی کر لی ، اگر اُس نے کئی سال اپنی تربیت اور خبر گیری کا بوجھ اُس پر ڈالا تو کیا وہ یہ بھی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لے سکتا تھا کہ اُس عورت کو جسے اُس نے اپنی ماں بنے کا موقع دیا ادب واحترام کے ساتھ یاد کرے.حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف مسیحی دنیا کے عذرات ہیں.اُن کے دلوں میں مسیح کی اتنی محبت نہیں ہے جتنی کہ انہیں محرف و مبدل انجیلوں کی بیچ ۱۹ ہے کیونکہ وہ انجیلیں اُن کی بنائی ہوئی ہیں اور مسیح خدا تعالیٰ کی مقدس مخلوق تھا.پس وہ سیدھا رستہ اختیار کرنے کے لئے تیار نہیں کہ انجیلوں کی غلطی کا اقرار کریں مگر اس بات پر آمادہ ہو جاتے ہیں کہ مسیح کو بدنام ہونے دیں.لیکن دنیا کے تمام معقول انسان جنہوں نے مسیح کی زندگی کا مطالعہ کیا ہے اور اس کی نوت قدسیہ کو پہنچاننے کی کوشش کی ہے وہ اس امر کا اقرار کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ موجودہ اناجیل بگڑی ہوئی ہیں ، غلط ہیں اور ایسے امور پر مشتمل ہیں جو روحانیت کے قریب نہیں کرتے بلکہ روحانیت سے دور پھینک دیتے ہیں اور یقیناً ان کی اس حالت کے بعد خدا کی طرف سے ایک کی نئے الہام کی ضرورت تھی جو اس قسم کی غلطیوں سے پاک ہوا اور بنی نوع انسان کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ روحانیت کی طرف لے جائے اور وہ کتاب قرآن کریم ہے.

Page 113

انوار العلوم جلد ۲۰ 1+1 دیباچہ تفسیر القرآن ویدوں میں تحریف و تبدیل کا ثبوت تیسرا مذ ہب جو اپنے ماننے والوں کی تعداد کے لحاظ سے خاص طور پر اہمیت رکھتا ہے، ہندو مذہب ہے.قرآنی تعلیم کے مطابق ہمارا یقین ہے کہ ہندو مذہب کی بنیاد بھی الہی الہام کے ذریعہ پڑی ہے اور چونکہ اس مذہب والوں کے نزدیک وید ہی شرعی کتاب ہے ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ یہی الہام اُس کے نبیوں پر نازل ہوا تھا لیکن اس کتاب کی موجودہ حالت یہ ہے کہ جن لوگوں پر یہ کتاب نازل ہوئی تھی اُن کے نام تک معلوم نہیں ، وید منتروں کے شروع میں بعض لوگوں کے نام درج ہیں لیکن اُن کے متعلق خود ہندو علماء یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ وہ نہیں جن پر الہام ہوا تھا بلکہ ویدوں کے جمع کرنے والے تھے.ایسی صورت میں ویدوں کی تاریخی حیثیت کچھ باقی نہیں رہتی.ویدوں کے علماء کی ویدوں کے متعلق مندرجہ ذیل را ئیں ہیں: 66 ا.پنڈت ویدک منی صاحب اپنی کتاب’ وید سر وسو‘ کےصفحہ ۹۷ پر لکھتے ہیں :.حقیقت میں جس قدر بُری حالت اس اتھرو وید کی ہوئی ہے اتنی اور کسی وید کی نہیں ہوئی.سائن آچاریہ کے بعد بھی کئی سوکت اس میں ملا دیئے گئے ہیں.ملانے کا ڈھنگ بہت اچھا سوچا گیا ہے.وہ یہ کہ پہلے اُس کے شروع اور آخر میں اتھے“ (شروع) اور ”اتی (ختم) لکھ دیا جاتا ہے.جب دیکھا کسی نے پوچھا تک نہیں تب شروع آخر میں اتھ اتی لکھنا بند کر دیا جاتا ہے بس صرف اتنے سے وہ ( یعنی اضافہ ) سنتا ( ویدک مجموعہ ) میں مل جاتا ہے، جیسے رگوید سنہتا میں بالکھلیتہ سُوکت ملائے جار ہے ہیں ویسے ہی اتھر و وید کے آخر میں آجکل کشتاپ سوکت ملائے جا رہے ہیں.رہے اگر پوچھا جائے کہ پانچویں انو واک سے لے کر کنتاپ سوکتوں سمیت جتنے سُوکت اتھروید میں ملائے جار ہے ہیں وہ کہاں سے آئے تو کوئی جواب نہیں ملتا.جہالت کا اتنا دور دورہ ہے کہ آخر میں اتھر دوید سنہتا سما پتا لکھا ہوا دیکھ کر ہی یہ یقین کر لیا جاتا ہے

Page 114

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن کہ بس جو کچھ اس خاتمہ تک چھپا ہوا یا لکھا ہوا ہے وہ سب اتھر و وید سنہتا ہے یہ خیال نہیں کیا جاتا کہ چھاپنے والا یا لکھنے والا کون اور کتنی قابلیت رکھتا ہے.“ ۲.پنڈت مہیش چندر پر شاد بی.اے سنسکرت ساہتیہ کا انتہاس جلد دوم کے صفحہ ۱۶۰ پر لکھتے ہیں: واجنئی شکل یجر وید سمتا بالکل نئی طرز پر ہے.اس میں وید اور برہمن بھاگ ( حصے الگ الگ پائے جاتے ہیں.اس میں چالیس ادھیائے ہیں.مگر لوگوں کا وشواش ہے کہ اِن میں ۱۸.اصل ہیں اور باقی بعد میں ملائے گئے ہیں.ادھیائے اسے ۱۸ تک کا بھاگ تیئستری سنهتاو کرشن یجر روید کے نظم و نثر سے مطابقت رکھتا ہے.ان ۱۸ ادھیاؤں کے ہر ایک لفظ کی تشریح اُس کے براہمن میں ملتی ہے.مگر باقی ۱۷ ادھیاؤں کے صرف تھوڑے تھوڑے منتروں پر ہی اس میں ٹپنی ( حواشی ) پائی جاتی ہے.کا تیائن نے ادھیائے ۲۶ سے ۳۵ تک کو کھل ( ملاوٹ ) کے نام سے لکھا ہے.ادھیائ ۱۹ سے ۲۵ میں بھی یگیہ کے طریقوں کا ذکر ہے.یہ تیئستر ی سنہتا سے نہیں ملتے.۲۶ سے لے کر ۲۹.ادھیاؤں تک کچھ خاص طور پر انہی یکیوں کے متعلق منتروں کا ذکر ہے جس کے بارہ میں پہلے ادھیاؤں میں بیان ہے اور اس سے خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ضرور بعد میں دیئے گئے ہیں.,,.پنڈت شانتی دیوشاستری رساله گنگا فروری ۱۹۳۱ ء صفحہ ۲ ۲۳ پر لکھتے ہیں:.پہلے تو آج تک یہ بھی فیصلہ نہیں ہوا کہ وید چار ہیں یا تین.منوسمرتی اور شت پتھ براہمن کی رو سے رگوید، یجروید اور سام وید.یہ تین وید ہیں اور واجنئی اپنشد براہمنوا پنیشد اور منڈک اپنشد کی رو سے چاروید ہیں.۴.پنڈت ہر دے نرائن ایم.ایس سی رسالہ گنگا بابت ماہ جنوری ۱۹۳۱ء میں لکھتے ہیں:.شونک رشی کے چرن دیوہ وغیرہ تصانیف میں وید منتروں اور اُن کے لفظوں اور حرفوں تک کی جو گنتی دی ہوئی ہے وہ موجودہ ویدوں میں نہیں ملتی.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ویدوں میں کئی منتر ملائے گئے ہیں اور کئی نکالے گئے ہیں“.۵.پنڈت شانتی و یو شاستری رساله گنگا بابت ماہ فروری ۱۹۳۱ء صفحہ ۱ ۲۳ پر لکھتے ہیں :.ہیں:.

Page 115

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۰۳ دیباچہ تفسیر القرآن جس وقت شونک رشی کا چرن دیوہ تصنیف ہوا اُس وقت شاکل سنہتا ( رگوید ) کے ایک لاکھ ۵۳ ہزار آٹھ سو چھبیس لفظ ، چار لاکھ ۳۲ ہزار حروف اور دس ہزار چھ سو بائیس منتر تھے مگر آجکل گنتی کرنے پر یہ تعدا د نہیں ملتی..ڈاکٹر تارا پر چودہری ایم اے.پی.ایچ.ڈی پروفیسر پٹنہ کالج رسالہ گنگا کے دید نمبر بابت ماہ جنوری ۱۹۳۲ ء کے صفحہ ۴ ۷ پر لکھتے ہیں :.ان کے علاوہ ( ویدوں میں ) ایسے الفاظ بھی ہیں جن کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اشدھ پاٹھ ( غلط متن ) معلوم ہوتا ہے کہ بولنے والوں اور لکھنے والوں کی خامیوں کے باعث کئی قسم کی غلطیاں واقع ہو گئی ہیں“.ے.پنڈت ویدک منی جی اپنی کتاب وید سروسو کے صفحہ ۱۰۵ و۱۰۶ پر لکھتے ہیں :.گو پتھ براہمن کا زمانہ تصنیف عین وہ زمانہ ہے جبکہ یگوں کا عروج تھا.اُس زمانہ رگویدی ، یجرویدی، سام ویدی اور اتھرو ویدی ایک دوسرے سے امیٹھے ہوئے تھے اور مختلف قسم کے فرائض اور من گھڑت طریقوں سے یگ وغیرہ کرنے میں محو تھے اور ان میں سے جس جس کو رگوید کے جس قدر منتر مطلوب تھے وہ اُس اُس نے اپنے اپنے وید میں شامل کر لئے تھے اور ہر ایک اپنے آپ کو بے نیاز سمجھتا تھا اور دوسروں سے نفرت کرتا تھا.یہی نہیں بلکہ شاکھا بھید ( نسخوں) کے اختلاف کے باعث رگویدی رگو یدی سے یجر ویدی یجرویدی سے.سام ویدی سام ویدی سے اور اتھرو ویدی اتھر و ویدی سے بھی الگ ہو گیا.واشکل سنہتا والا شاکل سن ہتا ( یہ رگ وید کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں ) ما دھنیدن سنہتا والا کا نوسنہتا ( یہ یجرویدی کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں ) کو تھم سنہتا والا را نائنی سنہتا ( یہ سام وید کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں ) اور شونک سنہتا والا پیلا دسنہتا ( یہ اتھرو وید کے دو مختلف نسخوں کے نام ہیں ) کے پاٹھ (متن) کو سب سے اعلیٰ اور خالص اور دوسری شاکھا ( نسخے ) کے متن کو قطعی بُرا اور غلط کہتا تھا.آج جو دید کے مختلف نسخوں میں طرح طرح کے اختلافات نظر آتے ہیں یہ ا کثر اُسی بُرے زمانہ میں جنم پائے ہوئے ہیں.

Page 116

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۰۴ دیباچہ تفسیر القرآن.اسی کتاب کے صفحہ ۱۰۸ پر لکھا ہے:.ان کے علاوہ براہمن گرنتھوں کا بھی بہت سا حصہ ان ( ویدوں ) میں شامل ہے، جو پڑھنے سے فوراً معلوم ہو جاتا ہے.اتھر دوید کی بھی یہی حالت ہے.و دوانوں ( علماء) کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے.دینی کتاب کی ایسی حالت افسوسناک ہے“.وو ۹.پھر اس کتاب کے صفحہ ۱۰۹ پر لکھا ہے:.یہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ اس وقت انتھر دوید کی صرف دو شاکھا سنہتا ( مختلف نسخے ) ملتے ہیں.ایک پیلا دسنہتا اور دوسری شونک سنہتا.دونوں میں پہلا د زیادہ لائق تسلیم ہے، لیکن وہ چھپی نہیں اور نہ ہی اُس پر سائن آچاریہ نے تفسیر کی ہے.دوسری شونک سنہتا چھپی ہوئی ملتی ہے جس کے تین ایڈیشن مختلف پر یسوں میں چھپے ہوئے ملتے ہیں.جن میں دو مول ( صرف متن ) اور ایک سائن اچاریہ کی تفسیر کے ساتھ چھپی ہے.دونوں مول میں سے ایک ویدک پریس اجمیر کی اور دوسری بمبئی پر لیس کی چھپی ہوئی ہے.اس کا چھاپنے والا سیوک لال ہے.تینوں میں سوکتوں ( بابوں ) اور منتروں کا اختلاف ہے.بعض آریہ سماجی عالموں نے اس اختلاف کو مٹانے کی کوشش کی ہے لیکن وہ اپنی کوششوں میں ناکام رہے ہیں.چنانچہ آریہ سماجی عالم پنڈت رگھو نندن شر ما ساہتیہ بھوشن و یدک سمپتی صفحه ۵۷۰ و ۵۷۱ پر اس اختلاف کی اہمیت کو کمزور کرنے کے لئے لکھتے ہیں:.وو جہاں تک ہمیں علم ہے اب تک اس قسم کا کوئی ایک بھی ثبوت پیش نہیں کیا گیا جس سے معلوم ہو کہ ویدوں میں فلاں جگہ ملاوٹ ہے جس کو آج تک کوئی نہیں جانتا تھا.جن مقامات میں ملاوٹ بتائی جاتی ہے وہ بہت دنوں سے ( براہمن گرنتھوں کی تصنیف کے زمانہ سے ) سب کو معلوم ہے.وہ ملاوٹیں نہیں بلکہ ایک قسم کے ضمیمے ہیں جو کا تبوں اور پریس والوں کی غفلت کی وجہ سے اصل متن میں گھس کر متن جیسے ہی معلوم ہو تے ہیں.بال کھلیہ سوکت رگوید میں ( یا اسوکت یعنی باب ہیں جن میں

Page 117

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۰۵ دیباچہ تفسیر القرآن ( ۸۰ منتر ہیں ) کھل یعنی براہمن بھاگ یجروید میں ( یہ بھی کئی باب ہیں آرنیک اور سہا نامنی سوکت سام وید میں ) ( یہ دو باب ۶۵ منتر ہیں ) اور گنتاپ سُوکت اتھرو دید میں ملے ہوئے ہیں (یہ اکھٹے دس سوکت یعنی باب ہیں جن میں ۰ ۱۵ منتر ہیں ) اور ان کو سبھی جانتے ہیں اور ان سب کے متعلق مفصل ثبوت بھی موجود ہیں.ان کے علاوہ کچھ مقامات یجروید اور اتھرو وید میں اور بھی ہیں جن کا علم ان فقروں اور منتروں کے پڑھنے سے ہو جاتا ہے کہ وہ ملاوٹی ہیں.کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح شاکھاؤں وید کے مختلف نسخوں ) کی گڑ بڑ کا سب کو علم ہے...اور شدھ و یدک شا کھائیں موجود ہیں اِس طرح ملاوٹی حصہ کا بھی سب کو علم ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ واجنی ( یجر وید کے مروج نسخہ ) کے منتروں کی تعداد ۱۹۰۰ ہے جن میں شکری کے منتر ملے ہوئے ہیں.کیونکہ لکھا ہے یعنی سو کم دو ہزار منتر واجنی کے ہیں اور انہی میں شکری کے بھی شامل ہیں.جب یہ وا جنی سنہتا ہے تب اس میں منتر و اجنئی کے ہونے چاہئیں شکری کے نہیں.لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ موجودہ وا جنی کسنبتا کے منتروں کی تعداد ۱۹۷۵ ء ہے.اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ شکری کے منتر ۱۹۰۰ میں ہی گھسے ہیں اور باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں.ظاہر ہے کہ یہ بیان ویدوں کو تحریف سے بُری نہیں کرتا بلکہ انہیں تحریف کا اقرار کراتا ہے.ان حوالہ جات سے صاف ظاہر ہے کہ ویدوں کے پُرانے اور جدید علماء سب اس بات پر متفق ہیں کہ ویدوں میں دوسرے لوگوں کے منتر بھی شامل ہو گئے ہیں.یہ کہنا کہ براہمنوں نے دریافت کر لیا تھا کہ فلاں منتر بناوٹی ہے اور فلاں اصلی ، یہ ایک بے معنی چیز ہے.اگر وید کے علماء کو یقین ہو گیا ہے کہ فلاں فلاں منتر بناوٹی ہے تو اُن کو نکال کیوں نہیں دیا.ان کا ویدوں کے اندر رکھنا بتاتا ہے کہ ویدوں کے علماء کو یقین نہ تھا.چنانچہ آریہ سماج کے مصنف نے آخر میں یہی لکھ دیا ہے کہ یجروید کے ۱۹۰۰ منتر اصلی ہیں باقی ۷۵ منتر کہیں باہر سے لا کر جوڑے گئے ہیں.وو اور ان ۱۹۰۰ کے متعلق بھی لکھ دیا ہے کہ ان میں بھی کچھ شکری کے منتر ہیں باقی “ اور ” کچھ کے الفاظ بتاتے ہیں کہ حقیقت کسی کو بھی معلوم نہیں.ساری بنیا دوہم و قیاس پر رکھی جاتی ہے.مگر

Page 118

انوار العلوم جلد ۲۰ 1+7 دیباچہ تفسیر القرآن کیا واہمہ پر رکھی ہوئی بنیاد روحانیت کو کچھ فائدہ پہنچا سکتی ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ہمیشہ سے اتھرووید کی اصلیت کے متعلق شبہ پیدا ہوتا چلا آیا ہے اور یجر دید اور رگ وید بھی اسی طرح آپس میں ملے ہوئے ہیں.صاف معلوم ہوتا ہے کہ ادھر کے منتر اُڑا کر کسی نے اُدھر رکھ دیئے ہیں جہاں اس قدر گڑ بڑ ہو وہاں کوئی شخص قطعی طور پر یہ فیصلہ کس طر حکر سکتا ہے کہ فلاں منتر خدا کی طرف سے ہے اور فلاں منتر لوگوں کا داخل کردہ ہے.اور جس کتاب کے متعلق ایسے شک وشبہات پیدا ہو چکے ہوں اُس پر دنیا کی ہدایت اور رہنمائی کی بنیاد رکھی ہی کب جاسکتی ہے.یقیناً جب کسی کتاب کی یہ حالت ہو جائے تو اس کے بعد کسی اور کتاب کی ضرورت ہوگی جو انسانی دست برد سے پاک اور محفوظ ہو اور جس پر انسان یقین اور قطعیت کے ساتھ اپنے عقیدوں کی بنیا د رکھ سکے اور جس کے متعلق وہ ویسا ہی یقین رکھے جیسے اُسے سورج اور چاند بلکہ اپنے نفس کے وجود پر یقین ہے اور وہ کہہ سکے کہ اس کا لفظ لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے اور میں اُس کی رہنمائی میں یقیناً خدا تعالیٰ کو پا سکتا ہوں اور اس ضرورت کو پورا کرنے والی کتاب قرآن کریم ہے.ویدوں میں ظالمانہ احکام ا.اتھرو دید کا نڈ نمبر ۴ سوکت ۲۲ منتر میں لکھا ہے:.”اے ویدک دھرمی را جاؤ اور دوسرے ویدک دھرمیو! تم شیر جیسے بن کر رعیتوں کو کھا جاؤ اور چیتے جیسے بن کر اپنے دشمنوں کو باندھ کر جکڑ لو.اس کے بعد اپنی مخالفت کرنے والوں کے کھانے تک اُٹھا لو.“ ۲.سام و ید ا تر آرچک پر پھاٹک گیارہ منتر میں لکھا ہے:.”اے مخالف تم سر کٹے ہوئے سانپوں کی طرح بے سر اور اندھے ہو جاؤ.اس کے بعد پھر جو تم میں چیدہ چیدہ ہوں اُن کو اندر اور آگ دیوتا تباہ کریں.۳.سام و ید ا تر آرچک ادھیائے اا منترا میں لکھا ہے:.”اے اندر دیوتا! ہمارا دیا ہوا سوم رس تجھے خوش اور متوالا کرے تو ہمیں

Page 119

انوار العلوم جلد ۲۰ 12 دیباچہ تفسیر القرآن دھن و دولت دے اور وید کے دشمنوں کو تباہ اور ہلاک کر.۴.سام وید اُتر آرچک ادھیائے ۱۰ منتر ۳ میں لکھا ہے:.”اے اندر دیوتا تو غیر ویدک دھرمیوں کو کب یوں کچل کر تباہ کرے گا جیسے چھتری دار پھول کو پاؤں سے کچل کر تباہ کر دیا جاتا ہے.اے اندر! تو کب تک ہماری ان دعاؤں کو سنے گا.۵.اتھرو وید کا نڈ نمبر ۱۹ سوکت ۲۸ منتر ۴ تا ۱۰ میں لکھا ہے:.”اے دکھ! تو ہمارے دشمنوں کے دلوں کو توڑ دے جیسے تو اُگتے وقت میں زمین کی کھال کو چیرتی ہوئی اوپر کو نکل آتی ہے ویسے ہی ان ہمارے دشمنوں کے سروں کو چیر کر اوپر کو نکل کر ان کو گرا کر تباہ کر دے.-۶.اتھرو وید کا نڈ نمبر ۱۹ سوکت ۲۹ منترا تا ۹ میں لکھا ہے:.” اے دبھ! تو میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو چھ اور میرے دوسرے ہر قسم کے مخالفین کو بھی چھ جا.اے دیکھ ! میرے دشمنوں اور مقابلہ کرنے والوں کو تباہ کر اور ہمارے مخالفین کو بھی تباہ و بربادکر وغیرہ وغیرہ..یجر ویدا دھیائے ۲۷ منتر ۲ میں لکھا ہے:.”اے آگ ہم براہمن لوگ جو تیرے پجاری ہیں تو ہمیں عزت و دولت دے مگر ہمارے مخالفوں کو سمجھ نہ دے“..یجرویدا دھیائے۱۱ منتر ۸۰ میں لکھا ہے.اے آگ دیوتا جو لوگ ہم کو دھن و دولت نہیں دیتے بلکہ ہماری مخالفت کرتے ہیں ، تو اُن کو جلا کر راکھ کر دے.ویدوں کے علاوہ دوسری مذہبی کتب میں بھی اسی قسم کی تعلیم ہے.چنانچہ منوسمرتی جو تمام ہندوؤں کے نزدیک ویدوں کی حقیقی تفسیر ہے اُس میں لکھا ہے کہ:.ویدوں پر اعتراض کرنے والوں کو ملک سے باہر نکال دو.‘90 ۹.” جوشو در براہمن کے برابر بیٹھنا چاہے راجہ یا تو اُس کی کمر پر گرم لوہے کے داغ دے،

Page 120

انوار العلوم جلد ۲۰ 1+1 اُسے ملک سے نکال دے یا سرین کٹوا دے.۱۰.پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱ میں بھی لکھا ہے کہ:.دیباچہ تفسیر القرآن براہمن بغیر کسی شک و شبہ کے شودر کا مال و دولت لے لے کیونکہ شودر کا تو اپنا 66 کچھ بھی نہیں بلکہ اُس کا سب کچھ اُس کے مالک براہمن کا ہی ہے.۱۱.ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱۳ میں لکھا ہے:.” شودر چاہے براہمن کا خریدا ہوا ہو یا نہ خریدا ہوا ہو براہمن اُس سے ضرور غلامی کرائے کیونکہ بر ہما جی نے شودر کو پیدا ہی غلامی کے لئے کیا ہے.۱۲.پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۴۱۴ میں لکھا ہے:.وو شودر آزاد کرنے پر بھی آزاد نہیں ہو سکتا بلکہ غلام ہی رہتا ہے کیونکہ غلامی شو در کی فطرتی چیز ہے وہ بھلا اُس سے علیحدہ ہوسکتی ہے.۱۳.پھر ادھیائے نمبر ۸ شلوک ۲۷۲ میں لکھا ہے:.اگر شودر فخر کے ساتھ مذہبی مسائل بتانے شروع کر دے تو تیل کو خوب گرم کر کے اُس کے کانوں میں بھر دو“.اس تعلیم سے ظاہر ہے کہ ہندو دھرم کے نزدیک سوائے چند مخصوص ذاتوں کے باقی سب لوگ خدا تعالیٰ کے فضل اور اُس کے رحم سے محروم ہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے بعض بندے ایسے بھی ہیں جن کے لئے ویدوں کا پڑھنا یا سنایا جانا گناہ ہے اور اگر وہ ایسی عبادت سے کام لیں کہ ویدوں کو پڑھیں یا سنیں یا یاد کریں تو اُن کو سخت سے سخت سزا دینی چاہئے حتی کہ انہیں قتل تک کر دینا چاہئے.یہ تعلیم بتاتی ہے کہ ویدک دھرم صرف چندا قوام کے لئے تھا اور عالمگیر مذہب نہیں تھا.برہمنوں، کھتریوں اور ویشوں کے سوا خدا تعالیٰ کی بہت سی مخلوق دنیا میں اور بھی پائی جاتی ہے ہے.یہ قومیں تو صرف ہندوستان کی آبادی کا ایک حصہ ہیں مگر اُن سے کئی گنا آبادی اور کی ہندوستان سے باہر ملتی ہے.اس تعلیم کی موجودگی میں کون کہہ سکتا ہے کہ وہ لوگ کسی صورت میں بھی ہدایت پاسکتے ہیں.مگر کیا خدائے رحیم و کریم کا یہ قانون ہوسکتا ہے؟ کیا ممکن ہے کہ وہ دنیا کے ایک حصہ کو ہدایت کے لئے پیدا کر دے اور دوسرے حصہ کو اپنی تقدیر کے ساتھ دوزخی

Page 121

انوار العلوم جلد ۲۰ 1+9 دیباچہ تفسیر القرآن بنادے؟ یقیناً یہ تعلیم نہ صرف ظالمانہ ہے بلکہ خدا تعالیٰ پر بھی نہایت گندہ الزام لگانے والی ہے.ہمارا خداوہ مہربان آقا ہے جس کے احسانوں سے دنیا کا کوئی بھی گوشہ خالی نہیں ہے.زمین کے اوپر بسنے والی مخلوق اور زمین کے نیچے بسنے والی مخلوق اور ہواؤں میں اُڑنے والی مخلوق ساری کی ساری اپنی قابلیت اور اپنی طاقتوں کے مطابق اُس کے فضلوں اور اُس کے احسانوں کے نیچے پرورش پا رہی ہے.اس نے تمام بنی نوع انسان کو ایک قسم کے دماغ اور ایک قسم کے افکار اور ایک قسم کی قوتیں عطا کی ہیں.وہ پاکیزہ جذبات جو انسان کو روحانیت کی اعلیٰ فضا میں اُڑا کر لے جاتے ہیں اُن سے ہمیں نہ یورپ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ امریکہ کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ایشیا کے لوگ محروم نظر آتے ہیں نہ ہندوؤں کے دل اُن سے زیادہ پاک ہیں نہ اُن کی فکر میں اُن سے زیادہ بلند ہیں.پھر کیسے ہو سکتا تھا کہ خدا تعالیٰ اپنی اکثر مخلوق کو ہدایت سے محروم کر دیتا اور صرف ۱/۶ مخلوق کو ہدایت کا اہل قرار دیتا.یہ تعلیم خود چلا چلا کر کہہ رہی ہے کہ ویدوں کے بعد ایک اور ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کی ہدایت کے لئے بلائے اور عجمی اور عربی کو ایک صف میں لا کر کھڑا کر دے اور وہ تمام بنی نوع انسان کی ہمددری اور محبت کی تعلیم دینے والی ہو اور ذلیل اور ادنی اقوام اُس کے نزدیک حقیر نہ ہوں بلکہ دوسروں سے زیادہ قابل امداد اور دوسروں سے زیادہ قابل رحم اور دوسروں سے زیادہ قابل ہمدردی ہوں اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے قرآن کریم نازل ہوا تھا.ویدوں میں تو ہمات دید ایسی تعلیموں سے بھی بھرے ہوئے ہیں جو محض تو ہمات پر بنی ہیں.مثلاً ویدوں میں عناصر کو دیوتاؤں کی صورت میں پیش کیا تی گیا ہے.آجکل بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ صرف صفات الہیہ کے نام ہیں مگر ہم ویدوں میں دیکھتے تھے ہیں کہ آگ جلا کر اُس پر تیل اور دوسری قیمتی چیزیں چھڑ کنے کا حکم ہے جیسا کہ رگوید کی دوسری چی کتاب کے دسویں منتر کے چوتھے شلوک سے ثابت ہوتا ہے اور ان چیزوں کے چھڑ کنے کے متعلق یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ وہ گویا اگنی کی خوراک ہیں.اگر اگنی وغیرہ صفات الہیہ ہیں تو پھر آگ جلا کر اُن پر تیل اور دوسری چیزیں چھڑ کنے کے معنی کیا ہوئے ؟ اور ان چیزوں کو آگ کی خوراک قرار دینے کے کیا معنی ہوئے؟ اگر یہ صفات الہیہ ہیں تو پھر ظاہر میں آگ جلا کر اُن پر

Page 122

انوار العلوم جلد ۲۰ 11.دیباچہ تفسیر القرآن تیل وغیرہ چھڑ کنا محض ایک وہم ہے اور اگر یہ چیزیں دیو تا تسلیم کی گئی ہیں تو اُن کا دیوتا تسلیم کرنا خود ایک وہم ہے.بہر حال کوئی معنی لے لئے جائیں وہم ہی کی تعلیم اس سے نکلتی ہے.اسی طرح رگوید کی دوسری کتاب کے گیارہویں ادھیائے کے گیارہویں شلوک میں لکھا ہے : او اندر ! تو سوم پی اور یہ خوشی دینے والا رس تجھے خوشی پہنچائے“.اب اندر یا تو فرشتوں کا نام قرار دیا جا سکتا ہے یا خدا تعالیٰ کا.اگر یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے تب بھی سوم کا رس خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ قسم کا وہم ہے.اور اگر اندر کسی فرشتے یا اور کسی روح کا نام ہے تب بھی اُس کے آگے سوم کا رس پیش کرنا ایک نہایت ہی ادنیٰ وہم ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کی ہستی وراء الورا ہے اور اُس کے فرشتے روحانی وجود ہیں اُن کے لئے کسی شربت کے پینے یا پلانے کا خیال کرنا بھی ایک نہایت ہی مضحکہ خیز خیال ہے.پھر اسی ادھیائے کے پندرھویں منتر میں لکھا ہے.اواندر! تو سوم کا رس پی تا کہ تجھے طاقت اور خوشی آئے“.خدا تعالیٰ یا اُس کے فرشتوں کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ سوم کا رس اُن کو طاقت بخشتا ہے یہ بھی کتنا مضحکہ انگیز خیال ہے.یہ ایک دو منتر نہیں بلکہ سینکڑوں منتر ویدں میں ایسے پائے جاتے ہیں جو اس قسم کی وہم والی تعلیمیں پیش کرتے ہیں.دیوتاؤں کا آسمانوں پر کبھی بادلوں پر سواری کرنا اور کبھی رتھوں پر چڑھنا یہ اور اسی قسم کے بہت سے خیالات ویدوں میں بھرے ہوئے ہیں.ویدوں کی خلاف اخلاق تعلیم دیدوں میں بہت سی خلاف اخلاق تعلیم بھی ہے، لیکن وہ اتنی عریاں ہے کہ تفصیل کے ساتھ بیان نہیں کی جاسکتی.اس میں شہوانی قوتوں اور شہوانی اعضاء کے متعلق ایسی ایسی باتیں بیان کی گئی ہی ہیں کہ جو اس عریانی کے ساتھ طب کی کتابوں میں بھی لکھنی جائز نہیں.ان تمام وجوہ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ وید جس کے بہت سے حصے اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے ہوں گے ان میں انسانوں نے ایسی تعلیمیں ملا دی ہیں کہ جن کی بناء پر اب وہ قابل عمل نہیں رہے اور یقیناً اس خرابی کے بعد جو ویدوں میں آج

Page 123

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن سے سینکڑوں سال پہلے واقعہ ہو چکی ہے ایک ایسے کلام کی ضرورت تھی جو ان تمام نقائص سے پاک ہو اور وہ کلام قرآن کریم ہے.ویدوں میں تناقض چونکہ ویدوں میں مختلف زمانوں میں مختلف لوگوں نے دست اندازی کی ہے اس لئے اُن کے مضامین میں بہت کچھ تاقش بھی پیدا ہو گیا ہے.چنانچہ ہم ذیل میں اس تناقض کی چند مثالیں بیان کرتے ہیں:.ویدوں میں یہ سوال اُٹھایا گیا ہے کہ سورج کو کس نے پیدا کیا ہے؟ اور اس کا جواب مختلف ویدوں میں دیا گیا ہے.چنانچہ ر گوید منڈل نمبر ۹ سوکت ۹۶ منتر نمبر ۵ میں لکھا ہے: سورج کو کیلے سوم دیوتا نے پیدا کیا تھا“.لیکن رگوید منڈل نمبر ۸ سوکت ۳۶ منتر نمبر ۴ہ میں لکھا ہے:.وو سورج کو کیلے اندر دیوتا نے پیدا کیا تھا.یہ عجیب بات ہے کہ وہی کتاب ایک باب میں تو کہتی ہے کہ سورج کو اکیلے سوم دیوتا نے کی پیدا کیا تھا اور دوسرے باب میں یہ کہتی ہے کہ سورج کو کیلے اندر دیوتا نے پیدا کیا تھا،لیکن دوسرے وید تو اور بھی کمال کر دیتے ہیں.یجر ویدا دھیائے ۱۳ منتر ۱۲ میں لکھا ہے:.سورج کو اکیلے برہما نے اپنی آنکھ سے پیدا کیا تھا“.گویا رگوید تو کیلے سوم دیوتا اور ا کیلئے اندر دیوتا سے سورج کو پیدا شدہ قرار دیتا ہے لیکن یجر وید نہ اُسے سوم دیوتا کا پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اندر دیوتا کا بلکہ اُسے برہما دیوتا کا پیدا کیا ہوا بتا تا ہے اور بتاتا ہے کہ اُسے برہما نے پیدا بھی اپنی آنکھ سے کیا تھا.اتھر و وید اس کے بالکل خلاف ایک اور ہی حقیقت بیان کرتا ہے.اس میں لکھا ہے:.سب دیوتاؤں نے مل کر سورج کو پیدا کیا تھا.۹۱ اتھرو دید کی اس روایت نے حقیقت بالکل ہی بدل دی.وہ سورج کو نہ اکیلے سوم دیوتا کاتی پیدا کیا ہوا قرار دیتا ہے نہ اندر دیوتا کا نہ برہما کا بلکہ وہ سب دیوتاؤں کو اُس کی پیدائش میں شریک قرار دیتا ہے.۲.ویدوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سورج پہلے زمین پر تھا پھر اُس کو اُٹھا کر آسمان پر لے گئے.

Page 124

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۱۲ دیباچهتفسیر القرآن علم ہیئت کے لحاظ سے یہ بات کیسی ہی عجیب کیوں نہ ہو میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس حکایت کی تفصیلات کے متعلق بھی ویدوں میں بہت کچھ اختلاف پایا جاتا ہے.کرشن یجروید تیتری سنگتا میں لکھا ہے:.سورج پہلے زمین پر تھا.دیوتا اپنی پیٹھوں پر اُسے رکھ کر او پر جنت میں لے گئے اور وہیں رکھ دیا.کرشن یجر وید میں لکھا ہے :.سورج کو صرف ورن دیوتا ہی زمین سے اٹھا کر او پر جنت میں لے گیا تھا“.لیکن رگوید منڈل نمبر ، سوکت ۱۵۶ منترہ میں لکھا ہے:.کیلئے آگ دیوتا نے سورج کو او پر جنت میں لے جا کر رکھا تھا اور رگوید منڈل نمبر ۱۰ منتر ۳ میں لکھا ہے:.سورج کو انگر ارشی کی اولا د نے اوپر لے جا کر جنت میں رکھا تھا.اتھر و وید کا نڈ نمبر ۱۳ سوکت نمبر ۲ منتر نمبر ۱۲ میں لکھا ہے:.وه اے سورج! تجھے اوپر جنت میں لے جا کر صرف اکیلے اتری رشی نے اس لئے رکھا تھا تا کہ تو مہینوں کو بنایا کرے.شکل یجر ویدا دھیائے نمبر ۴ منتر ۳۱ میں لکھا ہے:.سورج کو اوپر لے جا کرا کیلے ورن دیوتا نے ہی رکھا تھا“.قطع نظر اس کے کہ سورج کو زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھنے کا عقیدہ کیسا مضحکہ خیز ہے اور بتا تا ہے کہ پرانے زمانہ کے ہندوؤں میں یہ خیال تھا کہ سورج ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے اور زمین کے کسی گوشہ میں رکھی جاسکتی ہے.یہ بات غور طلب ہے کہ اس مضحکہ انگیز خیال کے مطابق بھی اتنی متضاد روایتیں ہیں کہ وہ تضاد خود اپنی ذات میں مضحکہ انگیز ہو جاتا ہے.صرف رگوید کی مختلف فصلوں میں یہ اختلاف پایا جاتا ہے کہ ایک فصل میں تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ آگ دیوتا نے سورج کو اُٹھا کر آسمان پر رکھا لیکن اس کتاب کی دوسری فصل میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نہیں بلکہ اندر دیوتا نے ایسا کیا.اور پھر اسی کتاب کے ایک اور منتر میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ کام ان دونوں

Page 125

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن ہی نے نہیں کیا تھا بلکہ انگر ارشی کی اولاد نے یہ کام کیا تھا.اسی طرح یجروید میں ایک جگہ تو یہ کہانی ہے کہ سورج کو تمام دیوتا اپنی پیٹھ پر اُٹھا کر لے گئے لیکن دوسری جگہ یہ لکھا ہے کہ سورج کو کیلے ورن دیوتا نے زمین سے اُٹھا کر آسمان پر رکھا.اتھر و وید اِن سب سے نرالی حکایت بیان کرتا ہے اور اتری رشی کو اس غیر معمولی شان کے کام کے لئے مخصوص کرتا ہے.۳.زمین و آسمان کی پیدائش کے متعلق بھی ویدوں نے بعض حقائق بیان کئے ہیں.لیکن وہ چی حقائق بھی ایک دوسرے سے ایسے ہی مختلف ہیں جیسا کہ جنوں اور پریوں کی کہانیاں آپس می میں مختلف ہوتی ہیں.سام وید پور دآر چک میں لکھا ہے:.زمین و آسمان کو کیلے سوم دیوتا نے پیدا کیا تھا.لیکن رگوید منڈل نمبر ۸ سوکت ۲۶ منتر ۴ میں لکھا ہے:.زمین و آسمان کو سوم رس پینے والے اکیلے اندر دیوتا نے ہی پیدا کیا تھا“.مگر اسی رگوید کے منڈل نمبر ۲ سوکت ۴۰ منترا میں لکھا ہے:.زمین و آسمان کو پوشا د یو تا اور سوم دیوتا دونوں نے مل کر پیدا کیا تھا.مگر یجروید کہتا ہے کہ:.زمین و آسمان کو ا کیلے برہما نے پیدا کیا تھا.منوسمرتی دشت پیچھے برہمن میں لکھا ہے:.زمین و آسمان کو کیلے پر جاپتی نے ہی پیدا کیا تھا.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منوسمرتی وید نہیں مگر اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ہندو قوم اس کو ویدوں کی صحیح تفسیر قرار دیتی ہے اصل ویدوں میں بھی زمین و آسمان کی پیدائش کے متعلق کچھ کم اختلاف نہیں تھا کہ منوجی نے اس اختلاف کو اور بھی اُبھار دیا.سام وید سوم دیوتا کو زمین و آسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے لیکن رگوید ایک جگہ اندر دیوتا کو اور دوسری جگہ پوشا دیوتا اور سوم دیوتا کو زمین و آسمان کی پیدائش کا موجب قرار دیتا ہے.مگر منوجی نے ان تمام ویدوں کی تشریح کرتے ہوئے سوم اور اندر اور پوشا اور برہم سب کو پیدائش کا ئنات سے جواب دے دیا

Page 126

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۱۴ اور پر جاپتی کو ان کا پیدا کرنے والا قرار دے دیا.دیباچہ تفسیر القرآن دیوتاؤں کی تعداد کے متعلق اختلاف ۴.گو ہم مانتے ہیں کہ وید جب بھی نازل ہوئے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوئے تھے اور یقیناً وہ توحید کی تعلیم پر مشتمل تھے مگر موجودہ وید وہ نہیں جو کہ شروع میں رشیوں پر نازل ہوئے تھے.ان میں کثرت کے ساتھ شرک کی تعلیم پائی جاتی ہے بلکہ اس کثرت کے ساتھ کہ اس نے توحید کی تعلیم کو دبا لیا ہے.چنانچہ اس بارہ میں بھی جو تعلیم ویدوں میں بیان ہوئی ہے اُس کی ہم چند مثالیں دیتے ہیں:.یجر وید میں لکھا ہے کہ:.دیوتا کل ۳۳ ہیں.از مین میں 11 آسمان اور اا او پر جنت میں“.رگوید منڈل نمبر ۳ سوکت 9 منتر 9 میں لکھا ہے کل دیوتا ۳۳۴۰ ہیں.۳۳۴۰ کی تعداد است سے ظاہر ہوتی ہے کہ رگوید کے بیان کے مطابق ۳۳۳۹ دیوتاؤں نے مل کر آگ دیوتا کو گھی سے سینچا اور اُس کے پاس گئے.پس ۳۳۳۹ میں ایک جمع ہوا تو ۳۳۴۰ ہو گئے.چنانچہ رگوید منڈل نمبر ۱۰ سوکت نمبر ۵۲ منتر ۶ میں صاف الفاظ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ کل دیوتا ۳۳۴۰ ہیں.ویدوں میں دیوتاؤں کے متعلق اتنا اختلاف حیرت انگیز ہے کہچر وید میں تو دیوتا ۳۳ قرار دیئے گئے ہیں اور رگوید میں ۳۳۴۰.تو حید کو چھوڑ نا ہی ایک نہایت خطرناک بات تھی مگر جو خیالی دیوتا تجویز کئے گئے ان کی تعداد میں بھی اتنا اختلاف کہ وہ کبھی ۳۳ ہو جاتے ہیں اور کبھی ۳۳۴۰.یہ اختلاف یقیناً انسان کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ بے شک جب وید نازل ہوئے ہوں گے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں گے مگر موجودہ وید ہرگز انسان کی روحانیت کو تسلی نہیں دے سکتے اور ان کے بعد اور ان کے باوجود بھی ایک ایسی کتاب کی دنیا کو ضرورت تھی جو ہر قسم کی خلاف اخلاق ، متناقض، ظالمانہ اور وہموں سے پر تعلیموں سے پاک ہوا یہی کتاب قرآن کریم ہے.

Page 127

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۱۵ دیباچہ تفسیر القرآن چوتھا سوال اور اُس کا جواب چوتھا سوال جو پہلی کتب کی موجودگی میں قرآن کریم کے نزول کی ضرورت کے متعلق روشنی ڈال سکتا ہے یہ ہے کہ کیا سابق مذاہب اپنی تعلیم کو حتمی اور آخری قرار دے رہے تھے؟ یا وہ خود بھی ایک ارتقاء کے قائل تھے؟ اور روحانیت کی ترقی کے لئے ایک ایسے نقطہ کی خبر دے رہے تھے جس پر جمع ہو کر بنی نوع کو انسانی پیدائش کے مقصد کو حاصل کرنا تھا؟ بائبل میں قرآن مجید کے نزول اور آنحضرت اس سوال کے متعلق یہ امر مدنظر رکھنا چاہئے کہ انبیاء کی صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کے متعلق پیشگوئیاں کی ایک مسلسل کڑی جو ہمیں الہی منشاء سے آگاہ کر سکے در حقیقت ہمیں بائبل میں ہی ملتی ہے.انبیاء کے حالات کو محفوظ رکھنے میں بائبل نے جو کام کیا وہ قرآن کریم سے پہلے اور کسی کتاب نے نہیں کیا اس لئے ہم اس سوال کا جواب دینے کیلئے کہ آیا پہلی کتابیں اپنے بعد کسی اور کتاب کی اور پہلے نبی اپنے بعد کسی اور نبی کی خبر دیتے ہیں یا نہیں جو دنیا میں ہدایت اور راستی کی تعلیم کو مکمل کرنے والا اور بنی نوع انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ بننے والا تھا، بائبل پر نظر ڈالتے ہیں.پہلی پیشگوئی.حضرت ابراہیم بائبل کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم کی اولاد علیہ السلام سے خدا تعالیٰ کے بہت سے وعدے ނ وعدہ تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کسدیوں کے اور میں پیدا ہوئے اور وہاں سے اپنے باپ کے ساتھ ہجرت کر کے کنعان کی طرف روانہ ہوئے لیکن اُن کے والد حاران میں آکر ٹھہر گئے.اُن کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ وہ حاران سے نکل کر کنعان کو روانہ ہوں اور فرمایا:.” اور میں تجھے ایک بڑی قوم بناؤں گا اور تجھ کو مبارک اور تیرا نام بڑا کروں گا اور

Page 128

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۱۶ دیباچہ تفسیر القرآن تو ایک برکت ہوگا اور اُن کو جو تجھے برکت دیتے ہیں برکت دوں گا اور اُس کو جو تجھ پر لعنت کرتا ہے لعنتی کروں گا اور دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاویں گے.۹۲ اسی طرح لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا:.کہ یہ تمام ملک جو تو اب دیکھتا ہے میں تجھ کو اور تیری نسل کو ہمیشہ کے لئے دوں گا.پھر پیدائش باب ۱۶ آیت ۱۰ تا ۱۲ میں لکھا ہے:.وو پھر خدا وند کے فرشتے نے اُسے ( یعنی ہاجرہ سے ) کہا کہ میں تیری اولا دکو بہت بڑھاؤں گا کہ وہ کثرت سے گئی نہ جائے اور خداوند کے فرشتے نے اُسے کہا کہ تُو حاملہ ہے اور ایک بیٹا جنے گی اُس کا نام اسماعیل رکھنا کہ خدا وند نے تیرا دُ کھ سن لیا.وہ گورخر سا ہو گا اُس کا ہاتھ سب کے اور سب کے ہاتھ اُس کے برخلاف ہوں گے اور وہ اپنے سب بھائیوں کے سامنے بود و باش کرے گا“.پھر اسی بائبل میں لکھا ہے :.” پھر خدا نے ابراہام سے کہا کہ تو اور تیرے بعد تیری نسل پشت در پشت میرے عہد کو نگاہ رکھیں اور میرا عہد جو میرے اور تمہارے درمیان اور تیرے بعد تیری نسل کے درمیان ہے جسے تم یا درکھوسو یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک فرزند نر بینہ کا ختنہ کیا جائے اور تم اپنے بدن کی کھلڑی کا ختنہ کرو اور یہ اُس عہد کا نشان ہوگا جو میرے اور تمہارے 66 درمیان ہے.۹۴ پھر لکھا ہے:.وو اور وہ فرزند نرینہ جس کا ختنہ نہیں ہوا وہی شخص اپنے لوگوں میں سے کٹ جائے کہ اُس نے میرا عہد تو ڑا“.۹۵ پھر لکھا ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی سارہ کو بھی ایک بیٹے کی بشارت دی تھی اور فر مایا کہ:.میں اُسے برکت دوں گا اور اُس سے بھی تجھے ایک بیٹا بخشوں گا یقیناً میں اُسے

Page 129

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۱۷ دیباچہ تفسیر القرآن برکت بخشوں گا یقیناً میں اُسے برکت دوں گا اور وہ قوموں کی ماں ہوگی اور ملکوں کے بادشاہ اُس سے پیدا ہوں گے“.۹۶ پھر سارہ کی اولاد کے متعلق لکھا ہے کہ:.دو میں اُس سے اور بعد اُس کے اُس کی اولاد سے اپنا عہد جو ہمیشہ کا عہد ہے قائم کروں گا“.۹۷ پھر اسماعیل کے متعلق لکھا ہے:.اور اسماعیل کے حق میں میں نے تیری سنی.۹۸ اسماعیل کے حق میں حضرت ابراہیم نے یہ دعا کی تھی کہ :.کاش ! کہ اسماعیل تیرے حضور جیتا رہے.29 ”دیکھ! میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروں گا اور اُسے بہت بڑھاؤں گا اور اُس سے ۱۲ سردار پیدا ہوں گے اور میں اُسے بڑی قوم بناؤں گا لیکن میں اضحاق کو جس کو سرہ دوسرے سال اُسی وقت معین میں جنے گی اپنا عہد قائم کروں گا.۱۰۰ پھر لکھا ہے:.اور اُس لونڈی کے بیٹے سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اس لئے کہ وہ بھی 66 تیری نسل ہے.انا پھر حضرت اسماعیل کے متعلق لکھا ہے.خدا نے حضرت ہاجرہ کو الہام کیا کہ:.اس لڑکے کی آواز جہاں وہ پڑا ہے خدا نے سنی.اُٹھ اور لڑکے کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا.۱۰۲ پھر لکھا ہے:.خدا اس لڑکے کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیر انداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اُس کی ماں نے ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی“.۱۰۳

Page 130

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۱۸ دیباچہ تفسیر القرآن ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے اسمعیل اور اسحاق کی تھے.اسمعیل بڑے بیٹے تھے اور اسحاق دوسرے بیٹے تھے خدا تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام سے عہد تھا کہ وہ اُن کی نسل کو بڑھائے گا اور بابرکت کرے گا.یہ با برکت کرنے کے الفاظ حضرت اسحاق کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل کے متعلق بھی ہیں.اسی طرح نسل کے بڑھانے کے الفاظ بھی حضرت اسحاق کے متعلق بھی ہیں اور حضرت اسماعیل کے متعلق بھی ہیں اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اسمعیل فاران کے بیابان میں رہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کنعان کی زمین حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نسل کو دے دی گئی تھی اور پھر یہ بھی کہ خدا تعالیٰ کے اس عہد کی علامت یہ ہوگی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی نرینہ نسل کا ختنہ کیا جائے گا.ان پیشگوئیوں کے ماتحت ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت اسحاق کی نسل کو بڑی ترقی نصیب ہوئی اور خدا تعالیٰ نے جو عہد حضرت اسحاق سے باندھا تھا وہ بڑی شان سے پورا ہوا.حضرت موسیٰ اور حضرت داؤ د اور حضرت حزقیل اور حضرت دانی ایل اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام اُن کی نسل سے ظاہر ہوئے اور دنیا کے لئے بڑی رحمت کا موجب ثابت ہوئے.کنعان کا ملک دو ہزار سال تک اُن کے قبضہ میں رہا سوائے ایک خفیف وقفہ کے کہ اس وقفہ میں بھی وہ ملک کلی طور پر اُن کے ہاتھ سے نہیں نکلا.صرف وہ اس میں کمزور ہو گئے تھے.لیکن ساتویں صدی بعد مسیح میں اسحاق کی اولاد اور موسیٰ کی تعلیم پر ظاہری طور پر چلنے والے لوگوں کو کلی طور پر کنعان کے ملک سے دست بردار ہونا پڑا اور اس ملک میں اسمعیل کی اولا د سیاسی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی غالب آ گئی.بنی اسرائیل کا اُس زمانہ میں کنعان سے نکالا جانا صاف بتا تا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی معرفت جو وعدہ کیا گیا تھا اب اُس کے مستحق بنی اسرائیل یا اُن کے متعلق خاندان نہیں رہے تھے.مگر خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں قیامت تک یہ ملک بنی اسرائیل کے قبضہ میں رکھوں گا اور خدا کی بات جھوٹی نہیں ہو سکتی.پس صاف ظاہر ہے کہ قیامت کے معنی ظاہری قیامت کے نہیں بلکہ ایک کی نئی شریعت کے ظہور کے ہیں جو الہامی اصطلاح میں نیا آسمان اور نئی زمین بنانا کہلاتا.لازماً قیامت کے برپا ہوئے بغیر نیا آسمان اور نئی زمین نہیں بنائے جا سکتے.پس قیامت تک بنو اسحاق کے قبضہ کے یہی معنی تھے کہ جب ایک نیا شرعی نبی آئے گا تو اُس وقت یہ ملک بنو اسحاق ہے اور

Page 131

انوار العلوم جلد ۲۰ ١١٩ دیباچہ تفسیر القرآن کے قبضہ میں نہ رہے گا.چنانچہ اس طرف حضرت داؤڈ کے ایک کلام سے اشارہ بھی نکلتا ہے جہاں تو رات میں لکھا ہے کہ قیامت تک بنو اسحاق اس ملک پر قابض رہیں گے وہاں حضرت داؤد نے اس پیشگوئی کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا ہے وہ فرماتے ہیں:.صادق زمین کے وارث ہوں گے اور ابد تک اُس میں بسیں گئے.۱۰۴ ان الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ بنو اسحاق کی تباہی کا وقت قریب آ رہا تھا.اب نبیوں کا کلام دنیا کی توجہ اس طرف پھرا رہا تھا کہ اب وہ نسلی وعدہ بدل کر روحانی شکل اختیار کرنے والا ہے اور بنو اسمعیل راستباز بن کر ابراہیمی پیشگوئیوں کے وارث بننے والے ہیں اور ایک نیا عہد اُن کے ذریعہ سے شروع ہونے والا ہے.اگر یہ بات نہیں تو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ماننے والے بنو اسمعیل کو فلسطین کی زمین میں کیوں غالب کر دیا.اُس نے تو صاف طور پر عہد کیا تھا کہ فلسطین کی زمین بنو اسحاق کو دی جائے گی.اگر وہ عہد ایک اور قوم کے ذریعہ سے پورا نہیں ہونا تھا تو یہ تبدیلی خدا تعالیٰ نے کس طرح گوارا کی.اگر یہ تبدیلی چند سال کے لئے عارضی طور ہوتی تو کوئی بات نہ تھی کیونکہ قومی زندگیوں میں اُتار چڑھاؤ ہو ہی جایا کرتے ہیں لیکن یہ تبدیلی تو ای اتنی لمبی چلی کہ آج تیرہ سو سال کے بعد بھی فلسطین کے اکثر حصہ پر مسلمان اور اسمعیل کی اولاد قابض ہیں.یورپ اور امریکہ زور لگا رہے ہیں کہ کسی طرح ان حالات کو بدل دیں لیکن اب تک وہ کامیاب نہیں ہوئے اور اگر کوئی کامیابی اُن کو حاصل بھی ہوئی تو وہ عارضی ہو گی یا بنواسرائیل مسلمان ہو کر نئے عہد کے ذریعہ سے ایک نئی زندگی فلسطین میں پائیں گے اور یا پھر وہ دوبارہ فلسطین میں سے نکال دیئے جائیں گے کیونکہ فلسطین اُن لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو ابرا نیمی عہد کو پورا کرنے والے ہوں گے.مسیحی لوگ بھی اپنے آپ کو ابراہیمی عہد کا پورا کرنے والا قرار دیتے ہیں لیکن تعجب ہے وہ یہ نہیں دیکھتے کہ اس عہد کی علامت ہی یہ ہے کہ وہ قوم ختنہ کروائے گی لیکن عیسائی تو ختنہ سے آزاد ہو چکے ہیں.ہاں بنو اسمعیل جو تیرہ سو سال سے فلسطین پر قابض ہیں وہ قرآن کریم کے نازل ہونے سے پہلے بھی ختنہ کرواتے تھے اور اب بھی ختنہ کرواتے ہیں.غرض جیسا کہ ان پیشگویوں میں بتایا گیا تھا کہ اسمعیل اور اسحاق دونوں کو برکت دی جائے گی وہ پیشگوئیاں پوری ہونی ضروری تھیں.بنو اسحاق کو اُن کے وعدہ کے مطابق

Page 132

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن کنعان کی حکومت دی گئی اور بنو اسمعیل کو اُن کے وعدہ کے مطابق عرب کی حکومت دی گئی.آخر جب بنو اسحاق کی قیامت آگئی تو داؤد کی پیشگوئی کے مطابق نسلی لحاظ سے نہیں بلکہ راستباز ہونے کے لحاظ سے کنعان پر غلبہ بنو اسمعیل کو دے دیا گیا.گویا نسلی وعدہ ابراہیم کے مطابق مسلمانوں کو مکہ اور اس کے ارد گرد کا علاقہ ملا.جس کا دعویٰ قرآن کریم نے سورۃ بقرہ رکوع ۱۵/۱۵ میں کیا ہے اور راستباز ہونے کے لحاظ سے بنو اسحاق کی مذہبی تباہی کے بعد وہ کنعان کے بھی وارث قرار پائے.دوسری پیشگوئی.حضرت موسیٰ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب خدا تعالیٰ کے حکم کے بعد ایک شرعی نبی کا ظہور علیہ السلام سے کہا کہ :.وه سے طور پر گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا“.۱۰۵ پھر لکھا ہے.میں اُن کے لئے اُن کے بھائیوں میں سے تجھ سا ایک بنی بر پاکروں گا اور اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ایسا ہوگا کہ جو کوئی میری باتوں کو جنہیں وہ میرا نام لے کے کہے گا نہ سنے گا تو میں اس کا حساب اُس سے لوں گا.لیکن وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے.۱۰۶ ان آیتوں سے ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ایک نئے صاحب شریعت نبی کی کی پیشگوئی کی گئی تھی جو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوگا.صاحب شریعت ہونے کی پیشگوئی ان الفاظ سے نکلتی ہے کہ وہ موسیٰ کی مانند ہو گا اور موسیٰ صاحب شریعت نبی تھے.دوسری خبر اس پیشگوئی میں یہ دی گئی ہے کہ سب باتیں جو اُسے کہی جائیں گی وہ لوگوں سے بیان کر دے گا.یہ علامت بھی بتاتی ہے وہ صاحب شریعت ہوگا کیونکہ صاحب شریعت نبی قوم کی بنیاد

Page 133

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۱.رکھنے والا ہوتا ہے محض ایک مصلح نہیں ہوتا اس لئے اُسے حکم ہوتا ہے کہ وہ اپنی ساری تعلیم لوگوں کے سامنے بیان کرے کیونکہ شریعت کے بغیر قوم کی تعمیل نہیں ہو سکتی.مگر جو غیر تشریعی نبی ہوتا ہے وہ چونکہ صرف پہلی کتاب کا شارح ہوتا ہے اُس کے لئے ضروری نہیں ہوتا کہ وہ اپنی ساری وحی لوگوں کو سنائے.ہو سکتا ہے کہ بعض باتیں اُس کے ذاتی علم کے طور پر اُسے کہی گئی ہوں لیکن ضروری نہ ہو کہ وہ اپنی قوم سے اُن کا ذکر کرے.یہ بھی ان آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ اس می پیشگوئی کا موعود نبی اپنی تعلیم کو خدا تعالیٰ کا نام لے کر دنیا کے سامنے پیش کرے گا اور جو لوگ اُس کی تعلیم کو نہ سنیں گے اُن کو سزا دی جائے گی اور وہ خدا کے عذاب کے نیچے آئیں گے.یہ بھی اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی شخص اس پیشگوئی سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اس پیشگوئی کا مستحق ہونے کا جھوٹا دعوی کرے گا تو ایسا شخص قتل کر دیا جائے گا.اب پیشگوئی کے ان تمام اجزاء کو سامنے رکھتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام تک اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا نبی دنیا میں کوئی پیدا ہی نہیں ہوا.درمیانی انبیاء کا تو ذکر جانے دو، اُن کی تو نہ کوئی ہے اُمت موجود ہے نہ کوئی قوم پائی جاتی ہے.ایک عیسی علیہ السلام ہی ہیں جن کے ماننے والے دنیا میں پائے جاتے ہیں اور جو انہیں آخری مصلح قرار دے کر دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں.مگر اس پیشگوئی کو سامنے رکھ کر دیکھو کیا اس پیشگوئی کی شرائط حضرت عیسی علیہ السلام پر پوری اُترتی ہیں؟ اوّل: اس پیشگوئی سے پتہ لگتا ہے کہ وہ صاحب شریعت نبی ہو گا.کیا عیسی علیہ السلام کوئی شریعت لائے ؟ عیسی علیہ السلام نے تو یہ کہا ہے کہ : وو.یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب کو منسوخ کرنے آیا.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو“.۱۰۷ پھر اُن کے حواریوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ:.شریعت کو ایمان سے کچھ نسبت نہیں.مسیح نے ہمیں مول لے کر شریعت کی

Page 134

انوار العلوم جلد ۲۰ لعنت سے چھڑایا.۱۰۸ دیا چه تفسیر القرآن گویا مسیح خود کسی شریعت کے لانے کے مدعی نہیں اور اُن کے حواری شریعت کو ہی لعنت قرار دیتے ہیں.پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ حضرت مسیح اور اُن کی قوم اس پیشگوئی کی مستحق ہو؟ (۲) اس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے ہوگا لیکن مسیح تو بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھا بلکہ خود بنی اسرائیل میں سے تھا.بعض عیسائی صاحبان ایسے موقع پر کہہ دیا کرتے ہیں کہ چونکہ اس کا کوئی باپ نہیں تھا اس لئے وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے کہلا سکتا ہے.لیکن یہ دلیل ہرگز معقول نہیں کیونکہ بائبل کے الفاظ بتاتے ہیں کہ وہ بھائی بہت ہوں گے اور اُن بہت سے بھائیوں کی نسل میں سے وہ موعود نے ظاہر ہونا تھا.کیا عیسی علیہ السلام کی قسم کے لوگ بھی بہت سے ہیں؟ اگر نہیں تو پھر عیسی علیہ السلام پر یہ پیشگوئی کیونکر چسپاں ہوسکتی ہے؟ علاوہ ازیں بائبل میں تو مسیح کی نسبت لکھا ہے کہ وہ داؤد کی نسل میں سے ہوگا ۱۰۹ اگر بن باپ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح کو بنی اسرائیل میں سے خارج کر دیا جائے تو پھر وہ داؤد کی نسل میں بھی نہیں رہ سکتے اور اس پیشگوئی سے انہیں جواب مل جاتا ہے.(۳) اس پیشگوئی میں لکھا ہے کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا.لیکن انجیل میں تو خدا کا کلام ہمیں کہیں نظر ہی نہیں آتا.یا تو اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کے سوانح ہیں یا اُن کی کے بعض لیکچر اور یا پھر حواریوں کی باتیں.(۴) اس پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ موعود ایک نبی ہوگا.مگر مسیح کے متعلق تو مسیحی قوم یہ کہتی ہے کہ وہ خدا کا بیٹا تھا نبی نہیں تھا.پس جب مسیح نبی ہی نہ تھے تو وہ اس پیشگوئی کے پورا کرنے والے کس طرح ہو سکتے ہیں؟ (۵) اس پیشگوئی میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ خدا کا نام لے کر اپنا الہام لوگوں کو سنائے گا مگر اناجیل میں تو کوئی ایک فقرہ بھی ہمیں نہیں ملتا جس میں مسیح نے یہ کہا ہو کہ خدا نے مجھے یہ بات لوگوں کو پہنچانے کا حکم دیا ہے.(۶) اس پیشگوئی میں یہ ذکر ہے.جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب اُن سے کہے گا اور ساری

Page 135

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۳ سچائی کی راہیں اُس کے ذریعہ دنیا پر ظاہر ہوں گی“.دیباچہ تفسیر القرآن لیکن مسیح خود کہتا ہے کہ وہ سچائیاں دنیا کو نہیں بتاتے.وہ کہتے ہیں:.میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی اس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی ، لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.ان حوالہ جات سے ظاہر ہے کہ مسیح علیہ السلام پر یہ پیشگوئی تو پوری نہیں ہوئی اور جب حضرت مسیح پر یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تھی تو اس کے صاف معنی یہ ہیں کہ مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والے ایک ایسے نبی کی پیشگوئی عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید میں موجود تھی جو ساری سچائیوں کو ظاہر کرے گا اور دنیا میں خدا تعالیٰ کے نام کو ہمیشہ کے لئے قائم کرے گا.ہمارا دعویٰ ہے کہ قرآن کریم اس پیشگوئی کو پورا کرنے والا ہے.چنانچہ :.(۱) محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو بنو اسمعیل میں پیدا ہوئے جو بنو اسحاق کے بھائی تھے.(۲) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جنہوں نے موسیٰ کے مانند ہونے کا دعویٰ کیا چنانچہ قرآن میں آتا ہے.اِنَّا اَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ كَمَا أَرْسَلْنَا إلى فِرْعَوْنَ رَسُولاً اللہ ہم نے تمہاری طرف تم میں سے ایک رسول بھیجا جس طرح فرعون کی طرف ہم نے رسول بھیجا تھا.یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی موسی کی طرح نبی ہیں.(۳) اِس پیشگوئی میں یہ کہا گیا تھا کہ وہ آنے والا موعود نبی ہونے کا دعوی کرے گا نہ کہ کوئی اور دعوئی.اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا تھا مگر اس کے برخلاف کہا جاتا ہے کہ مسیح نے نبی ہونے کا دعوی نہیں کیا.چنانچہ انجیل مرقس میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے اپنے حواریوں سے پوچھا کہ لوگ کیا کہتے ہیں کہ میں کون ہوں؟ اُنہوں نے کہا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا

Page 136

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۴ دیباچہ تفسیر القرآن 66 اور بعضے الیاس اور بعضے نبیوں میں سے ایک.پھر اُس نے انہیں کہا تم کیا کہتے ہو کہ میں کون ہوں؟ پطرس نے جواب میں اُس سے کہا کہ تو تو مسیح ہے تب اُس نے انہیں تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ مت کہو.۱۱۲ اس آیت میں مسیح نے اپنے متعلق یوحنا یا الیاس یا نبیوں میں سے کوئی نبی ہونے سے انکار کیا ہے.لیکن موسیٰ کی پیشگوئی بتاتی ہے کہ وہ جو موسیٰ کے نقش قدم پر آنے والا ہے نبی ہوگا.پس یقینا یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے نہ کہ مسیح پر.(۴) اس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ میں اپنا کلام اُس کے منہ میں ڈالوں گا.لیکن ساری انجیلوں میں ہمیں خدا کا کلام کہیں نظر نہیں آتا.اس کے برخلاف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو پیش کیا.جو شروع سے لے کر آخر تک خدا تعالیٰ کا کلام ہے اور اس کا نام بھی قرآن کریم میں کلام اللہ رکھا گیا ہے.۱۱۳ (۵) اس پیشگوئی میں کہا گیا تھا کہ جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب اُن سے کہے گا.اوپر بتایا جا چکا ہے کہ مسیح نے خود اقرار کیا ہے کہ جو کچھ اُسے کہا گیا تھا وہ سب کا سب لوگوں کو نہیں سناتا تھا لیکن اُس نے یہ پیشگوئی ضرور کی تھی کہ میرے بعد ایک ایسا شخص آئے گا جو سب سچائی کی راہیں لوگوں کو بتائے گا.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کا سارا کلام لوگوں کو پہنچاتے ہیں اور کوئی بات جس کی دین کے لئے ضرورت ہے انہوں نے چھوڑی نہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے.ايُّهَا الرَّسُولُ بلغ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَتِكَ ١١٢ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تیرے متعلق یہ پیشگوئی ہے کہ جب تو دنیا میں آئے گا تو ساری سچائیاں دنیا کو سنائے گا.اس لئے دنیا خواہ بُرا منائے یا اچھا تو کی کسی کی پرواہ نہ کر اور جو وحی تجھے کی جاتی ہے وہ ساری کی ساری لوگوں کو سُنا دے.اسی طرح اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے متعلق فرماتا ہے الْيَوْمَ المَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الاسْلامَ دِينًا ۱۱۵ میں نے آج اس کلام کے ذریعہ سے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے اور

Page 137

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۵ دیباچہ تفسیر القرآن ہدایت کی نعمت تمہارے لئے کمال تک پہنچا دی ہے اور امن اور سلامتی کو تمہارا مذہب قرار دے دیا ہے.پس محمد رسول اللہ ہی تھے جن کو ساری سچائیاں بتائی گئیں اور جنہوں نے دنیا کی کو ساری سچائیاں بتا دیں اور کوئی ایک سچائی بھی نہیں چھپائی.کیونکہ مسیح کے زمانہ کے لوگ ابھی تک ساری سچائیوں کو سننے اور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہوئے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت انسان روحانی ارتقاء کی سب منزلوں کو طے کر چکا تھا اور وقت آ گیا تھا کہ ساری سچائیاں خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہو جائیں اور خدا تعالیٰ کا رسول وہ ساری سچائیاں لوگوں کو سُنا دے.(۶) اس پیشگوئی میں یہ بتایا گیا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کلام جو اُس پر نازل ہوگا وہ خدا کا نام لے کر دنیا کو سنائے گا.یہ بات بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں ہی پوری ہوئی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جن کی الہامی کتاب کا ہر باب اس آیت سے شروع ہوتا ہے ” میں اللہ کا نام لے کر یہ باتیں تمہیں سناتا ہوں.پس یہ علامت بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ روحانی ارتقاء کی وہ آخری کڑی جس کی موسیٰ نے خبر دی تھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات تھی.(۷) کہا گیا تھا کہ وہ نبی جو ایسی گستاخی کرے کہ کوئی بات میرے نام سے کہے جس کے کہنے کا میں نے اُسے حکم نہیں دیا یا اور معبودوں کے نام سے کہے تو وہ نبی قتل کیا جائے“.۱۱۶ اس آیت میں موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دنیا کو یہ بتایا گیا تھا کہ جس نبی کی اس آیت میں خبر دی گئی ہے چونکہ اُس کے لئے انسان کی روحانی ترقی کی آخری کڑی ہونا مقدر ہے اور اگر کوئی جھوٹا شخص اس عہدے کو اپنی طرف سے فریب سے منسوب کرے تو اس سے بڑے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے خدا تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا کہ جو شخص بھی جھوٹے طور پر اس پیشگوئی کو اپنی طرف منسوب کرے گا وہ قتل کیا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے عذاب میں مبتلا ہو گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا بھی دعویٰ کیا ہے.جب آپ نے دعوی کیا آپ اکیلے تھے ، آپ نہایت ہی کمزور تھے ، دشمن بڑے جتھے والا اور بڑا طاقتور تھا مگر باوجود اس کے کہ دشمنوں نے اپنا سارا زور لگایا وہ آپ کو قتل نہیں کر سکے.

Page 138

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن باوجود اس کے کہ اُس وقت کی زبر دست حکومتیں آپ کے مقابلہ پر آئیں سب پاش پاش ہو گئیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کامیاب اور با مراد انسان کی حیثیت میں فوت ہوئے.آپ کی ساری قوم آپ کی وفات سے پہلے آپ پر ایمان لے آئی اور آپ کی وفات کے چند سال بعد ہی آپ کے خلفاء کے ذریعہ سے ساری دنیا میں اسلام پھیل گیا.اگر موسیٰ خدا کا راستباز نبی تھا اور اگر استثناء کی یہ پیشگوئی واقعہ میں خدا کی طرف سے تھی تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کے مدعی تھے کیا اِس طرح کامیاب و کامران ہو سکتے تھے جیسا کہ وہ ہوئے؟ اور کیا آپ کے دشمن آپ کو قتل کرنے میں اس طرح ناکام ہو سکتے تھے جیسا کہ ہوئے ؟ یہی نہیں کہ اتفاقی طور پر آپ دشمن کے حملوں سے بچ گئے ہوں بلکہ موسیٰ کی اس پیشگوئی کے مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت قرآن کریم نے بڑے زور شور سے عربوں کے سامنے یہ اعلان کر دیا تھا کہ واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ۱۷ یعنی اللہ تعالیٰ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسانوں کے حملوں سے بچائے گا اور آپ کی جان کی حفاظت کرے گا.اسی طرح آپ کے مخالفوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کریم نے یہ فرما دیا تھا کہ فَلا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ احدا إلا من ارتضى مِن رَّسُولِ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا ١١٨ خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب کو کسی پر ظاہر نہیں کرتا سوائے برگزیدہ رسولوں کے.پھر جب وہ کسی کو اپنا رسول بنا کر بھیجتا ہے تو وہ اُس کے آگے اور پیچھے اس کی حفاظت کے سامان کرتا رہتا ہے یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اُس نے ایک خاص کام کے لئے بھیجا ہے تو وہ کی انہیں بغیر حفاظت کے نہیں چھوڑے گا اور دشمن کو آپ کے مارنے پر قادر نہیں کرے گا.ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انجام اتفاقی انجام نہیں تھا تی بلکہ آپ نے شروع سے ہی کہہ دیا تھا کہ آپ کو خدا تعالیٰ دشمن کے حملوں سے بچائے گا اور دشمن آپ کے قتل کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا.اس طرح آپ نے دنیا کو ہوشیار کر دیا تھا کہ میں استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰ کی پیشگوئی کے مطابق قتل نہیں کیا جاؤں گا کیونکہ میں جھوٹا نہیں بلکہ حقیقی طور پر موسیٰ کی پیشگوئی کا مصداق ہوں.

Page 139

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۷ دیباچہ تفسیر القرآن خلاصہ یہ کہ موسیٰ علیہ السلام نے بعثت محمدیہ سے قریباً ۱۹ سو سال پہلے یہ خبر دی تھی کہ موسوی شریعت الہی کلام کا آخری نقطہ نہیں ابھی انسان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے مزید ہدایتوں کی ضرورت ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ آخری زمانہ میں ایک اور مامور بھیجے گا وہ ما مور دنیا کے سامنے سب سچائیوں کو پیش کرے گا اور وہی انسان کی روحانی ترقی کا آخری نقطہ ہوگا اس پیشگوئی کے مطابق دنیا میں ابھی ایک اور کتاب اور ایک اور نبی کی ضرورت تھی.پس قرآن کریم اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائبل اور موسیٰ اور عیسی کی بعثت کے بعد اگر دنیا کی ہدایت کا من دعویٰ کیا تو وہ بالکل حق بجانب اور خدا تعالیٰ کے کلام کو پورا کرنے والے تھے.قرآن کریم غیر ضروری نہ تھا بلکہ اگر قرآن کریم نہ آتا تو خدا تعالیٰ کی بتائی ہوئی بہت سی باتیں ظہور میں نہ آتیں اور دنیا بداعتقادی اور شک کے مرض میں مبتلا ہو جاتی.تیسری پیشگوئی.جبلِ فاران سے دس ہزار استثناء باب ۳۳ میں لکھا ہے.اور اُس نے کہا کہ خداوند قدوسیوں کیساتھ ایک عظیم الشان نبی کا ظہور سینا سے آیا اور شعیر سے اُن پر طلوع ہوا.فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہوا.دس ہزار قد وسیوں کے ساتھ آیا اور اُس کے دہنے ہاتھ میں ایک آتشی شریعت اُن کے لئے تھی.119 حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے اس کلام میں اپنے تین جلوے بتائے ہیں.ان میں سے پہلا جلوہ سینا سے ظاہر ہوا.اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تو رات میں لکھا ہے:.اور خداوند کوہ سینا پہاڑ کی چوٹی پر نازل ہوا اور خدا وند نے پہاڑ کی چوٹی پر موسی کو بلایا اور موسی چڑھ گیا ۱۲۰۰ یہ خدائی جلوہ ظاہر ہوا اور جو جو برکتیں اس میں پوشیدہ تھیں وہ دنیا پر ظاہر کر کے چلا گیا.اس کے بعد دوسرے جلوے کا ذکر کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ وہ شعیر سے طلوع ہو گا.شعیر وہ مقام ہے جس کے آس پاس حضرت مسیح علیہ السلام کے معجزات ظاہر ہوئے.پس شعیر سے طلوع ہونے کے معنی حضرت مسیح علیہ السلام کے ظہور کے ہیں.مسیحی علمائے انا جیل نے نہ معلوم کیوں شعیر کو سینا کا مترادف قرار دیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ شعیر فلسطین کا حصہ ہے.یہ نام مختلف

Page 140

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۸ دیباچہ تفسیر القرآن شکلوں میں بگڑ کر آیا ہے اور یہ نام ایک قوم کا بھی ہے جو حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد میں سے تھی اور بنو آشر کہلاتی تھی اور یہ شمال مغربی فلسطین کے علاقے کا بھی نام ہے.پس شعیر سے مرا دو ہی جلوہ ہے جو خصوصیت کے ساتھ فلسطین میں ظاہر ہونے والا تھا.موسیٰ علیہ السلام تو کنعان پہنچے ہی نہیں اُسی جگہ پر فوت ہو گئے جہاں کنعان کی سرحد میں نظر آتی تھیں اور موسیٰ علیہ السلام کے بعد کوئی ایسا جلوہ ظاہر نہیں ہوا جو اس قسم کی عظمت والا ہو جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کا جلوہ تھا.پس شعیر سے طلوع ہونے سے مراد حضرت مسیح کا ظہور ہے جو عین کنعان میں ظاہر ہوئے اور جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے پھر ایک دفعہ دنیا کو اپنی شکل دکھلائی.تیسرا جلوہ فاران سے ظاہر ہونا تھا.فاران سے مراد وہ پہاڑ ہیں جو مدینہ اور مکہ کے درمیان ہیں.چنانچہ عربی جغرافیہ نویس ہمیشہ سے ہی مدینہ اور مکہ کے درمیانی علاقہ کا نام فاران کی رکھتے چلے آئے ہیں.مدینہ اور مکہ کے درمیان ایک پڑاؤ ہے جس کا نام وادی فاطمہ ہے جب قافلے وہاں سے گزرتے ہیں تو وہاں کے بچے قافلہ والوں کے پاس پھول بیچتے ہیں اور جب اُن سے قافلہ والے پوچھیں کہ یہ پھول تم کہاں سے لائے ہو؟ تو وہ کہتے ہیں مِنْ بَرِيَّةِ فَارَانَ فاران کے جنگل سے لائے ہیں.پس فاران یقینی طور پر عرب اور حجاز کا ہی علاقہ ہے تو رات سے ثابت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام اسی فاران کے میدان میں رہے تھے.لکھا ہے:.اور خداوند اس لڑکے ( یعنی اسمعیل) کے ساتھ تھا اور وہ بڑھا اور بیابان میں رہا کیا اور تیرانداز ہو گیا اور وہ فاران کے بیابان میں رہا اور اس کی ماں نے وو ملک مصر سے ایک عورت اُس سے بیاہنے کو لی“.۱۲۱ بائبل فاران کے مقام کو عربوں کے بیان کی نسبت کسی قدر مختلف جگہ پر قرار دیتی ہے اور کنعان کے کناروں پر ہی بتاتی ہے.لیکن جنگل اور پہاڑ شہروں کی طرح کسی چھوٹے سے علاقہ میں محدود نہیں ہوتے بلکہ بعض دفعہ سینکڑوں اور ہزاروں میل تک پھیلتے چلے جاتے ہیں.پس ج اگر بائیل کا بیان صحیح تسلیم کر لیا جائے تو بھی اس کے یہی معنی ہوں گے کہ فاران کے پہاڑ اور اس کا بیابان کنعان کے پاس سے شروع ہوتا ہے.اس سے یہ تو ثابت نہ ہوگا کہ وہ ختم بھی وہیں ہو جاتا ہے.بائبل تسلیم کرتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک بیٹا اسمعیل نامی تھا اور بائبل

Page 141

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۲۹ دیباچهتفسیر القرآن بتاتی ہے کہ وہ فاران میں رہا.اب فاران کے جغرافیہ کے متعلق تو اسمعیل کی اولاد کی گواہی ہی کی تسلیم کی جائے گی کیونکہ وہی فاران کی رہنے والی ہے.بنواسرائیل تو تاریخ اور جغرافیہ میں اتنے کمزور تھے کہ وہ اس رستہ کو بھی صحیح طور پر بیان نہیں کر سکے جس رستہ پر چل کر وہ مصر سے کنعان آئے تھے دوسرے ملکوں کے متعلق اُن کی گواہی کی قیمت ہی کیا ہے.دنیا میں ایک ہی قوم ہے جو اپنے آپ کو اسمعیل کی اولا د کہتی ہے اور وہ قریش ہیں اور وہ عرب میں بستے ہیں اور مکہ مکرمہ اُن کا مرکز ہے.اگر عربوں کا یہ دعویٰ غلط ہے تو سوال یہ ہے کہ اس غلط دعویٰ کے بنانے کی انہیں غرض کیا تھی.بنو اسحاق تو اُن کو کوئی عزت دیتے ہی نہیں تھے.پھر ایک جنگل میں رہنے والی قوم کو اس بات کی کیا ضرروت پیش آئی تھی کہ وہ اپنے آپ کو اسمعیل کی اولا دقرار دے اور اگر اُس نے جھوٹ بنایا ہی تھا تو اسمعیل کی اصل اولا د کہاں گئی ؟ بائبل کہتی ہے کہ اسمعیل کے ۱۲ بیٹے تھے.بائبل کہتی ہے کہ اُن ۱۲ بیٹوں کی نسل آگے بہت پھیلے گی.لکھا ہے:.” اور اس لونڈی کے بیٹے (اسماعیل) سے بھی میں ایک قوم پیدا کروں گا اِس لئے کہ وہ بھی تیری نسل ہے، ۱۲۲ پھر لکھا ہے:.اُٹھ اور لڑکے (اسماعیل) کو اُٹھا اور اُسے اپنے ہاتھ سے سنبھال کہ میں اُس کو ایک بڑی قوم بناؤں گا.‘۱۲۲ پھر لکھا ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے فرمایا :.اور اسمعیل کے حق میں میں نے تیری سنی ، دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروں گا اور اُسے بہت بڑھاؤں گا اور اس سے ۱۲ سردار پیدا ہوں گے اور میں اُسے بڑی قوم بناؤں گا“.۱۲۴ ان پیشگوئیوں میں بتایا گیا ہے کہ اسمعیل کی نسل بہت پھیلے گی اور بڑی بابرکت ہوگی.اگر ی عرب کے لوگوں کا دعوی جھوٹا ہے تو پھر بائبل بھی جھوٹی ہے کیونکہ دنیا میں اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمعیل نہیں کہتی جس کو پیش کر کے بائبل کی ان پیشگوئیوں کو سچا ثابت کیا جا سکے اور اگر قریش بنو اسمعیل ہیں تو پھر ابراہیم بھی سچا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قریش کو برکت دی اور ابراہیم

Page 142

انوار العلوم جلد ۲۰ چه تفسیر القرآن ہو کی وہ پیشگوئیاں اُن کے ذریعہ پوری ہوئیں جو بنو اسمعیل کے متعلق تھیں.تاریخ کا سب سے بڑا ثبوت قومی روایات ہی ہوتی ہیں اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہر سکتا ہے کہ ایک قوم سینکڑوں سال سے اپنے آپ کو بنو اسمعیل کہتی چلی آئی ہے اور اُس کے بیان کو مزید تقویت اِس بات سے یہ حاصل ہوتی ہے کہ دنیا کی اور کوئی قوم اپنے آپ کو بنو اسمعیل نہیں کہتی.پھر جہاں بائبل مانتی ہے کہ بنو اسمعیل فاران میں رہے وہاں عرب کے لوگ بھی مکہ سے لے کر شمالی عرب کی سرحد تک کے علاقہ کو فاران کہتے چلے آرہے ہیں.پس یقیناً یہی علاقہ فاران تھا جیسا کہ یقیناً قریش ہی بنو اسمعیل تھے اور فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ عربوں سے ہی ظاہر ہونے والا تھا.بنو اسمعیل کے عرب میں رہنے کا یہ بھی ثبوت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کے ۱۲ بیٹوں کے نام جو بائبل میں آتے ہیں یہ ہیں.نبیت.قیدار او بیل - مبسام - مشماع.دُومہ.مسا.حدد.تیما.بطور.نفیس.قدمہ.۱۲۵ قدیم رواج کے مطابق ان کی اولادوں کے نام بھی اپنے باپوں پر ہوں گے جیسا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولا د اپنے باپوں کے نام سے کہلاتی ہے اسی طرح ملکوں کے نام بھی پُرانے دستور کے مطابق بالعموم قوموں کے نام پر رکھے جاتے ہیں.اس رواج کو مدنظر رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو سارے عرب میں ان بیٹوں کی اولا د پھیلی ہوئی نظر آتی ہے.بیٹا نبیت تھا جس کی اولاد جغرافیہ نویسوں کے بیان کے مطابق ۳۰.۳۸ ڈگری عرض شمالی اور ۳۶.۳۸ ڈگری طول مشرقی کے درمیان رہی تھی.چنانچہ ریورنڈ کا تری بی کاری ایم اے نے اس کو تسلیم کیا ہے کہ اُن کے نزدیک فلسطین سے لے کر بند ر مینبوع تک جو مدینہ منورہ کا بندر ہے یہ قوم پھیلی ہوئی تھی.دوسرا بیٹا قیدار تھا.اس کی قوم بھی عربوں میں پائی جاتی ہے.قیدار کے معنی ہیں ’اونٹوں والا یہ قبیلہ حجاز اور مدینہ کے درمیان آباد ہے.بطلیموس اور پلینی دونوں نے اپنے جغرافیوں میں حجاز کی قوموں کا ذکر کرتے ہوئے کیڈری اور گڈ رونا کینی قوموں کا ذکر کیا ہے جو صاف طور پر قیدا ر ہی کا بگڑا ہوا ہے تلفظ ہے اور اب تک بعض عرب اپنے

Page 143

انوار العلوم جلد ۲۰ میرا آپ کو قیدار کی نسل سے بتاتے ہیں.١٣١ دیباچہ تفسیر القرآن بیٹا او بیل تھا جو زیفس کے بیان کے مطابق او بیل نامی قوم بھی اسی عرب علاقہ میں بستی تھی.چوتھا بیٹا مبسام تھا اس کا ثبوت عام جغرافیوں میں کہیں نہیں ملتا لیکن ممکن ہے کہ یہ نام بگڑ گیا ؟ ہو اور کسی اور شکل میں پایا جا تا ہو.پانچواں بیٹا مشماع تھا.عرب میں اب تک بنو مسماع پائے جاتے ہیں.چھٹا بیٹا حضرت اسمعیل علیہ السلام کا دومہ تھا اور دومہ کا مقام اب تک عرب میں پایا جاتا ہے جس کا ذکر عرب جغرافیہ نویس ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ دومہ اسمعیل کا بیٹا تھا جس کے نام پر یہ نام پڑا.چنانچہ عرب میں یہ ایک مشہور مقام ہے.ساتواں بیٹا مسا تھا.اس کے نام پر بھی ایک قوم یمن میں پائی جاتی ہے اور اس کی جائے رہائش کے کھنڈرات وہاں موجود ہیں.ریورنڈ کا تری بی کاری نے اپنی کتاب میں اُن کا ذکر کیا ہے.آٹھواں بیٹا حدد تھا اس کے نام پر یمن کا مشہور شہر حدیدہ بنا ہوا ہے.نواں بیٹا تیما تھا.نجد سے حجاز تک کا علاقہ تیما کہلاتا ہے اور یہاں یہ قوم بہتی ہے بلکہ خلیج فارس تک پھیل گئی ہے.دسواں بیٹا حضرت اسمعیل علیہ السلام کا یطو ر تھا.ان کا مقام بھی عرب میں معلوم ہوتا ہے اور جدور کے نام سے مشہور ہے جو بطور کا بگڑا ہوا ہے.یا عام طور پر ج سے بدل جاتی ہے اور ط اورت ، دسے بدل جاتے ہیں لیس جدور اصل میں یطو ر ہی ہے.گیارہواں بیٹا نفیس تھا اور مسٹر فاسٹر کا بیان ہے جو زیفس اور تورات کی سند کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ یہ قوم بھی بیابانِ عرب میں رہتی تھی.بارہواں بیٹا قدمہ تھا.ان کی جائے رہائش بھی یمن میں ثابت ہے.مشہور جغرافیہ نویس مسعودی لکھتا ہے کہ مشہور قبیلہ اصحاب الرس جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی آتا ہے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے تھا اور وہ دو قبیلے تھے ایک کا نام قدمان تھا تی

Page 144

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۲ دیباچہ تفسیر القرآن اور ا یک کا نام یا مین تھا.بعض جغرافیہ نویس کہتے ہیں کہ دوسرے قبیلے کا نام یا مین نہیں تھ بلکہ رعویل تھا.ان جغرافیائی اور تاریخی شواہد سے صاف ثابت ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی تمام اولا د عرب میں بستی تھی.یہ تمام اولاد چونکہ خانہ کعبہ اور مکہ کے ساتھ اپنی عقیدت کا اظہار کرتی چلی آئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اسمعیل علیہ السلام مکہ میں ہی آکر بسے تھے اور اس وجہ سے یہی علاقہ عربوں اور تورات کے بیان کے مطابق فاران کا علاقہ - ہے.یسعیاہ نبی کی پیشگوئی عرب کے متعلق بیسعیاہ نی کے البانی کلام کی شہادت بھی اس بات کی تائید میں ہے کہ بنو اسمعیل عرب میں رہے.چنانچہ یسعیاہ باب ۲۱ میں لکھا ہے : وو عرب کی بابت الہامی کلام.عرب کے صحرا میں تم رات کاٹو گے.اے دوانیوں کے قافلو! پانی لے کر پیاسے کا استقبال کرنے آؤ.اے تیما کی سرزمین کے باشند و! روٹی لے کے بھاگنے والے کے ملنے کو نکلو.کیونکہ وے تلواروں کے سامنے سے ننگی تلوار سے اور کھینچی ہوئی کمان سے اور جنگ کی شدت سے بھاگے ہیں کیونکہ خداوند نے مجھ کو یوں فرمایا.ہنوز ایک برس مزدور کے سے ایک ٹھیک برس میں قیدار کی ساری حشمت جاتی رہے گی اور تیراندازوں کے جو باقی رہے قیدار کے بہادر لوگ گھٹ جائیں گے کہ خداوند اسرائیل کے خدا نے یوں فرمایا.۱۳۲۶ اس پیشگوئی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے ایک سال بعد جو جنگ بدر ہوئی تھی اُس کا ذکر کیا گیا ہے.اس سے بنو قیدار یعنی مکہ اور مکہ کے اردگر درہنے والے لوگ بہت بُری طرح مسلمانوں سے ہارے اور اُن کی تلواروں اور کمانوں کی تاب نہ لا کر نہایت ذلت سے پسپا ہوئے.اس پیشگوئی کے اوپر صاف لکھا ہے ”عرب کی بابت الہامی کلام “ اور اس میں تیما اور قیدار کو عرب کا علاقہ قرار دیا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق ۱۴ ۷ برس قبل مسیح جو یسعیاہ کا زمانہ تھا اُس وقت حجاز میں اسمعیل کی اولا دبس رہی تھی.

Page 145

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۳ دیباچہ تفسیر القرآن غرض جس نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھیں یہ ثابت ہے کہ قریش بنو اسمعیل تھے اور فاران بائبل کے مطابق وہی علاقہ ہے جس میں بنو اسمعیل رہے.حبقوق نبی کی پیشگوئی پس فاران سے ظاہر ہونے والا جلوہ یقیناً جلو محمدی ہی تھا جس کی خبر موسیٰ علیہ السلام کے ذریعہ دی گئی اور اس کی خبر حبقوق نبی نے مسیح سے ۶۲۶ برس پہلے دی اور کہا: خدا تیا سے اور وہ جو قدوس ہے کوہ فاران سے آیا.سلاہ.اُس کی شوکت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی اور اُس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی.اُس کے ہاتھ سے کر نہیں نکلیں پر وہاں بھی اُس کی قدرت در پردہ تھی.مری اُس کے آگے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی.وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا.اُس نے نگاہ کی اور قوموں کو پراگندہ کر دیا اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے دھنس گئیں.اُس کی قدیم را ہیں یہی ہیں.میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بہت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.۱۲۷ اس پیشگوئی میں بھی تیا اور کوہ فاران سے ایک قدوس کے ظاہر ہونے کا ذکر آتا ہے.پس موسیٰ کی پیشگوئی اور حقوق کی پیشگوئی سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح تک انسان اپنے ارتقاء کے آخری نقطہ کو پہنچنے والا نہ تھا بلکہ حضرت مسیح کے بعد ایک اور جلوۂ الہی ظاہر ہونے والا تھا جس کو صرف جمالی جلوہ نہیں ہونا تھا بلکہ اُس کے ساتھ ایک آتشی شریعت کا ہونا بھی لازمی تھا اور جیسا کہ ہم او پر ثابت کر چکے ہیں کہ تیما کی سرزمین اور کوہ فاران سے ظاہر ہونے والے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور اُن کی آتشی شریعت قرآن کریم تھی جس نے گنا ہوں اور ان شیطانی کاروبار کو جلا کر رکھ دیا.موسیٰ نے کہا جب وہ کو ہ فاران سے ظاہر ہو گا تو اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی آئیں گے.وہ کون تھا جو کو ہ فاران سے ظاہر ہوا اور اُس کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے؟ وہ صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جو فاران کی پہاڑیوں پر سے ہوتے ہوئے جب مکہ پر حملہ آور ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار آدمی تھا جس پر ساری تاریخیں متفق

Page 146

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۴ دیباچهتفسیر القرآن ہیں.کیا مسیح پر یہ پیشگوئی چسپاں ہو سکتی ہے؟ کیا داؤد پر یہ پیشگوئیاں چسپاں ہوسکتی ہیں؟ وہ کب فاران سے ظاہر ہوئے اور کب اُن کے ساتھ دس ہزار قدوسی تھے ؟ مسیح کے ساتھ تو کل ۱۲ حواری کی تھے جن میں سے ایک نے مسیح کو چند روپے لے کر بیچ دیا اور دوسرے نے اُس پر لعنت کی.باقی رہ گئے دس.سو بائبل کہتی ہے کہ وہ دس بھی بھاگ گئے اگر وہ قائم بھی رہتے اور نہ بھاگتے تب ج بھی دس اور دس ہزار میں بڑا بھاری فرق ہے اور تو رات تو کہتی ہے کہ وہ اُس کے ساتھ ہوں گے اور مسیح کے دس آدمیوں کی نسبت انجیل کہتی ہے کہ وہ اُس کا ساتھ چھوڑ گئے.اسی طرح حبقوق میں لکھا ہے ” زمین اُس کی حمد سے معمور ہوئی“.وہ کون ہے جس کا نام محمد تھا اور جس کے دشمن اُسے گالیاں دیتے تو اُس کا نام لے کر انہیں گالیاں دینے کی جرات نہیں ہوتی تھی کیونکہ محمد یعنی تعریف والا کہہ کر وہ اُسے کیا گالی دے سکتے تھے اس لئے وہ اس کو ندم کہہ کر گالی دیتے تھے اور جب کبھی آپ کے صحابہ کو گالیاں سن کر جوش آتا تو آپ فرماتے تمہارے لئے جوش کی کوئی وجہ نہیں.وہ مجھے تو گالیاں نہیں دیتے وہ تو کسی مذمم کو گالیاں دیتے ہیں.پس وہ جس کے نام میں ہی حمد آتی ہے اور جس کی اُمت کی شاعری کا ایک جزو ہی نعت محمد ( یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف ) ہو گیا ہے کیا اُس کے سوا کوئی اور شخص بھی اس پیشگوئی کا مستحق ہوسکتا ہے؟ پھر لکھا ہے.مری اُس کے آگے چلی اور اُس کے قدموں پر آتشی و با روانہ ہوئی.یہ پیشگوئی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے کیونکہ آپ کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے آپ کے دشمن کو تباہ کیا.گو اس جگہ مری کے الفاظ ہیں جو بیماری پر دلالت کرتے ہیں مگر مراد تباہی اور ہلاکت ہی ہے کیونکہ جس ذریعہ سے بھی موت عام ہو جائے وہ مری اور وبا کہلائے گا.پھر لکھا ہے.” وہ کھڑا ہوا اور اُس نے زمین کو لرزہ دیا.اُس نے نگاہ کی اور کی قوموں کو پراگندہ کر دیا.یہ پیشگوئی بھی نہ تو موسی علیہ السلام پر صادق آ سکتی ہے نہ مسیح علیہ السلام پر.موسیٰ علیہ السلام تو اپنے دشمن سے لڑتے ہوئے فوت ہو گئے اور مسیح علیہ السلام کو تو بقول عیسائیوں کے اُن کے دشمنوں نے پھانسی دے دیا.جس نے زمین کو لرزہ دیا اور جس کی نگاہ نے قوموں کو

Page 147

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۵ دیباچہ تفسیر القرآن پراگندہ کر دیا وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے.خود آپ نے دعوی فرمایا ہے نُصِرْتُ بِالرُّغب مَسِيرَةَ شَهْرٍ ۱۲۸ خدا تعالیٰ نے مجھے رعب عطا فرما کر میری مدد کی ہے میں جہاں جاؤں ایک مہینہ کے فاصلہ تک دشمن مجھ سے ڈر جاتا ہے.پھر لکھا ہے ” قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اُس کے آگے جھنس گئیں.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم ﷺ کے ذریعہ ہی ثابت ہوئی، کیونکہ آپ کے دشمن آپ کے مقابلہ میں ہلاک و تباہ ہو گئے اور پہاڑ اور پہاڑیوں سے مراد طاقتور دشمن ہی ہوا کرتے ہیں.پھر لکھا ہے ” میں نے دیکھا کہ کوشان کے خیموں پر بیت تھی اور زمین مدیان کے پردے کانپ جاتے تھے.اس پیشگوئی سے صاف ظاہر ہے کہ یہ آنے والا موعود شام سے کسی باہر کے علاقے کا ہو گا اور جب اُس کی فوجیں کیش یا کوشان اور مدائن کے علاقوں کی طرف بڑھیں گی تو اُن علاقوں کی فوجیں اس کی فوجوں کے آگے لرز جائیں گی.اس پیشگوئی کے موعود بھی موسیٰ علیہ السلام نہیں ہو سکتے نہ مسیح علیہ السلام ہو سکتے ہیں یہ پیشگوئی بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب آپ کی مٹھی بھر فوج آپ کے خلیفہ اول حضرت ابو بکر کے زمانہ میں فلسطین کی طرف بڑھی تو باوجود اس کے کہ کنعان اُس وقت قیصر روما کے ماتحت تھا اور وہ آدھی دنیا کا بادشاہ تھا مسلمانوں کی مٹھی بھر فوج کے آگے قیصر کی فوجیں اس طرح بھا گئیں کہ کیش کے خیموں پر آفت آگئی اور زمین مدیان کے پردے کانپ گئے اور ان علاقوں نے اپنی نجات اس بات میں پائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادموں کے قدموں میں اپنے ہتھیار ڈال دیں.چوتھی پیشگوئی.ایک محبوب نبی کا حضرت سلیمان فرماتے ہیں:.دس ہزار آدمیوں کے ساتھ ظہور (الف) ”میرا محبوب سرخ و سفید ہے.دس ہزار آدمیوں کے درمیان وہ جھنڈے کی مانند کھڑا ہوتا ہے اُس کا سراکیسا ہے جیسا چھوکا سونا.اُس کی زلفیں پیچ در پیچ ہیں اور کوے کی سی کالی ہیں.اُس کی آنکھیں اُن کبوتریوں کی مانند ہیں جولب دریا دودھ

Page 148

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن میں نہا کے تمکنت سے بیٹھتی ہیں.اُس کے رخسارے پھولوں کے چمن اور بلسان کی اُبھری ہوئی کیاری کی مانند ہیں.اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوا مُر ٹپکتا ہے.اُس کے ہاتھ ایسے ہیں جیسے سونے کی کڑیاں جن میں ترسیس کے جواہر جڑے گئے.اُس کا پیٹ ہاتھی دانت کا سا کام ہے جس پر نیلم سے گل بنے ہوں.اُس کے پیرا ایسے جیسے سنگ مرمر کے ستون جو سونے کے پایوں پر کھڑے کئے جاویں.اُس کی قامت لبنان کی سی.وہ خوبی میں رشک سرد ہے.اُس کا منہ شیرینی ہے ہاں وہ سرا پا عشق انگیز ہے.اے یروشلم کی بیٹیو! یہ میرا پیارا ہے یہ میرا جانی ہے“.۱۲۹ اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ ایک نبی پیدا ہونے والا ہے جو دوسرے نبیوں سے افضل ہوگا.کیونکہ لکھا ہے: تیرے محبوب کو دوسرے محبوب کی نسبت سے کیا فضیلت ہے.۱۳۰ 66 پھر اس میں یہ خبر دی گئی ہے کہ وہ محبوب دس ہزار آدمیوں کے درمیان جھنڈے کی مانند کھڑا ہو گا.چونکہ جھنڈا فوج کی علامت ہے اس لئے اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک عظیم الشان موقع پر وہ دس ہزار سپاہیوں کی افسری کرے گا.پھر لکھا ہے.اُس کے لب سوسن ہیں جن سے بہتا ہوامر ٹپکتا ہے.مُر ایک گوند ہے جس کا مزہ تلخ لیکن تأثیر نہایت اعلیٰ اور خوشبو نہایت عمدہ ہوتی ہے.کیڑوں کے مارنے کے لئے نہایت اعلیٰ سمجھی جاتی ہے اور زخموں کے اند مال میں نہایت ہی مفید ہے.کرم کش اڈویہ میں پڑتی ہے اور زخموں کی مرہموں میں ڈالی جاتی ہے.اسی طرح خوشبوؤں کے مصالحوں میں بھی اُس کو استعمال کیا جاتا ہے اور عطروں کے بنانے میں بھی کام میں لائی جاتی ہے.پھر لکھا ہے:.دوہ محمد یم ہے.اس کا ترجمہ انگریزی بائبل میں ALL TOGATHER LOVEL کیا گیا ہے اور اُردو بائبل میں سراپا عشق انگیز کیا گیا ہے.یعنی اُسے دیکھ کر انسان اُس سے محبت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.یہ پیشگوئی واضح طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی.

Page 149

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۷ دیباچہ تفسیر القرآن آپ ہی موسیٰ کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار قدوسیوں کے سردار ہونے کی حیثیت میں فاران کی چوٹیوں پر سے گزرتے ہوئے مکہ میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے.آپ ہی وہ شخص تھے جن کا کلام صحیح معنوں میں دنیا کے لئے مُر ثابت ہوا ہے اور اس میں انسانی اصلاح کے لئے تمام قواعد بیان کر دیئے گئے ہیں جو بعض قوموں کے منہ میں کڑوے معلوم ہوتے ہیں گو ہیں وہ کرم کش اور خوشبو دار.اور آپ ہی ہیں جن کا نام محمد تھا.عیسائی مصنف اس پیشگوئی سے گھبرا کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ اس موعود کا نام محمد نہیں بلکہ محمد یم لکھا ہے.لیکن یہ اعتراض ایک بے معنی اعتراض ہے.تو رات نے تو خدا کو بھی الوہیم“ لکھا ہے.عبرانی زبان کا قاعدہ ہے کہ وہ اعزاز اور اکرام کے لئے جمع کا صیغہ استعمال کر دیتی ہے.اُردو زبان میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ اعزاز کے موقع پر جمع کے الفاظ استعمال کرتے ہیں.اگر ایک اُردو لیکچرار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں کوئی لیکچر دے گا تو آخر میں کہے گا یہ ہیں ہمارے محمد.حالانکہ اس کی مراد یہ ہوگی کہ گو ہما را آقا محمد تو ایک ہی شخص ہے لیکن میں آپ کے اعزاز کے طور پر جمع کا لفظ بولتا ہوں.(ب) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک اور پیشگوئی غزل الغزلات باب ۴ میں بیان ہوئی ہے.اس میں حضرت سلیمان اپنی محبوبہ کو بہن بھی کہتے ہیں اور ساتھ ہی زوجہ بھی کہتے ہیں چنانچہ غزل الغزلات باب ۴ آیت ۹ میں اپنی محبوبہ کی نسبت کہتے ہیں:.اے میری بوا میری زوجہ پھر آیت ۱۰ میں لکھا ہے :.”اے میری بہن میری زوجہ “.پھر آیت ۱۲ میں لکھا ہے.” میری بوا میری زوجہ “.اِن دونوں الفاظ کا جوڑ بتاتا ہے کہ آنے والا محبوب بنو اسمعیل میں سے ہوگا.جیسے حضرت موسیٰ کو اللہ تعالیٰ نے کہا کہ وہ تیرے بھائیوں میں سے ہوگا.چونکہ حضرت سلیمان اس کو ایک معشوق کی صورت میں پیش کر رہے ہیں اس لئے انہوں نے بجائے بھائی کے بہن کا لفظ استعمال

Page 150

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۸ دیباچہ تفسیر القرآن کیا ہے اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ اس کی تعلیم بنو اسحاق کے نبیوں کی طرح صرف اپنی قوم کے لئے نہیں ہوگی بلکہ دوسری اقوام کے لئے بھی اُس کے گھر کا دروازہ کھلا ہو گا جس کی طرف زوجہ کے لفظ سے اشارہ کیا گیا ہے.اس پیشگوئی میں مؤنث کے صیغوں سے دھوکا نہیں کھانا کی چاہئے کیونکہ یہ ایک شاعرانہ رنگ کا کلام ہے چنانچہ اسی باب کے آخر میں جا کر کہا ہے.میرا محبوب اپنے باغیچے میں آوے اور اُس کے لذیذ میوے کھاوے‘ ۱۳۱ یہاں بجائے مؤنث کے مذکر کا صیغہ استعمال کر دیا گیا ہے.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور پر پوری نہیں ہوتی.حضرت مسیح بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے نہیں تھے نہ اُن کی تعلیم غیر قوموں کے لئے تھی جیسا کہ پہلے ثابت کیا جا چکا ہے.( ج ) اِسی طرح غزل الغزلات میں لکھا ہے:.میں سیاہ فام جمیلہ ہوں.اے یروشلم کی بیٹیو! قیدار کے خیموں کی مانند ، سلیمان کے پردوں کی مانند مجھے مت تا کو کہ میں سیاہ فام ہوں“.۱۳۲ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک ایسے نبی کی خبر دی ہے جو جنوب کا رہنے والا ہو گا اور بنو اسحق کی نسبت جو شمال کے رہنے والے تھے اُس کا رنگ کم اُجلا ہو گا یا یوں کہو کہ اُس کی قوم کا رنگ کم اُجلا ہوگا.چنانچہ شامیوں اور فلسطینیوں کے رنگ بوجہ شمال میں رہنے کے عربوں کی نسبت زیادہ سفید ہوتے ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں پیدا ہوئے تھے.( د ) اسی باب میں پھر آنے والے موعود کی یہ علامت بتائی گئی ہے کہ:.” میری ماں کے بیٹے ناخوش تھے.انہوں نے مجھ سے تاکستانوں کی نگہبانی کرائی، پر میں نے اپنے تاکستانوں کی جو خاص میرا ہے نگہبانی نہیں کی.۱۳۳ یه در حقیقت موعود کی قوم کی طرف اشارہ ہے.عرب لوگ کہیں قیصر کی نوکری کرتے تھے اور کہیں ایرانیوں کی نوکریاں کرتے تھے مگر خود اپنے ملک کی ترقی کا اُن کو کوئی خیال نہ تھا.یہاں تک کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور انہوں نے اُن کے اندر بیداری پیدا کی اور اُن کی روحانی اور علمی اور سیاسی اصلاح کی جس کے نتیجہ میں نہ صرف یہ کہ عرب اپنے تاکستانوں کے

Page 151

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۳۹ چه تفسیر القرآن محافظ ہو گئے بلکہ وہ دنیا بھر کے تاکستانوں کے آزاد محافظ بن گئے.(ه) اسی طرح غزل الغزلات میں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ اسرائیلی سلسلہ کے لوگوں کو چاہئے کہ آنے والے موعود کو خواہ مخواہ اپنی طرف متوجہ نہ کریں ورنہ وہ اس کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے.چنانچہ لکھا ہے:.”اے یروشلم کی بیٹیو! میں غزالوں اور میدان کی ہرنیوں کی قسم تمہیں دیتا ہوں کہ تم میری پیاری کو نہ جگاؤ اور نہ اُٹھا ؤ جب تک وہ اُٹھنے نہ چاہے“.۱۳۴ یہی مضمون پھر باب ۳ آیت ۵ میں بیان کیا گیا ہے اور یہی مضمون پھر سہ بارہ باب ۸ آیت ۴ میں بیان کیا گیا ہے.ان عبارتوں کا مطلب یہی ہے کہ جب وہ نبی ہوگا تو یہود اور عیسائی بنی اسرائیل کی دوشاخیں اُسے دق کریں گی اور وہ اُس کو مجبور کریں گی کہ وہ اُن پر حملہ کرے لیکن چونکہ وہ خد تعالیٰ کی طرف سے ہوگا یہود اور عیسائی اُس کے مقابلہ میں کامیاب نہ ہو سکیں گے بلکہ خطر ناک شکست کھائیں گے.حضرت سلیمان اپنی قوم کو نصیحت کرتے ہیں کہ دیکھ ! اُس کو جگانا نہیں یعنی اُس کو چھیڑ کر اپنی طرف متوجہ نہ کرنا.ہاں جب وہ آپ جاگے یعنی جب کی خدا تعالی کی مشیت چاہے کہ وہ تمہارے ملکوں کی طرف توجہ کرے تو پھر بے شک کرے مگر خود کی اُس کو نہ چھیڑنا اس لئے کہ جو قوم خود کسی نبی کو چھیڑتی ہے وہ اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنا لیتی ہے جیسا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھیڑ کر اپنے آپ کو سزا کا مستحق بنالیا.لیکن اگر کوئی قوم نہ چھیڑے تو نبی اُس کی طرف جارحانہ طور پر توجہ نہیں کرتا.صرف وعظ ونصیحت سے اُس کو مخاطب کرتا ہے.نبی تلوار اُس کے خلاف اُٹھاتے ہیں جو پہلے اُن کے خلاف تلوار اُٹھاتے ہیں اور اُنہی کے خلاف جنگ کرتے ہیں جو خدا کے سچے دین کو مٹانے کے کی لئے جبر اور تعدی سے کام لیتے ہیں.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اس پر شاہد ہے اور حضرت سلیمان نے اپنی قوم کو اسی خطرہ سے آگاہ کیا ہے.یہ پیشگوئیاں کسی صورت میں بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہوسکتیں.نہ تو مسیح فلسطین کے جنوب میں پیدا ہوئے نہ وہ بنی اسرائیل کے بھائیوں میں سے تھے نہ اُن کو کوئی ایسی طاقت حاصل تھی کہ اُن کو چھیڑنے کی وجہ سے بنو اسرائیل تباہ ہوتے.یہ ساری کی ساری پیشگوئیاں

Page 152

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۰ دیباچہ تفسیر القرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہو سکتی ہیں اور اُنہی کی خبر غزل الغزلات میں دی گئی ہے ہے.غزل الغزلات در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کے اظہار میں لکھی گئی ہے.پانچویں پیشگوئی.یسعیاہ نبی نے بھی یسعیاہ کی کتاب بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں سے بھری پڑی ایک عظیم الشان نبی کے ظہور کی خبر دی ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک عظیم الشان نبی اور آنے والا ہے جو دنیا کیلئے سلامتی اور امن لائے گا لیکن جیسا کہ سنت الہی کی ہے پیشگوئیوں میں ایک رنگ اخفاء کا بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ یسعیاہ کی پیشگوئیوں میں بھی یروشلم اور صیہوں وغیرہ کے نام آئے ہیں جس کی وجہ سے مسیحی مصنفوں نے دھوکا کھایا ہے کہ یہ پیشگوئیاں مسیح کے متعلق ہیں.حالانکہ یروشلم یا بنو اسرائیل یا صیہوں کے الفاظ اپنی ذات میں تو پیشگوئی کا کوئی حصہ نہیں.اگر پیشگوئی کی تفصیلات مسیح پر چسپاں نہیں ہوتیں تو صرف یروشلم اور صیہوں کے الفاظ سے کیا دھوکا لگ سکتا ہے.اس صورت میں ہمیں یہی ماننا پڑے گا کہ یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل سے مراد صرف یہ ہے کہ میرے مقدس مقامات اور میری پیاری قوم نہ کہ حقیقی طور پر یروشلم اور صیہوں اور بنی اسرائیل.(الف) اس سلسلہ میں سب سے پہلی پیشگوئی میں یسعیاہ باب ۴ سے نقل کرتا ہوں.لکھا ہے:.اُس دن سات عورتیں ایک مرد کو پکڑ کر کہیں گی کہ ہم اپنی روٹی کھائیں گی اور اپنے کپڑے پہنیں گی تو ہم سب سے صرف اتنا کر کہ ہم تیرے نام کی کہلا دیں تا کہ ہماری شرمندگی مئے.اُس دن خداوند کی شان شوکت اور حشمت ہوگی اور زمین کا پھل اُن کے لئے جو بنی اسرائیل میں سے بچ نکلے لذیذ اور خوشنما ہوگا اور ایسا ہوگا کہ ہر ایک جو صیہوں میں چھوٹا ہوا ہوگا اور یروشلم میں باقی رہے گا.بلکہ ہر ایک جس کا نام یروشلم کے زندوں میں لکھا ہو گا مقدس کہلائے گا“.۱۳۵ اس پیشگوئی میں اگر صیہوں اور یروشلم کو استعارہ قرار دیا جائے تو جو مفہوم اس پیشگوئی کا نکلتا ہے وہ سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر صادق نہیں آتا.ان آیتوں میں یہ پیشگوئی کی گئی ہے کہ آنے والے موعود کے ساتھ شوکت اور حشمت ہوگی اور اُس کو دنیا کی کچ

Page 153

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۱ دیباچہ تفسیر القرآن علیمتیں ملیں گی اور اُس کی قوم کے لوگ مقدس کہلائیں گے اور اُس کے زمانہ میں کثرت ازدواج کی ضرورت ہوگی.کیا یہ باتیں مسیح اور اُس کے حواریوں پر چسپاں ہوتی ہیں؟ کیا مسیح کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ شوکت اور حشمت والا تھا ؟ کیا دنیا کی غنیمتیں مسیح اور اُس کے حواریوں کو ملیں یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے صحابہ کو ؟ مج کیا مسیح کے زمانہ میں کثرت ازدواج کی ضرورت پیش آئی یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں؟ مسیح نے تو کثرت ازدواج کو نا پسند کیا ہے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت ازدواج کو مناسب حالات میں جائز بلکہ پسندیدہ کہا ہے.آپ ہی کے زمانہ میں لڑائیاں ہوئیں اور لڑائیوں میں جوان آدمی مارے گئے اور عورتیں یا بیوہ ہو گئیں یا جوان عورتوں کے لئے رشتے میسر نہ آئے.پس آپ نے اپنی قوم کو حکم دیا کہ ایسی صورت میں مردوں کا فرض ہے کہ ایک سے زیادہ عورتوں سے شادیاں کریں تا کہ قوم میں بدکاری اور آوارہ گردی پیدا نہ ہو.(ب) یسعیاہ نبی اپنی کتاب کے باب ۵ میں پیشگوئی فرماتے ہیں:.وہ قوموں کے لئے دُور سے ایک جھنڈا کھڑا کرتا ہے اور انہیں زمین کی اشیاء سے سیٹی بجا کے بلاتا ہے اور دیکھ وے دوڑ کے جلد آتے ہیں.کوئی اُن میں نہ تھک جاتا اور نہ پھسل پڑتا ہے.وے نہیں اُونگھتے اور نہیں سوتے.اُن کا کمر بند کھلتا نہیں ہے اور نہ اُن کی جوتیوں کا تسمہ ٹوٹتا ہے.اُن کے تیر تیز ہیں اور اُن کی ساری کمانیں کشیدہ ہیں.اُن کے گھوڑوں کے سم چقماق کے پتھر کی مانند ٹھہرتے اور اُن کے پیسے گردباد کی مانند وے شیرنی کی مانند گر جتے ہیں.ہاں وے جوان شیروں کی مانند گر جتے ہیں وے غراتے اور شکار پکڑتے اور اُسے بے روک ٹوک لے جاتے ہیں اور کوئی بچانے والا نہیں اور اُس دن اُن پر ایسا شور مچائیں گے جیسا سمندر کا شور ہوتا ہے اور یہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اُس کی بدیوں سے تاریک ہو جاتی ہے“.۱۳۶ اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ایک زمانہ میں تمام قوموں کے لئے فلسطین ނ

Page 154

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۲ دیباچهتفسیر القرآن ڈور کسی جگہ پر ایک جھنڈا کھڑا کرے گا اور اس جھنڈے والا دنیا کی مختلف قوموں کو بلائے گا اور وہ جلدی سے دوڑ کر اُس کے پاس جمع ہو جائیں گی.وہ لوگ بڑی بڑی قربانیاں کرنے والے ہوں گے اور غفلت اور ستی سے محفوظ ہوں گے.اُنہیں لڑائیاں کرنی پڑیں گی.اُن کے گھوڑوں کے سموں سے آگ نکلے گی اور جب وہ حملہ کرنے کے لئے چلیں گے تو ہوا میں گر داڑے گی.وہ اپنے شکار پر غالب آجائیں گے اور اُن کے شکار کو کوئی بچانے والا نہیں ہو گا.وہ ایسا کیوں کریں گے؟ اس لئے کہ وہ دیکھیں گے کہ زمین میں تاریکی اور ظلمت پھیلی ہوئی ہے اور لوگ ایک عظیم الشان انقلاب کے محتاج ہیں.یہ پیشگوئی گلی طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نہ صرف چسپاں ہوتی ہے بلکہ قرآن کریم میں اس پیشگوئی کے مطابق فلسطین سے دُور یعنی مکہ میں آپ ظاہر ہوئے اور ی آپ کا جھنڈ ا مدینہ میں کھڑا کیا گیا.آپ ہی تھے جنہوں نے قرآنی الفاظ میں یہ اعلان کیا يَايُّهَا النَّاسُ الّي رَسُولُ اللهِ إلَيْكُمْ جَمِيعًا ۱۳۷ اے انسانو ! میں تمام لوگوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.آپ ہی کی آواز پر چاروں طرف سے لوگ دوڑ نے لگ گئے اور جلد جلد آپ کے گرد جمع ہو گئے.مسیح کی زندگی میں تو ایک شخص بھی غیر قوموں میں سے اُس پر ایمان نہیں لایا تھا.اُس کے سارے کے سارے حواری چالیس پچاس میل کے حلقہ کے اندر رہنے والے تھے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر یمن کے رہنے والے اور نجد کے رہنے والے یہودیوں میں سے بھی اور ایرانیوں میں سے بھی اور عیسائیوں میں سے بھی ایمان لائے اور آپ کے گرد جمع ہو گئے اور اس پیشگوئی کے مطابق اُنہوں نے ایسی قربانیاں اور ان تھک کوششیں کیں کہ دشمن سے دشمن بھی اُن کی قربانیوں کی تعریف کئے بغیر نہیں رہتا اور خدا تعالیٰ نے بھی اپنے کلام میں اُن کی نسبت فرمایا ہے رضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ ۱۳۸ اُنہوں نے ایسی قربانیاں کیں کہ خد اُن سے راضی ہو گیا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے.اور پھر قرآن کریم میں اُن کا یوں ذکر بھی آتا ہے کہ منهم من قضى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مِّن يَنتَظِرُ ۱۳۹ کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے عہد پورے کر دیئے ہیں اور کچھ وہ ہیں جو اپنے عہد کے پورا کرنے کے انتظار میں ہیں.پھر اُن کو جنگیں بھی

Page 155

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۳ دیباچہ تفسیر القرآن پیش آئیں اور تیروں اور کمانوں سے اُنہوں نے کام لیا.اُن کے گھوڑے چقماق کی طرح ہو گئے اور اُن کے پہیئے گرد باد ۱۴۰ کی مانند جس کی طرف خود قرآن کریم میں اشارہ کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے والدیت ضَبحًا فَالمُورِيتِ قَدْحًا فَالْمُخِيرَتِ صُبْحًا.فَاتَرْنَ بِهِ نَفْعًا فَوَسَطنَ به جَمْعًا - ا یعنی ہم قسم کھاتے ہیں اُن اسپ سواروں کی جو تیزی سے دشمن پر حملہ کرنے کے لئے آگے بڑھتے ہیں ایسی تیزی سے کہ اُن کے گھوڑوں کے ٹاپوں سے آگ نکلنے لگتی ہے اور اُن کے حملہ سے گردو غبار کا ایک طوفان اُٹھ پڑتا ہے اور وہ ایسی شان اور طاقت کے ساتھ اپنے دشمن کی صفوں میں گھس کر اُسے مغلوب کر لیتے ہیں.کس طرح لفظ بلفظ اس پیشگوئی کی طرف قرآن کریم نے اشارہ کیا ہے.پھر یہ جو اس پیشگوئی میں کہا ہے کہ وہ زمین کی طرف تاکیں گے اور کیا دیکھتے ہیں کہ اندھیرا اور تنگ حالی ہے اور روشنی اس کی بدلیوں سے تاریک ہو جاتی ہے“.اسی کی طرف قرآن کریم میں اِن الفاظ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ ظَهَرَ الْفَسَادُ في البرد البَحْرِ ۱۲ تمام دنیا میں خشکی اور تری میں فساد اور خرابی پیدا ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ کے ایک مامور کے ظاہر ہونے کی ضرورت ہے.اسی طرح فرماتا ہے.قَدْ انْزَلَ اللهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا رَّسُوْلًا يَتْلُوا عَلَيْكُمْ أَيْتِ اللهِ مُبيِّنت ليُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مِن الظُّلُمت إلى التَّوْدِ ١٢٣ خدا کا رسول اس لئے آیا ہے کہ دنیا سب کی سب تاریکی میں پڑی ہے اور وہ اس کو تاریکی سے نکال کر نور کی طرف لے جاتا ہے.( ج ) یسعیاہ باب ۸ میں لکھا ہے:.رب الافواج جو کہے تم اُس کی تقدیس کرو اور اُس سے ڈرتے رہو اور اس کی ہی دہشت رکھو.وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہوگا.پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے فکر کا پتھر اور ٹھو کر کھانے کی چٹان اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام ہووے گا.بہت لوگ اُن سے ٹھوکر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے اور دام میں پھنسیں گے اور پکڑے جائیں گے.شہادت نامہ بند کر لو اور میرے

Page 156

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۴ دیباچہ تفسیر القرآن شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کرو.میں بھی خداوند کی راہ دیکھوں گا جو اب یعقوب کے گھرانے سے اپنا منہ چھپاتا ہے میں اُس کا انتظار کروں گا“.۱۴۴ اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کا ایک مقدس ظاہر ہوگا لیکن وہ بنی اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب ہوگا اور یروشلم کے باشندوں کے لئے پھندا اور دام بنے گا.اگر وہ اس کا مقابلہ کریں گے تو وہ شکست کھائیں گے اور پکڑے جائیں گے.اُس کے زمانہ میں یہودی شریعت ختم کر دی جائے گی اور یعقوب کے گھرانے سے خدا تعالیٰ منہ پھیر لے گا.انجیل نویس اس پیشگوئی کے متعلق خاموش ہیں اور شاید وہ اسرائیل کے دونوں گھرانوں سے وہ دو گھرانے مراد لیتے ہیں جن میں سے ایک نے سلیمان کے بیٹے کا ساتھ دیا تھا اور دوسرے نے اُن سے بغاوت کر کے الگ حکومت قائم کر لی تھی.لیکن یہ درست نہیں ہوسکتا.اس پیشگوئی میں تو یہ بتایا گیا ہے کہ خدا کا ایک مقدس کھڑا ہوگا اور اُس کے زمانہ میں یہ باتیں ج ہوں گی.یا تو اس مقدس سے مراد مسیح ہے اور یا پھر مسیح کے بعد کوئی اور آنے والا شخص ہے.کیونکہ یسعیاہ اور مسیح کے درمیان کوئی ایسا با عظمت انسان نہیں گزرا جس کے ساتھ بنو اسرائیل کی نے ٹکر کھائی ہو.صرف حضرت مسیح ہی ایسے تھے جن سے بنو اسرائیل نے ٹکر کھائی.مگر کیا مسیح سے ٹکر کھا کر بنو اسرائیل پکڑے گئے یا اُن کے شاگردوں کے لئے شریعت پر مہر کر دی گئی؟ مسیح تو صاف کہتا ہے کہ:.یہ خیال مت کرو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتاب منسوخ کرنے کو آیا ہوں.میں منسوخ کرنے کو نہیں بلکہ پوری کرنے کو آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت کا ہرگز نہ مٹے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو.۱۴۵ بلکہ صیح اپنے بعد کے زمانہ کے لئے بھی کہتا ہے کہ :.کیا براتی جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ رکھ سکتے ہیں.وے جب تک کہ دولہا اُن کے ساتھ ہے روزہ نہیں رکھ سکتے.لیکن وے دن آویں گے جب دولہا اُن سے جدا کیا جائے گا ، تب اُنہی دنوں میں وے روزے رکھیں گے“.۱۴۶

Page 157

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۵ دیباچہ تفسیر القرآن ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح کے فیصلہ کے مطابق حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد بھی آپ کے حواریوں کے لیے موسوی تعلیم پر عمل کر نالازم ہوگا.اگر یہ نہ ہوتا تو مسیح یہ کہتا کہ میں نے تو ہمیشہ کے لئے روزے منسوخ کر دیئے ہیں مگر وہ خود روزے رکھتا ہے اور اپنے حواریوں کے متعلق خبر دیتا ہے کہ گو آجکل ان میں کمزوری پائی جاتی ہے لیکن آئندہ زمانہ میں وہ روزے رکھنے لگ جائیں گے.پس شریعت پر مہر کرنے کے یہ معنی نہیں ہیں کہ شریعت کو بالکل اُڑا دیا گیا بلکہ اس پیشگوئی کے یہی معنی ہیں کہ اُس مقدس کے زمانہ میں موسوی شریعت منسوخ کر دی جائے گی اور ایک نئی شریعت قائم کر دی جائے گی.اگر یہ نہ ہوتا تو یہ کیوں کہا جاتا کہ یعقوب کے گھرانے سے خدا اپنا منہ پھیر لے گا.کیا مسیح یعقوب کے گھرانے سے نہیں تھا ؟ اگر مسیح یعقوب کے گھرانے میں سے کی نہیں تھا تو وہ داؤد کی نسل میں سے نہیں تھا ؟ اور اگر وہ داؤد کی نسل میں سے نہیں تھا تو پھر مسیح کے متعلق جو پیشگوئیاں ہیں اُن کا بھی وہ مستحق نہیں تھا.( د ) یسعیاہ باب ۹ میں لکھا ہے:.وو ا ” ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کاندھے پر ہو گی اور وہ اس نام سے کہلا تا ہے.عجیب.مشیر.خدائے قادر.ابدیت کا باپ.سلامتی کا شہزادہ.اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی.وہ داؤد کے تخت پر اور اس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بند و بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا.رب الافواج کی غیوری یہ کرے گی.۱۴۷ اس پیشگوئی میں ایک موعود کی خبر دی گئی ہے جو بادشاہ ہو گا اور جس کے پانچ نامی ہوں گے (۱) عجیب (۲) مشیر (۳) خدائے قادر (۴) ابدیت کا باپ (۵) سلامتی کا شہزادہ.اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی اور وہ داؤد کے تخت پر ہمیشہ کے لئے بیٹھے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا.اناجیل کے حاشیہ نویسوں نے اس باب کے شروع میں لکھا ہے کہ اس میں مسیح کی پیدائش کی خبر ہے.لیکن اُن علامتوں میں سے جو اس

Page 158

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۶ دیباچہ تفسیر القرآن پیشگوئی میں بیان کی گئی ہیں کوئی ایک بھی تو حضرت مسیح پر صادق نہیں آتی.وہ کب بادشاہ ہوئے ؟ کب اُن کو عجیب.مشیر.خدائے قادر.ابدیت کا باپ اور سلامتی کا شہزادہ کہا گیا ؟ عجیب تو شاید اُن کی پیدائش کے لحاظ سے اُن کو کہا بھی جا سکے گوایسا کہا نہیں گیا کیونکہ جوان کو نہیں مانتے تھے وہ تو اُن کی پیدائش کو نا جائز قرار دیتے تھے.پس وہ انہیں ” عجیب نہیں قرار دے سکتے تھے اور جو مانتے تھے وہ اُن کی پیدائش کے متعلق مختلف شبہات میں تھے.کوئی انہیں داؤد کی اولا د قرار دیتا تھا اور کوئی روح القدس کی.دوسرا نام مشیر بتایا گیا ہے حضرت عیسی علیہ السلام کو مشیر ہونے کا کبھی موقع نہیں ملا.ساری انجیل میں دیکھ لوکسی ایک جگہ بھی انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ نہیں لیا اور نہ انہوں نے اپنی قوم کو کوئی مشورہ دیا.پھر وہ مشیر کس طرح کہلائے ؟ تیسرا نام خدائے قادر بتلایا گیا ہے.مسیح تو ساری عمر ابن اللہ کہلاتے رہے.وہ خدائے قادر کس طرح کہلا سکتے تھے؟ اور پھر مسیح تو انا جیل کے بیان کے مطابق پھانسی دے کر ماری دیا گیا تھا، ایسا انسان قادر کس طرح کہلا سکتا ہے.انا جیل میں صاف آتا ہے کہ جب حضرت مسیح کی صلیب پر لٹکائے گئے تو یہودیوں نے اُن کو طعنہ دیا کہ اگر تو خدا کا بیٹا ہے تو صلیب پر سے اتر آ.چنانچہ لکھا ہے:.یوں ہی سردار کاہنوں نے بھی فقیہوں اور بزرگوں کے ساتھ ٹھٹھا مار کے کہا.اس نے اوروں کو بچایا مگر آپ کو نہیں بچا سکتا.اگر اسرائیل کا بادشاہ ہے تو اب صلیب پر سے اُتر آوے تو ہم اس پر ایمان لاویں گے.۱۴۸ حتی کہ وہ چور بھی حضرت مسیح کے ساتھ صلیب دیئے گئے تھے اُن کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی اُسے طعنے مارتے تھے.۱۴۹ پس حضرت مسیح پر یہ حوالہ چسپاں نہیں ہوسکتا کیونکہ اُس کی قدرت نہ کبھی ظاہر ہوئی نہ لوگوں کی نے اُس کی قدرت کا کبھی اقرار کیا.اُس کے دشمن بھی اُس کی قدرتوں کا انکار کیا کرتے تھے اور اُس کے دوست بھی اُس کی قدرتوں کے منکر تھے.اگر ایسا نہ ہوتا تو مسیح کے حواری اُس کو چھوڑ کر بھاگ کیوں جاتے ؟ جیسا کہ لکھا ہے:.تب سب شاگر داُسے چھوڑ کر بھاگ گئے.‘۱۵۰۰ 466

Page 159

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۷ دیباچہ تفسیر القرآن کیا کبھی کوئی شخص قادر کو بھی چھوڑا کرتا ہے؟ چوتھا نام ابدیت کا باپ ہے.یہ نام بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہوسکتا.کیونکہ جیسا کہ او پر ثابت کیا جا چکا ہے وہ خود اپنے بعد ایک مامور کے آنے کی خبر دیتے ہیں.پانچواں نام سلامتی کا شہزادہ ہے.یہ نام بھی حضرت مسیح پر چسپاں نہیں ہوسکتا کیونکہ انہیں کبھی بادشاہت نصیب ہی نہیں ہوئی کہ اُن کے ذریعہ سے دنیا کو سلامتی ملی ہو وہ تو خود یہود.دُکھ پاتے رہے، آخر پکڑے گئے اور صلیب پر لٹکائے گئے.پس انہیں سلامتی کا شہزادہ کسی صورت میں بھی نہیں کہا جاسکتا.پھر لکھا ہے اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہوگی.“ یہ بات بھی حضرت مسیح میں نہیں پائی جاتی.نہ اُن کو سلطنت ملی نہ اُس کا اقبال اور سلامتی انہوں نے دیکھی.اسی طرح لکھا ہے وہ داؤد کے تخت پر اور اُس کی مملکت میں آج سے لے کر ابد تک بند و بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا“.یہ بات بھی حضرت مسیح کو نصیب نہیں ہوئی.یہ سب کی سب علامتیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں ہی پائی جاتی ہیں.آپ کے کندھے پر سلطنت رکھی گئی اور گو آپ نہیں چاہتے تھے کہ آپ بادشاہ ہوں لیکن پھر بھی اللہ تعالیٰ نے ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ آپ بادشاہ بننے پر مجبور ہو گئے.کیا یہ عجیب بات نہیں کہ حضرت مسیح تو باوجود اس کے کہ اُن کے پاس نہ کوئی حکومت تھی نہ طاقت پھر بھی بادشاہ کہلانے کے شوقین تھے جیسا کہ متی باب ۲۱ میں لکھا ہے:.ر مسیح گدھے پر سوار ہو کر یروشلم میں داخل ہوا تا کہ جو نبی نے کہا تھا پورا ہو کہ صیہوں کی بیٹی سے کہو کہ دیکھ تیرا بادشاہ فروتنی سے گدھی پر بلکہ گدھی کے بچہ پر سوار ہو کر تجھ پاس آتا ہے.ا۱۵ اسی طرح متی باب ۲۷ آیت ۱۱ میں لکھا ہے:.یسوع حاکم کے روبرو کھڑا تھا اور حاکم نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ یسوع نے اُس سے کہا ہاں تو ٹھیک کہتا ہے“.لوقا باب ۲۳ میں لکھا ہے:.

Page 160

انوار العلوم جلد ۲۰ وو ۱۴۸ دیباچہ تفسیر القرآن اور ساری جماعت اُٹھ کے اُسے پیلاطوس کے پاس لے گئی اور اس پر نالش کرنی شروع کی کہ اُسے ہم نے قوم کو بہکاتے اور قیصر کو محصول دینے سے منع کرتے اور اپنے تئیں مسیح بادشاہ کہتے پایا.تب پیلاطوس نے اُس سے پوچھا کیا تو یہودیوں کا بادشاہ ہے؟ اُس نے اُس کے جواب میں کہا وہی ہے جو تو کہتا ہے“.۱۵۲ یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۷ میں لکھا ہے:.' تب پیلا طوس نے اُسے کہا سو کیا تو بادشاہ ہے؟ یسوع نے جواب دیا کہ جیسا آپ فرماتے ہیں میں بادشاہ ہوں“.لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم باوجود حکومت اور طاقت حاصل ہونے کے بادشاہ کہلانے سے سخت نفرت رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ قیصر و کسری والا رنگ ہم میں نہیں ہونا چاہئے.اُن کو جب خدا تعالی اقتدار بخشتا ہے تو وہ بنی نوع انسان کو غلام بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ہمیں خدا تعالیٰ نے خدمت خلق کے لئے پیدا کیا ہے.66 پھر لکھا تھا کہ اُس کا نام عجیب ہو گا.حضرت مسیح خود تسلیم کرتے ہیں کہ یہ عجیب نام پانے والا وہ موعود ہے جو ان کے بعد آئے گا.چنانچہ انگورستان کی مثال میں حضرت مسیح کہتے ہیں:.ایک مالک نے انگورستان لگایا اور باغبانوں کے حوالے کر دیا.پھر مالک نے نوکروں کو اُس کا پھل لانے کے لئے باغبانوں کے پاس بھیجا مگر باغبانوں نے باری باری تمام نوکروں کو مارا پیٹا یا پتھراؤ کیا.اس کے بعد اور بڑے بڑے نو کر بھیجے گئے مگر اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا.پھر اُس نے اپنے بیٹے کو بھیجا مگر بیٹے کو بھی انہوں نے مار ڈالا.۱۵۳ اس کے بعد مسیح نے لوگوں سے سوال کیا کہ وہ باغبان جنہوں نے یہ معاملہ کیا بتاؤ ان کے ساتھ کیا سلوک کرے گا ؟ لوگوں نے کہا:.ان بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جواُسے موسم میں میوہ پہنچا دیں.یسوع نے انہیں کہا کہ کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیر وں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خدا کی طرف

Page 161

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۴۹ دیباچہ تفسیر القرآن سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اُس کو میوہ لا دے دی جائے گی.جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا“.۱۵۴ اس تمثیل کے بیان کرتے وقت حضرت مسیح نے اس بات کا اقرار کیا ہے کہ بیٹے کو صلیب دینے کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اور مامور ظاہر ہو گا جو کونے کا پتھر کہلائے گا اور وہ مسیح اور تمام باقی لوگوں کی نظروں میں عجیب ہوگا.پس جب مسیح خود کہتا ہے کہ عجیب وہ شخص کہلائے گا جو بیٹے کو صلیب دیئے جانے کے بعد آئے گا تو یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی عجیب ہیں جو مسیح کے صلیب پانے کے بعد ظاہر ہوئے.دوسرا نام آنے والے کا مشیر رکھا گیا ہے.یہ نام بھی صرف رسول کریم ﷺ پر ہی چسپاں ہوتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جن سے ساری قوم مشورہ لیا کرتی تھی اور جنہوں نے اپنی قوم میں مشورے کا رواج ڈالا اور حکومت کے لئے یہ لازمی قرار دیا کہ وہ باشندگانِ ملک کے مشورہ سے ہر ایک کام کیا کرے.رسول کریم ﷺ کے مشوروں کا ذکر قرآن کریم کی مندرجہ ذیل آیت میں آتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اَيُّهَا الَّذینَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُول فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَي نجوىكُمْ صَدَقَةً ، ذلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَاطْهَرُ، فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فإنَّ اللَّهَ غَفُورٌ حِيْم - ۱۵۵ اے مومنو! جب کبھی تم رسول سے مشورہ لیا کرو تو مشورہ لینے سے پہلے غرباء اور مساکین میں تقسیم کرنے کے لئے کچھ صدقہ پیش کیا کرو.یہ تمہارے لئے زیادہ بہتر اور پسندیدہ ہوگا لیکن اگر تمہارے پاس کچھ نہ ہوتو پھر اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے.اس صورت میں تم بغیر صدقہ پیش کرنے کے بھی مشورہ لے سکتے ہو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لوگ کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے.یہاں تک کہ اس بات کو دیکھتے ہوئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اصل وقت تو تمام بنی نوع انسان کا ہے بعض لوگ اپنی خاص ضرورتوں کے لئے آپ کے وقت کو نسبتا زیادہ استعمال نہ کرنے لگ جائیں یہ قانون مقرر کر دیا گیا کہ جو شخص آپ سے مشورہ لے وہ غریبوں کی اور مسکینوں کے لئے کچھ صدقہ کی رقم بھی بیت المال میں ادا کرے تا کہ آپ کا وقت جو افراد

Page 162

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۰ دیباچہ تفسیر القرآن کے کاموں میں لگے اُس کا کچھ نہ کچھ ازالہ اس صدقہ کے ذریعہ سے ہو جائے.جس شخص سے کی لوگ اس کثرت سے مشورہ لیا کرتے تھے کہ اُس کے مشورہ کو ایک مستقل ادارہ قرار دے دیا گیا و ہی شخص مشیر کہلانے کا مستحق ہوسکتا ہے.پھر اس لئے بھی آپ مشیر کہلانے کے مستحق ہیں کہ آپ نے حکومت کی بنیاد قومی مشوروں پر رکھی.چنانچہ قرآن کریم میں جو آپ پر نازل ہونے والی وحی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آمُرُهُمْ شُوری بَيْنَهُمْ (۵۶) مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ کوئی حکومتی کام نہ کریں جب تک کہ وہ ملک کے نمائندوں سے مشورہ نہ لے لیا کریں.اس کی تشریح میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ ۱۵۷، اسلامی حکومت مشورہ کے بغیر نہیں ہوسکتی.جو حکومت بھی باشندگانِ ملک کے مشورہ کے بغیر چلائی جائے گی وہ اسلامی نہیں کہلائے گی.مگر اس کے مقابلہ میں نہ مسیح نے کوئی مشورہ دنیا کو دیا نہ مشورہ کی اہمیت پر زور دیا.پس یقیناً محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی وہ شخص تھے جو مشیر کہلاتے تھے اور مشیر کہلاتے ہیں.تیسرا نام اُس کا خدائے قادر ہے.تورات کی رو سے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو خدا تعالیٰ سے مشابہت حاصل تھی چنانچہ خروج باب ۷ آیت ا میں لکھا ہے:.پھر خداوند نے موسیٰ سے کہا دیکھ میں نے تجھے فرعون کے لئے خدا سا بنایا.اسی طرح خروج باب ۴ آیت ۱۶ میں اللہ تعالیٰ حضرت موسی کو فرماتا ہے:.دو تو اُس (یعنی ہارون ) کے لئے خدا کی جگہ ہو گا.جس طرح مسیح بائبل کے محاورہ کے مطابق ابن اللہ کہلانے کے مستحق ہیں اسی طرح بائبل کے لحاظ سے حضرت موسیٰ مظہر خدا تھے.پس جب کبھی خدا کے لفظ سے کسی انسان کی طرف اشارہ کیا جائے گا تو اس سے مراد یا موسیٰ علیہ السلام ہوں گے یا کوئی مثیل موسی ہوگا.اور یہ میں کی اُوپر بتا آیا ہوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنے بعد ایک ایسے نبی کے آنے کی خبر دی تھی جو اُن کی جیسا ہوگا.۱۵۸ اور یہ بھی میں بتا چکا ہوں کہ اس پیشگوئی کی تمام علامتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہیں.پس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی خدا یا صحیح لفظوں میں یوں کہو کہ خدا کے مظہر کہلانے کے مستحق تھے.چنانچہ آپ کے متعلق قرآن کریم میں بھی آتا ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ الله رفى - ۱۵۹ جب بدر کے موقع پر تو نے کنکر

Page 163

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۱ دیباچہ تفسیر القرآن اُٹھا کر دشمن کی طرف پھینکے تھے تو ان کنکروں کو پھینکنے والا تیرا ہاتھ نہیں تھا بلکہ خدا کا ہاتھ تھا.اسی طرح آپ کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے ان الذين يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ الله ١٦٠ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ کی بیعت کرتے ہیں.یعنی تو اللہ تعالیٰ کا مظہر ہے.پس اس کی پیشگوئی کے مطابق اگر کوئی شخص ہو سکتا ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات ہو سکتی ہی ہے.پھر لفظ قادر بھی آپ ہی کی ذات پر دلالت کرتا ہے کیونکہ آپ ہی تھے جنہوں نے اپنی کی زندگی میں اپنے سارے دشمنوں کو زیر کر لیا اور تمام مخالفتوں اور عداوتوں کا سر کچل دیا.چوتھا نام ابدیت کا باپ بتایا گیا ہے.یہ علامت بھی آپ پر ہی چسپاں ہوتی ہے کیونکہ آپ ہی ہیں جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ آپ کی تعلیم قیامت تک کے لئے ہے اور یہ کہ جس آنے والے مسیح کی خبر دی گئی ہے وہ بھی آپ کی اُمت کا ایک فرد ہوگا کوئی نیا شخص نہیں ہوگا جس کی وجہ سے آپ کی بادشاہت میں کوئی فرق یا اختلال واقعہ ہو جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ وَيَقُولُونَ مَتى هَذَا الوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَدِقِينَ - قُل لَّكُمْ ميعَادُ يَوْمٍ لَا تَسْتَأْخِرُونَ عَنْهُ سَاعَةً وَلا تَسْتَقْدِمُون ۱۶۱ یعنی ہم نے تجھے صرف اس لئے بھیجا ہے تا کہ تمام بنی نوع انسان کو تو اس طرح جمع کرے کہ اُن میں سے کوئی طبقہ اور کوئی زمانہ تیری تبلیغ سے باہر نہ رہے اور تو تمام انسانوں کے لئے بشیر اور نذیر کے طور پر کام دے.لیکن اکثر انسان تیری اس حیثیت سے واقف نہیں ہیں.پھر فرماتا ہے دشمن اعتراض کرتے ہیں کہ یہ وعدہ کہ تو سب دنیا کی طرف اور ہمیشہ کیلئے ہے کس طرح پورا ہوگا.اگر تم سچے ہو تو اس کی دلیل دو.اس کا جواب دیتا ہے کہ تو اُن سے کہہ دے کہ تمہارے لئے ہم ایک مدت مقرر کر چکے ہیں تم نہ اس مدت سے ایک ساعت پیچھے رہ سکتے ہو اور نہ آگے بڑھو گے.یعنی چی وہ وعدہ عین وقت پر پورا ہو جائے گا.یہ مدت وہی ہے جس کا ذکر سورہ سجدہ میں کیا گیا ہے.سورہ سجدہ میں اللہ فرماتا ہے يُدير الأمر مِنَ السَّمَاء إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اليه في يوم كان مقدارةٌ آلَفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ۶۲ اللہ تعالی اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا.پھر اسلام کا زور رفتہ رفتہ کم ہونا شروع ہوگا اور ایک دن میں جس کی لمبائی ایک ہزار

Page 164

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۲ دیباچہ تفسیر القرآن سال کے برابر ہوگی وہ خدا تعالیٰ کی طرف چڑھنا شروع ہوگا اور اس میں کمزوری اور اضمحلال ہے کے آثار پیدا ہو جائیں گے.اسلام کی ترقی کا زمانہ قرآن کریم سے بھی اور احادیث سے بھی تین سو سال کا معلوم ہوتا ہے اس میں ہزار سال شامل کیا جائے تو یہ زمانہ تیرہ سو سال کا ہو جاتا کی ہے.پس سورہ سجدہ کی آیت کو ملا کر اس آیت کے یہ معنی بنتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہمیشہ کیلئے بشیر و نذیر ہونا اور تمام دنیا کی طرف ہونا تیرہ سو سال کے بعد کلی طور پر ثابت ہوگا.ان آیات میں اس بات کی خبر دی گئی ہے کہ تیرہ سو سال پر خدا تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود کا کی نزول ہوگا اور مسیح موعود آپ کی اُمت میں سے ہوگا اور چونکہ تمام انبیاء کا وہی آخری موعود ہے جب وہ آپ کی اُمت میں سے ہوگا تو اس سے یہ ثابت ہو جائے گا کہ قیامت تک آپ کی شریعت قائم رہنے والی ہے اور آپ کی شریعت کو منسوخ کرنے والا کوئی اور شخص نہیں آئے گا.اور چونکہ اُس کے زمانہ میں تبلیغ اسلام پر خاص طور پر زور دیا جائے گا اور اسلام دنیا میں پھیل جائے گا اس لئے یہ امر اور بھی مستحکم ہو جائے گا کہ اسلام کو مٹانے والی کوئی طاقت دنیا میں نہیں اور ہر قوم اور ہر علاقہ کے لوگ اُس کے مخاطب ہیں جو آہستہ آہستہ اُس میں شامل ہو جائیں گے.پس ابدیت کا باپ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اور کوئی نہیں.پانچواں نام آپ کا سلامتی کا شہزادہ " رکھا گیا ہے.چونکہ شہزادہ بمعنی بادشاہ بھی آتا ہے اس لئے ہم اس کے یہ معنی کر سکتے ہیں کہ وہ سلامتی کا بادشاہ ہوگا.یہ پیشگوئی بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی چسپاں ہوتی ہے.آپ جس مذہب کے بانی تھے اس کا نام خدا تعالیٰ نے اسلام رکھا تھا یعنی سلامتی.پس سلامتی کے شہزادے کے معنی ہوں گے اسلام کا بادشاہ.اور اس کی میں کیا شبہ ہے کہ اسلام کے بادشاہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اسلام آپ ہی کی لائی ہی ہوئی تعلیم کا نام ہے.اسلام کے تمام مسائل آپ ہی کی طرف کو ٹتے ہیں اور آپ ہی کے فیصلہ کے مطابق تمام اسلامی عالم میں عمل کیا جاتا ہے.پس آپ تو سلامتی کے شہزادے ہیں لیکن مسیح سلامتی کا شہزادہ کیونکر کہلا سکتا ہے؟ پھر کسی شخص کو اگر کسی چیز کا شہزادہ کہا جائے تو اس کے ایک یہ بھی معنی ہوتے ہیں کہ وہ چیز اُس میں کثرت سے پائی جاتی ہے.اُس کو نہ حکومت ملی نہ اُس نے عفوا ور رافت سے کام لیا.محض منہ سے کہہ دینا کہ اگر کوئی شخص تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو ر,

Page 165

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۳ دیباچہ تفسیر القرآن تم اپنا دوسرا گال بھی اس کی طرف پھیر دو، اس میں تو کوئی خاص فضیلت نہیں عمل اصل چیز ہے اور یہ عمل صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات سے ظاہر ہوا.کیسے کیسے مظالم تھے جو مکہ والوں نے آپ پر اور آپ کی جماعت پر کئے.کتنے خون تھے جو آپ کے رشتہ داروں اور آپ کے اتباع کے ان لوگوں نے بہائے.شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم سر سے لے کر پیر تک گواہ تھا ان مظالم کا جو آپ کے دشمنوں نے آپ کے خلاف روار کھے کیونکہ کبھی آپ پر سنگباری کی گئی ،کبھی آپ پر تیراندازی کی گئی ،کبھی آپ کے جسم کو اور ذرائع سے تکلیف پہنچانے کی کوشش کی گئی ، وطن سے آپ کو بے وطن ہونا پڑا اور آپ کے صحابہ کو بھی.پھر ماؤں نے بچوں کو چھوڑ دیا، خاوندوں نے بیویوں کو چھوڑ دیا، بھائیوں نے بھائیوں کو چھوڑ دیا اور مسلمان ایک مقہور اور متروک جماعت ہو کر رہ گئے.غریب اور کمزور مردوں کو دو اونٹوں سے باندھ کر اور کی متضاد جہتوں کی طرف چلا کر چیر دیا گیا.عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر انہیں مار دیا.غلاموں کو ننگا کر کے سخت پتھروں پر سے گھسیٹا.جلتی ہوئی ریت پر لٹا کر اُن کے سینوں پر ظالم کو دے اور اصرار کیا کہ تم کہو خدا ایک نہیں بلکہ بت بھی خدا کے شریک ہیں.جنگ میں مسلمان شہداء کی لاشیں چیر کر اُن کے جگر اور دل نکال کر باہر پھینک دیئے گئے.اُن کے ناک اور کان کاٹ دیئے گئے.غرض زندوں اور مُردوں، مردوں اور عورتوں ، جوانوں اور بوڑھوں ہر ایک کو دُکھ دیا گیا.ہر ایک کی تذلیل کی گئی ، ہر ایک کے ساتھ خلاف انسانیت مظالم کا ارتکاب کیا گیا.یہ سب کچھ ہوا مگر جب خدا تعالیٰ کی نصرت نے آخر مسلمانوں کو فتح دی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک فاتح کی حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ نے اپنے دشمنوں کے سامنے صرف یہ اعلان کیا کہ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ ١٣ جب ہمیں خدا نے قوت اور طاقت دی ہے ہم اعلان کرتے ہیں کہ مکہ کے تمام لوگوں کو معاف کیا جاتا ہے اور اُن کے مظالم کی اُنہیں کی کوئی سزا نہیں دی جائے گی.یہی نہیں کہ اُن کو سزا نہیں دی گئی بلکہ اُن کے جذبات کا اتنا احترام کیا گیا کہ جب اسلامی لشکر مکہ میں داخل ہونے کے لئے بڑھ رہا تھا تو ایک اسلامی جرنیل نے یہ کہہ دیا کہ آج ہم زور سے مکہ میں داخل ہوں گے اور اُن مظالم کا بدلہ لیں گے جو مکہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ پر کئے تھے.اس پر آپ نے اُس جرنیل کو معزول

Page 166

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۴ دیباچہ تفسیر القرآن کر دیا اور فرمایا ان باتوں سے مکہ والوں کی دل شکنی ہوتی ہے.کیا مسیح کی زندگی میں کوئی بھی ایسا کی واقعہ ہے؟ کیا مسیح کے حواریوں کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ کیا ساری مسیحی تاریخ میں کوئی ایسا واقعہ ہے؟ عیسائی بھی شروع میں مظلوم تھے.عیسائی بھی شروع میں مغلوب تھے.مگر جب اُنہیں حکومت ملی کیا اُنہوں نے اپنے دشمنوں اور اپنے مخالفوں کے ساتھ نرمی اور رحم کا برتاؤ کیا؟ روما کی تاریخ نکال کر دیکھو اُس کے اوراق اُن مظالم کی یاد سے سرخ ہو رہے ہیں جو عیسائیوں نے فتح اور غلبہ کے وقت اپنے دشمنوں پر ڈھائے.پھر مسیح سلامتی کا شہزادہ کس طرح کی ہوا ؟ اُسے تو کسی کو سلامتی دینے کی توفیق ہی نہیں ملی.جب اُس کے اتباع کو تو فیق ملی تو اُنہوں نے سلامتی نہیں دی انہوں نے ہلاکت دی.اُنہوں نے تباہی دی، انہوں نے بربادی دی مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ نے فتح اور غلبہ بخشا اور آپ نے اُن کی وسیع مظالم کے باوجود جن کے مقابلہ میں وہ مظالم جو یہود نے مسیح پر کئے تھے بالکل زرد اور بے حقیقت ہو جاتے ہیں رحم و عفو اور چشم پوشی سے کام لیا.پس آپ ہی سلامتی کے شہزادے تھے اور آپ ہی یسعیاہ کی پیشگوئی کے مصداق تھے.ساتو میں علامت اُس موعود کی سیکھی ہے کہ :.اُس کی سلطنت کے اقبال اور سلامتی کی کچھ انتہاء نہ ہو گی.میں بتا چکا ہوں کہ مسیح کو تو حکومت ملی ہی نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے جن کو حکومت ملی اور جن کے صحابہ کی زندگیوں میں ہی ساری دنیا پر اسلام قابض ہو گیا اور اس انصاف کے ساتھ انہوں نے حکومت کی کہ نہیں کہہ سکتے اُن کا اقبال بڑا تھا یا اُن کی سلامتی بڑی تھی.آٹھویں علامت یہ کھی ہے کہ: وہ داؤد کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بند و بست کر ے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا.مسیح ، داؤد کے تخت پر کب بیٹھے تھے ؟ شاید کہا جائے کہ اُن کی بعثت کے تین سو سال کے بعد جب رومن حکومت عیسائیت میں داخل ہو گئی تو مسیح کو داؤد کے تخت پر حکومت مل گئی.لیکن یہ معنی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ وہاں تو لکھا ہے کہ اُسے وہ حکومت ابد تک ملے گی لیکن مسیح کی

Page 167

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۵ دیباچہ تفسیر القرآن حکومت تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ختم ہو گئی اور مسلمانوں کا قبضہ اُس ملک پر ہو گیا.چنانچہ تیرہ سو سال سے مسلمان اس ملک پر قابض ہیں.کیا تین سو سال کی حکومت ابد کہلائے گی یا تیرہ سو سال والی حکومت ابد کہلائے گی؟ یہ صاف بات ہے کہ تیرہ سو سال والی حکومت ہی ابد کہلائے گی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس وقت انگریزی حکومت جو عیسائی حکومت ہے اس ملک پر قابض ہے.لیکن خدا کی قدرت ہے کہ انگریزوں کو اس ملک پر بادشاہ ہونے کے لحاظ سے حکومت حاصل نہیں بلکہ مند بیٹری پاور MANDATORY POWER) ہونے کے لحاظ سے تصرف حاصل ہے اور عارضی طور پر تھوڑی مدت کے لئے کسی کا درمیان میں آجانا یہ پیشگوئی کے خلاف ہوتا بھی نہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بادشاہت کیسی عدالت اور انصاف والی تھی ، اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں عارضی طور پر اسلامی لشکر رومی لشکر کی کثرت اور اس کے دباؤ کی وجہ سے پیچھے ہٹا اور مسلمانوں نے بیت المقدس اور اُس کے اردگرد کے علاقوں والوں کو بلا کر اُن کے ٹیکس یہ کہتے ہوئے ی واپس کئے کہ ٹیکس امن اور حفاظت کی غرض سے ہوتے ہیں چونکہ ہم لوگ اس ملک کو اب چھوڑ رہے ہیں اور ہم آپ کو نہ امن دے سکتے ہیں نہ آپ کی حفاظت کر سکتے ہیں اس لئے آپ کا روپیہ آپ کو واپس کیا جاتا ہے ہمارا اس روپیہ پر کوئی حق نہیں تو تاریخیں بتاتی ہیں کہ اس بات کو سن کر یروشلم کے باشندے ایسے متاثر ہوئے کہ باوجود اس کے کہ اُن کے ہم مذہبوں کی فوجیں آگے بڑھ رہی تھیں اور اُن کے مذہب کے مخالف لوگ اُن کے ملک کو خالی کر رہے تھے یروشلم کے باشندے روتے ہوئے شہر سے باہر اسلامی لشکر کو چھوڑنے کے لئے آئے اور ساتھ دعائیں کرتے جاتے تھے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کو جلد واپس لائے کہ ہم نے آپ جیسا انصاف اس کی سے پہلے کبھی نہیں دیکھا.اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہو گا اس بات کا کہ وہ داؤد کے تخت پر اور اُس کی مملکت پر آج سے لے کر ابد تک بند و بست کرے گا اور عدالت اور صداقت سے اُسے قیام بخشے گا.(ھ) اِسی طرح لکھا ہے:.و, اور خداوند اپنے تئیں مصریوں پر ظاہر کرے گا اور اس دن مصری خدا وند کو

Page 168

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۶ دیباچهتفسیر القرآن پہچانیں گے اور ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے.ہاں وے خداوند کے لئے منتیں مانیں گے اور ادا کریں گے خدا وند تو مصریوں کو بہت دن تک مارا کرے گا، لیکن وہ انہیں چنگا بھی کرے گا اور وے خداوند کی طرف رجوع ہوں گے اور وہ اُن کی دعا سنے گا اور انہیں صحت بخشے گا.اُس روز سے مصر سے اسور تک ایک شاہراہ ہوگی اور اسوری مصر میں آویں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسوریوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے اُس روز اسرائیل مصر اور اسور کا میراث ہو گا اور زمین کے درمیان برکت کا باعث ٹھہرے گا کہ ربُ الافواج اُسے برکت بخشے گا اور فرماوے گا.مبارک ہو مصر میری اُمت.اسور میرے ہاتھ کی صنعت اور اسرائیل میری میراث‘ - ۱۶۴ اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے آپ کو مصریوں پر ظاہر کرے گا اور مصری خدا تعالیٰ کو پہچانیں گے اور وہ ذبیحے اور ہدیے گزاریں گے اور مصر اور شام آپس میں ملا دیئے جائیں گے.شامی مصر میں آجائیں گے اور مصری شام میں جائیں گے اور مصری شامیوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے.یہ پیشگوئی بھی بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ کچھ عرصہ کے لئے مصری عیسائی ہو گئے تھے لیکن وہ نہایت ہی قلیل عرصہ تھا.اس کے بعد تیرہ سو سال سے مصر مسلمان چلا آتا ہے.یسعیاہ کی زبان سے خدا کہتا ہے ” مبارک ہو مصر میری اُمت.مصریوں سے پوچھو کہ وہ کس کی امت ہیں ؟ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یا مسیح کی ؟ پھر لکھا ہے ”مبارک ہوا سور میرے ہاتھ کی صنعت‘.اسوریوں سے بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ وہ آیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں یا مسیح کی اُمت؟ پھر لکھا ہے ” مبارک ہوا سرا ئیل میری میراث“.اِن علاقوں میں جا کر دیکھ لو اسرائیل کا علاقہ فلسطین کس کی میراث ہے؟ اس وقت زور دے کر وہاں یہود کو داخل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر یہودی تو مسیح کی اُمت نہیں.اس پیشگوئی کو تو مسیح پر چسپاں کیا جا رہا ہے اور مسیحی اب بھی وہاں قلیل ہیں اور مسلمان اب بھی زیادہ ہیں.اگر یہودی اس ملک پر قابض بھی ہو گئے تو یہ کہا جائے گا کہ عارضی طور پر مسلمانوں کے غلبہ میں اختلال

Page 169

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن واقع ہو گیا، مسیح کو تو پھر بھی کچھ فائدہ نہیں ہونے کا.خواہ مسلمان فلسطین پر حاکم رہیں خواہ یہودی، مسیح کا دامن تو خالی ہی رہتا ہے اور وہ اس پیشگوئی کا مستحق کسی صورت میں بھی نہیں ٹھہرتا.پھر اس پیشگوئی میں لکھا تھا کہ اسور اور مصر تک ایک شاہراہ ہو گی یعنی یہ ملک آپس میں مل جائیں گے.اسوری مصر میں آئیں گے اور مصری اسور کو جائیں گے اور مصری اسور یوں کے ساتھ مل کر عبادت کریں گے.کیا یہ مسیح کے ذریعہ سے ہوا؟ عیسائی بے شک مصر پر قابض ہوئے اور اسور پر بھی قابض ہوئے اور ان ملکوں کی کثرت ایک وقت میں عیسائی بھی ہو گئی.لیکن کیا کبھی بھی وہ زمانہ آیا ہے جب مذکورہ بالا آیتوں کا مضمون مصر اور ا سور کی حالت پر صادق آیا ہو؟ ان آیتوں سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں ملکوں کی قومیت ایک ہو جائے گی اور اُن کی زبان ایک ہو جائے گی.مل کر عبادت کرنے کے بھی یہی معنی ہیں اور ایک دوسرے کے ملک میں آنے جانے کا بھی یہی مطلب ہے.ورنہ ہر ملک کے لوگ دوسرے ملک میں آیا جایا ہی کرتے ہیں.پیشگوئی کا مفہوم یہی ہے کہ وہ اتنے متحد ہو جائیں گے کہ اُن کی ایک قوم ہو جائے گی.مگر دنیا جانتی ہے کہ عیسائی حکومت کے زمانہ میں کبھی بھی مصرا اور اسور ایک نہیں ہوئے.روم کے ماتحت بے شک یہ دونوں ملک تھے لیکن ہمیشہ مصر کا انتظام اور رنگ کا رہا اور اسور کا انتظام اور رنگ کا رہا.مصر میں ایک نیم آزاد بادشاہ حکومت کرتا تھا اور اسور میں ایک گورنر رہتا تھا.بلکہ مصر کا کلیسیا اسور کے کلیسیا سے بالکل مختلف تھا.مصر میں عیسائیت نے اسکندریہ کے گر جا کے ماتحت ایک نئی شکل اختیار کر لی تھی اور وہ فلسطین اور شامی گر جا کی شکل سے بالکل مختلف تھی.پھر مصریوں کی عبادت قبطی زبان میں ہوتی تھی اور شامیوں کی عبادت بگڑی ہوئی مخلوط عبرانی اور یونانی زبان میں.ہاں اسلامی زمانہ میں یہ پیشگوئی حرف بحرف پوری ہوئی.صدیوں تک ی شام اور مصر ایک حکومت رہے دونوں ملکوں کی زبان ایک ہو گئی اور اب تک ایک ہے.جس کی تی وجہ سے دونوں کی عبادت اکٹھی ہوتی تھی اور اکٹھی ہوتی ہے.دونوں ملکوں میں ایک قوم ہونے کا احساس پیدا ہو گیا.شامی علماء مصر میں جاتے تھے اور وہ مصری علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے اور مصری علما ء شام میں آتے تھے اور وہ شامی علماء کی طرح ہی معزز گنے جاتے تھے.اس زمانہ میں بھی کہ یورپین سیاست نے اسلامی ممالک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے عرب لیگ میں

Page 170

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۸ دیباچہ تفسیر القرآن مصر، شام اور فلسطین دوش بدوش مل کر کام کر رہے ہیں.پس یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ یہ وسلم کے ذریعہ سے پوری ہوئی اور یہ پیشگوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی قوم کے متعلق ہی تھی.مسیح اور کلیسیا کی طرف اس کو منسوب کرنا صریح ظلم.علیہ و ( و) پھر یسعیاہ میں لکھا ہے:.تو ایک نئے نام سے کہلایا جائے گا جو خداوند کا منہ تجھے رکھ دے گا “.۱۶۵ اسی طرح یسعیاہ باب ۶۵ میں لکھا ہے:.اور تم اپنا نام اپنے پیچھے چھوڑو گے جو میرے برگزیدوں پر لعنت کا باعث ہوگا کیونکہ خداوند یہوواہ تم کو قتل کرے گا اور اپنے بندوں کو دوسرے نام سے بلائے گا.۱۶۶ اس پیشگوئی میں بتایا گیا ہے کہ آئندہ ایک نیا سلسلہ ایک نئے نام سے جاری کیا جائے گا اور اُس نئے نام کو یہ خصوصیت حاصل ہوگی کہ وہ نیا نام اس سلسلہ کے لوگ خود نہیں رکھیں گے بلکہ خدا تعالیٰ اپنے منہ سے اُن کا وہ نام تجویز کرے گا.اس پیشگوئی کو بھی بائبل نویسوں نے کلیسیا پر لگایا ہے حالانکہ مسیحیوں کو کوئی نام خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں ملا.ہاں اپنے طور پر مختلف مسیحی فرقوں نے اپنے اپنے نام رکھ لئے ہیں.ساری دنیا میں صرف ایک ہی قوم جس کو خد تعالیٰ کی طرف سے نام ملا ہے اور وہ مسلمان ہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُو سمكُمُ الْمُسْلِمِينَ : مِن قَبْلُ وَ في هذا - ١٦، خدا تعالیٰ نے ہی تم لوگوں کا نام رکھا ہے پہلے انبیاء کی پیشگوئیوں میں بھی اور اب اس قرآن کریم کے ذریعہ سے بھی.دیکھو کس طرح یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کی طرف صاف اشارہ کیا گیا ہے کہ ہم نے پہلے سے ہی بتا دیا تھا کہ ہم تمہارا نام خود رکھیں گے.چنانچہ اب ہم نے خود سلامتی کے شہزادہ کی پیشگوئی کے مطابق تمہارا نام مسلم رکھا ہے.یہ پیشگوئی نہایت ہی عجیب اور لطیف ہے.تمام دنیا کی تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ کسی نبی نے اس بات کا دعویٰ نہیں کیا کہ اُس کی جماعت کا نام الہامی طور پر خدا تعالیٰ نے رکھا ہے.لیکن یسعیاہ کہتا ہے کہ پہلے دستوروں کے خلاف ایک نبی آئے گا کہ اللہ تعالیٰ اس کی جماعت کا نام خاص الہام سے رکھے گا.گا.

Page 171

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۵۹ دیباچہ تفسیر القرآن چنا نچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پیشگوئی کے مصداق ہونے کا دعوی کرتے ہیں اور اعلان فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے میری اُمت کا نام مسلم اور میرے مذہب کا نام اسلام رکھا ہے.چھٹی پیشگوئی شگرک دانیال نبی کی کتاب کے دوسرے باب میں ایک خواب لکھی ہے جو نبو کد نضر ی پیسوں بادشاہ نے دیکھی تھی.لیکن وہ اُسے دیکھنے کے بعد بھول گیا.تب اُس نے اپنے وقت کے حکیموں سے خواب اور اُس کی تعبیر دریافت کی.باقی لوگ تو نہ بتا سکے دانیال نے خدا تعالیٰ سے دعا کر کے وہ خواب معلوم کر لی اور بادشاہ کے سامنے بیان کی وہ خواب ی تھی.و تو نے اے بادشاہ ! نظر کی تھی اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی.وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اُس کی صورت ہیبت ناک تھی.اُس مورت کا سر خالص سونے کا تھا.اُس کا سینہ اور اُس کے باز و چاندی کے.اُس کا شکم اور را نہیں تابنے کی تھیں.اُس کی ٹانگیں لوہے کی اور اُس کے پاؤں کچھ لوہے کے اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اُسے دیکھتا رہا یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اس شکل کے پاؤں پر جولو ہے اور مٹی کے تھے لگا اور اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا.تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہوئے اور ہوا انہیں اُڑالے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا.۱۶۸ اس کی تعبیر دانیال نبی نے جو کی وہ یہ ہے:.تو اے بادشاہ ! بادشاہوں کا بادشاہ ہے اس لئے کہ آسمان کے خدا نے تجھے ایک بادشاہت اور توانائی اور قوت اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اُس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کر دیئے اور تجھے اُن سبھوں کا حاکم کیا.تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت بر پا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہو گی اور اُس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو

Page 172

انوار العلوم جلد ۲۰ 17.دیباچہ تفسیر القرآن تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہوگی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے ہاں لوہے کی طرح سے جوسب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اُس ہی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی اور کچل ڈالے گی اور جو کہ تو نے دیکھا کہ اُس کے پاؤں اور اُنگلیاں کچھ تو کمہار کی ماٹی کی اور کچھ لوہے کی تھیں تو اس سلطنت میں تفرقہ ہوگا.مگر جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ اس میں لوہا گلا دے ۱۲۹ سے ملا ہوا تھا.سولو ہے کی توانائی اُس میں ہوگی اور جیسا کہ پاؤں کی اُنگلیاں کچھ لوہے کی اور کچھ مائی کی تھیں سو وہ سلطنت کچھ قوی کچھ ضعیف ہوگی اور جیسا تو نے دیکھا کہ لوہا گلا وے سے ملا ہوا ہے وے اپنے انسان کی نسل سے ملاویں گے لیکن جیسا لوہا مٹی سے میل نہیں کھاتا تیسا وے باہم میں نہ کھاویں گے اور اُن بادشاہوں کے ایام میں آسمان کا خدا ایک سلطنت بر پا کرے گا جو تا ابد نیست نہ ہو دے گی اور وہ سلطنت دوسری قوم کے قبضہ میں نہ پڑے گی وہ اُن سب مملکتوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور نیست کرے گی اور وہی تا ابد قائم رہے گی جیسا کہ تُو نے دیکھا کہ وہ پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے اُس کو پہاڑ سے کاٹ نکالے آپ سے آپ نکلا اور اُس نے لو ہے اور تانبے اور مٹی اور چاندی اور سونے کو ٹکڑے ٹکڑے کیا.خدا تعالیٰ نے بادشاہ کو وہ کچھ دکھایا جو آگے کو ہونے والا ہے اور یہ خواب یقینی ہے اور اُس کی تعبیر یقینی کا اس تعبیر میں خود حضرت دانیال نے سونے کے سر سے بابل کا بادشاہ مرا دلیا ہے.چاندی کے سینہ اور چاندی کے بازو سے مراد فارس اور مادہ کی حکومت تھی جو بابل کی بادشاہت کے بعد آئی.تانبے کی رانوں سے مراد سکندر کی حکومت تھی جو اُس کے بعد دنیا پر غالب ہوا.اور لو ہے کی ٹانگوں سے مراد روما کی حکومت تھی جو ایرانی حکومت کے تنزل کے وقت دنیا میں طاقتور ہوئی.اس آخری حکومت کے متعلق لکھا ہے اُس کے پاؤں کچھ لو ہے اور کچھ مٹی کے تھے.جس کی تعبیر یہ تھی کہ یہ حکومت ایشیا سے یورپ میں پھیل جائے گی.لوہے کی ٹانگوں سے مراد یوروپین حکومت ہے کہ وہ بوجہ ایک قوم اور ایک مذہب ہونے کے زیادہ مضبوط تھی لیکن پاؤں.

Page 173

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶۱ دیباچہ تفسیر القرآن مٹی اور لوہے کے مشترک بنے ہوئے تھے.لیکن وہ یورپین قوم بعض مشرقی اقوام کو فتح کر کے ایک شہنشاہیت کی صورت اختیار کرلے گی اور جیسا کہ شہنشاہیوں کا قاعدہ ہے وہ اپنی وسعت اور سامانوں کی فراہمی کے لحاظ سے قوی ہوتی ہیں لیکن غیر قوموں کے اشتراک کی وجہ سے اُن میں ضعف بھی پیدا ہو جاتا ہے وہ حکومت اپنے آخری زمانہ میں بوجہ غیر قوموں کی شمولیت کے کمزوری کی طرف مائل ہو جائے گی.اس کے بعد لکھا ہے:.ایک پتھر بغیر اس کے کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے آپ سے آپ نکلا جو اُس شکل کے پاؤں پر جو لو ہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کے مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑا لے گئی یہاں تک کہ اُن کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اُس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا.ان الفاظ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کی خبر دی گئی ہے.آپ کی جماعت کا ٹکراؤ پہلے قیصر روما سے اور پھر ایران کی حکومت سے ہوا.اور جب قیصر روما سے آپ کی کی جماعت کا ٹکراؤ ہوا اُس وقت وہ سکندر کی وراثت پر بھی قابض تھا اور روما کی وراثت کا بھی وارث تھا اور جب آپ کا ٹکراؤ ایرانی حکومت سے ہوا تو وہ بابل اور فارس اور میدیا دونوں حکومتوں کی قائمقام تھی.جب آپ کے صحابہ سے ٹکرانے کی وجہ سے یہ دونوں حکومتیں تباہ ہوئیں تو دانیال کے قول کے مطابق لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہو گئے.خواب کی ترتیب اور دانیال کی کی ہوئی تعبیر دونوں ہی اس مضمون کی تائید کرتی ہیں.اس میں کیا شبہ ہے کہ بابل کی جگہ فارس اور میدیا نے لی اور فارس اور میدیا کا زور سکندر نے توڑا اور سکندر کی حکومت کو رومی حکومت کھا گئی جس نے اپنے مشرقی مرکز میں بیٹھ کر ایک زبر دست یورپین ایشیائی شہنشاہیت قائم کی.اس شہنشاہیت کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے ہی تو ڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خود ایک لشکر لے کر قیصر کی سرحدوں کی طرف تشریف لے گئے تھے لیکن یہ معلوم کر کے کہ قیصر کی فوجوں کی عرب پر حملہ آور ہونے کی خبر قبل از وقت تھی واپس تشریف لے آئے.مگر اس کے بعد رومی حکومت

Page 174

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶۲ دیباچہ تفسیر القرآن کی سرحدوں سے برابر چھیڑ چھاڑ جاری رہی جس کے نتیجہ میں خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر تیار کر کے اس طرف بھجوایا اور آخر حضرت ابوبکر کے زمانے میں رومیوں اور مسلمانوں میں با قاعدہ لڑائی چھڑ گئی اور حضرت عمر کے زمانہ میں ایران اس لڑائی میں شامل ہو گیا اور آپ کی زندگی میں ہی دونوں حکومتیں تباہ اور برباد ہو گئیں اور دُور سرحدوں پر چھوٹی چھوٹی ریاستیں بن کر رہ گئیں.اس پتھر کے متعلق یسعیاہ اور مستی میں بھی خبر یں دی گئی ہیں.چنانچہ یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۴ میں ایک آنے والے موعود کے متعلق لکھا ہے:.وہ تمہارے لئے ایک مقدس ہو گا پر اسرائیل کے دونوں گھرانوں کے لئے ٹکر کا پتھر اور ٹھوکر کھانے کی چٹان.“ پھر آیت ۱۵ میں لکھا ہے :.بہت سے لوگ اُن سے ٹھو کر کھائیں گے اور گریں گے اور ٹوٹ جائیں گے.“ اور متی باب ۲۱ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ موعود جسے پتھر کہا گیا ہے مسیح نہیں بلکہ مسیح کے بعد آنے والا دوسراشخص ہے:.اور آیت ۴۴ میں اس کی یہ شان بیان کی گئی ہے کہ:.جو اس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا پر جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا“.اسی طرح زبور باب ۱۱۸ آیت ۴۲ میں لکھا ہے: وہ پتھر جسے معماروں نے رڈ کیا کونے کا سرا ہو گیا.متی باب ۲۱ میں بھی اس پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور لکھا ہے: یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے ناپسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا“.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے اس پیشگوئی کے متعلق خود حضرت مسیح کا فیصلہ ہے کہ یہ پیشگوئی اُن پر صادق نہیں آتی بلکہ اس وجود پر صادق آتی ہے جو بیٹے کے صلیب پر لٹکا دینے کے بعد ظاہر ہو گا.عیسائی لوگ اپنی خوش فہمی سے اس سے مراد کلیسیا لیتے ہیں حالانکہ کلیسیا اِس پیشگوئی سے مراد ہو ہی نہیں سکتا.کیونکہ دانیال نبی کی خواب میں رومی حکومت جو کلیسیا کی نمائندہ تھی تانبے کی

Page 175

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن را نہیں اور لوہے کے پاؤں قرار دی گئی ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ یہ پتھر بت کے پاؤں پر گرے گا یعنی مشرقی رومی حکومت کے آخری حصہ سے اس کا ٹکراؤ ہوگا اور وہ رومی حکومت یعنی کلیسیا کی نمائندہ حکومت کو تو ڑ دے گا.پس اس پیشگوئی سے مراد کلیسیا کسی صورت میں نہیں ہو سکتا.مسیح تو مشرقی رومی حکومت سے پہلے آیا تھا اور کلیسیا کا رومی حکومت کو توڑنا کیا معنی ! رومی حکومت تو اس کی کی نمائندہ تھی جس نے رومی حکومت کو توڑا وہی اس پتھر والی پیشگوئی کا موعود تھا.پس یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کے سوا اور کسی کے ذریعہ سے پوری نہیں ہوئی.پھر جیسا کہ پیشگوئی میں بتایا گیا تھا کہ وہ پتھر تمام دنیا میں پھیل جائے گا اور پہاڑ کی طرح بنی جائے گا ویسا ہی ہوا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نے قیصر و کسرای کو شکست دی تو تمام دنیا پر اسلامی حکومت پھیل گئی اور وہ چھوٹا سا پتھر ایک پہاڑ بن کر دنیا پر چھا گیا اور ایک ہزار سال تک دنیا کی قسمت کا فیصلہ مسلمانوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا.

Page 176

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶۴ دیباچہ تفسیر القرآن انجیل کی پیشنگوئیاں انگورستان کی تمثیل کی پیشگوئی (الف) متی باب ۲۱ میں حضرت منع فرماتے میں حضر ہیں:.یہ ایک اور تمثیل سنو.ایک گھر کا مالک تھا جس نے انگورستان لگایا اور اس کے چاروں طرف روندھا اور اُس کے بیچ میں کھود کے کولہو گا ڑا اور بُرج بنایا اور باغبانوں کوسونپ کے آپ پردیس گیا اور جب میوہ کا موسم قریب آیا اُس نے اپنے نوکروں کو باغبانوں کے پاس بھیجا کہ اُس کا پھل لائیں.پر اُن باغبانوں نے اُس کے نوکروں کو پکڑ کے ایک کو پیٹا اور ایک کو مارڈالا اور ایک کو پتھراؤ کیا.پھر اُس نے اور نوکروں کو جو پہلوں سے بڑھ کر تھے بھیجا.اُنہوں نے اُن کے ساتھ بھی ویسا ہی کیا آخر اُس نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر بھیجا کہ وے میرے بیٹے سے دیں گے لیکن باغبانوں نے بیٹے کو دیکھا تو آپس میں کہنے لگے کہ وارث یہی ہے آؤ اسے مار ڈالیں کہ اس کی میراث ہماری ہو جائے اور اُسے پکڑ کے اور انگورستان کے باہر لے جا کر قتل کیا.جب انگورستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا ؟ وے اسے بولے ان بدوں کو بُری طرح مار ڈالے گا اور انگورستان کو اور باغبانوں کو سونپے گا جو اُسے موسم پر میوہ پہنچادیں.یسوع نے اُنہیں کہا کیا تم نے نوشتوں میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو راجگیروں نے نا پسند کیا وہی کونے کا سرا ہوا.یہ خداوند کی طرف سے ہے اور ہماری نظروں میں عجیب.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہت تم سے لے لی جائے گی اور ایک قوم کو جو اس کا میوہ لاوے دی جائے گی.جو اُس پتھر پر گرے گا چور ہو جائے گا.جس پر وہ گرے گا اُسے پیس ڈالے گا.جب سردار کاہنوں اور فریسیوں نے اُس کی یہ تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے ہی حق میں کہتا ہے اور اُنہوں

Page 177

انوار العلوم جلد ۲۰ ܬܪܙ دیباچ تفسیر القرآن نے چاہا کہ اُسے پکڑ لیں پر عوام سے ڈرے کیونکہ وےاُسے نبی جانتے تھے.اکل اس پیشگوئی کا پہلے بھی اشارہ ذکر آتا رہا ہے.یہ تمثیل جو حضرت مسیح نے بیان فرمائی ہے اس میں آپ نے انبیاء کی تاریخ شروع سے لے کر آخر تک تمثیلاً دُہرا دی ہے.جیسا کہ خود انجیل کی عبارت سے ظاہر ہے.تاکستان سے مراد دنیا ہے.باغبانوں سے مراد بنی نوع انسان ہیں اور مالک کے ٹیکس سے مراد نیکی اور تقویٰ اور خدا کی عبادت کرنا ہے.ملازموں سے مراد اللہ تعالیٰ کے انبیاء ہیں جو یکے بعد دیگرے دنیا میں آتے رہے.خدا کے بیٹے سے مراد خود مسیح ہیں جو انبیاء کے ایک لمبے سلسلہ کے بعد دنیا میں ظاہر ہوئے مگر باغبانوں نے اُن کو صلیب پر لٹکا دیا اور اُن کے پیغام کی طرف توجہ نہ کی.اس کے بعد لکھا ہے کہ وہ کونے کا پتھر ظاہر ہوگا جسے راجگیر وں نے نا پسند کیا.یعنی اسمعیل کی اولا د جن کو بنو اسحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے اُن میں ایک نبی ظاہر ہوگا اور اُسی کو خاتم النبیین ہونے کا فخر حاصل ہو گا.اُس کے ذریعہ سے تمام شریعتیں ختم کر دی جائیں گی اور وہ آخری شریعت لانے والا ہوگا.بنو اسرائیل کو یہ بات عجیب معلوم ہوگی مگر جیسا کہ حضرت مسیح کہتے ہیں باوجود بنو اسرائیل کے ناپسند کرنے کے خدا اُس اسماعیلی نبی کو بادشاہت دے گا اور خدا کی بادشاہت بنو اسرائیل سے لے لی جائے گی اور اُس کی جگہ یہ باغ اس دوسری قوم کے سپرد کر دیا جائے گا یعنی اُمتِ محمدیہ کے جو اُس کے میوے لاتی رہے گی یعنی خدا تعالیٰ کی عبادت کو دنیا میں قائم رکھے گی.ہر شخص جو انصاف کے ساتھ غور کرنے کا عادی ہو وہ معلوم کر و سکتا ہے کہ حضرت مسیح کے بعد ظاہر ہونے والے مدعیوں میں سے کوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس پیشگوئی کا مستحق نہیں ہو سکتا.آخر وہ کون تھا جس سے عیسائیت اور یہودیت ٹکرائی اور پاش پاش ہو گئی ؟ وہ کون تھا جو اس قوم کے ساتھ تعلق رکھتا تھا جسے بنوا سحاق حقارت کی نگاہ سے دیکھتے چلے آئے تھے؟ وہ کون تھا جس پر وہ گرا اُسے اُس نے چور چور کر دیا اور جو اُس پر گرا وہ بھی چور چور ہو گیا.یقیناً رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اس پیشگوئی کا مصداق اور کوئی نہیں.

Page 178

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶۶ دیباچہ تفسیر القرآن (ب) متی باب ۲۳ آیت ۳۸ ، ۳۹ میں لکھا ہے:.دیکھو تمہارا گھر تمہارے لئے ویران چھوڑا جاتا ہے کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.جب تک کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح اپنی قوم سے عنقریب جدا ہونے والے ہیں اور ان کی قوم پھر انہیں نہ دیکھ سکے گی جب تک وہ یہ نہ کہے گی کہ مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.اس عبارت سے ظاہر ہے کہ مسیح کے چلے جانے کے بعد دو الہی مظہر ظاہر ہونے والے ہیں.ایک الہی ظہور، میسیج کے غائب ہو جانے کے بعد ہو گا اور وہ خدا تعالیٰ کا ظہور کہلائے گا.اس ظہور کے بعد دوبارہ مسیح ظاہر ہوگا.لیکن جب تک خدا تعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والا مظہر پیدا نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح دوبارہ دنیا میں نہیں آسکتا اور لوگ اُسے نہیں دیکھ سکتے.میں پہلے یہ ثابت کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے نام پر ظاہر ہونے والے مظہر سے مراد مثیل موسیٰ ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مثیل موسیٰ تھے.واقعاتی شہادت کی رو سے بھی اور خود مسیح کی شہادت کی رو سے بھی.پس ”مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے سے مرا د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہے اور اس پیشگوئی میں خبر دی گئی ہے کہ مسیح روحانی ارتقاء کا آخری نقطہ نہیں بلکہ آخری نقطہ وہ ہے جو خدا وند کے نام پر آئے گا.اگر یہ کہا جائے کہ خداوند کے نام پر آنے والے مظہر کے بعد پھر مسیح کو دوبارہ آنا ہے اس لئے مسیح ہی روحانیت کا آخری نقطہ قرار پائے گا.تو اس کا جواب خود حضرت مسیح نے ہی دے دیا ہے.وہ فرماتے ہیں.اب سے تم مجھے پھر نہ دیکھو گے جب تک کہ کہو گے مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے.یعنی مسیح کو دوبارہ دیکھنا اُسی کے لئے ممکن ہو گا جو مثیل موسیٰ پر ایمان لا چکا ہو گا.مثیل موسیٰ کا منکر مسیح کو نہیں دیکھ سکے گا یعنی اس کو پہچان نہیں سکے گا.جس سے صاف معلوم ہوتا کی ہے کہ مسیح اپنی دوبارہ آمد کے وقت مثیل موسیٰ کے اتباع میں سے ہوگا.پس وہی شخص مسیح پر ایمان لائے گا جو پہلے اُس کے متبوع پر ایمان لا چکا ہو گا.پس آنے والا مسیح کوئی علیحدہ وجود نہیں بلکہ مثیل موسیٰ کا ہی ظل اور اس کا بروز ہے اس لئے روحانی منازل کا آخری ارتقائی نقطہ مثیل موسیٰ چھ

Page 179

انوار العلوم جلد ۲۰ ہی ہے اور کوئی نہیں.( ج ) انجیل میں لکھا ہے کہ:.دیباچ تفسیر القرآن یوحنا کے پاس لوگ آئے اور اُس سے پوچھا کہ کیا وہ صحیح ہے؟ تو اس نے کہا میں مسیح نہیں ہوں.تب انہوں نے اُس سے پوچھا تو اور کون؟ کیا تو الیاس ہے؟ اُس نے کہا میں نہیں ہوں.پھر انہوں نے اُس سے پوچھا آیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں.‘۲۰ کے پھر آگے چل کر لکھا ہے :.انہوں نے اُس سے سوال کیا اور کہا کہ اگر تو نہ مسیح ہے نہ الیاس اور نہ وہ نبی.پس کیوں بپتسمہ دیتا ہے.۱۷۳ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسیح کے وقت یہود میں تین بشارتیں مشہور تھیں.اول: الیاس دوبارہ دنیا میں آنے والا ہے.دوم: مسیح پیدا ہونے والا ہے.سوم: وہ نبی یعنی موسیٰ کا موعود نبی آنے والا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تین وجود الگ الگ سمجھے جاتے تھے.الیاس الگ وجود تھا.مسیح الگ وجود تھا اور وہ نبی الگ وجود تھا.وو حضرت مسیح فرما چکے ہیں کہ یوحنا الیاس ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.الیاس جو آنے والا تھا یہی ہے چا ہو تو قبول کرو ۴ کا اور لوقا باب ۱ آیت ۱۷ سے بھی پتہ لگتا ہے کہ حضرت یوحنا کی پیدائش سے پہلے اُن کے والد حضرت زکریا سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا وہ اس سے آگے الیاس کی طبیعت اور قوت کے ساتھ چلے گا.پھر مرقس باب ۹ آیت ۱۳ میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح نے فرمایا :.میں تم سے کہتا ہوں الیاس تو آچکا.پھر متی باب ۱۷ آیت ۱۲ میں لکھا ہے:.پر میں تم سے کہتا ہوں کہ الیاس تو آچکا.لیکن انہوں نے اُس کو نہیں پہچانا.

Page 180

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶۸ دیباچہ تفسیر القرآن بلکہ جو چاہا اُس کے ساتھ کیا“.ان تمام حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الیاس سے مراد انا جیل کی تعلیم کے مطابق یوحنا تھے.مسیح کے متعلق تو فیصلہ ہی ہے کہ عہد نامہ جدید والا نبی یسوع ابن مریم ہی مسیح کے نام سے خدا تعالیٰ کی طرف سے دنیا میں ظاہر ہوا.اب رہ گیا وہ نبی نہ یوحنا وہ نبی ہو سکتا ہے نہ مسیح وہ نبی ہوسکتا ہے.کیونکہ وہ نبی ایک علیحدہ وجود ہے.پھر یہ بھی ثابت ہے کہ وہ نبی مسیح کے زمانہ تک نہیں آیا تھا.پس معلوم ہوا کہ وہ موعود جسے بائبل وہ نبی“ کے نام سے یاد کرتی تھی انا جیل کی چی گواہی کے مطابق مسیح ناصری کے بعد نازل ہونے والا تھا اور مسیح ناصری کے بعد سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کوئی شخص نہیں جس نے وہ نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہو اور جس و پر وہ تمام علامتیں صادق آتی ہوں جو وہ نبی میں پائی جانے والی تھیں جیسا کہ او پر ثابت کیا جا چکا ہے.( د ) اسی طرح لوقا میں لکھا ہے:.اور دیکھو میں اپنے باپ کے اُس موعود کوتم پر بھیجتا ہوں لیکن جب تک عالم بالا کی قوت سے ملبس نہ ہوں پیرو فلم میں ظہر و ۵ علی اس پیشگوئی سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے بعد ایک اور موعود ظاہر ہونے والا تھا مگر وہ کون موعود ہے؟ سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آج تک کوئی شخص بھی تو اس پیشگوئی کے پورا کرنے کا مدعی نہیں ہوا.(ھ) یوحنا میں لکھا ہے:.دو لیکن وہ تسلی دینے والا جو روح قدس ہے جسے باپ میرے نام سے بھیجے گا وہی تمہیں سب چیزیں سکھلا دے گا اور سب باتیں جو کچھ کہ میں نے تمہیں کہی ہیں تمہیں یاد دلا دے گا“.۶ کا یہ پیشگوئی بھی سوائے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی پر صادق نہیں آتی.بیشک اس میں یہ لکھا ہے کہ باپ میرے نام سے اُسے بھیجے گا.لیکن نام سے بھیجنے کے یہی معنی ہیں کہ وہ ی میری تصدیق کرے گا.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تصدیق کی

Page 181

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۶۹ دیباچہ تفسیر القرآن کی اور آپ کو راست باز قرار دیا اور اعلان فرمایا کہ جو لوگ آپ کو عنتی کہتے ہیں وہ غلطی پر ہیں.مسیح خدا کا برگزیدہ اور اس کا رسول ہے.اس جگہ پر یہ صاف لکھا گیا ہے کہ ” وہی تمہیں.چیزیں سکھلا دے گا اور استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی میں بھی یہی الفاظ ہیں کہ جو کچھ میں اُسے فرماؤں گا وہ سب ان سے کہے گا ، کلے پس اس پیشگوئی میں استثناء باب ۱۸ والے نبی ہی کی خبر دی گئی ہے اور یہ پیشگوئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہی صادق آتی ہے جیسا کہ او پر لکھا کی جاچکا ہے اور آپ ہی کا وجود دنیا کو تسلی دینے والا تھا.( و ) یوحنا باب ۱۶ میں لکھا ہے:.میں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ تمہارے لئے میرا جانا ہی فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو تسلی دینے والا تم پاس نہ آئے گا.پر اگر میں جاؤں تو میں اُسے تم پاس بھیج دوں گا اور وہ آن کر دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ سے اس لئے کہ وے مجھ پر ایمان نہیں لائے.راستی سے اس لئے کہ میں اپنے باپ پاس جاتا ہوں اور تم مجھے پھر نہ دیکھو گے.عدالت سے اس لئے کہ اس جہان کے سردار پر حکم کیا گیا ہے.میری اور بہت سی باتیں ہیں کہ میں تمہیں کہوں پر اب تم اُن کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی روح حق آوے تو وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتادے گی اِس لئے کہ وہ اپنی نہ کہے گی.لیکن جو کچھ وہ سنے گی سو کہے گی اور تمہیں آئندہ کی خبریں دے گی.وہ میری بزرگی کرے گی اس لئے کہ وہ میری چیزوں سے پاوے گی اور تمہیں دکھاوے گی“.۷۸لے ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح کے اُٹھ جانے یعنی مسیح کی وفات کے بعد وہ تسلی دینے والا موعود ظاہر ہو گا.وہ دنیا کو گناہ سے اور راستی سے اور عدالت سے تقصیر وار ٹھہرائے گا.گناہ کی سے اس طرح کہ وہ یہود کو ملامت کرے گا کہ وہ کیوں مسیح پر ایمان نہیں لائے.راستی سے اس طرح کہ وہ مسیح کی زندگی کا عقیدہ جو غلط طور پر عیسائیوں میں رائج ہو گیا تھا اس کو دور کرے گا اور دنیا پر ثابت کرے گا کہ دنیا پھر اس مسیح کو دوبارہ نہیں دیکھے گی جو بنی اسرائیل میں نازل ہوا تھا.عدالت سے اس طرح کہ اُس کے ذریعہ شیطان کو کچل دیا جائے گا.

Page 182

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۰ دیباچهتفسیر القرآن پھر یہ بھی بتایا گیا تھا کہ وہ روح حق جب آئے گی تو وہ ساری سچائی کی راہیں بتائے گی.اور یہی بتایا گیا تھا کہ اُس کی الہامی کتاب میں کوئی انسانی کلام نہیں ہوگا بلکہ شروع سے لے کر آخر تک خدائی کلام ہی اُس میں ہوگا.پھر یہ بتایا گیا تھا کہ وہ آئندہ کی خبریں دے گا اور یہ بھی کہ وہ مسیح کی بزرگی بیان کرے گا اور جو عیب اُس پر لگائے گئے ہیں اُن کو دور کرے گا.یہ پیشگوئی واضح طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صادق آتی ہے.اس میں کہا گیا ہے کہ جب تک مسیح آسمان پر نہ جائے ، وہ تسلی دلانے والا نہیں آسکتا.اعمال باب ۳ آیت ۲۱ ۲۲۰ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے اور اس کے دوبارہ نازل ہونے کے درمیان استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ کے موعود کو پیدا ہونا ہے پس تسلی دلانے والے سے مراد استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والا موعود ہی ہے.پھر لکھا ہے کہ وہ موعود مسیح کے منکروں کو ملامت کرے گا.اس سے مراد عیسائی تو ہو نہیں سکتے کسی شخص کے متبع تو اُس کے دشمنوں کو ملامت کیا ہی کرتے ہیں.یہ علامت بتا رہی ہے کہ وہ موعود کسی غیر قوم کا ہوگا اور بظا ہر اُس کو مسیح کے ساتھ کوئی نسلی یا ملی تعلق نہیں ہو گا مگر اس کی وجہ سے کہ وہ راستباز ہوگا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوگا غیر قوم میں سے ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے آپ کو راستبازوں کی عزت کا نگران سمجھے گا اور اُن کی عزت کی حفاظت کرے گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسماعیلی نبی تھے.عیسائی یا یہودی نہیں تھے.مگر باوجود اس کے دیکھو کس طرح اُنہوں نے مسیح کی عزت کی حفاظت کی.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں یہود کی نسبت فرماتا ہے.وقَوْلِهِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلكِن شُبِّهَ لَهُمْ، وَ إِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مَا لَهُمْ بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتَّبَاءَ الظَّنِ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينا - بَلْ رَفَعَهُ اللهُ إِلَيْهِ، وَكَانَ اللهُ عَزِيزًا حَكِيمًا - وَإِنْ مَنْ أهْلِ الكتب الاليُؤْمِنَنَّ بِهِ قَبْلَ مَوْتِهِ وَيَوْمَ الْقِيمَةِ يَكُونُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا - فَبِظُلْمٍ مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ طَيِّبت أحلَّتْ لَهُمْ - ١٧٩ یعنی یہود کے کفر کی وجہ سے اور اُن کے حضرت مریم پر نہایت گندہ الزام لگانے کی وجہ سے اور اُن کے اس قول کی وجہ سے کہ ہم نے مسیح ابن مریم کو قتل کر دیا ہے جو اللہ کا رسول تھا حالانکہ

Page 183

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن انہوں نے نہ تو اُس کو تلوار سے مارا اور نہ صلیب پر لٹکا کر مارا.صرف اُن کو ایک شبہ پیدا ہو گیا کہ وہ صلیب پر مر گیا ہے مگر یہ صرف شبہ تھا اُنہیں ایسا یقین نہ تھا.چنانچہ خود اُن کی قوم میں یہ اختلاف چلا آیا ہے اور وہ اس کے بارے میں کسی یقینی بات پر قائم نہیں.اُن کو اس بات کا علم حاصل نہیں بلکہ صرف تخمینی طور پر یہ بات کہتے ہیں اور یہ قطعی بات ہے کہ وہ اُسے مارنے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اللہ تعالیٰ نے اُس کو صلیب کی لعنتی موت سے بچا کر اپنے مقربوں میں جگہ دی.اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے.ہر اہل کتاب اپنی موت سے پہلے پہلے اس کے متعلق ایمان ظاہر کرتا رہے گا کہ وہ صلیب پر مر گیا ہے.لیکن قیامت کے دن مسیح اُن کے اوپر گواہی دے گا کہ انہوں نے اس پر یہ الزام لگا کر کہ وہ صلیب پر مر گیا ہے افتراء کیا ہے.پس یہودیوں کے ان ظالموں کی وجہ سے ہم نے اُن آسمانی نعمتوں سے ان کو محروم کر دیا جو پہلے اُن کا کی حق سمجھی جاتی تھیں.ان آیات میں کس طرح حضرت مسیح کے منکروں پر حجت تمام کی گئی ہے.دوسری بات یہ فرمائی گئی تھی کہ وہ مسیح کی وفات ثابت کرے گا اور دنیا کو بتا دے گا کہ دنیا پھر اسرائیلی مسیح کو نہیں دیکھے گی.یہ کام بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا اور اس غلط عقیدہ کو باطل کر کے رکھ دیا جو عیسائیوں میں پھیلا ہوا تھا کہ مسیح آسمان پر بیٹھا ہوا ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ اِذْ قَالَ اللهُ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ انْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوني وأرقي المَيْنِ مِن دُونِ اللهِ ، قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُونُ لِي ان اقول ما ليس لي : يحق ، إنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ، تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلا أَعْلَمُ ما في نفسك ، إنَّكَ أَنْتَ عَلامُ الْغُيُوبِ - مَا قُلتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِه آن اعْبُدُوا اللهَ رَبّي وَرَبِّكُمْ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّادُ مْتُ فِيهِمْ فَلَمَّا % تَوَفَّيَتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبٌ عَلَيْهِمْ، وَانْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ - إن تُعَذِّبْهُمْ فَإنَّهُمْ عِبَادَكَ ، وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ١٨٠ ان آیات میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ حضرت مسیح سے سوال کرے گا کہ کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ مجھ کو اور میری ماں کو معبود بناؤ ؟ حضرت مسیح فرمائیں گے اے رب ! تیری ذات پاک ہے بھلا میں ایسا کر سکتا تھا کہ وہ بات کہوں جس کا تو نے مجھے حق نہیں دیا.اگر

Page 184

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۲ دیباچہ تفسیر القرآن میں نے ایسا کہا ہوتا تو تیرے علم سے یہ بات چھپ تو نہیں سکتی تھی.جو کچھ میرے جی میں ہے تو جانتا ہے اور جس غرض سے تو نے یہ سوال کیا ہے میں اُسے نہیں جانتا تو سب غیبوں کو جاننے والا ہے میں نے تو انہیں وہی بات کہی تھی جس کا تو نے مجھے حکم دیا تھا.کہ تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے اور جب تک میں اُن میں رہا اُن کا نگران رہا.پھر جب ی تو نے مجھے وفات دے دی تو تو اُن کا خود نگران تھا اور تو ہر چیز دیکھنے بھالنے والا ہے.اگر تو انہیں کی عذاب دے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معاف کر دے تو تو بڑا غالب حکمت والا ہے.ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے کہ مسیح علیہ السلام فوت ہوچکے ہیں اور مسیح کی قوم نے اُس وقت اُن کو خدائی کا درجہ دے دیا جب وہ فوت ہو کر اس دنیا سے جاچکے تھے.اور جیسا کہ پہلی آیت میں بیان کیا جا چکا ہے دنیا کو یہ بتا دیا کہ مسیح کے آسمان پر جانے کے معنے محض یہ ہیں کہ وہ اپنے کام میں کامیاب ہو کر اور باعزت ہو کر خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.تیسری خبر یہ دی گئی تھی کہ شیطان اُس کے ذریعہ سے کچل دیا جائے گا.تمام نبیوں میں سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم ہی ایک ایسے نبی ہیں جنہوں نے شیطان کے کچلنے کے ذرائع کو اختیار کیا اور بنی نوع انسان کی پاکیزگی کے لئے صحیح سامان بہم پہنچائے.مگر اس کی تفصیل کا ابھی وقت نہیں.اس کی تفصیل قرآن شریف کی تفسیر سے ملے گی یا کسی قدر آئندہ اسی دیباچے میں بیان کروں گا.مگرا یک موٹی بات تو ہر شخص دیکھ سکتا ہے کہ کسی نبی نے بھی شیطان سے پناہ مانگنے کی دُعا اپنی اُمت کو نہیں سکھائی سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے.مسلمان اپنے کاموں میں اُٹھتے بیٹھتے شیطان اور اس کے حملوں سے پناہ مانگتے ہیں.یہ تعلیم گذشتہ انبیاء میں سے کسی کے ہاں نہیں پائی جاتی.پس جس قوم کو شیطان کا سر کچلنے کی ہدایت دن اور رات ملتی رہی ہو اور جس کے دل شیطانی حکومت کے توڑنے کا احساس ہر وقت زندہ رکھا جاتا ہو ظاہر ہے کہ وہی شیطان کو کی مارنے کی اہل سمجھی جائے گی اور اسی قوم کا نبی شیطان کو مارنے والا کہلائے گا.یہ تو نہ کبھی پہلے ہوا ہے نہ آئندہ ہو گا کہ شیطانی وسائل اس دنیا سے بالکل مٹ جائیں کیونکہ اس کے بغیر تو ایمان کی قدر ہی کوئی باقی نہیں رہتی.شیطان کے مارنے کے معنے یہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ نیکی دنیا میں قائم کی جائے.کلیسیا تو بہر حال اس کا مستحق نہیں ہو سکتا کیونکہ اُس نے تو شریعت کو لعنت قرار

Page 185

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۳ دیباچہ تفسیر القرآن دے کر نیکی کا وجود ہی مشتبہ کر دیا ہے.اور جو یہ کہا گیا تھا کہ وہ تمہیں ساری سچائی کی راہ بتائے گی.اس کی تشریح میں استثناء باب ۱۸ کی پیشگوئی کے ماتحت کر آیا ہوں.آئندہ کی خبروں کے متعلق جو کہا گیا ہے اس کیلئے صرف اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ جتنی آئندہ کی خبریں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہیں اور کسی نبی نے نہیں دیں.اس پر کچھ روشنی آگے چل کر ڈالی جائے گی یہاں بیان کرنے کی ضرورت نہیں.اور یہ جو کہا گیا تھا کہ اُس کا کلام سارے کا سارا کلام اللہ ہو گا یہ بھی ایک ایسی پیشگوئی ہے جس کا اور کوئی مصداق نہیں ہو سکتا.عہد نامہ قدیم اور عہد نامہ جدید کی کوئی بھی تو کتاب نہیں جو انسانی کلام سے خالی ہو، لیکن قرآن کریم وہ کتاب ہے جس میں شروع سے لے کر آخر تک وہی بیان کیا گیا ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے.اوروں کا تو کی ذکر کیا خود محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا بھی ایک لفظ اس کتاب میں نہیں.آخر میں یہ جو کہا گیا تھا کہ ” وہ میری بزرگی کرے گی سو یہ بزرگی کرنے والے نبی بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.آپ ہی ہیں جنہوں نے مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ وہ صلیبی موت سے مرکز نَعُوذُ بِالله لعنتی ہوا.آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو اس الزام سے بچایا کہ نَعُوذُ بِالله خدائی کا دعوی کر کے وہ خدا تعالیٰ سے بیوفائی اور غداری کرتے تھے.آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح کو یہودیوں کے اعتراضات سے نجات دلائی.پس اس پیشگوئی کا مصداق آپ کی کے سوا کوئی نہیں.( ز ) کتاب اعمال میں لکھا ہے:.ضرور ہے کہ آسمان اُسے ( یعنی مسیح کو ) لئے رہے اُس وقت تک کہ سب چیزیں جن کا ذکر خدا نے اپنے سب پاک نبیوں کی زبانی شروع سے کیا اپنی حالت پر آویں.کیونکہ موسیٰ نے باپ دادوں سے کہا کہ خداوند جو تمہارا خدا ہے تمہارے بھائیوں میں سے تمہارے لئے ایک نبی میری مانند اُٹھا دے گا.جو کچھ وہ تمہیں کہے اُس کی سب سنو اور ایسا ہی ہوگا کہ ہر نفس جو اُس نبی کی نہ سنے وہ قوم میں سے نیست کیا جائے گا.بلکہ سب نبیوں نے سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنوں نے کلام کیا ان دنوں کی خبر دی.۱۸۱

Page 186

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۴ دیباچہ تفسیر القرآن ان آیات میں حضرت موسیٰ کی کتاب استثناء والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ آنے والا موعود جب تک ظاہر نہ ہو جائے اُس وقت تک مسیح کی دوبارہ آمد نہیں ہو گی.استثناء کی پیشگوئی میں یہ خبر دی گئی تھی کہ وہ موعود نئی شریعت لائے گا.پس اس پیشگوئی کو کی اعمال میں دُہرا کر اس بات کا اقرار کیا گیا ہے کہ آنے والے موعود کے ذریعہ سے مسیح کی تعلیم منسوخ کر دی جائے گی اور نہ نئی شریعت کے تو کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے.ایک ہی وقت میں ایک قوم میں دو شریعتیں تو چل نہیں سکتیں.پس یہ آنے والا موعود یقیناً ارتقاء کا آخری نقطہ ہے.جو موسیٰ اور مسیح کی تعلیموں کو منسوخ کرنے والا تھا اور جس کو ایک نئی شریعت دنیا کے سامنے ظاہر کرنی تھی.اعمال نے ایک اور روشنی بھی اس موعود کے متعلق ڈالی ہے اور وہ یہ کہ سموئیل سے لے کر پچھلوں تک جتنے نبی گزرے ہیں اُنہوں نے اس موعود کی خبر دی ہے.موسیٰ کی خبر کا تو پہلے ذکر آچکا ہے اور داؤد نبی سموئیل کے بعد ہوئے ہیں.اس لیے اعمال کی آیت ۲۴ کا مطلب ی یہ ہے کہ موسیٰ سے لے کر تمام انبیاء نے اس آنے والے کی خبر دی ہے.پس جب تک یہ نبی دنیا میں ظاہر نہ ہو اُس وقت تک دنیا کی روحانی تعمیر مکمل نہیں ہو سکتی.اور میں پہلے ثابت کر آیا ہوں کہ یہ نبی بائبل کی بتائی ہوئی علامتوں کے مطابق سوائے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی شخص نہیں.حاصل یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی تمام انبیاء کا موعود تھا اور آپ کی شریعت ہی تمام انبیاء کی موعود تھی.پس یہ اعتراض کسی صورت میں درست نہیں ہوسکتا کہ تو رات اور انجیل کی موجودگی یا اور کتابوں کی موجودگی میں قرآن کریم کی کیا ضرورت ہے.جب سابق نبیوں نے قرآن کریم کی ضرورت تسلیم کی ہے اور اس کی پیشگوئی کی ہے تو اُن کی اُمتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اس کی ضرورت سے انکار کریں بلکہ انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اگر وہ قرآن کریم کی ضرورت سے انکار کریں گی تو اُن کے نبیوں کی صداقت بھی مشتبہ ہو جائے گی اور ان نبیوں کی پیشگوئیاں جھوٹی ثابت ہو کر وہ موسیٰ کے اس قول کی زد میں آجائیں گی ” جب نبی خداوند کے نام سے کچھ کہے اور وہ جو اُس نے کہا ہے واقع نہ ہو یا پورا نہ ہو تو وہ بات خدا وند نے نہیں کہی اور اس نبی نے گستاخی سے کہی ہے تو اس سے مت ڈر ، ۱۸۲

Page 187

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۵ دیباچہ تفسیر القرآن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مضمون بیان کرنے کے بعد کہ باوجود بہت سی الہامی کتب کے موجود ہونے کے آج سے تیرہ سو سال پہلے دنیا ایک اور شریعت اور ایک اور کتاب کی محتاج تھی میں اس مضمون کو اختصاراً لیتا ہوں کہ قرآن کریم کس شخص پر نازل ہوا اور کن حالات میں نازل ہوا.کیونکہ یہ مضمون بھی قرآن کریم کی اہمیت سمجھنے کے لئے نہایت ممد ہے.گو فلسفی مزاج لوگوں کے لئے تو اتنا دیکھنا ہی کافی ہوتا ہے کہ جو مضمون ان کے سامنے پیش کیا گیا ہے وہ کیا قیمت رکھتا ہے.چنانچہ عربی میں مثل ہے انظُرُ إِلَى مَا قِيلَ وَلَا تَنْظُرُ إِلَى مَنْ قَالَ.تو یہ دیکھ کہ جو بات کہی گئی وہ کیا ہے اور اس بات کی طرف نہ دیکھ کہ اس کا کہنے والا کون ہے.مگر دنیا کی اکثریت یہ بھی دیکھنا چاہتی ہے کہ کہنے والا کون ہے.اور خصوصاً الہامی کتابوں کے متعلق تو یہ نہایت ضروری ہوتا ہے کہ اِن کتابوں کو پیش کرنے والوں کے یعنی اللہ تعالیٰ کے انبیاء کے متعلق بھی دنیا کو یہ معلوم ہو کہ اُن کی زندگی کیسی تھی کیونکہ مذہبی قانون صرف حکم سے منوایا نہیں جاتا ہے.حکومت نظام کے لئے قائم ہوتی ہے اور اس کا تعلق صرف ظاہر سے ہوتا ہے اس لئے کسی ملک کی آئینی تنظیم کے لئے اتنا ہی کافی ہوتا ہے کہ اُس میں ایک آئین پایا جائے.کیونکہ قانون کا منشاء صرف اس قدر ہوتا ہے کہ لوگوں کا ظاہر قانون کا پابند ہو جائے.چنانچہ عدالتوں میں کسی کی نیت بُری ثابت کرنا اُس کو مجرم نہیں بنا دیتا جب تک اُس نیت کے مطابق اُس کے فعل کا صدور بھی اُس سے ثابت نہ ہو مگر مذہبی دنیا میں ظاہر سے بھی زیادہ باطن پر زور دیا جاتا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ظاہر کو ترک کی نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ظاہر، باطن کی علامت ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ظاہری اصلاح کے ساتھ باطنی اصلاح بھی ہو جائے مگر باطنی اصلاح کے ساتھ ظاہری اصلاح کا ہو جانا لازمی ہے.جس طرح یہ نہیں ہوسکتا کہ آگ ہو لیکن اس سے گرمی پیدا نہ ہو، اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں ہے کہ دل میں صفائی ہو اور ظاہری اعمال اُس کے مطابق نہ ہوں.عارضی کو تا ہی یا غفلت اور بات ہے

Page 188

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن لیکن عام طور پر دل کی صفائی کے مطابق انسان کے اعمال صادر ہوتے ہیں اور دل کی صفائی کاج بہترین ذریعہ اچھا نمونہ ہوتا ہے.قانون انسان کے دماغ پر اثر ڈالتا ہے لیکن اچھا نمونہ انسان کے دل پر اثر ڈالتا ہے.قانون کی حکومت فکر پر ہوتی ہے لیکن اچھے نمونہ کی حکومت جذبات پر ہوتی ہے.ہم صرف فکر کی اصلاح سے انسان کی روحانی اور جسمانی اصلاح نہیں کر سکتے.فکر کا نتیجہ غیر متواتر اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے لیکن جذبات کا نتیجہ متواتر اور مسلسل اعمال کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے.ایک عام خیر خواہ انسان جس رنگ میں اپنے گردو پیش کے لوگوں کی خیر خواہی کرتا ہے اُس کی خیر خواہی کا نمونہ اُس خیر خواہی کے نمونہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے جو ماں اپنے بچہ کے متعلق دکھاتی ہے.اس لئے کہ جس کا دماغ اخلاقی تعلیم سے متاثر ہوا ہے وہ اُس شخص کا مقابلہ نہیں کر سکتا جس کے جذبات اخلاقی تعلیم سے متاثر ہوں.ماں کی محبت اپنے بچہ سے اُس کے جذبات کی وجہ سے ہوتی ہے اور ایک فلاسفر کی محبت اپنے ہمسایوں سے دلائل عقلیہ کی بناء پر ہوتی ہے.انبیاء کے اعمال فکری جذباتی جو اعمال دلائل کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ متواتر اور مسلسل نہیں ہو سکتے ہوتے ہیں اور لوگوں کے لئے نمونہ کیونکہ بعض دفعہ انسان کی توجہ حقیقت کی طرف نہیں پھرتی.بعض دفعہ اُس کے ارادہ اور عمل کے درمیان ایک لمبی سوچ اور فکر حائل ہو جاتی ہے مگر جو جذبات کے ماتحت لوگوں سے کوئی کام کرتا ہے اُس کے کام فوری ہوتے ہیں اور مسلسل ہوتے ہیں.ماں کو اگر کوئی لاکھ دلیل دے کہ تو اپنے بچہ کے لئے قربانی نہ کر جو کر رہی ہے تو وہ کبھی اُس کی بات نہیں مانے گی اور بچے کی تکلیف کے متعلق وہ سوچنے نہیں بیٹھے گی.وہ چی اندھا دھندا ور فوری طور پر اپنے بچہ کی خیر خواہی کے لئے وہ تدابیر اختیار کرنے کو آمادہ ہو جائے کی گی جو تدابیر اُس کے نزدیک اُس کے بچہ کے فائدہ کے لئے ضروری ہوں گی اور رات اور دن کی میں کوئی وقت بھی ایسا نہیں ہو گا جب اُس کا دماغ اپنے بچہ کی خیر خواہی سے خالی ہو.پس حقیقی اصلاح جبھی ہو سکتی ہے کہ اخلاق فاضلہ بنی نوع انسان کے جذبات کا حصہ بنا دیئے جائیں.وہ اخلاق کے مطالبات کو فکر کے بعد پورا نہ کریں بلکہ اخلاقی مطالبات کو اپنی ذات میں

Page 189

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۷ دیباچهتفسیر القرآن محسوس کرنے لگیں.جذبات کو بعض لوگ بُرا کہتے ہیں لیکن جذبات بُرے ہی نہیں اچھے بھی کی ہوتے ہیں.جذبہ کے اصل معنی تو یہ ہیں کہ ارادہ اور عمل کے درمیان جو فکر کی لمبی دیوار کھڑی ہے ہوتی ہے وہ چھوٹی کر دی جائے یا بالکل اُڑا دی جائے تا کہ انسانی اعمال محدود ہو کر نہ رہ جائیں بلکہ جذبات کی وجہ سے وہ سینکڑوں گنے زیادہ ترقی کر جائیں.جو شخص خالی فکر سے کام لیتا ہے وہ بہت سا وقت سوچنے اور غور کرنے میں گزار دیتا ہے.لیکن جو شخص ایک دفعہ سوچ کر اور غور کر کی کے ایک سچائی کو معلوم کر لیتا ہے اور ایک نیکی کو پالیتا ہے پھر وہ اُس سچائی اور نیکی کو اپنے دل کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور اسے اپنے جذبات کا حصہ بنا دیتا ہے تو وہ اُس نیکی اور سچائی پر عمل کرنے میں اتنا تیز اور پھر تلا ہوتا ہے کہ وہ شخص جو صرف فکر سے کام لینے کا عادی ہے اُس کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتا.فکر سے کام لینے والا جتنی دیر میں ایک کام کرے گا جذبات سے کام لینے والا اتنی دیر میں بیسیوں کام کر جائے گا اور ہم اس جذبات سے کام لینے والے شخص کو وحشی نہیں کی کہہ سکتے کیونکہ یہ جذبات کا غلام نہیں ہے بلکہ پہلے اُس نے فکر اور غور سے سچائیوں اور نیکیوں کو دریافت کیا اس کے بعد اُس نے اُن سچائیوں اور نیکیوں کو اپنے جذبات کا حصہ بنالیا.پس ایسے شخص کا جذباتی عمل غیر ارادی نہیں ہوتا بلکہ ارادہ کے تابع ہوتا ہے.صرف اتنی بات ہے کہ یہ اُس کام کو جو ایک دفعہ فکر سے لے چکا ہے بار بار دہرانا نہیں چاہتا اور ایک ایسا کام جو پہلے کیا جا چکا ہو اُس کو بغیر ضرورت دُہرانا عظمندی تو نہیں بیوقوفی کی بات ہے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا کی اصلاح اُس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک سچائیاں اور نیکیاں انسان کے جذبات کا جزو نہ بن جائیں.جب تک انسان صرف فکر کی اتباع کرے گاوہ دبـدهـا ۱۸۳ اور شک اور دیر کا شکار رہے گا.جب وہ سچائیوں اور نیکیوں کے اصول کو فکر اور غور سے معلوم کر کے اپنے جذبات کا حصہ بنالے گا تو دُبُدھا اور شک اور دیر سے وہ محفوظ ہو جائے گا.وہ سچائیوں پر عمل کرے گا اور نیکیاں ظاہر کرے گا مگر بغیر تر ڈو کے، بغیر شبہ کے، بغیر دُبُدھا کے.اور یہ چیز جیسا کہ میں نے بتایا ہے بغیر اچھے نمونہ کے پیدا نہیں ہو سکتی.ہم عقلی دلیل سے اپنے دماغ کو تسلی دیتے ہیں.عقلی دلیل محبت کے جذبات کو نہیں اُبھارا کرتی.محبت کے جذبات کو قربانی اور ایثار کا نمونہ ہی اُبھارا کرتا ہے.خدا تعالیٰ کی عبادت کے الفاظ کتنے ہی شاندار ہوں اُن سے وہ سوز و گداز پیدا نہیں ہو

Page 190

انوار العلوم جلد ۲۰ KA دیباچہ تفسیر القرآن سکتا جو ایک انسان کو سوز و گداز سے عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.اس میں کوئی چی شبہ نہیں کہ خالی نمونہ بھی ٹھوکر کا موجب ہو جاتا ہے کیونکہ جب تک فکر پاکیزہ نہ ہو جذ بات رسم و رواج کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور رسم و رواج عقل اور دانائی کو قتل کر دینے والی چیزیں ہیں.پس ایک ہی وقت میں مدلل تعلیم کی بھی ضرورت ہے اور پاک نمونہ کی بھی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتابیں ہمیشہ نبیوں پر نازل ہوتی رہی ہیں.خالی کتاب کبھی آسمان سے نہیں پھینکی گئی.کتاب انسان کے دماغ کو نور بخشتی ہے اور نمونہ اُس کتاب کے مضمون کو انسان کے دل میں داخل کر دیتا ہے اور اُس کے جذبات کا حصہ بنا دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ جن میدانوں میں خدا تعالیٰ کے انبیاء کامیاب ہوئے ہیں فلاسفران میدانوں میں ہمیشہ ناکام ہوئے ہیں کیونکہ فلاسفر اپنے فلسفوں سے ہمیشہ لوگوں کے دماغوں کی اصلاح کی فکر کرتے ہیں مگر اپنے اچھے نمونہ سے اُن کے دلوں کی اصلاح نہیں کرتے.جبکہ انبیاء آسمانی کتابوں کے ذریعہ سے لوگوں کے دماغوں کو بھی نور بخشتے ہیں اور اپنے نمونہ کے ذریعہ سے اُن کے دلوں کو بھی پاک کرتے ہیں اور اُن کی ذات میں جو خدا تعالیٰ کے معجزات اور نشانات ظاہر ہوتے ہیں وہ لوگوں کے ایمان اور یقین کو بڑھانے کا موجب ہوتے ہیں.اس اصل کو مدنظر رکھتے ہوئے میں سمجھتا ہوں یہ ضروری ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے کچھ حالات بھی اس موقع پر بیان کر دیئے جائیں.صلى الله آنحضرت ﷺ کے حالات زندگی خدا تعالیٰ کا یہ ایک بہت بڑا نشان اور.اسلام کی صداقت کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات جتنے ظاہر ہیں اور کسی نبی کی زندگی کے حالات اتنے ظاہر نہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس تفصیل کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جتنے اعتراض ہوئے ہیں اتنے اعتراض اور کسی نبی کے وجود پر نہیں ہوئے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ ان اعتراضوں کے حل ہو جانے کے بعد جس طرح شرح صدر اور جس اخلاص سے ایک انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے محبت کر سکتا ہے اور کسی انسان کی ذات سے اتنی محبت ہر گز نہیں کر سکتا.کیونکہ جن کی زندگیاں پوشیدہ ہوتی ہیں اُن

Page 191

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۷۹ دیباچہ تفسیر القرآن کی محبت میں رخنہ پڑ جانے کا احتمال ہمیشہ رہتا ہے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تو ایک کھلی کتاب تھی.دشمن کے اعتراضات حل ہونے کے بعد کوئی ایسا کو نہ نہیں رہتا جس پر سے مڑنے کے بعد آپ کی زندگی کے متعلق ایک نیا زاویہ نگاہ ہمارے سامنے آ سکتا ہو.نہ کوئی تہہ ایسی باقی رہتی ہے جس کے کھولنے کے بعد کسی اور قسم کی حقیقت ہم پر ظاہر ہوتی ہو.یہ امر ظاہر ہے کہ ایسے انسان کی زندگی کے حالات قرآن کریم کے دیباچہ میں ضمنی طور پر مختصراً بھی نہیں بیان کی کئے جا سکتے.صرف اُن کی طرف ایک خفیف سا اشارہ کیا جا سکتا ہے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ خفیف اشارہ بھی اس سے بہتر رہے گا کہ میں اس مضمون کو ہی ترک کردوں کیونکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے آسمانی کتب کو صحیح معنوں میں لوگوں کے دماغوں میں راسخ کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اُس کے ساتھ اعلیٰ نمونہ بھی ہوا اور سب سے اعلیٰ نمونہ وہی ہوسکتا ہے جس پر وہ کتاب نازل ہوئی ہو.یہ نقطہ باریک اور فلسفیانہ ہے اور بہت سے مذاہب نے تو اس کی حقیقت کو سمجھا ہی نہیں.چنانچہ ہندو مذہب ویدوں کو پیش کرتا ہے مگر ویدوں کے لانے والے رشیوں اور منیوں کی تاریخ کے متعلق بالکل خاموش ہے.ہندو مذہب کے علماء اس کی ضرورت کو آج تک بھی نہیں سمجھ سکے.اسی طرح عیسائی اور یہودی علماء اور پادری بڑی بیبا کی سے کہہ دیتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے فلاں نبی میں فلاں نقص تھا اور فلاں نبی میں فلاں نقص تھا.وہ یہ بات نہیں سمجھ سکتے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کے لئے چنا جب وہ کلام اُس کی اصلاح نہیں کر سکا تو کسی دوسرے کی اصلاح کیا کرے گا اور اگر وہ شخص ایسا ہی نا قابل اصلاح تھا تو خدا تعالیٰ نے اُسے چنا کیوں؟ کیا وجہ ہے کہ کسی اور کو نہیں چن لیا ؟ آخر خدا تعالیٰ کے لئے کیا مجبوری تھی کہ وہ زبور کے لئے داؤد کو چنتا.وہ بنی اسرائیل میں سے کسی اور انسان کا انتخاب کر سکتا تھا.پس یہ دونوں باتیں غیر معقول ہیں.یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے جس پر کلام نازل کیا وہ کلام اُس کی جی اصلاح نہیں کر سکا یا یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ نے ایک ایسے شخص کو چن لیا جو نا قابل اصلاح تھا یہ دونوں باتیں عقل کے بالکل خلاف ہیں.مگر بہر حال مختلف مذاہب میں اپنے منبع سے دوری کی وجہ سے اس قسم کے غلط خیالات پیدا ہو گئے ہیں.یا یوں کہو کہ انسانی دماغ کی ترقی کے کامل نہ ہونے کے سبب سے پرانے زمانہ میں ان چیزوں کی اہمیت کو سمجھا ہی نہیں گیا.مگر اسلام میں.

Page 192

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۰ دیباچہ تفسیر القرآن شروع سے ہی اس امر کی اہمیت سمجھی گئی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ تیرہ چودہ سال کی عمر میں آپ سے بیاہی گئیں اور کوئی سات سال کا عرصہ آپ کی صحبت میں رہیں.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو اُن کی عمر ۲۱ سال تھی اور وہ پڑھی لکھی بھی نہیں تھیں لیکن باوجود اس کے اُن پر یہ فلسفہ روشن تھا.ایک دفعہ آپ سے کسی نے سوال کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے متعلق تو کچھ فرمائیے تو آپ نے فرمایا كَانَ خُلُقَهُ كُلُّهُ الْقُرآنُ ۱۸۴ یعنی آپ کے اخلاق کا پوچھتے ہو جو کچھ آپ کہا کرتے تھے انہی باتوں کا تج قرآن کریم میں حکم ہے اور قرآن کریم کی لفظی تعلیم آپ کے عمل سے جدا گانہ نہیں ہے.ہر خلق جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اُس پر آپ کا عمل تھا اور ہر عمل جو آپ کرتے تھے اُسی کی قرآن کریم میں تعلیم ہے.یہ کیسی لطیف بات ہے.معلوم ہوتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اتنے وسیع اور اتنے اعلیٰ تھے کہ ایک نوجوان لڑکی جو تعلیم یافتہ بھی نہیں تھی اُس کی توجہ کو بھی اس حد تک پھرانے میں کامیاب ہو گئے کہ ہندو، یہودی اور مسیحی فلسفی جس امر کی حقیقت کو نہ سمجھ سکے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اس امر کی حقیقت کو پاگئیں اور ایک چھوٹے سے فقرہ میں آپ نے یہ لطیف فلسفہ بیان کر دیا کہ یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک راستباز اور مخلص انسان دنیا کو ایک تعلیم دے اور پھر اُس پر عمل نہ کرے یا خود ایک نیکی پر عمل کرے اور دنیا سے اُسے چھپائے اس لئے تمہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق معلوم کرنے کے لئے کسی تاریخی کی ضرورت نہیں.وہ ایک راستباز اور مخلص انسان تھے جو کہتے تھے وہ کرتے تھے اور جو کرتے تھے وہ کہتے تھے.ہم نے اُن کو دیکھا اور قرآن کریم کو سمجھ لیا.تم جو بعد میں آئے ہو قرآن پڑھو اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سمجھ لو.اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكَ وَسَلَّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ.بت پرستی پرستی محمد اللہ کے ظہور کے وقت عرب کی حالت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس زمانہ میں پیدا ہوئے اُس زمانہ کے حالات کو بھی آپ کے حالات کا ایک حصہ ہی سمجھنا چاہئے کیونکہ اسی پس پردہ کو مدنظر

Page 193

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۱ دیباچہ تفسیر القرآن رکھ کر آپ کی زندگی کے حالات کی حقیقت کو انسان اچھی طرح سمجھ سکتا ہے.آپ مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے اور آپ کی پیدائش منشی حساب سے اگست ۵۷۰ء میں بنتی ہے.آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد رکھا گیا جس کے معنے تعریف کئے گئے کے ہیں.جب آپ پیدا ہوئے اُس وقت تمام کا تمام عرب سوائے چند مستثنیات کے مشرک تھا.یہ لوگ اپنے آپ کو ابراہیم کی نسل میں سے قرار دیتے تھے اور یہ بھی مانتے تھے کہ ابراہیم مشرک نہیں تھے لیکن اس کے باوجود وہ شرک کرتے تھے اور دلیل یہ دیتے تھے کہ بعض انسان ترقی کرتے کرتے خدا تعالیٰ کے ایسے قریب ہو گئے ہیں کہ اُن کی شفاعت خدا تعالیٰ کی درگاہ میں ضرور قبول کی جاتی ہے اور چونکہ خدا تعالیٰ کا وجود بہت بلندشان والا ہے اُس تک پہنچنا ہر ایک انسان کا کام نہیں کامل انسان ہی اُس تک پہنچ سکتے ہیں اس لئے عام انسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی وسیلہ بنائیں اور اس وسیلہ کے ذریعے سے خدا تعالیٰ کی رضا مندی اور مدد حاصل کریں.اس عجیب و غریب عقیدہ کی رو سے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موحد مانتے ہوئے اپنے لئے شرک کا جواز بھی پیدا کر لیتے تھے.ابرا ہیم بڑا پاکباز تھا.وہ خدا کے پاس براہ راست پہنچ سکتا تھا مگر مکہ کے لوگ اس درجہ کے نہیں تھے اس لئے انہیں بعض بڑی ہستیوں کو وسیلہ بنانے کی ضرورت تھی.جس غرض کے حصول کے لئے وہ ان ہستیوں کے بچوں کی عبادت کرتے تھے اور اس طرح بخیال خود اُن کو خوش کر کے خدا تعالیٰ کے دربار میں اپنا وسیلہ بنا لیتے تھے.اس عقیدہ میں جو تقائص اور بے جوڑ حصے ہیں اُن کے حل کرنے کی طرف اُن کا ذہن کبھی گیا ہی نہیں تھا کیونکہ کوئی موحد معلم ان کو نہیں ملا تھا.جب شرک کسی قوم میں شروع جاتا ہے تو پھر بڑھتا ہی چلا جاتا ہے ایک سے دو بنتے ہیں اور دو سے تین.چنانچہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش کے وقت خانہ کعبہ میں ( جواب مسلمانوں کی مقدس مسجد ہے اور حضرت ابراہیم اور حضرت اسمعیل علیھما السلام کا بنایا ہوا عبادت خانہ ہے ) مؤرخین کے قول کے مطابق تین سو ساٹھ بت تھے گویا قمری مہینوں کے لحاظ سے ہر دن کے لئے ایک علیحدہ بُت تھا.ان بتوں کے علاوہ ارد گرد کے علاقوں کے بڑے بڑے قصبات میں اور بڑی بڑی اقوام کے مراکز میں علیحدہ بُت تھے گویا عرب کا چپہ چپہ شرک میں مبتلا ہو رہا تھا.عرب لوگوں میں زبان کی تہذیب اور اصلاح کا خیال بہت زیادہ تھا انہوں نے اپنی زبان کو

Page 194

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۲ دیباچ تفسیر القرآن زیادہ سے زیادہ علمی بنانے کی کوشش کی مگر اس کے سوا اُن کے نزدیک علم کے کوئی معنی نہ تھے.تاریخ، جغرافیہ، حساب وغیرہ علوم میں سے کوئی ایک علم بھی وہ نہ جانتے تھے.ہاں بوجہ صحراء کی رہائش اور اس میں سفر کرنے کے علم ہیئت کے ماہر تھے.سارے عرب میں ایک مدرسہ بھی نہ تھا.مکہ مکرمہ میں کہا جاتا ہے کہ صرف چند گنتی کے آدمی پڑھنا لکھنا جانتے تھے.اخلاقی لحاظ سے عرب ایک عجیب متضاد قوم تھی.اُن میں بعض نہایت ہی خطر ناک گناہ پائے جاتے تھے اور بعض ایسی نیکیاں بھی پائی جاتی تھیں کہ جو اُن کی قوم کے معیار کو بہت بلند کر دیتی تھیں.شراب نوشی اور قمار بازی عرب شراب کے سخت عادی تھے اور شراب کے نشہ میں بے ہوش ہو جانا یا بکواس کرنے لگنا اُن کے نزدیک عیب نہیں بلکہ خوبی تھا.ایک شریف آدمی کی شرافت کی علامتوں میں سے یہ بھی تھا کہ وہ کی اپنے دوستوں اور ہمسائیوں کو خوب شراب پلائے.امراء کے لئے دن کے پانچ وقتوں میں شراب کی مجلسیں لگانا ضروری تھا.جوا اُن کی قومی کھیل تھی مگر اُس کو انہوں نے ایک فن بنا لیا تھا.وہ جوا اس لئے نہیں کھیلتے تھے کہ اپنے اموال بڑھائیں بلکہ جوئے کو انہوں نے سخاوت اور بڑائی کا ذریعہ بنایا ہوا تھا.مثلاً جوا کھیلنے والوں میں یہ معاہدہ ہوتا تھا کہ جو جیتے وہ جیتے ہوئے مال سے اپنے دوستوں اور اپنی قوم کی دعوتیں کرے.جنگوں کے موقع پر جوئے کو ہی روپیہ جمع کرنے کا ذریعہ بنایا جاتا تھا.جنگ کے ایام میں آجکل بھی لاٹری کا رواج بڑھ رہا ہے مگر یورپ اور امریکہ کے لاٹری بازوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ اس ایجاد کا سہرا عربوں کے سر ہے.جب کبھی جنگ ہوتی تھی تو عرب قبائل آپس میں جوا کھیلتے تھے اور جو جیتا تھا وہ جنگ کے اکثر اخراجات اُٹھاتا تھا.غرض دنیا کی دوسری آسائشوں اور سہولتوں سے محروم ہونے کا بدلہ عربوں نے شراب اور جوئے سے لیا تھا.تجارت عرب لوگ تاجر تھے اور اُن کے تجارت کے قافلے دور دور تک جاتے تھے ایسے سینیا سے بھی وہ تجارت کرتے تھے اور شام اور فلسطین سے بھی وہ تجارت کرتے تھے ہندوستان، سے بھی ان کے تجارتی تعلقات تھے.ان کے امراء ہندوستان کی بنی تی ہوئی تلواروں کی خاص قدر کرتے تھے.کپڑا زیادہ تر یمن اور شام سے آتا تھا.یہ تجارتیں عربی

Page 195

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۳ دیباچهتفسیر القرآن کے شہروں کے ہاتھ میں تھیں بقیہ عرب سوائے یمن اور بعض شمالی علاقوں کے بدوی زندگی بسر کرتے تھے.نہ اُن کے کوئی شہر تھے نہ اُن کی کوئی بستیاں تھیں.صرف قبائل نے ملک کے علاقے تقسیم کر لیے تھے.ان علاقوں میں وہ چکر کھاتے پھرتے تھے.جہاں کا پانی ختم ہو جاتا تھا تی.وہاں سے چل پڑتے تھے اور جہاں پانی مل جاتا تھا وہاں ڈیرے ڈال دیتے تھے.بھیڑ، بکریاں، اونٹ اُن کی پونجی ہوتے تھے اُن کی صوف اور اُون سے کپڑے بناتے.اُن کی کھالوں سے خیمے تیار کرتے اور جو حصہ بچ جاتا اُسے منڈیوں میں لے جا کر بیچ ڈالتے.عرب کے دیگر حالات و عادات و خصائل سونے چاندی سے وہ نا آشنا تو تھے مگر سونا اور چاندی ان کے لئے ایک نہایت ہی کمیاب جنس تھی.حتی کہ اُن کے عوام اور غرباء میں زیورات کوڑیوں اور کی خوشبودار مصالحوں سے بنائے جاتے تھے.لونگوں اور خربوزوں اور لکڑیوں وغیرہ کے بیجوں اور ی اسی قسم کی اور چیزوں سے وہ ہار تیار کرتے اور اُن کی عورتیں یہ ہار پہن کر زیوروں سے مستغنی ہو جاتی تھیں.فسق و فجور کثرت سے تھا.چوری کم تھی مگر ڈا کہ بے انتہا ء تھا.ایک دوسرے کوٹوٹ لینا وہ ایک قومی حق سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ ہی قول کی پاسداری جتنی عربوں میں ملتی ہے اتنی اور کسی قوم میں نہیں ملتی.اگر کوئی شخص کسی طاقتور آدمی یا قوم کے پاس آکر کہہ دیتا کہ میں تمہاری پناہ میں آ گیا ہوں تو اُس شخص یا اُس قوم کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ اُس کو پناہ دے.اگر وہ قوم اُسے پناہ نہ دے تو سارے عرب میں وہ ذلیل ہو جاتی تھی.شاعروں کو بہت بڑا اقتدار حاصل تھا وہ گویا قومی لیڈر سمجھے جاتے تھے.لیڈروں کے لئے زبان کی فصاحت اور اگر ہو سکے تو شاعر ہونا نہایت ضروری تھا.مہمان نوازی انتہاء درجہ تک پہنچی ہوئی تھی.جنگل میں بھولا بھٹکا مسافر اگر کسی قبیلہ میں پہنچ جاتا اور کہتا کہ میں تمہارا مہمان آیا ہوں تو وہ بے دریغ بکرے اور دنبے اور اُونٹ ذبح کر دیتے تھے.اُن کے لئے مہمان کی شخصیت میں کوئی دلچسپی نہ تھی ، مہمان کا کی آجانا ہی اُن کے نزدیک قوم کی عزت اور احترام کو بڑھانے والا تھا اور قوم پر فرض ہو جاتا تھا تی کہ اُس کی عزت کر کے اپنی عزت کو بڑھائے.عورتوں کو کوئی حقوق اُس قوم میں حاصل نہیں تھے.بعض قبائل میں یہ عزت کی بات سمجھی جاتی تھی کہ باپ اپنی لڑکی کو مار ڈالے.مؤرخین یہ

Page 196

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۴ دیباچہ تفسیر القرآن بات غلط لکھتے ہیں کہ سارے عرب میں لڑکیوں کو مارنے کا رواج تھا.یہ رواج تو طبعی طور پر سارے ملک میں نہیں ہوسکتا کیونکہ اگر سارے ملک میں یہ رواج جاری ہو جائے تو پھر اُس ملک کی نسل کس طرح باقی رہ سکتی ہے.اصل بات یہ ہے کہ عرب اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں جہاں جہاں بھی یہ رواج پایا جاتا ہے اس کی صورت یہ ہوا کرتی ہے کہ بعض خاندان اپنے آپ کو بڑا سمجھ کر یا بعض خاندان اپنے آپ کو ایسی مجبوریوں میں مبتلا دیکھ کر اُن کی لڑکیوں کے لئے اُن کی شان کے مطابق رشتے نہیں ملیں گے لڑکیوں کو مار دیا کرتے ہیں.اس رواج کی کی بُرائی اُس کے ظلم میں ہے نہ اس امر میں کہ ساری قوم میں سے لڑکیاں مٹا دی جاتی ہیں.عربوں کی بعض قوموں میں تو لڑکیاں مارنے کا طریقہ یوں رائج تھا کہ وہ لڑکی زندہ دفن کر دیتے تھے اور بعض میں اس طرح کہ وہ اُس کا گلا گھونٹ دیتے تھے اور بعض اور طریقوں سے ہلاک کر دیتے تھے.اصلی ماں کے سوا دوسری ماؤں کو عرب لوگ ماں نہیں سمجھتے تھے اور اُن سے شادیاں نی کرنے میں حرج نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ باپ کے مرنے کے بعد کئی لڑکے اپنی سوتیلی ماؤں سے بیاہ کر لیتے تھے.کثرت ازدواج عام تھی.کوئی حد بندی نکاحوں کی نہیں ہوتی تھی.ایک سے زیادہ بہنوں سے بھی ایک شخص شادی کر لیتا تھا.لڑائی میں سخت ظلم کرتے تھے جہاں بغض بہت زیادہ ہوتا تھا زخمیوں کے پیٹ چاک کر کے اُن کے کلیجے چبا جاتے تھے.ناک کان کاٹ دیتے تھے.آنکھیں نکال دیتے تھے.غلامی کا رواج عام تھا.اردگرد کے کمزور قبائل کے آدمیوں کو پکڑ کے لے آتے تھے اور اُن کو غلام بنا لیتے تھے.غلام کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے.ہر مالک اپنے کی غلام سے جو چاہتا سلوک کرتا اُس کے خلاف کوئی گرفت نہ تھی.اگر وہ قتل بھی کر دیتا تو اس پر کوئی تی الزام نہ آتا تھا.اگر کسی دوسرے آدمی کے غلام کو مار دیتا تب بھی وہ موت کی سزا سے محفوظ سمجھا جاتا تھا اور مالک کو کچھ معاوضہ دے کر آزادی کر حاصل لیتا تھا.لونڈیوں کو اپنی شہوانی ضرورتوں کے پورا کرنے کا ذریعہ بنانا ایک قانونی حق تسلیم کیا جاتا تھا.لونڈیوں کی اولا دیں نجی بھی آگے غلام ہوتی تھیں اور صاحب اولا دلونڈیاں بھی لونڈیاں ہی رہتی تھیں.غرض جہاں تک علم و ترقی کا سوال ہے عرب لوگ بہت پیچھے تھے ، جہاں تک بین الاقوامی رحم اور حسن سلوک کا سوال ہے عرب کے لوگ بہت پیچھے تھے ، جہاں تک صنف نازک کے تعلق کا سوال ہے

Page 197

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۵ دیا چه تفسیر القرآن عرب لوگ دوسری اقوام سے بہت پیچھے تھے.مگر بعض شخصی اور بہادرانہ اخلاق اُن میں ضرور پائے جاتے تھے اور اس حد تک پائے جاتے تھے کہ شاید اُس زمانہ کی دوسری قوموں میں اس کی مثال نہیں پائی جاتی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت اس ماحول میں محمدرسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش سے پہلے ہی آپ کے والد جن کا نام عبداللہ تھا فوت ہو گئے تھے اور آپ کو اور آپ کی والدہ حضرت آمنہ کو اُن کے دادا عبدالمطلب نے اپنی کفایت میں لے لیا تھا.عرب کے رواج کے مطابق آپ دودھ پلانے کے لئے طائف کے پاس رہنے والی ایک عورت کے سپرد کئے گئے.عرب لوگ اپنے بچوں کو دیہاتی عورتوں کے سپر د کر دیا کرتے تھے تا اُن کی زبان صاف ہو جائے اور اُن کی صحت درست ہو.آپ کی عمر کے چھٹے سال میں آپ کی والدہ بھی مدینہ سے آتے ہوئے جہاں وہ اپنے نھیال سے ملنے گئی تھیں مدینہ اور مکہ کے درمیان فوت ہو گئیں اور وہیں دفن ہوئیں اور آپ کو ایک خادمہ اپنے ساتھ مکہ لائی اور دادا کے سپر د کر دیا.آپ آٹھویں سال میں تھے کہ آپ کے دادا جو آپ کے نگران تھے وہ بھی فوت ہو گئے اور آپ کے چچا ابو طالب اپنے والد کی وصیت کے مطابق آپ کے نگران ہوئے.عرب سے باہر آپ کو دو تین دفعہ جانے کا موقع ملا.جن میں سے ایک سفر آپ نے بارہ سال کی عمر میں اپنے چا ابوطالب کے ساتھ کیا جو کہ تجارت کے لئے شام کی طرف گئے تھے.یہ سفر آپ کا غالباً شام کے جنوب مشرقی تجارتی شہروں تک ہی محدود تھا کیونکہ اس سفر میں بیت المقدس وغیرہ جگہوں میں سے کسی کا ذکر نہیں آتا.اس کے بعد آپ جوانی تک مکہ میں ہی مقیم رہے.مجلس حلف الفضول میں آپ کی شمولیت آپ کی طبیعت بچپن سے ہی سوچنے اور فکر کرنے کی طرف مائل تھی اور لوگوں کی لڑائیوں جھگڑوں میں آپ دخل نہیں دیا کرتے تھے بلکہ لڑائیوں اور فسادوں کے دُور کرانے میں حصہ لیتے تھے چنانچہ مکہ اور اس کے گردونواح کے قبائل کی لڑائیوں سے تنگ آ کر جب مکہ کے کچھ نوجوانوں نے ایک انجمن بنائی جس کی غرض یہ تھی کہ وہ مظلوموں کی مدد کیا

Page 198

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۶ دیباچہ تفسیر القرآن کرے گی ، تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بڑے شوق سے اُس مجلس میں شامل ہو گئے.اس مجلس کے ممبروں نے ان الفاظ میں قسمیں کھائی تھیں کہ : وو وہ مظلوموں کی مدد کریں گے اور اُن کے حق اُن کو لے کر دیں گے جب تک کہ سمندر میں ایک قطرہ پانی کا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو وہ خود اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کر دیں گے“.۱۸۵ شاید اس قسم پر عمل کرنے کا موقع آپ کے سوا اور کسی کو نہیں ملا.جب آپ نے دعوی نبوت کیا اور سب سے زیادہ مکہ کے سردار ابو جہل نے آپ کی مخالفت میں حصہ لیا اور لوگوں سے یہ کہنا شروع کیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کوئی بات نہ کرے.اُن کی کوئی بات نہ مانے.ہر ممکن طریق سے اُن کو ذلیل کرے.اُس وقت ایک شخص جس نے ابو جہل سے کچھ قرضہ وصول کرنا تھا مکہ میں آیا اور اُس نے ابو جہل سے اپنے قرضہ کا مطالبہ کیا.ابو جہل نے اُس کا قرض ادا کر نے سے انکار کر دیا.اُس نے مکہ کے بعض لوگوں سے اس امر کی شکایت کی اور بعض نوجوانوں نے شرارت سے اُسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پتہ بتایا کہ اُن کے پاس جاؤ وہ تمہاری اِس بارہ میں مدد کریں گے.اُن کی غرض یہ تھی کہ یا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس مخالفت کے مد نظر جو مکہ والوں کی طرف سے عموماً اور ابو جہل کی طرف سے خصوصاً ہو رہی تھی اُس کی امداد کرنے سے انکار کر دیں گے اور اس طرح عربوں میں ذلیل ہو جائیں گے اور قسم توڑنے والے کہلائیں گے یا پھر آپ اس کی مدد کے لئے ابو جہل کے پاس جائیں گے اور وہ آپ کو ذلیل کر کے اپنے گھر سے نکال دے گا.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس وہ شخص گیا اور اُس نے ابو جہل کی شکایت کی تو آپ بلا تامل اُٹھ کر اس کے ساتھ چل دیئے اور ابو جہل کے دروازہ پر جا کر دستک دی.ابو جہل گھر سے باہر نکلا اور دیکھا کہ اُس کا قرض خواہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اُس کے دروازہ پر کھڑا ہے.آپ نے فوراً اُسے توجہ دلائی کہ اس شخص کا تم نے فلاں فلاں حق دینا ہے اس کو ادا کرو اور ابو جہل نے بلا چون و چرا اُس کا حق اُسے ادا کر دیا.جب شہر کے رؤساء نے ابو جہل کو ملامت کی کہ تم ہم سے تو یہ کہا کرتے تھے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو ذلیل کرو اور اس سے کوئی تعلق نہ رکھو لیکن تم نے خود اُس کی بات

Page 199

انوار العلوم جلد ۲۰ I^2 JAY دیباچہ تفسیر القرآن مانی اور اُس کی عزت قائم کی.تو ابو جہل نے کہا خدا کی قسم ! اگر تم میری جگہ ہوتے تو تم بھی یہی کچ کرتے.میں نے دیکھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے دائیں اور بائیں مست اونٹ کھڑے ہیں جو میری گردن مروڑ کر مجھے ہلاک کرنا چاہتے ہیں.۱۸۶ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ اس می کی روایت میں کوئی صداقت ہے یا نہیں.آیا اُسے واقعہ میں اللہ تعالیٰ نے کوئی نشان دکھایا تھایا صرف اُس پر حق کا رُعب چھا گیا اور اُس نے یہ دیکھ کر کہ سارے مکہ کا مطعون اور مقہور انسان کی ایک مظلوم کی حمایت کے جوش میں اکیلا بغیر کسی ظاہری مدد کے مکہ کے سردار کے دروازہ پر کھڑا ہو کر کہتا ہے کہ اس شخص کا جو حق تم نے دینا ہے وہ ادا کر دو تو حق کے رُعب نے اُس کی شرارت کی روح کو چل دیا اور اُسے سچائی کے آگے سر جھکانا پڑا.حضرت خدیجہ سے آنحضرت اللہ کی شادی جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۲۵ سال کے ہوئے تو آپ کی نیکی اور آپ کے تقویٰ کی شہرت عام طور پر پھیل چکی تھی لوگ آپ کی طرف انگلیاں اُٹھاتے اور کہتے یہ سچا انسان جا رہا ہے.یہ امانت والا انسان جا رہا ہے.یہ خبریں مکہ کی ایک مالدار بیوہ کو بھی پہنچیں اور اُس نے آپ کے چچا ابو طالب سے خواہش کی کہ وہ اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے کہیں کہ اُس کا تجارتی مال جو شام کے تجارتی قافلہ کے ساتھ جا رہا ہے وہ اُس کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے.ابو طالب نے آپ سے ذکر کیا اور آپ نے اسے منظور کر لیا.اس سفر میں آپ کو بڑی کامیابی ہوئی اور اُمید سے زیادہ نفع کے ساتھ آپ کو ٹے.خدیجہ نے محسوس کیا کہ یہ نفع صرف منڈیوں کے حالات کی وجہ سے نہیں بلکہ امیر قافلہ کی نیکی اور دیانت کی وجہ سے ہے.اُس نے اپنے غلام میسرہ سے جو آپ کے ساتھ تھا آپ کے حالات دریافت کئے اور اُس نے بھی اُس کے خیال کی تائید کی اور بتایا کہ سفر میں جس دیانتداری اور خیر خواہی کی سے آپ نے کام کیا ہے وہ صرف آپ ہی کا حصہ تھا.اس بات کا حضرت خدیجہ کی طبیعت پر خاص اثر ہوا.باوجود اس کے کہ وہ اُس وقت چالیس سال کی تھیں اور دو دفعہ بیوہ ہو چکی تھیں اُنہوں نے اپنی ایک سہیلی کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بجھوایا تا معلوم کرے کہ کیا آپ اُن سے شادی کرنے پر رضا مند ہوں گے؟ وہ سہیلی آپ کے پاس آئی اور اُس نے آپ کی

Page 200

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۸ دیباچهتفسیر القرآن سے پوچھا کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے ؟ آپ نے کہا میرے پاس کوئی مال نہیں ہے جس کی سے میں شادی کروں.اُس سہیلی نے کہا اگر یہ مشکل دور ہو جائے اور ایک شریف امیر عورت سے آپ کی شادی ہو جائے تو پھر ؟ آپ نے فرمایا وہ کون عورت ہے؟ اُس نے کہا خدیجہ.آپ نے فرمایا میں اُس تک کس طرح پہنچ سکتا ہوں؟ اس پر اُس سہیلی نے کہا کہ یہ میرے ذمہ رہا.آپ نے فرمایا مجھے منظور ہے.تب خدیجہ نے آپ کے چا کی معرفت شادی کا فیصلہ پختہ کیا اور آپ کی شادی حضرت خدیجہ سے ہوئی.ایک غریب و یتیم نوجوان کے لئے دولت کا یہ پہلا دروازہ کھلا ،مگر اُس نے اس دولت کو جس طرح استعمال کیا وہ ساری دنیا کیلئے ایک سبق آموز واقعہ ہے.اموں کی آزادی اور زید کا ذکر آپ کی شادی کے بعد جب حضرت خدیجہ نے یہ محسوس کیا کہ آپ کا حساس دل وہ ایسی زندگی میں کوئی لطف نہیں پائے گا کہ آپ کی بیوی مالدار ہو اور آپ اُس کے محتاج ہوں تو انہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میں اپنا مال اور اپنے غلام آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتی ہوں.آپ نے کہا خدیجہ! کیا سچ مچ ؟ جب اُنہوں نے پھر دوبارہ اقرار کیا تو آپ نے فرمایا میرا پہلا کام یہ ہوگا کہ میں غلاموں کو آزاد کر دوں.چنانچہ آپ نے اُسی وقت حضرت خدیجہ کے غلاموں کو بلایا اور فرمایا تم سب لوگ آج سے آزاد ہو اور مال کا اکثر حصہ غرباء میں تقسیم کر دیا.جو غلام آپ نے آزاد کئے اُن میں ایک زید نامی غلام بھی تھا.و دوسرے غلاموں سے زیادہ زیرک اور زیادہ ہوشیار تھا کیونکہ وہ ایک شریف اور معزز خاندان کا لڑکا تھا جسے بچپن میں ڈا کو چرا کر لے گئے تھے اور وہ بکتابکا تا مکہ میں پہنچا تھا.اُس نوجوان نے اپنی زیر کی اور ہوشیاری سے اس بات کو سمجھ لیا کہ آزادی کی نسبت اس شخص کی غلامی بہت بہتر ہے.جب آپ نے غلاموں کو آزاد کیا جن میں زید بھی تھا تو زید نے کہا آپ تو مجھے آزاد کرتے ہیں پر میں آزاد نہیں ہوتا ، میں آپ کے ساتھ ہی رہنا چاہتا ہوں.چنانچہ وہ آپ کے ساتھ رہا اور روز بروز آپ کی محبت میں بڑھتا چلا گیا.چونکہ وہ ایک مالدار خاندان کا لڑکا تھا اُس کے باپ اور چاڈاکوؤں کے پیچھے پیچھے اپنے بچہ کو تلاش کرتے ہوئے نکلے.آخر انہیں معلوم ہوا کہ

Page 201

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۸۹ دیباچہ تفسیر القرآن اُن کا لڑ کا مکہ میں ہے.چنانچہ وہ مکہ میں آئے اور پتہ لیتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے اور آپ سے عرض کیا کہ آپ ہمارے بچہ کو آزاد کر دیں اور جتنا روپیہ چاہیں لے لیں.آپ نے فرمایا زید کو تو میں آزاد کر چکا ہوں وہ بڑی خوشی سے آپ لوگوں کے ساتھ جاسکتا ہے.پھر آپ نے زید کو بلو ا کر اُس کے باپ اور چچا سے ملوا دیا.جب دونوں فریق مل چکے اور آنسوؤں سے اپنے دل کی بھڑاس نکال چکے تو زید کے باپ نے اُس سے کہا کہ اس شریف آدمی نے تم کو آزاد کر دیا ہے تمہاری ماں تمہاری یاد میں تڑپ رہی ہے اب تم جلدی چلو اور اُس کے لئے راحت اور تسکین کا موجب بنو.زید نے کہا ماں اور باپ کس کو پیارے نہیں ہوتے میرا دل بھی اس محبت سے خالی نہیں ہے مگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس قدر میرے دل میں داخل ہو چکی ہے کہ اس کے بعد میں آپ سے جدا نہیں ہو سکتا.مجھے خوشی ہے کہ میں نے آپ کی لوگوں سے مل لیا لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہونا میری طاقت سے باہر ہے.زید کے باپ اور چانے بہت زور دیا مگر زید نے اُن کے ساتھ جانا منظور نہ کیا.زید کی اس محبت کو دیکھ کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور فرمایا.زید آزاد تو پہلے ہی تھا مگر آج سے یہ میرا بیٹا ہے.اس نئی صورتِ حالات کو دیکھ کر زید کے باپ اور چا واپس وطن چلے گئے اور زید ہمیشہ کے لئے مکہ کے ہو گئے.غار حرا میں خدا کی عبادت کرنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر جب تمہیں سال سے زیادہ ہوئی تو آپ کے دل میں خدا تعالیٰ کی عبادت کی رغبت پہلے سے زیادہ جوش مارنے لگی.آخر آپ شہر کے لوگوں کی شرارتوں ، بدکاریوں اور خرابیوں سے متنفر ہو کر مکہ سے دو تین میل کے فاصلہ پر ایک پہاڑی کی چوٹی پر ایک پتھروں سے بنی ہوئی چھوٹی سی غار میں خدا تعالیٰ کی عبادت کرنے لگ گئے.حضرت خدیجہ چند دن کی غذا آپ کے لئے تیار کر دیتیں.۱۸۸، آپ وہ لے کر حرا میں چلے جاتے تھے اور اُن دو تین پتھروں کے اندر بیٹھ کر خدا تعالیٰ کی عبادت میں رات اور دن مصروف رہتے تھے.پہلی قرآنی وحی جب آپ چالیس سال کے ہوئے تو ایک دن آپ نے اسی غار میں ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ایک شخص آپ سے مخاطب ہو کر کہتا ہے کہ ” پڑھیئے.

Page 202

انوار العلوم جلد ۲۰ 19 + دیباچہ تفسیر القرآن آپ نے فرمایا میں تو پڑھنا نہیں جانتا.اس پر اُس نے دوبارہ اور سہ بارہ کہا اور آخر پانچ فقرے اُس نے آپ سے کہلوانے اقرا با شورتكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الانسان من علق - اقرا وَ رَبُّكَ الأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ - عَلَّمَ الانسان ما لم يعلم - ۱۸۹ یہ قرآنی ابتدائی وحی ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوئی اس کا مفہوم یہ ہے کہ تمام دنیا کو اپنے رب کے نام پر جس نے تجھ کو اور کل مخلوق کو پیدا کیا ہے پڑھ کر آسمانی پیغام سنا دے.وہ خدا جس نے انسان کو ایسے طور پر پیدا کیا ہے کہ اُس کے دل میں خدا تعالیٰ اور اس کی مخلوق کی محبت کا بیج پایا جاتا ہے.ہاں سب دنیا کو یہ پیغام سنا دے کہ تیرا رب جو سب سے زیادہ عزت والا ہے تیرے ساتھ ہو گا.وہ جس نے دنیا کو علوم سکھانے کے لئے قلم بنایا ہے اور انسان کو وہ کچھ سکھانے کے لئے آمادہ ہوا ہے جو اس سے پہلے انسان نہیں جانتا تھا.یہ چند الفاظ قرآن کریم کی اُن سب تعلیموں پر حاوی ہیں جو آئندہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی تھی اور دنیا کی اصلاح کا ایک اہم بیج اُن کے اندر پایا جا تا تھا.ان کی تفسیر تو قرآن شریف میں اپنے موقع پر آئے گی اس موقع پر ان آیتوں کا اس لئے ذکر کر دیا گیا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہ ایک اہم واقعہ ہے اور قرآن کریم کے لئے یہ آیات ایک بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتی ہیں.محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ کلام نازل ہوا تو آپ کے دل میں یہ خوف پیدا ہو گیا کہ کیا میں خدا تعالیٰ کی اتنی بڑی ذمہ داری ادا کر سکوں گا ؟ کوئی اور ہوتا تو کبر اور غرور سے اُس کا دماغ پھر جاتا کہ خدائے قادر نے ایک کام میرے سپرد کیا تو ہے.مگر محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم کام جانتے تھے کام پر اترانا نہیں جانتے تھے.آپ اس الہام کے بعد حضرت خدیجہ کے پاس آئے.آپ کا چہرہ اُترا ہوا تھا اور گھبراہٹ کے آثار ظاہر تھے.حضرت خدیجہ نے پوچھا آخر ہوا کیا ؟ آپ نے سارا واقعہ سنایا اور فرمایا میرے جیسا کمزور انسان اس بوجھ کو کس طرح اُٹھا سکے گا.حضرت خدیجہ نے کہا كَلَّا وَاللَّهِ مَا يُخْزِيْكَ اللَّهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْكَلَّ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَائِبِ الْحَقِّ ۱۹۰ء خدا کی قسم ! یہ کلام خدا تعالیٰ نے اس لئے آپ پر نازل نہیں کیا کہ آپ نا کام اور نامراد ہوں اور خدا آپ کا ساتھ چھوڑ دے.خدا تعالیٰ ایسا کب کر سکتا ہے.آپ تو وہ ہیں

Page 203

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۱ دیبا چ تفسیر القرآن کہ آپ رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہیں اور بیکس اور بے مددگار لوگوں کا بوجھ اُٹھاتے ہیں.وہ اخلاق جو ملک سے مٹ چکے تھے وہ آپ کی ذات کے ذریعہ سے دوبارہ قائم ہورہے ہیں.مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور کچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں.کیا ایسے انسان کو خدا تعالیٰ ابتلاء میں ڈال سکتا ہے؟ پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو عیسائی ہو چکے تھے.اُنہوں نے جب یہ واقعہ سنا تو بے اختیار بول اُٹھے آپ پر وہی فرشتہ نازل ہوا ہے جو موسیٰ پر نازل ہوا تھا 19 گو یا اشتناء باب ۱۸ آیت ۱۸ والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا.جب اس بات کی خبر زید آپ کے آزاد کردہ غلام کو جو اُس وقت کوئی پچیس تمیں سال کے تھے اور علی آپ کے چچا کے بیٹے کو جن کی عمر اس وقت گیارہ سال کی تھی پہنچی تو دونوں آپ پر فوراً ایمان لائے.الله حضرت ابوبکر کا آنحضرت ﷺ پر ایمان لانا ابو بکر آپ کے بچپن کے دوست جو شہر سے باہر گئے ہوئے تھے ، جب شہر میں داخل ہوئے تو معاً اُن کے کانوں میں یہ آواز میں پڑنی شروع ہوئیں کہ تمہارا دوست دیوانہ ہو گیا ہے، وہ کہتا ہے آسمان سے فرشتے اتر کر مجھ سے باتیں کرتے ہیں.ابو بکر سید ھے آپ کے دروازہ پر آئے اور دستک دی.جب آپ نے دروازہ کھولا تو انہوں نے آپ سے حقیقت حال کے متعلق سوال کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بچپن کے دوست کو ٹھوکر سے بچانے کے لئے کچھ تشریح کرنی چاہی.ابوبکر نے روکا اور کہا کہ مجھے صرف اتنا جواب دیجئے کہ کیا آپ نے یہ اعلان کیا ہے کہ خدا کے فرشتے آپ کے پاس آئے اور اُنہوں نے آپ سے باتیں کیں؟ آپ نے پھر تشریح کرنی چاہی مگر ابو بکر نے قسم دے کر کہا کہ صرف اس سوال کا جواب دیجئے اور کچھ نہ کہئے.جب آپ نے اثبات میں جواب دیا تو ابو بکر نے کہا گواہ رہے میں آپ پر ایمان لاتا ہوں اور پھر کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ تو دلائل دے کر میرے ایمان کو کمزور کرنے لگے تھے.جس نے آپ کی زندگی کو دیکھا ہو کیا اُسے آپ کی سچائی کے لئے کسی اور دلیل کی ضرورت ہو سکتی ہے؟ ۱۹۲

Page 204

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۲ دیباچہ تفسیر القرآن مؤمنوں کی چھوٹی سی جماعت یہ ایک چھوٹی سی جماعت تھی جس سے اسلام کی بنیاد پڑی.ایک عورت کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ رہی 66 تھی ، ایک گیارہ سالہ بچہ، ایک جوان آزاد کردہ غلام، بے وطن اور غیروں میں رہنے والا جس کی پشت پر کوئی نہ تھا.ایک نوجوان دوست اور ایک مدعی الہام.یہ وہ چھوٹا سا قافلہ تھا جو دنیا کی میں نور پھیلانے کے لئے کفر و ضلالت کے میدان کی طرف نکلا.لوگوں نے جب یہ باتیں سنیں اُنہوں نے قہقہے لگائے.باہم دگر چشمکیں کیں اور نظروں ہی نظروں میں ایک دوسرے کو جتایا کہ یہ لوگ مجنون ہو گئے ہیں ان کی باتوں سے متعجب نہ ہو، بلکہ سنو اور مزہ اُٹھاؤ.مگر حق اپنی پوری شان کے ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوا اور یسعیاہ نبی کی پیشگوئی کے مطابق حکم پر حکم حکم پر حکم.قانون پر قانون.قانون پر قانون.۱۹۳ ہوتا گیا.تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں ۱۹۴۷ء اور جنبی زبان ۱۹۵۷ء سے جس سے عرب پہلے نا آشنا تھے ، خدا نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ عربوں سے باتیں کرنی شروع کیں.نوجوانوں کے دل لرزنے لگے، صداقت کے متلاشیوں کے جسموں پر کپکپی پیدا ہوئی.اُن کی ہنسی ٹھٹھے اور استہزاء کی آوازوں میں پسندیدگی اور تحسین کے کلمات بھی آہستہ آہستہ بلند ہونے شروع ہوئے.غلاموں ، نوجوانوں اور مظلوم عورتوں کا ایک جتھا آپ کے گرد جمع ہونے لگ گیا.کیونکہ آپ کی آواز میں عورتیں اپنے حقوق کی حفاظت دیکھ رہی تھیں.غلام اپنی آزادی کا اعلان سن رہے تھے اور نوجوان بڑی بڑی اُمیدوں اور ترقیوں کے راستے کھلتے ہوئے محسوس کر رہے تھے.رؤسائے مکہ کی مخالفت جب جنسی اور ٹھٹھے کی آوازوں میں سے تحسین اور تعریف کی آوازیں بھی بلند ہونا شروع ہو گئیں ، تو مکہ کے رؤساء و گھبرا گئے ، حکام کے دل میں خوف پیدا ہونے لگا.وہ جمع ہوئے ، انہوں نے مشورے کئے ، منصوبے باندھے اور جنسی اور ٹھیٹھے کی جگہ ظلم و تعدی اور سختی اور قطع تعلق کی تجاویز کا فیصلہ کیا گیا اور کی اُن پر عمل ہونا شروع ہوا.اب مکہ سنجیدگی سے اسلام کے ساتھ ٹکرانے کا فیصلہ کر چکا تھا.اب وہ ”پاگلا نہ دعویٰ ایک ترقی کرنے والی حقیقت نظر آ رہا تھا.مکہ کی سیاست کے لئے خطرہ ، مکہ کے مذہب کے لئے خطرہ ، مکہ کے تمدن کے لئے خطرہ اور مکہ کے رسم و رواج کے لئے خطرہ دکھائی

Page 205

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۳ دیباچہ تفسیر القرآن دے رہا تھا.اسلام ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بناتا ہوا نظر آتا تھا.جس نئے آسمان اور زمین کے ہوتے ہوئے عرب کا پرانا آسمان اور پُرانی زمین قائم نہیں رہ سکتے تھے.اب یہ سوال مکہ والوں کے لئے ہنسی کا سوال نہیں رہا تھا اب یہ زندگی اور موت کا سوال تھا.اُنہوں نے اسلام کے چیلنج کو قبول کیا اور اُسی روح کے ساتھ قبول کیا جس روح کے ساتھ نبیوں کے دشمن نبیوں کے چیلنج کو قبول کرتے چلے آئے تھے اور وہ دلیل کا جواب دلیل سے نہیں بلکہ تلوار اور تیر کے ساتھ دینے پر آمادہ ہو گئے.اسلام کی خیر خواہی کا جواب ویسے ہی بلند اخلاق کے ذریعہ سے نہیں بلکہ گالی گلوچ اور بد کلامی سے دینے کا اُنہوں نے فیصلہ کر لیا.ایک دفعہ پھر دنیا میں کفر اور اسلام کی لڑائی شروع ہو گئی.ایک دفعہ پھر شیطان کے لشکروں نے فرشتوں پر ہلہ بول دیا.بھلا اُن مٹھی بھر آدمیوں کی طاقت ہی کیا تھی کہ مکہ والوں کے سامنے ٹھہر سکیں.عورتیں بے شرمانہ طریقوں سے قتل کی گئیں.مرد ٹانگیں چیر چیر کر مار ڈالے گئے ، غلام تپتی ہوئی ریت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹے گئے.اس حد تک کہ اُن کے چمڑے انسانی چمڑوں کی شکلیں بدل کر حیوانی چمڑے بن گئے.ایک مدت بعد اسلام کی فتح کے زمانہ میں جب اسلام کا جھنڈا مشرق و مغرب میں لہرا رہا تھا ایک دفعہ ایک ابتدائی نو مسلم غلام خباب کی پیٹھ نگی ہوئی تو اُن کے ساتھیوں نے دیکھا کہ اُن کی پیٹھ کا چمڑا انسانوں جیسا نہیں جانوروں جیسا ہے وہ گھبرا گئے اور اُن سے دریافت کیا کہ آپ کو یہ کیا بیماری ہے؟ وہ ہنسے اور کہا بیماری نہیں یہ یادگار ہے اُس وقت کی جب ہم نومسلم غلاموں کو عرب کے لوگ مکہ کی گلیوں میں سخت اور کھردرے پتھروں پر گھسیٹا کرتے تھے اور متواتر یہ ظلم ہم پر روار کھے جاتے تھے اُسی کے نتیجہ میں میری پیٹھ کا چمڑہ یہ شکل اختیار کر گیا ہے.مؤمن غلاموں پر کفار مکہ کا ظلم و ستم یہ غلام جو سول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ر ایمان لائے مختلف اقوام کے تھے ان میں حبشی بھی تھے جیسے بلال ، رومی بھی تھے جیسے صہیب.پھر اُن میں عیسائی بھی تھے جیسے جیر اور صہیب.اور مشرکین بھی تھے جیسے بلال اور عمار.بلال کو اُس کے مالک تپتی ریت پر لٹاتی کر او پر یا تو پتھر رکھ دیتے یا نو جوانوں کو سینہ پر کودنے کے لئے مقرر کر دیتے.حبشی النسل بلال امیہ بن خلف نامی ایک مکی رئیس کے غلام تھے.اُمیہ انہیں دو پہر کے وقت گرمی کے موسم میں مکہ

Page 206

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۴ دیباچ تفسیر القرآن سے باہر لے جا کر تپتی ہوئی ریت پر ننگا کر کے لٹا دیتا تھا اور بڑے بڑے گرم پتھر اُن کے سینہ پر رکھ کر کہتا تھا کہ لات اور عزیٰ کی الوہیت کو تسلیم کر اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) سے علیحدگی کا اظہار کر.بلال اُس کے جواب میں کہتے اَحَدٌ اَحَدٌ ۱۹۶ یعنی اللہ ایک ہی ہے اللہ ایک ہی ہے.بار بار آپ کا یہ جواب سن کر اُمیہ کو اور غصہ آجاتا اور وہ آپ کے گلے میں رسہ ڈال کر شریر لڑکوں کے حوالے کر دیتا اور کہتا کہ ان کو مکہ کی گلیوں میں پتھروں کے اوپر سے گھسیٹتے ہوئے لے جائیں.جس کی وجہ سے اُن کا بدن خون سے تر بتر ہو جا تا مگر وہ پھر بھی اَحَدٌ اَحَدٌ کہتے چلے جاتے ، یعنی خدا ایک خدا یک.عرصہ کے بعد جب خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو مدینہ میں امن دیا جب وہ آزادی سے عبادت کرنے کے قابل ہو گئے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال کو اذان دینے کے لئے مقرر کیا.یہ حبشی غلام جب اذان میں اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللہ کی بجائے أَسْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللہ کہتا تو مدینہ کے لوگ جو اُس کے حالات سے ناواقف تھے ہنسنے لگ جاتے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بلال کی اذان پر ہنستے ہوئے پایا تو کی آپ لوگوں کی طرف مڑے اور کہا تم بلال کی اذان پر ہنستے ہومگر خدا تعالیٰ عرش پر اُس کی اذان سن کر خوش ہوتا ہے.آپ کا اشارہ اسی طرف تھا کہ تمہیں تو یہ نظر آتا ہے کہ یہ ”ش“ نہیں بول سکتا.مگر ش“ اور ”س“ میں کیا رکھا ہے خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ جب تپتی ریت پر نگی پیٹھ کے ساتھ اس کو لٹا دیا جاتا تھا اور اس کے سینہ پر ظالم اپنی جوتیوں سمیت کو دا کرتے تھے اور پوچھتے تھے کہ کیا اب بھی سبق آیا ہے یا نہیں ؟ تو یہ اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں اَحَدٌ اَحَدٌ کہہ کر خدا تعالیٰ کی تو حید کا اعلان کرتا رہتا تھا اور اپنی وفاداری ، اپنے تو حید کے عقیدہ اور اپنے دل کی مضبوطی کا ثبوت دیتا تھا.پس اُس کا اسهَدُ بہت سے لوگوں کے اشہد سے زیادہ قیمتی تھا.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب اُن پر یہ ظلم دیکھے تو اُن کے مالک کو اُن کی قیمت ادا کر کے اُنہیں آزاد کروا دیا.اسی طرح اور بہت سے غلاموں کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے مال سے آزاد کرایا.ان غلاموں میں سے صہیب ایک مالدار آدمی تھے.یہ تجارت کرتے تھے اور مکہ کے با حیثیت آدمیوں میں سمجھے جاتے تھے مگر باوجود اس کے کہ وہ مالدار بھی تھے اور آزاد بھی ہو چکے تھے قریش اُن کو مار مار کر بیہوش کر دیتے تھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ

Page 207

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۵ دیباچہ تفسیر القرآن کی طرف ہجرت کر گئے تو آپ کے بعد صہیب نے بھی چاہا کہ وہ بھی ہجرت کر کے مدینہ چلے جائیں مگر مکہ کے لوگوں نے اُن کو روکا اور کہا کہ جو دولت تم نے مکہ میں کمائی ہے تم اسے مکہ سے باہر کس طرح لے جا سکتے ہو ہم تمہیں مکہ سے جانے نہیں دیں گے.صہیب نے کہا اگر میں یہ سب کی سب دولت چھوڑ دوں تو کیا پھر تم مجھے جانے دو گے؟ وہ اِس بات پر رضا مند ہو گئے اور آپ اپنی ساری دولت مکہ والوں کے سپر د کر کے خالی ہاتھ مدینہ چلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا.صہیب ! تمہارا یہ سو دا سب پہلے سودوں سے نفع مند رہا.یعنی پہلے اسباب کے مقابلہ میں تم روپیہ حاصل کیا کرتے تھے مگر اب روپیہ کے مقابلہ میں تم نے ایمان حاصل کیا ہے.ان غلاموں میں اکثر تو ظاہر و باطن میں مستقل رہے، لیکن بعض سے ظاہر میں کمزوریاں بھی ظاہر ہوئیں.چنانچہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عمار نامی غلام کے پاس سے گزرے تو جی دیکھا کہ وہ سسکیاں لے رہے تھے اور آنکھیں پونچھ رہے تھے.آپ نے پوچھا عمار! کیا معاملہ ہے؟ عمار نے کہا اے اللہ کے رسول ! بہت ہی بُرا.وہ مجھے مارتے گئے اور دکھ دیتے گئے اور اُس وقت تک نہیں چھوڑا جب تک میرے منہ سے آپ کے خلاف اور دیوتاؤں کی تائید میں کلمات نہیں نکلوا لئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا لیکن تم اپنے دل میں کیا محسوس کر تے تھے؟ عمار نے کہا دل میں تو ایک غیر متزلزل ایمان محسوس کرتا تھا.آپ نے فرمایا اگر دل ایمان پر مطمئن تھا تو خدا تعالیٰ تمہاری کمزوری کو معاف کر دے گا.۱۹۷ آپ کے والد یا سر اور آپ کی والدہ سمیہ کو بھی کفار بہت دکھ دیتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جبکہ اُن دونوں کو دکھ دیا جا رہا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس سے گزرے.آپ نے اُن دونوں کی تکلیفوں کو دیکھا اور آپ کا دل درد سے بھر آیا.آپ اُن سے مخاطب ہو کر بولے صَبراً آلَ يَاسِر فَإِنَّ مَوْعِدَ كُمُ الْجَنَّةَ - ۱۹۸ اے یاسر کے خاندان ! صبر سے کام لو.خدا نے تمہارے لئے جنت تیار کر چھوڑی ہے.اور یہ پیشگوئی تھوڑے ہی دنوں میں پوری ہوگئی کیونکہ یا سر مار کھاتے کھاتے مر گئے مگر اس پر بھی کفار کو صبر نہ آیا اور اُنہوں نے اُن کی بڑھیا بیوی سمیہ پر ظلم جاری رکھے.چنانچہ ابو جہل نے ایک دن غصہ میں اُن کی ران پر زور

Page 208

انوار العلوم جلد ۲۰ ١٩٦ دیباچہ تفسیر القرآن سے نیزہ مارا جو ران کو چیرتا ہوا اُن کے پیٹ میں گھس گیا اور تڑپتے ہوئے اُنہوں نے جان دے دی.۱۹۹ ز نبیرہ بھی ایک لونڈی تھیں اُن کو ابوجہل نے اتنا مارا کہ اُن کی آنکھیں ضائع ہو گئیں.۲۰۰.ابو فلیہہ صفوان بن امیہ کے غلام تھے.اُن کو اُن کا مالک اور اُس کا خاندان گرم تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا اور بڑے بڑے گرم پھر اُن کے سینہ پر رکھ دیتا یہاں تک کہ اُن کی زبان باہر نکل آتی.یہی حال باقی غلاموں کا بھی تھا.۲۰۱ بیشک یہ ظلم انسانی طاقت سے بالا تھے، مگر جن لوگوں پر یہ ظلم کئے جارہے تھے وہ ظاہر میں انسان تھے اور باطن میں فرشتے.قرآن صرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل اور کانوں پر نازل نہیں ہو رہا تھا خدا اُن لوگوں کے دلوں میں بھی بول رہا تھا اور کبھی کوئی مذہب قائم نہیں ہو سکتا جب تک اس کے ابتدائی ماننے والوں کے دلوں میں سے خدا کی آواز بلند نہ ہو.جب انسانوں نے اُن کو چھوڑ دیا، جب رشتہ داروں نے اُن سے منہ پھیر لیا تو خدا تعالیٰ اُن کے دلوں میں کہتا تھا میں تمہارے ساتھ ہوں، میں تمہارے ساتھ ہوں اور یہ سب ظلم اُن کے لئے راحت ہو جاتے تھے.گالیاں دعائیں بن کر لگتی تھیں.پتھر مرہم کے قائمقام ہو جاتے تھے مخالفتیں بڑھتی گئیں مگر ایمان بھی ساتھ ہی ترقی کرتا گیا.ظلم اپنی انتہاء کو پہنچ گیا مگر اخلاص بھی تمام گزشتہ حد بندیوں سے اُو پر نکل گیا.آزاد مسلمانوں پر بھی کچھ کم ظلم نہیں ہوتے تھے.اُن کے بزرگ آزاد مسلمانوں پر ظلم اور خاندانوں کے بڑے لوگ انہیں بھی قم قم کی تکلیفیں دیتے تھے.حضرت عثمان چالیس سال کی عمر کے قریب کے تھے اور مالدار آدمی تھے مگر باوجود اس کے جب قریش نے مسلمانوں پر ظلم کرنے کا فیصلہ کیا تو ان کے چچا حکم نے اُن کو رسیوں سے باندھ کر خوب پیٹا.زبیر بن العوام ایک بہت بڑے بہادر نوجوان تھے.اسلام کی فتوحات کے زمانہ میں وہ ایک زبر دست جرنیل ثابت ہوئے.ان کا چا بھی اُن کو خوب تکلیفیں دیتا تھا.چٹائی میں لپیٹ دیتا تھا اور نیچے سے دُھواں دیتا تھا تا کہ اُن کا سانس رُک جائے اور پھر کہتا تھا کہ کیا اب

Page 209

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۷ بھی اسلام سے باز آؤ گے یا نہیں؟ مگر وہ ان تکالیف کو برداشت کرتے اور جواب میں یہی کہتے کہ میں صداقت کو پہچان کر اُس سے انکار نہیں کر سکتا.حضرت ابوذر، غفار قبیلہ کے ایک آدمی تھے وہاں اُنہوں نے سنا کہ مکہ میں کسی شخص نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کا دعوی کیا ہے.وہ تحقیقات کے لئے مکہ آئے تو مکہ والوں نے اُنہیں ورغلایا اور کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ہمارا رشتہ دار ہے.ہم جانتے ہیں کہ اُس نے ایک دکان کھولی ہے.مگر ابوذر اپنے ارادہ سے باز نہ آئے اور کئی تدابیر اختیار کر کے آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا پہنچے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی تعلیم بتائی اور آپ اسلام لے آئے.آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لی کہ اگر میں کچھ عرصہ تک اپنی قوم کو اپنے اسلام کی خبر نہ دوں تو کچھ حرج تو نہیں ؟ آپ نے فرمایا اگر چند دن کی خاموش رہیں تو کوئی حرج نہیں.اس اجازت کے ساتھ وہ اپنے قبیلہ کی طرف واپس چلے اور دل میں فیصلہ کر لیا کہ کچھ عرصہ تک میں اپنے حالات کو درست کرلوں گا تو اپنے اسلام کو ظاہر کروں گا.جب وہ مکہ کی گلیوں میں سے گزر رہے تھے تو انہوں نے دیکھا کہ رؤسائے مکہ اسلام کے خلاف گالی گلوچ کر رہے ہیں.کچھ دنوں کے لئے اپنے عقیدہ کو چھپائے رکھنے کا خیال اُن کے دل سے اُسی وقت محو ہو گیا.اور بے اختیار ہو کر اُنہوں نے اس مجلس کے سامنے یہ اعلان کیا اَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لا شَريكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه - یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں.دشمنوں کی اس مجلس میں اس آواز کا اُٹھنا تھا کہ سب لوگ ان کو مارنے کے لئے اُٹھ کھڑے ہوئے اور اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہو کر جا پڑے لیکن پھر بھی ظالموں نے اپنے ہاتھ نہ کھینچے اور مارتے ہی چلے گئے.اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس جو اُس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے وہاں آگئے اور اُنہوں نے اِن لوگوں کو سمجھایا ج کہ ابوذر کے قبیلہ میں سے ہو کر تمہارے غلے کے قافلے آتے ہیں اگر اُس کی قوم کو غصہ آگیا تو کی مکہ بھوکا مر جائے گا.اِس پر اُن لوگوں نے اُن کو چھوڑ دیا.ابوذر نے ایک دن آرام کیا اور دوسرے دن پھر اُسی مجلس میں پہنچے.وہاں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف باتیں کرنا

Page 210

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۸ دیباچهتفسیر القرآن روزانہ کا شغل تھا.جب یہ خانہ کعبہ میں گئے تو پھر وہی ذکر ہورہا تھا.اُنہوں نے پھر کھڑے ہو کر اپنے عقیدہ توحید کا اعلان کیا اور پھر اُن لوگوں نے اُن کو مارنا پیٹنا شروع کیا.اسی طرح تین دن ہوتا رہا.اس کے بعد یہ اپنے قبیلہ کی طرف چلے گئے.۲۰۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر مظالم خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بھی محفوظ نہ تھی.طرح طرح سے آپ کو دکھ دیا جاتا تھا.ایک دفعہ آپ عبادت کر رہے تھے کہ آپ کے گلے میں پڑکا ڈال کر لوگوں نے کھینچنا شروع کیا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں باہر نکل آئیں.اتنے میں حضرت ابو بکر کی وہاں آگئے اور اُنہوں نے یہ کہتے ہوئے چھڑایا کہ اے لوگو! کیا تم ایک آدمی کو اس جرم میں قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے خدا میرا آقا ہے.ایک دفعہ آپ نماز پڑھ رہے تھے کہ آپ کی پیٹھ پر اُونٹ کی اوجھری لا کر رکھ دی گئی اور اس کے بوجھ سے اُس وقت تک آپ سر نہ اُٹھا سکے جب تک بعض لوگوں نے پہنچ کر اُس او جھری کو آپ کی پیٹھ سے ہٹا یا نہیں.۲۰۴ ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے تو مکہ کے اوباشوں کی ایک جماعت آپ کے گرد ہوگئی اور رستہ بھر آپ کی گردن پر یہ کہ کر تھپڑ مارتی چلی گئی کہ لوگو! یہ وہ شخص ہے جو کہتا ہے میں نبی ہوں.آپ کے گھر میں اردگرد کے گھروں سے متواتر پتھر پھینکے جاتے تھے.باورچی خانہ میں گندی چیزیں پھینکی جاتی تھیں.جن میں بکروں اور اونٹوں کی انتڑیاں بھی شامل ہوتی تھیں.جب آپ نماز پڑھتے تو آپ پر خاک دھول ڈالی جاتی حتی کہ مجبور ہو کر آپ کو چٹان میں سے نکلے ہوئے ایک پتھر کے نیچے چھپ کر نماز پڑھنی پڑتی تھی.مگر یہ مظالم بریکار نہ جارہے تھے.شریف الطبع لوگ اِن کو دیکھتے اور اسلام کی طرف اُن کے دل کھنچے چلے جاتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن خانہ کعبہ کے قریب صفا پہاڑی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ ابو جہل آپ کا سب سے بڑا دشمن اور مکہ کا سردار وہاں سے گزرا اور اُس نے آپ کو گالیاں دینی شروع کیں.آپ اُس کی گالیاں سنتے رہے اور کوئی جواب نہ دیا اور خاموشی سے اُٹھ کر اپنے گھر چلے گئے.آپ کے خاندان کی ایک لونڈی اس واقعہ کو دیکھ رہی تھی.شام کے وقت آپ کے چا حمزہ جو

Page 211

انوار العلوم جلد ۲۰ ۱۹۹ دیباچہ تفسیر القرآن ایک نہایت دلیر اور بہادر آدمی تھے اور جن کی بہادری کی وجہ سے شہر کے لوگ اُن سے خائف تھے شکار کھیل کر جنگل سے واپس آئے اور کندھے کے ساتھ کمان لٹکائے ہوئے نہایت ہی تبختر ۲۰۵ کے ساتھ اپنے گھر میں داخل ہوئے.لونڈی کا دل صبح کے نظارہ سے بے حد متاثر تھا.وہ حمزہ کو اس شکل میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکی اور انہیں طعنہ دے کر کہا.تم بڑے بہادر بنے پھرتے ہو ، ہر وقت اسلحہ سے مسلح رہتے ہو.مگر کیا تمہیں معلوم ہے کہ صبح ابو جہل نے تمہارے بھیجے سے کیا کیا ؟ حمزہ نے پوچھا کیا کیا ؟ اُس نے وہ سب واقعہ حمزہ کے سامنے بیان کیا.حمزہ گو مسلمان نہ تھے مگر دل کے شریف تھے.اسلام کی باتیں تو سنی ہوئی تھیں اور یقیناً اُن کے دل پر ان کا اثر ہو چکا تھا مگر اپنی آزاد زندگی کی وجہ سے سنجیدگی کے ساتھ اُن پر غور کرنے کا موقع نہیں ملا تھا لیکن اس واقعہ کوسن کر اُن کی رگِ حمیت جوش میں آ گئی.آنکھوں پر سے غفلت کا پردہ دُور ہو گیا اور انہیں یوں معلوم ہوا کہ ایک قیمتی چیز ہاتھوں سے نکلی جا رہی ہے.اُسی وقت گھر سے باہر آئے اور خانہ کعبہ کی طرف گئے جو رؤساء کے مشورے کا مخصوس مقام تھا.اپنی کمان کند ھے سے اُتاری اور زور سے ابو جہل کو ماری اور کہا سنو ! میں بھی محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب کو اختیار کرتا ہوں.تم نے صبح اُسے بلا وجہ گالیاں دیں اس لئے کہ وہ آگے سے جواب نہیں دیتا.اگر بہادر ہو تو آب میری مار کا جواب دو.یہ واقعہ ایسا اچانک ہوا کہ ابو جہل بھی گھبرا گیا.اُس کے ساتھی حمزہ سے لڑنے کو اُٹھے لیکن حمزہ کی بہادری کا خیال کر کے اور اُن کے قومی جتھا پر نظر کر کے ابو جہل نے خیال کیا کہ اگر لڑائی شروع ہو گئی تو اس کا نتیجہ نہایت خطر ناک نکلے گا اس لئے مصلحت سے کام لے کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو یہ کہتے ہوئے روک دیا کہ چلو جانے دو میں نے واقعہ میں اس کے بھتیجے کو بہت بُری طرح گالیاں دی تھیں.۲۰۶ پیغام اسلام جب مخالفت تیز ہوگئی اور ادھر سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے اصرار سے مکہ والوں کو خدا تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچانا شروع کیا کہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا خدا ایک ہے، اُس کے سوا کوئی اور معبود نہیں.جس قدر نبی گذرے ہیں سب ہی اُس کی توحید کا اقرار کیا کرتے تھے اور اپنے ہم قوموں کو بھی اسی تعلیم کی طرف بلایا

Page 212

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۰۰ دیباچہ تفسیر القرآن کرتے تھے.تم خدائے واحد پر ایمان لاؤ ، اِن پتھر کے بتوں کو چھوڑ دو کہ یہ بالکل بے کار ہیں اور ان میں کوئی طاقت نہیں.اے مکہ والو! کیا تم دیکھتے نہیں کہ ان کے سامنے جو نذرو نیاز رکھی جاتی ہے اگر اس پر مکھیوں کا جھرمٹ آ بیٹھے تو وہ ان مکھیوں کو اُڑانے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ، اگر کوئی اُن پر حملہ کرے تو وہ اپنی حفاظت نہیں کر سکتے ، اگر کوئی اُن سے سوال کرے تو وہ جواب نہیں دے سکتے ، اگر کوئی ان سے مدد مانگے تو وہ اس کی مدد نہیں کر سکتے.مگر خدائے واحد تو مانگنے والوں کی ضرورت پوری کرتا ہے.سوال کرنے والوں کو جواب دیتا ہے.مدد مانگنے والوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو زیر کرتا ہے اور اپنے عبادت گزار بندوں کو اعلیٰ ترقیات بخشتا ہے.اُس سے روشنی آتی ہے جو اس کے پرستاروں کے دلوں کو منور کر دیتی ہے.پھر تم کیوں ایسے خدا کو چھوڑ کر بے جان بتوں کے آگے جھکتے ہو اور اپنی عمر ضائع کر رہے ہو.تم دیکھتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کی توحید کو چھوڑ کر تمہارے خیالات بھی گندے اور دل بھی تاریک ہو گئے ہیں.تم قسم قسم کی وہی تعلیموں میں مبتلا ہو.حلال وحرام کی تم میں تمیز نہیں رہی.اچھے اور بُرے میں تم امتیاز نہیں کر سکتے.اپنی ماؤں کی بے حرمتی کرتے ہو، اپنی بہنوں اور بیٹیوں پر ظلم کرتے ہو اور ان کے حق اُنہیں نہیں دیتے.اپنی بیویوں سے تمہارا سلوک اچھا نہیں.یتامیٰ کے حق مارتے ہو اور بیواؤں سے بُرا سلوک کرتے ہو.غریبوں اور کمزوروں پر ظلم کرتے ہو اور دوسروں کے حق مار کر اپنی بڑائی قائم کرنا چاہتے ہو.جھوٹ اور فریب سے تم کو عار نہیں.چوری اور ڈا کہ سے تم کو نفرت نہیں.جوا اور شراب تمہارا شغل ہے.حصول علم اور قومی خدمت کی طرف تمہاری توجہ نہیں.خدائے واحد کی طرف سے کب تک غافل رہو گے.آؤ اور اپنی اصلاح کرو اور ظلم چھوڑ دو.ہر حق دار کو اُس کا حق دو.خدا نے اگر مال دیا ہے تو ملک وقوم کی خدمت اور کمزوروں کی اور غریبوں کی ترقی کے لئے اُسے خرچ کرو.عورتوں کی عزت کرو اور ان کے حق ادا کرو.یتیموں کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھو اور اُن کی خبر گیری کو اعلیٰ درجہ کی نیکی سمجھو.بیواؤں کا سہارا بنو.نیکیوں اور تقویٰ کو قائم کرو.انصاف اور عدل ہی نہیں بلکہ رحم اور احسان کو اپنا شعار بناؤ.اس دنیا میں تمہارا آنا بیکار نہ جانا چاہئے.اچھے آثار اپنے پیچھے چھوڑ و، تا دائمی نیکی کا بیج بویا جائے.حق لینے میں نہیں بلکہ قربانی اور ایثار میں اصل عزت ہے.پس تم قربانی کرو ، خدا کے قریب ہو.

Page 213

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن خدا کے بندوں کے مقابل پر ایثار کا نمونہ دکھاؤ تا خدا تعالیٰ کے ہاں تمہارا حق قائم ہو.بے شک ہم کمزور ہیں مگر ہماری کمزوری کو نہ دیکھو.آسمان پر سچائی کی حکومت کا فیصلہ ہو چکا ہے.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے عدل کا تر از درکھا جائے گا اور انصاف اور رحم کی حکومت قائم کی جائے گی جس میں کسی پر ظلم نہ ہوگا.مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی نہ کی جائے گی.عورتوں اور غلاموں پر جو ظلم ہوتے رہے ہیں وہ مٹا دیئے جائیں گے اور شیطان کی حکومت کی جگہ خدائے واحد کی حکومت قائم کر دی جائے گی.کفار مکہ کی ابو طالب کے پاس شکایت جب یہ تعلیمیں بار بار مکہ والوں کو سنائی جانے لگیں اور شریف الطبع اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقلال لوگوں کی رغبت اسلام کی طرف بڑھنے لگی تو ایک دن مکہ کے سردار جمع ہو کر آپ کے چا ابوطالب کے پاس آئے اور اُن سے کہا کہ آپ ہمارے رئیس ہیں اور آپ کی خاطر ہم نے آپ کے بھتیجے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو کچھ نہیں کہا.اب وقت آگیا ہے کہ آپ کے ساتھ ہم آخری فیصلہ کریں یا تو آپ اُسے سمجھا ئیں اور ی اس سے پوچھیں کہ آخر وہ ہم سے چاہتا کیا ہے.اگر اُس کی خواہش عزت حاصل کرنے کی ہے تو ہم اسے اپنا سردار بنانے کے لئے تیار ہیں.اگر وہ دولت کا خواہش مند ہے تو ہم میں سے ہر شخص اپنے مال کا کچھ حصہ اُس کو دینے کے لئے تیار ہے.اگر اُ سے شادی کی خواہش ہے تو مکہ کی ہرلڑکی جو اُسے پسند ہو اُس کا نام لے ہم اُس سے اُس کا بیاہ کرانے کے لئے تیار ہیں.ہم اس کے بدلہ میں اُس سے کچھ نہیں چاہتے اور کسی بات سے نہیں روکتے.ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے بتوں کو بُرا کہنا چھوڑ دے.وہ بیشک کہے خدا ایک ہے مگر یہ نہ کہے کہ ہمارے بتی بُرے ہیں.اگر وہ اتنی بات مان لے تو ہماری اس سے صلح ہو جائے گی.آپ اُسے سمجھا ئیں اور ہماری تجویز کے قبول کرنے پر آمادہ کریں.ورنہ پھر دو باتوں میں سے ایک ہو گی یا آپ کو اپنا بھتیجا چھوڑنا پڑے گا یا آپ کی قوم آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دے گی.ابوطالب کے لئے یہ بات نہایت ہی شاق تھی.عربوں کے پاس روپیہ پیسہ تو تھوڑا ہی ہوتا تھا ت ان کی ساری خوشی اُن کی ریاست میں ہوتی تھی.رؤساء قوم کے لئے زندہ رہتے تھے اور قوم کی

Page 214

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۰۲ دیباچہ تفسیر القرآن رؤساء کے لئے زندہ رہتی تھی.یہ بات سن کر ابو طالب بیتاب ہو گئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلوایا اور کہا کہ اے میرے بھتیجے ! میری قوم میرے پاس آئی ہے اور اس نے مجھے یہ پیغام دیا ہے اور ساتھ ہی انہوں نے مجھے یہ بھی کہہ دیا ہے کہ اگر تمہارا بھتیجا ان باتوں میں سے کسی ایک بات پر بھی راضی نہ ہو تو پھر ہماری طرف سے ہر ایک قسم کی پیشکش ہو چکی ہے اگر وہ اس پر بھی اپنے طریقہ سے باز نہیں آتا تو آپ کا کام ہے کہ اسے چھوڑ دیں اور اگر آپ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہ ہوں تو پھر ہم لوگ آپ کی ریاست سے انکار کر کے آپ کو چھوڑ دیں گے.جب ابو طالب نے یہ بات کی تو اُن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.اُن کے آنسوؤں کو دیکھ کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا اے میرے چا ! کج میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اپنی قوم کو چھوڑ دیں اور میرا ساتھ دیں.آپ بیشک میرا ساتھ چھوڑ دیں اور اپنی قوم کے ساتھ مل جائیں.لیکن مجھے خدائے وحدہ لاشریک کی قسم ہے کہ اگر سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدا تعالیٰ کی توحید کا وعظ کرنے سے باز نہیں رہ سکتا.میں اپنے کام میں لگا رہوں گا جب تک خدا مجھے موت دے.آپ کی اپنی مصلحت کو خود سوچ لیں.یہ ایمان سے پُر اور یہ اخلاص سے بھرا ہوا جواب ابو طالب کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی تھا.اُنہوں نے سمجھ لیا کہ گو مجھے ایمان لانے کی توفیق نہیں ملی لیکن اس ایمان کا نظارہ دیکھنے کی توفیق ملنا ہی سب دولتوں سے بڑی دولت ہے اور آپ نے کہا اے میرے بھتیجے ! جا اور اپنا فرض ادا کرتارہ.قوم اگر مجھے چھوڑنا چاہتی ہے تو بیشک چھوڑ دے میں تجھے نہیں چھوڑ سکتا.۲۰۷ حبشہ کی طرف ہجرت جب مکہ والوں کا ظلم انتہاء کو پہنچ گیا تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن اپنے ساتھیوں کو بلوایا اور فرمایا مغرب کی طرف کی سمندر پار ایک زمین ہے جہاں خدا کی عبادت کی وجہ سے ظلم نہیں کیا جاتا.مذہب کی تبدیلی کی وجہ سے لوگوں کو قتل نہیں کیا جاتا وہاں ایک منصف بادشاہ ہے، تم لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ شاید تمہارے لئے آسانی کی راہ پیدا ہو جائے.کچھ مسلمان مرد اور عورتیں اور بچے آپ کے اس ارشاد پر ایسے سینیا کی طرف چلے گئے.ان لوگوں کا مکہ سے نکلنا کوئی معمولی بات نہ تھی.مکہ

Page 215

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن کے لوگ اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا متولی سمجھتے تھے اور مکہ سے باہر چلے جانا ان کے لئے ایک نا قابل برداشت صدمہ تھا.وہی شخص یہ بات کہہ سکتا تھا جس کے لئے دنیا میں کوئی اور ٹھکانہ باقی نہ رہے.پس ان لوگوں کا نکلنا ایک نہایت ہی دردناک واقعہ تھا.پھر نکلنا بھی اُن لوگوں کو چوری ہی پڑا.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر مکہ والوں کو معلوم ہو گیا تو وہ ہمیں نکلنے نہیں دیں گے اور اس کی وجہ سے وہ اپنے عزیزوں اور پیاروں کی آخری ملاقات سے بھی محروم جا رہے تھے.اُن کے دلوں کی جو حالت تھی سو تھی ، اُن کے دیکھنے والے بھی ان کی تکلیف سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.چنانچہ جس وقت یہ قافلہ نکل رہا تھا حضرت عمرؓ جو اُس وقت تک کا فر اور اسلام کے شدید دشمن تھے اور مسلمانوں کو تکلیف دینے والوں میں سے چوٹی کے آدمی تھے اتفاقاً اُس قافلہ کے بعض افرا د کومل گئے.اُن میں ایک صحابیہ اُم عبداللہ نامی بھی تھیں.بندھے ہوئے سامان اور تیار سواریوں کو جب آپ نے دیکھا تو آپ سمجھ گئے کہ یہ لوگ مکہ کو چھوڑ کر جا رہے ہیں.آپ نے کہا ام عبداللہ یہ تو ہجرت کے سامان نظر آ رہے ہیں.اُم عبداللہ کہتی ہیں میں نے جواب میں کہا ہاں خدا کی قسم ! ہم کسی اور ملک میں چلے جائیں گے کیونکہ تم نے ہم کو بہت دکھ دیئے ہیں اور ہم پر بہت ظلم کئے ہیں ہم اُس وقت تک اپنے ملک میں نہیں لوٹیں گے جب تک خدا تعالیٰ ہمارے لئے کوئی آسانی اور آرام کی صورت نہ پیدا کر دے.اُمّم عبداللہ بیان کرتی ہیں کہ عمر نے جواب میں کہا اچھا خدا تمہارے ساتھ ہو اور میں نے اُن کی آواز میں رفت محسوس کی جو اس سے پہلے میں نے کبھی محسوس نہیں کی تھی.پھر وہ جلدی سے منہ پھیر کر چلے گئے اور میں نے محسوس کیا کہ اس واقعہ سے ان کی طبیعت نہایت ہی غمگین ہوگئی ہے.۲۰۸ جب اُن لوگوں کے ہجرت کرنے کی مکہ والوں کو خبر ہوئی تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا اور سمندر تک ان کے پیچھے گئے مگر یہ قافلہ ان لوگوں کے سمندر تک پہنچنے سے پہلے ہی حبشہ کی طرف روانہ ہو چکا تھا.جب مکہ والوں کو یہ معلوم ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ ایک وفد بادشاہ حبشہ کے پاس بھیجا جائے جو اُ سے مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے اور اُسے تحریک کرے کہ وہ مسلمانوں کو مکہ والوں کے سپر د کر دے تا کہ وہ اُنہیں ان کی اس شوخی کی سزا دیں کہ رؤسائے شہر کے ظلموں کو برداشت نہ کرتے ہوئے وہ مکہ سے کیوں بھاگے تھے.اس وفد میں عمر و بن العاص بھی تھے

Page 216

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۰۴ دیباچہ تفسیر القرآن جو بعد میں مسلمان ہو گئے تھے اور مصر اُنہی کے ہاتھوں فتح ہوا.یہ وفد حبشہ گیا اور بادشاہ سے ملا اور امرائے دربار کو اُنہوں نے خوب اُکسایا، لیکن اللہ تعالیٰ نے بادشاہ حبشہ کے دل کو مضبوط کر دیا اور اُس نے باوجود ان لوگوں کے اصرار کے اور باوجود درباریوں کے اصرار کے مسلمانوں کو کفار کے سپرد کرنے سے انکار کر دیا.جب یہ وفد نا کام واپس آیا تو مکہ والوں نے ان مسلمانوں کو بُلانے کے لئے ایک اور تدبیر سوچی اور وہ یہ کہ حبشہ جانے والے بعض قافلوں میں یہ خبر مشہور کر دی کہ مکہ کے سب لوگ مسلمان ہو گئے ہیں.جب یہ خبر حبشہ پہنچی تو اکثر مسلمان خوشی سے مکہ کی طرف واپس لوٹے مگر مکہ پہنچ کر اُن کو معلوم ہوا کہ یہ خبر محض شرار تا مشہور کی گئی تھی اور اس میں کوئی حقیقت نہیں.اس پر کچھ لوگ تو واپس حبشہ چلے گئے اور کچھ مکہ میں ہی ٹھہر گئے.ان مکہ میں ٹھہر نے والوں میں سے عثمان بن مظعون بھی تھے جو مکہ کے ایک بہت بڑے رئیس کے بیٹے تھے.اس دفعہ ان کے باپ کے ایک دوست ولید بن مغیرہ نے ان کو پناہ دی اور وہ امن سے مکہ میں رہنے لگے.مگر اس عرصہ میں انہوں نے دیکھا کہ بعض دوسرے مسلمانوں کو دکھ دیئے جاتے ہیں اور انہیں سخت سے سخت تکلیفیں پہنچائی جاتی ہیں.چونکہ وہ غیر تمند نوجوان تھے ولید کے پاس گئے اور اُسے کہدیا کہ میں آپ کی پناہ کو واپس کرتا ہوں کیونکہ مجھ سے یہ نہیں دیکھا جا تا کہ دوسرے مسلمان دکھ اُٹھائیں اور میں آرام میں رہوں.چنانچہ ولید نے اعلان کر دیا کہ عثمان اب میری پناہ میں نہیں.اس کے بعد ایک دن لبید عرب کا مشہور شاعر مکہ کے رؤساء میں بیٹھا اپنے شعر سنا رہا تھا کہ اُس نے ایک مصرع پڑھا وَكُلُّ نَعِيمٍ لَامَــــــا لَةَ زَائِلٌ جس کے معنی یہ ہیں کہ ہر نعمت آخر مٹ جانے والی ہے.عثمان نے کہا یہ غلط ہے جنت کی نعمتیں ہمیشہ قائم رہیں گی.لبید ایک بہت بڑا آدمی تھا یہ جواب سن کر جوش میں آ گیا اور اُس نے کہا تی اے قریش کے لوگو! تمہارے مہمان کو تو پہلے اس طرح ذلیل نہیں کیا جا سکتا تھا اب یہ نیا رواج کب سے شروع ہوا ہے؟ اس پر ایک شخص نے کہا یہ ایک بیوقوف آدمی ہے اس کی بات کی پرواہ نہ کریں.حضرت عثمان نے اپنی بات پر اصرار کیا اور کہا بیوقوفی کی کیا بات ہے جو بات میں نے کہی ہے وہ سچ ہے.اس پر ایک شخص نے اُٹھ کر زور سے آپ کے منہ پر گھونسا مارا جس سے آپ

Page 217

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۰۵ دیباچہ تفسیر القرآن کی ایک آنکھ نکل گئی.ولید اُس وقت اُس مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.عثمان کے باپ کے ساتھ اُس کی بڑی گہری دوستی تھی.اپنے مردہ دوست کے بیٹے کی یہ حالت اُس سے دیکھی نہ گئی.مگر مکہ کے رواج کے مطابق جب عثمان اس کی پناہ میں نہیں تھے تو وہ ان کی حمایت بھی نہیں کر سکتا تھا، اس لئے اور تو کچھ نہ کر سکا نہایت ہی دکھ کے ساتھ عثمان ہی کو مخاطب کر کے بولا ! اے میرے بھائی کے بیٹے ! خدا کی قسم تیری یہ آنکھ اس صدمہ سے بچ سکتی تھی جبکہ تو ایک زبر دست حفاظت میں تھا (یعنی میری پناہ میں تھا لیکن تو نے خود ہی اس پناہ کو چھوڑ دیا اور یہ دن دیکھا.عثمان نے جواب میں کہا جو کچھ میرے ساتھ ہوا ہے میں خود اس کا خواہشمند تھا تم میری پھوٹی ہوئی آنکھ پر ماتم کر رہے ہو حالانکہ میری تندرست آنکھ اس بات کیلئے تڑپ رہی ہے کہ جو میری بہن کے ساتھ ہوا ہے وہی میرے ساتھ کیوں نہیں ہوتا.۲۰۹ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ میرے لئے بس ہے.اگر وہ تکلیفیں اُٹھا رہے ہیں تو میں کیوں نہ اُٹھاؤں.میرے لئے خدا کی حمایت کافی ہے.حضرت عمرؓ کا قبول اسلام اس زمانہ میں مکہ میں ایک اور واقعہ ظاہر ہوا جس نے مکہ میں آگ لگا دی اور یہ واقعہ اس طرح ہوا کہ عمر جو بعد میں اسلام کے دوسرے خلیفہ ہوئے اور جو اسلام کے ابتدائی زمانہ میں شدید ترین دشمنوں میں سے تھے.ایک دن بیٹھے بیٹھے اُن کے دل میں خیال آیا کہ اس وقت تک اسلام کے مٹانے کے لئے بہت کچھ کوششیں کی گئی ہیں مگر کامیابی نہیں ہوئی کیوں نہ اسلام کے بانی کو قتل کر دیا جائے اور اس فتنہ کو ہمیشہ کے لئے مٹا دیا جائے.یہ خیال آتے ہی اُنہوں نے تلوار اُٹھائی اور گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں چل کھڑے ہوئے.راستہ میں اُن کا کوئی دوست ملا اور اس حالت میں دیکھ کر کچھ حیران ہوا اور آپ سے سوال کیا کہ عمر ! کہاں جار ہے ہو ؟ عمرؓ نے کہا میں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کرنے کے لئے جا رہا ہوں.اُس نے کہا کیا تم محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قتل کر کے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے قبیلہ سے محفوظ رہ سکو گے؟ اور ذرا اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور تمہارا بہنوئی بھی مسلمان ہو چکے ہیں.یہ خبر حضرت عمرؓ کے سر پر بجلی کی طرح گری انہوں نے سوچا میں جو اسلام کا بدترین دشمن ہوں میں جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مارنے کے لئے جا رہا ہوں میری ہی بہن اور میرا ہی بہنوئی اسلام قبول کر چکے ہیں

Page 218

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۰۶ چهره دیباچہ تفسیر القرآن اگر ایسا ہے تو پہلے مجھے اپنی بہن اور بہنوئی سے نپٹنا چاہئے.یہ سوچتے ہوئے وہ اپنی بہن کے گھر کی طرف چلے جب دروازہ پر پہنچے تو انہیں اندر سے خوش الحانی سے کسی کلام کے پڑھنے کی آواز میں آئیں.یہ پڑھنے والے خباب جو اُن کی بہن اور اُن کے بہنوئی کو قرآن شریف سکھلا رہے تھے.عمر تیزی سے گھر میں داخل ہوئے.اُن کے پاؤں کی آہٹ سن کر خباب تو کسی کو نہ میں چھپ گئے اور اُن کی بہن نے جن کا نام فاطمہ تھا قرآن شریف کے وہ اوراق جو اُس وقت پڑھے جا رہے تھے ، چھپا دیئے.حضرت عمرؓ کمرہ میں داخل ہوئے تو غصہ سے پوچھا میں نے سنا ہے کہ تم اپنے دین سے پھر گئے ہو؟ اور یہ کہہ کر اپنے بہنوئی پر جو ان کے چچازاد بھائی بھی تھے حملہ آور ہوئے.فاطمہ نے جب دیکھا کہ ان کے بھائی عمر ان کے خاوند پر حملہ کرنے لگے تو وہ دوڑ کر اپنے خاوند کے آگے کھڑی ہو گئیں.عمر ہاتھ اُٹھا چکے تھے اُن کا ہاتھ زور سے اُن کے بہنوئی کے منہ کی طرف آرہا تھا اور اب اس ہاتھ کو روکنا اُن کی طاقت سے باہر تھا مگر اب ان کے ہاتھ کے سامنے ان کے بہنوئی کی بجائے ان کی بہن کا چہرہ تھا.عمر کا ہاتھ زور سے فاطمہ کے پر گرا اور فاطمہ کے ناک سے خون کے تراڑے اس بہنے لگے.فاطمہ نے مار تو کھالی مگر دلیری سے کہا عمر ! یہ بات سچ ہے کہ ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور یا درکھیئے کہ ہم اس دین کو نہیں چھوڑ سکتے آپ سے جو کچھ ہوسکتا ہو کر لیں.عمرؓ ایک بہادر آدمی تھے ظلم نے اُن کی بہادری کو مٹا نہیں دیا تھا.ایک عورت اور پھر اپنی بہن کو اپنے ہی ہاتھ سے زخمی دیکھا تو شرمندگی اور ندامت سے گھڑوں پانی پڑتی گیا.بہن کے چہرہ سے خون بہہ رہا تھا اور عمر کے دل سے اب ان کا غصہ دور ہو چکا تھا.اپنی بہن سے معافی مانگنے کی خواہش زور پکڑ رہی تھی اور تو کوئی بہانہ نہ سُوجھا بہن سے بولے اچھا! لاؤ مجھے وہ کلام تو سناؤ جو تم لوگ ابھی پڑھ رہے تھے.فاطمہ نے کہا میں نہیں دکھاؤں گی.کیونکہ آپ ان اوراق کو ضائع کر دو گے.عمر نے کہا نہیں بہن میں ایسا نہیں کروں گا.فاطمہ نے کہا تم تو نجس ہو پہلے غسل کرو پھر دکھاؤں گی عمر ندامت کی شدت کی وجہ سے سب کچھ کرنے کے لیے تیار تھے.وہ غنسل پر بھی راضی ہو گئے.جب غسل کر کے واپس آئے تو فاطمہ نے اُن کے ہاتھ میں قرآن کریم کے اوراق دے دیئے.یہ قرآن کریم کے اوراق سورہ طے کی کچھ آیات میں.جب وہ اسے پڑھتے ہوئے اس آیت پر پہنچے انني أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي

Page 219

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۰۷ دیباچہ تفسیر القرآن واقم الصلوة لذكري - إنّ السّاعَةَ أتِيَةُ أكَادُ أَخْفِيْهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسُ بما تسعى لا یقیناً میں ہی اللہ ہوں اور کوئی معبود نہیں صرف میں ہی معبود ہوں.پس اے مخاطب ! میری عبادت کر اور نماز پڑھ اور اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میری عبادت کو قائم کر.رسمی عبادت نہیں بلکہ میری بزرگی کو دنیا میں قائم کرنے والی عبادت.یاد رکھ کہ اس کلام کو قائم کرنے والی گھڑی آرہی ہے میں اس کے ظاہر کرنے کے سامان پیدا کر رہا ہوں جن کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہر ایک جان کو جیسے جیسے وہ کام کرتی ہے اس کے مطابق بدلہ مل جائے گا.حضرت عمر جب اس آیت پر پہنچے تو بے اختیار ان کے منہ سے نکل گیا یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے.خباب نے جب یہ الفاظ سنے تو وہ اس جگہ سے جہاں چھپے ہوئے تھے باہر نکل آئے اور کہا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی دعا کا نتیجہ ہے.مجھے خدا کی قسم ! میں نے کل ہی آپ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا تھا کہ الہی! عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام میں سے کسی ایک کو اسلام کی طرف ضرور ہدایت بخش.عمر کھڑے ہو گئے اور کہا مجھے بتاؤ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کہاں ہیں؟ جب آپ کو بتایا گیا کہ آپ دار ارقم میں رہتے ہیں تو آپ اُسی طرح سنگی تلوار لیے ہوئے وہاں پہنچے اور دروازہ پر دستک دی.صحابہ نے دروازہ کی دراڑوں میں سے دیکھا تو انہیں عمر ننگی تلوار لئے کھڑے نظر آئے.وہ ڈرے کہ ایسا نہ ہو دروازہ کھول دیں تو عمر اندر آ کر کوئی فساد کریں.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوا کیا ؟ دروازہ کھول دو.عمرؓ اسی طرح تلوار لیے اندر داخل ہوئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور فرمایا عمر ! کس ارادہ سے آئے ہو؟ عمرؓ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں مسلمان ہونے آیا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر بلند آواز سے اللہ اکبر کہا یعنی اللہ سب سے بڑا ہے اور آپ کے سب ساتھیوں نے بھی چی یہی الفاظ زور سے دُہرائے یہاں تک کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں ۲۱۲ اور تھوڑی ہی دیر میں کی یہ خبر مکہ میں آگ کی طرح پھیل گئی اور عمرہ سے بھی وہی سختی کا برتاؤ ہونا شروع ہو گیا جو پہلے دوسرے صحابہ سے ہوتا تھا.مگر وہی عمر جو پہلے مارنے اور قتل کرنے میں مزہ اُٹھایا کرتے تھے اب مار کھانے اور پیٹے جانے میں لذت حاصل کرنے لگے.چنانچہ خود عمرؓ کا بیان ہے کہ ایمان لانے کے بعد میں مکہ کی گلیوں میں ماریں ہی کھاتا رہتا تھا.

Page 220

انوار العلوم جلد ۲۰ مسلمانوں سے مقاطعہ ۲۰۸ دیباچہ تفسیر القرآن غرض ظلم اب حد سے باہر ہوتے جارہے تھے.کچھ لوگ مکہ چھوڑ کر چلے گئے تھے اور جو باقی تھے وہ پہلے سے بھی زیادہ ظلموں کا شکار ہونے لگے تھے مگر ظالموں کے دل ابھی ٹھنڈے نہ ہوئے تھے ، جب انہوں نے دیکھا کہ ہمارے گزشتہ ظلموں سے مسلمانوں کے دل نہیں ٹوٹے.ان کے ایمانوں میں تزلزل واقعہ نہیں ہوا بلکہ وہ خدائے واحد کی پرستش میں اور بھی بڑھ گئے اور بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور بتوں سے ان کی نفرت ترقی ہی کرتی چلی جاتی ہے تو انہوں نے پھر ایک مجلس شوری قائم کی اور فیصلہ کر دیا کہ مسلمانوں کے ساتھ کلی طور پر مقاطعہ کر دیا جائے.کوئی شخص سو دا اُن کے پاس فروخت نہ کرے.کوئی شخص ان کے ساتھ لین دین نہ کرے.اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند متبعین اور ان کے بیوی بچوں سمیت اور اپنے چند ایسے رشتہ داروں کے ساتھ جو با وجود اسلام نہ لانے کے آپ کا ساتھ چھوڑنے کے لئے تیار نہ تھے ایک الگ مقام میں ج جو ابوطالب کی ملکیت تھا پناہ لینے پر مجبور ہوئے.ان لوگوں کے پاس نہ روپیہ تھا نہ سامان نہ ذخائر جن کی مدد سے وہ جیتے.وہ اس تنگی کے زمانہ میں جن حالات میں سے گزرے ہوں گے ان کا اندازہ لگا نا دوسرے انسان کے لئے ممکن نہیں.قریباً تین سال تک یہ حالات اسی طرح قائم رہے اور مکہ کے مقاطعہ کے فیصلہ میں کوئی کمزوری پیدا نہ ہوئی.قریباً تین سال کے بعد مکہ کے پانچ شریف آدمیوں کے دل میں اس ظلم کے خلاف بغاوت پیدا ہوئی.وہ شعب ابی طالب کے دروازہ پر گئے اور محصورین کو آواز دے کر کہا کہ وہ باہر نکلیں اور کہ وہ اس مقاطعہ کے معاہدہ کو توڑنے کے لئے بالکل تیار ہیں.ابو طالب جو اس لمبے محاصرہ اور فاقوں کی وجہ سے کمزور ہو رہے تھے باہر آئے اور اپنی قوم کو مخاطب کر کے اُنہیں ملامت کی کہ ان کا یہ لمبا ظلم کس طرح جائز کی ہو سکتا ہے.ان پانچ شریف انسانوں کی بغاوت فوراً بجلی کی طرح شہر میں پھیل گئی.فطرت انسانی نے پھر سر اُٹھانا شروع کیا.نیکی کی روح نے پھر ایک دفعہ سانس لیا اور مکہ کے لوگ اس شیطانی معاہدہ کو توڑنے پر مجبور ہوئے.۲۱۳ معاہدہ تو ختم ہو گیا مگر تین سالہ فاقوں نے اپنا اثر دکھانا شروع کیا.تھوڑے ہی دنوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفا شعار بیوی حضرت خدیجہ اس مقاطعہ کے دنوں کی تکلیفوں کے نتیجہ میں فوت ہو گئیں اور اس کے ایک مہینہ

Page 221

انوار العلوم جلد ۲۰ بعد ابو طالب بھی اس دنیا سے رخصت ہو گئے..صلى الله چه تفسیر القرآن حضرت خدیجہ اور ابو طالب کی وفات کے بعد تبلیغ محمد رسول الہصلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ میں رکاوٹیں اور آنحضرت ﷺ کا سفر طائف اب ابوطالب کے مصالحانہ اثر سے محروم ہو گئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گھریلو زندگی کی ساتھی حضرت خدیجہ بھی آپ سے جدا ہو گئیں.ان دونوں کی وفات سے طبعی طور پر اُن لوگوں کی ہمدردیاں بھی آپ سے اور آپ کے صحابہ سے کم ہو گئیں جو ان کے تعلقات کی وجہ سے ظالموں کو ظلم سے روکتے رہتے تھے.ابو طالب کی وفات کے تازہ صدمہ کی وجہ سے اور ابوطالب کی وصیت کی وجہ سے چند دن آپ کے شدید دشمن اور ابو طالب کے چھوٹے بھائی ابولہب نے آپ کا ساتھ دیا.لیکن جب مکہ والوں نے اس کے جذبات کو یہ کہہ کر اُبھارا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو تمام اُن لوگوں کو جو تو حید الہی کے قائل نہیں مجرم اور قابل سزا سمجھتا ہے تو اپنے آباء کی غیرت کے جوش میں ابولہب نے آپ کا ساتھ چھوڑ دیا اور عہد کیا کہ وہ آئندہ پہلے سے بھی زیادہ آپ کی مخالفت کرے گا.محصوری کی زندگی کی وجہ سے چونکہ تین سال تک لوگ اپنے رشتہ داروں سے جدا ر ہے تھے اس لئے تعلقات میں ایک سردی پیدا ہو گئی تھی.مکہ والے مسلمانوں سے قطع کلامی کے عادی ہو چکے تھے اس لئے تبلیغ کا میدان محدود ہو گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ حالت دیکھی تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ وہ مکہ کی بجائے طائف کے لوگوں کو جا کر اسلام کی دعوت دیں.آپ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ مکہ والوں کی مخالفت نے اس ارادہ کو اور بھی مضبوط کر دیا.اول تو مکہ والے بات سنتے ہی نہیں تھے دوسرے اب انہوں نے یہ طریقہ اختیار کر لیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو گلیوں میں چلنے ہی نہ دیتے.جب آپ باہر نکلتے آپ کے سر پر مٹی پھینکی جاتی تا کہ آپ لوگوں سے مل ہی نہ سکیں.ایک دفعہ اسی حالت میں واپس لوٹے تو آپ کی ایک بیٹی آپ کے سر پر مٹی ہٹاتے ہوئے رونے لگی.آپ نے فرمایا او میری بچی ! رو نہیں کیونکہ یقیناً خدا تمہارے باپ کے ساتھ ہے.۲۱۴ آپ تکالیف سے گھبراتے نہ تھے ، لیکن مشکل یہ تھی کہ لوگ بات سنے کو تیار نہ تھے.جہاں

Page 222

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۰ دیباچہ تفسیر القرآن تک تکالیف کا سوال ہے آپ اُن کو ضروری سمجھتے تھے بلکہ آپ کے لئے سب سے زیادہ تکلیف کا دن تو وہ ہوتا تھا جب کوئی شخص آپ کو تکلیف نہیں دیتا تھا.لکھا ہے کہ ایک دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی گلیوں میں تبلیغ کے لئے نکلے مگر اُس دن کسی منصوبہ کے تحت کسی شخص نے آپ سے کلام نہ کیا اور نہ آپ کو کسی قسم کی کوئی تکلیف دی نہ کسی غلام نے نہ کسی آزاد نے.تب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدمہ اور غم سے خاموش لیٹ گئے.یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو تسلی دی اور فرمایا جاؤ اور اپنی قوم کو پھر اور پھر اور پھر ہوشیار کرو اور ان کی عدم توجہی کی پرواہ نہ کرو.پس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ بات گراں نہ گزرتی تھی کہ لوگ آپ کو دکھ دیتے تھے لیکن خدا کا نبی جو دنیا کو ہدایت دینے کے لئے مبعوث ہوا تھا وہ اس بات کو کب برداشت کر سکتا تھا کہ لوگ اُس سے بات ہی نہ کریں اور اس کی بات سننے کے لئے تیار ہی نہ ہوں.ایسی بیکار زندگی اس کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ تھی.پس آپ نے پختہ فیصلہ کر لیا کہ اب آپ طائف کی طرف جائیں گے اور طائف کے لوگوں کو خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچائیں گے اور خدا تعالیٰ کے نبیوں کے لیے یہی مقدر ہوتا ہے کہ وہ ادھر سے اُدھر مختلف قوموں کو مخاطب کرتے پھریں.حضرت موسی کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ، کبھی وہ آل فرعون سے مخاطب ہوا تو کبھی آل اسحاق سے اور کبھی مدین کے لوگوں سے.حضرت عیسی علیہ السلام کو بھی تبلیغ کے شوق میں کبھی جلیل کے لوگوں، کبھی بردن پار کے لوگوں، کبھی یروشلم کے لوگوں ، اور کبھی اور دوسرے لوگوں کو مخاطب کرنا پڑا.جب مکہ کے لوگوں نے باتیں سننے سے ہی انکار کر دیا اور یہ فیصلہ کر لیا کہ مارو اور پیٹو مگر بات بالکل نہ سنو ، تو آپ نے طائف کی طرف رُخ کیا.طائف مکہ سے کوئی ساٹھ میل کے قریب جنوب مشرق کی طرف ایک شہر ہے جو اپنے پھلوں اور اپنی زراعت کی وجہ کی سے مشہور ہے.یہ شہر بت پرستی میں مکہ والوں سے کم نہ تھا.خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے بتوں کے سوالات نامی ایک مشہور بت طائف کی اہمیت کا موجب تھا جس کی زیارت کیلئے عرب کے لوگ دُور دُور سے آتے تھے.طائف کے لوگوں کی مکہ سے بہت رشتہ داریاں بھی تھیں اور طائف اور مکہ کے درمیان کی سرسبز مقامات میں مکہ والوں کی جائدادیں بھی تھیں.جب آپ طائف پہنچے تو وہاں کے رؤساء آپ سے ملنے کے لئے آنے شروع ہوئے لیکن کوئی شخص حق کو

Page 223

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۱ دیباچهتفسیر القرآن قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہوا.عوام الناس نے بھی اپنے رؤساء کی اتباع کی اور خدا کے پیغام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا.دنیا داروں کی نگاہ میں بے سامان اور بے مدد گار نبی حقیر ہی ہوا کرتا ہے وہ تو اسلحہ اور فوجوں کی آواز سنا جانتے ہیں آپ کی نسبت با تیں تو پہنچ ہی چکی تھیں جب آپ طائف پہنچے اور انہوں نے دیکھا کہ بجائے اس کے کہ آپ کے ساتھ کوئی فوج اور جتھا ہوتا ہی آپ صرف زید ہی کی ہمراہی میں طائف کے مشہور حصوں میں تبلیغ کرتے پھرتے ہیں تو دل کے اندھوں نے اپنے سامنے خدا کا نبی نہیں بلکہ ایک حقیر اور دھتکارا ہوا انسان پایا اور سمجھے کہ شاید اس کو دکھ دینا اور تکلیف پہنچا نا قوم کے رؤساء کی نظروں میں ہم کو معزز کر دے گا.وہ ایک دن جمع ہوئے ، کتے انہوں نے اپنے ساتھ لئے ، لڑکوں کو اُکسایا اور پتھروں سے اپنی جھولیاں بھر لیں اور بیدردی سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھراؤ کرنا شروع کیا.وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شہر سے دھکیلتے ہوئے باہر لے گئے.آپ کے پاؤں لہولہان ہو گئے اور زیڈ آپ کو بچاتے ہوئے سخت زخمی ہوئے مگر ظالموں کا دل ٹھنڈا نہ ہوا وہ آپ کے پیچھے چلتے گئے اور چلتے گئے جب تک شہر سے کئی میل ڈور کی پہاڑیوں تک آپ نہ پہنچ گئے انہوں نے آپ کا پیچھا نہ چھوڑا.جب یہ لوگ آپ کا پیچھا کر رہے تھے تو آپ اس ڈر سے کہ خدا تعالیٰ کا غضب ان پر نہ بھڑک اُٹھے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے اور نہایت الحاح سے دعا کرتے.الہی ! ان لوگوں کو معاف کر کہ یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کر رہے ہیں.۲۱۵ زخمی ، تھکے ہوئے اور دنیا کے لوگوں کی طرف سے دھتکارے ہوئے آپ ایک انگورستان کے سایہ میں پناہ گزیں ہوئے.یہ انگورستان مکہ کے دوسر داروں کا تھا.یہ سردار اُس وقت اس کی انگورستان میں تھے پرانے اور شدید دشمن جنہوں نے دس سال تک آپ کی مخالفت میں اپنی کی زندگی گزاری تھی شاید اُس وقت اس بات سے متاثر ہو گئے کہ ایک مکہ کے آدمی کو طائف کے لوگوں نے زخمی کیا ہے یا شاید وہ گھڑی ایسی گھڑی تھی جب نیکی کا بیج اُن کے دلوں میں سر اٹھا رہا تھا اُنہوں نے ایک تھال انگوروں کا بھرا اور اپنے غلام عداس کو کہا کہ جاؤ اور ان مسافروں کو اسے دو.عداس نینوا کا رہنے والا ایک عیسائی تھا.جب اُس نے یہ انگور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے اور آپ نے یہ کہتے ہوئے اُن انگوروں کو لیا کہ خدا کے نام پر جو

Page 224

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۲ دیباچهتفسیر القرآن بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے میں یہ لیتا ہوں تو عیسائیت کی یاد اُس کے دل میں پھر تازہ ہو گئی.اُس نے محسوس کیا کہ اُس کے سامنے خدا کا ایک نبی بیٹھا ہے جو اسرائیلی نبیوں کی سی زبان میں باتیں کرتا ہے.اس سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو؟ جب اُس نے کہا نینوا کا.تو آپ نے فرمایا وہ نیک انسان یونس جو متی کا بیٹا تھا اور نینوا کا باشندہ وہ میری طرح خدا کا ایک نبی تھا.پھر آپ نے اُس کو اپنے مذہب کی تبلیغ شروع کی.عداس کی حیرانی چند ہی لمحوں میں تعجب سے بدل گئی.تعجب ایمان میں تبدیل ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر میں وہ اجنبی غلام آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گیا اور آپ کے سر اور ہاتھوں اور پیروں کو بوسہ دینے لگا.۲۱۶ عداس کی باتوں سے فارغ ہو کر آپ اللہ تعالیٰ کی طرف مخاطب ہوئے اور آپ نے خدا سے یوں دعا مانگی.اللَّهُمَّ إِلَيْكَ اَشْكُرُ ضُعْفَ قُوَّتِى وَقِلَّةَ حِيْلَتِي وَ هَوَ انِي عَلَى النَّاسِ يَا اَرحَمَ الرَّاحِمِينَ اَنْتَ رَبُّ الْمُسْتَضْعَفِينَ وَأَنْتَ رَبِّي إِلَى مَنْ تَكِلُنِي إِلَى بَعِيدٍ يَتَجَهَّمُنِى أَمْ إِلَى عَدُوّ مَلَكْتَهُ اَمْرِى إِنْ لَّمْ يَكُنُ بِكَ عَلَيَّ غَضَبٌ فَلَا أبَالِي وَلَكِنْ عَافِيَتُكَ هِيَ اَوْسَعُ لِى - اَعُوذُ بِنُورِ وَجُهِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ لَهُ الظُّلَمْتُ وَصَلَحَ عَلَيْهِ اَمْرُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ مِنْ أَنْ تُنَزِّلَ بِي غَضَبَكَ أَوْ يَحِلَّ عَلَيَّ سَخَطُكَ لَكَ الْعُقْبِى حَتَّى تَرْضَى وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّةَ إِلَّا بِكَ عَالِ یعنی اے میرے رب ! میں تیرے ہی پاس اپنی کمزوریوں اور اپنے سامانوں کی کمی اور لوگوں کی نظروں میں اپنے حقیر ہونے کی شکایت کرتا ہوں.لیکن تو غریبوں اور کمزوروں کا خدا ہے اور تو میرا بھی خدا ہے تو مجھے کس کے ہاتھوں میں چھوڑے گا.کیا اجنبیوں کے ہاتھوں میں جو مجھے ادھر ادھر دھکیلتے پھریں گے یا اُس دشمن کے ہاتھ میں جو میرے وطن میں مجھ پر غالب ہے.اگر تیرا غضب مجھ پر نہیں تو مجھے ان دشمنوں کی کوئی پرواہ نہیں.تیرا رحم میرے ساتھ ہے اور تیری عافیت میرے لئے زیادہ وسیع ہے.میں تیرے چہرہ کی روشنی میں پناہ چاہتا ہوں.یہ تیرا ہی کام ہے کہ تو تاریکی کو

Page 225

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۳ دیباچہ تفسیر القرآن دنیا سے بھگا دے اور اس دنیا اور اگلی دنیا میں امن بخشے.تیرا غصہ اور تیری غیرت مجھے پر نہ بھڑ کیں.تو اگر ناراض بھی ہوتا ہے تو اس لئے کہ پھر خوشی کا اظہار کرے اور تیرے سوا کوئی حقیقی طاقت اور کوئی حقیقی پناہ کی جگہ نہیں.یہ دعا مانگ کر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن درمیان میں نخلہ نامی مقام پر ٹھہر گئے.چند دن وہاں سستا کر پھر آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے.لیکن عرب کے دستور کے مطابق لڑائی کی کی وجہ سے مکہ چھوڑ دینے کے بعد آپ مکہ کے باشندے نہیں رہے تھے اب مکہ والوں کا اختیا ر تھا کہ وہ آپ کو مکہ میں آنے دیتے یا نہ آتے دیتے اس لئے آپ نے مکہ کے ایک رئیس مطعم بن عدی کو کہلا بھیجا کہ میں مکہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں کیا تم عرب کے دستور کے مطابق مجھے داخلہ کی اجازت دیتے ہو؟ مطعم با وجود شدید دشمن ہونے کے ایک شریف الطبع انسان تھا اُس نے اُسی وقت اپنے بیٹوں اور رشتہ داروں کو ساتھ لیا اور مسلح ہو کر کعبہ کے صحن میں جا کھڑا ہوا اور آپ کو پیغام بھیجا کہ وہ مکہ میں آپ کو آنے کی اجازت دیتا ہے.آپ مکہ میں داخل ہوئے کعبہ کا طواف کیا اور مطعم اپنی اولا د اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تلوار میں کھینچے ہوئے آپ کو آپ کے گھر تک پہنچانے کے لئے آیا.۲۱۸ یہ پناہ نہیں تھی کیونکہ اس کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم ہوتے رہے اور مطعم نے کوئی حفاظت آپ کی نہیں کی بلکہ یہ صرف مکہ میں داخلہ کی قانونی اجازت تھی.آپ کے اس سفر کے متعلق دشمنوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ اس سفر میں آپ نے بے نظیر قربانی اور استقلال کا نمونہ دکھایا ہے.سرولیم میور اپنی کتاب ”لائف آف محمد“ میں لکھتے ہیں: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے طائف کے سفر میں ایک شاندار اور شجاعانہ رنگ پایا جاتا ہے.اکیلا آدمی جس کی اپنی قوم نے اُس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور اُسے دھتکار دیا خدا کے نام پر بہادری کے ساتھ نینوا کے یوناہ نبی کی طرح ایک بت پرست شہر کو تو بہ کی اور خدائی مشن کی دعوت دینے کے لئے نکلا.یہ امر اُس کے اس ایمان پر کہ وہ اپنے آپ کو کلی طور پر خدا کی طرف سے سمجھتا تھا ایک بہت تیز روشنی ڈالتا ہے“.۲۱۹ مکہ نے پھر ایذاء دہی اور استہزاء کے دروازے کھول دیئے.پھر خدا کے نبی کے لئے اُس

Page 226

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۴ دیباچہ تفسیر القرآن کا وطن جہنم کا نمونہ بننے لگا.مگر اس پر بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دلیری سے لوگوں کو خدا کی تعلیم پہنچاتے رہے.مکہ کے گلی کوچوں میں ” خدا ایک ہے خدا ایک ہے“ کی آوازیں بلند ہوتی رہیں.محبت سے، پیار سے، خیر خواہی سے ، آپ مکہ والوں کو بت پرستی کے خلاف وعظ کرتے رہے.لوگ بھاگتے تھے تو آپ اُن کے پیچھے جاتے تھے.لوگ منہ پھیرتے تھے تو آپ پھر بھی باتیں سنائے چلے جاتے تھے.صداقت آہستہ آہستہ گھر کر رہی تھی.وہ تھوڑے سے مسلمان جو ہجرت حبشہ سے بچے ہوئے مکہ میں رہ گئے تھے وہ اندر ہی اندر اپنے رشتہ داروں، دوستوں، ساتھیوں اور ہمسائیوں میں تبلیغ کر رہے تھے.بعض کے دل ایمان سے منور ہو جاتے تھے تو عَلَى الْاعْلان اپنے مذہب کا اظہار کر دیتے تھے اور اپنے بھائیوں کے ساتھ ماریں کھانے اور تکلیفیں اُٹھانے میں شریک ہو جاتے تھے.مگر بہت تھے جنہوں نے روشنی کو دیکھ تو لیا تھا مگر اُس کے قبول کرنے کی توفیق نہیں ملی تھی.وہ اُس دن کا انتظار کر رہے تھے جب خدا کی بادشاہت زمین پر آئے اور وہ اُس میں داخل ہوں.اسی عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ باشندگان مدینہ کا قبول اسلام کی طرف سے بار بار خبر دی جا رہی تھی کہ تمہارے لئے ہجرت کا وقت آ رہا ہے اور آپ پر یہ بھی کھل چکا تھا کہ آپ کی ہجرت کا مقام ایک ایسا شہر ہے جس میں کنویں بھی ہیں اور کھجوروں کے باغ بھی پائے جاتے ہیں.پہلے آپ نے یمامہ کی نسبت خیال کیا کہ شاید وہ ہجرت کا مقام ہوگا ۲۲۰ مگر جلد ہی یہ خیال آپ کے دل سے نکال دیا گیا اور آپ اس انتظار میں لگ گئے کہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئی کے مطابق جو شہر بھی مقدر ہے وہ اپنے آپ کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے لئے پیش کرے گا.اسی دوران میں حج کا زمانہ آ گیا عرب کے چاروں طرف سے لوگ مکہ میں حج کے لئے جمع ہونے شروع ہوئے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عادت کے مطابق جہاں کچھ آدمیوں کو کھڑا دیکھتے تھے اُن کے پاس جا کر اُنہیں تو حید کا وعظ سنانے لگ جاتے تھے اور خدا کی بادشاہت کی خوشخبری دیتے تھے اور ظلم اور بدکاری اور فساد اور شرارت سے بچنے کی نصیحت کرتے تھے.بعض لوگ آپ کی بات سنتے اور حیرت کا اظہار کر کے جدا ہو جاتے.بعض باتیں سن رہے ہوتے تو مکہ والے آ کر اُن کو وہاں

Page 227

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۵ دیباچہ تفسیر القرآن سے ہٹا دیتے تھے.بعض جو پہلے سے مکہ والوں کی باتیں سن چکے ہوتے وہ ہنسی اُڑا کر آپ.جدا ہو جاتے.اسی حالت میں آپ منی کی وادی میں پھر رہے تھے کہ چھ سات آدمی جو مدینہ کے باشندے تھے آپ کی نظر پڑے.آپ نے اُن سے کہا کہ آپ لوگ کس قبیلہ کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں؟ انہوں نے کہا خزرج قبیلہ کے ساتھ.آپ نے کہا وہی قبیلہ جو یہودیوں کا حلیف ہے؟ اُنہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا کیا آپ لوگ تھوڑی دیر بیٹھ کر میری باتیں سنیں گے؟ اُن لوگوں نے چونکہ آپ کا ذکر سنا ہوا تھا اور دل میں آپ کے دعوی سے کچھ دلچسپی تھی اُنہوں نے آپ کی بات مان لی اور آپ کے پاس بیٹھ کر آپ کی باتیں سنے لگ گئے.آپ نے اُنہیں بتایا کہ خدا کی بادشاہت قریب آرہی ہے ، بت اب دنیا سے مٹا دئیے جائیں گے ، تو حید کو دنیا میں قائم کر دیا جائے گا.نیکی اور تقویٰ پھر ایک دفعہ دنیا میں قائم ہو جائیں گے.کیا مدینہ کے لوگ اس عظیم الشان نعمت کو قبول کرنے کے لئے تیار ہیں؟ انہوں نے آپ کی باتیں سنیں اور متاثر ہوئے اور کہا آپ کی تعلیم کو تو ہم قبول کرتے ہیں.باقی رہا یہ کہ مدینہ اسلام کو پناہ دینے کے لئے تیار ہے یا نہیں اس کے لئے ہم اپنے وطن جا کر اپنی قوم سے بات کریں گے پھر ہم دوسرے سال کی اپنی قوم کا فیصلہ آپ کو بتائیں گے.۲۲۱ یہ لوگ واپس گئے اور انہوں نے اپنے رشتہ داروں کی اور دوستوں میں آپ کی تعلیم کا ذکر کرنا شروع کیا.اُس وقت مدینہ میں دو عرب قبائل اوس اور خزرج بستے تھے اور تین یہودی قبائل یعنی بنو قریظہ اور بنو نضیر اور بنو قینقاع.اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی تھی.بنو قریظہ اور بنو نضیر اوس کے ساتھ اور بنو قینقاع خزرج کے ساتھ ملے ہوئے تھے.مدتوں کی لڑائی کے بعد اُن میں یہ احساس پیدا ہورہا تھا کہ ہمیں آپس میں صلح کر لینی چاہئے.آخر باہمی مشورہ سے یہ قرار پایا کہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو خزرج کا سردار تھا اُسے سارا مدینہ اپنا بادشاہ تسلیم کر لے.یہودیوں کے ساتھ تعلق کی وجہ سے اوس اور خزرج بائبل کی کی پیشگوئیاں سنتے رہتے تھے.جب یہودی اپنی مصیبتوں اور تکلیفوں کا حال بیان کرتے تو اُس کے آخر میں یہ بھی کہہ دیا کرتے تھے کہ ایک نبی جو موسیٰ کا مثیل ہوگا ظاہر ہونے والا ہے اُس کا وقت کی قریب آ رہا ہے جب وہ آئے گا ہم پھر ایک دفعہ دنیا پر غالب ہو جائیں گے ، یہود کے دشمن تباہ کر دیئے جائیں گے.جب اُن حاجیوں سے مدینہ والوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھ

Page 228

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۶ تفسیر القرآن دعوی کو سنا آپ کی سچائی اُن کے دلوں میں گھر کر گئی اور اُنہوں نے کہا یہ تو وہی نبی معلوم ہوتا ہے جس کی یہودی ہمیں خبر دیا کرتے تھے.پس بہت سے نو جوان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی سچائی سے متاثر ہوئے اور یہودیوں سے سنی ہوئی پیشگوئیاں اُن کے ایمان لانے میں مؤید ہوئیں.چنانچہ اگلے سال حج کے موقع پر پھر مدینہ کے لوگ آئے.بارہ آدمی اس دفعہ مدینہ سے یہ ارادہ کر کے چلے کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین میں داخل ہو جائیں گے.ان میں سے دس خزرج قبیلہ کے تھے اور دو اوس کے.مٹی میں وہ آپ سے ملے اور اُنہوں نے آپ کے ہاتھ پر اس بات کا اقرار کیا کہ وہ سوائے خدا کے اور کسی کی پرستش نہیں کریں گے ، وہ چوری نہیں کریں گے ، وہ بدکاری نہیں کریں گے ، وہ اپنی لڑکیوں کو قتل نہیں کریں گے، وہ ایک دوسرے پر جھوٹے الزام نہیں لگائیں گے، نہ وہ خدا کے نبی کی دوسری نیک تعلیمات میں نافرمانی کریں گے.۲۲۲ یہ لوگ واپس آگئے تو انہوں نے اپنی قوم میں اور بھی زیادہ زور سے تبلیغ شروع کر دی.مدینہ کے گھروں میں سے بت نکال کر باہر پھینکے جانے لگے.بتوں کے آگے سر جھکانے والے لوگ اب گرد نہیں اُٹھا کر چلنے لگے.خدا کے سوا اب لوگوں کے ماتھے کسی کے سامنے جھکنے کے لئے تیار نہ تھے.یہودی حیران تھے کہ صدیوں کی دوستی اور صدیوں کی تبلیغ سے جو تبدیلی وہ نہ پیدا کر سکے اسلام نے وہ تبدیلی چند دنوں میں پیدا کر دی.توحید کا وعظ مدینہ والوں کے دلوں میں گھر کرتا جاتا تھا.یکے بعد دیگرے لوگ آتے اور مسلمانوں سے کہتے ہمیں اپنا دین سکھاؤ.لیکن مدینہ کے نو مسلم نہ تو خود اسلام کی تعلیم سے پوری طرح واقف تھے اور نہ اُن کی تعداد اتنی تھی کہ وہ سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو اسلام کے متعلق تفصیل سے بتا سکیں اس لئے اُنہوں نے مکہ میں ایک آدمی بجھوایا اور مبلغ کی درخواست کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصعب نامی ایک صحابی کو جو حبشہ کی ہجرت سے واپس آئے تھے مدینہ میں تبلیغ اسلام کے لئے بھجوایا.مصعب مکہ سے باہر پہلا اسلامی مبلغ تھا.انہی ایام میں خدا تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آئندہ کے لئے پھر ایک زبر دست بشارت دی.آپ کو ایک کشف میں بتایا گیا کہ آپ یروشلم گئے ہیں اور نبیوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی.۲۲۳ یروشلم کی تعبیر مدینہ تھا ، جو آئندہ کے لئے خدائے واحد کی اسراء

Page 229

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۷ دیباچہ تفسیر القرآن عبادت کا مرکز بننے والا تھا اور آپ کے پیچھے نبیوں کے نماز پڑھنے کی تعبیر یہ تھی کہ مختلف مذاہب کی کے لوگ آپ کے مذہب میں داخل ہوں گے اور آپ کا مذہب عالمگیر ہو جائے گا.یہ وقت مکہ میں مسلمانوں کے لئے نہایت ہی سخت تھا اور تکالیف انتہاء کو پہنچ چکی تھیں.اس کشف کا سنانا مکہ والوں کے لئے ہنسی اور استہزاء کا ایک نیا موجب ہو گیا اور اُنہوں نے ہر مجلس میں آپ کے اس می کشف پر ہنسی اُڑانی شروع کی.مگر کون جانتا تھا کہ نئے یروشلم کی تعمیر شروع تھی.مشرق و مغرب کی قو میں کان دھرے خدا کے آخری نبی کی آواز سننے کے لئے متوجہ کھڑی تھیں.رومیوں کے غلبہ کی پیشگوئی انہی ایام میں قیصر اور کسری کے درمیان ایک خطرناک جنگ ہوئی اور کسری کو فتح حاصل ہوئی.شام میں ایرانی فوجیں پھیل گئیں.یروشلم تباہ کر دیا گیا.حتی کہ ایرانی فوجیں یونان اور ایشیائے کو چک تک پہنچ گئیں اور باسفورس کے دہانہ پر ایرانی جرنیلوں نے قسطنطنیہ سے صرف دس میل کے فاصلہ پر اپنے خیمے گاڑ دیئے.اس واقعہ پر مکہ کے لوگوں نے خوشیاں منانی شروع کیں اور کہا خدا کا فیصلہ ظاہر ہو گیا ہے.بت پرست ایرانیوں نے اہل کتاب عیسائیوں کو شکست دے دی.اُس وقت خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو خبر دی گئی کہ غُلِبَتِ الرُّومُ - فِي أَدْنَى الْأَرْضِ وَهُمْ مِنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ - في بِضْعِ سِنِينَ لِلَّهِ الْأَمْرُ مِنْ قبْلُ وَ مِنْ بَعْدُه وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ - بِنَصْرِ اللهِ، يَنْصُرُ مَن يَشَاءُ وَ هُوَ الْعَزِيزُ الرَّحِيمُ - وَعْدَ اللَّهِ لا يُخْلِفُ اللهُ وَعْدَةَ وَلَكِن اكثر النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ ۲۲۴ یعنی رومی فوجیں عرب کے قریب ممالک میں شکست کھا گئی ہیں لیکن اپنی شکست کے بعد پھر اُن کو فتح حاصل ہوگی چند سال کے اندراندر.خدا ہی کا اختیار دنیا میں پہلے بھی رائج تھا اور آئندہ بھی رائج رہے گا.جب وہ فتح کا دن آئے گا اُس وقت مؤمنوں کو بھی خدا کی مدد سے خوشی نصیب ہو گی.خدا جن کو چن لیتا ہے اُن کی مدد کرتا ہے وہ بڑی تی شان والا اور بڑا مہربان ہے.یہ اُس خدا کا وعدہ ہے جو اپنے وعدوں کو تبدیل نہیں کرتا.لیکن اکثر لوگ خدا کی قدرتوں سے ناواقف ہیں.چند ہی سال بعد خدا تعالیٰ نے یہ پیشگوئی پوری کر دی.ایک طرف رومیوں نے ایرانیوں کو شکست دے کر اپنے ملک کو آزاد کرا لیا اور دوسری

Page 230

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۸ طرف جیسا کہ کہا گیا تھا اُنہی ایام میں مسلمانوں کو مکہ کے لوگوں کے خلاف فتوحات حاصل ہونی شروع ہوئیں.جبکہ مکہ کے لوگ یہ سمجھ رہے تھے کہ اُنہوں نے لوگوں کو مسلمانوں کی باتیں سننے سے روک کر اور مسلمانوں پر ظلم کرنے پر آمادہ کر کے اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے.خدا کا کلام متواتر کی اسلام کی فتوحات کی خبریں دے رہا تھا اور بتا رہا تھا کہ مکہ والوں کی تباہی کی گھڑی قریب سے قریب تر آ رہی ہے.چنانچہ انہی ایام میں محمد رسول اللہ علہ نے بڑے زور سے خدا تعالیٰ کی اس کی وحی کا اعلان کیا کہ وقالوا لولا يَأْتِينَا بِايَةٍ مِّن رَّبِّهِ، أَوَلَمْ تَأْتِهِمْ بينة ما في الصُّحُفِ الأولى وَلَوْانَّا أَهْلَكْتهُمْ بِعَذَابٍ مِّن قَبْلِهِ لَقَالُوا رَبَّنَا لولا ارسلت الينا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ ابْتِكَ مِن قَبْلِ آن نزِل وَ تَخْزُى قُلْ كُلُّ مُتَرَبَّصُ فَتَرَبَّصُوا فَسَتَعْلَمُونَ مَنْ أَصْحُبُ الصّراط السوي و من اهتدی ۲۲۵ یعنی مکہ والے کہتے ہیں کہ کیوں محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنے ربّ کے پاس سے کوئی نشان ہمارے لئے نہیں لاتا.کیا پہلے نبیوں کی پیشگوئیاں جو اس کے حق میں ہیں وہ اُن کے لئے کافی نشان نہیں ہے.ہم اگر پوری تبلیغ سے پہلے ہی مکہ والوں کو ہلاک کر دیتے تو مکہ والے کہہ سکتے تھے کہ اے ہمارے ربّ! کیوں تو نے ہماری طرف کوئی رسول نہ بھیجا کہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے تیری تعلیموں کے پیچھے چلتے.تو کہہ دے ہر شخص کو اپنے وقت کا انتظار کرنا پڑتا ہے پس تم بھی اُس گھڑی کا انتظار کرو جب حجت تمام ہو جائے گی تب تم یقیناً جان لو گے کہ سیدھے راستہ پر اور خدا تعالیٰ کی ہدایت پر کون چل رہا ہے.ہر روز خدا کی نئی وحی نازل ہو رہی تھی اور ہر روز وہ اسلام کی ترقی اور کفار کی تباہی کی خبریں دے رہی تھی.مکہ والے ایک طرف اپنی طاقت اور شوکت کو دیکھتے تھے اور دوسری طرف محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھیوں کی کمزوری کو دیکھتے تھے اور پھر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی میں خدا تعالیٰ کی نصرتوں اور مسلمانوں کی کامیابیوں کی خبریں پڑھتے تھے تو حیران ہو کر سوچتے تھے کہ آیا وہ پاگل ہو گئے ہیں یا محمد رسول اللہ پاگل ہو گیا ہے.مکہ والے تو یہ امید میں کر رہے تھے کہ ہمارے ظلموں اور ہماری تعدی کی وجہ سے اب مسلمانوں کو مایوس ہو کر ہماری طرف آ جانا چاہئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود بھی اور اُن کے ساتھیوں کو بھی

Page 231

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۱۹ دیباچہ تفسیر القرآن اُن کے دعوئی میں شبہات پیدا ہو جانے چاہئیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ اعلان کر رہے تھے کہ فلا اُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ - وَمَا لَا تُبْصِرُونَ - اِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلِ كَرِيمٍ - وَمَا هُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ، قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ - وَلَا بِقَوْلِ كَاهِنٍ ، قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ تنْزِيلُ من رب العلمين - وَلَوْ تَقَولَ عَلَيْنَا بَعْضَ الأقاويل - لَاخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ - ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ - فَمَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ - وَإِنَّهُ لَتَذْكِرَةً لِلْمُتَّقِينَ - وَإِنَّا لَنَعْلَمُ أنّ مِنْكُمْ مُعَذِّبِينَ - وَاِنَّهُ لَحَسْرَةً عَلَى الكَفِرِينَ - وَإِنَّهُ لَحَقُّ الْيَقِينِ - فَسَبِّحُ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظيمِ - ۲۲۶ اے مکہ والو! جن خیالات میں تم پڑے ہوئے ہو وہ درست نہیں.میں قسم کھا کر کہتا ہوں اُن چیزوں کی جو تمہیں نظر آ رہی ہیں اور اُن کی بھی جو تمہاری نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں کہ یہ قرآن ایک معزز رسول کی زبانی سے تم کو سنایا جا رہا ہے یہ کسی شاعر کا کلام نہیں مگر تمہارے دل میں ایمان کم ہی پیدا ہوتا ہے.یہ کسی کا ہن کی تک بندی نہیں ہے مگر افسوس تم کم ہی نصیحت حاصل کرتے ہو.یہ سب جہانوں کے پیدا کرنے والے خدا کی طرف سے اُتارا گیا ہے اور ہم جو سب جہانوں کے رب ہیں تم سے کہتے ہیں کہ اگر یہ ایک آیت بھی جھوٹی بنا کر ہماری طرف منسوب کرتا تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور پھر اُس کی رگِ جان کو کاٹ دیتے اور اگر تم سب لوگ مل کر بھی اُس کو بچانا چاہتے تو تم اُس کو نہ بچا سکتے.مگر یہ قرآن تو خدا سے ڈرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے اور ہم جانتے ہیں کہ تم میں اس قرآن کو جھٹلانے والے بھی موجود ہیں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کی تعلیم اس منکروں کے دلوں میں حسرتیں پیدا کر رہی ہے اور وہ کہہ رہے ہیں کہ کاش! یہ تعلیم ہمارے پاس ہوتی.اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ جو باتیں اس قرآن میں بتائی گئی ہیں وہ لفظ لفظاً پوری ہو کر رہیں گی.پس اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کی مخالفتوں کی پرواہ نہ کر اور کی اپنے عظیم الشان رب کے نام کی بزرگی بیان کرتا چلا جا.آخر تیسرا حج بھی آپہنچا اور مدینہ کے حاجیوں کا قافلہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل مکہ میں وارد ہوا.مکہ والوں کی مخالفت کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ ملنے کی خواہش کی.اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذہن اِدھر منتقل ہو چکا

Page 232

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن تھا کہ شاید ہجرت مدینہ ہی کی طرف مقدر ہے.آپ نے اپنے معتبر رشتہ داروں سے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور انہوں نے آپ کو سمجھا نا شروع کیا کہ آپ ایسا نہ کریں.مکہ والے دشمن ہی سہی پھر بھی اس میں بڑے بڑے با اثر لوگ آپ کے رشتہ داروں میں سے موجود ہیں نہ معلوم مدینہ میں کیا ہو اور وہاں آپ کے رشتہ دار آپ کی مدد کر سکیں یا نہ کرسکیں.مگر چونکہ آپ سمجھ چکے تھے کہ خدائی فیصلہ یہی ہے آپ نے اپنے رشتہ داروں کی باتیں رڈ کر دیں اور مدینہ جانے کا فیصلہ کر دیا.آدھی رات کے بعد پھر وادی عقبہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے مسلمان جمع ہوئے.اب آپ کے ساتھ آپ کے چا عباس بھی تھے.اس دفعہ مدینہ کے مسلمانوں کی تعداد ۳ ے تھی.اُن میں ۶۲ خزرج قبیلہ کے تھے اور گیارہ اوس کے تھے ۲۲۷ اور اس قافلہ میں دو عورتیں بھی شامل تھیں جن میں سے ایک بنی نجار قبیلہ کی اُم عمارہ بھی تھیں.چونکہ مصعب کے ذریعہ سے اِن لوگوں تک اسلام کی تفصیلات پہنچ چکی تھیں یہ لوگ ایمان اور یقین سے پُر تھے، بعد کے واقعات نے ظاہر کر دیا کہ یہ لوگ آئندہ اسلام کا ستون ثابت ہونے والے تھے.اُم عمارہ کی جو اُس دن شامل ہوئیں اُنہوں نے اپنی اولاد میں اسلام کی محبت اتنی داخل کر دی کہ اُن کا بیٹا کی حبیب جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مسیلمہ کذاب کے لشکر کے ہاتھ میں قید ہو گیا تو مسیلمہ نے اُسے بلا کر پوچھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں؟ خبیب نے کہاں ہاں.پھر مسیلمہ نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ خبیب نے کہا نہیں.اس پر مسیلمہ نے حکم دیا کہ ان کا عضو کاٹ لیا جائے.تب مسیلمہ نے پھر اُن سے پوچھا.کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں ؟ خبیب نے کہا ہاں.پھر اُس کی نے کہا کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟ خبیب نے کہا نہیں.پھر اُس نے آپ کا ایک دوسرا عضو کاٹنے کا حکم دیا.ہر عضو کاٹنے کے بعد وہ سوال کرتا جاتا تھا کہ کیا تو گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور خبیب کہتا تھا کہ نہیں.اسی طرح اس کے سارے اعضاء کاٹے گئے اور آخر میں اسی طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو کر اپنے ایمان کا اعلان کرتے ہوئے وہ خدا سے جا ملا.۲۲۸

Page 233

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۱ دیباچه تفسیر القرآن خود اُم عمارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بہت سی جنگوں میں شامل ہوئیں.غرض کی یہ ایک مخلص اور ایمان والا قافلہ تھا جس کے افراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دولت اور مال مانگنے نہیں آئے تھے بلکہ صرف ایمان طلب کرنے آئے تھے.عباس نے اُن کو مخاطب کر کے کہا اے خزرج قبیلہ کے لوگو! یہ میرا عزیز اپنی قوم میں معزز ہے اس کی قوم کے لوگ خواہ وہ کی مسلمان ہیں یا نہیں اس کی حفاظت کرتے ہیں لیکن اب اس نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمہارے پاس کی جائے.اے خزرج کے لوگو! اگر یہ تمہارے پاس گیا تو سارا عرب تمہارا مخالف ہو جائے گا.اگر تم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے اور اُن خطرات کو پہچانتے ہوئے جو تمہیں اس کے دین کی حفاظت میں پیش آنے والے ہیں اس کو لے جانا چاہتے ہو تو خوشی سے لے جاؤ ورنہ اس ارادہ سے باز آجاؤ.اس قافلہ کے سردار البراء تھے اُنہوں نے کہا ہم نے آپ کی باتیں سن لیں.ہم اپنے ارادہ میں پختہ ہیں ہماری جانیں خدا کے نبی کے قدموں پر شار ہیں.اب فیصلہ اُس کے اختیار میں ہے.ہم اُس کا ہر فیصلہ قبول کریں گے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی تعلیم سمجھانی شروع کی اور خدا تعالیٰ کی توحید کے قیام کا وعظ کیا اور انہیں کہا کہ اگر وہ اسلام کی حفاظت اپنی بیویوں اور اپنے بچوں کی طرح کرنے کا وعدہ کرتے ہیں تو وہ آپ کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہیں.۲۲۹ آپ اپنی بات ختم کرنے نہ پائے تھے کہ مدینہ کے ۷۲ جاں نثار یک زبان ہو کر چلائے ہاں! ہاں !! اُس وقت جوش میں اُنہیں مکہ والوں کی شرارتوں کا خیال نہ رہا اور اُن کی آواز میں فضاء میں گونج گئیں.عباس نے انہیں ہوشیار کیا اور کہا خاموش ! خاموش ! ایسا نہ ہو کہ مکہ کے لوگوں کو اس واقعہ کا علم ہو جائے.مگر اب وہ ایمان حاصل کر چکے تھے ، اب موت اُن کی نظروں میں حقیر ہو چکی تھی.عباس کی بات سن کر اُن کا ایک رئیس بولا.يَارَسُولَ الله ! ہم ڈرتے نہیں ، آپ اجازت دیجئے ابھی مکہ والوں سے لڑ کر انہوں نے جو ظلم آپ پر کئے ہیں اُس کا بدلہ لینے کو تیار ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابھی خدا تعالیٰ نے مجھے اُن کے مقابل پر کھڑا ہونے کا حکم نہیں دیا.اس کے بعد مدینہ کے لوگوں نے آپ کی بیعت کی اور یہ مجلس برخاست ہوئی.۲۳۰ مکہ کے لوگوں کو اِس واقعہ کی بھنک پہنچ گئی اور وہ مدینہ کے سرداروں کے پاس شکایت لے

Page 234

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۲ دیباچہ تفسیر القرآن کر گئے.لیکن چونکہ عبداللہ بن ابی ابن سلول مدینہ کے قافلہ کا سردار تھا اور اُسے خود اس واقعہ کا علم نہیں تھا اُس نے اُنہیں تسلی دلائی اور کہا کہ اُنہوں نے یونہی کوئی جھوٹی افواہ سن لی ہے ایسا کی کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ مدینہ کے لوگ میرے مشورہ کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے.مگر وہ کیا سمجھتا تھا کہ اب مدینہ کے لوگوں کے دلوں میں شیطان کی جگہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت قائم ہو چکی تھی.اس کے بعد مدینہ کا قافلہ واپس چلا گیا.مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ہجرت کی تیاری شروع کی.ایک کے بعد ایک خاندان مکہ سے غائب ہونا شروع ہوا.اب وہ لوگ بھی جو خدا تعالیٰ کی بادشاہت کا انتظار کر رہے تھے دلیر ہو گئے.بعض دفعہ ایک ہی رات میں مکہ کی ایک پوری گلی کے مکانوں کو تالے لگ جاتے تھے اور صبح کے وقت جب شہر کے لوگ گلی کو خاموش پاتے تو دریافت کرنے پر تی انہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس گلی کے تمام رہنے والے مدینہ کو ہجرت کر گئے ہیں اور اسلام کے اس گہرے اثر کو دیکھ کر جو اندر ہی اندر مکہ کے لوگوں میں پھیل رہا تھا وہ حیران رہ جاتے تھے.آخر مکہ مسلمانوں سے خالی ہو گیا ، صرف چند غلام ، خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حضرت ابو بکر اور حضرت علی مکہ میں رہ گئے.جب مکہ کے لوگوں نے دیکھا کہ اب شکار ہمارے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے تو رؤساء پھر جمع ہوئے اور مشورے کے بعد اُنہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ اب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینا ہی مناسب ہے.خدا تعالیٰ کے خاص تصرف سے آپ کے قتل کی تاریخ آپ کی ہجرت کی تاریخ سے موافق پڑی.جب مکہ کے لوگ آپ کے گھر کے سامنے آپ کی کے قتل کے لئے جمع ہورہے تھے آپ رات کی تاریکی میں ہجرت کے ارادہ سے اپنے گھر سے باہر نکل رہے تھے.مکہ کے لوگ ضرور شبہ کرتے ہوں گے کہ اُن کے ارادہ کی خبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مل چکی ہو گی.مگر پھر بھی جب آپ اُن کے سامنے سے گزرے تو اُنہوں نے یہی سمجھا کہ یہ کوئی اور شخص ہے اور بجائے آپ پر حملہ کرنے کے سمٹ سمٹ کر آپ سے چھپنے لگ گئے ، تا کہ اُن کے ارادوں کی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو خبر نہ ہو جائے.اس رات سے پہلے دن ہی آپ کے ساتھ ہجرت کرنے کے لئے ابو بکر کو بھی اطلاع دے دی گئی تھی پس وہ بھی

Page 235

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۳ دیباچہ تفسیر القرآن آپ کو مل گئے اور دونوں مل کر تھوڑی دیر میں مکہ سے روانہ ہو گئے اور مکہ سے تین چار میل پر ثور نامی پہاڑی کے سرے پر ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے.۳۱ جب مکہ کے لوگوں کو معلوم ہوا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے چلے گئے ہیں تو اُنہوں نے ایک فوج جمع کی اور آپ کا کی تعاقب کیا.ایک کھوجی اُنہوں نے اپنے ساتھ لیا جو آپ کا کھوج لگاتے ہوئے ٹور پہاڑ پر پہنچا.وہاں اُس نے اُس غار کے پاس پہنچ کر جہاں آپ ابوبکر کے ساتھ چھپے ہوئے تھے یقین کے ساتھ کہا کہ یا تو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس غار میں ہے یا آسمان پر چڑھ گیا ہے.اُس کے اِس اعلان کو سن کر ابو بکر کا دل بیٹھنے لگا اور اُنہوں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا دشمن سر پر آپہنچا ہے اور اب کوئی دم میں غار میں داخل ہونے والا ہے.آپ نے فرمایا.لا تَحْزَنُ إِنَّ اللهَ مَعَنا - ۲۳۲ ابو بکر ! ڈرو نہیں خدا ہم دونوں کے ساتھ ہے.ابو بکر نے جواب میں کہايَا رَسُولَ اللہ ! میں اپنی جان کے لئے نہیں ڈرتا کیونکہ میں تو ایک معمولی انسان وں مارا گیا تو ایک آدمی ہی مارا جائے گا يَا رَسُولَ اللہ ! مجھے تو صرف یہ خوف تھا کہ اگر آپ کی جان کو کوئی گزند پہنچا تو دنیا میں سے روحانیت اور دین کا نام مٹ جائے گا.آپ نے فرما یا کوئی پرواہ نہیں یہاں ہم دو ہی نہیں ہیں تیسرا خدا تعالیٰ بھی ہمارے پاس ہے.چونکہ اب وقت آ پہنچا کچ تھا کہ خدا تعالیٰ اسلام کو بڑھائے اور ترقی دے اور مکہ والوں کے لئے مہلت کا وقت ختم ہو چکا تھا تو خدا تعالیٰ نے مکہ والوں کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور اُنہوں نے کھوجی سے استہزاء شروع کر دیا اور کہا کیا اُنہوں نے اس کھلی جگہ پر پناہ لینی تھی ؟ یہ کوئی پناہ کی جگہ نہیں ہے اور پھر اس جگہ کثرت سے سانپ بچھو رہتے ہیں یہاں کوئی عظمند پناہ لے سکتا ہے اور بغیر اس کے کہ غار میں جھانک کر دیکھتے کھوجی سے ہنسی کرتے ہوئے وہ واپس لوٹ گئے.دو دن اسی غار میں انتظار کرنے کے بعد پہلے سے طے کی ہوئی تجویز کے مطابق رات کے وقت غار کے پاس سواریاں پہنچائی گئیں اور دو تیز رفتار اونٹنیوں پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی روانہ ہوئے.ایک اونٹنی پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور رستہ دکھانے والا آدمی سوار ہوا اور دوسری اونٹنی پر حضرت ابو بکر اور ان کا ملازم عامر بن فہیر ہ سوار ہوئے.مدینہ کی طرف روانہ ہونے سے پہلے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا منہ مکہ کی طرف کیا.اس

Page 236

انوار العلوم جلد ۲۰ علیہ ال ۲۲۴ مقدس شہر پر جس میں آپ پیدا ہوئے ، جس میں آپ مبعوث ہوئے اور جس میں حضرت اسمعیل ہ السلام کے زمانہ سے آپ کے آباؤ اجداد رہتے چلے آئے تھے آپ نے آخری نظر ڈالی اور حسرت کے ساتھ شہر کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا اے مکہ کی بستی ! تو مجھے سب جگہوں سے زیادہ عزیز ہے مگر تیرے لوگ مجھے یہاں رہنے نہیں دیتے.اُس وقت حضرت ابو بکر نے بھی نہایت افسوس کے ساتھ کہا ان لوگوں نے اپنے نبی کو نکالا ہے اب یہ ضرور ہلاک ہوں گے.۲۳۳ سراقہ کا تعاقب اور اُس کے متعلق جب مکہ والے آپ کی تلاش میں نا کام رہے تو انہوں نے اعلان کر دیا کہ جو کوئی آنحضرت ﷺ کی ایک پیشگوئی محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم) یا ابوبکر کو زندہ یا مردہ واپس لے آئے گا اُس کو سو (۱۰۰) اونٹنی انعام دی جائے گی اور اس اعلان کی خبر مکہ کے اردگرد کے قبائل کو بجھوا دی گئی.چنانچہ سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس اس انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا.تلاش کرتے کرتے اُس نے مدینہ کی سڑک پر آپ کو جالیا.جب اُس نے دو اونٹنیوں اور ان کے سواروں کو دیکھا اور سمجھ لیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کے ساتھی ہیں تو اُس نے اپنا گھوڑا اُن کے پیچھے دوڑا دیا.مگر راستہ میں گھوڑے نے زور سے ٹھوکر کھائی اور سراقہ گر گیا.سراقہ بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ اپنا واقعہ خود اس طرح بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو میں نے عربوں کے دستور کے مطابق اپنے تیروں سے فال نکالی اور فال بُری نکلی.مگر انعام کے لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر پیچھے دوڑا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وقار کے ساتھ اپنی اونٹنی پر سوار چلے جا رہے تھے.انہوں نے مڑ کر مجھے نہیں دیکھا ، لیکن ابوبکر ( اس ڈر سے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی گزند نہ پہنچے بار بار منہ پھیر کر مجھے دیکھتے تھے.جب دوسری دفعہ میں اُن کے قریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے زور سے ٹھو کر کھائی اور میں گر گیا.اس پر پھر میں نے اپنے تیروں سے فال لی اور فال خراب نکلی.میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پاؤں اتنے پھنس گئے تھے کہ اُن کا نکالنا مشکل ہو رہا تھا.تب میں نے سمجھا کہ یہ لوگ خدا کی حفاظت میں ہیں اور میں نے انہیں آواز دی کہ ٹھہرو اور میری بات سنو ! جب وہ لوگ میرے پاس آئے تو میں نے انہیں بتایا کہ

Page 237

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۵ دیباچہ تفسیر القرآن میں اس ارادہ سے یہاں آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے اور میں واپس جا رہا ہوں ، کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بہت اچھا جاؤ، مگر دیکھو کسی کو ہمارے متعلق خبر نہ دینا.اُس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ چونکہ یہ شخص سچا معلوم ہوتا ہے اس لئے ضرور ہے کہ ایک دن کامیاب ہو.اس خیال کے آنے پر میں نے درخواست کی کہ جب آپ کو غلبہ حاصل ہو گا اُس زمانہ کے لئے مجھے کوئی امن کا پروا نہ لکھ دیں.آپ نے عامر بن فہیرہ حضرت ابوبکر کے خادم کو ارشاد فرمایا کہ اسے امن کا پروانہ لکھ دیا جائے.۲۳۴ چنانچہ انہوں نے امن کا پروانہ لکھ دیا.جب سراقہ لوٹنے لگا تو معا اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ حالات آپ پر غیب سے ظاہر فرما دیئے اور اُن کے مطابق آپ نے اُسے فرمایا.سراقہ ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے.سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا، کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران کے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! ۲۳۵ آپ کی یہ پیشگوئی کوئی سولہ سترہ سال کے بعد جا کر لفظ بلفظ پوری ہوئی.سراقہ مسلمان ہو کر مدینہ آ گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پہلے حضرت کی ابوبکر پھر حضرت عمر خلیفہ ہوئے.اسلام کی بڑھتی ہوئی شان کو دیکھ کر ایرانیوں نے مسلمانوں پر حملے شروع کر دیئے اور بجائے اسلام کو کچلنے کے خود اسلام کے مقابلہ میں کچلے گئے.کسری کا دار الامارۃ اسلامی فوجوں کے گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال ہوا اور ایران کے خزانے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے.جو مال اُس ایرانی حکومت کا اسلامی فوجوں کے قبضہ میں آیا اُس میں وہ کڑے بھی تھے جو کسری ایرانی دستور کے مطابق تخت پر بیٹھتے وقت پہنا کرتا تھا.سراقہ مسلمان ہونے کے بعد اپنے اس واقعہ کو جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کے وقت اُسے پیش آیا تی تھا مسلمانوں کو نہایت فخر کے ساتھ سنایا کرتا تھا اور مسلمان اس بات سے آگاہ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مخاطب کر کے فرمایا تھا، سراقہ ! اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھ میں کسری کے کنگن ہوں گے.حضرت عمرؓ کے سامنے جب اموالِ غنیمت لا کر رکھے گئے اور اُن میں اُنہوں نے کسری کے کنگن دیکھے تو سب نقشہ آپ کی آنکھوں کے سامنے پھر گیا.وہ کمزوری اور ضعف کا وقت جب خدا کے رسول کو اپنا وطن چھوڑ کر مدینہ آنا پڑا تھا، وہ سراقہ اور

Page 238

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن دوسرے آدمیوں کا آپ کے پیچھے اس لئے گھوڑے دوڑانا کہ آپ کو مار کر یا زندہ کسی صورت میں بھی مکہ والوں تک پہنچا دیں تو وہ سو اونٹوں کے مالک ہو جائیں گے اور اُس وقت آپ کا سراقہ سے کہنا سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہو گا جب تیرے ہاتھوں میں کسری کے کنگن ہوں گے.کتنی بڑی پیشگوئی تھی کتنا مصطفی غیب تھا.حضرت عمر نے اپنے سامنے کسری کے کنگن دیکھے تو خدا کی قدرت اُن کی آنکھوں کے سامنے پھر گئی.اُنہوں نے کہا سراقہ کو بلاؤ.سراقہ بلائے گئے تو حضرت عمرؓ نے انہیں حکم دیا کہ وہ کسری کے کنگن اپنے ہاتھوں میں پہنیں.سراقہ نے کہا.اے می خدا کے رسول کے خلیفہ ! سونا پہنا تو مسلمانوں کے لئے منع ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا ہاں منع ہے مگر ان موقعوں کے لئے نہیں.اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تمہارے ہاتھ میں سونے کے کنگن دکھائے تھے یا تو تم یہ کنگن پہنو گے یا میں تمہیں سزا دوں گا.سراقہ کا اعتراض تو کی محض شریعت کے مسئلہ کی وجہ سے تھا ورنہ وہ خود بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھنے کا خواہش مند تھا.سراقہ نے وہ کنگن اپنے ہاتھ میں پہن لئے اور مسلمانوں نے اس عظیم الشان پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے اپنی آنکھوں سے دیکھا.صلى الله مکہ سے بھاگ کر نکلنے والا رسول آنحضرت ﷺ کا مدینہ منورہ میں ورود اب دنیا کا بادشاہ تھا ، وہ خود اس دنیا میں موجود نہیں تھا مگر اُس کے غلام اُس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے.سراقہ کو رخصت کرنے کے بعد چند منزلیں طے کر کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے مدینہ کے لوگ بے صبری سے آپ کا انتظار کر رہے تھے اور اس سے زیادہ اُن کی خوش قسمتی اور کیا ہوسکتی تھی کہ وہ سورج جو مکہ کے لئے نکلا تھا مدینہ کے لوگوں پر جا طلوع ہوا.جب انہیں یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے غائب ہیں تو وہ اُسی دن سے آپ کی انتظار کر رہے تھے.اُن کے وفد روزانہ مدینہ سے باہر کئی میل تک آپ کی تلاش کے لئے نکلتے تھے اور شام کو مایوس ہو کر واپس آجاتے تھے.جب آپ مدینہ کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا کہ پہلے آپ قبا میں جو مدینہ کے پاس ایک گاؤں تھا ٹھہریں.ایک یہودی نے آپ کی اونٹنیوں کو آتے دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ قافلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا اور اُس کی

Page 239

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۷ دیباچہ تفسیر القرآن نے آواز دی اے قبلہ کی اولاد! (قبیلہ مدینہ والوں کی ایک دادی تھی ) تم جس کی انتظار میں تھے آ گیا ہے.اس آواز کے پہنچتے ہی مدینہ کا ہر شخص قبا کی طرف دوڑ پڑا.قبا کے باشندے اس خیال سے کہ خدا کا نبی اُن میں ٹھہرنے کے لئے آیا ہے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے.اس موقع پر ایک ایسی بات ہوئی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سادگی کے کمال پر دلالت کرتی تھی.مدینہ کے اکثر لوگ آپ کی شکل سے واقف نہ تھے.جب قبا سے باہر آپ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے اور لوگ بھاگتے ہوئے مدینہ سے آپ کی طرف آرہے تھے تو چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ سادگی سے بیٹھے ہوئے تھے اُن میں سے نا واقف لوگ حضرت ابوبکر کو دیکھ کر جو عمر میں گو چھوٹے تھے مگر اُن کی ڈاڑھی میں کچھ سفید بال آئے ہوئے تھے اور اسی طرح اُن کا لباس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ بہتر تھا یہی سمجھتے تھے کہ ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور بڑے ادب سے آپ کی طرف منہ کر کے بیٹھ جاتے تھے.حضرت ابو بکر نے جب یہ بات دیکھی تو سمجھ لیا کہ لوگوں کو غلطی لگ رہی ہے.وہ جھٹ چادر پھیلا کر سورج کے سامنے کھڑے ہو گئے اور کہا یا رَسُولَ الله ! آپ پر دھوپ پڑ رہی ہے ! میں آپ پر سایہ کرتا ہوں ۲۳۶ اور اِس لطیف طریق سے اُنہوں نے لوگوں پر اُن کی غلطی کو ظاہر کر دیا.قبا میں دس دن رہنے کے بعد مدینہ کے لوگ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ لے گئے.جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے مدینہ کے تمام مسلمان کیا مرد کیا عورتیں اور کیا بچے سب گلیوں میں نکلے ہوئے آپ کو خوش آمدید کہہ رہے تھے.بچے اور عور تیں یہ شعر گا ر ہے تھے طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَّاتِ الْوِدَاع وَجَبَ الشُّكْرُ عَلَيْنَا اللَّهِ دَاع أَيُّهَا الْمَبْعُوثُ فِيْنَا جنتَ بالا مُرِ الْمُطَاع ١٣٧ یعنی چودھویں رات کا چاند ہم پر وداع کے موڑ سے چڑھا ہے اور جب تک خدا کی طرف بلانے والا دنیا میں کوئی موجود رہے ہم پر اس احسان کا شکر یہ ادا کرنا واجب ہے اور اے وہ جس کو خدا نے ہم میں مبعوث کیا ہے تیرے حکم کی پوری طرح اطاعت کی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس جہت سے مدینہ میں داخل ہوئے تھے وہ مشرقی جہت نہیں

Page 240

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۸ دیباچہ تفسیر القرآن تھی.مگر چودھویں رات کا چاند تو مشرق سے چڑھا کرتا ہے.پس مدینہ کے لوگوں کا اشارہ اس بات کی طرف تھا کہ اصل چاند تو روحانی چاند ہے.ہم اس وقت تک اندھیرے میں تھے اب ہمارے لئے چاند چڑھا ہے اور چاند بھی اُس جہت سے چڑھا ہے جدھر سے وہ چڑھا نہیں کرتا.یہ پیر کا دن تھا جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں داخل ہوئے اور پیر ہی کے دن آپ غارثور سے نکلے تھے اور یہ عجیب بات ہے کہ پیر ہی کے دن مکہ آپ کے ہاتھ پر فتح ہوا.جب آپ مدینہ میں داخل ہوئے ہر شخص کی یہ خواہش تھی کہ آپ اُس کے گھر میں ٹھہر ہیں.جس جس گلی میں سے آپ کی اونٹنی گزرتی تھی اُس گلی کے مختلف خاندان اپنے گھروں کے آگے کھڑے ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرتے تھے اور کہتے تھے.يَا رَسُولَ اللہ ! یہ ہمارا گھر ہے اور یہ ہمارا مال ہے اور یہ ہماری جانیں ہیں جو آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہیں يَارَسُولَ الله! اور ہم آپ کی حفاظت کرنے کے قابل ہیں آپ ہمارے ہی پاس ٹھہر ہیں.بعض لوگ جوش میں آگے بڑھتے اور آپ کی اُونٹنی کی باگ پکڑ لیتے تا کہ آپ کو اپنے گھر میں اُتروا لیں.مگر آپ ہر ایک شخص کو یہی جواب دیتے تھے کہ میری اونٹنی کو چھوڑ دو یہ آج خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے یہ وہیں کھڑی ہوگی جہاں خدا تعالیٰ کا منشاء ہو گا.آخر مدینہ کے ایک سرے پر بنو نجار کے یتیموں کی ایک زمین کے پاس جا کر اونٹنی ٹھہر گئی.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کا یہی منشاء معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہریں.۱۳۸ پھر فرمایا یہ زمین کس کی ہے؟ زمین کچھ قیموں کی کی تھی اُن کا ولی آگے بڑھا اور اُس نے کہا کہ يَا رَسُولَ اللہ ! یہ فلاں فلاں یتیم کی زمین ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے آپ نے فرمایا ہم کسی کا مال مفت نہیں لے سکتے.آخر اس کی قیمت مقرر کی گئی اور آپ نے اس جگہ پر مسجد اور اپنے مکانات بنانے کا فیصلہ کیا.۲۳۹ اس کے بعد آپ نے فرمایا حضرت ابوایوب انصاری کے مکان پر قیام سب سے قریب گھر کس کا 3 ہے؟ ابوایوب انصاری آگے بڑھے اور کہا يَا رَسُولَ اللہ! میرا گھر سب سے قریب ہے اور آپ کی خدمت کے لئے حاضر ہے.آپ نے فرمایا گھر جاؤ اور ہمارے لئے کوئی کمرہ تیار کرو.ابوایوب کا مکان دومنزلہ تھا اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اوپر کی منزل تجویز کی

Page 241

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۲۹ کی مگر آپ نے اس خیال سے کہ ملنے والوں کو تکلیف ہوگی نچلی منزل پسند فرمائی.انصار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے جو شدید محبت پیدا ہوگئی تھی ، اس کا مظاہرہ اس موقع پر بھی ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصرار پر حضرت ابوایوب مان تو گئے کہ آپ مچلی منزل میں ٹھہریں ، لیکن ساری رات میاں بیوی اس خیال سے جاگتے رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے نیچے سو رہے ہیں پھر وہ کس طرح اس بے ادبی کے مرتکب ہو سکتے ہیں کہ وہ چھت کے اوپر سوئیں.رات کو ایک برتن پانی کا گر گیا تو اس خیال سے کہ چھت کے نیچے پانی نہ ٹپک پڑے حضرت ایوب نے دوڑ کر اپنا لحاف اُس پانی پر ڈال کر پانی کی رطوبت کو خشک کیا.صبح کے وقت پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سارے حالات عرض کئے جس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر جانا منظور فرما لیا.حضرت ابوایوب روزانہ کھانا تیار کرتے اور آپ کے پاس بجھواتے پھر جو آپ کا بچا ہوا کھانا آتا وہ سارا گھر کھاتا.کچھ دنوں کے بعد اصرار کے ساتھ باقی انصار نے بھی مہمان نوازی میں اپنا حصہ طلب کیا اور جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے گھر کا انتظام نہ ہو گیا باری باری مدینہ کے مسلمان آپ کے گھر میں کھانا پہنچاتے رہے.۲۴۰ مدینہ کی ایک بیوہ عورت حضرت انس خادم آنحضرت ﷺ کی شہادت کا ایک ہی لڑکا انس نامی تھا.اُس کی عمر آٹھ سال تھی وہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائیں اور کہا کہ يَارَسُوْلَ اللہ ! میرے اس لڑکے کو اپنی خدمت کے لئے قبول فرما ئیں.وہ عورت اپنی محبت کی وجہ سے اپنے لڑکے کو قربانی کے لئے پیش کر رہی تھی لیکن اُسے کیا معلوم تھا کہ اُس کا لڑ کا قربانی کے لئے نہیں بلکہ ہمیشہ کی زندگی کے لئے قبول کیا گیا.انس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اسلام کے بہت بڑے عالم ہوئے اور آہستہ آہستہ بہت بڑے مالدار ہو گئے.اُنہوں نے ایک سو سال سے زیادہ عمر پائی اور اسلامی بادشاہت میں بہت عزت کی نگاہ کے ساتھ دیکھے جاتے تھے.انس کا بیان ہے کہ میں نے چھوٹی عمر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کا شرف حاصل کیا اور آپ کی زندگی تک آپ کے ساتھ رہا کبھی

Page 242

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۰ دیباچہ تفسیر القرآن آپ نے مجھ سے سختی کے ساتھ بات نہیں کی، کبھی جھڑ کی نہیں دی، کبھی کسی ایسے کام کیلئے نہیں کہا جو میری طاقت سے باہر ہو.۲۴۱ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیام مدینہ کے ایام میں صرف آنس سے خدمت لینے کا موقع ملا اور انس کی شہادت اس بارہ میں آپ کے اخلاق پر نہایت تیز روشنی ڈالنے والی ہے.مکہ سے اہل وعیال کو بلو انا مسجد نبوی کی بنیا درکھنا کچھ عرصہ کے بعد آپ کی نے اپنے آزاد کردہ غلام زیڈ کو مکہ میں بھجوایا کہ وہ آپ کے اہل وعیال کو لے آئے.چونکہ مکہ والے اس اچانک ہجرت کی وجہ سے کچھ گھبرا گئے تھے اس لئے کچھ عرصہ تک مظالم کا سلسلہ بند رہا اور اسی گھبراہٹ کی وجہ سے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابو بکر کے خاندان کے مکہ چھوڑنے میں مزاحم نہیں ہوئے اور یہ لوگ خیریت سے مدینہ پہنچ گئے.اس عرصہ میں جو زمین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خریدی تھی سب سے پہلے وہاں آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی ۲۴۲؎ اور اس کے بعد اپنے لئے اور اپنے ساتھیوں کے لئے مکان بنوائے جس پر کوئی سات مہینے کا عرصہ لگا.مدینہ کے مشرک قبائل کا اسلام میں داخل ہونا مدینہ میں آپ کے داخلہ کے بعد چند ہی دن میں مدینہ کے مشرک قبائل میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے ، جو دل سے مسلمان نہ ہوئے تھے وہ ظاہری طور پر مسلمانوں میں شامل ہو گئے اور اس طرح پہلی دفعہ مسلمانوں میں منافقوں کی ایک جماعت قائم ہوئی جو بعد کے زمانہ میں کچھ تو سچے طور پر ایمان لے آئی اور کچھ ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف منصوبے اور سازشیں کرتی رہی.کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو ظاہر میں بھی اسلام نہ لائے جی مگر یہ لوگ مدینہ میں اسلام کی شوکت کو برداشت نہ کر سکے اور مدینہ سے ہجرت کر کے مکہ چلے گئے.اس طرح مدینہ دنیا کا پہلا شہر تھا جس میں خالصتہ خدائے واحد کی عبادت قائم کی گئی.یقین کی اُس وقت دنیا کے پردہ پر اس شہر کے سوا اور کوئی شہر یا گاؤں خالصتہ خدائے واحد کی عبادت کرنے کی والا نہیں تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ کتنی بڑی خوشی اور اُن کے ساتھیوں کی نگاہوں میں

Page 243

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۱ دیباچہ تفسیر القرآن یہ کتنی عظیم الشان کامیابی تھی کہ مکہ سے ہجرت کرنے کے چند دنوں بعد ہی خدا تعالیٰ نے اُن کے ذریعہ سے ایک شہر کو پورے طور پر خدائے قادر کا پرستار بنادیا جس میں اور کسی بت کی پوجا نہیں کی جاتی تھی، نہ ظاہری بت کی نہ باطنی بت کی لیکن اس تبدیلی سے یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مسلمانوں کے لئے اب امن آگیا تھا.مدینہ میں عربوں میں سے بھی ایک جماعت منافقوں کی ایسی موجود تھی جو آپ کی جان کی دشمن تھی اور یہود بھی ریشہ دوانیاں کر رہے تھے.چنانچہ اس خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے آپ خود بھی چوکس رہتے تھے اور اپنے ساتھیوں کو بھی چوکس رہنے کی تاکید کرتے تھے.شروع میں بعض دن ایسے بھی آئے کہ آپ کو رات بھر جاگنا پڑا.ایک دفعہ ایسی ہی حالت میں جب آپ کو جاگتے رہنے سے تھکان محسوس ہوئی تو آپ نے فرمایا اس وقت کوئی مخلص آدمی پہرہ دیتا تو میں سو جاتا.تھوڑی ہی دیر میں ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی آپ نے پوچھا کون ہے؟ تو آواز آئی يَا رَسُولَ اللہ ! میں سعد بن وقاص ہوں جو آپ کا پہرہ دینے کے لئے آیا ہوں.۲۴۳ اس پر آپ نے آرام فرمایا.انصار کو خود بھی یہ محسوس ہو رہا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ کی رہائش ہم پر بہت بڑی ذمہ واری ڈالتی ہے اور یہ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں دشمنوں کے حملوں سے محفوظ نہیں چنانچہ انہوں نے باہمی فیصلہ کر کے مختلف قبائل کی باریاں مقرر کر دیں.ہر قبیلہ کے کچھ لوگ باری باری آپ کے گھر کا پہرہ دیتے تھے.غرض مکی زندگی اور مدنی زندگی میں اگر کوئی فرق تھا تو صرف یہ کہ اب مسلمان خدا کے نام پر قائم کی ہوئی مسجد میں بغیر دوسرے لوگوں کی دخل اندازی کے پانچوں وقت نمازیں پڑھ سکتے تھے.مکہ والوں کی مسلمانوں کو دو تین مہینے گزرنے کے بعد مکہ کے لوگوں کی کچ پریشانی دور ہوئی اور اُنہوں نے نئے سرے سے دوبارہ دُکھ دینے کی تدبیر میں مسلمانوں کو دکھ دینے کی تدابیر سوچنی شروع کیں.مگر مشورہ کے بعد انہوں نے محسوس کیا کہ صرف مکہ اور گرد و نواح میں مسلمانوں کو تکلیف دینا اُنہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں کر سکتا.وہ اسلام کو تبھی مٹا سکتے ہیں جب

Page 244

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۲ دیباچہ تفسیر القرآن مدینہ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نکلوا دیں.چنانچہ یہ مشورہ کر کے مکہ کے لوگوں نے عبداللہ بن ابی بن سلول کے نام جس کی نسبت پہلے بتایا جا چکا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینہ والوں نے اُسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کیا تھا خط لکھا اور اسے توجہ دلائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ جانے کی وجہ سے مکہ کے لوگوں کو بہت صدمہ ہوا ہے.مدینہ کے لوگوں کو چاہئے نہیں تھا کہ وہ آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو پناہ دیتے.اس کے آخر میں یہ الفاظ تھے انكُمُ اوَيْتُمُ صَاحِبَنَا وَإِنَّا نُقْسِمُ بِاللَّهِ لَتُقَاتِلَنَّهُ أَوْ تُخْرِجَنَّهُ أَوْلَنُسَيَرَنَّ إِلَيْكُمْ بِأَجْمَعِنَا حَتَّى نَقْتُلَ مُقَاتِلَتَكُمْ وَنَسْتَبِيحَ نِسَاءَ كُمْ ۲۴۴۰۰ یعنی اب جبکہ تم لوگوں نے ہمارے آدمی ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو اپنے گھروں میں پناہ دی ہے ہم خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ یا تو تم مدینہ کے لوگ اس کے ساتھ لڑائی کرو یا اُسے اپنے شہر سے نکال دو نہیں تو ہم سب کے سب مل کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے تمام قابل جنگ آدمیوں کو قتل کر دیں گے اور عورتوں کو لونڈیاں بنالیں گے.اس خط کے ملنے پر عبد اللہ ابن ابی بن سلول کی نیت کچھ خراب ہوئی اور اُس نے دوسرے منافقوں سے مشورہ کیا کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم نے یہاں رہنے دیا تو ہمارے لئے خطرات کا دروازہ کھل جائے گا اس لئے چاہئے کہ ہم آپ کے ساتھ لڑائی کریں اور مکہ والوں کو خوش کریں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی اطلاع مل گئی اور آپ عبداللہ ابن ابی بن سلول کے پاس گئے اور اُسے سمجھایا کہ تمہارا یہ فعل خود تمہارے لئے ہی مضر ہو گا.کیونکہ تم جانتے ہو کہ مدینہ کے بہت سے لوگ مسلمان ہو چکے ہیں اور اسلام کے لئے جانیں قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اگر تم ایسا کرو گے تو وہ لوگ یقیناً مہاجرین کے ساتھ ہوں گے اور تم لوگ اس لڑائی کو شروع کر کے بالکل تباہ ہو جاؤ گے.عبداللہ ابن ابی بن سلول پر اپنی غلطی کھل گئی اور وہ اس ارادہ سے باز آ گیا.انہی ایام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ی انصار ومہاجرین میں مؤاخات ایک اور تدبیر اسلام کی مضبوطی کے لئے اختیار کی اور وہ یہ کہ آپ نے تمام مسلمانوں کو جمع کیا اور دو دو آدمیوں کو آپس میں بھائی بھائی بہن دیا.اس مؤاخات یعنی بھائی چارے کا انصار نے ایسی خوشدلی سے استقبال کیا کہ ہر انصاری

Page 245

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۳ دیباچہ تفسیر القرآن اپنے بھائی کو اپنے گھر پر لے گیا اور اپنی جائیداد اُس کے سامنے پیش کر دی کہ اُسے نصف نصف بانٹ لیا جائے.ایک انصاری نے تو یہاں تک حد کر دی کہ اپنے مہاجر بھائی سے اصرار کیا کہ میں اپنی دو بیویوں میں سے ایک کو طلاق دے دیتا ہوں تم اُس سے شادی کر لو.۲۴۵ مگر مہاجرین نے اُن کے اِس اخلاص کا شکریہ ادا کر کے اُن کی جائیدادوں میں سے حصہ لینے سے انکار کر دیا.مگر پھر بھی انصار مصر ر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انہوں نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ اللہ! جب یہ مہاجرین ہمارے بھائی ہو گئے تو یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ ہمارے مال میں حصہ دار نہ ہوں.ہاں چونکہ یہ زمیندارہ سے واقف نہیں اور تاجر پیشہ لوگ ہیں اگر یہ ہماری زمینوں سے حصہ نہیں لیتے تو پھر ہماری زمینوں کی جو آمد نیاں ہوں اس میں ضرور ان کو حصہ دار بنایا جائے.مہاجرین نے اس پر بھی اُن کے ساتھ حصہ دار بننا پسند نہ کیا اور اپنے آبائی پیشہ تجارت میں لگ گئے اور تھوڑے ہی دنوں میں اُن میں سے کئی مالدار ہو گئے.مگر انصار اِس حصہ بٹانے پر اتنے مصر تھے کہ بعض انصار جو فوت ہوئے اُن کی اولادوں نے عرب کے دستور کے مطابق اپنے مہاجر بھائیوں کو مرنے والے کی جائیداد میں سے حصہ دیا اور کئی سال تک اس پر عمل ہوتا رہا.یہاں تک کہ قرآن کریم میں اس عمل کی منسوخی کا ارشاد نازل ہوا.مہاجرین و انصار اور علاوہ مسلمانوں کو بھائی بھائی بنانے کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام اہل مدینہ کے درمیان ایک معاہدہ کرایا.آپ یہود کے مابین معاہدہ نے یہودیوں اور عربوں کے سرداروں کو جمع کیا اور فرمایا.پہلے یہاں صرف دو گروہ تھے مگر اب تین گروہ ہو گئے ہیں.یعنی پہلے تو صرف یہود اور مدینہ کے عرب یہاں بستے تھے مگر اب یہود، مدینہ کے عرب اور مکہ کے مہاجر تین گروہ ہو گئے ہیں.اس کی لئے چاہئے کہ آپس میں ایک صلح نامہ قائم ہو جائے.چنانچہ آپس کے سمجھوتے کے ساتھ ایک معاہدہ لکھا گیا اس معاہدہ کے الفاظ یہ ہیں:.وو معاہدہ مابین محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، مؤمنوں اور اُن تمام لوگوں کے جو اُن سے بخوشی مل جائیں.مهاجرین سے اگر کوئی قتل ہو جائے تو وہ اُس کے خون کا ذمہ دار خود ہوں گے اور

Page 246

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۴ دیباچهتفسیر القرآن اپنے قیدیوں کو خود چھڑا ئیں گے اور مدینہ کے مختلف مسلمان قبائل بھی اسی طرح ان امور میں اپنے قبائل کے ذمہ دار ہوں گے.جو شخص بغاوت پھیلائے یا دشمنی پیدا کرے اور نظام میں تفرقہ ڈالے تمام معاہدین اُس کے خلاف کھڑے ہو جائیں گے.خواہ وہ اُن کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ ہو.اگر کوئی کا فرمسلمان کے ہاتھ سے لڑائی میں مارا جائے تو اُس کے مسلمان رشتہ دار مسلمان سے بدلہ نہیں لیں گے اور نہ کسی مسلمان کے مقابلہ میں ایسے کافر کی مدد کریں گے.جو کوئی یہودی ہمارے ساتھ مل جائے اس کی ہم سب مدد کریں گے.یہودیوں کو کسی قسم کی تکلیف نہیں دی جائے گی نہ کسی دشمن کی اُن کے خلاف مدد کی جائے گی.کوئی غیر مؤمن مکہ کے لوگوں کو اپنے گھر میں پناہ نہیں دے گا نہ اُن کی جائداد اپنے پاس امانت رکھے گا اور نہ کافروں اور مؤمنوں کی لڑائی میں کسی قسم کی دخل اندازی کرے گا.اگر کوئی شخص کسی مسلمان کو نا جائز طور پر مار دے تو تمام مسلمان اُس کے خلاف متحدہ کوشش کریں گے.اگر ایک مشرک دشمن مدینہ پر حملہ کرے تو یہودی مسلمانوں کا ساتھ دیں گے اور بحصہ رسدی خرچ برداشت کریں گے.یہودی قبائل جو مدینہ کے مختلف قبائل کے ساتھ معاہدہ کر چکے ہیں اُن کے حقوق مسلمانوں کے سے حقوق ہوں گے.یہودی اپنے مذہب پر قائم رہیں گے اور مسلمان اپنے مذہب پر قائم رہیں گے.جو حقوق یہودیوں کو ملیں گے وہی ان کے اتباع کو بھی ملیں گے.مدینہ کے لوگوں میں سے کوئی شخص محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر کوئی لڑائی شروع نہیں کر سکے گا لیکن اس شرط کے ماتحت کوئی شخص اُس کے جائز انتقام سے محروم نہیں کیا جائے گا.یہودی اپنی تنظیم میں سے اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے اور مسلمان اپنے اخراجات خود برداشت کریں گے لیکن لڑائی کی صورت میں وہ دونوں مل کر کام کریں گے.مدینہ اُن تمام لوگوں کے لئے جو اس معاہدہ میں شامل ہوتے ہیں ایک محترم جگہ ہوگی.جو اجنبی کہ شہر کے لوگوں کی حمایت میں آجائیں اُن کے ساتھ بھی وہی سلوک ہوگا جو اصل باشد گانِ شہر کے ساتھ ہوگا.لیکن مدینہ کے لوگوں کو یہ اجازت نہ ہوگی کہ کسی عورت کو اُس کے رشتہ داروں

Page 247

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۵ دیباچہ تفسیر القرآن کی مرضی کے بغیر اپنے گھروں میں رکھیں.جھگڑے اور فساد خدا اور اُس کے رسول کے پاس فیصلہ کے لئے پیش کئے جائیں گے.مکہ والوں اور اُن کے حلیف قبائل کے ساتھ اس معاہدہ میں شامل ہونے والے کوئی معاہدہ نہیں کریں گے، کیونکہ اس معاہدہ میں شامل ہونے والے مدینہ کے دشمنوں کے خلاف اس معاہدہ کے ذریعہ سے اتفاق کر چکے ہیں.جس طرح جنگ علیحدہ نہیں کی جاسکے گی اسی طرح صلح بھی علیحدہ نہیں کی جا سکے گی.لیکن کسی کو مجبور نہیں کیا جائے گا کہ وہ لڑائی میں شامل ہو.ہاں اگر کوئی شخص ظلم کا کوئی فعل کرے گا تو وہ سزا کا مستحق ہوگا.یقینا خدا نیکوں اور دینداروں کا محافظ ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) خدا کے رسول ہیں.۲۴۶ 66 یہ معاہدہ کا خلاصہ ہے.اس معاہدہ میں بار بار اس بات پر زور دیا گیا تھا کہ دیانتداری اور صفائی کو ہاتھ سے نہیں چھوڑا جائے گا اور ظالم اپنے ظلم کا خود ذمہ دار ہو گا.اس معاہدہ سے ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ یہودیوں کے ساتھ اور مدینہ کے اُن باشندوں کے ساتھ جو اسلام میں شامل نہ ہوں محبت، پیار اور ہمدردی کا سلوک کیا جائے گا اور انہیں بھائیوں کی طرح رکھا جائے گا.پس بعد میں یہود کے ساتھ جس قدر جھگڑے پیدا ہوئے اُن کی ذمہ داری خالصہ یہود پر تھی.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ اہل مکہ کی طرف سے از سر نو شرارتوں کا آغاز دو تین مہینہ کے بعد مکہ والوں کی پریشانی جب دور ہوئی تو اُنہوں نے پھر سے اسلام کے خلاف ایک نیا محاذ قائم کیا.چنانچہ انہی ایام میں مدینہ کے ایک رئیس سعد بن معاذ جو اوس قبیلہ کے سردار تھے بیت اللہ کا طواف کرنے کے لئے مکہ گئے تو ابو جہل نے اُن کو دیکھ کر بڑے غصہ سے کہا کیا تم لوگ یہ خیال کی کرتے ہو کہ اُس مرتد ( محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کو پناہ دینے کے بعد تم لوگ امن کے ساتھ کعبہ کا طواف کر سکو گے اور تم یہ گمان کرتے ہو کہ تم اُس کی حفاظت اور امداد کی طاقت رکھتے ہو.خدا کی قسم ! اگر اس وقت تیرے ساتھ ابو صفوان نہ ہوتا تو تو اپنے گھر والوں کے پاس بیچ کر نہ جاسکتا.سعد بن معاذ نے کہا.واللہ! اگر تم نے ہمیں کعبہ سے روکا تو یاد رکھو پھر تمہیں بھی

Page 248

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۶ دیباچہ تفسیر القرآن تمہارے شامی راستہ پر امن نہیں مل سکے گا.اُنہی دنوں میں ولید بن مغیرہ مکہ کا ایک بہت بڑا رئیس بیمار ہوا اور اُس نے محسوس کیا کہ اُس کی موت قریب ہے.ایک دن مکہ کے بڑے بڑے رئیس اُس کے پاس بیٹھے تھے تو وہ بے اختیار ہو کر رونے لگ گیا.مکہ کے رؤسا ء حیران ہوئے اور اُس سے پوچھا کہ آخر آپ روتے کیوں ہیں ؟ ولید نے کہا کیا تم سمجھتے ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں وَاللهِ! ایسا ہر گز نہیں، مجھے تو یہ غم ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا دین پھیل جائے اور مکہ بھی اس کے قبضہ میں چلا جائے.ابوسفیان نے جواب میں کہا.اس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا ہم اس بات کے ضامن ہیں.ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ مکہ کے لوگوں کے مظالم میں جو وقفہ ہوا تھا وہ عارضی تھا.دوبارہ قوم کو اُکسایا جا رہا تھا.مرنے والے رؤساء موت کے بستر پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی قسمیں لے رہے تھے.مدینہ کے لوگوں کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف لڑائی پر آمادہ کیا جا رہا تھا اور اُن کے انکار پر دھمکیاں دی جا رہی تھیں کہ مکہ والے اور اُن کے حلیف قبائل لشکر لے کر مدینہ پر حملہ کریں گے اور مدینہ کے مردوں کو مار دیں گے اور عورتوں کو غلام بنالیں گے.صلى الله آنحضرت ﷺ کی مدافعانہ تدابیر پس ان حالات میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں خاموش بیٹھے رہتے اور مدینہ کی حفاظت کا کوئی سامان نہ کرتے تو یقیناً آپ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری عاید ہوتی.پس آپ نے چھوٹے چھوٹے وفدوں کی صورت میں اپنے صحابہ کو مکہ کے اردگرد بجھوانا شروع کیا تا کہ مکہ والوں کی کارروائیوں کا آپ کو علم ہوتا رہے.بعض دفعہ ان لوگوں کی مکہ کے قافلوں یا مکہ کی بعض جماعتوں سے مٹھ بھیڑ بھی ہو جاتی اور ایک دوسرے کو دیکھ لینے کے بعد لڑائی تک بھی کی نوبت پہنچ جاتی.مسیحی مصنف لکھتے ہیں کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے چھیڑ چھاڑی تھی.کیا مکہ میں تیرہ سال تک جو مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور مدینہ کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف کھڑا کرنے کی جو کوشش کی گئی اور پھر مدینہ پر حملہ کرنے کی جو دھمکیاں دی گئیں ، ان واقعات کی موجودگی میں آپ کا خبر دار رہنے کے لئے وفود بھجوانا کیا چھیڑ چھاڑ کہلا سکتا ہے؟ کونسا

Page 249

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۷ دیباچہ تفسیر القرآن دنیا کا قانون ہے جو مکہ کے تیرہ سال کے مظالم کے بعد بھی مسلمانوں اور اہل مکہ میں لڑائی کی چھیڑنے کے لئے کسی مزید وجہ کی ضرورت سمجھتا ہو.آج مغربی ممالک اپنے آپ کو بہت ہی مہذب سمجھتے ہیں.جو کچھ مکہ میں ہوا کیا اُن سے نصف واقعات پر بھی کوئی قوم لڑے تو کوئی شخص اُسے مجرم قرار دے سکتا ہے؟ کیا اگر کوئی حکومت کسی دوسرے ملک کے لوگوں کو ایک جماعت کے قتل کرنے یا اپنے ملک سے نکال دینے پر مجبور کرے تو اُس جماعت کو حق حاصل نہیں ہوتا کہ وہ اُس سے لڑائی کا اعلان کرے؟ پس مدینہ میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد کسی نئی وجہ کے پیدا ہونے کی ضرورت ہی نہیں تھی.مکی زندگی کے واقعات مسلمانوں کو پورا حق دیتے تھے کہ وہ مکہ والوں سے جنگ کا اعلان کر دیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا.اُنہوں نے صبر کیا اور صرف دشمنوں کی شرارتوں کا پتہ لگاتے رہنے کی حد تک اپنی کوششیں محدود رکھیں.مگر جب مکہ والوں نے خود مدینہ کے عربوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑ کا یا، مسلمانوں کو حج جی کرنے سے روک دیا اور اُن کے ان قافلے نے جو شام میں تجارت کے لئے جاتے تھے انہوں نے اپنے اصل راستے کو چھوڑ کر مدینہ کے ارد گرد کے قبائل میں سے ہو کر گزرنا اور ان کو مدینہ والوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا تو مدینہ کی حفاظت کے لئے مسلمانوں کا بھی فرض تھا کہ وہ اس لڑائی کے چیلنج کو جو مکہ والے متواتر چودہ سال سے انہیں دے رہے تھے قبول لیتے اور دنیا کے کسی شخص کو حق حاصل نہیں کہ وہ چیلنج کے قبول کرنے پر اعتراض کرے.مدینہ میں اسلامی حکومت کی بنیا د جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیرونی حالات کی خبر گیری کر رہے تھے وہاں آپ مدینہ کی اصلاح سے بھی غافل نہیں تھے.یہ بتایا جا چکا ہے کہ مدینہ کے مشرک اکثر اخلاص کے ساتھ اور بعض منافقت کے ساتھ مسلمان ہو چکے تھے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی طریق حکومت کو اُن میں قائم کرنا شروع کیا.پہلے عرب کے دستور کے مطابق لوگ لڑ بھڑ کر اپنے حقوق کا فیصلہ کر لیا کرتے تھے.اب باقاعدہ قاضی مقرر کئے گئے جن کے فیصلہ کے بغیر کوئی شخص اپنا حق دوسرے سے حاصل نہیں کر سکتا تھا.پہلے مدینہ کے لوگوں کو علم کی طرف توجہ نہیں تھی اب اس بات کا انتظام کیا گیا کہ پڑھے لکھے لوگ ان پڑھوں کو پڑھانا شروع کریں.ظلم ، تعدی اور

Page 250

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۸ دیباچہ تفسیر القرآن بے انصافی روک دی گئی.عورتوں کے حقوق کو قائم کیا گیا.شریعت کے مطابق تمام مالداروں پر مقرر کئے گئے جو غرباء پر خرچ کئے جاتے تھے اور شہر کی عام حالت کی ترقی کے لئے بھی استعمال کئے جاتے تھے.مزدوروں کے حقوق کی حفاظت کی گئی.لا وارثوں کے لئے با قاعدہ تعلیموں کا انتظام کیا گیا.لین دین میں تحریر اور معاہدہ کی پابندیاں مقرر کی گئیں.غلاموں پر سختی کی کو سختی سے روکا جانے لگا.صفائی اور حفظانِ صحت کے اصول پر زور دیا جانے لگا.مردم شماری کی ابتدا کی گئی.گلیوں اور سڑکوں کے چوڑا کرنے کے احکام جاری کئے گئے.سڑکوں کی صفائی کے متعلق احکام جاری کئے گئے.غرض عائلی اور شہری زندگی کے تمام اصول مدوّن کئے گئے اور اُن کو با قاعدگی سے جاری کرنے کے لئے تدابیر اختیار کی گئیں اور عرب پہلی دفعہ منظم اور مہذب سوسائٹی کے اصول سے روشناس ہوئے.ادھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے لئے ایک ایسا قانون پیش کر رہے تھے جو نہ صرف اُس زمانہ کے لئے بلکہ ہمیشہ کیلئے اور نہ صرف اُن کے لئے بلکہ دنیا کی دوسری اقوام کیلئے بھی عزت ، شرف ، امن اور ترقی کا موجب تھا.اُدھر مکہ کے لوگ اسلام کے خلاف با قاعدہ جنگ کی تیاریاں کرنے میں مشغول تھے جس کا نتیجہ بدر کی جنگ کی صورت میں ظاہر ہوا.قریش کے تجارتی قافلہ ہجرت کے تیرھویں مہینے میں شام سے ایک تجارتی قافلہ ابوسفیان کی سرگردگی میں آ رہا تھا کہ اُس کی حفاظت کے کی آمد اور غزوہ بدر بہانہ سے مکہ والوں نے ایک زبر دست لشکر مدینہ کی طرف لے جانے کا فیصلہ کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس کی اطلاع مل گئی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی ہوئی.اب وقت آگیا ہے کہ دشمن کے ظلم کا اُس کے اپنے ہتھیار کے ساتھ جواب دیا جائے.چنانچہ آپ مدینہ کے چند ساتھیوں کو لے کر نکلے.جب آپ مدینہ سے نکلے ہیں اُس وقت تک یہ ظاہر نہ تھا کہ آیا مقابلہ قافلہ والوں سے ہوگا یا اصل لشکر سے، اس لئے تین سو آدمی آپ کے ساتھ مدینہ سے نکلے.یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ قافلہ سے مراد مال سے لدے ہوئے اُونٹ تھے بلکہ مکہ والے ان قافلوں کے ساتھ ایک مضبوط فوجی جتھہ بھجوایا کرتے تھے.کیونکہ وہ اِن قافلوں کے ذریعہ سے

Page 251

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۳۹ دیباچہ تفسیر القرآن مسلمانوں کو مرعوب بھی کرنا چاہتے تھے.چنانچہ اس قافلہ سے پہلے دو قافلوں کا ذکر تاریخ میں آتا ہے کہ اُن میں سے ایک کی حفاظت پر دو سو سپاہی مقرر تھا اور دوسرے کی حفاظت پر تین سو سپاہی مقر رتھا.پس ان حالات میں مسیحی مصنفوں کا یہ لکھنا کہ تین سو سپاہی لے کر آپ مکہ کے ایک نہتے قافلہ کو لوٹنے کے لئے نکلے تھے محض دھوکا دہی کے لئے ہے.یہ قافلہ چونکہ بہت بڑا تھا کی اس لئے پہلے قافلوں کے حفاظتی دستوں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے یہ سمجھنا چاہئے کہ اُس کے ساتھ چار پانچ سو سوار ضرور موجود ہو گا.اتنے بڑے حفاظتی دستہ کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے اگر اسلامی لشکر جو صرف تین سو آدمیوں پر مشتمل تھا اور جن کے پاس پورا ساز و سامان بھی نہ تھا نکلا تو اُسے لوٹ کا نام دینا محض تعصب ، ضد اور بے انصافی ہی کہلا سکتا ہے.اگر صرف اس قافلہ کا سوال ہوتا تب بھی اُس سے لڑائی جنگ ہی کہلاتی اور جنگ بھی مدافعانہ جنگ کیونکہ مدینہ کا لشکر کمزور تھا اور صرف اسی فتنہ کو دور کرنے کے لئے نکلا تھا جس کی ارد گرد کے قبائل کو شرارت پر ی اُکسا کر مکہ کے قافلے بنیا درکھ رہے تھے.مگر جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ الہی منشاء بھی تھا کہ قافلہ سے نہیں بلکہ اصل مکی لشکر سے مقابلہ ہو اور صرف مسلمانوں کے اخلاص اور اُن کے ایمان کو ظاہر کرنے کے لئے پہلے سے اس امر کا اظہار نہ کیا گیا.جب مسلمان بغیر پوری کی تیاری کے مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے تو کچھ دور جا کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ پر ظاہر کیا کہ الہی منشاء یہی ہے کہ مکہ کے اصل لشکر سے مقابلہ ہو.لشکر کے متعلق مکہ سے جو خبر میں آچکی تھیں اُن سے معلوم ہوتا تھا کہ لشکر کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے اور پھر وہ سب کے سب تجربہ کا رسپاہی تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آنے والے لوگ صرف ۳۱۳ تھے اور اُن میں سے بھی بہت سے ایسے تھے جولڑائی کے فن سے ناواقف تھے.پھر سامانِ جنگ بھی کی اُن کے پاس پورا نہ تھا.اکثر یا تو پیدل تھے یا اونٹوں پر سوار تھے.گھوڑا صرف ایک تھا.اس کی وٹے سے لشکر کے ساتھ جو بے سروسامان بھی تھا ایک تجربہ کار دشمن کا مقابلہ جو تعداد میں اُن سے لگنے سے بھی زیادہ تھا نہایت ہی خطرناک بات تھی اس لئے آپ نے نہ چاہا کہ کوئی شخص اُس کی مرضی کے خلاف جنگ پر مجبور کیا جائے.چنانچہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے سامنے یہ سوال پیش کیا کہ اب قافلہ کا کوئی سوال نہیں صرف فوج ہی کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور یہ کہ وہ اس بارہ می

Page 252

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۰ دیباچہ تفسیر القرآن میں آپ کو مشورہ دیں.ایک کے بعد دوسرا مہاجر کھڑا ہوا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اگر دشمن ہمارے گھروں پر چڑھ کر آیا ہے تو ہم اُس سے ڈرتے نہیں ہم اُس کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں.ہر ایک کا جواب سن کر آپ یہی فرماتے چلے جاتے مجھے اور مشورہ دو مجھے اور مشورہ دو.مدینہ کے لوگ اُس وقت تک خاموش تھے اس لئے کہ حملہ آور فوج مہاجرین کی رشتہ داری تھی.وہ ڈرتے تھے کہ ایسا نہ ہو کہ اُن کی بات سے مہاجرین کا دل دُکھے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرمایا مجھے مشورہ دو تو ایک انصاری سردار کھڑے ہوئے اور عرض کیا.يَارَسُوْلَ الله مشورہ تو آپ کو مل رہا ہے مگر پھر بھی جو آپ بار بار مشورہ طلب فرما رہے ہیں تو شاید آپ کی مراد ہم باشندگانِ مدینہ سے ہے.آپ نے فرمایا ہاں ! اُس سردار نے جواب میں کہا يَا رَسُولَ الله ! شاید آپ اس لئے ہمارا مشورہ طلب کر رہے ہیں کہ آپ کے مدینہ کی تشریف لانے سے پہلے ہمارے اور آپ کے درمیان ایک معاہدہ ہوا تھا اور وہ یہ تھا کہ اگر مدینہ میں آپ پر اور مہاجرین پر کسی نے حملہ کیا تو ہم آپ کی حفاظت کریں گے لیکن اب اس وقت آپ مدینہ سے باہر تشریف لے آئے ہیں اور شاید وہ معاہدہ ان حالات کے ماتحت قائم نہیں رہتا.يَا رَسُولَ الله ! جس وقت وہ معاہدہ ہوا تھا اُس وقت تک ہم پر آپ کی حقیقت پورے طور پر روشن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جبکہ ہم پر آپ کا مرتبہ اور آپ کی شان پورے طور پر ظاہر ہو چکی ہے یا رَسُولَ الله ! اب اُس معاہدہ کا کوئی سوال نہیں.ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح آپ سے یہ نہیں کہیں گے اِذْهَبْ اَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلَاإِنَّا هَهُنَاقَا عِدُونَ تو اور تیرا ربّ جاؤ اور دشمن سے جنگ کرتے پھر وہم تو یہیں بیٹھے ہیں، بلکہ ہم آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور يَا رَسُولَ اللہ ! دشمن جو آپ کو نقصان پہنچانے کیلئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے.۲۴۷ يَا رَسُولَ الله ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے ، یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپ ہمیں حکم دیجئے کہ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دو اور ہم بلا در لیغ سمندر میں اپنے گھوڑے ڈال دیں گے.۲۴۸ یہ وہ فدائیت اور اخلاص کا نمونہ تھا جس کی مثال کوئی سابق نبی پیش نہیں کر سکتا.موسیٰ کے

Page 253

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۱ دیباچہ تفسیر القرآن ساتھیوں کا حوالہ تو اُن لوگوں نے خود ہی دے دیا تھا حضرت مسیح کے حواریوں نے دشمن کے مقابلہ میں جونمونہ دکھایا انجیل اس پر گواہ ہے.ایک نے تو چند روپوں پر اپنے اُستاد کو بیچ دیا.دوسرے نے اُس پر لعنت کی اور باقی دس اُس کو چھوڑ کر ادھر سے اُدھر بھاگ گئے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کے ساتھی صرف ڈیڑھ سال کی صحبت کے بعد ایمان میں اتنے پختہ ہو گئے کہ وہ اُن کے کہنے پر سمندر میں کو دنے کے لئے بھی تیار تھے.یہ مشورہ محض اس غرض سے تھا تا کہ جو لوگ ایمان کے کمزور ہوں اُن کو واپس جانے کی اجازت دے دی جائے لیکن جب مہاجرین و انصار نے ایک دوسرے سے بڑھ کر اخلاص اور ایمان کا نمونہ دکھایا اور دونوں فریق نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ خدا کے وعدوں کے با وجود تعداد میں دشمن سے ایک تہائی ہونے کے اور باوجودسامانوں کے لحاظ سے دشمنوں سے کئی گنا کم ہونے کے بے غیرتی دکھاتے ہوئے جنگ سے پیٹھ نہیں دکھا ئیں گے بلکہ خدا تعالیٰ کے دین کی غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے میدانِ جنگ میں خوشی سے جان دے دیں گے.تو آپ آگے بڑھے.جب آپ بدر کے مقام پر پہنچے تو ایک صحابی کے مشورہ سے دشمن کے قریب جا کر بدر کے چشمہ پر اسلامی لشکر اُتار دیا گیا.لیکن اس طرح گوپانی پر تو قبضہ ہو گیا مگر وہ میدان جو مسلمانوں کے حصہ میں آیا بوجہ ریتلا ہونے کے جنگی حرکات کے لئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا اور صحا بہ گھبرا گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات دعا کرتے رہے اور بار بار خدا تعالیٰ سے یہ عرض کرتے تھے کہ اے میرے رب ! ساری دنیا کے پردہ پر صرف یہی لوگ تیری عبادت کرنے والے ہیں.اے میرے رب! اگر یہ لوگ آج اس لڑائی میں مارے گئے تو تیرا نام لینے والا اس دنیا میں کون باقی رہے گا.۲۴۹ اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو سنا اور رات کو بارش ہو گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس میدان کچھ میں وہ مسلمان تھے بوجہ ریتلا ہونے کے بارش کی وجہ سے جم گیا اور وہ میدان جو کفار کے قبضہ میں تھا بوجہ چکنی مٹی کا ہونے کے بارش کی وجہ سے نہایت پھسلواں ہو گیا.شاید کفار مکہ نے باوجود اُس میدان میں مسلمانوں سے پہلے پہنچ جانے کے اِس لئے اُس میدان کو چنا تھا کہ پختہ مٹی کی وجہ سے اُس میں جنگی حرکات بڑی آسانی کے ساتھ ہو سکتی تھیں اور سامنے کا

Page 254

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۲ دیباچهتفسیر القرآن ریتلا میدان اس لئے چھوڑ دیا تھا کہ مسلمان وہاں ڈیرہ لگائیں گے اور جنگی حرکات کرتے وقت اُن کے پاؤں ریت میں پھنس ھنس جائیں گے مگر خدا تعالیٰ نے راتوں رات پانسہ پلٹ دیا.ریتلا میدان ایک جما ہوا پختہ میدان ہو گیا اور پختہ میدان پھسلو یں زمین بن گیا.رات کو اللہ تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بشارت دی اور بتایا کہ تمہارے فلاں فلاں دشمن مارے جائیں گے اور فلاں فلاں جگہ پر مارے جائیں گے.چنانچہ جنگ میں ایسا ہی ہوا اور وہ دشمن اُن ہی جگہوں پر جو آپ نے بتائی تھیں مارے گئے.جب فوج ایک دوسرے کے مقابلہ میں صف آراء ہوئی اُس وقت جو اخلاص کا نمونہ صحابہؓ نے دکھایا اُس پر مندرجہ ذیل مثال سے خوب روشنی پڑتی ہے.اسلامی لشکر میں جو چند تجربہ کار جرنیل تھے ، اُن میں سے ایک حضرت عبد الرحمن بن عوف بھی تھے جو مکہ کے سرداروں میں سے تھے.وہ روایت کرتے ہیں کہ میرا خیال تھا کہ آج مجھ پر بہت سی ذمہ داری عاید ہوتی ہے اور اس خیال سے میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے دائیں بائیں مدینہ کے دو نو جوان لڑکے ہیں تب میرا دل سینہ میں بیٹھ گیا اور کی میں نے کہا بہادر جرنیل لڑنے کے لئے اس بات کا محتاج ہوتا ہے کہ اُس کا دایاں اور بایاں پہلو مضبوط ہو، تاکہ وہ دشمن کی صفوں میں دلیری سے گھس سکے لیکن میرے گرد مدینہ کے ناتجربہ کار لڑکے ہیں میں آج اپنے فن کا مظاہرہ کس طرح کر سکوں گا.ابھی یہ خیال میرے دل میں گزرا ہی تھا کہ میرے ایک پہلو میں کھڑے ہوئے لڑکے نے میری پسلی میں کہنی ماری.جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے میرے کان میں کہا چچا ! ہم نے سنا ہے کہ ابو جہل ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت دُکھ دیا کرتا تھا ، چا ! میرا دل چاہتا ہے کہ میں آج اُس کے ساتھ مقابلہ کروں آپ مجھے بتائیں وہ کون ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ابھی میں جواب دینے نہیں پایا تھا کہ میرے دوسرے پہلو میں دوسرے ساتھی نے کہنی ماری اور جب میں اُس کی طرف متوجہ ہوا تو اُس نے بھی آہستہ سے وہی سوال مجھ سے کیا.وہ کہتے ہیں کہ میں اُن کی اس دلیری پر حیران رہ گیا کیونکہ با وجود تجربہ کا رسپاہی ہونے کے میں بھی یہ خیال نہیں کرتا تھا کہ لشکر کے کمانڈر پر اکیلا جا کر حملہ کر سکتا ہوں.وہ کہتے ہیں میں نے اُن کے اِس سوال پر اُنگلی اُٹھائی اور کہا وہ شخص جو

Page 255

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۳ دیباچہ تفسیر القرآن سے پیر تک مسلح ہے اور دشمن کی صفوں کے پیچھے کھڑا ہے اور جس کے آگے دو تجربہ کار جرنیل نگی تلوار میں لئے کھڑے ہیں وہی ابو جہل ہے.وہ کہتے ہیں ابھی میری اُنگلی نیچے نہیں گری تھی کہ وہ چی دونوں لڑکے جس طرح عقاب چڑیا پر حملہ کرتا ہے اس طرح چیختے ہوئے کفار کی صفوں میں گھس گئے.اُن کا یہ حملہ ایسا اچانک اور ایسا خلاف توقع تھا کہ کسی شخص کی تلوار اُن کے خلاف نہ اٹھ سکی اور وہ تیر کی سی تیزی کے ساتھ ابو جہل تک جا پہنچے.اُس کے پہرہ داروں نے اُن پر وار کئے ، ایک کا وار خالی گیا اور دوسرے کے وار سے ایک نوجوان کا ہاتھ کٹ گیا.لیکن دونوں میں سے کسی نے کوئی پرواہ نہ کی اور صرف ابو جہل کی طرف متوجہ ہوئے اور اُس پر اس زور سے جا کر حملہ کیا کہ وہ زمین پر گر گیا اور پھر اُنہوں نے اُسے نہایت شدید زخمی کر دیا.۲۵۰ مگر بوجہ تلوار چلانے کا فن نہ جاننے کے اُسے قتل نہ کر سکے.اس واقعہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ وہ مظالم جو مکہ کے لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کرتے رہے تھے وہ قریب سے دیکھنے والوں کو کتنے بھیا نک نظر آتے تھے.اب بھی ان مظالم کو تاریخ میں پڑھ کر ایک شریف آدمی کا دل دھڑ کنے لگتا ہے اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.مگر مدینہ کے لوگ تو اُن لوگوں کے منہ سے ان مظالم کی داستانیں سنتے تھے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے وہ مظالم ہوتے دیکھے.ایک طرف رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس اور صلح جو یا نہ زندگی کو دیکھتے تھے دوسری طرف مکہ والوں کے انسانیت سوز مظالم کے واقعات سنتے تھے تو اُن کے دل اس حسرت سے بھر جاتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی صلح جوئی اور پُر عافیت مزاج کی وجہ سے ان لوگوں کا جواب نہیں دیا کاش ! وہ ہمارے سامنے آجائیں تو ہم انہیں بتائیں کہ اگر اُن کے ظلموں کا جواب نہیں دیا گیا تو اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ مسلمان کمزوری تھے بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلمانوں کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اُن کا جواب دینے کی اجازت کی نہیں تھی.مسلمانوں کے دلوں کی کیفیت کا اندازہ اس سے بھی ہو سکتا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ابو جہل نے ایک بدوی سردار کو اس بات کے لئے بھیجا کہ وہ اندازہ کرے کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے.جب وہ واپس لوٹا تو اُس نے بتایا کہ مسلمان تین سوا تین سو کے قریب ہوں گے.اس پر ابو جہل اور اس کے ساتھیوں نے خوشی کا اظہار کیا اور کہا اب مسلمان ہم سے بچ کر

Page 256

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۴ دیباچہ تفسیر القرآن کہاں جاتے ہیں.مگر اُس شخص نے کہا.اے مکہ والو! میری نصیحت تم کو یہی ہے کہ تم ان لوگوں کی سے نہ لڑو کیونکہ میں نے جتنے آدمی مسلمانوں کے دیکھے ہیں اُن کو دیکھ کر مجھ پر یہی اثر ہوا ہے کہ اونٹوں پر آدمی سوار نہیں موتیں سوار ہیں ۲۵۱ یعنی اُن میں سے ہر شخص مرنے کیلئے اس میدان میں آیا ہے زندہ واپس جانے کے لئے نہیں آیا.اور جو شخص موت کو اپنے لئے آسان کر لیتا ہے اور موت سے ملنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اُس کا مقابلہ کرنا کوئی معمولی بات نہیں ہوا کرتی.ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا ہونا جب جنگ شروع ہونے کا وقت آیا.رسول کریم ﷺ اس جگہ سے جہاں آپ بیٹھ کر دعا کر رہے تھے باہر تشریف لائے اور فرما یا سَيُهْزَمُ الجَمْعُ وَيُوَلُّونَ الدُّبُرَ - ٣۵٣ دشمنوں کا لشکر شکست کھا جائے گا اور پیٹھ پھیر کر میدان چھوڑ جائے گا.یہ الفاظ جو آپ نے فرمائے یہ قرآن کریم کی ایک پیشگوئی تھی جو مکہ میں ہی اس جنگ کے متعلق قرآن کریم میں نازل ہوئی تھی.مکہ میں جب مسلمان کفار کے ظلموں کا تختہ مشق ہو رہے تھے اور ادھر اُدھر ہجرت کر کے جارہے تھے خدا تعالیٰ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کی یہ آیات نازل فرمائیں ولقد جاء ال فِرْعَوْنَ النُّذُرُ - كَذَّبُوا بِايْتِنَا كُيْهَا فَأَخَذْتُهُمْ أَخَذَ عَزِيزِ مُقْتَدِرٍ - اَعُفَّارُكُمْ خَيْرُ من أوليْكُمْ أَمْ لَكُمْ - بَرَاءَةُ فِي الزُّبُرِ أَمْ يَقُولُونَ نحْنُ جَمِيعُ مُنتَصِرُ - سَيُهزِّمُ الْجَمْعُ وَيُولُونَ الدُّبُرَ - بَلِ السَّاعَةُ مَوْعِدُ هُمْ وَ السَّاعَةُ آذى وَ آمَةُ - إِنَّ الْمُجْرِمِينَ فِي ضَللٍ وَسُعُرٍ - يَوْمَ يُسْحَبُونَ في النَّارِ عَلى وُجُوهِهِمْ، ذُوقُوا مَس سقر - ۲۵۳ یعنی اے مکہ والو! فرعون کی طرف بھی انذار کی باتیں آئی تھیں، لیکن اُنہوں نے ہماری تمام آیتوں کا انکار کیا پس ہم نے اُن کو اس طرح پکڑ لیا جیسے ایک طاقتور غالب ہستی پکڑا کرتی ہے.(اے مکہ والو! ) بتاؤ کیا تمہارے کفار اُن (کفار) سے اچھے ہیں یا تمہارے لئے پہلی کتابوں میں حفاظت کا کوئی وعدہ آچکا ہے؟ وہ کہتے ہیں ہم تو ایک بڑی طاقت ہیں جو دشمنوں سے ہارتی نہیں بلکہ دشمنوں کی سے بدلے لیا کرتی ہے (وہ یہ باتیں کرتے رہیں) اُن کے جتھے عنقریب اکٹھے ہوں گے اور پھر اُنہیں شکست ملے گی اور وہ پیٹھ پھیر کر بھاگ جائیں گے ، بلکہ اُن کی تباہی کی گھڑی کا خدا تعالی

Page 257

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۵ دیباچہ تفسیر القرآن کی طرف سے وعدہ ہے اور یہ تباہی کی گھڑی بڑی ہلاکت والی اور بڑی کڑوی ہو گی اُس دن کی مجرم پریشانی اور عذاب میں مبتلا ہوں گے اور اپنے مونہوں کے بل گھسیٹ کر اُن کو آگ کے گڑھوں میں ڈال دیا جائے گا اور کہا جائے گا اب پڑے عذاب چکھو.یہ آیتیں سورہ قمر کی ہیں اور سورہ قمر تمام اسلامی رواتیوں کے مطابق مکہ میں نازل ہوئی تھی.مسلمان علماء بھی اس سورۃ کو پانچویں سے دسویں سال بعد دعوی نبوت قرار دیتے ہیں.یعنی ہجرت سے کم سے کم تین سال پہلے یہ نازل ہوئی تھی بلکہ غالباً آٹھ سال پہلے.یورپین محقق بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں.چنانچہ نولڈ کے اس سورۃ کو دعوی نبوت کے پانچ سال بعد کی قرار دیتا ہے.ریورنڈ ویری لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک نولڈ کے نے اس سورۃ کے نزول کا وقت کسی قدر پہلے قرار دے دیا ہے.وہ اپنا اندازہ یہ بتاتے ہیں کہ چھٹے یا ساتویں سال ہجرت سے پہلے یہ نازل ہوئی.جس کے معنی یہ ہیں کہ اُن کے نزدیک یہ سورۃ چھٹے یا ساتویں سال بعد دعوی نبوت کی ہے.بہر حال مسلمانوں کے دشمنوں نے بھی اس سورۃ کو ہجرت سے کئی سال پہلے کا قرار دیا ہے.اُس زمانہ میں کس صفائی کے ساتھ اس جنگ کی خبر دی گئی تھی اور کفار کا انجام بتاتی دیا گیا تھا اور پھر کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کی جنگ شروع ہونے سے پہلے ان آیات کو پڑھ کر مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خدا کا وعدہ پورا ہونے کا وقت آ گیا ہے.غرض چونکہ وہ وقت آ گیا تھا جس کی خبر یسعیاہ نبی نے قبل از وقت دے چھوڑی تھی ۲۵۴ کی اور جس کی خبر قرآن کریم نے دوبارہ جنگ شروع ہونے سے چھ یا آٹھ سال پہلے دی تھی اس لئے با وجود اس کے کہ مسلمان اس جنگ کے لئے تیار نہ تھے اور باوجود اس کے کہ کفار کو بھی اُن کے بعض ساتھیوں نے یہ مشورہ دیا تھا کہ لڑائی نہیں کرنی چاہئے.لڑائی ہوگئی اور ۳۱۳ آدمی جن میں سے اکثر نا تجربہ کار اور سب ہی بے سامان تھے کفار کے تجربہ کار لشکر کے مقابلہ میں جس کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ تھی کھڑے ہو گئے.جنگ ہوئی اور چند ہی گھنٹوں کے اندر عرب کے بڑے بڑے سردار مارے گئے.یسعیاہ کی پیشگوئی کے مطابق قیدار کی حشمت جاتی رہی اور مکہ کی فوج کچھ لاشیں اور کچھ قیدی پیچھے چھوڑ کر سر پر پاؤں رکھ کر مکہ کی طرف بھاگ پڑی.جو قیدی پکڑے گئے اُن میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چا عباس بھی تھے جو ہمیشہ آپ کا ساتھ دیا

Page 258

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۶ دیباچہ تفسیر القرآن کرتے تھے ، انہیں مجبور کر کے مکہ والے اپنے ساتھ لڑائی کے لئے لے آئے تھے.اسی طرح قیدیوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی بیٹی کے خاوند ابوالعاص بھی تھے.مارے جانے والوں میں ابو جہل مکہ کی فوج کا کمانڈر اور اسلام کا سب سے بڑا دشمن بھی شامل تھا.بدر کے قیدی اس فتح پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خوش بھی تھے کہ وہ پیشگوئیاں جو متواتر چودہ سال سے آپ کے ذریعہ سے شائع کی جا رہی تھیں اور وہ پیشگوئیاں جو پہلے انبیاء اس دن کے متعلق کر چکے تھے پوری ہو گئیں ، لیکن مکہ کے مخالفوں کا عبرتناک انجام بھی آپ کی نظروں کے سامنے تھا.آپ کی جگہ پر کوئی اور شخص ہوتا تو خوشی سے اُچھلتا اور کودتا لیکن جب آپ کے سامنے سے مکہ کے قیدی رسیوں میں بندھے ہوئے گزرے تو آپ اور آپ کے باوفا ساتھی ابوبکر کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو رواں ہو گئے.اُس وقت حضرت عمر جو بعد میں آپ کے دوسرے خلیفہ ہوئے سامنے سے آئے تو انہیں حیرت ہوئی کہ اس فتح اور خوشی کے وقت میں آپ کیوں رو ر ہے ہیں اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله! مجھے بھی بتائیے کہ اس وقت رونے کا کیا باعث ہے؟ اگر وہ بات میرے لئے بھی رونے کا موجب ہے تو میں بھی روؤں گا، نہیں تو کم سے کم میں آپ کے غم میں شریک ہونے کے لئے رونی صورت ہی بنالوں گا.آپ نے فرمایا دیکھتے نہیں خدا تعالیٰ کی نافرمانی سے آج مکہ والوں کی کیا حالت ہو رہی ہے.۲۵۵ آپ کے انصاف اور آپ کی عدالت کا جس کی خبر یسعیاہ نے بار بار اپنی پیشگوئیوں میں دی ہے اس موقع پر ایک لطیف ثبوت ملا.مدینہ کی طرف واپس آتے ہوئے رات کو جب آپ کی سونے کے لئے لیٹے تو صحابہ نے دیکھا کہ آپ کو نیند نہیں آتی.آخر انہوں نے سوچ کر یہ نتیجہ نکالا کہ آپ کے چچا عباس چونکہ رسیوں میں جکڑے ہونے کی وجہ سے سو نہیں سکتے اور اُن کے کراہنے کی آوازیں آتی ہیں اِس لئے اُن کی تکلیف کا خیال کر کے آپ کو نیند نہیں آتی.اُنہوں نے آپس میں مشورہ کر کے حضرت عباس کے بندھنوں کو ڈھیلا کر دیا.حضرت عباس سو گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نیند آ گئی.تھوڑی دیر کے بعد یکدم گھبرا کے آپ کی آنکھ کھلی اور آپ نے پوچھا عباس خاموش کیوں ہیں؟ اُن کے کراہنے کی آواز اب کیوں نہیں آتی ؟ آپ کے دل میں یہ وہم پیدا ہوا کہ شاید تکلیف کی وجہ سے بیہوش ہو گئے.صحابہ نے کہايَا رَسُولَ الله!

Page 259

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۷ دیباچهتفسیر القرآن ہم نے آپ کی تکلیف کو دیکھ کر اُن کے بندھن ڈھیلے کر دیئے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں ! نہیں !! یہ بے انصافی نہیں ہونی چاہئے.جس طرح عباس میرا رشتہ دار ہے دوسرے قیدی بھی تو دوسروں کے رشتہ دار ہیں یا تو سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دو تا کہ وہ آرام سے سو جائیں اور یا پھر عباس کے بندھن بھی کس دو.صحابہ نے آپ کی بات سن کر سب قیدیوں کے بندھن ڈھیلے کر دیئے اور حفاظت کی ساری ذمہ داری اپنے سر پر لے لی.۲۵۶ جولوگ قید ہوئے تھے اُن میں سے جو پڑھنا جانتے تھے آپ نے اُن کا صرف یہی فدیہ مقرر کیا کہ وہ مدینہ کے دس دس کی لڑکوں کو پڑھنا سکھا دیں.بعض جن کا فدیہ دینے والا کوئی نہیں تھا اُن کو یونہی آزاد کر دیا.وہ می امراء جو فدیہ دے سکتے تھے اُن سے مناسب فدیہ لے کر اُن کو چھوڑ دیا اور اس طرح اس پرانی رسم کو کہ قیدیوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا تھا آپ نے ختم کر دیا.جنگ اُحد کفار کے لشکر نے میدان سے بھاگتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ اگلے سال ہم دوبارہ مدینہ پر حملہ کریں گے اور اپنی شکست کا مسلمانوں سے بدلہ لیں گے چنانچہ ایک سال کے بعد وہ پھر پوری تیاری کر کے مدینہ پر حملہ آور ہوئے.مکہ والوں کے غصہ کا یہ حال تھا کہ بدر کی جنگ کے بعد اُنہوں نے یہ اعلان کر دیا تھا کہ کسی شخص کو اپنے مردوں پر رونے کی اجازت نہیں اور جو تجارتی قافلے آئیں گے اُن کی آمد آئندہ جنگ کے لئے محفوظ رکھی جائے گی.چنانچہ بڑی تیاری کے بعد تین ہزار سپاہیوں سے زیادہ تعداد اس کا ایک لشکر ابوسفیان کی قیادت میں مدینہ پر حملہ آور ہوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ لیا کہ آیا ہم کو شہر میں ٹھہر کر مقابلہ کرنا چاہئے یا باہر نکل کر.آپ کا اپنا خیال یہی تھا کہ دشمن کو حملہ کرنے دیا جائے تا کہ جنگ کی ابتداء کا بھی وہی ذمہ دار ہو اور مسلمان اپنے گھروں میں بیٹھ کر اُس کا مقابلہ آسانی سے کر سکیں لیکن وہ نوجوان مسلمان جن کو بدر کی جنگ میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا تھا اور جن کے دلوں میں حسرت رہی تھی کہ کاش! ہم کو بھی خدا کی راہ میں شہید ہونے کا موقع ملتا اُنہوں نے اصرار کیا کہ ہمیں شہادت سے کیوں محروم رکھا جاتا ہے.چنانچہ آپ نے اُن کی بات مان لی.مشورہ لیتے وقت آپ نے اپنی ایک خواب بھی سنائی.فرمایا خواب میں میں نے چند گائیں

Page 260

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۸ دیباچہ تفسیر القرآن دیکھی ہیں اور میں نے دیکھا ہے کہ میری تلوار کا سرا ٹوٹ گیا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ گائیں ذبح کی جارہی ہیں اور پھر یہ کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک مضبوط اور محفوظ زرہ کے اندر ڈالا ہے اور میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ میں ایک مینڈھے کی پیٹھ پر سوار ہوں.صحابہ نے کہا يَا رَسُوْلَ الله! آپ نے ان خوابوں کی کیا تعبیر فرمائی ؟ آپ نے فرمایا گائے کے ذبح ہونے کی تعبیر یہ ہے کہ میرے بعض صحابہؓ شہید ہوں گے اور تلوار کا سرا ٹوٹنے سے مراد یہ معلوم ہوتی ہے کہ میرے عزیزوں میں سے کوئی اہم وجود شہید ہوگا یا شاید مجھے ہی اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے کی تعبیر میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہما را مد ینہ میں ٹھہر نا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے پر سوار ہونے والے خواب کی تعبیر یہ معلوم ہوتی ہے کہ کفار کے لشکر کے سردار پر ہم غالب آئیں گے یعنی وہ مسلمانوں کے ہاتھ سے مارا جائے گا.۲۵۷ گواس خواب میں مسلمانوں پر یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اُن کا مدینہ میں رہنا زیادہ اچھا ہے مگر چونکہ خواب کی تعبیر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی تھی ، الہامی نہیں تھی آپ نے اکثریت کی رائے کو تسلیم کر لیا اور لڑائی کے لئے باہر جانے کا فیصلہ کر دیا.جب آپ باہر نکلے تو نو جوانوں کو اپنے دلوں میں ندامت محسوس ہوئی اور اُنہوں نے کہا يَارَسُوْلَ الله! جو آپ کا مشورہ ہے وہی صحیح ہے ہمیں مدینہ میں ٹھہر کر دشمن کا مقابلہ کرنا چاہئے.آپ نے فرمایا خدا کا نبی جب زرہ پہن لیتا ہے تو اُتارا نہیں کرتا اب خواہ کچھ ہو ہم آگے ہی جائیں گے.اگر تم نے صبر سے کام لیا تو خدا کی نصرت تم کو مل جائے گی.۲۵۸ یہ کہہ کر آپ ایک ہزار لشکر کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور تھوڑے فاصلہ پر جا کر رات بسر کرنے کے لئے ڈیرہ لگا دیا.آپ کا ہمیشہ طریق تھا کہ آپ دشمن کے پاس پہنچ کر اپنے لشکر کو کچھ دیر آرام کرنے کا موقع دیا کرتے تھے تا کہ وہ اپنا سامان وغیرہ تیار کر لیں.صبح کی نماز کے وقت جب آپ نکلے تو آپ کو معلوم ہوا کہ کچھ یہودی بھی اپنے معاہد قبیلوں کی مدد کے بہانہ سے آئے ہیں.چونکہ یہود کی ریشہ دوانیوں کا آپ کو علم ہو چکا تھا آپ نے فرمایا کہ ان لوگوں کو واپس کر دیا جائے.اس پر عبد اللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا رئیس تھا وہ بھی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر یہ کہتے ہوئے واپس لوٹ گیا کہ اب یہ لڑائی نہیں رہی.۲۵۹.یہ تو ہلاکت کے منہ میں جانا ہے کیونکہ خود اپنے مددگاروں کو لڑائی سے روکا جاتا ہے

Page 261

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۴۹ دیباچہ تفسیر القرآن ہے.نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمان صرف سات سو رہ گئے جو تعداد میں کفار کی تعداد سے چوتھے حصہ سے بھی کم تھے اور سامانوں کے لحاظ سے اور بھی کمزور.کیونکہ کفار میں سات سو زرہ پوش تھا اور مسلمانوں میں صرف ایک زرہ پوش.اور کفار میں دو سو گھوڑ سوار تھا مگر مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے.آخر آپ اُحد پر پہنچے.وہاں پہنچ کر آپ نے ایک پہاڑی درہ کی حفاظت کے لئے پچاس سپاہی مقرر کئے اور سپاہیوں کے افسر کو تاکید کی کہ وہ درہ اتنا ضروری ہے کہ خواہ ہم مارے جائیں یا جیت جائیں تم اس جگہ سے نہ ہلنا.۳۶۰ے اس کے بعد آپ بقیہ ساڑھے چھ سو آدمی لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے جو اب دشمن کی تعداد سے قریباً پانچواں حصہ تھے.لڑائی ہوئی اور اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت سے تھوڑی ہی دیر میں ساڑھے چھ سو مسلمانوں کے مقابلہ میں تین ہزار مکہ کا تجربہ کا رسپاہی سر پر پاؤں رکھ کر بھاگا.فتح مبدل به شکست مسلمانوں مسلمانوں نے اُن کا تعاقب شروع کیا، تو ان لوگوں نے جو پشت کے درہ کی حفاظت کے لئے کھڑے تھے اُنہوں نے اپنے افسر سے کہا اب تو دشمن کو شکست ہو چکی ہے اب ہمیں بھی جہاد کا ثواب لینے دیا جائے.افسر نے اُن کو اس بات سے روکا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات یاد دلائی مگر اُنہوں نے کہا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا صرف تاکید کے لئے فرمایا تھا ورنہ آپ کی مراد یہ تو نہیں ہو سکتی تھی کہ دشمن بھاگ بھی جائے تو یہاں کھڑے رہو.یہ کہہ کر اُنہوں نے درہ چھوڑ دیا اور میدانِ جنگ میں کود پڑے.بھاگتے ہوئے لشکر میں سے خالد بن ولید کی جو بعد میں اسلام کے بڑے بھاری جرنیل ثابت ہوئے نظر خالی درہ پر پڑی جہاں صرف چند آدمی اپنے افسر کے ساتھ کھڑے تھے.خالد نے کفار کے لشکر کے دوسرے جرنیل عمرو بن العاص کو آواز دی اور کی کہا.ذرا پیچھے پہاڑی درہ پر نگاہ ڈالو.عمرو بن العاص نے جب درہ پر نگاہ ڈالی تو سمجھا کہ عمر کا بہترین موقع مجھے حاصل ہو رہا ہے دونوں جرنیلوں نے اپنے بھاگتے ہوئے دوستوں کو سنبھالا اور اسلامی لشکر کا بازو کاٹتے ہوئے پہاڑ پر چڑھ گئے.چند مسلمان جو وہاں درہ کی حفاظت کے لئے کھڑے رہ گئے تھے ، اُن کو ٹکڑے ٹکڑے کرتے ہوئے پشت پر سے اسلامی لشکر پر آ پڑے.اُن کے فاتحانہ نعروں کو سن کر سامنے کا بھاگتا ہوا بقیہ لشکر بھی میدان جنگ کی طرف لوٹ پڑا.یہ

Page 262

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن حملہ ایسا اچانک ہوا اور کافروں کا تعاقب کرنے کی وجہ سے مسلمان اتنے پھیل چکے تھے کہ کوئی کی با قاعدہ اسلامی لشکر اُن لوگوں کے مقابلہ میں نہیں تھا.اکیلا اکیلا سپاہی میدان میں نظر آ رہا تھا، جن میں سے بعض کو اُن لوگوں نے مار دیا.باقی اس حیرت میں کہ یہ ہو کیا گیا ہے پیچھے کی طرف دوڑے.چند صحابہ دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے ، جن کی تعداد زیادہ سے زیادہ تمہیں تھی.۲۶۱ کفار نے شدت کے ساتھ اُس مقام پر حملہ کیا جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے تھے.یکے بعد دیگرے صحابہ آپ کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جانے لگے.علاوہ شمشیر زنوں کے تیرانداز اُونچے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بے تحاشہ تیر مارتے تھے.اُس وقت طلحہ جو قریش میں سے تھے اور مکہ کے مہاجرین میں شامل تھے یہ دیکھتے ہوئے کہ دشمن سب کے سب تیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی طرف پھینک رہا ہے اپنا ہاتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کے آگے کھڑا کر دیا.تیر کے بعد تیر جو نشانہ پر گرتا تھا وہ طلحہ کے ہاتھ پر گرتا تھا، مگر جانباز اور وفادار صحابی اپنے ہاتھ کو کوئی حرکت نہیں دیتا تھا.اس طرح تیر پڑتے گئے اور طلحہ کا ہاتھ زخموں کی شدت کی وجہ سے بالکل بیکار ہو گیا اور صرف ایک ہی ہاتھ اُن کا باقی رہ گیا.سالہا سال بعد اسلام کی چوتھی خلافت کے زمانہ میں جب مسلمانوں میں خانہ جنگی واقع ہوئی تو کسی دشمن نے طعنہ کے طور پر طلحہ کو کہا.ٹنڈا.اس پر ایک دوسرے صحابی نے کہا ہاں ٹنڈا ہی ہے مگر کیسا مبارک ٹنڈا ہے.تمہیں معلوم ہے طلحہ کا یہ ہاتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ کی حفاظت میں ٹنڈا ہوا تھا.اُحد کی جنگ کے بعد کسی شخص نے طلحہ سے پوچھا کہ جب تیر آپ کے ہاتھ پر گرتے تھے تو کیا آپ کو در دنہیں ہوتی تھی اور کیا آپ کے منہ سے اُف نہیں نکلتی تھی ؟ طلحہ نے جواب دیا.در دبھی ہوتی تھی اور اُف بھی نکلنا چاہتی ہے تھی، لیکن میں اُف کرتا نہیں تھا تا ایسا نہ ہو کہ اُف کرتے وقت میرا ہا تھ ہل جائے اور تیر رسول کریم می صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر آگرے.مگر یہ چند لوگ کب تک اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کر سکتے تھے.لشکر کفار کا ایک گروہ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد کے سپاہیوں کو دھکیل کر پیچھے کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تن تنہا پہاڑ کی طرح وہاں کھڑے تھے کہ زور سے ایک پتھر آپ کے

Page 263

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۱ دیباچہ تفسیر القرآن.خود پر لگا اور خود کے کیل آپ کے سر پر گھس گئے اور آپ بیہوش ہو کر اُن صحابہ کی لاشوں پر جا پڑے جو آپ کے ارد گر دلڑتے ہوئے شہید ہو چکے تھے ۲۶۲؎ اس کے بعد کچھ اور صحابہ آپ کے جسم کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور اُن کی لاشیں آپ کے جسم پر جا گریں.کفار نے آپ کے جسم کو لاشوں کے نیچے دبا ہوا دیکھ کر سمجھا کہ آپ مارے جاچکے ہیں.چنا نچہ مکہ کا لشکر اپنی صفوں کو درست کرنے کے لئے پیچھے ہٹ گیا.جو صحابہ آپ کے گرد کھڑے تھے اور جن کو ی کفار کے لشکر کا ریلا دھکیل کر پیچھے لے گیا تھا اُن میں حضرت عمرؓ بھی تھے.جب آپ نے دیکھا کہ میدان سب لڑنے والوں سے صاف ہو چکا ہے تو آپ کو یقین ہو گیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں اور وہ شخص جس نے بعد میں ایک ہی وقت میں قیصر اور کسریٰ کا مقابلہ بڑی دلیری سے کیا اور اُس کا دل کبھی نہ گھبرایا اور کبھی نہ ڈرا وہ ایک پتھر پر بیٹھ کر بچوں کی طرح رونے لگ گیا.اتنے میں مالک نامی ایک صحابی جو اسلامی لشکر کی فتح کے وقت پیچھے ہٹ گئے تھے کیونکہ انہیں فاقہ تھا اور رات سے اُنہوں نے کچھ نہیں کھایا تھا جب فتح ہو گئی تو وہ چند کھجور میں لے کر پیچھے کی طرف چلے گئے تا کہ اُنہیں کھا کر اپنی بھوک کا علاج کریں.وہ فتح کی خوشی میں ٹہل رہے تھے کہ ٹہلتے ٹہلتے حضرت عمر تک جا پہنچے اور عمر کو روتے ہوئے دیکھ کر نہایت ہی حیران ہوئے اور حیرت سے پوچھا.عمر ! آپ کو کیا ہوا؟ اسلام کی فتح پر آپ کو خوش ہونا چاہئے یا رونا چاہئے ؟ عمر نے جواب میں کہا مالک ! شاید تم فتح کے معا بعد پیچھے ہٹ آئے تھے تمہیں معلوم نہیں کہ لشکر کفار پہاڑی کے دامن سے چکر کاٹ کر اسلامی لشکر پر حملہ آوار ہوا اور چونکہ مسلمان پراگندہ ہو چکے تھے اُن کا مقابلہ کوئی نہ کر سکا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چند صحابہ سمیت اُن کے مقابلہ کے لئے کھڑے ہوئے اور مقابلہ کرتے کرتے شہید ہو گئے.مالک نے کہا عمر !! اگر یہ واقعہ صحیح ہے تو آپ یہاں بیٹھے کیوں رو ر ہے ہیں؟ جس دنیا میں ہمارا محبوب گیا ہے ہمیں بھی تو وہاں جانا چاہئے.یہ کہا اور وہ آخری کجھور جو آپ کے ہاتھ میں تھی جسے آپ منہ میں ڈالنے ہی والے تھے اُسے یہ کہتے ہوئے زمین پر پھینک دیا کہ اے کجھور ! مالک اور جنت کے درمیان تیرے سوا اور کونسی چیز روک ہے.یہ کہا اور تلوار لے کر دشمن کے لشکر میں گھس گئے.تین ہزار آدمی کے مقابلہ میں ایک آدمی کر ہی کیا سکتا تھا مگر خدائے واحد کی پرستار روح ایک بھی بہتوں

Page 264

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۲ دیباچہ تفسیر القرآن پر بھاری ہوتی ہے.مالک اس بے جگری سے لڑے کہ دشمن حیران ہو گیا.مگر آخر زخمی ہوئے پھر گرے اور گر کر بھی دشمن کے سپاہیوں پر حملہ کرتے رہے جس کے نتیجہ میں کفار مکہ نے اس وحشت سے آپ پر حملہ کیا کہ جنگ کے بعد آپ کی لاش کے ٹکڑے ملے حتی کہ آپ کی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی.آخر ایک انگلی سے آپ کی بہن نے پہچان کر بتایا کہ یہ میرے بھائی مالک کی لاش ہے.۲۶۳ وہ صحابہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد تھے اور جو کفار کے ریلے کی وجہ سے پیچھے دھکیل دیئے گئے تھے کفار کے پیچھے ہٹتے ہی وہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے.آپ کے جسم مبارک کو اُنہوں نے اُٹھایا اور ایک صحابی عبیدہ بن الجراح نے اپنے دانتوں سے آپ کے سر میں گھسی ہوئی کیل کو زور سے نکالا جس سے اُن کے دو دانت ٹوٹ گئے.تھوڑی دیر بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوش آگیا اور صحابہ نے چاروں طرف میدان میں آدمی دوڑا دیئے کہ مسلمان پھر اکٹھے ہو جائیں.بھاگا ہوالشکر پھر جمع ہونا شروع ہوا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں لے کر پہاڑ کے دامن میں چلے گئے.جب دامنِ کوہ میں بچا کھچا لشکر کھڑا تھا تو ابوسفیان نے بڑے زور سے آواز دی اور کہا ہم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی بات کا جواب نہ دیا تا ایسا نہ ہو دشمن حقیقت حال سے واقف ہو کر حملہ کر دے اور زخمی مسلمان پھر دوبارہ دشمن کے حملہ کا شکار ہو جائیں.جب اسلامی لشکر سے اس بات کا کوئی جواب نہ ملا تو ابو سفیان کو یقین ہو گیا کہ اُس کا خیال درست ہے اور اس نے بڑے زور سے آواز دے کر کہا ہم نے ابوبکر کو بھی مار دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر کو بھی حکم فرمایا کہ کوئی جواب نہ دیں.پھر ابوسفیان نے آواز دی ہم نے عمر کو بھی مار دیا.تب عمر جو بہت جو شیلے آدمی تھے اُنہوں نے اُس کے جواب میں یہ کہنا چاہا کہ ہم لوگ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور تمہارے مقابلہ کے لئے تیار ہیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ مسلمانوں کو تکلیف میں مت ڈالو اور خاموش رہو.اب کفار کو یقین ہو گیا کہ اسلام کے بانی کو بھی اور اُن کے دائیں بائیں بازو کو بھی ہم نے مار دیا ہے.اس پر ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں نے خوشی سے نعرہ لگایا اُعْلُ هُبَل - اُعْلُ هُبَل.ہمارے معزز

Page 265

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۳ دیباچہ تفسیر القرآن بت ہبل کی شان بلند ہو کہ اُس نے آج اسلام کا خاتمہ کر دیا ہے.وہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو اپنی موت کے اعلان پر ، ابو بکر کی موت کے اعلان پر اور عمر کی موت کے اعلان پر خاموشی کی نصیحت فرمارہے تھے تا ایسا نہ ہو کہ زخمی مسلمانوں پر پھر کفار کا لشکر لوٹ کر حملہ کر دے اور مٹھی بھر مسلمان اُس کے ہاتھوں شہید ہو جائیں.اب جبکہ خدائے واحد کی عزت کا سوال پیدا ہوا اور شرک کا نعرہ میدان میں مارا گیا تو آپ کی روح بے تاب ہو گئی اور آپ نے نہایت جوش سے صحابہؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا تم لوگ جواب کیوں نہیں دیتے ؟ صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم کیا کہیں؟ فرمایا کہو اللهُ أَعْلَى وَاَجَلُّ - اللهُ أَعْلَى وَاَجَلُّ.۲۶۴ تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہبل کی شان بلند ہوئی.اللہ وَحْدَهُ لَا شَرِیک ہی معزز ہے اور اُس کی شان بالا ہے.اور اس طرح آپ نے اپنے زندہ ہونے کی خبر دشمنوں تک پہنچا دی.اس دلیرانہ اور بہادرانہ جواب کا اثر کفار کے لشکر پر اتنا گہرا پڑا کہ باوجود اس کے کہ اُن کی اُمید میں اس جواب سے خاک میں مل گئیں اور باوجود اس کے کہ اُن کے سامنے مٹھی بھر زخمی مسلمان کھڑے ہوئے تھے جن پر حملہ کر کے اُن کو مار دینا مادی قوانین کے لحاظ سے بالکل ممکن تھا وہ دوبارہ حملہ کرنے کی جرات نہ کر سکے اور جس قدر فتح اُن کو نصیب ہوئی تھی اُسی کی خوشیاں مناتے ہوئے مکہ کو واپس چلے گئے.اُحد کی جنگ میں بظاہر فتح کے بعد ایک شکست کا پہلو پیدا ہوا مگر یہ جنگ در حقیقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کا ایک بہت بڑا نشان تھا.اس جنگ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق مسلمانوں کو پہلے کامیابی نصیب ہوئی.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آپ کے عزیز چچا حمز گالڑائی میں مارے گئے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق شروع حملہ میں کفار کے لشکر کا علمبر دار مارا گیا.پھر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خود آپ بھی زخمی ہوئے اور بہت سے صحابہ شہید ہوئے.اس کے علاوہ مسلمانوں کو ایسے اخلاص اور ایمان کا مظاہرہ کرنے کا موقع ملا جس کی مثال تاریخ میں اور کہیں نہیں ملتی.چند واقعات تو اس اخلاص اور ایمان کے مظاہرہ کے پہلے بیان ہو چکے ہیں ایک اور واقعہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت

Page 266

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۴ دیباچهتفسیر القرآن نے صحابہؓ کے دلوں میں کتنا پختہ ایمان پیدا کر دیا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کچھ صحابہ کی معیت میں پہاڑ کے دامن کی طرف چلے گئے اور دشمن پیچھے ہٹ گیا تو آپ نے بعض صحابہ کو اس بات پر مامور فرمایا کہ وہ میدان میں جائیں اور زخمیوں کی خبر لیں.ایک صحابی میدان میں تلاش کرتے کرتے ایک زخمی انصاری کے پاس پہنچے.دیکھا تو اُن کی حالت خطر ناک تھی اور وہ کی جان تو ڑ رہے تھے.یہ صحابی اُن کے پاس پہنچے اور انہیں اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمُ کہا اُنہوں نے کانپتا ہوا ہاتھ مصافحہ کے لئے اُٹھایا اور اُن کا ہاتھ پکڑ کر کہا میں انتظار کر رہا تھا کہ کوئی ساتھی مجھے مل جائے.اُنہوں نے اس صحابی سے پوچھا کہ آپ کی حالت تو خطر ناک معلوم ہوتی ہے کیا کوئی پیغام ہے جو آپ اپنے رشتہ دار کو دینا چاہتے ہیں؟ اُس مرنے والے صحابی نے کہا ہاں ! ہاں ! میری طرف سے میرے رشتہ داروں کو سلام کہنا اور انہیں کہنا کہ میں تو مر رہا ہوں مگر اپنے پیچھے خدا تعالیٰ کی ایک مقدس امانت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود تم میں چھوڑے جا رہا ہوں.اے میرے بھائیو اور رشتہ دارو! وہ خدا کا سچا رسول ہے میں اُمید کرتا ہوں کہ تم اس کی حفاظت ا میں اپنی جانیں دینے سے دریغ نہیں کرو گے اور میری اس وصیت کو یا درکھو گے.۲۶۵ مرنے والے انسان کے دل میں ہزاروں پیغام اپنے رشتہ داروں کو پہنچانے کے لئے پیدا ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں اتنے بے نفس ہو چکے تھے کہ نہ اُنہیں اپنے بیٹے یاد تھے ، نہ بیویاں یاد تھیں ، نہ مال یا د تھا ، نہ جائدادیں یا تھیں انہیں صرف کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود ہی یا درہتا تھا.وہ جانتے تھے کہ دنیا کی نجات اس شخص کے ساتھ ہے.ہمارے مرنے کے بعد اگر ساری اولادیں زندہ رہیں تو وہ کوئی بڑا کام نہیں کر سکتیں، لیکن اگر اس نجات دہندہ کی حفاظت میں اُنہوں نے اپنی جانیں دے دیں تو گو ہمارے اپنے خاندان مٹ جائیں گے مگر دنیا زندہ ہو جائے گی.شیطان کے پنجہ میں پھنسا ہوا انسان پھر نجات پا جائے گا اور ہمارے خاندانوں کی زندگی سے ہزاروں گنے زیادہ قیمتی بنو آدم کی زندگی اور نجات ہے.بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زخمیوں اور شہداء کو جمع کیا، زخمیوں کی مرہم پٹی کی گئی اور شہداء کے دفنانے کا انتظام کیا گیا.اُس وقت آپ کو معلوم ہوا کہ ظالم کفار مکہ نے بعض

Page 267

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۵ دیباچہ تفسیر القرآن مسلمان شہداء کے ناک کان بھی کاٹ دیئے ہیں.چنانچہ یہ لوگ جن کے ناک کان کاٹے گئے ہیں اُن میں خود آپ کے چچا حمزہ بھی تھے.آپ کو یہ نظارہ دیکھ کر افسوس ہوا اور آپ نے فرمایا کفار نے خود اپنے عمل سے اپنے لئے اُس بدلہ کو جائز بنادیا ہے جس کو ہم نا جائز سمجھتے تھے.مگر خدا تعالیٰ کی طرف سے اُس وقت آپ کو وحی ہوئی کہ کفار جو کچھ کرتے ہیں اُن کو کرنے دو تم رحم اور انصاف کا دامن ہمیشہ تھامے رکھو.۲۶۶ جنگ اُحد سے واپسی اور واپسی اور جب اسلامی لشکر واپس مدینہ کی طرف لوٹا تو اُس وقت تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل مدینہ کے جذبات فدائیت کی شہادت اور اسلامی فکر کی پراگندگی کی خبر مدینہ پہنچ چکی تھی.مدینہ کی عورتیں اور بچے دیوانہ وار اُحد کی طرف دوڑے جا رہے تھے.اکثر کو تو راستہ میں خبر مل گئی اور وہ رُک گئے ، مگر بنو دینا ر قبیلہ کی ایک عورت دیوانہ وار آگے بڑھتے ہوئے اُحد تک جا پہنچی.جب وہ دیوانہ وار اُحد کے میدان کی طرف جارہی تھی اُس عورت کا خاوند اور بھائی اور باپ اُحد میں مارے گئے تھے اور بعض روایتوں میں ہے کہ ایک بیٹا تی بھی مارا گیا تھا.جب اُسے اُس کے باپ کے مارے جانے کی خبر دی گئی تو اُس نے کہا مجھے بتاؤ کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہے؟ چونکہ خبر دینے والے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مطمئن تھے وہ باری باری اُسے اس کے بھائی اور خاوند اور بیٹے کی موت کی خبر دیتے چلے گئے مگر وہ یہی کہتی چلی جاتی تھی مَا فَعَلَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم “.ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا کیا ؟ بظاہر یہ فقرہ غلط معلوم ہوتا ہے اور اسی وجہ سے مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اُس کا مطلب یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ہوا.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ فقرہ غلط نہیں بلکہ عورتوں کے محاورہ کے مطابق بالکل درست ہے.عورت کی کے جذبات بہت تیز ہوتے ہیں اور وہ بسا اوقات مُردوں کو زندہ سمجھ کر کلام کرتی ہے.جیسے بعض عورتوں کے خاوند یا بیٹے مرجاتے ہیں تو اُن کی موت پر اُن سے مخاطب ہو کر وہ اس قسم کی باتیں کرتی رہتی ہیں کہ مجھے کس پر چھوڑ چلے ہو؟ یا بیٹا ! اس بڑھاپے میں مجھ سے کیوں منہ موڑ لیا ؟ یہ شدت غم میں فطرتِ انسانی کا ایک نہایت لطیف مظاہرہ ہوتا ہے.اسی طرح رسول کریم صلی اللہ

Page 268

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۶ دیباچہ تفسیر القرآن علیہ وسلم کی وفات کی خبر سن کر اُس عورت کا حال ہوا.وہ آپ کو فوت شدہ ماننے کے لئے تیار نہ تھی اور دوسری طرف اس خبر کی تردید بھی نہیں کر سکتی تھی.اس لئے شدت غم میں یہ کہتی جاتی تھی ارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کیا.یعنی ایسا وفا دار انسان ہم کو یہ صدمہ پہنچانے پر کیونکر راضی ہو گیا.جب لوگوں نے دیکھا کہ اُسے اپنے باپ، بھائی اور خاوند کی کوئی پرواہ نہیں تو وہ اس کے سچے جذبات کو سمجھ گئے اور اُنہوں نے کہا.فلانے کی اماں ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو جس طرح تو چاہتی ہے خدا کے فضل سے خیریت سے ہیں.اس پر اُس نے کہا مجھے دکھاؤ وہ کہاں ہیں؟ لوگوں نے کہا.آگے چلی جاؤ وہ آگے کھڑے ہیں.وہ عورت دوڑ کر آپ تک پہنچی اور آپ کے دامن کو پکڑ کر بولی يَا رَسُولَ الله ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، جب آپ سلامت ہیں تو کوئی مرے مجھے کوئی پرواہ نہیں.۶۷ مردوں نے جنگ میں وہ نمونہ ایمان کا دکھایا اور عورتوں نے یہ نمونہ اخلاص کا دکھایا، جس کی مثال میں نے ابھی بیان کی ہے.عیسائی دنیا مریم مگد لینی اور اس کی ساتھی عورتوں کی اس بہادری پر خوش ہے کہ وہ مسیح کی قبر پر صبح کے وقت دشمنوں سے چھپ کر پہنچی تھیں.میں اُن سے کہتا ہوں آؤ اور ذرا میرے محبوب کے مخلصوں اور فدائیوں کو دیکھو کہ کن حالتوں میں اُنہوں نے اُس کا ساتھ دیا اور کن حالتوں میں اُنہوں نے تو حید کے جھنڈے کو بلند کیا.اس قسم کی فدائیت کی ایک اور مثال بھی تاریخوں میں ملتی ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہدا ء کو دفن کر کے مدینہ واپس گئے تو پھر عورتیں اور بچے شہر سے باہر استقبال کیلئے نکل آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی کی باگ سعد بن معاد مد ینہ کے رئیس نے پکڑی ہوئی تھی اور فخر سے آگے آگے دوڑے جاتے تھے شاید دنیا کو یہ کہہ رہے تھے کہ دیکھا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خیریت سے اپنے گھر واپس لے آئے.شہر کے پاس اُنہیں اپنی بڑھیا ماں جس کی نظر کمزور ہو چکی تھی آتی ہوئی ملی.اُحد میں اُس کا ایک بیٹا عمرو بن معاذ بھی مارا گیا.اُسے دیکھ کر سعد بن معادؓ نے کہا يَا رَسُولَ الله! ااُمّی.اے اللہ کے رسول ! میری ماں آ رہی ہے.آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ کی برکتوں کے ساتھ آئے.بڑھیا آگے بڑھی اور اپنی کمزور پھٹی آنکھوں

Page 269

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن سے اِدھر اُدھر دیکھا کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نظر آ جائے.آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ پہچان لیا اور خوش ہوگئی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.مائی ! مجھے تمہارے بیٹے کی شہادت پر تم سے ہمدردی ہے.اس پر نیک عورت نے کہا.حضور ! جب میں نے آپ کو سلامت دیکھ لیا تو سمجھو کہ میں نے مصیبت کو بھون کر کھا لیا." مصیبت کو بھون کر کھا لیا.۲۶۸ کیا عجیب محاورہ ہے.محبت کے کتنے گہرے جذبات پر دلالت کرتا ہے غم انسان کو کھا جاتا ہے.وہ عورت جس کے بڑھاپے میں اُس کا عصائے پیری ٹوٹ گیا کس بہادری سے کہتی ہے کہ میرے بیٹے کے غم نے مجھے کیا کھانا ہے جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تو میں اس غم کو کھا جاؤں گی.میرے بیٹے کی موت مجھے مارنے کا موجب نہیں ہوگی بلکہ بہ خیال کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اُس نے جان دی میری قوت کے بڑھانے کا موجب ہوگا.اے انصار! میری جان تم پر فدا ہو تم کتنا ثواب لے گئے.بہر حال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے مدینہ پہنچے.گو اس لڑائی میں بہت سے مسلمان مارے بھی گئے اور بہت سے زخمی بھی ہوئے لیکن پھر بھی اُحد کی جنگ شکست نہیں کہلا سکتی.جو واقعات میں نے اوپر بیان کئے ہیں اُن کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ ایک بہت بڑی فتح تھی ایسی فتح کہ قیامت تک مسلمان اس کو یاد کر کے اپنے ایمان کو بڑھا سکتے ہیں اور بڑھاتے رہیں گے.مدینہ پہنچ کر آپ نے پھر اپنا اصل کام یعنی تربیت اور تعلیم اور اصلاح نفس کا شروع کر دیا.مگر آپ یہ کام سہولت اور آسانی سے نہیں کر سکے.اُحد کے واقعہ کے بعد یہود میں اور بھی دلیری پیدا ہوگئی اور منافقوں نے اور بھی سر اُٹھانا شروع کر دیا اور وہ سمجھے کہ شاید اسلام کو مٹا دینا انسانی طاقت کے اندر کی بات ہے.چنانچہ یہودیوں نے طرح طرح سے آپ کو تکلیفیں دینی شروع کر دیں.گندے شعر بنا کر اُن میں آپ کی اور آپ کے خاندان کی ہتک کی جاتی تھی.ایک دفعہ آپ کو کسی جھگڑے کا فیصلہ کرنے کے لئے یہودیوں کے قلعہ میں جانا پڑا تو انہوں نے ایک تجویز کی کہ جہاں آپ بیٹھے تھے اُس کے اوپر سے ایک بڑی سل گرا کر آپ شہید کر دیئے جائیں مگر خدا تعالیٰ نے آپ کو وقت پر بتا دیا اور آپ وہاں سے بغیر کچھ کہنے کے آئے ۲۶۹.بعد میں یہودی نے اپنے قصور کو تسلیم کر لیا.

Page 270

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۸ دیباچہ تفسیر القرآن مسلمان عورتوں کی بازاروں میں بیحرمتی کی جاتی تھی.ایک دفعہ اس جھگڑے میں ایک مسلمان بھی مارا گیا.ایک دفعہ ایک مسلمان لڑکی کا سر یہود نے پتھروں سے مار مار کر کچل دیا اور ی وہ تڑپ تڑپ کر مرگئی.اِن اسباب کی وجہ سے یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کو جنگ کرنا پڑی.مگر عرب اور یہود کے دستور کے مطابق مسلمانوں نے اُن کو مارا نہیں ، بلکہ صرف مدینہ سے چلے جانے کی شرط پر انہیں چھوڑ دیا.چنانچہ اُن دونوں قبیلوں میں سے ایک تو شام کی طرف ہجرت کر گیا اور دوسرے کا کچھ حصہ شام کو چلا گیا اور کچھ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف.یہ شہر عرب میں یہود کا مرکز تھا اور زبردست قلعوں پر مشتمل تھا.شراب نوشی کی ممانعت کا حکم جنگ احد اور اس کے بعد کی جنگ کے وقفہ کے درمیان دنیا نے اسلام کے اس اثر کی جو اس کا اپنے کی اور اُس کا بے نظیر اثر پیروؤں پر تھا ایک بین مثال دیکھی.ہماری مراد.امتناع شراب سے ہے.اسلام سے پہلے اہلِ عرب کی حالت کو بیان کرتے ہوئے ہم نے بتلایا تھا کہ اہلِ عرب عادی شراب خور تھے.ہر معز ز عرب خاندان میں دن میں پانچ دفعہ شراب پی جاتی تھی اور شراب کے نشہ میں مدہوش ہو جانا اُن کے لئے معمولی بات تھی اور اس میں وہ ذرا بھی شرم محسوس نہ کرتے تھے بلکہ وہ اس کو ایک اچھا کام سمجھتے تھے.جب کوئی مہمان آتا تو گھر کی ما لکہ کا فرض ہوتا کہ وہ شراب کا دور جاری کرتی.اس قسم کے لوگوں سے ایسی تباہ کن عادت کو چھڑا نا کوئی آسان بات نہ تھی.مگر ہجرت کے چوتھے سال آنحضرت علیہ پر حکم نازل ہوا ہے کہ شراب حرام کی جاتی ہے.اس حکم کا اعلان ہوتے ہی مسلمانوں نے شراب پینا بالکل ترک کر دیا.چنانچہ حدیث میں آتا ہے.کہ جب شراب کی حرمت کا الہام نازل ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو بلایا اور حکم دیا کے اس نئے حکم کا اعلان مدینہ کی گلیوں میں کر دو.ایک انصاری کے گھر میں جو مدینہ کا مسلمان تھا اُس وقت شراب کی مجلس ہو رہی تھی بہت تی سے لوگ مدعو تھے اور شراب کا دور چل رہا تھا.ایک بڑا مٹکا خالی ہو چکا تھا اور ایک دوسرا مٹکا کی شروع کیا جانے والا تھا.لوگ مدہوش ہو چکے تھے اور بہت سے اور مدہوش ہونے کے قریب تھے.اس حالت میں اُنہوں نے سنا کہ کوئی شخص اعلان کر رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 271

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۵۹ دیباچہ تفسیر القرآن نے اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت شراب پینا منع فرما دیا ہے.اُن میں سے ایک شخص اُٹھا اور بولا یہ تو شراب کے امتناع کا حکم معلوم ہوتا ہے.ٹھہر و معلوم کر لیں.اتنے میں ایک اور شخص اُٹھا اور اُس نے مٹکے کو جو شراب سے بھرا ہوا تھا اپنی لاٹھی مار کرٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور کہا پہلے حکم کی تعمیل کرو اور پھر دریافت کرو.یہ کافی ہے کہ ہم نے ایسا اعلان سن لیا اور یہ مناسب نہیں کہ ہم شراب پیتے جائیں اور تحقیقات کریں بلکہ ہمارا فرض یہ ہے کہ شراب کو گلیوں میں بہہ جانے دیں اور پھر اعلان کے متعلق تحقیقات کریں.۲۷۰ اس مسلمان کا خیال درست تھا ، کیونکہ اگر شراب کا پیا جانا ممنوع قرار دیا جا چکا تھا تو اس کے بعد اگر وہ شراب پینا جاری رکھتے تو ایک جرم کے مرتکب ہوتے اور اگر شراب پینا ممنوع نہیں قرار دیا گیا تھا تو شراب کا بہا دینا اتنا بڑا نقصان نہ تھا کہ اُسے برداشت نہ کیا جا سکتا.اس اعلان کے بعد شراب نوشی مسلمانوں سے بالکل دور ہوگئی.اس انقلاب عظیم کو بر پا کرنے کے لئے کوئی خاص کوشش اور مجاہدہ کی ضرورت نہیں پڑی.ایسے مسلمان جنہوں نے اس حکم کو سُنا اور جو فوری تعمیل اس کی ہوئی اُس کو دیکھا ، ستر اسی سال تک زندہ رہے مگر اُن میں سے ایک مسلمان بھی ایسا نہیں جس نے اس حکم کے بعد اس کی خلاف ورزی کی ہو، اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو وہ ایسے شخص کے متعلق ہے جس نے براہ راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ نہ کیا تھا.جب ہم اس کا مقابلہ امریکہ کی تحریک امتناع شراب سے کرتے ہیں اور ان کوششوں کو دیکھتے ہیں جو اس حکم کو نافذ کرنے کے لئے کی گئیں یا جو سالہا سال تک یورپ میں کی گئیں ، تو ہمیں صاف نظر آتا ہے کہ ایک صورت میں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا محض ایک اعلان کا فی تھا کہ اس تمدنی عیب کو عرب کے لوگوں سے معدوم کر دے.مگر دوسری صورت میں امتناع شراب کی کے لئے قوانین بنائے گئے.پولیس ، فوج اور ٹیکس کے محکموں کے کارکنوں نے مل کر شراب نوشی کی کی لعنت کو دور کرنے کے لئے متحدہ طور پر کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے اور انہیں اپنی ناکامی کا اعتراف کرنا پڑا.شراب نوشی کی جیت رہی اور شراب نوشی کو دُور نہ کی جاسکی.ہمارے اس زمانہ کو ایک ترقی کا زمانہ کہتے ہیں مگر جب اس کا مقابلہ ابتدائے اسلام کے زمانہ سے کرتے ہیں تو ہم حیران ہو جاتے ہیں کہ ان دونوں میں سے ترقی کا زمانہ کونسا ہے.ہمارا یہ زمانہ یا اسلام کا

Page 272

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۰ وہ زمانہ جس نے اس قدر بڑا تمدنی انقلاب پیدا کر دیا ؟ دیباچہ تفسیر القرآن اُحد کا واقعہ ایسی بات غزوہ اُحد کے بعد کفار قبائل کے ناپاک منصوبے بھی کہ آسانی سے.بھولا جا سکتا.مکہ والوں نے خیال کیا تھا کہ یہ اُن کی اسلام کے خلاف پہلی فتح ہے اُنہوں نے اس کی خبر تمام عرب میں شائع کی اور عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف بھڑ کانے اور یہ یقین دلانے کا ذریعہ بنایا کہ مسلمان ناقابل تسخیر نہیں ہیں.اور اگر وہ ترقی کرتے رہے ہیں تو اس کی وجہ اُن کی طاقت نہیں تھی بلکہ عرب قبائل کی بے تو جہی تھی.عرب متحدہ کوشش کریں تو مسلمانوں پر غالب آ جانا کوئی مشکل امر نہیں.اس پرو پیگنڈا کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں کے خلاف مخالفت زور پکڑتی گئی اور دیگر قبائل نے مسلمانوں کو تکلیف دینے میں مکہ والوں سے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لینا شروع کیا.بعض نے کھلم کھلا حملے شروع کر دیئے اور بعض نے خفیہ طور پر اُن کو نقصان پہنچانا شروع کر دیا.ہجرت کے چوتھے سال عرب کے دو قبائل عضل اور قارۃ نے اپنے نمائندے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج کر عرض کیا کہ ہمارے قبائل میں بہت سے آدمی اسلام کی طرف مائل ہیں اور درخواست کی کہ کچھ آدمی جو تعلیم اسلام سے پوری طرح سے واقف ہوں بھیج دیئے جائیں تا کہ وہ اُن کے درمیان رہ کر اُن کو اِس نئے مذہب کی تعلیم دیں.دراصل یہ ایک سازش تھی جو اسلام کے پکے دشمن بنولحیان نے کی تھی اور ان کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ نمائندے مسلمانوں کو لے کر آئیں گے تو وہ اُن کو قتل کر کے اپنے رئیس سفیان بن خالد کا بدلہ لیں گے.چنانچہ انہوں نے عضل اور قارة کے نمائندوں کو اس غرض سے کہ وہ چند مسلمانوں کو اپنے ساتھ لے آ ئیں ، انعام کے بڑے بڑے وعدے دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت می میں بھیجا تھا.جب عضل اور قارة کے لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ کر درخواست کی تو آپ نے اُن کی بات پر اعتبار کر کے دس مسلمانوں کو اُن کے ساتھ کر دیا کہ ان کو اسلام کے عقائد اور اصولوں کی تعلیم دیں.جب یہ جماعت بنولحیان کے علاقہ میں پہنچی تو عضل اور قارة کے لوگوں نے بنولحیان کو اطلاع بھجوادی اور اُن کو کہلا بھیجا کہ مسلمانوں کو یا تو گرفتار کر

Page 273

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۱ دیباچهتفسیر القرآن لیں یا موت کے گھاٹ اُتار دیں.اس ناپاک منصوبے کے ماتحت بنو لحیان کے دو سو مسلح آدمی مسلمانوں کے تعاقب میں نکل کھڑے ہوئے اور آخر مقام رجیع میں اُن کو آگھیرا.دس مسلمانوں اور دوسو دشمنوں کے درمیان لڑائی ہوئی.مسلمانوں کے دل نور ایمان سے پُر تھے اور دشمن اس کے سے تہی تھے.دس مسلمان ایک ٹیلہ پر چڑھ گئے اور دوسو آدمیوں کو دعوتِ مبارزت دی.دشمن نے ایک فریب کر کے اُن کو گرفتار کرنا چاہا اور اُن سے کہا کہ اگر تم نیچے اتر آؤ تو تمہیں کچھ نہ کہا جائے گا، مگر مسلمانوں کے امیر نے کہا کہ ہم کافروں کے عہد و پیمان کو خوب دیکھ چکے ہیں.اس کی کے بعد اُنہوں نے آسمان کی طرف منہ اُٹھا کر کہا اے خدا! تو ہماری حالت کو دیکھ رہا ہے اپنے کی رسول کو ہماری اس حالت سے اطلاع پہنچا دے.جب کفار نے دیکھا کہ مسلمانوں کی اس چھوٹی سی جماعت پر اُن کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا تو انہوں نے اُن پر حملہ کر دیا اور مسلمان بغیر خوف شکست کے لڑتے چلے گئے ، یہاں تک کہ دس میں سے سات شہید ہو گئے.باقی تین جو بچ رہے تھے اُن کو کفار نے پھر وعدہ دیا کہ ہم تمہاری جانیں بچالیں گے بشرطیکہ تم ٹیلے سے نیچے اتر آؤ.لیکن جب وہ کفار کے وعدہ پر اعتبار کر کے نیچے اُتر آئے تو کفار نے انہیں اپنی کمانوں کی تانتوں سے جکڑ کر باندھ لیا.اِس پر اُن میں سے ایک نے کہا کہ یہ پہلی خلاف ورزی ہے جو تم اپنے عہد کی کر رہے ہو اللہ ہی جانتا ہے کہ تم اس کے بعد کیا کرو گے.یہ کہہ کر اُس نے اُن کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.کفار نے اُس کو مارنا اور گھسیٹنا شروع کر دیا.مگر آخر اُس کے مقابلے اور استقلال سے اس قدر مایوس ہو گئے کہ اُنہوں نے اُس کو وہیں قتل کر دیا.باقی دوکو وہ ساتھ لے گئے اور بطور غلاموں کے قریش مکہ کے پاس فروخت کر دیا کہ ان میں سے ایک کا نام حبیب تھا اور دوسرے کا زید - خبیب کا خریدار اپنے باپ کا بدلہ لینے کے لئے جسے خبیب نے کی جنگ بدر میں قتل کیا تھا حبیب کو قتل کرنا چاہتا تھا.ایک دن حبیب نے اپنی ضرورت کے لئے استرا مانگا.اُسترا خبیب کے ہاتھ میں تھا کہ گھر والوں کا ایک بچہ کھیلتے ہوئے اُس کے پاس چلا گیا.خبیب نے اس کو اٹھا کر اپنی ران پر بیٹھا لیا.بچے کی ماں نے جب یہ دیکھا تو دہشت زدہ ہوگئی اور اُسے یقین ہو گیا کہ اب خبیب بچے کو قتل کر دے گا کیونکہ وہ خبیب کو چند دنوں میں قتل کرنے والے تھے.اُس وقت اُسترا اُس کے ہاتھ میں تھا اور بچہ اُس کے اتنا قریب تھا کہ وہ کی

Page 274

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۲ دیباچہ تفسیر القرآن اُسے نقصان پہنچا سکتا تھا.حبیب نے اُس کے چہرے سے پریشانی کو بھانپ لیا اور کہا کہ کیا تم خیال کرتی ہو کہ میں تمہارے بچے کو قتل کر دونگا ؟ یہ خیال کبھی دل میں نہ لاؤ میں ایسا بر افعل نہیں کرسکتا.مسلمان دھوکا باز نہیں ہوتے.وہ عورت خبیب کے اس دیانتدارانہ اور صحیح طریق عمل سے بہت متاثر ہوئی.اس بات کو اُس نے ہمیشہ یادرکھا اور ہمیشہ کہا کرتی تھی کہ میں نے خبیب سا قیدی کوئی نہیں دیکھا.آخر کار مکہ والے خبیب کو ایک کھلے میدان میں لے گئے تا اُس کو قتل کر کے جشن منا ئیں.جب اُن کے قتل کا وقت آن پہنچا تو خبیب نے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پڑھ لینے دو.قریش نے اُن کی یہ بات مان لی اور خبیب نے سب کے سامنے اس دنیا میں آخری بار اپنے اللہ کی عبادت کی.جب وہ نماز ختم کر چکے تو انہوں نے کہا کہ میں اپنی نمازی جاری رکھنا چاہتا تھا مگر اس خیال سے ختم کر دی ہے کہ کہیں تم یہ نہ سمجھو کہ میں مرنے سے ڈرتا ہوں.پھر آرام سے اپنا سر قاتل کے سامنے رکھ دیا اور ایسا کرتے ہوئے یہ اشعار پڑھے: وَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِمًا عَلَى أَيِّ جَنْبِ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي وَذَلِكَ فِي ذَاتِ الْإِلَهِ وَإِنْ يَّشَأْ يُبَارِكُ عَلَى أَوصَالِ شِلْوِ مُمَزَّع ۷۲ یعنی جبکہ میں مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جارہا ہوں تو مجھے پرواہ نہیں ہے کہ میں کس پہلو پر قتل ہوکر گروں.یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے.اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا.خبیب نے ابھی یہ شعر ختم نہ کیے تھے کہ جلاد کی تلوار اُن کی گردن پر پڑی اور اُن کا سرخاک پر آ گرا.جو لوگ یہ جشن منانے کے لئے جمع ہوئے تھے اُن میں ایک شخص سعید بن عامر بھی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا.کہتے ہیں کہ جب کبھی حبیب کے قتل کا ذکر سعید کے سامنے ہوتا تو اس کوشش آجایا کرتا.۲۷۳ دوسرا قیدی زید بھی قتل کرنے کے لئے باہر لے جایا گیا.اس تماشہ کو دیکھنے والوں میں ابوسفیان رئیس مکہ بھی تھا.وہ زید کی طرف متوجہ ہوا اور پوچھا کہ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ محمد امج تمہاری جگہ پر ہو اور تم اپنے گھر میں آرام سے بیٹھے ہو؟ زیڈ نے بڑے غصہ سے جواب دیا کہ ابوسفیان ! تم کیا کہتے ہو؟ خدا کی قسم! میرے لئے مرنا اس سے بہتر ہے کہ آنحضرت ﷺ کے

Page 275

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۳ دیباچهتفسیر القرآن پاؤں کو مدینہ کی گلیوں میں ایک کانٹا بھی چبھ جائے.اس فدائیت سے ابوسفیان متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اُس نے حیرت سے زید کی طرف دیکھا اور فوراً ہی دبی زبان میں کہا کہ خدا گواہ ہے کہ جس طرح محمد کے ساتھ محمدؐ کے ساتھی محبت کرتے ہیں میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اور شخص کسی سے محبت کرتا ہو.۲۷۴ ۷۰ حفاظ قرآن کے قتل کا حادثہ انہی ایام کے قریب قریب نجد کے کچھ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تا اُن کے ساتھ چند مسلمانوں کو بھیج دیا جائے تاکہ وہ اُن کو اسلام سکھلائیں.آنحضرت می نے اُن کا اعتبار نہ کیا.مگر ابو براء نے جو اُس وقت مدینہ میں تھے کہا کہ میں اس قبیلہ کی طرف سے ضمانتی بنتا ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین دلایا کہ وہ کوئی شرارت نہیں کریں گے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ مسلمانوں کو جو حافظ قرآن تھے اس کام کے لئے کی انتخاب کیا.جب یہ جماعت بئر معونہ پر پہنچی تو اُن میں سے ایک شخص حرام بن ملحان قبیلہ عامر کے رئیس کے پاس گیا جو ابو براء کا بھتیجا تھا تا کہ اُس کو اسلام کا پیغام دے.بظاہر قبیلہ والوں نے حرام کا اچھی طرح استقبال کیا مگر جس وقت وہ رئیس کے سامنے تقریر کر رہے تھے تو ایک آدمی چھپ کر پیچھے سے آیا اور اُن پر نیزہ سے حملہ کیا.حرام و ہیں مارے گئے.جب نیزہ اُن کے گلے سے پار ہوا تو وہ یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اللهُ أَكْبَرُ - فُزْتُ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ - یعنی اللہ اکبر.کعبہ کے رب کی قسم ! میں اپنی مراد کو پہنچ گیا.۲۷۵ اس دھوکا بازی سے حرام کے قتل کرنے کے بعد قبیلہ کے سرداروں نے اہلِ قبیلہ کو جوش دلا یا کہ باقی جماعت معلمین پر بھی حملہ کریں.مگر قبیلہ والوں نے کہا کہ ہمارے رئیس ابو براء نے ضامن بنا منظور کیا ہے ہم اس جماعت پر حملہ نہیں کر سکتے.اس پر قبیلہ کے سرداروں نے اُن دو قبیلوں کی مدد کے ساتھ جو مسلمان معلمین کو لانے کے لئے گئے تھے ، جماعت معلمین پر حملہ کر دیا.اُن کا یہ کہنا کہ ہم وعظ کرنے اور اسلام سکھانے آئے ہیں لڑنے نہیں آئے بالکل کارگر نہ ہوا اور کفار نے مسلمانوں کو قتل کرنا شروع کر دیا.آخر تین آدمیوں کے سوا باقی سب شہید ہو گئے.اس جماعت میں سے ایک آدمی لنگڑا تھا اور لڑائی ہونے سے پہلے پہاڑی پر چڑھ گیا تھا اور دو

Page 276

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۴ دیباچہ تفسیر القرآن اونٹ چرانے جنگل کو گئے ہوئے تھے.واپسی پر اُنہوں نے دیکھا کہ اُن کے چھیاسٹھ ساتھی کی میدان میں مرے پڑے ہیں.دونوں نے آپس میں مشورہ کیا.ایک نے کہا کہ ہمیں چاہیے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اس حادثہ کی اطلاع دیں.دسرے نے کہا جہاں ہماری جماعت کا سردار جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا قتل کیا گیا ہے میں اُس جگہ کو چھوڑ نہیں سکتا.یہ کہتے ہوئے وہ تن تنہا کفار پر حملہ آور ہوا اور لڑتا ہوا ما را گیا.دوسرے کو گرفتار کر لیا گیا مگر بعد میں ایک قسم کی بناء پر جو قبیلہ کے ایک سردار نے کھائی تھی کی وہ چھوڑ دیا گیا.قتل ہونے والوں میں عامر بن فہیرہ بھی تھے جو حضرت ابو بکر کے آزاد کردہ غلام تھے.اُن کا قاتل ایک شخص جبار بن سلمی تھا جو بعد میں مسلمان ہو گیا.جبار کہا کرتا تھا کہ عامر کاقتل ہی میرے مسلمان ہونے کا موجب ہوا تھا.جبار کہتا ہے کہ جب میں جبار کو قتل کرنے لگا تو میں نے عامر کو یہ کہتے سنا فُرتُ والله خدا کی قسم ! میں نے اپنی مراد کو پالیا.اس کے بعد میں نے ا س سے پوچھا.جب مسلمان کو موت کا سامنا ہوتا ہے تو وہ ایسی باتیں کیوں کرتا ہے؟ اُس شخص نے جواب دیا کہ مسلمان اللہ کی راہ میں موت کو نعمت اور فتح سمجھتا ہے.جبار پر اس جواب کا ایسا اثر ہوا کہ اُس نے اسلام کا باقاعدہ مطالعہ شروع کر دیا اور بالآخر مسلمان ہو گیا.۲۷۶ ان دواند و ہناک واقعات کی خبر جس میں قریباً ۰ ۸ مسلمان ایک شرارت آمیز سازش کے نتیجے میں شہید ہو گئے تھے فوراً مدینہ پہنچ گئی.مقتولین کوئی معمولی آدمی نہ تھے بلکہ حفاظ قرآن تھے.وہ کسی جرم کے مرتکب نہیں ہوئے تھے ، نہ انہوں نے کسی کو دُکھ دیا تھا.وہ کسی جنگ میں بھی شریک نہیں تھے بلکہ اللہ اور مذہب کا جھوٹا واسطہ دیکر وہ دھو کے سے دشمن کے تصرف میں دے دیئے گئے تھے.ان واقعات سے بلا شک و شبہ ثابت ہوتا ہے کہ کفار کو اسلام سے سخت دشمنی تھی.اس کے بالمقابل اسلام کے حق میں مسلمانوں کا جوش بھی نہایت گہرا اور پائدار تھا.غزوہ بنی مصطلق جنگ اُحد کے بعد مکہ میں سخت قحط پڑا.مکہ والوں کو جو دشمنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی اور جو تدابیر وہ آپ کے برخلاف لوگوں کے درمیان نفرت پھیلانے کی ملک بھر میں کر رہے تھے ، بالکل نظر انداز کر کے آنحضرت ﷺ نے اس سخت مصیبت کے وقت میں مکہ کے غرباء کی امداد کے لئے ایک رقم جمع کی ،مگر اس خیر خواہی کی

Page 277

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۵ دیباچہ تفسیر القرآن کا بھی اہلِ مکہ پر کچھ اثر نہ ہوا اور اُن کی دشمنی میں کوئی فرق نہ آیا بلکہ وہ دشمنی میں اور بھی بڑھاتی گئے.ایسے قبائل بھی جو پہلے مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی کرتے تھے دشمن بن گئے.ان قبائل کی میں سے ایک قبیلہ بنی مصطلق تھا.اُن کے تعلقات مسلمانوں کے ساتھ اچھے تھے مگراب اُنہوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری شروع کر دی.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کی تیاری کا علم ہوا تو آپ نے حقیقت حال دریافت کرنے کے لئے کچھ آدمی بھیجے.جنہوں نے واپس آکر اُن اطلاعات کی تصدیق کی.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ خود جا کر اس نئے حملہ کا مقابلہ کریں.چنانچہ آپ نے ایک فوج تیار کی اور اُسے لے کر بنو مصطلق کی طرف گئے.جب مسلمانوں کی فوج کا دشمن سے مقابلہ ہوا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوشش کی کہ دشمن بغیر لڑائی کے پیچھے ہٹ جانے پر آمادہ ہو جائے مگر اُنہوں نے انکار کیا.اس پر جنگ ہوئی اور چند گھنٹوں کے اندر دشمن کو شکست ہوگئی.چونکہ کفار مکہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے اور جو قبائل دوست تھے وہ بھی دشمن بن رہے تھے ، اس لئے اُن منافقین نے بھی جو مسلمانوں کے درمیان موجود تھے اس موقع پر یہ جرات کی کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے ہو کر جنگ میں حصہ لیں.غالباً اُن کا خیال تھا کہ اس طرح اُنہیں مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کا موقع مل سکے گا مگر بنو مصطلق کے ساتھ جو لڑائی ہوئی وہ چند گھنٹوں میں ختم ہو گئی اس لئے اس لڑائی کے دوران میں منافقین کو کوئی شرارت کرنے کا موقع نہ مل سکا.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ بنو مصطلق کے قصبہ میں کچھ دن قیام فرما ئیں.آپ کے قیام کے دوران میں ایک مکہ کے رہنے والے مسلمان کا ایک مدینہ کے رہنے والے مسلمان سے کنویں سے پانی نکالنے کے متعلق جھگڑا ہو گیا.اتفاق سے یہ مکہ والا کی آدمی ایک آزاد شدہ غلام تھا اُس نے مدینہ والے شخص کو مارا.جس پر اُس نے اہل مدینہ کو کی جنہیں انصار کہتے تھے پکارا اور مکہ والے نے مہاجرین کو پکارا.اس طرح جوش پھیل گیا.کسی کی نے یہ دریافت کرنے کی کوشش نہ کی کہ اصل واقعہ کیا ہے.دونوں طرف کے جوان آدمیوں نے تلواریں نکال لیں.عبداللہ بن ابی بن سلول سمجھا کہ ایسا موقع خدا نے مہیا کر دیا ہے.اُس نے چاہا کہ آگ پر تیل ڈالے اور اہل مدینہ کو مخاطب کر کے کہا کہ ان مہاجرین پر تمہاری مہربانی حد

Page 278

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۶ دیباچہ تفسیر القرآن سے بڑھ گئی ہے اور تمہارے نیک سلوک سے اُن کے سر پھر گئے ہیں اور یہ دن بدن تمہارے سر پر چڑھتے جاتے ہیں.قریب تھا کہ اس تقریر کا وہی اثر ہوا ہوتا جو عبداللہ چاہتا تھا اور جھگڑا شدت پکڑ جاتا مگر ایسا نہ ہوا.عبداللہ نے اپنی شرانگیز تقریر کا اندازہ لگانے میں غلطی کی تھی اور یہ سمجھتے ہوئے کہ انصار پر اس کا اثر ہو گیا ہے، اُس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہم مدینہ میں واپسی پہنچ لیں پھر جو معزز ترین انسان ہے وہ ذلیل ترین انسان کو باہر نکال دے گا.معزز ترین انسان سے اُس کی مراد وہ خود تھا اور ارذل ترین سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذلک ).جو نہی یہ بات اُس کے منہ سے نکلی مؤمنوں پر اُس کی حقیقت کھل گئی اور انہوں نے کہا کہ یہ معمولی بات نہیں بلکہ یہ شیطان کا قول ہے جو ہمیں گمراہ کرنے آیا ہے.ایک جوان آدمی اُٹھا اور اپنے چا کے ذریعے اُس نے یہ خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچا دی.آپ نے کی عبد اللہ بن ابی بن سلول اور اُس کے دوستوں کو بلایا اور پوچھا کیا بات ہوئی ہے؟ عبداللہ نے کی اور اس کے دوستوں نے بالکل انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ یہ واقعہ جو ہمارے ذمہ لگایا گیا ہے ہوا ہی نہیں.آپ نے کچھ نہ کہا.لیکن سچی بات پھیلنی شروع ہوگئی.کچھ عرصہ کے بعد عبداللہ بن ابی بن سلول کے بیٹے عبداللہ نے بھی یہ بات سنی.وہ فوراً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا.اے اللہ کے نبی! میرے باپ نے آپ کی ہتک کی ہے اُس کی سزا موت ہے اگر آپ یہی فیصلہ کریں تو میں پسند کرتا ہوں کہ آپ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کو قتل کروں.اگر آپ کسی اور کو حکم دیں گے اور میرا باپ اُس کے ہاتھوں مارا جائے گا تو ہوسکتا ہے کہ میں اُس آدمی کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لوں اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لے لوں.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میرا ہر گز ارادہ نہیں میں تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور مہربانی کا سلوک کروں گا.جب عبداللہ نے اپنے باپ کی بیوفائی اور درشت کلامی کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نرمی اور مہربانی سے مقابلہ کیا تو اس کا ایمان اور بڑھ گیا اور اپنے باپ کے خلاف اُس کا غصہ بھی اُسی نسبت سے ترقی کر گیا.جب لشکر مدینہ کے قریب پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر اپنے باپ کا راستہ روک لیا اور کہا میں تم کو مدینہ کے اندر داخل نہیں ہونے دوں گا تا وقتیکہ تم وہ الفاظ واپس نہ لے لو جو تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف استعمال کئے ہیں.جس

Page 279

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۷ دیباچہ تفسیر القرآن منہ سے یہ بات نکلی ہے کہ خدا کا نبی ذلیل ہے اور تم معزز ہواُسی منہ سے تم کو یہ بات کہنی ہوگی کہ خدا کا نبی معزز ہے اور تم ذلیل ہو.جب تک تم یہ نہ کہو میں تمہیں ہرگز آگے نہ جانے دوں گا.عبداللہ بن ابی بن سلول حیران اور خوفزدہ ہو گیا اور کہنے لگا اے میرے بیٹے ! میں تمہارے ساتھ اتفاق کرتا ہوں ، محمد معزز ہے اور میں ذلیل ہوں.نوجوان عبد اللہ نے اس پر اپنے باپ کو چھوڑ دیا.۲۷۷ مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی غزوہ خندق اس سے پہلے یہود کے دو قبیلوں کا ذکر کیا جا چکا ہے جولڑائی ، فساد قتل اور قتل کرنے کے منصوبوں کی وجہ سے مدینہ سے جلا وطن کر دیئے گئے تھے.ان میں سے بنونضیر کا کچھ حصہ تو شام کی طرف ہجرت کر گیا تھا اور کچھ حصہ مدینہ سے شمال کی طرف خیبر نامی ایک شہر کی طرف ہجرت کر گیا تھا.خیبر عرب میں یہود کا ایک بہت بڑا مرکز تھا اور ایک قلعہ بند شہر تھا.یہاں جا کر بنو نضیر نے مسلمانوں کے خلاف عربوں میں جوش پھیلا نا شروع کیا.مکہ والے تو پہلے ہی مخالف تھے ، کسی مزید انگیخت کے محتاج نہ تھے.اسی طرح غطفان نامی نجد کا قبیلہ جو عرب کے قبیلوں میں بہت بڑی حیثیت رکھتا تھا وہ بھی مکہ والوں کی دوستی میں اسلام کی دشمنی پر آمادہ رہتا تھا.اب یہود نے قریش اور غطفان کو جوش دلانے کے علاوہ بنو سلیم اور بنوا سد دو اور زبردست قبیلوں کو بھی مسلمانوں کے خلاف اُکسانا شروع کیا اور اسی طرح بنو سعد نامی قبیلہ جو یہود کا حلیف تھا اُس کو بھی کفار مکہ کا ساتھ دینے کے لئے تیا ر کیا.ایک لمبی تیاری کے بعد عرب کے تمام زبر دست قبائل کے ایک اتحاد عام کی بنیا درکھ دی گئی جس میں مکہ کے لوگ بھی شامل تھے.مکہ کے اردگرد کے قبائل بھی تھے اور نجد اور مدینہ سے شمال کی طرف کے علاقوں کے قبائل بھی شامل تھے اور یہود بھی شامل تھے.ان سب قبائل نے مل کر مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے ایک زبر دست لشکر تیار کیا.یہ ماہ شوال ۵ ہجری آخر فروری و مارچ ۶۲۷ ء کا واقعہ ۲۸ مختلف مورخوں نے اس لشکر کا اندازہ دس ہزار سے چوبیس ہزار تک لگایا ہے.لیکن ظاہر ہے کہ تمام عرب کے اجتماع کا نتیجہ صرف دس ہزار سپاہی نہیں ہو سکتا یقیناً چوبیس ہزار والا ہے.

Page 280

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۸ دیباچہ تفسیر القرآن اندازہ زیادہ صحیح ہے اور اگر اور کچھ نہیں تو یہ لشکر اٹھارہ ہیں ہزار کا تو ضرور ہوگا.مدینہ ایک معمولی قصبہ تھا اس قصبہ کے خلاف سارے عرب کی چڑھائی کوئی معمولی نہیں تھی.مدینہ کے مرد جمع کر کے (جن میں بوڑھے، جوان اور بچے بھی شامل ہوں ) صرف تین ہزار آدمی نکل سکتے تھے اس کے برخلاف دشمن کی فوج ہیں اور چوبیس ہزار کے درمیان تھی اور پھر وہ سب کے سب فوجی آدمی تھے.جوان اور لڑنے کے قابل تھے.کیونکہ جب شہر میں رہ کر حفاظت کا سوال پیدا ہوتا ہے تو اس میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہو جاتے ہیں.مگر جب دُور دراز مقام پر لشکر چڑھائی کر کے جاتا ہے تو اُس میں صرف جوان اور مضبوط آدمی ہوتے ہیں.پس یہ بات یقینی ہے کہ کفار کے لشکر میں ہیں ہزار یا پچیس ہزار جتنے بھی آدمی تھے وہ سب کے سب مضبوط ، جوان اور تجربہ کار سپاہی تھے.لیکن مدینہ کے کل مردوں کی تعداد بچوں اور اپاہچوں کو ملا کر بمشکل تین ہزار ہوتی تھی.ظاہر ہے کہ ان امور کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر مدینہ کے لشکر کی تعداد تین ہزار سمجھی جائے تو دشمن کی تعداد چالیس ہزار مجھنی چاہئے اور اگر دشمن کے لشکر کی تعداد میں ہزار بھی جائے تو مدینہ کے سپاہیوں کی تعداد صرف ڈیڑھ ہزار فرض کرنی چاہئے.جب اس لشکر کے جمع ہونے اور حملہ کی تیاریوں کی خبر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے صحابہ کو جمع کر کے مشورہ کیا تھ کہ اس موقع پر کیا کرنا چاہئے.صحابہ میں سلمان فارسی سے جو سب سے پہلے فارسی مسلمان تھے دریافت فرمایا کہ تمہارے ملک میں ایسے موقع پر کیا کیا کرتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله! جب شہر بے حفاظت ہو اور سپاہی تھوڑے ہوں تو ہمارے ملک کے لوگ خندق کھود کر اُس کے اندر محصور ہو جایا کرتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی یہ تجویز پسند فرمائی.مدینہ کے ایک طرف ٹیلے تھے دوسری طرف ایسے محلے تھے جن کے مکانات ایک دوسرے سے پیوستہ تھے اور دشمن صرف چند گلیوں میں سے ہو کر آ سکتا تھا.تیسری طرف کچھ مکانات تھے اور کچھ باغات اور کچھ فاصلہ پر یہودی قبیلہ بنو قریظہ کے قلعے تھے.یہ قبیلہ چونکہ مسلمانوں سے اتحاد کا معاہدہ کر چکا تھا اس لیے یہ سمت بھی محفوظ سمجھ لی گئی تھی.چوتھی طرف کھلا میدان تھا اور اس طرف سے زیادہ خطرہ ہو سکتا تھا.رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ کیا کہ اس کھلے میدان کی طرف خندق بنات دی جائے تا کہ دشمن اچانک شہر میں داخل نہ ہو سکے.چنانچہ آپ نے دس دس گز کا حصہ کھولنے

Page 281

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶۹ دیباچہ تفسیر القرآن کیلئے دس دس آدمیوں کے سپرد کر دیا اور اس طرح قریباً ایک میل لمبی خندق کھدوائی.جب خندق کھودی جارہی تھی تو زمین میں سے ایک ایسا پتھر نکلا جو کسی طرح لوگوں سے ٹوٹتا نہیں تھا.صحابہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر دی تو آپ وہاں خود تشریف لے گئے.اپنے ہاتھ میں کدال پکڑا اور زور سے اُس پتھر پر مارا.کدال کے پڑنے سے اس پتھر میں سے روشنی نکلی اور آپ نے فرمایا.اللہ اکبر.پھر دوبارہ آپ نے کدال مارا تو پھر روشنی نکلی پھر آپ نے فرمایا.اللہ اکبر.پھر آپ نے تیسری دفعہ کدال مارا اور پھر پتھر سے روشنی نکلی اور ساتھ ہی پتھر ٹوٹ گیا.اس موقع پر پھر آپ نے فرمایا.اللهُ أَكْبَرُ.صحابہ نے آپ سے پوچھا.يَا رَسُولَ الله ! آپ نے تین دفعہ اللہ اکبر کیوں فرمایا ؟ آپ نے فرمایا پتھر پر کدال پڑنے سے تین دفعہ جو روشنی نکلی تو تینوں دفعہ خدا نے مجھے اسلام کی آئندہ ترقیات کا نقشہ دکھایا.پہلی دفعہ کی روشنی میں مملکت قیصر کے شام کے محلات دکھائے گئے اور اُس کی کنجیاں مجھے دی گئیں ، دوسری دفعہ کی روشنی میں مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے اور مملکت فارس کی کنجیاں مجھے دی گئیں، تیسری دفعہ کی روشنی میں صنعاء کے دروازے مجھے دکھائے گئے اور مملکت یمن کی کنجیاں مجھے دی گئیں.۲۷۹ پس تم خدا کے وعدوں پر یقین رکھو دشمن تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.یہ تھوڑے سے آدمی اتنی لمبی خندق فوجی اصول کے مطابق تو نہیں کھود سکتے تھے.پس یہ خندق اتنا ہی فائدہ دے سکتی تھی کہ دشمن اچانک اندر نہ گھس آئے ورنہ اس خندق سے پار ہونا دشمن کیلئے ناممکن نہیں تھا.چنانچہ آئندہ جو واقعات بیان ہوں گے اُن سے ایسا ہی ثابت ہوتا ہے کہ دشمن نے بھی مدینہ کے حالات کو مدنظر رکھ کر اُسی طرف سے حملہ کرنے کا فیصلہ کیا ہوا تھا.چنانچہ دشمن کا لشکر جرار اسی طرف سے مدینہ میں داخل ہونے کیلئے آگے بڑھا.رسول کریم ہے کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے بھی کچھ لوگوں کو شہر کے دوسرے حصوں کی حفاظت کیلئے مقرر کر دیا اور بقیہ آدمیوں کو ساتھ لے کر جو بارہ سو کے قریب تھے خندق کی حفاظت کیلئے تشریف لے گئے.غزوہ خندق کے وقت اسلامی اس موقع پر مسلمانوں کے لشکر کی تعداد کے بارہ میں مؤرخین میں سخت اختلاف ہے.بعض لوگوں لشکر کی اصل تعداد کیا تھی ؟ نے اس لشکر کی تعداد تین ہزارکھی ہے بعض نے

Page 282

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۰ دیباچہ تفسیر القرآن بارہ تیرہ سو اور بعض نے سات سو.یہ اتنا بڑا اختلاف ہے کہ اس کی تأویل بظا ہر مشکل معلوم ہوتی ہے اور مؤرخین اسے حل نہیں کر سکے.لیکن میں نے اس کی حقیقت کو پالیا ہے اور وہ یہ کہ تینوں قسم کی روایتیں درست ہیں.یہ بتایا جا چکا ہے کہ جنگ اُحد میں منافقین کے واپس آجانے کے بعد مسلمانوں کا لشکر صرف سات سو افراد پر مشتمل تھا.جنگ احزاب اس کے صرف دوسال کے بعد ہوئی ہے اور اس عرصہ میں کوئی بڑا قبیلہ اسلام لا کر مدینہ میں آکر نہیں بسا.پس سات سو آدمیوں کا یکدم تین ہزار ہو جانا قرین قیاس نہیں.دوسری طرف یہ امر بھی قرین قیاس نہیں کہ اُحد کے دو سال بعد تک باوجود اسلام کی ترقی کے قابل جنگ مسلمان اتنے ہی رہے جتنے اُحد کے وقت تھے.پس ان دونوں تنقیدوں کے بعد وہ روایت ہی درست معلوم ہوتی ہے کہ لڑنے کے قابل مسلمان جنگ احزاب کے وقت کوئی بارہ سو تھے.اب رہا یہ سوال کہ پھر کسی نے تین ہزار اور کسی نے سات سو کیوں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دو روایتیں الگ الگ حالتوں اور نظریوں کے ماتحت بیان کی گئی ہیں.جنگ احزاب کے تین حصے تھے ایک حصہ اس کا وہ تھا جب ابھی دشمن مدینہ کے سامنے نہ آیا تھا اور خندق کھودی جارہی تھی.اس کام میں کم سے کم مٹی ڈھونے کی خدمت بچے بھی کر سکتے تھے اور بعض عورتیں بھی اس کام میں مدد دے سکتی تھیں.پس جب تک خندق کھودنے کا کام رہا مسلمان لشکر کی تعداد تین ہزار تھی مگر اس میں بچے بھی شامل تھے اور صحابیہ عورتوں کے جوش کو دیکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس تعداد میں کچھ عورتیں بھی شامل ہوں گی جو خندق کھودنے کا کام تو نہیں کرتی ہوں گی مگر اوپر کے کاموں میں حصہ لیتی ہوں گی.یہ میرا خیال ہی نہیں تاریخ سے بھی میرے اس خیال کی تصدیق ہوتی ہے.چنانچہ لکھا ہے جب خندق کھودنے کا وقت آیا سب لڑکے بھی جمع کر لئے گئے اور تمام مرد خواہ بڑے تھے خواہ بچے ، خندق کھود نے یا اُس میں مدد دینے کا کام کرتے تھے ، پھر جب دشمن آ گیا اور لڑائی شروع ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن تمام لڑکوں کو جو پندرہ سال سے چھوٹی عمر کے تھے چلے جانے کا حکم دیا اور جو پندرہ سال کے ہو چکے تھے ، انہیں اجازت دی کہ خواہ ٹھہر میں خواہ چلے جائیں.۲۸۰ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ خندق کھود نے کے وقت مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی اور جنگ کے وقت کم ہو گئی کیونکہ نابالغوں کو واپس چلے جانے کا حکم دے دیا گیا تھا.پس جن

Page 283

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۱ دیباچہ تفسیر القرآن روایتوں میں تین ہزار کا ذکر آیا ہے وہ خندق کھودنے کے وقت کی تعداد بتاتی ہیں جس میں چھوٹے بچے بھی شامل تھے.اور جیسا کہ میں نے دوسری جنگوں پر قیاس کر کے نتیجہ نکالا ہے کچھ عورتیں بھی تھیں.لیکن بارہ سو کی تعداد اُس وقت کی ہے جب جنگ شروع ہو گئی اور صرف بالغ مردرہ گئے.اب رہا یہ سوال کہ تیسری روایت جو سات سو سپاہی بتاتی ہے کیا وہ بھی درست ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ روایت ابن اسحق مؤرخ نے بیان کی ہے جو بہت معتبر مؤرخ ہے اور ابن حزم جیسے زبردست عالم نے اس کی بڑے زور سے تصدیق کی ہے.پس اس کے بارہ میں بھی شبہ نہیں کیا جاسکتا.اور اس کی تصدیق اس طرح بھی ہوتی ہے کہ تاریخ کی مزید چھان بین سے معلوم ہوتا ہے کہ جب جنگ کے دوران میں بنو قریظہ کفار کے لشکر سے مل گئے اور اُنہوں کی نے یہ ارادہ کیا کہ مدینہ پر اچانک حملہ کر دیں اور اُن کی نیتوں کا راز فاش ہو گیا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی اس جہت کی حفاظت بھی ضروری کبھی جس سمت بنوقریظہ تھے اور جو سمت پہلے اس خیال سے بے حفاظت چھوڑ دی گئی تھی کہ بنو قریظہ ہمارے اتحادی ہیں یہ دشمن کو اس طرف سے نہ آنے دیں گے.چنانچہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ جب بنو قریظہ کے غدر کا حال معلوم ہوا تو چونکہ مستورات بنو قریظہ کے اعتبار پر اس علاقہ میں رکھی گئی تھیں جدھر بنو قریظہ کے قلعے تھے اور وہ بغیر حفاظت تھیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اب اُن کی حفاظت ضروری سمجھی اور دولشکر مسلمانوں کے تیار کر کے عورتوں کے ٹھہرنے کے دونوں حصوں پر مقرر فرمائے.مسلمہ ابن اسلم کو دو سو صحابہ دے کر ایک جگہ مقرر کیا اور زید بن حارثہؓ کو تین سو صحابہ دے کر دوسری جگہ مقرر کیا اور حکم دیا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ کے بعد بلند آواز سے تکبیر کہتے رہا کریں تا معلوم ہوتا رہے کہ عورتیں محفوظ ہیں.اس روایت سے ہماری یہ مشکل کہ سات سو سپاہی جنگ خندق میں ابن اسحاق نے کیوں بتائے ہیں حل ہو جاتی ہے.کیونکہ بارہ سو سپاہیوں میں.ނ جب پانچ سو سپاہی عورتوں کی حفاظت کے لئے بھجوا دیئے گئے تو بارہ سو کا لشکر صرف سات سو رہ گیا اور اس طرح جنگ خندق کے سپاہیوں کی تعداد کے متعلق جو شدید اختلاف تاریخوں میں پایا ای جاتا ہے وہ حل ہو گیا.

Page 284

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۲ دیباچہ تفسیر القرآن خلاصہ یہ کہ اس خطر ناک مصیبت کے وقت خندق کی حفاظت کے لئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صرف سات سو آدمی تھا.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ نے خندق کھو دی تھی لیکن پھر بھی اتنے بڑے لشکر کو خندق کے پار سے روکنا بھی اتنے تھوڑے آدمیوں کے لئے ناممکن تھا.مگر اللہ تعالیٰ کی مدد کے بھروسہ پر یہ قلیل لشکر ایمان اور یقین کے ساتھ خندق کے پیچھے دشمن کے جرار لشکر کا انتظار کرنے لگا اور عورتیں اور بچے دو الگ الگ جگہوں پر اکٹھے کر دیئے گئے.دشمن جب خندق تک پہنچا تو چونکہ یہ عرب کے لئے ایک بالکل نئی بات تھی اور اس قسم کی لڑائی کے لئے وہ تیار نہ تھے اُنہوں نے خندق کے سامنے اپنے خیمے لگا دیئے اور مدینہ میں داخل ہونے کی تدبیریں سوچنے لگے.بنو قریظہ کی غداری چونکہ مدینہ کا ایک کافی حصہ خندق سے محفوظ تھا اور دوسری طرف کچھ پہاڑی ٹیلے، کچھ پختہ مکانات اور کچھ باغات وغیرہ تھے ، اس لئے فوج یکدم حملہ نہیں کر سکتی تھی.پس اُنہوں نے مشورہ کر کے یہ تجویز کی کہ کسی طرح یہود کا تیسرا قبیلہ جو ابھی مدینہ میں باقی تھا اور جس کا نام بنو قریظہ تھا اپنے ساتھ ملا لیا جائے اور اس ذریعہ سے مدینہ تک پہنچنے کا راستہ کھولا جائے.چنانچہ مشورہ کے بعد حی ابن اخطب جو جلا وطن کرده ی بنونضیر کا سردار تھا اور جس کی ریشہ دوانیوں کی وجہ سے سارا عرب اکٹھا ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہوا تھا اُسے کفار کی فوج کے کمانڈر ابوسفیان نے اس بات پر مقرر کیا کہ جس طرح بھی ہو بنو قریظہ کو اپنے ساتھ شامل کرو، چنانچہ حیی ابن اخطب یہودیوں کے قلعوں کی طرف گیا اور اُس نے بنوقریظہ کے سرداروں سے ملنا چاہا.پہلے تو اُنہوں نے ملنے سے انکار کیا لیکن جب اُس نے اُن کو سمجھایا کہ اس وقت سارا عرب مسلمانوں کو تباہ کرنے کے لئے آیا ہے اور یہ بستی سارے عرب کا مقابلہ کسی صورت میں نہیں کر سکتی اس وقت جو لشکر مسلمانوں کے مقابل پر کھڑا ہے اُس کو لشکر نہیں کہنا چاہئے بلکہ ایک ٹھاٹھیں مارنے والا سمندر کہنا چاہئے تو ان باتوں سے اُس نے بنوقریظہ کو آخر غداری اور معاہدہ شکنی پر آمادہ کر دیا اور یہ فیصلہ ہوا کہ کفار کا لشکر سامنے کی طرف سے خندق پار ہونے کی کوشش کرے اور جب وہ خندق پار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے تو بنو قریظہ مدینہ کی دوسری طرف سے مدینہ کے اُس حصہ پر حملہ کر دیں گے جہاں عورتیں اور بچے

Page 285

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۳ دیباچهتفسیر القرآن ہیں جو بنو قریظہ پر اعتبار کر کے بغیر حفاظت کے چھوڑ دیئے گئے تھے اور اس طرح مسلمانوں کی مقابلہ کی طاقت بالکل پیچلی جائے گی اور ایک ہی دم میں مسلمان مرد، عورتیں اور بچے سب مار دیئے جائیں گے.یہ یقینی بات ہے کہ اگر اس تدبیر میں تھوڑی بہت کامیابی بھی کفار کو ہو جاتی تو مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ حفاظت کی باقی نہیں رہتی تھی.بنو قریظہ مسلمانوں کے حلیف تھے اور اگر وہ کھلی جنگ میں شامل نہ بھی ہوتے تب بھی مسلمان یہ امید کرتے تھے کہ اُن کی طرف سے ہو کر مدینہ پر کوئی حملہ نہیں کر سکے گا.اسی وجہ سے اُن کی طرف کا حصہ بالکل غیر محفوظ چھوڑ دیا گیا تھا.بنو قریظہ اور کفار نے بھی اس صورت حالات کا جائزہ لیتے ہوئے یہ فیصلہ کر دیا تھا کہ جب بنو قریظہ کفار کے ساتھ مل گئے تو وہ کھلے بندوں کفار کی مدد نہ کریں تا ایسا نہ ہو کہ مسلمان مدینہ کی اُس طرف کی حفاظت کا بھی کوئی سامان کرلیں جو بنو قویظہ کے علاقہ کے ساتھ ملتی تھی.یہ تدبیر نہایت ہی خطر ناک تھی.مسلمانوں کو غافل رکھتے ہوئے کسی ایسے وقت میں بنو قریظہ کا دشمن کے ساتھ جا ملنا جبکہ اسلامی فوج پر کفار کی فوج کا زبردست دھاوا ہو رہا ہو مدینہ کی اس طرف کی حفاظت کو جس طرف بنو قریظہ کے قلعے واقعہ تھے بالکل ناممکن بنا دیتا تھا.دوطرف سے مسلمانوں پر حملہ کر سکنے کا امکان پیدا ہو جانے کے بعد مکہ کے لشکر نے خندق پر حملہ شروع کیا.پہلے چند دن تو اُن کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ خندق سے کس طرح گزریں، لیکن دو چار دن کے بعد انہوں نے یہ تدبیر نکالی کہ تیرانداز اونچی جگہوں پر کھڑے ہو کر اُن مسلمان دستوں پر تیراندازی شروع کی کر دیتے تھے جو خندق کی حفاظت کے لئے خندق کے ساتھ ساتھ تھوڑے تھوڑے فاصلہ بٹھائے گئے تھے.جب تیروں کی بوچھاڑ کی وجہ سے مسلمان پیچھے ہٹنے پر مجبور ہو جاتے تو اعلیٰ درجہ کے گھوڑ سوار خندق کو پھاند نے کی کوشش کرتے.خیال کیا گیا تھا کہ اس قسم کے متواتر کی حملوں کے نتیجہ میں کوئی نہ کوئی جگہ ایسی نکل آئے گی کہ جہاں سے پیدل فوج زیادہ تعداد میں ہے خندق پار ہو سکے گی.یہ حملے اتنی کثرت کے ساتھ کئے جاتے تھے اور اس طرح متواتر کئے جاتے تھے کہ بعض دفعہ مسلمانوں کو سانس لینے کا بھی موقع نہیں ملتا تھا.چنانچہ ایک دن حملہ اتنا شدید ہو گیا کہ مسلمانوں کی بعض نمازیں وقت پر ادا نہ ہوسکیں جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپ نے فرمایا خدا کفار کو سزا دے اُنہوں نے ہماری نماز میں ضائع کیں.۲۸۱

Page 286

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۴ دیباچہ تفسیر القرآن گو میں نے یہ واقعہ دشمنوں کے حملوں کی شدت ظاہر کرنے کیلئے بیان کیا ہے، لیکن اس سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پر ایک بہت بڑی روشنی پڑتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ترین چیز آپ کے لئے خدا تعالیٰ کی عبادت تھی جبکہ دشمن چاروں طرف سے مدینہ کو گھیرے ہوئے تھا.جبکہ مدینہ کے مرد تو الگ رہے اُن عورتوں اور بچوں کی جانیں بھی خطرہ میں تھیں.جب ہر وقت مدینہ کے لوگوں کا دل دھڑک رہا تھا کہ دشمن کسی طرف سے مدینہ کے اندر داخل نہ ہو جائے اُس وقت بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش یہی تھی کہ خدا تعالیٰ کی عبادت اپنے وقت پر عمدگی کے ساتھ ادا ہو جائے.مسلمانوں کی عبادت یہودیوں اور عیسائیوں اور ہندوؤں کی طرح ہفتہ میں کسی ایک دن نہیں ہوا کرتی بلکہ مسلمانوں کی عبادت دن رات میں پانچ دفعہ ہوتی ہے.ایسے خطر ناک وقت میں تو دن میں ایک دفعہ بھی نماز ادا کرنا انسان کے لئے مشکل ہے چہ جائیکہ پانچ وقت اور پھر عمدگی کے ساتھ با جماعت نماز ادا کی جائے.مگر ان خطر ناک ایام میں بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ پانچوں نمازیں اپنے وقت پر ادا کرتے تھے اور اگر ایک دن دشمن کے شدید حملہ کی وجہ سے آپ اپنے رب کا نام اطمینان اور آرام سے اپنے وقت پر نہ لے سکے تو آپ کو شدید تکلیف پہنچی.اُس وقت سامنے سے دشمن حملہ کر رہا تھا اور پیچھے سے بنو قریظہ اس بات کی تاک میں تھے کہ کوئی موقع مل جائے تو بغیر مسلمانوں کے شبہات کو اُبھارنے کے وہ مدینہ کے اندر گھس کر عورتوں اور بچوں کو قتل کر دیں.چنانچہ ایک دن بنو قریظہ نے ایک جاسوس بھیجا تا کہ وہ معلوم کرے کہ عورتیں اور بچے اکیلے ہی ہیں یا کافی تعداد سپاہیوں کی اُن کی حفاظت کے لئے مقرر ہے.جس خاص احاطہ میں وہ خاص خاص خاندان جن کو دشمن سے زیادہ خطرہ تھا جمع کر دیئے گئے تھے اُس کے پاس اُس جاسوس نے آکر منڈلانہ اور چاروں طرف دیکھنا شروع کیا کہ مسلمان سپاہی کہیں اردگرد میں پوشیدہ تو نہیں ہیں.وہ ابھی اسی ٹوہ میں تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی حضرت صفیہ نے اُسے دیکھ لیا.اتفاقاً اُس وقت صرف ایک ہی مسلمان مرد وہاں موجود تھا اور وہ بھی بیمار تھا.حضرت صفیہ نے اُسے کہا کہ یہ آدمی دیر سے عورتوں کے علاقہ میں پھر رہا ہے اور جانے کا نام نہیں لیتا اور چاورں طرف دیکھتا پھرتا ہے پس یہ یقیناً جاسوس ہے

Page 287

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۵ دیباچہ تفسیر القرآن تم اس کا مقابلہ کرو ایسا نہ ہو کہ دشمن پورے حالات معلوم کر کے اِدھر حملہ کر دے.اُس بیمار صحابی نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا.تب حضرت صفیہ نے خود ایک بڑا بانس لے کر اُس شخص کا مقابلہ کیا اور دوسری عورتوں کی مدد سے اُس کو مارنے میں کامیاب ہو گئیں.۲۸۲ آخر تحقیقات سے معلوم ہوا کہ وہ یہودی تھا اور بنو قریظہ کا جاسوس تھا.تب تو مسلمان اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور سمجھے کہ اب مدینہ کی یہ طرف بھی محفوظ نہیں.مگر سامنے کی طرف سے دشمن کا اتنا زور تھا کہ اب وہ اس طرف کی حفاظت کا کوئی سامان نہیں کر سکتے تھے لیکن باوجود اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کی حفاظت کو مقدم سمجھا اور جیسا کہ او پر لکھا جا چکا ہے بارہ سو سپاہیوں میں سے پانچ سو کو عورتوں کی حفاظت کے لئے شہر میں مقرر کر دیا اور خندق کی حفاظت اور اٹھارہ ہیں ہزار شکر کے مقابلہ کے لئے صرف سات سو سپاہی رہ گئے.اس حالت میں بعض مسلمان گھبرا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کیا یا رَسُولَ الله! حالات نہایت خطرناک ہو گئے ہیں.اب بظاہر مدینہ کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی ، آپ اس وقت خدا تعالیٰ سے خاص طور پر دعا کریں اور ہمیں بھی کوئی دعا سکھلائیں جس کے پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کا فضل ہم پر نازل ہو.آپ نے فرمایا تم لوگ گھبراؤ نہیں تم اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرو کہ تمہاری کمزوریوں پر وہ پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور گھبراہٹ کو دور فرمائے.اور پھر آپ نے خود بھی اس طرح دعا فرمائی.اَللَّهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَبِ سَرِيعَ الْحِسَابِ اهْزِمِ الْأَحْزَابَ اللَّهُمَّ اهْزِمُهُمُ وَزَلْزِلَهُمْ ۸۳ اور اسی طرح یہ دعا فرمائی.يَا صَرِيحَ الْمَكْرُوبِينَ يَامُجِيبَ الْمُضْطَرِيْنَ اكشِفُ هَمِّي وَ غَمِّيُ وَكَرُبِى فَإِنَّكَ تَرى مَانَزَلَ بِى وَ بِاَصْحَا بِي " ۱۸۴ اے اللہ ! جس نے قرآن کریم مجھ پر نازل کیا ہے جو بہت جلدی اپنے بندوں سے حساب لے سکتا ہے یہ گروہ جو جمع ہو کر آئے ہیں ان کو شکست دے.اے اللہ ! میں پھر عرض کرتا ہوں کہ تو انہیں شکست دے اور ہمیں ان پر غلبہ دے اور اُن کے ارادوں کو متزلزل کر دے.اے دردمندوں کی دعا سننے والے! اے گھبراہٹ میں مبتلا لوگوں کی پکار کا جواب دینے والے ! میرے غم اور میری فکر اور میری گھبراہٹ کو دور کر کیونکہ تو ان مصائب کو جانتا ہے جو مجھے اور میرے ساتھیوں کو درپیش ہیں.

Page 288

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن اس موقع پر منافق تو اتنے گھبرا گئے منافقوں اور مؤمنوں کی حالت کا بیان کہ قومی حمیت اور اپنے شہر اور اپنی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا خیال بھی اُن کے دلوں سے نکل گیا.مگر چونکہ اپنی قوم کے سامنے وہ ذلیل بھی نہیں ہونا چاہتے تھے اس لئے اُنہوں نے بہانے بہانے سے لشکر سے فرار کی صورت سوچی.چنانچہ قرآن کریم میں آتا ہے.وَيَسْتأذن فَرِيقٌ مِنْهُمُ النَّبِيِّ يَقُولُونَ إنّ بيوتنا عَوْرَةُ : وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ : إن يُرِيدُونَ اِلَّا فِرَارًا ۲۸۵ یعنی ایک گروہ کی اُن میں سے رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور آپ سے اجازت طلب کی کہ اُنہیں محاذ جنگ سے پیچھے لوٹ آنے کی اجازت دی جائے.کیونکہ اُنہوں نے کہا ( اب یہودی بھی مخالف ہو گئے ہیں اور اُس طرف سے مدینہ کے بچاؤ کا کوئی ذریعہ نہیں ) اور ہمارے گھر اُس علاقہ کی طرف سے بے حفاظت کھڑے ہیں ( پس ہمیں اجازت دیجئے کہ جا کر اپنے گھروں کی حفاظت کریں ) لیکن اُن کا یہ کہنا کہ اُن کے گھر بے حفاظت کھڑے ہیں بالکل غلط ہے.وہ بے حفاظت نہیں ہیں کیونکہ خدا تعالی مدینہ کی حفاظت کیلئے کھڑا ہے ) وہ تو صرف ڈر کے مارے میدانِ جنگ سے بھاگنا چاہتے ہیں.اُس وقت مسلمانوں کی جو حالت تھی اُس کا نقشہ قرآن کریم نے یوں کھینچا ہے.اِذْ جَارُوكُمْ مِّن فَوْقِكُمْ وَ مِن أسْفَلَ مِنْكُمْ وَإِذْ زَاغَتِ الأَبْصَارُ و بلغت القلوبُ الحَنَاجِرَةِ تَظُنُّونَ بِاللهِ الظُّنُونَا هُنَالِكَ ابْتُلِي المُؤْمِنُونَ و زُلْزِلُوا زِلْزَالَا شَدِيدًا - وَ اِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مرض ما وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُؤلة إلّا غُرُورًا - وَ اِذْ قَالَتْ طَائِفَةً مِّنْهُمْ ياهل يثرب لا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا - ۲۸۶ یعنی یاد تو کرو جب تم پر لشکر چڑھ کے آ گیا تمہارے اوپر کی طرف سے بھی اور نیچے کی طرف سے بھی.یعنی نیچے کی طرف سے کفار اور اُوپر کی طرف سے یہود.جب کہ نظریں کج ہونے لگ گئیں اور دل اُچھل اچھل کر گلے تک آنے لگے اور تم میں سے کئی خدا کی نسبت بدظنیاں کرنے لگ گئے.اُس وقت مؤمنوں کے ایمان کا امتحان لیا گیا اور مؤمنوں کو سر سے پیر تک ہلا دیا گیا اور یاد کرو جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں مرض تھا اُنہوں نے کہنا شروع کیا اللہ اور اُس کے رسول نے ہم سے وو

Page 289

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۷ دیباچہ تفسیر القرآن جھوٹے وعدے کئے تھے اور یاد کرو جب اُن میں سے ایک گروہ اس حد تک پہنچ گیا کہ اُنہوں نے مؤمنوں سے بھی جا جا کر کہنا شروع کر دیا کہ اب کوئی چوکی یا قلعہ تمہیں بچا نہیں سکتا پس یہاں سے بھاگ جاؤ.اور مؤمنوں کی نسبت فرماتا ہے.وَلَمَّا رَا المُؤْمِنُونَ الْأَحْزَاتِ ، قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ، وَمَا ย زادَهُمْ الأرايْمَانًا وَتَسْلِيمًا - مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللهَ عليه : فَمِنْهُمْ مِّن قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مِّن يَنتَظِرُ وَمَا بَدِّلُوا تَبْدِيلًا ٢٨٧ یعنی منافقوں اور کمزور ایمان والوں کے مقابلہ میں مؤمنوں کا یہ حال تھا کہ جب اُنہوں نے دشمن کا یہ لشکر جرار دیکھا تو اُنہوں نے کہا کہ اس لشکر کے متعلق تو اللہ اور اس کے رسول نے پہلے سے ہی ہم کو خبر دے چھوڑی تھی.اس لشکر کا حملہ تو اللہ اور اس کے رسول کی صداقت کا ثبوت ہے اور یہ لشکر جرار اُن کے ایمان کو ہلا نہ سکا.بلکہ ایمان اور طاقت میں مسلمان اور بھی زیادہ ہو گئے.مؤمنوں کا تو یہ حال ہے کہ اُنہوں نے اللہ سے جو عہد کیا تھا اُس کو وہ پورے طور پر نبھاتی رہے ہیں چنانچہ کچھ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنی جانیں دے کر اپنے مقصد کو حاصل کر لیا اور بعض ایسے ہیں کہ گو اُن کو جانیں دینے کا موقع تو نہیں ملا مگر وہ ہر وقت اس بات کی انتظار میں رہتے ہیں کہ اُن کو خدا کے رستہ میں جان دینے کا موقع ملے تو وہ جان دے دیں اور شروع دن سے اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے جو عہد باندھا تھا اُس کو نبھا رہے ہیں.اسلام میں مردہ لاش کا احترام دشمن و خندق پرحملہ کر رہا تھا بعض وقت وہ اس کے پھاند نے میں کامیاب بھی ہو جاتا تھا ، چنانچہ ایک دن کفار کے بعض بڑے بڑے جرنیل خندق پھاند کر دوسری طرف آنے میں کامیاب ہو گئے.لیکن مسلمانوں نے ایسا جان تو رحملہ کیا کہ سوائے واپس جانے کے اُن کے لئے کوئی چارہ نہ رہا.چنانچہ اُس وقت خندق پھاندتے ہوئے کفار کا ایک بہت بڑا رئیس نوفل نامی مارا گیا.یہ اتنا بڑا رئیس تھا کہ کفار نے یہ خیال کیا کہ اگر اس کی لاش کی ہتک ہوئی تو عرب میں ہمارے لئے منہ دکھانے کی کوئی جگہ نہیں رہے گی.چنانچہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ اس کی لاش واپس کر دیں تو وہ دس ہزار درہم آپ کو دینے کے لئے تیار ہیں.

Page 290

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۷۸ دیباچہ تفسیر القرآن اُن لوگوں کا تو خیال یہ تھا کہ شاید جس طرح ہم نے مسلمان رؤساء بلکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے ناک اور کان اُحد کی جنگ میں کاٹ دیئے تھے اسی طرح شاید آج مسلمان ہمارے اس رئیس کے ناک، کان کاٹ کر ہماری قوم کی بے عزتی کریں گے.مگر اسلام کے احکام تو بالکل اور قسم کے ہیں.اسلام لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا.چنانچہ کفار کا پیغام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا.اس لاش کو ہم نے کیا کرنا تج ہے یہ لاش ہمارے کس کام کی ہے کہ اس کے بدلہ ہم تم سے کوئی قیمت لیں.اپنی لاش بڑے شوق سے اُٹھا کر لے جاؤ.ہمیں اس سے کوئی واسطہ نہیں.۲۸۸ اُن دنوں جس جوش کے ساتھ کفار حملہ کرتے اتحادی فوجوں کے مسلمانوں پر حملے تھے میور اُس کا اِن الفاظ میں ذکر کرتا ہے.وو دوسرے دن محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دیکھا کہ اتحادی فوجیں متفقہ طور پر اُن پر حملے کرنے کے لئے تیار کھڑی ہیں ، اُن کے حملوں کو روکنے کے لئے بہت زیادہ ہوشیار اور ہر وقت چوکس رہنا ضروری تھا.کبھی وہ متفقہ حملہ کرتے ، کبھی دستوں میں تقسیم ہو کر مختلف چوکیوں پر حملہ کرتے اور جب کسی چوکی کو کمزور پاتے تو اپنی ساری فوج اُس جگہ پر جمع کر لیتے اور بے پناہ تیراندازی کے پردہ میں وہ خندق پار کرنے کی کوشش کرتے تھے.یکے بعد دیگرے خالد اور عمر و جیسے مشہور لیڈروں کی ماتحتی میں فوج بہادرانہ حملہ شہر میں داخل ہونے کے لئے کرتی.ایک دفعہ تو خودمحمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا خیمہ دشمن کی زد میں آگیا لیکن مسلمانوں کے فدائیانہ مقابلہ اور تیروں کی بوچھاڑ نے حملہ آوروں کو پیچھے دھکیل دیا.یہ حملہ سارا دن جاری رہا اور چونکہ مسلمانوں کی فوج ساری مل کر بمشکل خندق کی حفاظت کر سکتی تھی کوئی آرام کا وقفہ مسلمانوں کو نہ ملا.رات پڑ گئی مگر رات کو بھی خالد کے ماتحت دستوں نے لڑائی کو جاری رکھا اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ رات کو بھی اپنی چوکیوں کی حفاظت پورے طور پر کر یں.لیکن دشمن کی یہ تمام کوششیں بریکار گئیں.خندق کو کبھی بھی دشمن کے کافی سپاہی پار نہ کر سکے.۲۸۹ لیکن باوجود اس کے کہ جنگ دو روز سے ہو رہی تھی سپاہی ایک دوسرے کے ساتھ گھ

Page 291

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹ دیباچہ تفسیر القرآن جانے کا موقع نہیں پاتے تھے اس لئے چوبیس گھنٹہ کی جنگ میں اتحادیوں کے صرف تین آدمی مارے گئے اور مسلمانوں کے پانچ.اس حملہ میں سعد بن معاذ اوس قبیلہ کے رئیس اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فدائی صحابی مُہلک طور پر زخمی ہوئے.ان حملوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک جگہ خندق کے کنارے ٹوٹ گئے اور اُس طرف سے حملہ کرنا بہت ممکن ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جرات اور مسلمانوں کی خیر خواہی کا یہ حال تھا کہ آپ سردی میں رات کو اُٹھ اُٹھ کر اُس جگہ جاتے اور اُس کا پہرہ دیتے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آپ پہرہ دیتے ہوئے تھک جاتے اور سردی سے نڈھال ہو جاتے تو واپس آکر تھوڑی دیر میرے ساتھ لحاف میں لیٹ جاتے ، مگر جسم کے گرم ہوتے ہی پھر اُس شگاف کی حفاظت کے لئے چلے جاتے.اس طرح متواتر جاگنے سے آپ ایک دن بالکل نڈھال ہو گئے اور رات کے وقت فرمایا کاش ! اِس وقت کوئی مخلص مسلمان ہوتا تو میں آرام سے سو جاتا.اتنے میں باہر سے سعد بن وقاص کی آوازی آئی.آپ نے پوچھا کہ کیوں آئے ہو؟ اُنہوں نے کہا آپ کا پہرہ دینے کو.آپ نے فرمایا مجھے پہرہ کی ضرورت نہیں تم فلاں جگہ جہاں خندق کا کنارہ ٹوٹ گیا ہے جاؤ اور اُس کا پہرہ دوتا مسلمان محفوظ رہیں.چنانچہ سعد اُس جگہ کا پہرہ دینے چلے گئے اور آپ سو گئے.۲۹۰ ( عجیب بات ہے کہ جب آپ شروع شروع میں مدینہ تشریف لائے تھے اور خطرہ بہت بڑھا ہوا تھا تب بھی سعد پہرہ دینے کے لئے تشریف لائے تھے ) انہی ایام میں آپ نے ایک دن کچھ لوگوں کے اسلحہ کی آواز سُنی اور پوچھا کون ہے؟ تو عباد بن بشیر نے کہا میں ہوں.آپ نے فرمایا تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ اُنہوں نے کہا ایک جماعت صحابہ کی ہے جو آپ کے خیمہ کا پہرہ دینے کے لئے آئے ہیں.آپ نے فرمایا اس وقت مشرکین خندق پھاند نے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں جاؤ اور اُن کا مقابلہ کرو میرے خیمہ کو رہنے دو.۲۹۱ بنو قریظہ کی مشرکوں سے مل کر حملہ جیسا کہ اوپر لکھا جا چکا ہے یہود نے مدینہ میں چوری چھپے داخل ہونے کی کوشش کی کے لئے تیاری اور اُس میں ناکامی اور اس میں اُن کا جاسوس مارا گیا.جب یہود کو یہ معلوم ہوا کہ اُن کی سازش ظاہر ہوگئی ہے تو اُنہوں نے زیادہ دلیری سے عربوں کی مدد کی

Page 292

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۰ دیباچہ تفسیر القرآن شروع کر دی.گو اجتماعی حملہ مدینہ کے پچھواڑے کی طرف سے نہیں کیا کیونکہ اُدھر میدان چھوٹا کی تھا اور مسلمانوں کی فوجوں کی موجودگی میں بڑا حملہ اُس طرف سے نہیں ہوسکتا تھا لیکن کچھ دن بعد دونوں فریق نے یہ فیصلہ کیا کہ ایک وقت مقررہ پر یہودیوں اور مشرکوں کے لشکر یکدم مسلمانوں پر حملہ کر دیں.مگر اُس وقت اللہ تعالیٰ کی تائید ایک عجیب طرح ظاہر ہوئی جس کی تفصیل یہ ہے.نعیم نامی ایک شخص غطفان کے قبیلہ کا دل میں مسلمان تھا.یہ شخص بھی کفار کے ساتھ آیا ہوا تھا لیکن اس بات کی انتظار میں تھا کہ اگر مجھے کوئی موقع ملے تو میں مسلمانوں کی مدد کروں.اکیلا انسان کر ہی کیا سکتا ہے.مگر جب اُس نے دیکھا کہ یہود بھی کفار سے مل گئے ہیں اور اب بظاہر مسلمانوں کی حفاظت کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تو اِن حالات سے وہ اتنا متاثر ہوا کہ اُس نے فیصلہ کر لیا کہ بہر حال مجھے اس فتنہ کے دور کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے.چنانچہ جب یہ فیصلہ ہوا کہ دونوں فریق مل کر ایک دن حملہ کریں تو وہ بنو قریظہ کے پاس گیا اور اُن کے رؤساء سے کہا کہ اگر عربوں کا لشکر بھاگ جائے تو بتاؤ مسلمان تمہارے ساتھ کیا کریں گے؟ تم مسلمانوں کے معاہد ہو اور معاہدہ کر کے اس کے توڑنے کے نتیجہ میں جو سزا تم کو ملے گی اُس کا قیاس کر لو.اُن کے دل کچھ ڈرے اور اُنہوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں؟ نعیم نے کہا جب عرب کی مشتر کہ حملہ کے لئے تم سے خواہش کریں تو تم مشرکین سے مطالبہ کرو کہ اپنے ۷۰ آدمی ہمارے پاس یرغمال کے طور پر بھیج دو وہ ہمارے قلعوں کی حفاظت کریں گے اور ہم مدینہ کے پچھواڑے سے اُس پر حملہ کر دیں گے.پھر وہ وہاں سے ہٹ کر مشرکین کے سرداروں کے پاس گیا اور اُن سے کہا کہ یہ یہود تو مدینہ کے رہنے والے ہیں اگر عین موقع پر یہ تم سے غداری کریں تو پھر کیا کرو گے؟ اگر یہ مسلمانوں کو خوش کرنے کے لئے اور اپنے جرم کو معاف کروانے کے لئے تم سے تمہارے آدمی بطور یر غمال مانگیں اور اُن کو مسلمانوں کے حوالے کر دیں تو پھر تم کیا کرو گے؟ تمہیں چاہئے کہ اُن کا امتحان لے لو کہ آیا وہ پکے رہتے ہیں یا نہیں اور جلد ہی اُن کو اپنے ساتھ با قاعدہ حملہ کرنے کی دعوت دو.کفار کے سرداروں نے اس مشورہ کو صحیح سمجھتے ہوئے دوسرے دن یہود کو پیغام بھیجا کہ ہم ایک اجتماعی حملہ کرنا چاہتے ہیں تم بھی اپنی فوجوں سمیت کل حملہ کر دو.بنوقریظہ نے کہا کہ اول تو کل ہمارا سبت کا دن ہے اس لئے ہم اس دن لڑائی نہیں کر

Page 293

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۱ دیباچهتفسیر القرآن سکتے.دوسرے ہم مدینہ کے رہنے والے ہیں اور تم باہر کے.اگر تم لوگ لڑائی چھوڑ کر چلے جاؤ گی تو ہمارا کیا بنے گا.اس لئے آپ لوگ ہمیں، ۷ آدمی یر غمال کے طور پر دیں گے تب ہم لڑائی میں شامل ہوں گے.کفار کے دل میں چونکہ پہلے سے شبہ پیدا ہو چکا تھا اُنہوں نے اُن کے اِس مطالبہ کو پورا کرنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ اگر تمہارا ہمارے ساتھ اتحا د سچا تھا تو اس قسم کے مطالبہ کے کوئی معنی نہیں.اس واقعہ سے اُدھر یہود کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اِدھر کفار کے دلوں میں شبہات پیدا ہونے لگے اور جیسا کہ قاعدہ ہے جب شبہات دل میں پیدا ہو جاتے ہیں تو بہادری کی روح بھی ختم ہو جاتی ہے.انہی شکوک وشبہات کو ساتھ لئے ہوئے کفار الشکر رات کو آرام کرنے کے لئے اپنے خیموں میں گیا، تو خدا تعالیٰ نے آسمانی نصرت کا ایک اور راستہ کھول دیا.رات کو ایک سخت آندھی چلی جس نے قناتوں کے پردے توڑ دیئے.چولہوں پر سے ہنڈیاں گرادیں اور بعض قبائل کی آگئیں بجھ گئیں.مشرکین عرب میں ایک رواج ی تھا کہ وہ ساری رات آگ جلائے رکھتے تھے اور اس کو وہ نیک شگون سمجھتے تھے.جس کی آگ بجھ جاتی تھی وہ خیال کرتا تھا کہ آج کا دن میرے لئے منحوس ہے اور وہ اپنے خیمے اُٹھا کر لڑائی کے میدان سے پیچھے ہٹ جاتا تھا.جن قبائل کی آگ بجھی اُنہوں نے اس رواج کے مطابق اپنے خیمے اُٹھائے اور پیچھے کو چل پڑے تا کہ ایک دن پیچھے انتظار کر کے پھر لشکر میں آشامل ہوں.لیکن چونکہ دن کے جھگڑوں کی وجہ سے سرداران لشکر کے دل میں شبہات پیدا ہو رہے تھے ، جو قبائل پیچھے ہٹے اُن کے اردگرد کے قبائل نے سمجھا کہ شاید یہود نے مسلمانوں کے ساتھ مل کر شبخون مار دیا ہے اور ہمارے آس پاس کے قبائل بھاگے جارہے ہیں.چنانچہ اُنہوں نے بھی جلدی جلدی اپنے ڈیرے سمیٹنے شروع کر دیئے اور میدان سے بھاگنا شروع کیا.ابوسفیان کی اپنے خیمہ میں آرام سے لیٹا تھا کہ اس واقعہ کی خبر اُسے بھی پہنچی.وہ گھبرا کے اپنے بندھے ہوئے اُونٹ پر جا چڑھا اور اُس کو ایڑیاں مارنی شروع کر دی.آخر اُس کے دوستوں نے اس کو توجہ دلائی کہ وہ یہ کیا حماقت کر رہا ہے.اس پر اُس کے اُونٹ کی رسیاں کھولی گئیں اور وہ بھی اپنے ساتھیوں سمیت میدان سے بھاگ گیا.۲۹۲ رات کے آخری ثلث میں وہ میدان جس میں پچیس ہزار کے قریب کفار کے سپاہی خیمہ زن کی.

Page 294

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۲ دیباچہ تفسیر القرآن تھے وہ ایک جنگل کی طرح ویران ہو گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اُس وقت اللہ تعالیٰ نے حج الہام کے ذریعہ بتایا کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے.آپ نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے کسی شخص کو بھیجنا چاہا اور اپنے اردگرد بیٹھے ہوئے صحابہ کو آواز دی.وہ سردی کے ایام تھے اور مسلمانوں کے پاس کپڑے بھی کافی نہ ہوتے تھے.سردی کے مارے زبانیں تک جمی جا رہی تھیں.بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنی اور ہم جواب بھی دینا چاہتے تھے مگر ہم سے بولا نہیں گیا.صرف ایک حذیفہ تھے جنہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا کام ہے؟ آپ نے فرمایا تم نہیں مجھے کوئی اور آدمی چاہئے.پھر آپ نے فرمایا کوئی ہے؟ مگر پھر سردی کی شدت کی وجہ سے جو جاگ بھی رہے تھے وہ جواب نہ دے سکے.حذیفہ نے پھر کہا میں يَا رَسُولَ الله! موجود ہوں.آخر آپ نے حذیفہ کو یہ کہتے ہوئے بجھوایا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ تمہارے دشمن کو ہم نے بھگا دیا ہے، جاؤ اور دیکھو کہ دشمن کا کیا حال ہے حذیفہ خندق کے پاس گئے اور دیکھا کہ میدان گلی طور پر دشمن کے سپاہیوں سے خالی تھا.واپس آئے اور کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کی اور بتایا کہ دشمن میدان چھوڑ کر بھاگ گیا ہے.صبح مسلمان اپنے خیمے اکھیڑ کر اپنے اپنے گھروں کی طرف آنے شروع ہوئے.۹۳ نہیں دنوں کے بعد مسلمانوں نے اطمینان کا ۲۹۳ بنو قریظہ کو اُن کی غداری کی سزا سانس لیا.مگراب بنوقریظہ کا معاملہ طے ہونے والا تھا.اُن کی غداری ایسی نہیں تھی کہ نظر انداز کی جاتی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس آتے ہی اپنے صحابہ سے فرمایا گھروں میں آرام نہ کرو بلکہ شام سے پہلے پہلے بنو قریظہ کے قلعوں تک پہنچ جاؤ اور پھر آپ نے حضرت علی کو بنو قریظہ کے پاس بجھوایا کہ وہ اُن سے پوچھیں کہ اُنہوں نے معاہدہ کے خلاف یہ غداری کیوں کی ؟ بجائے اس کے کہ بنو قریظہ شرمندہ ہوتے یا معافی مانگتے یا کوئی معذرت کرتے اُنہوں نے حضرت علیؓ اور اُن کے ساتھیوں کو بُرا بھلا کہنا شروع کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے خاندان کی مستورات کو گالیاں دینے لگے اور کہا ہم نہیں جانتے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا چیز ہیں ہمارا اُن کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں.حضرت علی اُن کا یہ جواب لے کر واپس لوٹے تو اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

Page 295

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۳ دیباچہ تفسیر القرآن صحابہ کے ساتھ یہود کے قلعوں کی طرف جا رہے تھے چونکہ یہود گندی گالیاں دے رہے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں اور بیٹیوں کے متعلق بھی ناپاک کلمات بول رہے تھے حضرت علی نے اس خیال سے کہ آپ کو ان کلمات کے سننے سے تکلیف ہوگی ، عرض کیا يَا رَسُولَ الله! آپ کیوں تکلیف کرتے ہیں ہم لوگ اس لڑائی کے لئے کافی ہیں، آپ واپس تشریف لے جائیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سمجھتا ہوں کہ وہ گالیاں دے رہے ہیں اور تم یہ نہیں چاہتے کہ میرے کان میں وہ گالیاں پڑیں.حضرت علیؓ نے عرض کیا ہاں يَا رَسُولَ الله! بات تو یہی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کیا ہوا اگر وہ گالیاں دیتے ہیں ، موسیٰ نبی تو ان کا اپنا تھا اس کو اس سے بھی زیادہ انہوں نے تکلیفیں پہنچائی تھیں.یہ کہتے ہوئے آپ یہود کے قلعوں کی طرف چلے گئے.مگر یہود دروازے بند کر کے قلعہ بند ہو گئے اور مسلمانوں کے ساتھ لڑائی شروع کر دی.حتی کہ اُن کی عورتیں بھی لڑائی میں شریک ہوئیں.چانچہ قلعہ کی دیوار کے نیچے کچھ مسلمان بیٹھے تھے کہ ایک یہودی عورت نے اوپر سے پتھر پھینک کر ایک مسلمان کو ماری دیا لیکن کچھ دن کے محاصرہ کے بعد یہود نے یہ محسوس کر لیا کہ وہ لمبا مقابلہ نہیں کر سکتے.تب اُن کے سرداروں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خواہش کی کہ وہ ابولبابہ انصاری کو جو اُن کے دوست اور اوس قبیلہ کے سردار تھے اُن کے پاس بھجوائیں تا کہ وہ اُن سے مشورہ کر سکیں.آپ نے ابولبابہ کو بجھوا دیا.ان سے یہود نے یہ مشورہ پوچھا کہ کیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مطالبہ کو کہ فیصلہ میرے سپرد کرتے ہوئے تم ہتھیار پھینک دو، ہم یہ مان لیں؟ ابولبابہ نے منہ سے تو کہا ہاں! لیکن اپنے گلے پر اس طرح ہاتھ پھیرا جس طرح قتل کی علامت ہوتی ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس وقت تک اپنا کوئی فیصلہ ظاہر نہیں کیا تھا مگر ابولبابہ نے اپنے دل میں یہ سمجھتے ہوئے کہ اُن کے اس جرم کی سزا سوائے قتل کے اور کیا ہوگی بغیر سوچے سمجھے اشارہ کے ساتھ اُن سے ایک بات کہہ دی جو آخر اُن کی تباہی کا موجب ہوئی.چنانچہ یہود نے کہہ دیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ مان لیتے تو دوسرے یہودی قبائل کی طرح اُن کو زیادہ سے زیادہ یہی سزا دی جاتی کہ اُن کو مدینہ سے جلا وطن کر دیا جاتا ، مگر اُن کی بد قسمتی تھی اُنہوں نے کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے کے لئے تیار نہیں ، بلکہ ہم اپنے کی

Page 296

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۴ دیباچہ تفسیر القرآن حلیف قبیلہ اوس کے سردار سعد بن معاذ کا فیصلہ مانیں گے.جو فیصلہ وہ کریں گے ہمیں منظور ہو گا.لیکن اُس وقت یہود میں اختلاف ہو گیا.یہود میں سے بعض نے کہا کہ ہماری قوم نے غداری کی ہے اور مسلمانوں کے رویہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اُن کا مذہب سچا ہے وہ لوگ اپنا تی مذہب ترک کر کے اسلام میں داخل ہو گئے.ایک شخص عمرو بن سعدی نے جو اس قوم کے سرداروں میں سے تھا اپنی قوم کو ملامت کی اور کہا کہ تم نے غداری کی ہے کہ معاہدہ تو ڑا ہے.اب یا مسلمان ہو جاؤ یا جزیہ پر راضی ہو جاؤ.یہود نے کہا نہ مسلمان ہوں گے نہ جزیہ دیں گے کہ اس سے قتل ہونا اچھا ہے.پھر اُن سے اُس نے کہا میں تم سے بُری ہوں.اور یہ کہہ کر قلعہ سے نکل کر باہر چل دیا.جب وہ قلعہ سے باہر نکل رہا تھا تو مسلمانوں کے ایک دستہ نے جس کے سردار محمد بن مسلمہ تھے اُسے دیکھ لیا اور اُس سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں فلاں ہوں.اس پر محمد بن مسلمہ نے فرمایا اللَّهُمَّ لَا تَحْرِمُنِي إِقَا لَةَ عَشَرَاتِ الْكِرَامِ - آپ سلامتی سے چلے جائیے اور پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ الہی ! مجھے شریفوں کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے نیک عمل سے کبھی محروم نہ کیجیو.یعنی یہ شخص چونکہ اپنے فعل پر اور اپنی قوم کے فعل پر پچھتاتا ہے تو ہمارا بھی اخلاقی فرض ہے کہ اُسے معاف کر دیں اس لئے میں نے اسے گرفتار نہیں کیا اور جانے دیا ہے.خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ ایسے ہی نیک کاموں کی توفیق بخشتا رہے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے محمد بن مسلمہ کو سرزنش نہیں کی کہ کیوں اُس یہودی کو چھوڑ دیا بلکہ اُس کے فعل کو سراہا.بنو قریظہ کے اپنے مقرر کردہ حکم یہ اوپر کے واقعات انفرادی تھے.بنو و ۲۹۴ یعنی قریطہ بحیثیت قوم اپنی ضد پر قائم رہے اور سعد کا فیصلہ تو رات کے مطابق تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم مانے سے انکار کرتے ہوئے سعد کے فیصلہ پر اصرار کیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے اس مطالبہ کو مان لیا.سعد کو جو جنگ میں زخمی ہو چکے تھے اطلاع دی کہ تمہارا فیصلہ بنو قریظہ تسلیم کرتے ہیں آکر فیصلہ کرو.اس تجویز کا اعلان ہوتے ہی اوس قبیلہ کے لوگ جو بنو قریظہ کے دیر سے حلیف چلے آئے تھے وہ سعد کے پاس دوڑ کر گئے اور اُنہوں نے اصرار کرنا شروع کیا

Page 297

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۵ دیباچہ تفسیر القرآن کہ چونکہ خزرج نے اپنے حلیف یہودیوں کو ہمیشہ سزا سے بچایا ہے آج تم بھی اپنے حلیف قبیلہ کے حق میں فیصلہ دینا.سعد زخموں کی وجہ سے سواری پر سوار ہو کر بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے اور ان کی قوم کے افراد اُن کے دائیں بائیں دوڑتے جاتے تھے اور سعد سے اصرار کرتے جاتے تھے کہ دیکھنا کی بنو قریظہ کے خلاف فیصلہ نہ دینا.مگر سعد نے صرف یہی جواب دیا کہ جس کے سپر د فیصلہ کیا جاتا ہی ہے وہ امانتدار ہوتا ہے اُسے دیانت سے فیصلہ کرنا چاہئے میں دیانت سے فیصلہ کروں گا.جب سعد یہود - د کے قلعہ کے پاس پہنچے جہاں ایک طرف بنو قریظہ قلعہ کی دیوار سے کھڑے سعد کا انتظار کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمان بیٹھے تھے ، تو سعد نے پہلے اپنی قوم سے پوچھا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو میں فیصلہ کروں گا وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ انہوں نے کہاں ہاں.پھر سعد نے بنو قریظہ کو مخاطب کر کے کہا کیا آپ لوگ وعدہ کرتے ہیں کہ جو فیصلہ میں کروں وہ آپ لوگ قبول کریں گے؟ اُنہوں نے کہا ہاں.پھر شرم سے دوسری طرف دیکھتے ہوئے نیچی نگاہوں سے اُس طرف اشارہ کیا جدھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف رکھتے تھے اور کہا ادھر بیٹھے ہوئے لوگ بھی یہ وعدہ کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں.اس کے بعد سعد نے بائبل کے حکم کے مطابق فیصلہ سنایا.۲۹۵ بائبل میں لکھا ہے: ’ اور جب تو کسی شہر کے پاس اُس سے لڑنے کے لئے آپہنچے تو پہلے اُس سے صلح کا پیغام کر.تب یوں ہوگا کہ اگر وہ تجھے جواب دے کہ صلح منظور اور دروازہ تیرے لئے کھول دے تو ساری خلق جو اُس شہر میں پائی جائے تیری خراج گزار ہوگی اور تیری خدمت کرے گی.اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کرے بلکہ تجھ سے جنگ کرے تو تو اس کا محاصرہ کر اور جب خداوند تیرا خدا اُسے تیرے قبضہ میں کر دے تو وہاں کے ہر ایک مرد کو تلوار کی دھار سے قتل کر.مگر عورتوں اور لڑکوں اور مواشی کو اور جو کچھ اُس شہر میں ہو اُس کا سارا لوٹ اپنے لئے لے.اور تو اپنے دشمنوں کی اُس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھے دی ہے کھا ئیو.اسی طرح سے تو اُن سب شہروں سے جو تجھ سے بہت دور ہیں اور ان قوموں کے شہروں میں سے نہیں ہیں یہی حال کیجیو.لیکن

Page 298

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۶ دیباچہ تفسیر القرآن ان قوموں کے شہروں میں جنہیں خداوند تیرا خدا تیری میراث کر دیتا ہے کسی چیز کو جو سانس لیتی ہے جیتا نہ چھوڑیو.بلکہ تو اُن کو حرم کیجیؤ.حتی اور اموری اور کنعانی اور فزری اور جوی اور بیوسی کو جیسا کہ خداوند تیرے خدا نے تجھے حکم کیا ہے تا کہ وے اپنے سارے کر یہ کاموں کے مطابق جو اُنہوں نے اپنے معبودوں سے کئے تم کو عمل کرنا نہ سکھائیں اور کہ تم خداوند اپنے خدا کے گنہگار ہو جاؤ“.۲۹۶ بائبل کے اس فیصلہ سے ظاہر ہے کہ اگر یہودی جیت جاتے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہار جاتے تو بائبل کے اس فیصلہ کے مطابق اول تو تمام مسلمان قتل کر دیے جاتے.مرد بھی اور عورت بھی اور بچے بھی.اور جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ یہودیوں کا یہی ارادہ تھا کہ مردوں ، عورتوں اور بچوں سب کو یکدم قتل کر دیا جائے لیکن اگر وہ اُن سے بڑی سے بڑی رعایت کرتے تب بھی کتاب استثناء کے مذکورہ بالا فیصلہ کے مطابق وہ اُن سے دُور کے ملکوں کی والی قوموں کا سا سلوک کرتے اور تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں اور لڑکوں اور سامانوں کی کولوٹ لیتے.سعد نے جو بنو قریظہ کے حلیف تھے اور اُن کے دوستوں میں سے تھے جب دیکھا کہ یہود نے اسلامی شریعت کے مطابق جو یقیناً اُن کی جان کی حفاظت کرتی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہیں کیا تو انہوں نے وہی فیصلہ یہود کے متعلق کیا جو موسیٰ نے استثناء میں پہلے سے ایسے مواقع کے لئے کر چھوڑا تھا اور اس فیصلہ کی ذمہ داری محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یا مسلمانوں پر نہیں، بلکہ موسیٰ پر اور تورات پر اور ان یہودیوں پر ہے جنہوں نے غیر قوموں کے ساتھ ہزاروں سال اس طرح معاملہ کیا تھا اور جن کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کے لئے بلایا گیا تو انہوں نے انکار کر دیا اور کہا ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ی ماننے کے لئے تیار نہیں ، ہم سعد کی بات مانیں گے.جب سعد نے موسی کے فیصلہ کے مطابق فیصلہ دیا تو آج عیسائی دنیا شور مچاتی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کیا.کیا عیسائی مصنف اس بات کو نہیں دیکھتے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی دوسرے موقع پر کیوں ظلم نہ کیا ؟ سینکڑوں دفعہ دشمن نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم پر اپنے آپ کو چھوڑا اور ہر دفعہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو معاف کر دیا.یہ ایک ہی موقع ہے کہ دشمن نے

Page 299

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۷ دیباچهتفسیر القرآن اصرار کیا کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو نہیں مانیں گے بلکہ فلاں دوسرے شخص کی کے فیصلہ کو مانیں گے اور اُس شخص نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے اقرار لے لیا کہ جو میں فیصلہ کروں گا اُسے آپ مانیں گے.اس کے بعد اُس نے فیصلہ کیا بلکہ اُس نے فیصلہ نہیں کیا اُس نے موسی کا فیصلہ دُہرا دیا جس کی اُمت میں سے ہونے کے یہود مدعی تھے.پس اگر کسی نے ظلم کیا تو یہود نے اپنی جانوں پر ظلم کیا.جنہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا.اگر کسی نے ظلم کیا تو موسی نے ظلم کیا جنہوں نے محصور دشمن کے متعلق تو رات میں خدا سے حکم پا کر یہی تعلیم دی تھی.اگر یہ ظلم تھا تو ان عیسائی مصنفوں کو چاہئے کہ موسی کو ظالم قرار دیں بلکہ موسی کے خدا کو ظالم قراردیں جس نے یہ تعلیم تو رات میں دی ہے.احزاب کی جنگ کے خاتمہ کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں کریں گے اب اسلام خود جواب دے گا اور ان اقوام پر جنہوں نے ہم پر حملے کئے اب ہم چڑھائی کریں گے.۲۹۷ چنانچہ ایسا ہی ہوا.احزاب کی جنگ میں بھلا کفار کا نقصان ہی کیا ہوا تھا چند آدمی مارے گئے تھے وہ دوسرے سال پھر دوبارہ تیاری کر کے آسکتے تھے.بیس ہزار کی جگہ وہ چالیس یا پچاس ہزار کا لشکر بھی لا سکتے تھے.بلکہ اگر وہ اور زیادہ انتظام کرتے تو لاکھ ڈیڑھ کا لشکر لانا بھی اُن کے لئے کوئی مشکل نہیں تھا.مگر اکیس سال کی متواتر کوشش کے بعد کفار کے دلوں کو محسوس ہو گیا تھا کہ خدا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہے.اُن کے بت جھوٹے ہیں اور دنیا کا پیدا کرنے والا ایک ہی خدا ہے.اُن کے جسم صحیح سلامت تھے مگر اُن کے دل ٹوٹ چکے تھے.بظاہر وہ اپنے بتوں کے آگے سجدہ کرتے ہوئے نظر آتے تھے مگر اُن کے دلوں میں سے لَا إِلهُ إِلَّا الله کی آوازیں اُٹھ رہی تھیں.

Page 300

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۸ دیباچہ تفسیر القرآن مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز.اس جنگ سے فارغ ہونے کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.آج سے کفار عرب ہم پرحملہ نہیں کریں گے، یعنی مسلمانوں کا ابتلاء اپنی آخری انتہاء کو پہنچ گیا ہے اور اب اُن کے غلبہ کا زمانہ شروع ہونے والا ہے.اس وقت تک جتنی جنگیں ہوئی تھیں وہ ساری کی ساری ایسی تھیں کہ یا تو کفار مدینہ پر چڑھ کے آئے تھے یا اُن کے حملوں کی تیاریوں کے روکنے کے لئے مسلمان مدینہ سے باہر نکلے تھے لیکن کبھی بھی مسلمانوں نے خود جنگ کو جاری رکھنے کی کوشش نہیں کی.حالانکہ جنگی قوانین کے لحاظ سے جب ایک لڑائی شروع ہو جاتی ہے تو اس کا کی اختتام دو ہی طرح ہوتا ہے یا صلح ہو جاتی ہے یا ایک فریق ہتھیار ڈال دیتا ہے لیکن اس وقت تک کی ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا جبکہ صلح ہوئی ہو یا کسی فریق نے ہتھیار ڈالے ہوں.پس گو پرانے زمانہ کے دستور کے مطابق لڑائیوں میں وقفہ پڑ جاتا تھا لیکن جہاں تک جنگ کے جاری رہنے کا سوال تھا وہ متواتر جاری تھی اور ختم نہ ہوئی تھی اس لئے مسلمانوں کا حق تھا کہ وہ جب بھی چاہتے کہ دشمن پر حملہ کر کے اُن کو مجبور کرتے کہ وہ ہتھیار ڈالیں.لیکن مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ جب وقفہ پڑتا تھا تو مسلمان بھی خاموش ہو جاتے تھے.شاید اس لئے کہ ممکن ہے کفار درمیان میں صلح کی طرح ڈالیں اور لڑائی بند ہو جائے.لیکن جب ایک لمبے عرصہ تک کفار کی طرف سے صلح کی تی تحریک نہ ہوئی اور نہ انہوں نے مسلمانوں کے سامنے ہتھیار ڈالے بلکہ اپنی مخالفت اور جوش میں ہے بڑھتے ہی چلے گئے تو اب وقت آگیا کہ لڑائی کا دوٹوک فیصلہ کیا جائے یا تو فریقین میں صلح ہوتی جائے یا دونوں میں سے ایک فریق ہتھیار ڈال دے تا کہ ملک میں امن قائم ہو جائے.پس ی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب کی جنگ کے بعد فیصلہ کر لیا کہ اب ہم دونوں فیصلوں میں سے ایک فیصلہ کر کے چھوڑیں گے یا تو ہماری اور کفار کی صلح ہو جائے گی یا ہم میں سے کوئی فریق ہتھیار ڈال دے گا.یہ تو ظاہر ہے کہ ہتھیار ڈال دینے کی صورت میں کفا ر ہی ہتھیار ڈال سکتے

Page 301

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۸۹ دیباچہ تفسیر القرآن تھے کیونکہ اسلام کے غلبہ کے متعلق تو خدا تعالیٰ کی طرف سے خبر مل چکی تھی اور مکی زندگی میں ہی کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسلام کے غلبہ کا اعلان کر چکے تھے.باقی رہی صلح تو صلح کے بارے میں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ صلح کی تحریک یا غالب کی طرف سے ہوا کرتی ہے یا مغلوب کی طرف سے.مغلوب فریق جب صلح کی درخواست کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ ملک کا کچھ حصہ یا اپنی آمدن کا کچھ حصہ مستقل طور پر یا عارضی طور پر غالب فریق کو دیا کرے گا یا بعضی اور صورتوں میں اس کی لگائی ہوئی قیود تسلیم کرے گا.اور غالب فریق کی طرف سے جب صلح کی تجویز پیش ہوتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہم تمہیں بالکل کچلنا نہیں چاہتے.اگر تم بعض صورتوں میں ہماری اطاعت یا ہماری ماتحتی قبول کر لو تو ہم تمہاری آزادانہ حیثیت یا نیم آزادانہ حیثیت کو قائم رہنے دیں گے.کفار مکہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جو مقابلہ تھا اس میں بار بار کفار کو شکست ہوئی تھی لیکن اس شکست کے محض اتنے معنی تھے کہ اُن کے حملے ناکام رہے تھے.حقیقی شکست وہ کہلاتی ہے جبکہ دفاع کی طاقت ٹوٹ جائے.حملہ نا کام ہونے کے معنی حقیقی شکست کے نہیں سمجھے جاتے.اس کے معنی صرف اتنے ہوتے ہیں کہ گو حملہ آور قوم کا حملہ ناکام رہا مگر پھر دوبارہ حملہ کر کے وہ اپنے مقصد کو پورا کرلے گی.پس جنگی قانون کے لحاظ سے مکہ والے مغلوب نہیں ہوئے تھے بلکہ اُن کی پوزیشن صرف یہ تھی کہ اب تک اُن کی جارحانہ کارروائیاں اپنے مقصد کو حاصل نہیں کر سکی تھیں.اس کے مقابلہ میں مسلمان جنگی لحاظ سے گوان کا دفاع نہیں ٹوٹا تھا مغلوب کہلانے کے مستحق تھے اس لئے کہ: اوّل تو وہ بہت چھوٹی اقلیت میں تھے.دوم اُنہوں نے اس وقت تک کوئی جارحانہ کارروائی نہیں کی تھی ، یعنی کسی حملہ میں خود ابتداء نہیں کی تھی جس سے یہ سمجھا جائے کہ اب وہ اپنے آپ کو کفار کے اثر سے آزاد سمجھتے ہیں.ان حالات میں مسلمانوں کی طرف سے صلح کی پیشکش کی کے صرف یہ معنی ہو سکتے تھے کہ وہ اب دفاع سے تنگ آگئے ہیں اور کچھ دے دلا کر اپنا پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں.ہر عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ان حالات میں اگر مسلمان صلح کی پیشکش کرتے تو اس کا نتیجہ نہایت ہی خطرناک ہوتا اور یہ امر اُن کی ہستی کے مٹا دینے کے مترادف ہوتا.اپنی جارحانہ کارروائیوں میں ناکامی کی وجہ سے کفار عرب میں جو بے دلی پیدا ہو گئی تھی اس صلح کی تھی

Page 302

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۰ دیا چه تفسیر القرآن پیشکش سے وہ فوراً ہی نئی امنگوں اور نئی آرزوؤں میں بدل جاتی اور یہ سمجھا جاتا کہ مسلمان با وجود مدینہ کو تباہی سے بچا لینے کے آخری کامیابی سے مایوس ہو چکے تھے.پس صلح کی تحریک مسلمانوں کی طرف سے کسی صورت میں بھی نہیں کی جاسکتی تھی.اگر کوئی صلح کی تحریک کر سکتا تھا تو یا مکہ والے کر سکتے تھے یا کوئی تیسری ثالث قوم کر سکتی تھی.مگر عرب میں کوئی ثالث قوم باقی نہیں رہی تھی.ایک طرف مدینہ تھا اور ایک طرف سارا عرب تھا.پس عملی طور پر کفار ہی تھے جو اس کی تجویز کو پیش کر سکتے تھے.مگر اُن کی طرف سے صلح کی کوئی تحریک نہیں ہو رہی تھی.یہ حالات اگر سو سال تک بھی جاری رہتے تو قوانین جنگ کے ماتحت عرب کی خانہ جنگی جاری رہتی.پس جبکہ مکہ کے لوگوں کی طرف صلح کی تجویز پیش نہیں ہوئی تھی اور مدینہ کے کفار عرب کی ماتحتی ماننے کے لئے کسی صورت میں تیار نہ تھے تو اب ایک ہی راستہ کھلا رہ جاتا تھا کہ جب مدینہ نے عرب کے متحدہ حملہ کو بریکار کر دیا تو خود مدینہ کے لوگ باہر نکلیں اور کفار عرب کو مجبور کر دیں کہ یا وہ اُن کی ماتحتی قبول کر لیں یا اُن سے صلح کر لیں.اور اسی راستہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا.پس گو یہ راستہ بظاہر جنگ کا نظر آتا ہے لیکن در حقیقت صلح کے قیام کے لئے اس کے سوا کوئی راستہ کھلا نہ تھا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہ کرتے تو ممکن ہے جنگ سو سال تک لمبی چلی جاتی جیسا کہ ایسے ہی حالات میں پرانے زمانہ میں جنگیں سو سو سال تک جاری رہی ہیں.خو د عرب کی کئی جنگیں تھیں تمھیں ، چالیس چالیس سال تک جاری رہی ہیں.ان جنگوں کی طوالت کی یہی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے ختم کرنے کے لئے کوئی ذریعہ اختیار نہیں کیا جاتا تھا اور جیسا کہ میں بتا چکا ہوں جنگ کے ختم کرنے کے دو ہی ذرائع ہوا کرتے ہیں یا ایسی جنگ لڑی جائے جو دوٹوک فیصلہ کر دے اور دونوں فریق میں سے کسی ایک کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرتی دے اور یا با ہمی صلح ہو جائے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک ایسا کر سکتے تھے کہ مدینہ میں بیٹھے رہتے اور خود حملہ نہ کرتے.لیکن چونکہ کفار عرب جنگ کی طرح ڈال چکے تھے آپ کے اموش بیٹھنے کے یہ معنی نہ ہوتے کہ جنگ ختم ہو گئی ہے بلکہ اس کے صرف یہ معنی ہوتے کہ جنگ کا دروازہ ہمیشہ کیلئے کھلا رکھا گیا ہے.کفار عرب جب چاہتے بغیر کسی اور محرک کے پیدا ہونے کے مدینہ پر حملہ کر دیتے اور اُس وقت تک کے دستور کے مطابق وہ حق پر سمجھے جاتے کیونکہ جنگ میں

Page 303

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۱ دیباچہ تفسیر القرآن وقفہ پڑ جانا اُس زمانہ میں جنگ کے ختم ہو جانے کے مترادف نہیں سمجھا جاتا تھا بلکہ وقفہ بھی جنگ ہی میں شمار کیا جاتا تھا.بعض لوگوں کے دلوں میں اس موقع پر یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ کیا ایک بچے مذہب کے لئے لڑائی کرنا جائز ہے؟ یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم دربارہ جنگ میں اس جگہ اس سوال کا جواب بھی دے دینا ضروری سمجھتا ہوں جہاں تک مذاہب کا سوال ہے لڑائی کے بارہ میں مختلف تعلیمیں ہیں.موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم لڑائی کے بارہ میں اوپر درج کر آیا ہوں.تو رات کہتی ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا گیا کہ وہ بزور کنعان میں گھس جائیں اور اُس جگہ کی قوموں کو شکست دے کر اس علاقہ میں اپنی قوم آباد کریں ۲۹۸ مگر باوجود اس کے کہ موسیٰ نے یہ تعلیم دی اور باوجود اس کے کہ یوشع ، داؤد اور دوسرے انبیاء نے اس تعلیم پر متواتر عمل کیا یہودی اور عیسائی اُن کو خدا کا نبی اور تو رات کو خدا کی کتاب سمجھتے ہیں.موسوی سلسلہ کے آخر میں حضرت مسیح ظاہر ہوئے اُن کی جنگ کے متعلق یہ تعلیم ہے کہ ظالم کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے ۲۹۹.اس سے استنباط کرتے ہوئے عیسائی قوم یہ دعوی کرتی ہے کہ مسیح نے لڑائی سے قوموں کو منع کیا ہے لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ انجیل میں اس تعلیم کے خلاف اور تعلیمیں بھی آئی ہیں.مثلاً انجیل میں لکھا ہے:.یہ مت سمجھو کہ میں زمین پر صلح کروانے آیا ہوں صلح کروانے نہیں بلکہ تلوار وو چلانے آیا ہوں ۳۰۰ اسی طرح لکھا ہے:.اُس نے اُنہیں کہا پر اب جس کے پاس بٹوا ہو لیوے اور اسی طرح جھولی بھی.اور جس کے پاس تلوار نہیں اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خریدے.۳۰۱ یہ آخری دو علیمیں پہلی تعلیم کے بالکل متضاد ہیں.اگر مسیح جنگ کرانے کے لیئے آیا تھا تو پھر ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کے کیا معنی تھے؟ پس یا تو یہ دونوں قسم کی متضاد ہیں

Page 304

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۲ دیباچہ تفسیر القرآن یا اِن دونوں تعلیموں میں سے کسی ایک کو اس کے ظاہر سے پھرا کر اس کی کوئی تاویل کرنی پڑے گی.میں اس بحث میں نہیں پڑتا کہ ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا گال پھیر دینے کی تعلیم قابل عمل ہے یا نہیں.میں اس جگہ پر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اول عیسائی دنیا نے اپنی ساری تاریخ میں جنگ سے دریغ نہیں کیا.جب عیسائیت شروع شروع میں روما میں غالب تھی تب بھی اُس نے غیر قوموں سے جنگیں کیں.دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی.اور اب جبکہ عیسائیت دنیا میں غالب آ گئی ہے اب بھی وہ جنگیں کرتی ہے.دفاعی ہی نہیں بلکہ جارحانہ بھی.صرف فرق یہ ہے کہ جنگ کرنے والوں میں سے جو فریق جیت جاتا ہے اُس کے متعلق کہہ دیا جاتا تھا کہ وہ کرسچن سویلز یشن کا پابند تھا.کرسچن سویلزیشن اس زمانہ میں صرف غالب اور فاتح کے طریق کا می نام ہے اور اس لفظ کے حقیقی معنی اب کوئی بھی باقی نہیں رہے.جب دو قو میں آپس میں لڑتی ہیں تو ہر قوم اس بات کی مدعی ہوتی ہے کہ وہ کرسچن سویلزیشن کی تائید کر رہی ہے اور جب کوئی قوم جیت جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ اس جیتی ہوئی قوم کا طریق کار ہی کر سچن سویلز بیشن ہے.مگر بہر حال مسیح کے زمانہ سے آج تک عیسائی دنیا جنگ کرتی چلی آرہی ہے اور قرائن بتاتے ہیں کہ جنگ کرتی چلی جائے گی.پس جہاں تک مسیحی دنیا کے فیصلہ کا تعلق ہے یہی معلوم ہوتا ہے کہ تم 66 اپنے کپڑے بیچ کر تلوار خرید و ” اور میں صلح کرانے کے لئے نہیں بلکہ تلوار چلانے کے لئے آب ہوں“.یہ اصل قانون ہے اور ” تو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دے“.یہ قانون یا تو ابتدائی عیسائی دنیا کی کمزوری کے وقت مصلحا اختیار کیا گیا تھا یا پھر عیسائی افراد کے باہمی تعلقات کی حد تک یہ قانون محدود ہے.حکومتوں اور قوموں پر یہ قانون چسپاں نہیں ہوتا.دوسرے اگر یہ بھی سمجھ لیا جائے کہ مسیح کی اصل تعلیم جنگ کی نہیں تھی بلکہ صلح ہی کی تھی تب بھی اس تعلیم سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ جو شخص اس تعلیم کے خلاف عمل کرتا ہے وہ خدا کا برگزیدہ نہیں ہوسکتا.کیونکہ عیسائی دنیا آج تک موسی اور یوشع اور داؤڑ کو خدا کا برگزیدہ قرار دیتی ہے بلکہ خود عیسائیت کے زمانہ کے بعض قومی ہیرو جنہوں نے اپنی قوم کے لئے جان کو خطرہ میں ڈال کر دشمنوں سے جنگیں کی ہیں مختلف زمانہ کے پوپوں کے فتویٰ کے مطابق آج سینٹ کہلاتے ہیں.

Page 305

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۳ دیباچہ تفسیر القرآن جنگ کے متعلق اسلام کی تعلیم اسلام ان دونوں قسم کی تعلیموں کے درمیان در میان تعلیم دیتا ہے یعنی نہ تو وہ موسی کی طرح کہتا ہے کہ تو جارحانہ طور پر کسی ملک میں گھس جا اور اُس قوم کو تہ تبلیغ کر دے اور نہ وہ اس زمانہ کی بگڑی ہوئی مسیحیت کی طرح ببانگِ بلند یہ کہتا ہے اگر کوئی تیرے ایک گال پر تھپڑ مارے تو تو اپنا دوسرا گال بھی اُس کی طرف پھیر دے.مگر اپنے ساتھیوں کے کان میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ تم اپنے کپڑے بیچ کر بھی تلوار میں خرید لو.بلکہ اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو فطرت کے عین مطابق ہے اور جو امن اور صلح کے قیام کے لئے ایک ہی ذریعہ ہو سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ تو کسی چیز پر حملہ نہ کر لیکن اگر کوئی شخص تجھ پر حملہ کرے اور اس کا مقابلہ نہ کرنا فتنہ کے بڑھانے کا موجب نظر آئے اور راستی اور امن اُس سے مٹتا ہو تب تو اس کے حملہ کا جواب دے.یہی وہ تعلیم ہے جس سے دنیا کی میں امن اور صلح قائم ہو سکتی ہے.اس تعلیم پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمل کیا.آپ مکہ میں برا بر تکلیفیں اُٹھاتے رہے، لیکن آپ نے لڑائی کی طرح نہ ڈالی.مگر جب مدینہ میں آپ ہجرت کر کے تشریف لے گئے اور دشمن نے وہاں بھی آپ کا پیچھا کیا تب خدا تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ چونکہ دشمن جارحانہ کارروائی کر رہا ہے اور اسلام کو مٹانا چاہتا ہے اس لئے راستی اور صداقت کے قیام کے لئے آپ اس کا مقابلہ کریں.قرآن کریم میں جو متفرق احکام اس بارہ میں آئے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں : (1) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.اذن للذين يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُواء وإن الله على تضرهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَق إلا أن يَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ ، وَلَوْلا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضُهُمْ بِبَعْضٍ لهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيه وَصَلوتَ وَمَسْجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللَّهِ كثِيرًا، وَليَنصُرَنَّ الله مَن يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُ الَّذِينَ إِنْ مكْتُهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَّوُا الزَّكُوةَ وَآمَرُوا بالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ، وَ لِلّهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ ۳۰۲ یعنی اس لئے کہ اِن ( مسلمانوں پر ظلم کیا گیا اور ان مسلمانوں کو جن سے دشمن نے لڑائی جاری کر رکھی ہے، آج کی )

Page 306

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۴ دیباچہ تفسیر القرآن جنگ کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اللہ یقیناً اُن کی مدد پر قادر ہے.ہاں ان مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دی جاتی ہے جن کو اُن کے گھروں سے بغیر کسی جرم کے نکال دیا گیا.اُن کا صرف اتنا ہی جرم تھا (اگر یہ کوئی جرم ہے ) کہ وہ یہ کہتے تھے کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اگر اللہ تعالیٰ بعض ظالم لوگوں کو دوسرے عادل لوگوں کے ذریعہ سے ظلم روکتا نہ رہے تو گر جے اور مناسڑیاں ۳۰۳ اور عبادت گاہیں اور مسجد میں جن میں خدا تعالیٰ کا نام کثرت سے لیا جاتا ہے ظالموں کے ہاتھ سے تباہ ہو جائیں ( پس دنیا میں مذہب کی آزادی قائم رکھنے کے لئے اللہ تعالی مظلوموں کو اور ایسی قوموں کو جن کے خلاف دشمن پہلے جنگ کا اعلان کر دیتا ہے جنگ کی اجازت دیتا ہے ) اور یقینا اللہ تعالیٰ اُن کی مدد کرتا ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کی مدد کرنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ یقیناً بڑی طاقت والا اور غالب ہے.ہاں اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اگر دنیا میں طاقت پکڑ جائیں تو خدا تعالیٰ کی عبادتوں کو قائم کریں گے اور غریبوں کی خبر گیری کریں گے اور نیک اور اعلیٰ اخلاق کی دنیا کو تعلیم دیں گے اور بُری باتوں سے دنیا کو روکیں گے اور ہر جھگڑے کا انجام وہی ہوتا ہے جو خدا چاہتا ہے.ان آیات میں جو مسلمانوں کو جنگ کی اجازت دینے کے لئے نازل ہوئی ہیں بتایا گیا ہے کہ جنگ کی اجازت اسلامی تعلیم کی رو سے اُسی صورت میں ہوتی ہے، جب کوئی قوم دیر تک کسی قوم کے ظلموں کا تختہ مشق بنی رہے اور ظالم قوم اس کے خلاف بلا وجہ جنگ کا اعلان کر دے اور اس کے دین میں دخل اندازی کرے اور ایسی مظلوم قوم کا فرض ہوتا ہے کہ جب اُسے طاقت ملے تو وہ مذہبی آزادی دے اور اس بات کو ہمیشہ مدنظر رکھے کہ خدا تعالیٰ اُس کو غلبہ بخشے تو وہ تمام مذاہب کی حفاظت کرے اور اُن کی مقدس جگہوں کے ادب اور احترام کا خیال رکھے اور اس کی غلبہ کو اپنی طاقت اور شوکت کا ذریعہ نہ بنائے بلکہ غریبوں کی خبر گیری ، ملک کی حالت کی درستی اور کی فساد اور شرارت کے مٹانے میں اپنی قوتیں صرف کرے.یہ کیسی مختصر اور جامع تعلیم ہے.اس میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت کیوں دی گئی ہے اور اگر اب وہ جنگ کریں گے تو وہ مجبوری کی وجہ سے ہوگی ورنہ جارحانہ جنگ اسلام میں منع ہے اور پھر کس طرح شروع میں بھی یہ کہہ دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو غلبہ ضرور ملے گا.مگر انہیں یا درکھنا چاہئے کہ

Page 307

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۵ دیباچہ تفسیر القرآن اُن کو اپنے غلبہ کے ایام میں بجائے حکومت سے اپنی جیبیں بھرنے کے اور اپنی حالت سدھارنے کے غرباء کی خبر گیری اور امن کے قیام اور فساد کے دور کرنے اور قوم اور ملک کو ترقی دینے کی کوشش کرنے کو اپنا مقصد بنانا چاہئے.(۲) پھر فرماتا ہے وَ قَاتِلُوا في سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تعتد و امان الله لا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ وَآخَرِجُوهُم مِّن حَيْثُ اخْرَجُوكُمْ وَالفِتْنَةُ اَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِج لا تُقتِلُوهُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّى يُقتِلُوكُمْ فِيهِ : فَإِن قَتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ كَذَلِكَ جَزَاءُ الْكَفِرِينَ - فَانِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللهَ فُورٌ رَّحِيمُ - وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةً وَيَكُونَ الدِّين يلو فإن انتهوا فَلا عُدْوَانَ إِلَّا عَلَى الظَّلِمِينَ - ۳۰۴ یعنی اُن لوگوں سے جو تم سے جنگ کر رہے ہیں تم بھی محض اللہ کی خاطر جس میں تمہارے اپنے نفس کا غصہ اور نفس کی ملونی شامل نہ کی ہو جنگ کرو اور یا درکھو کہ جنگ میں بھی کوئی ظالمانہ فعل اختیا ر مت کرنا کیونکہ اللہ تعالیٰ ظالموں کو بہر حال پسند نہیں کرتا.اور جہاں کہیں بھی تمہاری اور اُن کی جنگ کے ذریعہ سے مٹھ بھیٹر ہو جائے وہاں تم اُن سے جنگ کرو اور یونہی اکاڈ کا ملنے والے پر حملہ مت کرو.اور چونکہ انہوں نے تمہیں لڑائی کے لئے نکلنے پر مجبور کیا ہے تم بھی اُنہیں اُن کے جواب میں لڑائی کا چیلنج دو اور یاد رکھو کہ قتل اور لڑائی کی نسبت دین کی وجہ سے کسی کو دُکھ میں ڈالنا زیادہ خطر ناک گناہ ہے.پس تم ایسا طریق نہ اختیار کرو کیونکہ یہ بے دین لوگوں کا کام ہے.اور چاہئے کہ تم مسجد حرام کے پاس اُن سے اُس وقت تک جنگ نہ کرو جب تک وہ جنگ کی ابتدا نہ کریں کیونکہ اس سے حج کی اور عمرہ کے راستہ میں روک پیدا ہوتی ہے.ہاں اگر وہ خود ایسی جنگ کی ابتدا کریں تو پھر تم مجبور ہوا اور تمہیں جواب دینے کی اجازت ہے.جو لوگ عقل اور انصاف کے احکام کو ر ڈ کر دیتے ہیں اُن کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرنا پڑتا ہے.لیکن اگر انہیں ہوش آ جائے اور وہ اس بات سے رُک جائیں تو اللہ تعالیٰ بہت بخشنے والا مہربان ہے.اس لئے تم کو بھی چاہئے کہ ایسی صورت میں اپنے ہاتھوں کو روک لو اور اس خیال سے کہ یہ حملہ میں ابتدا کر چکے ہیں جوابی حملہ نہ کرو.اور چونکہ وہ کی

Page 308

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۶ دیباچہ تفسیر القرآن لڑائی شروع کر چکے ہیں تم بھی اُس وقت تک لڑائی کو جاری رکھو جب تک کہ دین میں دخل اندازی کرنے کے طریق کو وہ نہ چھوڑیں اور وہ تسلیم نہ کر لیں کہ دین کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس میں جبر کرنا کسی انسان کے لئے جائز نہیں.اگر وہ یہ طریق اختیار کر لیں اور دین میں دخل اندازی سے باز آجائیں تو فوراً لڑائی بند کر دو کیونکہ سزا صرف ظالموں کو دی جاتی ہے.اور اگر وہ اس قسم کے ظلم سے باز آ جا ئیں تو پھر اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں ہوسکتا.ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ:.اوّل: لڑائی صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہونی چاہئے یعنی ذاتی لالچوں ، ذاتی حرصوں ، ملک - کرنے کی نیت یا اپنے رسوخ کو بڑھانے کی نیت سے لڑائی نہیں ہونی چاہئے.دوم: لڑائی صرف اُسی سے جائز ہے جو پہلے حملہ کرتا ہے.سوم : انہی سے تم کو جنگ کرنی جائز ہے جو تم سے لڑتے ہیں یعنی جو لوگ با قاعدہ سپاہی نہیں اور لڑائی میں عملاً حصہ نہیں لیتے اُن کو مارنا یا اُن سے لڑائی کرنا جائز نہیں.چهارم: با وجود دشمن کے حملہ میں ابتدا کرنے کے لڑائی کو اُس حد تک محدود رکھنا چاہئے جس حد تک دشمن نے محدود رکھا ہے اور اُسے وسیع کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے نہ علاقہ کے لحاظ سے اور نہ ذرائع جنگ کے لحاظ سے.پنجم: جنگ صرف جنگی فوج کے ساتھ ہونی چاہئے یہ نہیں کہ دشمن قوم کے اکے ڈکے افراد کے ساتھ مقابلہ کیا جائے.ششم: جنگ میں اس امر کو مدنظر رکھنا چاہئے کہ مذہبی عبادتوں اور مذہبی فرائض کی ادائیگی میں روکیں پیدا نہ ہوں.اگر دشمن کسی ایسی جگہ پر جنگ کی طرح نہ ڈالے جہاں جنگ کرنے سے اُس کی مذہبی عبادتوں میں رخنہ ہوتا ہو تو مسلمانوں کو بھی اُس جگہ جنگ نہیں کرنی چاہئے.ہفتم: اگر دشمن خود مذہبی عبادت گاہوں کو لڑائی کا ذریعہ بنائے تو پھر مجبوری ہے ورنہ تم کو ایسا نہ کرنا چاہیے.اس آیت میں اس طرف اشارہ کیا ہے کہ عبادت گاہوں کے اردگرد بھی

Page 309

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۷ دیباچہ تفسیر القرآن لڑائی نہیں ہونی چاہئے کجا یہ کہ عبادت گاہوں پر حملہ کیا جائے یا وہ مسمار کی جائیں یا تو ڑی جائیں.ہاں اگر دشمن خود عبادت گاہوں کو لڑائی کا قلعہ بنالے تو پھر اُن کے نقصان کی ذمہ داری اُس پر ہے اس نقصان کی ذمہ داری مسلمانوں پر نہیں.ہشتم: اگر دشمن مذہبی مقاموں میں لڑائی شروع کرنے کے بعد اُس کے خطرناک نتائج کو سمجھ جائے اور مذہبی مقام سے نکل کر دوسری جگہ کو میدانِ جنگ بنالے تو مسلمانوں کو اس بہانہ سے اُن کے مذہبی مقاموں کو نقصان نہیں پہنچانا چاہئے کہ اس جگہ پر پہلے اُن کے دشمنوں نے لڑائی شروع کی تھی بلکہ فوراً اُن مقامات کے ادب اور احترام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنے حملہ کا رُخ بھی بدل دینا چاہئے.نم: لڑائی اُس وقت تک جاری رکھنی چاہئے جب تک کہ مذہبی دست اندازی ختم ہو جائے اور دین کے معاملہ کو صرف ضمیر کا معاملہ قرار دیا جائے.سیاسی معاملوں کی طرح اس میں دخل اندازی نہ کی جائے.اگر دشمن اس بات کا اعلان کر دے اور اس پر عمل کرنا شروع کر دے تو خواہ وہ حملہ میں ابتدا کر چکا ہو اُس کے ساتھ لڑائی نہیں کرنی چاہئے.(۳) فرماتا ہے قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ يَنْتَهُوا يُغْفَرُ لَهُم مَّا قَدْ سَلَفَ وَإِن يَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنتُ الأَوَّلِينَ - وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةُ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلّهِ فَإِنِ انْتَهَوا فَإِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ بَصِيرُ - وَإِن تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا انَّ اللهَ مَوْلَيكُمْ نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ - ۳۰۵ یعنی اے محمد رسول اللہ ! دشمن نے جنگیں شروع کیں اور تمہیں خدا تعالیٰ کے حکم سے اُن کا جواب دینا پڑا.مگر تو اُن میں اعلان کر دے کہ اگر اب بھی وہ لڑائی سے باز آجائیں تو جو کچھ وہ پہلے کر چکے ہیں انہیں معاف کر دیا جائے.لیکن اگر وہ لڑائی سے بازی نہ آئیں اور بار بار حملے کریں تو پہلے انبیاء کے دشمنوں کے انجام اُن کے سامنے ہیں انجام ان کا بھی وہی ہوگا.اور اے مسلمانو ! تم اُس وقت جنگ کو جاری رکھو کہ مذہب کی خاطر دُکھ دینا مٹ جائے اور دین کو کلی طور پر خدا تعالیٰ کے سپرد کر دیا جائے اور دین کے معاملہ میں دخل اندازی کرنا لوگ چھوڑ دیں.پھر اگر یہ لوگ ان باتوں سے باز آجائیں تو محض اس وجہ سے اُن سے

Page 310

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۸ دیباچہ تفسیر القرآن جنگ نہ کرو کہ وہ ایک غلط دین کے پیرو ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ان کے عمل کو جانتا ہے وہ خود جیسا کی چاہے گا ان سے معاملہ کرے گا تمہیں اُن کے غلط دین کی وجہ سے ان کے کاموں میں دخل دینے کی اجازت نہیں ہوسکتی.اگر ہمارے اس صلح کے اعلان کے بعد بھی جو لوگ جنگ سے باز نہ آئیں اور لڑائی جاری رکھیں تو خوب سمجھ لو کہ باوجود اس کے کہ تم تھوڑے ہو تم ہی جیتو گے کیونکہ ہے.اللہ تمہارا ساتھی ہے اور خدا تعالیٰ سے بہتر ساتھی اور بہتر مددگار اور کون ہوسکتا ہے.یہ آیات قرآن مجید میں جنگ بدر کے ذکر کے بعد آئی ہیں جو کفارِ عرب اور مسلمانوں کے درمیان سب سے پہلی باقاعدہ جنگ تھی.باوجود اس کے کہ کفارِ عرب نے بلا وجہ مسلمانوں پر حملہ کیا اور مدینہ کے ارد گر د فساد مچایا اور باوجود اس کے کہ مسلمان کامیاب ہوئے اور دشمن کے بڑے بڑے سردار مارے گئے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ یہی اعلان کروایا ہے کہ اگر اب بھی تم لوگ باز آجاؤ تو ہم لڑائی کو جاری نہیں رکھیں گے.ہم تو صرف اتنا چاہتے ہیں کہ جبر امذ ہب نہ بدلوائے جائیں اور دین کے معاملہ میں دخل نہ دیا جائے.ط (۴) فرماتا ہے وَاِنْ جَنْحُوا لِلسّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ا هُوَ السّمِيعُ الْعَلِيمُ - وَإِن يُرِيدُوا أَن يَخْدَعُوكَ فَإِنَّ حَسْبَكَ اللهُ هُوَ الَّذِي آيَدَكَ بِنَصْرِهِ وَبِالْمُؤْمِنِينَ ٣٠٦ یعنی اگر کسی وقت بھی کفار صلح کی طرف بس تو تو فوراً ان کی بات مان لیجیو اور صلح کر لیجیو اور یہ وہم مت كيجيو کہ شاید وہ دھو کا کر رہے ہوں بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل رکھیو.خدا تعالیٰ دعاؤں کو سننے والا اور سب کچھ جاننے والا ہے.اور اگر تیرا یہ خیال صحیح ہو کہ وہ دھوکا کرنا چاہتے ہیں اور وہ واقعہ میں تجھے دھوکا دینے کا ارادہ بھی رکھتے ہوں تو بھی یاد رکھ کہ ان کے دھوکا دینے سے بنتا کیا ہے.تجھے تو صرف اللہ کی مدد سے ہی کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں.اُس کی مدد تیرے لئے کافی ہے.گزشتہ زمانہ میں وہی اپنی براہِ راست مدد کے ذریعہ اور مؤمنوں کی مدد کے ذریعہ تیرا ساتھ دیتا رہا ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب دشمن صلح کرنے پر آمادہ ہو تو مسلمانوں کو بہر حال اس سے صلح کر لینی چاہئے.اگر صلح کے اصول کو وہ ظاہر میں تسلیم کرتا ہو تو صرف اس بہانہ سے صلح کو رڈ نہیں کرنا چاہئے کہ شاید دشمن کی نیت بد ہو اور بعد میں طاقت پکڑ کے دوبارہ حملہ کرنا چاہتا ہو.

Page 311

انوار العلوم جلد ۲۰ ۲۹۹ دیباچہ تفسیر القرآن ان آیتوں میں در حقیقت صلح حدیبیہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایک وقت ایسا کی آئے گا جب دشمن صلح کرنا چاہے گا اُس وقت تم اس عذر سے کہ دشمن نے زیادتی کی ہے یا یہ کہ وہ بعد میں اس معاہدہ کو توڑ دینا چاہتا ہے صلح سے انکار نہ کرنا کیونکہ نیکی کا تقاضا بھی یہی ہے اور تمہارا فائدہ بھی اس میں ہے کہ تم صلح کی پیشکش کو تسلیم کر لو.(۵) فرماتا ہے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا ضَرَبْتُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَتَبَيَّنُوا وَلَا تَقُولُوا الْقَى إِلَيْكُمُ السّلم لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُونَ عَرَضَ الحَيوةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللهِ مَغَانِمُ كَثِيرَةً، كَذَلِكَ كُنْتُمْ مِّن قَبْلُ فَمِّنَ اللهُ عَلَيْكُمْ فَتَبيّنوا ، إن الله كان بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا ٣٠٧ یعنی اے مومنو! جب تم خدا کی خاطر لڑائی کے لئے باہر نکلو تو اس بات کی اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ تمہارے دشمن پر حجت تمام ہو چکی ہے اور وہ بہر حال لڑائی پر آمادہ ہے اور اگر کوئی شخص یا جماعت تمہیں کہے کہ میں تو صلح کرتا ہوں تو یہ مت کہو کہ تو دھوکا دیتا ہے اور ہمیں اُمید نہیں کہ ہم تجھ سے امن میں رہیں گے.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تم خدا کی راہ میں لڑنے والے نہیں ہو گے بلکہ تم دنیا طلب قرار پاؤ گے.پس ایسا مت کرو کیونکہ جس طرح خدا کے پاس دین ہے اسی طرح خدا کے پاس دنیا کا بھی بہت سا سامان ہے.تمہیں یادرکھنا چاہئے کہ کسی شخص کا مار دینا اصل مقصود نہیں.تمہیں کیا معلوم ہے کہ کل کو وہ ہدایت پا جائے.تم بھی تو پہلے دین اسلام سے باہر تھے پھر اللہ تعالیٰ نے احسان کر کے تمہیں اس دین کے اختیار کرنے کی توفیق دی.پس مارنے میں جلدی مت کیا کرو بلکہ حقیقت حال کی تحقیق کیا کرو.یا د رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ جب لڑائی شروع ہو جائے تب بھی اس بات کی اچھی طرح کی تحقیق کرنی چاہئے کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ لڑائی کا ہے؟ کیونکہ ممکن ہے کہ دشمن جارحانہ لڑائی کا ارادہ نہ کرتا ہو بلکہ وہ خود کسی خوف کے ماتحت فوجی تیاری کر رہا ہو.پس پہلے اچھی طرح تحقیقات کر لیا کرو کہ دشمن کا ارادہ جارحانہ جنگ کا تھا تب اُس کے سامنے مقابلہ کے لئے آؤ.اور اگر وہ یہ کہے کہ میرا ارادہ تو جنگ کرنے کا نہیں تھا میں تو صرف خوف کی وجہ سے تیاری کر رہا

Page 312

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۰ دیباچہ تفسیر القرآن تھا تو تمہیں یہ نہیں کہنا چاہئے کہ نہیں تمہاری جنگی تیاری بتاتی ہے کہ تم ہم پر حملہ کرنا چاہتے تھے ہم کس طرح سمجھیں کہ ہم تم سے مامون اور محفوظ ہیں بلکہ اُس کی بات کو قبول کر لو اور یہ سمجھو کہ اگر پہلے اُس کا ارادہ بھی تھا تو ممکن ہے بعد میں اس میں تبدیلی پیدا ہوگئی ہو.تم خود اس بات کے زندہ گواہ ہو کہ دلوں میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے تم پہلے اسلام کے دشمن تھے مگر اب تم اسلام کے سپاہی ہو.(1) پھر دشمنوں سے عہد کے متعلق فرماتا ہے إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدَ ثُمْ مِّن الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَاتِمُّوا إليهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ، إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ٣٠٨ یعنی مشرکوں میں سے وہ جنہوں نے تم سے کوئی عہد کیا تھا اور پھر انہوں نے اُس عہد کو تو ڑا نہیں اور تمہارے خلاف تمہارے دشمنوں کی مدد نہیں کی ، عہد کی مدت تک تم بھی پابند ہو کہ معاہدہ کو قائم رکھو.یہی تقویٰ کی علامت ہے اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو پسند کرتا ہے.(۷) ایسے دشمنوں کے متعلق جو برسر جنگ ہوں لیکن اُن میں سے کوئی شخص اسلام کی حقیقت معلوم کرنا چاہے فرماتا ہے ان احد من المُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَاجِرَهُ حَتَّى مِّنَ يَسْمَع كَلمَ اللهِ ثُمَّ ابْلِغْهُ مَا مَنَه : ۳۰۹ یعنی اگر بر سر جنگ مشرکوں میں سے کوئی شخص اس لئے پناہ مانگے کہ وہ تمہارے ملک میں آکر اسلام کی تحقیقات کرنا چاہتا ہے تو اُس کو ضرور پناہ دو اتنے عرصہ تک کہ وہ اچھی طرح اسلام کی تحقیقات کر لے اور قرآن کریم کے مضامین سے واقف ہو جائے.پھر اس کو اپنی حفاظت میں اُس مقام تک پہنچا دو جہاں وہ جانا چاہتا ہے اور جسے اپنے لئے امن کا مقام سمجھتا ہے.(۸) جنگی قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے ان لِنَبِي أَن يَكُونَ لَه أشرى حتى يثخن في الأرض - - ا س یعنی کسی نبی کی شان کے مطابق یہ بات نہیں کہ وہ اپنے دشمن کے قیدی بنالے.سوائے اس کے کہ باقاعدہ جنگ میں قیدی پکڑے جائیں.یعنی یہ رواج جو اُس زمانہ تک بلکہ اس کے بعد بھی صدیوں تک دنیا میں قائم رہا ہے کہ اپنے دشمن کے آدمیوں کو بغیر جنگ کے ہی پکڑ کر قید کر لینا جائز سمجھا جاتا تھا اُسے اسلام پسند نہیں کرتا.وہی

Page 313

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۱ دیباچہ تفسیر القرآن لوگ جنگی قیدی کہلا سکتے ہیں جو میدانِ جنگ میں شامل ہوں اور لڑائی کے بعد قید کئے جائیں.(۹) پھر اُن قیدیوں کے متعلق فرماتا ہے فانا منَّا بَعْدُواما فداء - یعنی جب جنگی قیدی پکڑے جائیں تو یا تو احسان کر کے انہیں چھوڑ دو یا اُن کا بدلہ لے کے اُن کو آزاد کر دو.(۱۰) اگر کوئی قیدی ایسے ہوں جن کا بدلہ دینے والا کوئی نہ ہو یا اُن کے رشتہ دار اُن کے اموال پر قابض ہونے کیلئے یہ چاہتے ہوں کہ وہ قید ہی رہیں تو اچھا ہے تو اُن کے متعلق فرماتا ہے.والذين يبتغون الكتب مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خيرًا ۖ وَاتُوهُم مِّن مَّالِ اللهِ الَّذِي الكُمْ.۱۳۱۲ یعنی تمہارے جنگی قیدیوں میں سے ایسے لوگ جن کو نہ تم احسان کر کے چھوڑ سکتے ہو اور نہ اُن کی قوم نے اُن کا فدیہ دے کر اُنہیں آزاد کروایا ہے اگر وہ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ ہمیں آزاد کر دیا جائے ہم اپنے پیشہ اور ہنر کے ذریعہ سے روپیہ کما کر اپنے حصہ کا جرمانہ ادا کر دیں گے تو اگر وہ اس قابل ہیں کہ آزدانہ روزی کماسکیں تو تم ضرور اُنہیں آزاد کرد و بلکہ اُن کی کوشش میں خود بھی حصہ دار بنو اور خدا نے جو کچھ تمہیں دیا ہے اُس میں سے کچھ روپیہ اُن کے آزاد کرنے میں صرف کر دو یعنی اُن کے حصہ کا جو جنگی خرچ بنتا ہے یا اُس میں سے کچھ مالک چھوڑ دے یا دوسرے مسلمان مل کر اُس قیدی کی مالی امداد کریں اور اُسے آزاد کرائیں.یہ وہ حالات ہیں جن میں اسلام جنگ کی اجازت دیتا ہے اور یہ وہ قواعد ہیں جن کے ماتحت اسلام جنگ کی اجازت دیتا تھا.چنانچہ قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مزید تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:.کسی صورت میں مسلمانوں کو مثلہ کرنے کی اجازت نہیں ، یعنی مسلمانوں کو مقتولین جنگ کی ہتک کرنے یا اُن کے اعضاء کاٹنے کی اجازت نہیں ہے.مسلمانوں کو کبھی جنگ میں دھوکا بازی نہیں کرنی چاہئے.۳۱۴.کسی بچے کو نہیں مارنا چاہئے اور نہ کسی عورت کو.۳۱۵ے پادریوں ، پنڈتوں اور دوسرے مذہبی رہنماؤں کو قتل نہیں کرنا چاہئے.۳۱۶

Page 314

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن ۵.بڑھے کو نہیں مارنا چاہئے ، بچے کو نہیں مارنا چاہئے ، عورت کو نہیں مارنا چاہئے اور ہمیشہ صلح اور احسان کو مدنظر رکھنا چاہئے.۳۱۷ے.جب لڑائی کے لئے مسلمان جائیں تو اپنے دشمنوں کے ملک میں ڈر اور خوف پیدا نہ کریں اور عوام الناس پر سختی نہ کریں.۳۱۸ جب لڑائی کے لئے نکلیں تو ایسی جگہ پر پڑاؤ نہ ڈالیں کہ لوگوں کے لئے تکلیف کا موجب ہو اور کوچ کے وقت ایسی طرز پر نہ چلیں کہ لوگوں کیلئے رستہ چلنا مشکل ہو جائے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا سختی سے حکم دیا ہے کہ فرمایا جو شخص ان احکام کے خلاف کرے گا اُس کی لڑائی اُس کے نفس کے لئے ہوگی خدا کے لئے نہیں ہوگی.۳۱۹ے لڑائی میں دشمن کے منہ پر زخم نہ لگا ئیں.لڑائی کے وقت کوشش کرنی چاہئے کہ دشمن کو کم سے کم نقصان پہنچے.۱۰.جو قیدی پکڑے جائیں اُن میں سے جو قریبی رشتہ دار ہوں اُن کو ایک دوسرے سے جدا نہ کیا جائے.۳۲۰ ۱.قیدیوں کے آرام کا اپنے آرام سے زیادہ خیال رکھا جائے.۳۲۱ ۱۲.غیر ملکی سفیروں کا ادب اور احترام کیا جائے.وہ غلطی بھی کریں تو اُن سے چشم پوشی کی جائے.۳۲۲ ۱۳.اگر کوئی شخص جنگی قیدی کے ساتھ سختی کر بیٹھے تو اس قیدی کو بلا معاوضہ آزاد کر دیا جائے.۱۴.جس شخص کے پاس کوئی جنگی قیدی رکھا جائے وہ اُسے وہی کھلائے جو خود کھائے اور اُسے وہی پہنائے جو خود پہنے.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہی احکام کی روشنی میں مزید یہ حکم جاری فرمایا کہ عمارتوں کو گراؤ مت اور پھلدار درختوں کو کاٹومت.۳۲۳ ان احکام سے پتہ لگ سکتا ہے کہ اسلام نے جنگ کے روکنے کے لئے کیسی تدابیر اختیار کی ہیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس عمدگی کے ساتھ ان تعلیمات کو جامہ پہنایا اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ نہ موسی کی تعلیم اس زمانہ میں

Page 315

انوار العلوم جلد ۲۰ ٣٠٣ دیباچہ تفسیر القرآن عدل کی تعلیم کہلا سکتی ہے نہ وہ اس زمانہ میں قابل عمل ہے اور نہ مسیح کی تعلیم اس زمانہ میں تج قابل عمل کہلا سکتی ہے اور نہ کبھی عیسائی دنیا نے اس پر عمل کیا ہے.اسلام ہی کی تعلیم ہے جو قابل عمل ہے اور جس پر عمل کر کے دنیا میں امن قائم رکھا جا سکتا ہے.بیشک اس زمانہ میں مسٹر گاندھی نے دنیا کے سامنے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ جنگ کے وقت بھی جنگ نہیں کرنی چاہئے.لیکن جس تعلیم کو مسٹر گاندھی پیش کر رہے ہیں اُس پر دنیا میں کبھی عمل کی نہیں ہوا کہ ہم اُس کی بُرائی اور خوبی کا اندازہ کر سکیں.مسٹر گاندھی کی زندگی میں ہی کانگرس کو حکومت مل گئی ہے اور کانگرسی حکومت نے فوجوں کو ہٹایا نہیں بلکہ وہ یہ تجویزیں کر رہی ہے کہ آئی.این.اے کے وہ افسر جو برطانوی گورنمنٹ نے ہٹا دیئے تھے اُن کو دوبارہ فوج میں ملازم رکھا جائے.بلکہ کانگرسی حکومت کے ہندوستان میں قائم ہونے کے سات دن کے اندر وزیرستان کے علاقہ میں نہتے آدمیوں پر ہوائی جہازوں کے ذریعہ سے بم گرائے گئے ہیں.خودی گاندھی جی تشد دکرنے والوں کی تائید اور اُن کے چھوڑ دینے کے حق میں گورنمنٹ پر ہمیشہ زور دیتے رہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ گاندھی جی نہ اُن کے پیرو اس تعلیم پر عمل کر سکتے ہیں اور نہ کوئی ایسی معقول صورت دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں جس سے معلوم ہو کہ قوموں اور کی ملکوں کی جنگ میں اس تعلیم پر کس طرح کامیاب طور پر عمل کیا جا سکتا ہے.بلکہ منہ سے اس تعلیم کا وعظ کرتے ہوئے اُس کے خلاف عمل کرنا بتاتا ہے کہ اس تعلیم پر عمل نہیں کیا سکتا.پس اس وقت تک دنیا کا تجربہ ہے اور عقل جس حد تک انسان کی راہنمائی کرتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہی طریقہ صحیح تھا جومحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار کیا.اللَّهُمَّ صَلِّ عَـلــى مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ وَبَارِكْ وَسَلِّمُ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجید.کفار کی طرف سے جنگ خندق احزاب سے واپس لوٹنے کے بعد گوکفار کی ہمتیں ٹوٹ چکی تھیں اور اُن کے حوصلے پست کے بعد مسلمانوں پر حملے ہو گئے تھے لیکن اُن کا یہ احساس باقی تھا کہ ہم اکثریت میں ہیں اور مسلمان تھوڑے ہیں اور وہ سمجھتے تھے کہ جہاں جہاں بھی ہو گا ہم مسلمانوں کو

Page 316

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۴ دیباچہ تفسیر القرآن اکا دُکا پکڑ کر مار سکیں گے اور اس طرح اپنی ذلت کا بدلہ لے سکیں گے.چنانچہ احزاب کی کی شکست کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مدینہ کے اردگرد کے قبائل نے مسلمانوں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے.چنانچہ فزارہ قوم کے کچھ سواروں نے مدینہ کے قریب چھاپہ مارا اور مسلمانوں کی کے اونٹ جو وہاں چر رہے تھے اُن کے چرواہے کو قتل کیا، اُس کی بیوی کو قید کر لیا اور اونٹوں سمیت بھاگ گئے.قیدی عورت تو کسی نہ کسی طرح بھاگ آئی لیکن اونٹوں کا ایک حصہ لے کر بھاگ جانے میں دشمن کامیاب ہو گیا.اس کے ایک مہینہ بعد شمال کی طرف غطفان قبیلہ کے لوگوں نے مسلمانوں کے اونٹوں کے گلوں کو لوٹنے کی کوشش کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محمد بن مسلمہ کو دس سواروں سمیت حالات کے معلوم کرنے اور گلوں کی حفاظت کرنے کے لئے بجھوایا مگر دشمن نے موقع پا کر انہیں قتل کر دیا.محمد بن مسلمہ کو بھی وہ اپنی طرف سے قتل کر کے پھینک گئے تھے لیکن اصل میں وہ بیہوش تھے دشمن کے چلے جانے کے بعد وہ ہوش میں آئے اور مدینہ پہنچ کر ان حالات کی اطلاع دی اور بتایا کہ میرے سب ساتھی مارے گئے اور صرف میں بچا ہوں.کچھ دنوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک سفیر جو رومی حکومت کی طرف سے بھجوایا گیا تھا اُس پر جرہم قوم نے حملہ کیا اور اُسے لوٹ لیا.اس کے ایک مہینہ بعد بنو فزارہ نے مسلمانوں کے ایک قافلہ پر حملہ کیا اور اسے لوٹ لیا.غالبا یہ حملہ کسی مذہبی عداوت کی وجہ سے نہیں تھا کیونکہ بنو فزارہ ڈاکوؤں کا ایک قبیلہ تھا جو ہر قوم کے آدمیوں کو لوٹتے اور قتل کرتے رہتے تھے.اُس زمانہ میں خیبر کے یہودی بھی جو جنگ احزاب کا موجب ہوئے تھے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لئے ادھر اُدھر کے قبائل کو بھڑکاتے رہے اور رومی حکومت کے سرحدی علاقوں کے افسروں اور قبائل کو بھی مسلمانوں کے خلاف جوش دلاتے رہے.غرض کفار عرب کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تو ہمت نہ رہی تھی تاہم وہ یہود کے ساتھ مل کر سارے عرب میں مسلمانوں کے لئے مصیبتوں اور لوٹ مار کے سامان پیدا کر رہے تھے مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی تک کفار کے ساتھ آخری لڑائی لڑنے کا فیصلہ نہیں کیا تھا اور آپ اس انتظار میں تھے کہ اگر صلح کے ساتھ یہ خانہ جنگی ختم ہو جائے تو اچھا ہے.

Page 317

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۵ دیباچہ تفسیر القرآن پندرہ سو صحابہ کے ساتھ اس عرصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی مکہ کو روانگی ایک رؤیا دیکھی جس کا قرآن کریم میں ان آنحضرت ﷺ کی مکہ کو روانگی الفاظ میں ذکر آتا ہے.لَقَدْ صَدَقَ اللهُ رَسُولَهُ الرُّيَّا بِالْحَقِّ لَتَدْخُلُ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللهُ أَمِنِيْنَ مُحلِقِينَ رُءُوسَكُمْ وَ مُقَصِّرِينَ لا تَخَافُونَ ، فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذُلِكَ فَتْحًا قَرِيباً ۳۲۴ یعنی ضرور تم اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہو گے.تم میں سے بعضوں کے سرمنڈے ہوئے ہوں گے اور بعضوں کے بال کٹے ہوئے ہوں گے ( حج کے وقت سر منڈانا اور بال کٹانا ضروری ہوتا ہے ) تم کسی سے نہ ڈر رہے ہو گے.اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم نہیں جانتے.اس وجہ سے اُس نے اس خواب کے پورا ہونے سے پہلے ایک اور فتح مقرر کر دی ہے جو خواب والی فتح کا پیش خیمہ ہوگی.اس رؤیا میں در حقیقت صلح اور امن کے ساتھ مکہ کو فتح کرنے کی خبر دی گئی تھی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعبیر یہی سمجھی کہ شاید ہمیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کا حکم دیا گیا ہے اور چونکہ اس غلط فہمی سے اس قسم کی بنیاد پڑنے والی تھی اللہ تعالیٰ نے اس غلطی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ نہ کیا.چنانچہ آپ نے اپنے صحابہ میں اس بات کا اعلان کیا اور اُنہیں بھی اپنے ساتھ چلنے کی تلقین کی.مگر فرمایا ہم صرف طواف کی نیت سے جارہے ہیں کسی قسم کا مظاہرہ یا کوئی ایسی بات نہ کی جائے جو دشمن کی ناراضگی کا موجب ہو.چنانچہ آخر فروری ۶۲۸ ء میں پندرہ سو زائرین کے ساتھ آپ مکہ کی طرف روانہ ہوئے (ایک سال بعد کل پندرہ سو آدمیوں کا آپ کے ساتھ جانا بتاتا ہے کہ اس سے ایک سال پہلے جنگ احزاب کے موقع پر اس تعداد سے کم ہی سپاہی ہوں گے.کیونکہ ایک سال میں مسلمان بڑھے تھے گھٹے نہ تھے.پس جنگ احزاب میں لڑنے والوں کی تعداد جن مؤرخوں نے تین ہزار لکھی کی یہ غلطی کی ہے.درست یہی ہے کہ اُس وقت بارہ سو سپاہی تھے ) حج کے قافلہ کے آگے ہیں ہے یہ سوار کچھ فاصلہ پر اس لئے چلتے تھے تا کہ اگر دشمن مسلمانوں کو نقصان پہنچانا چاہے تو اُن کو وقت پر اطلاع مل جائے.جب مکہ والوں کو آپ کے اس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو باوجود اس کے کہ اُن

Page 318

انوار العلوم جلد ۲۰ ٣٠٦ دیباچہ تفسیر القرآن کا اپنا مذہب بھی یہی تھا کہ طواف کعبہ میں کسی کے لئے روک نہیں ڈالنی چاہئے اور باوجود اسے کے کہ مسلمانوں نے وضاحت سے اعلان کر دیا تھا کہ وہ صرف اور صرف طواف کعبہ کے لئے جار ہے ہیں کسی قسم کی مخالفت یا جھگڑے کے لئے نہیں جار ہے مکہ والوں نے مکہ کو ایک قلعہ کی صورت میں تبدیل کر دیا اور اردگرد کے قبائل کو بھی اپنی مدد کے لئے بلوایا.جب آپ مکہ کے قریب پہنچے تو آپ کو یہ اطلاع ملی کہ قریش نے چیتوں کی کھالیں پہن لی ہیں اور اپنی بیویوں اور بچوں کو ساتھ لے لیا ہے اور یہ قسمیں کھالی ہیں کہ وہ آپ کو گزرنے نہیں دیں گے.یہ عرب کا رواج تھا کہ جب قوم موت کا فیصلہ کر لیتی تھی تو اس کے سردار چیتے کی کھالیں پہن لیتے تھے جس کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اب عقل کا وقت نہیں رہا ، اب دلیری اور جرات سے ہم جان دے دیں گے.اس اطلاع کے ملنے کے تھوڑی دیر بعد ہی مکہ کی فوج کا ہراول دستہ مسلمانوں کے سامنے آکھڑا ہوا اب اس مقام سے صرف اسی صورت میں آگے بڑھا جا سکتا تھا کہ تلوار کے زور سے دشمن کو زیر کیا جاتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ بہر حال ہم نہیں لڑیں گے،آپ نے ایک ہوشیار راہبر کو جو جنگل کے راستوں سے واقف تھا اُسے اس بات پر مقرر کیا کہ وہ جنگل کے اندر سے مسلمان زائرین کو لے کر مکہ تک پہنچا دے.یہ راہبر آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو لے کر حدیبیہ کے مقام پر جو مکہ کے قریب تھا جا پہنچا.یہاں آپ کی اونٹنی کھڑی ہوگئی اور اُس نے آگے چلنے سے انکار کر دیا.صحابہ نے کہايَا رَسُولَ اللہ ! آپ کی اونٹنی تھک گئی ہے آپ اس کی جگہ دوسری اونٹنی پر بیٹھ جائیں.مگر آپ نے فرمایا.نہیں نہیں یہ تھکی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم یہاں ٹھہر جائیں اور میں یہیں ٹھہر کر مکہ والوں سے ہر طریقہ سے درخواست کروں گا کہ وہ ہمیں حج کی اجازت دے دیں اور خواہ کوئی شرط بھی وہ کریں میں اُسے منظور کر لوں گا.اُس وقت تک مکہ کی فوج مکہ سے دور فاصلہ پر کھڑی تھی اور ی مسلمانوں کا انتظار کر رہی تھی.اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو بغیر مقابلہ کے مکہ میں داخل ہو سکتے تھے.لیکن چونکہ آپ یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ پہلے آپ یہی کوشش کریں گے کہ مکہ والوں کی اجازت کے ساتھ طواف کریں اور اُسی صورت میں مقابلہ کریں گے کہ مکہ والے خود لڑائی شروع کر کے لڑنے پر مجبور کریں.اس لئے باوجود مکہ کی سڑک کے کھلا ہونے کے آپ

Page 319

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۷ دیباچہ تفسیر القرآن نے حدیبیہ پر ڈیرہ ڈال دیا.تھوڑی ہی دیر میں یہ خبر کہ آپ حدیبیہ پر ڈیرے ڈالے پڑے ہیں مکہ کے لشکر کو بھی جا پہنچی اور اُس نے جلدی سے پیچھے ہٹ کر مکہ کے قریب صفیں بنا لیں.سب سے پہلے بدیل نامی ایک سردار آپ سے بات کرنے کے لئے بھیجا گیا.جب وہ آپ کی خدمت کی میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا.میں تو صرف طواف کرنے کے لئے آیا ہوں.ہاں مکہ والے اگر ہمیں مجبور کریں تو ہمیں لڑنا پڑے گا.اس کے بعد مکہ کے کمانڈر ابوسفیان کا داماد عروہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے نہایت گستاخانہ طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر کہا کہ یہ اُوباشوں کا گروہ آپ اپنے ساتھ لے کر آئے ہیں مکہ والے انہیں کسی صورت میں بھی اپنے شہر میں داخل ہونے نہیں دیں گے.اسی طرح یکے بعد دیگرے پیغامبر آتے رہے.آخر مکہ والوں نے کہلا بھیجا کہ خواہ کچھ ہو جائے اس سال تو ہم آپ کو طواف نہیں کرنے دیں گے کیونکہ اس میں ہماری ہتک ہے.ہاں اگر آپ اگلے سال آئیں تو ہم آپ کو اجازت دے دیں گے.بعض اردگرد کے لوگوں نے مکہ والوں سے اصرار کیا کہ یہ لوگ صرف طواف کے لئے آئے ہیں آپ ان کو کیوں روکتے ہیں مگر مکہ کے لوگ اپنی ضد پر قائم رہے.اس پر بیرونی قبائل کے لوگوں نے مکہ والوں سے کہا کہ آپ لوگوں کا یہ طریق بتاتا ہے کہ آپ کو شرارت مد نظر ہے صلح مد نظر نہیں اس لئے ہم لوگ آپ کا ساتھ دینے کے لئے تیار نہیں.اس پر مکہ کے لوگ ڈر گئے اور اُنہوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ سمجھوتہ کی کوشش کریں گے.جب اس امر کی اطلاع رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے حضرت عثمان کو جو بعد میں آپ کے تیسرے خلیفہ ہوئے مکہ والوں سے بات چیت کرنے کے لئے بھیجا.جب حضرت عثمان مکہ پہنچے تو چونکہ مکہ میں اُن کی بڑی وسیع رشتہ داری تھی اُن کے رشتہ دار اُن کے گرد اکٹھے ہو گئے اور اُن سے کہا کہ آپ طواف کر لیں لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگلے سال آکر طواف کریں.مگر عثمان نے کہا کہ میں اپنے آقا کے بغیر طواف نہیں کرسکتا.چونکہ رو سائے مکہ سے آپ کی گفتگو لمبی ہو گئی ، مکہ میں بعض لوگوں نے شرارت سے یہ خبر پھیلا دی کہ عثمان کو قتل کر دیا گیا ہے اور یہ خبر پھیلتے پھیلتے رسول اللہ صلی علیہ وسلم تک بھی جا پہنچی.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو جمع کیا اور فرمایا سفیر کی جان ہر قوم میں محفوظ ہوتی ہے.

Page 320

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۸ دیباچ تفسیر القرآن تم نے سنا ہے کہ عثمان کو مکہ والوں نے مار دیا ہے اگر یہ خبر درست نکلی تو ہم بزور مکہ میں داخل کی ہوں گے ( یعنی ہمارا پہلا ارادہ کہ صلح کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے جن حالات کے ماتحت تھا وہ چونکہ تبدیل ہو جائیں گے اس لئے ہم اس ارادہ کے پابند نہ رہیں گے ) جو لوگ یہ عہد کرنے کے لئے تیار ہوں کہ اگر ہمیں آگے بڑھنا پڑا تو یا ہم فتح کر کے لوٹیں گے یا ایک ایک کر کے میدان میں مارے جائیں گے وہ اس عہد پر میری بیعت کریں.آپ کا یہ اعلان کرنا تھا کہ پندرہ سو زائر جو آپ کے ساتھ آیا تھا یکدم پندرہ سو سپاہی کی شکل میں بدل گیا اور دیوانہ وار ایک دوسرے پر پھاندتے ہوئے اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر دوسروں سے پہلے بیعت کرنے کی کوشش کی.یہ بیعت تمام اسلامی تاریخ میں بہت بڑی اہمیت رکھتی ہے اور درخت کا عہد نامہ کہلاتی ہے کیونکہ جس وقت یہ بیعت لی گئی اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے.جب تک اس بیعت میں شامل ہونے والا آخری آدمی بھی دنیا میں زندہ رہا وہ فخر سے اس بیعت کا ذکر کیا کرتا تھا.کیونکہ پندرہ سو آدمیوں میں سے ب شخص نے بھی یہ عہد کرنے سے دریغ نہ کیا تھا کہ اگر دشمن نے اسلامی سفیر کو مار دیا ہے تو آج دوصورتوں میں سے ایک ضرور پیدا کر کے چھوڑیں گے.یا وہ شام سے پہلے پہلے مکہ کو فتح کر کے چھوڑیں گے یا شام سے پہلے پہلے میدانِ جنگ میں مارے جائیں گے.لیکن ابھی بیعت سے مسلمان فارغ ہی ہوئے تھے کہ حضرت عثمان واپس آگئے اور اُنہوں نے بتایا کہ مکہ والے اس سال تو عمرہ کی اجازت نہیں دے سکتے مگر آئندہ سال اجازت دینے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ اس بارہ میں معاہدہ کرنے کے لئے اُنہوں نے اپنے نمائندے مقرر کر دیئے ہیں.حضرت عثمان کے آنے کے تھوڑی دیر بعد مکہ کا ایک رئیس سہیل نامی معاہدہ کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ معاہدہ لکھا گیا.شرائط صلح حدیبیه خدا کے نام پر یہ شرائط صلح محمد ابن عبد اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور سہیل ابن عمر و ( قائمقام حکومت مکہ کے درمیان طے پائی ہیں.جنگ دس سال کے لئے بند کی جاتی ہے.جو شخص محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ ملنا چاہے یا اُن کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ ایسا کر سکتا ہے.3-

Page 321

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۰۹ دیباچہ تفسیر القرآن اور جو شخص قریش کے ساتھ ملنا چاہے یا معاہدہ کرنا چاہے وہ بھی ایسا کرسکتا ہے.اگر کوئی لڑکا جس کا باپ زندہ ہو یا ابھی چھوٹی عمر کا ہو وہ اپنے باپ یا متولی کی مرضی کے بغیر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جائے تو اس کے باپ یا متولی کے پاس واپس کر دیا جائے گا لیکن اگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھیوں میں سے کوئی قریش کی طرف جائے تو اُسے واپس نہیں کیا جائے گا.محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس سال مکہ میں داخل ہوئے بغیر واپس چلے جائیں گے لیکن اگلے سال محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اور ان کے ساتھی مکہ میں آسکتے ہیں اور تین دن تک وہاں ٹھہر کر کعبہ کا طواف کر سکتے ہیں اس عرصہ میں قریش شہر سے باہر پہاڑی پر چلے جائیں گے.لیکن یہ شرط ہوگی کہ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اور اُن کے ساتھی مکہ میں داخل ہوں تو اُن کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو سوائے اُس ہتھیار کے جو ہر مسافر اپنے پاس رکھتا ہے یعنی نیام میں ڈالی ہوئی تلوار.۳۲۵ اس معاہدہ کے وقت دو عجیب باتیں ہوئیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شرائط طے کرنے کے بعد معاہدہ لکھوانا شروع کیا تو آپ نے فرمایا ” خدا کے نام سے جو بے انتہاء کرم 66 66 کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.سہیل نے اس پر اعتراض کیا اور کہا خدا کو تو ہم جانتے ہیں لیکن یہ بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہم نہیں جانتے کون ہے.یہ معاہدہ ہمارے اور آپ کے درمیان ہے اور اس میں دونوں کے مذاہب کا احترام ضروری ہے.اس پر آپ نے اُس کی بات قبول کر لی اور صرف اتنا ہی لکھوایا کہ خدا کے نام پر ہم یہ معاہدہ کرتے ہیں.پھر آپ نے یہ لکھوایا کہ یہ شرائط صلح مکہ والوں اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہیں.اس پر پھر سہیل نے اعتراض کیا اور کہا کہ اگر ہم آپ کو خدا کا رسول مانتے تو آپ کے ساتھ لڑتے کیوں؟ آپ نے اُس کے اس اعتراض کو بھی قبول کر لیا اور بجائے محمد رسول اللہ کے ” محمد بن عبداللہ لکھوایا.چونکہ آپ مکہ والوں کی ہر بات مانتے چلے جاتے تھے ، صحابہ کے دل میں بے انتہاء رنج اور افسوس پیدا ہوا اور غصہ سے اُن کا خون کھولنے لگا یہاں تک کہ حضرت عمرؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا ہم سچے نہیں؟ آپ نے فرمایا ہاں! پھر اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا آپ کو خدا نے یہ نہیں بتایا تھا جی

Page 322

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۰ دیا چه تفسیر القرآن کہ ہم خانہ کعبہ کا طواف کریں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں ! اس پر حضرت عمرؓ نے کہا پھر آپ نے یہ معاہدہ آج کیوں کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر ! خدا تعالیٰ نے مجھے یہ تو فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف امن سے کریں گے مگر یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ ہم اسی سال کریں گے یہ تو میرا اپنا اجتہا تھا.اسی طرح بعض دوسرے صحابہؓ نے یہ اعتراض کیا کہ یہ اقرار کیوں کر لیا گیا ہے کہ اگر مکہ کے لوگوں میں سے کوئی نوجوان مسلمان ہوا تو اس کے باپ یا ولی کی طرف واپس کر دیا جائے گا لیکن جو مسلمان مکہ والوں کی طرف جائے گا اُسے مکہ والے واپس کرنے پر مجبور نہ ہوں گے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس میں کون سے حرج کی بات ہے ہر شخص جو مسلمان ہوتا ہے وہ اسلام کو سچا سمجھ کر مسلمان ہوتا ہے رسمی اور رواجی طور پر مسلمان نہیں ہوتا.ایسا شخص جہاں بھی رہے گا وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اور اسلام کی اشاعت کا موجب ہوگا لیکن جو شخص اسلام سے مرتد ہوتا ہے ہم نے اُسے اپنے اندر رکھ کر کرنا کیا ہے.جو شخص ہمارے مذہب کو جھوٹا سمجھ بیٹھا ہے وہ ہمارے لئے کس فائدہ کا موجب ہوسکتا ہے.آپ کا یہ جواب ان غلطی خوردہ مسلمانوں کا بھی جواب ہے جو کہتے ہیں کہ اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہے.اگر اسلام میں مرتد کی سزا قتل ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات پر اصرار کرتے کہ ہر مرتد واپس کیا جائے تا کہ اُس کو اُس کے جرم کی سزادی جائے.جس وقت یہ معاہدہ لکھ کرختم ہوا اور اس پر دستخط کر دیئے گئے.اُسی وقت اللہ تعالیٰ نے اس معاہدہ کی صحت کے پر کھنے کا سامان پیدا کر دیا.سہیل جو مکہ والوں کی طرف سے معاہدہ کر رہا تھا اس کا اپنا بیٹا رسیوں سے جکڑا ہوا اور زخموں سے چور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آکر گرا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں دل سے مسلمان ہوں اور اسلام کی وجہ سے میرا باپ مجھے یہ تکلیفیں دے رہا ہے.میرا باپ یہاں آیا می تو میں موقع پا کر آپ کے پاس پہنچا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابھی جواب نہ دیا تھا کہ اس کے باپ نے کہا معاہدہ ہو چکا ہے اور اِس نوجوان کو واپس میرے ساتھ جانا ہوگا.ابو جندل کی حالت اُس وقت مسلمانوں کے سامنے تھی وہ اپنے ایک بھائی کو جو اپنے باپ کے ہاتھوں سے اس قدر ظلم برداشت کر رہا تھا واپس جانا دیکھ نہیں سکتے تھے.اُنہوں نے تلوار میں میانوں سے نکال لیں اور اس بات کا فیصلہ کر لیا کہ وہ مر جائیں گے مگر اپنے بھائی کو اس تکلیف کی

Page 323

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۱ دیباچہ تفسیر القرآن کے مقام پر پھر جانے نہیں دیں گے.خود ابو جندل نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ يَارَسُول اللہ ! آپ میری حالت کو دیکھتے ہیں کیا آپ اس بات کو گوارا کریں گے کہ پھر مجھے ان ظالموں کے سپرد کر دیں تاکہ پہلے سے بھی زیادہ مجھ پر ظلم توڑیں! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کے رسول معاہدے نہیں تو ڑا کرتے.ابو جندل ! ہم معاہدہ کر چکے ہیں تم اب صبر سے کام لو اور خدا پر توکل کرو وہ تمہارے لیے اور تمہارے جیسے اور نوجوانوں کے لئے خود ہی بچنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا.۳۲۶ اس معاہدے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لے گئے.جب آپ مدینہ پہنچے تو مکہ کا ایک اور نوجوان ابو بصیر آپ کے پیچھے پیچھے دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بھی معاہدہ کے مطابق واپس جانے پر مجبور کیا مگر راستہ میں اُس کی اپنے پکڑنے والوں سے لڑائی ہو گئی اور اپنے ایک محافظ کو قتل کر کے وہ بھاگ گیا.مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے فرمایا ہم نے تمہارا آدمی تمہارے حوالے کر دیا تھا ہم اس بات کے ذمہ دار نہیں کہ وہ جہاں کہیں بھی ہو ہم اُس کو پکڑ کر دوبارہ تمہارے سپرد کریں.۳۲۷ اس کے تھوڑے دنوں بعد ایک عورت بھاگ کر مدینہ پہنچی.اس کے رشتہ داروں نے مدینہ پہنچ کر اُسے واپس بھجوانے کا مطالبہ کیا.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا معاہدہ میں مردوں کی شرط ہے عورتوں کی شرط نہیں اس لئے ہم عورت کو واپس نہیں کریں گے.۳۲۸ بادشاہوں کے نام خطوط مدینہ تشریف لے آنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارادہ کیا کہ آپ اپنی تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچائیں جب آپ نے اپنے اس ارادہ کا صحابہ سے ذکر کیا تو بعض صحابہ نے جو بادشاہی درباروں سے واقف تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! بادشاہ بغیر مہر کے خطا نہیں لیتے.اس پر آپ نے ایک مہر بنوائی جس پر ” محمد رسول اللہ کے الفاظ کھدوائے اور اللہ تعالیٰ کے ادب کے طور پر آپ نے سب سے اوپر اللہ کا لفظ لکھوا دیا.نیچے ”رسول“ کا اور پھر نیچے محمد کا.۳۲۹

Page 324

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۲ دیباچہ تفسیر القرآن محرم ۶۲۸ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خط لے کر مختلف صحابہ مختلف ممالک کی طرف روانہ ہو گئے.ان میں سے ایک خط قیصر روما کے نام تھا اور ایک خط ایران کے بادشاہ کی طرف تھا.ایک خط مصر کے بادشاہ کی طرف تھا جو قیصر کے ماتحت تھا.ایک نجاشی کی طرف تھا جو حبشہ کا بادشاہ تھا.اسی طرح بعض اور بادشاہوں کی طرف آپ نے خطوط لکھے.قیصر روم ہر قل کے نام خط قیصر روما کاخط یہ کبھی صحابی کے ہاتھ بھیجا گیا اور آپ نے اُسے ہدایت کی تھی کہ پہلے وہ بصرہ کے گورنر کے پاس جائے جو نسلاً عرب تھا اور اس کی معرفت قیصر کو خط پہنچائے.جب وحیہ کلبی گورنر بصرہ کے پاس خط لے کر پہنچے تو اتفاقاً اُنہی دنوں قیصر شام کے دورہ پر آیا ہوا تھا.چنانچہ گورنر بصرہ نے دحیہ کو اس کے پاس بجھوا دیا.جب وحیہ ، گورنر بصرہ کی معرفت قیصر کے پاس پہنچے تو دربار کے افسروں نے اُن سے کہا کہ قیصر کی خدمت میں حاضر ہونے والے ہر شخص کے لئے ضروری ہے کہ وہ قیصر کو سجدہ کرے.دحیہ نے انکار کیا اور کہا کہ ہم مسلمان کسی انسان کو سجدہ نہیں کرتے چنانچہ بغیر سجدہ کرنے کے آپ اُس کے سامنے گئے اور خط پیش کیا.بادشاہ نے ترجمان سے خط پڑھوایا اور پھر حکم دیا کہ کوئی عرب کا قافلہ آیا ہو تو اُن لوگوں کو پیش کرو تا کہ میں اس شخص کے حالات اُن سے دریافت کروں.اتفاقاً ابوسفیان ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ اُس وقت وہاں آیا ہوا تھا.دربار کے افسر ابوسفیان کو بادشاہ کی خدمت میں لے گئے.بادشاہ نے حکم دیا کہ ابوسفیان کوسب سے آگے کھڑا کیا جائے اور اس کے ساتھیوں کو اس کے پیچھے کھڑا کیا جائے اور ہدایت کی کہ اگر ابوسفیان کسی بات میں جھوٹ بولے تو اس کے ساتھی اس کی فوراً تردید کریں.پھر اس نے ابوسفیان سے سوال کیا کہ:.سوال: یہ شخص جو نبوت کا دعویٰ کرتا ہے اور جس کا خط میرے پاس آیا ہے کیا تم اس کو جانتے ہو اس کا خاندان کیسا ہے؟ جواب : ابوسفیان نے کہا.وہ اچھے خاندان کا ہے اور میرے رشتہ داروں میں سے ہے.سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا ایسا دعویٰ عرب میں پہلے بھی کسی شخص نے کیا ہے؟ جواب: تو ابوسفیان نے جواب دیا نہیں.

Page 325

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۳ دیباچہ تفسیر القرآن سوال: پھر اُس نے پوچھا کیا تم دعوئی سے پہلے اُس پر جھوٹ کا الزام لگایا کرتے تھے؟ جواب: ابوسفیان نے کہا.نہیں.سوال: پھر اس نے پوچھا.کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی ہوا ہے؟ جواب: ابوسفیان نے کہا نہیں.سوال: پھر بادشاہ نے پوچھا.اس کی عقل اور اس کی رائے کیسی ہوتی ہے؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.ہم نے اس کی عقل اور رائے میں کبھی کوئی عیب نہیں دیکھا.سوال: پھر قیصر نے پوچھا.کیا بڑے بڑے جابر اور قوت والے لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا غریب اور مسکین لوگ؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.غریب اور مسکین اور نو جوان لوگ.سوال: پھر اس نے پوچھا.وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.بڑھتے چلے جاتے ہیں.سوال: پھر قیصر نے پوچھا.کیا اُن میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُس کے دین کو بُراسمجھ کے مرتد ہوئے ہیں.جواب: ابوسفیان نے کہا.نہیں.سوال: پھر اس نے پوچھا.کیا اس نے کبھی اپنے عہد کو بھی تو ڑا ہے؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.آج تک تو نہیں.مگر اب ہم نے ایک نیا عہد باندھا ہے دیکھیں اب وہ اس کے متعلق کیا کرتا ہے.سوال: پھر اس نے پوچھا.کیا تمہارے اور اس کے درمیان کبھی جنگ بھی ہوئی ہے؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.ہاں.سوال: اس پر بادشاہ نے پوچھا.پھر اُن لڑائیوں کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ جواب: ابوسفیان نے جواب دیا.گھاٹ کے ڈولوں والا حال ہے.کبھی ہمارے ہاتھ میں ڈول ہوتا ہے کبھی اس کے ہاتھ ڈول ہوتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ بدر کی لڑائی ہوئی اور میں اس میں شامل نہیں تھا اس لئے وہ غالب آ گیا تھا اور دوسری دفعہ اُحد میں لڑائی ہوئی اُس وقت

Page 326

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۴ دیباچہ تفسیر القرآن میں کمانڈر تھا.ہم نے ان کے پیٹ کاٹے اور اُن کے کان کاٹے ، ان کے ناک کاٹے.سوال: پھر قیصر نے پوچھا.وہ تمہیں کیا حکم دیتا ہے؟ جواب: ابوسفیان نے کہا وہ کہتا ہے کہ ایک خدا کی پرستش کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور ہمارے باپ دادا جن بتوں کی پوجا کرتے تھے وہ ان کی پوجا سے روکتا ہے اور ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم خدا کی عبادتیں کریں اور سچ بولا کریں اور بُرے اور گندے کاموں سے بچا کریں اور ہمیں کہتا ہے کہ کہ مروت اور وفائے عہد سے کام لیا کریں اور امانتوں کو ادا کیا کریں.۳۳۰ے قیصر روم کا نتیجہ کہ آنحضرت ﷺے صادق نبی ہیں اس پر قصر نے کہا.سنو میں نے تم سے یہ سوال کیا تھا کہ اس کا نسب کیسا ہے تو تم نے کہا وہ خاندانی لحاظ سے اچھا ہے اور انبیاء ہمیشہ ایسے ہی ہوا کرتے ہیں.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس سے پہلے کسی شخص نے ایسا دعویٰ کیا ہے تو تم نے کہا نہیں.یہ سوال میں نے اس لئے کیا تھا کہ اگر قریب زمانہ میں اس سے پہلے کسی شخص نے ایسا دعویٰ کیا ہوتا تو میں سمجھتا کہ یہ بھی اُس کی نقل کر رہا ہے.اور پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس دعوی سے پہلے اس پر جھوٹ کا بھی الزام لگایا گیا ہے اور تم نے کہا نہیں تو میں نے سمجھ لیا کہ جو شخص انسانوں کے متعلق جھوٹ نہیں بولتا وہ خدا تعالیٰ کے متعلق بھی جھوٹ نہیں بول سکتا.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا اس کے باپ دادوں میں سے کوئی بادشاہ بھی تھا.تو تم نے کہا نہیں.تو میں نے سمجھ لیا کہ اس کے دعوی کی یہ وجہ نہیں کہ اس بہانہ سے اپنے باپ دادا کا ملک واپس لینا چاہتا ہے.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا جابر اور زبردست لوگ اس کی جماعت میں داخل ہوتے ہیں یا کمزور اور مسکین طبع لوگ.تو تم نے جواب دیا کہ کمزور اور مسکین طبع لوگ.تو میں نے سوچا کہ تمام انبیاء کی جماعت میں اکثر مسکین طبع اور غریب ہی داخل ہوا کرتے ہیں نہ کہ جابر اور متکبر لوگ.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا وہ بڑھتے ہیں یا گھٹتے ہیں.تو تم نے کہا وہ بڑھتے ہیں اور یہی حالت نبیوں کی جماعت کی ہوا کرتی ہے جب تک وہ کمال کو نہیں پہنچ جاتی اُس وقت تک وہ بڑھتے چلے جاتے ہیں.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا کوئی شخص اُس کے دین.

Page 327

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۵ دیباچہ تفسیر القرآن کو نا پسند کر کے مرتد بھی ہوتا ہے تو تم نے کہا نہیں اور ایسا ہی انبیاء کی جماعت کا حال ہوتا ہے کسی اور وجہ سے کوئی شخص نکلے تو نکلے دین کو بُرا سمجھ کر نہیں نکلتا.پھر میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تمہارے درمیان کبھی لڑائی بھی ہوئی ہے اور اس کا انجام کیا ہوتا ہے.تو تم نے کہا لڑائی ہمارے درمیان گھاٹ کے ڈول کی طرح ہے اور نبیوں کا یہی حال ہے.شروع شروع میں اُن کی جماعتوں پر مصیبتیں آتی ہیں لیکن آخری وہی جیتے ہیں.پھر میں نے تجھ سے پوچھا.وہ تمہیں کیا کی تعلیم دیتا ہے.تو تم نے جواب دیا کہ وہ نماز کی اور سچائی کی اور پاکدامنی کی اور وفائے عہد کی اور امانت دار ہونے کی تعلیم دیتا ہے اور اسی طرح میں نے تجھ سے پوچھا کہ کیا وہ دھوکا بازی بھی کرتا ہے؟ تو تم نے کہا نہیں اور یہ طور و طریق تو ہمیشہ نیک لوگوں کے ہی ہوا کرتے ہیں.پس 66 میں سمجھتا ہوں کہ وہ نبوت کے دعوئی میں سچا ہے اور میرا خود یہ خیال تھا کہ اس زمانہ میں وہ نبی آنے والا ہے، مگر میرا یہ خیال نہیں تھا کہ وہ عربوں میں پیدا ہونے والا ہے اور جو جواب تو نے مجھے دیئے ہیں اگر وہ بچے ہیں تو پھر میں سمجھتا ہوں کہ وہ ان ممالک پر ضرور قابض ہو جائے گا.اس کی ان باتوں پر اس کے درباریوں میں جوش پیدا ہو گیا اور اُنہوں نے کہا آپ مسیحی ہوتے ہوئے ایک غیر قوم کے آدمی کی صداقت کا اقرار کر رہے ہیں اور دربار میں احتجاج کی آواز میں کی آوازیں بلند ہونے لگیں.اس پر دربار کے افسروں نے جلدی سے ابوسفیان اور اُس کے ساتھیوں کو دربار سے باہر نکال دیا.۳۳۱ صلى الله آنحضرت ﷺ کے خط بنام ہر قل کا مضمون یہ خط جو سول میلے نے قیصر کے نام لکھا تھا اسکی عبارت یہ تھی:.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُّحَمَّدٍ عَبْدِ اللَّهِ وَ رَسُولِهِ إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّوْمِ - سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمُ تَسْلَمُ يُؤْتِكَ اللهُ اَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّ عَلَيْكَ إِثْمَ الْأَرِيسِيِّينَ وَ يَا أَهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتِخَذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَاباً مِّنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ۳۳۲

Page 328

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن یعنی یہ خط محمد اللہ کے بندے اور اُس کے رسول کی طرف سے رُوم کے بادشاہ ہر قل کی طرف لکھا جاتا ہے.جو شخص بھی خدا کی ہدایت کے پیچھے چلے اُس پر خدا کی سلامتیاں نازل ہوں.اس کے بعد اے بادشاہ! میں تجھے اسلام کی دعوت پیش کرتا ہوں (یعنی خدائے واحد اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی ) اے بادشاہ! تو مسلمان ہو جا.تو خدا تجھے تمام فتنوں سے بچالے گا.اور تجھے دُہرا اجر دے گا.( یعنی عیسی پر ایمان لانے کا بھی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا بھی ) لیکن اگر تو نے اس بات کے ماننے سے انکار کر دیا تو صرف تیری ہی جان کا گناہ تجھ پر نہیں ہو گا بلکہ تیری رعایا کے ایمان نہ لانے کا گناہ بھی تجھ پر ہو گا.(آخر میں قرآن شریف کی آیت درج تھی جس کے معنی یہ ہیں کہ ) اے اہل کتاب ! آؤ اس بات پر تو اکٹھے ہو جائیں جو تمہارے اور ہمارے درمیان مشترک ہے یعنی ہم خدا تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اُس کا شریک نہ بنائیں اور اللہ تعالیٰ کے سوا ہم کسی بندے کو بھی اتنی عزت نہ دیں کہ وہ خدائی صفات سے متصف کیا جانے لگے.اگر اہل کتاب اس دعوت اتحاد کو قبول نہ کریں تو اے محمد رسول اللہ اور ان کے ساتھیو ! ان سے کہہ دو کہ ہم تو خدا تعالیٰ کے فرمانبردار ہیں.بعض تاریخوں میں لکھا ہے کہ جب یہ خط بادشاہ کے سامنے پیش ہوا تو در بایوں میں سے بعض نے کہا کہ اس خط کو پھاڑ کر پھینک دینا چاہئے کیونکہ اس میں بادشاہ کی ہتک کی گئی ہے اور خط کے اوپر بادشاہ روم نہیں لکھا گیا بلکہ صاحب الروم یعنی روم کا والی لکھا ہے مگر بادشاہ نے کہا یہ عقل کے خلاف ہے کہ خط پڑھنے سے پہلے پھاڑ دیا جائے اور یہ جواُس نے مجھے روم کا والی لکھا ہے یہ درست ہے آخر ما لک تو خدا ہی ہے میں والی ہی ہوں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا روم کے بادشاہ نے جوطریق اختیار کیا ہے اس کی وجہ سے اس کی حکومت بچالی جائے گی اور اس کی اولا د دیر تک حکومت کرتی رہے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.بعد کی جنگوں میں گو بہت سا ملک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دوسری پیشگوئی کے ماتحت روم کے بادشاہ کے ہاتھ سے چھینا گیا مگر اس واقعہ کے چھ سو سال بعد تک اس کے

Page 329

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۷ خاندان کی حکومت قسطنطنیہ میں قائم رہی.روم کی حکومت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط بہت دیر تک محفوظ رہا.چنانچہ بادشاہ منصور قلادون کے بعض سفیر ایک دفعہ بادشاہ روم کے پاس گئے تو بادشاہ نے ان کو دکھانے کے لئے ایک صندوقچہ منگوایا اور کہا کہ میرے ایک دادا کے نام تمہارے رسول کا ایک خط آیا تھا جو آج تک ہمارے پاس محفوظ ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط فارس کے فارس کے بادشاہ کے نام خط پادشاہ کی طرف لھا تھاوہ عبداللہ بن حذافہ کی معرفت بجھوایا گیا تھا اس کے الفاظ یہ تھے:.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللَّهِ إِلَى كِسْرَى عَظِيمٍ الْفَارِس - سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - وَامَنَ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَشَهِدَ أَنْ لا إِلهُ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ - وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ اَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَإِنِّي أَنَا رَسُوْلَ اللهِ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً، لَا نُذِرَمَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ أَسْلِمُ تَسْلَمُ فَإِنْ أَبَيْتَ فَعَلَيْكَ إِثْمُ الْمَجُوسِ - ۳۳۳ یعنی اللہ کا نام لے کر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے یہ خط محمد رسول اللہ نے کسری فارس کے سردار کی طرف لکھا ہے.جو شخص کامل ہدایت کی اتباع کرے اور اللہ پر اور اُس کے رسول پر ایمان لائے اور گواہی دے کہ اللہ ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں اُس پر خدا کی سلامتی ہو.اے بادشاہ! میں تجھے خدا کے حکم کے ماتحت اسلام کی طرف بلا تا ہوں کیونکہ میں تمام انسانوں کی طرف خدا کی طرف سے رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تا کہ ہر زندہ شخص کو میں ہوشیار کر دوں اور کافروں پر حجت تمام کر دوں.تو اسلام قبول کرتا تو ہر ایک فتنہ سے محفوظ رہے اگر تو اس دعوت سے انکار کرے گا تو سب مجوس کا گناہ تیرے ہی سر پر ہوگا.عبداللہ بن حذافہ کہتے ہیں کہ جب میں کسری کے دربار میں پہنچا تو میں نے اندر آنے کی اجازت طلب کی جو دی گئی.جب میں نے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط کسری کے ہاتھ میں دیا تو اُس نے ترجمان کو پڑھ کر سنانے کا حکم دیا.جب ترجمان نے اس کا ترجمہ پڑھ کر

Page 330

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۸ سنایا تو کسری نے غصہ سے خط پھاڑ دیا.جب عبد اللہ بن حذافہ نے یہ خبر آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنائی تو آپ نے فرمایا.کسری نے جو کچھ ہمارے خط کے ساتھ کیا خدا تعالیٰ اس کی بادشاہت کے ساتھ بھی ایسا ہی کرے گا.کسری کی اس حرکت کا باعث یہ تھا کہ عرب کے یہودیوں نے اُن یہودیوں کے ذریعہ سے جو روم کی حکومت سے بھاگ کر اسیران کی حکومت میں چلے گئے تھے اور بوجہ رومی حکومت کے خلاف سازشوں میں کسری کا ساتھ دینے کے کسری کے بہت منہ چڑھے ہوئے تھے کسریٰ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بہت بھڑ کا رکھا تھا.جو شکایتیں وہ کر رہے تھے اس خط نے کسریٰ کے خیال میں اُن کی تصدیق کر دی اور اس نے خیال کیا کہ یہ شخص میری حکومت پر نظر رکھتا ہے.چنانچہ اس خط کے معا بعد کسر می نے اپنے یمن کے گورنر کو ایک چٹھی لکھی جس کا مضمون یہ تھا کہ قریش میں سے ایک شخص نبوت کا دعوی کر رہا ہے اور اپنے دعوؤں میں بہت بڑھتا چلا جاتا ہے تو فوراً اس کی طرف دو آدمی بھیج جو اُس کو پکڑ کر میری خدمت میں حاضر کریں.اس پر باذان نے جو اُس وقت کسریٰ کی طرف سے یمن کا گورنر تھا ایک فوجی افسر اور ایک سوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بھجوائے اور ایک خط بھی آپ کی طرف لکھا کہ آپ اس خط کے ملتے ہی فوراً ان لوگوں کے ساتھ کسری کے دربار میں حاضر ہو جائیں.وہ افسر پہلے مکہ کی طرف گیا.طائف کے قریب پہنچ کر اُسے معلوم ہوا کہ آپ مدینہ میں رہتے ہیں.چنانچہ وہ وہاں سے مدینہ گیا.مدینہ پہنچ کر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کسری نے باذان گورنر یمن کو حکم دیا ہے کہ آپ کو پکڑ کر اُس کی خدمت میں حاضر کیا جائے.اگر آپ اس حکم کا انکار کریں گے تو وہ آپ کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کی قوم کو بھی ہلاک کر دے گا اور آپ کے ملک کو برباد کر دے گا اس لئے آپ ضرور ہمارے ساتھ چلیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی بات سن کر فرمایا.اچھا کل پھر تم مجھ سے ملنا.رات کو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور خدائے ذوالجلال نے آپ کو خبر دی کہ کسریٰ کی گستاخی کی سزا میں ہم نے اس کے بیٹے کو اُس پر مسلط کر دیا ہے چنانچہ وہ اُسی سال جمادی الاولیٰ کی دسویں تاریخ پیر کے دن اس کو قتل کر دے گا اور بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا آج کی رات اس نے اُسے قتل کر دیا ہے ممکن ہے وہ رات وہی دس جمادی الاولیٰ کی رات ہو.جب صبح ہوئی

Page 331

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۱۹ دیباچہ تفسیر القرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو بلایا اور اُن کو اس پیشگوئی کی خبر دی.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باذان کی طرف خط لکھا کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ کسری فلاں تاریخ فلاں مہینے قتل کر دیا جائے گا.جب یہ خط یمن کے گورنر کو پہنچا تو اس نے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو ایسا ہی ہو جائے گا.ورنہ اس کی اور اس کے ملک کی خیر نہیں.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد ایران کا ایک جہازیمن کی بندرگاہ پر آکر ٹھہرا اور گورنر کو ایران کے بادشاہ کا ایک خط دیا جس کی مہر کو دیکھتے ہوئے یمن کے گورنر نے کہا.مدینہ کے نبی نے سچ کہا تھا.ایران کی بادشاہت بدل گئی اور اس خط پر ایک اور بادشاہ کی مہر ہے.جب اس نے خط کھولا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ باذان گورنر یمن کی طرف ایران کے کسری شیرویہ کی طرف سے یہ خط لکھا جاتا ہے.میں نے اپنے باپ سابق کسری کو قتل کر دیا ہے اس لئے کہ اس نے ملک میں خونریزی کا دروازہ کھول دیا تھا اور ملک کے شرفاء کوقتل کرتا تھا اور رعایا پر ظلم کرتا تھا.جب میرا یہ خطا تم تک پہنچے تو فوراً تمام افسروں سے میری اطاعت کا اقرار لو اور اس سے پہلے میرے باپ نے جو عرب کے ایک نبی کی گرفتاری کا حکم تم کو بجھوایا تھا اس کو منسوخ سمجھو.۳۳۴ یہ خط پڑھ کر بازان اتنا متاثر ہوا کہ اُسی وقت وہ اور اس کے کئی ساتھی اسلام لے آئے اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اسلام کی اطلاع دے دی.تیسرا خط آپ نے نجاشی کے نام لکھا جو عمرو بن امیہ نجاشی شاہ حبشہ کے نام خط ضمری کے ہاتھ بجھوایا تھا اس کی عبارت یہ تھی.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ـ مِنْ مُّحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى النَّجَاشِ مَلِكِ الْحَبُشَةَ سَلْمٌ أَنْتَ أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَحْمَدُ إِلَيْكَ اللَّهَ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ المَلِكُ الْقُدُّوسُ السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ - وَاَشْهَدُ اَنَّ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رُوحُ اللَّهِ وَ كَلِمَتُةَ الْقَاهَا إِلى مَرْيَمَ الْبَتُولَ وَإِنِّى اَدْعُوكَ إِلَى اللَّهِ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَالْمَوَالَاة عَلَى طَاعَتِهِ وَإِنْ تَتَّبِعَنِي وَتُؤْمِنَ بِالَّذِي جَاءَ نِي فَإِنِّي رَسُولُ اللهِ وَانّى اَدْعُوكَ وَ جُنُودَكَ إِلَى اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ وَقَدْ بَلَّغْتُ وَ نَصَحَتُ فَاقْبِلُوْا نَصِيحَتِي وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى ۳۳۵

Page 332

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن یعنی اللہ تعالیٰ کا نام لے کر جو بے انتہاء کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.محمد رسول اللہ نجاشی حبشہ کے بادشاہ کی طرف یہ خط لکھتے ہیں.اے بادشاہ! تجھ پر خدا کی سلامتی نازل ہو رہی ہے (چونکہ اس بادشاہ نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی اس لئے آپ نے اُس کو خبر دی کہ تیرا یہ فعل خدا کے نزدیک مقبول ہوا ہے اور تو خدا کی حفاظت میں ہے) میں اس خدا کی حمد تیرے سامنے بیان کرتا ہوں جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں جو حقیقی بادشاہ ہے، جو تمام پاکیزگیوں کا جامع ہے جو ہر عیب سے پاک ہے اور ہر نقص سے پاک کرنے والا ہے، جو اپنے بندوں کے لئے امن کے سامان پیدا کرتا ہے اور اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے.میں گواہی دیتا ہوں کہ عیسی بن مریم اللہ تعالیٰ کے کلام کو دنیا میں پھیلانے والے تھے اور خدا تعالیٰ کے ان وعدوں کو پورا کرنے والے تھے جو خدا تعالیٰ نے مریم سے جس نے اپنی زندگی خدا کے لئے وقف کر دی تھی پہلے سے کئے ہوئے تھے اور میں تجھے خدائے وحدہ لاشریک سے تعلق پیدا کرنے اور اُس کی اطاعت پر باہمی معاہدہ کرنے کی دعوت دیتا ہوں اور تجھے اس بات کی میں دعوت دیتا ہوں کہ تو میری اتباع کرے اور اُس خدا پر ایمان لائے جس نے مجھے ظاہر کیا ہے کیونکہ میں اُس کا رسول ہوں اور میں تجھے دعوت دیتا ہوں اور تیرے لشکروں کو بھی خدائے عزوجل کے دین میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں.میں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کر دیا ہے اور خدا کا پیغام تجھ تک پہنچا دیا ہے اور اخلاص سے تم پر حقیقت کھول دی ہے پس میرے اخلاص کی قدر کرو اور ہر شخص جو خدا تعالیٰ کی ہدایت کی اتباع کرتا ہے اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی نازل ہوتی ہے.جب یہ خط نجاشی کو پہنچا تو اس نے بڑے ادب سے اس خط کو اپنی آنکھوں سے لگایا اور تخت سے نیچے اتر کر کھڑا ہو گیا اور کہا کہ ہاتھی دانت کا ایک ڈبہ لاؤ.چنانچہ ایک ڈبہ لایا گیا اُس نے کی وہ خط ادب کے ساتھ اُس ڈبہ میں رکھ دیا اور کہا کہ جب تک یہ خط محفوظ رہے گا حبشہ کی حکومت بھی محفوظ رہے گی.چنانچہ نجاشی کا یہ خیال درست ثابت ہوا ایک ہزار سال تک اسلام ساری دنیا پر سمندر کی لہروں کی طرح اُٹھتا ہوا پھیلتا چلتا گیا لیکن حبشہ کے دائیں سے بھی اسلامی لشکر نکل

Page 333

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۱ دیا چه تفسیر القرآن گئے اور حبشہ کے بائیں سے بھی اسلامی لشکر نکل گئے.مگر اس احسان کی وجہ سے جو حبشہ کے بادشاہ نے ابتدائی اسلامی مہاجرین کے ساتھ کیا تھا اور اس احترام کی وجہ سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا نجاشی نے کیا تھا اُنہوں نے حبشہ کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھا.قیصر جیسے بادشاہ کی حکومت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.کسری جیسے بادشاہ کی حکومت کا نام ونشان مٹ گیا.چین اور ہندوستان کی شہنشاہیاں تہہ و بالا کر دی گئیں مگر حبشہ کی ایک چھوٹی سے حکومت محفوظ رکھی گئی اس لئے کہ اس نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ابتدائی ساتھیوں کے ساتھ ایک احسان اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خط کا ادب اور احترام کیا تھا.یہ تو وہ سلوک تھا جو ایک ادنیٰ سے احسان کے بدلہ میں حبشہ والوں سے مسلمانوں نے کیا.مگر عیسائی اقوام نے جو ایک گال پر تھپڑ کھا کر دوسرا بھی پھیر دینے کی مدعی ہیں اپنے ہم مذہب اور ہم طریقہ بادشاہ حبشہ اور اس کی قوم کے ساتھ جو سلوک اِن دنوں کیا ہے وہ بھی دنیا کے سامنے ظاہر ہے.کس طرح کی حبشہ کے شہروں کو بمباری سے اُڑا دیا گیا اور بادشاہ اور اُس کی محترم ملکہ اور اس کے بچوں کو اپنا ملک چھوڑ کر غیر ملکوں میں سالہا سال پناہ لینی پڑی.کیا حبشہ سے یہ دوفتم کا سلوک ایک مسلمانوں کا ایک عیسائیوں کا اُس قوت قدسیہ کو ثابت نہیں کرتا جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی اور جو آج تک بھی کہ مسلمان بہت کچھ دین سے دور جا چکے ہیں اُن کے خیالات کو نیکی اور احسان مندی کی طرف مائل رکھتی ہے.مقوقس شاہ مصر کے نام خط چوتھا خط آپ نے مقوی بادشاہ مصرکی طرف لکھا تھا ور اس کا مضمون یہ تھا:.یہ خط حاطب بن ابی بلتعہ کی معرفت آپ نے بھجوایا.بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ - مِنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ إِلَى الْمَقَوْقَسِ عَظِيمِ الْقِبْطِ سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى - أَمَّا بَعْدُ فَإِنِّي أَدْعُوكَ بِدِعَايَةِ الْإِسْلَامِ أَسْلِمُ تَسْلَمُ يُؤْتِكَ اللهُ أَجْرَكَ مَرَّتَيْنِ فَإِنْ تَوَلَّيْتَ فَإِنَّمَا عَلَيْكَ إِثْمُ الْقِبْطِ - وَيَا أَهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَنْ لَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ

Page 334

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۲ دیباچہ تفسیر القرآن ۳۶ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ٣٣٦ یہ خط بعینہ وہی ہے جو روم کے بادشاہ کو لکھا گیا تھا، صرف یہ فرق ہے کہ اُس میں یہ لکھا تھا کی کہ اگر تم نہ مانے تو رومی رعایا کے گناہوں کا بوجھ بھی تم پر ہو گا اور اس میں یہ تھا کہ قبطیوں کے گناہوں کا بوجھ تم پر ہو گا.جب حاطب مصر پہنچے تو اس وقت مقوقس اپنے دار الحکومت میں نہیں ہے تھا بلکہ اسکندریہ میں تھا.حاطب اسکندریہ گئے جہاں بادشاہ نے سمندر کے کنارے ایک مجلسی لگائی ہوئی تھی.حاطب ایک کشتی میں سوار ہو کر اُس مقام تک گئے اور چونکہ اردگرد پہرہ تھا تی اُنہوں نے دور سے خط کو بلند کر کے آوازیں دینی شروع کیں.بادشاہ نے حکم دیا کہ اس شخص کو لایا جائے اور اس کی خدمت میں پیش کیا جائے.بادشاہ نے خط پڑھا اور حاطب سے کہا اگر یہ سچا نبی ہے تو اپنے دشمنوں کے خلاف دعا کیوں نہیں کرتا؟ حاطب نے کہا کہ تم عیسی بن مریم پر توہی ایمان لاتے ہو.یہ کیا بات ہے کہ عیسی کو اُن کی قوم نے دُکھ دیا لیکن عیسی نے یہ دعا نہ کی کہ وہ ہلاک ہو جائیں.بادشاہ نے سن کر کہا کہ تم ایک عقلمند کی طرف سے ایک عقلمند سفیر ہو اور تم نے خوب جواب دیا ہے.اس پر حاطب نے کہا اے بادشاہ! تجھ سے پہلے ایک بادشاہ تھا جو کہا کرتا ت تھا کہ میں بڑا رب ہوں یعنی فرعون.آخر خدا نے اُس پر عذاب نازل کیا.پس تو تکبر نہ کر اور خدا کے اس نبی پر ایمان لے آ اور خدا کی قسم ! موسیٰ نے عیسی کے متعلق ایسی خبریں نہیں دیں جیسی عیسی نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق دی ہیں اور ہم تمہیں اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلاتے ہیں جس طرح تم لوگ یہودیوں کو عیسی کی طرف بلاتے ہو اور ہر نبی کی ایک اُمت ہوتی ہے اور اُس کا فرض ہوتا ہے کہ اُس کی اطاعت کرے.پس جبکہ تم نے اس نبی کی کا زمانہ پایا ہے تو تمہارا فرض ہے کہ اس کو قبول کرو اور ہمارا دین تم کو مسیح کی اتباع سے روکتا ہی نہیں بلکہ ہم تو دوسروں کو بھی حکم دیتے ہیں کہ وہ مسیح پر ایمان لائیں.اس پر مقوقس نے کہا میں نے اس نبی کے حالات سنے ہیں اور میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ کسی بُری بات کا حکم نہیں دیتا اور کی کسی اچھی بات سے روکتا نہیں اور میں نے معلوم کیا ہے کہ وہ شخص ساحروں اور کاہنوں کی طرح نہیں ہے اور میں نے بعض اس کی پیشگوئیاں سنی ہیں جو پوری ہوئی ہیں.پھر اُس نے ایک ڈبیہ ہاتھی دانت کی منگوائی اور اُس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط رکھ دیا اور اُس پر مہر لگا دی ہے

Page 335

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۳ دیباچہ تفسیر القرآن اور اپنی ایک لونڈی کے سپر د کر دیا اور پھر اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام یہ خط لکھا: بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ محمد بن عبد اللہ کی طرف مقوقس قبط کا بادشاہ خط لکھتا ہے کہ آپ پر سلامتی ہو.اس کے بعد میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے آپ کا خط پڑھا ہے اور جو کچھ اس میں آپ نے ذکر کیا ہے اور جن باتوں کی طرف بلایا ہے اُن پر غور کیا ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اسرائیلی پیشگوئیوں کے مطابق ایک نبی کا آنا ابھی باقی ہے.لیکن میرا خیال تھا کہ وہ شام سے ظاہر ہوگا میں نے آپ کے سفیر کو بڑی عزت سے ٹھہرایا ہے اور ایک ہزار پونڈ اور پانچ جوڑے خلعت کے طور پر اُسے دیئے ہیں اور میں دومصری لڑکیاں آپ کے لئے تحفہ کے طور پر بجھوا رہا ہوں.قطبی قوم کے نزدیک اِن لڑکیوں کی بڑی عزت ہے اور ان میں سے ایک کا نام ماریہ ہے اور ایک کا نام سیرین ہے اور مصری کپڑے کے اعلیٰ درجہ کے ہیں جوڑے بھی آپ کی خدمت میں بھجوا رہا ہوں اور اسی طرح ایک خچر آپ کی سواری کے لئے بجھوا رہا ہوں اور آخر میں پھر دعا کرتا ہوں کہ خدا کی آپ پر سلامتی ہو ۳۳۷ اس خط سے معلوم ہوتا ہے کہ گو مقوقس نے آپ کے خط سے ادب اور احترام کا معاملہ کیا مگر وہ اسلام نہیں لا یا.ین کے نام خط پانچواں خط آپ نے مندریمی کی طرف جو بحرین کا رئیس رئیس بحرین تھا بجھوایا تھا.یہ خط علاء ابن حضرمی کے ہاتھ بجھوایا گیا تھا.اس خط کی عبارت محفوظ نہیں.یہ خط جب اس کے پاس پہنچا تو وہ ایمان لے آیا اور اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لکھا کہ میں اور میرے بہت سے ساتھی آپ پر ایمان لے آئے ہیں اور بعض ایسے ہیں جو اسلام میں داخل نہیں ہوئے اور میرے ملک میں کچھ یہودی اور مجوسی بھی رہتے ہیں آپ اُن کے بارہ میں مجھے حکم دیں کہ میں ان سے کیا سلوک کروں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو خط لکھا جس کی عبارت یہ تھی کہ ہمیں خوشی ہوئی ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے جو پیغامبر میری طرف سے آئیں تم اُن کے احکام کی اتباع کیا کرو.کیونکہ جو ان کی ابتاع کی کرے گا وہ میری اتباع کرے گا.جو میرا اسفیر تمہاری طرف گیا تھا اُس نے تمہاری بہت تعریف کی ہے اور ظاہر کیا ہے کہ تم نے اسلام قبول کر لیا ہے اور میں نے خدا تعالیٰ سے تمہاری قوم کے.

Page 336

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۴ دیباچہ تفسیر القرآن بارہ میں دعا کی ہے.پس مسلمانوں میں اسلامی طور و طریق جاری کرو اور ان کے اموال کی حفاظت کرو اور چار بیویوں سے زیادہ کسی کو اپنے گھر میں رکھنے کی اجازت نہ دو اور مسلمان ہونے والوں سے جو گناہ پہلے ہو چکے ہیں وہ انہیں معاف کئے جائیں اور جب تک نیکی پر قائم رہو گے تمہیں اپنی حکومت سے معزول نہیں کیا جائے گا اور جو یہودی یا مجوس ہیں ان پر صرف ایک ٹیکس مقرر ہے اور کوئی مطالبہ ان سے نہ کرنا.۳۳۸ اس کے علاوہ آپ نے عمان کے بادشاہ اور یمامہ کے سردار اور غسان کے بادشاہ اور یمن کے قبیلہ بنی نہد کے سردار اور یمن کے قبیلہ ہمدان کے سردار اور بنی علیم کے سردار اور حضرمی قبیلہ کے سردار کی طرف بھی خطوط لکھے.جن میں سے اکثر لوگ مسلمان ہو گئے.ان خطوط کا لکھنا بتاتا ہے کہ آپ خدا تعالیٰ پر کیسا کامل یقین رکھتے تھے اور کس طرح شروع سے ہی آپ کو یہ یقین تھا کی کہ آپ کسی ایک قوم کی طرف نبی بنا کر نہیں بھیجے گئے بلکہ آپ ساری اقوام کی طرف نبی بنا کر نے گئے ہیں اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جن بادشاہوں اور رئیسوں کو خط لکھے گئے تھے ان میں سے بعض اسلام لے آئے.بعضوں نے ادب اور احترام کے ساتھ خط تو قبول کر لئے لیکن اسلام نہ لائے.بعضوں نے معمولی شرافت دکھائی اور بعضوں نے خود پسندی اور کبر کا نمونہ دکھایا لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں اور دنیا کی تاریخ اس پر شاہد ہے کہ اُن میں سے ہر بادشاہ اور قوم کے ساتھ ویسا ہی معاملہ کیا گیا جیسا کہ اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوں کے ساتھ معاملہ کیا تھا.قلعہ خیبر کی تسخیر جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے یہودی اور کفارِ عرب مسلمانوں کے خلاف اردگرد کے قبائل کو اُبھار رہے تھے اور اب یہ دیکھ کر کہ عرب میں اتنی سکت باقی نہیں رہی کہ وہ مسلمانوں کو تباہ کر سکیں یا مدینہ پر جا کر حملہ کر سکیں.یہودیوں نے ایک طرف تو رومی حکومت کی جنوبی سرحد پر رہنے والے عرب قبائل کو جو مذ ہبا عیسائی تھے، اکسانا شروع کیا تج اور دوسری طرف اپنے ان ہم مذہبوں کو جو عراق میں رہتے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف چٹھیاں لکھنی شروع کیں تا کہ وہ کسری کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکا ئیں.میں یہ بھی اُوپری لکھ چکا ہوں کہ اس شرارت کے نتیجہ میں کسری مسلمانوں کے خلاف سخت بھڑک گیا تھا اور اُسے

Page 337

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۵ دیا چه تفسیر القرآن نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کے لئے یمن کے گورنر کو حکم بھی دے دیا تھا مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کو محفوظ رکھا اور کسری اور یہودیوں کی تدبیر کو نا کام کر دیا.ظاہر ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل نہ ہوتا تو جہاں تک مادی سامانوں کا تعلق ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف کسری اور دوسری طرف قیصر کے لشکروں کا کیا کی مقابلہ کر سکتے تھے.خدا ہی تھا جس نے کسریٰ کو مار دیا اور اس کے بیٹے سے یہ حکم جاری کروا دیا ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ میں کوئی کارروائی نہ کی جائے اور اس نشان کو دیکھ کر کی یمن کے حکام اسلام لے آئے اور یمن کا صوبہ بغیر لشکر کشی کے اسلامی حکومت میں داخل ہو گیا.یہ صورت حالات جو یہود نے پیدا کر دی تھی اس بات کی متقاضی تھی کہ یہود کو مدینہ سے اور بھی پرے دھکیل دیا جائے کیونکہ اگر وہ مدینہ کے قریب رہتے تو یقیناً اور بھی زیادہ خونریزیوں اور شرارتوں اور سازشوں کے مرتکب ہوتے.پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ سے واپسی آنے کے قریبا پانچ ماہ بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہودی خیبر سے جو مدینہ سے صرف چند منزل کے فاصلہ پر تھا اور جہاں سے مدینہ کے خلاف آسانی سے سازش کی جاسکتی تھی نکال دیئے جائیں.چنانچہ آپ نے سولہ سو صحابہؓ کے ساتھ اگست ۶۲۸ء میں خیبر کی طرف کوچ فرمایا.خیبر ایک قلعہ بند شہر تھا اور اس کے چاروں طرف چٹانوں کے اوپر قلعے بنے ہوئے تھے.ایسے مضبوط شہر کو اتنے تھوڑے سے سپاہیوں کے ساتھ فتح کر لینا کوئی آسان بات نہ تھی اردگرد کی چھوٹی چھوٹی چوکیاں تو چھوٹی چھوٹی لڑائیوں کے بعد فتح ہو گئیں.لیکن جب یہودی سمٹ سمٹا کر شہر کے مرکزی قلعہ میں آگئے تو اس کے فتح کرنے کی تمام تدابیر بیکار جانے لگیں.ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اس شہر کی فتح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مقدر ہے آپ نے صبح کے وقت یہ اعلان کیا کہ میں اسلام کا سیاہ جھنڈا آج اس کے ہاتھ میں دوں گا جس کو خدا اور اس کا رسول اور مسلمان پیار کرتے ہیں خدا تعالیٰ نے اس قلعہ کی فتح اس کے ہاتھ پر مقدر کی ہے.اس کے بعد دوسری صبح آپ نے حضرت علیؓ کو بلایا اور جھنڈا اُن کے سپر د کیا.جنہوں نے صحابہ کی فوج کو ساتھ لے کر قلعہ پر حملہ کیا.باوجود اس کے کہ یہودی قلعہ بند تھے اللہ تعالیٰ نے حضرت علی اور دوسرے صحابہ کو اُس دن ایسی قوت بخشی کہ شام سے پہلے پہلے قلعہ فتح ہو

Page 338

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن گیا ۳۳۹ اور اس بات پر صلح ہوئی کہ تمام یہودی اور ان کے بیوی بچے خیبر چھوڑ کر مدینہ سے دور چلے جائیں گے اور ان کے تمام اموال مسلمانوں کے حق میں ضبط ہوں گے اور یہ کہ جو شخص اس معاملہ میں جھوٹ سے کام لے گا اور کوئی مال یا جنس چھپا کر رکھے گا وہ اس معاہدہ کی حفاظت میں نہیں آئے گا اور غداری کی سزا کا مستحق ہوگا.اس جنگ میں تین عجیب واقعات پیش آئے کہ اُن میں سے ایک تین عجیب واقعات تو خدا تعالیٰ کے ایک نشان پر دلالت کرتا ہے اور دورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق عالیہ پر.نشان تو یہ ہے کہ اس جنگ کے بعد جب خیبر کے رئیس کنانہ کی بیوی صفیہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں تو آپ نے دیکھا کہ ان کے چہرہ پر کچھ لمبے لمبے نشان ہیں.آپ نے فرمایا صفیہ ! تمہارے یہ نشان کیسے ہیں؟ انہوں نے کہايَا رَسُولَ الله ! ایک دن میں نے ایک خواب دیکھی کہ چاند گر کر میری جھولی میں آپڑا ہے.میں نے دوسرے دن یہ خواب اپنے خاوند کو سنائی میرے خاوند نے کہا یہ عجیب خواب ہے تمہارا باپ بڑا عالم آدمی ہے اُس کو چل کر یہ خواب سنانی چاہئے.چنانچہ میں نے اپنے باپ سے اس کا ذکر کیا تو خواب سنتے ہی اُس نے زور سے میرے منہ پر تھپڑ مارا اور کہا نالائق ! کیا تو عرب کے بادشاہ سے شادی کرنا چاہتی ہے ! ۳۴۰ے یہ اس نے اس لئے کہا کہ عرب کا قومی نشان چاند تھا.اگر کوئی خواب میں یہ دیکھتا کہ چاند اس کی جھولی میں آپڑا ہے تو اس کی تعبیر یہ کی جاتی تھی کہ عرب کے بادشاہ کے ساتھ اس کا تعلق ہو گیا ہے اور اگر کوئی خواب دیکھتا کہ چاند پھٹ گیا ہے یا گر گیا ہے تو اس کی تعبیر یہ کی جاتی تھی کہ عرب کی حکومت میں تفرقہ پڑ گیا ہے یا وہ تباہ ہوگئی ہے.یہ خواب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کا ایک نشان ہے اور اس بات کا بھی نشان ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو غیب کی خبریں دیتا رہتا ہے.گومؤمنوں کو زیادہ اور غیر مؤمنوں کو کم.حضرت صفیہ ابھی یہودی ہی تھیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے یہ مصفی غیب عطا فرمایا جس کے مطابق ان کا خاوند معاہدہ کی خلاف ورزی کی سزا میں مارا گیا اور وہ باوجود اس کے کہ ایک اور صحابی کی قید میں گئی تھیں بعض لوگوں کے اصرار پر بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں اور اس طرح وہ غیب پورا ہوا جو خدا تعالیٰ نے انہیں بتایا تھا.

Page 339

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۷ دیباچهتفسیر القرآن دوسرا قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ خیبر کے محاصرہ کے دنوں میں ایک یہودی رئیس کا گلہ بان جو اس کی بکریاں چرایا کرتا تھا مسلمان ہو گیا.مسلمان ہونے کے بعد اس نے کہایا رَسُولَ الله ! میں اب ان لوگوں میں تو جانہیں سکتا اور یہ بکریاں اُس یہودی کی میرے پاس امانت ہیں اب میں ان کو کیا کروں؟ آپ نے فرمایا بکریوں کا منہ قلعہ کی طرف کر دو اور ان کو دھکیل دو.خدا تعالیٰ ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا.چنانچہ اس نے اسی طرح کیا اور بکریاں قلعہ کے پاس چلی گئیں جہاں سے قلعہ والوں نے ان کو اندر داخل کر لیا.۳۴۱ اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدت سے امانت کے اصول پر عمل کرتے تھے اور کرواتے تھے.لڑنے والوں کے اموال آج بھی جنگ میں حلال سمجھتے جاتے ہیں کیا ایسا واقعہ آجکل کے زمانہ میں جو مہذب زمانہ کہلا تا ہے کبھی ہوا ہے کہ دشمن فوج کے جانور ہاتھ آگئے ہوں تو ان کو دشمن فوج کی طرف واپس کر دیا گیا ہو؟ باوجود اس کے کہ وہ بکریاں ایک لڑنے والے دشمن کا مال تھیں اور باوجود اس کے کہ ان کے قلعے میں واپس چلے جانے کے نتیجہ میں دشمن کے لئے مہینوں کی غذا کا سامان ہو جاتا تھا جس کے بھروسہ پر وہ ایک لمبے عرصہ تک محاصرہ کو جاری رکھ سکتا تھا.آپ نے ان بکریوں کو قلعہ میں واپس کروا دیا تا ایسا نہ ہو کہ اس مسلمان کی امانت میں فرق آئے جس کے سپر دبکریاں تھیں.تیسرا واقعہ یہ ہوا کہ ایک یہودی عورت نے صحابہ سے پوچھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جانور کے کس حصہ کا گوشت زیادہ پسند ہے؟ صحابہ نے بتایا کہ آپ کو دست کا گوشت زیادہ پسند ہے.اس پر اس نے بکرا ذبح کیا اور پتھروں پر اس کے کباب بنائے اور پھر اس گوشت میں زہر ملا دیا.خصوصاً بازوؤں میں جس کے متعلق اسے بتایا گیا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہاں کا گوشت زیادہ پسند کرتے ہیں.سورج ڈوبنے کے بعد جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم شام کی نماز پڑھ کر اپنے ڈیرے کی طرف واپس آرہے تھے تو آپ نے دیکھا کہ آپ کے خیمے کے پاس ایک عورت بیٹھی ہے.آپ نے اس سے پوچھا.بی بی تمہارا کیا کام ہے؟ اس نے کہا اے ابو القاسم ! میں آپ کے لئے ایک تحفہ لائی ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ساتھی صحابی سے فرمایا جو چیز یہ دیتی

Page 340

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۸ دیباچہ تفسیر القرآن ہے اس سے لے لو.اس کے بعد آپ کھانے کے لئے بیٹھے تو کھانے پر وہ بھنا ہوا گوشت بھی رکھا گیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک لقمہ کھایا اور آپ کے ایک صحابی بشیر بن البراء بن المعرور نے بھی ایک لقمہ کھایا.اتنے میں باقی صحابہ نے بھی گوشت کھانے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو آپ نے فرمایا مت کھاؤ کیونکہ اس ہاتھ نے مجھے خبر دی ہے کہ گوشت میں زہر ملا ہوا ہے ( اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کو اس بارہ میں کوئی الہام ہوا تھا بلکہ یہ عرب کا محاورہ ہے ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ اس کا گوشت چکھ کر مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے چنانچہ قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک دیوار کے متعلق آتا ہے کہ وہ گرنا چاہتی تھی.۳۴۲ے جس کے محض یہ معنی ہیں کہ اس میں گرنے کے آثار پیدا ہو چکے تھے.پس اس جگہ پر بھی یہ مراد نہیں کہ آپ نے فرمایا وہ دست بولا بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس کا گوشت چکھنے پر مجھے معلوم ہوا ہے.چنانچہ اگلا فقرہ ان معنوں کی وضاحت کر دیتا ہے ) اس پر بشیر نے کہا کہ جس خدا نے آپ کو عزت دی ہے اُس کی قسم کھا کر میں کہتا ہوں کہ مجھے بھی اس لقمہ میں زہر معلوم ہوا ہے.میرا دل چاہتا تھا کہ میں اس کو پھینک دوں لیکن میں نے سمجھا کہ اگر میں نے ایسا کیا تو شاید آپ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے اور آپ کا کھانا خراب نہ ہو جائے اور جب آپ نے وہ لقمہ نگلا تو میں نے بھی آپ کے تتبع میں وہ نگل لیا.گو میرا دل یہ کہہ رہا تھا کہ چونکہ مجھے شبہ ہے کہ اس میں زہر ہے اس لئے کاش رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ لقمہ نہ لگیں.اس کے تھوڑی دیر بعد بشیر کی طبیعت خراب ہوگئی اور بعض روایتوں میں تو یہ ہے کہ وہ وہیں خیبر میں فوت ہو گئے اور بعض میں یہ ہے کہ اس کے بعد کچھ عرصہ بیمار رہے اور اس کے بعد فوت ہو گئے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ گوشت اس کا ایک کتے کے آگے ڈلوایا جس کے کھانے سے وہ مر گیا.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو بلایا اور فرمایا تم نے کی اس بکری میں زہر ملایا ہے؟ اس نے کہا آپ کو یہ کس نے بتایا ہے؟ آپ کے ہاتھ میں اُس وقت بکری کا دست تھا آپ نے فرمایا اس ہاتھ نے مجھے بتایا ہے.اس پر اس عورت نے سمجھ لیا کہ آپ پر یہ راز کھل گیا ہے اور اس نے اقرار کیا کہ اس نے زہر ملایا ہے؟ اس پر آپ نے اس کی سے پوچھا کہ اس ناپسندیدہ فعل پر تم کو کس بات نے آمادہ کیا؟ اُس نے جواب دیا کہ میری قوم

Page 341

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۲۹ دیباچہ تفسیر القرآن سے آپ کی لڑائی ہوئی تھی اور میرے رشتہ دار اس لڑائی میں مارے گئے تھے میرے دل میں خیال آیا کہ میں ان کو زہر دے دوں.اگر ان کا کاروبار انسانی کا روبار ہوگا تو ہمیں ان سے نجات حاصل ہو جائے گی اور اگر یہ واقعہ میں نبی ہوں گے تو خدا تعالیٰ ان کو خود بچا لے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی یہ بات سن کر اُسے معاف فرما دیا ۳۴۳ اور اُس کی سزا کی جو یقیناً قتل تھی نہ دی.یہ واقعہ بتاتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے مارنے والوں اور اپنے دوستوں کے مارنے والوں کو بخش دیا کرتے تھے اور در حقیقت اُسی وقت آپ سزا دیا کرتے تھے جب کسی شخص کا زندہ رہنا آئندہ بہت سے فتنوں کا موجب ہوسکتا تھا.ہجرت کے ساتویں سال فروری ۶۲۹ء میں معاہدہ کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ طواف کعبه علیہ وسلم نے طواف کے لئے جانا تھا.چنانچہ جب وہ وقت آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قریباً دو ہزار آدمیوں سمیت طواف کعبہ کے لئے روانہ ہوئے.جب آپ مر الظهران تک پہنچے جو مکہ سے ایک پڑاؤ پر ہے تو معاہدہ کے مطابق آپ نے تمام بھاری ہتھیار اور زر ہیں وہاں جمع کر دیں اور خود اپنے صحابہ سمیت معاہدہ کے مطابق صرف نیام بند تلواروں کے ساتھ حرم میں داخل ہوئے.سات سالہ جلا وطنی کے بعد مہاجرین کا مکہ میں داخل ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی.اُن کے دل ایک طرف ان لمبے مظالم کی یاد کر کے خون بہا رہے تھے جو مکہ میں ان پر کئے جاتے تھے اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے اس فضل کو دیکھ کر کہ پھر خدا تعالیٰ نے انہیں کعبہ کے طواف کا موقع نصیب کیا ہے وہ خوش بھی ہورہے تھے.ملکہ کے لوگ مکہ سے نکل کر پہاڑ کی چوٹیوں پر کھڑے ہو کر مسلمانوں کو دیکھ رہے تھے.مسلمانوں کا دل چاہتا تھا کہ آج وہ ان پر ظاہر کر دیں کہ خدا تعالیٰ نے انہیں پھر مکہ میں داخل ہونے کی توفیق بخشی یا نہیں.چنانچہ عبداللہ بن رواحہ نے اس موقع پر جنگی گیت گانے شروع کئے مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روک دیا اور فرمایا.ایسے شعر نہ پڑھو بلکہ یوں کہو کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں ، وہ خدا ہی ہے جس نے اپنے رسول کی مدد کی اور مؤمنوں کو ذلت کے گڑھے سے نکال کر اُونچا کیا.صرف خدا ہی ہے جس نے دشمنوں کو ان کے سامنے سے بھگا دیا.طواف کعبہ اور سعی بین الصفاء والمروہ سے فراغت کے بعد آپ صحابہ سمیت تین دن تک مکہ میں ٹھہرے.حضرت عباس کی تی

Page 342

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۰ دیباچہ تفسیر القرآن سالی میمونہ جو دیر سے بیوہ ہو چکی تھیں مکہ میں تھیں حضرت عباس نے خواہش کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس سے شادی کر لیں اور آپ نے اسے منظور فرمالیا.چوتھے دن مکہ والوں نے مطالبہ کیا کہ آپ حسب معاہدہ مکہ سے نکل جائیں اور آپ نے فوراً تمام صحابہ کو حکم دیا کہ فوراً مکہ چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہو جائیں.مکہ والوں کے احساسات کا خیال کر کے نئی بیاہی ہوئی میمونہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا کہ وہ بعد میں اسباب کی سواریوں کے ساتھ آجائیں اور خود اپنی سواری دوڑا کر حرم کی حدود سے باہر نکل گئے اور وہیں شام کے وقت آپ کی بیوی میمونہ کو پہنچایا گیا اور پہلی رات وہیں جنگل میں میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوئیں.۳۴۴ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ واقعہ ایسا نہیں ہے کہ اس کو ایسی مختصر سیرت میں بیان کیا جاتا، جس قسم کی کی تعدد ازواج پر اعتراض کا جواب سیرت میں اس وقت لکھ رہا ہوں لیکن اس واقعہ کا ایک ایسا پہلو ہے جو مجھے مجبور کرتا ہے کہ اس معمولی سے واقعہ کو اس جگہ لکھ دوں اور وہ یہ کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ اُن کی کئی بیویاں تھیں اور یہ کہ آپ کا یہ فعل نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذلِکَ عیاشی پر مبنی تھا مگر جب ہم اس تعلق کو دیکھتے ہیں جو آپ کی بیویوں کو آپ کے ساتھ تھا تو ہمیں ماننا پڑتا ہے کہ آپ کا تعلق ایسا پاکیزہ ، ایسا بے لوث اور ایسا روحانی تھا کہ کسی ایک بیوی والے مرد کا تعلق بھی اپنی بیوی سے ایسا نہیں ہوتا.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق اپنی بیویوں سے عیاشی کا ہوتا تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے تھا کہ آپ کی بیویوں کے دل کسی روحانی جذبہ سے متاثر نہ ہوتے.مگر آپ کی بیویوں کے دل میں آپ کی جو محبت تھی اور آپ سے جو نیک اثر انہوں نے لیا تھا وہ بہت سے ایسے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کی وفات کے بعد آپ کی بیویوں کے متعلق تاریخ سے ثابت ہے.مثلاً یہی واقعہ کتنا چھوٹا سا تھا کہ میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلی دفعہ حرم سے باہر ایک خیمہ میں ملیں.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُن سے تعلق کوئی جسمانی تعلق ہوتا، اور اگر آپ بعض بیویوں کو بعض پر ترجیح دینے والے ہوتے تو میمونہ اس واقعہ کو اپنی زندگی کا کوئی اچھا واقعہ نہ سمجھتیں بلکہ

Page 343

انوار العلوم جلد ۲۰ ٣٣١ کوشش کرتیں کہ یہ واقعہ اُن کی یاد سے بھول جائے.لیکن میمونہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد پچاس سال زندہ رہیں اور ۰ ۸ سال کی ہو کر فوت ہوئیں.مگر اس برکت والے تعلق کو وہ ساری عمر بھلا نہ سکیں.۷۰ سال کی عمر میں جب جوانی کے جذبات سب سرد ہو چکے ہوتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد جو عرصہ ایک مستقل عمر کہلانے کا مستحق ہے میمونہ فوت ہوئیں اور اُس وقت اُنہوں نے اپنے ارد گرد کے لوگوں سے درخواست کی کہ جب میں مر جاؤں تو مکہ کے باہر ایک منزل کے فاصلہ پر اس جگہ جس جگہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا اور جس جگہ پہلی دفعہ میں آپ کی خدمت میں پیش کی گئی تھی میری قبر بنائی جائے اور اُس میں مجھے دفن کیا جائے.۳۴۵ دنیا میں سچے نوادر بھی ہوتے ہیں اور قصے کہانیاں بھی مگر بچے نوادر میں سے بھی اور قصے کہانیوں میں سے بھی کیا کوئی واقعہ اس کی گہری محبت سے زیادہ پرتاثیر پیش کیا جاسکتا ہے؟ خالد بن ولید اور عمر و بن زیارت کعبہ سے واپسی کے بعد جلد ہی دو ایسے آدمی اسلام میں داخل ہوئے جو اسلامی جنگوں کے شروع سے العاص کا قبولِ اسلام لے کر اس وقت تک کفار کے زبردست جرنیلوں میں شامل تھے اور جو اسلام لانے کے بعد اسلام کے ایسے مشہور جرنیل ثابت ہوئے کہ تاریخ اسلام میں سے ان لوگوں کا نام مٹایا نہیں جا سکتا.یعنی خالد بن ولیڈ جس نے بعد میں روما کی حکومت کی بنیادیں ہلا دیں اور علاقہ کے بعد علاقہ فتح کر کے اسلامی حکومت میں داخل کیا اور عمر و بن العاص جنہوں نے مصر کو فتح کر کے اسلامی حکومت میں شامل کیا.جنگ موتہ جب آپ زیارت کعبہ سے واپس آئے تو آپ کو اطلاعات ملنی شروع ہوئیں کہ شام کی سرحد پر عیسائی عرب قبائل یہودیوں اور کفار کے اُکسانے پر مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہے ہیں.چنانچہ آپ نے پندرہ آدمیوں کی ایک پارٹی اس غرض کے لئے شام کی سرحد پر بجھوائی کہ وہ تحقیقات کریں کہ یہ افواہیں کہاں تک صحیح ہیں.جب یہ لوگ شامی سرحد پر پہنچے تو وہاں دیکھا کہ ایک لشکر جمع ہو رہا ہے.بجائے اس کے کہ یہ لوگ واپس آکر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دیتے تبلیغ کا جوش جو اُس زمانہ میں مؤمن کی کچی علامت ہوا

Page 344

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۲ دیباچہ تفسیر القرآن کرتا تھا اُن پر غالب آ گیا اور دلیری سے آگے بڑھ کر انہوں نے اُن لوگوں کو اسلام کی دعوت می دینی شروع کر دی.جو لوگ دشمنوں کے اُکسائے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وطن پر حملہ کر کے اُسے فتح کرنا چاہتے تھے وہ ان لوگوں کی تو حید کی تعلیم سے بھلا کہاں متاثر ہو سکتے تھے.جو نہی اِن لوگوں نے اُن کو اسلام کی تعلیم سنانی شروع کی چاروں طرف سے سپاہیوں نے کمانیں سنبھال لیں اور اُن پر تیر برسانے شروع کر دیئے.جب مسلمانوں نے دیکھا کہ ہماری تبلیغ کا جواب بجائے دلائل اور براہین پیش کرنے کے یہ لوگ تیر پھینک رہے ہیں تو وہ بھاگے نہیں اور اس سینکڑوں اور ہزاروں کے مجمع سے انہوں نے اپنی جانیں نہیں بچائیں بلکہ بچے مسلمانوں کے طور پر وہ پندرہ آدمی ان سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کے مقابلہ پر ڈٹ گئے اور سارے کے سارے وہیں مرکر ڈھیر ہو گئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا کہ ایک اور لشکر بھیج کر ان لوگوں کو سزاد یں جنہوں نے ایسا ظالمانہ فعل کیا تھا.اتنے میں آپ کو اطلاع ملی کہ وہ لشکر جو وہاں جمع ہو رہے تھے پراگندہ ہو گئے ہیں اور آپ نے کچھ مدت کیلئے اس ارادہ کو ملتوی کر دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِسی دوران میں غسان قبیلہ کے رئیس کو جو رومی حکومت کی طرف سے بصرہ کا حاکم تھا یا خود قیصر روما کو ایک خط لکھا.غالباً اس خط میں مذکورہ بالا واقعہ کی شکایت ہو گی کہ بعض شامی قبائل اسلامی علاقہ پر حملہ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں اور یہ کہ انہوں نے بلا وجہ پندرہ مسلمانوں کو قتل کر دیا ہے.یہ خط الحرث نامی ایک صحابی کے ہاتھ بجھوایا گیا تھا.وہ شام کی طرف جاتے ہوئے موتہ نامی ایک مقام پر ٹھہرے جہاں غسان قبیلہ کا ایک رئیس سرجیل نامی جو قیصر کے مقرر کردہ حکام میں سے تھا اُنہیں ملا اور اُس نے ان سے پوچھا کہ تم کہاں جار ہے ہو؟ شاید تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبر ہو؟ انہوں نے کہا ہاں.اس پر اُس نے ان کو گرفتار کر لیا اور رسیوں سے باندھ کر مار مار کر انہیں مار دیا.گو تاریخ میں اس کی جی تشریح نہیں آئی لیکن یہ واقعہ بتا تا ہے کہ جس لشکر نے پہلے پندرہ صحابیوں کو مارا تھا یہ شخص اس کے لیڈروں میں سے ہو گا.چنانچہ اس کا یہ سوال کرنا کہ شاید تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغامبروں میں سے ہو بتاتا ہے کہ اُس کو خوف تھا کہ محمد رسول اللہ قیصر کے پاس شکایت کریں کی گے کہ تمہارے علاقہ کے لوگ ہمارے علاقہ کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں اور وہ ڈرتا ہوگا کہ شاید

Page 345

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۳ دیباچہ تفسیر القرآن بادشاہ اس کی وجہ سے ہم سے باز پرس نہ کرے.پس اُس نے اپنی خیر اسی میں سمجھی کہ پیغا مبر کو کی ماردے تا کہ نہ پیغام پہنچے اور نہ کوئی تحقیقات ہو.مگر اللہ تعالیٰ نے اُس کے ان بدا را دوں کو پورا نہ ہونے دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حرث کے مارے جانے کی خبر کسی نہ کسی طرح پہنچ ہی گئی اور آپ نے اس پہلے واقعہ اور اس واقعہ کی سزا دینے کے لئے تین ہزار کا لشکر تیار کر کے زید بن حارثہؓ ( جو آپ کے آزاد کردہ غلام تھے اور جن کا آپ کی مکی زندگی میں ذکر آچکا ہے ) کی ماتحتی میں شام کی طرف بھجوایا اور حکم دیا کہ زید بن حارثہؓ فوج کے کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ کی مارے گئے تو جعفر بن ابی طالب کمانڈر ہوں گے اور اگر وہ مارے گئے تو عبد اللہ بن رواحہ کمانڈرہوں گے اور اگر وہ بھی مارے جائیں تو مسلمان اپنے میں سے کسی کو منتخب کر کے اپنا افسر بنا لیں.اُس وقت ایک یہودی آپ کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا.اُس نے کہا اے ابو القاسم ! اگر آپ بچے ہیں تو یہ تینوں آدمی ضرور مارے جائیں گے.کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں کو پورا کر دیا کرتا ہے.پھر وہ زیڈ کی طرف مخاطب ہوا اور کہا میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے بچے نبی ہیں تو تم کبھی زندہ واپس نہیں آؤ گے.زیڈ نے جواب میں کہا میں واپس آؤں یا نہ آؤں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے سچے نبی ہیں.دوسرے دن صبح کے وقت یہ لشکر روانہ ہوا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ اس کی کو چھوڑنے کے لئے گئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کی افسری کے بغیر اتنا مسلمان جرنیل کے ماتحت کسی اہم کام کیلئے نہیں گیا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس لشکر کے ساتھ ساتھ چلتے جاتے تھے اور انہیں نصیحتیں کرتے جاتے تھے.آخر مدینہ کے باہر اُس مقام پر جا کر جہاں سے آپ مدینہ میں داخل ہوئے تھے اور جس جگہ پر عام طور پر مدینہ والے اپنے مسافروں کو رخصت کیا کرتے تھے ، آپ کھڑے ہو گئے اور کہا میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں اور تمہارے ساتھ جتنے مسلمان ہیں اُن سے نیک سلوک کرنے کی تم اللہ کا نام لے کر جنگ پر جاؤ اور تمہارے اور خدا کے دشمن جو شام میں ہیں اُن سے جا کر لڑائی کرو.جب تم شام میں پہنچو گے تو وہاں تمہیں ایسے لوگ ملیں گے جو عبادت گاہوں میں بیٹھ کر خدا کا نام لیتے ہیں تم اُن سے کسی قسم کا تعرض نہ کرنا اور نہ انہیں تکلیف پہنچانا اور نہ دشمن کے ملک میں کسی تی بڑا

Page 346

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۴ دیباچہ تفسیر القرآن.عورت کو مارنا اور نہ کسی بچے کو مارنا اور نہ کسی اندھے کو مارنا اور نہ کسی بڑھے کو مارنا.نہ کوئی درخت کاٹنا نہ عمارت گرانا.یہ نصیحت کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس لوٹے اور اسلامی لشکر شام کی طرف روانہ ہوا.یہ پہلا لشکر تھا جو اسلام کی طرف سے عیسائیت کے مقابلہ کے لئے نکلا.جب یہ لشکر شام کی سرحد پر پہنچا تو ا سے معلوم ہوا کہ قیصر بھی اس طرف آیا ہوا ہے اور ایک لاکھ رومی سپاہی اس کے ساتھ ہیں اور ایک لاکھ کے قریب عرب کے عیسائی قبائل کے سپاہی بھی اس کے ساتھ ہیں.اس پر مسلمانوں نے چاہا کہ وہ راستہ میں ڈیرہ ڈال دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دیں تا کہ اگر آپ نے کوئی اور مدد بھیجنی ہو تو بھیج دیں اور اگر کوئی حکم دینا ہو تو اس سے اطلاع دیں.جب یہ مشورہ ہو رہا تھا عبداللہ بن رواحہ جوش سے کھڑے ہو گئے اور کہا اے قوم! تم اپنے گھروں سے خدا کے راستہ میں شہید ہونے کیلئے نکلے تھے اور جس چیز کے لئے تم نکلے تھے اب اُس سے گھبرا ر ہے ہو اور ہم لوگوں سے اپنی تعداد اور اپنی قوت اور اپنی کثرت کی وجہ سے تو لڑائیاں نہیں کرتے رہے.ہم تو اس دین کی مدد کیلئے دشمنوں سے لڑتے رہے ہیں جو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ہمارے لئے نازل کیا ہے.اگر دشمن زیادہ ہے تو ہوا کرے.آخر دو نیکیوں میں سے ہم کو ایک ضرور ملے گی یا ہم غالب آجائیں گے یا ہم خدا کی راہ میں شہید ہو جائیں گے.لوگوں نے اُن کی یہ بات سن کے کہا ابن رواحہ کی بالکل سچ کہتے ہیں اور فوراً کوچ کا حکم دے دیا گیا.جب وہ آگے بڑھے تو رومی لشکر انہیں اپنی کی طرف بڑھتا ہوا نظر آیا تو مسلمانوں نے موتہ کے مقام پر اپنی فوج کی صف بندی کر لی اور لڑائی کی شروع ہو گئی.تھوڑی ہی دیر میں زید بن حارثہؓ جو مسلمانوں کے کمانڈر تھے مارے گئے تب اسلامی فوج کا جھنڈا جعفر بن ابی طالب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد بھائی نے اپنے کی ہاتھ میں لے لیا اور فوج کی کمان سنبھال لی.جب اُنہوں نے دیکھا کہ دشمن کی فوج کا ریلاکی بڑھتا چلا جاتا ہے اور مسلمان اپنی تعداد کی قلت کی وجہ سے ان کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکتے تو آپ جوش سے گھوڑے سے کود پڑے اور اپنے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ دیں.جس کے معنی یہ تھے کہ کم سے کم میں تو اس میدان سے بھاگنے کے لئے تیار نہیں ہوں میں موت کو پسند کروں گا مگر بھاگنے کو پسند نہیں کروں گا.یہ ایک عربی رواج تھا.وہ گھوڑے کی ٹانگیں اس لئے کاٹ دیتے

Page 347

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۵ دیباچہ تفسیر القرآن تھے تا کہ وہ بغیر سوار کے ادھر اُدھر بھاگ کر لشکر میں تباہی نہ مچائے.تھوڑی دیر کی لڑائی میں آپ کا دایاں بازو کاٹا گیا.تب آپ نے بائیں ہاتھ سے جھنڈا پکڑ لیا.پھر آپ کا بایاں ہاتھ بھی کاٹا گیا تو آپ نے دونوں ہاتھ کے ٹنڈوں سے جھنڈے کو اپنے سینہ سے لگا لیا اور میدان میں کھڑے رہے یہاں تک کہ آپ شہید ہو گئے.تب عبداللہ بن رواحہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے ماتحت جھنڈے کو پکڑ لیا اور وہ بھی دشمن سے لڑتے لڑتے مارے گئے.اُس وقت مسلمانوں کے لئے کوئی موقع نہ تھا کہ وہ مشورہ کر کے کسی کو اپنا سر دار مقرر کرتے اور قریب تھا کہ دشمن کے لشکر کی کثرت کی وجہ سے مسلمان میدان چھوڑ جاتے کہ خالد بن ولید نے ایک دوست کی تحریک پر جھنڈا پکڑ لیا اور شام تک دشمن کا مقابلہ کرتے رہے.دوسرے دن پھر خالد اپنے تھکے ہوئے اور زخم خوردہ لشکر کو لے کر دشمن کے مقابلہ کے لئے نکلے اور انہوں نے یہ ہوشیاری کی کہ لشکر کے اگلے حصہ کو پیچھے کر دیا اور پچھلے حصہ کو آگے کر دیا اور دائیں کو بائیں اور بائیں کو دائیں اور اس طرح نعرے لگائے کہ دشمن سمجھا کہ مسلمانوں کو اور مدد پہنچ گئی ہے.اس پر دشمن پیچھے ہٹ گیا اور خالد اسلامی لشکر کو بچا کر واپس لے آئے.۳۴۶ے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر اُسی دن وحی کے ذریعہ سے دے دی اور آپ نے اعلان کر کے سب مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا.جب آپ ممبر پر چڑھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.آپ نے فرمایا اے لوگو! میں تم کو اس جنگ میں جانے والے لشکر کے متعلق خبر دیتا ہوں.وہ لشکر یہاں سے جا کر دشمن سے مقابل کھڑا ہوا اور لڑائی شروع ہونے پر پہلے زیڈ مارے گئے پس تم لوگ زیڈ کے لئے دعا کرو.پھر جھنڈا جعفر نے لے لیا اور دشمن پر حملہ کیا یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہو گئے پس تم اُن کے لئے بھی دعا کرو.پھر جھنڈا عبد اللہ بن رواحہ نے لیا اور خوب دلیری سے لشکر کو لڑایا مگر آخر وہ بھی شہید ہو گئے پس تم اُن کے لئے بھی دعا کرو.پھر جھنڈا خالد بن ولیڈ نے لیا.اُس کو میں نے کمانڈر مقرر نہیں کیا تھا مگر اُس نے خود ہی اپنے آپ کو کمانڈر مقرر کر لیا.لیکن وہ خدا تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے.پس وہ خدا تعالیٰ کی مدد سے اسلامی لشکر کو بحفاظت واپس لے آئے.آپ کی اس تقریر کی وجہ سے خالد کا نام مسلمانوں میں سیف اللہ یعنی خدا کی تلوار مشہور ہو گیا.۳۴۷ چونکہ خالد آخر میں

Page 348

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۶ دیباچہ تفسیر القرآن ایمان لائے تھے بعض صحابہ اُن کو مذا قایا کسی جھگڑے کے موقع پر طعنہ دے دیا کرتے تھے.ایک دفعہ کسی ایسی ہی بات پر حضرت عبدالرحمن بن عوف سے ان کی تکرار ہو گئی.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خالد کی شکایت کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا خالد ! تم اس شخص کو جو کہ بدر کے وقت سے اسلام کی خدمت کر رہا ہے کیوں دُکھ دیتے ہو؟ اگر تم اُحد کے برابر بھی سونا خرچ کرو تو اس کے برابر خدا تعالیٰ سے انعام حاصل نہیں کر سکتے.اس پر خالد نے کہا يَارَسُوْلَ اللهِ ! یہ مجھے طعنہ دیتے ہیں تو پھر میں بھی جواب دیتا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم لوگ خالد کو تکلیف نہ دیا کرو.یہ اللہ تعالیٰ کی تلواروں میں سے ایک تلوار ہے جو خدا تعالیٰ نے کفار کی ہلاکت کے لئے کھینچی ہے.۳۴۸ یہ پیشگوئی چند سالوں بعد حرف بحرف پوری ہوئی.جب خالد اپنے لشکر کو واپس لائے تو مدینہ کے صحابہ جو ساتھ نہ گئے تھے انہوں نے اس کے لشکر کو بھگوڑے کہنا شروع کیا.مطلب یہ تھا کہ تم کو وہیں لڑ کر مر جانا چاہئے تھا واپس نہیں کی آنا چاہئے تھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ بھگوڑے نہیں بار بار کوٹ کر دشمن پر حملہ کرنے والے سپاہی ہیں.اس طرح آپ نے اُن آئندہ جنگوں کی پیشگوئی فرمائی جو مسلمانوں کو شام کے ساتھ پیش آنے والی تھیں.فتح مکہ آٹھویں سنہ ہجری کے رمضان کے مہینہ مطابق دسمبر ۶۲۹ء میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس آخری جنگ کے لئے روانہ ہوئے جس نے عرب میں اسلام کو قائم کر دیا.یہ واقعہ یوں ہوا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر یہ فیصلہ ہوا تھا کہ عرب قبائل میں سے جو چاہیں مکہ والوں سے مل جائیں اور جو چاہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل جائیں اور یہ کہ دس سال تک دونوں فریق کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ کی اجازت نہیں ہوگی.سوائے اس کے کہ ایک دوسرے پر حملہ کر کے معاہدہ کو توڑ دے.اس معاہدہ کے ماتحت عرب کا قبیلہ بنو بکر مکہ والوں کے ساتھ ملا تھا اور خزاعہ قبیلہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ.کفارِ عرب معاہدہ کی پابندی کا خیال کم ہی رکھتے تھے خصوصاً مسلمانوں کے مقابلہ میں.چنانچہ بنو بکر کو چونکہ قبیلہ خزاعہ کے ساتھ پرانا اختلاف تھا، صلح حدیبیہ پر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے مکہ والوں سے مشورہ کیا کہ خزاعہ تو معاہدہ کی وجہ سے بالکل مطمئن ہیں اب موقع ہے کہ ہم لوگ ان سے.

Page 349

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۷ دیباچہ تفسیر القرآن بدلہ لیں.چنانچہ مکہ کے قریش اور بنو بکر نے مل کر رات کو بنی خزاعہ پر چھاپا مارا اور ان کے بہت سے آدمی مار دیئے.خزاعہ کو جب معلوم ہوا کہ قریش نے بنو بکر سے مل کر یہ حملہ کیا ہے تو انہوں نے اس عہد شکنی کی اطلاع دینے کے لیے چالیس آدمی تیز اونٹوں پر فوراً مدینہ کو روانہ کئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ باہمی معاہدہ کی رو سے اب آپ کا فرض ہے کہ ہمارا بدلہ لیں اور مکہ پر چڑھائی کریں.جب یہ قافلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو آپ نے فرمایا تمہارا دُکھ میرا دکھ ہے میں اپنے معاہدہ پر قائم ہوں.یہ بادل جو سامنے برس رہا ہے ( اُس وقت بارش ہو رہی تھی ) جس طرح اس میں سے بارش ہو رہی ہے اسی طرح جلدی ہی تمہاری مدد کے لئے اسلامی فوجیں پہنچ جائیں گی.جب مکہ والوں کو اس وفد کا علم ہوا تو وہ بہت گھبرائے اور انہوں نے ابوسفیان کو مدینہ روانہ کیا، تا کہ وہ کسی طرح مسلمانوں کو حملہ سے باز رکھے.ابوسفیان نے مدینہ پہنچ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر زور دینا شروع کیا کہ چونکہ صلح حدیبیہ کے وقت میں موجود نہ تھا اس لئے نئے سرے سے معاہدہ کیا جائے.لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا.کیونکہ جواب دینے سے راز ظاہر ہو جاتا تھا.ابوسفیان نے مایوسی کی حالت میں گھبرا کر مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان کیا اے لوگو! میں مکہ والوں کی کی طرف سے نئے سرے سے آپ لوگوں کے لئے امن کا اعلان کرتا ہوں.۳۴۹ یہ بات سن کر مسلمان اُس کی بیوقوفی پر ہنس پڑے اور سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوسفیان ! یہ بات تم یکطرفہ کہہ رہے ہو ہم نے کوئی ایسا معاہدہ تم سے نہیں کیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دوران میں چاروں طرف مسلمان قبائل کی طرف پیغامبر بجھوا دیئے اور جب یہ اطلاعیں آچکیں کہ مسلمان قبائل تیار ہو چکے ہیں اور مکہ کی طرف کوچ کرتے ہوئے راستہ میں ملتے جائیں گے تو آپ نے مدینہ کے لوگوں کو مسلح ہونے کا حکم کی دیا.جنوری ۶۳۰ء کی پہلی تاریخ کو یہ لشکر مدینہ سے روانہ ہوا اور راستہ میں چاروں طرف مسلمان قبائل آ آ کر لشکر میں شامل ہوتے گئے.چند ہی منزلیں طے کرنے کے بعد جب یہ لشکر فاران کے جنگل میں داخل ہوا تو اس کی تعداد سلیمان نبی کی پیشگوئی کے مطابق دس ہزار تک پہنچ چکی تھی.ادھر تو یہ لشکر مکہ کی طرف مارچ کرتا چلا جا رہا تھا اور اُدھر مکہ والے اس خاموشی کی وجہ

Page 350

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۸ دیباچهتفسیر القرآن.سے جو فضا پر طاری تھی زیادہ سے زیادہ خوف زدہ ہوتے جاتے تھے.آخر انہوں نے مشورہ کر کے ابوسفیان کو پھر اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ مکہ سے باہر نکل کر پتہ تو لے کہ مسلمان کیا کرنا چاہتے ہیں.مکہ سے ایک منزل باہر نکلنے پر ہی ابوسفیان نے رات کے وقت جنگل کو آگ سے روشن پایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دے دیا تھا کہ تمام خیموں کے آگے آگ جلائی جائے.جنگل میں دس ہزار اشخاص کے لئے خیموں کے آگے بھڑکتی ہوئی آگ ایک ہیبت ناک نظارہ پیش کر رہی تھی.ابوسفیان نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کیا آسمان سے کوئی لشکر اُترا ہے؟ کیونکہ عرب کی کسی قوم کا لشکر اتنا بڑا نہیں ہے.اس کے ساتھیوں نے مختلف قبائل کے نام لئے لیکن اس نے کہا نہیں نہیں ، عرب کے قبائل میں سے کسی قوم کا لشکر بھی اتنا بڑا کہاں ہوسکتا ہے.وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ اندھیرے میں سے آواز آئی ابو حنظلہ ! یہ ابوسفیان کی کنیت تھی ) ابوسفیان نے کہا عباس ! تم یہاں کہاں؟ اُنہوں نے جواب دیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لشکر سامنے ہے اور اگر تم لوگوں نے جلد جلد کوئی تدبیر نہ کر لی تو شکست اور ذلّت تمہارے لئے بالکل تیار ہے.چونکہ عباس ابوسفیان کے پرانے دوست تھے اس لیے یہ بات کرنے کے بعد انہوں نے ابوسفیان سے اصرار کیا کہ وہ ان کے ساتھ سواری پر بیٹھ جائے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو.چنانچہ انہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ کر اُونٹ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا اور اونٹ کو ایڑی لگا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں پہنچے.حضرت عباس ڈرتے تھے کہ حضرت عمرؓ جو اُن کے ساتھ پہرہ پر مقرر تھے کہیں اس کو قتل نہ کر دیں لیکن کی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے ہی فرما چکے تھے کہ اگر ابوسفیان تم میں سے کسی کو ملے تو اسے قتل نہ کرنا.یہ سارا نظارہ ابوسفیان کے دل میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا کر چکا تھا.ابوسفیان نے دیکھا کہ چند ہی سال پہلے ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف ایک ساتھی کے ساتھ مکہ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن ابھی سات ہی سال گزرے ہیں کہ وہ دس ہزار قد دسیوں سمیت مکہ پر بلا ظلم اور بلا تعدی کے جائز طور پر حملہ آور ہوا ہے اور مکہ والوں میں طاقت نہیں کہ اس کو روک سکیں.چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس تک پہنچتے پہنچتے کچھ ان خیالات کی وجہ سے اور کچھ دہشت اور خوف کی وجہ سے ابوسفیان مبہوت سا ہو چکا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم

Page 351

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۳۹ دیباچهتفسیر القرآن نے اُس کی یہ حالت دیکھی تو حضرت عباس سے فرمایا کہ ابوسفیان کو اپنے ساتھ لے جاؤ اور رات اپنے پاس رکھو صبح اسے میرے پاس لانا.۳۵۰ چنانچہ رات ابوسفیان حضرت عباس کے ساتھ رہا.جب صبح اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے تو فجر کی نماز کا وقت تھا.مکہ کے لوگ صبح اُٹھ کر نماز پڑھنے کو کیا جانتے تھے اُس نے ادھر ادھر مسلمانوں کو پانی کے بھرے ہوئے لوٹے لے کر آتے جاتے دیکھا اور اسے نظر آیا کہ کوئی وضو کر رہا ہے کوئی صف بندی کر رہا تاج ہے تو ابوسفیان نے سمجھا کہ شاید میرے لئے کوئی نئی قسم کا عذاب تجویز ہوا ہے.چنانچہ اُس نے گھبرا کر حضرت عباس سے پوچھا کہ یہ لوگ صبح صبح یہ کیا کر رہے ہیں؟ حضرت عباس نے کہا تمہارے لئے ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں یہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں.اس کے بعد ابوسفیان نے دیکھا کہ ہزاروں ہزار مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہو گئے ہیں اور جب کی آپ رکوع کرتے ہیں تو سب کے سب رکوع کرتے ہیں اور جب آپ سجدہ کرتے ہیں تو سب کے سب سجدہ کرتے ہیں.حضرت عباس چونکہ پہرہ پر ہونے کی وجہ سے نماز میں شامل نہیں ہوئے تھے ابوسفیان نے اُن سے پوچھا اب یہ کیا کر رہے ہیں؟ میں دیکھتا ہوں کہ جو کچھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے ہیں وہی یہ لوگ کرنے لگ جاتے ہیں.عباس نے کہا تم کن خیالات میں پڑے ہو یہ تو نماز ادا ہو رہی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر ان کو حکم دیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو تو یہ لوگ کھانا اور پینا بھی چھوڑ دیں.ابوسفیان نے کہا.میں نے کسری کا در بار بھی دیکھا ہے اور قیصر کا دربار بھی دیکھا ہے لیکن اُن کی قوموں کو اُن کا اتنا فدائی نہیں دیکھا جتنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جماعت اس کی فدائی ہے.۳۵۱ پھر عباس نے کہا کیا چی یہ نہیں ہو سکتا کہ تم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آج یہ درخواست کرو کہ آپ اپنی قوم سے عفو کا معاملہ کریں.جب نماز ختم ہو چکی تو حضرت عباس ابوسفیان کو لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے فرمایا.ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تجھ پر یہ حقیقت روشن ہو جائے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں.آپ نہایت ہی حلیم، نہایت ہی شریف اور نہایت ہی صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں.میں اب یہ بات تو سمجھ چکا ہوں کہ اگر خدا کے سوا کوئی اور معبود ہوتا تو کچھ تو ہماری

Page 352

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۰ دیباچہ تفسیر القرآن مدد کرتا.اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوسفیان ! کیا ابھی وقت نہیں آیا تی کہ تم سمجھ لو کہ میں اللہ کا رسول ہوں؟ ابوسفیان نے کہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اس بارہ میں ابھی میرے دل میں کچھ شبہات ہیں.مگر ابوسفیان کے تر ڈر کے باوجود اُس کے دونوں ساتھی جو اُس کے ساتھ ہی مکہ سے باہر مسلمانوں کے لشکر کی خبر لینے کے لئے آئے تھے اور جن میں سے ایک حکیم بن حزام تھے وہ مسلمان ہو گئے.اس کے بعد ابوسفیان بھی اسلام لے آیا، مگر اُس کا دل غالباً فتح مکہ کے بعد پوری طرح کھلا.ایمان لانے کے بعد حکیم بن حزام نے کہا.يَا رَسُوْلَ اللہ ! کیا یہ لشکر آپ اپنی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے اٹھا لائے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ان لوگوں نے ظلم کیا ، ان لوگوں نے گناہ کیا اور تم لوگوں نے حدیبیہ میں باندھے ہوئے عہد کو توڑ دیا اور خزاعہ کے خلاف ظالمانہ جنگ کی.اُس مقدس مقام پر جنگ کی جس کو خدا نے امن عطا فر مایا ہوا تھا.حکیم نے کہا يَا رَسُولَ الله! ٹھیک ہے آپ کی قوم نے بیشک ایسا ہی کیا ہے لیکن آپ کو تو چاہئے تھا کہ بجائے مکہ پر حملہ کرنے کے ہوازن قوم پر حملہ کرتے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ قوم بھی ظالم ہے لیکن میں خدا تعالیٰ سے امید کرتا ہوں کہ وہ مکہ کی فتح اور اسلام کا غلبہ اور ہوازن کی شکست یہ ساری باتیں میرے ہی ہاتھ پر پوری کرے گا.اس کے بعد ابوسفیان نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! اگر مکہ کے لوگ تلوار نہ اُٹھا ئیں تو کیا وہ امن میں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا ہاں! ہر شخص جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے اُسے امن دیا جائے گا.حضرت عباس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! ابوسفیان فخر پسند آدمی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ میری عزت کا بھی کوئی سامان کیا جائے.آپ نے فرمایا بہت اچھا جو شخص ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا.۳۵۲ے جو مسجد کعبہ میں گھس جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو اپنے ہتھیار پھینک دے اُس کو بھی امن دیا جائے گا ، جو اپنا نی دروازہ بند کر کے بیٹھ جائے گا اُس کو بھی امن دیا جائے گا، جو حکیم بن حزام کے گھر میں چلا جائے اُس کو بھی امن دیا جائے گا.اس کے بعد ابی رویحہ جن کو آپ نے بلال حبشی غلام کا بھائی بنایا ہوا تھا اُن کے متعلق آپ نے فرمایا.ہم اس وقت ابی رویحہ کو اپنا جھنڈا دیتے ہیں جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے کھڑا ہو گا ہم اُس کو بھی کچھ نہ کہیں گے.اور بلال سے کہا تم کی

Page 353

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۱ ساتھ ساتھ یہ اعلان کرتے جاؤ کہ جو شخص ابی رویحہ کے جھنڈے کے نیچے آ جائے گا اُس کو امن دیا جائے گا.۳۵۳ اس حکم میں کیا ہی لطیف حکمت تھی.مکہ کے لوگ بلال کے پیروں میں رسی ڈال کر اُس کو گلیوں میں کھینچا کرتے تھے ، مکہ کی گلیاں ، مکہ کے میدان بلال کے لئے امن کی جگہ نہیں تھے بلکہ عذاب اور تذلیل اور تضحیک کی جگہ تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ بلال کا دل آج انتقام کی طرف بار بار مائل ہوتا ہو گا اِس وفادار ساتھی کا انتقام لینا بھی نہایت ضروری ہے.مگر یہ بھی ضروری ہے کہ ہمارا انتقام اسلام کی شان کے مطابق ہو.پس آپ نے بلال کا انتقام اس طرح نہ لیا کہ تلوار کے ساتھ اُس کے دشمنوں کی گردنیں کاٹ دی جائیں بلکہ اس کے بھائی کے ہاتھ میں ایک بڑا جھنڈا دے کر کھڑا کر دیا اور بلال کو اس غرض کے لئے مقرر کر دیا ہے کہ وہ اعلان کر دے کہ جو کوئی میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے آکر کھڑا ہو گا اُسے امن دیا چی جائے گا.کیسا شاندار یہ انتقام تھا، کیسا حسین یہ انتقام تھا.جب بلال بلند آواز سے یہ اعلان کرتا ہو گا کہ اے مکہ والو! آؤ میرے بھائی کے جھنڈے کے نیچے کھڑے ہو جاؤ تمہیں امن دیا جائے گا تو اُس کا دل خود ہی انتقام کے جذبات سے خالی ہوتا جاتا ہوگا اور اُس نے محسوس کر لیا ہوگا کہ جو انتقام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے تجویز کیا ہے اس سے زیادہ شاندار اور اس سے زیادہ حسین انتقام میرے لئے اور کوئی نہیں ہو سکتا.جب لشکر مکہ کی طرف بڑھا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ کسی سڑک کے کونے پر ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کو لے کر کھڑے ہو جاؤ تا کہ وہ اسلامی لشکر اور اس کی فدائیت کو دیکھ سکیں.حضرت عباس نے ایسا ہی کیا.ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے سامنے سے یکے بعد دیگرے عرب کے وہ قبائل گزرنے شروع ہوئے جن کی امداد پر مکہ بھروسہ کر رہا تھا، مگر آج وہ کفر کا جھنڈا نہیں لہرا رہے تھے آج وہ اسلام کا جھنڈا لہرا رہے تھے اوران کی زبان پر خدائے قادر کی توحید کا اعلان تھا.وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کیلئے آگے نہیں بڑھ رہے تھے جیسا کہ مکہ والے امید کرتے تھے بلکہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہانے کے لئے تیار تھے اور ان کی انتہائی خواہش

Page 354

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۲ دیباچہ تفسیر القرآن یہی تھی کہ خدائے واحد کی تو حید اور اس کی تبلیغ کو دنیا میں قائم کر دیں.لشکر کے بعد لشکر گزر رہا تھا کی کہ اتنے میں انجمع قبیلے کا لشکر گزرا.اسلام کی محبت اور اس کے لئے قربان ہونے کا جوش ان کے چہروں سے عیاں اور ان کے نعروں سے ظاہر تھا.ابوسفیان نے کہا.عباس ! یہ کون ہیں ؟ عباس نے کہا یہ المجمع قبیلہ ہے.ابوسفیان نے حیرت سے عباس کا منہ دیکھا اور کہا سارے عرب میں ان سے زیادہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی دشمن نہیں تھا.عباس نے کہا یہ خدا کا فضل ہے جب اُس نے چاہا ان کے دلوں میں اسلام کی محبت داخل ہو گئی.سب سے آخر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار کا لشکر لئے ہوئے گزرے.یہ لوگ دو ہزار کی تعداد میں تھے اور سر سے پاؤں تک زرہ بکتروں میں چھپے ہوئے تھے.حضرت عمرؓ اُن کی صفوں کو درست کرتے چلے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے قدموں کو سنبھال کر چلو تا کہ صفوں کا فاصلہ ٹھیک رہے.ان پرانے فدا کارانِ اسلام کا جوش اور ان کا عزم اور ان کا ولولہ ان کے چہروں سے ٹپکا پڑتا تھا.ابوسفیان نے ان کو دیکھا تو اس کا دل دہل گیا.اس نے پوچھا عباس ! یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انصار و مہاجرین کے لشکر میں جار ہے ہیں.ابوسفیان نے جواب دیا اس لشکر کا مقابلہ کرنے کی دنیا میں کس کو طاقت ہے.پھر وہ حضرت عباس سے مخاطب ہوا اور کہا عباس ! تمہارے بھائی کا بیٹا آج دنیا میں سب سے بڑا بادشاہ ہو گیا ہے.عباس نے کہا اب بھی تیرے دل کی آنکھیں نہیں کھلیں یہ بادشاہت نہیں یہ تو نبوت ہے.ابوسفیان نے کہا ہاں ہاں اچھا پھر نبوت ہی سہی." جس وقت یہ لشکر ابوسفیان کے سامنے سے گزر رہا تھا انصار کے کمانڈر سعد بن عبادہا نے ابوسفیان کو دیکھ کر کہا آج خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے مکہ میں داخل ہونا تلوار کے زور سے حلال کر دیا ہے.آج قریشی قوم ذلیل کر دی جائے گی.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوسفیان کے پاس سے گزرے تو اس نے بلند آواز سے کہا یا رَسُولَ الله ! کیا آپ نے اپنی قوم کے قتل کی اجازت دے دی ہے؟ ابھی ابھی انصار کے سردار سعد اور ان کے ساتھی ایسا ایسا کہہ رہے تھے.انہوں نے بلند آواز یہ کہا ہے آج لڑائی ہوگی اور مکہ کی حرمت آج ہم کولڑائی سے باز نہیں ۳۵۴ رکھ سکے گی اور قریش کو ہم ذلیل کر کے چھوڑیں گے يَا رَسُولَ اللہ ! آپ تو دنیا میں.

Page 355

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۳ دیباچہ تفسیر القرآن زیادہ نیک ، سب سے زیادہ رحیم اور سب سے زیادہ صلہ رحمی کرنے والے انسان ہیں.کیا آج اپنی قوم کے ظلموں کو بھول نہ جائیں گے؟ ابوسفیان کی یہ شکایت والتجاء سن کر وہ مہاجرین بھی جن کو مکہ کی گلیوں میں پیٹا اور مارا جاتا تھا ، جن کو گھروں اور جائیدادوں سے بے دخل کیا جاتا تھا تڑپ گئے اور ان کے دلوں میں بھی مکہ کے لوگوں کی نسبت رحم پیدا ہو گیا تھا اور انہوں نے کہا يَا رَسُولَ الله انصار نے مکہ والوں کے مظالم کے جو واقعات سنے ہوئے ہیں آج ان کی وجہ سے ہم نہیں جانتے کہ وہ قریش کے ساتھ کیا معاملہ کریں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوسفیان ! سعد نے غلط کہا ہے آج رحم کا دن ہے.آج اللہ تعالیٰ قریش اور خانہ کعبہ کو عزت بخشنے والا ہے.پھر آپ نے ایک آدمی کو سعد کی طرف بجھوایا اور فرمایا اپنا جھنڈا اپنے بیٹے قیس کو دے دو کہ وہ تمہاری جگہ انصار کے لشکر کا کمانڈر ہوگا.۳۵۵ اس طرح آپ نے مکہ والوں کا دل بھی رکھ لیا اور انصار کے دلوں کو بھی صدمہ پہنچنے سے محفوظ رکھا.اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قیس پر پورا اعتبار بھی تھا کیونکہ قیں نہایت ہی شریف طبیعت کے نو جوان تھے.ایسے شریف کہ تاریخ میں لکھا ہے کہ ان کی وفات کے قریب جب بعض لوگ ان کی عیادت کے لئے آئے اور بعض نہ آئے تو انہوں نے اپنے دوستوں سے پوچھا کہ کیا وجہ ہے کہ بعض جو میرے واقف ہیں میری عیادت کے لیے نہیں آئے.ان کے دوستوں نے کہا آپ بڑے مخیر آدمی ہیں آپ ہر شخص کو اُس کی تکلیف کے وقت قرضہ دے دیتے ہیں.شہر کے بہت سے لوگ آپ کے مقروض ہیں اور وہ اس لئے آپ کی عیادت کے لئے نہیں آئے کہ شاید آپ کوضرورت ہوا اور آپ اُن سے روپیہ مانگ بیٹھیں.آپ نے فرمایا اوہو! میرے دوستوں کو بلا وجہ تکلیف ہوئی میری طرف سے تمام شہر میں منادی کر دو کہ ہر شخص جس پر قیس کا قرضہ ہے وہ اُسے معاف ہے.اس پر اس قد رلوگ ان کی عیادت کے لئے آئے کہ ان کے مکان کی سیٹرھیاں ٹوٹ گئیں.۳۵۶ جب لشکر گزر چکا تو عباس نے ابوسفیان سے کہا.اب اپنی سواری دوڑا کر مکہ پہنچو اور اُن کی لوگوں کو اطلاع دے دو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگئے ہیں اور انہوں نے اِس اِس شکل میں مکہ کے لوگوں کو امان دی ہے.جب کہ ابوسفیان اپنے دل میں خوش تھا کہ میں نے مکہ کے لوگوں کی نجات کا رستہ نکال لیا ہے اُس کی بیوی ہندہ نے جو ابتدائے اسلام سے مسلمانوں سے

Page 356

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۴ دیباچہ تفسیر القرآن بغض اور کینہ رکھنے کی لوگوں کو تعلیم دیتی چلی آئی تھی اور باوجود کافر ہونے کے فی الحقیقت ایک بہادر عورت تھی آگے بڑھ کر اپنے خاوند کی ڈاڑھی پکڑ لی اور مکہ والوں کو آوازیں دینی شروع کیں کہ آؤ اور اس بڑھے احمق کو قتل کر دو کہ بجائے اس کے کہ تم کو یہ نصیحت کرتا کہ جاؤ اور اپنی کچ جانوں اور اپنے شہر کی عزت کے لئے لڑتے ہوئے مارے جاؤ یہ تم میں امن کا اعلان کر رہا ہے.ابوسفیان نے اُس کی حرکت کو دیکھ کر کہا.بے وقوف ! یہ ان باتوں کا وقت نہیں جا اور اپنے گھر میں چھپ جا.میں اُس لشکر کو دیکھ کر آیا ہوں جس لشکر کے مقابلہ کی طاقت سارے عرب میں نہیں ہے ہے.پھر ابوسفیان نے بلند آواز سے امان کی شرائط بیان کرنا شروع کیں اور لوگ بے تحاشا اُن گھروں اور اُن جگہوں کی طرف دوڑ پڑے، جن کے متعلق امان کا اعلان کیا گیا تھا.۳۵۷ صرف گیارہ مرد اور چار عورتیں ایسی تھیں جن کی نسبت شدید ظالمانہ قتل اور فساد ثابت تھے، وہ گویا جنگی مجرم تھے اور ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا کہ قتل کر دیے جائیں کیونکہ وہ صرف کفر یالڑائی کے مجرم نہیں بلکہ جنگی مجرم ہیں.اس موقع پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولیڈ کو بڑی سختی سے حکم دے دیا تھا کہ جب تک کوئی شخص لڑے نہیں تم نے لڑنا نہیں.لیکن جس طرف سے خالد شہر میں داخل ہوئے کی اُس طرف امن کا اعلان ابھی نہیں پہنچا تھا اُس علاقہ کی فوج نے خالد کا مقابلہ کیا اور ۲۴ آدمی مارے گئے.چونکہ خالد کی طبیعت بڑی جو شیلی تھی کسی نے دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر پہنچا دی اور عرض کیا کہ خالد کو روکا جائے ورنہ وہ سارے مکہ والوں کو قتل کر دے گا.آپ نے فوراً خالد کو بلوایا اور فرمایا کیا میں نے تم کو لڑائی سے منع نہیں کیا تھا ؟ خالد نے کہا يَا رَسُولَ الله آپ نے منع تو فرمایا تھا لیکن اِن لوگوں نے پہلے ہم پر حملہ کیا اور تیراندازی کی شروع کر دی میں کچھ دیر تک رُکا اور میں نے کہا کہ ہم تم پر حملہ نہیں کرنا چاہتے تم ایسا مت کرو.مگر جب میں نے دیکھا کہ یہ کسی طرح باز نہیں آتے تو پھر میں اُن سے لڑا اور خدا نے اُن کو چاروں طرف پراگندہ کر دیا.۳۵۸ بہر حال اس خفیف سے واقعہ کے سوا اور کوئی واقعہ نہ ہوا اور مکہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قبضہ ہو گیا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے آپ سے لوگوں

Page 357

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۵ دیباچہ تفسیر القرآن نے پوچھا.يَا رَسُولَ اللہ! کیا آپ اپنے گھر میں ٹھہریں گے؟ آپ نے فرمایا کیا عقیل نے (یہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے ) ہمارے لیے کوئی گھر چھوڑا بھی ہے؟ یعنی میری ہجرت کے بعد میرے رشتہ داروں نے میری ساری جائیداد بیچ باچ کر کھالی ہے اب مکہ میں میرے لیے کوئی ٹھکانا نہیں.پھر آپ نے فرمایا ہم حیف بنی کنانہ میں ٹھہریں گے.یہ مکہ کا ایک میدان تھا جہاں قریش اور کنانہ قبیلہ نے مل کر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکڑ کر ہمارے حوالہ نہ کر دیں اور ان کا ساتھ نہ چھوڑ دیں ہم ان سے نہ شادی بیاہ کریں گے نہ خرید و فروخت کریں گے.اس عہد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے چچا ابوطالب اور آپ کی جماعت کے تمام افراد وادی ابوطالب میں پناہ گزین ہوئے تھے اور تین سال کی شدید تکلیفوں کے بعد خدا تعالیٰ نے انہیں نجات دلائی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انتخاب کیسا لطیف تھا.مکہ والوں نے اسی مقام پر قسمیں کھائی تھیں کہ جب تک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سپرد نہ کر دیئے جائیں ہم آپ کے قبیلہ سے صلح نہیں کریں گے.آج محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُسی میدان میں جا کر اُترے اور گویا مکہ والوں سے کہا کہ جہاں تم چاہتے تھے میں وہاں آ گیا ہوں مگر بتاؤ تو سہی کیا تم میں طاقت ہے کہ آج مجھے اپنے ظلوں کا نشانہ بنا سکو!! وہی مقام جہاں تم مجھے ذلیل اور مقہور شکل دیکھنا چاہتے تھے اور خواہش رکھتے تھے کہ میری قوم مجھے پکڑ کر اس جگہ تمہارے سپر د کر دے وہاں میں ایسی شکل میں آیا ہوں کہ میری قوم ہی نہیں سارا عرب بھی میرے ساتھ ہے اور میری قوم نے مجھے تمہارے سپرد نہیں کیا بلکہ میری قوم نے تمہیں میرے سپر د کر دیا ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت ہے کہ یہ دن بھی پیر کا دن تھا.وہی دن جس دن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غار ثور سے نکل کر صرف ای ابو بکر کی معیت میں مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے تھے.وہی دن جس میں آپ نے حسرت کے ساتھ ٹور کی پہاڑی پر سے مکہ کی طرف دیکھ کر کہا تھا.اے مکہ! تو مجھے دنیا کی ساری بستیوں سے زیادہ پیارا ہے لیکن تیرے باشندے مجھے اس جگہ پر رہنے نہیں دیتے.۳۵۹ مکہ میں داخل ہوتے وقت حضرت ابو بکر آپ کی اونٹنی کی رکاب پکڑے ہوئے آپ کے ساتھ باتیں بھی کرتے جا رہے تھے اور سورہ فتح جس میں فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی وہ بھی پڑھتے

Page 358

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن جاتے تھے.آپ سیدھے خانہ کعبہ کی طرف آئے اور اُونٹنی پر چڑھے چڑھے سات دفعہ خانہ کعبہ کا طواف کیا.اُس وقت آپ کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی.آپ خانہ کعبہ کے گرد جو حضرت ابراہیم اور اُن کے بیٹے اسمعیل نے خدائے واحد کی پرستش کے لئے بنایا تھا جسے بعد کو اُن کی گمراہ کی اولا د نے بتوں کا مخزن بنا کر رکھ دیا تھا گھومے اور وہ تین سو ساٹھ بت جو اس جگہ پر رکھے ہوئے تھے اُن میں سے ایک ایک بت پر آپ چھڑی مارتے جاتے تھے اور یہ کہتے جاتے تھے جاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - ٣٦٠ سیہ وہ آیت ہے جو ہجرت سے پہلے سورہ بنی اسرائیل میں آپ پر نازل ہوئی تھی اور جس میں ہجرت اور پھر فتح مکہ کی خبر دی گئی تھی.یوروپین مصنفین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ ہجرت سے پہلے کی سورۃ ہے اس سورۃ میں یہ بیان کیا گیا تھا کہ وقل رب آدخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ أَخْرِجْنِي مُخْرَج صدْقِ وَاجْعَلُ لي مِن لَّدُنكَ سُلْطَنَّا نَصِيرًا - وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا اسے یعنی تو کہہ دے میرے رب ! مجھے اس شہر یعنی مکہ میں نیک طور پر داخل کیجیو یعنی ہجرت کے بعد فتح اور غلبہ دے کر.اور اس شہر سے خیریت سے ہی نکالیو یعنی ہجرت کے وقت.اور خود اپنے پاس سے مجھے غلبہ اور مدد کے سامان بھجوائیو.اور یہ بھی کہو کہ حق آ گیا ہے اور باطل یعنی شرک شکست کھا کے بھاگ گیا ہے اور باطل یعنی شرک کے لئے شکست کھا کر بھاگنا تو ہمیشہ کے لئے مقدر تھا.اس پیشگوئی کے لفظاً لفظاً پورا ہونے اور حضرت ابو بکر کے اس کو تلاوت کرتے وقت مسلمانوں اور کفار کے دلوں میں جو جذبات پیدا ہوئے ہوں گے وہ لفظوں میں ادا نہیں ہو سکتے.غرض اُس دن ابراہیم کا مقام پھر خدائے واحد کی عبادت کے لئے مخصوص کر دیا گیا اور بت ہمیشہ کے لئے توڑے گئے.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہبل نامی بت کے اوپر اپنی چھڑی ماری اور وہ اپنے مقام سے گر کر ٹوٹ گیا تو ہے حضرت زبیر نے ابوسفیان کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور کہا ابوسفیان ! یاد ہے اُحد کے دن جب مسلمان زخموں سے چور ایک طرف کھڑے ہوئے تھے تم نے اپنے غرور میں یہ اعلان کیا تھا تو اُعْلُ هُبَل - اُعْلَ هُبَل - هُبَل کی شان بلند ہو ، هُبل کی شان بلند ہو.اور یہ کہ ہبل نے ہی تم کو اُحد کے دن مسلمانوں پر فتح دی تھی.آج دیکھتے ہو وہ سامنے ٹبل کے ٹکڑے پڑے ہیں.

Page 359

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۷ دیباچہ تفسیر القرآن ابوسفیان نے کہا ز بیر! یہ باتیں جانے بھی دو.آج ہم کو اچھی طرح نظر آ رہا ہے کہ اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا کے سوا کوئی اور خدا بھی ہوتا تو آج جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں اس طرح کبھی نہ ہوتا.۶۲ سے پھر آپ نے خانہ کعبہ کے اندر جو تصویر میں حضرت ابراہیم وغیرہ کی بنی ہوئی تھیں ان کے مٹانے کا حکم دیا اور خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے کے شکریہ میں دو رکعت نماز پڑھی پھر باہر تشریف لائے اور باہر آ کر بھی دو رکعت نماز پڑھی.خانہ کعبہ کی تصویروں کو مٹانے کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ کو مقرر فرمایا تھا ؟ انہوں نے اس خیال سے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو تو ہم بھی نبی مانتے ہیں حضرت ابرا ہیم کی تصویر کو نہ مٹایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اُس تصویر کو قائم دیکھا تو فرمایا عمر! تم نے یہ کیا کیا ؟ کیا خدا نے یہ نہیں فرمایا کہ مَا كَانَ اِبْرَهِيمُ يَهُودِيًا َو لا نَصْرَانِيًّا وَ لكِن كَانَ حَنِيفًا مُسْلِمًا، وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ٣٦٣ یعنی ابراہیم نہ یہودی تھانہ نصرانی بلکہ وہ خدا تعالیٰ کا کامل فرمانبردار اور خدا تعالیٰ کی ساری صداقتوں کو ماننے والا اور خدا کا موحد بندہ تھا.چنانچہ آپ کے حکم سے یہ تصویر بھی مٹادی گئی.خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر مسلمانوں کے دل اُس دن ایمان سے اتنے پر ہو رہے تھے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان پر ان کا یقین اس طرح بڑھ رہا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب زمزم کے چشمہ سے ( جو اسمعیل بن ابراہیم کے لئے خدا تعالیٰ نے بطور نشان پھاڑا تھا ) پانی پینے کے لئے منگوایا اور اُس میں سے کچھ پانی پی کے باقی پانی سے آپ نے وضو فر ما یا تو آپ کے جسم میں سے کوئی قطرہ کی زمین پر نہیں گر سکا.مسلمان فوراً اُس کو اُچک لے جاتے اور تبرک کے طور پر اپنے جسم پر مل لیتے ہی تھے اور مشرک کہہ رہے تھے ہم نے کوئی بادشاہ دنیا میں ایسا نہیں دیکھا جس کے ساتھ اس کے لوگوں کو اتنی محبت ہو.۳۶۴ جب آپ ان باتوں سے فارغ ہوئے اور مکہ والے آپ کی خدمت میں حاضر کئے گئے تو آپ نے فرمایا اے مکہ کے لوگو! تم نے دیکھ لیا کہ خدا تعالیٰ کے نشانات کس طرح لفظ بلفظ پورے ہوئے ہیں اب بتاؤ کہ تمہارے ان ظلموں اور ان شرارتوں کا کیا بدلہ دیا جائے جو تم نے

Page 360

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۸ دیباچہ تفسیر القرآن خدائے واحد کی عبادت کرنے والے غریب بندوں پر کئے تھے؟ مکہ کے لوگوں نے کہا ہم آپ سے اُسی سلوک کی اُمید رکھتے ہیں جو یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.یہ خدا کی قدرت تھی کہ مکہ والوں کے منہ سے وہی الفاظ نکلے جن کی پیشگوئی خدا تعالیٰ نے سورہ یوسف میں پہلے.کر رکھی تھی اور فتح مکہ سے دس سال پہلے بتا دیا تھا کہ تو مکہ والوں سے ویسا ہی سلوک کرے گا جیسا یوسف نے اپنے بھائیوں سے کیا تھا.پس جب مکہ والوں کے منہ سے اس بات کی تصدیق ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یوسف کے مثیل تھے اور یوسف کی طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے بھائیوں پر فتح دی تھی تو آپ نے بھی اعلان فرما دیا کہ تَاللَّهِ لَا تَشْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ - خدا کی قسم ! آج تمہیں کسی قسم کا عذاب نہیں دیا جائے گا اور نہ ہی کسی قسم کی سرزنش کی جائے گی.۳۶۵ے جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم زیارت کعبہ کی متعلقہ عبادتوں میں مصروف تھے اور اپنی قوم کے ساتھ بخشش اور رحمت کا معاملہ کر رہے تھے تو انصار کے دل اندر ہی اندر بیٹھے جا رہے تھے اور وہ ایک دوسرے سے اشاروں میں کہہ رہے تھے شاید آج ہم خدا کے رسول کو اپنے سے جدا کر رہے ہیں کیونکہ ان کا شہر خدا تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر فتح کر دیا ہے اور ان کا قبیلہ ان پر ایمان لے آیا ہے اُس وقت اللہ تعالیٰ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعہ سے انصار کے ان شبہات کی خبر دے دی.آپ نے سر اُٹھایا، انصار کی طرف دیکھا اور فرمایا اے انصار! تم سمجھتے ہو کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر کی محبت ستاتی ہوگی اور اپنی قوم کی محبت اس کے دل میں گدگدیاں لیتی ہوگی.انصار نے کہا يَا رَسُولَ اللہ! یہ درست ہے ہمارے دل میں ایسا خیال گزرا تھا.آپ نے فرمایا تمہیں پتہ ہے میرا نام کیا ہے؟ مطلب یہ کہ میں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول کہلاتا ہوں پھر کس طرح ہوسکتا ہے کہ تم لوگوں کو جنہوں نے دین اسلام کی کمزوری کے وقت میں اپنی جانیں قربان کیں چھوڑ کر کسی اور جگہ چلا جاؤں.پھر فرمایا اے انصار ! ایسا کبھی نہیں ہو سکتا میں اللہ کا بندہ اور اُس کا رسول ہوں.میں نے خدا کی خاطر اپنے وطن کو چھوڑا تھا اور اس کے بعد اب میں اپنے وطن میں واپس نہیں آسکتا.میری زندگی تمہاری زندگی سے ہے اور میری موت تمہاری موت سے وابستہ ہے.مدینہ کے لوگ آپ

Page 361

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۴۹ دیباچہ تفسیر القرآن کی یہ باتیں سن کر اور آپ کی محبت اور آپ کی وفا کو دیکھ کر روتے ہوئے آگے بڑھے اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! خدا کی قسم ! ہم نے خدا اور اس کے رسول پر بدظنی کی.۳۶۶ے بات یہ ہے کہ ہمارے دل اس خیال کو برداشت نہیں کر سکتے کہ خدا کا رسول ہمیں اور ہمارے شہر کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے.آپ نے فرمایا اللہ اور اس کا رسول تم لوگوں کو بری سمجھتے ہیں اور تمہارے اخلاص کی تصدیق کرتے ہیں.جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مدینہ کے لوگوں میں یہ پیار اور محبت کی باتیں ہو رہی ہوں گی اگر مکہ کے لوگوں کی آنکھوں نے آنسو نہیں بہائے ہوں گے تو ان کے دل یقیناً آنسو بہا رہے ہوں گے کہ وہ قیمتی ہیرا جس سے بڑھ کر کوئی قیمتی چیز اس دنیا میں پیدا نہیں ہوئی خدا نے اُن کو دیا تھا مگر اُنہوں نے اُس کو اپنے گھروں سے نکال کر پھینک دیا اور اب کے وہ خدا کے فضل اور اُس کی مدد کے ساتھ دوبارہ مکہ میں آیا تھا وہ اپنے وفائے عہد کی وجہ کی سے اپنی مرضی اور اپنی خوشی سے مکہ کو چھوڑ کر مدینہ واپس جا رہا ہے.جن لوگوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا تھا کہ ان کے بعض ظالمانہ قتلوں اور ظلموں کی وجہ سے ان کو قتل کیا جائے ان میں سے اکثر کو مسلمانوں کی سفارش پر آپ نے چھوڑ دیا.انہی لوگوں میں سے ابو جہل کا بیٹا عکرمہ بھی تھا.عکرمہ کی بیوی دل سے مسلمان تھی اُس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا يَا رَسُولَ الله! عکرمہ کو بھی آپ معاف فرما دیں.آپ نے فرمایا ہاں ہاں ! ہم اُسے معاف کرتے ہیں.عکرمہ بھاگ کر یمن کی طرف جا رہے تھے کہ بیوی اپنے خاوند کی محبت میں پیچھے پیچھے اُس کی تلاش میں گئی.جب وہ ساحل سمندر پر کشتی میں بیٹھے ہوئے عرب کو ہمیشہ کے لئے چھوڑنے پر تیار تھے کہ پراگندہ سر اور پریشان حال بیوی کی گھبرائی ہوئی پہنچی اور کہا اے میرے چچا کے بیٹے ! ( عرب عورتیں اپنے خاندوں کو چا کا بیٹا کی کہا کرتی تھیں ) اتنے شریف اور اتنے رحمدل انسان کو چھوڑ کر کہاں جا رہے ہو ؟ عکرمہ نے کی حیرت سے اپنی بیوی سے پوچھا کیا میری ان ساری دشمنیوں کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف کر دیں گے؟ عکرمہ کی بیوی نے کہا ہاں ہاں ! میں نے اُن سے عہد لے لیا ہے اور انہوں نے تم کو معاف کر دیا ہے.جب وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے تو عرض کیا يَا رَسُولَ الله ! میری بیوی کہتی ہے کہ آپ نے میرے جیسے انسان کو بھی معاف کر دیا چی

Page 362

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۰ دیباچهتفسیر القرآن ہے؟ تو آپ نے فرمایا تمہاری بیوی ٹھیک کہتی ہے ہم نے تم کو معاف کر دیا ہے.عکرمہ نے کہا جو ص اتنے شدید دشمنوں کو معاف کر سکتا ہے وہ جھوٹا نہیں ہوسکتا.میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ ایک ہے اور اُس کا کوئی شریک نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تم اس کے بندے اور اُس کے رسول ہو اور پھر شرم سے اپنا سر جھکا لیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی حیا کی حالت کو دیکھ کر اس کے دل کی تسلی کے لئے فرمایا.عکرمہ ! ہم نے تمہیں صرف کی معاف ہی نہیں کیا بلکہ اس سے زائد یہ بات بھی ہے کہ اگر آج کوئی ایسی چیز مجھ سے مانگو جس کے دینے کی مجھ میں طاقت ہو تو میں وہ بھی تمہیں دے دوں گا.عکرمہ نے کہا يَا رَسُولَ الله ! او اس سے زیادہ میری خواہش کیا ہو سکتی ہے کہ آپ خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ میں نے جو آپ کی دشمنیاں کی ہیں وہ مجھے معاف کر دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا.اے میرے اللہ ! وہ تمام دشمنیاں جو عکرمہ نے مجھ سے کی ہیں اسے معاف کر دے اور وہ تمام گالیاں جو اس کے منہ سے نکلی ہیں وہ اسے بخش دے.پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور اپنی چادر اتار کر اس کے اوپر ڈال دی اور فرمایا جو اللہ پر ایمان لاتے ہوئے ہمارے پاس آتا ہے ہمارا گھر اُس کا گھر ہے اور ہماری جگہ اُس کی جگہ ہے.۳۶۷ عکرمہ کے ایمان لانے سے وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو سالہا سال پہلے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے بیان فرمائی تھی کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ گویا میں جنت میں ہوں، وہاں میں نے انگور کا ایک خوشہ دیکھا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ کس کے لئے ہے؟ تو کسی جواب دینے والے نے کہا ابوجہل کے لئے.یہ بات مجھے عجیب معلوم ہوئی اور میں نے کہا جنت میں تو سوائے مؤمن کے اور کوئی داخل نہیں ہوتا پھر جنت میں ابو جہل کے لئے انگور کیسے مہیا کئے گئے ہیں؟ جب عکرمہ ایمان لایا تو آپ نے فرمایا وہ خوشہ عکرمہ کا تھا خدا نے بیٹے کی جگہ باپ کا نام ظاہر کیا ۳۶۸ے جیسا کہ خوابوں میں اکثر ہو جایا کرتا ہے.وہ لوگ جن کے قتل کا حکم دیا گیا تھا اُن میں وہ شخص بھی تھا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب کی ہلاکت کا موجب ہوا تھا.اس شخص کا نام ہار تھا.اس نے حضرت زینب کے اُونٹ کا تنگ کاٹ دیا تھا اور حضرت زینب اُونٹ سے نیچے جا پڑی تھیں جس کی وجہ سے اُن کا

Page 363

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۱ دیباچہ تفسیر القرآن حمل ضائع ہو گیا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ فوت ہوگئیں.علاوہ اور جرائم کے یہ جرم بھی اس کو قتل کا مستحق بناتا تھا.یہ شخص بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا اے اللہ کے نبی ! میں آپ سے بھاگ کر ایران کی طرف چلا گیا تھا پھر میں نے خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کے ذریعہ سے ہمارے شرک کے خیالات کو دور کیا ہے اور ہمیں روحانی ہلاکت سے بچایا ہے میں غیر لوگوں میں جانے کی بجائے کیوں نہ اس کے پاس جاؤں اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے اُس سے معافی مانگوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا.ہبار ! جب خدا نے تمہارے دل میں اسلام کی محبت پیدا کر دی ہے تو میں تمہارے گنا ہوں کو کیوں نہ معاف کروں.جاؤ میں نے تمہیں معاف کیا اسلام نے تمہارے سب پہلے قصور مٹا دیئے ہیں.۳۶۹ اس جگہ اتنی گنجائش نہیں کہ میں اس مضمون کو لمبا کروں ورنہ ان خطر ناک مجرموں میں سے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمولی معذرت پر معاف فرما دیا اکثر کے واقعات ایسے دردناک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رحم کو اتنا ظاہر کرنے والے ہیں کہ ایک سنگدل انسان بھی ان سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.جنیں چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مکہ میں داخلہ اچانک ہوا اس لئے مکہ سے ذرا فاصلے پر جو قبائل رہتے تھے خصوصاً وہ جو جنوب کی طرف رہتے تھے انہیں مکہ پر حملہ کی خبر اُسی وقت ہوئی جب آپ مکہ میں داخل ہو چکے تھے.اس خبر کے سنتے ہی انہوں نے اپنی فوجیں جمع کرنی شروع کر دیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ کی تیاری کرنے لگے.ہوازن اور ثقیف دو عرب قبیلے اپنے آپ کو خاص طور پر بہادر خیال کرتے تھے انہوں نے فوراً آپس میں مشورہ کر کے اپنے لئے ایک سردار چن لیا اور مالک بن عوف نامی ایک شخص کو اپنا کی رئیس مقرر کر لیا.اس کے بعد اُنہوں نے ارد گرد کے قبائل کو دعوت دی کہ وہ بھی ان کے ساتھ آکر شامل ہو جا ئیں.انہی قبائل میں بنو سعد بن بکر بھی تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دائی حلیمہ اسی قبیلہ میں سے تھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچپن کی عمر اسی قبیلہ میں گزاری تھی.یہ لوگ جمع ہو کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے ساتھ اپنے مال اور اپنی کی بیویوں اور اپنی اولادوں کو بھی لے لیا.جب ان کے سرداروں سے پوچھا گیا کہ انہوں نے ایسا کی غزوہ

Page 364

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۲ دیباچہ تفسیر القرآن کیوں کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا اس لئے تا سپاہیوں کو یہ خیال رہے کہ اگر ہم بھاگے تو ہماری ہے بیویاں اور ہماری اولادیں قید ہو جائیں گی اور ہمارے مال لوٹے جائیں گے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے پختہ ارادہ کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے نکلے تھے.آخر یہ لشکر وادی اوطاس میں آکر اُتر ا جو جنگ کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی وادی تھی کیونکہ اس میں پناہ کی جگہیں بھی تھیں اور جانوروں کے لئے چارہ اور انسانوں کے لئے پانی بھی موجود ہی تھا اور گھوڑے دوڑانے کیلئے زمین بھی بہت ہی مناسب تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے عبداللہ بن ابی حدرد نامی ایک صحابی کو حقیقت حال معلوم کرنے کے لئے بھیجا.عبداللہ نے آکر اطلاع دی کہ واقعہ میں ان کا لشکر جمع ہے اور وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہیں.چونکہ یہ قوم بڑی تیرانداز تھی اور جس جگہ پر اُنہوں نے ڈیرہ ڈالا تھا وہ مقام ایسا تھا کہ صرف ایک محدود جگہ پر لڑائی کی جا سکتی تھی اور اس جگہ پر بھی حملہ آور بڑی صفائی کے ساتھ تیروں کا نشانہ بنتا تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے سردار صفوان سے جو بہت بڑے مالدار اور تاجر تھے اس جنگ کے لئے ہتھیار اور کچھ روپیہ مانگا.صفوان نے کہا اے محمد ! ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کیا اپنی حکومت کے زور پر آپ میرا مال چھیننا چاہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا نہیں ہم چھینا نہیں چاہتے بلکہ تم سے عاریہ مانگتے ہیں اور اس کی ضمانت دینے کو تیار ہیں.اس پر اُس نے کہا تب کوئی حرج نہیں آپ مجھ سے یہ چیزیں لے لیں اور اُس نے سو زرہیں اور ان کے ساتھ مناسب ہتھیار عاریہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیئے اور اس کے علاوہ تین ہزار روپیہ قرض دیا.اسی طرح آپ نے اپنے چچا زاد بھائی نوفل بن حارث سے تین ہزار نیزہ عار بیتہ لیا.جب یہ لشکر ہوازن کی طرف چلا تو مکہ والوں نے خواہش کی کہ گو ہم مسلمان نہیں ہیں لیکن کی اب چونکہ ہم اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے ہیں ہم کو بھی لڑائی میں شامل ہونے کا موقع دیا تو جائے چنانچہ دو ہزار آدمی مکہ سے آپ کے ساتھ روانہ ہوا.راستہ میں عرب کی ایک مشہور ہی زیارت گاہ پڑتی تھی جس کو ذات انواط کہتے تھے.یہ ایک پرانا بیری کا درخت تھا جس کو عرب کے لوگ متبرک سمجھتے تھے اور جب عرب کے بہادر لوگ کوئی ہتھیار خریدتے تو پہلے ذاتِ انواط میں جا کر لٹکاتے تھے تا کہ اس کو برکت حاصل ہو جائے.جب صحابہ اس کے پاس سے گزرے تو ی

Page 365

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۳ دیباچہ تفسیر القرآن بعض نے کہا يَارَسُولَ اللہ !ہمارے لئے بھی آپ ایک ذات انواط مقرر فرمائیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ بڑا ہے یہ تو وہی موسی کی قوم والی بات ہوئی کہ جب وہ کنعان کی طرف روانہ ہوئے اور کنعان کے قبائل کو اُنہوں نے بت پوجتے دیکھا تو موسیٰ سے مخاطب ہو کر کہا يموسَى اجْعَل لنا إلا ما لَهُمُ الهَه ۳۷۰ اے موسیٰ ! جس طرح ان کے معبود ہیں ہمارے لئے بھی کوئی معبود تجویز کر دیجئے.فرمایا یہ تو جہالت کی باتیں ہیں میں ڈرتا ہوں کہ اس قسم کے وہموں کی وجہ سے کہیں تم میں سے بھی ایک گروہ ایسی ہی حرکتیں نہ کرنے لگ جائے.ہوازن اور ان کے مددگار قبائل نے ایک کمین گاہ مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بنا چھوڑی تھی جیسے آجکل لڑائی کے میدان میں مخفی خندقیں ہوتی ہیں جب اسلامی لشکر حسنین مقام پر پہنچا تو وہ ان کے سامنے چھوٹی چھوٹی منڈیریں بنا کر ان کے پیچھے بیٹھ گئے اور بیچ میں سے ایک تنگ راستہ مسلمانوں کے لئے چھوڑ دیا.اکثر سپاہی تو ان ٹیلوں کے پیچھے چھپ کر بیٹھ گئے اور کچھ سپاہی اونٹوں وغیرہ کے سامنے صف بند ہو کر کھڑے ہو گئے.مسلمانوں نے یہ سمجھ کر کہ لشکر وہی ہے جو سامنے کھڑا ہے آگے بڑھ کر اُس پر حملہ کر دیا.جب مسلمان کافی آگے بڑھ چکے اور کمین گاہ کے سپاہیوں نے دیکھا کہ اب ہم اچھی طرح حملہ کر سکتے ہیں تو اگلی کھڑی فوج نے سامنے سے حملہ کر دیا اور پہلوؤں سے تیراندازوں نے بے تحاشا تیر برسانے شروع کر دیئے.مکہ کے لوگ جو یہ سمجھ کر ساتھ شامل ہوئے تھے کہ آج ہم کو بھی بہادری دکھانے کا موقع ملے گا اس دوطرفہ حملہ کی برداشت نہ کر سکے اور واپس مکہ کی طرف بھاگے.مسلمان گواس قسم کی تکالیف اُٹھانے کے عادی تھے مگر جب دو ہزار گھوڑے اور اُونٹ اُن کی صفوں میں سے بے تحاشا بھاگتے ہوئے نکلے تو ان کے گھوڑے اور اُونٹ بھی ڈر گئے اور سارے کا سارا لشکر بے تحاشا پیچھے کی طرف دوڑ پڑا.تین طرف کے حملہ میں صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھ ۱۲ صحابی کھڑے رہے.مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ سارے صحابہ بھاگ گئے تھے بلکہ ۱۰۰ کے قریب اور آدمی بھی میدان میں کھڑے رہے تھے مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فاصلہ پر تھے.آپ کے گردصرف ایک درجن قریب آدمی رہ گئے.ایک صحابی کہتے ہیں میں اور میرے ساتھی

Page 366

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۴ دیباچہ تفسیر القرآن بے تحاشا زور لگاتے تھے کہ کسی طرح ہماری سواری کے جانور میدانِ جنگ کی طرف آئیں لیکن دو ہزار اونٹوں کے بھاگنے کی وجہ سے وہ ایسے بدک گئے تھے کہ ہمارے ہاتھ باگیں کھینچے کھینچتے زخمی ہو ہو جاتے تھے مگر اُونٹ اور گھوڑے واپس لوٹنے کا نام نہیں لیتے تھے.بعض دفعہ ہم باگیں اس زور سے کھینچتے تھے کہ مرکب کا سر اُس کی پیٹھ سے لگ جاتا تھا.مگر پھر جب ایڑی دے کر ہم اُس کو پیچھے میدانِ جنگ کی طرف موڑتے تو وہ بجائے پیچھے کوٹنے کے اور بھی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بھاگتا.ہمارا دل دھڑک رہا تھا کہ پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا حال ہوگا مگر ہم بالکل بے بس تھے.ادھر تو صحابہ کی یہ حالت تھی اور ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف چند آدمیوں کے ساتھ میدانِ جنگ میں کھڑے تھے.دائیں اور بائیں اور سامنے تینوں طرف سے تیر پڑ رہے تھے اور پیچھے کی طرف صرف ایک تنگ راستہ تھا جس میں سے ایک وقت میں صرف چند آدمی ہی گزر سکتے تھے مگر پھر بھی سوائے اُس راستہ کے اور کوئی نجات کی راہ نہیں تھی.اُس وقت حضرت ابو بکر نے اپنی سواری سے اتر کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی باگ پکڑ لی اور عرض کی یا رَسُولَ اللہ ! تھوڑی دیر کے لئے پیچھے ہٹ آئیں یہاں تک کہ اسلامی لشکر جمع ہو جائے.آپ نے فرمایا ابوبکر ! میری خچر کی باگ چھوڑ دو اور پھر خچر کو ایڑی لگاتے ہوئے آپ نے اُس تنگ راستہ پر آگے بڑھنا شروع کیا جس کے دائیں بائیں کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے سپاہی تیراندازی کر رہے تھے اور فرمایا.أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ۳۷۲ میں خدا کا نبی ہوں میں جھوٹا نہیں ہوں.مگر یہ بھی یا درکھو کہ اس وقت خطرہ کے مقام پر کھڑے ہوئے بھی جو میں دشمن کے حملہ سے محفوظ ہوں تو اس کے یہ معنی نہیں کہ میرے اندر خدائی کا کوئی مادہ پایا جاتا ہے بلکہ میں انسان ہی ہوں اور عبدالمطلب کا پوتا ہوں.پھر آپ نے حضرت عباس کو جن کی آواز بہت بلند تھی آگے بلایا اور فرمایا.عباس ! بلند آواز سے پکار کر کہو کہ اے وہ صحابہ ! جنہوں نے حدیبیہ کے دن درخت کے نیچے بیعت کی تھی اور اے وہ لوگو جو سورہ بقرہ کے زمانہ سے مسلمان ہو! خدا کا رسول تم کو بلاتا ہے.حضرت عباس نے نہایت ہی بلند آواز سے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پیغام سنایا، تو اُس وقت صحابہ کی جو حالت ہوئی اُس کا اندازہ.

Page 367

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۵ دیباچهتفسیر القرآن ۳۷۳.صرف اُنہی کی زبان سے حالات سن کر لگایا جاسکتا ہے.وہی صحابی جن کا میں نے اُوپر ذکر کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اونٹوں اور گھوڑوں کو واپس لانے کی کشمکش میں تھے کہ عباس کی آوازی ہمارے کانوں میں پڑی.اُس وقت ہمیں یوں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں نہیں بلکہ قیامت کے دن خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہیں اور اُس کے فرشتے ہم کو حساب دینے کے لئے بلا رہے ہیں.تب ہم میں سے بعض نے اپنی تلوار میں اور ڈھالیں اپنے ہاتھوں میں لے لیں اور اونٹوں سے کود پڑے اور ڈرے ہوئے اونٹوں کو انہوں نے خالی چھوڑ دیا کہ وہ جدھر چاہیں چلے جائیں اور بعض نے اپنی تلواروں سے اپنے اونٹوں کی گردنیں کاٹ دیں اور خود پیدل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے.۳ وہ صحابی کہتے ہیں اُس دن انصار اس طرح دوڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جار ہے تھے کہ جس طرح اونٹنیاں اور گائیں اپنے بچے کے چیخنے کی آواز کوسُن کر اس کی طرف دوڑ پڑتی ہیں اور تھوڑی دیر میں صحابہ اور خصوصاً انصار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمع ہو گئے اور دشمن کو شکست ہوگئی.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کا یہ نشان ہے کہ وہ شخص جو چند ہی دن پہلے آپ کی جان کا دشمن تھا اور آپ کے مقابلہ پر کفار کے لشکروں کی کمان کیا کرتا تھا یعنی ابوسفیان وہ آج حنین کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا.جب کفار کے اونٹ پیچھے کی طرف دوڑے تو ابوسفیان جو نہایت ہی زیرک اور ہوشیار آدمی تھا اُس نے یہ سمجھ کر کہ میرا گھوڑا بھی پدک جائے گا فوراً اپنے گھوڑے سے کودا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کی رکاب پکڑے ہوئے پیدل آپ کے ساتھ چل پڑا.ابوسفیان کا بیان ہے کہ اُس وقت کچھی ہوئی تلوار میرے ی ہاتھ میں تھی اور مجھے اللہ ہی کی قسم ہے جو دلوں کے راز جانتا ہے کہ میں اُس وقت عزم صمیم کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خچر کے ساتھ پہلو میں کھڑا تھا کہ کوئی شخص مجھے مارے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہیں پہنچ سکتا تھا.اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے حیرت کے ساتھ دیکھ رہے تھے ( شاید آپ سوچ رہے تھے کہ آج سے صرف دس پندرہ دن پہلے یہ شخص میرے قتل کے لئے اپنی فوج کو لے کر مکہ سے نکلنے والا تھا لیکن چند ہی دنوں میں خدا تعالیٰ ہے

Page 368

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۶ دیباچہ تفسیر القرآن نے اس کے اندر ایسی تبدیلی کر دی ہے کہ یہ مکہ کا کمانڈر ایک عام سپاہی کی حیثیت میں میری فیچر کی رکاب پکڑے کھڑا ہے اور اِس کا چہرہ بتا رہا ہے کہ یہ آج اپنی موت سے اپنے گناہوں کا ازالہ کرے گا ) عباس نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حیرت سے ابوسفیان کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ ابو سفیان آپ کے چا کا بیٹا اور آپ کا بھائی ہے کی آج تو آپ اس سے خوش ہو جائیں.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کی وہ تمام دشمنیاں معافی کرے جو کہ اس نے مجھ سے کی ہیں.ابوسفیان کہتے ہیں کہ اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری طرف مخاطب ہوئے اور فرمایا اے بھائی ! تب میں نے جوشِ محبت سے آپ کے اُس پیر کو جو نچر کی رکاب میں تھا چوم لیا.فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ ﷺ نے وہ جنگی سامان جو آپ نے عار بینڈ لیا تھا اُس کے مالکوں کو واپس کیا اور ساتھ اُس کے بہت سا انعام واکرام بھی دیا تو ان لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ یہ شخص اس زمانہ کے عام انسانوں جیسا نہیں.چنانچہ صفوان اُسی وقت اسلام لے آئے.اس جنگ کا ایک اور عجیب واقعہ بھی تاریخوں میں آتا ہے.شیبہ نامی ایک شخص جو مکہ کے رہنے والے تھے اور جو خانہ کعبہ کی خدمت کے لئے مقرر تھے وہ کہتے ہیں میں بھی اس لڑائی میں شامل ہوا مگر میری نیت یہ تھی کہ جس وقت لشکر آپس میں ملیں گے تو میں موقع پا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دوں گا اور میں نے دل میں کہا عرب اور غیر عرب لوگ تو الگ رہے اگر ساری دنیا بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کے مذہب میں داخل ہو گئی تو میں نہیں ہوں گا.جب لڑائی تیزی پر ہوئی اور ادھر کے آدمی اُدھر کے آدمیوں میں مل گئے تو میں نے تلوار کھینچی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہونا شروع کیا.اُس وقت مجھے یوں معلوم ہوا کہ میرے اور آپ کے درمیان آگ کا ایک شعلہ اُٹھ رہا ہے جو قریب ہے کہ مجھے بھسم کر دے.اُس وقت مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دی کہ شیبہ ! میرے قریب ہو جاؤ.میں جب آپ کے قریب گیا تو آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ پھیرا اور کہا اے خدا! شیبہ کو شیطانی خیالوں سے نجات دے.شیبہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پھیرنے کے ساتھ ہی میرے دل سے ساری دشمنیاں اور عداوتیں اُڑ گئیں اور اُس وقت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ کو اپنی آنکھوں

Page 369

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۷ دیا چه تفسیر القرآن اور اپنے کانوں سے اور اپنے دل سے زیادہ عزیز ہو گئے.پھر آپ نے فرمایا شیبہ! آگے بڑھو اور لڑو.تب میں آگے بڑھا اور اُس وقت میرے دل میں سوائے اس کے کوئی خواہش نہیں تھی کہ میں اپنی جان قربان کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچاؤں.اگر اُس وقت میرا باپ زندہ ہوتا اور میرے سامنے آجاتا تو میں اپنی تلوار اُس کے سینہ میں بھونک ۳۷۴ دینے سے ایک ذرہ دریغ نہ کرتا.۳۷۵ اس کے بعد آپ طائف کی طرف روانہ ہوئے.وہی شہر جن کے باشندوں نے پتھراؤ کرتے ہوئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے شہر سے نکال دیا تھا.اُس شہر کا آپ نے کچھ عرصہ تک محاصرہ کیا لیکن پھر بعض لوگوں کے مشورہ دینے پر کہ ان کا محاصرہ کر کے وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں سارے عرب میں اب صرف یہ شہر کر ہی کیا سکتا ہے آپ محاصرہ چھوڑ کر چلے آئے اور کچھ عرصہ کے بعد طائف کے لوگ بھی مسلمان ہو گئے.فتح مکہ اور حسنین کے بعد ان جنگوں سے فارغ ہونے کے بعد وہ اموال جو مطلوب دشمنوں کے جرمانوں اور میدانِ جنگ میں چھوڑی ہوئی چیزوں سے جمع ہوئے تھے حسب دستور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلامی لشکر میں تقسیم کرنے تھے.لیکن اس موقع پر آپ نے بجائے ان اموال کو مسلمانوں میں تقسیم کرنے کے مکہ اور اردگرد کے لوگوں میں تقسیم کر دیا.ان لوگوں کے اندرا بھی ایمان تو پیدا نہیں ہوا تھا بہت سے تو ابھی کا فر ہی تھے اور جو مسلمان تھے وہ بھی نئے نئے مسلمان ہوئے تھے یہ ان کے لئے بالکل نئی چیز تھی کہ ایک قوم اپنا مال دوسرے لوگوں میں بانٹ رہی ہے.اس مال کی تقسیم سے بجائے ان کے دل میں نیکی اور تقویٰ پیدا ہونے کے حرص اور بھی بڑھ گئی.انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد جمگھٹا ڈال لیا اور مزید مطالبات کے ساتھ آپ کو تنگ کرنا شروع کیا یہاں تک کہ دھکیلتے ہو ہوئے وہ آپ کو ایک درخت تک لے گئے اور ایک شخص نے تو آپ کی چادر جو آپ کے کندھوں پر رکھی ہوئی تھی پکڑ کر اس طرح مروڑنی شروع کی کہ آپ کا سانس رکنے لگا.آپ نے فرمایا اے لوگو! اگر میرے پاس کچھ اور ہوتا تو میں وہ بھی تمہیں دے دیتا تم مجھے کبھی بخیل یا بز دل نہیں پاؤ گے.۳۷۶ پھر آپ اپنی اونٹنی کے پاس گئے اور اس کا ایک بال تو ڑا اور اسے اونچا

Page 370

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۸ دیباچهتفسیر القرآن.کیا اور فرمایا اے لوگو! مجھے تمہارے مالوں میں سے اس بال کے برابر بھی ضرورت نہیں سوائے اُس پانچویں حصہ کے جو عرب کے قانون کے مطابق حکومت کا حصہ ہے اور وہ پانچواں حصہ بھی میں اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتا بلکہ وہ بھی تمہیں لوگوں کے کاموں پر خرچ کیا جاتا ہے.اور یا درکھو کہ خیانت کرنے والا انسان قیامت کے دن خدا کے حضور اس خیانت کی وجہ سے ذلیل ہو گا.لوگ کہتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بادشاہت کے خواہشمند تھے.کیا بادشاہوں اور عوام کا ایسا ہی تعلق ہوا کرتا ہے؟ کیا کسی کی طاقت ہوتی ہے کہ بادشاہ کو اس طرح دھکیلتا ہوا کج لے جائے اور اس کے گلے میں پٹکہ ڈال کر اُس کو گھونٹے ؟ اللہ کے رسولوں کے سوا یہ نمونہ کون دکھا سکتا ہے.مگر باوجود اس طرح تمام اموال غرباء میں تقسیم کرنے کے پھر بھی ایسے سنگدل لوگ موجود تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تقسیم کو انصاف کی تقسیم نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ ذوالخویصرہ نامی ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا.اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کچھ آپ نے آج کیا ہے وہ میں نے دیکھا ہے.آپ نے فرمایا تم نے کیا دیکھا ؟ اس نے کہا میں نے یہ دیکھا ہے کہ آپ نے آج ظلم کیا ہے اور انصاف سے کام نہیں لیا.آپ نے فرمایا تم پر افسوس! اگر میں نے عدل نہیں کیا تو پھر اور کون انسان دنیا میں عدل کرے گا.اُس وقت صحابہ جوش میں کھڑے ہو گئے اور جب یہ شخص مسجد سے اُٹھ کر گیا تو ان میں سے بعض نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ شخص واجب القتل ہے کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم اسے مار دیں؟ آپ نے فرمایا اگر یہ شخص قانون کی پابندی کرتا ہے تو ہم اس کو کس طرح مار سکتے ہیں.صحابہ نے کہا یا رَسُولَ اللہ ! ایک شخص ظاہر کچھ اور کرتا ہے اور اس کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے کیا ایسا شخص سزا کا مستحق نہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے خدا نے یہ حکم نہیں دیا کہ کی میں لوگوں سے ان کے دلوں کے خیالات کے مطابق معاملہ کروں.مجھے تو یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اُن کے ظاہر کے مطابق معاملہ کروں.پھر آپ نے فرمایا یہ اور اس کے ساتھی ایک دن اسلام سے بغاوت کریں گے.۳۷۷ چنانچہ حضرت علی کے زمانہ میں یہ شخص اور اس کی کے قبیلہ کے لوگ اُن باغیوں کے سردار تھے جنہوں نے حضرت علیؓ سے بغاوت کی اور خوارج کے نام سے آج تک مشہور ہیں.

Page 371

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۵۹ دیباچہ تفسیر القرآن ہوازن سے فارغ ہو کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لے گئے.یہ مدینہ والوں کے لئے پھر ایک نیا خوشی کا دن تھا.ایک دفعہ خدا کا رسول مکہ کے لوگوں کے ظلم سے تنگ آکر مدینہ کی طرف روانہ ہوا تھا اور آج خدا کا رسول مکہ فتح کرنے کے بعد اپنی خوشی سے اور اپنے عہد کو نبھانے کے لئے دوبارہ مدینہ میں داخل ہو رہا تھا.غزوہ تبوک جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا تو ابو عامر مدنی جو خزرج قبیلہ میں سے تھا اور یہودیوں اور عیسائیوں سے میل ملاقات کی وجہ وجہ سے ذکر و وظائف کرنے کا عادی تھا اور اس کی وجہ سے لوگ اس کو راہب کہتے تھے مگر مذ ہبا عیسائی نہیں تھا.یہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ میں پہنچ جانے کے بعد مکہ کی طرف بھاگ گیا تھا.جب مکہ بھی فتح ہو گیا تو یہ سوچنے لگا کہ اب مجھے اسلام کے خلاف شورش پیدا کرنے کے لئے کوئی اور تدبیر کرنی چاہئے.آخر اس نے اپنا نام اور طرز بدلی اور مدینہ کے پاس قبا نامی کی گاؤں میں جا کر رہنا شروع کیا.سالہا سال باہر رہنے کی وجہ سے اور کچھ شکل اور لباس میں تبدیلی کر لینے کی وجہ سے مدینہ کے لوگوں نے عام طور پر اس کو نہ پہچانا.صرف وہی منافق اس کو جانتے تھے جن کے ساتھ اس نے اپنا تعلق پیدا کر لیا تھا.اس نے مدینہ کے منافقوں کے ساتھ مل کر یہ تجویز کی کہ میں شام میں جا کر عیسائی حکومت اور عرب عیسائی قبائل کو بھڑکا تا ہوں اور اُن کو مدینہ پر حملہ کرنے کی تحریک کرتا ہوں.ادھر تم یہ مشہور کرنا شروع کر دو کہ شامی فوجیں مدینہ پر حملہ کر رہی ہیں.اگر میری سکیم کامیاب ہو گئی تو پھر بھی ان دونوں کی مٹھ بھیٹر ہو جائے گی اور اگر میری سکیم کا میاب نہ ہوئی تو ان افواہوں کی وجہ سے مسلمان شاید شام پر جا کر خود حملہ کر دیں اور اس طرح قیصر کی حکومت اور ان میں لڑائی شروع ہو جائے گی اور ہمارا کام بن جائے گا.چنانچہ یہ تحریک کر کے یہ شخص شام کی طرف گیا اور مدینہ کے منافقوں نے روزانہ مدینہ میں ہے خبریں مشہور کرنی شروع کر دیں کہ فلاں قافلہ ہمیں ملا تھا اور اُس نے بتایا تھا کہ شامی لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے.دوسرے دن پھر کہدیتے تھے کہ فلاں قافلہ کے لوگ ہمیں ملے تھے اور اُنہوں نے کہا تھا کہ مدینہ پر شامی لشکر چڑھائی کرنے والا ہے.یہ خبر میں اتنی شدت سے پھیلنی شروع ہوئیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ آپ اسلامی لشکر لے کر خود

Page 372

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۰ دیباچہ تفسیر القرآن شامی لشکروں کے مقابلہ کے لئے جائیں.یہ وقت مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف کا تھا.قحط کا سال تھا پچھلے موسم میں غلہ اور پھل کم پیدا ہوا تھا اور اس موسم کی اجناس ابھی پیدا نہیں ہوئی تھیں.ستمبر کا آخر یا اکتوبر کا شروع تھا، جب آپ اس مہم کے لئے روانہ ہوئے.منافق تو چی جانتے تھے کہ یہ سب شرارت ہے اور یہ کہ انہوں نے یہ سب چالا کی اس لئے کی ہے کہ اگر شامی لشکر حملہ آور نہ ہوا تو مسلمان خودشامیوں سے جالڑیں اور اس طرح تباہ ہو جائیں.موتہ کی جنگی کے حالات ان کے سامنے تھے اُس وقت مسلمانوں کو اتنے بڑے لشکر کا سامنا کرنا پڑا تھا کہ وہ بہت کچھ نقصان اُٹھا کر بمشکل بچے تھے.اب وہ ایک دوسری موتہ اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہتے تھے جس میں خود در سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نَعُوذُ بِاللہ شہید ہو جا ئیں اس لئے ایک طرف تو منافق روزانہ یہ خبریں پھیلاتے تھے کہ فلاں ذریعہ سے ہمیں معلوم ہوا ہے کہ دشمن حملہ کرنے والا ہے فلاں ذریعہ سے معلوم ہوا ہے کہ شامی فوجیں آ رہی ہیں اور دوسری طرف لوگوں کو ڈرا رہے تھے کہ اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ آسان نہیں تمہیں جنگ کے لئے نہیں جانا چاہئے.ان کارروائیوں سے ان کی غرض یہ تھی کہ مسلمان شام پر حملہ کرنے کے لئے جائیں تو سہی ، لیکن جہاں تک ہو سکے کم سے کم تعداد میں جائیں تاکہ ان کی شکست زیادہ سے زیادہ یقینی ہو جائے.مگر مسلمان رسول اللہ ہے کے اس اعلان پر کہ ہم شام کی طرف جانے والے ہیں اخلاص اور جوش سے بڑھ بڑھ کر قربانیاں کر رہے تھے.غریب مسلمانوں کے پاس جنگ کے سامان تھے کہاں؟ حکومت کا خزانہ بھی خالی تھا.ان کے آسودہ حال بھائی ہی ان کی مدد کیلئے آ سکتے تھے.چنانچہ ہر شخص قربانی میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا تھا.حضرت عثمان نے اُس دن اپنے روپے کا اکثر حصہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا جو ایک ہزا ر سونے کا دینا ر تھا یعنی قریباً ۲۵ ہزار روپیہ.اسی طرح اور صحابہ نے اپنی اپنی توفیق کے مطابق چندے دیئے اور غریب مسلمانوں کے لئے سواریاں یا تلواریں یا نیزے مہیا کئے گئے.صحابہ میں قربانی کا اس قدر جوش تھا کہ یمن کے کچھ لوگ جو اسلام لا کر مدینہ میں ہجرت کر آئے تھے اور بہت ہی غربت کی حالت میں تھے ان کے کچھ افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا ، يَا رَسُولَ اللہ ! ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلیے ہم کچھ اور نہیں چاہتے ہم صرف یہ چاہتے

Page 373

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۱ دیباچہ تفسیر القرآن ہیں کہ ہمیں وہاں تک پہنچنے کا سامان مل جائے.قرآن کریم میں ان لوگوں کا ذکر ان الفاظ میں آتا ہے ولا على الَّذِينَ إِذَا آتَحْمِلَهُمْ قُلْتُ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلُوا اعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنَا الّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ ۳۷۸ یعنی اس جنگ میں شریک نہ ہونے کا ان لوگوں پر کوئی گناہ نہیں جو تیرے پاس اس لئے آتے ہیں کہ تو ان کے لئے ایسا سامان مہیا کر دے جس کے ذریعہ سے وہ وہاں پہنچ سکیں مگر تو نے انہیں کہا کہ میرے پاس تو تمہیں وہاں پہنچانے کا کوئی سامان نہیں.تب وہ تیری مجلس سے اُٹھ کر چلے گئے اور اُن کی آنکھوں سے اس غم میں آنسو بہتے تھے کہ افسوس ان کے پاس کوئی مال نہیں جس کو خرچ کی کر کے وہ آج اسلامی خدمت کر سکیں.ابو موسیٰ ان لوگوں کے سردار تھے جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ نے اُس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا مانگا تھا ؟ تو انہوں نے کہا خدا کی قسم ! ہم نے اونٹ نہیں مانگے ، ہم نے گھوڑے نہیں مانگے ، ہم نے صرف یہ کہا تھا کہ ہم ننگے پاؤں کی ہیں اور اتنا لمبا سفر پیدل نہیں چل سکتے اگر ہم کو صرف جوتیوں کے جوڑے مل جائیں تو ہم جوتیاں پہن کر ہی بھاگتے ہوئے اپنے بھائیوں کے ساتھ اس جنگ میں شریک ہونے کے لئے پہنچ جائیں گے.۳۷۹ چونکہ لشکر کو شام کی طرف جانا تھا اور موتہ کی جنگ کا نظارہ مسلمانوں کی آنکھوں کے سامنے تھا اس لئے ہر مسلمان کے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کی حفاظت کا خیال سب خیالوں پر مقدم تھا.عورتیں تک بھی اس خطرہ کو محسوس کر رہی تھیں اور اپنے خاوندوں اور اپنے بیٹوں کو جنگ پر جانے کی تلقین کر رہی تھیں.اس اخلاص اور اس جوش کا اندازہ اس طرح ہو سکتا ہے کہ ایک صحابی جو کسی کام کے لئے باہر گئے ہوئے تھے اُس وقت واپس کو ٹے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر سمیت مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے.ایک عرصہ کی جدائی کے بعد جب وہ اس خیال سے اپنے گھر میں داخل ہوئے کہ اپنی محبو بہ بیوی کو جا کر دیکھیں گے اور خوش ہوں گے تو انہوں نے اپنی بیوی کو صحن میں بیٹھے ہوئے دیکھا اور محبت سے بغل گیر ہوئے اور پیار کرنے کے لئے تیزی سے اس کی طرف آگے بڑھے.جب وہ بیوی کے قریب گئے تو اُن کی بیوی نے دونوں ہاتھوں سے اُن کو دھکا دے کر پیچھے ہٹا دیا.اُس صحابی نے حیرت سے اپنی بیوی کا منہ

Page 374

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۲ دیباچہ تفسیر القرآن دیکھا اور پوچھا اتنی مدت کے بعد ملنے پر آخر یہ سلوک کیوں؟ بیوی نے کہا کیا تم کو شرم نہیں آتی خدا کا رسول اُس خطرہ کی جگہ پر جا رہا ہے اور تم اپنی بیوی سے پیار کرنے کی جرات کرتے ہو! پہلے جاؤ اور اپنا فرض ادا کرو اس کے بعد یہ باتیں دیکھی جائیں گی وہ صحابی فوراً گھر سے باہر نکل گئے.اپنی سواری پر زین کسی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تین منزل پر جا کر مل گئے.کفار تو یہ سمجھتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان افواہوں کی بناء پر بے سوچے سمجھے شامی لشکروں پر جا پڑیں گے.مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلامی اخلاق کے تابع تھے.جب آپ شام کے قریب تبوک مقام پر پہنچے تو آپ نے ادھر ادھر آدمی بھیجے تا کہ وہ معلوم کریں کہ حقیقت کیا ہے اور یہ سفراء متفقہ طور پر یہ خبر میں لائے کہ کوئی شامی لشکر اس وقت جمع نہیں ہو رہا.اس پر کچھ دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں ٹھہرے اور اردگرد کے بعض قبائل سے معاہدات کر کے بغیر لڑائی کے واپس آگئے.یہ کل سفر آپ کا دو اڑھائی مہینے کا تھا.جب مدینہ کے منافقوں کو معلوم ہوا کہ لڑائی بھڑائی تو کچھ نہیں ہوئی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیریت سے واپس آرہے ہیں تو انہوں نے سمجھ لیا کہ ہماری منافقانہ چالوں کا راز آب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظاہر ہو گیا ہے اور غالباً اب ہم سزا سے نہیں بچیں گے.تب انہوں نے مدینہ سے کچھ فاصلہ پر چند آدمی ایک ایسے رستہ پر بٹھا دیئے جو نہایت تنگ تھا اور جس پر صرف ایک ایک سوار گزرسکتا تھا.جب آپ اس جگہ کے قریب پہنچے تو آپ کو اللہ تعالیٰ نے وحی سے بتا دیا کہ آگے دشمن راستہ کے دونوں طرف چھپا بیٹھا ہے.آپ نے ایک صحابی کو حکم دیا کہ جاؤ اور وہاں جا کر دیکھو.وہ سواری کو تیز کر کے وہاں پہنچے تو انہوں نے وہاں چند آدمی چھپے ہوئے دیکھے جو اس طرح چھپے بیٹھے تھے جیسا کہ حملہ کرنے والے بیٹھا کرتے ہیں.ان کے پہنچنے پر وہ وہاں سے بھاگ گئے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا تعاقب کرنا مناسب نہ معلوم ہوا.جب آپ مدینہ پہنچے تو منافقوں نے جو اس جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے قسم قسم کی معذرتیں کرنی شروع کر دیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو قبول کر لیا.لیکن اب وقت آ گیا تھا کہ منافقوں کی حقیقت مسلمانوں پر آشکارا کر دی جائے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وحی سے حکم دیا کہ قبا کی وہ مسجد جو منافقوں نے اس لئے بنائی تھی

Page 375

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۳ دیباچهتفسیر القرآن کہ نماز کے بہانہ سے وہاں جمع ہوا کریں گے اور منافقانہ مشورے کیا کریں گے، وہ گرا دی کی جائے اور اُن کو مجبور کیا جائے کہ وہ مسلمانوں کی دوسری مسجدوں میں نماز پڑھا کریں، مگر باوجود اتنی بڑی شرارت کے ان کو کوئی بدنی یا مالی سزا نہ دی گئی.تبوک سے واپسی کے بعد طائف کے لوگوں نے بھی آکر اطاعت قبول کر لی اور اس کے بعد عرب کے متفرق قبائل نے باری باری آکر اسلامی حکومت میں داخلہ کی اجازت چاہی اور تھوڑے ہی عرصہ میں سارے عرب پر اسلامی جھنڈا لہرانے لگا.صلى الله حجۃ الوداع اور آنحضرت ﷺ کا ایک خطبہ نویں سال ہجری میں آپ نے مکہ کا حج فرمایا اور اُس دن آپ پر قرآن شریف کی یہ مشہور آیت نازل ہوئی کہ اليَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ و اتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الاسلام دینا، ۳۸۰ یعنی آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور جتنے روحانی انعامات خدا تعالیٰ کی طرف سے بندوں پر نازل ہو سکتے ہیں وہ سب میں نے تمہاری اُمت کو بخش دیئے ہیں اور اس بات کا فیصلہ کر دیا ہے کہ تمہارا دین خالص اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر مبنی ہو.یہ آیت آپ نے مزدلفہ کے میدان میں جبکہ حج کے لئے لوگ جمع ہوتے ہیں سب لوگوں کے سامنے بہ آواز بلند پڑھ کر سنائی.مزدلفہ سے کوٹنے پر حج کے قواعد کے مطابق آپ منی میں ٹھہرے اور گیارھویں ذوالحجہ کو آپ نے تمام مسلمانوں کے سامنے کھڑے ہو کر ایک تقریر کی جس کا مضمون یہ تھا.”اے لوگو! میری بات کو اچھی طرح سنو کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد کبھی بھی میں تم لوگوں کے درمیان اس میدان میں کھڑے ہو کر کوئی تقریر کروں گا.تمہاری جانوں اور تمہارے مالوں کو خدا تعالیٰ نے ایک دوسرے کے حملہ سے قیامت تک کے لئے محفوظ قرار دیا ہے.خدا تعالیٰ نے ہر شخص کے لئے وراثت میں اُس کا حصہ مقرر کر دیا ہے.کوئی وصیت ایسی جائز نہیں جو دوسرے وارث کے حق کو نقصان پہنچائے.جو بچہ جس کے گھر میں پیدا ہو وہ اُس کا سمجھا جائے گا اور اگر کوئی بدکاری کی

Page 376

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۴ دیباچہ تفسیر القرآن بناء پر اُس بچے کا دعوی کرے گا تو وہ خود شرعی سزا کا مستحق ہوگا.جو شخص کسی کے باپ کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے یا کسی کو جھوٹے طور پر اپنا آقا قرار دیتا ہے خدا اور اُس کے فرشتوں اور بنی نوع انسان کی لعنت اُس پر ہے.اے لوگو! تمہارے کچھ حق تمہاری بیویوں پر ہیں اور تمہاری بیویوں کے کچھ حق تم پر ہیں.ان پر تمہارا حق یہ ہے کہ وہ عفت کی زندگی بسر کریں اور ایسی کمینگی کا طریق اختیار نہ کریں جس سے خاوندوں کی قوم میں بے عزتی ہو.اگر وہ ایسا کریں تو تم ( جیسا کہ قرآن کریم کی ہدایت ہے کہ باقاعدہ تحقیق اور عدالتی فیصلہ کے بعد ایسا کیا جا سکتا ہے ) انہیں سزا دے سکتے ہو مگر اس میں بھی سختی نہ کرنا.لیکن اگر وہ کوئی ایسی حرکت نہیں کرتیں جو خاندان اور خاوند کی عزت کو بٹہ لگانے والی ہو تو تمہارا کام ہے کہ تم اپنی حیثیت کے مطابق ان کی خوراک اور لباس وغیرہ کا انتظام کرو.اور یا درکھو کہ ہمیشہ اپنی بیویوں سے اچھا سلوک کرنا کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کی نگہداشت تمہارے سپرد کی ہے.عورت کمزور وجود ہوتی ہے اور وہ اپنے حقوق کی خود حفاظت نہیں کر سکتی.تم نے جب ان کے ساتھ شادی کی تو خدا تعالیٰ کو ان کے حقوق کا ضامن بنایا تھا اور خدا تعالیٰ کے قانون کے ماتحت تم ان کو اپنے گھروں میں لائے تھے ( پس خدا تعالیٰ کی ضمانت کی تحقیر نہ کرنا اور عورتوں کے حقوق کے ادا کرنے کا ہمیشہ خیال رکھنا ) اے لوگو! تمہارے ہاتھوں میں ابھی کچھ جنگی قیدی بھی باقی ہیں.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ ان کو وہی کچھ کھلا نا جو تم خود کھاتے ہو اور ان کو وہی پہنا نا جو تم خود پہنتے ہو.اگر ان سے کوئی ایسا قصور ہو جائے جو تم معاف نہیں کر سکتے تو ان کو کسی اور کے پاس فروخت کر دو کیونکہ وہ خدا کے بندے ہیں اور ان کو تکلیف دینا کسی صورت میں بھی جائز نہیں.اے لوگو! جو کچھ میں تم سے کہتا ہوں سنو اور اچھی طرح اس کو یا درکھو.ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے تم سب ایک ہی درجہ کے ہو.تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہوانسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو.یہ کہتے ہوئے آپ نے اپنے دونوں ہاتھ اُٹھائے اور دونوں ہاتھوں کی اُنگلیاں ملا دیں اور کہا جس طرح ان دونوں

Page 377

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۵ دیباچہ تفسیر القرآن ہاتھوں کی اُنگلیاں آپس میں برابر ہیں اسی طرح تم بنی نوع انسان آپس میں برا بر ہو.تمہیں ایک دوسرے پر فضیلت اور درجہ ظاہر کرنے کا کوئی حق نہیں.تم آپس میں بھائیوں کی طرح ہو.پھر فرمایا کیا تمہیں معلوم ہے آج کونسا مہینہ ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ علاقہ کونسا ہے؟ کیا تمہیں معلوم ہے یہ دن کونسا ہے؟ لوگوں نے کہا ہاں! یہ مقدس مہینہ ہے، یہ مقدس علاقہ ہے اور یہ حج کا دن ہے.ہر جواب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے جس طرح یہ مہینہ مقدس ہے، جس طرح یہ علاقہ مقدس ہے، جس طرح یہ دن مقدس ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کی جان اور اُس کے مال کو مقدس قرار دیا ہے اور کسی کی جان اور کسی کے مال پر حملہ کرنا ایسا ہی نا جائز ہے جیسے کہ اس مہینے اور اس علاقہ اور اس دن کی ہتک کرنا.یہ حکم آج کیلئے نہیں ، کل کیلئے نہیں بلکہ اُس دن تک کیلئے ہے کہ تم خدا سے جا کر ملو.پھر فرمایا.یہ باتیں جو میں تم سے آج کہتا ہوں اِن کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دو کیونکہ ممکن ہے کہ جو لوگ آج مجھ سے سن رہے ہیں اُن کی نسبت وہ لوگ ان پر زیادہ عمل کریں جو مجھ سے نہیں سن رہے.۳۸۱ یه مختصر خطبہ بتاتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنی نوع انسان کی بہتری اور ان کا امن کیسا مد نظر تھا اور عورتوں اور کمزوروں کے حقوق کا آپ کو کیسا خیال تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم محسوس کر رہے تھے کہ اب موت قریب آ رہی ہے شاید اللہ تعالیٰ آپ کو بتا چکا تھا کہ اب آپ کی زندگی کے دن تھوڑے رہ گئے ہیں.آپ نے نہ چاہا کہ وہ عورتیں جو انسانی پیدائش کے شروع سے مردوں کی غلام قرار دی جاتی تھیں ان کے حقوق کو محفوظ کرنے کا حکم دینے سے پہلے آپ اس دنیا سے گزر جائیں.وہ جنگی قیدی جن کو لوگ غلام کا نام دیا کرتے تھے اور جن پر طرح طرح کے مظالم کیا کرتے تھے آپ نے نہ چاہا کہ ان کے حقوق کو محفوظ کر دینے سے پہلے آپ اس دنیا سے گزر جائیں.وہ بنی نوع انسان کا باہمی فرق اور امتیاز جو انسانوں میں سے بعض کو تو آسمان پر چڑھا دیتا تھا اور بعض کو تحت الثریٰ میں گرا دیتا تھا.جو قوموں قوموں اور ملکوں ملکوں کے درمیان تفرقہ اور لڑائی پیدا کرنے اور اس کو جاری رکھنے کا موجب ہوتا تھا آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اس تفرقہ اور امتیاز کو مٹا نہ دیں اس دنیا سے گزر جائیں.وہ ایک

Page 378

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۶ دیباچہ تفسیر القرآن دوسرے کے حقوق پر چھاپے مارنا اور ایک دوسرے کی جان اور مال کو اپنے لئے جائز سمجھنا جو ہمیشہ ہی بداخلاقی کے زمانہ میں انسان کی سب سے بڑی لعنت ہوتا ہے آپ نے نہ چاہا کہ جب تک اس روح کو کچل نہ دیں اور جب تک بنی نوع انسان کی جانوں اور ان کے مالوں کو وہی تقدس اور وہی حرمت نہ بخش دیں جو خدا تعالیٰ کے مقدس مہینوں اور خدا تعالیٰ کے مقدس اور با برکت مقاموں کو حاصل ہے آپ اس دنیا سے گزر جائیں.کیا عورتوں کی ہمدردی ، ماتحت لوگوں کی ہمدردی ، بنی نوع انسان میں امن اور آرام کے قیام کی خواہش اور بنی نوع انسان میں مساوات کے قیام کی خواہش اتنی شدید دنیا کے کسی اور انسان میں پائی جاتی ہے؟ کیا آدم سے لے کر آج تک کسی انسان نے بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی کا ایسا جذبہ اور ایسا جوش دکھایا ہے ہے؟ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں آج تک عورت اپنی جائیداد کی مالک ہے.جبکہ یورپ نے اس درجہ کو اسلام کے تیرہ سو سال بعد حاصل کیا ہے.یہی وجہ ہے کہ اسلام میں داخل ہونے والا ہر شخص دوسرے کے برابر ہو جاتا ہے خواہ وہ کیسی ہی ادنی اور ذلیل سمجھی جانے والی قوم سے تعلق رکھتا ہو.حریت اور مساوات کا جذ بہ صرف اور صرف اسلام نے ہی دنیا میں قائم کیا ہے اور ایسے رنگ میں قائم کیا ہے کہ آج تک بھی دنیا کی دوسری قومیں اس کی مثال پیش نہیں کر سکتیں.ہماری مسجد میں ایک بادشاہ اور ایک معزز ترین مذہبی پیشوا اور ایک عامی برابر ہیں ان میں کوئی فرق اور امتیاز قائم نہیں کر سکتا.جبکہ دوسرے مذاہب کے معبد بڑوں اور چھوٹوں کے امتیاز کو اب تک ظاہر کرتے چلے آئے ہیں.گو وہ قو میں شاید حریت اور مساوات کا دعویٰ مسلمانوں سے بھی زیادہ بلند آواز سے کر رہی ہیں.آنحضرت ﷺ کی وفات جب اس سفر سے آپ واپس آرہے تھے ، تو راستہ میں پھر آپ نے اپنے صحابہ کو اپنی وفات کی خبر دی.آپ نے فرمایا اے لوگو ! میں تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ کا پیغامبر میری طرف آئے اور مجھے اُس کا جواب دینا پڑے.پھر فرمایا اے لوگو! مجھے میرے مہربان اور خبر دار آقا نے خبر دی ہے کہ نبی اپنے سے پہلے نبی کی نصف عمر پاتا ہے ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا تھا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ سال کے قریب تھی اور اس سے آپ

Page 379

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن.نے استدال کیا کہ میری عمر ساٹھ سال کے قریب ہو گی.۳۸۲ چونکہ اُس وقت آپ کی عمر باسٹھ تریسٹھ سال کی تھی آپ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ میری عمر اب ختم ہونے والی معلوم ہوتی ہے.اس حدیث کے یہ معنی نہیں کہ ہر نبی اپنے سے پہلے آنے والے نبی سے آدھی عمر پاتا ہے بلکہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حضرت عیسی علیہ السلام کی عمر اور اپنی عمر کا مقابلہ کیا ہے ) اور مجھے خیال ہے کہ اب جلدی مجھے بلایا جائے گا اور میں فوت ہو جاؤں گا.اے میرے صحابہ ! مجھ سے بھی خدا کے سامنے سوال کیا جائے گا اور تم سے بھی سوال کیا جائے گا تم اُس وقت کیا کہو گے ؟ اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہم کہیں گے کہ آپ نے خوب اچھی طرح اسلام کی تبلیغ کی اور آپ نے اپنی زندگی کو کلی طور پر خدا کے دین کی خدمت کے لئے لگا دیا اور آپ نے بنی نوع انسان کی خیر خواہی کو کمال تک پہنچا دیا.اللہ آپ کو ہماری طرف سے بہتر سے بہتر بدلہ دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا تم اس بات کی گواہی نہیں دیتے کہ اللہ ایک ہی ہے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اُس کے بندے اور رسول ہیں اور جنت بھی حق ہے اور دوزخ بھی حق ہے اور یہ کہ موت بھی ہر انسان کو ضرور آنی ہے اور موت کے بعد زندگی بھی ہر انسان کو ضرور ملے گی اور قیامت بھی ضرور آنی ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان کو قبروں میں سے دوبارہ زندہ کر کے اکٹھا کرے گا.انہوں نے کہا ہاں يَا رَسُولَ اللہ ! ہم اِس کی گواہی دیتے ہیں.اس پر آپ نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا اے اللہ ! تو بھی گواہ کی رہ کہ میں نے انہیں اصولِ اسلام پہنچا دیئے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس حج سے واپس آنے کے بعد برابر مسلمانوں کے اخلاق اور ان کے اعمال کی اصلاح میں مشغول رہے اور مسلمانوں کو اپنی وفات کے دن کی امید کے لئے تیار کرتے رہے.ایک دن آپ خطبہ کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا.آج مجھے اللہ تعالیٰ کی کی طرف سے الہام ہوا ہے کہ اُس دن کو یاد کرو جب خدا تعالیٰ کی نصرتیں اور اُس کی طرف سے فتوحات گزشتہ زمانہ سے بھی زیادہ زور سے آئیں گی اور ہر قوم وملت کے لوگ اسلام میں فوج در فوج داخل ہونے شروع ہوں گے.پس اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اب تم خدا تعالیٰ کی تعریف میں لگ جاؤ اور اُس سے دعا کرو کہ دین کی بنیاد جو تم نے قائم کی ہے وہ اس

Page 380

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۸ ۳۸۳ دیباچهتفسیر القرآن میں سے ہر قسم کے رخنوں کو دُور کرے.اگر تم یہ دعائیں کرو گے تو خدا تعالیٰ ضرور تمہاری کی دعاؤں کو سنے گا.اسی طرح آپ نے فرمایا خدا تعالیٰ نے اپنے بندے سے کہا کہ خواہ تم ہمارے پاس آ جاؤ اور خواہ تم دنیا کی اصلاح کا کام بھی کچھ اور مدت کرو.خدا کے اس بندے نے جواب میں کہا کہ مجھے آپ کے پاس آنا زیادہ پسند ہے.جب آپ نے یہ بات مجلس میں سنائی تو حضرت ابو بکر رو پڑے.صحابہ کو تعجب ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اسلام کی فتوحات کی خبر سنا ر ہے اور ابو بکر ر و ر ہے ہیں.حضرت عمر کہتے ہیں میں نے کہا اس بڑھے کو کیا ہو گیا کہ یہ خوشی کی خبر پر روتا ہے ! مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے تھے کہ ابو بکر ہی آپ کی بات کو صحیح سمجھتا ہے اور اُس نے یہ سمجھ لیا ہے کہ اس سورۃ میں میری وفات کی خبر ہے.آپ نے فرمایا ابو بکر کی مجھ کو بہت ہی پیارا ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے غیر محدود پیار کرنا جائز ہوتا تو میں ابوبکر سے ایسا ہی پیار کرتا.اے لوگو! مسجد میں جتنے لوگوں کے دروازے کھلتے ہیں آج سے سب دروازے بند کر دیئے جائیں صرف ابو بکر کا دروازہ کھلا رہے.اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوں گے اور نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں اس راستہ سے آنا پڑے گا.اس واقعہ کے مدتوں بعد جب حضرت عمر خلیفہ تھے ایک دفعہ آپ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرما یا بتا ؤ إذا جاء نصر الله والفتح والی سورۃ میں سے کیا مطلب نکلتا ہے؟ گویا اس مضمون کے متعلق آپ نے اپنے ہم مجلسوں کا امتحان لیا جس کے سمجھنے سے وہ اس سورۃ کے نزول کے وقت قاصر رہے تھے.ابن عباس جو اس واقعہ کے وقت دس گیارہ برس کے تھے اُس وقت کوئی ۱۷.۱۸ سال کے نوجوان تھے.باقی صحابہ تو نہ بتا سکے ابن عباس نے کہا اے امیر المؤمنین ! اس سورۃ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر دی گئی ہے کیونکہ نبی جب اپنا کام کر لیتا ہے ہے تو پھر دنیا میں رہنا پسند نہیں کرتا.حضرت عمرؓ نے کہا سچ ہے میں تمہاری ذہانت کی داد دیتا تھ ہوں.۳۸۴ے جب یہ سورۃ نازل ہوئی ابوبکر اس کا مفہوم سمجھے مگر ہم نہ سمجھ سکے.آخر وہ دن آگیا جو ہر انسان پر آتا ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا کام دنیا میں ختم کر چکے ، خدا کی وحی تمام و کمال نازل ہو چکی ،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے

Page 381

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۶۹ دیباچہ تفسیر القرآن ایک نئی قوم اور ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کی بنیاد ڈال دی گئی.بونے والے نے زمین میں ہل چلایا ، پانی دیا اور بیج بو دیا اور فصل تیار کی.اب فصل کے کانٹے کا کام اس کے ذمہ نہ تھا.وہ ایک مزدور کی حیثیت سے آیا اور ایک مزدور ہی کی حیثیت سے اسے اس دنیا سے جانا تھا کیونکہ اُس کا انعام اس دنیا کی چیزیں نہیں تھیں بلکہ اُس کا انعام اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے بھیجنے والے کی رضا تھی.جب فصل کٹنے پر آئی تو اس نے اپنے رب سے یہی خواہش کی کہ وہ اب اُسے دنیا سے اُٹھالے اور یہ فصل بعد میں دوسرے لوگ کاٹیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے کچھ دن تو تکلیف اُٹھا کر بھی مسجد میں نماز پڑھانے کے لئے آتے رہے.آخر یہ طاقت بھی نہ رہی کہ آپ مسجد میں آسکتے.صحابہ کبھی خیال بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آپ فوت ہو جائیں گے.مگر آپ بار بار انہیں اپنی وفات کے قرب کی خبر دیتے.ایک دن صحابہ کی مجلس لگی ہوئی تھی کہ آپ نے فرمایا اگر کسی شخص سے غلطی ہو جائے تو بہتر یہی ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اس کا ازالہ کر دے تاکہ خدا کے سامنے شرمندہ نہ ہو.اگر میرے ہاتھ سے نادانستہ طور پر کسی کا حق مارا گیا ہوتو وہ مجھ سے اپنا حق مانگ لے.اگر بے جانے بوجھے مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو آج وہ مجھ سے بدلہ لے لے کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ خدا تعالیٰ کے سامنے شرمندہ ہوں.دوسرے صحابہ پر تو یہ بات سن کر رقت طاری ہو گئی اور ان کے دل میں یہی خیال گزرنے لگے کہ کس طرح تکلیف اُٹھا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے آرام کی صورت پیدا کرتے رہے ہیں.کس طرح آپ بھوکا رہ کر ان کو کھلاتے رہے ہیں.اپنے کپڑوں کو پیوند لگا کر اُن کو کپڑے پہناتے رہے ہیں پھر بھی دوسروں کے حقوق کا آپ کو اتنا خیال ہے کہ آپ اُن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر بے جانے بوجھے مجھ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو تو آج مجھ سے بدلہ لے لے.مگر ایک صحابی آگے بڑھے اور اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! مجھے آپ سے ایک دفعہ تکلیف پہنچی کچ تھی.جنگ کی صفیں تیار ہورہی تھیں کہ آپ صف میں سے ہو کر آگے بڑھے اُس وقت آپ کی تی کہنی میرے جسم کو لگ گئی تھی.چونکہ آپ نے فرمایا کہ بے جانے بوجھے بھی اگر کسی کو نقصان پہنچا ہو تو مجھ سے بدلہ لے لے تو میں چاہتا ہوں کہ اس وقت آپ سے اُس تکلیف کا بدلہ لے لوں.وہ صحابہ جو غم کے سمندر میں ڈوب رہے تھے یکدم اُن کی حالت میں تغیر پیدا ہوا.ان کی آنکھوں.

Page 382

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن میں سے خون ٹپکنے لگا اور ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ یہ شخص جس نے ایسے موقع پر بجائے نصیحت حاصل کرنے کے اس قسم کی بات چھیڑ دی ہے سخت سے سخت سزا کا مستحق ہے مگر اُس صحابی نے پرواہ نہ کی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ٹھیک کہتے ہو تمہارا حق ہے کہ بدلہ لو اور آپ نے کروٹ بدلی اور اپنی پیٹھ اُس کی طرف کر دی اور فرمایا لومیرے کہنی مار لو.اُس صحابی نے کہا يَا رَسُولَ الله ! جب میرے کہنی لگی تھی اُس وقت میرا جسم نگا تھا کیونکہ میرے پاس کر نہ نہ تھا کہ میں اُسے پہنتا.آپ نے فرمایا میرا کر نہ اُٹھا دو اور ننگے جسم پر کہنی مار کر اپنا بدلہ لے لو.اُس صحابی نے آپ کا کرتہ اُٹھایا اور کانپتے ہوئے ہونٹوں اور آنسو بہاتی آنکھوں سے جھک کر آپ کی کمر کو بوسہ دیا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کیا؟ اس نے جواب میں کہا يَا رَسُولَ الله ! جب آپ فرماتے ہیں کہ آپ کی موت قریب ہے تو آپ کو چھونے اور پیار کرنے کے مواقع ہمیں کب تک ملیں گے.بیشک جنگ کے موقع پر مجھے آپ کی کہنی لگی تھی ، لیکن کس کے دل میں اُس کہنی لگنے کا بدلہ لینے کا خیال بھی آسکتا ہے.میرے دل میں خیال آیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ آج مجھ سے بدلہ لے لو تو چلو اس بہانہ سے میں آپ کو پیار ہی کر لوں.۳۸۵ے وہی صحابہ جن کے دل غصہ سے خون ہو رہے تھے اس بات کو سن کر انہی کے دل میں اس حسرت سے بھر گئے کہ کاش! یہ موقع ہم کو نصیب ہوتا! مرض بڑھتا گیا، موت قریب آتی گئی.مدینہ کا سورج باوجود پہلے کی سی آب و تاب سے چپکنے کے صحابہ کی نظروں میں زرد رہنے لگا.دن چڑھتے تھے مگر اُن کی آنکھوں پر تاریکی کے پردے پڑتے چلے جاتے تھے آخر وہ وقت آ گیا جب کہ خدا کے رسول کی روح دنیا کو چھوڑ کر اپنے پیدا کرنے والے کے حضور میں حاضر ہونے والی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس کی تیز ہونے لگا اور سانس لینے میں تکلیف محسوس ہونے لگی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت کی عائشہ سے فرمایا میرا سر اُٹھا کر اپنے سینہ کے ساتھ رکھ لو کیونکہ لیٹے لیٹے سانس نہیں لیا جاتا.حضرت عائشہ نے آپ کا سر اُٹھا کر اپنے سینہ کے ساتھ لگا لیا اور آپ کو سہارا دے کر بیٹھ گئیں.موت کی تکلیف آپ پر طاری تھی.آپ گھبراہٹ سے بیٹھے بیٹھے کبھی اس پہلو پر جھکتے تھے اور کبھی " اُس پہلو پر اور فرماتے تھے خدا بُرا کرے یہود اور نصاریٰ کا کہ اُنہوں نے اپنے نبیوں کے مرنے کی

Page 383

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۱ دیباچہ تفسیر القرآن کے بعد اُن کی قبروں کو مسجد میں بنالیا.۳۸۶ یہ آپ کی آخری نصیحت تھی اپنی اُمت کیلئے کہ گوتم مجھے تمام نبیوں سے زیادہ شاندار دیکھو گے اور سب سے زیادہ کامیاب پاؤ گے مگر دیکھنا! میرے بندے ہونے کو کبھی نہ بھول جانا.خدا کا مقام خدا ہی کیلئے سمجھتے رہنا اور میری قبر کو ایک قبر سے زیادہ کبھی کچھ نہ سمجھنا.باقی اُمتیں اپنے نبیوں کی قبروں کو بیشک مسجد میں بنا لیں ، وہاں بیٹھ کر چلے کیا کریں اور اُن پر چڑھاوے چڑھائیں یا نذریں دیں مگر تمہارا یہ کام نہیں ہونا چاہئے.تم خدائے واحد کی پرستش کو قائم کرنے کیلئے کھڑے کئے گئے ہو.یہ کہتے کہتے آپ کی آنکھیں چڑھ گئیں اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہوۓ إِلَى الرَّفِيقِ الْأَعْلَى إِلَى الرَّفِيقِ الأغلى ۳۸۷ میں عرش معلی پر بیٹھنے والے اپنے مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں.میں عرش معلی پر بیٹھنے والے اپنے مہربان دوست کی طرف جاتا ہوں.یہ کہتے کہتے آپ کی روح اس جسم سے جُدا ہوگئی.آنحضرت ﷺ کی وفات پر صحابہ کی حالت اب یہ غیرمسجد میں صحابہ کولی یہ جن میں سے اکثر اپنے کی کام کاج چھوڑ کر مسجد میں آپ کی صحت کی خوشخبری سننے کے انتظار میں تھے تو اُن پر ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا.حضرت ابو بکر اُس وقت تھوڑی دیر کیلئے کسی کام کے لئے باہر گئے ہوئے تھے.حضرت عمرؓ مسجد میں تھے جب اُنہوں نے لوگوں کو یہ بات کہتے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو اُنہوں نے نیام سے تلوار نکال لی اور کہا خدا کی قسم ! جو شخص یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں میں اُس کا سر اُڑا دوں گا.ابھی تک منافق دنیا میں باقی ہیں اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے.اگر اُن کی روح جسم سے جدا ہو گئی ہے تو وہ صرف موسی کی طرح خدا کی ملاقات کے لئے گئی ہے اور پھر واپس آئے گی اور دنیا سے منافقوں کا قلع قمع کرے گی.۳۸۸ے یہ کہا اور ننگی تلوار لے کر اس روح فرسا خبر کے صدمہ سے مجنونوں کی طرح ادھر اُدھر ٹہلنے لگے اور ساتھ ساتھ یہ کہتے جاتے تھے کہ اگر کوئی شخص یہ کہے گا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو گئے ہیں تو میں اُسے قتل کر دوں گا.صحابہؓ کہتے ہیں کہ جب ہم نے حضرت عمرؓ کو اس طرح ٹہلتے ہوئے دیکھا تو ہمارے دلوں کو بھی ڈھارس

Page 384

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۲ دیباچہ تفسیر القرآن بندھی اور ہم نے کہا عمر سچ کہتے ہیں.رسول اللہ علہ فوت نہیں ہوئے ضرور اس بارہ میں لوگوں کی کو غلطی لگی ہے اور عمر کے قول کے ساتھ ہم نے اپنے دلوں کو تسلی دینی شروع کی.اتنے میں بعض لوگوں نے دوڑ کر حضرت ابوبکر کو صورت حالات سے اطلاع دی.اُن سے اطلاع پا کر حضرت ابو بکر بھی مسجد میں پہنچ گئے مگر کسی سے بات نہ کی سیدھے گھر میں چلے گئے اور جا کر حضرت عائشہ سے پوچھا کیا رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں؟ حضرت عائشہ نے فرمایا ہاں.آپ رسول اللہ ہے کے پاس گئے آپ کے منہ پر سے کپڑا اٹھایا آپ کے ماتھے کو بوسہ دیا اور محبت کے چمکتے ہوئے آنسو آپ کی آنکھوں سے گرے اور آپ نے فرمایا خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ پر دو موتیں وارد نہیں کرے گا.۳۸۹ یعنی یہ نہیں ہو گا کہ ایک تو آپ جسمانی طور پر فوت پر ہو جائیں اور دوسری موت آپ پر یہ وارد ہو کہ آپ کی جماعت غلط عقائد اور غلط خیالوں میں مبتلا ہو جائے.یہ کہہ کر آپ باہر آئے اور صفوں کو چیرتے ہوئے خاموشی کے ساتھ منبر کی طرف بڑھے.جب آپ منبر پر کھڑے ہوئے تو حضرت عمر بھی تلوار کھینچ کر آپ کے پاس کھڑے ہو گئے اس نیت سے کہ اگر ابو بکر نے یہ کہا کہ محمد رسول اللہ ﷺ فوت ہو گئے ہیں تو میں اُن کو قتل کر دوں گا.جب آپ بولنے لگے تو حضرت عمر نے آپ کا کپڑا کھینچا اور آپ کو خاموش کرنا چاہا تو مگر آپ نے کپڑے کو جھٹک کر اُن کے ہاتھ سے چھڑا لیا اور پھر قرآن شریف کی یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُولُ.قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، آفَائِن مات أو قيل القلبتُم على اعقابكُمْ ۳۹۰ یعنی اے لوگو ! محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صرف اللہ تعالیٰ کے ایک رسول تھے اُن سے پہلے اور بہت سے رسول گزرے ہیں اور سب کے سب ہو چکے ہیں کیا اگر وہ مر جائیں یا مارے جائیں تو تم لوگ اپنے دین کو چھوڑ کر پھر جاؤ گے ؟ دینی خدا کا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تو نہیں.یہ آیت اُحد کے وقت نازل ہوئی تھی جب کہ بعض لوگ یہ سن کر کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہید ہو گئے ہیں دل چھوڑ کر بیٹھ گئے تھے.اس آیت کے پڑھنے کے بعد آپ نے فرمایا اے لوگو! مَنْ كَانَ يَعْبُدُ اللَّهَ فَإِنَّ اللَّهَ حَيٌّ لَا يَمُوتُ جو تم میں سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا تھا اُسے یا درکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ زندہ ہے اُس پر کبھی موت وارد نہیں ہو سکتی.وَ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يَعْبُدُ مُحَمَّدًا فَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْمَاتَ اور

Page 385

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۳ دیا چه تفسیر القرآن جو کوئی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کرتا تھا تو اُس کومیں بتائے دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو چکے ہیں.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ جس وقت ابو بکر نے مَا مُحَمَّدُ إِلَّا رَسُول والی آیت پڑھنی شروع کی تو میرے ہوش درست ہونے شروع ہوئے.اس آیت کے ختم کرنے تک میری روحانی آنکھیں کھل گئیں اور میں نے سمجھ لیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم واقعہ میں فوت ہو گئے ہیں تب میرے گھٹنے کانپ گئے اور میں نڈھال کی ہوکر زمین پر گر گیا.۳۹۱ وہ شخص جو تلوار سے ابو بکر کو مارنا چاہتا تھا وہ اب ابو بکر کے صداقت بھرے لفظوں کے ساتھ خود قتل ہو گیا.صحابہ کہتے ہیں کہ اُس وقت ہمیں یوں معلوم ہوتا تھا کہ یہ آیت آج ہی نازل ہوئی ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے صدمہ میں یہ آیت ہمیں بھول ہی گئی تھی.اُس وقت حسان بن ثابت نے جو مدینہ کے ایک بہت بڑے شاعر تھے یہ شعر کہا.كُنْتَ السَّوَادَ لِنَاظِرِى فَعَمِيَ عَلَى النَّاظِرُ مَنْ شَاءَ بَعْدَكَ فَلْيَمُتُ فَعَلَيْكَ كُنْتُ أُحَاذِرُ ۳۹۲ اے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو میری آنکھوں کی پتلی تھا آج تیرے مرنے سے میری آنکھیں اندھی ہو گئیں.اب تیرے مرنے کے بعد کوئی مرے، میرا باپ مرے، میرا بھائی مرے، میرا بیٹا مرے، میری بیوی مرے مجھے ان میں سے کسی کی موت کی پرواہ نہیں.میں تو تیری ہی موت سے ڈرا کرتا تھا.یہ شعر ہر مسلمان کے دل کی آواز تھا.اس کے بعد کئی دنوں تک مدینہ کی گلیوں میں مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مسلمان بچے یہی شعر پڑھتے پھرتے تھے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تو تو ہماری آنکھوں کی پتلی تھا تیرے مرنے سے ہم تو اندھے ہو گئے.اب ہمارا کوئی عزیز اور کی قریبی رشتہ دار مرے ہمیں پرواہ نہیں.ہمیں تو تیری ہی موت کا خوف تھا.

Page 386

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۴ دیباچہ تفسیر القرآن سیرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے حالات بیان کرنے کے بعد اب میں آپ کے اخلاق کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں.آپ کے اخلاق حسنہ کے متعلق مجموعی شہادت وہ ہے جو آپ کی قوم نے دی کہ آپ کی نبوت کے دعوئی سے پہلے آپ کی قوم نے آپ کا نام امین اور صدیق رکھا.۳۹۳ دنیا میں ایسے لوگ بہت ہوتے ہیں جن کی نسبت بد دیانتی کا ثبوت نہیں ملتا.ایسے لوگ بھی بہت ہوتے ہیں جن کو کسی کڑی آزمائش میں سے گزرنے کا موقع نہیں ملتا.ہاں وہ معمولی آزمائشوں سے گزرتے ہیں اور ان کی امانت قائم رہتی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی قوم ان کی کو کوئی خاص نام نہیں دیتی.اس لئے کہ خاص نام اُسی وقت دیئے جاتے ہیں جب کوئی شخص کسی خاص صفت میں دوسرے تمام لوگوں پر فوقیت لے جاتا ہے.لڑائی میں شامل ہونے والا ہر سپاہی اپنی جان کو خطرہ میں ڈالتا ہے لیکن نہ انگریزی قوم ہر سپاہی کو وکٹوریہ کر اس دیتی ہے نہ جرمن قوم ہر سپاہی کو آئرن کر اس دیتی ہے.فرانس میں علمی مشغلہ رکھنے والے لوگ لاکھوں ہیں لیکن ہر شخص کو لیجن آف آنر (LEGION OF HONOUR) کا فیتہ نہیں ملتا.پس محض کسی شخص کا امانت دار اور صادق ہونا اُس کی عظمت پر خاص روشنی نہیں ڈالتا.لیکن کسی شخص کو ساری قوم کا امین اور صدیق کا خطاب دے دینا یہ ایک غیر معمولی بات ہے.اگر مکہ کے لوگ ہر نسل کے لوگوں میں سے کسی کو امین اور صدیق کا خطاب دیا کرتے تب بھی امین اور صدیق کا خطاب پانے والا بہت بڑا آدمی سمجھا جاتا ، لیکن عرب کی تاریخ بتاتی ہے کہ عرب لوگ ہر نسل میں کبھی کسی کی آدمی کو یہ خطاب نہیں دیا کرتے تھے بلکہ عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں صرف ایک ہی مثال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملتی ہے کہ آپ کو اہل عرب نے امین اور صدیق کا خطاب دیا.پس عرب کی سینکڑوں سال کی تاریخ میں قوم کا ایک ہی شخص کو امین اور صدیق کا خطاب دینہ

Page 387

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۵ دیباچہ تفسیر القرآن بتاتا ہے کہ اُس کی امانت اور اُس کا صدق دونوں اتنے اعلیٰ درجہ کے تھے کہ ان کی مثال عربوں جی کے علم میں کسی اور شخص میں نہیں پائی جاتی تھی.عرب اپنی باریک بینی کی وجہ سے دنیا میں ممتاز تھے پس جس چیز کو وہ نادر قرار دیں وہ یقینا دنیا میں نادر ہی سمجھے جانے کے قابل تھی.پھر ایک اجماعی شہادت آپ کے اخلاق پر حضرت خدیجہ نے آپ کی بعثت کے وقت دی جس کا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح میں ذکر کر چکا ہوں.اب میں چند مثالیں آپ کے اخلاق کی تشریح کے لئے اس جگہ بیان کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کے اخلاق کے مخفی گوشوں پر بھی اس کتاب کے قارئین کی نظر پڑ سکے.آنحضرت ﷺ کی ظاہری و باطنی صفائی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق آتا ہے کہ نہ آپ کبھی بد کلامی کرتے تھے اور نہ فضول قسمیں کھایا کرتے تھے.۳۹۴ے عرب میں رہتے ہوئے اس قسم کے اخلاق ایک غیر معمولی چیز تھے.یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ عرب لوگ عادتا مخش کلامی کرتے تھے لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عرب لوگ عادتا قسمیں کھایا کرتے تھے اور آج تک بھی عرب میں قسم کا رواج کثرت سے پایا جاتا ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کا اتنا ادب کرتے تھے کہ اس کا بے موقع نام لینا کبھی پسند نہ کرتے تھے.صفائی کا آپ کو خاص طور پر خیال رہتا تھا آپ ہمیشہ مسواک کرتے تھے اور اس بارہ میں اتنا زور دیتے تھے کہ بعض دفعہ فرماتے اگر میں اس بات سے نہ ڈروں کہ مسلمان تکلیف میں پڑ جائیں گے تو میں ہر نماز پڑھنے سے پہلے مسواک کرنے کا حکم دے دوں.۳۹۵ کھانا کھانے سے پہلے بھی آپ ہاتھ دھوتے تھے اور کھانا کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوتے اور گلی کرتے تھے بلکہ ہر پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد گلی کرتے اور آپ پکی ہوئی چیز کھانے کے بعد بغیر گلی کئے نماز پڑھنے کو نا پسند فرماتے تھے.۳۹۶ے مساجد جومسلمانوں کے جمع ہونے کی واحد جگہ ہیں ان کی صفائی کا آپ خاص طور پر خیال رکھتے تھے اور مسلمانوں کو اس بات کی تحریک کرتے رہتے تھے کہ خاص اجتماع کے دنوں میں مسجدوں کی صفائی کا خیال رکھا کریں اور ان میں خوشبو جلایا کریں تا کہ ہوا صاف ہو جائے.۳۹۷

Page 388

انوار العلوم جلد ۲۰ ہ دیباچہ تفسیر القرآن اسی طرح آپ ہمیشہ صحابہ کو نصیحت کرتے رہتے تھے کہ اجتماع کے موقع پر بد بودار چیزیں کھا کر مسجد میں نہ آیا کریں.۳۹۸ سڑکوں کی صفائی کا آپ خاص طور پر وعظ فرماتے تھے.اگر سڑک پر جھاڑیاں یا پتھر یا اور کوئی گندی چیز پڑی ہوتی تو آپ خود اُس کو اُٹھا کر سڑک سے ایک طرف کر دیتے اور فرماتے کہ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا خیال رکھتا ہے، خدا اُس پر خوش ہوتا ہے اور اسے ثواب عطا فرماتا ہے.۳۹۹ اسی طرح آپ فرماتے تھے رستہ کو روکنا نہیں چاہئے.رستوں پر بیٹھنا یا ان میں کوئی ایسی چیز ڈال دینا جس سے مسافروں کو تکلیف ہو یا رستہ میں قضائے حاجت وغیرہ کرنا یہ خدا تعالیٰ کو نا پسند ہیں.۴۰۰ پانی کی صفائی کا بھی آپ کو خاص خیال تھا آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کو یہ نصیحت فرماتے تھے کہ کھڑے پانی میں کسی قسم کا گند نہیں ڈالنا چاہئے.اسی طرح کھڑے پانی میں بول و براز کرنے سے بھی آپ سختی سے روکتے تھے.۴۰۱ ملحوظ کھانے پینے میں سادگی اور تقومی کھانے پینے میں آپ سادگی کو مبینہ طورط رکھتے تھے.کھانے میں کبھی نمک زیادہ ہو جائے یا نمک نہ ہو یا کھانا خراب پکا ہو، تو آپ کبھی اظہار ناراضگی نہیں فرماتے تھے.جہاں تک ممکن ہوسکتا تھا آپ ایسا کھانا کھا کر پکانے والے کو دشکنی سے بچانے کی کوشش کرتے تھے لیکن اگر بالکل ہی نا قابل برداشت ہوتا تو آپ صرف ہاتھ بھینچ لیتے تھے اور یہ ظاہر نہیں کرتے تھے کہ مجھے اس کھانے سے تکلیف پہنچتی ہے.۴۰۲ جب آپ کھانا کھانے لگتے تو کھانے کی طرف متوجہ ہو کر بیٹھتے اور فرماتے مجھے یہ تکبرانہ رویہ پسند نہیں کہ بعض لوگ ٹیک لگا کر کھانا کھاتے ہیں گویا وہ کھانے سے مستغنی ہیں.۴۰۳ جب آپ کے پاس کوئی چیز آتی تو اپنے صحابہ میں بانٹ کر کھاتے.چنانچہ آپ کے پاس کی دفعہ کچھ کھجور میں آئیں آپ نے صحابہ کا اندازہ لگایا تو سات سات کھجوریں فی کس آتی تھیں.اس پر آپ نے سات سات کھجور میں صحابہ میں بانٹ دیں.۴۰۴ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کی روٹی بھی پیٹ بھر

Page 389

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۷ دیباچ تفسیر القرآن کر نہیں کھائی.۲۰۵ ایک دفعہ آپ رستہ میں سے گزر رہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک بکری بھون کر لوگوں نے رکھی ہوئی ہے اور دعوت منا رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر ان لوگوں نے آپ کو بھی دعوت دی مگر آپ نے انکار کر دیا ۴۰ اس کی یہ وجہ نہیں تھی کہ آپ بھونا ہوا گوشت کھانا تی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ آپ کو اس قسم کا تکلف پسند نہیں تھا کہ پاس ہی غرباء تو بھو کے پھر رہے ہوں اور اُن کی آنکھوں کے سامنے لوگ بکرے بھون بھون کر کھا رہے ہوں.ورنہ دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ آپ بھونا ہوا گوشت بھی کھا لیا کرتے تھے.حضرت عائشہ سے بھی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین دن متواتر پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھایا اور یہی حالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک رہی.۴۰۷ کھانے کے متعلق آپ اس بات کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے کہ کوئی بغیر بُلائے کسی کی دعوت کے موقع پر دوسرے کے گھر کھانا کھانے کے لئے نہ چلا جائے.ایک دفعہ ایک شخص نے آپ کی دعوت کی اور یہ بھی درخواست کی کہ آپ چار آدمی اپنے ساتھ اور بھی لیتے آئیں.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے گھر کے دروازہ پر پہنچے تو آپ کو معلوم ہوا کہ ایک پانچواں شخص بھی آپ کے ساتھ ہے.جب گھر والا باہر نکلا تو آپ نے اُس سے کہا کہ آپ نے ہمیں پانچ آدمیوں کو دعوت کیلئے بلایا تھا آپ چاہیں تو اس کو بھی اجازت دے دیں اور چاہیں تو اس کو رخصت کر دیں.گھر والے نے کہا نہیں میں ان کی بھی دعوت کرتا ہوں یہ بھی اندر آجا ئیں.۲۰۸ جب آپ کھانا کھاتے تو ہمیشہ بسم اللہ کہہ کر شروع کیا کرتے تھے اور جب کھانا کھا کر فارغ ہوتے تو ان الفاظ میں خدا کی تعریف فرماتے.اَلحَمْدُ لِلَّهِ حَمَّدًا كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكافِيْهِ غَيْرَ مُكْفِيءٍ وَلَا مُوَدَّعِ وَلَا مُسْتَغْنِي عَنْهُ رَبَّنَا - ۲۰۹ یعنی سب تعریف الله تعالیٰ کی ہے جس نے ہمیں کھانا عطا کیا.بہت بہت تعریف ، ہر قسم کی ملونی سے خالی تعریف، بڑھتی رہنے والی تعریف.ایسی تعریف نہیں جس کے بعد انسان سمجھے کہ بس میں تعریف کافی کر چکا بلکہ یہ سمجھے کہ میں نے تعریف کرنے کا حق ادا نہیں کیا اور کبھی تعریف بس نہ کرے.اور کبھی

Page 390

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن میرے دل میں یہ خیال نہ گزرے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی ایسا کام بھی ہے جس کی تعریف کی ضرورت نہیں یا جو تعریف کا مستحق نہیں.اے ہمارے رب! ہمیں ایسا ہی بنا دے.بعض روایتوں میں آتا ہے کہ آپ کبھی ان الفاظ میں دعا کرتے تھے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي كَفَانَا وَارْوَانَا غَيْرَ مُكْفِي وَلَا مَكْفُور 10 یعنی سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے جس نے ہماری بھوک اور پیاس دور کی.ہمارا دل اُس کی تعریف سے کبھی نہ بھرے اور ہم اُس کی کبھی ناشکری نہ کریں.آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ پیٹ بھرنے سے پہلے کھانا چھوڑ دو اور فرماتے تھے ایک انسان کا کھانا دوانسانوں کے لئے کافی ہونا چاہئے.جب کبھی آپ کے گھر میں کوئی اچھی چیز پکتی تو آپ ہمیشہ اپنے گھر والوں کو نصیحت کرتے تھے کہ اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھو.۴۱۲ اسی طرح اپنے ہمسایوں کے گھروں میں آپ اکثر ہد یہ بجھواتے رہتے تھے.۴۱۳ پ اپنے مسکین صحابہ کی شکلوں سے ہمیشہ یہ معلوم کرتے رہتے تھے کہ ان میں سے کوئی بھوکا تو نہیں.حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ وہ کئی دن فاقہ سے رہے.ایک دن جب سات وقت فاقہ سے گزر گئے تو وہ بے تاب ہو کر مسجد کے دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے.اتفاقاً حضرت ابو بکر وہاں سے گزرے تو اُنہوں نے ان سے ایک ایسی آیت کا مطلب پوچھا جس میں غریبوں کو کھانا کھلانے کا حکم ہے.حضرت ابوبکر نے ان کی بات سے سمجھا کہ شاید اس آیت کے معنی ان کو معلوم نہیں اور وہ اس آیت کے معنی بیان کر کے آگے چل دیئے.حضرت ابو ہریرہ جب لوگوں کے سامنے یہ روایت بیان کرتے تو غصہ سے کہا کرتے کہ کیا ابوبکر مجھ سے زیادہ قرآن جانتا تھا ! میں نے تو اس لئے آیت پوچھی تھی کہ ان کو اس آیت کے مضمون کا خیال آجائے اور مجھے کھانا کھلا دیں.اتنے میں حضرت عمر وہاں سے گزرے.ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے ان سے بھی اس آیت کا مفہوم پوچھا.حضرت عمرؓ نے بھی اس آیت کا مطلب بیان کر دیا اور ی آگے چل دیئے.صحابہ سوال کو سخت نا پسند کرتے تھے.جب ابو ہریرۃ نے دیکھا کہ بے مانگے کھانا ملنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ کہتے ہیں میں بالکل نڈھال ہو کر گرنے لگا کیونکہ اب زیادہ صبر کی مجھ میں طاقت نہیں تھی مگر میں نے ابھی دروازہ سے منہ نہیں موڑا تھا کہ میرے کان میں

Page 391

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۷۹ دیباچہ تفسیر القرآن ایک نہایت ہی محبت بھری آواز آئی اور کوئی مجھے بلا رہا تھا.ابوہریرہ ! ابو ہریرہ !! میں نے منہ موڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کی کھڑ کی کھولے کھڑے تھے اور مسکرا رہے تھے اور مجھے دیکھ کر آپ نے فرمایا.ابو ہریرہ ! بھو کے ہو؟ میں نے کہا ہاں يَارَسُولَ الله ! بھوکا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ہمارے گھر میں بھی کھانے کو کچھ نہیں تھا.ابھی ایک شخص نے دودھ کا پیالہ بجھوایا ہے.تم مسجد میں جاؤ اور دیکھو کہ شاید ہماری تمہاری طرح کے کوئی اور بھی مسلمان ہوں جن کو کھانے کی احتیاج ہو.ابو ہریرہ کہتے ہیں میں نے دل میں کہا میں تو اتنا بھوکا ہوں کہ اکیلا ہی اس پیالے کو پی جاؤں گا.اب جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آدمی بھی بلانے کو کہا ہے تو پھر میرا حصہ تو بہت تھوڑا رہ جائے گا.مگر بہر حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تھا مسجد کے اندر گئے تو دیکھا کہ چھ آدمی اور بیٹھے ہیں.انہوں نے اُن کو بھی ساتھ لیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ کے پاس آئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دودھ کا پیالہ اُن نئے آنے والے چھ آدمیوں میں سے کسی کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا اس کو پی جاؤ.جب اس نے دودھ پی کر پیالہ منہ سے الگ کیا تو آپ نے اصرار کیا کہ پھر پیو.تیسری دفعہ اصرار کر کے اس کو دودھ پلایا.اس طرح چھیوں آدمیوں کو آپ نے باری باری دودھ پلایا.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ ہر بار میں کہتا تھا کہ اب میں مرا.میرا حصہ کیا بچے گا لیکن جب وہ چھٹیوں پی چکے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ پیالہ میرے ہاتھ میں دیا.میں نے دیکھا کہ ابھی پیالہ میں بہت دودھ موجود تھا جب میں نے دودھ پیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بھی اصرار کر کے تین دفعہ دودھ پلایا.پھر میرا بچا ہوا دودھ خود پیا اور خدا تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے دروازہ بند کر لیا.۴۱۴ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو ہریرہ کو سب کے آخر میں دودھ یہی سبق دینے کے لئے دیا تھا کہ انہیں خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے فاقہ سے بیٹھ رہنا چاہئے تھا اور اشارةُ بھی سوال نہیں کرنا چاہئے تھا.آپ ہمیشہ دائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے تھے اور پانی بھی دائیں ہاتھ سے پیتے تھے.پانی پیتے وقت درمیان میں تین دفعہ سانس لیتے تھے.اس میں ایک طبی حکمت ہے.پانی اگر یکدم پیا

Page 392

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن جائے تو زیادہ پیا جاتا ہے اور اس سے معدہ خراب ہو جاتا ہے.کھانے کے متعلق آپ کا اصول یہ تھا کہ جو چیزیں پاکیزہ اور طیب ہوں وہ کھائیں.مگرایسی طرز پر نہیں کہ غریبوں کا حق مارا جائے یا انسان کو تعیش کی عادت پڑ جائے.چنانچہ عام طور پر جیسا کہ بتایا جا چکا ہے آپ کی خوراک نہایت سادہ تھی.لیکن اگر کوئی شخص کوئی اچھی چیز بطور تحفہ لے آتا تھا تو آپ اس کے کھانے سے انکار نہ کرتے.مگر یوں اپنے کھانے پینے کے لئے اچھے کھانے کی تلاش آپ کبھی نہیں کرتے تھے.شہد آپ کو پسند تھا اسی طرح کھجور بھی.آپ فرماتے تھے کھجور اور مؤمن کے درمیان ایک رشتہ ہے کھجور کے پتے بھی اور اُس کا چھال کا بھی اور اُس کا کچا پھل بھی اور اس کا پکا پھل بھی اور اس کی گٹھلی بھی سب کے سب کارآمد ہیں اس کی کوئی چیز بھی بیکا رنہیں.مؤمن کامل بھی ایسا ہی ہوتا ہے اس کا کوئی کام بھی لغو نہیں ہوتا بلکہ اس کا ہر کام بنی نوع انسان کے نفع کے لئے ہوتا ہے.۴۱۵ لباس اور زیور میں سادگی اور تقویٰ لباس کے متعلق بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہایت سادگی کو پسند فرماتے تھے آپ کا عام لباس کر تہ اور تہہ بندیا کرتہ اور پاجامہ ہوتا تھا.آپ اپنا تہ بند یا پاجامہ منوں سے او پر اور گھٹنوں سے نیچے رکھتے تھے.گھٹنوں یا گھٹنوں سے اُو پر جسم کے ننگے ہو جانے کو آپ پسند نہیں فرماتے تھے سوائے مجبوری کے.ایسا کپڑا جس پر تصویریں ہوں آپ پسند نہیں فرماتے تھے.نہ انسانی لباس میں اور نہ پردوں وغیرہ کی صورت میں.خصوصا بڑی تصویر میں جو کہ شرک کے آثار میں سے ہیں اُن کی آپ کبھی اجازت نہیں دیتے تھے.ایک دفعہ آپ کے گھر میں ایسا کی کپڑا لٹکا ہوا تھا آپ نے دیکھا تو اُسے اُتروا دیا.19 ہاں چھوٹی چھوٹی تصویر جس کپڑے پر کی بنی ہوئی ہوں اُس کپڑے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے کیونکہ ان سے شرک کے خیالات کی طرف ج اشارہ نہیں ہوتا.آپ ریشمی کپڑا کبھی نہیں پہنتے تھے نہ دوسرے مردوں کو ریشمی کپڑا پہننے کی اجازت دیتے تھے.بادشاہوں کو خط لکھنے کے وقت آپ نے ایک مہر والی انگوٹھی اپنے لئے بنوا ئی تھی مگر آپ نے ارشادفرمایا تھا کہ سونے کی انگوٹھی نہ ہو بلکہ چاندی کی ہو کیونکہ سونا خدا تعالیٰ

Page 393

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۱ دیباچہ تفسیر القرآن نے میری اُمت کے مردوں کے لئے پہننا منع فرمایا ہے.عورتوں کو بیشک ریشمی کپڑے اور زیور پہننے کی اجازت تھی اس بارہ میں آپ نصیحت کرتے رہتے تھے کہ غلو نہ کیا جائے.ایک دفعہ غرباء کے لئے آپ نے چندہ کیا.ایک عورت نے ایک کڑا اُتار کر آپ کے آگے رکھ دیا.آپ نے فرمایا کیا دوسرا ہاتھ دوزخ سے بچنے کا مستحق نہیں؟ اُس عورت نے دوسرا کڑا اُتار کر بھی غرباء کے لئے دے دیا.آپ کی بیویوں کے زیورات نہ ہونے کے برابر تھے صحابیات بھی آپ کی تعلیم پر عمل کر کے زیور بنانے سے احتراز کرتی تھیں.آپ قرآنی تعلیم کے مطابق فرماتے تھے کہ مال کا جمع رکھنا غریبوں کے حقوق تلف کر دیتا ہے اس لئے سونے چاندی کو کسی صورت میں گھروں میں جمع کر لینا قوم کی اقتصادی حالت کو تباہ کرنے والا ہے اور گناہ ہے.ایک دفعہ حضرت عمر نے آپ کو تحریک کی کہ اب بڑے بڑے بادشاہوں کی طرف سے سفیر آنے لگے ہیں آپ ایک قیمتی جبہ لے لیں اور ایسے موقعوں پر استعمال فرمایا کریں.آپ حضرت عمر کی اس بات کو سن کر بہت خفا ہوئے اور فرمایا خدا تعالیٰ نے مجھے ان باتوں کے لئے پیدا نہیں کیا.یہ مداہنت کی باتیں ہیں.۱۷ ہمارا جیسا لباس ہے ہم اس کے ساتھ دنیا سے ملیں گے.ایک دفعہ آپ کے پاس ایک ریشمی جبہ لایا گیا.تو آپ نے حضرت عمر کو تحفہ کے طور پر دے دیا.دوسرے دن آپ نے دیکھا کہ حضرت عمر اُس کو پہنے پھر رہے تھے.آپ نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا.جب حضرت عمر نے کہا يَا رَسُولَ الله! آپ ہی نے تو تحفہ دیا تھا.تو آپ نے فرمایا ہر چیز اپنے ہی استعمال کے لئے تو نہیں ہوتی.یعنی یہ جبہ چونکہ ریشم کا تھا آپ کو چاہئے تھا کہ یہ اپنی بیوی کو دے دیتے یا اپنی بیٹی کو دے دیتے یا کسی اور استعمال میں لے آتے.اس کو اپنے لباس کے طور پر استعمال کرنا درست نہیں تھا.۴۱۸ بستر میں سادگی آپ کا بستر بھی نہایت سادہ ہوتا تھا.آپ کا بستر بھی نہایت سادہ ہوتا تھا.بالعموم ایک چمڑا یا اونٹ کے بالوں کا ایک کپڑا ہوتا تھا.حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ہمارا بستر اتنا چھوٹا تھ تھا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو عبادت کے لئے اُٹھتے تو میں ایک طرف ہو کر لیٹ جاتی تھی اور بوجہ اس کے کہ بستر چھوٹا ہوتا تھا ، جب آپ عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے تو میں

Page 394

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۲ ٹانگیں لمبی کر لیا کرتی اور جب آپ سجدہ کرتے تو میں ٹانگیں سمیٹ لیا کرتی.۳۱۹ مکان اور رہائش میں سادگی رہائشی مکان کے متعلق بھی آپ سادگی کو پسند کرتے تھے.بالعموم آپ کے گھروں میں ایک ایک کمرہ ہوتا تھا تو اور چھوٹا سا صحن.اس کمرہ میں ایک رتی بندھی ہوئی ہوتی تھی جس پر کپڑا ڈال کر ملاقات کے وقت میں آپ اپنے ملنے والوں سے علیحدہ بیٹھ کر گفتگو کر لیا کرتے تھے.چار پائی آپ استعمال کی نہیں کرتے تھے بلکہ زمین پر ہی بستر بچھا کر سوتے تھے.آپ کی رہائش کی سادگی اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ حضرت عائشہ نے آپ کی وفات کے بعد فرمایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہمیں کئی دفعہ صرف پانی اور کھجور پر ہی گزارہ کرنا پڑتا تھا یہاں تک کہ جس دن آپ کی وفات ہوئی اُس دن بھی ہمارے گھر میں سوائے کھجور اور پانی کے کھانے کیلئے اور کچھ نہیں تھا.۴۲۰ خدا تعالیٰ سے محبت اور اُس کی عبادت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی عشق الہی میں ڈوبی ہوئی نظر آتی کی ہے باوجود بہت بڑی جماعتی ذمہ داری کے دن اور رات آپ عبادت میں مشغول رہتے ہی تھے.نصف رات گزرنے پر آپ خدا تعالیٰ کی عبادت کے لئے کھڑے ہو جاتے اور صبح تک عبادت کرتے رہتے.یہاں تک کہ بعض دفعہ آپ کے پاؤں سوج جاتے تھے اور آپ کے دیکھنے والوں کو آپ کی حالت پر رحم آتا تھا.حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ میں نے ایسے ہی موقع پر کہا يَا رَسُولَ الله ! آپ تو خدا تعالیٰ کے پہلے ہی مقرب ہیں آپ اپنے نفس کو اتنی تکلیف کیوں دیتے ہیں؟ آپ نے فرمایا اے عائشہ ! أَفَلَا اَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا - ٢١ جب یہ بات سچی ہے کہ خدا تعالیٰ کا میں مقرب ہوں اور خدا تعالیٰ نے اپنا فضل کر کے مجھے اپنا قرب عطا فرمایا ہے تو کیا میرا یہ فرض نہیں کہ جتنا ہو سکے میں اُس کا شکر یہ ادا کروں ، کیونکہ آخر شکر احسان کے مقابل پر ہی ہوا کرتا ہے.۴۲۲ آپ کوئی بڑا کام بغیر اذنِ الہی کے نہیں کرتے تھے.چنانچہ آپ کے حالات میں لکھا جا چکا کی ہے کہ باوجود مکہ کے لوگوں کے شدید ظلموں کے آپ نے مکہ اُس وقت تک نہ چھوڑ ا جب تک کہ خدا تعالی کی طرف سے آپ پر وحی نازل نہ ہوئی اور وحی کے ذریعہ سے آپ کو مکہ چھوڑنے کا حکم

Page 395

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۳ دیباچهتفسیر القرآن نہ دیا گیا.اہل مکہ کے ظلموں کی شدت کو دیکھ کر آپ نے جب صحابہ کو حبشہ کی طرف ہجرت کر جانے کی اجازت دی اور انہوں نے آپ سے خواہش ظاہر کی کہ آپ بھی ان کے ساتھ چلیں ، تو آپ نے فرمایا مجھے ابھی خدا تعالیٰ کی طرف سے اذن نہیں ملا.ظلم اور تکلیف کے وقت جب لوگ اپنے دوستوں اور رشتہ داروں کو اپنے ارد گرد اکٹھا کر لیتے ہیں آپ نے اپنی جماعت کو حبشہ کی طرف ہجرت کر کے چلے جانے کی ہدایت کی اور خودا کیلے مکہ میں رہ گئے ، اس لئے کہ آپ کے خدا نے آپ کو ابھی ہجرت کرنے کا حکم نہیں دیا تھا.خدا کا کلام آپ سنتے تو بے اختیار ہو کر آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.خصوصاً وہ آیات جن میں آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.چنانچہ عبداللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قرآن شریف کی کچھ آیات پڑھ کر مجھے سناؤ.میں نے اس کے جواب میں کہا.يَا رَسُولَ الله! قرآن تو آپ پر نازل ہوا ہے میں آپ کو کیا سناؤں؟ آپ نے فرمایا میں پسند کرتا ہوں کہ دوسرے لوگوں سے بھی قرآن پڑھوا کر سنوں.اس پر میں نے سورۂ نساء پڑھ کی سنانی شروع کی.جب پڑھتے پڑھتے میں اس آیت پر پہنچا کہ فَكَيْفَ إِذَا جِتنا من كُلّ أُمَّةٍ بِشَهِيدة جنابِكَ عَلى هَؤُلاء شَهِيدًا ٢٢٣ یعنی اُس وقت کیا حال ہو گا جب ہم ہر قوم میں سے اس کے نبی کو اس کی قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس قوم کا حساب لیں گے اور تجھ کو بھی تیری قوم کے سامنے کھڑا کر کے اس کا حساب لیں گے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا بس کرو.بس کرو میں نے آپ کی طرف دیکھا تو آپ کی دونوں آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گر رہے تھے.۴۲۴ نماز کی پابندی کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ سخت بیماری کی حالت میں بھی جبکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے گھر میں نماز پڑھ لینے اور لیٹ کر پڑھ لینے تک کی اجازت بھی ہوتی ہے آپ سہارا لے کر مسجد میں نماز پڑھانے کیلئے آتے.ایک دن آپ نماز کے لئے نہ آسکے تو حضرت ابو بکر کو نماز پڑھانے کا حکم فرمایا.لیکن اتنے میں طبیعت میں کچھ سہولت معلوم ہوئی تو فوراً دو آدمیوں کا سہارا لے کر مسجد کی طرف چل دیئے مگر کمزوری کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ چلنے میں آپ کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹتے جاتے تھے.۴۲۵

Page 396

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۴ دیباچہ تفسیر القرآن دنیا میں خوشنودی اور توجہ دلانے کے لئے تالیاں پیٹی جاتی ہیں عربوں میں بھی یہی رواج کی تھا مگر آپ کو خدا تعالیٰ کی یاد اور اُس کا ذکر اتنا پسند تھا کہ اس غرض کے لئے بھی ذکر الہی ہی استعمال کرنے کا حکم دیا.چنانچہ لکھا ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کام میں مشغول تھے کہ نماز کا وقت آ گیا.آپ نے فرمایا ابوبکر ! نماز پڑھا دیں.پھر کام سے فارغ ہو کر کی آپ بھی فوراً مسجد کی طرف روانہ ہو گئے.جب نماز پڑھنے والوں کو معلوم ہوا کہ آپ مسجد میں تشریف لے آئے ہیں تو انہوں نے بیتاب ہو کر تالیاں بجانی شروع کر دیں جس سے ایک طرف تو یہ بتا نا مقصود تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے سے ان کے دل بے انتہاء خوش ہو گئے ہیں اور دوسری طرف ابوبکر کو توجہ دلانا مطلوب تھا کہ اب آپ کی امامت ختم ہوئی اب کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے ہیں.حضرت ابو بکر پیچھے ہٹ گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے امام کی جگہ چھوڑ دی.نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابوبکر ! جب میں نے تم کو نماز پڑھانے کا حکم دیا تھا تو تم میرے آنے پر پیچھے کیوں ہٹ گئے ؟ ابوبکر نے کہا يَا رَسُولَ الله ! اللہ کے رسول کی موجودگی میں ابو قحافہ کا بیٹا کیا حیثیت رکھتا تھا کہ نماز پڑھائے.پھر آپ صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا.تالیاں پیٹنے سے تمہاری کیا تھی غرض تھی.خدا کے ذکر کے وقت تالیوں کا بجانا تو مناسب معلوم نہیں ہوتا ہے.جب نماز کے وقت کوئی ایسی بات ہو کہ اُس کی طرف توجہ دلانی ضروری ہو تو بجائے تالیاں بجانے کے خدا کا نام بلند آواز سے لیا کرو.جب تم ایسا کرو گے تو دوسروں کو اس واقعہ کی طرف خود بخو د توجہ ہو جائے گی.۴۲۶ مگر اس کے ساتھ ہی آپ تکلف کی عبادت بھی پسند نہیں فرماتے تھے.ایک دفعہ آپ گھر میں گئے تو آپ نے دیکھا کہ دوستونوں کے درمیان ایک رستی لٹکی ہوئی ہے.آپ نے پوچھا یہ رشتی کیوں بندھی ہوئی ہے؟ لوگوں نے کہا یہ حضرت زینب کی رہتی ہے جب وہ عبادت کرتے کرتے تھک جاتی ہیں تو اس رتی کو پکڑ کر سہارا لے لیتی ہیں.آپ نے فرمایا.ایسا نہیں کرنا چاہئے یہ رشتی کھول دو.ہر شخص کو چاہئے کہ اتنی دیر عبادت کیا کرے جب تک اُس کے دل میں بشاشت رہے جب وہ تھک جائے تو بیٹھ جائے اس قسم کی تکلف والی عبادت کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.۲۷

Page 397

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۵ دیباچہ تفسیر القرآن شرک سے آپ کو اس قد رنفرت تھی کہ وفات کے وقت جبکہ آپ جان کندن کی تکلیف میں ہے کبھی دائیں کروٹ لیٹتے اور کبھی بائیں کروٹ لیٹتے اور یہ فرماتے جاتے تھے خدا ان یہود اور نصاری پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے نبیوں کی قبروں کو مسجد بنالیا ہے.۴۲۸، یعنی وہ نبیوں کی قبروں پر سجدے کرتے ہیں اور اُن سے دعائیں کرتے ہیں.آپ کا مطلب یہ تھا کہ میری قوم اگر میرے بعد ایسا ہی فعل کرے گی تو وہ یہ نہ سمجھے کہ وہ میری دعاؤں کی مستحق ہوگی بلکہ میں اس سے کلی طور پر بیزار ہوں گا.خدا تعالیٰ کے لئے آپ کی غیرت کا ذکر آپ کی زندگی کے تاریخی واقعات میں آچکا ہے.مکہ کے لوگوں نے آپ کے سامنے ہر قسم کی رشوتیں پیش کیں تا آپ بتوں کی تردید کرنا چھوڑ دیں اور آپ کے چا ابو طالب نے بھی آپ سے اس امر کی سفارش کی اور کہا کہ اگر تم نے یہ بات نہ مانی اور میں نے تمہارا ساتھ بھی نہ چھوڑا تو پھر میری قوم مجھے چھوڑ دے گی تو اس پر آپ نے فرمایا اے چا! اگر یہ لوگ سورج کو میرے دائیں اور چاند کو میرے بائیں لا کر کھڑا کر دیں تب بھی میں خدائے واحد کی تو حید کو پھیلانے سے نہیں رک سکتا.۴۲۹ اسی طرح اُحد کے موقع پر جب مسلمان زخمی اور پراگندہ حالت میں ایک پہاڑی کے نیچے کھڑے تھے اور دشمن اپنے سارے سازوسامان کے ساتھ اس خوشی میں نعرے لگا رہا تھا کہ ہم نے مسلمانوں کی طاقت تو ڑ دی ہے.اور ابوسفیان نے نعرہ لگا یا اُعْلُ هُبَل.اُعْلُ هُبَل.یعنی ہبل کی شان بلند ہو ، ہل کی شان بلند ہو.تو آپ نے اپنے ساتھیوں کو جو دشمن کی نظروں سے کھڑے تھے اور اس چھپنے میں ہی اُن کی خیر تھی حکم دیا کہ جواب دو اللهُ أَعْلَى وَاجَلُ.اللهُ أَعْلَى وَاجَلُّ ٤٣٠ اللہ ہی سب سے بلند اور جلال والا ہے.اللہ ہی غلبہ اور جلال رکھتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ کے لئے جو غیرت تھی اُس کی ایک اور عظیم الشان مثال بھی آپ کی زندگی میں ملتی ہے.اسلام سے پہلے عام طور پر مختلف مذاہب میں یہ خیال پایا جا تا تھا کہ انبیاء کی خوشی اور غم پر زمین اور آسمان میں تغیر ظاہر ہوتے ہیں اور اجرام فلکی ان کے قبضے میں ہوتے ہیں چنانچہ کسی نبی کے متعلق یہ آتا تھا کہ اُس نے سورج کو کہا ٹھہر جا اور وہ ٹھہر گیا.کسی کے متعلق آتا تھا کہ اُس نے چاند کی گردش روک دی اور کسی کے متعلق آتا تھا کہ اُس

Page 398

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۶ دیباچهتفسیر القرآن نے پانی کے بہاؤ کو بند کر دیا.مگر اسلام نے اس قسم کے خیالات کی غلطی ظاہر کی اور یہ بتایا کہ در حقیقت یہ استعارے ہیں جن سے لوگ بجائے فائدہ اُٹھانے کے اُلٹے غلطیوں اور وہموں میں مبتلا ہو جاتے ہیں لیکن باوجود ان تشریحات کے کچھ لوگوں کے دلوں میں اس قسم کے خیالات کا اثر باقی رہ گیا تھا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں آپ کے اکلوتے صاحبزادے ابراہیم اڑھائی سال کی عمر میں فوت ہوئے تو اتفاقاً اُس دن سورج کو بھی گرہن کی لگ گیا اُس وقت چند ایسے ہی لوگوں نے مدینہ میں یہ مشہور کر دیا کہ دیکھو رسول کریم صلی اللہ می علیہ وسلم کے بیٹے کی وفات پر سورج تاریک ہو گیا ہے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ خوش نہ ہوئے آپ خاموش بھی نہ رہے بلکہ بڑی سختی سے آپ نے اس کی تردید کی اور فرمایا.چاند اور سورج تو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کو ظاہر کرنے والی ہستیاں ہیں ان کا کسی بڑے یا چھوٹے انسان کی موت یا زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے.۴۳۱ جب کوئی شخص عرب کے محاورہ کے مطابق یہ کہہ دیتا کہ فلاں ستارہ کے فلاں بُرج میں ہونے کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے تو آپ کا چہرہ متغیر ہو جاتا اور آپ فرماتے اے لوگو! خدا تعالیٰ کی نعمتوں کو دوسروں کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو.بارشیں وغیرہ سب خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ قانون کے مطابق ہوتی ہیں کسی دیوی دیوتا کی یاکسی اور روحانی طاقت کی مہربانی اور بخشش کے ساتھ نازل نہیں ہوا کرتیں.۴۳۲ اللہ تعالیٰ پر توکل اللہ تعالی پر توکل کا یہ حال تھا کہ جب ایک شخص نے اکیلا پا کر آپ پر تلوار اُٹھائی اور آپ سے پوچھا اب کون تم کو مجھ سے بچا سکتا ہے؟ اُس وقت باوجود اس کے کہ آپ بے ہتھیار تھے اور بوجہ لیٹے ہوئے ہونے کے حرکت بھی نہیں کر سکتے تھے.آپ نے نہایت اطمینان اور سکون سے جواب دیا اللہ یہ لفظ اس یقین اور وثوق سے آپ کے منہ سے نکلا کہ اُس کا فر کا دل بھی آپ کے ایمان کی بلندی اور آپ کے یقین کے کامل کو تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکا اور اس کے ہاتھ سے تلوار گر گئی اور وہ جو آپ کو قتل کرنے کے لئے آیا تھا آپ کے سامنے مجرموں کی طرح کھڑا ہو گیا.۴۳۳ اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں انکساری کی یہ حد تھی کہ جب آپ سے لوگوں نے کہايَا رَسُولَ الله !

Page 399

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۷ دیباچهتفسیر القرآن آپ تو اپنے عمل کے زور سے خدا تعالیٰ کے فضل کو حاصل کر لیں گے تو آپ نے فرمایا نہیں ! مج نہیں ! ! میں بھی خدا کے احسان سے ہی بخشا جاؤں گا.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ بیان فرماتے ہیں میں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا.آپ فرما رہے تھے کوئی شخص اپنے عملوں سے جنت میں داخل نہیں ہوگا.میں نے کہا يَا رَسُولَ الله ! کیا آپ بھی اپنے اعمال سے جنت چھ میں داخل نہیں ہوں گے؟ آپ نے فرمایا میں بھی اپنے اعمال کے زور سے جنت میں داخل نہیں کی ہوسکتا.ہاں خدا کا فضل اور اُس کی رحمت مجھے ڈھانک لے تو یہی ایک صورت ہے ۲۳۴ پھر آپ نے فرمایا اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو اور خدا تعالیٰ کے قرب کی راہیں تلاش کرو اور تم میں سے کوئی شخص اپنی موت کی خواہش نہ کیا کرے.کیونکہ اگر وہ نیک ہے تو زندہ رہ کر اپنی نیکیوں میں اور بھی بڑھ جائے گا اور اگر بد ہے تو زندہ رہ کر اپنے گنا ہوں سے تو بہ کرنے کی توفیق مل جائے گی.۴۳۵ خدا تعالیٰ کی محبت کی یہ حالت تھی کہ جب ایک وقفہ کے بعد بادل آتے تو آپ اپنی زبان پر بارش کا قطرہ لے لیتے اور فرماتے.دیکھو! میرے میرے رب کی تازہ نعمت !۴۳۶ جب مجلس میں بیٹھتے تو استغفار کرتے رہتے اور یوں بھی اکثر استغفار کرتے تا کہ آپ کی اُمت اور آپ کے ساتھ تعلق رکھنے والے خدا تعالیٰ کے غضب سے بچے رہیں اور اُس کی بخشش کے مستحق ہو جائیں ۴۳۷ ہر وقت خدا تعالیٰ کے سامنے حاضر ہونے کی یاد کو تازہ رکھتے.چنانچہ جب آپ سوتے تو یہ کہتے ہوئے سوتے باسْمِكَ اللهُمَّ اَمُوْتُ وَاَحْى - اے خدا تیرا ہی نام لیتے ہوئے میں مروں اور تیرا ہی نام لیتے ہوئے میں اُٹھوں.اور جب آپ صبح اُٹھتے تو فرماتے الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَا تَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُورُ - ۳۸ اللہ ہی کے لئے سب تعریفیں ہیں جس نے مرنے کے بعد ہم کو زندہ کیا اور پھر ہم اپنے رب کے سامنے جانے والے ہیں.خدا تعالیٰ کے قرب کی اتنی خواہش تھی کہ ہمیشہ آپ دعا کرتے تھے اللَّهُمَّ اجْعَلُ فِي قَلْبِي ا وَّ فِي بَصَرِى نُورًا وَّ فِى سَمْعِيَ نُورًا وَّعَنْ يَمِيْنِى نُورًا وَّعَنْ يَسَارِى نُورًا وَّفَوْقِى نُورًا وَتَحْتِى نُورًا وَّ اَمَامِيَ نُورًا وَخَلْفِى نُورًا وَّاجْعَلُ لِى نُورًا ٤٣٩ یعنی اے میرے رب ! میرے دل میں بھی اپنا نور بھر دے اور میری آنکھوں میں بھی اپنا نور بھر دے اور میرے

Page 400

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۸ دیباچہ تفسیر القرآن کانوں میں بھی اپنا نور بھر دے اور میرے دائیں بھی تیرا نور ہوا اور میرے بائیں بھی تیرا نور ہو اور میرے اُو پر بھی تیرا نور ہو اور میرے نیچے بھی تیرا نور ہو اور میرے آگے بھی تیرا نور ہو اور میرے پیچھے بھی تیرا نور ہو اور اے میرے رب ! میرے سارے وجود کونور ہی نور بنا دے.ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ آپ کی وفات کے قریب مسیلمہ کذاب آیا اور اس نے کہا اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں گا.اُس وقت اُس کے ساتھ ایک بہت بڑی جمعیت تھی اور جس قوم سے وہ تعلق رکھتا تھا وہ قوم سارے عرب کی قوموں سے تعداد میں زیادہ تھی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مدینہ میں آنے کی خبر ملی تو آپ اُس کی طرف گئے.ثابت بن قیس بن شماس آپ کے ساتھ تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کھجور کی ایک شاخ تھی.آپ اُس قافلہ تک آئے اور مسیلمہ کذاب کے سامنے کھڑے ہو گئے.اتنے میں اور صحابی بھی جمع ہو گئے اور آپ کے ارد گرد کھڑے ہو گئے.آپ نے مسیلمہ سے مخاطب ہو کر فرمایا.تم یہ کہتے ہو کہ محمد رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اگر اپنے بعد مجھے اپنا خلیفہ مقرر کر دیں تو میں اس کی اتباع کرنے کے لئے تیار ہوں، لیکن میں تو خدا کے حکم کے خلاف یہ کھجور کی شاخ بھی تم کو دینے کے لئے تیار نہیں.تمہارا وہی انجام ہو گا جو خدا نے تمہارے لیے مقرر کیا ہے.اگر تم پیٹھ پھیر کر چلے جاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہارے پاؤں کاٹ دے گا اور میں تو دیکھ رہا ہوں کہ خدا نے جو کچھ مجھے دکھایا تھا وہی تمہارے ساتھ ہونے والا ہے.پھر فرمایا میں جاتا ہوں جو باتیں کرنی ہیں میری طرف سے ثابت بن قیس بن شماس کے ساتھ کرو.یہ کہہ کر آپ واپس تشریف لے آئے.حضرت ابو ہریرہ بھی آپ کے ساتھ تھے.راستہ میں کسی نے آپ سے پوچھا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ نے یہ کیا فرمایا ہے کہ جو مجھے خدا نے دکھایا تھا میں تجھے ویسا ہی پاتا ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کی فرمایا.میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ میرے ہاتھ میں دو کڑے ہیں.میں نے اُن کڑوں کو دیکھ کر چ نا پسند کیا.اُس وقت مجھے خواب میں ہی وحی نازل ہوئی کہ میں ان پر پھونکوں.جب میں نے پھونکا تو وہ دونوں اُڑ گئے.میں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ دو جھوٹے مدعی میرے بعد ظاہر ہوں گے.۴۴۰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کا یہ آخری زمانہ تھا.عرب کی سب سے بڑی اور آخری

Page 401

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۸۹ دیا چه تفسیر القرآن قوم آپ کی فرمانبرداری کرنے کے لئے تیار تھی اور صرف اتنی شرط کرتی تھی کہ اس کے سردار کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بعد خلیفہ مقرر کر دیں.اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ذاتی بڑائی کا کوئی بھی خیال ہوتا تو ایسی حالت میں کہ آپ کی کوئی نرینہ اولاد نہ تھی آپ کے لئے کچھ بھی مشکل نہ تھا کہ آپ عرب کی سب سے بڑی قوم کے سب سے بڑے سردار کو اپنی چ جانشینی کی امید دلاتے اور سارے عرب کے اتحاد کا راستہ کھول دیتے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی اپنا نہیں سمجھتے تھے وہ اسلامی امارت کو اپنی ملکیت کب قرار دے سکتے تھے.آپ کے نزدیک اسلامی امارت خدا کی امانت تھی اور وہ امانت جوں کی توں خدا تعالیٰ ہی کے سپرد ہونی چاہئے تھی.پھر وہ جس کو چاہے دوبارہ سونپ دے.پس آپ نے یہ تجویز حقارت سے ٹھکرا دی اور فرمایا بادشاہت تو الگ رہی خدا کے حکم کے بغیر میں کھجور کی ایک شاخ بھی تم کو دینے کیلئے تیار نہیں.جب بھی اللہ تعالیٰ کا آپ ذکر فرماتے آپ کی طبیعت میں جوش پیدا ہو جاتا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ آپ کے جسم کے اندر کی طرف سے بھی اور باہر کی طرف سے بھی کلّی طور پر خدا تعالیٰ کی محبت نے قابو پالیا ہے.اللہ تعالیٰ کی عبادت میں آپ کو سادگی اس قدر پسند تھی کہ مسجد میں جس پر کوئی فرش نہیں تھا جس پر کوئی کپڑا نہیں تھا آپ نماز پڑھتے اور دوسروں کو پڑھواتے.کئی دفعہ ایسا ہوتا کہ بارش کی وجہ سے چھت ٹپک پڑتی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسم گارے اور پانی سے لت پت ہو جاتا مگر آپ برابر عبادت میں مشغول رہتے اور آپ کے دل میں ذرا بھی احساس پیدا نہ ہوتا کہ اپنے جسم اور کپڑوں کی حفاظت کی خاطر آپ اُس وقت کی نماز ملتوی کر دیں یا کسی دوسری جگہ پر جا کر نماز پڑھ لیں.۴۴۱ اپنے صحابہ کی عبادتوں کا بھی آپ خیال رکھتے تھے.ایک دفعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق جو نہایت ہی نیک اور پاکیزہ خصائل کے آدمی تھے آپ نے فرمایا عبداللہ بن عمرؓ کیسا اچھا آدمی ہوتا اگر تجد بھی باقاعدہ پڑھتا ۴۴۲ جب حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو یہ خبر پہنچی تو آپ نے اُس دن سے تہجد کی نماز با قاعدہ شروع کر دی.اسی طرح لکھا ہے کہ ایک دفعہ آپ رات اپنے داماد حضرت علی اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہ کی

Page 402

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۰ دیباچہ تفسیر القرآن کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو؟ (یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اُٹھ کر پڑھی کی جاتی ہے ) حضرت علیؓ نے عرض کیا یا رَسُولَ اللہ ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خدا تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے تو پھر تہجد رہ جاتی ہے.آپ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو.اور اُٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے ت وَكَانَ الْإِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلاً ۲۴۳ یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے.مطلب یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے اُنہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خدا تعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جا گیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا.لیکن باوجود اللہ تعالیٰ کی اس قدر محبت رکھنے کے آپ تصنع کی عبادت اور کہانت سے سخت نفرت کرتے تھے.آپ کا اصول یہ تھا کہ خدا تعالیٰ نے جو طاقتیں انسان کے اندر پیدا کی ہیں اُن کا صحیح طور پر استعمال کرنا ہی اصل عبادت ہے.آنکھوں کی موجودگی میں آنکھوں کو بند کر دینا یا اُن کو نکلوا دینا عبادت نہیں بلکہ گستاخی ہے ہاں اُن کا بد استعمال کرنا گناہ ہے.کانوں کو کسی آپریشن کے ذریعے سے شنوائی سے محروم کر دینا خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے.ہاں لوگوں کی غیبتیں اور چغلیاں سننا گناہ ہے.کھانے کو ترک کر دینا خود کشی اور خدا تعالیٰ کی گستاخی ہے ہاں کھانے پینے میں مشغول رہنا اور ناجائز اور ناپسندیدہ چیزوں کو کھانا گناہ ہے.یہ ایک عظیم الشان نکتہ تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا اور جسے آپ سے پہلے اور کسی نبی نے پیش نہیں کیا.اخلاق فاضلہ نام ہے طبعی قولی کے صحیح استعمال کا طبعی قومی کو مار دینا حماقت ہے ، ان کو نا جائز کاموں میں لگا دینا بدکاری ہے، ان کا صحیح استعمال اصل نیکی ہے یہ خلاصہ ہے رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کا اور یہ خلاصہ ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اور آپ کے اعمال کا.حضرت عائشہ آپ کی نسبت فرماتی ہیں مَاخْتِرُ رَسُولُ اللَّهِ عَلَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ إِلَّا أَخَذَ اَيْسَرَ هُمَا مَالَمْ يَكُنْ اِثْمًا فَإِنْ كَان إِثْمًا كَانَ اَبْعَدَ النَّاسِ مِنْهُ ۴۴۴ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ آپ کے سامنے دو راستے کھلے

Page 403

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۱ دیباچہ تفسیر القرآن ہوں تو آپ نے ان دونوں راستوں میں سے جو آسان رستہ ہوا سے اختیار نہ کیا ہو بشر طیکہ اُس آسان راستہ کے اختیار کرنے میں کوئی گناہ کا شائبہ نہ پایا جائے.اگر گناہ کا کوئی شائبہ پایا جاتا تو آپ اس راستہ سے تمام انسانوں سے زیادہ دور بھاگتے تھے.یہ کیسا لطیف اور کیسا اعلیٰ درجہ کا چلن ہے دنیا کو دھوکا دینے کے لئے لوگ کس طرح پہلا وجہ اپنے آپ کو دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالتے ہیں.ان کا اپنے آپ کو دُکھوں اور تکلیفوں میں ڈالنا خدا تعالیٰ کے لئے نہیں ہوتا کیونکہ خدا تعالیٰ کے لئے کوئی بے فائدہ کام نہیں کیا جاتا.اُن کا اپنے آپ کو دکھوں اور تکلیفوں میں ڈالنا لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے ہوتا ہے.اُن کی اصل نیکی چونکہ بہت کم ہوتی ہے وہ جھوٹی نیکیوں سے لوگوں کو مرعوب کرنا چاہتے ہیں اور اپنے عیبوں کو چھپانے کے لئے لوگوں کی آنکھوں میں خاک ڈالتے ہیں مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصودتو خدا تعالیٰ کی خوشنودی اور حقیقی نیکی کا حصول تھا.آپ کو ایسی تصنع اور بناوٹی نیکیوں کی کیا ت ضرورت تھی.اگر دنیا آپ کو نیک سمجھتی تو بھی اور اگر آپ کو نیک نہ سمجھتی تو بھی آپ کے لئے ایک سی بات تھی.آپ تو صرف یہ دیکھتے تھے کہ میرا خدا مجھے کیا سمجھتا ہے اور میرا اپنا نفس مجھے کیسا پاتا ہے.خدا اور اپنے نفس کی شہادت کے بعد اگر بنی نوع انسان بھی کچی شہادت دیتے تو آپ اُن کے شکر گزار ہوتے تھے اور اگر وہ کج آنکھوں سے دیکھتے تو آپ اُن کی بینائی کی کمی پر افسوس کرتے مگر اُن کی رائے کو کوئی وقعت نہ دیتے تھے.رسول کریم اللہ کا بنی نوع انسان سے معاملہ بیویوں کے حق میں آپ کا معاملہ نہایت ہی مشفقانہ اور عادلا نہ تھا.بعض دفعہ آپ کی بیویاں آپ سے سختی بھی کر لیتی تھیں مگر آپ خاموشی سے بات کو ہنس کر ٹال دیتے تھے.ایک دن آپ نے حضرت عائشہ سے کہا اے عائشہ ! جب تم مجھ سے خفا ہوتی ہو تو مجھے پتہ لگ جاتا ہے کہ تم مجھ سے خفا ہو.حضرت عائشہ نے فرمایا آپ کو کس طرح پتہ لگ جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا جب تم مجھ سے خوش ہوتی ہو اور کوئی قسم کھانے کا معاملہ آ جائے تو تم ہمیشہ یوں کہتی ہو محمد کے رب کی قسم ! بات یوں ہے“ اور جب تم مجھ سے ناراض ہوتی ہو اور تمہیں قسم کھانے کی ضرورت پیش آ جائے تو تم کہا کرتی ہو ابراہیم کے رب کی قسم ! و

Page 404

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۲ دیباچہ تفسیر القرآن بات یوں ہے‘.حضرت عائشہ یہ بات سن کو ہنس پڑیں اور آپ کی بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ آپ بات کو ٹھیک سمجھے ہیں.۴۴۵ حضرت خدیجہ جو آپ کی بڑی بیوی تھیں اور جنہوں نے آپ کے لئے بڑی بڑی قربانیاں کی تھیں اُن کی وفات کے بعد آپ کی شادی میں جوان بیویاں آئیں لیکن اس کے باوجود آپ نے حضرت خدیجہ کے تعلق کو نہ بھلا یا.حضرت خدیجہ کی سہیلیاں جب بھی آتیں آپ اُن کے استقبال کے لئے کھڑے ہو جاتے.۱۴۶ حضرت خدیجہؓ کی بنی ہوئی کوئی چیز اگر آپ کے سامنے آجاتی تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے.بدر کی جنگ میں جب آپ کے ایک داماد بھی قید ہو کر آئے تو آزادی کا فدیہ ادا کرنے کے لئے کوئی مال اُن کے پاس نہیں تھا.اُن کی بیوی یعنی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی نے جب دیکھا کہ میرے خاوند کے بچانے کے لئے اور کوئی مال نہیں تو اپنی والدہ کی آخری یادگار ایک ہار اُن کے پاس تھا وہ اُنہوں نے اپنے خاوند کے فدیہ کے طور پر مدینہ بھجوا دیا.جب وہ ہار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے اُسے پہچان لیا.آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور آپ نے صحابہ سے فرمایا.میں آپ لوگوں کو حکم تو نہیں دیتا کیونکہ مجھے ایسا حکم دینے کا کوئی حق نہیں لیکن میں جانتا ہوں کہ یہ ہار زینب کے پاس اُس کی ماں کی آخری یادگار ہے اگر آپ خوشی سے ایسا کر سکتے ہوں تو میں سفارش کرتا ہوں کہ بیٹی اُس کی ماں کی آخری یادگار سے محروم نہ کی جائے.صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! ہمارے لئے اس سے زیادہ خوشی کا کیا موجب ہو سکتا ہے اور اُنہوں نے وہ ہار حضرت زینب کو واپس کر دیا.۴۴۷ حضرت خدیجہ کی قربانی کا آپ کی طبیعت پر اتنا اثر تھا کہ آپ دوسری بیویوں کے سامنے اکثر اُن کی نیکی کا ذکر کرتے رہتے تھے.ایک دن اسی طرح آپ حضرت عائشہ کے سامنے حضرت خدیجہ کی کوئی نیکی بیان کر رہے تھے کہ حضرت عائشہ نے چڑ کر کہا.يَا رَسُولَ الله ! اب اُس بڑھیا کا ذکر جانے بھی دیں.اللہ تعالیٰ نے اُس سے بہتر جوان اور خوبصورت عورتیں آپ کو دی ہیں.یہ بات سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر رقت طاری ہوگئی اور آپ نے

Page 405

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۳ تفسیر القرآن فرمایا.عائشہ ! تمہیں معلوم نہیں خدیجہ نے میری کس قدرخدمت کی ہے.۴۴۸ آپ کی طبیعت نہایت ہی سادہ تھی کسی دُکھ پر گھبراتے نہیں تھے اور کبھی کسی اخلاق فاضلہ خواہش سے حد سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے تھے.سواخ میں بتایا جا چکا ہے کہ آپ کی پیدائش سے پہلے آپ کے والد اور بچپن میں ہی آپ کی والدہ فوت ہوگئی تھیں.ابتدائی آٹھ سال آپ نے اپنے دادا کی نگرانی میں گزارے.اس کے بعد آپ نے اپنے چچا ابوطالب کی ولایت میں پرورش پائی.چچا کا خونی رشتہ بھی تھا اور اُن کے والد نے مرتے وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں خاص طور پر وصیت بھی فرمائی تھی اس لئے وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص طور پر محبت بھی رکھتے تھے اور آپ کا خیال بھی رکھتے تھے لیکن چی میں نہ وہ شفقت کا مادہ تھا نہ خاندانی ذمہ داریوں کا احساس.جب گھر میں کوئی چیز آتی تو بسا اوقات وہ اپنے بچوں کو پہلے دیتیں اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال نہ رکھتیں.ابوطالب گھر میں آتے تو بجائے اس کے کہ اپنے چھوٹے بھتیجے کو روتا ہوا یا گلہ کرتا ہوا پاتے وہ دیکھتے کہ اُن کے بچے تو کوئی چیز کھا رہے ہیں لیکن اُن کا چھوٹا سا بھتیجا کو ہ وقار بنا ایک طرف بیٹھا ہے.چچا کی محبت اور خاندانی ذمہ داریاں اُن کے سامنے آ جاتیں وہ دوڑ کر اپنے بھتیجے کو بغل میں لے لیتے اور کہتے میرے بچے کا بھی تو خیال کرو، میرے بچے کا بھی تو خیال کرو.ایسا کی اکثر ہوتا رہتا تھا.مگر دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ کبھی شکوہ کیا نہ ۲۴۹ آپ کے چہرہ پر کبھی ملال ظاہر ہوا نہ کبھی اپنے چچیرے بھائیوں سے رقابت پیدا ہوئی.9 چنانچہ آپ کی زندگی بتاتی ہے کہ کس طرح آپ نے بعد کے بدلے ہوئے حالات میں حضرت علی اور حضرت جعفر کو اپنی تربیت میں لے لیا اور ہر طرح سے ان کی بہتری کی تدابیر کیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دنیوی لحاظ سے نہایت ہی تلخ طور پر گزری ہے.پیدائش سے پہلے ہی اپنے والد کی وفات پھر والدہ اور دادا کی یکے بعد دیگرے وفات ، پھر شادی ہوئی تو آپ کے بچے متواتر فوت ہوتے چلے گئے اس کے بعد پے در پے آپ کی کئی بیویاں فوت ہوئیں جن میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا جیسی باوفا اور خدمت گزار بیوی بھی تھیں.مگر آپ نے یہ سب مصائب خوشی سے برداشت کئے اور ان عموں نے نہ آپ کی کمر جھ

Page 406

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۴ توڑی نہ آپ کی خوش مزاجی پر کوئی اثر ڈالا.دل کے زخم کبھی آنکھوں سے نہیں رہے.چہ چہرہ ہر ایک کے لئے بشاش ہی رہا اور شاذ و نادر ہی کسی موقع پر آپ نے اس درد کا اظہار کیا.ایک دفعہ ایک عورت جس کا لڑکا فوت ہو گیا تھا اپنے لڑکے کی قبر پر ماتم کر رہی تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا.اے عورت! صبر کر.خدا کی مشیت ہر ایک پر غالب ہے.وہ عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچانتی نہ تھی اس نے جواب دیا جس طرح میرا بچہ مرا ہے تمہارا بچہ بھی مرتا تو تمہیں معلوم ہوتا کہ صبر کیا چیز ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف یہ کہہ کر وہاں سے آگے چل دیئے.ایک نہیں میرے تو سات بچے فوت ہو چکے ہیں.۴۵۰ پس اس قسم کے موقع پر اتنا اظہار تھا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گزشتہ مصائب پر کبھی کر دیتے تھے ورنہ بنی نوع انسان کی خدمت میں کوئی کوتاہی ہوئی نہ آپ کی بشاشت میں کوئی فرق آیا.تحمل تحمل آپ میں اس قدر تھا کہ اس زمانہ میں بھی کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے بادشاہت عطا فرما دی تھی آپ ہر ایک کی بات سنتے.اگر وہ بختی بھی کرتا تو آپ خاموش ہو جاتے اور کبھی سختی کرنے والے کا جواب سختی سے نہ دیتے.مسلمان رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے نام کی بجائے آپ کے روحانی درجہ سے پکارتے تھے یعنی يَا رَسُولَ اللهِ ! کہ کر بلاتے تھے اور غیر مذاہب کے لوگ ایشیائی دستور کے مطابق آپ کا ادب اور احترام اس طرح کرتے تھے کہ بجائے آپ کو محد کہہ کر بلانے کے ابوالقاسم کہہ کر بلاتے تھے جو آپ کی کنیت تھی ( ابو القاسم کے معنی ہیں قاسم کا باپ.قاسم آپ کے ایک بیٹے کا نام تھا) ایک دفعہ ایک یہودی مدینہ میں آیا اور ی اس نے آپ سے آکر بحث شروع کر دی.بحث کے دوران میں وہ بار بار کہتا تھا.اے محمد ! بات یوں ہے، اے محمد ! بات یوں ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر کسی انقباض کے اس کی باتوں کا جواب دیتے تھے.مگر صحابہ اُس کی یہ گستاخی دیکھ کر بیتاب ہورہے تھے.آخر ایک صحابی سے نہ رہا گیا اور اُس نے یہودی سے کہا کہ خبردار! آپ کا نام لے کر بات نہ کرو تم رسول اللہ نہیں کہہ سکتے تو کم سے کم ابوالقاسم کہو.یہودی نے کہا میں تو وہی نام لوں گا جو ان کے ماں باپ

Page 407

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۵ دیباچ تفسیر القرآن نے ان کا رکھا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور اپنے صحابہ سے کہا دیکھو! یہ ٹھیک کہتا ہے.میرے ماں باپ نے میرا نام محمد ہی رکھا تھا جو نام یہ لینا چاہتا ہے اسے لینے دو اور اس پر غصہ کا اظہار نہ کرو.آپ جب باہر کام کے لئے نکلتے تو بعض لوگ آپ کا رستہ روک کر کھڑے ہو جاتے اور اپنی ضرورتیں بیان کرنی شروع کر دیتے.جب تک وہ لوگ اپنی ضرورتیں بیان نہ کر لیتے آپ کھڑے رہتے جب وہ بات ختم کر لیتے تو آپ آگے چل پڑتے.اسی طرح بعض لوگ مصافحہ کرتے وقت دیر تک آپ کا ہاتھ پکڑے رکھتے.گو یہ طریق ناپسندیدہ ہے اور کام میں روک پیدا کرنے کا موجب ہے مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ان کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے بلکہ جب تک وہ مصافحہ کرنے والا آپ کے ہاتھ کو پکڑے رکھتا آپ بھی اپنا ہا تھ اس کے ہاتھ میں رہنے دیتے.ہر قسم کے حاجت مند آپ کے پاس آتے اور اپنی حاجتیں پیش کرتے.بعض دفعہ آپ مانگنے والے کو اُس کی ضرورت کے مطابق کچھ دے دیتے تو وہ اپنی حرص سے مجبور ہو کر اور زیادہ کا مطالبہ کرتا اور آپ پھر بھی اُس کی خواہش پورا کر دیتے.بعض دفعہ لوگ کئی بار مانگتے چلے جاتے اور آپ اُن کو ہر دفعہ کچھ نہ کچھ دیتے چلے جاتے.جو شخص خاص طور پر مخلص نظر آتا ہی اُسے اُس کے مانگنے کے مطابق دے دینے کے بعد صرف اتنا فرما دیتے کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگر تم خدا پر توکل کرتے.چنانچہ ایک دفعہ ایک مخلص صحابی نے متواتر اصرار کر کے آپ سے کئی دفعہ اپنی ضرورتوں کے لئے روپیہ مانگا.آپ نے اُس کی خواہش کو پورا تو کر دیا، مگر آخر میں فرمایا سب سے اچھا مقام تو یہی ہے کہ انسان خدا پر توکل کرے.اس صحابی کے اندر اخلاص تھا اور ادب بھی تھا جو کچھ وہ لے چکا ادب سے اُس نے واپس نہ کیا لیکن آئندہ کے متعلق اُس نے عرض کی کیا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ میری آخری بات ہے اب میں آئندہ کسی سے کسی صورت میں بھی سوال نہیں کروں گا.ایک دفعہ جنگ ہو رہی تھی غضب کا معرکہ پڑ رہا تھا، نیزے پھینکے جا رہے تھے، تلواریں کھٹا کھٹ گر رہی تھیں کھوے سے کھوا چھل رہا تھا.سپاہی پر سپاہی ٹوٹا پڑ رہا تھا کہ اُس صحابی کے ہاتھ سے عین اُس وقت جبکہ وہ دشمن کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے کوڑا گر گیا.ایک ہمرا ہی

Page 408

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۶ دیباچہ تفسیر القرآن پیدل سپاہی نے اس خیال سے کہ اگر افسر نیچے اُترا تو ایسا نہ ہو کہ کوئی نقصان پہنچ جائے جھک کر کوڑا اُٹھانا چاہا تا کہ اُن کے ہاتھ میں دیدے.اس صحابی کی نظر اُس سپا ہی پر پڑ گئی اور انہوں نے کہا اے میرے بھائی! تجھے خدا ہی کی قسم تو کوڑے کو ہاتھ نہ لگا یہ کہتے ہوئے وہ گھوڑے سے کود پڑے اور کوڑا اُٹھا لیا پھر اپنے ساتھی سے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اقرار کیا ہے تھا کہ میں کسی سے کوئی سوال نہیں کروں گا اگر میں کوڑا تمہیں اُٹھانے دیتا تو گو میں نے اس کے متعلق تم سے سوال نہیں کیا تھا لیکن اس میں کیا شبہ تھا کہ زبانِ حال سے یہ سوال ہی بن جاتا اور ایسا کرنا مجھے وعدہ خلاف بنا دیتا گو یہ جنگ کا میدان ہے مگر میں اپنا کام خود ہی کروں گا.۴۵۱ انصاف انصاف اور عدل آپ کے اندر اتنا پایا جا تا تھا کہ جس کی مثال دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی.عربوں میں لحاظ داری اور سفارشوں کا قبول کرنا ایک عام مرض تھا.عرب و کا کیا ذکر ہے اس زمانہ کے متمدن ممالک میں بھی دیکھا جاتا ہے کہ بڑے آدمیوں کو سزا دیتے ہی وقت جھجکتے ہیں اور غریبوں کو سزا دیتے وقت نہیں گھبراتے.ایک دفعہ ایک مقدمہ آپ کے پاس آیا، ایک بہت بڑے خاندان کی کسی عورت نے کسی دوسرے کا مال ہتھیا لیا تھا.جب حقیقت کی کھل گئی تو عربوں میں بڑا ہیجان پیدا ہو گیا کیونکہ ایک بہت بڑے معزز خاندان کی ہتک ہوتی انہیں نظر آئی.انہوں نے چاہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ درخواست پیش کریں کہ اس عورت کو معاف کر دیا جائے.اور تو کسی شخص نے جرات نہ کی لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اسامہ بن زید کولوگوں نے چنا اور انہیں مجبور کیا کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کی سفارش کریں.اسامہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات شروع ہی کی تھی کہ آپ کے چہرہ پر غصہ کے آثار ظاہر ہوئے اور آپ نے فرمایا ! اسامہ! یہ کیا چی کہہ رہے ہو، پہلی تو میں اسی طرح تباہ ہوئیں کہ وہ بڑوں کا لحاظ کرتی تھیں اور چھوٹوں پر ظلم کرتی تھیں.اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا اور میں ایسا ہر گز نہیں کر سکتا.خدا کی قسم ! اگر میری بیٹی فاطمہ بھی اس قسم کا جرم کرتی تو میں اُسے سزا دیئے بغیر نہ رہتا.۴۵۲ یہ واقعہ پہلے سوانح میں آچکا ہے کہ بدر کی جنگ میں جب حضرت عباس قید ہوئے تو ان کے کراہنے سے آپ کو تکلیف محسوس ہوئی لیکن جب صحابہ نے آپ کی تکلیف دیکھ کر حضرت عباس کی

Page 409

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۷ دیباچہ تفسیر القرآن کے ہاتھوں کی رسیاں کھول دیں اور رسول اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوگئی تو آپ نے فرمایا میرے رشتہ دار ویسے ہی دوسروں کے رشتہ دار.یا تو میرے چچا عباس کو بھی پھر رسیوں سے باندھ دو یا سارے قیدیوں کی رسیاں کھول دو.صحابہ کو چونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف کا احساس تھا اُنہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ! ہم پہرہ سختی سے دے لیں گے لیکن سب قیدیوں کی رسیاں ہم کھول دیتے ہیں ، چنانچہ سب قیدیوں کی رسیاں اُنہوں نے کھول دیں.آپ انصاف کا خیال جنگ کے موقع پر بھی رکھتے تھے.ایک دفعہ آپ نے کچھ صحابہ کو باہر خبر رسانی کے لئے بجھوایا.دشمن کے کچھ آدمی اُن کو حرم کی حد میں مل گئے صحابہ نے اس خیال سے کہ اگر ہم نے ان کو زندہ چھوڑ دیا تو یہ جا کر مکہ والوں کو خبر دیں گے اور ہم مارے جائیں گے اُن پر حملہ کر دیا اور ان میں سے ایک لڑائی میں مارا گیا.جب یہ خبریں دریافت کرنے والا قافلہ مدینہ واپس آیا، تو پیچھے پیچھے مکہ والوں کی طرف سے بھی ایک وفد شکایت لے کر آیا کہ اُنہوں نے حرم کے اندر ہمارے دو آدمی مار دیئے ہیں.جو لوگ حرم کے اندرمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرتے رہتے تھے اُن کو جواب تو یہ ملنا چاہئے تھا کہ تم نے کب حرم کا احترام کیا کہ تم کی ہم سے حرم کے احترام کی امید رکھتے ہو گر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جواب نہ دیا بلکہ فرمایا.ہاں بے انصافی ہوئی ہے کیونکہ ممکن ہے کہ اس خیال سے کہ حرم میں وہ محفوظ ہیں اُنہوں نے اپنے بچاؤ کی پوری کوشش نہ کی ہو اس لئے آپ لوگوں کو خون بہا دیا جائے گا.چنانچہ آپ نے قتل کا وہ فدیہ جس کا عربوں میں دستور تھا اُن کے ورثاء کو ادا کیا.جذبات کا احترام اپنے تو اپنے غیروں کے جذبات کا احترام بھی آپ بہت زیادہ کرتے تھے.ایک دفعہ ایک یہودی آپ کے پاس آیا اور اُس نے آ کے شکایت کی کہ دیکھئے ! حضرت ابو بکڑ نے میرا دل دُکھایا ہے اور کہا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے موسیٰ سے افضل بنایا ہے.اس بات کو سن کر میرے دل کو تکلیف پہنچی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر کو بلا کر اُن سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے.حضرت ابو بکر نے کہا ، يَا رَسُولَ الله! اس شخص نے ابتداء کی تھی اور کہا تھا کہ میں موسیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے ساری دنیا پر فضلیت عطا فرمائی ہے اس پر

Page 410

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۸ دیباچہ تفسیر القرآن میں نے کہا کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کو خدا نے موسیٰ سے افضل بنایا ہے.آپ نے فرمایا ایسا نہیں کرنا چاہئے.دوسروں کے جذبات کا احترام کرنا چاہئے مجھے موسیٰ پر فضلیت نہ دیا کرو.۴۵۳ اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ آپ اپنے آپ کو موسیٰ سے افضل نہ سمجھتے تھے بلکہ مطلب یہ تھا کہ یہ فقرہ کہنے سے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا نے موسیٰ پر فضلیت عطا فرمائی ہے یہودیوں کے دلوں کو تکلیف پہنچتی ہے.غرباء کا خیال اور اُن کے جذبات کا احترام آپ ہمیشہ غرباء کے حالات کو درست رکھنے کی کوشش رکھتے اور اُن کو سوسائٹی میں مناسب مقام دینے کی سعی فرماتے.ایک دفعہ آپ بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک امیر آپ کے سامنے سے گزرا آپ نے ایک ساتھی سے دریافت کیا کہ اس شخص کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا یہ معزز اور امیر لوگوں میں سے ہے اگر یہ کسی لڑکی سے چھ نکاح کی خواہش کرے تو اس کی درخواست قبول کی جائے گی اور اگر یہ کسی کی سفارش کرے تو ہو اس کی سفارش مانی جائے گی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات سن کر خاموش رہے.اس کے بعد ایک اور شخص گزرا جو غریب اور نادار معلوم ہوتا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ساتھی سے پوچھا اس کے بارہ میں تمہاری کیا رائے ہے؟ اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ غریب آدمی ہے اور اس لائق ہے کہ اگر یہ کسی کی لڑکی سے نکاح کی درخواست کرے تو اس کی درخواست قبول نہ کی جائے اور اگر سفارش کرے تو اس کی سفارش نہ مانی جائے اور اگر یہ باتیں سنانا چاہے تو اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کی جائے.یہ سن کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی غریب آدمی کی قیمت اس سے بھی زیادہ ہے کہ ساری دنیا سونے سے بھر دی جائے.۲۵۴ ایک غریب عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی ، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دن اُس کونہ دیکھا تو آپ نے پوچھا وہ عورت نظر نہیں آتی.لوگوں نے بتایا کہ وہ فوت ہو گئی ہے.آپ نے فرمایا جب وہ فوت ہو گئی تھی تو تم نے مجھے اطلاع کیوں نہ دی کہ میں بھی اُس کے جنازہ میں شامل ہوتا پھر فرمایا شاید تم نے اس کو غریب سمجھ کر حقیر جانا.ایسا کرنا درست نہیں تھا مجھے بتاؤ اس کی قبر کہاں ہے پھر آپ اُس کی قبر پر گئے اور اُس کے لئے دعا کی.۴۵۵

Page 411

انوار العلوم جلد ۲۰ ۳۹۹ دیباچہ تفسیر القرآن آپ فرمایا کرتے تھے بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ اُن کے سر کے بال پراگندہ ہوتے ہیں اور اُن کے جسموں پر مٹی پڑی ہوتی ہے اگر وہ لوگوں سے ملنے جائیں تو لوگ اب دروازے بند کر لیتے ہیں لیکن ایسے لوگ اگر اللہ تعالیٰ کی قسم کھا بیٹھیں تو خدا تعالیٰ کو اُن کا اِتنا احترام ہوتا ہے کہ وہ ان کی قسم پوری کر کے چھوڑتا ہے.۴۵۶ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ غریب صحابہ جو کسی وقت غلام ہوتے تھے بیٹھے ہوئے تھے.ابوسفیان اُن کے سامنے سے گزرے تو اُنہوں نے اس کے سامنے اسلام کی جیت کا کچھ ذکر کیا.حضرت ابو بکر سن رہے تھے انہیں یہ بات بُری معلوم ہوئی کہ قریش کے سردار کی پتک کی گئی ہے اور اُنہوں نے اُن لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کیا تم قریش کے سردار اور اُن کے افسر کی ہتک کرتے ہو!! پھر حضرت ابو بکڑ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہی کی بات شکایتاً بیان کی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابو بکر ! شاید تم نے اللہ تعالیٰ کے ان خاص بندوں کو ناراض کر دیا ہے اگر ایسا ہوا تو یا درکھو کہ تمہارا رب بھی تم سے ناراض ہو جائے گا.حضرت ابو بکر اُسی وقت اُٹھے اور اُٹھ کر اُن لوگوں کے پاس واپس آئے اور کہا اے میرے بھائیو! کیا میری بات سے تم ناراض ہو گئے ہو؟ اِس پر اُن غلاموں نے جواب دیا اے ہمارے بھائی ! ہم ناراض نہیں ہوئے خدا آپ کا قصور معاف کرے.۴۵۷ مگر جہاں آپ غرباء کی عزت اور ان کے احترام کو قائم کرتے اور اُن کی ضرورتیں پوری فرماتے تھے وہاں آپ اُن کو عزت نفس کا بھی سبق دیتے تھے اور سوال کرنے سے منع فرماتے تھے.چنانچہ آپ ہمیشہ فرماتے تھے کہ مسکین وہ نہیں جس کو ایک کھجور یا دو کھجور میں یا ایک لقمہ یا دو لقے تسلی دے دیں.مسکین وہ ہے کہ خواہ کتنی ہی تکلیفوں سے گزرے سوال نہ کرے.۲۵۸ آپ اپنی جماعت کو یہ بھی نصیحت کرتے رہتے تھے کہ ہر وہ دعوت جس میں غرباء کو نہ بلائیں کی جائیں وہ بدترین دعوت ہے.۹ حضرت عائشہ کہتی ہیں کہ ایک دفعہ ایک غریب عورت میرے پاس آئی اور اس کے ساتھ اُس کی دو بیٹیاں بھی تھیں اُس وقت ہمارے گھر میں سوائے ایک کھجور کے کچھ نہ تھا میں نے وہی کھجور اُس کو دے دی.اُس نے وہ کھجور آدھی آدھی کر کے دونوں لڑکیوں کو کھلا دی اور پھر اُٹھ کر ۴۵۹

Page 412

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۰ دیباچہ تفسیر القرآن چلی گئی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں داخل ہوئے تو میں نے آپ کو یہ واقعہ سنایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس غریب کے گھر میں بیٹیاں ہوں اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے.خدا تعالیٰ اُسے قیامت کے دن عذاب دوزخ سے بچائے گا.پھر فرمایا.اللہ تعالیٰ اُس عورت کو اس فعل کی وجہ سے جنت کا مستحق بنائے گا.۲۶۰ कृपा اسی طرح ایک دفعہ آپ کو معلوم ہوا کہ آپ کے ایک صحابی سعد جو مالدار تھے وہ بعض دوسرے لوگوں پر اپنی فضلیت ظاہر کر رہے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سنی تو فرمایا کیا تم سمجھتے ہو کہ تمہاری یہ قوت اور طاقت اور تمہارا یہ مال تمہیں اپنے زور بازو سے ملے ہیں ؟ ایسا ہر گز نہیں تمہاری قومی طاقت اور تمہارے مال سب غرباء ہی کے ذریعہ سے آتے ہیں.۴۶۱ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرما یا کرتے تھے اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مِسْكِيْنًا وَامِتُنِي مِسْكِيْنًا وَاحْشُرُ نِى فِى زُمْرَةِ الْمَسَاكِينِ يَومَ الْقِيَامَةِ ۲۶۲ یعنی اے اللہ ! مجھے مسکین ہونے کی حالت میں زندہ رکھ، مسکین ہونے کی حالت میں وفات دے اور مساکین کے زمرہ میں ہی قیامت کے دن مجھے اُٹھا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں تشریف لے جارہے تھے تو آپ کے ایک غریب صحابی جو اتفاقی طور پر نہایت بدصورت بھی تھے گرمی کے موسم میں بوجھ اُٹھا اُٹھا کر ایک طرف سے دوسری طرف منتقل کر رہے تھے.ایک طرف اُن کا چہرہ بدصورت تھا تو دوسری طرف گرد و غبار اور پسینہ کی وجہ سے وہ اور بھی بد نما نظر آ رہا تھا.عین اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بازار میں سے گزرے اور آپ نے اُن کے چہرہ پر افسردگی کی علامتیں دیکھیں.آپ خاموشی سے اُن کے پیچھے چلے گئے اور جیسے بچے آپس میں کھیلتے وقت چوری چھپے پیچھے سے جا کر کسی دوست کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیتے اور پھر یہ امید کرتے ہیں کہ وہ اندازہ لگا کر بتائے کہ کس شخص نے اُس کی آنکھیں بند کی ہیں اسی طرح آپ نے اُن کی آنکھوں پر جا کر ہاتھ رکھ دیا.اس نے اپنے ہاتھ سے آپ کے بازو اور جسم کو ٹولنا شروع کیا اور سمجھ لیا کہ یہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.یوں بھی وہ سمجھتا تھا کہ اتنے غریب، اتنے بدصورت اور اتنے بدحال

Page 413

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۱ دیباچہ تفسیر القرآن آدمی کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا اپنی محبت کا اظہار اور کون کر سکتا ہے.ہے.یہ معلوم کر کے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے ساتھ اظہار محبت کر رہے ہیں اس نے اپنا مٹی آلود اور پسینہ سے بھرا ہوا جسم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کے ساتھ ملنا شروع کیا.شاید وہ یہ دیکھتا تھا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور آپ کا حوصلہ کتنا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے رہے اور اُس کو اِس حرکت سے منع نہ کیا جب وہ پیٹ بھر کر آپ کے کپڑوں کو خراب کر چکا تو آپ نے مذاقا فرما یا میرے پاس ایک غلام ہے کوئی اس کا خریدار ہے؟ آپ کے اس فقرہ نے اُس کو عرش سے فرش پر لا کر پھینک دیا اور اس بات کی طرف اس کی توجہ پھرا دی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کون مجھ کو قدر کی نگاہوں سے دیکھ سکتا ہے اور میں کس قابل ہوں کہ غلام کر کے ہی کوئی مجھے خریدے.اس نے افسردگی سے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میرا خریدار دنیا میں کوئی نہیں.آپ نے فرمایا نہیں ! نہیں ! ایسا مت کہو تمہاری قیمت خدا کی نظر میں بہت زیادہ ہے.۴۶۳ آپ نہ صرف غرباء کا خیال رکھتے تھے بلکہ اپنی جماعت کو بھی غرباء کا خیال رکھنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے رہتے تھے.چنانچہ حضرت موسیٰ اشعری کی روایت ہے کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی حاجتمند آتا تو آپ اپنی مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے فرماتے کہ آپ بھی اس کی سفارش کریں تا کہ نیک کام کی سفارش کے ثواب میں شامل ہو جائیں.۳۶۴ اس طرح آپ ایک طرف تو اپنی جماعت کے لوگوں کے دلوں میں غرباء کی امداد کا احساس پیدا کرتے تھے اور دوسری طرف خود سوالی کے دل میں دوسرے مسلمانوں کی نسبت محبت کا احساس پیدا کرنے کی کوشش کرتے.غرباء کے مالوں کی حفاظت اسلام کی فتح کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے اموال آتے جنہیں آپ مستحقین میں تقسیم کر دیتے.ایک دفعہ بہت سا مال آیا تو آپ کی بیٹی فاطمہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ دیکھئے میرے ہاتھ چکی پیس پیس کر زخمی ہو گئے ہیں اگر آپ مجھے ان اموال میں سے کوئی لونڈی یا غلام دے دیں تو وہ میرا ہاتھ بٹا دیا کریں.آپ نے

Page 414

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۲ دیباچہ تفسیر القرآن فرما یا فاطمه! میری بیٹی ! میں تم کو لونڈی یا غلام رکھنے سے زیادہ قیمتی چیز بتاتا ہوں جب تم سونے لگو تو تم تینتیس دفعہ الْحَمْدُ لِلهِ تینتیس دفعہ سُبْحَانَ اللهِ اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر کہ لیا کرو.یہ تمہارے لئے لونڈی اور غلام سے زیادہ بہتر ہوگا.۴۶۵ ایک دفعہ کچھ اموال آئے اور آپ نے اُن کو تقسیم کر دیا.تقسیم کرتے وقت ایک دینار آپ کے ہاتھ سے گر گیا اور کسی چیز کی اوٹ میں آ گیا.مال تقسیم کرتے کرتے آپ کے ذہن سے وہ بات اُتر گئی سب مال تقسیم کرنے کے بعد آپ مسجد میں آئے اور نماز پڑھائی.نماز پڑھانے کے بعد بجائے اس کے کہ ذکر الہی میں مشغول ہو جاتے جیسا کہ آپ کی عادت تھی یا لوگوں کو اپنی ضروریات کے پیش کرنے یا مسائل پوچھنے کا موقع دیتے آپ تیزی کے ساتھ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے.ایسی تیزی کے ساتھ کہ بعض صحابہ کہتے ہیں کہ ہماری گردنوں پر کودتے ہوئے آپ اندر کی طرف چلے گئے اور دینار تلاش کیا پھر واپس تشریف لائے اور باہر آ کر وہ دینا کسی مستحق کو دیتے ہوئے فرمایا یہ دینار گر گیا تھا اور مجھے بھول گیا تھا مجھے نماز پڑھاتے ہوئے یاد آیا اور میرا دل اس خیال سے بے چین ہو گیا کہ اگر میری موت آگئی اور لوگوں کا یہ مال میرے گھر میں ہی پڑا رہا تو میں خدا کو کیا جواب دوں گا اس لئے میں فوراً اندر گیا اور جا کر یہ مال نکال لایا.۲۶۶ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ آپ نے صدقہ کو اپنی اولاد کے لئے حرام کر دیا تا ایسا نہ ہو کہ آپ کے اعزاز اور احترام کی وجہ سے صدقہ کے اموال لوگ آپ کی اولاد میں ہی تقسیم کر دیا کریں اور دوسرے غریب محروم رہ جائیں.ایک دفعہ آپ کے سامنے صدقہ کی کچھ کھجور میں لائی گئیں.حضرت امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو آپ کے نواسے تھے اور جن کی عمر اس وقت دواڑھائی سال کی تھی اُس وقت آپ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اُنہوں نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال لی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً انگلی ڈال کر اُن کے منہ سے کھجور نکالی اور فرمایا یہ ہمارا حق نہیں.یہ خدا کے غریب بندوں کا حق ہے.۲۶۷ غلاموں سے حسن سلوک غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کا آپ ہمیشہ وعظ فرماتے رہتے.آپ کا یہ ارشاد تھا کہ اگر کسی شخص کے پاس غلام ہو اور وہ اس کو آزاد کرنے کی توفیق نہ رکھتا ہو تو اگر وہ کسی وقت غصہ میں اُس کو مار بیٹھے یا

Page 415

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۳ ، چه تفسیر القرآن گالی دے تو اُس کا کفارہ یہی ہے کہ اُس کو آزاد کر دے.۴۶۸ اسی طرح آپ غلاموں کو آزاد کرنے کے متعلق اتنا زور دیتے تھے کہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اُس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں اس کے ہر عضو پر دوزخ کی آگ حرام کر دے گا.۶۹؎ پھر آپ فرمایا کرتے تھے غلام سے اتنا ہی کام لو جتنا وہ کر سکتا ہے اور جب اس سے کوئی کام لو تو اس کے ساتھ مل کر کام کیا کرو تا کہ ذلت محسوس نہ کرے.اور جب سفر کرو تو یا اس کو سواری پر اپنے ساتھ بٹھا دیا اس کے ساتھ باری مقرر کر کے سواری پر چڑھو.اس بارہ میں آپ اتنی تاکید فرماتے تھے کہ حضرت ابو ہریرہ جو اسلام لانے کے بعد ہر وقت آپ کے ساتھ رہتے تھے اور آپ کی اس تعلیم کو اکثر سنتے رہتے تھے وہ کہا کرتے تھے کہ اُس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں ابو ہریرہ کی جان ہے اگر اللہ تعالیٰ کے رستہ میں جہاد کا موقع مجھے نہ مل رہا ہوتا اور حج کی توفیق نہ مل رہی ہوتی اور میری بڑھیا ماں زندہ نہ ہوتی جس کی خدمت مجھ پر فرض ہے تو میں خواہش کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم غلام کے حق میں نہایت ہی نیک باتیں فرمایا کرتے تھے.اے ہے معرور بن سویڈ روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حضرت ابو ذر غفاری کو دیکھا کہ جیسے اُن کے کپڑے تھے ویسے ہی اُن کے غلام کے تھے.اس کی وجہ پوچھی کہ آپ کے کپڑے اور آپ کے غلام کے کپڑے ایک جیسے کیوں ہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ میں نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کو اُس کی ماں کا کی طعنہ دیا جو لونڈی تھی اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو تو ایسا شخص ہے جس میں ابھی تک کفر کی باتیں پائی جاتی ہیں.غلام کیا ہیں؟ تمہارے بھائی ہیں اور تمہاری طاقت کا ذریعہ ہیں خدا تعالیٰ کی کسی حکمت کے ماتحت وہ کچھ عرصہ کے لئے تمہارے قبضہ میں آ جاتے ہیں پس چاہئے ی کہ جس کا بھائی اُس کی خدمت تلے آجائے وہ جو کچھ خود کھاتا ہے اُسے کھلائے اور جو کچھ خود پہنتا ہے اُسے پہنائے اور تم میں سے کوئی شخص کسی غلام سے ایسا کام نہ لے جس کی اُسے طاقت نہ ہو اور جب تم انہیں کوئی کام بتاؤ تو خود بھی ان کے ساتھ مل کر کام کیا کرو.۴۷۲ اسی طرح آپ فرمایا کرتے تھے جب تمہارا نو کر تمہارے لئے کھانا لائے تو اُس کو اپنے

Page 416

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۴ ساتھ بٹھا کر کم سے کم تھوڑا سا کھانا ضرور کھلاؤ کیونکہ اُس نے کھانا پکا کر اپنا حق قائم کر لیا ہے.۴۷۳ بنی نوع انسان کی خدمت آپ اُن لوگوں کا خاص خیال رکھتے تھے جو بنی نوع انسان کی خدمت میں اپنا وقت خرچ کرتے تھے.جب کی کرنے والوں کا احترام قبیلہ کے لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لڑائی کی اور ان میں سے کچھ لوگ گرفتار ہو کر آئے تو اُن میں حاتم کی جو عرب کا مشہور سبھی گزرا می ہے بیٹی بھی تھی ، جب اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ ذکر کیا کہ وہ حاتم کی بیٹی کی ہے تو آپ نے نہایت ہی ادب اور احترام کا معاملہ اُس سے کیا اور اُس کی سفارش پر اُس کی قوم کی سزائیں معاف کر دیں.۴۷۴ عورتوں سے حسنِ سلوک عورتوں سے حسن سلوک کا آپ خاص خیال رکھتے تھے آپ نے سب سے پہلے دنیا میں عورت کے ورثہ کا حق قائم کیا.چنانچہ قرآن کریم میں لڑکے اور لڑکیاں باپ اور ماں کے ورثہ کی حقدار قرار دی گئی ہی ہیں.اسی طرح ما ئیں اور بیویاں بیٹیوں اور خاوندوں کے ورثہ میں اور بعض صورتوں میں بہنیں بھی بھائیوں کے ورثہ کی حقدار قرار دی گئی ہیں.اسلام سے پہلے دنیا کے کسی مذہب نے بھی اس طرح حقوق قائم نہیں کئے.اسی طرح آپ نے عورت کو اس کے مال کا مستقل ما لک قرار دیا ہے خاوند کو حق نہیں کہ خاوند ہونے کی وجہ سے عورت کے مال میں دست اندازی کر سکے.عورت اپنے مال کے خرچ کرنے میں پوری مختار ہے.عورتوں سے حسن سلوک میں آپ ایسے بڑھے ہوئے تھے کہ عرب لوگ جو اس بات کے عادی نہ تھے ان کو یہ بات دیکھ کر ٹھوکر لگتی تھی.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری بیوی بعض دفعہ میری باتوں میں دخل دیتی تو میں اُس کو ڈانٹا کی کرتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ عرب کے لوگوں نے کبھی عورتوں کا یہ حق تسلیم نہیں کیا کہ وہ مردوں کو اُن کے کے کاموں میں مشورہ دیں.اس پر میری بیوی کہا کرتی کہ جاؤ جاؤ ، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اُن کو مشورہ دیتی ہیں اور آپ اُن کو کبھی نہیں روکتے تو تم ایسا کیوں کہتے ہو؟ اس پر میں اُسے کہا کرتا تھا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت لاڈلی ہے اُس کا ذکر نہ کرو، باقی رہی تمہاری بیٹی سواگر وہ ایسا کرتی ہے تو اپنی گستاخی کی سزا کسی دن پائے گی.

Page 417

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۵ دیباچہ تفسیر القرآن ایک دفعہ جب کسی بات سے ناراض ہو کر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کر لیا کہ کچھ دن آپ گھر سے باہر رہیں گے اور بیویوں کے پاس نہیں جائیں گے اور مجھے اس کی خبر ملی ، تو میں نے کہا دیکھو جو میں کہتا تھا وہی ہو گیا.میں اپنی بیٹی حفصہ کے گھر میں گیا تو وہ رو رہی تھیں.میں نے کہا حفصہ ! کیا ہوا ؟ کیا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں طلاق دے دی ہے؟ اُنہوں نے کہا یہ تو مجھے معلوم نہیں لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بات کی وجہ سے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ کچھ عرصہ کے لئے گھر میں نہیں آئیں گے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا حفصہ ! میں تجھے پہلے نہیں سمجھایا کرتا تھا کہ تو عائشہ کی نقلیں کرتی ہے حالانکہ عائشہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص طور پر پیاری ہے.دیکھ آخر تو نے وہی مصیبت سہیر، لی جس کا مجھے خوف تھا.یہ کہہ کر میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھردری چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.آپ کے جسم پر کرتہ نہ تھا اور آپ کے سینہ اور کمر پر چٹائی تھی کے نشان بنے ہوئے تھے میں آپ کے پاس بیٹھ گیا اور کہا يَا رَسُولَ اللہ ! یہ قیصر و کسری کہاں ہی مستحق ہیں اس بات کے کہ ان کو خدا تعالیٰ کی نعمتیں ملیں مگر وہ تو کس آرام سے زندگی بسر کر رہے ہی ہیں اور خدا کے رسول کو یہ تکلیف ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر ! یہ درست نہیں اس قسم کی زندگیاں خدا کے رسولوں کی نہیں ہوتیں یہ دنیا دار بادشاہوں کا شغل ہے.پھر میں نے آپ کو سارا واقعہ سنایا جو میری بیوی اور بیٹی کے ساتھ گزرا تھا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری باتیں سن کر ہنس پڑے اور فرمایا عمر! یہ بات درست نہیں کہ میں نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی ہے.میں نے تو صرف ایک مصلحت کی خاطر کچھ دنوں کے لئے اپنے گھر سے باہر رہنے کا فیصلہ کیا ہے.۵ عورتوں کے جذبات کا آپ کو اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ نماز میں آپ کو ایک بچہ کے رونے کی آواز آئی تو آپ نے نماز جلدی جلدی پڑھا کر ختم کر دی پھر فرمایا ایک بچہ کے رونے کی آوازی آئی تھی میں نے کہا اس کی ماں کو کتنی تکلیف ہو رہی ہوگی چنانچہ میں نے نماز جلدی ختم کر دی تا کہ ماں اپنے بچہ کی خبر گیری کر سکے.۶.جب آپ ایسے سفر پر جاتے جس میں عورتیں بھی ساتھ ہوتیں تو ہمیشہ آہستگی سے چلنے کا حکم

Page 418

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۶ دیباچہ تفسیر القرآن یتے.ایک دفعہ ایسے ہی موقع پر جبکہ سپاہیوں نے اپنے گھوڑوں کی باگیں اور اونٹوں کی تھیلیں اُٹھا لیں آپ نے فرمایا.رِفقًا بِالْقَوَارِيرَ ارے کیا کرتے ہو؟ عورتیں بھی ساتھ ہیں اگر تم اس طرح اُونٹ دوڑاؤ گے تو شیشے چکنا چور ہو جائیں گے.ایک دفعہ جنگ کے میدان میں کسی گڑ بڑ کی وجہ سے سواریاں بدک گئیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی گھوڑے سے گر گئے اور بعض مستورات بھی گر گئیں.ایک صحابی جن کا اُونٹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گرتے ہوئے دیکھ کر بے تاب ہو گئے اور کو دکر یہ کہتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے یا رَسُولَ الله ! میں مرجاؤں آپ بچے رہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں رکاب میں اُلجھے ہوئے تھے آپ نے جلدی جلدی اپنے آپ کو آزاد کیا اور اُس صحابی کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ” مجھے چھوڑو اور عورتوں کی طرف جاؤ“.۳۷۸ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب آیا تو آپ نے اُس وقت سب مسلمانوں کو جمع کر کے جو وصیتیں کیں اُن میں ایک بات یہ بھی تھی کہ میں تم کو اپنی آخری وصیت کی یہ کرتا ہوں کہ عورتوں سے ہمیشہ حسنِ سلوک کرتے رہنا.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے جس کے گھر کی میں لڑکیاں ہوں اور وہ اُن کو تعلیم دلائے اور اُن کی اچھی تربیت کرے خدا تعالیٰ قیامت کے دن اُس پر دوزخ کو حرام کر دے گا.۴۷۹ عربوں میں رواج تھا کہ اگر عورتوں سے کوئی غلطی ہو جاتی تو انہیں مار پیٹ لیا کرتے تھے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب اس کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا.عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں تمہاری لونڈیاں نہیں ان کو مت مارا کرو.مگر عورتوں کی چونکہ ابھی تک پوری تربیت کی نہیں ہوئی تھی اُنہوں نے دلیری میں آکر مردوں کا مقابلہ شروع کر دیا اور گھروں میں فساد کی ہونے لگے.آخر حضرت عمرؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ نے ہمیں عورتوں کو مارنے سے روک دیا اور وہ بڑی بڑی دلیریاں کرتی ہیں.ایسی صورت میں تو ہمیں اجازت ملنی چاہئے کہ ہم انہیں مار پیٹ لیا کریں.چونکہ ابھی تک عورتوں کے متعلق تفصیل.احکام نازل نہیں ہوئے تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر کوئی عورت حد سے بڑھتی ނ

Page 419

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۷ دیباچہ تفسیر القرآن ہے تو تم اپنے رواج کے مطابق اُسے مارلیا کرو.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بجائے اس کے کہ کسی اشد استثنائی صورت میں مرد اپنی عورتوں کو سزا دیتے ، انہوں نے وہی پرانا عربی طریق جاری کرلیا.عورتوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کے پاس آکر شکایت کی تو آپ نے اپنے کی صحابہ سے فرمایا ، جو لوگ اپنی عورتوں سے اچھا سلوک نہیں کرتے یا انہیں مارتے ہیں میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ وہ خدا کی نظر میں اچھے نہیں سمجھے جاتے.۴۸۰ اس کے بعد عورتوں کے حق قائم ہوئے اور عورت نے محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہربانی سے پہلی دفعہ آزادی کا سانس لیا.معاویہ بن هنده القشیری فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا - يَا رَسُولَ الله ! بیوی کا حق ہم پر کیا ہے؟ آپ نے فرمایا جو خدا تمہیں کھانے کے لئے دے وہ اُسے کھلا ؤ اور جو خدا تمہیں پہننے کے لئے دے وہ اُسے پہناؤ اور اُس کو تھپڑ نہ مارو اور گالیاں نہ دو اور اُسے گھر سے نہ نکالو.۴۸۱ آپ کو عورتوں کے جذبات کا اس قدر احساس تھا کہ آپ ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے کہ جو لوگ باہر سفر کے لئے جاتے ہیں انہیں جلدی گھر واپس آنا چاہئے تا کہ ان کے بال بچوں کو تکلیف نہ ہو.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص اپنی اُن ضرورتوں کو پورا کرلے جن کے لئے اسے سفر کرنا پڑا تھا تو اُسے چاہئے اپنے رشتہ داروں کا خیال کر کے جلدی واپس آئے.۳۸۲ آپ کا اپنا طریق یہ تھا کہ جب سفر سے واپس آتے تھے تو دن کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے.اگر رات آجاتی تھی تو شہر کے باہر ہی ڈیرہ ڈال دیتے تھے اور صبح کے وقت شہر میں داخل ہوتے تھے اور ہمیشہ اپنے اصحاب کو منع فرماتے تھے کہ اس طرح اچانک گھر میں آکر کی اپنے اہل وعیال کو تنگ نہیں کرنا چاہئے.۴۸۳ اس میں آپ کے مد نظر یہ حکمت تھی کہ عورت اور مرد کے تعلقات جذباتی ہوتے ہیں مرد کی غیر حاضری میں اگر عورت نے اپنے لباس اور جسم کی صفائی کا پورا خیال نہ رکھا ہو اور خاوند اچانک گھر میں آ داخل ہو تو ڈر ہوتا ہے کہ وہ محبت کے جذبات جو مر دعورت کے درمیان ہوتے ہیں اُن کو ٹھیس نہ لگ جائے.پس آپ نے ہدایت فرما دی کہ انسان جب بھی سفر سے واپس

Page 420

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۸ دیباچہ تفسیر القرآن آئے دن کے وقت گھر میں داخل ہوا اور بیوی بچوں کو پہلے خبر دے کر داخل ہو تا کہ وہ اس کے استقبال کے لئے پوری طرح تیاری کر لیں.وفات یافتوں کے متعلق آپ کا عمل آپ ہمیشہ یہ بھی نصیحت فرماتے رہتے تھے کہ مرنے والے کو وصیت کر دینی چاہئے تا کہ اس کے رشتہ داروں کو بعد میں تکلیف نہ پہنچے.مرنے والوں کے متعلق آپ کی یہ بھی ہدایت تھی کہ جب کوئی شخص شہر میں مرجائے تو لوگوں کو اس کی بُرائیاں کبھی بیان نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اُس کی خیر کی باتیں کرنی چاہئیں کیونکہ اس کی بُرائی بیان کرنے میں کوئی فائدہ نہیں لیکن اس کی نیکی بیان کرنے میں یہ فائدہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کے لئے دعا کی تحریک پیدا ہو گی.۴۸۴ آپ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ جو لوگ مر جائیں اُن کے قرض جلد سے جلد ادا کئے جاویں.چنانچہ جب کوئی شخص مرجاتا اور اُس پر قرض ہوتا تو آپ یا تو خود اُس کا قرض ادا کر دیتے ۴۸۵ اور اگر آپ میں اس کی توفیق نہ ہوتی تو اس کے رشتہ داروں میں تحریک کرتے اور اس کا جنازہ اُس وقت تک نہیں پڑھتے تھے جب تک اُس کا قرض ادا نہ کر دیا جاتا.مایوں سے حسن سلوک ہمسایوں کے ساتھ آپ کا سلوک نہایت ہی اچھا ہوتا تھا آپ فرمایا کرتے تھے جبریل مجھے بار بار ہمسایوں کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیتا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال آتا ہے کہ ہمسائے کو شاید وارث ہی قرار دیا جائے گا.۴۸۶ حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اے ابوذر! جب کبھی شور با پکاؤ تو پانی زیادہ ڈال لیا کرو اور اپنے ہمسایوں کا بھی خیال رکھا کرو.۴۸۷ یہ مطلب نہیں کہ دوسری چیزیں دینے کی ضرورت نہیں ، بلکہ عرب بدوی تھے اور اُن کا بہترین کھانا شور با ہوتا تھا آپ نے ہمسایہ کی امداد کے خیال سے اسی کھانے کی نسبت فرمایا کہ اپنے مزے کا خیال نہ کرو اس کا خیال کرو کہ تمہارا ہمسایہ تمہارے کھانے میں شریک ہو سکے.

Page 421

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۰۹ دیباچهتفسیر القرآن حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا.خدا کی قسم ! وہ ہر گز مؤمن نہیں ، خدا کی قسم ! وہ ہر گز مؤمن نہیں ، خدا کی قسم ! وہ ہرگز مومن نہیں ، صحابہ نے کہا يَا رَسُولَ الله! کون مؤمن نہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ جس کے ہمسایہ اُس کے ضرر اور اُس کی بدسلوکی سے محفوظ نہیں.۴۸۸ عورتوں کو بھی آپ نصیحت فرمایا کرتے کہ اپنی ہمسایوں کا خیال رکھا کرو.ایک دفعہ آپ عورتوں میں وعظ میں فرما رہے تھے کہ آپ نے فرمایا اگر بکری کا ایک پایہ بھی کسی کو ملے تو اس میں وہ اپنے ہمسایہ کا حق رکھے.۴۸۹ آپ ہمیشہ صحابہ کو نصیحت کرتے تھے کہ اگر تمہارا ہمسایہ تمہاری دیوار میں میخ وغیرہ گاڑتا ہے یا تمہاری دیوار سے کوئی ایسا کام لیتا ہے جس میں تمہارا کوئی نقصان نہیں تو اُسے روکا نہ کرو.۴۹۰ حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے، جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو دُکھ نہ دے.جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے مہمان کو دکھ نہ دے اور جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لاتا ہے وہ یا تو نیک بات کہے یا خاموش رہے.۴۹۱ ماں باپ اور دوسرے دنیا میں اکثر لوگ جب بالغ ہو جاتے ہیں اور بیوی بچوں کے فکر انہیں لگ جاتے ہیں تو ماں باپ سے حسن سلوک رشتہ داروں سے حسنِ سلوک میں کمزوری دکھانے لگ جاتے ہیں.رسول کریم ﷺ اس نقص کو دور کرنے کیلئے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کی اہمیت کو بار بار واضح فرماتے رہتے کی تھے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کی اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله ! میرے حسن سلوک کا کون زیادہ مستحق ہے؟ آپ نے فرمایا.تیری کی ماں.اس نے کہا پھر ؟ آپ نے فرمایا.پھر بھی تیری ماں.اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله! اِس کے بعد ؟ آپ نے فرمایا.اس کے بعد بھی تیری ماں.اُس نے چوتھی دفعہ کہا يَا رَسُولَ الله! اس کے بعد؟ تو آپ نے فرمایا.پھر تیرا باپ.پھر جو اس کے بعد رشتہ دار ہوں پھر جوان کے بعد رشتہ دار ہوں؟ ۴۹۲

Page 422

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۰ دیباچہ تفسیر القرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بزرگ تو آپ کے بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے، بیویوں کے کے بزرگ موجود تھے اور آپ ہمیشہ اُن کا ادب کرتے تھے.جب فتح مکہ کے موقع پر آپ ایک فاتح جرنیل کے طور پر مکہ میں داخل ہوئے تو حضرت ابو بکڑا اپنے باپ کو آپ کی ملاقات کے لئے لائے.اُس وقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر سے کہا.آپ نے ان کو کیوں کی تکلیف دی میں خود ان کے پاس حاضر ہوتا.۴۹۳ آپ ہمیشہ اپنے صحابہ سے فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اپنے بوڑھے ماں باپ کا زمانہ پائے اور پھر بھی جنت کا مستحق نہ ہو سکے ، تو وہ بڑا ہی بد بخت ہے.۴۹۴ مطلب یہ کہ بوڑھے ماں باپ کی خدمت انسان کو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اتنا وارث بنا دیتی ہے کہ جس کو اپنے بوڑھے ماں باپ کی خدمت کا موقع مل جائے وہ ضرور نیکی میں مستحکم اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مستحق ہو جاتا ہے.ایک شخص نے ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ یا رَسُولَ الله! میرے رشتہ دار ایسے ہیں کہ میں اُن سے نیک سلوک کرتا ہوں اور وہ مجھ سے بدسلوکی کرتے ہیں.میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ مجھ پر ظلم کرتے ہیں.میں اُن کے ساتھ محبت سے پیش آتا ہوں اور وہ مجھ سے ترش روئی سے پیش آتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہ بات ہے تو پھر تو تمہاری خوش قسمتی ہے کیونکہ خدا کی مدد تمہیں ہمیشہ حاصل رہے گی.۴۹۵ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کی نصیحت فرمارہے تھے تو آپ کے ایک صحابی ابوطلحہ انصاری آئے اور اُنہوں نے اپنا ایک باغ صدقہ کے طور پر وقف کر دیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بہت خوش ہوئے اور فرمایا بہت عمدہ صدقہ ہے بہت اچھا صدقہ ہے.بہت اچھا صدقہ ہے.پھر فرمایا.لواب تو تم اسے وقف کر چکے.اب میرا دل چاہتا ہے ہے کہ تم اس کو اپنے رشتہ داروں میں بانٹ دو.۴۹۶ ایک دفعہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور اُس نے کہا.يَا رَسُولَ الله! میں آپ سے ہجرت کی بیعت کرتا ہوں اور آپ سے خدا کے رستہ میں جہاد کرنے کی بیعت کرتا ہوں.کیونکہ میں چاہتا ہوں میرا خدا مجھ سے خوش ہو جائے.آپ نے فرمایا کیا تمہارے والدین میں سے

Page 423

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۱ دیباچهتفسیر القرآن کوئی زندہ ہے؟ اُس نے کہا دونوں زندہ ہیں.آپ نے فرمایا کیا تم چاہتے ہو کہ خدا تم سے راضی ہو جائے.اس نے کہا ہاں يَا رَسُولَ الله! آپ نے فرمایا پھر بہتر یہ ہے کہ واپس جاؤ اور اپنے والدین کی خدمت کرو اور خوب خدمت کرو.۴۹۷ آپ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کیا کرتے تھے کہ حسن سلوک میں مذہب کی کوئی شرط نہیں.غریب رشته دار خواہ کسی مذہب کے ہوں اُن سے حسن سلوک کرنا نیکی ہے.حضرت ابوبکر کی ایک بیوی مشرکہ تھیں.حضرت ابو بکر کی بیٹی اسمائہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ك يَا رَسُولَ اللہ ! کیا میں اُس سے حسن سلوک کر سکتی ہوں؟ آپ نے فرما یا ضر و ر وہ تیری ماں ہے تو اُس سے حسن سلوک کر.۴۹۸ رشتہ دار تو الگ رہے آپ اپنے رشتہ داروں کے رشتہ داروں اور اُن کے دوستوں تک کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.جب کبھی آپ قربانی کرتے تو آپ حضرت خدیجہ کی سہیلیوں کی طرف ضرور گوشت بھجواتے اور ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ خدیجہ کی سہیلیوں کو نہ بھولنا اُن کی طرف گوشت ضرور بھجوا نا.۴۹۹ ایک دفعہ حضرت خدیجہ کی وفات کے کئی سال بعد آپ مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ حضرت خدیجہ کی بہن ہالہ آپ سے ملنے آئیں اور دروازہ پر کھڑے ہو کر کہا ” کیا میں اندر آ سکتی ہوں؟ ہالہ کی آواز میں اُس وقت اپنی مرحومہ بہن حضرت خدیجہ سے بے انتہاء مشابہت پیدا ہو گئی.اس آواز کے کان میں پڑتے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم پر کپکپی آگئی پھر آپ سنبھل گئے اور فرمایا آہ میرے خدا! یہ تو خدیجہ کی بہن ہالہ ہیں ۵۰۰ در حقیقت سچی محبت کا اصول ہی یہی ہے کہ جس سے پیار ہو اور جس کا ادب ہو اُس کے قریبیوں اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والوں سے بھی محبت اور پیار پیدا ہو جاتا ہے.انس بن مالک کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ سفر پر تھا جریر بن عبد اللہ ایک دوسرے صحابی بھی اس سفر میں ساتھ تھے وہ سفر میں نوکروں کی طرح میرے کام کیا کرتے تھے.جریر بڑے تھے اور اُن کا ادب حضرت انس اپنے لئے ضروری سمجھتے تھے اس لئے وہ کہتے ہیں کہ میں اُنہیں منع کرتا تھ تھا کہ ایسا نہ کریں.میرے ایسا کہنے پر جریر جواب میں کہتے تھے میں نے انصار کو رسول اللہ

Page 424

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۲ دیباچہ تفسیر القرآن صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہاء خدمت کرتے ہوئے دیکھا ہے.میں نے اُن کی رسول کریم کی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ یہ محبت دیکھ کر اپنے دل سے عہد کیا تھا کہ جب کبھی مجھے کسی انصاری کے ساتھ سفر کرنے کا موقع ملے گا یا اس کے ساتھ رہنے کا موقع ملے گا تو میں اُس کی خدمت کروں گا اس لئے آپ مجھے نہ روکیں میں اپنی قسم پوری کر رہا ہوں.۵۰۱ے اس واقعہ سے بالوضاحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اپنے محبوب کی خدمت کرنے والا بھی انسان کا محبوب ہو جاتا ہے پس جن لوگوں کے دلوں میں اپنے ماں باپ کا سچا ادب اور احترام ہوتا ہے وہ اپنے ماں باپ کے علاوہ اُن کے رشتہ داروں اور دوستوں کا بھی ادب کرتے ہیں.ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں اقارب کی خدمت کا ذکر تھا تو آپ نے فرمایا بہترین نیکی یہ ہے کہ انسان اپنے باپ کی دوستیوں کا بھی خیال رکھے.یہ بات آپ نے حضرت عبد اللہ بن عمر سے کہی تھی اور اس پر اُنہوں نے ایسا عمل کیا کہ ایک دفعہ وہ حج کے لئے جارہے تھے کہ رستہ میں ایک شخص اُن کو نظر آیا.آپ نے اپنی سواری کا گدھا اُس کو دے دیا اور ی اپنے سر کا خوبصورت عمامہ بھی اُس کو عطا کر دیا.اُن کے ساتھیوں نے انہیں کہا کہ آپ نے یہ کیا کی کام کیا ہے؟ یہ تو اعرابی لوگ ہیں بہت تھوڑی سی چیز ان کو دے دی جائے تو خوش ہو جاتے ہیں.عبد اللہ بن عمرؓ نے کہا.اس شخص کا باپ حضرت عمرؓ کا دوست تھا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے نیکی کا اعلیٰ درجے کا مظاہرہ یہ ہے کہ انسان اپنے باپ کے دوستوں کا بھی خیال رکھے.۵۰۲ آپ ہمیشہ اپنے اردگرد نیک لوگوں کے رہنے کو پسند کرتے تھے اور اگر کسی میں کمزوری ہوتی تھی تو اُسے عمدگی کے ساتھ اور پردہ پوشی کے ساتھ نصیحت فرماتے تھے.حضرت ابو موسیٰ اشعری کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرما یا کرتے تھے ، جی نیک دوست اور نیک مجلسی اور بد دوست اور بدمجلسی کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک شخص مشک لئے پھر رہا ہو ، مشک اُٹھانے والا اُس کو کھائے گا تب بھی فائدہ اُٹھائے گا اور رکھ چھوڑے گا تب بھی خوشبو حاصل کرے گا.اور جس کے ہم مجلس بد ہوں اُن کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی بھٹی کی آگ میں پھونکیں مارتا ہے.وہ اتنی ہی اُمید رکھ سکتا ہے کہ کوئی چنگاری اُڑ کر اُس کے کپڑوں کو چھ نیک صحبت

Page 425

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۳ جلا دے یا کوئلوں کی بد بو سے اُس کا دماغ خراب ہو جائے.۵۰۳ چه تفسیر القرآن آپ اپنے صحابہ کو بار بار فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے اخلاق ویسے ہی ہو جاتے ہیں جیسی مجلس میں وہ بیٹھتا ہے اس لئے نیک صحبت اختیار کیا کرو.لوگوں کے ایمان کی حفاظت کا خیال رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کا بہت خیال رکھتے تھے کہ کسی شخص کو ٹھوکر نہ لگے.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے کہ آپ کی ایک بیوی صفیہ بنت حیی آپ سے ملنے آئیں.باتیں کرتے کرتے دیر ہو گئی تو آپ نے مناسب سمجھا کہ اُن کو گھر تک پہنچا آئیں.جب آپ اُن کو گھر چھوڑنے کے لئے جارہے تھے تو راستہ میں دو شخص ملے ، جن کے متعلق آپ کو شبہ تھا کہ شاید اُن کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی عورت کے ساتھ رات کے وقت کہاں جا رہے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو ٹھہرالیا اور فرمایا.دیکھو! یہ میری بیوی صفیہ ہیں.اُنہوں نے کہا يَارَسُولَ اللہ ! ہمیں آپ پر بدظنی کا خیال پیدا ہی کس طرح ہو سکتا ہے.آپ نے فرمایا.شیطان انسان کے خون میں پھرتا ہے میں ڈرا کہ تمہارے ایمان کو ضعف نہ پہنچ جائے.۵۰۴ دوسروں کے عیوب چھیانا آپ کی نظر میں اگر کسی کا عیب آجا تا تو آپ اُسے چھپاتے تھے اور اگر کوئی اپنا عیب ظاہر کرتا تھا تو اُس کو بھی عیب ظاہر کرنے سے منع فرماتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ جو بندہ کسی دوسرے بندے کا گناہ دنیا میں چھپاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے گناہ قیامت کے دن چھپائے گا.۵۰۵ آپ یہ بھی فرماتے تھے کہ میری اُمت میں سے ہر شخص کا گناہ مٹ سکتا ہے ( یعنی تو بہ کو سے) مگر جو اپنے گناہوں کا آپ اظہار کرتے پھریں اُن کا کوئی علاج نہیں.پھر فرماتے کہ آپ اظہار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص رات کے وقت گناہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پر پردہ ڈال دیتا ہے مگر صبح کے وقت وہ اپنے دوستوں سے ملتا ہے تو کہتا ہے کہ اے فلانے ! میں نے رات کو یہ کا م کیا تھا، اے فلانے ! میں نے رات کو یہ کام کیا تھا.رات کو خدا اُس کے گناہ پر پردہ ڈال رہا تھا صبح یہ اپنے گناہ کو آپ ننگا کرتا ہے.۵۰۶

Page 426

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۴ دیباچہ فیسیر القرآن بعض لوگ نادانی سے یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کا اظہار تو بہ پیدا کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ گناہ کا اظہار تو بہ پیدا نہیں کرتا، گناہ کا اظہار بے حیائی پیدا کرتا ہے.گناہ بہر حال بُرا ہے مگر جولوگ گناہ کرتے ہیں اور اُن کے دل میں شرم اور ندامت محسوس ہوتی ہے اُن کے لئے تو بہ کا راستہ کھلا رہتا ہے اور تقویٰ اُن کے پیچھے پیچھے چلا آرہا ہوتا ہے.کوئی نہ کوئی نیک موقع ایسا آجاتا ہے کہ تقویٰ غالب آ جاتا ہے اور گناہ بھاگ جاتا ہے.مگر جو لوگ اپنے گناہوں کو پھیلاتے اور ان پر فخر کرتے ہیں ان کے دل سے احساس گناہ بھی مٹ جاتا ہے اور جب احساس گناہ بھی مٹ جائے تو پھر تو بہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا اور اُس نے کہا.يَارَسُوْلَ اللہ! میں نے زنا کیا ہے.زنا اسلام میں تعزیری جرائم میں سے ہے یعنی اسلامی شریعت جہاں جاری ہو وہاں ایسے شخص کو جس کا زنا اسلامی اصول کے مطابق ثابت ہو جائے جسمانی سزا دی جاتی ہے.جب اُس نے کہا.يَا رَسُولَ اللہ! میں نے زنا کیا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کی طرف سے منہ پھیر لیا اور دوسری طرف باتوں میں مشغول ہو گئے.در حقیقت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اُس کو یہ بتا رہے تھے کہ جس گناہ پر خدا نے پردہ ڈال دیا کی ہے اس کا علاج تو بہ ہے اس کا علاج اعلان نہیں.مگر وہ اس بات کو نہ سمجھا اور یہ خیال کیا کہ شاید رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بات کو سنا نہیں اور جس طرف آپ کا منہ تھا اُدھر کھڑا ہو گیا اور پھر اُس نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! میں نے زنا کیا ہے.پھر آپ نے دوسری طرف منہ کر لیا.پھر بھی وہ نہ سمجھا اور دوسری طرف آکر اُس نے پھر اپنی بات دُہرائی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اُس کی طرف توجہ نہ کی اور دوسری طرف منہ پھیر لیا.پھر وہ شخص اُس طرف آکھڑا ہوا جس طرف آپ کا منہ تھا اور پھر اُس نے چوتھی دفعہ وہی بات کہی.تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو چاہتا تھا کہ یہ اپنے گناہ کی آپ تشہیر نہ کرے جب تک خدا اس کی گرفت کا فیصلہ نہیں کرتا مگر اس نے چار دفعہ اپنے نفس پر خود ہی گواہی دی ہے اس لئے اب میں مجبور ہوں ۵۰۷ پھر فرما یا اس شخص نے اپنے آپ پر الزام لگایا ہے.اُس عورت نے الزام نہیں لگایا جس کے متعلق یہ زنا کا دعویٰ کرتا ہے اُس عورت سے پوچھو.اگر وہ انکار کرے تو اُسے کچھ مت کہو اور

Page 427

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۵ دیباچهتفسیر القرآن تھا.صرف اس کو اس کے اپنے اقرار کے مطابق سزا دو.لیکن اگر وہ عورت بھی اقرار کرے تو پھر اُسے بھی سزا دو.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق تھا کہ جن امور کے متعلق قرآنی تعلیم نازل نہ ہو چکی ہوتی تھی اُن میں آپ تو رات کی تعلیم پر عمل کر لیتے تھے.تورات کے حکم کے مطابق زانی کے لئے سنگساری کا حکم ہے.چنانچہ آپ نے بھی اُس شخص کے سنگسار کئے جانے کا حکم دیا.جب لوگ اُس پر پتھر پھینکنے لگے تو اُس نے بھاگنا چاہا، لیکن لوگوں نے دوڑ کر اُس کا تعاقب کیا اور تورات کی تعلیم کے مطابق اُسے قتل کر دیا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ نے اس کو نا پسند فرمایا.آپ نے فرمایا اُس کو سزا اُس کے اقرار کے مطابق دی گئی.جب وہ بھاگا تھا تو اُس نے اپنا اقرار واپس لے لیا تھا اس لئے تمہارا کوئی حق نہ تھا کہ اُس کے بعد اُس کو سنگسار کرتے اُس کو چھوڑ دینا چاہیے تھا.۵۰۸ آپ ہمیشہ حکم دیتے تھے کہ شریعت کا نفاذ ظاہر پر ہونا چاہئے.ایک دفعہ ایک جنگ پر کچھ صحابہ گئے ہوئے تھے راستہ میں ایک مشرک اُنہیں ایسا ملا جو ادھر اُدھر جنگل میں چھپا پھرتا تھا اور جب کبھی اُسے کوئی اکیلا مسلمان مل جاتا تو اُس پر حملہ کر کے وہ اُسے مار ڈالتا.اُسامہ بن زید نے اس کا تعاقب کیا اور ایک موقع پر جا کر اُسے پکڑ لیا اور اسے مارنے کے لئے تلوار اُٹھائی.جب اُس نے دیکھا کہ اب میں قابو آ گیا ہوں تو اُس نے کہا لا اله الا الله جس سے اُس کا مطلب یہ تھا کہ میں مسلمان ہوتا ہوں مگر اُسامہ نے اُس کے اِس قول کی پرواہ نہ کی اور اُسے مار ڈالا.جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لڑائی کی خبر دینے کے لئے ایک شخص مدینہ پہنچا تو اُس نے لڑائی کے سب احوال بیان کرتے کرتے یہ واقعہ بھی بیان کیا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسامہ کو بلوایا اور اُن سے پوچھا کہ کیا تم نے اُس آدمی کو مار دیا تھا؟ انہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا قیامت کے دن کیا کرو گے جب لا إِلهَ إِلَّا الله تمہارے خلاف گواہی کی دے گا.یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ سوال کیا جائے گا کہ جب اُس شخص نے لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہا تھا تو پھر تم نے کیوں مارا؟ گو وہ قاتل تھا مگر تو بہ کر چکا تھا.حضرت اسامہ نے کئی دفعہ جواب میں کہا کہ يَا رَسُولَ الله! وہ تو ڈر کے مارے ایمان ظاہر کر رہا تھا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو نے اُس کا دل چیر کر دیکھ لیا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہا ہے؟ اور پھر بار بار یہی

Page 428

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۶ تفسیر القرآن کہتے چلے گئے کہ تم قیامت کے دن کیا جواب دو گے جب اُس کا لا إِله إِلَّا الله تمہارے سامنے پیش کیا جائے گا.اُسامہ کہتے ہیں اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ کاش! میں آج ہی اسلام لایا ہوتا اور یہ حرکت مجھ سے سرزد نہ ہوئی ہوتی.۵۰۹ گناہوں کی معافی کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنا احساس تھا کہ جب کچھ لوگوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ پر اتہام لگایا اور ان اتہام لگانے والوں میں ایک ایسا شخص بھی تھا جس کو حضرت ابو بکر پال رہے تھے.جب یہ الزام جھوٹا ثابت ہوا تو حضرت ابو بکر نے غصہ میں اُس شخص کی پرورش بند کر دی جس شخص نے آپ کی بیٹی پر الزام لگایا تھا تو دنیا کا کونسا شخص اس کے سوا کوئی اور فیصلہ کر سکتا تھا بہت سے لوگ تو ایسے آدمی کو قتل کر دیتے ہیں مگر حضرت ابو بکر نے صرف اتنا کیا کہ اُس شخص کی آئندہ پرورش بند کر دی.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے حضرت ابو بکر کو سمجھایا اور فرمایا کہ اس شخص سے غلطی ہوئی اور اس نے گناہ کیا مگر آپ کی شان اس سے بالا ہے کہ ایک بندے کے گناہ کی وجہ سے اُس کو اس کے رزق سے محروم کر دیں.چنانچہ حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے ماتحت پھر اُس کی پرورش کرنے لگے.۵۱۰ صبر آپ فرمایا کرتے تھے کہ مؤمن کے لئے تو دنیا میں بھلائی ہی بھلائی ہے اور سوائے مؤمن کے یہ مقام اور کسی کو حاصل نہیں ہوتا.اگر اُسے کوئی کامیابی حاصل ہوتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے اور اگر اُسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور اس طرح بھی خدا تعالیٰ کے انعام کا مستحق ہو جاتا ہے.۵۱۱ جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا اور آپ بیماری کی تکلیف کی وجہ سے آپ کراہ رہے ہی تھے تو آپ کی بیٹی فاطمہ نے ایک دفعہ بیتاب ہو کر کہا.آہ! مجھ سے اپنے باپ کی تکلیف دیکھی نہیں جاتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا صبر کرو آج کے بعد تمہارے باپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچے گی.۵۱۲ یعنی میری تکالیف اس دنیا کی زندگی تک محدود ہیں.آج میں اپنے رب کے پاس چلا جاؤں گا جس کے بعد میرے لئے تکلیف کی کوئی گھڑی نہیں آئے گی.اسی سلسلہ میں یہ واقعہ بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ آپ ہمیشہ وبائی بیماریوں میں ایک شہر سے

Page 429

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۷ دیباچہ تفسیر القرآن دوسرے شہر کو بھاگ جانا نا پسند فرماتے تھے کیونکہ اس طرح ایک علاقہ کی بیماری دوسرے علاقہ میں پھیل جاتی ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر ایسی بیماری کے علاقہ میں کوئی شخص صبر س صبر سے بیٹھا ر ہے اور دوسرے علاقوں میں وبا پھیلانے کا موجب نہ بنے تو اگر اُسے موت آئے گی تو وہ شہید ہوگا.۵۱۳ تعاون با همی آپ ہمیشہ اپنے صحابہ کو اس بات کی نصیحت فرماتے تھے کہ آپس میں تعاون کے ساتھ کام کیا کرو.چنانچہ اپنی جماعت کے لوگوں کے لئے آپ نے یہ اُصول مقرر کر دیا تھا کہ اگر کسی شخص سے کوئی ایسا جرم سرزد ہو جائے جس کے بدلہ میں اُسے کوئی رقم ادا کرنی پڑے اور وہ اُس کی طاقت سے باہر ہو تو اُس کے محلہ والے یا شہر والے یا قوم والے مل کر اُس کا بدلہ ادا کریں.بعض لوگ جو دین کی خدمت کے لئے آپ کے پاس آیا جاتا کرتے تھے ، آپ اُن کے رشتہ داروں کو نصیحت کرتے تھے کہ اُن کا بوجھ برداشت کریں اور اُن کی ضروریات کا خیال کی رکھیں.حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو بھائی کی مسلمان ہوئے ایک بھائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہنے لگا اور دوسرا اپنے کی کام کاج میں مشغول رہا.کام کرنے والے بھائی نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنے بھائی کی شکایت کی کہ یہ نکما بیٹھا رہتا ہے اور کوئی کام نہیں کرتا.آپ نے فرمایا کی ایسا مت کہو.خدا تعالیٰ اسی کے ذریعہ سے تمہیں رزق دیتا ہے اس لئے اس کی خدمت کرو اور اس کو دین کے لئے آزاد چھوڑ دو.۵۱۴ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر جارہے تھے کہ رستہ میں ایک منزل پر پہنچ کر ڈیرے لگائے گئے اور صحابہ میدان میں پھیل گئے تا کہ خیمے لگائیں اور دوسرے کام جو کیمپ لگانے کے لئے ضروری ہوتے ہیں بجالائیں.اُنہوں نے سب کام آپس میں تقسیم کر لئے اور کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ کوئی کام نہ لگایا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے میرے ذمہ کوئی کام نہیں لگایا میں لکڑیاں چنوں گا تا کہ اُن سے کھانا پکایا جا سکے.صحابہ نے کہا ، يَا رَسُولَ اللہ ! ہم جو کام کرنے والے موجود ہیں آپ کو کیا ضرورت ہے.آپ نے فرمایا نہیں ! نہیں ! میرا بھی فرض ہے کہ کام میں حصہ لوں.چنانچہ آپ نے جنگل سے لکڑیاں جمع

Page 430

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۸ دیباچہ تفسیر القرآن کیں تا کہ صحابہ اُن سے کھانا پکا سکیں.۵۱۵ آپ ہمیشہ اس بات کی نصیحت کرتے رہتے تھے کہ خواہ مخواہ دوسروں کے کاموں پر اعتراض نہ کیا کرو اور ایسے معاملات میں دخل نہ دیا کرو جو تمہارے ساتھ تعلق نہیں رکھتے کیونکہ اس طرح فتنہ پیدا ہوتا ہے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ انسان کے اسلام کا بہترین نمونہ یہ ہے کہ جس معاملہ کا اُس سے براہ راست کوئی تعلق نہ ہو اس میں خواہ مخواہ دخل اندازی نہ کیا کرے.آپ کا یہ خلق ایسا ہے کہ جس کی نگہداشت کر کے دنیا میں امن قائم کیا جاسکتا ہے.ہزاروں ہزار خرابیاں دنیا میں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ لوگ مصیبت زدہ کی مدد کر نے کیلئے تو تیار نہیں ہوتے مگر خواہ مخواہ لوگوں کے معاملات پر اعتراض کرنے کیلئے تیار ہو جاتے ہیں.سچ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی مقام تو سچ کے متعلق اتنا بالا تھا کہ آپ کی قوم نے آپ کا نام ہی صدیق رکھ دیا تھا.۵۱۶ آپ اپنی جماعت کو بھی سچ پر قائم رہنے کی ہمیشہ نصیحت فرماتے تھے اور ایسے اعلیٰ درجہ کے بیچ کے مقام پر کھڑا کرنے کی کوشش فرماتے تھے جو ہر قسم کے جھوٹ کے شائبوں سے پاک ہو.آپ فرمایا کرتے تھے کہ سچ ہی نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہے اور نیکی ہی انسان کو جنت دلاتی ہے اور سچ کا اصل مقام یہ ہے کہ انسان سچ بولتا چلا جائے یہاں تک کہ خدا کے حضور بھی وہ سچا سمجھا جائے.۵۱۷ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص قید ہو کر آیا جو بہت سے مسلمانوں کے قتل کا موجب ہو چکا تھا.حضرت عمر سمجھتے تھے کہ یہ شخص واجب القتل اور وہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ کی طرف دیکھتے تھے کہ اگر آپ اشارہ کریں تو اُسے قتل کر دیں.جب وہ شخص اُٹھ کر چلا گیا تو حضرت عمرؓ نے کہا.يَا رَسُولَ الله! شخص تو واجب القتل تھا.آپ نے فرمایا.واجب القتل تھا تو تم نے اُسے قتل کیوں نہ کیا.انہوں نے کہا يَا رَسُولَ اللہ ! آپ اگر آنکھ سے اشارہ کر دیتے تو میں ایسا کر دیتا.آپ نے فرمایا نبی دھو کے باز نہیں ہوتا.یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ میں منہ سے تو اُس سے پیار کی باتیں کر رہا ہوتا اور آنکھ سے اُسے قتل کرنے کا اشارہ کرتا.۵۱۸ ایک دفعہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا يَا رَسُولَ الله! ہے

Page 431

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۱۹ دیا چه تفسیر القرآن مجھ میں تین عیب ہیں.جھوٹ ، شراب خوری اور زنا.میں نے بہت کوشش کی ہے کہ یہ عیب کسی طرح مجھ سے دور ہو جائیں مگر میں اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہو سکا.آپ کوئی علاج بتا ئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ایک گناہ چھوڑنے کا تم مجھ سے وعدہ کرو.دو میں چھڑا دوں گا.اُس نے کہا میں وعدہ کرتا ہوں فرمائیے کون سا گناہ چھوڑ دوں؟ آپ نے فرما یا جھوٹ کی چھوڑ دو.کچھ دنوں کے بعد وہ آیا اور اُس نے کہا آپ کی ہدایت پر میں نے عمل کیا اور میرے سارے ہی گناہ چھٹ گئے ہیں.آپ نے فرمایا بتاؤ کیا گزری ؟ اُس نے کہا میرے دل میں ایک دن شراب کا خیال آیا میں شراب پینے کے لیے اُٹھا تو مجھے خیال آیا کہ اگر میرے دوست مجھ سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے شراب پی ہے تو پہلے میں جھوٹ بول دیا کرتا تھا اور کہہ دیا کرتا تھا کہ نہیں پی.مگر اب میں نے سچ بولنے کا اقرار کیا ہے اگر میں نے کہا کہ شراب پی ہے تو میرے دوست مجھ سے چھٹ جائیں گے اور اگر کہوں گا کہ نہیں پی تو جھوٹ کا ارتکاب کروں گا جس سے بچنے کا میں نے اقرار کیا ہے.چنانچہ میں نے دل میں کہا کہ اس وقت نہیں پیتے پھر پیں گے.اسی طرح میرے دل میں زنا کا خیال پیدا ہوا اور اس کے متعلق بھی میری اپنے دل سے یہی باتیں ہوئیں کہ اگر میرے دوست مجھ سے پوچھیں گے تو میں کیا کہوں گا.اگر یہ کہوں گا کہ میں نے زنا کیا ہے تو میرے دوست مجھ سے چھٹ جائیں گے اور اگر یہ کہوں گا کہ نہیں کیا تو جھوٹ بولوں گا.اور جھوٹ سے بچنے کا میں اقرار کر چکا ہوں.اسی طرح میرے اور میرے دل کے درمیان کئی دن تک یہ بحث و مباحثہ جاری رہا.آخر کچھ مدت تک ان دونوں عیبوں سے بچنے کی وجہ سے میرے دل سے ان کی رغبت بھی مٹ گئی اور سچ کے قبول کرنے کی وجہ سے باقی عیبوں سے بھی محفوظ ہو گیا.سجس کی ممانعت اور نیک خلفی کا حکم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جس سے منع فرماتے تھے اور ایک دوسرے پر نیک ظنی کا یتے رہتے تھے.حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں آپ فرمایا کرتے تھے بدظنی سے بچو کیونکہ بدظنی سب سے بڑا جھوٹ ہے اور تجسس نہ کرو اور لوگوں کے حقارت سے اور نام نہ رکھا کرو اور حسد نہ کیا کرو اور آپس میں بغض نہ رکھا کرو اور سب کے سب اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے بندے سمجھو

Page 432

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۰ چه تفسیر القرآن اور اپنے آپ کو بھائی بھائی سمجھو جس طرح خدا تعالیٰ کا حکم ہے.۵۱۹ پھر فرماتے یاد رکھو کہ ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ مصیبت کے وقت اُس کا ساتھ چھوڑتا ہے نہ مال یا علم یا کسی اور چیز کی کمی کی وجہ سے اُس کو حقیر سمجھتا ہے.تقویٰ انسان کے دل سے پیدا ہوتا ہے اور انسان کو گندہ کر دینے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقیر سمجھے.اور ہر مسلمان پر اس کے دوسرے مسلمان بھائی کے خون اور اس کی عزت اور اس کے مال پر حملہ کرنا حرام ہے اللہ تعالیٰ جسموں کو نہیں دیکھا کرتا نہ صورتوں کو دیکھتا ہے نہ تمہارے اعمال کی ظاہری حالت کو دیکھتا ہے بلکہ تمہارے دلوں کو دیکھتا ہے.۵۲۰ سودا سلف کے متعلق دھوکا بازی آپ اس بات کا خاص خیال رکھتے تھے کہ مسلمانوں میں دھوکا اور فریب کی کوئی بات نہ اور فریب سے نفرت پائی جائے.ایک دفعہ آپ بازار میں سے گذر رہے تھے کہ آپ نے غلہ کا ایک ڈھیر دیکھا جو نیلام ہورہا تھا.آپ نے اپنا ہا تھ غلہ کے ڈھیر میں ڈالا تو معلوم ہوا کہ باہر کی طرف سے تو غلہ سُوکھا ہوا ہے مگر اندر کی طرف سے گیلا ہے.آپ نے کی اپنا ہاتھ نکال کر غلہ والے سے کہا کہ یہ کیا بات ہے.اس نے کہا.يَا رَسُولَ الله ! بارش کا چھینٹا آ گیا تھا جس سے غلہ گیلا ہو گیا.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے مگر تم نے گیلا حصہ باہر کیوں نہ رکھا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جاتا.پھر فرمایا جو شخص دوسرے لوگوں کو دھوکا دیتا ہے وہ جماعت کا مفید وجود نہیں ہو سکتا.۵۲۱ آپ بڑی تاکید سے فرماتے تھے کہ تجارت میں بالکل دھوکا نہیں ہونا چاہئے اور بغیر دیکھے کے کوئی چیز نہیں لینی چاہئے اور سو دے پر سودا نہیں کرنا چاہئے اور سامان کو اس لئے روک نہیں رکھنا چاہئے کہ جب اس کی قیمت بڑھ جائے گی تو اس کو فروخت کریں گے.بلکہ حاجتمندوں کو ساتھ کے ساتھ چیزیں دیتے رہنا چاہئے.آپ مایوسی کی روح کے سخت خلاف تھے.فرماتے تھے جو شخص قوم میں مایوسی کی باتیں کرتا ہے وہ قوم کی ہلاکت کا ذمہ دار ہوتا ہے ۵۲۲ کیونکہ بعض ایسی باتوں کے پھیلنے سے قوم کی ہمت ٹوٹ جاتی ہے اور پستی کی طرف مائل ہونا شروع ہو جاتی ہے جس طرح فخر اور کی مایوسی

Page 433

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۱ دیباچہ تفسیر القرآن کبر سے آپ روکتے تھے کہ یہ چیزیں بھی در حقیقت قوم کو پستی کی طرف لے جاتی ہیں آپ کا حکم کی تھا کہ ان دونوں کے درمیان راستہ ہونا چاہئے.نہ انسان فخر اور کبر کا راستہ اختیار کرے اور نہ مایوسی اور نا امیدی کا راستہ اختیار کرے بلکہ کام کرے مگر نتیجہ کی امید خدا تعالیٰ پر ہی رکھے.اپنی جماعت کی ترقی کی خواہش اس کے دل میں ہو مگر فخر اور کبر پیدا نہ ہو.جانوروں سے حسن سلوک آپ جانوروں تک پر ظلم کوسخت نا پسند فرماتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے بنی اسرائیل میں ایک عورت کو اس لئے عذاب ملا کہ اس نے اپنی بلی کو بھوکا ماردیا تھا.اسی طرح فرماتے تھے پہلی امتوں میں سے ایک شخص اس لئے بخشا گیا کہ اُس نے ایک پیاسا کتا دیکھا پاس ایک گہرا گڑھا تھا جس میں سے کتا پانی نہیں پی سکتا تھا.اُس آدمی نے اپنا بوٹ پاؤں سے کھولا اور گڑھے میں اُس بوٹ کو لٹکا کر اس کے ذریعہ پانی نکالا اور کتے کو پلا دیا.اس نیکی کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے اُس کے تمام گزشتہ گناہ بخش دیئے.۵۲۳ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم آپ کے ساتھ سفر پر جارہے تھے کہ ہم نے ایک فاختہ کے دو بچے دیکھے بچے ابھی چھوٹے تھے ہم نے وہ بچے پکڑ لئے جب فاختہ واپس آئی تو وہ چاروں طرف گھبرا کر اڑنے لگی اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اُس مجلس میں تشریف لے آئے اور آپ نے فرمایا.اس جانور کو اس کے بچوں کی وجہ سے کس نے تکلیف دی ؟ فوراً اس کے بچوں کو چھوڑ دو تا کہ اس کی دلجوئی ہو جائے.۵۲۴ - اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے چیونٹیوں کا ایک غار دیکھا اور ہم نے پھونس ڈال کر اُسے جلا دیا.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے ایسا کی کیوں کیا ؟ ایسا کرنا مناسب نہیں.۵۲۵ ایک دفعہ آپ نے دیکھا کہ ایک گدھے کے منہ پر نشان لگایا جا رہا ہے.آپ نے فرمایا ایسا نشان کیوں لگا رہے ہو؟ لوگوں نے کہا کہ رومی لوگوں میں اعلیٰ گدھوں کی پہچان کے لئے نشان لگایا جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ایسا مت کیا کرو.منہ جسم کا نازک حصہ ہے.اگر نشان لگانا ہی پڑے تو جانور کی پیٹھ پر نشان لگا دیا کرو.چنانچہ اُسی وقت سے

Page 434

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۲ مسلمان جانور کی پیٹھ پر نشان لگاتے ہیں اور اب اُن کی دیکھا دیکھی یورپ والے بھی پیٹھ نشان لگاتے ہیں.مذہبی رواداری آپ مذہبی رواداری پر نہایت زور دیتے تھے اور خود بھی اعلیٰ درجہ کا نمونہ اس بارہ میں دکھاتے تھے.یمن کا ایک عیسائی قبیلہ آپ سے مذہبی تبادلہ خیال کرنے کے لئے آیا.جس میں اُن کے بڑے بڑے پادری بھی تھے.مسجد میں بیٹھ کر گفتگو شروع ہوئی اور گفتگو لمبی ہوگئی.اس پر اس قافلہ کے پادری نے کہا اب ہماری نماز کا وقت ہے ہم باہر جا کر اپنی نماز ادا کر آئیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا باہر جانے کی کیا تج ضرورت ہے ہماری مسجد میں ہی اپنی نماز ادا کر لیں.آخر ہماری مسجد خدا کے ذکر ہی کے لئے بنائی گئی ہے.۵۲۶ بہادری آپ کی بہادری کے کئی واقعات آپ کی سوانح میں بیان ہو چکے ہیں.ایک واقعہ اس جگہ بھی لکھ دیتا ہوں.جب مدینہ میں یہ خبریں مشہور ہونی شروع ہوئیں کہ روما کی حکومت ایک بڑا لشکر مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے بجھوا رہی ہے تو مسلمان خاص طور پر راتوں کو احتیاط کرتے اور جاگتے رہتے.ایک دفعہ باہر جنگل کی طرف سے شور کی آواز آئی.صحابہ جلدی جلدی اپنے گھروں سے نکلے کچھ اِدھر اُدھر دوڑنے لگے اور کچھ مسجد میں آکر جمع ہو گئے اور اس کی انتظار میں بیٹھ گئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلیں تو آپ کے حکم پر عمل کریں اور اگر خطرہ ہو تو اُس کو دور کریں.جب وہ لوگ اس انتظار میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر سے نکلیں تو اُنہوں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے گھوڑے پر سوار باہر سے تشریف لا رہے ہیں معلوم ہوا کہ شور کی پہلی آواز پر ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے پر سوار ہو کر جنگل میں اس بات کے دیکھنے کے لئے چلے گئے تھے کہ کوئی خطرہ کی بات تو نہیں.اور آپ نے اس بات کا انتظار نہ کیا کہ صحابہ جمع ہو جائیں تو ان کے ساتھ مل کر باہر جائیں بلکہ اکیلے ہی باہر گئے اور حقیقت حال سے آگاہ ہو کر واپس آئے اور صحابہ کو تسلی دی کہ خطرہ کی کوئی بات نہیں تم آرام سے اپنے گھروں میں جا کر سور ہو.۵۲۷

Page 435

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۳ دیباچہ تفسیر القرآن عقلوں کے ساتھ محبت کا سلوک کم عقلوں کے ساتھ آپ نہایت ہی محبت اور شفقت کا سلوک کرتے تھے.ایک دفعہ ایک اعرابی نیا نیا اسلام لایا اور آپ کی مسجد میں بیٹھے بیٹھے اُسے پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی وہ کی اُٹھ کر مسجد کے ایک کو نہ میں ہی پیشاب کرنے لگا.صحابہ اُس کو منع کرنے لگے تو آپ نے انہیں روک دیا اور فرمایا کہ اِس سے اُس کو ضرر پہنچ جائے گا تم ایسا نہ کرو جب یہ پیشاب کر چکے تو یہاں پانی ڈال کر اس جگہ کو دھو د بینا.۲۸ ۵ے.وفائے عہد کا آپ کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ ایک حکومت کا ایک ایچی وفائے عہد آپ کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا اور آپ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اسلام کی سچائی کا قائل ہو گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس نے عرض کیا کہ يَا رَسُولَ الله! میں تو دل سے مسلمان ہو چکا ہوں میں اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مناسب نہیں تم اپنی حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہدہ پر مقرر ہو کر آئے ہو اسی حالت میں واپس جاؤ اور وہاں جا کر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اسلام قبول کرو.۵۲۹ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا مضمون کوئی ایسا مضمون نہیں جس کو صرف چند صفحوں کی میں ختم کیا جا سکے یا جس کا صرف چند پہلوؤں سے اندازہ لگایا جائے مگر چونکہ نہ یہ سیرت کی ایک مستقل کتاب ہے اور نہ اس دیباچہ میں لمبی بات کی گنجائش ہوسکتی ہے اس لئے میں اتنے پر ہی اکتفاء کرتا ہوں.

Page 436

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۴ دیباچہ تفسیر القرآن جمع القرآن میں تمہید کے شروع میں بیان کر چکا ہوں کہ قرآن کریم سے پہلے کی کوئی الہامی کتاب اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں بلکہ پہلی تمام کتب میں اتنا تصرف ہو چکا ہے کہ یقین کے ساتھ اُن پر عمل کرنا ایک سچے طلب گار کے لئے ناممکن ہو گیا ہے.اس کے برخلاف قرآن کریم جوں کا توں لفظاً لفظاً اُسی طرح محفوظ ہے جس طرح رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کے ابتداء سے نازل ہونا شروع ہوا.پہلا الہام قرآن کریم کی چند آیات کا غار حرا میں ہوا اس کے بعد رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک قرآن کریم نازل ہوتا چلا گیا.گویا کل عرصہ نزول 23 سال ہے.تاریخوں سے ثابت ہے کہ شروع میں وحی تھوڑی تھوڑی کر کے نازل ہوتی تھی پھر نزول کی رفتار بڑھتی چلی گئی یہاں تک کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری عمر میں پے در پے اور کثرت سے وحی نازل ہوئی.اس کے علاوہ اور حکمتوں کے یہ حکمت بھی تھی کہ اسلام جو مسائل دنیا میں پیش کر رہا تھا وہ بالکل نئے تھے.ابتداء میں اُن کا سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل تھا اس لئے قرآن کریم ابتداء میں تھوڑا تھوڑا نازل ہوا.جب لوگوں کے ذہن میں اسلام کے اُصول رچ گئے اور قرآنی مضامین کا سمجھنا اُن کے لئے آسان ہو گیا تو پھر قرآن کریم کا نزول بھی تیز ہو گیا اور وحی جلدی جلدی نازل ہونے لگی اور یہ اس لئے کیا گیا تا سب کے سب مسلمان قرآن کریم کے مضامین کے پوری طرح حافظ ہو جائیں.دوسری وجہ اس کی یہ تھی کہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوی کیا اُس وقت آپ کے ماننے والے بہت تھوڑے تھے.چونکہ اللہ تعالیٰ کا منشاء یہ تھا کہ قرآن کریم محفوظ رہے اور اس کے متعلق کسی قسم کا شبہ پیدا نہ ہو اس لئے شروع میں قرآن کریم تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا.ایسی آہستگی کے ساتھ کہ بعض دفعہ چند آیات نازل ہونے کے بعد مہینے گزر جاتے تھے اور پھر جا کر چند اور نئی آیات نازل ہوتی تھیں.اسی طرح ان تھوڑے

Page 437

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۵ دیباچہ تفسیر القرآن سے آدمیوں کو پورے طور پر قرآن کریم یاد کرنے کا موقع مل جاتا تھا.چند سال میں مسلمانوں کی جماعت بڑھنی شروع ہوئی اور قرآن کریم کی حفاظت زیادہ آسان ہو گئی.تب قرآن کریم کا نزول بھی پہلے کی نسبت زیادہ تیزی سے ہونے لگا.آخری زمانہ اسلام میں تو مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی اُوپر نکل گئی.اُس وقت قرآن کریم کا یاد کرنا بہت زیادہ آسان ہو گیا.تب قرآن کریم اور بھی زیادہ جلدی سے اُترنے لگا.اس الہی تدبیر سے قرآن کریم کی حفاظت اور یقینی ہوگئی.یا د رکھنا چاہئے کہ قرآن کریم کے بدترین دشمنوں میں سے بھی کوئی ایسا نہیں جو حضرت کی عثمان کے زمانہ سے لے کر آج تک ساڑھے تیرہ سو سال کے متعلق شبہ رکھتا ہو کہ اس عرصہ میں قرآن کریم میں کوئی تبدیلی ہو گئی ہوگی.کیونکہ حضرت عثمان کے زمانہ میں قرآن کریم کی سات کا پیاں کر کے سات ملکوں میں بھیج دی گئی تھیں اور ہر ملک کے لوگ اُن کا پہیوں سے نقل کر کے اپنے لئے قرآن کریم کے نسخے تیار کرتے تھے اور لاکھوں آدمی قرآن کریم کو حفظ کرتے تھے.پس جو لوگ قرآن کریم کے محفوظ ہونے کے متعلق کسی قسم کا شبہ پیدا کرتے ہیں وہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے لے کر حضرت عثمان کے زمانہ تک کے متعلق اعتراض کرتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو حصہ قرآن کا نازل ہوتا تھا آپ اُس کو حفظ کر لیتے تھے اور ہمیشہ قرآن کریم کو دُہراتے رہتے تھے اس طرح آپ ساری وحی کے کامل حافظ تھے مگر اس کے علاوہ حفاظت قرآن کے مندرجہ ذیل ذرائع اختیار کئے گئے تھے..حفاظت قرآن کے ذرائع ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تھی وہ اُسی وقت لکھوا دی جاتی تھی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جن کا تبوں کو قرآن کریم لکھواتے تھے اُن میں سے مندرجہ ذیل پندرہ نام تاریخی سے ثابت ہیں :.زید بن ثابت.ابی بن کعب - عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح.زبیر بن العوام.خالد بن سعید بن العاص.ابان بن سعید العاص - حنظلہ بن الربیع الاسدی.معیقیب بن ابی فاطمہ.عبداللہ بن ارقم الزہری.شرجیل بن حسنہ.عبداللہ بن رواحہ.حضرت ابوبکر.حضرت عمرؓ.

Page 438

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن حضرت عثمان.حضرت علی.۵۳۰ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن شریف نازل ہوتا تو آپ ان لوگوں میں سے کسی کو بلا کر وحی لکھوا دیتے تھے.(۲) کوئی مسلمان مسلمان نہیں ہو سکتا جب تک وہ پانچ وقت نماز ادا نہ کرے.پانچ وقت کی نمازوں میں یہ فرض ہے کہ قرآن شریف کا کچھ حصہ پڑھا جائے اس لئے ہر مسلمان کو قرآن شریف کے کچھ ٹکڑے یاد کرنے پڑتے ہیں اگر صحابہ میں سے سو سو کو مل کر بھی ایک قرآن یاد ہو تا تب بھی سارے قرآن کے کئی ہزا ر حفاظ اُن میں موجود تھے.(۳) اسلام کا سارا قانون قرآن میں ہے اس کی فقہ بھی قرآن میں ہے ، اس کا علم الاخلاق بھی قرآن میں ہے، اس کا علم العقائد بھی قرآن میں ہے اور اس کا فلسفہ تعلیم بھی قرآن میں ہے.قوم کی ترقی اور قوم بنانے کے لئے ان سب چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان سارے امور کے لئے آدمی تیار کرتے تھے.چنانچہ آپ کے زمانہ میں ہی قاضی بھی مقرر تھے ، علم الا حکام کے بیان کرنے والے لوگ بھی موجود تھے، مسائل اعتقادیہ کے بیان کرنے والے لوگ بھی موجود تھے، مفتیانِ شریعت بھی موجود تھے اور یہ لوگ اپنا کام نہیں کر سکتے تھے جب تک اِن کو قرآن حفظ نہ ہو اس لئے ایسے سب لوگوں کو قرآن کریم حفظ کرنا پڑتا تھا.(۴) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفظ قرآن کی فضیلت پر بڑا زور دیتے تھے، یہاں تک کہ آپ فرماتے تھے جو شخص قرآن کریم کو حفظ کرلے گا قیامت کے دن قرآن اُس کو دوزخ میں جانے سے بچائے گا ۵۳۱ اور اس میں تو کوئی بھی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ صحابی دیئے تھے جو ہر ثواب کے لئے جان تو ڈکوشش کرتے تھے اس لئے جب آپ نے یہ اعلان فرمایا تو کثرت کے ساتھ صحابہ نے قرآن شریف کو یاد کرنا شروع کیا حتی کہ ایسے ایسے لوگ بھی قرآن شریف کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے جن کی زبانیں صاف نہیں تھیں اور جن کے علم بہت کمزور تھے.چنانچہ امام احمد ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اُس نے کہانِی أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَلَا أَجِدُ قَلْبِي يَعْقِلُ عَلَيْهِ - يَا رَسُولَ الله ! میں قرآن تو پڑھتا ہوں مگر میرا دل اس کو سمجھتا نہیں.اس

Page 439

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۷ دیباچہ تفسیر القرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف علمی طبقہ ہی قرآن شریف کو یاد کرنے کی کوششیں نہیں کرتا تھا بلکہ عوام الناس بھی قرآن کو حفظ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.اسی طرح مسند احمد بن حنبل میں ایک اور حدیث انہی راویوں کی روایت سے درج ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے بیٹے کو لے کر آیا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله! میرا بیٹا دن کو قرآن پڑھتا رہتا ہے اور رات کو سو جاتا ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کی پھر تمہارے لئے ناراضگی کی کونسی وجہ ہے تیرا بیٹا دن کو خدا کا ذکر کرتا ہے اور رات کو بجائے گناہوں میں مشغول ہونے کے آرام سے سورہتا ہے.ان احادیث سے پتہ لگتا ہے کہ حفظ قرآن کا دستور اتنا عام ہو چکا تھا کہ عامی اور دور دور کے علاقوں کے لوگ بھی قرآن شریف کو حفظ کرتے تھے.(۵) چونکہ لوگوں میں حفظ قرآن کریم کا اشتیاق بہت تیز ہو گیا تھا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن پڑھانے والے اُستادوں کی ایک جماعت مقرر فرمائی تھی جو سارا قرآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو پڑھاتے تھے.یہ چار چوٹی کے اُستاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن شریف پڑھیں اور لوگوں کو قرآن پڑھائیں.پھر اُن کے ماتحت اور بہت سے صحابہؓ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے ان چار بڑے اُستادوں کے نام یہ ہیں:.(۱) عبداللہ بن مسعودؓ - (۲) سالم مولیٰ ابی حذیفہ.(۳) معاذ بن جبل.(۴) ابی بن کعب.اِن میں سے پہلے دو مہاجر ہیں اور دوسرے دو انصاری.کاموں کے لحاظ سے عبداللہ بن مسعود ایک مزدور تھے.سالم ایک آزاد شدہ غلام تھے.معاذ بن جبل اور ابی بن کعب مدینہ کے رؤساء میں سے تھے.گویا ہر گروہ میں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام گروہوں کو مدنظر رکھتے ہی ہوئے قاری مقرر کر دیئے تھے.حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے خُذُوا الْقُرآنَ مِنْ اَرْبَعَة (مِنْ) عَبْدِ اللَّهِ مِنْ مَسْعُود وَ سَالِمٌ وَ مُعَاذِ مِنْ جَبَلَ وَأَبَيٍّ بنُ كَعْبُ - ۵۳۲.جن لوگوں نے قرآن پڑھنا ہو وہ ان چار سے قرآن پڑھیں.عبد اللہ بن مسعودؓ ، سالم، معاذ بن جبل اور ابی ابن کعب.یہ چار تو وہ تھے جنہوں نے سارا قرآن رسول اللہ رض

Page 440

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۸ دیباچهتفسیر القرآن صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھایا آپ کو سنا کر اس کی تصحیح کرالی لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے براہِ راست بھی کچھ نہ کچھ قرآن سیکھتے رہتے تھے چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک دفعہ عبداللہ بن مسعودؓ نے ایک لفظ کو اور طرح پڑھا تو حضرت عمر نے کی اُن کو روکا اور کہا کہ اس طرح نہیں اس طرح پڑھنا چاہئے.اس پر عبد اللہ بن مسعودؓ نے کہا نہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح سکھایا ہے.حضرت عمرؓ اُن کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یہ قرآن غلط پڑھتے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن مسعودؓ پڑھ کر سناؤ.جب اُنہوں نے پڑھ کر سنایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ٹھیک ہے.حضرت عمرؓ نے کہا يَا رَسُولَ الله! مجھے تو آپ نے یہ لفظ اور رنگ میں سکھایا ہے.آپ نے فرمایا یہ بھی ٹھیک ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف یہی چار صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن نہیں پڑھتے تھے بلکہ دوسرے لوگ بھی پڑھتے تھے چنانچہ حضرت عمرؓ کا یہ سوال کہ مجھے آپ نے اس طرح پڑھایا ہے بتا تا ہے کہ حضرت عمرؓ بھی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑھتے تھے.یہ قرآن مجید کی مختلف قراءتوں سے کیا مراد ہے جی ھاوار پر ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ پر اعتراض کیا کہ اُنہوں نے اور طرح قرآن پڑھا ہے اس سے یہ دھوکا نہیں کھانا چاہئے کہ قرآن کئی طرح پڑھا جا سکتا ہے.اس حقیقت کو صرف عربی دان سمجھ سکتا ہے کیونکہ یہ بات صرف عربی میں ہی پائی جاتی ہے کسی اور زبان میں نہیں پائی جاتی.عربی زبان میں ماضی اور مضارع کے جو صیغے ہیں اُن کے زیر اور زبر کئی طرح جائز ہوتے ہیں لیکن معنی نہیں بدلتے.کسی حرف کے نیچے زیر لگا لیں تب بھی جائز ہوتا ہے اور اگر اُس پر زبر پڑھیں تب بھی کی جائز ہوتا ہے اور معنی ایک ہی رہتے ہیں.کبھی تو یہ عام قاعدہ کے طور پر فرق ہوتا ہے یعنی علمی زبان میں اس لفظ کو کئی طرح بولنا جائز ہوتا ہے اور بعض موقعوں میں یہ فرق قبائل کے لحاظ سے ہوتا ہے یعنی بعض قبائل یا بعض خاندان ایک لفظ زبر کے ساتھ پڑھتے ہیں.بعض لوگوں کے منہ پر زبر چڑھی ہوئی ہوتی ہے اور بعض لوگوں کے منہ پر زیر چڑھی ہوئی ہوتی ہے.رسول اللہ

Page 441

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۲۹ دیباچهتفسیر القرآن صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی اجازت سے زیر یا ز بر سے پڑھنے کی اجازت دے دیتے تھے لیکن اس سے معنوں پر کوئی اثر بھی نہیں پڑتا تھا نہ لفظ میں کوئی تبدیلی ہوتی تھی.یہ فرق اور زبانوں میں نہیں پایا جاتا اس لئے دوسری زبانوں کے آدمی جب یہ بات سنتے ہیں تو وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ شاید کسی شخص کو کوئی آیت پڑھائی ہوتی تھی اور کسی کو کوئی آیت پڑھائی ہوئی ہوتی تھی حالانکہ آیت کا کوئی سوال ہی نہیں نہ لفظ کا کوئی سوال ہے سوال صرف لفظوں کے بعض حروف کی حرکت کا ہے ان حرکات کے تغیر سے معنوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا.صرف اتنا فرق پڑتا ہے کہ جس قوم کو جس حرکت سے پڑھنے میں آسانی ہو سکتی ہے وہ اس حرکت سے پڑھ لیتی ہے.مہاجرین وانصار سے حفاظ قرآن ان چار کے سوا مسلمانوں میں اور بھی بعض بڑے بڑے قراء تھے مثلاً زید بن ثابت جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آخری زمانہ میں اپنی وحی لکھوایا کرتے تھے.ابوزید تھے جن کا نام قیس ابن السکن تھا.۵۳۳ یہ انصاری تھے اور بنونجا رقبیلہ میں سے تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہال میں سے تھے.اسی طرح ابو درداء انصاری بھی قراء میں سے تھے.۵۳۴ پھر حضرت ابو بکر بھی قاری تھے.چنانچہ تاریخوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شروع زمانہ سے ہی قرآن شریف حفظ کرتے چلے آرہے تھے.حضرت علیؓ کی نسبت بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ قرآن شریف کے حافظ تھے بلکہ انہوں نے قرآن شریف کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے قرآن لکھنے کا کام رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد شروع کر دیا تھا.نسائی کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ( حضرت عمرؓ کے لڑکے ) بھی قرآن شریف کے حافظ تھے اور وہ قرآن کریم کے اتنے مشتاق تھے کہ ساری رات میں ایک دفعہ قرآن کریم ختم کر لیتے تھے.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع پہنچی تو آپ نے فرمایا اقْرَأْهُ فِي شَهْرٍ میں ایک دفعہ ختم کر لیا کرو.رات میں ایک دفعہ ختم نہ کیا کرو اس سے طبیعت پر بوجھ پڑ جاتا ہے.ابو عبیدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہاجر صحابہ میں سے مندرجہ ذیل کا حفظ ثابت ہے.ابوبکر عمر عثمان ، علی.طلحہ.سعد.ابن مسعودؓ.حذیفہ.سالم - ابو ہریرۃ.عبد اللہ بن سائب - عبد اللہ بن عمرؓ - عبد اللہ بن عباس.اور عورتوں میں سے عائشہ.مہینہ

Page 442

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۰ دیباچہ تفسیر القرآن حضرت حفصہ اور حضرت اُم سلمہ.ان میں سے اکثر نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی قرآن شریف حفظ کر لیا تھا اور بعض نے آپ کی وفات کے بعد حفظ کیا.اور ابن ابی داؤد کتاب الشریعت میں لکھتے ہیں کہ مہاجرین میں سے تمیم بن اوس الداری اور عقبہ بن عامرؓ کا حافظ ہونا بھی ثابت ہے.اسی طرح بعض مصنفوں نے ثابت کیا ہے کہ مہاجرین میں سے عمر و بن العاص اور موسیٰ اشعری بھی حافظ قرآن تھے.انصار میں سے جو مشہور حفاظ تھے اُن کے نام یہ ہیں:.عبادہ بن صامت.معاد - مجمع بن حارثہؓ.فضالہ بن عبید.مسلمہ بن مخلد.ابوالد ر داو.ابوزیڈ.زید بن ثابت.ابی بن کعب.سعد بن عبادہ.ام ورقہ.تاریخ سے ثابت ہے کہ صحابہ میں سے بہت سے قرآن کریم کے حافظ تھے.جیسا کہ سوانح میں واقعہ بئر معونہ کے ماتحت ذکر آچکا ہے کہ سنہ ۴ ھ ہجری میں بعض قبائل کی درخواست پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ بخص آدمی لوگوں کو دین سکھانے کے لئے بھیجے تھے جو سب کے سب قرآن کریم کے حافظ تھے.جیسا کہ بتایا جا چکا ہے یہ لوگ اپنی اپنی مجالس میں رات دن قرآن سناتے تھے.چنانچہ حافظ ابو یعلی لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اُس نے کہا يَا رَسُولَ الله! ابو موسی اپنے گھر میں بیٹھے ہیں اور بہت سے لوگ ان کے ارد گر د جمع ہیں اور وہ اُن کو قرآن یاد کرا رہے ہیں.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم مجھے وہاں کسی ایسی جگہ پر بٹھا سکتے ہو جہاں سے وہ لوگ مجھے نہ دیکھ سکیں.اُس نے کہا ہاں.اس پر وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے گیا اور گھر کے کسی ایسے کو نہ میں جا کر بٹھا دیا جہاں لوگوں کو آپ نظر نہیں آتے تھے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو موسیٰ کی قراءت کو سنا تو وہ بالکل درست تھی اور بہت اچھی طرح وہ قرآن پڑھ رہے تھے اس پر آپ نے فرمایا إِنَّهُ لَيَقْرَأُ عَلَى مِزْمَارِ مِنْ مَزَامِيرِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَامُ وہ تو داؤد علیہ السلام کے خوبصورت طریق پر قرآن پڑھ رہا ہے.اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علاوہ ان چار حافظوں کے جن کو آپ نے اُستاذ الاساتذہ مقرر کیا تھا باقی لوگوں کی قرآت کا بھی امتحان لیتے رہتے تھے اور ان کی نگرانی رکھتے تھے تا کہ وہ کوئی غلطی نہ کر بیٹھیں.

Page 443

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۱ دیباچہ تفسیر القرآن صرف ایک ہی جگہ پر نہیں صحابہ کی مختلف مجالس میں قرآن پڑھایا جاتا تھا.حضرت امام احمد اپنی کتاب میں جابر بن عبد اللہ سے روایت نقل کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے تو لوگ بیٹھے ہوئے قرآن شریف پڑھ رہے تھے آپ نے فرمایا ہاں کی قرآن پڑھو اور خوب پڑھو اور اللہ کی رضا حاصل کرو.پیشتر اس کے کہ وہ قوم آئے جو قرآن کے لفظوں کو تو صحیح پڑھے گی لیکن مزدوری اور دنیوی فائدہ کے لئے پڑھے گی.اپنے نفس کی اصلاح کی کے لئے نہیں.جابر بن عبد اللہ کہتے ہیں کہ ہماری اس مجلس میں نہ صرف مہاجر اور انصار تھے بلکہ عجمی اور اعرابی بھی اس میں شامل تھے یعنی جنگلوں کے رہنے والے اور غیر عربی لوگ بھی.قراء کی تعدا د رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچ گئے تھے.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معا بعد جب مسیلمہ نے بغاوت کر کے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا اور ان کے مقابلہ کے لئے حضرت ابو بکر نے خالد بن ولید کو تیرہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تو اُس وقت بعض نئے نئے مسلمان ہونے والے لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے متواتر مسلمانوں کو ضمنی طور پر شکست پر شکست ہونے لگی یعنی یہ تو نہیں تھا کہ لشکر اسلامی بھاگ گیا ہولیکن اس کو کئی مقام چھوڑنے پڑے تھے.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے جو لوگ قرآن کریم کے حافظ تھے اُنہوں نے کہا کہ آپ اس سارے لشکر سے مسیلمہ کا مقابلہ نہ کریں صرف ہم لوگ جو قرآن شریف کے جاننے والے ہیں ہمیں ایک الگ لشکر کی صورت میں ترتیب دے کر اُس کے مقابلہ کے لئے آگے کریں کیونکہ ہم اسلام کی قیمت جانتے ہیں اور اس کے بچانے کے لئے اپنی جانیں دینے کی کی قدر ہمیں معلوم ہے.اُن کی اس بات کو خالد بن ولید نے مان لیا اور قرآن شریف کے حفاظ صحابہؓ کو الگ کر دیا اور وہ تین ہزار نکلے.ان تین ہزار آدمیوں نے اس شدت سے مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کیا کہ اُس کو پیچھے ہٹ کر ایک محدود مقام میں محصور ہونا پڑا اور آخر اس کا لشکر تباہ ہو گیا.اُس وقت ان حفاظ صحابہ نے شعار جنگ کے الفاظ یہ مقرر کئے تھے.اے سورۃ بقرہ کے حافظو“.یہ شعار انہوں نے اس لئے مقرر کیا کہ سورۃ بقرہ قرآن مجید کی سورتوں میں سے سب سے

Page 444

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۲ دیباچہ تفسیر القرآن لمبی ہے.اس لڑائی میں پانچ سو قاری صحابی شہید ہوئے.ان واقعات سے پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہی قرآن کریم لکھا بھی جاتا تھا ، حفظ بھی کیا جاتا تھا اور ہزاروں آدمی قرآن شریف کو شروع سے لے کر آخر تک یادر کھتے تھے.ایک جلد میں قرآن مجید کا جمع کرنا جو بات اس وقت تک نہ ہوئی تھی ، وہ صرف ی تھی کہ ایک جلد میں قرآن شریف جمع نہیں ہوا تھا.جب یہ پانچ سو قرآن کا حافظ اس لڑائی میں مارا گیا.تو حضرت عمر حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور اُنہیں جا کے کہا کہ ایک لڑائی میں پانچ سو حافظ قرآن شہید ہوا ہے اور ابھی تو بہت سی لڑائیاں ہمارے سامنے ہیں.اگر اور حفاظ بھی شہید ہو گئے تو لوگوں کو قرآن کریم کے متعلق شبہ پیدا ہو جائے گا اس لئے قرآن کو ایک جلد میں جمع کر دینا چاہئے.حضرت ابو بکر نے پہلے تو اس بات سے انکار کیا لیکن آخر آپ کی بات مان لی.حضرت ابو بکڑ نے زید بن ثابت گو اس کام کے لئے مقرر کیا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کریم لکھا کرتے تھے اور کبار صحابہؓ ان کی مدد کے لیے مقرر کیے.گو ہزاروں صحابہ قرآن شریف کے حافظ تھے لیکن قرآن شریف کے لکھتے وقت ہزاروں صحابہؓ کو جمع کرنا تو ناممکن تھا اس لئے حضرت ابوبکر نے حکم دے دیا کہ قرآن کریم کو تحریری نسخوں سے نقل کیا جائے اور ساتھ ہی یہ احتیاط کی جائے کہ کم سے کم دو کی حافظ قرآن کے اور بھی اس کی تصدیق کرنے والے ہوں.چنانچہ متفرق چمڑوں اور ہڈیوں پر جو قرآن شریف لکھا ہوا تھا وہ ایک جگہ پر جمع کر دیا گیا اور قرآن شریف کے حافظوں نے اس کی تصدیق کی.اگر قرآن شریف کے متعلق کوئی شبہ ہو سکتا ہے تو محض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اور اس وقت کے درمیانی عرصہ کے متعلق ہو سکتا ہے مگر کیا کوئی عظمند یہ تسلیم کرسکتا ہے کہ جو کتاب رواز نہ پڑھی جاتی تھی اور جو کتاب ہر رمضان میں اونچی آواز سے پڑھ کر دوسرے مسلمانوں کو حفاظ سناتے تھے اور جس ساری کی ساری کتاب کو ہزاروں آدمیوں نے شروع سے لے کر آخر تک حفظ کیا ہوا تھا اور جو کتاب گوا ایک جلد میں اکٹھی نہیں کی گئی تھی ، لیکن بیسیوں صحابہ اس کو لکھا کرتے تھے اور ٹکڑوں کی صورت میں لکھی ہوئی وہ ساری کی ساری موجود تھی اُسے ایک جلد میں جمع کرنے میں کسی کو دقت محسوس ہوسکتی تھی.اور پھر کیا ایسے شخص کو دقت ہوسکتی تھی جو خود

Page 445

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۳ دیباچہ تفسیر القرآن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن کی کتابت پر مقرر تھا اور اُس کا حافظ تھا اور جبکہ قرآن روزانہ پڑھا جاتا تھا.کیا یہ ہو سکتا تھا کہ اس جلد میں کوئی غلطی ہو جاتی اور باقی حافظ اس کو پکڑ نہ لیتے.اگر اس قسم کی شہادت پر شبہ کیا جائے تو پھر تو دنیا میں کوئی دلیل باقی نہیں رہتی.حق یہ ہے کہ دنیا کی کوئی تحریر ایسے تواتر سے دنیا میں قائم نہیں جس تواتر سے قرآن شریف قائم ہے.حضرت ابوبکر کے بعد حضرت عثمان کے زمانہ میں یہ شکایت آئی کہ مختلف قبائل کے لوگ مختلف قراءتوں کے ساتھ قرآن کریم کو پڑھتے ہیں اور غیر مسلموں پر اس کا بُرا اثر پڑتا ہے وہ کی سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم کے کئی نسخے ہیں.اس قراءت کے متعلق میں او پر لکھ چکا ہوں کہ اس قراءت سے مراد یہ ہے کہ کوئی قبیلہ کسی حرف کو زبر سے پڑھتا ہے دوسرازیر سے پڑھتا ہے تیسرا پیش سے پڑھتا ہے اور یہ بات سوائے عربی کے اور کسی زبان میں نہیں پائی جاتی.اس لئے عربی نہ جاننے والا آدمی جب یہ سنے گا تو وہ سمجھے گا کہ یہ کچھ کہہ رہا ہے اور وہ کچھ کہہ رہا ہے حالانکہ کہ وہ ایک ہی بات رہے ہوں گے.پس اس فتنہ سے بچانے کے لئے حضرت عثمان نے یہ تجویز فرمائی کہ حضرت ابوبکر کے زمانہ میں جو نسخہ لکھا گیا تھا اس کی کا پیاں کر والی جائیں اور مختلف ملکوں میں بھیج دی جائیں اور حکم دے دیا جائے کہ بس اسی قراءت کے مطابق قرآن پڑھنا ہے اور کوئی قراءت نہیں پڑھنی.یہ بات جو حضرت عثمان نے کی بالکل معیوب نہ تھی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عرب لوگ قبائلی زندگی بسر کرتے تھے یعنی ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے الگ رہتا تھا اس لئے وہ اپنی اپنی بولی کے عادی تھے لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر جمع ہو کر عرب لوگ متمدن ہو گئے اور ایک عامی زبان کی بجائے عربی زبان ایک علمی زبان بن گئی.کثرت سے عرب کے لوگ پڑھنے اور لکھنے کے علم سے واقف ہو گئے جس کی وجہ سے ہر آدمی خواہ کسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اُسی سہولت سے وہ لفظ ادا کر سکتا تھا جس طرح علمی زبان میں وہ لفظ بولا جاتا تھا جو درحقیقت ملک کی زبان تھی.پس کوئی وجہ نہ تھی کہ جب سارے لوگ ایک علمی زبان کے عادی ہو چکے تھے انہیں پھر بھی اجازت دی جاتی کہ وہ اپنے قبائلی تلفظ کے ساتھ ہی قرآن شریف کو پڑھتے چلے جائیں اور غیر قوموں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنیں.اس لئے حضرت عثمانؓ نے ان حرکات کے ساتھ قرآن شریف کو لکھ کر جو مکہ کی

Page 446

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۴ دیباچہ تفسیر القرآن زبان کے مطابق تھیں سب ملکوں میں کا پیاں تقسیم کر دیں اور آئندہ کے متعلق حکم دے دیا کہ سوائے مکی لہجہ کے اور کسی قبائلی لہجہ میں قرآن شریف نہ پڑھا جائے.اس امر کو نہ سمجھنے کی وجہ سے یورپ کے مصنف اور دوسری قوموں کے مصنف ہمیشہ یہ اعتراض کرتے رہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے کوئی نیا قرآن بنا دیا تھا یا عثمان نے کوئی نئی تبدیلی قرآن کریم میں کر دی تھی لیکن حقیقت وہ ہے جو میں نے اوپر بیان کی.وہ مصنف اپنے خیال میں قرآن شریف پر بڑا بھاری اعتراض کرتے ہیں اور وہ لوگ جو عربی زبان سے واقف ہیں اور قرآن کریم کی تاریخ سے آگاہ ہیں وہ اُن کے اعتراض کو پڑھ کر اُن کی جہالت پر ہنستے ہیں.یہ بات ثابت کر چکنے کے بعد کہ حضرت عثمان کے زمانہ تک قرآن کریم اُسی شکل میں موجود تھا جس شکل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا اب میں یہ بتاتا ہوں کہ حضرت عثمان کے بعد یہ تو اتر اور بھی زیادہ مضبوط ہو گیا.حضرت عثمان نے قرآن کریم کے نسخے مختلف ممالک میں پھیلا دیئے تو اُن سے اتنی نقلیں کی گئیں اور اس کثرت سے قرآن کریم پھیلا کہ قریباً ہر تعلیم یافتہ آدمی کے پاس قرآن کریم موجود ہوتا تھا.چنانچہ جب حضرت علیؓ اور حضرت معاویہ کی کے درمیان لڑائی ہوئی تو اس کے متعلق تاریخوں میں آتا ہے کہ حضرت معاویہ کے تمام سپاہیوں نے قرآن شریف اپنے نیزوں پر لٹکا کر یہ نعرے لگائے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان قرآن فیصلہ کرے گا.اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں قریباً ہر فرد بشر کے پاس قرآن شریف کا نسخہ ہوتا تھا.قرآن شریف کو مسلمان حفظ کرتے چونکہ قرآن شریف کے پڑھنے اور لکھنے اور پھیلانے کو بہت بڑا ثواب قرار دیا گیا تھ رہے اور اس کے نسخے لکھتے رہے تھا اس لئے اسلامی حکومت میں بڑے بڑے علماء اور بادشاہ تک قرآن کریم کی کا پیاں لکھا کرتے تھے.عرب اور اس کے اردگرد کے بادشاہوں اور علماء کا تو ذکر چھوڑ و ہندوستان جیسے ملک میں جو عرب سے بہت دُور واقع ہوا تھا اور جہاں ہندو رسم و رواج غالب آچکا تھا مغل بادشاہ اور نگ زیب اپنی فرصت کے اوقات میں قرآن شریف لکھا کرتا تھا.چنانچہ کہا جاتا ہے کہ اُس نے اپنی عمر میں سات نسخے قرآن کریم کے کچھ

Page 447

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۵ دیباچہ تفسیر القرآن لکھے.پھر مسلمانوں میں حفظ قرآن کی شروع سے اتنی کثرت پائی جاتی ہے کہ ہر زمانہ میں ایک لا کھ سے دولاکھ تک حافظ دنیا میں موجود رہا ہے بلکہ اس سے بھی بہت زیادہ حافظ دنیا میں پائے جاتے ہیں.حافظ اُس کو کہتے ہیں جو شروع سے لے کر آخر تک اس کے تمام حصوں کو یا د رکھتا ہے ہے.عام طور پر یورپین مصنف اپنی نا واقعی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہو سکتا ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے.میرا بڑا لڑکا ناصر احمد جو آکسفورڈ کا بی.اے آنرز اور ایم اے ہے میں نے اُسے دُنیوی تعلیم سے پہلے قرآن کریم کے حفظ پر لگایا اور وہ سارے قرآن کا حافظ ہے.قادیان میں دو ڈاکٹر حافظ ہیں.اسی طرح اور بہت سے گریجوایٹ اور دوسرے لوگ حافظ ہیں.جن ڈاکٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے اُن میں سے ایک نے صرف چار پانچ مہینے میں قرآن شریف حفظ کیا تھا جی چوہدری سر ظفر اللہ صاحب حج فیڈرل کورٹ آف انڈیا ( حال وزیر خارجہ پاکستان ) کے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں جبکہ وہ قریباً ساٹھ سال کے تھے ، چند مہینوں میں سارا قرآن حفظ کر لیا تھا.حافظ غلام محمد صاحب سابق مبلغ ماریشس نے تین مہینہ میں قرآن شریف حفظ کیا تھا.نواب جمال الدین خاں صاحب جو ایک سابق والیہ ریاست بھوپال کے خاوند تھے اُن کے ایک نواسے مجھے حج میں ملے تھے جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ اُنہوں نے ایک مہینہ میں سارا قرآن شریف حفظ کیا تھا.اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ قرآن کریم کی عبارت اس قسم کی ہے کہ اس کا حفظ کرنا دو بھر معلوم نہیں ہوتا.میں نے بڑے بڑے بوڑھے لوگوں سے سنا ہے کہ میرے جدا مجد مرزا گل محمد صاحب جو عالمگیر ثانی کے وقت میں تھے باوجود اس کے کہ کوئی بہت بڑے رئیس نہیں تھے اُن کی ریاست صرف اڑھائی سو مربع میل کے علاقہ پر حاوی تھی ، ان کے درباری میں پانچ سو حافظ موجود رہتا تھا.ہندوستان جیسے ملک میں جوعربی زبان سے بہت ہی ناواقف ہے، بعض حصے ایسے پائے جاتے ہیں جن میں صدیوں سے اکثر لوگ حافظ چلے آتے ہیں.ایک ترکیب مسلمانوں نے قرآن کریم کی حفاظت کی یہ بھی اختیار کر رکھی ہے اور جس ترکیب پر صدیوں سے عمل ہوتا چلا آ رہا ہے کہ جو پیدائشی نابینا ہوتے ہیں ان کو قرآن شریف

Page 448

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۶ دیباچهتفسیر القرآن حفظ کرا دیتے ہیں اور یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نابینا کوئی دنیوی کام تو کر نہیں سکتا کم سے کم وہ قرآن کی کی خدمت ہی کرے گا.یہ رواج اتنا غالب ہے کہ لاکھوں مسلمان نابینوں کو بغیر پوچھے اور بغیر دریافت کئے ایک ہندوستانی ملتے ہی حافظ صاحب کے نام سے یاد کرے گا یعنی وہ جس نے سارا قرآن یاد کیا ہوا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نابینوں میں سے اتنے حافظ قرآن ہوتے ہیں کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں ہو سکتا کہ کوئی نابینا ہوا اور قرآن کا حافظ نہ ہو.ہر رمضان میں ساری دنیا کی ہر بڑی مسجد میں سارا قرآن کریم حافظ لوگ حفظ سے بلند آواز کے ساتھ ختم کرتے ہیں.ایک حافظ امامت کراتا ہے اور دوسرا حافظ اُس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تاج اگر کسی جگہ پر وہ بھول جائے تو اُس کو یاد کرائے.اس طرح ساری ہی دنیا میں لاکھوں جگہ پر کی قرآن کریم صرف حافظ سے دُہرایا جاتا ہے.یہی وہ باتیں ہیں جن کی وجہ سے یورپ کے دشمنوں کو بھی تسلیم کرنا پڑا ہے کہ قرآن کریم رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک بالکل محفوظ چلا آتا ہے اور یہ کہ یقینی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس شکل میں قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا تھا اُسی شکل میں آج موجود ہے.چنانچہ ذیل میں ہم بعض یورپین مصنفین کی گواہی پیش کرتے ہیں:.(1) سرولیم میور اپنی کتاب لائف آف محمد صفحه ۲۸ میں بحث کرنے کے بعد لکھتے ہیں: "What we now have, though Possibly Corrected and modified himself, is still his own``.۵۳۵ ترجمہ : گو یہ ممکن ہے کہ محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قرآن خود ہی بنایا تھا مگر جو قرآن ہمارے پاس آج موجود ہے یہ وہی ہے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے دنیا کے سامنے پیش کیا.(۲) پھر لکھتے ہیں: "We may upon the Strongest presumption affirm that every verse in the Quran is genuine and unaltered composition of Mohammad himself DMY ترجمہ : ہم نہایت مضبوط قیاسات کی بناء پر کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آیت جو قرآن

Page 449

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۷ میں ہے وہ اصلی ہے اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی غیر محرف تصنیف ہے.(۳) پھر یہ بحث کرنے کے بعد کہ قرآن کی ترتیب ہماری سمجھ نہیں آتی لکھتے ہیں کہ :.دیباچہ تفسیر القرآن “There is otherwise every security internal and external that we possess a text the Same as that which Mohammad himself gave forth and used." ②Mz ترجمہ: اس کے علاوہ ہمارے پاس ہر ایک قسم کی ضمانت موجود ہے اندرونی شہادت کی بھی اور بیرونی کی بھی کہ یہ کتاب جو ہمارے پاس ہے وہی ہے جو خود محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دنیا کے سامنے پیش کی تھی اور اسے استعمال کیا کرتے تھے.(۴) پھر لکھتے ہیں: `And we conclude with at least a close approximation to the verdict of VON Hammer that we hold the Quran to be as suerly Mohammad,s word as the Mohammadns held it to be the word of God.۵۳۸ ترجمہ: ہم وان ہیمر کے مندرجہ ذیل فیصلہ کے بالکل مطابق نہ سہی کم سے کم اُس کے خیال کے بہت موافق فیصلہ تک پہنچتے ہیں وہ وان ہیمر کا فیصلہ یہ ہے کہ اس زمانہ میں جو قرآن موجود ہے اس کے متعلق ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ محمد ( رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) کا غیر محرف کلام ہے جس یقین سے مسلمان کہتے ہیں کہ وہ خدا کا غیر مبدل کلام ہے.(۵)’نولڈ کے“ کا قول ہے: ``Slight clerical errors there may have been but the Quran of Othman contains none but genuine elements, though sometimes in very strange order Efforts of European scholars to prove the existence of later interpation in the Quran have failed ترجمہ: ممکن ہے کہ تحریر کی کوئی معمولی غلطیاں ( طرز تحریر کی ) ہوں تو ہوں ، لیکن جو

Page 450

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۸ دیباچہ تفسیر القرآن قرآن عثمان نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اُس کا مضمون وہی ہے جو محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے پیش کیا تھا.گو اس کی ترتیب عجیب ہے.یورپین علماء کی یہ کوششیں کہ وہ ثابت کریں کہ قرآن میں بعد کے زمانہ میں بھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے بالکل ناکام ثابت ہوئی ہیں.قرآن کریم کی سورتوں کے متعلق بعض لوگ کہتے ہیں کہ یہ ترتیب سور و آیات حضرت عثمان کی قائم کردہ ہے لیکن یہ بالکل غلط بات ہے.حدیثوں سے ثابت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں سارا قرآن شریف نماز میں پڑھتے تھے اور بعض دفعہ دوسرے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شامل ہو جاتے تھے اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رمضان میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سارا قرآن جبریل کو پڑھ کر سنایا کرتے تھے ۵۴۰ اب ایک غیر مسلم چاہے یہ نہ مانے کہ آپ جبریل کو پڑھ کر سنایا ج کرتے تھے مگر اتنا اُسے ماننا پڑے گا کہ آپ اُسے کسی ترتیب سے پڑھتے تھے اگر کوئی ترتیب نہیں تھی تو آپ پڑھتے کس طرح تھے ؟ اسی طرح حدیثوں میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت علیؓ ایک عرصہ تک حضرت ابو بکر سے ملنے نہ گئے حضرت ابو بکر نے اُن کو بلوایا اور پوچھا کہ علی ! کیا آپ میری خلافت پر ناراض ہیں؟ حضرت علیؓ نے فرمایا نہیں میں ناراض نہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ قسم کھائی تھی کہ میں قرآن کریم کو اُس ترتیب سے لکھ دوں گا جس ترتیب کے ساتھ وہ نازل ہوا تھا.اس سے صاف پتہ لگتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں قرآن شریف کسی ترتیب سے پڑھا جاتا تھا مگر وہ ترتیب نزول والی ترتیب نہیں تھی.اس لیے حضرت علیؓ نے خیال کیا کہ وہ قرآن کریم اُس کے نزول کی ترتیب کے لحاظ سے بھی لکھ دیں تا کہ تاریخی طور پر یہ حقیقت بھی لوگوں کے لئے محفوظ ہو جائے.اسی طرح حدیثوں کی میں آتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب کوئی آیت نازل ہوتی تھی تو آپ لکھنے والے کو بلا کر فرماتے تھے کہ اسے فلاں سورۃ میں داخل کر دو.۵۴۱، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو الہامی طور پر بتایا جاتا تھا کہ فلاں آیت کو فلاں جگہ رکھا ہے جائے اور فلاں آیت کو فلاں جگہ.مگر سب سے بڑی شہادت واقعاتی شہادت ہے قرآن شریف

Page 451

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۳۹ دیباچہ تفسیر القرآن ہمارے پاس موجود ہے اس کی سورتوں پر نظر ڈالنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تمام سورتوں کے مضامین آپس میں ترتیب رکھتے ہیں.اگر قرآن کی سورتیں بغیر ترتیب کے نازل ہوئی تھیں اور حضرت عثمانؓ نے اُن کو صرف ان کی لمبائی چھوٹائی کے لحاظ سے انہیں آگے پیچھے رکھ دیا تو کی سوال یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن تھا کہ ان سورتوں کے مضامین بھی آپس میں ملنے لگ جاتے.سورۃ فاتحہ مکہ میں نازل ہوئی تھی موجودہ قرآن میں وہ سب سے پہلے رکھی ہوئی ہے.سورۃ بقرہ ہجرت کے بعد نازل ہوئی درمیان میں نازل ہونے والی بہت سی سورتوں کو چھوڑ کرسورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ بقرہ رکھ دی گئی ہے.یورپین مصنف کہتے ہیں کہ سورۃ بقرہ چونکہ سب سے لمبی سورۃ ہے اس لئے وہ قرآن میں اور سورتوں سے پہلے رکھ دی گئی ہے.اول تو اس پر یہ اعتراض ہے کہ سورۃ بقرہ پہلی سورۃ نہیں پہلی سورۃ سورۃ فاتحہ ہے.اور وہ تو صرف سات آیتوں پر مشتمل ہے اس کو پہلے کیوں رکھا گیا ہے.دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر اتفاقی طور پر صرف لمبا ہونے کی وجہ سے سورۃ بقرہ کو سورۃ فاتحہ کے بعد رکھا گیا ہے تو اس کا کیا جواب ہے کہ سورۃ فاتحہ میں یہ دعا آتی ہے کہ اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ۵۴۲ الہی تو مجھے سچا راستہ دکھا اور سورہ بقرہ ان الفاظ سے شروع ہوتی ہے کہ مذلِكَ الْكِتَبُ لا ريب فيه هُدًى لِلْمُتَّقِين ۵۴۳ یہی وہ کامل کتاب ہے اس میں کوئی شبہ نہیں جو متقیوں کے لئے ہدایت کے طور پر بھیجی گئی ہے.آخر یہ کس طرح ہوا کہ اس اتفاقی حادثہ کے ساتھ دونوں کے مضامین بھی آپس میں مل گئے.ایک کے آخر میں ہدایت کے لئے دعا ہے اور دوسری کے شروع میں اُس دعا کی قبولیت میں ہدایت دینے کا ذکر کیا گیا ہے اور یہ صرف ایک مثال نہیں سورۃ فاتحہ سے لے کر قرآن کریم کے آخر تک تمام سورتوں کے مضامین آپس میں ملتے چلے جاتے ہیں جی حالانکہ کبھی پہلی سورۃ مدنی ہوتی ہے اور دوسری مکی اور کبھی دوسری مدنی ہوتی ہے اور پہلی کی.پس ی قرآن شریف کے مضامین کی ترتیب صاف بتا رہی ہے کہ قرآن کریم کی موجودہ ترتیب الہی منشاء کے ماتحت ہے.رہا یہ سوال کہ نزول کی ترتیب بدل کر ایک دوسری ترتیب کیوں دی گئی ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جب قرآن شریف نازل ہوا اُس وقت لوگ اسلامی مسائل سے بالکل ناواقف تھے.

Page 452

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۰ دیباچ تفسیر القرآن چھوٹی سے چھوٹی چیز اُن کو بتانی ضروری تھی تا کہ اسلامی تعلیم پس پردہ اُن کے دماغوں میں قائم ہو جائے.اس کے بعد پھر اسلامی شریعت کی تفصیلات بیان ہوسکتی تھیں.پس پہلے چھوٹی چھوٹی سورتیں ایسے مضامین کے متعلق نازل کی گئیں جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے ابتدائی زمانہ کے ساتھ تعلق رکھتی تھیں جن میں اول تو چند اصولی باتیں بیان کی گئی تھیں کہ خدا ایک ہے، غریبوں سے رحم کا سلوک کرنا چاہئے ، خدا تعالیٰ کی عبادت میں اپنی زندگی بسر کرنی چاہئے ، خدا تعالیٰ کا ذکر کرنا چاہئے اور ساتھ ہی یہ باتیں بھی بتائی گئی تھیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کس کس رنگ میں مخالفت ہوگی ، مخالفوں کا کیا انجام ہوگا ، مؤمنوں کے ساتھ کیا سلوک ہوگا کس طرح اسلام ترقی کرے گا.مگر جوں جوں اسلام بڑھتا چلا گیا اور مسلمانوں کو ترقیات حاصل ہونی شروع ہوئیں تفصیلات شریعت بھی نازل ہونے لگیں.پس یہ نزول کی ترتیب اُس زمانہ کے لحاظ سے نہایت ضروری تھی.مگر جب قرآن شریف سارا نازل ہو گیا.لاکھوں آدمی دنیا میں مسلمان ہو گیا اور غیر قو میں بھی اسلام کے پس پردہ سے ایک حد تک واقف ہو گئیں تو اب اُن کے سامنے مسائل کو ایک نئے رنگ اور نئے زاویہ سے پیش کرنا ضروری تھا.پس اللہ تعالیٰ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نئی ترتیب سے قرآن شریف کو آئندہ زمانہ کیلئے مرتب کر دیا.یہ قرآن کریم کا عظیم الشان معجزہ ہے کہ نزول کے زمانہ کے لحاظ سے نزول قرآن والی ترتیب بالکل مناسب حال تھی اور اسلام کے پھیل جانے اور قرآن کریم کے مکمل ہو جانے کے بعد آئندہ زمانہ کیلئے اُس کی وہی ترتیب مناسب حال تھی جو اس وقت پائی جاتی ہے.ایک کتاب جو مختلف ٹکڑوں میں نازل ہوئی، مختلف زمانوں میں نازل ہوئی اس کو دو تر تیبوں سے دنیا کی کے سامنے پیش کرنا اور ایسی صورت میں پیش کرنا کہ دونوں کی دونوں کامیاب اور اعلیٰ درجہ کی ہوں ، یہ سوائے خدا تعالیٰ کے اور کسی کا کام نہیں ہو سکتا.قرآن کریم کی سورتوں کی ترتیب اس تفسیر کے پڑھنے والے ہر سورۃ کے ابتدائی نوٹوں سے خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.قرآن شریف میں پیشگوئیاں میں دیباچہ کے شروع میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ قرآن شریف کے متعلق پہلے انبیاء نے پیشگوئیاں کی ہیں.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ خود قرآن کریم میں بھی پیشگوئیاں موجود ہیں اور یورپین مصنفین

Page 453

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۱ دیباچہ تفسیر القرآن کا یہ خیال کہ قرآن کریم میں پیشگوئیاں نہیں ، بالکل غلط ہے.قرآن کریم تو شروع ہی پیشگوئی سے ہوا ہے.چنانچہ اس کی پہلی چند آیتوں ہی میں جو غار حراء میں نازل ہوئی تھیں یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ قرآن کریم کے ذریعہ وہ علوم بیان کئے جائیں گے جو اس سے پہلے انسان کو معلوم نہیں تھے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم نے وہ باتیں بیان کی ہیں جو پہلی کتابوں نے بیان نہیں کی تھیں.اور اُن کی غلطیاں نکالی ہیں اور اِس زمانہ میں اُن کی تصدیق ہو رہی ہے مثلاً (۱) قرآن کریم نے یہ بتایا تھا کہ فرعون کی لاش اُس کے ڈوبنے کے وقت ہی بچا لی گئی اور محفوظ کر دی گئی تھی تا کہ وہ آئندہ زمانہ کے لوگوں کیلئے نشان کے طور پر کام آئے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.وَجَاوَزْنَا بِبَني إسراءيل الْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُ بَغْيًا وَعَدُوا، حَتَّى إذَا ادْرَكَهُ الخَرَقُ، قَالَ امّنْتُ أنّ لا إلهَ إِلَّا الَّذِي آمَنَتْ بِهِ بَنوا إسراءيل و أنا مِنَ الْمُسْلِمِينَ - آلن وَقَدْ عَصَيْتُ قَبْلُ وَكُنْتَ مِن الْمُفْسِدِينَ - فَاليَوْمَ نُنَجِّيكَ بِبَدَنِكَ لتَكُونَ لِمَنْ خَلْفَكَ آيَةً، وَإِنَّ كَثِيراً مِّنَ النَّاسِ عَنْ ابْتِنَا لَغْفِلُونَ ۵۴۴ ترجمہ: ہم نے بنی اسرائیل کو سمندر سے پارسلامتی سے اُتار دیا اور اُن کے بعد فرعون اور اُس کا لشکر سرکشی اور دشمنی سے ان کے پیچھے آیا اور پیچھا کرتا چلا گیا.یہاں تک کہ اس کے غرق کرنے کے ہم نے سامان کر دیئے.اُس وقت فرعون نے کہا میں ایمان لاتا ہوں کہ بنو اسرائیل جس خدا پر ایمان لائے ہیں اُس کے سوا اور کوئی خدا نہیں.تب ہم نے کہا تو اب ایمان لاتا ہے اور اس سے پہلے تو نے خوب فساد مچا رکھا ہے تھا.پس اب تیرے اس ناقص ایمان کے بدلہ میں تیرے جسم کو نجات دیں گے تا ( تیرا جسم ) ہمیشہ ہمیش کے بعد میں آنے والے لوگوں کے لئے عبرت کا موجب ثابت ہوا اور لوگوں میں سے اکثر ہمارے نشانوں سے غافل رہتے ہیں.یہ مضمون نہ بائبل میں مذکور ہے نہ یہودیوں کی تاریخ میں مذکور ہے نہ کسی اور معروف تاریخ میں مذکور ہے.تیرہ سو سال پہلے قرآن نے یہ خبر دی اور اس خبر دینے کے تیرہ سو سال کے بعد فرعون موسیٰ کی ممی مل گئی.جس سے معلوم ہوا کہ ڈوبنے کے بعد اس کی لاش ضائع نہیں ہو گئی تھی

Page 454

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۲ دیباچہ تفسیر القرآن بلکہ بچا لی گئی تھی اُسے حنوط کیا گیا تھا اور وہ محفوظ کر دی گئی تھی.ہوسکتا تھا کہ حنوط کرنے کے با وجود اُن بہت سے تغیرات کی وجہ سے جو مصر میں ہوئے فرعونِ موسیٰ کی لاش ضائع ہو جاتی.مگر اُس کی لاش محفوظ رہی اور اس وقت دنیا کے سامنے عبرت کا نمونہ پیش کر رہی ہے اور قرآن کریم کی سچائی پر گواہی دے رہی ہے.(۲) پھر قرآن کریم کے شروع نزول میں ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا و اليل إذا يغشى ۵۴۵ ہم رات کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو ڈھانپ لے گی یعنی اسلام پر نہایت ہی شدید مصائب نازل ہوں گے.یہ پیشگوئی ایسے وقت میں کی گئی تھی جبکہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ امید نہیں تھی کہ میری قوم مجھ سے دشمنی کرے گی کیونکہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی بیوی کے رشتہ دار ورقہ بن نوفل نے کہا کہ تم پر وہی فرشتہ الہام لے کر نازل ہوا ہے جو موسیٰ کی طرف نازل ہوا تھا اور یہ کہ تمہاری قوم تمہیں دکھ دے گی اور تمہیں اپنے وطن سے نکال دے گی.تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت حیرت سے اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ میری قوم مجھے کس طرح نکال دے گی ۵۴۶ یعنی جو اچھے تعلقات میرے اپنی قوم سے ہیں ان کے نتیجہ میں وہ میری مخالف نہیں ہو سکتی.مگر اُس زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتا دیا کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ایک سخت تاریک رات آنے والی ہے.چنانچہ وہ رات آئی اور قریباً دس سال تک رہی.ان دس سالوں کی خبر بھی قرآن کریم نے دوسری جگہ بتا دی تھی.(۳) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ الْفَجْرِ - وَلَيَالٍ عشر ۵۴۷ ہم صبح کے طلوع کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُن دس راتوں کو شہادت کے طور پر پیش کرتے ہیں جو اس طلوع فجر سے پہلے آئیں گی.میور اور دوسرے یورپین مصنف تسلیم کرتے ہیں کہ یہ سورۃ رسول کریمی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کے تیسرے سال کے قریباً آخر میں نازل ہوئی ہے اُس وقت تک ابھی مکہ کے لوگوں کی مخالفتیں تیز نہیں ہوئی تھیں اُس وقت قرآن کریم نے یہ خبر دے دی تھی کہ تم کی پر تاریکی کی دس راتیں آئیں گی اور جیسا کہ الہامی کلام کے محاورہ سے ثابت ہے دس راتوں سے مراد دس سال ہوتے ہیں اور بائبل میں یہ محاورہ بڑی کثرت سے استعمال ہوا ہے.بائبل میں بالعموم دن کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے لیکن قرآن کریم میں مصیبت کی گھڑیوں کو رات کے لفظ کی

Page 455

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۳ دیباچہ تفسیر القرآن سے تعبیر کیا جاتا ہے اس لئے کہ تاریکی کے زمانہ پر رات ہی اچھی طرح دلالت کرتی ہے بہر حال اس جگہ یہ پیشگوئی کی گئی تھی کہ دس سال متواتر سخت ظلموں کے گزریں گے چنانچہ دیکھ لو اس پیشگوئی کے بعد متواتر دس سال مسلمانوں پر ظلم ہوتے رہے.مکہ والوں کی بدلی ہوئی نگاہوں سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ تو معلوم کر سکتے تھے کہ مکہ والے مجھ پر ظلم کریں گے مگر کیا کوئی عقلمند کہ سکتا ہے کہ آپ اُن کی شکلوں سے یہ بھی معلوم کر سکتے تھے کہ ظلموں کا زمانہ دس سال تک لمبا چلا جائے گا ؟ کیوں نہ آپ نے پانچ سال کہا ، کیوں نہ آپ نے آٹھ سال کہا، کیوں نہ آپ نے بارہ سال کہا، کیوں نہ آپ نے تیرہ سال کہا ؟ آپ کے الہام میں دس سال کے الفاظ آئے اور اس الہام کے بعد آپ دس سال ہی مکہ میں رہے اور تکلیفیں اُٹھاتے رہے.دس سال کے بعد طلوع آفتاب ہوا اور اس مصیبت کے علاقہ سے آپ کو ہجرت کرنی پڑی اور مدینہ میں خدا نے آپ کی ترقی کے سامان پیدا کر دیئے اور خدا کی مدد کا سورج چڑھ آیا.کوئی کہہ سکتا ہے کہ دس سال کی میعاد بھی یونہی اپنے طور پر پیش کر دی گئی تھی.مگر کیا یہ بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں تھا کہ دس سال کے بعد ایک شہر کے لوگوں کو مسلمان بنالیں اور پھر ہجرت کر کے اُس میں چلے جائیں ؟ کیا مدینہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا آپ کے اختیار میں تھا ؟ پھر کیا یہ بات آپ کے اختیار میں تھی کہ آپ مکہ سے نکل کر سلامتی سے مدینہ پہنچ جائیں ؟ مگر یہ سورۃ یہی نہیں بتاتی بلکہ اس میں آگے چل کر یہ بھی بتایا گیا ہے والیلِ إِذا يَشرِ ۵۴۸ دس سال کی تکلیف کے بعد ایک طلوع فجر ہو گا، مگر اس کے بعد بھی ظلمت پوری طرح دور نہ ہوگی بلکہ اس کے بعد بھی ایک رات آئے گی.مگر وہ ایک ہی رات آکر گزر جائے گی.پھر اس کے بعد کوئی رات نہیں آئے گی.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ہجرت کے ایک سال بعد بدر کی جنگ ہوئی اور بدر کی جنگ نے جیسا کہ خود بائیل نے بھی تسلیم کیا ہے اور جیسا کہ میں او پر لکھ آیا ہوں قیدار کی ساری شوکت تباہ کر کے رکھ دی.اگر چہ بعد میں بھی لڑائیاں ہوئیں اور بڑی بڑی ہوئیں مگر بدر کی جنگ نے مسلمانوں کی ایک آزاد اور با اختیار حکومت قائم کر دی اور دشمن کے چوٹی کے آدمی تباہی کے گڑھے میں دھکیل دیئے گئے.(۴) پھر مکہ میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر دی گئی تھی کہ مانّ الَّذِي فَرَضَ

Page 456

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۴ دیباچهتفسیر القرآن عليك القُرآن كراد إلى مَعَادٍ ۵۴۹، یعنی وہ خدا جس نے تجھ پر قرآن نازل کیا اور کی اس کی اطاعت فرض کی ہے وہ تجھے اپنی ذات ہی کی قسم کھا کر بتاتا ہے کہ وہ تجھ کو دوبارہ مکہ میں کو ٹا کر لائے گا.اس خبر میں نہ صرف یہ بتایا گیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ سے ہجرت کرنی پڑے گی بلکہ یہ بھی بتایا گیا تھا کہ ہجرت کے بعد آپ فاتح کی صورت میں مکہ میں داخل ہوں گے کیا ان حالات میں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آرہے تھے آپ اپنے پاس سے ایسی خبر بنا سکتے تھے؟ (۵) اس مفہوم کی قرآن کریم میں ایک اور پیشگوئی بھی ہے اور وہ بھی مکی سورتوں میں نازل ہوئی، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَقُلْ رَبِّ ادْخِلْنِي مُدْخَلَ صِدْقٍ وَ اخْرِجَيْنِ مُخْرَجَ صِدْقٍ وَاجْعَلْ لِي مِن لَّدُنكَ سُلْطنًا نَّصِيرً) ۵۵۰ یعنی کہ اے میرے ربّ! مجھے اس شہر میں جہاں تو بھیج رہا ہے کامیابی کے ساتھ داخل کر اور پھر مجھے کچھ عرصہ کے بعد اس شہر سے کامیابی کے ساتھ حملہ آور ہونے کا موقع عطا فرما اور اس حملہ میں میرا مددگار اور ناصر بن.اس میں بتایا گیا ہے کہ آپ ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جائیں گے اور پھر مدینہ سے مکہ پر حملہ کریں گے اور خدا کی مدد سے مکہ فتح کریں گے.(۶) اسی طرح آپ مکہ میں ہی تھے کہ آپ کو الہام ہوا.اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ القمرُ ۵۵١ اسلام کی ترقی کا وقت آگیا ہے اور عرب کی حکومت تباہ کر دی گئی.چاند عرب کا نشان تھا.چنانچہ جب کوئی شخص خواب میں چاند دیکھے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اُسے عرب کی حکومت کے حالات بتائے گئے ہیں.پس چاند کے پھٹنے کے یہ معنی تھے کہ عرب کی حکومت تباہ ہو جائے گی.اُس وقت جب آپ کے صحابہ دنیا میں چاروں طرف جان بچائے بھاگے پھرتے تھے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھونٹا جاتا تھا اور آپ کی گردن میں پٹکے ڈالے جاتے تھے.جب خانہ کعبہ میں نماز پڑھنے کی بھی آپ کو اجازت نہیں تھی اور جب سارا مکہ آپ کی مخالفت کی کی آوازوں سے گونج رہا تھا اُس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ والوں کو یہ خبر دی کہ عرب کی حکومت کی تباہی کا خدا نے فیصلہ کر دیا ہے اور اسلام کے غلبہ کا وقت آ گیا ہے.پھر کس طرح چندسال کے بعد ہی یہ پیشگوئی پوری ہوئی.قیدار کی ساری حشمت تو ڑ دی گئی.اسلام کا جھنڈا بلند کر دیا گیا.چاند پھٹ گیا.قیامت آگئی اور ایک نیا آسمان اور ایک نئی زمین بنادی گئی.

Page 457

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۵ دیباچہ تفسیر القرآن صلى الله (۷) آپ ابھی مکہ میں ہی تھے کہ عرب میں یہ خبر مشہور ہوئی کہ ایرانیوں نے رومیوں کو شکست دے دی ہے اس پر مکہ والے بہت خوش ہوئے کہ ہم بھی مشرک ہیں اور ایرانی بھی مشرک.ایرانیوں کا رومیوں کو شکست دے دینا ایک نیک شگون ہے اور اُس کے معنی یہ ہیں کہ مکہ والے بھی محمد رسول اللہ ﷺ پر غالب آجائیں گے مگر محمد رسول اللہ ﷺ کو خدا نے بتایا کہ غُلِبَتِ الرُّوم - في أدْنَى الْأَرْضِ وَهُم مِّنْ بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُونَ - في بضع سنین ۵۵۲ رومی حکومت کو شام کے علاقہ میں بے شک شکست ہوئی ہے لیکن اس کی شکست کو تم قطعی نہ سمجھو مغلوب ہونے کے بعد رومی پھر 9 سال کے اندر غالب آجائیں گے.اس پیشگوئی کے شائع ہونے پر مکہ والوں نے بڑے بڑے قہقہے لگائے یہاں تک کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بعض کفار نے سو سو اونٹ کی شرط باندھی کہ اگر اتنی شکست کھانے کے بعد بھی روم ترقی کر جائے تو ہم تمہیں سو اونٹ دیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم ہمیں سو اونٹ دینا.بظاہر اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا امکان دور سے دور تر ہوتا چلا جار ہا تھا.شام کی شکست کے بعد رومی لشکر متواتر کئی شکستیں کھا کر پیچھے ہٹتا گیا یہاں تک کہ ایرانی فوجیں بحیرہ مار مورا MARMARA SEA) کے کناروں تک پہنچ گئیں.قسطنطنیہ اپنی ایشیائی حکومتوں سے بالکل منقطع ہو گیا اور روم کی زبر دست حکومت ایک ریاست بن کر رہ گئی ، مگر خدا کا کلام پورا ہونا تھا اور پورا ہوا.انتہائی مایوسی کی حالت میں روم کے بادشاہ نے اپنے سپاہیوں سمیت آخری حملہ کے لئے قسطنطنیہ سے خروج کیا اور ایشیائی ساحل پر اُتر کر ایرانیوں سے ایک فیصلہ کن جنگ کی طرح ڈالی.رومی سپاہی با وجود تعداد اور سامان میں کم ہونے کے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق ایرانیوں پر غالب آئے ایرانی لشکر ایسا بھا گا کہ ایران کی سرحدوں سے ورے اُس کا قدم کہیں بھی نہ ٹھہرا اور پھر دوبارہ رومی حکومت کے افریقی اور ایشیائی مفتوحہ ممالک اس کے قبضہ میں آگئے.(۸) یہ تو پرانی باتیں ہیں.اسلام نے اس زمانہ کے متعلق بھی بہت سی خبر میں دی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں نہر سویز اور نہر نا پامہ کے متعلق خبر دی گئی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مرج البحرين يلتقينِ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لا يَبْغِينِ فَبِأَيِّ الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبن -

Page 458

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۶ دیباچہ تفسیر القرآن يخْرُجُ مِنْهُمَا اللُّؤْلُو وَالْمَرْجَانُ - نَباتِ الَاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبن - وَلَهُ الْجَوَارِ المُنْشَتُتُ فِى البحر الاعلام - فَبِات الاء رَبِّكُمَا تُكَذِّبن ۵۵۳ ان آیات میں یہ خبر دی گئی ہے کہ دنیا میں دوسمندر ہیں جو ایک دوسرے سے جدا جدا ہیں ، لیکن ایک دن آئے گا جب وہ آپس میں ملا دیئے جائیں گے ان میں بڑے بڑے اُونچے جہا ز سفر کریں گے اور اِن سمندروں کی علامت یہ ہے کہ موتی اور مونگا اُن میں سے نکالا جاتا ہے.یہ پیشگوئی بعینہ نہر سویز کی اور نہر پانامہ پر پوری ہوئی.موتی اور مونگا بھی وہاں ہوتا ہے بڑے بڑے جہاز بھی اُن میں چلتے ہیں اور دو دو سمندر ان نہروں کے ذریعہ سے ملا دیئے گئے ہیں.اسی طرح اور بیسیوں پیشگوئیاں ہیں جو قرآن کریم میں بیان کی گئی ہیں جو اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جیسا کہ سورۃ کہف کے پڑھنے سے ناظرین کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم میں آخری زمانہ میں عیسائیوں کے غلبہ کی بھی خبر دی گئی ہے.دنیا میں اُن کے پھیل جانے کی بھی خبر دی گئی ہے.اُن کی سمندری طاقت کی بھی خبر دی گئی ہے.اُن کی باہمی لڑائیوں کی بھی خبر دی گئی ہے اور آخر میں اسلام کی فتح اور کامیابی کی بھی خبر دی گئی ہے.اور سب پیشگوئیاں پوری ہو چکی ہیں اب اسلام کی فتح کی پیشگوئی پوری ہونی باقی ہے.یورپ کا عیسائی یا یورپ کا دہر یہ اگر اسلام کی کمزور حالت دیکھ کر ہنستا ہے تو ہنسا کرے مگر جس خدا نے وہ پیشگوئیاں پوری کی ہیں وہی خدا یہ آخری پیشگوئی بھی ضرور پوری کرے گا.اسلام کی فتح کے دن آ رہے ہیں تمام تاریکیوں اور تمام ظلمتوں میں سے میں اسلام کے سورج کو جھانکتے ہوئے دیکھتا ہوں.خدا تعالیٰ کی فوجیں آسمان سے اتر رہی ہیں.بیشک شیطانی فوجوں کا اس وقت دنیا پر غلبہ ہے لیکن وہ دن قریب سے قریب تر آ رہے ہیں جب خدا کی فوجیں شیطان کی فوجوں کو شکست دے دیں گی.جب خدا کی توحید دنیا میں پھر قائم ہوگی.جب پھر دنیا یہ تسلیم کر لے گی کہ قرآن ہی ایک ایسی کتاب ہے جو خدا اور بندے میں صلح کراتی ہے اور خدا کی بادشاہت کو اس دنیا میں قائم کرتی ہے اور بنی نوع انسان میں انصاف اور عدل کو قائم کرتی ہے.معجزات عیسائی مؤرخ بالعموم اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ قرآن کریم اپنی نسبت معجزات کا مدعی نہیں.سوائے اس کے کہ قرآن کریم کی نسبت یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ

Page 459

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۷ دیباچهتفسیر القرآن وہ ایک بے مثل کلام ہے.میں سمجھتا ہوں کہ اس سوال پر بھی تمہید میں روشنی ڈالنی ضروری ہے.یا درکھنا چاہئے کہ قرآن کریم دنیا کے سامنے دو اصل پیش کرتا ہے.ایک یہ کہ خدا تعالیٰ کی بعض سنتیں ایسی ہیں جن کو وہ کبھی تبدیل نہیں کرتا.مثلاً قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مردے زندہ ہو کر دوبارہ اس دنیا میں نہیں آتے.یا اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ کے سوا حقیقی مخلوق پیدا کرنے پر قادر نہیں ہوتا.دنیا میں صناع بھی ہو سکتے ہیں ،موجد بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں لیکن حقیقی خالقیت صرف اللہ تعالیٰ ہی کے ذریعہ سے ہوتی ہے.ان دونوں دعوؤں میں سے دعوی اول یعنی مردوں کے زندہ نہ ہونے کا ذکر سورۃ مؤمنوں میں کیا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُونِ - لَعَلَّي أعْمَلُ صَالِحًا فيما تَرَكْتُ عَلّا، إِنَّهَا كَلِمَةً هُوَ قَائِلُهَا ، وَ مِن وَرَائِهِمْ برْزَخٌ إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ۵۵۴ یعنی اللہ تعالیٰ کے سامنے ہوتے وقت بعض روحیں یہ استدعا کریں گی کہ وہ واپس جائیں تا کہ وہ دوبارہ نیک اعمال کریں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ دعا ایسی نہیں جس کو قبول کیا جائے کیونکہ قیامت تک روحوں اور اُس دنیا کے درمیان ایک حد فاصل مقرر کر دی گئی ہے اور کوئی روح اس دنیا کی طرف واپس نہیں لوٹ سکتی.اسی طرح سورۃ انبیاء میں آتا ہے کہ وحرم على قَرْيَةٍ أَهْلَكْنَها أَنَّهُمْ لا يَرْجِعُونَ حَتَّى إِذَا فُتِحَتْ يَأجُوجُ وَمَاجُوجُوهُمْ مِّن كُلِّ حَدَبٍ ينسلون ۵۵۵ یعنی وہ تمام تو میں جو ہلاک ہو چکی ہیں ، اُن کے متعلق ہم یہ قطعی طور پر فیصلہ کر چکے ہیں کہ وہ دوبارہ اِس دنیا میں واپس نہیں آئیں گی یہاں تک کہ یا جوج و ماجوج کیلئے دروازہ کھول دیا جائے گا اور وہ ہر پہاڑی اور ہر سمندری لہر پر سے دوڑتے ہوئے دنیا میں پھیل جائیں گے.اس آیت سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ مردے دوبارہ دنیا میں زندہ نہیں ہوا کرتے.یہ جو کہا گیا ہے کہ یاجوج و ماجوج کے زمانہ تک ایسا نہیں ہوگا اس کا یہ مطلب نہیں کہ بعد میں مردے زندہ ہونے لگ جائیں گے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ زمانہ قیامت کے قرب کا زمانہ ہے اور اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ قیامت کے زمانہ تک ایسا کام نہیں ہوگا.بعض نحویوں نے اس کے یہ

Page 460

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۸ دیباچہ تفسیر القرآن بھی معنی کئے ہیں کہ یاجوج و ماجوج کے زمانہ میں مردوں کو زندہ کرنے کی کوشش کی جائے گی کی (لیکن اس زمانہ میں بھی باوجود سائنس کی پوری ترقی کے ) اس بات میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی.بہر حال قرآن کریم اس بات کا بھی منکر ہے کہ مرد ے دوبارہ اسی دنیا میں زندہ ہو کر آئیں.اسی طرح وہ اس بات کا بھی منکر ہے کہ کوئی ہستی خدا تعالیٰ کے سوا حقیقی مخلوق پیدا کر سکے.چنانچہ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے والّذينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ الله لا يَخْلُقُونَ شَيْئًا وَهُمْ يُخْلَقُونَ - اَمْوَاتٌ غَيْرُ احْيَاء وَ مَا يَشْعُرُونَ أيَّانَ يُبْعَثُونَ ۵۵۶ یعنی وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ کے سوا لوگ امداد کے لئے پکارتے ہیں.وہ ذرا سی چیز بھی پیدا نہیں کر سکتے بلکہ وہ خود پیدا کئے گئے ہیں ، وہ مردے ہیں زندہ نہیں اور اُن کو تو یہ بھی علم نہیں تھا کہ وہ کب اُٹھا کر خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جائیں گے.اسی طرح قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی احمقانہ بات خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی کیونکہ خدا تعالیٰ حکیم ہے یعنی اُس کے سارے کام حکمت کے ساتھ ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم میں علاوہ اس کے کہ خدا تعالیٰ کا نام حکیم رکھا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ما لَكُمْ لا تَرْجُونَ لِلهِ وَقَارًا ۵۵۷ اے اسلام کے دشمنو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم اپنے کی متعلق تو یہ ثابت کرنا چاہتے ہو کہ تمہارے کام حکمت کے مطابق ہیں مگر خدا تعالیٰ کے متعلق یہ بات تسلیم نہیں کرتے اور اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہو جو حکمت کے خلاف ہوتی ہی ہیں.یہ تین باتیں یا اسی قسم کی اور باتیں اگر خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کی جائیں تو خواہ اُن کا نام معجزہ رکھا جائے ، خواہ ان کا نام کرامت رکھا جائے خواہ اِن کا نام جادو ر کھا جائے قرآن کریم اس کا مخالف ہے اور اس قسم کے معجزات نہ پہلے انبیاء کی طرف منسوب کرنا جائز سمجھتا ہے اور نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ایسے معجزات منسوب کرتا ہے.اس سے زیادہ احمقانہ بات کیا ہو گی کہ خدا تعالیٰ ایک قانون دنیا میں جاری کرے اور پھر خود ہی اُس قانون کو تو ڑ بھی دے کوئی معقول انسان بھی تو ایسے افعال نہیں کرتا.اس قسم کی باتیں خدا تعالیٰ کے نبیوں کی طرف منسوب کرنا اُن کی عزت کو نہیں بڑھا تا بلکہ اُن کو نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ ذلک بیوقوفوں کے زمرہ کی طرف منسوب کرتا ہے اور ہر عقلمند انسان کا کام ہے کہ اس بات کا مقابلہ کرے اور اس

Page 461

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۴۹ دیباچہ تفسیر القرآن چیز کو خوبی نہیں بلکہ الزام سمجھے اور اس کا رڈ کرے.باقی رہا یہ کہ خدا تعالیٰ بعض ایسے افعال اپنے انبیاء کے ذریعہ سے صادر کرا دیتا ہے جو خدا تعالیٰ کے قانون قدرت میں کوئی رخنہ نہیں ڈالتے اور عقل کے خلاف نہیں ہوتے.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کیا غیب کا علم معجزہ نہیں.کیا غیر معمولی حالات میں کسی کمزور انسان کو دنیا پر غالب کر دینا یہ معجزہ نہیں.پھر جبکہ علاوہ قرآن کریم کے معجزہ کے قرآن کریم اس بات کا بھی مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر علم غیب ظاہر کیا جاتا تھا اور اس بات کا بھی مدعی ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے خدا تعالیٰ اپنی قدرتیں اور اپنی تائید میں ظاہر کیا کرتا تھا تو کیونکر کہا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت معجزات کا انکار کرتا ہے.قرآن کریم تو بار بار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معجزات منسوب کرتا ہے.کیا جب ایسے حالات میں مکہ والوں کی مخالفت کی خبر دی گئی تھی تو جبکہ اُن کی مخالفت کا کوئی امکان نہیں تھا، یا جب ہجرت کی خبر دی گئی اور اس کا سن تک بتا دیا گیا یا نی جب قرآن کریم میں بدر کی جنگ کے واقعہ ہونے سے سالہا سال پہلے بدر کی جنگ کی خبر دی گئی اور اُس کے سال تک کی بھی خبر دی گئی اور اس میں مسلمانوں کے جیتنے اور کفار کے ہارنے کی خبر دی گئی.یا جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے پہلے ہی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہجرت کرنے کی خبر دی گئی اور پھر ایک غالب اور فاتح شخص کی حیثیت میں مکہ میں واپس لوٹنے کی خبر دی گئی یا جب قرآن کریم میں رومیوں کی خطر ناک شکست کے بعد اُن کے دوبارہ کامیاب ہو جانے اور ایرانیوں کے شکست کھانے کی خبر دی گئی یا جب قرآن کریم نے اسلام کے تمام عرب میں پھیل جانے کی خبر دی اور پھر دنیا کے دوسرے تمام ادیان پر غالب آجانے کی خبر دی اور آئندہ واقعات نے اِن تمام باتوں کی تصدیق کر دی تو کیا یہ معجزہ نہ تھا؟ اور کیا ان کی باتوں کے بیان کرنے کے بعد قرآن کریم یہ دعویٰ کر سکتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا ؟ قرآن کریم کی جن آیتوں سے معترضین یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا در حقیقت اس کا باعث ان کی عربی سے ناواقفیت اور قرآن کریم کے

Page 462

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۰ دیباچہ تفسیر القرآن اسلوب سے لاعلمی ہوتی ہے.قرآن کریم میں جہاں یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ ہمیں معجزہ کے بھیجنے سے کسی بات نے نہیں روکا سوائے اس کے کہ پہلے لوگ معجزات کا انکار کرتے چلے آئے ہیں وہاں آیت کے یہ معنی نہیں جیسا کہ عیسائی مصنفین سمجھے ہیں کہ اس وجہ سے ہم معجزہ دکھانے سے رُک گئے ہیں بلکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ معجزہ دکھانے میں روک ہی کونسی ہے.صرف اتنی ہی چی روک ہو سکتی ہے کہ پہلے لوگوں نے معجزہ کا انکار کیا تو یہ کوئی روک نہیں، باوجود اس کے کہ ابتدائی کی انبیاء کے دشمنوں نے ان کے معجزوں کو رڈ کیا ، ان کے بعد آنے والے انبیاء کو بھی معجزات ملتے رہے.پھر کیا وجہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منجزات نہ ملیں.یا جب کفار کے مطالبہ پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ کہا جاتا ہے کہ میں تو تمہاری طرح کا ایک بشر ہوں.تو اس میں یہ نہیں بتایا جاتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر منجزات ظاہر نہیں ہوتے بلکہ اس جگہ صرف یہ بتایا جا تا ہے کہ معجزہ دکھا نا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہیں خدا تعالیٰ کا کام ہے.کیا اس زبر دست حقیقت کا اظہار قرآن کریم کی شان بڑھاتا ہے یا گھٹاتا ہے؟ وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے خدائی کے اختیار بندوں کو دے دیئے ہیں وہ سچائی کے پیرو کہلا سکتے ہیں یا وہ جو اپنی بشریت کا اظہار کرتے ہوئے اس حقیقت کو پیش کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے پیارے بندوں کے واسطہ سے معجزہ دکھاتا ہے.علاوہ پیشگوئیوں کے قرآن کریم میں دوسری قسم کے معجزات کا بھی ذکر آتا ہے.مثلاً قرآن کریم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس معجزہ کا ذکر آتا ہے کہ غار ثور میں جب آپ پناہ گزیں تھے ، تو مکہ والے کھوجیوں کو لے کر آپ کا کھوج نکالتے ہوئے غار ثور تک پہنچ گئے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُس وقت حضرت ابوبکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر گھبرائے مگر آپ نے فرمایا لا تحزن إن الله معنا ۵۵۸ گھبراؤ نہیں خدا ہمارے کی ساتھ ہے.دشمن ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.کیا یہ معجزہ نہیں جس کو قرآن کریم بیان کرتا ہے کیا دنیا کی اس کی مثال پیش کر سکتی ہے !! دو آدمی بے سرو سامان ایک غار میں بیٹھے ہیں.دشمن اُن کا تعاقب کرتا ہوا وہاں پہنچ گیا ہے اور یونہی رسمی طور پر نہیں بلکہ حقیقی طور پر وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھی کے بھاگنے کو اپنی شکست تصور کرتا ہے اور اسے اتنا اہم معاملہ سمجھتا

Page 463

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۱ دیباچہ تفسیر القرآن ہے کہ وہ آپ کے پکڑے جانے پر سو اونٹ کا انعام مقرر کرتا ہے، لیکن باوجود اس کے کہ کھوجی کی کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھوج یہاں تک آتا ہے ، آگے نہیں جاتا.مکہ کے لوگوں کی آنکھوں اور اُن کے دلوں پر خدا تعالیٰ ایسا قبضہ کر لیتا ہے کہ تین میل کے تعاقب کرنے کے بعد اور اتنا انعام شائع کر دینے کے بعد اُن میں سے کسی شخص کو توفیق نہیں ملتی کہ وہ غار کے اندر جھانک سکے اور وہیں سے سب مکہ والے لوٹ جاتے ہیں.اس سے بڑا معجزہ دنیا میں اور کیا ہوگا.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ جنگ بدر کے متعلق فرماتا ہے کہ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کی ایک مٹھی پھینکی اور اُس کے ساتھ دشمن تہ و بالا ہو گیا ۵۵۹ حدیثوں سے اس واقعہ کی تفصیل یوں معلوم ہوتی ہے کہ جب بدر کی جنگ شدت اختیار کر رہی تھی اور کفار کا زور بڑھ رہا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکروں کی ایک مٹھی اُٹھا کر کی دشمنوں کی طرف پھینکی اور فرمایا شَاهَتِ الْوُجُوهُ دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں.تب خدا تعالیٰ نے آپ کے اس فعل کے ساتھ ہی ایک تیز آندھی چلا دی جسکی وجہ سے اُس میدان سے جس میں مسلمان کھڑے تھے ریت کے تو دے اُڑ اُڑ کر کفار کی آنکھوں میں پڑنے شروع ہوئے اور وہ کی دیکھنے سے معذور ہو گئے اور اُن کے تیر مخالف ہوا کی شدت کی وجہ سے آدھے راستے میں ہی گرنے لگ گئے اور مسلمانوں کو ایک غیر معمولی طاقت اور قوت حاصل ہو گئی.کیا یہ معجزہ نہیں؟ اور کیا اس واقعہ کو بیان کر کے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف معجزہ منسوب نہیں کیا ہاں قرآن کریم اس قسم کی جاہلانہ باتیں نہیں کہتا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حقیقی مردے زندہ کیا کرتے تھے.یا سورج اور چاند کی رفتار کو ٹھہرا دیا کرتے تھے.یا دریاؤں کو کھڑا کر دیتے تھے یا پہاڑوں کو چلایا کرتے تھے.یہ تو پنگھوڑے میں کھیلنے والے بچوں کی کہانیاں ہیں.ان باتوں کو قرآن کریم نہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتا ہے نہ کسی اور نبی کی طرف منسوب کرتا ہے بلکہ اگر پہلی کتب میں اس قسم کی باتیں بیان بھی ہوئی ہیں تو قرآن کریم ان کی تشریح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ باتیں محض استعارہ ہیں لوگوں نے ان کو حقیقی رنگ دینے میں غلطی کی ہے.

Page 464

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۲ دیباچہ تفسیر القرآن قرآنی تعلیم کے اُصول قرآن کریم کو دوسری تمام کتب پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہ مذہب کے متعلق سب کے سب سوالات کو حل کرتا ہے اور مذہب کے اُصول کو نمایاں طور پر پیش کر کے لوگوں کی توجہ اس طرف پھراتا ہے کہ مذہب کا کیا دائرہ ہے اور اس کا کیا فائدہ ہے.تو رات کو پڑھ جاؤ ، انجیل کو پڑھ جاؤ، ویدوں کو پڑھ جاؤ، ژند اوستا کو پڑھ جاؤ یا اور کسی کتاب کو پڑھ جاؤ ، یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لمبے مظاہر ہ قدرت کے درمیان کسی وقت کوئی شخص آپہنچا ہے اور اُس نے اِس مظاہرہ کو اُس وقت سے بیان کرنا شروع کر دیا ہے جب سے اُس کی نظر اُس پر پڑی ہے، لیکن قرآن کریم مذہب کو اس رنگ میں پیش نہیں کرتا وہ خلق کی حکمت اور اس کی پیدائش کے ساتھ تعلق رکھنے والے سب اُمور کو بیان کرتا ہے.وہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے دنیا کو کیوں پیدا کیا ہے، انسان کے پیدا کی کرنے سے اس کی غرض کیا ہے، اس غرض کے پورا کرنے کے لئے کونسے ذرائع اختیار کرنا ضروری ہیں خود اللہ تعالیٰ کا وجود کیا ہے اور کیسا ہے؟ اس کی کیا کیا صفات ہیں اور وہ صفات کس طرح دنیا میں جاری ہوتی ہیں؟ بنی نوع انسان کی پیدائش کا مقصد بتاتے ہوئے اُس نے اِس نظام کی تشریح کی ہے جو اس دنیا کو چلانے کے لئے جاری کیا گیا ہے.وہ ایک طرف تو یہ بتاتا ہے کہ جسم انسانی کے ارتقاء اور نشو و نما کے لئے خدا تعالیٰ نے دنیا میں ایک قانونِ قدرت جاری کیا ہے جو انسان کے جسم اور اس کے دماغ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور یہ تمام قانونِ قدرت خدا تعالیٰ کے ملائکہ میں سے ایک قسم کے ملائکہ کے سپر د ہے.دوسری طرف انسانی روح کی ترقی اور اس کی بصیرت کو جلا بخشنے کیلئے اُس نے قانونِ شریعت کو قائم کیا ہے.یہ قانونِ شریعت ملائکہ کی ایک دوسری قسم کے ذریعہ سے دنیا میں نازل ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے انبیاء پر نازل ہوتا ہے ہے.کبھی تو یہ شریعت ایک مکمل قانون کی صورت میں نازل ہوتی ہے.کبھی ایک جزوی اصلاح کی صورت میں نازل ہوتی ہے اور کبھی انسانی تشریحات سے بگاڑی ہوئی شکل کو دوبارہ بحالی کرنے کی صورت میں نازل ہوتی ہے.یعنی کبھی اللہ تعالیٰ کے نبی اس لئے آتے ہیں کہ اُن کے ذریعہ سے ایک نئی شریعت قائم کی جائے.کبھی اس لئے آتے ہیں کہ پرانی شرائع کی بعض غلطیوں کی اصلاح کی جائے.کبھی اس لئے آتے ہیں کہ شریعت کے معنی کرنے میں جو لوگ غلطی

Page 465

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۳ دیباچہ تفسیر القرآن کرنے لگ جاتے ہیں اُن کی اصلاح کریں.پھر وہ شریعت کی حکمتیں بیان کرتا ہے کہ کیوں خدا تعالیٰ کی طرف سے شریعت کا آنا ضروری ہے.اس کے فوائد کیا ہیں اور شریعت انسان کی ترقی میں کیا مدددیتی ہے.وہ صفات اور ذات کا فرق بیان کرتا ہے اور اس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جن لوگوں نے یہ کہا کہ : ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا.۵۶۰ وہ سخت غلطی خوردہ ہیں.صفت ذات کی قائم مقام نہیں ہوسکتی.صفت صفت ہی ہے اور ذات ذات ہی ہے.قرآن کریم انسان کے مختار اور مجبور ہونے کے متعلق بھی روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس حد تک انسان مجبور ہے اور کس حد تک مختار ہے اور پھر وہ اس پر روشنی ڈالتا ہے کہ انسان کی اس حد تک مجبور نہیں ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہی سے بری ہو جائے یا اس کی اصلاح نہ ہو سکے.ہاں وہ اس حد تک مجبور ضرور ہے کہ اس دائرہ عمل سے باہر نہیں جا سکتا جو خدا تعالیٰ نے اس کے لئے تجویز کیا ہے.انسان اپنی ساری کوششوں کے بعد انسان ہی رہے گا ہی نہ اُسے جمادات کی طرح بنایا جا سکتا ہے نہ وہ فرشتوں کی طرح بنایا جا سکتا ہے لیکن اپنے دائرہ کی کے اندراندر اُسے بہت کچھ طاقتیں حاصل ہیں اور بحیثیت انسان وہ کسی صورت میں بھی اصلاح اور نصیحت کے دائرہ سے باہر نہیں.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان کیسا لانا چاہئے.اس کی ہستی کے ثبوت کیا ہیں.اور وہ اس امر پر زور دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہی تاریکی کے وقتوں میں اپنا کلام نازل کر کے اور اپنی غیر معمولی قدرتوں کو ظاہر کر کے اپنی ہستی کو ثابت کرتا رہتا ہے اور یہی اُس کے وجود کا حقیقی ثبوت ہے.پس انبیاء اور اُن کے کامل اتباع کا ی وجود خدا تعالیٰ کی ہستی کے ثابت کرنے کے لئے دنیا میں نہایت ضروری ہے.اگر خدا تعالیٰ انبیاء اور اُن کے ابتاع کے آئینہ میں اپنی شکل نہ دکھاتا رہے تو دنیا شکوک وشبہاب کے گڑھے میں گر جائے اور خدا تعالیٰ کا وجود دنیا سے مٹ جائے.پس جب تک دنیا قائم ہے خدا تعالیٰ سے کلام پانے والے اور اس کے مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہونے والے آدمی دنیا میں آتے رہیں گے اور یہ سلسلہ کبھی بھی ختم نہ ہوگا کیونکہ ایمان کا قیام اس ذریعہ سے ہے کہ خدا تعالیٰ ابتدائے عالم کی

Page 466

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۴ دیباچ تفسیر القرآن سے لے کر مسیح تک اور مسیح سے لے کر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک کلام کرتا چلا آیا ہے اُسی طرح جس طرح کہ وہ پیدا کرتا چلا آیا ہے، جس طرح وہ سنتا چلا آیا ہے، جس طرح وہ دیکھتا چلا آیا ہے وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی مخلوق کی انتہاء تک اپنے خاص خاص بندوں سے کلام کرتا چلا جائے گا اور اپنی ذات کو دنیا پر ظاہر کرتا رہے گا.یہ نہیں ہو سکتا کہ مسیح یا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ گویا رہا ہو اور پھر وہ گونگا ہو گیا ہو.جس طرح یہ نہیں ہوسکتا کہ مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ بینا تھا مگر بعد کو اندھا ہو گیا.یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ خالق تھا مگر اس کے بعد اس سے صفت خلق جاتی رہی.یا مسیحی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ طاقتور تھا مگر اس کے بعد اُس کی طاقت سلب ہوگئی.کون عظمند اس بات کو تسلیم کر سکتا ہے کہ خدا پہلے طاقتور تھا اب کمزور ہو گیا ہے یا خدا پہلے بینا تھا تو اب اندھا ہو گیا ہے.یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک وہ خالق تھا اس کے بعد پیدائش کی طاقت اُس کے ہاتھوں سے نکل گئی.یا مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک تو وہ علیم تھا اس کے بعد اس کا علم جاتا رہا.تعجب کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ حقیقت اتنی واضح ہے پھر بھی زرتشتی ، یہودی ، عیسائی اور آجکل کے غلطی خوردہ مسلمان اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام زرتشت، پرانے اسرائیلی نبیوں ، مسیح اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر ختم ہو گیا ہے.قرآن اس کو رڈ کرتا ہے.قرآن خدا تعالیٰ کے زندہ ہونے کا ثبوت ہی اس بات کو قرار دیتا ہے کہ خدا اپنے نیک بندوں سے ہمیشہ کلام کرتا رہے گا جس طرح وہ پہلے کلام کیا کرتا تھا اور اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور نے ایک دفعہ پھر اس قرآنی صداقت پر مہر لگادی ایک دفعہ پھر خدا تعالیٰ کا کلام آپ پر اور آپ کے نیچے اتباع پر نازل ہو کر دنیا کے اُن لوگوں کو چیلنج دے رہا ہے جو لفظ نہیں تو عقیدہ ضرور خدا تعالیٰ کو گونگا بنا رہے تھے.قرآن اس بحث کو بھی اُٹھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کلام کسی ایک قوم سے مخصوص نہیں بلکہ تمام اقوام میں خدا تعالیٰ کے نبی آتے رہے ہیں اور وہ اس سوال کو بھی اُٹھاتا ہے کہ یکے بعد دیگرے خدا تعالیٰ کے نبی کیوں آتے رہے اور کیوں نہ ایک کامل کتاب ابتدائی زمانہ میں ہی نازل ہو گئی.پھر قرآن کریم تو حید کے مسئلہ پر ایک سیر کن بحث کرتا ہے.وہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے

Page 467

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۵ دیباچہ تفسیر القرآن ایک ہونے کے کیا ثبوت ہیں.کیوں کہ ایک سے زیادہ خدا التسلیم کرنا عقل کے خلاف ہے اور واقعہ کے بھی خلاف ہے اور دنیا کو توحید کے عقیدہ سے کیا کچھ روحانی فائدہ پہنچتا ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کے بعد نبوت کا مقام ایک ایسا مقام ہے جو دنیا کے لئے ہمیشہ زیر بحث چلا آیا ہے.نبی یا اس کے ہم معنی الفاظ کا استعمال تو تمام کتابوں میں پایا جاتا ہے، لیکن قرآن کی کے سوا کوئی ایک کتاب بھی نہیں جو یہ بتاتی ہو کہ اس لفظ کی تشریح کیا ہے؟ ہم کس شخص کو نبی کہہ سکتے ہیں اور کس شخص کو نبی نہیں کہہ سکتے اور نبوت کی کیا کیا اقسام ہیں، قرآن ہی ہے جو بتاتا ہے کہ نبی کی تعریف کیا ہے ، نبیوں کی کتنی قسمیں ہیں، نبی اور غیر نبی میں کیا فرق ہے، نبی کے فرائض کیا ہیں، نبی اور خدا میں کیا فرق ہے، نبی کی بعثت کی غرض کیا ہے، نبی اور اس کی اُمت کے درمیان کیسا تعلق ہونا چاہیے ، نبی کے حقوق کیا ہیں، نبی اور اس کے منکروں کے تعلقات کی بنیاد کیا ہونی چاہئے ، کیا نبی خدا اور بندوں کے درمیان ایک دیوار حائل کی حیثیت رکھتا ہے یا وہ محض ایک ممد اور مددگار کی حیثیت رکھتا ہے.اسی طرح قرآن کریم ملائکہ کے متعلق تفصیلی بحث کرتا ہے.ملائکہ کے کیا کام ہیں، خدا تعالیٰ نے ملائکہ کو کیوں بنایا ہے، اسی طرح وہ یہ بھی بحث کرتا ہے کہ شیطان کیا ہے، اس کا وجود بنی نوع انسان کے لئے کیوں ضروری ہے ، شیطان کے وساوس سے انسان کس طرح بچ سکتا ہے، شیطان اور انسان کا کیا تعلق ہے، کیا شیطان انسان کو مجبور کر سکتا ہے یا نہیں کر سکتا.اور وہ بتاتا ہے کہ جس طرح ملائکہ انسان کے دل میں نیک تحریکیں پیدا کرتے ہیں اسی طرح شیاطین بد تحریکیں پیدا کرتے ہیں لیکن انسان کے اندر دونوں طاقتیں موجود ہیں.وہ ملائکہ کی نیک تحریکوں کو قبول بھی کر سکتا ہے اور اُن کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے.وہ شیطان کی بد تحریکوں کو قبول بھی کر سکتا ہے اور اُن کا مقابلہ بھی کر سکتا ہے یہ دونوں وجود انسان کو کامل کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور اُس کے وجود کو ایک حقیقت عطا کرنے کا ذریعہ ہیں.ملکی اور شیطانی تحریکوں کے بغیر انسان کسی انعام کا مستحق نہیں بن سکتا اور نہ وہ کسی سزا کا مستوجب بن سکتا ہے.اگر شیطان انسان پر اثر ڈالنے والا نہ ہو تو انسان کسی انعام کا بھی مستحق نہیں اور اگر ملکی تحریکیں دنیا میں موجود نہ ہوں تو انسان کسی سزا کا بھی مستوجب نہیں.بدی ہی کا مقابلہ انسان کو انعام کا مستحق بناتا ہے

Page 468

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۶ دیباچہ تفسیر القرآن اور نیکی سے منہ موڑنا ہی انسان کو سزا کا مستوجب بناتا ہے.قرآن کریم اس سوال پر بھی روشنی کی ڈالتا ہے کہ دعا کیا ہے، دعا کرنے کے طریق کیا ہیں ، دعائیں کن حالات میں قبول ہوتی ہیں اور کن حالات میں قبول نہیں ہوتیں.دعاؤں کی قبولیت کا دائرہ کیا ہے.وہ نیکی اور بدی پر بھی بحث کرتا ہے کہ نیکی کیا چیز ہے اور بدی کیا چیز ہے، ان کی حدیں کہاں ملتی ہیں، حقیقی نیکیاں کیا تج ہیں اور حقیقی بدیاں کیا ہیں، نسبتی نیکیاں کیا ہیں اور نسبتی بدیاں کیا ہیں، وہ نیکی اور اخلاق فاضلہ پیدا کرنے کے طریق بتاتا ہے، وہ بدیوں سے بچنے کے طریق بتا تا ہے ، وہ نیکیوں اور بدیوں کے منبع پر روشنی ڈالتا ہے اور بدیوں کے منبع کو بند کرنے کی تعلیم دیتا ہے.وہ تو بہ پر بھی روشنی ڈالتا ہے، تو بہ کی حقیقت بتاتا ہے ، تو بہ کے فوائد بتاتا ہے، تو بہ کے مواقع بتاتا ہے اور تو بہ کی شرائط بیان کرتا ہے.اسی طرح وہ جزاء سزا کے متعلق بھی پوری روشنی ڈالتا ہے جزاء کن حالات میں دی جاتی ہے، سزا کن حالات میں دی جاتی ہے جرم اور سزا کی نسبت کیا ہونی چاہئے.پھر وہ اسی سلسلہ میں نجات کی تفاصیل بیان کرتا ہے.نجات کیا ہے اور کس طرح حاصل ہوتی ہے اور کیا ہر ایک بدی انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے.قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ نجات تین قسم کی ہے، کامل، ناقص اور ملتوی.کامل نجات انسان اسی دنیا سے حاصل کرتا ہے.ناقص نجات والا انسان مرنے کے بعد تدریجی طور پر اپنی نجات کے سامانوں کو مکمل کرتا ہے اور ملتوی نجات وہ ہے جو سزائے جہنم لے لینے کے بعد حاصل ہوتی ہے.اس آخری قسم کی نجات کے بارہ میں اسلام اور عیسائیت میں ایک رنگ میں تشابہہ بھی ہے اور ایک رنگ میں تخالف بھی ہے.عیسائیت صرف کمزور عیسائیوں کو جو اپنے عقیدہ میں پکے ہوں اس دوزخ کا سزاوار قرار دیتی ہے کہ جس میں سے نکل کر انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے لیکن اسلام اس بات پر زور دیتا ہے کہ ہر انسان نجات ہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اور خواہ کوئی کیسا ہی کا فر ہو مختلف قسم کے علاجوں کے بعد جن میں سے ایک علاج جہنم بھی ہے وہ آخر جنت کو پالے گا.قرآن نجات کے بارہ میں وزن اعمال پر زور دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ نیک اعمال کا بڑھ جانا انسان کی نجات کے لئے اس کی سچی کوشش پر دلالت کرتا ہے اور جو شخص بچی کوشش کرتا ہوا مر جاتا ہے وہ اس سپاہی کی طرح ہے جو فتح سے پہلے مارا جاتا ہے.موت جس طرح سپاہی کے اختیار میں نہیں اسی طرح نیکی کی راہ چھ

Page 469

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۷ دیباچہ تفسیر القرآن اختیار کرنے والے کے بھی اختیار میں نہیں.موت خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اگر ایک شخصی نیکی کے لئے جدو جہد کرتے ہوئے مر جاتا ہے تو یقیناً وہ خدا کے فضل کا مستحق ہے سزا کا مستوجب نہیں.کوئی قوم اپنے سپاہیوں کو اس بات پر ملامت نہیں کیا کرتی کہ وہ فتح پانے سے پہلے کیوں مارے گئے بلکہ فتح کے لئے بھی کچی کوشش کرنے والا سپاہی عزت پاتا ہے اسی طرح کی وہ شخص جو شیطان کو زیر کرنے کے لئے پورا زور لگا رہا ہے کبھی شیطان اُس پر غالب آجاتا ہے اور کبھی وہ شیطان پر غالب آجاتا ہے مگر وہ دل نہیں ہارتا، وہ ہمت نہیں ہارتا ، وہ ہتھیار نہیں ڈالتا ، وہ خدا تعالیٰ کی بادشاہت کے قیام کے لئے شیطان سے لڑتا چلا جاتا ہے ایسا انسان قرآن کے نزدیک یقیناً نجات کا مستحق ہے.اُس کی کمزوری اُس کے لئے ایک زیور ہے کیونکہ وہ باوجود کمزور ہونے کے خدا کے سپاہیوں میں شامل ہونے سے ڈرا نہیں اور اپنی قربانی پیش کرنے سے ہچکچا یا نہیں.قرآن کریم روحانی ارتقاء کی منازل بیان کرتا ہے اور بتا تا ہے کہ روحانی مدارج کیا ہیں، کتنے ہیں اور مختلف اخلاق کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ روحانی مدراج کی تفصیل بیان کرتا ہے.وہ بتا تا ہے کہ عفت کتنی اقسام کی ہے، وہ بتاتا ہے کہ سخاوت کتنی اقسام کی ہے، وہ سچائی کی اقسام بیان کرتا ہے ، وہ رحم اور حسن سلوک کے مدراج بیان کرتا ہے تا کہ ہر طاقت وقوت کا انسان اپنے لئے ایک قریب کی منزل مقرر کر سکے اور اس طرح جہاں اُس کی حوصلہ افزائی ہو وہاں چھوٹی ترقی پر خوش ہونے کی غلطی میں وہ مبتلا نہ ہو جائے.وہ ہر شخص کے قریب کی منزل اُسے بتا تا ہے مگر ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ اس سے اوپر ایک اور منزل بھی ہے.جب تم پہلی منزل طے کر لو تو کی تمہیں اُوپر کی منزل کی طرف اپنا قدم بڑھانا چاہئے اس طرح وہ قدم بقدم اور درجہ بدرجہ انسان کی کو او پر لئے چلا جاتا ہے.قرآن انسان کے دماغی ارتقاء پر بھی روشنی ڈالتا ہے وہ بتاتا ہے کہ انسان کا دماغی نشو و نما کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح خدا تعالیٰ کے نزدیک اُس کے دماغی نشو ونما کا بھی اس کے متعلق فیصلہ کرنے کے وقت لحاظ رکھا جاتا ہے وہ شخص جو ایک اچھے ماحول میں پلا ہے اور جس کے لئے نیکی کا رستہ آسان ہو گیا ہے وہ محض اپنے اعمال کی وجہ سے دوسرے پر فضیلت نہیں پائے گا، بلکہ دوسرا شخص جس کا دماغی نشو ونما اس پہلے شخص کے برا بر نہیں اور جس کا

Page 470

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۸ دیباچہ تفسیر القرآن ماحول اس جیسا اچھا نہیں اُس کے رستہ کی روکوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا جائے گا اور فیصلہ کے وقت اُنہیں بھی مد نظر رکھا جائے گا.قرآن ایمان پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ ایمان کیا چیز ہے ، ایمان کی علامتیں کیا ہیں ، ایمان کے حصول کے ذرائع کیا ہیں وہ قانونِ شریعت اور اُس کی ضرورت کے متعلق بھی روشنی ڈالتا ہے اور بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا قانون بھی بغیر حکمت کے نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ اپنے بندے کو کوئی حکم اس لئے نہیں دیتا کہ وہ اسے سزا دے اور اس پر بو جھ ڈالے بلکہ وہ ہر حکم اس لئے دیتا ہے کہ وہ انسان کی ترقی کی منزل میں مرد اور معاون اور اس کی تمدنی حالت کو سدھارنے والا ہوتا ہے قرآن جبری حکموں کا قائل نہیں وہ اس حق کو تسلیم کرتا ہے کہ خدا بھی جس شخص کو سزا دے اس شخص کو اپنی ذات سے الزام کو دور کرنے کا پورا موقع ملنا چاہئے اور اس کے اُوپر پوری طرح حجت تمام ہونی چاہئے خواہ کوئی کتنا ہی بڑا مجرم ہومگر اُس پر حجت تمام ہوئے بغیر قرآن اُس کی سزا کا قائل نہیں.عبادت کی چار اصولی قسمیں قرآن عبادت الہی سے تعلق بھی تفصیل روشنی (01 ڈالتا کی ہے وہ عبادت کو چار اُصولی حصوں میں تقسیم کرتا ہے (۱) وہ عبادت جس کی غرض خدا تعالیٰ کے ساتھ محبت اور اس کے ساتھ تعلق بڑھانا ہے.(۲) وہ عبادت جو انسان کے جسم کی اصلاح کے لئے قربانیاں کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے ہے.ہوتی ہے.(۳) وہ عبادت جو انسانوں کے اندر مرکزیت پیدا کرنے کے لئے اور اتحاد و یگانگت کا احساس پیدا کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے.(۴) وہ عبادت جو بنی نوع انسان کی اقتصادی حالتوں میں یکسوئی اور یکرنگی پیدا کرنے کے لئے مقرر کی جاتی ہے.یہ چار اصول عبادت کے اسلام مقرر کرتا ہے اور ان چار اُصول کے مطابق اس نے مختلف قسم کی عبادتیں مقرر کی ہیں.اِن اُصول کو تجویز کر کے اسلام نے یہ نظریہ پیش کیا ہے کہ عبادت صرف اسی بات کا نام نہیں کہ انسان خدا تعالیٰ کی طرف دھیان دے بلکہ بنی نوع انسان کی طرف توجہ کرنے سے بھی خدا تعالیٰ کی عبادت کا فرض ادا ہوتا ہے.اسی طرح اسلام نے یہ نکتہ بھی پیش کیا ہے کہ عبادات صرف انفرادی نہیں بلکہ وہ

Page 471

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۵۹ دیباچهتفسیر القرآن اجتماعی بھی ہوتی ہیں.انسان کا صرف یہی فرض نہیں کہ وہ خود خدا کے سامنے پیش ہو جائے ، بلکہ انسان کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے بھائیوں کو بھی خدا کے سامنے پیش ہونے کے لئے تیار کرے اس لئے قرآن کے جتنے احکام عبادات کے متعلق ہیں وہ انفرادی بھی ہیں اور اجتماعی بھی ہیں.خد تعالی کی محبت پیدا کرنے اور براہ راست خدا تعالیٰ کی اسلامی نماز اور مسجد میں ذات کی طرف متوجہ کرنے کے لئے اسلام میں نماز مقررکی گئی ہے یہ نماز دنیا کے اور تمام مذاہب کی عبادتوں سے مختلف ہے.اس نماز میں انفرادیت اور اجتماعیت دونوں کا لحاظ رکھا گیا ہے اور رسم و نمائش کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہے.عبادتوں کے لئے جس قسم کے گرجے اور مندر پہلے زمانہ میں بنا کرتے تھے اور جو جو تکلفات ان کے متعلق کئے جاتے تھے قرآن نے اُن سب کو منسوخ کر دیا ہے.قرآن خدا تعالی کی عبادت کے لئے زمین کے ہر ٹکڑہ کو مستحق عبادت سمجھتا ہے.کوئی ٹکڑہ اس بارہ میں دوسرے سے فضیلت نہیں رکھتا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قرآنی حکم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا ہے جُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ مَسْجِداً - ۵۶۱ خدا تعالیٰ نے ساری زمین کو ہی میرے لئے مسجد بنا دیا ہے.آپ کے اس فقرہ کے کئی معنی ہیں.مگر ایک معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کے ہر حصہ میں اور ہر جگہ پر مسلمان نماز پڑھ سکتا ہے اس کے لئے ضروری نہیں کہ جس طرح ایک عیسائی یا ہندو گر جایا مندر کے سوا کسی جگہ عبادت نہیں کر سکتا.وہ بھی عید کے سوا کسی اور جگہ عبادت نہ کر سکے.اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ جس طرح کسی عیسائی یا ہندو کو ضرور کوئی پادری اور پنڈت ہی عبادت کرا سکتا ہے اُس کو بھی کوئی مولوی یا ملا ہی نماز پڑھائے.اسلام پادریوں اور پنڈتوں کا قائل نہیں.وہ ہر چی نیک انسان کو خدا تعالیٰ کا نمائندہ سمجھتا ہے اور ہر نیک انسان کو نماز میں راہنمائی کرنے کا حق دیتا ہے.بیشک اسلام میں مساجد بھی ہیں لیکن وہ مساجد اس لئے نہیں کہ وہ جگہیں نماز کے لئے زیادہ کی مناسب تھیں بلکہ مساجد صرف اس لئے ہیں کہ کسی نہ کسی جگہ پر لوگوں کو جمع ہو کر اجتماعی نماز بھی ادا کرنی چاہئے.مساجد اجتماع کی سہولت کا ذریعہ ہیں کوئی خاص رسوم اختیار نہیں کی جاتیں جن سے یہ جگہیں متبرک کی جاتی ہوں جیسا مندر اور گرجے ہیں.ہر چار دیواری جس میں مسلمان جمع ہے

Page 472

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۰ دیباچہ تفسیر القرآن ہو کر اجتماعی طور پر خدا تعالیٰ کی عبادت کریں وہ مسجد کہلاتی ہے اس کے لئے کسی شکل کی ضرورت کی نہیں نہ وہاں کوئی آلٹر ہے نہ مقدسوں کی کوئی نشانیاں ہیں سادگی سے مسلمان ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں ان کی عبادت تمام دنیوی آلائشوں سے منزہ اور پاک ہوتی ہے.کوئی با جانہیں ہوتا کوئی گانا نہیں ہوتا.کوئی ناچ نہیں ہوتا.بڑے بڑے جسے پہن کر پادری نہیں آتے.شمعیں جلائی نہیں جاتیں.سریلے ارغنونوں اور خوشبو دار دھونیوں سے لوگوں کے دماغوں کو مسحور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی.کھڑکیوں کے آگے لٹکے ہوئے پر دے انسان کو ایک تاریک ماحول پیش کر کے ڈرانے کی کوشش نہیں کرتے.بزرگوں کی تصویریں انہیں خدا تعالی کی جگہ اپنی طرف بلا نہیں رہی ہوتیں.سب مسلمان وقت مقررہ پر ایک جگہ پر جمع ہوتے ہیں اور صفیں باندھ کر یہ بتانے کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ جہاں ہم اپنے گھروں میں انفرادی نمازیں پڑھ کر آئے ہیں وہاں ہم قومی طور پر بھی خدا تعالیٰ کی عبادت قائم کرنے کیلئے حاضر ہیں بغیر کسی باجے گاجے کے.وہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور اُس کی ثنا کرتے ہیں اور اس کے حضور میں دعائیں کرتے ہیں اور اپنی اصلاح اور روحانی اور جسمانی ترقی اور اپنے دوستوں اور عزیزوں اور باقی سب دنیا کی کی جسمانی اور روحانی ترقی کے لئے اس کے سامنے درخواستیں پیش کرتے ہیں.ان کی اس سادہ نماز کی شان یہ ہوتی ہے کہ نماز کے وقت میں کوئی مؤمن اِدھر اُدھر نہیں دیکھ سکتا نہ نماز میں کسی اور سے بات کر سکتا ہے.غریب اور امیر ایک صف میں کھڑے ہوتے ہیں.بادشاہ کے ساتھ اس کا خادم کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے اُس کا کناس بھی اس کے ساتھ کھڑا ہونے کا حق رکھتا ہے.نماز کے وقت ایک حج اور ایک مجرم، ایک جرنیل اور ایک سپاہی پہلو بہ پہلو کھڑے ہوتے ہیں کوئی کسی کی طرف انگلی نہیں اُٹھا سکتا، کوئی کسی کو اس کی جگہ سے پیچھے نہیں ہٹا سکتا.تمام کے کچ تمام خاموشی سے خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اور امام کے اشارے پر رکوع اور کی سجود اور قیام کے احکام بجالاتے ہیں بعض وقت امام قرآن شریف کی آیتیں بلند آواز سے پڑھتا ہے تا کہ ساری جماعت ایک خاص نصیحت کو اپنے سامنے لے آئے اور نماز کے بعض حصوں میں ہر شخص اپنے اپنے طور پر مقررہ دعائیں یا وہ دعائیں بھی جن کو وہ چاہتا ہے پڑھتا ہے.مساجد مسلمانوں کے اجتماع کی جگہ بھی ہیں اور مساجد مسلمانوں کے تمام قسم کے مذہبی اور علمی کاموں کو

Page 473

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۱ دیباچہ تفسیر القرآن سرانجام دینے کی جگہ بھی ہیں.مساجد اُن کے مدارس بھی ہیں اور مساجد اُن کے نکاح خانے بھی ہیں اور مساجد اُن کی قضا اور فیصلہ کے مقام بھی ہیں جہاں اُن کے مقدمات کے فیصلے کئے جاتے ہیں اور مساجد جنگی اور اقتصادی تدابیر کے فیصلہ کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہیں.نماز کے علاوہ ایک اس قسم کی عبادت جس میں ذکر الہی کیا جاتا ہے وہ بھی ہے جبکہ انسان خاموشی سے بیٹھ کر اُس کو یاد کرتا ہے اور اس کی صفات کو اپنے دل میں جذب کرنے کی کوشش کرتا ہے.اسلامی روزه دوسری قسم کی عبادت جس میں نفس کی اصلاح مدنظر ہوتی ہے ، روزہ ہے.اسلامی روزہ بھی دوسرے لوگوں کے روزوں سے مختلف ہے.ہندو اپنے روزوں میں کئی چیزیں کھا بھی لیتے ہیں، پھر بھی اُن کا روزہ قائم رہتا ہے.عیسائیوں کے روزے بھی اس قسم کے ہیں کہ کسی روزے میں گوشت نہیں کھانا، کسی میں خمیری روٹی نہیں کھائی جاتی.اسلامی روزہ بھی نماز کی طرح انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی.چنانچہ تمام مسلمانوں کو ہدایت ہے کہ وہ سال کے مختلف اوقات میں نفلی روزے رکھا کریں مگر رمضان کے مہینہ میں دنیا کے تمام مسلمانوں کو خواہ وہ کسی گوشہ میں رہتے ہوں ایک ہی وقت میں روزے رکھنے کا حکم ہے.وہ صبح کو پو پھٹنے سے پہلے کھانا کھاتے ہیں اور پھر سارا دن سورج کے ڈوبنے تک نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں.سورج کے ڈوبنے کے بعد صبح تک ان کو کھانے پینے کی اجازت ہوتی ہے اُن سے امید کی جاتی ہے کہ وہ ان دنوں میں جہاں کھانے وغیرہ سے پر ہیز کریں وہاں اپنے نفس کو زیادہ سے زیادہ نیکی پر قائم کرنے کی کوشش کریں کیونکہ روزہ انہیں یہ سبق دیتا ہے کہ جب تم خدا کے لئے حلال چیزوں کو چھوڑ دیتے ہو تو حرام چیزوں کو چھوڑ نا تمہارے لئے بدرجہ اولی ضروری ہے کی یہ روزے تمام ایسے ممالک میں جہاں دن چوبیس گھنٹے سے کم ہے اور جہاں رات اور دن چوبیس گھنٹے کے اندر الگ الگ وقتوں میں ظاہر ہوتے ہیں اس شکل میں ہیں جو او پر بیان کی گئی ہے لیکن جن ملکوں میں رات اور دن چوبیس گھنٹوں سے لمبے ہو جاتے ہیں ان علاقوں میں رہنے والوں کے لئے صرف وقت کا اندازہ کرنے کا حکم ہے.حج بیت اللہ تیسری قسم کی عبادت کی مثال حج ہے.حج مسلمانوں میں ایک مرکزیت کی روح پیدا کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے دنیا کے تمام صاحب استطاعت

Page 474

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۲ دیباچهتفسیر القرآن مسلمان ایک خاص وقت میں مکہ مکرمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اس طرح ہر سال عالم اسلام کو ایک جگہ جمع ہونے کا موقع مل جاتا ہے اور اپنی اور باقی دنیا کی ضرورتوں کے متعلق غور کرنے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے.مگر حج کے علاوہ ایک عمرہ کی عبادت بھی ہے جس میں کسی وقت کی شرطی نہیں وہ انفرادی عبادت ہے.مختلف وقتوں میں جب بھی کسی کو تو فیق حاصل ہوتی ہے وہ مکہ میں جاتا اور اس فریضہ کو ادا کرتا ہے.اس حکم سے اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مرکز کے قیام کے لئے مسلمانوں کو اجتماعی اور انفرادی دونوں قسم کی قربانیاں کرنی چاہئیں.زکوۃ وصدقہ خیرات چوتھی قسم کی عبادت کی مثال صدقہ و خیرات ہے.اس عبادت کی بھی اسلام نے انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتیں مقرر کی ہیں اور فرضی اور نفلی مقرر کی ہیں.ہر عید کے موقع پر رمضان کے بعد عید کی نماز سے پہلے ہر مؤمن کے لئے فرض ہے کہ وہ کم سے کم ڈیڑھ سیر گندم یا اور مناسب غلہ خدا کے لئے غرباء کی امداد کی خاطر دے خواہ غریب ہو یا امیر.غریب اس میں سے دے جو اُس کو اُس دن ملا ہوا اور امیراس میں سے دے جو اس نے پہلے سے کما چھوڑا ہو.اس حکم کے سلسلہ میں ایک زکوۃ کا بھی حکم ہے جو ہرا میر پر واجب ہے.ہر شخص جو کوئی رو پیدا اپنے پاس جمع کرتا ہے یا جانور تجارت کے لئے پالتا ہے اُس پر ایک رقم مقرر ہے.اسی طرح ہر کھیتی کی پیداوار پر ایک رقم مقرر ہے کھیتی کی پیداوار پر دسواں حصہ اور تجارتی اموال پر اندازاً اڑھائی فیصدی.( اس کے احکام تفصیلی مقرر ہیں مگر اس مضمون میں تفصیلات کی گنجائس نہیں ) یہ اڑھائی فیصدی صرف نفع پر نہیں دیا جاتا بلکه رأس المال اور نفع سب پر دیا جاتا ہے اس میں حکمت یہ ہے کہ اسلام اس ذریعہ سے روپیہ جمع کرنے کو روکنا چاہتا ہے.زمین کے لئے دسواں حصہ اور تجارتی مال کے اوپر اڑھائی کے فیصدی میں جو فرق ہے یہ بظاہر غیر معقول نظر آتا ہے مگر درحقیقت اس میں بڑی بھاری حکمت ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ زمین کی پیداوار پر ٹیکس دیا جاتا ہے اور تجارتی مال میں راس المال پر بھی ٹیکس ہوتا ہے چونکہ زمین کے راس المال پر ٹیکس نہیں لگا اس لئے پیداوار پر دسواں حصہ لیا گیا اور تجارتی مال میں چونکہ راس المال پر بھی ٹیکس لگ گیا اس لئے صرف اڑھائی فیصدی نسبت رکھی گئی.

Page 475

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۳ دیباچہ تفسیر القرآن قرآن شریف بنی نوع انسان کے دیگر اُمورِ ضرور یہ کا ذکر قرآن مجید میں باہمی معاملات پر بھی تفصیلی روشنی ڈالتا ہے وہ تعاونِ باہمی کی ضرورت کو پیش کرتا ہے انفرادیت اور اجتماعیت کی حدود کو قائم کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انفرادیت کے کیا حقوق ہیں اور اجتماعیت کے کیا حقوق ہیں، وہ حکومت کی حقیقت اور اُس کے فرائض بیان کرتا ہے ، وہ حکومت کی ذمہ داریاں بیان کرتا ہے ، وہ رعایا اور حکومت کے تعلق پر روشنی ڈالتا ہے، وہ مالک اور مزدور کے تعلقات پر روشنی ڈالتا ہے اور بین الاقوامی تعلقات کے اُصول بیان کرتا ہے.قرآن صراحتاً اور وضا حنا حکم دیتا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں جمع نہیں ہونی چاہئے بلکہ اسے زیادہ سے زیادہ پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اسی حکمت کے ماتحت وہ ایک طرف تو سو دکو منع کرتا ہے جس کے ذریعہ سے بعض ہوشیار رلوگ دنیا کی دولت کی اپنے پاس جمع کر لیتے ہیں اور دوسری طرف وہ ورثہ کے تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس بات کو جائز نہیں رکھتا کہ کوئی باپ یا ماں اپنی جائیداد صرف ایک بیٹے کو دے دے.تیسرے وہ زکوۃ کے ذریعہ اور صدقہ و خیرات کے ذریعہ مال و دولت امراء کے ہاتھ سے لے کر غریبوں تک پہنچا تا ہے.چوتھے وہ گورنمنٹ کے روپیہ میں غرباء کا حق مقدم قرار دیتا ہے ان چار ستونوں پر وہ دنیا کی اقتصادی حالت کو ایک سطح پر لا کر کھڑا کر دیتا ہے.قرآن تعلیم پر اور دماغی نشوونما پر خاص زور دیتا ہے.وہ فکر اور غور کرنے کو مذہبی فرائض میں سے قرار دیتا ہے وہ لڑائیوں اور جھگڑوں سے روکتا ہے اور کسی حالت میں بھی حملہ میں ابتداء کرنے کی اجازت نہیں دیتا.قرآن کریم بین المذاہب تعلقات کے اوپر بھی بڑی تفصیلی روشنی ڈالتا ہے مسلمانوں کو دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی ہتک کرنے سے روکتا ہے اور ایسے اعتراضوں سے منع کرتا ہے جو اعتراض خود معترض کے مذہب پر بھی پڑتے ہوں.وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ سب مذاہب کا منبع خدا تعالیٰ ہی ہے صرف بعد کی تبدیلیوں کی وجہ سے مذاہب خراب ہوئے ہیں پس اُن کے نیک منبع کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی مذہب کو کلی طور پر خراب نہیں کہنا چاہئے.قرآن کریم میں عورتوں کے حقوق کی پوری طرح حفاظت کی گئی ہے قرآن کریم دنیا میں وہ پہلی کتاب ہے جس نے علی الاعلان اس بات کو صاف الفاظ میں واضح طور پر بیان کیا ہے کہ جس طرح مردوں کے عورتوں پر حقوق

Page 476

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۴ دیباچہ تفسیر القرآن ہیں اسی طرح عورتوں کے مردوں پر حقوق ہیں، وہ ماں باپ کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ ی بھائی بہنوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ بیوی اور خاوند کے حقوق بھی بیان کرتا ہے ، وہ بیٹوں اور بیٹیوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ ہمسائیوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ غرباء کے حقوق بھی بیان کرتا ہے ، وہ یتامیٰ کے حقوق بھی بیان کرتا ہے ، وہ بیواؤں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے وہ دوستوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، وہ اجنبیوں کے حقوق بھی بیان کرتا ہے، اُس اجنبی کے حقوق بھی جو میرا ہم ملک اور میرا ہم وطن ہے اور اُس اجنبی کے حقوق بھی جو کسی غیر ملک سے میرے پاس پناہ لینے کے لیے آتا ہے یا میرے ملک کی سیر کرنے کے لئے آتا ہے.قرآن دنیا سے ایک علیحدہ سیاست بھی پیش کرتا ہے.قرآن ہی وہ کتاب ہے جس نے سب سے پہلے اس بات کا حکم دیا ہے کہ کسی شخص کونسلی طور پر بادشاہت کرنے کا حق نہیں بلکہ حکومت ملک کی امانت ہے جو ملک کے تجویز کردہ حکام کے ہاتھوں میں جانی چاہئے ڈیمو کریسی جس پر آج یورپ فخر کرتا ہے اس کی بنیا دسب سے پہلے قرآن ہی نے رکھی ہے.قرآن ایک طرف تو تنظیم اور اطاعت پر زور دیتا ہے اور دوسری طرف حکام کو دیانت داری سے اپنے فرائض ادا کرنے کی ہدایت کرتا ہے.قرآن سب سے پہلی کتاب ہے جو حکام کے اقتدار پر تبر رکھتی ہے.قرآن اسے تسلیم نہیں کرتا کہ کوئی ایک انسان بنی نوع انسان کی قسمتوں کا مالک بنے اور اگر وہ ان سے اچھا سلوک کرے تو اس کے متعلق یہ سمجھا جائے کہ وہ احسان کرتا ہے.قرآن اس بات پر زور دیتا ہے کہ حقوق عامۃ الناس کے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے وہ امانتاً حکام کے سپرد کئے گئے ہیں اور جب وہ یہ امانت صحیح موقعوں پر اور صحیح طریق پر امانت رکھنے والوں کے سپر د کرتے ہیں تو وہ کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ صرف امانت والے کی امانت واپس کرتے ہیں.وہ اس بات پر بھی زور دیتا ہی ہے کہ حکام کے انتخاب کے وقت جنبہ داری یا رعایت کا خیال بالکل نہ رکھا جائے بلکہ جس طرح کی حاکم کا فرض ہے کہ وہ عامتہ الناس کے حقوق صحیح طور پر ادا کرے اسی طرح عامتہ الناس کا بھی فرض ہے کہ وہ ایسے شخص کو منتخب کریں جو ان کے حقوق کو ادا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو جو شخص پارٹی بازی یا جنبہ داری کی روح کے ماتحت ایک غیر مستحق شخص کو آگے لاتا ہے وہ اس کے افعال کی خرابیوں میں شریک ہے وہ یہ عذر پیش نہیں کر سکتا کہ ظلم حاکم نے کیا ہے کیونکہ اس حاکم کے

Page 477

انوار العلوم جلد ۲۰ تفسیر القرآن مقرر کرنے میں ضرور اس کا ہاتھ بھی تھا.پس یہ بھی اس کے ظلم میں شریک ہے.قرآن ہر حال میں اخلاق فاضلہ قرآن سیاست میں اخلاق فاضلہ پر زور دیتا ہے وہ اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ کے اظہار پر زور دیتا ہے اخلاق فاضلہ افراد کیلئے ہوتے ہیں حکومتوں کی کیلئے نہیں ہوتے بلکہ وہ اس بات پر زور دیتا کہ جس طرح افراد پر اخلاق فاضلہ کی ذمہ داریاں ہیں اسی طرح حکومتوں پر بھی اخلاق فاضلہ کی ذمہ داریاں ہیں.سچ صرف ایک عام شہری ہی کے لئے قیمتی چیز نہیں بلکہ ایک سیاست دان کے لئے بھی ضروری ہے.ظلم صرف ایک عام آدمی کے لئے ہی بُرا نہیں بلکہ ایک حکومت کے لئے بھی بُرا ہے.حکومت کا یہی فرض نہیں کہ وہ اپنے افراد کے ساتھ انصاف کا سلوک کرے بلکہ حکومت کا یہ بھی فرض ہے کہ جس طرح ہمسایہ ہمسائے سے عمدہ سلوک کرتا ہے وہ بھی اپنی ہمسایہ حکومتوں سے عمدہ سلوک کرے.اسلام مؤمن کو ہوشیار اور چوکس رہنے کا حکم دیتا ہے وہ جفاکشی کی تعلیم دیتا ہے.وہ بزدلی سے منع کرتا ہے مگر تہور اور جاہلانہ جوش سے روکتا ہے.وہ عقل اور تدبیر سے کام لینے کا حکم دیتا ہے وہ خود کشی کو نا جائز قرار دیتا ہے اور ایسے تمام افعال جو خود کشی کے مترادف ہوں اُن سے منع کرتا ہے.وہ مسلمان حکومتوں کو سرحدوں کی حفاظت ملحوظ رکھنے کا خاص طور پر حکم دیتا ہے وہ کہتا ہے کہ جنگ میں کبھی ابتداء نہ کی جائے لیکن اگر دشمن جنگ شروع کر دے تو پھر پیچھے کبھی نہ ہٹا جائے.وہ شب خون مارنے سے منع کرتا ہے.وہ معاہدے کی پابندی کا سختی سے حکم دیتا ہے اور صلح کے تمام مواقع کو ہاتھ سے نہ انے دینے کی تاکید کرتا ہے.قرآن کریم اپنے ملک کے یا غیر ملک کے افراد کو آزادی سے محروم کرنے کی اجازت نہیں دیتا ، وہ صرف جنگی قیدیوں کے پکڑنے کی اجازت دیتا ہے مگر اس کی کے لئے بھی وہ یہ شرط مقرر کرتا ہے کہ ہر قیدی اپنے حصے کا حرجانہ ادا کر کے آزاد ہونے کا حق رکھتا ہے کسی شخص کو اجازت نہیں کہ وہ با وجود اس کے کہ کوئی قیدی اپنے حرجانہ کی رقم ادا کر دے اُس کو قید رکھ سکے ، لیکن اگر کوئی شخص جو ایک ظالمانہ جنگ میں شریک ہو جائے ، اپنے حصہ کا حرجانہ ادا کرنے کی قابلیت نہ رکھتا ہو تو پھر قرآن کریم اُس کے لئے یہ حکم دیتا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اُس کو اجازت دی جائے کہ وہ کمائی کر کے اپنا حرجانہ ادا کر دے.اور جو ایسا کرنے کی

Page 478

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۶ دیباچہ تفسیر القرآن بھی قابلیت نہیں رکھتا اس کیلئے اسلام مؤمنوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کی مدد کریں اور اس کو قید سے جلد آزاد کرانے کی صورت پیدا کریں لیکن اگر کوئی ایسا قیدی اپنے لئے آزادی کو پسند نہیں کرتا کی اور ایک مسلمان کے گھر میں رہنے کو اپنے وطن میں واپس جانے پر ترجیح دے تو قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ اس کے ساتھ انصاف کا سلوک کیا جائے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی یہ تشریح فرماتے ہیں کہ جیسا کھانا تم خود کھاتے ہو ویسا ہی کھانا اسے کھلاؤ اور جیسے کپڑے تم خود پہنتے ہو ویسے ہی کپڑے اسے پہناؤ اور جس سواری پر تم خود چڑھتے ہو اس سواری پر اُسے چڑھاؤ.قرآن کریم قوموں میں مساوات پر خاص زور دیتا ہے قرآن پہلی کتاب ہے جس نے بنی نوع انسان کو بحیثیت بنی نوع انسان کے ایک گروہ قرار دیا ہے.قرآن کہتا ہے جو کہ انسانوں کی مختلف قومیں ہیں اور مختلف ملک ہیں یہ صرف پہچاننے کے لئے ہیں حقیقتا تمام انسان ایک درجہ کے ہیں اور ان کو ایک درجہ دینا چاہیے اور فرماتا ہے کہ کوئی قوم اپنے نسلی امتیاز کی وجہ سے دوسری قوم پر اپنے آپ کو فوقیت نہ دے.کوئی گروہ اپنی اقتصادی ترقی یا کسی اور وجہ سے دوسرے سے اپنے آپ کو ممتاز نہ سمجھے ورنہ ایسے لوگ یا درکھیں کہ خدا تعالیٰ کا قانون ایک دن ان کو ضرور نیچا کر دے گا اور جن کو وہ ادنی سمجھتے ہیں اُن کو وہ ان پر فوقیت عطا کر دے گا.کیسی اعلیٰ درجہ کی یہ تعلیم ہے اور دنیا میں امن کے قیام کا کیسا بہترین ذریعہ ہے.قرآن کریم اُن تمام لہو ولعب کی چیزوں سے روکتا ہے جو انسان کے سنجیدگی سے کام کرنے کے راستہ میں حائل ہوتی ہیں وہ جوانی اور شراب اور ہر قسم کی لہو و لعب کی باتوں سے منع کرتا ہے وہ مردوں کو زیورات اور ریشم پہنے سے روکتا ہے اور عورتوں کو نہایت ہی محدودطور پر اس کی اجازت دیتا ہے.پیدائش روح کے متعلق قرآنی تعلیم قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو انسان کی روح اور اس کی پیدائش کے متعلق مکمل بحث فرماتی ہے اس بارہ میں دوسری کتب یا تو خاموش ہیں یا قیاس آرائیوں پر اکتفا کرتی ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق ایک مکمل بحث فرمائی ہے چنانچہ فرماتا ہے وَيَسْلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ ، قُلِ الرُّوحُ مِنْ آمَرِ رَبّي وَ ما أُوتِيتُم مِّن العلم إلا قليلاً ۵۶۲ لوگ تجھ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں تو انہیں جواب میں کہہ کہ روح اللہ تعالیٰ

Page 479

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۷ دیباچہ تفسیر القرآن کے حکم سے پیدا کی گئی ہے اور روح کے متعلق تمہارا علم بہت تھوڑا ہے.اس آیت میں یہ بتا یا کچھ گیا ہے کہ وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ ارواح ایک ازلی ابدی چیز ہیں اور کسی علیحدہ دنیا میں رکھی گئی ہیں پھر وہاں سے وقتاً فوقتاً وہ انسانی اجسام میں آکر داخل ہوتی رہتی ہیں صحیح بات یہ ہے کہ جیسے اور چیزیں خدا تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوتی اور اُس کے حکم کے ماتحت ترقی کرتی ہیں اسی طرح روح بھی خدا تعالیٰ کے حکم سے پیدا ہوتی اور اُس کے حکم سے ترقی کرتی ہے روح کی پیدائش جسمانی پیدائش سے کوئی علیحدہ قسم کی چیز نہیں بلکہ جس قسم کا تغیر اور تبدل جو جسمانیات کے ارتقاء کیلئے ہوتا ہے وہی روحانی پیدائش کا بھی موجب ہو جاتا ہے اور پھر روح کی ترقی اور بلندی کا باعث بھی.اس مسئلہ کو تشریح کے ساتھ قرآن کریم نے دوسری جگہ سورہ مومنون میں بیان فرمایا ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ولَقَدْ خَلَقْنَا الإِنْسَانَ مِن سُللّةٍ مِّن طِينٍ ثُمَّ جَعَلْنَهُ نُطْفَةً في قَرَارٍ مَّكِينٍ ثُمَّ خَلَقَنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَمًا فَكَسَوْنَا العظم تعمَّان ثُمَّ انْشَالَهُ خَلْقًا أخر، فَتَبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَالِقِينَ ۵۶۳ ہم نے انسان کو مٹی سے نکلے ہوئے خلاصہ سے بنایا ہے پھر گیلی مٹی میں سے نکلے ہوئے ایک خلاصہ سے بنایا ہے پھر ہم نے اُسے نطفہ کی شکل میں تبدیل کر دیا جو نطفہ ایک مقررہ جگہ پر رہتا ہے تو ہم اس نطفہ کو ایک گاڑھی چیز بنا دیتے ہیں جو چمٹ جاتی ہے پھر وہی چھٹی ہوئی چیز ایک لچکدار چیز بن جاتی ہے پھر اس لچکدار چیز میں ہڈیاں پیدا ہونے لگ جاتی ہیں پھر ان ہڈیوں پر تازہ گوشت چڑھنے لگ جاتا ہے پھر اسی چیز میں سے ایک بالکل ہی غیر نظر آنے والی چیز ( یعنی روح ) بن جاتی ہے پس کیا ہی برکت والا وہ کی خدا ہے جس نے ایسے اعلیٰ رنگ میں انسان کو پیدا کیا ہے.اس جگہ یہ بتایا گیا ہے کہ انسانی پیدائش در حقیقت انہیں چیزوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے جو کہ انسان کھاتا اور پیتا ہے.انہی کی چیزوں سے انسان کے جسم میں کچھ ایسا مادہ تیار ہوتا ہے جو انسان اور دوسرے حیوانات کے پیدا کرنے کا موجب ہوتا ہے جب یہ مادہ رحم مادر میں جاتا ہے تو جس مادہ میں تکمیل کی طاقت پائی جاتی ہے وہ ماں کے رحم کے ایک حصہ سے چمٹ جاتا ہے اور وہاں سے اس کے اندر غذا آنی

Page 480

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۸ دیباچہ تفسیر القرآن شروع ہو جاتی ہے.کچھ دنوں میں اس کے اندر غلظت اور گاڑھا پن پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے کی اور وہ ایک لچکدار چیز بن جاتی ہے پھر اس کے اندر ہڈی کا مادہ نشو و نما پانے لگتا ہے جس کے بعد گوشت پورے طور پر جسم پر نشو و نما پا کے ظاہری تخلیق مکمل ہو جاتی ہے.اس سلسلہ کے ساتھ ساتھ جسم میں سے ایسے مواد پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو اس نباتی قسم کے نشو ونما کو حیوانیت میں تبدیل کر دیتے ہیں اور آخر ایک سو چنے اور سمجھنے والا انسان پیدا ہو جاتا ہے.اس آیت میں وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے کہ روحیں کہیں باہر سے نہیں آتیں بلکہ اسی جسم میں سے جو رحم مادر میں نشو و نما پاتا ہے ایک نیا مادہ پیدا ہوتا ہے جو دوسری نباتی چیزوں سے انسان کو علیحدہ کر کے اسے حیوان کا نام دیتا ہے اور حیوانی حالت سے ترقی کر کے ایک اعلیٰ انسان پیدا ہوتا ہے جس میں عقل اور سمجھ ہوتی ہے اور جس میں ترقی کا مادہ پایا جاتا ہے.ہم دنیا کی کی چیزوں میں سے موٹی مثال کے طور پر ان کیمیاوی تغیرات کو پیش کر سکتے ہیں جو باہم اختلاط کے بعد ایک بالکل نئی شکل اختیار کر لیتے ہیں جیسے چقندر یا گندم یا مکی یا گڑ سے شراب تیار ہو جاتی ہے.شراب ایک ایسی چیز بن جاتی ہے جو اپنی پہلی شکل سے بالکل مختلف ہوتی ہے جبکہ اس کے منبع میں سڑنے کی طاقت ہے اس میں قائم رہنے اور قائم رکھنے کی طاقت ہوتی ہے اور جبکہ اس کی کے منبع کا اثر دماغ پر کسی قسم کا بھی نہیں پڑتا، یہ دماغ کے اُو پر خصوصیت کے ساتھ اثر کرنے والی چیز ہوتی ہے.غرض اس مضمون میں قرآن کریم پہلی تمام کتب سے جدا گا نہ تعلیم پیش کرتا ہے قرآن کریم سے پہلے مختلف مذاہب میں روحوں کے متعلق دو خیال تھے ایک خیال تو یہ تھا کہ روحیں خدا تعالیٰ کی پیدا کی ہوئیں نہیں ، بلکہ خدا تعالیٰ کی طرح انادی ہیں.خدا تعالیٰ ان انادی روحوں کو مناسب موقع پر مختلف جسموں میں داخل کرتا رہتا ہے.مذاہب میں سے ایک دوسرے حصہ کا یہ خیال تھا کہ روحیں انادی تو نہیں ، ہیں تو خدا تعالیٰ کی مخلوق لیکن جب اُس نے دنیا پیدا کی تو اُسی وقت آئندہ پیدا ہونے والی روحیں بھی پیدا کر دیں اور اسی پیدا کئے ہوئے خزانہ میں سے وقتاً فوقتاً وہ کچھ ارواح انسانی جسم میں ڈال کر بھیجتا رہتا ہے.بعض مذاہب ایسے بھی تھے جو روح کے متعلق بالکل خاموش تھے.وہ موجودہ انسان کے ظاہر کے متعلق بحث کو کافی سمجھتے تھے اور اس کی پیدائش یا اُس کی روح کے متعلق کسی قسم کا خیال ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے

Page 481

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۶۹ دیباچهتفسیر القرآن تھے.اسلام وہ پہلا اور آخری مذہب ہے جس نے اس مسئلہ کو صحیح طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا ج ہے اور بتایا ہے کہ روح در حقیقت انسانی جسم کے ارتقاء کا ایک انتہائی نقطہ ہے اور وہ کہیں باہر سے نہیں آئی بلکہ انسانی جسم کے تغیرات کے نتیجہ میں ہی وہ پیدا ہوئی ہے ہاں اس نے ایک علیحدہ کی وجود اختیار کر لیا ہے.انسانی جسم کے محض عمل کا نام روح نہیں بلکہ روح انسانی مادہ ہی سے نکلی ہوئی ایک چیز ہے جس نے ایک مستقل وجود اختیار کر لیا ہے.جس طرح شراب اور سر کہ دانوں اور پھلوں ہی میں سے نکلتے ہیں لیکن وہ ایک علیحدہ وجود اختیار کر لیتے ہیں بظاہر تو یہ ایک معمولی بات معلوم ہوتی ہے لیکن اگر ہم غور کر کے دیکھیں تو اس حقیقت کے اظہار سے اسلام نے مذہب کا نقطۂ نگاہ بالکل بدل دیا ہے روحوں کو انادی ماننے یا خدا تعالیٰ کے کسی قدیم زمانہ میں ان کو پیدا کر کے اس دنیا میں بھیجتے رہنے کے عقیدہ نے مختلف مذاہب کے پیروؤں میں یہ احساس پیدا کر دیا تھا کہ جسم کی صفائی اور جسم کے ارتقاء کا روح کے ساتھ کوئی تعلق نہیں لیکن اسلام نے اس حقیقت کو بیان کر کے اس طرف توجہ دلا دی کہ جسم کی صفائی اور جسم کے ارتقاء کا تعلق روح کے ساتھ بہت گہرا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جسم انسانی کے نشو و نما سے کوئی نہ کوئی روح تو ضرور پیدا ہو جائے گی لیکن اگر جسم انسانی کا خیال اچھی طرح رکھا جائے گا اگر حفظانِ صحت کے اُصول کو مدنظر رکھا جائے گا تو یقیناً ایک زیادہ فعال اور سمجھدار انسان پیدا ہو گا.پس اس حقیقت کو بیان کر کے اسلام نے انسان کی روحانی اور دماغی ترقی کے لئے ایک نیا رستہ کھول دیا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں کہ روح تو اپنی ذات میں کوئی طاقت نہیں رکھتی اس لئے جسم کے تغیرات کا روح پر کیا اثر پڑ سکتا ہے یہ در حقیقت ایک غلط خیال ہے روح کا طاقت نہ رکھنا ایک بے معنی بات ہے اگر روح کوئی طاقت نہیں رکھتی تو وہ ایک بے حقیقت چیز ہے اصل بات یہ ہے کہ روح کے اندر طاقتیں تو ہیں لیکن روح بغیر جسم کے اپنی طاقتوں کو استعمال نہیں کر سکتی اور بہت سی مادی چیزیں دنیا میں ایسی ہیں جو بغیر کسی کے واسطہ کے اپنے آپ کو ظا ہر نہیں کر سکتیں جیسے بجلی ہے کہ وہ اپنا ظہور دوسری چیزوں کے ذریعہ سے کرتی ہے پس یہ درست نہیں کہ روح کے اندر طاقتیں نہیں ہوتیں.روح کے اندر طاقتیں اور صفات ضرور ہوتی ہیں مگر اُن کا ظہور کسی نہ کسی جسم کے ذریعے سے ظاہر ہوتا ہے.یہ تمام مضامین اور ایسے ہی بہت سے مضامین قرآن کریم میں

Page 482

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۷۰ دیباچہ تفسیر القرآن بیان ہوئے ہیں لیکن ظاہر ہے کہ ان تمام باتوں کو دیباچہ میں بیان نہیں کیا جا سکتا صرف ان کی تی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے.چنانچہ اُوپر میں نے ان اُمور کی طرف اشارہ کر دیا ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم اس بات کا مدعی ہے کہ تمام وہ باتیں جن کی دین اور اخلاقی ترقی اور جسم اور روح کی پاکیزگی کے لئے ضرورت ہے وہ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور اس دعوی کو ہم نے ہر زمانہ میں سچا پایا ہے.اس بیسویں صدی میں بھی کہ اس زمانہ کے لوگ اپنے آپ کو علوم میں سب سے بڑھ کر سمجھتے ہیں ہم قرآن کریم کو انسان کی تمام سچی ضرورتوں کو پورا کرنے والا پاتے ہیں اور کوئی ایسی ضرورت جو دین یا اخلاق یا روحانی یا دماغی صفائی اور پاکیزگی کے متعلق ہو ہمیں ایسی نہیں ملتی جس کے متعلق قرآن کریم میں مکمل تعلیم نہ دی گئی ہو لیکن ایک دیباچہ ان کی تفصیل کا متحمل نہیں ہو سکتا.پس مختصر اشاروں پر ہی میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.ہاں تشریحی نوٹوں میں مختلف آیات کی تشریح میں ان اُمور پر مزید روشنی ڈالی جائے گی.گو جس قسم کے مختصر نوٹ اس قرآن کریم میں دیئے گئے ہیں اُن کو مد نظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ پورا علم قرآن کے مطالب کا ان نوٹوں سے بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا.اس کے لئے میری اُردو کی تفسیر ایک حد تک ممد ہو سکتی ہے وہ ان انگریز ی تشریحی نوٹوں سے بہت زیادہ مفصل ہے.قرآن کریم کی تعلیم کے اُصول کا ایک مختصر خلاصہ بیان کرنے کے روحانی دنیا کا نقشہ بعد میں روحانی دنیا کا وہ نقشہ پیش کرتا ہوں جو قرآن کریم نے ہے مختصراً پیش کرتا ہوں.جس طرح یہ مادی دنیا ہمیں ایک خاص نظام کے ماتحت چلتی ہوئی نظر آتی ہے ہم جس زمین پر رہتے ہیں وہ ایک نظام کشسی کے تابع ہے، ایک سورج اپنے کی ماتحت کچھ ستارے رکھتا ہے.اور وہ ستارے اس سورج کے گرد گھومتے ہیں اور سورج آگے کی ایک غیر معلوم منزل کی طرف جاتا ہے جس کی نسبت آجکل کے حساب دان کہتے ہیں کہ وہ ایک بڑا مرکز ہے جو تمام نظام ہائے شمسی کو ایک بڑے نظام کے ماتحت جکڑ رہا ہے ان کی تفصیلات ٹھیک ہوں یا نہ ہوں بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ یہ ساری دنیا کسی ایک نظام کے ماتحت ہے ورنہ یہ کی اس طرح قائم نہیں رہ سکتی تھی.پھر اس ظاہری نظام کے ماتحت کچھ قوانین قدرت ہیں جن کے مطابق مادہ دنیا میں کام کر رہا ہے اور مختلف قسم کے تغیرات میں سے گزرتے ہوئے مادی دنیا کو چھ

Page 483

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن انواع و اقسام کی اشیاء سے بھر رہا ہے جن اشیاء کے استعمال سے ہی اس دنیا کی ترقی اور اس کی کی کامیابی کا راز وابستہ ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہی ایک روحانی نظام بھی ہے اور جس طرح اس مادی عالم کے تمام نظام ہائے شمسی کا ایک مرکز فرض کیا جاتا ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح روحانی دنیا کا بھی درحقیقت ایک مرکز محیط ہے یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جو اُس مرکز کے تصرف اور اس کے اختیار اور اس کے قبضہ سے باہر ہو.وہ ہستی آپ ہی آپ موجود ہے کوئی اس کا پیدا کرنے والا نہیں وہ اپنے کاموں میں کسی اور کا محتاج نہیں نہ اس کا کوئی تی باپ ہے، نہ اُس کا کوئی بیٹا ہے نہ اُس کی طاقتوں میں کوئی اور شریک ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ اللهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدُ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أحد ۵۶۴ اے محمد رسول اللہ ! تو دنیا کو سنا دے کہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام طاقتوں میں منفرد ہے گو دوسری چیزوں کی صفات اور اُس کی بعض صفات میں ظاہری تشابہہ نظر آتا ہے لیکن وہ تشابہ صرف لفظی اور ظاہری ہے حقیقتا خدا تعالیٰ کے ساتھ کسی چیز کو مشابہت نہیں.مثلاً ظاہر میں خدا تعالیٰ بھی موجود ہے اور انسان بھی موجود ہے مگر انسان اور حیوان اور دوسری چیزوں کا وجود با وجود اس کے کہ لفظاً خدا تعالیٰ کے وجود کے ساتھ اشتراک رکھتا ہے حقیقتاً دونوں ایک چیز نہیں.خدا تعالیٰ کے متعلق جب ہم کہتے ہیں کہ وہ موجود ہے تو اس کے معنی یہ ہوا کرتے ہیں کہ وہ اپنی ذات میں کامل وجود ہے اور جب ہم انسان یا حیوان یا دوسری چیزوں کے متعلق کہتے ہیں کہ وہ موجود ہیں تو ہمارا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ جب تک وہ اسباب اور وہ علتیں موجود ہیں جن کے تغیرات کے نتیجہ میں انسان یا حیوان یا دوسری اشیاء پیدا ہوئی ہیں اُس وقت تک اُس انسان یا حیوان یا موجودات کا وجود قائم رہے گا.اگر وہ اسباب اور وہ علتیں پیچھے ہٹائی جائیں تو اس کا وجود بھی فنا ہو جائے یا وہ اسباب اور علل جتنے جتنے ہٹا لئے جائیں گے اتنا اتنا ہی وہ فنا ہوتا جائے گا.مثلاً ایک زندہ انسان کی زندگی کا موجب اُس کی روح کا جسم سے تعلق ہے انسان کا زندہ ہونا ایک عارضی تعلق کی وجہ سے ہے جب وہ عارضی تعلق قطع ہو جاتا ہے تو انسان تو رہتا ہے مگر زندہ نہیں رہتا.انسانی جسم موجود تو ہوتا ہے مگر انسانی جسم نام ہے چند عارضی اسباب کی وجہ سے چند ذرات کے ایک خاص شکل میں جمع - - -

Page 484

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۷۲ دیباچہ تفسیر القرآن.ہو جانے کا.اُن ذرات کو جب الگ کر دیا جائے تو انسانی جسم باقی نہیں رہتا.جب انسان مرجاتا ہے اور اس کو مٹی میں دفن کرتے ہیں تو مٹی کی رطوبت اور دوسرے کیمیاوی اثرات اُس کے جسم کو خاک بنا کر رکھ دیتے ہیں وہ ذرے جن سے انسانی جسم بنا تھا وہ تو اب بھی موجود ہوتے ہیں مگر علت کے بدل جانے کی وجہ سے انسانی جسم موجود نہیں رہتا.جب اسی انسانی جسم کو آگ میں جلا دیا جاتا ہے یا پانی میں گلا دیا جاتا ہے یا بجلی سے راکھ کر دیا جاتا ہے تو جن چیزوں سے انسان بنا تھا وہ تو پھر بھی موجود رہتی ہیں مگر آگ یا بجلی یا پانی کے اثرات سے اُن کی شکل بدل جاتی ہے اور انسانی جسم کو اس کی موجودہ شکل میں قائم رکھنے کی جو علت تھی اُس کے مٹتے ہی انسانی جسم بھی مٹ جاتا ہے مگر خدا کیلئے یہ بات نہیں ، اُسے کوئی خارجی سبب وجو د نہیں دے رہا ہے.یا اُس کے وجود کو قائم نہیں رکھ رہا بلکہ وہ خود کامل ہستی ہونے کی وجہ سے موجود ہے اور وقت کی قید سے آزاد ہے گو انسانی دماغ نہیں سمجھ سکتا کہ وہ کیونکر وقت کی قید سے آزاد ہے جب کہ سب مادہ وقت کی قید میں مبتلا ہے.اس کا جواب در حقیقت یہی ہے کہ خدا کا وجود اور طرح کا ہے اور انسان کا وجود اور طرح کا ہے انسان کے وجود یا مادی وجود پر خدا تعالیٰ کا قیاس نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ھو آحد وہ ہر چیز میں منفرد ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم ایک دوسری جگہ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ فاطر السموتِ وَالْأَرْضِ ، جَعَلَ لَكُمْ مِنْ اَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَمِنَ الأَنْعَامِ اَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيهِ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ : وَ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ۵۶۵، وه آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا ہے اس نے ہر چیز کی جنس میں سے اُس کا جوڑا بنایا ہے.چارپایوں کی جنس میں سے بھی اُن کا جوڑا بنایا ہے اور وہ ان جوڑوں کے ذریعہ سے مادی دنیا کو ترقی دیتا ہے چلا جاتا ہے یعنی تمام دنیا میں خواہ وہ حیوان ہوں یا نباتات یا جمادات جوڑوں کا سلسلہ چل رہا ت ہے خواہ اس کونر و مادہ کہہ لو خواہ اسے مثبت و منفی کہہ لو.خواہ اس کا کوئی اور نام رکھ لو.بہر حال یہ ساری دنیا جوڑوں کے اصول پر چل رہی ہے.ایک اور جگہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے و من كُلّ شَيْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ ۵۶۶ اور ہم نے ہر چیز کو جوڑے جوڑے بنایا ہے تا کہ تم نصیحت حاصل کرو.یعنی تا یہ تم سمجھ سکو کہ کوئی چیز اللہ تعالیٰ

Page 485

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۷۳ دیباچہ تفسیر القرآن کے سوا خدا نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ ایک جوڑے کی محتاج ہے اور اس کا قیام اور اس کی زندگی دوسری چیزوں کے ساتھ وابستہ ہے.غرض قرآن کریم ایک ایسی ہستی کو تمام موجودات کا مرکز قرار دیتا ہے جو اپنی ذات میں منفرد ہے اور جس کے ساتھ کسی اور چیز کو مشابہت نہیں دی جاسکتی.اس چھ کے سوا جتنی موجودات ہیں وہ سب اپنی ذات کے قیام کے لئے دوسروں کی محتاج ہیں مگر وہ ہستی جو تمام کائنات کا نقطہ مرکزی ہے وہ اپنے کاموں کے لئے کسی کی محتاج نہیں.پھر فرماتا ہے نہ اُس ہستی سے آگے کوئی اولاد پیدا ہوتی ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد میں سے ہے.اس آیت کے ذریعہ سے قرآن کریم نے اپنے عقیدہ کو عیسائیت سے بالکل مختلف ثابت کیا ہے عیسائیت اور بھی بہت سے دیگر آرین مذاہب بھی خدا تعالیٰ کی کسی نہ کسی شکل میں اولا د تسلیم کرتے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اولاد کی ضرورت ایسی ہستیوں کو ہوتی ہے جو محتاج ہوتی ہے ہیں یا جن پر فنا آنے والی ہوتی ہے مگر خدا میں یہ باتیں نہیں پائی جاتیں.پس اُس کو کسی اولاد کی کی ضرروت نہیں اور جس طرح اُسے اولاد کی ضرورت نہیں اسی طرح وہ اس بات کا بھی محتاج نہیں کہ اس کا کوئی اور سبب اور پیدا کرنے والا ہو.اور جس طرح وہ باپ اور بیٹے سے آزاد ہے اسی طرح وہ اس بات میں بھی منفرد ہے کہ کوئی اور ہستی اس جیسی طاقتوں والی موجود نہیں.یعنی نہ تو خدا تعالیٰ کے پیدا کرنے کا کوئی سبب ہے نہ خدا تعالیٰ اولاد کا محتاج ہے اور نہ خدا تعالیٰ کی قسم کا کوئی اور وجود موجود ہے.اس آخری اعلان کے ساتھ قرآن کریم نے اُن مذاہب کا رڈ کیا ہے جو تعد دالوہیت کے قائل ہیں جیسے زرتشتی مذہب ہے غرض ان مختصر الفاظ میں یہ عقیدہ پیش کیا گیا ہے کہ تمام عالم کا مرکز ایک خدا ہے جو منفرد حیثیت رکھتا ہے تمام دیگر ہستیوں سے.اور وہ واحد منبع ہے تمام موجودات کا.اور وہ اپنے کاموں کے کرنے میں کسی کی مدد کا محتاج نہیں نہ اس کی کا کوئی بیٹا ہے نہ اس کا کوئی باپ تھا اور نہ کوئی متوازی طاقت اُس کے ساتھ موجود ہے اور نہ اس کے بالمقابل کوئی اور طاقت موجود ہے.دیکھو! ان چند الفاظ میں سارے کے سارے مذاہب کو ر ڈ کر کے ایک خالص تو حید کو قائم کر دیا گیا ہے.دنیا کے جتنے مذاہب ہیں وہ سارے کے سارے مندرجہ ذیل غلطیوں میں مبتلا ہیں.بعض لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کسی خاص قوم کا خدا ہے یعنی خواہ اس نے پیدا تو ساری دنیا کو

Page 486

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۷۴ دیباچہ تفسیر القرآن کیا مگر وہ مخصوص ہو گیا ہے بنی اسرائیل سے یا مخصوص ہو گیا ہے ہنود سے یا مخصوص ہو گیا ہے ایرانیوں سے.قرآن مجید اس عقیدہ کو رڈ کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف اپنی ذات میں منفرد ہے بلکہ وہ منبع ہے تمام کائنات کا.(احد کا لفظ جو سورۃ اخلاص کی مندرجہ بالا آیت میں استعمال کیا گیا ہے اس کے معنی منفرد کے بھی ہوتے ہیں اور اکائی کے بھی ہوتے ہیں یعنی وہ کی منبع جو خود تعدد سے باہر ہوتا ہے لیکن تعدد اس کے اثر سے پیدا ہوتا ہے ) اس آیت کے ذریعہ سے قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ تمام بنی نوع انسان کا خدا ہی ہادی اور راہنما ہے اُسے کسی قوم کے ساتھ خاص لگاؤ نہیں تمام بنی نوع انسان جو اُس کے قرب کی راہیں تلاش کریں خدا اُن کے لئے اپنے قرب کی راہیں کھولتا ہے.عرب، بنی اسرائیل، ایرانی، ہندی، چینی، یونانی، افریقی یہ سارے اس کی نظر میں ایک ہیں کیونکہ وہ ان سب کو وجود دینے کا باعث ہے.تمام دنیا کے تعدد کی وہ اکیلی اکائی ہے.پھر یہ کہ کر کہ وہ کسی کا بیٹا نہیں اس نے عیسائیت کے مرکزی عقیدہ کو ر ڈ کیا ہے.اسی طرح مختلف ہندو فرقوں کے مرکزی عقیدہ کو اُس نے رد کیا ہے.اور یہ کہ کر وہ کسی کا بیٹا نہیں اس نے اس عقیدہ کو ر ڈ کیا ہے کہ کوئی بیٹا خدا ہوسکتا ہو کیونکہ جو اپنے وجود کے لئے دوسرے کا محتاج ہو وہ خدا نہیں ہو سکتا.اور یہ کہہ کر کہ اس کے بالمقابل کوئی اور طاقتیں نہیں ، اس نے اُن مذاہب کے عقائد کو رد کر دیا ہے جو نور اور تاریکی کو علیحدہ علیحدہ وجود قرار دے کر دنیا کے دو متوازی خدا منوانا چاہتے ہیں.پھر قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ خدا تمام اشیاء کی علت العلل بھی ہے یعنی تمام کی تمام مفردات اس سے نکلی ہیں اور سب کی سب مخلوق اُسی کی طرف لوٹتی ہے.چنانچہ فرماتا ہے هو الاول والاخر ۵۶۷ خدا ہی اول ہے اور خدا ہی آخر ہے.اس کے یہی معنی ہیں کہ ی ہر چیز کا وجود خدا سے آتا ہے اور ہر چیز کی فنا بھی خدا کے قانون کے ماتحت چلتی ہے اگر خدا تعالی دنیا کی موجودات کو وجود نہ بخشا تو وہ کبھی وجود نہ پاسکتی تھیں اور اگر خدا تعالیٰ نے ہی اُن کی فنا کے سامان پیدا نہ کئے ہوتے تو وہ فنا نہیں ہو سکتی تھیں مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کی پیدائش اور فنا خاص قوانین کے ماتحت چلتی ہے اور یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ایک بالا رادہ ہستی نے اس دنیا کے نظام کو قائم کیا ہے چنانچہ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا جو کچھ

Page 487

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۷۵ دیباچہ تفسیر القرآن بھی ہے وہ سب اسی کا پیدا کیا ہوا ہے فرماتا ہے بديعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ، أَن يَكُونُ له ولد ولم تكن لَهُ صَاحِبَةً ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيم ۵۶۸ آسمان اور زمین کو پیدا کرنے والا خدا ہی ہے اس کے بیٹا ہو کس طرح سکتا ہے جبکہ اس کی کوئی بیوی نہیں اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے.ذلِكُمُ اللَّهُ رَبَّكُمْ : لالَة إِلَّا هُود خَالِقُ كُلّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوهُ وَهُوَ عَلَى كُلّ شَيْءٍ أَركيل ۵۶۹ یہ ہے اللہ تمہیں ادنیٰ حالت سے اعلیٰ حالت کی طرف لے جانے والا.اس کے سوا کوئی اور معبود نہیں وہ ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے پس اُس کی عبادت کرو اور ہر چیز کا انتظام اسی کے قبضہ میں ہے.ان آیات میں بتایا گیا ہے کہ زمین اور آسمان کی پیدائش کا موجب اللہ تعالیٰ ہی ہے پھر اُسے کسی بیٹے کی ضرورت کیا تھی کیونکہ بیٹے کا وجود یا تو اتفاقی حادثہ کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے یا ضرورت کیلئے.اتفاقی حادثہ اس طرح ہوتا ہے کہ نر مادہ سے ملتے ہیں اور طبعی طور پر اس کے نتیجہ میں اولاد پیدا ہو جاتی ہے اس کا جواب اللہ تعالیٰ یہ دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی تو کوئی بیوی نہیں بیٹا تی کہاں سے آجائے گا اور اگر کہو کہ خدا تعالیٰ نے ایک نیا وجود بنایا اور اس کو بیٹے کا مقام دیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ بیٹے کی غرض تو یہی ہوا کرتی ہے کہ انسان کے کاموں میں مدد دے اور اس کے بعد اس کے نام کو قائم رکھے مگر وہ خدا جو ہر چیز کو پیدا کرنے والا ہے کیا وہ بھی اسی قسم کی احتیاج رکھتا ہے پھر وہ بیٹا بنا تا ہی کیوں.وَهُوَ بِكُلّ شيء عليهم پھر فرماتا ہے وہ ہر چیز کو جانتا ہے یعنی بعض دفعہ انسان احتیاطاً ایک سامان پیدا کر لیتا ہے کہ نہ معلوم آئندہ کیا ہو جائے لیکن خدا تعالیٰ کیلئے تو یہ خوف بھی نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے.وہ ان تمام باتوں کو جانتا ہے ہے جو گزشتہ زمانہ میں ہو چکیں اور ان تمام باتوں کو جانتا ہے جو آئندہ زمانوں میں ہونے والی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کو کسی احتیاط کی ضرورت نہیں.پھر فرماتا ہے یہ وہ خدا ہے جس نے تم کو ادنی کی حالت سے پیدا کر کے اعلیٰ درجہ کی ترقی تک پہنچایا اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں تمام موجودات کو ی پیدا کرنے والا وہی ہے.ایرانی اور اسرائیلی اور عرب اور ہندو ہونا خدا تعالیٰ کی نظر میں کوئی امتیازی چیز نہیں اُس کے لیے یہ سب برابر ہیں.اُسی نے ان سب کو پیدا کیا اور اُسی نے ان سب کو آہستہ آہستہ ترقی بخشی.پس ان سب کیلئے ضروری ہے کہ اس واحد خدا کی پرستش کریں اور یا درکھیں کہ

Page 488

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن تمام کی تمام مخلوقات کی نگرانی اور ذمہ واری اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہی ہے اُس کے ساتھ تعلق قائم رکھ کر ہی انسان تباہیوں اور بربادیوں سے بچ سکتا ہے اور اُس سے دور رہ کر اُسے کبھی امن حاصل نہیں ہو سکتا.اس ہستی کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ تمام موجودات کا کی تفصیلی علم رکھتا ہے.کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کے علم سے باہر ہو.فرماتا ہے دسم كرسيه السّماتِ وَالْاَرْضَ ۵۷۰ اُس کا علم آسمان اور زمین سب پر حاوی ہے.اسی طرح فرماتا ہے وَمَا تَكُونُ في شَأْنٍ وَ مَا تَتْلُوا مِنْهُ مِن قَرْآنِ وَلَا تَعْمَلُونَ مِن عَمَلٍ إِلَّا كُنّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفيضُونَ فِيهِ، وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَيْكَ مِن مِثْقَالِ ذرة في الأرض ولا في السَّمَاء وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلا اكبر الا في كتب مُّبِين ۵۷۱ یعنی تو کسی حالت میں نہیں ہوتا اور تو کچھ نہیں پڑھ رہا ہوتا کوئی عمل نہیں کر رہا ہوتا مگر ہم تمام حالتوں میں تجھ پر نگران ہوتے ہیں جبکہ تو اُن کا موں میں مشغول ہوتا ہے اور تیرے رب سے ایک چھوٹے سے چھوٹے ذرہ کے برابر بھی کوئی چیز مخفی نہیں نہ زمین میں نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹی اور نہ اس سے بڑی.مگر خدا تعالیٰ کی کتاب میں جوان اعمال پر روشنی ڈالتی رہتی ہے لکھی ہوئی ہوتی ہے.اس آیت میں بتایا گیا ہے کہ دل کی حالتیں، زبان کی کہی ہوئی باتیں اور اعضاء کے کئے ہوئے عمل تمام کے تمام خدا تعالیٰ پر روشن ہیں اور بے جان چیزیں بھی خواہ وہ ایک ایٹم ہوں یا ایٹم کا بھی چھوٹا سا حصہ خدا تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں اس کی نظر باریک سے باریک چیز پر پڑتی ہے اور بڑی سے بڑی چیز کا بھی احاطہ کر رہی ہے اور اس کو ان چیزوں کا صرف علم ہی نہیں بلکہ وہ ہر چیز کے اعمال کو ایسے طور پر محفوظ رکھ رہا ہے کہ بعد میں اس کا کی نتیجہ نکلے گا.اس کے لئے قرآن کریم نے کتب مبین کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی دنیا کے ریکارڈ تو ایسے ہوتے ہیں کہ وہ لوگوں کی نگاہ سے مخفی رہتے ہیں اور بعض دفعہ خود ریکارڈ کیپرز آنکھوں سے بھی مخفی ہو جاتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ایسا طریق رکھا ہوا ہے کہ وہ ریکارڈ آپ ہی آپ بولتا چلا جاتا ہے یعنی ہر فعل کا نتیجہ خدا تعالیٰ کے قانون اور اس کے منشاء کے مطابق نکل آتا ہے پھر فرماتا ہے لا تدركه الأبصارُ ۵۷۲ خدا تعالیٰ کی ذات ایسی وراء الوراء ہے کہ اس کی حقیقت کو کوئی پانہیں سکتا.یعنی وہ اپنی حقیقت کے لحاظ سے تمام دنیا کی اشیاء سے

Page 489

انوار العلوم جلد ۲۰ CL2 دیباچہ تفسیر القرآن جدا ہے اس لئے مادی ذرائع سے اُسے دیکھنے کی کوشش کرنا بالکل عبث ہے.پھر قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ وہ ہستی اپنے تمام ارادوں کے پورا کرنے پر قادر ہے فرماتا ہے اِنَّ الله على كل شيء قدیر ۵۷۳ اللہ تعالیٰ ہر ایک چاہی ہوئی بات پر قادر ہے یہاں شَيْءٍ یہ نہیں فرمایا کہ ہر چیز پر قادر ہے کیونکہ ایسے الفاظ کے استعمال سے بہت سے لوگ نادانی سے غلط اعتراض شروع کر دیتے ہیں مثلاً یہ کہ کیا خدا مرنے پر قادر ہے؟ یا کیا اپنی مانند ایک اور خدا بنانے پر قادر ہے؟ حالانکہ یہ چیزیں تو گھناؤنی اور ناپسندیدہ ہیں.اعلیٰ اور کامل کی ہستی گھناؤنے اور نا پسندیدہ کام نہیں کیا کرتی.بہر حال ایسے لوگوں کے اعتراضوں کوحل کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر فعل پر قادر ہے بلکہ فرماتا ہے إن الله على كل شيء قدير ہر اس بات پر خدا تعالیٰ قادر ہے جس کا وہ ارادہ کرتا ہے کیونکہ خدا بوجہ کامل ہونے کے کامل باتوں ہی کا ارادہ کرتا ہے اس قسم کا بیوقوفانہ ارادہ خدا تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا کہ وہ اپنے آپ کو فنا کر دے یا اپنے جیسا کوئی خدا بنالے.قرآن کریم کی پہلی سورۃ سورۃ فاتحہ ہے.اس میں اس خدا تعالی کی چار صفات کے پر روشنی ڈلی کی ہے کہ خدا تعالی کی صفات کس طرح عمل بات گئی کرتی ہیں.اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جو مخلوق سے تعلق رکھتی ہیں چار صفات کے ارد گرد گھومتی ہیں اور وہ چار صفات یہ ہیں.(1) وه ر TAKWANALTURAL E ہے یعنی ہر ایک چیز کو پیدا کرتا ہے اور پیدا کر کے ادنیٰ حالت سے ترقی دے کر اُ سے اعلیٰ حالت تک پہنچا تا ہے.(۲) وہ رحمن ہے یعنی تمام ایسے ذرائع بغیر مخلوق کی کسی کوشش اور بغیر اُس کے استحقاق کے مہیا فرما تا ہے جن کے بغیر مخلوق کی ترقی ناممکن ہوتی ہے.(۳) و رحیم ہے یعنی وہ تمام مخلوق جو عقل اور ارادہ رکھتی ہے جب اپنی قدرت اور اپنے اختیار سے ایک نیک رستہ کو پسند کر لیتی ہے اور بُرائی کا مقابلہ کرتی ہے تو اللہ تعالی اس کے فعل کا نہایت اعلیٰ بدلہ دیتا ہے اور نیکیوں کا بدلہ متواتر دیتا چلا جاتا ہے.(۴) وہ ملِكِ يَوْمِ الدِین ہے یعنی ہر چیز کا آخری فیصلہ اُس نے اپنے اختیار میں رکھا ہوا ہے

Page 490

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن جس طرح ابتداء اس نے کی تھی اسی طرح انتہاء بھی اُس نے اپنے قبضہ میں رکھی ہوئی ہے.بنی نوع انسان اور دوسری مخلوق ہر چیز میں عارضی اور وقتی تبدیلیاں پیدا کر سکتے ہیں لیکن حقیقی اور مستقل تغیر پیدا نہیں کر سکتے.مثلاً جس طرح انسان مادہ اور روح کے پیدا کرنے پر قادر ہی نہیں ہے.ان کے فنا کرنے پر بھی انسان قادر نہیں.وہ اس کے اندر عارضی تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے ، وہ شکلیں بدل سکتا ہے لیکن وہ ان چیزوں کو فنا نہیں کر سکتا.جس طرح خلق کی صفت اپنی تمام صفات کے ساتھ اللہ تعالیٰ میں ہی پائی جاتی ہے اسی طرح افناء کی صفت بھی اپنی تمام صفات کے ساتھ گلی طور پر اسی میں پائی جاتی ہے کوئی چیز نکلی طور پر فنانہیں ہو سکتی جب تک خدا تعالیٰ اس کے فنا کرنے کا فیصلہ نہ کرے اور یہ دونوں حقیقتیں ایسی ظاہر و باہر ہیں کہ کسی انسان کو اس سے انکار نہیں ہو سکتا.فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فیصلہ کے وقت کا مالک ہے یعنی تمام تغیرات کا کی آخری فیصلہ اس کے اختیار میں ہے اور وہ یہ فیصلہ اپنے مالک ہونے کی حیثیت سے کرتا ہے یعنی جس طرح ایک حج اس لئے اپنے فیصلہ میں مجبور ہوتا ہے کہ وہ زید اور بکر کے حقوق کا فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے.اس طرح خدا تعالیٰ مجبور نہیں ہوتا کیونکہ جہاں تک انسان کے حقوق کا سوال ہے وہ اس کے سارے حق پورے کرنے کے لئے تیار ہے لیکن دوسری طرف جہاں تک خدا تعالیٰ کے حقوق کا سوال ہے اللہ تعالیٰ مشہور روایتی بونڈ آف فلیش پر اصرار نہیں کرتا بلکہ جیسے مالک کی رعایت اور حسن سلوک اور رحم سے کام لیتا ہے اور لے سکتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ اپنے بندوں کے قصور پر عفو اور درگزر سے کام لیتا ہے.اس صفت کے نہ سمجھنے کی وجہ سے عیسائیت میں کفارے جیسا غلط عقیدہ پیدا ہو گیا.عیسائی مذہب اس بات پر زور دیتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی کا گناہ معاف نہیں کر سکتا اور اس کا قیاس وہ انسانی جوں پر کرتے ہیں.حالانکہ حج دو جھگڑنے والوں کے درمیان فیصلہ کیا کرتا ہے اور خود اُن کی چیزوں میں سے کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا.لیکن اللہ تعالیٰ اور بندے کا معاملہ ایسا ہے کہ ایک طرف تو خدا کا حق ہے اور ایک طرف بندے کا حق ہے.خدا تعالیٰ کو خالی حج کی حیثیت حاصل نہیں بلکہ اس کو مطالبہ کرنے والے اور حق مانگنے والے کی حیثیت حاصل ہے جو جج کو حاصل نہیں ہوتی کیونکہ وہ خود مطالبہ کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ مطالبہ کرنے والے اور مدعا علیہ کے درمیان فیصلہ کرنے والا ہوتا ہے لیکن بندے اور خدا تعالیٰ

Page 491

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن کے معاملہ میں خدا حج کے علاوہ مدعی بھی ہوتا ہے اور بندہ مدعا علیہ ہوتا ہے اور بوجہ مدعی ہونے کے خدا تعالیٰ حق رکھتا ہے کہ اپنے حق میں سے جتنا چاہے چھوڑ دے.اُس کا حق چھوڑنا رحم کہلائے گا بے انصافی نہیں کہلائے گا، کیونکہ وہ اپنا حق چھوڑتا ہے کسی کا حق مارتا نہیں.کفارہ کا عقیدہ ایسا عقل کے خلاف ہے کہ غور کرنے کے بعد کوئی شخص اسے تسلیم نہیں کر سکتا.اگر مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے کی وجہ سے لوگوں کے گناہ معاف ہو سکتے ہیں تو مسیح سے پہلے آنے والے انبیاء کے گناہ کس طرح معاف ہوئے.اس صورت میں تو چاہئے تھا کہ مسیح کو ابتدائے عالم میں ہی صلیب پر لٹکا دیا جاتا تا کہ تمام بنی نوع انسان کو نجات حاصل ہو جاتی.نیز اگر مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے سے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو پھر تو بہ سے کیوں معاف نہیں ہوتے جو ایک طبعی ذریعہ ہے دل کی پاکیزگی کا.ایک زائد چیز کو مان لینا تو دل کی پاکیزگی کا طبعی ذریعہ نہیں لیکن گناہ پر دل میں ندامت اور شرمندگی کا پیدا ہونا اور انسان کا حسرت کے ساتھ اپنے دل پر ایک موت وارد کر لینا یہ تو دل کی صفائی کا ایک طبعی اور یقینی ذریعہ ہے.تعجب ہے کہ عیسائی دنیا یہ تو مانتی ہے کہ مسیح کی صلیبی موت پر ایمان لانے سے ایک شخص کا دل صاف ہو جاتا ہے ہے اور خدا تعالیٰ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے لیکن وہ یہ نہیں مانتی کہ ایک شخص جب اپنی غلطی پر اظہار افسوس اور ندامت کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو معاف کر سکتا ہے.دنیا کے معاملات میں ہم روزانہ دیکھتے ہیں خود عیسائی بھی اس طریق پر عامل ہیں کہ بسا اوقات ایک غلطی کرنے والا جب اپنے قصور کا اعتراف کرتا ہے اور کچی ندامت اس کے دل میں پیدا ہوتی ہے تو اُسے معاف کر دیا جاتا ہے.مغربی تعلیم نے اسکولوں کے متعلق اس قانون کو بڑے زور شور سے جاری کر رکھا ہے حالانکہ اگر کفارے کا عقیدہ درست ہوتا تو یوں چاہئے تھا کہ بجائے اس کے کہ سبق نہ یاد کر نے پراگرلڑکے کے دل میں ندامت پیدا ہو تو اُسے معاف کر دیا جائے لڑکا کھڑا ہو کر یہ کہہ دیتا کہ صاحب! میں نے سبق یاد نہیں کیا لیکن ہاں میں مسیح کے کفارہ پر ایمان لے آیا ہوں اس لئے میرا یہ قصور نظر انداز کر دیا جائے لیکن کوئی عیسائی اس پر عمل نہیں کرتا.استاد اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ سبق نہ یاد کرنے پر اگر تم اپنے دل میں ندامت محسوس کرو اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح کا وعدہ کرو تو میں تمہیں معاف کرنے کے لئے تیار ہوں.وہ اس بات کا کبھی مطالبہ

Page 492

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۰.دیباچہ تفسیر القرآن نہیں کرتا کہ تم مسیح کے کفارہ پر ایمان لاؤ تو میں تمہیں معاف کر دوں گا.لیکن اگر مسیح کی صلیبی کی موت پر ایمان لانے سے دل کی پاکیزگی مراد ہے تو عیسائی دنیا کا عمل اس امر کی تردید کر رہا ہے که کفاره پر ایمان لانے سے دل کو پاکیزگی حاصل ہوتی ہے.جتنی خرابی اور جتنافسق و فجور اس کی زمانہ میں عیسائی دنیا میں ہو رہا ہے باقی دنیا میں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی.آخر وہ کیا چیز ہے جو مسیح کے کفارہ نے عیسائیوں کو دی.اگر نجات دی ہے تو میں بتا چکا ہوں کہ نجات کا صحیح طریق تو ں تو بہ ہے اور اسی ذریعہ سے مسیح سے پہلے انبیاء کی اُمتوں نے نجات پائی اور اگر اس سے مراد دل کی پاکیزگی ہے تو دل کی پاکیزگی با وجود کفارہ کے عیسائیوں کو حاصل نہیں ہوئی.میں یہ نہیں کہتا کہ کسی عیسائی کے دل میں صفائی نہیں مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ کسی عیسائی کے دل کی پاکیزگی کفارہ پر ایمان لانے کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا دل بھی اسی طرح صاف ہوا ہے جس طرح کی باقی دنیا کا تو بہ اور ندامت سے صاف ہوا کرتا ہے یا عبادات سے ہوا کرتا ہے جیسے خود حضرت مسیح نے کہا کہ : یہ قسم دعا کے سوا کسی اور طرح نہیں نکل سکتی.۵۷۴ صفات الہیہ جو قرآن مجید میں مذکور ہیں مذکورہ بالا چاروں صفات کی تشریح میں خدا تعالیٰ کی مختلف صفتیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ہم ان کی تفصیل اس جگہ بیان نہیں کر سکتے.صرف اختصار کے ساتھ ان صفات کا ذکر کر دیتے ہیں جو یہ ہیں.الْمَلِک وہ بادشاہ ہے الْقُدُّوسُ نہایت پاک ذات ہے السَّلَامُ سلامتی والا الْمُؤْمِنُ امن دینے والا الْمُهَيْمِنُ پناہ دینے والا الْعَزِيزُ غالب ہے الْجَبَّارُ صاحب جبروت ہے الْمُتَكَبِّرُ کبریائی والا ہے الْخَالِقُ پیدا کرنے والا الْبَارِئُ بنانے والا الْمُصَوِّرُ صورت گر ہے

Page 493

انوار العلوم جلد ۲۰ الْغَفَّارُ بخشنے والا ہے ۴۸۱ دیباچہ تفسیر القرآن الْفَتَّاحُ الْقَهَّارُ الْوَهَّابُ بہت عطا کرنے والا ہے الرَّزَّاقُ کھولنے والا ہے الْعَلِيمُ د بد به والا رزق دینے والا ہے الْقَابِضُ ہر چیز کو حد وبسط کے اندر رکھنے والا الْبَاسِطُ نہایت درجہ علم رکھنے والا ہے کشائش پیدا کرنے والا ہے الْخَافِضُ پست کرنے والا ہے الرَّافِعُ بلند کرنے والا ہے الْمُعِزُّ عزت دینے والا ہے المُذِلُّ ذلت دینے والا ہے السَّمِيعُ ہر آواز سننے والا ہے الْبَصِيرُ.ہر چیز دیکھنے والا ہے الْحَكَمُ صحیح فیصلہ کرنے والا ہے الْعَدَلُ انصاف کرنے والا اللطيف نہایت باریک بین ہے الْخَبِيرُ خبر رکھنے والا ہے الْحَلِيمُ متحمل والا ہے الْعَظِيمُ بہت عظمت والا ہے الْغَفُورُ گناہ بخشنے والا الشَّكُورُ نہایت قدردان ہے الْعَلِيُّ صاحب مرتبت ہے الْكَبِيرُ بڑائی والا ہے الْحَفِيظ حفاظت کرنے والا ہے الْمَقِيتُ ہر چیز کی قوتوں کو بحال رکھنے والا ہے عزت والا ہے اَلْحَسِيبُ حساب کرنے والا الْكَرِيمُ الْمُجيب دعا قبول کرنے والا ہے الْحَكِيمُ ہر کام حکمت سے کرنے والا ہے الْوَاسِعُ فراخی دینے والا ہے الْجَلِيلُ بزرگی والا ہے الرَّقِيبُ نگہبان ہے الوَدُودُ محبت کرنے والا ہے الْمَجِيدُ عالی شان رکھنے والا ہے الْبَاعِتُ مردوں کو اُٹھانے والا ہے الشهيدُ ہر جگہ حاضر ہے الْحَقُّ اس کا وجود خو داسکی ذات پر شاہد الْوَكِيلُ حقیقی کارساز ہے الْقَوِيُّ ہے اور سب سچائیوں کا منبع ہے نہایت زور آور ہے

Page 494

۴۸۲ دیباچہ تفسیر القرآن انوار العلوم جلد ۲۰ المَتِينُ بہت بڑی قوت رکھنے والا نے لا ہے الْوَلِيُّ حمایت کرنے والا ہے الْحَمِيدُ سب تعریفوں کا مالک ہے الْمُحْصِی ہر چیز کو گننے والا ہے الْمُبْدِي پہلی بار پیدا کر نے والا ہے الْمُعِيدُ پیدائش دینے والا ہے الْمُحْيى جلانے والا ہے الْمُمِيتُ مارنے والا ہے الْحَيُّ زندہ ہے الْقَيُّوم سب کا سہارا ہے الْوَاجِدُ ہر چیز کو پانے والا ہے الْمَاجِدُ نہایت بزرگ ہستی ہے الْقَادِرُ قدرت واختیار رکھنے والا ہے الْمُقْتَدِرُ سب قدرتیں اس کے قبضہ میں ہیں الْمُقَدِّمُ آگے بڑھانے والا ہے الْمُؤَخّرُ پیچھے ہٹانے والا ہے الْاَوَّلُ سب سے پہلا ہے الْآخِرُ سب سے پچھلا ہے الظَّاهِرُ ہر چیز اپنی انتہاء میں اُس الْبَاطِنُ ہر چیز کی کنبہ اس کے ذریعے کے وجود کو ظاہر کرتی ہے سے ظاہر ہوتی ہے الْوَالِي حکمران ہے الْمُتَعَالِي پاک صفات والا ہے الْبَرُّ اعلیٰ درجہ کا نیک سلوک کرنے والا ہے التَّوَّابُ تو بہ قبول کرنے والا ہے.الْمُنْعِمُ انعام دینے والا ہے الْمُنتَقِمُ ہر عمل کی مناسب سزا دینے والا ہے الْعَفُو درگزر کرنے والا ہے الرَّؤُوف نرمی کرنے والا ہے ملِكُ الْمُلْكِ سلطنت کا مالک ہے ذُو الْجَلَالِ و الاكرام صاحب عزت و بخشش ہے وَ الْإِكْرَامِ و.المُقسط صحیح فیصلہ کرنے والا ہے الْجَامِعُ اکٹھا کرنے والا ہے الْغَنِيُّ تمام حوائج سے مستغنی ہے الْمُغْنِي غنی کرنے والا ہے الْمَانِعُ روکنے والا ہے الضَّارُّ شریر کو اُسکے کام کی سزا دیتا ہے

Page 495

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۳ دیباچہ تفسیر القرآن النَّافِعُ فائدہ پہنچانے والا ہے النُّوْرُ روشنی بخشنے والا ہے الْهَادِي ہدایت دینے والا ہے الْبَدِيعُ ایجاد کرنے والا ہے الْبَاقِي باقی رہنے والا ہے الْوَارتُ سب کا وارث ہے الرَّشِيدُ نیک راہ بتانے والا ہے الصبور بہت صبر کرنے والا ذُو الْعَرْشِ ذُو الْوَقَارِ ہر بات دلیل اور غرض کے مطابق کر نیوالا الْمُتَكَلِّمُ کلام کرنے والا الشَّافِي شفا دینے والا الْكَافِي سب حاجتوں کو پورا کرنے والا یہ ایک سو چار موٹے موٹے نام ہیں جو قرآن شریف سے اخذ کئے گئے ہیں، ان میں سے اکثر تو انہی الفاظ میں قرآن کریم میں بیان ہیں لیکن بعض ایسے ہیں جو قرآن کریم کی آیتوں سے اخذ کر کے لکھے گئے ہیں ان ناموں پر غور کر کے اس روحانی نظام کا ڈھانچہ اچھی طرح سمجھ میں آسکتا ہے جسے قرآن کریم پیش کرتا ہے.یہ صفات موٹے طور پر تین حصوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں.اوّل وہ صفات جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں مخلوق کا اُن کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں.مثلاً الحي زندہ رہنے والا ہے.القادر قدرت اور اختیار رکھنے والا ہے.الماجد بزرگی رکھنے والا وغیرہ وغیرہ.دوسری قسم کی صفات وہ ہیں جو مخلوق کی پیدائش کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے سلوک اور اس کے نسبتی تعلق پر دلالت کرتی ہیں مثلا الخالق.المالک وغیرہ وغیرہ.تیسری قسم کی صفات وہ ہیں جو بالا رادہ ہستیوں کے اچھے اور بُرے اعمال کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہوتی ہیں.مثلاً رحیم ہے ملک یوم الدین ہے عفو ہے رؤوف ہے وغیرہ وغیرہ.بعض صفات بظاہر مکر ر نظر آتی ہیں لیکن غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک

Page 496

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۴ دیباچہ تفسیر القرآن لطیف فرق ہے مثلاً پیدائش کے متعلق اللہ تعالی کی کئی صفات بیان ہوئی ہیں.جیسے خَالِقُ كُلّ شَيْءٍ - البديع_الفاطر - الخالق - البارى المعيد المصوّر الربّ.یہ صفات بظاہر ملتی جلتی نظر آتی ہیں لیکن در حقیقت یہ مختلف ممتاز معنوں پر دلالت کرتی ہیں.خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ سے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ روح اور مادہ کا بھی پیدا کرنے والا ہے کیونکہ بعض قو میں خدا تعالیٰ کو صرف جوڑنے جاڑنے کا موجب سمجھتی ہیں.بسیط مادے کا خالق نہیں سمجھتیں.ان کا خیال ہے کہ مادہ اور روح بھی خدا تعالیٰ کی طرح از لی اور انادی ہیں.اگر خالی لفظ خالق ہوتا تو لوگ یہ کہہ سکتے تھے کہ ہم بھی خدا تعالیٰ کو خالق مانتے ہیں مگر ہمارے نزدیک خالق کے یہ معنی ہیں کہ وہ ان چیزوں کو جوڑ جاڑ کر ایک نئی شکل دے دیتا ہے.ان لوگوں کو اس تاویل کی وجہ سے قرآن کریم کا حقیقی منشاء واضح اور روشن طور پر ثابت نہ ہوسکتا.پس خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ کی صفت نے محض خلق کی صفت سے ایک زائد مضمون بیان کیا ہے.بدیع کا مفہوم یہ ہے کہ نظام عالم کا ڈیزائن اور نقشہ خدا تعالیٰ نے بنایا ہے.گویا یہ اتفاقی نہیں یا موجودات میں سے کسی کی نقل نہیں.فطر کے معنی ہوتے ہیں کسی چیز کو پھاڑ کر اس میں سے مادہ کو نکالنا.پس فاطر کی صفت سے اس طرف اشارہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو مادہ پیدا کیا اس کے اندر اس نے مخفی ارتقاء کی طاقتیں رکھیں اور اپنے وقت پر وہ پردے جو ان طاقتوں کو دبائے کی ہوئے تھے اُن کو اس نے پھاڑ دیا.جیسے بیج کے اندر درخت یا پودا بننے کی خاصیت ہوتی ہے مگر وہ ایک خاص حالات کا منتظر رہتا ہے، اس وقت اور اس موسم میں وہ اپنے آپ کو ظاہر کرتا ہے غرض فاطر کے لفظ نے بتا دیا کہ خدا تعالیٰ نے سب کچھ یکدم نہیں کر دیا بلکہ دنیا کو ایک قانون کے مطابق پیدا کیا ہے.ہر ایک درجہ کے متعلق ایک قانون کام کر رہا ہے ایک اندرونی تیاری کی دنیا میں ہوتی رہتی ہے اور ایک خاص وقت پر جا کر بعض مخفی طاقتیں اپنے آپ کو ظاہر کر دیتی ہیں اور ایک نئی چیز بننے لگ جاتی ہے.خالق کے معنی وہ بھی ہیں جو خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ میں بیان ہو چکے ہیں.لیکن ان کے علاوہ ایک اور معنی بھی خالق کے ہیں، اور وہ تجویز کرنے والے کے ہیں.پس خالق کے معنی یہ ہیں کہ مختلف چیزوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھنا.یہ بھی خدا تعالیٰ کا ہی کام ہے.اس دنیا کو ایک خاص نظام کے ماتحت خدا تعالیٰ نے رکھا ہے اور اس پر خالق کا لفظ دلالت

Page 497

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۵ دیباچہ تفسیر القرآن کرتا ہے.باری کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے مختلف ظہور شروع می کرتا ہے اور پھر وہ ایک ایسا قانون مقرر کر دیتا ہے کہ وہ چیز اپنی نسل کی تکرار کرتی چلی جاتی ہے اور اس پر خدا تعالیٰ کا نام المعید دلالت کرتا ہے.المصور کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہر چیز کو ایک خاص شکل دی ہے جو اس کے مناسب حال ہے.صرف کسی چیز کے اندر کسی خاصیت کا پیدا کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اسے مناسب حال شکل دینا بھی ضروری می ہوتا ہے اس کے بغیر کام نہیں چل سکتا.اسی طرح کسی چیز کا محض پیدا ہو جانا کافی نہیں بلکہ اس کا ایسی شکل میں پیدا ہونا بھی کہ وہ اپنے کام کو سرانجام دے سکے ضروری ہوتا ہے پس اس صفت کے اظہار کے لئے خدا تعالیٰ کا ایک نام المصور ہے.الرَّب کی صفت ان معنوں پر دلالت کرتی ہے کہ پیدا کرنے کے بعد اس کی طاقتوں کو تدریجی طور پر بڑھاتے چلے جانا اور کمال تک پہنچانا.ظاہر ہے کہ پہلی صفات اس مضمون کو ادا نہیں کرتیں.اسی طرح اور کئی صفات ہیں جو بظا ہر مکرر نظر آتی ہیں مگر در حقیقت ان کے اندر باریک فرق ہے اور اس فرق کے سمجھ لینے کے بعد وہ روحانی نظام جس کو قرآن کریم پیش کرتا ہے نہایت ہی شاندار اور خوبصورت طور پر انسان کی آنکھوں کے آگے آجاتا ہے.یہ صفات جو قرآن کریم نے بیان کی ہیں اور جن کا ایک حصہ میں نے اوپر درج کیا ہے انجیل میں تو ان کا بہت ہی کم ذکر ہے.تو رات اور دوسرے انبیاء کے صحف میں بھی فرداً فرداً یہ ساری صفات بیان نہیں ہوئیں ہاں بنی اسرائیل کے تمام انبیاء کی کتابوں کو جمع کیا جائے تو پھر ان میں سے بہت سی صفات کا ذکر ان میں آجاتا ہے مگر ساری صفات کا ذکر پھر بھی نہیں آتا.درحقیقت مسلمانوں میں جو عام طور پر یہ مشہور ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں یہ عقیدہ ان یہودی روایات سے ہی وابستہ ہے جو انہوں نے تو رات سے صفات الہیہ اخذ کر کے بنائی ہیں ورنہ قرآن کریم میں ننانوے سے بہت زیادہ نام مذکور ہیں جن کے میں سے ایک سو چار نام تو میں نے اوپر بیان کر دیئے ہیں اور ابھی بہت سے باقی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جن کا انسان کے ساتھ تعلق نہیں ان کے قرآن کریم میں بیان کرنے کا کوئی فائدہ نہ تھا اور یقیناً وہ قرآن کریم میں بیان نہیں ہوئیں پس کسی خاص تعداد میں خدا تعالیٰ کے ناموں کو محمد دو کرنا درست نہیں اور اگر اسلامی لٹریچر میں اس قسم کا کوئی ذکر پایا جاتا ہے

Page 498

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۶ دیباچہ تفسیر القرآن ہے تو وہ صرف یہودی دعوے کے تقابل کے لئے ہے حقیقت محض کے اظہار کے لئے نہیں.ویدوں کو بھی میں نے دیکھا ہے ان میں بھی بہت کم صفات خدا تعالیٰ کی بیان ہوئی ہیں اور یہی حال ترند اوستا کا ہے.اصل بات یہ ہے کہ چونکہ قرآن کریم کامل کتاب ہے اور روحانیت کی تکمیل کے لئے آخری زینہ ہے اس لئے اس میں وہ صفات بھی آگئی ہیں جو پہلی کتابوں نے بیان کیں اور ان کے علاوہ کئی زائد صفات بھی اس میں بیان کی گئی ہیں.بعض لوگوں کو ان صفات کے دیکھنے سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ ان میں سے بعض متضاد صفات بھی ہیں.مثلاً خدا تعالیٰ رحم کرنے والا بھی ہے اور خدا تعالیٰ سزا دینے والا بھی ہے.خدا تعالیٰ غنی بھی ہے اور پھر وہ پیدا بھی کرتا ہے اور بنی نوع انسان کی طرف ہدایت بھی بھیجتا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ اسے ان چیزوں کے وجود میں آنے کی خواہش ہے.عام طور پر ایسے دماغوں کی میں یہ سوالات پیدا ہوا کرتے ہیں جنہوں نے فلسفہ پر ادھورا غور کیا ہوتا ہے وہ اس حقیقت کو نہیں جانتے کہ دنیا کا سارا حسن تو اس کے بظا ہر نظر آنے والے اختلاف میں ہی پایا جاتا ہے یہ لوگ اس امر پر غور نہیں کرتے کہ مختلف چیزیں اپنا الگ الگ دائرہ رکھتی ہیں یاز نجیر کی کڑیوں کی طرح ایک کڑی کے ختم ہونے پر دوسری کڑی شروع ہوتی ہے.یہ سچ ہے کہ خدا تعالیٰ سزا بھی دیتا ہے لیکن سزا دینے کے لئے اس نے کچھ قوانین مقرر کئے ہیں.جب وہ قوانین چاہتے ہیں تو وہ سزا دیتا ہے اور جب عفو کے متعلق اُس کے مقرر کئے ہوئے قوانین کا تقاضا بڑھ جاتا ہے تو وہ عفو کرتا ہے اور ایک ہی وقت میں کسی انسان کے لئے اس کی سزا کی صفت جاری ہو رہی ہوتی ہے اور کسی انسان کے لئے اس کی بخشش کی صفت ظہور میں آ رہی ہوتی ہے.کسی انسان کے لئے اس کے پیدا کرنے کی صفت اور کسی انسان کے لئے اس کے مارنے کی صفت جاری ہو رہی ہوتی ہے.میں ابھی چھوٹا تھا کہ آریہ سماج کے ایک لیڈر نے مجھ سے سوال کیا کہ خدا تعالیٰ کو قرآن کریم میں رَبُّ العلمین کہا گیا ہے پھر وہ مارتا کیوں ہے حالانکہ رَبُّ العلمین کے تو معنی ہیں پیدا کر کے تکمیل تک پہنچانا.یہ اعتراض محض سطحی تھا رَبُّ العلمین کے یہ تو معنی نہیں کہ اس کی کو مارے نہیں.قرآن کریم میں رب العالم نہیں کہا گیا بلکہ رب العلمین کہا گیا ہے اور جب ایک چیز ایک طرف سے دوسری طرف کو منتقل ہو جاتی ہے تو ربوبیت کی صفت بھی ایک دوسری شکل

Page 499

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۷ دیباچہ تفسیر القرآن میں ظاہر ہونے لگتی ہے غرض جو چیز موجود ہے وہ خدا تعالیٰ کی ربوبیت سے فائدہ اُٹھا رہی ہے اور جو چیز موجود نہیں وہ عالم ہے ہی نہیں.اس کے متعلق سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.صفات الہیہ دو قانونوں اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات دو قا نونوں کے ماتحت چلتی ہیں.وہ صفات جو بنی نوع انسان سے تعلق رکھتی کے ماتحت کام کرتی ہیں ہیں ان کے باہمی تعاون کیلئے خدا تعالیٰ نے دو قانون قرآن شریف میں پیش کئے ہیں ایک قانون کا ذکر ورّحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ ۵۷۵ کی آیت میں آتا ہے یعنی میری رحمت ہر چیز پر غالب ہے.دوسری صفت قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے مَا لَكُمْ لا تَرْجُونَ يتووَقَارًا ۵۷۶ تمہیں کیا ہو گیا کہ تم خدا تعالیٰ کے متعلق یہ خیال نہیں کرتے کہ وہ اپنے کاموں میں حکمت کو مدنظر رکھتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے جو قرآن کریم نے بیان فرمائے ہیں ایک نام حکیم بھی ہے جو اس مفہوم کے ساتھ ملتے جلتے مفہوم پر دلالت کرتا ہے ان دو صفات سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی ہر صفت جو ظاہر ہو گی وہ کسی غرض اور غایت کو پورا کرنے کے لئے ہوگی بلا وجہ نہیں ہوگی.دوسرے یہ کہ جہاں بھی سزا اور رحم کے مطالبے ٹکرا جائیں گے رحم کے پہلو کو ہمیشہ ترجیح دی جائے گی اور سزا کے پہلو کو ہمیشہ اس کے ماتحت رکھا جائے گا.در حقیقت قرآن کریم کی یہی وہ خوبی ہے جو ایک مؤمن کے دل کو اللہ تعالیٰ کی محبت سے بھر دیتی ہے اور یہی وہ اصول ہے جو بندے اور خدا میں محبت پیدا کرنے کا ذریعہ ہو جاتا ہے.ایک مسلمان کو خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کیلئے کسی عقل میں نہ آنے والے کفارہ کے مسئلہ کی ضرورت نہیں نہ اس کو کسی شخص کے صلیب پر لٹک کر مر جانے کے مسئلہ پر ایمان لانے کی حاجت ہے.جب وہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے اِس گر کو دیکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہر کام می حکمت کے ماتحت ہوتا ہے.ہر کام کسی غرض و غایت کے لئے ہوتا ہے اور ہر کام کسی جائز اور معقول سبب کے لئے ہوتا ہے اور یہ کہ باوجود اس کے جب ایک کمزور انسان کمزوری دکھا جاتا ہے اور اس کے دل میں ندامت اور شرم پیدا ہوتی ہے تو خدا تعالیٰ کی محبت اور خدا تعالیٰ کا غفران اس کو ڈھانک لیتا ہے تو اس کا دل بیتاب ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جھک جاتا ہے اور جب ایک

Page 500

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۸ دیباچہ تفسیر القرآن مسلمان اس بات کو دیکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ باوجود خالق اور مالک ہونے کے بندے کے قصوروں کو معاف کرتا اور اُس کی غلطیوں سے درگزر کرتا اور اُس کی ترقی کے سامان پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اُس کی سزا دکھ دینے اور ذلیل کرنے کے لئے نہیں ہوتی بلکہ وہ بندے کی اصلاح اور ترقی کے لئے ہوتی ہے جب وہ دیکھتا ہے کہ اس کا خدا اُس کی تو بہ کے قبول کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے اور وہ اس کے گناہوں پر پردہ ڈالتا ہے اور تو بہ اور ندامت کے بعد گناہوں کو جڑ سے اکھیڑ دیتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ باوجود عظیم الشان اور نہایت ہی بالا ہستی ہونے کے وہ اپنے بندوں کی دعاؤں کو سنتا ہے اور انسان کے دل میں اس سے ملنے کا جتنا شوق ہے اس سے کہیں بڑھ کر خدا تعالیٰ کو اُس سے ملنے کا شوق ہے تو انسان کا دل محبت اور پیار سے بھر جاتا ہے اور وہ بے اختیار ہو کر خدا تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اُس سے بھی زیادہ شوق سے جس شوق سے ایک بچہ اپنی ماں کی طرف جھکتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی ایسے انسان کی طرف محبت سے جھکتا ہے اس ماں کی محبت کی نسبت سے بھی زیادہ شدید محبت سے جو اپنے روتے ہوئے بچے کی طرف بھاگتی ہے.پیدائش عالم اور انسان کا نقطۂ مرکزی ہونا قرآن کریم بتا تا ہے کہ اس نقطه مرکزی ، یعنی خدا تعالیٰ نے چاہا کی کہ ایک نیا عالم پیدا کرے جو اس کے نور اور اس کے جلال کا مظہر ہو.تب اس نے یہ مادی عالم پیدا کیا.اس عالم کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم نے جو روشنی ڈالی ہے وہ مختصراً یہ ہے فرماتا ہے وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَ الْاَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا خدا ہی ہے جس نے آسمانوں اور زمینوں کو چھ وقتوں میں پیدا کیا ہے ( یعنی چھ اہم تبدیلیوں والے زمانوں میں ) وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء اور اس سے پہلے خدا تعالیٰ کا حکم پانی پر چلتا تھا.اس پانی کی حالت سے زمین و آسمان کے پیدا کرنے کی غرض یہ تھی کہ وہ ایک انسان پیدا کرے جو نیکی اور بدی پر اختیار رکھتا ہو اور ہر قسم کے امتحانوں میں سے گزرتے ہوئے یہ ثابت کرے کہ ان میں سے کون دوسروں سے فائق ہو گیا اور اعلیٰ درجہ کی نیکی کا نمونہ بن گیا ہے.اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ آسمان اور زمین کی ج

Page 501

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۸۹ دیباچہ تفسیر القرآن ط پیدائش سے پہلے یعنی مادہ کی موجودہ شکل سے پہلے دنیا میں ایک پانی کی خاصیت کا مادہ پیدا کیا گیا تھا یا دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لو کہ ہائیڈ روجن کا بسیط ترین ذرہ پیدا کیا گیا تھا پھر اس کو ترقی دیتے دیتے یہ عالم پیدا ہوا.زمین اور آسمان کی موجودہ شکل کے اختیار کرنے سے پہلے کی حالت کے متعلق بھی قرآن شریف روشنی ڈالتا ہے اور فرماتا ہے آولمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا آنَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَهُمَا، وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيَّ ، أَفَلَا يُؤْمِنُون ۵۷۸ کیا اسلام کے منکر اس بات کو سمجھتے نہیں کہ آسمان اور زمین شروع میں ایک گولہ کی طرح تھے پھر ہم نے اُن کو پھاڑ کر ایک نظام تنسی قائم کر دیا اور شروع سے ہی ہمارا یہ طریق چلا آرہا ہے کہ ہم پانی سے ہر چیز زندہ کیا کرتے ہیں کیا وہ ایمان نہیں لائیں گے؟ یعنی مادی عالم نے جس طرح ترقی کی ہے اسی طرح روحانی عالم بھی ترقی کرے گا.جس طرح دنیا کی میں پھیلا ہوا ایک گول سا مادہ تھا جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مقررہ قانون کے ماتحت پھاڑا اور ی ڈور ڈور اس کے ٹکڑے جا کر گرے اور نظام شمسی بن گیا اسی طرح روحانی دنیا میں بھی ایک لیم پیدا ہوتا ہے دنیا کی روحانی حالت خراب ہو جاتی ہے اور فضا گھٹی گھٹی سی معلوم ہوتی ہے تب اللہ تعالیٰ اسی تاریکی سے ایک نور ظاہر کرتا ہے اور جس طرح زمین کی تاریکی سے پودا پھوٹتا کی ہے اسی طرح اس تاریکی میں جنبش پیدا ہو کر ایک زلزلہ سا آتا ہے اور اس مردہ مادہ میں ایک دائی حرکت کرنے والا روحانی نظام شمسی پیدا ہو جا تا ہے جو اپنے مرکزی نقطہ سے پھیل کر ملک یا دنیا کو اپنی وسعت کے مطابق گھیر لیتا ہے اور جس طرح مادی عالم کی پیدائش کی ابتداء پانی سے ہوئی ہے اسی طرح یہ تغیر جو دنیا میں ہوتا ہے یہ بھی آسمانی پانی یعنی الہام سے ہوتا ہے.بغیر آسمانی پانی کے ایسا تغیر نہیں ہوتا.الغرض قرآنی تعلیم کے رو سے دنیا مختلف تغیرات میں سے گزرتی چلی گئی اور آخر وہ وقت آیا جب زمین کے پردہ پر انسان پیدا کیا جا سکتا تھا اور وہی انسان کم سے کم اس نظام شمسی کا مقصود تھا.جب وہ وقت آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اس مادی عالم میں انسان کو پیدا کیا تا کہ وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اللہ تعالیٰ کے حسین چہرہ کے لئے ایک آئینہ کی طرح ثابت ہوا اور اس طرح ایک روحانی بادشاہت کی بنیاد رکھی جائے.بے شک خدا کی مخلوق لاکھوں اور کروڑوں قسم کی ہے قرآن کریم فرماتا ہے وَ مَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۵۷۹

Page 502

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۰ دیباچہ تفسیر القرآن اللہ تعالیٰ کے لشکروں سے خدا ہی واقف ہے دوسرا کوئی واقف نہیں لیکن انسان کو ایک عزت اور رتبہ کا مقام حاصل ہے اس لئے کہ انسان خدا تعالیٰ کے لئے بمنزلہ آئینہ ہے اسی لئے مسلمان صوفیاء اس کو عالم صغیر کہتے ہیں یعنی تمام مخلوقات کی صفات انسان کے اندر جمع ہوگئی ہیں اور انسان کو ہم ساری دنیا کا قائمقام کہہ سکتے ہیں.جس طرح ایک نقشہ چھوٹے سے کاغذ پر ہوتا ہے کی لیکن وہ ملک کی تمام کیفیات کو ظاہر کر دیتا ہے اسی طرح انسان کو ایک چھوٹا سا جسم رکھتا ہے مگر وہ چی تمام عالم کی مختلف حقیقتیں اپنے اندر پنہاں رکھتا ہے.پس خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ دنیا کا محور اور مرکز انسان ہے.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے جو کچھ پیدا کیا ہے انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ انسان دنیا کی ہر مخلوق پر حکومت کر رہا ہے اور کوئی مخلوق اس پر حکومت نہیں کر رہی.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلیاں، ستاروں کی روشنیاں، بجلیاں اور بیماریاں اسی طرح طوفان اور بارشیں انسان پر ضرور اثر کرتی ہیں مگر اثر اور حکومت میں فرق ہوتا ہے.حاکم بھی اپنے محکوم سے متاثر ہوتے ہیں.دنیا میں کوئی ایسا حاکم ہمیں نظر نہیں آتا جو اپنے محکوم سے متاثر نہ ہو، مگر باوجود اس کے حاکم اور محکوم کے پہچاننے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی.اسی طرح گوانسان دوسری چیزوں سے متاثر ہوتا ہے، لیکن ان چیزوں پر حکومت اور قبضہ انسان ہی کا ہوتا ہے.دریاؤں، سمندروں، پہاڑوں، ہواؤں، دواؤں ، بارشوں اور بجلیوں وغیرہ پر حاکمانہ اقتدار انسان کا ہی ہے اور اس طرح وہ تمام مخلوق کا نقطہ مرکزی ہے، یا یوں کہہ لو کہ اس تمام مخلوق کا جو ہماری دنیا کے ساتھ تعلق رکھتی ہے کیونکہ عالم کی وسعت اتنی بڑی ہے کہ ہم اس کے متعلق کوئی عام فتوی لگانے کا حق نہیں رکھتے..انسان کی پیدائش اور اس کی انسان کی پیدائش کے متعلق قرآن کریم سے ظاہر ہوتا ہے کہ تورات و انجیل کے دعوؤں کے دماغی ترقی تدریجی طور پر ہوئی بر خلاف انسان کی پیدائش تدریجی طور پر ہوئی ہے.ایک آیت تو میں پہلے ” قرآنی تعلیم کے اصول کے زیر عنوان لکھ چکا ہوں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم انسان کی پیدائش کو تدریجی قرار دیتا ہے.اس جگہ ایک اور آیت بیان کرتا ہوں جس سے پتہ لگتا ہے کہ انسان کی پیدائش اس طرح نہیں ہوئی کہ خدا تعالیٰ نے مٹی سے ایک

Page 503

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۱ دیباچہ تفسیر القرآن صورت بنائی اور پھر اس میں روح پھونک دی بلکہ جیسا کہ خدا تعالیٰ کی اور سنتیں ظاہر ہوئی ہیں وہ می بھی تدریجی تغیرات کے بعد ظاہر ہوا ہے.چنانچہ سورۃ نوح میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وقَدْ خَلَقَكُمْ أطوارًا ۵۸٠، تمہیں خدا تعالیٰ نے ایک درجہ کے بعد دوسرے درجہ اور ایک کیفیت کے بعد دوسری کیفیت میں تبدیل کرتے ہوئے آہستہ آہستہ پیدا کیا ہے.پس انسان کی پیدائش قرآنی تعلیم کے مطابق یکدم نہیں ہوئی بلکہ آہستہ آہستہ ہوئی ہے اور انسان کا دماغی ارتقاء بھی یکدم نہیں ہوا ، بلکہ وہ بھی آہستہ آہستہ ہوا ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آدم سے پہلے انسانی مخلوق موجود تھی ، مگر ظاہری شکل میں ابھی وہ خدا تعالیٰ کی شریعت کی حامل نہ ہو سکتی تھی ، وہ مخلوق غاروں اور پہاڑوں کی کھو ہوں میں رہتی تھی.اس لئے قرآن کریم نے ان کا نام جن رکھا ہے.جن کے معنی عربی زبان میں پوشیدہ رہنے والے کے ہیں بعض لوگوں نے اس لفظ کو روایتی جن پر محمول کیا ہے ، حالانکہ قرآن کریم کی تشریح ان روایتی جنوں پر صادق نہیں آتی.قرآن کریم میں صاف لکھا ہے کہ بنو آدم کے جنت سے نکلنے پر ( جنت بھی ارضی تھی وہ جنت نہ تھی جس میں مرنے کے بعد انسان جائے گا ) اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ ابلیس ( جو جنوں میں سے تھا ) اور اس کے ساتھیوں سے ہوشیار رہنا اور ان کے دھوکوں میں نہ آنا، کیونکہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنا ہوگا.اسی دنیا میں تم دونوں گروہ رہو گے اور اسی میں مرو گے.پس ان سے ہوشیار رہنا ۵۸۱ ، اور پھر آدم کے ساتھیوں اور ابلیس کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے کہا گیا ہے کہ جب تم میں نبی آئیں تو تم اُن پر ایمان لانا.۵۸۲ ان حوالوں سے ظاہر ہے کہ آدم کے وقت جن اور ان کا سردار ابلیس در حقیقت بشری نسل میں سے تھے.ورنہ جن نہ تو انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہتے ہیں اور نہ بنی نوع انسان سے ان کا کوئی تعلق ہے.پس قصوں والے جن اور ہیں اور ان کا ذمہ وار قصہ نو لیس ہے.قرآن کریم نے جن کو جن کہا ہے، وہ بشری نسل سے ہی ہیں اور یہ ان لوگوں کا نام ہے جو شروع زمانہ میں اس دنیا پر پائے جاتے تھے جن کے دماغ کی پورے طور پر نشو ونما کو نہ پہنچے تھے.جب دماغ کے پورے نشو و نما کا وقت آیا تو سب سے کامل انسان آدم پر اللہ تعالیٰ کا الہام نازل ہوا اور بعض تمدنی قواعد مثلاً مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کی غذا کی ذمہ داری لینے کی قسم کے موٹے موٹے احکام حضرت آدم پر نازل ہوئے.

Page 504

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۲ دیباچہ تفسیر القرآن وہ لوگ جن کی تمدنی روح ابھی کامل نہ تھی انہوں نے ان قیود کا انکار کیا اور آدم کا مقابلہ کیا.اس پر اللہ تعالیٰ نے انہیں سزا دی اور آدم کو غالب کر دیا اور آئندہ کیلئے حکم دیا کہ جب کوئی دوسرا نبی آئے تو نبوت کا سلسلہ اسی شکل میں ظاہر ہوتا رہے گا.یعنی کچھ لوگ مؤمن ہوں گے اور کچھ کافر.مؤمن انسانوں کے قائمقام ہوں گے اور کفار اُن جنوں کے قائمقام ہوں گے کیونکہ ہر نبی ارتقائے دماغی یا روحانی کے لئے آتا ہے اور جو لوگ اس منزل ارتقاء کے مخالف ہوتے ہیں اور اس زمانہ کی قیود کی پابندی نہیں کر سکتے جو نبی کے ذریعہ سے سوسائٹی کی اصلاح کیلئے تجویز کی جاتی ہیں وہ اس کے منکر ہو جاتے ہیں.غرض قرآنی تعلیم کی رو سے انسان کی پیدائش ارتقاء سے ہوئی ہے بلکہ اس کے دماغ کی ترقی بھی درجہ بدرجہ ارتقاء سے ہوئی ہے.آدم پہلا بشر نہ تھا بلکہ وہ بشروں میں سے پہلا مکمل بشر تھا.جس کا دماغ الہی کلام کا حامل ہونے کے قابل ہوا اس لئے قرآن کریم نے آدم کے ذکر میں کہیں یہ نہیں کہا کہ آؤ ہم پہلا انسان پیدا کریں بلکہ قرآن کریم میں جہاں آدم کا ذکر آتا ہے یوں آتا ہے کہ میں نے ارادہ کیا ہے کہ زمین میں اپنا خلیفہ مقرر کروں.جس سے ظاہر ہے کہ بشر تو پہلے موجود تھے مگر وہ الہام الہی سے ابھی تک مشرف نہ ہوئے تھے کیونکہ ان کے دماغوں نے پوری نشو و نما نہ کی تھی.جب آہستہ آہستہ بشری دماغ نے نشو و نما حاصل کی اور وہ ایک نظام اور تمدن کو قبول کرنے کے قابل ہو گیا تو اُس وقت کے سب سے مکمل دماغ کی والے بشر آدم پر اللہ تعالیٰ نے الہام نازل کیا اور وہ پہلا نبی ہوا.پس وہ وہ پہلا انسان نہ تھا پہلا نبی تھا اور اسے اس زمانہ کی دماغی ترقی کے مطابق ایک بسیط اور سادہ تعلیم دی گئی جو صرف چند موٹے موٹے قوانین تمدن پر مشتمل تھی اور اللہ تعالیٰ کی صفات کے متعلق بھی ایک سادہ سی تفصیل تھی.اس امر کے متعلق قرآن کریم کی یہ آیت بھی شاہد ہے.ولَقَدْ خَلَقْنَكُمْ ثُمَّ صَوّر نَكُمْ ثُمّ قلنا للمملئِكَةِ اسْجُدُ والأدم ۵۸۳، يعنى هم نے تم انسانوں کو پیدا کیا پھر ہم نے تم کو ایک اچھی صورت بخشی پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کی اطاعت کرو.اس آیت سے ظاہر ہے کہ آدم سے پہلے کئی انسان پیدا ہو چکے تھے اور صور لكم سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک لمبی ارتقائی منزل میں سے بھی گزر چکے تھے کیونکہ

Page 505

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۳ دیباچہ تفسیر القرآن پیدائش کے بعد صورت دینے سے جسمانی صورت تو مراد نہیں ہو سکتی ، اس سے مراد ذہنی ارتقاء ہی ہو سکتا ہے پس اس آیت کا مفہوم یہی ہے کہ پہلے انسان پیدا کیا گیا پھر آہستہ آہستہ ترقی دیتے ہوئے اس کے قومی کو ایک نئی شکل دے دی گئی اور وہ دوسرے حیوانوں سے ممتاز نظر آنے لگا یعنی اس کی سمجھ اور عقل مکمل ہو گئی تب آدم پیدا کیا گیا اور خدا تعالیٰ نے اس پر الہام نازل کیا.انسانی پیدائش کا مقصد انسانی پیدائش کے متعلق قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اس لئے پیدا کیا گیا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اس کا نمونہ بنے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ ما خَلَقْتُ الْجِنِّ و الإِنْسَ إِلا لِيَعْبُدُونِ ۵۸۴ میں نے جن و انس کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے تا وہ خدا تعالیٰ کی صفات کا نقش اپنے دل پر پیدا کریں ( جن سے اس جگہ انسان ہی کی بعض اقسام مراد ہیں نہ کہ غیر مرئی جن) اسی طرح قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے هُوَ الذي جَعَلَهُمْ خَليفَ فِي الْأَرْضِ ، فَمَن كَفَرَ فَعَلَيْهِ كُفْرُه ، ۵۸۵ اے انسانو! اللہ ہی ہے جس نے تم کو اس دنیا میں اپنا نمائندہ بنا کر کھڑا کیا ہے.پس اگر کوئی شخص تم میں سے اس مقام کا انکار کرتا ہے تو اس کے انکار کا نتیجہ اُسی کو پہنچے گا یعنی اس عزت کے مقام کو چھوڑ کر انسان خود اپنا ہی نقصان کرے گا.خدا تعالیٰ کو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.ان آیات سے ظاہر ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کو دنیا میں ظاہر کرنے کے لئے پیدا ہوا ہے اور وہ اس دنیا میں خدا تعالیٰ کا قائمقام ہے.پس انسان نقطه مرکزی ہے تمام عالم مادی کے لئے.اور چونکہ انبیاء انسانوں کی اصلاح کے لئے اور اُن کو اپنا فرض یاد دلانے کے لئے اور اسی میں کامیابی کیلئے صحیح طریق کار بتانے کیلئے آتے ہیں اس لئے وہ نقطہ مرکزی ہیں تمام انسانوں کیلئے یا یوں کہو کہ انسان ایک سورج کی طرح ہے جس کے گرد تمام مادی دنیا گھومتی ہے اور پھر اپنے اپنے دائرہ میں انبیاء ایک سورج ہیں جن کے گرد اُن کے حلقہ کے انسان گھومتے ہیں.قرآن شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی قانونِ قدرت اور قانونِ شریعت کو اس کے فرائض کی طرف توجہ دلانے اور ترقی کے راستہ پر اسے گامزن کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے دو قسم کے قانون جاری کئے

Page 506

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۴ دیباچہ تفسیر القرآن ہیں.ایک قانونِ قدرت.اس کا تعلق انسان کی مادی ترقی کے ساتھ ہے چونکہ اس کا تعلق روح کی کے ساتھ براہ راست نہیں اس لئے اس قانون کے توڑنے پر اس کا طبعی نتیجہ نقصان کی صورت میں تو نکلتا ہے لیکن خدا تعالیٰ کی ناراضگی اور خفگی اس پر نہیں ہوتی.یہ قانون خدا تعالیٰ نے خود مادہ کے اندر ودیعت کر دیا ہے اس لئے کوئی بیرونی علم اس بارہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں آتا.دوسرا قانون ، قانونِ شریعت ہے اس کا تعلق روحانی اصلاح کے ساتھ ہے اس قانون کے توڑنے پر خدا تعالیٰ کی ناراضگی ہوتی ہے کیونکہ اس قانون کے پورا کرنے سے ہی انسان اُس مقصد کو پورا کر سکتا ہے جس کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے اور اس قانون کو توڑنے کی وجہ سے وہ اس مقصد سے محروم رہ جاتا ہے جس کے لئے خدا نے اُسے پیدا کیا ہے.پس جب کوئی شخص اس قانون کو توڑتا ہے تو وہ خدا تعالیٰ کو ناراض کر دیتا ہے لیکن ہر قانونِ شریعت کے توڑنے کا یہ نتیجہ نہیں ہوتا کہ انسان کلی طور پر اپنے مقصد میں نا کام ہو جائے بلکہ اسلام ہمیں بتا تا ہے کہ یہ تمام قانون مجموعی طور پر انسان کی روح کی پاکیزگی اور بلندی کے لئے بھیجا جاتا ہے.لیکن جس طرح قانون قدرت کے توڑنے سے ضروری نہیں کہ ہر قانون شکنی کی وجہ سے تباہی اور بر بادی آجائے یا ہر بد پر ہیزی کی وجہ سے ضرور بیماری پیدا ہو اسی طرح ضروری نہیں کہ قانون شریعت کا ہر حکم ٹوٹ جانے کی وجہ سے انسان اپنے مقصد سے بالکل محروم رہ جائے یا خدا تعالیٰ کا غضب اس پر نازل ہو جائے کیونکہ شریعت کے تمام احکام اصولی طور پر انسان کی درستی کے لئے مقرر کئے جاتے ہیں اور شریعت کا تمام نظام اسی مقصد کے لئے ہے.ایک وسیع نظام جو مختلف طریقوں سے ایک ہی غرض کے لئے اپنا اثر ڈال رہا ہے اگر اُس کا کوئی حصہ اپنا کام کرنے سے عاری رہ جائے تو ضروری نہیں ہوتا کہ نتیجہ مطلوبہ پیدا نہ ہو کیونکہ ہوسکتا ہے کہ جس حصہ نے اپنے کام میں کوتاہی کی ہے دوسرے حصوں کا اثر اس کی کمزوری پر غالب آجائے اور نتیجہ مطلوبہ پھر بھی پیدا ہو جائے.انسان کا وجود ہی ایک مرکب وجود ہے.انسان کی زندگی ہوا ، پانی ، غذا اور مختلف چیزوں پر انحصار رکھتی ہے بعض دفعہ ان ذرائع میں سے کسی میں کچھ نقص بھی ہو جاتا ہے.مگر دوسری چیزوں کے اثر کی وجہ سے وہ بیمار نہیں ہوتا.اسی طرح شریعت ہے کہ وہ ان احکام پر مشتمل ہے جو انسانی روح کی ترقی کے لئے ضروری ہیں اور ان کا مجموعی اثر انسان کی روحانی ترقی

Page 507

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۵ دیباچہ تفسیر القرآن پر پڑتا ہے.پس جب تک خدا تعالیٰ کی حکومت یا اُس کے انبیاء کی حکومت کے انکار کی روح نہ پیدا ہو جائے صرف غلطی یا کمزوری کی وجہ سے انسانی عمل میں اگر کوئی خامی رہ جائے تو ضروری نہیں کہ ایسی خامی انسان کو اپنے مقصد کے حاصل کرنے میں نا کام کر دے.اگر خامی بہت زیادہ بھی ہو تو کچی تو بہ اور دعا بھی اس کا ازالہ کر سکتے ہیں.اوپر کے دو قانونوں کے علاوہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ دو اور قانون بھی ہیں ایک قانونِ تمدن اور دوسرا قانونِ اخلاق یہ دونوں قانون در حقیقت قانونِ قدرت اور قانون شریعت کی سرحد میں ہیں.قانونِ اخلاق قانونِ شریعت کی طرف کی سرحد ہے اور قانونِ تمدن قانونِ قدرت کی طرف کی سرحد ہے اس لئے یہ دونوں قانون بہت کچھ آپس میں ملتے جلتے ہیں.بہت سے تمدنی قانونوں کی بنیاد قانونِ اخلاق پر ہوتی ہے اور بہت سے اخلاقی قانونوں کی بنیاد قانونِ تمدن پر ہوتی ہے.انسان چونکہ مدنی الطبع پیدا ہوا ہے، اس لئے وہ اِن دو قانونوں کا محتاج تھا.چونکہ قانونِ تمدن قانونِ قدرت سے ملتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کا اختیار زیادہ تر بنی نوع انسان کو دیا ہے اور چونکہ قانون اخلاق قانونِ شریعت سے ملتا ہے اس لئے قانونِ اخلاق کو قانونِ شریعت کے اندر داخل کیا گیا ہے گو اس کی بعض شقوں کو بنی نوع انسان کے سپر د بھی کر دیا گیا ہے.تمام دنیا کی کا نظام ان چاروں قانونوں سے چل رہا ہے.قانونِ قدرت میں بھی کسی کا دخل نہیں وہ خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے اور قانونِ شریعت میں بھی کسی انسان کا دخل نہیں وہ بھی خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے آتا ہے لیکن قانون تمدن اور قانونِ اخلاق میں خدا تعالیٰ اور انسانی نظام شریک ہو جاتے ہیں کچھ راہنمائی خدا تعالیٰ کی طرف سے آتی ہے اور کچھ اختیار انسان کو دیا جاتا ہے اور کی اس طرح خدا اور بندے کے تعاون سے اس دنیا کا نظام بہتر سے بہتر بنایا جاتا ہے.جب تک یہ دو دریا متوازی چلتے رہتے ہیں اُس وقت تک دنیا میں امن قائم رہتا ہے اور خدا تعالیٰ کی کی بادشاہت کے ساتھ مل کر انسان بھی دنیا میں ایک مفید اور بابرکت حکومت قائم کر لیتا ہے اور جب یہ دو دریا مختلف جہات میں بہنا شروع کر دیتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یہ کہو کہ انسانی کی عقل کی ندی اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنا رستہ بدل دیتی ہے اور خدائی راہنمائی کی ندی کے ساتھ ساتھ چلنے کی برکت سے محروم ہو جاتی ہے تو دنیا میں فساد اور جھگڑا اور لڑائی پیدا ہو جاتی ہے اور ا

Page 508

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۶ دیباچہ تفسیر القرآن دنیا پر نہ خدا کی بادشاہت رہتی ہے نہ انسان کی بلکہ شیطان کی بادشاہت قائم ہو جاتی ہے کیونکہ انسان خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ ہی انسان بنتا ہے ورنہ وہ وحشی جانوروں میں سے ایک جانور کی طرح ہوتا ہے.انسان کو خدا تعالیٰ کا مقرب بنانے کے لئے ضروری تھا کہ وہ صاحب اختیار بنایا جاتا.اس وجہ سے قرآن کریم بتاتا ہے کہ انسان اس دنیا کے ایک حصہ میں مختار ہے اور ایک حصہ میں مقید ہے.وہ مقید ہے قانونِ قدرت کے معاملہ میں اور مختار ہے قانونِ شریعت کے معاملہ میں.قانونِ قدرت کے معاملہ میں وہ مقید ہے اس لئے کہ قانونِ قدرت پر عمل کرنے کی وجہ سے وہ کوئی روحانی ترقی حاصل نہیں کرتا اور قانونِ شریعت میں اُسے عمل کی آزادی دی گئی ہے اس لئے کہ قانونِ شریعت پر عمل کرنے سے وہ انعام کا مستحق ہوتا ہے اور انعام اسی صورت میں ملا کرتا ہے جبکہ آزادی عمل حاصل ہو ، جبری طور پر کرائے ہوئے کام کے بدلہ میں انعام نہیں ملا کرتا.قرآن شریف اس بات کو بھی تسلیم کرتا ہے کہ انسان کی روحانی ترقی بھی اس کے جسمانی حالات سے متاثر ہوتی ہے اور جس حد تک وہ اِس سے متاثر ہوتی ہے اُس کے اعمال یقیناً محدود ہو جاتے ہیں.قرآن کریم اس کا جواب یہ بتاتا ہے کہ خدا تعالیٰ انسانی اعمال کی قیمت اُس کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے لگائے گا.مثلاً اگر ایک شخص لاکھوں روپے کا مالک ہو کر دنیا کی بہتری اور بھلائی کے لئے سو روپیہ خرچ کرتا ہے اور ایک دوسرا شخص صرف چند روپوں کا مالک ہو کر دنیا کی بھلائی کے لئے اپنا سارا مال خرچ کر دیتا ہے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دونوں کو ایک سا ثواب نہیں ملے گا.جس نے چند روپے خرچ کئے تھے گو اس کے روپے تھوڑے تھے مگر اُسے ثواب زیادہ ملے گا کیونکہ اس کے ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہا جائے گا کہ اس نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا.لیکن جس نے لاکھوں اور کروڑوں روپیہ کے ہوتے ہوئے ایک سو روپیہ کی مدد کی اس کے ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ اُس نے اپنی طاقت کا ہزارواں کی یا لا کھواں حصہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کیا.پس خدا تعالیٰ عمل کی مقدار کو نہیں دیکھتا بلکہ اُس کی ماحول کو دیکھ کر عمل کی قیمت لگاتا ہے جس ماحول میں کوئی انسان کام کرتا ہے اور وہ اُن مجبوریوں کی

Page 509

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۷ دیباچهتفسیر القرآن یا اُن سہولتوں کو نظر انداز نہیں کرتا جن کے ماتحت کام کرنے والے کے عمل میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی یا جن کی مدد سے کام کرنے والے کو کام میں سہولت حاصل ہوئی.قرآن کریم سے ہم کو معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح جسمانی دنیا نے آہستہ آہستہ ترقی کی ہے اسی طرح روحانی دنیا کے لئے بھی آہستہ آہستہ ترقی مقدر تھی اسی لئے خدا تعالیٰ کا کامل کلام دنیا می کے شروع میں نہیں آیا.جوں جوں انسان ترقی کرتا چلا گیا اُسے اس کی ترقی کے درجہ کے مطابق شریعت دی گئی آخر ہوتے ہوتے انسان اس مقام پر پہنچ گیا جبکہ وہ کامل ترین شریعت کا حامل ہو سکتا تھا اُس وقت خدا تعالیٰ کی حکمت کے ماتحت دنیا کا کامل ترین وجود ظاہر ہوا اور وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے پس آپ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی شریعتوں میں سے کامل ترین شریعت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی کتابوں میں سے کامل ترین کتاب نازل کی گئی.وہ کامل کتاب قرآن کریم ہے اور کامل شریعت اسلام ہے.آپ کے وجود سے روحانی نظام کی تکمیل ہوئی، جس طرح مادی عالم کا نقطۂ مرکزی انسان ہے ، جس طرح مختلف زمانوں اور قوموں کیلئے اُن کا نقطہ مرکزی اُن کے انبیاء ہیں اسی طرح تمام بنی نوع انسان کیلئے نقطه مرکزی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.پس قرآنی نقشہ عالم اس طرح ہے کہ تمام مادی عالم کا پہلا نقطہ مرکزی انسان ہے یہ انسان مختلف دائروں میں اپنے اپنے زمانہ کے نبیوں کے گردگھومتے ہیں.تمام نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گردگھومتے ہیں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے گرد گھومتے ہیں اور اس طرح روحانی دنیا مکمل ہو جاتی ہے.قانون شریعت ، قانون میں اوپر بتا چکا ہوں کہ انبیاء کے ذریعہ سے دنیا میں جو تکمیل ہوئی ہے وہ کم و بیش تین طرح ظاہر ہوتی ہے.ایک اخلاق، قانونِ تمدن قانون شریعت کے ذریعہ سے دوسرے قانونِ اخلاق کے ذریعہ سے تیسرے قانونِ تمدن کے ذریعہ سے.قرآن کریم چونکہ اعلیٰ اور اکمل کتاب ہے اُس کی نے ان تینوں شقوں کو بیان کیا ہے.قانونِ شریعت اور قانونِ اخلاق کو مکمل طور پر اور قانونِ تمدن کو اصولی طور پر کیونکہ قانونِ تمدن میں انسان کو بہت سے اختیارات دیئے گئے ہیں.قانونِ اخلاق کے متعلق قرآن شریف نے یہ اصول بیان فرمایا ہے کہ اخلاق فاضلہ در حقیقت

Page 510

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۸ دیباچہ تفسیر القرآن نام ہے طبعی جذبات کو صحیح طور پر استعمال کرنے کا.پس طبعی جذبات کو ماردینا یا حد سے زیادہ اُن میں منہمک ہو جانا یہ اخلاقی گناہ ہوتا ہے جو طبعی جذبات کو مارنا چاہتا ہے وہ قانونِ قدرت کا مقابلہ کرتا ہے.جو اُن کے پورا کرنے میں منہمک ہو جاتا ہے وہ اپنی روح کو بھول جاتا ہے اور مذہب کو نظر انداز کر دیتا ہے اور یہ دونوں باتیں خطرناک ہیں.تم قانونِ قدرت کو بھی نہیں کچل سکتے اور تم قانون شریعت کو بھی نہیں چل سکتے.اسی اصل کے ماتحت قرآن کریم فرماتا ہے کہ دنیا کی میں تمام چیزیں حلال ہیں کیونکہ وہ انسان کے فائدہ کے لئے پیدا کی گئی ہیں.ہاں صرف اُس صورت اور اُس شکل میں اُن کے استعمال پر حد بندی لگائی جاتی ہے جس صورت اور جس شکل میں وہ انسان کے لئے مضر ہو جاتی ہیں.اس قانون کے ماتحت اسلام کے رو سے شادی نہ کرنا نیکی نہیں گناہ ہے کھانے پینے اور پہننے کے متعلق طیب چیزوں کا استعمال نہ کرنا نیکی نہیں گناہ ہے، کیونکہ اس میں قانونِ قدرت کی ہتک اور اس کا مقابلہ ہے اور خدا تعالیٰ کے فضلوں کی ناشکری ہے.لیکن انہی چیزوں میں پڑ جانا اور ان کے استعمال میں غلو اور اسراف سے کام لینا یہ بھی گناہ ہے کیونکہ اس طرح انسان اپنی روح کو بھول جاتا ہے اور اصل مقصد انسانی زندگی کا روح کو کامل کرنا ہی ہے.جس طرح وہ شخص گنہگار ہے جو کام ہی کرتا رہتا ہے اور کھا نانہیں کھا تا کیونکہ وہ مر جائے گا اور اس کا کام مکمل نہیں ہو گا.اس طرح وہ شخص بھی گنہگار ہے جو کھانا ہی کھاتا رہتا ت ہے اور کام نہیں کرتا.کیونکہ وہ شخص ذرائع کے پیچھے پڑ جاتا ہے اور مقصود کو بھول جاتا ہے.بغیر ذرائع کے مہیا کرنے کے مقصد حاصل نہیں ہوتا اور بغیر صحیح مقصد کو پیش نظر رکھنے کے صحیح ذرائع مہیا نہیں کئے جاسکتے.قانون تمدن میں تنظیم اور یکجہتی قانون تمدن میں تعظیم اور ایک جہتی پیدا کرنے کے لئے قرآن کریم نے مندرجہ ذیل اصول بیان کئے اکرنے کے لئے اُصول ہیں.(اول) اصل مالک خدا تعالیٰ ہے اور سب چیزیں اس کی ہیں.(۲) اس نے یہ سب چیزیں بحیثیت مجموعی بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے انسان کے اختیار میں دی ہیں.

Page 511

انوار العلوم جلد ۲۰ ۴۹۹ دیباچہ تفسیر القرآن (۳) انسان چونکہ روحانی ترقی کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس لئے ایک حد تک اُس کو اپنے عمل میں ایک حد تک آزادی بھی ملنی چاہئے اور اسے ترقی کے لئے کچھ نہ کچھ میدان ملنا چاہئے.(۴) چونکہ انسان جن ذرائع سے کام لے کر ترقی کرے گا وہ ذرائع در حقیقت کل بنی نوع انسان کی مشترک ملکیت ہیں اس لئے انسانی عمل کے محاصل کو ایسے اصول پر تقسیم کرنا چاہئے کہ فرد کو بھی اُس کا حق مل جائے اور قوم کو بھی اس کا حق مل جائے.(۵) انسانی نظام تمدن کے چلانے کے لئے ایک حاکم ہونا ضروری ہے اور اس حاکم کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ بنی نوع انسان کے مشورہ سے منتخب کیا جائے اس حاکم کا کام قانون بنانا کی نہیں بلکہ الہی قانون کو نافذ کرنا ہے.(۶) لیکن چونکہ ضروری نہیں کہ ایک وقت میں ساری دنیا میں ایک ہی نظام ہو اس لئے قرآن کریم نے یہ بھی تعلیم دی ہے کہ:.(الف) اگر ایک وقت میں دنیا میں کئی حکومتیں ہوں اور اُن میں سے بعض میں اختلاف پیدا ہو جائے تو دوسری حکومتیں مل کر اُن دونوں کے اندر صلح کرا ئیں.( ب ) اگر صلح ہو جائے تو فبہا اور اگر صلح نہ ہو سکے تو دنیا کی باقی حکومتیں مل کر ایک عادلانہ فیصلہ دیں جس کو ماننے کے لئے دونوں حکومتوں کو مجبور کیا جائے.(ج) اگر ایسے فیصلہ کو کوئی فریق نہ مانے یا ماننے کے بعد اس پر عمل کرنے سے انکار کر دے تو ساری طاقتیں مل کر اس سے لڑیں اور اُسے مجبور کریں کہ وہ دنیا کے امن کی خاطر حکومتوں کی پنچائت کے فیصلہ کو تسلیم کرے.(1) جب اس پنچائتی دباؤ یا لڑائی سے وہ حکومت صلح کی طرف مائل ہو جائے تو یہ حکومتوں کی تی پنچائت بغیر کوئی ذاتی فائدہ اُٹھانے کے صرف اس امر کے متعلق فیصلہ نافذ کر دے جس کی سے جھگڑے کی ابتداء ہوئی تھی اور مغلوب ہونے والی حکومت سے کوئی زائد فائدے اپنے کی لئے حاصل نہ کرے کیونکہ اس سے نئے فسادات کی بنیاد میں قائم ہوتی ہیں.یہ وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم نے آج سے پونے چودہ سو سال پہلے دی تھی آج یو نائیٹیڈ نیشنز آرگنا ئز یشن

Page 512

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن (United Nation Organisation) انہی اصول کی نقل کر رہی ہے لیکن پوری طرح نقل نہ کر سکنے کی وجہ سے نا کامیاب ہو رہی ہے.پہلی لیگ آف نیشنز اس لئے ناکام ہوئی کہ وہ قرآنی اصول میں سے اس اصل کی خلاف ورزی کر رہی تھی کہ متخاصمین میں سے جو حکومت پنچائتی فیصلہ کو تسلیم نہ کرے اُسے زور اور طاقت کے ساتھ منوایا جائے اور اب نئی لیگ اس اصول کی خلاف ورزی کر رہی ہے کہ مغلوبین سے پنچائتی حکومتیں زائد فوائد حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں بلکہ ابتدائی جھگڑے تک ہی اپنے فیصلوں کو محدود رکھیں پس کج یہ لیگ بھی اس نتیجہ کو دیکھے گی جو پہلی لیگ نے دیکھا تھا.کیونکہ امن کے قیام کا صرف وہی ذریعہ ہے جو قرآن کریم نے بیان کیا ہے.حیات ما بعد الموت قرآنی تعلیم کے روسے دنیا کا یہ نظام جس کا میں پہلے نقشہ کھینچ چکا ہوں ، آخر انسان کی موت کے ذریعہ سے ایک نئی شکل بدلی لیتا ہے.انسانی ارواح ایک نئے عالم میں جاتی ہیں اور روح ایک نیا جسم اختیار کرتی ہے ، مگر وہ اس قسم کا جسم نہیں ہوگا جس قسم کا جسم ہمیں اس دنیا میں حاصل ہے.وہ ایک نئی قسم کا روحانی جسم ہوگا جو انسان کی روح کو خدا تعالیٰ کا حسن کو دیکھنے کے لئے نئی طاقتیں بخشے گا.کامل روحیں معاکی اُس مقام پر رکھ دی جائیں گی جسے جنت کہتے ہیں اور ناقص روحیں اُس جگہ ڈال دی جائیں گی جسے دوزخ کہتے ہیں اور جو درحقیقت روحانی بیماریوں کا شفاخانہ ہے.جوں جوں ارواح کی اصلاح ہوتی چلی جائے گی انہیں جنت میں بھیجا جاتا رہے گا یہاں تک کہ دوزخ بالکل خالی ہو جائے گا اور تمام کے تمام انسان جنت میں داخل ہو جائیں گے.جس طرح وہ خدا کی طرف سے آئے تھے وہ سب کے سب خدا ہی کی طرف چلے جائیں گے.اُن کی خوشیاں اور اُن کی تی لذتیں اور اُن کی راحتیں سب روحانی ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کا ذکر اور اُس کی محبت اُن کی سب سے بڑی غذا ہوگی اور اُس کی رؤیت اُن کا سب سے بڑا انعام ہو گا.قرآن کریم اسی مضمون کی تی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے إلى ربك منتهها ۵۸۶ اِس عالم کے دونوں سرے خدا ہی کے ہاتھ میں ہیں.اس کی پیدائش کا سرا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کے خاتمہ کا سرا بھی خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.جو خدا سے آیا وہ خدا ہی کی طرف جائے گا.جیسے مسیح

Page 513

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۰۱ دیباچ تفسیر القرآن بھی کہتا ہے کہ آسمان پر کوئی نہیں جاتا مگر وہی جو آسمان سے آتا ہے.روحانی نظام کی تکمیل کے لئے قرآنی اصول روحانی نظام کی تشکیل کے لئے قرآن کریم نے یہ اصول مقرر فرمایا ہے کہ چونکہ شریعت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی ہے اس لئے آئندہ کوئی ونگ شریعت لانے والا نبی نہیں آئے گا.قرآن کریم آخری کتاب ہے اس کو جُزُوا یا کلا کوئی اور می کتاب منسوخ نہیں کر سکتی.قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت روحانی عالم میں رہتی دنیا تک رہے گی، لیکن انسان بھول بھی جاتا ہے، غلطی بھی کرتا ہے اور بغاوت بھی کرتا ہے ان تینوں مرضوں کا علاج کئے بغیر قرآنی حکومت قیامت تک صحیح طور پر نہیں چل سکتی.پیشگوئی درباره ظهور مسیح موعود بھولنے والے کو یاد کرانے والا غلطی کرنے والے کی اصلاح کرنے والا اور باغی کو زیرنگین لانے والا آدمی ضرور چاہئے.قرآن کریم اس کا یہ علاج بتا تا ہے کہ جس طرح سورج کی عدم موجودگی میں چاند دنیا کو روشن کرتا ہے، اسی طرح محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے انسان کھڑے کئے جائیں گے جو چاند کی طرح محمد رسول اللہ ﷺ سے نور کا اکتساب کر کے دنیا کو روشن کرتے رہیں گے.یہ لوگ زمانہ کی ضرورت کے مطابق عام حالتوں میں تو مجدد کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور دنیا کی وسیع خرابی اور تباہی کے وقت میں تابع نبی یا اُمتی نبی کی صورت میں ظاہر ہوں گے.چنانچہ ایک ایسے ہی وجود کے متعلق قرآن شریف میں متعدد مقامات پر خبر دی گئی ہے.(دیکھو سورۃ جمعہ ع.سورہ صف ع.سورہ آل عمران ) ۵۸۷) اور اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بروز ثانی قرار دیا گیا ہے حدیثوں میں اس بروز ثانی کا نام مسیح بھی رکھا گیا ہے اور قرآن کریم میں بھی مسیح کے نام کی طرف ضمناً اشارہ کیا گیا ہے ج ( دیکھوسورۃ زخرف رکوع ۶ ۵۸۸ دوسرا نام حدیثوں میں اس کا مہدی رکھا گیا ہے مگر یہ وجود ایک ہی ہے مختلف جہات سے اس کے مختلف نام ہیں.انجیل میں بھی محمد رسول اللہ ﷺ کی اس بعثت ثانیہ کا ذکر مسیح کے دوبارہ نزول کے وعدہ میں کیا گیا ہے.موجودہ زمانہ کے حالات بتا رہے ہیں کہ یہ وہی زمانہ ہے جس کی پیشگوئی پرانی کتب میں اور قرآن کریم میں کی گئی ہے.

Page 514

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۰۲ ظهور مسیح موعود علیہ السلام دیباچہ تفسیر القرآن قرآن کریم کی صداقت کا یہ ایک زبر دست ثبوت ہے کہ اُس کی پیشگوئیوں کے عین مطابق اس زمانہ میں ایک شخص نے دعوی کیا ہے کہ وہ قرآن شریف اور دوسری کتب سماوی کی پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہے اور رسول کریم ﷺ کا کامل بروز ہے اور آپ کے دین کو قائم کرنے اور قرآن شریف کی تعلیم کو روشن کرنے کیلئے خدا تعالیٰ نے اُسے مبعوث فرمایا ہے ( ان پیشگوئیوں کا ذکر قرآن کریم کی متعد د سورتوں میں اپنے اپنے مقام پر کیا گیا ہے.خصوصاً قرآن کریم کی آخری سورتوں میں ) یہ مدعی حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمد یہ ہیں.آج سے قریباً ساٹھ سال پہلے خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ پر وحی نازل ہوئی اور خدا تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ تجھے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی خدمت کیلئے اور خدا تعالیٰ کے نام کو دوبارہ اس دنیا میں روشن کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے اور تجھے وہی رتبہ دیا گیا ہے جو پہلے انبیاء کو دیا گیا تھا ، سوائے اس فرق کے کہ تو قرآن اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کامل متبع ہے اور کوئی نئی شریعت تجھے نہیں دی گئی.چنانچہ آپ کو الہام ہوا کہ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ الا الله فَتَبَارَكَ مَنْ عَلَّمَ وَتَعَلَّمَ ۵۸۹ تمام برکتیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل ہوتی ہیں.پس بہت برکت والا ہے وہ بھی جس نے سکھایا یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور بہت برکت والا ہے وہ بھی جس نے سیکھا، یعنی احمد قادیانی علیہ السلام.پھر آپ کو کہا گیا: دنیا میں ایک نذیر آیا، پر دنیا نے اُس کو قبول نہ کیا ، لیکن خدا اسے قبول کرے گا ، اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.۵۹۰ قرآن کریم میں نذیر نبیوں کا نام آتا ہے اور بانی سلسلہ احمدیہ کے ایک الہام میں نذیر کی بجائے نبی کا لفظ بھی آتا ہے (ایک غلطی کا ازالہ )۵۹۱، آپ کا کام یہ تھا کہ آپ اس تاریکی کے زمانہ میں پھر دنیا کو خدا تعالیٰ سے روشناس کرائیں اور تازہ الہاموں اور معجزات سے اِس مادی دنیا کے دل میں روحانیت کا بیج دوبارہ بو دیں.جس وقت آپ نے دعوی کیا اُس وقت آپ کی

Page 515

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۰۳ دیباچہ تفسیر القرآن کیلے تھے، دنیا میں آپ کا کوئی ساتھی نہیں تھا.آپ ریل سے دور ، تار گھر سے محروم، ڈاک کی چی تمام سہولتوں سے محروم ایک چھوٹے سے گاؤں میں جس کی آبادی چودہ پندرہ سو تھی ظاہر ہوئے اور اُس وقت آپ نے دنیا میں یہ اعلان فرمایا کہ خدا تعالیٰ میری سچائی کو دنیا پر ثابت کرے گا اور دنیا کے دور دراز کناروں تک میری تبلیغ پہنچے گی اور آپ نے یہ اعلان کیا کہ نہ صرف یہ کہ خدا مجھے دنیا کے کناروں تک شہرت دے گا بلکہ میرے سلسلہ کو قائم رکھے گا اور مجھ پر ایمان لانے والے خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کریں گے.اور ۹ سال کے اندر میرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گا ، جو خصوصیت سے میری پیشگوئیوں کو پورا کرنے والا ہو گا اور دنیا کے کناروں تک اُس کا نام پہنچے گا.وہ جلد جلد ترقی کرے گا اور گا.روح القدس سے برکت دیا جائے گا.ان الہامات کے شائع ہونے کے بعد آپ کی مخالفت بڑے زور شور سے ہوئی اور کیا ہندو اور کیا مسلمان اور کیا عیسائی اور کیا سکھ سب کے سب آپ کے پیچھے پڑ گئے اور ہر ایک نے آپ کے تباہ کرنے کا فیصلہ کیا.یہ مخالفت ہی اپنی ذات میں اس بات کی علامت تھی کہ بانی سلسلہ احمد یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں کیونکہ اس قسم کی عالمگیر مخالفت بالعموم سچے نبیوں کی ہی ہوا کرتی ہے ، مگر باوجود اس کے کہ آپ اکیلے تھے اور آپ کے مقابلہ میں ساری دنیا جمع تھی پھر بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی آواز کو بلند کرنا شروع کیا اور ایک ایک دو دو کر کے لوگ آپ پر ایمان لانے شروع ہوئے اور بڑھتے بڑھتے یہ جماعت پنجاب اور ہندوستان میں پھیلتی ہوئی دوسرے ممالک کی طرف نکل گئی.جب بانی سلسلہ احمدیہ سن ۱۹۰۸ ء میں فوت ہوئے تو اُس وقت آپ کے مخالفوں نے یہ شور مچایا کہ اب یہ سلسلہ تباہ ہو جائے گا، لیکن خدا تعالیٰ نے آپ کی جماعت کو حضرت مولوی نورالدین صاحب کے ہاتھ پر جمع ہونے کا موقع دے دیا اور وہ اس جماعت کے اسلامی اصول کے مطابق پہلے خلیفہ منتخب ہوئے.آپ کی خلافت کے دوران میں مغربی تعلیم سے متاثر لوگوں کی نے اصول خلافت پر اعتراضات کرنے شروع کئے اور فتنہ یہ بڑھنا شروع ہوا.حتی کہ ج ۱۹۱۴ء میں آپ فوت ہوئے تو ان لوگوں نے جو کہ خلافت کے مسئلہ کے خلاف تھے نظام سلسلہ کو درہم برہم کرنے کی کوشش کی.راقم الحروف جو بانی سلسلہ احمدیہ حضرت احمد علیہ السلام کا بیٹا ہے

Page 516

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۰۴ دیباچہ تفسیر القرآن اُس وقت صرف پچیس سال کی عمر کا تھا اور تمام مادی ذرائع سے محروم تھا.جماعت کی باگ ڈور کلی طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جنہوں نے خلافت کے اصول کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تھا ،لیکن قادیان کی موجودہ جماعت کی کثرت جنہیں یہ باغی لوگ جاہلوں کی کثرت کہتے تھے اس بات پر مصر تھی کہ ہم خلافت کے طریق کو قرآنی احکام کے مطابق جاری رکھیں گے.چنانچہ ان لوگوں کے اصرار پر میں نے جماعت احمدیہ سے بیعت لے لی اور خلیفہ ثانی کے طور پر جماعت کی ، اسلام کی اور دنیا کی خدمت کا کام کرنا شروع کیا.چونکہ جماعت کے سر بر آوردہ اور بڑے لوگ مخالف ہو گئے تھے اس لئے جماعت کی حالت اُس وقت بہت خطرناک نظر آتی تھی اور بیرونی دنیا کی نظریں بھی اب اس امید سے اُٹھ رہی تھیں کہ چند دن میں اس سلسلہ کی عمارت پاش پاش ہو جائے گی مگر اُس وقت خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ وہ میری مدد کرے گا اور مجھے غلبہ دے گا اور میرے مخالفوں کو جو طاقتور ہیں کمزور کرے گا اور اُن میں تفرقہ پیدا کر کے انہیں پاش پاش کر دے گا.احمد یہ جماعت میں سے زیادہ تعلیم یافتہ اور زیادہ تجربہ کار آدمی نکل گئے.احمد یہ جماعت میں سے زیادہ مالدار اور زیادہ رسوخ والے آدمی الگ ہو گئے.وہ لوگ لاین جو سلسلہ کا دماغ سمجھے جاتے تھے وہ اس سے کٹ گئے.میری عمر کے لحاظ سے خلافت سے بغاوت کرنے والا گروہ یہ آوازیں بلند کرتا تھا کہ سلسلہ کی باگ ڈور ایک بچہ کے ہاتھ میں چلی گئی ہے اب یہ سلسلہ تباہ ہوکر رہے گا.حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی لیکن وہ خدا کہ جس نے قرآن شریف نازل کیا ہے، وہ خدا کہ جس نے اس دنیا کے لئے ایک کے مطابق مصلح موعود کا ظہور روحانی نظام بنایا ہے جس کے ماتحت یہ دنی تر قی کر رہی ہے.وہ خدا جس نے احمد علیہ السلام مسیح موعود مہدی معہود کو بتایا تھا کہ وہ ان کی ذریت کی سے ۱۸۸۶ ء سے لے کر ۹ سال کے اندر ایک لڑکا پیدا کرے گا جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے جلد جلد ترقی کرے گا اور دنیا کے کناروں تک شہرت پائے گا اور اسلام کو دنیا میں پھیلا کر اسیروں کی رستگاری اور مردوں کے احیاء کا موجب ہوگا.اس کی بات پوری ہوئی اور اُس کا کلمہ اُونچا رہا.ہر روز جو طلوع ہوتا تھا وہ میری کامیابی کے سامانوں کو ساتھ لاتا تھا، ہر روز جو

Page 517

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن غروب ہوتا تھا وہ میرے دشمنوں کے تنزل کے اسباب چھوڑ جاتا تھا ، یہاں تک کہ خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو میرے ذریعہ سے دنیا بھر میں پھیلا دیا اور قدم قدم پر میری خدا تعالیٰ نے راہنمائی کی اور بیسیوں موقعوں پر اپنے تازہ کلام سے مجھے مشرف فرمایا.یہاں تک ایک دن اُس نے مجھ پر یہ ظاہر کر دیا کہ میں ہی وہ موعود فرزند ہوں جس کی خبر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۸۸۶ء میں میری پیدائش سے پانچ سال پہلے دی تھی.اُس وقت سے خدا تعالیٰ کی نصرت اور مدد اور بھی زیادہ زور پکڑ گئی اور آج دنیا کے ہر براعظم پر احمدی مشنری اسلام کی لڑائیاں لڑ رہے ہیں.قرآن جو ایک بند کتاب کے طور پر مسلمانوں کے ہاتھ میں تھا خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت اور مسیح موعود علیہ السلام کے فیض سے ہمارے لئے یہ کتاب کھول دی ہے اور اس میں سے نئے سے نئے علوم ہم پر ظاہر کیے جاتے ہیں.دنیا کا تی کوئی علم نہیں جو اسلام کے خلاف آواز اُٹھا تا ہو اور اس کا جواب خدا تعالیٰ مجھے قرآن کریم سے ہی نہ سمجھا دیتا ہو.ہمارے ذریعہ سے پھر قرآنی حکومت کا جھنڈا اونچا کیا جارہا ہے اور خدا تعالیٰ کے کلاموں اور الہاموں سے یقین اور ایمان حاصل کرتے ہوئے ہم دنیا کے سامنے پھر قرآنی فضیلت کو پیش کر رہے ہیں لیکن دنیا خواہ کتنا ہی زور لگائے ، مخالفت میں کتنی ہی بڑھ جائے ، گو دنیا کے ذرائع ہماری نسبت کروڑوں کروڑ گنے زیادہ ہیں یہ ایک قطعی اور یقینی بات ہے کہ سورج کی مل سکتا ہے ستارے اپنی جگہ چھوڑ سکتے ہیں، زمین اپنی حرکت سے رک سکتی ہے، لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی فتح میں اب کوئی شخص روک نہیں بن سکتا.قرآن کی حکومت دوبارہ قائم کی جائے گی اور دنیا اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے بتوں یا انسانوں کی پوجا کو چھوڑ کر خدائے واحد کی عبادت کرنے لگے گی اور باوجود اس کے کہ دنیا کی حالت اس وقت قرآنی تعلیم کو قبول کرنے کے خلاف ہے اسلام کی حکومت پھر قائم کر دی جائے گی اس طرح کہ پھر اُس کی جڑوں کا ہلانا انسان کے لئے ناممکن ہو جائے گا.اس شیطان کی برباد کردہ دنیا کے جنگل میں خدا نے پھر ایک بیج بویا ہے میں ایک ہوشیار کرنے والے کی صورت میں دنیا کو ہوشیار کرتا ہوں کہ یہ پیج بڑھے گا ، ترقی کرے گا، پھیلے گا اور پھلے گا اور وہ روحیں جو بلند پروازی کا اشتیاق رکھتی ہیں ، جن کے دلوں کے مخفی گوشوں میں خدا تعالیٰ کے ساتھ ملنے کی تڑپ ہے وہ ایک

Page 518

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن دن اپنی مادی خوابوں سے بیدار ہوں گی اور بیتاب ہو کر اس درخت کی ٹہنیوں پر بیٹھنے کے لئے دوڑیں گی تب اس دنیا کے فساد دور ہو جائیں گے.اس کی تکلیفیں مٹا دی جائیں گی.خدا تعالیٰ کی بادشاہت پھر اس دنیا میں قائم کر دی جائے گی اور پھر اللہ تعالیٰ کی محبت انسان کے لئے سب سے قیمتی متاع قرار پائے گی اور دنیا کی یہ تبدیلی ہی فساد اور بدامنی کے دور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی اور صرف یہی ایک ذریعہ ہے جس سے دنیا کا فساد اور بدامنی دور کی جاسکتی ہے اس کے سوا سب کوششیں بریکار جائیں گی.قرآن مجید کے مختلف قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ جَاهِدُهُمْ بِه جِهَادًا كبيرًا ۵۹۲ اے محمد رسول الله زبانوں میں تراجم تیری سب سے بڑی تلوار قرآن کریم ہے تو اسے لے کر دنیا سے سب سے بڑا جہاد کر.اس حکم کے ماتحت انگریزی ترجمہ کی پہلی جلد شائع کی جارہی ہے.اس کے علاوہ اور زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ تیار ہے (۱) فرانسیسی (۲) جرمن (۳) سپینش (۴) اطالین (۵) روسی اور (۶) ڈچ.یہ تراجم جنگ کے اثرات ختم ہونے پر چھپوائے جائیں گے اور ان ملکوں میں شائع کئے جائیں گے اور ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تج تو یکے بعد دیگرے اور زبانوں میں بھی تراجم شائع ہوتے رہیں گے چنانچہ فی الحال افریقہ کی سواحیلی زبان میں بھی ترجمہ ہو رہا ہے.اسلام کی تبلیغ اور قرآن کریم کی تعلیم کی اشاعت کے لئے ہمارے مبلغ بھی مختلف ملکوں میں کام کر رہے ہیں.اس وقت یورپ میں انگلستان کے علاوہ فرانس ، سپین ، اطالیہ اور سوئٹزر لینڈ میں مشن قائم ہیں اور امریکہ میں یونائیٹڈ اسٹیٹس امریکہ اور ارجنٹائن میں مشن کھل چکے ہیں.برازیل اور کینیڈا زیر تجویز ہیں.وسط افریقہ کے قریباً تمام ممالک میں ہمارے مشن ہیں اور ایسٹ افریقہ میں بھی دس مشنری جاچکے ہیں.علاوہ ازیں فلسطین ، شام ، ایران میں بھی مشن ہیں اور ملایا.جاوا.سماٹرا.بور نیو میں بھی مشن قائم ہو چکے ہیں.ہم امید کرتے ہیں کہ یہ روحانی جہادان تراجم اور ان مبلغوں اور ان کے بعد آنے والے تراجم اور مبلغوں کے ذریعہ سے اسلام کی فتح کا راستہ کھولنے کے لئے نہایت کامیاب رہے گا کیونکہ ہماری کوششیں نہ

Page 519

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچهتفسیر القرآن صرف خدا تعالیٰ کے فیصلہ سے مل گئی ہیں بلکہ ہم یہ کام خدا تعالیٰ کے براہِ راست حکم کے ماتحت کی کر رہے ہیں.اس علمی تحفہ کے پیش کرنے کے علاوہ میں دنیا کے تمام مذاہب کے راستی پسند لوگوں سے کہتا ہوں کہ درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے.قرآن کریم بھی ہر زمانہ میں پھل دیتا ہے اور اس کی کے ساتھ تعلق رکھنے والوں پر اللہ تعالیٰ اپنا تازہ الہام نازل کرتا اور ان کے ہاتھ پر اپنی قدرتوں کی کا اظہار کرتا رہتا ہے.پس کیوں نہ علمی غور اور فکر کے علاوہ اس مشاہدہ کے ذریعہ سے صداقت معلوم کر لی جائے.اگر مسیحی پوپ یا اپنے آرچ بشپوں کو اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ میرے مقابل پر اپنے پر نازل ہونے والا تازہ کلام پیش کریں ، جو خدا تعالیٰ کی قدرت اور علم غیب پر مشتمل ہو تو دنیا کو سچائی کے معلوم کرنے میں کس قدر سہولت ہو جائے گی.وہ پوپ اور پادری جو مسیح کی صلح کل پالیسی کو ترک کر کے عیسائی فضا کو صلیبی جنگوں پر اُکساتے رہے ہیں کیا وہ آج اس روحانی جنگ کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتے.کاش ! وہ اس کے لئے تیار ہوں یا اُن کے اتباع اُنہیں اس کے لئے آمادہ کریں تو دنیا ایک لمبے روحانی مرض سے جلد نجات حاصل کر سکے اور خدا تعالیٰ کا جلال اور اس کی قدرت خارق عادت طور پر ظاہر ہو کر لوگوں کے ایمان اور روحانیت کی اصلاح کا موجب ہوں.میں اس دیباچہ کے آخر میں مولوی شیر علی صاحب کی اُن بے نظیر شکریہ واعتراف خدمات کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں جو انہوں نے باوجود صحت کی خرابی کے قرآن کریم کو انگریزی میں ترجمہ کرنے کے متعلق کی ہیں.اسی طرح مولوی شیر علی صاحب اور ملک غلام فرید صاحب، خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خاں صاحب مرحوم اور مرزا بشیر احمد صاحب بھی شکریہ کے مستحق ہیں کہ اُنہوں نے ترجمہ پر تفسیری نوٹ میری مختلف ریروں اور کتابوں اور درسوں کا خلاصہ نکال کر درج کئے ہیں.مجھے ان انگریزی نوٹوں کے دیکھنے کا موقع نہیں ملا ، مگر ان لوگوں کے تجربہ اور اخلاص پر یقین کرتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ اُنہوں نے صحیح طور پر ان مضامین کی ترجمانی کی ہوگی جو میں نے براہ راست خدا تعالیٰ کے افضال کے ماتحت قرآن کریم سے یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ احمدیہ کے

Page 520

انوار العلوم جلد ۲۰ دیباچہ تفسیر القرآن افاضات سے حاصل کئے ہیں.میں اس موقع پر قاضی محمد اسلم صاحب پروفیسر گورنمنٹ کالج لاہور اور سرمحمد ظفر اللہ خاں صاحب حج فیڈرل کورٹ آف انڈیا ( حال وزیر خارجہ پاکستان ) کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں ، جن دونوں نے اس دیباچہ کو انگریزی زبان کا جامہ پہنایا ہے اللہ تعالیٰ ان سب دوستوں کو اپنی برکات کے عطر سے ممسوح کرے اور دین و دنیا میں ان کا حافظ و ناصر رہے.میں یہ بھی کہہ دینا چاہتا ہوں کہ حضرت خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو ) کا شاگرد ہونے کی وجہ سے کئی مضامین میری تفسیر میں لازماً ایسے آئے ہیں جو میں نے اُن سے سیکھے اس لئے اس تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر بھی ، حضرت خلیفہ اول کی تفسیر بھی اور میری تفسیر بھی آجائے گی اور چونکہ خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنی روح سے ممسوح کر کے اُن علوم سے سرفراز فرمایا تھا جو اس زمانہ کے لئے ضروری ہیں اس لئے میں اُمید کرتا ہوں کہ یہ تفسیر بہت سے بیماروں کو شفا دینے کا موجب ہو گی ، بہت سے اندھے اس کے ذریعہ سے آنکھیں پائیں گے، بہرے سننے لگ جائیں گے، گونگے بولنے لگ جائیں گے لنگڑے اور پانچ چلنے لگ جائیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے اس کے مضامین کو برکت دیں گے اور یہ اس غرض کو پورا کرے گی ، جس غرض کے لئے یہ شائع کی جارہی ہے.اللَّهُمَّ امِینَ تاریخ الخمیس جلدا صفحه ۴۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۲۳۸ھ بخاری کتاب الوحى باب كيف كان بدء الوحى........الخ سموئیل نمبرا باب ۲۵ آیت ۳۲ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۴ سلاطین نمبر ا باب ۱ آیت ۴۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۵ تواریخ نمبر ا باب ۱۶ آیت ۳۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء تواریخ نمبر ۲ باب ۶ آیت ۴ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء کے زبور باب ۷۲ آیت ۱۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء متی باب ۱۵ آیت ۲۱ تا ۲۶ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء

Page 521

انوار العلوم جلد ۲۰ متنی باب ۷ آیت 4 نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء گوتم سمرتی ادھیائے صفحہ ۱۲ رگوید اتھرو وید کا نڈ نمبر ۴ سوکت ۲۲ منتر نمبرے یجروید ۱۴ سام وید پارٹ دوم کا نڈ ۹ سوکت ۳ منتر ۹ ۱۵ سام وید پارٹ دوم کا نڈ ۹ سوکت ۳ منتر ۸ اتھر دوید.کانڈ ۱۹ سوکت ۲۸ منتر ۴ کے گوتم دھرم سوتر ادھیائے ۵ ۱۸ منو دھرم شاستر 19 يونس : ۷ الزمر: ۷۲ ۲۰ ال عمران: ۱۶۵ ال التوبة: ١٢٨ الانعام: ١٣١ دیباچہ تفسیر القرآن ۲۵ النحل : ۹۰ ۲۶ هود: ۵۱ هود: ۸۶ ۲۹ هود: ۶۳ ۲۴ المؤمنون: ۳۳ هود ۶۲ ۳۰:هود: ۸۸ اسے نپولین (۱۷۶۹ ۱۸۲۱۶ء) وینڈیمیئر (Vendemiaire) کی بغاوت (۱۷۹۵ء) میں اس کے زبردست اقدام نے اسے وقت کی اہم ترین شخصیت بنادیا.اطالوی مہم کے قائد کی حیثیت سے اس نے پست ہمت، فاقہ زدہ سپاہیوں کو ایک نا قابل تسخیر فوج بنا دیا.مسلسل بروقت اقدامات سے نپولین نے افراط زر کا تدارک کیا.کلیسیا سے صلح کی.ایک نیا آئینی ضابطہ وضع کی کیا.۱۸۰۴ء میں اس نے شاہ فرانس اور ۱۸۰۵ء میں اس نے شاہ اٹلی ہونے کا اعلان کیا.۱۲.اپریل ۱۸۱۴ء کو تخت سے دستبردار ہوا.۳۲ (اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحہ ۱۷۰۸ مطبوعہ لا ہور ۱۹۸۸ء) ہٹلر (Hitler Adolf) ۱۸۸۹ء.۱۹۴۵ ء جرمنی کا آمر مطلق.نازی پارٹی کا بانی.پہلی عالمی جنگ کے بعد چند شورش پسندوں نے مل کر میونخ میں نازی مزدور پارٹی کی بنیاد رکھی.

Page 522

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۰ دیباچہ تفسیر القرآن میں اسے آمریت کے اختیارات سونپ دیئے گئے.ہٹلر جرمنی کے تمام شعبوں کا مختار بن گیا.نازی پارٹی کو کچل دیا گیا.اس کی پالیسیاں بالآخر دوسری عالمی جنگ پر منتج ہوئیں.۱۹۴۱ء میں روس کے محاذ پر ہٹلر نے جنگ کی خود کمان کی.(اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ صفحه ۱۸۴۶ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ء) ۳۳ چنگیز خان (۱۱۶۷ ۶ - ۱۲۲۷ ء ).تاتاری فاتح.اصل نام تموجن.باپ یکوسائی ریاستہائے متحدہ منگولیا کا رئیس تھا.چنگیز تیرہ سال کی عمر میں باپ کا جانشین ہوا.اس کی ابتدائی عمر پریشانیوں اور تکلیفوں میں گزری اور رفتہ رفتہ طاقت حاصل کی.۱۲۰۶ء میں منگولیا کی فتح مکمل کی اور قراقرم کو دارالحکومت بنایا.۱۲۱۳ء میں شمالی چین کی تسخیر کا آغاز کیا.۱۲۱۵ ء تک اس نے چن خاندان کی سلطنت کے بیشتر حصے پر قبضہ کر لیا.اس نے چند سالوں میں ہی ترکستان، افغانستان ، اور ایران کو فتح کر لیا.اس کے لشکر کا ایک حصہ جنوب مشرقی یورپ میں داخل ہو گیا.(۱۲۱۸ ۱۲۲۴-۶ء) کہتے ہیں کہ وہ ۸۴ لاکھ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار تھا.اعلیٰ درجہ کے متمدن شہر بُری طرح برباد کیے.۳۴ الفاتحة: ٢ اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلدا صفحہ ۵۲۰ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۷ء) ۳۵ الناس : ۲ تا ۴ ۳۶ متی باب ۵ آیت ۱۷، ۱۸ نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۳۷ متی باب ۱۵ آیت ۲۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۳۸ متی باب ۱۸ آیت ۱۱.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء متی باب ۲۸ آیت ۱۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۴۰ متی باب ۱۹ آیت ۲۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱ متی باب ۱۵ آیت ۲۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۴۲ متی باب ۱۵ آیت ۲۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور ۱۸۷ء ۱۳ متنی باب ۱۰ آیت ۶،۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۴۴ متی باب ۱۰ آیت ۲۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء

Page 523

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۱ ۲۵ اعمال باب ۱۱ آیت ۱۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۴۶ اعمال باب ۱۱ آیت ۲ ،۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء الاعراف: ۱۵۹ SUK 20 M SANK 21B Ab.PN.xxiv.ا 14.Apocrypha11- Esdras Apocrypha 11- Esdras.14 or دیباچہ تفسیر القرآن ۵۳ استثناء باب ۳۴.آیت ۶،۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۱۷۸۰ء ۵۴ استثناء باب ۳۴ آیت ۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۰ ۱۸۷ء ۵۵ پیدائش بابا آیت ۲۷.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۵۶ پیدائش باب ۲ آیت کا.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء مسلم کتاب الایمان باب صحبة المماليك ۵۸ مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک ۵۹ البقرة: ۲۴۴ خروج باب ۳۲ آیت ۱ تا ۶ - نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ( چند الفاظ کے فرق کے ساتھ) ال طه او ۱۲ الاعراف: ۸۴ پیدائش باب ۹ آیت ۱۸ تا ۲۲ ( مفهوماً) ۱۴ پیدائش باب ۶ آیت ۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۶۵ پیدائش باب ۹ آیت ۲۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء استثناء باب ۲۵ آیت ۶،۵ ( مفهوماً) ۱۷ متی باب ۲۱ آیت ۹.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء

Page 524

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۲ ۲۸ متی باب ۲۷ آیت ۴۶.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء 19 یوحنا باب ۳ آیت ۲ باب ۴ آیت ۳۱.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ۷۰ مرقس باب ۵ آیت ۴۱.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ای اعمال باب ۲ آیت ۴ تا ۱۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ۲ ۷ متی باب ۵ آیت ۱۷ ، ۱۸.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ۷۳ تفسیر ہارن جلد ۴ حصہ دوم مطبوعه ۱۸۸۲ء ۷۴ تاریخ کلیسیا کتاب نمبر ۳ باب ۲۵ دیباچ تفسیر القرآن Encyclopaedia Biblica Page 4980 Vol.IV Encyclopaedia Biblica Page 4993 Vol.IV1 Encyclopaedia Brit.Page 646 Vol.11, ED.12th Encyclopaedia Brit.Page 643 Vol.111, ED.12 Encyclopaedia Brit.Page 643 Vol.111, ED.12th 9 ۱۰ مرقس باب ۱۵ - آیت ۴۲ تا ۴۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱ مرقس باب ۱۶ آیت ۱ تا ۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۲ یوحنا بابا آیت ۱ تا ۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء یوحنا بابا آیت ا تا ۳۴ ( مفهوماً) ۴ دیده: شک وشبہ، تذبذب، وہم، پریشانی ،گھبراہٹ ۸۵ متی بابا آیت ۱ تا ۱۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۵۶ متی باب ۳۷ آیت ۵۱ تا ۵۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء الشعراء: ۸۸ لوقا باب ۷ آیت ۳۶ تا ۳۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ( مفہوماً) ۸۹ بیچ طرف داری، حمایت ادھیائےا شلوک

Page 525

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۳ دیباچہ تفسیر القرآن اتھرو وید کا نڈ نمبر ۱۹ سوکت ۲۷ منترے ۹۲ پیدائش باب ۱۲ آیت ۲ ،۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء(مفہوم)) ۹۳ پیدائش باب ۱۳ آیت ۱۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۹۴ پیدائش باب کا آیت ۹ تا ۱۱.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۹۵ پیدائش باب کا آیت ۱۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۹۶ پیدائش باب کا آیت ۱۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۹۷ پیدائش باب کا آیت ۱۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء پیدائش باب کا آیت ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء پیدائش باب کا آیت ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۰ پیدائش باب کا آیت ۲۰ ۲۱.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۱ پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۲ پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۷ ، ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۳ پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۰ ۲۱.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۱۰۴ زبور باب ۳۷ آیت ۲۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۵ استثناء باب ۱۸ - آیت ۱۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۶ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۷ متی باب ۵ آیت ۱۷ ، ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۱۰۸ گلتیوں باب ۳ آیت ۱۲ ،۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۰۹ زبور باب ۱۳۲ آیت ۱ امیر میاہ باب ۲۳ آیت ۵ - نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۱۰ یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ ۱۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء المزمل: ١٦ ۱۱۲ مرقس باب ۸ آیت ۲۷ تا ۳۰..نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء وقد كان فريق منهم يسمعون كلام الله (البقرة: ۷۶)

Page 526

انوار العلوم جلد ۲۰ 11 المائدة: ۶۸ ۵۱۴ ۱۱۵ المائدة : ۴ ۱۱۶ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸ تا ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء كلام المائدة: ۶۸ ۱۱۸ الجن: ۲۸،۲۷ ۱۱۹ استثناء باب ۱۸ آیت ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۲۰ استثناء باب ۳۳ آیت ۲.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۱۲۱ خروج باب ۱۹ آیت ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۸ء ۱۲۲ پیدائش باب ۲۱ آیت ۲۱،۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۲۳ پیدائش باب ۲۱ آیت ۱۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۲۴ پیدائش باب ۱۷ آیت ۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۲۵ پیدائش باب ۲۵ آیت ۱۳ تا ۱۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء (مفہوماً) ۱۲۶ یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء دیباچہ تفسیر القرآن ۱۲۷ حبقوق باب ۳ آیت ۳ تا ۷.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۱۲۸ بخاری کتاب الصلوة باب قول النبي عل الله جعلت في الارض....الخ) ۱۲۹ غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۲.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۰ غزل الغزلات باب ۵ آیت ۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۱ غزل الغزلات باب ۴ آیت ۱۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۲ غزل الغزلات بابا آیت ۶،۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۳، غزل الغزلات بابا آیت ۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۴، غزل الغزلات باب ۲ آیت ۷.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۵ یسعیاہ باب ۴ آیت ۱ تا ۴..نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۶ یسعیاہ باب ۵ آیت ۲۶ تا ۳۰..نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۳۷ الاعراف: ۱۵۹ ١٣٨ التوبة : ١٠٠ ۱۴۰ گردباد: پھرنے والی ہوا.ہوا جس میں غبار ملا ہوا ہو.بگولا ۱۳۹ الاحزاب: ۲۴

Page 527

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۵ ا العديت : ۲ تا ۶ ١٤٢ الروم: ۴۲ دیباچہ تفسیر القرآن ١٤٣ الطلاق : ١٢،١١ ۱۴۴ یسعیاہ باب ۸ آیت ۱۳ تا ۱۷.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۴۵ متی باب ۵ آیت ۱۷، ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۰ ۱۸۷ء ۱۴۶ مرقس باب ۲ آیت ۱۹ ،۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۴۷ یسعیاہ باب ۹ آیت ۷،۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۴۸ متی باب ۲۷ آیت ۴۲۴۱.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۴۹ متی باب ۲۷ آیت ۴۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۱۵۰ متی باب ۲۶ آیت ۵۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۵۱ متی باب ۲۱ آیت ۴، ۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۵۲ لوقا باب ۲۳ آیت ۱ تا ۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۵۳ ۱۵۴ متی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۳.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء (مفہوماً) ۱۵۵ المجادلة: ۱۳ ۱۵۶ الشوری: ۳۹ ۱۵۷ کنز العمال جلد ۵ صفحه ۶۴۸ مطبوعہ حلب ۱۹۷۱ ء + ازالة الخلفاء عن خلافة الخلفاء ۱۵۸ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۵۹ الانفال: ۱۸ ١٦٠ فتح: ا ۱۶۱ سبا : ۲۹ تا ۳۱ ١٦٢ السجدة: ۶ ١٢٣ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۸۹ - مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء + یوسف : ۹۳ ۱۶۴ یسعیاہ باب ۱۹ آیت ۲۱ تا ۲۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۶۵ یسعیاہ باب ۶۲.آیت ۲.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۲۶ یسعیاہ باب ۶۵ آیت ۱۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پور۰ ۱۸۷ء الحج : ۷۹ ۱۲۸ دانی ایل باب ۲ آیت ۳۱ تا ۳۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۶۹ گلا دے: کیچڑ مٹی ، گارا

Page 528

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۶ • کله دانی ایل باب ۲ آیت ۳۷ تا ۴۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء الے منتی باب ۲۱ آیت ۳۳ تا ۴۲.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء(مفہوماً) کا یوحنا بابا آیت ۲۱،۲۰.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ( مفہوماً) کا یوحنا بابا آیت ۲۵.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۴ کلہ متی باب ۱۱ آیت ۱۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ ء ۵ کا لوقا باب ۲۴ آیت ۴۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۶ کلے یوحنا باب ۱۴ آیت ۲۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ے کلی استثناء باب ۱۸ آیت ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۷۸ یوحنا باب ۱۶ آیت ۷ تا ۱۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء و النساء: ۱۵۸ تا ۱۶۱ ۱۸۰ المائده: ۱۱۷ تا ۱۱۹ ۱۸۱ اعمال باب ۳ آیت ۲۱ تا ۲۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۱۸۲، استثناء باب ۱۸ آیت ۲۲.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ديدها: تذبذب ، شکر ، شبه ، پس و پیش، وهم ، وسوسه ۱۸۴ مسند احمد بن حنبل جلد ۲ صفحہ ۹۱ مطبوعہ بیروت ۱۳۱۳ھ.۱۸۵ السيرة الحلبية جلد ا صفحه ۴ ۱۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ۱۸۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۹، ۳۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۱۸۷ اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۲۲۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۱۸۸ بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحى.....الخ) ۱۸۹ العلق : ۲ تا ۶ ۱۹١،١٩٠، بخاری کتاب بدء الوحى باب كيف كان بدء الوحي (الخ) ١٩٢ السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۰۸ تا ۳۱۰ مطبوعه مصر۱۹۳۲ء ۱۹۳ تا ۱۹۵ یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۱۲ ،۱۳.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لندن ۱۸۸۷ء ۱۹ سیرت ابن هشام جلد اصفحه ۳۴۰،۳۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء فسیر القرآن

Page 529

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۷ 19 اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۴۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ ه ۱۹۸ سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۳۴۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۱۹۹ ،۲۰۰، اسد الغابة جلد ۵ صفحه ۴۸ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۰ھ ٢٠١ السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ۲۰۲ بخاری کتاب مناقب الانصار باب اسلام ابی ذر الغفاری ٢٠٣ بخارى كتاب المناقب باب قول النبي الله لو كنت متخذا خليلا ۲۰۴ بخارى كتاب الصلوة باب المرأة تطرح عن المصلى (الخ) ۲۰۵ تَبَخْتُرُ: ناز سے چلنا، غرور سے چلنا،غرور، تکبر،بخر، اترانا ۲۰۶ سیرت ابن ہشام جلد اصفحه۳۱۲٬۳۱۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۰۷ سیرت ابن ہشام جلد ا صفحه ۲۸۴ ،۲۸۵ - مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ء ٢٠٨ السيرة الحلبية جلدا صفحه ۳۶۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ۲۰۹ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۳۸۶،۳۸۵ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۲۰ (خون کے ) تراڑے: فوارے (خون کا تیزی سے بہنا) ۲۱۱ طه: ۱۶،۱۵ ۲۱۲ اسد الغابة جلد ۴ صفحه ۵۵ - مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ رت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۴ تا ۱۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۱۳ سیرد ٢١٤ السيرة الحلبية جلد ا صفحه ۳۹۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء ۲۱۵ بخاری کتاب بدء الخلق باب حديث الغار ۲۱۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۶۲ ۶۳.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۱۷ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۶۱ ۶۲.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۱۸ طبقات ابن سعد جلد ا صفحه ۲۱۲.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۵ء دیباچہ تفسیر القرآن Life of Mohammad by Willium Muir P.112,113 Printed Edinburgh 19239 ۲۲۰ بخاری باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم

Page 530

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۸ دیباچہ تفسیر القرآن ۲۲۱ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۷۰ تا ۷۵.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ ۲۲۲ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۷۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۲۳ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۳۶ تا ۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۲۴ الروم: ۳تا۷ ۲۲۵ طه: ۱۲۴ تا ۱۲۶ ۲۲۷ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۹۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۲۸ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۰۹ ۱۱۰.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۲۹ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۵،۸۴ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ۲۳۰ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۹۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۳۱ بخاری باب هجرة النبي.۲۲۶ الحاقة : ۳۹ تا ۵۳ ٢٣٢ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۴۱ - مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ ء + بخاری باب مناقب المهاجرين ٢٣٣ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۳۴، ۲۳۵، السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۴۸ - مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء+بخاری باب هجرة النبى ۲۳۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۱۳۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۳۷ شرح مواهب اللدنيه جلد ا صفحه ۳۵۹.مطبوعہ مصر ۱۳۲۵ھ ۲۳۸ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۴۱،۱۴۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ١٣٩ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۸۶ ۸۷ - مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء صلى الله ۲۴۰ بخاری باب هجرة النبى عل + زرقانی جلدا واقعة هجرة ۲۴۱ مسلم کتاب فضائل الصحابة ۲۴۲.بخاری باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم + زرقانی جلد ا ۲۴۳ مسلم کتاب فضائل الصحابة باب فى فضل سعد بن ابی وقاص ۲۴۴ ابوداؤد كتاب الخراج والفئى باب في خبر النفير ۲۴۵ ترمذی كتاب البر والصلة باب ماجاء فى مواساة....../ ۲۴۶ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۴۷ تا ۱۵۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء الخ

Page 531

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۱۹ دیباچہ تفسیر القرآن ۲۴۷ بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر ۲۴۸.سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحہ ۲۶۷.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۴۹ بخاری کتاب المغازى باب قصة غزوة بدر ۲۵۰ بخاری کتاب المغازى باب فضل من شهد بدر ۲۵۱ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۶ مطبوعہ مصر ۱۲۹۵ ه + سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۷۴ - مطبوعه مصر ۱۹۳۶ھ ۲۵۲ بخاری کتاب التفسير -تفسير سورة افتربت الساعة باب قوله سيهزم الجمع......الخ ۲۵۳ القمر : ۴۲ تا ۴۹ ۲۵۴ یسعیاہ باب ۲۱ آیت ۱۳ تا ۱۷.بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور ۲۵۵ مسلم كتاب الجهاد باب الامراد بالملائكة في غزوہ بدر (الخ) ۲۵۶ اسد الغابة جلد ۳ صفحه ۱۰۹.مطبوعہ ریاض ۱۲۸۶ھ ۲۵۷ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۲۳۱،۲۳۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۵۸ بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة باب قول الله تعالى وامرهم شوری بينهم ۲۵۹ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۶۸ - مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء ۲۶۰ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۷۰،۶۹.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۶۱ زرقانی جلد ۲ صفحه ۳۵ ۲۶۲.سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۸۴.مطبوعه مصر ۱۲۹۵ھ ۲۶۳ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۸۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۲۶۴ بخاری کتاب المغازى باب غزوة أحد + السيرة الحلبية جلد ۲ صفحہ ۲۷۰ ۲۶۵ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۰۰ ۱۰۱ مطبوعہ مصر ۶ ۱۹۳۶ ۲۶۶ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۹۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء

Page 532

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۰ ٢٦٧ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۶۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٢٦٨ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۶۷، ۲۶۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۶۹ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۹۹ ،۲۰۰.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء دیباچہ تفسیر القرآن ۷۰ بخارى كتاب التفسير تفسير سورة المائدة باب قوله انما الخمر.....الخ ۱۷۲۲۷۱ بخاری کتاب المغازى باب غزوة الرجيع.....(الخ) ۷۳ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۸۳،۱۸۲.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۷۴ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۸۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۷۵ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۹۳ تا ۱۹۶ + بخاری کتاب الجهاد باب من ينكب اويطنن في سبيل الله سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۹۶.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۷۷ ترمذی کتاب التفسير تفسير سورة المنافقين+ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۱۳۸ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۳۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٧٩ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۳۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٢٨٠ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۸۲٬۲۸۱ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۴۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ ء ۱۲۸۴،۲۸۳ بخاری کتاب المغازی باب غزوہ خندق ۲۸۵ الاحزاب: ۱۴ ۲۸۶ الاحزاب : ۱۱ تا ۱۴ ۲۸۷ الاحزاب : ۲۴،۲۳ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۳۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء The Life of Mohammad by Willum Muir P.31.89 ۲۹۱۲۹۰، السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۴۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٢٩٢ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۵۰،۳۴۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٢٩٣ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۵۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۹۴ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۶۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء

Page 533

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۱ ۲۹۵ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۶۶،۳۶۵.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۲۹۶ استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۲۹۷ بخاری کتاب المغازی باب غزوة الخندوق.(الخ) ۲۹۸ استثناء باب ۲۰ آیت ۱۰ تا ۱۸.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۲۹۹ متی باب ۵ آیت ۳۹.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۳۰۰ متی باب ۱۰ آیت ۳۴.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۳۰۱ے لوقا باب ۲۲.آیت ۳۶.نارتھ انڈیا بائبل سوسائٹی مرزا پوره ۱۸۷ء ۳۰۲ الحج : ۴۲۳۴۰ ۳۰۳ منا سٹریاں ( MONASTERIES) : یہودیوں کے عبادت خانے دیباچہ تفسیر القرآن ۳۰۴ البقرة : ۱۹۱ تا ۱۹۴ ۳۰۵ الانفال : ۳۹ تا ۴۱ ۳۰۶ الانفال : ۶۳۶۲ ۳۰۷ النساء: ۹۵ ٣١٠ الانفال: ۲۸ ٣٠٨ التوبة: ۴ ۳۱۱ محمد : ۵ ٣٠٩ التوبة : ٦ ۳۱۲ النور: ۳۴ ۳۱۴۳۱۳ مسلم كتاب الجهاد والسير باب تامير الامام الامراء على البعوث (الخ) ۳۱۵ مسلم كتاب الجهاد باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب (الخ) ۳۱۶ طحاوى كتاب الجهاد باب في قتل النساء والصغار ۳۱۷ ابو داؤد كتاب الجهاد باب في دعاء المشركين ۳۱۸ مسلم كتاب الجهاد باب فى امر الجيوش بالتيسر و ترک التنفير ۳۱۹ ابوداؤد كتاب الجهاد باب ما يؤمر من انضمام العسكر ۳۲۰ ابو داؤد كتاب الجهاد باب في التفريق بين الصبى ۳۲۱ ترمذی ابواب السير ۳۲۲ ابوداؤد كتاب الجهاد باب في الرسل ۳۲۳ مؤطا امام مالک کتاب الجهاد باب النهي عن قتل النساء والوالدان في الغزو ۳۲۴ الفتح : ۲۸

Page 534

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۲ دیباچہ تفسیر القرآن ۳۲۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۲۰ مطبوعہ بیروت ۱۳۲۰ ھ + سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۱۸ ٣٢٦ سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه۳۳۲_۳۳۳ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۲۷ سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۳۷ ۳۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۲۸ سيرة ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۴۰ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء ۳۲۹ بخاری کتاب العلم باب ما يذكر في المناولة ۳۳۱،۳۳۰ بخاری كتاب الوحى باب كيف كان بدء الوحى الى رسول الله صلى الله عليه وسلم (الخ) ۳۳۲ بخاری کتاب الوحى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول زرقانی جزء ۵ صفحه ۱۲ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء ۳۳۳ تاریخ طبری جز ثالث صفحہ ۲۴۷.مطبوعہ بیروت ۱۹۸۷ء ۳۳۴ تاریخ طبرى الجزء الثالث صفحه ۲۴۷ تا ۲۴۹ دارالفکر بیروت ۱۹۸۷ء ۳۳۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۷۹.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٣٣٦ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه۰ ۲۸-۲۸۱.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٣٣٧ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱ ۲۸.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۳۳۸ زرقانی جلد ۵ صفحه ۳۴ تا ۳۶ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۶ء ۳۳۹ بخاری کتاب المغازى باب غزوة خيبر ۳۴۰ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۵۱،۳۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۴۱ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه ۳۵۶، ۳۵۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۴۲ فوجدا فيها جدارا يريد ان ينقض (الكهف: ۷۸) ۳۴۳ سیرت ابن هشام جلد ۳ صفحه۳۵۳،۳۵۲ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۴۴ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۱۳ ۱۴.مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۴۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۷۴ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٣٤٦ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۷۵.مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء الله +

Page 535

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۳ ۳۴۷ بخاری کتاب المغازى باب غزوه مؤتة (الخ) ۳۴۸ اسد الغابة جلد ۲ صفحه ۹۴ مطبوعہ ریاض ۱۲۸۵ھ ۳۴۹ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۳۹ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۵۰ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۴ ، ۴۵ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ء ۳۵۱ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۲ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء ۳۵۲ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۶،۴۵ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ۳۵۳ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۳ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء ۳۵۴ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۵۶۳۵۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۵ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء ۳۵۷ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۷ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ۳۵۸ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۷ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ۳۵۹ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۳۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۳۶۰ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۵۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ ء + بنی اسرائیل :۸۲ ۳۶۱ بنی اسرائیل: ۸۲٬۸۱ ٣٦۲ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۹۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ ٣٦٣ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۰ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء + آل عمران: ۶۸ ٣٦٤ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۱ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۳۶۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۸۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۵ء ۳۶۶ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۵۹ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء ٣٦٧ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ٣٦٨ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ ، ۱۰۷ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ٣٦٩ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۰۶ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۳۷۰ الاعراف: ۱۳۹ دیباچہ تفسیر القرآن

Page 536

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۴ دیباچہ تفسیر القرآن ۳۷۱ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴ ۸، ۸۵ مطبوعه مصر ۱۹۳۶ء ۳۷۲) مسلم كتاب الجهاد والسير باب غزوة حنين ۳۷۳ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحہ ۷ ۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۷۴ بھونک بھونک دینا، گھونپ دینا، چھیدنا ۳۷۵ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۱۲۷، ۱۲۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء ۳۷۶ بخاری کتاب الجهاد باب الشجاعة في الحرب والجبن ۳۷۷ بخاری کتاب المناقب باب علامات النبوة في الاسلام ۳۷۸ التوبة: ۹۲ ۳۷۹ تفسير فتح البيان جز خامس صفحه ۱ ۳۷ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۲ء ٣٨٠ المائدة: ۴ ۳۸۱ بخاری کتاب المغازى باب حجة الوداع ۳۸۲ کنز العمال جلدا اصفحه ۴۷۹ مطبوعه حلب ۱۹۷۴ء ۳۸۳ بخاری کتاب المناقب باب قول النبي علا الله سدوا الابواب (الخ) ۳۸۴ بخاری کتاب المغازى باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم (الخ) ۳۸۵ بخاری کتاب المغازى باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم (الخ) ۳۸۶ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم (الخ) ۳۸۷ بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم (الخ) ۳۸۸ مسند ابی حنیفه کتاب الفضائل صلى الله ۳۸۹ بخاری کتاب فضائل اصحاب النبي علی باب قول النبي عله لو كنت متخذا خليلا ۳۹۰ ال عمران: ۱۴۵ ۳۹۱ تاریخ کامل ابن اثیر جلد ۲ صفحه ۳۲۴ مطبوعہ بیروت ۱۹۶۵ء ۱۳۹۲ دیوان حسان بن ثابت صفحه ۸۹ مطبوعہ بیروت ۱۹۹۸ ء

Page 537

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۵ دیباچہ تفسیر القرآن ۳۹۳ سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۲۰۹ ۲۱۰ + بخاری کتاب التفسير تفسير سورة تبت.....۳۹۴ بخاری کتاب الادب باب ماينهى من السباب واللعن + بخارى كتاب الادب صلى الله باب لم يكن النبي علم فاحشا و متفاحشاً ۳۹۵ بخارى كتاب الجمعة باب السواك يوم الجمعة ۳۹۶ بخاری كتاب الأطعمة باب المضمضة بعد الطعام ۳۹۷ مشكوة كتاب الصلواة باب المساجد ۳۹۸ بخارى كتاب الاطعمة باب ما يكره من الثوم والبقول (الخ) ۳۹۹ مسلم كتاب البر والصلة باب فضل ازالة الاذى ٢٠ مشكواة كتاب الطهارة باب اداب الخلاء ۲۰۱ بخاری کتاب الوضوء باب البول في الماء الدائم ۴۰۲ بخارى كتاب الاطعمة باب ماعاب النبي صلى الله عليه وسلم طعاماً ٤٠٣ بخاری کتاب الاطعمة باب الاكل متكنا ۴۰۴ تا ۲۰۷ بخاری كتاب الاطعمة باب ما كان النبي الله واصحابه ياكلون ۴۰۸ بخارى كتاب الاطعمة باب الرجل يدعى الى طعام (الخ) ۲۰۹ بخاری كتاب الاطعمة باب ما يقول اذا فرغ من طعامه ۱۰ بخارى كتاب الاطعمة باب مايقول اذا فرغ من طعامه ام بخاری كتاب الاطعمة باب طعام الواحد يكفى الاثين ۲۱۲ مسلم کتاب البر والصلة باب الوصية بالجار والاحسان اليه ۱۳ بخارى كتاب الادب باب لاتحقرن جارة بجارتها ۱۴ بخارى كتاب الرقاق باب كيف كان عيش النبي علا الله واصحابه (الخ) ۴۱۵ بخاری کتاب العلم باب طرح الامام المسألة (الخ) + بخارى كتاب الاطعمة باب بركة النخلة_ ۱۶ بخاری کتاب اللباس باب ما وطئى من التصاوير

Page 538

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۶ دیباچہ تفسیر القرآن ۲۷ ۲۱۸ بخاری کتاب اللباس باب الحرير للنساء ۱۹ بخاری باب الصلوة على الفراش ٤۲۰ بخارى كتاب الاطعمة باب الرطب والتمر صلى الله ۴۲۱ بخاری کتاب التهجد باب قيام النبى علم اليل حتى ترما قدماه ۲۲ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الفتح باب قوله ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبک (الخ) ۲۳ النساء: ۴۲ ۲۲۴ بخاری کتاب فضائل القرآن باب البكاء عند قراءة القرآن ۲۲۵ بخاری کتاب الاذان باب حد المريض (الخ) ٤۲۶ بخاری کتاب الاذان باب من دخل ليوم الناس (الخ) ۴۲۷ بخاری کتاب التهجد باب مايكره من التشديد في العبادة ۲۸ بخارى كتاب الجنائز باب ماجاء في قبر النبي الله (الخ) ۲۲۹ سیرت ابن هشام جلد ا صفحه ۲۸۴ - ۲۸۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۳۰ بخارى كتاب الجهاد باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب (الخ) ۳۱ بخاری کتاب الكسوف باب الصلواة في كسوف الشمس ۳۲ مسلم کتاب الایمان باب بیان كفر من قال مطرنا بنوء ۳۳) مسلم کتاب الفضائل باب تو كله على الله تعالى (الخ) ۲۳۴ بخاری کتاب الرقاق باب القصد والمداومة على العمل ۴۳۵ بخاری کتاب التمنی باب مايكره من التمني (الخ) ٢٣٦ ابوداؤد ابواب النوم باب في المطر ۴۳۷ بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبي صلى الله عليه وسلم (الخ) ۴۳۸ بخاری کتاب الدعوات باب وضع اليد اليمنى (الخ) ۱۳۹ بخاری كتاب الدعوات باب الدعاء اذا انتبه بالليل

Page 539

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۷ ۲۴۰ بخاری کتاب المغازی باب قصة الاسود العنسي ۴۴۱ بخاری کتاب الاذان باب هل يصلى الامام بمن حفر (الخ) ۴۴۲، بخاری کتاب المناقب باب مناقب عبدالله بن عمر رض دیباچہ تفسیر القرآن صلى الله بخارى كتاب التهجد باب تحريض النبي.على قيام الليل (الخ) ۴۴۴، مسلم کتاب الفضائل باب ترك الانتقام.....الخ) ۲۴۵ مسلم کتاب الفضائل باب فضائل عائشة.....الخ) ۲۴۶ مسلم کتاب الفضائل باب من فضائل خديجه ۴۴۷ السيرة الحلبية جلد ۲ صفحه ۲۰۵ مطبوعہ مصر ۱۹۳۵ء صلى الله ۴۴۸ بخاری کتاب المناقب باب تزويج النبى.٤٤٩ السيرة الحلبية جلدا صفحه ۱۳۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۲ء صلى الله (الخ) ۴۵۰ بخاری کتاب الاحکام باب ذكر ان النبى علم لم يكن له بواب+ابو داؤد كتاب الجنائز باب الصبر عند الصدمة ۲۵۱ مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۲۷۷ - المكتب الاسلامي بيروت ( مفهوماً) ۲۵۲ مسلم کتاب الحدود باب قطع السارق الشريف (الخ) بخاری کتاب الحدود باب اقامة الحدود والانتقام لحرمات الله ۲۵۳ بخاری کتاب الخصومات باب مايذكر في الاشخاص (الخ) ۲۵۴ بخاری کتاب الرقاق باب فضل الفقر ۴۵۵ بخاری کتاب الصلواة باب كنس المسجد (الخ) ۲۵۶ مسلم كتاب البر والصلة باب فضل الضعفاء ۴۵۷ مسلم كتاب الفضائل باب من فضائل سلمان و بلال (الخ) ۲۵۸، بخاری کتاب الزكوة و كتاب الكروب باب قول الله تعالى عز و جل لا يسئلون الناس الحافا ۲۵۹ بخاری کتاب النکاح باب من ترك الدعوة (الخ)

Page 540

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۸ دیباچہ تفسیر القرآن ٤٦٠ مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الاحسان الى البنات ٤٦١ بخارى كتاب الجهاد باب من استعان بالضعفاء (الخ) ٤٦٢ ترمذی ابواب الزهد باب ماجاء ان فقراء المهاجرين يدخلون الجنة (الخ) ۴۶۳ شمائل ترمذی باب ماجاء في صفة مزاح رسول الله الا الله ۴۶۴ بخارى كتاب الزكواة باب التحريض على الصدقة (الخ) ۲۶۵ بخاری كتاب الدعوات باب التكبير والتسبيح عندالمنام ۶۶ بخاری کتاب الاذان باب من صلى بالناس فذكر حاجة (الخ) ۲۶۷ بخاری کتاب الزكوة باب اخذ صدقة التمر عند صرام النخل ۲۶۸ مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوك مما يأكل (الخ) ٤٦٩ بخاری کتاب کفارات الایمان باب قول الله تعالى او تحرير رقبة مسلم کتاب الایمان باب صحبة الممالیک ا مسلم کتاب الايمان باب ثواب العبد و اجره (الخ) ۲۷۲ ۲۷۳، مسلم کتاب الایمان باب اطعام المملوک مما ياكل (الخ) ٢٧٤ السيرة الحلبية جلد ۳ صفحه ۲۲۷ سرية على ابن ابی طالب کرم الله وجه ۴۷۵ بخاری کتاب النکاح باب موعظة الرجل ابنته (الخ) بخاری کتاب الاذان باب من اخف الصلواة (الخ) بخاری کتاب الادب باب المعاريض مندوحة عن الكذب ۴۷۸ بخارى كتاب الجهاد والسير باب مايقول اذا رجع من الغزو ۷۹ ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في النفقة على البنات (الخ) ٢٨٠ ابوداؤد كتاب النكاح باب في ضرب النساء ابوداؤد كتاب النكاح باب في حق المرأة على زوجها ۲۸۲ بخاری ، مسلم كتاب الامارة باب السفر قطعة من العذاب ٢٨٣ ابو داؤد كتاب الجهاد باب في الطروق

Page 541

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۲۹ دیباچهتفسیر القرآن ۲۸۴ بخاری کتاب الجنائز باب ماینهى من سب الاموات + ابوداؤد كتاب الادب باب في النهي عن سبّ الموتى ۲۸۵ بخارى كتاب الاستقراض باب الصلواة على من ترك ديناً بخاری کتاب الادب باب الوصاءة بالجار ۲۸۷ مسلم کتاب البرو الصلة باب الوصية بالجارو الاحسان اليه بخارى كتاب الادب باب اثم من لا يأمن جاره بوائقه ۸۹ بخارى كتاب الادب باب لاتحقرن جارة لجارتها ۴۹۰ بخاری کتاب المظالم باب لا يمنع جار جاره (الخ) ۹۱ بخارى كتاب الادب باب من كان يؤمن بالله واليوم الاخر ۴۹۲ بخاری کتاب الادب باب من احق الناس بحسن الصحبة ۲۹۳ سیرت ابن هشام جلد ۴ صفحه ۴۸ مطبوعہ مصر ۱۹۳۶ء ۴۹۴ مسلم كتاب البر والصلة باب رغم من ادرک ابويه (الخ) ۲۹۵ مسلم کتاب البر والصلة باب صلة الرحم و تحريم قطيعتها ٤٩٦ بخارى كتاب التفسير باب لن تنالوا البر (الخ) ۹۷ بخاری کتاب الادب باب لايجاهد الا باذن الابوين ۴۹۸ بخاری کتاب الادب باب صلة الوالد المشرك ۲۹۹ مسلم كتاب فضائل الصحابة باب من فضائل خديجه ۵۰۰ بخاری کتاب المناقب الانصار باب تزويج النبي الا الله خديجة (الخ) ۵۰۱ مسلم كتاب فضائل الصحابة باب فى حُسن صحبة الانصار (الخ) ۵۰۲ مسلم كتاب البر والصلة والادب باب فضل صلة اصدقاء الاب (الخ) ۵۰۳ مسلم كتاب البر والصلة باب استحباب مجالسة الصالحين (الخ) ۵۰۴ بخاری کتاب الاعتكاف باب هل يخرج المعتكف لحوائجه (الخ) ۵۰۵ مسلم كتاب البر والصلة باب بشارة من سر الله تعالى عليه في الدنيا بان

Page 542

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۰ دیباچہ تفسیر القرآن يستر عليه في الآخرة ۵۰۶ بخاری کتاب الادب باب سترالمومن على نفسه ۵۰۸،۵۰۷ ترمذی ابواب الحدود باب ماجاء في درء الحد عن المعترف (الخ) ۵۰۹ مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر (الخ) ۵۱۰ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة النور باب ان الذين يحبون ان تشيع الفاحشة (الخ) ۵۱۱ مسلم كتاب الزهد باب المومن امره كله خير صلى الله ۵۱۲ بخاری کتاب المغازى باب مرض النبي و وفاته ۵۱۳ بخارى كتاب الطب باب اجر الصابر في الطاعون ۵۱۴.ترمذی کتاب الزهد باب في التوكل على الله ۵۱۵ زرقانی جلد ۴ صفحه ۲۶۵ ۵۱۶ بخاری کتاب التفسير تفسير سورة الشعراء باب قوله وانذر عشیرتک الاقربین ۵۱۷ بخاری کتاب الادب باب قول الله يايها الذين اتقوا الله وكونوا مع الصادقين ۵۱۸ سیرت ابن هشام جلد ۲ صفحه ۲۱۷ ۵۱۹ بخاری کتاب الادب - باب يايها الذين امنوا اجتنبوا كثير من الظن ۵۲۰ مسلم كتاب البر والصلة باب تحريم ظلم المسلم وخذله (الخ) ۵۲۱ ترمذی ابواب البيوع باب ماجاء في كراهية الغش في البيوع ۵۲۲ مسلم کتاب البر والصلة باب النهي عن قول هلك الناس ۵۲۳ بخاری کتاب المظالم باب الابار على الطرق + بخاری کتاب الادب باب رحمة الناس والبهائم ۵۲۴، ۵۲۵ ابوداؤد كتاب الجهاد باب فى كراهية حرق العدو + ابوداؤد كتاب الادب باب في قتل الزر ۵۲۶ زرقانی جلده صفحه ام

Page 543

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۱ دیباچہ تفسیر القرآن ۵۲۷ بخاری باب الشجاعة في الحرب ۵۲۸ بخاری کتاب الوضوء باب ترک النبی الا الله و الناس (الخ) + بخاری کتاب صلى الله الادب باب قول النبى لم يسروا.۵۲۹ ابوداؤد کتاب الجهاد باب فى الامام ليستجن به في العهود الله صلى الله ۵۳۰ فتح الباری جلد ۹ صفحه ۱۹ باب کاتب وحی رسول ۵۳۱.مقدمه ابن ماجه باب فضل من تعلم القرآن صلى الله ۵۳۲ بخاری کتاب فضائل القرآن باب القراء من اصحاب النبى عليم ۵۳۳ فتح الباری جلد ۹ صفحه ۴۹ صلى الله ۵۳۴ بخاری کتاب فضائل القرآن باب القراء من اصحاب النبي ۵۳۵ تا 561,562,3۸.Life of Mahomet by Sir William Muir P London 1877 ۵۳۹ انسائیکلو پیڈیا برٹینی کا زیر لفظ قرآن ۵۴۰ بخاری کتاب فضائل القرآن باب كان جبريل يعرض القرآن (الخ) ۵۴۱ ابوداؤد کتاب الصلواة باب من جهربها ۵۴۲ الفاتحه : ۶ ۵۴۵ الیل: ۲ ۵۴۳ البقرة : ۳ ۵۴۴ یونس : ۹۱ تا ۹۳ ۵۴۶ بخارى باب كيف كان بدء الوحي الى رسول الله الا الله ۵۴۷ الفجر : ۳،۲ ۵۴۸ الفجر : ۵ ۵۵۰ بنی اسرائیل: ۸۱ ۵۵۱ القمر : ۲ ۵۴۹ قصص: ۸۶ ۵۵۲ الروم: ۳تا۵ ۵۵۳ الرحمن : ۲۰ تا ۲۶ ۵۵۴ المؤمنون: ۱۰۱،۱۰۰ ۵۵۵ الانبیاء : ۹۷،۹۶ ۵۵۶ النحل : ۲۲۲۱ ۵۵۷ نوح: ۱۴ ۵۵۹ وَمَا رَمَيْتَ إِذْرَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّه رَمَى (الانفال: ۱۸) ۵۶۰ یوحنا بابا آیت ۱.برٹش اینڈ فارن بائبل سوسائٹی لاہور ۱۹۴۳ء ۵۵۸ التوبة ۴۰

Page 544

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۲ دیباچہ تفسیر القرآن الله ۵۶۱.بخاری کتاب الصلواة باب قول النبي علم جعلت لى الارض مسجدا و طهورا ۵۶۲ بنی اسرائیل: ۸۶ ۵۶۳ المؤمنون: ۱۳ تا ۱۵ ۵۶۴ الاخلاص : ۲تا۵ ۵۶۶ الذريت: ۵۰ ۵۶۷ الحديد: ۴ ۵۶۵ الشوری: ۱۲ ۵۶۸ الانعام: ۱۰۲ ۵۶۹ الانعام: ۱۰۳ ۵۷۰ البقرة: ۲۵۶ ۵۷۱ یونس : ۶۲ ۵۷۲ الانعام: ۱۰۴ ۵۷۳ البقرة : ١١٠ ۵۷۴ مرقس باب ۹ آیت ۲۹ بائبل سوسائٹی.لاہور ۱۹۹۴ء ۵۷۵ الاعراف: ۱۵۷ ۵۷۶ نوح: ۱۴ ۵۷۸ الانبياء: ۳۱ ۵۷۹ المدثر: ۳۲ ۵۸۱ الاعراف: ۲۶ تا ۲۸ ۵۸۲ البقرة : ۲۹ ۵۸۴ الذريت: ۵۷ ۵۸۵ فاطر: ۴۰ ۵۸۷ الجمعة : ۴،۳ الصف : ۷ تا ۱۰ ۵۸۸ الزخرف: ۵۷ تا ۶۴ ۵۸۹، تذکرہ صفحہ ۴۵.ایڈیشن چہارم ۵۹۱٬۵۹۰، تذکره صفحه ۱۰۴.ایڈیشن چهارم ۵۹۲ الفرقان : ۵۳ ۵۷۷ هود : ۸ ۵۸۰ نوح: ۱۵ ۵۸۳ الاعراف: ۱۲ ۵۸۶ النازعت : ۴۵

Page 545

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۳ لی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں....قائم ہوگی دنیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہمارے ہاتھ سے قائم ہوگی سید نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 546

Page 547

انوار العلوم جلد ۲۰ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الـ ۵۳۵ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں ہمارے ہاتھ سے قائم ہوگی فرموده ۲۰ ستمبر ۱۹۴۸ء برموقع افتتاح ربوه) تشہد ، تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں اس موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ دعا ئیں جو مکہ مکرمہ کو بساتے وقت آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور کی تھیں قرآن کریم سے پڑھوں گا مگر تلاوت قرآن کریم کے طور پر نہیں بلکہ دعا کے طور پر ان الفاظ کو ہراؤں گا اور چونکہ یہ دعائیں ہم سب مل کر کریں گے ، اس لئے میں ان الفاظ میں کسی قدر تبدیلی کر دوں گا مثلاً وہ دعا ئیں جو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے مانگی تھیں وہ تثنیہ کے صیغہ میں آتی ہیں.کیونکہ اُس وقت صرف حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل ہی دعا کر رہے تھے مگر ہم یہاں بہت سے ہیں اس لئے میں تثنیہ کی بجائے جمع کا صیغہ استعمال کروں گا.بہر حال وہ دعائیں میں اب پڑھوں گا ، دوست میرے ساتھ ان دعاؤں میں شامل ہو کر آمین کہتے جائیں یا جن کو قرآن کریم کی یہ دعائیں آتی ہوں وہ میرے ساتھ ان دعاؤں کو پڑھتے جائیں.(اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں دعائیں مانگیں.یہ امر خصوصیت سے قابل ذکر ہے کہ ہر دعا حضور نے تین دفعہ دہرائی )

Page 548

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۶ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی رينا اجعل هذايّلَدًا أمِنَّا وَارزُقُ اهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ اے ہمارے ربّ! تو اس جگہ کو ایک امن والا شہر بنادے اور جو اس میں رہنے والے ہوں ان کو اپنے پاس سے ↓ پاکیزہ رزق عطا فرما.ربنا تقبل منا ، إنك أنت السميع العليم اے ہمارے رب ! ہم اس جگہ پر اس لئے بسنا چاہتے ہیں کہ ہم مل کر تیرے دین کی خدمت کریں.اے ہمارے رب ! تو ہماری اس قربانی اور اس ارادے کو قبول فرما.اے ہمارے رب تو بہت ہی دعائیں سننے والا اور دلوں کے بھید جاننے والا ہے.ربَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَ مِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةَ لَكَ وَارِنَا منا سِحْنا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ : اے ہمارے ربّ! تو ہم سب کو اپنا فرمانبردار اور سچا مسلمان بنادے اور ہماری اولادوں کو بھی نہ صرف مسلمان بنا بلکہ ایک مضبوط اور اُمت مسلمہ بنا دے.جو اس دنیا میں تیرے دین کی خادم کہلاتی رہے.اے ہمارے رب ! جو ہمارے کرنے کے کام ہیں وہ ہم کو خود بتلاتا رہ اور جو ہم سے غلطیاں ہو جائیں ان سے عفو کر تار ہ.تو بہت ہی فضل کرنے والا اور مہربان ہے.رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رِجَالًا مِّنْهُمْ يَتْلُونَ عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُونَهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكُونَهُم اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ اے ہمارے رب ! تو ان میں ایسے آدمی پیدا کرتے رہیو جو تیری آیتیں ان کو پڑھ پڑھ کر سناتے رہیں اور جو ان کو تیری کتاب سکھائیں کی اور تیرے پاک کلام کے اغراض و مقاصد بتاتے رہیں اور ان کے نفوس میں پاکیزگی اور طہارت پیدا کرتے رہیں.تو ہی غالب حکمت والا خدا ہے.یہ وہ دعائیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے بساتے وقت کیں اور اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو قبول فرما کر ایک ایسی بنیاد رکھ دی جو ہمیشہ کے لئے نیکی اور تقویٰ کو قائم رکھنے والی ثابت ہوئی.مکہ مکرمہ مکہ مکرمہ ہی ہے اور ابراہیم ابراہیم ہی ہے ، مگر وہ شخص کی بیوقوف ہے جو اس بات کا خیال کر کے کہ مجھے وہ درجہ حاصل نہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حاصل تھا یا میری جگہ کو وہ درجہ حاصل نہیں جو مکہ مکرمہ کو حاصل تھا اس لئے وہ خدا تعالیٰ سے بھیک

Page 549

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۷ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی مانگنے سے دریغ کرے.جب خدا کسی عظیم الشان نعمت کا دروازہ کھولتا ہے تو اس کی رحمت اور بخشش جوش میں آ رہی ہوتی ہے اور دانا انسان وہی ہوتا ہے جو اپنا برتن بھی آگے کر دے کیونکہ پھر اس کا برتن خالی نہیں رہتا.فقیروں کو دیکھ لو جب لوگ شادی کر رہے ہوتے ہیں تو اُس وقت ان پر اخراجات کا بوجھ اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے مگر اس کے باوجود وہ نہیں کہتے کہ ہم کیوں سوال کریں.اس وقت تو خودان پر شادی کے اخراجات کا بوجھ پڑا ہوا ہوتا ہے بلکہ جب کسی گھر میں شادی ہو رہی ہوتی ہے وہ بھی اپنا برتن لے کر پہنچ جاتے ہیں اور گھر والا اور دنوں کی نسبت ان کے برتن میں زیادہ ڈالتا ہے کیونکہ اُس وقت اُس کی اپنی طبیعت خرچ کرنے پر آئی ہوئی تھی ہوتی ہے.اسی طرح جب کوئی شخص کسی بزرگ کی نقل کرتا ہے تو چاہے وہ اس کے درجہ تک نہ پہنچا ہوا ہو.جب بھی وہ اس کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے خدا تعالیٰ اس کی کمزوری کو دیکھ کر اس سے زیادہ بخشش کا سلوک کرتا ہے.ماں باپ اپنے بچہ سے اُس وقت زیادہ پیار کرتے ہیں جب وہ چھوٹا ہوتا ہے اور جب وہ کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے تو گر جاتا ہے لیکن ایک بالغ بچہ جب چل پھر رہا ہوتا ہے تو ماں باپ کے دل میں محبت کا وہ جوش پیدا نہیں ہوتا جو ایک چھوٹے بچے کے متعلق پیدا ہوتا ہے.پس کسی کو یہ نہ سمجھنا چاہئے کہ خانہ کعبہ کے ذریعہ تو خدا تعالیٰ کی طرف سے دین کی ایک آخری بنیاد قائم کی گئی تھی اس سے ہمارے گھروں کو کیا واسطہ ہے اسی کا واسطہ دے کر مانگنا ہی تو خدا تعالیٰ کی رحمت کو بڑھاتا ہے اور انہی کی نقل کرنا ہی تو اصل چیز ہے.جو شخص کمزور ہے اور کمزور ہو کر چاہتا ہے کہ میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح چلوں اللہ تعالیٰ اُس کی اس بات کو دیکھ کر ناراض نہیں ہوتا بلکہ وہ اور زیادہ خوش ہوتا ہے اور کہتا ہے دیکھو! میرا یہ کمزور بندہ کتنا اچھا ہے.اس میں ہمت اور طاقت نہیں مگر پھر بھی یہ میری طرف سے بھیجے ہوئے ایک نمونہ اور مثال کی نقل کرنے کی کوشش کرتا ہے.سو ہمیں بھی اس کام کی یاد کے طور پر اور اُس بستی کی یاد کے طور پر جس جگہ خدا کے ایک نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے انتظار میں دعائیں کی گئیں اپنے نئے مرکز کو بساتے وقت جو اسی طرح ایک وادی غیر ذی زرع میں بسایا جارہا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرنی چاہئیں کہ شاید ان لوگوں کے طفیل جو مکہ مکرمہ کے قائم کرنے والے اور مکہ مکرمہ کی پیشگوئیوں کے حامل تھے اللہ تعالیٰ ہم پر بھی اپنا فضل

Page 550

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۸ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی نازل کرے اور ہمیں بھی ان نعمتوں سے حصہ دے جو اس نے پہلوں کو دیں.آخر نیت تو ہماری بھی وہی ہے جو ان کی تھی.ہمارے ہاتھ میں وہ طاقت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی اور ہمارے دل میں وہ قوت نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں ہے تھی.اگر ہم باوجود اس کمزوری کے وہی ارادہ کر لیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تو خدا تعالیٰ ہم سے ناراض نہیں ہوگا.وہ یہ نہیں کہے گا کہ کون ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ کہے گا دیکھو! میرے یہ کمزور بندے اس بوجھ کو اُٹھانے کے لئے آگے آگئے ہیں جس بوجھ کے اُٹھانے کی ان میں طاقت نہیں.دنیا اس وقت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو بھول گئی ہے بلکہ اور لوگوں کا تو کیا ذکر ہے خود مسلمان آپ کی تعلیم کو بھول چکے ہیں.آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے.جو بھی اُٹھتا ہے مصنف کیا اور فلسفی کیا اور مؤرخ کیا وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ کرنے کی کوشش کرتا ہے.دنیا کا سب سے بڑا حسن انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم انسان ہے اور دنیا کا سب سے زیادہ معزز انسان آج دنیا میں سب سے زیادہ ذلیل سمجھا جاتا ہے.اگر ہمارے دلوں میں اسلام کی کوئی بھی غیرت باقی ہے، اگر ہمارے دلوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بھی محبت باقی ہے تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے آقا کی کھوئی ہوئی عزت کو پھر دوبارہ قائم کریں.اس میں ہماری جانیں ، ہماری بیویوں کی جانیں ، ہمارے بچوں کی جانیں بلکہ ہماری ہزار ہا پشتیں بھی اگر قربان ہو جائیں تو یہ ہمارے لئے عزت کا موجب ہوگا.ہم نے یہ کام قادیان میں شروع کیا تھا مگر خدا ئی خبروں اور اس کی بتائی ہوئی پیشگوئیوں کی کے مطابق ہمیں قادیان کو چھوڑنا پڑا.اب انہی خبروں اور پیشگوئیوں کے ماتحت ہم ایک نئی بستی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کرنے کے لئے اس وادی غیر ذی زرع میں بسا رہے ہیں.ہم چیونٹی کی طرح کمزور اور نا طاقت ہی سہی مگر چیونٹی بھی جب دانہ اٹھا کر دیوار پر چڑھتے ہوئے گرتی ہے تو وہ اس دانے کو چھوڑتی نہیں بلکہ دوبارہ اسے اُٹھا کر منزل مقصود پر لے جاتی ہے اسی طرح گو ہمارا وہ مرکز جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے دشمن نے ہم سے چھینا ہوا ہے لیکن ہمارے ارادہ اور عزم میں کوئی تزلزل واقعہ نہیں ہوا.دنیا ہم کو ہزاروں جگہ پھینکتی چلی جائے وہ فٹ بال

Page 551

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۳۹ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی کی طرح ہمیں لڑکھاتی چلی جائے ہم کوئی نہ کوئی جگہ ایسی ضرور نکال لیں گے جہاں کھڑے ہو کر ہم پھر دوبارہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دیں اور بغیر ہمارے یہ حکومت دنیا میں قائم ہی نہیں ہو سکتی کیونکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی محبت سے لوگوں کے دل خالی ہو چکے ہیں اور قرآن کریم کی حقیقی تفسیر سے وہ نا واقف ہیں.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بظاہر لوگوں کے دلوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کی محبت پائی جاتی ہے.لاکھوں غیر احمدی ایسے ہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا اظہار کرتے ہیں لیکن اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ آپ کی نئی بنائی ہوئی شکل سے محبت کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے بعض احمدی بھی غلط نہی میں مبتلا ہی ہو جاتے ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ جب یہ لوگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.کرتے ہیں تو ہمارا یہ کہنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے کہ ان کے دلوں میں محمد رسول اللہ ﷺ کی حقیقی محبت نہیں حالانکہ ہم جو کچھ کہتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ محبت تو کرتے ہیں مگر محمد رسول اللہ ہے.نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک غلط تصویر سے.اسی طرح ہم مانتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں مگر وہ اس کی غلط تاویل کی فرمانبرداری کی خواہش رکھتے ہیں جو ان کے دلوں میں راسخ ہو چکی ہے اس لئے جب تک احمدیت دنیا میں غالب نہیں آجاتی اسلام غلبہ نہیں پاسکتا اور یہ اتنی موٹی بات ہے کہ میں حیران ہوں مسلمان اسے کیوں نہیں سمجھتے اور کیوں وہ اس بات پر غور نہیں کرتے کہ باوجود الفتِ رسول کے وہ کیوں دنیا میں ذلیل ہورہے ہیں.سیدھی بات ہے مسلمان اس وقت پچاس کروڑ ہیں اور احمدی پانچ لاکھ مگر پانچ لاکھ احمدی جتنی اسلام کی خدمت کر رہا ہے، جس قدر اسلام کی تبلیغ کر رہا ہے اور جس قدر اشاعت اسلام کے لئے قربانیاں پیش کر رہا ہے اتنی پچاس کروڑ مسلمان نہیں کر رہا.اس وقت دنیا کے گوشہ گوشہ میں احمدی مبلغ پھیلے ہوئے ہیں اور وہ عیسائیت کا مقابلہ کر رہے ہیں اور مقابلہ بھی معمولی نہیں بلکہ بڑی بڑی عیسائی طاقتوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ ان کا مقابلہ مؤثر ہے.پندرہ بیس سال ہوئے لکھنو میں عیسائیوں کی ایک بہت بڑی کا نفرنس ہوئی جس میں یورپ سے بھی عیسائی پادری شامل ہوئے.اس میں یہ سوال اُٹھایا گیا

Page 552

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۰ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں...قائم ہوگی کہ شمالی ہندوستان میں اب کوئی اچھا شریف اور تعلیم یافتہ آدمی عیسائی نہیں ہوتا اس کی کیا وجہ ہے.تمام پادری جو اس فن کے ماہر تھے انہوں نے اس کا یہ جواب دیا کہ جب سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی نے دعوی کیا ہے اس وقت سے عیسائیت کی ترقی رُک گئی ہے انہوں نے عیسائیت کی اس قدر مخالفت کی ہے کہ جہاں جہاں ان کا لٹریچر پھیل جاتا ہے عیسائیت ترقی نہیں کر سکتی.پھر افریقہ کے متعلق ایک بڑی بھاری کمیٹی مقرر کی گئی تھی جسے چرچ آف انگلینڈ نے مقرر کیا تھا جس کی سالانہ آمد ہمارے بہت سے صوبوں سے بھی زیادہ ہے وہ چالیس پچاس کروڑ روپیہ سالانہ عیسائیت کی اشاعت کے لئے خرچ کرتے ہیں.اس کمیٹی کی طرف سے جو رپورٹ تیار کی گئی اس میں ۳۶ جگہ یہ ذکر آتا تھا کہ افریقہ میں عیسائیت کی ترقی محض احمدیت کی وجہ سے رُکی ہے.ابھی بارہ مہینے ہوئے ایک پادری جسے افریقہ کے دورہ کے لئے بھیجا گیا تھا اس نے افریقہ کے دورہ کے بعد یہ رپورٹ کی کہ افریقہ میں عیسائیت کیوں بے کار جد و جہد کر رہی ہے.اس نے کئی جگہوں کے نام لئے اور کہا کہ وہاں عیسائیت کے راستہ میں احمدیوں نے روکیں ڈال دی ہیں اور ساتھ ہی اس نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا کہ عیسائیت کی تبلیغ اب افریقی لوگوں میں اچھا اثر نہیں کر سکتی ہاں اسلام کی تبلیغ ان میں اچھا اثر پیدا کر رہی ہے.اس نے کہا جب سے افریقہ میں احمدی آگئے ہیں عیسائیت ان کے مقابلہ میں شکست کھاتی جارہی ہے چنا نچہ عیسائیوں کا فلاں سکول جو بڑا بھاری سکول تھا اب ٹوٹنے لگا ہے اور لوگ اس میں اپنے کی لڑکوں کو تعلیم کے لئے نہیں بھجواتے.پھر اس نے کہا ان حالات کو دیکھتے ہوئے کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ ہم اپنے روپیہ اور اپنی طاقتوں کا اس ملک میں ضیاع کرنے کی بجائے اس میدان کو احمد یوں کے لئے چھوڑ دیں کہ وہ ان لوگوں کو مسلمان بنالیں.یہ دشمنوں کا اقرار ہے جو انہوں نے ہماری تبلیغی جد و جہد کے متعلق کیا.یہ طاقت ہم میں کہاں سے آئی ہے اور یہ جوش ہم میں کیوں پیدا ہوا ؟ اسی لئے کہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہم میں ایک آگ پیدا کر دی ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ پھر اسلام کو دنیا میں غالب کر دیں.پس مسلمان احمدیت کا جتنا بھی مقابلہ کرتے ہیں وہ اسلام کے غلبہ میں اتنی ہی روکیں پیدا کرتے ہیں اور جتنی جلدی وہ احمدیت میں

Page 553

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۱ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں...قائم ہوگی شامل ہو جائیں گے اتنی جلدی ہی اسلام دنیا میں غالب آ جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اس وقت جس قدر تحریکیں دنیا میں جاری ہیں وہ ساری کی ساری دُنیوی ہیں.صرف ایک تحریک مسلمانوں کی مذہبی تحریک ہے اور وہ احمدیت ہے.پاکستان خواہ کتنا بھی کی مضبوط ہو جائے کیا عراقی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ کیا شامی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ کیا لبنانی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ کیا حجازی کہیں گے کہ ہم پاکستانی ہیں؟ شامی تو اس بات کے لئے بھی تیار نہیں کہ وہ لبنانی یا حجازی کہلائیں حالانکہ وہ ان کے ہم قوم ہیں ، پھر لبنانی اور حجازی اور عراقی اور شامی پاکستانی کہلا نا کب برداشت کر سکتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ تمام مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ قولاً تو اتحاد کر سکتے ہیں مگر وہ ایک پارٹی اور ایک جماعت نہیں کہلا سکتے.صرف ایک تحریک احمدیت ہی ایسی ہے جس میں سارے کے سارے شامل ہو سکتے ہیں.عراقی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں ، عربی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں ، حجازی بھی اس میں شامل ہو کر کہہ سکتا ہے کہ میں احمدی ہوں اور عملاً ایسا ہو رہا ہے.وہ عربی ہونے کے باوجود اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ ہم احمدیت میں شامل ہیں جس می کا مرکز پاکستان میں ہے اور اس طرح وہ ایک رنگ میں پاکستان کی ماتحتی قبول کرتے ہیں.مگر یہ ماتحتی احمدیت میں شامل ہو کر ہی کی جاسکتی ہے اس کے بغیر نہیں.چنانچہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ وہ عربی جو اس غرور میں رہتا ہے کہ میں اس ملک کا رہنے والا ہوں جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے میرا مقابلہ کوئی اور شخص کہاں کر سکتا ہے وہ احمدیت میں شامل ہو کر براعظم ہندو پاکستان کا بھی ادب و احترام کرتا ہے اور یہاں مقدس مقامات کی زیارتوں کے لئے بھی آتا ہے.غرض ایک ہی چیز ہے جس کے ذریعہ دنیائے اسلام پھر متحد ہو سکتی ہے اور جس کے ذریعہ دوسری دنیا پر کامیابی اور فتح حاصل ہوسکتی ہے اور وہ احمدیت ہے.آخر کیا وجہ ہے کہ مسلمان دنیا میں ہر جگہ ذلیل ہورہے ہیں اور ہر جگہ تباہی اور بربادی کا شکار ہو رہے ہیں اس سے زیادہ تباہی اور کیا ہوگی کہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتیں اب تک سکھوں اور ہندوؤں کے قبضہ میں ہیں.کیا یہ معمولی ذلّت ہے کہ مسلمانوں کی پچاس ہزار عورتوں کو وہ پکڑ کر لے گئے اور ان سے بدکاریاں کر رہے ہیں.کیا یہ.

Page 554

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۲ اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں...قائم ہوگی معمولی عذاب ہے کہ پانچ چھ لاکھ مسلمان دنوں میں مارا گیا اور پھر فلسطین میں جو کچھ ہو رہا ہے کیا وہ مسلمانوں کو نظر نہیں آرہا ؟ ابھی حیدرآباد میں جو کچھ ہوا ہے اس سے کس طرح مسلمانوں کی کوصدمہ ہوا ہے اور وہ اپنے دلوں میں کیسی ذلت اور شرمندگی محسوس کر رہے ہیں مگر یہ ساری کی مصیبتیں اور بلائیں ایک لمبی زنجیر کی مختلف کڑیوں کے سوا اور ہیں کیا ؟ آخر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تعالیٰ کو جو محبت ہے اس کے ظاہر ہونے کا وقت کب آئے گا اور کون سا وہ دن ہو گا جب خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑ کے گی اور مسلمانوں کو اس تنزل اور ادبار سے نجات دلائے گی.خدا تعالیٰ کی غیرت کبھی دنیا میں بھڑکتی ہے یا نہیں ؟ اور اگر بھڑکتی ہے تو مسلمانوں کو سوچنا کی چاہئے کہ اس کے غیرت کے بھڑکنے کا کونسا ذریعہ ہوا کرتا ہے.اگر وہ سوچتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ ہمیشہ خدا تعالیٰ پہلے اپنا ماً مورد نیا میں بھیجتا ہے اور پھر اس ماً مور کے ذریعہ ہی اس کی غیرت بھڑکا کرتی ہے.اس کے سوا خدا تعالیٰ نے کبھی کوئی طریق اختیار نہیں کیا اور یہی ایک طریق ہے جس پر چل کر وہ اب بھی خدا تعالیٰ کی غیرت کا نمونہ دیکھ سکتے ہیں.یہ بات مسلمانوں کی کے سامنے پیش کرو اور انہیں سمجھاؤ کہ تمہارا فائدہ ، اسلام کا فائدہ اور پھر ساری دنیا کا فائدہ ی اسی میں ہے کہ تم جلد سے جلد احمدیت میں شامل ہو جاؤ.آخر وہ کیا چیز ہے جس کی وجہ سے وہ ہم سے رُکتے ہیں.ہماری تو ساری تاریخ بتاتی ہے کہ ہم نے ہر موقع پر مسلمانوں کی خدمت کی ہے گواس کے بعد ہمیشہ ان کی طرف سے مخالفت ہی ہوئی ہے مگر پھر بھی ہمارا کیا نقصان ہوا.ابھی کوئٹہ میں غیر احمدیوں کی طرف سے ایک جلسہ کیا گیا جس میں لوگوں کو ہمارے خلاف کی اُکسایا گیا.ایک احمدی ڈاکٹر میجر محمود احمد رات کے وقت کسی مریض کو دیکھ کر کار میں واپس آرہے تھے کہ وہ تقریر کی آواز سن کر وہاں ٹھہر گئے.انہوں نے اپنی موٹر باہر کھڑی کی اور خود تھوڑی دیر کے لئے اندر چلے گئے بعض غیر احمدیوں نے انہیں دیکھ کر دوسروں کو اُکسا دیا اور انہوں نے ان پر پتھراؤ شروع کر دیا وہ پتھراؤ کی بوچھاڑ سے بچنے کے لئے ایک طرف اندھیرے میں چلے گئے.اس پر کسی شخص نے وہیں اندھیرے میں خنجر مار کر انہیں شہید کر دیا.اس واقعہ کے تیسرے چوتھے دن بعد میرے پاس ایک وفد آیا جس میں بلوچستان مسلم لیگ کے وائس پریذیڈنٹ بھی شامل تھے اور پٹھانوں کی قوم کے ایک سردار بھی شامل تھے ان سب نے

Page 555

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۳ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں...قائم ہوگی آ کر کہا کہ میجر محمود احمد کے قتل کا جو واقعہ ہوا ہے اس میں صرف پنجابیوں کا قصور ہے ہمارا کوئی قصور نہیں آپ ہم پر گلہ نہ کریں.پنجابی مولویوں نے یہاں آکر مخالفانہ تقریریں کیں جس سے می لوگ مشتعل ہو گئے.پھر اُس سردار نے جو اپنی قوم کے رئیس اور میونسپل کمیٹی کے ممبر بھی تھے کہا کہ میں نے پنجابیوں کو بلوایا اور اُن سے کہا کہ تم جو احمدیت کے خلاف شورش کر رہے ہو تم یہ بتاؤ کہ قادیان پنجاب میں ہے یا بلوچستان میں؟ انہوں نے کہا پنجاب میں.میں نے کہا جب قادیان پنجاب میں تھا اور تم کو ایک لمبا عرصہ احمدیوں کی مخالفت کے لئے مل چکا ہے تو جب تم وہاں ان لوگوں کو تباہ نہیں کر سکے تو یہاں کیا مقابلہ کرو گے.اگر تم میں ہمت اور طاقت تھی تو تم نے ان لوگوں کو یہاں آنے ہی کیوں دیا وہیں کیوں نہ مار ڈالا.پھر میں نے پوچھا کہ پنجاب کی آبادی کتنی ہے؟ انہوں نے بتایا کہ اب ۲ کروڑ ہے پہلے ۳ کروڑ ہوا کرتی تھی.میں نے کہا بلوچستان کی آبادی کتنی ہے انہوں نے کہا ۱۲ لاکھ.میں نے کہا تم دوتین کروڑ ہو کر ان لوگوں کو مار نہیں سکتے تو ہم بارہ لاکھ کو کیوں ذلیل کرتے ہو اور کیوں ہمیں ان کی مخالفت کے لئے اُکساتے ہو؟ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نے اپنا سارا زور ہماری مخالفت میں لگالیا اور ابھی اور لگائے گی لیکن یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ احمدیت دنیا میں غالب آکر رہے گی کیونکہ احمدیت کے بغیر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غالب نہیں آسکتے.اس کے ساتھ ہی میں اپنی ذات کے متعلق بھی کی یہ بات جانتا ہوں کہ میری زندگی کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی زندگی وابستہ ہے اس لئے خدا مجھے بھی دشمن کے ہاتھوں سے نہیں مرنے دے گا اور وہ میرے بچاؤ کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال لے گا.بہر حال اللہ تعالیٰ نے احمدیت کے ساتھ اسلام کی ترقی کو وابستہ کر دیا ہے جو شخص احمدیت پر ہاتھ اُٹھاتا ہے وہ اسلام پر ہاتھ اُٹھاتا ہے.جو شخص احمدیت کو برباد کرنا چاہتا ہے وہ اسلام کو برباد کرنا چاہتا ہے لیکن ہمارا بھی فرض ہے کہ جب خدا نے ہم پر اتنا بڑا احسان کیا ہے اور ہم کمزوروں اور ناتوانوں کے ساتھ اسلام کی آئندہ ترقی کو وابستہ کر دیا ہے تو ہم اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیں.اسی لئے باوجود اس کے کہ شہروں میں ہمیں مکان مل سکتے تھے مگر ہم نے نہیں لئے کیونکہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں بیداری

Page 556

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۴ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں...قائم ہوگی پیدا کرتے رہیں.ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان میں تنظیم پیدا کریں، ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کی تعلیم اور تربیت کا خیال رکھیں اور یہ چیز بڑے شہروں میں حاصل نہیں ہوسکتی کیونکہ وہاں جماعت بکھری ہوئی ہوتی ہے.پس با وجود اس کے کہ ہمیں شہروں میں جگہیں مل سکتی تھیں ہم نے ان کی پرواہ نہیں کی اور اس وادی غیر ذی زرع کو اس ارادہ اور نیت کے ساتھ چنا ہے کہ جب تک یہ عارضی مقام ہمارے پاس رہے گا ہم اسلام کا جھنڈا اس مقام پر بلند رکھیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں گے اور جب خدا ہمارا قادیان ہمیں واپس دے دے گا یہ مرکز صرف اس علاقہ کے لوگوں کے لئے رہ جائے گی گا.یہ مقام اُجڑے گا نہیں کیونکہ جہاں خدا کا نام ایک دفعہ لے لیا جائے وہ مقام بر باد نہیں کی ہوا کرتا.پھر یہ صرف اس علاقہ کے لوگوں کا مرکز بن جائے گا اور ساری دنیا کا مرکز پھر قادیان بن جائے گا جو حقیقی اور دائمی مرکز ہے.پس ہم یہاں آئے ہیں اس لئے کہ خدا کا نام اونچا کریں.ہم اس لئے نہیں آئے کہ اپنے نام کو بلند کریں.ہمارا نام شہروں میں زیادہ اونچا ہوسکتا تھا اور ہم اگر اپنے نام کو بلند کرنے کی خواہش رکھتے تو اس کے لئے بڑے شہر زیادہ موزوں تھے بلکہ خود ان شہروں کے رہنے والوں نے بھی خواہش کی تھی کہ وہیں جماعت کے لئے زمینیں خرید لی جائیں.چنانچہ لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں چوٹی کے آدمی مجھ سے ملنے کے لئے آتے اور خواہش کرتے تھے کہ انہی کے شہروں میں ہم رہائش اختیار کریں.کراچی میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی اور کوئٹہ میں بھی لوگوں نے یہی خواہش کی.غرض اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمیں ظاہری عزت شہروں میں زیادہ ملتی تھی مگر ہمارا کام اپنے لئے ظاہری عزت حاصل کرنا نہیں بلکہ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس جگہ کی تلاش کر یں جہاں اسلام کی عزت کا بیج بوسکیں اور ہم نے اسی نیت اور ارادہ کے ساتھ اس وادی غیر ذی زرع کو چنا ہے.چنانچہ دیکھ لو یہاں کوئی فصلیں نہیں ، کہیں سبزی کا نشان نہیں گو یا چن کر ہم نے وہ مقام لیا ہے جو قطعی طور پر آبادی اور زراعت کے ناقابل سمجھا جاتا تھا تا کہ کو ئی شخص یہ نہ کہہ دے کہ پاکستان نے احمدیوں پر احسان کیا ہے مگر کہنے والوں نے پھر بھی کہہ دیا ہے کہ کروڑوں کروڑ کی جائداد پاکستان نے احمدیوں کو دے دی ہے.یہ زمین ہم نے دس رو پیدا یکٹر پر خریدی ہے اور یہ زمین

Page 557

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۵ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی ایسی ہے جو بالکل بنجر اور غیر آباد ہے اور صدیوں سے بنجر اور غیر آباد چلی آتی ہے.یہاں کوئی تی کھیتی نہیں ہو سکتی ، کوئی سبزہ دکھائی نہیں دیتا، کوئی نہر اس زمین کو نہیں لگتی.اس کے مقابلہ میں میں نے خود مظفر گڑھ میں نہر والی زمین آٹھ روپیہ ایکٹر پر خریدی تھی بلکہ اس مظفر گڑھ میں ایک لاکھ ایکڑ زمین میاں شاہ نواز صاحب نے آٹھ آنے ایکٹر پر خریدی تھی جس سے بعد میں انہوں نے بہت نفع کمایا.یہ زمین ہم نے پہاڑی ٹیلوں کے درمیان اس لئے خریدی ہے کہ میری ایک رؤیا اس زمین کے متعلق تھی.یہ رد یا دسمبر ۱۹۴۱ء میں میں نے دیکھی تھی اور ۲۱ دسمبر ۱۹۴۱ء کے الفضل میں شائع ہو چکی ہے.اب تک دس ہزار آدمی یہ رویا پڑھ چکے ہیں اور گورنمنٹ کے ریکارڈ میں بھی یہ رویا موجود ہے.میں نے اُس رویا میں دیکھا کہ قادیان پر حملہ ہوا ہے اور ہر قسم کے ہتھیار استعمال کئے جا رہے ہیں مگر مقابلہ کے بعد دشمن غالب آ گیا اور ہمیں وہ مقام چھوڑنا پڑا.باہر نکل کر ہم حیران ہی ہیں کہ کس جگہ جائیں اور کہاں جا کر اپنی حفاظت کا سامان کریں.اتنے میں ایک شخص آیا اور اس کی نے کہا کہ میں ایک جگہ بتاتا ہوں.آپ پہاڑوں پر چلیں وہاں اٹلی کے ایک پادری نے گر جاتی بنایا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس نے بعض عمارتیں بھی بنائی ہوئی ہیں جنہیں وہ کرایہ پر مسافروں کو دیتا ہے وہ مقام سب سے بہتر رہے گا.میں ابھی متر ڈ ر ہی تھا کہ اس جگہ رہائش اختیار کی ج جائے یا نہ کی جائے کہ ایک شخص نے کہا آپ کو یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی کیونکہ یہاں مسجد بھی ہے.اس نے سمجھا کہ کہیں میں رہائش سے اس لئے انکار نہ کر دوں کہ یہاں مسجد نہیں.چنانچہ میں نے کہا اچھا مجھے مسجد دکھاؤ.اس نے مجھے مسجد دکھائی جو نہایت خوبصورت بنی ہوئی تھی، چٹائیاں اور دریاں وغیرہ بھی بچھی ہوئی تھیں اور امام کی جگہ ایک صاف قالینی مصلی بچھا ہوا تھا اس پر میں خوش ہوا اور میں نے کہا لو اللہ تعالیٰ نے ہمیں مسجد بھی دے دی اب ہم اسی جگہ رہیں گے.اس کے بعد میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ باہر سے آئے ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ بڑی کی تبا ہی ہے بڑی تباہی ہے اور جالندھر کا خاص طور پر نام لیا کہ وہاں بھی بڑی تباہی ہوئی ہے.پھر انہوں نے کہا ہم نیلے گنبد میں داخل ہونے لگے تھے مگر ہمیں وہاں بھی داخل نہیں ہونے دیا.اُس وقت تک تو ہم صرف لاہور کا ہی نیلا گنبد سمجھتے تھے مگر بعد میں غور کرنے پر معلوم ہوا کہ نیلے گنبد

Page 558

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۶ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی سے مراد آسمان تھا اور مطلب یہ تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے بھی مسلمانوں کو امن نہیں ملے گا.چنانچہ لوگ جب اپنے مکانوں اور شہروں سے نکل کر ریفیوجی کیمپوں میں جمع ہوتے تھے تو وہاں بھی سکھ ان پر حملہ کر دیتے اور ان میں سے بہت سے لوگوں کو مار ڈالتے.اس رؤیا کے مطابق یہ جگہ مرکز کے لئے تجویز کی گئی ہے.جب میں قادیان سے آیا تو اُس وقت یہاں اتفاقاً چوہدری عزیز احمد صاحب احمدی سب جج لگے ہوئے تھے.میں شیخو پورہ کے متعلق مشورہ کر رہا تھا کہ چوہدری عزیز احمد صاحب میرے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے اخبار میں آپ کی ایک اس اس رنگ کی خوابی پڑھی ہے میں سمجھتا ہوں کہ چنیوٹ، ضلع جھنگ کے قریب دریائے چناب کے پار ایک ایسا ٹکڑہ زمین ہے جو اس خواب کے مطابق معلوم ہوتا ہے.چنانچہ میں یہاں آیا اور میں نے کہا ٹھیک ہے خواب میں جو میں نے مقام دیکھا تھا اس کے ارد گرد بھی اسی قسم کے پہاڑی ٹیلے تھے.صرف ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ میں نے اُس میدان میں گھاس دیکھا تھا مگر یہ چٹیل میدان منی ہے.اب بارشوں کے بعد کچھ کچھ سبزہ نکلا ہے ممکن ہے ہمارے آنے کے بعد اللہ تعالیٰ یہاں گھاس بھی پیدا کر دے اور اس رقبہ کو سبزہ زار بنادے.بہر حال اس رؤیا کے مطابق ہم نے اس چی جگہ کو چنا ہے اور یہ رویا وہ ہے جس کے ذریعہ چھ سال پہلے اللہ تعالی نے ہمیں آئندہ آنے والے واقعات سے خبر دے دی تھی.دنیا میں کون ایسا انسان ہے جس کی طاقت میں یہ بات ہو کہ وہ چھ سال پہلے آئندہ آنے والے واقعات بیان کر دے.انگریزوں کی حکومت کے زمانہ میں بھلا قادیان پر حملہ کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا.پھر قادیان کو چھوڑ نا کس کے خیال میں آ سکتا تھا.کون خیال کر سکتا تھا کہ مسلمانوں پر ایک بہت بڑی تباہی آنے والی ہے اتنی بڑی کہ وہ اپنے شہروں اور گھروں سے نکل کر آسمان کے نیچے ڈیرے ڈالیں گے تو وہاں بھی وہ دشمن کے حملہ سے محفوظ نہیں ہوں گے مگر یہ تمام واقعات رونما ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے مطابق ہمیں ایک نیا مرکز بھی دیدیا.یہاں جس قسم کی مخالفت تھی اس کے لحاظ سے اس مرکز کا ملنا بھی اللہ تعالیٰ کی تائید اور اس کی نصرت کا ایک کھلا ثبوت ہے.اللہ تعالیٰ نے ایسا تصرف کیا کہ مخالفین کے اخباروں نے پیچھے شور مچایا اور ہمارا سودا پہلے طے ہو چکا تھا.پھر اس قدر جھوٹ

Page 559

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۷ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں....قائم ہوگی سے کام لیا گیا کہ اس زمین کے متعلق انہوں نے لکھا کہ حکومت کو پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ مل رہا تھا اور کئی مسلمان انجمنیں اُسے یہ روپیہ پیش کر رہی تھیں مگر حکومت نے یہ ٹکڑہ برائے نام قیمت پر کی احمدیوں کو دے دیا.گویا ان کے حساب سے پندرہ لاکھ روپیہ اس ٹکڑے کا حکومت کو مل رہا تھا مگر حکومت نے اس کی پرواہ نہ کی.جب مجھے اس کا علم ہوا تو میں نے فوراً اعلان کرا دیا کہ پاکستان کا اتنا نقصان ہم برداشت نہیں کر سکتے اگر اتنا روپیہ دے کر کوئی شخص یہ زمین خرید سکتا ہے تو وہ اب بھی ہم سے یہ زمین اتنی قیمت پر لے لے تو یہ سارے کا سارا روپیہ حکومت پاکستان کو دے دیں گے.مگر حقیقت یہ ہے کہ پندرہ سو روپیہ فی ایکڑ تو کجا پندرہ روپیہ فی ایکٹر بھی کوئی شخص دینے کے لئے تیار نہیں تھا.گورنمنٹ نے خود اپنے گزٹ میں اس کے متعلق متواتر اعلان کرایا مگر ا سے پانچ روپیہ فی ایکٹر کی بھی کسی نے پیشکش نہ کی.غرض اللہ تعالیٰ کے منشاء کے ماتحت ہم قادیان سے باہر آئے ہیں اور اسی کے منشاء کے ماتحت ہم یہاں ایک نیا مرکز بسانا چاہتے ہیں.ہر چیز میں روکیں حائل ہوسکتی ہیں اس لحاظ سے ممکن ہے ہمارے اس ارادہ میں بھی کوئی روک حائل ہو جائے لیکن ہمارا ارادہ اور ہماری نیت یہی ہے کہ ہم پھر ایک مرکز بنا کر اسلام کے غلبہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کی اشاعت کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اس کام میں ہمارا حامی و مددگار ہو.ہم نے اس کی وادی غیر ذی زرع کو جس میں فصل اور سبزیاں نہیں ہوتیں اس لئے چنا ہے کہ ہم یہاں بسیں اور کی اللہ تعالیٰ کے نام کو بلند کریں مگر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ساری فصلیں اور سبزیاں اور ثمرات خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہیں.پس اول تو ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالی ہماری نیتوں کو صاف کرے اور ہمارے ارادوں کو پاک کرے اور پھر ہم اُسی سے یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ مکہ مکرمہ کے ظل کے طور پر اور مکہ مکرمہ کے موعود کے طفیل ہم کو بھی اس وادی میں ہر قسم کے ثمرات پہنچاوے گا.ہماری روزیاں کسی بندے کے سپرد نہیں اللہ تعالیٰ کا ہاتھ اپنے پاس سے ہم کو کھلائے گا اور ہم اس سے دعا کرتے ہیں کہ وہ یہاں کے رہنے والوں میں دین کا اتنا جوش پیدا کر دے، دین کی اتنی محبت پیدا کر دے، محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنا عشق پیدا کر دے کہ وہ پاگلوں کی طرح دنیا میں نکل جائیں اور اُس وقت تک گھر نہ لوٹیں جب تک دنیا کے کونے

Page 560

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۸ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم ہوگی کونے میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت قائم نہ کر دیں.بے شک دنیا کہے گی کہ یہ لوگ پاگل ہیں مگر ایک دن آئے گا اور یقیناً آئے گا اور یقیناً آئے گا یہ آسمان مل سکتا ہے یہ زمین مل سکتی ہے مگر یہ وعدہ نہیں مل سکتا کہ خدا ہمارے ہاتھ سے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت دنیا میں قائم کر دے گا اور وہ لوگ جو آج ہمیں پاگل کہتے ہیں شرمندہ ہو کر کہیں گے کہ اس چیز نے تو ہو کر ہی رہنا تھا.آثار ہی ایسے نظر آ رہے تھے جن کی سے ثابت ہوتا تھا کہ یہ چیز ضرور وقوع میں آکر رہے گی.جیسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کو سب لوگ پاگل کہتے تھے مگر اب عیسائی یہ کہتے ہیں کہ اُس وقت دنیا کے حالات ہی اس قسم کے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح ہوتی اور باقی مذاہب شکست کھا جاتے.جس طرح کی پہلے عقلمند کہلانے والے لوگ پاگل ثابت ہوئے اسی طرح اب بھی نظمند کہلانے والے لوگ ہی پاگل ثابت ہوں گے اور دنیا پر اسلام غالب آکر رہے گا.آؤ اب ہم ہاتھ اُٹھا کر آہستگی سے بھی اپنے دلوں میں اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں کہ وہ ہمارے ارادوں میں برکت ڈالے اور ہمیں اس مقدس کام کو دیانتداری کے ساتھ سرانجام دینے کی توفیق بخشے.اس کے بعد اس رقبہ کے چاروں کونوں پر قربانیاں کی جائیں گی اور ایک قربانی اس رقبہ کے وسط میں کی جائے گی.یہ قربانیاں اس علامت کے طور پر ہوں گی کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حکم کے ماتحت اپنے بیٹے کی قربانی کے لئے تیار ہو گئے تھے اور خدا تعالیٰ نے ان کی قربانی کو قبول فرما کر بکرے کی قربانی کا حکم دیا تھا اسی طرح ہم بھی اس زمین کی کے چاروں گوشوں پر اور ایک اس زمین کے سنٹر میں اس نیت اور ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں کہ خدا ہمیں اور ہماری اولادوں کو ہمیشہ اس راہ میں قربان ہونے کی توفیق عطا فرمائے.آمین البقرة: ۱۲۸ ٢ البقرة : ۱۲۹ (الفضل سالانہ نمبر ۱۹۶۴ء)

Page 561

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۴۹ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب از نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ید نا خلیفۃ المسیح الثانی

Page 562

Page 563

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۵۱ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب گیارہ اور بارہ ستمبر کی درمیانی رات میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ پر ہوں جو نہ قادیان معلوم ہوتی ہے اور نہ لاہور کا موجودہ مکان بلکہ کوئی نئی جگہ معلوم ہوتی ہے.ایک کھلا مکان ہے جس کے آگے وسیع صحن معلوم ہوتا ہے.میں اُس کے صحن میں کھڑا کچھ لوگوں سے باتیں کر رہا ہوں.باتوں کا مفہوم کچھ اس قسم کا ہے کہ قریب زمانہ میں مسلمانوں پر ایک بڑی آفت آنی ہے اور عنقریب کچھ اور حوادث ظاہر ہونے والے ہیں جو پہلی مصیبت سے بھی زیادہ سخت ہوں گے اور مسلمانوں کی آنکھوں کے آگے قیامت کا نظارہ آجائے گا.یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ دُور اُفق میں مجھے ایک چیز اُڑتی ہوئی نظر آئی.یہ چیز ابوالہول کی شکل کی تھی اور اسی کی طرح عظیم الجثہ معلوم ہوتی تھی.ابوالہول کی طرح اس کی بنیاد بہت چوڑی تھی اور اوپر آکے اس کا جسم نسبتاً چھوٹا ہو جاتا تھا.میں نے دیکھا کہ اوپر کے حصہ میں بجائے ایک سر کے اُس کے دو سر لگے ہوئے ہیں.ایک سر ایک کو نہ پر ہے اور دوسرا سر دوسرے کو نہ پر اور درمیان میں کچھ جگہ خالی تھی.اس کی جسامت اور ہیبت کو دیکھ کر میں نے قیاس کیا کہ یہی وہ بلا ہے جس کے متعلق خبر پائی جاتی ہے اور میں نے ان لوگوں سے جن سے میں باتیں کر رہا تھا کہا وہ دیکھو وہ چیز آگئی ہے.میرے دیکھتے دیکھتے وہ بلائے عظیم اُڑتی ہوئی ہمارے پاس سے آگے کی طرف گزر گئی کی اور تمام علاقہ کے لوگوں میں شور پڑ گیا کہ اب کیا ہوگا ؟ وہ قیامت خیز تو آگئی.اُس وقت میں کی نے دیکھا کہ مستورات جلدی جلدی کمروں کے اندر گھس گئیں لیکن میں صحن میں ٹہلتا رہا.میں ٹہل ہی رہا تھا کہ کسی نے باہر سے آواز دی.میں دروازہ پر گیا تو میں نے دیکھا کہ دو کشتیاں دروازہ

Page 564

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۵۲ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب کے سامنے کھڑی تھیں لیکن وہاں پانی کوئی نہیں اور کشتیوں کے نیچے چھوٹے چھوٹے پیسے ہیں.ایسے چھوٹے جیسے بعض ٹرائیکلوں کے اگلے چھوٹے پیسے ہوتے ہیں بلکہ ان سے بھی کچھ چھوٹے.مجھے دیکھ کر جو کشتی میں بیٹھے ہوئے آدمیوں کا افسر تھا اُس نے کہا کہ آپ اور آپ کے ساتھی کشتیوں میں بیٹھ جائیں، یہ آپ کے لئے بھجوائی گئی ہیں تا کہ آپ ان میں بیٹھ کر محفوظ جگہ پر چلے جائیں.اور اُس جگہ کا نام اس نے سٹیشن لیا گویا پاس کوئی سٹیشن ہے جس پر جانے سے اس کے نزدیک نسبتی طور پر حفاظت حاصل ہو جاتی ہے.مجھے یہ یاد نہیں رہا کہ اس نے کسی شخص کی طرف منسوب کیا کہ اس نے کشتیاں بھیجی ہیں.ہاں یہ یقینی یاد ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف اس نے منسوب نہیں کیا بلکہ کسی انسان کی طرف منسوب کیا ہے.میں نے اُس شخص سے کہا کہ یہاں پانی تو کوئی نہیں یہ کشتیاں کس طرح چلیں گی ؟ اس نے جواب میں کہا یہ کشتیاں بغیر پانی کے چلتی ہی ہیں.ان کشتیوں میں بادبان بھی لگے ہوئے تھے اور ان کے نیچے پیسے بھی لگے ہوئے تھے.پہلے میں نے چاہا کہ گھر کے لوگوں اور باقی ساتھیوں کو لے کر ہم کشتیوں میں بیٹھ جائیں اور اسٹیشن پر چلے جائیں جسے نسبتاً محفوظ کہا جاتا ہے لیکن پھر میرے دل میں خیال آیا کہ اسٹیشن پر جانے کا کیا فائدہ ہے اللہ تعالیٰ میں طاقت ہے وہ چاہے تو بلا ء کو ٹلا دے.تب میں نے اس شخص نے کہا کہ میں تو وہاں نہیں جانا چاہتا ، میں تو یہیں رہوں گا.اس کے تھوڑی دیر بعد گو مجھے وہ بلا ء نظر تو نہیں آتی جو اُڑتی ہوئی نظر آئی تھی اور جس کے دو سر تھے لیکن میں نے یوں محسوس کیا کہ گویا وہ بلا ء آپ ہی آپ سکڑ نے لگ گئی اور چھوٹی ہونی شروع ہو گئی.اُس وقت کسی شخص نے آکر مجھے مبارکباد دی اور کہا کہ آپ نے اللہ تعالیٰ پر توکل کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس بلاء کا اثر مٹا دیا ہے.اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی.وقت کے لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ رویا قائد اعظم کی وفات کے بعد آئی ہے کیونکہ اُن کی کی وفات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ساڑھے دس بجے ہوئی ہے اور میں بالعموم سوتا ہی گیارہ بجے کے بعد ہوں.غالباً صبح کے قریب یہ رویا ہوئی ہے لیکن مجھے صبح 9 بجے قائد اعظم کی وفات ی کا علم ہوا اس لئے جہاں تک اس رؤیا کا تعلق ہے یہ اس علم کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس علم سے پہلے کی ہے.اس رویا میں یہ بتایا گیا تھا کہ مسلمانوں پر قریب زمانہ میں اور ایک دوسرے سے پیوستہ

Page 565

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۵۳ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب دو مصیبتیں آنے والی ہیں اور بظاہر یوں نظر آئیں گی کہ گویا مسلمانوں کو تباہ کر دیں گی لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور اُن لوگوں کے طفیل جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے کے عادی ہیں ان مصیبتوں کے بدنتائج کو مٹادے گا اور اس خطرہ عظیمہ سے مسلمان محفوظ ہو جائیں گے.جب مجھے قائد اعظم کی وفات کا علم ہوا تو میں نے سمجھا کہ ایک مصیبت تو ان کی وفات ہے.میں سمجھتا ہوں کہ یہ مصیبت مسلمانوں کے لئے در حقیقت ۱۹۴۷ء کے واقعات سے بھی زیادہ سخت ہے کیونکہ گو ۱۹۴۷ء میں لاکھوں مسلمان مارا گیا لیکن اُس وقت ان کے حوصلے توڑنے والی کوئی چیز نہیں تھی لیکن ایک ایسے لیڈر کا جس سے قوم کی امیدیں وابستہ ہوں ایسے وقت میں جدا ہو جانا جبکہ خطرات ابھی بڑھ رہے ہوں اور امید کے پہلو بھی منکشف ہو رہے ہوں نہایت سخت تکلیف دہ ہوتا ہے.پس یہ دھکا ایسا تھا کہ جس نے ۱۹۴۷ء کے واقعات سے بھی زیادہ مسلمانوں کے دلوں کو دہلا دیا.مجھے اللہ تعالیٰ نے اس رؤیا کے ذریعہ سے یہ علم بخشا کہ مسلمان اس صدمہ کی برداشت کی طاقت پا جائیں گے اور اللہ تعالیٰ ایسے سامان کر دے گا کہ اس نقصان سے پاکستان کی بنیاد ہلے گی نہیں بلکہ الہی تدبیر سے محفوظ ہو جائے گی.مگر مجھے اُس وقت یہ خیال آتا تھا کہ یہ جو خواب میں میں نے بلا ء دیکھی ہے اس کے دوسر تھے.ایک سر سے تو اُس ابتلاء کی طرف اشارہ ہوا جو قائد اعظم کی وفات کی وجہ سے مسلمانوں کو پہنچا لیکن دوسراسر جو دکھایا گیا ہے اس سے کیا مراد ہے.دوسرے دن یہ خبر شائع ہوئی کہ ہندوستانی فوجوں نے حیدر آباد پر حملہ کر دیا ہے.تب میں نے قیاس کیا کہ دوسرے سر سے مراد حیدر آباد پر حملہ ہے اور چونکہ خواب میں کسی مصیبت کے واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا اس لئے میرے دل میں خیال گزرا کہ کہیں یہ حیدر آباد کا حملہ بھی ایک مصیبت نہ بن جائے.آخر کل کی خبروں سے معلوم ہوا کہ حیدرآباد نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں یا دوسرے لفظوں میں یوں کہو کہ نظام نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں اور یہ واقعہ تمام باشندگان پاکستان کے لئے نہایت ہی غم و اندوہ کا موجب ثابت ہوا ہے بلکہ اس تھوڑے سے وقت میں میں نے تو بعضوں سے یہاں تک سنا ہے کہ اب جبکہ ہندوستان حیدرآباد سے فارغ کی ہو گیا ہے وہ پاکستان کی طرف رُخ کرے گا.

Page 566

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۵۴ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب یہ رویا جس دن مجھے آئی تھی، اُسی دن صبح کو ایک معزز غیر احمدی آفیسر محمد یعقوب صاحب فریدی جو کھیوڑہ کی نمک کی کانوں کے سپرنٹنڈنٹ ہیں مجھے ملنے کے لئے مولوی عبدالودود صاحب کی معیت میں تشریف لائے تھے.فریدی صاحب حضرت سلیم صاحب چشتی کی اولاد میں سے ہیں جو کہ اکبر بادشاہ کے پیر تھے اور فتح پور سیکری میں جن کا مزار ہے.دورانِ گفتگو میں قائد اعظم کی وفات کا ذکر آیا تو میں نے اُن کو یہ رویا سنائی.وہ ایک تعلیم یافتہ اور معزز عہدہ دار ہیں اور احمدیت سے ان کو کوئی تعلق نہیں.وہ حلفیہ گواہی اِس پر دے سکتے ہیں کہ میں نے یہ رویا ۱۲ / تاریخ کی صبح کو ان کو سنا دی تھی اور رویا میں جو میں نے ابوالہول کا دوسرا سر دیکھا ہے اس پر میں نے حیرت کا بھی اظہار کیا تھا کہ میں نے ایک سرکی بجائے دوسر دیکھے ہیں.میں اس رؤیا کی بناء پر سمجھتا ہوں کہ گو یہ دونوں واقعات مسلمانوں کیلئے نہایت تکلیف دہ ہیں لیکن اللہ تعالیٰ ان صدمات کو چھوٹا کر دے گا اور مسلمانوں کو ان کے بداثر سے محفوظ رکھے گا اگر مسلمان خدا تعالیٰ پر توکل کا اظہار کریں اور کسی لیڈر کی وفات کا جو سچا ر د عمل ہوتا ہے وہ اپنے اندر پیدا کریں.یعنی اس کی نیک خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کریں تو یقیناً مسٹر جناح کی وفات مسلمانوں کی تباہی کا موجب نہیں بلکہ مسلمانوں کی مضبوطی کا موجب ہوگی.بانی سلسلہ احمد یہ جب فوت ہوئے ہیں اُس وقت میری عمر انیس سال کی تھی ان کی وفات اسی لاہور میں ہوئی تھی اور ان کی وفات کی خبر سنتے ہی شہر کے بہت سے اوباشوں نے اس گھر کے سامنے شور و غوغا شروع کر دیا تھا جس میں ان کی لاش پڑی ہوئی تھی اور نا قابل برداشت گالیاں دیتے تھے اور ناپسندیدہ نعرے لگاتے تھے.مجھے اُس وقت کچھ احمدی بھی اُکھڑے اُکھڑے سے نظر آتے تھے.تب میں بانی سلسلہ کے سرہانے جا کر کھڑا ہو گیا اور میں نے خدا تعالیٰ کو مخاطب کر کے یہ عرض کی کہ اگر ساری جماعت بھی مرتد ہو جائے تو میں اس مشن کو کی پھیلانے کے لئے جس کے لئے تو نے اِن کو مبعوث فرمایا تھا کوشش کروں گا اور اس کام کے پورا کرنے کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا.خدا تعالیٰ نے میرے عہد میں ایسی برکت دی کہ احمدیت کے مخالف ہمارے عقیدوں کے متعلق خواہ کچھ کہیں یہ تو ان میں سے کوئی ایک فرد بھی نہیں کہہ سکتا کہ بانی سلسلہ احمدیہ کی وفات پر جماعت کو جو طاقت حاصل تھی اتنی طاقت آج

Page 567

انوار العلوم جلد ۲۰ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب جماعت کو حاصل نہیں.ہر شخص اقرار کرے گا کہ اس سے درجنوں گنے زیادہ طاقت اس وقت جماعت کو حاصل ہے.میں سمجھتا ہوں کہ مسٹر جناح کی وفات کے بعد اگر وہ مسلمان جو واقعہ میں ان سے محبت رکھتے تھے اور ان کے کام کی قدر کو پہچانتے تھے سچے دل سے یہ عہد کر لیں کہ جو منزل پاکستان کی انہوں نے تجویز کی تھی ، وہ اس سے بھی آگے اسے لے جانے کی کوشش کریں گے اور اس عہد کے ساتھ ساتھ وہ پوری تن دہی سے اس کو نباہنے کی کوشش بھی کریں تو یقیناً پاکستان روز بروز ترقی کرتا چلا جائے گا اور دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ہو جائے گا.حیدر آباد کے معاملہ کے متعلق بھی میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر مسلمان حوصلہ سے کام لیں تو حیدرآباد کا مسئلہ کوئی نا قابل تلافی مصیبت نہیں.حق تو یہ ہے کہ حیدر آباد اپنے حالات کے لحاظ سے انڈین یونین میں ہی شامل ہونا چاہئے تھا جس طرح کہ کشمیر اپنے حالات کے لحاظ سے پاکستان میں ہی شامل ہونا چاہئے.میں تو شروع دن سے مسلمانوں کو اس امر کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور میرے نزدیک اگر حیدرآباد اور کشمیر کے مسئلہ کو اکٹھارکھ کر حل کیا جاتا تو شاید اُلجھنیں پیدا ہی نہ ہو تیں لیکن بعض دفعہ لیڈ ر عوام الناس کے شدید جذبات سے اتنے مرعوب ہوتے ہیں کہ وہ وقت پر صحیح رستہ اختیار ہی نہیں کر سکتے.حیدرآباد کی پرانی تاریخ بتا رہی ہے کہ حیدر آباد کے نظام کبھی بھی لڑائی میں اچھے ثابت نہیں ہوئے.چونکہ میرے پردادا اور نظام الملک کو ایک ہی سال میں خطاب اور عہدہ ملا تھا، اس لئے مجھے اس خاندان کی تاریخ کے ساتھ کچھ دلچسپی رہی ہے.۱۷۰۷ ء میں ہی ان کو خطاب ملا ہے اور ۰۷ ۱۷ء میں ہی میرے پردادا مرزا فیض محمد خاں صاحب کو خطاب ملا تھا.ان کو نظام الملک اور ہمارے پر دادا کو عضدالدولہ.اس وقت میرے پاس کا غذات نہیں ہیں.جہاں تک عہدے کا سوال ہے، غالباً نظام الملک کو پہلے پانچ ہزاری کا عہدہ ملا تھا لیکن مرزا فیض محمد صاحب کو ہفت ہزاری کا عہدہ ملا تھا.اُس وقت نظام الملک با وجود حیدر آباد دکن میں شورش کے دلی میں بیٹھے رہے اور تب دکن گئے تھے جب دکن کے فسادات مٹ گئے تھے.سلطان حید ر الدین کی جنگوں میں بھی حیدرآباد نے کوئی اچھا کی نمونہ نہیں دکھایا تھا.مرہٹوں کی جنگوں میں بھی اس کا رویہ اچھا نہیں تھا.انگریزوں کے ہندوستان میں قدم جمنے میں بھی حیدر آباد کی حکومت کا بہت کچھ دخل تھا مگر جہاں بہادری کے

Page 568

انوار العلوم جلد ۲۰ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب معاملے میں نظام کبھی اچھے ثابت نہیں ہوئے وہاں عام دُور اندیشی اور انصاف اور علم پروری کی میں یقیناً یہ خاندان نہایت اعلیٰ نمونہ دکھاتا رہا ہے اور اسی وجہ سے کسی اور ریاست کے باشندوں.میں اپنے رئیس سے اتنی محبت نہیں پائی جاتی جتنی کہ نظام کی رعایا میں نظام کی پائی جاتی ہے.انصاف کے معاملہ میں میرا اثر یہی رہا ہے کہ حیدر آباد کا انصاف برطانوی راج سے بھی زیادہ کی اچھا تھا.ہندو مسلمان کا سوال کبھی نظاموں نے اُٹھنے نہیں دیا اور ان خوبیوں کی وجہ سے وہ ہمیشہ ہی ہندوستان کے مسلمانوں میں مقبول رہے.لیکن جہاں یہ صحیح ہے کہ حیدر آباد کا نظام خاندان کبھی بھی جنگی خاندان ثابت نہیں ہوا ، وہاں یہ بھی درست ہے کہ حیدرآباد کی رعایا بھی جنگی رعایا نہیں.کوئی نئی روح ان کو جنگی بنا سکتی تھی مگر نواب بہادر یار جنگ کی وفات کے بعد وہ نئی روح حیدر آباد میں نہیں رہی.سید قاسم رضوی کے جاننے والے جانتے ہیں کہ بہادر یار جنگ والی روح ان میں نہیں.بہادر یار جنگ علاوہ اعلیٰ درجہ کے مقرر ہونے کے عملی آدمی تھے.قاسم رضوی صاحب مقر ر ضرور ہیں مگر اعلیٰ درجہ کے عملی آدمی نہیں ہیں.شہزادہ برار کے اندر بھی کوئی ایسی روح نہیں.شہزادہ برار نے آج سے اکیس سال پہلے بعض مہا سبھائی ذہنیت کے لوگوں سے ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس میں یہ اقرار کیا تھا کہ جب بھی میں برسر حکومت آؤں گا میں فلاں فلاں رعائتیں ہندو قوم کو دوں گا.یہ معاہدہ ان کے ایک مخلص مصاحب کے علم میں آگیا اور اس نے ان کے کاغذات میں سے وہ معاہدہ نکال کر مجھے پہنچا دیا.اُس وقت معلوم ہوا کہ شہزادہ برار کو کوئی جیب خرچ نہیں ملتا تھا اور بعض ہندوؤں نے اُن کو روپیہ دینا شروع کر دیا تھا.جس کی بناء پر انہوں نے یہ معاہدہ کیا تھا.میں نے اس معاہدہ کی اطلاع گورنمنٹ آف انڈیا کو دی کی اور اس کو توجہ دلائی کہ اتنی بڑی سلطنت کے ولی عہد کو کوئی جیب خرچ نہ ملنا نہایت خطر ناک بات ی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ گورنمنٹ آف انڈیا نے اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے حکماً شہزادے کا جیب خرچ مقرر کروایا جو غالباً دس ہزار یا بیس ہزار روپیہ ماہوار تھا.ایسے انسان سے کیا امید کی جاسکتی تھی کہ وہ اس نازک وقت میں اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر قوم کی راہنمائی کرے گا.پس حیدر آباد کا واقعہ گو مسلمانوں کے لئے نہایت ہی تکلیف دہ ہے لیکن جو کچھ اس وقت

Page 569

انوار العلوم جلد ۲۰ مسلمانانِ پاکستان کے تازہ مصائب ہوا ہے تاریخی واقعات کی ایک لمبی زنجیر کی آخری کڑی ہے.بیشک آج مسلمان اس بات کا خیال کر کے بہت ہی شرم محسوس کرتے ہیں کہ تین دن پہلے مسلمانوں کے لیڈر حیدر آباد سے یہ براڈ کاسٹ کر رہے تھے کہ ہم دتی کے لال قلعہ کی طرف آرہے ہیں اور تین دنوں کے اندراندر انہوں نے ہتھیار بھی ڈال دیئے اور ان ساری امیدوں کو چھوڑ دیا جور بع صدی سے اپنے دلوں میں لئے بیٹھے تھے.مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ ابتلاء بھی اگر پاکستان کے مسلمانوں کے عزم کو اور بلند کرنے کا موجب ہو جائے تو بلاء زحمت نہیں بلکہ بلا ء رحمت ثابت ہوگا.خدا تعالی تمام دنیوی دروازے بند کر کے مسلمانوں کو بلا رہا ہے کہ میری طرف آؤ.خدا کی رحمت کا دروازہ اب بھی کھلا ہے کاش ! مسلمان اپنی آنکھیں کھولیں اور اس کی آواز پر لبیک کہیں.اسلام کا جھنڈا سرنگوں نہیں ہو سکتا.خدا کے فرشتے کو میں اس کو اونچا رکھیں گے.ہمیں تو اس بات کی فکر کرنی چاہئے کہ خدا کے فرشتوں کے ہاتھوں کے ساتھ ہمارے ہاتھ بھی اس جھنڈے کو سہارا دے رہے ہوں.اے خدا! تو مسلمانوں کی آنکھیں کھول تا کہ وہ اپنے فرض کو پہچانیں ، تیری آواز کوسنیں اور اسلام پھر دنیا میں معزز اور مؤقر ہو جائے.( الفضل لا ہور۲۱ رستمبر ۱۹۴۸ء )

Page 570

Page 571

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۵۹ احمدیت کا پیغام از نا حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد سیدنا خلیفة المسیح الثانی احمدیت کا پیغام

Page 572

Page 573

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۱ احمدیت کا پیغام اَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ احمدیت کا پیغام احمدیت کیا ہے اور کس غرض سے اس کو قائم کیا گیا ہے؟ یہ ایک سوال ہے جو بہت سے واقفوں اور ناواقفوں کے دلوں میں پیدا ہوتا ہے.واقفوں کا مطالعہ زیادہ گہرا ہوتا ہے اور ناواقفوں کے سوالات بہت سطحی ہوتے ہیں.بوجہ عدم علم کے بہت سی باتیں وہ اپنے خیال سے ایجاد کر لیتے ہیں اور بہت سی باتوں پر لوگوں سے سن سنا کر یقین کر لیتے ہیں.میں پہلے انہی لوگوں کی واقفیت کے لئے کچھ باتیں کہنی چاہتا ہوں جو عدم علم اور نا واقفیت کی وجہ سے احمدیت کے متعلق مختلف قسم کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں.ان نا واقفوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی کی احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں لوگ کلمہ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله کے قائل نہیں اور احمدیت ایک نیا مذہب ہے.یہ لوگ یا تو بعض دوسرے لوگوں کے بہکانے سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں یا ان کے دماغ یہ خیال کر کے کہ احمدیت ایک مذہب ہے اور ہر مذہب کے لئے کسی کلمہ کی ضرورت ہے سمجھ لیتے ہیں کہ احمدیوں کا بھی کوئی نیا کلمہ ہے.لیکن حقیقت یہ ہے کہ نہ احمدیت کوئی نیا مذہب ہے اور نہ مذہب کے لئے کسی کلمہ کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اس سے بڑھ کر میں یہ کہتا ہوں کہ کلمہ اسلام کے سوا کسی مذہب کی علامت نہیں.جس طرح اسلام دوسرے مذاہب سے اپنی کتاب کے لحاظ سے ممتاز ہے، اپنے نبی کے لحاظ سے ممتاز ہے، اپنی عالمگیری کے لحاظ سے ممتاز ہے، اسی طرح اسلام دوسرے مذاہب سے کلمہ کے لحاظ سے بھی ممتاز ہے، دوسرے مذاہب کے پاس کتابیں ہیں مگر کلام اللہ سوائے مسلمانوں کے کسی کو نہیں ملا.کتاب.

Page 574

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۲ احمدیت کا پیغام کے معنی صرف مضمون کے ہیں ، فرائض کے ہیں ، احکام کے ہیں لیکن کتاب کے مفہوم میں ہرگز یہ بات شامل نہیں کہ اس کے اندر بیان شدہ مضمون کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو.مگر اسلامی کتاب کا نام کلام اللہ رکھا گیا یعنی اس کا ایک ایک لفظ بھی خدا تعالیٰ کا بیان کردہ ہے جس طرح اس کا مضمون خدا تعالیٰ کا بیان کردہ ہے.حضرت موسی علیہ السلام کی کتاب کا مضمون وہی تھا جو خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا تھا.حضرت عیسی علیہ السلام کی وہ تعلیم جو دنیا کے سامنے وہ پیش کرتے تھے وہی تھی جو خدا تعالیٰ نے ان کو دی تھی لیکن ان لفظوں میں نہ تھی جو خدا تعالیٰ نے استعمال فرمائے تھے.تورات، انجیل اور قرآن کو پڑھنے والا اگر اس مضمون کی طرف اس کی توجہ کو پھیر دیا جائے تو دس منٹ کے مطالعہ کے بعد ہی یہ فیصلہ کر لے گا کہ تو رات اور انجیل کے مضامین خواہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوں ان کے الفاظ خدا تعالیٰ کی طرف سے نہیں اور اسی طرح وہ یہ بھی فیصلہ کر لے گا کہ قرآن کریم کے مضامین بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس کے الفاظ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں.یا یوں کہہ لو کہ ایک ایسا شخص جو قرآن کریم ، تو رات کی اور انجیل پر ایمان نہیں رکھتا، ان تینوں کتابوں کا چند منٹ مطالعہ کرنے کے بعد اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہوگا کہ تو رات اور انجیل کو پیش کرنے والے گو اس بات کے مدعی ہیں کہ یہ دونوں کی کتب خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں لیکن اس بات کے ہرگز مدعی نہیں کہ ان دونوں کتب کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کا بولا ہوا ہے مگر قرآن کریم کے متعلق وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گا کہ اس کا پیش کرنے والا نہ صرف اس بات کا دعویدار ہے کہ قرآن کریم کا مضمون خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.بلکہ اس بات کا بھی دعویدار ہے کہ قرآن کریم کا ایک ایک لفظ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اپنا نام علاوہ کتاب اللہ کے کلام اللہ بھی رکھا ہے لیکن تو رات و انجیل نے اپنا نام کلام اللہ نہیں رکھا نہ قرآن کریم نے ان کو کلام اللہ کہا ہے.پس مسلمان ممتاز ہے دوسرے مذاہب سے اس بات میں کہ دوسرے مذاہب کی مذہبی کتابیں کتاب اللہ تو ہیں لیکن کلام اللہ نہیں لیکن مسلمانوں کی کتاب نہ صرف یہ کہ کتاب اللہ بلکہ کلام اللہ بھی ہے.اسی طرح سب ہی مذاہب کی ابتداء انبیاء کی ذات سے ہوئی ہے لیکن کوئی مذہب بھی ایسا نہیں جس نے ایسے نبی کو پیش کیا ہو جو تمام امور دینیہ کی حکمتوں کو بیان کرنے کا مدعی ہو اور

Page 575

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۳ احمدیت کا پیغام جسے بنی نوع انسان کے لئے اسوۂ حسنہ کے طور پر پیش کیا گیا ہو.عیسائیت جو سب سے قریب کا مذہب ہے وہ تو مسیح کو ابن اللہ قرار دے کر اس قابل ہی نہیں چھوڑتی کہ اس کے نقش قدم پر کوئی انسان چلے کیونکہ انسان خدا جیسا نہیں ہو سکتا.تو رات حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بطور اسوہ حسنہ پیش نہیں کرتی.نہ تو رات اور انجیل حضرت موسیٰ اور حضرت عیسی علیہا السلام کو مذہبی حکمتوں کی کے بیان کرنے کا ذمہ وار قرار دیتی ہیں لیکن قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے ويُعلمُكُمُ الكتب والحكمة ليه نبی تمہیں احکام الہیہ اور ان کی حکمتیں بتاتا ہے پس اسلام ممتاز ہے اس بات میں کہ اس کا نبی دنیا کے لئے اسوۂ حسنہ بھی ہے اور جبر سے اپنے احکام نہیں منوا تا بلکہ جب کوئی حکم دیتا ہے تو اپنے اتباع کے ایمانوں کو مضبوط کرنے اور ان کے جوش کو زیادہ کرنے کے لئے یہ بھی بتاتا ہے کہ اس نے جو احکام دیئے ہیں ان کے اندر ملت افراد اُمت اور باقی بنی نوع انسان کے لئے کیا کیا فوائد مخفی ہیں.اسی طرح اسلام ممتاز ہے دوسرے مذاہب سے اپنی تعلیم کے لحاظ سے.اسلام کی تعلیم چھوٹے اور بڑے غریب اور امیر، عورت اور مرد ، مشرقی اور مغربی، کمزور اور طاقتور، حاکم اور رعایا ، آقا اور مزدور، خاوند اور بیوی ، ماں باپ اور اولاد، بائع و مشتری ، ہمسائے اور مسافر سب کے لئے راحت ، امن اور ترقی کا پیغام ہے.وہ بنی نوع انسان میں سے کسی گروہ کو اپنے خطاب سے محروم نہیں کرتی.وہ کی اگلی اور پچھلی تمام اقوام کیلئے ایک ہدایت نامہ ہے.جس طرح عالم الغیب خدا کی نظر پتھروں کے نیچے پڑے ہوئے ذروں پر بھی پڑتی ہے اور آسمان میں چمکنے والے ستاروں پر بھی ، اسی کی طرح مسلمانوں کی مذہبی تعلیم غریب سے غریب اور کمزور سے کمزور انسانوں کی ضرورتوں کو بھی کی پورا کرتی ہے اور امیر سے امیر اور قوی سے قومی انسانوں کی احتیا جوں کو بھی دور کرتی ہے.غرض اسلام صرف گزشہ مذاہب کی ایک نقل نہیں بلکہ وہ مذہب کی زنجیر کی آخری کڑی اور نظام روحانی کا سورج ہے اور اس کی کسی بات سے دوسرے مذاہب کا قیاس کرنا درست نہیں.مذہب کے نام میں بیشک سب شریک ہیں اسی طرح جس طرح ہیرا اور کوئلہ کا ر بن کے نام میں شریک ہیں لیکن ہیرا ہیرا ہی ہے اور کوئلہ کوئلہ ہی ہے.جس طرح پتھر کا نام کنکر یلے پتھر اور سنگ مرمر دونوں پر بولا جا سکتا ہے لیکن کنکریلا پتھر کنکر یلا پتھر ہی ہے اور سنگ مرمر ،

Page 576

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۴ احمدیت کا پیغام سنگ مرمر ہی ہے پس یہ خیال کر لینا کہ چونکہ اسلام میں کلمہ پایا جاتا ہے اس لئے باقی مذاہب کا بھی کلمہ ہوتا ہوگا ، یہ محض ناواقفیت ہے اور قرآن کریم پر غور نہ کرنے کا نتیجہ ہے.اس سے بڑھ کر ظلم یہ ہے کہ بعض لوگوں نے تو لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ إِبْرَاهِيمُ خَلِيلُ اللَّهِ - لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ مُوسَى كَلِيمُ اللهِ اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ عِيسَى رُوحُ اللہ کے کلمات بھی پیش کر دیئے ہیں اور کہا ہے کہ یہ پہلے مذاہب کے کلمے ہیں.حالانکہ تورات اور انجیل اور عیسائی لٹریچر میں ان کلموں کا کہیں نام و نشان بھی نہیں.مسلمانوں میں آج ہزاروں خرابیاں پیدا ہو چکی ہیں لیکن کیا وہ اپنا کلمہ بھول گئے ہیں؟ پھر یہ کس طرح کہا جا سکتا ہے کہ عیسائی اور یہودی اپنا کلمہ بھول گئے ہیں.اگر وہ اپنا کلمہ بھول گئے ہیں اور ان کی کتابوں سے بھی یہ کلمے غائب ہو گئے ہیں تو مسلمانوں کو یہ کلمے کس نے بتائے ہیں حق یہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کسی اور نبی کا کلمہ نہیں تھا.کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیتوں میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ سارے نبیوں کی میں سے صرف آپ کو کلمہ ملا ہے اور کسی نبی کو کلمہ نہیں ملا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کلمہ میں اقرار کی رسالت کو اقرار توحید کے ساتھ ملا دیا گیا ہے اور اقرار تو حید ایک دائمی صداقت ہے وہ کبھی مٹ نہیں سکتی.چونکہ پہلے نبیوں کی نبوت کے زمانہ نے کسی نہ کسی وقت ختم ہو جانا تھا اس لئے خدا تعالیٰ نے ان میں سے کسی نبی کے نام کو اپنے نام کے ساتھ ملا کر نہیں بیان کیا لیکن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت نے چونکہ قیامت تک چلتے چلے جانا تھا اور آپ کا زمانہ کبھی ختم نہیں ہونا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی رسالت اور آپ کے نام کو کلمہ تو حید کے ساتھ ملا کر بیان کیا تا دنیا کو یہ بتادے کہ جس طرح لا اله الا اللہ کبھی نہیں مٹے گا اسی طرح مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله بھی کی کبھی نہیں مٹے گا.تعجب ہے کہ یہودی نہیں کہتا کہ موسیٰ علیہ السلام کا کوئی کلمہ تھا.عیسائی نہیں کہتا کہ عیسی علیہ السلام کا کوئی کلمہ تھا.صابی نہیں کہتا کہ ابراہیم علیہ السلام کا کوئی کلمہ تھا.لیکن مسلمان جس کے نبی کی کلمہ خصوصیت تھا ، جس کے نبی کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ سے ممتاز کیا تھا ، جس کو کلمہ کے ذریعہ سے دوسری قوموں پر فضیلت دی گئی وہ بڑی فراخدلی سے اپنے نبی کی اس فضیلت کو دوسرے نبیوں میں بانٹنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور جبکہ اور نبیوں کی اپنی اُمتیں کسی کلمہ کی دعویدار نہیں یہ ان کی طرف سے کلے بنا کر آپ پیش کر دیتا ہے کہ یہودیوں کا یہ کلمہ تھا اور

Page 577

انوار العلوم جلد ۲۰ احمدیت کا پیغام ابراہیمیوں کا یہ کلمہ تھا اور عیسائیوں کا یہ کلمہ تھا.خلاصہ کلام یہ کہ ہر مذہب کے لئے کلمہ کا ہونا ضروری نہیں.اگر ضروری ہوتا تب بھی احمدیت کا کوئی نیا کلمہ نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ احمدیت کوئی نیا مذہب نہیں.احمدیت صرف اسلام کا نام ہے.احمدیت اُسی کلمہ پر ایمان رکھتی ہے جس کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا یعنی لا الهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ - احمدیوں کے نز دیک اس مادی جہان کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے جو وحدہ لاشریک ہے جس کی قوتوں اور طاقتوں کی کوئی انتہاء کی نہیں.جو رب ہے ، رحمن ہے ، رحیم ہے، ملک یومِ الدِّينِ " ہے.اس کے اندر وہ تمام صفات پائی جاتی ہیں جو قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں اور وہ ان تمام باتوں سے منزہ ہے جن باتوں سے قرآن کریم نے اسے منزہ قرار دیا ہے اور احمدیوں کے نزدیک محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب قرشی کی صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے رسول تھے اور سب سے آخری شریعت آپ پر نازل ہوئی.آپ عجمی اور عربی گورے اور کالے، تمام اقوام اور تمام نسلوں کی طرف مبعوث کی ہوئے.آپ کا زمانہ نبوت ادعائے نبوت سے لے کر اُس وقت تک ممتد ہے جب تک کہ دنیا کی کے پردہ پر کوئی متنفس زندہ ہے.آپ کی تعلیم ہر انسان کے لئے واجب العمل ہے اور کوئی تی انسان ایسا نہیں جس پر حجت تمام ہوگئی ہو اور وہ آپ پر ایمان نہ لایا ہو اور وہ خدائی عذاب کا مستحق نہ ہو.ہر ایک شخص جس تک آپ کا نام پہنچا اور جس کے سامنے آپ کی صداقت کے دلائل بیان کئے گئے وہ مکلف ہے آپ پر ایمان لانے کے لئے اور بغیر آپ پر ایمان لائے وہ نجات کا حق دار نہیں اور کچی پاکیزگی محض آپ ہی کے نقش قدم پر چل کی حاصل ہوسکتی ہے.احمدیوں کے متعلق بعض شکوک کا ازالہ مذکورہ بالا ناواقف گروہ میں سے بعض لوگ یہ ختم نبوت کے متعلق احمد یوں کا عقیدہ خیال بھی کرتے ہیں کہ احمدی ختم نبوت کے قائل نہیں اور رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین نہیں مانتے یہ محض دھو کے اور ناواقفیت کا نتیجہ ہے.جب احمدی اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور کلمہ شہادت پر یقین رکھتے ہیں تو یہ کیونکر ہوسکتا

Page 578

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۶ احمدیت کا پیغام ہے کہ وہ ختم نبوت کے منکر ہوں اور رسول کریم ﷺ کو خاتم النبین نہ مانیں.قرآن کریم میں صاف طور پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا كَانَ مُحَمَّدُ أبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ ولكِن رَّسُول الله و خاتم النبين المحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی جوان مرد کے باپ نہ ہیں نہ آئندہ ہوں گے لیکن اللہ تعالیٰ کے رسول اور خاتم النبین ہیں.قرآن کریم کی پر ایمان رکھنے والا آدمی اس آیت کا انکار کس طرح کر سکتا ہے.پس احمدیوں کا ہرگز یہ عقیدہ نہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نَعُوذُ بِالله خاتم النبین نہیں تھے.جو کچھ احمدی کہتے ہیں وہ ج صرف یہ ہے کہ خاتم النبین کے وہ معنی جو اس وقت مسلمانوں میں رائج ہیں نہ تو قرآن کریم کی تی مذکورہ بالا آیت پر چسپاں ہوتے ہیں اور نہ ان سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور کی شان اس طرح ظاہر ہوتی ہے جس عزت اور شان کی طرف اس آیت میں اشارہ کیا گیا ہے اور احمدی جماعت خاتم النبین کے وہ معنی کرتی ہے جو عربی لغت میں عام طور پر متداول گے ہیں اور جن معنوں کی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے صحابہ تائید کرتے ہیں اور جن سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اور آپ کی منزلت بہت بڑھ جاتی ہے اور تمام بنی نوع انسان پر آپ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے پس احمدی ختم نبوت کے منکر نہیں بلکہ ختم نبوت کے ان معنوں کے منکر ہیں جو عام مسلمانوں میں موجودہ زمانہ میں غلطی سے رائج کی ہو گئے ہیں اور نہ ختم نبوت کا انکار تو کفر ہے اور احمدی خدا کے فضل سے مسلمان ہیں اور اسلام پر چلنا ہی نجات کا واحد ذریعہ سمجھتے ہیں.ان ہی ناواقف لوگوں میں سے بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ احمدی قرآن شریف پر پورا ایمان نہیں رکھتے بلکہ صرف چند سیپاروں کو مانتے ہیں.چنانچہ مجھے حال ہی میں کوئٹہ میں درجنوں آدمیوں نے مل کر بتایا کہ ہمیں علماء نے بتایا ہے کہ احمدی سارے قرآن کو نہیں مانتے یہ بھی ایک اتہام ہے جو احمدیت کے دشمنوں نے احمدیت پر لگایا ہے.احمدیت قرآن کریم کو ایک نہ تبدیل ہونے والی اور نہ منسوخ ہونے والی کتاب قرار دیتی ہے.احمدیت بسم اللہ کی ب سے لے کر وَالنَّاسِ کی س تک ہر ایک حرف اور ہر ایک لفظ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سمجھتی اور قابل عمل تسلیم کرتی ہے.

Page 579

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۷ احمدیت کا پیغام احمدیوں کا فرشتوں کے متعلق عقیدہ انہی ناواقف لوگوں میں سے بعض لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی فرشتوں اور شیطان کے قائل نہیں یہ الزام بھی محض اتہام ہے.فرشتوں کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے اور شیطان کا ذکر بھی قرآن کریم میں موجود ہے جن چیزوں کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے قرآن کریم پر ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے ان چیزوں کا انکا ر احمدیت کر ہی کس طرح سکتی ہے.ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے فرشتوں پر پورا ایمان رکھتے ہیں بلکہ احمدیت سے جو برکات ہمیں حاصل ہوئی ہیں ان کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ ہم فرشتوں پر ایمان لاتے ہیں بلکہ ہم یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ فرشتوں کے ساتھ قرآن کریم کی مدد سے تعلق بھی پیدا کیا جا سکتا ہے اور ان سے علوم روحانیہ بھی سیکھے جا سکتے ہیں.خود راقم الحروف نے کئی علوم فرشتوں سے سیکھے.مجھے ایک دفعہ ایک فرشتہ نے سورہ فاتحہ کی تفسیر پڑھائی اور اُس وقت سے لے کر اس وقت تک سورہ فاتحہ کے اس قدر مطالب مجھ پر کھلے ہیں کہ ان کی حد ہی کوئی نہیں اور میرا دعویٰ ہے کہ کسی مذہب وملت کا آدمی روحانی علوم میں سے کسی مضمون کے متعلق بھی جو کچھ اپنی ساری کتاب میں سے نکال سکتا ہے اُس سے بڑھ کر مضامین خدا تعالیٰ کے فضل سے میں صرف سورہ فاتحہ میں سے نکال سکتا ہوں.مدتوں سے میں دنیا کو یہ چیلنج دے رہا ہوں مگر آج تک کسی نے اس چیلنج کو قبول نہیں کیا.ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت، توحید الہی کا ثبوت، رسالت اور اس کی ضرورت ،شریعت کا ملہ کی علامات اور بنی نوع انسان کے لئے اس کی ضرورت، دعا، تقدیر ، حشر و نشر، جنت و دوزخ ، ان تمام مضامین پر سوره فاتحہ سے ایسی روشنی پڑتی ہے کہ دوسری کتب کے سینکڑوں صفحات بھی اتنی روشنی انسان کو نہیں پہنچاتے.پس فرشتوں کے انکار کا تو کوئی سوال ہی نہیں احمدی تو فرشتوں سے فائدہ اُٹھانے کا بھی مدعی ہے.باقی رہا شیطان ، سوشیطان تو ایک گندی چیز ہے اس پر ایمان لانے کا سوال ہی کوئی نہیں.ہاں اس کے وجود کا علم ہمیں قرآن کریم سے حاصل ہوتا ہے اور ہم اس کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے ذمہ یہ کام لگایا ہے کہ ہم شیطان کی طاقت کو توڑیں اور اس کی حکومت کو مٹائیں.شیطان کو بھی میں

Page 580

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۸ احمدیت کا پیغام نے خواب میں دیکھا ہے اور ایک دفعہ تو میں نے اس سے کشتی بھی کی ہے اور خدا تعالیٰ کی.سے اور کلمات تعوذ کی برکت سے اس کو شکست بھی دی ہے اور ایک دفعہ اللہ تعالیٰ نے مجھے بتایا کہ جس کام کے لئے تم مقرر کئے جاؤ گے اس کے رستہ میں شیطان اور اس کی اولاد بہت سی روکیں ڈالے گی تم اس کی روکوں کی پرواہ نہ کرنا اور یہ فقرہ کہتے ہوئے بڑھتے چلے جانا کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ تب میں اُس جہت کو چلا جس جہت کی طرف جانے کا خدا تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا تھا اور میں نے دیکھا کہ شیطان اور اُس کی اولا د مختلف طریق سے مجھے دھمکانے اور ڈرانے کی کوشش کرنے لگی.بعض جگہ پر صرف سر ہی سرسامنے آ جاتے تھے اور مجھے ی ڈرانے کی کوشش کرتے تھے.بعض جگہ خالی دھڑ آجاتے تھے.بعض جگہ شیطان شیروں اور کی چیتوں کی شکل بدل کر یا ہاتھیوں کی شکل بدل کر آتا تھا مگر الہی حکم کے ماتحت میں نے اس کی طرف کوئی توجہ نہ کی اور یہی کہتے ہوئے بڑھتا چلا گیا کہ ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ “ جب کبھی میں یہ فقرہ پڑھتا تھا شیطان اور اس کی اولاد بھاگ جاتی تھی اور میدان صاف ہو جاتا تھا مگر تھوڑی دیر کے بعد وہ پھر ایک نئی شکل اور نئی صورت میں میرے سامنے آتا تھا مگر اس دفعہ بھی یہی حربہ اس کے مٹانے میں کامیاب ہو جاتا تھا.حتی کہ منزل مقصود آ گئی اور شیطان کلّی طور پر میدان چھوڑ کر بھاگ گیا.اسی رؤیا کی بناء پر میں اپنی تمام اہم تحریروں پر سر نامہ سے اوپر ” خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ“ کا فقرہ لکھا کرتا ہوں.پس ہم ملائکہ پر ایمان رکھتے ہیں اور شیطان کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ احمدی لوگ معجزات کے منکر ہیں یہ بھی واقعات کے خلاف ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات تو الگ رہے ، ہم تو اس بات کے بھی قائل ہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے اتباع کو بھی اللہ تعالیٰ معجزات عطا فرماتا ہے.قرآن کریم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات سے بھرا ہوا ہے اور ان کا انکار صرف ایک از لی اور ابدی اندھا ہی کرسکتا ہے.

Page 581

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۶۹ احمدیت کا پیغام بعض لوگ احمدیت کے متعلق اس غلط فہمی نجات کے متعلق احمدیوں کا عقیدہ میں چنگا ہیں کہ احمد یہ عقیدہ کی رو سے مبتلا احمدیوں کے سوا باقی تمام لوگ جہنمی ہیں.یہ بھی محض ناواقفیت یا دشمنی کا نتیجہ ہے.ہمارا ہر گز یہ عقیدہ نہیں کہ احمدیوں کے سوا باقی تمام لوگ جہنمی ہیں.ہمارے نزدیک یہ ہوسکتا ہے کہ کوئی احمدی ہو لیکن وہ جہنمی ہو جائے جس طرح یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی احمدی نہ ہو اور وہ جنت میں چلا جائے کیونکہ جنت صرف منہ کے اقرار کا نتیجہ نہیں جنت بہت سی ذمہ واریوں کو پورا کرنے کے نتیجہ میں ملتی ہے.اسی طرح دوزخ صرف منہ کے انکار کا نتیجہ نہیں بلکہ دوزخ کا شکار بننے کے لئے بہت سی شرطیں ہیں.کوئی انسان دوزخ میں نہیں جاسکتا جب تک اس پر حجت تمام نہ ہو.خواہ وہ بڑی سے بڑی صداقت ہی کا منکر کیوں نہ ہو.خود رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بچپن میں مرجانے والے یا بلند پہاڑوں میں رہنے والے یا جنگلوں میں رہنے والے یا اتنے بڑھے جن کی سمجھ ماری گئی ہو یا پاگل جو عقل سے کورے ہوں ان لوگوں سے مواخذہ نہیں ہوگا بلکہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن ان لوگوں کی طرف دوبارہ نبی مبعوث فرمائے گا اور ان کو سچ اور جھوٹ کو پہنچانے کا موقع دیا جائے گا.تب جس پر حجت تمام ہوگی وہ دوزخ میں جائے گا اور جو ہدایت کو قبول کرے گا وہ جنت میں جائے گا.پس یہ غلط ہے کہ احمدیوں کے نزدیک ہر وہ شخص جو احمدیت میں داخل نہیں ہوتا دوزخی ہے.نجات کے متعلق ہمارا یہ عقیدہ ہے کی کہ ہر وہ شخص جو صداقت کے سمجھنے سے گریز کرتا ہے اور یہ کوشش کرتا ہے کہ صداقت اس کے کان میں نہ پڑے تا کہ اسے ماننی نہ پڑے یا جس پر حجت تمام ہو جائے مگر پھر بھی ایمان نہ لائے خدا تعالیٰ کے نزدیک قابل مواخذہ ہے.لیکن ایسے شخص کو بھی اگر خدا تعالیٰ چاہے تو معاف کر سکتا ہے.اس کی رحمت کی تقسیم ہمارے ہاتھ میں نہیں.ایک غلام اپنے آقا کوسخاوت سے باز نہیں رکھ سکتا.خدا تعالیٰ ہمارا آتا ہے اور ہمارا بادشاہ ہے اور ہمارا خالق ہے اور ہمارا مالک کی ہے.اگر اس کی حکمت اور اس کا علم اور اس کی رحمت کسی ایسے شخص کو بھی بخشنا چا ہے جس کی عام حالات کے مطابق بخشش ناممکن نظر آتی ہو تو ہم کون ہیں جو اس کے ہاتھ کو روکیں اور ہم کون ہیں جو اس کو بخشش سے باز رکھیں.

Page 582

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۰ احمدیت کا پیغام نجات کے متعلق تو احمدیت کا عقیدہ اتنا وسیع ہے کہ اس کی وجہ سے بعض کی مولویوں نے احمدیوں پر کفر کا فتوی لگایا ہے یعنی ہم لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ کوئی نسان بھی دائمی عذاب میں مبتلا نہیں ہو گا ، نہ مؤمن نہ کا فر.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَرَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلّ شَيء ٥ میری رحمت نے ہر چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے اور پھر فرماتا ہے کہ فاتُه هَادِيَةٌ کافر اور دوزخ کی آپس کی نسبت ایسی ہوگی جیسے عورت اور اس کے بچہ کی ہوتی ہے اور پھر فرماتا ہے کہ ومَا خَلَقْتُ الْجِنّ والانس الا لِيَعْبُدُونِ کے تمام جن و انس کو میں نے اپنا کی عبد بنانے کے لئے پیدا کیا ہے.ان اور ایسی ہی اور بہت سی آیات کے ہوتے ہوئے ہم کیونکر مان سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت آخر دوزخیوں کو نہیں ڈھانپ لے گی اور دوزخی جہنم کے رحم سے کبھی بھی خارج نہ ہو گا اور وہ بندے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنا عبد بنانے کے لئے پیدا کیا تھا وہ دائمی طور پر شیطان کے عبد رہیں گے اور خدا تعالیٰ کے عبد نہیں بنیں گے اور خدا تعالیٰ کی محبت بھری آواز کبھی بھی ان کو مخاطب کر کے یہ نہیں کہے گی کہ فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي آؤ میرے بندوں میں داخل ہو کر میری جنت میں داخل ہو جاؤ ! بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہیں کہ احمدی حدیثوں کو نہیں احمد یوں کا احادیث پر ایمان مانتے اور بعض لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ احمدی ائمہ فقہاء کو نہیں مانتے.یہ دونوں باتیں غلط ہیں.احمدیت تقلید و عدم تقلید کے مسئلہ میں بین بین راہ اختیار کرتی ہے.احمدیت کی تعلیم یہ ہے کہ جو بات محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو اس کے بعد کسی اور انسان کی آواز کوسننا محمد رسول اللہ کی ہتک ہے.آقا کے ہوتے ہوئے کسی غلام کی آواز نہیں سنی جاسکتی.اُستاد کی موجودگی میں کسی شاگرد سے سبق نہیں لیا جا سکتا.ائمہ فقہاء خواہ کتنے بڑے ہوں ، بہر حال محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شاگرد اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ہیں.ان کی تمام عزت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں تھی اور ان کی تمام شان محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں تھی.پس جب کوئی بات رسول کریم

Page 583

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۱ احمدیت کا پیغام صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہو جائے اور اس کی علامت یہ ہے کہ وہ جو قول رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا جائے قرآن کریم کے مطابق ہو تو وہ بات ایک آخری فیصلہ ہے ایک نہ ٹلنے والا حکم ہے اور کوئی شخص اس بات کا حق نہیں رکھتا کہ وہ اس حکم کو رڈ کر دے یا اس کے خلاف زبان کھولے لیکن چونکہ حدیث کے راوی انسان ہیں اور ان میں نیک بھی ہیں اور بد بھی ہیں اور اچھے حافظوں والے بھی ہیں اور بُرے حافظوں والے بھی ہیں اور اچھے ذہن والے بھی ہیں اور کند ذہن بھی ہیں.اگر کوئی ایسی حدیث ہو جس کا مفہوم قرآن کریم کے خلاف ہو تو چونکہ ہر ایک حدیث قطعی نہیں بلکہ خود ائمہ حدیث کے مسلمات کے مطابق بعض حدیثیں قطعی ہیں ، بعض عام درجہ کی ہیں، بعض مشکوک اور ظنی ہیں اور بعض وضعی ہیں اس لئے کی قرآن کریم جیسی قطعی کتاب کے مقابلہ میں جو حدیث آجائے گی اس کو تسلیم نہیں کیا جائے گا.مگر جہاں قرآن کریم کی بھی کوئی نص صریح موجود نہ ہو اور حدیث بھی ایسے ذرائع سے ثابت نہ ہو جو یقین اور قطعیت تک پہنچاتے ہوں یا حدیث کے الفاظ ایسے ہوں کہ ان سے کئی معنی نکل سکتے ہوں تو اُس وقت یقیناً ائمہ فقہاء جنہوں نے اپنی عمریں قرآن کریم پر اور احادیث پر غور کی اور تدبر کرنے میں صرف کر دی ہیں اجتہاد کرنے کے مستحق ہیں اور ایک عامی آدمی جس نے نہ قرآن پر غور کیا ہے نہ حدیث پر غور کیا ہے یا جس کا علم اور تفقہ اس قابل ہی نہیں ہے کہ وہ غور کر سکے اس کا حق نہیں کہ وہ یہ کہے کہ امام ابو حنیفہ یا امام احمد یا امام شافعی یا امام مالک یا دوسرے ائمہ دین کو کیا حق ہے کہ ان کی بات کو مجھ سے زیادہ وزن دیا جائے.میں بھی مسلمان ہوں اور وہ بھی مسلمان.اگر ایک عامی آدمی اور ایک ڈاکٹر کا مرض کے متعلق اختلاف ہو تو ایک ڈاکٹر کی رائے کو عامی کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے اور قانون میں اختلاف ہو تو ایک وکیل کی رائے کو غیر وکیل کی رائے پر ترجیح دی جاتی ہے.پھر کیا وجہ ہے کہ دینی معاملات میں ان ائمہ کی رائے کو ترجیح نہ دی جائے جنہوں نے اپنی عمریں قرآن کریم اور حدیث پر تدبر کرنے میں صرف کر دی ہوں اور جن کے ذہنی قومی بھی دوسرے لاکھوں آدمیوں سے اچھے ہوں اور جن کے تقوی اور جن کی طہارت پر خدائی سلوک نے مہر لگا دی ہو.غرض احمدیت نہ کلی طور پر اہل حدیث کی بات کی تائید کرتی ہے نہ کلی طور پر مقلدین کی

Page 584

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۲ احمدیت کا پیغام تائید کرتی ہے.احمدیت کا سیدھا سادہ عقیدہ اس بارہ میں وہی ہے جو حضرت امام ابو حنیفہ کا تھا کی کہ قرآن کریم سب سے مقدم ہے اِس سے اُتر کر احادیث صحیحہ ہیں اور اس سے اتر کر ماہرین فن کا استدلال اور اجتہاد ہے.اسی عقیدہ کے مطابق احمدی بعض دفعہ اپنے آپ کو حنفی بھی کہتے ہیں جس کے معنی یہ بھی ہوتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے جو اصل مذہب کا بیان فرمایا ہے ہم اس کو صحیح کرتے ہیں اور بعض دفعہ احمدی اپنے آپ کو اہل حدیث بھی کہہ دیتے ہیں کیونکہ احمدیت کے نزدیک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول جب وہ ثابت اور روشن ہو تمام بنی نوع انسان کے اقوال پر فوقیت رکھتا ہے، حتی کہ تمام ائمہ کے مجموعی اقوال پر بھی فوقیت رکھتا ہے.ان غلط فہمیوں میں سے جو نا واقفوں کو جماعت احمدیہ کے متعلق ہیں ایک غلط منہی یہ بھی ہے کہ احمدی لوگ احمدیوں کا تقدیر کے متعلق عقیدہ تقدیر کے منکر ہیں.احمدی لوگ تقدیر کے ہرگز منکر نہیں.ہم لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تقدیر اس دنیا میں جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گی اور اس کی تقدیر کو کوئی بدل نہیں سکتا ہم صرف اس بات کے خلاف ہیں کہ چور کی چوری، بے نماز کے ترک نماز ، جھوٹے کے جھوٹ ، دھو کے باز کے دھو کے، قاتل کے قتل اور بد کار کی بدکاری کو خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جائے اور اپنے منہ کی سیاہی خدا تعالیٰ کے منہ پر ملنے کی کوشش کی جائے.ہمارے نزدیک اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں تقدیر اور تدبیر کی دونہریں ایک وقت میں چلائی ہیں اور بَيْنَهُما بَرْزَخٌ لا تبغين 2 کے ارشاد کے مطابق ان کے درمیان ایک ایسی حد فاصل مقرر کر دی ہے کہ یہ کبھی آپس میں ٹکراتی نہیں.تدبیر کا میدان اپنی جگہ پر ہے اور تقدیر کا میدان اپنی جگہ پر ہے.جن امور کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی تقدیر کو لازم قرار دیا ہے ان میں تدبیر کچھ نہیں کر سکتی اور جن امور کے لئے اُس نے تدبیر کا رستہ کھولا ہے ان میں تقدیر پر امید لگا کر بیٹھے کی رہنا اپنے مستقبل کو خود تباہ کرنا ہے.پس ہم جس بات کے مخالف ہیں وہ یہ ہے کہ انسان اپنی ج بداعمالیوں کو تقدیر کے پردہ میں چھپانے کی کوشش کرے اور اپنی سستیوں اور غفلتوں کا جواز تقدیر کے لفظ سے نکالے اور جہاں خدا تعالیٰ نے تدبیر کا حکم دیا ہے وہاں تقدیر پر آس لگائے کی بیٹھا ر ہے کیونکہ اسکا نتیجہ ہمیشہ خطر ناک نکلتا ہے.مسلمان خدائی تقدیر پر نظر رکھ کر بیٹھے رہے اور

Page 585

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۳ احمدیت کا پیغام اس جد و جہد کو انہوں نے ترک کر دیا جو قومی ترقی کے لئے ضروری ہوتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ دین سے تو گئے تھے ، دنیا سے بھی گزر گئے.اگر وہ اس امر کو مدنظر رکھتے کہ جن کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے تدبیر کا دروازہ کھولا ہے ان میں تقدیر کو مدنظر رکھنے کی بجائے تدبیر کو مدنظر رکھنا چاہئے تو ان کی حالت اتنی نہ گرتی اور وہ اتنے زبوں حال نہ ہوتے جتنے کہ اب ہیں.احمدیت کے متعلق جو غلط فہمیاں ہیں ان میں سے ایک احمدیوں کا جہاد کے متعلق عقیدہ یہ بھی ہے کہ احمدی جہاد کے منکر ہیں.یہ درست نہیں ، احمدی جہاد کے منکر نہیں.احمدیوں کا عقیدہ صرف یہ ہے کہ جنگیں دو قسم کی ہوتی ہیں ایک جہاد اور ایک محض جنگ.جہاد صرف اُس جنگ کو کہتے ہیں جس میں مذہب کے بچانے کے لئے لڑائی کی کی جائے اور ایسے دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے جو مذہب کو تلوار کے زور سے مٹانا چاہتے ہیں اور جو مسنجر کی نوک سے عقیدہ تبدیل کروانا چاہتے ہیں.اگر دنیا میں ایسے واقعات ظاہر ہوں تو جہاد ہر مسلمان پر فرض ہو جاتا ہے مگر ایسے جہاد کے لئے ایک یہ بھی شرط ہے کہ اس جہاد کا اعلان امام کی طرف سے ہونا چاہئے تا مسلمانوں کو معلوم ہو سکے کہ ان میں سے کن کن کو جہاد میں شامل ہونا چاہئے اور کن کن کو اپنی باری کا انتظار کرنا چاہئے.اگر ایسا نہ ہو تو ایسے جہاد کے موقع کے آنے پر جو مسلمان بھی جہاد میں شامل نہ ہوگا وہ گنہگار ہو گا لیکن اگر امام ہو تو وہی مسلمان گناہگار ہوگا جس کو جہاد کے لئے بلایا جائے اور وہ نہ آئے.جب احمدی جماعت کسی ملک میں جہاد کا انکار کرتی تھی تو اس لئے کرتی تھی کہ مذہب کو بزور شمشیر بدلوانے کی کوشش انگریز نہیں کر رہے تھے.اگر احمدی جماعت کا یہ خیال غلط تھا اور واقعہ میں انگریز شمشیر سے مذہب کو بدلوانے کی کی کوشش کر رہے تھے تو پھر یقیناً جہاد واجب تھا مگر سوال یہ ہے کہ کیا جہاد کے واجب ہو جانے کے بعد ہر مسلمان نے تلوار اُٹھا کر انگریز کا مقابلہ کیا ؟ اگر نہیں کیا تو احمدی تو خدا تعالیٰ کو یہ جواب دیں گے کہ ہمارے نزدیک ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا تھا اگر ہم نے غلطی کی تو ہماری غلطی اجتہادی تھی لیکن ان کے مخالف مولوی کیا جواب دیں گے.کیا وہ یہ کہیں گے کہ اے خدا! جہاد کا وقت تو تھا اور ہم یقین رکھتے تھے کہ یہ جہاد کا وقت ہے اور ہم سمجھتے تھے کہ جہاد فرض ہو گیا ہے لیکن اے ہمارے خدا! ہم نے جہاد نہیں کیا کیونکہ ہمارے دل ڈرتے تھے اور نہ ہم نے ان لوگوں کو جہاد

Page 586

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۴ احمدیت کا پیغام کے لئے آگے بھجوایا جن کے دل نہیں ڈرتے تھے ، کیونکہ ہم ڈرتے تھے کہ ایسا کرنے سے بھی انگریز ہم کو پکڑ لیں گے.میں یہ فیصلہ منصف مزاج لوگوں پر ہی چھوڑتا ہوں کہ ان دونوں جوابوں میں سے کونسا جواب خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ قابل قبول ہے؟ اب تک تو جو کچھ میں نے کہا وہ ان لوگوں کے وساوس کو دور کرنے کے لئے کہا ہے جواحمدیت کا سرسری مطالعہ بھی نہیں رکھتے اور جو احمدیت کے پیغام کے اس کے دشمنوں سے سنتے یا بغیر احمدیت کا مطالعہ کرنے کے اپنے دلوں سے احمدیت کے عقائد اور احمدیت کی تعلیم بنانا چاہتے ہیں.اب میں ان لوگوں کو مخاطب کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے احمدیت کا ایک حد تک مطالعہ کیا ہے اور جو جانتے ہیں کہ احمدی خدا تعالیٰ کی توحید پر یقین رکھتے ہیں.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر بھی یقین رکھتے ہیں.قرآن کریم کو بھی مانتے ہیں.حدیث کو بھی مانتے ہیں.نمازیں بھی پڑھتے ہیں.روزے بھی رکھتے ہیں.حج بھی کرتے ہیں.زکوۃ بھی دیتے ہیں.حشر و نشر اور جزاء وسزا پر بھی ایمان رکھتے ہیں.لیکن وہ حیران ہیں کہ جب احمدی دوسرے مسلمانوں کی طرح ہیں تو پھر اس نئے فرقہ کو قائم کرنے کی ضرورت کیا ہے؟ ان کے نزدیک احمدیوں کا عقیدہ اور احمدیوں کا عمل قابل اعتراض نہیں لیکن ان کے نزدیک ایک نئی کی جماعت بنانا قابل اعتراض امر ہے.کیونکہ جب فرق کوئی نہیں تو افتراق کرنے کی وجہ کیا ہوئی اور جب اختلاف نہیں تو دوسری مسجد بنانے کا مقصد کیا ہوا ؟ نئی جماعت بنانے کی وجہ اس سوال کا جواب دو طرح دیا جا سکتا ہے.عقلی طور پر اور روحانی طور پر.عقلی طور پر اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جماعت صرف تعداد کا نام نہیں.ہزار ، لاکھ یا کروڑ افراد کو جماعت نہیں کہتے بلکہ جماعت ان افراد کے مجموعہ کو کہتے ہیں جو متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہوں اور ایک متحدہ پروگرام کے مطابق کام کر رہے ہوں.ایسے افراد اگر پانچ سات بھی ہوں تو جماعت ہے اور جن میں یہ بات نہ ہو وہ کروڑوں بھی جماعت نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب مکہ میں نبوت کا دعوی کیا تو پہلے دن آپ پر صرف چار آدمی ایمان لائے تھے آپ پانچویں تھے.باوجود پانچ ونے کے آپ ایک جماعت تھے مگر مکہ کی آٹھ دس ہزار کی آبادی جماعت نہیں تھی نہ عرب کی ہو

Page 587

انوار العلوم جلد ۲۰ احمدیت کا پیغام آبادی جماعت تھی.کیونکہ نہ انہوں نے متحد ہو کر کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور نہ ان کا کوئی متحدہ پروگرام تھا.پس اس قسم کا سوال کرنے سے پہلے یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس وقت مسلمان کوئی قسم جماعت ہیں؟ کیا دنیا کے مسلمان تمام معاملات میں آپس میں مل کر کام کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں یا ان کا کوئی متحدہ پروگرام ہے؟ جہاں تک ہمدردی کا سوال ہے میں مانتا ہوں کہ مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے متعلق ہمدردی ہے مگر وہ بھی سارے مسلمانوں میں نہیں.کچھ کے دلوں میں ہے اور کچھ کے دلوں میں نہیں اور پھر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کے ذریعہ سے اختلاف کو مٹایا جا سکے.اختلاف تو جماعت میں بھی ہوتا ہے بلکہ نبیوں کے وقت کی جماعت میں ہے بھی ہوتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی بعض دفعہ انصار اور مہاجرین کا اختلاف ہو گیا اور بعض دفعہ بعض دوسرے قبائل میں اختلاف ہو گیا لیکن جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا تو اُس وقت سب اختلاف مٹ گیا.اسی طرح خلافت کے ایام میں بھی اختلاف پیدا ہو جاتا تھا لیکن جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا خلفاء فیصلہ کرتے اور وہ اختلاف مٹ جاتا.خلافت کے ختم ہونے کے بعد بھی کوئی ۷۰ سال مسلمان ایک حکومت کے نیچے جہاں جہاں بھی مسلمان تھے وہ ایک نظام کے تابع تھے.وہ نظام بُرا تھا یا اچھا تھا بہر حال اس نے مسلمانوں کو ایک رشتہ سے باندھ رکھا تھا.اس کے بعد اختلاف ہوا اور مسلمان دو گروہوں میں تقسیم ہو گئے.سپین کا ایک حلقہ بن گیا اور باقی دنیا کا ایک حلقہ بن گیا.یہ اختلاف تو تھا مگر بہت ہی محدود اختلاف تھا.دنیا کے مسلمانوں کا بیشتر حصہ پھر بھی ایک نظام کے نیچے چل رہا تھا.مگر تین سو سال گذرنے کے بعد یہ انتظام ایسا ٹوٹا کہ تمام مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہو گیا اور ان میں تشتت اور پراگندگی پیدا ہو گئی.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا که خَيْرُ الْقُرُون قَرُنِى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ يَفْشُوُا الْكَذِبُ اسب سے اچھی صدی میری ہے ان سے اُتر کر وہ لوگ ہوں گے جو دوسری صدی میں ہوں گے اور ان سے اُتر کر وہ لوگ ہوں گے جو تیسری صدی میں ہوں گے.پھر دنیا میں سے سچائی مٹ جائے گی اور ظلم و تشدد اور اختلاف کا دور دورہ ہو جائے گا اور ایسا ہی ہوا اور پھر یہ اختلاف بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ گذشتہ تین صدیوں میں تو مسلمان اپنی طاقت بالکل ہی کھو بیٹھے.کجاوہ وقت تھا کہ

Page 588

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۶ احمدیت کا پیغام یورپ ایک ایک مسلمان بادشاہ سے ڈرتا تھا اور اب یورپ اور امریکہ کی ایک ایک طاقت کا مقابلہ کرنے کی سکت سارے عالم اسلام میں بھی نہیں.یہودیوں کی کتنی چھوٹی سی حکومت فلسطین میں بنی ہے.شام، عراق، لبنان، سعودی عرب، مصر اور فلسطین کی فوجیں اس کا مقابلہ کر رہی ہیں.لیکن حقیقت یہ ہے کہ یو.این.اونے جو علاقہ یہودیوں کو دیا تھا اُس سے بہت زیادہ اس وقت یہودیوں کے قبضہ میں ہے.یہ درست ہے کہ یہودی حکومت کی مددا مریکہ اور انگلستان کر رہے ہیں لیکن سوال بھی تو یہی ہے کہ کبھی تو مسلمانوں کی ایک ایک حکومت سارے مغرب پر غالب تھی اور اب مغرب کی بعض حکومتیں سارے مسلمانوں سے زیادہ طاقتور ہیں.پس جماعت کا جو مفہوم ہے اس وقت اس کے مطابق مسلمانوں کی کوئی جماعت نہیں.حکومتیں ہیں جن میں سے سب سے بڑی پاکستان کی حکومت ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب قائم ہوئی ہے.لیکن اسلام پاکستان کا نام نہیں.نہ اسلام مصر کا نام ہے.نہ اسلام شام کا نام ہے.نہ اسلام ایران کا نام ہے.نہ اسلام افغانستان کا نام ہے.نہ اسلام سعودی عرب کا نام ہے.اسلام تو اُس رشتہ کو حدت کا نام ہے جس نے سارے مسلمانوں کو یکجا کر دیا تھا اور ایسا کوئی انتظام اس وقت دنیا میں موجود نہیں.پاکستان کو افغانستان سے ہمدردی ہے افغانستان کو پاکستان سے ہمدردی ہے لیکن نہ پاکستان افغانستان کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہے نہ افغانستان پاکستان کی ہر بات ماننے کے لئے تیار ہے.دونوں کی سیاست الگ الگ ہے اور دونوں اپنے اندرونی معاملات میں آزاد ہیں.یہی حال افراد کا ہے افغانستان کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں.پاکستان کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں.مصر کے باشندے اپنی جگہ پر آزاد ہیں.ان کو ایک لڑی میں پرونے والی کوئی چیز نہیں.پس اس وقت مسلمان بھی ہیں، مسلمانوں کی حکومتیں بھی ہیں اور ان میں سے بعض حکومتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے مضبوط ہو رہی ہیں لیکن پھر بھی مسلمان ایک جماعت نہیں.فرض کرو پاکستان کا بیڑہ اتنا مضبوط ہو جائے کہ تمام بحر الہند میں حکومت کرنے لگ جائے.اس کی فوج اتنی مضبوط ہو جائے کہ ہندوستان یونین اس سے کانپنے لگ جائے.اس کی اقتصادی حالت اتنی بڑھ جائے کہ دنیا کی منڈیوں پر اس کا قبضہ ہو جائے بلکہ اس کی طاقت اتنی بڑھ جائے کہ امریکہ کی طاقت سے بھی

Page 589

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۷ احمدیت کا پیغام بڑھ جائے تو کیا ایران، شام، فلسطین اور مصر اپنے آپ کو پاکستان میں مدغم کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے؟ ظاہر ہے کہ نہیں.وہ پاکستان کی عظمت کا اقرار کرنے کے لئے تیار ہوں گے، وہ اس سے ہمدردی کرنے کے لئے تیار ہوں گے مگر وہ اپنی ہستی کو اس میں مٹا دینے کے لئے تیار نہیں ہوں گے.پس گوخدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کی سیاسی حالت بہتر ہو رہی ہے اور بعض نئی اسلامی حکومتیں قائم ہو رہی ہیں لیکن باوجود اس کے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک اسلامی جماعت نہیں کہہ سکتے.کیونکہ وہ مختلف سیاستوں میں بٹے ہوئے ہیں اور الگ الگ حکومتوں میں تقسیم ہیں.ان سب کی آواز کو ایک جگہ جمع کر دینے والی کوئی طاقت نہیں.مگر اسلام تو عالمگیر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے.اسلام عرب کے مسلمانوں کا نام نہیں.اسلام شام کے مسلمانوں کا نام نہیں.اسلام ایران کے مسلمانوں کا نام نہیں.اسلام افغانستان کے مسلمانوں کا نام نہیں.جب دنیا کے ہر ملک کے مسلمان اسلام کے نام کے نیچے جمع ہو جاتے ہیں تو اسلامی جماعت وہی ہوسکتی ہے جو ان سارے گروہوں کو اکٹھا کرنے والی ہوا اور جب تک ایسی جماعت دنیا میں قائم نہ ہو ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اس وقت مسلمانوں کی کوئی جماعت نہیں گو حکومت ہے جی اور سیاست ہے.اسی طرح متحدہ پروگرام کا سوال ہے.جہاں ایسا کوئی انتظام نہیں جو ساری دنیا کے مسلمانوں کو اکٹھا کر سکے وہاں مسلمانوں کا کوئی متحدہ پروگرام بھی نہیں.نہ سیاسی نہ تمدنی نہ مذہبی.منفردانہ طور پر کسی کسی جگہ پر کسی مسلمان کا دشمنانِ اسلام سے مقابلہ کر لینا یہ اور چیز ہے اور متحدہ طور پر ایک مخصوص نظام کے ماتحت چاروں طرف سے دشمن کے حملہ کا جائزہ لے کر اس کی کے مقابلہ کی کوشش کرنا یہ الگ بات ہے.پس پروگرام کے لحاظ سے بھی مسلمان ایک جماعت نہیں.ایسی صورت میں اگر کوئی جماعت قائم ہو اور مذکورہ بالا دونوں مقاصد کو لے کر قائم ہو تو کی اس پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ وہ ایک نئی جماعت بن گئی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ پہلے کوئی جماعت نہیں تھی اب ایک جماعت بن گئی ہے.میں ان دوستوں سے جن کے دلوں میں یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ باوجود ایک نماز ، ایک قبلہ، ایک قرآن اور ایک رسول ہونے کے پھر احمدی جماعت نے الگ جماعت کیوں بنائی ، کہتا ہوں

Page 590

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۸ احمدیت کا پیغام کہ وہ اس نکتہ پر غور کریں اور سوچیں کہ اسلام کو پھر ایک جماعت بنانے کا وقت آچکا ہے اس کام کے لئے کب تک انتظار کیا جائے گا؟ مصر کی حکومت اپنی جگہ پر کام اپنا کر رہی ہے.ایران کی حکومت اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہی ہے افغانستان کی حکومت اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہی ہے.دیگر اسلامی حکومتیں اپنی اپنی جگہ پر اپنا کام کر رہی ہیں لیکن ان کی موجودگی میں بھی ایک خلا باقی ہے.ایک کمی باقی ہے اور اسی خلا اور کمی کو پورا کرنے کے لئے احمد یہ جماعت قائم ہوئی ہے.جب خلافت ترکیہ کو ترکوں نے ختم کر دیا تو مصر کے بعض علماء نے ( بعض راز داروں کے قول کے مطابق شاہ مصر کے اشارہ سے ) ایک تحریک خلافت شروع کی اور اس تحریک سے اس کا ی منشاء یہ تھا کہ شاہ مصر کو خلیفہ المسلمین تصور کر لیا جائے اور اس طرح مصر کو دوسرے ممالک پر فوقیت حاصل ہو جائے.سعودی عرب نے اس کی مخالفت شروع کی اور یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا کہ یہ تحریک انگریزوں کی اُٹھائی ہوئی ہے اگر کوئی شخص خلافت کا مستحق ہے تو وہ سعودی عرب کی کا بادشاہ ہے.جہاں تک خلافت کا تعلق ہے وہ یقیناً ایک ایسا رشتہ ہے جس سے سب مسلمان اکٹھے ہو جاتے ہیں لیکن جب یہ خلافت کا لفظ کسی خاص بادشاہ کے ساتھ مخصوص ہونے لگا تو دوسرے بادشاہوں نے فوراً تاڑ لیا کہ ہماری حکومت میں رخنہ ڈالا جاتا ہے اور وہ مفید تحریک بریکار ہو کر رہ گئی.لیکن اگر یہی تحریک عوام میں پیدا ہو اور مذہبی روح اس کے پیچھے کام کر رہی ہو تو سیاسی رقابت اس کے رستہ میں حائل نہیں ہوگی.صرف جماعتی رقابت اس کے رستہ میں روک بنے گی.سیاسی رقابت کی وجہ سے ایسی تحریک اُسی ملک میں محدود ہو کر رہ جائے گی جس کی تی حکومت اُس کی تائید میں ہوگی لیکن جماعتی مخالفت کی صورت میں وہ کسی ملک میں محدود نہیں رہے گی.ہر ملک میں جائے گی اور پھیلے گی اور اپنی جڑیں بنائے گی بلکہ ایسے ملکوں میں بھی جا کر کامیاب ہوگی جہاں اسلامی حکومت نہیں ہوگی کیونکہ سیاسی ٹکراؤ نہ ہونے کی وجہ سے ابتدائی زمانہ میں حکومتیں اس کی مخالفت نہیں کریں گی چنانچہ احمدیت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے.احمدیت کا منشاء محض مسلمانوں کے اندر اتحاد پیدا کرنا تھا.وہ بادشاہت کی طالب نہیں تھی.وہ حکومت کی طالب نہیں تھی.انگریزوں نے اپنے ملک میں بعض دفعہ احمدیت کو تکلیفیں بھی پہنچائی ہیں لیکن اس کے خالص مذہبی ہونے کی وجہ سے اس سے کھلے بندوں ٹکرانے کی ضرورت نہیں

Page 591

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۷۹ احمدیت کا پیغام مجھی.افغانستان میں ملانوں سے ڈر کر بعض دفعہ بادشاہوں نے سختیاں کیں لیکن پرائیویٹ ملاقاتوں میں اپنی معذوریاں بھی ظاہر کرتے رہے اور اظہار ندامت بھی کرتے رہے.اسی طرح دوسرے اسلامی ممالک میں عوام الناس نے مخالفت کی.علماء نے مخالفت کی اور ان سے ڈر کر حکومت نے بھی بعض دفعہ روکیں ڈالیں.لیکن کسی حکومت نے یہ نہیں سمجھا کہ یہ تحریک ہماری حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے قائم ہوئی ہے اور یہ ان کا خیال درست تھا.احمدیت کو سیاست سے کوئی غرض نہیں.احمدیت صرف اس غرض کے لئے کھڑی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی دینی حالت کو درست کرے اور انہیں ایک رشتہ میں پروئے تا کہ وہ مل کر اسلام کے دشمنوں کا اخلاقی اور روحانی ہتھیاروں سے مقابلہ کر سکیں.اسی بات کو سمجھتے ہوئے امریکہ میں احمدی مبلغ گئے.جس حد تک وہ ایشیائیوں کی مخالفت کرتے ہیں انہوں نے احمدی مبلغوں کی مخالفت کی.لیکن جہاں تک مذہبی تحریک کا سوال تھا اس کے مدنظر انہوں نے مخالفت نہیں کی.ڈچ حکومت نے انڈونیشیا میں بھی اسی طریق سے کام لیا.جب انہوں نے دیکھا کہ سیاست میں یہ ہمارے ساتھ نہیں ٹکراتے تو گوانہوں نے مخفی نگرانیاں بھی کیں، بے اعتنائیاں بھی کیں مگر کھلے بندوں احمدیت سے ٹکرانے کی ضرورت نہیں سمجھی اور اس رویہ میں وہ بالکل حق بجانب تھے.بہر حال ہم ان کے مذہب کے خلاف تبلیغ کرتے تھے اس لئے ہم اُن سے کسی ہمدردی کے امید وار نہیں تھے مگر ہم اُن کی سیاست سے بھی براہ راست نہیں ٹکراتے تھے اس لئے ان کا بھی یہ کوئی حق نہیں تھا کہ ہم سے براہ راست ٹکراتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اب جماعت احمد یہ قریباً ہر ملک میں قائم ہے.ہندوستان میں بھی.افغانستان میں بھی.ایران میں بھی.عراق میں بھی.شام میں بھی.فلسطین میں بھی.مصر میں بھی.اٹلی میں بھی.سوئٹزر لینڈ میں بھی.جرمنی میں.انگلینڈ میں بھی.یونائیٹڈ سٹیٹس امریکہ میں بھی.انڈونیشیا، ملایا، ایسٹ اور ویسٹ افریقہ، ایسے سینیا، ارجنٹائن غرض ہر ملک میں تھوڑی یا بہت جماعت موجود ہے اور ان ممالک کے اصلی شہریوں میں سے جماعت موجود ہے.یہ نہیں کہ وہاں کے بعض ہندوستانی احمدی ہو گئے ہوں اور وہ ایسے مخلص لوگ ہیں کہ اپنی زندگیاں اسلام کی خدمت کے لئے قربان کر رہے ہیں.ایک انگریز لیفٹینٹ اپنی زندگی وقف کر کے اس وقت مبلغ کے طور پر انگلستان میں کام کر رہا ہے.

Page 592

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۰ احمدیت کا پیغام با قاعدہ نمازی ہے.شراب وغیرہ کے قریب نہیں جاتا.خود محنت مزدوری سے پیسے کما کر ٹریکٹ وغیرہ شائع کرتا ہے یا جلسے کرتا ہے.ہم اُسے گزارہ کے لئے اتنی قلیل رقم دیتے ہیں جس سے انگلستان کا ایک چوہڑا بھی زیادہ کماتا ہے.اسی طرح جرمنی کے ایک شخص نے زندگی وقف کی ہے.وہ بھی فوجی افسر ہے.بڑی جدو جہد سے وہ جرمنی سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہے.ابھی اطلاع آئی ہے کہ وہ سوئٹزر لینڈ پہنچ گیا ہے اور وہاں ویزا کا انتظار کر رہا ہے.یہ نو جوان اسلام کی خدمت کا بے انتہاء جوش اپنے دل میں رکھتا ہے اور اس لئے پاکستان آرہا ہے کہ یہاں اسلام کی تعلیم پوری طرح حاصل کر کے کسی غیر ملک میں اسلام کی تبلیغ کرے.جرمنی کا ایک اور ی نوجوان مصنف اور اس کی تعلیم یافتہ بیوی زندگی وقف کرنے کا ارادہ ظاہر کر رہے ہیں اور شاید ی عنقریب ہی وہ اس فیصلہ پر پہنچ کر پاکستان تعلیم اسلام کے لئے آجائیں گے.اسی طرح ہالینڈ کا ایک نو جوان اسلام کے لئے اپنی زندگی وقف کرنے کا ارادہ کر چکا ہے اور غالباً جلد ہی کسی نہ کسی ملک میں تبلیغ اسلام کے کام پر لگ جائے گا.بیشک جماعت احمد یہ تھوڑی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت اسلامی قائم ہورہی ہے.ہر ملک میں کچھ نہ کچھ افراد اس میں شامل ہو کر ایک عالمگیر اتحاد کی بنیا درکھ رہے ہیں اور ہر سیاست کے ماننے والے لوگوں میں سے کچھ نہ کچھ آدمی اس میں شامل ہو رہے ہیں.ایسی تحریکوں کی ابتداء شروع میں چھوٹی ہی ہوا کرتی ہے.لیکن ایک وقت میں جا کر وہ ایک فوری قوت حاصل کر لیتی ہیں اور چند دنوں میں اتحاد اور اتفاق کا بیج بونے میں کامیاب ہو جاتی ہیں.ظاہر ہے کہ سیاسی طاقت کے لئے سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہے اور مذہبی اور اخلاقی طاقت کے لئے مذہبی اور اخلاقی جماعتوں کی ضرورت کی ہے.جماعت احمد یہ سیاست سے اسی لئے الگ رہتی ہے کہ اگر وہ ان باتوں میں دخل دے تو وہ اپنے کام میں سست ہو جائے..جماعت احمدیہ کا پروگرام دوسراسوال پروگرام کا رہا.پروگرام کے لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ ہی ایک متحدہ پروگرام رکھتی ہے اور کوئی جماعت متحدہ پروگرام نہیں رکھتی.جماعت احمد یہ عیسائیت کے حملہ کا پورا اندازہ لگا کر ہر ملک میں اس کا مقابلہ کر رہی ہے.اس وقت دنیا کا سب سے کمزور خطہ اور بعض لحاظ سے

Page 593

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۱ احمدیت کا پیغام طاقتور خطہ افریقہ ہے.عیسائیت نے اس وقت ساری طاقت سے افریقہ میں دھاوا بول دیا ہے اب تو کھلے بندوں وہ اپنے ان ارادوں کا اظہار کر رہے ہیں ، اس سے پہلے صرف پادریوں کا ذہن اِدھر جارہا تھا.پھر انگلستان کی کنسرویٹو پارٹی اے ادھر مائل ہوئی اور اب تو لیبر پارٹی نے بھی اعلان کر دیا ہے کہ یورپ کی نجات کا دارو مدار افریقہ کی ترقی اور اس کی تنظیم پر ہے مگر یورپ سمجھتا تھا کہ یہ ترقی اور تنظیم اسی صورت میں یورپ کے لئے مفید ہوسکتی ہے جبکہ اس کے باشندے عیسائی ہو جائیں.احمدیت نے اس راز کو چوبیس سال پہلے بھانپ لیا اور چوبیس سال پہلے اپنے مبلغ وہاں بھیجوا دئیے جہاں ہزاروں ہزار آدمی عیسائیت سے نکل کر مسلمان ہو گئے اور اس وقت افریقہ میں سب سے منظم اسلامی جماعت احمدیت کی ہے جس کا مقابلہ کرنے سے عیسائیوں نے گریز کرنا شروع کر دیا ہے اور ان کے لٹریچر میں متواتر اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ احمد یہ جماعت کی مساعی نے عیسائی مشنریوں کی کوششوں کو باطل کر دیا ہے.یہی تبلیغی سلسلہ مشرقی افریقہ میں بھی سالہا سال سے جاری ہے اور گو وہاں کام کی ابتداء ہے اور اس وجہ سے نتائج ابھی اتنے شاندار نہیں جتنے مغربی افریقہ میں ہیں لیکن پھر بھی عیسائیوں میں سے کچھ لوگ مسلمان ہونے شروع ہو گئے ہیں اور امید ہے کہ چند سال میں یہاں بھی مبلغوں کی کوششیں کی اعلیٰ نتائج پیدا کرنے لگ جائیں گی.انڈونیشیا اور ملایا میں بھی ایک لمبے عرصہ سے مشن قائم ہیں اور اسلام کے بھاگتے ہوئے گروہوں کو ٹھہرانے ، جمع کرنے اور اکٹھا کر کے دشمن کے مقابل پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.یونائٹیڈ سٹیٹس امریکہ عیسائی طاقتوں میں سے اب سب سے آگے آچکی ہے.وہاں بھی چوبیس سال سے احمدی مبلغ کام کر رہے ہیں اور ہزاروں باشندے امریکہ کے احمدی ہو چکے ہیں اور ہزار ہا روپیہ سالانہ تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں.امریکہ کی دولت کے مقابلہ میں یہ کچھ بھی نہیں اور وہاں کے پادریوں کی کوششوں کے مقابلہ میں یہ بالکل حقیر کوشش ہے لیکن سوال تو یہ ہے کہ مقابلہ شروع کر دیا گیا ہے اور فتح ہم کو ہو رہی ہے.کیونکہ ہم عیسائی جماعت کے آدمی چھین کر اپنی طرف لا رہے ہیں.عیسائی جماعت ہمارے آدمی چھین کر نہیں لے جا رہی.پس یہ نہیں کہنا چاہئے کہ احمدیت نے ایک نئی جماعت کیوں کی قائم کی ہے.کہنا یہ چاہئے کہ احمدیت نے ایک جماعت قائم کر دی جبکہ اس سے پہلے کوئی

Page 594

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۲ احمدیت کا پیغام جماعت نہیں تھی اور کیا یہ قابل اعتراض بات ہے یا قابل تعریف بات ہے؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ایسی احمد یوں کو دوسری جماعتوں سے علیحدہ رکھنے کی وجہ کسی جماعت کے بنانے کی ضرورت کیا تھی ؟ یہی باتیں دوسرے مسلمانوں میں پھیلائی جانی چاہئے تھیں.اس کا عقلی جواب یہ ہے کہ ایک کمانڈر انہی لوگوں کو لڑائی میں بھیج سکتا ہے جو فوج میں بھرتی ہو چکے ہوں جولوگ فوج میں بھرتی نہیں وہ ان کو بھیج کس طرح سکتا ہے؟ اگر جماعت ہی کوئی نہ بنائی جاتی تو بانی سلسلہ احمدیہ کس سے کام لیتا اور کس کو حکم دیتا اور ان کے خلفاء کس سے کام لیتے اور کس کو حکم کی دیتے.کیا وہ بازار میں پھرنا شروع کرتے اور ہر مسلمان کو پکڑ کر کہتے کہ آج فلاں جگہ اسلام کے لئے ضرورت ہے تو وہاں جا اور وہ آگے سے یہ جواب دیتا کہ میں تو آپ کی بات ماننے کے لئے تیار نہیں ، اور پھر وہ اگلے آدمی کو جا پکڑتے اور پھر اس سے اگلے آدمی کو جا پکڑتے.یہ ایک کی عقلی حقیقت ہے کہ جب کوئی منتظم کام کرنا ہو تو اس کے لئے ایک جماعت کی ضرورت ہوتی ہے بغیر ایسی جماعت کے کوئی منتظم کام نہیں ہو سکتا.اگر کہو کہ جماعت تو بناتے لیکن سب میں ملے جلے رہتے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ جان کو جوکھوں میں ڈالنے والے کاموں کے لئے ہر شخص کہاں تیار ہوتا ہے.ایسے کام تو دیوانے ہی کیا کرتے ہیں اور دیوانوں کو ہوشیاروں سے الگ رکھنا ضروری ہوتا ہے.اگر ہوشیار دیوانوں کو بھی اپنے جیسا بنالیں گے تو پھر ایسے کام کو کون کرے گا.نیز دوسروں سے الگ رہنا خود بخود طبائع میں استعجاب پیدا کرتا ہے اور آپ ہی آپ لوگ اس کی کرید اور تجسس شروع کرتے ہیں اور آخر ایک دن اسی چیز کا شکار ہو جاتے ہیں جس کو مٹانے کے لئے وہ آگے بڑھتے ہیں.پس سارے اعتراضات قلت تدبر کا نتیجہ ہیں.اگر عقل سے کام لیا جائے تو سمجھ آ سکتا ہے کہ اصل میں وہی طریقہ درست ہے جو احمدیت نے اختیار کیا کی ہے.اسی صحیح طریقے پر عمل کر کے وہ اسلام کے لئے قربانی کرنے والوں کی ایک جماعت پیدا کرسکی ہے اور جب تک وہ اس طریق پر عمل کرتی رہے گی روز بروز ایسے افراد کی تعداد کو بڑھاتی چلی جائے گی یہاں تک کہ کفر محسوس کرے گا کہ اب اسلام طاقت پکڑ گیا ہے اور وہ اسلام پر اپنی ساری طاقت کے ساتھ حملہ کرے گا مگر حملے کا وقت گذر چکا ہوگا.میدان اسلام ہی

Page 595

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۳ احمدیت کا پیغام کے ہاتھ رہے گا اور کفر شکست کھا جائے گا.ہم سیاسی جد و جہد کرنے والوں کے رستہ میں روک نہیں بنتے ہم ان سے کہتے ہیں کہ جب تک تمہاری سمجھ میں ہماری باتیں نہ آئیں تم اپنا کام کرتے چلے جاؤ.لیکن ہم ان سے یہ بھی خواہش کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اپنے رستہ سے نہ روکیں.اگر کسی کی سمجھ میں ان کا طریقہ اچھا معلوم ہوتا ہے تو وہ ان سے جاملے اور اگر کسی کی سمجھ میں ہمارا طریقہ اچھا معلوم ہوتا ہے تو وہ چی ہم میں آملے.ان کے طریقہ میں قربانی کم اور شہرت زیادہ ہے اور ہمارے طریقہ میں قربانی زیادہ اور شہرت کم ہے.ان کو ان کا حصہ ملتا رہے گا اور ہم کو ہمارا حصہ ملتا رہے گا.جن لوگوں کی نگاہ میں مغز اور حقیقت کے لحاظ سے اسلام کا قیام زیادہ ضروری ہوگا وہ ہم میں آملیں گے اور جو لوگ ظاہری بادشاہت کے شیدائی ہوں گے، وہ اُن میں جا ملیں گے.لیکن ہم لڑیں کیوں اور کی جھگڑیں کیوں؟ دونوں ہی غم ملت میں تڑپ رہے ہیں.گو جدا جدا اعضاء میں ٹیں اُٹھ رہی ہے.ان کے دماغوں میں درد ہے، ہمارے دل اذیت پارہے ہیں.یہ تو میں نے عقلی نقطہ نگاہ سے جواب دیا ہے.اب میں روحانی نقطہ نگاہ سے جواب دیتا ہوں اور میرے نزدیک وہی حقیقی نقطہ نگاہ ہے.اس سوال کا روحانی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت ہے کہ جب کبھی دنیا میں خرابی پھیل جاتی ہے ، روحانیت اس سے مفقود ہو جاتی ہے، لوگ دنیا کو دین پر مقدم کرنے لگ جاتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے آسمان سے کسی ماً مور کو مبعوث فرماتا ہے تا کہ اس کے کھوئے ہوئے بندوں کو پھر اس کی طرف واپس لائے اور اس کے بھیجے ہوئے دین کو پھر دنیا میں قائم کرے.بعض دفعہ یہ مامورین شریعت ساتھ لاتے ہیں اور بعض دفعہ کسی پہلی شریعت کے قائم کرنے کیلئے آتے ہیں.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی اس سنت پر خاص طور پر زور دیا گیا ہے اور بار بار بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ کے اس رحم اور کرم کی شناخت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے.اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خدا تعالیٰ بہت بڑی شان رکھتا ہے اور انسان اس کے مقابلہ میں ایک کیڑے سے بھی بدتر ہے لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے تمام کام حکمت سے پُر

Page 596

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۴ احمدیت کا پیغام ہوتے ہیں اور وہ کوئی کام بھی بلا وجہ اور بغیر فائدہ کے نہیں کرتا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے وَ ما خَلَقْنَا السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لعِبين لا یعنی ہم نے بہ زمین اور آسمان یونہی نہیں پیدا کئے بلکہ ان کی پیدائش میں غرض رکھی ہے اور وہ غرض یہی ہے کہ انسان خدا تعالیٰ کی صفات کو ظاہر کرے اور اس کا مظہر بن کر دنیا کے اُن لوگوں کو جو بلند پروازی کی طاقت نہیں رکھتے خدا تعالیٰ سے روشناس کرے.ابتدائے آفرینش سے لے کر اس وقت تک خدا تعالی کی یہی سنت جاری رہی ہے اور مختلف اوقات میں خدا تعالیٰ نے اپنے مختلف مظاہر اس دنیا میں مبعوث فرمائے.کبھی خدا تعالیٰ کی صفات آدم کے ذریعہ سے جلوہ گر ہوئیں.کبھی نوع کے ذریعہ سے جلوہ گر ہوئیں، کبھی ابرا ہیمی جسم میں سے وہ ظاہر ہوئیں تو کبھی موسوی جسم سے ہویدا ہوئیں، کبھی داؤد نے خدا تعالیٰ کا چہرہ دنیا کو دکھایا تو کبھی مسیح نے اللہ تعالیٰ کے انوار کو اپنے وجود میں ظاہر کیا ، سب سے آخر اور سب سے کامل طور پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کو اجمالاً اور تفصیلاً انفرادی حیثیت سے بھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی ایسی شان اور ایسے جلال کے ساتھ دنیا پر ظاہر کیا کہ پہلے انبیاء آپ کے شمسی وجود کے آگے ستاروں کی مانند ماند پڑ گئے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تمام شریعتیں ختم ہوگئیں اور تمام شریعت لانے والے انبیاء کی آمد کا رستہ بند کر دیا گیا.کسی جذبہ داری کی وجہ سے نہیں، کسی لحاظ کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ رسول کریم ﷺ ایسی شریعت لائے جو تمام ضرورتوں کی جامع اور تمام حاجتوں کو پورا کرنے والی تھی.جو چیز خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والی تھی وہ تو پوری ہوگئی لیکن بندوں کے متعلق کوئی ضمانت نہیں تھی کہ وہ صحیح رستہ کو نہیں چھوڑ میں تی گے اور اس سچی تعلیم کو نہیں بھولیں گے بلکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا تھا کہ يدير الأمر من السماء إلى الأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُةٌ آلفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّون ۱۳ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے اس آخری کلام اور اپنی اس آخری شریعت کو آسمان سے زمین پر قائم کر دے گا اور لوگوں کی مخالفت اس کے رستہ میں روک نہیں بنے گی.مگر پھر ایک عرصہ کے بعد یہ کلام آسمان پر چڑھنا شروع ہوگا اور ایک ہزار سال میں یہ دنیا سے اُٹھ جائے گا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس قیامِ دین کے زمانہ کو تین سو سال کا عرصہ

Page 597

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۵ احمدیت کا پیغام قرار دیتے ہیں.جیسا کہ اوپر حدیث بیان کی جاچکی ہے اور قرآن کریم بھی المر' کے ذریعہ سے ۲۷۱ سال کا عرصہ اس زمانہ کو قرار دیتا ہے.اس کے ساتھ ساتھ ہزار سال تک دین کے آسمان پر چڑھنے کے عرصہ کو ملایا جائے تو یہ ۱۲۷ ہوتا ہے گویا دنیا سے اسلام کی روح کے غائب ہو جانے کا زمانہ قرآن کریم کی رو سے ۱۲۷۱ سال ہے یا تیرھویں صدی کا آخر.جیسا کہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے ایسے زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے ضرور ایک ہادی اور راہنما آیا کرتا ہے تا کہ دنیا ہمیشہ کے لئے شیطان کے قبضہ میں نہ چلی جائے اور خدا تعالیٰ کی حکومت ابدی طور پر دنیا سے مٹ نہ جائے.پس ضروری تھا کہ اس زمانہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی شخص آتا.وہ کوئی ہوتا مگر آنا ضرور تھا.یہ کس طرح ہوسکتا تھا کہ آدم کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کی خبر لی.نوح کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کی خبر لی.ابراہیم کے اتباع میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کی خبر لی.موسیٰ کے اتباع میں خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کی خبر لی ہیسٹی کے اتباع کی میں جب کبھی خرابی پیدا ہوئی تو خدا تعالیٰ نے ان کی خبر لی لیکن سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں خرابی پیدا ہو تو خدا تعالیٰ اس کی خبر نہ لے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت کے متعلق تو یہ پیش گوئی تھی کہ چھوٹے چھوٹے مفاسد کو دور کرنے کے لئے آپ کی اُمت میں ہر صدی کے سر پر ایک مجد دمبعوث ہوا کرے گا.کیا کوئی عقل اس کو تسلیم کر سکتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے مفاسد کو دور کرنے کیلئے تو خدا تعالیٰ کی طرف سے مجددین ظاہر ہوتے رہیں جیسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اِنَّ اللهَ يَبْعَثُ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأْسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَّنْ يُجَدِّدُ لَهَا دِينَهَا " لیکن اس عظیم الشان فتنہ کے موقع پر جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب سے دنیا میں انبیاء آنے لگے ہیں وہ اس فتنہ کی خبر دیتے چلے آئے ہیں، کوئی مامور نہ آئے ، کوئی ہادی نہ آئے ، کوئی راہنما نہ آئے ،مسلمانوں کو دین حقہ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آواز بلند نہ کی جائے، مسلمانوں کو تاریکی اور ظلمت کے گڑھے میں سے نکالنے کیلئے آسمان سے کوئی رسی نہ گرائی جائے.وہ خدا جو ابتدائے عالم سے اپنے رحم و کرم کے نمونے دکھاتا چلا آیا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی

Page 598

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۶ احمدیت کا پیغام بعثت کے بعد اس کے رحم اور کرم کے دریا میں مزید جوش پیدا ہو گیا ہے نہ کہ اس کا رحم اور کرم مٹ گئے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کبھی بھی رحیم تھا تو اُمت محمدیہ کیلئے اس کو پہلے سے زیادہ رحیم ہونا کی چاہیے، اگر خدا تعالیٰ کبھی بھی کریم تھا تو اُمتِ محمدیہ کے لیے اُس کو پہلے سے زیادہ کریم ہونا چاہئے اور یقیناً وہ ایسا ہی ہے.قرآن کریم اور احادیث اس پر شاہد ہیں کہ اُمتِ محمدیہ میں جب کبھی خرابی پیدا ہوگی خدا تعالیٰ اپنی طرف سے ہادی اور راہنما بھجوا تا رہے گا.خصوصاً اس آخری زمانہ میں جبکہ دجال کا فتنہ ظاہر ہو گا.عیسائیت غالب آجائے گی.اسلام ظاہری طور پر مغلوب ہو جائے گا اور مسلمان دین کو چھوڑ بیٹھیں گے اور دوسری اقوام کے رسم و رواج کو کی اختیار کرلیں گے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کامل مظہر ظاہر ہوگا اور اس زمانہ کی اصلاح کرے گا جس کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يَبْقَى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ ها یعنی اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کی صرف تحریر رہ جائے گی اسلام کا مغز کہیں نظر نہ آئے گا اور قرآن کے معنی کسی پر روشن نہ ہوں گے.پس اے عزیز و اسلسلہ احمدیہ کا قیام اسی سنت قدیمہ کے ماتحت ہوا ہے اور انہی پیشگوئیوں کی کے مطابق ہوا ہے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ سے پہلے انبیاء نے اس زمانہ کے متعلق بیان فرمائی ہیں.اگر مرزا صاحب کا انتخاب اس کام کے لئے مناسب نہ تھا تو یہ خدا تعالیٰ پر الزام ہے ، مرزا صاحب کا اس میں کیا قصور ہے.لیکن اگر خدا تعالیٰ عالم الغیب ہے اور کوئی راز اس سے پوشیدہ نہیں اور اس کے تمام کام حکمتوں سے پُر ہوتے ہیں تو پھر سمجھ لینا چاہئے کہ مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کا انتخاب ہی صحیح انتخاب تھا اور انہی کے ماننے میں مسلمانوں اور دنیا کی بہتری ہے.آپ کوئی نیا پیغام دنیا کیلئے نہیں لائے مگر وہی پیغام جو محمد رسول اللہ نے دنیا کو سنایا تھا مگر دنیا اُسے بھول گئی ، وہی پیغام جو قرآن کریم نے پیش کیا تھا مگر دنیا نے اس کی طرف سے منہ موڑ لیا اور وہ یہی پیغام ہے کہ تمام کائنات کا پیدا کرنے والا ایک خدا ہے.اس نے انسان کو اپنی محبت اور تعلق کے لئے پیدا کیا ہے.اپنی صفات کو اس کے ذریعہ سے ظاہر کرنے کے لیے اسے بنایا ہے.جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَاذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَيحَةِ انّي جَاعِلُ في الأَرْضِ خَلِيفَةٌ 11 پس آدم اور اس کی نسل خدا تعالیٰ کی خلیفہ یعنی اس کی

Page 599

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۷ احمدیت کا پیغام نمائندہ ہے وہ خدا تعالیٰ کی صفات کو دنیا پر ظاہر کرنے کیلئے پیدا کی گئی ہے.پس تمام بنی نوع انسان کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو خدا تعالیٰ کی صفات کے مطابق بنائیں اور جس طرح ایک نمائندہ اپنے تمام کاموں میں اپنے موکل کی طرف بار بار متوجہ ہوتا ہے اور ایک غلام ہر نیا قدم اُٹھانے سے پہلے اپنے آقا کی طرف دیکھتا ہے اسی طرح انسان کا بھی فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایسا تعلق پیدا کرے کہ خدا تعالیٰ اس کی ہر دم اور ہر کام میں راہنمائی کرے اور تمام چیزوں سے زیادہ وہ اس کا محبوب ہو اور تمام باتوں میں وہ اس پر تو کل کرنے والا ہو اور اسی فرض کو پورا کروانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دنیا میں آئے.ان کا یہ کام تھا کہ وہ دنیا دار لوگوں کو دیندار بنائیں.اسلام کی حکومت دلوں پر قائم کریں اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر اپنے روحانی تخت پر بٹھا ئیں جس تخت پر سے اتارنے کے لئے شیطانی طاقتیں اندونی اور بیرونی حملے کر رہی ہیں.اس غرض کو پورا کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ مسلمانوں کو قشر کی بجائے مغز کی طرف توجہ دلائی اور اس بات پر زور دیا کہ احکام کا ظاہر بھی نہایت اہم اور ضروری ہے لیکن بغیر باطن کی طرف توجہ کرنے کے انسان کوئی ترقی نہیں کر سکتا.چنانچہ آپ نے ایک جماعت قائم کی اور عہد بیعت میں یہ شرط مقرر کی کہ میں دین کو د نیا پر مقدم رکھوں گا.در حقیقت یہی مرض تھی جو مسلمانوں کو گھن کی طرح کھا رہی تھی.باوجودی اس کے کہ دنیا ان کے ہاتھوں سے چھٹ چکی تھی پھر بھی دنیا ہی کی طرف ان کی توجہ جاتی تھی.اسلام کی ترقی کے معنی ان کے نزدیک بادشاہتوں کا حصول رہ گیا تھا اور اسلام کی کامیابی کے معنی ان کے نزدیک مسلمان کہلانے والوں کی تعلیم اور ان کی تجارت کی ترقی تھی حالانکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اس لئے نہیں آئے تھے کہ لوگ مسلمان کہلانے لگ جائیں بلکہ آپ لوگوں کو حقیقی مسلمان بنانے کے لئے آئے تھے جس کی تعریف قرآن کریم نے یہ فرمائی ہے کہ من اسلم وجهه لله کا وہ اپنے سارے وجود کو خدا تعالیٰ کے لئے وقف کر دے اور اپنی دنیوی حاجات کو دینی حاجات کے تابع کر دے.بظاہر یہ ایک معمولی سی بات معلوم ہوتی ہے لیکن حقیقتاً اسلام اور دیگر ادیان میں یہی فرق ہے.اسلام یہ نہیں کہتا کہ تم علم حاصل

Page 600

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۸ احمدیت کا پیغام کرو.نہ یہ کہتا ہے کہ تم تجارتیں نہ کرو.نہ یہ کہتا ہے کہ صنعت و حرفت نہ کرو.نہ یہ کہتا ہے کہ تم اپنی حکومت کی مضبوطی کی کوشش نہ کرو.وہ صرف انسان کے نقطہ نگاہ کو بدلتا ہے دنیا میں تمام کاموں کے دو نقطہ نگاہ ہوتے ہیں.ایک قشر سے مغز حاصل کرنے کا نقطہ نگاہ ہوتا ہے اور ایک مغز سے قشر حاصل کرنے کا نقطۂ نگاہ ہوتا ہے.جو شخص قشر سے مغز حاصل کرنے کی امید رکھتا ہے ضروری نہیں کہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے بلکہ اکثر وہ نا کام رہتا ہے لیکن جو شخص مغز حاصل کرتا ہے اس کو ساتھ ہی قشر بھی مل جاتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اتباع کی تمام جد و جہد دین کے لئے تھی لیکن یہ نہیں کہ وہ دُنیوی نعمتوں سے محروم ہو گئے ہوں.یہ تو ایک طبعی امر ہے جن لوگوں کو دین ملے گا دنیا لونڈی کی طرح ان کے پیچھے دوڑتی ہے آئے گی لیکن دنیا کے ساتھ دین کا ملنا ضروری نہیں، بسا اوقات وہ نہیں ملتا.بسا اوقات رہا سہا دین بھی ہاتھوں سے جاتا رہتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انبیاء کے طریق پر چلتے ہوئے خدا تعالیٰ کے حکم سے دین پر زور دینا شروع کیا.جس وقت آپ ظاہر ہوئے مسلمانوں میں دو قسم کی تحریکیں جاری تھیں.ایک تحریک یہ تھی کہ مسلمان کمزور ہو چکے ہیں اس لئے انہیں دنیوی طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.دوسری تحریک آپ نے چلائی کہ ہم کو دین کی طرف توجہ کرنی چاہئے ، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ دنیا اللہ تعالیٰ ہمیں خود دیدے گا.بعض لوگوں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ آپ کی تحریک بھی ویسی ہی ہے جیسے آجکل کے صوفیاء وغیرہ کی تحریک ہوتی ہے کہ وہ ظاہری طور پر نماز روزہ پر زور دیتے ہیں اور اچھے بھلے آدمیوں کو خلوت میں بٹھا کر پردہ نشین عورتوں کی طرح بنا دیتے ہیں.اگر آپ ایسا کرتے تو یقیناً آپ بھی مغز کے نام سے ایک قشر کے حصول کی تحریک کرتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا.آپ نے جہاں دینی احکام پر زور دیا وہاں اس بات پر بھی زور دیا کہ دین اللہ کی طرف سے اس لئے آیا کرتا کی ہے کہ وہ انسان کے ذہن کو جلا بخشے اور اُس کے دماغ کو منور کرے اور اُس کی عقل کو تیز کرے.آپ نے کہا جو شخص بچے طور پر دین پر عمل کرتا ہے اور بناوٹ سے کام نہیں لیتا ، دین اُس کے اند را خلاق فاضلہ پیدا کرتا ہے.دین اُس کے اندر قوت عملیہ پیدا کرتا ہے اور دین اُس کے

Page 601

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۸۹ احمدیت کا پیغام اندر ایثار اور قربانی کا مادہ پیدا کرتا ہے.آپ نے فرمایا کہ تم دین کو اختیار کرو.تم نمازیں پڑھو، تم روزے رکھو، حج کرو، زکوۃ دو لیکن وہ نمازیں پڑھو جو قرآن نے بتائی ہیں اور وہ روزے رکھو جو قرآن نے بتائے ہیں اور وہ حج کرو جو قرآن نے بتایا ہے اور وہ زکوۃ دوجو قرآن نے بتائی ہے.قرآن کریم تم سے اُٹھک بیٹھک کا مطالبہ نہیں کرتا.نہ وہ تم سے بھوکے رہنے کا مطالبہ کرتا ہے.نہ اپنا ملک بے فائدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتا ہے ، نہ اپنا مال گنوانے کا مطالبہ کرتا ہے.قرآن کریم تو نماز کے متعلق یہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الصَّلوةَ تَتْلَى عَنِ الْفَحْشَاءِ والمُنكَرِ، وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ، وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ ۱۸ نماز تم سے فحشاء اور منکری کو ترک کروا دیتی ہے پس اگر وہ نتیجہ نہیں نکلتا جو نماز کا قرآن کریم نے بتایا ہے تو تمہاری نمازی نماز نہیں ہے اور روزے کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 19 روزہ اس لئے مقرر کیا گیا ہے تا تمہارے اندر تقویٰ اور اخلاق فاضلہ پیدا ہوں.پس اگر تم روزے رکھتے ہواور یہ نتیجہ پیدا نہیں ہوتا تو معلوم ہوا کہ تمہاری نیت درست نہیں اور تم روزہ نہیں رکھتے بلکہ تم اپنے آپ کو بھوکا رکھتے ہو اور خدا تعالیٰ کو تمہارا بھوکا رکھنا تو مطلوب نہیں.اور حج کی کے لیے فرماتا ہے کہ یہ بغاوت کے خیالات کو روکنے اور باہمی جھگڑوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہے.پس حج رفت اور فسق اور جدال کو روکنے کے لیے ہے.اور زکوۃ کے لیے فرماتا ہے خُذ من أموالهمْ صَدَقَةً تُطَيِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِمْ بِهَا " زکوة تزکیہ فرد و قوم اور تطہیر قلب و افکار کے لئے مقرر کی گئی ہے.پس جب تک یہ نتائج پیدا نہ ہوں تمہارا حج اور تمہاری زکوۃ صرف دکھاوے کے ہیں.پس تم نماز پڑھو ، روزہ رکھو، حج کرو، زکوۃ دو مگر تمہاری نماز اور روزے اور حج کو میں تب تسلیم کروں گا جب ان کا نتیجہ نکلے.اور تم فحشاء ومنکر سے بچو اور تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو اور رفٹ اور فسوق اور جدال سے کلی طور پر دور ہو جاؤ اور تزکیہ فرد وقوم اور تطہیر قلب و افکار تم کو حاصل ہو لیکن جس شخص کے اندر یہ نتیجہ پیدا نہیں ہوگا میں اُسے اپنی جماعت میں نہیں سمجھوں گا کیونکہ اس نے قشر کو اختیار کیا مغز کو اختیار نہیں کیا جو خدا تعالیٰ کا مقصود تھا.اسی طرح تمام باقی عبادات کے متعلق آپ نے مغز پر زور دیا اور فرمایا کہ اسلام کا کوئی حکم ایسا نہیں جو حکمت کے بغیر ہو.خدا تعالیٰ آنکھوں کو نظر نہیں آتا.خدا تعالیٰ دل کو نظر

Page 602

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۰ احمدیت کا پیغام آتا ہے.خدا تعالیٰ کو ہاتھوں سے نہیں چھوا جاتا ، خدا تعالیٰ کو محبت سے چھوا جاتا ہے.پس مذہب کی غرض یہ نہیں کہ وہ صرف آنکھ اور ہاتھ پر حکومت کرے بلکہ جب بھی وہ آنکھ اور ہاتھ پر حکومت کرتا ہے تو وہ دل اور جذبات کو صاف کرنے کے لئے حکومت کرتا ہے تا کہ وہ قو تیں انسان کے اندر پیدا ہوں جن سے وہ خدا تعالیٰ کو دیکھ سکے اور جن سے وہ خدا تعالیٰ کو چھو سکے اور وہ قوتیں پیدا ہوں کہ جن سے وہ خدا تعالیٰ کی آواز کو سن سکے.غرض ان باتوں پر زور دے کر آپ نے ایک راستہ اسلام کی ترقی کے لئے کھول دیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ گو ایک چھوٹی سی جماعت پیدا ہوئی مگر ایک جماعت ایسی پیدا ہوگئی جس نے دین کو دنیا پر مقدم کرلیا اور اسلام کی روحانی کی ترقی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی بادشاہت کے قیام کے لئے ہر قسم کی قربانی کرنی کی شروع کر دی.آپ لوگ سوچیں تو سہی کہ کہاں احمدیوں کی ایک چھوٹی سی جماعت اور کہاں تمام مسلمانوں کا عظیم الشان گروہ لیکن اسلام کی اشاعت اور اس کی ترقی کے لئے جو کچھ احمد یہ جماعت کر رہی ہے کیا باقی مسلمان جو ان سے ہزاروں گنا زیادہ ہیں ان سے نصف یا چوتھا حصہ بھی کر رہے ہیں ؟ آخر یہ تبدیلی کیوں ہوئی ؟ اسی لئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے احمدیوں پر زور دیا تھا کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم کریں.یہ حقیقت احمد یوں پر کھل گئی تو ان کے اعمال ایک نئے قسم کے اعمال ہو گئے.ایک بچے احمدی کی نماز وہ نماز نہیں جیسی ایک عام مسلمان نماز پڑھتا ہے.شکل وہی ہے ، کلمات وہی ہیں لیکن مغز اور ہے.احمدی نماز کو نماز کی خاطر پڑھتا ہے اور خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق بڑھانے کے لئے پڑھتا ہے.شاید کوئی کہے کہ کیا باقی لوگ خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا تعلق بڑھانے کے لئے نماز نہیں پڑھتے ؟ میرا جواب یہ ہے کہ ہرگز نہیں.اگر آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت مسلمانوں میں بدقسمتی سے یہ خیال کی پیدا ہو چکا ہے کہ خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا ہو ہی نہیں سکتا.مسلمانوں کو عام طور پر یہ غلطی لگ رہی ہے کہ نہ خدا تعالیٰ آج بندوں سے بولتا ہے اور نہ بندے خدا تعالیٰ سے کوئی بات منوا سکتے ہیں.ایک صدی سے زیادہ عرصہ گذرا کہ الہام الہی کے نزول سے مسلمان منکر ہو چکے ہیں.بیشک اس سے پہلے مسلمانوں میں وہ لوگ موجود تھے جو کلامِ الہی کے نازل ہوتے رہنے کے قائل

Page 603

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۱ احمدیت کا پیغام تھے.قائل ہی نہیں وہ اس بات کے بھی مدعی تھے کہ خدا تعالیٰ ان سے باتیں کرتا ہے لیکن ایک صدی سے مسلمانوں پر یہ آفت نازل ہوئی ہے کہ وہ کلی طور پر کلام الہی کے جاری رہنے سے منکر ہو گئے بلکہ بعض علماء نے تو اس حقیقت کے اظہار کو کفر قرار دے دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر دنیا کے سامنے یہ دعویٰ پیش کیا کہ مجھ سے خدا تعالیٰ باتیں کرتا ہے اور مجھ سے ہی نہیں بلکہ جو شخص میری اتباع کرے گا اور میرے نقش قدم پر چلے گا اور میری تعلیم کو مانے گا اور میری ہدایت کو قبول کرے گا خدا تعالیٰ اس سے بھی باتیں کرے گا.آپ نے متواتر خدائی کلام کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور اپنے ماننے والوں میں تحریک کی کہ تم بھی خدا تعالیٰ کی کے ان انعامات کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.آپ نے فرمایا مسلمان پانچ وقت خدا تعالیٰ سے یہ دعا مانگتا ہے کہ اِهْدِنَا الصّراطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اے خدا! تو ہمیں سیدھا رستہ دکھا ان لوگوں کا رستہ جن پر تو نے انعام نازل کئے تھے یعنی سابق انبیاء کرام.پھر یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ اس کی یہ دعا ہمیشہ ہمیش کے لئے رائیگاں جاتی اور ی خدا تعالیٰ مسلمانوں میں سے کسی کے لیے بھی وہ رستہ نہ کھولتا جو پہلے نبیوں کے لئے کھولا گیا تھا تو اور کسی شخص سے بھی اس طرح کلام نہ کرتا جس طرح پہلے نبیوں سے کلام کرتا تھا.اس طرح کی آپ نے اس جمود کو کلی طور پر دور کر دیا جو مسلمانوں کے دلوں پر طاری تھا.میں نہیں کہتا کہ ہر احمدی مگر میں یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر وہ احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقصد کو پوری طرح سمجھ گیا وہ نماز کو اس طرح نہیں پڑھتا کہ گویا وہ ایک فرض ادا کر رہا ہے.وہ نماز کو اس طرح پڑھتا ہے کہ گویا وہ خدا تعالیٰ سے کچھ لینے گیا ہے.وہ خدا تعالیٰ سے ایک نیا تعلق پیدا کرنے کے لئے گیا ہے اور اس ارادہ کے ساتھ جو شخص نماز پڑھے گا، سمجھ میں آ سکتا ہے کہ اس کی نماز اور دوسرے لوگوں کی نماز یکساں نہیں ہو سکتی.آپ نے خدا تعالیٰ کے تعلق پر اس حد تک زور دیا کہ فرمایا کہ میرے دعوے کے ماننے کے لئے خدا تعالیٰ نے بہت سے دلائل دیئے ہیں.مگر میں تمہیں یہ نہیں کہتا کہ تم ان دلائل کو سوچو اور ان پر غور کرو.اگر تم ان دلائل پر سوچنے کی اور غور کرنے کا موقع نہیں پاتے یا اس کی ضرورت نہیں سمجھتے یا یہ خیال کرتے ہو کہ شاید ہماری عقل ان باتوں کے متعلق فیصلہ کرنے میں کوئی غلطی کر جائے تو میں تمہیں اس طرف توجہ دلاتا

Page 604

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۲ احمدیت کا پیغام ہوں کہ تم اللہ تعالیٰ سے میرے متعلق دعا کرو اور خدا تعالیٰ سے ہدایت چاہو کہ اگر یہ سچا ہے تو ہماری راہنمائی فرما اور اگر یہ جھوٹا ہے تو ہمیں اس سے دور رکھ اور فرمایا کہ اگر کوئی شخص سیچے دل سے بغیر تعصب کے کچھ دن اس قسم کی دعا کرے گا تو اللہ تعالیٰ ضرور اس کے لئے ہدایت کا رستہ کھول دے گا اور میری صداقت اس پر روشن کر دے گا.سینکڑوں اور ہزاروں آدمی ہیں جنہوں نے اس طرح کوشش کی اور خدا تعالیٰ سے روشنی پائی.یہ کتنی بڑی روشن دلیل ہے.انسان اپنی عقل میں غلطی کر سکتا ہے لیکن خدا تو اپنی راہنمائی میں غلطی نہیں کر سکتا اور کیسا یقین ہے اپنی سچائی پر اس شخص کو جو اپنی صداقت کے پہچاننے کے لئے اس قسم کا طریق فیصلہ دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے.کیا کوئی جھوٹا یہ کہہ سکتا ہے کہ جاؤ اور خدا سے میرے متعلق پوچھو؟ کیا کوئی جھوٹا شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ اس قسم کا فیصلہ میرے حق میں صادر ہوگا ؟ جو شخص خدا کی طرف سے نہیں لیکن اس قسم کے طریق فیصلہ کو تسلیم کرتا ہے وہ تو گویا اپنے خلاف خود ہی ڈگری دے دیتا ہے اور اپنے پاؤں پر آپ کلہاڑی مارتا ہے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیشہ ہی دنیا کے سامنے یہ بات پیش کی کہ میں اپنے ساتھ ہزاروں دلائل رکھتا ہوں لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر تمہاری ان دلائل سے تسلی نہیں ہوتی تو نہ میری سنو اور نہ میرے مخالفوں کی سنو.خدا تعالیٰ کے پاس جاؤ اور اس سے پوچھو کہ آیا میں سچا ہوں یا جھوٹا ہوں اگر خدا تعالیٰ کہہ دے کہ میں جھوٹا ہوں تو بیشک جھوٹا ہوں لیکن اگر خدا تعالیٰ یہ کہے کہ میں سچا ہوں تو پھر تمہیں میری سچائی کے قبول کرنے سے کیا انکار ہے؟ اے عزیزو! یہ کتنا سیدھا اور راستبازی کا طریق فیصلہ تھا ہزاروں نے اس سے فائدہ اُٹھایا اور تمام وہ لوگ جو اس طریق فیصلہ کو اب بھی قبول کریں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس طریق فیصلہ میں در حقیقت یہی حکمت کارفرما تھی کہ آپ سمجھتے تھے دین دنیا پر مقدم ہے.آپ فرماتے تھے خدا تعالیٰ نے مادی چیزوں کو دیکھنے کے لئے آنکھیں دی ہیں.مادی چیزوں کے سمجھنے کے لئے عقل بخشی ہے اور مادی اشیاء کو دکھانے کے لئے اس نے اپنا سورج پیدا کیا ہے اور ستارے پیدا کئے ہیں پھر کس طرح ہو سکتا ہے کہ روحانی ہدایتوں کے دکھانے کے لئے اس نے کوئی رستہ تجویز نہ کیا ہو.یقیناً جب کبھی بھی کوئی شخص اس سے روحانی چیزوں کے دیکھنے کی

Page 605

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۳ احمدیت کا پیغام خواہش کرتا ہے ، خدا تعالیٰ اس کے لئے رستہ کھول دیتا ہے وہ خود قرآن کریم میں فرماتا ہے والَّذِينَ جَاهَدُوا فينا لنهدينهُمْ سُبُلَنَا ٢٢ جو لوگ بھی ہمارے ملنے کی خواہش رکھتے ہوئے جد و جہد سے کام لیتے ہیں ہم ان کو ضرور اپنا رستہ دکھا دیتے ہیں.خلاصہ کلام یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا طریق اپنی جماعت کے لئے بھی کھولا اور اپنے منکروں کے سامنے بھی اسی طریق کو پیش کیا.ہمارا خدا ایک زندہ خدا ہے.وہ اب بھی کا رخانہ عالم چلا رہا ہے دنیا کا بھی اور دین کا بھی.ایک مؤمن کی کیلئے ضروری ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ اس سے تعلق پیدا کرے اور اس کے قریب ہوتا چلا ئی جائے اور وہ شخص جس پر ہدایت ظاہر نہیں ہوئی اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ہی روشنی چاہے اور اسی کی مدد سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرے.پس اصل کام اور اصل پیغام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی تھا کہ وہ دنیا کی اصلاح کریں اور بنی نوع انسان کو پھر خدا تعالیٰ کی طرف لے جائیں اور جو لوگ خدا تعالیٰ کے ملنے سے مایوس ہیں ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی ملاقات کا یقین پیدا کریں اور اس قسم کی زندگی سے لوگوں کو روشناس کریں جو موسیٰ اور عیسی علیہا السلام اور دوسرے انبیاء کے زمانہ میں لوگوں کو نصیب تھی.اے عزیز و! پرانی کتابیں پڑھ کر دیکھو.پھر خود اپنے اسلاف کی تاریخ دیکھو کیا ان لوگوں کی زندگیاں مادی تھیں؟ کیا ان کے کام صرف مادی تدابیر سے چلتے تھے؟ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی محبت کے حاصل کرنے کے لئے رات دن تڑپتے تھے اور ان میں سے کامیاب لوگ خدا تعالیٰ کی کے معجزات اور نشانات سے حصہ پاتے تھے اور یہی وہ زندگی تھی جو ان کو دوسری قوموں کے لوگوں سے ممتاز کرتی تھی لیکن آج وہ کونسا امتیاز ہے جو مسلمانوں کو ہندوؤں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کے مقابلہ میں حاصل ہے؟ اگر کوئی ایسا امتیاز نہیں تو پھر اسلام کی ضرورت کیا ہے؟ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا امتیاز ہے لیکن مسلمانوں نے اسے بھلا دیا اور وہ امتیاز یہ ہے کہ اسلام میں ہمیشہ کیلئے خدا تعالیٰ کا کلام جاری ہے اور ہمیشہ ہی خدا تعالیٰ کے ساتھ براہِ راست تعلق پیدا کیا جاسکتا ہے.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے یہی تو معنی ہیں.آپ کے ہے.فیضان کے یہ معنی تو نہیں ہو سکتے کہ ہم بی اے یا ایم اے کا امتحان پاس کر لیں.کیا ایک عیسائی

Page 606

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۴ احمدیت کا پیغام بی اے یا ایم اے نہیں ہوتا.آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں ہیں کہ ہم نے کوئی بڑا کارخانہ چلا لیا ہے کیا عیسائی اور ہندو اور سکھ ایسے کارخانے نہیں چلاتے.آپ کے فیضان کے یہ معنی تو نہیں کہ کوئی بڑی تجارتی کوٹھی ہم نے کھول لی اور دور دراز ملکوں میں ہم نے تجارتی کاروبار جاری ہے کر دیا ہے.یہ بھی سب ہندو اور عیسائی اور یہودی کر رہے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیضان کے یہی معنی ہیں کہ آپ کے طفیل انسان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ براہ راست تعلق قائم ہو جائے.انسان کا دل خدا تعالیٰ کو دیکھے.اس کی روح کا اس سے اتحاد ہو جائے.وہ اس کا شیریں کلام سنے اور خدا تعالیٰ کے تازہ بتازہ نشانات اور آیات اس کے لئے ظاہر ہوں.یہ وہی چیز ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کے بغیر کسی شخص کو دنیا میں نہیں مل سکتی اور یہی وہ کی چیز ہے جس میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع دوسری قوموں سے ممتاز ہیں.پس اسی کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلمانوں کو توجہ دلائی اور یہی چیز اپنے نہ ماننے والوں کے سامنے پیش کی کہ خدا تعالیٰ نے یہ کھویا ہوا موتی مجھے دیا ہے اور یہ ضائع شدہ کی متاع مجھے بخشی ہے اور یہ سب کچھ مجھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل اور آپ کی اتباع ہے سے ملا ہے اور اس مقام پر آپ ہی کے فیضان نے مجھے پہنچایا ہے.اس کے علاوہ اور بھی بہت سے کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئے لیکن وہ سب جزوی حیثیت رکھتے ہیں گو بہت اہم اور عظیم الشان ہیں لیکن اصل کام یہی تھا کہ آپ نے دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور مادیت پر روحانیت کو غالب کرنے کی مہم شروع کی اور یقیناً اسلام کو دوسرے ادیان پر غلبہ اسی کی رستہ سے ہوگا.ہم تو پوں اور بندوقوں سے اپنے ملکوں کا دفاع بھی کریں گے.ہم بعض بعض کی دشمنوں پر ان ذرائع سے غالب بھی آئیں گے لیکن ساری دنیا پر اسلام کو جو غلبہ حاصل ہوگا وہ اسی روحانی طریقہ سے حاصل ہوگا جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے توجہ دلائی ہے.جب مسلمان مسلمان ہو جائے گا جب وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے لگ جائے گا جب کی وہ روحانی اشیاء کو مادی اشیاء پر فوقیت دینے لگے گا تو وہ عیا شانہ زندگی جو اس وقت مغربی اقوام کی کی وجہ سے ہمارے ملک میں رائج ہو رہی ہے آپ ہی آپ مٹ جائے گی اور انسان کسی کے کہنے کی وجہ سے نہیں بلکہ خود اپنے نفس کی خواہش کے ماتحت لغویات کو چھوڑ دے گا اور سنجیدہ

Page 607

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۵ احمدیت کا پیغام ره زندگی بسر کرنے لگ جائے گا اور اس کی زبان میں تاثیر پیدا ہو جائے گی اور اس کا ہمسایہ اس کے رنگ کو اختیار کرنے لگے گا اور عیسائی اور ہندو اور دوسرے ادیان کے لوگ بھی اسی طرح جس طرح کہ مکہ کے لوگوں نے کہا تھا یہ کہنا شروع کر دیں گے کہ لوكَانُوا مُسْلِمینَ ١٣ کاش ! وہ مسلمان ہوتے اور پھر ہوتے ہوتے یہ قول ان کا مکہ کے لوگوں کی طرح عمل میں بدل جائے گا اور وہ مسلمان ہو جائیں گے کیونکہ کوئی شخص زیادہ دیر تک اچھی بات سے دور نہیں رہتی سکتا.پہلے رغبت پیدا ہوتی ہے، پھر لالچ آتی ہے، پھر کوشش پیدا ہوتی ہے اور آخر انسان کھچا کھا ؟ اس چیز کی طرف آ ہی جاتا ہے.یہی اب بھی ہوگا.پہلے اسلام مسلمانوں کے دلوں میں داخل ہے ہوگا.پھر وہ ان کے جسموں پر جاری ہو جائے گا.پھر غیر مسلم لوگ خود بخود ایسے کامل مسلمانوں کی کی نقل کرنے پر آمادہ ہو جائیں گے اور دنیا مسلمانوں سے بھر جائے گی اوراسلام سے معمور ہو جائے گی.اے عزیز و! اس چھوٹے سے مضمون میں میں تفصیلی دلائل بیان نہیں کر سکتا اور احمدیت کے پیغام کی تمام جزئیات کو آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکتا.میں نے اجمالی طور پر احمدیت کی غرض ھے اور اس کا مقصد آپ لوگوں کے سامنے رکھ دیا ہے اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس مضمون پر غور کریں اور سوچیں کہ دنیا میں کبھی بھی مذہبی تحریکیں صرف دنیوی ذرائع سے غالب نہیں ہوئیں.مذہبی تحریکیں اصلاح نفس تبلیغ اور قربانی ہی کے ساتھ ہمیشہ غالب آتی رہی ہیں.آدم علیہ السلام کے زمانہ سے لے کر اس وقت تک جو نہیں ہوا وہ اب بھی نہیں ہوگا اور جس کی ذریعہ سے آج تک خدا تعالیٰ کے پیغام دنیا میں پھیلتے رہے ہیں اسی طرح اب بھی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام دنیا میں پھیلے گا.پس اپنی جانوں پر رحم کرتے ہوئے ، اپنی اولادوں پر رحم کرتے ہوئے اپنے خاندانوں اور اپنی قوموں پر رحم کرتے ہوئے ، اپنے ملک پر رحم کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کے پیغام کو سننے اور سمجھنے کی کوشش کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے دروازے آپ کے لئے جلد سے جلد کھل جائیں اور اسلام کی ترقی پیچھے نہ پڑتی جائے ابھی بہت کام ہے جو ہم نے کرنا ہے.مگر اس کیلئے ہم آپ کی آمد کے منتظر ہیں کیونکہ خدائی ترقیات علاوہ منجزات کے دین کی اشاعت کے ساتھ بھی تعلق رکھتی ہیں.آپ آئیں اور اس بوجھ کو ہمارے ساتھ مل کر

Page 608

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۶ احمدیت کا پیغام اُٹھائیں جس بوجھ کا اٹھانا اسلام کی ترقی کے لئے ضروری ہے.بے شک قربانی اور ایثار اور ملامت اور تعذیب ان سب چیزوں کا دیکھنا اس رستہ میں ضروری ہے ، مگر خدا تعالیٰ کی راہ میں موت ہی حقیقی زندگی بخشتی ہے اور اس موت کو اختیار کئے بغیر کوئی شخص خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا اور اس موت کو اختیار کئے بغیر اسلام بھی غالب نہیں ہو سکتا.ہمت کریں اور موت کے اس پیالہ کو منہ سے لگالیں تاکہ ہماری اور آپ کی موت سے اسلام کو زندگی ملے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین پھر تر و تازہ ہو جائے اور اس موت کو قبول کر کے ہم بھی اپنے محبوب کی گود میں ابدی زندگی کا لطف اُٹھا ئیں.اللَّهُمَّ امِینَ خاکسار مرزا محمود احمد امام جماعت احمدیہ اکتوبر ۱۹۴۸ء الفضل ۶ نومبر ۱۹۴۸ ء ) البقرة: ۱۵۲ الفاتحه : ۴ متداول: ہاتھوں میں پھری ہوئی چیز.دست به دست پہنچی ہوئی چیز الاعراف: ۱۵۷ الفجر: ۳۱۳۰ التكاثر : ١٠ الرحمن: ۲۱ الاحزاب : ۴۱ الذريت: ۵۷ ترمذی ابواب الشهادات حدیث ۲۳۰۳ کنسرویٹو پارٹی (Conservative Party) برطانوی سیاسی پارٹی جو سترھویں صدی کے آخر میں ٹوری پارٹی کی جگہ برسراقتدار آئی.نام ابتداء ۱۸۳۰ء میں مشہور ہوا.پارٹی میں ۱۸۴۶ء میں پھوٹ پڑی.۱۸۷۴ء سے ۱۸۸۰ ء تک دوبار برسراقتدار آئی.۱۸۸۵ء سے ۱۹۰۵ ء تک (معمولی وقفے کے سوا ) پھر اس پارٹی کی حکومت رہی.جوزف چیمبرلین کی اصلاحات محاصل کے بعد پارٹی انتشار کا شکار ہوئی اور ۱۹۱۴ ء تک لبرل حکومت قائم رہی.۱۹۲۴ ء اور ۱۹۲۹ء میں لیبر پارٹی کی کامیابی کے علاوہ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۴۰ ء تک تمام عرصہ کنسرویٹو پارٹی

Page 609

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۷ احمدیت کا پیغام حاوی رہی.دوسری عالمی جنگ میں کنسرو نیٹونسٹن چرچل نے مخلوط وزارت بنائی.۵۱-۱۹۴۵ء میں لیبر حکومت رہی اور چرچل کے زیر عنان پھر کنسرویٹو سر بر آرائے سلطنت ہوئے.الدخان: ۳۹ اُردو جامع انسائیکلو پیڈیا جلد ۲ مطبوعہ لاہور ۱۹۸۸ ، صفحہ ۱۲۲۱) السجدة: 4 ابوداؤد کتاب الملاحم باب ما يذكر في قرن المائة ها كنز العمال جلدا اصفحہ ۱۸۱ مطبوعہ حلب ۱۹۷۴ء ١٦ البقرة: ٣١ 19 البقرة: ۱۸۴ ٢٢ العنكبوت: ۷۰ على البقرة: ١١٣ ٢٠ التوبة: ١٠٣ الحجر : ٣ ١٨ العنكبوت : ٤٦ ات الفاتحه : ۷،۶

Page 610

Page 611

انوار العلوم جلد ۲۰ ۵۹۹ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام از نا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد ید نا خلیفۃ المسیح الثانی

Page 612

Page 613

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۱ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ.هُوَ النَّاصِرُ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام (۲۰ / دسمبر ۱۹۴۸ء) نیا ماحول اور نئی ذمہ داریاں برادران جماعت احمدیہ قادیان و ہندوستان یونین ! اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ میں آپ لوگوں کو سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت قائم رکھنے کی توفیق پانے پر مبارکباد دیتا ہوں.سنا گیا ہے کہ ہندوستان یونین نے سو کے قریب ہندوستانی احمدیوں کو جلسہ میں شامل ہونے کی اجازت دی ہے گو یہ اجازت بہت بعد میں ملی ہے اور شاید اس سے جماعت کے لوگ فائدہ نہ اُٹھا سکیں لیکن اگر بعض افراد کو اس سے فائدہ اُٹھانے کی توفیق ملی ہو تو میں انہیں بھی اِس اہم موقعہ پر حصہ لینے پر مبارکباد دیتا ہوں.برادران ! جماعتیں بڑے صدمات میں سے گزرے بغیر کبھی بڑی نہیں ہوتیں.قربانی کے مواقع کا میسر آنا اور پھر قربانی کرنے کی قابلیت کا ظاہر کر دینا ، یہی افراد کو جماعتوں میں تبدیل کی کر دیتا ہے اور اس سے جماعتیں بڑی جماعت بنتی ہیں.ہماری قربانیاں اس وقت تک بالکل اور قسم کی تھیں اور ان کو دیکھتے ہوئے نہیں کہا جاسکتا تھا کہ ہماری جماعت کے بڑے بننے کے امکانات موجود ہیں.مگر اب جو قادیان کا حادثہ پیش آیا ہے وہ اس قسم کے واقعات میں سے ہے جو قوموں کو بڑا بنایا کرتے ہیں.اگر اس وقت ہماری جماعت نے اپنے فرائض کو سمجھا ، اور ی اپنی ذمہ داریوں کو ادا کیا تو بڑائی اور عظمت اور خدائی برکات یقیناً اس کے شامل حال ہوں گی

Page 614

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۲ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام اور وہ اس کام کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگی جو خدا تعالیٰ نے اس کے سپر د کیا ہے.میں قادیان کے رہنے والے احمدیوں کو اس امر کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاتا ہوں کہ وہ شور وشر کا زمانہ جس نے عمل کے مواقع کو بالکل باطل کر دیا تھا اب ختم ہورہا ہے.آہستہ آہستہ امن فساد کی جگہ لے رہا ہے.بہت سی جگہوں کے راستے کھل گئے ہیں اور باقی کے متعلق امید ہے کہ آہستہ آہستہ کھل جائیں گے مگر جس رنگ میں کام چل رہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کا ایک مرکز پر جمع ہو جانا ابھی کچھ وقت چاہتا ہے.وہ وقت لمبا ہو یا چھوٹا لیکن بہر حال جب تک وہ وقت نہ آئے جس حد تک موجود ہ تعطل کو دور کیا کی جا سکے اس کا دُور کیا جانا ضروری ہے.گذشتہ سال جو تعطل واقع ہوا وہ معافی کے قابل تھا کیونکہ تمام علاقے آپس میں کٹے ہوئے تھے اور ایک دوسرے تک خبر پہنچانا ناممکن تھا لیکن اب وہ حالت نہیں رہی.اب کسی نہ کسی ذریعہ سے قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کا تعلق قائم رکھا جا سکتا ہے اور تبلیغ اور اشاعت کے کام کو بھی ہاتھوں میں لیا جا سکتا ہے.گذشتہ ایام میں جو تبا ہی آئی اس موقعہ پر قادیان کے اکثر احباب نے نہایت ہی عمدہ نمونہ دکھایا اور قابلِ تعریف قربانی پیش کی.جس پر میں ہی نہیں ہندوستان اور پاکستان کے لوگ ہی نہیں بلکہ دنیا کے دور دراز ملکوں کے لوگ بھی قادیان کے لوگوں کی قربانی کی تعریف کر رہے ہیں.امریکہ اور یورپ کے لوگ اب قادیان کو صرف ایک مذہبی مرکز کے طور پر نہیں دیکھ رہے بلکہ قربانی کرنے والے ایثار کرنے والے اور اس دکھ بھری دنیا کو اس کے دکھوں سے نجات دینے کی کوشش کرنے والے لوگوں کا مرکز سمجھ رہے ہیں.اس نقطہ نگاہ سے قادیان اب صرف احمدیوں کا مرکز نہیں رہا بلکہ وہ مختلف مفید عام کاموں کی خواہش رکھنے والے لوگوں کی توجہ کا مرکز بھی ہو گیا ہے.ابھی کی چند دنوں کی بات ہے کہ ایک مجلس میں شامل ہونے کا مجھے موقع ملا.میرے پاس امریکن قونصلی جنرل کی بیوی تشریف رکھتی تھیں.مجلس سے اٹھتے وقت میں نے ان سے کہا کہ اپنے خاوند سے مجھے انٹروڈیوس کرا دیں.انہوں نے اپنے خاوند کو مجھ سے ملوایا.ملنے کے بعد سب سے پہلے فقرہ جو امریکن قونصل جنرل نے کہا وہ یہ تھا کہ مجھے قادیان دیکھنے کی بہت خواہش ہے افسوس ہے کہ اس وقت تک میں اس خواہش کو پورا نہیں کر سکا.میں نے کہا ہمیں بھی بہت خواہش

Page 615

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۳ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام لیکن افسوس کہ اس وقت ہم بھی اس خواہش کو پورا نہیں کر سکتے.اسے سن کر نہایت افسوس سے امریکن قونصل جنرل نے کہا.ہاں ہمیں بھی اس بات کا بہت افسوس ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے گواحد یہ جماعت کی اکثریت قادیان کو چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہے اور اب صرف چند سواحمدی قادیان میں رہ گئے ہیں لیکن قادیان پہلے سے بھی زیادہ دنیا کی توجہ کا مرکز ہو گیا ہے اور اس کی وجہ وہی قربانی اور شاندار نمونہ ہے جو قادیان کے احمدیوں نے پیش کیا اور آپ لوگ اس قربانی کی کی مثال کو زندہ رکھنے والے ہیں اور اس وجہ سے اس معاملہ میں سب سے زیادہ مبارک باد کے مستحق ہیں.لیکن صرف کسی چیز کو زندہ رکھنا کافی نہیں ہوا کرتا اس چیز کو زیادہ سے زیادہ پھیلا نا اصل کام ہوتا ہے.اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس نور آسمانی کو اپنے دل میں زندہ رکھتے جو آسمان سے اس وقت نازل ہوا تھا تو یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہوتا لیکن اتنا بڑا کام نہیں جو اس کی صورت میں ہوا کہ آپ نے اس نور کو اپنے دل ہی میں زندہ نہیں رکھا بلکہ ہزاروں لاکھوں اور کی انسانوں کو بھی اس نور سے منور کر دیا.صحابہ کرام نے اس نور کو اپنی زندگیوں میں زندہ رکھ کر ایک بہت بڑا نمونہ دکھایا لیکن ان کا یہ نمونہ اس سے بھی زیادہ شاندار تھا کہ انہوں نے نورمحمدی کا ایک حصہ اپنے سینوں سے نکال کر لاکھوں اور کروڑوں دیگر انسانوں کے دلوں میں بھی بھر دیا.پس اے میرے عزیزو! آپ کی زندگی کا پہلا دور ختم ہوتا ہے اور نیا دور شروع کرنے کا وقت آ گیا ہے.پہلے دور کی مثال ایسی تھی جیسے چٹان پر ایک لیمپ روشن کیا جاتا ہے تا کہ وہ قریب آنے والے جہازوں کو ہوشیار کرتا رہے اور تباہی سے بچائے لیکن نئے دور کی مثال اس سورج کی سی ہے جس کے گرد دنیا گھومتی ہے اور جو باری باری ساری دنیا کو روشن کر دیتا ہے.بیشک آپ کی تعداد قادیان میں تین سو تیرہ ہے لیکن آپ اس بات کو نہیں بھولے ہوں گے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قادیان میں خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے کام کو شروع فرمایا تھا تو اس وقت قادیان میں احمدیوں کی تعداد صرف دو تین تھی.تین سو آدمی یقیناً ی تین سے زیادہ ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوے کے وقت قادیان کی آبادی گیارہ سو تھی.گیارہ سو اور تین کی نسبت ۱۳۶۶ کی ہوتی ہے.اگر اس وقت قادیان کی آبادی بارہ ہزار کبھی جائے تو موجودہ احمد یہ آبادی کی نسبت باقی قادیان کے لوگوں سے

Page 616

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۴ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام ۱/۳۶ ہوتی ہے.گویا جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کام شروع کیا کی اُس سے آپ کی طاقت اس وقت دس گنے زیادہ ہے.پھر جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کام شروع کیا اس وقت قادیان سے باہر کوئی احمد یہ جماعت نہیں تھی لیکن اب ہندوستان میں بھی بیسیوں جگہ پر احمد یہ جماعتیں قائم ہیں.ان جماعتوں کو بیدار کرنا، منظم کرنا ، ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑا کرنا اور اس ارادہ کے ساتھ ان کی طاقتوں کو جمع کرنا کہ وہ اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کو ہندوستان کے چاروں گوشوں میں پھیلا دیں یہ آپ لوگوں کا ہی کام ہے.ہم کہتے ہیں کہ قادیان احمدیوں کا مرکز ہے.آپ لوگ بھی کہتے ہیں کہ ہم اس لئے قادیان میں بیٹھے ہیں کہ یہ ہم احمدیوں کا مرکز ہے.اب یہ آپ لوگوں کا فرض ہے کہ مرکز کو مرکز کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کریں.مرکز چند مجاوروں کے جمع ہو کر بیٹھ جانے کا نام نہیں.مرکز ایک بے انتہاء جذبہ کا نام ہے جو اپنے ماحول پر چھا جانے کا ارادہ کر کے کھڑا ہو.مرکز کا نام قرآن کریم میں ماں رکھا ہے اور ماں وہی ہوتی ہے جو اپنا خون پلا کر بچوں کو پالتی ، بڑا کرتی اور جوان کرتی ہے.پس قادیان مرکز اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ وہ اپنی چھاتیوں کا دودھ تمام طالبانِ صداقت کو پیش کرے ، ان کو پالے اور ان کی پرورش کرے اور ان کو پروان چڑھائے.پس آپ لوگ اب اپنی نئی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے نئے سرے سے اپنے دفاتر کی تنظیم کریں اور ہندوستان کی باقی جماعتوں کو دوبارہ زندہ کرنے اور زندہ رکھنے کی کوشش کریں.صرف یہی نہیں بلکہ ان کو بڑھانے اور پھیلانے کی کوشش کریں.وہ تمام اغراض جن کے لئے احمد یہ جماعت قائم کی گئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں میں لکھی ہوئی موجود ہیں.ان اغراض کو سامنے رکھ کر صدر انجمن احمدیہ کی تنظیم کریں اور تمام ہندوستان کی کی جماعتوں کے ساتھ خط و کتابت کر کے ان کو منظم کریں اور پھلنے پھولنے میں مدد دیں.اس کام کے متعلق میں چند تجاویز آپ لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہوں: اوّل.ہندوستان یونین کی تمام احمد یہ جماعتوں کی لٹیں جمع کریں.( جولٹیں وہاں موجود نہ ہوں وہ لسٹیں پاکستان کے مرکز سے منگوالیں ) (۲) پریس کو دوبارہ جاری کرنے کی کوشش کریں.جب تک قادیان کا پریس واگذار

Page 617

انوار العلوم جلد ۲۰ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام نہیں ہوتا اس وقت تک ضروری اشتہارات لکھ کر دہلی بھجوا دیا کریں اور وہاں سے چھپوا کر ریل کی میں منگوالیا کریں اور پھر ڈاک کے ذریعہ تمام ہندوستانی جماعتوں میں تقسیم کر دیا کریں.(۳) چونکہ گذشتہ صدمہ سے بعض جماعتوں میں کمزوری پیدا ہوگئی ہے اس کو دُور کرنے کے لئے مختلف علاقوں میں مبلغ مقرر کریں تا کہ وہ پھر پھر کے جماعتوں کی دوبارہ تنظیم کریں.اس وقت مبلغ صرف دہلی ، بمبئی ، حیدر آباد دکن، بہار، اڑیسہ، اور کلکتہ میں ہیں.جو نہی آپ کام کرنے کے قابل ہو جائیں اور اپنے انتظامات کو مکمل کرلیں دہلی کے مبلغ کی طرح باقی مبلغوں کو بھی براہِ راست قادیان کے ماتحت کر دیا جائیگا مگر اب بھی حقیقتا وہ آپ ہی کے ماتحت ہیں اور آپ کو ان سے کام لینا چاہئے.(۴) اس وقت قادیان میں قریباً دو درجن دیہاتی مبلغ ہیں.ان لوگوں کو کوشش کر کے دہلی پہنچایا جائے اور وہاں سے آگے ہندوستان کے مختلف علاقوں میں جہاں احمد یہ جماعتیں قائم ہیں پھیلا دیا جائے.یہ لوگ وہاں جا کر نہ صرف موجودہ جماعتوں کی تنظیم کریں بلکہ جماعت کو وسیع کرنے کی کوشش کریں.چونکہ آپ لوگ انڈین یونین میں ہیں اور وفا دار شہریوں کی حیثیت میں ہیں کوئی وجہ نہیں کہ حکومت آپ میں اور دوسرے کام کرنے والے مسلمانوں میں کوئی فرق کرے.ان جانے والوں کے بدلے میں ہندوستان کی جماعتوں میں تحریک کر کے نئے واقفین بلو ا کے قادیان میں رکھے جائیں جو قادیان میں آکر تعلیم حاصل کریں اور پھر بیرونی جماعتوں کی میں پھیلا دیئے جائیں.سر دست اگر جلسہ میں کچھ احمدی باہر سے آکر شامل ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ پانچ دیہاتی مبلغ بھجوا دئیے جائیں جو مولوی بشیر احمد صاحب دہلوی کی نگرانی میں یو.پی کے مختلف علاقوں میں کام کریں.یو.پی کی جماعتوں میں سے لکھنو ، شاہجہانپور اور بریلی ، آگرہ کی اچھی جماعتیں تھیں لیکن اب دیر سے ان کا پتہ ہی نہیں لگتا کہ وہ کہاں ہیں.اگر یہ لوگ وہاں کی جا کر کام کریں تو نہ صرف وہ جماعتیں جلد منظم ہو جائیں گی بلکہ نئے سرے سے پھولنے اور پھلنے لگ جائیں گی.ان جانے والے مبلغین کو سمجھا دیا جائے اگر بعض جماعتیں گذشتہ صدمات کی برداشت نہ کر کے بالکل مردہ ہو چکی ہوں تب بھی گھبرا ئیں نہیں.ایک دو تین جتنے احمدی مل سکیں ان کو جمع کر کے نئے سرے سے کام شروع کر دیں.پھر وہ انشاء اللہ دیکھیں گے کہ ابھی چند دن کی

Page 618

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۶ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام بھی نہیں گزرے ہوں گے اور پہلے سے بھی زیادہ مضبوط جماعتیں وہاں قائم ہو جائیں گی بلکہ اردگرد کے علاقوں میں بھی احمدیت پھیلنے لگ جائے گی.یہ یادر ہے کہ سب کے سب مبلغوں کو اکٹھا نہ بھجوایا جائے کیونکہ ممکن ہے کہ ان کے قائم مقاموں کے آنے میں دقت پیدا ہوا ور قا دیان کی احمدی آبادی کم ہو جائے.اس خطرہ کو آپ کبھی نہ بھولیں اور ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھیں.ہمیشہ پہلے باہر سے آنے والوں کو اندر لایا کریں اور پھر بعض دوسروں کو باہر جانے کی اجازت دیا کریں سوائے ان پانچ کے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے.(۵) چونکہ اب ملک میں ہندی کا زور ہو گا اسلئے آپ لوگ بھی دیوتا گری رسم الخط کے سیکھنے کی کوشش کریں اور ہندی زبان میں لٹریچر کی اشاعت کی طرف خاص توجہ دیں.(۶) جب تک باہر سے واقفین کے آنے کی پوری آزادی نہ ہو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کچھ طالب علموں کو مولوی بشیر احمد صاحب اپنے ساتھ رکھ کر دہلی میں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کی کو ساتھ رکھ کر مولوی محمد سلیم صاحب کلکتہ میں پڑھائیں اور کچھ طالب علموں کو ساتھ رکھ کر مولوی عبدالمالک صاحب حیدر آباد میں پڑھائیں اور پھر ان کو ارد گرد کے علاقوں میں پھیلاتے چلے جائیں لیکن یہ مدنظر رکھا جائے کہ ہندوستان کے چندوں سے ہندوستان کا خرچ چل سکے اور قادیان کی آبادی کا خرچ بھی وہیں سے نکل سکے.(۷) قادیان میں احمدیوں کے آنے اور قادیان کے احمدیوں کو ہندوستان یونین میں جانے کے متعلق آزادی کرانے کے لئے آپ لوگ با قاعدہ کوشش کریں اور کوشش کرتے چلے جائیں تا کہ قادیان میں پھر زائرین آنے لگ جائیں اور قادیان کی نہر ایک کھڑے پانی کے جو ہر کی سی شکل اختیار نہ کر لے.(۸) آبادی کی زندگی کے لئے عورتوں اور بچوں کا ہونا بھی ضروری ہے.آپ لوگ متواتر حکومت کے ساتھ خط و کتابت کریں اور کوشش کریں کہ ایسے حالات پیدا ہو جا ئیں کہ قادیان کے ساکنان کے بیوی بچے وہاں حفاظت کے ساتھ رہ سکیں.(۹) جونہی قادیان میں کچھ ایسے نوجوان آجائیں جن کا تعلیم پانے کا زمانہ ہو تو فوراً ایک سکول کی بنیا درکھ دی جائے جس کے متعلق کوشش ہو کہ وہ آہستہ آہستہ بڑھتا چلا جائے.

Page 619

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۷ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام (۱۰) ہندوستان یونین کی صدر انجمن احمدیہ نے ایک دن کے لئے بھی ہندوستان نہیں چھوڑا.اسی طرح وہاں کی تحریک جدید انجمن بھی وہیں ہے.یہ انجمنیں قادیان کی جائداد کا مطالبہ کر سکتی ہیں.آپ کو بڑے زور سے اس امر کا مطالبہ کرنا چاہئے.افراد کی جائداد کا تج بے شک جھگڑا ہو لیکن صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید جو کہ ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کی کیوں حکومت ان کے سپردان کی جائداد نہ کرے.کالج ، سکول، ہسپتال، ریتی چھلہ، زنانہ سکول، دار الانوار کا گیسٹ ہاؤس ، خدام الاحمدیہ کے دفاتر تحریک جدید کی زمینیں، ان کے مالک قادیان میں بیٹھے ہیں.آپ لوگ اس کے متعلق دعوی کریں اور ان لفظوں میں کریں کہ جبکہ ان جگہوں کے مالک صدر انجمن احمدیہ تحریک جدید اور خدام الاحمدیہ قادیان میں موجود ہیں اور جبکہ ان جگہوں سے فائدہ اٹھانے والے احمدی ہندوستان یونین میں موجود ہیں تو کس قانون کے ماتحت ان چیزوں پر قبضہ کیا گیا ہے.یہ چیزیں ہمارے سپرد ہونی چاہئیں اور ہمیں ان کے استعمال کا موقع دینا چاہئے.عقل کے ساتھ اور ادب کے ساتھ اگر ان مطالبات کو حکام کے سامنے بار بار رکھا جائے اور ان پر یہ روشن کیا جائے کہ ہندوستان یونین کے احمدی ہندوستان یونین کے وفادار ہیں جس طرح پاکستان کے احمدی پاکستان کے وفادار ہیں پھر ان سے باغیوں کی کا سا سلوک کیوں کیا جاتا ہے تو یقیناً حکومت ایک دن اپنا رویہ بدلنے پر مجبور ہوگی.(۱۱) جب تک پریس نہیں ملتا اس وقت جماعتوں کے نام چٹھی لکھ کر ہر پندرھویں روز بھجوا نا شروع کریں جس میں جماعتوں کو ان کے فرض کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر عہدہ داران جگہ چھوڑ گئے ہیں تو نئے عہدہ دار مقرر کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اگر عہدہ دار عہدوں پر موجود ہیں لیکن کام نہیں کرتے تو ان کو کام کرنے کی طرف توجہ دلائی کی جائے.اگر بالکل بیدار نہیں ہوتے تو ان کو بدلنے کی طرف توجہ دلائی جائے.قرآن شریف میں ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.نذیر اِن نَفَعَتِ الذِّكرى اگر آپ پیچھے پڑ جائیں گے تو یقیناً ایمان کی چنگاری پھر سُلگ اُٹھے گی سونے والے پھر بیدار ہو جائیں گے بلکہ مردے بھی زندہ ہو جائیں گے اور پھر تر و تازگی اور نشو و نما کے آثار ظاہر ہونے لگ جائیں گے.آپ تین سو سے زیادہ آدمی وہاں ہیں.اگر ان میں سے سو آدمی کا خط پڑھے جانے کے قابل ہو اور

Page 620

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۸ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام ہر چٹھی تین تین سو کی تعداد میں باہر بھیجی جائے تو ہر لکھے پڑھے آدمی کو پندرہ دن میں صرف تین چٹھیوں کو نقل کرنا پڑتا ہے اور یہ کوئی بڑا کام نہیں.ان چٹھیوں میں ایمان کو ابھارنے یا زندگی کو ہو قائم رکھنے ، ہمت سے کام لینے اور خدا تعالیٰ کے ان بے انتہاء فضلوں میں حصہ لینے کی دعوت ہو جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا گیا تھا.طرح طرح سے اور بار بار جماعتوں کو ہلایا جائے ، جگایا جائے اور نہ صرف ہلایا جائے اور جگایا جائے بلکہ تبلیغ کر کے اپنے آپ کو وسیع کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے.اس وقت مسلمان بے کسی کی حالت میں پڑا ہے.اس وقت وہ سچائی پر غور کرنے کیلئے تیار ہے.وہ اس ہاتھ کیلئے ترس رہا ہے جو اس کو پکڑ کر نجات کی طرف لے جائے.اگر آج آپ لوگ صحیح طور پر جماعتوں کو بیدار کرنے کی طرف توجہ کریں تو ہندوستان میں احمدیت کے پھیلنے کا بے نظیر موقع ہے.سر دست مولوی بشیر احمد صاحب یو.پی کی جماعتوں کو منظم کریں اور یو.پی کے تمام چندے سوائے تحریک جدید کے چندہ کے جو غیر ممالک کی تبلیغ پر خرچ ہوتا ہے قادیان بھجوائیں آپ لوگ با قاعدہ خط و کتابت کے ذریعہ سے ہمیں بتاتے رہیں کہ فلاں فلاں جماعت منظم ہو گئی ہے اور ان کا چندہ قادیان میں آنے لگ گیا ہے تا ایسا نہ ہو کہ دو عملی کی وجہ سے کوئی جماعت بالکل تباہ ہو جائے.جب آپ یو.پی کی جماعتوں کو منظم کرلیں گے تو ہم دوسرے صوبوں کو باری باری آپ کے سپر د کر تے چلے جائیں گے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ اب خاموشی سے جھنڈے کو پکڑ کر کھڑے رہنے کا وقت گذر چکا.وہ کام آپ نے شاندار طور پر کیا جس کے لئے دنیا بھر کے احمدی آپ لوگوں کے ممنون ہیں اور آنے والی نسلیں بھی آپ کی ممنون رہیں گی مگر انسان ایک بڑھنے والی ہستی ہے.ہر روز اس کے حالات متغیر ہوتے ہیں اور ہر روز کے بدلے ہوئے حالات کے مطابق اسے کام کرنا پڑتا ہے کل کی روٹی آج کام نہیں آسکتی اور آج کی روٹی آنے والے کل کام نہیں آسکتی.پس وہ عظیم الشان ہے خدمت جس کے کرنے کی اللہ تعالیٰ نے آپ کو توفیق بخشی ہے اس کا تقاضا ہے کہ اب آپ اگلا قدم اُٹھا ئیں اور قادیان کے خاموش مرکز کو ایک زندہ مرکز میں تبدیل کر دیں.ہندوستان یونین کی آبادی ۲۹،۲۸ کروڑ کے قریب ہے.اس کی اصلاح اور نجات کوئی معمولی کام نہیں، کسی زمانہ میں ساری دنیا کی آبادی اتنی ہی تھی.پس آج سے سینکڑوں سال پہلے ساری دنیا کی کی

Page 621

انوار العلوم جلد ۲۰ ۶۰۹ ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام اصلاح کا کام جتنا اہم تھا اتنا ہی آج ہندوستان کی اصلاح کا کام اہم ہے.جن لوگوں کو خدا تعالیٰ نے قادیان کی چھوٹی سی بستی کو بڑھا کر ایک سعی و عمل کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر بنانے کی توفیق بخشی وہ بھی انسان تھے اور آپ بھی انسان ہیں آپ اپنے آپ کو افراد کی حقیقت میں دیکھنا چھوڑ دیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ كَانَ أُمَّةً ل ابراہیم ایک امت تھا.جو لوگ خدا تعالیٰ پر نظر رکھتے ہوئے اس کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کوفردسمجھنا چھوڑ دیتے ہیں.ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اُمت سمجھتا ہے اور ان میں سے بعض شخص تو اپنے آپ کو دنیا سمجھتے ہیں.آپ لوگ بھی اور وہ دوسرے دوست بھی جو اس وقت باہر سے قادیان میں تشریف لا سکے ہوں وہ بھی آج سے اپنا نقطہ نگاہ بدل دیں.آج سے ان میں سے ہر شخص اپنے آپ کو اُمت سمجھنے لگ جائے.وہ یہ سمجھ لے کہ جس طرح آم کی گٹھلی میں سے ایک بڑا درخت پیدا ہوتا ہے، جس طرح بڑ کے چھوٹے سے بیج میں سے سینکڑوں آدمیوں کو سایہ دینے والا پیدا ہو جاتا ہے ، اسی طرح وہ اُمت بن کر رہے گا.وہ ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں اپنی نسلیں پھیلا دے گا.وہ خاموش قربانی کی جگہ اب اصلاح کیلئے اپنی قربانی کو پیش کرے گا.ہندوستان اس بات کا متقاضی ہے کہ اس کے اندر پھر سے انسانیت کو قائم کیا جائے.پھر سے صلح اور آشتی کو قائم کیا جائے پھر سے خدا تعالیٰ کی محبت اس کے دل میں پیدا کی جائے اور یہ کام سوائے آپ لوگوں کے اور کوئی نہیں کر سکتا.عزم صمیم کے ساتھ اُٹھیں.طوفان کا سا جوش لے کر اُٹھیں اور ہندوستان پر چھا جائیں جس کا نتیجہ ضرور یہ نکلے گا کہ وہ لوگ جو آج احمدیت کو بغض اور کینہ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ایک دشمن کی حیثیت میں دیکھتے ہیں وہ اور ان کی نسلیں آپ لوگوں کے ہاتھ چومیں گی.آپ لوگوں کیلئے برکتیں مانگیں گی اور دعائیں دیں گی کہ آپ لوگ اس بدقسمت ملک کو امن دینے والے اور صلح اور آشتی کی طرف لانے والے ثابت ہوئے.احمدیت ایک نور ہے، احمدیت صلح کا پیغام ہے،احمدیت امن کی آواز ہے، تم اس نور سے دنیا کو منور کر و.تم اس پیغام کی طرف لوگوں کو بلاؤ تم اس آواز کو دنیا کے گوشہ گوشہ میں بلند کر دو.خدا تمہارے ساتھ ہو.خاکسار مرزا محمود احمد اعلی ۱۰ النحل: ۱۲۱ ۲۰ دسمبر ۱۹۴۸ء

Page 622

٣٣ ۱۵ ۱۸ > ۲۹ 11 انڈیکس کلید مضامین آیات قرآنیہ احادیث اسماء مقامات کتابیات

Page 623

1 احمدیت احمدیت جب تک غالب نہ ہو اسلام غلبہ نہیں پاسکتا ۵۳۹ مضامین احمدیوں کا عقیدہ نجات کے اسلام ہی کی تعلیم قابل عمل ہے ۵۷۰،۵۶۹ متعلق اسلام کی تعلیم پر چل کر امن سکتا احمدیوں کا احادیث پر ایمان ۵۷۰ تا ۵۷۲ قائم رکھا جا سکتا ہے اسلام نے حریت اور مساوات کا احمدیوں کا عقیدہ تقدیر کے متعلق ۵۷۳،۵۷۲ جذ بہ قائم کیا ٣٠٣ ٣٠٣ ۳۶۶ احمدیت ہی صرف ایک مذہبی احمدیوں کا عقیدہ جہاد کے متعلق ۵۷۳ اسلام کا سارا قانون قرآن میں ہے ۴۲۶ تحریک ہے احمدیت غالب آ کر رہے گی احمدیت کوئی نیا مذ ہب نہیں احمدیت قرآن کے ہر حرف کو خدا کی طرف سے سمجھتی ہے احمدیت کو سیاست سے کوئی غرض نہیں ۵۴۱ ۵۴۳ ۵۶۱ ۵۶۶ احمد یوں کو دوسری جماعتوں سے اسلام کی فتح کے دن آ رہے ہیں ۴۴۶ الگ رکھنے کی وجہ ۵۸۲ تا ۵۹۶ اسلام روپیہ جمع کرنے کو روکتا ہے ۴۶۲ اسلام کی رو سے شادی نہ کرنا گناہ ہے اخلاق فاضلہ اخلاق فاضلہ نام ہے طبعی قوی کے صحیح استعمال کا ۳۹۰ اسلام دوسرے مذاہب سے کلمہ کے لحاظ سے ممتاز ہے ۵۷۹ اسراف اسراف گناہ ہے احمدیت اس غرض کیلئے کھڑی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کی دینی حالت اسلام درست کرے ۵۷۹ | اسلام میں ہزاروں احکام ہیں ۴۹۸ 11 اسلام دوسرے مذاہب سے ہر پہلو سے ممتاز ہے اسلام مذہبی زنجیر کی آخری کڑی ہے ۴۹۸ ۵۶۱ ۵۶۳،۵۶۲ اسلام کو غالب کرنے کے لیے سلسلہ احمدیہ کا قیام پیشگوئیوں ۱۵ اسلام میں ہمیشہ خدا کا کلام ۵۸۶ بڑی بڑی قربانیاں کرنی پڑیں گی ۵۶۳ کے مطابق ہے ۵۹۳ احمدیوں کا عقیدہ ختم نبوت کے اسلام میں مردہ لاش کا جاری ہے متعلق احمدیوں کا عقیدہ فرشتوں کے اسلام وہ تعلیم پیش کرتا ہے جو متعلق ۵۶۶،۵۶۵ | احترام ۲۷۷، ۲۷۸ | اسلام میں روزہ ۴۶۱ اصلاح ۵۶۷، ۵۶۸ | فطرت کے عین مطابق ہے ۲۹۳ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے Δ

Page 624

اللہ تعالیٰ کا ہر کام حکمت کے ماتحت انسان کی پیدائش تدریجی طور پر اللہ تعالیٰ ۴۹۰ ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے احسانوں سے دنیا صفات الهیه انسان خدا کے لیے بمنزلہ آئینہ ہے ۴۹۰ کا کوئی گوشہ خالی نہیں اللہ تعالیٰ کی ہستی وراء الوراء 1+9 ۴۷۶،۱۱۰ ۴۴۸ ۵۸۴،۵۸۳،۴۸۷ | ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کی چار صفات ۴۷۷ تا ۴۸۰ انسان خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ دنیا صفات الہیہ جو قرآن میں مذکور ہیں صفات الہیہ دو قانونوں کے کا محور اور مرکز ہے ۴۸۰ تا ۴۸۳ انسان کے اندر تمام مخلوقات کی صفات جمع ہوگئی ہیں ۴۹۰ ۴۹۰ ماتحت کام کرتی ہیں ۴۸۷ انسان کی پیدائش آہستہ آہستہ ہوئی ۴۹۱ کی انسان کا دماغی ارتقاء آہستہ آہستہ ہوا ۴۹۱ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف کوئی احمقانہ بات نہیں منسوب ہوسکتی اللہ تعالیٰ ہمیشہ کلام کرتا چلا آیا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز میں منفرد ہے اللہ تعالیٰ تمام اشیاء کی اور راہنما بھیجتا رہے گا علتُ العِلل ہے ۴۷۴ امن ۵۹۳،۴۵۴،۴۵۳ أمت ۴۷۲ امت محمدیہ میں خدا تعالی بادی انسان نقطه مرکزی ہے تمام ۵۸۶ عالم مادی کے لیے انسان خدا کی صفات ظاہر کرنے ۴۹۳ ۴۹۳ اللہ تعالی بنی نوع انسان کے لیے امن کے قیام کا وہی ذریعہ ہے جو قرب کی راہیں کھولتا ہے ۴۷۴ قرآن نے بیان کیا اللہ تعالیٰ کا علم ہر چیز پر محیط ہے ۴۷۵ انبیاء اللہ تعالیٰ کی نظر باریک سے باریک انبیاء کی ترقی اور دنیاوی لیڈروں کی ۴۷۶ ترقی میں فرق چیز پر پڑتی ہے اللہ تعالیٰ تمام موجودات کا انبیاء آسمانی کتابوں سے نور تفصیلی علم رکھتا ہے ۴۷۶ بخشتے ہیں ♡ ۳۵،۳۴ KA کیلئے پیدا کیا گیا ہے انسان کا وجود ایک مرکب وجود ہے انسان خدا تعالیٰ کی ہدایت کے ساتھ ہی انسان بنتا ہے انسان دنیا کے ایک حصہ میں مختار اور ایک میں مقید ہے انسان کا فرض ہے کہ وہ خدا تعالیٰ اللہ تعالیٰ درگزر سے کام لیتا ہے ۴۷۸ انبیاء نقطه مرکزی ہیں تمام اللہ تعالیٰ روح اور مادہ کو پیدا انسانوں کے لیے کرنے والا ہے ۴۸۴ | انسان ۴۹۳ ۴۹۴ ۴۹۶ ۴۹۶ سے مضبوط تعلق پیدا کرے ۵۸۷ انسان ایک بڑھنے والی ہستی ہے ۶۰۸ انصار اللہ تعالیٰ نے دنیا کو ایک خاص انسان دنیا کی ہر چیز پر حکومت انصار مدینہ نے ہجرت کے وقت نظام کے تحت رکھا ہے ۴۸۴ کر رہا ہے ۴۹۰ حضور کے گھر کھانا دیا ۲۲۹

Page 625

انصار کے مہاجرین سے اخوت کے جذبات ایک انصاری کی جنگ بدر سے قبل پُر خلوص تقریر ۲۳۳ جنگ تنقید کئی وجوہ سے ہوتی ہے تہذیب جنگ کے بارہ میں یہودیت اور عیسائیت کی تعلیم ۲۹۲،۲۹۱ پیدائش ۲۴۰ تہذیب و تمدن کے مختلف ادوار ۴۴ جارحانہ جنگ اسلام میں منع ہے ۲۹۴ تہذیب دماغی ترقی کا نتیجہ ہے ۴۲ جنگ کی شرائط پیدائش انسانی کا مقصد ۴۹۳ جذبات پیشگوئی ج جذبات کا نتیجہ متواتر اور مسلسل اعمال ایک عظیم الشان پیشگوئی کا پورا کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے ہونا ۲۴۴، ۲۴۵ | جماعت KY پیشگوئی درباره مسیح موعود ۵۰۱ | نئی جماعت بنانے کی وجہ ۵۷۴ تا ۵۸۰ تجس تجسس کی ممانعت تعدد ازدواج ۴۱۹ جماعت احمدیہ جماعت احمد یہ عیسائیت کا ہر ملک میں مقابلہ کر رہی ہے ۵۸۰ جماعت احمدیہ کا پروگرام ۵۸۰ تا ۵۸۲ | جماعت احمدیہ کی مساعی نے عیسائی جنگ موتہ ۲۹۷ ،۲۹۶ ۳۳۶۳۳۱ جنگ خندق کے بعد مسلمانوں پر جنگ کے متعلق اسلام کی جنگ کی دو اقسام جہاد جہاد کی شرائط جھوٹ جھوٹ بُری چیز ہے تعددازدواج پر اعتراض مشنریوں کی کوشش کو باطل کر دیا ۵۸۱ حج کا جواب تفسیر ۳۳۱،۳۰۰ جن حج مرکزیت پیدا کرنے جن کے معنی پوشیدہ رہنے والا ۴۹۱ کیلئے ہے تفسیری نوٹ لکھنے کی وجوہ ۲۱ تا ۲۴ جن سے مراد وہ لوگ جن کی دماغی تمدن تمدن و تہذیب اور کلچر سے کیا نشو و نما مکمل نہیں تھی جنت مراد ہے ۴۲۱ تا ۴۳ جنت میں ایک دن تمام انسان داخل تمدن مادی ترقی کا نتیجہ.۴۲ ہو جائیں گے ۴۹۱ حفاظ ۳۰۴،۳۰۳ ۲۹۳ تا ۳۰۳ ۵۷۳ ۵۷۳ ۹۵ ۴۶۲،۴۶۱ حفاظ قرآن کے قتل کا حادثہ ۲۶۴،۲۶۳ حکومت ۵۰۰ حکومت نظام کیلئے قائم ہوتی ہے ۷۵

Page 626

۶ روح انسانی جسم کے ارتقاء کا صحابہ پر ہر قسم کے مظالم ۴۶۹ | ڈھائے گئے ۱۵۳ صحابہ نے انصاف سے حکومت کی ۱۵۴ روحانی ترقی جسمانی حالات سے مدینہ کے دونو جوان صحابہ کی خ انتہائی نقطہ ہے خدام روحانی ترقی خدام صحیح طور پر قرآن پڑھنا سیکھیں خندق خندق کھود نے میں صحابہ کا جوش و خروش دوزخ دوزخ روحانی بیماریوں کا شفا خانہ ہے ۲۷۰ ۵۰۰ متاثر ہوتی ہے ۴۹۶ شجاعت ز صحابہ کا حضور کیلئے پہرہ دینے کی پیشکش زنا زنا اسلام میں تعزیری جرائم میں صحابہ کا جوش تبلیغ ۴۱۴ صحابہ کا اخلاص جنگ حنین میں سے ہے صحابہ کا قربانی کا جوش س صحابہ سوال کو سخت نا پسند کرتے سورة ۲۴۳ ،۲۴۲ ۲۷۹ ۳۳۲،۳۳۱ ۳۵۵ ۳۶۱،۳۶۰ دیوتا دیوتاؤں کے متعلق ویدوں میں سورۃ قمر مکہ میں نازل ہوئی اختلاف ہے ۱۱۴ شراب ۲۴۵ تھے صحابہ کا حفظ قرآن کا شوق ۳۹۵،۳۷۸ ۴۳۰،۴۲۶،۳۹۶ عرب شراب کے سخت عادی تھے ۱۸۲ صحابہ کی سیرت کے واقعات ۲۵۴ ربوه ربوہ کا ملنا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا کھلا ثبوت ہے روایات قومی روایات تاریخ کا سب سے بڑا ثبوت ہیں روح روح خدا کے حکم سے پیدا ہوتی ہے ۵۴۶ شراب نوشی کی ممانعت شریعت شریعت کے بغیر قوم کی تکمیل نہیں ہوسکتی ۲۵۹،۲۵۸ ۱۲۱ صلح صلح حدیبیه ۳۷۰،۳۶۹،۳۶۲،۳۶۱ b ۳۰۸ تا ۳۱۱ محاج طلاق طلاق پر دوسری قومیں عمل کر صحابہ نے ایسی قربانیاں کیں جن ۱۴۲ رہی ہیں ۴۶۷ سے خدا راضی ہوا 11

Page 627

غزوہ حنین ۳۵۱ تا ۳۵۷ قانون تمدن میں تنظیم اور یکجہتی عادات عربوں کے عادات و خصائل ۱۸۳ تا ۱۸۵ عبادت عبادت کی اقسام عبرانی عورت ۴۵۹،۴۵۸ ۱۳۷ غزوہ تبوک ۳۵۹ تا ۳۶۳ قرآن غزوہ خندق ۲۶۷ تا ۲۷۶ پیدا کرنے کے اصول ۴۹۸ تا ۵۰۰ غلطیاں قرآن کے انگریزی ترجمہ کی وجوہ ۱۹ ،۲۰ بعض غلطیوں کو نظر انداز کیا جائے قرآن کا ترجمہ کرنے میں دقت ۲۱۲۰ تو قومی ترقی رک جاتی ہے ۵ قرآن الہامی کتاب ہے ف فرشتے عبرانی میں اعزاز و اکرام کیلئے جمع کا صیغہ استعمال ہوتا ہے دو عورتوں کا عشق رسول ۲۵۵ تا ۲۵۷ عیسائی ، انا جیل میں تحریف کیلئے فرشتوں سے تعلق پیدا کیا جا عیسائی ۵۶۷ قرآن کی تعلیم سب مذاہب پر حاوی ہے قرآن کریم کی ضرورت قرآن حضور کے دعویٰ نبوت کے ابتدا سے نازل ہونا شروع ہوا ۲۳ ۲۳ } ۲۴ ۴۲۴ قرآن کی پہلی آیات غار حرا سے ۴۲۴ قرآن ابتدا میں تھوڑا تھوڑا ق قانون ہر وقت تیار رہتے ہیں ۸۶ قانون انسان کے دماغ پر عیسائیت عیسائیت نے افریقہ میں دھاوا اثر ڈالتا ہے قانونِ قدرت اور بول دیا ۵۸۱ قانون شریعت عیسائی دنیا، مسیح کے زمانہ سے جنگ قانون تمدن اور قانونِ اخلاق کرتی آرہی ہے ۲۹۲ غ KY ۴۹۴ ،۴۹۳ قانون شریعت کی سرحدیں ہیں ۴۹۵ قانون تمدن میں انسان کو بہت سے اختیارات دیئے گئے ہیں ۴۹۷ نازل ہوا قرآن لفظا لفظا محفوظ ہے قرآن حضور کی وفات تک نازل ہوتا گیا ۴۲۴ ۴۲۴ ۴۲۴ قرآن کی حفاظت کے ذرائع ۴۲۵ تا ۴۲۸ قرآن کی مختلف قراء توں سے کیا مراد ہے قرآن کا ایک جلد میں جمع غزوہ کرنا غزوہ بدر ۲۳۸ تا ۲۴۷ غز وه أحد قانون شریعت قانون اخلاق اور قرآن کو علماء اور بادشاہ لکھا ۲۴۷ تا ۲۵۵ غزوہ بنی مصطلق ۲۶۴ تا ۲۶۷ قانونِ تمدن ۴۹۸،۴۹۷ کرتے تھے ۴۲۹ ،۴۲۸ ۴۳۲ تا ۴۳۴ ۴۳۴

Page 628

قرآن ملا مگہ کے متعلق تفصیلی قرآن اخلاق فاضلہ کے اظہار قرآن کی سورتوں اور آیات کی ترتیب ۴۳۸ تا ۴۴۰ بحث کرتا ہے میں ترتیب ہے ۴۳۹ | ڈالتا ہے ۴۵۵ پر زور دیتا ہے ۴۶۶،۴۶۵ قرآن کی سورتوں کے مضامین قرآن دعا کی اہمیت پر روشنی قرآن انسان کی روح اور پیدائش ۴۵۶ پر بحث کرتا ہے ۴۶۶ تا ۴۷۰ قرآن کی ترتیب الہامی ہے ۴۳۹،۴۳۸ قرآن نیکی اور اخلاق فاضلہ پر قرآن کریم کامل کتاب ہے قرآن میں پیشگوئیاں ۴۴۰ تا ۶ ۴۴ بحث کرتا ہے ۴۵۶ قرآن روحانیت کی تکمیل کیلئے قرآن دنیا کے سامنے دواصل قرآن نجات کی تفاصیل بیان پیش کرتا ہے کرتا ہے قرآن بار بار حضور کی طرف قرآن دماغی ارتقاء پر روشنی معجزات منسوب کرتا ہے ۴۴۹ ڈالتا ہے آخری زینہ ہے ۴۵۶ قرآن انسان کی پیدائش کو تدریجی ۴۵۷ قرار دیتا ہے ۴۸۶ ۴۸۶ ۴۹۰ قرآن اعلیٰ اور اکمل کتاب ہے ۴۹۷ ہے قرآن مذہب کے متعلق سوال حل قرآن روحانی ارتقاء کی منازل قرآن آخری کتاب ہے ۵۰۱ ۴۵۷ قرآن ہر زمانہ میں پھل دیتا ہے ۵۰۷ قرآن عبادت کے متعلق روشنی قرآن کے الفاظ اور مضامین خدا کرتا ہے ۴۵۲ بیان کرتا ہے قرآن شریعت کی حکمتیں بیان لی کرتا ہے ۴۵۳ | ڈالتا ہے ایمان کیسے لانا چاہیے ۴۵۳ ڈالتا ہے قرآن بتاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر قرآن ایمان پر بھی روشنی ۵۶۲ ۵۷۱ ۴۵۸ کی طرف سے ہیں قرآن کے مقابلہ میں حدیث کو ۴۵۸ تسلیم نہیں کیا جائے گا ۴۶۳ ۴۶۴۰ قرآن کے ۱۵ کا تب تھے ۴۲۵ قرآن کے اساتذہ ۴۲۷ قرآن کے حفاظ ۴۲۹ تا ۴۳۲ ۴۶۳ قرآن انسان کے مختارا اور مجبور قرآن میں عورتوں کے حقوق کی متفرق امور ہونے پر روشنی ڈالتا ہے ۴۵۳ حفاظت کی گئی قرآن تو حید کے مسئلہ پر بحث قرآن بین المذاہب تعلقات ۴۵۴، ۴۵۵ پر روشنی ڈالتا ہے کرتا ہے قرآن بتاتا ہے کہ خدا کے نبی قرآن بنی نوع انسان کے باہمی تمام اقوام میں آتے رہے ۴۵۴ معاملات پر روشنی ڈالتا ہے قرآن نبی اور نبوت کے اقسام قرآن دنیا کیلئے ایک الگ بیان کرتا ہے ۴۶۳ حضرت عثمان کے زمانے میں لاکھوں آدمی قرآن حفظ کرتے تھے ۴۲۵ نابیناؤں کو قرآن حفظ کروایا جاتا ہے ۴۵۵ | سیاست پیش کرتا ہے ۴۶۴ حفظ قرآن کی کثرت ۴۳۶،۴۳۵ ۴۳۵

Page 629

۹ قرآن کا حفظ کرنا آسان ہے قرآن کے مختلف زبانوں میں تراجم قومیں ۴۳۵ ۵۰۷،۵۰۶ قومیں مصیبتوں اور تلواروں کے سائے تلے بڑھتی ہیں کفار ک ۱۵ کفار مکہ کا غلاموں پر ظلم وستم ۱۹۳ تا ۱۹۶ گناه گناہ کا اظہار بے حیائی پیدا کرتا ہے ۴۱۴ طیب چیزوں کا استعمال نہ کرنا گناہ ہے لباس ۴۹۸ بانیان مذاہب کی تعلیم میں اختلاف کی وجہ مرکز مرکز کی اغراض مسلمان مسلمان دنیا میں ہر جگہ ذلیل ہو مسلمان الہام الہی کے منکر ل رہے ہیں لباس پر اہل امریکہ کا اعتراض لڑکیاں ۱۱ ہیں ایک مسلمان کی امانت کا واقعہ ۳۶،۳۵ ۵۴۷ ۵۴۲،۵۴۱ ۵۹۱،۵۹۰ ۳۲۷ کفار مکہ کی ابوطالب کے پاس شکایت ۲۰۱ کفار کے ناپاک منصوبے ۲۶۰ تا ۲۶۳ کلام الله عرب کی بعض قوموں میں لڑکیاں مسلمانوں پر ظلم ۱۹۶ تا ۱۹۸ ، ۲۵۷، ۲۵۸ ماری جاتی تھیں کلام اللہ سوائے مسلمانوں کے مذہب کسی کو نہیں ملا ۵۶۲،۵۶۱ مذہب کی دواغراض مذہبی تحریکیں اصلاح نفس تبلیغ ، ۱۸۴ | مسلمانوں سے مقاطعہ ۲۶ ۵۹۵ ۲۰۸ مسلمانوں کے غلبہ کا آغاز ۲۸۸ تا ۲۹۱ مشرک مشرکین مدینہ کا اسلام میں داخل ہونا ۲۳۰ معجزہ معجزہ دکھانا خدا کا کام ہے ۴۵۰ کلچر قوموں میں اختلاف کا موجب ہیں کلمہ طیبہ ۴۳ قربانی سے غالب آتی ہیں مذاہب مذاہب دماغی اختراع کا نتیجہ نہیں بانیان مذا ہب اور دنیاوی تعلیم کلمہ طیبہ اسلام کے سوا کسی مذہب بانیانِ مذا ہب زمانہ کی رو کے ۲۹ ۳۲۰ مهمان نوازی عربوں کی مہمان نوازی بہت اعلی تھی نبی کی علامت نہیں ۵۶۱ خلاف تعلیم دیتے تھے ۳۳ کلمہ طیبہ میں محمد رسول اللہ بانیانِ مذاہب کے ذریعہ نشانات نبی ارتقائے دماغی یا روحانی کیلئے کے الفاظ کی حکمت ۵۶۴ و معجزات کا ظہور ۳۴ آتا ہے ۱۸۳ ۴۹۲

Page 630

1.صاحب شریعت نبی قوم کی بنیا درکھنے والا ہوتا ہے نجات نجات کے متعلق احمدیت کا عقیدہ بہت وسیع ہے نجات کا صحیح طریق کچی تو بہ ہے ۱۲۱ ۱۲۰ ۵۷۰ ۴۸۰ ا نظام نظام روحانی کی تکمیل کے لیے و ہم ایک گندی مرض ہے و یدک دهرم قرآنی اصول نماز ۵۰۱ نماز محبت الہی کے حصول کا ذریعہ ۴۵۹ اسلامی نماز کا نقشہ ۴۵۹ تا ۴۶۱ و یدک دھرم صرف چندا قوم کیلئے تھا DO نشانات ہندو ۹۵ ۱۰۸ نشانات موتیوں سے زیادہ قیمتی ہیں نصرت الہی نمونه ہندو مذہب کی بنیا دالہام کے ۹۷ نمونہ انسان کے دل پر اثر ڈالتا ہے ۱۷۶ ذریعہ پڑی نیک کام ہیرو نیک کام وہی ہوتا ہے جو ارادے ہیر ووہ ہوتے ہیں جن کا قبضہ جنگ بدر میں نصرت الہی ۲۴۱ تا ۲۴۳ اور علم کے ساتھ ہو جنگ خندق میں خطرناک آندھی 1+1 ۵۶ دماغوں پر ہے ۳۵ ی یہودی یہودی ایک تاریخی قوم ہے اے چلی اور دشمن کی پسپائی ہوئی ۲۸۱ وحی نصرت الہی کی شرائط ۲۹۴ پہلی قرآنی وحی ۱۸۹ تا ۱۹۱ میں تھا یہودیوں کا مذہب عبرانی زبان اے

Page 631

آیات قرآنیہ وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَعِيسَى ابْنَ مَرْيَم الفاتحه وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ الله (۱۹۱ تا ۱۹۴) الحمد لله رَبِّ العلمين (۲) ۳۷ الَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ خَرَجُوا ۲۹۵ | ( ۱۱۷ تا ۱۱۹ ) الانعام KI مَالِكِ يَوْمِ الدين (۴) (۲۴۴) اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ (۶) (۲۵۶) ۵۹۱،۴۳۹ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِم ال عمران (۷) البقرة ۵۹۱ وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ (۱۴۵) ذلك الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ لَقَدْ مَنَّ الله (۱۶۵) (۳) ۴۳۹ النساء ۳۷۲ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (۱۰۲) ۴۷۵ ذلِكُمُ اللَّهُ رَبُّكُمْ (۱۰۳) ۴۷۵ لَا تَدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ (۱۰۴) ۴۷۶ يمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ (۱۳۱) الاعراف فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ وَلَقَدْ خَلَقْنكُمُ (۱۲) ۳۱ ۴۹۲ وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ (۳۱) إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلَّ شَيْيٍّ قَدِير ۵۸۶ (۴۲) (11+) مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ ۴۷۷ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا (۹۵) وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ (۱۱۳) ۵۸۷ | ( ۱۵۸ تا ۱۶۱) رَبَّنَا تَقَبَّلُ مِنَّا المائدة (۱۲۸) رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ (۴) (۱۲۹) وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ (YA) (۱۵۲) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُون (۱۸۴) (۶۸) | ۵۸۹ ۳۸۳ ۲۹۹ ۱۷۰ كَانَتْ مِنَ الغَبِرِينَ (۸۴) يمُوسَى اجْعَلْ لَّنَا (۱۳۹) رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ (102) ۶۸ ۳۵۳ ۵۷۰،۴۸۷ ۵۳۶ الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ قُلْ يَأَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ الله ۳۶۳،۱۲۴ (۱۵۹) ۵۳۶ يَأْيُّهَا الرَّسُولُ بَلْعُ مَا أُنْزِلَ ۱۲۴ الانفال ۵۶۳ وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ مَارَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ (۱۸) ۱۲۶ ۱۴۲،۴۰ ۱۵۰

Page 632

۴۴۴ ،۳۴۶ ۳۴۶ ۴۶۶ ۱۲ قُلْ لِلَّذِينَ كَفَرُوا (۳۹ تا ۴۱) وَإِنْ جَنَحُوا لِلسَّلْمِ (۶۳۶۲) مَا كَانَ لِنَبِي أَنْ يَكُونَ (YA) وَجَاوَزْنَا بَبَنِي إِسْرَائِيلَ ۲۹۷ | (۹۱ تا ۹۴) هود ۲۹۸ وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ ۳۰۰ (۸) بنی اسرائیل ۴۴۱ وَقُلْ رَبِّ ادْخِلْنِي (۸۱) جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِل (۸۲) | ۴۸۸ وَإِلَى عَادٍ أَخَاهُمُ هُودًا وَيَسْتَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ (۸۶) ۳۱ الكهف (۵۱) التوبة وَإِلَى ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدُتُمُ (1) (۶۲) وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِيْنَ يصْلِحُ قَدْ كُنتَ فِيْنَا ٣ كَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْئُ جَدَلًا (۵۵) ٣٢ ۳۹۰ طه إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا (۱۶،۱۵) ۲۰۷ ،۲۰۶ وَلَقَدْ قَالَ لَهُمْ هَرُونُ مِنْ قَبْلُ (91) وَقَالُوا لَوْلَا يَأْتِينَا ۲۱۸ ۴۸۹ ۲۹۳ (۱۲۴ تا ۱۲۶) الانبياء ۳۱ ۳۲ ۱۵۳ أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا (۳۱) ۵۹۵ وَحَرَامٌ عَلَى قَرْيَةٍ (۶) لَا تَحْزَنُ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا (۴۰) ۴۵۰،۲۲۳ وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا آتَوُكَ (۹۲) رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْاعَتُهُ (1++) (۶۳) وَإِلَى مَدْيَنَ أَخَاهُمْ شُعَيْبًا يشُعَيْبُ اَصَلوتُكَ (AY) ۳۶۱ (۸۸) ١٤٢ | يوسف خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْم (۱۰۳) لَقَدْ جَاءَ كُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمُ (۱۲۸) ۵۸۹ (۹۳) الحجر لَوْ كَانُوا مُسْلِمِين (۳) النحل وَالَّذِينَ يَدْعُونَ (۲۲،۲۱) ۴۴۸ ٣٠ وَيَوْمَ نَبْعَثُ فِي كُلِّ أُمَّةٍ (۹۰) (92697) الحج ٣١ أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ ٢٧٦ إِنَّ ابراهيم كَانَ أُمَّةً (۱۲۱) ۲۰۹ (۴۰ تا ۴۲ ) يونس فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهِ (K) وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ (۶۲)

Page 633

هُوَ سَمَّكُمُ الْمُسْلِمِينَ (۷۹) المؤمنون الروم ۱۵۸ غُلِبَتِ الرُّوم (۳ تا ۷ ) الزمر الَمْ يَأْتِكُمْ رُسُلٌ مِنْكُمْ (۷۲) ۴۴۵،۲۱۷ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ الشورى (۴۲) ۴۶۷ ( ۱۳ تا ۱۵ ) فَأَرْسَلْنَا فِيهِمْ رَسُولًا حَتَّى إِذَا جَاءَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتِ (۳۳) (۱۰۱،۱۰۰) السجده ۱۴۳ | فَاطِرُ السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ (۱۲) ۳۱ يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ أَمْرُهُمْ شُورَى بَيْنَهُمْ (1) ۴۴۷ الاحزاب (۳۹) | ۵۸۴،۱۵۱ الدخان النور وَالَّذِينَ يَبْتَغُونَ الْكِتب (۳۴) الفرقان وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (۵۳) إِذْ جَاءُ وُكُمْ مِنْ فَوْقِكُمُ وَمَا خَلَقْنَا السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ (۱۱ تا ۱۴) ٣٠١ وَلَمَّارَأَ الْمُؤْمِنُونَ (۲۴،۲۳) مِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ ( ۲۴ ) | ۵۰۶ (۳۹) ۲۷۶ ۲۷۷ محمد فَامَّا مَنَّا بَعْدُوَ إِمَّا فِدَاءً (۵) ۱۴۲ ۵۸۴ ٣٠١ الشعراء مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ الفتح لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ (۴۱) إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ (۴) ۹۸ | سبا (11) قصص وَمَا اَرْسَلْنَكَ إِلَّا كَافَةً لِلنَّاسِ لَقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ (۲۹ (۳۱) (۲۸) ۱۵۱ (۸۶) العنكبوت ۴۴۴،۴۴۳ | فاطر هُوَ الَّذِي جَعَلَكُمْ خَلْفَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء (٤٠) الذريات ۱۵۱ ۳۰۵ ٤٩٣ وَمِنْ كُلِّ شَيءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ (۵۰) اَجَعَلَ الَّا لِهَةَ إِلَها وَاحِدًا وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ (۴۶) ۵۸۹ | ص وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا (<•) (۶) | ۵۹۳ (۵۷) ۱۳ ۵۷۰،۴۹۳

Page 634

۱۴ القمر اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ (4) وَلَقَدْ جَاءَ الَ فِرْعَوْنَ (۴۲ تا ۴۹) الرحمن وَقَدْ خَلَقَكُمُ اطْوَارًا (۱۵) ۴۴۴ | الجن فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا ( ۲۸ ،۲۷) ۲۴۴ المزمل اليل ۴۹۱ وَالَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (٢) ۴۴۲ العلق اقْرَءُ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۱۲۶ (۲تا۶) 190 مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ إِنَّا أَرْسَلْنَا إِلَيْكُمْ رَسُولًا......العديت (۲۰ تا ۲۶) (۱۶) ۴۴۶،۴۴۵ ۱۲۳ وَالْعَدِيتِ صَبْحًا بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ (۲۱) ۷۲ - المدثر (۲تا۶) ۱۴۳ الحديد وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ التكاثر ۴۸۹ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ (١٠) ۵۷۰ ۳۶۸ النصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ (۲) الاخلاص قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ (۲تا۵) النَّاس قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ( ۲ تا ۴) ۵۰۰ ۶۰۷ ۴۴۲ ۴۴۳ ۵۷۰ هُوَ الْاَوَّلُ وَالْآخِر (۴) ۴۷۴ (۳۲) المجادلة النزعت يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا (۱۳) ۱۴۹ إِلَى رَبِّكَ مُنْتَهَهَا (۴۵) الطلاق قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ إِلَيْكُمْ ذِكْرًا الاعلى فَذَكِّرُ (١٠) ۱۴۳ (۱۲،۱۱) الحاقة الفجر فَلَا أُقْسِمُ بِمَا تُبْصِرُونَ وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ (۳۹ تا ۵۳) نوح (۳۲) ۲۱۹ وَالَّيْلِ إِذَا يَسُر (۵) مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا فَادْخُلِي فِي عِبَادِي (۳۱،۳۰) ۴۸۷ ،۴۴۸ (لدا)

Page 635

۱۵ أَفَلَا يَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ۳۸۲ اقْرَأَهُ فِي شَهْرٍ اللَّهُ أَعْلَى وَاجَل إِلَى الرَّفِيق الأعلى أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِب ۴۲۹ ۳۸۵ ۳۷۱ ۳۵۴ احادیث روم کے بادشاہ کی حکومت بچالی لَا خِلَافَةَ إِلَّا بِالْمَشْوَرَةِ ۱۵۰ جائے گی لَا يَبْقَى مِنَ الْإِسْلَامِ کسری نے جو کچھ ہمارے خط کے الا اسمه نُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ ۵۸۶ ساتھ کیا.....۳۱۸ ۳۱۹ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے که کسر می...میں تم کو اللہ کے تقویٰ کی نصیحت کرتا ہوں ۳۳۴،۳۳۳ خالد خدا کی تلواروں میں سے إِنَّ اللَّهَ يَبْعَثُ لِهذِهِ الْأُمَّةِ ۵۸۵ إِنَّهُ لَيَقْرَءُ عَلَى مِزْمَارٍ ج ۴۳۰ حدیث بالمعنى ۱۳۵ ترتیب بلحاظ صفحات) ایک تلوار ہے جُعِلَتْ لِي الْأَرْضُ مَسْجِدًا ۴۵۹ الہی ! ان لوگوں کو معاف کر خ اے مکہ کی بستی ! تو مجھے سب جگہوں خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَة ۴۲۷ سے زیادہ پیاری ہے خَيْرُ الْقُرُونِ قَرْنِي ۵۷۵ | سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ۲۱۱ ۳۴۵ ،۲۲۴ ۲۲۵ ۲۲۵ ۳۳۶،۳۳۵ اے لوگو! میری بات کو اچھی طرح سنو ۳۶۳تا۳۶۵ اے لوگو! میں تمہاری طرح کا ایک آدمی ہوں نبی اپنے سے پہلے نبی سے نصف عمر پاتا ہے اے میرے صحابہ مجھ سے بھی سوال کیا جائے گا کریں گے ۲۸۷، ۲۸۸ آج مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوگا رِفُقًا بِالْقَوَارِيرَ امن کا پروانہ لکھ دیا جائے آج سے مشرک ہم پر حملہ نہیں ش شَاهَتِ الوجوه ص صَبْرًا الَ يَاسِر ۱۹۵ توڑا کرتے ۴۵۱ متفرق احادیث (۱ تا ۱۴) ۳۰۲۳۰۱ الہام ہوا ہے ۳۶۶ ۳۶۶ ۳۶۷ ۳۶۸،۳۶۷ خدا کے رسول معاہدے نہیں اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے ۳۱۱ غیر محدود پیار کرنا جائز ہوتا....۳۹۶۸ ہوتا.

Page 636

۱۶ سب دروازے بند کر دیئے جائیں ابوبکر نماز پڑھادیں ۳۶۸ اگر لوگ سورج کو میرے دائیں ۳۸۴ جو شخص کسی غلام کو آزاد کرتا ہے اگر میرے ہاتھ سے کسی کا حق اور چاند کو میرے بائیں ۳۸۵ جب تمہارا نو کر تمہارے لیے مارا گیا ۳۶۹ میرے رب کی تازہ نعمت ۳۸۷ کھانا لائے خدا بُرا کرے یہود اور نصاری اپنے کاموں میں نیکی اختیار کرو ۳۸۷ ایک بچہ کے رونے کی آواز ۳۸۵،۳۷۱،۳۷۰ میں بھی اپنے اعمال کے زور سے کا آئی ۴۰۳ ۴۰۴،۴۰۳ اگر میں ہر نماز سے پہلے مسواک جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ۳۸۷ عورتیں خدا کی لونڈیاں ہیں ۳۷۵ اے عورت! صبر کر ۳۹۴ عورتوں سے ہمیشہ حسن سلوک کا حکم دوں ۴۰۵ ۴۰۶ جو شخص سڑکوں کی صفائی کا اگر میری بیٹی فاطمہ ۳۹۶ کرتے رہنا خیال رکھتا ہے ۳۷۶ مجھے موسیٰ پر فضیلت نہ دیا کرو ۳۹۸ جس کے گھر میں لڑکیاں ہوں ۴۰۶ بد بودار چیزیں کھا کر مسجد مجھے بتاؤ اس کی قبر کہاں ہے ۳۹۸ | مجھے چھوڑ وعورتوں کی طرف جاؤ ۴۰۶ میں نہ آیا کریں ۳۷۶ اُس غریب آدمی کی قیمت ۳۹۸ بیوی کو تھپڑ نہ مارو گالیاں نہ دو ۴۰۷ کھڑے پانی میں گند نہیں ہر وہ دعوت جس میں غرباءنہ جولوگ سفر کے لیے جاتے ہیں ۴۰۷ ۳۹۹ جولوگ اپنی عورتوں سے اچھا ڈالنا چاہیے ۳۷۶ بلائے جائیں رستہ کو نہیں روکنا چاہیے ۳۷۶ مسکین وہ ہے جو سوال نہ کرے ۳۹۹ سلوک نہیں کرتے ہمسائیوں کا خیال رکھو ۳۷۸ بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں جبریل مجھے بار بار ہمسایوں ایک انسان کا کھانا دو کیلئے کہ اُن کے سر کے بال پراگندہ ۳۹۹ کے ساتھ ۳۷۸ جس غریب کے گھر بیٹیاں ہوں کافی ہے ۴۰۰ جب کوئی شخص مر جائے کھجور اور مومن کے درمیان ایک تمہاری قیمت خدا کی نظر میں جب کبھی شور بہ پکاؤ رشتہ ہے ۳۸۰ بہت زیادہ ہے سونا میری اُمت کے مردوں فاطمہ میں تم کو زیادہ قیمتی کے لیے منع ہے ۳۸۱،۳۸۰ | چیز بتاتا ہوں ۳۸۳ غلام سے اتنا ہی کام لو ۴۰۷ ۴۰۸ ۴۰۸ ۴۰۸ ۴۰۱ اگر تمہارا ہمسایہ تمہاری دیوار میں ۴۰۹ خدا کی قسم وہ ہرگز مومن نہیں ۴۰۹ ۴۰۲ جو کوئی اللہ اور یوم آخرت پر ۴۰۳ ایمان لاتا ہے غلام تمہاری طاقت کا ذریعہ اگر بکری کا پا یہ بھی ملے تو بس کرو.بس کرو تکلف والی عبادت فائدہ نہیں پہنچاتی ۳۸۴ ہیں ۴۰۳ | ہمسایہ کا حق رکھو ۴۰۹ ۴۰۹

Page 637

تم اس کو رشتہ داروں میں بانٹ دو صبر کرو ۴۱۶ بھائی ہے ۴۱۰ مومن کے لیے دنیا میں بھلائی تجارت میں بالکل دھوکا نہیں جو شخص اپنے بوڑھے ماں باپ کا ہی بھلائی ہے زمانہ پائے ۴۱۰ اگر وبائی بیماری میں کوئی صبر اپنے والدین کی خدمت کرو ۴۱۱ سے بیٹھا رہے ۴۱۶ ہونا چاہیے ۴۲۰ ۴۲۰ ۴۲۰ جو شخص لوگوں کو دھوکا دیتا ہے ۴۱۷ چیونٹیوں کو جلانے سے منع کرنا ۴۲۱ خدیجہ کی سہیلیوں کو نہ بھولنا ۴۱۱ خدا تعالیٰ اس کے ذریعہ تمہیں بنی اسرائیل کی ایک عورت کو بہترین نیکی یہ ہے کہ انسان ۴۱۲ | رزق دیتا ہے ۴۱۷ اس لیے عذاب ملا ۴۲۱ دوسروں کے کاموں پر اعتراض اس جانور کو کس نے تکلیف دی؟ ۴۲۱ نیک دوست کی مثال ایسی ہے ۴۱۳،۴۱۲ نہ کرو ۴۱۸ گدھے کے منہ پر نشان لگانے ۴۱۳ بدظنی سے بچو ۴۲۰،۴۱۹ ایک شخص اس لیے بخشا گیا جو بندہ کسی دوسرے کا گناہ سچ نیکی کی طرف توجہ دلاتا ہے ۴۱۸ سے روکنا چھپاتا ہے ۴۲۱ ۴۲۱ شیطان انسان کے خون میں ایک گناہ چھوڑنے کا وعدہ کرو ۴۱۹ ہماری مسجد خدا کے ذکر کیلئے ہے | ۴۲۲ پھرتا ہے ۴۲۲ ۴۱۳ جو شخص قوم میں مایوسی کی خطرہ کی کوئی بات نہیں جو شخص قرآن کریم حفظ کرے گا ۴۲۶ دیکھو! یہ میری بیوی صفیہ ہے ۴۱۳ باتیں کرتا ہے ہر شخص کا گناہ مٹ سکتا ہے ۴۱۳ | ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا قرآن پڑھو اور خوب پڑھو ۴۳۱

Page 638

اسماء آ.ابو بصیر.حضرت ابوبکر حضرت آدم علیہ السلام.حضرت ۳۵ ۳۱۱ ابوذر غفاری حضرت ۱۹۸،۱۶۲،۱۳۵ ۵۶،۳۷ تا ۴۹۳،۳۶۶،۵۸ ۵۸۴ تا ۵۹۵،۵۸۶ ۲۲۲ تا ۲۲۵، ۲۲۷ ،۲۳۰، ۲۴۶ ابو رافع ۲۵۲ ۲۶۴،۲۵۳، ۳۴۶،۳۴۵ ابوزید ۳۷۱،۳۶۸، ۳۸۴،۳۸۳،۳۷۸ | ابوسفیان.حضرت ۱۹۷ ۴۰۸ ،۴۰۳ ۲۴ ۴۳۰ ۲۳۶،۱۴ آدم سے پہلے مخلوق آدم پہلا بشر نہ تھا آمنہ.حضرت ابان بن سعید العاص ابراہیم علیہ السلام حضرت ۴۹۱ ۴۲۵،۴۱۶،۴۱۰،۳۹۹،۳۹۷ ۴۹۲ ۴۳۸ ،۴۳۳،۴۳۱،۴۲۹ ۱۸۵ ۴۵۰،۴۴۵ ۲۴۵ ۵۹ ۱۱۵،۸۹ تا ۱۲۰،۱۱۸، ۱۲۸ ۳۹۱،۳۴۷ ،۳۴۶،۱۸۱،۱۲۹ ۵۸۵،۵۶۴،۵۴۸،۵۳۶،۵۳۵ ۲۸۱،۲۷۲،۲۶۲۲۴۷ ،۲۳۸ ۳۰۷، ۳۳۷، ۳۴۱،۳۳۸ تا ۳۴۴ ۳۹۹،۳۸۵،۳۵۶،۳۵۵ آپ کا حضور پر ایمان ۱۹۱ قیصر روم کے ان سے آپ کا غلام آزاد کرنا ۱۹۴ سوالات آپ کا حضور پر سایہ کرنا ۲۲۷ | اِن کا صحابہ کی فدائیت سے حضور کی وفات پران کی متاثر ہونا تقریر ۳۷۳،۳۷۲ | ابو صفوان آپ نے قرآن کو ایک جلد ابو طالب.حضرت ۳۱۲ تا ۳۱۴ ٣٣٩ ۲۳۵ ۱۸۷،۱۸۵ ابراہیم (آنحضرت ﷺ کا صاحبزاده) ۳۸۶ میں جمع کیا ۴۳۲ ۳۹۳،۳۸۵،۳۴۵،۲۰۹،۲۰۸ ابن ابی داؤد ۴۳۰ ابوجندل ۳۱۱،۳۱۰ ان کی حضور سے وفا ۲۰۲،۲۰۱ ابن عباس.حضرت ۳۶۸، ۳۸۸ ابو جہل ۱۸۶، ۱۸۷ ابو طلحہ حضرت ابوالعاص ابوالہاشم خان.چوہدری ابوایوب انصاری.حضرت ۲۴۶ ۱۹۵ ، ۱۹۶۰، ۱۹۸ ، ۱۹۹ ، ۲۳۵ | ابو عامر ۴۱۰ ۳۵۹ ۵۰۷ ۲۴۳،۲۴۲، ۲۴۶، ۳۵۰،۳۴۹ ابوعبیده - حضرت ۴۲۹ ۲۲۸ ۵۷۲،۵۷۱ | ابوفکیہه - حضرت ان کی حضور سے محبت اور خدمت ۲۲۹ ابوحنیفہ.حضرت امام ابوبراء ٢٦٣ ابودرداء ۴۳۰،۴۲۹ ابو قحافہ حضرت ۱۹۶ ۳۸۴

Page 639

۵۵۴ | ایلیا (نبی) ۵۲۴۹ ۲۲۱ ایوب علیہ السلام حضرت ۵۵،۵۴ ۳۱۹،۳۱۸ ۳۰۷ ۵۵۶ ۶۰۸،۶۰۶ ۵۰۷ ۳۲۸ ۳۴۱،۳۴۰ ۱۹۴ ۱۹۳ ۱۹۴ ۱۹ ابولیا به ۲۸۳ اکبر.بادشاہ ابولہب ٢٠٩ البراء ابو مسعود انصاری حضرت الحرث ابوموسی اشعری حضرت ۳۶۱ الہ دین ۴۳۰،۴۱۲،۴۰۱ الیاب ۳۳۳،۳۳۲ ۱۳ ۶۰ ابوہریر کا.حضرت ۳۷۶، ۳۷۸ | الیاس علیہ السلام حضرت ۱۶۸،۱۶۷ ۴۰۳،۳۸۸ ، ۴۰۷، ۴۰۹، ۴۲۹،۴۱۹ الیاس ۱۲۴ ابو یعلی.حافظ ۴۳۰ امان اللہ خان.والی افغانستان ۶ ابی بن کعب ۴۳۰،۴۲۷ ام سلمہ - حضرت ۴۳۰ ابی رویحہ ۳۴۱،۳۴۰ | اُم طاہر.حضرت باذان (یمن کا گورنر ) بدیل برار.شہزادہ بشیر احمد.مولوی دہلوی بشیر احمد حضرت مرزا بشیر بن البراء بن المعرور ابینداب ۶۰ ( حرم حضرت مصلح موعود ) احمد حضرت ۴۲۶، ۴۳۱ ام عبد الله ۶،۵ ٢٠٣ بلال - حضرت احمد.حضرت امام ۵۷۱ ام عمارہ.حضرت.آپ بہت سی بلال پر مظالم اختیاه ۶۶۰ جنگوں میں شامل ہوئیں ۲۲۰ ۲۲۱ ان کا اذان دینا ۴۳۰ بہادر یار جنگ ۱۹۴ ،۱۹۳ اسامہ بن زید حضرت ٣٩٦ | ام ورقہ.حضرت ۴۱۵، ۴۱۶ | امیہ بن خلف اسٹاڈسن ۷۶ اندریاس اسحاق علیہ السلام حضرت ۵۹ انس.حضرت اسماء ( بنت ابو بکر) ۱۱۷ تا ۱۱۹ انس بن مالک ۴۱۱ او بیل اسماعیل علیہ السلام حضرت ۱۱۶ تا ۱۱۹ اور نگ زیب عالمگیر.۸۷ ۴۱۷ ،۲۳۰،۲۲۹ ۴۱۱ ۱۳۱،۱۳۰ ۱۳۱،۱۲۸ ، ۲۲۴،۱۸۱،۱۶۵، ۳۴۶ اس نے قرآن کےسات ۵۳۵ نسخے لکھے آپ کی تمام اولا د عرب میں ۱۳۲ ایکانس پطرس پولوس پیلاطوس ۱۲۴،۸۹ ،۸۷،۷۶ ،۴۰ تا را پد.چوہدری ڈاکٹر ۴۳۴ ، ۴۳۵ تمیم بن اوس ۵۱ تیما ۸۰ ۱۴۸ ١٠٣ ۴۳۰ ۱۳۱،۱۳۰

Page 640

ثابت بن قیس ۳۸۸ حذیفہ.حضرت ۴۲۹،۲۸۲ خدیجہ - حضرت اُم المومنین ۲۴ حرام بن ملحان.ان کا بہادری سے جان دینا ۲۶۳ ۳۹۲،۳۷۵،۲۰۹،۲۰۸ ،۱۸۹ ۴۱۱،۳۹۳ ج حز قیل علیہ السلام ۱۱۸ | ان کی حضور سے شادی ۱۸۷، ۱۸۸ جابر بن عبداللہ.حضرت ۴۳۱ حسان بن ثابت.حضرت ۳۷۳ وحی کے وقت ان کا حضور کو ۲۶۴ حسن - حضرت امام ۴۰۲ تسلی دلانا جبار بن سلمی جبیر حضرت جریر بن عبد اللہ.حضرت ۱۹ حفصہ - حضرت اُم المومنین ۴۳۰،۴۰۵ دانیال علیہ السلام حضرت ۴۱۱ حکیم بن حزام.حضرت بن ابی طالب.حضرت ۳۳۳، حلیمہ.حضرت ۳۴۰ 191619 + ۱۱۸ ۱۵۹ ۱۶۰ تا ۱۶۲ ۳۵۱ داؤد علیہ السلام حضرت ۲۷ ،۲۶ ۳۹۳،۳۳۴ ۴۳۵ جمال الدین.خان نواب جوز يفس جیروم (پادری) چٹو.میاں چنگیز خان حمزہ.حضرت ۱۳۱ حی ابن اخطب رض ۵۰ | حنظله بن الربيع ۱۹۹،۱۹۸ ،۱۴ ۲۵۵،۲۵۳ ۲۷۲ ۴۲۵ ۸۹،۶۰،۵۹، ۱۱۸ تا ۱۳۴،۱۲۲،۱۲۰ ۱۴۵ تا ۱۵۴،۱۴۷ ،۱۷۴،۱۵۵ وحیه کلبی حیدرالدین سلطان ۵۵۵ دومه خ ۳۴، ۳۵ خالد بن سعید بن العاص ۴۲۵ ڈبریا ۵۸۴،۴۳۰،۲۹۲،۲۹۱،۱۷۹ خالد بن ولیڈ.حضرت ۲۴۹، ۲۷۸ ڈیمیس (پوپ) ۴۳۱،۳۴۴،۳۳۵،۳۳۱ | ڈینی راس.سر ۳۱۲ ۱۳۱،۱۳۰ ۵۱ ZA ۱۲ ۴۰۴ خباب.حضرت ۲۰۷ ،۲۰۶ حاطب بن ابی بلتعہ ۳۲۲۳۲۱ ان پر ظلم کی جھلک حام حبقوق خبیب.حضرت.ان کے سارے ۱۳۳ تا ۱۳۵ اعضاء کفار نے کاٹ دیئے حبیب اللہ خان حدد ۱۹۳ ۲۲۰ ز ذوالخويصره ۳۵۸ رگھو نندن شرما.پنڈت خبیب.شہید ہونے سے قبل ۱۳۱،۱۳۰ نماز کی خواہش ۲۶۱ ۲۶۲ ریورنڈ آدم کلارک ۱۰۴ ۵۲

Page 641

۲۱ ریورنڈ کا تری بی کاری ۱۳۰ ۱۳۱ سالم مولی ابی حذیفہ ۴۲۷، ۴۲۹ | سیرین (عورت) سراقہ بن مالک ۲۲۴، ۲۲۶،۲۲۵ ریورنڈ ویری ۲۴۵ | سامری ز زاریا ۵۱ سرجیل ۳۳۲ زبیر بن العوام - حضرت ۳۴۶،۱۹۶ سعد بن عبادۃ.حضرت ۴۳۰،۳۴۲ زرتشت.علیہ السلام حضرت زکریا علیہ السلام زنیرہ ۶۶ سیوک لال ۳۲۳ ۱۰۴ ش شافعی.حضرت امام ۵۷۱ شانتی دیو شاستری پنڈت ۱۰۲ شاہ نواز.میاں ۵۴۵ ۲۸۴،۲۷۹ تا ۲۸۶ شرجیل بن حسنه ۴۲۵ AL ۱۶۷ سعد.حضرت ۱۹۶ (ایک مالدار صحابی) ۴۲۹،۶۰۰ شعیب علیہ السلام حضرت ۳۲۳۱ ۴۲۵ سعد بن معاو.حضرت ۲۵۶،۲۳۵ ۲۵ ۳۴، ۳۷ سعد بن وقاص.حضرت ۲۳۱، ۲۷۹ شمعون زید بن ثابت.حضرت ۴۲۹،۴۲۵ سعید بن عامر زید بن حارثہ.حضرت ۴۳۰ ۴۳۲ | سفیان بن خالد ۲۱۱ ۱۹۱ سکندر ۳۳۳،۲۷۱،۲۳۰ ۳۳۴ سلمان فارسی حضرت ۲۶۲ ۲۶۰ شیر علی.حضرت مولوی شیرویه 171.17.۲۶۸ حضرت زید کا حضور کے پاس سلیمان علیہ السلام حضرت ۱۳۵،۸۹ رہنا اور آپ کا بیٹا بنانا زید بن دشنہ.ان کی شہادت زینب.حضرت ۱۸۹،۱۸۸ ۲۶۳۲۶۲ اسليميا ۱۳۷ تا ۱۳۹ ، ۱۴۴ ، ۳۳۷ سلیم.چشتی حضرت سمع (آنحضرت کی صاحبزادی) ۳۹۲ سموئیل ۵۱ ۵۵۴ ۶۰ ۱۷۴،۱۷۳،۶۰،۵۹ ۳۵۰ سمیہ.حضرت.انہیں کفار بہت زینب.حضرت (صحابیہ ) ۳۸۴ دکھ دیتے تھے ساره سوساول سہیل ۱۹۵ ۶۰ صالح.علیہ السلام حضرت صفوان بن امیه ۳۵۶ ۵۰۷ ۳۱۹ ۳۲،۳۱ ۳۵۶،۳۵۲،۱۹۶ ۴۱۳ صفیہؓ.حضرت اُم المومنین انکا خواب ٣٢٦ ان کا ایک دشمن کو قتل کرنا ۲۷۵،۲۷۴ صہیب.حضرت ۱۹۳ تا ۱۹۵ طلحہ حضرت b ۳۰۸ تا۳۱۰ جنگ اُحد میں ان کی جانثاری ۴۲۹ ۲۵۰

Page 642

۲۱۲۲۱۱ ۲۲ ۲۳۲، ۲۶۵،۲۴۸ تا ۲۶۷ | عداس كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنُ عازیل عامر بن فہیرہ عباد بن بشیر عبادہ بن صامت - حضرت ۲۶۴،۲۲۵،۲۲۳ ۲۷۹ ۴۳۰ عباس.حضرت ۲۲۱۲۲۰، ۱۹۷ ۳۳۸،۳۳۰،۳۲۹ ،۲۴۷ ،۲۴۳ ۱۸۰ عبد اللہ بن ارقم عائشہ.حضرت اُم المومنین ٣٧٠ عبد اللہ بن حذافہ ۳۱۸،۳۱۷ | عروه ۳۷۲، ۳۸۱،۳۷۷ تا ۳۸۳ عبد اللہ بن رواحہ ۳۹۰ تا ۳۹۹،۳۹۳، ۴۰۵،۴۰۴ ۵۶۶،۴۲۹،۴۱۶ عبد اللہ بن سائب آپ کا مشہور قول ۳۳۳ تا ۳۳۵، ۴۲۵ عزیز احمد چوہدری عبد اللہ بن سعد بن ابی سرح ۴۲۵ | عقیل ۴۲۵ عددی ایل ۶۰ ۳۲۹ | عزرانی ۳۰۷ ۵۳،۵۲،۵۰،۴۹ ۴۲۹ عقبہ بن عامر عبداللہ بن عباس ۴۲۹ عکرمہ حضرت ۵۱ عبداللہ بن عمر ۴۱۲٬۳۸۹ | علاء ابن حضرمی ۵۴۶ ۳۴۵ ،۴۳۰ ۳۴۵ ۳۵۰،۳۴۹ ۳۲۳ ۴۲۶، ۴۲۹ علی.حضرت ۱۹۱ عبد اللہ بن مسعود ۴۲۱، ۴۲۷ تا ۴۲۹ ۳۹۰٬۳۸۹،۳۵۸،۲۸۳،۲۸۲۲۲۲ آپ کا حضور کو قرآن سنانا عبدالمالک.صاحب مولانا ۶۰۶ ۴۳۸ ،۴۳۴ ،۴۲۹ ،۴۲۶،۳۹۳ ۳۸۳ ۵۶۶ عبدالمطلب.حضرت ۳۵۴٬۱۸۵ آپ کے ذریعہ خیبر فتح ہوا ۶۲۶،۳۲۵ ۳۳۹ ،۳۴۱ تا ۳۵۴،۳۴۳ تا ۳۵۶ ۱۹۳ ۱۹۵ عمار بن یاسر ان کا ظلم برداشت کرنا ۵۵۴ ۲۵۲ عبدالودود.مولوی عبیدہ بن الجراح.حضرت عثمان.حضرت ۲۵۱،۲۲۵ ۱۹۶ | عمر حضرت ۳۴۷ ،۳۴۲،۳۳۸ ،۳۱۰،۳۰۹،۲۵۲ | ۴۳۸ ،۴۲۹ ،۴۲۶ ،۴۲۵،۳۶۰ ۴۰۴،۳۸۱،۳۷۸،۳۶۸ تا ۴۰۶ ۴۳۹ ۳۹۷ ،۳۹۶ ۳۳۶،۲۴۲ ۶ عبدالرحمن بن عوف.حضرت عبدالکریم.حضرت مولوی عبداللطیف.شہید حضرت صاحبزادہ ۶ آپ کے قتل کی افواہ عبداللہ.حضرت ۱۸۵ ۴۳۲،۴۲۹ ،۴۲۸ ،۴۲۵ ، ۴۱۸ ، ۴۱۲ اور بیعت ۳۰۷، ۳۰۸ آپ کے انصاف کے اثرات ۱۵۵ عبدالله ( عبد اللہ بن ابی کا بیٹا ) آپ نے لوگوں کو ایک قراءت آپ کے زمانہ میں قیصر وکسریٰ ۲۶۷،۲۶۶ پر جمع کیا ۴۳۳ ۴۳۴ کا تباہ ہونا کی غیرت ایمانی عبداللہ بن ابی حدرد ۳۵۲ عثمان بن مظعون.حضرت آپ کا مسلمانوں کی ہجرت آپ کی آنکھ پر دشمن کا حملہ ۲۰۵،۲۰۴ سے غمگین ہونا عبداللہ بن ابی بن سلول ۲۲۲۲۱۵ ۱۶۲،۱۶۱ ٢٠٣

Page 643

۲۳ آپ کا قبول اسلام آپ نے سراقہ کو کسری کے ئن پہنائے حضور کی وفات کے وقت ۲۰۵ تا ۲۰۷ ۲۲۶ ۸۳ تا ۱۵۱،۸۶ ۵۰۱،۴۵۴،۱۵۲ | آپ کا کام مادیت پر روحانیت ۵۸۶،۵۵۴۵۰۸،۵۰۷ تا ۵۸۸ کو غالب کرنا ۶۰۱ تا ۶۰۴، ۶۰۸ | غلام فرید ملک ۵۹۴ ۵۰۷ آپ کی بعثت کا مقصد.غلام محمد حافظ مبلغ ماریشس ۴۳۵ آپ کی حالت ۳۷۱ تا ۳۷۳ رسول اللہ کی حکومت کا قیام عمر و بن العاص آپ کا الہام.( فاتح مصر ) ۷۸،۲۴۹،۲۰۴،۲۰۳ كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّدٍ الله ۵۰۲ ۴۳۰،۳۳۱ آپ کی پیشگوئیاں ۵۰۴،۵۰۳ ف فاسٹر فاطمہ.حضرت حضور کی صاحبزادی ۱۳۱ ۴۱۶،۴۰۱،۳۹۶،۳۹۰،۳۸۹ ۳۱۹ آپ کے لٹریچر سے عیسائیت فاطمہ حضرت عمرو بن امیہ ضمری عمرو بن سعدی ۲۸۴ کوشکست عمرو بن معاو ۲۵۶ آپ کی ایک ضروری ۶۰ شرط بیعت ۵۴۰،۵۳۹ ۵۸۷ ( حضرت عمر کی بہن) فرعون فضالة بن عبيد ۴۴۱،۳۲۲،۱۵۰ ۴۳۰ عیسی علیہ السلام.حضرت ۱۳ ۱۴ آپ نے دین کے حصول پر فیض محمد خان.مرزا ۲۶، ۳۴،۳۳،۲۷ ، ۳۷ تا ۳۹ | زور دیا ۴۴ تا ۴۷ ۷۱ تا ۴ ۰۰۷ ۸ تا ۸۵ آپ نے جماعت کو دین کے ۵۸۸ ۸۷ تا ۱۰۰ ، ۱۱۸ ۱۲۱ تا ۱۲۵ ، ۱۲۷ | مغز کی تلقین کی ۵۸۹،۵۸۸ | قاسم رضوی.سید ۱۳۳ تا ۱۳۵، ۱۳۸ تا ۱۴۲ ۱۴۴ تا ۱۵۰ آپ نے قربانی پیدا کرنے ۱۵۲ ۱۵۶۰۱۵۴ تا ۱۶۲۰۱۵۸ تا ۱۷۴ ۳۰۳،۲۹۲،۲۹۱،۲۵۶،۲۴۱،۲۱۰ والی جماعت پیدا کی ۵۹۰ އ قین ۳۶۶،۳۲۲،۳۲۰،۳۱۶، ۳۶۷ آپ نے دعویٰ کیا کہ خدا مجھ قیس ابن السکن ۴۵۴، ۰،۴۷۹ ۴۸ ۵۰۰ سے باتیں کرتا ہے ۵۶۲ تا ۵۹۳،۵۸۵،۵۸۴،۵۶۴ آپ کے دعوی کو پر کھنے کا غ طریق ۵۹۱ ۵۹۲ قیدار ق ۵۵۶ ۱۳۱،۱۳۰ ۳۴۳ ۴۲۹ ۱۳۰ ۱۴۸ غلام احمد قادیانی.حضرت مرزا آپ کا اصل کام لوگوں کو خدا کرشن علیه السلام ۱۵ ،۳۴٬۳۳، ۳۷ مسیح موعود علیه السلام ۱۳۸۶ کی طرف لے جانا ۵۹۳ کرمی ۳۱۷ ،۱۴۸

Page 644

۲۴ اس کی طرف سے حضور کی ۱۶۳ ، ۱۶۸ تا ۱۷ ۴۰ ۱۷ ۱۹۳۰ تا ۱۹۵ آپ استثناء ۸۷۲۰ کی پیشگوئی گرفتاری کا حکم کعب بن اشرف کنانہ (خیبر کا رئیس ) ۳۱۸ ۲۴ ۱۹۷ ، ۱۹۹ ، ۲۰۵، ۲۰۸، ۲۱۸ ، ۲۱۹ کے مصداق ہیں ۱۲۰ تا ۱۲۷ ۲۵۴ تا ۲۵۶ ۲۵۸ تا ۲۶۰ آپ روحانی ارتقاء کی آخری ۲۶۴ تا ۲۸۴،۲۸۲،۲۷۶،۲۷۲،۲۶۶ کڑی ہیں ۳۲۶ کنعان.(حضرت نوح کا پوتا ۶۸ ۲۸۶ تا ۲۹۳،۲۹۰، ۳۰۱،۲۹۸ تا ۳۰۴ آپ کی بعثت کے وقت انسان ۳۰۶ تا ۳۳۰،۳۱۱تا۳۳۲ روحانی ارتقاء کی سب منزلیں گاندھی گل محمد مرزا.ان کے دربار میں حافظ تھا.ل ٣٠٣ ۴۳۵ ۹۴ ۳۳۶ تا ۳۶۱،۳۵۵،۳۵۳،۳۳۸ طے کر چکا تھا ۴۲۷، ۴۳۱،۴۲۸ تا ۴۳۴، ۴۳۶ آپ با مراد فوت ہوئے ۴۴۰،۴۳۷ ۴۴۲۰ تا ۴۵۴،۴۴۵ آپ نے قوم میں مشورہ ۵۰۶،۵۰۵،۵۰۲،۴۶۶،۴۵۹ | کارواج ڈالا ۵۷۴،۵۷۱،۵۶۹،۵۳۷ ۵۷۵۰ آپ مشیر کہلانے کے مصداق ۱۲۵ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۶۹ ۵۸۵ تا ۶۰۳،۵۹۶،۵۹۵،۵۸۷ آپ خدا کا مظہر کہلانے کے مستحق ۱۵۰ لعزر لوط علیہ السلام.حضرت ۳۲۳ آپ کی کامیابی کا راز ماریہ.حضرت ۳۲۳ مالک.حضرت.ان کی لاش کے ے ٹکڑے کئے گئے مالک.امام حضرت مالک بن عوف مجمع بن حارثہ ۱۳،۱۲ آپ کی تعلیم قیامت تک کیلئے آپ کا ہندہ کو معاف کرنا ۱۴ ، ۱۵ آپ نے سارے دشمنوں کو آپ کے عفو کے دیگر واقعات ۱۵۳ زیر کر لیا ۱۵۱ ۱۵۱ ۳۲۹،۱۵۴، ۳۴۸ تا ۱ ۳۵ | آپ سلامتی کے شہزادے ہیں ۱۵۲ ۲۵۱ ۲۵۲ آپ کا غلام کو مارنے پر ناراض آپ نے ایک جرنیل کو معزول ۵۷۱ ۳۵۱ ہونا آپ نے ساری عمر کوئی غلام ۴۳۰ نہیں رکھا ۶۲ ۶۳ کر دیا آپ کا قیصر روم کی طرف لشکر بھیجوانا آپ انجیل کی پیشگوئیوں کے ۹۸ آپ مثیل موسیٰ ہیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ عالی اخلاق میں تمام انبیاء مصداق حضرت خاتم الانبیاء ۱۹، ۲۴ سے بڑھ کر تھے ۳۲۳۰ تا ۳۴۲، ۱۳۲٬۳۷ تا۱۴۲ آپ کی ولادت ۱۸۱، ۱۸۵ آپ واحد نبی ہیں جنہوں نے ۱۴۷ تا ۱۴۹ ،۱۵۵ ۱۵۶، ۱۵۸ ،۱۵۹ آپ بنوا سماعیل میں پیدا ہوئے ۱۳۳ شیطان کو کچلا ۱۵۴ ۱۵۳ ۱۶۶ ۱۷۲

Page 645

۲۵ آپ نے جتنی آئندہ خبریں دیں کشوف کسی نبی نہ دیں ۷۳ آپ کی ہجرت ۲۶۹،۲۱۶ ۲۲۲ تا ۲۲۴ آپ کی غیرت ایمانی ۲۵۲ ۳۸۶،۳۸۵،۲۵۳ آپ کے حالات تمام نبیوں کی آپ کا مدینہ میں ورود ۲۲۶ تا ۲۲۸ یہود نے سل گرا کر آپ کو نسبت زیادہ ظاہر ہیں ۷۸ حضرت ابوایوب انصاری مارنا چاہا آپ کے ظہور کے وقت عرب کے مکان پر قیام ۲۲۸ ۲۹۹ مستورات کی حفاظت کے لیے ۱۸۰ تا ۱۸۵ مکہ سے اہل و عیال بلوانا ۲۳۰ آپ کا انتظام مسجد نبوی کی بنیا د رکھنا ۲۳۰ دشمن کی مردہ لاش کا کی حالت حلف الفضول میں شمولیت ۱۸۵ تا ۱۸۷ ہجرت کے بعد کئی روز احترام آپ نے ابو جہل سے ایک آپ کو جاگنا پڑا ۲۳۱ آپ کا پہرہ دینا ۲۵۷ ۲۷۱ ۲۷۸،۲۷۷ ۲۷۹ مظلوم کا حق دلایا ۱۸۶ ، ۱۸۷ آپ کا مواخات قائم کرنا ۲۳۲ پندرہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ حضرت خدیجہ سے شادی ۱۸۸،۱۸۷ آپ کا اہل مدینہ سے آپ کا غلام آزاد کرنا ۱۸۸ | ایک معاہدہ کوروانگی ۳۰۵ تا ۳۰۸ ۲۳۳، ۲۳۵ عورتوں کے حقوق کی حفاظت آپ کا غلاموں سے سلوک ۱۹۵ آپ کی مدافعانہ تدابیر ۲۳۶ ، ۲۳۷ آپ کے بادشاہوں کے نام ۴۰۲ تا ۴۰۴ مدینہ میں اسلامی حکومت خطوط ۲۳۷، ۲۳۸ آپ کی بددعا سے کسری آپ کی غار حرا میں عبادت ۱۸۹ کی بنیاد پہلی وحی کے وقت خوف ۱۹۰ آپ کا صحابہ سے مشورہ ۲۴۰،۲۳۹ کی ہلاکت ۳۱۱ ۳۱۱ تا ۳۲۴ ۳۱۹،۳۱۸ روسائے مکہ کی مخالفت ۱۹۲ تا ۱۹۳ ۲۴۷ ، ۲۶۸ یہودی عورت کا آپ کو آپ پر مظالم ۱۹۹،۱۹۸ اہل مکہ کے عبرتناک انجام پر اُداسی زہر دینا ۳۲۸،۳۲۷ آپ کا استقلال ۲۰۲،۲۰۱ ۲۴۶ آپ کے ذریعہ قلعہ خیبر آپ کی دعائیں ۲۴۱،۲۱۲۲۰۷ آپ کا سفر طائف ۲۰۹ تا ۲۱۴ ۳۵۷ ،۳۵۶،۳۱۹،۳۱۸،۲۷۵ آپ کی خوا ہیں ۲۴۷، ۲۴۸ کی فتح بدر کے قیدیوں سے سلوک ۲۴۶ ۲۴۷ جنگ موتہ کے لشکر کے ساتھ ۳۷۷، ۳۷۸، ۴۰۰،۱۳۸۷ آپ کا جنگ اُحد میں بے ہوش چلنا اور نصائح فرمانا ۳۲۴ تا ۳۲۹ ۳۸۸،۳۵۰ آپ کا طواف کعبہ ۳۳۰،۳۲۹ ۳۳۳ حاجیوں کو تو حید کا وعظ ۲۱۴ تا ۲۱۶ ہونا ۲۵۱ آپ کی درد بھری تقریر ۳۳۵ f

Page 646

۲۶ صحابہ کی خدمات کی قدر ۳۳۶ آپ کی انکساری ۳۸۶، ۳۸۷ آپ کی مذہبی رواداری آپ کی طرف سے امن کے بنی نوع انسان سے معاملہ ۳۹۱ تا ۳۹۴ آپ کا ایفائے عہد ۳۴۰ اخلاق فاضلہ ۳۹۴،۳۹۳ کم عقلوں سے حسن سلوک پیغامات آپ کا ابوسفیان کو تبلیغ کرنا ۴۲۲ ۴۲۳ ۴۲۳ آپ کا تحمل ۳۹۴ تا ۳۹۶ آپ حفظ قرآن پر زور دیتے ۴۲۶ ۳۳۹ تا ۳۴۱ آپ کا انصاف ۳۹۶، ۳۹۷ آپ کا چھپ کر قرآن سننا انصار مدینہ سے محبت ۳۴۸، ۳۶۹ جذبات کا احترام ۳۹۷ تا ۴۰۱ آپ رمضان میں سارا قرآن بہادری ۳۵۴ آپ کی آخری عمر میں کثرت نماز میں پڑھتے نو مسلموں کے ہاتھوں تکلیف سے وحی اُٹھانا ۴۳۰ ۴۳۸ ۴۲۴ آپ کے معجزات ۴۴۹ تا ۴۵۱ ۳۵۸،۳۵۷ | غرباء کا خیال ۳۹۸ تا ۴۰۲ آپ کے معجزات سے قرآن آپ کا خطبہ حجۃ الوداع ۳۶۳ تا ۳۶۶ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے بھرا ہوا ہے ۴۰۴ آپ کے لیے خدا اپنی قدرت عورتوں سے حسن سلوک ۴۰۴ تا ۴۰۸ ظاہر کرتا تھا آپ کی وفات ۳۶۶ تا ۳۷۱ والوں کا احترام آپ کی وفات پر صحابہ کی حالت ۳۷۱ تا ۳۷۳ ہمسائیوں سے حسن سلوک ۴۰۸، ۴۰۹ آپ تمام انسانوں کے لیے آپ کا نام امین وصدیق ۳۷۴ وفات یافتوں کے متعلق عمل ۴۲۲٬۴۰۸ نقطه مرکزی ہیں ۵۶۸ ۴۴۹ ۴۹۷ ماں باپ اور رشتہ داروں سے آپ پر کامل کتاب نازل ہوئی ۴۹۷ آپ کی ظاہری و باطنی صفائی ۳۷۶،۳۷۵ | سلوک آپ کی سادگی ۳۷۶،۲۲۷ تا۳۸۲ لوگوں کے ایمان کی حفاظت ۴۰۵ کا خیال ۴۰۹ تا ۴۱۲ آپ دنیا میں سب سے زیادہ مظلوم ہیں ۴۱۳ اسوہ حسنہ صرف آپ ہیں ۵۳۸ ۵۶۳ آپ کی حضرت ابو ہریرہ سے دوسروں کے عیوب چھپانا ۴۱۳ تا ۴۱۶ حقیقی پاکیزگی صرف آپ کی ۳۷۹،۳۷۸ آپ کا صبر ۴۱۶، ۴۱۷ اتباع سے حاصل ہوتی ہے ۵۶۵ آپ کی سچائی ۴۱۸، ۴۱۹ آپ کی شریعت تمام ضرورتوں شفقت خدا تعالیٰ سے محبت اور عبادت ۳۸۲ تا ۳۹۱ سودا سلف کے متعلق دھوکا بازی کی جامع نماز سے محبت ۲۷۳ ۲۷۴ اور فریب سے نفرت ۴۲۰ آپ اور آپ کے اتباع کی خدا پر توکل ۳۸۶ تا ۳۹۱ جانوروں سے حسن سلوک ۴۲۲٬۴۲۱ جدو جہد دین کے لیے ۵۸۴ ۵۸۸

Page 647

۲۷ آپ کے فیضان کا مفہوم ۵۹۴،۵۹۳ ۵۵۱ تا ۵۵۴ ، ۵۶۸،۵۶۷ | مقوقس محمد اسلم.قاضی پروفیسر ۵۰۸ آپ کا ایک تاریخی عہد ۵۵۴ اس کے نام حضور کا خط محمد بن مسلمة ۳۰۴٬۲۸۴ آپ کی دعائیں ۵۳۶٬۵۳۵ | مقوقس کا حضور کے خط کو ۶۰۶ محمد سلیم.مولوی محمد ظفر اللہ خان.سر چوہدری حضرت ۴۳۵، ۵۰۸ | سیکھے ۵۴۷، ۵۵۷،۵۴۸ | عزت دینا ۳۲۱ تا ۳۲۳ آپ نے کئی علوم فرشتوں سے منذر تیمی.اس کے نام حضور ۵۶۷ کا خط محمد علی جناح.قائد اعظم ۵۵۲ تا ۵۵۵ آپ کی نصائح ۵۹۶٬۵۹۵ | منصور قلادون محمد یعقوب.(آفیسر ) ۵۵۴ محمود احمد.میجر ڈاکٹر منوجی ٣٢٣،٣٢٢ ۳۲۴،۳۲۳ ۳۱۷ محمود احمد.مرزا.حضرت مصلح موعود ان کو کوئٹہ میں شہید کیا گیا ۵۴۳،۵۴۲ موسیٰ علیہ السلام - حضرت ۳۴۳۳ مریم علیہ السلام.حضرت ۱۰۰ ۱۷۰ ۵۲،۴۶،۴۵،۳۸،۳۷ تا ۵۸۰۵۵ آپ کے بیان کردہ واقعات ۱۱ ۱۲ ، ۵۶۷ مریم مدلینی بچپن میں ایک آریہ کا اعتراض ۴۸۶ مسا آپ کی خلافت ۵۰۴ تا ۵۰۶ | مسعودی آپ کے بارہ میں پیشگوئی مسلمہ بن اسلم.حضرت ۰۳ ۵ تا ۵۰۶ | مسلمه بن مخلد آپکا عیسائیوں کو ایک چیلنج ۵۰۷ مسیلمہ کذاب نئے مرکز کے وقت آپ مشماع ۶۶۰۵۹ تا ۷۴۶۹، ۱۲۰،۱۱۸ ۱۲۳ تا ۱۲۸ ۱۳۳ تا ۱۳۵، ۱۳۷ ۱۵۰ ۲۵۶ ۱۳۱،۱۳۰ ۲۱۰،۱۹۱۰ ۱۷۴ ۱۷۳،۱۶ ،۱۶۶ ۱۳۱ ۲۸۷ ،۲۸۶،۲۸۳،۲۴۰، ۲۱۵ ۲۷۱ ۲۹۱ تا ۳۲۸،۳۲۲۳۰۲،۲۹۳ ۴۳۰ ۴۴۲،۴۴۱،۳۹۸ ،۳۹۷ ،۳۵۳ ۴۳۱،۳۸۸،۲۲۰ ۱۳۱،۱۳۰ ۵۹۳،۵۸۵،۵۶۴،۵۶۳،۵۶۲ کے عزائم ۵۳۹،۵۳۸ مصعب بن عمیر حضرت ۲۱۶ ۲۲۰ مهیش چندر.پرشاد پنڈت آپ کے پاس مسلمانوں کے مطعم بن عدی وفد کی آمد ۵۴۳،۵۴۲ | معاو.حضرت اپنی حفاظت کیلئے یقین ۵۴۳ | معاذ بن جبل.حضرت آپ کا مظفر گڑھ میں زمین معاویہ.حضرت ۵۴۵ معرور بن سوید خریدنا ۲۱۳ | میردرد ۴۳۰ مبسام ۴۲۷ میسره ۴۳۴ ، ۴۰۷ میکل میمونہ.حضرت اُم المؤمنین ۴۰۳ ۱۰۲ ۱۳۱،۱۳۰ ۱۸۷ σ ۶۰ آپ کے رویا و کشوف ۵۴۶،۵۴۵ معیقیب بن ابی فاطمه ۴۲۵ ان سے حضور کی شادی ۳۳۱۳۳۰

Page 648

۲۸ ن ناصر احمد.مرزا حضرت حافظ ۴۳۵ نينيتل ھیلی ورقہ بن نوفل ۲۴، ۱۹۱،۲۵ | یاسر حضرت ۹ ولید بن مغیره ۲۳۶،۲۰۵،۲۰۴ | یسعیاہ.نبی حضرت ۴۴۲،۲۷۸،۲۱۳ ۸۹ ۱۹۵ ۱۵۸ ۲۴۶،۲۴۵،۱۹۲ ان کی پیشگوئی ۱۴۰،۱۳۲ تا ۱۵۹ ناصر نواب.حضرت میر ان کا بچپن نبوکد نضر ۱۵۹،۴۹ ولیم میور سر ۱۳۰ اس کی شہادت قرآن کے نپولین ۳۵،۳۴ | بارہ میں ۴۳۶، ۴۳۷ یتی نتائیل ۸۷ و یدک منی.پنڈت ۱۰۳،۱۰۱ یشوع نجاشی ۳۱۲ يطور نجاشی کے نام حضور کا خط ۳۲۱،۳۱۹ ۶۰۵۹ ۵۵،۵۴ ۱۳۱،۱۳۰ یعقوب علیہ السلام.حضرت ۸۹،۵۹ ۱۴۵ ،۱۴۴ ، ۱۳۰ 12.24 ۱۶۸،۱۶۷ ،۸۹ ،۷۶ یعقوب (حواری) يوحنا 112.117 ۵۹ ۴۱۱ ۳۵۰ یوسف علیہ السلام.حضرت ۸۹، ۳۴۸ 24 ۲۹۲،۲۹۱ ۸۶،۸۵ ۲۱۳ ۲۱۲ ۶۱۶۰ ۳۴، ۳۵ | يوسيبس ہاجرہ.حضرت ہارون علیہ السلام - حضرت ہالہ.حضرت ہبار ھٹلر ہر دے نرائن.پنڈت ۱۰۲ یوشع یونس علیہ السلام.حضرت ۳۱۶ ۳۴۴ ،۳۴۳ ہرقل ہندہ ۳۲۰ اس کا حضور کے خط کو ۵۵۶،۵۵۵،۵۵۳ ۲۸۰ ۱۳۱،۱۳۰ عزت دینا نظام الملک نعیم نفیس نوح علیہ السلام.حضرت ۳۵ ۵۸۵،۵۸۴،۶۸،۳۶ نورالدین.حضرت خلیفہ اوّل ۱۳ ۵۰۸،۵۰۳ نوفل بن حارث ۳۵۲،۲۷۷ اس کے اسلام لانے کا واقعہ ۱۵،۱۴ یہودا نولڈ کے ۲۴۵، ۴۳۷، ۴۳۸ ھود علیہ السلام.حضرت ۳۱ پیورام

Page 649

۵۰۳ ۵۴۲،۵۴۱ ۳۶۳،۳۶۲ ۵۴۵ ۱۳۱ ۲۹ Li آگرہ اٹلی ۵۷۹،۵۴۵،۷۴ اور ایران مقامات ۱۱۵ پنجار ۱۶۱،۳۳،۲۸ ۱۶۲ پنجاب کے مسلمانوں پر ۳۱۲، ۴۴۵،۳۵۱،۳۱۹،۳۱۸ ہندوؤں کے ظلم ۵۷۶۰۵۰۶ ، ۵۷۷ تا ۵۷۹ اجمیر ارجنٹائن ۱۰۴ ۵۷۹،۵۰۶ ایشیا ۱۶۰،۱۰۹ تبوک ج اڑیسہ برازیل جالندھر اسکندریہ ۳۲۲ بریلی جدور ۱۵۷ ،۱۵۶ اسور بصره اطالیہ بلوچستان ۳۳۲،۳۱۲ ۵۴۳،۵۴۲ جرمنی جلیل افریقہ ۵۸۱،۵۷۹،۵۴۰،۵۰۶ سمیتی جھنگ افغانستان ۵۷۶ تا ۵۷۹ بور نیو چ الجزائر ا بہار امریکہ ۷۱،۴۳،۱۱، ۱۰۹ | بھوپال ۴۳۵ چنیوٹ ۱۳ چین ۵۸۰،۵۷۹ ۲۱۰،۸۸ ،۸۷ ۵۴۶ ۵۴۶ ۳۲۱،۲۸،۲۵ ۱۱۵ て ۵۴۱،۵۰۸ | حاران ۲۱۶،۱۸۲ حبشہ ( ایسے سینیا) ۵۷۹،۳۸۳،۳۲۱،۳۲۰،۳۱۲ حبشہ کی طرف ہجرت ۲۰۲ تا ۲۰۴ ۱۳۰،۱۲۸ تا ۱۳۲ پاکستان ۵۷۶،۵۰۶،۲۵۹،۱۸۲،۱۱۹ ۶۰۲،۵۸۱،۵۷۹ 1.امریکہ میں طلاق کی وجوہات انڈونیشیا انطاکیه ۵۵۷،۵۵۵،۵۵۳،۵۴۷ ، ۵۴۴ ۵۸۱،۵۷۹ ۶۰۲،۵۸۰،۵۷۷ ،۵۷۶ ۴۰ ۶۰۷ ،۶۰۶ ۵۵۱ تا ۵۵۷ | حجاز انگلستان ۱۱، ۵۰۶،۱۶ پاکستان کے تازہ ۵۷۹،۵۷۶ تا ۵۸۱ | مصائب

Page 650

۱۳۵،۱۳۰،۱۲۸ ،۱۲۷ ، ۱۱۹ ۱۳۹ ۱۴۱ ۱۵۶،۱۴۲ تا ۱۵۸ ۵۷۷،۵۷۶،۵۴۲،۵۰۶،۱۸۲ ۵۷۹ ۴۰ ۱۸۲،۱۵۸،۱۵۷ ، ۱۳۵ ۳۱۲۲۶۹،۲۶۷ ،۲۱۷ ،۱۸۵ شام ۳۳۳،۳۳۲، ۳۵۹تا۴۴۵،۳۶۲ فینیکے ۵۷۹،۵۷۷،۵۷۶،۵۰۶ ق شاہجہانپور شیخو پوره ۵۴۶ | قادیان ۵۰۶،۴۳۵،۶،۵ ۳۲۵،۳۰۷ ،۳۰۶ ۱۳۱ ۵۵۳،۵۴۲ حديده حدیده حیدر آباد دکن ۵۵۵ تا ۶۰۶،۶۰۵،۵۵۷ ۲۶۷ خوست خیبر دان (شہر) وعلی رامه ۵۴ صنعا ۶۰۶،۵۵۷۰۵۵۵ | صیہوں ۶۰ ربوہ.قیام کی اغراض ۵۴۴،۵۳۵ ۶۴ طائف ۵۴۳،۵۳۸ تا ۵۵۱۵۴۷ ۶۰۴۶۰۱ تا ۶۰۹ ۲۶۹ | اہل قادیان کی قربانی کی تعریف ۶۰۲ ۱۴۰ قادیان دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے ۲۰۹،۱۸۵ تا ۲۱۱ ۳۶۳،۳۵۷،۳۱۸ ،۲۱۳ ۶۰۳ قادیان کی آبادی حضرت مسیح موعود کے دعوی کے وقت قادیان میں دو درجن دیہاتی مبلغ ۶۰۳ ۳۶۲،۳۵۹،۲۲۷ ،۲۲۶ ۴۴۵،۳۱۷ ،۲۷ ۵۴۴ ۵۵۵ ۶۰۶،۶۰۵ ۱۱۵،۶۴،۳۹ عمیس ع عراق ۳۲۴، ۵۷۹،۵۷۶ | قبا روس روم ۷۲،۴۴، ۷۶ ، ۴۴۵ | عرب ۳۲۴،۱۸۴،۱۶۱،۱۳۲،۲۵ قططنیه ۵۷۸،۵۷۶،۵۷ ۴،۳۸۹ ،۳۸۸ س ۳۲۴ عمان سپین ا۵۷۵،۵۰۶،۷ ف کمپرس کراچی ۶۴ سکاٹ فتح پور سیکری ۵۵۴ سماٹرا فرانس ۷۱، ۵۰۶،۳۷۴ | کلکتہ سوئٹزر لینڈ ۵۸۰،۵۷۹،۵۰۶ فلسطین ۷۱،۶۵ ۷۳ ۸۰ | کنعان

Page 651

۳۴۸، ۳۵۱،۳۴۹ تا ۳۵۳ ۳۵۵ تا ۳۶۳،۳۵۹،۳۵۷ ۳۹۷ ،۳۸۵،۳۸۳،۳۸۲،۳۷۴ ۳۱ ۳۴۵، ۳۴۸، ۳۵۹،۳۴۹ تا ۳۶۱ ۱۳۵،۱۲۹ ،۱۲۸ ،۱۲۰،۱۱۸ ۳۹۲٬۳۸۸،۳۸۶،۳۷۳،۳۷۰ ۴۲۷ ،۴۲۲،۴۱۵ ،۳۹۷ ،۳۹۴ ۴۴۴ ،۴۴۳ ،۴۳۱ ۳۵۳،۲۹۱ ۵۶۶،۵۴۴،۵۴۲،۵ ۵۵۴ ۴۳۳،۴۱۰، ۴۴۲،۴۳۹ تا ۴۴۵ ۴۴۹ تا ۱ ۵۳۵،۴۶۲،۴۵ تا ۵۳۷ ۵۰۶ اہل مدینہ کا قبول اسلام ۲۱۴ تا ۲۱۶ | | ۵۰۸،۶ ۵۵۴،۵۵۱۵۴۵،۵۴۴ ۵۷۶،۱۳۶ ۶۰۵،۵۳۹،۶ ۱۲ ۷۳ مدینہ پر سارے عرب کی چڑھائی ۲۶۷ تا ۲۷۲ مکہ کی فتح ا ملایا ۳۶۳ | منی مراکش مزدلفه مصر ۶۴،۵۹ تا ۶۶ | موآب ۷۳، ۱۱۷ ، ۱۲۸ ، ۱۲۹، ۱۵۶ تا ۱۵۸ | موته ۳۳۱٬۳۲۲،۳۲۱،۳۱۲،۲۰۴ موسیره ۵۷۶،۴۴۲ تا ۵۷۹ ۵۹۵،۵۷۴،۵۴۷ ۳۳۶ تا ۳۵۱ ۵۸۱،۵۷۹،۵۰۶ ۳۶۳،۲۱۶ ۵۳ ۳۶۱،۳۳۴،۳۳۲ ۵۹ ۲۶۷ ،۱۴۲،۱۳۱ ۲۱۳ ۲۱۳،۲۱۲۲۱۱ ٣٠٣ ۵۴ ۵۴۵ مظفر گڑھ ۳۷ ،۳۳،۲۴،۱۴ ۱۳۳،۱۳۲،۱۳۰،۱۲۹ ، ۱۲۸ ، ۱۲۰ ۴۳۵ نینوا و ۱۸۵ تا ۱۹۲،۱۸۹ تا ۱۹۵، ۱۹۷ وزیرستان ۱۸۲،۱۸۱ ۱۵۳،۱۴۲،۱۳۷ ۲۱۰،۳۱ ۱۳۰،۱۲۸ ،۲۴ DO آرم کھیوڑہ کینیڈا لاہور لبنان لکھنو لندن ليبيا لیس(شہر) ماریشس مدین مدینہ ۲۰۰ تا ۲۰۵ ، ۲۰۷ تا ۲۱۱ ۲۱۳ تا ۲۲۴ ۱۸۵،۱۴۲، ۱۹۴ ۱۹۵ ،۲۱۹ تا ۲۲۳ ۲۲۵ تا ۶ ۲۳، ۲۳۸ تا ۲۴۲،۲۴۰ ۲۴۶ تا ۲۴۸، ۲۵۵ تا ۲۵۸ ۲۶۳ تا ۲۷۰۲۶۸ تا ۲۷۶ ۲۷۹ تا ۲۸۳،۲۸۱، ۲۹۳،۲۹۰،۲۸۸ ۲۲۶، ۲۲۸ ۲۳۰ تا ۲۳۹ ۲۴۱ تا ۲۴۷ ، ۲۴۹ تا ۲۵۱ ۲۵۳ ہالینڈ ۲۵۴ ،۲۶۰ تا ۲۶۴،۲۶۲ ۲۶۵ ہندوستان ۲۹۳،۲۹۰،۲۸۹،۲۶۷ ۵۸۰ ۲۵،۱۲،۶ ۱۸۴،۱۸۲،۱۰۸ ،۳۸ ،۳۳،۲۸ ،۲۷ ۵۵۶،۵۵۳،۵۴۰،۳۰۳ ۵۷۹،۵۷۶ ۳۰۵ تا ۳۲۹،۳۱۸،۳۱۱ تا ۳۳۱ ۳۲۴،۳۱۱،۳۰۴،۲۹۸ تا ۳۲۶ ۳۳۹،۳۳۷ تا ۳۴۳،۳۶۱ تا ۳۴۶ ۳۳۷ ،۳۳۶،۳۳۳،۳۳۱،۳۳۰

Page 652

۳۲ ہندوستان کے احمدی کے نام پیغام ہندوستانی جماعتوں کی تنظیم ۶۰۱ تا ۶۰۹ یمامه ۱۳۶ ، ۱۳۸ تا ۱۴۰ ۱۴۳ ۱۴۴ ، ۱۴۷ یو- پی ۱۶۸،۱۵۵، ۲۱۰، ۲۱۶ ، ۲۱۷ پورپ ۶۰۴ تا ۶۰۹ | یمن کیلئے ہدایات ۶۰۸،۶۰۵ ۱۱۹ ، ۱۰۹ ،۷۱،۴۳ ۴۲۲،۳۶۶،۲۵۹،۱۸۲،۱۶۰ ۳۲۴،۲۱۴ ۵۳۹،۵۰۶،۴۶۴ ،۴۴۶ ،۴۳۴ ۱۸۳،۱۸۲،۱۴۲،۱۳۱ ۳۲۵،۳۲۴،۳۱۹،۳۱۸ ،۲۶۹ ۶۰۲،۵۸۱،۵۷۶ ۷۴ ۴۲۲،۳۶۰ | یونان ۸۰۷۲،۶۰،۴۰ ی میر و علم

Page 653

۱۳۴،۱۳۲،۱۳۱۱۲۸ ، ۱۲۷ ، ۱۲۱،۱۱۹ ۵۰۲ ۲۸۷ ،۲۸۶۰۱۷۴،۱۵۰، ۱۴۴ ، ۱۳۷ ۳۳ کتابیات ایک غلطی کا ازالہ LI اتھر ودید ۱۰۲۲۷ تا ۱۱۱،۱۰۷ تا ۱۱۳ ۱۷۳،۷۰،۱۹۹ ۷۴ بائبل استثناء اعمال الفضل انا جیل ۲۸۶،۱۹۱ ۱۷۴،۱۷۳،۱۷۰،۸۹ ۵۴۵ ۱۶۸،۱۴۶،۱۴۵ ،۲۵، ۲۴ ۳۵،۲۶،۲۳،۲۲ ۵۷،۵۵،۵۳،۵۲،۵۰۰،۴۴،۳۷ ۱۲۲،۱۱۶۰۱۱۵،۶۰ ، ۱۲۷ تا ۱۲۹ ۱۶۸،۱۵۰،۱۳۶،۱۳۴،۱۳۳،۱۳۰ ۴۴۳،۴۴۱،۴۳۵ ،۲۸۶،۲۸۵ ،۲۱۵ ۴۹۰،۴۸۵ ،۴۵۲،۴۱۵ ،۲۹۱ ۵۶۲ تا ۵۶۴ موجودہ تورات حضرت موسیٰ کی کتاب نہیں ۵۳ تا ۵۵ بائبل انسانی دست برد سے ٹائمز آف لندن انا جیل کی حالت ۷۰ تا ۷۵ محفوظ نہیں ہے ۴۹ تا ۵۵ انا جیل کی تحریف کے متعلق بائبل کی متضاد باتیں ۵۵ تا ۶۱ عیسائی علماء کے خیالات ۷۵ تا ۸۶ بائبل کے ظالمانہ احکام ۶۲ تا ۶۴ انا جیل میں اختلافات ۸۶ تا ۹۰ بائبل کی خلاف عقل باتیں ۶۴ تا ۶۸ انجیل ۱۲۲،۴۷ ، ۴۰،۲۶ لهلال والده الله له الدله مائیل کی خلاف اخلاق باتیں بخاری ۵۶۲،۴۹۰،۴۸۵،۴۵۲،۲۹۱ تا ۵۶۴ انجیل میں بعض تو ہمات کا ذکر ۹۰ تا ۹۵ انجیل کی خلاف اخلاق با تیں ۹۵ تا ۱۰۰ براہین احمدیہ ۶۸ تا ۷۰ ۲۴ اله ۷۶ 07217 تاریخ کلیسیا تفسیر بائیل ہارن انجیل کی پیشگوئیاں ۱۶۴ تا ۱۷۴ تورات انسائیکلو پیڈیا بلی کا ۶۵،۶۱۵۸،۵۵،۵۲، ۶۷ تا ۷۰ ۵۰،۴۹،۴۴،۳۸ خروج رگوید خ ز زبور ژ زند اوستا سام و ید ۱۵۰ ۱۰۱،۲۷ تا ۱۰۳ ۱۰۹،۱۰۶ تا ۱۱۴ ۱۷۹،۱۹۲ ۴۸۶،۴۵۲،۲۵ ۱۱۳،۱۰۷ ، ۱۰۶ ، ۱۰۳ ۱۰۲

Page 654

۳۴ سنسکرت ساھتیہ کا انتہاس غ ۱۰۲ متی ۸۷،۸۵،۸۱،۷۴ تا ۹۰ غزل الغزلات ۱۳۷ یک ۱۴۰ ۹۴ ۹۷ تا ۱۶۶،۱۶۴،۱۶۲،۹۹، ۱۶۷ ک کا تھلک تیر لڈ گوپیتھ براہمن گنگا ( ہند ورسالہ) گیتا ۷۸ تا ۹۸،۹۵،۹، ۱۶۷ مرقس مسند احمد بن حنبل منوسمرتی ہند وقوم ، اس کو ویدوں کی ۱۰۳ صحیح تفسیر قرار دیتی ہے ۱۰۳ ۱۰۲ ۴۲۷ 1+2 ۱۱۳ وید سر و سو ویدوں میں تحریف و تبدیل کا ثبوت 1016101 ۱۰۱ تا ۱۰۶ ویدوں میں ظالمانہ احکام ۱۰۶ تا ۱۰۹ ویدوں میں تو ہمات ویدوں کی خلاف اخلاق تعلیم 11+01+9 ویدوں میں تناقص ۱۱ تا ۱۱۴ وید جب نازل ہوئے خدا کی طرف سے نازل ہوئے ی ۱۱۴ نسائی لائف آف محمد ۴۳۶،۲۱۳ وید لوقا ۸۷ تا ۹۵،۸۹، ۱۶۸،۱۶۷ ۴۲۹ ۳۷ یجروید ۱۰۲ ، ۱۰۵ تا ۱۱۱،۱۰۷ تا ۱۱۴ يسعياه ۱۶۲ يوحنا ۸۳٬۸۰، ۸۷ تا ۹۴،۸۹، ۹۹

Page 654